Title,URL,Content ذمے دار ٹنکو - تحریر نمبر 2696,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zimedar-tinkoo-2696.html,"سلمان احمد، اسلام آبادکسی گاؤں میں ایک آدمی اپنے بیٹے ٹنکو کے ساتھ رہتا تھا۔ٹنکو ایک بہت ہی پیارا، خوبصورت اور سمجھ دار بچہ تھا، جہاں بھی جاتا، دوست بنا لیتا۔گاؤں والے ٹنکو کو بہت پسند کرتے تھے۔ٹنکو اپنے ابو کی آنکھ کا تارا تھا۔پڑھتا لکھتا اور ساتھ ہی گاؤں میں دوستوں کے ساتھ کھیلتا رہتا۔ٹنکو کی امی ٹنکو کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں۔ٹنکو کی تمام ضروریات کا خیال اس کے ابو رکھتے تھے۔اس کے کپڑے دھوتے، کھانا پکاتے، اسکول کا ہوم ورک کرواتے، اس کو اسکول لے جاتے اور باہر تفریح کے لئے بھی لے کر جاتے۔غرض ٹنکو کے ابو ماں اور باپ دونوں کا پیار ٹنکو کو دیتے۔وہ اس کی بہت اچھی طرح تربیت کر رہے تھے اور اس کا ہر طرح سے خیال کرتے تھے۔(جاری ہے)وقت گزرتا رہا۔ٹنکو بڑا ہو گیا اور ابو بوڑھے ہو گئے۔ٹنکو کے ابو اب پہلے جیسے طاقتور اور جوان نہیں رہے۔اب وہ جلدی تھک جاتے تھے۔ٹنکو یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ ابو اب پہلے جیسے خوش مزاج نہیں رہے۔ان کو بات بات پہ غصہ آنے لگا ہے اور وہ بہت جلدی چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔ایک دن ٹنکو کے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ اپنے ابو کی ہر طرح سے مدد کرے اور ان کا اسی طرح خیال کرے، جس طرح ابو اس کا خیال رکھتے تھے۔اسی طرح وہ بھی ان کی خدمت کرے گا۔اب وہ کمزور ہو گئے ہیں اور ان سے کام نہیں ہوتا، اس لئے وہ چاہتا تھا کہ ہر طرح ان کی مدد کرے اور ان کے کام میں ان کا ہاتھ بٹائے۔یہ خیال آتے ہی ٹنکو اپنے ابو کی خدمت پر کمر بستہ ہو گیا اور دن رات ہر کام میں ان کی مدد کرنے لگا۔ٹنکو کے ابو یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کرنے لگے کہ جس نے ان کو اتنی لائق، فرماں بردار اور خدمت گزار اولاد دی۔اس خوشی اور مسرت سے ٹنکو کے ابو کا دل باغ باغ ہو گیا۔وہ صحت مند بھی ہو گئے اور پہلے کی طرح دونوں خوش رہنے لگے۔ " چمکیلا خطرہ - تحریر نمبر 2695,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chamkila-khatra-2695.html,"غلام حسین میمنمیرا اکلوتا بیٹا ثاقب سالانہ امتحان میں بہت کم نمبر لے سکا تھا۔مجھے وجہ کا اندازہ ہو گیا تھا۔ہمارے ملک میں ٹچ موبائل فون کی آمد آمد کے دن تھے۔پھر بھی میں نے اسے کافی تاخیر سے خریدا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہماری دفتری اور گھریلو زندگی کا لازمی حصہ بن گیا۔مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ میں نے بیٹے کو جدید موبائل دلا دیا۔انٹرنیٹ کے توسط سے مختلف کھیل، کارٹون، ڈرامے، جانوروں اور جادوئی فلموں کا خزانہ اس میں موجود ہوتا ہے۔بچے ایسی ہی چیزوں کی طرف تیزی سے لپکتے ہیں۔یہی کچھ ثاقب کے ساتھ ہوا۔آہستہ آہستہ ثاقب کی موبائل فون سے قربت گہری ہونے لگی۔وہ اب اس کا استعمال زیادہ کرنے لگا تھا۔میں اسے تنبیہ کر کے موبائل لے لیتا، لیکن وہ میری شفقت کا فائدہ اُٹھا کر کچھ دیر اور استعمال کرتا۔(جاری ہے)”مجھے تم سے اس درجہ کم نمبروں کی اُمید نہ تھی۔“ میں نے رزلٹ کارڈ دیکھ کر ثاقب سے کہا۔”پاپا! میں نے محنت تو کی تھی۔“ ثاقب کے الفاظ اُس کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔”اگر محنت کی تھی تو اتنے کم نمبر کیوں․․․․؟“وہ خاموش کھڑا رہا۔”ثاقب میرے ساتھ آؤ۔“ وہ میری جانب دیکھ کر میرے ساتھ چل پڑا۔اپنے کمرے میں پہنچ کر میں نے پیار سے اُسے اپنے سامنے بٹھایا اور کہا:”ثاقب! تم تو ہمیشہ اچھے نمبر حاصل کرتے ہو، مگر اس بار اتنے کم نمبر کی وجہ تمہیں بھی معلوم ہے اور مجھے بھی۔“وہ خاموشی سے سر جھکا کر بیٹھا رہا۔”بیٹے! اگر تم موبائل کا استعمال زیادہ نہ کرتے تو تمہاری توجہ تعلیم کی طرف زیادہ رہتی۔“میں نے محسوس کیا کہ اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔شرمندگی کے گہرے آثار اُس کے چہرے پر موجود تھے۔”میں یہ نہیں کہتا کہ تم اس جدید سہولت سے فائدہ نہ اُٹھاؤ۔اس سے صرف وہی کام لو جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے اور ہم نے اسے خریدا ہے۔مثلاً فون کرنا، واٹس ایپ اور یوٹیوب سے معلوماتی پروگرام دیکھنا اور وہ بھی دن میں صرف ایک گھنٹہ۔بیٹا! تم نے کتابوں سے دوستی چھوڑ دی۔تم صرف نصابی کتابیں ہی پڑھتے ہو، دیگر علمی، ادبی اور معلوماتی کتابیں پڑھنے پر تم توجہ ہی نہیں دیتے ہو۔اسکرین پر کچھ پڑھنے کے لئے نظریں ایک جگہ جمانی پڑتی ہیں۔اسکرین سے تابکار لہریں نکلتی ہیں، جس سے بینائی رفتہ رفتہ کم ہونے لگتی ہے۔اس کے علاوہ ذہن پر بھی زور پڑتا ہے، یہاں تک کہ انسانی رویہ تک تبدیل ہو جاتا ہے۔کاغذ پر چھپی کتابوں سے ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے۔“ثاقب نے کہا:”جی پاپا! مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔یہ ایک چمکیلا خطرہ ہے۔میں اب دن میں صرف ایک گھنٹہ ہی موبائل فون استعمال کروں گا۔“”بیٹے! مجھے خوشی ہے کہ تمہیں جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔“اگلے دن میں دفتر سے گھر آیا تو میرے ہاتھ میں چند کتابیں بھی تھیں۔وہ میں نے ثاقب کو پڑھنے کے لئے دیں۔اُس نے خوشی کا اظہار کیا۔میں نے اُس سے کہا:”جب تم انھیں پڑھ لو گے تو تمہیں دوسری کتابیں لا دوں گا۔“ اس کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھ کر مجھے اطمینان ہو گیا۔ " جلد بازی کا انجام - تحریر نمبر 2694,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jald-bazi-ka-anjam-2694.html,"شازیہ کاشف، کراچیعمران اور احمد اپنے امی ابو، دادا دادی کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتے تھے۔عمران کی طبیعت میں جتنی سنجیدگی تھی، اس کا چھوٹا بھائی احمد اتنا ہی نٹ کھٹ اور جلد باز تھا۔آج انھیں گھر والوں نے ندی پر جانے کی اجازت دے دی تھی۔ناشتے کے بعد احمد نے امی سے پوچھا:”امی! آپ نے ہمارا دوپہر کا کھانا پیک کر دیا نا؟“”ہاں بیٹا! پیک کر دیا ہے۔جاتے وقت باورچی خانے سے اُٹھا لینا اور ہاں تم دونوں تیراکی تو کر سکتے ہو، پھر بھی احتیاط کرنا۔“ امی نے جواب دیا۔کچھ دیر بعد دونوں بھائی ندی پر موجود تھے۔وہاں انھوں نے خوب مزے کیے۔ندی کے ٹھنڈے پانی میں تیراکی کی، درخت کی شاخوں پر جھولے، تتلیوں کا پیچھا کیا۔”چلو احمد! اب بہت بھوک لگ رہی ہے۔(جاری ہے)“ عمران نے ایک درخت کے سائے میں بیٹھتے ہوئے کہا۔بیگ سے اپنا لنچ بکس نکالا، لیکن احمد ابھی اپنا بیگ ٹٹول ہی رہا تھا:”کیا ہوا؟ کیا ڈھونڈ رہے ہو؟“ علی نے پوچھا۔شاید میں اپنا لنچ بکس بیگ میں رکھنا بھول گیا ہوں۔احمد پریشان ہو کر بولا۔”چلو کوئی بات نہیں میرا لنچ بکس تو ہے نا، ہم اس میں سے آدھا آدھا کھا لیتے ہیں۔“ علی بولا۔”بھیا! مجھے اور بھوک لگ رہی ہے۔“ احمد کھانے کے بعد بولا۔”ہاں میرا بھی یہی حال ہے۔“ عمران نے اُداسی سے کہا:”لیکن یہ بھوک تمہیں یاد دلائے گی کہ جلد بازی کا انجام بُرا ہوتا ہے۔آئندہ تم اپنی چیزوں کا خیال رکھا کرو گے۔“”جی بھیا! آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔اب میں جلدی جلدی نہیں کیا کروں گا۔اپنی چیزوں کا خیال رکھوں گا۔“دونوں بھائی اپنے گھر کی جانب چل دیے۔آج کی پکنک نے انھیں اچھا سبق سکھایا تھا۔ " کفایت شعاری - تحریر نمبر 2691,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kifayat-shiari-2691.html,"محمد احسن عرفان، کراچیفراز نے برگر خریدا اور سائیکل پر گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔امی نے فراز کو برگر لے کر گھر آتے دیکھا تو انھیں غصہ آ گیا۔فراز کو سبزیاں بالکل پسند نہیں تھیں۔وہ آئے دن برگر، بریانی یا دوسرے بازاری چٹخارے لینے میں اپنے پیسے ضائع کرتا رہتا۔آج پھر امی نے جو فراز کو آلو پالک چھوڑ کر برگر کھاتے دیکھا تو سوچنے لگیں کہ آخر اس کو اس عادت سے کیسے چھٹکارا دلایا جائے۔اگلے دن جب وہ اسکول سے گھر آ رہا تھا تو اس نے ایک دکان پر ایک پیارا سا پین دیکھا، جس پر اس کا پسندیدہ کارٹون بنا ہوا تھا۔وہ جلدی سے گھر آیا اور اپنا بٹوا نکالا تو دیکھا کہ وہ اپنا پورے مہینے کا جیب خرچ روزانہ بازار کی مضرِ صحت چکنائی والی چیزیں کھانے میں ضائع کر چکا ہے۔(جاری ہے)اب وہ بہت پریشان تھا۔اس کی توجہ اس پین پر ہی اٹکی ہوئی تھی۔امی نے جو اس کو چپ دیکھا تو پوچھا:”بیٹا! کیا بات ہے! اتنے اُداس کیوں ہو؟“فراز نے جب امی کو ساری بات بتائی تو انھوں نے فراز کو سمجھایا:”دیکھو بیٹا! ہمیں ہمیشہ کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے اور پھر اب دیکھو تمہیں اپنا پین خریدنا ہے، لیکن تم ہر دفعہ کا جیب خرچ یوں ہی صحت خراب کرنے والی چیزوں پر برباد کر دیتے ہو، حالانکہ سبزیاں ہماری صحت کے لئے بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔ان میں وٹامنز، پروٹین ہوتے ہیں جو صحت کے لئے بہت فائدے مند ہیں۔“یہ سب باتیں سن کر فراز کو بہت افسوس ہوا کہ وہ اتنی فائدے مند سبزیاں چھوڑ کر بازار کی گندی اور نقصان دہ چیزوں میں اپنے پیسے ضائع کر رہا تھا۔اس نے کہا:”امی! میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ فالتو چیزوں پر پیسے ضائع نہیں کروں گا اور پیسے جمع کروں گا۔“”شاباش بیٹا! اپنی غلطی کا احساس ہو جانا سب سے اچھی بات ہے، یہ لو پیسے اور جا کر پسندیدہ پین لے آؤ۔“امی نے اسے پانچ سو کا کڑکڑاتا نوٹ اسے پکڑاتے ہوئے کہا۔فراز امی سے لپٹ گیا، پھر جلدی سے پین خریدنے چلا گیا۔ " اپنا کام خود کرو - تحریر نمبر 2688,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/apna-kaam-khud-karo-2688.html,"صوفیہ صادقکسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا:”پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاوٴں گا اور ان سے پھل توڑنے کا کام لوں گا۔خود میں اپنے بازو کی خرابی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں گا“۔کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا:”باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔فکر کرنے کی کوئی بات نہیں“۔اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا۔باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل توڑنے نہ آیا۔(جاری ہے)کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا:”میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے“۔کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔گھبراوٴ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔یہ کل بھی گزر جائے گی“۔اسی طرح دوسرا روز بھی گزر گیا اور باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہ آئے۔آخر ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا:”میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں۔ہر بار وعدہ کر کے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے۔اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا کام میں خود کروں گا اور کل باغ سے پھل توڑوں گا“۔کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا:”بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے“۔پس ثابت ہو گیا کہ دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔اپنا کام خود کرنا چاہیے۔ " تین موتی - تحریر نمبر 2687,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/teen-moti-2687.html,"علی حیدریہ گئے وقتوں کی بات ہے، خالد نامی فرماں بردار بچہ اپنی نانی کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتا تھا۔ایک دن اس کے قصبے اور آس پاس کے علاقوں میں ایک ایسی وبا پھیلی، جس کے باعث خالد کے والدین فوت ہو گئے۔ان کی وفات کے بعد نانی نے خالد کو اپنے پاس بلا لیا۔وہ سلائی کڑھائی کر کے کچھ کما لیتی تھیں اور خالد بھی محنت مزدوری کر کے نانی کا بوجھ ہلکا کرتا۔اس طرح ان دونوں کا گزر بسر ہو رہا تھا۔وقت گزرتا رہا اب نانی بوڑھی اور ان کی نظر بھی کمزور ہو گئی تھی پھر بھی وہ کھانا پکانا اور گھر کے چھوٹے موٹے کام کر لیتی تھیں۔خالد جوان ہو گیا تھا، اب گھر کی ساری ذمہ داری اس کے کندھوں پر تھی۔گرمی کے دن تھے۔خالد کھیت میں ایک کسان کے پاس مزدوری کر رہا تھا کہ گرمی کے سبب اس کو چکر آیا اور وہ وہیں گر پڑا۔(جاری ہے)کسان فوراً خالد کو حکیم کے پاس لے گیا حکیم نے اس کا معائنہ کر کے دوا دی۔دوا کھانے سے اُس کی طبیعت بہتر تو ہو گئی لیکن وہ کافی کمزور ہو گیا تھا۔حکیم نے مشورہ دیا کہ خالد ایک ماہ تک کوئی محنت مشقت والا کام نہ کرے۔گھر میں رکھا ہوا اناج اور پیسے بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہے تھے۔خوراک نہ ملنے پر خالد کا پالتو کتا اور بلی بھی کمزور ہو گئے تھے۔ایک دن ایک فقیر نے خالد کے گھر باہر صدا لگائی کہ میرے بچے بھوکے ہیں کچھ کھانے کو دے دو۔خالد کی نانی اماں نے گھر میں جو کچھ کھانے پینے کو تھا، سب فقیر کو دے دیا اب ان کے پاس اپنے کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ایسے میں بیماری کے باوجود خالد مزدوری کرنے گھر سے نکلا لیکن کہیں بھی اسے کوئی کام نہیں ملا۔وہ مایوس ہو کر گھر آ گیا۔دوپہر کو اچانک کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔نانی اماں دروازے پر گئیں تو دیکھا کے سامنے ایک درویش بابا کھڑا ہے۔اس نے کہا، ”محترم خاتون! تم ایک نیک اور فراخ دل کی مالک ہو۔میں تمہیں تین موتی دیتا ہوں۔جب بھی تم کو یا تمہارے نواسے کو بھوک لگے تو ان کو ایک دیگچی میں ڈالنا۔اس طرح آپ کا پسندیدہ کھانا جو آپ نے اس وقت سوچا ہو گا دیگچی میں آ جائے گا“ اتنا کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔اندر آ کر نانی اماں نے یہ تین موتی دیگچی میں ڈالے تو اور ڈھکن کھولا تو اس میں بکرے کے گوشت کا پلاوٴتھا۔اس طرح روزانہ ایک نیا کھانا انہیں کھانے کو مل جاتا۔نہ صرف خالد اور اس کی نانی اماں روزانہ مزے مزے کے کھانے کھاتے بلکہ پورے قصبے میں بھی تقسیم کر دیتے۔ایک دفعہ وہی بزرگ نانی اماں کے خواب میں آئے اور کہا کہ ”اے نیک دل عورت! قصبے کے لوگوں کو کھانا کھلانے سے بہتر ہے کہ تم ان کیلئے روزگار کا بندوبست کرو۔ابھی اٹھ کر یہ تین موتی اپنی بڑی صندوق میں رکھو۔صبح صندوق کھولو گی تو وہ سکوں سے بھری ہوئی ہو گی۔ان سکوں سے سامان خرید کر ایک بڑی دکان کھول لینا اور قصبے کے کچھ ضرورت مندوں کو وہاں کام پر رکھ لینا۔دکان سے خوب برکت ہو گی۔اپنے نواسے سے کہنا کہ قصبہ میں ایک بڑا کارخانہ لگائے اس سے لوگوں کو روزگار ملے گا۔“صبح نانی اماں نے خواب خالد کو بتایا۔دونوں نے کمرے میں جا کر صندوق کھولا تو واقعی وہ سکوں سے بھرا ہوا تھا۔خالد اسی وقت شہر گیا اور دکان کے لئے بہت سارا سامان خرید کر لے آیا اور قبضے میں دکان کھول لی۔گاؤں کے لوگوں کو دکان پر بٹھایا، یوں اُن کو بھی روزگار مل گیا۔چھ ماہ بعد خالد نے قصبے میں ایک بڑا کارخانہ لگوایا۔اس طرح پورے قصبے کے بے روزگار لوگوں کو روزگار مل گیا۔لوگ خوشحال زندگی گزارنے لگے۔بچو! حالات سے تنگ آ کر کبھی مایوس نہیں ہونا۔اللہ سب کی مدد کرتا ہے، بس محنت سے جی نہ چرانا۔ " خواہشِ پرواز - تحریر نمبر 2686,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khwahish-e-parwaz-2686.html,"عاشرہ محمد رمضان بدرفرحان بھائی جب فضا میں پرواز کرتے ہوئے پرندوں کو دیکھتے تو ان کے دل میں بھی اڑنے کی خواہش پیدا ہوتی۔جو بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ آہستہ آہستہ شدت اختیار کر چکی تھی۔لیکن اب فرحان بھائی کو اپنی منزل نزدیک دکھائی دینے لگی تھی کیونکہ وہ اسکول سے لے کر کالج تک تعلیمی میدان میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آئے تھے اور جب سے ایئر فورس کی جانب سے اخبار میں شائع ہونے والا اشتہار پڑھا تھا تو فرحان بھائی کی بے چینی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا کیونکہ وہ اشتہار میں بتائے گئے معیار پر پورے اُترتے تھے۔لہذا انھوں نے پہلی فرصت میں ایئر فورس کے دفترِ مطلوبہ دستاویزات جمع کروائیں اور انٹرویو لیٹر کا انتظار کرنے لگے۔(جاری ہے)ایک دن گھر کے دروازے کی اطلاعی گھنٹی بجی، گھنٹی کی آواز سن کر جب فرحان بھائی دروازے پر گئے تو سامنے ڈاکیے کو موجود پایا۔ڈاکیے نے ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھمایا اور ان سے ایک پرچہ پر دستخط کروا کر چلا گیا۔فرحان بھائی نے دروازے پر کھڑے کھڑے ہی لفافہ کھولا تو اس میں ایئر فورس کی جانب سے آنے والا انٹرویو لیٹر تھا جس کو پا کر فرحان بھائی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا رہا۔جلد ہی وہ دن بھی آ پہنچا جب فرحان بھائی انٹرویو لینے والی ٹیم کے سامنے موجود تھے اور ان کے تمام سوالوں کے درست جوابات دے کر خود کو ایئر فورس میں انتخاب کا اہل ثابت کر دیا اور ٹیم نے میڈیکل چیک اپ کرانے کی ہدایت کر دی۔فرحان بھائی میڈیکل چیک اپ کے لئے سی ایم ایچ جا پہنچے جہاں پہلے سے میڈیکل چیک اپ کے لئے آئے ہوئے دیگر لڑکوں کے ساتھ باری کا انتظار کرنے لگے۔جلد ہی فرحان کا نمبر بھی آ گیا۔فرحان بھائی نے جب میڈیکل ٹیم سے اپنی رپورٹ کے بارے میں معلوم کیا تو ٹیم کے ایک ممبر نے جواب دیا اوکے ہے۔یہ خبر فرحان بھائی کے لئے انتہائی خوشی کا باعث تھی۔لہٰذا گھر واپسی کے لئے انہوں نے اپنی موٹر سائیکل اسٹارٹ کی کیونکہ وہ اپنی خوشی میں اپنے گھر والوں کو بھی شریک کرنا چاہتے تھے کہ چند روز میں وہ ایئر فورس کا حصہ بن جائیں گے اور پھر تربیت کے مراحل طے کر کے پرندوں کی طرح آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرتے ہوئے وطن کی پاسبانی کے فرائض انجام دیں گے۔وہ گھر والی سڑک پر آئے تھے کہ جمپ آنے پر انہوں نے موٹر سائیکل کی رفتار کم کر دی مگر جمپ کے قریب کسی نے کیلے کے چھلکے پھینکے ہوئے تھے جن کی وجہ سے فرحان بھائی کی موٹر سائیکل پھسل گئی اور سلنسر والا حصہ ان کے پاؤں پر آ گرا۔جس کی وجہ سے فرحان بھائی بری طرح چلائے۔فرحان بھائی کا چھوٹا بھائی اس وقت کسی کام سے گھر سے باہر آیا تھا وہ بھائی کو گرتا ہوا دیکھ کر چلاتا ہوا دوڑا۔برہان کی چیخ سن کر فرحان بھائی کے والد صاحب بھی گھر سے باہر نکل آئے۔فرحان بھائی کے گرد ایک ہجوم جمع ہو چکا تھا۔کچھ لوگوں نے فرحان بھائی کو کھڑا کرنا چاہا لیکن وہ کھڑے نہ ہو سکے بلکہ درد کی شدت سے چلانے لگے۔ہجوم میں کسی شخص نے پاس سے گزرتے ہوئے رکشہ روکا اور فرحان بھائی کو اس میں بیٹھا دیا۔ساتھ ہی برہان، ان کے والد صاحب اور ایک پڑوسی بھی جو فرحان کے والد صاحب کے دوست تھے، سوار ہو گئے۔رکشے والا ان سب کو قریبی ہسپتال لے آیا۔ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد بتایا کہ فرحان کا پاؤں جلنے کے ساتھ ایک جگہ سے ہڈی بھی ٹوٹ چکی ہے، لہٰذا پاؤں پر پلستر چڑھا دیا گیا۔انشاء اللہ ان دواؤں سے جلد افاقہ ہو جائے گا اور پاؤں کی ٹوٹی ہوئی ہڈی بھی جلد جڑ جائے گی۔یہ سن کر فرحان بھائی رونے لگے کہ کسی کی بے احتیاطی کی وجہ سے فرحان بھائی کے پورے ہوتے ہوئے خواب بکھر کر رہ گئے تھے۔ہمیں چاہیے پھل وغیرہ کھا کر ان کے چھلکے سڑک پر نہ پھینکیں بلکہ ڈسٹ بن میں ڈالیں اور اگر راہ میں پتھر، کانٹے، پھلوں سبزیوں کے چھلکے نظر آئیں تو انہیں ہٹا کر سب کے لئے خیر و عافیت کا سبب بنیں اور ثواب حاصل کریں۔ " انسان کی عمر - تحریر نمبر 2685,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/insan-ki-umar-2685.html,"چراغ حسن حسرتپیارے بچو! جب خدا نے دنیا بنائی اور اس میں بسنے کے لئے انسان،چوپائے پرندے اور دوسرے جانور پیدا کئے تو ان سب کی الگ الگ عمریں مقرر کی گئیں۔کسی کی پانچ برس، کسی کی دس برس، کسی کی چالیس۔سب نے تو ہنسی خوشی یہ فیصلہ سنا لیکن انسان، بیل، کتے اور بگلے کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ انہیں یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔خدا نے ان چاروں کی عمر ایک جتنی یعنی چالیس برس مقرر کی تھی۔سب سے پہلے انسان خدا کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ ،”مجھے دنیا میں بہت سے کام کرنے ہیں، چالیس برس میں کیا کیا کروں گا،اس لئے میری عمر بڑھائی جائے۔“جواب ملا۔”تمہاری عمر یوں تو بڑھائی نہیں جا سکتی، ہاں اگر کوئی جانور اپنی عمر میں کمی کرانا چاہے تو اس کی عمر کا کچھ حصہ کاٹ کر تمہاری عمر میں شامل کر دیا جائے گا۔(جاری ہے)“ اس کے بعد بیل آگے بڑھا اور کہا، ”میری عمر بھی چالیس برس مقرر ہوئی ہے جو بہت زیادہ ہے۔میں اتنی مدت جی کے کیا کروں گا؟ آرام کی زندگی ہوتی تو چالیس برس بھی جوں توں کر کے گزار لیتا لیکن میرے ذمے بوجھ اٹھانے، زمین جوتنے اور انسان کی خدمت کرنے جیسے کٹھن کام ہیں، مجھ میں اتنی سکت کہاں کہ چالیس برس تک اتنی بڑی بڑی مصیبتیں جھیلتا رہوں۔“خدا نے حکم دیا کہ، ”بیل کی عمر میں بیس برس کاٹ کا انسان کی عمر میں شامل کر دیئے جائیں۔“ انسان اب بھی مطمئن نہ ہوا اور اس انتظار میں چپ چاپ کھڑا رہا کہ شاید کسی اور جانور کی عمر میں سے کچھ حصہ مل جائے۔بیل کے بعد کتے کی باری آئی۔اس نے بھی کہا کہ چالیس برس بڑی لمبی مدت ہے، اتنے عرصے تک لوگوں کے گھروں کی رکھوالی کرنا اور رات دن بھونکتے رہنا بڑا مشکل کام ہے۔میں تو اس خیال ہی سے کانپ اٹھتا ہوں کہ مجھے دنیا میں چالیس سال رہنا پڑے گا۔“ حکم ہوا کہ، اس کی عمر میں سے بھی بیس برس گھٹا کے انسان کی عمر میں شامل کر دیئے جائیں۔”انسان خوش تو بہت ہوا کہ چلو بیس برس اور مل گئے۔لیکن اب بھی وہ اس خیال سے وہیں کھڑا رہا کہ شاید چند برس اور دنیا میں رہنے کا موقع مل جائے۔سب سے آخر میں بگلا پیش ہوا۔اس نے عرض کی کہ، مجھے چالیس برس تک آنکھیں بند کئے ایک ٹانگ پر پانی میں کھڑا رہنا پڑا تو میں جیتے جی مر جاؤں گا، اس لئے میری عمر بھی آدھی کر دی جائے“۔خدا نے بگلے کی درخواست منظور کر لی اور اس کی عمر سے بیس برس کم کر کے انسان کی عمر میں بڑھا دیئے گئے، اس طرح انسان کی عمر چالیس کی جگہ سو برس ہو گئی۔غور کیا جائے تو انسان کی اصل عمر چالیس برس ہی ہے۔اس عمر تک اس کی طبیعت بڑی چونچالی رہتی ہے، جو کھاتا ہے ہضم ہوتا ہے پھر سیر و تفریح کے لئے خاصی فرصت بھی مل جاتی ہے۔اس کے بعد بیس برس تک گھر کے کام کاج میں بیل کی طرح جتا رہتا ہے اور بال بچوں کے لئے روزی مہیا کرنے کی فکر میں اپنے آرام کا خیال بھی نہیں رہتا۔اب اس میں بیل کی سی خوبی پیدا ہو جاتی ہے۔آہستہ آہستہ طاقت بھی کم ہوتی جاتی ہے، پھر اس میں اتنی سکت باقی نہیں رہتی کہ گھر کا نظم و نسق چلا سکے۔ساٹھ برس کے بعد جوبیس سال کا زمانہ آتا ہے۔وہ کتے کی عمر سے کاٹ کے انسان کی عمر میں شامل کیا گیا تھا۔اس لئے کتے کی بہت سی خصلتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔اب اس میں پہلے جیسی طاقت اور ہمت نہیں رہتی۔طبیعت میں چڑچڑا پن آ جاتا ہے اور کتے کی طرح کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔اس کٹ کھنے پن کی وجہ سے عزیز رشتہ دار بھی اس سے کم ملتے ہیں۔کنبے کے سب لوگ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ جہاں تک بن پڑے اس سے دور ہی رہیں۔جہاں انسان اسی برس کو پہنچا بگلے کی طرح سر اور داڑھی کے بال سفید ہو گئے۔اب اس کی طاقت اور ہمت بھی جواب دے جاتی ہے۔گھر کا کوئی کام اس سے نہیں ہو سکتا۔بگلے کی طرح آنکھیں بند کئے پڑا رہتا ہے۔کنبے کے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے۔غرض اس میں بگلے کی بہت سی عادتیں آ جاتی ہیں۔کیوں نہ ہو۔آخر یہ بیس سال بگلے کی عمر میں سے کاٹ کے انسان کی عمر میں جو شامل کئے گئے تھے۔ " نیت بخیر - تحریر نمبر 2684,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/niyyat-bakhair-2684.html,"پروفیسر خلیل جباربس میں بیٹھتے ہی نبیل نے اپنی جیب کو ٹٹول کر تسلی کی کہ اس کی جیب میں بٹوا موجود ہے۔وہ ابھی بینک سے پچاس ہزار روپے کی رقم نکلوا کر گھر جا رہا تھا۔نبیل بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔اس کے خوش ہونے کی وجہ پچاس ہزار روپے کی رقم تھی۔یہ رقم پورے ایک سال کی محنت سے حاصل ہوئی تھی۔اس رقم کے بارے میں گھر میں کسی کو علم نہیں تھا۔اسے قربانی کا شوق تھا، لیکن آمدنی کم ہونے کی وجہ سے ہر سال اس کی یہ حسرت پوری نہ ہو پاتی۔وہ کوشش کے باوجود قربانی نہ کر پاتا۔کل بھی اس کے بیٹے سلمان نے پوچھا تھا:”ابا! ہم کب قربانی کریں گے۔“قربانی کا سن کر نبیل کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ گئی:”اس سال انشاء اللہ ضرور کریں گے۔“بیٹا قربانی کا سن کر بہت خوش ہوا۔(جاری ہے)اس کی بیوی عقیلہ بھی باپ اور بیٹے کی باتیں سن رہی تھی۔وہ لپک کر آئی اور کہا:”آپ کے پاس قربانی کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے، جو قربانی کرنے کا شوشہ بچوں میں چھوڑ دیا ہے۔“”سچ کہہ رہا ہوں، اس سال تو ہم ضرور قربانی کریں گے۔“”ہر سال آپ بچوں کو یقین دلاتے ہیں کہ قربانی کریں گے اور پھر قربانی نہیں کر پاتے۔جب قربانی نہیں کر سکتے تو بچوں سے جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔“ عقیلہ نے کہا۔”کیا تم جھوٹ سمجھ رہی ہو۔“”ظاہر ہے، عید کے لئے بچوں کے کپڑے تک نہیں بنے ہیں اور آپ قربانی کرنے کا دعوا کر رہے ہیں۔“”بیگم! اب تم اصل بات سنو۔ایک سال سے پیسے جمع کر رہا ہوں۔پورے پچاس ہزار روپے ہو چکے ہیں۔ان سے بچوں کے لئے عید کی خریداری بھی ہو گی اور قربانی بھی۔“نبیل نے بتایا۔”یہ رقم جمع کیسے ہوئی، ساری تنخواہ تو گھر میں خرچ ہو جاتی ہے۔“”تم ٹھیک کہہ رہی ہو، تنخواہ سے بچت نہیں ہوتی۔یہ بچت میں نے جز وقتی کام سے ملنے والی رقم کے ذریعے کی ہے۔“”اچھا آپ اس لئے دیر سے گھر آنے لگے تھے اور مجھے کہتے تھے کہ آفس میں کام بہت ہے۔“عقیلہ کو بھی بہت شوق تھا کہ گھر میں قربانی ہو۔اس مقصد کے تحت عقیلہ گھر کے خرچ سے کچھ رقم بچا کر رکھتی تھی، لیکن جیسے ہی کچھ رقم جمع ہوتی۔گھر میں کوئی نہ کوئی ضروری خرچ نکل آتا اور جمع کیے پیسے خرچ ہو جاتے۔نبیل کے یہ بتانے پر کہ اس نے پارٹ ٹائم کی رقم سے عید کی خریداری اور قربانی کے لئے رقم جمع کر لی ہے، اس کا دل بہت خوش ہو گیا۔بس بھری ہوئی تھی۔وہ کھڑے کھڑے یہی کچھ سوچتا رہا۔نبیل اپنے اسٹاپ پر اُتر کر گھر کی جانب چل دیا۔گھر نزدیک آ جانے پر اس نے بے خیالی میں جیب کو ہاتھ لگایا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔جیب میں بٹوا نہیں تھا۔کوئی جیب کترا نبیل کی پورے سال کی محنت لے اُڑا تھا۔رقم کے جانے کے تصور سے اس کا دل بیٹھ گیا۔کتنی محنت سے رقم جمع ہوئی تھی، اور کتنی آسانی سے جیب کترے نے رقم جیب سے نکال لی۔نبیل جب گھر میں داخل ہوا۔عقیلہ نے اس کے افسردہ چہرے کو دیکھ کر پوچھا:”کیا ہوا، اتنے اُداس کیوں ہیں؟“”بینک سے رقم نکلوا کر آ رہا تھا کہ کسی نے جیب سے بٹوا ہی نکال لیا۔“”یہ تو بہت بُرا ہوا، اب کیا ہو گا۔“ عقیلہ بھی پریشان ہو گئی۔”میں یہ سوچ کر پریشان ہو رہا ہوں کہ بچوں کی شاپنگ بھی نہیں ہو سکی اور بکرا بھی نہیں آ سکا۔“”اب پریشان مت ہوں، جو ہونا تھا، وہ ہو چکا۔غم کرنے سے رقم واپس نہیں آ سکتی۔“”تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔“”اللہ جانتا ہے کہ تم نے کس نیت سے رقم جمع کی تھی، میں بھی گھر کے سودے سے بچت کرتی ہوں کہ قربانی کے لئے کچھ رقم جمع ہو جائے، لیکن اپنی کوشش میں ناکام رہتی ہوں۔“”مجھے اندازہ ہے، تمہیں بھی قربانی کرنے کا بہت شوق ہے۔“”اللہ تعالیٰ سب کی سنتا ہے، کبھی ہماری بھی سن لے گا۔“ عقیلہ نے کہا۔چند دن بعد نبیل اور عقیلہ اس بات کو بھول گئے۔ان کے پاس اتنی اور رقم نہ تھی کہ وہ قربانی یا عید کی خریداری کا سوچتے۔تین دن عید میں باقی تھے کہ نبیل شام کے وقت گھر میں بکرا لے کر داخل ہوا۔عقیلہ اور بچے بکرا دیکھ کر حیران رہ گئے۔”ابا! یہ کس کا بکرا ہے؟“ بیٹے نے پوچھا۔”ارے بھئی ہمارا ہے اور کس کا ہو سکتا ہے۔“”سچ ابو!“ سلمان نے بے یقینی سے پوچھا:”اس سال ہمارے گھر میں بھی قربانی ہو گی؟“نبیل نے بکرے کو صحن میں باندھ دیا، بچے بکرے کے گرد جمع ہو گئے، اور اس کو ہاتھ لگا کر دیکھتے اور خوش ہوتے۔”لو بیگم! بچوں کے لئے عید کی خریداری اس رقم سے کر لینا۔“نبیل نے کئی بڑے نوٹ عقیلہ کی جانب بڑھائے۔”یہ سب کیا ہے؟“ عقیلہ نے بے یقینی سے پوچھا:”یہ بکرا اور رقم کہاں سے آئی؟ کیا جیب کترا پکڑا گیا ہے؟“”نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔تمہیں یہ بات تو پتا ہے کہ پہلے میں جہاں کام کر رہا تھا، وہاں چند ماہ کی تنخواہ روک لینے پر میں نے کام چھوڑ دیا تھا۔“”ہاں مجھے یاد ہے انسان پیسے کے لئے کام کرتا ہے اور جب پیسے ہی نہ ملیں تو پھر کام کرنے کا کیا فائدہ۔“عقیلہ نے کہا۔”آج صبح اسی ادارے سے فون آیا کہ ادارے کے مینیجر سے ملاقات کر لیں۔دل تو نہیں چاہ رہا تھا، لیکن چلا گیا۔مینیجر نے میری روکی ہوئی تنخواہ کی رقم جو پچاس ہزار روپے بنتی ہے، وہ دے دی۔یہ پیشکش بھی کی ہے کہ اگر میں جز وقتی کام کرنا چاہوں تو مجھے دگنی رقم دی جائے گی۔“نبیل نے بتایا۔”آپ نے پھر کیا کہا؟“”کہنا کیا ہے، پیشکش اچھی تھی،اس لئے ہامی بھر لی اور جو رقم ملی ہے، اس سے پہلی فرصت میں میں نے بکرا خرید لیا اور باقی بچ جانے والی رقم عید کی خریداری کے لئے تمہیں دے دی ہے۔“نبیل نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔”بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی سنتا ہے۔ہمیں کبھی اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔“نبیل نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو عقیلہ بھی مسکرا دی۔ " رہائی - تحریر نمبر 2683,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rehaai-2683.html,"محمد نوید مرزااکمل میٹرک کا طالب علم تھا، لیکن اپنی پڑھائی اور والدین اور اساتذہ کا احترام کرنے میں لاپروا سا تھا۔اکمل کو بگاڑنے میں زیادہ تر ہاتھ ان کے دادا تھا، جو ایک سرکاری ادارے سے ریٹائرڈ افسر تھے۔خود تو وہ تمام عمر پابندیوں میں رہتے ہوئے ملازمت کرتے رہے، لیکن اکمل کو انھوں نے بے جا لاڈ پیار کی وجہ سے خراب کر دیا تھا۔دادا اپنی پینشن سے اس کی ہر فرمائش کو پورا کرتے۔اکمل کے ماں باپ منع بھی کرتے، مگر دادا کو اپنے پوتے سے بہت پیار تھا۔یہی وجہ تھی کہ اکمل سارا دن کمپیوٹر اور موبائل میں گم رہتا۔اپنی پڑھائی کی طرف اس کی توجہ خاصی کم ہوتی جا رہی تھی۔ایک دن اکمل اسکول سے واپس آنے کے لئے اپنی وین کا منتظر تھا کہ ایک ادھیڑ عمر شخص ایک وین سے اُتر کر اس کے قریب پہنچا۔(جاری ہے)”السلام و علیکم بیٹے!“ وہ شخص بولا۔”وعلیکم السلام۔“ اکمل نے لاپرواہی سے جواب دیا۔”کیسے ہو بیٹا!“ وہ شخص بولا۔”میں ٹھیک ہوں، لیکن آپ کون ہیں؟“ اکمل نے پوچھا۔”بات یہ ہے کہ تمہاری وین والے انکل آج نہیں آئیں گے، ان کی گاڑی میں کوئی بڑی خرابی ہو گئی ہے، اس لئے انھوں نے مجھے بھیجا ہے۔“ وہ شخص بولا۔”لیکن میں تو آپ کو جانتا ہی نہیں۔“ اکمل نے کہا۔”جاننے کی ضرورت نہیں، میرا کام تو تمہیں گھر تک پہنچانا ہے۔“ اس آدمی نے اتنا کہا اور موقع دیکھ کر اکمل کی ناک پر رومال رکھ دیا اور پھر اسے زبردستی وین میں ڈال لیا۔یہ اس گروہ کے لوگ تھے، جو بچوں کو اغوا کر کے نامعلوم مقام پر ایک کیمپ میں لے جاتے تھے۔یہ منظر وہاں کھڑا بابا یاسین دیکھ رہا تھا، جو وہاں بسکٹ اور ٹافیوں کا ٹھیلا لگاتا تھا۔اس نے اغواکاروں کی گاڑی کا نمبر نوٹ کر لیا تھا۔پھر اس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو دور اسے پولیس کی گاڑی کھڑی نظر آئی۔اس نے فوراً بھاگ کر انھیں بچے کے اغوا ہونے کی بات بتائی۔پولیس فوری طور پر حرکت میں آ گئی، لیکن اس دوران وین والا غائب ہو چکا تھا۔شہر میں ایک ماہ میں اغوا کی یہ پانچویں واردات تھی۔جب اکمل کے گھر والوں کو اس کے اغوا کی خبر ملی تو ان کے اوسان خطا ہو گئے۔اکمل کی والدہ کا تو رو رو کر بُرا حال تھا۔اُدھر اکمل کو کچھ ہوش آیا تو اس نے وین کو تیزی سے پہاڑوں کے درمیان بنی سڑک سے گزرتے ہوئے دیکھا۔”یہ․․․․․تم مجھے کہاں لیے جا رہے ہو! مجھے اپنے گھر جانا ہے۔“ اکمل نے غصے میں آ کر کہا۔”ہم تمہیں ایک نئے گھر لے کر جا رہے ہیں۔“ ایک اغوا کار نے کہا۔”نہیں مجھے صرف اپنے گھر جانا ہے۔“ اکمل غصے سے بولا۔”چپ رہو، ورنہ مار کھاؤ گے۔“ دوسرے اغواکار نے ڈانٹ کر کہا۔”میں چلتی ہوئی گاڑی سے چھلانگ مار دوں گا۔“ اکمل نے کہا اور دروازے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔اسی لمحے میں ایک اغواکار نے اسے اپنی طرف کھینچا اور زور دار تھپڑ رسید کیا۔اکمل سہم گیا۔دوسرے اغواکار نے اس کی ناک پر کپڑا رکھا جس کے بعد وہ دوبارہ بے ہوش ہو گیا۔اکمل کو ہوش آیا تو وہ ایک کمرے کے فرش پر لیٹا ہوا تھا اور اس کے چاروں طرف اس کے ہم عمر بچے بیٹھے ہوئے تھے۔اکمل ان بچوں سے کچھ پوچھنا ہی چاہتا تھا کہ دروازہ کھلا اور دو افراد اندر داخل ہوئے ان کے ہاتھوں میں کھانے کی ایک ایک ٹرے تھی، جس میں رکھی ہوئی چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں پتلی پتلی دال اور موٹی موٹی روٹیاں تھیں۔ہر بچے کی ایک روٹی تھی۔انھوں نے وہ تمام کھانا بچوں کے آگے رکھ دیا اور خاموشی سے چلے گئے۔اکمل کے سامنے بھی دال روٹی پڑی تھی۔اسے شدید بھوک لگ رہی تھی۔اس نے ایک لقمہ منہ میں ڈالا اور تھوک دیا۔”یہ تو بہت بدذائقہ ہے۔“وہ چلایا۔”یہاں تو یہی ملتا ہے بھائی!“ ایک لڑکے نے کمزور سی آواز میں کہا۔مجبوراً اکمل کو وہ کھانا خالی پیٹ میں اُتارنا پڑا۔اکمل کے علاوہ باقی لڑکوں نے بھی کھانا کھایا۔ایک لڑکا کونے میں رکھے ہوئے مٹکے سے پانی لایا اور اکمل کے آگے رکھ دیا۔اکمل نے غٹاغٹ پانی پی لیا۔کھانے کے بعد ہونے والی باتوں سے اسے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ ان سب بچوں کے ساتھ بیگار کیمپ میں ہے۔اسی طرح ساتھی بچوں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اسے نیند آ گئی۔صبح چھے بجے ہی اسے اور دوسرے بچوں کو اُٹھا دیا گیا۔انھیں سوکھی ڈبل روٹی اور چائے دی گئی۔پھر انھیں ایک بند گاڑی میں بیٹھا کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔جہاں ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ تھے۔ان سب کو ایک جگہ پر پتھر توڑنے کے کام پر لگا دیا گیا۔اس طرح کئی دن گزر گئے۔اکمل روزانہ بچوں کے ساتھ آتا اور مزدوری کرتا رہا۔اکمل کے والدین سخت پریشان تھے۔پولیس سارے شہر میں اکمل اور دوسرے بچوں کو تلاش کر رہی تھی۔بابا یاسین کے بتائے ہوئے گاڑی کے نمبر پر کافی جستجو کے بعد مالک کو ڈھونڈ لیا گیا تھا۔اس کی گاڑی گھر کے باہر سے چوری کی گئی تھی ،جس کی رپورٹ تھانے میں درج تھی۔اب پولیس پوری طرح ناامید ہو چکی تھی اور بچوں کے والدین انتہائی مایوس اور پریشان تھے۔اکمل کو وہاں کام کرتے ہوئے بیس دن گزر چکے تھے۔بچوں کی نگرانی کے لئے ایک شخص امیر علی سارا دن ان کے ساتھ ہوتا تھا۔وہ بہت کم بولتا تھا۔ایسا لگتا تھا جیسے یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھ کر کُڑھ رہا ہو۔اسے بھی ورغلا کر یہاں لایا گیا تھا۔دنیا میں اس کا کوئی نہیں تھا۔اس نے خود کو حالات کے حوالے کر دیا تھا۔اسے گروہ کے کسی آدمی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن ظاہر ایسے کرتا تھا، جیسے وہ دل و جاں سے ان کے ساتھ ہے۔گروہ کے سب لوگ اس پر پورا بھروسا کرتے تھے، لیکن وہ کسی ایسے موقعے کے انتظار میں تھا کہ یہاں سے سب بچوں کو لے کر فرار ہو جائے۔بہ ظاہر بچوں پر کڑی نظر رکھتا، مگر دل میں ان کے لئے بڑی نرمی تھی۔ایک روز کسی بڑی واردات کے لئے وہ سب اکٹھے روانہ ہوئے اور امیر علی سے کہا کہ بچوں کو کمرے میں بند کر کے اچھی طرح دھیان رکھے۔ان سب کے جانے کے بعد امیر علی نے سب بچوں کو آزاد کیا اور انھیں دشوار گزار پہاڑی راستوں سے گزار کر بڑی سڑک تک لے آیا۔تمام بچے تھکے ہوئے ہونے کے باوجود ایک عزم سے دوڑتے رہے۔آخر کچھ انتظار کے بعد انھیں ایک ٹرک اپنی طرف آتا ہوا دکھائی دیا۔انھوں نے اسے روکا اور اپنی مصیبت سے آگاہ کیا۔ٹرک والا ہمدرد انسان تھا۔لہٰذا اس نے سب کو بیٹھا لیا۔تقریباً دو گھنٹے بعد وہ شہر کے ایک تھانے میں موجود تھے۔سب بچوں کے گھروں میں اطلاع دی جا چکی تھی۔پولیس کی بھاری نفری غیر آباد علاقے کی طرف روانہ ہو چکی تھی۔ان کے ساتھ امیر علی بھی تھے۔ان کی نشاندہی پر بردہ فروشوں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا گیا۔کئی مجرم پکڑے گئے اور ان کے ذریعے باقی مجرموں کو بھی کی تلاش کر لیا گیا۔سب بچے اپنے اپنے والدین کے گھر پہنچا دیے گئے۔ " پھولوں والا راستہ - تحریر نمبر 2682,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/phoolon-wala-rasta-2682.html,"نذیر انبالویچچا رحمت محلے بھر کے چچا تھے۔چھوٹے تو چھوٹے، اُن کی عمر سے بڑے بھی انھیں چچا ہی کہتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔وہ ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھے۔قناعت کے ساتھ زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی۔محلے میں خوشی اور غم کے موقع پر چچا رحمت پیش پیش ہوتے۔کوئی بیمار پڑ جاتا تو اُسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے میں مدد کرتے۔محلے والوں کے لئے ان کی موجودگی کسی رحمت سے کم نہ تھی۔چچا رحمت جس دفتر میں کام کرتے تھے۔کچھ عرصے پہلے ایک ایسا افسر تبادلہ ہو کر آیا، جو ہر سائل سے کام کرنے کے لئے نذرانہ طلب کرتا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اس کے ماتحت ملازمین خود بھی پیسے کمائیں اور اس کے لئے بھی پیسے اکٹھے کریں۔کچھ ملازمین تو اپنے افسر کے رنگ میں رنگ گئے، مگر رحمت چچا اپنے اصولوں پر چلنے کے عادی تھے۔(جاری ہے)وہ نیکی کے راستے پر چلتے رہے۔افسر بھلا اسے ماتحت کو کیوں کر پسند کرتا۔انھیں بدنام کرنے کے لئے ان پر رشوت لینے کا جھوٹا الزام لگا دیا گیا۔بات اوپر تک گئی۔سرکار کی طرف سے معاملے کی چھان بین کرنے کے لئے کمیٹی بنا دی گئی۔اس عرصے میں چچا رحمت کو معطل کر دیا گیا۔محلے والوں کو جب معاملے کا علم ہوا تو سب مل کر کمیٹی کے سامنے پیش ہو گئے۔کمیٹی کے سربراہ نے محلے والوں کی زبانی چچا رحمت کی شرافت کے قصے سنے تو اس نے کہا:”یہ محلے کا نہیں محکمہ کا معاملہ ہے، میں تفتیش کر رہا ہوں، اگر رحمت صاحب بے گناہ ثابت ہوئے تو انھیں ملازمت پر بحال کر دیا جائے گا۔“محلے والے اپنا موقف بیان کر کے وہاں سے چلے گئے۔چچا رحمت کو اس وقت حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔جب اس رشوت خور افسر ریاض الدین نے انھیں فون کیا۔اسکرین پر نمبر دیکھ کر چچا رحمت نے علیک سلیک کی۔افسر نے پوچھا:”کیا تم کل میری کوٹھی پر آ سکتے ہو؟“”جی سر! حاضر ہو جاؤں گا۔“ چچا رحمت نے جواب دیا۔دوسرے دن صبح دس بجے اپنے افسر کی کوٹھی کے سامنے موجود تھے۔گھنٹی بجانے پر چوکیدار گیٹ پر آیا۔افسر نے رحمت کے بارے میں اسے پہلے ہی بتا دیا تھا۔چچا رحمت کو ایک بڑے ڈرائنگ روم میں پہنچا دیا گیا۔وہ صوفے پر بیٹھے افسر کے آنے کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک لڑکا اچانک کمرے میں داخل ہوا۔اُس کی نظر رحمت چچا پر پڑی تو وہ بے اختیار بولا:”آپ، آپ یہاں میری شکایت کرنے آئے ہیں۔“”میں کچھ سمجھا نہیں۔“ چچا رحمت لڑکے کو پہچان نہیں پائے تھے۔”میں تیمور ہوں، تیمور ریاض۔وہی تیمور جسے۔“ تیمور ابھی اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ ریاض الدین ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔اس نے تیمور کو دیکھتے ہی سخت لہجے میں پوچھا:”تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“”میں اپنی کتاب لینے آیا تھا۔“ تیمور نے میز سے اپنی کتاب اُٹھاتے ہوئے چچا رحمت پر نگاہ ڈالی۔خوف کے مارے تیمور کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔اس نے ڈرائنگ روم سے باہر جاتے ہوئے دو بار مڑ کر چچا رحمت کی طرف دیکھا۔”میں نے تمہیں اس لئے یہاں بلایا ہے کہ کیوں اپنی نوکری کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہو، ویسا ہی کرو جیسا سب کر رہے ہیں، انکوائری کمیٹی کبھی تمہارے حق میں فیصلہ نہیں دے گی،کیونکہ․․․․“چچا بے ساختہ بولے:”کیونکہ وہ سب آپ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔“رحمت چچا کی بات سن کر ریاض الدین نے کہا:”آدمی تم ٹیڑھے ہو، عقل کا تقاضا یہی ہے کہ وہی کرو جیسا میں کہتا ہوں، اگر وہی کرو گے جو میں چاہتا ہوں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، سوچ لو، ایسا سنہری موقع بار بار تمہیں نہیں ملے گا۔سوچ لو، اچھی طرح سوچ لو۔“”میں نے سوچ لیا ہے کہ․․․․“”کہ وہی کرو گے جیسا میں کہہ رہا ہوں۔“ ریاض الدین نے چچا رحمت کی بات درمیان سے اُچک لی۔”میں نے سوچ لیا ہے کہ میں وہی کروں گا جیسا کرنے کا حکم میرے اللہ اور پیارے نبی ﷺ نے دیا ہے، میں حلال روزی کماؤں گا۔کسی صورت حرام نہیں کھاؤں گا۔“ چچا رحمت یہ کہہ کر باہر جانے کے لئے اُٹھے تو ریاض نے تلخ انداز میں کہا:”تم جیسے لوگ ترقی نہیں کر سکتے،میں تو چاہتا تھا کہ تمہاری نوکری بچ جائے تم خود اپنی نوکری کے دشمن بنے بیٹھے ہو، تم پر لگایا گیا جھوٹا الزام سچ ثابت ہو جائے گا۔“چچا رحمت اپنی جگہ سے اُٹھے تو ایک آواز ان کے کانوں میں پڑی:”آپ رک جائیے۔“یہ آواز ریاض الدین کے بیٹے تیمور کی تھی۔ریاض الدین نے گھور کر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔چچا رحمت کے اُٹھتے قدم رک گئے۔تیمور ریاض کوئی وقت ضائع کیے بغیر بولا:”پاپا! آپ ٹھیک نہیں کر رہے، یہ سچے اور اچھے انسان ہیں، یہ میرے محسن ہیں۔“”تمہارے محسن!“ ریاض الدین نے دہرایا۔”جی انھوں نے مجھ پر احسان کیا ہے۔چند دن پہلے میں شام کے وقت اکیڈمی سے چھٹی کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ پارک میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔“”تم اور سگریٹ نوشی کر رہے تھے۔“ ریاض الدین کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اس کا بیٹا سگریٹ بھی پی سکتا ہے۔”میں آج بھی سگریٹ نوشی کر رہا ہوتا اگر یہ فرشتہ صفت انسان پارک میں نہ آتے۔انھوں نے محبت بھرے انداز میں مجھے اور میرے دوستوں کو سمجھایا۔ان کی باتوں میں اتنا اثر تھا کہ سب نے سگریٹ پارک میں پھینک کر اُسے پاؤں تلے کچل دیے۔وہ دن اور آج کا دن، نہ میں نے اور نہ میرے دوستوں نے کبھی سگریٹ کو ہاتھ لگایا ہے۔اب تو آپ نے مجھے پہچان لیا ہو گا۔آپ میرے محسن ہیں۔آپ کے سمجھانے پر میں سگریٹ نوشی جیسی بُری لت سے بچ گیا ہوں۔“ یہ کہہ کر تیمور ریاض نے آگے بڑھ کر چچا رحمت کا ہاتھ محبت سے چوم لیا۔ڈرائنگ روم میں کچھ دیر خاموشی چھائی رہی، پھر اس سکوت کو ریاض الدین نے یہ جملہ کہہ کر توڑا:”آپ میرے بھی محسن ہیں،میرے بیٹے کو سگریٹ نوشی جیسی عادت سے بچا کر آپ نے مجھ پر احسان کیا ہے، ورنہ کچھ دنوں بعد وہ اس سے بھی آگے بڑھ سکتا تھا۔میں اپنے کیے پر نادم ہوں ،معذرت چاہتا ہوں۔“یہ کہتے ہوئے ریاض الدین کی آواز بھر گئی۔تم سے آپ تک کے سفر میں جو تکلیف چچا رحمت کو برداشت کرنی پڑی تھی، انھوں نے وہ تکالیف بھلا کر ریاض الدین کو دیکھ کر کہا:”مجھے شرمندہ نہ کریں۔بس گزارش یہی ہے کہ پُرخار راستوں پر مت چلیں، پھولوں والے راستے کا انتخاب کریں۔“ریاض الدین نے کہا:”آپ کل سے دفتر آ جائیے، آپ مجھے بدلا ہوا انسان پائیں گے۔“ " نافرمان - تحریر نمبر 2681,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nafarman-2681.html,"آہلہ نور، کراچیسمیع اور سمیر دونوں بھائی تھے۔ان کی نانی کا گھر جنگل کے قریب تھا۔وہ ہر سال چھٹیوں میں نانی اماں کے گھر ایک ماہ گزارنے آتے تھے۔نانی اماں انھیں دیکھ کر بے حد خوش ہوتیں، مگر وہ جب وقت بے وقت گھر سے باہر نکل جاتے تو نانی اماں بے حد پریشان ہو جاتی تھیں۔اب نانی اماں نے انھیں سختی سے باہر جانے سے منع کیا تھا چونکہ جنگل قریب تھا اور وہ دونوں جنگل کا ہی رُخ کرتے تھے۔نانی اماں کو یہ ڈر لگا رہتا کہ کہیں کوئی جنگلی جانور بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے، لیکن سمیع اور سمیر نے نانی اماں کی بات کو کوئی اہمیت نہ دی اور شام کے وقت چپکے سے نکل کر جنگل میں جا پہنچے۔آج ہوا تیز چل رہی تھی۔وہ دونوں خطرے سے بے خبر باتیں کرتے ہوئے جنگل کے وسط میں پہنچ گئے۔(جاری ہے)اچانک ہی ایک دیو ہاتھ میں گرز لیے ان کے سر پر پہنچ گیا، دونوں کی گھگی بن گئی۔ساتھ ہی دیو نے ایک زور دار قہقہہ لگایا جس کی آواز سے آس پاس کے جانور بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔پرندے اُڑ گئے۔سمیع اور سمیر کی تو خوف سے بُری حالت ہو رہی تھی۔انھیں نانی اماں کی نصیحتیں یاد آ رہی تھی، مگر اب تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا، انھیں نافرمانی کی سزا ملنی تھی۔”سمیع، سمیر! کہاں ہو تم دونوں؟“ نانی اماں پڑوس کے لڑکے کے ساتھ لالٹین لیے جنگل میں دونوں کو تلاش کر رہی تھیں کہ اچانک جنگل کے وسط میں دونوں بے ہوش پڑے نظر آئے۔نانی اماں نے دونوں کو ہلایا تو دونوں ہوش میں آ کر رونے لگے اور نانی اماں سے آئندہ اکیلے گھر سے باہر جانے سے توبہ کی اور نانی اماں سے معافی مانگنے لگے۔ان کی حالت دیکھ کر نانی اماں نے بھی دونوں کو معاف کر دیا۔ " عقلمند لکڑہارا - تحریر نمبر 2680,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aqalmand-lakarhara-2680.html,"ثروت خانایک بادشاہ نے ملک بھر میں کچھ عجیب سا اعلان کروایا کہ جو بھی بادشاہ کو اپنی ایسی تین خواہش بتائے، جسے پوری کر کے بادشاہ کو سچی خوشی حاصل ہو۔اگر ایسا نہ ہوا تو اس شخص کو قید کر لیا جائے گا، جبکہ جیتنے والے کو ایک ہزار سونے کی اشرفیاں انعام میں دی جائیں گی۔گاؤں میں ایک عقلمند لکڑہارا رہتا تھا۔لوگوں نے اسے مقابلے کا مشورہ دیا جسے لکڑہارے نے پسند کیا۔بے شمار لوگوں نے کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ان سب کو بادشاہ نے قید خانے میں ڈال دیا۔جب لکڑہارے کی باری آئی تو وہ آداب بجا لانے کے بعد بولا:”حضورِ والا! میری پہلی خواہش یہ ہے کہ میں آپ کو اپنی تمام خواہش ایک ساتھ نہ بتاؤں، بلکہ ایک ایک کر کے بتاؤں۔“ بادشاہ نے قبول کر لیا۔(جاری ہے)”میری دوسری خواہش یہ ہے کہ میں حضورِ والا کو ایک مہینے کے لئے قید خانے میں ڈال دوں۔“یہ سنتے ہی بادشاہ آگ بگولہ ہو گیا، لیکن چونکہ بادشاہ نے تمام درباریوں کے سامنے وعدہ کر چکا تھا، لہٰذا دو سپاہیوں نے بادشاہ کو پکڑ کر قید خانے میں ڈال دیا۔چونکہ اب بادشاہ دربار میں نہیں تھا، لہٰذا وزیر نے اس سے تیسری خواہش پوچھی۔لکڑہارے نے کہا:”وزیرِ محترم! میں آپ کو اپنی تیسری خواہش ایک گھنٹے بعد بتاؤں گا۔وزیر اس کی بات مان گیا۔ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد اس نے کہا:”میری تیسری خواہش یہ ہے کہ بادشاہ سلامت کو عزت کے ساتھ قید خانے سے واپس لایا جائے۔قید خانے سے نکلنے کے بعد تو بادشاہ کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی وہ سمجھ گیا کہ لکڑہارا بہت ذہین ہے۔اس نے باقی لوگوں کو بھی رہا کر دیا اور لکڑہارے کو ایک ہزار سونے کی اشرفیوں کے علاوہ اپنا مشیر بھی بنا لیا۔ " میری پرواز - تحریر نمبر 2679,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/meri-parwaz-2679.html,"بشریٰ ذیشانہوائیں اپنے زور پر مجھے اُڑائے لئے جا رہی تھیں۔یہ ہلکی ہلکی پرواز مجھے بہت اچھی لگ رہی تھی۔اچانک ہوا نے مجھے ایک ٹوٹی پھوٹی کھڑکی پر چھوڑ دیا۔ایک دس، گیارہ سال کا بچہ ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔اس کا ناشتہ صرف ایک باسی روٹی اور چائے پر مشتمل تھا۔چائے کی رنگت بتا رہی تھی کہ اس میں برائے نام ہی دودھ ڈالا گیا ہے۔بچے نے جلدی جلدی روٹی ختم کی اور چائے پی کر الحمدللہ کہتے ہوئے اُٹھ گیا۔”اماں! دعا کرنا کہ آج زیادہ لوگ جوتے پالش کے لئے آئیں۔“ بچے نے ایک پرانا سا بیگ اُٹھاتے ہوئے کہا۔ہوا کا ایک اور تیز جھونکا آیا اور مجھے اس ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے لے اُڑا۔کچھ دیر ہوا کے زور پر اوپر نیچے اُڑتا رہا، پھر ایک کھڑکی کی جالی میں آ کر پھنس گیا۔(جاری ہے)یہ کھڑکی پہلی کھڑکی کی طرح ٹوٹی پھوٹی نہیں تھی، بہت خوبصورت تھی، بلکہ پورا گھر ہی بہت خوبصورت تھا۔اندر میز پر ناشتہ لگا ہوا تھا۔انڈے، ڈبل روٹی، پراٹھے، جیم، مکھن، جوس اور نہ جانے کیا کیا تھا۔گھر کے تمام افراد ناشتہ کرنے میں مصروف تھے، سوائے ایک دس سالہ بچے کے، جو کرسی پر ناراض بیٹھا تھا۔”مجھے یہ نہیں کھانا، مجھے زنگر برگر کھانا ہے۔“ بچہ منہ بسورتے ہوئے کہہ رہا تھا۔”بیٹا! اس وقت زنگر برگر نہیں ملتے، دیکھو! یہ مینگو جام ہے۔آپ کو پسند ہے نا․․․․․یہ بہت مزے کا ہے۔“اس کی ماں اسے جام سلائس کھانے کے لئے راضی کر رہی تھی۔پتا نہیں کہ وہ جام سلائس کھانے پر راضی ہوا یا نہیں، کیونکہ ہوا مجھے ایک بار پھر اُڑا لے گئی تھی۔ہوا کا زور کچھ کم ہوا اور میں آہستہ آہستہ زمین پر آ گیا۔یہ کسی دودھ والے کی دکان کا دروازہ تھا۔”او ناصر! دو لیٹر پانی زیادہ ملانا آج دودھ کم ہے۔“”اچھا صاحب! ابھی ملائے دیتا ہوں۔“”اور ہاں! آج ہوا بہت چل رہی ہے۔دکان کے سامنے کافی کچرا آ گیا ہے ذرا اچھی طرح سے جھاڑو لگانا۔“”اچھا صاحب! ابھی لگاتا ہوں۔“ ناصر نے دودھ میں پانی ملاتے ہوئے کہا۔ناصر نے جھاڑو لگائی اور مجھ سمیت تمام کچرا کوڑے دان میں ڈال دیا۔یہاں میرے ہوائی سفر کا اختتام ہوا۔کبوتر کے بازوؤں سے جھڑنے کے بعد میرا یہ سفر خاصا دلچسپ اور تجرباتی تھا۔ " مزدور پر ظلم - تحریر نمبر 2678,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mazdoor-par-zulm-2678.html,"بسمہ گل کھوسا، سکھرمبشر ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا۔وہ اپنے گھر کا واحد کمانے والا تھا۔بیوی بچے، بوڑھے والدین کی ذمے داری بھی مبشر پر تھی۔وہ کم تنخواہ پر فیکٹری میں پندرہ سالوں سے کام کر رہا تھا۔مبشر نے ایک دن فیکٹری کے مالک سے کہا کہ مجھے آپ کی فیکٹری میں کام کرتے ہوئے پندرہ سال ہو چکے ہیں، مگر مجھے قانونی حقوق نہیں مل سکے ہیں، جن میں مستقل ملازمت، تنخواہوں میں اضافہ اور بہت سی مراعات شامل ہیں، مجھے آپ نہیں دے رہے ہیں۔اس مہنگائی کے دور میں کم تنخواہ پر گزر بسر میں مشکل ہوتی ہے۔آپ میری تنخواہ بڑھا دیں۔مہربانی ہو گی۔فیکٹری کے مالک نے کہا:”تمہیں کام کرنا ہے تو کرو، نہیں کرنا تو فیکٹری سے نکل جاؤ اور بہت سے ہنرمند مجھے مل جائیں گے۔(جاری ہے)“مبشر نے کہا:”میں آپ سے اپنا حق مانگ رہا ہوں۔“اس بات پر فیکٹری مالکان نے اسے فیکٹری سے نکال دیا اور کہا کہ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے۔مبشر یہ سن کر بہت افسردہ ہو گیا:”یہ ظلم نہ کریں، میں ایک غریب آدمی ہوں۔میرے گھر میں کوئی کمانے والا نہیں ہے۔میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں مجھ پر رحم کرو۔فیکٹری مالکان کو مبشر پر کوئی رحم نہیں آیا۔اس نے مبشر کو فیکٹری سے دھکے دے کر باہر نکال دیا۔مبشر نے جاتے ہوئے فیکٹری مالکان سے روتے ہوئے کہا:”آپ مجھ پر ظلم کر رہے ہیں۔میں غریب ہوں، کچھ نہیں کر سکتا، مگر میں جاتے جاتے اپنا فیصلہ اللہ کی عدالت میں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔“یہ کہہ کر مبشر چلا گیا۔کچھ ہی دن بعد پتا چلا کہ جس فیکٹری میں مبشر کام کرتا تھا، اس فیکٹری میں شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی، جس سے ساری فیکٹری جل کر راکھ ہو گئی اور فیکٹری کے مالک کا بہت بڑا نقصان ہو گیا تھا۔خدا جانے فیکٹری مالکان کو اس دن احساس اور ندامت ہوئی یا نہیں کہ کاش! ہم مبشر پر ظلم نہیں کرتے تو آج ہم پر بھی اللہ کی طرف سے سزا نہیں ملتی۔ " اعتماد - تحریر نمبر 2677,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aitmaad-2677.html,"حافظ عبدالرحمن یوسف، کراچیوانیہ ایک بہت اچھی بچی تھی۔وہ ماں باپ کی فرمانبردار تھی۔ہر ایک کا کہا مانتی تھی، مگر اس کے ساتھ ایک مسئلہ تھا۔اس کے اندر ذرا سا بھی اعتماد نہیں تھا۔وہ بھرے مجمع کے سامنے جانے سے گھبراتی تھی۔اس کے اساتذہ کرام نے اسے کئی بار مجمع میں تقریر کرنے کو کہا، مگر وہ بھرے مجمع کے سامنے ایک لفظ بھی نہیں بول سکتی تھی۔وانیہ کی اسلامیات کی ٹیچر نے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ان کی جگہ ایک اڈھیر عمر کے سر، جن کا نام محمد علی تھا، اسلامیات پڑھانے کے لئے آئے تھے۔وہ بہت غصے والے، مگر وہ بہت تجربہ کار استاد تھے۔وہ اپنے طالب علموں کو گرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔جب سے انھیں معلوم ہوا کہ ان کی جماعت پنجم کی طالبہ وانیہ کے اندر اعتماد نہیں ہے تو انھوں نے اس کے اندر سوئے ہوئے اعتماد کو جگانے کا فیصلہ کیا۔(جاری ہے)دس اگست کا دن تھا۔اسکول میں جشن آزادی کی تقریب کے لئے تیاریاں ہو رہی تھی۔سر محمد علی نے وانیہ کو اسٹاف روم میں بلایا۔وانیہ ڈرتے ڈرتے کمرے میں داخل ہوئی۔سر نے اس سے کہا:”اس بار تمہیں یومِ آزادی کے دن تقریر کرنی ہو گی۔“وانیہ سر کی بات سن کر گھبرا گئی:”سر․․․․․میں ت۔ت۔تقریر نہیں کر۔رر سکتی۔ی۔“سر نے کہا:”میں نے جو کہہ دیا، سو کہہ دیا، اب جاؤ اور تیاری کرو۔“وانیہ بے چاری پریشان ہو گئی۔اس نے گھر جا کر اپنی امی کو بتایا۔امی نے کہا:”بیٹا! یہ تو اچھی بات ہے۔چلو اب تقریر کرنے کی تیاری کرو۔وقت نہ ضائع کرو۔“آج 14 اگست کا دن تھا۔وانیہ کی امی نے اسے اچھی طرح تقریر کی تیاری کروائی تھی، مگر پھر بھی وہ تھوڑا تھوڑا گھبرا رہی تھی۔ٹیچر اب تقریر کرنے والوں کے نام لینے والی تھیں۔وانیہ کا دل دھک دھک ہونے لگا۔اتفاق سے مس نے سب سے پہلا نام وانیہ کا ہی لیا۔سر محمد علی نے مس کو وانیہ کا پہلا نام لکھنے کو کہا تھا۔وانیہ ڈرتے ڈرتے اسٹیج پر آئی اور تقریر کرنے لگی۔تقریر کرتے ہوئے اس کے پاؤں بری طرح کانپ رہے تھے، مگر وانیہ نے اتنی زبردست تقریر کی کہ تقریر کے مقابلے میں وہ سب سے آگے رہی۔سب نے اس کی حوصلہ افزائی کی، کیونکہ یہ اس کی پہلی تقریر تھی۔سر محمد علی کو بہت خوشی ہوئی۔اس کے بعد سے وانیہ کو اسکول کی سرگرمیوں میں حصہ لینے میں مزہ آنے لگا۔اب اگر اسے کسی بھی مقابلے میں حصہ لینے کے لئے کہنا نہیں پڑتا تھا۔جب بھی سر محمد علی سے اس کی بات ہوتی ہے تو وہ ان کا شکریہ ادا کرتی۔اگر وہ اس وقت وانیہ پر سختی نہ کرتے تو اس کے اندر اعتماد نہ پیدا ہوتا۔ " بھیڑیں اور بھیڑیے - تحریر نمبر 2676,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sheep-and-wolves-2676.html,"محمد حارث، ساہیوالساتھیو! ایک جنگل کے بڑے حصے پر بھیڑیوں کی حکومت قائم تھی اور دوسرے چھوٹے سے حصے پر بھیڑوں کی حکمرانی تھی۔اکثر دونوں میں کسی نہ کسی بات پر لڑائی ہو جاتی۔بھیڑیے خونخوار اور طاقتور تھے، اس لئے بھیڑوں نے اپنی حفاظت کے لئے کتے پال رکھے تھے۔جب بھیڑیے ان پر حملہ کرتے تو یہ کتے ان کا مقابلہ کرتے اور بھیڑیوں کو بھگا دیتے۔کتوں کی وجہ سے بھیڑیں محفوظ تھیں۔جب بھیڑیوں اور بھیڑوں کو آپس میں لڑتے لڑتے ایک مدت گزر گئی تو جنگل کے چند دوسرے بڑے جانوروں نے بیچ میں پڑ کر دونوں میں صلح کرا دی۔طے پایا کہ دونوں طرف سے ایسی ضمانت دی جائے کہ امن قائم رہے۔بھیڑیوں نے تجویز پیش کی کہ وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز بچے ضمانت کے طور پر بھیڑوں کے سپرد کریں گے اور بھیڑیں اپنے کتے ہمارے حوالے کر دیں۔(جاری ہے)یہ بات بھیڑوں کو پسند آئی اور معاہدہ طے پا گیا۔بھیڑوں نے اپنے کتے بھیڑیوں کو دے دیے اور بھیڑیوں نے اپنے بچے بھیڑوں کے حوالے کر دیے۔ابھی تو تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بھیڑیوں کے بچوں نے اپنی ماؤں کو یاد کر کے رونا اور چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ان کی آواز سن کر بھیڑیے دوڑے دوڑے آئے اور غصے میں بھیڑوں سے کہا کہ تم نے صلح کی خلاف ورزی کی ہے۔آخر ہمارے بچوں کو کیوں مار رہی ہو؟بھیڑوں نے ایک زبان ہو کر کہا:”نہیں جناب!ایسا نہیں ہے یہ تو خود ہی چیخ پکار کر رہے ہیں۔انھوں نے ہماری نیندیں حرام کر دی ہیں۔“بھیڑیوں نے چیخ کر جواب دیا:”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو جبھی چیخیں چلائیں گے جب انھیں تکالیف پہنچائی جائے گی۔“ یہ کہہ کر انھوں نے فوراً معاہدہ توڑ دیا اور مل کر بھیڑوں پر حملہ کر دیا۔کتے ان کے پاس نہیں تھے، جو ان کی حفاظت کرتے۔ذرا سی دیر میں بھیڑیے ساری بھیڑوں کو مار کر کھا گئے۔ " مجبور مجرم - تحریر نمبر 2675,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/majboor-mujrim-2675.html,"زنیرا فرید احمدچچا رحیمو ایک مہربان آدمی تھے۔ان کے پاس بہت ساری بکریاں تھیں۔ان کا بیٹا روزانہ ان کا دودھ نکال کر بیچتا تھا۔ایک دفعہ وہ مکان کے پیچھے بنے باڑے میں دودھ نکالنے گیا تو اسے اپنی ایک بکری کم لگی اس نے سوچا بکری شاید کوئی چُرا کر لے گیا ہے۔وہ باپ کے پاس گیا اور بتایا کہ باڑے سے ایک بکری غائب ہو گئی ہے۔چچا رحیمو کو حیرت ہوئی۔اچانک ان کے بیٹے کا دھیان قصائی نورے کی طرف چلا گیا۔اس نے شک کا اظہار اپنے بابا سے کیا تو چچا رحیمو نے کہا:”بُری بات کسی پر الزام نہیں لگاتے۔تم کہتے ہو تو آج ہم درخت کے پیچھے چھپ کر نگرانی کریں گے۔“جب چچا اور ان کا بیٹا درخت کے پیچھے چھپے ہوئے تھے تو قصائی ان کی ایک بکری اُٹھا کر لے جا رہا تھا۔(جاری ہے)چچا کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔انھوں نے نورے کو آواز دے کر روکا اور پوچھا:”ایسی کیا بات ہو گئی کہ تم چوری کرنے لگے؟“نورے نے کہا:”چچا! مجھے معاف کر دیں۔جانوروں میں بیماری پھیلنے سے میرا کاروبار نہیں چل رہا۔میری ماں گھر پر بیمار پڑی ہے۔“ نورا روتے ہوئے بولا۔چچا نے نورے کے آنسو صاف کیے اور بولے:”اگر تمہاری ماں بیمار تھی تو تم مجھ سے کہتے، تمہیں چوری کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اب تمہاری سزا ہے کہ تم صبح سے شام تک میرے بیٹے کے ساتھ بکریاں چرایا کرو گے۔اس کے بدلے میں تمہاری ماں کا علاج کراؤں گا اور کھانا بھی دوں گا۔“ " پُراسرار لڑکا - تحریر نمبر 2674,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/purisrar-larka-2674.html,"شازیہ کاشف، کراچیہانی نے گھر کے سامنے باغیچے میں ایک پھول پر تتلی بیٹھی دیکھی۔اس نے گھر میں جھانکا، امی فون پر خالہ سے باتوں میں مصروف تھیں۔یہ دیکھ کر وہ تتلی کو پکڑنے اس کے پیچھے بھاگی۔دوڑتے دوڑتے وہ کب جنگل میں پہنچ گئی اسے پتا ہی نہ چلا۔اس نے خود کو گھنے درختوں کے درمیان پایا۔جنگل کے اس حصے میں قدرے اندھیرا تھا۔ہانی کا ننھا سا دل سہم گیا۔وہ ایک بڑے پتھر پر بیٹھ کر رونے لگی۔”کیا ہوا پیاری لڑکی! تم کیوں رو رہی ہو؟“ اچانک کسی کی آواز آئی۔اس نے چونک کر پیچھے دیکھا۔وہاں اس کا ہم عمر ایک لڑکا سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ہانی کے آنسو مزید تیزی سے بہنے لگے۔”مجھے لگتا ہے تم اپنے گھر کا راستہ بھول گئی ہو!“ لڑکے نے کہا تو ہانی نے ہاں میں سر ہلایا۔(جاری ہے)”میرے ساتھ آؤ، شاید میں تمہاری مدد کر سکوں۔“ لڑکا آگے بڑھتے ہوئے بولا۔”اچھے بچے اپنے بڑوں کے بغیر کبھی اتنی دور نہیں آتے۔“ لڑکے نے چلتے چلتے اسے نصیحت کی۔”یہ بھی تو میری طرح چھوٹا بچہ ہے، پھر یہ اس جنگل میں کیا کر رہا ہے؟“ ہانی نے دل میں سوچا۔”دیکھو! وہ رہا تمہارا گھر۔“ آواز کے ساتھ ہی ہانی کی سوچوں کا سلسلہ ٹوٹا۔سامنے سڑک کے پار اس کے گھر کا دروازہ نظر آ رہا تھا۔اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ہانی نے سوچا جانے سے پہلے میں اس لڑکے کا شکریہ تو ادا کر دوں۔اس نے جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا، وہاں دور دور تک کوئی نہ تھا۔ " حلال رزق ایک عبادت - تحریر نمبر 2673,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/halal-rizq-aik-ibadat-2673.html,"انیلا طاہر، کراچیسلیم ایک ایماندار انسان تھا، جو ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتا تھا۔اس کے پاس کچھ بھینسیں اور چند بکریاں تھیں۔وہ خالص دودھ بیچا کرتا تھا۔وہ دودھ میں پانی یا کوئی اور چیز نہیں ملاتا تھا اور نہایت سستے داموں دودھ فروخت کرتا تھا۔چونکہ وہ ایک دیانتدار انسان تھا، اس لئے اسے تھوڑا منافع بھی ٹھیک لگتا تھا۔پورے گاؤں میں سلیم کی دکان کا دودھ مشہور تھا۔دکان پر ہر وقت ہجوم لگا رہتا۔لوگوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ دودھ کے دام میں اضافہ کر دے، لیکن وہ نہیں مانا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حلال رزق کمانا بھی عبادت ہے۔اس کے رزق میں خدا نے خوب برکت عطا کر رکھی تھی۔دودھ کی مانگ زیادہ تھی، اس لئے سلیم نے کچھ اور مویشی خرید لیے۔(جاری ہے)کچھ دن بعد اپنا کاروبار قریبی شہر میں منتقل کر لیا، کیونکہ شہر میں خالص دودھ کی بہت زیادہ کھپت تھی۔اس نے شہر میں ایک مناسب سا گھر اور مویشیوں کے لئے احاطہ کرائے پر لیا۔وہاں ان کی سوچ سے بھی زیادہ ان کو سراہا گیا۔سلیم کا کاروبار چمک اُٹھا۔مانگ بہت زیادہ بڑھ گئی تو مزید جانور خریدے گئے۔بہت بڑے احاطے میں جانوروں کی بہت اچھی دیکھ بھال کی جاتی۔کرائے کی جگہ اور اپنا ذاتی گھر بھی خرید لیا۔دکان کی شہرت دور کے علاقوں تک پھیل گئی۔طلب بڑھی تو امیر لوگوں کے علاقوں میں بھی شاخیں قائم کر لیں۔سلیم اور اس کے بیٹے دن رات محنت میں لگے ہوئے تھے۔پورا شہر ان کو جانتا تھا۔ہر کوئی ان کی تعریفیں کرتا تھا۔سلیم نے اپنا وہی اُصول رکھا کہ نہ ملاوٹ کرے گا اور نہ زیادہ منافع لے گا۔اسی وجہ سے اللہ نے اتنا عروج بخشا۔اب سلیم کے ہاں دولت کی ریل پیل تھی۔گاڑیاں، کوٹھیاں، دکانیں اللہ کی ہر نعمت اس کے پاس تھی، کیونکہ اس نے اللہ کے ایک فرمان کی پیروی کی تھی کہ حلال رزق عین عبادت ہے۔ " منو کو ملی جھوٹ کی سزا - تحریر نمبر 2672,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mannu-ko-mili-jhoot-ki-saza-2672.html,"سائرہ جبیںپیارے بچو! دور کسی جنگل میں بلیوں کا ایک گروہ رہا کرتا تھا۔ان سب کی آپس میں گہری دوستی تھی۔تمام بلیاں مل جُل کر کھیلا کرتیں اور کھانے پینے بھی اکٹھی ہی نکلا کرتیں۔سردیوں کے موسم کا آغاز ہو گیا تھا اور باہر ٹھنڈ کی شدت بڑھنے لگی تھی۔ایسے میں بلیوں کو گھر سے نکلنا محال لگنے لگا لیکن انہیں پیٹ بھرنے کی خاطر جانا پڑتا تھا۔بلیوں میں ایک بلی جس کا نام ”منو“ تھا قدرے سُست تھی۔وہ روزانہ سوچتی کہ آج کسی طرح اسے باہر نہ جانا پڑے اور گھر بیٹھے ہی کھانا مل جائے، لیکن سب کے بار بار کہنے پر اسے ساتھ جانا پڑتا۔ایک روز منو سو کر اٹھی تو اسے ٹانگ میں درد محسوس ہو رہا تھا۔اس نے ساتھی بلیوں کو بتایا کہ جانے کیوں وہ پیر میں تکلیف محسوس کر رہی ہے۔(جاری ہے)جس پر دوسری بلیوں نے اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ایک، دو روز آرام کرنے کا مشورہ دیا اور خود کھانے کی خاطر باہر نکل گئیں۔واپسی پر آتے ہوئے وہ منو کے لئے بھی کھانا لے آئیں۔منو کے پیر میں تو تکلیف تھی لیکن وہ دل ہی دل میں خوش بھی ہو رہی تھی کہ آج اس کی پُرانی خواہش پوری ہو گئی۔ایک دو روز آرام کر لینے کے بعد منو کے پیر کی تکلیف تو دور ہو گئی لیکن اسے اچھا بہانہ مل گیا تھا۔وہ ساتھی بلیوں کو یہی کہتی رہی کہ اس کی ٹانگ میں اب بھی تکلیف برقرار ہے اس لئے وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہے۔جس پر اس کی سہیلیوں نے کہا کہ وہ اسے معائنے کیلئے لے چلتی ہیں، لیکن منو نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی۔چند روز مزید آرام کرنے کے بعد وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔یہ سن کر دوسری بلیوں نے بھی زیادہ زور نہ دیا اور خاموش ہو رہیں۔بلیاں اپنے معمول کے مطابق روزانہ کھانے کیلئے باہر جاتیں اور واپسی پر منو کیلئے خوراک لے آتیں۔شام کو وہ سب کچھ دیر کھیلنے کیلئے باہر جایا کرتی تھیں۔اس وقت میں منو گھر میں بالکل اکیلی ہوتی۔اس کا بھی دل کرتا تھا کہ وہ ان کے ساتھ کھیلنے کیلئے باہر جائے، لیکن ایسا کرنے کی صورت میں اس کا پول کھل جاتا اور وہ مزید چند روز بستر پر ہی گزارنا چاہتی تھی۔اسے فراغت کے یہ دن بے حد پسند آ رہے تھے۔ایک روز معمول کے مطابق سبھی بلیاں کھیلنے کیلئے باہر گئی ہوئی تھیں۔منو بستر پر مزے سے لیٹی تھی کہ اچانک اسے گوشت کی بُو آئی۔اس نے فوراً کان کھڑے کر لیے اور کھڑکی سے سر باہر نکال کر یہاں وہاں دیکھنے لگی۔ایسا کرتے ہوئے اس نے خود کو کھڑکی کی اوٹ میں چھپا رکھا تھا تاکہ باہر کھیلتی بلیوں کی نظر اس پر نہ پڑ جائے۔اب جو اس نے گوشت کی تلاش میں نظر دوڑائی تو کیا دیکھتی ہے کہ درخت کے نیچے ایک لڑکا کسی جانور کا گوشت پھینک رہا ہے۔یہ دیکھ کر منو کے منہ میں پانی بھر آیا۔وہ جلد از جلد گوشت تک پہنچنا چاہتی تھی۔تازہ گوشت دیکھتے ہی اس کی بھوک میں اضافہ ہو گیا تھا۔منو نے دل میں ارادہ کیا اور ساتھی بلیوں سے نظر بچا کر گھر سے باہر نکل آئی۔وہ درختوں کی اوٹ میں ہوتی ہوئی گوشت تک پہنچنا چاہ رہی تھی اور چاہتی تھی کہ دوسری بلیوں تک گوشت کی خوشبو پہنچنے سے پہلے اسے کھانے میں کامیاب ہو جائے۔چھپتی چھپاتی وہ گوشت تک پہنچی اور جلدی جلدی پنجے چلاتے ہوئے کھانے میں مصروف ہو گئی۔اب تک کسی کی اس پر نظر نہیں پڑی تھی۔سارا گوشت ختم کرنے کے بعد وہ بے حد خوش تھی اور چاہتی تھی کہ اب یونہی چپکے سے ساتھی بلیوں کے واپس آنے سے پہلے گھر پہنچ جائے۔بلیوں کے واپس آنے میں چند ہی منٹ باقی تھی اس لئے منو درختوں کی اوٹ میں چھپ کر آہستگی سے جانے کی بجائے بھاگتی ہوئی گھر کی جانب گئی۔جلدی میں وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ تھوڑی ہی دور کھیلتی ساتھی بلیاں منو کو بھاگتے ہوئے دیکھ چکی ہیں۔وہ دل ہی دل میں منو سے شدید خفا ہو چکی تھیں، اور اسی دوران بد حواسی میں بھاگتی منو کا پیر ایک بڑے پتھر سے ٹکرایا اور وہ کراہتی ہوئی زمین پر گر پڑی۔ساتھی بلیاں دور کھڑی افسوس سے منو کو دیکھ رہی تھیں۔وہ سمجھ گئی تھیں کہ منو کو اپنے جھوٹ کی سزا مل چکی ہے۔ " وقت کی اہمیت - تحریر نمبر 2671,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/waqt-ki-ahmiyat-2671.html,"مسعود احمد برکاتیآج کل کی زندگی بڑی مصروف زندگی ہے۔ہر آدمی کاموں کی کثرت کی شکایت کرتا ہے۔یہ فقرہ عام ہے کہ وقت نہیں ملتا۔یہ بات ہے تو صحیح، مگر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا وقت کم ہے؟ یا وقت زیادہ ہے؟ اس کا فیصلہ کرنا تو بہت مشکل ہے، لیکن جتنا وقت ہے یا جتنا وقت کسی شخص کو ملتا ہے وہ کم نہیں ہوتا۔عمر کا اوسط تو تقریباً برابر ہی ہے۔بعض لوگ بہت ہی کم عمر پاتے ہیں اور بعض لوگوں کو زیادہ مہلت ملتی ہے، لیکن جہاں تک کام کے لئے وقت کا سوال ہے اس کا تعلق عمر سے نہیں ہے وقت کو کام میں لانے سے ہے۔دنیا میں جن لوگوں نے بڑے بڑے کام کیے ہیں ان میں بہت کم لوگ ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے بڑی عمر پائی۔انہوں نے جو کچھ کام کیے وہ اوسط عمر ہی کے اندر انجام دیے اور زندگی نے جو مہلت اُن کو دی تھی اس سے انہوں نے پوری طرح فائدہ اٹھایا وقت ضائع نہیں کیا اور بڑے بڑے کام کر کے نام پایا۔(جاری ہے)کسی کا کیا عمدہ قول ہے کہ آدمی جتنا زیادہ مصروف ہوتا ہے اس کے پاس اتنا ہی زیادہ وقت ہوتا ہے۔بظاہر تو یہ بات عجیب سی معلوم ہو گی لیکن غور کریں تو بالکل صحیح ہے۔مصروف آدمی وقت کی قیمت جانتا ہے اور اس کو بالکل ضائع نہیں جانے دیتا۔جو وقت بھی اس کو ملتا ہے اس کو وہ کام میں لے آتا ہے، اس لئے اس کو وقت کی کمی کی شکایت نہیں ہوتی۔جو آدمی بے کار ہوتا ہے، کم مصروف ہوتا ہے وہ وقت کی قیمت نہیں جانتا۔جس طرح کسی بزرگ کو آپ نہ پہچانتے ہوں وہ آپ کے پاس سے گزر جائیں مگر آپ کو پتا نہ چلے کہ ایک بزرگ ہستی آپ کے قریب آئی تھی، مگر آپ نے اس کو روکا نہیں اور اس سے فیض نہیں اٹھایا۔اسی طرح وقت بھی گویا ایک ایسی ہستی ہے کہ جو آدمی اس کو نہیں پہچانتا وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا اور وقت گزر جاتا ہے۔جتنا وقت بھی ملے اس کو کام میں لایا جائے تو وہی وقت بہت ہے اور اسی وقت میں دنیا میں نام کمانے والے کارنامے انجام دیے جا سکتے ہیں۔ " طوطے کی بات - تحریر نمبر 2670,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tote-ki-baat-2670.html,"مسعود احمد برکاتیایک کسان کے گھر میں ایک چڑیا پلی ہوئی تھی۔وہ انسانوں کی بولی جانتی تھی اور جو کچھ دیکھتی تھی وہ بیان کردیتی تھی۔کسان اس کو بہت پسند کرتا تھا اور وہ بھی کسان کے گھر میں بہت خوش تھی۔ایک بار کسان کا ایک دوست اللہ بخش دوسرے گاوٴں سے اس کے ہاں آیا۔اصل میں اللہ بخش نے اپنے دشمنوں سے ڈر کر کسان کے ہاں پناہ لی تھی۔کسان نے چڑیا کو سمجھا دیا۔”اگر کوئی پوچھے بھی کہ تمہارے ہاں کوئی مہمان آیا ہوا ہے تو اقرار مت کرنا۔“ اللہ بخش کے دشمنوں کو اندازہ تھا کہ وہ کہاں چھپ سکتا ہے، چنانچہ وہ کسان کے گھر پہنچ گئے اور چڑیا نے ان کو بتا دیا کہ، ”اللہ بخش ہمارے ہاں آیا ہوا ہے۔“اب کیا تھا۔دشمن گھر میں گھس آئے اور اللہ بخش کو کھینچ کر لے گئے۔(جاری ہے)کسان کو چڑیا پر بہت غصہ آیا۔اس نے چڑیا کو مار کر گھر سے نکال دیا۔چڑیا ماری ماری پھرتی رہی۔اس کو بے وفا سمجھ کر کسی انسان نے اپنے گھر میں نہیں رکھا۔اس پریشانی میں اس کی ملاقات ایک طوطے سے ہوئی۔طوطا بھی آدمی کی بولی جانتا اور بولتا تھا۔چڑیا نے کہا کہ انسان بے وفا ہوتا ہے اور اپنی بپتا سنائی اور طوطے کو مشورہ دیا کہ وہ کسی انسان کے گھر میں نہ رہے۔طوطے نے بڑے اعتماد سے کہا،”زندگی گزارنے کے لئے عقل سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔میں تمہیں اسی کسان کے گھر میں رہ کر بتاوٴں گا۔“طوطا کسان کے گھر پہنچا۔کسان جو اکیلارہ گیا تھا، بہت خوش ہوا اور بڑی چاہت سے طوطے کو اپنے ساتھ رکھ لیا۔دونوں آرام سے رہنے لگے۔کسان جو کہتا، طوطا اسے دہراتا لیکن جو کچھ دیکھتا، اسے منہ سے نہیں نکالتا۔ایک دن طوطے کو چڑیا ملی تو اس نے طوطے سے حال احوال پوچھا۔طوطا بولا، ”اللہ کا شکر ہے، بڑے آرام سے گزر رہی ہے۔“چڑیا نے حیرت کا اظہار کیا تو طوطے نے اس کو سمجھایا۔”میں زیادہ نہیں بولتا۔اپنے ساتھی کا بھید نہیں کھولتا۔جو کچھ میرا مالک کہتا ہے میں وہی کرتا ہوں۔“ چڑیا نے کہا،”ابھی کتنے دن گزرے ہیں۔ابھی تو تمہاری آوٴ بھگت ہو رہی ہے، دیکھنا ایک دن کسان تمہیں نکال باہر کرے گا۔“ طوطے نے چڑیا کو سمجھایا، ”میں اس کو تکلیف نہیں پہنچاوٴں گا تو وہ مجھے عمر بھر نہیں نکالے گا۔میں اس کے خلاف نہیں بولتا۔ہمدردی کرو گے تو ہمدردی ملے گی۔“ اب چڑیا کی سمجھ میں طوطے کی بات آ گئی اور اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔واقعی طوطا اور کسان زندگی بھر ساتھ رہے۔ " دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے - تحریر نمبر 2669,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dost-woh-jo-musibat-mein-kaam-aaye-2669.html,"وقار محسنگرمیوں کی ایک تپتی دوپہر میں جب سورج آگ برسا رہا تھا اور لوکے تھپیڑے سوکھے پتھوں کو بگولوں کی شکل میں اڑا رہے تھے، فضلو اپنے آم کے باغ میں طوطوں کو اڑانے میں مشغول تھا۔شریر طوطے ہرے ہرے پتوں میں چھپے چوری چوری آم کتر رہے تھے۔فضلو مٹی کا ڈھیلا رسی کی غلیل میں رکھ کر گھماتا اور درخت کی طرف اچھال دیتا۔طوطوں کا غول ٹیں ٹیں کرتا بھرا مار کر اڑتا اور کسی دوسرے درخت پر جا بیٹھتا۔ہر طرف سناٹا تھا صرف مسجد کے پیچھے والی پن چکی کی پھک پھک کی آواز آ رہی تھی۔وہ کچھ دیر کے لئے جامن کے درخت کی چھاؤں میں سستانے کے لئے بیٹھ گیا۔ابھی اس نے بانسری جیب سے نکال کر ہونٹوں سے لگائی ہی تھی کہ سامنے ککروندوں کی جھاڑیوں میں سے ایک خونخوار چیتا برآمد ہوا۔(جاری ہے)چیتے نے قریب آ کر بڑے دوستانہ انداز میں فضلو سے کہا،”کیوں بھائی فضلو کیا حال ہیں؟ اس بار تو تمہارے باغ میں خوب بہار آئی ہوئی ہے۔“ چیتے کو دیکھ کر فضلو کی سٹی گم ہو گئی اور اس کے ہونٹوں سے بانسری پھسل کر گھاس پر گر گئی اور اس نے سٹپٹا کر کہا۔”شکر ہے جناب۔بس اللہ کا کرم ہے۔“”دوست! ذرا جلدی کرو۔میرے لنچ کا وقت ہے۔وہ سامنے جو دو بیل بندھے ہیں ان میں سے سفید والا لے آؤ۔اس کا گوشت یقینا لذیذ ہوگا۔“ پہلے تو فضلو کی جان میں جان آئی کہ جنگل کے بادشاہ کی اس پر بری نظر نہیں ہے۔اس کے بعد اس نے کچھ سوچ کر التجا کی۔”حضور! یہ بیل تو میری روٹی روزی کا سہارا ہیں۔اس کے بغیر میں کھیتی کیسے کروں گا۔“ ”بھئی ہم سے یہ فضول باتیں مت کرو۔یہ تمہارا معاملہ ہے۔جلدی بیل نہلا کر لاؤ اتنے میں پنجے اور دانت تیز کر لوں۔“”جو حکم سرکار۔لیکن آپ یقین کریں کہ اس بوڑھے بیل کو مقابلے میں میری گائے کا گوشت بہت نرم اور لذیذ ہو گا۔اگر آپ کہیں تو میں گھر سے گائے کھول لاؤں۔“ فضلو نے کانپتے ہوئے کہا۔ ”اچھا تو پھر دوڑتا ہوا جا اور فٹا فٹ آ۔سوچ لے اگر دیر ہوئی تو میں تیرے دونوں بیلوں کو ہڑپ کر جاؤں گا۔شیر دہاڑا۔فضلو سیدھا اپنے دوست شرفو درزی کے پاس گیا۔شرفو نا صرف بہت ذہین تھا بلکہ فضلو سے اس کی گہری دوستی بھی تھی۔فضلو نے اپنے دوست کو پوری کہانی سناتے ہوئے تجویز مانگی کہ کیسے بھوکے چیتے سے پیچھا چھڑایا جائے۔شرفو تھوڑی دیر تک اپنے گنجے سر پر دو انگلیوں سے طبلہ بجاتا رہا اور پھر بولا۔“”ٹھیک ہے دوست۔تم فکر نا کرو میں کچھ بندوبست کرتا ہوں۔شرفو نے الماری میں سے سفید لٹھے کے دو تھان نکالے۔کپڑا زمین پر بچھا کر اس نے کاٹنا شروع کیا اور دس منٹ میں دس فٹ لمبا ایک پائجامہ تیار کر لیا۔اس کے بعد اس نے اپنے چھپر سے دو بانس نکالے اور فضلو سے کہا کہ وہ یہ بانس رسی سے اچھی طرح اپنے پیروں میں باندھ لے۔اس کے بعد شرفو نے وہ پائجامہ بانسوں اور فضلو کے پیروں پر چڑھا دیا۔جب فضلو دیوار کا سہار لے کر کھڑا ہوا تو اس کا قد پندرہ فٹ ہو چکا تھا اور شرفو اس کے سامنے بونا لگ رہا تھا۔فضلو لیٹ کر دروازے سے نکلا اور باغ کی طرف چل دیا۔راستے میں لوگ حیرت سے اس کو مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے۔فضلو نے سر پر ایک بڑا پگڑ باندھا ہوا ہوتا اور وہ بنکارتا ہوا جا رہا تھا۔”ارے مجھے بھوک لگ رہی ہے۔بہت دن ہو گئے کسی چیتے کا گوشت نہیں کھایا۔دو دن پہلے ایک شیر کھایا تھا لیکن مزہ نہیں آیا۔“باغ کی مینڈھ پر بھوک سے بلبلاتے چیتے نے دیکھا کہ ایک دیو نما مخلوق اسے کھانے کے لئے بے چین ہے تو وہ دم دبا کر بھاگ نکلا۔جس طرح انسانوں کو ایک نا ایک خوشامدی کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی جھوٹی تعریف کرتا رہے اسی طرح گیدڑ جھگڑالو چیتے کا خاص چمچہ تھا جو ہر وقت اس کی خوشامد میں لگا رہتا تاکہ چیتے کی جھوٹی ہڈیاں اسے مل سکیں۔گیدڑ جھگڑالو جامن کے درخت کے نیچے چھپا یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔چیتے کو دم دبا کر بھاگتا دیکھ کر اس نے چیتے کو روک کر کہا۔”حضور آپ کہاں بھاگے جا رہے ہیں۔فضلو نے آپ کو بیوقوف بنایا ہے۔یہ بھوت نہیں فضلو کا دوست شرفو درزی ہے۔اس نے آپ کو ڈرانے کے لئے بھیس بدلا ہے۔“مجھے معلوم ہے تو جھوٹا ہے۔تو مجھے اس بھوت کے حوالے کر کے چمپت ہو جائے گا۔چیتے نے غصے سے کہا، ”حضور! اگر آپ مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں تو میری دم اپنی دم سے باندھ لیں تاکہ آپ کی مصیبت کے وقت میں بھاگ نا سکوں۔“یہ سن کر چیتے کو اطمینان ہوا اور اس نے اپنی دم گیدڑ جھگڑالو کی دم سے باندھ لی اور واپس باغ کا رخ کیا۔شرفو نے گیدڑ اور چیتے کو کھسر پسر کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور اس نے تاڑ لیا تھا کہ چیتا واپس آ کر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا۔شرفو جلدی سے نیم کے درخت پر لگے شہد کی مکھیوں کے چھتے کے نزدیک گیا اور زور سے اس پر ہاتھ مارا۔شہد کی مکھیاں اس کے چہرے پر لپٹ گئیں اور ڈنک مارنے شروع کر دیئے۔شرفو نے قریب رکھی چونے کی بالٹی سے چونا نکال کر اپنے چہرے پر مل لیا۔اسے معلوم تھا کہ چونا شہد کی مکھیوں کے کاٹے کا فوری علاج ہے۔اب اس کا چہرہ سوج کر غبارہ ہو گیا تھا اور چونا لگنے کی وجہ سے بہت بھیانک لگ رہا تھا۔چیتے اور گیدڑ کو اپنی طرف آتا دیکھ شرفو نے کہا، ”شاباش گیدڑ میاں تم ہمارے ساتھ مل کر چیتے کو باندھ کر لانے میں کامیاب ہو گئے ہم تمہیں کھانے کے بعد انعام دیں گے۔“چیتے نے جو قریب آ کر شرفو کو دیکھا تو وہ اسے بھوت سمجھ کر کانپ گیا۔اس کو گیدڑ پر بھی بہت غصہ آ رہا تھا جو اس کو پھانس کر واپس لایا تھا۔چیتا ڈر کر بھاگ کھڑا ہوا۔کیونکہ گیدڑ اس کی دم سے بندھا ہوا تھا اس لئے وہ بھی گڈھوں، کانٹوں میں گھسٹتا جا رہا تھا، ایک پتھر سے ٹکرا کر وہ چیتے کی دم سے الگ ہوا اور پانی سے بھرے ایک گہرے گڈھے میں جاگرا۔فضلو کی جان میں جان آئی اور اسے عقلمند اور مہربان دوست کو گلے لگانے کے لئے جامن کے درخت پر چڑھنا پڑا۔ " عقاب اور مکڑی - تحریر نمبر 2668,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/uqaab-aur-makri-2668.html,"محمد مجیبایک عقاب بادلوں کو چیرتا ہوا کوہ قاف کی چوٹیوں پر پہنچا اور ان کا چکر لگا کر ایک صدیوں پرانے دیودار کے درخت پر جا بیٹھا۔وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا، اس کی خوبصورتی میں وہ محو ہو گیا۔اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح سامنے کھلی رکھی ہے۔کہیں پر دریا میدانوں میں چکر لگاتے ہوئے بہہ رہے ہیں۔کہیں پر جھیلیں اور اُن کے آس پاس درختوں کے کنج پھولوں سے لدے ہوئے بہار کی پوشاک میں رونق افروز ہیں۔کہیں پر سمندر خفگی سے اپنے ماتھے پر بل ڈالے کوے کی طرح کالا ہو رہا ہے۔عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ”اے اللہ میں تیرا کہاں تک شکر ادا کروں۔تو نے مجھے اڑنے کی ایسی طاقت دی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں ہے، جہاں میں پہنچ نہ سکوں، میں فطرت کے منظروں کا لطف ایسی جگہ بیٹھ کر اٹھا سکتا ہوں جہاں کسی اور کی پہنچ نہیں۔(جاری ہے)“ایک مکڑی درخت کی ایک شاخ سے بول اٹھی۔ ”تم کیوں اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہو؟ کیا میں تم سے کچھ نیچی ہوں؟“عقاب نے مڑ کر دیکھا۔واقعی ایک مکڑی نے اس کے چاروں طرف شاخوں پر اپنا جالا تان رکھا تھا اور اسے ایسا گھنا بنا رہی تھی کہ گویا سورج تک کو عقاب کی نظر سے چھپا دے گی۔عقاب نے حیرت سے پوچھا ”تم اس سربلندی پر کیسے پہنچی؟ جبکہ پرندے بھی جنہیں تجھ سے زیادہ اڑنے کی طاقت ہے، یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں کرتے؟ تم تو کمزور ہو، کیا تم رینگ کر یہاں آئی ہو؟“مکڑی نے جواب دیا۔”نہیں ایسا تو نہیں ہے۔“”تو پھر یہاں کیسے آئیں؟“”جب تم اُڑنے لگے تھے تو میں تمہاری دم سے لٹک گئی اور تم نے خود مجھے یہاں پہنچا دیا۔لیکن میں یہاں اب تمہاری مدد کے بغیر ٹھہر سکتی ہوں، اور اس لئے میری گزارش ہے کہ تم اپنے آپ کو بے کار بڑا نہ سمجھو۔۔۔“اتنے میں ایک طرف سے ہوا کا جھونکا آیا اور اس نے مکڑی کو اڑا کر زمین پر گرا دیا۔میرا خیال ہے اور آپ کو بھی مجھ سے اتفاق ہو گا کہ دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جو اس مکڑی سے بہت مشابہ ہیں۔ایسے لوگ بغیر کسی قابلیت اور محنت کے کسی بڑے آدمی کی دم میں لٹک کر بلندی پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر ایسا سینہ پھیلاتے ہیں کہ گویا خدا نے ان کو عقابوں کی سی طاقت بخشی ہے، مگر ضرورت صرف اس کی ہے کہ کوئی ذرا پھونک دے اور وہ پھر زمین پر پہنچ جاتے ہیں۔ " خوددار لڑکی - تحریر نمبر 2666,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khuddar-larki-2666.html,"جدون ادیبماریہ محض تیرہ سال کی تھی، مگر امورِ خانہ داری میں ماہر ہو چکی تھی، کیونکہ اس نے دس سال کی عمر میں گھر کی ذمے داری سنبھالی تھی۔ایک دن اس کی والدہ اچانک فوت ہو گئی تھیں، تب سے وہ اپنے چھوٹے بھائی اور والد کا خیال ایک ماں کی طرح رکھنے لگی تھی۔ماریہ کی امی کے انتقال کے بعد اس کے والد بیمار رہنے لگے۔ان کی بیماری کی وجہ سے اخراجات بڑھ گئے۔جب یہ پتا چلا کہ اس کے والد کو گلے کا سرطان ہے اور ڈاکٹر نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ ان کا علاج بیرونِ ملک ہو گا اور اس کے لئے دس لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔وہ یہ تصور کر کے ہی کانپ جاتی تھی کہ اگر اس کے والد بھی امی کی طرح ساتھ چھوڑ گئے تو وہ اپنے آٹھ سالہ بھائی کے ساتھ کیسے زندگی گزارے گی۔ماریہ ایک سنجیدہ مزاج لڑکی تھی، مگر اسے فٹ بال دیکھنا پسند تھا اور خاص طور پر براہِ راست میچ دیکھنا تو اس کی واحد تفریح تھی۔(جاری ہے)اس کا پسندیدہ فٹ بالر قاسم بلوچ تھا، جو شائقین کے دلوں پر راج کرتا تھا۔اپنے عمدہ کھیل سے وہ پورے شہر کا ہیرو بن چکا تھا۔ماریہ کو جب پتا چلا کہ شہر میں ایک میچ ہونے والا ہے تو وہ اس میچ کو دیکھنے کے لئے مچل گئی، مگر میچ کا ٹکٹ لینے کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔اس کے والد نے جیسے تیسے کر کے ایک ٹکٹ حاصل کر لیا۔ماریہ کو خواتین والے حصے میں سب سے آگے جگہ ملی۔کھلاڑیوں سے زیادہ تماشائیوں کا جوش قابلِ دید تھا۔قاسم نے اپنے پرستاروں کو مایوس نہیں کیا۔ماریہ کے موبائل فون پر ایک سہیلی کی کال آ گئی۔شور کی وجہ سے ماریہ کو آواز نہیں آ رہی تھی۔وہ آگے کو جھک کر بات کر رہی تھی کہ قاسم کی ضرب سے فٹ بال اُڑتی ہوئی آ کر سیدھی ماریہ کے سر میں لگی۔اس کا سر کرسی سے ٹکرایا اور وہ زخمی ہو گئی۔پورے اسٹیڈیم کے ساتھ قاسم نے بھی بڑی اسکرین پر ماریہ کو زخمی ہوتے دیکھا۔ماریہ کو چوٹ زیادہ نہیں لگی تھی۔اس نے میچ چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا، اس لئے وہیں پر اس کی پٹی کر دی گئی۔میچ تھوڑی دیر کے لئے رکا تھا، مگر پھر شروع ہو گیا۔قاسم نے میچ کے آخری لمحات میں گول کر کے اپنی ٹیم کو میچ جتوا دیا۔میچ ختم ہوتے ہی قاسم سیدھا ماریہ کے پاس آیا۔ماریہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ قاسم جیسا بڑا فٹ بالر اتنا بڑا انسان بھی ہو گا۔قاسم نے ماریہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر اپنی شرٹ اُتار کر دستخط کر کے ماریہ کو دے دی۔پھر کچھ سوچ کر اس نے اپنے مینیجر سے کچھ پیسے لیے اور ماریہ کو دینے کی کوشش کی، مگر ماریہ نے ہاتھ کھینچ لیا اور معذرت کرتے ہوئے بولی:” معاف کیجیے سر! میں یہ پیسے نہیں لے سکتی، آپ نے جو میرے لئے کیا، وہی کافی ہے۔“”تم ایک اچھی اور مختلف لڑکی ہو۔“ قاسم مسکرایا:”خوددار بھی ہو۔“”بس میں فطراً ایسی ہی ہوں۔“ وہ انکساری سے مسکرائی۔ماریہ گھر پہنچی تو پتا چلا کہ اس کے والد کی تکلیف بڑھ گئی تھی، اس لئے انھیں پڑوسی ہسپتال لے گئے ہیں۔ماریہ دوڑی دوڑی ہسپتال پہنچی تو اسے سرجن ڈاکٹر نے بلایا۔وہ ڈاکٹر کے کمرے میں پہنچی تو ڈاکٹر نے بغیر کسی تمہید کے کہا:”لڑکی! جلدی سے پیسے کا بندوبست کرو اور ان کو باہر لے جاؤ۔“”مگر ڈاکٹر صاحب! میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔“ ماریہ بے بسی سے بولی۔ڈاکٹر صاحب نے چند لمحے غور سے ماریہ کی طرف دیکھا پھر بولے:”سوشل میڈیا پر آج کے میچ کے چرچے ہیں اور ساتھ میں تمہارے بھی، کیا تم جانتی ہو؟“”نہیں ڈاکٹر صاحب!“ ماریہ حیران ہوتے ہوئے بولی:”کیونکہ میرے پاس ٹچ موبائل فون نہیں ہے۔“”اوکے․․․․“ ڈاکٹر نے سر ہلایا اور بولے:”سوشل میڈیا پر تمہیں ایک خوش قسمت اور خوددار لڑکی کے طور پر نمایاں کیا جا رہا ہے۔میرے پاس ایک تجویز ہے، تمہیں قاسم بلوچ نے جو شرٹ دی ہے، وہ تم مجھے دے دو۔میرا ایک کڑور پتی دوست قاسم بلوچ کا پرستار ہے،وہ تمہارے والد کے علاج کا سارا خرچہ اُٹھائے گا۔بولو․․․․ماریہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اس نے شرٹ کو چوما اور ڈاکٹر کو دیتے ہوئے بولی:”میرے لئے میرے والد سے بڑھ کر کچھ نہیں۔بس میرے والد کو بچا لیں۔“ڈاکٹر نے شرٹ لے لی۔اسی رات ماریہ کے والد کو علاج کے لئے بیرونِ ملک روانہ کر دیا گیا۔اگلے دن ان کا آپریشن ہوا، ماریہ کو جب اطلاع ملی کہ اس کے والد کو ہوش آ گیا ہے تو سجدہ میں گر گئی۔جس دن ماریہ کے والد گھر پہنچنے والے تھے، ماریہ نے کچھ خرچہ کر کے گھر کو سجا دیا تھا۔وہ گھر پہنچے تو گھر کو سجا ہوا دیکھ کر خوش ہو گئے۔تھوڑی دیر بعد ایک موٹر سائیکل آ کر رکی۔کوریئر کمپنی کے نمائندے نے پھولوں کا گلدستہ اور ایک ڈبا ماریہ کو دیا۔ماریہ نے حیرانی سے پارسل وصول کیا۔وہ یہ جان کر پاگل ہو گئی کہ پھول قاسم بلوچ نے بھجوائے تھے۔وہ ایسا ہی عظیم انسان تھا۔اس نے ماریہ کے بارے میں پَل پَل کی خبر رکھی تھی اور تحفہ بھی اسی نے بھیجا تھا۔ " خفیہ بٹن - تحریر نمبر 2665,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khufiya-button-2665.html,"کاشان صادق، کراچیذکی، زید اور احمر اسکول کی چھٹی کے بعد حسبِ معمول اکٹھے گھر واپس آ رہے تھے کہ اچانک ایک سفید رنگ کی کار اُن کے پاس آ کر رُکی۔کار میں بیٹھے ادھیڑ عمر شخص نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں اپنے قریب بلایا اور کسی جگہ کا ایڈریس معلوم کرنا چاہا۔وہ تینوں جیسے ہی کار کے پاس پہنچے تو کار کے پچھلے دروازے سے کسی نے ان پر کسی محلول کا اسپرے کر دیا۔اس کے بعد انھیں کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔جب انھیں ہوش آیا تو انھوں نے اپنے آپ کو ایک چھوٹے سے کمرے میں پایا۔ابھی وہ اس کمرے کا جائزہ لے رہے تھے کہ اچانک کمرے کا آٹومیٹک دروازہ کھلا اور وہی کار والا ادھیڑ عمر شخص کمرے میں داخل ہوا۔اس نے انھیں مسکرا کر دیکھا اور بولا:”بچو!آج تمہیں جی بھر کر کھانا اور تازہ پھل کھانے ہیں۔(جاری ہے)پھر کل تمہیں نیلے کیمیکل کے انجیکشن لگائے جائیں گے، جس سے تمہاری ساری یاداشت ختم ہو جائے گی۔اس کے بعد ہم تمہارے دماغوں کو جیسے چاہیں کنٹرول کریں گے، تاکہ تمہارے ذریعے اپنے خفیہ مقاصد حاصل کر سکیں“ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد موٹی مونچھوں والا ایک آدمی کھانا اور تازہ پھل لے کر کمرے میں آیا اور بولا:”اگر تم لوگوں کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ سرخ بٹن دبا دینا۔“اس نے دروازے کے ایک طرف لگے خفیہ بٹن کی نشاندہی کی، پھر بولا:”پروفیسر صاحب کا حکم ہے کہ تم لوگوں کا بھرپور خیال رکھا جائے۔“اس آدمی کے جانے کے بعد ان تینوں نے پہلے تو کھانا اور پھل کھائے اور پھر آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔آخر ایک ترکیب سوچ لی۔ذکی نے سرخ بٹن دبا دیا۔دروازہ کھلنے سے پہلے زید اور احمر ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔دروازے سے داخل ہونے والے موٹی مونچھوں والے آدمی نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا، مگر اسی دوران ذکی دروازے سے باہر نکل گیا۔اس کے باہر نکلتے ہی آٹومیٹک دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ذکی بڑے سے بنگلے میں احتیاط سے چلنے لگا۔اسے بنگلے کے آخر میں ایک خوبصورت سی لیبارٹری نظر آئی۔وہاں ادھیڑ عمر پروفیسر مختلف تجربات کرتے نظر آیا۔لیبارٹری میں اسے بہت ساری اسپرے کی بوتلیں نظر آئیں۔وہ تیزی سے لیبارٹری میں داخل ہوا، جیسے ہی وہ لیبارٹری کے اندر آیا، سائرن کی آواز گونجنے لگی، مگر ذکی نے جلدی سے اسپرے کی بوتل اُٹھا کر پروفیسر پر اسپرے کر دیا۔اسپرے ہوتے ہی وہ بے ہوش ہو گیا۔سائرن کی آواز سن کر لیبارٹری میں چار گارڈز داخل ہوئے ،جن پر ذکی نے فوری طور پر وہی اسپرے کیا، جس سے وہ بھی بے ہوش ہو گئے۔ذکی نے مزید وقت ضائع کیے بغیر پروفیسر کی جیب سے موبائل نکالا اور پولیس کو فون کر دیا۔کچھ ہی دیر میں پولیس بنگلے کے اندر داخل ہو گئی اور ان سب کو گرفتار کر لیا۔ " احساس - تحریر نمبر 2664,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehsaas-2664.html,"شازیہ کاشف، کراچیعمر اور ہادی کو سیر کرنے کا بہت شوق تھا۔اتوار کی چھٹی تھی۔دونوں نے جنگل جا کر گھومنے کا منصوبہ بنایا۔اس سے پہلے وہ کبھی جنگل میں نہیں گئے تھے۔جنگل کی پُرسکون خاموشی میں درختوں کے درمیان چلتے چلتے ان کی نظر ایک ننھے سے خرگوش پر پڑی جو ان کی طرف معصومانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔عمر نے اپنے بیگ سے بسکٹ نکال کر خرگوش کو دیا، جسے وہ منہ میں دبا کر ایک طرف بھاگ گیا۔دونوں نے جنگل میں خوب مزے کیے، تتلیوں کے پیچھے بھاگے۔گھاس میں لوٹ پوٹ ہوئے، درختوں پر چڑھے اور اُترے۔کھانا کھا کر دونوں نے واپس گھر جانے کا ارادہ کیا، مگر یہ کیا؟ وہ دونوں چاروں طرف سے گھنے درختوں میں گھرے ہوئے تھے اور فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ واپسی کے لئے کس طرف جائیں! عمر کا خیال تھا کہ دائیں طرف سے واپسی کا سفر شروع کرنا چاہیے، جبکہ ہادی بائیں طرف جانا چاہ رہا تھا۔(جاری ہے)عمر ڈر رہا تھا کہ وہ کسی جنگلی جانور کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔اچانک درخت کے پیچھے سے ننھا خرگوش نکلا اور عمر کے پاؤں پر اپنا سر سہلانے لگا۔”دیکھو ہادی!یہ وہی خرگوش ہے، جسے ہم نے بسکٹ دیا تھا۔“عمر بولا۔خرگوش چند قدم آگے گیا اور واپس پلٹ کر ان کے پاس آیا۔ایسا تین مرتبہ ہوا۔چوتھی مرتبہ جب خرگوش آگے بڑھا تو وہ دونوں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔تھوڑی دیر چلنے کے بعد وہ دونوں خرگوش کے ساتھ جنگل سے باہر موجود تھے۔انھوں نے شکریہ کے طور پر بچا ہوا بسکٹ خرگوش کو دیا، جسے اس نے فوراً منہ میں دبا لیا۔وہ دونوں ہنسی خوشی اپنے گھر کو روانہ ہو گئے۔ " کانٹوں کا جواب - تحریر نمبر 2663,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kaanton-ka-jawab-2663.html,"نذیر انبالوینہر کنارے برگد کے پیڑ پر جہاں پرندوں نے اپنے آشیانے بنائے تھے، وہیں انسانوں نے بھی اس کی چھاؤں سے فائدہ اُٹھایا تھا۔نان چنے والے اشرف نے وہاں ریڑھی لگائی تو چند دنوں بعد ایک لسی والا اور پھل بیچنے والا بھی وہاں آ گیا۔لوگ نان چھولے کھاتے اور ٹھنڈی، مزے دار لسی پیتے۔جب نان پکوڑے والے جواد نے وہاں آ کر ٹھیا لگایا تو اشرف کو اچھا نہیں لگا تھا۔اس نے اپنے گاہکوں کو بتانا شروع کیا کہ جواد جس تیل میں پکوڑے تلتا ہے وہ انتہائی گھٹیا ہے۔پکوڑے بنانے کے لئے بیسن میں آٹا ملا دیتا ہے۔نان بھی اچھے نہیں ہوتے۔غرض اشرف کی پوری کوشش تھی کہ کوئی گاہک جواد کی طرف نہ جائے۔ایک دن جواد پکوڑے تلنے میں مصروف تھا کہ ایک گاہک زیادہ مقدار میں پکوڑے اور نان لینے جواد کے پاس آیا۔(جاری ہے)”پکوڑے تو مل جائیں گے، مگر نان آنے میں کچھ وقت لگے گا۔“ جواد نے آلو کی ٹکیا گرم تیل کی کڑاہی میں ڈالتے ہوئے جواب دیا۔”مجھے تو جلدی ہے، دفتر میں سبھی بھوکے بیٹھے ہیں۔میں کسی اور جگہ سے نان پکوڑے لے لوں گا۔“یہ کہہ کر گاہک چلنے کے لئے موٹر سائیکل پر سوار ہونے لگا تو جواد بولا:”بھائی ٹھیرو! میں اشرف بھائی سے نان لے لیتا ہوں۔“اشرف نے یہ جملہ سن لیا تھا۔بولا:”میرے پاس نان کہاں سے آئے؟ میں نے اپنے گاہکوں کے لئے رکھے ہیں۔“ جواد کو سوال سے پہلے جواب مل گیا تھا۔”اشرف بھائی! چار نان کم ہیں، لڑکا راستے میں ہے۔وہ آئے گا تو چار نان واپس کر دوں گا بھائی! اس وقت انکار نہ کرو۔“ جواد نے کہا۔”کہہ جو دیا، فالتو نان نہیں ہیں۔“ اشرف کا لہجہ انتہائی تلخ تھا۔”اچھا اشرف بھائی! خوش رہو۔“ جواد مایوس ہو کر اپنی ریڑھی کے پاس آ گیا۔گاہک تو گویا ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا، وہ دونوں کی گفتگو سن چکا تھا، وہ بغیر کچھ کہے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔پھر اتفاق یہ ہوا کہ اشرف کے پاس گاہک زیادہ اور نان کم پڑ گئے۔جواد سب کچھ دیکھ رہا تھا، وہ جان گیا تھا کہ اشرف کو نان درکار ہیں۔وہ دس نان لے کر اشرف کی طرف بڑھا۔ نان دیکھ کر اشرف نے ناخوش گوار انداز میں اُسے گھورا:”یہ سب کیا ہے؟“”وہ․․․․․آپ کو نان چاہئیں۔“”تو پھر؟“”یہ نان رکھ لیجیے۔جب آپ کے نان آئیں گے تو واپس کر دیجیے گا۔“ جواد نے ہاتھ میں پکڑا پیکٹ ریڑھی پر رکھا تو اشرف چلایا:”اُٹھاؤ یہ نان، جلدی کرو!مجھے تمہارے نان نہیں چاہئیں۔تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہیں یہاں مستقل کھڑا رہنے دوں گا۔بڑے آئے نان دینے والے۔“پاس کھڑے گاہکوں نے کچھ کہنا چاہا تو اشرف اسٹیل کے بڑے پتیلے میں تیزی سے چمچ چلانے لگا۔ایک دن اچانک شور مچا کہ بلدیہ والے تجاوزات ہٹانے کے لئے آ رہے ہیں۔ان کا ٹرک بازار کے قریب پہنچ چکا ہے۔اشرف نے تیزی سے ریڑھی کا رُخ نہر کنارے ایک کالونی کی گلی کی طرف کر دیا۔جواد ریڑھی کو لے کر باغ کی طرف چلا گیا۔اشرف ریڑھی کو دھکیلتے ہوئے بڑبڑایا:”جواد منحوس ایسا آیا ہے کہ بلدیہ والے بھی آ گئے۔خدا جانے یہ کب ٹلتے ہیں۔“اس دن اشرف نے جیسے تیسے چھولے فروخت کیے، جواد بھی اس صورتِ حال سے پریشان تھا۔دونوں اس وقت چکرا سے گئے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ نہر کنارے برگد کے پیڑ تلے بلدیہ والوں نے دو آدمی پہرے پر بٹھا دیے ہیں۔اب وہاں صرف راہ گیروں کو پیڑ کی چھاؤں میں کھڑے ہونے کی اجازت تھی۔کچھ دن بعد اشرف سائیکل پر سوار وہاں پہنچا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔چلتا ہوا کاروبار ختم ہوا تو اشرف نئی جگہ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔دکانوں کے کرائے سن کر وہ خاموشی سے گھر کی راہ لیتا۔جواد کی بھی یہی کیفیت تھی۔تین مرلے کا ایک پلاٹ اس کے پاس تھا، خواہش تھی کہ اس پر مکان تعمیر کیا جائے، مگر ایسا ہوا نہیں۔پلاٹ بیچ کر اس نے نہر کے قریب والی مارکیٹ کے اندر چھوٹی سی ایک دکان لے لی۔اس کے گاہکوں کو جلد اس کی دکان کا علم ہو گیا۔ایک دن ایک گاہک نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جواد کو بتایا کہ اشرف برگد کے نیچے سے جگہ چھن جانے کے بعد مزدوری کرنے پر مجبور ہے، جواد یہ جان کر افسردہ ہو گیا تھا۔برگد تلے ایک موچی بھی بیٹھتا تھا۔اس نے اشرف کا گھر دیکھا ہوا تھا۔جواد موچی کے بتائے پتے پر پہنچا تو اچانک بجلی چلی گئی۔اب ہر طرف اندھیرا تھا۔جواد نے موبائل کی ٹارچ سے روشنی کی اور اگلے ہی لمحے ایک پرانے سے دروازے پر دستک دی۔”کون ہے بھئی؟“ جواد نے اشرف کی آواز پہچان لی تھی۔”میں جواد ہوں، اشرف بھائی!“جواد․․․․؟ یہ کہہ کر اشرف نے دروازہ کھولا تو جواد کو دیکھ کر نفرت انگیز لہجے میں بولا:”تم․․․․․تم یہاں کیوں آئے ہو؟“”وہ ․․․․․اشرف بھائی! میں نے اپنی دکان لے لی ہے۔“”تو پھر․․․․میں کیا کروں گا؟“ اشرف کا لہجہ ابھی تک تلخ تھا۔”اشرف بھائی! میرے پاس آ جائیے۔“”تو تم مجھے اپنا نوکر بنانے آئے ہو۔“”نہیں․․․․نہیں اشرف بھائی! میں ایسا نہیں چاہتا، میں تو چاہتا ہوں کہ آپ وہاں پہلے کی طرح نان چھولے لگائیں۔“”نان چھولے․․․․ اور تمہاری دکان میں؟ اشرف کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔”دکان کی چوڑائی آٹھ فیٹ ہے، چار فیٹ دکان آپ لے لیجیے، اور چار فیٹ دکان میرے استعمال میں رہے گی۔بس اب انکار نہ کیجیے گا۔“ جواد نے محبت سے اشرف کا ہاتھ پکڑ لیا۔اتنی دیر میں بجلی آئی تو گلی میں روشنی ہی روشنی ہو گئی۔”میں تمہیں چار نان نہ دے سکا اور تم مجھے چار فیٹ دکان دینے آ گئے۔کون ہو تم؟ انسان ہو یا فرشتہ؟“ اشرف نے جواد کو گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔”میں ایک ادنا سا انسان ہوں۔کانٹے کے جواب میں کانٹا ہی اُٹھایا جائے تو دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی۔کانٹے کا جواب پھول سے دیا جائے تو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی پھولوں جیسی ہو جائے گی۔اب انکار نہیں، اقرار کیجیے۔کل سے چار فیٹ دکان آپ کی ہوئی۔“”میں انکار نہیں کروں گا، صرف اتنا کہوں گا کہ میں چار فیٹ جگہ کا کرایہ دوں گا۔اب تم بھی انکار مت کرنا۔“ یہ سن کر جواد نے ہاں میں سر ہلایا۔جواد کا روشن چہرہ اشرف کی آنکھوں کے سامنے تھا۔وہ جسے منحوس سمجھتا تھا، وہی اس کے لئے رحمت کا فرشتہ بن کر اس کے دروازے پر آ گیا تھا۔ " روٹی اور فلسفی - تحریر نمبر 2662,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/roti-aur-falsafi-2662.html,"وردہ فیصلبادشاہ ملکی معاملات میں اپنے ان سات درباریوں سے مشورہ کرتا، جنہیں وہ بہت عقل مند سمجھتا تھا۔وہیں ایک فلسفی بادشاہ کے ان مشیروں کا مذاق اُڑاتا تھا کہ یہ سب بے وقوف ہیں۔ایک دن بادشاہ نے اس فلسفی کو بُلا لیا۔وہ ساتویں عقل مند بھی وہاں موجود تھے۔بادشاہ نے فلسفی سے اس بات کی وضاحت مانگی۔فلسفی نے کہا:”میں صرف ایک سوال ان ساتوں سے کروں گا، یہ اس کا جواب دیں۔ان سب کو ایک دوسرے سے الگ بیٹھا کر ایک ایک کاغذ دیا جائے۔“جب سب کو کاغذ مل گیا تو اس نے پوچھا:”روٹی کیا ہے؟ جواب کاغذ پر لکھ کر بادشاہ کو دے دیں۔“ساتوں عقل مندوں نے الگ الگ جواب لکھا اور کاغذ بادشاہ کو دے دیے۔بادشاہ نے جواب پڑھنے شروع کیے۔(جاری ہے)پہلے کا جواب تھا:”روٹی ایک خوراک ہے۔“دوسرے نے لکھا تھا:”یہ آٹے کو پانی میں گوندھ کر پکائی جانے والی چیز ہے۔“تیسرے کی تحریر تھی:”جس گندم سے روٹی بنائی جاتی ہے،وہ اللہ کا تحفہ ہے۔“چوتھے کا جواب تھا:”یہ گول سا ایک پکوان ہے۔“پانچویں نے لکھا تھا:”اس کے معنی بدلتے رہتے ہیں۔“چھٹے نے لکھا تھا:”یہ غذائیت سے بھرپور چیز ہے۔“ساتویں کا جواب تھا:”اس چیز کی بنیاد گندم ہے، جو پیٹ بھرنے کے کام آتی ہے۔“فلسفی یہ سب جواب سن کر کہنے لگا:”جب یہ عالم فاضل لوگ ایک ہی چیز پر متفق نہیں ہیں تو ملکی معاملات میں کیا مشورہ دیں گے۔جب یہ متفقہ فیصلہ کر چکیں کہ روٹی کیا ہے، تب ان سے مشورہ کرنا مفید ہو گا۔اب آپ بتائیں میں نے ان کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،وہ صحیح ہے یا غلط۔عالی جاہ! کیا آپ ملکی معاملات ان لوگوں کے سپرد کر سکتے ہیں جو روٹی کے بارے میں ایک رائے نہیں رکھتے، جسے وہ روزانہ کھاتے ہیں۔“ " تین بہادر - تحریر نمبر 2661,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/3-bahadur-2661.html,"احسن اخترہمارا گاؤں سندھ کے ایک دور دراز مقام پر واقع تھا۔ایک طرف ریتیلا میدان تو دوسری طرف کھیت اور برساتی نہر اور تیسری طرف شہر کو جانے والی سڑک تھی، جہاں تیز رفتار ٹرک اور دوسری گاڑیاں گزرتی تھیں۔چوتھی طرف پہاڑیاں تھیں، جہاں برسات کے بعد ایسی ہریالی ہو جاتی کہ علاقہ جنت کا نمونہ پیش کرنے لگتا۔ہم گاؤں کے بچے پڑھائی سے فارغ ہو کر اپنے مویشی لے کر پہاڑوں پر چلے جاتے، جہاں سے ہم شام کے وقت واپس آ جاتے۔نثار، ارباب اور میں ہم جماعت تھے۔تقریباً ایک جیسے کپڑے پہنتے اور جب ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے گاؤں کی گلیوں میں دوڑتے تو نیا آنے والا یہی سمجھتا کہ ہم تینوں ایک ہی گھر میں رہنے والے بھائی ہیں۔ہم تینوں پڑھائی کے بعد تیز دھوپ میں اپنے گھر کے بکرے بکریاں لے کر پہاڑیوں کی طرف نکل جاتے۔(جاری ہے)تمام بکرے بکریاں مل کر ایک بڑے ریوڑ کا منظر پیش کرتیں۔پہاڑ پر جا کر ایک مخصوص جگہ بکریاں چھوڑ دی جاتیں جو ایک مخصوص وقت کے بعد گھوم کر ہمارے پاس واپس آ جاتیں۔کھانے پینے، اسکول کا کام کرنے اور آنکھ مچولی کھیلنے میں ہمارا وقت گزرتا جاتا۔ہم روز سوچتے علاقے کے سب سے اونچے پہاڑ کی جانب چل کر نئے نظارے دیکھیں گے، لیکن جب اندھیرا چھانے لگتا تو ہم واپس آ جاتے۔اسکول کی چھٹیوں کے دن تھے۔ایک روز ہم تینوں دوست اپنے مویشی لے کر صبح سویرے ہی نکل کھڑے ہوئے۔پہاڑی کی جانب کا راستہ مون سون کی برسات کے بعد دلکش منظر پیش کر رہا تھا۔پہاڑیاں سبزے سے بھر چکی تھیں۔خود رو بیر، امرود اور دیگر درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔مویشی بھی خوشی خوشی گھاس پھوس چرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے۔ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔نثار آج بہت خوش تھا۔وہ رات ہی اپنی والدہ سے گوشت میں مصالحہ لگوا کر لایا تھا کہ ہم سیخ پر بھون کر کھائیں گے۔ارباب اور میں بھی اپنے گھروں سے کچھ خاص چیزیں بنوا کر لے آئے تھے۔نثار نے ہماری مخصوص جگہ سے ہٹ کر نسبتاً اونچی جگہ منتخب کی، جہاں سے ہمارے مویشی بھی نیچے وادی میں چرتے نظر آتے رہیں اور گاؤں کی جانب بھی نگاہ پڑتی رہے۔ہم نے کھانے پینے کی تیاریاں شروع کیں، خوش گپیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ارباب سیخوں پر گوشت پرونے لگا، میں اور نثار پتھروں کا چولہا تیار کرنے لگے۔چولہا بنانے کے بعد ہم نے ارد گرد سے لکڑیاں اِکٹھی کیں۔دوپہر ہو چلی تھی، دور گاؤں کی مسجد سے موٴذن صاحب کے اذان دینے کی آواز سنائی دینے لگی۔ہم تینوں نے باجماعت نماز ادا کی اور کھانا بنانے کی تیاری کے لئے چولہے میں آگ سلگا دی۔کچھ دیر میں کھانا بن چکا تھا۔ہم تینوں دوست کھانے پر بیٹھے ہی تھے کہ گاؤں کی جانب سے شدید فائرنگ کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ہم سہم سے گئے۔مویشی بھی اپنے کان کھڑے کر کے یکجا ہو کر اپنی روز کی مخصوص جگہ کی جانب اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔گاؤں کی جانب سے چیخ و پکار کی آوازیں بھی آئیں، ہم حیران تھے کہ کیا ہوا ہے! اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟اچانک گاؤں کی جانب سے چھ نقاب پوش بھاگتے ہوئے پہاڑوں کی جانب آتے دکھائی دیے۔ان کے پاس اسلحہ بھی نظر آ رہا تھا، جسے وہ وقفے وقفے سے استعمال کر رہے تھے۔ان کے پیچھے ہمارے گاؤں کے کچھ لوگ بھی لاٹھیاں اور ڈنڈے اُٹھائے شور مچاتے نظر آ رہے تھے، لیکن وہ کافی دور تھے۔ہم سمجھ گئے کہ گاؤں میں ڈاکوؤں نے واردات کی ہے۔ہم تینوں اونچی جگہ موجود تھے۔ہم نے فوری طور پر آنے والے نقاب پوشوں کے اوپر بھاری پتھر پھینکنے شروع کر دیے۔پہلے ہی حملے میں دو نقاب پوش سر میں پتھر لگنے سے گر پڑے۔بقیہ میں سے آدھے نقاب پوشوں نے ہماری طرف شدید فائرنگ شروع کر دی۔گاؤں کی جانب سے آنے والے لوگوں پر بھی فائرنگ کرتے رہے۔ارباب اور میں نسبتاً دور تھے ان کی فائرنگ سے بچ نکلے، لیکن ہمارا تیسرا دوست گولی لگے سے زخمی ہو گیا۔نثار کا خون بہ رہا تھا۔ہم اسے سنبھالنے کو لپکے، لیکن وہ زخمی حالت میں بھی ڈاکوؤں پر پتھر پھینکنے کا اشارہ اور اصرار کرتا رہا۔ہم تینوں کے لگنے والے پتھروں سے بقیہ حملہ آور بھی زخمی ہو گئے اور ہماری جانب سے راستہ چھوڑ کر دریا اور کھیتوں کی جانب دوڑ لگا دی۔فائرنگ کی آوازوں سے ارد گرد کے قریبی گاؤں کے لوگ بھی ہمارے گاؤں کی جانب پہنچ چکے تھے۔جلد ہی حملہ آور پکڑے گئے، جو بعد میں اشتہاری ڈاکو ثابت ہوئے۔ان سب کے سر ہمارے مارے گئے پتھروں سے پھٹے ہوئے تھے۔نثار زیادہ خون بہ جانے کی وجہ سے بے ہوش ہو چکا تھا، جس کو شہر کے اسپتال لے کر جانے کے انتظامات کیے ہی جا رہے تھے، مگر اس نے ہمارے بازوؤں میں دم توڑ دیا۔ان ڈاکوؤں نے طویل عرصے سے علاقے کے لوگوں کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔ان کی گرفتاری پر انعام مقرر تھا، جو حکومت نے ہم تینوں کو دیا۔ہم نے وہ انعام نثار کے گھر والوں کو دے دیا۔عدالت کے حکم پر ڈاکوؤں کو پھانسی و عمر قید کی سزا دے دی گئی۔ہمارے گاؤں کے اسکول کا نام تبدیل کر کے نثار گورنمنٹ پبلک ہائی اسکول رکھ دیا گیا۔سالہا سال گزرنے کے بعد آج بھی نثار کی تصویر اسکول کے مرکزی دروازے کے سامنے دیوار پر آویزاں ہے۔ارباب اپنے گھر والوں کے ساتھ بیرونِ ملک چلا گیا۔میں یہ واقعہ زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ " کایا پلٹ - تحریر نمبر 2660,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kaya-palat-2660.html,"حبیب اشرف صبوحیمیرے بچپن کی بات ہے۔ہمارے پڑوس میں ایک یتیم لڑکا صفدر اپنے چچا کے پاس رہتا تھا۔پڑھنے لکھنے کا اسے بالکل شوق نہیں تھا۔سارا دن پتنگ بازی اور دوسرے فضول کاموں میں گزارتا اور شرارتیں کرتا تھا۔اس کے چچا اور ان کے گھر والے اس سے بہت پریشان رہتے تھے۔میٹرک میں دو بار فیل ہونے کے بعد جب تیسری مرتبہ بڑی مشکل سے اس نے میٹرک پاس کیا تو اسے ایک دفتر میں نوکری دلوا دی گئی، چند سالوں کے بعد وہ اپنے چچا کے ہاں سے چلا گیا اور دوستوں کے ساتھ رہنے لگا۔میری جب بھی اس سے ملاقات ہوتی تو وہ بڑی غیر سنجیدہ باتیں کرتا اور کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا تھا۔بہت عرصے بعد سنا کہ اس نے شادی کر لی ہے۔بیوی بچوں کو لے کر کبھی وہ ہمارے گھر بھی آتا، کبھی کسی تقریب میں اس سے ملاقات ہو جاتی تھی، لیکن اس نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ اس کا عہدہ کیا ہے اور وہ کہاں کام کرتا ہے۔(جاری ہے)اس کے کپڑے نہایت سادہ اور باتیں بڑی دل فریب ہوتی تھیں۔اس کے گھر جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔میرے علم میں یہی بات تھی کہ اس نے میٹرک سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی، اس لئے یہی خیال تھا کہ وہ کہیں معمولی عہدے پر ملازم ہو گا۔دن گزرتے رہے۔ایک دن پتا چلا کہ چند مہینے پہلے راولپنڈی میں صفدر کی بہن کا انتقال ہو گیا تو میں نے سوچا صفدر سے تعزیت کی جائے۔اس کے چچا سے گھر کا پتا معلوم کیا تو انھوں نے بتایا:”جم خانہ کلب کے سامنے واپڈا کے ملازمین کے گھر ہیں۔وہیں جا کر کسی سے پوچھ لیں۔“جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک طرف چھوٹے عملے کے کوارٹرز اور دوسری طرف اعلیٰ افسروں کی کوٹھیاں تھیں۔میں چھوٹے اسٹاف کے کوارٹرز کی طرف گیا اور استقبالیہ سے صفدر کے گھر کا پتا معلوم کیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ بڑی کوٹھیوں کی طرف رہتے ہیں۔میں اس طرف گیا اور وہاں کے استقبالیہ کلرک سے صفدر صاحب کا پتا معلوم کیا۔اس نے انٹر کام پر صفدر صاحب سے رابطہ کیا اور میرے بارے میں بتایا۔وہاں سے جواب آیا:”ان صاحب کو بھیج دو۔“جب میں اس کے گھر کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ مین گیٹ پر لگی ہوئی تختی پر ”مرزا صفدر بیگ، ڈائریکٹر جنرل“ لکھا ہوا ہے۔مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ جس شخص کو میں ایک معمولی ملازم سمجھ رہا تھا، وہ اتنا بڑا افسر تھا اور طبیعت میں اتنی سادگی اور انکسار۔جب میں نے اس سے پوچھا کہ تم اتنے بڑے عہدے تک کیسے پہنچے، کیونکہ ہمارے زمانے میں تو صرف میٹرک پاس تھے۔صفدر نے بتایا:”جب میں نے نوکری کی تو دفتر میں میرا ایک ساتھی تھا، جو دفتر کے کام سے جیسے ہی فارغ ہوتا تو کورس کی کتابیں پڑھنے میں مصروف ہو جاتا تھا۔اس نے مجھے بتایا کہ وہ انٹر کا امتحان دے رہا ہے اور اس نے مجھ سے کچھ ایسی باتیں کیں کہ مجھے بھی پڑھائی سے دلچسپی ہو گئی۔ہم دنوں نے ساتھ ہی انٹر کا امتحان دیا اور اچھے نمبروں سے پاس ہو گئے۔اس کے بعد ہم مسلسل تعلیم حاصل کرتے رہے اور اللہ کا شکر ہے کہ آج میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں۔“میں نے اس سے کہا:”اتنے بڑے عہدے پر ہوتے ہوئے بھی تم نے کبھی تکبر نہیں کیا اور نہ اپنے عہدے کے بارے میں کسی کو بتایا۔“صفدر نے کہا:”میں ڈائریکٹر جنرل اپنے دفتر میں ہوں اور دفتر سے باہر وہی پرانا صفدر، ایک عام سا شخص، انسان اپنے اخلاق اور کردار سے پہچانا جاتا ہے، عہدے سے نہیں۔“میں یہ سوچتا ہوں کہ تعلیم سے انسان میں کتنی تبدیلی آ جاتی ہے۔اس کردار کو میں کبھی نہیں بھلا سکا۔ " چمن خالہ - تحریر نمبر 2659,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chaman-khala-2659.html,"عشرت جہاںچمن خالہ منفرد طبیعت کی مالک تھیں۔نام کی طرح باغ و بہار شخصیت ہونے کے باعث وہ ہمیں بہت پسند تھیں۔مہینے دو مہینے بعد جب بھی وہ آتیں تو خوشیاں بھی ہمارے گھر اُتر آتیں۔ان کے دو بیٹے کہیں بڑے عہدے پر افسر تھے۔وہ ہماری امی کی چچا زاد بہن تھیں، لیکن سگی بہنوں سے بڑھ کر مخلص تھیں۔میں اسکول سے گھر آئی تو دروازے پر اندر سے آنے والی ان کی ہنسی کی آواز نے میری تھکن دور کر دی۔میں ایک دم بھاگ کر گھر میں داخل ہوئی۔بستہ ایک طرف رکھ کر ان سے لپٹ گئی۔”خالہ! اتنے دن بعد آئی ہیں آپ․․․․“”صرف پچیس دن ہی تو گزرے ہیں بانو!“ وہ ہنستے ہوئے بولیں۔”صرف پچیس دن․․․․“ میں نے بے یقینی سے گردن گھمائی۔”اتنی ہی میری یاد آ رہی تھی تو تم امی کے ساتھ آ جاتیں۔(جاری ہے)“”امی لے کر نہیں آتیں۔“ چھوٹے بھائی عامر نے بھی شکایت کی۔امی چائے کے بہانے اُٹھنے لگی تھیں کہ چمن خالہ بول پڑیں:”دیکھ لو نسیم! بچے شکایت کر رہے ہیں۔ارے کبھی تو ہمارے گھر بھی آ جایا کرو۔بچوں کو اسکول کی چھٹیوں کے بہانے بھیج دو، چند دن ہمارے پاس گزار لیں گے۔“ روٹھے روٹھے سے لہجے میں کہہ رہی تھیں۔”بس اب بچوں کی شکایتوں کی پٹاری کھل گئی۔ان کی باتوں پر نہ جاؤ چمن! اس ہفتے آنے کا ارادہ تھا، مگر تم خود چلی آئیں۔“ امی جان نے صفائی پیش کی۔”ٹھیک ہے، اب میں اس وقت آؤں گی جب پہلے تم آؤ گی۔“ انھوں نے اُنگلی لہرائی:”آپ لوگوں کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی تو خود ہی آنا پڑا۔“”اچھا بابا، ٹھیک ہے اگلی بار سہی۔“ امی جان باورچی خانے سے بولیں۔”بانو! فٹا فٹ تیار ہو جاؤ۔“ وہ پیار سے بولیں۔”کہاں جانا ہے خالہ؟“ میں نے معصومیت سے پوچھا، ورنہ معلوم تو مجھے تھا ہی۔”کچھ خریداری کرنی ہے، اس لئے بازار جائیں گے۔“امی نے مجھے گھور کر دیکھنے کی کوشش کی، لیکن میں دوسری طرف دیکھنے لگی۔خود کو انجان ظاہر کرتے جلدی سے بیگ اُٹھا کر اپنی جگہ پر رکھا، جوتے اُتار کر ریک میں سجائے اور ہاتھ منہ دھونے چل دی۔گھر کے کپڑوں کا پوچھتے وقت امی جان سے آنکھیں چار ہو ہی گئیں۔انھوں نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں تنبیہ کی۔پھر چمن خالہ سے مخاطب ہوئیں، جو عامر کے ساتھ باتوں میں مشغول تھیں۔”چمن! کل بانو کا سائنس کا ٹیسٹ ہے یہ کہاں اپنا وقت ضائع کرے گی۔آج اسے رہنے ہی دو۔“ان کی بات سن کر میرے چہرے کی خوشی ماند پڑنے لگی، پھر میں جلدی سے بولی:”امی جان! وہ ٹیسٹ اگلے ہفتے ہے، کل نہیں۔“”تم چپ کرو۔تیاری کرو گی تو ٹیسٹ دے سکو گی ناں۔پاس یا فیل ہونا بعد کی بات ہے۔“ امی جان ”ارے نسیم! تم بھی روایتی ماؤں کی طرح بچوں کے پیچھے ہی پڑ جاتی ہو۔کچھ نہیں ہوتا۔ہماری بانو بہت ذہین ہے، دیکھنا سو بٹا سو نمبر لے کر آئے گی۔“”خالہ کوئی بات نہیں پھر سہی۔“ میں مری مری آواز میں بولی۔”ارے، بن کباب انتظار کر رہا ہے، مجھے تو بڑی بھوک لگی ہے۔“ یہ کہتے وہ اُٹھ کھڑی ہوئیں۔”بیٹھو گی تو کچھ بناؤں گی ناں۔تم بھی تو ہوا کے گھوڑے پر سوار آتی ہو۔“ امی بوکھلا گئیں۔”بس تم پکوڑوں کا آمیزہ تیار رکھنا۔آ کر گرما گرم سب مل کر کھائیں گے۔“پھر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور باہر نکل گئیں۔حسبِ معمول انھوں نے اچھی خاصی خریداری کر ڈالی۔امی جان کے لئے ایک سوٹ، میرے لئے دو سوٹ، عامر کے لئے دو شرٹیں، ہمارے لئے اسٹیشنری کا سامان لیا اور کھانے پینے کے سامان سے لدے ہوئے ہم گھر پہنچے۔مجھے شرمندگی محسوس ہونے لگی۔امی جان نے خالہ چمن کو کئی بار ان لوازمات کے لئے منع کیا تھا، لیکن وہ کسی نہ کسی بہانے سے ہماری مدد کیا کرتی تھیں۔گھر کے حالات ٹھیک نہیں تھے۔ابو کو کبھی کام ملتا اور کبھی نہیں۔امی جان نے مجھے اور عامر کو اچھی طرح سمجھایا تھا کہ ہم اپنی ضروریات اور خواہشات کا ذکر چمن خالہ یا کسی سے بھی نہ کیا کریں۔صرف اللہ سے مانگنے والے بن جائیں۔شاید اللہ نے چمن خالہ کو ہمارے لئے وسیلہ بنا کر بھیجا تھا کہ انھوں نے کافی حد تک ہماری تعلیم کا خرچ اُٹھا لیا تھا۔قدم بہ قدم ان کی مدد اور رہنمائی کے باعث ترقی کرتے ہوئے اللہ نے ہمیں لینے والا نہیں، بلکہ دینے والا ہاتھ بنا دیا ہے۔آج بھی چمن خالہ یاد آتی ہیں تو ہمارے ہاتھ ان کی مغفرت کے لئے اُٹھ جاتے ہیں۔ " موتیوں کا ہار - تحریر نمبر 2658,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/motiyon-ka-haar-2658.html,"ماہین زہراپرانے وقتوں کی بات ہے۔ایک گاؤں میں ایک بیوہ اپنی بیٹی افشاں اور بیٹے افتخار کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی تھیں۔وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے کہ ایک دن بیوہ عورت کا انتقال ہو گیا۔افشاں اور افتخار بہت زیادہ دکھی ہو گئے۔ایک ہفتہ سوگ منانے کے بعد انھیں وراثت کا خیال آیا۔وصیت تو ان کی ماں نے کی نہیں تھی۔انھوں نے گاؤں کے بڑے بوڑھوں سے مشورہ کیا۔اس بوڑھی عورت کے پاس تھوڑی سی زمین تھی جس میں وہ فصل بوتی تھی اور ایک ڈبیا تھی جس میں قیمتی موتی تھے۔بزرگوں کے فیصلے کے مطابق موتیوں کی ڈبیا افشاں کے حصے میں آئی اور فصل بونے کے لئے پوری زمین افتخار کے حصے میں آئی۔اس فیصلے سے افشاں تو مطمئن تھی، لیکن افتخار اس بات کے خلاف تھا کہ اسے محنت کرنے کے لئے بس ایک زمین دی گئی جبکہ اس کی بہن کو بیٹھے بٹھائے قیمتی موتی مل گئے۔(جاری ہے)فیصلے کے خلاف تو وہ جا نہیں سکتا تھا، اس لئے خاموش رہا، لیکن وہ ان موتیوں کو حاصل کرنے کا پختہ ارادہ کر چکا تھا۔افشاں نے موتیوں کا ہار بنا کر اپنے گلے میں پہن لیا تھا۔وہ اسے ہر وقت پہنے رہتی اور رات کو سوتے وقت اس کو اُتار کر اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیتی۔ایک رات جب افشاں اپنے کمرے میں سو رہی تھی، افتخار دبے قدموں اس کے کمرے میں داخل ہوا اور موقع دیکھ کر تکیے کے نیچے سے وہ ہار اُٹھایا اور گاؤں سے دور جا کر جنگل میں ایک درخت کے نیچے مٹی میں دبا دیا، تاکہ کچھ دنوں بعد جب یہ معاملہ تھم جائے گا تو وہ اسے نکال کر بیچ دے گا۔اگلی صبح جب افشاں اُٹھی تو ہار کو نہ پا کر بہت پریشان ہوئی۔اس نے اسے ہر جگہ ڈھونڈا، لیکن ہار نہیں ملا۔افتخار سے پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کر دیا۔اب تو وہ اور بھی پریشان اور فکر مند ہو گئی۔اس نے گاؤں میں اعلان کروایا کہ جو شخص اسے اس کا ہار لا کر دے گا، وہ اس سے شادی کرے گی۔گاؤں کے بہت سارے نوجوان اس سے شادی کرنا چاہتے تھے۔اس ملک کا شہزادہ ارسلان ان دنوں بھیس بدل کر رعایا کا حال دیکھنے اس گاؤں میں آیا تھا۔وہ شہزادہ بہت ایماندار اور عقلمند تھا۔اسے افشاں کا ہار گم ہونے کا پتا چلا۔ایک آدمی سے سارا ماجرا پوچھ لیا۔اب اس کا پہلا شک افتخار پر گیا، کیونکہ وہ بہت پُرسکون تھا، جبکہ اس کی بہن کا اتنا قیمتی ہار گم تھا، پریشان تو اسے بھی ہونا چاہیے تھا۔شہزادے نے افشاں کی مدد کا فیصلہ کیا، اس لئے وہ واپس محل نہیں گیا۔گاؤں میں ہی رک گیا۔رات کو افتخار اس ہار کو نکالنے کے لئے جنگل کی طرف جانے لگا۔شہزادے نے اس کا تعاقب کیا۔جیسے ہی افتخار نے زمین میں سے ہار نکالا، شہزادے نے اسے پکڑ لیا اور اسے افشاں کے پاس لے گیا۔شہزادے نے اس کو سارا واقعہ بتایا کہ وہ اس ملک کا شہزادہ ہے۔وہ افتخار کو سزا دینا چاہتا تھا، لیکن افشاں نے منع کر دیا۔شہزادہ افشاں کی اس رحم دلی سے بہت متاثر ہوا۔اپنی بہن کا یہ حسنِ سلوک دیکھ کر افتخار نے شرمندہ ہو کر بہن سے معافی مانگ لی۔افشاں نے اسے معاف کر دیا۔اپنے وعدے کے مطابق افشاں نے شہزادے سے شادی کر لی اور اس کے ساتھ محل چلی گئی۔افتخار اب اسی چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے اور اسی زمین پر کام کرتا ہے اور شہزادہ ارسلان اور شہزادی افشاں ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں اور وہ موتیوں کا ہار اب بھی افشاں کے گلے میں رہتا ہے۔ " بنٹی کہاں کھو گیا - تحریر نمبر 2657,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bunty-kahan-kho-gaya-2657.html,"وردہ افضلبنٹی ایک بندر تھا جو اپنے ماں باپ کے ساتھ جنگل میں رہتا تھا۔وہ تین بھائی تھے۔بنٹی سب سے چھوٹا تھا۔جنگل کے ایک درخت پر ان کا بسیرا تھا۔وہ تینوں شام ہوتے ہی ندی کے کنارے کھیلنے چلے جاتے۔جنگل سے کچھ فاصلے پر ایک سڑک تھی جو شہر کی طرف جاتی تھی۔ماں نے بچوں کو خاص نصیحت کی کہ اس طرف کا کبھی رُخ نہ کریں۔سب سے بڑا بھائی سمجھدار تھا اور ماں کی بات مانتا تھا،جبکہ بنٹی اور منجھلا بھائی ماں کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے تھے۔ایک دن تینوں بھائی ندی کنارے کھیل رہے تھے،بڑا بھائی درخت سے پھل توڑنے میں مصروف تھا کہ منجھلے بھائی نے سڑک کی طرف اشارہ کیا۔دونوں بڑے بھائی کی نظروں سے بچ کر سڑک کی طرف آ گئے۔ابھی وہ دونوں آگے جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک ایک تیز رفتار جیپ وہاں آئی اور کسی نے بنٹی کو پکڑ کر جیپ میں ڈال کر لے گئے۔(جاری ہے)منجھلا بھائی یہ سارا منظر دیکھ کے ہکا بکا رہ گیا۔جب بنٹی کو ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک پنجرے میں بند پایا۔اس نے آس پاس نظر دوڑائی ہر جگہ پنجرے ہی پنجرے تھے،جن میں مختلف جانور قید تھے۔وہ ایک خوبصورت باغ نما جگہ تھی،جہاں لوگوں کا بڑا ہجوم تھا۔بعد میں اسے پتا چلا کہ وہ ایک چڑیا گھر میں ہے۔اس کے پنجرے میں اور بھی بندر تھے۔وہ سب بھی اپنے گھر والوں سے بچھڑے ہوئے تھے۔پہلے تو بنٹی بہت اُداس ہوا۔اسے گھر کی یاد ستانے لگی،پھر اسے ماں کی وہ نصیحت یاد آئی۔کاش! میں ماں کی بات مان لیتا۔باقی بندروں نے اسے تسلی دی کچھ ہی ہفتوں میں وہ سب بھول گیا اور وہ خوشی خوشی رہنے لگا،کیونکہ اس کی باقی بندروں سے اچھی دوستی ہو گئی۔اب اس نے اسی جگہ کو اپنا گھر مان لیا تھا۔ " جھیل پہ آئے ہاتھی - تحریر نمبر 2656,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jheel-pe-aaya-hathi-2656.html,"یاسر فاروقبہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ آبادی سے دور ایک پرانا ویران گاؤں تھا۔اس میں گھر، گلیاں اور دکانیں سب خالی اور ویران تھیں۔کھڑکیاں اور سیڑھیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔یہ جگہ چوہوں کے بھاگنے کودنے اور غل مچانے کے لئے بڑی عمدہ تھی۔اس گاؤں میں چوہے صدیوں سے رہ رہے تھے۔انہیں اس گاؤں میں کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔چوہوں کے لئے یہ ایک بہترین دور تھا۔انہوں نے ان پرانے گھروں اور عمارتوں میں سرنگیں بنائیں۔بھول بھلیاں بنائیں۔ان کے تو یہاں مزے تھے۔وہ یہاں کھل کر موج مستی، دعوتیں اور پارٹیاں کرتے تھے۔اور یوں وقت گزرتا گیا۔ایک دن ہاتھیوں کا ایک بہت بڑا غول، جن کی تعداد درجنوں میں تھی، گاؤں سے گزرتے ہوئے مغرب کی جانب ایک بڑی جھیل کی طرف بڑھ رہا تھا۔(جاری ہے)تمام ہاتھی چلتے چلتے سوچ رہے تھے کہ اس جھیل کے ٹھنڈے پانی میں تیرنے میں کتنا مزہ آئے گا۔وہ نہیں جانتے تھے کہ جب وہ گاؤں سے گزر رہے تھے تو ان کے قدم چوہوں کی بنائی ہوئی سرنگوں اور بھول بھلیوں کو روند گئے تھے۔ہاتھی بڑی گڑ بڑ کر گئے تھے۔چوہوں نے فوراً میٹنگ بلائی۔اگر ان کا غول واپس دوبارہ ادھر سے گزرا تو ہم برباد ہو جائیں گے! ایک چوہا پکارا۔”ہم انہیں اب موقع ہی نہیں دیں گے“۔ایک اور پکارا۔اب کچھ دلیر چوہوں کے ایک گروپ نے ان ہاتھیوں کے قدموں کے نشانات کا جھیل تک پیچھا کیا۔وہاں انہیں ہاتھیوں کا بادشاہ ملا۔بادشاہ کے سامنے جھکتے ہوئے، ایک چوہا، باقی سب کی نمائندگی کرتے ہوئے بولا۔”بادشاہ سلامت! یہاں سے ہماری چوہوں کی آبادی زیادہ دور نہیں ہے۔یہ اسی پرانے ویران گاؤں میں ہے جس سے آپ گزر کر آئے ہیں۔آپ کو یاد ہو گا؟“مجھے یاد ہے۔ہاتھی بادشاہ نے کہا۔ہم ہاتھی ہیں۔ہمیں نہیں معلوم ہوا کہ وہاں چوہوں کی آبادی موجود ہے۔واہ! آپ کو نہیں معلوم تھا؟ اس چوہے نے طنز سے کہا۔آپ کے ریوڑ نے ان بہت سے گھروں کو برباد کر دیا ہے جہاں ہم سینکڑوں سالوں سے رہ رہے ہیں۔اگر آپ اسی انداز سے واپس لوٹے تو یقینا ہمارا تو خاتمہ ہی ہو جائے گا۔ہماری ایک عرض سنیں! کیا آپ واپس جانے کے لئے کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کر سکتے؟ کیا معلوم کسی دن ہم چوہے بھی آپ کی کچھ مدد کر سکیں۔ہاتھی بادشاہ نے دل ہی دل میں مسکرا کر سوچا۔”لو سنو! یہ چھوٹے چوہے کبھی ہاتھی کی مدد کیسے کر سکتے ہیں!“لیکن اسے افسوس ہوا کہ اس کے ریوڑ نے چوہوں کے گاؤں کو بے دھیانی میں کچل ڈالا ہے۔اس نے کہا ”ٹھیک ہے۔تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔میں ریوڑ کو دوسرے راستے سے گھر لے جاؤں گا۔اسی دوران قریبی بادشاہ نے اپنے شکاریوں کو حکم دیا کہ وہ جتنے ہاتھیوں کو پکڑ سکتے ہیں پکڑ لیں۔یہ جان کر کہ ہاتھی دور دور سے اس بڑی جھیل میں تیرنے کے لئے آتے ہیں، بادشاہ کے شکاریوں نے وہاں پانی میں جال لگا دیے۔جیسے ہی ہاتھی بادشاہ اور اس کے ریوڑ نے اس جھیل میں چھلانگ لگائی، وہ سارے اس جال میں پھنس گئے۔دو دن بعد شکاریوں نے ہاتھی بادشاہ اور اس کے ریوڑ کو بڑی بڑی رسیوں سے کھینچ کر جھیل سے باہر نکالا اور انہیں جنگل کے مضبوط درختوں سے باندھ دیا۔جب شکاری چلے گئے تو ہاتھی بادشاہ سوچنے لگا۔کیا کیا جائے؟ وہ سب درختوں سے بندھے ہوئے تھے سوائے ایک ہاتھی کے۔وہ آزاد تھا کیونکہ اس نے جھیل میں چھلانگ نہیں لگائی تھی۔ہاتھی بادشاہ نے اسے پکارا۔اس نے اسے کہا کہ وہ فوراً ویران گاؤں جائے اور چوہوں کو یہاں لائے۔جب چوہوں کو پتہ چلا کہ ہاتھی بادشاہ اور اس کا ریوڑ اس مصیبت میں ہے تو وہ جھیل کی طرف بھاگے۔بادشاہ اور اس کے ریوڑ کو بندھے ہوئے دیکھ کر وہ تیزی سے رسیوں کے پاس پہنچے اور اپنے تیز دانتوں سے انہیں کترنے لگے۔وہ رسیاں کترتے جا رہے تھے اور ہاتھی آزاد ہوتے جا رہے تھے۔انہوں نے جلد ہی موٹی رسیاں کتر دیں اور تمام ہاتھی رسیوں سے آزاد ہو گئے۔تمہارا بہت بہت شکریہ! تم نے ہم سب کو آزاد کیا۔بادشاہ ہاتھی نے کہا۔ہاتھیوں کے ریوڑ نے گھر واپسی کا نیا راستہ اختیار کیا اور چوہوں کی برادری آنے والے کئی سالوں تک زندہ رہی۔ " بول میری مچھلی (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2655,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bol-meri-machli-aakhri-hissa-2655.html,"نازیہ آصفاس نے غور کیا تو یہ آواز مچھلی نما چیز سے آ رہی تھی۔ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ کھلونا نما مچھلی کچھ کہہ رہی ہو۔وہ اسی الجھن میں تھا کہ باہر سے خالہ ستو کی آواز آئی بیٹا تیمور، یہ میری ٹارچ کی روشنی بہت کم ہو گئی ہے شاید اس کے سیل کمزور ہو گئے ہیں اگر تمہارے پاس دو فالتو سیل ہوں تو مجھے دے دو۔تیمور نے ٹب واپس چارپائی کے نیچے کیا اور شہر سے لائے ہوئے دو سیل خالہ کو دے دیئے۔اور واپس آ کر اب پھر وہ اس مچھلی نما چیز کو الٹنے پلٹنے لگ گیا۔اسی طرح اس کا ہاتھ لگا کہ ایک جگہ سے کوئی پرزہ پیچھے ہٹا اور اندر سے دو سیل باہر گر گئے۔جیسے ہی سیل گرے تیمور کے ذہن میں فوراً ایک خیال آیا اور اس نے جلدی سے دوسرے دو سیل اپنے تھیلے سے نکالے اور ان بوسیدہ سیلوں کی جگہ اس مچھلی کے اندر فٹ کر دیئے۔(جاری ہے)نئے سیل فٹ ہوتے ہی مچھلی کی آواز اونچی ہو گئی اور مزے کی بات یہ ہوئی کہ اسے بھی سمجھ آنے لگی۔مچھلی رک رک کر کہہ رہی تھی کہ ”ساحل۔۔۔پہ۔۔۔یومِ آزادی۔۔۔سمندر۔۔۔کچرا۔۔۔ستر۔۔۔فیصد اضافہ۔۔۔تیمور چونک گیا۔یعنی اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ پچھلے ہفتے ساحل پہ جو یوم آزادی منایا گیا اس سے سمندر میں کچرے کی سطح میں مزید ستر فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔تیمور پہلے بھی لوگوں کے ساحل پہ گند پھیلانے سے پریشان تو رہتا تھا مگر اب تو حد ہی ہو گئی تھی۔اب اسے سمجھ آ رہی تھی کہ یہ کیا چیز ہے اس نے ایک بار شہر منڈی میں سمندری روبوٹ کی بات سنی تھی کہ جو سمندر کے اندر کی خبریں بھی دے گا۔اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ یقینا وہی روبوٹ ہے۔چند دن میں طوفان تھم گیا۔ماہی گیر واپس سمندر میں جانے لگ گئے۔تو تیمور کو ایک دن ایک خیال سوجھا اس نے ایک لمبی رسی لے کر مچھلی کے سر کے اس پاس مضبوطی سے باندھ لی اور سمندر میں جا کر اسے پانی میں ڈال کر رسی کا دوسرا سرا کشتی کے ساتھ باندھ لیا۔اس رات واپس آ کر رات کے وقت فارغ ہو کر اس نے اس مچھلی کو پھر نکالا، بٹن ذرا سا دبایا تو مچھلی بولی،اتوار۔۔۔دن۔۔۔دس فیصد۔اب تیمور کو ایک آئیڈیا سوجھا۔وہ شہر گیا تو اس نے منڈی میں مینیجر کو ساری بات بتائی۔پہلے تو مینیجر نے یقین نہیں کیا مگر جب اس نے اعداد و شمار بتائے تو کسی حد تک اسے بھی یقین آ گیا۔وہ تیمور کو لے کر اخبار کے دفتر چلا گیا۔اور اخبار کے ایڈیٹر کو تسلی سے ساری بات بتائی۔ایڈیٹر بھی حیران تھا کہ یہ وہی اعداد و شمار تھے جو انھوں نے چند دن پہلے جاری کئے تھے۔ایڈیٹر نے کہا کہ ”چند دن بعد عید ہے عید کے دن بھی مچھلی کو سمندر میں ڈال کر تجربہ کیجئے پھر مجھے بتائیے۔“مینیجر اور تیمور نے وعدہ کیا کہ ٹھیک ہے۔اور عید پہ جو اعداد و شمار مچھلی نے بتائے، اس ایڈیٹر نے بھی وہی چھاپ دیے۔اور اگلے دن ان کی اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب،ٹھیک وہی اعداد و شمار کسی بین الاقوامی میگزین نے بھی بتائے۔اب ایڈیٹر بھی حیران تھا کہ وہ مچھلی کیا ہے؟اگلے دن ایڈیٹر اور منڈی کا مینیجر خود تیمور کے گھر آ گئے اور مچھلی نما چیز کو دیکھنے۔مینیجر نے بھی اسے دیکھ کر کہا کہ یہ روبوٹ ہے اور ہمیں یہاں کسی اتھارٹی کو خبر کرنی چاہیے۔تیمور بھی اس بات سے متفق تھا اگلے دن وہ تینوں مچھلی کو لے کر سمندر کا کنٹرول سنبھالنے والی کمیٹی کے دفتر میں چلے گئے۔وہاں جب کمیٹی کے اہلکاروں نے دیکھا کہ یہ تو وہی روبوٹ ہے جو چند دن پہلے تجربے کے لئے سمندر کی تہہ میں بھیجا تھا مگر کسی خرابی کی وجہ سے اس کا رابطہ ان سے نہیں رہ پایا تھا۔اہلکار تو اس کے لئے بہت پریشان تھے ممکن تھا کہ ان کی نوکری بھی چلی جاتی، کہ یہ روبوٹ ایک ملک نے تحفہ دیا تھا جو ہر روز سمندر کی تہہ میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور کچرے کی مقدار سے برابر آگاہ کرتا رہتا تھا۔کچرے اور آلودگی کے خاتمے کے لئے اس کی درست مقدار معلوم کرنا ازحد ضروری تھا۔یہ روبوٹ کچرے کے تناسب کے ساتھ ساتھ کئی طوفانوں کی بھی پیشگی خبر دے سکتا تھا۔تیمور کی اس کاوش کو بہت سراہا گیا اور اگلے دن اسے انعام دینے کے لئے ایک تقریب بھی منعقد ہوئی۔جس میں تیمور نے کہا کہ’میں اپنے ہم وطنوں سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک ہم اپنی سرزمین اور ساحل صاف نہیں رکھیں گے ہمارے روبوٹ اور ترقی کی کوششیں اسی طرح رائیگاں جاتی رہیں گی۔ترقی یافتہ ممالک تو روبوٹ کی مدد سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر انسانی جسم کے آپریشن بھی کر رہے ہیں اور ہم ابھی یہ ضروری ٹیکنالوجی دوست ممالک سے ہی مانگ رہے ہیں۔روبوٹ اب زندگی کا حصہ ہیں لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم تعلیم ٹیکنالوجی کو فروغ دیں ورنہ ہم دوسرے ملکوں سے بہت زیادہ پیچھے رہ جائیں گے۔تیمور کو بہت سا انعام بھی ملا اور اس کی ماں کو سرکاری طور پہ شہر کے بڑے ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں امریکہ کے بہترین روبوٹس نے آن لائن اس کی ماں کی کمر کا آپریشن کیا۔جس سے وہ بالکل ٹھیک بھی ہو گئی۔ " بول میری مچھلی (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2654,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bol-meri-machli-pehla-hissa-2654.html,"نازیہ آصفتیمور نے اگلے چوبیس گھنٹوں کے لئے ضرورت کی ہر چیز ماں کے بستر کے پاس ایک میز پر رکھی اور ماں کے پاس بیٹھ گیا۔ماں نے مندی آنکھیں کھول دیں،تو تیمور نے ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر چوما اور ماں کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ماں کے لب ہلے اور تیمور سمجھ گیا کہ ماں اسے دعائیں دے رہی تھی۔اس نے ماں کے گال پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ماں کو سمجھایا کہ ”ماں جی خبروں میں سن رہے ہیں کہ کل سے سمندری طوفان آ رہا ہے جس کی وجہ سے اگلے کئی روز تک سمندر میں جا کر مچھلی نہیں پکڑی جا سکے گی،اس لئے میں آج رات واپس نہیں آؤں گا بلکہ زیادہ ساری مچھلی جمع کروں گا تاکہ اگلے چند روز تک کے لئے آپ کی دوا اور خوراک میں کمی نہ آ سکے“۔تیمور کی بات ختم ہوئی تو ماں کے چہرے پہ مسکراہٹ اور آنکھوں کے گیلے کناروں سے اسے سمجھ آ گئی کہ ماں اس کی بات سمجھ رہی ہے۔(جاری ہے)اس نے ماں کو بتایا کہ ”اس کی ہمسائی خالہ ستو اس کے پاس اس کی خبر گیری کے لئے آتی رہے گی میں اسے بتا جاؤں گا“۔ماں کو ساری باتیں سمجھا کر تیمور نے اپنی راہ لی اور ساحل پہ جا کر اللہ کا نام لے کر اپنی کشتی سمندر میں ڈال دی۔اور بھی کئی ملاح اپنی کشتیاں سمندر میں ڈال کر رزق حلال کمانے کی کوشش میں مصروف تھے۔سمندر میں پھرتے پھیراتے دوپہر اور پھر شام ہو گئی تھی۔تیمور نے اپنی کشتی میں کافی مچھلی جمع کر لی تھی۔سب ماہی گیر گھروں کو لوٹ رہے تھے۔تیمور بھی کشتی کو ساحل پہ لے آیا۔اپنی کشتی میں رکھی پوٹلی سے نکال کر سادہ سا کھانا کھایا اور اپنے باپ کو بھی یاد کیا جب وہ آٹھویں کلاس میں تھا کہ اس کا باپ چل بسا تھا اور ماں ایک اچانک بیماری کا شکار ہو کر بستر سے لگ گئی تھی۔اسے یقین تھا کہ خالہ ستو نے یقینا ماں کو کھانا کھلا دیا ہو گا۔خالہ ستو تیمور کی ماں کی سہیلی تھی مگر اب اس کی بیماری کے بعد سے اس کی تیماردار بھی بن چکی تھی۔تیمور جب بھی کہیں جاتا خالہ ستو اپنی دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی ماں کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھیں۔تیمور کھانا کھا کر لیٹ گیا مگر وہ دل میں دعا کر رہا تھا کہ یا اللہ پاک!میری مدد کر،کہ میں اپنی ماں کا علاج کروا سکوں اور وہ تکلیف سے نکل آئے۔ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ کوسٹ گارڈ نے سیٹی بجا کر اسے یہاں سے چلے جانے کا کہا۔مگر تیمور خاموشی سے لیٹا رہا۔کافی دیر گزر گئی تھی۔تیمور بھی تھک چکا تھا مگر اسے پتہ تھا کہ اگر میں بھی گھر چلا گیا تو پتہ نہیں کتنے دن کاروبار سے ناغہ ہو جائے اور اگر پیسہ نہ ہوا تو ماں کی دوائیاں کہاں سے آئیں گی۔اس فکر نے اسے ہمت دی اور اس نے کشتی پھر سمندر میں ڈال دی۔رات کی تاریکی میں چاند چمک رہا تھا جس کی کرنیں سمندر کی لہروں پہ کھیل رہی تھیں۔مگر تیمور اپنے کام میں مصروف تھا کہ باپ کی موت کے بعد وہی ماں کا اور ماں اس کا سہارا تھی۔اس نے کافی ساری مچھلی جمع کر لی تھی اور اب اس کا رخ ساحل کی طرف تھا کہ کوسٹ گارڈ گھنٹیاں بجا بجا کر سمندر میں موجود اکا دکا ماہی گیروں کو واپس آنے کی ہدایت کر رہے تھے کہ شام تک سمندر طوفان سے پاگل ہو جانے والا تھا۔اس نے آخری بار جب جال پانی سے باہر نکالا تو اس نے صبح صادق کی ہلکی سی روشنی میں دیکھا کہ ایک مچھلی کی دم میں کچھ چمک رہا تھا۔اس نے اپنا وہم سمجھتے ہوئے اسے بھی مچھلیوں کے ڈھیر پہ ڈالا اور چھابڑا اٹھا کر گدھا گاڑی پہ رکھا اور کشتی کو ساحل پہ مضبوطی سے باندھ دیا۔(جاری ہے) " وقت کا جواب - تحریر نمبر 2653,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/waqt-ka-jawab-2653.html,"سمیرا نیاز صدیقیاقبال صاحب اور ان کی اہلیہ نسرین اپنی تینوں بیٹیوں ثنا، فوزیہ اور نور کے ہمراہ دو کمروں کے کرائے کے مکان میں منتقل ہو گئے تھے۔اس سے پہلے وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ آبائی گھر میں رہتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ خاندان بڑا ہوا تو سب نے باہمی مشورے سے مکان بیچنے کا فیصلہ کیا۔بڑے بھائیوں نے تو نیا گھر خرید لیا، لیکن اقبال صاحب نے دکان خریدنے کو ترجیح دی۔کافی عرصے دکان پر کام کرنے کی وجہ سے انھیں کام کا اچھا تجربہ ہو گیا تھا۔ان کی رائے تھی کہ معقول آمدنی ہو تو مکان بھی بن جاتا ہے۔رات کے کھانے کے بعد ان کی اہلیہ نے بچیوں کے اسکول کا مسئلہ اُٹھایا، کیونکہ پہلے والا اسکول اب کافی دور ہو گیا تھا۔”میں کل ہی بچیوں کے لئے اچھا سا اسکول ڈھونڈتا ہوں۔(جاری ہے)ان کا وقت بالکل ضائع نہیں ہونا چاہیے۔“ اقبال صاحب بولے۔تھوڑی دیر میں اقبال صاحب کے بھائی اور بھابھی ان سے ملنے آ گئے۔باتوں باتوں میں بچیوں کے اسکول کا ذکر بھی آیا۔”ارے بھئی! بچیوں کے لئے اچھے اسکول کی کیا ضرورت ہے بھلا۔کسی بھی عام سے اسکول میں داخل کرا دو۔پڑھ لکھ کر افسر تھوڑی بن جائیں گی۔شادی کر کے دوسرے گھر ہی تو جانا ہے۔اگر کوئی بیٹا ہوتا تو بات سمجھ میں بھی آتی۔کم از کم کاروبار میں تمہارا ہاتھ تو بٹاتا۔لڑکیوں پر اتنے پیسے خرچ کرنا تو سراسر بے وقوفی ہے۔“ بھائی نے انتہائی لاپرواہی سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔”بھائی صاحب! یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔“ اقبال صاحب حیرانی سے بولے۔”ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں تمہارے بھائی۔بیٹیوں کو تو ویسے بھی پرائے گھر جانا ہوتا ہے تو کیا ضرورت ہے ان پر اتنے پیسے خرچ کرنے کی۔اب دیکھو نا ہمارے ما شاء اللہ! چار بیٹے ہیں۔تھوڑا بہت پڑھ لکھ لیں گے تو اپنے والد کے ساتھ کاروبار سنبھال لیں گے اور ویسے بھی آج کل تعلیم حاصل کرنے کا کیا فائدہ! ملازمت تو ملتی نہیں ہے۔بہتر یہی ہے کہ پیسے بچا کر رکھیں۔“ بھابھی نے تو اپنی دانست میں بڑی دور اندیشی کی بات کی تھی۔بچیوں کی ماں سے رہا نہ گیا اور وہ بھی بول پڑیں:”بھابھی! اچھی تعلیم تو لڑکے اور لڑکیوں دونوں کے لئے ضروری ہے۔اگر اچھی تعلیم ہو گی تو وہ کاروبار ہی نہیں معاشرے میں بھی کامیاب ہوں گے۔“”بھابھی! آج کل یہی بچے ملازمت کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔اب آپ ہی بتائیں کیا فائدہ ایسی تعلیم کا جس سے پیٹ بھی نہ بھر سکے۔“”لیکن میں بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کے حق میں ہوں اور اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔“ اقبال صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔”جیسی تمہاری مرضی اقبال! ہم تو جتنا سمجھا سکتے تھے تمہیں ہم نے سمجھا دیا۔اب تم جانو، تمہارا کام جانے۔“ بھائی صاحب نے بحث ختم کرتے ہوئے کہا۔ان لوگوں کے جانے کے بعد اقبال صاحب کی اہلیہ ان سے شکایت کرنے لگیں:”آخر آپ کے گھر والے بچیوں کی تعلیم کے اتنے خلاف کیوں ہیں! کیا ملتا ہے انھیں ایسی باتیں کر کے۔مجھے تو غصہ آ رہا ہے ان کی سوچ پر۔“”بیگم! تم کیوں پریشان ہوتی ہو۔ان باتوں کو نظر انداز کر دیا کرو۔کل جب یہ بچیاں پڑھ لکھ کر ہمارا فخر بنیں گی تو یہی لوگ ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکیں گے۔وقت بہترین جواب ہوتا ہے۔تم بس صبر کرو۔“وقت گزرتا رہا۔اقبال صاحب کی بچیاں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتی رہیں۔فوزیہ کو ادب سے خاص لگاؤ تھا۔اس نے کم عمری میں ہی انگریزی شاعری میں نام بنا لیا۔ساتھ ساتھ میڈیکل کی تعلیم بھی جاری رکھی اور پھر فوج میں ایک قابل ڈاکٹر بن گئی۔ثنا بھی پڑھ لکھ کر بینک کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گئی۔نور کو وکالت میں دلچسپی تھی تو اقبال صاحب نے اس کا داخلہ شہر کے بہترین لاء کالج میں کرا دیا جہاں وہ تھرڈ ایئر کی طالبہ تھی۔کل تک جن بچیوں کی تعلیم کی مخالفت کی جا رہی تھی آج وہ اپنے خاندان کا فخر بن گئی تھیں۔ہر کوئی اقبال صاحب اور ان کی بیگم کی اعلیٰ ترتیب کی تعریف کرتا تھا۔پھر ایک دن اقبال صاحب کے بھائی اور بھابھی ان سے ملنے آئے۔وہ کچھ پریشان لگ رہے تھے۔”اقبال! تم نے اور نسرین نے جو کہا وہ کر کے دکھا دیا۔ہماری لاکھ مخالفت کے باوجود تم نے بچیوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔آج میں تمہارے اور ثنا کے پاس ایک خاص کام سے آیا ہوں۔“”بھائی صاحب! ہم نے تو بس اپنا فرض ادا کیا۔آپ کہیے۔ہم سے جو ہو سکا،ضرور کریں گے، ان شاء اللہ!“ اتنی دیر میں ثنا بھی چائے لے کر آ گئی۔”اصل میں تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ آج کل کاروبار کے حالات کچھ ٹھیک نہیں۔“ بھائی صاحب نے کہنا شروع کیا:”اب بچوں کی بھی شادی ہو گئی ہے، ایسے میں ایک دکان سے گزارہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔میں چاہ رہا تھا کہ ثنا بیٹی اپنے بھائیوں کو کہیں ملازمت پر لگوا دے۔ماشاء اللہ! ہماری بیٹی اتنے بڑے عہدے پر کام کر رہی ہے اور پھر اس کے تعلقات بھی ہیں۔“ بھائی صاحب نے بڑی لجاجت سے بات مکمل کی۔”وہ تو ٹھیک ہے تایا ابو!“ ثنا کہنے لگی:”مگر آپ کے بچوں نے تو تعلیم مکمل ہی نہیں کی۔صرف میٹرک کر کے چھوڑ دیا۔اب ایسے میں اچھی نوکری ملنا تو مشکل ہے،لیکن آپ فکر نہ کریں۔میں کوشش کرتی ہوں،ان شاء اللہ!سب بہتر ہو جائے گا۔“ ثنا نے تایا ابو کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔اقبال صاحب کی بھابھی کچھ شرمندہ سی ہو رہی تھیں۔”ویسے ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔“ وہ کہنے لگیں:”تعلیم بیچ میں ختم کروا کر ہم نے انھیں کاروبار میں لگا دیا۔اگر وہ بھی تعلیم جاری رکھتے تو آج کچھ بن جاتے۔یہ تو صرف تم اور نسرین ہی تھے جو ہر مشکل برداشت کر گئے، لیکن بچیوں کی تعلیم پہ فرق نہیں آنے دیا۔تعلیم کا جو چراغ تم دونوں نے روشن کیا ہے، ہم اب اسے کبھی بجھنے نہیں دیں گے۔“بھابھی کی اس بات پر سبھی خوشی سے مسکرانے لگے۔اقبال صاحب نے مسکراتے ہوئے اپنی بیگم کی جانب دیکھا جو وقت کے اس جواب سے مطمئن نظر آ رہی تھیں۔ " گوگو خرگوش - تحریر نمبر 2652,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gogo-khargosh-2652.html,"آمنہ خورشید”میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے سے خرگوش کی جس کا نام گوگو تھا۔وہ ایک جنگل میں سبز ٹیلے کے اندر رہا کرتا تھا۔اس کا گھر بہت پیارا تھا۔گھر کی باہر والی دیواریں لکڑی کی تھیں۔ان پر سبز پینٹ تھا اور گول سی چھت جو شاخوں کو جوڑ کر بنائی گئی تھی، سرخ رنگ کی تھی۔دور سے دیکھنے میں گوگو کا گھر کوئی بڑا سا مشروم معلوم ہوتا تھا۔ایک دن گوگو صبح کی سیر کو نکلا۔وہ اُچھلتے کودتے پتھروں پر سے چھلانگیں لگاتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک چھوٹی سی ڈبی پر پڑی۔یہ کیا ہے؟“ گوگو نے حیرت سے دیکھا۔”چوں چوں! یہ ماچس ہے۔“ اوپر درخت پر سے آواز آئی۔گوگو نے سر اُٹھا کر اوپر دیکھا۔ایک موٹی سی چڑیا اپنے گھونسلے کے اندر بیٹھی کہہ رہی تھی۔(جاری ہے)”کل رات جو لوگ جنگل سے گزرے تھے وہ یہ ماچس یہیں درخت کے نیچے بھول گئے ہیں۔“ ”ہاں تو! اس سے کیا کرتے ہیں؟“ گوگو نے حیرانی سے ڈبی کو ہلایا۔”اس سے آگ لگاتے ہیں۔میں نے خود دیکھا تھا۔وہ اس میں سے ایک چھوٹی سی لکڑی کو ڈبی سے رگڑتے ہیں تو آگ کا شعلہ نکلتا ہے۔“ چڑیا نے بتایا۔وہ اب گھونسلے سے نکل کر سب سے نیچے والی شاخ پر آ کر بیٹھ گئی تھی۔”میں بھی اس سے چولہا جلاؤں گا اور گاجر کا سوپ گرم کروں گا۔آہا!“ گوگو نے کہا اور تیزی سے چھلانگیں لگاتا واپس چلا گیا۔اس نے چڑیا کی پوری بات بھی نہ سنی۔گوگو جب گھر آیا تو اس کی امی گھر پر نہیں تھی۔وہ ہر روز کی طرح گاجریں لینے بھالو میاں کی دکان پر گئی ہوئی تھیں۔گوگو خرگوش کچن میں آیا، اس نے ایک چھوٹی سی دیگچی چولہے پر رکھی۔اس میں کل کا بچا ہوا سوپ تھا۔گوگو نے ماچس میں سے ایک اسٹک نکالی اور اسے چولہے کے قریب کیا۔لیکن یہ کیا! چولہا تو آگ پکڑ ہی نہیں رہا تھا۔اسٹک پر لگی ہوئی آگ گوگو کے ہاتھ پر لگنے لگی تو اس نے گھبرا کر اسٹک کھڑکی سے باہر پھینک دی۔پھر اس نے دوسری اسٹک نکالی پھر تیسری،چوتھی لیکن چولہا کسی طرح بھی آگ نہیں پکڑ رہا تھا۔گوگو آگ لگی ہوئی اسٹکس کھڑکی سے باہر پھینکتا رہا۔تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔گوگو نے دروازہ کھولا۔امی اندر آئیں تو انہیں کچھ جلنے کی بو آئی۔”گوگو! کیا تم کچن میں گئے تھے۔“ ہاں۔نہیں وہ۔اس نے بتانے کی کوشش کی لیکن خرگوش کی امی بہت جلدی میں تھیں۔وہ کچن میں تیز قدموں سے آئیں اور جلدی سے سارے چولہے چیک کیے۔کچھ بھی نہیں چل رہا تھا۔سب ٹھیک تھا۔ہاں سوپ والی دیگچی شیلف پر پڑی تھی۔”گوگو! تم سوپ گرم کرنا چاہ رہے تھے؟“گوگو نے کوئی جواب نہ دیا۔وہ جلدی سے کچن سے باہر چلا آیا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ امی کو کیسے بتائے۔امی جب کمرے میں آئیں تو گوگو کمرے میں خاموش بیٹھا تھا۔امی کے ہاتھ میں سوپ کا پیالہ تھا۔انہوں نے سائیڈ ٹیبل پر پیالہ رکھا اور کہنے لگیں۔”میرے پیارے بیٹے! میں نے ماچس کھڑکی سے باہر گری ہوئی دیکھ لیں ہیں۔خدا نہ کرے چولہا جل جاتا تو تمہیں آگ بھی لگ سکتی تھی۔“گوگو یہ سن کر بہت شرمندہ تھا۔”ابھی تم چھوٹے ہو۔جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو خود سے چولہا جلانا سیکھ جاؤ گے۔“خرگوش امی اچانک کچھ سونگھتے ہوئے بولیں۔”یہ۔۔۔یہ کیا جلنے کی بو آ رہی ہے۔اوہ خدایا!“ امی جلدی سے بھاگتے ہوئے کمرے سے نکل گئیں۔بچو! اصل میں ہوا یہ تھا جب گوگو خرگوش نے جلتی ہوئی تیلیاں کھڑکی سے باہر پھینکیں تو گھاس میں آگ لگ گئی۔وہ آگ گوگو کے گھر کی دیواروں تک پہنچی۔لکڑی دھڑا دھڑ جلنے لگی۔”ہیلو! ہیلو! جلدی پہنچیں ہاتھی میاں!“ گوگو کی امی ہاتھی میاں کو فون کر چکی تھیں۔ہاتھی میاں جو جنگل کے فائر بریگیڈ تھے، اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ گوگو کے گھر کے باہر پہنچ گئے۔وہ اپنی سونڈوں میں تالاب کا بہت سارا پانی بھر کر لائے تھے۔جلد ہی آگ بجھ گئی۔سبز دیواریں جل کر سیاہ ہو گئی تھیں لیکن شکر ہے زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا۔گوگو نے امی کے ساتھ مل کر دیوار بنائی۔بندروں نے بھی ان کی مدد کی۔لکڑی کاٹ کاٹ کر دی۔اب کی بار، گوگو نے زرد رنگ کا پینٹ کیا ہے۔پیارے بچو! اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ کبھی بھی ماچس سے نہ کھیلیں۔جو کام خطرناک ہو وہ اپنے بڑوں سے کہیں خود کرنے کی کوشش نہ کریں۔ " عقلمند چوہیا - تحریر نمبر 2650,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aqalmand-chuhiya-2650.html,"فہیم یاسینایک چھوٹی سی پہاڑی میں چوہوں کے کئی بل تھے، اس پر پودے بھی لگے ہوئے تھے۔پودوں کے درمیان میں چوہوں کے بل دکھائی نہیں دیتے تھے۔ان بلوں میں ایک بل ایک چوہیا کا بھی تھا۔وہ اکیلی رہتی تھی۔وہ کافی عقلمند تھی، اکثر چوہے اپنے مسائل لے کر اس کے پاس آتے اور وہ اپنی عقل و فہم کے مطابق حل بتاتی۔اس کے مشورے اکثر چوہوں کی مشکل کو دور کر دیتے تھے۔اسی لئے سب چوہے اس کی بڑی عزت کرتے تھے۔ایک بار یوں ہوا کہ برسات کے موسم میں بارشیں خوب برسیں، جس کے باعث کئی کیڑے مکوڑے اور دوسرے جانور گھبرا کر ان بلوں کی طرف آ گئے۔چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے تو چوہوں کی غذا بن گئے، جبکہ بڑے کیڑوں کو انہوں نے وہاں سے مار بھگایا۔انہی میں ایک چھوٹا کچھوا بھی شامل تھا جو جسامت میں چوہوں سے تھوڑا سا بڑا تھا۔(جاری ہے)وہ ہر کسی کے بل میں گھس جاتا اور وہاں موجود ذخیرہ کی گئی خوراک چٹ کر جاتا۔چوہوں نے بڑی کوشش کی کہ اسے وہاں سے بھگا دیں،مگر انہیں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔کچھوا بڑا ہوشیار اور چالاک تھا۔وہ چوہوں کی ہر چال کو ناکام بنا دیتا تھا۔تنگ آ کر سب چوہے عقلمند چوہیا کے پاس گئے اور اس سے مدد طلب کی۔چوہیا نے سب چوہوں کو تسلی دی کہ وہ کچھوے سے نجات کے بارے میں کچھ سوچتی ہے۔چوہے اس کی تسلی پر واپس لوٹ گئے۔کچھ دور پودوں کی آڑ میں کچھوا ان کی سب باتیں سن رہا تھا۔کچھوے نے پہلے چوہیا کو سبق سکھانے کا ارادہ کیا۔وہ چپکے سے اس کے بل میں داخل ہو گیا۔چوہیا،کچھوے کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس سے کیسے جان چھڑائی جائے؟کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے چہرے پر گہرا اطمینان پھیل گیا،جیسے وہ کوئی فیصلہ کر چکی ہو۔کچھوا چوہیا کے بل میں داخل ہو گیا۔چوہیا نے کوئی سوال نہیں کیا بلکہ دو موٹے موٹے سرخ بیر طشت میں رکھ کر وہ اس کے پاس چلی آئی۔کچھوا حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔چوہیا نے کہا کہ اس وقت گھر میں اور کوئی چیز نہیں ورنہ خاطر تواضح زیادہ کرتی۔کچھوے نے دونوں سرخ بیر اٹھائے اور ایک ایک کر کے منہ میں ڈال لئے۔پیروں کا گودا بڑا رسیلا اور میٹھا تھا۔کچھوے نے سوچا کہ وہ اب یہیں رہے گا،کم از کم میٹھے بیر تو کھانے کو ملیں گے۔کچھوے کو معلوم نہیں تھا کہ پیر کے اندر گٹھلی ہوتی ہے،جسے چوس کر پھینک دیا جاتا ہے۔اس نے لالچ میں آ کر گٹھلی نگلنے کی کوشش کی تو وہ اس کے حلق میں جا پھنسی۔پھر کیا تھا؟کچھوا تکلیف سے بلبلا اُٹھا۔اس سے نہ تو بولا جا رہا تھا اور نہ ہی صحیح طرح سے سانس لی جا رہی تھی۔کچھ ہی دیر بعد اسے سانس لینا دشوار ہو گیا۔چوہیا یہ دیکھ کر بڑی پریشان ہوئی کہ اگر کچھوا اس کی بل میں ہی مر گیا تو اسے کون اٹھا کر باہر لے جائے گا؟اچانک اس کے ذہن میں ترکیب آئی۔اس نے کچھوے سے کہا کہ اگر وہ فوراً ڈاکٹر کے پاس چلا جائے تو وہ اس کی کچھ مدد کر سکتا ہے۔کچھوا تکلیف سے نہایت پریشان تھا۔اس نے اشارے سے ڈاکٹر کا پتا پوچھا تو اس نے اسے راستہ سمجھایا۔کچھوا گرتا پڑتا اُٹھا اور اس طرف چل پڑا۔اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا حلق تھام رکھا تھا۔راستہ بڑا خراب تھا۔ہر طرف کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔کچھوا اس سے بے خبر اپنی تکلیف کی شدت میں آگے بڑھتا چلا گیا۔چوہیا اس کا پیچھا کر رہی تھی۔کچھوا جب کافی آگے بڑھ آیا تو اس کے پاؤں کیچڑ میں دھنس گئے۔وہ حلق کی تکلیف کو بھول کر کیچڑ سے پاؤں نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ایک طرف گٹھلی حلق میں پھنسی ہوئی اذیت پہنچا رہی تھی تو دوسری طرف دلدل آہستہ آہستہ اس کا جسم نگلتا جا رہا تھا۔جب کچھوا دلدل میں بالکل غائب ہو گیا تو چوہیا نے اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس اپنے گھر لوٹ آئی۔کچھوے سے سب کی جان چھوٹ چکی تھی۔برسات کا موسم بھی ختم ہو چکا تھا تیز دھوپ ہر طرف پھل گئی تھی۔اب چوہوں کو کسی کا خوف باقی نہیں رہا تھا۔چوہیا نے سب کو اپنے گھر بلا کر ان کی دعوت کی اور انہیں ہنس ہنس کر بتایا کہ اس نے کیا ترکیب لڑائی کہ کچھوا خودبخود اپنے پیروں سے چل کر دلدل میں جا گھسا یہ سن کر سب چوہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور خوب ہلہ گلہ کیا۔ " حقیقی مجرم - تحریر نمبر 2649,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/haqeeqi-mujrim-2649.html,"ڈاکٹر طارق ریاضاسلم رات بھر بستر پر کروٹیں بدلتا رہا، لیکن نیند اس سے کوسوں دور رہی۔آخر خدا خدا کر کے ہر سُو اُجالا پھیلا تو اس نے بستر چھوڑا اور مزدوری پر جانے کی تیاری کرنے لگا۔مناسب آرام نہ ملنے کی وجہ سے اس کی طبیعت بوجھل تھی اور مزاج چڑچڑا تھا۔”اسلم! آج تم توجہ سے کام نہیں کر رہے، خیریت ہے!“ ٹھیکے دار نے اسے سست ہوتے دیکھ کر پوچھا۔اسلم نے سچ سچ بات کر ڈالی۔ٹھیکے دار پوری بات سن کر بولا:”تمہارے ہاتھوں کا قصور ہے،جو خود کو روک نہ سکے اور تمھیں زیادہ کھانا کھلا دیا۔“ ٹھیکے دار بات کر کے آگے بڑھ گیا،جبکہ اسلم کچھ سوچ کر اپنے ہاتھوں سے مخاطب ہوا:”تمہاری وجہ سے میری نیند خراب ہوئی۔“ہاتھوں نے گلے شکوے سنے تو جھٹ بولے:”ہمارا کوئی قصور نہیں۔(جاری ہے)تم نے اپنی مرضی سے ڈٹ کر کھایا۔بھلا ہم کیا کرتے۔“اب شامت مرضی کی آ گئی:”اے دل! یہ سارا کیا دھرا تمہارا ہے۔اگر تم چاہتے تو ہاتھوں کو زیادہ کھلانے سے روک سکتے تھے۔“ اسلم نے دل کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا۔دل بھلا کب خاموش رہتا ہے۔یہ پیدائش سے موت تک بغیر تھکے دھڑکتا ہے، کیونکہ دل کے عضلات جنھیں ”Cardiac Muscles“ کہا جاتا ہے، عمر بھر نہیں تھکتے۔دل نے گہری سانس لی اور بولا:”اب بھلا میرا کیا گناہ!میرے پاس کام بہت ہے۔میرے دائیں جانب سارے جسم سے خون صاف ہونے کے لئے آتا ہے اور پھیپھڑوں سے آ کر پورے جسم کو مہیا کیا جاتا ہے۔مجھے فرصت کہاں کہ اس طرح کے کام کروں!“ دل نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا اور بات ختم کرتے کرتے ذمے داری معدے پر ڈال دی۔معدہ (Stomach) بھی اب تک کی پوری گفتگو سن چکا تھا۔اپنی برائی سن کر بھڑک اُٹھا:”اچھا جی! کوئی نہ ملا تو ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔میں ساری باتیں سن چکا ہوں۔میری کوئی غلطی نہیں۔جیسے جیسے غذا معدہ میں پہنچتی رہی میری دیواروں سے متعدد رطوبتیں خارج ہو کر ہاضم کرتی رہیں۔بے تحاشا کھانے کے باوجود میں خوراک ہضم کرنے میں لگا رہا۔ساری رات آرام نہیں کر سکا۔دو وقت کا کھانا ایک بار کھانے کے بعد چہل قدمی نہ کرنے کی وجہ سے یہ گڑبڑ ہوئی۔پروٹین کو میں نے ہضم کیا، جب کہ چکنائی چھوٹی آنت میں ہضم ہو کر بدن میں جذب ہوئی۔اب اس سارے معاملے میں ہماری کوئی ذمے داری نہیں۔میرے خیال میں دانتوں کی شرارت ہے۔“ معدہ نے اسے اچھی خاصی سنا دی تھیں۔اسلم کا دھیان جھٹ دانتوں کی طرف گیا۔دانت بھلا کب اپنی بُرائی سن سکتے تھے،گنتی میں 32 تھے اور اکثریت میں تھے۔سامنے والا دانت ذرا ناراضی سے کہنے لگا:”جناب عالی!ہم ایسا ویسا کوئی کام نہیں کرتے۔ہمیں جو چبانے، کھانے، پینے کو ملتا ہے، پوری محنت اور لگن سے خوراک کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو چھوٹے ذرات میں تبدیل کر کے لعابِ دہن کی مدد سے خوراک کی نالی کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔نیند نہ آنے کا سبب ہماری وجہ سے نہیں!“ دانتوں نے متحد ہو کر کہا۔یہ تعداد میں زیادہ اور مضبوط تھے۔انھوں نے آنکھوں کو قصوروار ٹھہریا اور خاموش ہو گئے۔اسلم اب تک ہر طرح کی صفائیاں سن کر اُکتا گیا تھا۔وہ ناراضی سے آنکھوں سے مخاطب ہوا:”لو!اب تم ذمے دار ہو۔اگر تم وقت سے بند ہو جاؤ تو بھلا نیند کا مسئلہ نہ ہو۔“آنکھیں دو تھیں، فوراً متحد ہو کر یک زبان بولیں:”واہ جی واہ!ساری رات ہمیں زبردستی دبا دبا کر بند کرنے کی کوشش کرتے رہے۔پروردگار عالم نے رات آرام کے لئے پیدا کی ہے، لیکن افسوس کسی کا گناہ ہمارے سر پہ تھوپا جا رہا ہے۔ساری رات کروٹیں بدل بدل کر ہمیں زبردستی بند کیا گیا۔ہماری پلکوں کا کام آنکھوں کی حفاظت کرنا ہے۔وہ کام ہم کرتے رہے۔ہمارا کوئی قصور نہیں۔یہ سب دماغ کا کیا دھرا معلوم ہوتا ہے۔“”او میاں! کیا بات ہے! کہاں غائب ہو! جلدی جلدی کام مکمل کرو۔تنخواہ کام کی ملے گی، بیٹھنے کی نہیں۔“ ٹھیکے دار برہم ہو کر بولا۔اسلم جو جسم کے اعضاء سے جھگڑنے میں مصروف تھا،خیالوں کی دنیا سے نکلا اور کام شروع کر دیا، جبکہ جسم کے تمام اعضاء ہنسی مذاق میں لگ گئے۔وہ جانتے تھے کہ جو شخص فطرت کے قوانین سے دوستی نہیں رکھتا، وہ اسی طرح نقصان اُٹھاتا ہے۔اس معاملے میں یہ ہوا کہ زبان کا خیال کسی کو نہ آیا، جس نے ذائقے کا لالچ دے کر اسلم کو زیادہ کھلا دیا اور دل و دماغ کو ماؤف کر دیا۔حقیقت میں سب سے بڑا اور بنیادی جرم تو اسی کا تھا۔ " لالچی مکھی - تحریر نمبر 2648,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lalchi-makhi-2648.html,"عرفان خانایک دفعہ کا ذکر ہے ایک چیونٹی جو کے دانے جمع کرنے کے لئے ایک رستے سے گذر رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر شہد کے ایک چھتے پر پڑی۔شہد کی خوشبو سے اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔چھتا ایک پتھر کے اوپر لگا تھا۔چیونٹی نے ہر چند کوشش کی کہ وہ پتھر کی دیوار سے اوپر چڑھ کر چھتے تک رسائی حاصل کرے مگر ناکام رہی کیونکہ اس کے پاؤں پھسل جاتے تھے اور وہ گر پڑتی تھی۔شہد کے لالچ نے اسے آواز لگانے پر مجبور کر دیا اور وہ فریاد کرنے لگی:”اے لوگو، مجھے شہد کی طلب ہے۔اگر کوئی جواں مرد مجھے شہد کے چھتے تک پہنچا دے تو میں اسے معاوضے کے طور پر ایک جو پیش کروں گی۔“ایک پردار چیونٹی ہوا میں اُڑ رہی تھی۔اس نے چیونٹی کی آواز سنی اور اسے تنبیہ کرنے لگی:”دیکھو، ایسا نہ ہو کہ چھتے کی طرف چل دو۔(جاری ہے)اس میں بڑا خطرہ ہے۔“چیونٹی بولی، فکر نہ کرو، مجھے پتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔پردار بولی:”وہاں شہد کی مکھیاں ہیں جن کے ڈنک ہیں۔“چیونٹی بولی:”میں شہد کی مکھیوں سے نہیں ڈرتی، مجھے شہد چاہیے۔“پردار بولی:”شہد چپکاؤ ہے۔تمہارے ہاتھ پاؤں اس میں الجھ جائیں گے۔“چیونٹی بولی:”اگر یونہی ہاتھ پاؤں چپک جایا کرتے تو کوئی شہد نہ کھا پاتا۔“پردار بولی:”تم بہتر جانتی ہو۔لیکن آؤ، میری بات سنو اور شہد کا خیال چھوڑو۔میں پردار ہوں، سالخوردہ ہوں، اور تجربہ رکھتی ہوں۔چھتے کی طرف جانا بہت مہنگا پڑے گا اور ممکن ہے تم کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ۔“چیونٹی بولی:”اگر ممکن ہو تو اپنی مزدوری لو اور مجھے وہاں تک پہنچا دو۔اگر تم ایسا کرنے سے قاصر ہو تو زیادہ جوش نہ کھاؤ، مجھے کسی سرپرست کی ضرورت نہیں اور جو نصیحت کرتا ہے مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔“پردار بولی:”ممکن ہے کوئی ایسا نکل آئے جو تمہیں وہاں تک پہنچا دے لیکن اس میں کوئی بھلائی نظر نہیں آتی اور جس کام کا انجام اچھا نہ ہو، میں اس میں معاونت نہیں کرتی۔چیونٹی بولی:”خوامخواہ خود کو خستہ نہ کرو۔میں تو آج ہر قیمت پر چھتے تک پہنچوں گی۔“پردار نے اپنی راہ لی اور چیونٹی نے دوبارہ آواز لگائی:”کوئی ہے جواں مرد جو مجھے شہد کے چھتے تک پہنچا دے اور معاوضے میں ایک جو مجھ سے وصول کر لے؟اچانک ایک مکھی کا وہاں سے گذر ہوا۔“اس نے کہا:”بے چاری چیونٹی! تمہیں شہد کی طلب ہے اور تمہیں اس کا حق ہے۔میں تمہاری آرزو برلاتی ہوں۔“چیونٹی بولی:”اللہ برکت دے، خدا تمہاری عمر دراز کرے۔تمہیں کہتے ہیں خیرخواہ جانور۔“مکھی نے چیونٹی کو زمین سے اُٹھایا اور اسے چھتے کے قریب بٹھا کر خود اُڑ گئی۔چیونٹی حد درجہ مسرور تھی۔کہنے لگی:”واہ واہ!کیسی سعادت ہے کیسا چھتا ہے، کیسی اچھی بو ہے، کیسا عمدہ شہد ہے کیا مزہ ہے اس میں۔اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے۔چیونٹیاں کس قدر بدقسمت ہیں کہ گندم اور جو جمع کرتی رہتی ہیں اور کس وقت بھی ان کا رخ شہد کے چھتے کی جانب نہیں ہوتا۔“چیونٹی نے اِدھر اُدھر سے کچھ شہد چاٹا اور آگے بڑھتی گئی حتیٰ کہ شہد کے حوض میں جا پہنچی اور اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے ہاتھ پاؤں شہد سے چپک گئے ہیں اور اس کے لئے اپنی جگہ سے حرکت کرنا ممکن نہیں رہا۔اس نے اپنی نجات کے لئے جس قدر کوشش کی، بے نتیجہ رہی۔تب اس نے فریاد کی:”عجب طرح پکڑی گئی ہوں۔اس سے بڑھ کر اور کیا بدبختی ہو گی، اے لوگو!مجھے نجات دلاؤ۔کوئی جواں مرد مجھے نجات دلاؤ۔ہے کوئی جواں مرد مجھے اس چھتے سے باہر نکال لائے اور میں اسے ”دو جو“ انعام میں پیش کروں؟ پیشکش پہلے تھی اک جو کی سو اب دو کی ہے، اس جہنم سے نکلنے کی یہی سوجھی ہے!عین اس وقت پردار چیونٹی اپنے سفر سے واپس آ رہی تھی۔اسے اس حال میں دیکھ کر پردار کو بڑا دکھ ہوا اور اس نے فوراً اس کو مصیبت سے نکالا۔پھر بولی:”میں تمہیں سرزنش نہیں کرنا چاہتی لیکن اتنی بات ضرور کہوں گی کہ زیادہ لالچ گرفتاری کا سبب بن جاتا ہے۔“آج تو تمہارا نصیب بلندی پر تھا کہ میں اچانک یہاں پہنچ گئی لیکن آئندہ محتاط رہنا۔گرفتاری سے پہلے نصیحت کو غور سے سن لینا اور کسی مکھی سے مدد نہ مانگنا۔مکھی چیونٹی کی ہمدرد نہیں اور اس کے لئے چیونٹی کا خیر خواہ ہونا ممکن بھی کہاں ہے؟ " قیمتی نصیحت - تحریر نمبر 2647,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qeemti-naseehat-2647.html,"جدون ادیبسر طلحہ ایوب تربیہ کمیٹی کے نگراں تھے۔یہ کمیٹی بچوں کی اخلاقی تربیت مزید بہتر بنانے کے لئے قائم ہوئی تھی۔کچھ دن تو خیر سے گزرے، مگر اسکول میں ایک دن چوری ہو گئی۔دوسرے دن پھر چوری ہوئی تو ایک کھلبلی سی مچ گئی۔پرنسپل صاحب کو اس اطلاع سے تشویش ہوئی۔انھوں نے کہا کہ ہمارا اسکول اچھی تربیت کے لئے معروف ہے۔ہم ایسی کسی حرکت کو برداشت نہیں کریں گے۔سر سہیل نے بچوں کو بتایا کہ پچھلے سال ان کو راہداری سے ہزار روپے کا نوٹ ملا۔اعلان کرنے کے بعد بھی اسے کوئی لینے نہ آیا۔پھر اس نوٹ کو تختہ اطلاع پر لگا دیا گیا کہ جس کا ہے، آ کر لے جائے، مگر تب بھی کسی نے نہیں اُتارا۔ایک ایسے تربیت والے اسکول میں یوں چوریاں ہوں گی تو ہماری تربیت پر سوال اُٹھیں گے۔(جاری ہے)اگلے دو روز امن رہا۔سب مطمئن ہو گئے، مگر پھر ایک جماعت سے کچھ بچوں کی چیزیں غائب ہو گئیں۔سب سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔پرنسپل صاحب خاص طور پر پریشان تھے۔ان واقعات نے اسکول کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا تھا۔ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں!وہ پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے کہ سر طلحہ ایوب اہم اطلاع لے کر آئے۔ان کے پاس ایک تھیلا تھا۔انھوں نے تھیلا میز پر اُنڈیلا تو اس میں سے بہت سارے قلم،جیومیٹری بکس اور دوسری چیزیں نکلیں۔پرنسپل صاحب نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔سر طلحہ ایوب بولے:”سر!مجھے یہ سارا سامان سائنس لیب میں ایک الماری کے پیچھے سے ملا ہے۔“پرنسپل صاحب نے سوچتی ہوئی نظروں سے ان کی طرف دیکھا تو وہ بولے:”معاملہ چوری کا نہیں ہے۔الحمدللہ ہمارے بچوں کا تعلق خوشحال اور اسلامی ذہن رکھنے والے گھرانوں سے ہے۔لگتا ہے، کوئی نفسیاتی وجہ یا کوئی اور معاملہ ہے، میرے پاس ایک تجویز ہے!“پرنسپل صاحب نے ان کی تجویز سن کر ہامی بھر لی اور پھر نتیجہ جلد سامنے آ گیا۔سر طلحہ نے پرنسپل صاحب کو ایک ویڈیو دکھائی۔ایک بچہ جسے معلوم نہ تھا کہ وہاں کیمرہ لگا ہوا ہے،چپکے سے اندر داخل ہوتا ہے اور ہاتھ میں پکڑی ایک نوٹ بک اُٹھا کر الماری کے پیچھے پھینک دیتا ہے۔”یہ کون ہے؟“ پرنسپل صاحب نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔”یہ شکیل ہے۔مشہور تاجر کا بیٹا جو ہر نیکی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور خود شکیل اپنی جیب خرچ سے دوسروں کی مدد کرتا ہے!اگر آپ اجازت دیں تو شکیل کو بلا کر بات کروں!“ سر طلحہ نے جواب دیا۔”نہیں، یہ مناسب نہیں ہو گا۔میں سر رضوان سے کہتا ہوں۔ان کو ویسے بھی بچے بہت پسند کرتے ہیں۔وہ اس معاملے کی کھوج لگا لیں گے۔“پرنسپل صاحب کے حکم پر سر رضوان کو معاملے کی کھوج کا حکم ملا۔انھوں نے شکیل کو لائبریری میں کچھ ذمے داری سونپنے کے بہانے بلایا اور اس سے بات چیت کرنے لگے۔آخر شکیل کے منہ سے انھوں نے وہ سن لیا جو وہ چاہتے تھے۔”سر!یہ بات کسی کو مت بتائیے گا۔“ شکیل نے التجا کی:”میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا کچھ نہیں کروں گا۔“”اس پر بعد میں بات کریں گے۔“ سر رضوان نے اسے تھپکی دی۔سر رضوان پرنسپل صاحب سے ملے اور ان کو ساری بات بتائی۔معاملہ یہ تھا کہ سر طلحہ ایوب نے بھری جماعت میں شکیل کو سخت الفاظ کہے، جسے اس نے اپنی توہین سمجھا اور وہ جذبہ انتقال میں جلنے لگا، پھر اس نے چوری کرنا شروع کر دیں،تاکہ سر طلحہ ایوب کا تربیتی عمل متاثر ہو۔پرنسپل صاحب نے سارا معاملہ جان کر سوچ میں پڑ گئے۔انھوں نے سر طلحہ ایوب کو بلایا۔سارا معاملہ ان کے علم میں لائے اور آخر میں بولے:”میں آپ کے کام اور طریقہ کار پر بات نہیں کروں گا، فقط اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نرم مزاج،صبر کرنے والے اور خوش اخلاق نہ ہوتے تو اسلام اتنی جلدی اور تیزی سے نہ پھیلتا․․․․“سر طلحہ ایوب چپ ہو گئے۔وہ دوسروں کو نصیحت کرتے تھے، مگر آج ان کو ایک قیمتی نصیحت حاصل ہو گئی تھی۔ " نصیحت بنی نجات - تحریر نمبر 2646,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naseehat-bani-nijaat-2646.html,"ہانیہ فاطمہ کھرل، لاہورایک دن احمد اور ایمن کے امی ابو نے جنگل میں سیر کو جانے کا پروگرام بنایا۔اگلے دن جنگل پہنچ کر انھوں نے خیمے لگائے اور سب جنگل میں سیر کرنے لگے۔انھوں نے قسم قسم کے پھل دار درخت،خوبصورت پھول اور بیلیں دیکھیں۔وہاں پر انھیں تیتر،کوئل،فاختہ اور ہُدہُد وغیرہ بھی دیکھنے کو ملے۔شام ہوئی تو وہ سب اپنے خیموں کی طرف واپس لوٹ آئے اور آگ جلا کر کھانا پکایا گیا۔کھانے کے بعد وہ سب خیمے میں چلے گئے۔ایمن اور احمد کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ان کا دل جنگل میں جانوروں کو ڈھونڈنے اور دیکھنے کو چاہ رہا تھا۔حالانکہ ان کے والدین نے انھیں سختی سے منع کیا تھا کہ خیمے سے باہر نہ نکلنا۔وہ یہ نصیحت بھول گئے اور جنگل کا جائزہ لینے چل پڑے۔(جاری ہے)اس شب چودھویں کی رات تھی اور چاند کی روشنی سے ہر چیز واضح دکھائی دے رہی تھی۔چلتے چلتے انھیں محسوس ہوا کہ وہ کافی دور آ گئے ہیں۔انھوں نے واپس جانا چاہا تو انھیں یاد نہ رہا کہ وہ کہاں سے آئے تھے،اس لئے وہ ایک درخت کے کٹے ہوئے تنے پر بیٹھ گئے۔کچھ دور انھیں روشنی سی نظر آئی۔وہ ایک جھونپڑی تھی۔دونوں اسی طرف چل دیے۔انھوں نے دروازے پر دستک دی تو تھوڑی دیر بعد ایک بزرگ باہر آئے۔بچوں نے انھیں سلام کیا:”السلام علیکم دادا جی!ہم راستہ بھٹک گئے ہیں۔کیا آپ ہماری مدد کریں گے؟“بزرگ نے سلام کا جواب دے کر پوچھا:”اتنی رات میں یہاں کیسے اور کیوں آئے؟“ایمن بولی:”ہم جانور دیکھنے اپنے خیمے سے دور آ گئے اور کھو گئے۔“بزرگ نے کہا:”بیٹی!تم دونوں کو اپنے امی کے بغیر نہیں آنا چاہیے تھا۔“دونوں نے کہا:”جی ہم اپنی غلطی مانتے ہیں۔“بزرگ نے کہا:”آؤ میں تم دونوں کو تمہارے والدین کے پاس لے جاؤں۔“وہ دونوں ان بزرگ کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی امی ابو کے پاس آ پہنچے۔جہاں ان کے والدین انھیں اِدھر اُدھر پہلے ہی سے تلاش کر رہے تھے۔انھوں نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا۔بچوں نے والدین سے معافی مانگی اور آئندہ ایسی حرکت کرنے سے توبہ کر لی۔ " خوبصورت رشتہ - تحریر نمبر 2644,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khubsurat-rishta-2644.html,"حسن اختریہ بات تو بارہا سنی تھی کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔تاہم عمر صاحب کو عملی طور پہ اس کا تجربہ اس وقت ہوا جب وہ اپنے شہر کے تھانہ روڈ پر واقع بازار پہنچے۔ننھا حسین بھی اُن کی انگلی تھامے ہمراہ تھا۔وہ قدم قدم پر کود کود کر ابو کے ہاتھ کی انگلیوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے کھینچتا اور روک لیتا۔کھلونوں کی دکانوں سے کبھی ٹریکٹر ٹریلر،کبھی کار تو کبھی گائے بھینسیں اور جنگلی جانور لینے کی ضد کرتا۔ابو جان بیٹے کی تمام تر چھوٹی چھوٹی فرمائشوں کو بڑی فراخدلی سے پورا کر رہے تھے۔اچانک ان کو کچھ یاد آیا اور وہ زیر لب ہی مسکرانے لگے۔وہ تخیل میں 30 سال پیچھے چلے گئے تھے۔وہ کھلونوں کی ان دکانوں پہ کھڑے ایک خوشگوار حیرت کے احساس میں مبتلا تھے۔(جاری ہے)وہ تخیل کی دنیا سے اس وقت باہر آئے جب حسین نے پوچھا۔”ابو جان! آپ کے مسکرانے اور چہرے پر غیر معمولی خوشی کی وجہ کیا ہے؟“آج شام کے کھانے کے بعد بتاؤں گا، تم مجھے ضرور یاد دلانا۔ابو جی نے جواب دیا۔حسین نے بھی یاد دہانی کا وعدہ کر لیا۔کھلونے خریدنے سے فراغت پا کر دونوں باپ بیٹا گھر کا راشن خریدنے کریانہ اسٹور میں پہنچے۔عمر صاحب کو اچانک ایک بار پھر سے کچھ خوشگوار سا احساس ہوا اور وہ مسکرائے تو حسین نے پوچھا ”ابو جان!اب کیا بات ہے؟“ ابو جی نے حسین کو پیار کیا اور بتایا ”یہ بھی اُسی بات کا تسلسل ہے جو رات کو آپ کو بتانی ہے۔“خشک راشن لے کر باپ بیٹا پھل اور سبزی لینے کے لئے متعلقہ دکان پر پہنچے۔عمر صاحب نے دکاندار کو سلام کیا۔اس کی طرف دیکھا پھر حسین کی طرف دیکھا اور اُن کے ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ بکھر گئی جو دو دفعہ پہلے بھی حسین کو دیکھ چکا تھا۔اب کی بار حسین کا تجسس اور بے قراری بڑھ گئی اس نے کہا ”ابو جان! کیا یہ بھی اُسی واقعے کا تسلسل ہے جو رات کو سنائیں گے؟“ عمر صاحب نے پیار بھری نگاہوں سے حسین کو دیکھا اس کی ذہانت کی بے ساختہ داد دی اور بولے ”جی بیٹا جی!یہ مسکراہٹ اور خوشگواری بھی اسی چیز کا حسین تسلسل ہے“ اب تو حسین کی بے قراری بام عروج پر پہنچ چکی تھی وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر ماجرا ہے کیا؟خریداری مکمل کرنے کے بعد دونوں باپ بیٹا گھر آ گئے۔عمر صاحب آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلے گئے حسین نئے کھلونوں کے ساتھ کھیلنے میں محو ہو گیا تاہم بازار میں پیش آنے والا واقعہ اور ابو جان کا وعدہ بالکل نہ بھولا۔شام کے کھانے کے بعد ابو جان عشاء کی نماز کے لئے مسجد چلے گئے واپسی پر ننھا حسین اپنی امی جان کے ہمراہ ان کا منتظر تھا۔اس کی امی بھی اس عجب اور خوشگوار قصے کو سننے کے لئے بے تاب تھیں۔انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور عمر صاحب کہنے لگے۔”بیٹا! جیسے ہی آج میں اور آپ بازار پہنچے اور اس کے بعد جو ہماری خریداری اور گھومنے پھرنے کی ترتیب رہی وہ بالکل ایسی ہی تیس سال پرانی ایک باپ اور بیٹے کی طرف سے کی گئی خریداری کا پر تو تھی۔گویا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی۔باقی سب کچھ یکساں تھا بس کردار تبدیل ہوئے تھے اس واقعے میں جو لڑکا بیٹا تھا آج وہ باپ کے کردار میں تھا اور ایک کردار جو نیا شامل ہوا تھا وہ تھا بیٹا اور جانتے ہو وہ کون تھا؟“حسین جو بہت ذہین اور حاضر دماغ بچہ تھا فوراً معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا۔بولا:”جی بالکل ابو حضور!آج سے تیس سال قبل آپ بیٹے کے کردار میں تھے اور دادا حضور مرحوم باپ کے کردار میں۔اور آج والے واقعے کا نیا کردار میں تھا۔“ عمر صاحب نے بے ساختہ حسین کی ذہات کی داد دی اور کہا:”بالکل اسی طرح میں اپنے ابو حضور کا ہاتھ تھامے کھلونوں کی دکانوں کے سامنے سے گزرتا تھا تو بالکل تمہاری طرح ان کی انگلیاں کھینچ کر روک لیتا تھا اور کھلونے لینے کی ضد کرتا تھا۔وہ بھی مجھے ایسے ہی کھلونے لے کر دیتے تھے جیسے آج میں نے تمہیں لے کر دیئے ہیں“ حسین کا تجسس ابھی پوری طرح ختم نہ ہوا تھا۔اس نے فوراً اگلا سوال کر دیا ”اور جو کریانہ اسٹور پر آپ کو ایک خوشگوار احساس ہوا تھا اس کی کیا وجہ تھی؟“ابو جی بولے ”معاملہ یہاں بھی یکساں تھا بس کرداروں میں تبدیلی آ چکی تھی۔اس وقت کریانہ اسٹور ابو حضور کے دوست اللہ داد مرحوم چلایا کرتے تھے اور آج ان کا بیٹا سلیم چلاتا ہے آج دکاندار کی جگہ اس کے بیٹے نے لے لی تھی اور گاہک کی جگہ بھی اس وقت کے گاہک کا بیٹا کھڑا تھا۔جب ہم سبزی اور پھل کی دکان پر پہنچے تو معاملہ وہاں بھی یکساں تھا بس کرداروں کی جگہ ان کے بیٹوں نے لے لی تھی۔یہ تمام واقعات تیس برس پرانے واقعات کے عکس تھے میں تاریخ کے اس عجب اور حسین اتفاق پر خوش بھی ہوا تھا اور حیران بھی“ عمر صاحب کی گفتگو سن کر حسین کی امی کہنے لگیں ”واقعی باپ بیٹے کا یہ رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی یہ دنیا اور ان کی دوستی میں عجب بے تکلفی ہوتی ہے۔ہمیں شکر ادا کرنا چاہئے کہ تاریخ کے اس حسین سلسلے کا حصہ بنے ہیں۔ہر بیٹا اپنے باپ کا پر تو ہوتا ہے۔تاریخ کے یہ اتفاقیہ موڑ خوش قسمت لوگوں کی زندگی میں آتے ہیں“ ان کی یہ خوبصورت باتیں سنتے ہوئے سب کی آنکھوں میں خوشی اور تشکر کے آنسو تھے۔عمر صاحب اور حسین کی امی نے بیٹے کے بہتر مستقبل کے لئے دعا کی اور اسے خوب پیار کیا حسین نے قدرت کا شکر ادا کیا کہ ”اس نے اسے اس قدر شفیق والدین کی نعمت سے سرفراز کیا“ اس نے امی ابو سے وعدہ کیا کہ ”وہ ہمیشہ ان کی توقعات پر پورا اُترے گا۔“ " رمضان اور بچے - تحریر نمبر 2643,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ramzan-aur-bache-2643.html,"افضل خانرمضان ایک ایسا مہینہ ہے جو بہتر انسان اور بہتر مسلمان بننے کے شوق کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے،مسلمان کے لئے نئی جہتیں لے کر آتا ہے۔اس ماہ نیکیوں کے حصول اور گناہوں سے بچنے کے لئے عملی اقدامات پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔اور انسان کے قول و فعل میں آنے والی تبدیلی سب کی نظروں میں آ جاتی ہے۔خصوصاً بچے اس تبدیلی کو جلد محسوس کر لیتے ہیں۔بچے کی فطرت ہے کہ وہ سوالات و مشاہدات کے ذریعے ہی ذہنی گرہوں کو کھولتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بچے کے سوال پر اس کی کردار سازی کرتے ہیں۔اسی طرح رمضان میں والدین اور ارد گرد کے افراد کی حرکات و سکنات سے متعلق سوالات سے ان کی ذہنی رو اپنے مذہب کی طرف متوجہ ہو گی اور وہ اسلام کے ایک اچھے کارکن بننے کی راہ پر چل پڑیں گے۔(جاری ہے)رمضان میں بچوں کی بھرپور توجہ ان میں سمجھ بوجھ کے دروازے کھول دیتی ہے۔رمضان کا مہینہ آپ کے بچے کی تربیت کر رہا ہوتا ہے۔رمضان میں سحری کے وقت جاگنا معمول سے مختلف عمل ہوتا ہے اور بچے اس عمل کو حیرت سے دیکھتے ہیں۔اس وقت مائیں بچوں کو بتا سکتی ہیں کہ کھانے کا اہتمام حضور کی سنت اور اللہ کے حکم کی پیروی کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ایک خاص وقت میں کھانا مکمل کرنا اور غروب آفتاب تک کھانے پینے سے بعض رہنا بچے میں برداشت کا مادہ پیدا کرتا ہے۔بچوں کو جو نصیحت کریں۔پہلے خود اس پر ان کو عمل کر کے دکھائیں۔عبادات کا بھی یہی معمول بنائیں۔نماز اور قرآن بچوں کے سامنے پڑھیں اور انہیں بھی پڑھنے کی تلقین کریں۔بچے کو اپنے عمل سے عبادت کی طرف راغب کریں۔اس طرح بچے کو آپ کا طرز عمل اپنانے میں آسانی ہو گی۔ " حامد میاں اور رنگ برنگے پھول - تحریر نمبر 2642,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hamid-mian-aur-rang-birange-phool-2642.html,"ہماء غفارمیرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے بچے حامد میاں کی جنہیں پھول بہت پسند تھے۔ان کی کوشش ہوتی کہ وہ جہاں بھی پھول دیکھیں بس اسے توڑ کر اپنے پاس رکھ لیں۔حامد میاں جب شام کو باغ کی سیر کرنے جاتے بہت سارے پھول توڑ کر لے آتے۔مالی انکل نے انہیں بہت سمجھایا لیکن حامد میاں رنگ برنگے پھولوں کو دیکھ سب کچھ بھول جاتے تھے۔ایک دن وہ اپنے دوست علی کے گھر گئے۔علی کے گھر کے باہر ایک پیاری سی کیاری تھی۔اس میں بہت سارے پھول لگے ہوئے تھے۔گلاب کا پھول سرخ رنگ کا تھا۔گیندے کا پھول نارنجی رنگ کا تھا۔ایک طرف سفید موتیے کا پودا تھا۔بائیں طرف چنبیلی کے پھول لگے ہوئے تھے۔دائیں طرف گل داودی کے پھول تھے۔حامد میاں نے جلدی جلدی علی کی امی کا دیا ہوا شربت پیا اور علی کے ساتھ کیاری کی طرف چلے گئے۔(جاری ہے)”علی! میں تھوڑے سے پھول توڑ لوں؟“ حامد میاں نے پوچھا۔”نہیں نہیں!مالی انکل منع کرتے ہیں۔“”میں بس تھوڑے سے توڑوں گا۔“ حامد میاں نے کہا۔پھر انہوں نے جلدی جلدی موتیے،گلاب اور گیندے کے پھول توڑے اور انہیں اپنے ساتھ لائے ہوئے ایک بیگ میں رکھ لیا۔شام کو وہ امی جان کے ساتھ گھر واپس آئے تو بہت تھک گئے تھے۔انہوں نے کھانا کھایا اور سو گئے۔آدھی رات کو حامد میاں کی آنکھ کھل گئی۔کوئی ان کے کمرے میں آہستہ آہستہ باتیں کر رہا تھا۔حامد میاں ڈر گئے۔پھر انہوں نے غور سے سنا۔گلاب کا پھول کہہ رہا تھا۔”دوستو!یہ بچہ کتنا گندا ہے۔ہمیں توڑ کر لے آیا ہے۔اف!میں تو مرجھانے لگا ہوں۔“پھر موتیے کے پھول کی آواز آئی۔”ہائے میں کتنا خوش رہ رہا تھا اپنے پودے پر۔اب تو میں بس تھوڑی دیر بعد گر جاؤں گا۔“ گل داودی بھی رو رہا تھا۔”دوستو! مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔حامد نے مجھے بہت زور سے توڑا۔“ چنبیلی بھی بہت اداس تھی۔وہ کہہ رہی تھی۔”اف!میرا تو سارا رنگ خراب ہو گیا ہے۔حامد اچھا بچہ نہیں۔یہ اکثر پھول توڑتا رہتا ہے۔وہ دیکھو ٹوکری میں پہلے سے مرجھائے ہوئے پھول پڑے ہوئے ہیں۔“ سب پھولوں نے جھک کر ٹوکری میں دیکھا تو اور اداس ہو گئے۔”آہ!حامد کتنا گندا بچہ ہے۔آہ اوہ۔“”چلو حامد کی شکایت مالی انکل سے لگاتے ہیں۔مجھے پتہ ہے وہ حامد کو ضرور سزا دیں گے۔“ ”ہاں!چلو چلو!“سب پھولوں نے کہا۔”نہیں!نہیں!رک جاؤ۔پلیز میری شکایت نہ لگاؤ۔“ حامد میاں نے زور سے کہا۔پھر آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔انہوں نے دیکھا۔پھول خاموش ہو گئے تھے۔وہ سب بہت اداس لگ رہے تھے۔ان کے رنگ زرد ہو چکے تھے۔حامد میاں کچھ دیر پھولوں کو دیکھتے رہے۔پھر بولے۔”مجھے معاف کر دو۔اب مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ پھولوں کو کتنا درد ہوتا ہے۔میں وعدہ کرتا ہوں اب کوئی پھول نہیں توڑوں گا۔“پیارے بچو! اس دن کے بعد سے حامد میاں نے کبھی پھول نہیں توڑے۔اب وہ باغ کی سیر کرنے جاتے ہیں تو پھولوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں۔پھول بھی ان کو دیکھ کر مسکراتے ہیں۔سب کے سب پھول حامد میاں کے دوست بن گئے ہیں۔ " زندگی کا انمول سبق - تحریر نمبر 2641,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zindagi-ka-anmol-sabaq-2641.html,"شازیہ مبشرایک آدمی کے چار بیٹے تھے۔وہ چاہتا تھا کہ اس کے بیٹے یہ سبق سیکھ لیں۔کہ کسی کو پرکھنے کو جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔لہٰذا اس بات کو سمجھانے کے لئے اس آدمی نے اپنے بیٹوں کو ایک سفر پر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا اور دور دراز علاقے میں ناشپاتی کا ایک درخت دیکھنے کے لئے بھیجا۔ایک وقت میں ایک بیٹے کو سفر میں بھیجا کہ جاؤ اور اس درخت کو دیکھ کر آ جاؤ۔باری باری سب کا سفر شروع ہوا۔پہلا بیٹا سردی کے موسم میں گیا۔دوسرا بہار میں۔تیسرا گرمی کے موسم میں۔اور سب سے آخر والا چھوٹا بیٹا خزاں کے موسم میں گیا۔جب سب بیٹے اپنا اپنا سفر ختم کر کے واپس لوٹ آئے تو اس آدمی نے اپنے چاروں بیٹوں کو ایک ساتھ طلب کیا اور سب سے ان کے سفر کی الگ الگ تفصیل کے بارے میں پوچھا۔(جاری ہے)پہلا بیٹا جو جاڑے کے موسم میں اس درخت کو دیکھنے گیا تھا۔اس نے کہا۔ابا جان وہ درخت بہت بدصورت،جھکا ہوا اور ٹیڑا سا تھا۔دوسرے بیٹے نے کہا۔اے والدِ محترم وہ درخت تو ہرا بھرا تھا۔ہرے بھرے پتوں سے بھرا ہوا تھا۔تیسرے بیٹے نے ان دونوں بھائیوں سے اختلاف کیا کہ وہ درخت تو پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔اور یہ کہ اس سے حسین منظر پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنے سب بھائیوں سے اتفاق ظاہر کیا کہ وہ ناشپاتی کا درخت تو پھل سے لدا ہوا تھا اور ان پھل کے بوجھ کی وجہ سے وہ درخت زمین پر لگا ہوا تھا اور زندگی سے بھرپور نظر آ رہا تھا۔اس سب کے بعد اس آدمی نے مسکرا کر اپنے چاروں بیٹوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم چاروں میں سے کوئی بھی غلط نہیں کہہ رہا۔سب اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔بیٹے باپ کا جواب سن کر بہت حیران ہوئے کہ ایسا کس طرح ممکن ہے۔باپ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرے بیٹوں تم کسی بھی درخت یا آدمی کو صرف ایک موسم یا ایک حالت میں دیکھ کر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔کسی فرد کو جانچنے کے لئے تھوڑا وقت ضروری ہوتا ہے۔انسان کبھی کس کیفیت میں ہوتا ہے تو کبھی کس کیفیت میں۔اگر درخت کو تم نے جاڑے کے موسم میں بے رونق دیکھا ہے کہ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس پر کبھی پھل نہیں آئے گا۔اسی طرح اگر کسی آدمی کو تم فقیری کی حالت میں دیکھ رہے ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آدمی برا ہی ہو گا۔میرے بیٹوں کبھی بھی جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کرو۔کسی کو اس وقت سمجھایا پرکھا جا سکتا ہے جب یہ تمام موسم اس کے اوپر گزر جائیں۔اگر تم سردی کے موسم میں ہی اندازہ لگا کر نتیجہ اخذ کر لو گے تو گرمی کی ہریالی۔بہار کی خوبصورتی اور بھرپور زندگی سے لطف اندوز ہونے سے رہ جاؤ گے۔ " صبر کا مہینہ - تحریر نمبر 2640,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sabar-ka-mahina-2640.html,"انیلا طاہر، کراچیرمضان المبارک کی آمد آمد تھی۔فاطمہ کا گھرانہ رمضان کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ان کے ہاں رمضان میں افطاری کا بہت اہتمام کیا جاتا تھا۔اس بار اور زیادہ کیا جانا تھا،کیونکہ اس بار فاطمہ کی خالہ عائشہ اپنی دو بیٹیوں بینا اور صبا کے ساتھ لندن سے ان کے گھر آ رہی تھیں۔فاطمہ کو سحری کے لئے جاگنا بہت مشکل لگتا تھا۔اس بار رمضان کے مہینے میں اسکول کی چھٹیاں بھی تھیں۔سحری کے بعد نماز پڑھ کر جو سوتی تو ظہر سے ذرا پہلے جاگتی،پھر تھوڑی دیر بعد امی سے پوچھتی کہ افطاری میں کیا بنا رہی ہیں۔اس کی والدہ جن چیزوں کا نام لیتیں تو منہ بسور لیتی اور اپنی پسند کی ایک آدھ چیز ضرور بنواتی۔اس کی امی تین بجے سے ہی افطار کی تیاریوں میں لگ جاتیں۔(جاری ہے)سحری کے لئے الگ سالن بنتا۔ساتھ میں کچھ چیزیں افطاری کے لئے اور دو قسم کے مشروب تو ضرور بنتے تھے۔فاطمہ اپنی امی کی مدد بھی نہ کرواتی اور عشاء کی نماز پڑھ کر ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاتی یا فضول قسم کے گیم شوز سے لطف اندوز ہوتی۔فاطمہ کی خالہ زاد بہنوں نے اس کے یہ معمولات دیکھے تو بہت افسردہ ہوئیں۔عائشہ خالہ کے گھرانے کے طور طریقے مختلف تھے۔وہ بے جا اصراف کی قائل نہیں تھیں۔وہ افطاری میں بس کھجور کے ساتھ پانی پی کر افطار کرتیں اور پھر نمازِ مغرب ادا کر کے کھانا کھا لیتیں اور پھر تراویح کی تیاری کرتیں۔فجر کے بعد عائشہ خالہ اور ان کی بیٹیاں قرآن پاک کی تلاوت کرتیں۔تھوڑی دیر آرام کرتیں پھر قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر پڑھتیں۔ہلکا پھلکا کھانے کی وجہ سے عبادت میں سستی اور گرانی محسوس نہیں ہوتی تھی۔انھوں نے فاطمہ کو بھی سمجھایا کہ رمضان کا مہینہ ہمیں صبر کا درس دیتا ہے،نہ کہ حرص کا۔جب ہم سادہ اور کم کھانا کھائیں گے تب ہی ہمیں غریب کی مشکلوں کا احساس ہو گا۔فاطمہ اور اس کی والدہ بہت شرمندہ ہوئیں کہ عائشہ خالہ نے غیر اسلامی ملک میں رہتے ہوئے بینا اور صبا کی پرورش اسلامی اُصولوں کے مطابق کی ہے اور وہ اسلامی ملک میں رہتے ہوئے بھی اسلام کی بنیادی تعلیمات سے دور ہیں۔انھوں نے عبادت کی روح کو سمجھا ہی نہیں۔فاطمہ اور اس کی امی عید کی خریداری آخری عشرے میں کرتی تھیں۔جب بازار میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی اور ہر چیز کا بھاؤ آسمان سے باتیں کر رہا ہوتا ہے،لیکن انھیں ان سب باتوں کی بالکل پروا نہیں تھی۔اس بار عائشہ خالہ نے ان کو بازار نہیں جانے دیا،بلکہ جو تحائف وہ وہاں سے لائی تھیں،ان سے کہا:”تم لوگ عید پر یہی پہننا۔مقدس راتوں کو اور ان قیمتی لمحات کو بازاروں میں ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔“خیریت سے جب رمضان ختم ہوا تو اس بار عید پر فاطمہ اور اس کی امی کو الگ ہی سکون محسوس ہوا،کیونکہ اس بار انھوں نے رمضان المبارک الگ طریقے سے گزارا تھا۔اس مبارک مہینے سے فیض یاب ہونے کی کوشش بھی کی۔انھوں نے عائشہ خالہ کا دل سے شکریہ ادا کیا،جنہوں نے ان کی رہنمائی کر کے انھیں اندھیروں سے نکالا۔ " بادشاہ اور سات شہزادیاں - تحریر نمبر 2639,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-aur-saat-shehzadiyan-2639.html,"انجم قدوائیایک بادشاہ تھا۔اس کی سات لڑکیاں تھیں۔وہ ان ساتوں سے بے حد محبت کرتا تھا اور ان کے ہر آرام کا خیال رکھتا تھا۔ایک بار جب دسترخوان سجا ہوا تھا وہ سب لوگ ساتھ کھانے پر بیٹھے تھے بادشاہ نے اپنی بیٹیوں سے ایک سوال پوچھ لیا۔کہ تم لوگ مجھے کتنا چاہتی ہو۔بڑی شہزادی نے کہا”بابا!میں آپ کو گلاب جامن کی طرح چاہتی ہوں“۔بادشاہ نے خوش ہو کر اس کو چار گاؤں دے دیئے۔دوسری نے کہا ”میں آپ کو برفی کی طرح چاہتی ہوں“۔بادشاہ نے اس کو کافی بڑا علاقہ بخش دیا۔تیسری لڑکی نے کہا ”میں آپ کو امرتی کی طرح چاہتی ہوں“۔اس کو بھی بادشاہ نے بہت زمین جائیداد دے دی۔اسی طرح وہ سب سے پوچھتا گیا اور سب کو مال و دولت ملتی رہی۔ساتویں لڑکی سے جب بادشاہ نے پوچھا بیٹی تم مجھے کتنا چاہتی ہو تو اس نے بہت پیار سے کہا۔(جاری ہے)”بابا میں آپ کو نمک کے برابر چاہتی ہوں“۔یہ سن کر بادشاہ کو جلال آ گیا۔کہنے لگے ”سب مجھے اتنا چاہتے ہیں تم نمک کے برابر؟“ وہ بہت ناراض ہوئے اور چھوٹی بیٹی کو محل سے نکال دیا اور کہا اب کبھی یہاں قدم نہ رکھنا۔وہ جنگل کی طرف چلی گئی اور پتوں اور لکڑیوں کو ملا کر ایک جھونپڑی بنا کر وہاں رہنے لگی۔بھوک لگتی تو پھل کھا لیتی سوکھے پتوں کا بستر بنا کر سو جاتی۔ایک دن جب وہ سو کر اٹھی تو دیکھا کہ رنگ برنگی چڑیوں کے پر ہر طرف بکھرے پڑے ہیں اس نے ان پروں کو جمع کیا اور ایک چھوٹی سی پنکھیا بنا لی۔(چھوٹا پنکھا جو ہاتھ سے جھل سکتے ہیں) اور گرمی میں اسی پنکھیا سے ہوا کر لیتی تھی پھر دوسرے دن اس کو اور پر مل گئے اس نے بہت سارے پر اکٹھا کیے اور کئی پنکھیا بنا لیں اور جنگل کے کناری سڑک کے پاس جا کر بیٹھ گئی اپنا چہرہ چادر سے ڈھانپ لیا۔لوگ آتے گئے اور پنکھیاں خریدتے گئے اتنی خوبصورت پنکھیا انھوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اب تو بھیڑ سی لگی رہتی۔ایک بار شہزادے کا ادھر سے گزر ہوا اس نے اتنے خوبصورت پنکھے کبھی نہیں دیکھے تھے سارے خرید لیے پھر شہزادی سے پوچھا تم کون ہو۔اس نے کوئی جواب نہیں دیا اس کے خوبصورت ہاتھ بتا رہے تھے کہ اس نے کبھی کام نہیں کیا تھا پنکھیا بنانے میں اس کی انگلیاں زخمی تھیں۔شہزادہ اس کے پیچھے جنگل آ گیا اور جب اس کو پتہ چلا کی وہ شہزادی ہے اور سزا کاٹ رہی ہے تو بہت غمزدہ ہوا۔وہ اپنی سلطنت پر واپس گیا اور والدین سے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ان لوگوں کو بھی دکھ ہوا اور وہ اپنے بیٹے کی بارات جنگل لے کر آ گئے۔دونوں کی شادی ہو گئی مگر شہزادی اپنے والد کو بہت یاد کرتی تھی وہ خوش نہیں رہتی تھی۔ایک دن اس نے شہزادے سے کہا کہ وہ اپنے والدین کی دعوت کرنا چاہتی ہے اور ان سے ملنا چاہتی ہے۔شہزادے نے زبردست دعوت کا انتظام کیا اور بادشاہ کو دعوت دی۔شہزادی نے کہا سارا انتظام آپ دیکھئے مگر اپنے والدین اور بہنوں کے لئے کھانا میں خود تیار کروں گی۔سارے مہمان آ گئے کئی دسترخوان ایک ساتھ لگے اور بادشاہ اور شہزادیوں کے لئے اندر انتظام کیا گیا۔وہ جب کھانا کھانے بیٹھے تو ان کی بیٹی سامنے آ کر بیٹھ گئی۔اس نے نقاب پہن رکھا تھا۔جب بادشاہ نے پہلا نوالہ لیا تو کھانے میں نمک نہیں تھا۔دوسری ڈش نکالی۔وہ بھی بغیر نمک کے تھی تب ان کو بہت غصہ آیا کہ مجھے بلا کر یو بغیر نمک کا کھانا کھلایا گیا۔تب چھوٹی شہزادی نے اپنی نقاب ہٹائی اور کہا۔”بابا۔۔۔میں آپ کو نمک کے برابر چاہتی ہوں۔یہی کہا تھا میں نے۔نمک کے بغیر کسی چیز میں لذت نہیں ہوتی۔“ بادشاہ چونک اٹھا۔پھر اس نے آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگا لیا اور اس کی آنکھیں بھر آئیں۔بیٹی سے معافی مانگی تو شہزادی نے کہا۔”کوئی بات نہیں بابا۔۔۔اللہ تو سب کا ہے۔آپ پریشان نہ ہو میں اب بہت خوش رہتی ہوں۔“بہنوں نے بھی معافی مانگی اور گلے لگایا۔اور شہزادی نے سب کو کھلے دل سے معاف کر دیا۔مگر ان سب کو احساس دلا دیا کہ وہ غلطی پر تھے۔ " قربانی کا بدلہ - تحریر نمبر 2638,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qurbani-ka-badla-2638.html,"محمد یوسف خان، اسلام آبادعبداللہ سوڈان کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔وہ ایک غریب اور مفلس،مگر دین دار شخص تھا۔عبداللہ کے دو بیٹے تھے۔ایک دن اس کی بیوی نے کہا:”اس دفعہ ہم قربانی کی سعادت ضرور حاصل کریں۔میں نے کچھ پیسے اس نیت سے جمع کیے ہیں۔عبداللہ سوچ میں پڑ گیا۔جب پیسے جمع ہو گئے تو عبداللہ نو ذی الحج کا روزہ رکھ کر قربانی کے جانور کی تلاش میں منڈی پہنچ گیا۔اس نے ایک تندرست و توانا بکرا خریدا اور گاڑی پر لاد کر گھر کی طرف روانہ ہوا۔راستے میں گاڑی خراب ہو گئی۔ڈرائیور ابھی خرابی تلاش کر ہی رہا تھا کہ یکا یک بکرے نے رسی چھڑائی۔گاڑی پر سے چھلانگ لگائی اور دوڑ لگا دی۔عبداللہ کے تو اوسان خطا ہو گئے۔روزے کی حالت میں تھکن سے چُور۔(جاری ہے)گرمی کا موسم اور دوپہر کا وقت۔وہ بھی جانور کے پیچھے بھاگا۔بکرا ایک گلی میں داخل ہوا اور ایک کھلے دروازے والے گھر میں داخل ہو گیا۔اس گھر میں جو چھوٹے بچے تھے،انھوں نے بکرے کو دیکھا تو شور مچا دیا:”اماں،اماں!ہمسائے نے ہمیں جانور بھیجا ہے۔“ماں بولی:”ارے نہیں،یہ پڑوسیوں نے نہیں بھیجا،بلکہ کسی اور کا ہے جو آ کر ابھی لے جائے گا۔“بچے اب ضد پر آ گئے:”نہیں اماں!ہمارا بکرا آ گیا۔اب ہم اس کی قربانی کریں گے۔“عبداللہ اب اس گھر کی دہلیز پر پہنچ چکا تھا اور ماں اور بچوں کی گفتگو سن کر ایک فیصلہ کر چکا تھا۔اجازت لے کر اندر داخل ہوا اور بچوں کی ماں سے کہا:”بہن!عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔یہ بکرا اب ان بچوں کو مبارک ہو۔“اس خاتون کی آنکھوں میں آنسو آ گئے،وہ بولی:”بھائی!آپ کا شکریہ۔اب میرے یتیم بچے ہیں۔اب ان کی خاطر میں بھی اس سال قربانی کر سکوں گی۔اللہ آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔“عبداللہ اپنے گھر واپس ہوا تو خالی ہاتھ دیکھ کر اس کے بچوں نے پوچھا:”ابا جان!ہمارا جانور کدھر ہے؟“عبداللہ نے کہا:”ابھی بتاتا ہوں۔ذرا صبر تو کرو۔“بیوی کو اشارہ کیا اور تمام کہانی اکیلے میں کہہ ڈالی۔وہ بولی:”اچھا کیا،مگر اب ہم کیا کریں گے؟“عبداللہ بولا:”میں اپنے دوستوں سے مدد مانگتا ہوں،خیر ہو گی انشاء اللہ۔اس طرح کچھ پیسے جمع کیے اور دوبارہ منڈی روانہ ہوا۔دیکھتا کیا ہے کہ ایک گاڑی جانوروں سے لدی ہوئی اس کے قریب آ کر رکی۔عبداللہ نے ایک بکرے کی طرف اشارہ کر کے پوچھا:”اس بکرے کی قیمت کیا ہو گی؟“مالک بولا:”یہ جانور ہماری طرف سے مفت لے جاؤ۔کوئی قیمت نہیں۔دراصل جب ہم گھر سے کاروبار کی نیت سے نکلے تو ہمارے والد صاحب نے کہا تھا کہ جو پہلا گاہک تمھیں ملے،اس کی پسند کا جانور مفت دے دینا۔“عبداللہ کی خوشی کا تو کوئی عالم نہ رہا۔ " ادلے کا بدلہ - تحریر نمبر 2637,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/adlay-ka-badla-2637.html,"ہمایوں اخترایک لومڑی ایک چیل کی سہیلی بن گئی۔دونوں میں اتنا پیار ہوا کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا۔ایک دن لومڑی نے چیل سے کہا۔”کیوں نہ ہم پاس رہیں۔پیٹ کی فکر میں اکثر مجھے گھر سے غائب رہنا پڑتا ہے۔میرے بچے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور میرا دھیان بچوں کی فکر میں لگا رہتا ہے۔کیوں نہ تم یہیں کہیں پاس ہی رہو۔کم از کم میرے بچوں کا تو خیال رکھو گی“۔چیل نے لومڑی کی بات سے اتفاق کیا اور آخرکار کوشش کر کے رہائش کے لئے ایک پرانا پیڑ تلاش کیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔اس میں شگاف تھا۔دونوں کو یہ جگہ پسند آئی۔لومڑی اپنے بچوں کے ساتھ شگاف میں اور چیل نے پیڑ پر بسیرا کر لیا۔کچھ عرصہ بعد لومڑی کی غیر موجودگی میں چیل جب اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بھوکی بیٹھی تھی۔(جاری ہے)اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے لومڑی کا ایک بچہ اٹھایا اور گھونسلے میں جا کر خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔جب لومڑی واپس آئی تو ایک بچہ غائب پایا۔اس نے بچے کو اِدھر اُدھر بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔آنکھوں سے آنسو بہانے لگی۔چیل بھی دکھاوے کا افسوس کرتی رہی۔دوسرے دن لومڑی جب جنگل میں پھر شکار کرنے چلی گئی اور واپس آئی تو ایک اور بچہ غائب پایا۔تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔اس کا ایک اور بچہ غائب ہو گیا۔چیل لومڑی کے سارے بچے کھا گئی۔لومڑی کو چیل پر شک جو ہوا تھا،وہ پختہ یقین میں بدل گیا کہ اس کے تمام بچے چیل ہی نے کھائے ہیں مگر وہ چپ رہی۔کوئی گلہ شکوہ نہ کیا۔ہر وقت روتی رہتی اور خدا سے فریاد کرتی رہتی کہ۔اے خدا!مجھے اڑنے کی طاقت عطا فرماتا کہ میں اپنی دوست نما دشمن چیل سے اپنا انتقام لے سکوں۔خدا نے لومڑی کی التجا سن لی اور چیل پر اپنا قہر نازل کیا۔ایک روز بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر چیل تلاش روزی میں جنگل میں اڑی چلی جا رہی تھی کہ ایک جگہ دھواں اُٹھتا دیکھ کر جلدی سے اس کی طرف لپکی۔دیکھا کچھ شکاری آگ جلا کر اپنا شکار بھوننے میں مصروف ہیں۔چیل کا بھوک سے برا حال تھا۔بچے بھی بہت بھوکے تھے۔صبر نہ کر سکی۔جھپٹا مارا اور کچھ گوشت اپنے پنجوں میں اچک کر گھونسلے میں لے گئی۔ادھر بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ کچھ چنگاریاں بھی چپکی ہوئی تھیں۔گھونسلے میں بچھے ہوئے گھاس پھوس کے تنکوں کو آگ لگ گئی۔گھونسلا بھی جلنے لگا۔ادھر تیز تیز ہوا چلنے لگی۔گھونسلے کی آگ نے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ چیل اپنا اور اپنے بچوں کا بچاؤ کر سکے۔وہیں تڑپ تڑپ کر نیچے گرنے لگے۔لومڑی نے جھٹ اپنا بدلہ لے لیا اور انہیں چبا چبا کرکھا گئی۔نتیجہ:”جو کسی کے لئے کنواں کھودتا ہے، خود بھی اسی میں جا گرتا ہے۔اس لئے سیانوں نے کہا ہے کہ برائی کرنے سے پہلے سوچ لے کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔“ " طلسمی کتاب - تحریر نمبر 2636,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tilismi-kitab-2636.html,"یاسر فاروقوہ دونوں ہم جماعت اسکول سے واپس آ رہے تھے کہ احمد نے ایک کتاب راستے میں پڑی دیکھی۔”شاید کسی کے بستے سے گر گئی ہے۔“احمد نے جھک کر انور سے کہا۔”پتا نہیں کس کی ہے!“ انور نے کہا۔دونوں نے ارد گرد دیکھا مگر کسی کو تلاش کرتا نہ پایا تو احمد نے کتاب بیگ میں رکھ لی۔احمد کلاس نہم میں پڑھتا تھا اور اسے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔اس کے والد ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے۔اس کی امی ایک سادہ سی گھریلو خاتون تھیں۔آٹھویں کلاس میں پوزیشن آنے پر ایک ادارے نے اسے ٹیبلٹ کا تحفہ دیا تھا،جسے وہ فارغ وقت یا ضرورت کے وقت ہی استعمال کرتا تھا۔اس کی پہلی ترجیح پڑھائی تھی۔اس کے والد اسے شروع سے ہی ہر ماہ اس شرط پہ کتاب لا کر دیتے تھے کہ وہ انھیں اس کا خلاصہ سنائے گا تو اسے انعام دیا جائے گا۔(جاری ہے)اس طرح احمد کو مطالعے کا شوق بچپن ہی سے پیدا ہو گیا تھا۔وہ ہر ماہ ایک اچھی کتاب پڑھنے کا منتظر رہتا تھا۔وہ تمام کتابیں اور رسائل بڑی احتیاط کے ساتھ سنبھال کر رکھتا جا رہا تھا۔اس طرح سے اس کے پاس کتابوں کی ایک چھوٹی سی لائبریری بن گئی تھی۔اسکول کی لائبریری میں جتنی بھی کتابیں تھیں،ان میں سے بیشتر وہ پڑھ چکا تھا۔اس نے گھر آ کر اسکول کے کپڑے بدلے،کھانا کھایا اور بستے سے وہی کتاب نکالی۔ارے!”طلسمی کتاب!“وہ کتاب کا نام پڑھ کر چونک گیا۔یہ مضبوط جلد کی بالکل نئی کتاب تھی۔سرورق پر اس کی عمر کا ایک لڑکا بڑے انہماک سے کتاب پڑھ رہا تھا۔اس کے پیچھے پرانے دور کی الف لیلوی گلی کا منظر نظر آ رہا تھا۔اس نے کتاب کھول کر دیکھی تو خوشی کی انتہا ہی نہ رہی۔اس میں بچوں کی کہانیوں کے علاوہ نظمیں بھی تھیں۔اس نے کتاب میں دیکھا کہ شاید کہیں اس کے مالک کا کوئی نام،پتا یا فون نمبر لکھا ہو،مگر ایسا کچھ نہ ملا۔احمد روزانہ یہ کتاب پڑھ کر ایک نئی دنیا میں کھو جاتا۔کہانیاں بڑی ہی دلچسپ تھیں۔یہ ایک طلسمی کتاب ہی تو تھی۔اس کی نظمیں بھی بڑی ہی مزے کی تھیں۔”کتنی پیاری ہے یہ میری کتاب!“ اس نے سوچا۔”نہیں نہیں!یہ میری نہیں۔مجھے اسے مالک کے حوالے کر دینا چاہیے۔“اس کے دل نے کہا۔اس کتاب میں پیغام بھی تو یہی ہے کہ سچ بولو،بڑوں کی عزت کرو،دیانت داری سے ہر کام کرو۔”مگر کیسے تلاش کیا جائے اس کے مالک کو؟“ اس نے پریشانی سے سوچا۔آج کل مصنفین اپنی کتابیں خود چھپوا کر خود ہی فروخت کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ فیس بک اور دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہیں۔موبائل سے ہی خریدار پیسے ان کے اکاؤنٹ میں بھجوا دیتے ہیں،ساتھ اپنا پتا اور فون نمبر بھی بھیج دیتے ہیں۔اس طرح سے خریدار کو فائدہ ہوتا ہے کہ اسے عمدہ کتاب گھر بیٹھے مل جاتی ہے اور مصنف کو بھی فائدہ ہو جاتا ہے کہ اس کی کتاب مناسب قیمت پر براہِ راست خریدار تک پہنچ جاتی ہے۔اس سے دونوں کے درمیان ایک رابطہ بھی قائم ہو جاتا ہے۔یہ خیال آتے ہی اس نے مصنف کو ای میل کیا۔”السلام علیکم سرمد صدیقی صاحب!میرا نام احمد جمال ہے۔جماعت نہم میں پڑھتا ہوں۔مجھے آپ کی لکھی کتاب ”طلسمی کتاب“ راستے میں پڑی ملی ہے۔مالک کا نام پتا اس پر نہیں لکھا ہے۔بڑا پریشان ہوں کہ اس کے مالک تک کیسے پہنچاؤں۔کتاب میں آپ کا ای میل دیکھا تو آپ سے رابطہ کیا۔اس بارے میں آپ میری کچھ مدد کر سکتے ہیں کیا؟“دوسرے ہی روز اس کے ای میل کا جواب آ گیا:”وعلیکم السلام احمد میاں!آپ کا بے حد شکریہ کہ آپ نے اتنی دیانت داری کا ثبوت دیا۔ہم آپ کے اس جذبہ سے بڑے متاثر ہوئے ہیں۔ماشاء اللہ!اب اگر آپ اپنے علاقہ کے بارے میں بتائیں گے تو معلوم ہو سکے کہ اس علاقے سے کس نے کتاب کا آرڈر دیا ہے۔“احمد جواب پڑھ کر اُچھل پڑا۔کسی مصنف نے زندگی میں پہلی بار اس کی بات ہوئی تھی۔اس نے جواب میں اپنا مکمل پتا ٹائپ کرنا شروع کر دیا،تاکہ کتاب کے مالک کا پتا چل جائے۔احمد نے یہ بھی بتا دیا کہ میں نے امانت میں خیانت کرتے ہوئے پوری کتاب پڑھی،بہت پسند آئی۔پھر پوری کتاب پر تبصرہ بھی کیا۔اگلے دن اسکول سے آ کر دیکھا تو سرمد بھائی کا جواب آ چکا تھا۔”پیارے احمد!خوش رہو۔ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ کس نے کتاب کا آرڈر کیا تھا۔آپ کا بے حد شکریہ کہ آپ نے ہماری پوری کتاب توجہ سے پڑھی۔کتاب کے بارے میں آپ کی رائے ہمیں زیادہ عزیز ہے۔بے حد خوشی ہوئی کہ کتاب میں موجود سبق سے آپ نے کچھ سیکھا اور دیانت داری سے کتاب کو اس کے اصل مالک کو پہنچانے کی فکر کی۔ہم سمجھتے ہیں ہمارا فرض پورا ہوا۔ہم نے کتاب مالک تک پہنچا دی ہے،مگر آپ کو بھی ہماری طرف سے ”طلسمی کتاب“ کا تحفہ قبول ہو۔ہم سمجھتے ہیں ہماری دونوں کتابیں اپنے اصل قاری تک پہنچ گئی ہیں۔خوش رہیں اور اسی طرح اپنے ملک کا نام روشن کریں۔آمین“ (سرمد)مصنف کی ای میل پڑھنے کے بعد آج کا دن اس کے لئے عید سے بڑھ کر خوشی کا تھا۔ " چِن کی چڑیا - تحریر نمبر 2635,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chin-ki-chidiya-2635.html,"نیما گل میمنپرانے زمانے کی بات ہے۔جاپان کے ایک خوبصورت پہاڑی گاؤں میں ایک لڑکا ”چِن“ اپنی نانی کے ساتھ رہتا تھا۔وہ ایک محنتی اور پیارا لڑکا تھا۔اس کی معصومیت اور رحم دلی کی وجہ سے گاؤں کے لوگ اس سے محبت سے پیش آتے تھے۔چِن دو سال کا تھا جب ایک حادثے میں اُس کے ماں باپ کا انتقال ہو گیا۔تب سے وہ اپنی بوڑھی نانی کے ساتھ پہاڑ پر ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہتا تھا۔اس کی نانی سردیوں میں گرم ٹوپیاں بُنتی تھیں،جسے بیچ کر اتنے پیسے مل جاتے تھے کہ مشکل سے ان کی گزر بسر ہوتی تھی۔ایک روز چِن اسکول سے واپس آیا اور حسبِ عادت اپنی بکری کو چرانے پہاڑ پر لے گیا۔جنگل میں ٹہلتے ہوئے اس کی نگاہ نیچے گرے ہوئے چڑیا کے گھونسلے پر پڑی۔اس نے دیکھا،کچھ ٹوٹے انڈے اور ایک چڑیا بے جان پڑی تھی۔(جاری ہے)شاید تیز ہوا سے یہ گھونسلا درخت سے گرا ہو گا۔اس نے کچھ سوچا اور جھک کر چڑیا کو اُٹھایا۔ہلایا،مگر وہ مر چکی تھی۔گھونسلے میں چڑیا کے دو چھوٹے بچے بھی تھے جو شور کیے جا رہے تھے،چِن نے احتیاط سے انھیں اُٹھایا اور گھر لے آیا۔”نانی،نانی!دیکھیے میں کیا لایا ہوں؟“”اوہو چِن!تم پھر کوئی عجیب و غریب جنگلی پھل لائے ہو گے!“”نہیں نانی!یہ کسی چڑیا کے بچے ہیں،جو ابھی پیدا ہوئے ہوں گے یا شاید دو تین دن پہلے۔“”اوہ․․․․․تو تمھیں ان کو گھر نہیں لانا چاہیے تھے چِن!“”نانی ان کا گھونسلا درخت سے گر گیا تھا۔“چِن نے نانی کو پوری بات بتائی،پھر وہ بھاگ کر کچن سے ایک چھوٹی کٹوری میں پانی لے آیا۔اس کا معصوم دل بچوں کے لئے فکرمند تھا۔چڑیا کے بچوں نے پانی تو پی لیا،مگر وہ اب بھی ویسے ہی بے قرار تھے۔چِن نے سوچا کہ شاید ان کو بھوک لگی ہو گی!چِن کے برعکس نانی کو ان میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔وہ گھر کے کاموں میں ہی لگی رہیں۔”نانی یہ کھاتے کیا ہوں گے؟بلکہ یہ تو شاید ابھی دودھ پیتے ہوں گے۔نانی!کیا گھر میں تھوڑا دودھ ہے؟”نہیں،بکری نے جتنا دودھ دیا تھا،میں نے اس کا پنیر بنا لیا ہے۔“چِن بھاگ کر باورچی خانے سے روٹی کا ایک ٹکڑا لے آیا اور بچوں کے آگے رکھ دیا،مگر انھوں نے کچھ نہ کھایا اور بدستور چیں چیں کرتے رہے۔چِن نے گھر میں جو کچھ بھی پھل،سبزی موجود تھا،سب ایک ایک کر کے ان کے سامنے رکھا،مگر وہ چھوٹے بچے یہ سب کیسے کھاتے؟”نانی!یہ تو کچھ بھی نہیں کھا رہے۔“وہ دکھ سے بولا:”پھر یہ بڑے کیسے ہوں گے؟“”شاید یہ باجرا وغیرہ جیسی چیز کھاتے ہوں گے۔“نانی بولیں۔”باجرا تو گھر میں نہیں ہے۔نانی!کیا آپ مجھے ایک ین (جاپانی سکہ) دیں گی،تاکہ میں بازار سے ان کے لئے باجرا لے آؤں؟“”مگر وہ تو میں نے صبح تمہارے اسکول جانے کے لئے رکھا ہے،تاکہ تم وہاں کچھ کھا سکوں۔“نانی فکرمندی سے بولیں۔”کوئی بات نہیں نانی!میں کل اسکول کے لئے آپ سے کوئی پیسہ نہیں لوں گا۔“یوں ننھے چِن نے نانی سے ایک ین لیا اور اُن کا باجرا لے آیا۔چڑیا کے بچوں نے باجرا کھا لیا تو چِن کی جان میں جان آئی۔چِن نے ان کو ایک پیالے میں رکھ لیا اور باہر درخت سے کچھ پتے توڑ کر لے آیا اور چڑیا کے بچوں والے پیالے کے گرد لگا دئیے۔”یہ تم کیا کر رہے ہو چِن!“شام ہو رہی تھی۔اندھیرے اور نظر کی کمی کے باعث نانی نے ٹوپی بُننا بند کر دیا تھا اور اس کے لئے تِل والی روٹی اور پنیر لے آئی تھیں۔”نانی!میں ان کے لئے گھر بنا رہا ہوں،تاکہ یہ زیادہ محفوظ رہیں۔“نانی چِن کے محبت اور معصومیت پہ ہنس دیں اور بولیں:”میں کل ان کے لئے ٹوکریاں بنانے والی رسی کی مدد سے ایک پنجرہ بنا دوں گی،جہاں تم ان کے لئے باجرا اور پانی بھی رکھ دینا،چلو اب شام کا کھانا کھا لو،پھر اسکول کا کام بھی کرنا ہے تمھیں۔“چڑیا کے بچے چِن کے پاس پلنے لگے۔چِن ان کا خاص خیال رکھتا،جیسے وہ اپنی بکری کا رکھتا تھا۔اس کی محبت دیکھ کر نانی بھی خوب ان کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔بچے بڑے ہونے لگے اور پوری چڑیا بن گئے۔اب یہ بچے چمکتے ہوئے نیلے رنگ کی چڑیوں میں تبدیل ہو گئے تھے۔یہ بہت خوبصورت چڑیاں تھیں۔ایک دن چِن کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ چڑیا نے تین انڈے دیے تھے۔”نانی،نانی!دیکھیں نیلی چڑیا نے انڈے دیے ہیں،اب ان میں سے بھی بچے نکلیں گے نا!“وہ بہت خوش تھا۔”ہاں بیٹا!جانوروں اور پرندوں کو محبت سے رکھا جائے تو اللہ خوش ہو کر ہمیں بہت سا انعام دیتا ہے۔“نانی نے محبت سے چِن کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ان کے گھر کے حالات اب بگڑنے لگے تھے،کیونکہ نانی بڑھاپے کی وجہ سے زیادہ ٹوپیاں نہیں بُن سکتی تھیں۔چِن سوچتا تھا کہ صبح تو وہ اسکول جاتا ہے،اگر شام کے وقت اسے کوئی کام مل جائے تو نانی کو آرام مل جائے گا۔یہی سوچ کر وہ شام کو قریبی بازار میں کام کی تلاش کے لئے نکل پڑا۔کچھ عرصے میں اس کے پاس چڑیوں کے کئی جوڑے جمع ہو گئے تھے۔ایک دن وہ یونہی دکانوں کے آگے سے گزر رہا تھا کہ شاید اس کو کوئی کام دینے کے لئے بلا لے۔چڑیوں کا پنجرہ اس کے ہاتھ میں تھا۔وہاں کھڑا ایک آدمی کچھ دیر تو غور سے اسے اور اس کی چڑیوں کو دیکھتا رہا پھر اس کے پاس آ گیا:”اے پیارے لڑکے!کیا یہ چڑیا تمھاری ہیں؟“”ہاں․․․․․․میں نے ان کو پالا ہے۔“”کیا تم ایک چڑیا مجھے دو گے؟میں دو ہزار ین دوں گا۔“چِن کی آنکھیں پھٹ گئیں۔وہ بہت بڑی قیمت تھی۔”مگر کیوں؟“وہ بوکھلا گیا۔”کیا تمھیں نہیں پتا؟یہ نیلی پہاڑی چڑیا بہت نایاب پرندوں میں سے ایک ہے۔“چِن کو لگا کہ یہ شخص ٹھگ ہے،جو اسے کسی طرح لالچ دے کر پھنسانا چاہتا ہے۔نانی کہتی تھیں بچوں کو لالچ دے کر ٹھگ لوگ اُٹھا لے جاتے ہیں۔چِن نے اس آدمی کو انکار کر دیا اور گھر آ کر نانی کو ساری بات بتائی۔نانی نے کہا:”تم نے بہت اچھا کیا کہ اس آدمی کو چڑیا نہیں دی۔“”مگر نانی!کیا پتا یہ واقعی نایاب پرندہ ہو!“”کل میں تمھارے ساتھ خود پرندوں کی دکان پر چلوں گی،وہاں جا کر ہم اس کی اصل قیمت پتا کر لیں گے۔“دوسرے روز نانی اور چِن نے پرندوں کی دکان پر ایک چڑیا کی قیمت پوچھی تو دکاندار نے اس آدمی سے کئی گنا زیادہ رقم بتائی۔تب چِن نے ایک جوڑی چڑیا اسے فروخت کر دی۔بہت سی چڑیاں اب بھی اس کے پاس تھیں۔ان پیسوں سے ان کے حالات بہت بہتر ہو گئے اب نانی کو اُونی ٹوپیاں بھی نہیں بنانی پڑتی تھیں۔ " بلی کا انتقام - تحریر نمبر 2634,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/billi-ka-inteqam-2634.html,"محمد اقبال شمسوہ کالی بلی اچانک اس کے راستے میں آ گئی۔رات کے وقت اس کی آنکھیں موتیوں کی طرح چمک رہی تھیں۔نادر کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے فوراً ایک پتھر اُٹھا کر اسے دے مارا۔بلی غراتی ہوئی قریبی قبرستان کے راستے پر دوڑتی چلی گئی۔دراصل وہ اپنے دوست کی سالگرہ سے رات کے وقت واپس آ رہا تھا،جس کا گھر اس کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا،لہٰذا وہ پیدل ہی آ رہا تھا۔بعد میں اسے اپنی ماں کی نصیحت یاد آئی کہ کسی جانور کو بلاوجہ پتھر یا کوئی اور چیز نہیں مارنی چاہیے،تو اسے افسوس ہوا۔اگلے دن اس کی نانی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔لہٰذا اس کے امی اور ابو ان کی عیادت کے لئے چلے گئے۔امتحان کی تیاری کے لئے وہ گھر میں اکیلا تھا۔اچانک بارش شروع ہو گئی۔(جاری ہے)بادل صبح سے ہی تھے۔شام سے شروع ہونے والی اس بارش نے اب طوفان کی صورت اختیار کر لی تھی۔اس کے ابو کا فون آیا کہ اب وہ صبح ہی آئیں گے۔اب وہ گھر میں اکیلا تھا۔اسی دوران اچانک بجلی چلی گئی۔پھر اس نے موم بتی ڈھونڈ کر جلائی۔ابھی تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔اس نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے ایک اجنبی بوڑھی عورت کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔”کون ہیں آپ؟اور ایسی طوفانی بارش میں کہاں سے آ رہی ہیں؟“وہ ایک پُراسرار ہنسی ہنستے ہوئے بولی:”دراصل میری یادداشت کمزور ہے۔میں اپنے گھر کا راستہ بھول گئی ہوں۔ایسی طوفانی بارش میں مجھے پناہ چاہیے۔صبح ہوتے ہی میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔“”ٹھیک ہے،اندر آ جائیں۔“وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔اچانک بجلی چمکی،اسی دوران اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی پیدا ہوئی،جسے وہ ہونقوں کی طرح دیکھنے لگا۔”کیا دیکھ رہے ہو؟“وہ اسے گھورتے ہوئے بولی۔”کچھ نہیں،مجھے ایسا لگا کہ جیسے آپ کی آنکھیں چمکی ہوں۔“وہ قدرے گھبراتے ہوئے بولا۔”آسمانی بجلی جو چمکی تھی ناں،وہ ہی چمک آنکھوں میں پڑی ہو گی۔“بڑھیا مسکراتے ہوئے بولی اور پھر وہ لاٹھی کے سہارے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔”آپ یہاں آرام کر لیں۔“اس نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”اچھی بات ہے۔“یہ کہہ کر بوڑھی نے گردن گھما کر اس کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔اس کی مسکراہٹ میں بھی ایک پُراسراریت سی چھپی ہوئی تھی۔وہ کمرے میں جا چکی تھی۔وہ بڑھیا کو کمرے میں چھوڑ کر باہر نکلا ہی تھا کہ اچانک اس کے سر پر بارش کا پانی گرنے لگا۔اس نے پانی صاف کرنے کے لئے ہاتھ پھیرا تو وہ اُچھل کر رہ گیا۔وہ پانی نہیں،خون تھا۔وہ فوراً اپنا ہاتھ صاف کرنے کے لئے غسل خانے کی طرف دوڑا۔نل کھولتے ہی اس کی آنکھیں جیسے پھٹ پڑیں۔نل میں سے بھی خون کی دھار نکل رہی تھی۔”یہ․․․․․یہ آخر خون کہاں سے آ رہا ہے؟“وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔اچانک اس کے سامنے وہی بوڑھی عورت آئی اور اسے ایک کپڑا دیتے ہوئے بولی:”لو!اس سے خون صاف کر لو جو تمہارے ہاتھوں پر لگا ہے۔“”مگر آپ تو اندر تھیں،آپ کو کیسے معلوم کہ میرے ہاتھ میں خون لگا ہوا ہے؟“ اس کے لہجے میں حیرانگی تھی۔”پیاس لگی تھی۔پانی پینے کے لئے آئی تو تمہارے ہاتھ میں خون لگا ہوا دیکھ کر کپڑا لے آئی۔“یہ کہہ کر وہ واپس کمرے کی طرف چلی گئی۔وہ کپڑے سے خون صاف کرنے لگا۔اسی دوران بادل زور سے گرجے اور بجلی چمکی،اس نے فوراً آسمان کی طرف دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔اسے ایک خوف ناک چہرہ نظر آیا۔اس نے فوراً اپنا سر جھٹکا جیسے اسے وہم ہوا ہو۔وہ اپنے کمرے کی طرف جانے کے لئے مڑا تو اچانک اسے کسی بلی کی آواز سنائی دی۔اس نے غور سے دیکھا تو دیوار کی منڈیر پر ایک کالی بلی بیٹھی ہوئی تھی۔ابھی وہ اسے غور سے دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک اس کے کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔اس نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ بوڑھی عورت کھڑی تھی۔”کیا بات ہے ابھی تک یہیں کھڑے ہو؟“”کچھ نہیں ایک کالی بلی دیوار پر بیٹھی ہے،اسے دیکھ رہا تھا۔“”کہاں ہے؟مجھے تو کوئی بلی دکھائی نہیں دے رہی۔“اب نادر نے جو دیکھا تو واقعی بلی وہاں موجود نہیں تھی۔”میرے خیال میں تمہیں اب سو جانا چاہیے،رات کافی ہو گئی ہے۔“”جی،آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔“یہ کہہ کر وہ سوچوں میں گم اپنے کمرے کی طرف چل پڑا۔اپنے بستر پر لیٹا وہ سونے کی کوشش کر رہا تھا،مگر نیند اس کی آنکھوں سے کافی دور تھی۔ڈراؤنا چہرہ،خون اور کالی بلی والے واقعات اس کی نگاہوں کے سامنے بار بار آ رہے تھے۔اس نے مضبوطی سے آنکھیں بند کیں اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ابھی کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ اچانک اسے ایسی آواز سنائی دی جیسے کوئی اوپر سے کودا ہو۔اس نے فوراً بستر سے چھلانگ لگائی اور باہر کی طرف دوڑا۔اس نے دیکھا کہ صحن میں وہی کالی بلی کھڑی ہے۔اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے ہوں۔دیکھتے ہی دیکھتے اس بلی کا قد بڑھنے لگا۔یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ پڑیں۔وہ بلی آوازیں نکالتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگی اور پھر اچانک اس پر چھلانگ لگا دی اور پھر اپنے پنجے اس کے گلے پر مضبوطی سے گاڑ دیے۔وہ زور سے چیخا۔اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔”او خدایا!وہ خواب تھا۔“اس نے خود سے کہا۔اچانک اسے اپنے گلے پر کچھ چبھن سی محسوس ہوئی۔اس نے فوراً اپنے گلے پہ ہاتھ لگایا اور پھر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے ہاتھ میں خون لگا ہوا تھا۔وہ بُت بنا سوچ رہا تھا کہ وہ بوڑھی عورت اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی:”کیا ہوا؟کیوں شور مچا رہے ہو؟“”میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔جب سے آپ یہاں آئی ہیں کچھ غلط ہونے لگا ہے۔“کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ چیخا:”سچ سچ بتاؤ کون ہو تم؟“یہ سن کر بڑھیا کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔لبوں پر پُراسرار سی مسکراہٹ اُبھری۔پھر اچانک اس کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔رنگ بالکل سیاہ ہو گیا۔اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے سے نکلنے لگے ہوں۔اچانک اس کی شکل کالی بلی میں تبدیل ہو گئی۔وہ دھیرے سے بولی:”ہاں!سچ سمجھے،میں کوئی اور ہی ہوں۔“اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔”مجھ سے کیا چاہتی ہو؟میرے پیچھے کیوں پڑی ہو؟“وہ ڈرتے ہوئے بولا۔”جس کالی بلی کو تم نے پتھر مارا تھا،وہ میں تھی۔“وہ بلیوں کی طرح میاؤں کرتے ہوئے بولی:”تم نے مجھے خواہ مخواہ پتھر مارا تھا۔میں اسی کی سزا دینے یہاں آئی ہوں۔“وہ اس کے نزدیک آتے ہوئے بولی۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔اچانک اس نے چڑیل کو دھکا دیا اور کمرے سے باہر کی طرف بھاگا۔وہ فوراً اس کے پیچھے آئی۔طوفانی بارش اب بھی جاری تھی۔اچانک اسے وہ لاٹھی نظر آئی جو بوڑھی عورت اپنے ساتھ لائی تھی۔وہ اس نے جھپٹ کر اُٹھا لی۔یہ دیکھ کر چڑیل جہاں تھی،وہیں رک گئی:”یہ لاٹھی مجھے دے دو۔“وہ غراتے ہوئے بولی۔پھر اسے ایک کپڑا نظر آیا،جو بوڑھی عورت نے اسے ہاتھ سے خون صاف کرنے کے لئے دیا تھا۔اس نے فوراً کپڑا اُٹھا کر لاٹھی میں باندھا اور باورچی خانے میں آ گیا اور اس کپڑے کو آگ لگا دی۔اب اس کے ہاتھ میں جلتی ہوئی لاٹھی تھی۔یہ دیکھ کر چڑیل پیچھے ہٹنے لگی۔جب کہ نادر اس کے نزدیک آتا گیا اور جلتی ہوئی لاٹھی اس کے جسم کے ساتھ لگا دی۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کے جسم میں آگ لگ گئی۔وہ زور سے چیخی،مگر اس کی چیخ طوفانی بارش میں کہیں دب کر رہ گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ راکھ کا ڈھیر بن گئی۔چڑیل کے خاتمے پر اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔طوفانی بارش تھم چکی تھی۔برسات کی یہ رات اس کی زندگی بھر نہ بھولنے والی رات ثابت ہوئی تھی۔ " ایک غلطی - تحریر نمبر 2633,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-ghalti-2633.html,"جمال رومیرات کے دو بجے کا وقت تھا۔شاہد کی نظر اس دکان پر پڑی،جہاں وہ ملازم تھا۔دکان کا شٹر ذرا سا اوپر اُٹھا ہوا تھا اور اندر مدھم روشنی بھی نظر آ رہی تھی جو شاید ٹارچوں کی تھی۔اس نے موٹر سائیکل روک دی۔شاہد کو یہ بات سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ دکان میں چوری کی واردات ہو رہی ہے۔اس وقت وہ اپنے ایک دوست کی شادی کی تقریب سے واپس آ رہا تھا۔اس نے موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کی اور دبے قدموں دکان کی قریب پہنچا۔دکان کے باہر ایک وین کھڑی تھی جو چوری کیا جانے والا سامان لے کر جانے کے لئے لائی گئی تھی۔وہ آڑ میں ہو کر خاموشی سے اندر جھانکنے لگا۔اندر چور موجود تھے اور یہ تعداد میں چار تھے۔ان کی آوازوں میں سے ایک آواز شاہد نے پہچان لی۔(جاری ہے)یہ شانی تھا،جسے دکان کے مالک سیٹھ قاسم نے ایک ماہ قبل ملازمت پر رکھا تھا۔شانی اپنے دیگر ساتھیوں سے کہہ رہا تھا:”میں کل معمول کے مطابق کام پر جاؤں گا تاکہ کسی کو مجھ پر شک نہ ہو۔“”اچھا تو شانی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر چوری کا منصوبہ بنایا ہے۔“شاہد زیر لب بڑبڑایا:”یعنی جس تھالی میں کھاتا ہے،اسی میں چھید کر رہا ہے۔“اس نے سوچا پولیس کو فون کرنا چاہیے اور پتلون کی جیب سے موبائل فون نکالا۔اسی دوران اُسے سیٹھ قاسم کا رویہ یاد آ گیا۔”قاسم الیکٹرونکس“ کے نام سے مختلف برقی اشیاء کی یہ ایک بڑی دکان تھی،جس میں شاہد کے علاوہ پانچ ملازم اور بھی کام کرتے تھے۔دکان کے مالک سیٹھ قاسم کا رویہ ملازموں کے ساتھ ذرا سخت تھا۔اگرچہ وہ کبھی کسی کی حق تلفی نہیں کرتا تھا،مگر وہ نظم و ضبط کا بہت پابند تھا اور چاہتا تھا کہ اس کے ملازم بھی اس بات کا خیال رکھیں۔شاہد کو یاد آیا کہ ذرا ذرا سی بات پر سیٹھ اسے جھڑک دیتا ہے۔اگر کبھی دکان پر پہنچنے میں تھوڑی دیر ہو جائے تو سب کے سامنے ڈانٹ دیتا۔اس نے سوچا:”اچھا ہے،سیٹھ کا نقصان ہوتا ہے تو ہو،مجھے کیا،میں کیوں اس جھمیلے میں پڑوں۔“یہ سب سوچتے ہوئے اس نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور گھر کی راہ لی۔قاسم الیکٹرونکس کے مالک قاسم خاں کی عمر پچپن،ساٹھ برس کے لگ بھگ تھی۔وہ صحت مند جسم کا آدمی تھا۔اگرچہ وہ اندر سے ایک نرم مزاج انسان تھا،لیکن اس کے چہرے پر موجود گھنی مونچھوں اور گونج دار آواز کی وجہ سے اس کی شخصیت خاصی رعب دار لگتی تھی،یہی وجہ تھی کہ اس کے ارد گرد کے لوگ اس سے خاصے دبے رہتے تھے۔اگلے روز چوری کی خبر ہر طرف پھیل چکی تھی۔چور نقدی اور لاکھوں روپے مالیت کا سامان لے گئے تھے۔پولیس نے رپورٹ درج کر کے ملزمان کی تلاش شروع کر دی تھی۔دکان پر کام کرنے والے ملازموں سے بھی پوچھ گچھ کی گئی،لیکن پولیس کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔جبکہ شاہد سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنا رہا۔چوری کی واردات کو دو دن ہو چکے تھے۔سیٹھ قاسم نے تمام ملازموں کو اکٹھا کیا اور ان سے مخاطب ہوا:”تم سب کے علم میں ہے کہ میری دکان میں واردات ہوئی ہے۔اس حادثے نے مجھے پریشان کر دیا ہے۔دکان کا نقصان بھی پورا کرنا ہے۔عید کا تہوار قریب ہے۔تم سب اس انتظار میں ہوں گے کہ میں تمہیں پیشگی تنخواہ بھی دوں گا اور عیدی بھی۔یقینا تم سب اس کے حق دار بھی ہوں۔میں تم لوگوں کو پیشگی تنخواہ بھی دے رہا ہوں اور عید بھی۔عیدی کی رقم بھی پچھلے سال کے مطابق ہی ہو گی۔میں دعا کرتا ہوں کہ تم سب کی عید اچھی گزرے!“شاہد سر جھکائے خیالات میں گم تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ سیٹھ دل کا بُرا نہیں ہے۔اسے ہماری فکر ہے۔وہ ان مشکل حالات میں بھی ہمیں نظر انداز نہیں کر رہا۔شاہد کو اپنی غلطی پر پچھتاوا ہونے لگا۔اس کا ضمیر جاگ اُٹھا۔وہ سوچنے لگا کہ اس کی ایک غلطی کی وجہ سے مالک کا لاکھوں کا نقصان ہو گیا۔اگر اُس رات وہ پولیس کو فون کر دیتا تو آج شانی اور اس کے ساتھی حوالات میں ہوتے۔دکان سے چھٹی کے بعد شاہد نے احتیاط سے شانی کا پیچھا کیا اور اس جگہ کا سراغ لگا لیا،جہاں شانی کے ساتھی چھپے ہوئے تھے،یقینا یہی چوری کا سامان بھی موجود ہو گا۔یہ ایک کم آبادی والا علاقہ تھا،جہاں شام ہوتے ہی سناٹا چھا جاتا تھا۔اس کام سے فارغ ہونے کے بعد وہ سیٹھ کے گھر پہنچا۔اس نے قاسم کو چوری کی رات ہونے والے واقعے کی روداد سنائی۔اس کے روبرو اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا اور معافی بھی مانگی۔قاسم نے شاہد کا کاندھا تھپتھپایا اور اس کی غلطی کو یہ کہتے ہوئے معاف کر دیا کہ میں دکان پر کام کرنے والے تمام لڑکوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتا ہوں،اس لئے انھیں ڈانٹ بھی دیتا ہوں،لیکن کام کی قدر کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اگر وہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نظم و ضبط کی پابندی کرنا سیکھیں۔شاہد نے پولیس کو اپنا بیان دیا اور اس جگہ کی نشاندہی کی،جہاں شانی کے دیگر ساتھی چھپے ہوئے تھے۔شانی اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور چوری کیا گیا سامان بھی برآمد کر لیا گیا۔اس طرح سیٹھ قاسم نقصان اُٹھانے سے بچ گئے اور شاہد کے ضمیر کا بوجھ بھی ختم ہو گیا۔ " پہنچا ہوا بابا - تحریر نمبر 2632,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pahuncha-hua-baba-2632.html,"انوار آس محمدمسجد کے سامنے ایک کونے پر کوئی بھکاری بابا بیٹھا ہوا بھیک مانگ رہا تھا۔بابا اندھا تھا،اس لئے لوگ اس پر ترس کھا کر کچھ نہ کچھ بھیک دیتے جا رہے تھے۔بابا کے کشکول میں کچھ پیسے جمع ہو گئے تھے۔اتنے میں وہاں کچھ نوجوان امیر زادے آئے اور بابا کو حقارت سے دیکھنے لگے۔”بابا!کیوں اندھے ہونے کا ناٹک کر رہے ہو؟یہ لو پانچ روپے کا سکہ۔“ بے ادب حارث نے سکہ اُچھالتے ہوئے کہا۔بابا کو لڑکے کی بات ناگوار گزری اور اس نے کہا:”میں ناٹک نہیں کرتا۔میں تو صرف بھیک مانگ رہا ہوں۔بوڑھا ہوں اندھا بھی ہوں۔دنیا میں میرا کوئی نہیں ہے۔پر تُو ناٹک کرتا ہے،اپنے مہذب ہونے کا۔تیرے ابا تیرے پیار میں جھوٹی تعریف کرتا ہے۔تیرا باپ ایک کاروباری آدمی ہے۔(جاری ہے)تم لوگوں کا کپڑے کا کاروبار ہے اور تم چار بہن بھائی ہو۔“بابا کی باتیں سن کر لڑکے کو پہلے تو غصہ آیا،مگر نہ جانے بابا کی زبان میں ایسی کیا تاثیر تھی کہ لڑکا کچھ نہ کر سکا،کیونکہ لڑکا جانتا تھا کہ بابا کا ایک ایک لفظ سچ تھا۔یہ بابا تو کوئی بڑا بزرگ لگتا ہے جو ہمارے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہے۔حارث نے سوچا۔اتنے میں دوسرے لڑکے نے کہا:”بابا!زیادہ باتیں نہ کرو،جاؤ بھیک مانگو۔“”تُو چپ کر جا لڑکے!اور بہتر ہے کہ یہاں سے چلا جا،ورنہ کہیں کا نہیں رہے گا۔میں جانتا ہوں کہ تیرا باپ ملک سے باہر ہے اور تجھ پر باہر کی کمائی کا نشہ ہے۔“بابا نے کہا۔دوسرے لڑکے کا منہ بھی کھلا کا کھلا رہ گیا:”یار!یہ بابا تو ہمارے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔“ لڑکے نے آہستہ سے اپنے دوستوں سے کہا۔بابا نے اس کی بات سن لی اور کہا:”میں تمہارے خاندان کے بارے میں بھی سب کچھ جانتا ہوں۔“”بابا!آپ بہت پہنچے ہوئے بزرگ لگتے ہیں، دعا کریں میں امتحان میں پاس ہو جاؤں۔“ تیسرے دوست نے کہا۔وہ بابا سے متاثر ہو چکا تھا۔”اللہ تجھے امتحان میں کامیاب کرے۔“ بابا نے دعا دی۔دوست خوش ہو گیا اور اس نے بابا کے کشکول میں ایک ہزار روپے کا نوٹ ڈال دیا۔”تُو نے ہمیں خوش کیا ہے،اللہ تجھے خوش کرے گا بیٹا!لیکن تیرے دوستوں نے ہمیں ناراض کیا ہے۔ان کا بیڑا․․․․“ بابا ابھی اپنی بات پوری نہیں کر پایا تھا کہ لڑکوں نے بابا سے معافی مانگی اور ایک ایک ہزار کے نوٹ اس کے کشکول میں ڈال دیے۔”بابا!ہم سب کو معاف کرنا،ہم نے آپ کو پہچاننے میں غلطی کی۔“”جاؤ تم کو معاف کیا۔“ بابا نے کہا اور آنکھیں بند کر لیں۔لڑکے وہاں سے چلے گئے۔تھوڑی دیر بعد بابا کے پاس ایک کار آ کر رُکی بابا کار میں سوار ہو گیا۔کار میں بیٹھتے ہی بابا نے نقلی داڑھی اُتاری اور پیسے گنے جو تقریباً پانچ ہزار تھے۔کار میں موجود اپنے دوستوں سے کہا:”اپنا یہ کام اچھا ہے۔پہلے لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرو،پھر ان کو سب بتا کر متاثر کرو۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پہنچے ہوئے بابا ہیں اور ہمیں سب علم ہے۔اس طرح اپنی مٹھی میں آ جاتے ہیں۔تھوڑی محنت زیادہ ہے،مگر آمدنی اچھی ہو جاتی ہے۔“کار میں موجود تمام نقلی بابے یہ سن کر ہنسنے لگے۔ " امی کہتی ہے - تحریر نمبر 2631,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ammi-kehti-hai-2631.html,"فہیم زیدیعدیل اپنے دوست کبیر کے ہمراہ بازار سے سبزی لے کر گھر کی جانب آ رہا تھا۔سامنے سے ارسلان آتا دکھائی دیا۔یہ تینوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔قریب پہنچ کر ارسلان نے ہاتھ اس کی جانب بڑھایا تو عدیل نے اس سے ہاتھ نہ ملانے کا عذر پیش کرتے ہوئے کہا:”میں ہاتھ نہیں ملا سکتا،میرے ہاتھ کی انگلیوں میں کافی دنوں سے درد ہے۔“”اوہ تو بھائی!جلدی کسی ڈاکٹر کو دکھاؤ۔“ ارسلان نے دوسرے دوست کبیر سے ہاتھ ملاتے ہوئے عدیل کو ہمدردی سے مشورہ دیا۔”اچھا میں ذرا جلدی میں ہوں امی نے یہ سبزی لینے بازار بھیجا تھا۔“ عدیل نے ارسلان سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ارسلان آگے بڑھ گیا تو کبیر نے عدیل سے کہا:”تم نے اس سے جھوٹ کیوں بولا کہ تمہارے ہاتھ میں درد ہے اور اس سے ہاتھ بھی نہیں ملایا۔(جاری ہے)“”بھائی!میری امی کہتی ہیں،ان کا پورا ہی گھر ملنے جلنے کے قابل نہیں ہے۔“ عدیل نے وجہ بتائی۔”ایسا کیا کر دیا ان لوگوں نے،جو ملنے کے قابل ہی نہیں رہے؟“ کبیر نے ایک بار پھر اصرار کیا۔ان لوگوں نے اپنے گھر میں ناپاک جانور کتا رکھا ہوا ہے۔”کتے تو اکثر لوگوں کے گھر میں پالے جاتے ہیں،اس لئے کہ وہ وفادار ہوتے ہیں اور گھر کی رکھوالی بھی کرتے ہیں۔“ کبیر نے عدیل کی بات پر حیران ہو کر کہا۔”بس بھئی میری امی نے کہا ہے کہ ان کے گھر نہ جانا ہے اور نہ ان لوگوں سے بات کرنی چاہیے۔“ عدیل نے امی کا فیصلہ سنایا اور اپنے گھر میں داخل ہو گیا۔سنو بیٹا!ارسلان کی امی خالہ رشیدہ نے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر عدیل کو آواز دے کر کہا:”اپنی امی سے کہنا کہ آج شام چار بجے ہمارے ہاں قرآن خوانی میں آ جائیں۔“ ارسلان کی امی نے بہت شفقت سے کہا۔”امی سے کہنا بے کار ہے خالہ!وہ نہیں آئیں گی آپ کے گھر،امی ابو اکثر اس ناپاک کتے کے بارے میں باتیں کرتے ہیں جو آپ نے اپنے گھر میں پالا ہوا ہے اور یہ بھی کہتی ہیں کہ ناپاک جانور سے آپ کے گھر سے برکت بھی اُٹھ چکی ہو گی۔“ عدیل نے بلا تکلف صاف صاف کہہ دیا۔”ٹھیک ہے بیٹا!بہت شکریہ،یہ سب بتانے کا۔“ ارسلان کی امی نے افسوس سے کہا اور گھر کے اندر چلی گئیں۔”تمہاری یہ بہت غلط بات ہے عدیل!کہ تم صرف اس بات پر ارسلان سے بات نہیں کرنا چاہتے کہ اس کے گھر میں کتا ہے۔“ ایک روز عدیل کے دوست کبیر نے اسے سمجھانے کے لئے کہا۔”دیکھو بھائی!میرے والدین جو مجھ سے کہیں گے میں ویسا ہی کروں گا۔“ عدیل نے ارسلان سے بات نہ کرنے کی وجہ بتائی:”اور تم اس کی زیادہ حمایت مت کرو،جو میری امی کا حکم ہے،میں ویسا ہی کر رہا ہوں بس۔“ عدیل نے اٹل انداز میں کبیر سے کہا تو کبیر نے عدیل سے زیادہ بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اور خاموش ہو گیا۔”تم کو معلوم ہے کبیر!ہمارا کتا بہت ہی وفادار ہے،اس نے ایک دفعہ ہمارے گھر چوری کی واردات ناکام بنا دی۔“ ارسلان نے بعد میں کبیر کو بتایا۔عدیل پاس کھڑا تھا،بولا:”وہ تو ہر کتا ہی وفادار ہوتا ہے۔میری امی نے کہا ہے کہ جن کے گھر ناپاک جانور ہوں ان سے دور رہنا چاہیے۔“ارسلان کی والدہ،عدیل کے گھر پہنچ گئیں اور بولیں:”بہن ثریا!آپ کے خیالات جان کر بہت دکھ ہوا مجھے۔“”بھلا میں نے ایسی کیا بات کر دی،کس بات کا افسوس ہوا آپ کو؟“ عدیل کی امی جن کو اس طرح اچانک رشیدہ خالہ کا اپنے گھر چلے آنا بُرا لگا،ناگواری کے انداز میں پوچھا۔”آپ اپنے بچے کو یہ کیا تربیت دے رہی ہیں۔“ رشیدہ خالہ نے بات شروع کی۔”کیسی تربیت کی،کیا مطلب،میں کچھ سمجھی نہیں؟“ عدیل کی امی نے پوچھا۔”وہ سب سے یہی کہتا پھر رہا ہے کہ ہم نے کتا پالا ہے تو ہمارے گھر سے برکت اُٹھ چکی ہے۔“ ارسلان کی امی اصل بات کی طرف آئیں۔”بُرا مت ماننا بہن!کتے اور اس جیسے غلیظ جانور کم از کم کسی مسلمان کے گھر میں تو نہیں ہونے چاہئیں۔“ عدیل کی امی نے اب صاف صاف کہا۔”بہن!تین سال پہلے جب یہ پلا تھا،تب تیز برسات میں راستے میں شدید ٹھنڈ سے ٹھٹھر رہا تھا تو اس وقت میرے شوہر کو اس پر ترس آ گیا اور وہ اسے اُٹھا کر گھر لے آئے۔اس کے زخموں پر مرہم لگایا،اسے دودھ پلایا۔اس کا چند روز یہ سوچ کر خیال رکھا کہ ٹھیک ہو جائے گا تو اسے واپس جنگل میں چھوڑ آئیں گے،مگر اس کے بعد یہ معصوم جانور تو اس قدر ہم سے مانوس ہو گیا کہ ہمارا گھر چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوا۔کئی بار ہم نے اسے دور جنگل میں چھوڑا،مگر پھر دوسرے دن ہمارے دروازے پر ہوتا تھا،پھر ہمیں بھی اس پر رحم آ گیا۔ہم نے اسے مستقل اپنے پاس گھر کے پیچھے اسے جگہ دے دی۔کیا وہ ہمدردی ہم نے جو اس کتے کے ساتھ کی کیا وہ سب غلط تھا،کیا ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا،کیا اللہ کے نزدیک بھی ہماری یہ نیکی،یہ ہمدردی فضول اور لاحاصل تصور ہو گی۔“ خالہ رشیدہ ایک سانس میں بولتی چلی گئیں۔”جی بہن!کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں جس بے زبان جانور کے ساتھ ہمدردی کی جائے وہ تو بعد میں احسان مند ہو کر آپ کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے۔“ عدیل کی امی نے اب شرمندگی سے کہا۔”انسانوں کے ساتھ ساتھ بے زبان جانوروں سے بھی ہمدردی،پیار،محبت اور ان کا خیال رکھنا بھی تو ایک اچھا مسلمان ہونے کی علامت ہے اور اللہ کی طرف سے بھی ہمیں یہی حکم ہے۔“ خالہ رشیدہ نے نرم پڑتے ہوئے کہا۔”بالکل بہن!آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔“ عدیل کی امی کو بھی اب اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا۔”اگر ہم نے کتے کو اپنے گھر کے پچھلے حصے کے ایک کونے میں جگہ دے دی تو کیا ہم مسلمان نہیں رہے؟“ خالہ رشیدہ نے کہا۔”مجھے معاف کر دینا بہن!آپ نے تو میری آنکھیں کھول دی ہیں۔“ عدیل کی امی نے شرم سار ہو کر کہا۔”آپ کی اس تربیت کی وجہ سے آپ کے بیٹے عدیل میں بھی غلط خیالات پیدا ہو رہے ہیں۔آپ کا بیٹا بات بات پر میری امی کہتی ہیں،میری امی کہتی ہیں“ کی تکرار کرتا رہتا ہے۔یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔خالہ رشیدہ نے عدیل کی امی کو نرمی سے سمجھایا۔”جی میں بہت غلط کر رہی تھی،مجھے معاف کر دیں رشیدہ بہن!اب ایسا نہیں ہو گا،بلکہ میں اب اپنے بیٹے کو بھی سمجھاؤں گی۔“ عدیل کی امی ثریا نے اپنی غلطی مان کر کہا۔”میری بات سمجھنے کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ۔مہربانی کر کے اپنے بچے کے سامنے ایسی کوئی بات نہ کیا کریں جس سے اس کی سوچ منفی ہو جائے۔ارسلان کی امی نے کہا اور خوش ہو کر ان کے گھر سے نکل گئیں۔“ " ایک چڑیا کی کہانی - تحریر نمبر 2630,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-chirya-ki-kahani-2630.html,"زارا خانایک زمانے میں،اوک کے ایک لمبے درخت کی شاخوں میں اونچے ایک آرام دہ چھوٹے گھونسلے میں،ایک ماں چڑیا اور اس کے تین بچے رہتے تھے۔ماں چڑیا اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی تھی اور اپنا پورا دن ان کے لئے کھانا جمع کرنے اور انہیں اُڑنا سکھانے میں گزارتی تھی۔ایک دن،جنگل میں تیز ہوا چل رہی تھی،جس نے اوک کے درخت کی شاخوں کو ہلا کر رکھ دیا اور چھوٹے گھونسلے کو آگے پیچھے گھومنے کا سبب بنا دیا۔ماں چڑیا کو ڈر تھا کہ اس کے بچے گھونسلے سے باہر گر جائیں گے،لہٰذا اس نے اپنے پروں کو وسیع کر دیا اور انہیں ہوا سے بچانے کے لئے اپنے جسم کا استعمال کیا۔ہوا چلتی رہی،لیکن ماں چڑیا نے اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے اپنی پوری طاقت استعمال کرتے ہوئے مضبوطی سے تھامے رکھا۔(جاری ہے)آخرکار،ہوا تھم گئی،اور چھوٹا گھونسلا ایک بار پھر محفوظ تھا۔بچے اپنی ماں کی بہادری پر حیران رہ گئے اور ان کی حفاظت کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ماں چڑیا مسکرائی اور ان سے کہا کہ وہ ہمیشہ انہیں محفوظ رکھنے کے لئے موجود رہے گی،چاہے کچھ بھی ہو۔اس دن سے،بچے مضبوط اور زیادہ پراعتماد ہو گئیں،یہ جانتے ہوئے کہ ان کی ماں ہمیشہ ان کی حفاظت کے لئے موجود تھی انہوں نے اُڑنا سیکھا اور جلد ہی اپنے آس پاس کی دنیا کو تلاش کرنے کے لئے گھونسلہ چھوڑ دیا۔لیکن وہ اپنی بہادر ماں کو کبھی نہیں بھولتے تھے اور اکثر ان سے ملنے کے لئے اوک کے درخت پر واپس آ جاتے تھے۔ماں چڑیا اپنے بچوں پر فخر کرتی تھی اور انہیں مضبوط اور آزاد پرندوں میں بڑے ہوتے دیکھ کر خوش ہوتی تھی۔اور وہ جانتی تھی کہ چاہے وہ کہیں بھی جائیں،وہ ہمیشہ اس محبت اور تحفظ کو یاد رکھیں گے جو اس نے انہیں دیا تھا۔ " ذرا سی بھول - تحریر نمبر 2629,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zara-si-bhool-2629.html,"شازیہ کاشف، کراچیاحمد گلی میں کھیل رہا تھا امی نے پاس بلا کر کہا:”بیٹا!ذرا جلدی سے حلوائی چاچا کی دکان سے سموسے لے آؤ، مہمان آئے ہوئے ہیں۔“امی نے پیسے اس کے ہاتھ میں پکڑائے۔حلوائی چاچا کی دکان پر آج معمول سے زیادہ رش تھا۔”چاچا! چھ سموسے دے دیں۔“حبیب چاچا جلدی جلدی دوسرے گاہکوں کی مٹھائی اور سموسے باندھنے میں مصروف تھے۔ان کے کانوں تک احمد کی آواز نہ پہنچ سکی۔اس نے کئی بار چاچا کو بلند آواز سے متوجہ کیا۔آخر حبیب چاچا نے اسے سموسوں کی تھیلی پکڑائی اور دوسرے گاہک کی طرف متوجہ ہو گئے۔اب اس کے ایک ہاتھ میں سموسوں کی تھیلی تھی اور دوسرے ہاتھ میں پیسے۔اسی لمحے شیطان نے اس کے دل میں لالچ پیدا کیا۔چنانچہ احمد کے قدم گھر جانے والے راستے پر ہو لیے۔(جاری ہے)”کیا ہوا احمد تمھیں اتنا پسینہ کیوں آ رہا ہے۔“امی نے سموسے کی تھیلی تھامتے ہوئے اس سے پوچھا۔”کچھ نہیں امی!بس ایسے ہی۔“وہ غائب دماغی سے بولا اور جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔کمرے میں جاتے ہی اس نے جیب سے پیسے نکالے اور اپنے پنسل بکس میں چھپا دیے۔اس کا دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا۔اگلے دن اسکول میں وہ غائب دماغی کی کیفیت میں رہا۔اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کی چوری پکڑی نہ جائے۔اسی وجہ سے وہ کینٹین سے بھی کچھ خرید نہ سکا۔اسکول سے چھٹی ہوتے ہی وہ حبیب چاچا کی دکان کی طرف چل پڑا۔دوپہر کا وقت تھا دکان پر سناٹا تھا۔چاچا مٹھائی بنانے میں مصروف تھے۔”السلام علیکم چاچا!“اس نے ادب سے سلام کیا۔”وعلیکم السلام کیسے ہو بیٹا!“چاچا نے مسکرا کر جواب دیا۔”چاچا یہ لیں آپ کے پیسے میں کل دینا بھول گیا تھا۔“اس نے شرمندہ ہوتے ہوئے جیب سے پیسے نکالے اور ان کی طرف بڑھائے۔”مجھے یاد تھا کہ تم نے پیسے نہیں دیے میں نے پلٹ کر دیکھا تو تم جا چکے تھے۔تم ایک اچھے بچے ہو۔مجھے یقین تھا کہ تم پیسے دینے ضرور آؤ گے۔یہ لو تمہاری ایمانداری کا انعام۔“انھوں نے ایک لفافے میں جلیبیاں ڈال کر احمد کو تھمائیں۔احمد نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ لفافہ پکڑ لیا۔واپسی میں احمد کے دل اور دماغ دونوں بہت ہلکے پھلکے ہو چکے تھے۔ " بہترین سودا - تحریر نمبر 2628,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/behtareen-sauda-2628.html,"جدون ادیباکرم صاحب کے چار بیٹے تھے۔انھوں نے سبزی منڈی میں ساری زندگی کام کیا اور اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی۔پھر وہ بیمار ہو گئے اور ان کے علاج معالجے پر کثیر رقم خرچ ہو گئی،مگر جان نہ بچ سکی۔وہ اہلیہ کو بیٹوں کے آسرے پر چھوڑ گئے۔شروع شروع میں بیٹوں نے ماں کا بہت خیال رکھا،مگر جلد ہی وہ اپنے فرض سے غافل ہو گئے۔چاروں بال بچے دار تھے اور خوشحال تھے،مگر سب مل کر بھی ایک ماں کو خوش نہ رکھ سکے۔اس دن تو فہمیدہ بیگم دل مسوس کر رہ گئیں،جب بڑی بہو نے ان کے سامنے شوہر سے کہا:”امی کو ہر بیٹے کے پاس ایک ایک مہینہ رہنا چاہیے،تاکہ کسی ایک بیٹے پر بوجھ نہ بنیں۔“چھوٹے بیٹے اصغر کو یہ بات پتا چلی تو اسے افسوس ہوا کہ ماں جس کی دعا جنت کی ضمانت ہے،بھائیوں کے لئے بوجھ بن گئی تھیں۔(جاری ہے)وہ بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور مالی لحاظ سے بھی دوسرے بھائیوں سے کمزور تھا،مگر ماں کی عظمت کو سمجھتا تھا اور اپنے بھائیوں کا رویہ دیکھ دیکھ کر کڑھتا رہتا تھا۔ایک دن بڑی بھابھی نے سب کو اپنے گھر پر بلایا۔اس دن اصغر کی جیب میں پچاس ہزار روپے تھے جو اس نے اپنے ایک دوست سے اُدھار لئے تھے،تاکہ منڈی میں جا کر والد کی جگہ پر کام کر سکے،مگر جب بھائی کے گھر پہنچا اور وہاں درپیش مسائل دیکھے تو خود پر قابو نہ رکھ سکا۔بھابھی نے بتایا کہ امی کی بیماری پر چالیس ہزار روپے خرچ ہوئے ہیں لہٰذا ہر بھائی اپنا حصہ دس ہزار روپے دے گا۔انھوں نے ٹیسٹ رپورٹیں اور ہسپتال کے بل بھی دکھائے۔اسی لمحے اصغر نے فیصلہ کر لیا۔وہ سب سے مخاطب ہو کر بولا:”بیماری تو پھر بھی آ سکتی ہے،اس مسئلے کا کوئی مستقل حل ہونا چاہیے۔“”مثلاً کیا حل ہو گا؟“ بڑی بھابھی نے تیکھے انداز میں پوچھا۔اصغر نے فیصلہ کن لہجے میں کہا:”امی میرے ساتھ رہیں گی،ہر بیماری،دکھ،تکلیف میرے ساتھ گزاریں گی۔میں کسی سے کوئی رقم نہیں مانگوں گا۔اگر آپ سب کو منظور ہے تو امی ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ جائیں گی۔بولیے․․․․․!“اصغر کے الفاظ نے ماحول پر سناٹا طاری کر دیا۔بڑے بھائی نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو بھابھی نے ان کو روک دیا اور خود بولیں:”اصغر!تم جذباتی ہو کر ایسا کوئی فیصلہ مت کرو کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔“”دیکھتے ہیں،کون پچھتاتا ہے۔“یہ کہتے ہوئے اصغر نے جیب سے رقم نکالی۔دس ہزار روپے الگ کر کے واپس جیب میں رکھے اور چالیس ہزار میز پر رکھتے ہوئے بولا:”یہ لیں،امی کے علاج کا خرچ اور ان کا سامان باندھ دیں۔“اصغر اپنی ماں کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔وہ گھر سے کام کے لئے پیسے لے کر نکلا تھا،مگر ماں کی حالت دیکھ کر اس نے اپنی آخرت کا سودا کر لیا تھا۔اصغر جب ماں کو لے کر گھر پہچا تو اس کی بیوی کو شوہر کا یہ عمل پسند نہیں آیا اور وہ دونوں بچوں کو لے کر اپنی ماں کے گھر چلی گئی۔اصغر نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ماں کی خاطر کسی کا دباؤ برداشت نہیں کرے گا۔اصغر کے حالات کچھ بہتر نہیں تھے،پھر بھی اس نے ماں کی ذمے داری قبول کر لی تھی۔اصغر کے حق میں تو وہ ہر وقت دعا کرتی رہتیں۔اصغر پھلوں اور سبزیوں کی منڈی میں کام کرتا تھا۔اپنا کام شروع کرنے کے لئے اس نے جو رقم حاصل کی تھی وہ خرچ ہو گئی،مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور تھوڑی رقم سے کام کی ابتداء کی تھی اور تھوڑی تھوڑی بچت کرنا شروع کر دی۔اصغر کی ساس نے پیغام بھیجا کہ وہ بیوی کی شرط پر اسے لے جائے،مگر اصغر نے منع کر دیا اور کہلوایا کہ اسے اچھی بہو بن کر آنا ہے تو آ جائے،ورنہ اس کی مرضی ہے۔اس طرح بات بگڑ گئی۔خاندان کے کچھ بڑے بیچ میں پڑے اور اصغر کو سمجھایا کہ ماں چاروں بھائیوں کی ذمے داری ہے،تمہارا فیصلہ غلط ہے،مگر اصغر نے اپنا فیصلہ بدلنے سے انکار کر دیا۔دوسری طرف ماں کے گھر سے جانے کے بعد اصغر کے بھائی دفتری اور گھریلو پریشانیوں اور بیماریوں سے مشکلات میں گھِر گئے۔اصغر نے جلدی ہی ایک معقول رقم جمع کر لی اور منڈی میں اپنے والد والی جگہ حاصل کر کے اس نے اپنا کام شروع کر دیا۔آس پاس کے دکاندار دن بھر گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لئے آوازیں لگاتے رہتے،مگر اصغر سکون سے بیٹھا رہتا،پھر بھی اس کی دکان پر گاہکوں کا ہجوم رہتا۔یہ سب اس کی ماں کی دعاؤں اور اللہ کی رضا سے ہو رہا ہے۔اصغر منڈی سے اتنی رقم کمانے لگا کہ اس کے سارے بھائی مل کر بھی نہ کما پاتے تھے۔وہ ایک خوشحال تاجر بن گیا۔جب سرمائے ریل پیل ہوئی تو بیوی بھی راضی ہو کر گھر آ گئی۔اپنی ساس سے معافی مانگی اور ان کی خدمت کرنے لگی۔اصغر منڈی سے کمائی گئی رقم سے لوگوں کی مدد بھی کرتا اور کھلے ہاتھ سے خرچ بھی کرتا،مگر اس کے پاس کوئی کمی نہ ہوتی۔پھر ایک دن فہمیدہ بیگم بیمار پڑ گئیں۔ان کے دو بیٹے شہر سے باہر اور ایک کمپنی کے کام سے ملک سے باہر تھا۔چند روز بعد فہمیدہ بیگم چل بسیں۔بیرونِ ملک بیٹے کو تو ان کا آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔ایک دن جب پورا خاندان جمع ہوا تو اصغر نے تین لفافے نکال کر اپنے بھائیوں کے سامنے رکھ دیے۔انھوں نے لفافے کھولے تو وہ نوٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔”یہ کیا ہے!“ بڑے بھائی نے حیرت سے پوچھا۔اصغر نے دکھی دل کے ساتھ آنکھیں ملتے ہوئے کہا:”یہ پیسے امی کے پاس تھے،جو میں ان کو اکثر دیتا رہتا تھا۔یہ رقم چونکہ ماں کی ملکیت تھی،اس لئے یہ رقم آپ تینوں میں تقسیم کر دی ہے کہ یہ آپ کا حق ہے۔وہ شاید بظاہر آپ سے ناراض ہوں،مگر انھوں نے آپ سب کے لئے کبھی بددعا نہیں کی۔دعا کریں کہ آپ کے بچے وہ سلوک نہ کریں جو آپ نے اپنی ماں کے ساتھ کیا ہے!“اصغر کے الفاظ سخت تھے۔بھائیوں کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں،پھر بھی ان کی نظریں لفافے میں موجود بھاری نوٹوں پر تھیں۔اصغر نے اس دن ماں کی محبت میں جو سودا کیا تھا،اس میں اسے کس قدر منافع ہوا ہے اور تینوں بھائی خسارے کا شکار ہوئے تھے۔ " رہے نام اللہ کا - تحریر نمبر 2627,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rahe-naam-allah-ka-2627.html,"جمال رومیاحمد رضا بچوں کے ادیب تھے۔وہ جاسوسی کہانیاں لکھتے تھے۔تجسس اور تحیر سے بھرپور ان کی کہانیاں بچے بڑے سبھی شوق سے پڑھتے تھے۔احمد صاحب کے گھر میں ان کے علاوہ بس ایک قابلِ اعتماد ملازم اکرم ہی تھا،وہی دن رات ان کی خدمت میں مشغول رہتا۔ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا،اکلوتا بیٹا ڈاکٹر تھا اور برطانیہ میں رہتا تھا۔احمد صاحب سال کے دو مہینے اپنے بیٹے کے پاس برطانیہ میں گزارتے تھے۔وہ مئی کے آخری ہفتے میں روانہ ہو جاتے اور جون،جولائی کی گرمیاں وہاں گزار کر اگست کے پہلے ہفتے میں وطن واپس آ جاتے۔مئی کا آخری ہفتہ شروع ہو چکا تھا،حسبِ سابق انھوں نے روانگی کی تیاریاں مکمل کیں اور اپنے ملازم اکرم کو دو ماہ کی تقریباً چھٹی دے دی کہ وہ ہر دوسرے تیسرے روز آ کر گھر کی صفائی ستھرائی کر دیا کرے۔(جاری ہے)اظفر،احمد رضا کے پڑوسی اظفر صاحب کا بیٹا تھا۔وہ بھی احمد صاحب کی کہانیوں کا شیدائی تھا۔اسے کہانیاں پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کا بھی بے حد شوق تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اس کی کہانیاں بھی بچوں کے رسالوں میں چھپیں۔وہ اپنی کئی کہانیاں اشاعت کے لئے بھجوا چکا تھا،لیکن ہر بار اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اب تک اس کی کوئی کہانی کسی رسالے میں نہیں چھپ سکی تھی۔اظفر نویں جماعت کا طالب علم تھا۔اس کا مطالعہ اور تجربہ کہانیاں تخلیق کرنے کے لئے ناکافی تھا۔اس کی تحریر میں ابھی ناپختگی تھی۔جملے بے ربط تھے اور قواعد کی غلطیوں کی بھرمار تھی۔احمد صاحب کی روانگی کے چند روز بعد شام کے وقت اظفر اپنے دوستوں کے ساتھ گلی میں کرکٹ کھیل رہا تھا کہ اس دوران اظفر کی غلطی سے گیند احمد صاحب کے گھر میں جا گری۔احمد صاحب تو گھر میں موجود نہیں تھے،اس لئے آپس کے طے شدہ قانون کے تحت اظفر ہی کو دیوار پھلانگ کر جانا تھا۔کسی کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل ہونا اخلاقی طور پر درست نہیں۔مجبوراً اظفر دیوار پھلانگ کر اندر پہنچا تو گیند گھر کے عقبی باغیچے میں پڑی نظر آ گئی جو اس نے فوراً اُٹھا لی۔گیند اُٹھا کر وہ کمرے کے دروازے کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ایک پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑا گیا۔اس کی کہنی دروازے سے لگی تو وہ کھلتا چلا گیا۔اظفر کو حیرت ہوئی کہ احمد صاحب تو گھر میں موجود نہیں ہیں تو پھر دروازہ کیوں کھلا ہوا ہے!وہ ازراہِ تجسس اس کھلے دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔یہ مطالعے کا کمرہ تھا،جس کا ایک دروازہ عقبی باغیچے میں کھلتا تھا۔آج اکرم گھر کی صفائی کے لئے آیا تھا،لیکن جاتے وقت وہ اس دروازے کی کنڈی بند کرنا بھول گیا تھا۔اظفر نے اِدھر اُدھر دیکھا،لیکن اسے کوئی دکھائی نہ دیا۔کمرے میں دائیں بائیں دیواری شیلف بنے ہوئے تھے، جن میں کتابیں سلیقے سے سجی ہوئی تھیں۔کمرے کے وسط میں ایک بڑی لکھنے کی میز تھی،جس پر چند کتابیں،فائلیں اور بے شمار صفحات بکھرے ہوئے تھے۔اظفر غیر ارادی طور پر میز کی جانب بڑھا اور بکھرے صفحات کو اُٹھا کر ان کا سرسری جائزہ لینے لگا۔اچانک اس کی نظر کاغذوں کے ایک پُلندے پر پڑی جس کے پہلے صفحے پر واضح حروف میں ”بردہ فروشوں کا انجام“ اور اس کے نیچے چھوٹے حروف میں غیر مطبوعہ لکھا تھا۔یکایک اظفر کے دماغ میں ایک عجیب خیال پیدا ہوا۔اس نے سوچا کہ میں اس نئی غیر مطبوعہ کہانی کو اپنے نام سے چھپوا سکتا ہوں۔میں کہانی کے کرداروں کے نام تبدیل کر دوں گا۔یہ سوچتے ہوئے اس نے کاغذوں کے پُلندے کو جلدی جلدی اپنی پتلون کی جیب میں ٹھونسا اور دیوار پھلانگ کر واپس باہر آ گیا اور دوبارہ کھیل میں مشغول ہو گیا۔گھر پہنچ کر اظفر نے کرداروں کے نام تبدیل کر دیے اور کہانی میں معمولی تبدیلیاں کر کے بچوں کے اس رسالے کو ارسال کر دی،جس کے لئے احمد صاحب گزشتہ بیس سالوں سے کہانیاں لکھ رہے تھے۔اظفر جانتا تھا کہ ہر آنے والے مہینے کا شمارہ پیشگی تیار رہتا ہے،لہٰذا جون میں کہانی کے شائع ہونے کا کوئی امکان نہیں،لیکن جولائی کے شمارے میں بھی اظفر کی بھیجی ہوئی کہانی شامل نہیں تھی۔اسے حیرت تو بہت ہوئی،لیکن پھر اس نے یہ سوچ کر خود کو مطمئن کر لیا کہ ہو سکتا ہے اس کی بھیجی ہوئی کہانی آئندہ شمارے کے لئے منتخب کی گئی ہو۔اب اگست کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ایک دن اظفر اپنے گھر کے قریب واقع پارک میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ اچانک آواز آئی:”کیسے ہو اظفر بیٹا؟“وہ چونک کر پلٹا۔اس کے پیچھے احمد صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے،وہ کل ہی برطانیہ سے لوٹے تھے۔”جی․․․․․ٹھیک ہوں․․․․․انکل!“اظفر نے جواب دیا۔”کیا بات ہے؟تمہاری کہانی کیوں نہیں چھپی؟“احمد صاحب نے پوچھا۔اظفر کو حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا:”کک․․․․․کیا مطلب؟“وہ سٹپٹا گیا:”کون سی کہانی انکل؟“”وہی کہانی،جو تم نے میری میز پر سے اُٹھائی تھی․․․․“اس بار احمد صاحب گہری سنجیدگی سے بولے۔”مم․․․․․میں نے․․․․․․کک․․․․․کوئی کہانی نہیں اُٹھائی․․․․․آپ کی میز پر سے․․․․․“اظفر نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا:”بھلا میں کیوں ایسا کروں گا۔“وہ احمد صاحب کے سوالات سن کر خاصا گھبرا گیا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ آخر احمد صاحب کو کیسے معلوم ہوا!”آؤ اس بنچ پر بیٹھتے ہیں!“احمد صاحب نے اظفر کے جھوٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بنچ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔”دیکھو اظفر!“ وہ قدرے دھیمی آواز میں بولے:”کہانی لکھنا ایک فن ہے اور اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔مطالعہ،تجربہ اور مشق۔خوب مطالعہ کرو!تجربہ گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتا ہے!مشق جاری رکھو!ایک روز تم ضرور کامیاب ہو گے!“اظفر ایک پتھر پر نظریں جمائے توجہ سے احمد صاحب کی نصیحتیں سن رہا تھا۔احمد صاحب نے اپنی بات ختم کی تو اظفر آہستگی سے بولا:”میں شرمندہ ہوں انکل․․․․مجھے معاف کر دیجیے!“”میں تمھیں معاف کرتا ہوں اظفر بیٹا!“احمد صاحب بولے:”اس شرط پہ کہ تم کہانی چھپوانے کے لئے آئندہ کبھی غلط طریقہ نہیں اپناؤ گے۔“اظفر اُٹھا اور بوجھل قدموں سے پارک کے خارجی دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔کچھ دور چل کر رُک گیا،پھر وہ پلٹا اور احمد صاحب کے قریب آ کر بولا:”میں نے ہی آپ کی میز پر سے کہانی اُٹھائی․․․․آخر یہ بات آپ کو کیسے معلوم ہوئی؟“”رہے نام اللہ کا!“ احمد صاحب یہ کہتے ہوئے بنچ سے اُٹھے اور تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے پارک سے باہر نکل گئے۔احمد صاحب گزشتہ بیس برسوں سے ایک ہی رسالے کے لئے کہانیاں لکھ رہے تھے،ان کی عادت تھی کہ وہ اپنی ہر کہانی کے اختتام پر ایک مخصوص فقرہ ضرور لکھتے تھے،حالانکہ یہ کہانی کا حصہ نہیں ہوتا تھا،بس یہ ان کی عادت تھی۔اظفر نے کہانی اور کرداروں کے نام تو تبدیل کر دیے لیکن اس مخصوص فقرے کو کہانی کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔جب مدیر صاحب کو اظفر کی کہانی موصوم ہوئی تو اس مخصوص فقرے کو دیکھ کر انھیں یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ اس کہانی کا اصل تخلیق کار اظفر نہیں،بلکہ احمد رضا ہیں،اور وہ فقرہ تھا:”رہے نام اللہ کا!“اب اظفر کو یاد آیا کہ اُس روز احمد صاحب کے کمرے میں ان کی میز کا جائزہ لینے کے دوران چند مطبوعہ کہانیوں کی نقول بھی اس کی نظر سے گزری تھیں اور ان سب کہانیوں میں ایک چیز مشترک تھی،ہر کہانی کے اختتام پر تحریر تھا:”رہے نام اللہ کا!“اب اظفر کی اُلجھن دور ہو چکی تھی۔ " آزادی سب کا حق - تحریر نمبر 2626,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azadi-sab-ka-haq-2626.html,"تابندہ فضل غنی، کراچیکرم داد پرندوں کو بیچنے کا کام کرتا تھا۔وہ جنگل سے نایاب پرندوں کو پکڑتا اور مہنگے داموں انھیں بیچتا۔اب تو اس نے اپنے کام کو اور بڑھا دیا۔ہر قسم کے جانوروں کو پکڑنے لگا۔اس کام سے وہ کافی امیر ہو گیا تھا۔ایک دن کرم داد کا چودہ سال کا بیٹا حسن اس کے پاس آیا اور کہنے لگا:”بابا جان!14 اگست آنے والا ہے اور میں اپنے اسکول میں آزادی کے بارے میں مضمون لکھنا چاہتا ہوں۔پر کیا لکھوں سمجھ نہیں آ رہا۔“”اس میں کیا بات ہے،میں لکھتا ہوں۔“کرم داد نے کچھ یوں لکھا:”آزادی کا مطلب ہے کہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزاریں۔جہاں بھی جانا ہو،آزاد پرندے کی طرح اُڑ کر چلا جائے۔ہر کسی کو آزادی سے جینے کا پورا حق ہے۔(جاری ہے)“ابھی وہ لکھ رہا ہوتا ہے کہ اس کے بیٹے نے پوچھا:”بابا جان!آزادی سب کا حق ہے تو پھر آپ جانوروں اور پرندوں کو کیوں قید کرتے ہیں!ان کو بھی تو حق ہے آزاد رہنے کا۔“کرم داد نے یہ سنا اور غصے سے اُٹھ کر چلا گیا۔اگلے دن اس کو خبر ملی کہ چند اغواکاروں نے اس کے بیٹے کو اُٹھا لیا ہے اور رہا کرنے کے بیس لاکھ روپے طلب کیے ہیں۔اتنی جلدی اتنی بڑی رقم کا انتظام مشکل تھا۔کرم داد اللہ تعالیٰ کے حضور جھک گیا اور توبہ کی۔سب جانوروں کو جنگل میں آزاد چھوڑ دیا۔دو دن بعد پولیس نے اغواکاروں کو پکڑ لیا اور حسن کو صحیح سلامت لے آئے۔سب خوش تھے۔اب کرم داد نے پرندوں اور جانوروں کو پکڑنے کا کام چھوڑ دیا۔ہم سب کو بھی آزادی کا اصل مطلب سمجھنا ہو گا اور اس کی قدر کرنی ہو گی،ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم دوبارہ غلام ہو جائیں گے۔اب وہ عظیم شخصیات بھی نہ رہیں،وہ جذبہ بھی اب نہیں رہا کہ دوبارہ آزادی حاصل کر پائیں۔ " جلتا کوئلہ - تحریر نمبر 2625,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jalta-koyla-2625.html,"حنا نعمت، لاہورمیں بچپن ہی میں یتیم ہو گیا تھا۔والدہ لوگوں کے کپڑے سیتیں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالتی تھیں۔جب ذرا بڑا ہوا تو سبزی منڈی میں سبزیوں کی بوری اُٹھانے اور رکھنے کی مزدوری کرنے لگا۔سردیوں کے دن تھے۔بارش ہو چکی تھی۔صبح اُٹھا تو دیکھا امی بخار سے تپ رہی ہیں۔گھر میں دوا کے پیسے نہیں تھے،فوراً منڈی پہنچا اور مالک سے کچھ پیسے مانگے،مگر انھوں نے کہا کہ میں بہانہ بنا رہا ہوں۔اس دن سیٹھ کو جب ایک سودے کے پیسے ملے تو مجھ سے رہا نہ گیا۔سوچا کہ کتنی ناانصافی ہے،میں ایک ایک روپے کے لئے ترس رہا ہوں اور سیٹھ مٹھیاں بھر بھر کر روپے وصول کر رہا ہے۔غصے میں عقل جاتی رہی۔میں نے آنکھ بچا کر پیسے چُرا لیے۔لیکن میری قسمت کہ میں پکڑا گیا۔(جاری ہے)سیٹھ نے بھرے بازار میں مجھے بے عزت کیا۔وہاں سے نکل کر میں سیدھا ریل کی پٹڑی کے پاس پہنچ گیا۔میں ریل کی پٹڑی کے پاس بیٹھ کر رونے لگا۔ریل سے کٹ مرنے کا سوچنے لگا۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب کوئلے والی ریل گاڑیاں چلا کرتی تھیں اور جہاں جہاں سے گزرتی وہاں اپنی چمنی سے چھوٹے چھوٹے سرخ جلتے کوئلے اُگلتی جاتیں۔جس وقت میں وہاں بیٹھا تھا،اسی وقت ایک ریل گاڑی ادھر سے گزری اور یوں ایک جلتا کوئلہ میرے برابر آ گرا۔مجھے احساس ہوا کہ آج میں مر گیا تو اس کوئلے کی طرح راکھ بن جاؤں گا اور دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔صرف میری ماں اور بہن بھائی برباد ہو جاتے۔ریل گاڑی کب کی جا چکی تھی۔میرے سامنے جا بجا سرخ دہکتے کوئلے بکھرے پڑے تھے۔ذرا سی ہوا سے یہ لکڑی کے ڈھیر کو آگ لگانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔میرے دماغ میں خیال کوندا۔اتفاق سے قریبی کچرے کے ڈھیر سے ایک ٹین ڈبا مل گیا۔اس میں بڑے بڑے جلتے کوئلے جمع کر کے بھاگتا ہوا قریبی تنور پہنچ گیا۔وہ روٹیوں کے لئے تنور جلانے کی کوشش کر رہا تھا۔سرد اور بھیگے موسم میں تنور جلانا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔میں نے جلتے ہوئے کوئلے چند روپوں میں فروخت کر دیے۔وہ بھی خوش ہو گیا اور میری ماں کی دوا کا انتظام بھی ہو گیا۔اب میں صبح اور شام کوئلے جمع کرتا اور قریبی تنور والوں کو بیچ کر چند روپے کمانے لگا۔میرے ہاتھ کی پوریں جل کر بے حس ہو گئی تھیں۔میں اپنے ہاتھوں کی پروا نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ میرے پاس کچھ ہی منٹ ہوتے تھے۔اگر میں دیر کرتا تو کوئلے راکھ بن جاتے۔میں نے کچھ روپے جوڑ کر منڈی سے پیاز کی بوری خریدی اور اپنے محلے کے پاس ہی زمین پر دری بچھا کر پیاز بیچنا شروع کر دی۔آہستہ آہستہ محنت کرتے،دھکے کھاتے آخر ایک دن میں خود ایک سبزی کی دکان کا مالک بن گیا۔میں پیسے جمع کرتا رہا۔پھر کپاس سے بنولا نکالنے والی ایک چھوٹی فیکٹری خریدی۔اللہ نے اس میں بہت برکت ڈالی اور میں نے گھر بھی بنا لیا۔میں نے ایک بات کا خیال رکھا کہ اپنے ملازمین کی قدر کرتا اور مشکل وقت میں جہاں تک ہو سکے ان کے کام آتا۔اللہ کا احسان ہے کہ آج میں خوشحال زندگی گزار رہا ہوں۔ " شکاری اور خرگوش - تحریر نمبر 2624,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shikari-aur-khargosh-2624.html,"سعد عثمان طارق، اسلام آبادایک پُرامن گاؤں میں فاروق نامی ایک تجربے کار شکاری رہتا تھا۔وہ شیر کے شکار میں بہت ماہر تھا۔ایک بار اس گاؤں کے قریب جنگل میں ایک آدم خور شیر آ گیا۔چونکہ گاؤں والوں کے کھیت اس جنگل کے پار تھے۔اس وجہ سے گاؤں والے بہت پریشان تھے۔گاؤں کے چودھری نے فیصلہ کیا کہ جو بھی اس شیر کو مار دے گا،اسے پانچ لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔فاروق خان نے شیر کو مارنے کا فیصلہ کیا۔وہ شکار کرنے سے پہلے پوری منصوبہ بندی کرتا تھا۔اس نے اگلے روز ایک نئی بندوق،ایک نیا شکاری چاقو اور دو جال خرید لیے۔وہ جانتا تھا کہ شیر رات کو ایک بار جنگل کی واحد نہر پر پانی پینے ضرور آئے گا۔چنانچہ وہ ایک درخت کے اوپر چڑھ گیا اور جال کو نہر کے چاروں طرف پھیلا دیا۔(جاری ہے)جلد ہی شیر اس جال میں بری طرح پھنس گیا اور فاروق خان نے اسے آسانی سے شکار کر لیا۔اگلے روز جب اس نے یہ بات گاؤں والوں کو بتائی تو وہ بہت خوش ہوئے،مگر اب چودھری کے دل میں لالچ پیدا ہوا۔اس نے انعام دینے سے انکار کر دیا۔اب فاروق خان کو بہت غصہ آیا۔کچھ روز سے چودھری کے گاجر کے کھیت میں ایک خرگوش آ گیا تھا۔وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی اسے کھیت سے بھگا نہیں پا رہا تھا،کیونکہ ادھر وہ اسے بھگاتا ادھر فاروق خان اسے اپنے شکاری طریقوں سے واپس کھیت میں جانے پر مجبور کر دیتا تھا۔جلد ہی چودھری کا سارا کھیت برباد ہو گیا۔اب وہ بہت پریشان ہوا اور فاروق خان سے مدد لینے کے بارے میں سوچا، مگر فاروق خان نے اس کی ایک نہ سنی۔اس سے کہا:”پہلے تم میرے پچھلے پانچ لاکھ اور اس خرگوش کو مارنے کے دو لاکھ پیشگی دو۔“آخر چودھری کو سات لاکھ روپے دینے پڑے تب کہیں جا کر اس نے اس خرگوش کو بھگایا۔اگر آپ نے بھی کسی کی رقم اب تک ادا نہیں کی تو فوراً دے دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ․․․․ " انسان اور مشین - تحریر نمبر 2623,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/insan-aur-machine-2623.html,"محمد عمر امتیازخفیہ اجلاس میں شامل ہونے کے لئے صدرِ مملکت،فوجی افسران اور دوسرے بڑے حکومتی عہدے دار ہال میں جمع ہو چکے تھے۔تھوڑی دیر بعد ایک فوجی افسر نے صدر صاحب سے کہا:”جناب سائنسدان ایڈورڈ جان کے سوا تمام لوگ آ چکے ہیں۔“اسی وقت ایڈورڈ جان اپنے معاون کے ساتھ ہال میں داخل ہوئے۔انھوں نے مسکرا کر صدر صاحب کی طرف دیکھا۔وہ بھی مسکرا دیے۔فوجی افسر ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ہال کا دروازہ بند کر دیا گیا۔صدر صاحب نے اس اہم میٹنگ کے بارے میں مختصراً حاضرین کو آگاہ کیا۔چند لمحے بعد ایڈورڈ جان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔اس کا مطلب تھا کہ ایڈورڈ جان اب اپنی نئی ایجاد کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ایڈورڈ جان نے کھڑے ہو کر گلا کھنکارا اور حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا:”قابلِ احترام جناب صدر صاحب!اور دیگر معزز اراکین!آج میں ایسی مفید ایجاد متعارف کروا رہا ہوں،جس سے ہمارے فوجی اور دفاعی اخراجات میں بہت کمی آ جائے گی۔(جاری ہے)“انھوں نے اپنے معاون کو اشارہ کیا۔اس نے ہال میں لگی بڑی اسکرین کو آن کیا وہ روشن ہو گئی۔اس میں بڑے بڑے روبوٹس فوجی وردی میں نظر آ رہے تھے جو جدید اور خطرناک ہتھیاروں سے لیس تھے۔ایڈورڈ جان نے کہا:”جناب!ان روبوٹس پر آپ جتنی بھی گولیاں برسائیں یہ نہ گریں گے اور نہ بھاگیں گے،بلکہ یہ ہمارے دشمنوں کو پلک جھپکتے ہی نیست و نابود کر دیں گے۔اب سرحدی چوکیوں پر سپاہیوں کی قطعاً ضرورت نہیں رہے گی۔سوچیے حکومت کو کس قدر بچت ہو گی۔“ایک نوجوان افسر مارکو کھڑا ہو گیا۔اس نے صدر صاحب کی طرف دیکھ کر کہا:”جناب!میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“صدر صاحب نے اجازت دے دی۔مارکو ایک خوش مزاج اور بہادر فوجی افسر تھا،جو اپنے فوجی حلقے میں مشہور تھا،بلکہ حکومت کے بہت سے اعلیٰ عہدے دار اس کے حسنِ اخلاق کے باعث اسے پسند کرتے تھے۔مارکو نے کہا:”محترم ایڈورڈ جان!بے شک جدید روبوٹس بہت شاندار ہیں،مگر اس طرح ہمارے جیتے جاگتے فوجی سپاہی جو سوچ سمجھ کر فیصلہ بھی کر سکتے ہیں،بے روزگار نہیں ہو جائیں گے!روبوٹس محض مشین ہیں ان میں کوئی جذبات نہیں ہوتے۔“ایڈورڈ جان ہنس دیے۔انھوں نے کہا:”بیٹے!میدانِ جنگ میں جذبات کی کیا ضرورت جب تم کسی مشن پر جاتے ہو تو کیا دشمنوں کو ہلاک کرنا تمہارا فرض نہیں ہوتا اور دوسرے سپاہیوں کی بے روزگاری سے میرا کوئی لینا دینا نہیں،وہ کوئی اور ملازمت تلاش کر سکتے ہیں۔“اس سے پہلے مارکو کچھ اور کہتا،صدر صاحب نے اس بحث کو روکتے ہوئے اجلاس برخاست کرنے کا کہا اور ایڈورڈ جان کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے ہال سے باہر نکل گئے۔مارکو بھی ہال سے باہر نکل گیا۔صدر صاحب رخصت ہو رہے تھے۔اس سے پہلے ایڈورڈ جان اپنی کار میں بیٹھتے،مارکو نے انھیں مخاطب کیا۔وہ رک گئے۔مارکو نے کہا:”کیا میں کچھ دیر آپ سے بات کر سکتا ہوں؟“انھوں نے مسکرا کر کہا:”کیا تم میرے خیالات بدلنا چاہتے ہو؟“انھیں بھی یہ خوش مزاج نوجوان اچھا لگتا تھا۔مارکو نے سنجیدگی سے کہا:”نہیں میں آپ کو ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں۔“ایڈورڈ جان بھی سنجیدہ ہو گئے:”چلو،آج میں تمھیں اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ لے کر چلتا ہوں۔لنچ اکٹھے کرتے ہیں۔“دونوں ایڈورڈ جان کی کار میں ہی روانہ ہو گئے۔ایڈورڈ جان نے کھانے کا آرڈر دینے کے بعد کہا:”کہانی مختصر ہونی چاہیے،میں بہت مصروف ہوں۔“مارکو نے کہا:”جی جناب!بہت مختصر!شاید آپ کو یاد ہو چند سال پہلے ہمارے ہیڈ کوارٹر پر اچانک دشمنوں نے حملہ کر دیا تھا۔ہمارے فوجی جوان چوکس نہ ہوتے تو بہت نقصان ہوتا،پھر بھی ہمارے کافی سپاہی مارے گئے،ہم نے بھی فائرنگ کرتے ہوئے جنگل تک ان کا پیچھا کیا۔اچانک فائرنگ رک گئی میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور درختوں کے پیچھے سے نکل آیا۔اچانک ایک سنسناتی ہوئی گولی میرے پیٹ میں لگی۔میں لڑکھڑا کر دریا میں جا گرا۔“ایڈورڈ جان نے کہا:”ہاں مجھے اس واقعے کی اطلاع ملی تھی،پھر تم چھ ماہ بعد صحیح سلامت واپس آ گئے تھے۔تم نے بتایا تھا کہ تم بہتے ہوئے ایک قریبی گاؤں میں پہنچ گئے تھے۔گاؤں میں تمہارا علاج ہوا اور تم ٹھیک ہو کر واپس آ گئے۔“مارکو مسکرا دیا اور بولا:”جناب!آپ بہت باخبر انسان ہیں۔یقینا میں بہتا ہوا دشمنوں کی سرحد کے قریب ایک گاؤں میں پہنچ گیا تھا۔جب مجھے ہوش آیا تو میرے قریب ایک بچہ بیٹھا ہوا تھا۔“مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر وہ خوشی سے چیخا:”دادی!انکل کو ہوش آ گیا۔“ایک ادھیڑ عمر خاتون میرے قریب آ گئیں۔انھوں نے میرا بخار چیک کیا اور کہا:”خدا کا شکر ہے تم بیس دن بعد ہوش میں آئے ہو۔اب کیسا محسوس کر رہے ہو؟“میں نے کہا:”میں ٹھیک ہوں محترمہ!مجھے گولی لگی تھی۔“ان خاتون نے کہا:”ہاں!ہمارے گاؤں کے طبیب بہت تجربے کار ہیں۔انھوں نے تمہارا بہت اچھا علاج کیا۔“انھوں نے ایک ماں کی طرح میرا خیال رکھا۔وہ بچہ بھی مجھ سے مانوس ہو گیا تھا۔میں کافی حد تک صحت یاب ہو چکا تھا۔ان خاتون نے میری وردی میرے حوالے کی۔اب تک میں ان کے بیٹے کا لباس پہنا ہوا تھا۔انھوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیں۔میں نے بھی جھک کر بچے کو پیار کیا۔اتنے میں دروازہ کھلا اور جو چہرہ میرے سامنے آیا میں اسے دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔وہ بھی مجھے دیکھ کر حیران تھا۔اچانک اس نے مجھ پر بندوق تان لی۔وہ خاتون میرے آگے آ گئیں۔اس آدمی نے کہا:”ماما!ہٹ جائیں یہ ہمارا دشمن ہے۔“ان خاتون نے کہا:”مگر اس وقت یہ ہمارا مہمان ہے۔میں بھی اس کی وردی دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ یہ کون ہے،مگر یہ اس وقت زخمی اور بے ہوش تھا۔کیا میں نے تمہیں ظلم کرنا سکھایا ہے۔“وہ آدمی بولا:”اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو یہ اب تک مجھے مار چکا ہوتا۔“خاتون بولیں:”میدانِ جنگ کی بات الگ ہے،مگر کسی کو ہماری مدد کی ضرورت ہے تو ہم اس کی مدد ضرور کریں گے،چاہے وہ ہمارا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔میں نے ویریس کو ذمے داری سونپ دی ہے،وہ اس کو باحفاظت سرحد پار پہنچا دے گا۔“اس نے اپنی بندوق نیچے کر لی میں نے اس آدمی کے سامنے ہاتھ بڑھایا۔کچھ توقف کے بعد اس نے مجھ سے ہاتھ ملا لیا اور میں باحفاظت سرحد پار پہنچ گیا۔مارکو خاموش ہو گیا۔ایڈورڈ جان پوری توجہ سے یہ کہانی سن رہے تھے۔انھوں نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بولے:”تمہاری اس کہانی کا مقصد میں سمجھ گیا ہوں کہ انسان ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھتے ہیں۔کس وقت کیا کرنا ہے،انسان ہی یہ صلاحیت رکھتے ہیں۔“ان باتوں کے درمیان وہ لنچ کر چکے تھے۔ایڈورڈ جان نے اُٹھتے ہوئے کہا:”آؤ میں تمھیں گھر چھوڑ دوں۔“مارکو نے ہامی بھر لی۔گھر کے قریب مارکو نے کار سے اُترتے ہوئے کہا:”میں جب وہاں سے روانہ ہو رہا تھا تو اسے بچے نے مجھ سے کہا:”انکل!میں بڑا ہو کر فوجی نہیں بنوں گا۔وہ سب انسانوں کو مارتے ہیں۔میں دادی کی طرح طبیب بنوں گا،جو انسان کی زندگی بچاتے ہیں۔اُن اعلیٰ ظرف خاتون نے مجھے بتایا تک نہیں کہ وہی میری معالج ہیں۔“یہ کہہ کر مارکو کار سے اُتر گیا۔رات کو مارکو کے موبائل فون پر ایڈورڈ جان کا پیغام آیا:”ڈیئر مارکو!بے شک مشینیں انسانوں کا بدل نہیں ہو سکتیں،لیکن انھیں اچھے کاموں کے لئے استعمال کر کے ان سے بہت فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ٹھیک ہے نا۔“مارکو نے مسکرا کر جواب بھیجا:”بہت شکریہ۔“ " کبوتر بیتی - تحریر نمبر 2622,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kabootar-beeti-2622.html,"صبا نیاز صدیقیوہ میری پرواز کی مشق کا تیسرا دن تھا،جب میری زندگی کا انتہائی ناقابلِ فراموش واقعہ پیش آیا۔میں آج بھی اس غیر یقینی واقعہ پر حیران ہوں۔بہرحال جو بھی ہے اس واقعے نے میری سوچ کا رُخ موڑ دیا۔میرے والدین مجھے اُڑنے کی تربیت دے رہے تھے۔میرے جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے میری والدہ نے سختی سے تاکید کی تھی کہ میں زیادہ بلندی تک نہ اُڑوں،کیونکہ میرے پَر ابھی کمزور تھے،لیکن اس دن مجھ سے رہا نہ گیا۔چمکیلی دھوپ میں بلندی پر اُڑتے پرندے نیلے آسمان کی رونق بڑھا رہے تھے۔میرا دل بھی چاہا کہ میں بھی آسمان پر قلابازیاں لگاؤں،دوسرے پرندوں سے مقابلہ کروں۔میں اپنے والدین سے آنکھ بچا کر میں اونچی پرواز کے لئے پَر تولنے لگا۔(جاری ہے)مجھے اونچا اُڑنا تھا،لیکن میں نے جب اُڑان بھری تو تھوڑی دیر بعد میرے پَر توازن برقرار نہ رکھ سکے اور میں ہوا میں اُڑنے کے بجائے زمین پر گرنے لگا۔میرا سر چکرانے لگا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔چند ہی لمحوں میں،میں زمین پر گر چکا تھا۔ابھی میں نے مشکل سے آنکھیں کھولی ہی تھیں کہ اچانک ایک بلی نے مجھے منہ میں دبا لیا اور تیزی سے بھاگنے لگی۔مجھے اپنی موت یقینی لگ رہی تھی،میں نے دل ہی دل میں اللہ سے دعا کی اور اپنے والدین کے بارے میں سوچنے لگا۔میں شرمندہ تھا،خوف زدہ بھی،میرا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ میں اس کی آواز اپنے کانوں میں سن رہا تھا،لیکن ایک عجیب بات ہوئی۔بلی نے مجھے منہ میں دبایا ہوا تھا،پھر بھی میرا دم نہیں گھٹ رہا تھا۔میرے گلے میں بلی کے دانتوں کی چبھن بھی نہیں تھی۔میرے دل کی دھڑکن اور حیرانگی مسلسل بڑھ رہی تھی۔میں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔پانچ منٹ بعد ہم ایک گھر کی دہلیز پر تھے۔میرے کانوں میں کچھ اور بلیوں کی آواز آئی اور پھر بات میری سمجھ میں آ گئی کہ مجھے اتنی نزاکت سے کیوں پکڑا گیا ہے۔شاید یہاں دعوت کا اہتمام تھا اور طعامِ خاص کوئی اور نہیں،بلکہ میں تھا۔میرا جسم خوف سے ٹھنڈا پڑنے لگا،لیکن بلی مجھے منہ میں دبائے ہوئے انتہائی احتیاط اور تیزی سے اوپری منزل کی جانب چلی گئی۔یہ سب کچھ اتنا تیز رفتاری سے ہوا کہ دوسری بلیوں کو خبر بھی نہ ہوئی۔اس بلی نے مجھے احتیاط سے فرش پر رکھ دیا۔میرا حلق خشک ہو رہا تھا۔میں بار بار پانی کے لئے منہ کھول رہا تھا۔بلی اب میرے سر پر کھڑی تھی۔وہ شاید مجھے اکیلے کھانا چاہتی تھی۔بلی نے منہ کھولا اور میں نے اپنی آنکھیں بند کر لی۔بلی میرے گلے کو چاٹ رہی تھی۔میرا دل اُچھل کر حلق میں آ گیا۔میرا آخری وقت سر پر کھڑا تھا،لیکن کافی دیر تک چاٹنے کے بعد بھی بلی نے مجھے ہلاک نہیں کیا۔مجھے حلق میں کچھ تراوٹ محسوس ہوئی تو میری آنکھیں کھلیں اور میں نے پہلی بار اس مہربان بلی کو غور سے دیکھا۔وہ نیلی آنکھوں والی سفید بلی تھی۔اس کی آنکھوں میں شفقت اور مہربانی تھی۔اب مجھے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔اس نے مجھے اپنے اگلے پنجے سے ہلایا۔میرے پر پھڑپھڑائے۔اتنی دیر میں وہاں ایک اور بلی آ گئی۔اس سے پہلے کے وہ میری جانب آتی،نیلی آنکھوں والی بلی نے اسے ڈرا کر بھگا دیا۔میری جان میں جان آئی،لیکن میری آنکھیں نقاہت سے بند ہو رہی تھیں۔میں بے سدھ فرش پر پڑا تھا۔اس بلی نے مجھے ہلایا،لیکن مجھ میں ہمت نہیں تھی۔تھوڑی دیر تک میں ایسے ہی بے حس و حرکت پڑا رہا۔تھوڑی دیر بعد کچھ انسانی آوازیں اور ایک بلی کی میاؤں میاؤں میرے کان میں آئی۔مجھے ٹھیک سے کچھ یاد نہیں،بس اتنا ذہن میں ہے کہ کوئی کہہ رہا تھا یہ کبوتر کا بچہ زخمی ہے۔ایک اور آواز کسی خاتون کی تھی،جو مجھے پانی پلانے کا کہہ رہی تھیں۔بلی کی میاؤں میاؤں مسلسل سنائی دے رہی تھی۔پھر کسی نے مجھے اپنے ہاتھوں میں اُٹھایا اور میرے زخموں پر دوا لگائی اور مجھے پانی پلایا۔پانی حلق میں اُترا تو میری جان میں جان آئی۔میں نے جی بھر کے پانی پیا۔اب میری حالت پہلے سے بہتر تھی۔میری آنکھیں پوری طرح کھل چکی تھیں۔مجھے ایک لڑکے نے ہاتھوں میں پکڑ رکھا تھا اور نیلی آنکھوں والی سفید بلی اس کے پاس کھڑی تھی۔مجھے گھر کی چھت پر بنے کابک میں چھوڑ دیا گیا،جہاں میرے والدین بھی تھے۔دانہ اور پانی بھی میرے قریب ہی رکھ دیا گیا تھا۔میرے والدین میری کہانی سن کر حیران رہ گئے۔انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں خیریت سے واپس آ گیا۔آج بھی جب میں اس واقعے کے بارے میں سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں۔نیلی آنکھوں والی سفید بلی!میں ہمیشہ تمہارا شکر گزار رہوں گا کہ تم نے میری جان بچائی! " ڈاکٹر لومڑ کا ایثار - تحریر نمبر 2621,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/doctor-lumar-ka-eesaar-2621.html,"اختر سردار چودھریدو دن سے جنگل میں شدید بارش ہو رہی تھی۔سب جانور اپنے اپنے گھروں میں دُبکے بیٹھے تھے۔بارش کی وجہ سے سردی میں اچانک اضافہ ہو گیا۔ریچھ بارش کی وجہ سے دو دن سے شکار پر نہ جا سکا تھا۔اس کی بیوی بھی پریشان بیٹھی تھی۔ان کے بچے بھی بھوک سے نڈھال ہو رہے تھے۔لگ رہا تھا کہ بارش کا یہ سلسلہ کئی دن جاری رہے گا۔بھوک سے بچے بلک رہے تھے اور چھوٹے کو تو بخار ہو گیا تھا۔ماں سے یہ دیکھا نہ جا رہا تھا۔ریچھ دروازے کی سیڑھیوں پر سر جھکائے پریشان بیٹھا تھا۔”تم شکار پر کیوں نہیں جاتے؟“بیوی نے ریچھ سے کہا تو اس نے غصے سے بیوی کو دیکھا:”اتنے زوروں کی بارش ہو رہی ہے،میں خوراک کا بندوبست کیسے کروں؟“یہ سن کر تھوڑی دیر وہ خاموش رہی۔(جاری ہے)پھر کچھ سوچ کر نرمی سے کہنے لگی:”کوئی گلہری،کوئی پھل،کوئی مُردار جانور،کوئی پرندہ کچھ نہ کچھ تو خوراک کے لئے مل ہی جائے گا۔گھر سے نکلو گے جبھی تو ملے گا۔“ریچھ باہر برستی بارش کو دیکھنے لگا۔ریچھ کی بیوی نے تھوڑی دیر بعد پھر کہا:”باہر جاؤ،بچے بھوکے ہیں۔زمین پر پڑے پھل مل جائیں تو لے آؤ۔“ریچھ خاموش ہی رہا۔ننھا ریچھ یہ سب باتیں سن رہا تھا۔وہ چپکے سے اُٹھا اور بغیر بتائے بارش میں ہی باہر نکل آیا۔اس نے چند دن پہلے بیری کے ایک درخت پر شہد کا چھتا دیکھا تھا۔وہ برستی بارش میں اُدھر کو چل پڑا۔اسے بھوک لگ رہی تھی،کیونکہ دو دن سے اس نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔اچانک بارش تیز ہو گئی۔اسے اپنی والدہ اور والد کی یاد آئی،لیکن اب وہ آدھے راستے تک پہنچ چکا تھا،اس لئے خالی ہاتھ واپس جانا نہیں چاہتا تھا۔گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔جب وہ بیری کے درختوں کے پاس پہنچا تو وہ سب کچھ بھول گیا۔اچھا خاصا اندھیرا ہو گیا تھا۔جب وہ بیری کے پاس پہنچا تو اس وقت اولے برس رہے تھے۔اس نے بھوک کی شدت میں کسی قسم کی پروا نہیں کی اور بڑی مشکل سے اس درخت کے پاس پہنچ گیا،لیکن اب وہاں شہد کا چھتا نہیں تھا۔اولے تیزی سے برس رہے تھے۔اس کا سارا جسم پانی سے بھیگ گیا تھا۔شہد نہ پا کر اس کی بھوک اور بھی بڑھ گئی تھی۔وہ خود کو بہت کمزور محسوس کر رہا تھا۔اولوں سے بچنے کے لئے وہ ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔اس حالت میں کافی دیر گزر گئی۔دوسری طرف اس کے والدین اس کی تلاش میں بے چین ہو گئے تھے۔ریچھ جو بارش میں گھر سے نہیں نکل رہا تھا،اب جنگل میں مارا مارا پھر رہا تھا۔کافی دیر بعد بارش کا زور ٹوٹا تو ننھا ریچھ وہاں سے گھر کی طرف چل پڑا،اسے سخت سردی لگ گئی تھی۔جسم کانپ رہا تھا۔اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا آہستہ آہستہ چلنے لگا۔تھوڑی دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ اپنے گھر کا راستہ بھول گیا ہے۔ریچھ کے بچے کو ڈر لگنے لگا۔اچانک ایک طرف سے آواز آئی۔جیسے کوئی اس کا نام لے کر پکار رہا ہو۔”کون ہے! کون ہے وہاں؟“ اس نے اونچی آواز میں پوچھا۔”تم کہاں ہو؟“ اسے اپنے والد کی آواز سنائی دی۔تھوڑی دیر بعد ریچھ اپنے بچے کو بازوؤں میں اُٹھائے گھر لے آیا۔بھوک اور سردی سے وہ کانپ رہا تھا۔”اس کی دوا لانی پڑے گی۔“ ماں نے بچے کی حالت دیکھتے ہوئے کہا تو ریچھ نے سر کو ہلایا۔بارش کافی حد تک کم ہو گئی تھی،لیکن ابھی ہلکی پھلکی بارش ہو رہی تھی۔ریچھ نے کہا:”بارش رکے گی تو جاؤں گی۔“ڈاکٹر بندر جو ڈاکٹر لومڑ کا خاص شاگرد تھا،اس نے اپنا الگ کلینک کھول لیا تھا۔ڈاکٹر لومڑ جنگل کا سب سے پرانا طبیب تھا،لیکن اب وہ جنگل کے بادشاہ شیر کی طرح بوڑھا ہو چکا تھا۔اتنی سردی میں کسی کے گھر مریض دیکھنے جانا اس کی صحت کے لئے نقصان دہ تھا۔اس کے باوجود جنگل کے جانور اپنے بچوں کی دوا لینے اس کے پاس پہنچ جاتے اور اسے مجبوراً جانا پڑتا۔اب اتنی شدید بارش میں کوئی اس کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا اور ڈاکٹر لومڑ میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اُٹھ کر دروازے تک جائے۔اس نے وہیں سے کہا:”کون ہے؟“ اس کی آواز میں بے زاری تھی۔”ڈاکٹر صاحب!میرے بچے کو سردی لگ گئی ہے،مہربانی کر کے اس کے لئے کوئی دوا یا کوئی جڑی بوٹی دے دیں۔“وہ جنگل کا ایک شریف ریچھ تھا،اس لئے ڈاکٹر لومڑ نے کہا:”تم ڈاکٹر بندر کے پاس چلے جاؤ،میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“”میں وہاں گیا تھا وہ دوا کی قیمت میں خوراک مانگتا ہے،میں خود دو دن سے بھوکا بیٹھا ہوں،اسے کہاں سے کھانے کو کچھ دوں۔“ڈاکٹر لومڑ کو اس پر رحم آ گیا۔اس نے کچھ کھانے کا سامان باندھا اور اس کے ساتھ روانہ ہو گیا۔جب وہ گھر پہنچے تو ڈاکٹر لومڑ نے ننھے ریچھ کو پہلے شہد چٹایا۔شہد سردی میں بہت مفید ہوتا ہے۔اس کے بعد اسے جنگلی پھل کھانے کے لئے دیے۔ڈاکٹر لومڑ بہت سارے پھل لایا تھا۔سب نے تھوڑا تھوڑا کھایا۔ڈاکٹر کے کہنے پر ننھے ریچھ کو جنگلی خشک گھاس علاج کے طور پر دی گئی،جس سے تھوڑی دیر بعد اس کے جسم کا درجہ حرارت بہتر ہو گیا۔اس کے بعد اسے جڑی بوٹیاں دی گئی،جن کے اثر سے وہ سو گیا۔اس کے والدین نے اللہ کا شکر ادا کیا۔اتنی دیر میں بارش تھم چکی تھی۔ڈاکٹر لومڑ دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ مشکل وقت میں آج وہ کسی کے کام آیا۔اس خوشی میں کیچڑ میں واپس جانا بھی اسے بُرا نہیں لگ رہا تھا۔ " قوم کی پہچان - تحریر نمبر 2620,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qaum-ki-pehchan-2620.html,"مریم شہزاد”پھوپھو! پلیز کینچی دیجئے گا۔“ علینہ نے سارہ پھوپھو سے کہا تو وہ اُچھل ہی پڑیں۔”کیا کہا؟ کیا دیجئے گا، پھر سے تو کہنا۔“”پھو․․․․․کینچی چاہیے۔“ علینہ نے لاڈ سے کہا۔”پھر وہی پھو، تم پھوپھو کیوں نہیں کہتیں اور یہ کینچی کیا ہوتا ہے۔“”پھوپھو!کینچی․․․․“ اس نے ہاتھ کے اشارے سے قینچی چلا کر بتایا:”جس سے کاٹتے ہیں۔“”کینچی نہیں صحیح لفظ قینچی ہوتا ہے، بولو، بولو قینچی۔“”وہی تو کہا ہے کینچی!“”پھر وہی کینچی۔حلق سے ق کی آواز نکالو، قاف، قاف سے قینچی۔“ پھوپھو نے کہا۔”قینچی․․․․“ علینہ نے بمشکل حلق سے ق کا حرف نکال کر کہا:”اب تو دے دیں۔(جاری ہے)“”پہلے تم ق اور ک کی اہمیت کو پہچانو۔مثلاً دل کو قلب کہتے ہیں۔اب تم قلب کو کلب کہو گی۔عربی میں کلب کا مطلب ہے کتا۔گویا تمہارے جسم میں کتا دھڑکتا ہے․․․․․کیوں چاہیے قینچی؟“ سارہ نے پوچھا۔”وہ ایک کاگذ کاٹنا ہے۔“”کیا کاٹنا ہے؟“ سارہ ایک بار پھر چیخ اُٹھی۔یا اللہ ،اب کیا ہو گیا! علینہ نے دل میں سوچا اور کہا:”پھوپھو کاگذ کاٹنا ہے۔“”کاگذ نہیں کاغذ،کاغذ․․․․․“ انھوں نے غ پر زور دے کر کہا۔”جی جی وہی وہی، اب تو دے دیں۔“”ٹھیک ہے یہ لو، اور کاٹ کر جلدی واپس کرو کہیں اِدھر اُدھر نہیں چھوڑنا۔“ انھوں نے قینچی دیتے ہوئے کہا۔علینہ نے سوچا کہ کتنی خطرناک گھڑی تھی جب میں نے پھوپھو سے کینچی توبہ توبہ قینچی مانگی تھی۔اس نے کاغذ پر بنی ڈرائنگ احتیاط سے کاٹ لی۔مرغی کی تصویر بہت اچھی بنی اور کٹی بھی خوب تھی۔بے اختیار وہ قینچی واپس کرنے گئی تو پھوپھو کو دکھائی۔”یہ لیں پھوپھو آپ کی قینچی اور دیکھیں میں نے کیا زبردست مرگی بنائی ہے۔“سارہ نے بجائے مرغی کی تصویر دیکھنے کے ایک بار پھر اس کو گھورا۔علینہ نے پریشان ہو کر مرغی کی تصویر ان کے آگے کر دی:”پھوپھو! مجھے نہیں اس کو دیکھیے نا۔“سارہ نے ایک نظر مرغی کی تصویر پر ڈالی جو واقعی اچھی بنی ہوئی تھی اور کاٹی بھی بہت صفائی سے تھی۔”ماشاء اللہ بہت خوب،بہت اچھی اور صفائی سے بنائی ہے۔“ علینہ تعریف سن کر خوش ہو ہی رہی تھی کہ ان کا دوسرا جملہ سن کر پریشان ہو گئی۔”اور کیا کہا تھا تم نے!یہ کس کی تصویر ہے؟“آ گئی شامت پھر، پتا نہیں اب کیا گلت بول دیا، اس نے دل میں سوچا اور ”جل تُو جلال تُو آئی بلا کو ٹال تُو“ کا ورد کرتی ہوئی بولی:”مرگی، پھر کچھ گلت ہو گیا؟“”علینہ! تم اتنی خراب اردو کیسے بول لیتی ہو، درست تلفظ مرگی نہیں مرغی ہے اور یہ گلت نہیں غلط ہوتا ہے غلط، غ سے غلط۔“”مگر پھوپھو اس سے فرک کیا پڑتا ہے، بات تو سمجھ میں آ جاتی ہے نا۔“”فرک نہیں، فرق انھوں نے ایک بار پھر تصیح کی اور کہا:”فرق پڑتا ہے آخر تم سب انگلش بھی تو ٹھیک ٹھیک بولنے کی کوشش کرتی ہی ہو نا اور اس میں کوئی غلطی ہو تو فوراً ٹھیک کرتی ہو۔جب کہ وہ ہماری زبان بھی نہیں ہے۔ہمارے سابق آقا اپنی زبان ہمارے منہ میں ڈال کر چلے گئے۔سر سید احمد خان نے انگریزی کی حمایت ایک مقصد کے تحت کی تھی،وہ مقصد اب بھی موجود انگریزی ضرور سیکھنی چاہیے، لیکن وہ اردو کے مخالف نہیں، بلکہ پرستار تھے، تبھی تو انھوں نے ساری کتابیں اردو میں لکھیں تھیں۔اردو تو بہت پیاری اور میٹھی زبان ہے، جسے فیشن کے طور پر سب غلط طریقے سے بولتے ہیں،یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ہے۔“”لیکن اردو اتنی مشکل بھی تو ہے۔“ علینہ نے کہا۔”اردو مشکل نہیں ہے، اسے مختلف ہتھکنڈوں سے ہم سے دور کیا جا رہا ہے۔اب زیادہ تر اسکولوں میں کوئی اردو بولے تو اسے جرم سمجھا جاتا ہے اور جرمانے وصول کیے جاتے ہیں۔اردو کا ادبی اور شعری سرمایہ بے انتہا ہے،ہمیں اس سے محروم کر دیا گیا ہے۔نہ اردو کے اشعار سمجھ سکتے ہیں، نہ محاورے اور نہ ضرب المثل استعمال کر سکتے ہیں۔“”لیکن میری ساری دوستیں ایسے ہی بولتی ہیں، تاکہ اس طرح ایجوکیٹڈ لگیں۔“”کیوں کہو کہ میری تمام سہیلیاں کہتی ہیں، کیونکہ لڑکیوں کی سہیلیاں ہوتی ہیں اور لڑکوں کے دوست ہوتے ہیں اور ایجوکیٹڈ کی جگہ تعلیم یافتہ نہیں کہہ سکتیں! بہت افسوس کی بات ہے۔جب قومیں اپنی زبان تک بولنے میں شرم محسوس کریں تو ان کو زوال سے کوئی نہیں بچا سکتا۔“”لیکن پھوپھو صرف ایک میرے اردو صحیح کرنے سے کیا ہو گا؟“”کوشش تو سب کو ہی کرنی چاہیے، تم خود تو شروع کرو اور ساتھ ساتھ اپنی سہیلیوں کو بھی بتایا کرو کہ وہ کون سے لفظ غلط بول رہی ہیں تو کچھ نہ کچھ تو بہتری آئے گی ضرور انشاء اللہ۔زبان قوم کی پہچان ہے۔“”ٹھیک ہے، آج آپ میری کینچی اور مرگی معاف کیجیے، مرغی کی املا ٹھیک کی ہے تو میں اپنی سہیلیوں کی بھی اردو درست کروانے کی کوشش کروں گی۔“علینہ نے کہا تو سارہ نے سوچا بچوں کو اگر درست اردو لکھنا اور پڑھنا اور بولنا سکھایا جائے تو اس میں کوئی شرم کی بات نہیں، بس ضرورت ہے کہ ان کی اچھی طرح رہنمائی کرنی چاہیے۔ " اپنے جال میں - تحریر نمبر 2619,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/apne-jaal-mein-2619.html,"آمنہ ظفرایک چھوٹے سے گاؤں کے لوگ سیدھے سادے اور شریف تھے۔ان کی نیکی اور مہمان نوازی دور دور تک مشہور تھی۔اسی گاؤں میں ایک عقل مند شخص بھی رہتا تھا۔لوگ اس کی نصیحتیں سن تو لیتے تھے،لیکن ان پر عمل نہیں کرتے تھے۔ایک ٹھگ نے ان کے متعلق سنا تو وہ اس گاؤں میں بڑی بُری حالت میں پہنچا اور لوگوں کو اپنے لُٹ جانے کی جھوٹی داستان سنائی۔ان لوگوں نے ہمدردی کرتے ہوئے اس کی خوب آؤ بھگت کی اور رہنے کو ایک مکان میں انتظام کر دیا۔کچھ دن گزر گئے تو ٹھگ نے گاؤں والوں سے کہا:”مجھے ایک کلہاڑی دے دیجیے۔میں لکڑیاں کاٹ کر اپنا گزارا کروں گا۔مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ آپ لوگوں پر بوجھ بنا رہوں۔“لوگ خوشی سے راضی ہو گئے اور اسے ایک کلہاڑی دے دی۔(جاری ہے)وہ کلہاڑی لے کر جنگل کی طرف چل دیا۔سارا دن وہاں ایک درخت کے نیچے بیٹھا رہا اور شام کو کلہاڑی لئے خالی ہاتھ واپس آ گیا۔لوگ بڑے حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کہ خالی ہاتھ کیوں لوٹ آئے ہو۔کیا کوئی خشک درخت نہیں ملا؟ٹھگ کہنے لگا کہ درخت تو کئی تھے،لیکن جب میں ایک درخت کاٹنے لگا تو اس درخت نے مجھ سے کہا:”مجھے نہ کاٹو۔میں تمہیں بہت مال دوں گا۔میں رضامند ہو گیا تو درخت نے مجھے یہ ترکیب بتائی کہ اگر تم میرے کھوکھلے تنے کے ساتھ کچھ رقم رکھ دیا کرو تو دوسری صبح تمھاری رقم دُگنی ہو جایا کرے گی۔میں سارا دن وہاں بیٹھا اس پر غور کرتا رہا کہ جب تک آزما نہ لیا جائے،درخت کے سچ یا جھوٹ کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔“لوگوں نے اپنی عادت کے مطابق اس پر یقین کر لیا۔انھوں نے اس سے پوچھا:”آزمایا کیوں نہیں؟“ٹھگ کہنے لگا:”یہ تو آپ سب جانتے ہیں کہ میں ایک لُٹا ہوا مسافر ہوں۔بھلا میرے پاس رقم کہاں؟آپ لوگ چونکہ میرے محسن ہیں،اس لئے میں آپ کو یہ ترکیب بتا رہا ہوں،تاکہ آپ کے احسانات کا بدلا کچھ تو اُتار سکوں۔“لوگوں نے اس کے خلوص کی تعریف کی اور اس ترکیب کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔گاؤں کے ایک عقل مند آدمی نے گاؤں والوں کو سمجھایا،لیکن وہ نہ مانے تو لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔لوگوں نے مل کر کچھ رقم جمع کی اور بتائے ہوئے درخت کے تنے کے ساتھ رکھ دی۔رات کو وہی مسافر وہاں گیا اور رقم گن کر اپنے پاس سے اتنی ہی رقم اور رکھ دی۔دوسری صبح جب لوگ وہاں گئے تو سچ مچ رقم دُگنی تھی۔وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور مسافر کے کہنے پر انھوں نے وہ ساری رقم وہیں رہنے دی،تاکہ رقم اس بار پھر دُگنی ہو جائے۔ادھر عقل مند آدمی بہت حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے!بہت غور و فکر کے بعد وہ سمجھ گیا کہ یہ مسافر کوئی ٹھگ ہے۔اس خیال کے آتے ہی وہ شام کو اس درخت کے قریب جھاڑیوں میں چھپ گیا۔جب اندھیرا چھانے لگا تو وہی ٹھگ جو مسافر کے روپ میں تھا،چھپتا چھپاتا آیا اور رقم کے برابر اتنی ہی رقم اور رکھ دی۔عقل مند آدمی یہ دیکھ کر دل ہی دل میں خوب ہنسا۔ٹھگ کی واپسی کے بعد وہ بھی تیز تیز قدموں سے گھر آ گیا۔دوسری صبح لوگوں نے پھر وہاں دوگنی رقم پائی۔اب تو انھیں یقین ہو گیا کہ یہ آدمی سچ کہہ رہا ہے اور یہ درخت ایک کراماتی درخت ہے۔ٹھگ نے ان سے کہا:”اگر آپ لوگ یہاں بہت سی دولت رکھ دیں تو دنیا کے بہت امیر انسان بن جائیں گے۔لوگ لالچ میں آ گئے اور شام تک پورے گاؤں کی دولت وہاں ڈھیر ہو گئی،لیکن عقل مند شخص نے اس مرتبہ بھی اپنی رقم شامل نہ کی اور کچھ سوچنے لگا۔شام کے سائے ڈھلتے ہی عقل مند آدمی وہاں پہنچ گیا اور جلدی جلدی ساری رقم بوریوں میں بھر کر ایک نالے کے پاس چھپا دی اور ایک چادر میں چھوٹے چھوٹے پتھر بھر کر گٹھری بنائی اور اس جگہ رکھ دی۔رات کو ٹھگ خوشی خوشی آیا۔وہ سمجھ گیا کہ آج لوگوں نے اپنی ساری رقم چادر میں باندھ دی ہے۔اس نے گٹھری اُٹھائی اور وہاں سے چل دیا۔ادھر عقل مند شخص کو جب یہ یقین ہو گیا کہ اب وہ دھوکے باز نہیں آئے گا تو وہ بھی گھر واپس لوٹ آیا۔دوسری صبح جب لوگ خوشی خوشی وہاں پہنچے تو رقم وہاں سے غائب تھی۔سب اپنے سر پیٹ کر رہ گئے۔وہ ٹھگ کے ٹھکانے پر آئے،لیکن وہ وہاں بھی نہیں تھا۔شام تک وہ اسے ڈھونڈتے رہے،لیکن وہ نہ ملا۔ادھر ٹھگ ساری رات مسلسل چلتا رہا،تاکہ گاؤں والوں کی پہنچ سے دور ہو جائے۔کافی دور جا کر ایک جگہ رک کر جب اس نے گٹھری کھولی تو دیکھا کہ اس میں رقم کے بجائے پتھر ہیں۔وہ بڑا سٹپٹایا۔اسے اندازہ ہو گیا کہ عقل مند شخص کو کسی نہ کسی طرح اس کی ٹھگی کا اندازہ ہو گیا اور اس نے موقع سے فائدہ اُٹھا لیا،مگر اب وہ واپس جاتا تو وہ لوگ اس کی بات پر یقین کرنے کے بجائے خوب مرمت کرتے،لہٰذا اس نے بھاگ جانے ہی میں عافیت سمجھی۔ادھر گاؤں میں جب لوگ کافی پریشان ہو چکے تو عقل مند آدمی نے انھیں سارا واقعہ بتایا اور ان کی وہ رقمیں بھی انھیں واپس کر دیں،جو دُگنی ہو گئی تھیں۔لوگ بہت خوش ہوئے اور اس کے بعد سے وہ اس کی نہ صرف عزت کرنے لگے،بلکہ ہر کام اس کے مشورے سے کرنے لگے۔ٹھگ جو اس گاؤں کے لوگوں کو لوٹنے آیا تھا،خود لُٹ گیا۔ " بُرائی کا بدلہ - تحریر نمبر 2618,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/burai-ka-badla-2618.html,"محمد عبید انصاری”بے وقوف جاہل!“ آج پھر اسے یہی طعنہ دیا گیا تھا:”جاؤ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔“اپنے چچا کے منہ سے یہ الفاظ سن کر نعیم کا دل چاہا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے،لیکن اس نے ضبط کیا اور باہر چلا گیا۔آج غلطی سے ایک گملا ٹوٹ گیا تھا۔بس اتنی سی بات پر اسے جلی کٹی سننے کو ملی۔نعیم بہت سنجیدہ لڑکا تھا۔بدقسمتی سے اس کے والدین ایک حادثے میں اسے روتا چھوڑ گئے۔تیرہ برس کا نعیم اس صدمے سے حواس کھو بیٹھا۔نعیم کے چچا نے اسے وقتی طور پر سہارا دیا،مگر کچھ عرصے بعد وہ اور چچی نوکروں سے بھی بدتر سلوک کرنے لگے۔ہر روز کی ڈانٹ ڈپٹ سے وہ تنگ آ گیا تھا۔آج اس نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔اس کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔(جاری ہے)اس کے والدین کا گھر بھی دھوکے سے چچا نے قبضے میں لے لیا تھا۔بغیر کیس منزل کے وہ مسلسل چلتا رہا۔چلتے چلتے ایک جگہ وہ بے ہوش گیا۔بیس سال بیت چکے تھے۔اس دوران چچا کا کاروبار پوری طرح سے تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ان کا اکلوتا لڑکا عدنان ایک ہفتے سے لا پتا تھا۔لاڈ اُٹھانے کی وجہ سے وہ بگڑ چکا تھا۔کہیں جانے سے پہلے کبھی بتاتا بھی نہیں تھا۔چچا اور چچی نے ہر جتن کر لیا،لیکن بیٹے کا کچھ پتا نہ چل سکا۔آج چچا اپنی اہلیہ کے بے حد اصرار پر پولیس تھانے پہنچے تھے۔”السلام و علیکم انسپکٹر صاحب!“”وعلیکم السلام!کہیے کیا مسئلہ ہے؟“ انسپکٹر غور سے انھیں دیر تک دیکھتا رہا۔یہ بات وہ بھی نوٹ کر چکے تھے۔”مجھے ایک رپورٹ لکھوانی ہے۔“ اور پھر انھوں نے شروع سے لے کر آخر تک تمام باتیں بتا دیں۔”آپ فکر مت کریں۔ہم اس کیس پر توجہ سے کام کریں گے۔“”جی آپ کا بہت شکریہ۔“ یہ کہہ کر وہ اُٹھ گئے۔چند روز بعد وہ پھر پولیس تھانے پہنچ چکے تھے۔آج ان کی بیگم بھی ساتھ تھیں۔”ہمیں عدنان کے دوستوں سے معلوم ہوا ہے کہ اس کی کسی آدمی سے لڑائی ہو گئی تھی۔مار پیٹ کے دوران وہ اسے زخمی کر کے فرار ہو گیا ہے۔“اتنا کہہ کر انسپکٹر نے ایک گہری سانس لی،پھر دوبارہ بولے:”تفتیش ابھی جاری ہے۔آپ یاد کریں،کہیں ماضی میں آپ سے کوئی گناہ تو سرزد نہیں ہوا!“ انسپکٹر کی یہ بات سنتے ہی دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔وہ تھانے سے رخصت ہوئے تو راستے بھر وہ یہی سوچتے رہے کہ کس طرح ہمارے ظالمانہ سلوک کی وجہ سے ان کا یتیم بھتیجا گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔گھر آتے ہی وہ دونوں سجدے میں گر گئے اور رو رو کر اللہ سے معافی مانگنے لگے۔چند روز بعد انسپکٹر نے انھیں فون کیا۔فون سننے کے بعد وہ خوشی سے چیخے:”ارے بیگم!جلدی کرو ہمارا بیٹا مل گیا ہے۔پولیس انسپکٹر نے ہمیں بلایا ہے۔“”اے اللہ!تیرا احسان ہے۔“ان کی بیگم نے اپنی شال اُٹھاتے ہوئے شکر ادا کیا۔پولیس اسٹیشن پہنچتے ہی دونوں اپنے بیٹے کو دیکھ کر اس سے لپٹ گئے۔کچھ دیر بعد انسپکٹر صاحب خود ہی بولے:”ہمیں عدنان ایک سنسان علاقے میں بے ہوشی کی حالت میں ملا تھا۔ہم اس کے ایک ساتھی کو بھی گرفتار کر چکے ہیں۔اس سے پتا چلا کہ جس شخص سے عدنان کا جھگڑا ہوا تھا وہ اصل میں منشیات کا اسمگلر تھا۔“”یا اللہ!تیرا شکر ہے کہ میرا بیٹا صحیح سلامت ہے۔“”لگتا ہے،آپ نے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لی ہے اور اس یتیم بچے نے بھی آپ کو معاف کر دیا ہے۔“”کیا؟“ وہ دونوں بُری طرح چونکے۔”گھر والوں کے نفرت انگیز رویے کی وجہ سے وہ لڑکا گھر سے بھاگ نکلا تھا۔وہ بے مقصد چلتا رہا۔اس کا آس پاس کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔آخر اس کی نظروں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور وہ ایک گھر کی دہلیز پر گر کر بے ہوش ہو گیا۔ہوش و حواس بحال ہوئے تو اس نے خود کو ایک خوبصورت سے کمرے میں پایا۔اس کے قریب دو اجنبی مرد عورت بیٹھے ہوئے تھے۔وہ دونوں میاں بیوی تھے۔ان دونوں نے بڑی محبت سے بچے کو دیکھا اور اس کی دیکھ بھال کرنے کا فیصلہ کیا۔پھر انھوں نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔اسے اعلیٰ تعلیم دلا کر پولیس انسپکٹر بنا دیا۔آج وہ آپ کے سامنے کھڑا ہے چچا جان!“”بیٹا نعیم․․․․․“ چچا کے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا۔چچی شرمندہ ہو کر زمین میں گڑی جا رہی تھیں۔ " بھولا ہوا وعدہ - تحریر نمبر 2617,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhula-hua-wada-2617.html,"نذیر انبالویشیراز چودہ سال کا ایک شیخی باز لڑکا تھا۔اسے سائیکل چلانے کا بہت شوق تھا۔سائیکل چلانے میں اسے اتنی مہارت ہو گئی کہ اب وہ سائیکل چلاتے ہوئے کرتب بھی دکھانے لگا تھا۔اس دوران سائیکل کے پُرزے بے جا استعمال کی وجہ سے جلدی گھس جاتے یا ٹوٹ جاتے۔ایک دن وہ اسی طرح کرتب دکھاتا ہوا جا رہا تھا۔آس پاس سے گزرنے والے لوگ اسے سائیکل پر کرتب کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں،مگر کوئی اسے ایسا کرنے سے روک نہیں رہا۔اچانک دھماکا ہوا۔سڑک پر چلتے ہوئے لوگوں نے شیراز کو گھورا۔پچھلے ٹائر کی ٹیوب ایک دھماکے سے پھٹ گئی تھی۔شیراز سائیکل سے اُتر گیا۔ٹیوب کے ساتھ ٹائر بھی پھٹ گیا تھا۔شیخی بگھارتے ہوئے شیراز گھر سے بہت دور نکل گیا تھا۔اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو سو روپے کا ایک نوٹ اس کے ہاتھ میں تھا۔(جاری ہے)کچھ دیر بعد وہ ایک سائیکل مستری کے پاس کھڑا تھا۔مستری نے ٹائر اور ٹیوب دیکھنے کے بعد کہا:”ٹیوب کو تو پنکچر لگ جائے گا،مگر ٹائر تبدیل کرنا پڑے گا۔نیا ٹائر سات سو روپے کا ہے،بتاؤ ٹائر تبدیل کر دوں؟“سات سو روپے،میرے پاس تو سو روپے ہیں،لگتا ہے پیدل گھر جانا پڑے گا۔شیراز نے سائیکل کو دیکھتے ہوئے سوچا۔پھر وہ سائیکل کھینچتا ہوا گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔شیراز گھر پہنچا تو پیدل چلنے کی وجہ سے وہ بہت تھک چکا تھا۔امی جان نے پچھلے ٹائر کو دیکھا،جو زمین سے چپکا ہوا تھا۔بولیں:”آج پھر سائیکل پنکچر کر کے لے آئے ہو۔“”آج ٹیوب کے ساتھ ٹائر بھی پھٹ گیا ہے۔پنکچر اور نئے ٹائر کا خرچ،کل ملا کر آٹھ سو روپے ہوئے۔“”آٹھ سو روپے۔“امی جان نے دہرایا۔”آپ سات سو روپے دے دیں،سو روپے میرے پاس ہیں۔“شیراز کا یہ پُرسکون انداز امی جان کے لئے حیرت میں مبتلا کرنے کے لئے کافی تھا۔”یہ سب ہوا کیسے؟“امی جان کا سوال سن کر شیراز نے نہایت عاجزی سے جواب دیا:”سائیکل پر سوار گھر کی طرف چلا آ رہا تھا کہ اچانک ٹیوب اور ٹائر دونوں پھٹ گئے۔وہیں سے میں سائیکل کھینچتا ہوا پیدل گھر آ رہا ہوں۔“اچانک شیراز کی نظر سائیکل پر پڑی تو اسے محسوس ہوا،جیسے وہ کہہ رہی ہوں:”جھوٹ․․․․․جھوٹ․․․․․سراسر جھوٹ،اپنے کرتوتوں کے بارے میں تو بتاؤ،سچ بولو سچ۔“شیراز نے بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں جواب دیا:”تم تو چپ رہو،دیکھو میں اپنی پیاری امی جان سے بات کر رہا ہوں،آٹھ سو روپے کا معاملہ ہے۔امی اپیل پر غور کر رہی ہیں۔“آخر امی جان نے آٹھ سو روپے شیراز کو دے دیے۔شیراز اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا۔نیا ٹائر اور ٹیوب میں پنکچر لگنے کی دیر تھی کہ وہ پہلے جیسا شیراز بن گیا تھا۔سائیکل نے احتجاجاً چیخ و پکار شروع کر دی،مگر شیراز پر نہ تو پہلے اثر ہوتا تھا اور نہ اب ہو رہا تھا۔ایک دن وہ سائیکل پر دور ایک نئی کالونی کی طرف جا نکلا تھا۔نئی کالونی کی بڑی بڑی سڑکیں دیکھ کر شیراز نے وہاں سائیکل پر کرتب دکھانا شروع کر دیے۔وہ کبھی چلتی سائیکل پر لیٹ جاتا،کبھی اپنے دونوں پاؤں ایک ہی پائیدان پر رکھ دیتا اور کبھی گدی پر پاؤں رکھ کر اپنے دونوں ہاتھ ہینڈل پر رکھ کر خوشی سے نعرہ بلند کرتا کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے،اچانک اس کے سامنے ایک گدھا گاڑی آ گئی۔وہ کوشش کے باوجود سائیکل پر قابو نہ رکھ سکا اور گدھا گاڑی سے جا ٹکرایا۔اس ٹکر میں شیراز کے گھٹنے پر چوٹ آئی اور سائیکل کا اگلا پہیا ٹیڑھا ہو گیا۔جب وہ لنگڑاتی ٹانگ اور سائیکل کے ٹیڑھے پہیے کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تو امی جان گھبرا گئیں۔اس کے زخم پر مرہم لگایا اور پینے کو گرما گرم دودھ دیا۔شیراز مسہری پر لیٹا تو اسے صحن میں کھڑی ہوئی سائیکل دکھائی دے رہی تھی۔سائیکل کو دیکھ کر اسے افسوس ہوا کہ وہ بھی بُری حالت میں تھی۔اسے بھی مرمت کی ضرورت تھی۔امی جان صحن میں آئیں تو اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا:”آج کل تو لوگ اندھا دھند سڑکوں پر گاڑیاں چلاتے ہیں،میرا بیٹا تو بہت دیکھ بھال کر آرام سے سائیکل چلاتا ہے۔“یہ سن کر شیراز سوچ میں پڑ گیا۔اس کی نظر سائیکل پر پڑی۔اسے ایسا لگا جیسے سائیکل اسے گھور رہی ہے اور امی کی بات سن کر وہ کہہ رہی ہو:”یہ بات درست نہیں،جس طرح شیراز مجھے چلاتا ہے،اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتیں۔شیراز میرے ذریعے کرتب دکھاتا ہے،وہ مجھے چلاتا نہیں،اُڑاتا ہے،میرے کل پُرزے اس سے بہت تنگ ہیں،یہ کوئی بات سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں۔“اچانک امی جان نے بستر پر لیٹے شیراز کو گھورا۔شیراز کو لگا جیسے امی سائیکل کے پُرزوں کی ساری باتیں سن چکی ہوں۔انھوں نے کچھ سوچا اور الماری میں سے ایک کاغذ نکال کر شیراز کے سامنے رکھ دیا۔یہ کاغذ اس وقت کا تھا،جب امی جان نے اسے سائیکل خرید کر دی تو شیراز نے ان سے وعدہ کیا تھا،جو اس کاغذ پر لکھا تھا:”وہ سائیکل کی حفاظت کرے گا،اسے دھیان سے چلائے گا،اس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھے گا،وہ شرارتی بچوں کی طرح اس پر کرتب نہیں کرے گا۔“شیراز نے ان باتوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا تھا۔ابو جان اپنے دفتر کے کام کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے ہوئے تھے،اس لئے امی جان سے سائیکل کی مرمت کے لئے مزید پیسے ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔اگلے دن شیراز کو لنگڑاتے ہوئے اسکول جانا اور آنا پڑا۔اسکول زیادہ دور نہیں تھا،اس لئے شیراز سائیکل پر ہی اسکول جاتا تھا۔گھر واپسی پر اس کے جیومیٹری بکس میں جیب خرچ جوں کا توں دیکھ کر امی نے پوچھا:”تم نے ان روپوں کو خرچ کیوں نہیں کیا؟“”میں سائیکل کے لئے پیسے اکٹھے کر کے اس کی مرمت کروانا چاہتا ہوں۔میں اسے دوبارہ زخمی نہیں کروں گا۔“اس کی باتوں سے امی جان کا دل بھی پسیج گیا تھا۔وہ بولیں:”غلطی کا احساس ہونا سب سے اچھی بات ہے۔میں سائیکل کی مرمت کے لئے پیسے دے دوں گی،وعدہ کرو،سائیکل کو احتیاط سے استعمال کرو گے۔“”میں وعدہ کرتا ہوں،آئندہ اپنی سائیکل کا ہر طرح خیال رکھوں گا۔“شیراز کی یہ بات سن کر امی جان کے ساتھ ساتھ شاید سائیکل بھی خوش ہوئی ہو گی۔ " ایک نوالہ - تحریر نمبر 2616,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ek-niwala-2616.html,"مریم شہزاد”ارے تم اتنے مزے سے کیا کھا رہے ہو“؟ عفان نے علی سے پوچھا۔”انڈے کا سینڈوچ“۔میں تو نہیں کھاتا۔”انڈا“ عفان نے کہا”تو علی نے حیران ہو کر پوچھا کیوں!کیوں نہیں کھاتے؟انڈے کا سینڈوچ تو بہت مزے کا ہوتا ہے اور دادو کہتی ہیں اس سے بہت طاقت بھی آتی ہے۔بس مجھے پسند نہیں ہے۔عفان نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا اسکول میں لنچ ٹائم تھا تو دونوں اپنا لنچ کھا رہے تھے،عفان بسکٹ اور چپس لایا تھا،اچانک اسے کچھ خیال آیا،اس نے علی سے کہا ایسا کرتے ہیں ہم دونوں آج اپنا لنچ بدل لیتے ہیں“۔لیکن۔۔۔”علی نے ایک منٹ کے لئے سوچا پھر کہا،اچھا ٹھیک ہے اور دونوں نے اپنا لنچ بدل لیا“۔عفان نے انڈے کا سینڈوچ ہاتھ میں لے کر پہلے تھوڑا سا چکھا،تو اس کو مزے کا لگا اس میں ابلے ہوئے انڈے کے ساتھ ساتھ مکھن بھی لگا ہوا تھا۔(جاری ہے)”یہ تو مزے کا ہے“۔۔عفان نے کہا ہاں بہت مزے کا ہوتا ہے اور اس سے ہمارے جسم کو طاقت بھی ملتی ہے۔تم چپس بسکٹ کیوں کھاتے ہو امی کہتی ہے گھر کا لنچ زیادہ مزے کا ہوتا ہے۔علی نے کہا”میری آپی کہتی ہیں کہ انڈے سے بدبو آتی ہے،مگر یہ تو اچھا ہے“۔عفان نے کہا”میری دادو کہتی ہیں سب کچھ کھانا چاہیے اللہ تعالیٰ نے جو بھی چیز بنائی ہے،اس میں ہمارے لئے فائدہ ہے۔یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں“۔علی نے کہا”ہر چیز میں؟سبزیوں میں بھی“؟عفان نے حیرت سے پوچھا”جی ہاں ہر سبزی کا الگ فائدہ ہوتا ہے،اور یہ مزے دار بھی ہوتیں ہیں۔مگر کتنی عجیب سی شکل ہوتی ہے پکی ہوئی سبزی کی،امی پکاتی بھی ہیں تو ہم نہیں کھاتے،بلکہ برگر یا پیزا منگوا لیتے ہیں“۔”تم نے کبھی چکھی بھی ہے“؟علی نے پوچھا نہیں بھئی۔۔۔”عفان نے منہ بنا کر کہا“ اچھا ایسا کرنا آج اگر گھر میں پکی ہو تو چکھ کر دیکھنا۔کیونکہ میں تو سب سبزیاں شوق سے کھاتا ہوں،تب ہی تو مجھے پتا چلتا ہے کہ وہ کیسی ہے۔کہہ تو تم ٹھیک ہی رہے ہو،چکھنا تو چاہیے۔عفان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔عفان گھر گیا تو گوبھی،گوشت پکا تھا اور ساتھ ہی اس کے پسند کے فرائز بھی۔امی۔۔۔میں آنکھیں بند کر کے کھانا کھا سکتا ہوں؟اس نے پوچھا تو امی نے کہا،کھا تو سکتے ہو،مگر اللہ کے نزدیک یہ اچھی بات نہیں ہے۔ایک نوالہ تو کھا سکتا ہوں نا؟کیا بات ہے عفان۔امی نے پوچھا آپ ایسا کریں کہ مجھے گوبھی کا ایک نوالہ کھلا دیں۔میں آنکھیں بند کر کے چکھوں گا۔عفان نے کہا تو امی نے مسکرا کر اس کے منہ میں گوبھی،گوشت کا نوالہ ڈالا اور اس کو دیکھنے لگیں۔عفان آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ نوالہ کھاتا گیا اور ایک نوالہ اور مانگا اب اس نے آنکھیں کھول لیں تھیں۔اچھی ہے گوبھی تو!امی اب میں سب چیزیں چکھا کروں گا۔بس آپ اسی طرح مجھے دو نوالے ضرور دیا کریں۔پھر میری عادت ہو جائے گی”عفان نے گوبھی کھاتے ہوئے کہا تو امی نے خوش ہو کر کہا“۔ان شاء اللہ،میرا بیٹا صرف چکھے گا ہی نہیں بلکہ کھائے گا بھی۔آپی جو خاموشی سے یہ سب دیکھ رہی تھیں،انہوں نے امی سے کہا،امی ایک نوالہ مجھے بھی۔۔اور آنکھیں بند کر کے منہ کھول دیا اور امی نے ایک نوالہ ان کے منہ میں بھی ڈال دیا عفان چپکے چپکے ہنسنے لگا۔تو پیارے بچوں۔۔۔۔آپ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کر کے کھایا کریں۔کیونکہ اللہ نے اپنی ہر نعمت میں ہمارے لئے فائدہ رکھا ہے۔ " خاکی لفافہ - تحریر نمبر 2615,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khaki-lifafa-2615.html,"نذیر انبالویامتیاز کچھ پریشان دکھائی دے رہا تھا۔وہ کمپیوٹر کے سامنے تو بیٹھا تھا،مگر کی بورڈ پر اس کی اُنگلیاں حرکت نہیں کر رہی تھیں۔وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا۔نعمان کو معلوم ہو گیا تھا کہ امتیاز کسی وجہ سے پریشان ہے۔دونوں ایک دفتر میں برسوں سے اکٹھے کام کر رہے تھے۔نعمان اپنی کرسی سے اُٹھا۔امتیاز نے نعمان پر نگاہ ڈالی،لیکن زبان سے کچھ کہا نہیں۔”امتیاز بھائی!کیا پریشانی ہے؟“نعمان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔”پریشانی صرف میرے لئے نہیں،ہم سب کے لئے ہے،توصیف صاحب کا تبادلہ ہمارے دفتر میں کیا جا رہا ہے۔“امتیاز کی بات سن کر نعمان نے دہرایا:”توصیف صاحب!․․․․․لو بھئی سب گئے کام سے۔“امتیاز نے کہا:”اب صرف اور صرف تنخواہ میں گزر بسر کرنی پڑے گی۔(جاری ہے)توصیف صاحب ابھی جہاں کام کر رہے ہیں،وہاں کے نائب قاصد سے لے کر اوپر تک سبھی ناخوش اور پریشان ہیں۔توصیف صاحب نہ خود رشوت لیتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کو ایسا کرنے دیتے ہیں۔میں یہی سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا ہوں کہ اب گھر کیسے چلے گا،تنخواہ تو چند دنوں ہی میں ختم ہو جاتی ہے۔“توصیف صاحب کے آنے سے پہلے ہی دفتر کے تمام لوگ ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنانے لگے تھے۔رشوت لینے والے پریشان اور حلال روزی کمانے والے بہت خوش تھے۔توصیف صاحب جب پہلے دن دفتر آئے تو انھوں نے کارکنوں کے ساتھ ایک مختصر سی ملاقات کی اور اس بات پر زور دیا کہ سب لوگ ایمانداری اور خلوصِ نیت سے کام کریں گے۔ہر کام اہلیت کی بنیاد پر ہو گا۔کام کرنے کے لئے رشوت نہیں لی جائے گی۔توصیف صاحب نے اپنی کہی ہوئی باتوں پر سختی سے عمل بھی کروایا۔اپنی فائلیں بغل میں دبائے آنے والے پہلے جہاں ہر قدم پر پریشان ہوتے تھے،اب وہ بہت خوش تھے۔ان کا ہر کام آسانی سے ہو رہا تھا۔ہاں وہ لوگ پریشان تھے،جو پہلے رشوت دے کر اپنا ناجائز کام کروا لیتے تھے،مگر اب ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ایک بڑی کمپنی کے منیجر شیراز نے فائل امتیاز کے سامنے رکھی تو اس کا خیال تھا کہ پہلے کی طرح آسانی سے اس پر دستخط ہو جائیں گے۔امتیاز نے فائل کے صفحات اُلٹ پلٹ کر دیکھے اور شیراز کو غور سے دیکھتے ہوئے بولا:”فائل نامکمل ہے،سڑک بن گئی ہے،مگر اس میں معائنہ ٹیم کی رپورٹ نہیں،فائل مکمل کیجیے۔“شیراز نے بغیر کچھ کہے خاکی رنگ کا ایک لفافہ جیب سے نکال کر امتیاز کے سامنے میز پر رکھ دیا۔امتیاز خاکی رنگ کے لفافے سے اچھی طرح واقف تھا۔وہ توصیف صاحب کے آنے سے پہلے خاکی لفافے شیراز سے وصول کر چکا تھا،لیکن اب وہ خاکی لفافہ وصول نہیں کر سکتا تھا۔”اسے فوراً واپس اُٹھا لیجیے شیراز صاحب!اب دفتر کے حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔“امتیاز نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے راز دانہ انداز میں شیراز کو سمجھایا۔”دفتر کے حالات،میں سب سمجھتا ہوں،اب دام بڑھانا پڑیں گے،اب میں براہِ راست توصیف صاحب سے بات کروں گا۔“شیراز نے مسکراتے ہوئے فائل امتیاز سے لے لی۔کچھ دیر بعد وہ توصیف صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔فائل کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد انھوں نے کہا:”امتیاز ٹھیک کہتا ہے،فائل مکمل نہیں،فائل مکمل کیجیے،تب تشریف لائیے،جب فائل مکمل ہو گی تو میں دستخط کر دوں گا۔“”آپ ابھی دستخط کر دیں گے تو مہربانی ہو گی۔“شیراز نے لفظ مہربانی پر زور دیتے ہوئے کہا۔”میں نامکمل فائل پر دستخط نہیں کر سکتا،وقت ضائع مت کیجیے،مجھے اور بھی بہت سے کام کرنے ہیں۔“”اگر کچھ دے دلا کر بات بن جائے تو․․․․”توصیف صاحب کی بات سن کر شیراز نے دبے دبے لفظوں میں کہا۔”اب آپ یہاں سے تشریف لے جائیں تو مناسب ہو گا۔“توصیف صاحب کے چہرے پر غصہ دیکھ کر شیراز سمجھ گیا کہ اس کا کام نہیں ہو گا۔وہ فائل اُٹھا کر کمرے سے باہر گیا تو توصیف صاحب نے میز کی دراز سے ایک سبز جلد والی ڈائری نکالی۔انھوں نے اس کا ایک ایک صفحہ غور سے پڑھا۔ہر صفحے پر ایک ہی جملہ موٹے موٹے الفاظ میں لکھا تھا۔وہ ڈائری کے اوراق پلٹتے ہوئے مقررہ دن کے صفحے پر پہنچے۔اس صفحے پر بھی انھوں نے وہی جملہ لکھا جو وہ شروع دن سے لکھتے آ رہے تھے۔سبز روشنائی سے وہ جملہ لکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک سے آ گئی تھی۔ایک دن توصیف صاحب معمول کے مطابق اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ محکمہ انسدادِ بدعنوانی کے اہلکار اجازت لے کر ان کے کمرے میں داخل ہوئے۔اہلکاروں کے ساتھ شیراز بھی تھا۔اہلکاروں میں سے اختر نامی ایک افسر نے اپنا تعارف کروایا تو توصیف صاحب نے پوچھا:”جی فرمائیے،میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“”ہم معذرت چاہتے ہیں۔ہمیں آپ کے دفتر کی تلاشی لینے کا حکم ملا ہے۔“اختر صاحب نے توصیف صاحب کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔”میرے دفتر کی تلاشی،مگر کیوں؟“توصیف صاحب کے لہجے میں پریشانی کی جھلک تھی۔”شیراز صاحب میرے ساتھ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آپ نے ان سے ایک بل پاس کرنے کے لئے ایک لاکھ روپے رشوت لی ہے۔“اختر صاحب کی بات سے شیراز کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی۔توصیف صاحب کا نائب قاصد فرحان بھی وہیں موجود تھا۔شیراز بار بار اسے معنی خیز انداز میں دیکھ رہا تھا۔”یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے،میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔آپ بڑے شوق سے میرے دفتر کی تلاشی لے سکتے ہیں۔“توصیف صاحب کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ ایک اہلکار شہباز آگے بڑھا،اگلے ہی لمحے وہ میز کی دراز کھول کر پیسے تلاش کرنے لگا۔وہاں سے کچھ نہ ملا۔”میں نے شیراز سے پیسے نہیں لیے،اس کی فائل مکمل نہیں تھی،اس لئے میں نے دستخط نہیں کیے تھے۔یہ شخص سراسر مجھ پر الزام لگا رہا ہے،یہ جھوٹا ہے۔“توصیف صاحب بولے۔”اگر آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں گے تو آپ کے لئے آسانی ہو گی جناب!ایک لاکھ روپے خود ہی نکال کر دے دیجئے۔“اختر صاحب نے عاجز آ کر کہا۔”ایک لاکھ روپے توصیف صاحب کے پاس نہیں،یہ روپے میرے پاس ہیں۔“نائب قاصد فرحان نے یہ کہہ کر اپنی جیب سے ایک خاکی لفافہ نکال کر میز پر رکھ دیا۔”واہ،بہت خوب،آپ نے نائب قاصد کو بھی اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے،آپ کا کھیل ختم ہو گیا ہے۔“”نہیں،کھیل ختم نہیں ہوا۔یہ روپے مجھے شیراز نے دیے تھے،جو مجھے توصیف صاحب کے دفتر آنے سے پہلے ان کی میز کی دراز میں رکھنا تھے۔اس کام کے لئے مجھے دس ہزار روپے الگ دیے گئے تھے۔میں شیطان کے بہکاوے میں آ گیا تھا،مگر ایسا کر نہیں سکا۔“فرحان نے تفصیل سے بتایا۔شیراز نے جب دیکھا کہ بازی پلٹ گئی ہے تو اس نے بہانہ کر کے وہاں سے نکل جانے کی کوشش کی۔وہ باہر جانے لگا تو فرحان نے مضبوطی سے اس کا بازو پکڑ لیا۔”تم نے یہ خاکی لفافہ توصیف صاحب کی میز کی دراز میں رکھا کیوں نہیں؟“اختر صاحب نے سوال کیا۔”میں یہ خالی لفافہ میز کی دراز میں رکھنے آیا تھا،میں نے دراز کھولی تو اس میں سبز رنگ کی ڈائری رکھی تھی۔میں ڈائری اُٹھا کر خاکی لفافہ رکھنے لگا تو ڈائری زمین پر گر گئی۔میں نے کھلی ڈائری پر لکھا ہوا ایک جملہ پڑھا تو ہل کر رہ گیا۔میں نے ڈائری میز پر رکھی اور اس کے ورق پلٹتا رہا۔ہر صفحے پر ایک ہی جملہ لکھا ہوا تھا:”اے پیارے وطن!میں نہ خود تجھے نقصان پہنچاؤں گا اور نہ کسی اور کو نقصان پہنچانے دوں گا۔“میں ڈائری کے صفحات پلٹتا رہا اور یہ جملہ پڑھتا رہا۔یہ جملہ پڑھ کر میں اپنی ہی نظروں میں گر گیا۔میرے ضمیر نے گوارا نہیں کیا کہ توصیف صاحب جیسے فرشتہ صفت انسان کے لئے مشکلات پیدا کروں۔میں بھٹک گیا تھا،مگر توصیف صاحب کا لکھا ہوا جملہ مجھے سیدھی راہ پر لے آیا ہے۔“یہ کہتے ہوئے فرحان کے آنسو بہنے لگے۔اختر صاحب نے شیراز کو دیکھا۔وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو گیا تھا۔شہاز نے شیراز کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔فرحان کو محکمے کے ساتھ تعاون کرنے کی وجہ سے معاف کر دیا گیا۔توصیف صاحب جہاں اس بات سے خوش تھے کہ ان کے لکھے ایک جملے نے فرحان کو وطن دشمن سے محبِ وطن بنا دیا تھا،وہاں انھیں یہ خوشی بھی حاصل ہوئی تھی کہ ان کی وطن دوستی پر کوئی دھبہ نہیں لگا تھا۔ " قرعہ اندازی - تحریر نمبر 2614,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qura-andazi-2614.html,"ثانی زہرااحمد آٹھویں جماعت کا ہونہار طالب علم تھا۔تعلیم کے ساتھ وہ اپنے دوستوں،پڑوسیوں اور ہم جماعت ساتھیوں کے ساتھ بھی اخلاق سے پیش آتا اور اپنے غریب دوستوں کو بھی ہر طرح سے مدد کرتا۔گھر میں اس کی 14 ویں سالگرہ تھی۔احمد کے ماموں سلے سلائے کپڑوں کے تاجر تھے۔انھوں نے احمد کی سالگرہ پر اسے دو بہترین قسم کے سوٹ تحفے میں دیے تھے۔احمد نے ایک تو سلوانے کے لئے اپنے پاس رکھ لیا اور دوسرا سوٹ اس نے اپنے کسی غریب ہم جماعت کو تحفے میں دینے کے ارادے سے رکھا تھا،لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس ساتھی کو تحفہ دے!ایک دن احمد نے اپنے اسکول میں استاد سے مشورہ کیا۔استاد نے احمد سے کہا:”شاباش بیٹا!ایسا کرنا کل سوٹ لے آنا،ہم کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیں گے۔(جاری ہے)“اگلے دن احمد سوٹ لے آیا۔استاد نے اس بات کا ذکر کلاس میں موجود بچوں سے کیا اور کہا:”سب بچے اپنے اپنے نام پرچی پر لکھیں اور طے کر کے میز پر موجود اس ڈبے میں ڈال دیں۔جس کے نام کی پرچی نکلے گی،اسے یہ سوٹ دے دیا جائے گا۔“سب بچوں نے ایسا ہی کیا اور نام لکھ کر پرچیاں ڈبے میں ڈال دیں۔ماسٹر صاحب نے ڈبے کا منہ بند کر کے کئی مرتبہ اُلٹا پلٹا اور پھر احمد سے کہا:”بیٹا!چونکہ پرچی پر آپ کا نام نہیں ہے،اس لئے قرعہ اندازی آپ ہی کے ہاتھوں ہو گی۔احمد اپنی جگہ سے اُٹھا اور ایک پرچی نکال کر استاد کو تھما دی۔تمام بچے انتظار میں تھے کہ کس کا نام نکلتا ہے۔استاد نے پرچی کھولی تو وہ حسن کے نام کی نکلی۔استاد نے حسن کی طرف دیکھ کر کلاس میں موجود بچوں کا بتایا کہ یہ سوٹ حسن کو دیا جائے۔پرچی حسن کے نام کی نکلی ہے۔یہ سن کر پوری کلاس نے نہایت جوش اور خوشی سے تالیاں بجائیں جیسے کہ ان کا ہی نام نکلا ہو۔استاد نے سوٹ حسن کو دیا،مگر استاد کو شک ہوا کہ تمام بچے حسن کا نام آنے پر اتنے خوش کیوں تھے!استاد نے ڈبے سے دوسری پرچی نکال کر چیک کی تو اس پر حسن کا نام لکھا۔اس طرح استاد نے تمام پرچیاں کھو لیں۔کلاس کے سب بچوں نے حسن کا ہی نام لکھا تھا،کیونکہ چند روز پہلے ہی حسن کے گھر ڈاکا پڑا تھا۔ڈاکو سب کچھ لوٹ کر لے گئے تھے اور سب گھر والے پریشان تھے،اس لئے سب بچوں نے حسن کا نام لکھا،کیونکہ وہ اس سوٹ کا دوسرے بچوں سے زیادہ حق دار تھا۔ " میری پیاری دادی جان - تحریر نمبر 2613,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/meri-pyari-dadi-jaan-2613.html,"نازیہ آصفیہ ان دنوں کی بات ہے جب پہلی جنگ عظیم اور سپینش فلو کو اپنی تمام تر سفاکیوں اور ہولناکیوں سمیت خشکی کے اس قطعے سے رخصت ہوئے چار سال بیت چکے تھے۔کھیتوں میں سرسوں پھول رہی تھی اور جاڑے کی آمد آمد تھی۔جب میری دادی جان اس دنیا میں تشریف لائیں باقی کہانی انھیں کی زبانی سنیے۔دو بھائیوں کے بعد پانچ بہنوں میں میرا تیسرا نمبر تھا۔میرے میاں جی فجر کے بعد گھر آتے تو ہم بہن بھائیوں کو ماں جی کے پاس بیٹھ کر قرآن پڑھتے دیکھتے،تو ہم سب کے لئے عمر دراز کی دعا فرماتے۔مجھے انھیں کی دعائیں لگی ہیں۔جو میں آج آپ سب کے درمیان بیٹھ کر اپنی آپ بیتی سنا رہی ہوں۔ہوش سنبھالا تو ماں کی آواز پہچاننے کے بعد جو دوسری آواز پہچانی،وہ آٹا پیسنے والی ہتھ چکی تھی۔(جاری ہے)رضائی میں دبکے دوسرے کمرے سے چکی کی آواز گھرر گھرر سنتے،ساتھ میں دھیمے سروں کلام باہو کی آواز بھی آ رہی ہوتی۔جس کا مطلب تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا مگر سُر بہت بھلے معلوم ہوتے۔یہ ہماری بے جی (میری دادی کی اماں جان) تھیں،جو ہمارے جاگنے سے پہلے گندم پیس کر آٹا بناتیں،جس سے ہمارے لئے روٹی بنائی جاتی تھی۔ذرا ہوش سنبھالا تو فجر کے وقت بے جی کے ساتھ چکی چلانا اور شام کے کھانے کے بعد دیے کی لو میں چرخہ کاتنا سیکھا۔ایک بڑا بھائی فوج میں چلا گیا۔میری بے جی اسے یاد کرتے کرتے دنیا سے چلی گئیں۔پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ مجھے یہ سب چھوڑ کر سسرال آنا پڑا۔جہاں آئے ہوئے مجھے ابھی تیسرا دن تھا کہ میری ساس کا انتقال ہو گیا اور یوں میں پہلی بار جو سسرال آئی تو پورے ڈیڑھ ماہ بعد واپس میکے جا پائی۔میرے سسرال میں بزرگوں کے مرنے پہ‘بڑی روٹی کرنے‘کا رواج تھا،جس کا مطلب تھا کہ سالن روٹی کے ساتھ حلوہ یا کوئی میٹھا بھی بنایا جائے گا۔یوں مجھے ایک رات میں ایک بوری گندم پیسنے کا بھی اتفاق ہوا۔اس پسی ہوئی گندم کو چھان کر باریک آٹے سے روٹی اور قدرے موٹے آٹے میں گڑ اور دیسی گھی ڈال کر حلوہ بنایا گیا۔تب کسی شادی،غمی پہ بلائے گئے مہمان تین دن رکتے تھے۔ہم نے بھی تین دن مہمانوں کی اسی حلوے سے خدمت کی۔اللہ کی کرنی تھی کہ میری چکی پیسنے کی مہارت و مشقت نے مجھے سسرال میں بڑا نام کمانے کا موقع دے دیا۔میری ساس کے مرنے کے بعد میرے میاں اور سسر میرا بہت خیال کرتے،کہ تین دیواروں سمیت گھر میں سب مرد تھے اور پورے گھر کی ذمہ داریاں مجھ پہ آن پڑی تھیں۔گھر میں رزق کی خیر و برکت تھی اور لوگ سادہ تھے۔میرے سسر کہتے ”رابی پتر“ پیتل کے بڑے پیالے میں دودھ پیا کر،سارے گھر کی ذمہ داری ہے تجھ پہ،صحت مند رہو۔“آج بھی میری صحت کا راز وہ مثبت رویے اور سادہ خوراک ہی ہے۔مجھے پہلا صدمہ اس وقت پہنچا،اور جب میرا پلوٹھی کا بیٹا فوت ہو گیا یہ وہ وقت تھا جب ہمارا ہندوستان دوسری جنگ عظیم کا حصہ بن چکا تھا،اور میرا دوسرا بھائی بھی جنگ میں شامل ہو گیا تھا۔صابن اور اناج کی کمی ہو گئی تھی۔گندم وافر مقدار میں نہیں اگتی،تو باجرے اور مکئی کے علاوہ کئی وہ اجناس جو آج کل کی خواتین گندم سے چن کر باہر پھینک دیتی ہیں،ہم ان میں نمک مرچ شامل کر کے ان کی بھی روٹی بنا لیتے تھے۔سارا گاؤں ایک کنبہ تھا پیسہ نہیں تھا،مگر کسی کا کام رکتا نہیں تھا۔سب کام کے بدلے کام کرتے تھے۔شادی بیاہ پہ سارا گاؤں شامل ہوتا۔آجکل کی طرح نہیں کہ صرف لائٹیں دیکھ کر پتہ چلے کہ ہمسائیوں کے گھر شادی ہے۔سردیوں کی لمبی راتوں میں خواتین کسی ایک گھر کے بڑے کمرے میں جمع ہو کر رات گئے تک چرخہ کاتتیں رہتیں۔چائے کا کسی کو پتہ نہ تھا۔پہلی دفعہ چائے ہمارے گاؤں میں حکیم صاحب نے متعارف کروائی،جو وہ پیٹ درد کی صورت میں قہوہ بنا کر پینے کی ہدایت کرتے۔میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا،بس ایک جنگ پہ دوسری جنگ ہی سوار ہو کر آتی دیکھی تھی۔پہلے باپ پھر بھائی۔اب یہ جنگ جو حالات لائی،پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔صبح عید تھی اور میرے دونوں بیٹے جنگ میں شامل تھے۔میرا دل کٹتا تھا۔ایسے میں میرا میاں مجھے حوصلہ دیتا۔جنگ کے بعد میرا ایک بیٹا واپس آ گیا تو دوسرا انڈیا کی قید میں چلا گیا۔وقت گزرتا رہا۔گھروں کے گرد چار دیواریاں بن گئیں،ہر گھر میں نلکے لگ گئے،ایک دوسرے کے گھر سے ایک انگارہ لے کر آگ سلگانے یا جلانے کا دور ختم ہوا۔ماچسیں عام ہو گئیں۔عورتوں نے چرخہ کاتنے کی جگہ سلائیوں سے سویٹر بنانے اور کپڑوں پہ کڑھائیاں شروع کر دیں۔ہمارے گھر میں بھی ریڈیو آ چکا تھا۔جب جنگی قیدیوں کی واپسی کی خبریں نشر ہونا شروع ہوئیں،تو ہمارے گاؤں کے علاوہ آس پاس کے گاؤں کے وہ لوگ جن کے بیٹے قیدی تھے ہمارے گھر اپنے بیٹے کی آمد کی تاریخ اور دن سننے آ جاتے۔میرا ان کا دکھ سانجھا تھا۔پھر ایک دن میرا بیٹا بھی چار سال بعد رہائی ملنے پہ واپس آ گیا۔زندگی ایک بار پھر سے مسکرا اٹھی تھی۔میں نے اپنے بچوں کو جہاں تک ممکن ہوا،انھیں تعلیم دلائی،اللہ پاک نے مجھے ان کے فرائض کی ادائیگی سے بھی سبکدوش فرمایا۔اب زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا ہم نانا نانی اور دادی بن گئے۔میرے گھر میں ایک بار پھر سے بچوں کی قلقاریاں گونجنے لگیں۔اب اپنے پوتوں پوتیوں کو آنگن میں ہنستا کھیلتا دیکھ کر مجھے اپنے بچوں کا بچپن یاد آتا ہے تو کبھی اپنے بہن بھائی آس پاس دیکھنے لگتے ہیں۔مجھے ایک صدمہ آج سے چند سال پیشتر پہنچا جب میرا ساتھی مجھے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلا گیا،اور یوں میں ہم دونوں کے لگائے گئے اس گلشن میں میں تنہا رہ گئی۔اپنے گھر کے آس پاس دیکھتی ہوں تو میری ساری ہمجولیاں رخصت ہو چکی ہیں سب کے آنگن سونے لگتے ہیں اور کبھی کبھار خود کو بہت تنہا بھی محسوس کرتی ہوں۔مگر پھر اپنی ہی قسمت پہ ناز کرتی ہوں کہ اللہ پاک نے مجھے عمر دراز عطا فرمائی اور میں اپنے آنگن میں اپنی تیسری نسل پھلتی پھولتی دیکھ رہی ہوں۔یوں یہ گزشتہ ایک صدی کا قصہ تمام ہوتا ہے۔ " سرمایہ - تحریر نمبر 2612,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sarmaya-2612.html,"خالدہ یوسف”بوائز اینڈ گرلز اٹینشن پلیز“․․․․عائزہ نے اپنے موبائل فون پر نظریں جمائے بڑے موڈ میں کہا تو سب لڑکے لڑکیاں اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔”ایک زبردست ایس ایم ایس ہے،سُنیے گا۔“”Sure, Sure“ سب نے ایک ساتھ نعرہ لگایا تو عائزہ نے کمال شوق سے ایس ایم ایس پڑھ کر سنانا شروع کیا۔پورا گروپ ہمہ تن گوش تھا۔”ایک گھوڑے اور گدھے میں تکرار ہو رہی تھی کہ میں انسان کے لئے زیادہ کارآمد ہوں۔دونوں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دلائل دے کر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ زیادہ کارآمد ہے۔دونوں بالآخر بی لومڑی کے پاس پہنچے۔لومڑی بھی ان دونوں کا فیصلہ کرنے میں ناکام رہی تو تینوں بندر کے پاس گئے کہ بندر کی عقلمندی پر تینوں کو اعتماد تھا۔(جاری ہے)مگر․․․․اب فیصلہ شیر کے ہاتھ میں ہے۔“سوچ سمجھ کر فیصلہ کر․․․․․عائزہ چپ ہوئی اور کمرہ فلک شگاف قہقہوں سے گل و گلزار بن گیا۔اب سب ہی اپنے اپنے موبائلز کے Inboxes کھولے باری باری مزے لے لے کر ایس ایم ایسا سنا رہے تھے۔محفل کشت زعفران بنی ہوئی تھی۔گرمیوں کی چھٹیوں میں سب کزنز بڑے تایا ابا کے گھر جمع تھے اور چھٹیوں کا خوب لطف اُٹھا رہے تھے۔چاروں بھائیوں کی اولاد پوری پوری مغرب کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔تایا ابا اور تائی اماں البتہ اس مغرب زدہ نسل سے بیزار رہتے تھے لیکن چونکہ خود بے اولاد تھے اس لئے بھائیوں کی اولاد کو ٹوکتے ہوئے گھبراتے تھے مبادا ناراض نہ ہو جائیں اور یہاں آنا ہی چھوڑ دیں جبکہ یہ میاں بیوی ان دنوں کا سال بھر انتظار کرتے تھے اور پھر سال بھر ان دنوں کی یاد میں باتیں کرتے گزار دیتے تھے لیکن آج تو تائی اماں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔انہوں نے بچوں کا یہ روپ دراصل دیکھا ہی پہلی بار تھا ورنہ تایا ابا اور تائی اماں کے سامنے بچے بہت لئے دیے رہتے تھے۔بچوں کی یہ باتیں تائی اماں نے کمرے سے ملحقہ برآمدے میں بیٹھ کر سنی تھیں۔وہ وہاں بیٹھ کر اپنی کیاری سے توڑی ہوئی بیلے کی کلیوں سے کنگن اور مالا پرور ہی تھیں کہ ان کی دیورانیوں کو ان کا یہ تحفہ بہت پسند تھا۔وہ اپنے کام میں مگن بچوں کی یہ لاحاصل گفتگو سن رہی تھیں جبکہ بچے ان کی موجودگی سے بے خبر تھے۔تائی اماں اندر آئیں تو بچے یکدم چپ ہو گئے کہ مغرب زدہ ہونے کے باوجود بزرگوں کے ادب احترام سے نابلدنہ تھے۔بچوں کو اپنی طرف متوجہ پا کر تائی اماں بڑے رسان سے گویا ہوئیں۔”بچوں میں کافی دیر سے تم لوگوں کی باتیں سن رہی ہوں لیکن مجھے بے حد افسوس ہوا کہ تم لوگ اپنا قیمتی وقت بیکار کی باتوں میں ضائع کر رہے ہو۔محض دل لگی کے لئے․․․․“”لیکن تائی اماں ہم تو بے ضرر سے ایس ایم ایس ایک دوسرے سے شیئر کر رہے ہیں۔اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر۔“زعیم نہایت ادب سے گویا ہوا۔”بالکل،بیٹا میں متفق ہوں تمہاری اس بات سے۔لیکن وہ کیا ہے کہ ہم جس دین کے پیروکار ہیں وہ ہمیں ان فضولیات سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ہمارے آقا کا ارشاد مبارک کا مفہوم ہے”انسان کے ایمان کی خوبی بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دینے میں ہے“اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناتا ہے۔انسان اس دنیا میں آخرت کمانے کے لئے آیا ہے لہٰذا اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے اور جنت کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے اور درجات کو بلند کرنے کے لئے ہمیں اپنے ایک ایک سانس کو قیمتی بنانا ہے۔یہ دنیا دار العمل ہے اور ہمیں اس مہلت سے فائدہ اُٹھانا ہے نہ کہ خرافات میں ضائع کرنا ہے۔عمر کی پونجی کو قیمتی جانو اور اسے اپنی اور نوع انسانی کی فلاح کے لئے خرچ کرو۔”اس حدیث کی رو سے مسلمان کی صرف یہ ذمہ داری نہیں کہ گناہوں سے بچے بلکہ گناہوں کے ساتھ بیکار اور فضول کاموں سے بھی بچنا بے حد ضروری ہے۔فضول کام اور فضول بات وہ کہلاتی ہے جس سے دین و دنیا کا کوئی فائدہ نہ ہو یعنی فضول بات اور فضول کام میں گناہ نہ بھی ہو تو یہ کیا کم ہے کہ اتنے وقت میں جو آخرت کی کمائی ہو سکتی تھی اس سے محروم رہ گیا۔اللہ تعالیٰ ہمیں وقت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ وقت کی دولت جو ”عمر“ کی صورت میں عطا کی گئی ہے اسے ہم توشئہ آخرت بنانے میں لگائیں تاکہ جب میدان حشر میں ہم بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوں تو شرمندہ ہونے کے بجائے سرخرو ہوں۔“سب بچے دم بخود تائی اماں کی یہ ایمان افروز باتیں سن رہے تھے اور تقریباً سب ہی ان کی باتوں کے قائل ہو چکے تھے اور حیران تھے کہ ان کے مما پاپا نے آج تک ایسی باتیں نہ بتائی تھیں۔وہ سب اپنے دلوں میں پختہ عہد کر رہے تھے کہ آئندہ وہ اپنے وقت کو کارآمد کاموں میں لگائیں گے تاکہ دین و دنیا میں ان کا بھلا ہو۔ " بادشاہ اور آدمی - تحریر نمبر 2611,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-aur-aadmi-2611.html,"سعد عثمان طارق، اسلام آبادایک چھوٹی سی ریاست پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔اسے شکار کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ایک روز بادشاہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ شکار کھیلنے نکلا۔راستے میں اسے ایک آدمی نظر آیا جو لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔قریب ہی ایک گدھا بندھا ہوا تھا اور ایک جھونپڑی بھی نظر آ رہی تھی۔بادشاہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ اس غریب کی جھونپڑی بہت چھوٹی تھی اور اس میں صرف ایک آدمی ہی لیٹ سکتا تھا۔بادشاہ کچھ دور تک گیا تو اچانک تیز آندھی اور طوفان شروع ہو گیا۔بادشاہ کے سپاہیوں نے فوراً اسے واپس جانے کا مشورہ دیا،لیکن بادشاہ نے کہا کہ تم سب واپس چلے جاؤ،میں تو اس آدمی کی جھونپڑی میں رات گزاروں گا۔یہ سن کر تمام سپاہی حیرت زدہ رہ گئے۔(جاری ہے)ایک نے کہا کہ بادشاہ سلامت اس جھونپڑی میں مشکل سے ایک آدمی رہ سکتا ہے۔آپ ہمارے ساتھ واپس اپنے محل میں چلیں،مگر بادشاہ اپنی بات پر قائم تھا۔اس نے کہا کہ تم سب کل صبح سویرے یہاں آ جانا۔میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ غریب آدمی اپنی زندگی کیسے گزارتا ہے؟چنانچہ جب اس کے تمام سپاہی واپس چلے گئے تو بادشاہ اس آدمی کی جھونپڑی میں پہنچ گیا۔وہ آدمی بہت خوش مزاج اور مہمان نواز تھا،اس نے بادشاہ کا بھرپور استقبال کیا۔اسے گرم دودھ پیش کیا جو اس کی پالتو بکری کا تھا۔پھر اس نے بادشاہ کو کچھ پیاز کے ساتھ ایک سوکھی روٹی دی،جو بادشاہ نے کسی نہ کسی طرح کھا لی۔پھر اس نے بادشاہ کے سونے کا انتظام کیا،چونکہ جھونپڑی میں صرف ایک بستر تھا،اس لئے وہ خود باہر گھاس پر اپنے گدھے کے قریب سویا اور بادشاہ کو بستر پر لٹا دیا۔پوری رات بادشاہ کو نیند نہیں آئی،کیونکہ اسے اپنے محل کے نرم بستروں پر سونے کی عادت تھی۔صبح اس نے اس آدمی سے پوچھا:”آخر تم شہر میں کیوں نہیں رہتے؟“اس آدمی نے کہا:”بادشاہ سلامت!میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ میں شہر کے کرائے برداشت کر سکوں،اس وجہ سے ادھر رہنے پر مجبور ہوں۔“بادشاہ کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا،اس نے فوراً اپنے محل کا ایک کمرا اسے مفت میں دینے کا حکم دیا اور شاہی خزانے سے اس کے لئے ماہانہ وظیفہ بھی جاری کروا دیا۔ " ماما مرغی اور بطخ بچہ - تحریر نمبر 2610,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mama-murghi-aur-batakh-bacha-2610.html,"حماد سلطانایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی۔وہ بیچاری ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ایک دن اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ تمہاری بیماری ایسی ہے کہ تم جلد مر جاؤ گی۔اسے یہ سن کر صدمہ ہوا کیونکہ اس کے پاس ایک انڈا تھا۔اسے ڈر تھا کہ اگر میں مر گئی تو اس انڈے کا کیا ہو گا،جس کے خول سے جلد ہی بچہ نکلنے والا تھا اور پھر اس بچے کو کون سنبھالے گا،لہٰذا وہ اپنے سب دوستوں کے پاس گئی جو جنگل میں رہتے تھے۔اس نے اپنے دوستوں کو اپنی ساری کہانی سنائی لیکن انہوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔بیچاری بطخ نے ان کی کافی منتیں کیں کہ خدا کے لئے تم لوگ مرنے کے بعد میرے بچے کو اپنے پاس رکھ لینا لیکن کسی نے اس کی بات نہ مانی۔(جاری ہے)بیچاری بطخ بھی کیا کرتی۔اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھائی مرغے کے پاس جاؤں،وہ ضرور میری مدد کرے گا،لہٰذا وہ مرغے کے پاس گئی اور اسے سارا قصہ سنایا۔”مرغ بھائی!آپ میرے بچے کے ماموں جیسے ہو پلیز آپ ہی میرے بچے کو اپنے پاس رکھ لینا۔“مرغا بولا! میں تمہارے بچے کو رکھ لیتا لیکن میری بیگم مرغی یہ بات نہیں مانے گی،لہٰذا مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا مجھے معاف کر دینا۔“بطخ ادھر سے مایوس ہو کر اپنے گھر واپس آ گئی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کیا جائے۔اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس نے موقع ڈھونڈ کر یہ کام انجام دے دیا اور خود جا کر ایک درخت کے کنارے بیٹھ گئی۔بطخ کی طبیعت بگڑ گئی اور ایسی بگڑی کہ وہ وہیں مر گئی۔جب مرغی کے بچے انڈوں سے باہر نکلے تو ان میں ایک بطخ کا بچہ بھی تھا۔مرغا سب جان گیا تھا کہ بطخ اپنا انڈا آنکھ بچا کر مرغی کے انڈوں کے ساتھ رکھ گئی ہے لیکن اس نے مرغی کو بتانا مناسب نہ سمجھا۔مرغی نے کافی شور شرابہ کیا اور بولی’میرے بچوں کے ساتھ بطخ کا بچہ نہیں رہے گا۔“مرغے نے اسے کافی سمجھایا لیکن مرغی نے اس کا کہنا نہیں مانا اور اپنے بچوں کو بھی منع کر دیا کہ بطخ کے بچے سے کسی کو بات نہیں کرنی ہے۔سب نے مرغی کی بات مان لی لیکن دو چوزوں نے اپنی ماں کی بات نہ مانی اور وہ جو خود کھاتے تھے۔اپنے ساتھ اس بطخ کے بچے کو بھی کھلاتے تھے۔مرغی کو بطخ کے بچے سے سخت نفرت تھی ،وہ اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔ایک دن مرغی کے ذہن میں خیال آیا کہ ہم سب مل کر دریا کے کنارے سیر کو جائیں گے۔سب واپس آ جائیں گے اور بطخ کے بچے کو وہیں چھوڑ آئیں گے۔اس طرح اس سے جان چھوٹ جائے گی۔وہ لوگ سیر کو نکلے۔وہاں پہنچتے ہی ایک چوزہ دریا کے کنارے چلا گیا اور ڈوبنے لگا۔یہ دیکھ کر مرغی زور زور سے چیخنے چلانے لگی،بطخ کے بچے کو تیرنا آتا تھا،اُس نے فوراً دریا میں تیرنا شروع کر دیا اور اس چوزے کو نکال کر باہر لے آیا۔مرغی نے جب یہ دیکھا تو اسے اپنے کئے پر کافی شرمندہ ہوئی اور اس نے بطخ کے بچے سے معافی مانگ کر اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔اس طرح وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔دیکھا بچو!کیسے بطخ کے بچے نے مرغی کے بچے کو بچایا اور کیسے اس کا بھلا ہوا۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ کر بھلا تو ہو بھلا۔ " یہ شادی نہیں ہو سکتی - تحریر نمبر 2608,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/yeh-shaadi-nahi-ho-sakti-2608.html,"تسنیم شریفآج ایمل کی گڑیا کی شادی تھی۔بارات بس آنے ہی والی تھی۔گڑیا کی جدائی کا سوچ سوچ کر ایمل کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے۔اس کی تمام سہیلیاں گھر میں جمع تھیں اور ڈھولک بجا کر شادی کے گیت گا رہی تھیں۔ایمل نے ان سب پر ایک نظر ڈالی اور باورچی خانے کی راہ لی،جہاں سے اُٹھتی خوشبوئیں بتا رہی تھیں کہ کھانے کی تیاری مکمل ہے۔”امی!بریانی پک گئی؟“ ایمل نے پوچھا۔امی نے مسکرا کر کہا:”ارے میری گڑیا!سب تیار ہے۔بریانی اور رائتہ بھی،کسٹرڈ اور شربت بھی۔کیا بارات آ گئی؟“’ابھی تو نہیں،فریال نے کہا تھا وہ چھے بجے آئے گی۔“ابھی اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ شور بلند ہوا اور وہ بات ادھوری چھوڑ کر باہر کی جانب لپکی۔(جاری ہے)امی مسکراتے ہوئے پھر کھانے کی جانب متوجہ ہو گئیں۔ایمل کی گڑیا کی شادی کا سوٹ امی نے خود سیا تھا۔سرخ شرارہ کُرتی اس پر چھوٹا سا دوپٹہ،جس پر لگا گوٹا امی سے پوچھ پوچھ کر ایمل نے خود ٹانکا تھا،پھر جہیز میں اس نے اپنے ہاتھوں سے ماچس کی خالی ڈبیوں سے صوفہ سیٹ بنایا تھا۔کترنوں سے بہت سارے سوٹ امی نے سی کر دیے تھے۔چھوٹے چھوٹے اسٹیل کے برتن بھی تھے،جو ایمل کو اس کی سالگرہ پر اس کی نانی نے دیے تھے اور سب سے قیمتی تو وہ ہار تھا،جو ابا جان نے جماعت سوم میں اول آنے پر ایمل کو دیا تھا۔ایمل چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔وہیں اس کی فریال سے دوستی ہوئی تھی اور آج اسی فریال کے گڈے سے اس کی گڑیا کی شادی تھی۔باراتی بھی اس کی ہم جماعت تھیں۔ایمل اور اس کی سہیلیوں نے باراتیوں کا استقبال مسکراہٹ اور کھلے بازوؤں سے کیا اور انھیں کمرے میں لا بٹھایا۔ایک دفعہ پھر سب ڈھولک پر گیت گانے میں مگن تھیں کہ ایمل کو اُداس دیکھ کر فریال اس کے پاس آئی:”واہ ایمل جہیز تو تم نے بہت اچھا دیا ہے،مگر یہ اس صندوق میں کیا ہے؟“”اس میں کہانیوں کی میری کتابیں ہیں تمہارے گھر میں جب گڑیا فارغ ہوا کرے گی تو انھیں پڑھا کرے گی۔“ایمل نے شرما کر جواب دیا۔”لو․․․․․فریال تو پورے دن تمہاری گڑیا سب کام کروائے گی،اسے فرصت ملے گی تو پڑھے گی نا۔“حمنہ بولی تو سب ہنسنے لگے۔”جی نہیں میں کوئی ظالم ساس نہیں ہوں جو اپنی گڑیا سے سارے دن کام کراؤں۔میں تو اسے پیار سے رکھوں گی اور یہ اسٹوریز تو ہم مل کر پڑھیں گے۔“”اوہو․․․․․اوہو․․․․․اوہ۔“حمنہ نے پھر چوٹ کی۔اس سے پہلے کہ فریال کچھ جواب دیتی التمش بھائی نکاح پڑھانے آ گئے۔آئے تو وہ نکاح پڑھانے تھے،مگر اس سے پہلے اپنے دوستوں کو پٹی پڑھانا نہیں بھولے تھے کہ جیسے ہی وہ نکاح شروع کریں اور سب کی توجہ ان کی طرف ہو وہ میز پر رکھے چھواروں کا تھال غائب کر دیں۔آخر ایمل نے پورے ایک پاؤ چھوارے ابا جان سے منگوائے تھے اور اپنے چھوٹے بھائی کو ایک بھی نہیں دیا تھا،سزا تو ملنی تھی۔ساری لڑکیاں خاموش ہو کر بیٹھ گئیں۔التمش بھائی نے ٹوپی سر پر اچھی طرح جمائی اور ابھی صرف بسم اللہ ہی پڑھی تھی کہ ایک آواز گونجی:”ٹھیرو!یہ شادی نہیں ہو سکتی۔“سب نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں رانی غصے میں بھری کھڑی تھی۔”کیوں؟“فریال نے پوچھا۔”کیونکہ پہلے تم نے میری گڑیا کا رشتہ مانگا تھا اور جب میں نے ساری تیاری کر لی تو تم ایمل کے ہاں بارات لے آئیں۔میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گی۔“”میرا گڈا ہے۔میری مرضی میں کسی سے بھی شادی کروں!ویسے بھی تمھاری گڑیا میٹرک فیل ہے اور میرا گڈا ایم اے پاس۔“فریال نے تنک کر اپنی معلومات کا رعب جھاڑا۔”اس ایم اے پاس گڈے کی تو ایسی کی تیسی،ٹافیاں تم نے مجھ سے کھائیں،روز اسکول میں میرے ساتھ کھاتی پیتی رہیں اور شادی ایمل کی گڑیا سے۔ایسا ہر گز نہیں چلے گا۔“رانی نے آگے بڑھ کر فریال کے بال پکڑ لیے۔فریال نے لات چلائی۔فریال کی سہیلیاں اسے چھڑانے آگے بڑھیں تو رانی کی سہیلیوں نے انھیں پکڑ لیا۔خوب دھینگا مشتی ہوئی۔کسی کے بال نوچے جا رہے تھے تو کسی کی ٹانگ مروڑی جا رہی تھی۔کوئی زمین پر پڑی کراہ رہی تھی تو کوئی مکے برسا رہی تھی۔یہ دھما چوکڑی سن کر امی اندر آئیں تو ہکا بکا رہ گئیں۔ایمل اور اس کی سہیلیاں ایک طرف کھڑی تھر تھر کانپ رہی تھیں۔رانی اور فریال ابھی تک گتھم گتھا تھیں۔امی کی آواز بھی دونوں کو ہوش میں نہ لا سکی تو انھوں نے آگے بڑھ کر دونوں کو چھڑایا:”یہ کیا بدتمیزی ہے۔انسانوں کی طرح بات کرو۔تم دونوں یہی کچھ سیکھنے اسکول جاتی ہو!“فریال اور رانی ایک دوسرے کو غصے سے گھورتی رہیں۔”دیکھیے نا آنٹی!فریال نے پہلے میری گڑیا سے رشتہ کیا تھا۔میں نے ہاں بھی کر دی تھی۔جب میں نے ساری تیاری کر لی تو ایمل کی گڑیا سے شادی کرنے آ گئی۔“رانی روتے ہوئے بولی۔”کیوں بیٹا فریال!جب آپ نے رانی سے بات طے کر رکھی تھی تو ایمل کو رشتہ کیوں دیا؟“”آنٹی!میرا گڈا ہے،میری مرضی میں کسی سے بھی شادی کروں،میں نے وہ رشتہ توڑ دیا۔“”سچ سچ بتاؤ نا کہ ایمل کی کہانی کی کتابیں اور کھلونے دیکھ کر تمہاری رال ٹپک پڑی۔اسی لالچ میں تم نے ایمل کو رشتہ دیا ہے۔“رانی چلائی تو فریال کو غصہ آ گیا۔اس نے ایک بار پھر رانی کے بال پکڑ لیے۔پھر سے ہاہا کار مچ گئی۔امی نے فریال کو قابو میں کیا اور زبردستی اسے ایک کرسی پر بٹھایا اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر خفگی سے کہا:”اک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔بھلا انسان وہ ہے جو اپنی زبان کا پاس رکھے اور وعدے کی پاس داری کرے۔رشتہ طے کرنا بھی ایک طرح کا عہد ہی ہے۔ایک تو وعدہ خلافی کی دوسرے جھگڑا بھی کرتی ہو۔چلو جاؤ اپنے گھر اب یہ شادی واقعی نہیں ہو سکتی۔“امی نے فریال کو ڈپٹ کر اس کے دونوں ہاتھ چھوڑے اور اسے دروازے کا راستہ دکھایا۔فریال غصے میں کھولتی ہوئی اُٹھی۔رانی کو دیکھ کر منہ پر ہاتھ پھیرا اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ چلی گئی۔ایمل نے آگے بڑھ کر اپنی گڑیا کو دیکھا۔اس ہنگامے کی زد میں وہ بھی آ گئی تھی۔اس کا ایک ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔قمیض پھٹ گئی تھی۔اس کی یہ حالت دیکھ کر ایمل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تو امی نے پیار سے ایمل کا گال تھپکا:”اچھا ہوا جو شادی سے پہلے ہی فریال کی اصلیت پتا چل گئی۔لالچی اور موقع پرست لوگوں سے دور کی دعا سلام اچھی۔ایسے لوگ کبھی کسی کے دوست نہیں ہوتے۔غم نہ کرو۔تمہاری اور رانی کی گڑیا کا بہت اچھا رشتہ آ جائے گا۔اللہ پر بھروسا رکھو۔ان دونوں گڑیاؤں کی اِکٹھی برات آئے گی اور ہم سب مل کر ان کا استقبال کریں گے،کیوں رانی!“امی نے رانی کا ہاتھ پیار سے دبایا جو ابھی تک رو رہی تھی۔“چلو اب ساری بچیاں ہاتھ منہ دھو لیں۔میں کھانا لگاتی ہوں۔“”لیکن بھئی آئندہ رشتہ کرو تو خوب دیکھ بھال کے کرنا،کیونکہ آج امی کا بہت خرچہ ہو گیا ہے۔‘التمش بھائی جو اس سارے ہنگامے سے فائدہ اُٹھا کر چھواروں سمیت غائب ہو گئے تھے،پھر سے آن موجود ہوئے۔ان کی بات سن کر روتی ہوئی ایمل اور رانی کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔انھیں ہنستا دیکھ کر التمش بھائی کو یقین ہو گیا کہ اگلی دفعہ کے چھوارے بھی پکے ہیں۔ " بلند سوچ - تحریر نمبر 2607,https://www.urdupoint.com/kids/detail/true-stories/buland-soch-2607.html,"محمد نوید مرزاناصر دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور پڑھائی سمیت ہر کام میں سُست تھا۔ایک دن اسکول میں اردو کے استاد کا لیکچر سن رہا تھا،انھوں نے کہا:”علامہ اقبال نے نئی نسل کو شاہین صفت کہا تھا۔ان کے ہر شعر میں کوئی نہ کوئی پیغام چھپا ہوتا ہے۔ایک شعر میں شاعرِ مشرق نے نوجوانوں سے خطاب کیا ہے۔اس میں بھی ایک نصیحت پوشیدہ تھی۔جوانوں کو مری آہِ سحر دےپھر ان شاہیں بچوں کو بال و پَر دےاس شعر میں علامہ اقبال اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کر رہے ہیں کہ اے میرے اللہ!میری قوم کے سارے نوجوانوں کو میری صبح کے وقت کی وہی فریاد عطا کرنے کی توفیق دے جو تُو نے مجھے دی ہے۔یہ شاہین بچے ہیں۔انھیں وہ بال و پَر یعنی وہ بازو اور پرواز کی وہ قوت عطا کر،جن کی مدد سے وہ بلندی پر پہنچ کر کامیابی حاصل کر لیں۔(جاری ہے)شاہین جیسی پرواز کے لئے ہمت،جستجو،بلند سوچ،محنت،ریاضت درکار ہے اور اس کے لئے قوم کو سُستی سے باہر نکلنا پڑے گا۔“یہ سن کر ناصر تو جیسے کہیں کھو گیا تھا۔نوجوانوں کے لئے علامہ اقبال کی سوچ اور فکر کے بارے میں سوچتا رہا۔گھر آ کر وہ خلافِ معمول خاموش رہا۔دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد وہ سو گیا۔خواب میں اس کی ملاقات علامہ اقبال سے ہوئی۔انھوں نے تھپکی دیتے ہوئے ناصر سے کہا:”بیٹا!میں تم سب کا اقبال ہوں۔اُٹھو اور ایک نئی صبح کا آغاز کرو۔“ناصر کی آنکھ کھلی تو اس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو اقبال کے افکار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے گا۔ہر وقت سُست اور لا اُبالی سا نظر آنے والا لڑکا چند ہی دنوں میں بدل چکا تھا۔اب وہ صبح صبح اُٹھتا،نمازِ فجر ادا کرتا پھر صبح کی سیر کرتا اور پڑھائی پر بھی توجہ دیتا۔اس کے اندر آنے والی اس تبدیلی پر لوگ حیران ہونے کے ساتھ خوش بھی تھے۔امی ابو نے اس سے اس خوشگوار تبدیلی کا پوچھ ہی لیا۔جس پر اس نے اقبال کے اشعار اور خواب میں آنے والے حضرت علامہ اقبال کے بارے میں بتایا۔”شاباش بیٹے شاباش!“ناصر کے ابو نے خوش ہو کر کہا۔پھر سب نے دیکھا کہ میٹرک کے امتحان قریب آتے ہی ناصر نے بھرپور محنت کی۔اس کے تمام پرچے بہت اچھے ہوئے۔تین ماہ بعد جب اس کا نتیجہ نکلا تو اس نے بہت اچھے نمبر حاصل کیے تھے۔وہ اپنے اسکول میں دوم آیا تھا۔اس کے والدین،اساتذہ اور بہن بھائی بہت خوش تھے۔اس خوشی میں شام کو گھر پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تو اس کا چہرہ خوشی سے کھِل اُٹھا۔ " کہانی خوابِ خرگوش کی - تحریر نمبر 2606,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kahani-khwab-e-khargosh-ki-2606.html,"ثانی زہراندی کنارے ٹنکو کچھوا بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا کہ جنگل سے اُچھلتا کودتا،دوڑتا ہوا ہنی خرگوش ندی کنارے آیا اور آتے ہی حسبِ معمول ٹنکو کچھوے کا مذاق اُڑاتے ہوئے بولا:”او سُست اور کاہل کچھوے!ورزش کیا کرو،تاکہ تم بھی میری طرح تیز رفتاری سے دوڑ سکو،کیا ندی کنارے پڑے رہتے ہو۔“ہنی خرگوش کی باتیں سن کر ٹنکو کو بہت غصہ آیا اور اسے ریس لگانے کا چیلنج دے ڈالا۔خرگوش دوڑ لگانے پر آمادہ ہو گیا۔دونوں نے طے کیا کہ کل صبح اسی کنارے سے ندی کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے پہاڑی کے پاس لگے ہوئے پرانے درخت تک جائیں گے جو وہاں سے تقریباً ایک میل دور تھا۔کچھوا اور خرگوش اگلی صبح آنے کا کہہ کر رخصت ہوئے۔خرگوش جنگل میں اور کچھوا ندی میں چلا گیا۔(جاری ہے)ٹنکو کچھوا اپنے بھائیوں منکو اور ہنکو کو ڈھونڈنے لگا۔انھیں تلاش کر کے اپنی اور خرگوش کی ریس کے متعلق بتایا اور ان سے مشورہ کرنے لگا۔تینوں نے خرگوش کو سبق سکھانے کی ترکیب کے بارے میں سوچ بچار شروع کر دی۔ہنکو نے ایک ترکیب بتائی اور تینوں کچھوے مسکرانے لگے۔اب ٹنکو کچھوا پرانے درخت کی جانب روانہ ہو گیا اور طے شدہ پروگرام کے مطابق منکو آدھے میل کے فاصلے پر لگی جھاڑیوں میں چلا گیا۔صبح ہوتے ہی ہنکو ندی کنارے آ بیٹھا۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ خرگوش بھی جنگل سے نکل کر ہنکو کے پاس آ پہنچا۔خرگوش بہت پُرجوش تھا اور کچھوے کو طنز بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔طے شدہ جگہ سے دونوں نے ریس لگانا شروع کی۔ریس شروع ہوتے ہی خرگوش تیزی سے دوڑنے لگا۔ہنکو کچھوا کچھ دور چلنے کے بعد واپس ندی میں چلا گیا۔منکو کچھوا جو کہ پہلے ہی آدھے میل دور خرگوش کا انتظار کر رہا تھا خرگوش کو آتا دیکھ کر جھاڑیوں سے نکل کر ندی کنارے چلنے لگا۔جوں ہی خرگوش دوڑتا ہوا قریب پہنچا تو کچھوے کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور کوئی بات کہے بغیر تیزی سے دوڑنے لگا۔دوڑتے دوڑتے خرگوش تھک بھی گیا تھا،مگر ریس جیتنے کی کوشش میں ہانپتا ہوا مسلسل دوڑے چلا جا رہا تھا۔ادھر ٹنکو کچھوا ریس کے اختتامی ہدف یعنی پرانے درخت تک آدھی رات کو ہی پہنچ چکا تھا۔دور سے خرگوش کو آتا دیکھ کر پرانے درخت کے بالکل قریب چلنے لگا۔جونہی خرگوش نے ٹنکو کچھوے کو پہلے پہنچتے دیکھا تو ہمت ہار گیا اور وہ تھک کر چُور بھی ہو چکا تھا۔اب آہستہ آہستہ چلتا ہوا کچھوے کے قریب پہنچا اور اپنی ہار مان گیا۔کچھوا ریس جیت چکا تھا اور خرگوش سر جھکائے تھکے تھکے قدموں سے آہستہ آہستہ یہ سوچتا ہوا واپس جا رہا تھا کہ آخر کچھوا ریس جیت کیسے گیا!لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات آج تک نہیں آئی۔ " لالچی بندر - تحریر نمبر 2605,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lalchi-bandar-2605.html,"محمد علی، لاہورمری ایک خوبصورت شہر ہے،جہاں مختلف علاقوں سے لوگ گھومنے آتے ہیں۔ارد گرد کے علاقے جہاں پہاڑ اور بڑے درخت ہیں،وہاں کئی قسم کے جانور رہتے ہیں۔بندروں کے خاندان بھی وہاں بڑی تعداد میں ہیں،ان میں ایک بندر بہت لالچی اور شرارتی تھا۔اس کا ایک پسندیدہ مشغلہ کھانا اور چیزیں چوری کرنا تھا۔شروع شروع میں اس بندر نے ایک دن اپنی پڑوسن گلہری کا ذخیرہ کیا ہوا کھانا چرایا اور پھر وہ آہستہ آہستہ انسانوں سے بھی کھانا چھیننا شروع کر دیا۔ایک دن اس کی نظر سڑک کے دوسری جانب پکی ہوئی خوبانیوں سے لدے ہوئے درخت پر پڑی۔اس کے منہ میں پانی بھر گیا اور اس نے بے صبری سے اپنے ہونٹ چاٹے۔سڑک کے دوسری طرف جانے کے لئے اس نے ایک چلتی ہوئی گاڑی پر چھلانگ لگائی اور گرتے گرتے بچا۔(جاری ہے)پھر گاڑی سے چھلانگ لگا کر ایک درخت کی ٹہنی سے جھولتا ہوا اور ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتا ہوا خوبانی کے درخت پہ جا پہنچا۔وہ خوبانیاں توڑتا جاتا اور کھاتا جاتا۔بہت سی خوبانیاں اس نے ہاتھ میں پکڑ رکھی تھیں۔اچانک ٹہنی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ بلندی سے سڑک پہ جاتے ہوئے سائیکل سوار کے ٹوکرے میں گرا۔سائیکل سوار کا توازن برقرار نہ رہا اور وہ سائیکل سمیت جھاڑی میں جا گرا۔ٹوکری گلاب کی پنکھڑیوں سے بھری ہوئی تھی،اس لئے بندر کو چوٹ نہیں لگی،اسی دوران بندر کو احساس ہوا کہ لالچ بُری بلا ہے۔بندر جان بچ جانے پہ شکر ادا کرتا اور شرمندگی محسوس کرتا ہوا اُچھل کر باہر نکلا اور سہما ہوا ایک دیوار پر جا بیٹھا۔تھوڑی دیر بعد اس کی نظر دو لڑکوں پر پڑی جو اپنے ہاتھوں میں پاپ کارن کا ایک بڑا تھیلا پکڑے ہوئے تھے۔یہ دیکھ کر بندر کے ذہن سے اچھا بننے کے خیالات اُڑ گئے اور اس نے لڑکوں پر چھلانگ لگا دی۔لڑکوں سے پاپ کارن بیگ چھین کر سڑک پر اندھا دھند بھاگا۔بندر کو احساس ہی نہیں تھا رہا کہ وہ سڑک کے بیچو بیچ بھاگ رہا ہے۔اسی دوران ایک گاڑی آئی جس کا ڈرائیور اپنے فون پر بات کرنے میں مشغول تھا۔ڈرائیور اور بندر دونوں کا سڑک پر دھیان نہیں تھا۔اچانک گاڑی کا پہیا بندر پہ چڑھ گیا اور بندر اپنی جان سے گیا۔ " سچی خوشی - تحریر نمبر 2604,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sachi-khushi-2604.html,"شازیہ کاشف، کراچیعلی آج پہلی بار اپنے بابا کے ساتھ جنگل میں شکار کھیلنے جا رہا تھا۔جنگل پہنچ کر اس کے بابا نے خیمہ نصب کیا اور علی کے ہمراہ اپنا تیر کمان سنبھال کر جانور کی تلاش میں نکل گئے۔تھوڑی دور چلنے کے بعد انھیں ایک چھوٹا سا ہرن کا بچہ گھاس چرتے نظر آیا۔علی کے بابا اسے تیر مار کر زخمی کر کے زندہ پکڑنا چاہتے تھے۔تھوڑی سی کوشش کے بعد وہ اسے پکڑنے میں کامیاب ہو گئے اور اپنے ساتھ خیمے میں لے آئے۔وہاں انھوں نے ننھے ہرن کو رسی سے باندھ دیا۔دوپہر کا کھانا کھا کر وہ کچھ دیر لیٹ گئے،تاکہ تازہ دم ہو کر واپس گھر جا سکیں۔بابا جلد ہی سو گئے،مگر علی کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔وہ معصوم ہرن کو دیکھ رہا تھا جو کونے میں اُداس کھڑا تھا۔(جاری ہے)علی کو لگا شاید اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔اچانک علی نے باہر کوئی عجیب سی آواز سنی۔اس نے خیمے سے باہر جا کر دیکھا تو وہاں دو ہرن کھڑے اونچی اونچی آوازیں نکال رہے تھے۔ان کی آواز سن کر خیمے میں موجود ننھا ہرن بھی ٹھیک ویسے ہی چیخا۔علی فوراً سمجھ گیا کہ یہ دونوں ہرن،ننھے ہرن کے ماں باپ ہیں،جو اپنے بچے کو ڈھونڈتے ہوئے یہاں تک آئے ہیں۔علی نے اندر جا کر رسی کھول کر اسے آزاد کر دیا۔ٹھیک اسی لمحے ہرن کے شور کی وجہ سے بابا کی آنکھ کھل گئی۔بابا نے سوالیہ نظروں سے بیٹے کی جانب دیکھا۔علی نے کہا:”بابا!آپ کو کیسا لگے گا،اگر کوئی مجھے آپ سے اور ماما سے دور کر دے؟“بابا ایک لمحے میں علی کی بات کی گہرائی سمجھ گئے۔جلد ہی ننھا ہرن خوشی سے چھلانگیں مارتا اپنے والدین کے ساتھ جنگل میں غائب ہو گیا تھا۔ننھے علی نے اپنے بابا کو سچی خوشی کا مفہوم عملی طریقے سے سکھا دیا تھا۔ " اپنے پاؤں پر - تحریر نمبر 2603,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/apne-paon-par-2603.html,"نذیر انبالویچچا جان اپنے بھتیجے عمر سے بہت محبت کرتے تھے۔اپنی لائبریری کی چابیاں وہ عمر کے ہی حوالے کیا کرتے تھے۔ایک دن وہ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔عمر لائبریری سے کوئی کتاب لے کر اُتر رہا تھا۔بارش بند ہو چکی تھی،لیکن سیڑھیوں پر پھسلن تھی،جس سے اس کا پاؤں پھسل گیا۔وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا۔سیڑھیوں سے گرتے ہوئے عمر نے چیخ ماری۔امی جان اور آپی دوڑی آئیں۔”ہائے میری ٹانگ،مجھ سے چلا نہیں جا رہا،ہائے میری ٹانگ۔“عمر کا ہاتھ دائیں ٹانگ پر تھا۔آپی کے فون کرتے ہی ریسکیو والے آ گئے۔ڈاکٹر صاحب نے ایکسرے دیکھ کر بتایا کہ ٹانگ دو جگہ سے ٹوٹ گئی ہے،اب سوائے آپریشن کے کوئی راستہ نہیں ہے۔کچھ دیر بعد ابا جان بھی آ گئے۔(جاری ہے)چچا جان کو اطلاع ملی تو وہ بھی سب کچھ چھوڑ کر بذریعہ جہاز آ گئے۔جب انھیں معلوم ہوا کہ آپریشن کرنا پڑے گا تو چچا جان نے کہا:”اگر ڈاکٹر کا یہ مشورہ ہے تو دیر مت کیجیے،میں تین چار گھنٹے میں آ جاؤں گا۔“چچا جان جب اسپتال پہنچے تو عمر کو آپریشن تھیٹر سے باہر لایا جا چکا تھا۔انھوں نے کہا:”یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔“چچا جان کی بات سن کر عمر کے ابو جان نے کہا:”تم ایسا کیوں سوچتے ہو،جو ہونا ہوتا ہے،وہ ہو کر رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے چاہا تو عمر جلد صحت یاب ہو جائے گا،وہ پہلے کی طرح دوڑے گا،بھاگے گا۔“دو دن بعد عمر اسپتال سے گھر آ گیا۔چچا جان اس کا دل بہلانے کے لئے اسے کہانیاں سناتے،اس سے بار بار پوچھتے کہ کیا کھانے کو دل کر رہا ہے؟”چچا جان!ایک سوال کا جواب تو دیجیے۔“عمر نے اپنی ٹانگ پر ہاتھ رکھ کر کہا۔”ہاں ہاں،ضرور پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟“”چچا جان!کیا میں پہلے کی طرح چل پاؤں گا،فٹ بال یا کرکٹ کھیل سکوں گا؟“”ہاں بالکل،کیوں نہیں،تم دوڑو گے،بھاگو گے،پہلے کی طرح اُچھل کود کرو گے،اللہ تعالیٰ سے اچھی اُمید لگانا چاہیے۔“عمر آنکھیں بند کر کے کسی سوچ میں کھو گیا۔اس کو وہ دن یاد آ گیا تھا جب وہ اپنے دوست احمد کے ساتھ کرکٹ کھیل کر گھر واپس آ رہا تھا۔گراؤنڈ سے مارکیٹ کی طرف جانے والی سڑک پر جاتے ہوئے ان کی نظر ایک لڑکے پر پڑی۔وہ بیساکھی کو بغل میں دبائے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔احمد نے عمر کی طرف دیکھا۔آنکھوں ہی آنکھوں میں شرارتی منصوبہ طے ہو چکا تھا۔احمد اور عمر بیساکھی کے سہارے چلتے ہوئے لڑکے کی طرف بڑھے۔اگلے ہی لمحے لڑکے کی بیساکھی عمر کے ہاتھوں میں تھی اور احمد لڑکے کے گرد چکر لگا رہا تھا۔لڑکے کا نام عرفان تھا۔”خدا کا خوف کرو،میری بیساکھی واپس کر دو،میں گر جاؤں گا،میری بیساکھی دے دو۔“عرفان نے التجا کی۔”چلو،رک کیوں گئے،تم چل سکتے ہو،چلو۔“عمر نے بیساکھی لہراتے ہوئے کہا۔”میں گر جاؤں گا،میں بیساکھی کے بغیر چل نہیں پاؤں گا،خدا کے واسطے میری بیساکھی واپس کر دو۔“عرفان کی باتوں کا عمر اور احمد پر ذرا بھی اثر نہیں ہو رہا تھا۔انھیں تو عرفان کو تنگ کر کے لطف آ رہا تھا۔عرفان لڑکھڑایا اور کیچڑ میں گر گیا۔اگر ایک آدمی عرفان کی مدد کو نہ آتا تو وہ اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔وہ آدمی انھیں پکڑنے کے لئے دوڑا تو عمر بیساکھی سڑک پر گرا کر احمد کے ساتھ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔”میں نے اچھا نہیں کیا تھا۔“عمر کی بڑبڑاہٹ سن کر چچا چونک اُٹھے،عمر سوتا بن گیا۔جب اسے کمرے میں لیٹے لیٹے گھبراہٹ محسوس کرتا تو چچا جان اسے وھیل چیئر پر باہر لے جاتے۔باہر تو سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا۔کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہوتا تھا۔اس کے دوست بھی معمول کے مطابق کرکٹ کھیلنے کے لئے گراؤنڈ میں جا رہے تھے۔وہ گھر میں قید ہو کر رہ گیا تھا۔ایک شام عمر کے دوست اس سے ملنے آئے تو عمر نے ان سے عرفان کے بارے میں پوچھا۔احمد نے جھٹ کہا:”وہ وہیں بیساکھی لئے پھرتا رہتا ہے،ویسے اس دن اسے تنگ کرنے کا مزہ بہت آیا تھا۔“”میں جب بیساکھی لے کر باہر نکلوں گا تو کیا تم مجھے بھی تنگ کرو گے؟“عمر کے سوال پر تو سب کو چپ لگ گئی تھی۔”بولو،جواب دو،میں بھی تو اب لنگڑا ہوں،نہ جانے کب اپنے پاؤں پر چل پاؤں گا۔“عمر کی باتوں نے تو اس کے دوست کے دل کو چیر کر رکھ دیا تھا۔احمد نے احسن اور محسن کی طرف دیکھا۔سعد کا سر بھی جھکا ہوا تھا۔سب شرمندہ تھے۔چچا جان دروازے میں کھڑے سب سن اور جان چکے تھے۔اب وہ عمر کی پریشانی بھی سمجھ چکے تھے۔جب عمر کے دوست واپس جانے لگے تو انھوں نے احمد کو روک لیا۔”عرفان!کیا روزانہ کھیل دیکھنے آتا ہے؟“چچا جان نے پوچھا۔”جی چچا جان!وہ ہر روز گراؤنڈ کے پاس نظر آتا ہے۔بیساکھی اس کی بغل میں ہوتی ہے۔“احمد نے بتایا۔اگلے دن پھر عمر کے تمام دوست اس کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔چچا جان جب کمرے میں آتے تو سب ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔”عمر کوئی آپ سے ملنے کے لئے آیا ہے۔“”کون ہے وہ؟“ عمر نے پوچھا۔”خود ہی دیکھ لو۔“یہ کہہ کر چچا جان کمرے سے باہر گئے۔چند لمحوں بعد وہ واپس آئے تو ان کے ساتھ عرفان بیساکھی کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔اسے دیکھ کر سب کے سر شرم سے جھک گئے۔عمر نے روتے ہوئے اپنے سلوک کی معافی مانگی۔عرفان نے سب کو مخاطب کیا:”میں آپ سب کو معاف کرتا ہوں،میرے لئے دعا کرو،مجھے جس کی تلاش ہے،وہ مجھے مل جائے۔“”کون ہے وہ؟“احسن نے پوچھا۔”وہی جس کو میں نے بارہا لنگڑا کہہ کر تنگ کیا تھا۔اب بیساکھی میرا سہارا بنی ہوئی ہے۔اس کا نام اظہار ہے۔وہ مجھے ہر لمحہ یاد آتا ہے،میں اسے لنگڑا کہہ کر بھاگ جاتا تھا،ایک دن اسے لنگڑا کہہ کر بھاگ رہا تھا تو ایک گاڑی سے ٹکرا گیا،میری جان تو بچ گئی،مگر ایک ٹانگ کی ہڈی ایسے ٹوٹی کہ علاج کے باوجود اپنی ٹانگ پر نہ چل سکا۔مجھے طویل عرصے سے اظہار کی تلاش ہے،وہ مل جائے تو اس سے اپنے رویے کی معافی مانگوں،شاید اس طرح میرے دل کو قرار آ جائے۔“عرفان یہ کہتے ہوئے آب دیدہ ہو گیا تھا۔اچانک چچا کی آواز کمرے میں گونجی:”تمہاری تلاش ختم ہوئی،اظہار میرے دوست احسان کا بیٹا ہے،میں اسے یہاں لا سکتا ہوں۔“”کیا ایسا ہو سکتا ہے؟“عرفان نے آنسو پوچھتے ہوئے کہا۔”کل ہم دوبارہ یہاں اکٹھے ہوں گے۔“چچا جان بولے۔اگلے دن جب اظہار اور عرفان کا آمنا سامنا ہوا تو دونوں اپنی بغلوں میں بیساکھیاں دبائے آگے بڑھے۔وہاں موجود سبھی انھیں بغل گیر ہوتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔عرفان نے معافی کے کلمات زبان سے ادا کرنے چاہے تو اظہار نے فوراً کہا:”میں ہر بات بھول چکا ہوں،تم بھی سب کچھ بھول جاؤ۔کسی کو تکلیف مت پہنچاؤ،ورنہ وہ تکلیف لوٹ کر تمہارے پاس آ جائے گی۔“اظہار کی باتوں سے عرفان کی پریشانی جاتی رہی تھی۔جب دونوں وہاں سے جانے لگے تو عمر نے کہا:”میرے لئے دعا کرنا کہ میں اپنے پیروں پر چل پاؤں۔“اظہار اور عرفان یک زبان ہو کر بولے:”ان شاء اللہ تم بہت جلد اپنے پاؤں پر چل پاؤں گے۔“ " دو مکھیاں - تحریر نمبر 2602,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/2-makhiyan-2602.html,"پروفیسر خلیل جبارگاؤں میں ماسٹر اکبر علی کی سخت مزاجی مشہور تھی۔والدین ان کی سخت مزاجی کے باوجود اپنے بچوں کو ان ہی سے تعلیم دلانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔وہ ایک قابل اور فرض شناس استاد تھے۔اپنے کام میں کبھی غفلت نہیں برتتے تھے۔ان سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے اب بڑے اور اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔اپنے ان شاگردوں پر ماسٹر اکبر علی کو فخر بھی تھا۔ماسٹر اکبر علی کے سر پر ہر وقت جناح کیپ ہوتی تھی۔جناح کیپ پہننے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے سر پر بال برائے نام تھے۔گنجے سر کو چھپانے کے لئے جناح کیپ کا استعمال کرنے پر مجبور تھے۔ان کے رعب و دبدبے سے بچے خوف زدہ رہتے تھے۔مجال ہے کلاس میں کوئی شور کرے یا ان کے سامنے کسی کی آواز نکل جائے۔(جاری ہے)جماعت میں اگر کسی کی آواز گونجتی تو وہ صرف ماسٹر اکبر علی کی ہوتی تھی۔آج ماسٹر اکبر علی ناشتہ کیے بغیر ہی اسکول آ گئے تھے۔بیوی نے کسی بچے کے ہاتھ ناشتہ بھیج دیا تھا۔وہ جس دن بھی بغیر ناشتہ کیے جاتے تھے،اہلیہ اسکول ناشتہ ضرور بھیج دیتی تھیں۔جب وہ ناشتہ کر رہے ہوتے تھے،تب ان کی ہدایت تھی کہ کسی ایسی چیز کے بارے میں بات نہ کی جائے جس سے ان کو کراہیت آ جائے۔گندگی پر بیٹھنے والی مکھی یا کوئی حشرات کا ذکر کرنے سے ان کا جی متلا جاتا۔بچے بھول کر بھی ایسی چیزوں کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ماسٹر صاحب بچوں کو پڑھانے کے ساتھ مکھیوں کو اُڑا بھی رہے تھے۔ناشتہ دیکھ کر ان کی بھوک چمک اُٹھی تھی۔ماسٹر صاحب نے ناشتہ کرنا شروع کر دیا۔آج نہ جانے کہاں سے بڑی تعداد میں مکھیاں اندر آ گئیں تھیں۔وہ ایک نوالہ منہ میں رکھتے اور پھر دوسرے ہاتھ سے مکھیوں کو بھگاتے جاتے تھے۔عثمان کی جب سبق سنانے کی باری آئی۔وہ ڈرتے،ڈرتے ان کے پاس گیا۔اسے ماسٹر صاحب سے بہت ڈر لگتا تھا۔عثمان نے کتاب میں دیکھ کر سبق پڑھنا شروع کر دیا۔سبق پڑھتے ہوئے اچانک اس کی نظر کٹوری میں موجود سالن پر پڑی۔دو مکھیاں شوربے میں ڈبکیاں لگا چکی تھیں اور شوربے سے باہر نکلنے کی بھرپور کوشش میں تھیں،مگر کامیاب نہیں ہو رہی تھیں۔عثمان ماسٹر صاحب کو ان مکھیوں کے بارے میں بتانا چاہتا تھا،لیکن بتانے کی جرأت نہیں کر پا رہا تھا۔جب اس سے نہ رہا گیا،وہ بول پڑا:”ماسٹر صاحب!مکھیاں․․․․․“”مجھے بھی پتا ہے،آج مکھیاں بہت آ گئیں ہیں۔“انھوں نے کتاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”جج․․․․․جی․․․․․“عثمان کے منہ سے نکلا۔”عثمان بیٹے!جب کوئی کچھ کھا رہا ہو،اس موقع پر مکھی اور گندی چیزوں کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔“”جی“عثمان نے کہا۔عثمان نے مکھیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی،لیکن کامیاب نہ ہو سکا تھا،سبق پڑھتے ہوئے بار بار اس کی توجہ ان مکھیوں کی طرف ہی جا رہی تھی،ان مکھیوں نے اب شوربے میں تیرنا بند کر دیا تھا اور وہ جان کی بازی ہار چکی تھیں۔ماسٹر صاحب کی ساری توجہ سبق پڑھانے پر تھی۔ان کو شوربے میں مری ہوئی مکھیاں نظر نہیں آ رہی تھیں۔جب وہ دونوں مکھیاں ان کے نوالے میں آئیں تو عثمان سے نہ رہا گیا اور وہ بول پڑا:”م․․․․․․مم․․․․․․ماسٹر صاحب!مکھیاں․․․․․․“ابھی آگے کچھ کہنا چاہ رہا تھا کہ ماسٹر صاحب کے غصے سے گھورنے پر وہ اپنا جملہ مکمل ادا نہ کر سکا اور خاموش ہو گیا۔وہ اس وقت تک خاموش رہا،جب تک ماسٹر اکبر علی نے ناشتہ ختم نہ کر لیا۔ناشتہ ختم کر کے انھوں نے عثمان کی طرف دیکھا اور بولے:”’اب بولو،تم کیا کہنا چاہ رہے تھے؟“”ماسٹر صاحب!اب کوئی فائدہ نہیں ہے۔“اس نے کہا۔”جب میں ناشتہ کر رہا تھا،اس وقت خوب مکھی،مکھی کر رہے تھے،اب کہہ رہے ہو،مکھیوں کے ذکر سے کوئی فائدہ نہیں،کیا ان کا ذکر کرنے سے فائدہ بھی ہوتا ہے؟“وہ بولے۔”وہ․․․․․․وہ․․․․․مکھیاں․․․․․گئیں۔“عثمان نے کہا۔”کہاں گئیں؟“ماسٹر صاحب نے عثمان کے کان مروڑے۔”وہ پیٹ میں گئیں۔“”تم پڑھنے آتے ہو،یا مکھیاں کھانے؟“ماسٹر صاحب کی بات پر پوری لڑکوں کے چہروں پر مسکراہٹ آ گئی،لیکن وہ زور سے نہیں ہنسے۔”ماسٹر صاحب!وہ میرے پیٹ میں نہیں گئیں۔“”تو پھر کس کے پیٹ میں گئیں؟“ماسٹر صاحب اس کی بات پر چونکے۔”ماسٹر صاحب!آپ کے پیٹ میں گئیں۔“”میرے پیٹ میں گئیں،کیسے؟“وہ غصے سے گھورتے ہوئے بولے۔”وہ سالن کے شوربے میں دو مکھیاں کر گئیں تھیں،روٹی کے نوالے کے ساتھ پیٹ میں گئیں۔“عثمان نے حوصلہ کر کے کہا۔”بے وقوف!تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟“ماسٹر اکبر علی غصے سے گرجے۔”مم․․․․․․․مم․․․․․․بتا تو رہا تھا۔میرے․․․․․بتانے․․․․․․پر․․․․․․بار․․․․․․بار ڈانٹ رہے تھے۔“ماسٹر صاحب نے سوچا،واقعی وہ ٹھیک کہہ رہا تھا،اس نے بتانے کی کوشش کی تھی۔یہ بات یاد آتے ان کو متلی ہونے لگی اور وہ دوڑتے ہوئے جماعت سے باہر چلے گئے۔ان کی پھر جماعت میں واپسی نہیں ہوئی۔دو دن گزر گئے،وہ اسکول نہیں آئے،تیسرے دن جب آئے،وہ خاصے کمزور دکھائی دے رہے تھے۔بچوں کی حاضری لی اور پھر بچوں سے مخاطب ہوئے:”یہ اچھا ہوا،مجھے اس دن اُلٹی ہو گئی،ورنہ نہ جانے میری کیا حالت ہو جاتی۔“یہ کہتے ہوئے ماسٹر اکبر علی نے ایک نظر بچوں پر ڈالی۔اور پھر دوبارہ مخاطب ہوئے۔”میری بات کو توجہ سے سنو اور اس پر سختی سے عمل کرنا،تم ایسی بے وقوفی ہر گز نہیں کرنا،جیسی عثمان نے کی ہے،کبھی کسی کی جان جانے یا مال جانے کا خدشہ ہو،فوراً اس شخص کو بتاؤ،چاہے وہ کتنا ہی سخت انسان کیوں نہ ہو۔اگر عثمان میرے غصے کی پرواہ کیے بغیر بتا دیتا یا مکھیوں کی طرف اشارہ کر دیتا،اس طرح کم از کم میں مکھی کھانے سے بچ جاتا۔“اس واقعے کے بعد ماسٹر اکبر علی بدل گئے تھے۔اسکول کا وقت ختم ہو گیا،لیکن کسی بچے کو نہیں ڈانٹا۔کسی بچے سے کوئی غلطی بھی ہوئی،اسے پیار سے سمجھا دیا۔جماعت میں ان کی رعب دار آواز بھی نہیں گونجی۔وہ بدل گئے تھے،ایک چھوٹے واقعے کے سبب۔وہ سمجھتے تھے رعب و دبدبے سے بچے پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں،محبت ان کو بگاڑ دیتی ہے،لیکن وہ اب اس بات کے قائل ہو گئے تھے کہ محبت سے بچے جلدی سیکھ جاتے ہیں۔بچے تیسری جماعت سے چوتھی جماعت میں چلے گئے،لیکن پھر انھوں نے ماسٹر اکبر علی کا پرانا لہجہ نہیں دیکھا۔وہ مختلف ہی دکھائی دیتے تھے۔ماسٹر اکبر علی جان گئے تھے کہ خوف اور ادب ایک حد تک ہی اچھا لگتا ہے۔ " ناراض جگر - تحریر نمبر 2601,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naraaz-jigar-2601.html,"ڈاکٹر طارق ریاضنواب صاحب کھانے کے شوقین تھے۔کھانا شروع کرتے تو بڑی مشکل سے ہاتھ کھینچتے۔چند دن پہلے پرانا باورچی کام چھوڑ گیا تو بڑی مشکل پیش آئی۔اخبار میں اشتہار دیا کہ لذیذ پکوان تیار کرنے والے باورچی کی اشد ضرورت ہے۔مناسب تنخواہ کے ساتھ رہنے کے لئے کمرہ اور کھانے کی سہولت بھی دی جائے گی۔اخبار میں اشتہار دینے کی دیر تھی کہ بے شمار باورچی حاضر ہو گئے۔انٹرویو لینے والوں میں نواب صاحب سمیت ان کے دو چار پیٹو قسم کے دوست بھی شامل تھے،جو اکثر دسترخوان پر نواب صاحب کے ساتھ ہوتے تھے۔صبح سے عصر کا وقت ہو گیا۔آخر انٹرویو کمیٹی نے ایک باورچی کا انتخاب کر لیا۔نام تو جان محمد تھا،لیکن اس کے بقول پیار سے سب جانی کہتے تھے۔(جاری ہے)جانی بہت خوش تھا۔نوکری،کمرہ اور کھانا ملنے کی خوشی تھی۔رات کا کھانا تیار کیا اور ایسے ایسے پکوان تیار کیے کہ گھر میں ہر طرف دیسی گھی کی خوشبو پھیل گئی۔نئے باورچی کے نئے نئے کھانے دیر سے ہی سہی،دسترخوان پر سج گئے۔جانی نے اپنے ہنر کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا۔ایسے کھانے اور پکوان دسترخوان پر سجے تھے کہ نواب صاحب اور ان کے دوست سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ شروع کہاں سے کریں۔نہاری بھی تھی۔دیسی گھی کے بگھارنے اس کے ذائقے اور لذت میں اضافہ کر دیا تھا۔انھوں نے بے صبری سے پلیٹ نہاری سے بھر لی۔نواب صاحب کو نہاری اتنی پسند آئی کہ کچھ اور لینا بھول گئے۔حالانکہ سامنے اور کھانے بھی رکھے تھے۔ایک دوست نے ٹوکا کہ نواب صاحب اتنی چکنائی ایک وقت میں نہ لیں،طبیعت خراب ہو جائے،مگر کسی نے توجہ نہ دی،سبھی نے خوب ڈٹ کر کھایا۔جانی دل دل میں خوش تھا کہ اس نے اپنے مالک کا دل جیت لیا تھا۔کھانے سے فارغ ہو کر یہ لوگ قہوہ پینے میں مصروف ہو گئے،لیکن اس سے قبل میووں سے سجا گاجر کا حلوا پیش کیا گیا۔یہ بھی اتنا لذیذ تھا کہ کھانے والے اُنگلیاں چاٹتے رہ گئے۔دیگر مہمان قہوہ پینے لگے تھے،لیکن نواب صاحب نے ایک بار پھر پلیٹ حلوے سے بھر لی تھی۔”نواب صاحب!مجھے خطرہ ہے کہ آپ اتنی چکنائیاں لے رہے ہیں خدانخواستہ جگر نہ خراب ہو جائے!“ان ہی کے دوست نے چُسکی لیتے ہوئے انھیں ایک بار پھر ٹوکا۔”چھوڑو بھئی!دفع کرو جگر کو!اس وقت جو مزہ آ رہا ہے،بس نہ پوچھو!“نواب صاحب نے جواباً کہا۔جسم میں موجود سب سے بڑا عضو جگر ہے۔اس نے سن لیا تھا۔انسانی جگر بچپن سے لے کر جوان ہونے تک ہر پانچ سال بعد پانچ سینٹی میٹر بڑھ جاتا ہے اور 15 سینٹی میٹر بڑھ کر رک جاتا ہے۔اس وقت اس کا وزن تقریباً ایک اعشاریہ چار کلو گرام ہو جاتا۔اس عضو نے ساری زندگی نواب صاحب کے جسم میں سے زہریلے مادہ خارج کرنے،خوراک ذخیرہ کرنے اور Bile نامی رطوبت پیدا کر کے چکنائیوں کو قابل ہضم بنایا۔بائل ایسی رطوبت ہے جو کھائی ہوئی چکنائیوں کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہے۔نواب صاحب حلوے کا مزہ لیتے رہے جس سے سارا وزن چھوٹی آنت پر آ پڑا۔جگر نے بائل خارج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔نواب صاحب کے دوست اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔حویلی میں سبھی سو رہے تھے۔جانی بھی تھک کر سو گیا تھا۔نواب صاحب کمرے میں خاصی دیر سے چہل قدمی کر رہے تھے۔نیند کوسوں دور تھی۔غذا ہضم کرنے میں چھوٹی آنٹ کو مشکلات کا سامنا تھا۔حالانکہ Lipase نامی خامرہ Enzyme چھوٹی آنت میں چکنائیوں کے ہاضمے پر مقرر تھا،لیکن Bile کے بغیر ہضم کرنے کا عمل سست تھا۔اب تو نواب صاحب کو کھٹی ڈکار آنے لگی تھی۔جس سے طبیعت میں بھاری پن پیدا ہو گیا تھا۔رات جاگتے گزری۔صبح معالج کو حویلی میں طلب کر لیا۔اچھی طرح طبی معائنہ ہوا تو پتا چلا کہ جگر ناراض ہے۔معالج نے ہدایت کی کہ کچھ دن پرہیزی غذا کھانی ہو گی۔یہ کہہ کر کڑوی کسیلی دوائیں تھما دیں۔اگلی رات آ پہنچی۔نواب صاحب کو ذرہ بھر افاقہ نہ ہوا تھا۔بلکہ طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔آخر چھوٹی آنت نے گُردوں سے درخواست کی اپنے دوست جگر کو راضی کریں۔گُردے جسم سے نائٹروجنی فاضل مادے خارج کرتے ہیں۔اس کام میں جگر ان کی مدد کرتا ہے۔گردوں کو رحم آ گیا۔انھوں نے جگر سے درخواست کی جو قبول کر لی گئی۔جگر نے رطوبت خارج کی جو پتے (Gallbladder) میں جمع ہوئی اور چکنائیوں کو Fatty Acids میں توڑنے کے لئے چھوٹی آنت کی مدد کرنا شروع کر دی۔آخر دو روز بعد نواب صاحب کا ہاضمہ مکمل ہوا اور خدا خدا کر کے انھوں نے صحت پائی۔نواب صاحب اب کھانے پینے میں بے احتیاطی نہیں کرتے اور چٹخارے کے جال میں پھنس کر صحت کو تباہ نہیں ہونے دیتے۔ " صبر کا انعام - تحریر نمبر 2600,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sabar-ka-inaam-2600.html,"جدون ادیبآغا صاحب کرایہ لینے آئے تو ان کا کرائے دار موجود نہیں تھا،بلکہ ایک خطرناک شکل والا انسان باہر آیا اور اس نے آغا صاحب کو بتایا کہ وہ اس مکان کا نیا مالک ہے۔آغا صاحب یہ سن کر چکرا گئے۔انھیں لگا کہ شاید یہ جھوٹ ہے،مگر اس شخص نے جس طرح ان کے منہ پر دروازہ بند کیا،وہ سمجھ گئے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔اس کے بعد ان کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی۔انھوں نے ہر ممکن کوشش کر لی،ہر دروازہ کھٹ کھٹایا،مگر کچھ نہ بن سکا۔پولیس کے پاس رپورٹ درج کرائی تو بھی کچھ نہ ہوا۔قبضہ کرنے والے شخص کے پاس پکے کاغذات تھے۔پھر یہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا،جہاں ایک تکلیف دہ اور صبر آزما عمل کا آغاز ہوا۔دن،ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدلنے لگے۔(جاری ہے)اس طرح کئی سال گزر گئے۔آغا صاحب کے پاس جو کچھ تھا،انھوں نے مقدمے پر لگا دیا۔پھر زیور اور گھر کی قیمتی اشیاء بیچیں۔آخر میں قرض لیا،مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ان چند سالوں نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔انھیں احساس ہونے لگا کہ ان کی زندگی میں اس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا اور وہ خود بھی بستر سے جا لگے۔ان حالات میں ان کی اہلیہ ہی تھیں جو ان کا حوصلہ بڑھاتی تھیں اور صبر کرنے کا کہتیں۔آخر ایک دن آغا صاحب پھٹ پڑے:”نہیں ہوتا مجھ سے صبر اور کتنا صبر کروں!کب تک کروں؟“کہتے کہتے ان کو کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔وہ کھانستے کھانستے بے حال ہو گئے۔اہلیہ پانی لینے دوڑیں اور احمر بھاگتا ہوا آیا اور ان کی پیٹھ سہلانے لگا۔آغا صاحب نے پانی پیا اور گہرے گہرے سانس لینے لگے۔پھر آہستہ سے بولے:”بے شک ہمیں صبر کرنا چاہیے،لیکن اب میرے صبر کا پیمانہ بھر چکا ہے۔ہم نے بلاوجہ مقدمہ بازی کی۔اپنی جمع پونجی بھی لٹا دی اور بال بال قرضے میں جکڑا جا چکا ہے۔لہٰذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم مقدمے کا پیچھا نہیں کریں گے اور نہ کسی کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے۔“آغا صاحب نے آخری کوشش کی۔چونکہ ان کے پاس مقدمے کی پیروی کے لئے اخراجات نہیں تھے،لہٰذا انھوں نے جج صاحب کو صاف بتا دیا۔انھوں نے ایک سرکاری وکیل کی خدمات ان کے حوالے کر دیں،جو سست روی سے مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھاتا رہا،مگر مخالف وکیل حیلے بازی کے ذریعے مقدمے کو طول دیتا رہا،آخر ایک دن وہ آیا جب عدالت پہنچنے کے لئے بھی ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔آغا صاحب عدالت نہ جا سکے۔شام کو وکیل کا فون آیا کہ عدالت نے ان کے تمام ثبوتوں کو مسترد کر دیا ہے۔بے بسی کے احساس سے آغا صاحب کی آنکھیں بھر آئیں۔ان کے لبوں پہ گلہ آنے ہی والا تھا کہ ان کی شکر گزار اہلیہ آ گئیں۔انھوں نے گہری سانس لی اور آسمان کی طرف دیکھ کر بولے:”یا اللہ!جو تیری مرضی،ہر حال میں تیرا شکر ہے!“شکر ادا کرنے سے ان کی طبیعت ہلکی ہو گئی یوں لگا،جیسے ان پر سے کافی بوجھ اُتر گیا ہو۔اپنے سارے معاملات انھوں نے خدا کے حوالے کر دیئے تھے۔اگلے دن وکیل ان کو لینے گھر آ گیا۔وہ بہت خوش تھا۔اس نے گرم جوشی سے آغا صاحب سے ہاتھ ملایا اور ان کو خوش خبری سنائی کہ جس پراپرٹی ڈیلر نے ان سے دھوکا کیا تھا،اسے دل کا دورہ پڑا۔اس نے مرنے سے پہلے اعتراف جرم کر لیا،جس سے مقدمہ ان کے حق میں ہو گیا ہے اور جلد ان کا مکان انھیں ملنے والا ہے۔یہ خبر سن کر آغا صاحب اتنا روئے کہ آنسو تھمنا مشکل ہو گئے۔ان کی آزمائش ختم ہو گئی تھی،جس نے انھیں پریشانی میں ڈالا تھا،اللہ نے انھیں اس پریشانی سے نکال لیا۔یہی ان کے صبر کا انعام تھا۔ " ستارہ پری - تحریر نمبر 2599,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sitara-pari-2599.html,"راجہ مہدی علی خاںننھی شیلا ایک دن اپنی گڑیوں کے لئے چائے بنا رہی تھی کہ یکایک اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔شیلا نے خیال کیا کہ اس کی کوئی سہیلی اس سے ملنے آئی ہے۔لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے تین بچوں کو گود میں لئے کھڑی ہے۔اس عورت کے بازوؤں کے ساتھ سات رنگ کے خوبصورت پَر بھی لگے تھے اور ماتھے پر ایک ستارہ جگمگا رہا تھا اور لباس تو ایسا تھا جیسے تتلی کے پَروں کا بنا ہو۔شیلا اسے مسکراتا دیکھ کر کہنے لگی۔”خوبصورت عورت تم کون ہو؟“عورت بولی۔”میں ہوں ستارہ پری“ شیلا نے پوچھا:”تمہیں مجھ سے کیا کام ہے؟“ستارہ پری بولی۔”ذرا مجھے اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دو۔“شیلا کہنے لگی۔(جاری ہے)”گھر میں گھس کر کیا کرو گی؟“ستارہ پری بولی”اپنے بچوں کو تمہارے غسل خانے میں نہلاؤں گی۔“شیلا نے جواب دیا۔”اچھا نہلا لو۔“اب پری اپنے بال بچوں کو غسل خانے میں نہلانے لگی اور شیلا اپنی خوبصورت مہمان کو تواضع کے لئے دوڑ کر بازار سے بسکٹ لینے چلی گئی۔واپس آئی تو دیکھا کہ اس کی خوبصورت مہمان غائب ہے۔لیکن غسل خانہ خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔شیلا نے حیرت سے غسل خانے میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ پری اپنا ایک خوبصورت دستانہ الگنی پر بھول گئی ہے دستانہ پیارا تھا۔اسے دیکھتے ہی شیلا کے منہ سے مارے خوشی کے ایک چیخ نکل گئی۔اس نے دوڑ کر اسے پہن لیا۔دستانہ پہنتے ہی وہ ایک اور ہی دنیا میں پہنچ گئی۔اس نے دیکھا کہ وہ بالائی کے ایک پہاڑ پر کھڑی ہے جس سے دودھ کی ندیاں نیچے کو بہہ رہی ہیں۔پہاڑ پر چاندی کے چھوٹے چھوٹے چمچے بھی بکھرے تھے۔شیلا نے ایک چمچہ اُٹھا لیا اور بالائی کے پہاڑوں کی مزہ دار چوٹیاں کھانے لگی۔بالائی کھانے کے بعد اسے پیاس محسوس ہوئی تو وہ نیچے اتر آئی۔دودھ کی ندیوں کے کنارے مصری کے کٹورے رکھے تھے ایک کٹورا ندی کے دودھ سے بھر کر اس نے پیا اور پھر آگے بڑھی۔ہر طرف باغ ہی باغ نظر آ رہے تھے۔جن میں رنگ برنگ شربت کے فوارے ناچ رہے تھے فواروں کے حوض کے کناروں پر زمرد کے چھوٹے چھوٹے گلاس رکھے تھے۔اس نے ایک فوارے سے شربت کا ایک گلاس پیا۔پھر دوسرے فوارے سے پھر تیسرے فوارے سے کیونکہ ہر فوارے کے شربت کا مزہ نیا تھا۔اس کے بعد شیلا نے باغ کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔معلوم ہوا کہ اس میں چہکنے والے پنچھی بھی مٹھائی کے ہیں۔ایک کوئل اور ایک بلبل شیلا نے پکڑ کر کھائی اور پھر آگے بڑھی۔آگے ایک بڑا خوبصورت بازار آ گیا۔جس میں ہر طرف پریاں ہی پریاں نظر آتی تھیں۔شیلا ان میں جا گھسی اور بازار کا تماشا دیکھنے لگی۔دکانوں پر بڑی بڑی عجیب چیزیں بک رہی تھیں۔رنگ برنگ پھول تتلیاں۔ستارے۔موتی۔کل سے اُڑنے والے پنچھی۔گلدان مربے۔جام۔چاکلیٹ اور طرح طرح کے کھلونے۔یکایک شیلا کو ستارہ پری اپنے بچوں کے ساتھ ایک دکان پر کھڑی نظر آئی۔وہ ایک دکان سے اپنے بچوں کے لئے نرگس کے پھول چرا رہی تھی۔شیلا چلا کر بولی”ستارہ پری دکان دار کے پھول کیوں چرا رہی ہو۔“ستارہ پری نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی”شیلا میرے قریب آؤ۔“جب شیلا اس کے پاس آئی تو ستارہ پری نے اس کی آنکھوں پر اپنے نرم نرم ہاتھ رکھ دیئے اور بولی ”شیلا جو کچھ دیکھ رہی ہو نہ دیکھو۔جو کچھ سوچ رہی ہو نہ سوچو۔جو کچھ دیکھ چکی ہو بھول جاؤ۔“اس کے بعد ستارہ پری نے زور سے ایک خوبصورت قہقہہ لگایا اور اپنے نرم نرم ہاتھ شیلا کی آنکھوں سے ہٹا لئے۔شیلا ڈر گئی۔اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنا شروع کیا۔اب وہاں کچھ بھی نہ تھا۔وہ اپنے بستر پر لیٹی تھی۔اس کے بھیا کا سفید مرغا ککڑوں کوں ککڑوں کوں کر رہا تھا۔کہ آسمان پر صبح کا ستارہ اس کی طرف دیکھ دیکھ کر شرارت سے مسکرا رہا تھا۔ " اگر ایسا ہو جائے - تحریر نمبر 2598,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/agar-aisa-ho-jaye-2598.html,"ایم رضوان ملغانیاسکول کی تیس پینتیس بچوں کی اس جماعت کے کمرے میں کاغذی پنکھے جھلنے کی آواز کے سوا کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔لڑکوں کی قمیضیں پسینے سے بھیگ چکی تھیں۔ان تمام کے بستوں میں موجود پانی کی ٹھنڈی بوتلیں گرم ہو چکی تھیں۔سر جاوید نے ریاضی کے ایک سوال کو حل کر کے جواب بورڈ پہ لکھا ہی تھا کہ گھڑگھڑ کی آواز سے برائے نام چلتے پنکھے جواب دے گئے۔چھوٹے سے دو روشن دانوں سے سورج کی شعاعیں چھن چھن کر اندر آتیں تو درجہ حرارت بڑھنے لگتا۔رہی سہی کسر کھلی کھڑکیوں سے آنے والے لُو کے تھپیڑے پوری کر دیتے۔فرہاد نے مایوسی کے عالم میں کمرہ جماعت میں چاروں طرف نظر دوڑائی اور اس کا دل خون کے آنسو رونے لگا۔کچھ آنسو اس کی آنکھوں میں بھی چمکنے لگے تھے۔(جاری ہے)”رونا مت شروع کر دینا اب یار“ ناصر نے اپنے ساتھ ڈیسک پہ بیٹھے دوست فرہاد سے کہا۔”پتا نہیں میرا خواب کب پورا ہو گا!تمھیں پتا ہے کہ میں نے کیا دیکھا خواب میں۔“فرہاد نے کہا۔”ہاں،تم نے بتایا تھا کہ اسکول میں بڑے بڑے اے سی لگا دیئے گئے ہیں۔ٹھنڈے پانی کے لئے مشینی کولر لگا دیا گیا ہے۔بجلی جاتی ہے تو جنریٹر آن ہو جاتے ہیں پنکھے چلتے رہتے ہیں۔اے سی کی ٹھنڈک کافی دیر تک برقرار رہتی ہے۔“ناصر نے جواب دیا۔”اسی وقت سر خاور کمرے میں داخل ہوئے۔آج وہ کافی غصے میں تھے۔آتے ہی انھوں نے گاؤن اُتار کر میز پہ پھینکا تھا۔سب بچے جو پنکھے جھل جھل کے ادھ موئے ہوئے جا رہے تھے،استاد کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے تھے۔”آج سر خاور کو کیا ہو گیا ہے۔“سب بچوں میں کھسر پھسر ہونے لگی۔کچھ دیر گتے سے پنکھا جھلنے کے بعد انھوں نے بڑی بے دلی سے پڑھانا شروع کیا۔پرنسپل آفس میں پرنسپل صاحب اپنی آرام دہ کرسی پر حساب کتاب کا کھاتہ کھولے بیٹھے تھے۔”اس سال ایک بچے کی ماہانہ فیس تین سو روپے کے حساب سے سال میں کل پانچ لاکھ چالیس ہزار جمع ہوئے،جن میں سے تقریباً تین لاکھ روپے تنخواہوں اور دیگر اخراجات پر لگے اور باقی گھر کے ترقیاتی کاموں میں۔“انھوں نے زور سے قہقہہ لگا کر کہا اور حمدانی صاحب کو فخریہ انداز سے دیکھا۔”یعنی آپ بڑے ہوشیار آدمی ہیں۔ہیرا پھیری میں کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دیتے اور میرا حصہ بھی رکھتے ہیں۔“حمدانی صاحب مسکرائے اور ٹھنڈی بوتل کے گھونٹ بھرنے لگے۔سر خاور کسی کام سے پرنسپل صاحب کے پاس آ رہے تھے کہ یہ گفتگو سنتے ہی انھوں نے خود کو دروازے پر ہی روک لیا۔تمام گفتگو سن کر وہ غصے سے بھرے تیزی سے دروازہ کھول کر پرنسپل کے روبرو کھڑے ہو گئے۔”میں نے آپ کی اور حمدانی صاحب کی بات چیت سن لی ہے۔آپ ان معصوم بچوں کے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں!ان کا حق ناجائز طریقے سے کھا رہے ہیں۔“سر خاور دھاڑے تھے۔”تمیز سے بیٹھ کر بات کرو خاور!تمھیں معلوم ہے تم کس سے بات کر رہے ہو۔“پرنسپل صاحب اپنی چوری پکڑے جانے پہ رتی بھر شرمندہ نہیں تھے۔”میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ میں کس سے بات کر رہا ہوں۔آپ کو نظر نہیں آتا کہ اسکول میں کن کن سہولیات کی کمی ہے۔کلاسوں میں لگے پنکھے ہوا کم،شور زیادہ کرتے ہیں،اتنی فیس دینے کے باوجود اسکول میں بچے مٹکوں سے پانی پینے پہ مجبور ہیں،بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں جنریٹرز کا بندوبست نہ ہونے سے بچے گرمی میں تڑپ رہے ہیں اور آپ ان کی فیس کے پیسے یوں ہڑپ کر جاتے ہیں۔“خاور محمود نے بنا ڈرے کہا تھا۔”یہ میرا ذاتی معاملہ ہے تم کون ہوتے ہو کچھ کہنے والے۔“پرنسپل صاحب بولے۔”یہ صرف آپ کا معاملہ نہیں ہے،یہ میرے بچوں کا معاملہ ہے۔یہاں غریبوں کے بچے پڑھنے آتے ہیں اور آپ ان بچوں کا یوں استحصال کر رہے ہیں۔“خاور صاحب یہ کہتے ہی نکل آئے تھے۔سر خاور گرمی سے پریشان تھے۔انھوں نے پرنسپل صاحب کی بدعنوانی سے بچوں کو آگاہ کیا اور کہا:”میں جلد اس سلسلے میں خود کچھ کروں گا۔“”لیکن سر اگر ایسا کرتے ہوئے آپ کی نوکری چلی گئی تو؟“فرہاد نے خدشے کا اظہار کیا۔”مجھے اس کی بالکل پروا نہیں ہے۔آپ سب اس ملک و قوم کا سرمایہ ہیں۔میں آپ کے ساتھ زیادتی ہر گز برداشت نہیں کروں گا۔“سر خاور عزم سے بولے تھے۔”بس تمھیں میری آواز بننا ہے اور میرا ساتھ دینا ہے،بنو گے میری آواز۔“سر خاور جوش سے بولے۔سب بچوں نے عزم سے کہا:”سر!ہم آپ کے ساتھ ہیں۔“دیکھتے ہی دیکھتے اسکول کی حالت کے بارے میں تمام سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہو گئی،جہاں اسکول کو ملنے والے بجٹ اور کاموں کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔سر خاور نے پنکھوں سے لے کر مٹکوں تک کی تصاویر بھی دکھا دی تھیں۔اس کے ساتھ ساتھ جیسے ہی یہ تصاویر وائرل ہوئیں تمام بچوں نے اپنی رائے کی بھرمار کر دی تھی۔میڈیا نے بھرپور کوریج کی تھی۔فرہاد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور نیوز رپورٹرز کو بیان ریکارڈ کروائے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے میڈیا کے حرکت میں آنے سے پرنسپل صاحب کو اپنی ملازمت ختم ہونے اور پکڑے جانے کا خطرہ لاحق ہو گیا۔کچھ ہی دنوں میں اسکول کی کایا پلٹ گئی۔پرنسپل کے خلاف کارروائی ہوئی۔اسکول میں بڑا جنریٹر، ہر جماعت میں نئے پنکھے، ٹھنڈے اور صاف پانی کے لئے فلٹر جو برقی واٹر کولر سے منسلک تھا۔اس کے علاوہ کمروں کے باہر پھولوں کے گملے رکھوائے گئے تھے۔جن کے لئے ایک تجربے کار مالی کا تقرر کیا گیا تھا۔استاد بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے بچوں کی مدد کر رہے تھے،سب ہی بچے خوش تھے،لیکن فرہاد کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانا ہی نہیں تھا،کیونکہ اس کا خواب پورا ہو چکا تھا۔ " بیساکھی - تحریر نمبر 2597,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baisakhi-2597.html,"صدف بیگارتضیٰ اور احمر میں گہری دوستی تھی۔دونوں ایک ہی محلہ میں رہتے تھے اور ان کے گھروں کے درمیان زیادہ فاصلہ بھی نہ تھا۔انھوں نے جب سے ہوش سنبھالا تھا،ایک دوسرے کو ساتھ ہی پایا تھا۔دونوں کے ہم عمر ہونے کے علاوہ دوستی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے والدین بھی آپس میں دوست تھے اور وہ محلے داری سے ہٹ کر بھی ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ہمیشہ ساتھ ہوتے تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ ارتضیٰ اور احمر کی دوستی بھی پروان چڑھتی رہی۔ارتضیٰ بے حد ذہین اور محنتی بچہ تھا،جب کہ احمر قدرے لاپروا اور کھلنڈرے مزاج کا حامل تھا۔اسے کھیل کود اور شرارت کے سوا کچھ نہ سوجھتا تھا۔سب اسے سمجھاتے اور ارتضیٰ کی مثال دیتے،لیکن احمر پر ذرا اثر نہ ہوتا۔(جاری ہے)اُلٹا وہ کہتا کہ میری مدد کرنے کے لئے ارتضیٰ ہے نا،مجھے کیا ضرورت ہے کہ ہر وقت پڑھتا رہوں اور زندگی کا لطف نہ اُٹھاؤں۔ارتضیٰ بھی ہر ممکن اس کی مدد کرتا۔کبھی کبھی اس کا ہوم ورک بھی خود ہی کر دیتا۔کمرہ جماعت تک میں اس کی مدد کرتا اور اکثر اس بات پر اسے اساتذہ سے ڈانٹ بھی پڑتی،لیکن وہ احمر کے لئے اپنے دل میں موجود محبت سے مجبور تھا۔کبھی کبھی وہ اسے سمجھاتا بھی تھا کہ خود بھی تھوڑی محنت کر لیا کرو،لیکن احمر ہمیشہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا۔وقت گزرتا گیا۔اب وہ دونوں ہائی اسکول میں پہنچ چکے تھے۔اب دونوں کی عادتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔امتحانات سر پر تھے۔ایسے میں ارتضیٰ اچانک بیمار پڑ گیا۔علاج معالجے کے باوجود اسے جلد افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔امتحانات کے دن نزدیک آتے جا رہے تھے۔احمر بے حد پریشان تھا۔اسے ارتضیٰ کے صحت یاب نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی فکر تھی کہ وہ ارتضیٰ کی مدد کے بغیر امتحان کیسے دے پائے گا۔وہ دن رات ارتضیٰ کی جلد سے جلد صحت یابی کے لئے دعائیں کر رہا تھا۔آخر امتحان کا دن آن پہنچا۔ارتضیٰ کے والدین نے اس کی بیماری کی وجہ سے اسے امتحانات نہ دلوانے کا فیصلہ کیا۔احمر سمجھ نہ پا رہا تھا کہ وہ اس صورتِ حال میں کیا کرے۔اس کی دلی خواہش تھی کہ وہ کسی ایسی جگہ جا کر چھپ جائے،جہاں اسے کوئی نہ ڈھونڈ سکے اور اس طرح اس کی جان امتحان سے چھوٹ جائے،لیکن احمر کی جان بھی شکنجے میں آ چکی تھی اور آخر اسے امتحان میں بیٹھنا ہی پڑا۔وہ بُری طرح گھبرایا ہوا اور پریشان حال تھا۔گھبراہٹ اور بدحواسی کی وجہ سے اسے سوالات ہی ٹھیک طرح سمجھ میں نہیں آ رہے تھے،جب کہ وہ کوئی بہت نالائق طالب علم بھی نہیں تھا۔بس محنت سے جی چُراتا تھا۔ارتضیٰ کے ہر بار مدد کر دینے کی وجہ سے وہ سہارے کا عادی ہو گیا تھا۔اسے خود پر بھروسا نہ رہا تھا۔وہ ہر مشکل میں ارتضیٰ کی طرف دیکھتا،یہی وجہ تھی کہ وہ بروقت اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھا تھا۔امتحانات میں یہی بات اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی۔جن سوالات کے جوابات تھوڑے بہت آتے ہیں،لیکن اچھی طرح سے حل نہیں کر پائے گا،وہ انہی کو پہلے حل کرنے بیٹھ گیا اور بہت سا وقت ضائع کر دیا۔نتیجتاً جو سوالات احمر کو اچھی طرح یاد تھے،انھیں حل کرنے کے لئے اس کے پاس وقت کم رہ گیا اور وہ انھیں بروقت مکمل کرنے میں ناکام رہا۔جس کی وجہ سے وہ رہا سہا اعتماد اور خود پر بھروسا بھی کھو بیٹھا۔ہر پرچے میں وہ پہلے سے زیادہ پریشان ہوتا اور غلطی پر غلطی کرتا۔جب نتیجہ آیا تو احمر بُری طرح فیل ہو گیا اور اسے سب کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔دوستی یہ نہیں ہے کہ مدد کے نام پر دوست کو اپنا محتاج بنا دیا جائے اور اسے نقل کروا کر یہ سمجھا جائے کہ دوست کی مدد کی گئی ہے۔یہ تو ایک طرح سے دوستی کے بجائے دشمنی کی گئی ہے۔جب طالب علم اپنے کسی ہم جماعت یا دوست کو اپنے ساتھ اسکول کے کام کی تیاری میں شامل کرنے کی بجائے،مدد اور دوستی کے نام پر اسے نقل کرواتے ہیں،اس کا ہوم ورک اسی سے کروانے کی بجائے خود حل کر کے دے دیتے ہیں تو اپنے اس عمل سے وہ اپنے دوست کا اپنے بَل بوتے پر آگے بڑھ جانے کا اعتماد چھین لیتے ہیں۔وہ دوست زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔وہ مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے گھبرایا جاتا ہے اور ڈٹ کر مقابلہ نہیں کر پاتا۔ایسا انسان محنت سے جی چُراتا ہے۔وہ ہر وقت کسی بیساکھی کی تلاش میں رہتا ہے،جس پر اپنے حصے کا بوجھ ڈال کر وہ اپنے لڑکھڑاتے قدموں کو بغیر کسی اضافی محنت کے سنبھال سکے۔ایسا شخص ہمیشہ سہارے تلاش کرتا ہے اور دوسروں کا محتاج رہتا ہے۔جب بھی کوئی مشکل آن پڑے،وہ بَروقت اور درست فیصلہ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔اس میں عزتِ نفس ختم ہو جاتی ہے،جس کے باعث وہ مانگنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا۔یاد رکھیں!اپنے دوست کی ایسی مدد کبھی نہ کریں جو اس کی عزتِ نفس،ذاتی وقار اور مستقبل کے لئے نقصان دہ ہو اور جس کے نتیجے میں اسے دوسروں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔اب احمر اس بات کو اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔اس نے عہد کر لیا کہ وہ صرف اپنی ذات پر بھروسا کرے گا۔پھر ایسا ہی ہوا اور وہ آئندہ سال اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا۔ " ہم اُلّو ہیں - تحریر نمبر 2595,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hum-ullu-hain-2595.html,"آج کے انسان کو اُلّووؤں سے خاص شغف ہو گیا ہے،اس لئے وقت کے ساتھ انسانوں میں اُلّووؤں کی صفات پیدا ہو رہی ہیں۔آج کل کے نوجوانوں کو راتوں کو جاگنے کا شوق ہو گیا ہے۔گھر پر ہوں تو موبائل دیکھ کر جاگتے ہیں،گھر سے باہر ہوں تو چائے کے ڈھابوں پر چائے پی پی کر دکان دار کی کمائی کرواتے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے:”بیٹا!رات میں کب سوتے ہو؟“وہ معصومیت سے پوچھتا ہے:”کیا رات کو سوتے ہیں؟“اب ان کو کوئی بتائے کہ انسان تو رات میں سوتے ہیں،ہاں!اُلّو دن میں سوتے اور رات میں جاگتے ہیں۔جب دیکھو تو سب کے ہاتھوں میں موبائل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے غافل ہوتے ہیں۔انسان سماجی جانور ہے اور اُلّووؤں کو ویرانی اور سناٹوں میں رہنا پسند ہے۔اب ساتھ ہوتے ہوئے بھی اکیلا پن ہے۔(جاری ہے)اُلّو بے چارہ معصوم سا پرندہ ہے،ویرانوں میں رہتا ہے،اذیت نہیں پہنچاتا ہے۔اس کو منحوس پرندہ کہہ ڈالا۔اب اُلّو منحوس ہے یا نہیں،مگر آج کل انسان،ساتھ رہنے والوں کو اتنا عاجز کرتے ہیں کہ وہ ان کے لئے منحوس بن جاتے ہیں۔اُلّو کے بارے میں انسان نے مشہور کر رکھا ہے کہ اس کے خون سے لکھا جادو منتر اثر کرتا ہے۔اس میں اُلّو کا کیا قصور ہے۔اصل مجرم تو انسان ہی ہے،اس لئے ایسے انسانوں سے بچنا چاہیے۔اُلّو بے چارے تو ویرانوں میں رہتے ہیں۔ " غلط فہمی - تحریر نمبر 2594,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghalat-fehmi-2594.html,"سیدہ اُم ہانی منصور،کراچی”کیا․․․․․!“عافیہ نے جونہی اپنا بستہ کھولا اور اس میں سے 500 روپے کا نوٹ غائب پایا تو اس کے منہ سے بے ساختہ نکل پڑا:”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟“اس نے اپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے خود کلامی کی اور پھر اپنے بستے میں سے تمام کتابیں باہر نکال کر اپنے بستے کا اچھی طرح معائنہ کرنے لگی۔عافیہ کے اسکول والے ٹھیک دو ہفتے بعد تمام طلبہ کو تعلیمی دورے کے لئے ایک تاریخی مقام پر لے جا رہے تھے۔اسی لئے عافیہ نے اپنے ابو سے 500 روپے لئے تھے۔آج پیسے جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔اس نے اپنے بستے سے تمام چیزیں نکال کر باہر پھینک دی تھیں،مگر پیسوں کا تو کہیں نام و نشان ہی نہیں تھا۔اچانک اس کی نظر زینب پر پڑی۔(جاری ہے)اس کے ہاتھ میں 500 روپے کا نوٹ دیکھ کر وہ چونک اُٹھی۔زینب ایک غریب لڑکی تھی۔اس لئے وہ فیس جمع نہ کرانے کی وجہ سے اسکول کے کسی پروگرام میں نہ جا پاتی تھی۔عافیہ نے سوچا کہ آخر زینب کے پاس 500 روپے کہاں سے آئے۔یقینا زینب نے اس کے بستے میں سے پیسے چرائے ہوں گے۔عافیہ کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔اس نے اچانک زینب کی گردن پکڑ کر زور سے ہلا دی۔زینب کی آنکھیں حیرت اور خوف کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں:”یہ․․․․․یہ․․․․․یہ کیا کر رہی ہو؟“اس نے گھبراتے ہوئے بولا۔”میں؟میں تو وہی کر رہی ہوں جو مجھے کرنا چاہیے۔میرے بستے سے پیسے چوری کرتے ہوئے تمھیں ذرا شرم نہیں آئی؟“”تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے؟یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟میں بھلا کیوں تمھارے پیسے چوری کرنے لگی؟کیا تم کو میں اتنی گئی گزری لگتی ہوں؟“زینب،عافیہ کا ہاتھ اپنی گردن سے چھڑاتے ہوئے بلند اور سخت لہجے میں بولی۔”ٹھیک ہے!میں جا رہی ہوں مس حرا کے پاس۔تمھیں تمھارے کیے کی سزا ضرور ملے گی۔“یہ کہتے ہوئے عافیہ اسٹاف روم کی طرف جانے لگی۔غصے میں اس نے اپنا ہاتھ اپنی جیب میں ڈالا تو اسے کاغذ جیسا کچھ محسوس ہوا۔جیسے ہی اس نے وہ کاغذ اپنی جیب سے نکالا تو وہ ہکا بکا رہ گئی۔وہ پانچ سو کا نوٹ تھا۔اسے اسی وقت یاد آیا کہ صبح اسکول سے نکلتے ہوئے اس نے وہ پیسے اپنے بستے سے نکال کر اپنی جیب میں ڈال لئے تھے۔شرمندگی اور ندامت کے مارے عافیہ کا سر شرم سے جھک گیا۔اس کی ذرا سی غلط فہمی نے اس کی غریب سہیلی کا دل توڑ دیا تھا اور اب شاید اس ٹوٹے دل کو جوڑنے کے لئے معافی کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہ تھا۔ " احسان مند - تحریر نمبر 2593,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehsaanmand-2593.html,"عریشہ منور علی،شجاع آبادوالد کے فوت ہو جانے کے بعد ایک دن حسن نے والدہ سے کہا:”امی!اب ہم کیا کریں گے۔ابو ہمیں اکیلا چھوڑ گئے۔میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی کیسے بنوں گا۔“”ایسا نہیں کہتے بیٹا!میں ہوں نا میں․․․․“دروازے کی ٹھک ٹھک سے امی کی بات ادھوری رہ گئی۔”ابو کے نام پارسل آیا ہے امی!“حسن نے لفافہ ہاتھ میں پکڑے اندر آتے ہوئے کہا۔”بیٹا!اس پر نام کس کا ہے؟“”نہیں امی!اس پر کسی کا نام نہیں۔“حسن نے لفافہ اُلٹ پلٹ کر دیکھا۔”یہ کیا امی اتنے سارے پیسے․․․․“امی نے بھی حیرت سے دیکھا۔دوسرے دن حسن اسکول گیا تو استاد نے پوچھا:”اے حسن بیٹا!آج تو آپ بہت خوش ہیں کیا بات ہے؟“”جی سر!میں آج بہت خوش ہوں۔(جاری ہے)“حسن نے اپنے استاد کو بتایا:”استاد جی!ابو کے بعد میں اور میری امی بہت پریشان تھے،مگر پتا نہیں کون اللہ کا نیک بندہ ہمارے دروازے پر پیسوں سے بھرا لفافہ چھوڑ گیا۔“حسن نے تفصیل بتائی تو شاہد صاحب مسکرا دیے۔پھر یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا،جب تک حسن پڑھ لکھ کر آرمی میں ملازم نہ ہوا۔ایک دن استاد کے ہاتھ میں بہت سی کتابیں تھیں جن میں سے ایک زمین پر گر گئی۔اس میں سے ایک خاکی لفافہ بھی وہیں گر گیا۔حسن قریب ہی کھڑا تھا۔اس نے دیکھ لیا کہ لفافے پر اس کے ابو کا نام اور گھر کا پتا لکھا تھا۔اب وہ جان چکا تھا کہ ہر مہینے پیسے کون بھیجتا ہے۔حسن نے اپنے استاد سے رابطہ نہ توڑا،کیونکہ وہ ان کا احسان مند تھا اور ان کی وجہ سے ہی اسے نوکری ملی۔کچھ مہینوں سے اسے چھٹی نہیں مل رہی تھی اور نہ استاد شاہد سے رابطہ ہو رہا تھا۔چھٹی ملتے ہی حسن گھر پہنچا۔شام میں جب وہ استاد شاہد کے گھر گیا تو پتا چلا کہ وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔وہ چند ماہ سے بیمار تھے۔کرایہ نہ دے سکے تو مالک مکان نے گھر سے نکال دیا۔حسن پریشان تھا،مگر جلد ہی اس نے استاد شاہد کا دوسرا گھر ڈھونڈ لیا،مگر دیر ہو گئی،کیونکہ شاہد استاد کا انتقال ہو چکا تھا۔گھر میں بوڑھی ماں اور بیوی تھی۔بیٹی کی شادی ہو گئی۔حسن نے ایک لفافہ بوڑھی اماں کے ہاتھوں میں تھمایا اور تفصیل بتا کر گھر واپس آ گیا۔اب حسن کو جب تنخواہ ملتی تو وہ ہر ماہ ایک معقول رقم لفافے میں ڈالتا اور مرحوم استاد کے گھر کی چوکھٹ پر گھنٹی بجا کر رکھ آتا۔ " چڑیا کی نصیحت - تحریر نمبر 2592,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chidiya-ki-nasihat-2592.html,"عبدالرحمنایک شخص نے چڑیا پکڑنے کیلئے جال بچھایا،اتفاق سے ایک چڑیا اس میں پھنس گئی اور شکاری نے اسے پکڑ لیا۔چڑیا نے اس سے کہا،”اے انسان!تم نے کئی ہرن‘بکرے اور مرغ وغیرہ کھائے ہیں ان چیزوں کے مقابلے میں میری کیا حقیقت ہے،ذرا سا گوشت میرے جسم میں ہے اس سے تمہارا کیا بنے گا؟تمہارا تو پیٹ بھی نہیں بھرے گا،لیکن اگر تم مجھے آزاد کر دو تو میں تمہیں تین نصیحتیں کرونگی جن پر عمل کرنا تمہارے لئے بہت مفید ہو گا،ان میں سے ایک نصیحت تو میں ابھی کروں گی،جبکہ دوسری اس وقت جب تم مجھے چھوڑ دو گے اور میں دیوار پر جا بیٹھوں گی،اس کے بعد تیسری اور آخری نصیحت اس وقت کروں گی جب دیوار سے اُڑ کر سامنے درخت کی شاخ پر جا بیٹھونگی۔“اس شخص کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ نہ جانے چڑیا کیا فائدہ مند نصیحتیں کرے۔(جاری ہے)اس نے چڑیا کی بات مانتے ہوئے اس سے کہا،تم مجھے پہلی نصیحت کرو پھر میں تمہیں چھوڑ دونگا۔”چنانچہ چڑیا نے کہا،میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ جو بات کبھی نہیں ہو سکتی اس کا یقین مت کرنا“یہ سن کر اس آدمی نے چڑیا کو چھوڑ دیا اور وہ سامنے دیوار پر جا بیٹھی،پھر بولی۔میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ جو بات ہو جائے اس کا غم نہ کرنا،”اور پھر کہنے لگی“اے بھلے مانس!تم نے مجھے چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی۔کیونکہ میرے پیٹ میں پاؤ بھر کا انتہائی نایاب پتھر ہے۔اگر تم مجھے ذبح کرتے اور میرے پیٹ سے اس موتی کو نکال لیتے تو اس کو فروخت کرنے سے تمہیں اس قدر دولت حاصل ہوتی کہ تمہاری آنے والی کئی نسلوں کے لئے کافی ہوتی۔اور تم بہت بڑے رئیس ہو جاتے۔”اس شخص نے جو یہ بات سنی تو لگا افسوس کرنے،اور پچھتایا۔کہ اس چڑیا کو چھوڑ کر اپنی زندگی کی بہت بڑی غلطی کی۔اگر اسے نہ چھوڑتا تو میری نسلیں سنور جاتیں۔“چڑیا نے اسے اس طرح سوچ میں پڑے دیکھا تو اُڑ کر درخت کی شاخ پر جا بیٹھی اور بولی۔اے بھلے مانس!ابھی میں نے تمہیں پہلی نصیحت کی جسے تم بھول گئے کہ “جو بات نہ ہو سکنے والی ہو اس کا ہر گز یقین نہ کرنا۔لیکن تم نے میری اس بات کا اعتبار کر لیا کہ میں چھٹاک بھر وزن رکھنے والی چڑیا اپنے پیٹ میں ایک پاؤ وزن کا موتی رکھتی ہوں،کیا یہ ممکن ہے؟میں نے تمہیں دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ ”جو بات ہو جائے اس کا غم نہ کرنا۔مگر تم نے دوسری نصیحت کا بھی کوئی اثر نہ لیا اور غم و افسوس میں مبتلا ہو گئے کہ خواہ مخواہ مجھے جانے دیا،تمہیں کوئی بھی نصیحت کرنا بالکل بیکار ہے،تم نے میری پہلی دو نصیحتوں پر کب عمل کیا جو تیسری پر کرو گے،تم نصیحت کے قابل نہیں۔“یہ کہتے ہوئے چڑیا پھر سے اڑی،اور ہوا میں پرواز کر گئی،وہ شخص وہیں کھڑا چڑیا کی باتوں پر غور و فکر کرتے ہوئے سوچوں میں کھو گیا!حاصل کلام یہ کہ وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں کوئی نصیحت کرنے والا ہو،ہم اکثر خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اپنے مخلص ساتھیوں اور بزرگوں کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرتے،اور اس میں نقصان ہمارا ہی ہوتا ہے۔یہ نصیحتیں صرف کہنے کی باتیں نہیں ہوتیں کہ کسی نے کہہ لیا‘ہم نے سن لیا،بلکہ دانائی اور دوسروں کے تجربات سے حاصل ہونے والے انمول اثاثے ہیں،جو یقینا ”ہمارے لئے مشعلِ راہ ثابت ہو سکتے ہیں اگر ہم ان نصیحتوں پر عمل بھی کریں۔“ " بندر اور شیرنی کی دوستی - تحریر نمبر 2591,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bandar-aur-sherni-ki-dosti-2591.html,"عدیل اقبالٹِلّو بندر ایک درخت سے دوسرے درخت پر تیزی سے چھلانگ لگاتے ہوئے اپنے آپ سے بول رہا تھا:”جلدی۔۔۔جلدی کر ٹِلّو جلدی،رات ہونے سے پہلے تجھے گھر پہنچنا ہے ورنہ امی کی ڈانٹ سننی پڑے گی۔بچاؤ!بچاؤ!ارے کوئی ہے جو میری مدد کرے،مجھے اس گڑھے سے باہر نکالے؟اچانک ٹِلّو بندر کے کانوں میں آواز آئی۔ٹِلّو آواز کی سمت بڑھا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا مگر اسے کوئی نظر نہیں آیا۔اچانک اس کی نظر گڑھے کی طرف گئی تو وہاں ایک شیرنی پھنسی ہوئی دکھائی دی۔“ٹِلّو نے ڈرتے ہوئے کہا:”یہ کیا،رانی شیرنی!تم یہاں کیسے پھنس گئیں؟“مجھے نہیں پتا ٹِلّو بھائی!میرے بچے بھوکے تھے،میں تو جلدی جلدی جا رہی تھی،اس گڑھے پر بہت سارے پتے پڑے ہوئے تھے،میں نے جونہی یہاں چھلانگ ماری تو ایک دم سے اس میں گر گئی۔(جاری ہے)یہ کہہ کر رانی شیرنی رونے لگ گئی۔ٹِلّو نے کہا:”اچھا اچھا!تم رونا بند کرو،میں تمہیں باہر نکالنے کا انتظام کرتا ہوں۔“ٹِلّو کچھ ہی دیر میں کہیں سے رسی ڈھونڈ لایا اور کہا یہ لو!اسے مضبوطی سے پکڑو اور باہر آ جاؤ۔کچھ ہی دیر بعد شیرنی باہر آ گئی۔جیسے ہی شیرنی باہر آئی ٹِلّو بندر ڈر کے مارے درخت پر چڑھ گیا کہ کہیں شیرنی اسے ہی نہ کھا جائے۔رانی شیرنی نے کہا:”ارے بندر بھیا!تم مجھ سے کیوں ڈر رہے ہو؟تم نے تو میری جان بچائی ہے،میں تمہیں ”شکریہ“ کہتی ہوں،میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی،آج سے ہم دوست ہیں۔تمہیں جب بھی میری ضرورت پڑے گی،میں ضرور تمہاری مدد کروں گی۔“ٹِلّو نے کہا:”اچھا!اب مجھے جانا ہو گا،میری امی میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔“رانی شیرنی نے جاتے ہوئے کہا:”ہاں!میرے بھی بچے بھوکے ہیں پھر ملیں گے۔۔۔وہ دونوں ایک دوسرے کو ”خدا حافظ“ کہہ کر اپنی اپنی راہ چل دیئے۔“کئی دن ایسے ہی گزر گئے۔دونوں کی آپس میں ملاقات نہیں ہوئی مگر ایک روز رانی شیرنی نے واقعی اپنے دوست کے احسان کا بدلہ چکایا۔ہوا یوں کہ اس جنگل میں ایک چیتا بھی رہتا تھا جو چھپ چھپ کر جانوروں کا شکار کرتا تھا،ایک بار شکار تلاش کرتے ہوئے وہ اس درخت پر چڑھ گیا جس پر ٹِلّو کا بڑا سا گھر بھی تھا۔اس وقت ٹِلّو بندر اپنے گھر کی ٹہنی پر لیٹا اخبار پڑھ رہا تھا۔اور اس کی امی کچن میں فروٹ چاٹ بنا رہی تھیں۔چیتے نے انہیں دیکھ کر ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا:”واہ! دَگڑو چیتے! آج تو پارٹی ہو گی پارٹی!“دَگڑو آہستہ آہستہ آگے بڑھا اور ایک دم سے ٹِلّو پر حملہ کر کے اسے اپنے پنجوں میں دبوچ لیا،دَگڑو چیتے نے غصے سے کہا:”اب تجھے کون بچائے گا،بندر کی اولاد؟“بچاؤ! بچاؤ! ارے کوئی تو اس ظالم چیتے سے میری جان بچائے! ٹِلّو چلا چلا کر مدد کے لئے پکارنے لگا۔اچانک خود کو چھڑانے کی کوشش میں اس کی ٹانگ پھسل گئی اور وہ سیدھا نیچے جا گرا۔دَگڑو چیتا بھی فوراً چھلانگ مار کر نیچے آ گیا اور آہستہ آہستہ بندر کے پاس آتے ہوئے کہنے لگا:”اب تو تمہاری ٹانگ بھی ٹوٹ گئی،بھاگ بھی نہیں سکتے تم!“لیکن اچانک سے دَگڑو رُک گیا اور ڈرتے ہوئے کہنے لگا:”رانی! تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ!“رانی نے کہا”:نہیں!نہیں ہٹوں گی۔تمہیں نہیں پتا تم نے کس پر حملہ کیا ہے۔میرے دوست پر حملہ کیا ہے،ٹِلّو میرا دوست ہے،ایک بار اس نے میری جان بچائی تھی،پھر رانی نے دَگڑو کو بہت مارا۔اتنا مارا کہ وہ دُم دبا کے وہاں سے بھاگ گیا۔ٹِلّو بندر نے رانی شیرنی کا شکریہ ادا کیا۔رانی نے ٹِلّو سے کہا:”ارے نہیں ٹِلّو بھائی!یہ تو میرا فرض تھا۔“پیارے بچو!اس کہانی سے ہمیں سبق ملا کر اپنے دوستوں کو مشکل کے وقت اکیلا نہیں چھوڑنا چاہئے،ان کی مدد کرنی چاہئے۔چاہے جتنی ہی بڑی مشکل ہو،ہمیشہ ان کا ساتھ دینا چاہئے۔ " چوہا اور مینڈک - تحریر نمبر 2590,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/choha-aur-maindak-2590.html,"زارا آصفگھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا،”اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لئے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے،میری میراث ہے۔“چوہا اس بات پر چڑ گیا۔اس نے کہا،”میرا خاندان بھی یہاں سینکڑوں سال سے آباد ہے اور مجھے بھی یہ جگہ اپنے باپ دادا سے ملی ہے اور یہ میری میراث ہے۔“یہ سن کر مینڈک غصے میں آ گیا اور تُو تُو میں میں شروع ہو گئی۔بات اتنی بڑھی کہ ان کی دوستی میں فرق آ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیا۔ایک دن چوہا وہاں سے گزرا تو مینڈک نے اس پر آواز کسی جو چوہے کو بہت بری لگی۔اس کے بعد چوہے نے یہ کیا کہ وہ گھاس میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور جب مینڈک وہاں سے گزرتا تو اس پر حملہ کر دیتا۔(جاری ہے)آخر تنگ آ کر ایک دن مینڈک نے کہا،”اے چوہے!تُو چوروں کی طرح یہ کیا چھپ چھپ کر حملہ کرتا ہے؟مرد ہے تو سامنے میدان میں آ،تاکہ کھل کر مقابلہ ہو اور تجھے میری قوت کا پتا چلے۔“چوہے نے یہ بات قبول کر لی اور دوسرے دن صبح ہی صبح مقابلے کا وقت مقرر ہوا۔مقررہ وقت پر ایک طرف سے چوہا نکلا۔اس کے ہاتھ میں نرسل کے پودے کا ایک لمبا تنکا تھا۔دوسری طرف سے مینڈک آگے بڑھا۔اس کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی تنکا تھا۔دونوں نے ایک دوسرے پر زبردست حملہ کیا اور پھر ذرا سی دیر میں دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ دور ہوا میں اڑتی ہوئی ایک چیل نے دیکھا کہ ایک چوہا اور ایک مینڈک آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔وہ تیزی سے اُڑتی ہوئی نیچے آئی اور ایک جھپٹے میں دونوں پہلوانوں کو اپنے تیز،نوکیلے پنجوں میں دبا کر لے گئی۔اب وہاں چوہا ہے نہ مینڈک۔دلدل اب بھی موجود ہے۔ " پیارا گھر - تحریر نمبر 2589,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pyara-ghar-2589.html,"بشریٰ ذیشانشام کی نرم دھوپ اور دور دور تک پھیلی سبز گھاس،رنگ برنگے پھول،لہلہاتی جھاڑیاں،کالو کا تو اس چراگاہ سے جانے کا دل ہی نہیں چاہتا تھا۔اس کا دل چاہتا تھا کہ ہمیشہ کے لئے اسی چراگاہ میں رہ جائے۔”اماں!کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم یہیں رہ جائیں۔مجھے سخت زمین والا وہ گندا گھر اچھا نہیں لگتا۔یہاں کتنی نرم گھاس ہے،سونے میں کتنا مزہ آئے گا۔“جب بھی کالو اس چراگاہ میں آتا،اپنی ماں سے وہ یہی ضد کرتا تھا۔”نہیں بیٹا!گھر جیسا بھی ہو ہمارا محافظ ہوتا ہے۔گھر میں ہمارا مالک ہماری حفاظت کرتا ہے۔یہاں رات میں بھیڑیے آتے ہیں،جو بکریوں کو کھا جاتے ہیں۔“”اوہو․․․․اماں خواہ مخواہ ہی ڈراتی رہتی ہیں۔میں نے تو آج تک کوئی بھیڑیا نہیں دیکھا۔(جاری ہے)“کالو منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔”آج تو میں ضرور یہیں رہوں گا۔“کالو نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا۔اس کے چہرے پر ایک شریر مسکراہٹ تھی۔جب مغرب کا وقت قریب آنے لگا تو چرواہے نے سب بکریوں کو ایک جگہ جمع کیا اور گھر کی طرف ہانکنے لگا۔کالو جلدی سے ایک گھنی جھاڑی میں چھپ گیا۔کالو کی ماں اسے نہ پا کر بہت پریشان ہوئی اور زور زور سے اسے آوازیں دینے لگی۔اس کی گھبراہٹ دیکھ کر چرواہے کو بھی کالو کی غیر موجودگی کا پتا چل گیا۔چرواہے نے اسے ہر جگہ ڈھونڈا درختوں اور ٹیلوں کے پیچھے جھاڑیوں میں،لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ کالو کانٹے دار جھاڑیوں میں چھپا ہوا ہے اور چراگاہ میں رہ جانے کی خوشی میں کانٹوں کی چبھن بھی برداشت کر رہا ہے۔کالا ہونے کی وجہ سے وہ جھاڑیوں میں بالکل نظر نہیں آ رہا تھا۔چرواہا کالو کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا اور اب اندھیرا بھی ہونے والا تھا،اس لئے وہ بکریوں کو لے کر گھر کی طرف چل دیا۔کالو کی اماں بہت پریشان تھی۔وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی کہ شاید کالو واپس آ جائے،لیکن وہ نہیں آیا۔سب کے جانے کے بعد کالجو جھاڑیوں میں سے نکل آیا۔اب وہ بہت خوش تھا۔کبھی اِدھر چھلانگیں لگاتا،کبھی اِدھر اُدھر دیکھتا،کبھی درختوں پر اپنے چھوٹے چھوٹے سینگوں سے ٹکریں مارتا اور کبھی گھاس پر قلابازیاں کھاتا۔کھیل کود میں کب اندھیرا گہرا ہوا،اسے پتا ہی نہیں چلا۔اس وقت اسے ہوش جب آیا،جب دور سے کسی بھیڑیے کی آواز سنائی دی۔پھر یکے بعد دیگرے کئی بھیڑیے چلانے لگے۔کالو نے سوچا کہ اسے فوراً گھر بھاگ جانا چاہیے،لیکن اندھیرے میں کچھ اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔وہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ اسے کس طرف جانا چاہیے۔اس نے چاروں طرف دیکھا۔خوبصورت چراگاہ اب اسے بہت خوف ناک نظر آ رہی تھی۔اسے ایسا لگا جیسے جھاڑیوں اور بڑے بڑے درختوں کے پیچھے بہت سارے بھیڑیے چھپے ہوئے ہیں،جو کسی بھی وقت نکل کر اس پر حملہ کر دیں گے اور اس کی بوٹی بوٹی کر کے کھا جائیں گے۔کالو نے زور زور سے چلانا شروع کر دیا۔کالو کی اماں جو کالو کے انتظار میں ابھی تک جاگ رہی تھی۔کالو کی آواز سن کر زور زور سے چلانے لگی۔اس کے چلانے سے چرواہے کی آنکھ کھل گئی۔اب اسے بھی کالو کی آواز سنائی دے رہی تھی۔اس نے جلدی سے لالٹین لی اور آواز کی سمت دوڑ لگا دی۔دور سے لالٹین کی روشنی دیکھ کر کالو کی جان میں جان آئی۔وہ روشنی کی طرف دوڑنے لگا اور جلد ہی وہ چرواہے کے پاس پہنچ گیا۔چرواہے نے پیار سے اس کی بیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا:”کالو تُو بہت شریر ہو گیا ہے۔آج تو نے مجھے بہت پریشان کیا۔“کالو محبت سے اپنا سر اس کی ٹانگوں سے رگڑنے لگا۔جب کالو گھر آیا تو اس نے اپنی اماں سے معافی مانگی کہ آئندہ وہ بڑوں کی بات مانے لگا۔اس کی اماں نے اسے خوب پیار کیا۔آج کالو کو یہ گندا سا جھونپڑا بہت خوبصورت اور پُرسکون لگ رہا تھا۔وہ اپنی اماں کے ساتھ لیٹ کر میٹھی نیند سو گیا۔ " زینب کی سالگرہ - تحریر نمبر 2588,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zainab-ki-salgirah-2588.html,"محمد علی سحرزینب کی پہلی سالگرہ قریب تھی۔اس سالگرہ کو منانے کیلئے سارا گھر پُرجوش تھا اور کیوں پُرجوش نہ ہوتا،زینب اس گھر کی پہلی پوتی جو تھی۔جیسے جیسے سالگرہ کا دن قریب آ رہا تھا،زینب کے سارے چچا تیاری میں لگے ہوئے تھے۔زینب کے والدین اور دادا،دادی،زینب کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منانا چاہتے تھے۔زینب کے والد نہال احمد نے سارے کمرے کو وائٹ واش کروا لیا تھا۔ادھر زینب کی ماما نے زینب کیلئے خوبصورت جوڑے بنوائے تھے جو زینب نے اپنی پہلی سالگرہ پر زیب تن کرنے تھے۔ایک دن زینب کے چاچو اور پھپھو سالگرہ کے حوالے سے انتظامات کو حتمی شکل دینے کیلئے آئے تو سب نے ان کو سالگرہ کی پارٹی کے بارے میں جوش و خروش سے بتا رہے تھے۔ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ زینب کے بھائی روحان نے کہا،”ارے آپ کو معلوم ہے ہمارے محلے میں تیسری گلی میں بھی ایک زینب رہتی ہے،اس کی بھی سالگرہ ہماری زینب کی سالگرہ سے دو دن پہلے آتی ہے۔(جاری ہے)ہماری زینب کی تو پہلی سالگرہ ہے اور اس کی چوتھی سالگرہ ہے۔اس کے امی،ابو ہر سال اس کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے مناتے تھے لیکن اس سال ۔۔۔روحان یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔”لیکن اس سال کیا۔۔۔؟“پھپھو نے روحان سے پوچھا۔روحان نے کہا،ابھی تین ماہ پہلے زینب کے والدین کا ایک روڈ حادثے میں انتقال ہو گیا،دونوں کے انتقال کے بعد زینب اپنی بوڑھی دادی کے ساتھ رہتی ہے۔کل اس کی دادی ہمارے گھر آئی تھیں جب ماما نے ان کو اپنی زینب کی سالگرہ کے بارے میں بتایا تو وہ رونے لگیں۔روحان کی یہ بات سن کر پھپھو نے کچھ سوچا اور روحان سے کہا۔”تم مجھے ان کے گھر لے چلو۔“وہ انہیں دوسری زینب کے گھر لے گیا۔زینب کی دادی سے کچھ بات کی جسے سن کر وہ خوش ہو گئیں۔واپس آ کر پھپھو نے اپنے والد سے کچھ بات کی۔ان کی بات سن کر انہوں نے زینب کے والدین سے کچھ کہا اور پھر سب کو اپنے کمرے میں بلا لیا۔جب سب لوگ زینب کے دادا کے کمرے میں آ گئے تو زینب کی دادی نے کہا۔”بھئی ہم نے آپ سب کو اس لئے بلایا ہے کہ یہ بات آپ کو بتائیں کہ زینب کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی جائے گی،گھر بھی سجے گا اور مہمان بھی آئیں گے لیکن یہ سالگرہ ہم اس یتیم بچی کے گھر منائیں اور اس کے گھر کو بھی سجایا جائے گا۔آپ لوگ جلد جا کر اُن کے گھر کی سجاوٹ شروع کر دیں۔“یہ سن کر روحان نے کہا۔”دادی،یہ کیا،ہم نے تو اپنا گھر سجایا ہے،وہاں کیا مزہ آئے گا۔“لیکن دادا کے سمجھانے پر راضی ہو گیا پھر سب نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔پھر یوں ہوا کہ چھوٹی زینب کی سالگرہ بڑی زینب کی سالگرہ والے دن یعنی دو دن پہلے منائی گئی۔گھر بھی سجایا گیا،خوب لائٹیں اور غبارے لگائے گئے اور پھر چھوٹی زینب نے بڑی زینب کے ساتھ مل کر سالگرہ کا بڑا سا کیک کاٹا۔بڑی زینب اور اس کی دادی بہت خوش تھیں۔چھوٹی زینب کی دادی نے سالگرہ میں دیئے گئے تحفے دونوں میں آدھے آدھے بانٹ دیئے۔بڑی زینب بہت شاداں تھی۔اس کی دادی یہ سب دیکھ کر رونے لگیں،چھوٹی زینب کی دادی نے ان کو محبت سے گلے لگا لیا پھر کھانے کے بعد دادا نے سب مہمانوں کے سامنے یہ اعلان کیا کہ،”آج سے بڑی زینب بھی میری پوتی ہے۔میں اس کی کفالت کروں گا اور اس کی پڑھائی،کھانے پینے کا سارا خرچ اُٹھاؤں گا بلکہ ہر سال چھوٹی زینب اور بڑی زینب کی سالگرہ بھی ہم سب ایک ساتھ مل کر ہی منائیں گے۔“یہ اعلان سن کر تمام مہمان بہت ہی خوش ہوئے۔سب نے زور دار تالیاں بجائیں۔بڑی زینب اور اس کی دادی کی خوشی تو دیکھنے والی تھی۔یوں اس کی سالگرہ بہت یادگار ٹھہری۔ " عقلمند فقیر - تحریر نمبر 2587,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aqalmand-faqeer-2587.html,"حافظ محمد بن مالکایک مرتبہ ایک فقیر کسی میدان سے گزر رہا تھا۔اسے دو سوداگر نظر آئے۔اس نے سوداگروں سے پوچھا:”بھائیو!کیا تمہارا اونٹ کھو گیا ہے؟“سوداگر خوش ہوئے اور بولے،”تم نے دیکھا ہے کیا؟“فقیر نے کہا،”کانا تو نہیں تھا اور دائیں پیر سے لنگڑا تو نہیں تھا؟“ان سوداگروں کو یقین ہو گیا کہ اس نے اونٹ دیکھا ہے،لہٰذا اسی سے معلوم کیا جائے۔وہ کہنے لگے،”بھائی یہ حقیقت ہے کہ وہ کانا اور لنگڑا تھا،مگر وہ گیا کہاں؟“فقیر نے اسی لہجے میں کہا،”آگے والا دانت ٹوٹا ہوا تو نہیں تھا؟“سوداگر جلدی سے بولے،”یہی جناب یہی،اللہ کے واسطے پتا بتا دو۔کہاں دیکھا تھا؟“فقیر نے ایک مرتبہ پھر اسی انداز میں کہا،”ایک طرف شہد کے ڈبے اور دوسری طرف گندم کی بوری لدی ہوئی تھی۔(جاری ہے)“اب دونوں کو پکا یقین ہو گیا۔کہنے لگے،”فقیر بابا!اب جلدی سے ہمیں چل کر بتائیے کہ اونٹ کہاں ہے“؟“فقیر نے کہا،بھائی!اگر سچ پوچھو تو نہ میں نے تمہارے اونٹ کو دیکھا ہے اور نہ اس کے بارے میں سنا ہے۔میں ابھی تم دونوں سے سن رہا ہوں کہ تمہارا اونٹ کھو گیا ہے۔“سوداگر حیران ہو گئے اور سمجھے کہ وہ ہم کو دھوکہ دے رہا ہے۔دھمکی دے کر کہنے لگے،”اسی اونٹ پر دوسرے سامان کے ساتھ ہمارے جواہرات بھی رکھے ہوئے ہیں۔اگر نہیں بتاؤ گے تو تمہیں قید کرا دیں گے۔“فقیر نے جواب دیا،”بھئی مجھے دھمکی نہ دو۔میں نے تمہارا اونٹ نہیں دیکھا۔“اس پر سوداگر فقیر کو پکڑ کر قاضی کے پاس لے گئے۔قاضی کو بھی فقیر نے وہی بات بتائی۔”جب تم نے اونٹ دیکھا ہی نہیں تو اس کے بارے میں اتنی صحیح باتیں کیوں کر بتا رہے ہو؟“قاضی نے تعجب سے پوچھا۔فقیر نے مسکرا کر کہا،”قاضی صاحب!۔“ ”میری بات سن کر آپ ضرور شک میں مبتلا ہوں گے،لیکن میں اب آپ کو حقیقت بتاتا ہوں۔جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو آنکھیں کھلی رکھتا ہوں۔آج صبح میں ایک جگہ سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ ایک اونٹ کے پیروں کے نشان تو موجود ہیں،لیکن کسی آدمی کے پیروں کے نشان نہیں ہیں جس سے میں سمجھا کہ یہ اونٹ رسی تڑا کر بھاگا ہے۔پھر دیکھا تو ایک پاؤں کے نشان تھے ہی نہیں۔“اس سے معلوم ہوا کہ وہ لنگڑا ہے۔پھر کیا دیکھتا ہوں کہ راستے کے ایک طرف گھاس چرنے کے نشان ہیں جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کانا ہے۔دانت کے ٹوٹا ہونے کا علم اس طرح ہوا کہ اس نے جس پودے کو کھانے کی کوشش کی،اس کے کچھ پتے باقی رہ گئے تھے اور سامان کا پتا اس طرح چلا کہ ایک طرف چیونٹیوں کی آمد و رفت تھی جس سے معلوم ہوا کہ ایک طرف اناج ہے اور دوسری طرف شہد کی مکھیاں تھیں جس سے معلوم ہوا کہ وہاں شہد ضرور ہو گا۔قاضی یہ بات سن کے دنگ رہ گیا اور فقیر کو شاباشی دی۔سوداگر بھی فقیر کے بتائے ہوئے راستے پر گئے اور انہیں اپنا کھویا ہوا اونٹ مل گیا۔انہوں نے فقیر کو انعام و اکرام سے نوازا۔ " فاختہ اور شکاری - تحریر نمبر 2586,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/fakhta-aur-shikari-2586.html,"محمد شفیق اعوانایک شکاری جنگل میں دن بھر شکار کی تلاش میں مارے مارے پھرتا رہا،مگر اسے کوئی شکار نہیں ملا۔مایوس ہو کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا،تاکہ تھکاوٹ دور کر سکے۔اچانک ایک فاختہ اس کے سامنے والے درخت پر آ کر بیٹھ گئی ہے۔فاختہ کو دیکھ کر شکاری خوش ہو گیا کہ شکار تو میرے پاس خود آ گیا ہے۔میرے خالق و مالک نے میری بے بسی دیکھ کر میرے لئے شکار بھیج دیا۔شکاری نے اپنی غلیل میں پتھر کا چھوٹا سا ٹکڑا رکھا اور فاختہ کو نشانہ بنایا۔فاختہ پتھر لگنے سے شدید زخمی ہو گئی۔پھڑپھڑاتی ہوئی زمین پر آ گری۔شکاری نے اپنی جیب سے اپنا چاقو نکالا اور فاختہ کو ذبح کرنے لگا تو فاختہ نے کہا:”اے انسان!میں جانتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر شے انسان کے لئے پیدا کی ہے۔(جاری ہے)دنیا اس کے لئے مسخر کر دی گئی ہے،لیکن ظلم و ستم کرنے،اپنی حد سے تجاوز کرنے اور فضول خرچی کرنے سے منع بھی کیا گیا ہے۔اگر انسان بغاوت کی راہ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچ سکتا،اسے اپنے خالق،مالک کی ہدایت کی خلاف ورزی کرنے پر سزا ضرور ملے گی۔“شکاری فاختہ کی باتیں سن کر حیران رہ گیا۔فاختہ نے پھر کہا:”میرے چار بچے ہیں جو چند دنوں کے ہیں۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میری پڑوسن فاختہ کو ایک شکاری نے شکار کر لیا اور میں اکیلی رہ گئی ہوں۔اب ان بچوں کو خوراک اور پانی دینا میرا فرض ہے۔اگر تم نے مجھے ذبح کر لیا تو میرے یہ بچے بھوک اور پیاس سے مر جائیں گے۔انھیں کون کھلائے پلائے گا۔اس طرح آپ کے ذمے چار بچوں کا قتل آ جائے گا،کیا یہ ظلم نہیں؟اے شکاری!یہ دن پرندوں کے انڈے بچے دینے کے ہیں۔ان دنوں آپ کو شکار نہیں کرنا چاہیے۔“شکاری فاختہ کی باتیں سن کر حیرت میں ڈوب گیا اور بولا:”بی فاختہ!نے بہت اچھی باتیں کی ہیں۔ٹھہرو میں تمھیں مرہم لگاتا اور دانہ،پانی دیتا ہوں،اس طرح تم میں قوت آئے گی اور درد بھی کم ہو جائے گا۔“شکاری نے فاختہ کو مرہم لگایا اور اسے دانہ پانی دیا۔تھوڑی دیر بعد فاختہ نے اپنے پَر پھیلائے۔شکاری نے فاختہ سے کہا:”اب مجھے اپنے بچوں تک لے چلو۔میں تمہاری اور تمہارے بچوں کی دیکھ بھال کروں گا،جب تک تم تندرست اور بچے بڑے نہیں ہوتے۔چونکہ میں نے تمھیں زخمی کیا ہے،اس لئے اب میرا فرض ہے کہ تمھاری دیکھ بھال کروں۔“فاختہ کے زخم پر مرہم لگنے سے درد کم ہو گیا اور غذا کھانے سے قوت بھی آ گئی۔فاختہ اپنے پَر پھڑپھڑانے لگی۔تھوڑا سا اُڑتی اور پھر بیٹھ جاتی۔شکاری اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔آخر فاختہ اپنے گھونسلے کے مقام تک پہنچ گئی۔اس درخت کے نیچے بیٹھ کر اوپر دیکھنے لگی۔شکاری سمجھ گیا کہ اس درخت پر فاختہ کا گھونسلا ہے۔وہ درخت پر چڑھ گیا۔واقعی گھونسلے میں چار چھوٹے چھوٹے بچے موجود تھے۔اس نے گھونسلے سمیت فاختہ کے بچوں کو اُٹھایا اور نیچے اُتر آیا۔اس نے فاختہ کے سامنے دانہ دُنکا رکھا۔فاختہ اپنے بچوں کو کھلانے لگی۔جب ان کے پیٹ بھر گئے تو خوشی سے بولنے لگے۔شکاری ان ماں بچوں کو اپنے گھر لے آیا۔ان کی دیکھ بھال کرتا رہا۔حتی کہ فاختہ مکمل صحت مند اور بچے بڑے ہو گئے اور اُڑنے لگے۔شکاری نے یہ دیکھ کر فاختہ سے کہا:”تم نے مجھے ظلم کرنے سے بچایا،تمہارا شکریہ۔اب تم اور تمہارے بچے جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔”اے فاختہ!میں تیرا پیغام دور دور تک پھیلاؤں گا،تاکہ لوگوں کو یہ بات معلوم رہے کہ جب پرندوں،چرندوں کے انڈے،بچے دینے کا وقت ہو تو انھیں مت ہلاک کرو،ورنہ ان کی نسل آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔ " حاضر دماغ - تحریر نمبر 2585,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hazir-dimagh-2585.html,"غلام فرید کمبوہایک قاضی صاحب نے اپنے شاگردوں کا امتحان لینے کے لئے ان کے سامنے ایک مقدمہ رکھا اور ان کو اپنی رائے لکھنے کو کہا۔ایک شخص کے گھر مہمان آئے۔اس نے ان کی خاطر مدارات کے لئے اپنے ملازم کو دودھ لینے بھیجا،تاکہ مہمانوں کے لئے کھیر بنائی جا سکے۔ملازم دودھ کا برتن سر پر رکھے آ رہا تھا کہ اوپر سے ایک چیل گزری جس کے پنجوں میں سانپ تھا۔سانپ کے منہ سے زہر کے قطرے نکلے جو دودھ میں جا گرے۔مہمانوں نے اس دودھ سے بنی کھیر کھائی تو سب ہلاک ہو گئے۔اب اس کا قصور وار کون ہے؟پہلے شاگرد نے لکھا:”یہ غلطی ملازم کی ہے اسے برتن ڈھانپنا چاہیے تھا۔لہٰذا مہمانوں کا قتل اس کے ذمے ہے اسے سزا دی جائے گی۔“قاضی صاحب نے کہا:”یہ بات درست ہے کہ ملازم کو برتن ڈھانپنا چاہیے تھا،لیکن یہ اتنا بڑا جرم نہیں کہ اسے موت کی سزا دی جائے۔(جاری ہے)“دوسرے شاگرد نے لکھا:”اصل جرم گھر کے مالک کا ہے۔اسے پہلے خود کھیر چکھنی چاہیے تھی،پھر مہمانوں کو پیش کرنی چاہیے تھی۔“قاضی صاحب نے یہ جواز بھی مسترد کر دیا۔تیسرے نے لکھا:”یہ ایک اتفاقی واقعہ ہے۔مہمانوں کی تقدیر میں مرنا لکھا تھا۔اس میں کسی کو سزا وار قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔“قاضی صاحب نے کہا:”یہ کسی جج کی سوچ نہیں ہونی چاہیے۔جج اگر مقدمات تقدیر پر ڈال دے گا تو انصاف کون کرے گا!“چوتھے نے کہا:”سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ یہ سارا منظر کس نے دیکھا کہ چیل کے پنجوں میں سانپ ہے؟کس نے سانپ کے منہ سے زہر نکلتا دیکھا؟اگر اس منظر کا گواہ ملازم ہے تو وہ مجرم ہے۔اگر گواہ مالک ہے تو وہ مجرم ہے اور اگر کوئی گواہ نہیں تو جس نے یہ کہانی گھڑی ہے؟وہ قاتل ہے۔“قاضی صاحب نے اپنے چوتھے شاگرد کو شاباش دی اور صرف اسے قاضی کے منصب کا اہل قرار دیا۔ " بے جا ضد - تحریر نمبر 2584,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/beja-zid-2584.html,"سیدہ آمنہنو سالہ لائبہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔لاڈ پیار نے اسے ضدی بنا دیا تھا۔کوئی فرمائش ایسی نہ تھی جو پوری نہ ہوئی ہو۔آج کل لائبہ نے عجیب ہی ضد پکڑی ہوئی تھی وہ ہر وقت باہر کے کھانوں کی فرمائش کرنے لگی تھی۔کبھی اسے پیزا کھانا ہوتا کبھی زنگر برگر،کبھی حلیم تو کبھی فرنچ فرائز،گھر میں اس کی امی کتنے ہی مزے کے کھانے پکاتیں،مگر وہ ایک نوالہ بھی نہ چکھتی۔مجبوراً اس کے والد اسے باہر سے اس کی من پسند چیز جو وہ کہتی کھانے کو لا کر دے دیتے تھے۔ایک روز لائبہ کو اچانک تیز بخار ہو گیا۔ساتھ الٹیاں بھی شروع ہو گئیں۔بھوک بھی نہیں لگ رہی تھی۔جو کھاتی وہ الٹ دیتی اس کے والدین پریشان ہو کر اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ڈاکٹر بھی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا اور اس نے چند ٹیسٹ لکھ کر دے دیئے۔(جاری ہے)رپورٹ آئی تو وہی ہوا جس کا ڈاکٹر کو ڈر تھا۔یعنی کہ لائبہ کو یرقان ہو گیا تھا۔ڈاکٹر نے اس کے لئے چند دوائیں لکھ کر دیں اور ساتھ ہی مکمل پرہیز کرنے کے لئے کہا اب وہ صرف اُبلی ہوئی غذائیں ہی کھا سکتی تھی۔چکنائی اور مرچوں کا مکمل پرہیز تھا۔ایک دو روز میں لائبہ کا بخار اُتر گیا لیکن کمزوری بہت تھی۔آہستہ آہستہ اسے بھوک بھی لگنے لگی تھی۔لیکن ہر وقت کھانے میں اُبلی ہوئی لوکی،کدو اور مولی دیکھ کر اس کا دل سخت ڈوب گیا تھا اس کی امی نے سمجھایا کہ اب تقریباً ایک مہینے تک اسے ایسی ہی غذا کھانی پڑے گی۔اُبلے ہوئے کھانوں کے علاوہ وہ کچھ نہیں کھا سکتی۔یہ سن کر لائبہ خوب روئی اور چیخی چلائی لیکن اس کی امی نے دل پر پتھر رکھ کر اُبلے کھانے کھلائے۔لائبہ رو رو کر امی سے کہتی”امی!اب میں کبھی ضد نہیں کروں گی کبھی برگر اور پیزا نہیں کھاؤں گی وہ جو آپ اتنے مزے کے دال چاول بناتی ہیں وہی بنا کر کھلا دیں پلیز۔اس کی امی نے اس کا ماتھا چوما اور کہا،”چند دنوں میں آپ انشاء اللہ بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی اور پرہیز بھی ختم ہو جائے گا۔آپ اللہ تعالیٰ سے اپنی صحت کے لئے دعا کیا کرو۔آپ نے دیکھا کہ گھر کا کھانا بھی اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔بہت سے لوگوں کو تو یہ کھانا ہی نصیب نہیں ہوتا اور جو لوگ اس نعمت کی ناشکری کرتے ہیں ان کو اس کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔باہر کے کھانوں میں ہمیں کیا پتا کہ وہ کیسا گھی اور کیسا مسالہ استعمال کرتے ہیں یا وہ صفائی کا خیال رکھتے ہیں یا نہیں اس لئے اب تو آپ صبر شکر کر کے یہی کھانا کھاؤ۔جب مکمل صحت یاب ہو جاؤ گی تو پھر جو دل چاہے وہ کھانا۔آج لائبہ صحت یاب ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا ہے اب وہ خوشی خوشی اپنی امی کے ہاتھ کا پکا کھانا کھاتی ہے۔بلکہ فرمائش کر کے پکواتی ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتی ہے کہ اس نے کیسی کیسی نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں۔ " چاندی والی اینٹیں - تحریر نمبر 2583,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chandi-wali-eentain-2583.html,"عشرت جہاںگزرے وقتوں کی بات ہے کسی علاقے میں عبدالرحمن نامی ایک امیر آدمی رہا کرتا تھا۔امان اور سبحان اس کے دو ہی بیٹے تھے۔اس نے اپنی زندگی میں خوب محنت کی تھی۔باپ دادا کی چھوڑی ہوئی جائیداد کو نہ صرف سنبھالا،بلکہ اس میں اضافہ کیا اور نیک نامی بھی پائی۔اپنے اچھے رویے کے باعث اپنے پرائے سب ہی اس کی عزت کرتے تھے،لیکن عبدالرحمن کی زندگی مختصر تھی۔اسے اتنی مہلت نہ مل سکی کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنی دولت دونوں بیٹوں میں تقسیم کر دیتا۔یوں بھی باپ کی چھوڑی ہوئی جائیداد کے وارث امان اور سبحان ہی تھے۔ماں کے بعد دونوں بھائی باپ کے سائے سے بھی محروم ہو چکے تھے۔اس موقع پر امان نے چھوٹے بھائی سبحان کی خوب دل جوئی کی۔باپ کی جدائی کے غم نے دونوں کو افسردہ کر رکھا تھا۔(جاری ہے)آخر کب تک وہ اس غم کو سینے سے لگائے رکھتے۔ایک نہ ایک دن تو دنیاداری نبھانے کے لئے میدانِ عمل میں آنا ہی تھا۔ایک دن سبحان نے تجارت کی غرض سے دور دراز علاقے کے سفر کا ارادہ کیا اور امان کے سامنے اپنی دلی کیفیت کا ذکر کیا تو اس نے کہا:”تمہاری جدائی مجھے گوارا تو نہیں،لیکن تمہارے اچھے مستقبل کی خاطر میں برداشت کر لوں گا۔اللہ تمھیں سرخ رُو کرے۔“امان نے ذرا توقف کے بعد پھر کہا:”میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر جائیداد کا حساب کتاب کر لیا جائے تو اچھا ہے۔“سبحان خاموشی سے بھائی کی بات سن رہا تھا،پہلو بدلنے لگا۔”بھائی جان!اس کی کیا ضرورت ہے ابا جان کے پاس جو کچھ بھی تھا،اب ہمارا ہی تو ہے،پھر حساب کتاب کیا ضروری ہے!“”ہر چیز تمہارے علم میں آ جائے تو بہتر ہے۔“امان نے کہا:”جو کچھ نظر آ رہا ہے،سب کچھ ویسا نہیں ہے میرے بھائی!“امان کے لہجے میں افسردگی تھی۔اس نے مزید کہا:”ابا جان بہت مقروض تھے۔شاید ان ہی فکروں نے انھیں وقت سے پہلے ہم سے چھین لیا۔“”ابا جی مقروض تھے؟“سبحان ہکا بکا رہ گیا۔یہ کیسے ہو سکتا ہے؟“وہ یکدم بول اُٹھا۔اُن کے جانے کے بعد جب معاملات میرے ہاتھ میں آئے،ان سے پتا چلا تو میں بھی تمہاری طرح حیران پریشان رہ گیا تھا۔امان آہستہ سے بولا:”نہر کے کنارے والا باغ بھی قرض میں ہے اور․․․․․“”لیکن بھائی!ابا جان کو قرض کی کیا ضرورت تھی؟“سبحان بے چین ہو گیا۔”سبحان!میں نے تمھیں بتایا تو ہے میں معاملات دیکھ رہا ہوں․․․․․ویسے تم فکر مت کرو،میں سب سنبھال لوں گا۔“”بھائی جان!اب میں سوچ رہا ہوں کہ ان حالات میں آپ کو تنہا چھوڑ کر نہ جاؤں،آپ اکیلے پریشان ہوں گے۔سبحان نے سوچتے ہوئے کہا۔”ارے نہیں نہیں سبحان!تم تو فکرمند ہو گئے۔اسی لئے میں تمھیں یہ سب کچھ نہیں بتانا چاہ رہا تھا۔“امان جلدی سے بولا:”تم ضرور جاؤ اور ابا جی کا ہنر آزماؤ،جو انھوں نے تجارت سے حاصل کیا تھا۔مجھ پر بھروسا رکھو۔میں ہوں نا۔“امان نے پیار سے کہا۔اس طرح کچھ تجارتی سامان لے کر سبحان ایک لمبے سفر پر روانہ ہو گیا۔ایک سال بعد اس کی واپسی ہوئی۔وہ بہت خوش تھا۔بہت سے تجربات اور نئے نئے مشاہدات اس کے ساتھ تھے۔اس نے اپنے سفر کے دوران کئی اہم سبق سیکھے اور تجارت میں کامیاب رہا۔اس دفعہ وہ تھوڑے دن کے لئے گھر آیا تھا۔ایک بار پھر وہ تازہ دم ہو کر نئے سفر کے لئے تیار تھا۔”سبحان!تم پھر سے سفر پر جا رہے ہو،مجھے تمہاری کمی بہت محسوس ہوتی ہے،لیکن خیر کوئی بات نہیں۔“امان نے ٹھیر ٹھیر کر کہا:”میں ہوں ناں سب سنبھال لوں گا۔“سبحان نے بھائی کی طرف دیکھا۔امان کے لہجے میں ہچکچاہٹ سی محسوس کی۔”جی بھائی!اسی لئے تو میں مطمئن ہوں،آپ ہیں ناں․․․․“”سبحان!میں سوچ رہا ہوں کہ ایک بہت بڑی حویلی بنائی جائے۔محل نما حویلی جس میں ہم دونوں بھائی خوش و خرم رہیں گے۔ابا جان کی کھوئی ہوئی عزت دوبارہ پا لیں گے۔تمھارے علم میں تو ہے ہی کہ ابا جان جائیداد قرض میں چھوڑ گئے ہیں۔“”بس بس بھائی جان!ان باتوں سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔“سبحان تڑپ کر بولا۔”ارے پگلے تُو کیوں پریشان ہوتا ہے میں جو ہوں،اسی لئے میں نے سوچا ہے کہ ایک شاندار سی حویلی بنائی جائے،لیکن اس کے لئے مجھے کچھ سرمائے کی ضرورت ہے۔“”میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ آپ ہی کا ہے بھائی جان!“سبحان نے خوش دلی سے کہا:”چار لاکھ درہم اس تجارت کی برکت سے مجھے حاصل ہوئے ہیں۔“”بہت ہیں میرے بھائی!“ امان جلدی سے بولا:”اس بار جب تم لوٹو گے تو ایک شاندار محل میں تمہارا قیام ہو گا،پھر میں تمہاری تمام رقم بھی لوٹا دوں گا۔“”رقم کی بات چھوڑیے بھائی جان!بس میری ایک درخواست ہے۔“سبحان یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔”کہو سبحان!رک کیوں گئے؟“امان بے چینی سے بولا۔”آپ اس محل کی چار اینٹیں مجھے دے دیجیے،ہر اینٹ ایک لاکھ درہم کی ہو گی۔“سبحان کی بات سن کر امان دل کھول کر ہنستا رہا۔سبحان خاموشی سے اسے تکنے لگا۔”ٹھیک ہے،مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔میں لکھ کر دینے کو بھی تیار ہوں۔ایک اینٹ ایک لاکھ درہم کی تمہاری ہوئی۔“محل کا سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا۔سبحان نے اپنے ہاتھوں سے وہ اینٹیں بنیادوں میں رکھیں اور سفر پر روانہ ہو گیا۔امان نے خوشی خوشی اسے الوداع کہا۔اس بار سبحان کی واپسی دو سال بعد ہوئی تھی۔اس عرصے میں حویلی بن کر تیار ہو چکی تھی۔امان نے شادی بھی کر لی تھی۔سبحان کا قیام حویلی میں تھا۔اس نے بھائی امان کے رویے میں تبدیلی سی محسوس کی۔خود سبحان کی حالت بھی پہلے جیسی نہ تھی۔اس بات کو امان نے فوراً ہی محسوس کر لیا۔اب وہ کچھ بیزار سا تھا۔ایک دن سبحان نے امان سے کہا:”بھائی!اب پھر مجھے سفر پر روانہ ہونا ہے۔جیسا کہ آپ کو اندازہ ہو ہی چکا ہو گا کہ اس بار تجارت میں مجھے کافی نقصان اُٹھانا پڑا۔اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ میری رقم مجھے لوٹا دیں۔“”کون سی رقم؟تمھیں علم تو ہے ابا جان سب کچھ قرض میں دے گئے تھے۔“امان رکھائی سے بولا۔”بھائی جان آپ کب تک جھوٹ سے کام لیتے رہیں گے!ہر بات میرے علم میں ہے ابا جان کا ایک دھیلا بھی قرض میں نہیں ہے،بلکہ․․․․“سبحان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا:”صرف اور صرف مجھے جائیداد سے بے دخل کرنے کے لئے آپ نے اتنا بڑا ڈھونگ رچایا۔“سبحان نے گہری سانس لی،جب کہ امان اسے غصے سے دیکھ رہا تھا۔”اس وقت میں ان چار لاکھ درہم کی بات کر رہا ہوں،جو آپ نے اس شاندار محل کی تعمیر میں خرچ کیے ہیں۔“”کون سے چار لاکھ درہم؟“امان تمسخر سے بولا:”تم بھول رہے ہو چار لاکھ درہم کے بدلے تم نے چار اینٹیں خرید لیں تھیں۔میرے بے وقوف بھائی!وہ تحریر میرے پاس آج بھی محفوظ ہے،جو تم نے لکھ کر دی تھی۔“”آپ اتنے امانت دار ہیں کہ آپ نے ایک بے ضرر سی تحریر سنبھال کر رکھی ہے۔“سبحان طنز سے بولا:”ٹھیک ہے،پھر میں ان چار اینٹوں کا حق دار ضرور ہوں،جو میں نے اس محل کی تعمیر کے وقت بنیادوں میں نصب کی تھیں۔چاروں بنیادیں میری ہیں۔میں نے مستری سے کہہ کر چاروں اینٹوں میں چاندی کا ایک ایک سکہ رکھوا دیا تھا۔اب چاندی والی اینٹیں حویلی کی بنیادوں میں کہاں کہاں ہے،ایک ایک اینٹ اُکھاڑ کر دیکھنی ہو گی۔خدا کا شکر ہے کہ میرے حالات پہلے سے بھی بہتر ہیں،لیکن خیانت کرنے والے کو ڈھیل دینا نادانی ہے اور اپنا حق چھوڑ دینا بھی عقل مندی نہیں۔“سبحان کی بات سن کر امان چکرا کر رہ گیا۔چھوٹے بھائی کو نادان سمجھ کر اس نے پہلے باپ کی جائیداد پر قبضہ کیا۔پھر محنت سے کمائی ہوئی رقم ہتھیائی۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ سبحان اس طرح اسے اپنے دام میں پھنسا لے گا۔وہ اپنا سر پکڑ کر رہ گیا۔اب اسے تمام حساب بے باق کرنا تھا۔ " دودھ کا دودھ پانی کا پانی - تحریر نمبر 2582,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/doodh-ka-doodh-pani-ka-pani-2582.html,"شائستہ زریںجب سے شمعون کو چوری کی لت لگی تھی صفائی سے جھوٹ بولنے میں اُسے مہارت ہو گئی تھی۔یہی نہیں وہ اپنی بات پر سختی سے قائم بھی رہتا۔آج بھی گھر میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔کیونکہ شمعون مان ہی نہیں رہا تھا کہ امی کے پرس میں رکھے تین ہزار اُس نے چوری کیے ہیں۔ثبوت کسی کے پاس نہ تھا لیکن یقین سب کو تھا۔یہ رقم شمعون نے اپنے دوست نومی کے بیگ میں چھپا دی تھی۔نومی کے گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی۔اس کے بیگ سے تین ہزار کی رقم نکلنا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔اس پر کسی کو شک بھی نہیں ہو سکتا تھا۔اسی لئے تو چوری کرنے کے باوجود شمعون اپنی بات پر ڈٹا ہوا تھا۔شمعون کی امی نے وہ رقم بخار کے باوجود سخت محنت کر کے ایک دن میں چار سوٹ سی کر کمائی تھی۔(جاری ہے)اس رقم میں سے دو ہزار کمیٹی اور باقی ایک ہزار سلائی کا سامان لانے کے لئے رکھی تھی۔گھر کے کام نمٹا کر پڑوسن کو کمیٹی کی رقم دینے اور بازار جانے کے لئے جب انہوں نے اپنا پرس کھولا تو اس میں سوائے چند سو کے کچھ بھی نہ تھا۔وہ تو دل تھام کر رہ گئیں۔کمیٹی کی رقم دینے کی آج آخری تاریخ تھی اور دو دن بعد جو کپڑے سی کر دینے تھے اس کے لئے سلائی کا سامان بھی بازار سے لانا تھا جو گھر میں نہیں تھا۔وہ بہت پریشان تھیں۔شمعون کی دادی سے بہو کی تکلیف اور پریشانی نہیں دیکھی جا رہی تھی۔انہوں نے شمعون کے قریبی دوستوں کو گھر میں جمع کیا جو ہر تفریح میں شمعون کے ساتھ ہوتے تھے۔دادی اماں نے باری باری شمعون کے دوستوں سے مختلف سوالات کیے۔لیکن مسئلے کا حل سامنے نہ آیا۔حالانکہ سب دوست واقف تھے کہ رقم نومی کے پاس ہے لیکن کسی نے بھی زبان نہ کھولی۔شمعون کے دوست بھی تقریباً اُسی کے ہم عمر تھے یعنی بارہ تیرہ سال کے اور سارے کے سارے نہایت چالاک لیکن دادی اماں نے بھی اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے۔شمعون نے ہنس کر کہا”اب تو آپ کو یقین آ گیا کہ چوری ہم نے نہیں کی،میں نے صبح بھی آپ سے کہا تھا کہ شبو ماسی پر نظر رکھا کریں“دادی اماں مسکرا کر خاموش ہو گئیں لیکن کمرے سے باہر جانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی۔دادی اماں گھڑی گھڑی دروازے کی جانب دیکھ رہی تھیں۔بالآخر شبو ماسی اندر داخل ہوئی”سلام دادی اماں!آپ نے بلایا تو دوڑی چلی آئی خیر تو ہے ناں؟“وعلیکم اسلام“ ہاں بھی شبو!سچ کہو تم نے بہو کے پرس میں سے پیسے چُڑائے تھے“ماسی بگڑ کر کہنے لگی”آپ مجھ پر چوری کا الزام لگا رہی ہیں؟حق حلال کی روزی کماتی اور کھاتی ہوں۔شمعون میاں کے ہوتے ہوئے مجھے کیا پڑی ہے بے ایمانی کی؟جبکہ شمعون میاں خود ماں کی کمائی پر ہاتھ صاف کر سکتے ہیں۔پورے چار ہزار نکالے تھے بیگم صاحبہ کے پرس میں سے میں نے خود دیکھا تھا“۔شمعون میاں نے سخت نظروں سے شبو ماسی کو دیکھا”امی!یہ جھوٹ بول رہی ہے آپ کے پرس میں کل تین ہزار تھے“ کہتے ہوئے اس نے نومی کی جانب دیکھا جو اس کو اشارے کر رہا تھا ”اوہ شٹ“ کہتے ہوئے اس نے بات سنبھالنی چاہی لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا“۔دادی اماں نے کہا:”اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے شمعون!”دودھ کا دودھ پانی کا پانی“ ہو گیا میں نے خود شبو کو یہ بیان دینے کو کہا تھا۔برسوں سے ہمارے یہاں کام کر رہی ہے آج تک ایک تنکا بھی اِدھر سے اُدھر نہیں کیا“ اب تم اپنی ماں سے ہی نہیں شبو سے بھی معافی مانگو گے تم سے تو یہ گنوار شبو ہی بھلی جو چوری کو گناہ سمجھتی ہے اور ایک تم ہو پڑھے لکھے عزت دار گھرانے کے فرد ہونے کے باوجود چوری اور جھوٹ جیسے گناہوں میں مبتلا ہو گئے“۔شمعون نے ندامت سے سر جھکا لیا۔اُس نے ماں اور ماسی دونوں سے معافی مانگی،نومی سے چوری کی رقم لے کر ماں کو لوٹا دی اور ہمیشہ کے لئے جھوٹ اور چوری سے توبہ کر لی۔ " حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں - تحریر نمبر 2581,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hisaab-jun-ka-tun-kunba-duba-kyun-2581.html,"اکرام مغل”حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں“ مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کر کے خود کو بہت قابل سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی کی وجہ سے نقصان اُٹھائے،مگر نقصان کی وجہ اس کی سمجھ میں نہ آئے۔اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحب زادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔انہوں نے اسے رٹ لیا۔شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔یہ بھی ساتھ ہو لیے۔جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فوراً دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ اور درمیان کی گہرائی آٹھ فٹ جمع کر کے کل بارہ فٹ کو تین پر تقسیم کر دیا۔(جاری ہے)جواب آیا”اوسط گہرائی چار فٹ“۔اس قاعدے سے تو دریا کی گہرائی بالکل کم تھی۔اس لئے انہوں نے خوشی خوشی گھر والوں کو بتایا کہ کشتی کا کرایہ بچ جائے گا۔بغیر کشتی کے بھی دریا پار کیا جا سکتا ہے۔میں نے حساب لگا کر دیکھا ہے۔اس دریا کی اوسط گہرائی چار فٹ ہے۔یہ سن کر گھر والے دریا پار کرنے کو تیار ہو گئے۔پورا کنبہ یعنی گھر والے سامان لے کر دریا میں کود پڑے اور دریا کے بیج میں پہنچ کر آٹھ فٹ گہرے پانی میں ڈوبنے لگے۔کشتی والوں نے بڑی مشکل سے انہیں بچایا۔صاحب زادے پانی میں شرابور کنارے پر پہنچے تو دوبارہ حساب جوڑا۔وہی جواب آیا۔پریشان ہو کر بولے:”حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں؟ " حماقتیں - تحریر نمبر 2580,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/himaqatain-2580.html,"ماہم احسن”امی!“ سائمن نے کہا:”میری اُستانی نے کہا ہے کہ مجھے ایک صاف ستھرا رومال روزانہ لازمی اسکول لے کر آنا ہے۔“”میں نے بھی یہی سوچا تھا۔“اس کی امی نے کہا:”تمہارے پاس تو بہت سے رومال ہیں۔کل ان میں سے ایک اچھا سا رومال اسکول لے جانا۔“اگلے دن سائمن نے صبح ایک نہایت خوش رنگ اور صاف ستھرا رومال نکالا۔وہ بے حد خوش تھا کہ آج اسکول میں اپنی اُستانی کو یہ رومال دکھائے گا۔اس نے رومال تہہ کر کے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا،لیکن راستے میں سائمن کو پُل پر چڑھنا پڑا۔اس نے اپنا رومال بہت احتیاط کے ساتھ پُل کی سیڑھیوں پر رکھا اور جوتے کے فیتے سختی سے باندھے۔اس دوران وہ اپنا رومال پُل پر ہی بھول گیا۔جب وہ اسکول پہنچا تو مس براؤن نے اس سے پوچھا:”سائمن!کیا رومال لائے ہو؟“”جی ہاں،لایا ہوں۔(جاری ہے)“سائمن نے جواب دیا۔سائمن نے رومال نکال کر مس کو دکھانا چاہا،لیکن نہ تو وہ اس کے ہاتھ میں تھا اور نہ جیب میں۔”اوہو،میں اپنا رومال پُل پر ہی چھوڑ آیا ہوں۔“اسکول سے چھٹی کے بعد سائمن سیدھا اس طرف گیا،جہاں اس نے رومال چھوڑا تھا۔وہاں اسے رومال کے چیتھڑے ملے۔پُل کے پاس سے گایوں کا ریوڑ گزرتا تھا۔ایک گائے نے پُل پر رکھا ہوا رومال دیکھا تو کھانے کی کوئی چیز سمجھ کر منہ میں رکھا،مگر چبا کر وہیں تھوک دیا۔وہ گائے کو بالکل بھی مزے کا نہیں لگا۔اب رومال بے کار ہو گیا تھا۔اگلی صبح سائمن نے اپنی دراز سے ایک اور رومال نکالا اور خود سے کہا:”میں اس میں ایک گرہ باندھ لیتا ہوں،تاکہ رومال مجھے اسکول لے جانا یاد رہے۔“پھر سائمن نے اس رومال کی ایک گرہ اپنے ہاتھوں پر باندھ لی۔وہ خوشی خوشی اسکول جا رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک خوبصورت تتلی پر پڑی۔اسکول پہنچنے میں ابھی وقت تھا،اس لئے وہ تتلی کے پیچھے دوڑنے لگا۔وہ اس تتلی کو ہر قیمت پر پکڑنا چاہتا تھا۔اچانک تتلی رکی اور ایک پھول پر بیٹھ گئی۔سائمن نے احتیاط سے اپنا رومال نیچے گھاس پر رکھا اور تتلی کی طرف لپکا،لیکن تتلی ہوا میں اوپر کی جانب اُڑ گئی۔سائمن نے جھلا کر ماتھے پر ہاتھ مارا۔پھر اسکول کی طرف جانے والے راستے پر مڑ گیا۔”تمہارا رومال کہاں ہے سائمن!“ مس براؤن نے پوچھا۔”مس براؤن!“ سائمن نے فخر سے کہا:”میں نے اپنے رومال میں ایک گرہ باندھ لی تھی،تاکہ مجھے رومال یاد رہے!کتنا چالاک ہو گیا ہوں نا میں؟“”ٹھیک ہے،ٹھیک ہے۔اب مجھے دکھا بھی دو۔“مس براؤن نے کہا۔سائمن شرمندہ ہو گیا،کیونکہ رومال تو اس نے گھاس پر ہی چھوڑ دیا تھا۔مس براؤن کو بہت غصہ آیا:”مہربانی کر کے کل ضرور یاد سے لے آنا۔“اگلی صبح سائمن نے ایک اور رومال دراز سے نکالا۔چونکہ وہ رومال جو اس نے گھاس پر ہی چھوڑ دیا تھا،تلاش نہیں کر پایا،کیونکہ ہوا اسے اُڑا کر لے گئی تھی۔”اس مرتبہ میں ضرور اپنا رومال لے جانا یاد رکھوں گا اور اسے اسکول پہنچنے تک اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گا۔“اس نے پکا عزم کیا۔وہ گھر سے نکلنے لگا تو اس کی امی نے اسے پکارا:”بیٹا سائمن!یہ خط راستے میں جاتے ہوئے پوسٹ کر دینا۔“”ہاں کیوں نہیں امی!“سائمن نے خط لیا اور جلدی جلدی چلنے لگا۔اسے یاد آیا کہ مس نے کہا تھا کل تمام بچے چھے کا پہاڑا یاد کر کے آئیں۔کل سنا جائے گا۔”چھے ایکم چھے․․․․چھے دونی بارہ۔“پہاڑا پڑھتے ہوئے لال رنگ کے چمکتے ہوئے پوسٹ باکس کے نزدیک پہنچ گیا۔اس کو خوشی تھی کہ اس کو پورا پہاڑا یاد تھا۔جب وہ اسکول پہنچا تو مس براؤن نے کہا:”مجھے اُمید ہے کہ تم آج ضرور اپنا رومال لائے ہو گے۔“”جی مس!“سائمن نے فخریہ انداز سے کہا:”میں نے اسے سارا وقت اپنے ہاتھ میں رکھا۔دیکھیں!“سائمن نے اپنا ہاتھ آگے کیا تو اس کے ہاتھ میں خط تھا۔مس براؤن نے اسے حیرانی سے دیکھا:”کیا یہ جادو کا رومال ہے جو خط بن گیا۔“وہ چیخیں۔”ش۔ش۔ا شاید․․․․․میں نے ․․․․․․“سائمن ہکلایا:”اوہ میرے خدا!میں نے تو خط کے بجائے رومال پوسٹ کر دیا۔“”سائمن!میں تمہیں آخری موقع دے رہی ہوں۔کل ایک صاف ستھرا رومال تمہارے پاس ضرور ہونا چاہیے۔“مس براؤن نے غصے سے کہا:”اب سائمن نے ایک اور رومال اپنی دراز سے نکالا۔اس نے وہ رومال اپنی جیب میں رکھ لیا۔اس کا خیال تھا کہ اگر وہ رومال جیب میں رکھے گا تب ہی اسے حفاظت سے اسکول تک لے جا پائے گا۔اگلے روز وہ خراماں خراماں اسکول کی طرف جا رہا تھا،لیکن اچانک چلتے چلتے وہ نہ جانے کیسے ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔اس کا گھٹنا چھل گیا اور دونوں ہاتھ مٹی سے لتھڑ گئے۔سائمن نے اپنا رومال نکالا اور اپنے گھٹنے اور ہاتھوں کو صاف کر لیا۔جب وہ اسکول پہنچا تو اس نے فخریہ انداز میں اپنا رومال مس براؤن کے آگے لہرایا۔”سائمن!یہ کیا ہے؟گندا،بدبو دار، چیتھڑا۔“وہ چلائیں:”رومال ایسا ہوتا ہے!میں نے تم سے کہا تھا کہ صاف ستھرا رومال لانا۔“ان کی آواز کانپ رہی تھی۔”صاف ستھرا رومال کل صبح لازمی لے آنا ورنہ سزا کے لئے تیار رہنا۔“مس براؤن نے خشک لہجے میں کہا۔بے چارا سائمن پورا راستہ روتا رہا۔جب وہ گھر پہنچا تو اس کی امی نے پوچھا۔”کیا ہوا؟تم رو کیوں رہے ہو؟کیا کسی سے لڑائی ہو گئی ہے؟“سائمن نے روتے روتے تمام بات امی کو بتا دی۔یہ سن کر وہ بھی خفا ہوئیں اور مزید اس لئے ناراض ہوئیں جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ اپنا ہیٹ بھی کھو چکا ہے!”اوہ سائمن!تم اتنے بے وقوف اور بھلکڑ کیوں ہو؟“وہ افسردگی سے بولیں:”خیر!یہ تمہارے ابو کا رومال ہے،چونکہ تم نے اپنے تمام رومال برباد کر دیے ہیں اور تم اپنا ہیٹ بھی کھو چکے ہو۔گرمی بھی ہے،تو اب ایسا کرتی ہوں کہ میں رومال کے ہر کونے پر گرہ لگا کر تمہارے لئے ایک ہیٹ سا بنا دیتی ہوں،جسے پہن کر تم اسکول جاؤ گے۔اگر تم اسے مسلسل پہنے رہے تو یہ تم سے نہیں کھوئے گا۔“وہ اسے تفصیل سے سمجھا رہی تھی۔سائمن رومال کا ہیٹ پہن کر بے حد خوش نظر آ رہا تھا۔اس کے ابو کا رومال بڑا تھا۔وہ سرخ و سفید ڈیزائن کے ساتھ بڑا پیارا لگ رہا تھا۔سائمن اس خوبصورت رومال کو پہن کر اپنے آپ کو بہت خوش قسمت تصور کر رہا تھا،لیکن جب وہ اسکول پہنچا تو بھول گیا کہ اس کے سر پر رومال ہے!”اپنا رومال دکھاؤ۔“مس براؤن نے سخت لہجے میں کہا۔سائمن نے اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالا وہ خالی تھیں۔اِدھر اُدھر دیکھا،لیکن رومال کہیں بھی نظر نہ آیا۔مس براؤن نے اس کو کن انکھیوں سے دیکھا۔”سائمن!“مس براؤن نے چیخ کر کہا:”تم آج پھر سے رومال نہیں لائے؟“”مس براؤن!“سائمن نے گھبرا کر کہا:”میں آج لے کر آیا تھا۔یقینا میں لایا تھا،لیکن کہاں گیا؟“”رہنے دو۔اپنا ہیٹ اُتارو اور سزا کے لئے تیار ہو جاؤ۔میں آج تمہیں دھوپ میں کھڑا کرنے والی ہوں۔“مس براؤن نے طیش میں آ کر کہا۔سائمن نے بے چارگی سے اپنا سرخ و سفید ہیٹ اُتارا اور ہیٹ اُتارتے ہی اُچھل پڑا۔وہ ہیٹ اس کے ابو کا خوبصورت رومال تھا!”مس براؤن․․․․مس براؤن!یہ رہا میرا رومال۔“وہ خوشی سے لرزتے ہوئے بولا:”میں اسے پورا راستہ ہیٹ کی طرح پہن کر آیا تھا․․․․اور دیکھیں یہ بالکل صاف ستھرا ہے۔“”ٹھیک ہے سائمن!آج تم نے خود کو سزا سے بچا لیا ہے،لیکن یاد رکھو تمہیں آئندہ بھی رومال لانا ہے۔تم اپنی امی سے کہنا کہ وہ تمہارا رومال تمہاری جرسی سے پن کر دیں،تاکہ تم روز حفاظت سے رومال اسکول لا پاؤ اور مجھ دکھا سکو۔“سائمن کی امی اس دن گھر پر نہیں تھیں۔سائمن نے خود ایک سیفٹی پن تلاش کی اور اپنے رومال کو پن کیا،لیکن اس نے پھر غلطی کر دی۔اس بار اس نے اپنے چھوٹے بھائی کا سفید کوٹ پن کر دیا!آپ کا کیا خیال ہے مس براؤن کیا کہیں گی؟ " ہیرے والا نیل کنٹھ - تحریر نمبر 2579,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/heere-wala-neelkanth-2579.html,"احمد عدنان طارقایک بادشاہ کو شکار کرنے کا بہت شوق تھا۔ایک دن بادشاہ اپنے مصاحبوں سمیت جنگل میں گیا،تاکہ پرندوں کا شکار کر سکے،لیکن وہاں انھیں کوئی پرندہ نظر نہیں آیا۔وہ جنگل چھوڑ کر آگے ویرانوں میں چراگاہوں کی طرف روانہ ہو گئے۔راستے میں کئی پہاڑیاں اور ندیاں بھی آئیں،جن کو انھوں نے عبور کیا،لیکن انھیں کوئی پرندہ نظر نہیں آیا۔آخر دوپہر کے وقت وہ ایک بہت بڑی چراگاہ میں پہنچے۔یہ اتنا بڑا میدان تھا،جس کی حد نظر نہیں آ رہی تھی۔میدان کے عین درمیان میں ایک بڑا اور گھنا سایہ دار درخت کھڑا تھا۔بادشاہ اور اس کے مصاحب بے اختیار درخت کی طرف بڑھتے چلے گئے اور درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر سستانے لگے۔اگرچہ وہ بہت تھک چکے تھے،لیکن عادی شکاریوں کی طرح ان کی نگاہیں اب بھی درخت کی شاخوں میں بیٹھے کسی پرندے کو ڈھونڈ رہی تھیں۔(جاری ہے)اچانک بادشاہ کی نظر ایک کنٹھ پر پڑی جو درخت کی سب سے نیچی شاخ پر بیٹھا ہوا تھا۔نیل کنٹھ کو دیکھتے ہی بادشاہ نے اپنے ایک مصاحب کو اشارے سے حکم دیا کہ اسے شکار کرے۔اشارہ پاتے ہی اس کا ایک مصاحب کھڑا ہوا اور غلیل سے اس نیل کنٹھ کی طرف پتھر پھینکا۔جو نشانے پر لگا اور نیل کنٹھ بادشاہ کے سامنے آ گرا۔بادشاہ نے نیل کنٹھ کو پکڑ کر ایک مصاحب کے حوالے کیا کہ وہ اسے ذبح کر لے۔جونہی چاقو نیل کنٹھ کی گردن کے قریب آیا،اچانک نیل کنٹھ کے منہ سے نکلا:”اے عظیم بادشاہ!مجھے مت ماریئے۔میں آپ کا فائدہ چاہتا ہوں۔اگر آپ مجھے مار دیں گے تو تمام عمر پچھتائیں گے۔مجھے مار کر آپ کو کیا ملے گا؟میں تو بہت ہی چھوٹا ہوں اور مجھے مارنے سے آپ کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔“نیل کنٹھ کو انسانوں کی طرح بولتا دیکھ کر بادشاہ بہت حیران ہوا۔وہ نیل کنٹھ کی بات سن کر بولا:”اے نیل کنٹھ!تم تو بول بھی سکتے ہو۔“نیل کنٹھ نے جواب دیا:”اے عظیم بادشاہ!جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔میری گزارش کو دھیان سے سنیے گا۔میں تو آپ کی یہاں آمد کا برسوں سے انتظار کر رہا ہوں کہ آپ تشریف لائیں تو میں آپ کو اپنے پَردادا کا وہ پیغام پہنچاؤں جو وہ آپ کے لئے چھوڑ گئے تھے۔میرے پَردادا نے مرنے کے بعد آپ کے لئے ایک بہت بڑا ہیرا چھوڑا تھا جو آپ کے ٹخنے کے برابر ہے۔ان کی خواہش تھی کہ وہ ہیرا آپ کے حوالے کیا جائے۔اسی لئے میں عرصے سے آپ کا منتظر تھا۔اگر میں ایسا نہ کر سکتا تو میرا ضمیر ہمیشہ مجھے ملامت کرتا رہتا۔میں اس امانت کے بدلے میں آپ سے معافی کا طلب گار ہوں۔“نیل کنٹھ کے منہ سے یہ کہانی سننے کے بعد بادشاہ بولا:”پہلے تو میں اس بات پر حیران ہوں کہ ایک نیل کنٹھ اتنی روانی سے کیسے بول سکتا ہے؟اور کوئی چارہ بھی نہیں کہ میں تمہاری کہانی پر اعتبار نہ کروں کہ تمہارے پاس میری کوئی امانت بھی پڑی ہوئی ہے۔“نیل کنٹھ بولا:”بادشاہ سلامت!جان کی امان پاؤں تو مجھے کچھ اور بھی عرض کرنا ہے۔اس ہیرے کے علاوہ میرے پَردادا نے چند نصیحتیں بھی کی تھیں جو مجھے آپ تک پہنچانی تھیں،تاکہ یہ حکمت کی باتیں لوگ آپ کے منہ سے سنیں اور ان پر عمل کریں تو سب کا فائدہ ہو گا۔“بادشاہ بولا:”وہ نصیحتیں کیا ہیں؟اچھی بات ہے کہ حکمت کی باتیں میرے اور میرے مصاحبوں تک پہنچیں۔“نیل کنٹھ اجازت ملنے پر بولا:”میرے پَردادا نے جو باتیں بتائیں تھیں وہ یوں تھیں:نمبر ایک:جب کوئی آپ سے میٹھی میٹھی باتیں کرے تو اس پر بھروسا نہ کریں۔نمبر دو:کبھی کسی ایسی چیز کی واپسی کی اُمید نہیں کریں جو ایک دفعہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے اور نمبر تین:جس چیز کو حاصل کرنے میں آپ ناکام ہو جائیں،اس کے بارے میں دوبارہ نہیں سوچیں۔اب بادشاہ سلامت!مجھے اجازت دیں،تاکہ میں وہ ہیرا آپ کو لا کر دوں جو میرے پَردادا آپ کے لئے چھوڑ گئے تھے۔وہ اس درخت کے اوپری شاخوں میں،میں نے چھپا رکھا ہے۔شاخیں چونکہ پتلی ہیں،اس لئے آپ میں سے کوئی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔“بادشاہ سلامت نے پھر زیادہ نہیں سوچا اور مصاحب کو نیل کنٹھ کو آزاد کرنے کا حکم دیا اور مصاحب نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر نیل کنٹھ کو آزاد کر دیا۔وہ اُڑا اور شکریہ ادا کرنے کے لئے بادشاہ سلامت کے کندھے پر بیٹھ گیا۔پھر اس نے پَر پھیلائے۔اُن کو پھڑپھڑایا اور پھر بولا:”جناب عالی!مجھے انتظار کے لئے معاف کر دیجیے گا۔ادھر کچھ دیر انتظار کیجیے گا۔جب تک میں اُڑتا ہوا درخت کی چوٹی تک پہنچ جاؤں۔“پھر وہ اُڑا اور اُڑتا ہوا درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔اب وہاں تک پتھر بھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔وہ ایک شاخ پر جا کر مزے سے بیٹھا ہوا تھا۔اُدھر بادشاہ اور مصاحب انتظار کرتے رہے کہ کب نیل کنٹھ ہیرا لے کر واپس آتا ہے،لیکن لگتا تھا کہ نیل کنٹھ اپنا وعدہ بھول چکا ہے۔وہ تو شاخ پر بیٹھا جھولتا رہا،ہیرا لانے کی بات تو بہت دور کی تھی۔شام ہو گئی اور اندھیرا چھانے لگا تو بادشاہ نے آواز دی:”نیل کنٹھ!تمہارا وہ ہیرا کدھر ہے جو تمہارے پَردادا نے میرے لئے رکھا تھا۔اسے نیچے لے کر آؤ۔ہمیں واپس بھی جانا ہے۔“نیل کنٹھ نے بادشاہ کی بات غور سے سنی اور پھر اونچی آواز میں ہنسنے لگا اور بولا:”بادشاہ سلامت!میں نے جو کچھ کہا ہے،اس کی معافی دیجیے گا۔اگر آپ محل جانا چاہتے ہیں تو شوق سے چلے جائیے۔آپ انتظار کس بات کا فرما رہے ہیں۔میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ میٹھی میٹھی باتوں سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور جو چیز ایک دفعہ ہاتھ سے نکل جائے اس کی واپسی کی اُمید نہ رکھیں اور جس چیز کو حاصل کرنے میں ناکام ہو جائیں،اس کے متعلق مت سوچیں۔آپ عقل والے ہیں،خود سوچیں آپ کے ٹخنے جتنا بڑا ہیرا میں کیسے اُٹھا سکتا ہوں؟اتنا بڑا تو میں خود بھی نہیں ہوں۔میں نے تو ہیرے کی کہانی اپنی جان بچانے کے لئے گھڑی تھی۔آپ نے اس پر اعتبار کیا اور مجھے آزاد کر دیا۔اب میں آپ کی دسترس سے باہر ہوں۔میرے الفاظ کو یاد رکھیے گا،ان چیزوں کی واپسی کی اُمید مت رکھیں،جنھیں آپ ایک دفعہ کھو چکے ہیں۔جناب عالی!اب محل کی طرف روانہ ہو جائیے،اس سے پہلے کہ اندھیرا چھا جائے۔“انھوں نے افسردگی سے مصاحبوں کو واپس روانگی کا حکم دیا۔نیل کنٹھ نے انھیں جاتے دیکھا تو پَر پھڑپھڑاتا ہوا اُڑ گیا۔ " گمشدہ طوطا - تحریر نمبر 2578,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gumshuda-tota-2578.html,"آمنہ ماہمدس سال کی زینب کو چڑیاں بہت اچھی لگتی تھیں۔اُڑتی،پھُدکتی،چہچہاتی چڑیاں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتی۔آسٹریلین اور ہرے ہرے طوطے اسے خاص طور پر اچھے لگتے تھے۔ایک بار اس نے اپنی ممی سے کہا کہ وہ طوطا پالنا چاہتی ہے لیکن ممی نے کہا کہ طوطے قید میں رہنا پسند نہیں کرتے،انہیں اپنی آزادی بہت پیاری ہوتی ہے۔گھر کے سامنے درختوں پر بہت سی چڑیاں رہتی ہیں۔خوب چوں چوں کرتی ہیں،انہیں دیکھا کرو۔زینب نے ممی کی بات مان لی اور طوطا خریدنے کی ضد چھوڑ دی۔اسکول سے آنے کے بعد بالکونی میں کھڑے ہو کر طرح طرح کی چڑیوں کو اور سامنے گھر والوں کے آسٹریلین طوطوں کو دیکھتی۔ایک دن زینب شام کو کمرے میں آئی تو دیکھا ایک آسٹریلین طوطا اُس کے کمرے میں بیٹھا ہوا ہے۔(جاری ہے)چھوٹا سا گرے رنگ کا،لال لال آنکھیں،پتلی سی دم تھی۔وہ دم لگاتار اوپر نیچے ہلا رہا تھا۔اس طوطے کو اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔زینب طوطے کو کمرے میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی،بھاگ کر ممی کو بلا لائی۔انہوں نے بتایا کہ شاما ہے۔بڑا میٹھا بولتا ہے اور خوب سیٹیاں بجاتا ہے،یہاں شاید بھنک کر آ گیا ہے۔چلو اسے واپس بھیج دیں،انہوں نے طوطے کو ہشکایا،تاکہ وہ دروازے سے واپس چلا جائے۔”یہ طوطا ہے یا اس کا بچہ؟“زینب نے ممی سے پوچھا۔”یہ فادر طوطا ہے“”تب تو اسے ضرور بھیج دیجئے۔اس کے بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔“زینب نے کہا اور ممی کے ساتھ وہ بھی طوطے کو ہشکانے لگی۔وہ کبھی کمرے میں لگی ٹیوب لائٹ پر بیٹھتا تو کبھی پھدک کر دیوار کی گھڑی پر کبھی پنکھے کے پروں پر اور کبھی بڑی سی پینٹنگ کے فریم پر بیٹھ جاتا۔زینب اور ان کی ممی نے لاکھ کوشش کی لیکن وہ دروازے کی طرف گیا ہی نہیں۔دروازہ بالکونی پر کھلتا تھا اور وہ ادھر ہی سے آیا تھا۔”ایسا کرتے ہیں فی الحال اسے یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔صبح اسے راستہ مل جائے گا۔“ممی یہ کہہ کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔”ٹھیک ہے۔آج رات یہ ہمارا مہمان رہے گا۔“زینب خوش ہو گئی۔رات کو اُس کے پاپا گھر آئے تو اُنھوں نے کوشش کر کے طوطے کو پکڑا اور زینب کو چھت پر رکھا ہوا پنجرا لانے کو کہا،زینب خوش ہو کر چھت پر گئی اور بھاگ کر پنجرا لے کر آئی اُس کے پاپا نے طوطا پنجرے میں ڈال دیا۔تھوڑی دیر گزری تو زینب بہت پریشان ہوئی۔اُس نے پاپا سے کہا،کہ یہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہے،کیا یہ بیمار ہو گیا ہے۔تو اُس کے پاپا نے بتایا نہیں یہ اپنے جن دوستوں کو چھوڑ کر آیا ہے اُن کی وجہ سے اُداس ہے۔ایک دو دن تک ٹھیک ہو جائے گا۔مگر زینب کو چین نہ آیا۔آخر اُس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ سامنے والے گھر والوں نے طوطے پال رکھے ہیں،کہیں یہ طوطاً اُن کا نہ ہو،وہ پتہ کرنے اُن کے گھر گئی کہ اُن کا کوئی طوطا تو نہیں اُڑ گیا۔تو اُنھوں نے بتایا کہ صبح ایک طوطا اُڑ گیا تھا اور اب اُس کی طوطی بہت اُداس ہے تو زینب نے اُنھیں بتایا کہ اُن کا طوطا اُس کے گھر اُڑ کر آ گیا ہے،لہٰذا وہ اپنا طوطا اُن کے گھر سے لے آئیں تھوڑی دیر بعد وہ آئے اور طوطا اپنے گھر واپس چلا گیا۔اس طرح زینب کی کوشش سے طوطا اپنی فیملی سے مل گیا۔ " چشمِ عبرت - تحریر نمبر 2577,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chashm-e-ibrat-2577.html,"شعاع قاسم”تم کیا کھا رہے ہو؟“ولید نے آج سرمد کو رنگے ہاتھوں پکڑ ہی لیا۔”کچھ․․․․کچھ بھی نہیں ہے۔“سرمد یکا یک گھبرا گیا۔”مجھے معلوم ہے کہ تمہارے منہ میں چھالیا ہے،کیونکہ میں نے تمھاری جیب سے گرا ہوا خالی ریپر دیکھ لیا ہے،لہٰذا اب مزید جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ولید کے لہجے میں یقین تھا۔”ہاں!کھا رہا ہوں چھالیا!تمھیں کیا ہے؟“اب سرمد ڈھٹائی سے بولا:”اور اب تم میری جاسوسی بھی کرنے لگے ہو؟“”مجھے کئی دن سے تم پر شک تھا کہ تم کچھ اُلٹی سیدھی چیز کھا رہے ہو،لہٰذا اس کی تصدیق کے لئے تم پر نظر رکھنی پڑی۔“ولید نے سچائی سے توجہ بیان کی۔”اچھا!اچھا!اب مزید لیکچر دینے مت بیٹھ جانا،اس کام کے لئے ہمارے اساتذہ ہی کافی ہیں۔(جاری ہے)“سرمد نے اکھڑ لہجے میں اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے اور اسکول گیٹ کی جانب بڑھ گیا۔ولید اور سرمد کئی سال سے اچھے دوست اور ہم جماعت تھے۔ایک ہی محلے میں رہتے بھی تھے۔دونوں کا تعلق اچھے پڑھے لکھے مہذب گھرانوں سے تھا۔کچھ روز سے سرمد تفریح کے وقفے میں واش روم جانے کے بہانے سے اکثر غائب رہنے لگا تھا۔یہ سلسلہ جب کئی دن جاری رہا اور ولید کو سرمد کے منہ سے تیز اور ناگوار بُو محسوس ہوئی،اس کے دانتوں کا رنگ بھی بدلا بدلا لگا تو اسے شک ہوا۔پھر سرمد کی جیب سے گرا ہوا ریپر دیکھ کر اسے یقین ہو گیا۔ولید اسی پریشانی کے عالم میں گھر پہنچا۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ سرمد جیسا دوست اس بُری لت میں کیسے مبتلا ہو گیا۔ولید کے لئے اب سب سے اہم فرض اپنے دوست کو اس زہر سے چھٹکارا دلانا تھا۔شام کو جب ولید کے ابو دفتر سے گھر واپس آئے تو اسے فکرمند دیکھ کر نرمی سے پوچھا:”ولید بیٹا!آج آپ بہت خاموش ہیں۔کیا مسئلہ ہے؟“ولید نے ہچکچاتے ہوئے ابو سے آج کی ساری داستان کہہ ڈالی۔ساری بات سن کر ابو کے چہرے پر بھی بے یقینی و پریشانی کے آثار نمودار ہو گئے،کیونکہ وہ سرمد کو ذاتی طور پر بہت پسند کرتے تھے۔وہ اکثر ولید کے ساتھ کھیلنے ان کے گھر آتا تھا۔انھوں نے ولید کو یقین دلایا کہ جلد ہی سرمد کو اس بُری عادت سے نجات دلانے کے لئے کچھ کریں گے۔وہ بھی اپنے ابو کو اس معاملے سے آگاہ کر کے کافی حد تک مطمئن تھا کہ ابو کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لیں گے۔ولید کے ابو نے پہلے تو سرمد کے والدین سے اس موضوع پر بات کرنے کا سوچا،لیکن اگلے لمحے ہی ان کے ذہن میں جو ترکیب آئی وہ زیادہ کارگر ثابت ہو سکتی تھی۔دو دن بعد چھٹی تھی۔ولید نے اپنے والد کے کہنے پر سرمد کو اپنے ساتھ شہر میں منعقدہ ایک نمائش میں چلنے کی دعوت دی۔سرمد کے والدین نے اسے فوراً اجازت دے دی۔نمائش سے واپسی پر ابو نے گاڑی ایک اسپتال کے سامنے روک دی تو سرمد نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا۔ابو نے بتایا:”دراصل مجھے اپنے ایک ڈاکٹر دوست سے ملنا ہے۔تم دونوں بھی چاہو تو میرے ساتھ اندر آ جاؤ،کیونکہ گاڑی کا اے سی خراب ہے اور باہر کافی گرمی ہے۔“دونوں بچے گرمی کی تپش محسوس کرتے ہوئے گاڑی سے اُتر کر اسپتال کی جانب بڑھ گئے۔راہداری میں موجود ایک آدمی کو ابو نے ڈاکٹر احمد سے ملاقات کا بتایا تو اس نے ان تینوں کو اندر جانے دیا۔اندر داخل ہوئے تو انھیں وہاں مختلف وارڈز نظر آئے۔کچھ دروازوں کو چھوڑ کر ولید کے ابو ایک وارڈ میں داخل ہو گئے۔وارڈ کے استقبالیہ پر ہی ان کی ملاقات ڈاکٹر احمد سے ہو گئی۔دونوں بچوں نے ان کو سلام کیا اور ابو کے ساتھ وہیں رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ابو اور ڈاکٹر انکل کو باتوں میں مصروف دیکھ کر ولید اُکتا گیا اور سرمد سے بولا:”سرمد!یہاں فضول بیٹھنے سے بہتر ہے کہ ذرا وارڈ کا ہی چکر لگا لیں،کیا خیال ہے؟“سرمد بھی اس کی بات کو غنیمت جان کر اُٹھ کھڑا ہوا۔کچھ ہی فاصلے پر دونوں جانب بستروں کی قطاریں تھیں،جن پر مختلف مریض موجود تھے۔مریضوں کی اکثریت نوجوانوں کی تھی۔کچھ تو تکلیف سے بُری طرح کراہ رہے تھے۔کچھ کے ہونٹ اور گالوں پر گہرے زخم نظر آ رہے تھے۔ان مریضوں کو مختلف دوائیں دینے کے ساتھ انجکشن بھی لگائے جا رہے تھے،لیکن ان کی تکلیف کم ہوتی نظر نہ آئی۔مریضوں کی یہ حالت دیکھ کر ولید اور سرمد کے چہروں پر خوف و دکھ کے واضح آثار تھے۔کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر احمد اور ابو بھی ان کی جانب آ گئے۔سرمد نے ڈرتے ڈرتے ڈاکٹر انکل سے پوچھا:”انکل!ان سارے مریضوں کو کیا بیماری ہے؟“”بیٹا!ان میں اکثریت منہ،زبان یا حلق کے کینسر کا شکار ہیں اور انتہائی تکلیف و اذیت میں مبتلا ہیں۔“وہ دکھ سے بولے۔”تو انھیں کینسر کس وجہ سے ہوا ہے؟“ولید نے جاننا چاہا۔”بیٹا!منہ کے کینسر کی بڑی اور اہم وجہ پان،چھالیا اور گٹکے وغیرہ کا استعمال ہے۔عوام میں اس زہر کی عادت بُری طرح سرائیت کر چکی ہے،لہٰذا آئے دن بے شمار لوگ اس موذی مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔“ڈاکٹر احمد نے دونوں کو آگاہ کیا۔”انکل!ان لوگوں کا علاج نہیں ہو سکتا کیا؟“سرمد نے اُمید بھرے لہجے میں سوال کیا۔”بیٹا!یہ لوگ اپنی بُری عادات اور اس نشے کی لت کے سبب اس حال تک پہنچ گئے ہیں کہ اب ان کا دوبارہ صحت پانا بہت مشکل ہے۔بس ہم یہاں ان کی اذیت کو کم کرنے کی کوشش ہی کر سکتے ہیں۔“ڈاکٹر انکل نے ٹھنڈی آہ بھری۔سرمد کی نگاہوں میں پریشانی واضح تھی۔ابو نے ایک نظر اس کی جانب ڈالی اور اطمینان کا سانس لیا۔ان کو اپنا مقصد پورا ہوتا نظر آ رہا تھا۔واپسی کا راستہ تقریباً خاموشی میں گزرا۔سرمد مسلسل سوچوں میں گم تھا اور ولید اور اس کے ابو کا یہی مقصد تھا کہ وہ اپنا احتساب خود کرے۔اگلے دن سرمد جب اسکول آیا تو سارا وقت چپ چپ رہا۔بریک ٹائم میں ولید سے بات کرنے کا موقع ملا تو شرمندہ لہجے میں کہنے لگا:”دوست!مجھے کل اسپتال جا کر اندازہ ہوا کہ میں چھالیا کی شکل میں اپنی ہی موت کا سامان خرید رہا تھا۔کل اگر تم اور انکل مجھے ان مریضوں سے نہ ملواتے تو آنے والے کچھ سالوں میں خدانخواستہ میں بھی وہیں کسی بستر پر تکلیف سے تڑپ رہا ہوتا۔“سرمد نے خوف سے جھرجھری لی۔ولید نے اسے مزید بولنے دیا۔”میں کل وہاں سے واپس آنے کے بعد بے حد پچھتا رہا ہوں اور شرمندہ بھی ہوں کہ میں کس عادت کا شکار ہو چلا تھا۔میں تمھارا اور انکل کا بہت شکر گزار ہوں کہ تم لوگوں نے مجھے اور میرے والدین کو کتنی بڑی اذیت سے بچا لیا۔“سرمد روہانسا ہو کر ولید کے گلے لگ گیا۔ولید نے اسے محبت سے تھپکی دی تو وہ ہچکچاتے ہوئے بولا:”محلے کے جس لڑکے نے مجھے چھالیا کا عادی بنایا تھا،کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسے بھی کسی دن اس وارڈ کا دورہ کروا سکیں؟“ولید نے اس کے سوال پر مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔ " جنگل میں منگل - تحریر نمبر 2575,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jungle-mein-mangal-2575.html,"بشریٰ ناز ثاقب،کراچیزارا اور ساجد دونوں بھائی بہن گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اپنی نانی کے گھر گئے۔ان کی نانی کے گاؤں کے قریب ہی ایک جنگل تھا۔دونوں جب رات کو سو رہے تھے تو انھوں نے محسوس کیا کہ باہر کچھ آوازیں آ رہی ہیں۔دونوں باہر گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ایک درخت پر اُلو بیٹھا تھا۔بارہ سنگھا اور لومڑی باتیں کر رہے تھے اور مختلف جانور ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہے تھے۔سارے جانور ان دونوں کو دیکھنے لگے۔لومڑی نے دونوں کو دیکھ کر پوچھا:”کون ہو تم لوگ!ہم نے تم کو یہاں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔“”ہم یہاں اپنی نانی کے پاس گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آئے ہیں۔“زارا نے کہا۔اُلو نے کہا:”اچھا وہ بوڑھی خاتون تمہاری نانی ہیں۔(جاری ہے)وہ بہت اچھی ہیں۔دن کے وقت پرندوں کو پانی اور دانہ دیتی ہیں۔“”جی،انھیں جانوروں سے بہت پیار ہے،خاص طور پر پرندوں سے۔“بارہ سنگھے نے پوچھا:”تم لوگوں کو گاؤں زیادہ اچھا لگتا ہے یا شیر؟“ساجد بولا:”شہر میں بہت گرمی ہوتی ہے،تازہ ہوا سے لوگ محروم ہیں۔بارشوں کے بعد نالے بھر جاتے ہیں اور کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔یہاں گاؤں میں ٹھنڈی ہوا بھی ہے اور بارش میں خوبصورتی اور بڑھ جاتی ہے۔بارہ سنگھا بولا:”تو جب شہر میں اتنے مسائل ہیں تو تم لوگ شہر کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟“”ہمارے والد کی نوکری شہر میں ہے۔“”وہ بولا:”اچھا اچھا،تو تم لوگ،چھٹیوں میں تازہ ہوا کے مزے لینے آتے ہو؟“دیر تک جانوروں کے ساتھ باتیں کر کے دونوں نے جانوروں کو الوداع کہا۔لومڑی نے کہا:”تم دوبارہ ملنے آؤ گے ناں؟“ہاں ہم ضرور آئیں گے۔دونوں نے ایک ساتھ کہا اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ " کسان اور بادشاہ - تحریر نمبر 2574,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kisan-aur-badshah-2574.html,"محمد حامد مختارشیخ سعدی نے زندگی کا زیادہ تر حصہ علم حاصل کرنے اور سیر و سیاحت میں گزارا۔”گلستان“ اور ”بوستان“ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔شیخ سعدی ”بوستان“ میں فرماتے ہیں کہ ایک کسان جنگل سے گزر رہا تھا کہ شدید بارش کی وجہ سے پورے جنگل میں بہت کیچڑ تھا۔جنگل سے گزرتے ہوئے کسان کا گدھا کیچڑ میں پھنس گیا۔اس نے گدھے کو کیچڑ سے نکالنے کی تن تنہا بہت کوشش کی مگر سب رائیگاں گیا۔کسان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے کبھی کبھی جب انسان کو کچھ سمجھ نہیں آتا تو وہ اپنا غصہ بلاوجہ دوسروں پر نکالتا ہے۔اسی طرح ساری رات کسان پریشانی کے عالم میں سب جاننے والوں کو برا بھلا کہتا رہا۔اس کی زبان سے نہ دشمن بچا نہ دوست اور نہ ہی بادشاہ کیونکہ جنگل بادشاہ کی سلطنت کا حصہ تھا۔(جاری ہے)اتفاقاً بادشاہ کا اپنے غلاموں کے ساتھ جنگل سے گزر ہوا۔سب نے سنا کہ ایک کسان بادشاہ کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔اچانک کسان کی نظر بادشاہ پر پڑی وہ بہت پریشان ہوا کہ بادشاہ نے سب کچھ سن لیا۔اب اس کا انجام بہت برا ہو گا۔اسی وقت غلاموں نے بادشاہ کے کان بھرنا شروع کر دیئے۔ایک بولا:”اے بادشاہ!اس شخص کی گردن تلوار سے اُڑا دی جائے کیونکہ اس نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے“۔دوسرا غلام بولا”اے بادشاہ!اس کو قید خانے میں ڈال دیا جائے کیونکہ اس نے نہ صرف آپ کو برا بھلا کہا بلکہ آپ کے خاندان کی بھی برائی کی ہے۔“بادشاہ نے مجبور کسان کی طرف دیکھا۔جس کا گدھا کیچڑ میں پھنسا ہوا تھا۔بادشاہ کو کسان کی حالت پر رحم آ گیا۔اس نے کسان کی نامناسب باتوں کو معاف کر دیا اور اپنے غصے کو پی گیا۔بادشاہ نے کسان کو انعام و اکرام سے نوازا اور ایک سفید گھوڑا بھی انعام میں دیا۔پیارے بچو!ہمیں اس کہانی سے سبق ملتا ہے کہ سچ ہے کہ برائی کا بدلہ برائی سے دینا آسان ہے۔لیکن انسان کو چاہیے کہ برائی کا جواب بھلائی سے دے۔ " بوڑھیا کا ہار - تحریر نمبر 2573,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/burhiya-ka-haar-2573.html,"نعمان حیدردوپہر کا وقت تھا۔بارش کے سبب خنکی خنکی ہوا چل رہی تھی۔امی نے سلمان کو بازار سے سبزی لینے کا کہا تو وہ کودتا ہوا اپنی سائیکل پر بازار کی طرف روانہ ہو گیا۔سلمان والدین کا فرمانبردار اور بہت مہذب بیٹا تھا۔امی یا ابو کے منہ سے نکلے ہر حکم کو من و عن پورا کرتا تھا۔بازار جاتے ہوئے راستے میں سلمان سائیکل چلاتے چلاتے تھک گیا تو کچھ دیر سستانے کے لئے وہ سائیکل کھڑی کر کے ایک درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھ گیا۔اچانک اس کی نظر اس پرانے پرس پر پڑی جو قدرے بہتر حالت میں پڑا تھا۔سلمان سوچنے لگا کہ یہ پرس اٹھا لیتا ہوں گھر جا کر چھوٹی بہن مریم کو دوں گا۔وہ کئی بار امی سے پرس لینے کا کہہ چکی تھی۔سلمان نے پرس کو اُٹھایا پھونک ماری اور گرد و غبار صاف کرتے ہوئے جب پرس کھولا تو ہکا بکا رہ گیا۔(جاری ہے)اس پرس میں سونے کا ہار اور بہت ساری جیولری موجود تھی۔وہ بہت خوش ہو گیا مگر اس کے ذہن میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے پرس مالک تک پہنچانے کا تہیہ کر لیا۔کچھ دیر سستانے کے بعد وہ پرس جیب میں ڈال کر بازار کی طرف روانہ ہو گیا۔ابھی تھوڑا سا آگے بڑھا ہی ہو گا کہ سلمان کو راستے میں ایک پریشان بوڑھیا نظر آئی جو راستے میں کچھ تلاش کرتے ہوئے روئے جا رہی تھی۔سلمان کو شک ہو گیا کہ شاید وہ پرس اسی بوڑھیا کا ہے۔سلمان نے اس کے قریب سائیکل روک کر احتراماً کھڑے ہو کر دریافت کیا۔”اماں کیوں رو رہی ہیں؟کیا گم ہو گیا ہے؟“بوڑھیا نے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا”ارے!ننھے بچے میرا بیٹا بیمار ہے۔اس کے علاج کیلئے گھر کا سامان بیچنے جا رہی تھی کہ پریشانی کے سبب میرا پرس گم ہو گیا ہے بس اسی کو تلاش کر رہی ہوں۔“اس نے باتوں باتوں میں بوڑھیا سے دریافت کرتے ہوئے کہا۔”اماں جی اس پرس میں کیا تھا؟“یہ سن کر بوڑھیا کے چہرے پر آس و امید کے آثار نمایاں ہو گئے۔انہوں نے جلدی سے جواب دیا”بیٹا میرے جہیز میں جو سامان ملا وہ تو سارا ایک ایک کر کے بک گیا مگر ایک ہار بچا جسے بیچنے جا رہی تھی کہ گم ہو گیا“سلمان کو جب پورا یقین ہو گیا کہ اسے ہار کا اصل مالک مل گیا ہے تو اس نے جیب سے پرس نکالتے ہوئے بوڑھیا سے کہا”اماں جی یہ دیکھیں یہی پرس تھا نا“یہ سن کر بوڑھیا نے جھولی اٹھا کر نگاہیں بلند کیں اور سلمان کیلئے رو رو کر دعائیں مانگنے لگی۔سلمان کو بھی دلی خوشی ہوئی کہ اب اس کے بیٹے کا علاج ہو جائے گا۔وہ بوڑھیا کے ساتھ بازار کی طرف چل دیئے۔بازار پہنچنے ہی والے تھے کہ سلمان کو کال کر کے ایک شخص نے بتایا کہ آپ ہسپتال پہنچیں۔آپ کے بابا جان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔یہ سن کر وہ رونے لگا اور بوڑھیا کو ساری بات بتا دی۔بوڑھیا بھی سلمان کے ساتھ ہسپتال چل دی کیونکہ ان کا بیٹا بھی وہیں زیر علاج تھا۔ہسپتال پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ڈاکٹرز نے بتایا کہ سلمان کے ابو جان کی طبیعت کنٹرول سے باہر ہے اس کا آپریشن ہو گا۔جس کیلئے ایک لاکھ روپے لگیں گے۔سلمان پریشان تھا کہ اب وہ اتنے پیسے کہاں سے لائے؟سلمان پریشانی کے عالم میں تھا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔اتنے میں بوڑھیا بولی”یہ لو بیٹا یہ ہار بیچ دو اور اپنے ابو کا علاج کراؤ۔اب مزید دیر نہیں ہو سکتی۔میرے بیٹے سے بھی آپ کے بابا کی جان قیمتی ہے کیونکہ آپ نے مجھے میرا پرس دے کر اپنا فرض پورا کیا“بوڑھیا کا ہار اور جیولری دو لاکھ میں بکے جس سے سلمان نے اپنے ابو جان کا علاج کروایا اور باقی پیسے اماں جی کو لٹا دیئے اور اس کے بیٹے کے علاج کا بھی بندوبست ہو گیا۔اس طرح دونوں کی جانیں بچ گئیں۔سلمان کو اپنی نیک نیت اور اچھائی کا بدلہ مل گیا۔ " کہنا بڑوں کا مانو - تحریر نمبر 2572,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kehna-baron-ka-mano-2572.html,"شاہ بہرام انصاریموسم گرما کی آدھی چھٹیاں گزر چکی تھیں۔دیگر بچوں کی طرح حسن بھی اپنی چھٹیوں کو انجوائے کر رہا تھا۔اس کے ابو اپنی مصروفیات کے باعث اسے کہیں چھٹیاں گزارنے نہ لے جا سکے چنانچہ وہ گھر پر ہی لطف اندوز ہو رہا تھا۔وہ پڑھائی میں تو اچھا تھا لیکن ساتھ کھیل کود کا بھی بے حد شوقین تھا۔اس نے چھٹیوں کا کافی ہوم ورک کر لیا تھا اور اب سارا دن کھیلتا رہتا تھا۔اس کی امی اسے سمجھاتیں کہ بیٹا!گرمیوں میں اتنا کھیل کود اچھا نہیں ہوتا۔دوپہر کو مت باہر جایا کرو بلکہ شام کے وقت دوستوں کے ساتھ کھیل لیا کرو۔اگر تم نے سکول کا کام کر لیا ہے تو اسے یاد کر لو تاکہ چھٹیوں کے فوراً بعد ہونے والے امتحان میں کامیاب ہو سکو حسن اطمینان و لاپروائی سے جواب دیتا:”امی میں نے کافی سارا ہوم ورک کر لیا ہے،تھوڑا سا باقی ہے،وہ بھی کر لوں گا۔(جاری ہے)ابھی تو بہت ساری چھٹیاں باقی ہیں۔“اس کا خیال تھا کہ گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہی کھیلنے کودنے کے لئے ہیں۔ایک دن دوپہر کو تمام گھر والے کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے۔حسن نے چپکے سے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور جب اسے یہ اطمینان ہو گیا کہ سب گھر والے سو چکے ہیں اور اسے کوئی نہیں دیکھ رہا تو وہ دبے پاؤں گھر سے باہر نکل گیا۔حسن کی طرح چند دوسرے بچے بھی گلی میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔انہوں نے حسن کو بھی کھیلنے کی دعوت دی جو اس نے اسی وقت قبول کر لی۔شدید گرمی تھی،گلی میں دور تک ویرانی تھی جبکہ وہ مزے سے اپنے کھیل میں مگن تھے حسن کو کھیلے ہوئے ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اسے چکر سا آیا اور اس کا سر گھومنے لگا۔دوستوں نے اسے سنبھالا تو وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔وہ اسے پکڑ کر ان کے گھر لے گئے اور اس کی امی کو تمام ماجرا سنایا۔انہوں نے فوراً حسن کو بیڈ پر لٹایا اور اسے پانی کے چھینٹے مارے جس سے اس کے حواس ذرا بحال ہوئے امی نے جلدی سے ڈاکٹر کو فون کر دیا تاکہ معلوم ہو کہ اسے کیا ہوا شکر ہے کہ ڈاکٹر صاحب مل گئے۔انہوں نے حسن کا چیک اپ کیا اور چند دوائیاں دیں۔ساتھ ہی یہ نصیحت بھی کی کہ گرمی کی وجہ سے اسے چکر آ گیا تھا اسی لئے آئندہ دوپہر کو ہر گز مت کھیلے ورنہ دوبارہ یہی معاملہ پیش آ سکتا ہے۔ڈاکٹر چلے گئے تو امی نے حسن کو فریج سے ٹھنڈا ملک شیک نکال کر پلایا اور اسے پیار سے سمجھانے لگیں:”دیکھا بیٹا!میں نے آپ سے کہا تھا ناکہ گرمی میں کھیل کود کرنے سے بچوں کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔آپ نے میری بات نہ مانی اور دوپہر کو باہر کھیلنے نکل گئے۔یہ کہنا نہ ماننے کی سزا ہے لیکن آئندہ شام کے وقت کھیلنا“ حسن نے امی سے وعدہ کیا کہ وہ باقی چھٹیاں ان کی نصیحت کے مطابق گزارے گا اب وہ صبح سکول کا کام کرتا ہے،دوپہر کو آرام کرتا ہے اور صرف شام کو کھیلتا ہے۔ساتھیو!گرمیوں کا موسم عروج پر ہے چھٹیوں کا یہ مقصد نہیں کہ آپ ہر وقت کھیلتے رہیں ورنہ آپ کو گرمی لگ سکتی ہے۔دھوپ میں مت کھلیں اور پوری دلچسپی سے سکول کا کام کریں۔امید ہے اس نصیحت کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اُڑانے والا کام نہیں کریں گے خدا آپ تمام بچوں کو سلامت اور ہنستا مسکراتا رکھے۔آمین " جنگل میں سیلاب آیا - تحریر نمبر 2571,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jungle-mein-selab-aaya-2571.html,"روبینہ ناز”سومی شہزادی مجھے یقین تھا کہ آپ ہماری مدد کے لئے ضرور آئیں گی“ گلہری بولی گینڈا اپنے بچوں کو لے کر ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا۔پانی ان کے کندھوں کو چھو رہا تھا۔چڑیا اور کوئل اپنے بچوں کے ساتھ درخت پر کانپ رہی تھیں۔زبیر اپنے ڈر سے سہمے بچوں کو بہلا رہا تھا۔کوا اپنے گھر کی تباہی پر زار و قطار رو رہا تھا اس کا بچہ اس طوفانی بارش میں گم ہو گیا تھا سومی نے اسے تسلی دی۔لالی اور ہاتھی نے سب پرندوں اور جانوروں کو باری باری کشتی میں بٹھانا شروع کیا اتنے میں سومی کوے کے نیم بے ہوش بچے کو لے آئی۔الو نے اپنی پوٹلی سے دوا نکال کہ اس کے منہ میں انڈیل دی اور اسے ہوش آ گیا۔سومی ان سب کو جنگل لے آئی جہاں خیمے لگے تھے۔ان سب کو کھانا پیش کیا۔(جاری ہے)کھانے کے بعد وہ اپنے بچوں کے ساتھ آرام دہ بستر پر لیٹ گئے۔”ہم نے بہت مشکل سے اپنے گھر بنائے تھے اب دوبارہ سے ہمیں محنت کرنی ہو گی چڑیا یہ کہہ کر رونے لگی۔“”تم پریشان نہ ہو پیاری چڑیا!ہم سب تمہارا گھر بنانے میں تمہاری مدد کریں گے۔“سومی کی بات سن کر سب نے اسے تسلی دی کہ وہ پریشان نہ ہو اس آزمائش کی گھڑی میں وہ سب ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور ناصرف ایک دوسرے کی مالی مدد کریں گے بلکہ جنگل کو دوبارہ سے آباد کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔”سومی جنگل کی بحالی کے بعد ہم آئندہ ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے بچاؤ کے لئے اہم اقدامات اٹھائیں گے تاکہ ہمیں آنے والے سالوں میں ایسی تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑے“ انکل ہاتھی نے کہا۔”بالکل ایسا ہی کریں گے اور اس آزمائش کی گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔“زرافہ نے کہا۔ان سب کے خیالات سن کر سومی خوش ہوئی وہ جان گئی تھی کہ اس کے تمام دوست مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ رکھتے ہیں۔ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔کیونکہ اس بات سے اللہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ " حسن کا بکرا - تحریر نمبر 2570,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hassan-ka-bakra-2570.html,"حبیبہ شہزاد،لاہورمویشی منڈی حسن کے گھر کے قریب تھی۔ٹرک سے قربانی کے لئے لائے جانے والے بکرے منڈی میں اُتارے جا رہے تھے۔اس نے دیکھا کہ کچھ بکرے آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔اس نے ٹرک والے سے پوچھا کہ یہ آہستہ کیوں چل رہے ہیں؟اس شخص نے حسن کو بتایا:”بیٹا!یہ بکرے بہت دور سے ٹرک میں بھر کر لائے جاتے ہیں اور مختلف شہروں کی منڈیوں میں اُتارے جاتے ہیں اور چونکہ بہت دیر بعد اُتارے جاتے ہیں،اس لئے یہ کھڑے کھڑے جاتے گئے ہیں۔حسن کو اس میں سے ایک بکرا نہایت خوبصورت لگا۔جب وہ گھر گیا اور ابو کا پوچھا تو اس کی امی نے بتایا کہ وہ تو عیدِ قرباں کے لئے جانور لینے گئے ہیں۔حسن بہت اُداس ہوا،کیونکہ اس نے سوچا تھا کہ ابو کے ساتھ جا کر وہی بکرا لے گا جو اسے پسند آیا تھا۔(جاری ہے)اس نے ابو کو بہت فون کیے،لیکن شاید منڈی میں شور کی وجہ سے وہ فون نہ سن سکے تھے۔حسن اور بھی اُداس ہو گیا،کیونکہ اسے وہ بکرا بہت پسند آ گیا تھا۔اس کا پَل پَل بے چین گزر رہا تھا۔پھر اس نے دروازے پر گھنٹی کی آواز سنی۔وہ اُداس دل کے ساتھ دروازہ کھولنے گیا تو ابو اور اُن کے ساتھ بکرے کو دیکھ کر خوشی سے جھوم اُٹھا کیونکہ یہ وہی بکرا تھا،جو حسن کو پسند آیا تھا۔حسن نے ابو کو سارا ماجرا سنایا اور بکرے کی رسی پکڑ کر اسے گھمانے لے گیا۔ " پہلی چوری - تحریر نمبر 2568,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pehli-chori-2568.html,"نیما گل”صاحب!میری والدہ سخت بیمار ہیں،اس وقت اسپتال میں داخل ہیں۔کیا تنخواہ میں سے کچھ رقم پیشگی مل سکتی ہے؟“چوکیدار احمد علی کو اپنے مالک سے کسی مدد کی اُمید تو نہ تھی،مگر پھر بھی ایک آس کے تحت پوچھا تھا۔”افوہ،تم لوگوں کے ہر روز کے مسائل نے بڑا تنگ کیا ہوا ہے۔ابھی دو دن پہلے مالی نے پیشگی تنخواہ مانگی ہے۔تم لوگ جو کام کرتے ہو،اس کی تنخواہ ہر ماہ باقاعدگی سے وقت پر تم کو مل جاتی ہے،بس اس سے زیادہ مجھ سے کوئی اُمید نہ رکھو۔“چوہدری کرامت خان کی کنجوسی،بے رحم طبیعت سے کون واقف نہ تھا۔وہ اپنے گھر اور خاندان کے لئے تو لاکھوں لُٹا دیتے تھے،مگر کبھی کسی فقیر،کسی ضرورت مند کو ایک روپیہ نہ دیتے تھے،اُلٹا اس کی بے عزتی کرتے اور ان کی مجبوریوں کو جھوٹ قرار دیتے تھے۔(جاری ہے)احمد علی بوجھل دل سے واپس گیٹ پر اپنی ڈیوٹی دینے آیا تو مالی باغ کی صفائی کر رہا تھا۔اُسے دیکھ کر اس کے پاس آیا:”کیا ہوا․․․․؟نہیں دیے ناں مالک نے تم کو بھی پیسے؟“”نہیں بھائی!بہت ضرورت تھی․․․․پتا نہیں اب کیا ہو گا؟اماں اسپتال میں ہیں اور․․․․․“”مجھے بھی سخت ضرورت تھی۔بیٹے کی اسکول کی فیس دینی تھی اور مکان کی چھت گر گئی تھی،فوری مرمت کرنی تھی۔“”پھر کیا ہوا؟“احمد نے پوچھا۔”کچھ نہیں ہوا،بچے کو اسکول سے نکال دیا گیا۔“”اوہ․․․․․“احمد کا دل مزید دکھ گیا۔”ہم غریب،مجبور لوگ کیا کر سکتے ہیں؟“وہ مایوسی سے بولا۔”چوری۔“مالی نے فیصلہ کن انداز میں آہستگی سے کہا۔”چوری․․․․․؟“احمد چونکا۔”ہاں،چوری۔میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔باقی تمہاری مرضی ہے،ساتھ دو یا نہ دو۔کل صبح کرامت خان اپنے گھر والوں کے ساتھ دو دن کے لئے دوسرے شہر جا رہا ہے۔“”پھر․․․․؟“احمد کا دل دھک دھک کرنے لگا۔”پھر کیا․․․․․میں دروازے کا شیشہ توڑ کر اندر جاؤں گا اور وہ چار چیزیں اُٹھا لوں گا،ان کے گھر کی معمولی چیز بھی ہزاروں میں بکے گی۔مجھے لالچ نہیں صرف ضرورت پوری کرنی ہے۔تمہاری اس وقت ڈیوٹی نہ ہو گی،اتنی مہربانی کرنا کہ اگر ساتھ نہ دو تو بس چپ رہنا․․․․․اور اگر تمہیں بھی آنا ہو تو کل صبح فجر سے پہلے گھر کے پیچھے پہنچ جانا۔“مالی اتنا کہہ کر تیزی سے اپنا کام کرنے چلا گیا،مگر احمد کا دماغ سن ہو گیا تھا۔رات کو بنگلے کی ڈیوٹی ختم کرتے ہی وہ سیدھا اسپتال پہنچا،جہاں اس کی بیمار ماں کو دواؤں کی سخت ضرورت تھی اور اس کی جیب میں کچھ بھی نہ تھا۔”کیا ہوا؟مالک نے کچھ پیسے دیے؟“اس کی بیوی نے بڑی اُمید سے پوچھا۔اس نے انکار میں سر ہلا دیا۔”مگر کل ضرور پیسے مل جائیں گے۔“وہ یقین سے بولا۔صبح ہونے میں ابھی کچھ دیر تھی۔مالی واردات کرنے بنگلے پر پہنچا تو اسے احمد علی کو وہاں دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔”ارے تم!تم تو بہت ایماندار اور وفادار انسان ہو۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم آ جاؤ گے۔“”بس مجبوری اور ضرورت ہی وفاداری کا امتحان ہوتی ہے۔“وہ دکھ سے بولا:”اچھا یہ بتاؤ کرنا کیا ہے؟“”پہلے تو دیوار پھاند کر اندر جاتے ہیں۔“”ٹھیک ہے۔“مالی کے پیچھے پیچھے وہ بھی گھر میں داخل ہو گیا۔اندر جانے کا دروازہ مضبوط شیشے کا تھا اور کھڑکیاں بھی،مگر مالی نے کل شام ایک کھڑکی کی کُنڈی کھول دی تھی۔اُسے دھکا دیا تو وہ کھل گئی اور دونوں گھر کے اندر داخل ہو گئے۔مالی اپنے ساتھ کپڑے کا بڑا تھیلا لے آیا تھا،جس میں اس نے ایک ایک کر کے گھر کے قیمتی لیمپ شوپیس اور دوسری چیزیں ڈالنی شروع کر دیں۔اسی وقت باہر سائرن بجا اور پولیس آ گئی۔اُن کو بھاگنے کا موقع نہ ملا،کرامت خان خود بھی پولیس کے ساتھ پہنچ گئی۔پولیس صرف مالی کو پکڑ کر لے گئی۔”شکریہ احمد علی!“وہ زندگی میں پہلی دفعہ اپنے کسی ملازم سے نرم لہجے میں شرمندگی سے مخاطب ہوا:”تم نے نہ صرف وفاداری نباہی،بلکہ مجھے ہمیشہ کے لئے اپنا احسان مند بنا لیا ہے۔“کرامت خان نے ایک بھاری رقم اس کے حوالے کی:”یہ لو،یہ تمہاری وفاداری کا انعام بھی ہے اور تمہارا حق بھی۔“انھوں نے کچھ اور رقم اس کے حوالے کی:”یہ مالی کے گھر والوں کو دے دینا۔وہ غریب اور ضرورت مند ہے۔میری ہی غلطی تھی کہ مانگنے پر اس کی مدد نہ کی،مگر بہرحال․․․․ضرورت میں بھی چوری کرنا تو جائز نہیں۔تم یہ رقم آج ہی اس کے گھر پہنچا دو۔اسے اس کی غلطی کا احساس دلانے کے لئے کچھ حوالات میں رکھنا ہے،پھر اسے چھوڑ دیا جائے گا۔“واقعی دو دن بعد مالی آزاد ہو کر سیدھا کرامت خان کے گھر پہنچا اور ان سے معافی طلب کی۔انھوں نے اسے معاف تو کر دیا،مگر دوبارہ کام پر نہ رکھا،کیونکہ وہ اب ان کے بھروسے کے قابل نہ رہا تھا۔اس واقعے کے بعد احمد علی نے کرامت خان کو بالکل بدلا ہوا پایا۔وہ اپنے تمام ملازمین کی ضرورت کا ہر ممکن خیال رکھتے۔ان کی مالی مدد کرتے رہتے۔اب ان کا رویہ غریب لوگوں سے بدل گیا اور اس سبب اللہ نے ان کے کاروبار میں بہت ترقی دی۔ " آزادی کی کہانی دادا جان کی زبانی (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2567,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azadi-ki-kahani-dada-jaan-ki-zubani-pehla-hissa-2567.html,"حافظ غلام صابر14 اگست کا دن ایک خاص اہمیت کا حامل اور حب الوطنی کے جذبے سے بھرپور ایک یادگار دن ہے۔اسی دن برصغیر کے مسلمانوں کے نحیف و نزار لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنی ذہانت،فطانت،دیانت،جہدِ مسلسل اور عظیم قائدانہ صلاحیتوں کے زور پر انگریزوں اور ہندوؤں کو چاروں شانے چت کر کے ہمارے لئے الگ وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔جب ہزاروں خاندانوں نے اپنی جائے پیدائش،گھر بار،کاروبار سب کچھ چھوڑ کر ایک نئے وطن کی طرف ہجرت کی اور ان دیکھی سر زمین کی طرف نئی امیدوں کے ساتھ چل پڑے۔لاکھوں افراد اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔نجانے کتنے بچے اپنی ماؤں سے جدا ہو گئے کتنی بہنوں،بیٹیوں،ماؤں کو وحشیانہ آبروریزی کے بعد ذبح کر دیا گیا۔(جاری ہے)اس ملک کی بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کا خون شامل ہے لیکن بدقسمتی سے آج کے نوجوان مملکتِ خداداد پاکستان کے قیام کے مقاصد کے لئے دی جانے والی عظیم قربانیوں کو فراموش کر چکے ہیں۔آج بھی پاکستان کے حصول کیلئے دی جانے والی قربانیوں کی یاد کو زندہ رکھنا انتہائی ضروری ہے اس ملک کے قیام کے پیچھے ہزاروں لرزہ خیز کہانیاں دفن ہیں۔ان کہانیوں میں ایک کہانی لاہور کے علاقہ گڑھی شاہو میں مقیم راقم الحروف کے دادا محمد رمضان کی ہے۔جب میں نے اپنے دادا سے یہ داستان سنی تو اس وقت ان کی عمر بیاسی (82) سال تھی۔برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کو 50 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن اس تقسیم کے نتیجے میں محمد رمضان اور ان کے خاندان پر گزرنے والی قیامت کا ایک ایک لمحہ ان کے ذہن پر نقش تھا۔تقسیم کے دوران گزرنے والی قیامت صغریٰ کے واقعات محمد رمضان کی زبانی سنتے ہیں۔”میرا خاندان برصغیر کی تقسیم سے پہلے امرتسر کے مشہور علاقہ خزانہ گیٹ کا رہائشی تھا تقسیمِ ہند کے وقت میری عمر اٹھائیس،انتیس سال تھی۔میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔امرتسر میں ہمارا چارپائیاں بنانے اور برتن قلعی کرنے کا وسیع کاروبار تھا۔پاکستان کا قیام 26 ماہ رمضان المبارک 1368ھ بمطابق 14 اگست 1947ء عمل میں آیا۔یہ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص مصلحت یا مشیت کی طرف اشارہ تھا کیونکہ یہ رات لیلة القدر تھی۔اگلا دن 27 رمضان المبارک اور جمعة الوداع تھا اور اس کے تین روز بعد عید الفطر آنے والی تھی۔مسلمانوں کیلئے یہ ہر اعتبار سے ایک مبارک رات،مبارک دن اور مبارک ماہ تھا۔پورے ہندوستان کے مسلمان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔جشنِ آزادی کی تیاریوں میں مبارک بادیں دی اور لی جا رہی تھیں۔نعرہ تکبیر بلند ہو رہے تھے۔گلی گلی،گاؤں گاؤں اور شہر شہر‘پاکستان زندہ باد‘ اور ’قائد اعظم زندہ باد‘ کے فلک شگاف نعرے گونج رہے تھے۔دوسری جانب ہندوؤں اور سکھوں کے سینے پر سانپ لوٹ رہے تھے۔ان کے ہاں سوگ برپا ہو گیا،صفِ ماتم بچھ گئی اور آہ و بکا شروع ہو گئی۔تقسیمِ ہند کے اعلان کے بعد پورے پنجاب میں ہندو،سکھ مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔15 اگست 1947ء کو ہمارے گاؤں کے مسلمانوں سکھوں کے مظالم کے ڈر سے اپنی عزتوں اور زندگیوں کو بچانے کی کوشش میں بے سر و سامانی کے عالم میں اپنے گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی طرف روانہ ہوئے۔ابھی چند کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا کہ سکھوں کے ایک مسلح جتھے نے ہمارے قافلے پر بندوقوں تلواروں،کرپانوں،نیزوں،برچھیوں اور کلہاڑیوں سے حملہ کر دیا اس حملے میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کے دفاع کے لئے قافلے کے ہم چند مسلمانوں جوان سینہ تان کر سکھوں کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے۔اس موقع پر ہمارے کئی نوجوان ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا اور قافلے کے تمام لوگ ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر گئے۔ہر طرف بربریت کا راج تھا اسی ظلم و ستم اور غارت گری میں مجھ سمیت سینکڑوں افراد اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔(جاری ہے) " شبنم کا قلم - تحریر نمبر 2565,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shabnam-ka-qalam-2565.html,"جدون ادیبمیں جماعت چہارم میں اردو کا پیریڈ لے رہا تھا۔اس اسکول میں آئے ہوئے مجھے ایک ہی ہفتہ ہوا تھا۔رواں لکھائی والے قلم مجھے بہت پسند تھے۔میں بڑی تعداد میں ایسے قلم اپنے پاس رکھتا تھا،مگر پھر بھی کسی کے پاس اچھا قلم دیکھتا تو اسے حاصل کرنے کو دل چاہتا تھا۔اس دن بھی یہی ہوا کہ ایک طالبہ شبنم کے قلم کی تعریف کر دی اور اس بچی نے ایک لمحہ تاخیر کیے بغیر وہ قلم مجھے تحفتاً پیش کر دیا۔رسماً میں نے انکار کیا،لیکن پھر قبول کر لیا۔پھر بھی مجھے احساس ہوا کہ میں نے جلدی کی ہے اور خود غرضی کا مظاہرہ بھی اور اس کے بعد مجھے شرمندگی محسوس ہوئی اور میں نے شبنم سے کہا کہ وہ اپنا قلم واپس لے لے،مگر اس نے قلم واپس لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ دیا ہوا تحفہ واپس نہیں لیتے!میں نے کچھ پیسے دینے کی کوشش کی تو وہ خفا ہونے لگی۔(جاری ہے)اس کے بعد بھی میں نے شبنم کو اس کے قلم کے بدلے دوسرے قلم دینے کی کوشش کی،مگر وہ نہ مانی۔کچھ دنوں بعد میں نے وہ اسکول چھوڑ دیا،مگر قلم میرے پاس رہا اور سچ پوچھیے تو وہ بہت پیارا قلم تھا۔زیادہ قیمتی نہیں تھا،مگر روانی کی وجہ سے میرے لئے بہت اہمیت اختیار کر گیا اور کئی سال تک میں نے اس سے بچوں کی کاپیوں کی جانچ پڑتال کی تھی۔دو ماہ بعد بھی قلم اُٹھایا تو وہ ایک دم سے لکھنے لگا۔سیاہی کے آخری قطرے تک وہ رواں اور ایک جیسا لکھتا تھا۔وہ قلم میرے پاس دس سال رہا۔بار بار اسے میں نے ٹھیک کروایا۔اس دوران میں اس جیسا قلم پانے کے لئے میں نے لاتعداد قلم خریدے،مگر اس قلم کے معیار کو کوئی نہ پہنچ سکا۔آخر ایک دن وہ پین مجھ سے گم ہو گیا۔دراصل قلم کا ڈھکن خراب ہو گیا تھا اور جیب میں کہیں سیاہی نہ گر جائے اس لئے وہ قلم میں نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا اور رکشے میں سامان کے ساتھ تھا۔گھر پہنچ کر سامان تو اُٹھا لیا،مگر وہ قلم وہیں رہ گیا۔مجھے اس قلم کے کھونے کا اتنا صدمہ ہوا کہ میں ہر کسی سے اس کا ذکر کرنے لگا۔کئی رکشے والوں سے بھی پوچھا،مگر وہ قلم نہ ملا۔میں نے ایک ایک کر کے کئی قلم بدلے،مگر اس قلم جیسی بات پیدا نہ ہو سکی۔پھر ایک دن مجھے اس اسکول میں ایک تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے بلایا گیا۔میں وہاں پر بھی اپنے قلم کا ذکر کرنے سے خود کو باز نہ رکھ سکا۔تقریب کے بعد ایک ٹیچر نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کیا۔اس نے بتایا کہ وہ میری شاگرد ہے اور اسی اسکول میں پڑھاتی ہے۔ہماری ملاقات ہوئی،جس میں تعلیمی مسائل پر بات ہوئی،میں اس کا نام نہ جان سکا۔جاتے جاتے اس نے مجھے ایک تحفہ پیش کیا۔گھر پہنچ کر میں نے ڈبا کھولا تو اس میں کاغذ میں لپٹا ایک قلم اور ایک خط تھا۔پہلے میں نے خط پڑھنا شروع کیا،لکھا تھا:استاد محترم!آپ نے مجھے پڑھایا اور اچھی اچھی باتیں بتا کر میری زندگی سنوار دی۔آپ سے متاثر ہو کر میں ٹیچر بنی اور آپ کے انداز سے پڑھانے کی کوشش کرتی ہوں۔آج آپ کی پریشانی دیکھی تو مجھ سے رہا نہ گیا۔میرے والد رکشا چلاتے ہیں۔ان کو ایک قلم ملا تھا جو انھوں نے مجھے دے دیا اور اب وہی قلم آپ کو لوٹا رہی ہوں۔آپ کی بیٹی،شبنم۔میں نے بے تابی سے کاغذ کھولا تو اندر وہی قلم موجود تھا۔اس خود دار لڑکی نے میرا شکریہ تک سننے کی زحمت گوارہ نہ کی کہ کہیں میں شرمندہ نہ ہو جاؤں اور وہ پھر مجھ پر احسان کر کے چلی گئی۔افسوس یہ تھا کہ میں اسے پہچان نہ سکا۔میں نے قلم کو چوم لیا اور میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ " زینب اور مانو - تحریر نمبر 2564,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zainab-aur-mano-2564.html,"عاصمہ ثاقبایک تھی مانو بلی‘جو کسی کی چہیتی یا لاڈلی نہ تھی۔اس نے شہر کے ایک کباڑ خانے میں آنکھ کھولی اور پھر اپنی ماں اور دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ مختلف جگہوں کی تبدیلی کے بعد ایک قصاب کی دکان کے پاس رہنے لگی۔وہ ذرا بڑی ہوئی تو ایک دن اس کی بہن رانو بلی کو ایک بہت پیاری سی بچی ایک بڑی سی گاڑی میں بیٹھا کر لے گئی اور اس کا بھائی خونخوار کتے کے ہاتھوں دنیا سے رخصت ہو گیا۔وہ ذرا بڑی ہوئی تو اس کی ماں اسے چھوڑ کر چلی گئی۔مانو بلی کئی بار اپنی ماں کے پاس گئی کہ شاید اسے پہچان لے لیکن وہ اسے ہمیشہ اجنبی بن کر ملتی اور مار پیٹ کر بھگا دیتی۔مانو بلی نے بھی آہستہ آہستہ اپنی ماں کو بھلا دیا اور یوں ہی گلیوں میں آوارہ پھرنے لگی۔(جاری ہے)ایک دن اچانک اس نے اپنی بہن رانو بلی کو دیکھا جو ایک بہت بڑے سے لان میں گھاس پر بیٹھی دودھ پی رہی تھی۔مانو بلی فوراً آگے بڑھی اور اسے پکارا لیکن اس نے بھی بہن کو پہچاننے سے انکار کر دیا اور اسے اپنے گھر سے نکال دیا۔مانو بلی کا دل ٹوٹ گیا۔وہ باہر نکلی تو ایک شریر بچے نے نشانہ لے کر ایک پتھر اسے دے مارا۔پتھر اس کی ٹانگ پر لگا اور وہ لنگڑا کر گر پڑی۔بچے کے ساتھی اس کے اس سنہری کارنامے پر قہقہے لگانے لگے۔مانو بلی بڑی مشکل سے اٹھی اور اپنی زخمی ٹانگ کے ساتھ بھاگ کھڑی ہوئی کہ کہیں باقی بچے بھی پتھر لے کر اس پر اپنا نشانہ نہ آزمانے لگیں۔اسے انسانوں پر غصہ آنے لگا کہ وہ کس دیدہ دلیری سے ہم جیسے معصوم جانوروں پر ظلم کرتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔وہ اپنی زخمی ٹانگ کے ساتھ ایک گھر میں داخل ہوئی تو وہاں ایک مہربان بچی سے اس کا واسطہ پڑا جس کا نام زینب تھا۔زینب کو اس کی حالت پر بہت ترس آیا۔کچھ دیر بعد وہ اس کیلئے ایک پیالے میں دودھ لے آئی۔مانو پہلے تو جھجکی اسے بھوک بھی زوروں کی لگی ہوئی تھی۔مانو بلی نے تھوڑا سا دودھ پیا تو اس کی بھوک اور زیادہ جاگ اُٹھی۔اس نے جلد ہی سارا دودھ پی لیا اور لیٹ گئی۔زینب اندر چلی گئی تو مانو بلی نے بھاگنے کا سوچا مگر اپنے اس نئے مہربان دوست کو چھوڑنے کو اس کا جی نہ چاہا۔آخر زینب آئی تو اس کے ہاتھ میں مرہم پٹی تھی۔مرہم پٹی ہونے کے بعد مانو بلی کو کچھ سکون ہوا تو وہ سو گئی۔اگلے دن زینب اسے اپنے گھر کے اندر لے گئی۔اس کے والدین بھی مانو بلی کو مہربان اور اچھے معلوم ہوئے،چنانچہ جلد ہی وہ اس گھر میں گھر کے ایک فرد کی طرح رہنے لگی۔مانو بلی کا دل وہاں لگ گیا۔ان سب کی مہربانیوں کا صلہ اس نے یہ دیا کہ اس گھر میں سے تمام چوہوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔لال بیگ اور دوسرے کیڑے مکوڑے بھی اس نے ختم کر ڈالے۔جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی چوہوں کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ان کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہوتا۔مانو بلی جھٹ انہیں پکڑتی اور کھا جاتی۔اچھا کھانا‘آرام اور سب کی توجہ ملنے لگی تو مانو بلی آہستہ آہستہ کام چور ہونے لگی۔کھا پی کر وہ سارا دن اور رات سوتی رہتی۔اکثر چوری چھپے دودھ بھی پی لیتی۔کبھی دوسری چیزیں بھی چپکے سے ہڑپ کر جاتی۔زیادہ کھانے کی وجہ سے مانو بلی بہت موٹی ہو گئی۔چلنا پھرنا اس کے لئے دوبھر ہو گیا۔ایک روز چوہوں نے باورچی خانے میں ہلا بولا تو مانو بلی ان کے پیچھے دوڑی،مگر جلد ہی تھک گئی۔چوہے بھی مانو بلی کی کمزوری جان گئے تھے وہ ہر روز اِدھر اُدھر پھرتے اور مانو بلی انہیں پکڑ نہ پاتی‘کیونکہ وہ بہت موٹی ہو گئی تھی۔دوڑنے سے اس کا سانس پھول جاتا اور وہ تھک جاتی۔ایک دن اس نے گھر والوں کو کہتے سنا کہ مانو بلی کو واپس چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ یہ کسی کام کی نہیں رہی۔اتنا سن کر اس کے ہوش اڑ گئے۔اسے اپنا گلیوں میں پھرنا،شرارتی بچے کا پتھر مارنا اور غریبی کے دن یاد آ گئے۔اسے انسانوں کی خود غرضی پر غصہ آیا لیکن قصور اس کا اپنا بھی تھا۔چنانچہ اگلے دن سے اس نے زیادہ کھانا پینا چھوڑ دیا اور باقاعدگی سے روزانہ بھاگنا‘ورزش کرنا شروع کر دی۔سستی کاہلی چھوڑ کر کام کو اپنا لیا اور پھر جلد ہی وہ دوبارہ چوہوں کے لئے خطرے کا نشان اور گھر والوں کی آنکھ کا تارا بن گئی۔پیارے بچو!آپ بھی سستی چھوڑیں،دل لگا کر پڑھیں اور اپنے ماں باپ کی آنکھ کا تارا بنیں۔ " بے شک اللہ سب کی سنتے ہیں - تحریر نمبر 2563,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/beshak-allah-sab-ki-sunte-hain-2563.html,"مریم نورینعلی اور عائشہ کی شادی کو دس سال ہو چکے تھے مگر ابھی تک وہ اولاد جیسی نعمت سے محروم تھے۔کافی علاج معالجہ کروایا مگر افاقہ نہ ہوا تو اب اللہ کی مرضی سمجھ کر دونوں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا اس بات پر دونوں اکثر افسردہ رہتے مگر دونوں کے پیار میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔علی ایک نیک اور ایمان دار بندہ تھا جو محنت مزدوری کر کے اپنے گھر کا خرچہ چلا رہا تھا۔اگرچہ علی کو مزدوری زیادہ تو نہیں ملتی تھی مگر چونکہ عائشہ ایک سمجھ دار اور قناعت پسند عورت تھی لہٰذا وہ گھر کے معاملات کو سمجھ داری سے چلا رہی تھی اُس نے کبھی بھی علی سے کسی چیز کی فرمائش نہ کی اور نہ کبھی تنگ دستی کا ذکر کرتی۔مگر عائشہ جلد امیر ہونے کے خواب ضرور دیکھتی اور اللہ سے ہر دم حالات کی بہتری کی دعا کرتی رہتی۔(جاری ہے)ایک دن علی گھر سے نکلا تھوڑی دور گیا تھا کہ دیکھا ایک بوڑھا آدمی گلی کے کنارے بیٹھا ہے۔بوڑھے آدمی نے علی کو دیکھ کر پانی مانگا تو علی نے دکان سے گلاس میں پانی بھر کر اُس بوڑھے کو پلا دیا۔بوڑھے آدمی نے پانی پینے کے بعد علی کا شکریہ ادا کیا اور علی کو ڈھیروں دعائیں دیں۔چند دن بعد جب علی کام سے واپس گھر آ رہا تھا تو راستے میں اُسے ایک بیگ ملا،پہلے تو وہ اُس کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنے لگا مگر پھر فوراً سوچا کہ اب یہ اُس کی ذمہ داری ہے کہ مالک تلاش کرے۔یہ سوچ کر علی نے پہلے تو اِدھر اُدھر دیکھا جب کوئی نظر نہ آیا تو بیگ اُٹھا کر گھر آ گیا۔عائشہ نے علی کے ہاتھ میں پکڑے بیگ کو سوالیہ انداز میں دیکھا تو علی نے ساری بات بتا دی۔عائشہ نے فوراً علی کے ہاتھ سے بیگ پکڑا اور اُسے کھول دیا۔اندر نئے اور پرانے نوٹ ہی نوٹ تھے۔عائشہ اتنے نوٹ دیکھ کر گھبرا گئی اور جلدی سے بیگ بند کر کے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔عائشہ تجسس اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ علی کا چہرہ تکنے لگی جیسے پوچھ رہی ہو کہ ”اب کیا کرنا ہے“۔علی اُس کی دلی کیفیات سمجھ گیا اور فوراً بولا کہ ہمیں مالک کو تلاش کر کے یہ بیگ اُس تک پہنچانا ہے کیونکہ ہمارا دین امانت میں خیانت کو پسند نہیں کرتا اور دوسرے کے مال پر نظر رکھنا بھی ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔علی کی یہ بات سن کر عائشہ بولی کہ وقتی طور پر شیطان نے مجھے بہکانے کی کوشش کی تھی مگر اللہ کا شکر ہے کہ میں تمہاری بات سے ہوش میں آ گئی ہوں۔یہ کسی کی امانت اور ہماری آزمائش ہے۔ہم ان شاء اللہ اس آزمائش میں کامیاب ہوں گے۔دونوں نے بیگ کی جب تلاشی لی تو انہیں بیگ میں پڑا ایک کارڈ ملا جس پر کسی کا نام اور ٹیلی فون نمبر لکھا تھا۔علی نے اُس نمبر پر کال کر کے بات کی تو پتا چلا کہ وہ شخص اُس بیگ کا مالک تھا جو بیگ کے گم ہونے پر سخت پریشان تھا۔تھوڑی دیر بعد ایک شخص بڑی سی گاڑی میں علی کے گھر پہنچا۔علی نے اُس امیر آدمی کو بیگ پکڑایا اور معصومیت سے بولا”آپ نوٹ گن لیں،ہم نے کچھ نہیں لیا“۔”مجھے آپ پر یقین ہے“ یہ کہہ کر اُس آدمی نے بیگ پکڑ کر کھولا اور ڈھیر سارے نوٹ نکال کر علی کو دیتے ہوئے اُس کا شکریہ ادا کیا۔علی اور عائشہ اس غیر متوقع صورتحال پر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔”ان پر ہمارا کوئی حق نہیں،آپ کا بہت بہت شکریہ“ علی نے ہمت کر کے کہا”یہ آپ کی ایمان داری کا صلہ ہے اور اس میں میری خوشی بھی شامل ہے“۔امیر آدمی مسکراتے ہوئے بولا اور اُن کے گھر سے باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔اس آدمی کے جانے کے بعد علی اور عائشہ دیر تک اپنے رب کا شکر ادا کرتے رہے کہ کس طرح اُن پر اللہ کی رحمت نازل ہو گئی ہے۔اس واقعے کے بعد اللہ نے اُن کے دن بدل دیئے علی نے ایک دکان ڈال لی جس سے وہ دن دُگنی اور رات چگنی ترقی کرنے لگا۔اس کے بعد اللہ نے انھیں پیارا سا بیٹا عطا کیا۔بے شک اللہ سب کی سنتے ہیں۔ " شجاعت اللہ کا انعام ہے (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2562,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shujaat-allah-ka-inaam-hai-aakhri-hissa-2562.html,"شائستہ زریںاُن کا لہجہ اتنا شفیق تھا کہ چار و ناچار عمران اور اُس کے ساتھی بیٹھ گئے تو اُنھوں نے کہا ”میرا نام ابرار ہے۔میں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے تاریخ عمومی میں ایم اے کیا ہے۔ریٹائرڈ پروفیسر ہوں،علم روشنی اور خوشبو بن کر میرے وجود کو جگمگاتا اور مہکاتا رہتا ہے۔کوشش کروں گا کہ اس روشنی اور خوشبو کو تمہارے اندر اُتار دوں“۔عمران بیٹا علامہ شمس بریلوی نے کیسی پیاری بات کہی ہے کہ ”بہادری اور شجاعت بدن کی فربہی سے تعلق نہیں رکھتی کہ یہ دل کی وہ طاقت ہے جس کا مدار ایمان پر ہے“۔اور اس لحاظ سے وجدان تم سے زیادہ شجاع اور بہادر ہے۔شجاعت ایمان کی بہت بڑی طاقت کا نام ہے۔بحیثیت مسلمان تم سب کو شجاعت کی اصل تعریف سے باخبر ہونا چاہیے۔(جاری ہے)شجاعت اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک اہم صفت ہے یہی سبب ہے کہ اسلام میں شجاعت بُرائی عام کرنے کے بجائے بدی کے خاتمے کے لئے ہے۔اس کی بڑی مثال وہ غزوات ہیں جن میں مسلمانوں کی تعداد کفار کے مقابلے میں کم تھی حتیٰ کہ جنگی آلات بھی کفار کے مقابلے میں نہ ہوتے تب مسلمانوں کی قوت ایمانی اور شجاعت ہی کی بنا پر مسلمان کفار پر فتح حاصل کر لیتے۔پروفیسر ابرار خاموش ہوئے تو علی نے کہا”جناب عمران میرے بچپن کا دوست ہے ہم نے ایک ہی دن اسکول میں داخلہ لیا جب سے اب تک ہماری دوستی ہے۔اب سے چند ماہ قبل تک عمران مثالی لڑکا ہوا کرتا تھا کالج میں داخلے کے بعد چند لڑکوں سے اس کی دوستی ہوئی یہ اُن ہی کی صحبت کا اثر ہے کہ ہم اُس عمران سے دور ہو گئے جو اپنی مثال آپ تھا۔نیک دل عمران تو کہیں گُم ہو گیا اُس کی جگہ بہت بُرے انسان نے لے لی مجھے دُکھ اس بات کا نہیں کہ عمران میرا دوست نہ رہا ملال تو اس کا ہے کہ ایسے لوگ اوروں کے دوست نہیں ہوتے تو خود اپنے بھی دوست نہیں ہوتے کہ اُن کا دل نیکی اور ایمان کی طاقت سے محروم ہو جاتا ہے۔میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شجاعت سے اتنا متاثر ہوا کہ میری خواہش ہے کہ میں اور میرے تمام دوست بھی شجاعت کی علامت بن کر اُبھریں۔وجدان ایسا ہی لڑکا ہے اور مجھے اس کی دوستی پر فخر ہے۔اور جس دن عمران نے یہ سراغ پا لیا واپس لوٹ آئے گا۔اور پہلے والا عمران بن جائے گا جو واقعی شجاع تھا“ ”میں لوٹ آیا ہوں میرے دوست“ کہہ کر عمران علی سے لپٹ گیا عمران کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو بہ رہے تھے اب وہ پروفیسر صاحب کے سامنے سر جُھکائے بیٹھا اعتراف کر رہا تھا۔میری قوم کا ہر بچہ شجاع اور بہادر بنے اور اپنی طاقت کو کمزوروں اور اپنے ہم وطنوں پر آزمانے کے بجائے سلام دشمنوں کے لئے سنبھال کر رکھے۔یہ میری دعا بھی ہے اور آرزو بھی“۔محفل برخاست ہو گئی تھی لیکن پروفیسر ابرار کی صورت بچوں کو ایک مخلص دوست اور رہنما مل گیا تھا۔ " شجاعت اللہ کا انعام ہے (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2561,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shujaat-allah-ka-inaam-hai-pehla-hissa-2561.html,"شائستہ زریں”بکواس بند کر!تیرے لئے تو میرے کراٹے کا ایک وار ہی کافی ہے“ کہتے ہوئے عمران نے وجدان پر گھونسوں اور لاتوں کی بارش کر دی۔بے قصور وجدان ذرا ہی دیر میں نیم بیہوشی کی کیفیت میں زمین پر پڑا تھا۔عمران نے وجدان پر حقارت بھری اور اپنے خوشامدی دوستوں پر فاتحانہ نظر ڈالی جو اُس کی فتح پر بھنگڑا ڈال رہے تھے مگر علی کے چہرے پر بیک وقت برہمی،دُکھ اور افسوس کے واضح اثرات نمایاں تھے وہ آگے بڑھا اور وجدان کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔اپنے عزیز دوست علی کو یوں وجدان کے نزدیک بیٹھا دیکھ کر عمران کو تاؤ آ گیا۔”اُٹھو علی یہاں سے خود ہی گل سڑ کر مر جائے گا“وجدان پر تھوک کر اُسے ٹھوکر مارتے ہوئے عمران نے علی کا ہاتھ تھاما ہی تھا کہ علی نے اُس کا ہاتھ جھٹک دیا“عمران نے حیرت سے علی کو دیکھتے ہوئے کہا”تم نے دو ٹکے کے لڑکے کے لئے میرا ہاتھ جھٹکا ہے آج اور ابھی میں تم سے دوستی ختم کرتا ہوں“عمران کی پرواہ کیے بغیر علی نے ہوش میں آتے وجدان کو سہارا دیا جو اب بُری طرح کراہ رہا تھا۔(جاری ہے)وجدان کی حالت دیکھ کر علی نے اُس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عمران سے کہا”یار اس کا قصور کیا ہے؟“ ”قصور اپنے لاڈلے سے پوچھو“ عمران نے وجدان کی جانب اشارہ کیا”وہ تمہیں اس قابل نظر آ رہا ہے؟“علی نے جھنجھلاتے ہوئے کہا”میں تو اس قابل ہوں ناں مجھ سے سُن لو۔میں نے اس بدبخت سے اس کی اکاؤنٹ کی کاپی مانگی تو اس نے دینے سے صاف انکار کر دیا اُسی وقت طیب آیا تو کاپی اُسے دے دی ارے کیا وہ اس کا سگا ہے؟“”عمران نہ تم میرے سگے ہو اور نہ ہی طیب۔یہ تو تمہیں بھی معلوم ہے کہ طیب ایک مزدور باپ کا بیٹا ہے اور محنتی بھی ہے۔پچھلے ایک ہفتے سے اسکول نہ آ سکا۔طیب کو نوٹس خود لکھنے تھے اور بریک میں جبکہ تمہیں فوٹو اسٹیٹ کروانا تھا جس میں بمشکل پانچ منٹ لگتے تم خود انصاف کرو کہ اصل حقدار کون ہے؟“وجدان اٹک اٹک کر مشکل سے بول رہا تھا۔دیکھا اپنے انصاف کا انجام؟کیسے بھیگی بلی بنا بول رہا ہے ارے میری شجاعت سے تو اچھے اچھوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے“عمران نے اکڑ کر کہا تو وجدان کہنے لگا”جو سلوک تم نے میرے ساتھ کیا ہے وہ تمہاری شجاعت کی نہیں کمزوری کی دلیل ہے۔اپنے سے کمزور پر ہاتھ اُٹھانا بہادری نہیں بزدلی ہوتی ہے“”یہ صرف تمہارا خیال ہے وجدان کے اس احمقانہ خیال کہ تائید کوئی کرے گا؟میں دعوت دیتا ہوں آئے اور مجھے قائل کر دے۔عمران نے تکبر سے کہا۔(جاری ہے) " ایک پرانی کہانی - تحریر نمبر 2560,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-purani-kahani-2560.html,"قرة العین حیدرلاکھوں برس گزرے آسمان پر شمال کی طرف سفید بادلوں کے پہاڑ کے ایک بڑے غار میں ایک بہت بڑا ریچھ رہا کرتا تھا۔یہ ریچھ دن بھر پڑا سوتا رہتا اور شام کے وقت اُٹھ کر ستاروں کو چھیڑتا اور ان سے شرارتیں کیا کرتا تھا۔اس کی بدتمیزیوں اور شرارتوں سے آسمان پر بسنے والے تنگ آ گئے تھے۔کبھی تو وہ کسی ننھے سے ستارے کو گیند کی طرح لڑھکا دیتا اور وہ ستارہ قلابازیاں کھاتا دنیا میں آ گرتا یا کبھی وہ انہیں اپنی اصلی جگہ سے ہٹا دیتا۔اور وہ بیچارے اِدھر اُدھر بھٹکتے پھرتے۔آخر ایک دن تنگ آ کر وہ سات ستارے جنہیں سات بہنیں کہتے ہیں۔چاند کے عقلمند بوڑھے آدمی کے پاس گئے اور ریچھ کی شرارتوں کا ذکر کر کے اس سے مدد چاہی۔بوڑھا تھوڑی دیر تو سر کھجاتا رہا۔(جاری ہے)پھر بولا ”اچھا میں اس نامعقول کی خوب مرمت کروں گا۔تم فکر نہ کرو“۔ساتوں بہنوں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔اور خوشی خوشی واپس چلی گئیں۔دوسرے دن چاند کے بوڑھے نے ریچھ کو اپنے قریب بلا کر خوب ڈانٹا اور کہا کہ ”اگر تم زیادہ شرارتیں کرو گے تو تم کو آسمانی بستی سے نکال دیا جائے گا۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ان ننھے منھے ستاروں کی روشنی سے دنیا میں انسان اور جہاز اپنا اپنا راستہ دیکھتے ہیں لیکن تم انہیں روز کھیل کھیل میں ختم کر دیتے ہو۔تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جب یہ ستارے اپنی اصلی جگہ پر نہیں رہتے تو دنیا کے مسافر اور جہاز رستہ بھول جاتے ہیں۔میاں ریچھ نے اِس کان سنا اور اُس کان نکال دیا اور قہقہہ مار کے بولے ”میں نے کیا دنیا کے جہازوں اور مسافروں کی روشنی کا ٹھیکہ لے لیا ہے جو ان کی فکر کروں۔یہ کہہ کر ریچھ چلا گیا۔جانے کے بعد بوڑھے نہ بہت دیر سوچا کہ اس شیطان کو کس طرح قابو میں لاؤں۔یکا یک اسے خیال آیا کہ اورین دیو سے مدد لینی چاہئے۔اورین دیو ایک طاقتور ستارے کا نام تھا۔جو اس زمانے میں بہت اچھا شکاری سمجھا جاتا تھا اور اس کی طاقت کی وجہ سے اسے دیو کہتے تھے۔یہ سوچ کر بوڑھے نے دوسرے دن اورین دیو کو بُلاوا بھیجا۔اس کے آنے پر بڑی دیر تک دونوں میں کانا پھوسی ہوتی رہی۔آخر یہ فیصلہ ہوا کہ وہ آج شام ریچھ کو پکڑنے کی کوشش کرے۔چنانچہ رات گئے اورین دیو نے شیر کی کھال پہنی اور ریچھ کے غار کی طرف چلا۔جب ریچھ نے ایک بہت بڑے شیر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ ننھے منھے ستاروں سے بنی ہوئی اس سڑک پر جو پریوں کے ملک کو جاتی ہے اور جسے ہم کہکشاں کہتے ہیں،بے تحاشا بھاگا۔آخر بڑی دوڑ دھوپ کے بعد طاقتور شکاری نے میاں ریچھ کو آ لیا اور ان کو پکڑ کر آسمان پر ایک جگہ قید کر دیا۔جہاں وہ اب تک بندھے کھڑے ہیں۔اگر تم رات کو قطب ستارے کی طرف دیکھو تو تمہیں اس کے پاس ہی ریچھ بندھا نظر آئے گا۔جس کو ان سات بہنوں میں سے چار پکڑے کھڑی ہیں باقی تین بہنوں نے اس کی دم پکڑ رکھی ہے۔اگر تم آسمان پر نظر دوڑاؤ تو تمہیں اورین دیو بھی تیر و کمان لئے ریچھ کی طرف نشانہ لگائے کھڑا نظر آئے گا۔ " جذبہ (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2559,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jazba-aakhri-hissa-2559.html,"عائشہ خانجب وہ دیکھتے ہیں کہ ایک ہونہار اور بہادر بچہ فوج سے ملنے کا شوق رکھتا ہے،تو بچے کی اس خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے،اپنے سیکٹر،اپنے آفس میں خاص دعوت دیتے ہیں۔جہاں میڈیا والے بھی ساتھ ہوتے ہیں،اور حاشر بھی خریدی ہوئی وہ وردی پہن کر آتا ہے۔بچے کو گارڈ آف آنر پیش کیا جاتا ہے حاشر بھی جرنل کو جا کر سلیقے اور طریقے سے سلیوٹ کرتا ہے۔یہ دیکھ کر ماں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔کچھ دن بعد والدہ ماسٹر صاحب کے سکول ان کے آفس ان سے ملنے جاتی ہے آپ کو بہت مبارک ہو بہن،اور ماسٹر صاحب کچھ سوچتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”حاشر کا یہ خواب پورا ہونا اس کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے جو اس کے اندر وطن کی محبت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔اگر جذبہ سچا ہو تو کھلی آنکھوں سے دیکھے خواب بھی سچے ہو جاتے ہیں۔(جاری ہے)جی ماسٹر صاحب آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں،اب تو جرنل صاحب نے اس کی تعلیم و ترتیب کی ذمہ داری بھی خود اُٹھا لی ہے۔پر ماسٹر صاحب آپ کی حاشر کیلئے محنت و کاوش میں اور حاشر کبھی نہیں بھلا سکتے۔یہ حاشر کو بطور انعام حکومت کی طرف سے ملا ہے،خاکی رنگ کا لفافہ آگے کرتے ہوئے،ماسٹر:”بہن یہ آپ نے کیا کہہ دیا ماسٹر کرسی سے کھڑا ہو جاتا ہے،یہ کہہ کر مجھے اپنی ہی نظروں میں گرا دیا ہے حاشر کی مدد میں نے کسی لالچ میں نہیں،بلکہ اس کے جذبہ کو سراہتے ہوئے کی اور ایک استاد ہونے کے ناطے،یہ میرا فرض تھا،کہ ایک ہونہار طالب علم کو اس کی منزل تک پہنچاؤں۔“آپ یہ پیسے اس کے اچھے مستقبل کیلئے محفوظ رکھیں۔ماسٹر صاحب جہاں آپ جیسے عظیم اساتذہ موجود ہونگے وہاں ایسے ہونہار بچے ملک کا مستقبل ضرور بنیں گے۔20 سال بعد حاشر میجر حاشر عبدلوہاب بن چکا تھا۔حاشر کو اپنے جذبے کا پھل مل گیا۔ " علی کی سائیکل - تحریر نمبر 2558,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ali-ki-cycle-2558.html,"محمد حسن نوشاد،کراچیدور دراز کے ایک گاؤں میں علی نام کا لڑکا رہتا تھا۔اس کے ابو گاؤں کے زمیندار تھے۔اسی لئے علی کے پاس گاؤں والوں کی نسبت اچھی چیزیں موجود ہوتی تھیں۔علی کے ابو نے اس کی سالگرہ پر سائیکل لے کر دی تھی،جو ہرے رنگ کی بہت ہی خوبصورت سائیکل تھی۔سب نے علی سے پوچھا:”کیا تم ہمیں چلانے دو گے؟“اس نے صاف انکار کر دیا۔(جاری ہے)پیچھے کھڑے زمیندار کے ملازم نے جب یہ باتیں سنیں تو اسے بہت غصہ آیا۔اس نے جا کر ساری بات زمیندار صاحب کو بتائیں۔زمیندار صاحب بہت اچھے انسان تھے۔انھوں نے علی سے سائیکل لی اور تالا لگا کر چابی اپنے پاس رکھ لی۔علی کو جب پتا چلا کہ سائیکل کس وجہ سے لی گئی ہے تو وہ شرمندہ ہو گیا اور گاؤں کے بچوں سے معافی مانگی۔بچوں کی سفارش پر علی کو سائیکل دے دی گئی۔اب علی سائیکل صرف خود نہیں چلاتا،بلکہ گاؤں کے بچوں کو بھی چلانے دیتا ہے۔ " الماری کا بھوت - تحریر نمبر 2556,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/almari-ka-bhoot-2556.html,"مسز سلمیٰ محمد عقیل شاہ”آج پھر میری الماری کو کسی نے اُلٹ پلٹ کر کے رکھ دیا ہے۔“صبح اُٹھتے ہی ہانیہ کی نظر اپنی الماری میں پڑی تو آنکھیں ملتے ہوئے امی کو پکارنے لگی:”امی،امی!جلدی سے آئیں۔“”ہانیہ بیٹی!کیا ہوا،کیوں چیخ رہی ہو؟“”امی جان!میری الماری کا حال دیکھیں کیا ہوا ہے۔“”اس میں اتنا چیخنے کی کیا بات ہے۔ناشتہ کر کے ٹھیک کر لینا۔“”لیکن امی!یہ کون کرتا ہے۔میری چاکلیٹ اور چپس بھی غائب ہے،جو میں نے چھپا کر رکھی تھی۔“”ہانیہ بیٹی!ممکن ہے سونے سے پہلے نیند کی حالت میں تم نے کچھ نکالنے کے لئے ایسا کیا ہو،پھر تمھیں صبح اُٹھنے کے بعد کچھ یاد نہ رہا ہو۔“”امی!مجھے تو لگتا ہے،سفیر نے کیا ہے۔(جاری ہے)“”ہانیہ!سفیر تمھارا چھوٹا بھائی ہے،اس کے پاس ان فضول شرارتوں کے لئے وقت ہی کہاں ہے۔اسکول،مدرسہ،ٹیوشن اور کرکٹ اکیڈمی رات کے دس بجے تو گھر پہنچتا ہے۔“”تو پھر ضرور میرے کمرے میں کوئی بھوت آ گیا ہے۔“ہانیہ کی باتوں پر امی مسکرا کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔ناشتے کے بعد ہانیہ نے الماری کی تمام چیزیں سلیقے سے رکھ دیں۔اس کے بعد تو اکثر ہانیہ کی الماری کا یہی حال ہونے لگا۔اب تو امی جان بھی کچھ پریشان سی ہو گئیں۔ہانیہ نے روتی صورت بنا کر کہا:”امی!مجھے تو لگتا ہے اس الماری میں ضرور کوئی بھوت ہے۔آپ مجھے دوسری الماری لے کر دیں۔میری ساری چاکلیٹیں غائب ہو جاتی ہیں۔آج تو میری نئی پنسل اور ڈرائنگ کی کاپی بھی غائب ہے۔“ہانیہ کی امی نے کچھ سوچ کر اس بھوت کو پکڑنے کی ٹھان لی تھی۔سفیر دس بجے گھر میں داخل ہوا تو امی نے کہا:”سفیر بیٹے!کھانا گرم کر رہی ہوں جلدی سے منہ دھو کر آ جاؤ۔ہانیہ آپی نے آج کھانا جلدی کھا لیا ہے اور وہ بے خبر سو رہی ہے۔“سفیر ”اچھا“ کہتے ہوئے اپنے کمرے میں گیا۔کھانے کے تھوڑی دیر بعد وہ چپکے سے ہانیہ کے کمرے میں داخل ہوا۔ہانیہ گہری نیند سو رہی تھی۔سفیر مسکراتے ہوئے سوتی ہوئی ہانیہ کو دیکھ کر الماری کی طرف بڑھا اور آہستہ سے الماری کھولی۔کپڑوں کو اُلٹ پلٹ کر کے کچھ تلاش کرنے لگا۔ساتھ ہی زیرِ لب کہتا جا رہا تھا:”آپی کی بچی ساری چیزیں کھا لیں۔کچھ بھی نہیں رکھا۔“پھر مسکرایا،ہاں مل گیا،واہ مزے دار نمکو․․․․․اس نے جلدی سے پیکٹ کو جیب میں ڈالا۔سب چیزیں بے ترتیب چھوڑ کر جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا،امی جان کو سامنے کھڑا پایا۔”اچھا تو یہ تم ہو الماری کے بھوت۔سفیر!کتنی بُری بات ہے میں نے تمھیں اتنا مصروف رکھا ہے،تاکہ بُری صحبت سے بچے رہو،لیکن تم بہن کو تنگ کرنے سے باز نہیں آتے۔“سفیر نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا:”معاف کر دیں امی جان!میں آئندہ نہیں کروں گا۔میں ہانیہ آپی سے بھی معذرت کر لوں گا۔ہانیہ سے کچھ مت کہیے گا۔“ہانیہ نے صبح اُٹھ کر اپنی الماری کی یہ حالت دیکھی تو پھر چیخنے لگی۔امی آئیں اور ہانیہ کو اس حال میں دیکھ کر مسکرا دیں:”ہانیہ بیٹی!آج کے بعد ایسا کبھی نہیں ہو گا۔“ہانیہ بولی:”سچ امی جان!آپ نے بھوت کر پکڑ لیا کیا؟“”ہاں،کل میں نے اور تمھارے بہادر بھائی نے مل کر بھوٹ پکڑ لیا۔بھوٹ بڑا شرمندہ تھا اور اس نے کہا ہے کہ آئندہ ہانیہ کی الماری کی طرف نظر اُٹھا کر نہیں دیکھوں گا اور دونوں کان پکڑ کر توبہ بھی کر لی ہے۔“ہانیہ نے سفیر کو گھورا تو امی نے سفیر سے کہا:”سفیر!رات کو بھوت نے کیا کہا:”سفیر نے اپنے دونوں کان پکڑتے ہوئے کہا:”بھوت نے کہا تھا کہ آئندہ کبھی ہانیہ آپی کو تنگ نہیں کروں گا اور ہاں بھوت نے یہ بھی واپس کر دیا ہے۔یہ کہتے ہوئے اس نے جیب سے نمکو کا پیکٹ نکال کر ہانیہ کی طرف بڑھا دیا۔“ " دوستی - تحریر نمبر 2554,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dosti-2554.html,"محمد حسین مشاہد رضویبچوں کا کھیلنے میں ذرا بھی دل نہیں لگ رہا تھا۔فیضان ان کے گروپ کا سب سے خاص ممبر تھا۔وہ پچھلے کئی ہفتے سے کھیلنے نہیں آ رہا تھا۔آج بھی وہ نہیں آیا تو بچے دکھی ہو کر گھاس پر بیٹھ گئے۔نہال نے کہا،”مجھے نہیں لگتا کہ فیضان اب کبھی ہمارے ساتھ کھیلنے کے لئے آئے گا،کرمو کاکا بتا رہے تھے کہ اس کے پاپا کا پروموشن ہو گیا ہے،وہ ایک بڑے آفیسر بن گئے ہیں بھلا وہ اب ہمارے ساتھ کھیلنے کیوں آئے گا؟“”لیکن اس سے اس کا کیا لینا دینا؟“ اسلم نے پوچھا۔اس پر فائق نے کہا:”لینا دینا کیوں نہیں ہے؟فیضان کے پاپا نے ایک کار خرید لی ہے۔وہ اب اچھے اچھے کپڑے پہنتا ہے۔یہاں ہمارے ساتھ کھیلنے سے اس کے کپڑے میلے ہو جائیں گے۔(جاری ہے)بھلا وہ کیوں آنے لگا؟“ببلو بڑی دیر سے گھاس نوچ رہا تھا۔اس نے اپنی خاموشی توڑی اور کہا،”یہ سب ٹھیک ہے لیکن گھر میں وہ کس کے ساتھ کھیلتا ہو گا؟“”اس کے لئے ایک اچھی سی گیند آ گئی ہے،اس کے پاس کمپیوٹر بھی ہے وہ طرح طرح کے کمپیوٹر گیم کھیلتا ہے۔اور ہاں!اس کے پاس ڈھیر ساری کہانیوں کی کتابیں بھی ہیں،اتنا سب کچھ رہتے ہوئے،اسے یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا ہے کیوں نہ ہم خود کسی دن اس کے گھر چلیں؟“ وامق نے ببلو کی بات کا جواب دیا۔ہاں ہاں!یہ ٹھیک رہے گا۔“وامق کی بات پر سب نے اتفاق کیا۔دوسرے دن موقع پا کر وہ سب فیضان کے گھر جا پہنچے۔اس وقت وہ گھر میں اکیلا ہی تھا۔کرمو کاکا باہر پھولوں کو پانی دے رہے تھے۔اپنے دوستوں کو دیکھ کر فیضان پھولا نہ سمایا۔لیکن اگلے ہی پل وہ اداسی سے کہنے لگا،”میں روزانہ تم سب کے ساتھ کھیلنے آنا چاہتا ہوں لیکن میرے ممی پاپا نے مجھے اس کے لئے منع کر دیا ہے،انھیں پارٹیوں میں جانے سے فرصت نہیں ہے اور میں یہاں اکیلا پڑا بور ہوتا رہتا ہوں۔پلیز!تم سب میرے لئے کچھ کرو۔“یہ کہتے کہتے فیضان کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ رونے لگا۔فیضان کی بات سن کر بچوں کا شک و شبہ دور ہو گیا۔وہ سب سوچنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیے؟نہال کے دماغ میں ایک ترکیب سوجھی۔جب اس نے اپنی رائے ظاہر کی تو سب خوش ہو گئے،پھر سب بچوں نے مل کر اس پر مشورہ کیا اور فیضان کو خدا حافظ کہتے ہوئے لوٹ گئے۔دوسرے دن فیضان نے دیکھا کہ اس کے ممی پاپا کہیں جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے اس نے ممی سے پوچھا،”آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟“”ایک پارٹی میں جا رہے ہیں بیٹا!تم اپنا خیال رکھنا اور باہر نہیں جانا چپ چاپ گھر میں ہی کھیلنا اور ہاں!کرمو کاکا کو تنگ مت کرنا۔“ممی کہا۔فیضان نے پوچھا،”کیا پارٹی میں جانا ضروری ہے؟“یہ سُن کر اس کے پاپا نے جواب دیا:”ہاں بیٹے،اس میں ہمارے سارے دوست آ رہے ہیں ہمیں سب کے ساتھ ملنا جلنا ہے،اس لئے ہمارا جانا ضروری ہے۔“ ”پاپا آپ دونوں یہاں گھر میں ہی پارٹی کیوں نہیں کر لیتے؟وہاں جانے کی کیا ضرورت؟“ فیضان نے کہا یہ سن کر اس کے پاپا کو بڑی حیرانی ہوئی۔انھوں نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا،”بھلا ہم گھر میں اکیلے پارٹی کیسے کر سکتے ہیں؟اس کے لئے ہمارے سب ہی دوستوں کا ہونا ضروری ہے،اس لئے تو ہم وہاں جا رہے ہیں۔“موقع پاتے ہی فیضان نے اپنی بات کہہ دی،”پاپا!جب آپ دونوں گھر میں اکیلے پارٹی نہیں کر سکتے تو میں بھلا یہاں اکیلا کیسے کھیل سکتا ہوں؟میرے بھی تو دوست ہیں جن سے میں ملنا چاہتا ہوں ان کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں اور خوب ساری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔لیکن آپ تو مجھے باہر نکلنے ہی نہیں دیتے۔میں گھر میں بند ہو کر نہیں رہنا چاہتا۔“اتنا کہتے کہتے فیضان کا گلا رندھ گیا اور وہ رونے لگا۔اس کے ممی پاپا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔اس کی ممی اس کے پاس آئیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں،”ہم سے بڑی بھول ہو گئی بیٹا!آج سے تم روز اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلو گے۔“تب ہی کرمو کاکا نے آ کر کہا،”فیضان بیٹا،آپ کے دوست باہر کھڑے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔“اتنا سُن کر وہ باہر کی طرف دوڑا۔بچے دوہری خوشی کے ساتھ کھیل رہے تھے کیونکہ آج ان کے گروپ کا خاص ممبر ان کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ " جذبہ (حصہ چہارم) - تحریر نمبر 2553,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jazba-hissa-chaharum-2553.html,"عائشہ خانآج تو حاشر بے حد خوش تھا،کیونکہ اس کا آرمی سکول میں داخلہ ہو گیا تھا۔اور نماز پڑھنے کے بعد حاشر نے دعا بھی کی میرے پیارے اللہ میاں جی،آپ نے مجھے آرمی سکول داخل کروا دیا۔میں ضرور ایک دن اچھا فوجی بنوں گا،اللہ آپ نے ہمیشہ میرے ساتھ رہنا ہے،امی کہتی ہیں اللہ کا ساتھ ہو تو سب آسان ہو جاتا ہے۔بہن کمرے میں آتی ہے،تو دیکھتی ہے کہ حاشر کے ننھے ہاتھوں پر آنسو گر رہے ہوتے ہیں،بہن پریشانی سے ہاتھوں کو چومتے ہوئے پریشانی سے پوچھتی ہے،حاشر رو کیوں رہے ہو۔حاشر مسکراتے ہوئے نہیں آپی میں تو خوش ہو رہا ہوں کہ میرا آرمی سکول میں داخلہ ہو گیا،آپی میں فوجی بن کر آپ کو ساری چیزیں لا کر دوں گا جو آپ چاہتی ہیں،پینٹ کلرز،برشز ہاں میرے پیارے بھائی،چلو آ جاؤ کھانا کھاتے ہیں۔(جاری ہے)کچھ دن بعد حاشر ٹی وی دیکھ رہا ہوتا ہے اس میں ایڈ چل رہی ہوتی ہے کہ عوام کو مطلع کیا جاتا ہے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیتے رہیں کوئی مشکوک افراد،لاوارث بیگ،غیر قانونی سرگرمیاں نظر آئیں تو 15 پر کال کر کے اطلاع دیں۔یہ پیغام حکومت پاکستان کی جانب سے نشر کیا گیا ہے۔تھوڑی دیر بعد ماما نے کہا حاشر۔جاؤ بیٹا،سامنے دکان سے مجھے دودھ کا پیکٹ لا دو۔جی اماں،حاشر ریموٹ سے ٹی وی کو بند کرتا ہے اور دکان سے دودھ لینے چلا جاتا ہے۔حاشر دودھ لے کر معصومانہ انداز سے گھر کی طرف واپس آ رہا ہوتا ہے۔تو دیکھتا ہے کہ ایک مشکوک آدمی جس نے اپنے منہ کو کپڑے سے لپیٹا ہوتا ہے اور ایک بوسیدہ سی عمارت جو کہ کافی عرصے سے بند ہوتی ہے اور باہر تالا لگا ہوتا ہے،اس کے اندر جاتا ہے،حاشر کو وہ ایڈ یاد آتی ہے جو ابھی ابھی سن کر آ رہا تھا وہ ڈرتے ہوئے اور چھپ کر دیکھتا ہے،کہ کچھ اور آدمی آتے ہیں اور اس بوسیدہ عمارت کی کھڑکی میں سے اندر گئے آدمی کو چیزیں پکڑا رہے ہوتے ہیں۔حاشر جلدی سے گھر آتا ہے اور اپنے کمرے میں آ کر کال کرتا ہے،ایسے جیسے آرمی سکول کا سٹوڈنٹ نہیں،کوئی فوجی ہو،ڈرے ہوئے انداز میں لیکن رعب کے ساتھ میں آرمی سکول سے بات کر رہا ہوں کچھ مشکوک لوگ ہمارے گھر کے پاس ہیں،جی ہمارے گھر کا ایڈریس نوٹ کریں کچھ دیر بعد پولیس کی بھاری نفری حاشر کی مدد سے ایسے دہشت گردوں کو گرفتار کر لیتی ہے جو ملک کو تباہ کرنے کیلئے کئی منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں اور حکومت کو مطلوب بھی ہوتے ہیں جب یہ خبر میڈیا تک پہنچتی ہے کہ ایک چھوٹے بچے نے اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ملک کو ایک بہت بڑی بتاہی سے بچایا ہے،تو یہ خبر ہر چینل کی ہیڈ لائن بن جاتی ہے۔حکومت بچے کی اس کارکردگی پر اسے انعام دیتی ہے۔میڈیا کا ایک چینل بچے کو انٹرویو کیلئے بلاتا ہے،بچہ انٹرویو میں کہتا ہے مجھے فوج پاکستان سے بہت پیار ہے اور ان سے ملنے کا شوق بھی،خاص طور پر جرنل صاحب سے دوسری طرف جرنل صاحب بھی بچے کا انٹرویو دیکھ رہے ہوتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایک ہونہار اور بہادر بچہ فوج سے ملنے کا شوق رکھتا ہے۔(جاری ہے) " علم تمہاری تلوار اور کتاب تمہاری ڈھال - تحریر نمبر 2551,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ilm-tumhari-talwar-aur-kitab-tumhari-dhaal-2551.html,"نازیہ آصفاب دوپہر ہونے کو تھی۔پہاڑوں کی چوٹیوں پہ دھوپ سے سردی خاصی کم ہو چکی تھی۔ابھی تینوں کی آنکھ لگنے ہی لگی تھی کہ گڑگڑاہٹ کی سی آواز سنائی دینے لگی۔تینوں چونک کر اُٹھے دیکھا،تو ایک بہت بڑا پتھر نیچے کی طرف لڑھک رہا تھا۔جس کے ساتھ اور بھی کئی پتھر تھے،جو سب نیچے کی طرف آ رہے تھے۔وہ تینوں ایک طرف کھڑے ہو کر انھیں دیکھنے لگے۔تھوڑی ہی دیر بعد وہ پتھر ایک کھائی میں گر گئے۔یہ دیکھ کر تینوں دوست پریشان تو ہوئے،مگر خوفزدہ نہیں۔انھوں نے کافی سارا پھل جمع کر لیا تھا۔اگلے دن ان کا واپسی کا ارادہ تھا جب پھر وہ دوپہر کو سستانے کے لئے لیٹے تو زمین پہ ارتعاش بھی تھا اور کچھ زلزلہ سا لگ رہا تھا۔پھر تینوں دوست اُٹھ کر اِدھر اُدھر وجہ تلاش کرنے لگے۔(جاری ہے)مگر یہ کیا؟تینوں دوستوں کے ہوش اُڑ گئے۔ایک بہت بڑا گلیشیر پہاڑ سے نیچے کی طرف سرک رہا تھا۔بہت ممکن تھا کہ یہ گلیشیر اس مختصر سی بستی کے اوپر گر کر اسے تباہ کر دیتا۔بستی کے لوگ تو سردی کی وجہ سے پہاڑ کی چوٹیوں کی طرف جاتے ہی نہ تھے۔اب بستی کے لوگوں کو خبردار کرنا بھی ایک ذمہ داری تھی۔تب کوزی نے ایک تجویز پیش کی۔اور انھوں نے بہت سارے پتھر اکٹھے کر کے ایک بڑے سے بورے میں بند کیے اور بستی کے پاس ایک اونچی چٹان پہ کھڑے ہو کر زور زور سے لوگوں کی چھتوں پہ پھینکنا شروع کر دیے۔لوگ گھبرا کر باہر نکلے تو دیکھا کہ ان کے صحن اور چھتوں پہ بہت سے پتھر گرے پڑے ہیں۔اتنے میں وہ تینوں دوست غائب ہو چکے تھے۔بستی کے لوگ سمجھے کہ گلیشیر گرنے والا ہے انھوں نے فوراً ہی اپنے گرمائی گھر خالی کیے اور نیچے وادیوں میں چلے گئے۔اور پھر سب نے دیکھا کہ گلیشیر بستی پہ آن گرا اور سب گھر تباہ ہو گئے۔مگر کوئی بھی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔تینوں دوست اپنی کامیابی پہ خوش تھے۔اب وہ ڈھیروں ڈھیر پھل لے کر راستے میں چھپتے چھپاتے اپنے جنگل میں پہنچ گئے تھے۔مگر ایک چیز انھیں بہت پریشان کر رہی تھی کہ راستے میں نظر آنے والا تقریباً ہر بندر بہت کمزور اور مریل سا لگ رہا تھا۔وہ سمجھے شائد بھوک سے ایسے ہو رہے ہیں۔مگر قریب جا کر پتہ چلا کہ یہ سب تو خارش سے ایسے ہوئے پڑے ہیں۔بہت سارے بندروں کا تو بہت بُرا حال تھا۔اب ایک بار پھر تینوں پڑھے لکھے دوستوں نے دماغ لڑایا،تو انھیں ایک بات سمجھ میں آئی۔مگر اس پہ عمل کرنا بہت مشکل تھا۔طے یہ پایا تھا کہ اوپر برفوں میں جو گرم پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا اگر اس میں ان سب کو نہلایا جائے،تو مرض ٹھیک ہو سکتا ہے۔جب یہ بات سب جانوروں کو بتائی گئی تو وہ بیچارے تو بیماری سے تنگ آئے پڑے تھے فوراً تیار ہو گئے۔اگلی رات ایک بار پھر بیمار جانوروں کا قافلہ پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف رواں دواں تھا۔جب سارے بندر وہاں چشمے تک پہنچے تو بھوک اور بیماری سے نڈھال ہو چکے تھے۔تینوں دوستوں نے سب کو ہمت دلائی کہ بس ایک بار اس چشمے میں نہاؤ،پھر آپ ٹھیک ہو جاؤ گے۔جانور ہمت کر کے اُٹھے اور چشمے کے گرم پانی میں نہانے لگے۔جیسے جیسے وہ نہاتے جاتے،ان کو سکون ملنے لگا تھا۔تب بھیما اور جونی نے انھیں بتایا کہ یہ سلفر والا پانی ہے جو آپ کے مرض کو ٹھیک کر سکتا ہے۔تب ننھا بندر بولا بھیما بھائی یہ سلفر کیا ہوتا ہے اور یہ یہاں پہ کہاں سے آ گیا۔تب بھیما نے انھیں بتایا”کہ یہ ایک ایسا عنصر ہے جو پہاڑوں کے اندر اللہ پاک نے چھپایا ہوتا ہے تاکہ لوگ پہلے علم حاصل کریں اور پھر اس کی نعمتوں کو ڈھونڈ کر انھیں استعمال کریں۔دو دفعہ نہانے سے ہی سارے بندر ٹھیک ہو گئے تھے۔اب وہ واپسی کے لئے تیار بیٹھے تھے۔جب سارے بندر ٹھیک ہو کر واپس پہنچے تو جنگل کے جانوروں نے بھیما،کوزی اور جونی کو کندھوں پہ اٹھا کر ان کا استقبال کیا۔جنہوں نے ان کی بھوک اور بیماری دونوں کا علاج ڈھونڈ لیا تھا۔اگلے دن شیر نے جنگل کے سب جانوروں کو اکٹھا کیا۔جس میں جنگل کے بادشاہ نے تین پڑھے لکھے دوستوں کو خوبصورت پھولوں کے تاج پہنائے اور پھر سارے جانوروں کو مخاطب کر کے انھیں بتایا کہ”ان تین دوستوں کا جنگل کے مکینوں پہ کتنا بڑا احسان تھا۔شیر نے مزید یہ بھی بتایا کہ کل تک شہر سے اور بھی قائدے منگوائے جا رہے ہیں اب سب جانور پڑھنا سیکھیں گے۔شیر نے انھیں یہ بھی بتایا،کہ کچھ صدیاں پہلے انسان بھی جنگل میں ہی رہتا تھا پھر اس نے علم سیکھ لیا تو وہ مہذب بن گیا اور اس نے ہمیں قید کر کے ڈگڈگی پہ نچانا شروع کر دیا۔مگر اب ہم نہیں ناچیں گے،علم سیکھ کر عظیم جانور بنیں گے۔ " اور دنبے نے معاف کر دیا - تحریر نمبر 2550,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aur-dunbe-ne-maaf-kar-diya-2550.html,"روبینہ نازہمارے چھوٹے ماموں احمد جب پولیس میں بھرتی ہو رہے تھے تو بقول مامی کے انہوں نے اپنے والدین یعنی میرے نانا نانی سے قرآن پر حلف اُٹھایا تھا کہ میں کبھی رشوت نہ لوں گا۔اور نہ دوں گا،ایک لمبا عرصہ گزر گیا۔ماموں اپنے حلف پر قائم رہے ہر سال بقرہ عید پر ان کی شدید خواہش ہوتی کہ قربانی میں دنبہ ذبح کیا جائے۔اگلے سال ماموں عید سے پہلے ایک دنبہ خرید لائے۔اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کی۔وہ شام کو ڈیوٹی سے آ کر اس کو قریبی باغ میں لے جاتے۔جہاں وہ دل کھول کر ٹہلتا اور خوب چرتا۔وہ اپنے ہاتھوں سے اس کو چارا کھلاتے،نہلاتے اور پیار کرتے۔دنبہ ان سے بہت مانوس ہو گیا اور ہر شام ان کی واپسی کا انتظار کرتا۔عید قریب تھی ماموں کی ڈیوٹی کا وقت بدل گیا۔(جاری ہے)اس دوران عید کے حوالے سے تیاری،بے وقت کی ڈیوٹی اور ذاتی مصروفیات کی وجہ سے ماموں چڑچڑے ہو گئے۔ایک دن وہ رات کی ڈیوٹی کر کے آئے۔وہ بہت تھکے ہوئے تھے۔جیسے ہی گھر کی دہلیز پر قدم رکھا تو دنبے نے محبت سے ماموں کی پینٹ پکڑ لی۔وہ تھکے ہوئے تھے،دنبے سے پینٹ چھڑوانے کی کوشش کی لیکن اس نے نہ چھوڑی ماموں نے غصے سے دنبے کو دھکا دیا۔اور چلے گئے،اگلے دن ان کی چھٹی تھی تو وہ دیر تک سوتے رہے۔شام کو نہا دھو کر جب ماموں نے دنبے کو چارا پانی کھلانا چاہا تو اس نے کھانے سے انکار کر دیا۔ماموں نے بہت کوشش کی اور ہر طرح کے جتن کر ڈالے۔لیکن دنبہ ٹس سے مس نہ ہوا۔البتہ دنبے کی آنکھوں میں آنسو تھے ماموں سمجھ گئے کہ رات جو میں نے اسے مارا اور دھکا دیا تھا تو یہ مجھ سے ناراض ہے ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔انہوں نے اسے نہلایا اور پیار کیا۔پھر چارا اور پانی اس کے آگے رکھا۔وہ نہ مانا پھر انہوں نے دنبے کے چہرے کو پکڑا اور کہا ”پیارے دنبے مجھے معاف کر دو،مجھ سے غلطی ہو گئی۔“ وہ پھر بھی نہ مانا تو ماموں نے اس کے پیر پکڑ لئے اور کہا ”پیارے دنبے!میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں۔پلیز مجھے معاف کر دو۔اب تو میں نے تمہارے پیر بھی پکڑ لیے ہیں۔“ماموں کا یہ کہنا تھا کہ دنبے نے خوب چارا بھی کھایا اور ڈھیروں پانی بھی پیا پھر اگلے ہی روز وہ قربان ہو گیا۔ " جذبہ (تیسرا حصہ) - تحریر نمبر 2549,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jazba-teesra-hissa-2549.html,"عائشہ خانجی میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ سکول میں بریک ٹائم جب سب بچے کھانے میں اور کھیل کود میں مصروف ہوتے ہیں،آپ کا بیٹا حاشر خاموشی سے ایک طرف بیٹھا رہتا ہے۔(جاری ہے)آج تو اس نے ہم سب،کو حیران کر دیا،ہم سب اساتذہ لان میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے سکول میں لگا پرچم حادثاتی طور پر ہوا کے ساتھ نیچے گرنے والا تھا،کہ حاشر نے اپنے چھوٹے قدموں سے بھاگتے ہوئے،پرچم کو زمین پر گرنے سے پہلے ہی اپنے ننھے ہاتھوں سے تھام لیا پھر اسے چوما اور اپنی آنکھوں کے ساتھ لگا کر سینے سے لگاتے ہوئے ہمارے پاس لا کر ادب سے دے دیا،کلاس کا بچہ اور اس میں وطن کیلئے اتنا جذبہ پرنسپل حیرت سے بولتا ہے۔اس کی والدہ کہتی ہیں جی ایسا ہی ہے،اسے وطن سے محبت کے علاوہ،افواج پاکستان سے بھی بہت پیار ہے،اس لئے آرمی سکول داخل ہونا چاہتا ہے پر آپ تو جانتے ہیں اس کے والد کے گزر جانے کے بعد میرے اتنی وسائل نہیں اگر آپ بُرا نا مانیں تو میں اس کا داخلہ کروا سکتا ہوں اور فیس کی بھی آپ فکر نہ کریں پر ماسٹر صاحب۔۔۔لیکن آپ انکار نہ کریں بہن،میں بے اولاد ہوں،اگر میں اس بچے کیلئے کچھ کر سکوں تو میں سمجھوں گا اللہ نے مجھے اولاد سے نواز دیا۔(جاری ہے) " خدمتِ خلق - تحریر نمبر 2548,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khidmat-e-khalq-2548.html,"شائستہ زریںعدیل نہایت بدتمیز بچہ تھا اُس کے ضعیف دادا اُس سے بہت محبت کرتے لیکن عدیل کو اُن کی ذرا سی بھی پرواہ نہیں۔وہ اُن کو کچھ سمجھتا ہی نہیں تھا۔دادا اُونچا سنتے اگر وہ عدیل کی بات نہیں سُن پاتے تو عدیل اُن پر غصہ کرتا چیختا چلاتا۔گھر کے ملازموں کو بھی بات بات پر جھڑکتا۔دروازے پر آنے والے بھکاری کو دُھتکارتا۔عدیل کی امی اُس کو بہت سمجھاتیں کہ ”بیٹا!اخلاق سے بڑی کوئی چیز نہیں اگر تم خوبصورت ہو،ذہین ہو تو یہ سب اللہ کی عطا ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا کرو۔ہر انسان کا دوسرے انسان پر حق ہے اور سب سے بڑا حق انسانوں سے عزت اور محبت کرنا ہے۔اگر کسی کو تمہاری ضرورت ہے تو اس کے کام آنا بہت بڑی نیکی ہے۔اگر تمہارے دل میں دوسرے کے لئے درد نہیں تو تم کبھی اچھے انسان نہیں بن سکتے۔(جاری ہے)اوروں کی خاص طور پر ضعیفوں،غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا بھی عبادت کے برابر ہے اور یہ وہ فعل ہے جس سے اللہ بہت خوش ہوتا ہے۔“امی کی باتیں عدیل ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے اُڑا دیتا۔اُن کا مذاق اُڑاتا اور اُن کو ستانے کے لئے ہر وہ کام کرتا جس سے وہ منع کرتیں خاص طور پر اپنے دادا کو بہت ستاتا تھا حالانکہ وہ عدیل سے بہت محبت کرتے تھے۔ایک روز عدیل بہت فخر سے بتا رہا تھا ”آج ایک بڑے میاں جا رہے تھے اُن کی لاٹھی نیچے گر گئی میں نے اُٹھا لی اُنہوں نے مانگی تو میں نے کہ دیا جس کی لاٹھی اُس کی بھینس اب یہ تمہاری نہیں میری ہے بُڈھے“ بڑے میاں لاٹھی تھام کر چلتے تھے اُنہوں نے بہت خوشامد کی کہ مجھ کو دے دو میں نے نہیں دی اور لاٹھی دور پھینک دی“ اتنی دیر میں حماد آ گیا اس کو خدمتِ خلق کی بیماری ہے بھاگ کر اُس نے لاٹھی اُٹھائی اور بڑے میاں کے ہاتھ میں لاٹھی دے کر اُن کا ہاتھ تھام کر اُن کو سڑک پار کروا دی“ ابھی عدیل بات کر ہی رہا تھا کہ اُس کا چہیتا دوست روفی آ گیا اُس کی آواز سُن کر عدیل تیزی سے بھاگا اور دروازے سے ٹکڑا کر بری طرح گرا کہ تکلیف سے اُس کی چیخیں نکل گئیں۔فوراً اُس کو ہسپتال لے گئے۔ڈاکٹر نے معائنے کے بعد بتایا فریکچر ہو گیا ہے تین مہینے تک پلاسٹر چڑھا رہے گا۔عدیل بستر سے بھی نہیں اُٹھ پا رہا تھا اب وہ پانی پینے تک کے لئے اوروں کا محتاج تھا جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے وہ نیکی اور بدی کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ایک دن اُس نے اپنی امی سے سوال کیا کہ کیا اوروں کے کام آنا بہت بڑی نیکی ہوتی ہے؟اس کی امی نے کہا”بیشک بہت بڑی نیکی ہوتی ہے اچھا انسان وہی ہے جو اوروں کے دُکھ سُکھ کو محسوس کرے اور ضرورت پڑنے پر کام بھی آئے۔ایسے لوگوں سے اللہ بھی بہت خوش رہتا ہے سب ہی محبت کرتے ہیں اور وہ جن کے دل میں محبت،ہمدردی اور رحمدلی نہ ہو وقت پڑنے پر کترا کر گزر جاتے ہیں اُنھیں کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا“ امی!میں تو بہت بُرا انسان ہوں۔انسانوں کے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہوں۔اگر میں لوگوں کے زیادہ سے زیادہ کام آؤں تو کیا اللہ مجھے معاف کر دے گا“ ”کیوں نہیں عدیل۔اللہ ضرور معاف کر دے گا۔لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ تم نے جن لوگوں کے ساتھ بُرا سلوک کیا ہے اُن سے بھی معافی مانگ لو اور اللہ سے وعدہ کرو کہ آئندہ یہ غلطی نہیں دہراؤ گے۔انشاء اللہ امی! میں نے سب سے زیادہ دادا کو ستایا ہے ضعیفی کی وجہ سے وہ اپنے جو کام نہیں کر سکتے آج سے میں کر کے دوں گا“۔ " مالی سفارش - تحریر نمبر 2547,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mali-sifarish-2547.html,"جدون ادیبمیں اپنی پریشان کُن سوچوں میں گم،آرام کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ہر شخص کی زندگی میں اس کے اُصولوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،مگر بعض اوقات اپنے اُصول خود توڑنے پڑتے ہیں اور ایسا ہم اکثر اپنے پیاروں کے لئے کرتے ہیں۔میں جو خود کو بہت اُصول پسند انسان سمجھتا تھا،آج اپنے اُصولوں کو قربان کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا،کیونکہ رشتے اہم ہوتے ہیں،اُصول نہیں!آخر ایک فیصلہ کیا اور ایک گہری سانس لے کر اُٹھ کھڑا ہوا۔میری اہلیہ ٹیلی ویژن دیکھ رہی تھیں،مگر وہ میری جانب بھی متوجہ تھیں اور شاید انھیں بھی احساس ہو گیا تھا کہ میں نے کیا فیصلہ کیا ہے۔میں اُٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔اسی دوپہر کو میں اپنے بیٹے ایان کے اسکول میں موجود تھا،جہاں سیکشن انچارج سے میری ملاقات طے تھی۔(جاری ہے)وہ تشریف لائے تو رسمی کلمات کے بعد بولے:”جی،میں آپ کی بات سن رہا ہوں!“میں آہستہ سے کھنکھارا اور بولا:”سر!میری اہلیہ نے پرنسپل صاحب سے درخواست کی تھی،ہمارا مسئلہ بہت چھوٹا ہے،مگر انھوں نے اسے حل کرنے سے انکار کر دیا ہے اور آپ سے ملنے کا مشورہ دیا۔آپ جانتے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں!“انچارج صاحب نے سنجیدہ لہجے میں کہا:”فرہاد صاحب!ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اسکول کے اندرونی معاملات میں والدین کی مداخلت قبول نہیں کر سکتے۔ہم ان معاملات کو خود دیکھتے ہیں۔“میں آہستہ سے آگے جھکا اور مدہم آواز میں کہا:”دیکھیے جناب!اللہ کا شکر ہے،پیسے کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔میں تو اسکول کی بہتری کے لئے کچھ مدد کرنا چاہتا ہوں۔“”آپ کھل کر کہیے۔“انچارج کا لہجہ خشک ہو گیا۔”میں اسکول کے انتظامی فنڈ میں کچھ رقم پیش کرنا چاہتا ہوں،اگر اسکول کے کچھ فلاحی مقاصد ہیں یا تعمیرات کا کوئی مسئلہ ہے تو اس کی ذمے داری لینا چاہوں گا۔میرا مطلب ہے،میں ہر خدمت کے لئے تیار ہوں۔“انچارج صاحب سوچتی ہوئی نگاہوں سے مجھے چند لمحے دیکھتے رہے پھر مسکرا کر بولے:”اولاد کی محبت انسان کو کس قدر مجبور کر دیتی ہے،یہ ہم جانتے ہیں۔آپ اتنا اصرار کر رہے ہیں،مگر پرنسپل صاحب نہیں مانیں گے۔آپ کی مالی سفارش آپ کے کام نہیں آ سکے گی،البتہ ایان کے اس مسئلے پر غور کیا جا سکتا ہے۔“ایان ہمارا اکلوتا بیٹا ہے۔وہ پڑھائی میں اوسط درجے کا تھا،مگر پھر وہ پڑھائی میں دلچسپی لینے لگا۔اس کی وجہ بڑی عجیب تھی۔کلاس ٹیچر نے اسے ڈسٹر انچارج بنا دیا تھا۔وہ یہ ذمے داری پا کر بہت خوش تھا۔اس نے بتایا کہ اس کی مرضی کے بغیر کوئی تختہ سیاہ کو صاف نہیں کر سکتا اور استاد بھی اس کا نام لے کر اس سے ڈسٹر مانگتے ہیں تو اسے یہ بہت اچھا لگتا ہے۔یہ ذمے داری پا کر وہ ایک ذمے دار بچہ بنتا جا رہا ہے تھا کہ ایک دن اس سے یہ ذمے داری واپس لے لی گئی اور وہ پریشان رہنے لگا۔ہم نے اس کی ہمت بندھانی چاہی،مگر ایسا نہ کر سکے۔دراصل ایان ایک دن ڈسٹر گھر بھول گیا۔اس دن کلاس ٹیچر کا مزاج خراب تھا اور ایان کے ٹیسٹ میں نمبر بھی کم آئے تھے تو غصے میں انھوں نے یہ ذمے داری دوسرے بچے کو سونپ دی اور ایان اس بات سے مایوس ہو گیا۔ہم دونوں میاں بیوی اس کی پریشانی دیکھ کر کڑھتے رہے۔تیسرے دن ایان گھر لوٹا تو وہ دوڑتا ہوا آیا اور مجھ سے لپٹ گیا۔اتنے میں اس کی امی آ گئیں اور اسے اپنی بانہوں میں لے کر پوچھا:”ارے ہمارا چاند،اتنا خوش ہے،کیا بات ہو گئی؟“”امی!میں دوبارہ ڈسٹر انچارج بن گیا اور․․․․․“وہ خوشی سے بھرپور لہجے میں بولا۔”اور․․․․․؟“ہم نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔”اب میں نہ صرف ڈسٹر انچارج ہوں،بلکہ تختہ نرم یعنی سوفٹ بورڈ کا انچارج بھی مجھے بنایا گیا ہے۔اب تختہ نرم پر جو مواد لگے گا یا اُتارا جائے گا،وہ میری نگرانی میں ہو گا۔اسے سجانا سنوارنا میری ذمے داری ہے۔“وہ مسرت بھرے لہجے میں کہے جا رہا تھا اور ہم دونوں والدین اسے خوشی سے دیکھ رہے تھے،میرا دل خدا کے شکر سے لبریز تھا اور اس کی ماں کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔یہ چھوٹی چھوٹی باتیں کتنی اہم ہوتی ہیں،کیسے لمحوں میں زندگی بول دیتی ہیں۔ " میٹھے بول - تحریر نمبر 2546,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/meethe-bol-2546.html,"عروج زہرااحمد گھر کے نزدیک ہوٹل سے کلچے خریدنے گیا۔تندور پر روٹیاں لگانے والا ہر ایک سے اکھڑ انداز میں بات کر رہا تھا۔اسی اکھڑ پن میں کبھی وہ نان جلا دیتا تو کبھی کچا نکال لیتا۔گاہکوں کا رش بڑھتا جا رہا تھا۔پہلے سے موجود گاہک بھی اسے جلدی نان لگانے کا کہتے رہے،جس سے وہ نان والا ہر ایک سے تقریباً لڑنے لگتا تھا۔احمد کچھ دیر سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔جب احمد کی باری آئی تو نان والے نے احمد کے لئے کلچے تندور سے نکالنے شروع کر دیے۔یہ کلچے کافی حد تک لال ہو کر جلنے کے قریب ہو چکے تھے۔احمد نے کلچے دیکھ کر نان والے سے کہا:”تم ماشاء اللہ بہت اچھے کاریگر لگتے ہو۔اس طرح کے کلچے جو جلے بھی نہ ہوں،کوئی عام آدمی نہیں لگا سکتا۔“اپنی تعریف سن کر اس نے احمد کی طرف دیکھا تو احمد نے اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے مزید کہا:”اس پورے علاقے میں تمہارے جیسا استاد نہیں ہو گا۔(جاری ہے)“یہ بات سن کر تندور والے کو جیسے بھرپور توانائی مل گئی۔یکدم اس کا مزاج خوشگوار ہو گیا۔چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور اس نے کہا:”بیٹے!اگر سب لوگ تھوڑا سا صبر کر لیں تو انھیں بہترین چیز ملے۔“وہ دن اور آج کا دن جب بھی احمد نان والے کے پاس جاتا ہے۔وہ اسے ہمیشہ بہترین کلچے بنا کر دیتا۔ایک دن صبح احمد نان خریدنے گیا تو دیکھا کہ دکان پر بہت ہجوم تھا اور اس کا شاگرد تندور میں نان لگا رہا تھا اور وہ شخص بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔اس نے احمد کو دیکھ کر شاگرد سے کہا:”ان کے لئے نان میں خود لگاؤں گا۔“یہ کہہ کر اس نے جلدی جلدی ناشتہ ختم کیا اور تندور پر آ گیا۔باقی کھڑے لوگ احمد کو وی آئی پی شخصیت سمجھ رہے تھے۔احمد سوچ رہا تھا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صرف ایک قول پر عمل کیا کہ دوسروں سے اخلاق اور شفقت سے پیش آؤ۔اس کے بدلے مجھے اتنی عمدہ اور خاص توجہ ملنے لگی۔ " ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے - تحریر نمبر 2545,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hain-log-wohi-jahan-mein-ache-2545.html,"شائستہ زریںآپی!ہمارے اسکول میں ہونے والے مقابلہ مصوری میں شعیب بھائی کی تصویر کو اول انعام ملا ہے۔عباد نے نہایت مسرت سے اپنے چچا زاد بھائی کی اعلیٰ کارکردگی کی اطلاع اپنی بڑی بہن کو دی۔”واہ بہت خوب تصویر کس کی بنائی تھی شعیب نے؟“ شعیب بھائی نے تصویر میں دکھایا تھا کہ سڑک پر زبردست ٹریفک ہے جہاں ایک نابینا اور ضعیف شخص سڑک پار کرنا چاہ رہا ہے ایک طالب علم اُس شخص کو سڑک پار کرا رہا ہے۔عباد نے بتایا تو اُس سے چھوٹے عماد نے مسرت سے کہا اور آپی تصویر کے اوپر ایک شعر درج تھا۔ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھےآتے ہیں جو کام دوسروں کے”واہ بہت خوب تصویر کی مناسبت سے بالکل درست شعر ہے“آپی نے شعیب کی ذہانت کی داد دی۔(جاری ہے)”آپی تصویر بھی کمال کی تھی اور شعر کی خطاطی بھی غضب کی تھی۔شعیب بھائی تو ہرفن مولیٰ ہیں“ عباد بہت متاثر ہو رہا تھا۔”آپی کیا اوروں کے کام آنا بہت بڑی نیکی ہوتی ہے؟“ ثناء نے سوال کیا۔بیشک بہت بڑی نیکی ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔وہ انسان ہی کیا جو بُرے وقت میں کسی کے کام نہ آئے انسان اور حیوان میں بنیادی فرق یہی تو ہے کہ انسان کو اللہ نے باشعور بنایا ہے۔اچھا انسان وہی ہے جو اوروں کے دُکھ سُکھ کو محسوس کرے اور ضرورت پڑنے پر کام بھی آئے۔ایسے لوگوں سے اللہ بہت خوش رہتا ہے جو وقت پڑنے پر اوروں کی مدد کریں اور اُنھیں اپنائیت کا احساس دلائیں۔علامہ اقبال نے کہا تھا۔خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا ایسے بندوں سے سب ہی محبت کرتے ہیں اور وہ جن کے دل میں محبت،ہمدردی اور رحمدلی نہ ہو وقت پڑنے پر کترا کر گزر جاتے ہیں اُنھیں کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا۔”اچھا جب ہی“ ابھی عماد نے اتنا ہی کہا تھا کہ آپی نے پوچھا جب ہی کیا؟تب عماد نے بتایا کہ ”آپی میرا ایک ہم جماعت بہت ہی بدتمیز ہے کسی کا خیال نہیں رکھتا نہ کبھی کسی کے کام آتا ہے اور نہ ہی کسی کو پریشان دیکھ کر اُس کی مدد کے لئے آگے بڑھتا ہے۔اُس کی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے کوئی بھی اُسے پسند نہیں کرتا۔“ یہ تو بہت ہی بُری بات ہے اور تم بھی اوروں کو بُرا کہنے کے بجائے اُن کی بُرائیوں سے بچو اور اپنی اچھائیاں اُن میں منتقل کرنے کی کوشش کرو کہ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔جو لوگ اوروں کے کام آتے ہیں اللہ غیب سے اُن کی مدد کرتا ہے۔”آپی اب ایسے لوگ کم کیوں نظر آتے ہیں جو وقت پر اوروں کے کام آئیں؟“اس کی وجہ صرف اتنی ہے عماد کہ اب انسانیت کا احترام دنیا سے اُٹھتا جا رہا ہے۔جن کے دل میں انسانیت ہے وہ آج بھی نیکی کو عام کر رہے ہیں اور بہت سے لوگ اُن کے تعاون سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔جب ہمارے اندر رحمدلی اور ہمدردی کے جذبات ہوں گے تو اوروں کے کام آنے کا جذبہ بھی ہو گا۔”آپی کبھی کبھی ایسا بھی تو ہوتا ہے ناکہ ہم چاہنے کے باوجود کسی کے کام نہیں آ سکتے اور میرے ساتھ تو اکثر ایسا ہو جاتا ہے۔اگر میں لوگوں کے زیادہ سے زیادہ کام آؤں تو کیا اللہ مجھے معاف کر دے گا“ عماد نے معصومیت سے کہا”کیوں نہیں عماد۔اللہ ضرور معاف کر دے گا“۔”آپی ہم تینوں ایسے انسان بنیں گے جو لوگوں کے زیادہ سے زیادہ کام آئیں“۔”ثناء نے پُرجوش ہو کر کہا تو آپی ہنس دیں نیک کام میں دیر کیسی ثناء دادی اماں کے جو کام تم کر سکتی ہو اور وہ ضعیفی کی وجہ سے نہیں کر سکتیں آج سے تمہارے ذمہ ہے“۔جی آپی ضرور کہہ کر ثناء نے دادی اماں کے کمرے کا رُخ کیا تو عباد نے بے ساختہ کہا کہ آج کے بعد سے ہم جب بھی کسی کے کام آئیں گے تو ہمارے ساتھ ساتھ شعیب بھائی کو بھی ثواب ملے گا۔یہ سُن کر عماد نے شرارت سے کہا واقعی نیکی کے ساتھ مُصوری بھی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔”لیکن شرط یہ ہے کہ مُصوری کا خیال بھی انسانیت کا راستہ دکھائے“ عباد نے کہا”واہ عباد کیا دور کی کوری لائے ہو“ آپی نے عباد کی پیٹھ ٹھونکی تو عماد نے برجستہ کہا”اور وہ بھی بیٹھے بیٹھے“ عماد کی اس بات پر کمرہ قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ " جذبہ (دوسرا حصہ) - تحریر نمبر 2544,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jazba-dosra-hissa-2544.html,"عائشہ خانوہ بچے کا ماتھا چومتی ہے۔اچھا بچے میں تمہیں ضرور داخل کرواوٴں گی،تم فکر نا کرو،سکول واپسی پر حاشر کی بہن اپنا منی باکس لے کر ماں کے پاس آئی،اماں آپ ان پیسوں سے حاشر کو آرمی سکول داخل کروا آئیں۔نہیں بیٹی میں یہ تم سے نہیں لے سکتی پر کیوں اماں؟کیا میرا بھائی نہیں؟پر بیٹی تم یہ پیسے اپنی چیزوں کیلئے جمع کرتی ہو وہ بھی سکول میں بھوکی رہ کر بیٹی کو ساتھ لگاتے ہوئے،اور ویسے بھی اتنے پیسوں میں سکول میں داخلہ نہیں ہو سکتا بیٹی اماں سکول میں داخل نہیں کروا سکتے،حاشر کو تو کیا ہوا،فوجی وردی تو لے کر دے سکتے ہیں نا۔”اتنی دیر میں حاشر نے ٹی وی لگایا،جہاں جرنل صاحب اپنے اعزاز میں ہونے والے عشائیہ کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے،معصوم حاشر اپنے ننھے گالوں پر ہاتھ رکھ کر بڑے انہماک سے ان کی باتیں سننے لگا۔(جاری ہے)وہ کہہ رہے تھے میرے جوانو۔ملک و قوم کے رہنماؤ،ہمارے ملک کو دہشت گرد عناصر کا خطرہ ہے،میرے ساتھیو ہم مسلمان ہیں اور فرمان خداوندی ہے کہ حق کی خاطر لڑو۔اس دہشت گردی کو ہم نے اپنے ملک سے اُکھاڑ کر جڑ سے ختم کرنا ہے“۔اتنے میں اُس کی بہن کمرے میں آتی ہے اور کہتی ہے یہ دیکھو حاشر تمہارے لئے کیا آیا ہے کچھ دیر بعد حاشر شیشے میں فوجی وردی پہنے کھڑا تھا اماں میں کیسا لگ رہا ہوں؟بہت پیارا:”ماں اسے پیار کرتی ہے۔وہ ماں کو زبردست طریقے سے سلیوٹ کرتا ہے۔“کچھ دن بعد ماں کمرے میں آدھی رات کو آتی ہے تو حاشر پڑھ رہا ہوتا ہے۔وہ کہتی ہے کہ”میرا بیٹا کیا کر رہا ہے؟حاشر کہتا ہے“ماں جی ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ جب خوب پڑھو گے تو ہی اچھے انسان بن پاؤ گے کیا اماں میں اچھا انسان بن پاؤں گا؟جیسے ہمارے فوجی اچھے انسان ہیں۔ہماری حفاظت کرتے ہیں انشاء اللہ ضرور۔کچھ دن بعد ماسٹر صاحب حاشر کی ماں کو سکول آنے کا کہتے ہیں۔(جاری ہے) " شناخت - تحریر نمبر 2543,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shanakht-2543.html,"ملک محمد طفیل،جہلم”یہ کیا ہو رہا ہے؟“میں نے اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔میرا چھوٹا بھائی نشاط کمرے میں میری چیزوں کو اُلٹ پلٹ کر رہا تھا۔میرے پوچھنے پر اس نے کہا:”مائی پین ڈھونڈ رہا ہوں۔“آج کل سب گھر والوں کو انگریزی کا بھوت سوار ہے۔جس کو دیکھو انگریزی اردو دونوں کو ملا کر کھچڑی بنا رہا ہے۔دراصل ایک ہفتے کے بعد خالہ جان اپنے بچوں کے ساتھ تقریباً دس سال بعد انگلینڈ سے اپنے ملک پاکستان آ رہی تھیں،اس لئے سب انگریزی بولنے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچھی انگریزی بولنی آ جائے،تاکہ ان سب کے سامنے شرمندگی نہ اُٹھانی پڑے۔کل ہی کی بات ہے کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ مجھے کچھ پیاس سی محسوس ہوئی۔(جاری ہے)میں نے ملازمہ سے کہا:”ایک گلاس واٹر لا دو۔“اس بے چاری کی سمجھ میں نہ جانے کیا آیا،وہ ایک گلاس اور ایک ٹماٹر لے کر آ گئی۔میں نے پوچھا:”بھئی یہ کیا ہے؟“اس نے کہا:”یہ آپ نے ہی تو منگوایا تھا۔“یہ سن کر میں نے اپنا سر پیٹ لیا۔نانی جان نے کہا:”مجھے اخبار پڑھ کر سنا دو تو میں ابھی ”نیوز پیپر“ سنا رہا تھا کہ میری چھوٹی بہن ناہید کیلا کھاتی ہوئی آئی۔کیلا دیکھ کر میرا بھی دل چاہا۔میں نے پوچھا:”یہ بنانا تم نے کہاں سے لیا؟“اس سے پہلے کہ وہ بہن کچھ کہتی،نانی جان بولیں:”ہاں بیٹے!اللہ بخشے تمہارے نانا کو وہ بہت اچھے انسان تھے۔“میں حیرت سے نانی جان کو دیکھنے لگا۔ایسی ہی بدحواسیوں اور بے وقوفیوں میں دن گزر گئے۔آخر ایک دن ہماری خالہ جان انگلینڈ سے تشریف لے آئی۔خالہ نے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا تو میں نے کہا:”ہیلو آنٹی!ہاؤ آر یو (کیسی ہیں)“خالہ جان نے کہا:”کیا ہو گیا ہے تمہیں،میں تو تمہاری خالہ تھی،آنٹی کیسے ہو گئی؟“یہ سن کر میں بہت شرمندہ ہوا۔میرے تمام کزنز پاکستانی لباس پہنے ہوئے تھے اور اپنی قومی زبان اردو میں بات کر رہے تھے۔جب انھوں نے ہم پاکستانیوں کو اردو،انگلش گڈ مڈ کرتے پایا تو کہا:”ارے بھئی کیا ہو گیا تم لوگوں کو،اپنی قومی زبان میں بات کیوں نہیں کرتے؟ہماری قومی زبان کتنی میٹھی اور پیاری ہے۔“رات کو جب میرا کزن جواد میرے کمرے میں سونے کے لئے لیٹا تو اس نے بتایا کہ ہم سب لوگ انگلینڈ میں رہ کر بھی اپنی مادری زبان اور اپنے رسم و رواج کو نہیں بھولے ہیں۔ہم گھر میں بھی اردو بولتے ہیں،پابندی سے نماز پڑھتے ہیں اور اپنا قومی لباس ہی پہنتے ہیں۔”غیر ملکی زبانیں سیکھنا اور بولنا اچھی بات ہے،لیکن اپنے ہم وطنوں کے سامنے اس کا رعب نہیں ڈالنا چاہیے،کیونکہ ہماری شناخت پاکستان سے ہے۔“جس وقت یہ باتیں جواد مجھ سے کر رہا تھا تو میرا سر شرمندگی سے جھکا جا رہا تھا۔پھر میں نے ایک نئے جذبے کے ساتھ سوچا اور اپنے دل میں پکا عہد کیا کہ اب میں صرف سچا پاکستانی بنوں گا اور اپنے وطن اور اپنے ملک کی ہر چیز سے پیار کروں گا۔یہ باتیں سوچتے سوچتے میں صبح بیدار ہوا تو دل میں ایک نئی اُمنگ اور نئے جذبے کے ساتھ اپنے نئے دن کا آغاز کیا اور سب کو ”گڈ مارننگ“ کہنے کے بجائے جب میں نے اپنے سب گھر والوں کو ”السلام و علیکم“ کہا تو میرے چھوٹے بہن بھائی،امی اور ابو یہ تبدیلی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ " جذبہ (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2542,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jazba-pehla-hissa-2542.html,"عائشہ خاناماں یہ حاشر تو راستے میں جو بھی فوجی کی گاڑی نظر آتی ہے۔انہیں کھڑا ہو کر سلیوٹ کرنے لگ جاتا ہے۔کیوں سلیوٹ کرتے ہو؟یہ بتاؤ حاشر؟ماں حاشر سے پوچھتی ہے اماں اس لئے کرتا ہوں کہ ہمارے ملک و قوم کی حفاظت کرتے ہیں۔خود ہی تو آپ بتاتی ہیں کہ جب ہم سو رہے ہوتے ہیں،تو فوجی ہماری سرحدوں پر کھڑے ہو کر ہماری حفاظت کر رہے ہوتے ہیں اور ہم سکون سے سو رہے ہوتے ہیں،تو فوجیوں کو سلیوٹ تو کرنا چاہیے نا۔حاشر معصومیت سے بولتا ہے اچھا تو تم اس وجہ سے انہیں سلیوٹ کرتے ہو ماں پیار دیتے ہوئے کہتی ہے۔کچھ دن بعد حاشر اور اس کی ماں بازار جاتے ہیں۔حاشر فوجیوں کی وردی دیکھ کر ماں سے ضد کرتا ہے کہ”مجھے یہ وردی لیکر،دو حاشر میرے پاس ابھی پیسے نہیں میں تمہیں ضرور دلوا دوں گی۔(جاری ہے)وہ حاشر کی انگلی پکڑ کر اس کو ساتھ لے کر آتی ہے لیکن وہ پیچھے مڑ کر وردی کو دیکھتا جاتا ہے۔ماں اس کا بیگ چیک کر رہی ہوتی ہے تو ایک چھوٹی سی کاپی میں افواج پاکستان اور جنرل کے سٹیکر لگائے ہوتے ہیں ماں کو حاشر پہ بہت پیار آتا ہے ماں حاشر کو سکول کیلئے تیار کر رہی ہوتی ہے اماں مجھے آرمی کے سکول جانا ہے پر بیٹا اس سکول کی فیس میں ادا نہیں کر سکتی ایک منٹ حاشر کہتا ہے اور اپنا منی باکس لا کر بیڈ پر رکھ دیتا ہے۔جس میں کچھ سکے ہوتے ہیں۔اماں میں فوجی وردی کیلئے پیسے اکٹھے کر رہا تھا پر آپ مجھے اب ان پیسوں سے آرمی سکول داخل کروا دیں۔ماں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں،وہ بچے کا ماتھا چومتی ہے۔(جاری ہے) " طاقتور کون - تحریر نمبر 2540,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/taqatwar-kon-2540.html,"شائستہ زریںجنگل میں جشن کا سماں تھا۔بی مکھی جانِ محفل بنی بیٹھی تھیں ابھی کچھ ہی دیر پہلے کی تو بات ہے جب بی مکھی اپنی خوراک کی تلاش میں نکلنے والی تھیں کہ چڑیا نے اُن کا راستہ روک لیا۔”اے بی مکھی ہر وقت کہاں اُڑی اُڑی پھرتی ہو؟کبھی ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کرو“ ”چڑیا بہن بیٹھ تو جاتی پر کیا کروں جلدی میں ہوں“ مکھی نے دور کہیں دیکھتے ہوئے کہا”اے بی مکھی ایسی بھی کیا جلدی ہے؟وہاں کیا ہے؟جو یہاں نہیں“چڑیا نے تجسس سے پوچھا”وہاں وہ سب کچھ ہے جو یہاں نہیں ہے؟“ بی مکھی نے شرارت سے کہا”اچھا!جب ہی مچھر میاں تمہارے ساتھ صبح سویرے نکل جاتے ہیں،بہن مکھی!ہمیں بھی تو بتاؤ نا وہاں تمہیں کیا ملتا ہے؟بڑی دیر سے خاموش بیٹھی فاختہ نے اشتیاق سے پوچھا تو بی مکھی نے کہا آج میں تمہیں بتا ہی دوں کہ ہم دونوں بہن بھائی یعنی میں اور مچھر بھیا صبح سویرے کہاں جاتے ہیں؟ہم انسانوں کی بستی میں نکل جاتے ہیں جہاں بعض گھرانوں میں گندگی کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔(جاری ہے)ہر چیز کھلی پڑی رہتی ہے میرا جو جی چاہتا ہے خوب مزے لے کر ڈٹ کر کھاتی ہوں سب مجھے بھگانے کی کوشش تو بہت کرتے ہیں لیکن اپنے برتن ڈھانپ کر اور جگہ کی صفائی کر کے نہیں رکھتے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک جانب سے مجھے اُڑایا جاتا ہے تو میں مزے سے دوسری سمت جا بیٹھتی ہوں۔گندے برتنوں پر تو میں خوب بھنبھناتی ہوں لوگ مزے مزے کی چیزیں کھا کر بچا کھچا اور چھلکے گلی میں پھینک دیتے ہیں۔جنھیں میں خوب مزے سے کھاتی ہوں اور اپنی جان بناتی ہوں۔آجکل آموں کا موسم ہے بعض انسان ایسے احمق ہوتے ہیں کہ پھلوں کو گلا سڑا کر پھینک دیتے ہیں جس کی وجہ سے خوب بُو پھیلتی ہے۔بچے تو بچے بڑے بھی آدھا آم چوس کر پھینک دیتے ہیں اور میرے مزے آ جاتے ہیں مچھر بھیا میرا خوب ساتھ دیتے ہیں۔انسانوں کا خون چوسنے میں مچھر بھیا کو بہت لطف آتا ہے۔ٹھیلوں پر کھانے پینے کی مختلف اشیاء دیکھ کر میری رال ٹپکنے لگتی ہے۔خاص کر بچوں کے اسکولوں کے پاس تو بہت ہی مزے آتے ہیں بچوں کے لئے فروخت کی جانے والی کھانے پینے کی اشیاء پر تو سمجھو میرا ہی راج ہوتا ہے۔خوب بھنبھناتی ہوں جی بھر کر اُن کا رس چوستی ہوں میرے کئی اور ساتھی بھی میرے ساتھ موج اُڑاتے ہیں۔جب بچے ہماری چوسی ہوئی چیزیں کھاتے ہیں تو سخت بیمار پڑ جاتے ہیں خود بھی تکلیف اُٹھاتے ہیں اور اُن کے امی ابو بھی پریشان ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹروں کا تو کیا کہنا ذرا ذرا سی بات پر ٹیسٹ لکھ کر دے دیتے ہیں اور فیس بھی بھاری وصول کرتے ہیں ایک ذرا سے میرے رس چوسنے سے دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں روپے دواؤں پر اُٹھ جاتے ہیں گھر کا بجٹ الگ متاثر ہوتا ہے اور میں خوب ٹھاٹ سے دندناتی پھرتی ہوں۔بی مکھی بڑے فخر سے انسانوں کی حماقت اور اپنی دانائی کی داستان سُنا رہی تھیں اور تمام پرندے بڑی دلچسپی سے سُن رہے تھے۔گہری سوچ میں ڈوبے بلبل نے کہا”اے بی مکھی انسان اتنا طاقتور ہو کر بھی تمہیں کچھ نہیں کہتا؟“بلبل کی حیرانی پر بی مکھی نے زور دار قہقہہ لگایا۔”طاقتور اور انسان؟“بھئی یہ اچھا مذاق کیا تم نے۔لو سُنو!یہ انسان بھی خوب ہوتے ہیں پہلے خود ہی ہمیں دعوت دیتے ہیں۔جب اُن کے بُلاوے پر ہم چلے جاتے ہیں تو بجائے مہمان نوازی کے ہمیں مار بھگانے کی دھن میں لگ جاتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ ہم میں ایکا بہت ہے ہم میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ میرا ہے وہ تیرا ہے۔جو بھی ملتا ہے مل بانٹ کر کھاتے ہیں اور لالچی انسان؟اس کا بس چلے تو سب کا مال ہڑپ کر جائے۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں انسان خود کو کمزور کرتا چلا جاتا ہے ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کو جان سے مار دینا انسانوں کے لئے معمولی بات ہے پھر تم ہی کہو بلبل۔انسان طاقتور کیسے ہو سکتا ہے۔”بھولی کوئل!یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ انسان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے۔صفائی کی اہمیت بھی جانتا ہے اور غلاظت کے ڈھیر بھی لگاتا رہتا ہے۔گندگی کے نقصانات اُٹھانے کے باوجود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا۔حالانکہ یہ بات وہ ہم سے بہتر جانتا ہے کہ عمدہ صحت کے لئے صفائی بہت ضروری ہے اتنی ضروری جتنا کہ زندہ رہنے کے لئے تازہ ہوا اور سانس لینا ضروری ہے اور مچھر بھیا نے تو کئی انسانوں کا خون چوس کر اُنھیں ملیریا میں مبتلا کر دیا مگر انسان اتنا بے بس ہے کہ ذرا سے مچھر کو قابو نہیں کر سکتا۔اب تم ہی بتاؤ کوئل بی بی!کہ انسان زیادہ طاقتور ہے یا ہم جیسے ننھے منے پرندے اور حشرات الارض؟“بی مکھی نے بڑے گھمنڈ سے اپنے ساتھیوں سے پوچھا اور خود پھڑ سے اُڑ کے کھجوروں کے ٹھیلے پر جا بیٹھی جس پر اُس کی کل سے نظر تھی لیکن میٹھے میٹھے آموں کو چھوڑنا بھی تو نہیں چاہ رہی تھی۔اب موقع ملا تو وہ کیوں ہاتھ سے جانے دیتی”بی مکھی نے سوال تو اپنے ساتھیوں سے کیا تھا مگر تم بتاؤ بچو!کیا تم بی مکھی کا گھمنڈ خاک میں ملا سکتے ہو؟اگر ہاں تو کیسے؟یہ فیصلہ تم پر چھوڑا۔لیکن فیصلہ کرنے میں دیر نہ کرنا ورنہ“! " ماں کی ممتا - تحریر نمبر 2539,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maa-ki-mamta-2539.html,"شکیلہ اشرفپیارے بچو!ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ،سمندر کنارے ایک درخت تھا جس پر ایک چڑیا نے گھونسلا بنایا ہوا تھا۔ایک دن تیز ہوا چلی تو چڑیا کا بچہ سمندر میں گر گیا۔چڑیا بچے کو نکالنے لگی تو اُس کے پر گیلے ہو گئے اور وہ لڑکھڑا گئی،اُس نے سمندر سے کہا،”اپنی لہروں سے میرا بچہ باہر پھینک دے“،لیکن سمندر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔چڑیا بولی،”دیکھ میں تیرا سارا پانی پی جاؤں گی،تجھے ریگستان بنا دوں گی۔“سمندر نے اپنے غرور میں گرج کر کہا،”اے چڑیا!میں چاہوں تو ساری دنیا کو غرق کر دوں،تو میرا کیا بگاڑ سکتی ہے؟“چڑیا نے یہ سُنا تو بولی،”چل پھر خشک ہونے کو تیار ہو جا“،یہ کہہ کر اُس نے سمندر سے پانی کا ایک گھونٹ بھرا،اور اُڑ کر درخت پر بیٹھ گئی،پھر آئی گھونٹ بھرا،پھر درخت پر جا بیٹھی،یہی عمل اُس نے کئی بار کیا تو سمندر گھبرا کے بولا،”پاگل ہو گئی ہے کیا،کیوں مجھے ختم کرنے لگی ہے؟“،مگر چڑیا اپنی دھن میں یہ عمل دُھراتی رہی،ابھی اُس نے صرف بیس پچیس بار ہی پانی کے گھونٹ پیے ہوں گے کہ،سمندر نے ایک زور کی لہر ماری اور چڑیا کے بچے کو سمندر سے باہر پھینک دیا درخت جو کافی دیر سے یہ سب دیکھ رہا تھا،سمندر سے بولا،”اے طاقت کے بادشاہ تو جو ساری دنیا کو پل بھر میں غرق کر سکتا ہے،اس کمزور سی چڑیا سے ڈر گیا یہ بات میری سمجھ نہیں آئی؟“سمندر بولا،”تو کیا سمجھا میں جو تجھے ایک پل میں اُکھاڑ سکتا ہوں،اک پل میں دنیا غرق کر سکتا ہوں،اس چڑیا سے ڈروں گا؟“ایسا نہیں ہے۔(جاری ہے)دراصل میں تو ایک ماں سے ڈرا ہوں۔ماں کے جذبے سے ڈرا ہوں۔ایک ماں کے سامنے تو عرش ہل جاتا ہے،تو میری کیا مجال،جس طرح وہ مجھے پی رہی تھی،مجھے لگا کہ وہ مجھے ریگستان بنا ہی دے گی پیارے بچو!دیکھا آپ نے ایک چڑیا کو،کیسے اپنے بچے کے لئے سمندر سے لڑ پڑی،کہنے کو چڑیا ہے،لیکن ممتا کا جذبہ اُس میں بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔سب ماؤں کو اپنے بچے عزیز ہوتے ہیں۔آپ کی ماں بھی آپ سے بہت پیار کرتی ہوں گی۔آپ کی ذرا سی تکلیف،دکھ پر پریشان ہو جاتی ہوں گی۔ہے ناں۔ " نادان چڑا - تحریر نمبر 2538,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nadan-chira-2538.html,"عاصمہ فرحین،کراچیکسی جنگل میں خوبصورت رنگوں والی چڑیا اور چڑا اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ایک دن جنگل میں شہر سے بہت سے شکاری آئے اور انھوں نے بہت سارے جال لگائے۔بدقسمتی سے چڑیا کا ایک بچہ اس میں پھنس گیا۔چڑیا اور چڑا بہت پریشان ہوئے۔روئے،چلائے،مگر شکاریوں نے چڑے کو نہ چھوڑا اور وہ اسے لے کر شہر چلے گئے۔دن یوں ہی گزرتے گئے۔چڑیا اور چڑے کے بچے بڑے ہوتے گئے اور انھوں نے اپنے اپنے گھونسلے بنا لیے۔ایک دن چڑیا گھونسلے کے پاس ٹہنی پر بیٹھی ہوئی تھی کہ اتنے میں ایک پیارا سا چڑا اُڑتا ہوا آیا۔کافی دیر گزرنے کے بعد بھی جب چڑیا اس کو پہچان نہ سکی تو چڑا بولا:”پیاری امی جان!میں آپ کا وہی بیٹا ہوں،جسے شکاری جال میں پکڑ کر لے گئے تھے۔(جاری ہے)“یہ سن کر چڑیا بہت خوش ہوئی۔چڑا بھی جب شام کو لوٹا تو اپنے ننھے چڑے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا۔چڑیا اور چڑے نے اسے اپنے چھوٹے سے گھونسلے میں رہنے کی دعوت دی،تاکہ وہ کچھ دن ان کے پاس آرام سے رہ لے اور پھر اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح گھونسلہ بنا لے۔کچھ دن تک تو ننھا چڑا اپنے ماں باپ کے ساتھ کھانے کی تلاش میں جاتا رہا،مگر پھر وہ اُکتا گیا۔وجہ یہ تھی کہ وہ پنجرے میں قید رہ کر سست ہو گیا تھا۔ایک دن اس نے والدین سے کہا:”ایسا کرتے ہیں کہ چاچا بندر کمھار سے چھوٹے چھوٹے مٹی کے پیالے بنوا کر گھونسلے میں رکھ دیتے ہیں،پھر اس میں ہی خوراک اور پانی جمع کرتے رہیں گے۔اس طرح نہ تو ہمیں پریشانی ہو گی اور نہ ہر وقت خوراک کی تلاش میں مارا مارا پھرنا پڑے گا۔“چڑا تو خاموش رہا،مگر چڑیا بولی:”میرے پیارے بچے!”ہم تو اپنا رزق صبح اُٹھ کر اللہ کے بھروسے پر تلاش کرتے ہیں اور آج تک ہم کبھی بھوکے پیٹ نہیں سوئے۔“چڑا بولا:”امی جان!دنیا نے بڑی ترقی کر لی ہے یہ تو پرانی باتیں ہیں۔میں تو چاہتا تھا کہ اس طرح آپ کو اور ابو جان کو آسانی ہو جائے گی۔جب تک میں آپ کے ساتھ ہوں۔آپ کو زیادہ کام نہ کرنا پڑے،میں ہی خوراک تلاش کر کے جمع کرتا ہوں۔“آخر چڑیا اور چڑا راضی ہو گئے اور بندر کمھار سے دو چھوٹے چھوٹے مٹی کے پیالے بنوا کر گھونسلے میں رکھ لیے۔کچھ دن تک تو چڑے کا بچہ بڑے جوش و خروش سے دانا دنکا جمع کرتا رہا،مگر آخر کب تک؟اس کی سست طبیعت اس کے کام میں رکاوٹ بن گئی۔اب وہ بہانے بنا دیتا اور زیادہ تر وقت اپنے دوستوں سے باتوں یا کھیل کود میں گنوا دیتا اور جو کچھ بھی چڑیا اور چڑا جمع کرتے مزے سے کھاتا رہتا۔چڑیا اور چڑا اس وقت کو کوسنے لگے جب انھوں نے اس کی بات مانی تھی۔وہ ایک گرم ترین دوپہر تھی جب جنگل کے جانور اپنی اپنی جگہوں پر دُبکے ہوئے تھے۔چڑیا اور چڑا خوراک کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے،جب کہ ننھا چڑا کھا پی کر مزے سے ایک ٹہنی پر بیٹھا ہوا تھا۔اچانک ایک بھوکا عقاب اُڑتا ہوا آیا۔اس نے اتنا موٹا تازہ چڑا دیکھا تو ایک ہی جست میں اسے پکڑ لیا۔چڑا کیونکہ زیادہ تر بیٹھا رہتا تھا،اس لئے وہ اپنی جان بچانے کی کوشش بھی نہ کر سکا۔چڑیا اور چڑے نے واپس اپنے گھونسلے کی طرف آتے ہوئے یہ سارا منظر دیکھ لیا۔قریب ہی ایک اُلو اونگھ رہا تھا۔کہنے لگا:”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔“ " پکّی دوستی - تحریر نمبر 2537,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pakki-dosti-2537.html,"زہرہ کنول احمد،کورنگیکامی میاں کو جانوروں سے بڑی محبت تھی۔انھوں نے ایک بلی پالی ہوئی تھی۔وہ بڑی پیاری،سفید،نرم و ملائم بالوں والی بلی تھی۔کامی میاں ہر وقت اپنی بلی کے لاڈ اُٹھاتے رہتے۔اتنی توجہ اور محبت پا کر بی بلی تھوڑی مغرور ہو گئی تھی۔ایک بار کامی میاں اپنے دوستوں کے ساتھ جنگل کی سیر کو گئے۔وہاں انھیں ایک پیارا،معصوم سا خرگوش مل گیا۔بس پھر کیا تھا کامی میاں تو تھے ہی جانوروں کے شوقین،وہ خرگوش کو گھر لے آئے اور بڑے پیار سے پالنے لگے۔یہ دیکھ کر بی بلی حسد کے مارے جل گئی۔جب وہ کامی میاں کو خرگوش کے ساتھ کھیلتے اور پیار کرتے دیکھتی تو غصے سے اس کا خون کھول کر رہ جاتا۔دل میں سوچتی کہ کیا اس کمبخت کا رنگ مجھ سے بھی زیادہ سفید ہے یا اس کے بال مجھ سے زیادہ نرم و ملائم ہیں۔(جاری ہے)نہیں!یہ تو میرے سامنے کچھ بھی نہیں۔جب کبھی کامی میاں گھر سے باہر جاتے بی بلی کو تو موقع مل جاتا۔وہ بے چارے خرگوش کو ڈرانے کے لئے خوب غراتی اور اپنے تیز ناخنوں سے اس پر حملہ کرنے کی کوشش کرتی۔ایسے میں خرگوش کونے کھدرے میں چھپ کر اپنی جان بچاتا۔اس کا ننھا سا دل خوف سے کانپ اُٹھتا۔ایک بار سخت گرمیوں کا موسم تھا۔تیز چلچلاتی دھوپ نے سب کو نڈھال کیا ہوا تھا۔سب گھر والے اپنے اپنے کمروں میں دوپہر کے کھانے کے بعد سو رہے تھے۔میاں خرگوش بی بلی کے ڈر سے صحن میں بنی دوچھتی پر کاٹھ کباڑ میں چھپے سو رہے تھے اور بلی صاحبہ صحن میں آرام فرما رہی تھیں۔ہر طرف ہو کا سا عالم تھا۔اچانک گلی میں کھلنے والا صحن کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ کھلا اور ایک موٹا تازہ سیاہ رنگ کا کتا اپنی سرخ زبان لٹکائے گرمی سے ہانپتا ہوا اندر گھس آیا۔بی بلی ہڑبڑا کر اُٹھی اور کتے کو دیکھتے ہی اس کی روح فنا ہو گئی۔کتے کی نظر جب بلی پر پڑی تو وہ بلی کی جانب بڑھا۔بلی نے ڈر کے مارے ہلکی سی آواز نکالی۔دوچھتی پر سوئے ہوئے خرگوش کی آنکھ کھل گئی۔اس نے نیچے جھانکا اور سارا ماجرہ دیکھ کر اس کا ننھا سا دل حلق میں آ گیا۔کتا غراتا ہوا بلی کی جانب بڑھا۔یہ منظر دیکھ کر خرگوش کے دل میں خیال آیا کہ چلو اچھا ہے،آج بلی بیگم کو مزہ آ جائے گا۔کتنا جلتی تھی مجھ سے ہر وقت میرے سکون کی دشمن بنی رہتی تھی۔آج اسے پتا چل جائے گا،مگر پھر اچانک اس کی نیک فطرت نے اس کے دل کو سمجھایا کہ چلو جیسی بھی ہے،میری ساتھی ہے۔مجھے اس کی مدد کرنی چاہیے۔یہ سوچ کر خرگوش نے آس پاس نظر دوڑائی تو اسے آٹے کا خالی کنستر نظر آیا۔خرگوش میاں نے پورا زور لگا کر کنستر کو دھکیلا اور دوچھتی سے نیچے پھینک دیا۔کنستر دھڑام دھڑام کی زور دار آوازوں کے ساتھ سیدھا کتے پر آ گرا۔کتا اس اچانک مصیبت سے ایسا بدحواس ہوا کہ بوکھلا کر بھاگ کھڑا ہوا۔تب بلی کی نگاہ اوپر دوچھتی پر بیٹھے خرگوش پر پڑی تو اس پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔خرگوش کے ساتھ اسے اپنے بُرے سلوک کا شدت سے احساس ہوا اور اس نے خرگوش سے معافی مانگ لی۔اس کے بعد دونوں میں بڑی پکی دوستی ہو گئی۔ " بطخ اور طوطا - تحریر نمبر 2536,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/batakh-aur-tota-2536.html,"عائشہ فرید احمد،میرپور خاصکسی جنگل میں بطخ اور طوطا رہا کرتے تھے۔ان کی آپس میں بہت دوستی تھی۔پورے جنگل کے جانور ان کی دوستی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔اسی جنگل میں ایک کوا بھی رہا کرتا تھا۔اس کا کوئی دوست نہیں تھا،لہٰذا وہ ان کا دوست بننا چاہتا تھا۔ایک دن وہ تالاب کے پاس سے گزر رہا تھا تو تالاب میں سے بی بطخ نے اسے بلایا۔جب وہ اس کے پاس گیا تو وہ بہت پریشانی سے بولی کہ میرے دوست کا کچھ اَتا پتا نہیں وہ تین دن سے میرے پاس نہیں آیا۔پھر اس نے کوے کو طوطے کی کچھ نشانیاں بتائیں اور طوطے کے گھر کا پتا بتایا۔کوے نے اُڑان بھری اور کچھ دیر میں طوطے کے گھر یعنی امرود کے پیڑ پر پہنچ گیا۔جب وہ گھونسلے میں داخل ہوا تو اس نے طوطے کو زخمی پایا۔(جاری ہے)طوطے نے بتایا کہ جب وہ کھانا لے کر گھر واپس آ رہا تھا تو ایک چیل نے اس پر بُری طرح حملہ کر دیا اور وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر آیا۔کوے نے اس کے زخم صاف کیے اور امرود کے پیڑ سے امرود توڑ کر لایا اور اسے کھانے کو دیے اور خود بی بطخ کے پاس گیا اور اس کو ساری روئیداد سنا دی۔تین دن میں طوطے کے زخم ٹھیک ہو گئے۔اس دوران کوے نے اس کا بھرپور خیال رکھا تھا اور بی بطخ کو اس کی خیریت کی اطلاع پہنچاتا رہا۔جب طوطا بالکل ٹھیک ہو گیا تو بطخ اور طوطے نے کوے کا شکریہ ادا کیا اور اس سے دوستی کر لی۔ " ٹمی اور زومی - تحریر نمبر 2535,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/timmy-aur-zoomi-2535.html,"انعم توصیفزومی بستی سے کچھ دور جنگل میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔بستی میں اس کا دوست ٹمی اسے ورغلاتا رہتا کہ جنگل کے مقابلے میں بستی میں کھانے پینے کا بہت آرام ہے۔تم والدین کو بتائے بغیر چپکے سے یہاں آ جاؤ اور مزے کرو۔زومی بہت سیدھا سادہ چوہا تھا۔”یہ بہت مشکل کام ہے میرے لئے․․․․میں․․․․ایسا نہیں ․․․․کر سکتا․․․․“ زومی نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔”ہاہاہاہا!تم سدا کے ڈرپوک ہو۔اچھی زندگی گزارنے کے لئے ہمت تو کرنی ہی پڑتی ہے۔مجھے دیکھو کس بہادری سے وہاں سے نکلا تھا اور آج ساری برادری مجھ جیسی زندگی گزارنا چاہتی ہے۔“ ٹمی نے گردن اکڑاتے ہوئے کہا۔”میں کوشش کروں گا۔“ زومی نے آہستہ آواز میں کہا۔(جاری ہے)زومی نے سوچا کہ میں وہاں جا کر سکون سے رہوں گا تو والدین بھی خوش ہوں گے۔پھر جب میں اپنا گھر بنا لوں گا تو ان کو بھی وہیں بلا لوں گا۔یہاں تو بہت سے مسائل ہیں۔رات کے دو بج رہے تھے۔گہری نیند سوتے ہوئے ماں باپ پر اس نے ایک نگاہ ڈالی اور تیزی سے باہر نکل گیا۔”کیسے ہو میرے دوست؟مجھے تو یقین نہیں ہو رہا۔کیا یہ واقعی تم ہو؟“ ٹمی،زومی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ماں باپ کو بتائے بغیر میں یہاں اتنی دور آ گیا۔“زومی کی آنکھوں میں نمی تھی۔”پریشان مت ہو۔تم کچھ دن یہاں رہو گے تو سب کچھ بھول جاؤ گے۔“ ٹمی نے ایک ٹکڑا پنیر کا اسے دیا اور دوسرا پنیر کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔”آج میں تمہیں پورے گھر کا چکر لگوا دوں گا۔تم سب دیکھ لینا۔پھر آہستہ آہستہ تم اپنے کھانے پینے کا خود انتظام کیا کرنا۔“اگلے دن ہی صبح ٹمی نے بے مروتی سے کہا تو زومی پریشان ہو گیا۔اس نے سر جھٹکا اور روٹی کا ٹکڑا کھانے لگا جو صبح ہی صبح ٹمی کہیں سے لے کر آیا تھا۔”اس وقت سب سو رہے ہیں۔یہ ہی بہترین وقت ہوتا ہے،جب ہم اپنے لئے کھانے کا انتظام کر سکتے ہیں۔“اپنے چھوٹے سے بل سے نکل کر ٹمی اسے انسانوں کے بڑے سے گھر میں لے آیا تھا۔”یہ ہے باورچی خانہ!یہاں آ کر ہمیں کھانا تلاش کرنا ہوتا ہے۔“بڑے سے باورچی خانے کو زومی نے حیرت سے دیکھا۔”اتنا بڑا․․․․․!“ یہ کہہ کر زومی نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو ہاتھ لگنے سے ایک پلیٹ نیچے گر گئی۔”یہ تو کچھ بھی نہیں۔شہر کے اور بنگلوں کے باورچی خانے دیکھو گے نا تو بس․․․․“ آہٹ کی آواز پہ ٹمی نے زومی کو چپ رہنے کا ارادہ کیا تو زومی سوچنے لگا کہ بول کون رہا تھا میں یا ٹمی۔”یہ لڑکی ہے،جس کا نام ستارہ ہے!یہ مجھ سے بہت ڈرتی ہے۔“”امی یہیں سے آئی تھی آواز․․․․․“ ستارہ کی ڈری سہمی آواز اُبھری۔”اس چوہے نے تو ہم سب کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔“”جنگل میں تو ہم محنت کر کے آزادی سے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔اس طرح چوری چھپے نہیں۔“ زومی نے کہا۔وہ دونوں بھاگتے ہوئے بل میں پہنچے۔”محنت!وہ محنت کر کے بھی ایسا لذیذ کھانا تم لوگوں کو کبھی نہیں مل سکتا۔“ ٹمی نے فخریہ انداز میں کہا۔”لیکن ہم جنگل میں آزادی کے ساتھ گھومتے ہیں۔“”تمھیں اتنا ہی جنگل اچھا لگتا تھا تو تم یہاں آئے ہی کیوں؟“ٹمی نے زومی کو گھورتے ہوئے کہا۔”وہ․․․․․تم نے ہی تو کہا تھا کہ میں یہاں آ جاؤں۔“”تم نے میری بات کیوں مانی؟تم اتنے ہی نیک ہو تو اپنے ممی ڈیڈی کو بتائے بنا یہاں کیوں آئے؟“ دکھ کے مارے زومی سے کچھ کہا نہ گیا۔وہ ٹمی کی باتوں میں آ کر اپنے ممی ڈیڈی کو چھوڑ کر یہاں آیا تھا۔اب وہ ہی اسے ایسا سلوک کر رہا تھا۔”یہ گھر میں اس کالے گندے چوہے کی آخری شام ہو گی۔“ستارہ نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیلی کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے کہا۔تھیلی میں سے پیلے رنگ کی کوئی کتاب نما چیز نکال کر ستارہ نے باورچی خانے کا رُخ کیا اور جگہ تلاش کرنے لگی۔ستارہ نے کتاب نما چیز کھول کر ایک جگہ رکھ دی۔میں نے تمھیں یہاں بُلا کر بہت بڑی غلطی کی۔تم جیسے لوگ اُس خراب سے جنگل میں ہی ٹھیک رہتے ہو۔”اب میں کھانا لینے جا رہا ہوں۔“ٹمی نے غرور سے کہا اور بُل سے باہر چلا گیا۔پانچ منٹ بعد ہی ٹمی کے چلانے کی آواز پہ زومی جلدی سے باورچی خانے کی جانب بھاگا۔”بچاؤ!بچاؤ مجھے․․․․زومی!“ کتاب نما چیز پہ ٹمی چپکا ہوا تھا۔اس کے ہاتھ اور پیر جیسے جم گئے تھے۔وہ ہلنے کی کوشش کر رہا تھا،مگر ہل نہیں پا رہا تھا۔”یہ کیا ہے؟ٹمی․․․․کوشش کرو تم․․․․․ہلنے کی کوشش․․․․“ زومی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اور کیا کہے۔”اس ہی وقت ستارہ کی خوشی سے بھرپور آواز ان دونوں کے کانوں سے ٹکڑائی۔“”امی!ہم کامیاب ہو گئے۔ایلفی والی کتاب کام کر گئی۔چوہا چپک گیا۔“پیلے رنگ کی ایلفی لگی کتاب نما بورڈ اور اس پہ چپکا ٹمی کبھی زومی کو دیکھتا اور کبھی تالیاں بجاتی ہوئی ستارہ کو۔اسے اب اپنی ہر وہ حرکت یاد آ رہی تھی جس کی وجہ سے ستارہ اور اس کے گھر والے پریشان ہوتے تھے۔”مجھے بچا لو زومی!“التجائیہ نظروں سے ٹمی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔اس سے پہلے کہ زومی کوئی جواب دیتا۔بلی کی آواز نے ان دونوں کو چونکا دیا۔ستارہ نے ٹمی کو بورڈ سمیت اُٹھا کر بلی کے آگے رکھ دیا۔”زومی!مجھے معاف کر دینا،جنگل لوٹ جانا اور ہمیشہ والدین کی بات ماننا،کیونکہ ان سے زیادہ کوئی تمھارا مخلص نہیں ہو سکتا۔“ٹمی نے روتے ہوئے کہا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔بلی نے منہ پہ زبان پھیرتے ہوئے ایک ہی نوالے میں ٹمی کو کھا لیا۔زومی آنکھ میں آنسو لئے اپنے ممی ڈیڈی سے معافی مانگنے کے لئے جلدی سے جنگل جانے کے لئے گھر سے نکل پڑا۔ " خلوص کے برتن - تحریر نمبر 2534,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khuloos-ke-bartan-2534.html,"تنزیلہ احمدگاؤں میں رحیم نامی کمہار کی بہت شہرت تھی۔گاؤں کے ارد گرد دوسری آبادیوں کے لوگ رحیم کے بنائے گھڑے،تسلے،کونڈے،پیالے اور ہانڈیاں استعمال کرتے۔رحیم کے ہاتھ سے بنے برتن خوبصورت ہونے کے ساتھ پائیدار بھی ہوتے ہیں۔چکنے گھڑے میں رکھا پانی شدید گرمی میں بھی کئی دن تک ٹھنڈا اور ذائقے دار رہتا۔اسی طرح ہانڈیاں بھی سال ہا سال چلتیں اور ان میں پکنے والے سالن بھی ذائقے میں لاجواب ہوتے۔مٹی کی ہانڈی میں پکے ہوئے کھانے کا ذائقہ کسی دوسرے برتن میں پکنے والے کھانے سے یکسر مختلف ہوتا۔رفتہ رفتہ رحیم کے برتنوں کی دھوم اور مانگ بڑھتی گئی۔گاؤں میں بیدو نامی ایک اور کمہار بھی رہتا تھا۔سرخ پہاڑیوں کے اس پار رہنے والا بیدو کمہار رحیم سے بغض رکھتا تھا اور کھلے عام اس سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتا رہتا تھا۔(جاری ہے)اس کے ہاتھ کے بنے ہوئے برتن دیدہ زیب تو ہوتے،مگر انتہائی ناپائیدار،جن کے کنارے جلد جھڑ جاتے تھے۔لوگ اس سے شوق سے برتن خریدتے،مگر کچھ دنوں میں ہی کرچیوں میں بٹ جاتے۔اس بنا پر آہستہ آہستہ گاہک کم ہونے لگے اور بیدو کا کام ٹھپ ہوتا گیا۔غصے میں بھرا وہ پیچ و تاب کھاتا رہتا کہ لوگ برتن احتیاط سے سنبھال نہیں پاتے تو بھلا اس میں میرا کیا قصور․․․․میں تو محنت کرتا ہوں اور میرا کوئی قدردان ہی نہیں،جب کہ رحیم کے تو سب گرویدہ ہیں۔گاؤں والے بیدو کے غصے اور بد زبانی کی وجہ سے بھی اس سے تعلق کم رکھتے تھے۔رحیم بہت رحم دل،نیک اور عاجزانہ فطرت انسان تھا۔وہ برتن بنانے کے لئے اونچی پہاڑی کے قریب میدان سے سرخ اور پیلے رنگ کی چکنی مٹی کے بورے بھر بھر کر لاتا۔گھر آ کر مٹی کو خوب اچھی طرح چھان کر پہلے کنکر وغیرہ الگ کرتا۔اس کے بعد مٹی کو تب تک چھلنی سے گزارتا جب تک صاف ستھری ملائم مٹی کا ڈھیر جمع نہ ہو جاتا۔پھر وہ اللہ کا نام لے کر صاف پانی سے ملائم مٹی کو گوندھ کر،خوب اچھی طرح یکجان کرتا۔گندھی ہوئی مٹی کو گھومتے ہوئے پہیے جسے چاک کہتے،اس پر چڑھاتا اور بڑے پیار اور توجہ سے مٹی کو مطلوبہ شکل میں ڈھال دیتا۔تیار ہونے والے ہر اک برتن کو وہ احتیاط سے کھلے صحن میں دھوپ میں سوکھنے کے لئے رکھ دیتا اور آخر میں کچی مٹی کے برتن بھٹی میں رکھ کر پکا لیتا۔جب سے بیدو کو پتا چلا تھا کہ رحیم کے برتن اب قریبی شہر میں بھی پہنچنے لگے ہیں تو وہ رحیم کی بڑھتی ہوئی شہرت سے بہت پریشان رہنے لگا تھا،اس لئے کام سے بیدو کا دل اچاٹ ہوتا گیا اور تھوڑا بہت جو کام کرتا،بے دلی سے کرتا۔”میں بھی تو وہیں سے مٹی لے کر آتا ہوں،جہاں سے رحیم لے کر آتا ہے۔خوب گوندھ کر اسی طرح گھومتے پہیے پر رکھ کر مٹی کو برتنوں کی شکل دیتا ہوں،خوبصورت نقش و نگار بناتا ہوں،مگر میرے بنائے برتنوں میں وہ بات کیوں نہیں جو رحیم کے بنائے برتنوں میں ہے؟“یہ سوچ سوچ کر وہ کڑھتا رہتا۔رحیم کے بنائے ہوئے برتن تواتر سے بکتے رہے۔اتنا مشہور ہونے کے باوجود رحیم نے اپنے برتنوں کی نہ قیمتیں بڑھائیں نہ زیادہ کام سے کبھی جی چرایا۔وہ اتنی ہی لگن اور محنت سے کام کرتا رہا تھا۔ایک روز بیدو نے سوچا کہ میرا نقصان ہو رہا ہے کیوں نہ میں اپنے نقصان کا بدلہ رحیم سے لوں۔یہ سوچ کر بیدو نے اک شام رحیم کے گھر کا رخ کیا۔گھر کے وسیع و عریض صحن کے ایک حصے میں چاک اور بھٹی لگی ہوئی تھی اور اسی طرف کچے برتنوں کو قطار در قطار سوکھنے کے لئے رکھا گیا تھا۔بیدو نے دیوار سے سر اُٹھا کر اندر جھانکا تو اسے کوئی نظر نہ آیا۔اس نے پاس پڑا ایک پتھر اُٹھایا اور کچھ یوں نشانہ لینے کی ٹھانی کہ ایک ایک کر کے سبھی برتن ٹوٹتے جائیں․․․․اس سے قبل کہ وہ پتھر اُچھالتا،نامعلوم کیسے اس کا پاؤں پھسلا اور وہ پیچھے کی طرف جا گرا۔وہ رحیم کی محنت برباد کرنے آیا تھا،مگر چوٹ کھا کر واپس چلا گیا۔یہ موسمِ سرما کا ایک روشن اور کھلا کھلا سا دن تھا۔حسبِ معمول رحیم نے نرم ملائم گندھی ہوئی مٹی کو گھومتے ہوئے پہیے پر چڑھایا ہی تھا کہ اک فقیر صدا لگاتا ہوا اس کے گھر میں داخل ہوا:”اے اللہ کے بندے!پانی پلا دے بڑی پیاس لگی ہے۔“وہ رحیم کے بنائے برتنوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا تھا۔اسے دیکھ کر رحیم دھیرے سے مسکرایا،اپنے بیٹے کو پانی لانے کا کہا اور خود مٹی کو ہانڈی کی شکل میں ڈھالنے لگا۔اس کی آنکھوں کی نرمی تھی اور جس پیار سے وہ برتن بنا رہا تھا،اس نے فقیر کو چونکنے پر مجبور کر دیا تھا۔پیالے سے پانی پی کر فقیر کا دل خوش ہو گیا۔کیسا میٹھا پانی تھا اور کتنا ہلکا پھلکا سا پیالہ تھا۔”یہ تم نے بنایا ہے نا؟“ اس نے پٹخنے کے انداز میں مٹی کا پیالہ زمین پر رکھا،وہ پھر بھی سلامت رہا۔فقیر نے کہا:”ایک وہ بیدو کمہار ہے جس کے بنائے برتن خوامخواہ ٹوٹتے رہتے ہیں،کھوکھلے اور پُھسپُھسے․․․․․سنا ہے بہت نکما ہے۔مجھے لگتا ہے اسے ڈھنگ سے کام نہیں آتا․․․“رحیم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:”نہیں!کسی کے بارے میں ایسا نہیں کہتے،وہ بھی اچھا کام کرتا ہے۔“اور پھر سے چاک کی طرف متوجہ ہو گیا۔یہ دیکھ کر فقیر بہت حیران ہوا کہ اس نے بیدو کی بُرائی سن کر بھی بُرائی نہیں کی تھی۔حالانکہ رحیم جانتا تھا کہ بیدو اس سے حسد کرتا اور اسے خوب بُرا بھلا کہتا رہتا ہے۔”ضرور تمہارے پاس کوئی جادوئی منتر ہے،اسی وجہ سے تمہارے برتن نہ جلدی ٹوٹتے ہیں نہ ان کی تاثیر خراب ہوتی ہے۔“زیرِ لب بڑبڑاتے ہوئے فقیر اپنی جگہ سے اُٹھا تو رحیم نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا:”جو چیز خلوصِ دل سے بنا کر احترام سے پیش کی جائے گی اس میں برکت ہوتی ہے۔“یہ سن کر فقیر ٹھٹک گیا۔کیسی گہری بات اس نے بہت سادگی سے کہہ دی۔مرے مرے قدم اُٹھاتا وہ جہاں سے آیا اُدھر کو لوٹ گیا۔دن دھیرے دھیرے گزرتے رہے۔رحیم کے برتنوں کی مانگ تو بڑھ رہی تھی،مگر اب لوگ بیدو اور اس کے بنائے برتنوں میں آنے والی تبدیلی کو دیکھ کر بھی حیران تھے۔بیدو نے لوگوں سے خوامخواہ لڑنا جھگڑنا چھوڑ دیا تھا۔کام میں اس کی توجہ اور خلوص قابل رشک حد تک بڑھ چکا تھا۔وہی لوگ جو اس کی بد زبانی سے تنگ تھے،اب اس کے چہرے پر نظر آنے والی نرمی اور مسکراہٹ دیکھ کر چونک اُٹھتے۔لوگوں کے دل بیدو کی طرف سے صاف ہوتے گئے اور دھیرے دھیرے سب اس کے ہاتھ کے بنے خوبصورت نقش و نگار سے سجے برتن خریدنے لگے۔یہ بڑی حیرانی کی بات تھی کہ اب اس کے برتنوں کی عمر بڑھ گئی تھی۔لوگوں کی شکایات دور ہو چکی تھیں۔بیدو زندگی کا اک اہم راز جان گیا تھا،مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس روز رحیم کے گھر میں فقیر کے روپ میں آنے والا دراصل بیدو تھا۔ " اور وہ تمہارے ساتھ ہے - تحریر نمبر 2533,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aur-woh-tumhare-sath-hai-2533.html,"ثروت یعقوب․․․․․لاہورشیخ ادریس احمد کا آج بزنس ٹور تھا۔وہ جب بھی دوسرے شہر جاتے اپنے بچوں کو جیب خرچ کے علاوہ بھی کچھ پیسے دے کر جاتے۔جب وہ واپس آتے تو اُن کی پسند کی کوئی نہ کوئی چیز ضرور ساتھ لاتے۔اچھا بچو!اپنا خیال رکھنا یہ کہہ کر شیخ ادریس نے بریف کیس اُٹھایا اور چل پڑے۔لطیف اُنہیں باہر گیٹ تک چھوڑنے آیا۔لطیف یہ لو،مومنہ اور تم آپس میں بانٹ لینا شیخ ادریس احمد نے اپنی جیب سے چند نوٹ نکالے اور لطیف کی طرف بڑھائے۔کیسا رہے گا اگر میں یہ سارے پیسے خود رکھ لوں اور مومنہ ادریس احمد کو نہ دوں اُسے کونسا پتہ چلے گا۔شیطان لطیف کو اپنے جال میں پھنسا رہا تھا۔سر علیم احمد اسلامیات کے استاد تھے،روزانہ سبق پڑھانے کے بعد ایک آیت یا حدیث سناتے تھے۔(جاری ہے)اُن کا انداز نہایت دلکش تھا۔بچو!آج میں آپ کو ایسی آیت بتاؤنگا جسے ذہن میں لانے سے گناہوں سے بچنا آسان ہو گا،وہ تجسس بھرے انداز میں بولے اور لکھنا شروع کیا۔ترجمہ:”اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے“ بیٹا چوری کرو گے،کوئی دیکھے نہ دیکھے اللہ دیکھ رہا ہے،جھوٹ بولو گے کسی کو پتا چلے نہ چلے اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے،برے خیالات دل میں آئیں یاد رکھو اللہ تعالیٰ دل کے چھپے رازوں کو بھی جانتا ہے۔وہ دھیمے انداز میں سمجھا رہے تھے۔بچو جب بھی دل چاہے کہ یہ گناہ کر لوں،وہ کر لوں،میری نصیحت ہے کہ یہ آیت پڑھ لینا انشاء اللہ تعالیٰ اس گناہ کے کرنے کا خیال تک بھی دل میں نہیں رہے گا،یہ کہہ کر وہ کلاس سے چلے گئے۔لطیف نے ایک فیصلہ کر لیا۔وہ مومنہ ادریس احمد کے پاس آیا،مومنہ ادریس احمد رسالہ پڑھ رہی تھی۔مومنہ ادریس احمد پاپا یہ پیسے دے کر گئے ہیں۔میں کل سے سوچ رہی تھی کہ پاپا اس مرتبہ پیسے دینا کیوں بھول گئے ہیں۔مومنہ حیرت سے کہنے لگی۔لطیف کی پریشانی راحت میں بدل گئی۔ " اچھے بابا - تحریر نمبر 2532,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ache-baba-2532.html,"نیما گلموسم بڑا خوشگوار تھا۔آسمان پہ ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔سورج کی کرنیں پہاڑوں کے درمیان بنے گلیشیئر کے پیچھے سے جھانکتی دلکش نظارہ پیش کر رہی تھیں۔جیپ جب پھولوں سے سجے ہوئے چھوٹے سے کاٹیج کے سامنے رکی تو یاسر بے اختیار چلایا:”واہ بابا!یہ جگہ تو بہت اچھی ہے۔“”ہاں۔“ بابا نے ہنستے ہوئے بولے اور ڈرائیور سے سامان نکالنے کے لئے کہا۔امی جان اور حدیبہ بھی جیپ سے اُتر آئیں اور خوبصورت نظارے دیکھنے لگیں۔”اِدھر کھانے کا کیا انتظام ہے خان بابا!“صدیقی صاحب نے ڈرائیور سے پوچھا۔خان بابا سامان اندر لے جاتے ہوئے بولے:”صاحب!آپ اندر چلیں،میں کھانا چائے سب بھجواتا ہوں۔“کاٹیج نما یہ چھوٹے چھوٹے سے گھر یہاں رہنے والے مقامی لوگوں کے ہیں۔(جاری ہے)خاص طور پر سیاحوں کے لئے ہی بنوا کے سستے داموں کرائے پہ دیتے ہیں۔اس رقم سے ان کی سال بھر کی گزر بسر چلتی رہتی تھی۔یہاں ٹھہرنے والے سیاحوں کے لئے ہلکا پھلکا کھانا اور چائے وغیرہ وہ اپنے گھر سے تیار کر کے ہی لاتے تھے۔”کیوں بھئی!کیسی لگی یہ جگہ؟اب تو آپ لوگ خوش ہیں نا!“ صدیقی صاحب نے ہنستے ہوئے بچوں سے پوچھا۔”بہت اچھی جگہ ہے بابا!“ تیرہ سالہ حدیبہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی:”اتنا خوبصورت نظارہ ہے اور باہر سڑک کے دوسری طرف جھیل بھی ہے۔“”مگر سڑک کے اُس طرف تو پہاڑ ہیں۔“ یاسر بولا۔”نہیں جھیل بھی ہے،میں نے دیکھی۔“”اچھا بھئی اب تم لوگ تھوڑی دیر آرام کر لو،سفر سے تھک کر آئے ہو،شام کو سیر پر چلیں گے۔“امی نے بچوں سے کہا۔اس سال گرمیوں کی چھٹیوں میں یاسر نے امی ابو سے فرمائش کی کہ وہ اس بار کسی چھوٹے سے پہاڑی علاقے کی سیر کرنا چاہتا ہے۔یاسر چھٹی جماعت کا طالب علم تھا اور ایک محنتی اور ہونہار بچہ تھا۔بابا نے اس کی یہ فرمائش پوری کر دی اور وہ لوگ چند دن کی چھٹیاں منانے وادی ہنزہ کے چھوٹے،مگر خوبصورت سے گاؤں کی سیر کو آئے تھے۔شام کو وہ لوگ آرام کر کے اُٹھے تو ایک مقامی شخص شام کی چائے اور بسکٹ وغیرہ لے کر ان کی خدمت کے لئے آ گیا۔شاید اسی آدمی نے ان کو یہ گھر کرائے پر دیا تھا۔اُس کے ساتھ آٹھ نو سال کا ایک چھوٹا بچہ بھی تھا،جو کھانے کی ٹرے اُٹھائے کھڑا تھا۔یاسر نے بڑی دلچسپی سے اسے دیکھا،مگر اسے محسوس ہوا کہ بابا کے چہرے پہ اس بچے کو دیکھ کے ناگواری کے تاثرات چھا گئے تھے۔انھوں نے بچے سے ٹرے بھی نہ لی،بلکہ گھورتے ہوئے اسے بس ٹرے رکھنے کا اشارہ کر دیا۔یاسر کو دکھ ہوا۔کیا اس کے بابا غریبوں کو پسند نہیں کرتے؟اسے پہلی بار یہ احساس ہوا۔یاسر نے بچے کی طرف دیکھا۔وہ ایک سرخ و سفید رنگت والا ایک پیارا سا بچہ تھا جو معصومیت سے اسے دیکھتا چلا گیا۔”چلو یاسر!جھیل پہ چلتے ہیں۔“حدیبہ کی آواز پہ وہ چونکا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ سب گھومنے باہر چلے گئے۔دوسرے دن صبح وہی بچہ ناشتے کی ٹرے لے کر آیا تو صدیقی صاحب نے اس سے ٹرے لے کر کسی بہانے سے اسے باہر بھیج دیا۔یاسر نے یہ دیکھا تو اس کا دل بہت دکھا۔آخر وہ بھی تو اسی کی طرح ایک معصوم بچہ تھا۔یاسر اُداسی سے سوچتا رہا۔کچھ دیر بعد جب وہ،حدیبہ اور امی جان وادی کی طرف چہل قدمی کو نکلے تو یاسر کو وہی بچہ جاتا ہوا نظر آیا۔یاسر بے اختیار اس کے پاس گیا۔”سنو۔تمہارا نام کیا ہے؟“”ارباب خان۔“ نیلی نیلی آنکھیں جھپکتے وہ آہستگی سے بولا۔”پڑھتے ہو؟“یاسر نے پوچھا۔”نہیں،کوئی پڑھاتا نہیں۔“ارباب خان معصومیت سے بولا۔”تو پھر تم کیا کرتے ہو سارا دن؟“”یاسر بیٹا آ جاؤ۔“امی کی آواز سن کر یاسر واپس پلٹا۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ارباب خان کی کسی طرح مدد کرے۔کچھ پیسے۔یا پھر اس کے وہ کپڑے،جو اس نے کم ہی پہنے تھے․․․․․وہ سوچتا رہا۔وہ لوگ واپس گھر آئے تو بابا ارباب خان کے والد سے باتیں کر رہے تھے۔”اتنے چھوٹے بچوں سے آپ کام کرواتے ہیں!ان کی تو ابھی اسکول جانے اور کھیلنے کودنے کی عمر ہے۔“صدیقی صاحب افسوس سے کہہ رہے تھے۔”بس جی․․․․․ہم مجبور ہیں صاحب!ہماری کمائی اتنی نہیں ہوتی کہ ہم بچوں کو پڑھا سکیں اور․․․․․“صدیق صاحب بات کاٹ کر بولے:”میں آپ کے بچوں کی پڑھائی کے سارے اخراجات آپ کو دے رہا ہوں اور آپ اپنا رابطہ نمبر بھی مجھے دے دیں،تاکہ ان معصوم بچوں کی تعلیم میں کبھی رکاوٹ نہ آئے۔“”آپ کی بہت مہربانی۔“ارباب کے والد نے تشکر سے کہا۔یاسر کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا اور وہ بے اختیار اپنے بابا کے گلے میں جھول گیا۔”بابا!آپ دنیا کے سب سے اچھے بابا ہیں۔“اس کی بات پہ سب بے اختیار مسکرا دیے۔ " بطخ اور کوا - تحریر نمبر 2530,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/batakh-aur-kawa-2530.html,"عبیرہ طیب خان،کراچیایک بطخ اور ایک کوے کی دوستی ہو گئی۔کوا بطخ کے پاس تالاب کے کنارے آتا اور دونوں مل کر خوب باتیں کرتے۔ایک دن بطخ بہت اُداس تھی۔کوے نے اس کی خیریت پوچھی تو وہ بولی:”میں اس طوطے کے بارے میں سوچ رہی تھی،جس نے مجھے آسمان سے نظر آنے والے مناظر سے آگاہ کیا۔اب میں سوچ رہی ہوں کہ میں کتنی بد نصیب ہوں کہ اللہ نے مجھے بطخ بنایا۔سمندر کی زندگی کوئی زندگی ہے۔(جاری ہے)کاش!میں بھی ایک طوطا ہوتی اور آسمان کی سیر کرتی۔درختوں پر بیٹھتی۔آہ کیا مزہ آتا۔کوے نے بطخ کی یہ بات سنی تو کہنے لگا:”اللہ میاں نے کوئی چیز بے کار پیدا نہیں کی۔تم ناشکری کیوں بن رہی ہو۔پانی کی زندگی تو دیکھو،کیا مزے دار زندگی ہے۔اگر آسمان سے زمین کا نظارہ دلکش،پُرکشش ہے تو تالاب کے اندر کے رہنے کا مزہ بھی کم نہیں ہے۔“بطخ نے کوے کی بات سنی تو اسے بُری لگی،مگر رات کو ٹھنڈے دل سے سوچا تو کوے کی بات اسے درست لگی۔اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اُس نے مجھے ایک اچھا مشورہ دینے والا دوست دیا۔ " احساس - تحریر نمبر 2529,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehsaas-2529.html,"شعاع قاسممختلف گلیوں کا جائزہ لے کر وہ اس بڑے خالی پلاٹ پر آ کر رک گئی۔یہ پلاٹ کافی عرصے سے مٹی اور کچرے کے ڈھیروں کا مرکز تھا۔بڑے بڑے اونچے نیچے مٹی،پتھر،کوڑے کے ڈھیر اور کئی گڑھے جابجا نظر آ رہے تھے۔اس نے پورے پلاٹ کا ایک جائزہ لیا”یہ جگہ محفوظ رہے گی“ اس نے دل میں سوچا اور سب سے گہرے گڑھے میں آہستہ آہستہ نیچے اُترنے لگی۔اندر گہرائی میں پہنچ کر اسے اطمینان ہو گیا کہ یہاں اس کے بچے حفاظت سے رہ سکیں۔اب اسے جلدی جلدی کھدائی کر کے ایک کھوہ سی بنانی تھی اور اپنے بچوں کو دو گلی پار کھڑی پرانی گاڑی کے نیچے سے یہاں منتقل کرنا تھا۔وہ ایک کُتیا تھی،جس کے چار خوبصورت اور ننھے منے بچے تھے۔وہ بچے چند دن پہلے ہی پیدا ہوئے تھے،لیکن وہ جگہ انتہائی غیر محفوظ تھی۔(جاری ہے)ایک تو بڑے کتوں اور جنگلی بلیوں کا ڈر تھا،دوسرے گلی محلے کے شرارتی بچوں کا خوف بھی تھا۔ان کے علاوہ وہاں سردی سے بچاؤ بھی ممکن نہ تھا،لہٰذا وہ ایک محفوظ و پُرسکون گوشے کی تلاش میں تھی۔اس پلاٹ کے گہرے گڑھے میں بنائی گئی کھوہ سے بہتر جگہ اس کی نظر میں کوئی نہ تھی۔کچھ دیر کھدائی کے بعد ایک چھوٹی سی غار نما کھوہ تیار تھی۔اب اس نے نہایت چابک دستی سے ایک ایک کر کے اپنے چاروں بچے یہاں پہنچا دیے۔بچے اپنی ماں سے لپٹ کر سکون محسوس کرنے لگے اور اس کی گود سے گرمی پا کر جلد ہی سو گئے۔پھر وہ بھی سو گئی،کیونکہ کئی روز سے جاگی ہوئی تھی،تھکن سے بُرا حال تھا۔دن بھر اسے کھانا تلاش کرنے کے لئے گلی گلی پھرنا پڑتا تھا،تاکہ اپنے بچوں کو دودھ بھی پلا سکے اور رات میں جاگ کر دوسرے کتوں سے بچوں کی جان بچانے کیلئے چوکیداری بھی کرنی پڑتی تھی۔لیکن آج کی رات بہت آرام دہ اور بے خوفی کی تھی۔صبح آنکھ کھلتے ہی چاروں بچوں کو اپنے سے لپٹا دیکھ کر اس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔رات بھر کی نیند کے بعد اب وہ چاق چوبند تھی۔بچوں کو دودھ پلا کر اب وہ اپنے لئے کھانا تلاش کرنے کے لئے روانہ ہو گئی۔آج اسے بچوں کی جانب سے کوئی ڈر و خوف نہیں تھا۔کچھ ہڈیاں اور گوشت کے چھیچڑے اسے پلاٹ پر کچرے کے ڈھیر سے ہی مل گئے،لیکن وہ اس کو درکار توانائی کے لئے ناکافی تھے،لہٰذا مزید کی تلاش میں وہ مختلف گلیوں اور سڑکوں کی گشت پر روانہ ہو گئی،کیونکہ اسے صرف اپنا ہی نہیں،بلکہ اپنے چار بچوں کا پیٹ بھی بھرنا تھا۔غذا کی تلاش میں اسے مختلف گلیوں میں گھومتے پھرتے کافی دیر ہو چکی تھی۔دن کے دو پہر گزر چکے تھے۔اب اسے بچوں کی فکر ستانے لگی۔اس نے تیز تیز قدم اُٹھانے شروع کر دیے،لیکن جیسے ہی وہ پلاٹ کے نزدیک پہنچی اس کا دل اُچھل کر حلق میں آ گیا۔جس پلاٹ پر صبح تک سناٹے کا راج تھا،اب وہاں کئی ٹرک،مزدور،سیمنٹ،بجری کے ڈھیر نظر آ رہے تھے۔اس نے بھاگ کر اپنے گڑھے کی جانب جانا چاہا،لیکن قریب کھڑے ایک مزدور نے پتھر مار کر اسے دور بھگا دیا۔اس نے زور زور سے بھونک کر احتجاج شروع کر دیا۔اس کے بچے،وہ ننھی ننھی جان،وہاں تنہا پڑے تھے اور وہیں پر بھاری مشینیں اور انسان کھڑے تھے۔اسی دوران کھدائی کرنے والی گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی۔اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔وہ لگاتار بھونکتے ہوئے گڑھے کی طرف دوبارہ دوڑی،مگر وہاں موجود مزدوروں نے اسے اپنے کام میں حائل ہوتا دیکھ کر پاس پڑا ہوا سریا اُٹھا لیا۔اس سے قبل کہ وہ ان مزدوروں پر حملہ کر دیتی،اس نے دو بچوں کو تیزی سے اسی جانب آتے دیکھا۔قریب آنے پر وہ ان کو پہچان گئی۔یہ دونوں بھائی اسے ہمیشہ اچھے لگتے تھے۔یہ دوسرے شرارتی بچوں کی طرح جانوروں کو تنگ بھی نہیں کرتے تھے۔اگر کوئی بچہ ایسی شرارت کرنا چاہتا تو اس کو پیار سے منع کرتے،لیکن ان بھائیوں کا یہاں کیا کام؟وہ سوچ میں پڑ گئی۔”انکل!انکل“بڑا بچہ چلایا اور ایک جانب اشارہ کر کے بولا:”یہاں اس ٹیلے کے پیچھے کتے کے چار چھوٹے بچے رہتے ہیں۔آپ کھدائی شروع کرنے سے پہلے پلیز انھیں کسی دوسری جگہ نکال کر رکھ دیں۔“بچوں کی بات سن کر اس کے دل کو قرار آ گیا۔”کون ہے بچہ تم!اور تم کو کیسے پتا چلا کہ اِدھر کتے کے بچے ہیں۔“ایک مزدور کوفت سے بولا۔”میں خضر اور یہ میرا چھوٹا بھائی نصر ہے۔ہم وہاں سامنے والے گھر میں اوپری منزل پر رہتے ہیں۔“بڑے بچے نے پلاٹ کے دوسری جانب اپنے گھر کی طرف اشارہ کیا۔’انکل!ہم نے کل اپنی گیلری میں سے اس کو اپنے چار بچے یہاں لاتے ہوئے دیکھا تھا۔“چھوٹے نصر نے اپنی چار اُنگلیاں دکھاتے ہوئے کہا۔مزدوروں نے یہ کہانی سن کر بے زاری سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ٹرک ڈرائیور بھی دور سے چلایا:”او بھائی!کیا مسئلہ ہے؟ہٹاؤ ان بچوں کو۔“”انکل!ہم سچ کہہ رہے ہیں اور جب تک آپ اس کے چاروں بچوں کو باہر نہیں نکالیں گے تب تک ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گے۔“وہ دونوں ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔اس بحث کو سن کر کچھ فاصلے پر کھڑا ٹھیکے دار بھی اسی سمت چلا آیا:”او صادق!اِدھر آ۔“اس نے ایک مزدور کو آواز لگائی:”یہ جو پیچھے گڑھا ہے نا،اس میں اُتر کر دیکھ اگر وہاں کتے کے بچے ہیں،تو ان کو نکال کر باہر رکھ دے۔“ٹھیکے دار اپنے وقت کو مزید ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔مزدور لڑکے نے ڈرتے ڈرتے نیچے جھانک کر دیکھا۔اندر ایک چھپی ہوئی کھوہ میں واقعی چار نومولود بچے موجود تھے۔اس نے چاروں کو باری باری باہر نکالا۔باقی مزدور بچوں کے دعوے کو سچ ہوتا دیکھ کر ایک طرف چلے گئے۔بچوں کو قریب پڑی ایک ٹوٹی کھجور کی ٹوکری میں رکھ دیا۔اسی دوران میں دونوں بھائیوں کی والدہ دور گیلری سے ساری کارروائی دیکھ رہی تھیں۔انھوں نے اشارہ کر کے بچوں سے کہا کہ اس ٹوکری کو یہاں اپنی گرل لگی کیاری میں رکھ دیں،تاکہ یہ چاروں بچے اور ان کی ماں محفوظ رہ سکیں۔دونوں بھائی خوشی خوشی اس ٹوکری کو سنبھال کر اپنی کیاری میں لے آئے۔ان چار چھوٹے ننھے بچوں کی ماں نے خضر،نصر اور ان کی والدہ کو تشکر بھری نظروں سے دیکھا،جنہوں نے اپنے بچوں کو سکھایا تھا کہ اللہ کے نزدیک ہر جان دار اہم ہے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی جانور اور ہم سے یومِ آخرت جانوروں کے ساتھ ظلمانہ یا غلط برتاؤ کی پوچھ گچھ ہو گی،لہٰذا جانور صرف جانور نہیں،بلکہ وہ جاندار بھی ہیں۔ " نکما بندر - تحریر نمبر 2528,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nikamma-bandar-2528.html,"شاہ زیب احمدگنگناتے ہوئے بھورا بندر ٹوکری میں پھل لئے گھر کی طرف واپس جا رہا تھا کہ راستے میں اسے نکما بندر مل گیا۔”واہ بھئی واہ!اچھی اچھی خوشبو والے تازہ تازہ پھل جمع کئے ہوئے ہیں آپ نے،یہ تو باہر سے ہی اتنے اچھے معلوم ہو رہے ہیں اندر سے ان کا ذائقہ کیسا شاندار ہو گا“ نکمے بندر نے پھلوں کی ٹوکری للچائی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔”ارے بھائی!بارشوں کے بعد تو جنگل میں ہر طرف پھل فروٹ تازہ ہیں،سارے جانور آج کل انہیں کھا رہے ہیں اور جان بنا رہے ہیں،لیکن تمہیں اتنی حیرت کیوں ہو رہی ہے اور تم اتنے کمزور کیوں ہو رہے ہو؟“بھورے بندر نے کہا۔”تمہارے سوال کا جواب اس میں ہے“ نکمے بندر نے اپنی ٹوکری سے پتے ہٹاتے ہوئے کہا۔(جاری ہے)”ارے یہ کیا؟تمہارے پاس سارے پھل خراب اور سڑے ہوئے ہیں،ان میں کوئی بھی تازہ نہیں ہے،اس کی کیا وجہ ہے؟“ بھورے بندر نے حیرت سے سوال کیا۔نکمے بندر نے جواب دیتے ہوئے کہا،”دراصل میں نے درختوں پر چڑھنا چھوڑ دیا ہے،اوپر چڑھ کر میں خود کو تکلیف میں نہیں ڈالتا۔“”پھر تم یہ سب کہاں سے جمع کرتے ہو؟“ بھورے بندر نے پوچھا۔نکمے بندر نے کہا،دوسرے جانوروں سے جو گر جاتے ہیں یا جنہیں وہ آدھا کھا کر چھوڑ دیتے ہیں انہیں اُٹھا لیتا ہوں،یا کسی سے مانگ کر رکھ لیتا ہوں،اس طرح میرا کام ہو جاتا ہے۔“”اچھا!تو تم نے محنت کرنا چھوڑ دی ہے،اور بھکاری بن گئے ہو جو خراب اور دوسروں کے بچے کھچے اور پھینکے ہوئے پھل کھا رہے ہو۔“ ”بھورے بندر نے افسوس سے کہا۔میرے بھائی!دراصل مجھ سے محنت نہیں ہوتی،آپ چاہے اسے جو بھی نام دو،نکمے بندر نے کاہلی بتانے کے بعد پھل مانگتے ہوئے کہا،آپ کی ٹوکری تازہ پھلوں سے بھری ہوئی ہے،مجھے کچھ تازہ پھل دے جاؤ،تاکہ آج میں ان کو کھا سکوں،یہ مجھ پر آپ کا بڑا احسان ہو گا۔“”اگر آج میں تمہیں مانگنے پر دے دوں تو میرا یہ احسان نہیں بلکہ ظلم ہو گا اور تمہاری مانگنے کی عادت پکی ہو جائے گی اور محنت سے تمہیں موت آنے لگے گی۔تمہیں چاہئے محنت کرو اور دوسروں سے مانگنا چھوڑ دو“ یہ کہتے ہوئے بھورے بندر نے اپنی ٹوکری اُٹھائی اور بغیر کچھ دیئے وہاں سے چلا گیا۔پیارے بچو!دوسروں سے مانگنے اور سوال کرنے کی عادت بُری ہے،اس کی وجہ سے انسان سُست اور کام چور بن جاتا ہے۔ہمیں چاہئے کہ بھورے بندر کی طرح ایسے لوگوں کی بات نہ مان کر مانگنے کی بُری عادت سے جان چھڑانے میں ان کی مدد کریں۔ " کیمرہ - تحریر نمبر 2527,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/camera-2527.html,"حسیب الحسن مری،سکھرگاؤں کی مسجد کے امام فرقان صاحب اپنے دوست دلاور صاحب سے باتیں کر رہے تھے۔ان دنوں مسجد سے جوتیاں چوری ہونے کے واقعات تواتر سے ہو رہے تھے۔فرقان صاحب نے کہا:”دیکھو میاں!جو خدا کے گھر کی جوتیاں چوری کرتا ہے تو اس کا صاف مطلب ہوا وہ خدا سے نہیں ڈرتا اور وہ لوگوں سے چھپ کر خدا کے گھر میں چوری کرتا ہے،کیونکہ وہ لوگوں کے ہاتھوں رسوا ہونے سے ڈرتا ہے۔“فرقان صاحب نے درمیان میں وقفہ لیا۔دلاور صاحب ان کی باتوں پر غور کر رہے تھے۔(جاری ہے)فرقان صاحب دوبارہ بولے:”دنیا کا اُصول ہے جو جس سے ڈرتا ہے،اسے اسی سے ڈراؤ۔یعنی چور لوگوں سے ڈرتا ہے خدا سے نہیں۔تمہارا اور میرا بلکہ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ خوب دیکھنے والا ہے۔ہمیں تو یہ سوچ کر ہی کہ اللہ ہر وقت ہمیں دیکھ رہا ہے،گناہوں کے قریب بھی نہ جائیں،لیکن افسوس کہ کچھ لوگوں کا معاملہ الگ ہے۔“اس معاملے کا میرے نزدیک تو یہی حل ہے کہ مسجد میں عین جوتوں کی جگہ ایک بینر لگا دیا جائے جس پر لکھا ہوا:”کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔“چور آج چوری کرنے آیا تھا،لیکن اس کی نظر بینر پر پڑ گئی اور کیمرے کے ڈر سے بغیر جوتا چُرائے چلا گیا۔ " انوکھی ترکیب - تحریر نمبر 2526,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/anokhi-tarkeeb-2526.html,"فاکحہ احمد،فیصل آبادجیمز اور فرینک بھائی تھے۔وہ کبھی اپنے والدین کی بات نہیں سنتے تھے۔ان کے والدین ان کو بہت سمجھایا کرتے تھے کہ قصبے سے باہر کبھی نہ جانا،لیکن ایک دن وہ اپنے والدین کی نصیحت کو بُھلا کر گاؤں سے جنگل میں کھیلنے چلے گئے۔وہاں ایک آدمی نے انھیں اکیلا دیکھا تو اغوا کر لیا۔وہ انھیں ایک سمندری جہاز پر لے گیا اور جہاز ان کے ساحل سے دور جانے لگا۔غور کرنے پر وہ آدمی انھیں جانا پہچانا سا لگا۔اس آدمی نے جہاز پر ان سے خوب مزدوری کرائی۔وہ دونوں بہت پریشان تھے۔وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے گھر جانے کے لئے دعا کرتے،لیکن اتنے دن گزرنے کے بعد بھی کوئی انھیں بچانے نہیں آیا۔پھر ایک دن وہ سو کر اُٹھے تو انھیں ایک عجیب سی آواز سنائی دی۔(جاری ہے)وہ باہر آئے اور دیکھا کہ جہاز پر ان کے والدین موجود تھے۔وہ دونوں بھاگ کر ان سے لپٹ گئے اور زور زور سے رونے لگے۔تب انھیں اس بات کا علم ہوا کہ وہ آدمی تو ان کے قصبے کا ہی تھا۔دراصل جب وہ گھر سے نکلے تو ان کے والد نے انھیں دیکھ لیا تھا۔انھوں نے فوراً ولیم سے رابطہ کیا،جو ایک چھوٹے جہاز پر کام کرتا تھا۔اسے ہدایت کر دی تھی کہ بچوں سے خوب کام لینا ہے۔یہ سب ان کے والد کی تدبیر تھی،تاکہ ان کو سبق حاصل ہو۔بچے یہ سب سن کر بہت حیران ہوئے۔اُس دن کے بعد وہ اپنے والدین کی ہر بات پر عمل کرنے لگے۔ " طوطا اور فاختہ - تحریر نمبر 2524,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tota-aur-fakhta-2524.html,"بلال حسینفاختہ،بھولُو بھیا!مجھے ناریل کے کچھ چھلکے دیجئے گا۔”بھولُو دُنبے“کی ناریل شاپ جنگل میں بہت مشہور تھی سب ہی جانور اور پرندے گرمیوں میں یہیں آ کر ناریل کے ٹھنڈے پانی سے اپنی پیاس بجھاتے تھے۔اس وقت بھی کافی جانور بھولُو کی شاپ پر اسٹرا (Straw) لگائے ناریل پانی پینے میں مصروف تھے۔فاختہ کی آواز پر شرارتی طوطے نے مُڑ کے اس کی طرف دیکھا اور طنز کرتے ہوئے کہا،”کیا آج کھانے کو کچھ نہیں ملا جو ناریل کے چھلکے مانگنے آ گئیں؟“فاختہ نے بُرا منائے بغیر جواب دیا،”ارے نہیں طوطے بھائی!کھانا تو کھا چکی ہوں،ان چھلکوں سے آہستہ آہستہ بال نکالوں گی،تاکہ اپنے لئے ایک اچھا سا گھر بنا سکوں“۔طوطے نے حیرانی سے پوچھا،خیریت؟تمہیں بڑی فکر ہو رہی ہے نیا گھر بنانے کی۔(جاری ہے)فاختہ نے شرارتی طوطے کو سمجھاتے ہوئے کہا،”ہاں بھائی!تمہیں تو پتا ہے اگلا موسم بارشوں کا ہے اور اوپر سے موسمیات والوں نے تیز بارشوں کی بھی پیشین گوئی کر رکھی ہے،تو بھلا اسی میں ہے کہ اپنے لئے مضبوط سا گھر بنا لوں،تاکہ آنے والے دنوں میں پریشانی نہ ہو،میری مانو تو تم بھی سیر سپاٹوں کو چھوڑو اور اپنا گھر بنانے میں لگ جاؤ،تاکہ اگلے مہینے تک ایک مضبوط سا گھر تیار ہو جائے۔“”فاختہ بی بی!سردی اور بارش نے کون سا کل ہی آ جانا ہے؟میری مانو!یہی تو دن ہیں گھومنے پھرنے اور مزے اُڑانے کے،باقی آگے تمہاری مرضی۔“یہ کہہ کر طوطا پھُر سے اُڑ گیا۔”آہ نادان بھائی“فاختہ نے طوطے کی بیوقوفی پر افسوس کرتے ہوئے کہا اور اپنے کام میں لگ گئی۔فاختہ اپنے گھر میں کمبل اوڑھے بیٹھی کہانیوں کی کتاب پڑھ رہی تھی جب اسے کسی کی آواز سنائی دی:”فاختہ بہن!فاختہ بہن!مجھے اپنے گھر میں جگہ دے دو،بہت تیز بارش ہو رہی ہے“۔فاختہ نے باہر آ کر دیکھا تو طوطا بارش میں بھیگا،ٹھنڈ کے مارے بُری طرح کانپ رہا تھا۔فاختہ نے طوطے کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا،”میں نے دن رات محنت کر کے گھر بنایا ہے،تمہیں جگہ دے دوں تو خود کہاں رہوں گی؟تم گرمیوں کے موسم میں کہاں تھے!اپنے لئے گھر نہیں بنا سکتے تھے؟“طوطے نے مسکین سی صورت بناتے ہوئے کہا،مجھے بہت سردی لگ رہی ہے اور بارش ہے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی،اس طرح تو میں بیمار پڑ جاؤں گا۔پلیز!میری مدد کرو!مگر فاختہ نے اس کی ایک نہ سُنی ”تم جا سکتے ہو“ کہتے ہوئے دروازہ بند کر دیا۔فاختہ کا انکار سن کر طوطے کے تو اپنے ہی ”طوطے اُڑ گئے“ اور اسے پوری رات بارش میں کانپتے ہوئے ہی گزارنی پڑی۔اب اس کو احساس ہو چکا تھا کہ یہ سب میری سُستی کا نتیجہ ہے۔کاش!گھومنے پھرنے کے بجائے میں بھی گھونسلہ بنا لیتا۔ " جھیل کی سیر - تحریر نمبر 2523,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jheel-ki-sair-2523.html,"شازیہ کاشف،نارتھ کراچیگرمیوں کی چھٹیاں ہوتے ہی ابو نے تینوں بچوں کو خوش خبری سنائی کہ اس دفعہ کی چھٹیاں وہ اپنے آبائی گاؤں جا کر تمہارے دادا کے ساتھ منائیں گے۔حسن،احمد اور عمر بہت خوش ہوئے،کیونکہ گاؤں جا کر جھیل پر سیر کرنے کا انھیں بہت شوق تھا۔اگلے دن جھیل پر پہنچ کر وہ سب حیران رہ گئے،کیونکہ جھیل کا منظر ان کی سوچ کے برعکس تھا۔جھیل کے اوپر جا بجا پلاسٹک کے شاپر،جوس کے خالی ڈبے اور پانی کی خالی بوتلیں تیر رہی تھیں۔جھیل کے ارد گرد بھی کچھ ایسا ہی منظر نظر آ رہا تھا۔ابو نے بچوں کے ساتھ مل کر صفائی کرنے کا فیصلہ کیا۔حسن اور احمد بھاگ کر گاڑی میں گئے اور ان پھلوں کے خالی شاپر لے آئے جو وہ سیر پر کھانے کے لئے اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔(جاری ہے)بچوں نے شاپر میں جھیل کے ارد گرد جمع گندگی کے ڈھیر کو سمیٹنا شروع کر دیا۔ابو نے جھیل میں موجود گندگی کو صاف کرنا شروع کیا۔دوپہر ڈھلنے تک صفائی کا کام مکمل ہو گیا تھا۔سب لوگ بہت تھک چکے تھے۔کھانے سے فارغ ہو کر انھوں نے وہاں خوب لطف اُٹھایا۔صاف ستھرا سبزہ اور جھیل کا چمکتا پانی ان کی تھکن اُتارنے کے لئے کافی تھا۔وہ سب جب واپسی کے لئے روانہ ہونے لگے تو انھوں نے دیکھا کہ کچھ مینڈک خوشی سے اُچھلتے ٹر ٹر کر رہے ہیں۔جیسے ان کا شکریہ ادا کر رہے ہوں۔ " بی لومڑی سدھر گئیں - تحریر نمبر 2522,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bi-lomri-sudhar-gayin-2522.html,"شائستہ زریںبندر میاں تو مشہور ہی اپنی نقالی اور شرارتوں کی وجہ سے تھے جس سے جنگل کے تمام جانور لطف اُٹھاتے لیکن بی لومڑی کو اُن کی یہ حرکت سخت ناگوار گزرتی تھی،کیونکہ اکثر و بیشتر وہ بندر میاں کی شرارت کا نشانہ بنتی تھیں۔بات محض شرارت تک ہوتی تو کوئی بات نہ تھی،بندر میاں مذاق ہی مذاق میں بی لومڑی کی بے عزتی کر دیا کرتے تھے اور اپنی عزت تو سبھی کو پیاری ہوتی ہے۔بی لومڑی نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بندر میاں سے اپنی بے عزتی کا بدلہ ضرور لیں گی اور جلد ہی بی لومڑی کو موقع بھی مل گیا۔ہوا یوں کہ بی لومڑی کو سخت بھوک لگ رہی تھی۔انھوں نے چٹپٹی چاٹ بنائی جسے ندیدوں کی طرح جلدی جلدی کھا رہی تھیں،اپنی اُنگلیاں چاٹ چکیں تو پیالہ زبان سے چاٹنے لگیں۔(جاری ہے)بندر میاں جو اتفاقاً وہاں آ نکلے تھے،بڑے اشتیاق سے بی لومڑی کی ندیدی حرکتیں دیکھ رہے تھے اور وہ اس سے بے خبر مزے سے چٹخارے لیتی جا رہی تھیں اور کہتی جا رہی تھیں واہ مزہ آ گیا۔کیا چاٹ بنائی ہے میں نے،واہ بی لومڑی واہ۔“بندر میاں اُس وقت تو خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے،لیکن کچھ ہی دیر بعد اُنہوں نے سارے جانوروں کو جمع کیا اور بی لومڑی کی وہ نقل اُتاری کہ ہنستے ہنستے سب کا بُرا حال ہو گیا۔دل ہی دل میں بی لومڑی بھی بندر میاں کی فن کاری کا اعتراف کر رہی تھیں،لیکن بھرے مجمع میں اپنی بے عزتی اُنھیں بہت کھل رہی تھی۔بی لومڑی نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کا پکا ارادہ کر لیا۔اُن کی فطرت تھی جب تک انتقام نہ لے لیتیں اُن کو چین نہ پڑتا تھا۔اور بالآخر وہ دن آ ہی گیا جب بی لومڑی نے بندر میاں سے اپنا بدلہ لے لیا۔اُس روز موسم سخت گرم تھا،دھوپ بھی بہت تیز تھی،بندر میاں گرمی سے نڈھال برگد کے سائے میں مزے سے سو رہے تھے۔اُنھیں یوں بے خبر سوتا دیکھ کر بی لومڑی کو اپنا انتقام یاد آ گیا۔وہ دبے پاؤں بندر میاں کے نزدیک گئیں اور خار دار جھاڑی پہلے بندر میاں کے چہرے اور پھر کلائی پر زور سے مار کر پل بھر میں یہ جا،وہ جا۔بی لومڑی اپنی چالاکی کی وجہ سے مشہور تھیں،اب یہ سوچ کر وہ بہت خوش تھیں کہ میں نے اپنا کام کر دکھایا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی،لیکن یہ اُن کی بھول تھی،کیونکہ بی لومڑی کے ستائے ہوئے ریچھ ماما اور بطخ خالہ نے بی لومڑی کی یہ حرکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔اب وہ بندر میاں سے جن کا چہرہ اور کلائی بُری طرح زخمی ہو گئے تھے،اُن کی تکلیف کی شدت محسوس کر کے نہ صرف ہمدردی کر رہے تھے،بلکہ جنگل کے بادشاہ شیر سے بی لومڑی کی شکایت کر کے انصاف کی درخواست پر اصرار بھی کر رہے تھے۔پہلے تو بندر میاں نے انکار کر دیا اور پھر بطخ خالہ کے احساس دلانے پر کہ یہ خاموشی کل بی لومڑی کو اوروں پر ظلم کرنے پر اُکسائے گی بندر میاں نے جنگل کے بادشاہ سے انصاف طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔بندر میاں نے جب تمام ماجرا جنگل کے بادشاہ کو سُنایا تو اُنھوں نے فوراً تمام جانوروں کو دربار میں حاضری کا حکم دیا۔تمام جانور بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو گئے۔بادشاہ سلامت انصاف کی کرسی پر بیٹھے تھے اور بندر میاں بی لومڑی کے ظلم کی داستان سُنا رہے تھے۔ان کا زخمی چہرہ اور کلائی سے رستا ہوا خون بی لومڑی کے ظلم کی گواہی دے رہا تھا۔بطخ خالہ اور ریچھ ماما نے بی لومڑی کے خلاف حلفیہ گواہی دی تھی۔تمام جانور بی لومڑی کو لعنت ملامت کر رہے تھے۔پہلے تو وہ انکار کرتی رہیں لیکن بندر میاں نے ثبوت پیش کر دیے۔کوئی راہِ فرار نہ پا کر بالآخر بی لومڑی نے اقبالِ جرم کر ہی لیا۔جنگل کے بادشاہ شیر نے اپنی گرجدار آواز میں فیصلہ سنایا کہ ایک ماہ تک جنگل کے تمام جانور بی لومڑی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے اور شاہی دربار میں ہونے والے جشن میں بھی بی لومڑی شرکت نہیں کریں گی۔یہ فیصلہ سنتے ہی بی لومڑی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔اُن کی آنکھیں بھر آئیں،جنگل کے اس سالانہ جشن کی تیاری تو وہ کئی ماہ پہلے سے کر رہی تھیں۔بی لومڑی منہ بسورے،کبھی حسرت بھری نظروں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھتیں جن کے ساتھ مل کر انھوں نے اس جشن کی تیاریاں کی تھیں اور کبھی بادشاہ سلامت پر التجا بھری نظر ڈالتیں۔یہ منظر دیکھ کر بندر میاں نے اپنی تکلیف بھلا کر بی لومڑی کی نقل اُتاری۔عادت سے مجبور جو تھے۔پھر یہ عادت اُن کی پیدائشی بھی تو تھی۔کیسے وہ اس سے چھٹکارا پاتے؟تمام جانور ہنس رہے تھے۔بندر میاں کی بے ساختہ اداکاری پر شیر بادشاہ بھی مسکرا دیے۔اپنی بھد اُڑتے دیکھ کر بی لومڑی شرمندہ بھی ہوئیں اور اُداس بھی۔بندر میاں کو وقتی طور پر غصہ تو آ گیا تھا لیکن اب اُنھیں افسوس ہو رہا تھا کیونکہ بی لومڑی کی کافی بے عزتی ہو چکی تھی۔خود بندر میاں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا کہ ایسی شرارت یا مذاق نہیں کرنا چاہیے جس سے کسی کی عزت خراب ہو یا کسی کی دل آزاری ہو۔فطرتاً بندر میاں بہت رحم دل تھے۔اُنھوں نے بادشاہ سے بی لومڑی کے لئے معافی کی درخواست کی تو اُن کی سفارش پر لومڑی کی سزا ختم کر دی گئی۔بندر میاں کی رحم دلی اور درگزر سے کام لینے کا بی لومڑی پر ایسا اثر ہوا کہ اُس دن کے بعد سے انھوں نے کبھی بندر میاں کو کیا کسی کو بھی اپنی چالاکی سے نقصان نہیں پہنچایا۔بی لومڑی نے بندر میاں سے معافی بھی مانگ لی تھی۔اب انھوں نے انتقام سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔دوسروں کو معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کا سبق بی لومڑی نے بندر میاں سے سیکھا تھا۔ " غرور کا انجام - تحریر نمبر 2521,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghuroor-ka-anjam-2521.html,"محمد احسن عرفان،کراچیآج دانیال بہت خوش تھا،کیونکہ وہ پوری جماعت میں اول آیا تھا۔اگلے دن جب وہ اسکول گیا تو اس کے ہم جماعت نوید نے تعریفی لہجے میں کہا:”واہ بھئی!دانی نے تو میدان ہی مار لیا۔“یہ سن کر دانیال نے غرور بھرے لہجے میں کہا:”ہاں اور کوئی میری برابری نہیں کر سکتا۔“وہاں موجود اس کے ساتھیوں کو یہ بات بُری لگی۔رفتہ رفتہ وہ تکبر میں مبتلا ہو گیا۔غرور کی وجہ سے دوستوں کو خاطر میں نہ لاتا۔آہستہ آہستہ وہ اپنے دوست کھوتا جا رہا تھا۔وقت گزرتا رہا اور سالانہ امتحانات قریب آ گئے۔ایک دن وقفے کے دوران دانیال کلاس روم میں داخل ہوا تو ٹھٹک کر رک گیا۔نوید اور احمد پڑھائی میں مشغول تھے۔وہ تیزی سے آگے بڑھا اور ایک جھٹکے سے نوید کی کتاب بند کر دی اور بولا:”اتنی محنت مت کرو،اول تو میں ہی آؤں گا۔(جاری ہے)“”نوید اور احمد کو اس کی بدتمیزی پر غصہ تو آیا،لیکن انھوں نے مصلحت سے کام لیا اور خاموش رہے۔امتحانات کے دوران دانیال کے پرچے تو اس کے خیال میں بہت اچھے ہوئے،لیکن اسے بے چینی تھی۔وہ پوری طرح مطمئن نہیں تھا۔سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان ہو رہا تھا۔سوم افضل،دوم احمد اور اول نوید آیا تھا۔ان کے نمبر اتنے زیادہ تھے کہ ایک لمحے کے لئے دانیال چکرا ہی گیا۔اول تو کیا دوم،سوم تک نہ آ سکا تھا۔غرور کا سر نیچا ہو چکا تھا۔ " مغرور طوطا - تحریر نمبر 2520,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maghroor-tota-2520.html,"سعدیہ رضا،رحیم یار خانیہ گرمیوں کا ایک خوشگوار دن تھا۔ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔ایک کوا تالاب کے کنارے ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہونے لگا۔تالاب میں موجود راج ہنس نے کوے کو دیکھا تو کوے کے پاس آ گیا۔اس نے سلام دعا کے بعد پوچھا کہ تم آج کھوئے کھوئے سے لگ رہے ہو۔کوے نے اُداسی سے کہا کہ میرا رنگ اتنا کالا ہے اور میری آواز بھی بہت بُری ہے۔ہر کوئی مجھ سے نفرت کرتا ہے۔راج ہنس نے کوے کو سمجھایا کہ سیرت،صورت سے زیادہ اہم ہے۔راج ہنس نے کوے کو آسان طریقے سے سمجھانے کا فیصلہ کیا۔اس نے کوے کو کہانی سنانا شروع کی۔ایک جنگل میں کہیں سے طوطا آ گیا۔جنگل کے پرندوں نے اس سے پہلے کوئی طوطا نہیں دیکھا تھا۔(جاری ہے)طوطا نہایت خوبصورت تھا اور اس کی آواز بھی بہت اچھی تھی۔تمام پرندے طوطے کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے اور خوشی محسوس کرتے تھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ طوطا مغرور ہو گیا۔اس نے تمام پرندوں کے اُلٹے سیدھے نام رکھ دیے اور ان پر طنز کرنے لگا۔جلد ہی سارے پرندے طوطے سے دور ہو گئے،کیونکہ جنگل میں ایک ہُد ہُد آیا تھا۔وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوب سیرت بھی تھا۔وہ دوسرے پرندوں کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتا تھا۔آہستہ آہستہ تمام پرندے طوطے سے دور ہو گئے اور ہُد ہُد سے دوستی کر لی۔اسی وقت گوشی خرگوش لکڑیاں لے کر جاتا ہوا نظر آیا۔کوے نے کہا گوشی بھائی!کہاں جا رہے ہو؟گوشی نے کہا:”چھت کی مرمت کرنی ہے۔“کوا گوشی کی مدد کرنے اس کے ساتھ چلا گیا۔کوے کو خوش دیکھ کر راج ہنس اطمینان محسوس کر رہا تھا۔ " خالہ نصیحت - تحریر نمبر 2519,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khala-naseehat-2519.html,"مبشرہ خالدخالہ نصیحت کے حقیقی نام سے بچوں میں کوئی واقف نہیں تھا۔وہ محلے کے کونے والے گھر میں تنہا رہتی تھیں۔میں چھے سال کا تھا جب والدہ نے مجھے ان کے پاس قرآن پاک پڑھنے کے لئے بھیجا تھا۔میں انھیں باجی ہی کہتا تھا،مگر ان کے پاس پڑھنے والے بچے،بچیاں انھیں خالہ نصیحت کہتے ہیں۔مجھے حیرانی ہوئی تھی کہ ایسا کیوں ہے،مگر پھر مجھ پر یہ راز کھل گیا کہ سب انھیں خالہ نصیحت کیوں کہتے ہیں!ایک دن مجھے خالہ کے گھر پہنچنے میں دیر ہو گئی میں نے دروازے پر جلدی جلدی جوتے اُتارے اور دروازہ کو دھکا دیتا ہوا اندر داخل ہوا،خالہ سامنے کھڑی تھیں۔”یہ جوتے تمہارے ہیں؟“ انھوں نے پوچھا۔”جی!جی!جی!خالہ۔“ میں نے اٹکتے ہوئے جواب دیا۔(جاری ہے)”جوتے ایسے اُتارتے ہیں؟جی!جی!خالہ میں کچھ سمجھا نہیں۔جوتے سیدھے کر کے تمیز سے رکھو یہ کوئی طریقہ ہوا،ایک جوتا سیدھا ایک اُلٹا تم نے دروازہ بھی بدتمیزی سے کھولا تھا۔جوتے سیدھے کر کے رکھو اور دروازہ تمیز سے کھول کر اندر آؤ۔“اس دن کے بعد سے آج تک میں جوتے سیدھے رکھتا ہوں اور دروازہ تمیز سے کھولتا ہوں۔وہ اپنے گھر میں قائم مدرسے میں پڑھنے والی بچیوں کو دوپٹہ اوڑھنے کا طریقہ سیکھاتی تھیں کہتی تھیں کہ دوپٹہ اوڑھنا سیکھ جاؤ گی تو عزت سنبھالنا بھی سیکھ جاؤ گی۔اگر کوئی غلطی سے پانی کھڑے ہو کر پی لیتا تھا،اس کی تو شامت ہی آ جاتی۔پڑھنے والے بچے،بچیوں نے ان کا نام خالہ نصیحت رکھ دیا تھا۔کئی بچے،بچیاں ان کی نصیحتوں سے چڑتے تھے۔ایک دن اچانک خالہ کا انتقال ہو گیا۔ان کے جنازے میں محلے کے وہ لڑکے جو ان کی نصیحتوں سے چڑتے تھے آج ان کے لئے رو رہے تھے۔بابر روتے ہوئے کہہ رہا تھا:”میں تیسری جماعت میں فیل ہو گیا تھا۔تعلیم چھوڑ دینا چاہتا تھا،مگر خالہ کے سمجھانے اور نصیحت کرنے پر میری عقل میں یہ بات آ گئی کہ فیل ہونا بُری بات نہیں ہے،تعلیم چھوڑ دینا بُری بات ہے۔اگر وہ مجھے اس وقت نہ سمجھاتی تو میں آج کامیاب انجینئر نہ ہوتا۔“رافع کہہ رہا تھا:”میں گریبان کے بٹن نہ لگاتا تھا۔خالہ کی نصیحت نے مجھے عادت ڈلوا دی۔آج آفس میں سب سے خوش پوش اور تمیز دار انسان ہوں۔“میں سب کی باتیں سن کر صرف یہ سوچ رہا تھا کہ بچوں نے خالہ کا نام خالہ نصیحت رکھ دیا تھا۔وہ چاہتی تو دلبرداشتہ ہو کر بچوں کی تربیت کرنا چھوڑ دیتی،مگر نہیں انھوں نے یہ ثابت کیا کہ مخالفت انھیں کی ہوتی ہے جو حق پر ہوتے ہیں اور حق پر ہونے والوں کو ڈٹے رہنا چاہیے۔ " سچی خوشی - تحریر نمبر 2518,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sachi-khushi-2518.html,"سورج کی پہلی کرن زوبی خرگوش پر پڑی تو وہ جلدی سے اُٹھ بیٹھا،”آج تو مجھے بہت سے کام کرنے ہیں۔“یہ خیال آتے ہی خرگوش نے بستر سے چھلانگ لگائی۔اس نے سوچا کہ سب سے پہلے وہ ناشتے کا سامان لائے گا،پھر اپنے گھر کی صفائی کرے گا۔کل صبح اس کی پیاری خالہ اس سے ملنے آنے والی تھیں۔خالہ کافی دنوں بعد اس سے ملنے آ رہی تھی۔زوبی نے خالہ کے لئے ایک اچھی سی دعوت کا اہتمام کیا۔اس نے لال چھڑی ہاتھ میں لی،سر پر ہیٹ پہنا اور بازار کی طرف چل پڑا۔پہلی دُکان لومڑ خالو کی تھی۔اس نے وہاں سے گاجر اور سیب خریدے۔”یہ آج میرے کھانے کے لئے کافی ہوں گے۔“زوبی نے سوچا اور لومڑ خالو کو پیسے ادا کر کے گھر آ گیا۔پہلے اس نے ناشتہ کیا۔پھر گھر کو دھویا۔جو چادریں میلی تھیں اُنہیں بدلا۔(جاری ہے)کام کرتے کرتے دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا۔اس نے کھانا کھایا۔کافی کام نمٹ چکا تھا۔بس اب اسے دعوت کا سامان لانا تھا۔پہلے اسے پھول خریدنے تھے۔وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا جا رہا تھا کہ اچانک اس کے کانوں میں کراہنے کی آواز آئی۔”ارے!یہ کس کی آواز ہے․․․؟“زوبی چونک اُٹھا۔اس نے غور کیا اور بولا:”یہ آواز تو گیدڑ کے گھر سے آ رہی ہے!“ وہ فوراً گیدڑ کے گھر میں داخل ہوا۔گیدڑ نانا اپنے پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے۔وہ ایک ہاتھ سے میز پر رکھا پانی کا گلاس لینے کی کوشش کر رہے تھے۔زوبی نے فوراً آگے بڑھ کر گیدڑ کو پانی پلایا۔انہیں اس وقت تیز بخار تھا۔گیدڑ نے لرزتی آواز میں کچھ کھانے کو مانگا۔زوبی خرگوش نے دل ہی دل میں اپنے آپ کی ملامت کی کہ پہلے کیوں نہ آ گیا۔وقت تیزی سے گزر رہا تھا،لیکن زوبی گیدڑ کو اس حالت میں چھوڑ کر جا بھی نہیں سکتا تھا۔اس نے کچن میں دیکھا۔وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔وہ فوراً بازار سے گوشت لے کر آیا اور گیدڑ نانا کو کھلا دیا۔اس کے بعد وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔کافی وقت گزر گیا۔دھوپ بھی بہت تیز تھی۔بھالو کے کلینک پر مریضوں کا کافی ہجوم تھا۔مجبوراً وہ قطار میں کھڑا اپنی باری آئی تو اس نے ڈاکٹر بھالو کو گیدڑ کی حالت کے بارے میں بتایا۔ڈاکٹر بھالو نے کہا”وہ سب مریضوں کو دیکھ لیں،پھر اس کے ساتھ چلیں گے۔“ساڑھے چار بج رہے تھے۔آدھے گھنٹے بعد لومڑ خالو کی دکان بند ہونے والی تھی جہاں سے اُسے دعوت کا سامان خریدنا تھا۔زوبی مایوس ہو گیا۔جب وہ ڈاکٹر بھالو کے ساتھ گیدڑ نانا کے گھر پہنچا تو ان کی حالت بڑی خراب تھی۔انہیں کھانسی بھی ہو رہی تھی۔ڈاکٹر نے ان کا معائنہ کیا اور چند دوائیں لکھ دیں جو ظاہر ہے زوبی ہی کو لانی تھیں۔اس نے گیدڑ کو دوا لا کر دی اور ایک خوراک کھلا بھی دی۔گیڈر کی زبان اسے دعائیں دیتے نہ تھکتی تھی۔زوبی کو بہت خوشی تھی کہ اس نے ایک مجبور اور بیمار کی مدد کی،مگر اُسے کل کی دعوت کے نہ ہونے کا بھی افسوس تھا،کیونکہ وہ سامان نہ لا سکا تھا۔وہ کافی تھک چکا تھا۔پھر وہ گھر کی طرف چل پڑا۔گھر کے قریب پہنچ کر اس نے دیکھا کہ ایک بڑا سا بنڈل پڑا ہے جس کے اوپر خوبصورت پھولوں کا گلدستہ بھی رکھا تھا۔وہ حیران تھا کہ پاس والے گھر سے پڑوسی خرگوش نکلا اور خط دیتے ہوئے بولا:”زوبی!تمہاری خالہ آئی تھیں۔وہ بہت جلدی میں تھیں۔یہ خط اور سامان دے گئی ہیں۔“زوبی نے خط لے کر پڑھنا شروع کیا۔اس میں لکھا تھا:”پیارے زوبی․․․․!آج میں کافی دن بعد تمہارے گھر آئی اور تمہارے لئے تمہاری پسند کی سبزیاں اور پھل لائی ہوں۔افسوس کہ تم سے ملاقات نہ ہو سکی۔اس وقت میں جلدی میں ہوں۔پھر کبھی آؤں گی۔(تمہاری خالہ)زوبی خوشی سے اُچھل پڑا۔اسے اپنی خالہ پہلے ہی بہت پسند تھیں،مگر اب تو ان کی محبت اور بڑھ گئی،کیونکہ انہوں نے اس کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل کر دیا تھا۔واقعی کسی کی مدد کرنا رائیگاں نہیں جاتا۔زوبی کو اس کی محنت اور خدمت کا صلہ مل گیا تھا۔اس کی نظروں میں گیدڑ کا کمزور چہرہ گھومنے لگا جو اُسے دعائیں دیتے نہیں تھکتے تھے۔ " جب تک سانس تب تک آس - تحریر نمبر 2516,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jab-tak-saans-tab-tak-aas-2516.html,"نازیہ آصفپیارے بچو!پرانے وقتوں کی بات ہے ایک گاؤں سے تھوڑے فاصلے پہ ایک پرانا کنواں تھا۔جس پہ بیلوں کی جوڑی کو جوت کر پانی نکالا جاتا،جو کھیتوں کی سیرابی کے علاوہ گاؤں کی خواتین کے کپڑے دھونے کے کام بھی آتا تھا۔کبھی اس کنویں پہ بہت رونق ہوتی تھی۔مگر اب بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کے استعمال کے بعد یہ کنواں ویران پڑا تھا۔گاؤں کے لوگ کبھی کبھار کچرا وغیرہ بھی اس میں ڈال جاتے،مٹی اور گھاس پھوس بھی اس میں پڑتے رہنے سے پانی کی تہہ کافی کم ہو چکی تھی،کنویں کے اندر کبھی تو آبی مخلوق کافی تھی۔لیکن کچھ سالوں سے بارشیں کم ہونے کے باعث پانی آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا تھا۔جس سے آبی مخلوق میں بھی خاصی کمی ہو رہی تھی۔کنویں کے دہانے پہ پھلاہی کا جھاڑی نما درخت پھیلا ہوا تھا،جس کی شاخیں کنویں کے اندر نیچے تک پہنچی ہوئی تھیں،جن میں مختلف پرندوں نے گھونسلے بنائے ہوئے تھے۔(جاری ہے)یہ پرندے صبح ہوتے ہی اُڑ جاتے اور شام ہوتے ہی اپنے گھونسلوں میں واپس لوٹتے۔زندگی اچھی گزر رہی تھی کہ پانی کی کمی سے کنویں میں آبی مخلوق کی حالت رفتہ رفتہ بگڑنے لگی،کئی جانور مر گئے۔کنویں سے باہر بھی حالات اتنے اچھے نہ تھے۔خشک سالی سے اناج میں بہت کمی ہو رہی تھی۔درختوں پہ پھل بھی پکنے سے پہلے ہی گر رہے تھے۔انسان جانور سب پریشان ہو رہے تھے۔تیز لو نے تو پانی کے تالاب،جوہڑ سب خشک کر دیے تھے۔اب کنویں کے اندر اکلوتا مینڈک ہی رہ گیا تھا۔جس کا نام سونی تھا۔ایک شام اس نے بھی اچانک سے بولنا بند کر دیا تو گھونسلوں میں موجود پرندوں کو بہت پریشانی ہوئی۔سب نے مینڈک کو آوازیں دیں ”سونی بھیا،سونی بھیا“ چپ کیوں ہو گئے،گاؤ نا،ہم آپ کی آواز سن رہے ہیں۔مگر کوئی جواب نہ پا کر سب گھونسلوں سے باہر نکل آئے۔پھلاہی کی سب سے اونچی شاخ پہ بیٹھے کوے تک بھی خبر پہنچ گئی۔وہ بھی دوسرے پرندوں کے پاس آ بیٹھا،سب کی باتیں سن کر کوا بولا ”میں کنویں کے اندر جا کر پتہ کرتا ہوں تم لوگ پریشاں نہ ہو“۔کوا تھوڑی ہی دیر میں کنویں سے باہر آ گیا اور بتانے لگا ”کہ کنویں میں پانی ختم ہو جانے کی وجہ سے مینڈک سے بولا نہیں جا رہا اور اس کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں۔یہ سن کر سب پرندے سوچ میں پڑ گئے کہ اب کیا کیا جائے؟“طے پایا،کہ فوری طور پہ سب پرندے اُڑ کر جائیں اور قریبی تالاب سے اپنی چونچوں میں پانی بھر کر لائیں،تاکہ سونی بھیا کی جان بچائی جا سکے۔سونی بھیا کو پانی پلایا گیا،تو ان کی جان میں جان آئی،مگر یہ کیا اگلی شام کو پھر وہی کچھ ہوا،سونی بھیا پھر بے ہوش ہونے لگے،تو ایک بار پھر سب پرندے جمع ہوئے۔اب کے بار سونی بھیا کو پانی پلا کر سب اس مسلے کا مستقل حل نکالنے کے لئے مل بیٹھے۔طوطے نے تجویز دی۔سب پرندے شام گھونسلوں میں لوٹتے وقت اپنی چونچوں میں پانی لے آیا کریں گے۔کوے نے کہا ”نہیں گرمی بہت زیادہ ہو رہی ہے اور شام تک سونی بھیا کا یہی حال ہوتا رہا تو ایک دن وہ چل بسیں گے۔“ فاختہ کافی دیر سے چپ بیٹھی تھی۔اس نے تجویز دی کہ سونی بھیا کو یہاں سے نکال کر قریبی تالاب میں پہنچا دیتے ہیں۔کوے کی تجویز کو سب نے پسند کیا،مگر یہ کیسے ہو گا؟اب ایک بار پھر سب پرندے سوچنے بیٹھے۔اتنے میں سونی بھیا کی کمزور سی آواز اُبھری ”مجھے ادھر ہی پڑا رہنے دو دوستو!لگتا ہے اب میرے مرنے کا وقت آ گیا ہے۔بلبل فوراً بولی نہیں دوست ہمت رکھو ہم تمہیں مرنے نہیں دیں گے۔“پھر چڑیا نے ایک تجویز دی جسے سنتے ہی سب عش عش کر اُٹھے،اور اگلے ہی دن اس تجویز پہ عمل شروع ہو گیا۔اگلی شام جب پرندے واپس لوٹے تو سب کچھ نہ کچھ لے کر آئے،کوا کسی کچرے کے ڈھیر سے کچھ ماسک اُٹھا لایا جیسے چڑیا اور بلبل نے انھیں مضبوطی سے پھلاہی کی شاخوں کے ساتھ ایک جھولے کی شکل میں باندھ دیا۔اگلا مرحلہ یہ تھا کہ سونی بھیا کسی طرح اُچھلتے ہوئے ان ماسک کے بنائے گئے جھولے تک جا پائیں۔سونی بھیا جو پہلے بھوک اور پیاس سے بہت کمزور ہو چکے تھے اب بالکل ہی ہمت ہار بیٹھے تھے۔دوستوں کے بہت اصرار پہ سونی نے ایک بار ہمت کر کے جو چھلانگ لگائی تو جھولے کے دوسری طرف جا گرے۔اب تو گویا وہ بالکل ہی مرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔پھر سب نے مل کر سونی کو ہمت دلائی تو سونی بھیا جھولے پہ چڑھنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر سب نے مل کر نعرہ بلند کیا سونی بھیا زندہ باد۔اور جھولے کو اوپر کھینچ لیا۔اب سونی بھیا کنویں کے کنارے اندھے منہ پڑے تھے۔اور سورج غروب ہونے کو تھا اندھیرا ہونے سے پہلے سونی بھیا کو تالاب تک پہنچانا تھا۔ایک بار پھر سونی بھیا کو ترغیب دلانے کی کوشش شروع ہوئی۔تو ایک نئی مصیبت آن پڑی،کسی پرندے کو زمینی راستہ تو معلوم ہی نہ تھا تالاب تک کیسے پہنچتے۔اب چیونٹیوں نے ہمت دکھائی۔ان کا بل بھی پھلاہی کے تنے کے ساتھ تھا،اور وہ بھی گرمی سے تنگ آ کر بل سے باہر نکل کر بیٹھی ہوئی تھیں۔انھوں نے فوراً کنویں سے تالاب تک ایک لمبی لائن بنا ڈالی۔ایک ایک جلوس کی صورت میں سونی بھیا کو تالاب تک لے جایا جا رہا تھا۔سونی بھیا درمیان میں تو دوسرے پرندے آس پاس بہت نیچے اُڑتے ہوئے نعرے لگا رہے تھے۔سونی بھیا جست لگاؤاللہ میاں مینہ برساؤسونی بھیا جست لگاؤاللہ میاں مینہ برساؤسونی بھیا جست لگاؤسب کے ہمت دلانے پہ سونی بھیا بھی تالاب تک پہنچ گئے،اور پانی دیکھتے ہی اندر کود گئے۔جی بھر کر پانی پیا،جان میں جان آئی تو پھر باہر آئے۔سب پرندے دوست انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔سونی بھیا کہنے لگے۔دوستو!آپ سب کا بہت شکریہ آپ کے ہمت دلانے پہ میں یہ بس کر سکا ورنہ میں تو کنویں کو ہی سمندر سمجھ بیٹھا تھا اور مرنے کے لئے بھی تیار تھا۔آپ کی ہمت اور کوشش سے یہ سب ممکن ہوا۔تب کوا بولا:”دوست مایوس نہیں ہوتے آخری دم تک لڑتے ہیں مدد کرنے والی اللہ پاک کی ذات ہوتی ہے وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی دیتی ہے۔“ " ضد نہیں کرنا - تحریر نمبر 2515,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zid-nahi-karna-2515.html,"شاہ بہرام انصاری،ملتان”مما!مجھے آئس کریم لے کر دیں۔میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا“ ننھی عائشہ اپنی مما سے بار بار آئس کریم کھانے کی فرمائش کر رہی تھی۔”بیٹا!میں نے آپ سے کہا نا کہ بچے سردیوں میں آئس کریم نہیں کھاتے ورنہ وہ بیمار ہو جاتے ہیں۔“اُس کی مما اُسے کئی بار یہ الفاظ کہہ چکی تھیں لیکن اُس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔دراصل آج دوپہر کو سکول سے چھٹی کے بعد گھر واپس آتے ہوئے عائشہ نے آئس کریم بیچنے والے کو دیکھا تھا۔آئس کریم اُس کی بہت پسندیدہ چیز تھی،تبھی اُس کے منہ میں پانی بھر آیا۔اُس نے آئس کریم والے سے اُس کی قیمت پوچھی تو اُس نے پندرہ روپے بتائی۔عائشہ نے آئس کریم خریدنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو صرف نو روپے باقی بچے تھے۔(جاری ہے)اُسے بہت غصہ آیا کہ مما اُسے اتنے کم پیسے کیوں دیتی ہیں حالانکہ وہ روزانہ پچاس روپے پاکٹ منی لیتی تھی۔گھر آتے ہی اُس نے مما سے کہنا شروع کر دیا کہ اُسے آئس کریم لا کر دیں۔مما نے اُس کو بہت سمجھایا کہ سردیوں میں آئس کریم نہیں کھانی چاہیے۔تنگ آ کر انہوں نے کہا کہ اُس کے پاپا شام کو آفس سے واپسی پر آئس کریم لے آئیں گے۔بڑی مشکل سے عائشہ راضی ہوئی۔رات کو اُس کے پاپا نے فون پر بتایا کہ آفس میں کام بہت زیادہ ہے،اس لئے وہ آج گھر نہیں آ سکیں گے۔عائشہ کو یہ پتا چلا تو اُس نے دوبارہ ضد شروع کر دی۔آخر مما نے اپنے ملازم فضلو کو بلایا اور اُس کو مارکیٹ سے آئس کریم لانے بھیج دیا۔عائشہ نے مزے لے لے کر آئس کریم کھائی اور پھر سو گئی صبح وہ اُٹھی تو اُس کے گلے میں شدید درد تھا اُس کے تو حلق سے آواز نہ نکل پا رہی تھی۔ساتھ تیز بخار بھی ہو گیا تھا،اس وجہ سے وہ سکول بھی نہ جا سکی۔تھوڑی دیر بعد پاپا گھر آئے تو مما نے اُنہیں ساری بات سے آگاہ کیا۔وہ عائشہ کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گئے اور دوا لے کر آئے۔ڈاکٹر نے بتایا کہ ٹھنڈی شے کھانے کے باعث اُس کا گلا بیٹھ گیا تھا۔شام تک ٹھیک ہو جائے گا۔عائشہ نے گھر آ کر مما سے اپنی ہٹ دھرمی کی معافی مانگی اور کہا کہ میں آج کے بعد سردیوں میں آئس کریم کھانے کی ضد کبھی نہیں کروں گی۔مما نے اسے معاف کرتے ہوئے پیار سے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ننھے ساتھیو!سردی میں آئس کریم اور دیگر ٹھنڈی اشیاء کھانے سے احتیاط کیجئے ورنہ خدانخواستہ بیمار پڑ گئے تو کڑوی دوائیاں کھانی ہو گی اور ہو سکتا ہے موٹی سی سوئی والے انجکشن کی تکلیف سے بھی دوچار ہونا پڑے اس لئے بے جا ضد کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ " زینب کو مل گئی مانو بلی - تحریر نمبر 2514,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zainab-ko-mil-gayi-mano-billi-2514.html,"عاصمہ ثاقبایک تھی مانو بلی‘جو کسی کی چہیتی یا لاڈلی نہ تھی۔اس نے شہر کے ایک کباڑ خانے میں آنکھ کھولی اور پھر اپنی ماں اور دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ مختلف جگہوں کی تبدیلی کے بعد ایک قصاب کی دکان کے پاس رہنے لگی۔وہ ذرا بڑی ہوئی تو ایک دن اس کی بہن رانو بلی کو ایک بہت پیاری سی بچی ایک بڑی سی گاڑی میں بٹھا کر لے گئی اور اس کا بھائی خونخوار کتے کے ہاتھوں دنیا سے رخصت ہو گیا۔وہ ذرا بڑی ہوئی تو اس کی ماں اسے چھوڑ کر چلی گئی۔مانو بلی کئی بار اپنی ماں کے پاس گئی کہ شاید اسے پہچان لے لیکن وہ اسے ہمیشہ اجنبی بن کر ملتی اور مار پیٹ کر بھگا دیتی۔مانو بلی نے بھی آہستہ آہستہ اپنی ماں کو بھلا دیا اور یوں ہی گلیوں میں آوارہ پھرنے لگی۔(جاری ہے)ایک دن اچانک اس نے اپنی بہن رانو بلی کو دیکھا جو ایک بہت بڑے سے لان میں گھاس پر بیٹھی دودھ پی رہی تھی۔مانو بلی فوراً آگے بڑھی اور اسے پکارا لیکن اس نے بھی بہن کو پہچاننے سے انکار کر دیا اور اسے اپنے گھر سے نکال دیا۔مانو بلی کا دل ٹوٹ گیا۔وہ باہر نکلی تو ایک شریر بچے نے نشانہ لے کر ایک پتھر اسے دے مارا۔پتھر اس کی ٹانگ پر لگا اور وہ لنگڑا کر گر پڑی۔بچے کے ساتھی اس کے اس سنہری کارنامے پر قہقہے لگانے لگے۔مانو بلی بڑی مشکل سے اُٹھی اور اپنی زخمی ٹانگ کے ساتھ بھاگ کھڑی ہوئی کہ کہیں باقی بچے بھی پتھر لے کر اس پر اپنا نشانہ نہ آزمانے لگیں۔اسے انسانوں پر غصہ آنے لگا کہ وہ کس دیدہ دلیری سے ہم جیسے معصوم جانوروں پر ظلم کرتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔وہ اپنی زخمی ٹانگ کے ساتھ ایک گھر میں داخل ہوئی تو وہاں ایک مہربان بچی سے اس کا واسطہ پڑا جس کا نام زینب تھا۔زینب کو اس کی حالت پر بہت ترس آیا۔کچھ دیر بعد وہ اس کیلئے ایک پیالے میں دودھ لے آئی۔مانو پہلے تو جھجکی اسے بھوک بھی زوروں کی لگی ہوئی تھی۔مانو بلی نے تھوڑا سا دودھ پیا تو اس کی بھوک اور زیادہ جاگ اٹھی۔اس نے جلد ہی سارا دودھ پی لیا اور لیٹ گئی۔زینب اندر چلی گئی تو مانو بلی نے بھاگنے کا سوچا مگر اپنے اس نئے مہربان دوست کو چھوڑنے کو اس کا جی نہ چاہا۔آخر زینب آئی تو اس کے ہاتھ میں مرہم پٹی تھی۔مرہم پٹی ہونے کے بعد مانو بلی کو کچھ سکون ہوا تو وہ سو گئی۔اگلے دن زینب اسے اپنے گھر کے اندر لے گئی۔اس کے والدین بھی مانو بلی کو مہربان اور اچھے معلوم ہوئے،چنانچہ جلد ہی وہ اس گھر میں گھر کے ایک فرد کی طرح رہنے لگی۔مانو بلی کا دل وہاں لگ گیا۔ان سب کی مہربانیوں کا صلہ اس نے یہ دیا کہ اس گھر میں سے تمام چوہوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔لال بیگ اور دوسرے کیڑے مکوڑے بھی اس نے ختم کر ڈالے۔جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی چوہوں کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ان کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہوتا۔مانو بلی جھٹ انہیں پکڑتی اور کھا جاتی۔اچھا کھانا‘آرام اور سب کی توجہ ملنے لگی تو مانو بلی آہستہ آہستہ کام چور ہونے لگی۔کھا پی کر وہ سارا دن اور رات سوتی رہتی۔اکثر چوری چھپے دودھ بھی پی لیتی۔کبھی دوسری چیزیں بھی چپکے سے ہڑپ کر جاتی۔زیادہ کھانے کی وجہ سے مانو بلی بہت موٹی ہو گئی۔چلنا پھر اس کے لئے دوبھر ہو گیا۔ایک روز چوہوں نے باورچی خانے میں ہلا بولا تو مانو بلی ان کے پیچھے دوڑی،مگر جلد ہی تھک گئی۔چوہے بھی مانو بلی کی کمزوری جان گئے تھے وہ ہر روز اِدھر اُدھر پھرتے اور مانو بلی انہیں پکڑ نہ پاتی‘کیونکہ وہ بہت موٹی ہو گئی تھی۔دوڑنے سے اس کا سانس پھول جاتا اور وہ تھک جاتی۔ایک دن اس نے گھر والوں کو کہتے سنا کہ مانو بلی کو واپس چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ یہ کسی کام کی نہیں رہی۔اتنا سن کر اس کے ہوش اُڑ گئے۔اسے اپنا گلیوں میں پھرنا،شرارتی بچے کا پتھر مارنا اور غریبی کے دن یاد آ گئے۔اسے انسانوں کی خود غرضی پر غصہ آیا لیکن قصور اس کا اپنا بھی تھا۔چنانچہ اگلے دن سے اس نے زیادہ کھانا پینا چھوڑ دیا اور باقاعدگی سے روزانہ بھاگنا‘ورزش کرنا شروع کر دی۔سستی کاہلی چھوڑ کر کام کو اپنا لیا اور پھر جلد ہی وہ دوبارہ چوہوں کے لئے خطرے کا نشان اور گھر والوں کی آنکھ کا تارا بن گئی۔پیارے بچو!آپ بھی سستی چھوڑیں،دل لگا کر پڑھیں اور اپنے ماں باپ کی آنکھ کا تارا بنیں۔ " محنت میں عظمت ہے - تحریر نمبر 2513,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-mein-azmat-hai-2513.html,"ساجد کمبوہ”یار اسد مجھے ٹویٹر کا اکاؤنٹ نہیں بنانا آتا،میری ہیلپ کرو“ وقار نے کہا۔”مجھے تو خود نہیں بنانا آتا،تمہاری ہیلپ کیا کروں؟“”ارے جھوٹے کئی برس سے سمارٹ فون یوز کر رہا ہے،بہانا بازی نہیں چلے گی۔“”میرے بھائی یقین کرو،مجھے ٹویٹر اکاؤٹ نہیں بنانا آتا،رہی بات سمارٹ فون کی تو یہ میری مجبوری ہے،مجھے ڈکشنری سے استفادہ کرنا ہوتا ہے،کچھ نوٹس دوستوں سے واٹس ایپ پر منگوانے پڑتے ہیں،میں تو فیس بک بھی یوز نہیں کرتا،ٹائم کا ضیاع ہے۔“”یار فیس بک میں مزہ نہیں رہا۔پہلے میسج پیکج سے کام چل جاتا تھا،تمام دوست فیس بک پر گئے اب فیس بک پر بھی مزہ نہیں رہا،آدھی سے زائد نیوز غلط ہوتی ہیں۔(جاری ہے)بھائی میری مانو یہ خرافات چھوڑو اور پڑھائی کی طرف توجہ دو،اب پہلے والا دور نہیں رہا کہ فلاں فلاں فیل اور باقی سب پاس۔آج کل تو مقابلے کا دور ہے،ایک ایک نمبر سے میرٹ بنتا ہے،ایک نمبر کم ہے تو میرٹ․․․․“”جب وقت آئے گا،پڑھ لیں گے،ابھی ششماہی ٹیسٹ ہوئے نہیں،تم نے نصیحتیں شروع کر دیں۔میں شہباز سے بنوا لوں گا“ وقار نے کہا۔”بھائی بنوا لو مجھے کیا اعتراض ہے۔مگر یاد رکھنا اب میری نائنتھ اور ٹینتھ میں بنتا ہے۔ہزار سے نمبر کم ہوئے تو نہ پری میڈیکل نہ پری انجینئرنگ میں داخلہ ہو گا،پھر ساری عمر ٹویٹر پر․․․․““دراصل اس الیکشن میں ہماری پارٹی کو ہرایا گیا ہے۔مجھے بہت غصہ ہے۔فیس بک میں مزہ نہیں رہا۔اس کی اکثر خبریں فیک ہونے کی وجہ سے جو کمنٹس کرتا ہوں اگلے دن مذاق بن جاتا ہے۔شرمندگی ہوتی ہے۔“”بھائی غصہ نہ کرو،تمہیں ان جھنجٹوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔“وقار نے کہا:”یہ نصیحتیں اپنے پاس رکھو،تم سمجھتے ہو کہ اگر ٹویٹر پر اکاؤنٹ نہیں بناؤ گے تو میرا اکاؤنٹ نہیں بنے گا؟“۔اسد اور وقار ایک محلے میں رہتے تھے،نرسری سے لے کر نائنتھ تک ایک ساتھ آ رہے تھے۔اسد کے والد نے سمارٹ فون اسے اس شرط پر لے کر دیا تھا کہ اس کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔صرف ڈکشنری یا واٹس ایپ پر کچھ شیئر کرنا مجبوری ہو گی تو کرے گا،یہ نہ ہو کہ موبائل ہر وقت ہاتھوں میں یا کانوں کے ساتھ لگا ہو،دوستوں سے گپ شپ ہو۔اسد نے وعدہ کیا تھا اور وہ وعدہ نبھا بھی رہا تھا جس کی وجہ سے کلاس میں اس کی پوزیشن بہتر ہوئی تھی۔جبکہ وقار کی پروگراس کئی درجے نیچے چلی گئی تھی۔گھر میں،ٹیوشن اور کھیل کے میدان میں بھی موبائل استعمال کرتا تھا،کسی کام میں بھی توجہ نہ تھی۔البتہ فیس بک میں کمنٹس کی وجہ سے خاصا معروف نام بن گیا تھا۔گالی گلوچ،نت نئے کمنٹس کی وجہ سے ایک پارٹی کے لئے قابل قبول جبکہ دوسری پارٹی والے اکثر غلط ریمارکس دیتے تھے جو بعض اوقات باعث شرم بھی ہوتے تھے۔یوں کئی ماہ سے یہ سلسلہ چل رہا تھا۔اب وقار کو ٹویٹر پر جانے کی سوجھی اس نے شہباز سے اکاؤنٹ بنوا لیا۔اب وہ بڑے بڑے اینکر،سیاستدانوں اور کوئی معروف ناموں سے سیاسی جنگ لڑ رہا تھا جس کی وجہ سے پڑھائی میں اس کی توجہ کم ہو رہی تھی جبکہ اسد بھرپور پڑھائی کر رہا تھا۔ششماہی امتحانات میں اسد نے ٹاپ کیا جبکہ وقار بمشکل پاس ہوا۔سر حبیب کو حیرت ہوئی کہ یہ کیسے ہوا؟تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ وقار کی لاپرواہی،عدم توجہ،فیس بک اور ٹویٹر پر وابستگی نے یہ گل کھلائے ہیں،انہوں نے اسے سمجھانے کا فیصلہ کیا۔اگلے روز باتوں باتوں میں انہوں نے ایک سوال کیا۔پیارے بچو!آپ کے علم میں ہے کہ انسان نے سب سے زیادہ تجربات مینڈک،چوہے،مرغیوں اور بندر پر کئے ہیں۔مینڈک کا آپریشن کیا،اس کے مطابق انسانوں پر تجربات کر کے بہت تحقیقات کیں۔ہم بھی ایک تجربہ کرتے ہیں۔ایک کھلے برتن میں پانی لیا،اس میں مینڈک ڈالا اس کے نیچے لیمپ یا چولہا جلا دیا۔پانی آہستہ آہستہ گرم ہونے لگا،اس کے ٹمپریچر کے مطابق مینڈک بھی رنگ بدلنے لگا۔مینڈک نے کئی رنگ بدلے،آخرکار ٹمپریچرز زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ مر گیا۔آپ بتاؤ مینڈک کیوں مرا؟”سر!میرا خیال ہے کہ مینڈک نے ٹمپریچر کا غلط اندازہ لگایا تھا“․․․․․موسیٰ نے کہا۔”سر!اسے یقین تھا کہ وہ اس ٹمپریچر کا مقابلہ کر سکتا ہے مگر اس کا اندازہ غلط نکلا کہ وہ․․․․“سر حبیب نے کہا:”اس مینڈک کا حال اس نادان کی طرح ہے جو سمجھتا ہے کہ وہ وقت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔اسے خود پر اعتماد تھا کہ یہ ٹمپریچر کچھ نہیں ہے۔اگر وہ وقت پر چھلانگ لگا دیتا تو اس کی جان بچ سکتی تھی۔یہی حال ہمارے کچھ طلبہ کا ہے جو سمجھتے ہیں کہ ابھی بہت وقت پڑا ہے۔اس کو احساس برتری یا حماقت سمجھ لو وہ بمشکل پاس ہوئے ہیں،جنہوں نے احساس کیا،وہ ٹاپ کر گئے۔انہوں نے اپنے ٹیلنٹ کے مطابق تیاری کی جبکہ باقی دوستوں کے ساتھ اِدھر اُدھر فضول کاموں میں مصروف رہے۔وقت کا درجہ حرارت بڑھتا گیا،وہ مینڈک کی طرح اپنی موت مر گئے،اگر اب بھی ندامت نہیں ہے تو وہ عمر بھر پچھتائیں گے۔(وقار ارداس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ سر حبیب کا اشارہ کس طرح ہے) اب وقار کو احساس ہوا کہ سر حبیب نے سچ کہا ہے،اس کے والدین اسے بڑی مشکل سے پڑھا رہے تھے۔اس نے پڑھائی کی طرف توجہ دی مگر فیس بک اور ٹویٹر کا نشہ پوری طرح نہ اُتر سکا۔جب بھی کوئی نیا واقعہ ہوتا،وہ پھر اینکرز،سیاستدانوں سے جنگ کرنے لگتا۔“نوماہی امتحان ہوئے،اسد نے حسب معمول ٹاپ کیا مگر وقار سیکنڈ ڈویژن ہی لے سکا۔اسے مزید نصیحت کی ضرورت تھی۔سر حبیب پڑھائی کے ساتھ ساتھ عام فہم تجربات،گفتگو سے بچوں کو کچھ نہ کچھ بتاتے رہتے تھے۔ایک دن موڈ کچھ بہتر تھا تو انہوں نے بچوں سے کہا کہ قریب قریب آ گئے۔انہوں نے حبیب سے ایک ٹشو پیپر نکالا۔گلاس سے تھوڑا سا پانی میز پر گرایا اور ٹشو کا ایک کونہ پانی کے ساتھ لگا دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے پانی سارے ٹشو میں سرایت کر گیا جس سے ٹشو ہو گیا اور بیکار ہو گیا۔انہوں نے کہا:”بچو!یہی حال اچھی اور بری صحبت کا ہے۔آپ پر ڈیپنڈ کرتا ہے کہ آپ اچھی صحبت اختیار کرتے ہو یا بری۔یہ پانی اور ٹشو دیکھ رہے ہو۔یہ ویڈیو گیمز،موبائل گیمز،فیس بکس،ٹویٹر،واٹس ایپ ایک نشہ ہے۔ایسے وقت میں ان کا استعمال فضول ہے اور ٹائم کا ضیاع ہے۔اگر سمجھ جاؤ گے تو زندگی بن جائے گی ورنہ ساری عمر دھکے کھاتے رہو گے۔یہ میسج پیکجز،فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ نے آپ کو کچھ نہیں دینا۔آج ایک سیاسی پارٹی کا عروج ہے،کل اور آ جائے گی،پرسوں تیسری پارٹی۔آپ صرف اور صرف محنت سے پڑھیں۔سب بچوں نے یہ باتیں پلے سے باندھ لیں۔وقار نے سب کچھ چھوڑ دیا محنت کی اور نائنتھ میں A+ میں پاس ہو گیا۔بچو!آپ بھی محنت کریں۔ " نیلی چڑیا اور بلی - تحریر نمبر 2512,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nili-chidiya-aur-billi-2512.html,"شازیہ کاشف،کراچیعثمان ایک بہت نیک اور رحم دل لڑکا تھا۔اس کے پاس ایک پالتو بلی تھی،جس کا وہ بے حد خیال رکھتا تھا۔بلی بھی عثمان سے بے حد پیار کرتی تھی۔ایک دن عثمان گھر کے صحن میں موجود نیم کے درخت کی چھاؤں میں لیٹا آرام کر رہا تھا کہ اسے کسی پرندے کی سُریلی آواز آئی۔اس آواز میں بہت مٹھاس تھی۔پرندے کے چپ ہوتے ہی عثمان کی نگاہیں درخت پر بیٹھی نیلی چڑیا پر پڑیں۔جو درخت کی ایک شاخ پر بنے گھونسلے میں رہتی تھی۔اب روز اس کا معمول بن گیا۔فرصت ملتے ہی اس کی نگاہیں ننھی چڑیا کو تلاش کرتیں۔اس کی آواز سن کر عثمان کے لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی تھی۔عثمان کی دلچسپی چڑیا کی طرف ہوئی تو بلی کی طرف توجہ کم ہو گئی۔اس لئے بلی چڑیا سے حسد کرنے لگی۔(جاری ہے)ایک دن جب عثمان گھر پر موجود نہیں تھا تو بلی درخت پر چڑھ گئی اور گھونسلے کی طرف چھلانگ لگائی۔نیلی چڑیا بلی کا نوالہ بن گئی۔چھلانگ لگانے کے نتیجے میں بلی کے ساتھ ساتھ گھونسلا بھی زمین پر آ گرا۔عثمان گھر میں داخل ہوا تو اس نے چڑیا کا گھونسلا زمین پر گرا ہوا دیکھا اور بلی منہ پر لگے خون کو صاف کرنے میں مصروف تھی۔عثمان ساری بات سمجھ گیا اور اپنا سر پکڑ کر درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔روتے ہوئے اس کے منہ سے بس یہی الفاظ نکلے:”میری پیاری بلی!تم نے ایسا کیوں کیا؟“ " نیکی کا صلہ - تحریر نمبر 2511,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naiki-ka-sila-2511.html,"بشریٰ ناز ثاقب،کراچیسورج غروب ہونے کے بعد ہر طرف سناٹا چھا گیا تھا۔کسی بستی میں ایک عورت اپنے گھر کے دروازے پر پریشان بیٹھی تھی کہ ایک بزرگ کا وہاں سے گزر ہوا۔انھوں نے اس عورت سے سبب پوچھا کہ کیا ہوا تو وہ عورت دکھی آواز میں بولی:”آپ میرا حال سن کر کیا کریں گے؟“بزرگ نے کہا:”تمہاری پریشانی کا کچھ حل تلاش کروں گا۔“وہ عورت بولی:”میرے شوہر کام کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے ہوئے ہیں۔ان کے جانے کے دو دن بعد ہمارے گھر میں چوری ہو گئی ہے۔گھر کا سارا قیمتی سامان چلا گیا۔ایک مصیبت گئی نہیں تھی کہ میرا بچہ گر گیا اور اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔شوہر سے رابطہ نہیں ہو رہا۔گھر میں یہ مصیبت ہے۔آپ بتائیں کیا کروں،کہاں سے لاؤں بیٹے کے علاج کے لئے پیسے؟“یہ کہہ کر وہ عورت رونے لگی۔(جاری ہے)وہ درویش بولے:”تُو اپنے بیٹے کو میرے پاس لے آ۔“عورت فوراً گئی کچھ دیر بعد اپنی گود میں ایک بچے کو لے کر آئی۔بزرگ دونوں کو اپنے گھر لے گئے۔بزرگ بچے کو لے کر ہسپتال چلے گئے۔بزرگ کے گھر والوں نے بھی ان کو کوئی تکلیف نہ ہونے دی۔بچہ کچھ دنوں بعد ٹھیک ہو گیا۔وہ عورت خوشی سے رونے لگی۔بزرگ سے کہا:”آپ نے میرے بچے کا علاج کروا دیا۔آپ کا احسان میں کبھی نہیں بھولوں گی۔“بزرگ نے کہا:”بیٹا!تمہیں شاید یاد نہیں برسوں پہلے میں تمہاری بستی سے گزر رہا تھا۔پیاس کے مارے بُرا حال تھا میں نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔وہ گھر تمہارا تھا۔تم نے مجھے پانی پلایا،کھانا کھلایا اور ہر طرح کا آرام پہنچایا۔میں تمہارا یہ احسان نہیں بھولا۔آج بھی اس کے لئے شکر گزار ہوں۔“عورت یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور اپنے گھر واپس چلی گئی۔شوہر گھر لوٹا تو اسے سب کچھ بتا دیا۔شوہر بھی خوش ہو گیا اور بزرگ کا شکریہ ادا کرنے اس کے گھر چلا گیا۔ " بھروسا - تحریر نمبر 2510,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bharosa-2510.html,"حبیبہ شہزاد،لاہورفرحان کے گھر کے قریب ایک پارک تھا،جہاں شام کو کھیلنے کے لئے بچے اکٹھے ہوتے تھے۔وہیں اس نے ایک آدمی کو دیکھا جو لوگوں کو ان کی قسمت کا حال بتا رہا تھا۔بہت سے لوگ اس سے اپنے مستقبل کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔فرحان نے پوچھا:”بڑے صاحب!میرے مستقبل میں کیا ہے؟“اس ادھیڑ عمر شخص نے اسے مسکرا کر دیکھا پھر اپنے طوطے کو زمین پر پڑے رنگ برنگے لفافوں کی طرف متوجہ کیا۔طوطے نے اُن لفافوں میں سے ایک لفافہ اپنی چونچ سے اُٹھا کر اپنے مالک کو پکڑا دیا۔اس شخص نے لفافہ کھولا اور فرحان سے کہا:”لڑکے!تمہارے آنے والے دن اچھے معلوم نہیں ہوتے۔“فرحان اس کی بات سن کر پریشان نہیں ہوا۔ہاں حیران ضرور ہوا تھا،کیونکہ اسے یقین تھا کہ اللہ کے حکم سے آنے والے دن اس کے لئے اچھی خبر لائیں گے۔(جاری ہے)اس کے امتحانات کا نتیجہ آنے والا تھا اور اس نے امتحانات بھی بہت اچھے دیے تھے اور اسے پوری اُمید تھی کہ اس کے نمبر بھی اچھے آئیں گے۔فرحان نے اس شخص کو اس کی فیس دی اور وہاں سے چلا گیا۔اس نے گھر میں ساری بات بتائی۔اس کی امی نے کہا:”یہ سب دھوکا دہی ہے اور لوگ ان پر بھروسا کر کے اپنے پیسے ضائع کر رہے ہیں۔بس ہمیں اپنے آپ پر اور اللہ پر پورا بھروسا رکھنا چاہیے،کیونکہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔“فرحان کا جو اندازہ تھا،اس کے نمبر اس سے بھی بڑھ کر آئے تھے اور اس نے اپنی جماعت میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔اسے یقین آ گیا تھا کہ طوطے کا پرچی اُٹھانا اور اُس شخص کا یہ بتانا کہ آگے کیا ہو گا،سراسر فراڈ تھا،کیونکہ اللہ کے سوا کسے معلوم کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ " بد فطرت سے دوستی - تحریر نمبر 2509,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bad-fitrat-se-dosti-2509.html,"روبینہ ناز․․․․کراچیایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک کنویں میں بہت سے مینڈک رہتے تھے۔اُن میں سے ایک مینڈک بہت بھدا اور بد صورت تھا۔اُس کے ساتھی اُس کا مذاق اُڑاتے تھے۔اُس وقت بھی سب اُس کا مذاق اُڑا رہے تھے تو اُسے بہت غصہ آیا۔”ہمیں دیکھ تو ایسے غصے سے رہے ہو جیسے ہمیں کھا جاؤ گے۔“ ایک مینڈک نے کہا تو باقی سب ہنسنے لگے۔”میں تم سب کو دیکھ لوں گا۔“ بد صورت مینڈک بولا۔تو سب اُس کا مذاق اُڑاتے ہوئے خوراک کی تلاش میں کنویں سے باہر چلے گئے۔اُن کے جانے کے بعد بھدا مینڈک سوچنے لگا کہ ان سے کیسے بدلہ لو۔پھر وہ بھی کنویں سے باہر آ گیا۔سامنے اُسے ایک سانپ نظر آیا تو مینڈک نے اُس سے کہا:”کیا تم میرے دوست بن سکتے ہو؟“”کیا تمہیں یہ نہیں معلوم کہ سانپ مینڈک کو کھا جاتا ہے؟“ سانپ نے اُس سے پوچھا۔(جاری ہے)”مجھے معلوم ہے،لیکن اگر تم مجھ سے دوستی کر لو تو میں تمہیں ایسی جگہ لے جا سکتا ہوں۔جہاں بہت سے مینڈک ہیں۔“ بھدے مینڈک نے کہا۔”ٹھیک ہے تم مجھے وہاں لے چلو کہ تم مجھ سے دوستی کرنا چاہتے ہو؟“”میں تم سے اس لئے دوستی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں ان سب مینڈکوں سے بدلہ لینا چاہتا ہوں۔جو ہر وقت میرا مذاق اُڑاتے ہیں۔“ مینڈک نے سانپ کو بتایا تو سانپ نے جواب میں کہا۔”ٹھیک ہے دوست!چلو میں تمہارا بدلہ ضرور لوں گا۔“چنانچہ مینڈک سانپ کو اپنے ساتھ کنویں میں لے گیا۔جہاں باقی مینڈک اُن دونوں کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے۔”بہت اکڑتے تھے تم،سب میرا مذاق بھی اُڑاتے تھے۔آج میرا یہ دوست تم سب کو کھا جائے گا۔“ بھدے مینڈک کے کہتے ہی سانپ نے ایک ایک مینڈک کو ہڑپ کر لیا۔اس کے بعد اُس نے بھدے مینڈک کو غصے سے دیکھا جو اُسے دوست سمجھ کر کنویں میں لایا تھا،پھر سانپ نے اُس سے کہا۔”اب میں تمہیں بھی کھا جاؤں گا۔“”مگر ہم تو دوست ہیں“ بھدے مینڈک نے ڈرتے ڈرتے کہا۔”سانپ کسی کا دوست نہیں ہوتا،بے وقوف،اب میں تجھے بھی نہیں چھوڑوں گا۔“ سانپ نے اپنی لمبی زبان باہر نکالتے ہوئے کہا۔”ایک منٹ رکو․․․․․اگر میں تمہارے لئے اور بہت سارے مینڈکوں کو یہاں لے آؤں تو؟“ بھدا مینڈک بولا۔”نہیں تم اُن کو یہاں نہ لاؤ بلکہ میں تمہارے ساتھ جاؤں گا۔“ سانپ بولا۔اگر تم میرے ساتھ گئے تو وہ سب مینڈک ڈر کر بھاگ جائیں گے۔میں اُنہیں کسی طرح بہلا پھسلا کے ادھر لے آتا ہوں۔سانپ مان گیا تو مینڈک کنویں سے باہر نکلا اور جان بچا کر بھاگ گیا۔اُس نے سوچ لیا تھا کہ آئندہ کسی سانپ سے دوستی کرنے کا سوچوں گا بھی نہیں کیونکہ دوستی فطرت دیکھ کر کرنی چاہئے۔ " رحمدل لڑکی - تحریر نمبر 2508,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rehamdil-larki-2508.html,"روبینہ ناز،کراچیکسی گاؤں میں فاطمہ نامی ایک بہت پیاری بچی رہتی تھی۔ایک دن وہ سکول سے گھر پہنچی تو اس کی امی نے کہا:”بیٹا منہ ہاتھ دھو کر یونیفارم بدل لو میں تمہارے لئے کھانا لاتی ہوں۔“فاطمہ کھانا کھانے بیٹھی تو اُسے میاؤں میاؤں کی آواز سنائی دی۔اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا البتہ میاؤں میاؤں کی آوازیں تیز ہو گئیں۔فاطمہ نے دروازہ کھولا تو کونے میں رکھے لکڑی کے کاٹھ کباڑ سے آوازیں آتی محسوس ہوئیں۔وہ آگے بڑھی تو دیکھا کہ بلی کا ایک چھوٹا سا بچہ اپنی ماں کے ساتھ وہاں موجود ہے۔فاطمہ نے اُسے گود میں اُٹھایا تو دیکھا کہ بلی کے بچے کی ٹانگ زخمی ہے۔فاطمہ اندر سے دوا لائی اور بلی کے بچے کے زخم پر لگائی پھر پیالے میں دودھ لا کر اُس کے سامنے رکھا اور بلی کے بچے سے کہا:”تم پریشان مت ہونا میں تمہارے پاس ہی ہوں۔(جاری ہے)“اتنے میں امی نے اسے آواز دی تو فاطمہ اندر چلی گئی۔اگلے دن فاطمہ کی امی نے صبح اُسے سکول جانے کیلئے جگایا تو وہ اُٹھ کر ہاتھ منہ دھونے سے پہلے بلی کے بچے کو دیکھنے چلی گئی،وہ اب پہلے سے بہتر لگ رہا تھا۔فاطمہ اسے دوا لگا کر سکول چلی گئی۔سکول میں سارا دن فاطمہ اُس بچے کے بارے میں سوچتی رہی۔گھر آتے ہی سب سے پہلے اُس نے بلی کے بچے کی خبر لی جو اپنی ماں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔فاطمہ کو دیکھتے ہی وہ فواً اُس کے پیروں سے لپٹ گیا جیسے اُس کا شکریہ ادا کر رہا ہو۔فاطمہ نے اُسے گود میں لے کر پیار کیا اور چھوڑ دیا۔جس طرح فاطمہ نے بلی کے بچے سے ہمدردی کا سلوک کیا،ہم سب کو بھی اسی طرح انسان اور جانور سب کے ساتھ رحمدلی سے رہنا چاہئے کیونکہ یہ بے زبان جانور بھی ہماری ہمدردی اور محبت کے مستحق ہیں۔سیرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان بے زبانوں پر رحم فرماتے اور اُمت کو بھی تلقین فرمائی کے پرندوں اور جانوروں کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آئیں۔ " کاہل بھالو اور شہد کی مکھیاں - تحریر نمبر 2507,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kahil-bhalu-aur-shehad-ki-makhiyan-2507.html,"عاقب جاویدرنگا بھالو اپنی سستی کی وجہ سے جنگل بھر میں نالائق اور نکما مشہور تھا۔جنگل کا قانون تھا کہ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کا کھانا نہیں چرائے گا بلکہ خود محنت کرے گا لیکن اب بھلا رنگا کو یہ بات کون سمجھاتا؟اُسے جس نے بھی سمجھایا،وہ سمجھا سمجھا کر تھک گیا وہ کبھی کسی کی مچھلیاں چُرا لیتا اور کبھی شہد کی مکھیوں کو بھگا کر اُن کا شہد ہڑپ کر جاتا۔اپنی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے وہ کئی بار پٹ بھی چکا تھا لیکن رنگا کو باز آنا تھا،نہ آیا۔ایک دفعہ کا ذکر ہے۔سردیوں کی ایک رات بھوک سے رنگا کا بُرا حال تھا کہ اچانک اُسے درخت پر بھن بھن کی آوازیں سنائی دیں۔اس نے جب اوپر نظر اٹھائی تو اُسے شہد کا چھتا نظر آیا۔اب تو رنگا کے منہ میں پانی بھر آیا،اس نے چھلانگ لگائی اور درخت پر چڑھ گیا۔(جاری ہے)شہد کی مکھیوں نے جب رنگا کو دیکھا تو وہ ڈر گئیں۔شہد کی مکھیوں کی ایک رانی ہوتی ہے،تمام مکھیاں اپنی رانی کی بات مانتی ہیں،رانی نے بھالو سے کہا کہ وہ سارا شہد نہ لے جائے بلکہ جتنی اس کی بھوک ہے،صرف اتنا شہد لے لے۔وہ چاہتا تو وہ شہد کا سارا چھتا لے جاتا لیکن اس وقت وہ مکھیوں سے لڑنے کے موڈ میں نہیں تھا،اسے معلوم تھا کہ شہد کی مکھیوں کا ڈنگ بہت خطرناک ہوتا ہے۔رنگا نے چالاکی سے کہا،”ایک شرط پر ایسا کروں گا“،” مجھے جب بھی بھوک لگے گی،شہد دیا جائے گا۔“رانی نے اس وقت چھتا بچانے کے لئے ہامی بھر لی لیکن بعد میں رانی کو اندازہ ہوا کہ رنگا اُن کی محنت مفت میں ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔کچھ دن تک یونہی ہوتا رہا۔رنگا نے ایک بڑا مرتبان چرا لیا تھا،شہد کی مکھیاں روزانہ شہد مرتبان میں ڈالتی رہیں اور رنگا مزے سے مفت کا شہد کھانے لگا۔مفت کا کھانے میں اسے مزا آنے لگا۔جب کبھی شہد کم ملتا یا دیر سے ملتا،رنگا بھالو زور زور سے چیخیں مار کر درخت کو ہلا کر رانی کو ڈراتا۔رانی نے بھالو کی اس بدمعاشی سے تنگ آ کر ایک دن تمام مکھیوں کو جمع کیا اور کہا ”رنگا کی بدمعاشی روز بروز بڑھ رہی ہے۔وہ ہم سے زبردستی ہمارا کھانا لے جاتا ہے اور خود سارا دن کاہلوں کی طرح پڑا رہتا ہے۔جو جانور ایسا کرتا ہے وہ جنگل والوں کے لئے بدنما داغ ہے۔ہمیں اسے سبق سکھانا چاہیے۔“مکھیوں نے ”بھن بھن“ کی آوازیں نکال کر رانی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔فیصلہ ہوا کہ دوپہر میں رنگا پر ایک ساتھ حملہ کیا جائے گا۔رانی نے اس موقع پر دیگر جانوروں سے رابطہ کر کے مدد کی درخواست کی۔بندر بھی رنگا سے بہت تنگ تھے،کیونکہ وہ ان کے کیلے کھا جاتا تھا،بندروں نے بھی رانی کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔دوپہر کے وقت رنگا شہد ملنے کا انتظار کر رہا تھا لیکن اب تک ایک مکھی بھی شہد لے کر نہیں آئی تھی۔اسے غصہ آنے لگا۔رنگا غصے سے چیخا جیسے آج وہ درخت ہی گرا دے گا،اچانک اُسے ایک مکھی آتی دکھائی دی۔رنگا اُسے بُرا بھلا کہنے لگا ”میں تم سب کو رانی سمیت مار ڈالوں گا۔“”رنگا․․․․!اب بہت ہو چکا․․․․تمہیں اس بدمعاشی سے باز آنا ہو گا۔“رانی کی آواز آئی۔”تمہاری یہ جرات مجھے سمجھاؤ،میں تمہیں ابھی بتاتا ہوں،کہاں ہو تم سامنے آؤ ڈرپوک رانی“ ابھی اس نے کہا ہی تھا کہ اسے بہت ساری شہد کی مکھیوں کا شور سنائی دیا۔”اُف!یہ کیا کرنے لگے ہیں؟“رنگ کہتے ہوئے پیچھے ہٹنے لگا تو اس کا پیر پھسلا اور وہ درخت سے نیچے گر گیا۔شہد کی مکھیوں نے اس پر حملہ کر دیا تھا۔”اُف․․․․آئی․․․․میں مر گیا․․․․آئندہ نہیں کروں گا․․․․اُف بچاؤ کوئی مجھے․․․․“رنگا بھالو چیختے ہوئے بولا۔لیکن اب کوئی بچانے والا نہیں تھا۔دوسری طرف بندروں نے بھی ناریل توڑ توڑ کر مارنا شروع کر دیے تھے،دو ناریل ہی بھالو کو لگے،جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور وہ درد سے کراہتے ہوئے بھاگ گیا۔ایسا بھاگا کہ پھر کبھی کسی کو نظر ہی نہیں آیا۔پتا نہیں وہ کہاں گیا،کوئی کہتا ہے کہ اس کے سر سے خون بہنے کی وجہ سے وہ مر گیا،کوئی کہتا کہ وہ پہاڑوں میں رہنے لگا ہے لیکن حقیقت کیا ہے،آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا لیکن مکھیوں کی اُس سے جان چھوٹ گئی۔ " برداشت کرنا ہی زندگی ہے - تحریر نمبر 2506,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bardasht-karna-hi-zindagi-hai-2506.html,"ساجد کمبوہزینب پڑھائی کے ساتھ ساتھ لڑائی میں بھی تیز تھی۔عید آنے والی تھی سب اپنے اپنے گھر کی صفائی کر رہے تھے۔امی نے زینب کو بھی گھر کی صفائی میں ہاتھ بٹانے کا کہا مگر وہ گھر کی صفائی کیا کرنے لگی۔سارا گھر سر پر اُٹھا لیا،یہ ریپر کس نے پھینکا ہے؟یہ جوتے لے کر کون گیا ہے؟یہ صوفے کی گدی ٹیڑھی کیوں ہے؟یہ بستر کی چادر ادھر کیوں ہے؟یہ تکیہ ادھر کیوں ہے؟جوتے ایک لائن میں رکھو،اس کے والد اس کی عادت سے بہت پریشان ہوئیں۔اسے سمجھانے لگیں کہ بیٹی یہ عادت تو نہیں ٹھیک۔وہ اکثر چھوٹے بھائی اور بہنوں پر بھی ہاتھ اُٹھاتی تھی۔والدین کہیں گئے ہوتے تو گھر پر اس کی حکمرانی ہوتی،ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول اور بچوں کا کنٹرول اس کے ہاتھ میں ہوتا۔(جاری ہے)بچے اس کی شکایتیں کرتے تھے کیا اور اس کی پٹائی سے ڈرتے تھے۔ایک دن اس کے والد نے اسے سمجھانے کا سوچا۔زینب کو بلایا اسے کہا کہ گھر میں کہیں جالا ہو تو اسے نہ ہٹایا جائے اسے صاف نہ کیا جائے۔زینب نے کچھ دن کے بعد بتایا کہ فلاں کونے میں مکڑی جالا بن رہی ہے اس کے والد نے کہا کہ وہ روز اسے دیکھتی رہے۔جب جالا مکمل ہو جائے تو اسے بتایا جائے۔کچھ دنوں کے بعد جالا مکمل ہو گیا۔اگلے دوچار دن میں ایک مکھی پھنس کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔اس کے والد نے زینب کو سامنے بٹھایا اور کہا!دیکھو بیٹی!مکڑی نے جب جالا بننے کے لئے پہلی تار شروع کی،اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی تم نے خود دیکھا کہ روز روز تار سے ایک جالا بن گیا اتنا مضبوط ہو گیا کہ ایک طاقتور مکھی اس میں پھنس کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔اب مکڑی اسے مزے سے کھائے گی۔بالکل یہی حال انسانی عادات کا ہے۔شروع شروع میں محسوس نہیں ہوتیں،مگر آہستہ آہستہ پختہ ہو جاتی ہیں۔یوں انسان اپنے گرد جالا بنتا جاتا ہے۔اور مکھی کی طرح پھنس جاتا ہے۔”پیاری بیٹی!یہ روز روز کی عادت انسان کی فطرت بن جاتی ہے اور فطرت کبھی بدلا نہیں کرتی۔پیاری بیٹی!دنیا میں ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی زندگی ہے،زینب کی سمجھ میں یہ باتیں آ گئیں۔اس نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ایسا رویہ نہیں اپنائے گی۔‘‘پیارے ساتھیو!ہمیں چاہیے کہ اچھی عادتیں اپنائیں جو مستقبل میں ہمارے کام آ سکیں۔ " سونے کی اینٹیں - تحریر نمبر 2505,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sone-ki-entain-2505.html,"روبینہ نازگاؤں کے دو نوجوان بہتر روزگار کی تلاش میں کسی بڑے شہر کی طرف نکل پڑے۔کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ کچھ سستانے کو ایک درخت کے پاس بیٹھ گئے انہیں بیٹھے ہوئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک اجنبی ان کے پاس آیا اور بیٹھنے کی اجازت مانگی تو دونوں نے دے دی۔باتوں ہی باتوں میں اس اجنبی نے کہا:”غربت کا مارا ہوں اور روزگار کی تلاش میں نکلا ہوں۔ان دونوں نے بھی ایسا ہی کہا،پھر وہ تینوں مل کر انجان راستے کی طرف چل پڑے۔جب تھک گئے تو آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے۔اچانک ان کی نظر چمکتی ہوئی اینٹوں پر پڑی،قریب جا کر دیکھا تو وہ سونے کی اینٹیں تھیں۔بہت خوش ہوئے ایک نے کہا:”بھوک لگی ہے۔کچھ کھا لیں،پھر ان کو تقسیم کرتے ہیں۔“اجنبی بولا:”میں جا کر لے آتا ہوں۔(جاری ہے)یہ کہہ کر چل پڑا اس کے جانے کے بعد دونوں کی نیت میں کھوٹ آ گیا۔انہوں نے سوچا ان پر صرف ہمارا حق ہے۔ایسا کرتے ہیں کہ اسے مار ڈالتے ہیں۔نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔“دونوں اس بات پر متفق ہو گئے اور اس کا انتظار کرنے لگے ادھر وہ اجنبی جنگل سے نکل کر ایک قصبے میں گیا اور وہاں سے کھانا لیا۔اسی دوران اس کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر اس کھانے میں زہر ملا کر دونوں کو مار ڈالوں تو وہ سونے کی اینٹیں صرف میری ہو جائیں گی۔جنھیں بیچ کر سکون سے زندگی گزاروں گا۔یہ سوچ کر اس نے کھانے میں زہر ملا دیا۔اجنبی کھانا لے کر جوں ہی ان نوجوانوں کے پاس پہنچا تو انہوں نے اسے گلا دبا کر مار دیا۔پھر بھوک سے بے حال دونوں نوجوانوں نے جلدی جلدی کھانا کھایا۔اس کے بعد دونوں خوشی سے سرشار اینٹیں اُٹھانے جھکے ہی تھے کہ زہر نے اپنا اثر دکھایا چند ہی لمحوں میں وہ دونوں بھی زہر کے اثر سے ہلاک ہو گئے اور وہ سونے کی اینٹیں یوں ہی چمکتی رہ گئیں۔اسی لئے کہتے ہیں لالچ بُری بلا ہے سونے کی اینٹوں کی لالچ نے تینوں کی جان لے لی۔ " عید مبارک - تحریر نمبر 2504,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/eid-mubarak-2504.html,"نذیر انبالویان کا خاندان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔بچوں کے گھر تو الگ الگ ہو گئے تھے،مگر ان کا اسکول اب بھی ایک ہی تھا۔اسکول بھی الگ ہو جاتے اگر سالانہ امتحان قریب نہ ہوتے۔اب کسی دوسرے اسکول میں داخلہ ملنا ممکن نہیں تھا۔چند دن پہلے سارے بچے ایک ہی گاڑی میں اسکول آتے تھے،اب الگ الگ گاڑیوں میں اسکول پہنچتے تھے۔بچوں سے کہا گیا تھا کہ آپس میں بات چیت نہیں کرنا۔دانیال اور عبدالرحمن کی تو ایک ہی جماعت تھی،دونوں ساتھ ساتھ بیٹھتے تھے۔”مانو بلی کیسی ہے؟“ دانیال نے پوچھا۔”ہماری طرح وہ بھی اُداس ہے،میاؤں،میاؤں کرتے ہوئے تمہارے کمرے میں چلی جاتی ہے،کمرہ خالی دیکھ کر باہر آ جاتی ہے۔“ عبدالرحمن نے بتایا۔(جاری ہے)”گھر جا کر مانو کی تصویر تو واٹس ایپ کرنا،چار دن سے مانو کی صورت نہیں دیکھی۔“ پھر دونوں کافی دیر تک مانو کی باتیں کرتے رہے۔چھٹی کے بعد دانیال گھر پہنچا تو امی جان نے پہلا سوال یہ ہی کیا کہ عبدالرحمن سے تو کوئی بات نہیں ہوئی؟وہ جھوٹ بولنا نہیں چاہتا تھا اور سچ بول کر امی جان کے غصے کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھا،اس لئے خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔حمزہ اور مناہل بھی کوئی بات کیے بغیر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔عبدالرحمن کے ہاں بھی ایسی ہی صورتِ حال تھی۔عبدالرحمن اور عائشہ کھانے کی میز پر موجود تھے۔امی جان پہلے سے ان کا انتظار کر رہی تھیں۔گھر میں خاموشی کا راج تھا۔شور،ہنگامہ اور شرارتیں تو گویا حمزہ،مناہل اور دانیال کے ساتھ ہی رخصت ہو گئی تھیں۔کیا خوبصورت دن تھے!چچا جان بچوں کے ناز نخرے اُٹھاتے نہ تھکتے تھے۔اِدھر بچوں نے آئس کریم کھانے کی فرمائش کی اُدھر چچا نصیر گاڑی کا ہارن بجا کر یہ اعلان کرتے دکھائی دیتے کہ آؤ آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔عبدالرحمن،عائشہ،حمزہ،مناہل اور دانیال تیزی سے باہر کی طرف لپکتے۔تیزی سے گاڑی کا دروازہ کھلتا اور بند ہوتا۔پھر گاڑی آئس کریم پارلر کی جانب روانہ ہو جاتی۔بچے راستے بھر شرارتیں کرتے،شور مچاتے،کیا حسین وقت تھا۔شام کر عبدالرحمن نے مانو بلی کی تصویر دانیال کو واٹس ایپ کے ذریعے سے بھیجی تو اس نے بے اختیار یہ جملہ لکھا:”پیاری مانو!میں شاید تمہارے گھر ملنے نہ آ سکوں گا۔تایا جان نے بابا جان سے کہا تھا کہ اب تم سب کا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں۔میں تم سے باہر مل لوں گا۔“خوشیوں بھرا یہ گھر گلشنِ سلطان اس وقت طوفان کی زد میں آیا،جب دو سگے بھائی نصیر اور ندیم کاروباری سلسلے میں ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے۔ان کے والد سلطان رضا نے تیس سال قبل نور کالونی میں ایک میڈیکل اسٹور کھولا تھا۔اس وقت دونوں بھائی چھوٹے تھے۔میڈیکل اسٹور کے قریب ایک سرکاری اسپتال بنا تو دیکھتے ہی دیکھتے ان کا کاروبار چل نکلا۔ان کے والد نے آبائی زمین بیچ کر دکان خرید لی۔وقت کے ساتھ ساتھ کاروبار ترقی کرتا چلا گیا۔چار سال بعد برابر والی دکان خرید کر میڈیکل اسٹور کو بڑا کر لیا گیا۔اب اسٹور میں ملازمین کی تعداد پانچ ہو گئی تھی۔نصیر اور ندیم بھی والد کی مدد کے لئے آنے لگے تھے۔اس دن ان کے والد بہت خوش تھے،جب سلامت روڈ پر نئی برانچ کا آغاز کیا گیا۔یہ برانچ بھی کامیابی سے چلنے لگی۔ندیم اور نصیر بھی کاروبار میں شریک ہو گئے تھے۔رضا میڈیکل اسٹور پر لوگ اعتماد کرنے لگے تھے کہ وہاں اصلی ادویات دستیاب ہوتی ہیں۔چند برسوں میں دس برانچیں پورے شہر میں چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھیں۔دونوں بھائیوں کی شادی والدین کی زندگی ہی میں ہو گئی تھی۔پھر ایک خوف ناک حادثے کے باعث والدین جیسی اَن مول نعمت ان سے چھن گئی۔موٹروے پر گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا۔کار ایک آئل ٹینکر سے ٹکرا گئی۔حادثے میں ڈرائیور سمیت ندیم اور نصیر کے امی ابو دنیا سے رخصت ہو گئے۔ندیم نے بڑا بھائی ہونے کے ناتے سارے کاروبار کا انتظام سنبھال لیا۔نصیر اپنے بھائی کی ہر بات کو اہمیت دیتا تھا۔عبدالرحمن اور عائشہ،ندیم کے اور حمزہ،مناہل اور دانیال،نصیر کے بچے تھے۔عید کے موقع پر خریداری کرنے کے لئے سبھی بچے نصیر کے ساتھ بازار جاتے۔خوب خریداری کرتے۔سب کو عیدی ملتی،کیا محبت بھرے دن تھے۔پھر یہ اچھے دن بیت گئے۔ایک دن سگے رشتوں کے درمیان دولت کی دیوار آ کھڑی ہوئی۔اختیارات کی جنگ شروع ہو گئی۔بڑے بھائی ندیم کے سامنے سر جھکانے والا نصیر سر اُٹھا کر مقابل آ کھڑا ہوا تھا۔خاندان کے بڑوں نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی،مگر بات بگڑتی چلی گئی۔یہاں تک کہ کاروبار الگ الگ کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔محبت و اتحاد کی دیوار گر گئی تھی۔کاروبار تقسیم ہوا تو گھر بھی الگ الگ ہو گئے۔اسکول میں بچے ملتے،خوب باتیں کرتے اور جب چھٹی کے وقت اپنی اپنی گاڑی میں بیٹھتے تو اُداس ہو جاتے۔رمضان المبارک کا آغاز ہوا تو دونوں گھروں میں پہلے جیسی رونق اور گہما گہمی نہ رہی۔پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔اب دونوں گھروں میں سناٹا تھا۔ندیم اور نصیر کاروبار میں ایسے اُلجھے ہوئے تھے کہ بچوں کی طرف ان کی بالکل توجہ نہیں تھی۔ایک دن سارے بچے اسکول میں مل بیٹھے۔عبدالرحمن ان میں سب سے بڑا تھا۔اسے سب بھیا کہتے تھے۔”بھیا!ہمیں کچھ کرنا پڑے گا،اس طرح تو عید کا مزہ نہیں آئے گا۔“ دانیال بولا۔”مجھے کچھ سوچنے دو۔“ یہ کہہ کر عبدالرحمن کچھ سوچنے لگا۔چند منٹوں بعد اس نے سب کو مخاطب کیا:”میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے۔“ پھر اس نے وہ ترکیب سب کو بتا دی۔”ہمیں اس ترکیب پر فوری عمل کرنا چاہیے۔“ یہ آواز حمزہ کی تھی:”ہم پھولوں کی مدد سے رنجش کی دیوار کو گرا دیں گے۔“ندیم شام کے وقت اپنی مین برانچ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک گُل دستہ لے کر دفتر میں داخل ہوا۔تازہ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو سے دفتر مہک اُٹھا تھا۔گُل دستے پر ایک خوبصورت کارڈ پر لکھا تھا:”جان سے پیارے بھائی ندیم کے لئے پیار بھرے پھولوں کا تحفہ “ فقط:”نصیر رضا ندیم کے پوچھنے پر ملازم نے بتایا کہ کوریئر سروس کے ذریعے یہ گُل دستہ آیا ہے۔کچھ ایسا ہی نصیر کے ساتھ ہوا۔مہکتے پھولوں نے اس کے دفتر کو بھی مہکا دیا تھا۔بڑے بھائی ندیم رضا کا بھیجا ہوا گُل دستہ دیکھ کر نصیر کا سر شرم سے جھک گیا تھا۔کاروبار کی تقسیم کے وقت اس نے کئی مرتبہ بڑے بھائی سے بے ادبی کی تھی،انھیں غصے سے گھورا تھا۔“بچے اپنی آزمائی ترکیب کا نتیجہ دیکھنے کے لئے بے چین تھے۔دونوں دفاتر سے وہ ملازمین کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ ہر بات سے باخبر تھے۔اس وقت ان کے پاؤں مارے خوشی سے زمین پر نہیں ٹک رہے تھے،جب نصیر رضا اپنے بڑے بھائی ندیم رضا کے دفتر میں داخل ہو رہا تھا۔لوہا گرم تھا۔اس لئے وہ کوئی لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔کچھ دیر بعد سبھی بچے ندیم رضا کے دفتر جا پہنچے۔دونوں بھائیوں نے محبت سے ایک دوسرے کو اور پھر بچوں کو دیکھا۔تازہ پھولوں کے درمیان پھول جیسے بچے بھی کھڑے تھے۔گل دستوں کا معاملہ حل ہوا تو دونوں بھائیوں نے جان لیا کہ کاروبار چاہے تقسیم ہو جائے،لیکن محبت تقسیم نہ کی جائے۔ننھے پھولوں نے مہکتے پھولوں کا تحفہ بھیج کر ناگواری کی دیوار کو گرا دیا تھا۔بچوں کی ترکیب کامیاب ہو گئی تھی۔نصیر نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا:”ننھے بچو!کیا عید کی خریداری کے لئے تیار ہو؟“”جی ہم سب تیار ہیں۔“ بچوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا۔”میں بھی تیار ہوں،آ جاؤ،مل کر بازار چلتے ہیں۔“ نصیر کی آواز دفتر میں گونجی تو ندیم کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ " نیک انجام - تحریر نمبر 2503,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naik-anjaam-2503.html,"شعاع قاسمصائم کمپیوٹر پر گیم کھیل رہا تھا۔اس کی نگاہیں کمپیوٹر کی اسکرین پہ جمی ہوئی تھیں۔اُنگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر حرکت کر رہی تھیں کہ امی نے آواز دی:”صائم!صائم بیٹا!بازار سے مجھے کچھ منگوانا ہے،تمہاری خالہ آنے والی ہیں۔جلدی سے جاؤ!مجھے باورچی خانے میں بہت سے کام نمٹانے ہیں۔“”اچھا بتائیں،کیا لانا ہے؟“ اس نے بے دلی سے پوچھا۔”کھانا تو میں گھر میں ہی بنا رہی ہوں،بس آئس کریم کے دو پیک لے آؤ،یہ لو پیسے۔“ امی نے نوٹ اسے پکڑائے،جسے اس نے لاپرواہی سے مٹھی میں دبا لیا۔”صرف چاکلیٹ کے ذائقے میں ہی لانا،اسما کے بچوں کو وہی پسند ہے۔“امی نے تاکید کی،وہ جھنجھلا کر یہ ساری ہدایات سنتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔(جاری ہے)دوپہر کا ایک بجنے والا تھا اور گلی میں سناٹا تھا۔ایک تو گرمی اس پر کھیل ادھورا رہ جانا،اسے غصہ آ رہا تھا۔اب بھی اس کا دماغ کھیل میں ہی لگا ہوا تھا۔وہ قریبی بیکری پر پہنچا،لیکن معلوم ہوا کہ وہاں چاکلیٹ فلیور ختم ہو چکا ہے۔ایک دو،دوسری دکانوں پر بھی کئی فلیور موجود تھے،لیکن چاکلیٹ کے مزے والی آئس کریم نہیں تھی۔لہٰذا اس صورتِ حال پر مزید پریشان ہوتا ہوا گھر کی جانب روانہ ہوا۔ابھی اپنی گلی میں داخل ہوا ہی تھا کہ اسے زمین پر 500 روپے کا ایک مڑا ہوا نوٹ پڑا دکھائی دیا۔اس نے فوراً اُٹھا کر یقین کر لیا کہ نوٹ بالکل اصلی ہے۔اس کے والدین نے ہمیشہ یہی ہدایت کی تھی کہ راستے میں پڑے پیسوں کو اس کے مالک تک پہنچاؤ یا قریبی مسجد کے چندے کے ڈبے میں ڈال دو۔وہ کچھ دیر تو کھڑا انتظار کرتا رہا کہ کوئی شخص پیسے ڈھونڈتا ہوا نظر آئے،لیکن جب کڑکتی دھوپ میں وہ پسینے میں ڈوب گیا اور کوئی آیا بھی نہیں تو اس نے یہ نوٹ مسجد کے چندے والے ڈبے میں ڈال دیا۔آئس کریم نہ ملنے پر وہ جھنجھلایا ہوا تھا،لیکن اسے یہ اطمینان تھا کہ اس نے کوئی گناہ کا کام نہیں کیا۔انہی سوچوں میں گم وہ گھر پہنچا:”امی!آپ نے اتنی گرمی میں مجھے باہر بھیجا اور دیکھیں!چاکلیٹ فلیور تو ملا بھی نہیں۔“ اس نے نوٹ واپس امی کو تھمائے۔”ارے!یہ کیا!یہ تو ایک ہی نوٹ ہے،میں نے پانچ سو روپے کے دو نوٹ دیے تھے۔دوسرا نوٹ کہاں ہے؟“ اس کی امی نے حیرانی سے پوچھا۔”کیا․․․․․؟ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“ وہ چونکا۔اب صائم کی سمجھ میں سارا معاملہ آ چکا تھا کہ زمین پر پڑا ہوا نوٹ بے دھیانی میں اسی کے ہاتھ سے گر گیا تھا۔ " عید کارڈ - تحریر نمبر 2502,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/eid-card-2502.html,"مریم شہزادزینب کمپیوٹر پر سہیلیوں کے لئے عید کے موقعے پر پیغامات لکھ رہی تھی۔”زینب بیٹا!کیا کر رہی ہو؟“ دادی جان نے پوچھا۔زینب نے کہا:”کچھ نہیں دادی!عید مبارک کے پیغام لکھ رہی ہوں۔“”پیغام میں کیا لکھ رہی ہو؟“زینب نے کہا:”صرف عید مبارک لکھ رہی ہوں سمجھ میں نہیں آ رہا ہے اور کیا لکھوں گی۔“دادی نے کہا:”تم کو کیا پتا!ہم تو اپنے زمانے میں عید کارڈ اپنے ہاتھوں سے بناتے تھے اور ان پر اشعار بھی لکھتے تھے،عید کارڈ بازار میں بھی تیار ملتے تھے،اب پتا نہیں کہ ملتے ہیں یا نہیں!تمہاری امی اور پھوپھو بھی جب چھوٹی تھیں،وہ بھی عید کارڈ خود بناتی تھیں۔“زینب نے کہا:”ہاں تو دادی جان!میں بھی تو کمپیوٹر پر خود ہی کارڈ بنا رہی ہوں۔(جاری ہے)“دادی جان نے زینب کو سمجھایا:”ارے ایسے نہیں،بلکہ تم ایسا کرو میرے پاس ایک چارٹ پیپر،پینسل،ربر اور رنگین مارکر وغیرہ لے کر آؤ،میں تم کو بتاتی ہوں کہ عید کارڈ کیسے بناتے ہیں۔“”لیکن میرے پاس چارٹ پیپر نہیں ہے۔“”اچھا ایسا کرتی ہوں کہ تمہارے چچا سے کہہ دیتی ہوں،شام تک آ جائیں گے،پھر ہم افطار کے بعد بنائیں گے۔ٹھیک ہے؟“زینب خوش ہو کر بولی:”جی بالکل ٹھیک ہے۔“شام کو مختلف رنگوں کے چارٹ پیپر آ گئے،پھر افطار کے بعد دادی نے مناسب سائز کے کارڈز کٹوائے۔زینب نے منہ بنایا:”یہ کیا یہ خالی کارڈ!بس اس پر عید مبارک لکھ دیں گے؟“دادی جان نے اسے سمجھایا:”نہیں بھئی،ابھی اس پر پیاری سی ڈرائنگ بنائیں گے،پھر اس پر عید مبارک لکھیں گے،جس کو دینا ہے اس کا اور اپنا نام لکھیں گے،اور ایک اچھا سا عید کا شعر بھی لکھیں گے۔“زینب پریشان ہو گئی:”اُف اتنا سارا کام!اور میری تو اتنی ساری سہیلیاں ہیں،سب کے کارڈز بنانے میں تو میں تھک جاؤں گی۔“دادی بھی کچھ سوچنے لگیں پھر انھوں نے کہا:”تم ایسا کرو کہ صرف چار کارڈ بنا لو،ایک امی ابو کو دینا،ایک اپنی سب سے اچھی سہیلی کو اور دو دوسری سہیلیوں کو دے دو۔“”چلیں ٹھیک ہے۔“اب دادی نے کارڈ بنوانے شروع کیے۔ان پر پیاری سی ڈرائنگ بنائی پھر ان میں رنگ بھرے اور ایک کارڈ پر اندر لکھوایا:”پیارے امی اور ابو کو بہت بہت عید مبارک۔“اس کے بعد تین سہیلیوں کے کارڈ بنا کر دادی کو دکھائے اور پوچھا:”بس دادی!یہ عید کارڈ تیار ہو گئے؟“دادی جان بولیں:”ہو تو گئے،لیکن اگر اس پر عید کے شعر بھی لکھ لو گی تو اور اچھا ہو گا۔“”لیکن مجھے تو اشعار نہیں آتے۔“دادی نے اپنی پرانی ڈائری نکالی اور اس میں سے بہت سارے اشعار نکال کر کہا:”چلو ایسا کرتے ہیں میں ڈھونڈتی ہوں۔دادی نے کچھ اشعار ڈھونڈے اور زینب سے کہا:”کچھ اشعار تمہیں سناتی ہوں مثلاً:ڈبے میں ڈبا،ڈبے میں کیکمیری سہیلی لاکھوں میں ایکزینب نے کہا:”اور؟“عید آتی ہے خوشیوں کا لے کر پیغاممیری پھول سی سہیلی کو میرا سلامدادی نے کہا:”تمہاری بہترین سہیلی کا نام کیا ہے؟“زینب نے بتایا:”میری سب سے اچھی سہیلی تو ایشا ہے۔“”اچھا شعر سنو۔“عید آتی ہے بڑی دھوم دھام سےایشا اُچھلتی ہے عیدی کے نام سےزینب ہنس پڑی تو دادی جان نے کہا:”ایک اور شعر سنو۔“مہندی لگاتے لگاتے نیند آ گئیصبح اُٹھ کر دیکھا تو عید آ گئیاس طرح کے بہت سے اشعار نکال کر دادی جان نے زینب کو لکھوائے۔زینب نے اپنے عید کارڈ کے لئے شعر چن لیے۔جب اس نے چار کارڈ بنا لیے تو اسے خود اپنے کارڈ بہت پسند آئے۔عید میں ابھی چونکہ کئی دن باقی تھے،اس لئے اس نے تمام سہیلیوں کے لئے مختلف انداز کے عید کارڈ تیار کر لئے اور عید سے ایک دن پہلے اسکول میں تمام سہیلیوں کو کارڈ کے ساتھ مختلف ڈیزائن کے ہیئر کلپ،ہیئر بینڈ،رومال،بال پین،کانوں کے ٹوپس وغیرہ دیے۔سب سہیلیاں زینب کے اس پُرخلوص عمل سے بہت خوش ہوئیں اور مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔اس طرح سب سے اس کی دوستی مستحکم ہو گئی۔عید کے دن زینب نے اپنی دادی جان کو بھی ایک خوبصورت تسبیح کے ساتھ عید کارڈ پیش کیا تو وہ بہت خوش ہوئیں اور زینب کو بہت سارا پیار کیا۔ " افطار پارٹی ہو تو ایسی - تحریر نمبر 2501,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/iftar-party-ho-to-aisi-2501.html,"ساجد کمبوہاس بار انور کو رمضان شریف کا بہت انتظار تھا کیونکہ پچھلے رمضان میں بیمار ہونے کی وجہ سے چار روزے نہ رکھ سکا اس نے مختلف کتابوں میں پڑھا تھا کہ رمضان شریف کے آنے کی خوشی کرنا سال بھر خوشیاں ملنا اور رمضان کے جانے کا غم کرنا سال کے غم دور ہونے کا انعام ملتا ہے۔انور کے گھر والے نماز،روزہ کے پابند تھے رمضان آیا اور پلک جھپکتے تیرہ روزے ہو گئے کچھ موسم بھی مناسب تھا جس کی وجہ سے بہت سے بچوں نے روزے رکھے۔ایک دن اس نے اپنی امی جان سے کہا ”کہ پتا نہیں اس بار حمزہ نے بھی روزے رکھے کہ نہیں؟“ تمہیں اس سے کیا مطلب؟ان سے ہماری بول چال بند ہے ہمیں کیا لینا دینا۔وہ دراصل رمضان کا مقدس مہینہ ہے اس ماہ ہمیں انا،ضد اور دوسری خرافات بھول جانا چاہیے۔(جاری ہے)چھوڑو یہ باتیں یہ پیسے پکڑو اور دہی بھلے لے کر آؤ․․․․․وہ سارے راستے سوچتا رہا کہ کس طرح ان میں صلح ہو۔دو تین دن کے بعد انور کے دوست عماد نے اسے افطاری کی دعوت دی کہ جمعہ المبارک کو ہمارے ہاں افطاری ہے وہ لازمی آئے جمعہ کو جب وہ افطاری کے لئے گیا دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چند دوستوں کے علاوہ عماد کے کزنز بھی آئے تھے کچھ دیر بعد اس کے چچا،تایا اور دادا ابو ڈرائنگ روم میں آئے بچوں سے بڑے تپاک سے ملے،حال چال پوچھا انہیں مسکراتے ہوئے دیکھ کر انور نے سوچا کاش ہم بھی․․․․اس کے دماغ میں آئیڈیا آیا اس پر غور کرنے لگا۔اگلے دن اس نے اپنی ماما سے کہا کہ وہ بھی اس جمعہ کو کچھ خاص مہمانوں کی افطاری کروانا چاہتا ہے اس کا انتظام کر لیں،”بھئی وہ خاص مہمان کون سے ہیں“؟ اس کی ماما نے پوچھا آپ دیکھیں گے تو حیران رہ جائیں گے انور نے کہا۔اگلے دن وہ حمزہ کے گھر گیا اس کی ماما سے کہا چچی جان اس جمعہ ہمارے ہاں آپ کی افطار پارٹی ہے۔مگر وہ کہنے لگیں”نہ بابا ہم نے نہیں آنا،تمہاری ماما ہم سے بولنا پسند نہیں کرتی“۔پلیز چچی جان!آپ آئیں سب ٹھیک ہو جائے گا حمزہ بھائی․․․․․آپ سب نے آنا ہے اور انور نے کہا اچھا ٹھیک ہے،تمہارے چچا سے بات کروں گی۔اتنی دیر میں حمزہ آیا اور دونوں کزنز بڑے تپاک سے ملے حمزہ نے اپنی ماما سے کہا انور بھائی آیا ہے ہمیں جانا چاہیے۔اس کی ماما نے حامی بھر لی۔اگلے دن انور نے اپنے تایا کو فون کیا انہیں دعوت دی انہوں نے فوراً حامی بھر لی،نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اسی طرح اپنی پھوپھی اور دادا جان کو جو اس کے تایا جان کے ساتھ قریبی شہر میں رہتے تھے۔اب انور کو جمعہ کا شدت سے انتظار تھا۔پھوپھی جان اور ایک تایا میں کچھ اختلاف تھے۔وہ بھی آ رہے تھے یا اللہ رمضان شریف کے صدقے آسانیاں فرما۔(آمین)جمعہ شریف آیا انور نے کچھ زیادہ ہی اہتمام کیا تھا۔عصر کے بعد دروازہ کی بیل ہوئی اس نے اپنی ماما جان سے کہا”آپ دیکھیں میں مصروف ہوں۔اس کی ماما نے دروازہ کھولا وہ دیکھ کر حیران رہ گئیں،سامنے اس کی نند اور انور کی پھوپھی اپنے بچوں کے ساتھ کھڑی تھیں ویلکم بہنا․․․․․وہ آگ بڑھیں انہوں نے گلے لگا لیا آج کیسے بھول کر آ گئیں“؟بھئی آج بیٹے کی دعوت پر افطار پارٹی کے لئے آئی ہوں۔انہوں نے مٹھائی کا ڈبہ پکڑاتے ہوئے کہا اتنی دیر میں پھر بیل ہوئی انور جلدی سے آگے بڑھا اس کے دادا ابو اور تایا جان تھے دادا ابو نے انور کو گلے سے لگایا اور اس کی ماما کے سر پر پیار دیا،جیتی رہو بیٹی۔اتنی دیر میں انور کے پاپا آ گئے وہ انور کے خاص مہمانوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے ایک دوسرے سے ملے اور خیر خیریت پوچھنے لگے۔دروازہ کی بیل ہوئی انور نے شرارت سے کہا پاپا جان اس بار آپ کی باری ہے۔انہوں نے یونہی دروازہ کھولا سامنے اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھا جو احمد اور عائشہ کے ساتھ آئے تھے،جلدی سے ایک طرف ہوتے ہوئے کہا خوش آمدید چھوٹے بھائی انہوں نے آگے بڑھ کر انور کے پاپا کو گلے سے لگا لیا۔احمد اور انور بھی گلے ملے جب وہ ڈرائنگ روم میں گئے وہاں ان کی بہن اور دونوں بھائی اور والد صاحب بھی تھے بھائیوں اور باپ نے گلے سے لگایا اور حال چال پوچھنے لگے۔بھئی جلدی حال چال پوچھ لیں افطاری کا ٹائم ہو گیا۔بھئی یہ انور بیٹے کی کاوش ہے جو ہم آج ادھر بیٹھے ہیں رمضان شریف کا مہینہ رحمتوں والا ہے اس میں ہمیں اپنی انا،ضد،ہٹ دھرمی کو چھوڑ دینا چاہیے دادا ابو نے کہا۔یہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ صرف بھوکا رہنا روزہ نہیں اپنے آپ کا محاسبہ کرنا بھی ضروری ہے یہ رمضان کی حقیقی خوشی ہے جس کے لئے دل سے کدورت،نفرت کینہ ختم کرنا ہو گا اس کے تایا نے کہا اتنی دیر میں قریبی مسجد سے اعلان ہونے لگا،”اللہ کے پیاروں جنت کے حق دارو،روزہ افطار کر لو“۔سب نے دعا کی اور روزہ افطار کرنے لگے۔مگر آج روزہ افطار کرنے کا لطف الگ تھا۔اللہ تعالیٰ ہمیں روزہ کی حقیقی خوشیاں عطا فرمائے۔آمین " چالاک لومڑی - تحریر نمبر 2500,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chalak-lomri-2500.html,"ثمرہ مقصودایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں ایک شیر اور ایک لومڑی رہا کرتے تھے۔جنگل کے تمام جانور اُن سے بہت پریشان تھے۔کیونکہ وہ دونوں ہی چوریاں کیا کرتے تھے۔ایک دن دونوں نے ایک گھر میں چوری کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ ایک بندر کا گھر تھا۔وہ دونوں سیدھے باورچی خانے میں پہنچے،وہاں انہوں نے لکڑیوں پہ رکھا ہوا ایک پتیلا دیکھا جس میں سوپ پکا رکھا تھا۔اُن دونوں نے سوچا کہ موقع اچھا ہے،گھر پر کوئی نہیں ہے،پہلے تو شیر نے اچھی طرح سے خوب سوپ پیا،جب سیر ہو گیا تو لومڑی بولی کہ میں اسے ختم کر دوں گی۔یہ کہتے ہوئے اُس نے جیسے ہی اپنا منہ پتیلے میں ڈالا اُس کا سر پتیلے میں پھنس گیا۔اُس نے شیر سے کہا میری مدد کرو،مجھے یہاں سے نکالو۔(جاری ہے)اندھیرے میں شیر کو کچھ سمجھ نہ آیا اور وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا۔ایسے میں اُسے محسوس ہوا جیسے کوئی گھر میں آ گیا ہے،لہٰذا وہ تو اپنی جان بچانے کو وہاں سے بھاگ نکلا۔جب بندر اپنے گھر پر پہنچا تو اس نے باورچی خانے میں لومڑی کو اس حالت میں پایا وہ سمجھ گیا کہ لومڑی یہاں چوری کرنے آئی تھی۔وہ لومڑی کو لے کر بھالو کے پاس گیا اور اُس کو سب کچھ بتا دیا۔بھالو کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔اُس نے کہا اسے یہاں باندھ کر چلے جاؤ۔یہ سب کچھ شیر چھپ چھپ کر دیکھ رہا تھا،اُن کے جاتے ہی لومڑی نے شیر کو آواز دی۔چالاک لومڑی کو شیر پر بہت غصہ آ رہا تھا۔اُس نے سوچا یہی اچھا موقع ہے شیر سے بدلہ لینے کا۔اُس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔اُس نے شیر سے کہا بھالو اور بندر مجھے سزا نہیں دیں گے اس لئے کہ میں نے اُنہیں بتا دیا ہے کہ میں یہاں چوری کرنے نہیں آئی تھی بلکہ یہاں ایک اور چور کو پکڑنے آئی تھی لیکن وہ بھاگ گیا اور میں پکڑی گئی۔بندر اور بھالو نے میرے سچ بولنے پر یہ کہا کہ وہ مجھے انعام میں ایک ہرن دیں گے۔یہ سن کر شیر کے منہ میں پانی آ گیا۔اُس نے سوچا کہ کیوں نہ ہرن وہ لے لے؟اُس نے لومڑی سے کہا”ہرن تو میری پسندیدہ خوراک ہے،کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم وہ ہرن مجھے دے دو؟اس پر لومڑی نے شیر سے کہا اگر تمہیں ہرن چاہیے تو پھر میری جگہ آ کر بیٹھ جاؤ وہ دونوں ہرن لے کر آنے ہی والے ہیں۔شیر لومڑی کی باتوں میں آ گیا،اُس نے لومڑی کی رسیاں کھول دیں اور بولا تم یہاں سے بھاگ جاؤ،میں یہاں بیٹھ جاتا ہوں!شیر کو لالچ دے کر چالاک لومڑی وہاں سے اپنی جان بچا کر بھاگ نکلی۔جب بندر اور بھالو واپس آ گئے تو اُنہوں نے شیر کو لومڑی سمجھ کر اُس پر خوب گرم پانی ڈالا اور یوں جنگل کے بادشاہ کو لالچ میں آ کر لومڑی کی چالاکی کی سزا بھگتنی پڑی اور وہ بری طرح چلانے لگا۔تو پیارے بچو!اس کہانی سے ہم نے کیا سیکھا کہ ہمیں کبھی چوری نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی لالچ میں آ کر دوسروں کی باتوں پر یقین کرنا چاہیے۔ " بوڑھا آدمی اور شیر - تحریر نمبر 2499,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/budha-aadmi-aur-sher-2499.html,"ایک غریب بوڑھا لکڑہارا اپنے بڑے سے کنبے کے ساتھ جنگل کے قریب واقع ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتا تھا۔اس کے بیٹے اور بیٹیاں بہت کم عمر تھے۔اس کی بیوی کھانا پکانے،صفائی ستھرائی،کپڑے دھونے اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی تھی۔بوڑھا جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹ کر لاتا تھا اور اسے ایک گٹھری میں باندھ کر اپنے گدھے پر لادتا اور قریبی گاؤں کے بازار میں جا کر بیچ دیتا اور اس طرح کنبے کا گزارہ ہوتا تھا۔ایک دن جب بوڑھا اپنے کام میں مصروف تھا تو اسے ایک گرج دار دہاڑ سنائی دی۔اس نے اپنا کلہاڑا نیچے رکھا اور خاموشی سے سننے لگا۔اچانک ایک بڑا سا شیر جھاڑیوں میں سے باہر آ نکلا۔شیر نے بوڑھے سے کہا کہ مجھ سے مت ڈرو۔میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔تم بہت محنت سے کام کرتے ہو۔(جاری ہے)تم بیٹھ کر تھوڑی دیر آرام کرو تمہارا کام میں کر دوں گا۔بوڑھا حیران تھا۔اسے معلوم نہیں تھا کہ شیر باتیں کر سکتے ہیں اور کیا بات ہے کہ شیر اسے مدد کرنے کی پیش کش کر رہا تھا۔اس نے کہا:”تم کتنے مہربان ہو،پیارے شیر!“بوڑھا ایک درخت کے نیچے آرام کر رہا تھا،جب کہ شیر کام کر رہا تھا۔شیر نے جلد ہی ساری لکڑیاں کاٹ دیں۔بوڑھے اور شیر نے مل کر لکڑیوں کو ایک گٹھری میں باندھ کر گدھے کی پیٹھ پر لاد دیا۔بوڑھے نے شیر کا شکریہ ادا کیا اور لکڑیاں بیچنے چلا گیا۔اگلے دن پھر شیر آیا اور اس بوڑھے کی دوبارہ مدد کی۔کچھ ہفتوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ایک دن کام ختم ہونے کے بعد شیر نے بوڑھے کی گود میں اپنا سر رکھا اور آرام کرنے لگا۔اس نے بوڑھے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا:”کیا میں خوبصورت ہوں؟“”ہاں واقعی،تم بہت خوبصورت ہو۔“ بوڑھے نے جواب دیا۔”کیا میں طاقتور ہوں؟“ شیر نے پوچھا۔”ہاں یقینا،بے شک بہت طاقتور ہو۔“ بوڑھے نے جواب دیا۔”کیا میں جوان اور توانائی سے بھرا ہوا ہوں؟“ شیر نے پوچھا۔”ہاں،ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔“ بوڑھے نے جواب دیا۔کچھ دیر سوچنے کے بعد بوڑھے نے شیر سے کہا:”تم میں ایک چیز کی کمی ہے۔تمہارے جسم سے بدبو آتی ہے۔اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو براہِ کرم اپنا سر میری گود سے ہٹا لو۔اگر آپ کی طرح میرے جسم سے بھی بدبو آنے لگی تو میری بیوی کو بہت بُرا لگے گا۔“شیر اُچھل کر اس کی گود سے اُٹھا اور بوڑھے کو کلہاڑی دیتے ہوئے کہا:”اسے میری پیٹھ پر مارو۔“بوڑھے نے کہا:”میں تمہیں تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔“شیر نے کہا:”یہ میری خواہش ہے۔“اور یہ کہنے کے ساتھ ہی وہ دہاڑنے لگا۔بوڑھے کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب کیا کرے۔آخر اس نے کلہاڑی اُٹھا کر شیر کی پیٹھ پر دے ماری۔شیر کی پیٹھ پر گہرا زخم آیا اور خون نکلنے لگا۔اس سے شیر کا جسم سرخ اور چپ چپا ہو گیا۔شیر جنگل میں واپس چلا گیا اور بوڑھا اپنی لکڑیاں بازار میں لے گیا۔اگلے دن بوڑھا اپنے کام والی جگہ پر آیا۔شیر آیا اور اسے دور سے دیکھتا رہا،لیکن کوئی بات نہیں کی۔بوڑھا خوف زدہ ہو گیا۔وقت گزرتا گیا اور پھر ایک دن اچانک شیر جھاڑیوں کے پیچھے سے بوڑھے کی طرف بڑھا۔اس نے بوڑھے سے کہا:”میری پیٹھ کی طرف دیکھو،زخم کا کوئی نشان ہے؟“بوڑھے نے غور سے دیکھا،لیکن اسے کہیں کلہاڑی سے لگنے والے زخم کا نشان نظر نہیں آیا۔”یہ بالکل ٹھیک ہے،کوئی نشان نہیں ہے؟“بوڑھے نے کہا۔”ہاں۔“شیر نے جواب دیا:”کلہاڑی کا زخم تو ٹھیک ہو گیا ہے،لیکن تمہارے سخت الفاظ کا زخم ابھی تک میرے دل پر موجود ہے،جو کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔“ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا کہ تم نے میری بدبو دار جلد کے بارے میں جو کہا تھا۔اب تم اس جنگل کو چھوڑ دو،ورنہ میں تمہیں کھا جاؤں گا؟اور یہ کہنے کے ساتھ ہی وہ گرج دار آواز سے دہاڑنے لگا۔بوڑھا جنگل چھوڑ کر چلا گیا اور اس دن سے اسے تمام شیروں سے خوف محسوس ہونے لگا۔اسی وجہ سے دوسرے لوگ بھی اب شیروں سے خوف زدہ رہنے لگے ہیں۔ " بوجھ اُتر گیا - تحریر نمبر 2498,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bojh-utar-gaya-2498.html,"جدون ادیبمس غزالہ اردو کی استانی تھیں۔ایک مرتبہ جب ان کی جماعت میں شور ہو رہا تھا تو ہیڈ ماسٹر صاحب وہاں سے گزرے اور مس غزالہ کو باہر بلا کر ان سے کوئی بات کی۔مس غزالہ اپنی نرم مزاجی کی وجہ سے جماعت میں نظم و ضبط بہتر نہیں رکھ سکی تھیں،اس لئے ہیڈ ماسٹر نے بچوں سے کہا کہ وہ مس سے زبانی اور تحریری معافی مانگیں اور آئندہ نظم و ضبط برقرار رکھنے کا وعدہ کریں۔بچے ایک ایک کر کے آتے گئے اور اپنے اپنے انداز میں مس غزالہ سے معذرت کرتے گئے۔مس غزالہ نے تحریری معافی کے لئے ایک دن کی مہلت دی۔انھیں علم تھا کہ کینٹین کے مالک حشمت کا بیٹا ہاشم ان سے معافی مانگنے نہیں آیا تھا،مگر وہ کچھ نہ بولیں۔ہاشم شریف اور تمیز دار لڑکا تھا،مگر پڑھائی میں بہت اچھا نہ تھا۔(جاری ہے)اسے حشمت کی وجہ سے اسکول میں داخلہ اور فیس میں رعایت دی گئی تھی۔اگرچہ بچے ہاشم کو احساس نہ دلاتے تھے کہ وہ ایک غریب لڑکا ہے،مگر ہاشم کو خود ہی احساس تھا۔وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔جب وہ گھر پہنچا تو ماں نے اس سے اسکول کی مصروفیات کے بارے میں پوچھا۔ہاشم نے مس غزالہ کا واقعہ سنایا تو وہ بولیں:”مجھے اُمید تھی کہ تم نے سب سے پہلے جا کر معافی مانگی ہو گی۔“”آپ ایسا کیسے کہہ سکتی ہیں؟“ ہاشم نے پوچھا۔”اس لئے کہ میرا بیٹا بہادر انسان ہے۔“ماں نے پیار سے اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔”کیا معافی مانگنا بہادری کا کام ہے؟“ہاشم نے حیرت سے پوچھا۔”ہاں،بہت بہادری والا کام ہے۔“ماں نے زور دے کر کہا۔”مگر اماں!میں یہ کام نہیں کر سکا۔“ہاشم نے سر جھکا کر کہا۔”کیوں؟“ ماں نے تڑپ کر پوچھا۔”اس لئے کہ میں کبھی شور نہیں کرتا اور اس لئے بھی کہ مجھے معافی مانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔“ہاشم نے آخر سچ بتا دیا۔ماں چند لمحے تک اپنے بیٹے کو دیکھتی رہیں پھر ایک سرد آہ بھر کر بولیں:”تم پوچھتے تھے نا!کہ ہم جنت نظاروں والا اپنا گاؤں چھوڑ کر شہر میں کیوں آ پڑے ہیں تو سنو،یہ بھی ایک معافی نہ مانگنے کی وجہ سے ہے۔“”معافی!کیسی معافی؟“ ہاشم نے حیرت سے پوچھا۔”سنو بیٹا!جب تم تین سال کے تھے،تب تمہارے بابا اپنے کھیتوں میں کام کرتے تھے۔خوب آمدنی ہوتی تھی۔ہمارے پاس دو بیل تھے۔وہ جوڑی بہت اہم تھی۔پھر ایسا ہوا کہ پڑوسیوں کی بکریاں ہمارے کھیتوں میں گھس گئیں اور مکئی کی تیار فصل تباہ کر دی۔تمہارے بابا غصے میں آ گئے۔پڑوسی بھی آ گیا اور اس نے کہا کہ وہ نقصان کی تلافی کرے گا،مگر تمہارے بابا نے اسے دھکا دیا۔وہ گر گیا اور اس کی پگڑی گر گئی۔اس بات پر بڑا ہنگامہ ہوا۔جرگہ بیٹھا۔فیصلہ ہوا کہ پڑوسی نقصان کا ہرجانہ بھرے گا اور تمہارے بابا اس سے معافی مانگیں گے،مگر انھوں نے کسی کی نہ سنی اور معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔آخر جرگے نے ان پر دو بیلوں کا جرمانہ کر دیا اور وہ لوگ ہمارے بیل لے گئے۔پھر ہمارے بُرے دن شروع ہو گئے۔ہل چلانے کے لئے بیل کبھی کسی سے لیتے تو کبھی کسی سے۔کوئی کسی شرط پر اپنا بیل دیتا تو کوئی کسی شرط پر۔آخر آمدنی کا یہ بڑا ذریعہ چھوٹ گیا۔گھر کے حالات اتنے خراب ہو گئے کہ ہم لوگ مجبور ہو کر یہاں آ گئے اور یوں بس دال روٹی پر گزارہ کر رہے ہیں،اپنے گاؤں سے دور پڑے ہیں۔“”ہمارا پڑوسی ظالم تھا۔“جب اس کی ماں سانس لینے کو رکیں تو ہاشم نے غصے سے کہا۔”نہیں،اس کا کہنا تھا کہ جب بھی حشمت خان معذرت کرے گا،وہ بیل واپس دے دے گا۔ظلم تو یوں سمجھو،ہم خود اپنی جانوں پر کرتے ہیں۔“ماں نے کہا تو ہاشم اپنی ماں کا چہرہ تکتا رہ گیا۔پھر ہاشم ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ماں اس کے بالوں کو پیار سے سہلاتے ہوئے بولی:”میرے بچے!جو لوگ معذرت کرنا سیکھ جاتے ہیں،وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔تم بہادر بنو،لوگوں سے معافی مانگا کرو اور ان کے دلوں میں جگہ بنانے کے لئے ان کو کھلایا پلایا کرو۔مٹھائی دے کر بھی تم اپنی معذرت کو اور موٴثر بنا سکتے ہو۔تم اپنی معافی کو اپنی طاقت بنا لو!“ہاشم اس رات سکون سے سویا۔صبح وہ اُٹھا تو اس کی شخصیت بدل چکی تھی۔یہ شہر بھی گاؤں کی طرح پیارا ہے۔یہاں لوگ کتنی آسانی سے ایک دوسرے سے معذرت کر لیتے ہیں۔ہاشم اپنی بدلی ہوئی سوچوں کے ساتھ اسکول پہنچا۔مس غزالہ کا پیریڈ آیا۔وہ آئیں انھوں نے سب کی طرف دیکھا۔ہاشم نے ہاتھ اُٹھایا تو انھوں نے اسے بولنے کی اجازت دی۔ہاشم اپنی جگہ سے اُٹھ کر بولا:”مس!میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔کل اپنی شرمندگی کے باعث معافی نہیں مانگ سکا۔آپ میری روحانی والدہ ہیں۔آپ ناراض ہو گئیں تو کوئی بھی مجھ سے راضی نہ ہو گا۔یہ کچھ مٹھائی میں اپنے پاس سے آپ کے لئے لایا ہوں۔“”ارے نہیں۔“مس غزالہ خوش ہو گئیں:”اس کی ضرورت نہیں تھی،لیکن اب لائے ہو تو میں ضرور چکھوں گی۔“انھوں نے ہاشم کے ہاتھ سے مٹھائی کا ڈبا لیا۔کھول کر خوشی سے بولیں:”او․․․․․میری پسندیدہ برفی․․․․․ہم سب مل کر کھائیں گے۔“اس دن سب کی نظروں میں ہاشم کی عزت اور بڑھ گئی اور جب یہ بات اس کے بابا کو پتا چلی تو وہ بہت خوش ہوئے اور بولے:”باپ جو کام نہ کر سکا،بیٹے نے کر دکھایا ہے،کیونکہ میں جاہل تھا اور میرا بیٹا پڑھا لکھا ہے۔بولو،آج کیا مانگتے ہو!جو خواہش ہے کہہ دو۔“”آپ میری بات مانیں گے؟“ ہاشم نے پوچھا۔”ہاں،میں نے زبان دی ہے۔“ حشمت نے حتمی لہجے میں کہا۔ہاشم نے ایک نظر باپ کے چہرے پر ڈالی پھر بولا:”اس مرتبہ جب ہم گرمیوں میں گاؤں جائیں گے تو آپ اپنے پڑوسی دوست سے معذرت کریں گے کہ آپ کی وجہ سے ان کی بے عزتی ہوئی اور بدلے میں آپ کچھ نہیں لیں گے۔“حشمت خان نے حیرت سے اپنی اہلیہ کی طرف دیکھا پھر ہاشم کو اپنی بانہوں میں لے کر بولے:”ہاں،میں ایسا کروں گا۔یہ بوجھ ضرور اُتاروں گا۔“ " مکڑا اور مکھی - تحریر نمبر 2497,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/makra-aur-makhi-2497.html,"بشریٰ ذیشانکسی باغیچے میں ایک صحت مند مکھی رہتی تھی۔قریب ہی ایک مکڑا بھی رہتا تھا۔وہ اس مکڑے کے جال والے گھر کے پاس سے روز گزرتی،لیکن کبھی جال میں نہ پھنستی۔مکڑا بہت دنوں سے اس مکھی پر نظریں لگائے بیٹھا تھا۔وہ نئے نئے انداز سے جال لگاتا،لیکن مکھی جال کے قریب بھی نہ آتی۔ایک دن مکھی مکڑے کے پاس سے گزری تو مکڑا بولا:”بی مکھی!تمہارا اس راستے سے روز گزر ہوتا ہے،لیکن کبھی تم بھول کر بھی میرے گھر نہیں آئیں۔آخر میں تمہارا پڑوسی ہوں کوئی غیر تو نہیں ہوں۔کسی دن میرے اس غریب خانے کو بھی عزت بخشو۔“مکڑے کی بات سن کر مکھی بولی:”جناب!کسی اور کو بے وقوف بنائیے۔میں تو آپ کے جال میں آنے والی نہیں ہوں،جو بھی آپ کی سیڑھی پر چڑھا،پھر کبھی نہیں اُترا۔(جاری ہے)“”واہ!بی مکھی!میں تو آپ کی خاطر داری کرنا چاہتا تھا،ورنہ میرا اس میں کیا فائدہ۔اگر تھوڑی دیر میرے گھر میں ٹھہر جاؤ گی تو اس میں بُرا کیا ہے؟“ مکڑے نے بُرا مانتے ہوئے کہا۔”اگرچہ میرا یہ گھر باہر سے چھوٹی سی جھونپڑی کی طرح لگتا ہے،مگر اندر سے بہت خوبصورت ہے اور یہاں تمہارے دیکھنے کی بہت سی چیزیں ہیں۔دروازوں پر باریک پردے ہیں،دیواروں پر آئینے ہیں اور مہمانوں کے آرام کے لئے نرم بستر ہیں۔“ مکڑے نے ایک بار پھر کوشش کی۔”یہ سب کچھ ٹھیک ہے،لیکن میں تمہارے گھر آؤں یہ اُمید نہ رکھنا۔تمہارے نرم بستروں سے اللہ بچائے جو ان پر ایک بار سویا،پھر کبھی اُٹھ نہ سکا۔“ مکھی نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔مکھی کی بات سن کر مکڑا سوچنے لگا کہ اس مکھی کو کس طرح پھانسوں یہ تو بہت ہی چالاک ہے۔پھر مکڑے کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔اس نے سوچا کہ خوشامد ہی ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے سے جھوٹی تعریفیں کر کے لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنا کام نکلوایا جا سکتا ہے۔یہ سوچ کر مکڑے نے مکھی سے کہا:”اللہ نے آپ کو بُرا رتبہ دیا ہے۔جو ایک نظر آپ کو دیکھے آپ کا دیوانہ ہو جاتا ہے۔آپ کی آنکھیں ہیروں کی طرح چمکتی ہیں اور جو آپ کے سر پر تاج ہے بہت ہی خوبصورت ہے۔یہ آپ کے چہرے کی کشش،آپ کی چمک دار جلد اور آپ کا اُڑتے ہوئے آنا یہ سب کتنا دل فریب ہے۔“مکھی نے جب مکڑے کی خوشامد سنی تو نرم پڑ گئی اور کہنے لگی:”مجھے ویسے تو آپ سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور بار بار انکار کرنا اچھا نہیں لگتا،آپ اتنا اصرار کر رہے ہیں تو میں آپ کا دل توڑنا نہیں چاہتی۔“یہ کہہ کر مکھی اپنی جگہ سے اُڑی۔جیسے ہی وہ مکڑے کے پاس آئی،مکڑے نے اُچھل کر اسے پکڑ لیا۔مکڑا کئی روز سے بھوکا تھا،اب اس نے آرام سے بیٹھ کر ذرا سی دیر میں مکھی کو چٹ کر لیا۔ " سیدھا راستہ - تحریر نمبر 2496,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/seedha-rasta-2496.html,"ساجد کمبوہببلو نے سکول سے آتے ہی اپنا سکول بیگ صوفے پر پھینکتے ہوئے کہا:”ماما جان!آج شام کو کوفتے بنانے ہیں۔بیٹا!آج تو میں نے پالک پکائی ہے،کل کوفتے بنا لیں گے۔اس کی ماما نے آہستگی سے کہا۔روز شلغم،پالک،مولی پکا کر بیٹھ جاتی ہیں۔جب پوچھو سبزیاں،سبزیاں ہونہہ․․․․!ببلو نے منہ بنا کر کہا۔ابھی پچھلے دنوں تو گوشت کھایا تھا۔قورمہ،بریانی،کڑاہی،اس کی ماما نے کہا۔وہ تو دعوت تھی کھا لیا۔ورنہ دالیں،سبزیاں کھلاتی ہیں۔پتا ہے آج حسن کوفتے لایا تھا۔اس نے مجھے بھی کھلائے تھے،بڑا مزہ آیا تھا۔ببلو نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔اس کی ماں کے ساتھ بیٹھی پڑوسن بھی ہنسنے لگی۔بھئی وہ لا سکتا ہے،اس کے ابو کی دکان ہے،تمہارے ابو فیکٹری ملازم ہیں۔(جاری ہے)میں ایسی باتیں روز سنتا ہوں۔مجھے نہیں کھانے شلغم،پالک!لگتا ہے میرے پیٹ میں سبزیوں کی فصلیں اُگ جائیں گی۔ببلو نے اس انداز سے کہا کہ دونوں ہنسنے لگیں۔پھلی،توری،ساگ،شلغم وغیرہ تو گائے بھینسوں کی خوراک ہے۔آپ صحت کے لئے مفید ہے،کہہ کر کھلا دیتی ہیں۔ماما جان․․․․․!پلیز آج کوفتے کھلا دو۔اچھا بھئی ببلو!آج شام کو شامی کباب بنا رہی ہوں،تم میرے گھر سے لے آنا۔ان کی پڑوسن نے کہا۔ہورا․․․․․یہ ہوئی نہ بات آنٹی جان!ببلو خوشی سے اُچھلا اور یونیفارم بدلنے کمرے میں چلا گیا۔ببلو کو شام کا بے چینی سے انتظار تھا۔جونہی شام ہوئی وہ کٹورا پکڑے شامی کباب لینے پہنچ گیا۔کباب لے کر سب کے سامنے بیٹھ کر چسکے لے کر کھانے لگا۔ننھی فاطمہ بھی دیکھ رہی تھی مگر اس نے لفٹ نہ کروائی۔سکول میں حسن سے دوستی تھی۔وہ کھانے کے وقت اپنے ساتھ بٹھا لیتا۔گھر میں سبزی وغیرہ پکتی یا آلو،گوبھی وہ کٹوری اٹھائے کبھی اس پڑوس سے،کبھی اس پڑوس سے سالن مانگ لاتا۔اگر اس کی ماما روکتی تو کہتا چکن پکا لو،کسی کے ہاں سالن لینے نہیں جاؤں گا۔ماما اس کی ان حرکتوں سے پریشان تھیں۔پڑوس والے بھی عاجز آ گئے تھے۔انہوں نے کئی بار انکار کیا مگر ڈھیٹ ببلو فقیروں کی طرح کھڑا رہتا۔انہیں مجبوراً سالن دینا پڑتا۔مزے کی بات یہ کہ ببلو کو ذرا بھر شرمندگی نہ ہوتی تھی۔ببلو کی نانی اماں کچھ دنوں کے لئے ان کے گھر رہنے آئیں۔تو وہ بھی ببلو کی حرکتیں نوٹ کرتی رہیں۔انہوں نے اسے سمجھانے کا فیصلہ کیا۔نانی اماں ہر روز ایک نئی کہانی سناتیں۔کبھی شہزادی،شہزادے کی شادی،کبھی جن،پری اور دیو کی خطرناک قید،کبھی نیک اور غریب لکڑہارے کی کہانی،معمولی سی خدمت پر کسی بزرگ عورت یا مرد کا اچانک جادوئی قالین یا تلوار کا تحفہ اور اڑنے والے گھوڑے دینا،کسی ظالم دیو کی جان طوطے میں ہونا،ہر کہانی کا انجام یہی ہوتا ہے کہ وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے،بادشاہ نے شہزادی کی شادی کر دی،تخت ان کے حوالے کر کے یاد الٰہی میں مشغول ہو گیا۔ایک دن ببلو اور ننھی فاطمہ اپنی نانی جان کے دائیں بائیں لیٹے نئی کہانی کا تقاضا کر رہے تھے۔اس بار نانی جان نے جنگل کی کہانی شروع کی۔ایک جنگل میں شیر رہتا تھا،وہ بہت بہادر تھا۔اپنے کھانے کے لئے وہ گائے،بھینس،ہرنی،بیل،گائے وغیرہ کا شکار کرتا پھر بڑے مزے سے جی بھر کر اس کا گوشت کھاتا اور ہڈیاں گیدڑ،لومڑی اور لگڑ بگڑ کے لئے چھوڑ دیتا۔چھی․․․․․چھی․․․․چھی!شیر کی چھوڑی ہڈیاں کھانا کونسی اچھی بات ہے۔انہیں خود شکار کر کے کھانا چاہیے۔ببلو نے کہا۔بیٹا!خود کھانے کے لئے شکار کرنا پڑتا ہے۔یہ لومڑی اور گیڈر وغیرہ شکار نہیں کرتے بلکہ یہ شیر کے کیے شکار کے انتظار میں رہتے ہیں۔جونہی شیر شکار کر لے،وہ ہڈیاں اور گوشت وغیرہ کھائیں۔نانی جان!اس کا مطلب ہے کہ گیدڑ اور ببلو بھائی کی عادت ایک جیسی ہے؟ننھی فاطمہ نے کہا۔کیا مطلب․․․․؟ببلو فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔فاطمہ نے سچ کہا۔ببلو کو دیکھ لو،وہ کٹوری پکڑے گھر گھر سالن کے لئے پھرتا ہے،یہ شیر نہیں بنتا بلکہ گیدڑ بن کر دوسروں کے گھروں کا کھانا کھانا آسان سمجھتا ہے۔کیا مطلب․․․․․؟نانی جان!آپ نے مجھے گیدڑ اور لومڑی سے تشبیہ دی ہے؟بیٹا!جو مانگ کر کھاتا ہے،اسے گداگر یا فقیر سمجھ لو اور جو بچا کچھا کھاتا ہے،اسے گیدڑ سمجھ لو یا لومڑی․․․․․ایک ہی بات ہے۔واہ نانی جان․․․․․!ننھی فاطمہ نے تالی بجائی۔ببلو بھائی ایسا ہی ہے،اب آپ روز دوسروں سے کھانا مانگنے․․․․!چپ رہ فاطمہ!ببلو زور سے چلایا۔آج سے میں شیر بننا پسند کروں گا۔کسی کے گھر سے مانگ کر ہر گز نہ لاؤں گا۔نانی جان!آپ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔اب کسی کے گھر سے نہیں مانگوں گا۔اس کی آنکھوں میں عزم تھا،لہجے میں سچائی تھی۔نانی جان خوش تھیں۔انہوں نے ببلو کو صحیح راستہ دکھایا۔ " لالچ بُری بلا ہے - تحریر نمبر 2495,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lalach-buri-bala-hai-2495.html,"فاطمہ ساجدایک ہرے بھرے جنگل میں بہت سے جانور رہتے تھے۔جنگل میں ایک ندی بھی تھی جہاں جنگل کے تمام جانور پانی پیتے تھے۔ارد گرد جھاڑیوں کے جھنڈ تھے۔رنگ برنگ پھولوں کی بیلیں تھیں اور سرسبز شاداب پھلدار درخت بھی تھے۔ان میں بادام،اخروٹ بھی تھے۔پھولوں کی بہتات تھی جس کی وجہ سے جگہ جگہ شہد کے چھتے لگے تھے۔شہد ریچھ کو بہت مرغوب ہے۔شہد کا چھتہ دیکھ کر اُس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ایک پتلے سے درخت پر گلہری رہتی تھی۔گلہری ایک محنتی جانور ہے۔دن بھر اِدھر اُدھر بھاگ کر بادام،اخروٹ اور شہد کا ذخیرہ رکھتی ہے تاکہ بُرے وقت پر کام آ سکے۔گلہری ایک صاف ستھرا جانور ہے اور اپنے ارد گرد کا ماحول زرد پتوں اور چھوٹی ٹہنیوں سے صاف رکھتی۔(جاری ہے)ایک دن وہ اپنے گھر میں صفائی کر رہی تھی کہ ایک ریچھ بھٹکتا ہوا خوراک کی تلاش میں آ نکلا۔اُسے دیکھ کر گلہری درخت پر چڑھ گئی۔ریچھ کا دھیان اُس کے گھر کی طرف گیا۔اُس نے دیکھا کہ وہاں بہت سے بادام،اخروٹ اور شہد جمع ہے۔اُس نے گلہری سے کہا:”ان میں سے مجھے کچھ کھانے کو دو۔“گلہری نے کہا کہ اُس نے بُرے وقت کیلئے سنبھال کر رکھے ہیں۔ریچھ نے کہا:”اب سمجھو بُرا وقت آ گیا ہے۔اگر تم نے مجھے نہ دیا تو میں اس پتلے درخت کو ہلاؤنگا اور یہ ساری چیزیں نیچے گر جائیں گی،تم منہ دیکھتی رہنا،تجھے اپنی جان بچانا بھی مشکل ہو جائے گا۔بے چاری گلہری بہت پریشان ہوئی کہ اس مصیبت سے کیسے نجات حاصل کی جائے وہ دیکھ رہی تھی کہ ریچھ ڈیل ڈول والا ہے،غصہ میں آ گیا تو واقعی چیزیں گرا سکتا ہے جس سے سردیوں میں اُسے مشکل آئے گی۔وہ سوچ میں پڑ گئی،آخر اُسے ایک ترکیب ذہن میں آئی،وہ مسکرائی اور کہا:”مجھے یہ اشیاء دینے میں ہرج نہیں مگر یہ بہت ہی تھوڑی سی ہیں،اس سے تمہارا پیٹ نہیں بھرے گا اور میرے پاس بھی کچھ نہیں رہے گا،مجھے ایک جگہ کا علم ہے،وہاں بہت سا شہد،بادام،اخروٹ ہیں یہ سن کر ریچھ کے منہ میں پانی آ گیا۔اُس نے جلدی سے کہا:”جلدی کرو مجھے وہ جگہ دکھاؤ گلہری نے کہا میں تمہارے اوپر بیٹھتی ہوں وہاں تک چلتے ہیں۔ریچھ خوشی خوشی مان گیا۔گلہری اُس کے سر پر بیٹھ گئی اور کہا:”سیدھا چلو،بائیں سے دائیں چلو۔اُدھر سے بائیں․․․․․سیدھے․․․․ادھر سے دائیں،ذرا تیز بائیں،دائیں ریچھ زیادہ شہد کے لالچ میں بھاگتا رہا۔گلہری نے کہا۔اب رک جاؤ۔ریچھ کی سانس پھول گئی تھی۔گلہری نے اُس سے اترتے ہوئے کہا۔“سیدھا غار میں گھس جاؤ وہاں شہد کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔پیٹ بھر کر کھانا۔ریچھ جلدی سے غار میں گھس گیا۔وہ غار شیروں کا مسکن تھا جب اُنہوں نے ریچھ کو بلا اجازت غار میں گھستے ہوئے دیکھا تو وہ اُس پر جھپٹ پڑے۔بھوکے ریچھ نے بڑا مقابلہ کیا مگر شیروں کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور جان کی بازی ہار گیا۔گلہری نے کچھ دیر انتظار کیا جب شیروں کی آوازیں مدھم ہو گئیں تو وہ سمجھ گئی کہ لالچی ریچھ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔وہ جنگلی پھولوں،پھلوں کو کھاتی اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔دیکھا بچو لالچ بُری بلا ہے۔ریچھ لالچ نہ کرتا گلہری سے کچھ حاصل کر لیتا۔ " ننھی شارک - تحریر نمبر 2494,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanhi-shark-2494.html,"محمد ذوالقرنین،لودھراںننھی شارک مچھلی سمندر کے اوپر آنے کو بے تاب تھی،کیوں کہ جب سے وہ پیدا ہوئی تھی،اس نے سمندر کے اوپر اس نے موٹی سی برف کی تہہ کو ہی دیکھا تھا۔روزانہ تمام سہیلیاں مل بیٹھتی تھیں اور آپس میں اس موضوع پر بات کرتیں کہ سورج کیسا نظر آتا ہو گا اور پانی کی سطح پر کھیلنے میں کیسے مزے آتے ہوں گے۔آخر وہ دن آ گیا جب برف بالکل پگھل چکی تھی۔ننھی شارک مچھلی صبح کے وقت اُٹھی اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ سمندر کی سطح پر جانے کے لئے نکلنے لگی،تب اس کی والدہ نے تاکید کی کہ زیادہ دیر اوپر نہ کھیلنا اور احتیاط لازمی کرنا۔شارک مچھلی نے والدہ کی نصیحت سنی اَن سنی کر دی اور گھر سے نکل گئی۔شارک مچھلی نے سہیلیوں کو اِکھٹا کیا اور وہ سطح سمندر کی طرف چل دیں۔(جاری ہے)جب وہ سب سطح پر پہنچیں تو حسین نظارے دیکھ کر مبہوت ہو گئیں کچھ دیر اُبھرتے سورج کا منظر دیکھ کر وہ تمام سمندر کی سیر کو چل نکلیں پانی میں اوپر نیچے غوطے لگاتے وہ آگے بڑھتی گئیں کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد انھیں آسمان پر اُڑتے پرندے نظر آئے۔وہ سب حیران ہو کر انھیں تکنے لگیں۔اتنے میں کچھ پرندے سمندر کی طرف بڑھے مچھلیاں سمجھیں کہ شاید پرندے ان سے دوستی کرنے آ رہے ہیں۔ننھی شارک مچھلی ان سے ملنے کے لئے زور سے اوپر کی طرف اُچھلی جسے آسمان سے آتے پرندے نے جھٹ سے اپنی چونچ میں پکڑا اور واپس آسمان کی طرف اُڑ گیا۔باقی تمام مچھلیاں سمندر کے اندر چلی گئیں۔اس طرح ننھی شارک مچھلی کو اپنی والدہ کی بات مکمل نہ سننے اور اس پر عمل نہ کرنے کی سزا ملی اور اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ " میں پاکستان ہوں - تحریر نمبر 2493,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/main-pakistan-hoon-2493.html,"محمد نوید مرزارات کو دیر تک جھنڈیاں لگاتے ہوئے عمیر اور سجاد کو پتا ہی نہ چلا کہ رات کا ایک بج گیا ہے۔امی جان چھت پر آئیں اور دونوں بھائیوں کو ڈانٹ کر نیچے بلایا تو دونوں خاموشی سے نیچے آ گئے اور سونے کے لئے اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔عمیر دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور سجاد آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا۔صبح چودہ اگست تھی۔پورے محلے میں بچے اور بڑے اپنے گھروں،گلیوں اور راستوں کو جھنڈیوں سے سجا رہے تھے۔دونوں بھائیوں نے پہلے اپنے گھر کی چھت پر پرچم لہرایا اور اب وہ جھنڈیاں بھی لگا چکے تھے۔اگلے دن یعنی چودہ اگست کو ان کا مینارِ پاکستان جانے کا پروگرام بھی تھا۔صبح مینارِ پاکستان پہنچ کر دونوں اقبال پارک والی سمت آ گئے۔(جاری ہے)یہاں خاصا ہجوم تھا،لیکن اس ہجوم سے ذرا ہٹ کر ایک بینچ پر تین بزرگ بیٹھے آپس میں کسی اہم مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے۔عمیر اور سجاد نے کچھ سوچا،پھر وہ بزرگوں کے قریب پہنچ گئے۔”السلام و علیکم!آپ شاید کسی اہم مسئلے پر گفتگو فرما رہے ہیں!“انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا:”بچو!ہم تینوں محلے دار ہیں اور اس وقت پاکستان،قائد اعظم اور علامہ اقبال کی نمائندگی کر رہے ہیں۔“”بیٹا!میں مجسم پاکستان ہوں،اس لئے پاکستان کے حالات پر بات کرتا ہوں۔“تیسرے بزرگ بولے۔”میں قائد اعظم کی نمائندگی کرتا ہوں۔“دوسرے بزرگ نے کہا۔”تم مجھے علامہ اقبال کہہ سکتے ہو،کیونکہ میں اقبال کی شخصیت کو اُجاگر کرتا ہوں۔“تیسرے بزرگ نے کہا۔پہلے بزرگ نے کہا:”پاکستان زندہ و تابندہ ہے،قائم و دائم ہے اور اسے قیامت تک رہنا ہے،لیکن مجھے اس بات کا دکھ کھائے جا رہا ہے کہ اس وقت پاکستان مشکل حالات کا شکار ہے۔بیرونی طاقتیں اسے توڑنا چاہتی ہیں۔نوجوانوں کی اکثریت قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پیغام پر عمل کرنے کی بجائے گمراہی کا شکار ہے۔کوئی انٹرنیٹ اور موبائل فون کے نشے میں مبتلا ہے تو کوئی مغربی دنیا کی مصنوعی روشنیوں میں گم ہو چکا ہے۔عوام تیزی سے بُرائیوں کے دلدل میں اُتر رہی ہے۔“دوسرے بزرگ نے قائد اعظم کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا:”بیٹا!اس ملک کو بنانے کے لئے میں نے دن رات محنت کی،مگر آج حالات بہتر نہیں۔رشوت،چوری،ڈاکے اور طرح طرح کی بدعنوانیوں نے ملک کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔طرح طرح کے مسائل ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ نوجوانوں کی ایک ایسی طاقتور فوج قائم کی جائے جو خطے میں امن اور استحکام کے لئے آگے آئے۔“تیسرے بزرگ نے علامہ اقبال کی حیثیت سے کہا:”بیٹا!میں نے اپنے شعروں میں نوجوان نسل کو شاہین کہہ کر مخاطب کیا ہے۔میں نے اپنے نوجوانوں کو ہمیشہ ستاروں پر کمند ڈالنے کا درس دیا ہے،مگر آج کا نوجوان موبائل،کمپیوٹر اور اس میں موجود گیمز کے نشے میں مبتلا ہو کر اپنی منزل اور مقصدِ حیات ہی بھول بیٹھا ہے۔“”ہم آپ لوگوں کو پریشان نہیں دیکھ سکتے۔“عمیر تو جیسے روہانسا ہو گیا۔”ہمیں بتائیں کیا کیا جائے۔“سجاد نے کہا۔بزرگ پاکستان نے کہا:”بیٹا!اپنے وطن کی سالمیت کے لئے گھر گھر،گاؤں گاؤں اور شہر شہر بیداری کی ایک تحریک چلانی ہو گی۔نوجوان ہمارا مستقبل ہیں،وطن کی بقا کے لئے انھیں اکٹھا کرو اور انھیں ان کی ذمے داری کی طرف راغب کرو،انھیں آزادی کی اہمیت سے آگاہ کرو۔“”ہم ایسا ہی کریں گے۔پاکستان زندہ باد۔“عمیر اور سجاد نے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا۔اس دوران بہت سے نوجوان ان کے گرد جمع ہو گئے تھے اور سب پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے اور کہہ رہے تھے ہم پاکستان کو مایوس نہیں کریں گے۔ہم قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنیں گے۔اس موقع پر تینوں بزرگوں یعنی پاکستان،قائد اعظم اور علامہ اقبال کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو رواں تھے۔عمیر اور سجاد باری باری تینوں بزرگوں،پاکستان،قائد اعظم اور علامہ اقبال سے بغل گیر ہوئے۔ان کے اندر ایک عزم پیدا ہو گیا کہ وہ نوجوانوں کو منظم کر کے ایک ایسی تحریک کا حصہ بنیں گے جو پاکستان کو ایک نئی اور باوقار حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھارنے کی کوشش ثابت ہو گی اور پوری دنیا میں ہمارا نام ہو گا۔ " ماہِ رمضان مبارک - تحریر نمبر 2491,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mah-e-ramzan-mubarak-2491.html,"راحیلہ مغلپیارے بچو!ماہِ رمضان ہزاروں رحمتوں اور برکتوں کو اپنے دامن میں لئے ہم پر سایہ فگن ہو چکا ہے،یہ بابرکت مہینہ ایمان و تقویٰ کا آئینہ دار ہے،جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خاص رحمت و بخشش نازل فرماتا ہے۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت،دوسرا بخشش اور تیسرا دوزخ سے آزادی کا ہے۔اس ماہِ مبارک میں نورانیت میں اضافہ،روحانیت میں ترقی،اجر و ثواب میں اضافہ اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔اس مبارک مہینے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے،گویا اس ماہِ مبارک میں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنا بندہ بنانا چاہتا ہے،اور انسان کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک سے ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑ لے۔اس ماہِ مبارک میں دربارِ الٰہی سے کسی سائل کو خالی ہاتھ،کسی امیدوار کو نا امید اور کسی طالب کو ناکام و نامراد نہیں رکھا جاتا،بلکہ ہر شخص کے لئے رحمت و بخشش کی عام صدا لگتی ہے۔(جاری ہے)اس ماہِ مبارک کا ایک ایک لمحہ ہزاروں برس کی زندگی اور طاعت و عبادت سے بھاری و قیمتی ہے۔اس میں اجر و ثواب کے پیمانے ستر گنا بڑھا دیئے جاتے ہیں۔لہٰذا پیارے بچو!آپ بھی اس مہینے میں نماز کی پابندی کریں،روزے رکھیں اور دوسروں سے نیک سلوک کریں۔اپنے والدین کا حکم مانیں اور غریبوں کی مدد کریں۔ " موٹو ہاتھی اور ننھا چوہا (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2490,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/moto-hathi-aur-nanha-choha-pehla-hissa-2490.html,"علی عابد شاہایک جنگل میں برگد کے گھنے درخت کے نیچے ایک ہاتھی اور ایک چوہا رہا کرتے تھے۔ہاتھی جب بھی آرام کے لئے برگد کی گھنی چھاؤں تلے لیٹتا تو چوہا ہاتھی کے اوپر بیٹھ کر خوب شرارتیں کرتا۔کبھی ہاتھی کے سر پر بیٹھ کر ہاتھی کو گدگدی کرتا اور کبھی ہاتھی کے لمبے لمبے کانوں کو پکڑ کر جھولنے لگتا۔ہاتھی بھی چوہے کی شرارتوں سے خوب لطف اندوز ہوتا۔ایک دن ہاتھی بہت خوش لیٹا ہوا تھا۔چوہا ہاتھی کے پاس آیا اور ہاتھی کے سر پر بیٹھ کر کھیلنے لگا۔ہاتھی نے چوہے سے کہا کہ تم مجھے بہت اچھے لگتے ہو۔کیا تم مجھ سے دوستی کرو گے۔چوہے نے بھی مسکراتے ہوئے دوستی کا ہاتھ ہاتھی کی طرف بڑھا دیا اور یوں ہاتھی اور چوہا دونوں دوست بن گئے۔اب ہاتھی اور چوہے کا زیادہ وقت ایک ساتھ گزرتا۔(جاری ہے)چوہا صبح صبح اُٹھ کر ہاتھی کے پاس آ جاتا۔چوہا ہاتھی کے سر پر بیٹھتا اور دونوں پانی پینے دریا کی طرف چل پڑتے۔پانی پی کر دونوں جنگل میں گھومتے،کھانا کھاتے اور دوپہر کے وقت واپس آ کر درخت کے نیچے آرام کرتے۔ہاتھی اور چوہے کی دوستی سے جنگل کے سب جانور اور پرندے حیران تھے کہ اتنا بڑا ہاتھی اور چھوٹا سا چوہا اور دونوں دوست؟ہاتھی اور چوہا جب صبح صبح پانی پینے کے لئے دریا کی طرف جاتے تو اُن کا گزر ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہوتا۔جب وہ دونوں گاؤں میں سے گزرتے تو وہاں بچے ہاتھی اور چوہے کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور انھیں کھانے کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور دیتے۔چوہا بھی گاؤں سے گزرتے ہوئے بچوں کو خوب کرتب دکھاتا،کبھی وہ ہاتھی کے سر پر کھڑا ہو کر ناچنے لگتا اور کبھی ہاتھی کے کانوں کو پکڑ کر جھولنے لگتا تاکہ بچے خوش ہوں اور اسے کھانے کے لئے اچھی اچھی چیزیں دیں۔بچے بھی چوہے کے کرتب اور شرارتوں سے خوب لطف اندوز ہوتے۔ایک دن جب ہاتھی صبح صبح اٹھا تو ہاتھی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اور وہ تھوڑا سست سست سا تھا۔ہاتھی کو ایسے لگ رہا تھا جیسے اسے بخار ہے۔کچھ ہی دیر بعد چوہا بھی آ گیا چوہا ہاتھی کے سر پر سوار ہوا اور دونوں دوست دریا کی طرف چل پڑے۔جب چوہے نے ہاتھی کے سر پر گدگدی کی تو ہاتھی کو اچھا نہ لگا اور ہاتھی نے چوہے سے کہا کہ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں اس لئے آج آرام سے بیٹھے رہو۔لیکن چوہے نے ہاتھی کی بات پہ کان نہ دھرے۔ہاتھی اور چوہے کا گزر جب گاؤں میں سے ہوا تو چوہا بچوں کو خوش کرنے کے لئے ہاتھی کا کان پکڑ کر جھولنے لگا۔گاؤں کے ایک گھر میں رنگساز گھر کو رنگ کر رہے تھے اور اس گھر کے باہر چونے سے بھرا ایک بہت بڑا ڈرم پڑا ہوا تھا۔جب چوہا ہاتھی کے کان سے جھولا تو ہاتھی کو بہت غصہ آیا اور ہاتھی نے چوہے کو اپنی سونڈ سے پکڑ کر ہوا میں اُچھال دیا۔چوہا بہت دور تک اوپر ہوا میں کلابازیاں کھاتا گیا اور پھر سیدھا چونے سے بھرے ڈرم میں آ گرا۔پہلے تو چوہا بہت گھبرایا لیکن پھر ہمت باندھ کے چونے سے بھرے ڈرم سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔کافی کوشش کے بعد چوہا ڈرم کو پکڑ پکڑ کر اور رینگ رینگ کر ڈرم سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔جب چوہا ڈرم سے باہر آیا تو چوہے کا سرمئی رنگ سفید رنگ میں تبدیل ہو چکا تھا۔چوہے کے جسم کے چاروں طرف چونا ہی چونا نظر آ رہا تھا۔بچے سفید چوہے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بچے چوہے کو چار چونا چار چونا پکارتے ہوئے تالیاں بجانے لگے۔وہاں سے جنگل کے کچھ دوسرے جانور بھی گزر رہے تھے اور جنگل کے کچھ پرندے قریب لگے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔وہ بھی چوہے کی حالت دیکھ کر ہنسنے لگے۔سب چوہے کا نیا نام چار چونا سن کر بہت خوش ہوئے اور بچوں کے ساتھ چوہے کو چار چونا چار چونا کہنے لگے۔چوہے کو بہت شرمندگی اور بے عزتی محسوس ہو رہی تھی۔ہاتھی بھی وہاں کھڑا یہ سارا تماشہ دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا۔چوہا بھی غصے میں ہاتھی کو خونخوار آنکھوں سے گھور رہا تھا۔چوہا ہاتھی کے پاس آیا اور ہاتھی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا آج تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔میں اس کا بدلہ تم سے ضرور لوں گا۔میں بے شک تم سے بہت چھوٹا ہوں مگر تمہیں ایسا سبق سکھاؤں گا کہ تم زندگی بھر یاد رکھو گے۔ہاتھی چوہے کو دیکھ کر ہنس کر بولا،پہلے تم اپنے آپ کو دیکھو اور پھر مجھے۔تم مجھے کیا سبق سکھاؤ گے،کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔یہ کہہ کر ہاتھی دریا کی طرف چل پڑا اور چوہا روتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔وہاں پر موجود جانوروں اور پرندوں نے یہ سارا واقع جنگل کے دوسرے جانوروں اور پرندوں کو سنایا۔کچھ ہی دیر میں چوہا پورے جنگل میں چار چونا کے نام سے مشہور ہو چکا تھا۔چار چونا جب گھر پہنچا تو چار چونے کی امی چار چونے کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی اور چار چونے سے پوچھنے لگی بیٹا یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے۔چار چونا امی کی گود میں بیٹھ کر رو رو کر امی کو سارا واقع سنانے لگا۔امی نے چار چونے سے کہا کہ میں نے تمہیں سمجھایا بھی تھا کہ ہاتھی سے دوستی سوچ سمجھ کے کرنا۔اور اگر ہاتھی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو تمہیں بھی ہاتھی کو تنگ نہیں کرنا چاہئے تھا۔پھر امی چار چونے کو دریا کی طرف لے گئی اور چار چونے کو اچھی طرح نہلایا اور چار چونے کے جسم پہ لگے چونے کو اُتارا۔(جاری ہے) " اُدھار کی چاکلیٹ - تحریر نمبر 2489,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/udhaar-ki-chocolate-2489.html,"شاہدہ علیعادل اور مدثر دونوں بھائی گھر کے قریب ایک اسکول میں اکٹھے پڑھنے جاتے تھے۔عادل چھٹی اور مدثر پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ان کو اسکول جاتے وقت امی جان کی طرف سے لنچ باکس ملتے تھے،جس میں کھانے پینے کی صحت بخش اشیاء موجود ہوتی تھیں۔امی ان دونوں کو بیس بیس روپے بھی دیتی تھیں،تاکہ اگر کبھی ضرورت پڑے تو ان کے پاس پیسے موجود ہوں۔عادل قدرے فضول خرچ تھا۔وہ لنچ باکس ملنے کے باوجود روز بیس روپے بھی خرچ کر لیتا تھا۔جب کہ مدثر کفایت شعار تھا۔لنچ باکس میں ملنے والی چیزیں اس کے لئے کافی ہوتی تھیں۔وہ روز کے ملنے والے بیس روپے بچا لیتا۔وہ اپنے جمع کیے پیسوں سے اپنی کئی ضرورتیں پوری کر لیتا تھا،کبھی کوئی کتاب خرید لیتا،کبھی رنگ دار پنسلیں وغیرہ۔(جاری ہے)عادل اسے کنجوس،مکھی چوس کہتا تھا۔شروع میں وہ چڑتا تھا۔پھر امی نے اسے بچت کرنے کی اہمیت بتا کر سمجھایا تو اس نے چڑنا چھوڑ دیا۔جب اس نے چڑنا چھوڑ دیا تو عادل نے اسے چڑانے کا سلسلہ بھی ختم کر دیا۔حال ہی میں اسکول کی کینٹین کے برابر میں ایک نئی دکان کا اضافہ ہوا،جس میں بہت سی چاکلیٹس اور جوسز وغیرہ رکھے گئے تھے۔عادل کو چاکلیٹیں بہت پسند تھیں۔عادل اپنے بیس روپے لے کر کینٹین پر گیا تو مزے دار چاکلیٹوں پر اس کی نظر پڑی،جنھوں نے اس کی ساری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔”انکل!یہ والی چاکلیٹ کتنے کی ہے؟“عادل نے مطلوبہ چاکلیٹ کی طرف اشارہ کیا۔”پچاس روپے کی؟“ کینٹین والے انکل نے مسکرا کر بتایا۔مگر میرے پاس تو بیس روپے ہیں،یہ چاکلیٹ کیسے خریدوں؟عادل نے چند لمحے سوچ میں گزارے اور پھر پلٹ گیا۔”کیا ہوا؟“کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے ہوئے انکل نے پوچھا۔”اصل میں مجھے وہ چاکلیٹ لینی تھی،مگر میرے پاس پیسے کم ہیں۔اگر آپ میری بات مانیں تو مجھے چاکلیٹ دے دیں اور یہ بیس روپے رکھ لیں،باقی پیسے میں آپ کو کل دے دوں گا۔“عادل نے جھجکتے ہوئے کہا۔عادل روز کینٹین سے کچھ نہ کچھ خریدتا تھا اور کبھی اس نے اُدھار نہیں کیا تھا۔یقینا وہ کل یہ پیسے لوٹا دے گا۔انکل نے کچھ دیر سوچا اور بیس روپے لے کر اسے ایک چاکلیٹ دے دی۔عادل چاکلیٹ لے کر خوشی خوشی چلا گیا۔چاکلیٹ بہت مزے دار تھی۔اس کا ذائقہ چھٹی تک عادل کے منہ میں رہا۔اب تو چاکلیٹ کھانے کی عادت سی ہو گئی۔”انکل!اگر آپ بُرا نہ مانیں تو آپ بیس روپے لے کر مجھے وہ چاکلیٹ دے دیا کریں تو میں باقی کے سارے پیسے مہینے کی پہلی تاریخ کو ادا کر دوں گا۔“پہلی تاریخ آنے میں دس روز باقی تھے جب کہ دو دن چھٹی تھی۔سو کینٹین والے انکل نے حامی بھر لی۔عادل روز بیس روپے دے کر وہ چاکلیٹ لے لیتا اور آنکھیں بند کر کے چاکلیٹ کے مزے اُڑاتا۔آنکھ تو اس کی مہینے کی پہلی تاریخ کو کھلی جب انکل نے اسے حساب بے باق کرنے کے لئے کہا۔اب تو عادل بہت گھبرایا۔اس کے پاس پیسے کہاں تھے جو وہ دیتا اور اگر گھر میں بتاتا تو امی ابو کی ڈانٹ سننی پڑتی جو اُدھار کے سخت خلاف تھے۔ان کے گھر کا اُصول تھا کہ چیز نہ ملے تو اس کے بغیر گزارا کر لیا جائے،مگر اُدھار سے بچا جائے۔”اب میں کیا کروں؟“عادل نے پریشانی سے سوچا۔کئی روز انکل تقاضا کرتے رہے اور عادل انھیں ٹالتا رہا۔عادل نے وہاں سے چیزیں لینی چھوڑ دیں۔”اگر روز کے بیس روپے بھی دوں تو کتنے دن لگ جائیں گے۔پتا نہیں انکل مانیں یا نہ مانیں،مگر چل کر بات کرتا ہوں۔“عادل نے چھٹی کے بعد کینٹین والے انکل سے بات کی تو وہ راضی نہ ہوئے۔بولے:”مجھے اپنے سارے پیسے اکٹھے چاہییں وہ بھی کل،ورنہ میں تمہارا بستہ اپنے پاس رکھ لوں گا۔پھر پیسے دو گے تب ہی بستہ واپس کروں گا۔“انکل نے روکھے سے انداز میں کہا۔”عادل!یہ تمہارا کیلکولیٹر،تم کلاس میں بھول آئے تھے۔“عادل کا ہم جماعت اسد بھاگتا ہوا آیا اور کیلکولیٹر اس کے ہاتھ میں تھما کر گیٹ کی طرف بھاگ گیا۔”لاؤ یہ کیلکولیٹر دو مجھے اور جب پیسے دو گے اسے واپس لے جانا۔“کینٹین والے انکل نے اس کے ہاتھ سے کیلکولیٹر لے کر اپنے پاس رکھ لیا۔”انکل یہ میرے بابا کا کیلکولیٹر ہے۔میں آج کے لئے لایا تھا۔مجھے یہ انھیں واپس کرنا ہے۔“عادل روہانسا ہو گیا۔”میاں!لگتا ہے کہ اُدھار لینا تمہاری عادت ہے،اب یہ کیلکولیٹر بھی اُدھار؟مگر یہ میں واپس بالکل نہیں دوں گا۔“کینٹین والے انکل نے اس کا مذاق اُڑایا۔مدثر کب سے گیٹ کے پاس کھڑا عادل کا انتظار کر رہا تھا،مگر وہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔آہستہ آہستہ سارا اسکول خالی ہو رہا تھا۔مدثر نے عادل کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھا تو اس کی نظر سامنے گئی،جہاں سے عادل ڈھیلے ڈھیلے قدم اُٹھاتا چلا آ رہا تھا۔”عادل بھائی!کہاں رہ گئے تھے؟چلیں جلدی گھر چلیں۔“مدثر نے عادل کا ہاتھ تھام کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو اسے اس کی آنکھوں میں آنسو نظر آئے۔”کیا ہوا عادل بھائی!رو کیوں رہے ہیں؟“مدثر فکر مند ہوا تو عادل نے اسے ساری بات بتا دی۔”عادل بھائی!آپ نے اُدھار کیوں لیا؟پتا ہے نا امی بابا خود بھی اُدھار سے بچتے ہیں اور ہمیں بھی اُدھار سے منع کرتے ہیں۔“مدثر کے کہنے پر عادل چڑ گیا۔”پتا ہے سب کچھ مجھے،بس ہو گئی غلطی،مگر اب کیا کروں؟“مدثر چھوٹا ہونے کے باوجود زیادہ سمجھدار تھا۔”آپ آئیں میرے ساتھ۔“”انکل!عادل بھائی کو آپ کے کل کتنے پیسے دینے ہیں؟“مدثر نے پوچھا۔”دو سو ستر روپے۔“کینٹین والے انکل نے کہا تو مدثر نے اپنا بستہ نیچے رکھا اور اس کے اندر والی جیب کی زپ کھول کر اس میں سے پانچ سو روپے کا نوٹ نکالا۔”یہ لیں،پلیز اپنے پیسے لے لیں اور کیلکولیٹر واپس دے دیں۔“کینٹین والے انکل نے اپنے پیسے وصول کیے،باقی رقم اور کیلکولیٹر مدثر کے ہاتھ میں دیا اور آئندہ سے کسی بچے کو اُدھار دینے سے توبہ کر لی۔”شکریہ مدثر!تم نے آج میری جان بچا لی۔“عادل نے شرمندگی سے کہا۔”کوئی بات نہیں بھائی!مگر وعدہ کریں،اب آپ کبھی کسی سے اُدھار نہیں لیں گے۔“”بالکل نہیں لوں گا،میری توبہ،مگر یہ تو بتاؤ تمہارے پاس اتنے سارے پیسے کہاں سے آئے اور تم نے انھیں اسکول بیگ میں کیوں رکھا ہوا تھا؟“عادل کی پریشانی ختم ہو چکی تھی۔دونوں بھائی گھر کی طرف جا رہے تھے۔”عادل بھائی!امی ہمیں جو بیس روپے روز دیتی ہیں،وہ میں جمع کرتا ہوں تو ہر مہینے میرے پاس چھے سو روپے جمع ہو جاتے ہیں۔آج میں یہ پانچ سو روپے لایا تھا،کیونکہ مجھے بازار سے بچوں کے اُردو رسائل اور رنگین مارکر خریدنے تھے۔“مدثر نے بتایا تو عادل کو احساس ہوا کہ امی کا دیا ہوا لنچ باکس ان کے لئے کافی ہوتا تھا،مگر وہ صرف بازاری چٹخارے کی وجہ سے اپنی رقم وہ کینٹین پر خرچ کر دیتا تھا۔”مدثر!آج سے میں بھی اپنے پیسے فضول چیزیں کھانے پینے میں ضائع نہیں کروں گا،بلکہ بحث کیا کروں گا۔میرا وعدہ ہے کہ میں اگلے مہینے تمہارے سارے پیسے واپس کر دوں گا۔“عادل نے وعدہ کیا تو مدثر مسکرا دیا۔اب عادل کو کفایت شعاری کی اہمیت اور اُدھار کے نقصان کا احساس ہو گیا تھا۔اس کے بعد عادل نے کبھی کسی سے اُدھار نہ لیا اور نہ فضول خرچی کی۔ " گڑیا کی شادی - تحریر نمبر 2488,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/guriya-ki-shaadi-2488.html,"زہرا نگاہعلیزے ایک بہت پیاری بچی ہے۔اس کے پاس ایک گڑیا ہے۔دیکھنے کے لائق۔علیزے اپنی گڑیا سے بہت پیار کرتی ہے۔ایک دن اس نے سوچا کیوں نہ میں اپنی گڑیا کی شادی کر دوں۔کل جمعہ ہے۔جمعے کا دن اچھا رہے گا۔سب سے پہلے علیزے اپنی آپا کے پاس گئی اور بولی:”آپا!کل میری گڑیا کی شادی ہے۔آپ ضرور آئیے۔“آپا نے کہا:”میں ضرور آتی مگر کل تو مجھے سچ مچ ایک شادی میں جانا ہے۔“علیزے کے دونوں بھائی علی اور باچھو جب اسکول سے آئے تو علیزے نے ان سے کہا:”کل میری گڑیا کی شادی ہے۔آپ دونوں ضرور آئیے۔“دونوں خوب ہنسے۔بولے:”بھئی،کل تو ہم کرکٹ کھیلنے جا رہے ہیں۔“علیزے نے اپنی سہیلیوں ربیعہ اور مریم سے کہا۔وہ دونوں جمعہ کو اپنی خالہ کے گھر جا رہی تھیں۔(جاری ہے)پھر علیزے نے سوچا،چھوٹے شایان کو بلاؤں۔شایان علیزے کا خالہ زاد بھائی تھا اور دوست بھی تھا۔مگر شایان اس وقت گھر پر نہیں تھا۔اب تو علیزے بہت پریشان ہوئی۔مگر کیا کرتی۔صبح صبح اُٹھ بیٹھی۔اپنے تمام کھلونے سجائے۔گڑیا کو اچھے اچھے کپڑے پہنائے اور خود ہی اپنی گڑیا کی شادی میں شامل ہو گئی۔تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتی ہے کہ اس کی گڑیا کی شادی میں بہت سے مہمان آ رہے ہیں۔بھالو،طوطا،گرگٹ،جھینگر اور جگنو میاں۔یہ سب تحفے بھی لائے تھے۔بھالو کے خالو بھی آئے ہوئے تھے۔وہ ایک بہت خوبصورت صندوق لائے تھے۔گرگٹ بُندے لایا تھا جو ہلانے سے چمکتے تھے اور تو اور جھینگر گڑیا کے لئے دوشالہ لایا تھا اور طوطا وہ اپنا پوتا ساتھ لایا تھا اور گڑیا کے لئے ایک چھوٹی سی بندوق لایا تھا۔رہے جگنو میاں،تو ان کی کیا بات تھی۔وہ چمک چمک کر گڑیا کے چاروں طرف ناچ رہے تھے اور گا رہے تھے۔علیزے بہت خوش ہوئی۔ساری اداسی غائب ہو گئی۔کیسی اچھی شادی ہو رہی تھی۔یکایک دروازہ زور سے کھلا۔علیزے کی آنکھ کھل گئی۔آپا،دونوں بھائی،ربیعہ مریم سب لوگ آ گئے تھے۔ان سب کے ہاتھوں میں اپنے اپنے تحفے تھے۔آپا نے کہا:”دیکھ،میں ان سب کو لے کر آئی ہوں جن کو تم بلانا چاہتی تھیں۔تھوڑی دیر ضرور ہو گئی۔یہ لو میں تمہاری گڑیا کے لئے صندوق لائی ہوں۔“بھیا بولے:”اور میں بندوق،یہ چھوٹی سی۔“چھوٹے بھائی نے کہا:”یہ لو بُندے،ہلانے سے چمکتے ہیں۔“ربیعہ اور مریم بولیں:”ہم تمہاری گڑیا کے لئے دوشالہ لائے ہیں۔“اتنے میں شایان بھاگتا ہوا آیا اور اس کے پاس ایک چھوٹی سی لالٹین تھی وہ گڑیا کے چاروں طرف ناچ ناچ کر گانے لگا۔علیزے نے گڑیا کی شادی رچائیشادی کی دعوت سب کو کھلائیبھالو کا خالو صندوق لایاطوطے کا پوتا بندوق لایاجھینگر کی اماں نے بھیجا دوشالہبُندے لے آیا گرگٹ بے چارہعلیزے نے گڑیا کی شادی رچائی " افطار کی مصروفیات - تحریر نمبر 2487,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/iftar-ki-masrofiyat-2487.html,"خالد نجیب خانافطاری ہونے میں ابھی تقریباً ایک گھنٹہ پڑا تھا۔باجی ماما اور دادی کے ساتھ کچن میں مصروف تھیں جبکہ علی اور موسیٰ دادا ابو کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے افطاری کے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔اُس وقت ٹی وی پر ہر طرف مختلف قسم کے پکوان بنانے کی تراکیب بتائی جا رہی تھیں جن میں سے کچھ بھی نیا نہیں تھا۔سوائے اشتہارات کے۔علی کے دادا ابو کا ان اشتہارات کو دیکھ کر پارا چڑھنا شروع ہو گیا تھا۔اسی لئے اُنہوں نے ٹی وی بند کر دیا۔ٹی وی بند ہوتے ہی دونوں بچوں کو بے چینی شروع ہو گئی۔اُن دونوں کی خواہش تھی کہ کارٹون والا کوئی مزیدار سا چینل ہی لگا دیا جائے مگر دادا ابو سے ٹی وی کا ریمورٹ حاصل کرنا بہت ہی مشکل کام تھا اور اُن کی موجودگی میں کارٹون والا چینل لگانا تو گویا ناممکنات میں سے تھا۔(جاری ہے)دادا ابو بھی جان چکے تھے کہ یہ دونوں بچے کیا چاہتے ہیں۔اُنہوں نے اُنہیں پیار سے اپنے پاس بلایا اور سمجھایا کہ افطاری سے پہلے کا وقت روزہ دار کیلئے بے حد قیمتی وقت ہوتا ہے۔اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے۔اس وقت مانگی گئی دعا کو اللہ تعالیٰ ایسے ہی سنتا ہے جیسے وہ آپ کے بالکل سامنے موجود ہو اور اللہ تعالیٰ اس وقت ایسی کسی دعا کو رد نہیں کرتا جو اس تک پہنچ چکی ہو۔اس لئے افطاری سے قبل ٹی وی پر کارٹون دیکھنا یا اس طرح کے کسی اور کام میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔بہترین بات تو یہ ہے کہ عصر کی نماز پڑھنے کے بعد تسبیح کی جائے اگر کوئی دنیاوی کام بھی ہو تو ساتھ ساتھ وہ بھی ضرور کرنا چاہیے جیسے آپ کی ماما اس وقت کچن میں کام کر رہی ہیں یا آپ کو سکول کا سبق یاد کرنا ہے تو وہ بھی کر لیں،میلی یونیفارم دھونے والی ہے تو وہ دھو لیں،وغیرہ وغیرہ۔ترمذی شریف میں لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ افطار کے وقت روزہ دار جو بھی دعا مانگتا ہے اُس کی دعا قبول ہوتی ہے،رد نہیں ہوتی۔یوں بھی ہمیں روزہ کی حالت میں بڑے اہتمام کے ساتھ ہر برائی سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ روزہ کا تو اصل مقصد ہی زندگی کو پاکیزہ بنانا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو اپنی زبان سے کوئی بری بات نہ نکالے اور نہ ہی شور شرابا کرے اور اگر کوئی اُس سے گالی گلوچ کرنے لگے یا لڑائی پر آمادہ بھی ہو تو روزہ دار کو چاہیے کہ وہ اس کا جواب نہ دے۔علی دادا جان کی باتیں غور سے سُن رہا تھا جبکہ موسیٰ کا دھیان ابھی بھی ٹی وی کے ریمورٹ کی طرف ہی تھا۔اُس نے دادا جان کی توجہ اُس کی طرف دلاتے ہوئے کہا۔دادا جان یہ تو ٹھیک ہے مگر روزہ رکھنے سے کسی کی صحت کیسے بہتر ہو جاتی ہے حالانکہ روزہ رکھنے سے تو ہمیں بھوک اور پیاس برداشت کرنا پڑتی ہے۔بھوک اور پیاس کا ذکر سن کر موسیٰ پھر سے متوجہ ہو گیا۔دادا جان کہنے لگے:”بلاشبہ روزے صحت کیلئے بہت مفید ہوتے ہیں۔ہر مذہب اور فرقے کے معالجین کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں‘اس کا ثبوت ہسپتالوں کے وہ رجسٹر ہیں جن میں مریضوں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔روزہ ہائی بلڈ پریشر کے علاوہ نظام انہضام کو بھی ٹھیک کرتا ہے بشرطیکہ سحری اور افطاری اس طرح ہی کی جائے جس طرح کہ ہمارے گھر میں ہوتی ہے۔آج کل ٹی وی چینلز پر چلنے والے اشتہاروں سے متاثر ہو کر لوگ افطاری اور سحری کے اوقات میں ایسی ایسی غذائیں استعمال کرنے لگ جاتے ہیں کہ جس سے ایسا لگتا ہے کہ بیماری یا خرابی روزہ رکھنے کی وجہ سے ہوئی ہے حالانکہ وہ خرابی تو غلط چیز غلط وقت پر کھانے سے ہوئی ہوتی ہے۔روزہ تو کم یا نہ کھانے کا نام ہے۔یعنی عام دنوں میں جتنا ہم کھاتے ہیں اس سے بھی کم کھانا چاہیے مگر دیکھا گیا ہے کہ لوگ عام دنوں کے برابر نہیں بلکہ اُس سے بھی زیادہ کھا جاتے ہیں۔ہمارے گھر میں کچن کے اخراجات رمضان کے مہینے میں روٹین کی نسبت کم ہو جاتے ہیں جبکہ اکثر گھروں میں یہ اخراجات دو گنا سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔رمضان المبارک میں کچن کے بجٹ میں جو کمی ہوتی ہے اُس کا فائدہ آپ کے آس پاس رہنے والے غریب لوگوں کو پہنچنا چاہئے۔ماڈرن سائنس نے تو یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ہر شخص ہی کو صحت مند رہنے کیلئے روزہ رکھنے کی ضرورت ہے۔یعنی کوئی شخص اگر بیمار نہ بھی ہو تو اُسے ہمیشہ صحت مند رہنے کیلئے سال میں کم از کم ایک ماہ کے روزے ضرور رکھنے چاہیں۔دادا ابو ہمارے گھر میں تو سب ہی باقاعدگی سے روزے رکھتے ہیں اسی لئے تو سب اللہ کے فضل و کرم سے صحت مند رہتے ہیں۔تم نے ٹھیک کہا ہے۔اب مجھے ہی دیکھ لو میری عمر کے بہت سے لوگ اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ ان پر کوئی بھی معمولی سے معمولی بیماری حملہ آور ہو سکتی ہے میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے کبھی بھی کوئی روزہ نہیں چھوڑا اور مجھے یقین ہے کہ میرے بچوں اور ان کے بچوں اور ان کی آنے والی نسلیں بھی اگر اسی طرح باقاعدگی سے روزے رکھتی رہیں تو وہ بھی ہمیشہ تندرست ہی رہیں گی۔اسی دوران افطاری کا وقت ہو گیا علی کے پاپا بھی دفتر سے واپس آ گئے تھے اور کچن میں موجود تمام افراد بھی ڈائننگ ٹیبل پر آ گئے۔دادا ابو نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے تو سب ہی نے ہاتھ اُٹھا لئے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنے ملک کیلئے خیر اور برکتیں مانگنے لگے۔ " لکڑہارا بنا بادشاہ (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2486,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lakarhara-bana-badshah-aakhri-hissa-2486.html,"ساجد کمبوہکچھ لمحوں میں چبوترے پر رکھا پنجرہ کھولا جائے گا اس میں بیٹھا پرندہ جس کے کندھے پر بیٹھے گا وہی ہمارا بادشاہ ہو گا۔لکڑہارا ارسلان یہ دلچسپ منظر دیکھنے لگا۔قسمت کی خوبی جب پنجرہ کھولا گیا تو پرندہ اُڑ کر ارسلان کے کندھے پر آن بیٹھا۔لوگوں نے تالیاں بجائیں اور اپنے نئے بادشاہ کو محل لے آئے اور رسومات کی ادائیگی کے بعد بادشاہت کا تاج ارسلان کے سر پر سجا دیا گیا۔یوں محنت و مشقت کرنے والا نیک دل اور بہادر لکڑہارا بادشاہ بن گیا۔چند روز آرام و سکون سے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس نے مملکت کے معاملات دیکھنے شروع کیے تو معلوم ہوا کہ ملک میں لاقانونیت،لوٹ مار،غنڈہ گردی،چوری چکاری عام ہے۔بے تحاشہ کرپشن اور رشوت ستانی کا بازار گرم ہے۔(جاری ہے)بااثر ظالموں سے کسی کی جان و مال محفوظ نہیں۔بادشاہ کے دربار میں روزانہ درخواستیں دیتے ہیں مگر راشی داروغہ بادشاہ تک نہیں پہنچنے دیتا۔رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔اس نے اعلان کروایا کہ آج کے بعد کوئی رشوت نہیں لے گا۔اگر معلوم ہو گیا تو اس کی سزا پھانسی ہو گی۔ہر طرف سناٹا چھا گیا مگر لوگ کب باز آنے والے تھے۔انہوں نے رشوت لینی نہ چھوڑی،جس جس کا پتہ چلتا اسے پھانسی چڑھا دیا جاتا۔کچھ ہی دنوں میں رشوت لینے اور دینے والوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔رشوت کے خاتمے کے ساتھ ہی غنڈہ گردی اور لاقانونیت کا بھی خاتمہ ہو گیا ہر شخص اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کا خیال کرنے لگا۔یوں ملک میں اصلاح احوال کی صورت بنی اور تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع ہو گیا۔ریاست کی تعمیر و ترقی کی شہرت چاروں طرف پھیلی تو ارسلان کو ملک بدر کرنے والے بادشاہ نے اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ارسلان نے اپنا ولی عہد لانے کی شرط رکھی۔بادشاہ اپنے ولی عہد یعنی شہزادے کو لے کر بادشاہ کے دربار میں پہنچا تو اپنے دوست کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ادھر بادشاہ بھی اسے دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ارسلان کا حسن سلوک دیکھ کر اسے شرمندگی ہو رہی تھی مگر ارسلان نے کہا کہ بے شک آدمی کی حیثیت و اختیار کا مالک و خالق وہی ہے جو دن رات کو آپس میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں اگر مجھے ملک بدر نہ کرتے تو آج بھی لکڑیاں بیچ کر گزارہ کر رہا ہوتا،لیکن اللہ تعالیٰ بہترین کارساز ہے۔پیارے بچو!آپ بھی محنت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اس لئے آپ کو بھی محنت کرنی چاہئے تاکہ آپ بھی کامیاب زندگی بسر کر سکیں۔ " کتا اور آئینے - تحریر نمبر 2484,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kutta-aur-aaine-2484.html,"آفتاب احمد خانزادہایک بادشاہ نے ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کروائی،جس میں ہزاروں آئینے لگائے گئے تھے۔ایک مرتبہ ایک کتا کسی نہ کسی طرح اس عمارت میں جا گھسا۔رات کے وقت چوکیدار دروازہ بند کر کے چلا گیا،لیکن کتا عمارت میں ہی رہ گیا۔کتے نے چاروں جانب نگاہ دوڑائی تو اسے چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں کتے نظر آئے۔اسے ہر آئینے میں ایک کتا دکھائی دے رہا تھا۔اس کتے نے کبھی بھی اپنے آپ کو اتنے دشمنوں کے درمیان پھنسا ہوا نہیں پایا تھا،اگر ایک آدھ کتا ہوتا تو شاید وہ اس سے لڑ کر جیت سکتا تھا،لیکن اب کی بار اسے اپنی موت یقینی نظر آ رہی تھی،کیونکہ جس طرف آنکھ اُٹھاتا،اُسے کتے ہی کتے نظر آتے تھے۔اوپر نیچے اور چاروں طرف کتے ہی کتے نظر آ رہے تھے۔(جاری ہے)کتے نے بھونک کر ان کتوں کو ڈرانا چاہا تو وہ ہزاروں کتے بھی بھونکنے لگے،کیونکہ اس کے اپنے بھونکنے کی آواز جب سنسان عمارت میں گونج کر واپس لوٹی تو اسے یوں محسوس ہوا کہ ہزاروں کتے بھونک رہے ہیں۔اس کا رواں رواں کانپ اُٹھا۔اس نے بھاگنے کی کوشش نہیں کی،کیونکہ وہ چاروں طرف سے گھِر چکا تھا۔صبح جب چوکیدار نے عمارت کا دروازہ کھولا تو وہاں کتے کی لاش موجود تھی۔اس عمارت میں کوئی بھی موجود نہیں تھا،جو اسے مارتا،عمارت خالی تھی،لیکن کتے کے پورے جسم پر زخموں کے نشانات تھے اور وہ خون میں لت پت پڑا تھا۔اس کتے کے ساتھ کیا ہوا!خوف کے عالم میں وہ کتا بھونکا،جھپٹا،دیواروں سے ٹکرایا اور اپنے جیسے کتوں کے خوف سے مر گیا۔یعنی وہ کتا ان دشمنوں کو مارتے مارتے خود مر گیا،جو حقیقت میں تھے ہی نہیں۔ " لکڑہارا بنا بادشاہ (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2483,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lakarhara-bana-badshah-pehla-hissa-2483.html,"ساجد کمبوہبرسوں پہلے کی بات ہے کہ ایک شہزادے سے دوستی ہو گئی۔ہوا یوں کہ شہزادہ شکار کے لئے جنگل میں گیا کہ اچانک سامنے سے شیر آ گیا اس کی دھاڑ سے گھوڑا بدک گیا جس کی وجہ سے شہزادہ توازن برقرار نہ رکھ سکا اور گر گیا۔شیر کو بالکل سامنے دیکھتے ہوئے شہزادے نے فوراً تلوار نکالی اور مقابلے کے لئے تیار ہو گیا۔شیر اس کی جانب لپکا شہزادے نے تلوار گھمائی جو شیر کی پسلیوں میں لگی اب زخمی شیر اور بھی خطرناک ہو گیا تھا۔اس نے شہزادے پر چھلانگ لگائی تو شہزادے کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی۔شیر نے شہزادے کو زخمی کر دیا۔شہزادے نے خوب مقابلہ کیا مگر بپھرے درندے سے مقابلہ آسان نہ تھا۔آخر کار شیر نے اسے گرا دیا۔قریب تھا کہ شہزادے کی گردن دبوچتا اچانک شیر دھاڑ کر پیچھے کو مڑا کسی نے اس کی کمر میں بڑی زور سے کلہاڑا مارا تھا۔(جاری ہے)شیر دھاڑ کر جنگل کی طرف بھاگ نکلا۔شہزادے نے دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان نے فوراً شہزادے کو اُٹھایا ایک محفوظ جگہ پر لے جا کر اس کی مرہم پٹی کی۔کچھ دیر بعد شہزادے کے محافظ اسے ڈھونڈتے ہوئے پہنچ گئے۔انہوں نے شہزادے کو دوسرے گھوڑے پر بٹھایا اور محل کی طرف روانہ ہو گئے۔یوں لکڑہارے کی شہزادے سے دوستی ہو گئی اور اس کی تیمارداری کے لئے محل آنے لگا تھا۔شہزادہ اسے پسند کرنے لگا تھا کیونکہ وہ ذہین عقلمند اور بہادر تھا لیکن بادشاہ کو اس کی دوستی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔اس نے شہزادے کو حکم دیا کہ اس سے دوستی ختم کر دے۔شہزادے نے احتجاج کیا کہ وہ میرا محسن ہے اور بہت اچھے اخلاق کا مالک اور ذہین انسان ہے۔غریب ہونا کوئی جرم نہیں ایسے سمجھدار سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے،اب مجھے زیب نہیں دیتا کہ اس سے تعلق توڑوں۔بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے اور اس کے خاندان کو ملک بدر کر دیا جائے یوں ایک فوجی دستہ لکڑہارے کو بے یار و مددگار سرحد سے باہر چھوڑ آیا کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ بھوکا پیاسا ایک بڑے شہر پہنچا جہاں کھلے میدان میں بڑے چبوترے پر بڑی بڑی پگڑیوں والے بہت سے سردار،امراء اور تاجر بیٹھے تھے جن کے سامنے میز پر پنجرے میں ایک پرندہ تھا۔لکڑہارے نے اس بڑے اور عالیشان مجمع کا سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ کل ان کا بادشاہ فوت ہو گیا آج یہاں نئے بادشاہ کا انتخاب ہو گا۔(جاری ہے) " زینب اور آسٹریلین طوطا - تحریر نمبر 2482,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zainab-aur-australian-tota-2482.html,"آمنہ ماہمدس سال کی زینب کو چڑیاں بہت اچھی لگتی تھیں۔اُڑتی،پھدکتی،چہچہاتی چڑیاں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتی۔آسٹریلیں اور ہرے ہرے طوطے اسے خاص طور پر اچھے لگتے تھے۔ایک بار اس نے اپنی ممی سے کہا کہ وہ طوطا پالنا چاہتی ہے لیکن ممی نے کہا کہ طوطے قید میں رہنا پسند نہیں کرتے،انہیں اپنی آزادی بہت پیاری ہوتی ہے۔گھر کے سامنے درختوں پر بہت سی چڑیاں رہتی ہیں۔خوب چوں چوں کرتی ہیں،انہیں دیکھا کرو۔زینب نے ممی کی بات مان لی اور طوطا خریدنے کی ضد چھوڑ دی۔اسکول سے آنے کے بعد بالکونی میں کھڑے ہو کر طرح طرح کی چڑیوں کو اور سامنے گھر والوں کے آسٹریلین طوطوں کو دیکھتی۔ایک دن زینب شام کو کمرے میں آئی تو دیکھا ایک آسٹریلین طوطا اُس کے کمرے میں بیٹھا ہوا ہے۔(جاری ہے)چھوٹا سا گرے رنگ کا،لال لال آنکھیں،پتلی سی دم تھی۔وہ دم لگاتار اوپر نیچے ہلا رہا تھا۔اس طوطے کو اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔زینب طوطے کو کمرے میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔بھاگ کر ممی کو بلا لائی۔انہوں نے بتایا یہ شاما ہے۔بڑا میٹھا بولتا ہے اور خوب سیٹیاں بجاتا ہے،یہاں شاید بھنک کر آ گیا ہے۔چلو اسے واپس بھیج دیں،انہوں نے طوطے کو ہشکایا،تاکہ وہ دروازے سے واپس چلا جائے۔”یہ طوطا ہے یا اس کا بچہ؟“زینب نے ممی سے پوچھا۔”یہ فادر طوطا ہے“ ”تب تو اسے ضرور بھیج دیجئے۔اس کے بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔“ زینب نے کہا اور ممی کے ساتھ وہ بھی طوطے کو ہشکانے لگی۔وہ کبھی کمرے میں لگی ٹیوب لائٹ پر بیٹھتا تو کبھی پھدک کر دیوار کی گھڑی پر کبھی پنکھے کے پروں پر اور کبھی بڑی سی پینٹنگ کے فریم پر بیٹھ جاتا۔زینب اور ان کی ممی نے لاکھ کوشش کی لیکن وہ دروازے کی طرف گیا ہی نہیں۔دروازہ بالکونی پر کھلتا تھا اور وہ ادھر ہی سے آیا تھا۔”ایسا کرتے ہیں فی الحال اسے یہی چھوڑ دیتے ہیں۔صبح اسے راستہ مل جائے گا۔“ ممی یہ کہہ کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔”ٹھیک ہے۔آج رات یہ ہمارا مہمان رہے گا۔“ زینب خوش ہو گئی۔رات کو اُس کے پاپا گھر آئے تو انھوں نے کوشش کر کے طوطے کو پکڑا اور زینب کو چھت پر رکھا ہوا پنجرہ لانے کو کہا،زینب بھاگ کر گئی اور پنجرہ لے کر آئی اُس کے پاپا نے طوطا پنجرے میں ڈال دیا۔تھوڑی دیر گزری تو زینب بہت پریشان ہوئی۔اُس نے پاپا سے کہا،کہ یہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہے،کیا یہ بیمار ہو گیا ہے۔تو اُس کے پاپا نے بتایا نہیں یہ اپنے جن دوستوں کو چھوڑ کر آیا ہے اُن کی وجہ سے اُداس ہے۔ایک دو دن تک ٹھیک ہو جائے گا۔مگر زینب کو چین نہ آیا۔آخر اُس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ سامنے والے گھر والوں نے طوطے پال رکھے ہیں،کہیں یہ طوطا اُن کا نہ ہو،وہ پتہ کرنے اُن کے گھر گئی کہ اُن کا کوئی طوطا تو نہیں اُڑ گیا۔تو اُنھوں نے بتایا کہ صبح ایک طوطا اُڑ گیا تھا اور اب اُس کی طوطی بہت اُداس ہے تو زینب نے اُنھیں بتایا کہ اُن کا طوطا اُس کے گھر اُڑ کر آ گیا ہے،لہٰذا وہ اپنا طوطا اُن کے گھر سے لے آئیں تھوڑی دیر بعد وہ آئے اور طوطا اپنے گھر واپس چلا گیا۔اس طرح زینب کی کوشش سے طوطا اپنی فیملی سے مل گیا۔ " بلی کے گلے میں گھنٹی - تحریر نمبر 2481,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/billi-ke-gale-mein-ghanti-2481.html,"محمد اسامہآج سے کئی سو سال پہلے چوہوں کا ایک خاندان چھوٹے سے بل میں رہائش پذیر تھا۔دن کی روشنی میں چوہے اپنے بل سے نہیں نکل سکتے تھے اور نہ ہی خوراک تلاش کر سکتے تھے،سو سارا دن انہیں بھوکا رہنا پڑتا۔وجہ یہ تھی کہ بلی نہایت آسانی سے انہیں دیکھ لیتی اور شکار کر لیتی تھی،چوہے رات کو بھی نکلتے تو جب بھی چھپ چھپا کر نکلتے۔بلی کا خوف ان کے سر پر تلوار کی طرح لٹکتا رہتا۔وہ کتنی بھی احتیاط کیوں نہ برتے،بلی ایسے دبے پاؤں آتی کہ انہیں خبر تک نہ ہوتی اور ان کا ایک ساتھی بلی کے لنچ یا ڈنر کی نذر ہو جاتا۔ایک لمبے عرصے تک وہ خوف کے عالم میں جیتے رہے،ہر روز ان کے ساتھی بلی کی بھینٹ چڑھتے رہے۔آخر ایک رات بوڑھے چوہے نے اجلاس بلوایا،جس میں ہر چھوٹا بڑا چوہا شریک ہوا۔(جاری ہے)بوڑھے چوہے نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔”میرے ساتھیو!یہ ڈر ڈر کر جینا بھی کوئی جینا ہے؟یہ کیسی زندگی ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے پیارے دشمن کے پیٹ کا ایندھن بنتے رہیں اور ہم چپ چاپ سہتے جائیں“۔بوڑھے چوہے کی آواز بلند ہوتی گئی۔اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔دیگر چوہوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے مکاّ ہوا میں لہرایا اور کہا۔”آخر کوئی حد ہوتی ہے ظلم سہنے کی بھی سوچو،میرے ساتھیو،کوئی ترکیب سوچو،اس عذاب سے نجات پانے کی،آزاد زندگی گزارنے کی۔“بوڑھا چوہا خاموش ہوا تو سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔آخر ایک چوہا زور سے اُچھلا اور بولا۔”وہ مارا،ایسی ترکیب سوچی ہے کہ بس“۔سارے چوہے یک زبان ہو کر بولے۔”وہ کیا؟“‘چوہا کھنکارا،پھر اپنی گردن سہلاتے ہوئے گویا ہوا۔”ہم ایک گھنٹی بلی کی گردن میں باندھ دیں گے،تو جب وہ آئے گی تو گھنٹی بجے گی اور ہمیں پتا چل جایا کرے گا اور ہم بھاگ جائیں گے۔“سب چوہے خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔”واہ بھئی واہ!کیا عمدہ ترکیب ہے۔آپ بڑے ہیں،آپ ہی بلی کی گردن میں گھنٹی باندھیے۔“چوہا تیار ہو گیا۔جب بلی کے آنے کا وقت ہوا تو گھنٹی لے کر بل کے باہر کھڑا ہو گیا۔بلی قریب آئی،چوہے کے تو چھکے چھٹ گئے،پاؤں کپکپائے،ہاتھ تھرتھرائے،گھنٹی ہاتھ سے چھوٹ گئی،وہ دوڑتا ہوا بل میں داخل ہو گیا بلی تو شکار کو بچتا دیکھ کر واپس ہو لی،مگر چوہے بہادر کا بُرا حال ہوا۔سب چوہے اس کے ارد گرد کھڑے ہو کر قہقہے لگا رہے تھے کوئی تالیاں پیٹ رہا تھا،کوئی سیٹیاں بجا رہا تھا،ایک نے تو یہ بھی کہہ دیا۔”بڑا آیا گھنٹی باندھنے والا۔“اگلی رات تمام چوہے پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔اس بار ایک بوڑھے چوہے نے ترکیب بتائی۔میرے دوستو،اتفاق میں برکت ہے ناں،اس لئے جیسے ہی بلی آئے گی،ہم سب اس پر اکھٹے حملہ کر دیں گے،خوب ماریں گے،ایسا کرنے سے بلی پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی اور دوبارہ ہمیں شکار کرنے کی جرات نہ کر سکے گی۔“سارے چوہے خوش ہو گئے اور بلی کا انتظار کرنے لگے۔جوں ہی بلی آئی سب نے حملہ کر دیا کوئی ٹانگ سے چمٹ کر کاٹنے لگا کوئی دُم سے،کوئی پیٹھ پر بلی نے جو زور لگایا دُم جھاڑی پیر جو پٹخا تو ایک چوہا دور جا گرا،دوسرے کا کچومر نکل گیا۔باقی چوہوں نے جو حال دیکھا تو بھگدڑ مچ گئی،سب بل کی طرف بھاگے۔بلی نے اطمینان سے ایک تگڑا چوہا دبوچا اور چلتی بنی۔سب چوہے ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے،بزدل اور ڈرپوک کے القابات سے نوازتے پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔سوچنے لگے۔ایک ننھا سا چوہا بول اٹھا۔مجھے ایک بہت اچھی ترکیب سوجھی ہے،وہ یہ کہ زمین پر گوند پھیلا دی جائے،اور اس میں گوشت کا ایک ٹکڑا رکھ دیا جائے۔بلی جب گوشت کا ٹکڑا لینے آئے گی تو اس کے پاؤں گوند کی وجہ سے چپک جائیں گے،پھر وہ ہلنے جلنے سے قاصر ہو جائے گی،اور یوں ہم گھنٹی اس کی گردن میں باندھ دیں گے۔“اب چوہے خوشی خوشی گوند زمین پر پھیلائے،گھنٹی ہاتھ میں پکڑے بلی کا انتظار کرنے لگے۔بلی آئی،سرخ گوشت کا بڑا سا ٹکڑا دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں،جھٹ سے اس پر لپکی لیکن یہ کیا،اس کے پاؤں تو گوند کے دلدل میں دھنستے چلے گئے۔جیسے جیسے نکلنے کی کوشش کرتی،ویسے ویسے اس کا جسم مزید گوند میں لتھڑتا جاتا۔چوہوں نے جو یہ ماجرا دیکھا تو نعرہ مستانہ بلند کیا۔ننھا چوہا لپک کر بلی کی پیٹھ پر چڑھ گیا اور اس کی گردن میں گھنٹی باندھ دی۔دیر تک چوہے ننھے کے حق میں نعرے لگاتے رہے اور نجات کا جشن مناتے رہے اور بلی کا مذاق اُڑاتے رہے اور اسی وقت سے چوہے بلی سے نہیں ڈرتے۔انہیں بلی کے آنے کا دور سے پتا چل جاتا ہے کیونکہ اس کی گردن میں بندھی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور وہ فوراً ہی اپنے بل میں چھپ جاتے ہیں۔ " مچھیرے کی نصیحت - تحریر نمبر 2479,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/machere-ki-nasihat-2479.html,"شازیہ کاشف،کراچیزین اور علی کو تعلیم حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔امتحانوں کے دن ان کے لئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ ہوتے تھے۔وہ دونوں ہر وقت جلد از جلد امیر ہونے کے طریقوں پر غور کرتے رہتے تھے۔ایک دن انھوں نے سوچا کیوں نہ سمندر پہ جا کر مچھلی کو پکڑا جائے،جس کو بیچ کر ہم راتوں رات امیر ہو جائیں گے۔جل مچھلی کی کہانی انھوں نے اپنی دادی جان سے سن رکھی تھی۔اگلی صبح وہ دونوں اسکول جانے کے بجائے سمندر پر پہنچ گئے۔جال سمندر میں ڈالا اور جل مچھلی کے جال میں پھنسنے کا انتظار کرنے لگے۔صبح سے دوپہر ہو گئی اور دوپہر سے شام،مگر جال میں جل مچھلی تو کیا کوئی عام مچھلی بھی نہ پھنسی تھی۔وہ مایوسی سے سوچ ہی رہے تھے کہ اب کیا کریں اچانک ان کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔(جاری ہے)انھوں نے چونک کر پیچھے دیکھا تو وہاں ایک مچھیرا کھڑا تھا۔مچھیرے نے ان سے پوچھا کہ وہ دونوں اکیلے سمندر پر کیا کر رہے ہیں۔تمہارے ساتھ کوئی بڑا نہیں ہے؟علی اور زین نے ڈر کے مارے تمام ماجرا مچھیرے کو بتا دیا۔جل مچھلی والی بات پر مچھیرا بے اختیار ہنس پڑا اور ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا یہاں دور دور تک کوئی ایسی مچھلی نہیں پائی جاتی۔مچھیرے نے ان دونوں کو بتایا کہ اصل دولت علم کی دولت ہے۔اگر تم علم حاصل کرو گے تو کچھ ہی عرصے بعد وہ سب حاصل کر لو گے جو تم پانا چاہتے ہو۔غلط راستے انسان کو بُرائی کی طرف لے جاتے ہیں،جو دنیا اور آخرت دونوں میں تباہی کا سبب بنتے ہیں۔بڑا آدمی وہ ہے جس کے پاس علم کی دولت ہے۔لہٰذا تم دونوں گھر جاؤ اور دل لگا کر پڑھائی کرو۔مچھیرے کی باتیں ان دونوں کی سمجھ میں آ گئیں اور وہ ایک نئے عزم کے ساتھ اپنے گھر چل دیے۔ " ہمیشہ سچائی پر قائم رہو - تحریر نمبر 2478,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hamesha-sachai-par-qaim-raho-2478.html,"ایک کسان کے کھیت میں کسی امیر کے گھوڑے گھس گئے۔جنہوں نے اس کھیت میں بڑی تباہی مچائی۔ان گھوڑوں نے کچھ تو روند کر اور کچھ چر کہ اس کھیت کا ستیا ناس کر دیا۔کسان غصے میں بھرا ہوا ان گھوڑوں کے مالک کے پاس گیا اور اُس سے کہا۔”آپ کے گھوڑوں نے میرا کھیت برباد کر دیا ہے؟“گھوڑوں کے مالک نے اس کی شکایت سن کر جواب میں کہا ”تمہارے خیال میں میرے ان گھوڑوں کی وجہ سے تمہارا کتنا نقصان ہوا ہے؟“کسان نے اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔”میرا کل ملا کہ پچاس روپے کا نقصان ہوا ہے۔“گھوڑوں کے مالک نے اسی وقت کسان کو پچاس روپے دے کر کہا،”اگر نقصان کچھ زیادہ ہوا ہو تو سوچ لینا اور مجھے بتا دینا۔میں زیادہ دینے کو بھی تیار ہوں۔(جاری ہے)“کسان پچاس روپے لے کر اپنے گھر واپس آ گیا۔لیکن جب کھیت پک گیا اور فصل تیار ہو گئی۔تو وہ پہلے سے بھی زیادہ قیمت پر بک گئی۔یہ دیکھ کر کسان بہت خوش ہوا۔لیکن چونکہ وہ ایک ایماندار کسان تھا۔اس لئے پچاس روپے لے کر گھوڑوں کے مالک کے پاس پہنچا اور اس سے کہا۔”جناب عالی!میری فصل کٹ گئی اور نقصان کی جگہ کچھ زیادہ نفع بھی ہو گیا ہے۔پس اب آپ اپنے روپے واپس لے لیں۔“یہ سن کر گھوڑوں کے مالک نے اس پچاس روپوں کے ساتھ پچاس روپے اور ملا کہ کسان کو پورے سو روپے دے دیئے اور اس سے کہا ”یہ نقصان کا بدلہ نہیں بلکہ تمہاری ایمان داری کا انعام ہے۔شوق سے لے جاؤ اور اسی طرح ہمیشہ سچائی پر قائم رہو۔“ " قناعت پسندی - تحریر نمبر 2477,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qanaat-pasandi-2477.html,"حبیب اشرف صبوحیصبح لان میں بیٹھ کر اخبار پڑھنے کے بعد پودوں کو پانی دے رہا تھا۔میری نواسی کھانے میں سے بچے ہوئے کچھ چاول لے کر آئی اور کہنے لگی:”نانا!میں یہ چاول یہاں کونے میں پھینک دوں،تاکہ چڑیاں اپنا پیٹ بھر لیں۔“میں نے کہا:”بیٹی!مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے،لیکن یہ تو بہت تھوڑے ہیں۔ان سے تو چڑیوں کا پیٹ نہیں بھرے گا۔“بہرحال اس نے چاول ایک کونے میں ڈال دیے اور چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد وہاں چڑیاں آنی شروع ہو گئیں۔پہلی چڑیا جب آئی اس نے چاول کا ایک دانہ منہ میں لیا اور اُڑ گئی۔پھر اور چڑیاں بھی آئی۔انھوں نے بھی ایک ایک دانہ بڑے پیارے انداز میں لیا اور اُڑ گئیں۔مجھے اس وقت یہ احساس ہوا کہ یہ پرندے کتنے قناعت پسند اور انصاف پسند ہیں۔(جاری ہے)انھوں نے اُتنے ہی چاول لئے جتنی ان کو ضرورت تھی،مگر ہم انسان اپنے حصے کا کھانا کھا کر اس وقت اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں،تاکہ باقی کھانا شام کے اور رات کے لئے اکٹھا کر لیں۔شاید پھر موقع نہ مل سکے۔اپنے گھر یا کارخانے میں مزدور لگاتے ہیں تو کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم از کم اُجرت دی جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے رزاق ہونے کا پورا یقین نہیں ہے۔شک رہتا ہے کہ اگر ضرورت سے زیادہ کھانا جمع نہ کیا تو میں اور میرے بچے بھوکے مر جائیں گے۔یہ صورتِ حال پہلے وقتوں میں نہ تھی۔لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ذخیرہ اندوزی کا کوئی تصور دور دور تک نہ تھا۔میں نے 70 سال پہلے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس وقت ہمارے گھر کا ماحول خالص دینی اور ادبی تھا۔والد صاحب ڈاک خانہ میں پوسٹ ماسٹر تھے۔اس قلیل تنخواہ میں والدہ صاحبہ نے ہم پانچ بہن بھائیوں کو بہت اعلیٰ تعلیم دلوائی۔بچوں کی شادیاں کیں۔والدہ بُرے سے بُرے وقت میں نہیں گھبرائیں۔گھر میں بے شمار بچے اور بچیاں قرآن شریف بلا معاوضے پڑھنے آتے تھے۔ہفتے میں ایک روز ان کو حلوا،کلچے اور بعض دن ان کو گڑ کے چاول ملتے تھے۔بچے بہت خوش ہوتے تھے اور اکثر چھٹی کے دن بھی آ جاتے تھے۔والدہ صاحبہ ان بچوں کو کچھ نہ کچھ دے دیتی تھیں۔مجھے بہت بُرا لگتا تھا۔میں چھوٹے بچوں کو مارتا تھا کہ یہ لوگ پڑھنے بھی آتے ہیں اور کھانا بھی کھاتے ہیں۔والدہ صاحبہ مجھے سمجھاتی تھیں کہ بیٹے کوئی کسی کو نہیں کھلاتا یہ سب اللہ کھلاتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ہمیں جو رزق مل رہا ہے،وہ ان کے نصیب سے مل رہا ہے۔بچپن کا یہ سبق اب بھی یاد ہے اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کے لئے رزق کا انتظام کیا جائے اور دسترخوان کو وسیع کیا جائے۔اس طرح جو خوشی میسر ہوتی ہے،اس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا۔ " چور کی سزا - تحریر نمبر 2476,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chor-ki-saza-2476.html,"بتول فاطمہاسلم ایک سپر اسٹور میں داخل ہوا پھر اس نے ایک مہنگی پرفیوم اُٹھائی اور اسے اپنی جیب میں رکھ لیا۔پھر اس نے ایک بہت ہی عمدہ گھڑی اُٹھائی۔اسی طرح کئی مہنگی مہنگی چیزیں اپنی جیب میں رکھیں اور سپر اسٹور سے باہر آ گیا۔اس نے بہانہ بناتے ہوئے قریب ہی ایک دکان پر وہ چیزیں سستے داموں بیچ دیں۔اس کی موٹر سائیکل بھی چوری کی تھی،جسے وہ بے دردی سے چلا رہا تھا۔راستے میں ایک برقعہ پوش خاتون اپنا پرس کندھے پر لٹکائے جا رہی تھیں۔وہ تیزی سے موٹر سائیکل چلاتا ہوا قریب سے گزرا اور خاتون کا پرس چھین کر تیزی سے ایک بغلی سڑک پر مڑ گیا۔”آلو لے لو،پیاز لے لو،کھیرا،ککڑی،بیگن،ٹماٹر۔کریلے بھی ہیں اور ٹنڈے بھی۔لے لو لے لو تازہ سبزی لے لو۔(جاری ہے)“کرمو روزانہ کی طرح آج بھی آوازیں لگاتا ہوا اس گلی سے گزر رہا تھا کہ اچانک ہیلمٹ پہنا ہوا ایک آدمی تیزی سے موٹر سائیکل بھگاتا ہوا اس گلی میں داخل ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے کرمو کے ٹھیلے سے بُری طرح ٹکرا گیا۔آدمی موٹر سائیکل سے گر گیا۔موٹر سائیکل بھی زمین پر پھسل گئی۔کرمو کی ساری سبزیاں بھی بکھر گئیں۔کرمو چونکہ موٹر سائیکل کو دیکھتے ہی پیچھے ہٹ گیا تھا،اس لئے وہ محفوظ رہا۔وہ اسلم تھا،جو درد سے کراہ رہا تھا۔اس کی بائیں ٹانگ سے خون نکل رہا تھا اور دایاں بازو بھی بُری طرح چٹخ گیا تھا۔موٹر سائیکل کے ٹائر ابھی تک گھوم رہے تھے،کیونکہ انجن بند نہیں ہوا تھا۔کرمو اس آدمی کی حالت دیکھ نہیں پا رہا تھا۔وہ جلدی سے لوگوں کو مدد کے لئے پکارنے لگا۔اس نے موٹر سائیکل کا انجن بھی بند کر دیا تاکہ اس کی آواز واضح ہو جائے۔جلد ہی لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے،پھر سب نے اپنی مدد آپ کے تحت اس آدمی کو اُٹھا کر ایمبولینس میں سوار کیا اور اسے لے کر ہسپتال پہنچے۔ڈاکٹروں نے علاج شروع کر دیا۔اُدھر کرمو اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ اس کی وجہ سے ہی سب کچھ ہوا ہے،کیونکہ وہ خرید و فروخت میں بے ایمانی کرتا تھا۔اب اس کا خاصا نقصان ہو گیا۔اس نے توبہ کی اور پکا ارادہ کر لیا کہ اب کسی کے ساتھ دھوکا نہیں کروں گا۔اسلم کی حالت بہت خراب تھی۔اسے ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا۔اس کی بائیں ٹانگ پر بہت گہری چوٹ لگی تھی۔دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی،جس کی وجہ سے اس کا پورا ہاتھ ناکارہ ہو گیا تھا۔اس کی جیب میں کئی ہزار روپے تھے۔اسے ہسپتال پہنچانے سے پہلے ہی کسی نے روپے نکال لیے تھے۔موبائل بھی جیب میں نہیں تھا۔تھوڑی دیر بعد اسلم ہوش میں آ گیا۔اس کا دایاں ہاتھ بھی کسی کام کا نہیں رہا۔اب وہ اپنے آپ کو ملازمت کر رہا تھا۔اس نے چوری کر کے جتنی بھی دولت جمع کی تھی،سب ختم ہو گئی تھی۔اس نے اپنا ہاتھ بھی گنوا دیا تھا۔چوری کی سزا بھی تو یہی ہوتی ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ " خوف کا بھوت - تحریر نمبر 2475,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khauf-ka-bhoot-2475.html,"فضل اور ہارون دو گہرے دوست نہر کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے۔ایک طرف پکی سڑک بنی ہوئی تھی۔ہارون کا گھر فضل کے گھر سے کچھ دور شہر کے قریب تھا۔نہر کی طرف پکی سڑک کے کنارے ایک بہت پرانا ڈاک خانہ تھا۔یہ سڑک بہت خوف ناک کہلاتی تھی۔یہاں لوگوں کو اکثر بھوت نظر آتے تھے۔رات کے دس بجے کے بعد یہاں سے کوئی نہیں گزرتا تھا۔ایک دن ہارون،فضل کے گھر تھا تو باتوں باتوں میں دیر ہو گئی۔اس کا گزر اسی سڑک سے ہونا تھا۔ہارون اپنے آپ کو بہت بہادر سمجھتا تھا۔اس لئے اکیلا ہی چل دیا۔سردیوں کی رات تھی۔اس نے سوچا یہ بہت پرانی باتیں ہیں۔یہاں کوئی بھوت وغیرہ نہیں ہو سکتا۔لوگ یونہی ڈراتے رہتے ہیں۔ایسا کچھ نہیں وہ سر کو جھٹک کر آگے بڑھا۔ہارون سنسان سڑک پر جا رہا تھا۔(جاری ہے)آج تو رات کے گیارہ بج گئے۔اس کو بہت سردی محسوس ہوئی۔سڑک بہت سنسان تھی۔دور سے چوکیدار کی سیٹی کی آواز آ رہی تھی۔وہ اپنی دُھن میں جا رہا تھا۔جب وہ پرانے ڈاک خانے کے قریب پہنچا تو اچانک سامنے ایک لڑکی آتی ہوئی دکھائی دی۔اس نے سبز لباس پہن رکھا تھا اور دو چوٹیاں کیے ہوئی تھی۔وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی چٹیوں کو پکڑ کر ہارون کو غور سے دیکھے جا رہی تھی۔یہ دیکھ کر ہارون کے حواس گم ہو گئے۔وہ تو ہمیشہ بھوتوں کا مذاق اُڑایا کرتا تھا،لیکن لڑکی کو دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے۔تبھی اس لڑکی نے بہت بھاری آواز سے پوچھا:”کہاں سے آ رہے ہو؟“لڑکی کا یہ پوچھنا تھا کہ ہارون اتنی تیزی سے بھاگا کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔اس کو کچھ پتا نہ چلا کہ کب گھر پہنچا اور اپنے بستر پر بے سدھ گرا۔وہ ساری رات اس نے جاگ کر گزاری۔صبح اُٹھ نہ سکا۔اس کو بہت تیز بخار نے آ لیا تھا۔شام کو فضل اس کے پاس آیا تو اس نے سارا واقعہ فضل کو سنا دیا۔دو ہفتے بعد اس کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو ایک صبح فضل کے ساتھ شہر کی طرف جا رہا تھا۔راستے میں وہی لڑکی نہر کے کنارے ان ہی کپڑوں میں نظر آئی۔وہ ایک ٹھیلے والے سے پھل لے کر کھا رہی تھی۔ہارون نے اس ٹھیلے والے کے پاس جا کر اس سے پوچھا کہ یہ کون ہیں جو ایسے حلیے میں ہے۔اس نے بتایا:”یہ ایک کسان کی بیٹی ہے۔اس کے باپ کا پچھلے سال انتقال ہو گیا تو اس صدمے سے وہ پاگل ہو گئی۔تبھی سے یہ اس حال میں ہے۔“یہ سن کر فضل اور ہارون اپنے آپ پر خوب ہنسے۔آج تک ہارون کو وہ رات ہمیشہ یاد ہے۔اصل بات معلوم ہونے کے بعد بھی وہ ڈاک خانے والی سڑک سے رات کو کبھی نہیں گزرے۔ " بہادری کا کارنامہ - تحریر نمبر 2474,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bahaduri-ka-karnama-2474.html,"محمد انیق خان،کراچیاحمد آباد نامی ایک چھوٹا سا قصبہ سمندر کے کنارے آباد تھا۔اس قصبے میں ضرورت کی ہر چیز میسر تھی۔وہاں کے رہنے والے بہت ملنسار تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔اس قصبے میں فاروق اور عامر نامی دو لڑکے رہتے تھے۔ان دونوں کو سیر کرنے کا بہت شوق تھا،اس لئے وہ دونوں روز صبح سویرے سیر کرنے نکل جاتے تھے۔ایک روز وہ دونوں سیر کرتے کرتے کافی دور نکل گئے۔اچانک ان کی نظر ایک کشتی پر پڑی جس پر سے چند لوگ لکڑی کے بڑے بڑے صندوق اُتار رہے تھے۔وہ لوگ مشکوک لگ رہے تھے اور بہت دھیمی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔دونوں ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپ کر انھیں دیکھ رہے تھے۔اچانک اُن دونوں کو اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔(جاری ہے)دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کے دل دھک سے رہ گئے۔ایک آدمی اُن پر پستول تانے کھڑا تھا:”تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو؟“اس نے کرخت آواز میں سوال کیا۔جواب نہ ملنے پر وہ آدمی انھیں اپنے ساتھیوں کے پاس لے گیا۔”یہ تم کن بچوں کو ساتھ لے کر آئے ہو بشیر!“ اُن میں سے ایک بولا۔”باس!یہ دونوں ہمیں چھپ کر دیکھ رہے تھے۔“بشیر نے اُن دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”ان دونوں کو رسیوں سے باندھ کر غار میں ڈال دو۔“باس نے حکم دیا۔دو آدمی آگے بڑھے اور فاروق اور عامر کو پکڑ کر غار میں ڈال دیا۔ڈر کے مارے اُن دونوں کی گھگی بند گئی،اور وہ بالکل خاموش ہو گئے۔کچھ دیر تک غار کے باہر سے آوازیں آتی رہیں اور پھر خاموشی چھا گئی۔”میرے خیال سے وہ لوگ چلے گئے ہیں۔“فاروق نے کہا۔”ہمیں ان رسیوں سے آزاد ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔“عامر نے چپکے سے کہا۔”میری رسی کچھ ڈھیلی ہے اور قریب ہی ایک نوکیلا پتھر پڑا ہوا ہے اور میں کوشش کر کے آزاد ہو سکتا ہوں۔“فاروق نے سرگوشی کی۔پھر وہ کوشش کرنے لگا اور تقریباً بیس سے پچیس منٹ کی کوشش کے بعد وہ اپنے ہاتھ آزاد کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اُس نے جلدی جلدی عامر کو کھولا اور پوری قوت کے ساتھ اپنے قصبے کی طرف دوڑ لگا دی۔جب قصبے کے قریب پہنچے تو دوپہر کا وقت ہو رہا تھا۔وہ سیدھا پولیس اسٹیشن گئے اور وہاں موجود انسپکٹر جمال کو ساری بات بتا دی۔انسپکٹر جمال اپنے سپاہیوں کو لے کر فوراً روانہ ہو گئے۔جب انھوں نے غار پر چھاپا مارا تو اندر سے دس صندوق برآمد ہوئے۔یہ صندوق سونے سے بھرے ہوئے تھے۔یہ سونا پڑوسی ملک سے اسمگل ہو کر آیا تھا اور بہت زیادہ مالیت کا تھا۔انسپکٹر جمال نے وہ سارا سونا ضبط کر لیا اور کمشنر کے حوالے کر دیا۔کمشنر نے ان دونوں لڑکوں کی اس بہادری پر پچاس پچاس ہزار روپے انعام دیا۔ " دوستی ایسا ناتا - تحریر نمبر 2473,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dosti-aisa-nata-2473.html,"روبینہ نازہمارے گاؤں میں ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام احمد تھا۔وہ بہت ذہین لڑکا تھا اسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا اور اکثر رات کو دیر تک پڑھتا رہتا تھا۔وہ اپنے امتحانات کی تیاری کئی مہینے پہلے سے شروع کر دیا کرتا تھا۔اس کی امی جب بھی سو کر اٹھتیں اور اُسے پڑھتے ہوئے دیکھتیں تو دل ہی دل میں بہت خوش ہوتی اور اُسے ڈھیروں دعائیں بھی دیتیں۔احمد کی امی خوش ہو کر احمد کو بہت پیار بھی کیا کرتی تھیں۔احمد اپنے سب ساتھیوں اور دوستوں میں سب سے زیادہ ذہین لڑکا تھا۔احمد کا ایک بہت اچھا دوست بھی تھا جس کا نام عامر تھا وہ احمد کی کلاس میں کچھ عرصہ پہلے ہی داخل ہوا تھا ایک مسئلہ یہ تھا کہ یہ نیا لڑکا عامر پڑھنے میں تھوڑا کمزور تھا۔اس لئے کلاس کے دوسرے لڑکے اور طالب علم اس سے دور دور رہتے تھے۔(جاری ہے)وہ عامر سے دوستی کرنا پسند نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ اسے اپنے ساتھ بیٹھنے نہیں دیا کرتے تھے۔دوسری طرف احمد تھا جس نے عامر سے نہ صرف دوستی کی بلکہ بڑی خوش دلی سے پڑھائی میں اس کی مدد بھی کرتا تھا۔عامر اب اکثر احمد کے گھر جا کر وہاں دیر تک پڑھتا رہتا تھا۔احمد کی امی دونوں کی کامیابی کے لئے دل سے دعائیں کیا کرتی تھی احمد نے عامر کی پڑھائی میں بہت مدد کی امتحانات میں احمد اور عامر نے خوب دل لگا کر محنت کی اور اپنے پیپر بڑی محنت سے دیئے۔احمد کی امی نے بھی احمد اور عامر کے لئے نماز پڑھ کر خوب دعائیں مانگیں جب احمد کا رزلٹ آیا تو احمد نے اپنے سکول میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ عامر بھی بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا تھا۔احمد اور عامر کی کامیابی کو دیکھ کر سارے دوست بہت شرمندہ ہوئے اور انہیں یہ احساس ہو گیا کہ اگر وہ عامر کو نظر انداز نہ کرتے تو وہ سب بھی آج اچھے دوست ہوتے سب نے احمد اور عامر سے معافی مانگی اور سب بہت اچھے دوست بن گئے۔نتیجہ:دوستی ایسا ناتا جو سونے سے بھی مہنگا " جنگل کہانی (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2472,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jungle-kahani-aakhri-hissa-2472.html,"نازیہ آصفپالی نے جا کر دیکھا تو کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا۔وہ سب بہت پریشان ہوئے کہ یہ کیسے ہو گیا؟ہم نے تو ایسے موسم کے لئے ہی اچھی خاصی خوراک جمع کی ہوئی تھی۔مونا ٹونا کہنے لگے!ہم تو کل ہی اتنے سارے امرود لائے تھے کہ ساری سردیاں گھر بیٹھ کر مزہ کریں گے“۔بارش لگے کئی دن ہو چلے تھے شدید سردی تھی۔کوئی پرندہ کہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔مونا ٹونا پالی خود نانگو بھیا بھوک سے نڈھال تھے۔دوسری طرف سست کوے چوری کا مال کھا کھا کر بہت موٹے ہو رہے تھے۔بیفا ماں کو اداس دیکھ کر پالی نانگو کے پاس گئی اور اسے پوچھنے لگی کہ ”تم نے گھر کا خیال کیوں نہیں رکھا تمہاری غلطی کی وجہ سے آج بیفا ماں اور ہم سب کا یہ برا حال ہو رہا ہے۔“نانگو بھیا نے بدتمیزی کی،تو پالی ناراض ہو کر واپس آ گئی۔(جاری ہے)اب سست کووں کی نظر مستقل طور پہ بیفا ماں کے گھر پہ تھی۔اب انھوں نے اگلا نشانہ مونا ٹونا کو بنانے کا سوچا۔جب صبح وہ کھانے پینے کی تلاش میں گئے،تو ایک سست کوا بھی ان کے پیچھے ہو لیا اور موقع ملتے ہی مونا ٹونا سے کہنے لگا:”دیکھو بھائیو!تم نے ان سب کے لئے کھانا کیوں جمع کر رہے ہو وہ نانگو بھیا تو تم سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا تو پھر یہ سب کیوں؟چھوڑو انھیں کماؤ،کھاؤ،اور مزے کرو۔مونا ذرا سیانا تھا وہ کہنے لگا!تم جاؤ یہاں سے یہ ہمارے گھر کی بات ہے۔مگر سست کوا بڑا ڈھیٹ تھا۔کہنے لگا”ٹونا تم ہی مونا کو سمجھاؤ کہ دوسروں کے لئے اپنی زندگی مت خراب کرو۔اور یہ کہہ کر سست کوا اُڑ گیا،مگر دونوں بلبل بھائیوں کے دل میں ایک بری بات کے بیج بو گیا۔اگلی شام جب سب جمع ہوئے،تو مونا ٹونا سب کھچے کھچے سے لگ رہے تھے۔کسی نے بھی دوسرے سے بات نہ کی۔دوسری طرف سست کوے کو بھائی نے انعام کے طور پہ بہت بڑا ٹکڑا امرود کا دیا اور خود بیفا ماں کے گھونسلے پہ نظریں جما کر ان کی بربادی کا انتظار کرنے لگا۔مونا ٹونا اسی طرح اندر ہی اندر جلتے رہے کہ ہمارے ساتھ تو بہت زیادتی ہو رہی ہے۔کماتے ہم اور کھاتے یہ سب ہیں۔پھر انھوں نے فیصلہ کر لیا اور رات گئے تک بیفا ماں درخت کی اونچی شاخ پہ بیٹھے ان کا انتظار کرتی رہی،مگر وہ دونوں گھر نہ آئے،تو تھک ہار کر بیفا گھونسلے میں آ گئی۔پالی گہری نیند سو رہی تھی۔بیفا ماں سوچنے لگی،میرے گھونسلے کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔اگلے دن جب پھر کھانے کو کچھ نہ تھا تو نانگو بھیا بڑبڑاتے ہوئے سست کووں کے پاس جا بیٹھے۔جنہوں نے بڑی آؤ بھگت کی اور نانگو بھیا کے گھر سے چرائے گئے کھانے سے نانگو کی بہت تواضع کی اور یہ بھی کہا کہ چھوڑو بیفا ماں کو اور اب ہمارے ساتھ ہی رہا کرو یہاں سب تمہیں مفت میں ملے گا۔بے وقوف مانگو بھیا بھی ان کی باتوں میں آ گیا اور اگلی رات وہ بھی گھر نہ گیا اور پیغام بھجوا دیا کہ میں اب ادھر ہی ٹھیک ہوں،بھوکے رہ کر جان نہیں گنوا سکتا۔بیفا ماں کا دل ایک بار پھر بہت رنجیدہ ہوا۔پالی بھی اپنے ٹوٹے ہوئے پَر کی وجہ سے اُڑ نہیں سکتی تھی۔وہ بھوکی تھی۔کافی کمزور بھی ہو چکی تھی اور سردی بھی زوروں پہ تھی۔بیفا ماں بھی اب کمزور ہو چکی تھی۔اور اکیلی پالی گھونسلے میں بیٹھ کر رو رہی تھی۔مونا ٹونا نانگو سب جا چکے تھے اور کوے اپنی چال میں کامیابی پر خوش ہو رہے تھے۔اب انھوں نے ایک اور ترکیب سوچی اور نانگو سے کہا کہ جاؤ،بلی تک ہمارا ایک پیغام پہنچا آؤ۔نانگو بھیا جب بلی کی طرف جا رہا تھا تو بیفا ماں نے اسے بلا کر سمجھایا کہ نانگو دیکھو اپنے لئے تو سبھی جیتے ہیں دوسروں کے لئے بھی جینا سیکھو۔تم ذرا سوچو تو ہمارے گھر میں سب کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ تھا مگر ہم سب بڑی آسانی سے رہ رہے تھے،یاد کرو،میں نے تم سب کو مشکل وقت میں پناہ دی،پالی نے سب کے لئے اپنی لمبی چونچ سے آرام دہ گھر بنایا۔مونا ٹونا سب کے لئے کھانا لاتے،تم گھر کی رکھوالی کرتے تھے۔سب ایک دوسرے کے مددگار تھے۔ہم سب گھر میں محفوظ تھے۔تم نے یہ کیا کیا؟تم دشمن کی باتوں میں آگئے تھے۔مگر نانگو بھیا نے بیفا ماں کی ایک نہ سنی اور چلتا بنا۔بیفا ماں کا دل ہی ٹوٹ گیا اور وہ اپنی دوست رتی خالہ کے گھونسلے میں چلی گئی۔رتی خالہ بھی بیمار تھی۔اس نے بیفا کو رات ادھر ہی روک لیا۔جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ مانو بی نے آ کر پالی کو کھا لیا تھا۔اس کے پَر ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے،اور سست کوے مزے سے بیفا ماں کے گھر پہ قبضہ جمائے ہوئے تھے نانگو بھی ان کے ساتھ تھا۔بیفا ماں تو خالہ رتی کے پاس ہی پڑی رہی۔دوسری طرف سست کوے بھی مفت کا کھا کھا کر اتنے موٹے ہو چکے تھے کہ ان سے اب اُڑنے بھی نہیں ہوتا تھا۔اب نانگو انھیں دیکھ کر غصے سے پیچ و تاب کھاتا رہتا مگر کیا کر سکتا تھا۔سوچ سوچ کر ایک دن ایک ترکیب اس کے ذہن میں آئی اور وہ پھر مانو بلی کے پاس پہنچ گیا اور اس کے کان میں کچھ کہا۔آدھی رات کو شور مچا تو نانگو پہلے ہی جاگ کر انتظار کر رہا تھا۔جب اس نے دیکھا کہ مانو بی نے تینوں سست موٹے تازے کووں کی دعوت مزے سے اُڑائی تو نانگو نے بڑی ہوشیاری سے اپنا گھر خالی کروا لیا اور بیفا ماں کو بھی واپس لے آیا مگر مونا ٹونا پالی نے تو واپس نہیں آنا تھا۔اب نانگو ہر دم بیفا ماں کا خیال رکھتا اور ہر دم اس سے معافی مانگتے رہتا ہے کہ اس کی غلطی کی وجہ سے ہستا بستا گھر ختم ہو گیا تھا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ " جنگل کہانی (دوسرا حصہ) - تحریر نمبر 2471,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jungle-kahani-dosra-hissa-2471.html,"نازیہ آصفبیفا ماں کو دیکھتے ہی کوے نے بتایا کہ!اس کا نام نانگو ہے اور اسے خالہ رتی نے یہاں بھیجا ہے،کہ آپ دکھی اور زخمی پرندوں کی بہت مدد کرتی ہیں۔پلیز!آپ میری بھی مدد کیجئے۔بیفا نے اسے اندر بلا لیا اور کچھ کھانے کو دیا اور ٹانگ پہ دوا لگا کر لٹا دیا۔دو چار دن میں کوے کا درد تو ٹھیک ہو گیا مگر وہ ٹانگ سے معذور ہو گیا۔اسے بھی بیفا ماں نے اپنے گھر کا فرد بنا لیا۔دوسرے درخت پہ موجود سست کووں کی گندی نظر مسلسل بیفا ماں کے گھر پہ تھی۔وہ حسد کرتے کہ ان کا گھر کتنا اچھا بن گیا ہے اور یہ کتنے سکون سے رہ رہے ہیں۔ایک دن تینوں سست کوے بیٹھ کر بیفا ماں کے گھر سے چیزیں چرا کر کھانے کی باتیں کر رہے تھے کہ نانگو نے ان کی ساری باتیں سن کر بیفا ماں کو بتا دیا کہ یہ سست کوے کتنی بری رائے رکھتے ہیں ہمارے گھر کے بارے میں۔(جاری ہے)بیفا ماں بہت پریشان ہوئی کہ اب یہ کیا مصیبت آنے والی ہے؟ٹونا،مونا،پالی،بیفا ماں سب پریشان تھے کہ کیا کریں،اپنے گھر کی حفاظت کیسے کریں گے؟اچانک پالی کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔اس نے سب سے مخاطب ہو کر کہا:”سب میری بات سنو بیفا ماں!اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے اس گھر کے پاس ایک چھوٹا سا اور گھر بنا دیتی ہوں جس میں نانگو بھائی رہے گا اور جب بھی کوئی خطرے کی بات سنے گا تو شور مچا کر ہمیں بھی اطلاع کر دے گا اور اس کی آواز سن کر اور بھی بہت سے کوے بھائی آ جائیں گے اور اس طرح ہم اور ہمارا گھر محفوظ رہے گا۔“سب نے پالی کی تجویز سے اتفاق کیا۔بیفا ماں نے سب پرندوں کو اپنے قریب کر لیا اور کہنے لگیں:”دیکھو بچو!جب اللہ پاک کسی کے گھر میں اتفاق محبت اور رزق دیتا ہے تو بہت سے لوگ جو خود محنت نہیں کرتے وہ حسد کرنے لگ جاتے ہیں اور ان سے سب کچھ چھیننا چاہتے ہیں۔“پالی بولی!بیفا ماں یہ تو بہت بری بات ہوئی،انھیں چاہیے کہ وہ بھی حسد نہیں،محنت کریں۔بیفا ماں کہنے لگیں!ہاں ٹھیک ہے۔چلو اب تم سو جاؤ،صبح جلدی جاگ کر حمد و ثنا بھی کرنی ہے۔بیفا ماں اب بوڑھی ہو رہی تھی۔اسے سردی بھی بہت لگتی تھی۔مونا ٹونا اور پالی نے فیصلہ کیا کہ اب بیفا ماں کھانے کی تلاش میں نہیں جائے گی ہم ان کے لئے اور نانگو بھیا کے لئے کھانا ادھر ہی لے آیا کریں گے۔اب نانگو بھیا اپنے چھوٹے سے گھونسلے میں بیٹھ کر گھر کی رکھوالی کرتے،انھیں ٹوٹی ٹانگ کے ساتھ کہیں جانا نہیں پڑتا تھا اور باقی سب محفوظ بھی تھے۔ایک دن سست کووں نے ایک چال سوچی اور اگلی رات جب سب سو چکے اور نانگو بھیا جاگ کر پہرے داری کر رہا تھا،تو ایک سست کوا نانگو بھائی کے پاس گیا۔اسے کہنے لگا:”نانگو بھیا!آپ کتنے اچھے ہیں سب سو گئے اور آپ ان کی رکھوالی کر رہے ہیں۔مگر اس طرح تو آپ کی صحت خراب ہو جائے گی۔یہ کالا چمکدار رنگ بھی بھدا پڑ جائے گا۔“نانگو بھیا نے کچھ کہنا چاہا تو سست کوا بولا!اچھا میں چلتا ہوں بڑے بھیا مجھے بلا رہے ہیں۔سست کوا تو چلا گیا مگر نانگو بھیا کے دل میں خیال آنے لگے کہ سست کوا شاید ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔یہاں میرے سوا سب سو رہے ہیں،تو میں کیوں جاگ کر پہرہ دوں۔اگلی صبح جب پرندے نیند سے جاگے،تو دیکھا کہ نانگو بھیا سو رہے تھے۔بیفا ماں کہنے لگیں!کوئی بات نہیں سونے دو تھک گیا ہو گا۔پھر سست کوے یہ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے کہ ان کی چال کامیاب ہو رہی تھی۔اگلی رات جب پھر سب سو گئے تو دوسرا سست کوا پھر نانگو بھیا کے پاس آیا اور کہنے لگا!نانگو بھیا!آج آپ کچھ بیمار لگ رہے ہیں۔نانگو بولا:”بس بھیا!ساری رات جاگتا ہوں تو شاید اس لئے۔“سست کوا بولا!ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ وہ سب تازہ کھانا کھاتے اور تمہیں یہاں باسی کھانا دے جاتے ہیں۔نانگو بھیا تو سچ میں خود کو بہت مظلوم سمجھنے لگے۔اب بیفا ماں بھی محسوس کر رہی تھی کہ نانگو کچھ کھچا کھچا سا رہنے لگا ہے۔ایک دن جب بہت دھند چھائی ہوئی تھی سخت سردی کے ساتھ ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی۔مونا ٹونا پالی سب کھانے کی تلاش میں چلے گئے،تو بیفا ماں رتی خالہ کے ساتھ دریا کنارے دھوپ میں بیٹھنے چلی گئیں۔تو نانگو بھیا نے جان بوجھ کر سونے کا ناٹک کیا اور ساری جمع شدہ خوراک سست کووں کو دے دی۔بڑا سست کوا بہت خوش ہوا۔اس نے چھوٹے بھائیوں کو مبارک باد دی اور انھیں بتایا”کہ گھر کی سب سے مضبوط بنیاد اعتماد اور پیار ہوتا ہے اور تم نے اس میں سوراخ بنا دیا ہے اب اس گھر میں رہنے والوں کو ختم کرنا اور گھر خالی کروانا کوئی مشکل کام نہیں۔“اگلے دن جب بارش اور دھند میں سردی سے باہر نکلنا بہت ہی مشکل ہو چکا تھا تو بیفا ماں نے کہا کہ ”وہ جمع شدہ خوراک ہی کھا لو اور آج باہر مت جاؤ بچو!(جاری ہے) " شیر کی سزا - تحریر نمبر 2469,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sher-ki-saza-2469.html,"توقیر،میرپور خاصکسی جنگل میں ایک خونخوار شیر رہتا تھا۔جنگل کے سارے جانور اس کے خوف سے سہمے رہتے۔شیر روزانہ کئی چھوٹے بڑے جانوروں کا شکار کر لیتا تھا۔جنگل کے جانوروں نے کئی بار شیر کے خلاف آپس میں مشورہ کیا اور خالہ بلی کے ذریعے سے شیر تک اپنے جذبات پہنچائے،مگر شیر طاقت کے نشے میں کوئی تجویز یا درخواست قبول نہ کرتا۔شیر کو اپنی خالہ،بلی کے ذریعے معلوم ہوا کہ اس کے خلاف سارے اجلاس لومڑی منعقد کراتی ہے اور تقریروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتی ہے۔لومڑی کی چالاکیاں تو مشہور ہیں،مگر اس معاملے میں وہ بہت مخلص تھی۔اسے سینکڑوں جانوروں کا درد کھائے جا رہا تھا،جو روز بہ روز مارے خوف کے کمزور ہوتے جا رہے تھے۔شیر نے لومڑی کو خوب ڈانٹا اور آئندہ محتاط رہنے کا حکم دیا۔(جاری ہے)لومڑی پہلے ہی دوسرے جانوروں کی وجہ سے شیر کے خلاف تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی تھی۔اب چونکہ شیر نے اس کی بے عزتی کی تھی،اس لئے اس نے غم و غصے کا اظہار کرنے کی خاطر جنگل کے سارے جانوروں کی کانفرنس طلب کی۔جلسہ گاہ جانوروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔لومڑی نے سارے مہمانوں کو اعتماد میں لے کر ایک تجویز پیش کی جس کو سب نے خوشی خوشی منظور کر لیا۔اب کیا تھا،شیر صاحب کے خلاف سوچی گئی ترکیب پر عمل کرنے کے لئے سب جانوروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کا فیصلہ کیا۔شیر کو اس ہنگامی اجلاس کی کانوں کان خبر نہ ہوئی،کیونکہ اجلاس کے روز شیر کی خالہ بلی کو نہیں بلایا گیا تھا۔لومڑی نے کچھ دنوں بعد منصوبے پر کام شروع کر دیا۔چوہوں نے بڑی مہارت سے زمین میں سوراخ کیے۔ابابیلوں سے لے کر ہاتھی تک سب جانوروں نے شرکت کی اور دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں ایک بڑا تالاب بن گیا۔سب جانوروں نے ایک ساتھ گڑگڑا کر خدا سے بارش کے لئے دعا کی۔دعائیں رنگ لائیں اور رحمت کی بارش سے پورا جنگل جل تھل ہو گیا۔تالاب پانی سے بھر گیا۔ایک ہرن کو شیر کی کچھار کی طرف بھیجا گیا۔شیر بھوکا تھا اور اونگھ رہا تھا۔جونہی اسے ہرن کی آواز سنائی دی تو اس نے لپک کر ہرن کا پیچھا شروع کر دیا۔ہرن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تالاب کی جانب دوڑ پڑا۔شیر بھی اپنے شکار کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ہرن تالاب میں کود گیا۔شیر تیز رفتار ہونے کی وجہ سے سنبھل نہ سکا اور تالاب میں جا گرا۔ہرن کے گرتے ہی کنارے پر کھڑے ہاتھی نے اسے اپنی سونڈ کے ذریعے باہر نکال لیا۔جنگل کا بادشاہ تالاب میں ڈبکیاں کھانے لگا۔تالاب کے ارد گرد جشن کا سماں تھا۔شیر نے غوطے کھاتے ہوئے معافی چاہی اور آئندہ مار دھاڑ نہ کرنے کا وعدہ کیا۔لومڑی کا دل پسیج گیا اور اس نے شیر کو معاف کرنے کی درخواست پیش کی۔لومڑی نے بلی کی ضمانت پر شیر کو تالاب سے نکالنے کا بندوبست کیا۔شیر نے تالاب سے باہر آتے ہی سب کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ ظلم و ستم سے توبہ کر لی۔ " عمل - تحریر نمبر 2468,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/amal-2468.html,"محمد آفتاب تابش،اٹکدانش اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔اکلوتا ہونے کی وجہ سے اسے والدین کی طرف سے حد سے زیادہ پیار ملا تھا۔اس کے والدین اگرچہ غریب تھے،لیکن انھوں نے اس کی پرورش نہایت شاندار طریقے سے کی تھی،اس کی ہر خواہش کو پورا کیا تھا،لیکن دانش نے اپنے والدین کے اس پیار کا اُلٹا صلہ دیا،وہ بہت ضدی ہو گیا تھا۔بات بات پر ضد کرنا گویا اس کی عادت بن چکی تھی۔اب جب کہ اس نے پرائمری کا امتحان پاس کر لیا تھا،وہ اپنے باپ سے شہر کے کسی اچھے اسکول میں پڑھنے کی ضد کر رہا تھا۔حالانکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا غریب والد اس قابل نہیں کہ وہ اسے شہر کے اسکول میں داخل کرا سکے،لیکن دانش میاں پر تو جیسے شہر کے بڑے اسکول میں پڑھنے کا بھوت سوار تھا۔(جاری ہے)آخر اس کے والد نے تنگدستی کے باوجود اسے شہر کے اچھے سے اسکول میں داخلہ دلوا دیا۔دانش چونکہ بہت ضدی تھا،اس لئے والد کا یہ خیال بھی تھا کہ شاید ماحول کی تبدیلی سے وہ بدل جائے۔دانش کا نئے اسکول کے ماحول میں دل لگ گیا تھا۔وہ گھر سے تھوڑی دور پکی سڑک تک پیدل آتا اور پھر وہاں سے گاڑی میں سوار ہو کر اسکول جاتا۔ایک دن اسلامیات کی کلاس میں اس کے استاد نے پڑھایا کہ علم بغیر عمل کے کچھ نہیں۔یعنی انسان جو کچھ سیکھے،اس پر عمل بھی کرے۔اگر اس پر عمل نہیں کرتا،جو اس نے سیکھا ہے تو اس کا علم بے فائدہ ہے۔استاد محترم نے یہ مثال بھی دی کہ ہم سب جانتے ہیں کہ راستے میں پڑی ہوئی تکلیف دینے والی چیزوں کو ہٹانا ثواب ہے،مثلاً پتھر،کانٹے وغیرہ،لیکن ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی راستے میں پڑے کانٹے اور پتھر نہیں ہٹاتے۔حالانکہ وہ معمولی سا پتھر یا کانٹا مخلوق خدا کے لئے بہت بڑی مصیبت کا باعث بن سکتا ہے۔دانش کو اسلامیات کے استاد کی یہ باتیں بہت پسند آئیں۔اس نے تہیہ کیا کہ وہ استاد کی ان باتوں پر عمل کرے گا۔اسی دن چھٹی کے بعد گاڑی سے اُتر کر جب وہ کچے راستے پر چل کر اپنے گھر جا رہا تھا تو اسے راستے میں ایک خشک ٹہنی پڑی ہوئی نظر آئی،جس پر کچھ کانٹے بھی تھے۔وہ ٹہنی شاید ہوا کے زور سے پاس کٹے درختوں سے اُڑ کر چکی سڑک پر آ گئی تھی۔دانش نے جوں ہی اسے دیکھا تو اسے استاد کی باتیں یاد آ گئیں اور وہ اسے اُٹھانے کے لئے جھکا،لیکن اسی لمحے اس کی فطری ضد اس کے آڑے آ گئی اور اس نے سوچا کہ یہ معمولی سا کانٹا مخلوق خدا کے لئے کیسے مصیبت کا باعث بن سکتا ہے‘یہ دیکھنا چاہیے۔یہ سوچ کر وہ کانٹے کو چھوڑ کر سیدھا گھر چلا گیا۔تقریباً شام ہونے کو تھی کہ اس کی ماں کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔اس کے والد نے ایمبولینس کو فون کیا اور اس کی ماں کو دلاسا دینے لگا کہ ابھی کچھ ہی دیر میں ایمبولینس آ جائے گی اور وہ اسے ہسپتال پہنچا دے گی،وہ بہت جلدی ٹھیک ہو جائے گی۔شہر سے اس کے گاؤں تک تقریباً 30 منٹ کا فاصلہ تھا،لیکن ایک گھنٹہ گزر جانے کے باوجود ایمبولینس نہ پہنچ سکی۔ادھر دانش کی ماں درد کی وجہ سے بے چین تھی۔اضطراب کی حالت میں دانش کے والد نے اس کو ایمبولینس کو دیکھنے کے لئے بھیجا۔دانش جب دوڑتا ہوا اس جگہ پہنچا،جہاں اس نے دوپہر کو اسکول سے آتے ہوئے کانٹا پڑا دیکھا تھا تو اسے ایک ایمبولینس نظر آئی،جس کا ایک پہیا بے کار ہو چکا تھا اور ایمبولینس کا عملہ اس پہیے کو تبدیل کرنے میں لگا ہوا تھا۔تقریباً دس منٹ بعد ایمبولینس روانہ ہوئی اور دانش کی ماں کو اس میں ڈال کر ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔تب دانش کو اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ ایک معمولی سا کانٹا مخلوق خدا کے لئے کتنی بڑی مصیبت لا سکتا ہے۔استاد کی بات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اس کی ماں کو اتنی دیر تکلیف برداشت کرنی پڑی۔ " جو ہوا اچھا ہوا - تحریر نمبر 2467,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jo-hua-acha-hua-2467.html,"مسفرہ نور،کراچیحمزہ میاں جہاں کوئی اچھی بُری بات ہوتے دیکھتے تو کہتے،جو ہوا اچھا ہی ہوا۔دیکھنا اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہے۔ایک دن کوئی بھوکا کتا حمزہ میاں کے محلے میں آ گیا حمزہ میاں نے گھر میں پڑی ہڈیاں پھینکنے کی غرض سے کتے کو ڈال دیں۔کتا ہڈیاں پا کر خوشی سے نہال ہو گیا اور حمزہ میاں کے دروازے پر ہی بیٹھ گیا۔دوپہر کا وقت تھا۔حمزہ میاں کے پڑوسی ابرار بھائی جو قصائی تھے،گھر کے صحن میں گائے کی چربی رکھ کر چلے گئے۔گھر والے سو رہے تھے۔حمزہ میاں کا کتا دیکھ رہا تھا۔ابرار بھائی کی چھت پر کودا اور چھت سے ان کے صحن میں۔کتے نے چربی پورے صحن میں پھیلا دی۔ابرار بھائی نے شام کے وقت صحن میں پہلا ہی قدم رکھا تھا کہ چربی سے فرش چکنا ہونے کی وجہ سے ان کا پاؤں پھسل گیا اور وہ دھڑام سے گر گئے۔(جاری ہے)رات کے دو بج رہے تھے۔سب اپنے اپنے گھروں میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ایک چور ابرار بھائی کے گھر میں داخل ہونے لگا۔پورے گھر کا جائزہ لینے کے بعد اس نے پیچھے سے کودنے کا فیصلہ کیا۔چور نے جیسے ہی چھلانگ لگائی،وہ پھسل کر دیوار سے جا ٹکرایا۔اسے کیا پتا تھا کہ یہاں چربی ہی چربی ہے۔چور درد سے چیخنے چلانے لگا۔ابرار بھائی کے گھر والے اُٹھ بیٹھے اور بھاگتے ہوئے آئے۔دیکھا تو صحن میں ایک آدمی گرا پڑا تھا۔چور نے سب کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کی،لیکن درد سے اُٹھ نہیں پایا۔حمزہ میاں بھی وہیں آ گئے۔انھوں نے کہا،جو ہوا اچھا ہوا۔اللہ پاک کی یہی مصلحت تھی ورنہ چور چوری کر جاتا تو زیادہ نقصان ہوتا۔ " شبنم کا تاج - تحریر نمبر 2466,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shabnam-ka-taj-2466.html,"کشور ناہیدکسی بادشاہ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔وہ بہت ضدی تھی۔ایک دن صبح کو وہ باغ میں ٹہلنے کے لئے گئی تو اس نے پھولوں کی پتیوں پر شبنم کے قطرے چمکتے ہوئے دیکھے۔شبنم کے یہ قطرے ان ہیروں سے زیادہ چمکدار اور خوبصورت تھے جو شہزادی کے پاس تھے۔شہزادی سیدھی محل میں واپس آئی اور بادشاہ سے کہنے لگی ”مجھے شبنم کا ایک تاج بنوا دیجئے۔جب تک مجھے تاج نہیں ملے گا میں نہ کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی۔“یہ کہہ کر شہزادی نے اپنا کمرہ بند کر لیا اور چادر اوڑھ کر پلنگ پر لیٹ گئی۔بادشاہ جانتا تھا کہ شبنم کے قطروں سے تاج نہیں بنایا جا سکتا۔پھر بھی اس نے شہزادی کی ضد پوری کرنے کے لئے شہر کے تمام سناروں کو بلاوا بھیجا اور ان سے کہا کہ تین دن کے اندر اندر شبنم کے قطروں کا تاج بنا کر پیش کرو ورنہ تمہیں سخت سزا دی جائے گی۔(جاری ہے)بیچارے سنار حیران پریشان کہ شبنم کا تاج کس طرح بنائیں۔ان سناروں میں ایک بوڑھا سنار بہت عقل مند تھا۔سوچتے سوچتے اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔وہ دوسرے دن صبح کو محل کے دروازے پر گیا اور سپاہیوں سے کہا کہ وہ شہزادی کا تاج بنانے آیا ہے۔سپاہی اسے شہزادی کے پاس لے گئے۔بوڑھے سنار نے شہزادی کو جھک کر سلام کیا اور بولا:”حضور،میں آپ کا تاج بنانے کے لئے آیا ہوں۔لیکن میری ایک چھوٹی سی درخواست ہے۔“”کہو،کیا کہنا چاہتے ہو؟“شہزادی نے کہا۔سنار بولا”آپ باغ میں چل کر مجھے شبنم کے وہ قطرے دے دیجئے جن کا آپ تاج بنوانا چاہتی ہیں۔جو قطرے آپ پسند کر کے مجھے دیں گی میں فوراً ان کا تاج بنا دوں گا“۔شہزادی سنار کے ساتھ باغ میں گئی۔پھولوں اور پتوں پر شبنم کے قطرے جگمگا رہے تھے۔لیکن شہزادی نے جس قطرے کو بھی چھوا وہ اس کی انگلیوں پر پانی کی طرح بہہ گیا۔تب شہزادی نے کھسیانی ہو کر بوڑھے سنار سے معافی مانگی اور عہد کیا کہ وہ اب کبھی ایسی ضد نہیں کرے گی۔ " بارہ مہینے - تحریر نمبر 2465,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/barah-mahine-2465.html,"کشور ناہیدایک دن ایک بوڑھی عورت اپنے کھیت میں سے بند گوبھی توڑنے جا رہی تھی۔راستے میں ایک غار پڑتا تھا جس میں بارہ آدمی رہتے تھے۔انہوں نے بڑھیا کو بلا کر کہا ”بی اماں،یہ بتاؤ سب سے اچھا کون سا مہینہ ہے؟“ ”سب ہی اچھے مہینے ہیں بیٹا۔“ بڑھیا نے کہا۔دیکھو تو جنوری میں سفید سفید برف گرتی ہے۔فروری میں بارش ہوتی ہے اور مارچ میں ہر طرف پھول ہی پھول کھل اُٹھتے ہیں۔باقی سارے مہینے بھی بہت اچھے ہیں۔”بی اماں،تم نے ہم سب کی تعریف کی۔اس لئے ہم تمہیں انعام دینا چاہتے ہیں۔تم جانتی ہو،ہم ہی بارہ مہینے ہیں۔“انہوں نے ٹوکری میں بہت سا سونا بھر کر بڑھیا کو دے دیا۔بڑھیا نے ان کا شکریہ ادا کیا اور گھر چلی گئی۔گھر آ کر اس نے اپنے بچوں کو سونا دکھایا اور ان سے کہا ”اب ہم بہت امیر ہو جائیں گے۔(جاری ہے)دیکھو تو میں کتنا سونا لائی ہوں“۔اسی وقت بڑھیا کی ایک ہمسائی وہاں آ گئی۔اس نے سونے کا ڈھیر دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔بڑھیا نے بارہ مہینوں کی ساری کہانی ہمسائی کو کہہ سنائی۔بڑھیا کی ہمسائی بہت لالچی تھی۔وہ دوڑی دوڑی اس غار میں جس میں وہ بارہ آدمی رہتے تھے۔انہوں نے ہمسائی سے پوچھا ”بی اماں سب سے اچھا مہینہ کون سا ہے؟“ہمسائی بولی ”بات تو یہ ہے کہ کوئی مہینہ بھی اچھا نہیں ہوتا۔دیکھو نا،جنوری میں برف پڑتی ہے۔فروری میں بارشیں شروع ہو جاتی ہیں اور اسی طرح ہر مہینے میں کوئی نہ کوئی بلا نازل ہوتی رہتی ہے“۔”آپ کا بہت بہت شکریہ بڑی بی۔لائیے اپنی ٹوکری دیجئے۔ہم آپ کو انعام دیں گے“۔بارہ مہینوں نے ہمسائی کی ٹوکری بھر کر اوپر سے پتے ڈھک دیے۔ہمسائی ٹوکری اُٹھا کر گھر کو بھاگی تاکہ جلدی سے کھول کر دیکھے،بھلا بارہ مہینوں نے کیا انعام دیا ہے۔جب وہ گھر پہنچی تو اس نے اپنے بچوں سے کہا ”اب ہم بھی اُس بڑھیا کی طرح امیر ہو جائیں گے“۔یہ کہہ کر اس نے ٹوکری میز پر الٹ دی لیکن ٹوکری میں سونے کی جگہ کنکر پتھر بھرے ہوئے تھے۔ہمسائی بہت ناراض ہوئی اور بھاگی بھاگی بڑھیا کے پاس گئی۔بڑھیا نے پوچھا ”جب ان بارہ آدمیوں نے تم سے یہ پوچھا تھا کہ کون سا مہینہ اچھا ہوتا ہے تو تم نے کیا جواب دیا تھا؟“ ”میں نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ کوئی مہینہ بھی اچھا نہیں ہوتا“ ہمسائی نے چڑ کر کہا۔”پھر ٹھیک ہے۔تمہارے ساتھ یہی ہونا چاہئے تھا۔بھلا کوئی اپنی بُرائی سن کر بھی انعام دیتا ہے“۔ " جنگل کہانی (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2464,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jungle-kahani-pehla-hissa-2464.html,"نازیہ آصفدریا کے دونوں طرف گھنا جنگل تھا۔جس میں ہر طرح کے پرندے اور چھوٹے موٹے جانور بھی پائے جاتے تھے۔جنگل میں ایک شوروغل بپا رہتا۔بدقسمتی سے کئی پرندے شکاریوں کا شکار بن جاتے اور کئی پرندے اور جانور اپنے جسم کا کوئی اعضاء زخمی کروا کر جان بچانے میں کامیاب تو رہتے مگر زندگی بھر کے لئے معذور ہو جاتے۔دریا کنارے شیشم کے درختوں کے گھنے جھنڈ پہ پرندوں کا قبضہ تھا۔جن میں ایک درخت پہ ایک کبوتروں کا جوڑا رہتا تھا۔مادہ کبوتر بہت دانا تھی۔اس کے سر پہ لال رنگ کی کلغی ہونے کی وجہ سے وہ جنگل بھر میں ”رتی خالہ“ کے نام سے مشہور تھی۔جنگل میں جب بھی کوئی مصیبت آتی،تو سب پرندے رتی خالہ سے ہی مشورہ کرتے۔دوسرے درخت پہ تین بھائی کووں کا بسیرا تھا۔(جاری ہے)تینوں کوے بہت سست تھے۔کھانے کی تلاش کی بجائے مانگ تانگ کر کھانے کو ترجیح دیتے۔اس کے ساتھ ہی اگلے درخت پہ ایک فاختہ اپنے دو بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔فاختہ اور رتی خالہ میں بڑی دوستی تھی۔رتی خالہ اس فاختہ کو ”بیفا“ کہہ کر بلاتی تھی۔ایک دن جب بیفا بچوں کے لئے کھانے کی تلاش میں گئی ہوئی تھی تو ایک بلی جس کا نام ”بی مانو“ تھا۔کئی دنوں سے فاختہ کے بچوں پہ نظر رکھے ہوئے تھی۔اسے موقع مل گیا اور اس نے بچوں پہ حملہ کر کے انھیں ہڑپ کر لیا۔بیفا واپس آئی تو یہ دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئی اور کئی دن تک اپنے گھونسلے میں بیٹھی اپنے بچوں کو یاد کرتی اور روتی رہتی۔پھر ایک دن بوڑھی خالہ رتی بڑی مشکل سے اُڑ کر اس کے پاس آئی اور بولی:”بیفا!اس طرح کب تک روتی رہو گی؟بچے تو واپس نہیں آئیں گے۔“فاختہ بولی:”رتی خالہ کیا کروں؟میرا دل ہی نہیں کرتا کچھ کرنے کو۔“رتی خالہ بولی:”دیکھو بیفا!زمانے میں کرنے کو اور بھی بہت کام ہیں اللہ پاک نے انسان کو دوسرے کے کام آنے کے لئے بھی پیدا کیا گیا ہے۔“فاختہ بولی:”خالہ!پھر آپ ہی بتائیں میں دوسروں کے لئے کیا کر سکتی ہوں؟“رتی خالہ نے تجویز دی تو بیفا کا چہرہ کھل اُٹھا۔اگلے دن جب رتی خالہ جاگی،تو دیکھا کہ بیفا کا گھونسلا خالی پڑا تھا۔رتی خالہ سمجھ گئی کہ فاختہ کو مشورہ پسند آیا ہے۔شام ہوتے ہی بیفا واپس لوٹی تو اس کے ساتھ دو چھوٹے چھوٹے بلبل کے بچے تھے۔جو بہت مشکل سے تھوڑا تھوڑا اُڑ کر گھونسلے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔رتی خالہ خوش ہو کر اپنے ساتھی کبوتر کے ساتھ یہ سب دیکھ رہی تھی۔اگلی صبح بیفا رتی خالہ کے پاس جا پہنچی اور اسے بتایا کہ کیسے،اسے بلبل کے دو چھوٹے بچے ملے،جن کے ماں باپ کسی شکاری کا نشانہ بن چکے تھے،اور بچے گھونسلے میں بھوکے پیاسے پڑے تھے اور وہ انھیں ساتھ لے آئی ہے۔رتی خالہ بہت خوش ہوئی اور اسے بچوں کو کھلانے کے لئے بھی کچھ دیا۔بیفا نے بلبل کے بچوں کے نام مونا ٹونا رکھ لیے اور ان کی دیکھ بھال کرنے لگ گئی۔ایک رات بہت آندھی چلی،کئی گھونسلے گر گئے،کتنے پرندے بھی زخمی ہوئے۔بیفا نے صبح دیکھا،تو ایک پرندہ درخت کے پاس زمین پہ گرا پڑا تھا۔بیفا جلدی سے نیچے گئی اور دیکھا،وہ ایک زخمی مادہ ہد ہد تھی۔مگر زخم اور بھوک کی وجہ سے اُڑ نہیں سکتی تھی۔بیفا نے پانی لا کر ہد ہد کی لمبی چونچ میں ڈالا،پھر کچھ کھانے کو دیا۔اس کی حالت بہتر ہونے پر بیفا اسے اپنے گھونسلے میں لے آئی۔اسے دیکھ کر مونا ٹونا بہت خوش ہوئے۔ٹونا نے ہد ہد سے پوچھا:”کہ وہ کون ہے اور اس کے دیس کا نام کیا ہے؟“ہد ہد نے بتایا کہ اس کا نام ”پالی“ ہے اور اس کی ماں گھونسلے میں نہیں تھی۔اسے بھوک لگی تو وہ اُڑ کر جیسے ہی باہر آئی،تو تیز طوفان شروع ہو گیا۔اب اسے کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں اور کدھر سے آئی ہے؟بیفا نے یہ سن کر پالی کو بہت تسلی دی اور کہا!کوئی بات نہیں،تم ہمارے ساتھ رہو یہ مونا ٹونا تمہارے بھائی ہیں اور مجھے تم اپنی ماں ہی سمجھو۔پالی کو یہ سن کر بہت سکون محسوس ہوا اور وہ بھی ان کے ساتھ رہنے لگی۔وقت گزرتا رہا اور بیفا کا گھرانہ بڑا ہوتا گیا۔اب اسے اپنے بچے بھی کم ہی یاد آتے تھے۔وہ اپنی فیملی میں بہت خوش تھی۔سردیوں کی آمد آمد تھی۔آدھی رات کے بعد درختوں پہ بیٹھنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ایک دن پالی نے بیفا سے کہا:”بیفا ماں!سردی بڑھ رہی ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں سردیوں کے لئے مناسب گھر بناؤں،جس میں ہم سب آرام سے رہ لیں۔بیفا خالہ یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور اسے گھر بنانے کی اجازت دے دی۔اگلے دن جب بیفا ماں واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ پالی ( ہد ہد) نے درخت کے موٹے تنے کو اپنی چونچ سے کھود کھود کر بہت بڑا سوراخ بنا لیا ہوا تھا اور مونا ٹونا خشک گھاس لا لا کر اس میں بچھا رہے تھے۔بہت خوبصورت گھر تیار ہو رہا تھا۔جو گھونسلے کی نسبت کافی محفوظ بھی لگ رہا تھا۔اگلی رات ان سب کو اس گھونسلے میں بہت سکون کی نیند آئی اور سردی بھی نہیں لگی،لیکن ابھی صبح ہونے میں کچھ وقت باقی تھا کہ باہر کسی کی آواز آئی۔بیفا ماں نے دیکھا ایک کوا جس کی ٹانگ ٹوٹ چکی تھی،بیفا کو آوازیں دے رہا تھا۔(جاری ہے) " نیک کام - تحریر نمبر 2463,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naik-kaam-2463.html,"عروج سعدعاصم صاحب نے دکان سے سامان لیا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے بیٹے عمر کا ہاتھ تھامے گھر جانے کے لئے مُڑے ہی تھے کہ عمر نے سامنے سے آتے ہوئے جلال صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:”ابو جی!دیکھیں بابو چچا جا رہے ہیں۔“جلال صاحب کی کمر ضعیفی کی وجہ سے جھک گئی تھی اور نظر بھی خاصی کمزور ہو گئی تھی،لیکن اپنے گھر کا سودا سلف خود ہی لاتے تھے۔عاصم صاحب نے آگے بڑھ کر انھیں سلام کیا اور ان کے ہاتھوں سے سامان کے تھیلے لے کر خود پکڑ لیے۔باتیں کرتے کرتے انھیں ان کے گھر تک پہنچا دیا اور کہا:”بابو چچا!میں روزانہ دکان جاتے وقت آپ سے پوچھتا ہوا جاؤں گا۔آپ کو جو بھی منگوانا ہو،میں لا دیا کروں گا۔“جلال صاحب نے انھیں ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے ہامی بھر لی۔(جاری ہے)وہاں سے نکلتے ہی عمر نے پوچھا:”ابو جی!بابو چچا کا گھر تو دوسری گلی میں ہے۔روزانہ ان کا سودا لا کر دینے میں آپ کو مشکل نہیں ہو گی؟“عاصم صاحب نے چلتے چلتے اسے دیکھا اور کہا:”مشکل کیسی؟اسی بہانے تھوڑی چہل قدمی بھی ہو جائے گی اور بابو چچا کا کام بھی ہو جائے گا۔اگر ہم سب اسی طرح ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں تو ہمارے معاشرے میں یکجہتی کی فضا قائم ہو جائے گی۔سمجھے؟“اور عمر نے اپنا گول مٹول سر ہلا دیا۔عمر اور اس کا بھائی نوفل تخت پر بیٹھے دادی جان سے قرآن پاک پڑھ رہے تھے۔برابر میں رضیہ بھی آگے پیچھے بِل بِل کر قاعدہ پڑھ رہی تھی۔رضیہ غریب گھر کی بچی تھی اور ان کے گھر ہلکا پھلکا کام کرنے کے لئے آتی تھی۔اب دادی جان نے اسے قرآن پاک سکھانے کی غرض سے قاعدہ پڑھانا شروع کیا تھا۔سبق ختم ہوا اور رضیہ اپنے گھر چلی گئی تو نوفل نے سامنے رکھی چائے کی پیالی میں بسکٹ ڈبوتے ہوئے دادی جان سے پوچھا:”دادی جان!یہ رضیہ باجی تو اتنی بڑی ہو گئیں ہیں۔مشکل سے سبق یاد کرتی ہیں پھر بھی آپ انھیں اتنے پیار سے قاعدہ پڑھاتی ہیں۔“دادی جان نے بات سمجھتے ہوئے کہا:”بات تو آپ کی درست ہے نوفی میاں!مگر علم کسی بھی عمر میں حاصل کیا جا سکتا ہے اور قرآن پاک پڑھانا تو ویسے بھی بہت ثواب کا کام ہے۔بس ہمیں اچھائی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ٹھیک ہے نا؟“دونوں بچوں نے ایک ساتھ ہاں،میں سر ہلا دیے۔امی نے گھر کی کیاریوں میں لگے ہوئے ”سدا بہار“ کے پودوں میں سے کچھ ٹہنیاں جڑوں سمیت نکالیں اور دو الگ الگ گملوں میں لگا دیں۔عمر اور نوفل قریب ہی کھیل رہے تھے۔امی نے پہلے عمر کو بُلا کر کہا:”عمر بیٹا!یہ گملا برابر والے قاسم بھائی کو دے آؤ۔“پھر نوفل سے کہا:”نوفی!تم یہ گملا سامنے والی طاہرہ خالہ کے گھر پہنچا کر آؤ۔“عمر نے حیرت سے پوچھا:”امی جی!آپ پڑوسیوں کو پودے دیتی ہیں۔کیا ان پودوں سے ہمارا ماحول خوبصورت ہو جائے گا؟“امی نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے سمجھایا:”دیکھو عمر!انسان کو بس اچھے کام کرتے رہنا چاہیے،تاکہ ہماری دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی فلاح کے کاموں کی طرف راغب ہو جائیں۔جب بہت سارے لوگ مل کر بہبود کے کام کریں گے تو ہمارا معاشرہ مثالی ہو جائے گا۔دیکھو نا!تم لوگ بھی تو اپنی گُلک میں تھوڑے تھوڑے پیسے ڈالتے رہتے ہو۔پھر کچھ عرصے کے بعد وہ تھوڑے تھوڑے پیسے مل کر ایک بڑی رقم بن جاتے ہیں۔بس اسی طرح ہمیں چھوٹے چھوٹے فلاحی کام متحد ہو کر ایک جماعت کی شکل میں کرنے چاہیے۔اس کا فائدہ دنیا میں بھی ہو گا اور آخرت میں بھی۔“عمر اور نوفل نے یہ باتیں غور سے سنیں اور ایک عزم کے ساتھ سر ہلا دیے۔نوفل نے کچھ سوچتے ہوئے کہا:”امی جی!آج سے میں پودوں کو پانی دیا کروں گا۔“عمر فوراً بولا:”اور میں دادی جان کے پیر دبایا کروں گا۔“عاصم صاحب قریب ہی بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے،انھوں نے کہا:”پڑوسیوں کی مدد کرنا بھی نیک کام ہے،یہ کون کرے گا،بچو!“دونوں نے ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہوئے نعرہ لگایا:”ہم کریں گے،ہم کریں گے۔“ " بُری عادت - تحریر نمبر 2462,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/buri-adat-2462.html,"جمال رومیمنصور پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔دوسروں کو ڈرا کر خوش ہونا اس کی عادت بن چکی تھی۔اس کی اس بُری عادت سے سبھی تنگ تھے۔امی باورچی خانے میں کھانا پکا رہی ہوتیں تو وہ دبے پاؤں ان کے قریب جا کر زور سے چیختا:”ام․․․․․می․․․․ی ی!“کھانا پکانے میں محو ہوتیں،سہم جاتیں۔آپی یونیورسٹی کی طرف سے دیا گیا کام کر رہی ہوتیں،یہ ڈراؤنے چہرے والا ماسک پہن کر انھیں ڈرا دیتا۔گڑیا کو ہوم ورک کرتے دیکھتا تو دروازے کے پیچھے چھپ کر ڈراؤنی آوازیں نکالتا،بے چاری ڈر کر دوسرے کمرے میں بھاگ جاتی۔ایک بار تو اسے اسکول میں اس حرکت پر سزا بھی دی گئی۔امی بڑے پیار سے اسے سمجھاتیں کہ اس طرح دوسروں کو ڈرانا اچھی عادت نہیں ہے منصور!تمہیں یہ بُری عادت چھوڑ دینی چاہیے۔(جاری ہے)ابو نصیحت کرتے کہ مجھے ڈر ہے کہ کسی دن تمہیں اپنی اس عادت کی وجہ سے کوئی نقصان نہ اُٹھانا پڑ جائے،لیکن وہ ان تمام نصیحتوں کو سنی اَن سنی کر دیتا۔ان دنوں گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔میرپور خاص سے چھوٹی خالہ آئی ہوئی تھیں۔ان کا بیٹا حامد،عمر میں منصور سے دو سال بڑا تھا۔ایک روز وہ بڑی دلچسپی سے ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھ رہا تھا۔منصور آہستگی سے کمرے میں داخل ہوا اور اپنا منہ حامد کے کان کے قریب لے جا کر ایک زور دار چیخ ماری۔”یہ کیا بے ہودہ حرکت ہے!“حامد گرج کر بولا۔پاپ کارن کا لفافہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا اور پاپ کارن فرش پر بکھر گئے تھے۔منصور شرمندہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی سے ہنستا رہا۔”تمہیں مزہ چکھانا ہی پڑے گا۔“حامد بڑبڑایا۔شام کا وقت تھا۔آسمان پر گہرے کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔کچھ دیر بعد موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔منصور اپنے کمرے میں بستر پر لیٹا ہوا تھا۔تھوڑی دیر بعد بجلی چلی گئی،کمرے میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔وہ کمرے سے باہر نکلنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ یکا یک ”کھڑاک“ کی ایک تیز آواز کے ساتھ کمرے کی کھڑکی بند ہو گئی۔منصور چونک کر اُٹھ بیٹھا اور اندازے سے دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔دروازہ مقفل تھا۔وہ کچھ دیر تک زور آزمائی کرتا رہا،لیکن دروازہ نہیں کھلا۔وہ خوف زدہ ہو گیا تھا۔کمرے میں اتنا اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔اسی لمحے کمرے میں ایک آواز گونجی:’آج تم ہم سے نہیں بچ سکتے!“اس آواز کی بازگشت پورے کمرے میں سنائی دے رہی تھی۔منصور کو یہ آواز بہت ڈراؤنی لگی،اس کی گھگی بندھ گئی۔”تم نے سب کو ڈرا ڈرا کر پریشان کر رکھا ہے۔“آواز دوبارہ اُبھری۔ڈر کے مارے اس کے حلق سے آواز بھی نہیں نکل پا رہی تھی۔وہ ہمت جمع کر کے بولا:”تت․․․․․تم کون ہو؟․․․․․مم․․․․مجھے جانے دو!․․․․․دروازہ کھولو!“وہی آواز پھر سنائی دی:”نہیں!ہم تمہیں اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔تم نے امی اور ابو کی نصیحتوں کی بھی پروا نہیں کی،یہ نافرمانی ہے۔“”مم․․․․․میں․․․․․میں وعدہ کرتا ہوں،آج کے بعد کبھی کسی کو نہیں ڈراؤں گا۔“منصور دونوں ہاتھ جوڑ کر التجائیہ انداز میں بولا:”میں بڑوں کی نصیحتوں پر عمل کروں پھر وہ دوبارہ دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا،لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔کمرے کی فضا میں مسلسل ڈراؤنی آوازوں کی گونج سنائی دیتی رہی،منصور کا خوف بڑھتا جا رہا تھا۔کچھ ہی دیر میں وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔“منصور کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے بستر پر تھا،کمرے میں روشنی تھی۔اس کی نظر کھڑکی پر پڑی،باہر تیز بارش ہو رہی تھی۔امی ابو اور گھر کے دیگر افراد اس کے گرد جمع تھے۔امی اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں۔کچھ دیر بعد ابو دھیمی آواز میں بولے:”شرارت اور بدتمیزی میں خاصا فرق ہوتا ہے۔منصور!تم نے جس عادت کو اپنا رکھا ہے،وہ شرارت نہیں بدتمیزی ہے۔پھر حامد کی طرف مڑ کر بولے:”لیکن منصور کو سبق سکھانے کے لئے تم نے جس طریقے کا انتخاب کیا،وہ بھی قطعی مناسب نہیں تھا۔“حامد شرم سے سر جھکائے کھڑا رہا۔ابو نے دوبارہ منصور سے کہا:”ہم سب تم سے یہی اُمید کرتے ہیں کہ تم اپنی اس بُری عادت کو چھوڑ دو گے اور پھر کبھی کسی کو نہیں ڈراؤ گے۔“”نہیں،اب کبھی کسی کو نہیں ڈراؤں گا۔“منصور نے دھیمی آواز میں ابو کی بات دہرا دی اور اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ اس نے اپنے بُری عادت سے نجات حاصل کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔ " کالا چوزہ - تحریر نمبر 2461,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kala-chooza-2461.html,"نشا وقارجنگل میں ہر رنگ و نسل کے مرغے مرغیاں آپس میں مل جل کر رہتے تھے۔سب ایک دوسرے کے چوزوں اور انڈوں کا خیال اپنے چوزوں اور انڈوں کی طرح رکھتے تھے۔کالا چوزہ جب سے انڈے سے نکلا تھا،تب سے ہر وقت ٹکٹکی باندھے آسمان پر اُڑتے پرندوں کو حسرت سے دیکھا کرتا تھا اور سوالات کر کر کے ماں کا دماغ کھاتا رہتا تھا:”پرندے آسمان پر کیسے اُڑتے ہیں؟“چوزے نے حسبِ عادت آسمان پر اُڑتے پرندوں کو دیکھ کر ماں سے پوچھا۔”ظاہر ہے اپنے پَروں سے اُڑتے ہیں۔اسی لئے تو انھیں پرندے کہا جاتا ہے۔“ماں،جو ننھے کالے چوزے کے حد سے زیادہ سوالات کرنے کی عادت سے عاجز تھی جھنجھلا کر بولی۔چوزے نے ماں کو چڑچڑاتے دیکھا تو باپ کی طرف لپکا:”ابا!جب پرندے آسمان پر اپنے پَروں سے اُڑتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں اُڑتے!ہمارے بھی تو پَر ہیں۔(جاری ہے)“کالے چوزے نے اپنے چھوٹے چھوٹے پَروں کو اپنی ننھی سی چونچ سے کریدتے ہوئے کہا۔کالے چوزے کی بات پر ابا نے سوچا کہ ننھے کی بات میں دَم ہے۔وہ خوش ہوتے ہوئے بولے:”ہم مرغے مرغیاں اُڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،لیکن اپنی بھاری جسموں اور چھوٹے پَروں کی وجہ سے زیادہ اونچائی تک پرواز نہیں کر سکتے،اس لئے ہم اُڑنے سے زیادہ زمین پر چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔تم آسمان پر اُڑنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔“اچانک چوزے کے دادا کی آواز آئی:”کیوں نہ دیکھے وہ آسمان پر اُڑنے کے خواب۔آسمان پر اُڑنے کے لئے پَروں سے زیادہ ہمت حوصلے اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے،محنت کرنی پڑتی ہے،ہار کے خوف کو اپنے دل سے نکالنا پڑتا ہے۔پَر ہونے کے باوجود ہم اس لئے نہیں اُڑ پاتے کہ ہمارے پَر چھوٹے ہیں۔اصل وجہ یہ ہے کہ ہم اُڑنا ہی نہیں چاہتے۔“دادا نے پہلے تو بیٹے کو غصے سے گُھورا،پھر کالے چوزے کو پیار کر کے آگے بڑھ گئے۔ابا نے شکر ادا کیا کہ اب چوزہ مزید سوالات نہیں کرے گا۔دادا وہاں کے سب سے ضعیف مرغے تھے۔ایک دن انھوں نے کالے چوزے سے کہا:”اگر ہمت کی جائے تو بغیر پَروں کے بھی اُڑا جا سکتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ تم اپنا دماغ کیسے استعمال کرتے ہو۔“اگلی صبح کالا چوزہ اپنے ڈربے میں نہیں تھا۔کونا کونا چھان مارا۔کالے چوزے کی تلاش میں جنگل کے سب جانور نکل پڑے۔بطخوں نے بھی تالاب کو چھان مارا۔پرندوں نے آسمان کی بلندی سے نیچے کی جانب نظریں دوڑائی،لیکن چوزے کا کچھ پتا نہیں چلا۔ایک کبوتر کو جنگل کے بالکل کنارے ندی کے قریب کالا چوزہ نظر آ گیا۔کالے چوزے کے والدین اور دادا وہاں پہنچے۔دیکھا تو کالے چوزے نے چوڑے پتوں کی مدد سے بنایا ہوا پیراشوٹ اپنے پَروں میں لپیٹ رکھا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک اونچے درخت سے نیچے چھلانگ لگا دی۔کالا چوزہ پیراشوٹ کے ذریعے بلندی سے نیچے کی جانب اپنے خیال میں اُڑتا ہوا آ رہا تھا اور اپنی اس کامیابی پر خوب کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔”آہ ہا،میں اُڑ رہا ہوں۔“ہنستا مسکراتا دیکھ کر جنگل کے سب جانور اس کی خوشی میں شامل ہو گئے۔ " مشکل فیصلہ - تحریر نمبر 2460,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mushkil-faisla-2460.html,"جدون ادیبکیا کسی نے آپ کا راز کھولنے کی دھمکی دے کر آپ سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے؟انگریزی اصطلاح میں اسے بلیک میل کرنا کہتے ہیں۔لیکن کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک شاگرد،اپنے استاد کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرے۔ٹھہریے،میں آپ کو پورا قصہ سناتا ہوں۔اُس دن میں نے اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا تو نیچے ایک لفافہ پڑا دیکھا۔مجھے زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔اکثر بل وغیرہ لفافے میں ڈال کر دروازے کے نیچے سے اندر سرکا دیے جاتے تھے۔میں اکیلا رہتا تھا۔جب کہ میرے والدین اور بہن بھائی گاؤں میں رہتے تھے۔میں صبح ایک اسکول میں پڑھاتا اور شام کو خود یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔اسکول کے قریب ایک خوبصورت عمارت میں مجھے فلیٹ اس لئے مل گیا تھا کہ میں ایک معزز استاد تھا۔(جاری ہے)کبھی کبھی امی ابو مجھ سے ملنے آ جاتے تو وہ کچھ دن میرے پاس ٹھیر جاتے،ورنہ میں ہوتا اور میری کتابیں۔ارد گرد کے لوگ میری عزت کرتے تھے۔اسی عمارت کے کئی بچے میرے اسکول میں زیرِ تعلیم تھے۔اس طرح ایک غیر متوقع خط میرے نام آئے گا،میں نے سوچا نہ تھا۔یہ خط میرے کسی نامعلوم شاگرد نے لکھا تھا۔اس نے مجھ سے مطالبہ کیا تھا کہ اسے کلاس مانیٹر بنا دوں،ورنہ اس کے پاس میرا ایک راز ہے،جسے وہ سب کو بتا دے گا۔فطری طور پر مجھے پریشانی لاحق ہو گئی۔انسان تو خطا کا پتلا ہے۔جانے انجانے ہم غلطیاں کرتے رہتے ہیں اور پتا نہیں میری کیا کمزوری اس کے پاس تھی،یہ سوچ سوچ کر میں پریشان ہو گیا۔خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ جب نئے ماسٹر کا انتخاب ہو گا تو وہ دو اُنگلیوں سے وکٹری کا اشارہ کرکے اپنی پہچان ظاہر کرے گا۔معاملہ پریشان کن،مگر دلچسپ بھی تھا۔آخر میں نے طے کر لیا کہ کیا کرنا ہے اور اس کے لئے ضروری روک تھام بھی کر لی تھی۔آخر وہ لمحہ آن پہنچا۔میں کمرہ جماعت میں موجود تھا۔کلاس کا مانیٹر احمد کسی وجہ سے اپنی ذمے داری سے سبک دوش ہونے کی درخواست دے چکا تھا اور اب مجھے نئے مانیٹر کا انتخاب کرنا تھا،جس کے لئے ذکی،ارسلان اور ندیم اُمیدوار تھے۔سب سے پہلے میں نے احمد کی خدمات کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے کلاس کا نظام اچھے طریقے سے چلایا تھا۔پھر میں تینوں اُمیدواروں کے پاس گیا اور ایک ایک کرکے ان کو غور سے دیکھنے لگا۔ذکی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور فتح کا اشارہ کیا۔میں نے اثبات میں سر ہلایا اور ذکی کو مانیٹر منتخب کر لیا۔سارے بچے حیرت سے مجھے دیکھنے لگے،کیونکہ وہ تینوں میں ذرا لاپروا مزاج کا لڑکا تھا۔سب کا خیال تھا کہ میں ارسلان کو مانیٹر بناؤں گا،لیکن بچے میرے فیصلے کا پس منظر نہیں جانتے تھے۔پھر نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو میرا فیصلہ ماننا پڑا۔میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا،مگر ذکی وعدہ خلافی پر اُتر آیا۔چونکہ میں گھر سے کچھ کھانے پینے کے لئے نہیں لاتا تھا تو کینٹین سے کچھ لے لیتا تھا۔اس وقت میں کینٹین سے سموسے لے رہا تھا تو میں نے ذکی کو دیکھا۔وہ اپنے دوستوں کی خاطر تواضع کر رہا تھا۔اپنا نام سن کر میں چونکا۔وہ مزے لے لے کر کہہ رہا تھا:”ہر آدمی کے کچھ راز ہوتے ہیں،جنہیں وہ سب سے چھپانا چاہتا ہے اور میرے پاس سر سہیل کا ایک راز ہے،سنو گے!“”ہاں،ہاں کیوں نہیں۔“اس کے دوست بیک وقت بولے۔میں چاہتا تو مداخلت کر سکتا تھا،مگر میں خاموش رہا اور یہ جاننا چاہتا تھا کہ میرا کیا راز ہے؟تب ذکی بولا:”سر سہیل کا راز یہ ہے کہ وہ کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔ان جیسا ہمدرد،مہربان اور نیک انسان میں نے پہلے نہیں دیکھا۔“اب وہ اور بچے میری تعریفیں کرنے لگے۔میں وہاں سے ہٹ گیا اور لائبریری کے پیریڈ میں ذکی کو بلوایا۔وہ اس بلاوے پر کچھ گھبرایا ہوا تھا۔آخر وہ بولا:”مجھے پتا تھا،یہ مرحلہ ضرور آئے گا۔“”تو تم ذہنی طور پر تیار تھے۔“میں نے سخت لہجے میں پوچھا۔”ہاں،مگر ازراہِ کرم میری پوری بات سن لیجیے۔“اس نے آہستگی سے کہا۔”ضرور سنوں گا،مگر کیا تمہارا یہ طرزِ عمل درست تھا؟“”بے شک غلط تھا۔“وہ سر جھکا کر بولا:”اور اس پر آپ سے بہت شرمندہ ہوں،معافی چاہتا ہوں۔“”معافی مانگنے کے بجائے بہتر ہو گا کہ تم نے جو عہدہ حاصل کیا ہے،خود کو اس کا اہل ثابت کرو۔اب تم جا سکتے ہو۔“میں نے سخت انداز میں کہا۔اور وہ سر جھکا کر چلا گیا۔جلد ہی ذکی نے ثابت کر دیا کہ وہ اس ذمے داری کا اہل بن چکا ہے اور اصل بات میں آپ کو بتانا بھول گیا۔میں نے ذکی کی لکھائی سے اس کو پہچان لیا تھا۔میں اس کے والد سے ملا جو ذکی کی غیر ذمے داری کی عادت سے بہت نالاں تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ذکی ساری زندگی کچھ نہیں کر سکتا۔اوپر سے اس کی والدہ بیمار تھیں۔تب میں ساری بات سمجھ گیا کہ وہ اپنی ماں اور باپ دونوں کو ایک ذمے دار شخص بن کر دکھانا چاہتا تھا اور میں ایک شفیق معلم کی حیثیت سے نہ اس کی خواہش کا گلا گھونٹ سکتا تھا اور نہ اسے شرمندہ کر کے ہمیشہ کے لئے مایوس کر سکتا تھا۔تب میں نے وہ کیا،جو میں نے ضروری سمجھا،شاید آپ کو میرے فیصلے سے اختلاف ہو،مگر اساتذہ کو کچھ ایسے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ " جلتے ہوئے نوٹ - تحریر نمبر 2459,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jalte-hue-note-2459.html,"بشیر احمد بھٹیادھیڑ عمر کے غلام علی صاحب کسی نجی کمپنی میں ملازم تھے۔ایک دن شام کو گھر میں داخل ہوئے اور اہلیہ سے پوچھا:”بجلی کا بل آ گیا ہے؟“انھوں نے جواب میں صرف ”جی“ کہا۔”کتنا بل آیا ہے؟“ غلام علی صاحب بولے۔جواب ملا:”نو ہزار اکیاسی روپے۔“”نو ہزار اکیاسی روپے۔“ غلام علی نے دبی آواز میں بیوی کے بتائے ہوئے ہندسے دہرائے۔پھر ان کی نگاہ غسل خانے کی طرف گئی۔انھوں نے بیگم سے پوچھا غسل خانے میں کون ہے؟“”کوئی بھی نہیں۔“ بیگم نے جواب دیا۔”پھر یہ بلب کیوں جل رہا ہے؟“ غلام علی نے سوال کیا۔”بچوں نے جلایا ہو گا؟“ بیوی نے لاپروائی سے جواب دیا۔”تو تم بلب بند کر دیتیں۔(جاری ہے)“ غلام علی نے بیوی کو گھورا۔”کتنی بار بند کرتی!ایک بار کا تو مسئلہ نہیں ہے۔جب بھی بلب بند کرتی ہوں۔بچے دوبارہ کھول کے بھول جاتے ہیں۔“غلام علی نے اوپر دیکھا۔وہاں جو کمرا تھا،اس کا بلب بھی جل رہا تھا اور پنکھا چلنے کی آواز بھی آ رہی تھی۔”اوپر کون ہے؟“انھوں نے پوچھا۔”آپ کا لاڈلا بیٹا ہوم ورک کر رہا ہو گا۔“ بیوی نے بتایا۔”لیکن وہ تو مجھے راستے میں نظر آیا تھا۔اپنے دوست کے ساتھ جا رہا تھا۔“ غلام علی نے کہا۔بیوی نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور بتایا:”ہاں مجھے یاد آیا۔ارشد اوپر بیٹھا پڑھ رہا تھا۔اس کے دوست نے گھنٹی بجائی وہ دروازے پر گیا اور شاید کسی کام سے اس کے ساتھ نکل گیا۔“غلام علی نرم لہجے میں بولے:”تو اسے چاہیے تھا کہ پنکھا بند کرتا اور بلب بند کرکے جاتا۔“بیوی نے جواب دیا:”اب اسے کیا معلوم تھا کہ اس کا دوست اسے کہیں لے جائے گا۔اس کا خیال یہی ہو گا کہ بات سن کے واپس آ کر دوبارہ ہوم ورک کروں گا۔“غلام علی نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔بڑے دھیمے لہجے میں سمجھایا:”ارشد اگر دوست کے ساتھ چلا گیا تھا تو تمہیں چاہیے تھا کہ کسی بچے کو اوپر بھیج کر پنکھا اور بلب بند کروا دیتیں۔فرض کیا۔ارشد دو گھنٹے بعد گھر آتا ہے تو کیا جب تک اوپر کے کمرے کا پنکھا چلتا رہے گا اور بلب جلتا رہے گا؟“بیوی نے بے زاری سے جواب دیا:”اب میں کیا کیا کروں!کہاں کہاں دھیان دوں!یہ بچوں والا گھر ہے،ان کی غلطی ہے۔آپ ہاتھ منہ دھو لیں،میں کھانا گرم کرتی ہوں۔“”کھانا رہنے دو۔گھر کی بدنظمی دیکھ کر میری بھوک ختم ہو گئی ہے۔نو ہزار اکیاسی روپے بل آیا ہوا ہے۔اگلے ماہ یہ اس بل سے بھی زیادہ آ سکتا ہے۔مہنگائی کس قدر بڑھ چکی ہے۔پیسہ کس طرح کمایا جاتا ہے؟کتنی محنت سے یہ ہاتھ آتا ہے؟پیسہ کمانا مشکل اور اُڑانا آسان ہے۔اگر تندور میں آگ جل رہی ہو اور ہمارا ایک سو کا نوٹ تندور میں گر کر جل جائے تو ہمیں افسوس ہو گا کہ سو روپے کا نوٹ ضائع ہو گیا ہے،لیکن یہی روپے ہم اپنی غفلت،سستی اور بے وقوفی سے بجلی کے بھاری بلوں کی نذر کر دیں تو کیا افسوس نہ ہو گا۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمیں کب عقل آئے گی؟ہم اس بارے میں نہیں سوچتے۔مجھے یقین ہے اگر ہم احتیاط کریں اور فالتو بلب بند کر دیں تو تین ہزار اکیاسی روپے کا بل آئے گا۔یہ چھ ہزار بے احتیاطی والے بچ جائیں گے۔یہی روپے ضرورت کی دوسری گھریلو چیزیں خریدنے پر خرچ کیے جا سکتے ہیں۔ہزار ہزار کے چھ نوٹ تندور میں گر جائیں تو تمہاری کیا کیفیت ہو گی؟“ان کی بیوی یہ سب سن کر جلدی سے بولیں:”ہائے اللہ!اگر میرے ہاتھوں سے چھ ہزار روپے تندور میں گر جائیں تو مارے صدمے کے میں تو بے ہوش ہو جاؤں گی۔“غلام علی مسکرا کے بولے:”بیگم!فضول بجلی استعمال کرنا،بس یوں سمجھ لو کہ ہزار ہزار کے چھ نوٹ آگ لگا کر جلانے کے برابر ہے۔نوٹ جلتے تندور میں جلائیں یا بجلی والوں پر قربان کریں،ایک ہی بات ہے۔چھ ہزار روپے کی ہم اگر خریداری کریں تو معلوم ہو گا کہ جو پیسے ہم نے احتیاط کر کے بچائے تھے۔وہ ہمارے کام آ گئے۔ویسے بھی کفایت شعار اور دور اندیش لوگ اپنے آڑے وقت کے لئے کچھ نہ کچھ رقم بچا کے رکھتے ہیں،کہیں کسی اچانک ضرورت کے تحت کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔جو لوگ پیسے اور وقت کو بے دردی سے برباد کرتے ہیں وہ اکثر پریشان رہتے ہیں۔بیوی کچھ دیر تک سوچ و فکر میں مبتلا رہیں اور بولیں:”بس آپ کی یہ بات میری سمجھ میں آ گئی ہے کہ اگر ہمارے ہاتھ سے سو روپے کا نوٹ تندور میں گر جائے تو ہم افسوس کرتے ہیں اور اپنی سستی سے ہم گھر کے فالتو بلب نہ بند کر کے ہزاروں روپے ضائع کر دیتے ہیں۔اب میں خود اپنے ہاتھ سے یہ بلب بند کروں گی،چاہے اوپر والے کمرے کے بلب بند کرنے کے لئے مجھے سیڑھیاں چڑھ کے اوپر جانا پڑے۔“غلام علی یہ بات سن کر مسکرائے اور بولے:”بیگم تم نے میری پریشانی دور کر دی ہے۔میں ہاتھ دھونے جا رہا ہوں۔تم کھانا گرم کرو۔بڑے زور کی بھوک لگی ہے۔“ " قدرت کی تنبیہ - تحریر نمبر 2458,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qudrat-ki-tanbeeh-2458.html,"جاوید چودھرییہ پرانی بات ہے،بہت پرانی بادشاہوں کے دور کی۔ایران کا ایک بادشاہ ظالم بھی تھا،لالچی بھی۔وہ بادشاہ بنا تو اس نے ملک میں ظلم کا بازار گرم کر دیا،لوٹ مار اور انتقام لینے میں بھی جت گیا،ملک کے حالات خراب ہو گئے۔بازار سنسان ہو گئے۔لوگ نقل مکانی کرنے لگے۔کھیت اور کارخانے اُجڑ گئے اور ملک میں خشک سالی اور قحط پڑ گیا،لیکن بادشاہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔بادشاہ کم عقل بھی تھا۔وہ سمجھتا تھا کہ اس کا اقتدار اور اس کا اختیار کبھی زوال پذیر نہیں ہو گا،وہ دنیا میں اسی طرح عیش کرتا رہے گا۔بادشاہوں کے مختلف مشغلوں میں شکار بھی شامل ہوتا ہے۔وہ بادشاہ بھی شکار کے لئے جاتا تھا اور جنگل میں کئی ہفتوں تک شکار کھیلتا تھا۔(جاری ہے)وہ معمول کے مطابق ایک بار شکار کے لئے گیا تو شکار کی دُھن میں راستہ بھول گیا۔اس کے محافظ،اس کا لشکر بادشاہ کو ڈھونڈتا ہوا کسی دوسری سمت نکل گیا اور بادشاہ کا گھوڑا اسے جنگل کے کسی اندھیرے گوشے میں لے گیا۔بادشاہ تھک چکا تھا۔وہ سستانے کے لئے ایک درخت کے نیچے لیٹا تو اسے نیند آ گئی۔بادشاہ نے نیند کے دوران اپنی سانس کو اکھڑتے ہوئے پایا۔اسے محسوس ہوا جیسے وہ کسی سخت شکنجے میں پھنس گیا اور وہ شکنجہ اسے آہستہ آہستہ دبا رہا ہے اور کسی بھی وقت اس کی جان نکل جائے گی۔اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں تو اس نے ایک انتہائی خوف ناک منظر دیکھا۔بادشاہ کو ایک بہت بڑے اژدھے نے جکڑ رکھا تھا۔بادشاہ کے پورے جسم سے اژدھا لپٹا تھا اور اژدھا پھن پھلا کر اس کے منہ کے قریب تھا۔بادشاہ کے منہ پر اژدھے کی پھنکاروں کی پھوار پڑ رہی تھی اور بادشاہ بار بار اژدھے کی پھنکاروں کو اپنے گالوں،اپنے ماتھے،اپنے ہونٹوں تک آتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔بادشاہ کی جان نکل گئی۔وہ اپنا آخری وقت اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔اژدھا ایک پہر تک بادشاہ کے بدن سے لپٹا رہا۔وہ بار بار اپنی زبان بادشاہ کے گالوں سے رگڑتا تھا اور اس کے جسم کو اپنے شکنجے میں کسا ہوا تھا۔شام کو اچانک اژدھے نے آسمان کی طرف دیکھا،گردن ہلائی،اپنے بل کھولے اور آہستہ آہستہ سرکتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔بادشاہ سجدے میں گرا اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔بادشاہ کے ساتھی چند لمحے بعد اس کے پاس پہنچ گئے۔بادشاہ محل میں واپس آیا اور اس نے اسی وقت عیش،آرام،ظلم،ناانصافی اور بے ایمانی ترک کر دی۔اس نے اپنی باقی زندگی ملک اور قوم کے لئے وقف کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا ملک دوبارہ خوش حال اور پُرامن ہو گیا۔لوگ دوسرے ملکوں سے نقل مکانی کرکے اس کے ملک میں آباد ہونے لگے۔جب کہ بادشاہ پوری زندگی اس اژدھے کا شکریہ ادا کرتا رہا۔وہ اسے قدرت کی تنبیہ سمجھتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ قدرت نے اس اژدھے کے ذریعے اسے یہ پیغام دیا تھا کہ تمہاری موت اور زندگی میں آدھ انچ کا فاصلہ ہے۔اگر یہ اژدھا اپنے جسم کو آدھا انچ مزید کس لے یا اپنا منہ آدھا انچ آگے بڑھا دے اور اپنے دانت تمہارے گال پر گاڑ دے تو تم چند لمحوں میں زندگی کی سرحد عبور کر جاؤ گے۔بادشاہ کا خیال تھا کہ اس اژدھے نے مجھے یہ پیغام دیا یہ زندگی اور اقتدار اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اگر تم نے اس امانت کی قدر نہ کی تو اللہ تم پر مصیبتوں کے ایسے بے شمار اژدھے اُتار دے گا اور اس کے بعد تمہیں دنیا میں کسی جگہ پناہ نہیں ملے گی۔ " چاند کی بیٹی - تحریر نمبر 2457,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chand-ki-beti-2457.html,"کشور ناہیدایک چھوٹی سی بچی تھی۔اس کے ماں باپ مر چکے تھے۔وہ بچاری گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ایک امیر آدمی کے گھر میں اسے بہت کام کرنا پڑتا تھا۔وہ پانی بھر کے لاتی،کھانا پکاتی۔بچوں کی دیکھ بھال کرتی اور اتنے کاموں کے بدلے اسے بس دو وقت کی روٹی ملتی۔کھیلنا کودنا تو کیا دو گھڑی آرام بھی نہیں کر سکتی تھی۔وہ آدمی بہت چالاک اور بے رحم تھا اور اس کی بیوی تو میاں سے بھی دو قدم آگے تھی۔ایک رات چاند آسمان پر چمک رہا تھا اور باہر بہت سخت سردی تھی۔امیر آدمی کی بیوی نے اس بچی سے پانی لانے کے لئے کہا۔بچی پانی بھرنے باہر گئی۔جب وہ تالاب پر پہنچی تو سردی سے اس کے پیر پتھر ہو چکے تھے۔تالاب کا پانی بھی اوپر سے جما ہوا تھا۔بچی نے برف میں سوراخ کیا اور پانی کی بالٹی بھر کر گھر واپس آنے لگی۔(جاری ہے)گھر کے قریب پہنچ کر وہ گر پڑی اور سارا پانی بہہ گیا۔بچی گھبرا گئی۔وہ خالی بالٹی لے کر گھر نہیں جا سکتی تھی۔وہ دروازے پر کھڑی خوف سے کانپ رہی تھی۔آسمان پر چمکتا ہوا چاند ہنس رہا تھا۔بچی نے چاند سے کہا،”چند اماں،دیکھو تو میں کتنی دکھی ہوں۔میری مدد کرو۔مجھے ان ظالموں سے بچاؤ۔یہ تو مجھے مار ڈالیں گے۔“چاند اس کی فریاد سن کر زمین پر اتر آیا۔وہ ایک خوبصورت نوجوان کے بھیس میں تھا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔چاند کے بڑے بھائی سورج نے بھی بچی کی فریاد سن لی تھی۔وہ بھی آدمی کی شکل میں سنہرے رنگ کے کپڑے پہنے زمین پر اُتر آیا۔سورج نے چاند سے کہا،”میں اس دکھی لڑکی کو لینے آیا ہوں۔اسے مجھے دے دو۔کیونکہ میں تم سے بڑا ہوں۔“چاند نے کہا،”یہ ٹھیک ہے کہ تم بڑے ہو سورج بھائی،لیکن اس وقت رات ہے،اور میں رات کا بادشاہ ہوں۔اس بچی نے مجھ سے مدد مانگی ہے۔اس لئے میں اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔“چاند بچی کو اپنے بازوؤں میں اُٹھا کر آسمان کی طرف اُڑ گیا۔جب سے وہ ننھی بچی چاند میں رہتی ہے۔جب تم چودھویں کا پورا چاند دیکھو گے تو اس میں وہ ہنستی گاتی نظر آئے گی۔ " سنہری مچھلی - تحریر نمبر 2456,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sunehri-machli-2456.html,"شازیہ اسلمایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی چھوٹے سے گاؤں میں ایک لڑکا رہتا تھا۔اس کا نام دینو تھا۔دینو ابھی بہت چھوٹا تھا کہ اس کا باپ فوت ہو گیا۔وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔دینو ایک بہت ہی ایماندار اور شریف لڑکا تھا۔وہ صبح صبح گھر سے نکلتا اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ پالتا تھا۔ایک دن صبح صبح روکھی سوکھی روٹی کھا کر،ماں کو سلام کرکے جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔اس نے سوچا گھر کا راشن ختم ہو چکا ہے۔آج میں بہت زیادہ لکڑیاں کاٹوں گا۔دینو نے ایک بہت ہی موٹا اور تناور درخت ڈھونڈا اور لکڑیاں کاٹنے لگا۔اس درخت کے پاس ہی بہت بڑی جھیل تھی۔لکڑیاں کاٹتے کاٹتے دینو کا کلہاڑا ہاتھ سے چھوٹ کر پاس سے گزرتی ہوئی جھیل میں جا گرا۔(جاری ہے)دینو بہت پریشان ہوا اور سوچنے لگا کہ یہ کلہاڑا اس کی روزی کمانے کا واحد ذریعہ تھا جو اب اس کے پاس نہیں رہا تھا۔اب وہ گھر کا سامان کیسے خریدے گا اور ماں کو کیا جواب دے گا۔یہ سوچ کر دینو جھیل کے پاس بیٹھ کر رونے لگا۔دینو زور زور سے رو رہا تھا کہ اسی جھیل کے اندر ایک بہت ہی پیاری سنہری مچھلی اپنی دادی کے ساتھ رہا کرتی تھی۔جب سنہری مچھلی نے جھیل کے اوپر رونے کی آواز سنی تو وہ جھیل کے اوپر آ گئی۔سنہری مچھلی نے ایک چھوٹے لڑکے کو روتے دیکھا تو پوچھا تم کیوں رو رہے ہو؟دینو نے سنہری مچھلی کو بتایا کہ اس کا کلہاڑا جھیل میں گر گیا ہے،جس سے وہ لکڑیاں کاٹ کر گزارہ کیا کرتا تھا۔یہ سن کر سنہری مچھلی نے کہا تم مت رو،میں تمہارا کلہاڑا تلاش کرتی ہوں۔یہ کہہ کر سنہری مچھلی اپنی دادی اماں کے پاس آئی اور ساری بات بتائی۔سنہری مچھلی کی دادی اماں نے کہا کہ مجھے وہ لکڑہارا بہت غریب لگتا ہے،تم اسے اپنا سونے کا کلہاڑا تحفے میں دے دو۔سنہری مچھلی نے سونے کا کلہاڑا لیا اور لکڑہارے کے پاس آ کر کہا،یہ لو تمہارا کلہاڑا۔دینو نے جب اپنے لوہے کے کلہاڑے کی بجائے سونے کا کلہاڑا دیکھا تو اس نے کہا یہ میرا کلہاڑا نہیں ہے،میرا کلہاڑا تو لوہے کا تھا۔سنہری مچھلی اپنی دادی اماں کے پاس واپس آئی اور اسے ساری بات سنائی۔سنہری مچھلی کی دادی اماں نے کہا وہ لکڑہارا تو بہت ایماندار ہے۔تم اسے اس کا لوہے کا کلہاڑا تلاش کر دو اور اپنا سونے کا کلہاڑا بھی اسے تحفے میں دے دو۔سنہری مچھلی لوہے کا کلہاڑا تلاش کرنے لگی،جو اسے جلد ہی مل گیا۔وہ دونوں کلہاڑے لے کر دینو کے پاس آئی اور کہا یہ رہا تمہارا لوہے کا کلہاڑا اور یہ سونے کا کلہاڑا تمہاری ایمانداری کا انعام ہے۔دینو دونوں کلہاڑے لے کر بہت خوش ہوا اور سنہری مچھلی کا شکریہ ادا کیا۔گھر واپس آ کر دینو نے سارا واقعہ اپنی ماں کو سنایا۔اس کی ماں بہت خوش ہوئی۔دینو نے اس سونے کے کلہاڑے سے ایک لکڑی کاٹی۔جیسے ہی دینو نے سونے کا کلہاڑا لکڑی پر مارا وہ سونے کی بن گئی۔دینو بہت حیران ہوا،جہاں بھی وہ سونے کا کلہاڑا مارتا وہ چیز سونے کی بن جاتی۔اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے سارا گھر سونے میں تبدیل ہو گیا۔دینو اور اس کی ماں بہت خوش ہوئے اور یہ سب دینو کی ایمانداری کا انعام تھا۔دینو کے ہمسائے میں ایک بہت ہی مغرور اور لالچی عورت اور اس کا بیٹا رہتے تھے۔جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ دینو کو جھیل میں سنہری مچھلی نے ایک سونے کا کلہاڑا دیا ہے،جس سے اس کا گھر سونے میں بدل گیا ہے تو وہ عورت اپنے بیٹے کے ساتھ لوہے کا کلہاڑا لے کر جھیل پر گئی اور اپنے بیٹے کو سمجھانے لگی کہ تم جان بوجھ کر اپنا لوہے کا کلہاڑا جھیل میں پھینکنا۔پھر جیسے ہی سنہری مچھلی اوپر آئے اسے کہنا کہ میرا کلہاڑا جھیل میں گر گیا ہے،میں بہت غریب لڑکا ہوں اور اگر وہ لوہے کا کلہاڑا لے کر آئے تو اسے کہنا یہ تو میرا کلہاڑا نہیں ہے۔میرا کلہاڑا تو سونے کا تھا۔یہ ساری باتیں سنہری مچھلی نے سن لیں اور واپس آ کر اپنی دادی اماں کو بتائیں۔اس کی دادی اماں نے کہا مجھے یہ عورت اور لڑکا لالچی معلوم ہوتے ہیں۔تم انہیں اپنا جادو کا کلہاڑا دے دو تاکہ انہیں لالچ کی سزا ملے۔سنہری مچھلی اپنی دادی کے کہنے کے مطابق جادو والا سونے کا کلہاڑا لے آئی اور اس لڑکے کو کہا کہ یہ تمہارا کلہاڑا ہے؟اس لڑکے نے کہا ہاں یہ میرا کلہاڑا ہے جو جھیل میں گر گیا تھا۔مجھے میرا کلہاڑا واپس دے دو۔جسے پا کر وہ لڑکا اور اس کی ماں بہت خوش ہوئے۔انہوں نے آ کر جس بھی چیز پر اسے مارا وہ ٹوٹ گئی۔تھوڑی دیر میں گھر کی ہر ایک چیز ٹوٹ چکی تھی۔یہ دیکھ کر لڑکا اور اس کی ماں بیٹھ کر رونے لگے مگر اب رونے کا کیا فائدہ۔یہ تو ان کے لالچ کا نتیجہ تھا۔سچ ہے لالچ بہت بُری بلا ہے۔ " شرارتی ریچھ - تحریر نمبر 2455,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shararti-reech-2455.html,"قرة العین حیدرلاکھوں برس گزرے۔آسمان پر شمال کی طرف سفید بادلوں کے پہاڑ کے ایک بڑے غار میں ایک بہت بڑا ریچھ رہا کرتا تھا۔یہ ریچھ دن بھر پڑا سوتا رہتا اور شام کے وقت اُٹھ کر ستاروں کو چھیڑتا اور ان سے شرارتیں کیا کرتا تھا۔اس کی بدتمیزیوں اور شرارتوں سے آسمان پر بسنے والے تنگ آ گئے تھے۔کبھی تو وہ کسی ننھے سے ستارے کو گیند کی طرح لڑھکا دیتا اور وہ ستارہ قلابازیاں کھاتا دنیا میں آ گرتا یا کبھی وہ انہیں اپنی اصلی جگہ سے ہٹا دیتا۔اور وہ بیچارے اِدھر اُدھر بھٹکتے پھرتے۔آخر ایک دن تنگ آ کر وہ سات ستارے جنہیں سات بہنیں کہتے ہیں۔چاند کے عقلمند بوڑھے آدمی کے پاس گئے اور ریچھ کی شرارتوں کا ذکر کر کے اس سے مدد چاہی۔بوڑھا تھوڑی دیر تو سر کھجاتا رہا۔(جاری ہے)پھر بولا ”اچھا میں اس نامعقول کی خوب مرمت کروں گا۔تم فکر نہ کرو“۔ساتوں بہنوں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔اور خوشی خوشی واپس چلی گئیں۔دوسرے دن چاند کے بوڑھے نے ریچھ کو اپنے قریب بلا کر خوب ڈانٹا اور کہا کہ ”اگر تم زیادہ شرارتیں کرو گے تو تم کو آسمانی بستی سے نکال دیا جائے گا۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ان ننھے منے ستاروں کی روشنی سے دنیا میں انسان اور جہاز اپنا اپنا راستہ دیکھتے ہیں لیکن تم انہیں روز کھیل کھیل میں ختم کر دیتے ہو۔تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جب یہ ستارے اپنی اصلی جگہ پر نہیں رہتے تو دنیا کے مسافر اور جہاز رستہ بھول جاتے ہیں۔میاں ریچھ نے اس کان سنا اور اُس کان نکال دیا اور قہقہہ مار کے بولا ”میں نے کیا دنیا کے جہازوں اور مسافروں کی روشنی کا ٹھیکہ لے لیا ہے جو ان کی فکر کروں۔یہ کہہ کر ریچھ چلا گیا۔جانے کے بعد بوڑھے نے بہت دیر سوچا کہ اس شیطان کو کس طرح قابو میں لاؤں ۔یکا یک اسے خیال آیا کہ اورین دیو سے مدد لینی چاہئے۔اورین دیو ایک طاقتور ستارے کا نام تھا۔جو اس زمانے میں بہت اچھا شکاری سمجھا جاتا تھا اور اس کی طاقت کی وجہ سے اسے دیو کہتے تھے۔یہ سوچ کر بوڑھے نے دوسرے دن اورین دیو کو بلاوا بھیجا۔اس کے آنے پر بڑی دیر تک دونوں میں کانا پھوسی ہوتی رہی۔آخر یہ فیصلہ ہوا کہ وہ آج شام ریچھ کو پکڑنے کی کوشش کرے۔چنانچہ رات گئے اورین دیو نے شیر کی کھال پہنی اور ریچھ کے غار کی طرف چلا۔جب ریچھ نے ایک بہت بڑے شیر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ ننھے منے ستاروں سے بنی ہوئی اس سڑک پر جو پریوں کے ملک کو جاتی ہے اور جسے ہم کہکشاں کہتے ہیں،بے تحاشا بھاگا۔آخر بڑی دوڑ دھوپ کے بعد طاقتور شکاری نے میاں ریچھ کو آ لیا اور ان کو پکڑ کر آسمان پر ایک جگہ قید کر دیا۔جہاں وہ اب تک بندھے کھڑے ہیں۔اگر تم رات کو قطب ستارے کی طرف دیکھو تو تمہیں اس کے پاس ہی ریچھ بندھا نظر آئے گا۔جس کو ان سات بہنوں میں سب چار پکڑے کھڑی ہیں باقی تین بہنوں نے اس کی دم پکڑ رکھی ہے۔اگر تم آسمان پر نظر دوڑاؤ تو تمہیں اورین دیو بھی تیرو کمان لئے ریچھ کی طرف نشانہ لگائے کھڑا نظر آئے گا۔ " کچھ لو،کچھ دو - تحریر نمبر 2454,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kuch-lo-kuch-dou-2454.html,"ڈاکٹر طارق ریاضامی جان باورچی خانے میں کسٹرڈ تیار کر رہی تھیں۔تینوں بہن بھائی بیٹھے اسکول سے ملا گھر کا کام کرنے میں مصروف تھے۔سائنس کے استاد نے آج کچھ ایسا کام دے دیا تھا،جس میں کچھ اشکال بنانا بھی شامل تھا۔بچے اپنی اپنی کتابوں پہ بنی ماحولیاتی نظام کی شکلیں کاپی پر بنا رہے تھے۔ایمن کی ڈرائنگ اچھی تھی۔اسی لئے اس کا کام اچھا دکھائی دے رہا تھا۔اس کے برعکس فواد اور علی کا خط کمزور تھا اور ان کی بنائی اشکال بار بار مٹا کر درست اور خوبصورت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ربر صرف ایمن ہی کے پاس تھی،وہ بھائیوں کو دے نہیں رہی تھی،ربر کی چھینا جھپٹی کی وجہ سے کمرے میں ہنگامہ مچا ہوا تھا۔جب بچوں کا ہوم ورک مکمل ہو گیا تو امی جان نے حوصلہ افزائی کے لئے ان کے کام کو سراہا اور وعدہ کے مطابق کسٹرڈ کھانے کی دعوت دے دی۔(جاری ہے)امی جان نے ایمن سے کہا کہ وہ اپنی سائنس کی کاپی دکھائے۔اس نے کاپی بستے سے نکالی اور سامنے رکھ دی۔ایمن نے واقعی بڑی مہارت سے ماحولیاتی نظام کی تصویریں بنائی تھیں۔”ایمن بیٹا!تم نے اپنے بھائیوں سے اچھا ہوم ورک کیا ہے۔تم ایک جماعت آگے بھی تو ہو،بڑی ہو،ان شکلوں میں ایک کے نیچے ہم زیستی لکھا ہے۔یہ کیا ہے؟“امی نے اس کا امتحان لینے کی خاطر اس سے پوچھا۔ایمن نے جواب دیا کہ امی جان!ہم زیستی کو (Symbiosis) بھی کہتے ہیں۔یہ ایسا تعلق ہے جس میں دو مختلف جان دار ایک دوسرے سے کچھ لو،کچھ دو کی بنیاد پر ایک دوسرے کی زندگی کو آسان بناتے ہیں۔امی جان غور سے یہ باتیں سن رہی تھیں۔اپنے تینوں بچوں کو خوش دیکھ کر ماں نے کہنا شروع کیا:”بچو!ایمن نے بالکل درست تشریح کی ہے۔اپنی کتاب سے کتنی اچھی بات کو ڈرائنگ بنا کر ظاہر کیا ہے۔ہمارا پروردگار بھی اس دنیا کو کچھ لو،کچھ دو کے اُصول پر چلا رہا ہے۔فنگس (Fungus) مثلاً پھپھوندی اپنی خوراک نہیں بنا سکتی،لیکن پانی جذب کر سکتی ہے۔یہ پھپھوندی پودوں کی جڑوں سے دوستی کر لیتی ہے۔پودے سورج کی روشنی میں خوراک تیار کرکے جن ریشوں کے ذریعے اپنی جڑوں کو بھیجتے ہیں،وہ (Phloem) کہلاتے ہیں،یوں فنگس (پھپھوندی) کو غذا اور پودے کو پانی ملتا رہتا ہے۔اگر جان دار آپس میں مل جل کر عمل نہ کریں تو بھلا ماحولیاتی نظام (Ecosystem) کس طرح چلے گا۔فنگس اور پودوں کی جڑوں کا یہ تعلق (Mycorrhiza) کہلاتا ہے۔جب دو مختلف طرح کے جان دار کچھ لو،کچھ دو کے اُصول پر آگے بڑھ سکتے ہیں تو ہمیں بھی اس بات پر عمل کرنا چاہیے۔“تینوں بچے یہ باتیں توجہ سے سن رہے تھے۔شام کو ابو جان گھر آئے تو ہر بچے کے پاس نئی ربر تھی،کیونکہ امی جان نے انھیں فون پر ربر لانے کے لئے کہہ دیا تھا۔ " میرا جادوئی گھر - تحریر نمبر 2453,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mera-jadui-ghar-2453.html,"اُسید الرحمن،کراچیایک ادیب کی بیوی نے اس سے کہا آپ بہت کہانیاں لکھتے ہیں،آج میرے لئے بھی کچھ لکھیں پھر مانوں گی کہ واقعی آپ ادیب ہیں۔ادیب نے کہا:”ٹھیک ہے،اس کہانی کا نام میرا جادوئی گھر ہو گا۔“میں،میری بیوی اور بچے ایک جادوئی گھر میں رہتے ہیں۔ہم اپنے میلے کچیلے کپڑے اُتارتے ہیں،جو اگلے ہی دن صاف ستھرے ہو جاتے ہیں۔بچے اسکول سے اور میں آفس سے آتے ہی جوتے اِدھر اُدھر اتار دیتے ہیں،پھر اگلے دن صبح وہ پالش شدہ صاف جوتے پہن کر جاتے ہیں۔ہر روز رات کو کوڑے والی باسکٹ کچرے سے بھری ہوتی ہے اور اگلے دن صبح سویرے ہی وہ خالی ہوتی ہے۔میرے جادوئی گھر میں بچے کھیلتے ہوئے ہر چیز بکھیر دیتے ہیں،لیکن اگلے ہی لمحے گھر صاف ستھرا ہو جاتا ہے اور ان کے کھیلوں کا سامان اپنی جگہ پر ترتیب سے رکھ دیا جاتا ہے۔(جاری ہے)ہر روز میرے جادوئی گھر میں میرے بچوں اور میری پسند کے مختلف کھانے بنتے ہیں۔میرے جادوئی گھر میں ہر روز تقریباً سو بار ماما،ماما کہا جاتا ہے۔”ماما!ناخن تراش کہاں ہے؟“”ماما!میرا ہوم ورک مکمل کروائیں۔“”ماما!بھیا مجھے مار رہا ہے۔“”ماما!بابا جانی آ گئے۔“”ماما!آج مجھے اسکول لنچ بکس لے کر نہیں جانا۔“”ماما!آج بریانی بنائیں۔“”ماما!مجھے سینڈوچ بنا کر دیں۔“”ماما!مجھے واش روم جانا ہے۔“”ماما!یہاں میری بک پڑی تھی،اب نہیں ہے۔“رات سونے سے پہلے آخری لفظ ماما اور صبح اُٹھتے ہی پہلا لفظ ماما میرے جادوئی گھر میں سننے کو ملتا ہے۔کوئی اس جادوئی گھر کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوا ہو گا،حالانکہ ایسا گھر بیشتر لوگوں کے پاس ہے،مگر کسی نے اس گھر کے جادوگر کا شکریہ ادا کیا ہو گا۔ان جادوئی گھروں کا جادوگر کوئی اور نہیں،بلکہ ہر سمجھ دار خاتون ہے،جو اپنے اپنے گھروں میں ایسے جادو کرتی ہے۔اللہ سلامت رکھے ہر اس ماں کو،جن کے صبر اور نہ ختم ہونے والے کاموں کی وجہ سے ہر گھر میں رونق ہے۔ " سچی خوشی - تحریر نمبر 2452,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sachi-khushi-2452.html,"ثروت عزیز خانکسی چھوٹے سے گاؤں میں ایک لکڑہارا رہتا تھا۔وہ گاؤں میں سب سے زیادہ ذہین مانا جاتا تھا۔جب بھی گاؤں میں کوئی مسئلہ پیش آتا تو عقل مند لکڑہارا اس کو چٹکی بھر میں حل کر دیتا۔ایک دفعہ بادشاہ نے ملک بھر میں ایک عجیب و غریب اعلان کروا دیا کہ جو مجھے سچی خوشی دے گا،میں اسے ایک ہزار سونے کی اشرفیاں دوں گا۔گاؤں والوں نے عقل مند لکڑہارے کو بادشاہ کو سچی خوشی دینے کا مشورہ دیا،جسے لکڑہارے نے قبول کیا اور بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا۔اس نے بادشاہ سے کہا:”حضورِ والا!میری تین خواہشیں پوری کر دی جائیں تو میں آپ کو سچی خوشی دے سکوں گا۔پہلی خواہش ہے کہ میں آپ کو اپنی تمام خواہش ایک ساتھ نہ بتاؤں،بلکہ ایک ایک کرکے بتاؤں اور خواہش اسی وقت پوری کی جائے۔(جاری ہے)“بادشاہ نے یہ بات قبول کر لی:”اچھا اب اپنی دوسری خواہش بتاؤ۔“لکڑہارے نے کہا:”میری دوسری خواہش ہے کہ میں حضورِ والا کو ایک سال کے لئے جیل میں ڈال دوں۔“یہ سن کر بادشاہ آگ بگولہ ہو گیا،مگر چونکہ بادشاہ نے تمام وزیروں،درباریوں کے سامنے وعدہ کر لیا تھا،لہٰذا وہ خود قید خانے میں چلا گیا اور تیسری خواہش کا پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ وہ میں آپ کو ایک گھنٹے بعد بتاؤں گا۔ایک گھنٹے کے بعد اس نے کہا:”میری تیسری خواہش ہے کہ حضورِ والا کو باعزت بری کر دیا جائے۔“بادشاہ جب قید سے نکلا تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔وہ سمجھ جاتا ہے کہ سچی خوشی تو اس کے ارد گرد ہی موجود ہے،لیکن اس نے کبھی اسے محسوس نہیں کیا۔آج عقل مند لکڑہارے نے اس کو سمجھا دیا۔بادشاہ نے لکڑہارے کو انعام و اکرام سے مالا مال کر دیا۔ " اور حادثہ ہو گیا - تحریر نمبر 2451,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aur-hadsa-ho-gaya-2451.html,"سلمان یوسف سمیجہ،علی پور”آہستہ․․․․آہستہ چلاؤ آہستہ․․․․!!“ سمید کی آنکھیں بند تھیں اور ہاتھ اشعر کے کاندھوں پر مضبوطی سے جکڑے تھے۔”تمہیں مزہ نہیں آ رہا؟“ اشعر نے ہنستے ہوئے پوچھا۔”کیا مزہ آئے گا،مجھے مزہ نہیں خوف آ رہا ہے،بائیک آہستہ چلاؤ اشعر!حادثہ پیش آنے کا خدشہ ہے۔“ سمید نے ابھی آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔”یہی دن ہیں،لطف اُٹھانے کے!ڈرو نہیں لطف اُٹھاؤ۔“ اشعر نے بھی بائیک کی رفتار کم نہ کی تھی۔”ارے مجھے لطف نہیں آ رہا ناں،مجھے لطف دُطف نہیں اُٹھانا،خود کو بچانا ہے،دھیمی رکھو رفتا!“ سمید کے زیادہ ڈرنے سے اشعر نے رفتار مزید تیز کر دی۔”آ․․․․․آ․․․․آ!!“ سمید چلانے لگا تھا۔(جاری ہے)”چلا کیوں رہے ہو؟کوئی نہیں ”آ“ رہا۔“ اشعر مذاق کرتے ہوئے بولا۔”ارے ہڈیاں تڑواؤ گے؟بات مان کیوں نہیں لیتے؟“ سمید کے لہجے میں بے بسی تھی اور اشعر تو بے حس ہو کر تیز رفتاری سے بائیک چلا رہا تھا۔”تمہیں انجوائے کروا رہا ہوں،اسی لئے تمہاری بات نہیں مان رہا۔“ اشعر کو بہت مزہ آ رہا تھا۔”ارے اسے انجوائے کروانا کہتے ہیں؟مجھے تمہارے ساتھ آنا ہی نہیں چاہئے تھا،غلطی کر دی تمہارے ساتھ آ کر!“ سمید اُسے گالیاں دے رہا تھا۔اشعر کے کان سُن سُن پک گئے تو اُس نے بائیک روک دی۔”میری بائیک سے فوراً اُترو۔“ اشعر سنجیدہ تھا۔”ہاؤں!“ سمید سمجھ نہ پایا۔”ہاؤں میاؤں چھوڑو اور اُتر جاؤ!“ یہ سنتے ہی سمید فوراً اُتر گیا۔”کسی ڈرپوک دوست کیلئے میری بائیک پر کوئی جگہ نہیں ہے۔“ اشعر نے ڈرامائی انداز میں کہا۔”ہی ہی ہی“ سمید کو ہنسی آ رہی تھی۔”پہلے تو ڈر رہے تھے،اب ہنس رہے ہو،بہت عجیب ہو۔“اشعر منہ کا نقشہ بگاڑتے ہوئے بولا۔”بائیک کی تیز رفتاری سے میں ڈر رہا تھا،تمہاری اس حرکت پر ہنس رہا ہوں۔“ وہ بدستور ہنسے جا رہا تھا۔”اچھا اب بیٹھو،تمہیں گھر چھوڑ دوں۔“ اُس نے بائیک اسٹارٹ کی۔سمید بیٹھ گیا اور اُس نے چلا دی۔راستے میں اُسے مزہ آ رہا تھا،سو اُس نے رفتار زیادہ کر دی اور یوں وہ اور زیادہ کرتا گیا۔”احمق!پھر وہی کر رہے ہو ناں!“ سمید چلایا۔اشعر پر کوئی اثر نہ ہوا،وہ اُسے سمجھا رہا تھا کہ بائیک تیز رفتار سے نہیں چلانی چاہئے،انسان حادثے سے دوچار ہو سکتا ہے مگر وہ اشعر بہت مست تھا۔”بے وقوف!رفتار کم کرو۔“ یہ کہتے ہوئے اُس نے اشعر کو اس طرح دھکا دیا کہ دونوں بائیک کے ساتھ گھسیٹتے ہوئے ہڈیاں تڑوا بیٹھے۔”میں ناں کہتا تھا کہ آہستہ چلاؤ۔“ وہ ٹھیک ہو گئے تو سمید نے کہا،اشعر کی نظریں شرمندگی سے جھک سی گئیں۔ " صبح کا بھولا (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2449,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/subha-ka-bhola-akhri-hissa-2449.html,"ریحانہ اعجازایک ہفتے تک مارا مارا پھرتا رہا۔لیکن کہیں کوئی ٹھکانہ،یا نوکری نہ ملی۔جمع پونجی کو ڈر ڈر کر استعمال کر رہا تھا کہ پیچھے کون سی کوئی جائیداد چھوڑ کر آیا تھا جہاں سے اسے روپے بھیجے جاتے۔اُلٹا ابو کو قرض دار کر آیا تھا۔دو مہینوں میں ہی حسن کو تارے نظر آ گئے۔گوروں کا ہتک آمیز سلوک اس میں غم و غصے کی لہر دوڑا دیتا لیکن کچھ کہنے،کرنے کی بجائے چپ رہنے پر مجبور تھا۔ان دو مہینوں میں اس نے جوتے پالش کیے۔ہوٹلز میں واش روم صاف کیے۔بڑے بڑے مالز میں پوچے لگائے کہ حسن کو اس سے زیادہ اچھی جاب دینے کے لئے کوئی تیار نہ تھا۔چند اپنے جیسے سمندر پار آنے والے،ڈالرز کمانے کے خواب دیکھنے والے ہم وطنوں سے ملاقات ہو گئی تھی۔(جاری ہے)جن کی بدولت ایک گندا،غلیظ کمرہ رات کو سونے کے لئے مل گیا تھا۔دن بھر بیگانوں کے اس جہان میں در در بھٹک کر چار پیسے کماتا جو پیٹ بھرنے لائق رزق بھی مہیا کرنے سے قاصر تھے۔اب حسن کو گھر کی وہ دال روٹی یاد آتی جو تینوں وقت ماں بڑی محبت سے اس کے آگے رکھتی تھی اور وہ سو سو نخرے دکھاتا،اکثر کھانے سے ہی انکار کر دیتا۔اب ہر نوالہ منہ تک لے جاتے ہوئے ماں،باپ،بہن بھائیوں کی یاد سے کلیجہ منہ کو آ تا تھا۔انہی حالات سے اُلجھتا ہوا بیماری پڑ گیا۔کوئی پرسان حال نہ تھا۔کوئی اپنا نہ تھا۔کمرے میں اس کے ساتھ چار نفوس اور بھی رہتے تھے،جو تھے تو پاکستانی لیکن!گوروں کے ساتھ رہ رہ کر ان میں بھی بے حسی کے جراثیم وافر مقدار میں آ چکے تھے۔ہر وقت اپنے آپ میں مگن رہتے۔سب کے پیش نظر صرف ایک ہی بات تھی پیسہ کمانا۔باقی کون مر رہا ہے کون جی رہا ہے اس بات سے بالکل لاتعلق تھے۔ان کا اتنا احسان ہی کافی تھا کہ سر چھپانے کو ٹھکانے دے دیا تھا۔وہ بھی اس لئے کہ سب مل ملا کر اس غلیظ کمرے کا کرایہ دیتے تھے،اور حسن سے بھی وصول کرتے شروع میں لگاتار ایک دو دن کے وقفے سے والدین سے رابطہ کیا لیکن اب کئی کئی دن گزر جاتے رابطہ کیے۔جیب اجازت ہی نہ دیتی تھی۔حسن حالات سے لڑ لڑ کر تھک چکا تھا۔وہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ اپنا ملک ہی اپنا ہوتا ہے۔جہاں روکھا سوکھا کھانے میں،کم قیمت کپڑے،جوتے پہننے میں،کم کمانے میں ذلت نہیں ہوتی۔ذلت کیا ہوتی ہے وہ پردیس میں گزرے دو تین ماہ میں اچھے سے جان گیا تھا۔کئی دن بیماری کی حالت میں گوروں کے واش روم صاف کرکے اتنے پیسے جمع کر پایا کہ اپنے ابو سے رابطہ کرے۔تقریباً پندرہ دن بعد ابو سے رابطہ ہوا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا۔”ابو مجھے وطن واپس آنا ہے،مجھے بلوا لیں ابو جی،پلیز ابو جی کچھ بھی کر کے مجھے بلوا لیں۔“ابو کا دل پسیج گیا۔وہ جانتے تھے جو ماں،باپ کی بات نہیں سنتا،سمجھتا،اسے زمانہ بہت جلد سمجھا دیتا ہے۔باپ آخر باپ ہوتا ہے۔پوری دنیا میں جب کوئی ساتھ نہیں دیتا،ہر شخص گرانے کے درپے ہوتا ہے۔تب ماں اور باپ ہی ہوتے ہیں جو انگلی تھام کر ایک بار پھر نئے سرے سے چلنا سکھاتے ہیں۔بالکل ویسے ہی جیسے نو دس مہینے کی عمر میں لڑکھڑا کر چلنے والے بچے کو پہلے کھڑا ہونا اور پھر قدم اٹھانا سکھاتے ہیں۔پردیس میں لاچار پڑے حسن کو وقت نے ایک ہی ٹھوکر میں سمجھا دیا تھا کہ اپنے ہی ہمیشہ کام آتے ہیں۔نہ جانے ابو نے کتنی بھاگ دوڑ کی،کیا کیا جتن کیے،کہاں سے پیسوں کا انتظام کیا اور بالآخر ڈیڑھ ماہ مزید،ذلت،اذیت و تکلیف برداشت کرنے کے بعد حسن نے اپنے وطن کی سرزمین پر پاؤں رکھا تو اس کی نس نس میں وطن کی محبت ایک انگڑائی لیتے ہوئے بیدار ہو گئی۔حسن کے مدقوق،بیمار جسم میں جیسے توانائی سرایت کر گئی۔وطن کی ہواؤں نے آگے بڑھ کر حسن کا خیر مقدم کیا تو حسن کا دل ان سبک خرام ہواؤں کے سنگ جھوم اُٹھا۔ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی اس نے وطن کی مٹی کو اُٹھا کر چوم لیا۔بے اختیار دل پکار اُٹھا ”میرے وطن تجھے سلام۔“سامنے ہی ابو بانہیں پھیلائے کھڑے تھے۔شرمسار احسن ان بانہوں میں سماتا چلا گیا ابو خوش تھے ان کا صبح کا بھولا شام سے پہلے گھر لوٹ آیا تھا۔ " مگرمچھ کے دانت - تحریر نمبر 2448,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/magarmach-ke-dant-2448.html,"احمد عدنان طارق‘فیصل آبادایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کہیں ایک مگرمچھ رہتا تھا جو بڑا ہنس مکھ تھا۔اُس کا ہمیشہ دل کرتا تھا کہ وہ لوگوں سے گھلے ملے اور اُن سے گپ شپ لگائے لیکن افسوس کہ وہ زیادہ لوگوں سے مل نہیں سکا تھا نہ کبھی اُس نے لوگوں سے گپ شپ لگائی تھی اور نہ ہی اُسے کوئی سیر کیلئے لے کر گیا تھا بچو!اس کی بھلا وجہ کیا تھی؟مگرمچھ اتنا اچھا اور ہنس مکھ تھا کہ وہ ہر وقت مسکراتا رہتا تھا۔وہ جب بھی مسکراتا تو اُس کے سارے دانت نظر آتے۔مگرمچھ کے منہ میں اَن گنت لمبے نوکیلے دانت تھے جو مسکرانے پر سورج کی روشنی سے مزید چمکتے رہتے تھے۔اگر آپ کسی مگرمچھ کی طرف دیکھ کر مسکراؤ اور وہ جوابی طور پر تمہاری طرف دیکھ کر مسکرائے تو کیا آپ اُس کے پاس جا کر اُس سے ہاتھ ملاؤ گے؟کبھی نہیں بلکہ آپ مگرمچھ کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر فوراً وہاں سے نو دو گیارہ ہو جاؤ گے اور یہی مگرمچھ کے ساتھ ہو رہا تھا۔(جاری ہے)وہ جب بھی مسکراتا لوگ اُسے دیکھ کر بھاگ جاتے۔وہ کبھی وہاں کھڑے ہو کر مسکراتے نہیں رہتے تھے۔ایک دن وہ بیچارہ مگرمچھ خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہا تھا،وہ قریبی قصبے میں آ کر گلیوں کی سیر کرنے لگا۔اُسے راستے میں جو بھی ملا وہ سب کو دیکھ کر مسکراتا رہا۔ایک جگہ بس کے انتظار میں لوگ قطار میں لگے ہوئے تھے۔اُس نے سب کو دیکھ کر دانت نکوسے لیکن کسی ایک نے بھی اُسے جوابی مسکراہٹ نہیں دی۔بلکہ جس کا منہ جس سمت میں ہوا وہ اُدھر بھاگ نکلا۔مگرمچھ حیران ہو کر خود کو کہنے لگا ”اوہو میری وجہ سے یہ بس پر سوار نہیں ہو سکتے پھر اکیلے ہی وہ ایک بڑی دکان میں داخل ہوا اور وہاں ملازموں کو دیکھ کر مسکرایا تو اُن میں سے کئی بوریوں کے پیچھے چھپ گئے اور ایک تو ایک الماری کے اوپر ہی چڑھ گیا۔مگر مچھ اِدھر اُدھر دیکھ کر کہنے لگا”آخر یہ سب گاہک کدھر چلے گئے ہیں؟پھر انتہائی اُداس ہو کر وہ دکان سے نکل کر گلی میں آگے کو چلا گیا۔ابھی وہ گلی میں زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ سفید کوٹ پہنے ایک شخص دوڑتا ہوا اُس کی طرف آیا۔مگرمچھ نے سوچا کہ آخری مرتبہ میں اس کو خوشی خوشی ملتا ہوں،اُس نے فوراً مسکرا کر اپنے سارے دانت نکوس دیئے۔اُس شخص نے نہ صرف مگرمچھ کو دیکھ کر دانت نکالے بلکہ مگرمچھ کو دونوں بازوؤں سے گلے بھی لگا لیا اور مسکرا کر کہنے لگا:”کیا مسکراہٹ ہے،میں دانتوں کا ڈاکٹر ہوں اور تمہارے دانت شاید دنیا میں سب سے خوبصورت دانت ہیں،کیا تم میری دکان پر میرے ساتھ کام میں میرا ہاتھ بٹاؤ گے؟تم لوگوں کو دکھانا کہ دانتوں کو کیسے صاف کرتے ہیں؟تو وہ شوق سے دانت صاف کریں گے اور اُن کے دانت بھی یوں چمکنے لگیں گے جیسے تمہارے۔“مگرمچھ نے ہامی بھر لی۔جلد ہی لوگ بھاگم بھاگ دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس آنے لگے۔وہ بہت شوق سے دیکھتے تھے کہ ایک مگرمچھ دانت صاف کیسے کرتا ہے؟اب ہر کوئی مگرمچھ کو دیکھ کر مسکراتا ہے اور وہ بڑے فخر سے اُنہیں دیکھ کر مسکراتا ہے اور اُس کے مسکرانے سے اُس کے دانتوں کی قطار چمکتی ہے اور زیادہ کیونکہ اب وہ دانتوں کو صاف بھی کرتا ہے۔ " ظالم ملکہ - تحریر نمبر 2447,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zalim-malka-2447.html,"نادیہ محمود․․․․پشاورجنگل کے قریبی جزیرے کے برفانی علاقے میں ایک ظالم ملکہ حکومت کرتی تھی جہاں ملکہ کی اجازت کے بغیر کوئی چڑیا بھی پَر نہیں مار سکتی تھی۔وہ ہر کام اپنے طریقے اور رُعب سے کروانے کی عادی تھی مگر یہ ملکہ اب تک اولاد سے محروم تھی۔یہ شاید اُس کی بدنصیبی تھی یا پھر رعایا کی بددعا کہ ملکہ اتنے عرصہ تک صاحب اولاد نہ ہو سکی۔پھر ایک روز ایسی اَنہونی ہوئی کہ کسی کو اُس پر یقین نہیں آیا،ملکہ کے ہاں ایک خوبصورت سی نرم نرم پھولے پھولے گالوں والی گڑیا نے جنم لیا،جو اتنی خوبصورت تھی کہ جو بھی اُسے دیکھتا،دیکھتا ہی رہ جاتا۔ملکہ نے اُس کا نام شہر بانو رکھا۔دن گزرتے گئے اور شہر بانو بڑی ہونے لگی لیکن ایک حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اولاد کی دولت پا کر بھی ملکہ کے رویہ میں کوئی فرق نہیں آیا تھا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مغرور ہو گئی۔(جاری ہے)شہزادی شہر بانو کبھی کبھی اپنی ماں کے رویے سے پریشان ہو جاتی تھی۔وہ سمجھتی تھی کہ سب انسان برابر ہوتے ہیں اور ان میں کوئی اونچ نیچ نہیں ہوتی۔رعایا بھی اپنی شہزادی شہر بانو سے بہت پیار کرتی تھی۔ایک روز شہزادی نے اپنی ظالم ماں کو سبق سکھانے کا سوچا اور پھر اُس نے برفانی جزیرے میں برف کا مصنوعی طوفان پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ملکہ تمام چیزوں سے محروم ہو جائے اور اُس میں بھی محرومی کا احساس پیدا ہو۔اگلے روز ملکہ اپنے وزیر کی کسی غلطی پر گرج رہی تھی کہ محل کا دربان پریشانی کے عالم میں ملکہ کو طوفان کی خبر دینے پہنچا۔یہ سُن کر وہ سخت پریشان ہو گئی۔اب تو اُسے اپنے سب ظلم یاد آنے لگے جو اُس نے رعایا پر ڈھائے تھے۔اُدھر طوفان بڑھتے بڑھتے محل کے دروازے تک پہنچ گیا تو ملکہ اپنے رویوں پر لوگوں سے معافی مانگنے لگی اور آئندہ کسی پر ظلم نہ کرنے کا عہد کیا۔شہزادی شہر بانو نے جب یہ دیکھا تو اُس نے مصنوعی طوفان کو ختم کر دیا۔پھر اُس جزیرے پر لوگ ہنسی خوشی رہنے لگے۔کہتے ہیں وہاں برف کی منجمد زندگی بھی خوش حال دکھائی دیتی ہے اور ہر تنگی میں بھی آسانی نظر آتی ہے۔ " اتحاد نہ ہونے کا نقصان - تحریر نمبر 2446,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ittehad-na-hone-ka-nuqsan-2446.html,"روبینہ نازیہ بہت پرانی کہانی ہے،کسی جنگل میں چار گائیں رہا کرتی تھیں جو ہمیشہ ساتھ دیتیں،ساتھ چیرتیں،ساتھ کھاتیں پیتیں اور خطرے میں ہر ایک کا بہت خیال رکھتی تھی۔اگر کبھی کسی کو کسی مشکل میں دیکھتیں تو خود اس کی مدد کے لئے آگے آ جاتیں۔ان چاروں گایوں کا آپس کے اتحاد کا یہ حال تھا کہ کبھی شیروں اور چیتوں کو بھی ان پر حملہ کرنے یا انہیں ہڑپ کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی مگر پھر بھی سبھی شیر اور چیتے ان چاروں پر نظریں رکھا کرتے تھے اور اس تلاش میں رہتے تھے کہ جیسے ہی موقع ملے وہ ان پر حملہ کر کے انہیں کھا جاتیں۔لیکن ان میں ایک شیر نے خاص طور سے ان کی نگرانی شروع کر دی اور انہیں اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا تھا۔اس کے باوجود اسے کبھی ایسا بہترین موقع نہیں ملا جب وہ اپنی اس خواہش کو پورا کر پاتا اور اس کے نتیجے میں ان گایوں کو اپنا شکار بنا لیتا۔(جاری ہے)ایک روز نہ جانے کیا ہوا کہ ان چاروں گایوں کی بدقسمتی تھی کہ ان میں آپس میں جھگڑا ہو گیا اور وہ چاروں ایک دوسری سے جدا ہو کر الگ الگ اپنی مرضی کی چراگاہ میں گھاس چرنے لگیں۔جیسے ہی یہ بات شیر اور چیتے کے علم میں آئی تو وہ خوشی سے کھل اُٹھے چنانچہ انہوں نے ان گایوں کی اس غلطی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انہیں شکار کرنے کا فیصلہ کیا۔کافی سوچ بچار کے بعد شیر اور چیتے نے ان پر حملہ کرنے کا موقع تلاش کر ہی لیا۔انہوں نے پہلے سے خود کو جنگل میں جھاڑیوں کے پیچھے چھپا لیا اور اکیلی گائے کا انتظار کرنے لگے جیسے ہی ان چاروں میں سے ایک گائے تن تنہا ان کے قریب جھاڑیوں کے پاس آئی تو ان دونوں نے ایک ساتھ اس پر حملہ کر دیا اور لمحوں میں اپنے کھانے کا انتظام کر لیا۔اس طرح ایک ایک کر کے چاروں گائیں اس شیر اور چیتے کا نشانہ بن گئی۔دوستوں اس کہانی کا سبق یہ ہے کہ اتحاد میں سلامتی ہے جو الگ رہتے ہیں اور مل کر نہیں رہتے وہ بہت جلد دشمن کا شکار بن جاتے ہیں۔ " صبح کا بھولا (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2445,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/subha-ka-bhola-pehla-hissa-2445.html,"ریحانہ اعجازحسن سمیت چار بہن بھائی اپنی امی،ابو کی آنکھوں کے تارے تھے۔سب سے بڑا احسن،اس سے چار سال چھوٹی حرا،حرا سے دو سال چھوٹی حنا اور پھر سب سے چھوٹا احسن۔ابو گورنمنٹ کے ادارے میں کلرک تھے۔قلیل آمدنی،چار بچے۔بچوں کی پڑھائی لکھائی گھر کے اخراجات،زندگی کسی نہ کسی طرح چل ہی رہی تھی ایسے میں بھی امی اور ابو ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے،جن کے پاس رہنے کے لئے باپ دادا کی عنایت کردہ سر پر ایک چھت بھی تھی اور تین وقت پیٹ بھر کر کھانے کو رزق بھی۔چاروں بچوں کو گورنمنٹ سکول میں تعلیم دلوائی جا رہی تھی۔آج کی نئی نسل میں ہر بچہ چاہے وہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہے ذہانت کی دولت سے مالا مال ہے۔بس اُسے صحیح اور مثبت رہنمائی کی ضرورت ہے۔(جاری ہے)امی،ابو کے بھی چاروں بچے ذہین تھے۔امی سادہ کم گو خاتون تھیں تھوڑی بہت پڑھی لکھی بھی تھیں۔بچوں پر پوری توجہ دینے کی کوشش کرتی تھیں۔خود ہی انہیں ہوم ورک کرواتیں۔قناعت کے سبق دیتیں لیکن حسن بہت ناشکرا بچہ تھا۔باقی بچے اپنے حال میں مگن تھے۔جو مل جاتا کھا لیتے۔جو مل جاتا پہن لیتے لیکن حسن جوں جوں بڑا ہو رہا تھا اس کی ڈیمانڈ بڑھتی جا رہی تھیں۔اُسے اچھے کھانے،اچھے کپڑوں،قیمتی جوتوں کی طلب رہنے لگی تھی۔وہ اپنی غربت پر کڑھتا رہتا۔اس نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ جتنا پڑھ سکے گا پڑھے گا پھر کسی بھی طریقے سے اس ملک سے نکل جاؤں گا جہاں غربت اور ڈپریشن کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔سکول میں تو سب ایک جیسے طبقے کے بچے پڑھتے تھے کہ ذرا سا متمول گھرانہ بھی پرائیویٹ سکولز ہی ترجیح دیتا ہے۔البتہ گورنمنٹ کالج میں اچھے امیر گھرانوں کے بچے بھی بڑی تعداد میں زیر تعلیم تھے۔حسن کالج میں گیا تو اس نے کئی خوشحال لڑکوں کو اپنی موٹر سائیکل،گاڑی چلاتے دیکھا تو مزید احساس کمتری کا شکار ہونے لگا۔رہی سہی کسر ہالی ووڈ کی موویز نے پوری کر دی جو وہ دوستوں کے ساتھ مل کر ان کے گھر میں بڑی دلچسپی سے دیکھا کرتا تھا۔موویز میں غیر ممالک کے حسین و دلفریب مناظر،چمچماتی گاڑیاں،پیسہ اُڑاتے،موج مستی کرتے نوجوان،بے فکری و لاپرواہی کی اِک ایسی دنیا جہاں کسی کو کوئی غم نہیں ہوتا۔یہ سب دیکھ دیکھ کر حسن دن رات اس فکر میں رہنے لگا کہ کسی طرح وہ بھی امریکہ،لندن پیرس یا کسی بھی ملک پہنچ جائے۔وہاں جا کر ڈھیر سارا روپیہ،پیسہ کمائے،اپنے ماں باپ کو بھی عیش کروائے اور بہن بھائیوں کو بھی۔امی،ابو اس کے ارادوں سے گاہے گاہے آگاہ ہوتے رہتے تھے جو وہ کھانا کھاتے ہوئے،سادہ کھانوں کو دیکھ کر مرغن کھانوں کے تصور میں آہیں بھرتے ہوئے اپنے ماں باپ کے گوش گزارتا۔”دیکھنا ابو جی،میں ایک دن امریکہ جاؤں گا،وہاں اتنا روپیہ کماؤں گا کہ ہر مہنگے سے مہنگا کھانا،کپڑا،جوتا،گاڑی،ایک منٹ میں خرید لوں گا،میں کبھی پاکستان واپس نہیں آؤں گا۔بلکہ آپ سب کو بھی وہیں بلا لوں گا،یہاں بھلا کیا رکھا ہے۔“اکثر یونہی کھانا سامنے آنے پر وہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتا اور لاحاصل خواہشات میں گھرا اپنے ملکہ کو بُرا بھلا کہتے ہوئے غیر ممالک کی شان میں قصیدے پڑھنے لگتا۔اسے لگتا وہاں ڈالر درختوں پر لگتے ہیں جو بنا محنت کے ہی حاصل ہو جاتے ہیں۔امی،ابو کئی بار اسے پیار محبت سے سمجھا چکے تھے۔”بیٹا،اپنا ملک اپنا ہوتا ہے۔تھوڑا صبر سے کام لو۔جب تم پڑھ لکھ جاؤ گے،جاب پر لگو گے تو انشاء اللہ ہمارے گھر میں بھی خوشحالی آ جائے گی۔تم اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہو اگر تم ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تو ہم کیا کریں گے؟ابو اسے ہمیشہ صبر کی تلقین کرتے۔”جاب۔“حسن استہزائیہ ہنستا۔جاب تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے میں کوئی انجینئر بن جاؤں گا،اور مجھے اچھی کمپنی میں جاب ملے گی۔یا میں وزیر اعظم بن جاؤں گا۔بی ایس سی کے بعد کون سی اچھی جاب مل جاتی ہے؟زیادہ سے زیادہ میں بھی آپ کی طرح کہیں کلرک لگ جاؤں گا۔“تلخ لہجے میں بولتا ہوا حسن ماں باپ کا دل دکھا جاتا۔وہ بھول جاتا کہ اتنی تعلیم کے ساتھ جب پاکستان میں کوئی جاب ممکن نہیں تو باہر کے ملک میں کیسے مل سکتی ہے؟بی ایس سی کا آخری پیپر دیتے ہی حسن نے باہر جانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ایسے رزلٹ کا بھی انتظار نہیں تھا۔بی،ایس،سی بھی اس نے مارے باندھے،امی،ابو کی وجہ سے کیا تھا۔ماں باپ نے لاکھ دہائی دی کہ کیسے باہر جاؤ گے؟کیسے بنا کسی بڑی ڈگری کے باہر جاب ملے گی؟لیکن حسن کی ایک ہی ضد تھی،ایسے ہر حال میں باہر جانا ہے۔دوستوں کی منتیں کیں،کئی ایک سے قرض کے نام پر رقم مل گئی جسے جلد لوٹانے کا وعدہ کر لیا۔ابو نے اس کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنے محکمے سے بطور قرض بڑی رقم لے کر حسن کو باہر بھجوانے کا انتظام کیا۔بالآخر حسن لندن پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔مارے خوشی کے حسن کے پاؤں جیسے زمین پر نہ ٹکتے تھے۔سب سے پہلے حسن کے لئے رہائش کا مسئلہ تھا۔کوئی جان پہچان والا نہ تھا۔تین دن حسن نے فٹ پاتھ پر گزار دیئے۔لیکن ابھی لندن پہنچنے کا سرور تکلیف وہ حقائق پر حاوی تھا۔نوکری کی تلاش نے اس کے پاؤں میں چھالے ڈال دیئے تھے۔ہر کوئی اس کی تعلیم سن کر ہری جھنڈی دکھا دیتا ہے۔اب حسن کو صحیح معنوں میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوا تھا۔(جاری ہے) " کہانی آدھی آدھی - تحریر نمبر 2444,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kahani-aadhi-aadhi-2444.html,"جاوید بساممظہر صاحب بچوں کے لئے کہانیاں لکھتے تھے۔ایک شام وہ کسی سوچ میں گم اپنی میز پر بیٹھے تھے۔آج انھیں خاص نمبر کے لئے کہانی لکھنی تھی۔وہ دیر تک سوچتے رہے،مگر ذہن میں کوئی اچھا خاکہ نہیں آ سکا۔جب ایسا ہوتا تو وہ پہلے کوئی دلچسپ سا تصور قائم کر لیتے تھے۔ان کی ڈرائنگ بہت اچھی تھی۔آج بھی انھوں نے ایسا ہی کیا۔سفید کاغذ نکالا،پنسل تراشی اور کھڑکی سے باہر نظر دوڑائی۔جہاں نیم کے درخت پر چڑیاں چہچہا رہی تھی۔ان کا ذہن کسی خاکے کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔اچانک انھیں خیال آیا،کیوں نہ بحری قزاقوں پر کہانی لکھی جائے۔اتفاق سے انھوں نے پہلے اس طرح کی کہانی نہیں لکھی تھی۔ان کا ہاتھ کاغذ پر چلنے لگا۔جلد ہی ایک بادبانی کشتی کا خاکہ کاغذ پر اُبھر آیا۔(جاری ہے)پھر انھوں نے تین بحری قزاق بنائے۔ان کے حلیے بہت عجیب و غریب اور چہرے خوف ناک تھے۔پھر کچھ سوچ کر کشتی کی ایک طرف لوہے کا ایک پنجرہ بنایا اور اس میں شیر کی صورت اُبھار دی۔پھر وہ آگے بڑھے اور سنہری بالوں والا تقریباً دو سال کا ایک خوبصورت بچہ بھی ایک طرف بیٹھا دیا،پھر فوراً خیال آیا،بھلا خوف ناک قزاقوں کے ساتھ اتنے معصوم بچے کا کیا کام؟یہ میں نے غلط بنا دیا ہے۔وہ اسے مٹانے لگے تھے کہ ان کے اندر کے تخلیق کار نے کہا:”اسے مت مٹاؤ۔اگر تمہیں منفرد کہانی لکھنی ہے تو اسے کہانی میں شامل کر لو۔“”مگر بحری قزاق اپنے ساتھ بچوں کو لے کر نہیں گھومتے۔“مظہر صاحب بولے۔”کیوں؟کیا قزاق انسان نہیں ہوتے؟ان کے ساتھ بچے نہیں ہو سکتے؟“تخلیق کار نے کہا۔مظہر صاحب نے گھبرا کر سر ہلایا اور بولے:”اس پر کہانی لکھنا بہت مشکل ہو گا۔“”نئے اور مشکل خاکوں سے ہی منفرد کہانیاں تخلیق ہوتی ہیں۔“تخلیق کار بولا۔آخر مظہر صاحب نے اسے جوں کا توں رہنے دیا۔پھر انھوں نے کہانی کا تانا بانا بُننا شروع کیا اور تین کردار تراشے جو بچپن کے دوست تھے۔وہ سمندر کے کنارے ایک بستی میں رہتے تھے اور بنیادی طور پر ماہی گیر تھے۔ان میں ایک لکھ پڑھ سکتا تھا۔ان کے دل میں لالچ پیدا ہو گیا تو انھوں نے بحری مسافروں کو لوٹنا شروع کر دیا۔وہ سمندر میں دور تک نکل جاتے اور کوئی اکیلی کشتی گھیر کر لوٹ لیتے۔انھوں نے اپنی بستی بھی چھوڑ دی تھی اور ایک چھوٹے غیر آباد جزیرے پر اپنی خفیہ پناہ گاہ بنا لی تھی۔جہاں وہ لوٹ کا مال جمع کرتے اور جب تھک جاتے تو کچھ دن آرام کرتے تھے۔دن یونہی گزرتے رہے۔ایک دن سفر کرتے ہوئے وہ دور ایک جنگل کے کنارے جا نکلے۔انھیں بھوک لگ رہی تھی۔انھوں نے سوچا چلو جنگل میں پھل تلاش کرتے ہیں۔وہ جنگل میں داخل ہوئے تو انھیں وہاں ایک شیر کا بچہ اکیلا گھومتا نظر آیا۔دراصل شیرنی شکار کے پیچھے کہیں دور چلی گئی تھیں۔انھوں نے بچے کو پکڑا اور اپنی کشتی میں لے آئے۔ان کا خیال تھا کہ اسے بیچ کر کچھ رقم حاصل کر لیں گے،مگر انھیں کوئی گاہک نہیں ملا۔اس دوران شیر کا بچہ بھی ان سے مانوس ہو گیا تھا۔وہ اس کے ساتھ خوب کھیلتے۔انھوں نے ایک پنجرہ لے لیا تھا اور وہ ان کے پاس پلتا رہا۔دن گزرتے رہے۔ایک دن انھوں نے چھوٹی سی جہاز نما ایک کشتی دیکھی۔اس پر کچھ لوگ نظر آ رہے تھے۔ایسا لگتا تھا کہ وہ تفریح کے لئے نکلے ہیں۔وہ تینوں کشتی کے قریب چلے گئے اور ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے کشتی میں کود گئے،پھر اس میں موجود لوگوں پر قابو پا کر انھیں باندھ دیا۔وہاں انھیں زیادہ رقم تو نہیں ملی۔انھوں نے بس جیب سے نقدی،گھڑیاں اور عورتوں کے زیورات اُتروا لیے۔پھر وہ کشتی کے کیبن میں گئے،جہاں انھوں نے ایک بچے کو بستر پر سوتے دیکھا۔انھوں نے فیصلہ کیا کہ بچے کو اپنے ساتھ لے چلتے ہیں۔اس کے بدلے تاوان حاصل کر لیں گے،مگر اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر انھیں یاد آیا کہ ہم ان لوگوں کا نام و پتا تو جانتے نہیں۔اس پر وہ بہت ہنسے اور ایک دوسرے کا مذاق اُڑاتے رہے۔پھر وہ سوچنے لگے کہ بچے کا کیا کریں۔بچہ دو سال کا تھا۔وہ کئی دنوں تک سوچتے رہے،مگر کوئی حل سمجھ میں نہیں آیا۔مظہر صاحب ابھی یہاں تک لکھ پائے تھے کہ انھیں کوئی کام یاد آ گیا اور وہ اُٹھ گئے۔کئی دن گزر گئے۔انھیں کام سے فرصت نہیں مل رہی تھی۔ایک ہفتے بعد انھوں نے پھر وہ کہانی نکالی اور اس پر کام شروع کیا۔جہاں تک لکھ چکے تھے،پہلے انھوں نے وہاں تک پورا پڑھا۔پھر سوچ میں ڈوب گئے،مگر کہانی کو آگے بڑھانے کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔انھوں نے آہ بھری اور بڑبڑائے،اس بچے کے ساتھ یہ کہانی آخر کیسے آگے بڑھ سکتی ہے؟وہ اگلے کئی دن تک کہانی کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے رہے،لیکن ناکام رہے۔آخر انھوں نے وہ مسودہ ایک طرف ڈال دیا اور خاص نمبر کے لئے دوسری کہانی لکھنے بیٹھ گئے۔جلد ہی انھوں نے وہ مکمل کر لی اور ایک دو دن بعد رسالے کو بھیج دی۔وقت گزرتا رہا۔وہ اپنے دیگر کام کرنے کے ساتھ ساتھ کہانیاں بھی لکھتے رہے۔ایک دن جب وہ اپنی میز پر کوئی کاغذ ڈھونڈ رہے تھے تو قزاقوں کی کہانی کا مسودہ ان کے سامنے آ گیا۔انھیں خیال آیا اس کو ضائع کر دینا چاہیے۔انھیں نامکمل کہانیوں سے بہت چِڑ تھی۔وہ عموماً پورا خاکہ ذہن میں آنے کے بعد لکھنا شروع کرتے تھے،مگر جلدی میں وہ اس کہانی کو یوں ہی شروع کر بیٹھے تھے۔وہ مسودہ پھاڑنے ہی والے تھے کہ ان کے اندر کے تخلیق کار نے کہا،تمہیں ایک ہفتہ اور دیکھ لینا چاہیے۔وہ کچھ دیر سوچتے رہے پھر بولے:”ٹھیک ہے،اگر ایک ہفتے میں یہ کہانی آگے نہیں بڑھی تو میں اسے ضائع کر دوں گا۔“یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئے۔ایک ہفتہ جلد ہی گزر گیا۔وہ اپنے روزمرہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ کہانی پر بھی سوچتے رہے۔آخری دن ان کے ذہن میں پوری کہانی آ گئی۔دفتر سے آنے کے بعد انھوں نے شام کی چائے پی اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔وہ بہت پُرجوش تھے۔انھوں نے اپنی میز صاف کی اور فائل میں سے بحری قزاقوں کی کہانی نکالی تو دیکھا اس پر کہیں کہیں روشنائی گری ہوئی ہے۔وہ کچھ حیران ہوئے۔پھر انھوں نے صفحے پلٹے تو حیرت سے اُچھل پڑے۔انھوں نے اس کہانی کے چار صفحے لکھے تھے،مگر اب وہاں آٹھ نظر آ رہے تھے۔وہ حیرت سے مسودے کو دیکھ رہے تھے۔جس کے باقی صفحات کسی اور کے ہاتھ کے لکھے ہوئے تھے۔انھوں نے پڑھنا شروع کیا،چار صفحوں بعد کسی نے لکھا تھا۔(مظہر صاحب!آپ یہاں آ کر اٹک گئے اور کوشش کے باوجود کچھ نہیں لکھ سکے۔اب آپ نے مسودہ ضائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔جو ہمیں قبول نہیں،لہٰذا ہم خود اس کہانی کو مکمل کر رہے ہیں۔یوں آپ کی مشکل بھی آسان ہو جائے گی اور ہم بھی مطمئن ہو جائیں گے۔چلیں اب شروع کرتے ہیں۔)تینوں قزاق اسی طرح کشتیوں کو لوٹتے رہے،مگر انھوں نے وہ علاقہ چھوڑ دیا تھا اور دور نکل گئے تھے،کیونکہ بچے کو اغوا کرنے کے بعد پولیس ان کی تلاش میں لگی تھی۔آخر وہ بچتے بچاتے ایک بڑے شہر کے کنارے آ نکلے۔وہ بہت تھک گئے تھے۔انھوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ عرصہ شہر میں گزارا جائے۔وہاں انھیں کوئی نہیں جانتا تھا۔انھوں نے کشتی ایک محفوظ جگہ کھڑی کی،شریفانہ حلیہ بنایا اور بچے کو لے کر شہر میں آ گئے۔شیر انھوں نے چڑیا گھر والوں کو بیچ دیا تھا۔بچہ جسے وہ عدی کہتے تھے۔اب چھے سال کا ہو گیا تھا۔وہ شہر آ کر بہت حیران تھا،ہوش سنبھالنے کے بعد وہ پہلی فعہ زمین پر آیا تھا۔انھوں نے ایک اچھے علاقے میں گھر کرائے پر لے لیا تھا۔وہ روزانہ عدی کو ساتھ لے کر نکلتے اور اسے نئے کپڑے،مٹھائیاں اور کھلونے خرید کر دیتے اور ہنستے کھیلتے واپس آتے۔وہ اسے کتابوں میں سے کہانیاں پڑھ کر سناتے اور باغ میں لے جاتے،جہاں طرح طرح کے جھولے لگے ہوتے تھے۔ان میں بیٹھ کر عدی خوشی سے پھولے نہیں سماتا تھا۔تینوں قزاق بھی بہت خوش تھے۔زندگی کا یہ رُخ انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔انھیں وہاں رہتے ہوئے ایک مہینہ ہوا تھا کہ ایک صبح انھیں ٹن ٹن ٹن ․․․․ گھنٹا بجنے کی آواز سنائی دی۔وہ حیران ہو کر گھر کے آگے بنے باغیچے میں آئے تو بہت سارے بچوں کو دیکھا جو تیزی سے سڑک پار بنے ایک اسکول میں داخل ہو رہے تھے۔گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد اسکول کھل گئے تھے۔سب بہت خوش تھے۔عدی حیرت سے ان بچوں کو جاتا دیکھ رہا تھا۔اب یہ روز کا معمول بن گیا۔صبح اور چھٹی کے وقت عدی باہر نکل آتا اور اسکول کے بچوں کو جاتا دیکھتا۔وہ اسے دیکھ کر مسکراتے اور ہاتھ ہلاتے تھے۔ایک دن چھٹی کے بعد ایک بچہ اس کے پاس چلا آیا۔دونوں باتیں کرنے لگے۔عدی نے اسے گملے میں سے پھول توڑ کر دیے۔اس نے عدی کو چاکلیٹ کھلائی۔یوں ان میں دوستی ہو گئی۔ایک دن جب تینوں قزاق کھانے کے میز پر بیٹھے تھے۔عدی نے اچانک سوال کیا:”میں اسکول کیوں نہیں جاتا؟“اس کا سوال سن کر تینوں ایک دم خاموش ہو گئے۔وہ ایک دوسرے سے نظریں چُرا رہے تھے۔پھر بڑا قزاق بولا:”تمہیں یہ خیال کیسے آیا؟“”میرے دوست نے آج مجھ سے پوچھا تھا۔وہ کہانیاں پڑھ سکتا ہے،لیکن مجھے پڑھنا نہیں آتا۔“بڑے قزاق نے سر ہلایا اور کہا:”تم ابھی چھوٹے ہو جب بڑے ہو جاؤ گے تو تم بھی اسکول جاؤ گے۔“باقی دونوں قزاقوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔”مگر میرا دوست بھی چھے سال کا ہے۔وہ تو اسکول جاتا ہے؟“عدی نے پھر سوال کیا۔”اچھا ہم تمہیں جلد ہی اسکول میں داخل کرا دیں گے۔“بڑے قزاق نے کہا۔جب رات کو عدی سو گیا تو تینوں میں بحث ہونے لگی۔دو قزاقوں کا کہنا تھاہمیں یہ شہر چھوڑ کر سمندر پر نکل جانا چاہیے۔جب کہ بڑا قزاق کہہ رہا تھا کہ ہم ابھی اور یہاں رہیں گے اور عدی کو اسکول داخل کرانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔تینوں دیر تک بحث کرتے رہے۔آخر بڑے قزاق نے دونوں کو قائل کر لیا۔اگلے دن انھوں نے عدی کو اسکول میں داخل کروا دیا۔وہ بہت ذہین تھا اور شوق سے پڑھ رہا تھا۔دن یونہی گزرتے رہے،اسی طرح ایک سال گزر گیا۔ایک دن دونوں قزاقوں نے پھر بڑے قزاق سے بات کی کہ ہم کو اپنے کام پر لوٹ جانا چاہیے،مگر اُس نے انکار کر دیا۔اس کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت بُری زندگی گزاری ہے۔اب ہمیں توبہ کرکے کوئی اور کام کرنا چاہیے۔اس نے دونوں کو مچھلیوں کو کاروبار کرنے کی تجویز دی۔کچھ بحث و مباحثے کے بد وہ راضی ہو گئے۔یوں انھوں نے مجرمانہ زندگی چھوڑی دی اور اچھے انسان بن گئے۔(آگے لکھا تھا،جناب مظہر صاحب!آپ حیران ہوں گے کہ یہ کہانی کس نے مکمل کی ہے۔دراصل یہ کہانی ہم قزاقوں یعنی آپ کے کرداروں نے مکمل کی ہے)۔کہانی پڑھ کر مظہر صاحب حیران رہ گئے،لیکن انھوں نے کہانی کا انجام ذرا مختلف سوچا تھا۔انھوں نے اس کا آخری حصہ یوں لکھا۔قزاقوں نے بُرے کام چھوڑ دیے تھے۔وہ باقی زندگی امن و سکون اور نیک کام کرکے گزارنا چاہتے تھے،مگر وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ پولیس کا ایک سراغ رساں ان کی تلاش میں لگا ہوا ہے۔آخر ایک دن وہ اس شہر میں آ نکلا۔جلد ہی اسے پتا چل گیا کہ وہ تینوں کون ہیں۔ایک رات پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور انھیں پکڑ لیا۔اگلے دن انھیں عدالت میں پیش کیا گیا۔انھوں نے فوراً اپنے جرم قبول کر لیے اور عدالت سے درخواست کی کہ عدی کو یہ نہ بتایا جائے کہ ہم کون تھے اور اب کہاں ہیں،بلکہ یہ کہہ دیا جائے کہ ہم لمبے سفر پر روانہ ہو گئے ہیں۔عدالت نے ایسا ہی کیا۔انھیں لمبی سزا ملی۔اب وہ جیل میں ہیں اور سخت مشقت بھری قید کاٹ رہے ہیں۔عدی کو اس کے ماں باپ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔پیارے بچو!آپ کو معلوم ہے مظہر صاحب نے آخر میں کہانی میں اضافہ کیوں کیا؟اس لئے کہ وہ انصاف پر یقین رکھتے تھے۔کوئی مجرم توبہ کر لے تو اس کے جرائم معاف نہیں ہوتے۔اسے اپنے کیے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔کہتے ہیں دنیا میں وہی معاشرے کامیاب ہوتے ہیں۔جہاں انصاف کی حکمرانی ہو۔ " نیکی کا صلہ - تحریر نمبر 2443,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naiki-ka-sila-2443.html,"عائشہ فرید احمد،میرپور خاصکسی گاؤں میں سمیر نامی لکڑہارا اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہا کرتا تھا۔وہ لکڑیاں بیچ کر اپنا گزارہ کرتا تھا۔ایک دن وہ جنگل میں جا رہا تھا کہ اسے کسی کے رونے کی آواز آئی۔اس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور آگے بڑھ گیا،لیکن آواز پھر آنے لگی۔اب وہ آواز کی سمت بڑھا۔تھوڑی دور جا کر دیکھا تو ایک بچہ رو رہا تھا۔سمیر نے بچے سے رونے کی وجہ پوچھی تو بچے نے کہا کہ میرے ماں باپ کل اس نہر میں ڈوب گئے اور میں اکیلا رہ گیا۔سمیر نے کچھ سوچا اور اس بچے کو گھر لے گیا۔بچے کو بیوی کے حوالے کرکے وہ لکڑیاں کاٹنے چلا گیا۔آج اسے لکڑیاں لے کر بازار جانا تھا۔وہ بازار گیا تو ایک فیکٹری کے سیٹھ نے اس سے کہا کہ آج سے تمہاری ساری لکڑیاں میں ہی خریدوں گا۔(جاری ہے)یہ سن کر سمیر خوش ہو گیا۔سیٹھ نے اسے دوگنی رقم دی تھی۔اس نے بچے کے لئے کچھ کپڑے خریدے اور گھر آ یا۔گھر آ کر اسے پتا چلا کہ بچے کا نام حمزہ ہے۔دوسرے دن وہ پھر بازار گیا۔آج سیٹھ نے اس سے کہا کہ مجھے اپنے کام کے لئے ایک ایمان دار آدمی کی ضرورت ہے اور تم اس کام کے لئے بہترین رہو گے۔کیا تم یہ کام کرو گے؟سمیر نے خوش ہو کر ہاں کر دی اور دوسرے دن سے کام پر جانے لگا۔اس کی آمدنی بڑھ گئی۔سالہا سال بیت گئے۔حمزہ اور سمیر کی بیٹی اب ایک ہو گئے۔سیٹھ اب بوڑھا ہو چکا تھا۔اس نے اپنی فیکٹری سمیر کے نام کر دی اور خود ملک سے باہر اپنے بیٹے کے پاس چلا گیا۔کچھ عرصے میں سمیر نے شہر میں اپنا بنگلہ بنا لیا تھا۔اب وہ لوگ اس بنگلے میں رہنے لگے۔سمیر نے حمزہ کی شادی اپنی بیٹی سے کر دی۔اب وہ لوگ ہنسی خوشی رہنے لگے۔نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ " خواہش اور قربانی (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2442,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khwahish-aur-qurbani-akhri-hissa-2442.html,"ریحانہ اعجازامی جی پائی پائی جمع کرکے میرے جہیز کا سامان تیار کر رہی ہیں۔میرے پیارے بھائی،سمجھو ان باتوں کو۔ہر مہینے تمہاری فیس کے ساتھ ساتھ بجلی،گیس،پانی کے بل۔گھر کے اخراجات،آئے گئے مہمانوں کی خاطر داری۔خاندان بھر میں خوشی و غمی میں آنا جانا،لینا دینا،ہزار طرح کے مسائل ہیں جن سے امی جی،ابو جی نبٹتے ہیں۔تمہیں کبھی کسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔عالی جو بہت غور سے بہن کو سن رہا تھا،ایک دم نفی میں سر ہلانے لگا․․․․”تمہیں وقت پر کپڑے،جوتے،کتابیں،فیس جو تمہاری خواہش ہوتی ہے سب مل رہا ہے۔“کیونکہ تم ہم سب کے لئے اہم ہو،ہم سب کے خواب تم سے وابستہ ہیں۔تمہارے جتنے دوستوں کو میں جانتی ہوں ان سب کے بڑے بھائی اچھے خاصے اسٹیبلشڈ ہیں۔(جاری ہے)باپ الگ کما رہے،جبکہ تم اکلوتے ہو۔تم بھی جلد ہی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ گے۔ابو جی کا بازو بنو گے۔برابر کا کماؤ گے تو یقینا ہمارے گھر میں بھی خوشحالی آئے گی۔پھر ہم بھی ایک بکرا نہیں بلکہ گائے،بیل بھی خرید سکیں گے۔اور قربانی تو محض اللہ کی خوشنودی کے لئے کی جاتی ہے نہ کہ دوستوں کو دکھانے کے لئے؟یا فیس بک پر تصاویر اپلوڈ کرنے کے لئے؟تمہیں کیا پتا،بہت سے لوگ حصہ بھی نہیں ڈال سکتے۔اور ہم جیسے سفید پوش لوگ حصہ ڈال کر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کل جو تم نے ابو جی سے بحث کی اس کے بعد جب میں نے امی ابو کی گفتگو سنی تو یقین مانو میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔“عالی ایک دم شرمسار ہو گیا․․․․”کیا ہوا تھا سویرا پلیز بتاؤ مجھے۔“”ابو جی بہت افسردہ ہو رہے تھے۔امی جی سے کہنے لگے۔“”میں کیسا باپ ہوں اپنے بیٹے کی ایک چھوٹی سے خواہش پوری نہیں کر پا رہا۔خدیجہ تم ایسا کرو سویرا کے لئے ڈالی گئی کمیٹی ذرا پہلے نکلوا لو تو میں اپنے بیٹے کو بکرا لا دوں۔“”تب امی جی تڑپ کر بولیں تھیں۔کیوں آپ کو ہر بار میری بیٹی کا ہی حق مارنا اچھا لگتا ہے آپ کو پتہ ہے اگلے سال اس کی شادی ہے۔میں نے کس طرح چھوٹے موٹے اخراجات کے لئے کمیٹی ڈالی ہے یہ میں ہی جانتی ہوں۔“”خدیجہ میں اپنی بیٹی کا حق نہیں مار رہا،انشاء اللہ اس کو پوری شان سے رخصت کروں گا۔“لیکن میں اپنے بیٹے کا اُترا ہوا چہرہ بھی نہیں دیکھ سکتا۔تب امی جان نے کہا۔”ٹھیک ہے میں کوثر سے بات کر کے دیکھتی ہوں کمیٹی کیلئے۔لیکن مجھے نہیں لگتا مل جائے گی کیونکہ عید کی وجہ سے ہی کوثر نے کسی اور کو اس مرتبہ کا نمبر دیا تھا۔“”اچھا ٹھیک ہے تم بات کر کے دیکھ لو،ورنہ میں کسی اور سے بات کرتا ہوں۔“”تمہیں پتہ عالی میرا دل رو دیا اس وقت۔کہ جس باپ نے ہمیں ہمیشہ یہ سبق پڑھایا کہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے چاہئیں،وہ ہماری ہی خاطر کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے گا؟“عالی دم بخود سا بہن کو دیکھ رہا تھا۔اس کی نظر میں تو اس کی خواہش بالکل بے ضرر سی تھی۔لیکن اس کے ماں باپ کو کیسے امتحان سے دوچار کر گئی تھی۔اسے اندازہ ہی نہ تھا۔وہ ایک دم اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور سویرا کی گالوں پر بہتے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتا ہوا بولا۔”سوری سویرا مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ میری وجہ سے امی جی،ابو جی،اور تم کتنی قربانیاں دے رہے ہو۔“”ایسی کوئی بات نہیں میرے پیارے بھائی۔“”ہر ماں باپ اپنی اولاد کے لئے اور بڑی ہو یا چھوٹی بہن اپنے بھائیوں کے لئے ایسا ہی سوچتی ہے۔کیونکہ تم لوگوں کے علم میں گھر کی کوئی بات نہیں ہوتی تو بس انجانے میں تم لوگ کچھ بھی کہہ جاتے ہو۔ان سب باتوں سے تمہیں آگاہ کرنا اب ضروری ہو گیا تھا،ورنہ تم ہم سب سے بدگمان ہو جاتے۔اور مجھے پتا تھا کہ میرا بھائی میری بات اچھے سے سمجھ لے گا۔“”بالکل سمجھ گیا سویرا،قربانی اللہ کو راضی کرنے کا نام ہے دکھاوے کا نہیں۔میں ابھی جا کر ابو جی اور امی جی سے معافی مانگتا ہوں کہ میں نے ان کا دل دکھایا۔“”ایک منٹ رکو،یہ لو۔“سویرا نے عالی کے ہاتھ پر سو سو پچاس پچاس کے مڑے تڑے نوٹ رکھتے ہوئے کہا۔”یہ نو ہزار کچھ روپے ہیں جو میں کب سے گلک میں ڈال رہی تھی۔اگر تمہیں عید پر اپنے لئے کچھ اچھا سا لینا ہے تو لے لو۔یا ایسا کرو ابو جی کے پاس موجود قربانی کے پیسوں میں جمع کرکے بکرا آتا ہے تو لے آؤ۔“عالی مزید شرمسار ہوتے ہوئے بولا۔”پلیز سمیرا اور کتنا شرمندہ کرو گی مجھے۔یہ تمہارے پیسے ہیں تم رکھو۔تمہارے کام آئیں گے۔ہم حصہ ہی ڈالیں گے اور کپڑے جوتے تمہیں پتہ ابو جی نے لے دیئے ہیں مجھے۔“دونوں بہن بھائیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور نم آنکھوں سے مسکرا دیئے۔ " خواہش اور قربانی (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2441,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khwahish-aur-qurbani-pehla-hissa-2441.html,"ریحانہ اعجاز”عالی تم نے کبھی سوچا ہے کہ قربانی کیا ہوتی ہے؟“سویرا نے ٹوٹے ہوئے گلک سے پیسے نکال کر گنتے ہوئے عالی سے پوچھا۔عالی دیوار پر کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے گہری سوچ میں گم تھا۔”عالی میں تم سے بات کر رہی ہوں۔“سویرا نے عالی کا شانہ ہلاتے ہوئے کہا تو عالی جیسے ایک دم چونک گیا۔”ہاں کیا پوچھا تم نے؟“”میں پوچھ رہی ہوں کہ تم نے کبھی سوچا قربانی کیا ہوتی ہے؟“عالی نے ایک نظر سویرا کو دیکھا اور سر جھٹکتے ہوئے بولا۔”اپنی سب سے عزیز شے اللہ کی راہ میں دینے کا نام ہی قربانی ہے،میں نے بھلا کیا سوچنا ہے۔“”ہاں وہ تو ہے،لیکن تمہیں پتہ ماں باپ کیسی کیسی قربانیاں دیتے ہیں تب جا کر ہم تم پروان چڑھتے ہیں۔(جاری ہے)“سویراں نے دل ہی دل میں اپنے لاڈلے بھائی کی نظر اُتارتے ہوئے کہا جو ابو جی سے ناراض ہو کر سب سے الگ تھلگ کب سے کمرے میں خاموش بیٹھا تھا۔”تم کہنا کیا چاہتی ہو؟“میں نے ایک بکرے کی فرمائش کی ہے ابو جی سے،اس پر بھی ابو نے مجھے اتنی باتیں سنا دیں۔اپنے احسانات گنوا دیئے۔تعلیم کے خرچے بتا دیئے۔مجھے بتاؤ میرے سب دوست ہر سال اونٹ،بیل،بکرا،یا گائے کی،اپنے ذاتی جانور کی قربانی کرتے ہیں۔جبکہ میں ہمیشہ سے دیکھتا آ رہا ہوں ابو جی،تایا ابو،ماموں جان،اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ مل کر حصہ ڈال لیتے ہیں۔تمہیں کیا پتہ کتنی سبکی ہوتی ہے میری،جب دوست اپنے جانوروں کی رسی تھامے انہیں لے کر ٹہلنے نکلتے ہیں۔فیس بک پر تصویریں لگاتے ہیں،اپنے بیل،بکرے کے ساتھ سیلفیز لیتے ہیں۔میرا بھی دل چاہتا ہے میں بھی زیادہ نہیں تو ایک بکرے کی رسی تھامے ان کے قدم سے قدم ملا کر چلوں۔فیس بک پر ان کے ساتھ اپنی سیلفیز ڈالوں۔وہ سب ہمیشہ مجھے بلاتے ہیں اور اس بار بھی بلا رہے ہیں،لیکن میں نہیں اب ان کے ساتھ جانے والا۔مجھے شرم آتی ہے ان کے جانوروں کی رسی تھام کر چلتے ہوئے۔عالی بولا تو نان اسٹاپ بولتا چلا گیا۔سویرا نے بھی نہیں ٹوکا کہ ایک بار اس کے اندر کا غبار نکل جائے پھر وہ کچھ ریلیکس ہو جائے گا۔ورنہ نہ جانے کب تک یونہی منہ پھلائے گم صم بیٹھا رہے گا۔اوکے اوکے تم مت جاؤ،لیکن مجھے ایک بات تو بتاؤ!تمہارے یہ سب دوست جو اپنا ذاتی جانور خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں،کیا یہ خود کماتے ہیں؟”ارے یار خود کہاں سے کمائیں گے میرے ساتھ ہی تو پڑھتے ہیں۔“عالی جو سیکنڈ ایئر کا اسٹوڈنٹ تھا،اچھا خاصا سلجھا ہوا لڑکا ہونے کے باوجود آج کل بہت چڑچڑا ہو رہا تھا۔”تو اپنے ان دوستوں کو کہنا کہ جب تم خود کما کر لاؤ گے نہ اپنا ذاتی جانور،پھر شو مارنا۔ابھی تو باپ کے پیسے پر عیش کر رہے ہیں۔“سویرا نے جیسے ناک سے مکھی اُڑائی۔”تو؟اس سے کیا ہوتا ہے؟عالی نے اچنبھے سے بہن کو دیکھا۔“”میں بھی اپنے باپ سے ہی کہہ رہا ہوں۔“”دیکھو عالی،تمہیں پتا ہے نہ کہ ابو جی نے ہمیشہ حق حلال کی کمائی کھلائی ہے ہمیں۔“کبھی کسی سے قرض نہیں لیا۔کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔الحمداللہ ہمیں اچھی تعلیم دلوا رہے ہیں۔تمہیں پتا ہے تمہیں پرائیویٹ کالج میں ایڈمیشن دلوانے کے لئے امی نے اپنے زیورات کی قربانی دی ہے۔کیونکہ جہاں تم نے ضد کی پڑھنے کی اس کی ایڈمیشن فیس بھرنا آسان بات نہیں تھی۔مجھے تو پتا ہی ہے لیکن میں آج تمہیں بھی بتا رہی ہوں۔پھر اب ہر مہینے تمہاری فیس بھرنے کی وجہ سے ابو جی کافی تنگ دستی کا شکار ہو رہے تھے اوپر سے میری تعلیم کا خرچہ۔سو میں نے کہہ دیا کہ ابو جی میں تو آپ کی بیٹی ہوں،میں نے بی اے کر لیا ہے،کافی ہے،آپ عالی کو پڑھائیں،میں ٹیوشن پڑھا لوں گی تب بھی چلے گا لیکن میرا راجہ ضرور پڑھے گا۔”کیا؟عالی نے آنکھیں نکالتے ہوئے سمیرا کو گھورا۔“”پر تم نے تو کہا تھا کہ تمہارا دل نہیں لگتا پڑھائی میں؟۔اس لئے آگے نہیں پڑھنا۔“”ہاں کہا تھا۔“سویرا نے پیار سے عالی کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”اس لئے کہا تھا کہ تم ابھی نا سمجھ ہو سمجھو گے نہیں۔“لیکن پیارے بھائی مجھے لگتا ہے تم اچھے خاصے سمجھدار ہو،ماشاء اللہ سب سمجھ سکتے ہو۔میں نے جتنا پڑھ لیا کافی ہے۔ابو جی نے کہا تھا بیٹا تم اور عالی میرے لئے ایک برابر ہو۔وہ بھی پڑھے گا تم بھی پڑھو گی۔لیکن میں نے ابو کو سمجھایا تھا کہ ابو جی آپ نے مجھے بی اے کروا دیا ہے۔آگے میری قسمت میں ہوا تو انشاء اللہ ضرور پڑھوں گی۔فی الحال میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانا چاہتی ہوں۔خیر یہ کافی طویل بحث ہے کہ پھر میں نے امی ابو کو کیسے راضی کیا۔پھر تمہیں یاد ہے نہ پچھلے سال میری انگیج منٹ پر امی جی،ابو جی نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچہ کیا۔تاکہ میرے سسرال والوں کے سامنے ان کی سبکی نہ ہو۔(جاری ہے) " مغرور بادشاہ - تحریر نمبر 2440,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maghroor-badshah-2440.html,"فاطمہ عرفاناٹلی کا ایک بادشاہ حکومت اور دولت کے گھمنڈ میں غریبوں سے بات تک کرنا بھی برا سمجھتا تھا،اس لئے اکثر لوگ اسے ناپسند کرتے تھے۔ایک روز بادشاہ شکار کرنے گیا،کسی جانور کا پیچھا کر رہا تھا کہ اس کا گھوڑا بے قابو ہو کر دور نکل گیا،تمام نوکر سپاہی وزیر سب بچھڑ گئے اور بادشاہ تنہا رہ گیا۔اتنے میں ایک کسان نے بادشاہ کے گھوڑے کی رکاب پکڑ لی۔اس کی شکل ہوبہو بادشاہ سے ملتی تھی۔فرق یہ تھا کہ اس کی پوشاک اور حالت غریبوں جیسی تھی۔اس نے بادشاہ سے کہا کہ،”میں تین دن سے حضور کی ڈیوٹی پر بھوکا پیاسا چلا آ رہا ہوں مگر کوئی میری فریاد نہیں سنتا“۔بادشاہ غریب کو میلے کچیلے کپڑوں میں دیکھ کر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا کہ میں ایسے لوگوں سے بات نہیں کرتا۔(جاری ہے)غریب کسان پھر بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا،یہاں تک کہ بادشاہ ایک تالاب پر پہنچ کر گھوڑے سے اترا۔اس نے تاج اور کپڑے اتار کر ایک طرف رکھے اور نہانے کیلئے تالاب میں اتر گیا۔جب بادشاہ تالاب میں اُتر چکا تو غریب کسان نے بادشاہ کے کپڑے پہن کر تاج سر پر رکھ لیا بادشاہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر رفو چکر ہو گیا۔کسان بادشاہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اسے شاہی نوکر چاکر مل گئے جنہوں نے اسے بادشاہ سمجھ کر ادب سے سلام کیا اور اُن کے ساتھ شاہی محل میں چلا گیا۔اصل بادشاہ تالاب سے نہا کر باہر نکلا تو کپڑے تاج اور گھوڑا کچھ بھی موجود نہ تھا۔وہ بہت گھبرایا مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟ناچار غریب کسان کے میلے کپڑے پہنے اور کئی دن تک فاقے کرنے اور بھٹکنے کے بعد شہر پہنچا،مگر اب اس کی یہ حالت تھی کہ جس سے بات کرتا کوئی منہ نہ لگاتا اور جب یہ کہتا میں تمہارا بادشاہ ہوں تو لوگ اسے پاگل سمجھ کر ہنس دیتے۔دو تین ہفتے اسی طرح گزر گئے۔جب اس پاگل کا قصہ بادشاہ کی ماں نے سنا تو اسے بلوا کر اس کے سینے پر تل کا نشان دیکھا پھر،جس سے اس کی سچائی کی تصدیق ہو گئی۔کسان نے اصلی بادشاہ کی یہ حالت دیکھ کر کہا،کیا تم وہی شخص ہو جو دولت اور حکومت کے گھمنڈ میں غریبوں کی فریاد نہیں سنتے تھے؟اسی کی سزا دینے کیلئے میں نے یہ سب کیا تھا۔اگر تم گھمنڈ چھوڑ کر رحم و انصاف کا اقرار کرو تو میں تمہارا تاج و تخت واپس کرنے کو تیار ہوں،ورنہ ابھی قتل کا حکم بھی دے سکتا ہوں۔یہ سن کر باداشاہ نے عاجزی اور ندامت کے ساتھ اپنی غلطی تسلیم کی اور کسان اسے تاج و تخت واپس دے کر گھر چلا گیا،جس کے بعد بادشاہ نے اپنی اصلاح کی اور چند دنوں میں اس کی نیک نامی کا ڈنکا دور دور تک بجنے لگا۔ " دشمن کی دوستی - تحریر نمبر 2439,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dushman-ki-dosti-2439.html,"محمد عمر امتیازمیں انسانوں سے سخت نفرت کرتا ہوں۔انھوں نے میری نظروں کے سامنے میرے شیر بابا اور شیرنی امی کو گولی مار دی اور ان کی کھال اُتار کر لے گئے۔بابا اور امی کی موت کے ساتھ میرے بچپن کی خوشیاں بھی ختم ہو گئیں۔ایسے کڑے وقت میں میرے بہترین دوست چیتے اور اس کے گھر والوں نے مجھے سہارا دیا۔دوسرے جانور بھی مجھ سے ڈرنے کی بجائے میری دل جوئی کرتے۔اب میری زندگی کا مقصد انسانوں سے اپنے والدین کے خون کا بدلہ لینا تھا۔اگر کوئی شکاری جنگل میں کیمپ لگاتے تو میں اور میرے دوست ان پر حملہ کر دیتے اور روپوش ہو جاتے۔میرے دوست چیتے کا بھائی بھی جب چھوٹا تھا تو اسے بھی شکاری پکڑ کر لے گئے تھے،مگر وہ بڑا ہو کر کسی نہ کسی طرح بھاگ کر جنگل میں واپس آ گیا تھا۔(جاری ہے)اب وہ بھی ہمارے گروہ میں شامل تھا۔اس کا ایک فائدہ اور بھی ہوا،انسانوں کی زبان بھی سمجھنے لگا تھا۔اس طرح جب شکاری ہمیں پکڑنے کا کوئی منصوبہ بنا رہے ہوتے تو وہ چھپ کر سن لیتا اور ہمیں آگاہ کر دیا کرتا۔کچھ عرصے بعد ایک ادھیڑ عمر باوقار سا آدمی اپنے گھر والوں کے ساتھ جنگل میں آیا۔وہ ایک بڑی اور مضبوط گاڑی میں آئے تھے۔اس آدمی کے ساتھ اس کی بیوی ایک نوجوان لڑکا اور ایک چھوٹی بچی تھی۔ہم حیران تھے کہ اس خطرناک جنگل میں کوئی شکاری گھر والوں کے ساتھ تو نہیں آتا۔چیتے نے گھات لگائی کہ سن سکے آخر معاملہ کیا ہے؟اندھیرا سر پر تھا۔وہ آدمی اور عورت گاڑی سے باہر کھڑے باتیں کر رہے تھے۔اس آدمی نے کہا:”میرے دشمن سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہم اس خطرناک جنگل میں روپوش ہو سکتے ہیں۔مجھے وہ فائل لازمی کمشنر تک پہنچانی ہے۔ہمارے ملک کے غداروں نے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔میں صبح ہی محفوظ راستے سے روانہ ہو جاؤں گا۔“عورت بہت پریشان لگ رہی تھی بولی:”مجھے بہت خوف آ رہا ہے۔سنا ہے یہ جنگل خوف ناک درندوں سے بھرا پڑا ہے۔اگر انھوں نے ہم پر حملہ کر دیا تو؟“آدمی نے اسے تسلی دی:”فکر مت کرو،بس دعا کرو۔ویسے بھی اپنی گاڑی بہت مضبوط اور شیشے بلٹ پروف ہیں،اگر درندے آ بھی گئے تو صرف دھویں والا شیل استعمال کرنا۔بس وہ بھاگ جائیں گے۔ان بے زبان جانوروں پر کوئی ہتھیار استعمال مت کرنا۔“وہ دونوں گاڑی کے اندر چلے گئے۔چیتے نے ہمیں ان کی پوری گفتگو سے آگاہ کر دیا۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ انسان بھی کوئی اچھا کام کر سکتے ہیں،کیونکہ اب تک میں نے انسانوں کا ظالم روپ ہی دیکھا تھا،مگر یہ آدمی اپنی اور اپنی بیوی بچوں کی جان خطرے میں ڈال کر بھی جانوروں کی بھلائی کی بات کر رہا ہے۔میں نے تمام ساتھیوں کو اپنے منصوبے سے آگاہ کر دیا کہ صبح جب یہ آدمی روانہ ہو تو کوئی اس پر حملہ نہیں کرے گا،بلکہ چھپ کر اس کے بیوی بچوں کی بھی حفاظت کریں گے۔صبح ہوتے ہی وہ آدمی روانہ ہو گیا۔ہم اس کے بیوی بچوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔اگلے دن چیتے نے بتایا کہ وہ عورت اپنے بیٹے سے کہہ رہی تھی کہ ”حیرت کی بات ہے تمہارے پاپا تو کہہ رہے تھے کہ یہ جنگل بہت خطرناک ہے،مگر مجھے تو ایک لومڑی تک نظر نہیں آئی۔“وہ لڑکا بھی حیران تھا میں یہ سن کر مسکرا کر رہ گیا۔کچھ دیر بعد اچانک کچھ گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ہم فوراً چوکنے ہو گئے اور تیز رفتاری سے بھاگتے ہوئے اس آدمی کی گاڑی کے آس پاس گھنی جھاڑیوں میں چھپ کر دیکھنے لگے۔وہ تین بڑی گاڑیاں تھیں،جس میں سے اٹھارہ بیس افراد باہر نکل آئے۔ان کے ہاتھوں میں خطرناک ہتھیار تھے۔ایک گاڑی میں سے جو آدمی اُترا،اُسے دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اُتر آیا۔یہ وہی آدمی تھا،جس نے میرے والدین کی زندگی کا چراغ گل کیا تھا۔آج بھی اس کے ہاتھ میں ایک خطرناک بندوق تھی۔اس کے دوسرے ہاتھ میں گیند جیسی کوئی چیز تھی۔میرا رواں رواں اس پر حملہ کرنے کے لئے بے تاب تھا،مگر ابھی صورت حال کا جائزہ لے رہا تھا۔چیتے نے بتایا کہ اس نے دوسرے ہاتھ میں بم پکڑا ہوا ہے۔یہ ایک خطرناک چیز ہے،جس سے لمحوں میں گاڑی اور ان لوگوں کے پرخچے اُڑ جائیں گے۔وہ چیخ چیخ کر انھیں باہر آنے کا کہہ رہا تھا۔وہ تینوں روتے ہوئے گاڑی سے باہر آ گئے۔اس آدمی نے بم اپنے ساتھی کو پکڑا دیا اور عورت اور لڑکے کو گھٹنوں کے بل بیٹھا دیا اور بچی کا بازو پکڑ کر اسے بے دردی سے ماں کی طرف دھکیل دیا۔عورت نے لپک کر اسے گود میں لے لیا۔لڑکے کو غصہ آ گیا اس نے اُٹھ کر اس آدمی پر ہاتھ اُٹھانا چاہا،مگر اس کے ایک ساتھی نے لڑکے کے سر پر گن کا بٹ مارا وہ لڑکا تیورا کر گر پڑا۔وہ آدمی مکروہ انداز میں ہنسنے لگا اور بولا:”تمہارا باپ کیا سمجھتا تھا کہ میرے منصوبے اتنی آسانی سے منظر عام پر آ جائیں گے۔اس کا ایک قریبی ساتھی،جس پر تمہارا باپ دل و جان سے اعتماد کرتا تھا،میں نے خرید لیا ہے۔اسی نے مجھے تمہاری روپوشی کی جگہ بتائی تھی۔تمہارے باپ کو کمشنر کے آفس پہنچنے سے پہلے ہی ہم نے پکڑ لیا۔“یہ کہہ کر اس نے ایک ساتھی کو اشارہ کیا۔اس نے پچھلی سیٹ پر پڑے آدمی کو گھسیٹ کر نیچے اُتارا اور زمین پر پٹخ دیا۔اسے دیکھ کر اس عورت کی چیخیں نکل گئیں۔وہ اس کا شوہر تھا۔وہ زخمی اور نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا۔بچے بھاگ کر اپنے باپ سے لپٹ گئے۔اس آدمی کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ تھی۔وہ بولا:”پہلے میں تمہاری عزیز بیٹی کو گولی ماروں گا،تاکہ تم نشانِ عبرت بن جاؤ اور تمہیں پتا چل جائے کہ مجھ سے ٹکر لینے کا انجام کتنا بھیانک ہوتا ہے۔“یہ کہہ کر اس نے گن بچی کی طرف سیدھی کر لی۔اب یہی وقت تھا حملہ کرنے کا۔میں نے ایک زور دار دھاڑ ماری۔میرے تمام ساتھیوں نے بیک وقت ان ظالم لوگوں پر حملہ کر دیا۔انھیں اپنی گنیں سیدھی کرنے کا بھی موقع نہیں ملا۔وہ آدمی اور اس کے بیوی بچے حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ کوئی درندہ ان کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا ہے۔وہ آدمی کو سہارا دے کر گاڑی تک پہنچ گئے۔عورت اور بچے گاڑی کے اندر چلے گئے،مگر پروفیسر گاڑی کا سہارا لے کر باہر کھڑا رہا۔میں اس ظالم آدمی کو اپنے نوکیلے دانتوں سے بُری طرح اُدھیڑ رہا تھا۔کچھ لمحوں بعد اس کی چیخیں تھم گئیں۔تمام ظالم اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ہمارا کوئی بھی ساتھی زخمی یا مرا نہیں تھا۔میں اس آدمی کے قریب پہنچ گیا۔اس آدمی کی آنکھوں میں خوف کے بجائے دوستانہ چمک تھی۔اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔میں دو قدم پیچھے ہٹا اور جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔میرے ساتھیوں نے بھی میری تقلید کی۔وہ لوگ وہاں سے روانہ ہو گئے۔دوسرے دن صبح ہی جنگل میں پولیس افسران اور بہت سے لوگ کیمرے لئے آن پہنچے۔وہاں کا منظر دیکھ کر سب کے ہوش اُڑ گئے۔وہ آدمی یعنی پروفیسر بھی ان کے ساتھ موجود تھا۔اس کی حالت بہتر لگ رہی تھی۔اس نے سب ماجرا پولیس والوں کو سنایا،جسے سن کر سب حیران تھے۔اس نے میڈیا والوں کو بتایا:”یہ لاشیں دیکھ کر آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ ان درندوں کا مقصد ان ظالم لوگوں کا خاتمہ کرنا تھا،ورنہ وہ اب تک انھیں کھا چکے ہوتے۔“تھوڑی دیر بعد وہ سب وہاں سے روانہ ہو گئے۔وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا ہو کر اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔میں نے جھاڑیوں میں سے اپنا چہرہ ذرا سا اوپر اُٹھایا اُس آدمی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور ہاتھ ہلا کر گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔میں نے خوشی میں زور دار دہاڑ ماری اور بھاگتا ہوا اپنے ساتھیوں تک پہنچ گیا۔ " کھجور کے پودے - تحریر نمبر 2438,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khajur-ke-podhe-2438.html,"محمد اشتیاق،ملتانپرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی چھوٹے سے ملک میں ایک رحم دل،نیک اور دانا بادشاہ کی حکومت تھی۔وہ اپنی رعایا سے بے حد محبت کرتا تھا اور ان کی مدد کرکے اسے دلی سکون ملتا تھا۔وہ اکثر بھیس بدل کر لوگوں میں گھل مل جاتا اور ان کی خبر گیری کرتا۔وہ سوچتا کہ کیسے اپنی رعایا کے معاشی حالات کو بہتر بنائے۔ایک دن اسے ایک ترکیب سوجھی۔اس نے اپنے ہمسایہ ملک کے بادشاہ سے بہت سے کھجور کے عمدہ پودے منگوائے،کیونکہ ملک میں کھجور کے پودے بہت ہی قلیل مقدار میں تھے۔اس نے مالی کا روپ دھارا اور ہفتے میں ایک دن وہ گدھے پر کھجور کے پودے لا کر ملک کے مختلف علاقوں میں مفت تقسیم کرتا۔وہ عام لوگوں کو کھجور کی اہمیت اور فوائد سے آگاہ کرکے لوگوں کو کھجور کے باغات لگانے کی ترغیب دیتا،تاکہ وہ اس سے روزی کما سکیں۔(جاری ہے)کچھ ہی عرصے میں کھجور کے یہ پودے بھرپور پھل دینے لگے۔ایک وقت ایسا آیا کہ دوسرے ممالک کے تاجر اس نایاب اور اچھی قسم کی کھجوروں کو اپنے ممالک کے لئے اچھے داموں خریدنے پر مجبور ہو گئے۔کچھ ہی دنوں میں لوگوں کی معاشی حالت اچھی ہو گئی اور وہ بہتر زندگی گزارنے لگے۔بہت سے لوگوں کا دھیان اس مالی پر گیا جس نے ان لوگوں کی حالت کو بدل دیا اور لوگوں کی غربت و افلاس سے باہر نکالا۔وہ سب اس کی بے لوث مدد پر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ایک دن جب وہ آنے والا تھا تو لوگوں نے جشن منانے کا اعلان کیا۔بادشاہ جب مالی کے بھیس میں شہر میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ اس کے استقبال میں ہزاروں لوگ کھجور کی ٹہنیاں ہاتھ میں لئے اس کا استقبال کر رہے تھے۔اس دن لوگوں نے اس کے لئے ایک عالی شان دعوت کا اہتمام کیا اور اس مالی کو اپنا تعارف کروانے کو کہا۔جب بادشاہ نے حقیقت عیاں کی تو لوگوں کے دل میں بادشاہ کے لئے محبت اور احترام اور بڑھ گیا اور انھوں نے اپنی معاشی خوش حالی پر بادشاہ کا خلوصِ دل سے شکریہ ادا کیا۔ " آدھی موت - تحریر نمبر 2437,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aadhi-maut-2437.html,"م۔ص۔ایمنشکور بھائی رات دیر تک جاگتے رہے۔رات کے پچھلے پہر ان کی آنکھ لگ گئی۔حسب معمول ان کی بیوی صبح بیدار ہوئیں۔انھیں نماز کے لئے جگایا تو وہ نہ اُٹھے۔جگاتے جگاتے نماز کا وقت نکل گیا تو انھوں نے شوہر کے لئے ناشتہ بنایا اور ساتھ لے جانے کے لئے کھانا بھی تیار کر دیا۔اس دوران بھی آوازیں دیتی رہیں۔ان کے دفتر جانے کا وقت ہو گیا،لیکن وہ نہ اُٹھے۔ان کی بیوی نے کہنی پکڑ کر ہلائی،وہ تب بھی نہ اُٹھے تو بیوی رونے لگ گئی کہ رات کو انھیں بخار تھا۔افسروں نے ان سے اتنا کام لیا کہ وہ مر گئے اور میں بیوہ ہو گئی۔آناً فاناً پورے محلے میں خبر پھیل گئی کہ شکور بھائی کا انتقال ہو گیا ہے۔گھر کا کچا صحن تھا۔بھائی شکور کو غسل کے لئے نیچے لٹایا گیا۔(جاری ہے)وہ کپڑے پہنے ہوئے ہی تھے کہ کسی نے ان کے منہ پر صابن لگا دیا۔اسی وقت وہ ہوش میں آ گئے۔پھر چیختے اور آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ بیٹھے:”میری آنکھوں میں مرچیں کس نے ڈالی ہیں؟“انھیں زندہ ہوتے دیکھ کر قریب کھڑے کمزور دل افراد ڈر گئے۔پورے گھر میں چیخ پکار مچ گئی تھی۔عورتوں نے اپنی چپلوں کی بھی پروا نہ کی اور چیختی چلاتی بھاگنے لگیں۔اس افراتفری میں کسی کو نکلنے کا راستہ ہی نہیں سوجھ رہا تھا۔کچھ عورتیں کمروں میں گھس گئیں اور کچھ باہر رہ گئیں اور دروازے بند کر لئے۔دوسری عورتوں نے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا کہ ہمیں بھی تو اندر آنے دو،لیکن اندر والی عورتوں نے ڈر کے مارے دروازہ ہی نہیں کھولا۔شکور بھائی کے قریبی عزیز بھی سوچے سمجھے بغیر گھر سے نکل گئے تھے۔گھر کے باہر بہت سے دوسرے لوگ بھی جمع تھے۔انھوں نے بدحواس لوگوں کو گھر سے فرار ہوتے دیکھا تو ایک ایک کو روک کر اس سے وجہ پوچھنے کی کوشش کی،لیکن جواب دینے کے لئے کوئی نہ رک سکا۔ایک آدھ نے ہمت کرکے خوف زدہ لہجے میں ”بھوت بھوت“ کہا،لیکن اتنے سے جواب سے کسی کا گزارہ نہ ہو سکا۔چنانچہ جب گھر خالی ہو گیا تو گلی میں کھڑے لوگ جنہیں نہیں پتا تھا کہ کون مرا ہے،تجسس سے مجبور ہو کر گھر میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔انھوں نے دیکھا کہ گھر میں صرف شکور بھائی موجود ہیں۔کمروں کے دروازے بند تھے۔ایک دروازہ غلطی سے کسی نے باہر سے بند کر دیا تھا جس میں ان کی اہلیہ بند ہو گئی تھیں۔شکور بھائی بے چارگی کا چہرہ لئے بیٹھے تھے،ان ہی سے لوگوں نے پوچھا،انتقال کس کا ہوا ہے؟شکور بھائی چِڑ کر بولے:”انتقال میرا ہوا ہے۔“باہر سے آنے والے چونکہ اس معاملے سے واقف نہ تھے،اس لئے وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے کہ جس کے انتقال پر آئے ہیں،وہی ان کے سامنے کھڑا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے!محلے کے چند معتبر افراد نے آنے والوں کو بتایا کہ یہی شکور بھائی ہیں،جن کا انتقال ہوا ہے۔ایک بزرگ نے غور سے نہیں سنا تو پوچھ لیا:”وہ کہاں ہے؟جس کا انتقال ہوا ہے؟“شکور بھائی کو یہ سن کر غصہ آ گیا،بولے:”میں زندہ بیٹھا ہوں اور لوگ میری قبر کا بندوبست کرنے بھی چلے گئے۔میرے مرنے کا انتظار تو کیا ہوتا؟“شکور بھائی کے ایک دوست نے کہا:”بھئی!ہمیں تو یہی پتا چلا تھا کہ تم مر گئے ہو؟“شکور بھائی غصے سے بولے:”کس نے کہا ہے کہ میں مر گیا ہوں؟میں گہری نیند سو رہا تھا۔بیوی سمجھی کہ میں مر گیا ہوں۔بے چاری نے بیوہ ہونے کے صدمے سے واویلا مچا دیا اور لوگوں نے مجھے دفنانے کا بندوبست شروع کر دیا؟“ایک محلے دار نے پوچھا:”لیکن تم مرے کیسے تھے؟“شکور بھائی جھنجھلا کر بولے:”کل دفتر میں کام بہت تھا۔رات دیر تک کام کرتا رہا۔تھکن سے چُور گھر آیا تھا۔راستے میں دھول مٹی پھانک پھانک کر نزلہ کھانسی سے بخار سا ہو گیا۔طبیعت ٹھیک نہیں تھی،اس لئے رات دیر تک جاگتا رہا۔صبح اذانوں کے وقت ہی کہیں نیند آ سکی۔انتہائی گہری نیند کی وجہ سے جب میں نہیں اُٹھا تو بیوی نے مجھے مردہ اور خود کو بیوہ سمجھ لیا۔بے وقوف عورت نے مجھے جیتے جی ہی مار دیا۔“”اسی وقت باہر سے بند کمرہ کھولا گیا تو دیکھا کہ ان کی بیوی وہاں بے ہوش پڑی ہیں۔“ " ہونہار مصور - تحریر نمبر 2436,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/honehar-musawir-2436.html,"جمال رومیاحمد ایک غریب،لیکن شریف آدمی تھا۔وہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا۔وہ جوتے بنانے کے ایک کارخانے میں کئی سال سے ملازم تھا۔احمد محنتی بھی تھا اور ایمان دار بھی۔وہ اپنی کمائی کو احتیاط سے خرچ کرتا۔اس کی بیوی بھی کفایت شعار عورت تھی۔وہ احمد کی تنخواہ سے ہر ماہ کچھ رقم بچا لیتی۔احمد اپنی سادہ،مگر پُرسکون زندگی سے بہت مطمئن تھا۔احمد کا اکلوتا ہونہار بیٹا اسد ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔وہ ایسی خوب صورت تصویریں بناتا تھا کہ سب دیکھتے رہ جاتے۔ایک دن اس نے بابا سے سائیکل کی فرمائش کر دی:”میرے بہت سے دوستوں کے پاس بھی سائیکلیں ہیں۔بابا!مجھے بھی سائیکل دلا دیجیے۔“”ٹھیک ہے!“ احمد نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا:”اگلے ماہ کی پانچ تاریخ تک انتظار کر لو۔(جاری ہے)“اسد خوشی سے پھولے نہ سمایا۔آج احمد کو تنخواہ ملی تھی۔اس نے تنخواہ کا لفافہ جیب میں رکھا اور کارخانے سے خوشی خوشی باہر نکل آیا۔بس اسٹاپ کارخانے سے پانچ منٹ کی دوری پر تھا۔احمد کا ارادہ یہاں سے سپر مارکیٹ جا کر سائیکل خریدنے کا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ نئی سائیکل کو دیکھ کر اسد کتنا خوش ہو گا۔ابھی وہ بس اسٹاپ سے کچھ دور تھا کہ ایک موٹر سائیکل اس کے قریب رکی۔موٹر سائیکل پر ہیلمٹ پہنے دو آدمی سوار تھے۔ان میں سے ایک آدمی نے احمد کو پستول دکھا کر اس کی جیبیں خالی کروا لیں۔احمد کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔تنخواہ کے ساتھ ساتھ اور ٹائم کی رقم بھی ہاتھ سے نکل گئی تھی۔احمد جب گھر میں داخل ہوا تو اسد کو اپنا منتظر پایا۔اس کے چہرے پر رونق سی آ گئی۔”بابا!میری سائیکل؟“اسد نے شکایتی انداز میں پوچھا۔احمد اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ پیدا کرکے بولا:”ارے․․․․آج سیٹھ صاحب ہی نہیں آئے،اس لئے آج تنخواہ ہی نہیں مل سکی۔“اسد کے سونے کے بعد احمد نے بیوی کو آج رونما ہونے والے حادثے کی روداد سنائی۔بیوی نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا۔نہ خود پریشان ہوئی نہ احمد کو مزید پریشان ہونے دیا۔وہ بولی:”آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔میں نے کچھ بچت کر رکھی ہے۔گھر کا خرچ تو چل جائے گا،لیکن سائیکل کے لئے پیسے نہیں بچیں گے۔“دوسرے دن احمد گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ اسد صحن میں بچھے تخت پر بیٹھا ڈرائنگ بنانے میں مصروف ہے۔اسد نے بابا کو گھر میں داخل ہوتے دیکھا تو اُٹھ کر بڑے ادب سے سلام کیا۔احمد کو اس بات پر بھی حیرت تھی کہ آج اسد نے سائیکل کے بارے میں نہیں پوچھا۔ماں بھی حیران تھی۔اسد نے کہا:”بابا!ہمارے اسکول میں مصوری کا ایک انعامی مقابلہ منعقد ہو رہا ہے۔اول انعام دس ہزار،دوم پانچ ہزار اور تیسرا انعام ڈھائی ہزار روپے کا ہے۔میں خوب مشق کرنا چاہتا ہوں،ہو سکتا ہے میری بنائی ہوئی تصویر کو اول انعام مل جائے۔“احمد نے بیٹے کی حوصلہ افزائی کی:”کیوں نہیں،تم نے محنت کی تو ضرور کامیاب ہو گے۔“اسد نے مزید کہا:”آپ ابھی سائیکل نہیں خریدیے گا،پہلے میں اس مقابلے سے فارغ ہو جاؤں،پھر آپ مجھے سائیکل دلا دیجیے گا۔“احمد سوچنے لگا کہ چلو اچھا ہے،سائیکل خریدنے کے لئے مزید وقت مل گیا۔ایک ہفتہ گزر گیا اور آج اسکول میں مصوری کے مقابلے کا دن تھا۔اسکول کے میدان میں مقابلے کا اہتمام کیا گیا تھا۔اسد کو پورا یقین تھا کہ وہ ضرور جیتے گا۔اسد نے اپنی تصویر میں اُفق پر جہاں سمندر اور آسمان ملتے نظر آتے ہیں،ایک ڈوبتے سورج کی منظر کشی کی تھی،جس میں بحری جہاز اور پرندے بھی شامل تھے۔اسد نے بڑی مہارت سے رنگوں کا استعمال کیا،جس سے اس کی تصویر کافی پُرکشش ہو گئی تھی۔اسد نے مقررہ وقت سے پہلے ہی اپنی تصویر مکمل کر لی۔مقابلے کے بعد جیتنے والوں کے ناموں کا اعلان کیا گیا:”پہلے انعام کا حق دار آٹھویں جماعت کے نعمان احمد کو قرار دیا گیا۔“اسد کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔وہ سر جھکائے بیٹھا رہا۔اب دوم انعام جیتنے والے مصور کا نام پکارا جا رہا تھا:”اس مقابلے میں دوسرے انعام کے حق دار قرار پائے ہیں ساتویں جماعت کے اسد احمد۔“اسد کا چہرہ کھل اُٹھا۔اس کی مایوسی یکا یک خوشی میں تبدیل ہو گئی۔احمد کو ایک خوبصورت یادگاری شیلڈ اور پانچ ہزار روپے بطور انعامی رقم دی گئی۔اسد نے بڑی بے صبری سے شام تک بابا کے آنے کا انتظار کیا۔امی کو بھی نہیں بتایا۔بابا کے آنے کے بعد اس نے کہا:”بابا اور امی!میرے پاس آپ دونوں کے لئے ایک خوشخبری ہے۔آپ دونوں اپنی آنکھیں بند کر لیں۔“امی اور بابا نے آنکھیں بند کر لیں۔اسد نے اپنی پتلون کی جیب سے ایک لفافہ نکالا اور دونوں کے درمیان رکھتے ہوئے بولا:”اب آپ لوگ آنکھیں کھول سکتے ہیں۔“”یہ کیا ہے؟“دونوں نے حیرت سے پوچھا۔”کھول کر دیکھیں!“ اسد نے جواب دیا۔احمد نے لفافہ کھولا تو اس میں ہزار روپے والے پانچ نوٹ نکلے۔”اتنی رقم تمہارے پاس کہاں سے آئی؟“احمد نے حیرت سے پوچھا۔”میری بنائی ہوئی مصوری کو دوسرا انعام ملا ہے۔“اسد نے فخر سے کہا:”بابا کو اب پیسوں کے لئے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں،آپ ان پیسوں کو گھر کے اخراجات کے لئے استعمال کریں،مجھے سائیکل لینے کی اتنی جلدی نہیں ہے،وہ آپ مجھے اگلے ماہ بھی دلا سکتے ہیں۔“”لیکن تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ بابا پیسوں کے لئے پریشان ہیں؟“سائرہ نے پوچھا۔”میں اُس روز سویا نہیں تھا امی!میں نے بابا اور آپ کی ساری باتیں سن لی تھیں،اگلے روز جب اسکول میں مقابلے کا اعلان کیا گیا تو میں نے فوراً حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔“انھیں اسد پر فخر ہونے لگا۔احمد اور سائرہ نے آگے بڑھ کر اسد کو گلے لگا لیا۔ " بلند حوصلہ - تحریر نمبر 2435,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/buland-hosla-2435.html,"آصفہ یوسف”شازیہ!میں تمہیں کب سے آواز دے رہی ہوں،سنتی نہیں ہو تم۔“”میں اسکول کا کام کر رہی تھی۔“”پڑھائی پر دھیان ذرا کم دیا کرو۔جاؤ جا کر پانی گرم کرو۔“شازیہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔والدین ایک حادثے میں وفات پا چکے تھے۔وہ اپنے ماموں کے گھر میں رہتی تھی۔ماموں کی بھی ایک ہی بیٹی نیلم تھی جو شازیہ کی ہم عمر تھی۔ممانی کا رویہ اس کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ماموں کچھ سوچ کر خاموش رہتے تھے۔شازیہ نیک فطرت لڑکی تھی۔گھر کے سارے کام کرتی تھی،اس کے باوجود گھر میں اس کی کوئی قدر،کوئی اہمیت نہیں تھی۔نہ کوئی کام اس کی مرضی سے ہوتا تھا۔شازیہ کے ماموں گھر کا ماحول خراب ہونے کے ڈر سے خاموش ہی رہا کرتے تھے۔(جاری ہے)ایک دن ممانی نے ماموں سے کہا:”شازیہ کی پڑھائی کا یہ آخری سال ہے۔اس کے بعد اسے گھر بیٹھا دیجیے گا۔“ماموں نے کہا:”تو کیا شازیہ صرف میٹرک ہی کرے گی؟“”تو کیا آپ اسے ڈاکٹر بنائیں گے!پڑھائی میں پیسے نہیں لگتے کیا۔“ممانی نے کہا۔شازیہ دروازے کے پیچھے سے یہ سب سن رہی تھی۔وہ سامنے آ کر بولی:”نہیں مامی!ایسا مت کریں،میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں۔“”بس کرو شازیہ!ہمیں نیلم کے بارے میں بھی تو سوچنا ہے۔“آج شازیہ کو اپنے والدین شدت سے یاد آ رہے تھے۔وہ روتے روتے سو گئی۔میٹرک کا امتحان دینے کے بعد وہ گھر میں مکمل طور پر نوکرانی بن چکی تھی۔شازیہ نے ہمت کی اور ماموں کی حمایت سے سلائی کا کام سیکھنا شروع کیا۔شروع میں ممانی نے اعتراض کیا،لیکن پھر کچھ سوچ کر خاموش ہو گئیں۔شازیہ سلائی سیکھ رہی تھی،جب کہ نیلم آگے تعلیم حاصل کر رہی تھی۔شازیہ نے محلے کے کپڑے بھی سینے شروع کر دیے۔اب آہستہ آہستہ شازیہ کے ہاتھ میں کچھ پیسے آنے لگے تھے،مگر ابھی انھیں خرچ کرنے کا وقت نہیں آیا تھا۔وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے بے قرار تھی۔جب ایک معقول رقم اس کے پاس جمع ہو گئی تو اس نے اللہ کا نام لے کر ایک چھوٹے سے بوتیک کا آغاز کیا۔کچھ اندیشے بھی تھے،لیکن رفتہ رفتہ کام چل نکلا۔وقت بڑی تیزی سے گزرتا رہا۔اب شازیہ نے ایک شاندار علاقے میں بوتیک منتقل کر لیا تھا،جہاں لوگوں کی آمد کافی بڑھ چکی تھی۔اب وہ ایک بڑے کاروبار کی مالک تھی اور اس کی صحت بہت اچھی ہو گئی تھی۔اس دوران اس نے اپنا تعلیمی سلسلہ بھی قائم رکھا تھا۔ماموں کے گھرانے سے بھی اس کے تعلقات اچھے ہو گئے تھے۔وہ ماموں کے احسان کا بدلہ اُتارنے کے قابل ہو چکی تھی۔مالی طور پر مستحکم ہونے کے بعد اس نے اپنی جیسی دوسری لڑکیوں کی مدد کا فیصلہ کیا۔اب بھی کبھی کبھی وہ اپنا ماضی یاد کرکے کانپ اُٹھتی ہے۔ " نصیحت فراموش - تحریر نمبر 2434,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nasihat-faramosh-2434.html,"را محمد خرم رفیق پریار،بہاول پورایک دانا شخص نے ایک قافلے کو جنگل کی طرف جاتے دیکھا۔جنگل میں ہاتھی کے سوا اور کوئی جانور نہیں تھا۔اس دانا شخص نے قافلے کے لوگوں کو یہ نصیحت کی کہ اس جنگل میں بھوک کی وجہ سے تم پر چاہے جیسی مشکلات اور مصیبتیں آئیں،لیکن تم ہاتھی کے بچے کو شکار کرکے نہ کھانا۔اگر تم ہاتھی کے بچوں کا شکار کرو گے تو ان کی ماں ہتھنی اس کا ضرور بدلہ لے گی۔لہٰذا ہاتھی کے بچوں کو ہر گز نہ چھیڑنا اور نہ کھانا۔یہ نصیحت اس لئے بھی کر رہا ہوں کہ تم اپنی جان کو خطرے کے سپرد کرنے سے بچ جاؤ۔گھاس اور پتوں پر قناعت کر لینا،لیکن ہاتھی کے بچوں کا شکار نہ کرنا۔یہ نصیحت سن کر قافلے والوں نے دانا کا شکریہ ادا کیا اور جنگل میں اپنی راہ لے لی۔(جاری ہے)جنگل میں چلتے ہوئے چند دنوں کے بعد حالات ایسے ہو گئے کہ ان مسافروں کو کھانے پینے کے لئے کچھ میسر نہ آیا۔بھوک سے لوگ نڈھال ہونے لگے۔پھر ان بھوکے پیاسے مسافروں نے راستے میں ایک موٹا تازہ ہاتھی کا بچہ تنہا دیکھا تو وہ سب بھوک کے غلبے سے اندھے ہو کر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔اسے جلد ہی شکار کرکے اس کا گوشت پکا کر سب نے اپنی بھوک مٹائی۔ایک شخص نے نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ہاتھی کے اس بچے کا گوشت نہیں کھایا تھا۔جب ان مسافروں کے پیٹ بھر گئے تو پھر ان پر غنودگی طاری ہوئی اور وہ سب سو گئے۔ادھر اپنے بچے کو ڈھونڈتے ہوئے ایک خوف ناک ہاتھی ان سونے والوں کے سر پر آن پہنچا۔اس ہاتھی نے سب سے پہلے اتفاق سے اسی شخص کا منہ سونگھا،جس نے ہاتھی کے بچے کا گوشت نہیں کھایا تھا۔ہاتھی نے اس شخص کے گرد تین چکر لگائے۔ہاتھی کو اس کے منہ سے کوئی مخصوص بُو نہ آئی تو وہاں سے چلا گیا۔پھر اس ہاتھی نے ہر سوئے ہوئے شخص کے منہ کو سونگھا۔لہٰذا ہاتھی کو ہر ایک سے خاص بُو آتی رہی،کیونکہ انھوں نے ہاتھی کے بچے کا گوشت کھایا تھا۔ہاتھی نے ان سب کو آن کی آن میں چیر پھاڑ دیا۔گویا ہاتھی ان سوئے ہوؤں میں سے ایک کو پکڑتا اور ہوا میں اُچھال دیتا۔یوں زمین پر گرتے ہی وہ شخص ہلاک ہو جاتا۔گویا ہاتھی کے بچے کی ماں نے ان سب لوگوں سے اس طرح سے انتقام لیا کہ کوئی وہاں سے بھاگ کر بھی جان نہ بچا سکا۔ " چھوٹی سی نیکی - تحریر نمبر 2433,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/choti-si-naiki-2433.html,"ماہین خالد،راولپنڈیابراہیم آج جب امی کے ساتھ بازار سے سودا سلف خرید کر بس میں بیٹھا تھا۔بس چلنے لگی تو ایک بچہ بس میں داخل ہوا۔میلے کچیلے کپڑے،ٹوٹے ہوئے جوتے اور بکھرے بالوں والا وہ بچہ کافی صحت مند تھا۔اس نے بس میں موجود لوگوں کو پہلے سلام کیا اور پھر اس نے بتایا کہ اس کے ابو مستری تھے،جو مکان کی تعمیر کے دوران چھت سے گر کر فوت ہو گئے۔گھر میں پانچ چھوٹے بہن بھائی ہیں۔کھانا کھا کر وہ دعائیں دیں گے۔اللہ آپ کو محتاج نہ کرے۔مہربانی کرکے میری کچھ مدد کریں۔بچہ تقریباً بارہ سال کا تھا۔وہ کافی دیر بس میں کھڑا رہا۔سوائے ایک خاتون اور دو بوڑھے مردوں کے کسی نے اس کی مدد نہ کی۔ابراہیم نے جب اپنی امی سے کہا کہ وہ بھی اس کو کچھ پیسے دیں تو امی نے کہا کہ کچھ لوگ اس طرح سے بچوں سے بھیک منگواتے ہیں۔(جاری ہے)ابراہیم نے امی سے بحث نہ کی۔گھر آ کر بھی وہ سارا دن بے چین رہا۔رات کو سوتے ہوئے بھی اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار وہ بچہ آتا رہا۔ابراہیم نے اپنا اور اس کا موازنہ کیا۔ابراہیم کے ابو کا انتقال ہو چکا تھا۔امی ایک گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر تھیں۔ابراہیم سے چھوٹی دو بہنیں اقراء اور مریم تھیں۔ابراہیم پندرہ سال کا تھا۔اس نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ابراہیم کو اچھا کھانا اور کپڑے ملتے تھے اور اس بچے نے میلے کچیلے کپڑے پہن رکھے تھے جب کہ اس کو کھانے کے لئے بھی بھیک مانگنا پڑ رہی تھی۔ابراہیم بار بار خود کو یہ کہہ کر مطمئن کرتا رہا کہ امی ٹھیک کہہ رہی ہیں،لیکن اس کا دل مطمئن نہیں تھا۔اس دوران وہ نیند کی وادیوں میں چلا گیا۔دو دن بعد جب ابراہیم اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل کر واپس آ رہا تھا تو اس کو وہ بچہ نظر آیا،جو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں سے کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔کچھ دیر بعد ایک آدمی اور پھلوں کے چھلکے پھینک کر چلا گیا۔بچے نے فوراً وہ چھلکے اُٹھائے اور دوسری سمت چل پڑا۔ابراہیم بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔تھوڑی دیر بعد وہ ایک کچی بستی میں پہنچ گئے۔وہ بچہ ایک جھونپڑی میں داخل ہوا تو ابراہیم دروازے میں کھڑا ہو گیا۔جیسے ہی اس بچے نے پھلوں کے چھلکے رکھے،پانچ چھوٹے بچے چھلکوں کی طرف لپکے۔گرمیوں کا موسم تھا اور گرمیوں کے زیادہ تر پھل چھلکوں والے ہی ہوتے ہیں۔بچے چھلکوں پر لگا بچا کچا گودا کھا رہے تھے جب کہ بچوں کی ماں ساتھ والی چارپائی پر بیٹھی تھی۔یہ سب دیکھ کر ابراہیم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔وہ جب گھر واپس آیا تو اس نے اپنی امی کو سب بتا دیا،جسے سن کر اس کی امی بہت دکھی ہوئیں۔انھوں نے گھر سے کچھ راشن،فالتو کپڑے اور کچھ پیسے لیے اور ابراہیم کے ساتھ اس بچے کی جھونپڑی میں گئیں۔ابراہیم اور اس کی امی کو دیکھ کر وہ لوگ بہت حیران ہوئے۔جب ابراہیم کی امی نے انھیں سامان پکڑایا تو عورت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اس نے ابراہیم اور ان کی امی کا شکریہ ادا کیا۔آج ابراہیم بہت خوش تھا اور اس کی تمام فکر دور ہو گئی تھی۔اب اس نے دوسرے لوگوں کو بھی نیکی میں شریک کر لیا تھا۔ " اجنبی سردار - تحریر نمبر 2432,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ajnabi-sardar-2432.html,"عاشرہ محمد رمضانکسی گاؤں کے سردار کا انتقال ہو گیا۔گاؤں والوں کے درمیان بحث شروع ہو گئی کہ نیا سردار کس کو بنایا جائے۔گاؤں والے کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے۔آخر یہ طے پایا کہ جو شخص سب سے پہلے گاؤں میں داخل ہو گا،اس کو سردار بنا لیا جائے گا۔یہ سن کر ایک تجربے کار دانا بزرگ نے کہا:”یہ مناسب نہیں ہے۔ہونا یہ چاہیے کہ پہلے اپنے قریبی لوگوں میں،پھر علاقے میں اور پھر شہر سے باصلاحیت اور مخلص انسان کو منتخب کرو۔“لیکن گاؤں والوں نے اس دانا شخص کی بات نہ مانی اور گاؤں میں سب سے پہلے داخل ہونے والے شخص کے استقبال کی تیاری شروع کرنے لگے۔گاؤں والوں نے اپنی روایت کے مطابق کھجور کی شاخیں اُٹھا کر اور راہوں میں دریاں بچھا کر آنے والے کا انتظار کرنے لگے۔(جاری ہے)کچھ دیر بعد گدھے پر سوار نیلی چادر اوڑھے ایک شخص گاؤں میں داخل ہوا۔جس کو دیکھ کر گاؤں والوں نے خوشی کا اظہار کیا اور اس سے کہا:”آج سے آپ ہمارے گاؤں کے سربراہ ہیں۔“ان کی بات سن کر گدھے پر سوار شخص نے کہا:”میں کیسے تمہاری بات مان لوں کہ میں تمہارا سردار ہوں اور تم میرا ہر حکم مانو گے۔“گاؤں والوں نے کہا:”آپ جو بھی حکم دیں گے،ہم اس پر عمل کریں گے۔“گدھے پر سوار شخص نے کہا:”میں تم کو آزمانے کے لئے حکم دیتا ہوں کہ تم لوگوں کے پاس جو بھی سونا چاندی،مال وزر ہے،میرے حضور پیش کرو۔“یہ حکم سن کر تمام گاؤں والے اپنے گھروں سے سارا مال سمیٹ کر لے آئے۔جس کو دیکھ کر اس شخص نے کہا:”میں بہت تھکا ہوا ہوں۔آرام کرنا چاہتا ہوں۔تم سب لوگ جشن مناؤ۔“گاؤں والوں نے اس شخص کو اس کی آرام گاہ پر چھوڑ دیا۔سب لوگ جشن میں لگ گئے اور تھک کر سو گئے۔دوسرے دن جب نئے سربراہ کو لینے گئے تو وہ وہاں نہیں تھا۔وہ سارا مال اور سب دولت سمیٹ کر فرار ہو چکا تھا۔یہ دیکھ کر گاؤں والوں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔جب دانا شخص نے گاؤں والوں کی یہ حالت دیکھی تو کہا:”اب کیا رونا پیٹنا جب چڑیا چگ گئی کھیت۔“تمام گاؤں والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس دانا شخص کو باہمی مشاورت سے گاؤں کا نیا سربراہ بنا لیا گیا۔ " عظیم ماں - تحریر نمبر 2431,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azeem-maa-2431.html,"ساجد کمبوہگھر کے باہر والا دروازہ دھڑم سے کھلا پپو تیزی سے گھر میں داخل ہوا اور زور زور سے چلانے لگا۔ماما جان،ماما جان ہمیں 15 دسمبر سے چھٹیاں ہو رہی ہیں اور تین جنوری کو سکول جانا ہے۔توبہ توبہ اس نگوڑی حکومت کے پاس مہنگائی اور چھٹیوں کے علاوہ کوئی کام نہیں․․․․بیٹا!پوری دنیا میں جب ایسی کوئی مصیبت آئے تو سب کے آخر میں سکول بند کرتے ہیں ہمارے ہاں سب سے پہلے سکول بند کرتے ہیں۔میرا خیال ہے حکومت کے پاس اور کوئی کام نہیں ماما جان ان چھٹیوں میں نانی جان کے پاس چلیں گے پپو نے کہا۔نہیں ماما جان اس بار بڑی آنٹی کے پاس چلیں گے۔ساتھ کھڑے اسد نے کہا۔نہیں ماما جان!نانی جان کے پاس چلیں گے وہاں گنے،شکرقندی اور تازہ گڑ․․․․․پپو نے کہا ماما جان!آنٹی کے پاس․․․․․انکل کی شاپ سے مٹھائی،فروٹ اور Lays وغیرہ اور ساتھ طلحہ عمر اور فرید بھائی ہیں خوب کھیلیں گے۔(جاری ہے)اچھا بھئی پہلے بیگ تو رکھو اتنا وزن اُٹھائے کھڑے ہو آپ کو احساس نہیں ہو رہا۔رات کو جب آپ کے پاپا آئیں تب فیصلہ کریں گے۔ان کی ماما نے کہا ماما جان!آپ کی سفارش بہت اہم ہے پلیز نانی جان کے پاس․․․․نہیں نہیں آنٹی کے پاس شام کو ان کے پاپا آئے دونوں نے بھاگ کر استقبال کیا اور کہا”پاپا جان آپ کا انتظار ہو رہا تھا آج سے چھٹیاں ہو گئیں ہیں اس بار نانی جان کے پاس․․․․․پاپا جان بڑی آنٹی کے پاس،آ بھئی اپنی ماما سے معاملہ کر لو میرے پاس چھٹیاں نہیں ہیں،مجھے چھٹی نہیں ملے گی اسد بیٹا آپ اپنی ماما کے ساتھ․․․․․نہیں پاپا جان اتنا لمبا سفر آپ کے بغیر نہیں کر سکتے۔ویسے بھی ماما جان سے چلا نہیں جاتا ان کے گھٹنوں میں درد ہے بازار جانا ہو تو راستے میں سانس لینے بیٹھ جاتی ہیں۔مجھے بڑی الجھن ہوتی ہے میں آپ کے بغیر نہیں جاؤں گا۔اسد نے کہا،بھئی مجبوری ہے ورنہ آپ کے ساتھ جاتا،بھئی آپ کی والدہ بیماری کی وجہ سے فربہ ہو گئی ہیں ماں تو ماں ہوتی ہے۔آپ سامان اُٹھا لینا․․․․پاپا جان آپ کی بات تو ٹھیک ہے مگر مجھے ان کے ساتھ شرم محسوس ہوتی ہے۔مجھے جگہ جگہ رک کر ان کا انتظار کرنا پڑتا ہے کئی واقف کار اور کلاس فیلوں دیکھتے ہیں میرا مذاق بناتے ہیں۔بھئی اس میں مذاق اُڑانے والی کونسی بات ہے یہ تو نظام قدرت ہے اس میں آپ کی ماما کا کیا قصور؟پھر بھی پاپا جان میں آپ کے بغیر نہیں جاؤں گا۔“اسد نے کہا۔مجھے بہت افسوس ہوا تمہیں اپنی ماما کے ساتھ شرم محسوس ہوتی ہے۔آج آپ کو ایک ایسی ماں کا بتاتا ہوں جسے اپنے بچے پالنے میں کوئی شرم محسوس نہ ہوئی جس نے ان کے لئے طنزیا فقرات سنے،بے عزتی برداشت کی اور مذاق تک اُڑایا گیا آفرین اس ماں پر۔ " قسم سے - تحریر نمبر 2430,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qasam-se-2430.html,"روبینہ ناز،کراچی”صبغت اللہ“!عدن بھیا نے اُسے آواز دی تو وہ بھاگا چلا آیا ”یہاں میری گیند پڑی تھی،اب نہیں ہے۔کہاں گئی“؟اُنہوں نے اُس سے پوچھا۔یہ سن کر صبغت اللہ نے جواب دیا!بھیا مجھے تو نہیں معلوم۔”تمہیں کیوں نہیں معلوم“؟تم جھوٹ بول رہے ہو جلدی بتاؤ،مجھے کرکٹ کھیلنے جانا ہے۔بھیا کو اب غصہ آ رہا تھا۔”قسم سے عدن بھیا!مجھے نہیں معلوم۔اُس نے قسم کھائی۔“یہ سنتے ہی عدن بھیا کو غصہ آ گیا اور وہ تیز لہجے میں بولے ”تم جھوٹے ہو اب اس جھوٹ کو چھپانے کیلئے قسم کھا رہے ہو تم شاید نہیں جانتے کہ جھوٹی قسم نہیں کھاتے۔“ انہوں نے پیار سے صبغت اللہ کو سمجھایا۔بھیا کے جانے کے بعد وہ اپنی گود میں سر رکھ کر رونے لگا۔(جاری ہے)تو بی پھوپھو کا وہاں سے گزر ہوا تو وہ اُسے روتا دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔صبغت اللہ بیٹا کیا ہوا آپ کو؟انہوں نے بڑے پیار سے پوچھا۔وہ اپنی ہر بات ان سے شیئر کر لیا کرتا تھا کیونکہ وہ اس کی دوست بھی تھیں پکی والی۔کوئی میری کسی بات پر یقین ہی نہیں کرتا میں لاکھ اپنی بات کہوں مگر سب مجھے جھوٹا ہی سمجھتے ہیں۔صبغت اللہ نے بتایا۔وہ جانتی تھیں کہ کچھ دنوں سے وہ بات بات پر قسم کھانے لگا ہے جو کوئی اچھی بات نہیں تھی۔”اچھا!پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے ہر بات پر قسم کھانا کس سے سیکھا ہے؟“انہوں نے پوچھا۔”وہ میری کلاس میں ایک دوست ہے شاید اس سے کیونکہ وہ ہر بات پر قسم کھاتا ہے“ وہ بولا۔یہ سن کر تو بی پھوپھو بولیں ”آپ کو پتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟“”تاکہ دوسروں کو اُس کی بات پر یقین آ جائے۔“ صبغت اللہ نے جھٹ جواب دیا۔”نہیں میرا بچہ!قسم کھانا بُری بات ہے اگر کسی کو آپ کی بات پر اعتبار ہے تو وہ آپ کے قسم کھائے بغیر کرے گا نہیں تو آپ ہزار قسمیں کھا لو وہ کسی صورت آپ کی بات پر یقین نہیں کرے گا۔یہ سُن کر صبغت اللہ کے چہرے پر شرمندگی دکھائی دی۔“انہوں نے صبغت اللہ کو یہ بھی بتایا کہ جب اللہ اور پیارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بات بات پر قسم کھانے کو ناپسند فرمایا تو ہم اس کام کو پسند کرکے شیطان کے دوست کیوں بنیں؟جی پھوپھو!مجھے تو اللہ کا دوست بننا ہے۔صبغت اللہ نے بات کو سمجھتے ہوئے کہا تو ثوبی پھوپھو نے اس کا ماتھا چوم لیا۔ " کالا گورا - تحریر نمبر 2429,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kala-gora-2429.html,"سلمان یوسف سمیجہ علی پور”بیٹا!آپ اس سکول میں کب آئے ہو؟“ چھوٹے کوے کو کلاس میں کھڑا کرکے سر اُلو نے پوچھا۔”سر جی!میں آج پہلے دن ہی سکول آیا ہوں“ چھوٹے کوے نے کائیں کائیں کرکے کہا۔”اوئے بے سُرے!یہ کائیں کائیں کلاس روم میں نہیں چلے گی۔“ بی فاختہ جو ہر طرف امن دیکھنا چاہتی تھی،کلاس روم میں بھی امن دیکھنے کی خواہاں تھی۔”فاختہ بہن!میری فطرت ہے،کائیں کائیں کرنا!“ چھوٹا کوا نرمی سے بولا۔”سر!یہ کالا کلوٹا تو کلاس روم کا ماحول خراب کر رہا ہے،یہ تو ایک کالا دھبہ ہے“ گورا چٹا کبوتر اپنی گوری رنگت پر غرور کرتے ہوئے بولا۔”اسے یہ کائیں کائیں اور کالی رنگت خدا نے دی ہے۔“ سر اُلو نے اُن کو سمجھاتے ہوئے کہا ”کسی کے نیک اعمال کو پرکھنا چاہئے،دیکھئے ذرا!یہ چھوٹا کوا دوسرے کوؤں کی نسبت کتنا اچھا ہے،اس میں ذرا بھی چڑچڑا پن نہیں ہے۔(جاری ہے)“ سب پرندے سر اُلو کی باتوں سے اُکتاہٹ محسوس کر رہے تھے۔”سر!اس کالو سے کہیں کہ یہ کہیں اور جا کر بیٹھ جائے،مجھے اس سے گھِن آ رہی ہے۔“ کوا،گورے کبوتر کے ساتھ بیٹھا تھا جو اُسے بالکل بھی برداشت نہیں ہو پا رہا تھا۔”یہ تو یہیں بیٹھے گا،تم کسی اور جگہ پر بیٹھنا چاہتے ہو تو شوق سے بیٹھ جاؤ۔“ سر اُلو کوے کی طرفداری کرتے ہوئے بولے۔کبوتر منہ بسور کر رہ گیا،وہ اس جگہ سے نہیں اُٹھ سکتا تھا کیونکہ یہ اُس کی پسندیدہ جگہ تھی اور یہاں لیکچر بھی صحیح طریقے سے سمجھ آتے تھے۔سو وہ وہیں بیٹھا رہا اور کوے سے گھِن کھاتا رہا۔کوا،پرندوں کی باتوں کے منہ توڑ جواب اس لئے نہیں دے رہا تھا کہ وہ ایک بہت اچھا کوا تھا اور پرندوں سے اترا کر بات کرنا اس کی عادت نہیں تھی۔سر اُلو،کوے کے اخلاق و کردار سے واقف تھے،اُس کی طرفداری کرنے کی یہی وجہ تھی۔”یہ کوا اچھا ہے،آہستہ آہستہ یہ سبھی طالب علم پرندوں کو اپنی طرح اچھا بنا دے گا۔“ سر اُلو اطمینان سے سوچتے ہوئے لیکچر دینے لگے۔چھوٹا کوا باقاعدگی سے سکول آتا اور سبھی سے اچھا برتاؤ رکھتا،مشکلات میں اُن کے کام بھی آتا۔جس کی وجہ سے سبھی اُسے اچھا جاننے لگے۔گورا کبوتر اُس کا اچھا دوست بن گیا اور وہ اپنی گوری رنگت پر نہیں اس بات پر فخر کرتا تھا کہ کوا اُس کا بہترین دوست ہے اور وہ اُس کے ساتھ بیٹھتا ہے۔کوے نے اپنے اخلاق سے سب کے دل جیت لئے۔واقعی!اچھے اعمال ہوں تو رنگت کی اہمیت نہیں۔ " ماں (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2428,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maa-aakhri-hissa-2428.html,"ریحانہ اعجازسونیا کو شدید چوٹیں آئیں․․․․خون بے تحاشہ بہہ رہا تھا۔بے ہوش سونیا کو ہسپتال لایا گیا۔سونیا کو خون کی اشد ضرورت تھی اور سونیا کا بلڈ گروپ بھی اے بی نیگییٹو تھا جو بہت ہی کامیاب ہوتا ہے۔چاہ کر بھی مطلوبہ مقدار میں دستیاب نہ ہو سکا۔سونیا ہنوز بے ہوش تھی۔تب زینت بیگم نے اپنا بلڈ دینے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ان کا اور سونیا کا بلڈ گروپ ایک ہی تھا۔جس وقت سونیا ہوش کی دنیا میں آئی تو کیا دیکھتی ہے کہ برابر والے بیڈ پر زینت بیگم لیٹی ہیں۔ان کا خون قطرہ قطرہ اس کے جسم میں داخل ہو کر اس کی نئی زندگی کا ضامن بن رہا ہے۔تب ہی وقار صاحب اندر داخل ہوئے۔پیار سے سونیا کا سر سہلاتے ہوئے اس کی طبیعت پوچھی اور بتایا کہ کس طرح زینت بیگم نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے بضد ہو کر اس کے لئے خون فراہم کیا۔(جاری ہے)سونیا پر جیسے آگہی کے کئی در ایک ساتھ واہو گئے․․․․وہ سوچنے لگی․․․”شروع سے آج تک جیسا رویہ میں نے مما کے ساتھ اپنایا اس کے بعد بھی مما نے اپنا خون مجھے دیا صرف میری زندگی بچانے کے لئے۔یہ تو ڈھونگ یا دکھاوا نہیں ہو سکتا۔“بلکہ اگر وہ واقعی مجھے اپنا نہ سمجھتیں یا میرا برا چاہتیں تو یہ تو اچھا موقع تھا مجھ سے باآسانی ان کی جان چھوٹ سکتی تھی۔پھر انہوں نے ایسا کیوں کیا؟کیا واقعی مما مجھے دل سے چاہتی ہیں؟ایسی تمام سوچیں ذہن میں لئے وہ صحت یاب ہو کر گھر آ گئی۔زینت بیگم نے سونیا کی خوب دیکھ بھال کی،بالکل ویسے ہی جیسی ایک ماں اپنی بیٹی کی کرتی ہے سونیا چپ چاپ انہیں تکتی رہتی۔اس کا دل و دماغ مختلف خیالات کی آماجگاہ بنتا جا رہا تھا۔سونیا جیسے لاشعور سے شعور میں قدم رکھ رہی تھی۔جب جب اپنا رویہ اور زینت بیگم کا سلوک یاد آتا سونیا اپنی ہی نظروں میں شرمندہ ہو کر رہ جاتی۔بالآخر ایک دن اپنے دل و دماغ کی کشمکش سے گھبرا کر زینت بیگم کے کمرے میں چلی آئی۔اور ایک دم ان کی گود میں سر رکھ کر بری طرح رونے لگی․․․․”مما مجھے معاف کر دیں۔پلیز مجھے معاف کر دیں۔“میں نے آپ کو ہمیشہ سوتیلی ماں ہی سمجھا مگر آپ تو مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں۔بالکل اتنا ہی جتنا زوبیہ سے۔زینت بیگم نے اسے چپ کروایا اور پیار کرتے ہوئے کہا۔”سونیا بیٹا،میری جان میں واقعی تم سے اتنا ہی پیار کرتی ہوں جتنا زوبیہ سے۔کیونکہ میں ایک ”ماں“ ہوں اور جو ماں ہوتی ہے وہ نا سگی ہوتی ہے نا سوتیلی وہ صرف ایک ماں ہوتی ہے۔“زینت بیگم کا لہجہ مسلسل پیار کی پھوار برسا رہا تھا۔برسوں سے سونیا کے دل و دماغ میں سلگتی نفرت کی چنگاریاں بجھتی جا رہی تھیں۔سونیا نے خود کو مزید ممتا کی آغوش میں چھپا لیا۔ " ماں (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2427,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maa-pehla-hissa-2427.html,"ریحانہ اعجاز”سونی بیٹا کھانا کھا لو۔“مما نے بڑے پیار سے سونیا کو پکارا۔سونی نے ایک نظر مما کو دیکھا اور نہایت بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولی․․․․”کتنی بار آپ سے کہا ہے کہ مجھے بار بار ایک ہی بات نہ کہا کریں۔“جب مجھے بھوک ہو گی میں خود ہی کھا لوں گی۔اور ہاں بیٹا تو مجھے بالکل بھی نہ کہا کریں کیونکہ میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں۔“بدتمیزی سے انگلی اُٹھا کر تنبیہہ کرتی سونیا پاؤں پٹختی کمرے سے نکل گئی۔مسز وقار نے دکھ اور افسوس سے ہلتے ہوئے پردے کو دیکھا اور زوبیہ کو گود میں لئے کھڑی ہو گئیں۔سونیا اپنے کمرے میں بیٹھی غصے سے کھول رہی تھی۔اسے اپنی کلاس فیلو بینا کی مما کی باتیں نئے سرے سے یاد آنے لگیں جو انہوں نے چھٹی کے وقت کہی تھیں۔(جاری ہے)جب وہ بینا کو سکول لینے آئیں تو سونیا کو پیار کرتے ہوئے کہنے لگیں۔”ہائے بن ماں کی بچی․․․․اگر آج تمہاری ماں زندہ ہوتی تو سب کام چھوڑ کر وہ بھی تمہیں لینے آ جاتی۔بس تم پر تو اللہ ہی رحم فرمائے۔سوتیلی ماں کبھی اپنی نہیں ہوتی۔“سونیا کو آئے دن کسی نہ کسی سے ایسی ہی باتیں سننے کو ملتیں۔سونیا 10 سال کی تھی جب اس کی مما کار ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو گئیں․․․دس سالہ سونیا کو سنبھالنا وقار صاحب کے بس کی بات نہ تھی․․․نہ ہی وہ سونیا کو پوری طرح نوکروں کے رحم و کرم پر چھوڑ سکتے تھے۔خود دن رات بزنس میں مصروف رہتے تھے۔بالآخر دوستوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے زینت بیگم سے دوسری شادی کر لی اس شادی سے سونیا بہت خوش تھی کہ اب پھر اس کو مما مل گئیں۔مگر یہ ظالم دنیا والے کسی کو بھی خوش نہیں دیکھ سکتے۔معصوم سے ذہن میں دن رات ملنے جلنے والوں نے سوتیلی ماں سے نفرت کو پروان چڑھانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔”ڈھیروں جملے ذہن میں نقش ہو گئے کہ“”دیکھنا اب سونیا کی کوئی ویلیو نہیں ہو گی۔“کون پرائی اولاد کو اپناتا ہے،اپنی اولاد ہوتے ہی زینت بیگم کو سونیا اپنی دشمن نظر آئے گی۔“سوتیلی ماں سوتیلی ہی ہوتی ہے وہ کبھی اپنی نہیں بن سکتی۔سوتیلی ماں پیار بھی کرے گی تو دنیا دکھاوے کو یا وقار صاحب کے دل میں گھر کرنے کے لئے لیکن دن میں بغض ہی رکھے گی۔“غرض اسی طرح کی باتیں سنتے سنتے سونیا بڑی ہوتی گئی۔زینت بیگم ایک نیک فطرت اور مثبت سوچ رکھنے والی نرم مزاج خاتون تھیں۔انہوں نے جتنا سونیا کے نزدیک ہونے کی کوشش کی وہ اتنا ہی دور ہوتی گئی۔وہ ان کے پیار،محبت،نرمی سب کو ایک ڈھونگ گردانتی تھی۔زندگی اسی طرح رواں دواں تھی۔اسی دوران اللہ نے مسٹر اور مسز وقار کو ایک اور بیٹی سے نوازا تھا۔زوبیہ جہاں ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھی وہیں حیرت انگیز بات کہ سونیا بھی زوبیہ سے بہت پیار کرتی تھی۔مگر زینت بیگم کے سامنے کبھی اظہار نہ کرتی ان کے اِدھر اُدھر ہوتے ہی زوبیہ کو خوب پیار کرتی اور زینت بیگم کے سامنے روبیہ سے لاتعلق ہی رہتی۔اب سونیا کالج میں تھی اور زوبیہ نے سکول جانا شروع کر دیا تھا۔ایک دن کالج سے واپسی پر ڈرائیور کی لاپرواہی سے بہت خوفناک ایکسیڈنٹ ہو گیا۔(جاری ہے) " لٹیرے،بکرا اور مسافر - تحریر نمبر 2426,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lootere-bakra-aur-musafir-2426.html,"اسما سارہ قریشی،کراچیگاؤں سے شہر جانے والی واحد سڑک پر ایک پرانی جھونپڑی نما سرائے تھی،جس کا مالک ایک غریب آدمی تھا۔سڑک پر سفر کرنے والے لوگ اکثر اس سرائے میں ٹھہر جاتے تھے۔کچھ عرصے سے لوگوں نے اس سڑک پر سفر کرنا کم کر دیا تھا۔اس کی وجہ وہ لٹیرے تھے،جو گھات لگا کر مسافروں کو لوٹ لیتے تھے۔سرائے کا مالک بہت پریشان تھا۔گاؤں میں بھی خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔ان ہی دنوں ایک مسافر گاؤں آیا،جس کے ساتھ اس کا بکرا بھی تھا۔اس نے گاؤں والوں کو پریشان دیکھا تو ان کی مدد کرنے کی ٹھانی۔ایک رات گاؤں میں گزار کر اگلے دن وہ شہر کی طرف چلا۔اس نے بکرے کو کاندھوں پر اُٹھا رکھا تھا۔کچھ لوگ درخت کے پیچھے سے اسے دیکھ رہے تھے۔جوں ہی وہ سرائے سے کچھ آگے نکلا،اسے محسوس ہوا کچھ لوگ اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔(جاری ہے)وہ چوکنا ہو گیا۔وہ لٹیرے تھے،جو تیزی سے مسافر کی طرف بڑھ رہے تھے۔مسافر بھی بے خبر نہیں تھا۔اس نے بکرے کو زمین پر چھوڑا اور بھاگ کھڑا ہوا،لیکن کچھ دور جا کر رک گیا۔لٹیروں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور بکرے کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھے،بکرا دو قدم پیچھے کی طرف ہٹا اور سر جھکا کر تیزی سے ایک لٹیرے کے پیٹ میں ٹکر ماری،وہ اُلٹ کر گرا اور چیخنے چلانے لگا۔دوسرے لٹیرے نے بکرے کی طرف دوڑ لگائی،لیکن بکرے نے اسے بھی خاک چٹا دی۔لٹیرے اُٹھ کر بھاگنا چاہتے تھے،لیکن بکرے نے مار مار کر ان کا بُرا حال کر دیا۔لٹیرے تکلیف کی شدت سے بے حال ہو رہے تھے۔ان کا یہ حال دیکھ کر مسافر نے لٹیروں کو مخاطب کرکے کہا:”اگر تم لوگ لوٹ مار سے باز آنے کا وعدہ کرو تو میں اس بکرے کو واپس بلا لوں گا،ورنہ یہ خود ہی تم لوگوں سے حساب بے باق کر لے گا۔لٹیرے زور زور سے توبہ کرنے لگے کہ آئندہ کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔اس طرح مسافر کی عقل مندی سے گاؤں والوں کا سکون بھی لوٹ آیا۔ " محنت رائیگاں نہیں جاتی - تحریر نمبر 2425,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-raigan-nahi-jati-2425.html,"انیلا طاہر،کراچیزین ایک غریب بچہ تھا۔اسے کرکٹر بننے کا بہت شوق تھا۔اس کی ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی۔ان کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں تھے کہ وہ بلا اور گیند خرید کر بیٹے کو دے سکیں۔وہ ایک ڈنڈے اور ایک پلاسٹک کی بال کے ساتھ کھیل کی مشق کیا کرتا تھا۔گلی کے بچے بھی اس کو غریب ہونے کی وجہ سے اہمیت نہیں دیتے تھے۔ایک بار وہ گلی کے بچوں کو للچائی نظروں سے کرکٹ کھیلتے دیکھ رہا تھا کہ ایک لڑکے راشد نے زین کو بلا کر کھیل میں شامل ہونے کے لئے کہا۔زین نے اس قدر شاندار کارکردگی دکھائی کہ سب بچے حیران رہ گئے۔ایک ایسا بچہ جس کے پاس گیند،بلا تک نہیں ہے،اتنا اچھا کھیل سکتا ہے۔اس روز کے بعد وہ زین کو روزانہ کھیل میں شریک کرنے لگے۔(جاری ہے)ہر کوئی چاہتا کہ زین اس کی ٹیم میں شامل ہو،لیکن زین ہمیشہ راشد کے ساتھ ہی شامل ہوتا،جس نے اسے پہلی بار موقع دیا تھا۔راشد کے اسکول میں شہر کے تمام بڑے اسکولوں کی ٹیموں کے درمیان کھیل کے مقابلے ہو رہے تھے۔راشد نے اپنے پرنسپل کو قائل کرکے جیت کا یقین دلا کر زین کو ٹیم میں شامل کروا لیا۔زین کو ٹیم میں شامل کرنے سے ان کے اسکول کی ٹیم فائنل میں پہنچ گئی۔تمام مقابلوں میں زین نے شاندار کارکردگی دکھائی تھی۔مقابلے میں بھی زین کی صلاحیت نے ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کرایا،جس سے زین کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ٹیلی ویژن نے بھی اس کے کھیل کو اُجاگر کیا۔زین کا انٹرویو بھی نشر کیا گیا اور پاکستان کی بیس سال سے کم عمر نوجوانوں کی قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کر لیا۔سارے اخراجات بھی حکومت نے اپنے ذمے لے لیے۔یوں زین کی سچی لگن اور محنت نے اسے انتہائی بلندی تک پہنچا دیا۔زین نے اپنی زندگی کے پہلے بین الاقوامی کھیل میں بھی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔اس نے اپنے ہر انٹرویو میں راشد کا نام لیا اور اپنی تمام کامیابیوں کا سہرا راشد کے سر باندھا،جس نے اسے پہلی بار موقع دیا تھا اور پھر اپنے اسکول کی ٹیم میں شامل کروایا تھا۔اس نے کہا:”ہمارے معاشرے کو راشد جیسے لوگوں کی ضرورت ہے،جو کسی کے لئے اُمید کی کرن بنیں۔“ " یہ میرے کھلونے ہیں - تحریر نمبر 2424,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/yeh-mere-khilone-hain-2424.html,"افشاں خانمیرے سوہنے موہنے بچو!یہ کہانی ہے ایک پینگوئن پنگو کی جو اپنے امی ابو کے ساتھ تھا۔پنگو کی چونچ سرمئی،پر کالے،پاؤں زرد اور باقی سارا جسم سفید تھا۔ہاں ناں بچو!یہ ایک بہت ہی پیارا پینگوئن تھا!پنگو پینگوئن کا گھر برف سے بنا ہوا تھا۔یہ گھر اس کے امی ابو نے مل کر بنایا تھا۔ایک دن پنگو اکیلے کھیل کھیل کر تنگ آ گیا۔اس نے کہا۔”امی جان!مجھے نانو کے گھر جانا ہے۔میں وہاں پونی کے ساتھ کھیلوں گا۔“پونی پنگو کے ماموں کی بیٹی تھی۔امی جان نے سنا تو کہنے لگیں۔”ٹھیک ہے۔تم اپنا بیگ تیار کر لو۔ہم کل ہی چلتے ہیں۔“اگلی صبح امی جان نے کچھ تازہ مچھلیاں پکڑیں،انہیں ایک ٹفن میں رکھا اور پنگو کا ہاتھ پکڑ کر چل دیں۔(جاری ہے)راستے میں پنگو پلان بناتا رہا کہ پونی سے کیا کیا کھیلنا ہے۔جب اسے دور سے نانو کا گھر نظر آیا تو اس نے ایک چھلانگ لگائی اور دور تک برف پر پھسلتا گیا۔آخر گھر کے پاس پہنچ کر پنگو نے دروازہ کھٹکھٹایا اور بولا۔”میں آ گیا نانو میں آ گیا!“دروازہ پونی نے کھولا اور منہ بنا کر پنگو کیپروں کو دیکھا جو برف سے بھر گئے تھے۔”ہونہہ!اپنے پر جھاڑ کر اندر آنا۔میں نے ابھی صفائی کی ہے۔“یہ کہہ کر پونی اندر چلی گئی۔”جی نہیں!میں تو اندر آ کر ہی پر صاف کروں گا۔اُف!پونی کو تنگ کرنے میں کتنا مزہ آتا ہے!“یہ کہہ کر پنگو اندر آ گیا۔پھر اس نے اُچھل اُچھل کر پروں سے برف جھاڑی جو اُڑ اُڑ کر میز اور صوفوں پر جا گری۔”آہا!میرا بیٹا پنگو آیا ہے۔کیسے ہو تم میرے بچے!“پنگو کی نانو نے اندر آتے ہی کہا اور پنگو کو خوب پیار کیا۔پھر انہوں نے پونی کو آواز دی۔”پونی!پونی بیٹا!جلدی سے مہمانوں کے لئے سوپ بنا کر لاؤ۔دیکھو تو پنگو کتنی سردی میں آیا ہے۔“جب پونی سوپ اور چاول بنا کر مہمان خانے میں لائی تو اس نے دیکھا۔صوفوں اور میز پر پڑی برف اب پگھل رہی تھی۔”یہ پنگو!جب بھی آتا ہے کتنا تنگ کرتا ہے۔سارا کچھ گیلا کر دیا۔“یہ کہہ کر پونی ایک کپڑا لائی اور دوبارہ سے صفائی کرنے لگی۔کھانے کے بعد نانو نے کہا۔”پونی!اپنے کھلونے لے آؤ اور پنگو کے ساتھ کھیلو۔“پونی اپنے کھلونے لے آئی۔اس کے پاس دو چھوٹی چھوٹی بطخیں اور ایک سلائیڈ تھی۔جب بطخوں کو سلائیڈ کے اوپر رکھا جاتا تو وہ پھسل کر نیچے آ جاتیں۔پنگو کو یہ کھلونا بہت اچھا لگا۔”پونی یہ بطخیں مجھے دے دو۔“”کیوں کیوں!یہ میری ہیں۔میں کیوں دوں؟“”نہیں یہ مجھے لینے ہیں۔میں کیوں دوں؟“”نہیں یہ مجھے لینے ہیں۔یہ کھلونے مجھے اچھے لگے ہیں۔“پنگو نے ضد کی۔پونی بولی۔”جی نہیں!یہ میرے کھلونے ہیں۔آپ کے نہیں۔آپ اپنے کھلونوں سے کھیلو۔بس!“اس سے پہلے کہ پنگو اور پونی کی لڑائی ہو جاتی،نانو وہاں آ گئیں۔انہوں نے کہا۔”پونی!آپ کچھ دیر کے لئے اپنے کھلونے پنگو کو دے دو۔یہ مہمان آیا ہے۔میں نے کھڑکی سے دیکھا جب پنگو آیا تو آپ نے منہ بنایا تھا۔یہ تو اچھی بات نہیں!جو بچے مہمان کے آنے سے خوش ہوتے ہیں،انہیں اچھا اچھا کھانا کھلاتے ہیں،اچھی اچھی چیزیں دیتے ہیں اللہ پاک ان بچوں سے بہت خوش ہوتے ہیں۔مہمان کو خوش رکھنا چاہیے۔“پونی نانو کی باتیں سنتی رہی۔پھر پنگو کی امی بولیں۔”پنگو!آپ نے بھی پونی کو تنگ کیا ہے۔اس سے سوری کریں۔“پھر پنگو نے پونی سے معافی مانگی اور پونی نے بھی اپنے کھلونے پنگو کو کھیلنے کے لئے دے دیے۔میرے پیارے بچو!آپ کے گھر بھی جب مہمان آئیں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں،انہیں مزیدار کھانا کھلائیں اور انہیں خوب آرام دیں۔اس طرح کرنے سے اللہ پاک آپ سے بہت خوش ہوں گے۔اب میں چلتی ہوں۔میں نے اپنے مہمانوں کے لئے گرم گرم سوپ بنانا ہے۔ " کُتری ہوئی کتاب - تحریر نمبر 2421,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kutri-hui-kitab-2421.html,"جدون ادیب”چچا جان!کتابیں چوہوں نے کُتر دی ہیں۔پورا کارٹن خراب ہو چکا ہے۔افسوس کہ برسوں سے انھیں دیکھا نہیں گیا،ورنہ اتنا نقصان نہ ہوتا۔“فہیم نے یہ بُری خبر اپنے چچا کو سنائی،جو ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔یہ خبر سن کر انھیں صدمہ ہوا۔فہیم بے بسی سے اپنے چچا کو دیکھنے لگا۔چچا جان نے تقریباً تیس سال پہلے ایک کتاب لکھی تھی،جس میں انھوں نے انٹرنیٹ کے استعمال سے ہونے والے صحت کے مسائل،سماجی بُرائیوں اور دیگر نقصانات کو موضوع بنایا تھا۔بدقسمتی سے اس وقت نیٹ کا استعمال زیادہ نہ تھا تو ان کی کتاب فروخت نہ ہو سکی۔نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو نقصان ہوا۔وہ کتاب انھیں اونے پونے بیچنا پڑی۔دو سو کاپیاں انھوں نے ایک کارٹن میں محفوظ کر لی تھیں۔(جاری ہے)جب ہسپتال میں جمع پونجی اور قرض سے ملنے والی رقم بھی ختم ہو گئی تو انھوں نے فہیم سے کہا کہ وہ اسٹور سے ان کا کارٹن نکال کر وہ کتابیں ان کے ایک دوست پبلشر کو دے دے،تاکہ وہ کچھ رقم دے دے،مگر جب فہیم نے کارٹن کھولا تو دیکھا کہ کتابوں کو چوہوں نے جگہ جگہ سے کُتر دیا تھا۔کتاب تو مصنفین کے لئے اولاد کی طرح ہوتی ہے۔شاید اسی لئے ان کو صدمہ پہنچا۔فہیم کو چچا کی بہت فکر تھی،وہ ایک ہمدرد نوجوان تھا۔حساس دل کا مالک تھا۔اس نے بہت غور و فکر کے بعد اپنے چچا کی کہانی لکھی،جس میں اس نے کتاب کے کچھ اہم حصے بھی شامل کیے۔ہسپتال میں موجود چچا کی بے بسی کی تصویریں بھی لیں اور ان سب کی ایک ویڈیو بنا کر خدمتِ خلق کی ایک سوشل ویب سائٹ گروپ پر ڈال دی۔اگلے دو دن تک فہیم بہت مصروف رہا۔چچا جان کی صحت بہتر تھی،مگر اب ہسپتال والے رقم کا تقاضا کر رہے تھے،تاکہ ان کا مزید علاج جاری رکھا جا سکے۔فہیم نے پریشانی کے عالم میں سوشل میڈیا کو چیک کیا تو چونک گیا۔اس کی ویڈیو راتوں رات لوگوں پر اثر کر گئی تھی۔آج کمپیوٹر اور موبائل فون کے بے دریغ استعمال نے جن مسائل کو جنم دیا تھا،ان سب کا تذکرہ برسوں پہلے فہیم کے چچا نے کر دیا تھا۔یقینا وہ دور اندیش آدمی ہیں۔لوگوں کو ان کی کتاب کا موضوع پسند آیا تھا۔فہیم کے لئے ڈھیروں پیغامات تھے۔ایک پبلشر نے کتاب کے حقوق خریدنے اور اسے نئے انداز میں شائع کرنے کی بات کی تھی۔ایک ویب سائٹ نے کتاب اپنے طور پر چھاپنے کے لئے معقول رقم کی پیش کش کی تھی۔کسی نے تجویز دی کہ صاحبِ حیثیت لوگ اسی خستہ حالت میں کتاب کو خرید کر مصنف کی مدد کر سکتے ہیں۔دوسری طرف ہزاروں لوگ فہیم کے چچا کے لئے دعا گو تھے اور ان کی مدد کرنا چاہتے تھے۔فہیم نے تیزی سے فیصلے کرنا شروع کر دیے۔چچا سے مشورے کے بعد اس نے کتاب کو نئے سرے سے چھاپنے کے لئے ایک پبلشر سے معاہدہ کر لیا۔دوسری طرف مدد کرنے والے معمولی کُتری ہوئی کتابیں خریدنے لگے۔فہیم رات کو کتابیں پیک کرتا اور صبح انھیں ڈاک سے بھجوا دیتا۔اس نے چچا کی مدد کے لئے ایک اکاؤنٹ کھول دیا۔تقریباً ایک ہفتے میں ساری کتابیں فروخت ہو گئیں۔ایک مخیر شخص نے ہسپتال کا سارا بل ادا کر دیا۔چچا کی کوئی اولاد نہ تھی اور چچی کا انتقال ہو چکا تھا۔وہ فہیم کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے تھے۔جب فہیم نے انھیں اپنی کارگزاری سنانا شروع کی تو وہ سمجھے کہ شاید فہیم ان سے مذاق کر رہا ہے،مگر جب فہیم نے اپنا موبائل فون ان کے سامنے رکھا تو وہ یہ سب دیکھ کر حیران رہ گئے۔فہیم بولا:”چچا!آپ کو اب اپنی کتاب پر نظرِ ثانی کرنی ہے۔آپ نے برسوں پہلے دوسروں کے لئے جو اچھا سوچا تھا،اس کی ضرورت آج زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔“چچا کھوئے کھوئے انداز میں موبائل فون پر پیغامات پڑھ رہے تھے پھر وہ بولے:”برسوں پہلے میرے پیشِ نظر لوگوں کا مفاد تھا۔کتاب نہیں بکی تو میں سمجھا کہ میرے خلوص اور میری محنت کا صلہ نہیں ملا۔میری کتاب کو پذیرائی نہ ملی،مگر خدا کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔جب میں نے سنا کہ چوہوں نے میری کتابیں کُتر دی ہیں تو مجھے گہرا صدمہ ہوا،مگر اللہ بلاشبہ جو کرتا ہے،ہمارے بھلے کے لئے کرتا ہے۔میں سمجھا کہ میرا ہزاروں کا نقصان ہو گیا ہے،مگر اسی نقصان میں خیر چھپا ہوا تھا اور اسی نقصان نے مجھے لاکھوں کا مالک بنا دیا اور میری کتاب آج پھر سے چھپنے اور لوگوں کی نظر میں پذیرائی حاصل کرنے جا رہی ہے۔یہ میرے صبر اور محنت کا صلہ ہے،مگر اس کی وجہ تم بنے۔تم جیسے نوجوان ہماری اُمیدوں کا مرکز ہیں۔“ " شکریہ دادا ابو - تحریر نمبر 2420,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shukriya-dada-abbu-2420.html,"عروج سعدآج بھی ننھے عاشر کے چہرے پر اُداسی چھائی ہوئی تھی اور شاید آنکھوں میں نمی بھی تھی۔اس بات کو محسوس کرکے سب ہی پریشان ہو گئے۔امی نے عاشر کو چمٹا لیا اور ابو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:”جب سے بابا کا انتقال ہوا ہے،یہ ایسے ہی چپ چاپ سا رہتا ہے۔“دادا کا ذکر سن کر عاشر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا،میرے سب سے اچھے،سب سے پکے دوست مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور چلے گئے۔وہی تو تھے جو مجھے ”عاشو بچہ“ اور ”میرا لڈو“ کہہ کر پکارتے تھے۔“ابو نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے باہر لان میں لے آئے اور بولے:”آپ دادا کو ضرور یاد کریں۔اُن کے لئے مغفرت کی دعا کریں اور جو اچھی اچھی باتیں انھوں نے آپ کو سکھائیں ہیں،انھیں بھی یاد رکھیں۔(جاری ہے)اگر آپ یہ سب کریں گے تو یقین کریں کہ اُن کی روح بے حد خوش ہو گی۔“عاشر نے پوچھا:”اب میں مسجد کس کے ساتھ جایا کروں؟کہانیاں کس سے سنا کروں؟“ابو اس سوال کے لئے پہلے سے تیار تھے،فوراً جواب دیا:”پڑوس والے امین دادا ہیں نا،دادا ابو ان کے بھی تو پکے دوست تھے۔وہ بھی تو دادا ابو کے جانے کے بعد سے کتنے غم زدہ اور تنہا رہتے ہوں گے۔آپ کو تو ان کا خیال بھی نہیں آیا۔جیسے آپ دادا ابو کی زندگی میں امین دادا کے گھر جاتے تھے۔اسی طرح اب بھی جایا کریں۔“یہ بات عاشر کے دل کو لگی اور اگلے ہی دن وہ امین دادا کے گھر پہنچ گیا۔دن گزرتے گئے۔عاشر اور امین صاحب کی دوستی پروان چڑھتی گئی۔عاشر کو امین صاحب کی شکل میں اپنے دادا ابو کا عکس نظر آتا تھا۔جب امین صاحب مسکراتے تو اسے لگتا کہ جیسے اس کے دادا ابو مسکراتے ہوئے اسے شفیق نظروں سے دیکھ رہے ہوں۔عاشر پانچویں سے بارہویں جماعت میں پہنچ گیا۔پڑھائی،کھیل اور دیگر مصروفیات کے باوجود وہ بلاناغہ امین صاحب کے پاس جاتا۔کبھی ان کو اخبار پڑھ کر سناتا،کبھی لوڈو کھیلتا،کبھی ان کا سر دباتا اور کبھی ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں چہل قدمی کرانے نکل جاتا۔اس دوران وہ ہر موضوع پر باتیں کرتے۔امین صاحب جب اپنے تجربات اور واقعات اسے سناتے تو وہ بہت لطف اندوز ہوتا اور ان سے سبق بھی حاصل کرتا۔اسی وجہ سے وہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ سمجھ دار اور تمیز دار نظر آتا۔فضول باتوں اور کاموں میں وقت ضائع نہ کرتا۔کچھ دنوں تک امین صاحب کی طبیعت خراب رہی،پھر ایک دن اچانک وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔عاشر کو ایسا محسوس ہوا جیسے ایک بار پھر اس کے دادا ابو اُسے اکیلا چھوڑ گئے ہوں۔وہ ایک مرتبہ پھر غم زدہ اور بے چین رہنے لگا۔ابو اس کی اس کیفیت کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔آخر ایک دن اسے لان میں تنہا دیکھ کر انھوں نے کہا:”بیٹا!میں دیکھ رہا ہوں امین صاحب کے انتقال کے بعد سے آپ گم صُم رہنے لگے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ آپ نے ان کے جانے کا بہت زیادہ اثر لے لیا ہے۔“عاشر نے سر جھکاتے ہوئے کہا:”جی ابو!ایسا ہی ہے۔دادا ابو کے بعد امین دادا مجھے بہت عزیز ہو گئے تھے۔مجھے ایسا لگتا تھا کہ مجھے جو بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے،وہ انہی کی دعاؤں کی وجہ سے ہوئی ہے،مگر اب تو مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ابو!آپ ہی بتائیں،آخر میں کیا کروں کہ میرا دل مطمئن ہو جائے؟“ابو اپنے حساس بیٹے کی باتیں سن کر بہت متاثر ہوئے اور کہا:”اچھا تو یہ بات ہے۔آپ کے خیالات قابلِ قدر ہیں۔واقعی جو انسان اپنے بزرگوں سے محبت اور ان کی قدر کرتا ہے،دنیا اور آخرت میں ضرور سرخرو ہوتا ہے،مگر ایسے بھی بدقسمت لوگ ہیں جو اپنے بزرگوں کی عزت کرنے کے بجائے انھیں بوجھ سمجھتے ہوئے انھیں گھر سے بے گھر کر دیتے ہیں۔ایسے افراد کی دیکھ بھال کے لئے کئی ادارے قائم ہیں۔آپ چاہیں تو ایسے ہی کسی ادارے میں رضاکارانہ طور پر کام کر سکتے ہیں۔وہاں ایک نہیں کئی بزرگ ہوں گے جنہیں آپ دادا ابو کہہ کر پکار سکیں گے اور جن کی خدمت کرکے آپ ڈھیر ساری دعائیں لے سکیں گے۔“عاشر فوراً بول پڑا:”ابو!آپ مجھے ایسے ہی کسی ادارے میں لے چلیں،تاکہ میں رضاکار کے طور پر اپنا نام بھی لکھوا دوں؟“ابو نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا:”کیوں نہیں،بلکہ آپ چاہیں تو اپنے دوستوں کو بھی اس نیک کام میں شامل کر سکتے ہیں۔“یوں عاشر اور اس کے چند دوستوں نے بزرگ افراد کی دیکھ بھال کرنے والے ایک اولڈ ہوم میں شام کے وقت دو گھنٹے گزارنے شروع کر دیے۔رفتہ رفتہ وہاں موجود بزرگوں سے ان کی قربت ہو گئی۔جب وہ ان کے ساتھ مل کر حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتا،ان کو دوائیں دیتا،ان کی الماریوں میں چیزوں کی ترتیب درست کرتا تو یہ بوڑھے لوگ اسے دل کی گہرائیوں سے دعائیں دیتے اور عاشر کو یوں محسوس ہوتا کہ اسے دنیا کی سب سے بڑی دولت مل گئی ہو۔چند ہی سالوں میں پڑھائی مکمل ہو گئی اور عاشر نے ایک ماہر تعمیر کی حیثیت سے ایک بڑی کمپنی میں ملازمت شروع کر دی،مگر اولڈ ہوم سے اس کا تعلق برقرار رہا،وہ اب بھی چھٹی کے دن وہاں جاتا۔اب اس نے وہاں اپنے خرچ پر دو تربیت یافتہ نرسوں اور کچھ وہیل چیئرز کا انتظام بھی کر دیا تھا،تاکہ وہاں موجود افراد کی بہتر دیکھ بھال ہو سکے۔آفس میں اسے سب ”عاشر صاحب“ کہتے تھے۔اولڈ ہوم میں آتے ہی ”عاشو بچہ“ بن جاتا اور اس کے چہرے پر بھی وہی بچوں کی سی معصومیت واپس آ جاتی۔عاشر اپنے دادا ابو کا دل سے شکر گزار تھا،جن کی تربیت اور محبت نے اسے نیکی کے راستے پر چلنے کی ترغیب دی تھی۔ " تلافی - تحریر نمبر 2419,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/talafi-2419.html,"شعاع قاسمبچے گلی میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔عثمان نے زور دار شارٹ لگایا تو گیند انکل شاداب کے پورچ میں جا گری تھی۔”ارے!یہ کیا کر دیا تم نے؟“تمام بچے عثمان پر غصہ کرنے لگے۔”ارے بھائی!میں نے جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کیا،اب میں خود پچھتا رہا ہوں۔“عثمان پشیمانی سے بولا۔”چلو!اب سب اپنے اپنے گھر چلتے ہیں،کیونکہ میرا خیال ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اتنا باہمت نہیں جو انکل شاداب سے اپنی گیند واپس مانگ سکے۔“حمزہ نے مایوسی سے کہا تو سبھی منہ لٹکا کر اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو گئے۔انکل شاداب محلے کے ایک اکھڑ مزاج آدمی تھے۔عمر تقریباً ساٹھ پینسٹھ سال ہو گی۔وہ اپنے گھر میں اکیلے رہتے تھے۔شروع میں محلے کے کچھ افراد نے ان سے میل جول رکھنے کی کوشش کی،لیکن ان کی بدمزاجی اور نامناسب رویے سے تنگ آ کر انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔(جاری ہے)شام کے وقت گلی میں کافی چہل پہل ہوتی تھی،لیکن شاداب انکل ایسی رونق و شور شرابے سے بے انتہا چڑتے تھے اور اگر کوئی گیند ان کے صحن میں آ گرتی تو بچوں کو بے بھاؤ کی سننا پڑتیں،لہٰذا اب کوئی بچہ ان کے گیٹ کے نزدیک پھٹکنے کی کوشش نہ کرتا۔ایک دن شام کو سب بچے کرکٹ کھیلنے گلی میں اکھٹے تھے۔انہوں نے آپس میں پیسے جمع کرکے نئی گیند خریدی تھی،لہٰذا سب کو خاص تاکید کی گئی کہ گیند کسی صورت میں شاداب انکل کے گھر میں نہ گرے،ورنہ جو ایسا شارٹ مارے گا وہی کل نئی گیند خرید کر لائے گا۔کھیل شروع ہوا،ابتداء میں تو بچے احتیاط سے سنبھل سنبھل کر کھیلتے رہے،لیکن جوش میں آ کر ساری احتیاطیں بھول گئے اور دھڑا دھڑ چوکے چھکے لگانے لگے۔اسامہ نے تیزی سے آتی ہوئی گیند پر ایسا چھکا مارا کہ وہ انکل شاداب کے پورچ میں لگے فانوس پر جا لگی اور ایک زور دار آواز کے ساتھ اس کے کچھ بلب اور شیشے ٹوٹ گئے۔تمام بچوں کا حال بُرا ہو گیا۔سب ہی بھاگ کر اِدھر اُدھر چھپ گئے۔جب کافی دیر گزرنے کے بعد بھی انکل کے چیخنے چلانے کی آواز نہ آئی تو بچوں نے یہی سمجھا کہ وہ گھر پہ موجود نہیں ہیں۔اب وہ جب بھی گھر واپس آتے تو اپنے پورچ میں موجود ٹوٹے فانوس کے ٹکڑوں اور گیند سے ساری بات سمجھ جاتے اور پھر بچوں کی شامت یقینی ہوتی۔چنانچہ گیند کو وہاں سے ہٹانا نہایت ضروری تھا۔فیصلہ یہ ہوا کہ اسامہ ہی گیٹ پر چڑھ کر اندر سے گیند لائے گا۔اس نے ڈرتے ڈرتے ہامی بھری اور گیٹ پر لگی گرل کی مدد سے اوپر چڑھنے لگا۔اوپر پہنچ کر اس نے کپکپاتی ٹانگوں سے اندر کی جانب چھلانگ لگا دی۔گیند سامنے موجود کمرے کے دروازے کے پاس ہی پڑی تھی۔وہ جونہی گیند کی جانب بڑھا،اس کی نظر کمرے کے اندر پڑی۔خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔انکل شاداب اوندھے منہ قالین پر بے ترتیب پڑے تھے۔اسامہ نے اپنی ہمت جمع کرکے مین گیٹ کو اندر کی جانب سے کھولا اور باہر کھڑے بچوں کو سارا ماجرا سنا ڈالا۔کچھ بچے ہمت کرکے آگے بڑھے اور انکل کو ہلانے جلانے کی کوشش کی،لیکن ان میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔چند بچے جلدی سے اپنے گھروں کی جانب بھاگے،تاکہ کسی بڑے کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیا جا سکے۔جلد ہی محلے کے کچھ افراد نے فوری ایمبولینس بلوا کر انکل کو ہسپتال پہنچایا۔ڈاکٹر نے معائنہ کرنے پر بتایا کہ ان کا بلڈ پریشر خطرناک حد تک کم ہو جانے کے باعث وہ بے ہوش ہو گئے ہیں اور اگر مزید تاخیر ہو جاتی تو ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا تھا۔بہرحال ڈاکٹروں کے فوری علاج کے بعد انکل کو ہوش آ گیا۔قریب کھڑے محلے کے ایک صاحب نے انھیں تمام تفصیل سے آگاہ کیا اور فانوس کے نقصان سے آگاہ کیا اور بچوں کے ہاتھوں ان کے فانوس کے نقصان پر معافی مانگی۔شاداب انکل ساری بات سن کر رو پڑے اور تمام محلے داروں سے اپنے سابقہ رویے پر معذرت چاہی اور ان کی زندگی بچانے پر بچوں بڑوں کا بے حد شکریہ ادا کیا۔رات تک انکل کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔کچھ دن بعد بچوں کی دو ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ تھا۔میچ آخری لمحات میں تھا۔ایک بال پہ چھکا درکار تھا۔سب کی نگاہیں بیٹنگ کرتے حمزہ پر تھیں۔جس نے سامنے آتی گیند پر ایک زور دار شارٹ مارا اور گیند ایک بار پھر شاداب انکل کے پورچ میں جا گری،لیکن اب کسی بچے کو اس بات کا ڈر نہیں تھا۔ان سب کی نظریں ایمپائر کی طرف تھیں جس نے مسکراتے ہوئے اپنے دونوں بازو اوپر آسمان کی طرف اُٹھا رکھے تھے۔وہ ایمپائر بچوں کے ہر دل عزیز انکل شاداب تھے۔ " نانی،دادی اور ہم - تحریر نمبر 2418,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nani-dadi-aur-hum-2418.html,"مریم شہزاداحمد،عماد کی پھوپھی کا بیٹا تھا۔دونوں میں بہت دوستی تھی۔آج کل چھٹیوں کی وجہ سے احمد اپنی نانی کے گھر رہنے آیا ہوا تھا۔جب عماد احمد کی نانی کو دادی کہتا تو وہ ٹھٹک جاتا،مگر آج تو احمد اور عماد میں بحث چھڑ گئی تھی۔دونوں ابھی چھوٹے ہی تھے اور اسی وجہ سے شاید پریشان ہو گئے تھے۔”نہیں بھئی یہ دادی نہیں ہیں،نانی ہیں۔“احمد نے عماد سے کہا۔”ارے نہیں دادی ہیں۔مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔“عماد نے کہا۔”میں کہہ رہا ہوں نا کہ نانی ہیں،تو بس نانی ہیں۔“احمد نے فیصلہ سنا دیا۔”اور میں کہہ رہا ہوں کہ دادی ہیں،مجھے میری امی نے بتایا ہے اور نانی تو وہ ہیں جن کے گھر ہم ہر ہفتے کو جاتے ہیں۔“عماد نے کہا۔(جاری ہے)”ارے بھئی،تم سمجھتے کیوں نہیں ہو؟“احمد کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ عماد کو کیسے سمجھائے۔”اچھا ایسا کرتے ہیں نانی سے ہی پوچھ لیتے ہیں۔“احمد نے کہا۔”دادی سے․․․․“عماد کیوں اپنی بات سے پیچھے ہٹتا۔”نانی!“”دادی!“دونوں ایک بار پھر اُلجھ پڑے۔دونوں ان کے پاس گئے۔وہ ایک کتاب پڑھ رہی تھیں۔”آپ ذرا عماد کو تو سمجھا دیں یہ آپ کو دادی کیوں کہتا ہے،آپ تو نانی ہیں نا․․․․؟“احمد نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔”جی نہیں آپ تو دادی ہیں۔“عماد بھی بضد تھا۔”نانی․․․․“”جی نہیں،دادی․․․․“”میں کہہ رہا ہوں ناں نانی․․․․“”ارے،ارے کیا ہو گیا ہے،اس میں لڑنے کی کیا بات ہے۔“”آپ بتائیں نانی!“احمد نے نانی پر زور دے کر کہا۔وہ دونوں کی بات سن کر مسکرا دیں:”آپ دونوں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں،میں احمد کی نانی ہوں اور عماد کی دادی ہوں۔“”یہ کیا بات ہوئی؟“احمد نے کہا۔”اور آپ نانی کیسے ہو سکتی ہیں،نانی کے گھر تو ہم ہفتے کو جاتے ہیں اور آپ کو میں دادی کہتا ہوں تو اس کا مطلب آپ دادی ہیں․․․․بس۔“عماد بھی بول اُٹھا۔”دیکھو میں تم کو سمجھاتی ہوں،ابو کی جو امی ہوتی ہیں وہ بچوں کی دادی ہوتی ہیں اور امی کی جو امی ہوتی ہیں وہ بچوں کی نانی ہوتی ہیں۔“انھوں نے سادہ طریقے سے بات سمجھائی۔”مگر ہم جہاں رہتے ہیں،وہاں تو ہماری امی اور ابو دونوں کی امی ہیں،وہ دونوں ہی ان کو امی کہتے ہیں میں بھی ان کو بڑی امی کہتا ہوں،ہمارے گھر تو کوئی دادی نہیں ہیں۔“احمد کیوں کہ اپنی دادی کو بڑی امی ہی کہتا تھا اس لئے اس کی سمجھ میں ہی نہیں آیا۔”وہ جو آپ کے گھر میں بڑی امی ہیں نا وہ دراصل آپ کی دادی ہیں اور وہ آپ کے ابو کی امی ہیں اور میں آپ کی امی کی امی ہوں،اس لئے آپ کی نانی ہوں۔“نانی نے احمد کو سمجھایا۔”آپ عماد کی امی ہیں یا ابو کی؟“احمد نے پھر پوچھا۔”میں عماد کے ابو کی امی ہوں،اس لئے اس کی دادی ہوں اور جیسے تم ہر جمعہ کو یہاں آتے ہو تو یہ تمہاری نانی کا گھر ہے اور جہاں عماد ہفتے کو جاتے ہیں وہ ان کی نانی کا گھر ہے۔اب بات سمجھ میں آئی؟“انھوں نے دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔”اچھا،ٹھیک ہے مطلب آپ دادی بھی ہیں اور نانی بھی،لیکن نانی ایک بات تو بتائیں،اگر ہم بچے نانی کو دادی اور دادی کو نانی کہہ بھی دیں تو کوئی حرج تو نہیں ہے،ہے نا؟“احمد نے کہا تو عماد نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور دادی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو نانی دادی بس سر ہلا کر رہ گئیں۔ " احساس - تحریر نمبر 2417,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehsaas-2417.html,"حدیقہ حبیب،کراچیفرحان ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔وہ اخلاق کا بہت اچھا تھا۔وہ جب بھی اپنے دوستوں کو دیکھتا تو ان سے جا کر سلام کرتا اور ان کی خیریت دریافت کرتا۔ایک مرتبہ فرحان اپنے کندھوں پر بکری لے کر جا رہا تھا۔اس کے دوست ایک درخت کی آڑ میں کھڑے تھے۔انھوں نے فرحان کو دیکھا تو ان میں سے ایک دوست نے فرحان کو آواز لگائی،لیکن اس نے آواز سن کر کوئی توجہ نہیں دی۔ایک دوست نے کہا کہ چلو ہم فرحان کا تعاقب کرتے ہیں کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔تینوں فرحان کا پیچھا کرنے لگے۔ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ فرحان کہاں جا رہا ہے۔اب تو گاؤں کا راستہ بھی ختم ہو گیا تھا،پھر ان تینوں نے دیکھا کہ فرحان ایک شخص کے قریب جا کر رک گیا۔وہ شخص بہت زیادہ غریب لگ رہا تھا۔(جاری ہے)ایسا لگ رہا تھا کہ اس شخص نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے۔فرحان نے اپنی گردن سے وہ بکری اُتاری اور اس شخص کو دے دی۔وہ انسان بہت خوش ہوا اور فرحان کو دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔فرحان کے تینوں دوست حیران ہو گئے اور سوچنے لگے کہ وہ کون تھا؟بعد میں فرحان سے پوچھا تھا اس نے بتایا کہ وہ شخص خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی کئی دن سے بھوکے تھے۔میں نے سوچا،اس کی مدد کرنی چاہیے۔میں نے اپنی بکری اس کو دے دی،تاکہ وہ بکری کا دودھ نکال کر پیے اور باقی دودھ بیچ کر پیسے کمائے۔دوستوں نے کہا کہ وہ بکری تو تم کو بہت پسند تھی اور تم اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔فرحان نے کہا کہ بکری تو پھر آ جائے گی،لیکن وہ لوگ بھوک سے پریشان تھے،بیمار ہو کر مر بھی سکتے تھے۔فرحان کے دوست بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے سوچا کہ ہم ایک فنڈ بناتے ہیں جس کے ذریعے ہم غریبوں اور مسکینوں کی مدد کیا کریں گے۔فرحان کے سارے دوست اپنے جمع کیے ہوئے سارے پیسے لے آئے۔اب ان کے گاؤں میں جو بھی غریب ہوتا وہ اس کے گھر میں راشن ڈلوا دیتے یا پھر غربت کی وجہ سے اسکول میں کسی بچے کی فیس نہیں بھری جا سکی ہو تو اس کی فیس بھر دیتے اور اسی طرح سب ناداروں کی مدد کرتے۔جب گاؤں کے لوگوں نے بچوں کے اس اچھے کام کو دیکھا تو ان کے اس کام میں ان کا ساتھ دینے لگے اور وہ بھی اس میں پیسے ملانے لگے۔اس طرح فرحان اور اس کے دوستوں کا ایک چھوٹا سا خدمت کرنے کا ادارہ قائم ہو گیا۔ " پانی کا فیصلہ (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2416,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pani-ka-faisla-aakhri-hissa-2416.html,"محمد فہیم عالم”میری حضور سے گزارش ہے کہ ان چوروں سے اس غلام کی جان چھڑوائی جائے اور ان کو قید خانے میں ڈال دیا جائے تاکہ یہ دوبارہ مجھ جیسے کسی اور قسمت کے ستائے ہوئے کو تنگ نہ کر سکیں۔“فقیر انتہائی عاجزی و انکساری سے بولا۔یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔اُس کی درد بھری باتیں سن کر دربار میں موجود لوگوں کے دل پسیج گئے تھے۔”کیوں بھئی کیا یہ فقیر سچ کہہ رہا ہے؟“بادشاہ سلامت نے سوالیہ نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھا۔”نہیں عالی جاہ۔“یہ مکار و عیار بوڑھا جھوٹ بول رہا ہے۔حضور!ہم دونوں بھائی ہیں۔تلاش روزگار نے ہمیں وطن سے بے وطن کر دیا اور ہم روزی کمانے کے لئے آپ کے ملک میں آ گئے۔(جاری ہے)سلطان معظم!ہم قصاب کا کام کرتے ہیں۔ہم نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے یہ اشرفیاں جمع کی تھیں اور اب سات سالوں بعد اپنے وطن واپس جا رہے تھے کہ اچانک ہم نے اس فقیر کی عجیب و غریب صدا سنی۔یہ کہہ رہا تھا:”کوئی ہے جو میرے ہاتھ پر تھوڑی دیر کے لئے چند اشرفیاں رکھ دے تاکہ میں بھی کچھ دیر دولت کے احساس کا مزہ چکھ سکوں۔“”حضور!ہمیں اس پر ترس آ گیا اور ہم نے اشرفیاں اس کے ہاتھ پر رکھ دیں اور یہ ان پر قبضہ جما کر بیٹھ گیا۔میری حضور سے التجا ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے اور ہمیں ہماری اشرفیاں واپس دلوائی جائیں تاکہ ہم جلد از جلد اپنے وطن پہنچ سکیں۔“اتنا کہہ کر وہ نوجوان خاموش ہو گیا۔وہ بڑا بھائی تھا۔تمام معاملہ سن کر بادشاہ سلامت گہری سوچ میں پڑ گئے۔وہ بہت ہی انصاف پسند اور عقل مند بادشاہ تھے لیکن یہ عجیب و غریب ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔اچانک انہیں ایک خیال آیا۔”ایک برتن میں گرم پانی لایا جائے۔“اچانک دربار میں بادشاہ سلامت کی بارعب اور پُرجلال آواز گونجی۔یہ سن کر دونوں بھائی تھرتھر کانپنے لگے۔وہ سمجھے شاید بادشاہ سلامت کو فقیر کی بات پر یقین آ گیا ہے۔اور وہ ان دونوں کو لٹیرے خیال کر کے سزا دے رہے ہیں۔کچھ ہی دیر بعد خادم ایک بڑے سے برتن میں کھولتا ہوا گرم پانی لے آیا۔”فقیر․․․!تمام اشرفیاں اس گرم پانی میں ڈال دو۔“بادشاہ سلامت بولے۔فقیر نے حسرت سے ایک نظر بادشاہ سلامت کی طرف دیکھا اور اشرفیاں پانی میں ڈال دیں۔دربار میں موجود تمام لوگ بھی تعجب سے بادشاہ سلامت کی طرف دیکھ رہے تھے کہ آخر وہ کرنا کیا چاہتے ہیں؟بادشاہ سلامت اپنے تخت سے اُٹھے اور پانی کے برتن کے پاس آ گئے۔کافی دیر وہ بغور پانی کو دیکھتے رہے۔”یہ فقیر جھوٹا اور مکار ہے۔یہ اشرفیاں اس کی نہیں ہیں بلکہ ان دو اجنبی مسافروں کی ہیں۔اس دھوکے باز فقیر کو لے جا کر قید میں ڈال دو۔اور اشرفیاں ان دونوں بھائیوں کے حوالے کر دو۔“بادشاہ سلامت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔سب لوگ ان کے اس فیصلے پر حیران تھے کہ آخر ان کو کیسے پتہ چلا۔فقیر جھوٹا اور دونوں بھائی سچے ہیں۔”حضور!سلطان کا اقبال بلند ہو۔اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں“آخر ایک درباری نے ہمت کی۔”امان دی جاتی ہے۔کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔“”حضور!ابھی آپ نے جو فیصلہ فرمایا ہے۔درست ہی فرمایا ہے۔کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ بہت ہی انصاف پسند ہیں ناانصافی تو آپ کر ہی نہیں سکتے۔عالی جاہ!آپ کا یہ فیصلہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ نے یہ فیصلہ کیسے کر لیا۔“درباری بولا۔”یہ فیصلہ میں نے نہیں دراصل گرم پانی نے کیا ہے۔“”پانی نے․․․․بھلا وہ کیسے․․․․؟سب نے حسرت سے بادشاہ سلامت کی طرف دیکھا۔“”جی ہاں!پانی نے۔وہ اس طرح کہ ان دونوں بھائیوں کا کہنا تھا کہ یہ قصاب کا کام کرتے ہیں۔گوشت کاٹتے بیچتے ہیں تو عام طور پر قصابوں کے ہاتھ سے گوشت کے ذرات اشرفیوں پر لگ جاتے ہیں جب میں نے اشرفیاں پانی میں ڈالیں تو گوشت کے ذرات گرم پانی کی وجہ سے الگ ہو کر اوپر تیرنے لگے۔بس میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ بھکاری جھوٹ بول رہا ہے اور یہ دونوں بھائی سچے ہیں۔“بادشاہ سلامت بولتے چلے گئے جبکہ دربار میں موجود لوگ محبت و عقیدت سے اپنے عقل مند بادشاہ کو دیکھ رہے تھے اور اُن اجنبی مسافروں کے دلوں سے بادشاہ سلامت کے لئے دعائیں نکل رہی تھیں۔ " دانی بنا کھلاڑی - تحریر نمبر 2415,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dani-bana-khilari-2415.html,"عائشہ اطہرچند لڑکے گلی میں بیڈمنٹن کھیل رہے تھے اور دانی بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا،مگر اس کی باری نہیں آ پا رہی تھی،حالانکہ ریکٹ بھی اس کا تھا۔معظم عمر میں اس سے بڑا تھا۔دانی کے ریکٹ سے کافی دیر سے کھیل رہا تھا،مگر وہ نہ تو ریکٹ دانی کو واپس کر رہا تھا اور نہ اس کو کھیلنے کا موقع دے رہا تھا۔”جب میں ہار جاؤں گا تو دے دوں گا۔“معظم نے کہا۔”معظم آہستہ کھیلو۔نیا ریکٹ خریدا ہے۔“دانی نے اسے ٹوکا۔معظم پر اس کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔کچھ دیر بعد اچانک تڑخ کی آواز کے ساتھ ریکٹ ٹوٹ گیا۔”یہ تم نے کیا کیا!کل ہی تو خریدا تھا۔“دانی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔”کل دوسرا لے آنا،پھر کھیلیں گے۔(جاری ہے)“معظم لاپرواہی سے بولا۔”میں کیوں لاؤں؟تم نے توڑا ہے۔“دانی نے جراح کی۔”اگر کھیلنا ہے تو لانا پڑے گا،ورنہ گھر میں بیٹھے رہنا۔“معظم کی دھمکی کے آگے دانی نے ہتھیار ڈال دیے۔دانی تھوڑی دیر سوچتا رہا اور پھر اپنے گھر کے باہر بنے چھوٹے سے چبوترے پر خاموشی سے دونوں ہاتھ ٹھوڑی پر ٹکائے بیٹھ گیا۔”دانی!کیا ہوا۔کیا سوچ رہے ہو؟“سامنے گھر میں رہنے والے شکیل بھائی کی آواز نے اس کو چونکا دیا۔”شکیل بھائی!میرے پاس ریکٹ نہیں ہے اور گلی کے بچے بغیر ریکٹ کے مجھے نہیں کھلائیں گے۔“”کیوں،کیا یہ لوگ تمہیں اپنے ریکٹ سے نہیں کھیلنے دیتے؟“”شکیل بھائی!یہ لوگ صرف اچھا کھیلنے والوں کو اہمیت دیتے ہیں۔“”تو تم اچھا کھیلنا سیکھ لو۔“شکیل بھائی نے اسے مشورہ دیا۔”کیسے؟“”محنت سے اور کیسے۔“شکیل بھائی نے سمجھایا:”میں تمہیں سکھاؤں گا،مگر محنت کرنی پڑے گی۔“یوں دانی میاں کی بیڈمنٹن ٹریننگ شروع ہوئی۔یہ تو اب شکیل بھائی کے لئے بھی ایک مشن بن گیا تھا۔امی بھی حیران تھیں کہ اب وہ کھیل سے واپسی پر اُداس اور پریشان نظر نہیں آتا تھا۔اس کی آنکھوں میں خود اعتمادی بھی تھی۔اس میں ایک بڑا ہاتھ شکیل بھائی کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا تھا۔”اوہو،آج تو دانی صاحب آئے ہیں اور ریکٹ بھی ساتھ لائے ہیں۔چلو تھوڑی دیر میں ان کی باری آ ہی جائے گی۔“معظم نے دانی کو آتے دیکھا تو طنزیہ انداز میں کہا۔”نہیں پہلے میری باری ہو گی۔“دانی کا انداز فیصلہ کن تھا۔معظم کو یقین تھا کہ دانی کی باری مختصر ہو گی۔اس نے ایک ناتجربے کار کھلاڑی ظفر کو آگے کیا۔وہ سمجھتا تھا کہ دانی ہار جائے گا اور ریکٹ اسے مل جائے گا۔دانی نے پہلا میچ جیتنے کے بعد چاروں طرف دیکھا۔”راحیل!تم چلے جاؤ،اس کو ہرا دو۔پھر میں اور تم کھیلیں گے۔“معظم نے اپنے ایک اور دوست کو آگے بڑھایا۔وہ ہنستے ہوئے آگے بڑھا۔”کھیل کے دوران اپنی پوری توجہ شٹل کاک کی طرف رکھنا۔“دانی کے کانوں میں شکیل بھائی کی آواز گونجی۔راحیل کے ہارنے کے بعد معظم میدان میں آیا۔معظم اپنی طرف سے نہایت تیز کھیل رہا تھا،مگر دانی بھی بہت چوکس تھا اور کسی صورت میں معظم کو حاوی ہونے نہیں دے رہا تھا۔اس کی وجہ مسلسل مشق تھی۔مشق کے بعد گراؤنڈ کی ناہموار زمین پر کھیلنا اس کو مشکل نہیں لگ رہا تھا۔ایک لمبے میچ کے بعد دانی اس کو ہرانے میں کامیاب ہو گیا۔معظم نے بے یقینی سے دانی کو اور پھر ریکٹ کو دیکھا۔اس کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ دانی اس کو ہرا سکتا ہے۔ہر کوئی دانی کو شاباش دے رہا تھا اور کوئی مبارک باد۔”دانی!کمال کر دیا تم نے،مگر یہ ہوا کیسے؟“ظفر نے پوچھا۔”صرف محنت سے۔“دانی نے مسکراتے ہوئے سوچا۔”دانی!کل کھیلنے آؤ گے؟“راحیل نے پوچھا۔پہلی مرتبہ دانی کو کسی نے کھیلنے کی دعوت دی تھی اور وہ بھی ریکٹ کے مطابلے کے بغیر۔”آؤں گا۔“اس نے کہا اور مسکراتے ہوئے گھر کو چل دیا۔ " گلاب کی شہزادی - تحریر نمبر 2413,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gulab-ki-shehzadi-2413.html,"افراح عمران،کراچیبہت عرصے پہلے کی بات ہے،ایک شان دار محل میں ایک خوبصورت شہزادی رہتی تھی۔شہزادی کے بڑے بڑے خوبصورت سرخ بال تھے۔وہ گلاب کے پھولوں کو بہت پسند کرتی تھی۔لہٰذا ہر کوئی اسے گلاب کی شہزادی کہتا تھا۔ہر روز شام کے وقت شہزادی بالکونی میں جا کر تالی بجاتی۔تالی کی آواز پر گانے والی ایک سنہری چڑیا اُڑ کر اس کے کندھوں پر بیٹھ جاتی۔جب چڑیا پیاری سی آواز میں گانا شروع کرتی تو شہزادی بھی اس کے ساتھ گانے لگتی۔رعایا ان کی خوبصورت آواز پر صبح ہونے تک سکون کی نیند سوتے رہتے۔یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ایک دن کسی چڑیل کو شہزادی کے خوبصورت بالوں کے بارے میں پتا چل گیا۔نہ جانے کیا سوچ کر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شہزادی کے بالوں کو کالا کر دے گی۔(جاری ہے)چڑیل نے اپنی جادوئی چھڑی کو استعمال کرتے ہوئے ایک منتر پڑھا تو شہزادی کے بال سرخ سے کالے ہو گئے۔اگلے روز جب شہزادی روز کی طرح بالکونی میں گئی اور چڑیا کے ساتھ خوبصورت آواز میں گانا شروع کیا،مگر اس بار لوگ جاگتے رہے۔شہزادی کو معلوم ہوا تو وہ بہت پریشان ہوئی۔اس نے چڑیا سے پوچھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔چڑیا کی بتائی ہوئی ترکیب پر عمل کرتے ہوئے اس نے گلاب کی پتیوں کو پانی میں ڈالا اور تھوڑی دیر بعد اس پانی سے اپنے بال دھوئے تو اس کے بال پہلے کی طرح سرخ اور خوبصورت ہو گئے اور روز کی طرح جب وہ شہزادی چڑیا کے ساتھ گانا گاتی تو رعایا میٹھی نیند سو جاتی۔چڑیل کو اس بات کی خبر ہوئی تو اسے بہت غصہ آیا اور اس نے پھر وہ ہی منتر پڑھا،لیکن اس بار چڑیل نے ہر طرف سے گلاب کے پھول توڑ لیے تھے،تاکہ شہزادی اپنے بال پہلے جیسے سرخ نہ کر سکے۔یوں شہزادی کے بال پھر سے کالے ہو گئے اور اس رات رعایا کی نیند پھر سے اُڑ گئی۔شہزادی بالکونی میں کھڑی ہو کر رونے لگی کہ اب اس کے بال پہلے جیسے کبھی نہیں ہو سکتے اور یوں اس کے آنسو کا ایک قطرہ نیچے جا کر فرش پر گرا۔ایک نوجوان جو وہاں سے گزر رہا تھا اس خوبصورت شہزادی کو بالکونی میں روتا دیکھ کر رُک گیا۔اس کے پاس ایک صندوق تھا جس میں سے اس نے سرخ رنگ کا ایک بال نکالا اور اس کو آنسو کے قطرے پر رکھا جو شہزادی کی آنکھوں سے گرا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ سرخ رنگ کا بال گلاب کے پھول میں بدل گیا۔شہزادی یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئی اور اس نے جلدی سے اس گلاب کے پھول کو پانی میں ڈال کر اس سے اپنے بال دھوئے اور یوں اس چڑیل کا جادوئی اثر ختم ہو گیا۔شہزادی کے بال پہلے کی طرح سرخ ہو گئے اور ہر طرف گلاب کے پھول کھل گئے۔بادشاہ نے نوجوان سے جب پوچھا کہ اس کے پاس یہ بال کہاں سے آیا تو اس نے بتایا کہ شہزادی سے بچپن میں اس کی بہت دوستی تھی۔ہم نے دوستی کو قائم رکھنے کے لئے ایک دوسرے کے بال توڑ کر اپنے پاس سنبھال کر رکھے تھے۔پھر میں سفر پر چلا گیا تھا،کئی برسوں بعد اب واپس آیا ہوں۔یہ سن کر بادشاہ خوش ہوا اور دونوں کی شادی کر دی۔ " وعدہ - تحریر نمبر 2412,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/wada-2412.html,"محمد علیم نظامیآصف اور وحید کی دوستی بہت پرانی اور پکی تھی۔وہ ہر کام اکٹھے ہی کرتے تھے۔ہوم ورک تو مل کر کرتے ہی تھے،کھانا بھی ایک ساتھ ہی کھاتے تھے۔اُن دونوں کے گھر جو ساتھ ساتھ تھے۔ایک دن آصف نے وحید سے اپنی دوستی کو آزمانے کی کوشش کی اور اُس سے کہا:”وہ دیکھو سورج نچلی سطح پر آیا ہوا ہے۔اس پر اُس نے کہا کہ یہ تمہارا وہم ہے ورنہ ایسی کوئی بات نہیں۔اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کیلئے جو نظام بنائے ہیں،اُس میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔یہ سب اللہ کے حکم سے چلتے ہیں،تم اس طرف زیادہ توجہ نہ دو بلکہ اپنا دھیان اپنی تعلیم پر رکھو۔ایک دن وحید سکول جاتے ہوئے راستے میں زمین پر گر پڑا۔آس پاس کے لوگوں نے جب یہ دیکھا تو انہیں بہت افسوس ہوا اور انہوں نے اُسے ہسپتال پہنچایا،اس کی مرہم پٹی کرائی۔(جاری ہے)ڈاکٹر نے کہا کہ یہ کم از کم ایک ہفتہ تک مکمل آرام کرے نہ ہی کوئی کھیل کھیلے۔وہ دو تین روز تک تو بستر علالت پر رہا پھر ایک دن جب آصف وحید کی عیادت کرنے اُس کے پاس آیا تو اُس نے آصف سے جھگڑنا شروع کر دیا۔اگرچہ آصف وحید کی اس حرکت سے پریشان ہوا،تاہم اُس نے تحمل سے کام لیا۔جب ہسپتال سے چھٹی کرکے وہ گھر پہنچا تو آصف نے وحید سے بڑے پیار سے پوچھا کہ بتاؤ اُس دن کیا بات ہوئی تھی کہ تم میرے ساتھ جھگڑا کرنے لگے تھے۔تب وحید نے آصف کو ساری صورتحال بتا دی کہ وہ ہسپتال سے فارغ ہو کر باہر نکلا ہی تھا کہ ایک لڑکے نے اس کے سر پر اینٹ دے ماری جس سے وہ زخمی ہو گیا اور اس کا سر پھٹ گیا۔اگر مقامی لوگ اُسے ہسپتال بروقت نہ لے جاتے تو پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔بہرحال میں نے تم سے جھگڑا کیا میں تم سے معافی مانگتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسی حرکت کبھی نہیں کروں گا۔ " کام بوریت سے بچاتا ہے - تحریر نمبر 2411,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kaam-boriyat-se-bachata-hai-2411.html,"احمد عدنان طارقآج معاذ کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔باہر بڑے زوروں سے بارش ہو رہی تھی اور ہر طرف کیچڑ اور سڑکوں پر پانی جمع ہو رہا تھا۔وہ پریشان ہو کر بولا:”آج دوپہر تو بہت اُکتا دینے والی ہو گی۔مجھے معلوم نہیں اتنا وقت کیسے گزر پائے گا،دوپہر تک تو شاید میری چیخیں نکل رہی ہوں گی۔“پھر وہ اپنے کمرے میں گیا اور نیم دلی سے کمرے کا جائزہ لیا کہ ہو سکتا ہے اُسے کوئی ایسا کھلونا مل جائے جس سے وہ پہلے نہ کھیلا ہو یا وہ کسی کھیل کا ڈبہ الماری میں رکھ کر بھول گیا ہو۔لیکن ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔معاذ کو اپنے سب کھلونے زبانی یاد تھیں۔اُس کے کھلونوں والے ڈبے ویسے بھی فرش پر بکھرے ہوئے تھے۔پھر معاذ آہستہ سے بولا:”بہتر یہی ہے کہ میں ان بکھرے ہوئے کھلونوں کے ڈبوں کو صحیح کرکے الماری میں رکھ دوں۔(جاری ہے)“پہلے تو تمام چیزیں ترتیب سے ڈبوں میں رکھتا ہوں۔کئی کھلونوں کے تو بعض حصے گم ہو گئے ہیں ان کو بھی ڈھونڈتا ہوں۔اُس نے تمام گمشدہ حصوں کو الماری میں سے تلاش کیا۔بستر کے نیچے سے ڈھونڈا اور پھر اُنہیں جوڑ کر ترتیب سے ڈبوں میں رکھا اور ڈبے ترتیب سے الماری میں رکھ دیئے۔پھر اپنی کتابیں ترتیب سے الماری میں رکھیں اور اپنے کپڑے کپڑوں والی الماری میں لٹکا دیئے۔جب یہ سارے کام وہ مکمل کر چکا تو گھڑی پر وقت دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اتنی جلدی وقت گزر گیا ہے۔اُس نے خوشی سے نعرہ مارا۔اُسے پہلی مرتبہ اندازہ ہوا تھا کہ کام کرنے سے وقت زیادہ جلدی گزر جاتا ہے،بجائے فارغ بیٹھنے کے۔اُس نے فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ کبھی بھی فارغ بیٹھنے کی بجائے وہ وقت کام کرکے گزارے گا۔ " بندروں کی توبہ - تحریر نمبر 2410,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bandaron-ki-tauba-2410.html,"روبینہ ناز․․․․کراچیایک جنگل میں درخت پر بندروں کا خاندان آباد تھا۔جن میں چھوٹے اور بڑے سب ہی بندر شامل تھے اور ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔کبھی کبھی چھوٹے بندر درختوں پر جھولتے بہت دور تک نکل جاتے تو ان کے والدین پریشان ہو جاتے اور اُنہیں سمجھاتے کہ سیر و تفریح ایک حد تک ہونی چاہئے ایسا نہ ہو گھر سے دور جا کر پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔والدین کے سامنے تو ننھے بندر ایسے ہاں میں سر ہلاتے جیسے اُنہوں نے والدین کی باتوں کو گرو میں باندھ لیا ہو لیکن کچھ دیر بعد پھر اچھل کود کرتے ہوئے بہت دور نکل جاتے۔ان ننھے بندروں میں ایک بہت شرارتی بھی تھا جو شرارتوں میں سب کا بادشاہ تھا،اس کا نام آنگلو تھا۔آنگلو میاں ہر روز بندروں کو نئی شرارتوں پر اُکساتا وہ ہر بار نئی مصیبت میں پھنس جاتے لیکن وہ بھی آنگلو کے شاگرد بن چکے تھے اور اُس کی ہر بات مانتے تھے۔(جاری ہے)ایک دن بادشاہ شیر کے بیٹے شیرو کی شادی تھی اور جنگل کے سب جانور شادی میں گئے ہوئے تھے۔ننھے بندروں کا گروپ شادی سے فرار ہو چکا تھا اب اُن کا رخ ساتھ والے جنگل کی طرف تھا۔جہاں اُنہوں نے ڈھیروں کیلے کے درخت دیکھ رکھے تھے کچھ دیر بعد وہ ساتھ والے جنگل میں پہنچے اور کیلوں پر ٹوٹ پڑے۔اچانک وہاں سے ایک سانپ کا گزر ہوا۔سانپ نے ننھے بندروں کو دیکھا تو اُن کی جانب بڑھا۔اس سے پہلے کہ سانپ اُن تک پہنچتا،انہوں نے اُسے دیکھ لیا اور وہ چھلانگیں لگاتے ہوئے اپنی جانیں بچانے کی کوشش کرنے لگے۔جب وہ کافی دور نکل گئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ سانپ ابھی تک اُن کا پیچھا کر رہا ہے۔ننھے بندروں نے ہمت نہ ہاری اور بھاگتے رہے۔جس کے نتیجے میں وہ اپنے جنگل تک پہنچ گئے اُس روز اُنہوں نے آئندہ آنگلو میاں کی باتیں ماننے سے توبہ کر لی اور خود آنگلو میاں نے بھی شرارتوں سے توبہ کر لی کیونکہ اب وہ جان چکا تھا کہ جو والدین کا کہنا نہیں مانتے،اُن کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔سب بندروں نے اپنی جانیں بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کیا اور شیرو میاں کی شادی میں پہنچ گئے۔ " پانی کا فیصلہ (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2409,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pani-ka-faisla-pehla-hissa-2409.html,"محمد فہیم عالم”کوئی ہے جو میرے ہاتھ پر تھوڑی دیر کے لئے چند اشرفیاں رکھ دے تاکہ میں بھی کچھ دیر کے لئے دولت کے احساس سے لطف اندوز ہو سکوں۔“یہ عجیب و غریب صدا سن کر وہ دونوں بھائی چونک اُٹھے۔انہوں نے حیرت و تعجب سے اس کی طرف دیکھا۔وہ راہ گزر کے کنارے بیٹھا اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے بڑی پُرسوز آواز میں صدا لگا رہا تھا۔اس کے لہجے میں زمانے بھر کی حسرت تھی۔اس کی درد بھری آواز نے ان کے قدم جکڑ سے لئے تھے۔انہوں نے اپنے گھوڑوں کی لگامیں کھینچ دیں۔”کیا خیال ہے بھائی․․․․․!ایک نے دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔”آؤ یار!اس بے چارے فقیر کی یہ حسرت پوری کر ہی دیتے ہیں۔یہ بھی کیا یاد کرے گا۔“دوسرا مسکراتے ہوئے بولا اور وہ دونوں اپنے گھوڑوں سے اتر کر فقیر کی طرف بڑھے۔(جاری ہے)”یہ لو بابا․․․․!یہ اشرفیاں اپنے ہاتھ پر رکھ کر اپنی مسرت پوری کر لو۔“یہ کہہ کر ایک نے اپنی کمر سے بندھی ہوئی تھیلی کا منہ کھول کر سونے اور چاندی کے سکے فقیر کے ہاتھ پر اُلٹ دیئے۔”اللہ تمہیں خوش رکھے۔اے پردیسی مسافرو!جس طرح تم نے میری حسرت اور خواہش کو پورا کیا۔اللہ تعالیٰ تمہاری آسوں مرادوں کو پورا کرے۔“اشرفیاں دیکھ کر فقیر کی باچھیں کھل گئی تھیں۔وہ بڑے اشتیاق اور محبت سے انہیں الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔”لاؤ بابا!یہ اشرفیاں مجھے واپس کر دو۔ہمیں ذرا جلدی ہے۔ہم نے اپنے وطن لوٹنا ہے۔ہمارا ابھی بہت سا سفر باقی ہے۔“جب کافی دیر تک وہ اشرفیوں کو یوں الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا تو ایک نوجوان بولا۔”کیا کہا․․․․!یہ اشرفیاں میں تمہیں دے دوں․․․․!لو بھلا میں اپنی اشرفیاں تمہیں کیوں دوں۔“فقیر اشرفیوں کو اپنے چوغ میں چھپاتے ہوئے بولا۔”کیا ․․․․!“وہ دونوں چلا اُٹھے۔اُن کو چلانے کی آواز سن کر بہت سے راہ گیر بھی رک کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔”دماغ تو نہیں چل گیا آپ کا ․․․․یہ اشرفیاں ہماری ہیں۔ہم نے آپ کی خواہش پر صرف چند منٹ کے لئے آپ کے ہاتھ پر رکھی تھیں۔“نوجوان زور زور سے چلاتے ہوئے بولا۔’او لوگو․․․․․!دیکھو․․․․!یہ دونوں مجھ غریب فقیر کو لوٹ رہے ہیں۔آ․․․․ہ کیا زمانہ آ گیا۔اب تو لوگ مجھ جیسے قسمت کے ستائے فقیروں کو بھی لوٹنے لگ گئے اور وہ بھی دن دیہاڑے۔“فقیر نے تو باقاعدہ شور مچانا شروع کر دیا۔”مکار،دھوکے باز فقیر!تجھے شرم نہیں آتی یوں جھوٹ بولتے ہوئے۔“دوسرا نوجوان غصے سے بولا۔”لوگو․․․․․مجھے بچاؤ․․․․یہ اجنبی مسافر مجھ فقیر کو لوٹ رہے ہیں۔“فقیر زور زور سے دہائی دیتے ہوئے بولا۔اُن کا یہ شور سن کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے تھے۔فقیر کی بس ایک ہی رٹ تھی کہ یہ اشرفیاں اس کی ہیں۔اور یہ لوگ مجھے لوٹنا چاہ رہے تھے۔جب کہ وہ دونوں اجنبی مسافر قسمیں کھا کھا کر لوگوں کو یقین دلا رہے تھے کہ یہ اشرفیاں ان کے خون پسینے کی کمائی ہے۔لوگوں کے لئے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا․․․․․آخر ایک سیانے بزرگ بولے:”میری مانو تو ان تینوں کو بادشاہ سلامت کے پاس لے چلو۔وہی صحیح فیصلہ کریں گے۔“ان بزرگ کی یہ رائے سبھی کو پسند آئی۔کچھ ہی دیر بعد وہ سب لوگ بادشاہ سلامت کے دربار میں موجود تھے۔یہ ملک تھا افغانستان․․․․اس وقت افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن خان اول تھے۔جس بزرگ کی رائے پر وہ آئے تھے وہ آگے بڑھے اور تمام معاملہ بادشاہ سلامت کے گوش گزار کر دیا۔”ہاں فقیر بابا!تمہارا کیا کہنا ہے؟“تمام بات سن کر بادشاہ سلامت نے فقیر سے پوچھا۔”حضور!یہ اشرفیاں میری ہیں۔میں نے بھیک مانگ مانگ کر ان کو جمع کیا ہے اور اب یہ پردیسی اُچکے مجھ سے وہ میری جمع پونجی چھین لینا چاہتے ہیں۔(جاری ہے) " نیناں کی توبہ (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2408,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naina-ki-tauba-aakhri-hissa-2408.html,"ریحانہ اعجازمما ہمیشہ صبح کے وقت دودھ گرم کرتیں اور نیناں کے اٹھنے سے پہلے فریج میں رکھ دیتی تھیں۔جو سارا دن استعمال ہوتا اور دوسرے دن صبح تک موٹی موٹی بالائی بھی تیار ہو جاتی․․․نیناں کے لئے۔آج دوپہر میں چند مہمانوں کی آمد پر کڑھا ہوا دودھ ختم ہو گیا تو مما نے فریج سے مزید دودھ نکال کر گرم کر لیا تاکہ صبح نیناں کو بالائی مل سکے سو کچھ دیر پہلے انہوں نے ہمیشہ کی طرح دودھ گرم کرکے چولہے سے اتار کر سلیب پر رکھ کر جالی سے ڈھانپ دیا تاکہ ٹھنڈا ہو جانے پر فریج میں رکھا جا سکے۔ایک نظر ہوم ورک کرتی نیناں پر ڈالی اور لاؤنج میں استری اسٹینڈ پر کپڑے استری کرنے میں مصروف ہو گئیں۔نیناں کو حسب معمول بالائی کھانے کا شوق چر آیا تو مما کو مصروف دیکھ کر چپکے سے کچن میں چلی آئی۔(جاری ہے)فریج کا جائزہ لیا،دودھ کی پتیلی غائب تھی اِدھر اُدھر جائزہ لیا تو پتیلی سلیب پر نظر آ گئی۔اسٹول رکھا۔پتیلی سے جالی اتاری اور اپنی انگلیاں گرم دودھ میں ڈال کر بالائی حاصل کرنا چاہی لیکن!منہ سے چیخ نکل گئی۔شکر کہ اسٹول سے نیچے نہیں گری بس اپنے ہاتھ کو پکڑ کر زور سے چلائی․․․․مما․․․․!نیناں کی زور دار چیخ پر کپڑے پریس کرتی مما جلدی سے استری اسٹینڈ پر ٹکائی اور آواز کی سمت دوڑیں۔آواز کچن سے آئی تھی۔نیناں کچن میں چولہے کے سامنے اسٹول پر کھڑی زار و قطار رو رہی تھی۔اوہ میری لاڈو․․․․کیا ہوا میری جان؟مما نے نیناں کی طرف بڑھتے ہوئے کہا اور اُسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔مما کی نظر چولہے کے سائیڈ سلیب پر پڑی دودھ کی پتیلی کو دیکھا جس پر ڈھکی گئی جالی ایک طرف پڑی تھی۔وہ آناً فاناً سارا ماجرا سمجھ گئیں۔مما نے دیکھا نیناں کی انگلیاں سرخ ہو رہی تھیں۔انہوں نے جلدی سے اُس کا ہاتھ ٹھنڈے پانی سے دھلایا اور اس پر فوری طور پر اسکن آئنمنٹ مرہم کا لیپ کر ڈالا۔دودھ کی پتیلی کو جالی سے ڈھکا اور نیناں کو سینے سے لگائے اندرونی کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔نیناں کو بیڈ پر لٹایا جو سسکیاں بھر رہی تھی۔”یہ کیا کر ڈالا میری جان“مما نے نیناں کے بال سنوارتے ہوئے اسے پیار کیا تو نیناں کا ضبط جیسے ختم ہو گیا۔وہ زور زور سے رونے لگی۔مما بھی گھبرا گئیں۔مما،میں،میں بالائی کھانے لگی تھی لیکن میری انگلیاں جل گئیں مما مجھے درد ہو رہا ہے۔نیناں نے روتے ہوئے کہا تو مما کا بھی دل بھر آیا۔اسی لئے کہتے ہیں بیٹا کہ جب مما،پاپا کسی کام سے منع کریں وہ نہیں کرنا چاہئے۔سوری مما،اب میں کبھی ایسا نہیں کروں گی۔بالائی کی شوقین نیناں اس واقعے سے ایسا ڈری کہ اُس دن کے بعد اُس نے مما کو بتائے بنا،چوری چھپے بالائی کھانے سے توبہ کر لی۔اب جب بھی اُس کا دل بالائی کھانے کو کرتا وہ مما کے فارغ ہونے کا انتظار کرتی۔پھر ان سے پیالے میں بالائی ڈالوا کر چمچ سے مزے لے کر کھاتی۔نیناں جان چکی تھی کہ اچھے بچے بڑوں کا کہنا مانتے ہیں اور جو نہیں مانتے وہ تکلیف اُٹھاتے ہیں۔اب نیناں بڑی ہو چکی ہے اور اُس کا چھوٹا بھائی علی بھی اُس کی بالائی کھانے کی عادت و شوق سے اچھی طرح واقف ہو چکا ہے۔تبھی ایک دن علی نے مما سے کہا۔مما مجھے پتہ ہے نیناں آپی اتنی گوری کیوں ہیں؟اچھا ہمیں بھی بتاؤ بھلا کیوں ہیں؟مما نے اشتیاق سے کہا تو نیناں آپی بھی علی کی طرف متوجہ ہو گئی وہ اس لئے کہ یہ بچپن سے بالائی کھاتی ہیں چمچ بھر بھر کر اور اسی بالائی کی طرح گوری ہو گئی ہیں۔علی کی بات پر مما اور نیناں کا مشترکہ قہقہہ گونجھ اٹھا تو علی کا موڈ آف ہو گیا کہ اس کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ " نیناں کی توبہ (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2407,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naina-ki-tauba-pehla-hissa-2407.html,"ریحانہ اعجازچار سالہ نیناں کو ہمیشہ سے ہی بالائی بہت پسند تھی۔بازار کی نہیں بلکہ گھر میں تازہ دودھ بوائل ہونے کے بعد مما اس پر سے جو موٹی موٹی بالائی اُتارتیں وہ نیناں کو بہت بھاتی تھی۔ناشتے کی میز پر مکھن،جیم،ڈبل روٹی،انڈے سب موجود ہوتا لیکن ننھی نیناں کو بس بریڈ اور بلائی چاہیے ہوتی۔بریڈ پر ڈھیر ساری بالائی لگا کر کھانا نیناں کو بہت اچھا لگتا تھا۔اس کے علاوہ بھی دن میں کئی بار مما کے منع کرنے کے بعد بھی جب موقع ملتا نیناں فریج کھول کر دودھ کی دیگچی سے بالائی کبھی کبھی چمچ اور زیادہ تر انگلیوں سے ہی نکال کے کھا لیتی۔اور اپنے اس کارنامے پر پھولی نہ سماتی۔مما نے کئی بار بتایا۔بیٹا بری بات ہے اس طرح نہیں کھاتے۔آپ کو جب بالائی کھانی ہو مجھے بتاؤ میں پیالے میں نکال دوں گی۔(جاری ہے)تب نیناں ”اوکے مما“ کہہ دیتی۔مما اسے کئی بار پیالے میں بالائی نکال کر چمچ سے کھلا چکی تھیں لیکن!نیناں کو جو مزہ انگلی سے نکال کے بالائی کھانے میں اور انگلیاں چاٹنے میں آتا تھا اس کی بات ہی کچھ اور تھی۔دودھ کی پتیلی فریج کی اوپری جالی پر ہوتی تو نیناں چھوٹا سا اسٹول رکھ کر یہ کام انجام دے لیتی۔آج بھی مما کچن میں داخل ہوئیں تو فریج کے ادھ کھلے دروازے میں نیناں سر اندر گھسائے اپنے کام میں مشغول تھی۔”نیناں“ مما نے اُس کی کمر پر ہلکے سے ایک دھپ رسید کی۔نیناں ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی تو اُس کے ہاتھ میں تھاما ہوا پتیلی کا ڈھکن نیچے گر پڑا۔بیٹا جی!آپ نے باز نہیں آنا؟کتنی بار آپ سے کہا ہے جب بالائی کھانی ہو مجھے بتاؤ؟لیکن مجال ہے جو آپ کو اثر ہو جائے۔مما نے غصے سے بولتے ہوئے جھک کر ڈھکن اُٹھایا پتیلی ڈھک کر فریج بند کیا۔اسٹول کو اس کی جگہ پر رکھا۔اس ساری کارروائی کے دوران نیناں اپنی انگلیاں چاٹنے میں مگن تھی۔مما نے ایک نظر اُسے دیکھا اور اُس کا غصہ جھاگ کی مانند بیٹھ گیا۔ننھی نیناں خوبصورت فرل کے سفید فراک میں ملبوس،پھولی پھولی گالوں کے ساتھ بے نیازی سے انگلیاں چاٹتے ہوئے انتہا کی معصوم لگ رہی تھی۔انہیں اس پر بے اختیار پیار آ گیا۔شام میں،مما نے نیناں کے پاپا کو اُس کی ساری کارروائی بتاتے ہوئے کہا۔مجھے ڈر لگتا ہے،میں کہیں اِدھر اُدھر کام میں لگی ہوئی ہوں اور یہ فریج سے کچھ اپنے اوپر گرا کر اپنا نقصان ہی نہ کروا لے۔اوہو بیگم!اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔آپ فریج کو لاک کر دیا کرو۔پاپا نے لاپروائی سے کہا۔میں نے یہ بھی کیا اور جس دن فریج لاک تھا اس دن مجھے زیادہ ڈر لگا یہ زور زور سے فریج کا دروازہ کھینچ رہی تھی لیکن فریج لاک ہونے کی بنا پر کھل نہیں رہا تھا۔آپ کو پتہ ہے فریج کی چوکی ان بیلنس ہے۔کئی بار آپ نے بھی کوشش کی ہے لیکن وہ جوں کی توں ہی رہتی ہے۔گتے سے میں نے بیلنس برابر کیا ہوا ہے۔اب کھینچا تانی میں فریج ہی نہ سر پر آ پڑے۔بس اسی وجہ سے میں نے دوبارہ کبھی فریج لاک نہیں کیا۔تب پاپا نے گود میں بیٹھی نیناں کو پیار کرتے ہوئے مخاطب کیا۔بیٹا جی!آپ کی شکایتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔آپ کیوں مما کو تنگ کرتی ہیں؟اچھے بچے مما کو بالکل تنگ نہیں کرتے پھر آپ کیوں مما کو تنگ کرتی ہیں۔پاپا جانی میں نے کب تنگ کیا مما کو؟آپ کو پتہ ہے مما مجھے تنگ کرتی ہیں۔ساختہ پیار آ گیا۔ارے؟مما آپ کو بھلا کیوں تنگ کریں گی؟وہ تو آپ کا بہت خیال رکھتی ہیں۔پاپا نے نیناں کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔مجھے خود سے بالائی نہیں کھانے دیتیں۔اور جب میرا دل کرتا ہے تب مما کام کر رہی ہوتی ہیں تب میں خود ہی کھا لیتی ہوں تو مما غصہ کرتی ہیں۔نیناں کے گال کشمیری سیب کے مشابہ لگ رہے تھے۔اچھا چلو،اب جب آپ کا دل چاہے بالائی کھانے کے لئے تب آپ مما کو بول دینا۔مما سب کام چھوڑ کر آپ کو بالائی دے دیں گی۔مما نے نیناں کو اپنی گود میں منتقل کرتے ہوئے کہا تو نیناں نے ”اوکے مما جانی“ کہتے ہوئے مما کے دونوں گال چٹاخ چٹاخ چوم ڈالے۔(جاری ہے) " خزانہ کس کا ہے - تحریر نمبر 2406,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khazana-kis-ka-hai-2406.html,"مونٹی درختوں کی دور تک پھیلی ہوئی جڑوں کے درمیان کھدائی کر رہا تھا کہ اچانک اس کی کدال کسی چیز سے ٹکرائی۔کچھ دیر بعد ایک چھوٹا سا کالے رنگ کا صندوق نمودار ہوا۔خزانہ․․․․!جس کا وہ ہمیشہ سے خواب دیکھتا آیا تھا۔مونٹی کو چیچک کا مرض تھا۔اس کے چہرے پر تو دانے کم تھے،لیکن اس کی شرٹ کے نیچے بہت زیادہ تھے۔دانوں میں بہت زیادہ خارش ہو رہی تھی۔کالا صندوق اچھا خاصا میلا تھا اور اس کے قبضوں پر زنگ لگا ہوا تھا۔صندوق کے اندر چار بہت خوبصورت اور بڑے بڑے سنگِ مرمر کے ٹکڑے تھے جن میں مختلف رنگوں کی لکیریں تھیں۔اس میں ایک لکڑی سے بنا ہوا بھالو تھا اور ایک چھوٹی سی چھری جس کا دستہ شاید چاندی کا بنا ہوا تھا․․․․؟․․․․․اور سب سے آخر میں ایک ہار تھا․․․․․ہار میں ہرے نیلے پتھر ایک پرانی،لیکن نازک زنجیر میں پروئے ہوئے تھے۔(جاری ہے)”خزانہ،خزانہ!“وہ چلاتے ہوئے پورے گھر میں دوڑتا رہا اور پھر کچن کی طرف بھاگا،جہاں اس کے والدین چائے پی رہے تھے۔”ارے،یہ کیا ہے؟“اس کے والد نے صندوق اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا اور تجسس سے اسے کھولنے لگے۔جب انھیں ہار نظر آیا اور مونٹی نے انھیں پوری بات بتا دی۔”اگر اس ہار کا مسئلہ نہ ہوتا تو ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔“آخر انھوں نے کہا۔”میرا خیال ہے کہ یہ اچھا خاصا قیمتی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ یہ فیروزہ پتھر کا ہار ہے۔فیروزہ چاندی کی چین میں ہے،لیکن آخر یہ وہاں پہنچا کیسے؟“”اگر ہم جاسوس ہوتے“مونٹی نے کہنا شروع کیا:”تو اس ہار کے مالک کا پتا لگا سکتے تھے۔ہم ان لوگوں سے پوچھتے جو ہم سے پہلے اس گھر میں رہتے تھے۔“مونٹی کے والد اچانک ہنسے:”یہ موبائل فون کس لئے ہے مونٹی!میں مسٹر ڈیوس سے رابطہ کرتا ہوں۔ہم نے انہی سے یہ گھر خریدا تھا۔شاید وہ ہمیں کچھ بتا سکیں۔“اس کے والد نے فون پر بات کرنے کے بعد کہا:”وہ کہہ رہے ہیں انھوں نے جس خاندان سے یہ گھر خریدا تھا،ان کی صرف بیٹیاں ہی تھیں۔“”لیکن یہ تو لڑکوں کا خزانہ ہے۔“مونٹی نے کہا:”سوائے ہار کے۔“مسٹر ڈیوس نے یہ گھر کسی مس ڈنبر سے خریدا تھا اور اب وہ انتقال کر چکی ہیں۔“”لیکن ان کی بہنیں تو زندہ ہیں۔“مونٹی کی والدہ نے کہا:”ان میں سے ایک مسز کیسلی ہیں جو بیکری میں کام کرتی ہیں۔وہ شاید ہمیں کچھ بتا سکیں۔وہ کل کام پر آئیں گی۔“”اب فون کرنے کی باری تمہاری ہے۔“مونٹی کے والد نے اپنی بیگم کو موبائل فون پکڑواتے ہوئے کہا:”ویسے بھی تم ان مسز کیسلی کو جانتی ہو۔“مونٹی کی والدہ ان سے رابطہ کرکے بات کرنے لگیں۔مسز کیسلی کی آواز بہت تیز تھی اور مونٹی نہایت آسانی سے ان کی آواز سن سکتا تھا۔”فیروزے کے پتھروں کا ہار؟اوہ،نہیں نہیں،ایسا تو کچھ بھی نہیں تھا۔نہیں․․․․میں نہیں جانتی۔ہم وہاں بچپن سے رہ رہے تھے،آپ مسٹر ملز،ہوراتیو ملز سے معلوم کریں تو شاید کچھ معلوم ہو سکے۔بشرطیکہ وہ زندہ ہوں۔میرے والد سے پہلے وہ اسی گھر میں رہتے تھے۔مونٹی کے والد نے اس سے کہا:”اب فون کرنے کی باری تمہاری ہے۔تمہارا جاسوسی کا سارا کام ہم کیوں کریں؟دیکھو یہ رہا ملز صاحب کا نمبر۔مونٹی نے مضبوطی سے موبائل فون پکڑا اور نمبر ملایا۔کچھ دیر تک ٹوں ٹوں گھنٹی بجتی رہی پھر ایک بوڑھی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی:”ہیلو؟“”کیا مسٹر ہوراتیو ملز بات کر رہے ہیں؟“مونٹی نے پوچھا۔”جی ہاں۔“سرسراتی ہوئی آواز میں کہا گیا۔مونٹی نے انھیں بتایا کہ وہ کون ہے اور کہاں رہتا ہے اور یہ کہ اسے ایک دفن شدہ چیز باغ سے ملی ہے،اس لئے وہ ان لوگوں کو ڈھونڈ رہا ہے جو ان سے پہلے اس گھر میں رہتے تھے۔”کس قسم کی چیز؟“ مسٹر ملز نے پوچھا۔”یہ ایک چیز ہے جو میں نے باغ میں کھود کر نکالی ہے۔“مونٹی نے احتیاط سے کہا۔”یقینا ۔“مسٹر ملز نے کہا۔مجھے جو ایک چھوٹا سا لوہے کا صندوق ملا ہے،اس میں سنگِ مرمر کے ٹکڑے ہیں؟اور ایک چھوٹی چھری بھی۔“مونٹی بولا۔”اور ایک فیروزے کا ہار بھی۔“مسٹر ملز نے تیزی سے کہا:”میں ابھی وہاں پہنچ رہا ہوں۔“”میرا خیال کہ آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے۔“مونٹی نے اُداسی سے کہا:”اس وقت تک نہیں جب تک آپ کو چیچک نہ ہو چکی ہو۔“موبائل پر ایک عجیب سی آواز سنائی دی۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا مسٹر ملز ہنس رہے ہیں۔”مجھے چیچک نکل چکی ہے۔“وہ بولے:”لیکن اس کے بارے میں میں تمہیں اس وقت بتاؤں گا جب میں تم سے ملوں گا۔میں بس آ ہی رہا ہوں۔“”مسٹر ہوراتیو ملز ایک پرانی،لیکن صاف ستھری،چمک دار گاڑی میں آئے تھے۔مسٹر ملز بھی اپنی گاڑی کی طرح بوڑھے،لیکن پُروقار شخصیت کے مالک تھے۔انھوں نے مونٹی کے والدین کو مسکرا کر دیکھا اور مونٹی سے ہاتھ ملایا:”کیا تم ہی مسٹر مونٹی فورسٹ ہو؟“انھوں نے پوچھا۔مونٹی نے سر ہلایا۔وہ بہت پُرجوش تھا۔”صندوق میز پر رکھا ہوا تھا۔مسٹر ملز نے جیب سے عینک نکالی اور صاف کرنے کے بعد لگائی اور صندوق کو غور سے دیکھنے لگے۔وہ اپنے کمزور اور بوڑھے ہاتھوں سے اسے چھوتے ہوئے بولے:”ہاں،یہ وہ ہی صندوق ہے۔“انھوں نے چھوٹا سا چاقو اُٹھایا:”کبھی یہ میرا تھا۔“”مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔“مونٹی کی والدہ نے کہا:”میں آپ کے لئے چائے لاتی ہوں۔پھر آپ آرام سے بیٹھ کر ہمیں مونٹی کے اس خزانے کے بارے میں بتائیے گا۔“مسٹر ملز کرسی پر بیٹھ گئے۔جب چائے کا کپ ان کے سامنے رکھ دیا تو انھوں نے اپنی کہانی سنانا شروع کی۔”یہ گھر میرے والد نے تعمیر کروایا تھا۔اس وقت ارد گرد کوئی اور گھر نہ تھا بس ایک ہمارا گھر تھا جو جنگل اور کھیتوں کے درمیان بنا ہوا تھا۔جہاں اب گیراج ہے،وہاں اس وقت ایک بڑا درخت ہوا کرتا تھا اور ایک بڑا سا باغ جو دور تک پھیلا ہوا تھا۔میں اور میرے بھائی اس درخت پر خوب کھیلا کرتے تھے۔ہمارا پسندیدہ کھیل تھا،قذاق بننا۔ہم اس درخت کی شاخوں پر بندروں کی طرح اُچھلتے رہتے تھے۔ہم تین بھائی تھے۔تھامس،ریگنالڈ،اور میں۔ایک دن سب سے بڑے بھائی تھامس نے کہا کہ وہ ایک خزانہ دفنائے گا اور ہم دونوں چھوٹے بھائیوں کو اسے تلاش کرنا ہو گا۔ہم تینوں نے اس خزانے میں ایک ایک چیز رکھی،لیکن ہمارا خزانہ پھر بھی خالی خالی لگ رہا تھا،تب تھامس نے ایک بہت بے وقوفانہ حرکت کی۔وہ چپکے سے امی کے کمرے میں گیا اور ان کا ایک ہار اُٹھا کر لے آیا۔وہ واقعی اصلی خزانہ لگ رہا تھا۔پھر تھامس جا کر یہ صندوق چھپا آیا،لیکن جیسا کہ تم دیکھ سکتے ہو ہم اس خزانے کو تلاش نہیں کر پائے۔“”لیکن تھامس کو تو یاد ہو گا کہ اس نے خزانہ کہاں چھپایا ہے؟“مونٹی نے اُلجھتے ہوئے کہا:”اگر آپ اور ریگنالڈ اسے نہیں بھی ڈھونڈ پائے تو بھی تھامس جانتا تھا کہ وہ کہاں ہے۔“”یہی تو اصل بات ہے۔“مسٹر ملز نیس نے مزے سے کہا۔”تھامس یاد نہیں رکھ پایا۔ہم نے بڑے درخت پر چڑھتے ہوئے ڈھونڈنے کی ابتداء کی۔ہم نے سوچا کہ شاید اس نے خزانہ یہاں چھپایا ہو۔تھامس بھی ہمارے ساتھ درخت پر بیٹھا تھا اچانک وہ پھسل کر اونچے درخت سے نیچے گر پڑا۔اس کے دماغ پر شدید چوٹ آئی۔ہم سب ایک دو دن تک اس کے لئے بہت پریشان رہے،لیکن پھر اس کی طبیعت بہتر ہونا شروع ہو گئی۔پر ایک پریشانی ہوئی وہ یہ تھی کہ وہ اس حادثہ کے بعد وہ کوئی ایک بات بھی یاد نہیں رکھ پایا۔اسی لئے ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ خزانہ کہاں ہے۔“”یہ باڑ کے نیچے بانس کے پودوں کے درمیان دبا ہوا تھا۔“مونٹی نے بتایا۔”اوہ اچھا۔“مسٹر ملز نے سر ہلاتے ہوئے کہا:”یہ بانس اسی وقت لگائے گئے تھے اور تمہیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس وقت ڈھونڈنے کے لئے جگہ بھی اچھی خاصی وسیع تھی۔اگر تم بُرا نہ مانو تو میں یہ ہار اپنی پوتی کے لئے لے جانا چاہوں گا،لیکن میں چاہتا ہوں کہ باقی خزانہ تم اپنے پاس رکھو مونٹی!یہ بہت قیمتی خزانہ تو نہیں،لیکن یہ بہت پرانا ہے اور یادگار ہے۔“مونٹی نے ایک لمبی سانس لی:”میرا خیال ہے کہ یہ ایک نہایت شان دار خزانہ ہے اور بہت خاص بھی ہے۔یہ ایک ایسا خزانہ ہے،جسے بہت سالوں پہلے کچھ لڑکوں نے چھپایا تھا۔اگر آج مجھے کبھی کوئی خزانہ یوں دفنانا پڑے تو وہ بھی اسی قسم کا ہو گا۔“اس نے مڑ کر پہلے اپنے والدین کو اور پھر مسٹر ملز کو دیکھا۔“اور یہ بھی کتنی دکھ کی بات ہے کہ اس وقت جب مجھے چیچک نکلی ہوئی ہے۔مسٹر ملز،میں ڈرتا ہوں کہ یہ کہیں آپ کو نہ لگ جائے۔“مسٹر ملز مسکرائے اور بولے:”مجھے چیچک کے جراثیم نہیں لگیں گے۔دراصل۔“جب انھوں نے بولنا جاری کیا تو عینک کے پیچھے ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں:”بات یہ ہے کہ تھامس،ریگنالڈ اور مجھے چیچک نکل چکی ہے۔اسی لئے ہم تینوں اس دن گھر پر تھے،جب تھامس نے خزانہ دفنایا تھا۔ " جگنو کا مٹھو (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2405,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jugnu-ka-mithu-aakhri-hissa-2405.html,"تسنیم جعفری”بتاؤ مٹھو وہ جو سامنے درخت پر بیٹھا ہے وہ کبوتر ہے نا․․․․؟“جگنو نے مٹھو کی حمایت چاہی۔”نہیں مٹھو وہ فاختہ ہے نا․․․؟“شمع جلدی سے بولی۔یوں تو چھوٹی ہے بات بکری کیدل کو لگتی ہے بات بکری کی”کیا کہا بدتمیز․․․․تم نے مجھے بکری کہا․․․․؟“شمع غصے سے بولی اور جگنو ہنس ہنس کر دوہرا ہو گیا۔”کیا تم بھی عورت ذات کو کمتر سمجھتے ہو مٹھو․․․․؟“امی نے پوچھا جو ان کی بحث سن کر وہاں آ گئی تھیں۔میں بھی مظلومی،نسواں سے ہوں غم ناکنہیں ممکن مگر اس عقدہ مشکل کی کشو”تمہاری نظر میں بھی اس کا حل نہیں ہے کیا․․․․؟“امی نے پھر پوچھا۔اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاشمجبور ہیں،معذور ہیں مردانِ خرد مند”اچھا تو تم خود کو مرد سمجھتے ہو․․․وہ بھی خرد مند․․․؟“شمع نے حقارت سے مٹھو کو دیکھا۔(جاری ہے)”میں نے نہیں․․․․․یہ شعر تو اقبال نے کہا ہے!“مٹھو نے خود کو بچایا۔”امی اس سے پوچھیں اس نے مجھے بکری کیوں کہا․․․․؟“شمع اسی بات پر اڑی ہوئی تھی۔”میرا خیال تم نے جو یہ مغربی لباس پہن رکھا ہے یہ بُرا لگا ہے مٹھو کو․․․!“جگنو نے بات بنائی۔”بھئی مجھے جو لباس پسند آیا وہ میں نے خرید لیا اور پہن لیا․․․جا کر دکانداروں کو منع کرو کہ وہ ایسے مغربی لباس کیوں سجا کر رکھتے ہیں۔“شمع نے صفائی پیش کی۔یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تومجھ کو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہےیہ سن کر شمع کا غصہ دو آتشہ ہو گیا،”اس جاہل طوطے سے بحث بے کار ہے،چلیں امی ہم اُدھر گھوم کر آئے․․․!“شمع اُٹھ کھڑی ہوئی اور وہ دونوں اُدھر کو چل پڑیں،آپا نے موقع غنیمت جان کر اپنی کتاب کھول لی اور پڑھنے لگیں۔جگنو پارک کا چکر لگا کر آیا تو دیکھا مٹھو خاموش بیٹھا ہے۔”مٹھو اداس کیوں بیٹھے ہو․․․․کون یاد آ رہا ہے؟“جگنو اس کے پاس بیٹھ گیا۔آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہوہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہاناآزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کیاپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا”اچھا تو اپنے گھر کے لئے اداس ہو رہے ہو․․․․!“جگنو بھی افسردگی سے بولا۔”آپا․․․․․او آپا ہم مٹھو کو آزاد نہ کر دیں،اسے اپنا گھر بہت یاد آ رہا ہے!“”اوہو․․․․!بے وقوف ایسا غضب نہ کرنا،اسے اپنے گھر کا کیا پتہ۔اسے تو کسی نے انڈے سے نکلتے ہی پروفیسر صاحب کو دے دیا تھا،انہوں نے اسے بچوں کی طرح پالا ہے،دوسرے پرندوں کو دیکھ کر ویسے ہی ڈرامہ کر رہا ہے،اور اب تو اسے اُڑنا بھی نہیں آئے گا باہر نکالا تو مر جائے گا،بلی کے ہتھے چڑھ جائے گا یا کوے مار دیں گے۔“”ہاں!اس کے اوٹ پٹانگ شعر سن کر تو ضرور ہی مار دیں گے۔“شمع نے بھی طنز کیا۔”اچھا بھئی!بہت گھوم لیا،بس اب چلنے کی تیاری کرو۔“ابو بولے۔”ہاں ویسے بھی اب گرمی بڑھ رہی ہے۔“امی بولیں تو سب اپنی اپنی چیزیں سمیٹنے لگے ”پروفیسر صاحب آئے ہیں․․․!“نوکر نے آ کر بتایا تو جگنو اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔”ہیں․․․!ایک ماہ اتنی جلدی گزر گیا․․․پندرہ دن میں ہی․․․․؟“”نہیں بھئی ابھی پندرہ دن ہی ہوئے ہیں،لیکن میرا سیمینار جلدی ختم ہو گیا تھا اس لئے میں جلدی آ گیا۔“پروفیسر صاحب ہنستے ہوئے بولے۔”السلام علیکم سر کیسے ہیں آپ․․․؟“جگنو نے جلدی سے آگے بڑھ کر پروفیسر صاحب سے ہاتھ ملا۔یا”میں بالکل خیریت سے ہوں،یہ بتاؤ میرا مٹھو کیسا ہے․․․؟“پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے”ارے․․․․میرا مٹھو بیٹا مجھ سے ناراض ہے کیا․․․․؟“ایک کونے سے مٹھو کی آواز آئی تو پروفیسر صاحب اُٹھ کر وہاں چلے گئے ”لیکن یہ تو میر تقی میر کا شعر تھا․․․․؟“ جگنو حیرت سے بولا۔”ہاں اسے تمام شعرا کا کلام یاد ہے لیکن عام طور پر اقبال کو ہی پسند کرتا ہے اور انہیں کے شعر پڑھتا ہے۔“پروفیسر صاحب بولے۔”کمال ہے․․․اسے تمام شعرا کا کلام یاد ہے․․․ہمیں تو صرف اقبال کے اشعار سن کر حیرت ہوتی تھی․․․!“”اچھا تو اب میں اسے لے جاؤں․․․؟“ پروفیسر صاحب نے پوچھا۔”جی ہاں آپ کی چیز ہے شوق سے لے جائیے۔“جگنو بولا،”ویسے پروفیسر صاحب میرا تو مشورہ ہے کہ آپ ایسے بہت سے مٹھو رکھیے اور ہر طالب علم کو ایک ایک بانٹ دیں،ایسا طوطا تو ہر گھر میں ہونا چاہیے۔مجھے تو بہت شرمندگی ہے کہ جن شعرا کا کلام ہم طالب علموں کو ازبر ہونا چاہیے وہ ایک طوطے کو یاد ہے،آپا ٹھیک ہم سے ناراض ہوتی ہیں․․․․!“”ہاں بیٹا!ہم اقبال جیسے عظیم شعرا اور ان کے کلام کو بھول گئے ہیں اسی لئے ہم اپنی مذہبی اور سماجی اقدار کو بھی بھول گئے ہیں اور مغرب کے دلدادہ ہو گئے ہیں․․․․!آپ جیسے بچے خوش قسمت ہیں جو صحیح وقت پر اپنی غلطی کو محسوس کر لیں اور اس سے جان چھڑا لیں۔اچھا وعدہ کرو کہ تم مٹھو سے کلام اقبال یاد کر لو گے تو میں اسے تمہارے پاس چھوڑ جاؤں گا۔“”ہیں پروفیسر صاحب․․․․آپ واقعی بہت اچھے ہیں،آپ نے تو میرے منہ کی بات چھین لی،کیوں مٹھو سکھاؤ گے مجھے کلام اقبال․․․․؟“جگنو مٹھو کے پنجرے کے پاس جا کر خوشی سے بولا۔جوانوں کو میری آہ سحر دےپھر ان شاہیں بچوں کو بال و پردےخدایا میری آرزو یہی ہےمیرا نورِ نصیرت عام کر دے”آج سے میں جگنو کا مٹھو ہوں․․․․!“مٹھو بولا تو سب لوگ ہنسنے لگے۔ " ننھی پری - تحریر نمبر 2404,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanhi-pari-2404.html,"آسیہ محمد عثمانہانیہ ہانیہ اپنے کھلونے سمیٹ کر رکھ دو کہاں گھوم رہی ہو۔ہانیہ یہ کیا کیا سارا پانی گرا دیا۔ہانیہ اب یہ کیا کیا سالن میں ہاتھ کیوں ڈالا۔ہانیہ تم تو سو رہی تھی باہر کب گئیں۔ہانیہ اب اگر موبائل کو ہاتھ لگایا تو میں ناراض ہو جاؤں گی۔ہانیہ ہانیہ اور بس ہانیہ پورے گھر میں نازیہ اپنی تین سالہ پیاری سی بیٹی کی شرارتیں اور اس کی پھیلائی چیزوں کو سمیٹی رہتی ہانیہ بہت ہی پیاری اور اچھی بچی تھی مگر شرارتیں بہت کرتی تھی نازیہ دن بھر اس کا خیال رکھتی اس کے پیچھے پیچھے رہتی کہ کہیں کوئی نقصان نہ پہنچا لے خود کو۔ابھی نازیہ گھر کی صفائی کرکے چائے کا کپ ہاتھ میں لے کر بیٹھی ہی تھی کہ صحن میں کچھ گرنے کی آواز آئی۔نازیہ دوڑ کر صحن میں گئی۔(جاری ہے)ہانیہ میڈم نے وائپر اُٹھایا ہوا تھا اور ساتھ ہی بالٹی سے پانی نکال نکال کر صحن میں پھیلا رہی تھی۔نازیہ نے جھٹ سے ہانیہ کو گود میں اُٹھا لیا اور پیار سے کہا،دادی اماں!میں نے صفائی کر لی ہے اب آپ کس خوشی میں بارش کر رہی ہیں۔ایسے ہی ایک دن نازیہ مٹر پلاؤ دسترخوان پر رکھ کر سلاد اور رائتہ لینے باورچی خانے تک گئی تھی۔واپس آ کر دیکھا تو ہانیہ میڈم نے پلاؤ میں گلاس بھر کر پانی ڈالا ہوا تھا جیسے کھچڑی بنائی ہو نازیہ نے گہری سانس لی اور غصہ ہضم کر گئی۔ایک دن تو حد ہی ہو گئی ہانیہ میڈم نے باتھ روم میں خود کو بند کر لیا کچھ دیر تو ٹھیک رہا مگر جب ماں کی یاد آئی تو ہانیہ نے رونا شروع کر دیا۔اب نازیہ باتھ روم کے باہر کھڑی رو رہی تھی اور ہانیہ اندر۔تھوڑی دیر بعد ہانیہ کے بابا اسد بھی آ گئے۔اسد نے ہانیہ کو باتوں میں لگایا اور کہا جیسا بابا کریں آپ بھی ویسا ہی کریں۔اسد نے پہلے دروازہ بجایا کھولو ہانیہ۔ہانیہ نے بھی دوسری طرف سے دروازہ بچایا دروازہ کھولو ہانیہ۔اسد خوش ہو گیا کام بن گیا۔اسد نے پھر کہا۔میں کنڈی کھولتا ہوں ہانیہ نے بھی یہی الفاظ دھرائے۔اسد نے کنڈی کو آگے پیچھے کیا اور کہا میں نے کنڈی کھول دی۔ہانیہ نے جب یہی عمل دھرایا تو واقعی کنڈی کھل گئی۔یوں نازیہ کی جان میں جان آئی۔ہانیہ کی شرارتیں خاندان بھر میں مشہور تھیں۔ان ہی شرارتوں کی وجہ سے ہانیہ سب کی لاڈلی تھی۔آج ہانیہ کی چھوٹی پھوپھو کی رخصتی تھی گھر میں شادی کا ماحول تھا سب تیاریوں میں مصروف تھے ہانیہ کو بھی گلابی فراک گلابی پمپی اور رنگ برنگ کلیپس سے بالوں کو سجایا ہوا تھا۔نازیہ نے بھی خوب تیاری کی ہوئی تھی اب وہ ہانیہ کو مہمانوں کے سپرد کرکے خود ذرا میک اپ کرنے چلی گئی۔ہانیہ بھی مزے سے اپنے ماموں اور چچاؤں کے ساتھ گھوم رہی تھی۔بارات بھی آ گئی تھی مہمانوں کا استقبال نازیہ نے خوب دل سے کیا۔اب نکاح شروع ہوا تو نازیہ کو یاد آیا کہ ہانیہ کو بھی لے آؤں کب سے میں نے دیکھا بھی نہیں۔نازیہ نے دوپٹہ سر پر لیا اور اسد کو آواز دی۔ہانیہ کو مجھے دے دیں وہ کب سے باہر ہے۔اسد نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی مگر ہانیہ تو کہیں بھی نہیں تھی۔اسد نے کہا۔دیکھو اندر ہی ہو گی۔نازیہ نے کہا۔نہیں وہ اپنے چاچو کے پاس تھی آپ پوچھیں ان ہی کے پاس ہو گی۔اسد نے نازیہ کو اندر جانے کا کہا اور خود ہانیہ کو تلاش کرنے لگا۔کچھ دیر بعد نکاح بھی ہو گیا اب رخصتی کی باری تھی اسد نے بہن کو محبت سے رخصت کیا۔مگر ہانیہ اب تک لاپتہ تھی۔جب سب مہمان جا چکے تو نازیہ نے اسد کی طرف دیکھا۔ہانیہ کہاں ہے؟اب اسد کا ضبط ٹوٹ چکا تھا رات کے بارہ بج رہے تھے ننھی پری ہانیہ کا کچھ پتہ نہیں تھا پورا گھر دیکھ لیا محلے میں بھی پوچھا مگر کچھ پتہ نہیں چلا۔نازیہ کا تو رو رو کر بُرا حال ہو رہا تھا وہ خود کو ذمہ دار ٹھہرا رہی تھی کاش میں نے اسے اکیلا چھوڑا ہی نہیں ہوتا بُرے بُرے خیالات اس کے ذہن میں آتے اور اس کے رونکٹے کھڑے ہو جاتے کہیں یہ اغواکاروں کا تو کام نہیں کسی نے پکڑ تو نہیں لیا۔کہیں بے حوش تو نہیں کر دیا ہانیہ رو رہی ہو گی۔اسی درد اور اذیت میں رات کے دو بج گئے۔اسد نے بائیک کی چابی اُٹھائی اور کہا میں تھانے جا رہا ہو ایف آئی آر کروانے۔بس اب چاروں طرف اندھیرا چھا رہا تھا۔نازیہ جائے نماز پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔تب ہی ٹیبل کے نیچے سے ننھی سی آواز آئی مما مما۔ہانیہ آنکھوں کو مسلتی ہوئی ماں کی گود میں بیٹھ گئی۔اس وقت اکثر ہانیہ بھوک سے جاگ جاتی تھی۔مما نانا تھاؤں گی۔اس آواز نے گھر والوں کے چہرے چمکا دیئے سب زور سے ہنسنے لگے اسد نے ہانیہ کو گود میں اُٹھا لیا۔میڈم آپ کی آج کی شرارت نے تو ہماری جان ہی نکال دی تھی کوئی ٹیبل کے نیچے بھی سوتا ہے کیا۔نازیہ نے شکر کا سجدہ کیا۔اور سوچنے لگی جن ماؤں کے بچے سچ میں گم ہو جاتے ہیں یا اغوا ہوتے ہیں ان ماؤں پر کیا قیامت ٹوٹتی ہو گی۔اللہ سب کے بچوں کی حفاظت کرے۔آمین " ابو جی!مجھے سائیکل لے دو - تحریر نمبر 2403,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/abbu-ji-mujhe-cycle-le-do-2403.html,"ریاض احمد جسٹسعلی کے گھر کے قریب ایک بہت بڑا بازار تھا۔بازار میں ہر قسم کا سامان فروخت ہوتا تھا۔اس بازار میں ایک بہت پرانی نئی سائیکلوں کی اسلم چاچا کی دکان تھی۔دکاندار کے پاس ہر عمر کے بچوں کی مختلف رنگوں کی سائیکلیں موجود تھیں۔علی اور اُس کے ساتھی دوست سکول سے آتے اور جاتے وقت اسلم چاچا کی دکان پر پڑی سائیکلوں کو حسرتوں بھری نظروں سے دیکھ کر جاتے۔علی اپنے دوستوں سے کہتا درمیان والی اورنج رنگ کی سائیکل کو میں نے اپنے لئے پسند کیا ہے۔پھر دوسرا دوست علی کی بات سُن کر جواب دیتے ہوئے کہتا کہ بلیو رنگ کی سائیکل کو میں نے اپنے لئے پسند کیا ہے۔پھر تیسرا دوست بولتا ہے اگر کسی طرح ہم سائیکلوں کو پسند کرتے رہے تو سکول کا وقت گزر جائے گا۔(جاری ہے)جو سائیکل علی نے اپنے لئے پسند کی ہوئی تھی وہ ان سب سائیکلوں سے زیادہ قیمتی تھی۔اُسے علی کے ماں باپ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔یوں کچھ دن گزرنے کے بعد علی کے ابا نے علی سے سوال کیا کیا بات ہے تم روزانہ سکول سے دیر سے گھر آتے ہو؟علی ابا کی بات سن کر خاموش ہو گیا کچھ دیر بعد علی نے کہا آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب میں پانچویں جماعت میں اول پوزیشن لوں گا تو آپ مجھے نئی سائیکل خرید کر دیں گے۔علی کے ابا اُس کی بات سُن کر خاموش ہو گئے۔کیونکہ وہ اس قیمت کی سائیکل خرید کر نہیں دے سکتے تھے۔علی ابا کی طرف دیکھ کر بولا۔کیا ہوا آپ نے خود ہی کہا تھا کہ جب میں پانچویں جماعت میں اول آؤں گا تو آپ مجھے سائیکل لے دیں گے۔ابا نے بیٹے کی بات سُن کر جواب دیتے ہوئے کہا․․․․ابھی تو تمہیں جماعت میں اول پوزیشن لیے ہوئے کچھ دن ہی گزرے ہیں․․․․کچھ دن مزید انتظار کرو،میں تمہیں تمہاری پسند کی سائیکل ضرور لے کر دوں گا مگر تم اسی طرح شوق سے کامیابی سے آگے بڑھتے جاؤ میں آج ہی تمہارے دادا جان کو خط لکھ دوں گا۔بس دو چار دنوں میں خط کا جواب اور پیسے بھی آجائیں گے۔علی ابا کی بات سُن کر کہنے لگا․․․․․یوں تو بہت دن لگ جائیں گے۔ابا نے علی کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے۔تمہارے دادا جان نے کبھی تمہاری فرمائش سے انکار کیا ہے۔علی مسکراتے ہوئے اپنے کمرے میں جا کر بیگ سے کتابیں نکال کر پڑھنے لگا۔ابا جان نے بیٹے کو پڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا․․․․بیٹا اسی طرح شوق سے پڑھتے جاؤ اور آگے بڑھتے جاؤ۔“یوں کچھ دن گزرنے کے بعد علی کی والدہ نے باتوں باتوں میں علی کے ابا سے سوال کر دیا کہ ․․․․علی روزانہ صبح سکول جانے سے پہلے سائیکل لے کر دینے کی ضد کرتا ہے میں اُسے کب تک یوں جھوٹی تسلیاں دیتی رہوں گی۔علی کی والدہ کی بات سن کر علی کے ابا نے جواب دیا․․․․․بیگم آپ کی ہر بات ٹھیک ہے مگر آپ تو اچھی طرح جانتی ہیں ملکی حالات سے بخوبی واقف ہیں اور گھر کا نظام چلنا کتنا مشکل ہے پہلے تو کسی فیکٹری یا کارخانے میں کام ملتا ہی نہیں ہے اگر کام مل بھی جائے تو وقت پر تنخواہ نہیں ملتی۔تنخواہ لینے کا وقت آئے تو فیکٹری کے مالکان بجلی اور ٹیکس کی باتیں کرکے ملکی نظام میں خامیاں نکالنے لگتے ہیں۔غریب کرے تو کرے کیا مگر بیگم تم فکر مت کرو میں نے چند روز پہلے علی کے دادا کو علی کی فرمائش کا خط لکھا ہے بس ایک دو دن میں خط کا جواب آ جائے گا۔علی کے دادا نے آج تک علی کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی فرمائش پوری کی ہے۔یوں باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک ڈور بیل بجنے لگی ساتھ ہی کسی نے بلند آواز میں کہا ”پوسٹ مین“․․․․․پوسٹ مین کا نام سنتے ہی علی کے ابا اور والدہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور علی کے ابا بولے میں نے کہا تھا کہ علی کے دادا کا آج کل میں جواب آجائے گا۔علی کی والدہ جب خط لے کر اندر آئی تو علی کے ابا کہنے لگے اب تم جلدی سے خط پڑھ کر سنا دو۔علی کی والدہ نے خط کھول کر پڑھنا شروع کیا تو دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔دعا سلام کے بعد دادا جان نے ملکی حالات کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا۔بیٹا!اس وقت کی ملکی صورتحال سے تم اچھی طرح واقف ہو بلکہ سبھی لوگ واقف ہیں کیونکہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے کھڑی فصلوں کا تو نقصان کیا تھا مال مویشی بھی چلے گئے اور تمہارا چھوٹا بھائی بھی لوگوں کو بچاتے ہوئے پانی کے ریلے میں بہہ گیا ہے۔خط پڑھ کر دونوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اس طرح کچھ دن گزر گئے مگر دادا جان گاؤں سے شہر نہیں آئے۔ایک دن علی نے سکول سے لوٹتے ہوئے اورنج رنگ کی سائیکل جو پسند کی تھی کوئی دوسرا لڑکا چلا رہا تھا۔اُسے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔علی اسلم چاچا کے پاس جا کر شکوہ کرنے لگا۔اسلم چاچا آپ نے بہت اچھا کیا جو آپ نے میری پسند کی سائیکل کو فروخت کر دیا۔مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ میرے ابا کے پاس اتنی قیمتی سائیکل مجھے خرید کر دینے کی طاقت نہیں تھی۔اسلم چاچا علی کی بات سُن کر آنکھیں تر ہو گئیں۔علی روتے ہوئے سکول بیگ سے دادا جان کا خط نکال کر اسلم چاچا کے حوالے کرکے چلا گیا۔علی کے جانے کے بعد اسلم چاچا نے علی کا دیا ہوا خط پڑھا اور دل میں احساس ہوا کہ میری وجہ سے گلی محلے کے نجانے کتنے ہی بچوں کے دل کو دکھ پہنچا ہو گا۔یوں اسلم چاچا نے گلی محلے کے ہر بچے کو خوش کرنے کے لئے ہر لڑکے کو ایک ہفتے کے لئے فری سائیکل چلانے کی اجازت دے دی۔یوں گلی محلے کا ہر بچہ فری سائیکل چلا کر اپنا شوق پورا کرنے لگا۔اسلم چاچا نے کہا بچے کھلونوں سے کھیلتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔آج کے بچے کل کا روشن مستقبل ہیں․․․․․اسلم چاچا بچوں کی ضد کے آگے ہار گئے۔ " غمگین بلبل - تحریر نمبر 2402,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghamgeen-bulbul-2402.html,"ایمان جاویدسورج غروب ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی۔افق پر نارنجی روشنی ابھی باقی تھی۔آبادی سے دور خشک ہوتے تالاب میں مینڈک ٹرٹرا رہے تھے۔جھینگر بھی وقفے وقفے سے اپنا راگ الاپتے اور چپ کر جاتے جیسے رات کے لئے اپنے آلات چیک کر رہے ہوں۔قریب ہی ایک سوکھے درخت کی شاخ پر ایک بلبل اداس بیٹھا تھا۔وہ نہ تو ہل جل رہا تھا نہ کچھ بول رہا تھا،ایسا لگتا تھا کہ جیسے چہچہانا بھول گیا ہو،اس کی آنکھوں میں اداسی تیر رہی تھی۔تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دور ایک جگنو اُڑتا نظر آیا۔بلبل پر نظر پڑتے ہی وہ سیدھا اس کے پاس چلا آیا اور پُرجوش لہجے میں بولا،”پیارے بلبل!مجھے معلوم ہے تم کیوں اداس ہو،تمہیں اپنے گھر جانا ہے لیکن اندھیرا ہو گیا ہے،آؤ میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔(جاری ہے)ایک عرصے بعد آج مجھے نیکی کمانے کا موقع مل رہا ہے،میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں“۔”نہیں مجھے کہیں نہیں جانا،اس لئے کہ میرا گھر برباد ہو چکا ہے“۔”تمہارے گھر کو کیا ہوا؟“جگنو نے حیرت سے پوچھا۔”جس درخت پر میرا گھونسلا تھا،اسے کاٹ دیا گیا ہے،بلکہ آس پاس کے سب درخت کٹ گئے ہیں“۔بلبل بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔”ہاں،یہاں تو بہت سے درخت تھے لیکن اب ایک بھی نظر نہیں آ رہا،آخر درخت کیوں کاٹے گئے ہیں“۔جگنو نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔”تمہیں وہ شاہراہ نظر آ رہی ہے ناں بس اس کو چوڑا کرنے کے لئے“۔بلبل نے کچھ دور سے گزرتی سڑک کی طرف اشارہ کیا۔”اوہ!اب میری سمجھ میں آیا لیکن دوسری طرف اتنی زمین بھی کوئی دینے پر تیار نہیں تھا،لہٰذا حکومت نے ان تمام پرانے پیڑوں کو کاٹ ڈالا جو گزرنے والوں کو سایہ فراہم کرتے تھے اور ہزاروں پرندوں اس پر بسیرا کرتے تھے“۔بلبل نے کہا۔جگنو نے افسوس سے گردن ہلائی اور بولا،”انسان زمین کا دشمن بن گیا ہے۔وہ دن بدن اس کو برباد کر رہا ہے۔جنگل کاٹے جا رہے ہیں،جس سے موسم بدل رہے ہیں اور جگہ جگہ تباہی آ رہی ہے۔انسان کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے لیکن اسے اس کا احساس ہی نہیں“۔بلبل نے آہ بھری اور بولا،”میرے سب ساتھی یہ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں کل میں بھی یہاں سے چلا جاؤں گا“۔دونوں خاموش ہو گئے اور افق پر اس بدلی کو تکنے لگے جس میں ابھی روشنی کی کچھ کرنیں باقی تھیں،پھر جگنو دھیرے سے بولا۔”حالات بہت خراب ہیں لیکن ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئے۔انسانوں میں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں،جنہیں اس تباہی کا احساس ہے اور وہ اسے روکنے کی کوشش کریں گے،خاص طور پر بچے،انہیں تو درخت اور پودے بہت اچھے لگتے ہیں“۔بلبل نے گردن ہلائی اور بولا،”ہاں تم ٹھیک کہتے ہو،ہماری بقا انسانوں کی نئی نسل کے ہاتھوں میں ہے“۔دونوں خاموش ہو گئے۔جب اندھیرا بڑھ گیا تو جگنو روشنی پھیلاتا ایک طرف اُڑ گیا اور بلبل نے اپنی چونچ پروں میں چھپا کر آنکھیں موند لیں۔ " جگنو کا مٹھو (تیسرا حصہ) - تحریر نمبر 2401,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jugnu-ka-mithu-teesra-hissa-2401.html,"تسنیم جعفری”کل اتوار ہے اور ہم سب پکنک پر جائیں گے․․․․!“جگنو نے سکول سے آتے ہی اعلان کیا ”کون لے کر جائے گا تمہیں پکنک پر․․․؟“آپا نے طنز کیا۔”ابو․․․․․اور کون!انہوں نے پچھلے ہفتے وعدہ کیا تھا کہ اگر پاکستان میچ جیت گیا تو ہمیں پکنک پر لے جائیں گے۔امی جب رات کو ابو آجائیں تو انہیں یاد کرا دیجئے گا۔“”کیا بکواس ہے یہ․․․․․پاکستان میچ جیت گیا تو ابو تم لوگوں کو پکنک پر لے کر جائیں گے․․․․!میں تو نہیں جاؤں گی دادی جان کے پاس رہوں گی۔“آپا غصے سے بولیں۔”مگر بیٹا میں تو صبح تمہارے چچا کی طرف جاؤں گی،تم چلی جانا پکنک پر․․․․کبھی کبھار گھوم بھی لینا چاہئے،باغ کی سیر سے دماغ کھلتا ہے۔(جاری ہے)“دادی جان نے مشورہ دیا۔”بالکل ٹھیک کہا دادی جان․․․․انہیں بہت ضرورت ہے دماغ کھولنے کی،پتہ نہیں کب سے بند پڑا ہے،بھوت بنگلہ بن گیا ہے۔“جگنو ہنستے ہوئے بولا۔”تم اپنی چونچ بند رکھو ورنہ․․․․!“آپا نے اسے مارنے کے لئے دادی جان کے نیچے سے کشن کھینچنے لگیں تو ساتھ ہی ان کی تسبیح بھی کھینچ کر ٹوٹ گئی۔”ارے․․․․بیٹا یہ کیا کیا تم نے؟غصے میں میری تسبیح ہی توڑ ڈالی․․․․!اتنا غصہ بھی ٹھیک نہیں ہوتا،بھائی تو مذاق کر رہا تھا۔“دادی جان تسبیح کے دانوں کو دیکھ کر تاسف سے بولیں۔”سوری دادی جان!یہ سب اس جگنو کا قصور ہے،اسے کیا ضرورت ہوتی ہے بلاوجہ مذاق کرنے کی․․․․!“آپا جگنو کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولیں۔”ارے دادی جان میں ابھی ٹھیک کر دیتا ہوں،“جگنو تابعداری سے بولا اور جلدی جلدی تسبیح کے دانے اکٹھے کرنے لگا،”جاؤ شمع سوئی دھاگہ لے کو آؤ۔“”ارے بیٹا رہنے دو،بہت مشکل ہے قالین پر دانے کہاں نظر آئیں گے․․․!“دادی فکر مندی سے بولیں۔”ارے دادی جان آپ فکر ہی نہ کریں،پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بھکرے دانوں کو جو مشکل ہے تو اس مشکل کو آسان کرکے چھوڑوں گا۔“”ارے بھائی!تم نے تو اقبال کا شعر پڑھ دیا،تمہیں کیسے یاد ہو گیا․․․․؟“شمع حیرت سے بولی۔”بھئی یہ سب تو مٹھو کی دوستی کا کرشمہ ہے کہ مجھے بھی اقبال کے اشعار سے دلچسپی ہو گئی․․․․․کیوں مٹھو بھیا․․․․؟“”ذرہ نوازی ہے جگنو میاں!“مٹھو شرماتے ہوئے بولا۔اگلے دن صبح صبح سب تیار ہو کر تمام سازو سامان سمیت گاڑی میں آ بیٹھے۔آگے امی ابو بیٹھے تھے،پیچھے جگنو اور شمع،درمیان میں مٹھو کا پنجرہ رکھا تھا۔آپا بیٹھنے کے لئے آئیں تو ان کے لئے جگہ نہ تھی،انہیں بے حد غصہ آیا،”یہ مٹھو یہاں کیا کر رہا ہے․․․․کون لایا ہے․․․․؟اسے نیچے اتارو اسی وقت۔“”ارے ارے آپا․․․!ذرا ادب سے بات کریں آخر آپ کے پروفیسر صاحب کا مٹھو ہے․․․․!“”تم اپنی بکواس بند کرو!میں کہاں بیٹھوں گی اب․․․․؟“آپا کو مزید غصہ آگیا۔نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پرتو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پرمٹھو نے لقمہ دیا”او مٹھو․․․․!تم اپنی چونچ بند رکھو،تم پر بھی جگنو کا اثر ہو گیا ہے۔مجھے اس کا پنجرہ دو میں اندر رکھ کر آتی ہوں۔“”ارے آپا ناراض کیوں ہوتی ہو۔میں اسے اُٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیتا ہوں آپ یہاں بیٹھیں۔“جگنو بولا۔صبح سویرے پارک میں پہنچ کر بہت مزہ آیا،سب سے زیادہ خوش مٹھو تھا۔طرح طرح کے پرندے چہچہا رہے تھے اور مٹھو بھی انہیں دیکھ دیکھ کر سیٹیاں بجا رہا تھا اور ان کی نقلیں اتار رہا تھا۔”بھئی میں ذرا سستا لوں․․․!“ابو نے ہری ہری گھاس پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھمشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھمٹھو بولا”تو ہی دیکھ مٹھو!میں تو بہت تھکا ہوا ہوں۔“مٹھو کے اس بے وقت کے شعر پر ابو نے بے زاری سے کہا تو مٹھو انہیں چھوڑ کر پھولوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔واہ وا،پھول ہیں باغ میں یا پریاں قطار اندر قطاراودے اودے،نیلے نیلے،پیلے پیلے پیرہناتنے میں جگنو اور شمع کے درمیان کسی بات پر بحث چھڑ گئی،وہ دونوں اپنی اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے اور فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔”اچھا چلو مٹھو سے پوچھ لیتے ہیں․․․․!“جگنو بولا”ہاں یہ ٹھیک ہے․․․․!“شمع بھی متفق ہو گئی۔۔۔(جاری ہے) " بیا کا گھونسلہ - تحریر نمبر 2400,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baya-ka-ghonsla-2400.html,"احمد عدنان طارق․․․․فیصل آبادایک دن تمام پرندے بیا کے گھونسلے میں آئے اور اُسے کہنے لگے کہ وہ اُنہیں بھی اپنے جیسا پیارا گھونسلہ بنانا سکھائے۔بیا نے اُنہیں سکھانے کیلئے پہلے تھوڑی سی گیلی مٹی لی اور اُس کا جیسے ایک کیک سا بنا لیا جسے اندر سے اُس نے خالی رہنے دیا۔ایک قلاع جو قریب ہی بیٹھا تھا بولا:”اچھا تو گھونسلہ اس طرح بناتے ہیں۔“وہ وہاں سے اُڑا اور جا کر اپنا گھونسلہ بنانے لگا اور آج تک تمام قلاع اسی طرح گھونسلے بناتے ہیں۔پھر بیا نے کچھ تنکے لئے اور اُنہیں گیلی مٹی کے باہر لگا دیا۔ابابیل نے دیکھا تو بولی ”اچھا تو گھونسلہ اس طرح بناتے ہیں“ یہ کہہ کر وہ اُڑی اور آج تک تمام ابابیل اسی طرح گھونسلے بناتے ہیں۔(جاری ہے)پھر اُس نے کچھ اور گیلی مٹی لی اور تنکوں پر ایک اور تہہ جما دی۔میاں الو نے دیکھا تو بولے:”اچھا تو گھونسلہ یوں بنتا ہے“ یہ کہہ کر وہ اُڑے اور آج تک ہر الو اسی قسم کا گھونسلہ ہی بناتا ہے۔بیا نے پھر کچھ اور تنکے لئے اور مٹی کے چاروں طرف لگا دیئے۔اب اُڑنے کی باری چڑیا کی تھی۔پھر اسی طرح گھونسلہ بنتے دیکھ کر مینا بھی اُڑ گئی اور اُسی طرح گھونسلہ بنانا شروع کر دیا۔کسی پرندے نے انتظار نہیں کیا کہ گھونسلے کو مکمل ہوتا دیکھے۔آخر فاختہ جو دیکھ بھی نہیں رہی تھی کہ بیا کس طرح گھونسلہ بنا رہا ہے بولنے لگی۔”دو لے لو۔دو لے لو۔“بیا نے اس کی آواز سنی تو اس کے منہ میں ایک تنکا تھا،اُس نے وہ نیچے رکھا اور کہنے لگا۔”نہیں ایک ہی کافی ہے“لیکن فاختہ بولتی رہی۔”دو لے لو۔دو لے لو۔“بیا نے نگاہیں اوپر کرکے فاختہ کو دیکھا۔تبھی اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ سارے پرندے اُڑ گئے ہیں اور صرف فاختہ ہی وہاں ہے اور وہ بھی نہیں دیکھ رہی کہ اصل میں گھونسلہ کیسے بنتا ہے؟بیا بہت ناراض ہوا اور کہنے لگا کہ اب وہ کسی کو گھونسلہ بنانا نہیں سکھائے گا۔بس یہی وجہ ہے کہ آج تک تمام پرندے مختلف انداز میں گھونسلے بناتے ہیں۔ " دوسرا سایہ - تحریر نمبر 2399,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dosra-saya-2399.html,"احمد عدنان طارقکہیں دور ایک لڑکا موسیٰ رہتا تھا۔وہ لڑکا ہمیشہ اپنے سائے کا بہت خیال کیا کرتا تھا۔موسیٰ ویسے بھی بہت ذمے دار لڑکا تھا جو اپنے جوتوں اور کپڑوں کے بٹنوں تک کا بہت خیال کرتا تھا،لیکن سب سے زیادہ خیال وہ اپنے سائے کا رکھتا تھا،کیونکہ اُسے معلوم تھا کہ اُس کا صرف ایک ہی سایہ ہے اور وہی ساری زندگی اس کے ساتھ رہے گا۔وہ ہمیشہ چلتے وقت خیال رکھتا کہ اس کا سایہ زیادہ مٹی میں نہ چلے اور اگر وہ کسی ایسی جگہ سے گزرتا جہاں زیادہ مٹی ہوتی تو وہ وہاں سے تیزی سے گزر جاتا۔موسیٰ اپنے سائے کا بہت خیال کرتا،پھر بھی ایک جادوگرنی کی نظروں میں آ گیا۔ایک دن موسیٰ جب اسکول سے واپس گھر آ رہا تھا تو ایک جادوگرنی نے اسے راستے میں روک لیا۔(جاری ہے)وہ بولی:”میں تمہیں ہمیشہ سائے کا خیال رکھتے دیکھتی ہوں اور یہ بات مجھے بہت پسند ہے کہ تم اپنے سائے کا بہت خیال کرتے ہو۔“موسیٰ نے کہا:”میں اس کا خیال اس لئے رکھتا ہوں،کیونکہ یہ ایک ہی ہے اور پھر اسے ساری زندگی میرے ساتھ رہنا ہے۔“جادوگرنی موسیٰ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولی:”تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔تم ہی وہ لڑکے ہو،جس کی مجھے تلاش تھی۔میں چاہتی ہوں کہ کوئی میرے سائے کی بھی حفاظت کرے،کیونکہ میں چھٹی پر جا رہی ہوں۔میں ہر گز اپنے بوڑھے،ہڈیوں کے ڈھانچے جیسے سائے کو ساتھ لے کر جانا نہیں چاہتی۔تم جانتے ہو،کئی دفعہ یہ سائے بڑی مصیبت کھڑی کر دیتے ہیں۔“موسیٰ نے حیرانی سے سوچتے ہوئے جواب دیا:”لیکن میرے سائے نے تو کبھی مجھے مصیبت میں نہیں ڈالا۔“جادوگرنی بولی:”ہو سکتا ہے تم ٹھیک کہہ رہے ہو،لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں دو ہفتوں کے لئے اپنے سائے سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں۔میں اسے کسی ایرے غیرے کے حوالے بھی نہیں کرنا چاہتی۔میری خواہش ہے کہ میں اسے تمہارے حوالے کرکے جاؤں۔“موسیٰ ڈر رہا تھا،اس لئے اس نے مناسب نہیں سمجھا کہ وہ کسی جادوگرنی سے بحث کرے۔وہ بولا:”ٹھیک ہے میں رکھ لیتا ہوں،لیکن مہربانی فرما کر جلدی واپس آجائیے گا۔“جادوگرنی اپنی طرف سے نہایت مہذب انداز میں مسکرائی،حالانکہ مسکراتے وقت وہ خاصی خوف ناک لگ رہی تھی۔پھر اس نے وعدہ کرتے ہوئے موسیٰ سے کہا:”اگر تم میرا سایہ جوں کا توں بہترین حالت میں مجھے لوٹاؤ گے تو میں تمہیں ایک جادو کا منتر دوں گی،جو صرف تمہارا ہو گا۔اس کا فیصلہ میں خود کروں گی کہ تمہارے لئے کون سا منتر مناسب رہے گا۔“پھر اس نے اپنے سائے کو موسیٰ کے سائے کے ساتھ باندھ دیا اور خود جادو کی جھاڑو پر سوار ہو کر فضا میں بلند ہو گئی۔اس کے اوپر سورج کی روشنی تھی،لیکن اس کا سایہ نہیں تھا۔البتہ موسیٰ کے اب دو سائے تھے۔دوسرا جادوگرنی والا سایہ غصے میں تھا۔یہ شاید دنیا کا سب سے بدتہذیب سایہ تھا۔ہمیشہ سے یوں ہی ہوتا آیا ہے کہ سایہ وہی حرکتیں کرتا ہے،جو اس کا مالک کرتا ہے،لیکن یہ اُصول جادوگرنی کے سائے پر لاگو نہیں ہوتا تھا۔جب موسیٰ پھلوں کی دکان پر سیب خریدنے گیا تو جادوگرنی کا سایہ دوسرے پھلوں کے سایوں پر منڈلانے لگا۔اس نے کیلوں،مالٹوں اور ناشپاتیوں کے سایوں کو گڈمڈ کر دیا۔پھل فروش چلا کر بولا:”اس سائے کو یہاں سے دور پھینک کر آؤ۔میں مالٹوں کو کیسے بیچوں گا اگر ان کا سایہ ہی نہیں ہو گا یا وہ کیلے کون خریدے گا جن کا سایہ ناشپاتیوں جیسا ہو گا۔“موسیٰ جادوگرنی کے سائے کو اتنی آزادی دینا نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنی من مانی کرتا پھرے۔وہ بے چارہ سیب خریدے بغیر ہی وہاں سے واپس آ گیا۔پھر شام کو گھر میں چائے پیتے ہوئے جادوگرنی کا سایہ دیوار پر چڑھ کر پھیل گیا۔دیوار کے ساتھ لگے گھڑیال پر سایہ پڑا تو وہ بند ہو گیا۔اسے دیکھ کر میاں مٹھو کو دورہ پڑ گیا۔پھر اس نے کتے کے سائے کی دُم کو مروڑا تو موسیٰ کی امی نے زور سے کہا:”مجھے اس منحوس سائے کو دیوار پر ٹہلتا دیکھ کر چائے پینے میں ذرا مزہ نہیں آ رہا ہے۔موسیٰ!اسے گھر سے باہر ہی رکھا کرو۔“موسیٰ کو جادوگرنی سے کیے ہوئے وعدے کا خیال تھا۔اس نے باورچی خانے میں چائے پینی شروع کر دی۔وہ اب اس سائے کی حرکتوں کو بخوبی جانتا تھا،اس لئے وہ سائے کو شرارتوں کا موقع ہی نہیں دیتا تھا،لیکن اس طرح کی رکاوٹ سے سایہ بہت ناراض ہو گیا۔تبھی موسیٰ کی احتیاط کے باوجود سائے نے شرارتوں کے نئے طریقے سوچ لیے۔اس نے اب موسیٰ کے اپنے سائے کو چٹکیوں سے کاٹنا اور ڈرانا شروع کر دیا۔ایسی حرکت کو دیکھنا بھی موسیٰ کے لئے بڑی تکلیف کا عمل تھا۔موسیٰ اپنے سائے کے ساتھ ہمیشہ مہربانی سے پیش آتا تھا۔لہٰذا موسیٰ کے سائے کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس عفریت کا کس طرح مقابلہ کرے۔ایک دن موسیٰ اسکول سے گھر جا رہا تھا۔دھوپ نکلی ہوئی تھی۔دونوں سائے اس کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔موسیٰ نے دیکھا کہ جادوگرنی کے سائے نے موسیٰ کے سائے کو بھنبھوڑ دیا۔موسیٰ کے سائے نے درد کے مارے چیخ ماری اور وہاں سے بے اختیار بھاگ نکلا۔موسیٰ اس کے پیچھے دوڑا،لیکن وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔جادوگرنی کے سائے کی بھیانک ہنسی کی آواز آ رہی تھی۔اب پھر موسیٰ کے پاس ایک ہی سایہ رہ گیا تھا لیکن یہ اس کا اپنا سایہ نہیں تھا۔اس کا اصل سایہ اس کا ساتھ چھوڑ کر جا چکا تھا۔اب تو جادوگرنی کا سایہ ہی باقی بچا تھا۔موسیٰ اب اُداس اور تنہا تھا۔اس نے کوشش کی کہ وہ جادوگرنی کے سائے سے دوستی کرنے اور اس کا خیال رکھے،لیکن یہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی بچہ کسی بھیڑیے کو پالتو بنا کر رکھنا چاہے۔آخر جادوگرنی واپس آ ہی گئی۔اس کا رقعہ آیا کہ وہ آدھی رات کو موسیٰ سے ملنا چاہتی ہے،لہٰذا موسیٰ اس کا سایہ بھی ساتھ لیتا آئے۔وہ چودھویں کی رات تھی اور چاند نکلا ہوا تھا،ورنہ سائے کو ڈھونڈنا آسان نہ تھا وہ ہر وقت اندھیرے میں چھپ کر بیٹھا رہتا تھا۔پھر جادوگرنی نے اپنے سائے کو واپس لے لیا پھر جادوگرنی بولی:”یہ لو یہ ہے تمہارا جادو کا منتر۔“اس نے ایک دھاری دار ٹافی موسیٰ کے ہاتھ میں تھما دی جو چمگادڑ کے پَر میں لپٹی ہوئی تھی۔وہ بولی:”جو لڑکا اس ٹافی کو کھا لے گا وہ جب چاہے کسی بھی طرح کے اونٹ کا روپ دھار سکتا ہے۔وہ دوڑ لگانے والا اونٹ بھی ہو سکتا ہے اور گھریلو بھی۔“یہ منتر موسیٰ کے کسی کام کا نہیں۔وہ تو صرف یہی چاہتا تھا کہ کس طرح اس کا سایہ واپس آ جائے۔اس نے جادوگرنی سے اس کے سائے کی شکایت بھی کی،لیکن وہ جادوگرنیوں کی طرح ناک منہ چڑھا کر بولی:”میاں!دنیا میں کوئی چیز آسانی سے نہیں ملتی۔میں نے تمہیں تمہارا انعام دے دیا ہے۔اب بھاگو اور گھر جاؤ۔“موسیٰ کو مجبوراً اس کی بات ماننی پڑی اور وہ سر جھکائے سڑک پر گھر کی طرف چل پڑا۔جب وہ گھر کے دروازے پر پہنچا تو وہاں کسی چیز نے حرکت کی۔وہ اس کا اپنا سایہ تھا جو شرمندہ سا ہو کر دوسرے سایوں میں چھپا بیٹھا تھا۔وہ موسیٰ کی طرف آیا اور پھر اس کے پیروں میں لپٹ گیا۔وہ اتنا خوش تھا کہ بے اختیار چاند کی چاندنی میں ناچنے لگا۔اس نے دیکھا کہ اس کے ساتھ اس کے قدموں سے لپٹا اس کا سایہ بھی خوشی سے ناچ رہا تھا۔ " گناہ برباد،نیکی لازم - تحریر نمبر 2398,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gunah-barbaad-naiki-lazam-2398.html,"جدون ادیبعاصم ایک پریشان حال آدمی تھا۔اس کے چھ بچے تھے اور وہ کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔وہ کسی نہ کسی طرح کرائے کا مکان حاصل تو کر لیتا،مگر کچھ ہی عرصے میں مالک مکان بچوں کی تعداد سے تنگ آ جاتا اور کسی نہ کسی بہانے سے عاصم کو مکان خالی کرانے کا نوٹس دے دیتا۔اس طرح عاصم ہر وقت اس کوشش میں مصروف رہتا کہ کسی طرح مالک مکان کو راضی رکھے اور ساتھ ہی نیا مکان بھی ڈھونڈ رہا ہوتا۔ان دنوں بھی وہ اسی پریشانی کا شکار تھا۔مالک مکان اس کی پریشانی کو نہ سمجھ رہا تھا اور نہ اس کے ساتھ کوئی تعاون کرنے کو تیار تھا۔اس نے آخری مہلت دے رکھی تھی اور ہر دوسرے دن پوچھتا رہتا کہ کوئی مکان ملا؟عاصم اس سے تنگ آ چکا تھا۔وہ ایک پراپرٹی کمپنی کے کم پڑھے لکھے مالک کا ملازم تھا۔(جاری ہے)مالک کو جو کہنا ہوتا،وہ عاصم سے زبانی کہہ دیتا۔عاصم اس کے زبانی نکات کو کمپیوٹر ٹائپ کرکے منیجر کے حوالے کر دیتا۔اس طرح اس کی نوکری چل رہی تھی اور تنخواہ بھی مناسب تھی،مگر اپنا مکان نہ ہونے کے باعث وہ مالی مشکلات میں گھِرا رہتا۔عاصم اپنی پریشان سوچوں میں گم تھا کہ چپراسی نے آ کر بتایا کہ اسے بڑے صاحب نے بلایا ہے۔عاصم کاغذ قلم لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔صاحب کم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود زبردست کاروباری صلاحیتیں رکھتے تھے۔شہر میں ان کی کئی عمارتیں قائم کی تھیں اور اس کے سینکڑوں کرائے دار تھے۔عاصم جب اس کے پاس پہنچا تو وہ فون پر کسی سے بات چیت میں مصروف تھے۔عاصم اس کی بات ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔آخر بات ختم ہوئی عاصم کو دیکھ کر کہا:”ایک اشتہار لکھو،ہماری نئی بلڈنگ تیار ہے،اس کے لئے اچھے کرائے دار چاہییں!“عاصم کا دل زور سے دھڑکا۔اس نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ وہ اپنی کمپنی کا کوئی مکان کرائے پر حاصل کر لے۔کمپنی میں اس کی اہمیت بھی تھی،مگر دوسرے ہی لمحے اس کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا۔صاحب بولے:”شرائط وہی پرانی لکھ دینا،یعنی ایک سال کا ایڈوانس اور کم بچوں والا خاندان۔“عاصم نے ضروری باتیں نوٹ کیں۔جب وہ اشتہار کا مضمون ٹائپ کر رہا تھا تو اسے ایک خیال سوجھا۔اس مرتبہ ہمت کرکے اس نے اشتہار میں ایک تبدیلی کر دی۔حسبِ سابق منیجر نے فائل کو سرسری انداز میں دیکھا اور متعلقہ شعبے میں بھیج دیا۔کرائے کے مکانوں کی بکنگ شروع ہوئی تو عاصم پوری تیاری کے ساتھ پہنچا اور بھرپور کاغذی کارروائی کرکے اپنی پسند کا فلیٹ کرائے پر حاصل کر لیا۔بکنگ کھلتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی۔تھوڑی دیر بعد ٹیلی ویژن کے کچھ نمائندے بھی پہنچ گئے۔وہ سیٹھ صاحب سے ملنا چاہتے تھے،لیکن اتفاق سے وہ ملک سے باہر تھے۔تین دن بعد جب وہ دفتر پہنچے تو ان کی حیرت کا کافی سامان موجود تھا۔ایک چینل کے نمائندے نے اثر رسوخ استعمال کرکے سیٹھ صاحب سے انٹرویو کے لئے وقت لے لیا تھا۔کئی تنظیموں نے ان کے اعزاز میں پروگرام رکھے تھے۔شہر کی ایک بڑی اور نمایاں سماجی تنظیم نے انھیں ایک ایوارڈ کے لئے نامزد کیا تھا۔کمپنی کے تمام لوگ حیران تھے کہ سیٹھ صاحب راتوں رات شہر کی ایک معروف شخصیت بن گئے تھے۔ان سے بہت سارے لوگ ملنا چاہتے تھے،مگر انھوں نے سب سے پہلے عاصم کو بلایا۔عاصم کو صاحب کا بلاوا ملا تو وہ سمجھ گیا کہ اس کی ملازمت کے ختم ہونے کا وقت آ گیا ہے،مگر اسے یہ تسلی تھی کہ اسے رہنے کے لئے ایک سال کے لئے مکان مل چکا ہے۔جسے ایک سال سے پہلے خالی کرانا آسان نہیں ہو گا۔عاصم مرے مرے قدموں سے صاحب کے کمرے میں پہنچا تو وہ بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔عاصم خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔انھوں نے عاصم کی طرف غور سے دیکھا اور کہا:”مجھے وہ سب بتاؤ،جو میں نہیں جانتا۔“عاصم نے ایک گہری سانس لی اور بولا:”سر!جب لوگوں کو پتا چلا کہ آپ نے زیادہ بچوں والے خاندان کو فلیٹ کرائے پر دینے کا اشتہار دیا ہے تو لوگوں نے آپ کے جذبہ ہمدردی سے متاثر ہو کر آپ کو ایک بڑے سماجی رہنما کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔اب آپ ایک مشہور سماجی شخصیت بن چکے ہیں۔تھوڑی دیر میں ایک ٹیلی ویژن کے لئے آپ کا انٹرویو ہے۔“سیٹھ صاحب نے دونوں ہاتھ تشکر کے انداز میں اوپر اُٹھائے اور بولے:”میری بچپن سے خواہش تھی کہ اخبار میں میرا انٹرویو چھپے۔میں نے اس خواہش کو اپنے اندر چھپا کر رکھا،اب اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کر دی ہے۔میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں۔آئندہ میری جتنی بلڈنگیں بنیں گی،سب بڑے خاندان والوں کو دیں گے۔“عاصم حیران نظروں سے اپنے صاحب کو دیکھتا رہا،پھر سر جھکا کر بولا:”میری ایک غلطی نے آپ کو ہیرو بنا دیا اور آپ نے اسے نیکی میں بدل دیا۔“”تم نے جو غلطی کی ہے،جی چاہتا ہے،تمہارے ہاتھ چوم لوں۔“بیگ صاحب نے جیسے ہی کہا،عاصم نے اپنے ہاتھ سمیٹ لیے۔سیٹھ صاحب عاصم کی طرف غور سے دیکھنے لگے،پھر نرم لہجے میں بولے:”تم نے ایسا کیوں کیا؟“عاصم نے کچھ کہنا چاہا،مگر الفاظ گلے میں گھٹ گئے۔بے بسی کے احساس سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آخر رُندھے ہوئے لہجے میں بولا:”سر!میں کرائے کے مکان ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور کرائے بھر بھر کے تھک چکا ہوں۔میں نے یہ غلطی جان بوجھ کر کی ہے۔آپ کے اعتماد کو دھوکا دیا ہے۔“سیٹھ صاحب نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے:”گھبراؤ مت،جو ہوا،سو ہوا،اب یہ راز ہم دونوں کے درمیان رہے گا اور اس کی ایک قیمت ہو گی۔“”قیمت․․․․․کیسی قیمت!“عاصم نے گڑبڑا کر پوچھا۔”تم نے جو فلیٹ کرائے پر حاصل کیا ہے،وہ آج سے تمہارا ہوا۔یہ تمہارا انعام ہے اور راز کی قیمت بھی․․․“بیگ صاحب کچھ اور بھی کہہ رہے تھے،مگر عاصم نہ سن سکا۔اسے ہر چیز ایک دائرے میں گھومتی محسوس ہوئی اور پھر وہ لہرا کر دھڑام سے گر پڑا۔ " بڑا کام - تحریر نمبر 2396,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bara-kaam-2396.html,"عاصمہ فرحیننوید چودہ جماعتیں پاس کرکے سند لے چکا تھا،لیکن اسے اب تک اپنے معیار کی ملازمت نہ مل سکی تھی۔وہ اپنے والدین،تین بہن بھائیوں اور دادی کے ساتھ رہتا تھا۔اس کے والد کسی ادارے میں معمولی نوکری کرتے تھے،جس سے گھر کا خرچ مشکل سے پورا ہوتا تھا۔آخر مجبور ہو کر اخبار میں اعلان کردہ سیکیورٹی گارڈ کی نوکری کرنے کا فیصلہ کر لیا۔تین مہینے کی تربیت کے بعد وہ ایک نجی بینک میں سیکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے لگا۔وہ جاسوسی ناولز پڑھنے کا شوقین تھا۔اسی لئے وہ ہر آنے جانے والے پر نظر رکھتا اور چوکس رہتا۔وہ صبح چہل قدمی کرتا اور رات کو جم بھی جاتا تھا۔بینک میں آنے جانے والے جو لوگ اسے مشکوک لگتے،ان پر نظر رکھتا۔(جاری ہے)اس طرح محنت اور دل لگا کر کام کرتے ہوئے چھ مہینے گزر گئے تھے۔اسی دوران دوسرا سیکیورٹی گارڈ چھٹیوں پر گاؤں چلا گیا اور نئے سیکیورٹی گارڈ عزیز نے اس کی جگہ لے لی تھی۔ایک دن لمبے قد اور بڑی عمر کے ایک صاحب آئے۔انھیں بینک اکاؤنٹ کھلوانا تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ غصہ کرتے ہوئے چلے گئے۔دوسرے دن وہ پھر آئے،مگر ان کا بینک اکاؤنٹ نہیں کھل سکا۔جب تین چار دن تک وہ مسلسل آتے رہے اور ان کا کام نہ بنا تو نوید سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھا:”انکل!ایسا کیا مسئلہ ہے کہ آپ کا کام نہیں ہو رہا ۔کہیں تو میں بینک منیجر سے بات کرتا ہوں۔“تھوڑے ہی عرصے میں سب اسے اچھی طرح جاننے لگے تھے۔”اگر تم میرا یہ کام کر دو تو،تمہاری بڑی مہربانی ہو گی۔“وہ نوید کے ہاتھ میں پانچ سو روپے کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہنے لگے۔”مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔“نوید نے رقم لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا۔چھٹی کے وقت جب اس نے منیجر صاحب سے بات کی تو وہ منہ بناتے ہوئے کہنے لگے:”وہ عجیب آدمی ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ اسے بینک میں اکاؤنٹ کھلوانا ہے۔بس کسی نہ کسی بہانے ہر ایک کے کمرے میں گھس جاتا ہے اور غصہ کرتا ہے۔اگر اسے اکاؤنٹ کھلوانا ہی ہے تو اس کے لئے ضروری کاغذات ساتھ لانے چاہییں۔اب اگر اس نے بدتمیزی کی تو اس کا بینک میں داخلہ بند کر دوں گا۔“نوید کی سمجھ میں کچھ نہ آیا،مگر اسے تجسس ہوا تھا۔دوسرے دن وہ بینک کے اندر کسی ضروری کام سے گیا۔واپسی آیا تو گارڈ عزیز کے پاس ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔نوید کو محسوس ہوا کہ اس نے اس آدمی کو پہلے کہیں دیکھا ہے۔کچھ ہی دیر میں وہ چلا گیا تھا۔رات کو نوید سوچتے سوچتے سو گیا۔صبح عزیز غیر حاضر تھا۔اس کی طبیعت خراب تھی۔آج نوید کی چھٹی حس اسے کسی خطرے سے ہوشیار کر رہی تھی۔وہ دل ہی دل میں دعائیں پڑھتا ہوا چوکس ہو کر ہوشیاری کے ساتھ ہر آنے جانے والے کو دیکھنے لگا۔رات کو گھر جانے سے پہلے وہ کچھ جگہوں پر گیا۔پھر اس نے موبائل فون پر ضروری پیغامات بھیجے۔اس کے بعد مطمئن ہو کر سو گیا۔اگلے دن وہ سب سے پہلے بینک منیجر کے پاس گیا اور تھوڑی دیر بعد جب وہ آفس سے نکلا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔گرمی زوروں پر تھی۔سہ پہر کے بعد چار آدمی کار میں سوار بینک کے مرکزی دروازے پر اُترے۔ان کے چہروں پر ماسک لگے ہوئے تھے اور آنکھوں پر سیاہ چشمے لگا رکھے تھے۔سر کو ڈھانپ رکھا تھا۔دو ڈاکو اندر چلے گئے اور ایک نے پھرتی سے نوید کی پیٹھ پر پستول رکھ دی اور کہنے لگا:”اندر چلو۔“ایک باہر کھڑا رہ گیا۔سامنے ہی ایک شربت والا ریڑھی کے پاس موجود تھا۔اندر جاتے ہوئے نوید یکدم لڑکھڑایا اور گملے میں سے ایک پھول توڑ کر دروازے سے باہر پھینک دیا۔ڈاکو نوید کو اندر لے گیا تھا۔بینک میں موجود دو ڈاکو لوگوں پر پستولیں تانے ہوئے تھے۔جب کہ ایک کیشیئر کے پاس کھڑا تمام رقم تھیلے میں ڈلوا رہا تھا۔کچھ ہی دیر بعد وہ تھیلا ہاتھ میں لیے باہر نکلے۔جیسے ہی باہر آئے پولیس کے سپاہیوں نے انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔انسپکٹر صاحب نے جب ان کے چہروں سے ماسک،چشمے اور رومال ہٹائے تو حیران رہ گئے۔ان میں ایک گارڈ عزیز اور دوسرا وہی لمبا تڑنگا شخص تھا جو بوڑھا بن کر روزانہ بینک اکاؤنٹ کھلوانے آتا تھا۔ان دونوں نے مل کر بینک کے بارے میں تمام معلومات حاصل کر لی تھیں۔ان کے دو ساتھی اور تھے۔انسپکٹر صاحب نے نوید کو بلایا اور کہنے لگے:”تم نے بہت بڑا کام کیا ہے۔اگر تم ہوشیاری اور چالاکی نہ دکھاتے تو آج یہ ڈاکو بینک لوٹ کر لے جاتے۔کاش ہر کوئی تمہاری طرح بہادر بن جائے۔تمہارا شکریہ برخوردار!”جناب!میں پولیس میں بھرتی ہونا چاہتا تھا۔گریجویٹ ہوں،مگر بے روزگاری سے پریشان ہو کر گارڈ کی نوکری کر لی اور آج اپنی جاسوسی فطرت اور بے چین طبیعت کی وجہ سے مجرموں کو گرفتار کرا دیا۔گارڈ عزیز اور اس آدمی پر مجھے شک تھا،جو نقلی بال اور داڑھی لگا کر بینک آ رہا تھا۔اسی لئے میں نے بینک کے سامنے موجود شربت والے سے کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی گڑبڑ ہو اور تم مجھے گملے میں سے پھول توڑتے یا دروازے پر پھینکتے ہوئے دیکھو تو مددگار پولیس کو فون کر دینا۔اس نے ایسا ہی کیا اور اللہ کا کرم ہے کہ آپ یہاں پر ہیں۔“نوید نے مسکراتے ہوئے کہا۔انسپکٹر صاحب نے پوچھا:”اگر پولیس بروقت نہ آتی تو․․․․؟“”تو ڈاکوؤں کے پاس جو نوٹ تھے،وہ جعلی تھے۔میں نے پہلے ہی اس بارے میں منیجر صاحب سے بات کر لی تھی اور بازار سے نقلی نوٹ خرید کر انھیں دے دیے تھے۔“نوید نے منیجر صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔اگلے دن اخبار میں نوید کی بہادری اور شربت والے کے تعاون کے چرچے ہو رہے تھے اور پولیس کے محکمے نے نوید کو نوکری دینے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ " ہماری پہچان - تحریر نمبر 2395,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hamari-pahchan-2395.html,"سید ہاجرہ ریحانچودہ سالہ حمزہ رات کو دیر تک سوچوں میں گم رہا۔وہ کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتا تھا۔وہ اس زبان کو جاننا چاہتا تھا جس میں لکھی گئی ہزاروں کتابیں،اخبار،رسالے بڑے سے گھر کے ایک بوسیدہ حصے میں بنے ہوئے کمرے میں موجود تھیں۔یہ کمرہ کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔دوپہر میں جب گھر کے تمام افراد آرام کر رہے تھے،تب حمزہ اس کمرے میں چلا گیا۔کمرے کی چابی اسے اسٹور میں پرانی چابیوں کے گچھے سے ملی تھی۔کمرے میں کئی الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔لکڑی کی میز پر کچھ ڈائریاں موجود تھیں۔ہر چیز پر گرد کی موٹی تہ جمی ہوئی تھی۔کمرے کی حالت سے اندازہ ہو رہا تھا کہ سال ہا سال سے یہاں کوئی نہیں آیا۔حمزہ نے وہاں سے کچھ کتابیں اُٹھا کر پڑھنے کی کوشش کی،لیکن کتابوں کی عبارت اس کی سمجھ میں نہ آئی۔(جاری ہے)یہ کتابیں کسی ایسی زبان میں تحریر تھیں،جسے وہ نہیں سمجھتا تھا۔آخر تھک کر وہ اپنے کمرے میں آ گیا۔اگلے دن صبح دادا اپنے معمولات میں مشغول تھے۔جب حمزہ ان کے کمرے میں داخل ہوا۔اس نے دادا سے اس کمرے کے بارے میں پوچھا تو دادا نے اس کو پوری بات بتا دی۔انھوں نے کہا:”میرے والد یعنی تمہارے پردادا اردو ادب کا ذوق رکھتے تھے،انھوں نے اتنا بڑا کتب خانہ بنایا۔پھر رفتہ رفتہ قوم سے ان کی قومی زبان چھین لی گئی۔قوم کو قومی زبان اردو کے بجائے انگریزی پڑھنے پر مجبور کیا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ جب قومی زبان کی جگہ انگریزی نام کی ایک اجنبی زبان بچے پر تھوپی گئی تو وہ تعلیم سے بھاگنے لگے۔قائداعظم نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا،لیکن ہمیں آزاد پاکستان دینے والے دور اندیش رہنما کی بات نہ مان کر ان کی توہین کی گئی۔وطن دشمنوں کا مقصد پورا ہو گیا۔جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں،سب نے اپنی اپنی قومی زبان میں اپنے بچوں کو تعلیم دی۔چین،جرمن،روس،برطانیہ،فرانس،امریکا وغیرہ کسی نے اپنے بچوں کو غیر ملکی زبان میں تعلیم نہیں دی۔دل روتا ہے یہاں انگریزی کے خنجر سے اردو کو قتل کیا جا رہا ہے۔ادھر موبائل فون نے اردو رسم و الخط کو ختم کرنے کی ٹھان لی،یعنی اردو کو بھی انگریزی حروف میں لکھا جا رہا ہے۔ایک انگریز فلسفی نے یہ بات یوں کہی:”زبان ختم کرنے کے لئے کسی کتب خانے کو آگ لگانے کی ضرورت نہیں،رسم الخط بدل دینا کافی ہے۔“اردو بگاڑے میں اخبار اور ٹی وی چینل برابر کے شریک رہے۔اگر یہی حال رہا تو رفتہ رفتہ ایک دن اردو زبان کا رسم الخط مکمل طور سے ختم جائے گا اور قوم رومن رسم الخط استعمال کرتے ہوئے اپنی شناخت کھو کر اپنی روشن تاریخ سے بیگانہ ہو جائے گی۔ضرورت کے تحت انگریزی ضرور سیکھو،لیکن اپنی تہذیب اور ثقافت کو ختم نہ کرو۔“حمزہ بڑے غور سے یہ حیرت انگیز اور افسوس ناک حقائق سن رہا تھا۔دادا کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔حمزہ بھی اپنی شناخت کھونے پر رنجیدہ تھا۔غم میں ڈوبی دادا کی باتیں سن کر اس نے عہد کر لیا کہ وہ اردو کر مرنے نہیں دے گا،کیونکہ اردو ہی ہماری پہچان ہے۔دادا نے اسے بتایا کہ وہ اردو زبان کا حقیقی خط جانتے ہیں۔حمزہ کی فرمائش پر دادا نے وعدہ کیا کہ وہ اسے اردو پڑھنا اور لکھنا سکھائیں گے۔حمزہ نے ایک پرانی چابی دادا کے ہاتھ پر رکھ دی۔دادا اس چابی کو ہزاروں میں پہچان سکتے تھے۔یہ کتب خانے کی چابی تھی۔اگلے دن دادا اور حمزہ اس کمرے کی صفائی کر رہے تھے۔وہ دوسرے لوگوں کو بھی اپنی شناخت اور اپنی تاریخ سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ " بندر اور فوجی - تحریر نمبر 2394,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bandar-aur-fouji-2394.html,"فیصل شیخشہاب بہت نیک دل اور ہمدرد فوجی جوان تھا۔ایک مرتبہ وہ چھٹیاں گزارنے اپنے گاؤں جا رہا تھا۔راستے میں ایک جنگل تھا۔وہ جنگل سے گزر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک کانٹے دار جھاڑی پر پڑی،جو زور زور سے ہل رہی تھی۔وہ اپنے گھوڑے سے اُتر گیا اور تلوار نکال کر للکارا:”کون ہے وہاں؟سامنے آؤ،ورنہ میں ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔“کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے پھر اپنے الفاظ دہرائے اور دوسری طرف سے گھوم کر جھاڑی کے سامنے آ گیا۔جھاڑی میں ایک بندر تھا،جو بُری طرح سے کانٹوں میں اُلجھ کر پھنسا ہوا تھا اور وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔بندر نے جب ایک انسان کو دیکھا تو سہم کر خاموش ہو گیا اور ڈر کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔شہاب نے اپنی تلوار سے جھاڑیاں کاٹنا شروع کریں اور وہ بندر تک پہنچ گیا۔(جاری ہے)اس نے بندر کو وہاں سے نکال لیا۔بندر اب بھی ڈرا ہوا تھا۔شہاب نے اپنے تھیلے میں سے کچھ جڑی بوٹیاں نکال کر اور ان کا لیپ بنا کر بندر کے زخموں پر لگایا اور اسے چھوڑ کر آگے روانہ ہو گیا۔وہ کچھ دور ہی چلا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی:”رکو،مہربان!“اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو وہی بندر پیچھے آ رہا تھا،جس کی اس نے جان بچائی تھی۔”بندر بولا:”میں تمہارا احسان مند ہوں۔میں سمجھا کہ تم کوئی ظالم شکاری ہو،لیکن تم ایک رحم دل انسان ہو۔اب میں تمہارے ساتھ رہوں گا اور تمہارے سارے کام کیا کروں گا۔“شہاب نے کہا:”تمہارا اور میرا ساتھ ممکن نہیں۔میں ایک فوجی ہوں،چھٹی پہ اپنے گاؤں جا رہا ہوں۔تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم اس جنگل میں آزادی سے رہو۔“مگر بندر نہ مانا اور شہاب کے پیچھے چلنے لگا۔بندر میں عجیب عادت تھی کہ وہ سکون سے نہیں بیٹھتا تھا اور چاہتا تھا کہ ہر وقت اپنے محسن کی خدمت میں لگا رہے۔شہاب اسے مختلف بہانوں سے ٹالتا رہا۔آخر وہ اپنے گاؤں پہنچ گیا۔شہاب کی ماں اپنے بیٹے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اسے گلے لگا کر بولی:”بہت دنوں بعد آئے ہو۔اب جلدی نہیں جانے دوں گی اور خوب کھلا پلا کر افضل حلوائی کے لڑکے کی طرح موٹا کر دوں گی۔“شہاب ہنسنے لگا اور کہا:”اماں!تم بھی بہت بھولی ہو،اگر میں موٹا ہو گیا تو دشمن سے کیسے لڑوں گا اور فوج سے بھی نکال دیا جاؤں گا۔“ابھی دونوں ماں بیٹے باتیں ہی کر رہے تھے کہ بندر جو باہر رہ گیا تھا،دیوار کے اوپر سے چڑھ کر اندر کود گیا۔اماں نے شور مچا دیا:”ارے،یہ بندر کہاں سے ہمارے گھر میں گھس آیا۔شہاب!تلوار نکالو اور اس کم بخت کو یہاں سے بھگاؤ۔“”اماں!یہ بندر میرے ساتھ ہے۔“میں حیرت سے بولی”تم فوج میں ہو یا کسی سرکس میں کام کرتے ہو،جو یہ بندر ساتھ لیے گھوم رہے ہو۔تمہارے باپ دادا فوجی تھے اور انھوں نے اپنی جانیں ملک کے لئے قربان کر دیں اور تم مداری بن گئے۔“شہاب نے پوری بات اماں کو بتائی کہ کس طرح یہ بندر اس کے ساتھ آ گیا۔ماں نے کہا:”خیر یہ تو تم نے اچھا کام کیا۔اب تم آرام کرو۔میں تمہارے لئے پراٹھے بناتی ہوں۔“بندر بھی دیوار سے اُتر کر شہاب کے پاس آ گیا اور بولا:”مجھے کوئی کام بتاؤ،میں تمہاری خدمت کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔“شہاب نے اس سے جان چھڑانے کے لئے کہا:”جاؤ،اچھا میرے لئے پھل لے آؤ۔“بندر دیوار پھاند کر باہر نکل گیا۔اماں پراٹھے بنا کر لے آئیں اور پوچھا:”ارے،وہ بندر کہاں گیا؟“”اماں!وہ ہر وقت کام کا پوچھتا رہتا ہے۔میں نے اسے کام سے بھیج دیا۔اب شاید نہ آئے۔“ابھی وہ یہ بات کر ہی رہا تھا کہ بندر دیوار سے کود کر چھت پر چڑھ گیا۔باہر کسی کے دروازہ پیٹنے کی آواز آئی۔”کون ہے،کیا آفت آ گئی جو دروازہ پیٹ رہے ہو۔“اماں نے بڑبڑاتے ہوئے دروازہ کھولا تو سامنے چاچا سکندر پھل والا کھڑا تھا:”ارے بہن!ذرا مجھے اپنی چھت پر تو جانے دو۔ایک نامعقول بندر میرے ٹھیلے سے کیلے کا پورا خدشہ لے کر بھاگ گیا اور تمہاری چھت پر چڑھا ہوا ہے۔“”ارے سکندر!تیرا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا،جو جانور پر چوری کا الزام لگاتا ہے۔“شہاب بھی شور سن کر دروازے پر آ گیا اور بولا:”چاچا سکندر!یہ میرا بندر ہے۔ذرا شریر ہے!اسے معاف کر دو اور کیلے کے پیسے میں تمہیں دے دیتا ہوں۔“”ارے میاں سپاہی!تم کب آئے؟“سکندر،شہاب کو دیکھ کر بندر کو بھول گیا۔وہ شہاب کی عزت کرتا تھا۔وہ اَن پڑھ دیہاتی تھا۔شہاب نے پچھلے برس پٹواری سے اس کے قرض کا حساب کتاب صحیح کروایا تھا،ورنہ اس کا قرض کسی طرح اُتر ہی نہیں رہا تھا۔”بس چاچا!چھٹیوں پر آیا ہوں اور یہ لو کیلے کے پیسے۔“”نہیں بیٹے!مجھے شرمندہ نہ کرو،یہ تم رکھو۔“ایک روز کھانا کھاتے ہوئے شہاب نے کہا:”اماں!اب میری چھٹیاں ختم ہو گئی ہیں،اب واپس جانا ہو گا۔“اماں بولیں:”شہاب!کچھ دن اور رُک جاتے تو اچھا ہوتا۔“”نہیں اماں!تم تو جانتی ہو،میں ایک فوجی ہوں اور سرحدوں کی حفاظت میرا فرض ہے۔اگر میں اپنی ذمے داری پوری نہیں کروں گا تو عام لوگ کس طرح سے محفوظ زندگی گزاریں گے۔“”تو پھر ٹھیک ہے،جانے کی تیاری کرو۔“”ٹھیک ہے اماں!مگر اس بندر کا کیا کروں،کیسے اس سے پیچھا چھڑاؤں؟“”تم فکر مت کرو،میں نے اس کی ترکیب سوچ لی ہے۔تم اسے یہاں سے اپنے ساتھ لے جاؤ اور وہیں چھوڑ دینا،جہاں تمہیں یہ ملا تھا۔میں تمہیں پانی کا ایک برتن دوں گی۔وہاں پہنچ کر کھانے کے بہانے تم اسے جنگل سے اس برتن میں پانی لانے کو بھیجنا۔برتن میں پانی بھرے گا ہی نہیں اور اتنے میں تمہیں وہاں سے نکلنے کا موقع مل جائے گا۔“یہ سن کر شہاب بہت خوش ہو گیا۔اگلے دن شہاب اماں سے رخصت ہوا اور بندر کو ساتھ لے کر واپس چھاؤنی چل دیا۔راستے میں وہ جنگل آ گیا،جہاں بندر پہلی دفعہ ملا تھا۔شہاب نے اماں کی ہدایت پر عمل کیا۔تھیلے سے کھانا نکالا اور بندر کو برتن تھما کر جلد پانی لانے کو کہا۔بندر نے برتن اُٹھایا اور پانی بھرنے چلا گیا۔برتن میں باریک باریک سوراخ تھے۔بندر میاں پانی بھرتے کے بھرتے رہ گئے اور شہاب میاں اپنی چھاؤنی پہنچ گئے۔ " دوستی ہو گئی - تحریر نمبر 2393,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dosti-ho-gayi-2393.html,"عشرت جہاںصبح کا وقت تھا۔عارف صاحب نے اپنی گاڑی نکالنے کے لئے بڑا گیٹ کھولا۔دروازے کے پیچھے رکھی کچرے کی ٹوکری اُلٹ گئی۔باہر نکلے تو ان کی نظر پڑی۔چند سیکنڈ انھیں صورتِ حال سمجھنے میں لگی۔دانت پیستے اور بڑبڑاتے ہوئے انھوں نے دروازہ بند کیا۔ان کے خیال میں کچرا اُٹھانے والا خاکروب اسی طرح انھیں پریشان کرتا ہے۔کوڑے کی ٹوکری ایک طرف رکھ کر وہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ارد گرد دیکھا۔خاکروب نظر نہیں آیا۔سب گھروں کے کوڑے دان خالی تھے۔اپنے گھر کا کچرا انھیں کوفت میں مبتلا کر رہا تھا۔واپس آ کر اس بھنگی کی خوب خبر لیتا ہوں،کوڑے پر منڈلاتی بھنبھناتی مکھیوں کو پیچھے چھوڑ کر وہ آفس کی طرف روانہ ہو گئے۔گلی کے خاکروب سے عارف صاحب کی کبھی نہیں بنتی تھی۔(جاری ہے)نہ جانے کیوں وہ اسے ناپسند کرتے تھے۔اس کے جواب میں خاکروب بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنے میں ذرا نہیں جھجکا۔اگلے دن انھوں نے کسی کام سے چھٹی کر لی تھی۔چائے پیتے وہ اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے کہ گلی میں ہل چل سی مچی۔خاکروب کی کڑک دار آواز دور ہی سے گونج رہی تھی۔ایک ایک گھر کے آگے سے کچرا اُٹھا رہا تھا۔عارف صاحب لپک کر باہر نکلے۔خاکروب اپنے مخصوص انداز میں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔عارف صاحب دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اسے غصے سے گھور رہے تھے۔”کل تو نے کچرا کیوں نہیں اُٹھایا تھا؟“”ساری گلی کا کچرا میں نے ہی اُٹھایا تھا جی اور کون اُٹھائے گا!“عارف صاحب اس کی دیدہ دلیری پر مزید خفا ہو گئے:”پوری گلی کا کوڑا اُٹھایا تھا،مگر ہمارے گھر کا نہیں اُٹھا سکا تو،ہیں!“”روز ہی تو اُٹھاتے ہیں کوڑا،کل نظر نہیں پڑی ہو گی․․․“وہ لاپرواہی سے بولا۔اُسی جگہ جھاڑیوں کے قریب کوڑے کی ٹوکری دھری ہوتی ہے اور تیری نظر نہیں پڑی۔“عارف صاحب اسے ڈانٹتے ہوئے بولے۔”سویرے سویرے دماغ خراب نہ کرو صاحب!ابھی ناشتہ نہیں کیا ہے۔“”اچھا تو اب تیرے ناشتے کا ذمے دار بھی میں ہی ہوں۔“”مہینے کے پیسے دو اور عیدی بھی۔“خاکروب نے مطالبہ پیش کیا۔”عید پر دو سو نقد دیے تھے،بھول گیا۔“”یہ کوئی احساس نہیں صاحب!رمضان میں بھی کچھ نہیں دیا․․․․․مہینے کی رقم بھی دیر میں دی تھی۔“”اس کچرے سے بھی تُو اچھا خاصا کما لیتا ہے،لیکن تیری حرص ختم نہیں ہوتی۔“”بس بس صاحب!فالتو ٹیم نہیں ہے میرے پاس بہت سے کام ہیں۔“کہتے ہوئے خاکروب نے اپنے گدھے کو ہنکایا اور آگے بڑھ گیا۔”ہونہہ آیا بڑا گلفام بنا پھرتا ہے۔“عارف صاحب بڑبڑائے گھر میں داخل ہو گئے۔اتفاق ایسا ہوا کہ عارف صاحب اگلے دن گھر کے غسل خانے میں گر پڑے۔چوٹوں کے علاوہ پاؤں کی موچ نے انھیں درد سے بے حال کر دیا۔دفتر سے چھٹیاں ہوئیں اور وہ اپنے کمرے تک قید ہو کر رہ گئے۔کئی دن بعد آج وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے ہوئے صحن میں آ کر بیٹھے تھے۔گلی میں مخصوص ہلچل مچی ہوئی خاکروب کے گدھے کی گھنٹی کی آواز آ رہی تھی۔بڑے گیٹ پر آ کر اس نے کوڑے کی ٹوکری خالی کی اور نیم وا دروازے سے اندر رکھنے لگا۔عارف صاحب پر نظر پڑتے ہی اس نے بڑی گرم جوشی سے سلام کیا۔”ٹھیک ہو صاحب!“خاکروب نے کھلی مسکراہٹ سے ان کی خیریت دریافت کی:”اپن کو بھوت پھکر تھی صاحب!شکر خدا کا تم بھلا چنگا ہو گیا۔“”تم بھی ٹھیک ٹھاک ہو؟“عارف صاحب نے جواباً پوچھا۔”شکر ہے مالک کا ․․․․ہم روج آپ کے واسطے دعا کر رہے تھے۔“اسی دوران عارف صاحب نے جیب سے نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھایا۔”نہ صاحب!ہم تو سچ مچ آپ کے لئے پھکر کرتے تھے۔“خاکروب نے پانچ سو کے نوٹ کی طرف دیکھا بھی نہ تھا۔”لے لو،لے لو تمہارے صاحب اپنی خوشی سے دے رہے ہیں۔“بیگم عارف برآمدے سے بولیں۔پھر اپنے شوہر سے کہا:”بلاناغہ آپ کی خیریت پوچھا کرتا تھا۔“آج عارف صاحب کو خاکروب کے چہرے کی معصومیت اور بے ریا محبت نظر آ رہی تھی۔نہ جانے یہ احساس پہلے کیوں نہ ہوا!وہ سوچ میں گُم تھے۔خاکروب نوٹ لے کر دعائیں دیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ " پہچان - تحریر نمبر 2392,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pehchan-2392.html,"انیلا طاہر،کراچیجوں جوں ملکی انتخابات نزدیک آ رہے تھے سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔بڑوں کے ساتھ نوجوان بھی پُرجوش تھے۔جہاں چند لوگ اکھٹے ہوتے سیاست پر بحث شروع ہو جاتی۔قاسم اور اس کے دوست بھی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے لئے بہت جوشیلے جذبات رکھتے تھے۔ایک بار اسکول میں وقفے کے دوران ان کے گروپ کی دوسرے گروپ سے سیاسی بحث چھڑ گئی۔ان کی پارٹی کو دوسرے گروپ والوں نے بُرا بھلا کہا۔انھوں نے بھی مقابل گروہ کو بُرا بھلا کہا۔بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔مکوں اور گھونسوں کے دوران ایک بچہ شدید زخمی ہو گیا۔اس کو فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔قاسم اور اس کے دوستوں کو پرنسپل سے خوب ڈانٹ پڑی۔ان کے والدین کو بلایا گیا۔بے چارے والدین الگ پریشان ہوئے۔(جاری ہے)حمزہ جو زخمی ہوا تھا،جلد صحت یاب ہو کر گھر آ گیا۔یوں معاملہ رفع دفع ہوا۔حمزہ،قاسم کے محلے میں ہی رہتا تھا۔قاسم کی والدہ دمے کی مریضہ تھیں۔ایک بار قاسم اور اس کی والدہ گھر پر اکیلے تھے کہ اچانک اس کی والدہ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ان کا انہیلر بھی نہیں مل رہا تھا۔قاسم پریشان ہو گیا کہ کس سے مدد مانگے۔اسی پریشانی میں وہ گھر سے باہر نکلا تو حمزہ گلی میں آتا دکھائی دیا۔حمزہ نے قاسم کے چہرے پر پریشانی دیکھی تو خود آگے بڑھ کر پوچھا:”قاسم!کیا معاملہ ہے تم اتنے پریشان کیوں ہو؟“قاسم نے ساری بات کہہ سنائی۔حمزہ نے قاسم سے کہا:”بھائی!پریشان نہ ہو۔اپنی والدہ کا خیال رکھو،میں ابھی اسٹور سے انہیلر لے کر آتا ہوں۔“یوں بروقت حمزہ کی مدد سے قاسم کی والدہ کی طبیعت بحال ہوئی اور ان کی زندگی بچ گئی۔قاسم دل ہی دل میں بہت شرمندہ تھا کہ حمزہ اس کی وجہ سے زخمی ہوا تھا اور آج حمزہ بروقت اس کے کام آیا۔قاسم جس سیاسی جماعت کو عوام کا ہمدرد سمجھتا تھا،آج شہر میں جلسہ کرنے والی تھی۔وہ اور اس کے دوست جلسے میں جانے والے تھے۔صبح سے ہی وہ بہت پُرجوش تھے۔انھوں نے خوب تیاریاں کیں۔بینرز بنائے اور جھنڈے اُٹھائے۔جب وہاں پہنچے تو جلسہ گاہ کے گیٹ بند ہو چکے تھے۔انھیں کسی نے جلسے میں گھسنے ہی نہیں دیا۔وہ جتنے ولولے کے ساتھ گئے تھے اتنی ہی مایوسی سے لوٹ آئے۔اس دن کے بعد سے قاسم کو عقل آ گئی کہ ہم جن سیاستدانوں کی وجہ سے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ تعلقات خراب کر لیتے ہیں ان کی نظر میں ہماری اہمیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں۔وہ تو ہمیں جانتے تک نہیں۔نہ کسی مصیبت میں ہماری کوئی مدد کر سکتے ہیں۔یہ ہے سیاست دانوں کی اصلی صورت۔اس نے حمزہ سے جا کر معافی مانگی اور آئندہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کی۔ " چوہا لنڈورا ہی بھلا - تحریر نمبر 2391,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/choha-landora-hi-bhala-2391.html,"ماریہ کلثوم،ڈیرہ غازی خانپہاڑ کے دامن میں چشمے کے قریب ایک چوہے اور ایک چوہیا نے بِل بنایا ہوا تھا۔وہ ہر روز اپنے بِل سے باہر آتے،چشمے کے قریب ہی جھولا موجود تھا،جو اُلجھی ہوئی جھاڑیوں سے بن گیا تھا۔وہ کھیلتے،اُچھلتے کودتے اور اپنے بِل میں گھس جاتے تھے۔ایک دن دونوں بِل سے باہر آئے اور چشمے کے پاس بنے جھولے پر جھولا جھولنے لگے۔اسی وقت ایک بلی قریب سے گزری۔اس نے دونوں کو کھیلتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ان دو موٹے تازے چوہوں کو دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا،وہ ایک پتھر کی اوٹ میں بیٹھ کر کافی دیر تک دیکھتی رہی۔پھر سامنے آکر بولی:”کیا تم میرے ساتھ کھیلنا پسند کرو گے؟“بلی کی آواز سن کر دونوں اپنے بِل کی طرف بھاگے۔(جاری ہے)بلی نے کہا:”کہاں جا رہے ہو،تم مجھے اپنا دوست ہی سمجھو۔“”بھلا آگ اور پانی کی کیا دوستی،تم ہماری دوست کبھی نہیں ہو سکتی۔“چوہے نے بِل میں گھستے ہوئے جواب دیا۔بلی بھی سمجھ گئی کہ یہ دونوں بہت چالاک ہیں،اس طرح ہاتھ نہیں آئیں گے۔وہ بل کے ارد گرد چکر لگاتی رہی،چوہے بِل سے باہر آنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔آخر چوہیا نے چوہے سے کہا:”ہم کب سے چشمے کی سیر پر نہیں گئے اور نہ جھولے کے مزے لیے۔چلو آج جھولا جھولیں،آج میرا چشمے پہ جا کر کھیلنے کو بہت جی چاہ رہا ہے۔“چوہے نے کہا:”باہر بی بلی ہماری تاک میں بیٹھی ہے،ہم بِل سے باہر نہیں جا سکتے۔“چوہے نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔لیکن چوہیا نے چوہے کی بات نہ مانی اور بل سے باہر آ گئی۔بلی چھپ کر بیٹھی تھی،چوہیا کے پاس آئی اور کہنے لگی:”ارے،آج اکیلی آئی ہو کیا؟“چوہیا بلی کو دیکھ کر بھاگنے ہی والی تھی کہ بلی نے آواز لگائی:”آؤ تم میری پیٹھ پر بیٹھ جاؤ،آج میں تمہیں پورے چشمے کی سیر کراتی ہوں۔“چوہیا یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور بلی کی پیٹھ پر بیٹھ کر چشمے کی سیر کو چل پڑی۔چوہا بھی غافل نہیں تھا۔چپکے چپکے ان کے پیچھے چل پڑا۔بلی نے چوہیا سے کہا:”جلدی سے جھولے پر بیٹھ جاؤ میں تمہیں جھولا دیتی ہوں اور تم اپنی پیاری سی آواز میں گانا سناؤ۔“چوہیا گاتے ہوئے جھولنے لگی اور بلی اسے جھولے میں مگن دیکھ کر اس پر جھپٹ پڑی۔چوہیا کی دم اس کے دانتوں میں آگئی۔چوہے نے یہ دیکھ کر آواز لگائی:”بی بلی!تم بہت اچھا جھولا دیتی ہو۔مجھے بھی جھولا جھولنا ہے۔“چوہیا جو اپنی دم چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی اس نے چوہے کو دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی۔اس موٹے تازے چوہے کو دیکھ کر بلی کے منہ میں پانی بھر آیا اور دو چوہوں کے شکار پر دل ہی دل میں خوش ہونے لگی۔چوہا جھٹ سے جھولے پر بیٹھ گیا اور بلی اسے جھولے دینے لگی،اچانک چوہے نے بی بلی کے منہ کے قریب چھلانگ لگائی۔بلی نے چوہے کو بھی لقمہ بنانے کے لئے منہ کھولا تو چوہیا کی دم اس کے منہ سے نکل گئی،لیکن چوہے کی دم بلی کے منہ میں رہ گئی۔اسی لمحے دونوں بھاگ کر اپنے بِل میں گھس گئے۔”اپنی دُم تو لیتے جاؤ۔“بلی نے چوہے کی آدھی کٹی ہوئی دم کو ہلاتے ہوئے کہا۔چوہے نے بِل میں سے جھانکتے ہوئے کہا:”بخشو بی بلی!چوہا لنڈورا ہی بھلا۔“یہ سن کر بلی اپنا سا منہ لے کر خالی ہاتھ ملتی رہ گئی۔ " بندر میاں - تحریر نمبر 2389,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bandar-mian-2389.html,"سردی کے دن تھے۔انسان تو انسان جانوروں کو بھی دھوپ اچھی لگ رہی تھی۔بندر میاں قلابازیاں کھا کے دھوپ کے مزے لے رہے تھے۔اچانک انہیں ایک مانوس سی آواز سنائی دی۔آواز کی سمت دیکھ کر وہ چونکے۔درخت پر بی فاختہ بیٹھی ہوئی تھیں۔بندر میاں نے انہیں آداب کیا۔انہوں نے جواب دیتے ہوئے پوچھا۔”ارے بندر میاں تم یہ شہر میں کیا کر رہے ہو․․․؟“”میں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس رہ رہاں ہوں اور میں یہاں بہت خوش ہوں۔“آزادی چھوڑ کر غلامی میں خوش ہو یہ تم نے کیا بات کر دی․․․؟“”آپ بھی شہر میں ہیں اس کا مطلب کہ آپ بھی غلامی میں ہیں۔“بندر میاں نے کہا۔”شہر میں رہنا غلامی نہیں دراصل تمہارے گلے میں جو زنجیر لگی ہوئی ہے وہ غلامی ہے۔میں تو جنگل سے اپنے عزیزوں سے ملنے شہر آتی ہوں اور اپنی مرضی سے واپس جنگل چلی جاتی ہوں۔(جاری ہے)میرے گلے میں کوئی زنجیر نہیں اور نہ میں کسی پنجرے میں قید ہوں۔اپنی مرضی کی مالک ہوں جب دل چاہے کہیں بھی آ جا سکتی ہوں۔یہ کہہ کر فاختہ بی نے بندر میاں سے پوچھا۔”تم کس طرح ڈاکٹر صاحب کے پاس آ کر پھنس گئے؟“”مجھے ایک شکاری نے جنگل سے پکڑ کر ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔اب میں یہاں بہت خوش ہوں۔بڑے مزے سے رہتا ہوں۔بے فکری سے گھاس پر قلابازیاں کھاتا رہتا ہوں۔ڈاکٹر صاحب کی خدمت کرتا ہوں ان کو دوائی تیار کرانے میں مدد کرتا ہوں۔ان کے ساتھ رہ کر میں خود بھی ڈاکٹر بن گیا ہوں۔کیا شہر کی آب و ہوا جنگل کی آب و ہوا کا مقابلہ کر سکتی ہے․․․؟ہر وقت دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے۔باسی اور گلی سڑی چیزیں کھانے کو ملتی ہیں۔اوپر سے گلے میں زنجیر باندھ دی ہے“ بی فاختہ نے کہا۔یہ بات آپ کی درست ہے کہ جنگل کی آب و ہوا اور شہر کی آب و ہوا میں بہت فرق ہے۔ڈاکٹر صاحب کے دوا خانے کے باہر درخت اور گھاس نہ ہوتی تو میں بھی یہاں رہ کر بور ہو جاتا اور بھاگنے کی کوشش کرتا۔آپ سے ملاقات ہو جانے پر مجھے جنگل یاد آ گیا ہے۔ایک دن میں ضرور موقع ملتے ہی جنگل کی طرف فرار ہو جاؤں گا اور پھر کبھی پلٹ کر شہر میں نہیں آؤں گا۔“بندر میاں نے کہا۔ایک رات ڈاکٹر صاحب نے بندر میاں کی زنجیر کھول کر لکڑی کے بنے ہوئے گھر میں بند تو کر دیا لیکن وہ دروازے کی کنڈی لگانا بھول گئے۔ہوا کے زور دار تھپیڑے لگنے سے دروازہ کھل گیا۔بندر میاں کو اب وہاں سے فرار ہو کر جنگل جانے کا موقع مل گیا۔جنگل میں آ کر بندر میاں کو بہت سکون ملا۔ان کی واپسی پر سب جانور خوش تھے اور انہیں مبارکبادیں دے رہے تھے۔وہ بھی اپنوں سے مل کر بہت خوش تھے۔بندر میاں کو جنگل میں آئے کئی دن گزر گئے لیکن وہ اپنے اندر ایک بے چینی محسوس کر رہے تھے۔وہ جنگل کے جانوروں میں خود کو نمایاں رکھنا چاہتے تھے تاکہ جانوروں کو احساس ہو جائے کہ انہوں نے جنگل سے باہر رہ کر بہت کچھ سیکھا ہے۔ایک دن بیٹھے بیٹھے بندر میاں کو خیال آیا کیوں نہ وہ جنگل میں ڈاکٹری کا کام شروع کر دے۔اس کام سے وہ جانوروں میں نمایاں ہو جائے گا اور ہر کوئی اس کی عزت کرے گا۔بندر میاں نے یہ خیال آتے ہی اس منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔جنگل سے جڑی بوٹیاں جمع کرکے مختلف امراض کی دوائیں بنا ڈالیں اور اپنا دوا خانہ کھول لیا۔بھالو میاں ان کے پہلے مریض تھے انہیں دانتوں کی تکلیف تھی۔”میں تمہیں دانتوں کی دوا دے رہا ہوں۔یہ ایسی دوائی ہے کہ دانتوں کو پتھر سے توڑنا چاہو گے تو پتھر ٹوٹ جائے گا لیکن دانت نہیں ٹوٹیں سے۔“”کیا واقعی ایسا ہو جائے گا․․․؟“بھالو نے حیرت سے پوچھا۔”ہاں ہاں ایسا ہو جائے گا۔“بندر میاں نے انہیں یقین دلایا۔”ایسا ہو جانے پر میں تمہارا منہ شہد سے بھر دوں گا۔“بھالو میاں نے خوشی سے اپنے پیلے میلے کچیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔بی لومڑی کو چلنے میں ایک پاؤں میں تکلیف ہوتی تھی۔وہ بھی علاج کرانے پہنچ گئیں۔کچھوے کو قبض کی شکایت تھی۔چیل کو دور کا کم نظر آتا تھا۔ہرن کو بھاگنے سے جلدی سانس پھول جاتا تھا۔مینڈک میاں اس قدر بھاری ہو گئے تھے کہ ان سے چلنا دوبھر ہو گیا تھا۔جس جانور کو بندر میاں کے دوا خانے کا علم ہوتا وہ وہاں پہنچ جاتا۔بندر میاں اپنے دوا خانے میں جانوروں کو آتا دیکھ کر بہت خوش تھے۔ان کا پورا دن جانوروں کو دوائیاں دینے میں گزر جاتا۔بھالو میاں نے تین خوراک دوائیں کھا کر اپنے دانتوں پر ہاتھ پھیرا تو ایک دانت باہر آگیا،دوبارہ ہاتھ پھیرنے پر آدھا دانت ان کے ہاتھ میں آگیا۔اپنے دانتوں کو گرتا دیکھ کر بھالو میاں اس خوف سے کہ کہیں سارے دانت باہر نہ آجائیں سختی سے منہ بند کر لیا۔بی لومڑی صبح سو کر اُٹھی اور خوراک کی تلاش میں نکلنا چاہا تو ان کی وہ ٹانگ جس میں تکلیف تھی وہ پوری طاقت لگانے پر نہ اُٹھ سکی۔کچھوے میاں دوائی کھا کر پوری رات پریشان رہے۔صبح اُٹھنے پر چیل نے آنکھ کھول کر دیکھنا چاہا تو اس کی آنکھ میں اندھیرے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا جبکہ دوسری آنکھ سے بھی دھندلا نظر آ رہا تھا۔بی ہرن دوائی کھا کر ایسی سوئیں کہ صبح اُٹھانے پر بھی نہ اُٹھ سکیں۔بندر میاں اپنے دوا خانے میں بیٹھے مریضوں کا انتظار کر رہے تھے۔انہوں نے بہت سارے جانوروں کو دوا خانے کی جانب آتا دیکھا تو سمجھ گئے کہ ان کی دوائیوں نے اُلٹا کام دکھایا ہے جبھی وہ غصے میں بھرے ان کے پاس آ رہے ہیں۔بندر میاں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً دوڑ لگا دی۔غصے میں بھرے جانوروں نے دوا خانے کو خالی پایا تو ان کا غصہ اور بھڑک اُٹھا۔دور کھڑے بندر میاں تھر تھر کانپ رہے تھے اور اس دن کو بری طرح کوس رہے تھے جس دن انہوں نے ڈاکٹر بننے کا سوچا تھا۔تمام جانور سخت غصے میں تھے اور بندر میاں کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔بندر میاں کو جانوروں کی تکلیف کا بہت افسوس تھا ساتھ ہی ساتھ وہ دل میں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ جس کا کام اُسی کو ساجھے اور اب ان کے قدم شہر کی جانب دوبارہ اُٹھ رہے تھے۔ " جگنو کا مٹھو (دوسرا حصہ) - تحریر نمبر 2388,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jugnu-ka-mithu-dosra-hissa-2388.html,"تسنیم جعفریوہ دونوں سالگرہ سے لوٹے تو رات کے دس بج رہے تھے،آتے ہی ٹی وی کے آگے بیٹھ گئے کیونکی ان کا پسندیدہ پروگرام آ رہا تھا۔”ہو گئی تمہاری پارٹی ختم․․․؟“آپا اپنے کمرے سے نکل کر آئیں،”اور آتے ہی اب ٹی وی کے سامنے فِٹ ہو گئے ہو․․․کوئی فرض ہے یہ پروگرام دیکھنا کہ اگر نکل گیا تو گناہ ہو گا․․․!کوئی اپنی پڑھائی کا بھی ہوش ہے تم لوگوں کو کہ نہیں․․․؟“”چھوڑیں آپا کیا رکھا ہے پڑھائی وڑھائی میں․․․دیکھیں کتنا اچھا پروگرام ہے۔“جگنو انگڑائی لیتے ہوئے بولا:”علم میں دولت بھی ہے،قدرت بھی ہے،لذت بھی ہے مٹھو نے لقمہ دیا۔“”آپا دراصل سکول میں کوئی خاص پڑھائی وڑھائی تو ہوتی نہیں،سمجھ نہیں آتا کیا پڑھیں کیا نہیں․․․!“شمع نے صفائی پیش کی۔(جاری ہے)سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا،شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا مٹھو نے ان کی مشکل حل کرنے کی کوشش کی۔”ارے بھئی مٹھو یہ صداقت اور شجاعت صاحب کس سکول کے اساتذہ ہیں کیا ہمیں ٹیوشن رکھوا رہے ہو․․․؟“جگنو نے مٹھو کا مذاق اُڑایا۔”بھئی میں تو امامت نہیں کر سکتی کیونکہ میں لڑکی ہوں لہٰذا یہ شعر تو تمہارے لئے ہی ہے۔“شمع نے سارا بوجھ جگنو پر ڈال دیا۔”یہ کیا بدتمیزی ہے․․․؟ہر بات مذاق میں اُڑا دیتے ہو اور مٹھو میاں کا ادب کیا کرو یہ میرے پروفیسر صاحب کا مٹھو ہے کوئی گِرا پڑا عام طوطا نہیں ہے۔“آپا بگڑتے ہوئے بولیں۔”اس ذرہ نوازی کے لئے شکریہ آپا․․․!“مٹھو عاجزی سے بولا۔“لو بھئی اس نے تو تمہیں بہن بنا لیا․․․․مٹھی آپا۔“جگنو نے پھر مذاق اُڑایا۔”یہ مٹھی آپا کیا ہوتا ہے․․․؟“شمع نے حیران ہو کر پوچھا”بھئی مٹھو کی بہن مٹھی ہوئی نا․․․!“جگنو نے وضاحت کی”ٹھہر جاؤ بدتمیزوں تم لوگ اس طرح باز نہیں آؤ گے،میں تمہیں ابھی بتاتی ہوں․․․!“آپا انہیں مارنے کے لئے کوئی چیز ڈھونڈنے لگیں تو ان دونوں نے اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی اور مٹھو کی آواز دور تک ان کا پیچھا کرتی رہی،وہ کہہ رہا تھا۔میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کونہیں ہے بندہ حُر کے لئے جہاں میں فراغآج اتوار تھا اور ٹی وی پر انڈیا اور پاکستان کا کرکٹ میچ آ رہا تھا لہٰذا جگنو اور شمع کا سارا دن ٹی وی کے آگے گزرا،جگنو ساتھ ساتھ میچ پر رواں تبصرہ بھی پیش کر رہا تھا،ہر بال پر اس کا رد عمل دیکھنے والا تھا۔اتنے میں احمد شہزاد نے ایک اور وکٹ لے لی۔”واہ واہ کیا وکٹ لی ہے․․․!شاباش میرے بھائی․․سکھا دے سبق ان ہندوستانیوں کو آخر انہوں نے پاکستانیوں کو سمجھا کیا ہے․․․ہرا دیں گے اتنی آسانی سے یہ ہمیں۔“جگنو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والوتمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میںمٹھو نے بھی لقمہ دیا جو صبح سے میچ دیکھ رہا تھا کمنٹری جگنو کی زبانی ایکشن کے ساتھ سن رہا تھا”ارے واہ مٹھو صاحب آپ نے تو خوش کر دیا کیا شعر پڑھا ہے․․․!“جگنو نے قریب آکر پنجرے کو تھپتھپایا اور اُٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا۔شور سن کر آپا بھی کمرے سے باہر آگئیں اور یہ سب دیکھ کر ان کی چیخ ہی نکل گئی۔”غضب خدا کا․․․!یہ کیا ہو رہا ہے؟مٹھو کو بھی میچ دکھا رہے ہو،پروفیسر صاحب کو علم ہو گیا تو خودکشی کر لیں گے۔“”خس کم جہاں پاک․․․!“جگنو ہاتھ اوپر اُٹھا کر آہستہ سے بولا،آپا مٹھو کا پنجرہ اُٹھا کر لے گئیں اور وہ احتجاج کرتا رہ گیا۔رات کو کہیں جا کر میچ ختم ہوا،پاکستان میچ جیت گیا تھا۔جگنو اور شمع کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا،وہ دونوں خوشی خوشی بھنگڑا ڈالتے ہوئے کچن میں آئے جہاں آپا رات کے کھانے کے برتن دھو رہی تھیں اور مٹھو ساتھ بیٹھا تھا۔”مبارک ہو مٹھو․․․پاکستان میچ جیت گیا“جگنو ناچتے ہوئے بولا،”واہ کیا مارا ہے․․․بڑا زور ہے ہماری ٹیم میں۔“کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کانگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں”بھئی تمہارے شعروں نے تو ہندوستانی ٹیم کو ہلا کر رکھ دیا مٹھو․․․!“جگنو نے مٹھو کو شاباشی دی۔رلاتا ہے تیرا نظارہ اے ہندوستان!مجھ کوکہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں”چلو باہر نکلو تم دونوں،مٹھو کو بھی خراب کرکے چھوڑو گے․․․!“آپا نے ڈانٹا۔”ویسے آپا․․․یہ مٹھو بچپن سے پروفیسر صاحب کے ساتھ ہے لیکن پھر بھی اتنا خراب نہیں ہوا جتنا چند سالوں میں تم ہو گئی ہو۔“جگنو نے آپا کی چوٹی کھینچتے ہوئے کہا تو وہ برتن چھوڑ کر اس کے پیچھے بھاگیں،وہ ہاتھ نہیں آیا تو جا کر ابو کو شکایت لگائی۔ابو نے اس کے لئے یہ سزا تجویز کی کہ جگنو ایک ہفتے تک آپا سے اردو پڑھے گا اور شعروں کی تشریح یاد کرکے سنائے گا کیونکہ وہ اردو کے ماہانہ ٹیسٹ میں فیل ہو گیا تھا۔(جاری ہے) " احساس (دوسرا حصہ) - تحریر نمبر 2387,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehsaas-dosra-hissa-2387.html,"نیلم علی راجہتم کب آئی؟بندہ کوئی فون ہی کر دیتا ہے۔میں نہ جاتی۔تمہاری سرپرائز دینے والی عادت نہ گئی۔ثناء نے ایک سانس میں سب کہہ ڈالا۔روایتی نند بھابھی کے بجائے دونوں میں دوستی بہت تھی۔میں․․․بس دل کیا تو آگئی،عمر تین ماہ کے لئے ملک سے باہر گئے ہیں۔میرا دل چاہا تم لوگوں کے پاس آکر رہوں تو آگئی۔ارم نے جواب دیا۔بہت اچھا کیا یہ تو۔ثناء نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔راحیل بھی تمہیں دیکھ کر خوش ہو جائیں گے۔تم نے بتایا تو نہیں کہ تم آئی ہوئی ہو۔ثناء نے استفسار کیا۔نہیں بھابھی میں نے کسی کو نہیں بتایا۔ارم نے جواب دیا۔چلو رات کو سرپرائز ملے گا انھیں۔ثناء نے خوشی سے کہا۔اسعد جو ماں کو دیکھ رہا تھا۔فوراً اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔(جاری ہے)ثناء نے اسے دیکھا تو آواز دے ڈالی۔مگر وہ رکا نہیں اپنے کمرے میں چلا گیا۔ثناء ارم کو دیکھ کر کہنے لگی:”مجھے سمجھ نہیں آتی یہ ہر وقت مجھ سے روٹھا روٹھا رہتا ہے۔“کوئی بات نہیں کرتا نہ ہی سکول کی کوئی بات بتاتا ہے۔بس اپنے کمرے میں بند رہتا ہے۔اب میں آگئی ہوں ناں دیکھ لیتی ہوں کیا مسئلہ ہے۔آپ پریشان مت ہوں۔ارم نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ثناء نے ایک بار پھر اسے گلے لگا لیا۔رات کا کھانا کھا کر ثناء اور راحیل اپنے کمرے میں چلے گئے جبکہ ارم اسعد کے کمرے میں چلی گئی۔اسعد کھانا کھا کر پہلے آ گیا تھا۔سکول کا ہوم ورک کر رہا تھا۔ارم کو آتا دیکھ کر مسکراتے ہوئے کاپی بند کرنے لگا۔ارم نے کاپی لیتے ہوئے کہا:”ارے مجھے بھی دکھاؤ۔میں بھی تو دیکھوں کہ میرا شہزادہ کیسا لکھتا ہے؟ارے یہ کیا کس طرح لکھ رہے ہو۔صاف صاف لکھو ناں۔ارم نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔“پھپھو جانی میرا سکول جانے کو دل نہیں کرتا۔۔۔۔نہ ہی ہوم ورک کرنے کو کرتا ہے۔اسعد اداس شکل بنا کر بولا۔ارم نے بغور اس کی طرف دیکھا تو اسعد نے نظریں چرانا شروع کر دیں۔مجھے تو بتاؤ کیا مسئلہ ہے کیوں نہیں سکول اچھا لگتا۔ارم نے اس سے پوچھا۔اسعد خاموش رہا۔اچھا ٹھیک ہے اب میں جتنے دن یہاں ہوں تمہیں میں ہوم ورک بھی کرواؤں گی اور خود سکول چھوڑ کر بھی آیا کروں گی۔ارم نے اسے خوش کرتے ہوئے کہا۔اسعد یہ سن کر گھبراتے ہوئے کہنے لگا:”نہیں نہیں پھپھو میں خود چلا جاؤں گا۔آپ سکول مت آنا۔“ارم کو سمجھ نہیں آئی مگر اسے زیادہ نہیں کریدا۔اچھا اچھا اب چلو تم آرام کرو صبح جلدی اُٹھنا ہوتا ہے تمہیں۔ارم اب پریشان ہو گئی تھی۔وہ بھی اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گئی۔اور اسعد کے بارے میں سوچتی رہی۔اپنی اس کی کوئی اولاد نہیں تھی اسعد سے اسے بہت محبت تھی۔وہ تھا بھی اس کا لاڈلا۔صبح فجر کی نماز کے بعد سونے کا ارادہ ترک کرکے وہ اسعد کے کمرے میں چلی گئی۔اسعد واش روم میں گیا ہوا تھا۔بیڈ پر اس کا یونیفارم رکھا تھا۔یونیفارم کا رنگ پیلا تھا۔اور جوتے بھی گندے تھے۔قریب پڑی جرابوں سے بو آ رہی تھی۔لگتا تھا کسی نے صحیح طرح سے دھوئے نہیں تھے۔وہ اُلٹے قدموں باورچی خانے میں چلی گئی۔صغراں اسعد کا ناشتہ بنا رہی تھی۔صغراں اسعد کے یونیفارم کا حال دیکھا ہے تم نے؟ارم نے خفگی سے پوچھا۔صغراں یوں پکڑے جانے پر بوکھلا گئی۔وہ بی بی جی دھونے کا وقت نہیں ملا وہ کہنے لگی۔سارا دن تم فارغ رہتی ہو۔اور کتنا وقت چاہیے تمہیں۔اور یہ انڈہ تم نے جلا کے رکھ دیا ہے۔بھابھی کچھ نہیں کہتی تمہیں۔ارم اسے اسعد کا دوسرا صاف یونیفارم نکالنے کا کہہ کر خود انڈہ بنانے لگی۔ناشتہ ٹرے میں رکھ کر وہ اسعد کے کمرے میں ہی لے آئی۔اب صغراں اس کا صاف یونیفارم نکال چکی تھی۔اب جا کر اس کے جوتے پالش کرکے لاؤ۔اور ناشتہ کرکے اس کے سارے یونیفارم دھو کر مجھے دکھاؤ۔جرابیں بھی دھو اور ابھی کوئی دھلی ہوئی لے کر آؤ۔ارم نے اسے سختی سے کہا۔(جاری ہے) " صبر کا پھل - تحریر نمبر 2386,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sabar-ka-phal-2386.html,"زنیرا،میرپور خاصفزا اور ایان دونوں بہن بھائی تھے۔ان کے امی ابو ٹرین حادثے میں فوت ہو گئے تھے،اس لئے وہ دونوں اپنی پھوپھو ثمینہ کے ساتھ رہتے تھے۔پھوپھی فزا سے سارے گھر کا کام کراتی تھیں۔یہ سب دیکھ کر ایان کو بہت دکھ ہوتا۔وہ اپنے جیب خرچ سے جو چیز خریدتا اور رات کو اپنی بہن کے ساتھ کھاتا،کیونکہ پھوپھی فزا کو جیب خرچ نہیں دیتی تھیں۔وہ فزا کو اسکول بھی نہیں بھیجتی تھیں۔پھوپھا کا شہر سے باہر بڑا کاروبار تھا۔یوں ہی دن گزرتے گئے۔ایان اور فزا اب تھوڑے بڑے اور سمجھ دار ہو گئے تھے۔معمول کے مطابق آج بھی ایان اپنی پھوپھو کے ساتھ بازار گیا تھا۔ایان کے پاس صرف پچاس روپے تھے۔اس نے ان پیسوں میں بہن کے لئے چوڑیاں خرید لی تھیں۔پھوپھو اور ایان بازار گئے تب فزا گھر میں جھاڑو لگا رہی تھی کہ اسے پھوپھو کے کمرے میں قدموں کی آہٹ سنائی دی۔(جاری ہے)اس نے قریب پڑا ڈنڈا اُٹھایا اور آہستہ آہستہ پھوپھو کے کمرے کی طرف چل دی اور چھپ کر کھڑکی سے دیکھنے لگی۔ایک چور ہاتھ میں گٹھڑی اُٹھائے باہر کی طرف آ رہا تھا۔فزا یہ سب دیکھ کر دروازے کے پیچھے چھپ گئی۔جیسے ہی چور باہر آیا فزا نے ڈنڈا گھما کر اس کے سر پر دے مارا۔چور دھڑام سے گر پڑا۔اتنے میں گھنٹی کی آواز آئی۔فزا نے جب دروازہ کھولا تو اس کی پھوپھو سامنے کھڑی تھیں۔اس نے سارا ماجرا سنایا۔پھوپھو نے بچوں کے ساتھ مل کر چور کو رسیوں سے باندھ دیا اور پولیس کو فون کیا۔پولیس آکر چور کو لے گئی۔پھوپھو کو احساس ہوا کہ جو بچی ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی اس بچی نے آج ان کے لئے اتنا کچھ کیا ہے۔یہ سوچ کر پھوپھو نادم ہو گئیں۔اب وہ ایان کی طرح فزا سے بھی اچھا سلوک کرنے لگیں۔ " محنت ہی سفارش ہے - تحریر نمبر 2385,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-hi-sifarish-hai-2385.html,"فاطمہ ساجدتیسری کلاس کا رزلٹ اناؤس ہوا،آسیہ فرسٹ جبکہ نائیلہ سیکنڈ آئی،باقی تمام بچیاں پاس ہو گئیں۔کچھ بچیوں نے تالیاں بجائیں،باقی گھروں کو رخصت ہو گئیں۔پاپا جان!میرے پیپرز ان سب سے اچھے ہوئے تھے۔میں نے پیپرز کے بعد ان سے سوالوں کے جواب پوچھے تھے اور اُن میں سے اکثر غلط تھے۔ان کا ہوم ورک بھی مکمل نہیں ہوتا تھا اور کاپیوں کی حالت بھی خراب ہوتی تھی۔رابعہ نے ایک ہی سانس میں کہا۔”بیٹا جانی!تمہیں پتہ ہے پرائیویٹ سکولوں میں ایسے ہی ہوتا ہے رشتہ داریاں اور سفارش کام آتی ہے۔فرسٹ آنے والی سکول کی مالک کی بیٹی اور سیکنڈ آنے والی عزیزہ ہے“۔”اصل میں وہ اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار رہی ہیں۔اس میں طالب علم کا نقصان ہے“۔(جاری ہے)مگر پاپا جان!انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے“․․․․رابعہ نے کہا۔وہ مجبور ہیں۔شاید اُن کی یہ سوچ ہو کہ ان کے بچے فرسٹ نہ آئیں تو اُن کی عزت نہ ہو گی۔وہ ڈرتے ہیں کہ ان کی ناک نیچی نہ ہو جائے“۔”وہ تو ٹھیک ہے پاپا جان!انہیں سوچنا چاہئے․․․․بیٹا تم خوب دل لگا کر پڑھو،پانچویں کے بورڈ کے پیپرز ہیں،وہاں سفارش کام نہیں آئے گی۔رابعہ نے یہ بات پلے باندھ لی اور محنت کرنے لگی۔اس دوران چوتھی کلاس میں بھی اُس کی وہی پوزیشن رہی۔سکول مالک کی بیٹی فرسٹ اور عزیزہ سیکنڈ آئیں۔فرق یہ پڑا پہلے رابعہ پانچ نمبروں کے فاصلے پر تھی۔اس بار ایک نمبر سے تھرڈ آئی تھی مگر اُس نے ہمت نہ ہاری۔پانچویں کے بورڈ کے امتحانات شروع ہوئے۔سکول کے مالک نے اپنی بیٹی کیلئے تگ و دو کی۔پیپرز کے دوران بھی ”حوصلہ افزائی کی کہ بیٹا گھبرانے کی کوئی بات نہیں“۔وہاں چیٹنگ وغیرہ پر پابندی ہوتی ہے،اگر آپ کی تیاری مکمل ہے تو پیپر دے آؤ وہ خود ڈیوٹی پر چلے گئے۔پیپر شروع ہوئے۔جب رزلٹ آیا تو رابعہ پرائیویٹ سکولوں میں سیکنڈ آئی جبکہ وہ سالوں سے فرسٹ،سیکنڈ آنے والی طالبات صرف پاس ہوئیں۔آج رابعہ بہت خوش تھی کہ وہ سیکنڈ آئی ہے۔اُس کو محنت کا پھل مل گیا۔دیکھا ساتھیو!علم ہی طالب علم کی سفارش ہے۔اسے حاصل کرنے کیلئے محنت درکار ہوتی ہے نہ کہ رشتہ داری ضروری ہے۔آپ بھی وعدہ کریں کہ محنت سے یہ مقام حاصل کریں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں محنت کی توفیق دے․․․(آمین) " جگنو کا مٹھو (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2384,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jugnu-ka-mithu-pehla-hissa-2384.html,"تسنیم جعفری”ارے یہ طوطا کہاں سے آیا․․․․؟“ جگنو اور شمع کی سکول سے آتے ہی دروازے کے اندر رکھے پنجرے پر نظر پڑی تو وہ خوشی اور حیرت سے چیخ کر ”پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں“ صرف طوطا نہیں ہوں میں․․․!“”یہ آواز کہاں سے آئی․․․․؟کیا یہ طوطا بولا تھا․․․․؟“ شمع نے پریشانی سے اِدھر اُدھر دیکھ کر پوچھا ”لیکن یہ شعر تو اقبال نے شاہین کے لئے کہا تھا․․․․طوطے کے لئے تو نہیں کہا تھا․․․!“جگنو بولا ”اسے کہتے ہیں اپنے منہ میاں مٹھو بننا․․․․!“ شمع بولی،پھر دونوں بھاگے بھاگے باورچی خانے میں گئے جہاں امی کھانا بنا رہی تھیں۔”امی وہ طوطا کون لایا ہے․․․؟“ دونوں نے ایک زبان ہو کر پوچھا ”وہ تمہاری شاہین آپی لائی ہیں․․․․!ان کے اردو کے پروفیسر ایک ماہ کے لئے ملک سے باہر گئے ہیں،کسی سیمینار میں شرکت کے لئے،تو ان کی نظر میں شاہین ہی بہترین شخص تھی جو اس فلاسفر طوطے کی نگرانی کر سکتی تھی۔(جاری ہے)“امی بولیں ”چلو․․․․یک نہ شُد دو شُد!“جگنو بولا،”پہلے کیا شاہین کم تھیں فلسفہ جھاڑنے کے لئے جو اب یہ بولنے والا طوطا بھی ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے․․․․!“”بس ایک ماہ کی تو بات ہے․․․․پھر یہاں سے واپس “ ”مگر امی․․․․اس طوطے کو تو اقبال کے اشعار بھی یاد ہیں․․․یہ بڑی حیرت کی بات ہے!“شمع بولی ”بیٹا آپ لوگوں کے لئے یہ حیرت کی بات ہے کیونکہ آپ لوگوں کو اردو سے دلچسپی نہیں ہے،لیکن یہ طوطا تو بچپن سے ہی پروفیسر صاحب کے پاس ہے انہوں نے اقبالیات میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے،انہیں خود بھی اقبال کا پورا کلام زبانی یاد ہے،اور جیسے جیسے وہ اشعار پڑھا کرتے تھے تو اس مٹھو کو بھی وہ شعر یاد ہوتے گئے․․․․!“”اوہ․․․․․بہت تھک گیا!“ جگنو لاؤنج میں آیا،بیگ ایک طرف پھینکا اور جوتوں سمیت صوفے پر گر گیا،پھر وہیں سے بولا،”شمع جلدی سے اے سی چلا دو گرمی سے برا حال ہو رہا ہے۔“”رہنے دو بھائی․․․․اب ایسی بھی گرمی نہیں ہے،آج تو موسم اچھا ہے۔“ شمع بے زاری سے بولی ”چلاتی ہو یا․․․!“ جگنو نے کشن اُٹھا کر ہوا میں لہرایا جیسے اس کو دے مارے گا ”خود کیوں نہیں چلا لیتے․․․․مجھ پر ہی رعب ڈالتے رہتے ہو ہر وقت جاؤ نہیں چلاتی بدتمیز کہیں کے!“ شمع بھی ایک کشن لے کر قالین پر دراز ہو گئی ”اچھا بہن معاف کر دو،آئندہ بدتمیزی نہیں کروں گا۔دیکھو اب تو معافی مانگ لی ہے نا اب تو چلا دو اے سی ورنہ میں گرمی سے مر جاؤں گا،تم اے سی کے قریب بیٹھی ہو اس لئے تم سے کہا۔“ جگنو نے دیکھا کہ رعب سے کام نہیں چل رہا تو التجا شروع کر دی۔”ارے بھئی یہ کس بات پر بحث ہو رہی ہے․․․․؟تم دونوں تو لگتا ہے پیدا ہی جھگڑے کرنے کے لئے ہوئے ہو!“ دادی جان اپنے کمرے سے تسبیح پڑھتی ہوئی نکلیں،وہ ظہر کی نماز ادا کر رہی تھیں اور اب ان کی بحث سن کر باہر آگئی تھیں۔”السلام علیکم دادی جان!دیکھیں نا میں اتنا تھکا ہوا ہوں اور شمع کو میرا ذرا خیال نہیں ہے!“ جگنو ذرا اور صوفے میں دھنستے ہوئے خفگی سے بولا ”تیرے صوفے ہیں افرنگی،تیرے قالین ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی “ ہیں ں ں ں․․․․!ان تینوں نے حیرت سے مٹھو کو دیکھا ”دادی جان!پہلے آپا کیا کم تھیں ہم پر تنقید کرنے کے لئے جو اب اس مٹھو کو بھی لے آئیں ہیں․․․یا اللہ ایک ماہ کیسے گزرے گا؟“ جگنو بے چارگی سے بولا ”چلو بیٹا اُٹھو!جاؤ جا کر پہلے یونیفارم بدلو،ہاتھ منہ دھوؤ پھر یہاں آنا۔“ دادی جان بولیں۔”نہیں دادی جان․․․ابھی میرا دل کچھ بھی کرنے کو نہیں چاہ رہا،پہلے کھانا کھاؤں گا پھر سوچوں گا،آپ شمع کو کہیں اے سی چلائیں اور ٹی وی کا ریموٹ مجھے اُٹھا کر دے۔“ جگنو نے پھر آڈر جاری کیا تو مٹھو بھی بولے بنا نہ رہ سکا ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات ”دادی جان میں اسے جان سے مار دونگا۔“ جگنو نے کشن اُٹھا کر مٹھو کے پنجرے پر دے مارا،اس اچانک حملے پر مٹھو کی جان ہی نکل گئی۔”ارے ارے․․․․یہ کیا ہو رہا ہے؟مارو گے بے زبان کو؟“ آپا غصے سے بولیں جنہوں نے اپنے کمرے سے نکلتے ہوئے سب دیکھ لیا تھا ”اُف․․․․!اللہ میری توبہ یہ بے زبان ہے؟“ جگنو کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا،”اتنا تو کوئی پروفیسر بھی نہیں بول سکتا،اس نے تو آتے ہی میرا سکون برباد کر دیا ہے۔دیکھنا میں اسے گھر سے نکال کر ہی رہوں گا۔“ جگنو غصے سے پیر پٹختا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔(جاری ہے) " احساس (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2383,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehsaas-pehla-hissa-2383.html,"نیلم علی راجہآج پھر کلاس کے بچوں نے اسعد کے ساتھ کھیلنے سے منع کر دیا تھا۔اس کے پاس سے ایک خاص قسم کی بو آتی تھی،جس سے سب بچے چڑتے تھے۔ٹیچر کو شکایت لگانے پر ٹیچر نے اسعد کو سب بچوں سے الگ تھلگ ایک کونے میں بیٹھا دیا تھا۔بلیک بورڈ دیکھنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔اسعد جو پہلے ہی کم گو تھا اب اس بات کی وجہ سے اس کا اعتماد بھی جاتا دکھائی دے رہا تھا۔جیسے تیسے مس ہما کا پیریڈ گزرا۔اگلا پیریڈ اردو کا تھا اور مس عنبرین تو بہت سخت ٹیچر تھیں۔وہ اب اسعد کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گی۔ابھی اسعد انہی سوچوں میں تھا کہ مس عنبرین کے آنے پر سب بچے کھڑے ہو گئے۔بیٹھنے کا کہنے پر ٹیچر نے کلاس کا ایک چکر لگایا۔اسعد کو الگ تھلگ بیٹھا دیکھ کر پوچھا تو اس کے جواب دینے سے قبل ہی کلاس کا مانیٹر بولا:”میم اسعد نہاتا نہیں ہے۔(جاری ہے)اس سے بہت بدبو آتی ہے۔اس لئے اسے میم ہما نے الگ بیٹھا دیا ہے“۔میم عنبرین نے خلاف توقع اسعد سے نرمی میں پوچھا:”آپ کیوں نہیں نہاتے“؟اسعد کوئی جواب دیئے بغیر ہنوز کھڑا رہا۔میم عنبرین نے اسے خاموش کھڑا دیکھ کر بیٹھنے کا کہہ کر واپس آکر پڑھانا شروع کر دیا۔اسی طرح سکول سے چھٹی کا وقت ہو گیا۔یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔صفائی کے معاملے میں اسعد کی بہت سی شکایات سکول کی ڈسپلن کمیٹی کے پاس درج تھیں۔جن میں کبھی اس کے ناخن نہ تراشے ہونا،بال بڑھے ہونا،جسم سے بدبو آنا،یونیفارم میلا ہونا،جوتے گندے ہونا شامل تھیں۔اسعد کو نوٹس دیا جاتا اور ہر دفعہ وہ سائن ہو کر آجاتا مگر ہوتا کچھ نہ تھا۔کلاس کے بچے اس کو مذاق کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔کوئی اس سے دوستی کرنے کو تیار نہیں تھا۔اس سے اسعد کی شخصیت بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔گھر پہنچ کر اسعد نے اپنا سکول کا بستہ زور سے جا کر کرسی پر پٹخا۔ملازمہ کھانا لے کر آگئی۔اسعد نے پوچھا:”ممی کہاں ہیں“؟بیگم صاحبہ ایک پارٹی میں گئی ہیں۔ملازمہ نے جواب دیا۔”میرا یونیفارم دھو دو صغراں“۔”ابھی دو دن پہلے ہی تو دھویا ہے۔ابھی کہاں گندا ہوا ہے۔پرسوں دھو دوں گی۔ابھی مجھے بہت کام کرنے ہیں“۔صغراں نے ترت جواب دیا۔اسعد خاموش ہو گیا۔وہ اب بحث نہیں کرتا تھا۔نو سال کا ہو گیا تھا۔اب ہر بات سمجھنا شروع ہو گیا تھا۔مگر اپنی بات نہیں سمجھا پا رہا تھا۔باتھ روم میں جا کر کپڑے بدلے اور بھوکا ہی سو گیا۔اسے اپنے کلاس کے بچوں کی باتیں تکلیف دے رہیں تھیں۔وہ آنسو بھری آنکھوں سے سوچتا سوچتا سو گیا۔آنکھ کھلی تو گھر میں ہلچل تھی۔اسے حیرت ہوئی کیونکہ وہ اکلوتا تھا اور ممی پاپا یا تو لیٹ آتے ورنہ ممی سارا وقت فون اور ٹی وی میں مصروف ڈرامے دیکھتی رہتیں۔ممی کے پاس اس کے لئے وقت نہیں تھا۔ان کی اپنی مصروفیات تھیں۔اسعد نے اُٹھ کر منہ دھویا اور کمرے سے باہر نکلا۔اب اسے بھوک بھی زوروں کی لگی ہوئی تھی۔گھڑی پر ٹائم دیکھا تو شام کے چھ بج رہے تھے۔لاؤنج میں ایک عورت بیٹھی صغراں کو ڈانٹ رہی تھی۔وہ ممی تو ہر گز نہیں تھیں۔اسعد حیران ہوتے آگے بڑھا۔جا کر دیکھا تو والہانہ گلے لگ گیا۔وہ اس کی پھپھو ارم تھیں۔ارم کی ناک سے بدبو کا ایک جھونکا چھو کر گزرا۔چہرے کا زاویہ تھوڑا بگڑا مگر اسعد کی محبت میں اسے بھول کر کے اسعد کو پیار کرنے لگیں۔”کیسا ہے میرا بیٹا؟“ارم نے اسعد کو پیار کرتے ہوئے پوچھا۔”بالکل ٹھیک آپ اتنی دیر بعد کیوں آئی ہیں؟میں آپ کو روزانہ یاد کرتا ہوں۔اسعد نے معصومیت اور محبت سے پھپھو کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔”پھپھو کی جان اب میں آپ کے پاس چند ماہ رہنے آئی ہوں۔آپ کے انکل ملک سے باہر جا رہے ہیں میں نے سوچا میں آپ کے پاس چلی آؤں“۔ پھپھو نے محبت سے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔”زبردست یہ تو بہت اچھا ہو گیا“۔اسعد نے خوشی سے چھلانگ لگاتے ہوئے کہا۔”صغراں اب مجھے بھوک لگ رہی ہے۔مجھے کھانا لا دو۔اسعد نے صغراں سے کہا۔”آپ نے دن کو کھانا نہیں کھایا؟ارم نے استفسار کیا۔”نہیں پھپھو دل نہیں چاہ رہا تھا۔اسعد نے لاپرواہی سے جواب دیا۔”دل کیوں نہیں چاہ رہا تھا۔اچھا ایسا کرو صغراں نوڈلز ہیں تو وہ فرائی کر لاؤ۔اب اگر کھانا کھا لیا تو پھر رات کو کھانا نہیں کھائے گا یہ۔ارم نے صغراں کو بولا۔وہ باورچی خانے میں چلی گئی۔ارم نے سکول کی تفصیلات پوچھنا شروع کیں تو اسعد کا موڈ خراب ہونا شروع ہو گیا۔”اب آپ آ گئی ہیں ناں تو میں سکول سے چھٹیاں کروں گا۔مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے“۔اسعد نے ارم سے کہا۔”سکول سے واپس آ کر ہم ساتھ ہی تو ہوں گے۔اس میں چھٹیاں کیوں کرنی ہیں بھلا۔“ارم نے جواب دیا۔ارم نے محسوس کیا اسعد سکول کے نام پر چڑ جاتا ہے۔اس نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے ممی پاپا کا پوچھنا شروع کر دیا۔اسعد نے تفصیل بتانا شروع کی۔ارم سن کر حیران رہ گئی کہ ماں کے ہوتے ہوئے بچہ ملازموں کے بھروسے پل رہا ہے۔ماں کو اس کی بالکل پرواہ نہیں تھی۔وہ کچھ سوچ کر چپ ہو گئی۔اتنے میں اسعد کی ممی ثناء بھی آگئی۔آتے ہی ارم کو دیکھا تو خوشی کے مارے چیخ نکل گئی۔بیگ ایک طرف پھینکا اور لپک کر اسے گلے لگا لیا۔(جاری ہے) " عادت یا فطرت (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2382,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/adat-ya-fitrat-akhri-hissa-2382.html,"فہیم عالمدراصل بادشاہ سلامت کو تم پر ترس آگیا ہے۔وہ تمہاری محنت و مشقت سے بے حد متاثر ہوئے ہیں۔ان کو تمہارا یوں جاں فشانی سے کام کرنا بے حد پسند آیا ہے۔انعام کے طور پر بادشاہ سلامت اب تمہیں شاہی محل میں اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔بادشاہ سلامت کی خواہش ہے کہ تم کچھ عرصہ ان کے ساتھ محل میں گزارو۔وہاں عیش و عشرت سے رہو۔فیروز الدین بولا۔کسان کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟لہٰذا خوشی سے اُچھلتا ہوا ان کے ساتھ ہو لیا اسے شاہی محل کے شاہی مہمان خانے میں ایک سجا سجایا کمرہ دیا گیا،کمرے میں آرام و آرائش کی ہر چیز موجود تھی،بڑی سی مسہری پر نرم و ملائم ریشمی بستر بچھا ہوا تھا۔گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے۔ریشم کے پردے لٹک رہے تھے۔(جاری ہے)اسے عمدہ اور قیمتی کپڑے پہنائے گئے۔ہر وقت ایک خادم اس کی خدمت کے لئے موجود رہتا۔جس چیز کی بھی اسے تمنا ہوتی خادم فوراً حاضر کرتا،کھانے کا وقت ہوتا تو قسم قسم کے کھانے اس کے سامنے چن دیئے جاتے،الائچی،بادام اور پستے والا دودھ اسے پیش کیا جاتا۔ہر قسم کے مشروب اس کے کمرے میں رکھے ہوتے۔چند دن اسے درباری آداب کی تعلیم دی گئی۔اور وہ شاہی دربار میں بیٹھنے لگا۔اب وہ نرم نرم بستر پر سوتا،عمدہ لباس پہنتا،عمدہ اور صحت مند غذائیں کھاتا۔کچھ ہی عرصے میں اس کا رنگ و روپ نکھر گیا،عادتیں سنور گئیں۔اب وہ اچھا خاصا امیر زادہ دکھائی دینے لگا تھا۔وقت گزرتے کب دیر لگتی ہے۔یوں دو سال کا عرصہ گزر گیا،کسان اپنے ماضی کو بھول کر اس عیش و عشرت والی زندگی کا عادی بن گیا۔ایک رات وہ بستر پر لیٹا تو اسے بڑی بے چینی محسوس ہوئی۔کوئی چیز اس کے گداز جسم میں چبھ رہی تھی۔وہ ساری رات بے قراری سے کروٹے بدلتا رہا۔کبھی ہاتھ پھیر کر محسوس کرنے کی کوشش کرتا کہ آخر کیا چیز چبھ رہی ہے؟غرض تمام رات وہ ایک پل کے لئے بھی نہ سو سکا۔صبح اٹھتے ہی وہ خادم پر برس پڑا۔”تم کتنے کام چور ہو گئے ہو سست آدمی!تم نے ہمارا بستر ٹھیک طرح سے کیوں نہیں جھاڑا۔پتہ نہیں!کیا چیز تمام رات ہمیں چبھتی رہی؟ہم ایک لمحہ بھی نہیں سو سکے۔“خادم سر جھکائے اس کی ڈانٹ سنتا رہا لیکن کسان کے غصے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی۔وہ فوراً وزیر فیروز الدین کے پاس گیا اور خادم کی غفلت اور سستی کی شکایت کی۔”ہوں․․․․․واقعی!خادم نے بہت ہی غفلت سے کام لیا۔آؤ!دربار لگنے والا ہے ہم بادشاہ سلامت سے شکایت کرتے ہیں․․․․․“فیروز الدین اپنے ہونٹوں پر آئی پُراسرار مسکراہٹ کو دباتے ہوئے بولا۔وہ دونوں شاہی دربار کی طرف چل دیئے۔بادشاہ سلامت ابھی تک دربار میں تشریف نہیں لائے تھے۔بادشاہ سلامت جیسے ہی دربار میں تشریف لا کر تخت پر رونق افروز ہوئے تو سب سے پہلا مقدمہ ان کے سامنے یہی پیش کیا گیا کہ فلاں خادم نے شاہی مہمان کے آرام کا خیال نہیں رکھا۔شاہی مہمان رات بھر سو نہیں سکا۔”شاہی مہمان کے بستر کا جائزہ لیا جائے اور دریافت کیا جائے کہ آخر وہ کیا چیز تھی جو مہمان کو چبھتی رہی اور مہمان کے آرام میں خلل پڑا․․․․․“بادشاہ سلامت نے حکم دیا جائزہ لینے کے لئے فیروز الدین چند سپاہیوں کے ساتھ شاہی مہمان خانے کے اس کمرے میں گیا،جہاں کسان کو ٹھہرایا گیا تھا۔کچھ ہی دیر بعد ان کی واپسی ہوئی۔”حضور!یہ خشخاش کے دانے بستر کی چادر کے نیچے سے ملے ہیں۔“فیروز الدین اپنی ہتھیلی بادشاہ سلامت کے سامنے پھیلاتے ہوئے بولا ہتھیلی پر خشخاش کے چند دانے تھے۔”کیا صرف خشخاش کے چند دانوں کی وجہ سے تمہیں رات بھر نیند نہیں آئی!“بادشاہ سلامت کہتے کہتے رُک گئے۔ان کی نظر فیروز الدین پر پڑ گئی تھی جس کے ہونٹوں پر پُراسرار مسکراہٹ ناچ رہی تھی،وہ ساری بات سمجھ گئے۔”فیروز الدین!مجھے تم پر فخر ہے کہ اتنا عقل مند اور دانا آدمی میرے وزیروں میں شامل ہے۔تم نے ٹھیک کہا تھا واقعی ماحول سے انسان کی عادت بنتی ہے۔انسان جیسے ماحول میں رہتا ہے اسی کا عادی بن جاتا ہے۔اس ماحول کے مطابق اس کے لئے رہنا آسان ہو جاتا ہے۔یہی کسان تھا جو اُن مٹی کے ڈھیلوں پر بڑے آرام سے سوتا تھا اور اب یہ شاہی محل میں آیا تو خشخاش کے چند دانوں کی وجہ سے اسے رات بھر نیند نہیں آئی۔“بادشاہ سلامت ستائشی نظروں سے فیروز الدین کو دیکھتے ہوئے بولے،جبکہ کسان حیران و پریشان ان دونوں کو تک رہا تھا کیونکہ ان کی کوئی بھی بات اس کے پلے نہیں پڑی تھی۔”کسان!شاہی محل میں آپ کی مہمان داری کے دن ختم ہو گئے ہیں۔اب آپ جا سکتے ہیں۔ہم دراصل تمہارے ذریعے سے ایک تجربہ کرنا چاہتے تھے۔ہم تجربہ کر چکے،جو نتیجہ ہم نے نکالنا تھا ہم نکال چکے۔لیکن چونکہ ہمارے تجربے نے تمہاری عادتوں کو بگاڑ دیا ہے،اب آپ کے لئے اپنے پہلے والے ماحول کو قبول کرنا اتنا آسان نہ ہو گا۔اس لئے ہم آپ کو وہ گاؤں تحفے میں دیتے ہیں جس میں آپ رہتے تھے۔آج سے آپ اس گاؤں کے جاگیردار ہیں۔آپ واپس جا کر چاہیں تو شاہی محل جیسا ماحول پیدا کریں اور باقی زندگی چین سے بسر کر سکتے ہیں۔“اتنا کہہ کر بادشاہ سلامت نے اسے جاگیر کی سند اور بہت سا انعام دیا۔وہ کسان یہ سب لے کر خوشی خوشی اپنے گاؤں رخصت ہوا۔ " عادت یا فطرت (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2381,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/adat-ya-fitrat-pehla-hissa-2381.html,"فہیم عالم”ارے․․․․!یہ․․․․․یہ․․․․․ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟“ بادشاہ سلامت کی حیرت میں ڈوبی آواز سن کر ان کے ساتھ موجود وزیروں اور سپاہیوں نے تعجب سے ان کی طرف دیکھا۔”کیوں حضور!ایسا کیا دیکھ لیا آپ نے․․․․․؟جو اتنی حیرت ہو رہی ہے۔“ فیروز الدین مسکراتے ہوئے بولا،وہ بادشاہ سلامت کا سب سے قریبی اور چہیتا وزیر سمجھا جاتا تھا۔”وہ دیکھو․․․․!“ بادشاہ سلامت نے تو جیسے اس کا جملہ سنا ہی نہیں تھا۔سب نے چونک کر سامنے دیکھا تو مبہوت ہو کر رہ گئے۔کھیت کے کنارے موجود درخت کی چھدری چھدری سی دھوپ چھاؤں میں ایک شخص مٹی کے موٹے موٹے ڈھیلوں پر پڑا دنیا و مافیھا سے بے خبر خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ایک طرف کھونٹے سے بیل بندھے چارا کھا رہے تھے۔(جاری ہے)قریب ہی ہل پڑا تھا۔کھیت آدھا کھدا ہوا تھا۔معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسان آدھے کھیت میں ہل چلا کر تھک گیا تھا اور ذرا سستانے کے لئے لیٹ گیا تھا۔”حیرت ہے․․․․․!اس شخص کو یوں بغیر کسی بستر کے مٹی کے ان ڈھیلوں پر نیند کیسے آ گئی․․․․؟“ بادشاہ سلامت حیرت سے بڑبڑائے۔”عالی جاہ!یہ کسان اسی ماحول کا عادی ہے۔انسان جیسی عادت اختیار کر لے ویسا ہی بن جاتا ہے۔اور اپنے ماحول کو قبول کر لیتا ہے۔“ فیروز الدین نے ادب سے عرض کیا۔”نہیں․․․․․!میں یہ بات نہیں مانتا․․․․یہ اس کی عادت نہیں مجبوری ہے۔بھلا!ایسا پاگل کون ہے؟جو یہ حالت خوشی سے قبول کر لے،کہ اس طرح کنکروں پر سوئے۔“بادشاہ سلامت نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولے:”حضور!بات تو وہی ہوئی نا!اس کی مجبوری ہی دھیرے دھیرے اس کی عادت بن گئی اور پھر آخر اس کی فطرت میں ڈھل گئی،یہ بچپن سے اسی طرح سختیاں سہتے سہتے اس ماحول کا عادی بن گیا ہے۔اگر یہ بھی ہماری طرح محلات میں رہنے لگ جائے تو یہ بھی نرم و نفیس،بستروں پر سونے کا عادی بن جائے گا۔“”نہیں․․․․!بلکہ بچپن سے جو شخص جس ماحول میں پلتا بڑھتا ہے،وہی اس کی فطرت بن جاتی ہے۔جو بدل نہیں سکتی،جیسے واقعہ مشہور ہے ناکہ چمڑے کا کام کرنے والے ایک شخص کو عطر سونگھایا گیا تو وہ خوشبو سونگھ کر بے ہوش ہو گیا کیونکہ اس نے کبھی خوشبو نہیں سونگھی تھی۔اس لئے اگر اس کسان کو نرم بستر پر سلا بھی دیا جائے تو پھر بھی اس کی یہ سخت زمین پر سونے کی عادت برقرار رہے گی۔نرم و گداز گدوں پر سونے کے بعد بھی اگر اسے ان ڈھیلوں پر سونے کے لئے کہا جائے گا تو اس کے لئے مشکل نہ ہو گا۔“بادشاہ سلامت پُر زور اندازی میں بولے۔”نہیں حضور!ماحول سے عادت بنتی ہے۔فطرت نہیں۔اور عادت ماحول کے ساتھ بدل جاتی ہے۔“وزیر فیروز الدین بھی اَڑ گیا۔”اچھا․․․․․!یہ بات ہے تو تم اپنی بات کو ثابت کرو․․․․․“ بادشاہ سلامت برا سا منہ بنا کر بولے۔فیروز الدین سے ان کو بے تکلفی تھی۔وہ ان کو پسند کرتے تھے۔ورنہ کوئی اور وزیر مشیر بادشاہ سلامت سے یوں اختلاف کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔”ٹھیک ہے حضور!اگر یہ خادم اپنی بات ثابت نہ کر سکا تو جو چور کی سزا وہ بندو کی سزا․․․․“وزیر فیروز الدین مسکراتے ہوئے بولا۔”عالی جاہ!میں ایک عدد تجربہ کرنا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو․․․․؟“ اس نے سوالیہ نظروں سے بادشاہ سلامت کی طرف دیکھا۔”اجازت ہے․․․․․“ بادشاہ سلامت بولے۔فیروز الدین اپنے گھوڑے سے اُترا اور سیدھا سوتے ہوئے کسان کی طرف بڑھا۔اس نے کسان کو جگایا تو وہ بڑبڑا کر اُٹھ کھڑا ہوا۔اب جو اس نے بادشاہ سلامت اور اتنے سارے وزیروں،امیروں کو دیکھا تو گھبرا گیا۔”اے محنتی کسان!چلو ہمارے ساتھ شاہی محل چلو․․․․․!“ کسان ڈر سے کانپتے ہوئے بولا۔”ڈرو نہیں محنتی کسان!تم سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔“(جاری ہے) " اپنی مدد آپ - تحریر نمبر 2380,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/apni-madad-aap-2380.html,"ڈاکٹر جمیل جالبیایک چڑیا نے گیہوں کے کھیت میں گھونسلہ بنایا اور جب انڈوں سے بچے نکل آئے تو کھیت بھی پکنے کے قریب تھا۔ایک دن جب وہ دانہ دنکے کی تلاش میں جانے لگی تو اس نے بچوں سے کہا ”میرے بعد اگر کھیت کا مالک آئے یا اس کے گھر والے آئے تو ان کی باتیں غور سے سننا اور پھر مجھے بتانا وہ کیا باتیں کر رہے تھے۔“چڑیا کے جانے کے ذرا دیر بعد کھیت کا مالک آیا اور اپنے بیٹے سے کہنے لگا”میں سمجھتا ہوں کھیت پک چکا ہے۔کل صبح ہی صبح اپنے دوستوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ کھیت کاٹنے میں ہماری مدد کریں۔“شام کو چڑیا واپس آئی تو بچے پر پھیلا کر چیں چیں کرکے اس کے آس پاس پھرنے لگے اور جو کچھ سنا تھا وہ بتانے لگے اور بولے ”اے ماں اب ہمیں یہاں سے جلد از جلد چلے جانا چاہئے کیونکہ کھیت کٹنے والا ہے۔(جاری ہے)“چڑیا نے کہا ”خاطر جمع رکھو۔“گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ”یاد رکھو جس کھیت کا مالک اپنے دوستوں اور پڑوسیوں پر بھروسہ کرتا ہے۔اس کا کھیت نہیں کٹتا مجھے یقین ہے یہ کھیت کل نہیں کٹے گا۔“دوسرے روز چڑیا پھر باہر گئی اور جاتے ہوئے کہہ گئی کہ آج اگر مالک آئے تو اس کی باتیں غور سے سننا اور مجھے بتانا۔کچھ دیر بعد کھیت کا مالک آیا اور بہت دیر تک اپنے پڑوسیوں اور دوستوں کی راہ دیکھتا رہا لیکن وہاں کوئی نہ آیا۔جب دھوپ تیز ہو گئی تو اپنے بیٹے سے کہنے لگا ”ان دوستوں اور پڑوسیوں کا کوئی بھروسہ نہیں بہتر ہے کہ تم اپنے چچا زاد اور بھائیوں سے کہو کہ کھیت کاٹنے میں ہماری مدد کریں۔“یہ بات سن کر چڑیا کے بچے بہت ڈرے اور جیسے ہی چڑیا آئی تو پر پھیلا کر اور چیں چیں کرکے اس سے کہا کہ آج یہ بات ہوئی۔یہ سن کر چڑیا نے کہا بچو!خاطر جمع رکھو۔گھبرانے کی کوئی بات نہیں مجھے لگتا ہے کہ اس کے رشتہ دار اس کے کام نہیں آئیں گے۔اگلے دن جب چڑیا دانے دنکے کی تلاش میں جانے لگی تو اس نے پھر کہا بچو!کھیت کے مالک کی باتیں غور سے سننا اور مجھے بتانا یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔کچھ دیر بعد کھیت کا مالک آیا اور بہت دیر تک اپنے بھائی اور بھتیجوں کا انتظار کرتا رہا لیکن وہاں کوئی نہ آیا۔جب دھوپ تیز ہو گئی تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا ”اے میرے بیٹے دیکھا ہماری مدد کیلئے کوئی نہیں آیا اب تم دو درانتیاں تیز کرکے تیار رکھو کل ہم خود ہی اپنا کھیت کاٹیں گے۔“یہ سن کر چڑیا کے بچے بہت ڈرے اور جیسے ہی ماں آئی اسے پر پھیلا کر اور چیں چیں کرکے سارا ماجرا سنانے لگے۔یہ بات سن کر چڑیا نے کہا ”اے بچو!اب ہمیں یہاں سے ضرور چلے جانا چاہئے مجھے یقین ہے کہ یہ کھیت اب ضرور کٹے گا کیونکہ جو آدمی اپنا کام خود کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے وہ کام ضرور ہوتا ہے۔یہ کہہ کر وہ اپنے بچوں کو اس کھیت سے دوسری جگہ لے گئی۔اگلی صبح کھیت کا مالک آیا اور بیٹے کے ساتھ مل کر کھیت کاٹنے لگا اور کھیت کاٹ لیا۔لیکن اُس سے پہلے چڑیا وہاں سے اپنے بچوں کو لے کر جا چکی تھی۔“ " کٹو کی قربانی - تحریر نمبر 2379,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kittu-ki-qurbani-2379.html,"روبینہ نازکہیں دور ایک گاؤں میں کٹو اپنے پانچ چوزوں کے ساتھ رہتی تھی۔وہ بہت ہنسی خوشی رہا کرتے تھے۔کٹو کے سب بچے ہی بہت شرارتی تھے،وہ کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر کھیل رہے ہوتے تھے۔کٹو اُن کا بہت خیال رکھتی تھی۔وہ جب بھی کھانے کی تلاش میں جاتی اپنے بچوں کو گھر چھوڑ جاتی تھی۔آج جب وہ بچوں کو گھر چھوڑ کر باہر جانے لگی تو سب سے چھوٹے چوزے نے اُس سے کہا کہ آج میں بھی آپ کے ساتھ باہر جاؤں گا،میرا بڑا دل چاہ رہا ہے،اُس کی دیکھا دیکھی باقی چوزوں نے بھی کٹو سے باہر جانے کی ضد شروع کر دی۔تم سب کا باہر جانا ٹھیک نہیں،کیونکہ ابھی تم سب چھوٹے ہو۔کٹو نے پیار سے بچوں کو سمجھایا مگر وہ بضد تھے کہ آج وہ بھی باہر جائیں گے اور مزے کریں گے۔(جاری ہے)آخر وہ بچوں کی ضد کے آگے ہار گئی اور اُنہیں ساتھ لے کر ڈربے سے نکلی،ابھی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ ایک خطرناک سانپ نے حیرت سے کٹو اور اُس کے ساتھ چوزوں کو دیکھا کیونکہ اس سے پہلے وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر کبھی باہر نہیں نکلی تھی۔چنانچہ سانپ نے اُن کا پیچھا کرنا شروع کر دیا،ایک جگہ کٹو کو دانے نظر آئے تو اُس نے وہ دانے جمع کرنا شروع کر دیئے اور بچے کھیلنے لگے۔سانپ نے سب سے چھوٹے بچے سے کہا:”ننھے چوزے تم بہت پیارے ہو۔میرے پاس آؤ ہم مل کر کھیلتے ہیں“۔بڑے چوزے نے جب ننھے چوزے کو دیکھا تو وہ چیخ کر بولا:”اس سانپ سے دور ہو جاؤ کیونکہ یہ تمہیں نقصان پہنچائے گا۔“ننھا چوزہ ڈر کے مارے ماں کے پروں میں چھپ گیا اور سانپ کو دیکھ کر باقی چوزے بھی ماں کے پروں میں چھپ گئے۔سانپ نے چوزوں کو ڈسنے کی بہت کوشش کی مگر ہر بار کٹو سامنے آ جاتی۔کٹو کا شور سن کر دوسرے جانور بھی اُدھر آ گئے جنہیں دیکھ کر سانپ بھاگ گیا۔سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے کٹو کی جان چلی گئی۔مگر اُس نے مرتے مرتے بھی پانچوں چوزوں کو پروں میں چھپا کر رکھا۔ماں کا یہ ایثار اور یہ پیار دیکھ کر وہاں موجود جانوروں کی آنکھیں گیلی ہو گئیں سچ ہے۔ماں اپنے بچوں کی زندگی کی خاطر اپنی جان قربان کر سکتی ہے اور جب تک ماں زندہ ہو،اُس کے بچوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ماں اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ " سمجھدار گدھا - تحریر نمبر 2378,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/samajhdar-gadha-2378.html,"ڈاکٹر جمیل جالبیگاؤں سے باہر ہرے بھرے میدان میں ایک بوڑھا اپنے گدھے کو چرا رہا تھا۔اتنے میں دور سے اسے شور سنائی دیا۔کیا دیکھتا ہے کہ دشمن کی فوج تیزی سے اس طرف آرہی ہے۔یہ دیکھ کر وہ گھبرا گیا اور جلدی سے اپنے گدھے کو ہانکتے ہوئے دوسری طرف بھاگنے لگا۔گدھے نے پوچھا!اے مالک کیا ماجرا ہے؟مالک نے جواب دیا”کہ دشمن ہماری طرف آرہا ہے۔(جاری ہے)ہمیں یہاں سے فوراً بھاگ جانا چاہئے۔ورنہ ہم دونوں پکڑ لئے جائیں گے۔گدھے نے کہا”اچھا یہ تو بتائیے اگر دشمن مجھے پکڑ لے تو کیا وہ مجھ پر اس سے زیادہ بوجھ لادے گا جتنا آپ لادتے ہیں“۔مالک نے کہا”نہیں اس بات کا کوئی ڈر نہیں“۔مالک کی یہ بات سن کر گدھا کہنے لگا”اگر اس بات کا ڈر نہیں تو پھر میں کیوں بھاگوں؟مجھے کیا فرق پڑتا ہے میرا مالک تو ہے یا تیرا دشمن میرے لئے تو دونوں ایک ہیں“۔یہ کہہ کر گدھا وہیں کھڑا ہو گیا۔ " زندگی کا سبق - تحریر نمبر 2377,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zindagi-ka-sabaq-2377.html,"پروفیسر مسرت کلانچویرشید کو ڈرائیونگ کرتے چند ماہ ہو گئے تھے۔اس کے والد کا خط آیا تھا کہ وہ دو تین دن کی چھٹی لے کر گھر آجائے۔اس کی ماں اس کی منگنی کرنا چاہتی ہے۔رشید نے صاحب سے چھٹی مانگی تو انہوں نے دو دن کے لئے اسے چھٹی دے دی۔رشید سڑک کے کنارے کھڑا بس کا انتظار کر رہا تھا۔اس نے دیکھا سامنے سے احتشام خان صاحب گاڑی چلاتے آرہے ہیں۔ایک آدمی سڑک کراس کر رہا تھا۔صاحب گاڑی پر قابو نہ رکھ سکے اور وہ آدمی گاڑی کے نیچے آگیا لیکن صاحب نے گاڑی روکنے کے بجائے تیز چلا دی اور ایک جھٹکے سے گاڑی رشید کے قریب روکی۔بولے”رشید․․․․․فوراً بیٹھو۔“صاحب نے ڈرائیونگ سیٹ رشید کے لئے خالی کر دی اور خود پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔(جاری ہے)”مجھے ایئرپورٹ چھوڑ دو۔“”لیکن صاحب“”مجھے پتہ ہے تمہیں گھر جانے کی جلدی ہے۔تم یہی گاڑی لے کر گاؤں چلے جاؤ۔“”لیکن صاحب․․․․وہ حادثہ؟“”جو کچھ تم نے دیکھا ہے اسے بھول جاؤ اور میرا حکم مانو۔“رشید نے صاحب کو ایئرپورٹ پر چھوڑا اور تیزی سے گاڑی چلاتا اپنے گھر پہنچ گیا۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دروازہ کھٹکا۔رشید نے دروازہ کھولا۔موٹر سائیکل پر دو سپاہی آئے تھے۔انہیں دیکھ کر گاؤں کے لوگ بھی جمع ہو گئے تھے۔ایک سپاہی بولا۔”تم جس آدمی کو گاڑی سے ٹکر مار کر فرار ہوئے ہو اس کی حالت نازک ہے۔راہ گیروں نے تمہاری گاڑی کا نمبر نوٹ کر لیا تھا۔ہم تمہیں اس جرم میں گرفتار کرتے ہیں۔“”لیکن یہ حادثہ میں نے نہیں کیا۔یہ گاڑی میری نہیں۔میں تو احتشام خان صاحب کا ڈرائیور ہوں۔“”اپنے صاحب کا فون نمبر بتاؤ۔“سپاہی نے اپنے موبائل فون کا سپیکر آن کیا۔رشید کے بتانے پر سپاہی نے فون نمبر ملایا۔”ہیلو“۔دوسری طرف احتشام خان تھے۔سپاہی بولا۔”جناب․․․․کیا آپ جانتے ہیں۔ایک آدمی آپ کی گاڑی کے نیچے آکر شدید زخمی ہو گیا۔“”میں کچھ نہیں جانتا۔احتشام خان صاحب کی آواز آئی۔میں تو دو دن سے اسلام آباد میں ہوں۔میں اپنی گاڑی ڈرائیور رشید کو دے کر آیا تھا۔اسی نے حادثہ کیا ہو گا۔بڑا لاپروا ڈرائیور ہے۔کوئی رعایت نہ کریں اس سے اور گاڑی میرے گھر بھجوا دیں۔“رشید اپنے صاحب کی یہ باتیں سن کر سکتے میں آگیا۔پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔حادثے میں زخمی ہونے والا شخص ایک ماہ ہسپتال رہنے کے بعد موت کے منہ سے نکل آیا لیکن رشید کو طویل عرصہ جیل کاٹنا پڑی۔اس کی اور اس کے ماں باپ کی جمع پونجی وکیل اور مقدمے پر خرچ ہو چکی تھی۔رشید جیل سے نکل کر اپنے گاؤں میں آیا تو اس کا سر جھکا ہوا تھا۔وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کے ماں باپ مٹی کے برتن بنا رہے تھے۔وہ بھاگ کر اس سے گلے ملے۔اس کی ماں نے اسے اس کی پسند کا کھانا بنا کر کھلایا۔اس کا باپ بولا۔”چلو․․․․اب چارپائی پر لیٹ جاؤ۔آرام کرو۔“”نہیں بابا۔مجھے آرام کی ضرورت نہیں۔مجھے برتن بنانا سکھائیں۔“رشید نے مٹی میں پانی ڈالا اور مٹی گوندھنے لگا۔نرم نرم گیلی مٹی کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس نے اس کی خوشبو کو محسوس کیا جس میں صدیوں سے اس کے ابا کی محنت اور محبت رچی بسی تھی۔رشید مٹی کے برتن بنا کر انہیں رنگین نقش و نگار سے سنوارتا اور شہر جا کر بیچتا۔آہستہ آہستہ اس کے برتنوں کی مانگ بڑھتی گئی۔آج سٹیڈیم میں ثقافتی میلہ تھا۔رشید نے بھی اپنے برتنوں کا سٹال سجایا تھا۔اس کے سٹال کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا جو اس کے فن کی داد دے رہے تھے۔ایک ٹی وی چینل کے اینکر نے اپنا مائیک اس کے آگے کیا۔”یہ خوبصورت ہنر اور فن آپ نے آرٹ کے کس ادارے سے سیکھا؟“”کسی ادارے سے نہیں۔رشید اپنے والد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔”یہ میری خاندانی میراث ہے۔یہ فن میرے پردادا،دادا اور والد سے سفر کرکے مجھ تک پہنچا ہے۔میں کمہار ہوں اور مجھے اپنے کمہار ہونے پر فخر ہے۔میں احتشام صاحب کا معمولی ملازم تھا۔انہوں نے اپنے سفاکانہ رویے سے مجھے ایسا سبق دیا کہ میں اپنی میراث اور ورثے کی طرف لوٹ آیا۔اب میرا ذاتی کاروبار ہے جو روز روز بڑھ رہا ہے۔احتشام صاحب کی بیٹی باجی لبنیٰ کا بے حد شکریہ جنہوں نے مجھے رنگ بھرنا سکھایا۔اب میں نے نہ صرف برتنوں جبکہ اپنی زندگی میں بھی خوبصورت حقیقی رنگ بھر لیے ہیں۔“ " استاد کا خواب - تحریر نمبر 2374,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ustad-ka-khawab-2374.html,"جدون ادیبمیں محکمہ تعلیم میں اوسط درجے کا ایک سرکاری افسر ہوں اور شہر سے خاصی دور اس گاؤں میں ایک خاص مقصد کے تحت آیا تھا۔مجھے اس گاؤں کے بچوں کے لئے ایک اسکول قائم کرنا تھا،مگر اس سلسلے میں پہلے ایک سروے رپورٹ تیار کرنی میری ذمے داری تھی۔مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ کام اتنا آسان نہ ہو گا۔وجہ یہ تھی کہ گاؤں کا سردار وہاں اسکول قائم کرنے کے خلاف تھا،کیونکہ تعلیم عام ہونے کے بعد اس کی سرداری خطرے میں پڑ جاتی،مگر چونکہ ایک معلم نے اس کام کے لئے کوشش کی تھی اور ایک بڑی رقم بھی مہیا کی تھی تو اسے ہر حال میں تکمیل تک پہچانا میری ذمے داری تھی۔میں نے تیزی سے کام شروع کیا۔چند روز بعد مجھے اس وقت چند مسلح افراد نے گھیر لیا،جب میں مختلف زاویوں سے علاقے کی تصاویر بنا رہا تھا۔(جاری ہے)اغواکاروں نے مجھ سے میرا مقصد پوچھا تو میں نے سب کچھ بتا دیا،مگر یہ نہ بتایا کہ کس کی خواہش پر یہ کام ہو رہا ہے۔پستول کی نالی میری کن پٹی سے لگی ہوئی تھی۔اغواکاروں کا رویہ انتہائی سخت تھا،مگر وہ جو چاہتے تھے،میں نہیں کر سکتا تھا۔آخر اغواکار نے ٹریگر پر اُنگلی رکھی اور پوچھا:”آخری بار پوچھ رہا ہوں،اس منصوبے کے پیچھے کون ہے،بتاؤ،ورنہ گولی مار دوں گا۔“ابھی میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ اسی وقت کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھلا اور ایک رعب دار چہرے والا شخص اندر داخل ہوا،جسے دیکھ کر سارے اغواکار مستعد ہو گئے۔وہ چند لمحے تک مجھے غور سے دیکھتا رہا اور پھر سوالیہ نظروں سے ایک طرف کھڑے اغواکار کی طرف دیکھا تو وہ ادب سے بولا:”خان بھائی!اس نے کچھ نہیں بتایا اور موت سے بھی نہیں ڈرا۔“”اور پیسہ؟“”پیسے کی کوئی بات نہیں کی ہے۔“”ٹھیک ہے اسے بیس لاکھ دے دو۔“اگر پھر بھی نہ مانے تو اسے گولی مار کر اس کی لاش کو جنگل میں پھینک دو۔“خان نے حکم صادر کیا اور اسی انداز سے لوٹ گیا۔اغواکاروں نے میرے سامنے بریف کیس رکھا اور اسے کھول کر بڑے نوٹوں کی گڈیاں دکھائیں،سوچنے کے لئے ایک گھنٹے کی مہلت دے کر مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔میرے سامنے نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس تھا،زندگی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔میں نے سوچا کہ میں کوئی طاقتور انسان نہیں ہوں اور سب سے اہم بات یہ کہ اغواکار جو راز جاننا چاہتے تھے،اسے بتا دینے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔یہ نوٹ میری قسمت بدل سکتے تھے اور شاید یہ میری بہادری کا خراجِ تحسین ہوتا۔ایک گھنٹے بعد اغواکار واپس آئے۔میں نے قبولیت ظاہر کرکے خان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔اغواکاروں نے مجھے کھول دیا۔خان دوڑا چلا آیا۔اس نے سب سے پہلے یہی سوال کیا:”بتاؤ،ہمارا دشمن کون ہے؟“میں اس عجیب و غریب سوال کا اتنا ہی عجیب جواب کا سوچ کر مسکرایا اور بولا:”خان!وہ آپ لوگوں میں سے ہے۔آپ ہی کا خون ہے۔“خان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔تب میں نے کہا:”خان جی!آپ کے گاؤں میں اسکول کھلے گا۔شجاعت خان پبلک اسکول!“خان بُری طرح چونکا اور زیرِ لب بُڑبُڑایا:”شجاعت خان․․․․!“میں نے انکشاف کرنے والے انداز میں کہا:”خان جی!اس سارے منصوبے کے پیچھے آپ کے والد سر شجاعت خان کا ہاتھ ہے۔وہی شجاعت خان،جنھیں آپ کے دادا نے تعلیم کے شوق پر اتنا ستایا کہ وہ یہ گاؤں چھوڑ کر شہر چلے گئے۔بعد میں انھوں نے معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ہزاروں بچوں کو تعلیم سے روشناس کرایا اور پھر جو کما کر جمع کیا تھا،اسے حکومت کو پیش کرکے اپنے گاؤں کے لوگوں کے لئے اسکول کھولنے کی درخواست کی،جو منظور بھی ہو گئی،انہی کی خواہش پر یہ سارا کام ہو رہا ہے۔“خان کا چہرہ لٹک گیا۔اس نے کرسی کا سہارا لیا پھر کرسی پر گر گیا۔اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی،مگر الفاظ نے اس کا ساتھ نہ دیا۔آخر اس نے لب کھولے اور پھنسی پھنسی آواز میں کہا:”میرے بابا․․․․․․!“”وہ اس دنیا میں نہیں رہے!“میں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔اتنا سنتے ہی خان کی آنکھیں چھلک پڑیں۔اس نے بہت کوشش کی،مگر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔کئی لمحے گزر گئے،تب میں نے کہا:”بڑے خان یعنی آپ کے دادا تعلیم کے خلاف تھے اور آپ کے والد تعلیم سے محبت کرنے والے انسان،وہ صرف بڑے خان پر دباؤ ڈالنے کے لئے گھر سے نکلے تھے،مگر پھر حالات ایسے ہو گئے کہ وہ واپس نہ آ سکے۔پھر پتا چلا کہ وہ ٹرین کے حادثے میں مارے گئے،جب کہ حقیقت یہ تھی کہ ریلوے اسٹیشن سے جس شخص کی لاش ملی تھی،وہ چور تھا،جو آپ کے والد کا سامان چُرا کر بھاگا تھا اور ٹرین کی زد میں آکر مارا گیا۔اسے آپ لوگوں نے شجاعت خان سمجھ لیا اور انھوں نے بھی سوچا کہ اب کچھ بن کر ہی واپس گھر جانا چاہیے،مگر وہ واپس نہ آ سکے۔“”کاش․․․․․کاش!پتا ہوتا کہ وہ زندہ ہیں۔“خان تاسف سے سر پٹخنے لگا۔میں چپ چاپ اسے دیکھتا رہا پھر بولا:”اب آپ کے دادا بھی دنیا میں نہیں رہے،نہ والد،آپ فیصلے کے مجاز ہیں۔میں ایک معمولی سرکاری اہلکار ہوں۔میرا کام ختم ہو چکا۔آگے حکومت جانے،آپ جانیں!مجھے جانے دیں۔“خان گہری نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔پھر نوٹوں سے بھرا بریف کیس میری طرف بڑھا کر بولا:”یہ آپ کا ہوا،آپ جا سکتے ہیں۔“میں نے بریف کیس کو بند کیا اور اسے خان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا:”خان!سر شجاعت خان جیسے عظیم لوگ میرے استاد رہے ہیں۔پیسے کی ہماری نظر میں کوئی وقعت نہیں رہی،یہ پیسہ آپ اپنے گاؤں کے لوگوں پر خرچ کریں اور میری درخواست ہے کہ اپنے والد صاحب کی خواہش پوری ہونے دیں۔بے شک تعلیم آپ جیسے حاکم لوگوں کے لئے نقصان دہ ہے،مگر زمانہ بدل رہا ہے۔بچوں کو پڑھنے دیں۔آپ ان کو ڈرا کر ان سے اپنا احترام کرا رہے ہیں،مگر وہ دل سے آپ کا احترام کریں گے،کیونکہ تعلیم کوئی بُری چیز نہیں اور نہ آپ کے والد کا فیصلہ غلط تھا۔“جب میں گاؤں سے رخصت ہو رہا تھا تو خان مجھے الوداع کہنے آیا۔اب وہ ایک بدلا ہوا انسان لگ رہا تھا۔اس نے مجھے گلے لگایا اور بھرائے ہوئے لہجے میں بولا:”الوداع وسیم صاحب!“میں نے خان کا ہاتھ تھاما اور بولا:”خان!اگر اسکول کا افتتاح آپ اپنے ہاتھوں سے کریں گے تو آپ کے والد کی روح کو سکون ملے گا۔“”میں ایسا ہی کروں گا۔“خان نے مضبوط لہجے میں کہا۔اور پھر جب تک میری جیپ خان کے نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی۔وہ دیکھتا رہا اور الوداعی انداز میں ہاتھ ہلاتا رہا اور مجھے یقین تھا ہم جلد پھر ملیں گے،جب کچھ عرصے بعد اس گاؤں کے پہلے اسکول کا سنگِ بنیاد رکھا جائے گا․․․․“ " محنت کا دانہ - تحریر نمبر 2373,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-ka-dana-2373.html,"محمد احمد ابنِ آدمایک نیک دل بادشاہ کسی ملک پر حکومت کرتا تھا۔اس کی وسیع سلطنت میں جا بجا کھیت اور باغات پھیلے ہوئے تھے۔ایک دن بادشاہ اپنے محل کے باغ میں ٹہل رہا تھا کہ اسے ایک درخت کے نیچے کبوتر کے انڈے جتنا گندم کا دانہ ملا۔پہلے تو وہ حیران ہوا اور اسے پتھر سمجھا،مگر جب اس نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ گندم کا دانہ ہے،جو موجودہ زمانے کے دانے سے کئی گنا بڑا ہے۔بادشاہ نے فوراً باغ کے مالی کو بلایا اور اس سے پوچھا:”ہمیں اس گندم کے دانے کے بارے میں بتاؤ۔یہ کہاں سے آیا ہے؟“بے چارہ مالی پریشان ہو گیا،کیونکہ وہ خود اتنا بڑا گندم کا دانہ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔اس نے جواب دیا:”بادشاہ سلامت!میں نے ایسا دانہ آج سے پہلے نہ دیکھا اور نہ اس کے بارے میں کبھی سنا۔(جاری ہے)شاید آپ کے وزیروں میں سے کسی کو اس کے بارے میں علم ہو۔“بادشاہ کو یہ مشورہ اچھا لگ گیا۔اس نے فوراً تمام وزیروں کو دربار میں بلوا لیا۔جب سب آگئے تو اس نے ایک پلیٹ میں رکھے گندم کے دانے کی طرف اشارہ کرکے کہا:”آج ہمیں یہ بڑا سا گندم کا دانہ اپنے باغ میں ملا ہے۔جسے شاید کوئی پرندہ وغیرہ اُٹھا کر لایا ہو گا۔آپ میں سے کسی کو اس کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ کہاں سے آسکتا ہے اور کہاں اتنے بڑے دانوں والی گندم اُگتی ہے؟“سب وزیر خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ شاید بادشاہ کو غلط فہمی ہو گئی ہے جو اتنی بڑی چیز کو گندم کا دانہ سمجھ رہے ہیں،مگر جب انھوں نے اسے چھو کر دیکھا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔کسی کے پاس بادشاہ کی تسلی کے لئے جواب نہ تھا۔یہ دیکھ کر بادشاہ جھنجھلا گیا۔اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اس کے ایک دانا اور زیرک وزیر نے اسے مشورہ دیا:”بادشاہ سلامت!ہم سب وزیر امورِ سلطنت میں مصروف رہتے ہیں،اس لئے ہم نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا۔میرے خیال میں کسی بوڑھے کسان سے پوچھنا چاہیے جو اس کے بارے میں صحیح معلومات دے سکے۔“بادشاہ نے یہ سن کر کچھ سوچا اور اپنے سپاہیوں کو کسی بوڑھے کسان کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔کچھ دیر بعد ایک نہایت بوڑھا آدمی دو لاٹھیوں کے سہارے بادشاہ کے پاس پہنچا۔اس کے بال سفید ہو چکے تھے اور منہ میں دانت بھی نہیں تھے۔آنکھیں بھی کمزور تھیں۔بادشاہ نے بوڑھے کو گندم کا دانہ دکھا کر پوچھا:”بزرگوار!کیا آپ نے ایسی گندم کہیں دیکھی ہے؟“بوڑھے نے بڑی مشکل سے بادشاہ کا سوال سنا اور جواب دیا:”نہیں․․․․․آپ میرے والد صاحب سے پوچھیں شاید وہ کچھ بتا سکیں۔“بادشاہ نے اس کے والد کو بلوا لیا۔کچھ دیر بعد ایک اور بوڑھا آدمی ایک لاٹھی کے سہارے بادشاہ کے دربار میں آیا۔اس کے سفید بالوں میں کچھ کالے بال بھی تھے۔منہ میں بھی دو چار دانت سلامت تھے۔نظر بھی کچھ بہتر تھی۔مجموعی طور پر وہ اپنے بیٹے سے ذرا بہتر حال میں تھا۔بادشاہ اسے اس حالت میں دیکھ کر حیران ہوا اور پھر اسے گندم کا دانہ دکھا کر سوال کیا:”بڑے صاحب!کیا آپ اس طرح کی گندم کے بارے میں جانتے ہیں؟“بوڑھے نے گندم کا دانہ دیکھا اور کہا:”جناب!میں نے اتنا بڑا دانہ کہیں نہیں دیکھا۔ہمارے زمانے میں گندم کا دانہ بڑا تو تھا،مگر یہ تو کافی بڑا ہے،شاید میرے والد آپ کو کچھ بتا سکیں۔“بادشاہ نے بے چینی کے عالم میں اس بوڑھے کے باپ کو دربار میں بلوا لیا۔کچھ دیر بعد ایک شخص بغیر کسی سہارے کے دربار میں داخل ہوا۔اس کے سر کے بال آدھے سفید اور آدھے کالے تھے۔منہ میں دانت بھی اپنے بیٹے اور پوتے سے زیادہ تھے۔یعنی یہ بوڑھا صحت کے معاملے میں اپنے بیٹے اور پوتے سے کئی گنا اچھے حال میں تھا،حالانکہ یہ کافی بڑی عمر کا تھا۔بادشاہ اسے دیکھ کر مزید حیران ہو گیا۔اس نے بوڑھے کو گندم کا دانہ دکھا کر پوچھا:”حضرت!کیا آپ نے ایسی گندم کہیں دیکھی ہے؟“بوڑھے نے گندم کا دانہ بڑے غور سے دیکھا اور پھر خوشی سے مسکراتے ہوئے بولا:”جی ہاں بادشاہ سلامت!“بادشاہ نے حیرانی سے اُچھلتے ہوئے کہا:”سچ․․․․․مگر کہاں؟“بوڑھے نے جواب دیا:”جناب!گزرے زمانے میں ایسے ہی گندم کے دانے ہوا کرتے تھے۔لوگ انھیں پیس کر خوب آٹا حاصل کرتے تھے۔ان کا ذائقہ بھی لاجواب تھا۔“بادشاہ بولا:”اچھا!اس زمانے میں گندم اتنی بڑی کیسے ہوتی تھی؟“اس بوڑھے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:”بادشاہ سلامت!اس دور میں زمین ساری اللہ ہی کی سمجھی جاتی تھی۔ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق کاشت کرتا اور اس سے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا،مگر جوں جوں لوگوں میں اضافہ ہوا اور زمین چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹتی چلی گئی،اس طرح گندم کا دانہ بھی چھوٹے سے چھوٹا ہوتا گیا۔مطلب یہ ہے کہ برکت ختم ہوتی گئی۔“بادشاہ نے حیرانی سے بوڑھے کی بات سنی اور بولا:”جناب!میرا آپ سے آخری سوال یہ ہے کہ مجھے یہ بتائیں کہ اس بات میں کیا راز ہے کہ آپ عمر میں اپنے بیٹے اور پوتے سے بڑے ہیں،مگر ان کی طرح لاٹھیوں کے سہارے نہیں آئے اور آپ کی جسمانی حالت بھی ان سے کافی بہتر ہے۔“یہ سن کر بوڑھا بولا:”بادشاہ سلامت!دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے دور میں ہر شخص محنتی تھا۔اپنا کام خود کرتا تھا۔ہم صبح سے شام تک لگاتار محنت کرتے تھے اور کسی دوسرے پر انحصار نہیں کرتے تھے،مگر جیسے جیسے زمانہ بدلا،لوگ دوسروں کے محتاج ہوتے گئے۔کھیتوں میں کام کرنے کے لئے مزدور رکھ لیے گئے اور دیگر سہولیات سے فائدہ اُٹھانا شروع کر دیا،اس سے وہ کمزور ہوتے چلے گئے۔میرا بیٹا ایک لاٹھی کے سہار آیا۔مطلب اس نے دوسروں پر انحصار تو کیا،مگر کچھ کم جب کہ میرا پوتا دو لاٹھیوں کے سہارے آیا۔مطلب وہ مکمل طور پر دوسروں سے کام لیتا ہے۔آج کے لوگ اسی لیے کمزور اور ناتواں ہیں۔“بادشاہ اس بوڑھے سے بہت متاثر ہوا۔اس نے اسے انعام دے کر اپنے دربار میں مشیر رکھ لیا۔ " پہاڑی کے پیچھے - تحریر نمبر 2372,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pahari-ke-peeche-2372.html,"محمد اقبال شمسوہ پانی میں اپنا عکس مسلسل دیکھے جا رہا تھا اور بار بار پنجوں کے بل کھڑا ہو کر اپنے قد کو لمبا دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔وہ ایک بونا تھا اور اس کا نام کامی تھا۔جنگل کے قریب ہی بونوں کی بستی آباد تھی جس میں وہ رہتا تھا۔کامی نہ جانے کیوں اپنے بونے قد سے پریشان تھا۔وہ خود کو قد آور دیکھنا چاہتا تھا۔اس کے بزرگ اسے سمجھاتے کہ قدرت نے جیسا بھی پیدا کیا ہے،اس میں راضی رہنا سیکھو اور اس کی ناشکری کبھی نہ کرو،مگر وہ خود کو بلند قد کا ہی دیکھنا چاہتا تھا۔بستی کے قریب ہی جنگل کے پار ایک پہاڑی تھی۔اس نے اپنے بڑوں سے سن رکھا تھا کہ پہاڑی کے دوسری طرف ان سے لمبے قد والوں کی بستی ہے۔وہ پہاڑی کے اس پار ان قد آور انسانوں کو دیکھنا چاہتا تھا۔(جاری ہے)ایک دن جنگل سے ایک ہاتھی بھٹکتا ہوا ان کی بستی میں آگیا۔بونے اس کے پاؤں تلے دبنے کے خوف سے چھپنے لگے۔کامی بھی قریب ہی ایک پہاڑی پر چڑھ گیا اور کچھ ہی دیر کی جدوجہد کے بعد وہ پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ گیا۔پھر اچانک اسے خیال آیا کہ وہ پہاڑی پر تو چڑھ ہی گیا ہے،کیوں نہ پہاڑی کے دوسری طرف اُتر کر قد آور انسانوں کو ہی دیکھ لے۔یہ سوچ کر وہ پہاڑی کے دوسری طرف اُترنے لگا۔نیچے ایک میدان میں بہت بڑا میلا لگا ہوا تھا۔ایک مداری اپنے بندر اور بھالو کا کرتب دکھا رہا تھا،مگر لوگ بندر اور بھالو کے کرتب میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے،چنانچہ مداری کی آمدنی کم ہو گئی تھی،اس لئے بڑا فکر مند تھا۔”لگتا ہے لوگ بندر اور بھالو کا ناچ دیکھ دیکھ کر اُکتا گئے ہیں۔اب مجھے کچھ اور کرنا پڑے گا،تاکہ آمدنی میں اضافہ ہو۔“وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔کامی آہستہ آہستہ سے پہاڑی سے نیچے اُتر رہا تھا۔اسے کچھ فاصلے پر لوگوں کا ہجوم نظر آیا۔وہ دھیرے دھیرے اس سمت بڑھنے لگا۔اس نے وہاں بڑے قد والے لوگ دیکھے تو اَش اَش کر اُٹھا۔جب اس کی نظر بندر اور بھالو پر گئی تو وہ انھیں دیکھنے کے لئے آگے بڑھنے لگا۔مداری کی نظر اچانک پہاڑی کی سمت گئی۔اس نے دیکھا کہ ایک بونا اسی کی طرف آرہا ہے۔کامی مداری کے قریب آیا تو مداری نے سوچا کہ کیوں نہ بونے کو پکڑ کر بندر اور بھالو کی طرح کرتب سکھا کر پیسے کمائے۔یہ سوچ کر اس نے ایک بوری لی اور فوراً کامی کے اوپر ڈال دی۔کامی اب مداری کی بوری میں قید ہو چکا تھا اور وہ اسے اُٹھا کر اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔جب کہ کامی بوری میں بند اپنے ہاتھ پاؤں چلانے لگا۔گھر پہنچتے ہی اس نے بوری کا منہ کھولا۔کامی فوراً بوری سے باہر نکلا۔مداری اسے دیکھ کر خوشی سے مسکراتے ہوئے بولا:”اب مزہ آئے گا تماشا دکھانے کا۔“”کون ہو تم؟اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟“کامی غصے سے بولا۔”اب تم یہیں میرے پاس رہو گے،یہ بندر اور بھالو تمہارے ساتھی ہیں۔“یہ کہتے ہوئے اس نے بندر اور بھالو کے پاس ہی کامی کو باندھا اور گھر سے باہر چلا گیا۔جب کہ کامی چیختا رہ گیا۔”اب چیخنے اور چلانے سے کوئی فائدہ نہیں،اب تم ہمیشہ ہماری طرح اس مداری کے رحم و کرم پر رہو گے۔“بندر کامی کو چیختے ہوئے دیکھ کر بولا۔”ارے اسے ہماری بولی کیا سمجھ میں آئے گی،جو تم اسے بتا رہے ہو۔“بھالو اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔”نہیں،مجھے آپ لوگوں کی زبان آتی ہے،جنگل کے قریب رہتے ہوئے ہمیں جانوروں کی بولی سمجھ میں آنے لگی ہے۔“کامی بولا۔”ارے واہ،پھر خوب گزرے گی جب مل بیٹھے گے مجبور تین۔“بندر نے قلابازی کھائی:”لیکن تم اپنی بستی چھوڑ کر یہاں کیوں آئے ہو،جب کہ بونوں کی بستی تو الگ آباد ہے۔“”دراصل میں نے سن رکھا تھا کہ یہاں لمبے قد والے انسان رہتے ہیں۔میں اپنے چھوٹے قد سے پریشان تھا۔بس ان ہی کو دیکھنے کے شوق میں یہاں تک پہنچا ہوں،مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ لمبے قد والے اپنے مفاد کی خاطر بے بس انسانوں اور معصوم جانوروں پر زیادتی کرتے ہیں۔“”میرے دوست چھوٹے قد سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔انسان کو کچھ ایسا کرنا چاہیے،جس سے اس کا کردار بلند ہو۔“بھالو نے کامی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔”مجھے اپنی بستی جانا ہے،بس تم مجھے کسی طرح آزاد کراؤ۔“کامی روہانسی آواز میں بولا۔”یہاں سے نکلنا مشکل تو ہے،لیکن ناممکن نہیں۔ایک طریقہ ہے یہاں سے نکلنے کا۔“بندر نے راز داری والے انداز میں کہا۔”وہ کیا!“کامی نے پوچھا۔پھر بندر نے اسے بتانا شروع کیا،جسے سن کر کامی کی آنکھیں خوشی سے چمک اُٹھیں۔رات گزر چکی تھی۔سورج طلوع ہو چکا تھا۔مداری نے سب سے پہلے بونے کو عوام کے سامنے اپنا کردار ادا کرنے سے متعلق کچھ ہدایات دیں اور پھر اس کی کمر میں رسی ڈال کر بندر اور بھالو کے ساتھ میلے کی طرف روانہ ہوا۔وہاں پہنچ کر اس نے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ڈگڈگی بجانا شروع کی،لوگوں کی توجہ حاصل ہوئی تو اس نے کہنا شروع کیا:”آج پہلی بار ہم ایک بونے کا کرتب دکھائیں گے۔“پھر اس نے کرتب دکھانا شروع کیا۔سب سے پہلے اس نے لوہے کا ایک حلقہ نکالا۔مداری اس کے کناروں پر آگ لگاتے ہوئے بولا:”سب سے پہلے بندر اس آگ میں سے گزر کر دکھائے گا۔“اسی دوران بندر نے چپکے سے بونے کے بندھی رسی کو جلتی آگ سے لگایا،جس سے رسی دھیرے دھیرے جل کر ٹوٹ گئی۔رسی کے ٹوٹتے ہی بونا فوراً وہاں سے بھاگا۔اس سے پہلے کہ مداری اسے دوبارہ پکڑتا،بونا اس کی پہنچ سے دور بھاگ گیا۔بندر کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تھا۔کامی آزاد ہو کر پہاڑی کی دوسری طرف اپنی بستی میں اُترنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔اس واقعے کو گزرے بہت دن ہو گئے کامی کے خیالات بدل چکے تھے۔اب وہ اپنے قد کو کوسنے کے بجائے اپنی بستی کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگ گیا۔اب وہ اپنے عمل اور کردار سے قد آور بننا چاہتا تھا،کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ انسان کے چھوٹے قد سے کچھ نہیں ہوتا اس کا کردار بلند ہونا چاہیے۔ " لومڑی کی عقلمندی (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2371,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lomri-ki-aqalmandi-akhri-hissa-2371.html,"فائزہ شاہیہ کہہ کر بھیڑیا وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔لومڑی اس کی چال پر دل ہی دل مسکراتی ہوئی شیرنی کے دربار میں پہنچی۔لومڑی کو آتا دیکھ کر شیرنی اپنی کچھار سے باہر آئی اور بولی”کہو لومڑی کیسے آنا ہوا؟۔لومڑی ادب سے بولی،“اے جنگل کی ملکہ،جان کی امان پاوں تو کچھ عرض کروں؟۔شیرنی بولی،ہاں ہاں،کیا کہنا چاہتی ہو کہو؟۔لومڑی شیرنی کے قریب گئی اور تمام صورتحال سے آگاہ کیا جو بھیڑیا اسے بتا کر گیا تھا شیرنی غصے سے پاگل ہو گئی اور بولی”کہاں ہے وہ بد بخت بھیڑیا آج اس کی خیر نہیں ہے۔“لومڑی جلدی سے بولی،ملکہ عالیہ،غصے سے نہیں سمجھداری سے کام لیجیے،جس طرح وہ ہمیں لڑوانا چاہتا ہے ہم اس کو سزا اسی کی طرح چال کے ذریعے دینگے“۔(جاری ہے)شیرنی بولی،وہ کیسے؟لومڑی قریب جا کر شیرنی کو ساری بات سمجھا کر وہاں سے چل دی۔راستے میں ایک شکار کیے ہوئے ہرن کے خون سے اپنا منہ آلودہ کیا اور بھیڑیے کی تلاش میں نکل پڑی۔دور ایک گھنے درخت کے سائے میں لومڑی کو بھیڑیا اونگھتا نظر آیا،وہ قریب جا کر بولی”بھیڑیے بھائی،دیکھو میں شیر کے بچوں کا شکار کرکے آئی ہوں،پر تم شیر کو نہ بتانا کہ میں نے اس کے بچوں کا شکار کیا ہے“۔یہ سن کر بھیڑیا بدک کر کھڑا ہو گیا اور بے یقینی سے لومڑی کا چہرہ دیکھنے لگا،جہاں واقعی میں خون لگا تھا۔وہ خوشی میں جھوم گیا کہ اب جنگل میں فساد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔بھیڑیا اپنی خوشی چھپا کر خوشامدی لہجے میں بولا،”ارے واہ میری بہن،تم نے کیا کارنامہ کیا ہے۔میں تو تمہاری سمجھداری اور بہادری کا قائل ہو گیا کیا بات ہے تمہاری“۔لومڑی مسکرا کر چل دی۔کچھ دور جا کر وہ جھاڑیوں میں چھپ گئی اور بھیڑیے پر نظر رکھی۔بھیڑیا،لومڑی کے جاتے ہی اُٹھا اور چل پڑا۔لومڑی بھی اس کے پیچھے تھی۔وہ شیر کے دربار پہنچا لومڑی بھی اس کے پیچھے جا کر کھڑی ہو گئی۔بھیڑیا بلند آواز میں کہنے لگا”عالم پناہ،اے جنگل کے بادشاہ،اے ملکہ،یہ کیا ہو گیا؟کیا اب ایسا وقت بھی دیکھنا ہو گا کہ جنگل کے بادشاہ کے بچوں کو ایک معمولی اور کم عقل لومڑی اپنا شکار بنائے گی؟کیا بادشاہ کی حکومت میں یہ سب ہو گا اسی کے بچوں کے ساتھ؟۔شیرنی اور شیر اس کی آواز پر باہر آئے۔شیر گرج کر بولا،”کیوں چلا رہے ہو،بے وقوف بھیڑیے،اور کیا اول فول بک رہے ہو“؟بھیڑیے نے جب شیر کو غضب ناک دیکھا تو اس کی گھگھی بندھ گئی روتی صورت بنا کر بولا،”بادشاہ سلامت،لومڑی نے آپ کے بچوں کا شکار کر لیا ہے میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔اسے سخت سے سخت سزا دیجیے آپ“۔شیرنی آگے بڑھی اور بولی،”ہمارے بچے تو زندہ سلامت ہمارے پاس ہیں،مگر اب تم نہیں بچو گے میرا شکار بننے سے۔تمہیں سزا مل کر رہے گی۔غلط بات کرنے پر،لڑائی کروا کر جنگل کا سکون برباد کرنے پر اور دو لوگوں میں غلط فہمی پیدا کرنے کے جرم میں۔لومڑی نے ہمیں پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ تمہارے ارادے کیا ہیں جب ہی وہ موجود ہے تمہارے پیچھے۔بھیڑیے نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو لومڑی کو کھڑا پایا۔وہ سمجھ گیا کہ اس کی جنگل میں فساد کروانے کی سازش ناکام ہو گئی اس لئے اب بھاگنے میں ہی خیریت سمجھی،وہ سرپٹ بھاگ لیا اس طرح لومڑی کی عقلمندی سے جنگل کا امن برباد ہونے سے بچ گیا۔پیارے بچو!اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کبھی بھی کسی کی باتوں میں آکر کوئی قدم نہ اُٹھائیں جب تک کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں اور کانوں سے سن نہ لیں۔ " کھلونا گاڑی - تحریر نمبر 2370,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khilona-gari-2370.html,"بشریٰ ذیشان”ابو!مجھے یہ گاڑی دلا دیں ناں!“احمد نے ایک کھلونا گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمائش کی۔”نہیں بیٹا!ابھی تمہارے پاس جو اتنے سارے کھلونے ہیں،ان ہی سے کھیلو۔“احمد کے ابو نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔”لیکن ابو!میرے پاس ایسی ریموٹ کنٹرول گاڑی نہیں ہے۔میرا بہت دنوں سے ایسی گاڑی لینے کو دل چاہ رہا تھا۔میرے دوست کے پاس بھی ایسی گاڑی ہے،ابو!مجھے بھی چاہیے۔“”میں نے کہا ناں ابھی نہیں۔“احمد کے ابو نے کچھ سخت لہجے میں کہا۔احمد ناراض سا ہو کر بیٹھ گیا۔گھر آکر بھی اس کا مزاج خراب ہی رہا۔وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ میرے امی ابو کو میرا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ میرے پاس سارے کھلونے کتنے پرانے ہو گئے ہیں۔(جاری ہے)ان کے پاس میرے لئے وقت ہی نہیں ہے۔ہر وقت آفس کا کام کرتے رہتے ہیں۔امی ابو کو مجھ سے بالکل محبت نہیں ہے،انھیں صرف اپنے کام اور اپنی چیزوں کی پرواہ ہے بس۔وہ مستقل یہی سوچ رہا تھا۔اب اسے ایسی باتیں یاد آرہی تھیں،جب اس کے والدین نے اس کی کوئی خواہش پوری نہ کی ہو یا ڈانٹ دیا ہو۔آخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ امی ابو ہر وقت ڈانٹتے ہی رہتے ہیں،مجھے کبھی پیار نہیں کرتے۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔اس بات کو دو دن گزر گئے۔وہ اب اپنے والدین سے روٹھا ہوا سا رہنے لگا تھا۔وہ توجہ سے ان کی بات بھی نہیں سنتا۔احمد کے والدین اس کے اس رویے سے کافی پریشان تھے،لیکن ظاہر نہیں کرتے تھے۔احمد کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اس کے والدین کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔وہ جلدی سو گیا تھا۔اچانک پیاس سے اس کی آنکھ کھل گئی۔وہ پانی پینے اپنے کمرے سے باورچی خانے کی طرف جانے کے لئے نکلا۔ابھی وہ اندر ہی تھا کہ برآمدے میں اس کے والد کی آواز سنائی دی۔والد اس کی امی سے کہہ رہے تھے:”میں احمد کی وجہ سے پریشان ہوں۔“احمد کے ابو کی آواز سے افسوس اور پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔”میں بھی پریشان ہوں۔میرا خیال تھا کہ وہ ایک دو دن میں اس بات کو بھول جائے گا،لیکن وہ اس گاڑی کو بھول نہیں پا رہا ہے؟“”سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں!میں نے اس گاڑی کی قیمت معلوم کی تھی۔وہ گاڑی تین ہزار کی ہے۔اگر میں وہ گاڑی اس کو دلا دوں گا تو گھر کا خرچ چلانا مشکل ہو گا۔کاش!میں اپنے بیٹے کی خواہش پوری کر سکتا۔“احمد کے ابو کے لہجے میں بے بسی تھی اور شاید آنکھوں میں آنسو بھی ہوں۔”آپ فکر نہ کریں میں اس سے بات کرتی ہوں وہ سمجھ دار ہے،ہماری مجبوری سمجھ جائے گا۔“احمد کی امی نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔احمد پانی پیے بغیر اپنی چارپائی پر آکر بیٹھ گیا۔اب اسے بہت افسوس ہو رہا تھا کہ صرف ایک کھلونا گاڑی کی وجہ سے اس نے اپنے والدین کو اتنا دکھ دیا اور ان کے بارے میں اتنا غلط سوچا۔صبح اُٹھ کر اس نے بہت احترام سے امی ابو کو سلام کیا اور اپنے ابو کے گلے لگ گیا۔”ابو!آپ بہت اچھے ہیں۔“احمد نے اپنے ابو کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔احمد کے ابو اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔احمد نے اپنے ابو کے ساتھ خوشی خوشی ناشتہ کیا۔”امی!مجھے وہ گاڑی بالکل نہیں پسند،مجھے نہیں چاہیے۔“یہ کہتے ہی اس نے مسکراتے ہوئے اسکول کا بیگ اُٹھایا اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔احمد کے ابو نے حیرت سے بیوی کی طرف دیکھا۔وہ بھی حیران کھڑی تھیں۔”میں نے تو اس سے کچھ بھی نہیں کہا۔“احمد کی امی نے کہا۔”واقعی!“احمد کے ابو نے سوچتے ہوئے کہا۔پھر وہ آفس جانے کے لئے تیاری میں مشغول ہو گئے۔اب وہ بہت خوش نظر آرہے تھے۔ " لالچ بُری بلا ہے - تحریر نمبر 2368,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lalach-buri-bala-hai-2368.html,"علیزہ آصف،کراچی کریم گاؤں کا ایک غریب،لیکن ایمان دار لکڑہارا تھا۔وہ روز صبح جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لے آتا۔ایک دن وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے گیا تو اسے دور سے ایک چمکتی ہوئی چیز دکھائی دی۔قریب جا کر دیکھا تو وہ چمکتی ہوئی چیز ایک انگوٹھی تھی۔اس نے دائیں بائیں دیکھا،مگر اسے کوئی نظر نہ آیا۔اس نے آواز لگائی:”کوئی ہے؟یہ انگوٹھی کس کی ہے؟“اچانک اسے اپنے پیچھے ایک آہٹ محسوس ہوئی۔مڑ کر دیکھا تو اسے ایک چھوٹی سی لڑکی نظر آئی۔اس نے لکڑہارے سے کہا:”یہ انگوٹھی میری ہے۔مجھے دے دیں۔“لکڑہارے نے اسے وہ انگوٹھی دے دی۔اس نے پریشان ہو کر لڑکی سے کہا:”بیٹی!تم اس جنگل میں کیا کر رہی ہو؟آؤ میں تمہیں گھر چھوڑ دوں۔(جاری ہے)“اچانک وہ لڑکی ایک خوبصورت پری بن گئی۔کریم اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔پری نے کہا:”میرا نام سَم سَم پری ہے اور میں تمہارا امتحان لے رہی تھی۔میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ تم ایمان دار ہو یا نہیں۔“پھر اس پری نے کریم کو انعام میں ایک سونے کا پیالہ دیا اور کہا:”اگر تم کھانا بنانا چاہو تو اسے حکم دینا،اس میں مزے دار کھانا بن جائے گا۔تم اس سے جو کھانا لینا چاہو،یہ حاضر کر دے گا۔“کریم بہت خوش ہوا اور خوشی خوشی گھر کو چل دیا۔گھر پہنچ کر اس نے اپنی بیوی کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔اس کی بیوی نے پیالے کو حکم دیا:”ہمارے لئے کھانا لاؤ۔“اس نے جیسے ہی یہ کہا،بہت سارا مزے دار کھانا ان کے سامنے سج گیا۔کریم کے ایک پڑوسی زاہد کو بھی یہ بات معلوم ہو گئی۔دوسرے دن وہ صبح صبح جنگل میں پہنچ گیا اور پری کو ڈھونڈنے لگا۔اسے بھی ایک چمکتی ہوئی چیز نظر آئی۔وہ قریب گیا تو وہ ایک چمکتی ہوئی قیمتی انگوٹھی تھی۔اس نے جلدی سے انگوٹھی اُٹھائی اور سوچا چلو پری تو نہیں ملی یہ انگوٹھی ہی رکھ لوں۔یہ سوچ کر وہ چل دیا۔اچانک اس کے سامنے ایک چھوٹی بچی آگئی۔اس نے کہا:”یہ میری انگوٹھی ہے،مجھے دے دو۔“زاہد نے کہا:”یہ میری انگوٹھی ہے یہ میں تمہیں نہیں دوں گا۔“یہ کہہ کر زاہد بھاگنے لگا۔اچانک اس کے سامنے ایک خوف ناک شکل کی چڑیل آگئی اور اس نے زاہد سے کہا کہ تم بہت لالچی ہو یہ انگوٹھی مجھے واپس کر دو ورنہ تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔یہ سن کر زاہد نے انگوٹھی پھینکی اور گھر کی طرف بھاگا۔کئی دن تک وہ ڈر کے مارے باہر نہیں نکلا۔اس نے لالچ سے توبہ کر لی۔ " جانوروں سے محبت کرو - تحریر نمبر 2367,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/janwaron-se-muhabbat-karo-2367.html,"کسی گاؤں میں ایک نوجوان رہتا تھا۔پہلے وہ بہت بہادر تھا پھر اس کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ وہ بہت ڈرنے لگا۔ہوا کچھ یوں کے وہ رات کو اندھیرے میں جا رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک بکری کا بچہ بیٹھا ہوا ہے۔اس نے ایک زور دار ٹھوکر اس بکری کے بچے کو ماری۔وہ بکری کا بچہ درد سے کراہنے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور درد کی شدت سے اس کے دل سے بددعا نکلی۔وہ اپنے راستے پر چل دیا ابھی وہ چند قدم بھی نہ چل پایا تھا کہ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہاں بکری کا بچہ اسے نظر نہیں آیا۔اس نے اسے اپنا وہم جانا اور سر جھٹک کر آگے جانے لگا۔لیکن جوں ہی اس نے آگے کو دیکھا تو وہاں ایک بکری کا مردہ بچہ پڑا ہوا تھا۔اس کے اوسان خطا ہو گئے۔اب اس کی جان نکلے جا رہی تھی سخت سردی میں بھی ان کی قمیض پسینے کی وجہ سے گیلی ہو رہی تھی۔(جاری ہے)اب وہ بھاگنے کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا لیکن جس سمت بھی دیکھتا اسے مردہ بکری کا بچہ نظر آتا۔وہ اس لمحے کو کوس رہا تھا جب اس نے بکری کے بچے کو لات ماری تھی لیکن اب پچھتانے کا کیا فائدہ۔دل ہی دل میں وہ اپنے کیے پر شرمندہ تھا۔اس نے اپنے کیے پر سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کی۔اللہ تعالیٰ نے اسے اس مشکل سے نکالا اور وہ بمشکل اپنے گھر کو پہنچا۔لیکن آج بھی جب وہ کسی بکری کے بچے کو دیکھتا ہے تو اس کی حالت خراب ہو جاتی ہے۔معصوم اور بے زبان جانوروں کے ساتھ ظلم کرنے سے اس سے بہادری جیسی نعمت چھین لی گئی۔پیارے بچو!․․․آپ کبھی معصوم جانوروں پر ظلم نہ کرنا۔ " لومڑی کی عقلمندی (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2366,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lomri-ki-aqalmandi-pehla-hissa-2366.html,"فائزہ شاہایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بے حد خوبصورت اور گھنا جنگل تھا،جہاں سارے جانور خوشی سے رہتے تھے۔فاختائیں امن کے گیت گاتی تھیں،کوئل اپنی سریلی آواز میں نغمے سناتیں،یوں کہہ لیں کہ سارے جانور مل جل کر محبت سے رہتے تھے،ان ہی میں ایک حسد و جلن کا مارا بھیڑیا بھی تھا،جسے جنگل کا سکون ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح سے اس جنگل کا امن خراب کر دے،مگر وہ جنگل کے بادشاہ شیر سے ڈرتا بھی تھا۔ایک دن وہ شکار کی تلاش میں مارا مارا گھوم رہا تھا کہ اس کی نظر تالاب کے کنارے بیٹھی لومڑی پر پڑی۔اس کے قریب جا کر بھیڑیے نے گلا کھنکارا اور بولا،کیسی ہو بی لومڑی؟۔لومڑی نے چونک کر بھیڑیے کی جانب دیکھا اور چوکنا ہو کر بولی،خیریت ہے نا بھیڑیے بھائی؟بھیڑیا مسکین صورت بنا کر بولا،بس بہن نہ پوچھو۔(جاری ہے)لومڑی حیران ہو کر بولی،کیا ہوا پریشان لگ رہے ہو؟بھیڑیا غصے سے بولا،خیریت ہی تو نہیں ہے بہن،بی شیرنی زہر اگل رہی تھی تمہارے خلاف میرا تو غصے کے مارے برا حال ہو گیا۔لومڑی کچھ پریشان سی ہوئی،کیا بول رہی تھی شیرنی؟ارے بہن وہ کہہ رہی تھی کہ لومڑی کو اپنی ذہانت اور بہادری پر بہت ناز ہے بلاوجہ کا،ورنہ اس جیسا بے وقوف اور ڈر پوک تو کوئی جانور ہے ہی نہیں،اگر اتنی ہی چالاک اور عیار ہے لومڑی تو میرے بچے جو ابھی چند دنوں کے ہی ہے،انہیں کوئی نقصان پہنچا کر بتائے تو میں اس کی بہادری اور ذہانت کو مان لوں گی۔لومڑی دل میں مسکرائی اور کھڑی ہو گئی،چلو پھر ساتھ میرے،شیرنی کے سامنے ہی بات کرتے ہیں اور تم دونوں کے سامنے ہی میں اس کے بچوں کو اپنا نوالہ بنا کر دکھاتی ہوں۔بھیڑیا کھسیانا سا ہوا اور بات بدلتے ہوئے بولا،ارے میری بہن،تم اکیلی ہی جاؤ،مجھے تو ڈر لگتا ہے اس کے غصے سے۔لومڑی،بھیڑیے کے اس تیزی سے رنگ بدلنے پر مسکرانے لگی اور بولی،ابھی تو تمہیں غصہ آرہا تھا شیرنی پر اب کیا ہوا بھیڑیے بھیا؟بھیڑیا جانتا تھا کہ لومڑی بہت چالاک ہے،خود کو سنبھالتے ہوئے بولا،ہاں غصہ تو تھا پر وہ جنگل کی ملکا ہے،مجھ کمزور سے بھیڑیے پر وہ چڑھ دوڑے گی تمہاری تو بات ہی الگ ہے،تم اپنی عقلمندی سے اپنا کام کر آؤ گی،اس لئے مجھے تو اس معاملے سے دور ہی رکھو۔(جاری ہے) " نا شکرا ہرن - تحریر نمبر 2365,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/na-shukra-hiran-2365.html,"ڈاکٹر جمیل جالبییہ اس زمانے کا ذکر ہے جب بندوق ایجاد نہیں ہوئی تھی اور لوگ تیر کمان سے شکار کھیلتے تھے۔ایک دن کچھ شکاری شکار کی تلاش میں جنگل میں پھر رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ایک ہرن پر پڑی۔وہ سب اس کے پیچھے ہو لیے۔شکاری ہرن کو چاروں طرف سے گھیر رہے تھے اور ہرن اپنی جان بچانے کے لئے تیزی سے بھاگ رہا تھا۔جب وہ بھاگتے بھاگتے تھک گیا تو ایک گھنی انگور کی بیل کے اندر جا چھپا۔شکاریوں نے اسے بہت تلاش کیا،لیکن اس کا کچھ پتا نہیں چلا۔آخر مایوس ہو کر وہ وہاں سے لوٹنے لگے۔(جاری ہے)جب کچھ وقت گزر گیا تو ہرن نے سوچا کہ اب خطرہ ٹل گیا ہے اور وہ بے فکر ہو کر مزے سے اسی انگور کی بیل کے پتے کھانے لگا،جس میں وہ چھپا ہوا تھا۔ایک شکاری جو سب سے پیچھے تھا،جب وہاں سے گزرا تو انگور کی بیل اور اس کے گچھوں کو ہلتے دیکھ کر سمجھا کہ یہاں ضرور کوئی جانور چھپا ہے۔اس نے تاک کے کئی تیر مارے۔اتفاق سے ایک تیر ہرن کو جا لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔مرتے ہوئے ہرن نے اپنے دل میں کہا،”اے بدبخت!تیری نا شکری کی یہی سزا ہے۔مصیبت کے وقت جس نے تجھے پناہ دی،تو نے اسی پر ظلم ڈھایا۔”اتنے میں شکاری بھی وہاں پہنچ گئے۔کیا دیکھتے ہیں وہی ہرن مرا پڑا ہے۔ " مبشر کی بہادری - تحریر نمبر 2364,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mubashar-ki-bahaduri-2364.html,"روبینہ نازعاشر ایک دبلا پتلا مگر پرتیلا لڑکا تھا۔گھر،سکول،کھیل کے میدان میں ہر جگہ نمایاں رہتا تھا۔سب اسے سراہتے اسے اہمیت اور محبت دیتے۔ہوتے ہوتے عاشر ڈینگیں بھی مارنے لگا تھا جبکہ اس سے دو برس بڑا اس کا بھائی مبشر پولیو کی وجہ سے ہر کام میں اس سے پیچھے رہتا تھا۔سب مبشر کا مذاق اُڑاتے اور معذوری کی وجہ سے اسے کند ذہن اور ڈر پوک سمجھتے۔کھیل کے میدان میں اس کی پولیو زدہ ٹانگیں دیکھ کر کوئی بھی اسے اپنی ٹیم میں شامل نہ کرتا اور وہ صرف تالیاں بجانے والوں میں بیٹھا سوچتا رہتا کہ میں ان سب کو کیسے یقین دلاؤں کہ میں کند ذہن اور ڈر پوک نہیں ہوں بلکہ مجھ میں بھی بہت کچھ کرنے کی ہمت اور لگن موجود ہے۔ایک دن اس کے ابو اپنے آفس کے کام سے دوسرے شہر گئے،گھر پر دونوں بھائی اپنی امی کے ساتھ اکیلے تھے اسی رات کو ان کے گھر ایک چور آگیا جس نے چاقو دیکھا کر ان کی امی سے گھر کی چابیاں مانگ لیں۔(جاری ہے)عاشر ڈر کے مارے اپنی امی کے پیچھے چھپ گیا اور امی نے گھر کی چابیاں چور کے حوالے کر دیں۔چور جیسے ہی چابیاں اٹھانے کے لئے زمین پر جھکا تو مبشر نے پیچھے سے اپنی لاٹھی اس کے سر پر ماری تو چور کے ہاتھ سے چاقو تو گر گیا۔ عاشر،مبشر اور ان کی امی بھاگ کر باہر نکلے اور دروازہ باہر سے بند کر دیا۔چنانچہ کچھ ہی دیر میں پولیس نے چور کو پکڑ لیا اور علاقے کے لوگوں نے مبشر کی بہت تعریف بھی کی اور پولیس انسپکٹر فیصل حق نے اسے بہادری کا سرٹیفکیٹ بھی دیا۔ " بغداد کا چور ․․․ بعد کا درویش - تحریر نمبر 2363,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baghdad-ka-chor-baad-ka-darvesh-2363.html,"محمد ایوب قائم خانی،ڈگریپیارے بچو!بہت پرانے وقتوں کی بات ہے۔ابنِ ساباط بغداد کا نامی گرامی چور تھا۔وہ چوری اور ڈکیتی میں ایسا ماہر تھا کہ ہزاروں چوریاں کرنے کے باوجود قانون کی گرفت میں نہیں آتا تھا۔آخر کب تک بچتا ایک دن اسے گرفتار کر ہی لیا گیا اور قانون وقت کے مطابق اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا۔بعد ازاں اسے جیل بھیج دیا گیا۔بغداد کے لوگ اس کا ذکر ہاتھ کٹا شیطان کے نام سے کرتے تھے۔وہ قید بامشقت کاٹ رہا تھا۔دس سال قید کاٹنے کے بعد ایک دن وہ جیل سے فرار ہو گیا۔جیل سے باہر آتے ہی اپنے پیشے یعنی چوری کو ازسرِ نو شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ایک ہاتھ کٹ جانے اور قید و بند کی صعوبتیں اُٹھانے کے باوجود اس کے مزاج پر ذرہ برابر اثر نہیں ہوا تھا۔(جاری ہے)ایک رات وہ اپنی مہم پر نکلا۔پھرتے پھراتے ایک بڑے سے گھر میں داخل ہوا۔گھر کے احاطہ کے چاروں طرف کمرے تھے وہ ایک بڑے کمرے میں گیا،جہاں کھجور کے پتوں کی چٹائی بچھی ہوئی تھی،جائے نماز ایک تکیہ اور چند ٹوپیاں رکھی ہوئی تھیں اور دوسری طرف پشمینہ کے چند تھان،شالیں اور کپڑوں کے تھان لاوارثی کی حالت میں پڑے تھے۔بغداد کے چور نے چادر بچھا کر اس کے اوپر تھان رکھے اور ایک گٹھڑی بنائی اور اس کو باندھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن ایک ہاتھ نہ ہونے کی وجہ سے اس سے گرہ نہیں لگ رہی تھی وہ ہانپتا ہوا بیٹھ گیا عین اسی وقت ایک ضعیف شخص کمرے میں داخل ہوا۔ساباط کو گٹھڑی بناتا دیکھ کر کہا،”بھائی یہ کام تم کسی کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتے۔میں تمہاری مدد کرتا ہوں ساباط نے اسے اپنے ساتھ ملا کر کپڑوں کی دو گٹھڑیاں بنائیں۔بڑی گٹھڑی ضعیف شخص نے اپنے سر پر رکھ لی اور چھوٹی اور کم وزن گٹھڑی ساباط کو دے کر کہا کہ”تمہارا ہاتھ نہیں ہے اس لئے تم کم وزن اُٹھاؤ اور جہاں کہو گے میں اسے پہنچا دوں گا۔“ساباط اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑا۔راستے میں ایک جگہ چڑھائی کی وجہ سے ضعیف شخص کو بڑی دقت پیش آئی،ٹھوکر لگی اور گٹھڑی سمیت نیچے گر گیا۔ساباط نے غصے میں گالیاں بکیں اور اس کی کمر پر ایک زور دار لات رسید کی،ضعیف شخص جوں توں کھڑا ہوا اور کمزوری کی وجہ سے گرنے کی معافی مانگنے لگا۔ابن ساباط نے طاقت کے زعم میں دوبارہ بڑی گٹھڑی عمر رسیدہ شخص کے سر پر رکھ کر سفر شروع کیا،چلتے چلتے وہ ایک کھنڈر میں جا پہنچے جو بغداد کے چور کی پناہ گاہ تھی،پھر ابن ساباط نے بزرگ سے کہا کہ دیکھو پہلے چوری کرنے میں پہنچا تھا اور تم بعد میں آئے تھے لہٰذا یہ تمام چوری کا مال میرا ہوا اور تمہیں مجھ جیسا سردار پورے بغداد میں نہیں مل سکتا لہٰذا آج سے تم میرے شاگرد ہو۔بزرگ شخص نے ادب و احترام سے عرض کیا،”بھائی یہ تمام مال تمہیں مبارک ہو۔افسوس میں تمہاری کوئی خدمت نہیں کر سکا بلکہ اپنی کمزوری کی وجہ سے تمہارے لئے پریشانی کا باعث بنا،جس کے لئے معافی مانگتا ہوں اور رخصتی کی اجازت چاہتا ہوں۔خدا حافظ کہہ کر وہ شہر کی جانب چل پڑا۔دوسری طرف ابن ساباط کے دل و دماغ اور ضمیر کو اپنے ساتھی کے حسن سلوک نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور ضمیر کی خلش نے اسے بے چین کر دیا تھا۔صبح ہوتے ہی بغداد کا چور اس رات کے ساتھی اجنبی چور کی تلاش میں نکلا،تاکہ اپنے گزشتہ رات کے سلوک کی معافی مانگ سکے یہی سوچتا ہوا وہ رات والی عمارت کے باہر جا پہنچا۔جہاں رات کو اس نے چوری کی تھی،مگر وہاں چوری کے بعد کوئی افراتفری نظر نہ آئی۔بلکہ لوگ جوق در جوق اس گھر میں احترام سے جاتے نظر آئے۔بغداد کے چور نے ایک شخص سے پوچھا کہ،”یہ کس کا مکان ہے۔“اس نے کہا کہ،”لگتا ہے تم بغداد میں نئے ہو۔یہ بابرکت مکان ہمارے شیخ حضرت جنید بغدادی کا آستانہ علم ہے۔“ابن ساباط نے نام تو سن رکھا تھا مگر دیدار کی سعادت سے اب تک محروم تھا۔سوچا کہ آج اتفاقاً اس نیک و بزرگ ہستی کا دیدار ہی کر لوں۔اندر جا کر کمرے میں جھانکا تو دیکھا وہی رات والا عمر رسیدہ ساتھی مصلے پر بیٹھا درس دے رہا ہے۔اور باادب لوگوں سے کمرا بھرا پڑا ہے۔اتنے میں اذان ہوئی،سب نماز کے لئے مسجد جانے لگے۔بغداد کا مشہور اور ظالم چور ابن ساباط بے ساختہ روتے ہوئے آپ کے قدموں میں گر پڑا اور گزشتہ رات کی بد اخلاقیوں پر معافی کا طلب گار ہوا۔شیخ جنید بغدادی نے اسے زمین سے اُٹھا کر اپنے گلے سے لگا لیا۔اور مسکراتے ہوئے فرمایا۔”در توبہ ابھی بھی کھلا ہے۔“ابن ساباط کی دنیا ایک لمحے میں بدل چکی تھی۔وہ شیخ کے حلقہ وارادت میں داخل ہو گیا اور وہ ہاتھ کٹا شیطان و سابو بغداد کا شاطر چور شیخ جنید بغدادی کے زیر سایہ عبادت،ریاضت میں وہ نام لیا کہ اب اسے بغداد کے لوگ بغداد کے چور کے بجائے شیخ احمد ابن ساباط کے نام سے نہایت عزت و احترام سے جانتے تھے۔اسی ابن ساباط کو ایک مرد خدا جنید بغدادی کے حسن و اخلاق و کردار نے چند لمحوں میں بھی خاصان خدا کی صف میں داخل کر دیا اور بغداد کے چور کو چند لمحوں میں سیدھی راہ پر لانے کی کرامت کا چرچا زبان زد عام ہو گیا۔ " مغرور بادشاہ کا انجام (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2361,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maghroor-badshah-ka-anjaam-akhri-hissa-2361.html,"محمد فہیم عالمیہ غلام دوستوں سے معاوضہ نہیں لیتا․․․․․آداب․․․․!“اتنا کہہ کر وہ دربار سے رخصت ہو گیا۔بادشاہ سمیت تمام درباری حیرت و تعجب کا بت بنے اسے تک رہے تھے۔وہ اپنے ملک یونان واپس آ گیا۔آج ایک سال بعد اس کا پھر اس پڑوسی ملک میں آنا ہوا تھا۔اسے ایک جڑی بوٹی کی تلاش تھی۔اور وہ جڑی بوٹی صرف اس ملک کے جنگلات میں پائی جاتی تھی۔اپنی مطلوبہ جڑی بوٹی تلاش کرنے کے بعد اس کے ذہن میں خیال آیا۔چلو!لگے ہاتھوں بادشاہ سلامت سے ہی مل لیتے ہیں۔ذرا حال و احوال جان لیتے ہیں۔وہ بڑے ہی اشتیاق سے دربار میں حاضر ہوا تھا۔لیکن اس مغرور بادشاہ نے اس سے جو بے رخی کا برتاؤ کیا تھا۔اس سے اس کا دل ٹوٹ گیا تھا۔اسے بادشاہ سلامت سے کم از کم اس سلوک کی امید نہ تھی۔(جاری ہے)بادشاہ نے اس کے احسان کا بدلہ بہت ہی برے طریقے سے دیا تھا۔اس کے ذہن میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔نظر انداز کیا جانا بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے۔دل و دماغ میں آتش فشاں سے پھٹنے لگتے ہیں۔وہ بھی اسی تکلیف سے گزر رہا تھا۔اسے پتہ ہی نہ چلا کب اس کا سفر تمام ہوا اور وہ اپنے ملک پہنچ گیا۔اس نے اس مغرور بادشاہ کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔گھر جاتے ہی وہ اپنے مخصوص کمرے میں گھس گیا۔جس میں بیٹھ کر وہ دوائیاں بنایا کرتا تھا۔کافی دیر کے بعد وہ کمرے سے نکلا تو اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سے تھیلی تھی۔”احسان․․․!یہ تھیلی پڑوسی ملک کے بادشاہ کو دے آؤ۔اسے میرا سلام کہنا۔اور کہنا کہ یونانی حکیم داؤد کی طرف سے یہ قبول فرمائیے۔“اس نے اپنے وفادار غلام کو وہ تھیلی تھماتے ہوئے کہا تھا۔غلام تھیلی لے کر اس بادشاہ سلامت کی خدمت میں پہنچا۔”حضور!ہمارے ملک یونان کے مایہ ناز شاہی حکیم داؤد نے یہ نذرانہ آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔“غلام نے تھیلی بادشاہ سلامت کو دیتے ہوئے کہا۔بادشاہ نے تھیلی کھولی تو اس میں چند بیج اور ساتھ ہی ایک خط تھا۔اس میں لکھا ہوا تھا۔”السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ!حضور کا اقبال بلند ہو!عالی جاہ․․․․!یہ چند بے حد قیمتی بیج ہیں جو میں نے برسوں کی محنت و تلاش کے بعد حاصل کئے ہیں۔آپ دہکتے ہوئے انگاروں پر ان کو جلا کر ان کی دھونی لیجئے۔انشاء اللہ!آپ کو حیرت انگیز فائدہ ہو گا۔“والسلام حکیم داؤد یونانیبادشاہ سلامت نے حیرت و تعجب سے ان بیجوں کی طرف دیکھا۔وہ بالکل ایسے ہی بیج تھے۔جیسے اس حکیم نے ان کی گردن کا علاج کرتے ہوئے استعمال کیے تھے۔بادشاہ سلامت نے دہکتے ہوئے انگارے منگوائے اور بیج ان پر ڈال دیئے۔جیسے ہی بادشاہ نے دھونی لینے کے لئے اپنی ناک آگے کی اسے ایک زور دار چھینک آئی۔اور اس کی گردن کے مہرے اپنی جگہ سے سرک گئے۔اب اس کی گردن اکڑ کر رہ گئی۔یہ سب کچھ اس قدر آناً فاناً ہوا کہ سب دنگ رہ گئے۔”اس گستاخ غلام کو پکڑ لو!اور جاؤ!اس کے گستاخ آقا حکیم داؤد یونانی کو ہمارے حضور بیڑیوں میں جکڑ کر حاضر کرو․․․․․آ․․․․ہ․․․․․!“بادشاہ کراہ کر رہ گیا۔کیونکہ گرج دار آواز میں سپاہیوں کو حکم دیتے ہوئے اس نے اپنی گردن کو ذرا سی حرکت دی تھی۔بادشاہ سلامت کا حکم پاتے ہی سپاہی حکیم کو گرفتار کرنے کے لئے ملک یونان کی طرف دوڑے۔حکیم کے مطب پر الو بول رہے تھے۔جب کہ حکیم کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔سپاہی نے ملک یونان کا کونا کونا چھان مارا لیکن حکیم کہیں نہ ملا۔سپاہی مایوس واپس لوٹ آئے۔یوں اس مغرور بادشاہ کو اپنے غرور و تکبر کی سزا مل گئی۔اب وہ پچھتا رہا تھا۔”کاش․․․․!میں تکبر میں آکر اپنے محسن حکیم داؤد سے بے رخی نہ برتتا۔اور احسان کا بدلہ احسان سے دیتا۔کاش․․․․․․“۔ " مغرور بادشاہ کا انجام (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2360,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maghroor-badshah-ka-anjaam-pehla-hissa-2360.html,"محمد فہیم عالم”حضور!السلام علیکم!آپ کا یہ ادنیٰ غلام آپ کی خدمت میں آداب عرض کرتا ہے۔“اس نے جھک کر بادشاہ سلامت کو سلام پیش کیا اور بلند آواز میں بولا۔”ہاں تو برہان الدین!میں کہہ رہا تھا․․․․“بادشاہ سلامت نے ایک نظر اس کی طرف دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے اس کے سلام کا جواب دیا اور پھر دائیں پہلو میں بیٹھے اپنے وزیر یا تدبیر برہان الدین کی طرف متوجہ ہو گیا۔بادشاہ سلامت کی اس بے رخی پر اسے حیرت و تعجب کا ایک زور دار جھٹکا لگا۔”بادشاہ سلامت اس وقت مصروف ہیں۔شاید اس لئے توجہ نہیں کی“اس نے سوچا اور دربار کے ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔بادشاہ سلامت اپنے وزیر سے کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔وہ بے چین اور منتظر نگاہوں سے بادشاہ سلامت کی طرف دیکھ رہا تھا۔(جاری ہے)”کہ شاید بعد میں وہ اس کی طرف متوجہ ہوں“ اُس نے سوچا۔”کوئی اور فریادی تو باقی نہیں ہے؟“بادشاہ سلامت وزیر سے گفتگو مکمل کر چکے تو سوالیہ نظروں سے دروازے پر کھڑے منادی کی طرف دیکھا۔”نہیں حضور!․․․․“منادی نے عرض کیا۔”ٹھیک ہے!دربار برخواست کیا جاتا ہے“بادشاہ سلامت کی بارعب آواز دربار میں گونجی۔تمام درباری دروازے کا رخ کرنے لگے۔”اوہ․․․․!تو یہ بات تھی۔حضور!مجھ سے اکیلے میں ملاقات کرنا چاہتے تھے۔“اس نے دل ہی دل میں سوچا اور وہ دروازے سے گزرتے ہوئے درباریوں کو دیکھتا رہا۔یہاں تک کہ تمام دربار خالی ہو گیا۔بادشاہ سلامت اپنے تخت سے اٹھے اور دروازے کی طرف بڑھے ان کے ساتھ وزیر یا تدبیر اور خدام بھی تھے۔وہ بھی دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا۔بادشاہ سلامت نے گزرتے ہوئے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھا اور باہر نکل گئے۔وہ ہکا بکا انہیں جاتے دیکھتا رہا۔اسے ان سے کم از کم یہ امید نہ تھی۔جب تک بادشاہ سلامت نظروں سے اوجھل نہ ہو گئے اس نے ان سے نظریں نہ ہٹائیں پھر وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے دروازے کی طرف بڑھا۔مارے غم و غصے کے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔باہر اس کا گھوڑا بندھا ہوا تھا۔وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اس کو ایڑ لگا دی۔کچھ ہی دیر بعد اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کر رہا تھا۔وہ اپنے ملک یونان کا شاہی طبیب تھا۔اس کا نام حکیم داؤد تھا۔وہ بہت ہی قابل اور ذہین آدمی تھا۔یونان کے بادشاہ سلامت سمیت ہر آدمی اسے بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔تقریباً ایک سال قبل اچانک اس کے پڑوسی ملک کا بادشاہ گھوڑے سے گر پڑا جس سے اس کی گردن کے مہرے سرک گئے اور بادشاہ اپنی گردن ہلانے سے قاصر ہو گیا۔اس کی گردن اکڑ کر رہ گئی تھی۔اس کے ملک کے شاہی طبیبوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح بادشاہ کی گردن کے مہرے واپس اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں مگر وہ ناکام رہے۔بادشاہ بے حد تکلیف میں تھا۔اکڑی ہوئی گردن کے ساتھ اس کے لئے ایک ایک لمحہ گزارنا بھاری ہو رہا تھا۔ان دنوں یہ یونانی حکیم داؤد اس پڑوسی ملک میں اپنے ایک دوست حکیم کو ملنے آیا ہوا تھا۔اس کو بادشاہ سلامت کی بیماری کی خبر ملی تو وہ دربار میں حاضر ہوا۔”حضور!دہکتے ہوئے انگارے منگوائیے․․․․“اس نے عرض کیا۔بادشاہ سلامت نے ایک خادم کو ہاتھ سے اشارہ کیا کچھ ہی دیر بعد وہ خادم دہکتے ہوئے انگارے لیے حاضر ہو گیا۔حکیم داؤد نے اپنے تھیلے سے چند بیج نکالے اور انگاروں پر ڈال دیئے۔چند لمحوں بعد بیج جلنے لگے۔اور دھواں اُٹھنا شروع ہوا۔”حضور!جلدی سے ایک زور دار سانس لیجئے․․․․․!“اس نے چلا کر کہا بادشاہ سلامت نے جیسے ہی زور دار سانس لیا۔دھواں ناک میں داخل ہونے کی وجہ سے بادشاہ سلامت کو ایک زور دار چھینک آئی۔اور مہرے اپنی جگہ واپس آگئے۔”آہا․․․․میری گردن ٹھیک ہو گئی․․․․․“بادشاہ سلامت نے جیسے ہی اپنی گردن ہلائی مارے خوشی کے وہ چلا اُٹھے۔”مانگ اے پردیسی طبیب!کیا مانگتا ہے․․․․․؟“بادشاہ سلامت نے پُرجوش لہجے میں پوچھا۔”حضور!خدا کا دیا ہوا اس غلام کے پاس سب کچھ ہے۔آپ ہمارے ملک یونان کے بادشاہ کے دوست ہیں بادشاہ یونان اس خادم کو دوست رکھتے ہیں۔اور دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے۔(جاری ہے) " فرشتہ صفت انسان - تحریر نمبر 2359,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/farishta-sift-insan-2359.html,"پروفیسر ڈاکٹر ایف ایچ فاروقیایک نئی آباد ہونے والی بستی میں مکان نمبر 15 عمر دین کا تھا،جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس مکان میں جن بھوت رہتے ہیں۔اس محلے میں تیس مکانات تھے۔عمر دین نے مکان پر رنگ روغن کروا لیا تھا۔اتوار کے دن ایک ٹرک میں سامان آیا۔نئے آنے والے کرائے دار کا نام ملک ہدایت اللہ تھا۔ملک صاحب نے دوسرے دن ایک گائے ذبح کرکے تمام گوشت پورے محلے میں تقسیم کر دیا۔ملک صاحب بہت سخی انسان تھے۔غریبوں کو کھانا کھلانا،مصیبت میں ہر ایک کی مدد کرنا،ہر نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ملک صاحب کی خوبی تھی۔ملک صاحب دولت مند آدمی تھے۔وہ اس غریب محلے میں صرف اس لئے کرائے پر آئے تھے کہ وہ غریبوں کے کام آسکیں۔چاہتے تو کسی اچھے علاقے میں بہترین مکان بھی خرید سکتے تھے۔(جاری ہے)ایک ماہ بعد رات کے پچھلے پہر ملک صاحب کے مکان کی چھت پر عورتوں کے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔پڑوس کے لوگ ڈر گئے۔ملک صاحب کے پاس ایک پستول اور ایک دونالی بندوق تھی،مگر ملک صاحب نے جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ملک صاحب سوچ رہے تھے کہ صرف رات کو ہی بھوت مکان کی چھت پر آکر شور مچاتے ہیں،مکان کے اندر کمروں یا صحن میں کیوں گھومتے پھرتے نظر نہیں آتے۔صرف ڈرانے کے لئے رات کو ہی کیوں چھت پر آتے ہیں۔ایک ہفتہ مزید مکمل سکون سے گزر گیا،مگر ایک ہفتے کے بعد پھر چھت پر گھوڑے،گدھے کے دوڑنے اور عجیب و غریب ڈراؤنی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ایک ہفتہ مکمل خاموشی رہی۔ملک صاحب نے چھت پر دو تین ٹوٹی پھوٹی لوہے کی الماریاں رکھ کر الماریوں کے پیچھے تین کرسیاں بھی رکھ دیں۔چھت پر جب بھی بڑی بڑی لائٹس ملک صاحب لگواتے دوسرے دن ہی وہ ٹوٹ جاتیں اور چھت پر مکمل اندھیرا ہی رہتا۔ایک دن ملک صاحب عشاء کی نماز مسجد میں ادا کرنے کے بعد اپنے دو محافظوں کے ساتھ الماریوں کے پیچھے لگی ہوئی کرسیوں پر خاموشی سے بیٹھ جاتے۔دائیں بائیں دونوں طرف محافظ اور درمیان میں ملک صاحب بندوق لے کر بیٹھ جاتے۔ملک صاحب نے محافظوں کو سمجھا دیا تھا کہ گولی نہ چلانا۔دو دن گزرنے کے بعد رات کے پچھلے پہر انھوں نے ایک سایہ چھت کی دیوار پر دیکھا۔ملک صاحب اور اُن کے ساتھی ہوشیار ہو گئے،مگر وہ چاہتے تھے کہ سایہ ذرا نزدیک آجائے۔ملک صاحب اور اُن کے ساتھیوں نے مکمل خاموشی اختیار کی،مگر اپنی اپنی پستول اپنے اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے سنبھال لیں۔لوہے کی الماری کے پیچھے سوراخوں سے ملک صاحب اور اُن کے ساتھیوں نے مکمل جائزہ لیا۔سایہ چھت کے بالکل بیچ میں بیٹری سے چلنے والا ٹیپ ریکارڈ رکھ کر بجانے لگا۔پہلے آواز کم،پھر آہستہ آہستہ بلند کرتا گیا۔ملک صاحب نے ایک ہوائی فائر کر دیا۔سایہ ڈر کر بھاگنے لگا تو ملک صاحب اور اُن کے ساتھیوں نے اسے پکڑ لیا۔وہ کسی جانور کی کھال پہنے ہوئے تھے اور سر پر مصنوعی سینگ لگا رکھے تھے۔ملک صاحب نے خفیہ لائٹس روشن کیں تو دیکھا کہ وہ کوئی آدمی تھا۔ملک صاحب نے اسے پکڑ لیا اور نیچے کمرے میں لے آئے۔وہ آدمی تھر تھر کانپ رہا تھا۔ملک صاحب نے کہا:”میں تم کو جان سے مار دوں گا۔مجھے اصل بات بتاؤ۔تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟“اس نے ہاتھ جوڑ لیے اور بولا:”میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔مجھے معاف کر دیں۔“اس نے مزید کہا:”وہ عمر دین کا رشتے دار ہے اور کسی بات پر ان سے لڑائی چل رہی ہے۔ہم یہ مکان اس سے کرائے پر لینا چاہتے ہیں،لیکن عمر دین کی ضد ہے کہ وہ ہمیں نہیں دیں گے۔لہٰذا ہم نے اُن کے کرائے دار بھگانے کا یہ طریقہ اختیار کیا تھا۔“اس نے ملک صاحب سے درخواست کی کہ وہ اس بات کا تذکرہ کسی سے نہ کریں۔ہماری عزت کا خیال کریں،ورنہ ہم بہت بدنام ہو جائیں گے۔ملک صاحب نے کہا:”تم فکر نہ کرو۔میں کسی سے بھی اس بات کا ذکر نہیں کروں گا اور تمہارا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کروں گا۔“ملک صاحب نے اسے گھر جانے کی اجازت دے دی۔دوسرے دن ملک صاحب نے عمر دین کو بلایا اور انھیں سمجھایا کہ رشتوں کا احترام کرنا چاہیے۔اتحاد میں بڑی برکت ہے۔آپ کے جو رشتے دار آپ سے یہ مکان کرائے پر لینا چاہتے ہیں،میری ضمانت پر آپ انھیں دے دیں۔اسی گلی میں ایک اور مکان خالی ہو رہا ہے،میں وہاں منتقل ہو جاؤں گا۔اپنے اس رشتے دار سے اختلاف ختم کر دیں۔اسی میں اللہ برکت دے گا۔دوسرے دن ملک صاحب نے دونوں خاندانوں کو اپنے گھر بلایا اور ان کی صلح کروا دی۔عمر دین کے رشتے دار ملک صاحب کے اس سلوک سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہو گی کہ آپ اسی گھر میں رہیں۔عمر دین سے صلاح ہو گئی ہے،یہی بات سب سے اچھی ہے۔ملک صاحب نے بھوت والے قصے کا ذکر کبھی کسی سے نہیں کیا۔جو دوسروں کے عیب چھپاتا ہے اللہ بھی اس کے عیب چھپاتا ہے۔ " وقت ایک سا نہیں رہتا - تحریر نمبر 2358,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/waqt-aik-sa-nahi-rehta-2358.html,"جاوید بسامبہت دور کہیں ایک باغ کے قریب تین دوست رہتے تھے۔وہ اکثر باغ کی باڑ پر بیٹھے نظر آتے۔باڑ کے ساتھ ہی ایک بڑا تالاب بھی تھی۔جب سورج کی شعاعیں درختوں کے پتوں اور پانی پر چمک رہی ہوتیں اور تیز ہوا سائیں سائیں کر رہی ہوتی تو کچھ دور ایک درخت پر رہنے والا اُلو اُڑ کر باڑ پر آجاتا اور زور سے آواز نکالتا۔اسی وقت تالاب کے پانی میں لہریں پیدا ہوتیں اور ایک بڑا سبز مینڈک اپنا سر نکال کر دیکھتا۔پھر وہ بھی تیرتا ہوا پانی سے باہر نکل آتا اور پھدکتا ہوا باڑ کے پاس آجاتا،اچانک کُٹ کُٹ․․․․کی آواز آتی اور ایک موٹی سی کالے پروں والی مرغی باغ کے کسی کونے سے نمودار ہوتی اور اس محفل میں شریک ہو جاتی۔تینوں اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے اور اپنے اپنے دل کا حال سناتے۔(جاری ہے)اُلو کو انسانوں سے شکایت تھی کہ وہ اسے پسند نہیں کرتے۔مینڈک کو تالاب کے آلودہ ہونے والے پانی کا غم تھا اور مرغی اس بات پر خفا تھی کہ فارم کا مالک اسے انڈوں پر بیٹھنے کیوں نہیں دیتا۔ایک دن تینوں اسی طرح باتیں کر رہے تھے کہ ان میں ایک دلچسپ بحث چھڑ گئی۔اُلو اور مینڈک کا خیال تھا کہ کسی بھی انسان کے لئے اپنے حالات کو بدلنا بہت مشکل کام ہے۔جب کہ مرغی کا کہنا تھا کہ اگر کوشش کی جائے تو حالات بدل سکتے ہیں۔اُلو نے مرغی کو قائل کرنے کی کوشش کی اور بولا:”چلو،میں تم کو ایک نوجوان لڑکے کا قصہ سناتا ہوں۔“مرغی سنبھل کر بیٹھ گئی۔اُلو کچھ سوچتا رہا پھر بولا:”پہلے میں بہت دور ایک آٹا پیسنے کی چکی میں رہتا تھا۔اس کا مالک ایک ظالم آدمی تھا۔وہ اپنے ملازموں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا تھا۔وہاں ایک نوجوان لڑکا بھی کام کرتا تھا۔ظالم مالک اس سے بہت زیادہ کام لیتا اور بہت کم تنخواہ دیتا تھا۔لڑکا بے روزگاری کی وجہ سے مجبور تھا۔وہ سارا دن کام میں لگا رہتا تھا۔اسے سارا دن سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں ملتی تھی،لیکن اتنا کام کرنے کے باوجود مالک اس سے خوش نہیں تھا۔وہ بات بات پر اسے ڈانٹتا اور کبھی تو مار بھی بیٹھتا تھا۔ایک دن اس نے لڑکے کو مار مار کر اس کا منہ سجا دیا۔آخر وہ روتا ہوا وہاں سے چلا گیا اور پھر کبھی وہاں نہیں آیا۔میرا خیال ہے،آج بھی وہ اسی طرح کہیں چھوٹا موٹا کام کر رہا ہو گا اور ضرور مار کھاتا ہو گا۔“یہ کہہ کر اُلو خاموش ہو گیا۔مرغی نے انکار میں گردن ہلائی اور کہا:”یہ ضروری نہیں کہ وہ آج بھی بُری حالت میں ہو،کیونکہ میں جانتی ہوں کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔“مینڈک نے کہا:”مرغی بہن!میرا خیال ہے کہ حالات بدلنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔خیر،دوستو!مجھے بھی ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔تمہیں معلوم ہے،میری دنیا تو پانی تک محدود ہے۔میں تالاب میں وقت گزارتا ہوں۔مجھے انسانوں سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا،مگر جب میں بچہ تھا تو اکثر پانی سے باہر گھومتا رہتا تھا۔ایک دن میں نے تالاب کے کنارے ایک نوجوان کو آتے دیکھا۔وہ بہت دبلا پتلا اور کمزور تھا۔میں اسے دیکھ کر ڈر گیا،لیکن اس نے مجھ پر دھیان نہیں دیا۔وہ پانی میں ڈور ڈال کر ایک ٹیلے پر بیٹھ گیا۔سارا دن وہ شکار کے انتظار میں بیٹھا رہا،مگر اس کے ہاتھ بس ایک دو چھوٹی مچھلیاں ہی آئیں۔پھر وہ روزانہ وہاں آنے لگا۔ایسا لگتا تھا کہ وہ بے روزگار ہے اور اپنے حالات سے پریشان ہے۔اس لئے مچھلیاں شکار کرکے اپنا پیٹ پال رہا ہے۔وہ سارا دن تالاب کے کنارے گزارتا،لیکن اسے اس محنت کا بہت کم صلہ ملتا تھا۔کیونکہ پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے مچھلیاں کم ہو گئی تھیں۔ایک دن تو حد ہو گئی وہ بے چارہ سارا دن پانی میں ڈور ڈالے بیٹھا رہا،لیکن ایک بھی مچھلی اس کی ڈور میں نہیں پھنسی۔آخر وہ مایوسی سے اُٹھا اور اتھلے پانی میں چھوٹی مچھلیاں تلاش کرنے لگا۔میں وہیں تیر رہا تھا۔اس نے غلطی سے مجھے مچھلی سمجھ کر پکڑ لیا۔مجھے لگا اب میرا آخری وقت آگیا ہے،لیکن جب اس نے مجھے غور سے دیکھا تو فوراً چھوڑ دیا اور مایوسی سے قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔اس دن کے بعد وہ پھر کبھی وہاں نہیں آیا۔میرا خیال ہے وہ لڑکا آج بھی دَر دَر کی ٹھوکریں کھا رہا ہو گا۔“یہ کہہ کر مینڈک خاموش ہو گیا۔مرغی نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا:”تم دونوں عجیب باتیں کر رہے ہو۔یہ ضروری تو نہیں کہ اگر آغاز بُرا ہو تو انجام بھی خراب ہو۔سنو!میں بھی تمہیں ایک نوجوان لڑکے کے بارے میں بتاتی ہوں۔میں جس فارم میں رہتی ہوں۔وہاں بہت سارے مرغے مرغیاں ہیں۔فارم کے مالک کو ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک ملازم کی ضرورت تھی۔ایک دن اس کے پاس ایک لڑکا آیا۔وہ بہت پریشان تھا اور ملازمت تلاش کر رہا تھا،مالک نے اس سے بات کی اور اُسے ملازم رکھ لیا۔لڑکا محنت سے کام کرنے لگا۔وہ نہ کام چوری کرتا اور نہ انڈے چراتا۔وہ اپنے کام سے بہت مخلص تھا۔کچھ مہینے ہی گزرے تھے کہ مالک نے اس کی محنت کو دیکھتے ہوئے اس کی تنخواہ بڑھا دی۔مالک نے اس کے آنے کے بعد یہ محسوس کیا تھا کہ اس کا فارم ترقی کر رہا ہے۔اس بات کو دو سال ہو گئے ہیں۔آج وہ نوجوان فارم کا منیجر بنا ہوا ہے۔اسے اچھی تنخواہ ملتی ہے،مالک نے رہنے کے لئے اسے فارم پر گھر بھی دے دیا ہے اور لڑکے نے اپنی ماں کو بھی اپنے پاس بلا لیا ہے۔“یہ کہہ کر مرغی خاموش ہو گئی۔وہ تیزی سے کچھ سوچ رہی تھی پھر بولی:”ارے!کہیں وہ وہی لڑکا تو نہیں جس کا تم دونوں نے ذکر کیا ہے؟“اُلو بولا:”ناممکن وہ کوئی دوسرا لڑکا ہو گا۔“”بہت مشکل ہے وہ تو نہ جانے اب کہاں ہو گا۔“مینڈک نے کہا۔مرغی سوچتے ہوئے بولی:”میرا دل کہہ رہا ہے کہ وہ وہی لڑکا ہے۔کیا تم مجھے اس کا حلیہ بتا سکتے ہو؟“اُلو نے کہا:”وہ دبلا پتلا بالکل کمزور لڑکا تھا اور اس کے گال پر برا سا کالا مَسّا بھی تھا۔“مینڈک نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں حیرت سے ہلاتے ہوئے کہا:”میں نے جو تالاب کے کنارے لڑکا دیکھا تھا،وہ بھی دبلا پتلا تھا اور اس کے گال پر بھی مَسّا تھا۔“مرغی نے گردن ہلائی اور بولی:”چلو ذرا میرے ساتھ فارم تک چلو۔“دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا اور اس کے ساتھ چل دیے۔فارم قریب ہی تھا۔وہ جلد وہاں پہنچ گئے۔مرغی اور مینڈک پھاٹک سے اندر داخل ہوئے اور اُلو دیوار پر جا بیٹھا۔مرغی نے ان دونوں کی توجہ ایک نوجوان کی طرف دلوائی جو کچھ دور پیٹھ موڑے بورے میں سے چارہ نکال رہا تھا۔تینوں غور سے اسے دیکھنے لگے۔لڑکا کام کرکے پلٹا تو انھوں نے اسے دیکھا۔وہ وہی محنتی نوجوان تھا۔اس کے گال پر بڑا سا کالا مَسّا تھا اور وہ اب کچھ صحت مند بھی ہو گیا تھا۔مینڈک اور اُلو شرمندگی سے مسکرائے اور مرغی کی طرف دیکھ کر گردن ہلائی۔دونوں نے اپنی غلطی مان لی تھی۔وہ جان گئے تھے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔جو لوگ محنت اور ثابت قدمی سے کام کرتے ہیں۔ان کے بُرے حالات بھی ایک دن بدل جاتے ہیں اور کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ " پانی کہاں گیا - تحریر نمبر 2357,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pani-kahan-gaya-2357.html,"عروج سعددریا کے کنارے آباد شاداب نگر ایک ہرا بھرا قصبہ تھا۔وہاں کے لوگوں میں ایک خرابی تھی کہ وہ پانی جیسی نعمت کی قدر نہیں کرتے تھے۔دنیا میں پانی کے ذخیرے تیزی کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں۔شاداب نگر میں بلاضرورت پانی بہانا ایک معمولی بات بن گئی تھی۔یوں دریا کا صاف شفاف پانی کم ہوتا جا رہا تھا۔دریا میں رہنے والی مچھلیاں بھی پریشان تھیں کہ پانی نہ رہا تو وہ مر جائیں گی۔ایک دن تمام مچھلیاں دریا کی ملکہ مچھلی کے پاس جمع ہوئیں اور مسئلے کا حل نکالنے کی درخواست کی۔ملک مچھلی نے یہ بات سن کر فیصلہ کیا کہ وہ ہمالیہ پہاڑوں میں رہنے والے بونے جادوگر سے مدد لے گی۔ہمالیہ پہاڑوں تک پہنچنے کے لئے اسے دریا کے بہاؤ کے مخالف سمت میں تیرنا تھا۔(جاری ہے)پھر دریا میں جگہ جگہ خودرو جھاڑیاں بھی تھیں۔جن میں پھنسنے کے بعد نکلنا مشکل تھا اور بڑے بڑے خوفناک کیکڑے بھی تھے،مگر ملکہ نے کسی بھی خطرے کی پرواہ نہ کی اور اللہ کا نام لے کر تیرنا شروع کر دیا۔چھ دن تک لگاتار تیرنے کے بعد وہ وہاں پہنچ گئی،جہاں پہاڑوں سے برف پگھل رہی تھی اور پانی آبشاروں کی صورت میں گر رہا تھا۔جادوگر وہاں بڑے مزے سے پانی میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھا تھا۔سردار مچھلی تیزی سے تیرتی ہوئی اس کے پیروں کے پاس جا پہنچی۔بونے جادوگر نے جھک کر دیکھا تو کہا:”ارے بی مچھلی!کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہی ہو؟“ملکہ مچھلی نے جلدی جلدی ساری بات کہہ سنائی۔جادوگر نے چینی کے دانوں کے برابر چھوٹی چھوٹی گولیاں جیب سے نکالیں اور ملکہ مچھلی کو دکھاتے ہوئے کہا:”یہ جادوئی گولیاں لے جاؤ اور انھیں دریا میں پھیلانا شروع کر دو،جہاں کہیں بھی بلاضرورت پانی بہہ رہا ہو گا،یہ گولیاں غبارے کی طرح پھول کر اس لائن کو بند کر دیں گی بعد میں ان کا اثر ختم ہو جائے۔یہ گولیاں انسانوں کو نظر نہیں آئیں گی۔ملکہ مچھلی نے جادوگر کا شکریہ ادا کیا اور روانہ ہو گئی“۔ملکہ واپس دریا میں پہنچی تو جادوئی گولیاں دیکھ کر تمام مچھلیاں خوش ہو گئیں۔مچھلیوں نے پورے دریا میں گولیاں پھیلا دیں۔”امی،امی میری آنکھوں میں مرچیں لگ رہی ہیں،جلدی سے پانی لا دیں،پلیز۔“وسیم نے غسل خانے سے آواز لگائی۔وسیم کی آنکھوں میں صابن چلے جانے کی وجہ سے بے تحاشا جلن ہونے لگی تھی۔اس نے نہانے کے دوران نل کھلا چھوڑ دیا۔پانی حسب معمول بہتا رہا۔جادوئی گولی نے کام کر دکھایا تھا اور پانی کی لائن کو بند کر دیا تھا۔امی نے جلدی سے ایک بوتل لا کر دی جس سے وہ دیر تک آنکھیں دھوتا رہا۔پڑوس میں شہلا باجی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔وہ باورچی خانے میں آٹا گوندھ رہی تھیں اور نل کھلا چھوڑ دیا تھا۔پانی بہتا رہا اور وہ اسی پانی سے آٹا گوندھ رہی تھیں،مگر عین اس وقت جب ان کے دونوں ہاتھ آٹے میں لتھڑے ہوئے تھے،اچانک نلکے سے پانی آنا بند ہو گیا۔گلی میں فیروز صاحب اپنی گاڑی دھو رہے تھے۔قریب ہی پانی کا پائپ پڑا تھا۔اس میں سے پانی کی ایک موٹی دھار بہہ رہی تھی۔گاڑی پر صابن لگا ہوا تھا۔انھوں نے پائپ اُٹھایا تو دیکھا کہ اس میں پانی ہی نہیں آ رہا تھا۔فیروز صاحب ایک ہاتھ میں پائپ پکڑے دوسرے ہاتھ سے سر کھجانے لگے۔شاداب نگر کے تمام اہم لوگ قصبے کے مرکزی ہال میں جمع تھے۔وہ پچھلے ایک ہفتے سے ہونے والے ان گمبھیر واقعات پر غور کر رہے تھے کہ نلوں میں پانی آتے آتے کیوں اور کیسے رک جاتا ہے؟سب کا مشاہدہ یہ تھا کہ پانی صرف اسی وقت ہوتا ہے،جب نل بلاضرورت کھلا ہوا ہو۔مسجد کے امام صاحب بڑے دھیان سے سب کی باتیں سن رہے تھے۔انھوں نے کہا:”آپ سب کے ساتھ میں بھی اسی قصبے میں رہتا ہوں،مگر میرے گھر میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔اس کی وجہ یہ ہے میرے گھر میں پانی بلاوجہ نہیں بہایا جاتا،بلکہ صرف ضرورت کے وقت ہی نل کھولا جاتا ہے۔“یہ بات سب کی سمجھ میں آ گئی۔حافظ صاحب نے کہا:”بالکل یہی بات ہے۔میرے گھر میں بھی پانی احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اچانک پانی غائب ہو جائے۔میں امام صاحب کی بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔آپ لوگ بھی اس کو آزما کر دیکھ لیں۔آپ کے مسئلے کا حل بہت ہی آسان ہے۔“خالد صاحب جو کہ قصبے کے کالج کے پرنسپل تھے،انھوں نے سب کو سمجھاتے ہوئے کہا:”خدا کا شکر ہے کہ دریا کا پانی ختم ہونے سے پہلے ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا“۔اُدھر دریا میں مچھلیاں بھی ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہی تھیں۔ " جادوئی پلنگ - تحریر نمبر 2356,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jadui-palang-2356.html,"ایک گاؤں میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔اس کا ایک کام چور بیٹا تھا،شیخی بگھارنے میں بہت ماہر تھا،اس کو شیخ چلی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔بڑھیا محنت،مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ بھرتی تھی۔ایک دن بڑھیا بیمار ہو گئی،گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔رات کو ماں بیٹا دونوں نے فاقہ کیا۔اگلے دن ماں نے کہا”اب تم کچھ کام کرو،جنگل سے لکڑیاں ہی لا کر بیچ دیا کرو تاکہ گزر اوقات ہو سکے۔“شیخ چلی نے جنگل کی راہ لی۔جو درخت اس کے راستے میں آتا،وہ اس سے پوچھتا۔”میں تجھے کاٹ لوں یا نہیں۔“کسی درخت نے بھی اس کا جواب نہ دیا۔شام ہونے کو تھی،شیخ چلی گھر واپس آنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک درخت نظر آیا،اس نے پاس جا کر پوچھا۔”میں تجھے کاٹ لوں․․․؟“درخت بولا”ہاں کاٹ لے مگر ایک نصیحت کرتا ہوں۔(جاری ہے)میری لکڑی سے پلنگ بنانا اور بادشاہ کے دربار میں لے جانا،اگر بادشاہ اس کی قیمت پوچھے تو کہنا کہ پہلے ایک دو راتیں اس پر سوئے،پھر اگر مناسب سمجھے تو خریدے۔“شیخ چلی نے درخت کی ہدایت کے مطابق اس سے لکڑیاں کاٹ کر پلنگ تیار کیا اور بادشاہ کے دربار میں پہنچا۔بادشاہ نے قیمت پوچھی تو شیخ چلی نے کہا ”پہلے آپ اس پر ایک دو رات آرام فرمائیں،اگر اس میں کوئی خوبی پائیں تو انعام کے طور پر جو دل چاہے دے دیں۔“بادشاہ حیران ہوا اور شیخ چلی کے کہنے پر نوکروں کو حکم دیا کہ آج یہی پلنگ میرے کمرے میں بچھایا جائے۔رات ہوئی تو بادشاہ اسی پلنگ پر سویا تو آدھی رات کو پلنگ کا ایک پایا بولا”آج بادشاہ کی جان خطرے میں ہے۔“دوسرے نے کہا”وہ کیسے․․․“تیسرا بولا”بادشاہ کے جوتے میں کالا سانپ تھا۔“چوتھے نے کہا”بادشاہ کو چاہیے کہ صبح جوتے کو اچھی طرح جھاڑ کر پہنے۔“بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔واقع بادشاہ کے جوتے میں ایک سانپ بیٹھا ہوا تھا۔دوسری رات جب بادشاہ سویا تو پھر پایوں نے باتیں شروع کیں۔ایک بولا کہ تم پلنگ کو سنبھالے رکھو۔میں کچھ خبریں جمع کر لوں۔تینوں پایوں نے پلنگ کو تھامے رکھا۔جب چوتھا واپس آیا تو اس نے خبر سنائی کہ بادشاہ کا وزیر سازش کرکے بادشاہ کو ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔پھر دوسرا پایا گیا اور خبر لایا کہ بادشاہ کی ایک کنیز وزیر سے مل کر بادشاہ کو زہر دینا چاہتی ہے۔تیسرے پائے نے تجویز پیش کی کہ بادشاہ کو چاہیے کہ وزیر کو سزا دے۔چوتھا پایا گیا اور یہ خبر لایا کہ بادشاہ کو جو دودھ صبح پینے کو دیا جائے گا،اس میں زہر ہو گا۔بادشاہ یہ سب کچھ سن رہا تھا۔صبح اُٹھ کر جب اسے دودھ دیا گیا تو اس نے نہ پیا بلکہ ایک بلی کو پلا دیا۔بلی اسے پیتے ہی مر گئی،کنیز سے بادشاہ نے تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ زہر اس کے وزیر نے ایک کنیز کے ذریعے دودھ میں ملوایا تھا۔بادشاہ نے وزیر کو وزارت سے برخاست کرکے جیل بھجوا دیا اور اپنی کنیز کو محل سے نکال دیا۔بادشاہ نے شیخ چلی کو بہت انعام دیا۔دربار میں اس کی عزت ہونے لگی،شیخ چلی مال دار ہو گیا اور اپنی ماں کے ساتھ بڑے آرام کی زندگی بسر کرنے لگے۔ " چوہے کو ملی نادانی کی سزا - تحریر نمبر 2355,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chuhe-ko-mili-nadani-ki-saza-2355.html,"ڈاکٹر جمیل جالبیگرمی میں ایک شیر شکار کو نکلا۔چلچلاتی دھوپ میں،تپتی ہوئی زمین پر چلنے سے وہ جلد ہی تھک گیا اور ایک بڑے سے سایہ دار گھنے درخت کے نیچے آرام کرنے لیٹ گیا۔ابھی وہ سویا ہی تھا کہ کچھ چوہے اپنے بلوں سے باہر نکلے اور نادانی سے اس کی پیٹھ پر اُچھلنے کودنے لگے۔اس سے شیر کی آنکھ کھل گئی۔وہ غرایا اور غصے میں آکر ایک چوہے کو اپنے پنجے میں دبوچ لیا۔ابھی وہ اسے مارنے ہی والا تھا کہ چوہے نے نہایت عاجزی سے کہا،”اے جنگل کے بادشاہ!مجھ غریب پر رحم کیجیے۔مجھ جیسے چھوٹے اور کمزور کو مارنے سے آپ کی خاندانی شرافت پر آنچ آئے گی اور سارے جنگل میں بدنامی ہو گی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے ایک چوہے کو مار دیا ہے۔“یہ بات سن کر شیر نے اس پر ترس کھایا اور ڈرتے کانپتے چوہے کو آزاد کر دیا۔(جاری ہے)کچھ دن بعد وہی شیر شکار کے لئے جنگل میں نکلا۔ابھی شکار کی تلاش میں وہ اِدھر اُدھر پھر ہی رہا تھا کہ اچانک شکاریوں کے جال میں پھنس گیا۔اس نے نکلنے کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مارے،لیکن جال سے نہ نکل سکا۔آخر پریشان اور لاچار ہو کر وہ پورے زور سے دھاڑا۔جیسے ہی چوہے نے شیر کی دھاڑنے کی آواز سنی ،وہ تیزی سے وہاں پہنچا۔دیکھا کہ وہی شیر ہے جس نے اس کی جان بخشی تھی۔وہ شیر کے پاس گیا اور کہا،”اے بادشاہ سلامت!میں آپ کا دوست ہوں۔آپ نے میری جان بخشی تھی۔آپ بالکل فکر مت کریں۔“یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی اپنے ننھے تیز دانتوں سے جال کاٹنے لگا اور ذرا سی دیر میں جال کاٹ کر شیر کو آزاد کرا دیا۔جب شیر آزاد ہوا تو اس نے سوچا کہ وہ بھی اس احسان کے بدلے کوئی احسان کرے۔یہ سوچ کر اس نے چوہے سے کہا،”اے دوست! تو نے مجھ پر احسان کیا ہے۔جو تو مجھ سے مانگے گا،میں دوں گا،بول کیا مانگتا ہے؟“چوہا یہ سن کر خوشی کے مارے پھولا نہ سمایا اور بھول گیا کہ وہ اپنے لائق کیا مانگے اور کون سی ایسی چیز مانگے کہ شیر اسے دے بھی سکے۔اپنی حیثیت بھول کر اس نے جلدی سے کہا،”اے بادشاہ سلامت!اپنی شیر زادی کی شادی مجھ سے کر دیجیے۔“شیر زبان دے چکا تھا۔اس نے چوہے کی بات مان لی اور رشتہ قبول کر لیا۔شادی کے دن نوجوان شیر زادی بن ٹھن کر نکلی اور جھومتی جھامتی اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی بے فکری سے چلنے لگی۔دولہا چوہا اس کے استقبال کے لئے سامنے کھڑا تھا کہ بے خیالی میں اتفاق سے شیر زادی دلہن کا پاؤں دولہا چوہے پر پڑ گیا اور وہ بے چارا وہیں پِس کر ڈھیر ہو گیا۔ " پھول وادی - تحریر نمبر 2354,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/phool-wadi-2354.html,"منزہ بھٹیاس کے اردگرد،رنگ برنگی گھیر دار فراکیں پہنے بہت ساری پریاں تھیں۔وہ حیرانی سے انھیں دیکھ رہی تھی۔”پیاری لڑکی!تمہارا نام کیا ہے؟“فیروزی فراک پہنے ایک پری مسکراتی ہوئی اس کی طرف بڑھی۔”میرا نام نوریہ ہے،مگر میں یہاں کیسے آئی؟“اس نے اپنا نام بتاتے ہوئے اس پری سے پوچھا۔”ارے واہ،تمہاری طرح تمہارا نام بھی بہت پیارا ہے۔چلو،مل کر کھیلتے ہیں۔“سرخ فراک پہنے ایک اور پری اس کی طرف بڑھی۔اس کی دیکھا دیکھی باقی پریاں بھی اس کے قریب آ گئیں۔سات سالہ نوریہ خود کو اس خوب صورت وادی میں دیکھ کر بہت حیران تھی۔یہاں چاروں طرف رنگ برنگے پھول ہی پھول تھے۔اسے بھی پریوں جیسا لباس پہنا دیا گیا۔اب وہ بھی ان پریوں کی طرح گھیر دار سفید رنگ کی فراک پہنے ہوئے تھی۔(جاری ہے)اس کی دونوں کلائیوں میں موتیے کے پھولوں کے گجرے بھی آ چکے تھے۔نوریہ اب پریوں سے بالکل بھی نہیں ڈر رہی تھی۔وہ خوشی سے جھوم رہی تھی اور ساری پریاں بھی اسے خوش دیکھ کر ہنس رہی تھیں۔”خاموش ہو جاؤ سب،ملکہ پری آ رہی ہیں۔“ان میں سے ایک پری نے بلند آواز سے سب کو اطلاع دی اور ساری پریاں فوراً ادب سے کھڑی ہو گئیں۔سفید خوبصورت گھوڑوں کی بگھی چاروں طرف سے پھولوں سے سجی ہوئی تھی۔ملکہ پری بڑی شان سے بگھی سے نیچے اُتریں۔ملکہ نے گلابی رنگ کی پوشاک پہن رکھی تھی،جو یوں چمک رہی تھی جیسے اس پر تارے جڑے ہوئے ہوں۔ملکہ پری اس کے پاس آ کر ٹھہر گئی:”خوش آمدید پیاری لڑکی!کہو کیسا لگا ہماری پھول وادی میں آ کر؟“ملکہ پری نے بہت نرم لہجے میں نوریہ سے پوچھا۔نوریہ بہت حیران تھی،بولی:”بہت ہی اچھا لگ رہا ہے۔“”ہماری پھول وادی میں صرف ان بچوں کو لایا جاتا ہے،جو سچ بولتے ہیں،بڑوں کا ادب کرتے ہیں،ہر موقع پر نیکی کے کام کرتے ہیں اور جو کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے۔“”مگر یہ سب آپ کو کیسے پتا؟“وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔”ہماری پھول وادی کے آس پاس جتنے گاؤں ہیں،ہم وہاں رہنے والوں کی خبر رکھتے ہیں۔ہم اپنے اصلی روپ میں نہیں،بلکہ بھیس بدل کر گاؤں والوں کے سامنے آتے ہیں۔“ملکہ پری نے مسکراتے ہوئے کہا تو نوریہ خوشی سے کھل اُٹھی اور مسکرانے لگی۔ملکہ نے اشارہ کرکے ایک پری سے اس کے لئے بہت سارے تحفے منگوائے۔نوریہ نے ملکہ پری کا شکریہ ادا کیا۔ملکہ مسکراتے ہوئے واپس اپنی بگھی میں بیٹھ کر پرستان کی طرف چلی گئی۔دفعتاً پھول وادی میں بارش ہونے لگی،ٹھنڈی اور ہلکی ہلکی بارش۔تمام پریاں خوشی سے جھومنے لگیں۔نوریہ ایک درخت پر لگے جھولے پر بیٹھ کر جھولا جھولنے لگی۔ایک پری نے کھلکھلاتے ہوئے اس کو زور سے جھولا جھلایا اور وہ ہنستے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرکے بارش اور جھولے کا مزہ لینے لگی۔”نوریہ!اُٹھو،صبح ہو گئی ہے۔اسکول بھی جانا ہے تمہیں۔“اپنی امی کی آواز پر نوریہ نے ایک دم سے اپنی آنکھیں کھولیں۔امی اس کے چہرے پر پانی کے ہلکے ہلکے چھینٹے مار رہی تھیں۔نوریہ نے حیرانی سے خود کو چارپائی پر لیٹا دیکھا اور مسکرانے لگی۔وہ تیار ہو کر اسکول جانے لگی۔اسکول سے واپس گھر آئی تو ایک بار پھر حیران رہ گئی۔چارپائی پر رنگ برنگے چمک دار کاغذوں میں لپٹے بالکل ویسے ہی تحفے رکھے تھے،جیسے ملکہ پری نے اسے دیے تھے۔”امی!یہ سب کہاں سے آئے؟“اس نے اپنی امی سے پوچھا۔”یہ تمہارے چھوٹے ماموں نے تمہارے لئے دبئی سے بھجوائے ہیں۔“ " جادوئی آئینہ - تحریر نمبر 2353,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jadui-aaina-2353.html,"آصف احمد،کراچینائلہ تیسری جماعت کی ایک پیاری سی بچی تھی۔وہ پڑھائی کے علاوہ بااخلاق بھی تھی۔جادوئی کہانیاں پڑھنا اسے بہت پسند تھا۔ایک دن نائلہ ایک جادوگر کی کہانی پڑھ رہی تھی جس کے پاس جادوئی آئینہ تھا۔اس کے ذریعے دنیا میں ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔نائلہ نے سوچا کاش اس کے پاس بھی یہ جادوئی آئینہ ہوتا جو اس کے ہر کام کر دیتا۔نائلہ کے ابو اس کی پسند کو جانتے تھے،چنانچہ وہ اس کے لئے ایک پتلا چپٹا سا کالے رنگ کا آئینہ لے آئے۔آئینہ اتنا چھوٹا تھا کہ اس کی فراک کی جیب میں بھی آ جاتا تھا۔نائلہ بہت خوش ہوئی۔اس نے آئینے کو ایک چھوٹے سے غلاف میں رکھ دیا جو اس کے ساتھ ہی تھا۔نائلہ کسی کام میں مصروف تھی کہ اچانک ابو کمرے میں داخل ہوئے اور نائلہ سے جادوئی آئینہ مانگا۔(جاری ہے)نائلہ نے وہ آئینہ انھیں دیا تو انھوں نے کہا:”یہ ٹچ موبائل کہلاتا ہے،یہ کسی جادو کے آئینے جیسا ہی ہے۔“یہ سن کر نائلہ حیران رہ گئی۔ابو نے نائلہ کو موبائل استعمال کرنے کا طریقہ سمجھایا۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اسے ذرا سا چھونے سے ہم دنیا کے کونے کونے تک پہنچ سکتے ہیں اور جو بھی سوال لکھ کر پوچھو اس کا جواب فوراً مل جائے گا۔اس میں موجود یوٹیوب میں ہم مختلف اقسام کے کارٹونز اور فلمیں وغیرہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔نائلہ اپنی اس بڑی خواہش پوری ہو جانے پر بہت خوش ہوئی۔ " انگریزی کا بھوت - تحریر نمبر 2352,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/angrezi-ka-bhoot-2352.html,"سیدہ زینب علی”احمد بہت اچھا چائلڈ تھا،وہ سیونتھ کلاس میں تھا۔احمد بہت اچھی اچھی ہیبٹس کا مالک تھا،اور ہمیشہ فرسٹ آتا تھا۔اس کے پیرنٹس اور سارے ٹیچرز بھی اس سے بہت ہیپی نظر آتے۔“امی جوں جوں کہانی پڑھتی جا رہی تھیں،ان کا جی اپنا سر پیٹنے کو چاہ رہا تھا۔”کیسی کہانی ہے،امی!“قریب کھڑی فروہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔”اُف فروہ!حد ہے،اردو میں ایسے کہانیاں نہیں لکھتے۔ہمیں جہاں تک ہو سکے اردو کے الفاظ استعمال کرنے چاہیے۔تم نے تو اس میں زبردستی انگریزی گھسا دی ہے،حالانکہ یہ تو بہت عام ہے کہ چائلڈ کے بجائے اردو میں بچہ لکھتے ہیں،اسی طرح ہیبٹس کے بجائے عادات یا عادتیں۔سیون کی جگہ ساتویں یا ہفتم اور پیرنٹس،ٹیچرز،فرسٹ اور ہیپی کی جگہ والدین،اساتذہ،اول اور خوش آنا چاہیے۔(جاری ہے)امی نے ضبط سے کام لیتے ہوئے سمجھایا۔“”وہ امی،دراصل مجھے آج کل انگریزی سیکھنے کا شوق ہو رہا ہے،اسی لئے میں انگریزی کے الفاظ یوز کرتی ہوں کہ میری انگریزی اچھی ہو جائے اور مجھے انگریزی کے الفاظ بھی یاد ہو جائیں۔“فروہ نے جو یوں اپنی کہانی کا پوسٹ مارٹم ہوتے دیکھا تو گڑبڑا کر وضاحت پیش کی۔فروہ کا بھائی فائز بھی امی کے پیچھے کھڑا ہو کر کہانی پڑھ چکا تھا اور اب اس کی ہنسی فروہ کو چڑا رہی تھی۔”یوں بولو کہ آج کل تم پہ انگریزی کا بھوت سوار ہے۔“فائز ہنس کر بولا۔فی الحال فروہ نے فائز کو گھورنے پر اکتفا کیا۔”اگر تمہیں انگریزی کا اتنا ہی شوق ہے تو پوری کہانی انگریزی میں لکھ لو،انگریزی کہانی بھی اگر اچھی ہوئی تو تم انگریزی رسالے میں بھیج سکتی ہو۔“امی نے مشورہ دیا۔فروہ نے کچھ دیر سوچا،مسکرائی اور بولی:”کہتی تو امی آپ بالکل ٹھیک ہیں۔“اتنا کہہ کر فروہ اپنے کمرے کی طرف دوڑ گئی۔کچھ دن بعد فروہ دوڑتی ہوئی امی کے کمرے میں داخل ہوئی تو امی نے پوچھا:”کیا بات ہے فروہ!“”یہ دیکھیں میری نئی کہانی،وہ بھی پوری انگریزی میں۔“فروہ پرجوش انداز میں بولی:”آپ پڑھ کر بتائیں کیسی ہے؟“امی نے فروہ سے تین صفحات پر مشتمل کہانی لی اور پڑھنے لگیں،مگر پہلی لائن پڑھتے ہی چکرا گئیں۔”احمد از ویری گڈ چائلڈ۔“پوری کہانی اردو حروف میں لکھی ہوئی تھی۔یہ کیا ہے فروہ؟وہ چلائیں۔”امی!،آپ نے ہی تو کہا تھا کہ اگر انگریزی کا اتنا شوق ہے تو پوری کہانی انگریزی لکھو،یہ ہے پوری انگریزی کہانی۔“فروہ فخریہ انداز میں کہہ رہی تھی۔امی نے کہانی پر ایک نگاہ ڈالی۔ان میں ایک لائن سے زیادہ پڑھنے کی ہمت نہ تھی تو پورے تین صفحات کیسے پڑھتی۔کہانی کی لائن پڑھ کر اور پھر فروہ کی وضاحت سن کر بے اختیار امی نے اپنا سر پکڑ لیا۔ " ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا - تحریر نمبر 2351,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hai-zindagi-ka-maqsad-auron-ke-kaam-aana-2351.html,"ساجد کمبوہصدیوں پرانی بات ہے ایک گاؤں کے چوپال میں کھجور،برگد اور بیری کے درخت تھے۔بیری اور برگد کے درمیان کھجور کا قد آور درخت تھا اسے اپنے قد آور ہونے پر بڑا غرور تھا۔وہ کبھی بیری اور کبھی برگد کے درخت کی طرف دیکھتا اور طنز کرتا۔برگد کا درخت تو اتنا پھیلاؤ رکھتا ہے مگر لکڑی کسی کام کی نہیں،نہ تو فرنیچر بناتا ہے اور نہ ہی تیری لکڑی خوشبودار ہے۔مجھے دیکھ میری شاخوں سے ٹوکریاں،چٹائیاں اور ٹوپیاں بنتی ہیں۔میرا پھل ایک مکمل غذا ہے۔اس پر برگد کا درخت کہتا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی۔سب حکیم میرے دودھ سے اور جڑوں سے دوائیاں بناتے ہیں جن سے بہت سی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔میرا پھل سینکڑوں جانور کھاتے ہیں۔(جاری ہے)مسافر میرے نیچے آرام کرتے ہیں صبح و شام پرندے میرے اوپر نیچے بیٹھ کر چہچہاتے ہیں مگر کھجور کے درخت کا رور برقرار رہا۔اسے بیری کا چھوٹا قد ناگوار گزرتا۔اُسے ڈرپوک اور بزدل قرار دیتا،ہر وقت جھکے رہنے کا طعنہ دیتا۔بیری کا درخت کہتا مجھ پر اتنا پھل آتا ہے جس پر میں جھک کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔میرے پھلوں سے شہد کی مکھیاں رس چوس کر شہد بناتی ہیں،جو غذا بھی ہے اور شفا بھی ہے۔کھجور کے پودے نے شکوہ کیا۔کبھی انسان نے مجھے پانی دیا ہے کیونکہ مجھ سے لالچ نہیں۔بیری کے درخت نے کہا بھائی تمہاری جڑیں مضبوط ہیں پانی کا ذخیرہ کر لیتے ہو ویسے بچے لالچ میں مجھے پانی دیتے ہیں کیونکہ مجھ سے بیر توڑ کر کھاتے ہیں جبکہ تمہارا پھل ان کی پہنچ سے بہت دور ہوتا ہے۔ہمیں انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ہونہہ یہ نیکی کا کون سا دور ہے تم اور برگد کے درخت ویسے ہی بزدل ہو مجھے دیکھو نہ کسی کو سایہ دیتا ہوں اور نہ ہی لکڑی،برگد کے درخت پر سارا دن پرندے شور کرتے ہیں جس سے میرے آرام میں خلل پڑتا ہے اور تم پر کنکر پتھر پڑتے ہیں تم ہر وقت آنسو بہاتے رہتے ہو اس لئے انہیں میٹھا پھل نہ دو۔کھجور کے درخت نے مشورہ دیا۔میرا پھل انسان کے لئے ہے مگر مجھے افسوس اس وقت ہوتا ہے جب میری شاخیں توڑتے ہیں اور کچا پھل توڑ کر ضائع کرتے ہیں اگر پھل پک جائے تو انہوں نے ہی کھانا ہے۔یوں نوک جھونک میں موسم گرما گزر گیا۔کھجور کا ایک اور ننھا پودا چند ماہ کا تھا جو زمین پر سر اٹھائے کھڑا بھلا لگ رہا تھا۔گرمیوں کے بعد سردیوں کا موسم شروع ہوا۔اس بار سردی کے ساتھ بہت برف باری ہوئی کئی فٹ برف باری کی وجہ سے سردی میں مزید اضافہ ہوا جس سے کھجور کا ننھا سا پودا کانپنے لگا۔اب کھجور کے پودے کو احساس ہوا کہ وہ قد آور ہے اور اپنی مختصر شاخوں سے اس پر سائبان نہیں کر سکتا۔اس نے بیری اور برگد کے درخت سے درخواست کی کہ ننھے درخت کے لئے کچھ کریں ورنہ یہ مرجھا جائے گا۔اب بیری اور برگد کے درخت سوچ بچار کرنے لگے کہ وہ کیا کریں؟جس طرح ننھے پودے کے لئے سائبان بنیں؟دوپہر کو بچے سکول سے واپس آئے،آتے ہی سکول بیگز رکھے اور بیری کے درخت پر لگے پکے بیر توڑنے کے لئے کنکر پتھر لانا نہ بھولے۔بیری کا درخت صبر کر رہا تھا اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اس نے بچوں سے کہا میری بائیں شاخ پر میٹھے اور زیادہ بیر ہیں تم سب مجھ پر چڑھ کر توڑ لو۔بچے اجازت ملنے پر بہت خوش ہوئے۔وہ فوراً درخت پر چڑھ گئے اور بیر درخت سے توڑنے لگے جس سے شاخ ٹوٹ گئی اور سیدھی برگد کے درخت پر جا پڑی جس کے نیچے کھجور کا ننھا پودا تھا۔بچے ڈر کر نیچے اترے اور گھروں کو بھاگ گئے۔دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ انسان خود غرض ہے دیکھ لو انہوں نے تیرا کیا حال کیا ہے۔تمہارا بازو توڑ دیا اور فرار ہو گئے۔واہ رے خود غرض تب بیری کا درخت بولا میں نے جان بوجھ کر انہیں ایسا کرنے پر اکسایا تھا لیکن کیوں؟کھجور کے درخت نے پوچھا کون خود کو زخمی کرواتا ہے۔تب بیری کے درخت نے جواب دیا وہ اس لئے میرے دوست کیونکہ میری ٹوٹی شاخ برگد کے درخت پر ہے جس سے ننھے پودے پر سائبان بن گیا ہے۔اب اسے اتنی سردی نہیں لگے گی اور یہ اگلے سال تک بڑا ہو جائے گا اور میرے دوست تم کتنے عظیم ہو۔تم نے قربانی دے کر میرے بیٹے کی جان بچا لی۔واقعی تمہارا جھکے رہنا خدا کا شکر ادا کرنا ہے۔کھجور کے درخت نے کہا یوں سردیوں کا موسم گزر گیا۔دیکھا بچو!قربانی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا جو دوسروں کے کام آئے وہی اچھا انسان ہے۔یاد رکھو قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اچھا انسان بننے کی توفیق دے۔(آمین) " خوبصورت تحفہ - تحریر نمبر 2350,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khubsurat-tohfa-2350.html,"ناہید طاہرسات سالہ ماہم،والدین کے ساتھ پاکستان اپنی دادی کے پاس چھٹیاں گزارنے آئی تھی۔برسات کا موسم تھا،بارش اس کے لئے بالکل انجان تھی۔کیونکہ اس کی پیدائش ایک صحرائی ملک میں ہوئی تھی جہاں بارش شاز و نادر ہی ہوتی ہے۔کبھی کبھار بادل جب آب کی تاب نہ لاتے ہوئے برس پڑتے،تب سارا ماحول،یومِ عید کی نوید سنا جاتا۔ماہم کھڑکی کے قریب بیٹھی گھنٹوں موسلا دھار بارش سے لطف اندوز ہوتی۔اسے برسات کی بوندوں میں ایک عجیب سی رم جھم کی جھنکار سنائی دیتی اور بارش کا لگاتار گرنا بہت اچھا لگتا خصوصاً جب لوگ اس سے بچنے کے لئے رنگ برنگی چھتریوں کو کھول کر چلتے پھرتے نظر آتے۔وہ بڑے ہی اشتیاق سے انہیں دیکھتی۔ماہم کا دل خواہش کرنے لگا کہ اس کی بھی کوئی چھتری ہو جسے وہ رم جھم برسات میں اُٹھائے محلے بھر میں گھومتی پھرے۔(جاری ہے)وقت کسی کے لئے نہیں رکتا،بارش کا موسم بھی وقت کا دامن تھامے آگے بڑھ گیا۔اس کے ساتھ ہی چھٹیاں بھی ختم ہو گئیں۔امی واپسی کی تیاری کر رہی تھیں۔ماہم اپنی دادی ماں کے قریب بیٹھی اداس تھی۔دادی ماں نے اس سے کہا،ماہم تم اپنی آنکھیں بند کرو۔آج میں تمہارے لئے ایک تحفہ لائی ہوں۔”سچ“ اس نے جھٹ سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔دادی ماں نے اس کی گود میں تحفہ رکھا۔ماہم نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایک خوبصورت چھتری تھی۔وہ بہت خوش ہوئی لیکن بارش کا موسم گزر چکا تھا،چھتری کو بارش میں استعمال کرنے کی جو آرزو اور خواہش تھی وہ حسرت بن کر دل میں رہ گئی۔اسی حسرت کو سینے میں دبائے،وہ اپنے والدین کے ساتھ واپس چلی گئی۔چھتری تو آگئی لیکن بارش نہیں آئی۔ننھی ماہم مسلسل کئی دنوں تک بارش کا انتظار کرتی رہی۔اس ننھی سی جان کو پتہ نہیں تھا کہ ریگستان سے بارشوں کی کوئی دوستی نہیں ہوتی،آخر وہ انتظار سے تھک گئی۔ایک دن وہ اپنی امی سے بارش کی ضد کرنے لگی۔”امی مجھے بارش چاہیے۔۔۔بس۔۔۔۔!“ ”ارے یہ کیا ضد لے کر بیٹھ گئی ہو۔“ ”امی پلیز بارش لا دیں۔۔۔“ ”بیٹی یہ تو اللہ تعالیٰ کی دسترس میں ہے“۔”مجھے کچھ نہیں سننا“ وہ رونے لگی۔سنو میں تمہیں ایک ضدی بچے کی کہانی سناتی ہوں۔ماہم نے کہانی کا سن کر جلدی سے آنسو صاف کیے اور امی کی گودی میں چڑھ کر بیٹھ گئی۔”ایک معصوم سا بچہ جو بالکل تمہاری طرح ضدی تھا اسے آسمان پر چمکتا چاند چاہیے تھا،”جیسے تمہیں بارش،چمکیلے روشن چاند کو دیکھ کر وہ معصوم ضد کرنے لگا کہ کسی طرح اسے چھونا ہے۔ماں پریشان بہت بہلایا لیکن ضدی بچے نے اپنی ضد ترک نہ کی،تب ماں نے بڑے سے آنگن کے حوض کو پانی سے بھر دیا کچھ ہی دیر میں پانی پر چاند کا خوبصورت عکس جھلملا اُٹھا۔ماں بچے کو حوض کے قریب لائی اور چاند دیکھایا۔وہ خوشی سے کبھی آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھتا اور کبھی پانی میں ارتعاش تے چاند کو۔”امی ایک ترکیب آئی ہے۔“کہانی کے اختتام پر ماہم نے خوشی سے چہک کر کہا۔”کس بات کی“۔؟”ایک منٹ“،وہ دوڑی اور اپنی چھتری اُٹھا لائی۔یہ دیکھ کر امی ماتھا پیٹ کر بولیں،”پھر سے یہ چھتری اُٹھا لائی ہو۔“”کہاں جا رہی ہو۔؟“امی نے آواز لگائی۔لیکن وہ رکی نہیں۔کچھ دیر بعد امی اسے تلاش کرنے کی نیت سے اٹھیں،اس کے کمرے میں جھانکا وہ وہاں نہیں تھی۔”کہاں گئی۔۔۔؟“اچانک ماہم کی کھلکھلاہٹ سنائی دی،امی آواز کی جانب دوڑیں وہاں جو کچھ دیکھا۔ماہم کی معصومیت بھری دیوانگی پر حیران ہوئیں پھر وہ بے اختیار ہنسنے لگیں۔وہ چھتری کھول کر شاور کے نیچے کھڑی معصومیت سے مورنی کی طرح ناچ رہی تھی۔رم جھم رم جھم رم جھم رم جھمبارش برسی چھم چھم چھم چھم " زین کی عقلمندی - تحریر نمبر 2349,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zain-ki-aqalmandi-2349.html,"محمد ابوبکر،پھولنگرزین دسویں جماعت کا ایک ذہین طالب علم تھا۔علم کے ساتھ ساتھ اسے اخبار پڑھنے،خبریں سننے اور اچھے دوست بنانے کا بہت شوق تھا۔جب وہ اخبار پڑھتا اور یہ خبر اس کی نظر سے گزرتی کہ کل ملک کے کسی حصے میں کسی کو گولی مار دی گئی یا بم دھماکے سے اتنے لوگ زخمی ہوئے یا مر گئے وہ تو ایک گہری سوچ میں گم ہو جاتا پھر بہت سے سوال اس کے ذہن کو بے چین کر دیتے۔یہ دہشت گردی کا لفظ جو اخبار میں روز لکھا جاتا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟روزانہ اتنے لوگ کیوں مرتے ہیں؟انہیں مارنے والا کون ہے؟ان کا قصور کیا ہے؟میں کیا کر سکتا ہوں؟ایک دن زین اپنے دوست رامیش کو لے کر اپنے ٹیچر کے پاس گیا اور اپنی اُلجھن بیان کی۔استاد صاحب مسکراتے ہوئے بولے”مجھے آپ لوگوں کی یہ بات سن کر خوشی ہوئی“ آپ اپنے محلے میں کسی نئے آنے والے شخص یا کسی غیر معمولی سرگرمی پر نظر رکھیں اور اگر کوئی ایسی بات نظر آئے تو اپنے دوستوں اور گھر والوں سے بات کرکے مکمل طور پر جاننے کی کوشش کریں۔(جاری ہے)زین سکول جانے کیلئے گھر سے نکلتا تو گلی کی نکڑ پر واقع ایک چھوٹے سے مکان کے قریب آ کر اس کے قدم آپ ہی آپ رک جاتے۔اس نے اس مکان کے دروازے پر ہمیشہ تالا لگا ہوا پایا‘لیکن عجیب بات تھی کہ دروازے کے قریب ہی ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی اور اس کھڑکی کے اندر سے اسے روشنی نظر آتی تھی۔اسے یہ مکان ہمیشہ نہایت پراسرار لگا۔اسے صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ مکان میں نئے کرایہ دار آئے ہیں لیکن محلے کے کسی شخص نے ان کرایہ داروں میں سے کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ایک دن شام کے وقت زین گلی میں نکلا تو اپنے گھر کے دروازے کے قریب کھڑے ہو کر اسی پراسرار مکان کو دیکھنے لگا اس کے دل میں عجیب خیالات پیدا ہو رہے تھے وہ جاننا چاہتا تھا کہ نئے کرایہ دار کسی سے ملتے کیوں نہیں؟ابھی وہ یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک اسے ایک شخص اس پراسرار مکان کے دروازے کی طرف بڑھتا دکھائی دیا وہ شخص عجیب سی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔زین جلدی سے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا تاکہ وہ شخص اسے دیکھ نہ لے۔اگلے دن زین جان بوجھ کر اپنے گھر کے دروازے کے قریب کھڑا ہوا تھا۔پہلے اس نے سوچا کہ وہ اس مکان کی طرف جائے لیکن وہ اچانک ٹھنک کر رک گیا‘کیونکہ آج وہی کل والا آدمی مکان کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن آج اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا دونوں کے ہاتھوں میں ایک ایک تھیلا تھا۔وہ دونوں جلدی جلدی اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے تالا کھول کر مکان کے اندر داخل ہو گئے۔زین نے محسوس کیا دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔وہ جلدی سے اپنے گھر کے اندر آیا اور سیدھا اپنے ابو کے پاس پہنچا۔جب اس نے دونوں پراسرار آدمیوں کی بات اپنے ابو کو بتائی تو وہ تھوڑا چونکے پھر وہ اچانک اُٹھے اور بولے”آؤ! ذرا چل کر دیکھتے ہیں“زین اور اس کے ابو اس مکان کے قریب پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دروازے پر تالا لگا ہوا تھا لیکن کھڑکی سے روشنی باہر آتی نظر آ رہی تھی۔زین اور اس کے ابو جلدی سے گھر واپس آ گئے۔انہوں نے فون پر پولیس اہلکار کو پراسرار مکان اور مکینوں کے بارے میں بتایا۔تقریباً 15 منٹ بعد وہاں پولیس پہنچ گئی۔زین اور اس کے ابو نے مکان کی نشاندہی کر دی تو پولیس والوں نے دروازے پر لگا ہوا تالا توڑ دیا اور تیزی سے اندر داخل ہو گئے۔پولیس اہلکارو نے ساری کارروائی اتنی تیزی سے کی کہ اندر موجود لوگوں کو سنبھلنے کا وقت ہی نہ ملا۔وہاں موجود پانچ آدمیوں کی تلاشی لی تو وہاں کئی تھیلے پڑے تھے جن میں اسلحہ بھرا ہوا تھا۔پولیس نے ان پانچوں آدمیوں کو گرفتار کر لیا اور اپنے ساتھ تھانے لے گئی۔اگلے دن زین نے اخبار دیکھا تو سب سے پہلے اس کی نظر اس خبر پر پڑی وہ یہ تھی:”شہر میں دہشت گردی کی بڑی واردات ناکام بنا دی گئی 5 دہشت گرد گرفتار خطرناک اسلحہ برآمد‘دہشتگرد کئی ہفتوں سے ایک مکان میں مقیم تھے ذمہ دار شہری کی اطلاع پر بروقت کارروائی کرکے گرفتاریاں عمل میں آئیں پانچوں افراد شہر میں کسی بڑی واردات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔“دیکھا بچو زین نے سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے دہشت گرد گرفتار کروائے‘آپ بھی ہوشیار رہیں ایسے عناصر پر دھیان دیں۔ " آم دادا کی نصیحت - تحریر نمبر 2348,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aam-dada-ki-nasihat-2348.html,"پیر توقیر رمضانامی!آج تو اتوار ہے۔ہمیں پڑھنے نہیں جانا ہے۔کیا ہم باغ میں جا کر کھیل لیں؟سنجو نے اپنی ماں سے پوچھا۔کیا تم نے اور انجو نے دانت صاف کرکے منہ ہاتھ دھو لیا؟جی امی۔اچھا پھر تم جاؤ۔میں آدھے گھنٹے بعد آواز دوں گی تم دونوں ناشتہ کرنے آ جانا۔ہاں لیکن باغ میں جا کر اودھم نہ مچانا سب بچوں کے ساتھ مل جل کر کھیلنا۔ان کی والدہ نے دونوں کو تنبیہہ کی۔ٹھیک ہے امی۔ہم دونوں جا رہے ہیں۔سنجو نے کہا۔باغ میں کئی بچے پہلے سے موجود تھے۔جو رات کے زلزلے کے جھٹکوں میں گرے ہوئے آم کے درخت سے بات چیت کر رہے تھے۔رمیش نے کہا:”آم دادا!تمہیں زمین پر گرنے سے چوٹ تو بہت آئی ہو گی۔“آم روہانسا ہو کر بولا”ہاں بچو!مجھے چوٹ تو بہت آئی ہے۔(جاری ہے)میری کئی شاخیں ٹوٹ گئی ہیں لیکن میں ہمت نہیں ہاروں گا۔آم دادا تم تو بہت بہادر تھے۔تم زلزلے کے جھٹکوں سے لڑے کیوں نہیں؟سنجو نے پوچھا۔پیارے بچو۔میں لڑتا کیسے؟کارخانے اور فیکٹریوں کے زہریلے دھوئیں نے میری ہریالی کو ختم کر دیا ہے اور ساتھ ہی میری جڑ کے آس پاس گاؤں والوں نے پیلی مٹی کھود کھود کر تنے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔اس وجہ سے میری طاقت کم ہو گئی ہے۔اگر کسی کے پیروں کو کمزور کر دیا جائے تو وہ کیسے کھڑا ہو پائے گا؟میرے گرنے سے کئی پرندوں کے گھونسلے بھی گر گئے۔بے چاروں کے انڈے اور کچھ کے بچے بھی دب کر مر گئے۔آم دادا نے سنجو سے کہا۔سب بچے ٹوٹے ہوئے گھونسلوں کو دیکھنے لگے۔گھونسلوں اور مرے ہوئے بچوں کو دیکھ کر بچے افسوس کرتے ہیں۔ان بچوں میں سریش نام کا لڑکا عمر میں سب بڑا اور ہوشیار تھا۔وہ پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔وہ بولا۔آم دادا میرے ماسٹر صاحب کہتے ہیں۔اگر کسی مکان کی بنیاد کمزور کر دی جائے تو وہ جلد ہی گر جاتا ہے،اب اس بات کا مطلب سمجھ میں آیا۔ہاں ہاں!صحیح کہا ہے تمہارے ماسٹر صاحب نے کسی کی بنیاد کو کمزور کرنا اچھی بات نہیں جیسا گاؤں والوں نے میرے ساتھ کیا۔سنجو نے دُکھ ظاہر کرتے ہوئے کہا۔یہ تو ہمارے گاؤں والوں نے بہت بُرا کیا۔ایسا ہم سب کو نہیں کرنا چاہئے تھا۔ہاں بچو۔تم سب سمجھ گئے ہو کہ میں کس طرح اور کس وجہ سے گرا ہوں۔اب کوشش کرنا کہ میرے کسی بھائی کی ہریالی ختم نہ ہونے پائے اور نہ ہی میری جڑوں کی طرح میرے دوسرے درخت بھائیوں کی بنیادوں کو کمزور ہونے دینا اگر ایسا ہوا تو دنیا میں درخت ختم ہونے لگیں گے جس سے تازہ اور صاف ہوا ملنی مشکل ہو جائے گی۔آم دادا نے بچوں کو نصیحت کی۔کیا ہم سب مل کر تمہاری کوئی مدد کر سکتے ہیں کیا پہلے کی طرح دوبارہ کھڑا کر سکتے ہیں؟سب بچوں نے ایک ساتھ کہا۔اب تو بڑا مشکل ہے لیکن میں نے جو نصیحت کی ہے اس پر عمل کرنا یہی میری اصل مدد ہے۔آج کے بعد سے تم عہد کرو کہ تم کسی بھی درخت کی جڑوں کو کمزور نہیں ہونے دو گے۔“آم دادا کی بات سن کر سب بچوں نے وعدہ کیا کہ آج سے ہم ہر درخت کی حفاظت کریں گے۔اسی دوران سنجو اور انجو کی ماں نے ان کو ناشتے کیلئے پکارا اور وہ دونوں بھائی بہن آم دادا کی نصیحت یاد کرتے ناشتہ کرنے کیلئے گھر کی طرف چل دیے۔ " مٹھو کی ندامت - تحریر نمبر 2347,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mithu-ki-nidamat-2347.html,"سمیرا انور،جھنگارے!”مٹھو تم کیوں آج غصے میں دکھائی دے رہے ہو۔“ایمن نے سکول سے واپسی پر مٹھو کو اُچھلتے دیکھا تو پوچھا۔”کیا آج پھر کبوتر اور مینا سے لڑائی ہوئی ہے۔“مٹھو نے اثبات میں سر زور سے ہلایا۔مٹھو ایک خوبصورت پہاڑی طوطا تھا جو بہت پیارا بولتا تھا۔ایمن کے دادا جان نے اپنے ایک رشتہ دار سے بطور خاص اس کیلئے منگوایا تھا۔اس کے علاوہ کبوتر،مینا اور مور بھی اپنے الگ الگ پنجرے میں رہتے تھے۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مٹھو کی اکثر ان کے ساتھ لڑائی ہوتی رہتی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جو بھی امرود کھاتا اس کا بقیہ حصہ ان کی طرف پھینک دیتا جس کی وجہ سے کبوتر اور مینا برہم ہوتے اور اونچی آواز سے بولنے لگتے۔آج بھی یہی ہوا تھا۔(جاری ہے)مور خاموشی سے سب دیکھتا تھا۔اس نے مٹھو کو کئی بار سمجھایا کہ ایسا کرنا اچھی بات نہیں ہے۔پنجرے کی صفائی رکھنی چاہئے اور کسی کو تنگ نہیں کرنا چاہئے۔ہمیں آپس میں اتفاق سے رہنا ہے لیکن مٹھو تو اپنی سریلی آواز کی وجہ سے کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ایمن دادا جان کے کمرے میں گئی تو انہوں نے اس کے پریشان چہرے پہ نظر دوڑائی اور پوچھنے لگے۔کیا بات ہے بیٹی؟اس نے کہا”دادا جان آج پھر مٹھو نے امرود کے سارے چھلکے کبوتر اور مینا کے پنجروں کے قریب پھینک دیئے ہیں اور وہ دونوں اُچھل اُچھل کر باہر آنے کی کوشش کر رہے تھے۔دادا جان مٹھو کی کارستانی سے واقف تھے۔وہ سوچنے لگے کہ اب مٹھو کا کوئی نہ کوئی بندوبست کرنا پڑے گا۔اگلے دن علی الصبح مٹھو کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ کبوتر مینا اور مور کے پنجرے وہاں سے غائب تھے۔اس نے سوچا دادا جان ان کو باغ میں لے کر گئے ہوں گے اور اس کے بعد مجھے بھی آ کر لے جائیں گے۔لیکن دوپہر سے شام ہو گئی نہ ہی وہ سب آئے اور نہ ہی دادا جان اور ایمن نے چکر لگایا۔مٹھو نے بے دلی سے امرود کھایا اگلی صبح بھی ایسا ہی ہوا مٹھو اکیلا اور اُداس اِدھر اُدھر گھومتا رہا۔پہلے مینا اور کبوتر کی وجہ سے دل لگا رہتا تھا۔وہ اس کی شرارتوں سے تنگ تھے۔اس لئے اس کو چھوڑ کر چلے گئے مٹھو نے بجھے دل سے سوچا اب اس کو مور کی نصیحت یاد آنے لگی۔یونہی ایک ہفتہ گزر گیا اسے اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا کہ وہ خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا تھا اور آج وہ کتنا اکیلا ہے۔مالی بابا نے دیکھا کہ مٹھو نے آج صبح سے کچھ نہیں کھایا اور یونہی افسردہ سا بیٹھا ہے۔اس نے دادا جان کو بتایا صبح مٹھو کی آنکھ طوطے اور مینا کی چہچہاہٹ سے کھلی وہ خوشی سے اُچھل پڑا اور سریلی آواز سے کہنے لگا۔”خوش آمدید!جی آیا نوں:”دادا جان اور ایمن بھی پاس کھڑے مسکرا رہے تھے وہ جان گئے کہ مٹھو کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور مینا،کبوتر اس کی بے تحاشا خوشی کے اظہار پر حیران رہ گئے۔ " بڑا آدمی بننے کا گُر - تحریر نمبر 2346,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bara-admi-banne-ka-gur-2346.html,"شیخ معظم الٰہی،لاہورکاشف اپنی سوتیلی،ماں کے ظلم و ستم اور ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آ گیا تھا اس نے ایک بڑا فیصلہ کیا اور رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔آخر شام ڈھل گئی اور رات کے اندھیرے نے سب چیزوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔کاشف نے گھر کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور اپنے جمع شدہ روپے جیب میں ڈالے اور گھر سے نکل گیا۔اس کے قدم خود بخود سٹیشن کی طرف بڑھنے لگے۔وہ کراچی جانا چاہتا تھا۔اس نے سٹیشن پہنچ کر کراچی کا ٹکٹ لیا۔تھوڑی دیر بعد ریل گاڑی آ گئی تو وہ اس میں بیٹھ گیا جس سیٹ پر وہ بیٹھا تھا اس کے برابر والی سیٹ پر ایک بزرگ بیٹھے تھے۔کاشف چونکہ ابھی گیارہ سال کا تھا اس لئے بزرگ حیران ہوئے کہ یہ چھوٹا سا بچہ اکیلا کہاں جانا چاہتا ہے؟انہوں نے کاشف سے پوچھا کہ بیٹا تم کہاں جا رہے ہو؟۔(جاری ہے)کاشف کے ساتھ کبھی کسی نے اتنی نرمی سے بات نہیں کی تھی۔کاشف نے جواب دیا کہ میں کراچی جانا چاہتا ہوں۔لیکن کراچی کس کے پاس جا رہے ہو؟کاشف نے جواب دیا کہ ماموں کے پاس جا رہا ہوں۔کاشف نے جھوٹ بولا لیکن وہ گھبرا گیا تھا۔بزرگ کاشف کی گھبراہٹ سے جان گئے تھے کہ یہ لڑکا جھوٹ بول رہا ہے۔وہ بولے بیٹا!تم مجھے اپنی پریشانی بتاؤ۔شاید میں تمہاری کوئی مدد کر سکوں یہ سنتے ہی کاشف کا دل نجانے کیوں سب کچھ بتانے کو چاہا اور اس نے سب کچھ شروع سے آخر تک بتا دیا۔کاشف کی بات ختم ہونے پر بزرگ بولے کہ لیکن بیٹا تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔تم میری بات مانو اور اگلے سٹیشن پر اُتر جاؤ اور کسی دوسری ریل گاڑی سے واپس لاہور چلے جاؤ۔پھر تمہارے گھر والے تمہارے اوپر جتنی بھی سختیاں کریں تم ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ․․․اور محنت کرنا۔اگر تم نے میری نصیحت پر عمل کیا تو تم ایک دن بڑے آدمی بن جاؤ گے اور اگر تم گھر واپس نہ گئے تو تم غلط لوگوں کے ہتھے چڑ جاؤ گے اور تمہاری زندگی برباد ہو جائے گی۔کاشف نے بزرگ کی باتیں غور سے سنیں اور پھر گھر جانے کا فیصلہ کر لیا۔اگلے سٹیشن پر وہ اُتر گیا اور لاہور واپس اپنے گھر پہنچ گیا۔اس نے اپنے گھر میں قدم رکھا تو اسے ایک خوشی سی محسوس ہوئی اور پھر وہ اپنے کمرے میں آ کر سو گیا۔صبح ہوئی تو اس نے بڑی محنت سے اپنا کام کرنا شروع کر دیا اگر اسے مار پڑتی تو خوشی سے سہہ لیتا تھا۔وہ ایک معمولی سکول میں پڑھتا اور سکول سے آکر اخبار اور رسالے فروخت کرتا۔اس طرح پڑھتے پڑھتے اس نے ڈاکٹری کا امتحان پاس کر لیا اور ڈاکٹر بن گیا۔بزرگ کی بات سچ ثابت ہو چکی تھی وہ ایک بڑا آدمی بن چکا تھا۔اب ہر کوئی اس کی عزت کرتا تھا۔ " ملکہ اور رحم دل بادشاہ - تحریر نمبر 2345,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/malka-aur-reham-dil-badshah-2345.html,"محمد ثاقب نظامیایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک پر ایک رحم دل بادشاہ حکومت کرتا تھا،اس کی دو ملکہ تھیں۔چھوٹی ملکہ اس کی طرح رحم دل تھی اس کے تین بچے تھے،جب کہ بڑی ملکہ اولاد کی نعمت سے محروم تھی۔بادشاہ چھوٹی ملکہ اور اس کے بچوں سے بہت پیار کرتا تھا،جس کی وجہ سے بڑی ملکہ چھوٹی ملکہ سے حسد کرتی تھی۔ایک دن اس نے اپنی سوکن اور اس کے بچوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے سازش تیار کی جس کے لئے محل کے ایک ملازم کو بھی ساتھ ملا لیا۔ایک روز جب تینوں بچے باغ میں کھیل رہے تھے اور اس وقت وہاں ان کے سوا کوئی نہیں تھا۔ملازم بچوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ آؤ میں تمہیں پورے باغ کی سیر کراتا ہوں۔بچے بہت خوش ہوئے اور ملازم کے ساتھ چل دیئے۔وہ بچوں کو باغ کے دوسرے کونے میں لے گیا جو محل سے کافی فاصلے پر تھا۔(جاری ہے)وہاں اس نے پہلے ہی سے ایک بڑا گڑھا کھودا ہوا تھا۔جب بچے اس گڑھے کے پاس پہنچے تو ملازم نے تینوں کو اس میں دھکا دے کر اسے مٹی سے بھر دیا۔بچوں کو زندہ دفنانے کے بعد محل میں واقع اپنے کوارٹر میں جا کر اس نے اپنا حلیہ ٹھیک کیا۔ایک گھنٹے بعد اسے بادشاہ کی رہائش سے چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں۔وہ محل میں پہنچا تو بادشاہ سمیت تمام درباریوں کو تینوں شہزادوں کی گمشدگی کی وجہ سے پریشان پایا،جب کہ چھوٹی ملکہ اس صدمے سے پاگل ہو گئی تھی۔بادشاہ نے ملکہ کو بہ مشکل اس کے کمرے میں پہنچایا۔اسے پاگل پن کے دورے پڑنے لگے،وہ بادشاہ،سمیت جو بھی سامنے آتا،اسے مارنے دوڑتی۔ایک روز اس نے بڑی ملکہ پر چھری سے حملہ کیا،ملازموں نے بڑی مشکل سے اسے قابو میں کرکے بڑی ملکہ کی جان بچائی۔اس واقعے کے بعد بادشاہ نے ملازموں کو حکم دیا کہ وہ ملکہ کو محل سے باہر نکال کر کہیں دور چھوڑ آئیں،یوں چھوٹی ملکہ کو محل بدر کر دیا گیا۔وہ دن بھر شہر کی گلیوں میں گھومتی پھرتی،جب کہ بچے اس کے پیچھے پتھر لے کر دوڑتے۔رات کو وہ کسی مکان کے چبوترے پر سو جاتی۔ایک روز وزیر باغ میں چہل قدمی کرتے ہوئے اس کے آخری حصے میں پہنچ گیا۔وہاں اس نے عجیب و غریب پودا دیکھا جس پر تین بہت ہی خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے۔وہ اس کے قریب گیا،چاہتا تھا کہ ہاتھ بڑھا کر تینوں پھول توڑ لے کہ اسے پھولوں میں سے آواز سنائی دی،”تم ہمیں توڑنا چاہتے ہو،ہم اونچے ہوتے جائیں گے،کسی کے ہاتھ نہ آئیں گے،”بادشاہ سلامت آئیں گے تو ہم ان کے ہاتھ میں جائیں گے۔“یہ سن کر وزیر دوڑا،دوڑا بادشاہ کے پاس گیا اور اسے پورا ماجرا سنایا۔بادشاہ،اس کے ساتھ باغ میں آیا۔اسے بھی یہ تینوں پھول بہت پیارے لگے،اس نے اس سے قبل اس طرح کے پھول کبھی نہیں دیکھے تھے۔اس نے پودے کے پاس پہنچ کر پھول توڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ان میں سے آواز آئی،”ہم اونچے ہوتے جائیں گے،کسی کے ہاتھ نہ آئیں گے،بڑی ملکہ آئیں گی تو ہم ان کے پاس جائیں گے“۔بادشاہ نے یہ سن کر وزیر کو حکم دیا کہ وہ فوراً بڑی ملکہ کو بلا کر لائے۔وزیر محل میں گیا اور ملکہ کے پاس جا کر اسے ساری بات بتائی اور اسے بادشاہ کے حکم کے بارے میں بھی بتایا۔بڑی ملکہ یہ سن کر بہت خوش ہوئی کہ پھولوں نے اسے بلایا ہے۔جب بڑی ملکہ پھولوں کے پاس گئی اور انہیں پکڑنے لگی تو پھولوں میں سے پھر آواز آئی،ہم اونچے ہوتے جائیں گے ہم کسی کے ہاتھ نہ آئیں گے،چھوٹی ملکہ آئیں گی تو ہم ان کے ہاتھ آئیں گے۔بادشاہ نے یہ سنا تو وہ بہت پریشان ہوا کیونکہ چھوٹی ملکہ کو محل سے نکال دیا تھا۔بادشاہ نے اپنے ملازمین کو بھیجا کہ وہ ملکہ کو ڈھونڈیں۔جلد ہی چھوٹی ملکہ مل گئی اور اسے باغ میں لایا گیا۔جیسے ہی چھوٹی ملکہ نے پھولوں کو ہاتھ لگایا تو وہ پھول بچوں میں تبدیل ہو گئے۔چھوٹی ملکہ اپنے بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔بادشاہ نے جب بچوں سے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ انہیں ملازم یہاں لایا تھا اور اس نے ہمیں گڑھے میں پھینک کر زندہ دفنایا تھا۔اُسی وقت یہاں سے ایک پری گزر رہی تھی۔اس نے ہمیں پھول بنا دیا اور کہا کہ جب وزیر یہاں سے گزرے گا تو تم اسے یہ کہنا۔یہ سن کر بادشاہ نے ملازم کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟اس نے بتایا کہ اسے یہ سب بڑی ملکہ نے کرنے کو کہا تھا۔یہ سنتے ہی بادشاہ نے حکم دیا کہ بڑی ملکہ اور ملازم کو اندھے کنویں میں ڈال دیا جائے،لیکن چھوٹی ملکہ نے بادشاہ کو ایسا کرنے سے منع کیا اور انھیں معاف کر دیا۔بادشاہ نے بھی انہیں معاف کر دیا،پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ " چور پکڑا گیا - تحریر نمبر 2344,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chor-pakra-gaya-2344.html,"اُمیمہ عاصم،کراچیایک گاؤں میں علی اور احمد دو دوست رہا کرتے تھے۔علی کا گھر احمد کے گھر سے ذرا دور تھا۔ان دونوں کی دوستی گاؤں میں قائم واحد اسکول میں پڑھنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ایک دن احمد کے گھر میں چور کودا،لیکن آہٹ ہونے پر بھاگ گیا۔یہ بات احمد نے علی کو بتائی۔علی نے کہا:”احمد!تم پریشان نہ ہو۔“آج دونوں دوست رات میں احمد کے گھر میں موجود تھے۔(جاری ہے)اسی رات چور پھر آ گیا۔اس نے دیوار سے کان لگا کر سنا احمد اپنی امی سے کہہ رہا ہے کہ امی یہ پیسے میرے دوست علی نے دیے ہیں۔ان کو اپنے کمرے کی الماری کے اوپر والے خانے میں رکھ دیں۔چور یہ سب سن رہا تھا۔سب کے سونے کے بعد چور اندر کود گیا اور بہت زور سے زمین پر گر کر چلانے لگا۔احمد اور علی نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔یہ منصوبہ علی کا تھا کہ چور وہاں پر پڑے ہوئے صابن ملے پانی سے پھسل کر گر جائے گا۔اس طرح ہم چور کو پکڑ لیں گے۔ " دو سہیلیاں جو راستہ بھول گئی - تحریر نمبر 2343,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/2-saheliyan-jo-rasta-bhool-gayi-2343.html,"ماہین شیخ،لاہورزوبیہ اور مومنہ بہت اچھی سہیلیاں تھیں۔جب ان کو سکول سے چھٹیاں ہوئیں تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ کل صبح سیر پر جایا جائے؟صبح ہوئی تو وہ دونوں سیر کی تیاری کرکے ایک بڑے سے باغ میں چلی گئیں انہوں نے سوچا شام سے پہلے ہم واپس گھر پہنچ جائیں گی۔مومنہ نے کہا کہ آج تو ہم پورے باغ کی سیر کریں گی۔وہ دونوں سیر سے خوب لطف اُٹھا رہی تھیں۔گھومتے گھومتے دونوں بہت آگے تک گئیں وہ چلتے ہی جا رہی تھیں۔اچانک وہ دونوں گھر جانے کا راستہ بھول گئیں۔انہوں نے سوچا کہ درخت کے نیچے بیٹھ کر آرام کر لیتی ہیں پھر راستہ تلاش کریں گی۔وہ دونوں درخت کے نیچے بیٹھ گئیں۔ٹھنڈی اور تازہ ہوا سے ان دونوں کی آنکھ لگ گئی،اندھیرا اور ٹھنڈ دونوں بڑھ رہی تھیں۔(جاری ہے)جب زوبیہ کی آنکھ کھلی تو اسے اپنے سامنے ایک بچہ نظر آیا۔وہ اس کے پاس گئی اور پوچھا کہ تم کہاں رہتے ہو۔اس نے کہا میرا نام عمر ہے اور میں اس باغ کے بہت پاس رہتا ہوں لیکن آپ یہاں اتنی رات کو کیا کر رہی ہیں۔زوبیہ نے کہا میں راستہ بھول گئی ہوں باہر جانے کا۔کیا تم مجھے راستہ بتاؤ گے؟عمر نے کہا آپ میرے پیچھے آئیں۔زوبیہ اس کے پیچھے چلتی رہی اور وہاں مومنہ کی بھی آنکھ کھل گئی وہ ٹھنڈ سے کانپ رہی تھی۔اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک آدمی کھڑا ہے اس آدمی نے مومنہ سے کہا تمہیں بہت ٹھنڈ لگ رہی ہے آج تم میرے گھر چلو وہاں آرام کر لو پھر صبح اپنے گھر چلی جانا۔مومنہ کی حالت بہت بری ہو رہی تھی۔اس نے دیکھا کہ زوبیہ وہاں نہیں ہے تو اس نے ایک خط زوبیہ کیلئے چھوڑ دیا اور اس آدمی کے ساتھ چلی گئی۔جب زوبیہ نے آ کر وہ خط پڑھا تو وہ گھر چلی گئی اور صبح اپنی کزن فاطمہ کے ساتھ آ گئی جب اس نے اس آدمی کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس نے کہا کہ تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو؟انہوں نے کہا ہم یہاں اپنی دوست مومنہ کو لینے آئے ہیں۔اس نے کہا یہاں کوئی مومنہ نہیں رہتی اور دروازہ بند کر دیا۔اچانک فاطمہ کی نظر مومنہ پر پڑی وہ اوپر والے کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی۔انہوں نے سوچا ہم رات کو آئیں گے۔ان کی قسمت اچھی تھی کہ رات کو وہ دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔وہ دونوں اندر گئیں اور اس آدمی کے کمرے کو کنڈی لگا دی اور اس کمرے میں گئیں جہاں مومنہ تھی ان دونوں نے جلدی سے مومنہ کو باہر نکالا اور پولیس کو فون کیا جب اس آدمی نے پولیس کے آنے کی آواز سنی تو اس نے بھاگنے کی کوشش کی مگر دروازہ بند تھا۔انہوں نے اس آدمی کو پولیس کے حوالے کر دیا اور خود واپس اپنے اپنے گھر کو چلی گئیں۔ " خبر گیری - تحریر نمبر 2342,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khabar-geeri-2342.html,"عائشہ یاسینرافع ایک بہت ہی ہونہار بچہ تھا۔بڑوں کا ادب کرتا تھا اور سب کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار رہتا تھا۔اسے جانوروں سے بھی بے حد محبت تھی۔وہ روز منڈیر پر بیٹھنے والی چڑیوں اور کوؤں کے لئے ایک تھال میں باجرہ اور ایک تھال میں پانی ڈالا کرتا۔ایک دن جب وہ گھر سے نکلا تو گلی کے کنارے اس کو ایک زخمی کتا نظر آیا۔کتے کی حالت اتنی خراب تھی کہ وہ اُٹھ بیٹھ بھی نہیں پا رہا تھا۔رافع کو اسے دیکھ کر بڑا رحم آیا۔وہ فوراً گھر گیا اور مرہم پٹی کرنے کیلئے دوائیں ایک تھیلے میں ڈالیں اور ساتھ میں اس کے پینے کیلئے پانی اور کھانا بھی لے لیا۔جب رافع اس کتے کے پاس پہنچا تو وہ کچھ ڈر سا گیا۔رافع نے اس کا خوف دور کرنے کے لئے پہلے تو اس کو پانی پلایا اور کھانے کو دیا۔(جاری ہے)کتا بہت بھوکا پیاسا تھا لگتا تھا کہ اس نے صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔کتے نے رافع کو پیار بھری نگاہ سے دیکھا تو رافع کو بہت خوشی ہوئی۔پھر اس نے اس کے زخموں کی مرہم پٹی کی اور صبح آنے کا کہہ کر گھر آ گیا۔دوسرے دن جب رافع اس کی خبرگیری کرنے گیا تو کتا وہاں موجود نہیں تھا۔یہ دیکھ کر رافع خوش ہوا کہ وہ صحت مند ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔ابھی وہ خوشی خوشی واپس آ رہا تھا کہ راستے میں اس کے پیچھے کچھ غنڈے لگ گئے رافع ڈر کے مارے سہم گیا غنڈے جیسے ہی اس کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھے تو اس نے چیخنا شروع کر دیا مگر وہاں کوئی موجود نہ تھا جو اس کی مدد کو آتا کہ اچانک ایک کتے نے زور زور سے بھوکنا شروع کر دیا۔غنڈے ڈر کے مارے بھاگ کھڑے ہوئے۔رافع نے جب غور سے دیکھا تو یہ وہی کتا تھا جس کی اس نے مدد کی تھی۔رافع نے اس کو گلے لگایا اور اس طرح وہ دونوں اچھے دوست بن گئے۔آپ نے دیکھا۔کتے نے کیسے احسان کا بدلہ احسان سے اُتارا۔ " انوکھی ترکیب - تحریر نمبر 2341,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/anokhi-tarkeeb-2341.html,"محمد ابوبکر ساجد پھول نگرپرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔رعایا کی خوش قسمتی کہ بادشاہ انصاف پسند تھا،وہ اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتا تھا۔خوامخواہ کی جنگ و جدل سے پرہیز کرتا تھا۔شہزادے بھی اپنی رعایا پر بڑے مہربان تھے۔ایک دن ملکہ کا ہار گم ہو گیا،جس پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے،وہ ملکہ کی شادی کا یادگار ہار تھا۔بادشاہ ملکہ اور دروغہ نے بڑی کوشش کی کہ ہار مل جائے مگر جسے ملا تھا اس نے واپس نہ کیا۔بادشاہ تشدد کے خلاف تھا،پس اُس نے اعلان کرا دیا کہ جو ملکہ کے ہار کا پتہ بتائے گا،اُسے بھاری انعام دیا جائے گا مگر پھر بھی نہ ملا۔وزیر نے مشورہ دیا کہ بادشاہ سلامت رعایا میں منادی کروا دی جائے کہ کوئی اس ہار کو ڈھونڈنے کی ترکیب بتائے تو اُسے ایک ہزار دینار انعام دیا جائے گا۔(جاری ہے)ہار چونکہ محل میں گم ہوا تھا،شک بھی خادموں،خدمتگاروں اور ملازموں پر تھا وہ سب پرانے اور وفادار تھے اسی لئے بادشاہ اُن پر تشدد کا قائل نہ تھا کہ یہ غلط حرکت تو کسی ایک فرد نے کی تھی،اُس کی سزا کسی دوسرے کو نہ ملے۔بادشاہ نے ملک میں سنادی کروا دی کوئی ترکیب بتائے جس سے ہار مل جائے تو اُسے بڑا انعام دیا جائے گا۔بہت سے لوگ تجاویز لے کر آئے،کوششیں بھی کی گئیں مگر ہار نہ ملا۔ایک دن بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا کہ ایک لڑکا بمعہ اپنے گدھے کے ساتھ حاضر ہوا اور عرض کی کہ وہ ہار ڈھونڈ کر دے گا۔بادشاہ اور درباری حیران رہ گئے،کہاں یہ لڑکا اور کہاں وہ بوڑھے عقلمند افراد جن کی تجاویز سے بھی ہار نہیں ملا،یہ کیسے ہار ڈھونڈ کر دے گا؟بادشاہ نے پوچھا کہ وہ کیسے ہار ڈھونڈ کر دے گا؟لڑکے نے جس کا نام ابوذر تھا،کہا کہ میرے اس گدھے کو عام گدھا نہ سمجھیں،یہ بہت حساس گدھا ہے،جونہی چور اس کی دم کو ہاتھ لگائے گا یہ ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگے گا۔بادشاہ نے کہا اگر ایسا ہوا تو اُسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔محل میں اُس گدھے کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ابوذر نے دو خیمے نصب کرائے۔ایک خیمے میں گدھا باندھ دیا گیا اور دوسرے خیمے میں وہ خود بادشاہ کے ساتھ بیٹھ گیا۔سب،ملازمین،خادموں اور نوکروں کو یکے بعد دیگرے اُس خیمے میں فرداً فرداً گدھے کی دم کو ہاتھ لگانے کا حکم دیا گیا۔ملازم،خادم پہلے خیمے میں جاتے پھر دوسرے خیمے میں جاتے جہاں ابوذر اُن کے ہاتھ پر بوسہ دیتا اور وہ خیمے سے نکل جاتے۔ایک ملازم آیا جونہی ابوذر نے اُس کے ہاتھ پر بوسہ دینا چاہا تو اس نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بادشاہ سے کہا:”یہ ہے آپ کا چور۔“بادشاہ نے اُس کی طرف دیکھا تو وہ بادشاہ کے قدموں میں گر پڑا۔بادشاہ سلامت مجھے معاف فرما دیں،ہار میرے پاس ہے،میں لالچ میں آ گیا تھا،مجھے معاف کر دیں،ابھی لا کر دیتا ہوں۔بادشاہ حیران تھا کہ اتنی آسانی سے اُسے ہار ملنے کی توقع نہ تھی۔جب ملازم ہار لینے کیلئے خیمے سے باہر نکلا تو بادشاہ نے لڑکے ابوذر سے پوچھا:”تم نے چور کو کیسے پہچان لیا جبکہ گدھا․․․ایک معمولی سی بات سے ابوذر نے کہا وہ معمولی سی بات کونسی تھی۔بادشاہ نے کہا۔بادشاہ سلامت!گدھے میں کوئی کوالٹی نہیں،گدھا تو گدھا ہے،میں نے اُس کی دم پر تیز خوشبو لگائی تھی چونکہ باقی ملازم،خدمتگار چور نہ تھے،اُنہوں نے اُس کی دم کو بلا جھجک ہاتھ لگایا۔میں بوسہ لینے کے ساتھ اُن کے ہاتھوں کی خوشبو سونگتا تھا۔چونکہ یہ چور تھا،اُس نے گدھے کی دم کو اس ڈر سے ہاتھ نہ لگایا کہ کہیں گدھا بول نہ پڑے اور پکڑا نہ جائے،اُس کے ہاتھ پر خوشبو نہ تھی،بس اتنی سی بات تھی۔بادشاہ کو ہار مل گیا،اُس نے انعام و اکرام سے ابوذر کو رخصت کیا اور اُس ملازم کو معاف کر دیا کیونکہ وہ بھی انسان تھا اور انسان خطا کا پتلا ہے۔پیارے بچو!معاف کرنے میں بھی بڑھائی ہے۔ " گلشن اور پری - تحریر نمبر 2340,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gulshan-aur-pari-2340.html,"ثومیہ نازگلشن نے اس لڑکی کو بہت غصے سے دیکھا۔میرا جھولا خالی کرو میں نے جھولے لینے ہیں۔گلشن اپنے جھولے کے قریب آتے ہوئے بولی۔وہ لڑکی گلشن کی ڈانٹ سن کر فوراً جھولے سے اُتر گئی اور جھولا گلشن کے حوالے کر دیا۔گلشن پانچویں جماعت میں پڑھتی تھی اور اپنی کلاس کی ایک ذہین لڑکی سمجھی جاتی تھی۔اپنی امی کے ساتھ بھی گھریلو کاموں میں مدد کرتی تھی لیکن ہر مدد وہ اپنے موڈ کے مطابق کرتی اور آج بھی صبح سے اس کا موڈ خراب تھا۔اس لئے آج اسکول سے چھٹی ہونے کے باوجود بھی وہ گھریلو ماحول میں اپنی امی کا ہاتھ نہیں بٹا رہی تھی۔بس صبح ہی سے اپنے پسندیدہ جھولے پر جھول رہی تھی۔یہ جھولا پسندیدہ یوں تھا کہ اسے گلشن نے اپنے ابو سے فرمائش کرکے بنوایا تھا۔(جاری ہے)وہ اپنے بہن بھائیوں کو بھی اس جھولے کے قریب نہ آنے دیتی تھی۔اور جب موڈ اچھا ہوتا تو یہ اور بات تھی کہ اپنے بھائیوں کو جھولے کے قریب آنے دیتی تھی۔اور جب آج یہ اجنبی لڑکی جھولے پر بیٹھی جھولا جھول رہی تھی تو گلشن کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آ گیا۔گلشن کے ڈاٹنے پر اس لڑکی نے جھولا تو فوراً خالی کرکے گلشن کے حوالے کر دیا۔لیکن یہ لڑکی آئی کہاں سے تھی۔غصے میں گلشن نے یہ سوچا بھی نہیں تھا۔گلشن اپنے پسندیدہ جھولے پر بیٹھ کر تیز تیز جھولے لینے لگی اور پھر اچانک کچھ دیر بعد گلشن یکا یک چونک گئی۔اس نے اس اجنبی لڑکی کو غور سے دیکھا۔جھولے کے تیز ہلکورے سست ہونے لگے۔عجیب سی بات تھی کہ وہ اجنبی لڑکی سامنے گھاس پر بیٹھی گلشن کو جھولا جھولتے دیکھ رہی تھی۔اس کے دیکھنے میں گلشن کے لئے پیار محبت اور چاہت محسوس ہو رہی تھی۔گلشن نے سوچا میرے خیال میں اس لڑکی کو پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھا ہے۔گلشن کے موڈ نے یہ سوچتے ہی یکلخت پلٹا کھا لیا اب اسے اس اجنبی لڑکی پر پیار سا آ گیا تھا۔وہ جھولا روک کر اس کی طرف بڑھی اور بولی۔تمہیں میرا جھولا پسند ہے آؤ۔اب جھولے کی باری تم لے لو۔میرے غصے کو محسوس نہ کرنا میں معذرت کرتی ہوں۔وہ اجنبی لڑکی گلشن کی یہ بات سن کر مسکرانے لگی۔میں بہت غریب لڑکی ہوں میرے گھر ایسا جھولا نہیں ہے تم میرے ساتھ دوستی کر لو اور روزانہ مجھے جھولا بھی جھولنے دیا کرو۔اجنبی لڑکی نے جواباً کہا۔دوستی کا سن کر گلشن نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔اجنبی لڑکی نے گلشن کا ہاتھ نرمی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔گلشن بولی مجھے تمہاری دوستی قبول ہے اور میرا جھولا بھی تمہارے لئے حاضر ہے۔جب تمہارا جی چاہے آ کر جھولا جھول لیا کرو۔وہ دونوں باتیں کر رہی تھیں کہ گلشن کو اپنی امی کی پکار سنائی دی۔وہ کسی کام کے لئے گلشن کو بلا رہی تھیں۔اپنی امی کی پکار پر گلشن کا چہرہ بگڑنے لگا۔اجنبی لڑکی نے یہ دیکھا تو فوراً کہا دیکھو ایسا نہ کرو آؤ ہم دونوں اکھٹے امی کی طرف چلتے ہیں۔تمہیں اپنی امی کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔گلشن نے اجنبی لڑکی کی طرف حیرت سے دیکھا کیونکہ اس لڑکی کا لباس اب رنگ بدلنے لگا تھا۔لیکن اجنبی لڑکی تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے گلشن کی امی کی طرف جانے لگی۔گلشن کو بھی اس کا ساتھ دینا پڑا۔اجنبی لڑکی نے گلشن کی امی کے قریب جا کر سلام کیا۔گلشن کی امی نے سلام کا جواب دیا اور اجنبی لڑکی کو ہاتھ سے پکڑ کر ساتھ بٹھا لیا۔گلشن کی امی نے کہا تم ضرور گلشن کی دوست ہو گی۔لڑکی نے جواب میں کہا جی میں آج ہی گلشن کی دوست بنی ہوں دراصل مجھے گلشن کا جھولا بہت اچھا لگا تو میں جھولے پر کچھ دیر جھولنے آ گئی تھی۔یہاں پھر وہی حیرت انگیز بات ہوئی کہ اس اجنبی لڑکی کے لباس نے رنگ بدلا۔یہ لڑکی جب سے گلشن کو جھولے کے قریب نظر آئی تھی اس وقت سے اس کے لباس نے تیسری بار رنگ بدلا تھا۔پہلی بار اس کے کپڑوں کا رنگ نیلا تھا۔دوسری بار سبز ہوا۔اور اب ہلکا آسمانی کلر کا ہو گیا تھا۔یہ دیکھ کر گلشن حیرت بھری آواز میں بولی․․․․یہ یہ․․․․کیا ہو رہا ہے؟تمہارے کپڑے رنگ کیوں بدل رہے ہیں؟گلشن کی امی گلشن کی بات پر مسکرانے لگیں اور پھر بولیں۔میری بھولی بیٹی یہ تمہاری دوست پری ہے اور پرستان سے آئی ہے۔گلشن کی امی کی اس بات پر اجنبی لڑکی اور گلشن دونوں حیران رہ گئے وہ اجنبی لڑکی بولی۔یہ آپ نے کیسے جانا کہ میں پری ہوں؟گلشن کی امی نے کہا وہ ایسے کہ میں جب چھوٹی تھی اور گلشن کی عمر کی تھی تو میری بھی ایک پری دوست بنی تھی۔اس کا نام مہہ پارہ تھا۔بعد میں اسے ایک دیو اغواء کرکے لے گیا تھا۔دیو سے ایک نیک جن نے اسے آزاد کرا لیا تھا اور پھر اس جن سے اس کی شادی ہو گئی تھی۔مہہ پارہ شادی کے بعد مجھ سے کبھی نہیں ملی۔ہاں میری شادی پر ایک خوبصورت تحفہ اس نے ضرور بھیجا تھا یہ تحفہ ایک خوبصورت قالین تھا۔جو ایک طویل عرصے سے میرے کمرے میں بچھا ہوا ہے۔اور ذرا بھی خراب نہیں ہوا مہہ پارہ نے مجھے پریوں کو پہچاننے کی نشانیاں بتا دی تھی۔ان نشانیوں سے میں نے تمہیں دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔گلشن نے یہ سب سن کر امی سے کہا۔امی جان آپ اتنی گہری ہیں ہمیں تو آپ نے کبھی یہ پری وغیرہ کے بارے میں نہیں بتایا یہ میری دوست پری بھی مجھے کہہ رہی تھی کہ میں غریب لڑکی ہوں اور میرے گھر ایسا جھولا نہیں ہے۔وہ اجنبی لڑکی جو دراصل پری تھی جواباً بولی۔ہم پریاں آسانی سے خود کو انسانوں پر ظاہر نہیں کرتیں۔لیکن تمہاری امی نے مجھے پہچان لیا تمہاری امی بہت سمجھ دار اور اچھی ہیں تمہیں اپنی امی کی قدر کرنا چاہیے۔کچھ دیر بعد وہ پری اب رخصت ہونے لگی گلشن نے اس سے کہا کہ وہ پھر کب اس سے ملنے آئے گی تو پری نے کہا۔میں تب تم سے ملنے آؤں گی جب تم اپنے آپ کو بدلو گی اپنی امی جان کے ساتھ گھر کے کاموں میں مدد کرو گی اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اچھا سلوک اور انہیں اپنے جھولے پر جھولنے کی باری دو گی۔اس کا وعدہ کرو تو میں تمہیں مستقل ملنے آؤں گی۔گلشن نے بے اختیار پری کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں اچھی لڑکی بنو گی سب کے ساتھ اچھے انداز سے پیش آؤں گی۔گلشن کی یہ بات سن کر پری کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی وہ بولی۔ٹھیک ہے میں پھر تم سے ملنے آؤں گی ہم کو وہ بچے بہت اچھے لگتے ہیں جو بڑوں کا کہنا مانتے ہیں۔یہ کہتے ہوئے اس لڑکی کا روپ بدلنے لگا وہ لڑکی کچھ دیر میں پری بن چکی تھی اور پھر وہ پرواز کرتے ہوئے آسمان پر گلشن اور اس کی امی کی نگاہوں سے دور ہوتے ہوتے تارہ بن کر غائب ہو گئی۔ " اصل کامیابی - تحریر نمبر 2339,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/asal-kamyabi-2339.html,"کائنات سلیمی،شاہ کوٹاسلم پانچویں جماعت کا طالب علم ہے،لیکن اسے اپنی پڑھائی سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ایک دن اسلم کو کسی کام سے اسکول کی لائبریری میں جانا پڑا اور وہاں جا کر بہت حیران ہوا،کیونکہ وہاں بہت خاموشی تھی اور اسکول کے کچھ بچے وہاں بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔اسلم نے ان سے پوچھا کہ وہ کھیل کیوں نہیں رہے؟انھوں نے بتایا:”اگر وہ اپنا قیمتی وقت کھیل کود میں ضائع کریں گے تو بڑے افسر کیسے بنیں گے؟“اسلم نے کہا:”مگر زیادہ پڑھنے سے کیا فائدہ ہو گا؟پڑھنے کے لئے تو ساری عمر پڑی ہے۔(جاری ہے)“انھوں نے کہا:”اگر وقت پہ اپنا کام نہیں کریں گے تو وہ دوسروں سے پیچھے رہ جائیں گے اور اپنے ملک کا نام روشن نہیں کر سکیں گے۔اگر ہم اپنا آدھا وقت تعلیم پر لگائیں تو ایسے بہت سے کام کر سکتے ہیں جن سے ہمارے ملک کا نام روشن ہو سکتا ہے۔اگر علم نہ ہو تو انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا اور اگر انسان کے پاس علم جیسی طاقت ہو تو وہ آسمان کی بلندیوں کو بھی چھو سکتا ہے۔“اسلم جو یہ سب کچھ بہت حیرانی سے سن رہا تھا اچانک فیصلہ کیا کہ علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔اس دن کے بعد اسلم نے پکا ارادہ کر لیا کہ وہ دل لگا کر پڑھائی کرے گا اور اپنے ملک کا نام روشن کرے گا۔ " آزادی کی چھاؤں - تحریر نمبر 2338,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azadi-ki-chhaon-2338.html,"نذیر انبالویبیس سال بعد بلال آج نہر والی سڑک کے قریب موجود تھا۔وہاں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ٹریفک زیادہ ہونے کے باعث سڑک چوڑی کر دی گئی تھی۔سڑک کی توسیع کی وجہ سے بہت سے درخت بھی کاٹ دیے گئے تھے۔اسے ایک درخت کی تلاش تھی۔”بیس سال پہلے،بہت وقت بیت گیا ہے،شاید اب وہ درخت یہاں نہیں ہے۔“یہ سوچتے ہوئے بلال آہستہ آہستہ چلتے ہوئے نہر کے قریب پہنچ گیا۔اسے یاد آیا کہ نہر کے کنارے ایک باغ میں اس نے اپنے دوستوں محمود،سخی،یاسر اور سعد کے ساتھ مل کر زمین میں ایک ننھا سا پودا لگایا تھا۔بلال پل بھر میں بیس سال پیچھے چلا گیا تھا۔محمود اُچھل اُچھل کر آم کے درخت کی شاخ کو پکڑ رہا تھا۔سخی بھی پیڑ سے آم توڑنے کے لئے بے تاب تھا۔(جاری ہے)یاسر اور سعد ڈرے ہوئے تھے۔پکڑے جانے کا خوف جو تھا۔بلال ایک ایک درخت کو دیکھ رہا تھا۔درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں سکون ہی سکون تھا۔پرندے اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے۔بلال نے اپنے دوستوں کو ایک گھنے درخت کے نیچے بلا کر کہا:”واہ کیا ٹھنڈی ہوا ہے،میں چاہتا ہوں کہ ہم سب مل کر یہاں ایک پودا لگائیں،اس کی حفاظت کریں،جب پودا درخت کی صورت اختیار کرے تو اس کی چھاؤں میں بیٹھ کر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوں،کیا تم میرا ساتھ دو گے؟“”ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔“یہ آواز یاسر کی تھی۔ان کی باتیں مالی شوکت نے بھی سن لی تھیں۔”تمہارا جذبہ قابل قدر ہے،پودا لگاؤ،تم بھی اس کی حفاظت کرنا اور میں بھی دوسرے پودوں کی طرح اس کی دیکھ بھال کروں گا۔“مالی شوکت نے انھیں شاباشی دیتے ہوئے کہا۔وہ 14 اگست کا دن تھا۔پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہر جگہ دکھائی دے رہا تھا۔پانچوں دوست اپنے ننھے سے پودے کے ساتھ نہر کنارے واقع باغ میں موجود تھے۔مالی شوکت نے پودا لگانے میں ان کی مدد کی۔سب دوست پودا زمین میں لگا کر بہت خوش تھے۔مالی شوکت کے مشورے پر انھوں نے پودے کے گرد لکڑیوں کی باڑ بھی لگا دی تھی کہ کوئی جانور پودے کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ان کے گھر باغ سے زیادہ فاصلے پر نہ تھے،اس لئے وہ دن میں کئی مرتبہ وہاں آ کر اپنے ننھے سے پودے کی دیکھ بھال کر لیتے تھے۔اس دن سبھی دوست بہت خوش تھے۔جب پودے کی ننھی ننھی شاخوں پر نئے پتے نمودار ہوئے تھے۔سرسبز اور نرم و ملائم پتے اس بات کو ظاہر کر رہے تھے کہ پودے نے جڑ پکڑ لی ہے۔وقت تیزی سے گزرتا رہا۔محمود ایک فرم میں ملازم ہو کر بحرین چلا گیا۔سخی کو اسلام آباد میں ملازمت مل گئی۔یاسر نے گلشن ہاؤسنگ سوسائٹی میں اپنا جنرل اسٹور بنا لیا۔سعد کے والد کی کپڑے کی دکان تھی،وہ وہاں جا بیٹھا تھا۔بلال کو میڈیکل میں داخلہ مل گیا تھا۔وہ پڑھائی میں مصروف ہو گیا تھا۔سب اپنی اپنی دنیا میں گم ہو گئے۔وہ ننھا سا پودا جو اب تناور درخت بن چکا تھا کسی کو یاد نہیں رہا تھا۔درخت پر ان کے ناموں والی تختی اب تک آویزاں تھی۔بلال جب بھی بہاول نگر سے لاہور آتا،درخت کو دیکھنے اور اس سے ملاقات کے لئے باغ میں ضرور جاتا تھا۔وہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد لندن جا بیٹھا۔وقت تو پَر لگا کر اُڑتا رہا۔چند سال پہلے بلال نے اپنے دوستوں کو فیس بک پر تلاش کیا تھا۔پھر انھوں نے آپس میں رابطے کے لئے ایک واٹس ایپ گروپ بنا لیا۔جب انھوں نے اپنی تصاویر شیئر کیں تو سب کی شکل و صورت بدل گئی تھی۔بلال کے سر کے بال اُڑ گئے تھے۔سخی نے داڑھی رکھ لی تھی۔بلال نے جب مشترکہ لگائے ہوئے درخت کے بارے میں سوال کیا تو کوئی اسے تسلی بخش جواب نہ دے پایا تھا۔اگرچہ بلال وطن سے بہت دور تھا،مگر اس کی آنکھوں کے سامنے تناور درخت تھا۔ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں والا درخت،اس کے دونوں بیٹے لندن کے ایک تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم تھے۔اس کی بیگم بھی ڈاکٹر تھی۔زندگی کی ہر آسائش اسے میسر تھی۔اب وہ بیس سال بعد وطن لوٹا تھا۔محمود کے علاوہ سبھی دوست موجود تھے۔بلال باغ میں موجود تھا۔اسے اپنے ہاتھوں لگائے پودے کی تلاش تھی۔آخر وہ مل گیا،لیکن ترقیاتی منصوبے کی وجہ سے ایک دن پہلے ہی اسے کاٹا گیا تھا۔بلال اب کٹے ہوئے درخت کے تنے کے قریب بیٹھا تھا۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔اس نے تنے کی تصویر اپنے دوستوں کو واٹس ایپ کی تو وہ بھی بے چین ہو گئے تھے۔اس وقت یاسر اور سعد،بلال کے پاس موجود تھے۔تینوں سر جھکائے درخت کے تنے کے قریب بیٹھے تھے۔ایک بزرگ اپنی لاٹھی ٹیکتے ہوئے ان کے قریب آ کر کھڑے ہو گئے۔بزرگ نے تینوں کو غور سے دیکھا۔بزرگ کے پوچھنے پر جب بلال نے سب کی اُداسی کی وجہ بتائی تو وہ ان کے پاس گھاس پر بیٹھ گئے،بولے:”ایک ننھا سا پودا میں نے بھی برسوں پہلے اپنے بزرگوں کے ساتھ لگایا تھا،اس پودے کو پانی کے بجائے شہیدوں کے لہو سے سیراب کیا گیا تھا۔اس پودے کو پہلے دن ہی اُکھاڑنے،ختم کرنے اور کاٹنے کی کوششیں کی گئیں۔اللہ کے فضل سے وہ پودا آج بھی سرسبز و شاداب ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی وہ سرسبز ہی رہے گا۔“بزرگ اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے۔تینوں جان گئے تھے کہ بزرگ کس پودے کی بات کر رہے ہیں۔وہ آزادی کا درخت تھا۔انھوں نے کبھی اس پودے کے بارے میں سوچا تک نہ تھا۔سب اسے بھول کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے تھے۔بزرگ نے گھاس سے اُٹھتے ہوئے کہا:”آزادی کے درخت کو مضبوط ہاتھوں کی ضرورت ہے ورنہ․․․“”آگے مزید کچھ مت کہیے گا،ہم سب مل کر آزادی کے درخت کی حفاظت کریں گے،ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے آزادی کے درخت کی جڑیں کمزور ہوں۔“بلال نے بزرگ کی بات بھی پوری نہ ہونے دی تھی۔بلال اور اس کے دوست نہیں چاہتے تھے کہ ان کے ہاتھوں سے لگے پودے کا جو حال ہوا ہے،ویسا آزادی کے درخت کا حال ہو۔آزادی کے اسی گھنے درخت کے نیچے ہم ٹھنڈی چھاؤں میں سکون سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ " احمد کا کتب خانہ - تحریر نمبر 2337,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ahmad-ka-kutab-khana-2337.html,"حدیقہ حبیب،کراچیاحمد بہت ذہین اور سمجھ دار بچہ تھا اور اس کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔اگر کہیں کوئی کتاب رکھی ہوتی تو اسے فوراً اُٹھا کر پڑھنے لگتا،لیکن اپنی اسکول کی تعلیم کی وجہ سے وہ غیر نصابی کتابیں پڑھ نہیں پاتا تھا۔حال ہی میں احمد کے ابو نے ایک گھر خریدا۔وہ گھر بہت بڑا اور شاندار تھا۔جب وہ نئے گھر میں منتقل ہو رہے تھے تو دادا جان نے بھی اپنی پرانی چیزوں میں سے ایک صندوق نکالا۔احمد نے پوچھا:”دادا جان!اس صندوق میں کیا ہے؟“دادا جان نے کہا:”اس میں میری کتابیں ہیں،مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا،لیکن اب نظر کی کمزوری کی وجہ سے مجھے کتابیں پڑھنے میں بہت پریشانی ہوتی ہے۔کوئی ان کتابوں کو پڑھتا بھی نہیں ہے،اس لئے میں یہ کتابیں ردی میں دے دوں گا یا کسی قدر داں کو عطیہ کر دوں گا۔(جاری ہے)“احمد نے کہا:”دادا جان آپ مجھے یہ صندوق کھول کے دکھائیں،مجھے یہ کتابیں پڑھنی ہیں۔“دادا نے جب صندوق کھولا تو اس میں اسلامی کتابیں،ڈراؤنی،مزاحیہ کہانیاں،سفر نامے،معلوماتی کتابیں،مشہور شخصیات پر لکھی گئی کتابیں،ناول اور ہاں بہت سارے ہمدرد نونہال اور لغات بھی موجود تھیں۔یہ سب دیکھ کر احمد کو بہت اچھا لگا اور اس نے کہا:”دادا جان!کیا میں یہ ساری کتابیں لے سکتا ہوں؟“دادا نے کہا:”ہاں بھئی کیوں نہیں۔“جب وہ نئے گھر گئے تو احمد نے اپنے ابو سے کہا:”میں ایک کمرے کو مطالعے کے لئے مخصوص کرنا چاہتا ہوں۔دادا کی اتنی ساری اور اتنی اچھی کتابیں ہیں اور میرے پاس بھی بہت سی کتابیں ہیں۔ہم اپنے ایک کمرے کو دارالمطالعہ بنا لیتے ہیں۔“ابو کو احمد کی یہ بات بہت اچھی لگی اور انھوں نے ایک کمرے میں بہت سی الماریاں لگا دیں اور ان میں کتابیں رکھ دیں اور کچھ سوفے رکھ دیے اور میز لگا کر اس پر ایک کمپیوٹر بھی رکھ دیا۔احمد کے شوق کو دیکھتے ہوئے ابو اکثر بازار سے نئی کتابیں احمد کے لئے خرید لیتے۔احمد نے جب اپنے دوستوں کو بلایا اور اپنی کتابیں دکھائی تو ان کو یہ سب بہت اچھا لگا اور بہت شوق سے کتابیں پڑھیں۔اکثر امی ابو بھی یہاں آ کر کتابیں پڑھتے اور احمد دادا کو کتابیں پڑھ کر سناتا اور احمد کے دوست ہر روز کتابیں پڑھنے آتے۔احمد ہر مہینے اپنے جیب خرچ سے ایک کتاب خریدتا ہے اور اس طرح احمد کے کتب خانے میں مزید کتابوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ " بھوکا شیر اور مکار لومڑی - تحریر نمبر 2336,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhooka-sher-aur-makkar-lomri-2336.html,"آمنہ غفارایک شیر بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گیا اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا۔بھوک سے جب برا حال ہوا تو کسی لومڑی سے مشورہ کیا۔اس نے کہا۔”فکر نہ کرو،میں اس کا بندوبست کر دوں گی۔یہ کہہ کر لومڑی نے پورے جنگل میں مشہور کر دیا کہ شیر بہت بیمار ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔یہ خبر سنتے ہی جنگل کے جانور اس کی عیادت کو آنے لگے۔(جاری ہے)شیر غار میں سر جھکائے پڑا رہتا اور عیادت کے لئے آنے والے جانوروں کا شکار کرکے اپنی بھوک مٹاتا رہتا۔ایک دن لومڑی شیر کا حال احوال پوچھنے کے لئے آئی اور غار کے دہانے پر کھڑی ہو گئی۔اتفاقاً اس دن کوئی جانور نہ آیا تھا جس کی وجہ سے شیر بھوکا تھا۔اس نے لومڑی سے کہا۔”باہر کیوں کھڑی ہو،اندر آؤ اور مجھے جنگل کا حال احوال سناؤ۔”لومڑی نے چالاکی سے جواب دیا۔”نہیں میں اندر نہیں آ سکتی۔میں یہاں باہر سے آنے والے پنجوں کے نشان دیکھ رہی ہوں لیکن واپسی کے نہیں۔“نتیجہ یہ نکلا کہ عقلمند لوگ قدم اُٹھانے سے پہلے سوچتے ہیں اور بے وقوف قدم اُٹھانے کے بعد۔ " اللہ میری توبہ - تحریر نمبر 2335,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/allah-meri-tauba-2335.html,"محمد عمر امتیازباغ کافی بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔غریبوں کا حق بانٹنے کے بعد جو پھل اور میوے بیچے جاتے اس رقم میں سے بھی مالک غریبوں کا حصہ الگ رکھتا۔پورے قصبے میں کوئی بھی شخص ایسا نہ تھا جو اسے دعائیں نہ دیتا ہو۔ایک دن وہ آدمی اچانک وفات پا گیا۔پورے قصبے کے لوگ شدید غم و الم میں ڈوب گئے۔اس آدمی کے تین بیٹے تھے۔اتنا مال و دولت ہونے کے باوجود بھی ان کے دل بہت چھوٹے تھے۔تین دن تک تو وہ باپ کی وفات کا کھانا غریبوں اور فقیروں کو کھلاتے رہے،مگر چوتھے دن رات کو تینوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ والد صاحب چونکہ دور اندیش نہیں تھے،اس لئے وہ مزید دولت جمع نہ کر سکے۔اب ہم تینوں مل کر خوب دولت جمع کریں گے۔کسی کو بھی کوئی پھل،میوہ مفت نہیں دیں گے۔(جاری ہے)اللہ پاک کو ان کا یہ بخل پسند نہیں آیا۔دوسرے دن صبح ملازم روتے پیٹتے ان کے گھر پہنچے اور بتایا کہ باغ خود بخود جل کر خاک ہو گیا۔ایک درخت بھی نہیں بچا۔تینوں بھائی حواس باختہ سے باغ کی طرف بھاگے۔دیکھا تو بالکل ایسا منظر تھا جیسے جلتی ہوئی گھاس پھونس۔تینوں سمجھ گئے کہ یہ سب ہماری خراب نیت کا نتیجہ ہے۔وہ گھر واپس آ گئے اور اللہ پاک کے حضور گڑگڑا کر دعا کی کہ آئندہ مال کی خیرات دینے میں بالکل کنجوسی نہیں کریں گے اور باپ کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔دوسرے روز صبح تڑکے ہی وہ باغ پہنچے تو ایک حیرت انگیز منظر ان کا منتظر تھا۔کیا دیکھتے ہیں کہ جیسے یہ باغ کبھی جلا ہی نہ ہو۔پورا باغ لہلہاتے پھولوں،پھلوں اور میوؤں سے لدا ہوا تھا۔تینوں نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ اللہ پاک نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔اب پھل اُتارے جا رہے تھے۔غریبوں کو بھی بھر بھر کر پھل اور میوے بانٹے جا رہے تھے۔ان پھلوں کا ذائقہ اتنا شیریں تھا کہ پورے قصبے میں ان کی دھوم مچ گئی۔ " دوسروں کی مدد کا جذبہ - تحریر نمبر 2334,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dosron-ki-madad-ka-jazba-2334.html,"سمیرا انورثناء اسکول سے آکر اپنے کمرے میں اُداس بیٹھی تھی۔اس کی امی کمرے میں داخل ہوئیں اور پوچھا،بیٹا!تم نے اسکول سے آکر کھانا نہیں کھایا اور ہوم ورک بھی نہیں کیا۔تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔“جی امی لیکن آج جو میں نے دیکھا اس سے مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔یہ کہہ کر ثناء بے اختیار رو پڑی۔وہ بہت حساس اور رحم دل تھی۔اس کی امی پریشان ہو کر کہنے لگیں۔بیٹا!کیا بات ہے مجھے بتاؤ۔امی،ہمارے دوسرے سیکشن کی ایک لڑکی فضیلہ ہے،اس کو آج ٹیچر نے کلاس سے نکال دیا کیونکہ اس کے پاس مطلوبہ کتاب نہیں تھی وہ روزانہ یہی کہتی تھی کہ میری کتاب گھر رہ گئی ہے،کل لے کر آؤں گی لیکن درحقیقت اس کے پاس کتاب نہیں ہے،جو ہیں وہ بھی خستہ حالت میں ہیں۔وہ روزانہ لڑکیوں سے کتاب مانگ کر سارا کام کرتی ہے لیکن آج جب کتابیں چیک کی گئیں تو اس کے پاس سے دو خستہ حال کتابوں کے کچھ نہ تھا،جس پر ٹیچر نے اس کو کلاس سے نکال دیا۔(جاری ہے)اس کے ساتھ بیٹھنے والی لڑکی نے بتایا کہ وہ بہت غریب ہے شام کو چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہے،تاکہ گھر کا گزارہ ہو سکے اس کے والد کا بھی انتقال ہو گیا ہے،بیمار ماں ہے۔امی مجھے یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا کہ ہم اپنی زندگی میں کتنے مگن رہتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے حالات کا پتہ تک نہیں ہوتا۔ثناء کی امی نے کہا۔بیٹا!ہم سے جتنا ہو سکا ہم اس کی ضرور مدد کریں گے۔اس کو کتابیں بھی لے کر دیں گے،آپ پریشان نہ ہو بلکہ تمام دوستیں مل کر اپنی پرنسپل صاحبہ کے پاس جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ وہ مستقل اس کے لئے وظیفے کا انتظام کریں۔ثناء نے اپنی امی جان کو دیکھا اور مسکرا دی۔اگلے دن اس نے تمام دوستوں کو اکٹھا کیا اور انہیں ترغیب دی کہ ہم سب مل کر ایسی لڑکیوں کی مدد کریں جو پڑھنا چاہتی ہیں لیکن حالات ان کا ساتھ نہیں دیتے سب اس کی بات سے متفق ہو گئیں اور اپنے اپنے حصے کی چیزیں بانٹ لیں جو وہ اپنی جیب خرچ سے خرید کر دیا کریں گی۔اس کے بعد وہ پرنسپل صاحبہ کے پاس گئیں،انہیں اپنے پروگرام سے آگاہ کیا۔پرنسپل یہ سن کر بہت خوش ہوئیں،انہوں نے باقاعدہ ایک فلاحی تنظیم بنائی اور ثناء کو اس کا صدر منتخب کر دیا۔اس نے بہت خوشی سے یہ ذمہ داری اور پوری کرنے کا وعدہ کیا،پھر وہ ایمانداری سے ہر ہفتے تمام ممبران کی موجودگی میں ایک مستحق لڑکی کو وظیفہ دیا جاتا،ایسا کرکے وہ نہ صرف اپنے ضمیر کے سامنے مطمئن ہوئی بلکہ اسے ذہنی سکون بھی مل گیا۔بچو!آپ بھی اپنے اردگرد ایسے بچوں کو دیکھیں جو پڑھ لکھ کر کچھ بننا چاہتے ہیں لیکن غربت ان کے آڑے آ جاتی ہے۔ہو سکتا ہے آپ کی وجہ سے کسی کی زندگی بدل جائے،کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔آپ بھی ایک بار کوشش ضرور کریں۔ " ایک عجیب معاہدہ - تحریر نمبر 2333,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-ajeeb-muahida-2333.html,"ڈاکٹر جمیل جالبیبچو!یہ ایک جنگل کی کہانی ہے۔جس کے بڑے حصے پر بھیڑیوں کی حکومت قائم تھی اور ایک چھوٹے سے حصے پر بھیڑوں کی دونوں میں موقع بہ موقع کسی نہ کسی بات پر لڑائی ہو جاتی۔بھیڑیے خونخوار اور طاقتور تھے۔لیکن بھیڑوں نے اپنی حفاظت کے لئے کتے پال رکھے تھے۔جب بھیڑیے ان پر حملہ کرتے تو یہ کتے ان کا مقابلہ کرتے اور ان کو بھگا دیتے۔کتوں کی وجہ سے بھیڑیں محفوظ تھیں۔جب بھیڑوں اور بھیڑیوں کو آپس میں لڑتے لڑتے ایک مدت گزر گئی تو جنگل کے چند دوسرے بڑے جانوروں نے بیچ میں بڑھ کر دونوں میں صلح کرا دی۔طے پایا کہ دونوں طرف سے ایسی ضمانت دی جائے کہ امن قائم رہے۔بھیڑیوں نے تجویز پیش کی کہ وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز بچے ضمانت کے طور پر بھیڑوں کے سپرد کریں گے اور بھڑیں اپنے کتے ہمارے حوالے کر دیں۔(جاری ہے)یہ بات بھیڑوں کو پسند آئی اور معاہدہ طے پا گیا۔بھیڑوں نے اپنے کتے بھیڑیوں کو دے دیئے اور بھیڑیوں نے اپنے بچے بھیڑوں کے حوالے کر دیئے۔ابھی تو تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بھیڑیوں کے بچوں نے اپنی ماؤں کو یاد کرکے رونا دھونا اور چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ان کی آواز سن کر بھیڑیے دوڑے دوڑے آئے اور غصے میں بھیڑوں سے کہا کہ تم صلح کی خلاف ورزی کر رہی ہو۔آخر ہمارے بچوں کو کیوں مار رہی ہو؟بھیڑوں نے ایک زبان ہو کر کہا نہیں۔جناب ایسا نہیں ہے یہ تو خود ہی چیخ پکار کر رہے ہیں انہوں نے ہماری نیندیں حرام کر دی ہیں۔بھیڑیوں نے چیخ کر جواب دیا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟یہ تو جبھی چیخیں چلائیں گے جب انہیں تکالیف پہنچائی جائے گی۔یہ کہہ کر انہوں نے فوراً معاہدہ توڑ دیا اور مل کر بھیڑوں پر حملہ کر دیا۔کتے ان کے پاس نہیں تھے کہ حفاظت کرتے ذرا سی دیر میں بھیڑیے ساری بھیڑوں کو مار کر کھا گئے۔ " اجر - تحریر نمبر 2332,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ajar-2332.html,"جاوید اقبال صدیقیعدیل صاحب شہر کی بہت اونچی ایک عمارت کے پانچویں منزل پر واقع کسی سرکاری ادارے میں کام کرتے تھے۔وہ صحت کے معاملے میں بہت محتاط تھے اور اپنا دوپہر کا کھانا گھر سے لاتے تھے۔ان کے دفتر کے سامنے کوریڈور کے کونے میں ایک بلی اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔دوپہر کے کھانے میں سے جو بچ جاتا،عدیل صاحب اسے بلی کے لئے ایک برتن میں رکھ دیتے،جسے بلی اور اس کے بچے کھا لیتے۔دفتر کا چوکیدار بھی بلی کا خیال رکھتا اور برتن کو دھو دیتا۔بلی کے بچے ابھی چھوٹے ہی تھے کہ رمضان کا مہینہ آ گیا۔یہ سوچ کر کہ بلی اور اس کے بچوں کے لئے کھانے کا حصول مشکل ہو جائے گا۔عدیل صاحب سحری اور افطاری کا بچا ہوا کھانا بلی کے لئے گھر سے لانے لگے۔(جاری ہے)بلی اس بندوبست سے بہت خوش تھی۔وہ صبح سے ہی آ کر برتن کے پاس بیٹھ جاتی۔جب وہ کھانا لا کر بلی کے برتن میں ڈال دیتے تو بلی اور اس کے بچے مزے لے کر کھاتے۔بلی عدیل صاحب سے اس قدر مانوس ہو گئی تھی کہ جب گھر جانے کے لئے وہ لفٹ کے پاس پہنچتے تو بلی کوریڈور کے کونے سے اُٹھ کر لفٹ کے پاس آ جاتی گویا انھیں خدا حافظ کہہ رہی ہو۔وہ بلاناغہ بلی کے لئے کھانا لاتے۔وہ نماز روزے کے پابند تھے۔اسی طرح وقت سے پہلے دفتر پہنچنا اور مقررہ وقت پر دفتر سے گھر کے لئے روانہ ہونا ان کا معمول تھا۔ان کے پاس ذاتی سواری نہیں تھی،اس لئے بس سے دفتر آتے جاتے تھے۔ان کا گھر دفتر سے بیس پچیس کلو میٹر دور ایک مضافاتی علاقے میں تھا۔رمضان المبارک کی 25 تاریخ تھی۔عدیل صاحب نے اپنے بچوں سے وعدہ کیا تھا کہ دفتر سے واپس آنے کے بعد وہ انھیں عید کی خریداری کے لئے لے جائیں گے۔لہٰذا انھوں نے جلدی جلدی دفتر کا کام سمیٹا اور عمارت سے نیچے اُترنے کے لئے لفٹ کے پاس آ کر لفٹ کا بٹن دبا دیا۔انھیں خیال آیا کہ آج بلی نظر نہیں آ رہی۔انھوں نے لفٹ کے پاس کھڑے کھڑے بلی کو آواز دی اور کوریڈور کے دوسری جانب دیکھنے لگے۔یہ خاصا لمبا راستہ تھا،جب کہ لفٹ درمیان میں نصب تھی۔بلی تو انھیں نظر آ گئی مگر خلاف معمول وہ ان کے پاس آنے کے بجائے وہیں کھڑے کھڑے میاوں میاوں کرنے لگی۔اسی دوران لفٹ آ گئی۔عدیل صاحب کا دل چاہا کہ لفٹ پر سوار ہو جائیں پھر یہ سوچ کر کہ بلی یا اس کے بچے کسی مصیبت میں نہ ہوں وہ کوریڈور کی دوسری جانب کھڑی بلی کے پاس چلے گئے۔بلی آگے بڑھ کر ان کے پیروں سے لپٹنے لگی۔انھوں نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی،مگر انھیں بلی کی پریشانی کی کوئی وجہ سمجھ میں نہ آئی۔بلی کے بچے بھی ایک طرف کھیل رہے تھے۔بلی کی طرف سے مطمئن ہو جانے کے بعد وہ لفٹ کے ذریعے عمارت سے اُتر کر بس اسٹاپ کی طرف روانہ ہوئے۔اس دوران پانچ دس منٹ گزر گئے۔جب وہ اسٹاپ پر پہنچے تو بس جا چکی تھی۔دوسری بس کچھ دیر بعد آتی تھی۔آج انھیں جلدی گھر پہنچنا تھا اور پھر ان کے راستے میں ایک ریلوے پھاٹک آتا تھا،جہاں بعض اوقات ٹرین گزرنے کی وجہ سے دیر ہو جایا کرتی تھی۔وہ ان ہی سوچوں میں گم تھے کہ بس آ گئی اور وہ اس میں سوار ہو گئے۔اتفاق سے انھیں بس میں بیٹھنے کی جگہ مل گئی اور ٹھنڈی ہوا لگنے سے انھیں نیند آ گئی۔یکایک شور کی آوازیں سن کر انھوں نے آنکھیں کھول کر کھڑکی سے باہر دیکھا تو ان کا دل دہل گیا۔سڑک پر ایک خوف ناک منظر تھا۔ہر طرف افراتفری تھی۔فلاحی اداروں کے رضاکار اور بہت سی ایمبولینسز کھڑی تھیں۔معلوم کرنے پر انھیں پتا چلا کہ وہ بس جو دفتر سے دیر سے نکلنے کی وجہ سے ان سے چھوٹ گئی تھی،اسے حادثہ پیش آ گیا ہے۔بس پھاٹک بند نہ ہونے کی وجہ سے ٹرین کی زد میں آ گئی ہے۔بہت سے مسافر زخمی تھے اور رضاکار انھیں اُٹھا کر ایمبولینسز میں ڈال رہے تھے۔پولیس کی بہت سی گاڑیاں بھی موقع پر موجود تھیں۔جو لوگوں کو منتشر کر رہے تھے۔اب اللہ میاں کی رضا ان کی سمجھ میں آئی کہ بلی ان کو کیوں بلا کر لے گئی تھی اور کس طرح دیر ہو جانے کی وجہ سے ان سے وہ بس چھوٹ گئی تھی۔عدیل صاحب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا،جس نے بلی کو وسیلہ بنا کر انھیں ایک بڑے حادثے سے محفوظ رکھا۔ " نافرمان کوا - تحریر نمبر 2331,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nafarman-kawwa-2331.html,"غلام محی الدین ترکخطرہ آہستہ آہستہ کوے کے ننھے بچے کے گرد بڑھتا جا رہا تھا،مگر وہ اس بات سے قطعی بے خبر تھا۔اسے فضا میں پرواز کرتے ہوئے کافی خوشی محسوس ہو رہی تھی،اسی وجہ سے اس نے وہ تمام باتیں بھلا دی تھیں جو وہ اکثر اپنے امی ابو سے سنتا رہتا تھا۔اگر اسے یہ باتیں یاد رہتیں تو یقینا اسے خطرے کا احساس ہو جاتا۔کوے کا ننھا بچہ اُڑتا ہوا ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری چھت تک منڈلا رہا تھا۔وہ فضا میں پہلی بار پرواز کر رہا تھا۔اس کی خوشی دیدنی تھی اور وہ اپنی خوشی کے اظہار میں مسلسل کائیں کائیں کر رہا تھا۔کافی دیر فضا میں اونچی نیچی پرواز کے بعد وہ ایک چھت کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔تب ہی اُس کی نظر ہوا میں اُڑتی ہوئی ایک پتنگ پر پڑی۔(جاری ہے)کوے کے بچے نے پہلی بار پتنگ دیکھی تھی،جو اُسی کی طرح ہوا میں اُڑ رہی تھی۔وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔قریب ہی ایک لڑکا بڑی مہارت سے پتنگ اُڑا رہا تھا۔اچانک ہی پتنگ کی ڈور قریب ہی بجلی کے تاروں میں اُلجھ گئی۔اُس لڑکے نے تاروں سے پتنگ نکالنے کی کافی کوشش کی،مگر پتنگ تاروں کے درمیان اس طرح پھنس چکی تھی کہ اسے نکالنا لڑکے کے بس کی بات نہ تھی۔تھک ہار کر اس نے کوشش چھوڑ دی تو کوے کا بچہ جو اب تک پتنگ کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا،ڈرتے ڈرتے پتنگ کے قریب ہونے لگا۔وہ اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا،مگر ہوا یوں کہ مزید قریب ہونے کی وجہ سے اس کے پر دھاگے میں اُلجھ گئے۔اس نے پر چھڑانے کی کوشش کی تو دھاگا اس کے پنجے میں بھی لپٹ گیا۔اب صورت حال یہ تھی کہ جیسے ہی تیز ہوا چلتی،پتنگ تاروں سے نکلنے کی کوشش کرتی جس کے نتیجے میں کوے کو بھی ہلنا جلنا پڑتا۔پتنگ کے چکر میں وہ بھی مصیبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔یہی وہ خطرہ تھا جس کا اسے احساس نہیں ہوا تھا۔ننھے کوے کے پر ہوا میں لٹک گئے تھے۔وہ دھاگے سے آزاد ہونے کی جتنی کوشش کرتا،اتنے ہی اس کے پر اُلجھتے جا رہے تھے۔”اب میں کیا کروں۔“اس نے دل میں سوچا۔تکلیف کے مارے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے۔”کائیں ،کائیں،کائیں“ جب اس سے تکلیف برداشت نہ ہوئی تو اس نے زور زور سے شور مچانا شروع کر دیا۔ننھے کوے کی ماں اور باپ دانے دنکے کی تلاش کے بعد ابھی ابھی واپس لوٹے تھے،دونوں نے اپنے بچے کی آواز سنی تو فوراً ہی اُڑتے ہوئے اُس کے پاس آئے۔”میں نے تم سے کہا تھا نا کہ ان تاروں سے بچ کر رہنا،اور اجنبی چیزوں کے پاس کبھی نہ جانا،مگر تم نے میری بات نہیں مانی۔“اس کی ماں نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔”امی!میں آپ کی بات بھول گیا تھا۔مجھے آپ کی بات نہ ماننے کی سزا ملی ہے۔“ننھے کوے نے روتے ہوئے جواب دیا۔ماں نے اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو تڑپ کر رہ گئی،فوراً ہی اسے دلاسا دیا۔”نہ روؤ،میرے بچے!میں تمہیں اس مصیبت سے نکالنے کی کوشش کرتی ہوں۔“ننھے کوے کی ماں نے اپنی چونچ سے دھاگا کاٹنے کی کوشش کی،اس کوشش میں اس کی چونچ زخمی بھی ہو گئی،مگر وہ اسے کاٹ نہ پائی۔یہ دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔اس نے تیز آواز میں کائیں کائیں کرنا شروع کر دیا۔ذرا سی دیر میں وہاں بہت سے کوے جمع ہو گئے تھے۔ان میں سے چند کوے آگے بڑھے اور انھوں نے دھاگے پر چونچ مار کر ننھے کوے کا پنجہ چھڑانے کی کوشش کی،مگر اس طرح بھی کامیابی نہ ہوئی۔کافی کوشش کرنے کے بعد کوے مایوس ہو کر اپنی منزلوں کی طرف اُڑنے لگے۔اب وہاں صرف ننھا کوا اور اس کے ماں باپ موجود تھے۔ننھے کوے نے کائیں کائیں کرکے انھیں بتایا کہ اسے بھوک لگی ہے۔اسے آزاد کرانے کی کوششوں میں دونوں کو اُس کی بھوک کا احساس ہی نہیں ہوا تھا۔کوا اُڑتا ہوا کھانے کی تلاش میں نکلا اور تھوڑی دیر بعد روٹی کا ایک ٹکڑا لے آیا۔اسے بڑے پیار سے ننھے کوے کی چونچ میں رکھا۔اسے کھا کر ننھے کوے کی جان میں جان آئی۔”امی!پانی۔“پیٹ بھرنے کے بعد ننھے کوے کو پیاس محسوس ہوئی۔اس کی ماں چونچ میں پانی بھر لائی اور اسے پانی پلایا۔دوپہر سے اب شام ہو چکی تھی۔ننھا کوا اب تک آزاد نہیں ہوا تھا۔والدین اپنے بچے کی وجہ سے قریبی چھت کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ننھے کوے کو آزاد کرانے کے لئے وہ ہر ممکن کوشش کر چکے تھے،مگر اب تک کامیاب نہیں ہوئے تھے۔وہ تھوڑی،تھوڑی دیر کے بعد ننھے کوے کے پاس آتے،اس کی ہمت بڑھاتے اور دوبارہ چھت کی منڈیر پر چلے جاتے۔سورج غروب ہوتے ہی تاریکی چھا گئی تھی۔یہ دیکھ کر ننھے کوے کا دل ڈوبنے لگا۔اس نے گھبرا کر کائیں کائیں کرنا شروع کر دی۔جواباً ماں باپ نے بھی کائیں کائیں کرکے تسلی دی اور فوراً ہی اُڑتے ہوئے اس کے پاس آئے۔”کیا ہوا؟“باپ نے پوچھا۔”ڈر لگ رہا ہے؟“”ڈرو مت،ہم تمہیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ہم تمہارے ساتھ ہی ہیں۔“باپ نے اسے دلاسا دیا۔”مجھے سردی بھی لگ رہی ہے۔کاش میں آپ کی بات مان لیتا تو اس حالت میں نہ ہوتا۔“ننھے کوے نے بے بسی سے کہا۔ماں نے اس کی بات سنی تو فوراً ہی اس کے قریب آئی اور اپنے پر ننھے کوے کے اوپر پھیلا دیے۔ماں کے پر کی آغوش میں ننھے کوے کو سکون محسوس ہوا اور اسے فوراً ہی نیند آ گئی۔ننھے کوے کی آنکھ اچانک ہی کھل گئی تھی۔گہری تاریکی میں اُسے پانی کی بوندیں گرنے کی آواز سنائی دی۔”یقینا بارش ہو رہی ہے۔“ننھے کوے نے کپکپاتے ہوئے سوچا،مگر میں اب تک گیلا کیوں نہیں ہوا؟جلد ہی اسے اس کی وجہ سمجھ آ گئی۔اس کی ماں نے اسے پروں میں چھپا لیا تھا تاکہ وہ بارش سے محفوظ رہ سکے۔اس کی ماں بھی خاصی بھیگ چکی تھی۔اپنی ماں کی قربانی پر بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔”ممی!بابا کہاں ہیں؟“اس نے گھبرا کر پوچھا۔”ننھے!تیز بارش ہو رہی تھی،وہ اچھے خاصے بھیگ گئے تھے۔مجھے ڈر ہوا کہ کہیں انھیں سردی نہ لگ جائے۔اسی لئے برسات سے محفوظ رہنے کے لئے انھوں نے نیم کی شاخوں میں پناہ لی ہے۔“اسی وقت قریبی درخت پر موجود کوے نے کائیں کائیں کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔اس کی آواز سنتے ہی ننھے کوے کا دل خوشی سے بھر گیا۔صبح ہو چکی تھی۔کوا اس کے لئے باجرا اور روٹی کا ٹکڑا لے آیا تھا۔صبح ہوتے ہی دیگر کوے بھی ان کے پاس آ گئے تھے۔وہ بھی اپنے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں لائے تھے۔تھوڑی دیر بعد ہی پتنگ اُڑانے والا لڑکا کسی کام سے چھت پر آیا تو اس کی نظر تاروں میں پھنسے ہوئے ننھے کوے پر پڑی تو وہ جلدی سے نیچے اُترا اور بانس لے آیا۔بانس کے کونے میں ایک مضبوط کیل لگی ہوئی تھی،اس کیل نے دھاگے کو اپنے گرد لپیٹ لیا اور ننھے کوے کو آہستہ سے نیچے اُتار لیا۔ننھا کوا جب نیچے آیا تو لڑکے نے اس کے پنجے میں اُلجھا ہوا دھاگا بھی کھول دیا۔ننھے کوے کو اُڑنے میں تکلیف ہو رہی تھی،مگر اب اسے اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔وہ اُڑتا ہوا اپنی ماں کے پاس پہنچا،تینوں کائیں کائیں کرتے ہوئے لڑکے کا شکریہ ادا کرنے لگے۔اب ننھا کوا بخوبی سمجھ گیا تھا کہ بڑوں کی بات ماننے میں ہی کامیابی ہے۔ " انسانیت کی شیلڈ - تحریر نمبر 2330,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/insaniyat-ki-shield-2330.html,"عائشہ اطہردانی تھکے ہوئے قدموں سے گھر میں داخل ہوا اور بستے کو زور سے بستر پر پٹخا۔امی نے حیرانی سے اسے دیکھا،مگر وہ سلام کیے بغیر کمرے میں گھس گیا۔امی اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوئیں اور پوچھا:”کیا ہوا؟“دانش نے بتایا:”عمران نے پوری جماعت کو اپنے گھر دعوت پر بلایا ہے،مجھے نہیں بلایا۔“”تمہیں کیوں نہیں بلایا؟“امی نے پوچھا۔”مجھے نہیں پتا۔کیا دوست بنانے کے لئے امیر ہونا ضروری ہے؟“دانی نے سوال کیا۔”بالکل بھی نہیں۔“”تو پھر عمران مجھ سے دوستی کیوں نہیں کرتا؟“”نہ کرے،جعفر اور عمر بھی تو تمہارے دوست ہیں۔وہ تو پروا نہیں کرتے کہ تم امیر ہو یا غریب۔“امی نے کہا۔(جاری ہے)”مگر کلاس کے دوسرے بچے تو کرتے ہیں اور وہ بچے جعفر اور عمر کو اہمیت دیتے ہیں،مگر مجھے نہیں دیتے۔“دانی کے لہجے میں مایوسی تھی۔”ایسے لوگوں سے جو دولت اور شان اور شوکت کو ترجیح دیتے ہیں ان سے نا ملنا ہی اچھا ہے۔وہ لوگ جو انسان کو اس کی خوبیوں کی وجہ سے پسند کریں،سب سے بہترین دوست بنتے ہیں۔تمہاری کلاس میں بھی ایسے بچے ہوں گے؟“امی نے پوچھا۔کچھ دیر رک کر امی نے پھر کہا:”تم ایک اچھے انسان ہو اور یہ سب سے بڑی بات ہے۔ایک دن سب کی سمجھ میں آ جائے گا کہ انسانیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی۔“امی کا لہجہ پُریقین تھا۔دانی اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت رکھتا تھا۔پرنسپل صاحب نے صبح بچوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:”ششماہی امتحانات شروع ہونے میں ایک مہینہ رہ گیا ہے۔آپ کو امتحان کا سلیبس دیا جا رہا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ دل لگا کر تیاری کریں۔“اویس آج پھر غیر حاضر تھا۔دانی سوچ میں پڑ گیا۔آخر وہ تین دن سے اسکول کیوں نہیں آ رہا۔اسکول سے واپسی پر وہ اویس کے گھر کی طرف مڑ گیا۔اویس کو یرقان ہو گیا تھا اور ڈاکٹر نے مکمل پرہیز اور دو ہفتے تک آرام کے لئے کہا تھا۔اویس بہت پریشان تھا اور اسکول جانے کے لئے بے چین تھا۔”میں کیا کروں دانی!میں تو امتحان میں فیل ہو جاؤں گا۔“دانی سوچ میں پڑ گیا:”ایک ترکیب ہو سکتی ہے۔“”وہ کیا؟“”میں تمہیں روزانہ کا کام واٹس ایپ کر دوں گا اور ساتھ ہی ہوم ورک بھی۔رات کو آٹھ سے نو بجے تک فون پر تمہیں سمجھا بھی دوں گا۔باقی تم گھر پر دیکھ لینا۔“اویس کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں:”بہت شکریہ میرے دوست!مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ تم اتنے اچھے انسان ہو۔یہ طریقہ اچھا ہے۔میں اس پر عمل کروں گا۔“یوں دانی اور اویس کی مشترکہ تیاری شروع ہوئی۔اس عمل کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ دانی کو بھی ریاضی سمجھ میں آنے لگی۔امتحان ختم ہوئے تو نتیجہ غیر متوقع طور پر دانی کا بہتر رہا۔مجموعی طور پر B گریڈ لینا خود اس کے اپنے لئے بھی باعث اطمینان تھا۔اب وہ اپنا رزلٹ کارڈ سکون سے امی اور ابو کو دکھا سکتا تھا۔جعفر اول آیا تھا۔جب کہ عمر چوتھی پوزیشن پر تھا۔حیران کن طور پر اویس کی دوسری پوزیشن آئی تھی۔یہ ایک خلافِ توقع نتیجہ تھا۔پیر کے دن سے نئے سمسٹر کا آغاز ہو گیا۔تمام بچے اسمبلی گراؤنڈ میں جمع تھے اور پرنسپل صاحب کا خطاب سن رہے تھے:”ہمارے ایک اچھے طالب علم اویس حیدر امتحان سے قبل یرقان میں مبتلا ہو گئے تھے اور ڈاکٹر نے انھیں مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا۔تشویش کی بات یہ تھی کہ دو ہفتے بعد جب یہ بچہ اویس آئے گا تو امتحان کیسے دے پائے گا؟مگر وہ امتحان میں بیٹھا اور دوئم آیا۔جب ہم نے اس کو مبارک باد دی تو اویس نے اپنی کامیابی کا سہرا اپنے ساتھی کے سر باندھا۔بیماری کے دوران اویس کے تمام دوست اپنی تیاری میں مشغول تھے۔صرف ایک بچہ روز اس کو تمام کام بھی دیتا تھا اور رات میں اس کو پڑھاتا بھی تھا۔پھر اویس کی اپنی محنت بھی تھی،مگر اہم بات یہ ہے کہ دانش ظفر نے یہ سب کام بغیر کسی لالچ کے انسانی ہمدردی میں کیا۔یہ سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔ہمدردی کے لئے انسانیت کی ضرورت ہوتی ہے اور دانش ظفر نے ثابت کیا ہے کہ وہ سب سے بہتر انسان ہیں۔اسکول ان کو اس بے غرض خدمت پر اعزازی شیلڈ پیش کرتا ہے۔میں دانش ظفر سے درخواست کروں گا کہ وہ آئیں اور شیلڈ وصول کریں۔اسمبلی گراؤنڈ تالیوں سے گونج اُٹھا۔سب بچے دانی کی طرف دیکھ رہے تھے۔دانی نے اویس کی طرف دیکھا۔وہ مسکرا رہا تھا۔“ " الفاظ کا جادو - تحریر نمبر 2329,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/alfaz-ka-jadu-2329.html,"ساجد کمبوہندیم اور نعیم دونوں بھائی تھے دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ایک جیسا لباس ایک جیسے بیگ اور ایک طرح کے جوتے پہنتے تھے۔پڑھائی میں بھی تقریباً ایک جیسے تھے فرق تھا تو بول چال،لب و لہجے کا سب لڑکے محسوس کرتے کہ ندیم دھیمے لہجے،سلجھے انداز اور دھیمی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے رکھتا۔جبکہ نعیم اکھڑے طریقے سے بولتا۔آنکھیں سرخ اور منہ سے جھاگ نکلتی محسوس ہوتی۔والدین بھی اس کی عادت سے پریشان تھے،محسوس ہوتا کہ کسی سے لڑ رہا ہے۔اکثر اس کی بات سچ ہوتی مگر طرز بیان برا لگتا تھا۔ٹیچر صاحبان بھی اس کی اس عادت سے نالاں تھے مگر اس کی فطرت بن چکی تھی اور فطرت بدلتی نہیں ایک بار شیخوپورہ جا رہے تھے کہ گاڑی میں منجن (دانت صاف کرنے والا پاؤڈر) بیچنے والا آ گیا۔(جاری ہے)اس نے اپنے منجن کی تعریفیں شروع کر دیں سب مسافر سنتے رہے مگر یہ باز نہ رہ سکا اور کہنے لگا”پہلے اپنے میلے کچیلے دانت دیکھو انہیں صاف کرو پھر کسی کو بیچنا۔“وہ بیچارہ کہنے لگا”باؤ جی!روزی کمانے دو آپ کی مہربانی ہو گی۔مگر یہ کب باز آنے والا تھا۔بولا پہلے تولو پھر بولو تمہارے دانت پیلے ہیں اور تم منجن کی تعریفیں کر رہے ہو تمہیں پہلے خود․․․․سبھی اس کی طرف دیکھنے لگے بات تو ٹھیک تھی مگر طرز بیان اچھا نہ تھا۔وہ بیچارا اگلے سٹاپ پر اُتر گیا۔اکثر مسافر ہنسنے لگے یہی بات آرام سے بھی کی جا سکتی تھی شاید وہ عمل کر لیتا۔ایک دن کلاس میں ”دھیمے انداز میں طرز گفتگو“ موضوع بحث تھا۔ایک سٹوڈنٹ نے ٹیچر کی توجہ نعیم کی طرف دلائی ٹیچر نے اسے سمجھانے کے لئے ایک واقعہ سنایا کہ بات کرتے الفاظ کا چناؤ اور شریں لہجہ کتنا ضروری ہے۔کسی بادشاہ نے دوسرے بادشاہ کے ملک پر حملہ کر دیا۔بادشاہ نے حکم دیا ہم جنگ پر جا رہے ہیں فوراً دست شناس کو بلایا جائے کہ ایسی کون سی تدبیر ہو گی کہ ہم فاتح رہیں۔جب شاہی دست شناس کو بادشاہ کا حکم سنایا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ کافی دنوں سے بیمار ہے۔بادشاہ کے دربار میں حاضر نہیں ہو سکتا مگر بادشاہ کا حکم بھی ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔اس نے ایک ہونہار شاگرد کو یہ کہہ کر بادشاہ کی طرف روانہ کیا کہ یہ میری طرح کا دست شناس ہے میری اور اس کی باتوں میں کچھ فرق نہ ہو گا۔جب شاگرد بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا تو بادشاہ نے اس کے آنے کی وجہ پوچھی جب اسے بتایا گیا کہ شاہی دست شناس بیمار ہے اور اس نے اپنے شاگرد کو بھیجا ہے بادشاہ نے کہا”فوراً میرا ہاتھ دیکھو اور بتاؤ کہ جنگ کا کیا ہو گا؟“شاگرد نے بادشاہ کا ہاتھ دیکھا اور بتانا شروع کر دیا۔آپ کو اور آپ کی فوج کو بری طرح شکست ہو گی۔ان میں کچھ لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور جنگ میں آپ پکڑے جائیں گے آپ کو میدان جنگ میں گھسیٹا جائے گا۔بادشاہ کا غصے سے بُرا حال ہو گیا۔اس نے حکم دیا کہ اس کی آخری خواہش پوری کرکے سولی پر لٹکا دو۔سپاہی نے اس کی آخری خواہش پوچھی۔اس نے کہا میری خواہش میرے استاد محترم سے ملاقات کروائی جائے۔شاہی ہرکارے دوڑے گئے اور دست شناس کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔استاد دست شناس کسی نہ کسی طرح شاہی دربار میں پہنچا اور بادشاہ سے ملاقات کی۔بادشاہ نے کہا”کس نالائق کو ہمارے پاس بھیجا تھا؟“دست شناس نے کہا”اسے چھوڑدیجیے۔“میں آپ کا ہاتھ دیکھتا ہوں اور ہاتھ دیکھ کر کہنے لگا”آپ بہت جوانمردی اور بہادری سے لڑیں گے آپ کی فوج سے ڈرپوک اور بزدل لوگ بھاگ جائیں گے اور کچھ نمک حرام اور غدار آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔بزدل دشمن کو آپ کا سامنا کرنے کی جرأت نہ ہو گی وہ آپ کے پیچھے سے وار کرے گا جس میں آپ کی جان جانے کا بھی خطرہ ہے۔آپ بہادری اور جوانمردی سے دشمن کا مقابلہ کریں گے۔آخری دم تک مقابلہ کریں گے اور رہتی دنیا تک آپ کا نام بہادر لوگوں میں سے ہو گا اور مرنے کے بعد تو کسی کے ساتھ بھی کچھ ہو سکتا ہے اس لئے وہ بزدل دشمن اپنے انتقام کی خاطر آپ کی لاش کو گھوڑوں کے پیچھے باندھ کر آپ کی لاش کی بے حرمتی کریں گے۔بادشاہ پامسٹ کے تعریفانہ جملوں سے بہت خوش ہوا۔شاہی دست شناس کو مالا مال کرنے کا حکم دیا۔شاہی دست شناس نے کہا”بادشاہ سلامت مجھے انعام نہیں چاہیے میرے نالائق شاگرد کو رہا کر دیں۔یہ میرے لئے بہت بڑا انعام ہو گا۔“بادشاہ نے حکم دیا۔انعام کے ساتھ اس کے شاگرد کو بھی رہا کر دیا جائے۔شاہی پامسٹ اور اس کا شاگرد جب دربار سے باہر نکلنے لگے تو شاگرد نے کہا”استاد جی!جو باتیں میں نے بتائیں وہی باتیں آپ نے بتائیں مجھے سزا اور آپ کو انعام کیوں؟شاہی دست شناس نے جواب دیا”باتیں تو ہم دونوں کی ایک طرح کی تھیں لیکن دونوں کا طرز گفتگو الگ الگ تھا۔میرے ہر جملے سے بادشاہ خوش ہوتا گیا اور تمہارے ہر جملے سے بادشاہ کو غصہ آتا گیا۔“اس لئے سیانے کہتے ہیں”میٹھے بول میں جادو ہے۔“بات ندیم اور نعیم کی ایک جیسی بھی ہو مگر طرز تخاطب میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ندیم کا لہجہ دھیما اور سلجھا ہوا اور نعیم کا انداز غصیلا ہوتا ہے۔اب نعیم شرمندہ ہو رہا تھا ٹیچر کی بات ٹھیک تھی۔اس نے دل میں ارادہ کر لیا کہ وہ بھی اپنی گفتگو میں نرمی اور لہجہ درست رکھے گا۔پیارے ساتھیو!اسی لئے کہتے ہیں کہ میٹھے بول میں جادو ہے۔ " آزادی کا تحفہ - تحریر نمبر 2328,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azadi-ka-tohfa-2328.html,"انیلا طاہر،کراچینبیل ایک ذہین اور قابل طالب علم تھا۔وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا تھا۔چودہ اگست کی آمد آمد تھی۔سب محلے والے چودہ اگست کی تیاریوں میں مصروف تھے۔باجے،بیجز،جھنڈیاں اور جھنڈوں کی خریداری ہو رہی تھی۔وہ اکثر سوچتا کہ اس طرح جشنِ آزادی منا کر کیا ہم اپنا فرض ادا کر لیتے ہیں،کیا پاکستان کو ہم سے یہی سب چاہیے۔کوئی عملی کام نہیں،کوئی اصلاحی کام نہیں،بلکہ باجے بجا بجا کر لوگوں کا سکون بھی غارت کرتے ہیں۔اس نے اپنے دوستوں کے گروپ سے مل کر عہد کیا کہ اس جشنِ آزادی پر وہ پاکستان کے لئے کوئی عملی کام کریں گے اور آزادی والے دن کو سادگی سے منائیں گے۔شکرانے کے نفل ادا کریں گے کہ پروردگار نے ہمیں آزاد وطن عطا کیا۔(جاری ہے)وہ عملی کام یہ طے پایا کہ اپنے گلی محلے کو صاف رکھیں گے۔کچرا نہیں پھیلائیں گے۔نہ خود پھیلائیں گے،نہ پھیلانے دیں گے۔سب بچوں نے اپنے گھر والوں پر زور دیا یہ سب کرنے کے لئے۔جو چند ایک گھر ایسے تھے،جو عمل نہیں کرنا چاہتے تھے،وہ بھی سب کی دیکھا دیکھی مجبور ہو گئے۔میونسپل کمیٹی والوں سے کہہ کر ایک بڑا کچرا دان رکھوایا گیا۔گلی کے شروع اور اختتام پر ہر دن دو بچے ڈیوٹی دیتے۔اگر کوئی باہر کچرا پھینکتے نظر آتا تو اسے جرمانہ دینے کو کہا جاتا۔وہ جرمانے کے ڈر سے معافی مانگ کر آئندہ پھینکنے سے باز آ جاتا۔یوں 14 اگست کے روز تک ان کی گلی صاف ستھری الگ بہار دکھا رہی تھی۔نبیل اور اس کے ساتھیوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔یوں جشنِ آزادی منانے کا صحیح حق ادا ہوا۔اس ملک کو ہمارے ایسے ہی کاموں کی ضرورت ہے۔ " خرگوش کی سالگرہ - تحریر نمبر 2327,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khargosh-ki-salgirah-2327.html,"آج میاں خرگوش کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔آج اس کا برتھ ڈے جو تھا۔صبح سے ہی جنگل بھر میں گھوم گھوم کر وہ سب کو شام کو اپنی برتھ ڈے پارٹی میں آنے کے لئے انوائٹ کر رہا تھا۔اس نے سب کو بتا دیا تھا کہ شام کو خوب ڈانس ہو گا اور گیم کھیلے جائیں گے۔اس کے بعد کھانا کھا کر کیک کاٹا جائے گا۔سب کو انوائٹ کرنے کے بعد جب خرگوش اپنے گھر پہنچا تو بھولو ریچھ کو نہ پا کر پریشان ہو گیا۔بھولو ریچھ اس کا سب سے اچھا دوست تھا۔اس کے بنا تو وہ کچھ کر ہی نہیں سکتا تھا۔بھولو جنگل کی اکلوتی بیکری شاپ پر اس کے لئے کیک آرڈر کرنے گیا تھا لیکن ابھی تک لوٹا نہیں تھا۔خرگوش بے چینی سے ادھر ادھر ٹہل رہا تھا تبھی بھولو کو سامنے دیکھ کر خوشی سے چہک اُٹھا اور بولا”کتنی دیر لگا دی دوست․․․․․ہو گیا کیک آرڈر؟“بھولو نے اُداس ہو کر کہا”نہیں،وہ بیکری شاپ والا بندر کچھ سامان لینے پاس ہی کے جنگل گیا ہے۔(جاری ہے)وہ تو کل تک آئے گا۔“یہ سن کر خرگوش پریشان ہو گیا اور بولا”اب ہم کیک کا انتظام کیسے کریں گے؟بنا کیک کے بھی کوئی برتھ ڈے ہوتا ہے؟“بھولو نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا”ضروری نہیں کہ برتھ ڈے پر کیک ہی کاٹا جائے۔یہ تو سب مغربی کلچر کا اثر ہے۔“یہ سن کر خرگوش بولا”میں تو تمہاری بات مان بھی لوں مگر میرے بہت سے دوست تو اسی لئے آئیں گے کیونکہ میں کیک کاٹوں گا۔“بھولو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا”تم پریشان مت ہو․․․میں کوئی راستہ نکالتا ہوں۔“تبھی بھولو نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا”ہمیں کیک تیار کروانے کے لئے کہیں بھٹکنے کی ضرورت نہیں ہے،تمہارے پڑوس میں جو موٹی بلی رہتی ہے،وہ بہت شاندار کیک بناتی ہے۔میں نے کھایا ہے اس کے ہاتھ کا کیک۔اس کے کیک کے سامنے تو جمپی بندر کی بیکری کا کیک بھی فیل ہے۔“یہ سن کر خرگوش بولا”نا بابا نا․․․․اس سے کیک بنوا لوں گا تو اسے پارٹی میں بھی بلانا پڑے گا۔اسے پارٹی میں بلاؤں گا تو میرا دوست چلبلا چوہا پارٹی میں نہیں آئے گا۔اسے تو بلی سے بہت ڈر لگتا ہے۔پارٹی کے دھوم دھڑاکے میں کہیں موٹی بلی نے جھپٹ کر اسے کھا لیا تو کیا ہو گا؟“یہ سن کر بھولو ریچھ نے کہا”مجھ پر بھروسہ رکھو دوست!کھانا تو دور کی بات ہیں․․․․موٹی بلی تمہارے چلبلے دوست کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گی۔“خرگوش مسکراتے ہوئے بولا”ہاں،تم پر تو پورا بھروسہ ہے دوست۔“اب خرگوش اور بھولو موٹی بلی کے پاس گئے تھے اور اسے پارٹی کے لئے انوائٹ کرتے ہوئے کہا کہ کیک کا انتظام بھی اسے ہی کرنا ہے۔یہ سن کر موٹی بلی بہت خوش ہوئی۔اُس نے پورا دن لگا کر بہت ہی مزیدار کیک بنایا۔شام کو سب سے پہلے کیک لے کر وہاں پہنچی۔دھیرے دھیرے خرگوش کے سارے دوست آنے لگے۔چلبلا چوہا جیسے ہی گھر میں گھسا،موٹی بلی کو دیکھ کر اُلٹے پاؤں لوٹنے لگا۔لیکن بھولو نے اسے روک لیا اور کہا”میں گارنٹی دیتا ہوں دوست،تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔تم پارٹی انجوائے کرو۔“تھوڑی ہی دیر میں سب ڈانس کرنے لگے۔موٹی بلی کی نظر چلبلے چوہے پر تھی لیکن خرگوش کے کچھ دوست اور بھولو اس طرح ناچ رہے تھے کہ بلی چوہے کے پاس پہنچ ہی نہیں پا رہی تھی۔اب بلی ڈانس کرتے کرتے تھک گئی اور اسے بہت تیز بھوک لگی۔وہ بھی کچن کے پاس پہنچ کر کچھ کھانا چاہتی تھی تبھی بھولو ریچھ اس کے پاس آیا اور بولا”آؤ تمہیں ایک مزے کی چیز کھلاتا ہوں․․․․“موٹی بلی نے سوچا سب لوگ جو چیزیں کھا رہے ہیں،وہ تو ویسے بھی مجھے بالکل پسند نہیں،بس چلبلے چوہے کو دیکھ کر منہ میں پانی آ رہا ہے۔بھولو موٹی بلی کو اپنے ساتھ لے گیا اور اسے کچن کے پچھلے حصہ میں رکھی گرما گرم دودھ جلیبیاں کھلائیں۔موٹی بلی نے دودھ جلیبی پہلی بار کھائی تھی۔وہ گپا گپ دودھ پی کر ڈھیر ساری جلیبیاں کھا گئی۔بھولو اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔اس طرح تو وہ شہد پر بھی نہیں ٹوٹ پڑتا تھا جیسے موٹی بلی دودھ جلیبی پر ٹوٹ پڑی تھی۔کچھ ہی دیر میں اس نے دودھ جلیبی سے بھرا سارا پتیلا خالی کر دیا۔اب تو اس سے ہلا بھی نہیں جا رہا تھا۔وہ باہر آ کر صوفہ پر دھپ سے بیٹھ گئی اور سب کو ناچتے ہوئے دیکھنے لگی۔بھولو نے چلبلے چوہے سے کہا”چلبلے!اب تم بلی کے پاس جا کر ناچو گے تو بھی وہ تمہیں ہاتھ نہیں لگائے گی۔“چلبلا چوہا ڈرتے ڈرتے بلی کے پاس جا کر ناچنے لگا۔لیکن یہ کیا بلی تو اُسے اتنا قریب دیکھ کر بھی بیٹھی ہی رہی۔وہ جلیبیوں سے بھرے پیٹ کی وجہ ایک دم سست بیٹھی تھی۔تھوڑی دیر میں سب نے کھانا کھایا۔موٹی بلی نے ڈکار لیتے ہوئے کہا”مجھے بھوک نہیں ہے۔“یہ سن کر بھولو مسکرانے لگا۔تھوڑی دیر بعد کیک کاٹا گیا۔کیک سچ مچ بہت اچھا تھا۔سب نے اس کیک کی بہت تعریف کی۔چلبلے چوہے نے بھی جم کر کیک کھایا۔موٹی بلی تو اپنا بنایا ہوا کیک بھی نہیں کھا سکی کیونکہ اس کا پیٹ تو کچھ زیادہ ہی بھرا ہوا تھا۔پارٹی بہت شاندار رہی۔تھوڑی دیر میں سب جانور اپنے گھروں کی اور لوٹ گئے۔اب خرگوش نے چین کی سانس لی۔خرگوش نے اپنے پیارے دوست بھولو کو شکریہ کہا۔بھولو نے مسکراتے ہوئے کہا”یہ سب دودھ جلیبی کی وجہ سے ہی ممکن ہو پایا۔“یہ سن کر خرگوش کھلکھلا کر ہنس دیا۔ " بیل اور طوطا - تحریر نمبر 2326,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bail-aur-tota-2326.html,"بیل کو کھونٹے پر بندھا ہوا دیکھ کر طوطا طنز سے ہنسا”بھائی تمہارے تو کیا ٹھاٹھ ہیں۔دن بھر ہل کھینچنا پڑتا ہے۔کسان کے ڈنڈے بھی کھانے پڑتے ہیں،تب جا کر تمہیں چارہ ملتا ہے۔دن کی چلچلاتی دھوپ بھی تمہیں اپنی پیٹھ پر جھیلنی پڑتی ہے۔“بیل چارہ کھاتے کھاتے رُکا اور بولا”تمہاری طرح دن بھر چار دانوں کے لئے میلوں میل مارا ماری تو نہیں کرنی پڑتی۔گھر لوٹنے پر اتنا تو طے رہتا ہے کہ پیٹ بھرنے کے لئے پورا چارہ مل جائے گا۔اور پھر جو چارہ کھلائے گا،وہ کام تو لے گا ہی۔بنا محنت کے بنا کام کئے کھانا بھی تو ٹھیک بات نہیں ہے۔تم کوئی کام نہیں کرتے۔چپکے سے کسی کے مکئی کے کھیت میں گھس جاتے ہو۔کسی کے باغ میں چوری چھپے جا کر پھل کترنے لگتے ہو۔“”اس طرح کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔(جاری ہے)طرح طرح کے اچھے پھل کھانے کو مل جاتے ہیں۔اچھے پھل ڈھونڈنے کے لئے بھی تو محنت کرنی پڑتی ہے۔ہمیں جو آزادی ملی ہوئی ہے،اس کا تو مزہ ہی کچھ الگ ہے۔ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں۔تم اپنی مرضی سے کہیں بھی نہیں جا سکتے۔اپنی مرضی کا کھا بھی نہیں سکتے۔تمہارے مالک جو چنے کی اچھی دال کھاتے ہیں،ہم اُن کے آنگن میں جا کر کچھ دانے اس میں سے کھا لیتے ہیں۔تمہارے آنگن کے آم کے پیڑ پر ہر سال مزیدار آم لگتے ہیں۔تم نے کبھی چکھے بھی نہیں ہوں گے۔ہمیں دیکھو!پکے ہوئے آموں کا مزہ ہم سب سے پہلے اُٹھاتے ہیں۔تمہارے مالک کسان سے بھی پہلے“ طوطے نے آنکھیں مٹکا کر کہا۔بیل کہاں چپ رہنے والا تھا۔وہ اپنے تھوتھن کو ہلا کر بولا”میرا مالک کسان میری حفاظت کرتا ہے،ٹھنڈ اور بارش میں مجھے الگ کوٹھری میں باندھ دیتا ہے۔تمہیں تو باہر کھلے درختوں پر ٹھنڈ،بارش اور اولوں کی مار جھیلنی پڑتی ہے۔“”ارے بھائی!ہم بھی کسی مکان کے کونے میں جا کر دبک جاتے ہیں۔ہمارا بھی وقت کٹ جاتا ہے۔اچھا بُرا وقت تو سبھی کے ساتھ ہوتا ہے۔اب ہماری زندگی کو بھی دیکھو آزادی کے فائدے تو ہیں لیکن کبھی ہمیں شکاری مار گراتے ہیں،کبھی کوئی چڑی مار پکڑ کر پنجرے میں بند کر لیتے ہیں۔آسمان میں اُڑتے ہوئے بھی باز عقاب جھپٹا مار کر ہم پر حملہ کر دیتے ہیں۔آزادی ملی ہے تو اس کی کچھ قیمت تو چکانی ہی پڑے گی۔مزہ اور آزادی کوئی مفت میں تھوڑے ہی ملتے ہیں؟“طوطے نے اپنی بات کو پورا کرتے ہوئے کہا”ویسے کھلی ہوا میں سانس لینے کا مزہ ہی کچھ اور ہے“”تم صحیح کہتے ہو“بیل نے سر ہلا کر کہا”مگر میری زندگی صرف میرے لئے نہیں ہے۔میں جس فصل کو اُگانے میں مدد کرتا ہوں،اس سے پورے خاندان کی پرورش ہوتی ہے۔میرا مالک مجھے چارہ کھلانے کے بعد ہی کھانا کھاتا ہے۔وہ صبح اُٹھ کر مجھے پہلے چارہ کھلاتا ہے،تب خود کچھ کھاتا ہے۔میری زندگی تمہاری طرح آزاد بھلے ہی نہ ہو،مگر ایک دم بے معنی بھی نہیں ہے۔“طوطے کو بیل کی بات صحیح لگی۔وہ بولا،”ہم دونوں ہی اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔قدرت نے ہماری زندگی کو جیسا بنایا ہے،ہمیں ویسے ہی جینا ہے۔اچھا چلتا ہوں“یہ کہہ کر طوطا پھُر سے اُڑ گیا۔بیل دیر تک سر اُٹھائے دیکھتا رہ گیا۔ " بارش اور چوزے - تحریر نمبر 2325,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/barish-aur-chuze-2325.html,"پانچ سال کی زویا بڑی ہی چلبلی،نٹ کھٹ اور پیاری ہے۔کھلونوں میں اسے ٹیڈی بیئر بہت پسند ہے،کھانے میں ممی کے ہاتھ کا حلوہ اور موسم میں بارش۔رم جھم بارش دیکھ کر وہ خوشی سے جھوم جاتی ہے۔اس کا دل کرتا ہے کہ وہ گھنٹوں بارش ہوتے دیکھے۔ویسے دل تو بارش میں نہانے کا بھی کرتا ہے پر ممی اس کے دل کی ہونے نہیں دیتیں۔آج بھی بارش ہو رہی تھی۔زویا برامدے میں آئی اور ہاتھ بڑھا کر بارش کی بوندوں کو مٹھی میں لینے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ ممی تیز لہجہ میں بولیں،زویا،جلدی سے اندر آؤ۔بھیگ گئی تو بیمار پڑ جاؤ گی۔“ممی کی آواز سنتے ہی زویا منہ پھلا کر برامدے میں رکھی کرسی پر بیٹھ گئی،پر اس کا منہ زیادہ دیر پھولا نہیں رہ پایا۔پڑوس والی آنٹی نے اپنے گھر میں مرغیاں پالی ہیں۔(جاری ہے)ان کے لان میں لگی باڑ کو پار کرتے ہوئے دو چوزے پھُدکتے ہوئے اس کے لان میں آ گئے۔برسات کی بوندوں سے ان کے پنکھ بھی چپک گئے تھے۔پیڑ کے نیچے انہیں دبکے دیکھ زویا کی آنکھوں میں چمک آئی اور وہ بھاگ کر پاپا کے پاس آئی۔پاپا بڑے دھیان سے اخبار پڑھ رہے تھے۔زویا ان کا ہاتھ پکڑ کر بولی،پاپا۔پاپا․․․․!“جلدی باہر آئیں۔آنٹی کے گھر سے مرغی کے دو چوزے لان میں آ گئے ہیں۔“”کوئی بات نہیں زویا،وہ جیسے آئے ہیں چلے جائیں گے۔“”ارے وہ بھیگ رہے ہیں۔“”ان کو ڈانٹ لگاؤ اور بولو بارش میں مت بھیگو۔“پاپا شاید کوئی ضروری خبر پڑھ رہے تھے اس لئے بنا نظر اُٹھاتے ہوئے بولے۔زویا برامدے میں واپس آئی اور چلا کر ان چوزوں سے بولی،”بارش میں مت بھیگو،بارش میں مت بھیگو۔“چوزوں نے اپنے پنکھ پھیلائے پر انہوں نے زویا کا کہنا نہیں مانا۔”او فوہ،یہ تو سنتے ہی نہیں“ زویا نے پریشان ہو کر کہا اور پھر بھاگی بھاگی اپنے پاپا کے پاس آئی اور بولی،”وہ تو کہنا مان ہی نہیں رہے ہیں۔“پاپا اس بار بھی اخبار میں نظریں گڑائے ہوئے بولے،”اچھا!ممی کو بتاؤ۔وہ ان کی بات ضرور سنیں گے۔“زویا ممی کے کمرے میں گئی،اس سے پہلے وہ کچھ کہتی پہلے ہی ممی نے منہ پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا تو وہ دھیرے سے بولی،”آنٹی کے گھر سے دو مرغی کے چوزے آئے ہیں۔بارش میں بھیگ رہے ہیں۔“”بھیگنے دو۔“ممی نے آہستہ سے کہا۔”ارے،وہ بیمار ہو جائیں گے۔“زویا بھی آہستہ آواز میں بولی۔”اچھا رُکو․․․․!میں ابھی منے بھیا کو سُلا کر آتی ہوں،پھر انہیں کہوں گی مت بھیگو۔اب تم جاؤ یہاں سے،نہیں تو مُنا بھیا اُٹھ جائے گا۔“کنمناتے منے کو تھپکی دیتے ہوئے ممی بولیں تو زویا چپ چاپ برامدے میں آ گئی۔بھیگتے چوزوں کو دیکھ وہ بولی،”اُف،پتہ نہیں کب ممی آئیں گی۔مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا۔“زویا نے اپنا دماغ لگایا اور پھر وہ اپنے لان میں گرے پیڑ کے پتے کو اُٹھا لائی۔پیڑ کے بڑے پتے کو دیکھ کر پہلے تو چوزے گھبرا کر اِدھر اُدھر پھُدکے پھر سہمے ہوئے چھتری جیسے پتے کے نیچے آ گئے۔اب وہ بھیگ نہیں رہے تھے اس لئے انہیں اچھا لگا اور زویا بھیگ رہی تھی اسے بھی بہت اچھا لگ رہا تھا۔اخبار پڑھنے کے بعد پاپا کو زویا کا خیال آیا۔انہوں نے زویا کو آواز لگائی۔جواب نہ ملنے پر وہ برامدے میں آ گئے۔اسے بھیگتے دیکھ وہ چھتری لے کر اس کے پاس آئے۔اس سے پہلے وہ کچھ کہتے،زویا نے منہ بنا کر صفائی دی،”بھیگ رہے تھے بیچارے۔“”اور تم جو مزے سے بھیگ رہی ہو اس کا کیا؟“”میں بیمار پڑی تو ممی دوا دے دیں گی۔یہ بیمار ہوئے تو ان کی ممی دوا کہاں سے لائیں گی؟“”ہاں،یہ بات تو ہے مگر مجھے بتاتی تو۔خود کیوں بھیگنے چلی آئی؟“”بتایا تو تھا۔آپ پیپر پڑھ رہے تھے۔ممی منے بھیا کو سلا رہی تھیں۔یہ بیچارے بھیگ رہے تھے۔“”میں سب سمجھتا ہوں۔بھیگنے کا دل تو تمہارا بھی کر رہا تھا،ہے ناں۔“پاپا مسکرائے تو وہ شرارتی ہنسی کے ساتھ بولی،”ممی سے مت کہنا،پر دل تو کر رہا تھا میرا بھی تھوڑا تھوڑا۔“”چلو اب اندر چلو“پاپا نے کہا۔مگر زویا بھیگتے چوزوں کو وہاں چھوڑ کر جانے کو راضی نہیں تھی۔پاپا نے چوزوں کو ہتھیلی پر لینے کی کوشش کی کہ تبھی کک کک کی آواز سن کر وہ چونکے۔دیکھا تو ایک مرغی تیزی سے ان کی طرف بڑھی۔”لو ان کی ممی آ گئی۔اب اس سے پہلے تمہاری ممی بھی آ جائیں اندر چلو اور کپڑے بدلو۔“مرغی کو دیکھ چوزے پھُدکتے ہوئے مرغی کے پاس چلے گئے تو زویا نے خوشی سے تالی بجائی۔کک کک پک پکا کک․․․․کی تیز آواز کے ساتھ مرغی دونوں چوزوں کو پروں میں چھپاتی پڑوس کی باڑ کے پاس لے گئی۔”پاپا مرغی کیا کہہ رہی ہے؟“زویا نے پوچھا،اس سے پہلے پاپا کچھ کہتے،برامدے میں کھڑی ممی سر سے پیر تک بھیگی زویا کو دیکھ کر حیرانی سے بولیں،”منع کیا تھا نہ باہر مت نکلنا۔بارش میں مت بھیگنا۔بیمار پڑ گئی تو،بالکل کہنا نہیں سنتی ہو۔“”یہی بول رہی ہے وہ ان دونوں سے۔“مرغی اور چوزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاپا مسکرا کر بولے تو زویا منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنس دی۔ " ننھا خرگوش اور سیانی بلی - تحریر نمبر 2324,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanha-khargosh-aur-sayani-billi-2324.html,"احمد زئیآج صبح ننھا خرگوش جب حسب معمول ندی کنارے اپنے دوستوں کے ساتھ اُچھل کود کر رہا تھا تو اچانک ایک خوفناک کتے نے ان پر حملہ کر دیا۔تمام خرگوش اپنی جان بچا کر جدھر سینگ سمایا،بھاگ کھڑے ہوئے۔ننھا خرگوش بھی اپنی چھوٹی چھوٹی پھرتیلی ٹانگوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے چھلانگ مار کر ایک جانب دوڑ پڑا۔بدقسمتی سے کتا تمام خرگوشوں کو چھوڑ کر ننھے خرگوش کے پیچھے لگ گیا۔جان بچانے کی خاطر اس نے اپنی تمام توانائی صرف کر ڈالی اور بالآخر ایک گھنے برگد کے کھوکھلے تنے میں گھس کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا۔سانسیں بحال ہونے کے بعد جب اردگرد کا جائزہ لیا تو خود کو ایک اجنبی جگہ میں دیکھ کر مزید پریشان ہو گیا۔وہ بھاگتے بھاگتے گھر سے بہت دور نامعلوم جگہ پہنچ گیا تھا اور گھر کی سمت کا تعین کرنا ممکن نہیں تھا۔(جاری ہے)ابھی وہ پریشانی سے چاروں جانب دیکھ ہی رہا تھا کہ بوڑھے برگد سے ایک شفقت بھری آواز گونجی․․․!پیارے خرگوش!گھبراؤ نہیں،دائیں جانب سنبھل کے درختوں کی قطار کے ساتھ چلتے چلے جاؤ،کچھ دور جا کر تمہیں ندی بہنے کی آوازیں آنے لگیں گی،بس ندی کے ساتھ ساتھ دوڑتے جانا،ایک فرلانگ کے فاصلے پر تم اس جگہ پہنچ جاؤ گے جہاں روز کھیلا کرتے ہو۔ننھا خرگوش بوڑھے برگد کا شکریہ ادا کرکے بتائی گئی سمت کی طرف چل پڑا لیکن تھوڑی ہی دور چلا تھا کہ شرارتی جنگلی بلیاں اسے کھیلتی نظر آئیں۔ننھے خرگوش کی ہم عمر ایک بلی بولی!بھولے خرگوش آؤ ہمارے ساتھ کھیلو،اُس نے انکار کرتے ہوئے اپنی پریشانی بیان کی،جس پر چھوٹی بلی بولی جس راستے پر تم جا رہے ہو وہ بہت خطرناک ہے،اس راہ پہ خوفناک کتوں سے بچنا ممکن نہیں۔آؤ میں تمہیں ایک آسان اور قریبی راستہ بتاتی ہوں۔بلی نے شرارت سے دوسری بلیوں کو دیکھتے ہوئے خرگوش سے کہا،اگر تم ان جھاڑیوں کے درمیان سے چلے جاؤ تو چند لمحوں میں ندی کنارے موجود اپنے گھر پہنچ جاؤ گے۔بیچارا خرگوش،بلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نئے راستے کی جانب چل پڑا لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ اس جانب سانپوں کی بستی تھی،دوسری طرف شرارتی بلی اور اس کے دوست اپنی شرارت پر بہت خوش تھے لیکن بھوری سمجھ دار بلی اس حرکت سے ناخوش تھی۔وہ اپنی دوستوں کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگی!دیکھو بے چارے خرگوش کو مصیبت میں دیکھ کر اس کی مدد کرنے کے بجائے تم نے اسے پُرخطر راستہ بتا کر اچھا نہیں کیا،عین ممکن ہے کہ وہ سانپوں کا شکار ہو جائے اور اس کی امی،ابو تمام عمر اسے ڈھونڈتے ہی رہیں۔یاد رکھو!بھٹکے ہوئے کی مدد کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔یہ سن کر تمام شرارتی بلیوں کے سر شرم سے جھک گئے اور انہیں اپنی اس سنگین غلطی کا احساس ہوا۔بھوری بلی کے مزید قائل کرنے پر بلیوں کی یہ ٹولی ننھے خرگوش کو ناگہانی مصیبت سے بچانے کے لئے چل پڑی۔ذرا ہی دور انہیں ڈرا سہما خرگوش مل گیا۔بھوری بلی نے اسے دلاسا دیا اور کہا،ہمیں معاف کرنا،یہ راستہ تمہاری منزل کی جانب نہیں جاتا۔آؤ ہم تمہیں تمہارے گھر تک چھوڑ آئیں۔تمام بلیاں خرگوش کو لے کر جلد ہی اس کے گھر پہنچ گئیں۔ادھر خوگوش کے ماں،باپ اور تمام دوست اسے انتہائی پریشانی کے عالم میں تلاش کر رہے تھے۔انہوں نے جب خرگوش کو بلیوں کے ہمراہ آتے دیکھا تو خوش ہو گئے۔تمام ماجرہ سن کر انہوں نے پیاری بلیوں کا بھی شکریہ ادا کیا اور تمام بلیاں خوشی خوشی اپنے گھر لوٹ گئیں۔ " آخری واردات - تحریر نمبر 2323,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aakhri-wardat-2323.html,"سید صارم علی،کراچییہ شہر کا مشہور بینک تھا،جہاں اس وقت داخل ہو کر ڈاکو لوٹ مار کر رہے تھے۔نقاب پوش ڈاکو واردات کرکے نقدی سمیت وہاں سے فرار ہو گئے۔ان کے فرار ہونے کے بعد ایک شخص بینک میں داخل ہوا،لیکن اندر بینک کے عملے کو بندھا دیکھ کر سکتے میں آ گیا اور فوراً پولیس کو فون کر دیا۔انسپکٹر آصف واردات کا جائزہ لینے بینک پہنچے وہ فنگر پرنٹ ماہر کو ساتھ لائے تھے،لیکن ڈاکو بہت چالاک تھے۔انھوں نے اپنے خلاف کوئی ثبوت نہیں چھوڑا تھا۔انسپکٹر آصف نے سوچا بینک سے لوٹی ہوئی رقم کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔انھوں نے پورے علاقے کے گھروں کی تلاشی لینے کے لئے بہت بھاری نفری لی اور پورے علاقے کی تلاشی لینے لگے۔ابھی انھوں نے دس بارہ گھروں کی تلاشی لی تھی کہ ایک گھر میں تالا لگا نظر آیا انھوں نے ساتھ والے مکان مالک سے اجازت لی اور چند ساتھیوں کو لے کر اس کی چھت پر آئے اور دیوار پھلانگ کر بند مکان کی چھت پر پہنچ گئے۔(جاری ہے)وہاں سے ایک راستہ نیچے کی طرف جا رہا تھا۔دبے قدموں سے سیڑھیاں اُترتے چلے گئے۔ابھی وہ پوری سیڑھیاں بھی نہیں اُتر پائے تھے کہ انھیں ایک کمرے سے آوازیں سنائیں دیں۔کوئی کہہ رہا تھا:”اب ہمیں جلدی سے فرار ہونے کی کوشش کرنی چاہیے یہ نہ ہو کہ ہم اسی علاقے میں پکڑے جائیں۔“دوسرا بولا:”اس بار بہت لمبا ہاتھ مارا ہے۔اب آرام سے بیٹھ کر کھائیں گے۔“اتنے میں انسپکٹر آصف نے اپنے ماتحت کو اشارہ کر دیا۔مکان کو گھیرے میں لے لیا گیا۔اب اندر سے آوازیں آنا بند ہو گئیں تھیں۔انسپکٹر آصف نے دروازے پر زور دار ٹھوکر ماری جس سے دروازہ ایک جھٹکے سے کھل گیا۔انسپکٹر آصف اور ان کے ماتحتوں نے ڈاکوؤں پر پستولیں تان لیں۔ڈاکو چونکہ اس وقت خالی ہاتھ تھے،اس لئے ان کے ہاتھ اوپر اُٹھتے چلے گئے،پھر سارے ڈاکوؤں کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کر دیا گیا اور رقم بھی برآمد کر لی گئی۔اگلے دن ان کے اس کارنامے کا ذکر اخبارات میں تھا اور لوگ ان کو مبارک باد دے رہے تھے۔ " پنکی کا ایوارڈ - تحریر نمبر 2322,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pinki-ka-award-2322.html,"روبینہ ناز،کراچیپنکی نام کی ایک چھوٹی سی گلہری کو شرطیں لگانے کا بہت شوق تھا۔وہ اکثر اپنے دوست ٹوٹو طوطے سے شرط لگاتی اور ہر بار ہار جاتی۔ہارنے کے بعد اُسے جرمانے کے طور پر اپنے پانچ پسندیدہ بیج ٹوٹو کو دینے پڑتے تھے۔اُس کے سب ہی دوستوں نے اُسے بار بار شرط لگانے سے منع کیا مگر پنکی نہ مانی اور ٹوٹو سے شرطیں لگاتی رہی اور ہارتی رہی۔ٹوٹو طوطا ایک مرتبہ کانٹے دار جھاڑیوں میں پھنس گیا تھا جس سے اُس کے پنجے کا ایک ناخن ٹوٹ گیا تھا اور اُس کا پر بھی زخمی ہو گیا تھا۔اس کے بعد سے ٹوٹو کو ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنے میں بہت مشکل پیش آتی تھی۔دوسری جانب گلہریوں کا پورا گروپ پنکی گلہری کا خوب مذاق اُڑاتا تھا کیونکہ وہ ٹوٹو سے کبھی کوئی ایک شرط بھی نہیں جیت سکی تھی۔(جاری ہے)جنگل میں ہر وقت ہی شور و ہنگامہ برپا رہتا تھا کوئی نہ کوئی سرگرمی ہوتی رہتی تھی۔اسی دوران جنگل میں سب سے پیارے اور مہربان جانور کے سالانہ ایوارڈ کا اعلان ہوا جسے سُن کر سبھی جانور بہت خوش ہوئے۔جنگل کے ہر جانور کو یقین تھا کہ گزشتہ دو سال کی طرح اس سال کا یہ ایوارڈ بھی خوبصورت و سریلی آواز والی چڑیا کو ملے گا جو پورے جنگل میں اپنی آواز کی وجہ سے مشہور تھی اور وہ بڑی پیاری اور محبت کرنے والی بھی تھی۔جہاں کسی کو دُکھ یا پریشانی میں دیکھتی فوراً مدد کو پہنچ جاتی۔پھر اس ایوارڈ کے فاتح کے نام کا اعلان ہوا تو سریلی چڑیا نے ایک بار پھر یہ ایوارڈ جیت لیا تھا۔سریلی چڑیا سٹیج پر پہنچی اور اُس نے اعلان کیا”میری نظر میں اس بار کا سب سے پیارے اور مہربان جانور کا ایوارڈ پنکی گلہری کو ملنا چاہیے۔“چڑیا کے اس اعلان نے سبھی کو حیران کر دیا۔شیر بادشاہ نے پوچھا ”وہ کیوں؟وجہ بھی بتاؤ“ ہم سب جانتے ہیں کہ ٹوٹو طوطا جب جھاڑیوں میں پھنس کر زخمی ہوا اور اُس کے پنجے کا ایک ناخن بھی ٹوٹا تو اُسے خوراک کیلئے مدد کی ضرورت پڑی۔اس موقع پر ہم میں سے کسی نے اُس کی مدد نہیں کی۔ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پنکی گلہری اُس کے ساتھ شرط لگاتی اور ہر بار ہار جاتی ہے کیا کسی نے سوچا ہے وہ ایسا کیوں کرتی ہے؟”کیوں کرتی ہے؟“شیر کی رعب دار آواز گونجی۔وہ جان بوجھ کر ہارتی ہے تاکہ اپنے دوست طوطے کی مدد کر سکے اور اُسے خوراک فراہم کر سکے۔سریلی چڑیا نے جواب دیا۔یہ سن کر جنگل کے سبھی جانوروں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اُنہوں نے مڑ کر دیکھا تو اُنہیں پنکی اور ٹوٹو ساتھ کھڑے دکھائی دیئے،دونوں بہت خوش تھے۔سریلی آواز والی چڑیا نے اعلان کیا،پنکی آؤ اور اپنا ایوارڈ وصول کرو کیونکہ اس سال کے ایوارڈ کی مستحق تم ہی ہو۔ " پانی کی قدر کریں - تحریر نمبر 2321,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pani-ki-qadar-karen-2321.html,"سلمان یوسف سمیجہ،علی پورحسنات کی ایک بری عادت پانی ضائع کرنا تھی،وہ پانی کی قدر نہ کرتا تھا اور کثرت سے اس کا استعمال کرتا تھا۔مثلاً کبھی نماز کیلئے وضو کرتا تو نلکا کھلا چھوڑ دیتا تھا،پانی پینے کیلئے پورا گلاس بھر لیتا مگر آدھا گلاس پی کر چھوڑ دیتا،گھنٹوں نہاتا رہتا،حتیٰ کہ پانی کی پوری ٹینکی ختم ہو جاتی۔وہ سوچتا تھا کہ پانی کبھی ختم نہ ہونے والی چیز ہے،اسے جتنا بھی استعمال کیا جائے یہ ختم نہ ہو گا۔ایک روز ظہر کی نماز ادا کرنے کو دیر ہو رہی تھی،اُس نے جلدی جلدی وضو کیا اور نل کو تھوڑا سا بند کرکے مسجد کی طرف بھاگ گیا۔حسنات کے دادا ابو کئی دنوں سے اُس کی یہ بری عادت نوٹ کر رہے تھے۔اُنہوں نے نل کو اچھی طرح بند کیا،اُنہیں حسنات پر افسوس تھا کہ اتنا بڑا ہو جانے کے باوجود بھی اُس کے دل میں پانی کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ہے۔(جاری ہے)وہ افسوس کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔”یہ کیا بدتمیزی ہے؟پانی کا گلاس پورا بھرا ہے تو پورا ہی پیو“ دادا ابو کی سخت آواز آئی۔حسنات نے اپنی عادت کے مطابق پانی بھرا اور آدھا گلاس پی کر جانے لگا تو دادا جان نے اُسے دیکھ لیا۔پہلے تو اُنہوں نے سخت لہجے میں بات کہی تھی لیکن پھر نرم پڑتے ہوئے بولے:”دیکھو!پانی اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے،تمہیں پانی کی بے قدری نہیں کرنی چاہئے۔ہمیشہ پانی اُتنا ہی استعمال کرنا چاہئے جتنا بندے کو ضرورت ہو۔پانی کے بغیر کوئی چرند پرند زندہ نہیں رہ سکتا۔تم ماشاء اللہ بڑے ہو گئے ہو،تمہارا قد ہمارے قد کے برابر ہو گیا ہے۔تمہیں پانی کی قدر و قیمت کا اندازہ ہونا چاہئے۔“حسنات نے دادا ابو کی بات پر غور و فکر نہ کیا بلکہ پانی کا بے جا استعمال کرتا رہا۔آج اُسے احساس ہوا تھا کہ پانی ہمارے لئے کتنی بڑی نعمت ہے،سارے شہر میں قحط پڑ گیا تھا۔ہر کوئی پیاسا تھا ٹینکیوں میں نلکوں میں ہر جگہ پانی ختم ہو گیا تھا،حسنات کا پیاس سے گلا سوکھا ہوا تھا ہر جگہ افراتفری کا عالم تھا اور ہر کوئی پانی کیلئے بلک رہا تھا لیکن اُنہیں پانی میسر نہ تھا اور وہ سب گرتے چلے جا رہے تھے۔ " ستانے کا انجام - تحریر نمبر 2320,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/satane-ka-anjaam-2320.html,"شیخ معظم الٰہی سنت نگر لاہورہمارے گھر کے قریب ہی ایک حلوائی کی دکان تھی۔ایک نابینا اُس دکان کے سامنے سے گزرا کرتا تھا۔حلوائی کا اکلوتا بیٹا زاہد جو پڑھائی میں نکما اور نالائق تھا،بہت شرارتی تھا۔وہ روزانہ اُس نابینا کو تنگ کرتا اور اُس پر طرح طرح کی آوازیں کستا۔بیچارا نابینا زاہد کے ستانے کے باوجود خاموشی سے وہاں سے گزر جاتا۔میں نے زاہد کو ایسی حرکتیں کرنے سے منع کیا تو اُس نے کہا کہ معظم!مجھے اس نابینا کو ستا کر بڑا مزا آتا ہے۔اُس کے والدین بھی اُسے بہت سمجھاتے مگر اُس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ایک دن نجانے زاہد کے ذہن میں کیا خیال آیا کہ وہ کیلوں کے چند چھلکے اُٹھا لایا۔اُس نے جب دیکھا کہ وہ نابینا اس کی دکان کی طرف آ رہا ہے تو اُس نے کیلے کے چھلکے گلی کی نکڑ پر بکھیر دیئے۔(جاری ہے)وہ نابینا وہاں سے گزرنے لگا تو کیلے کے چھلکوں پر اُس کا پاؤں پھسلا اور وہ گر پڑا۔اُسے خاصی چوٹیں آئیں اور پھر اُس کے منہ سے بد دعا بھی نکلی کہ اللہ پاک تجھے بھی میری طرح اندھا کر دے۔زاہد کے والد کو پتہ چلا تو اُنہوں نے زاہد کی خوب پٹائی کی مگر اُس پر ذرا بھی اثر نہ ہوا۔کچھ عرصہ بعد زاہد کے والد کا انتقال ہو گیا۔اب زاہد اپنے والد کی جگہ دکان پر بیٹھنے لگا۔نابینا بھی کہیں چلا گیا تھا یا اُس نے یہ راستہ چھوڑ دیا تھا۔ایک دن زاہد دکان پر بیٹھا ایک بڑے کڑاہے میں دودھ اُبال رہا تھا کہ ایک گاہک آیا،اُس نے زاہد سے دو کلو برفی مانگی۔زاہد نے دو کلو برفی تول کر ڈبے میں ڈالی۔وہ ڈبہ اُس گاہک کو دینے لگا تو اچانک ڈبہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گھولتے ہوئے دودھ میں جا گرا۔ڈبہ گرنے سے دودھ کے گرم گرم چھینٹے زاہد کے چہرے اور آنکھوں پر پڑے جس کی وجہ سے وہ چلانے لگا کہ ہائے!میں مر گیا۔میری آنکھوں کو کیا ہو گیا ہے؟لوگ فوراً اُسے ہسپتال میں لے گئے۔وہاں اُس کا علاج ٹھیک طرح سے نہ ہو سکا اور اس کی وجہ سے اُس کی دونوں آنکھیں ضائع ہو گئیں۔اس کے علاوہ اُس کے چہرے پر جلنے کی وجہ سے خاصے دھبے بھی پڑ گئے تھے۔اپنی اس حالت کو محسوس کرکے وہ بہت رویا کرتا اور اللہ پاک سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگتا رہتا۔مگر اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔اب زاہد اُس نابینا کی طرح لاٹھی لے کر چلتا ہے اور اُس نابینا کو تلاش کرتا ہے کہ وہ اُسے معاف کر دے۔اُسے جو بھی آدمی راستے میں ملتا ہے تو اُسے یہ نصیحت کرتا ہے کہ کبھی بھی کسی نابینا کو تنگ نہ کرنا اور نہ کسی کا دل دکھانا۔دوستو!آپ سے درخواست ہے کہ کوئی لولا لنگڑا‘بہرہ اور اندھا ہے،تو کبھی اُس کا مذاق نہ اُڑاؤ اور نہ تنگ کرو ورنہ انجام آپ کے سامنے ہے۔ " وہ غلطی پر تھی - تحریر نمبر 2319,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/woh-galti-par-thi-2319.html,"زینب بنت عمران،کراچیعلیزہ اور عمارہ کی دوستی ایسی تھی جیسے ایک جان دو قالب۔وہ دونوں ایک ہی جماعت میں پڑھتی تھیں اور اُن دونوں کی بہت سی عادتیں ملتی جلتی تھیں۔فرق یہ تھا کہ علیزہ ہمیشہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر محنت کرتی اور پوری کلاس میں اول آتی جبکہ عمارہ کو پڑھائی سے اتنا لگاؤ نہیں تھا،اس لئے وہ پاس تو ہو جاتی مگر اُس نے کبھی کوئی پوزیشن حاصل نہیں کی تھی۔علیزہ ایک بہت ہی ایمان دار اور تمیز دار گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔علیزہ کی امی تجربہ کار خاتون تھیں۔وہ کسی بھی شخص کی باتوں سے اس کی شخصیت معلوم کر لیتی تھیں کہ وہ شخص ایماندار ہے یا نہیں،عبادت گزار ہے یا نہیں وغیرہ۔جب علیزہ اُنہیں عمارہ کے بارے میں کچھ بتاتی تو اُنہیں یہ معلوم ہو جاتا کہ عمارہ زبردستی علیزہ سے اُس کے گھر کی باتیں پوچھتی ہے اور وہ بھروسے کے لائق نہیں۔(جاری ہے)اگر وہ یہ سب علیزہ کو بتاتیں تو اُسے بُرا لگتا کہ اُس کی امی اُس کی سہیلی کے بارے میں ایسا کہہ رہی ہیں۔یہ سوچ کر وہ علیزہ سے کچھ نہیں بولتیں۔بس اُسے اتنا سمجھاتیں کہ وہ اپنے گھر کی باتیں کسی کو بھی اپنی سہیلی کو بھی نہ بتائے۔خیر علیزہ اپنی امی کے سامنے تو ہاں بول دیتی مگر عمارہ کے اصرار پر اُسے سب کچھ بتانا ہی پڑتا۔ایک دن علیزہ اور عمارہ کی کسی بات پر لڑائی ہو گئی تو عمارہ نے غصے میں کلاس کی ہر لڑکی کو علیزہ کے گھر کی باتیں اور معاملات کے بارے میں بتا دیا۔یہ علیزہ کی خوش قسمتی تھی کہ اُس کی نرم دلی اور ایمانداری کی وجہ سے اُس کی کلاس کی لڑکیوں نے علیزہ کا مذاق اُڑانے کی بجائے عمارہ کو اُس کی اس حرکت پر کوسا۔علیزہ کو اس بات کا بے حد افسوس ہوا کہ اُس کی پکی سہیلی نے اُس کے ساتھ ایسا کیا۔تب اُسے اپنی امی کی بات یاد آئی کہ اُنہوں نے اُسے سمجھایا تھا مگر اُس نے اپنی امی کی بات کو نظر انداز کر دیا تھا۔پھر اُس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ خدا نے اُس کا مذاق بننے سے بچا لیا۔عمارہ کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اُس نے علیزہ سے معافی مانگی جس پر علیزہ نے اُسے معاف تو کر دیا مگر اُن کی دوستی میں وہ بات نہ رہی جو پہلے تھی۔علیزہ نے جب یہ واقعہ اپنی امی کے سامنے بیان کیا اور اُن سے اُن کی بات نا ماننے کی معافی مانگی تو اُنہوں نے اُسے معاف کر دیا اور اُسے تلقین کی کہ آئندہ بُری لڑکیوں سے دوستی کرنے کی غلطی نہ کرے۔پیارے دوستو!اگر آپ کے والدین آپ کو کسی بات سے روکتے ہیں یا سمجھاتے ہیں تو اُن کی بات مانا کریں کیونکہ اُنہوں نے دنیا اچھی طرح سے دیکھی ہوتی ہے اور وہ لوگوں کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ آپ کی بھلائی چاہتے ہیں۔مجھے اُمید ہے کہ آپ سب علیزہ کی طرح یہ غلطی نہیں کریں گے۔ " چالیس دن کا بادشاہ - تحریر نمبر 2317,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chalis-din-ka-badshah-2317.html,"سمیرا انور،جھنگپرانے زمانے کی بات ہے کہ ملک فارس پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا وہ بہت پریشان رہتا تھا کیونکہ ملک میں چوری اور ڈکیتی عام تھی،باوجود کوشش کے بھی وہ اس پر قابو نہیں پا رہا تھا۔ایک دن بادشاہ پریشانی میں محل سے نکل کر جنگل کی طرف چل پڑا۔اس نے دیکھا ایک لکڑہارا بہت محنت سے لکڑیاں کاٹ رہا ہے۔لکڑہارا بادشاہ کو دیکھ کر اس کے پاس آیا اور کہنے لگا بادشاہ سلامت!آپ کسی شاہی سواری میں نہیں آئے؟بادشاہ نے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی تو اس نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ عرض کروں؟بادشاہ نے سر ہلایا تو وہ بولا آپ مجھے کچھ دن ملک پر حکمرانی کی اجازت دیں۔مجھے امید ہے کہ یہ بُرائی ختم ہوجائے گی۔بادشاہ نے اسے بخوشی اجازت دی۔(جاری ہے)لکڑہارا بادشاہ بن گیا تھا اس نے فوراً حکم جاری کیا۔اگر ملک میں کسی بھی طرح کی چوری ہو جائے تو فوراً چور کا سر قلم کر دیا جائے گا اور جو اس کی سفارش لے کر آ ئے گا اس کو بھی پھانسی دے دی جائے گی۔لوگوں نے اس حکم پر توجہ نہ دی اور اگلے دن کسی کے گھر سے زیور چوری ہو گئے۔بادشاہ نے حکم دیا چور کو فوراً پکڑا جائے اور سپاہیوں سے کہا کہ اگر چور پکڑنے میں ناکام ہوئے تو ان کی جگہ تمہیں پھانسی دے دی جائے گی۔کچھ روز گزرنے کے بعد سپاہی چور پکڑنے میں کامیاب ہو گئے انہیں جیل میں بند کر دیا گیا۔لوگ اب ڈر کے مارے سفارش نہ کریں وہ بادشاہ کے باپ کے پاس گئے اور اس سے گزارش کی وہ بادشاہ سے معافی دلوا دیں وہ ان کے ساتھ جانے پر راضی ہو گیا۔بادشاہ نے جب سفارشی کے طور پر اپنے باپ کو دیکھا تو سپاہی کو حکم دیا کہ ان کو جیل میں بند کر دیں۔پھر اُصول کے مطابق جو ظلم جاری کیا گیا تھا اس کی تکمیل کر دی گئی چوروں کے سر قلم کر دیئے گئے اور جو سفارش لے کر آیا تھا اس کو پھانسی دی گئی۔اس صورتحال نے سب لوگوں کو خوفزدہ کر دیا۔اب کوئی راستے میں بھی پڑی ہوئی چیز بھی دیکھتا تو اس کو اُٹھانے کی ہمت نہ کرتا آہستہ آہستہ ملک سے چوریاں ہونا ہی بند ہو گئیں۔چالیس روز بعد بادشاہ لکڑہارے نے پہلے بادشاہ کو بلایا اور سلطنت کا نظام اس کے حوالے کر دیا۔بادشاہ اس کی حکمرانی اور اصول پرستی سے اتنا خوش ہوا کہ اس کو اپنا وزیر مقرر کر دیا۔پیارے بچو!کسی بھی سلطنت یا حکومت کا انتظام چلانے کا ذمہ دار حکمران ہوتا ہے اگر وہ اپنے اصولوں اور قوانین کو مدنظر رکھ کر کام کرے تو ہر بُرائی کو ختم کر سکتا ہے۔ " رازق ہے بے شک خدا - تحریر نمبر 2316,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/raziq-hai-beshak-khuda-2316.html,"ساجد کمبوہمیں حاجی صاحب کے وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں بیٹھا اُن کا انتظار کر رہا تھا۔اِدھر اُدھر نظر گھمائی تو دیکھا کہ قیمتی شو پیس،بہترین گلوب،بڑا سا رنگین ٹی وی،خوبصورت ٹیلی فون اور مصنوعی بیلیں دیواروں سے چپکی ہوئی تھیں۔فرنیچر بھی اعلیٰ قسم کا تھا،صوفے اتنے نرم کہ بندہ دھنستا چلا جائے۔ابھی میں ڈرائنگ روم کا جائزہ لے رہا تھا کہ ایک خادم ٹرالی دھکیلتا ہوا آیا اور چائے وغیرہ ”پیش“ کرنے لگا۔اُس نے بس اتنا کہا کہ حاجی صاحب آ رہے ہیں،آپ چائے وغیرہ لیں۔حاجی صاحب کا پورا نام محمد اشرف تھا۔انہوں نے متعدد حج کیے جس کی وجہ سے حاجی صاحب مشہور ہو گئے۔آج اس کا اصل نام خاص خاص لوگوں کو ہی پتا ہے۔حاجی صاحب کے ایک بیٹے سے میری علیک سلیک تھی۔(جاری ہے)وہ میرا کلاس فیلو اور بڑا مخلص اور اچھا انسان تھا۔کبھی کسی فنکشن یا پارٹی وغیرہ میں ملاقات ہوتی تو گلے شکوؤں کے ڈھیر لگا دیتا۔کچھ عرصہ پہلے اس نے بتایا کہ والد صاحب نے تمام جائیداد،فیکٹریاں،زمینیں ہم بہن بھائیوں میں تقسیم کر دی ہیں اور خود فارغ البال ہو کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو گئے ہیں۔تین چار سال بعد پھر جب اس نے بتایا کہ والد صاحب نے ہم بھائیوں سے چند لاکھ روپے لے کر دوبارہ کاروبار شروع کر دیا ہے اور دنیاوی کاموں میں مصروف ہو گئے ہیں تو اس بات پر اسے شاید اتنا تعجب نہیں ہوا جتنا میں نے محسوس کیا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت کرم کیا تھا۔دور دور تک ان کی شہرت تھی جسے پھونک مارتے،دوا یا دعا دیتے اللہ تعالیٰ اس پر کرم کرتا بہت سے عقیدت مند پیسوں سے خدمت کرنا چاہتے مگر حاجی صاحب نہ لیتے،صرف دعا اور نماز کے لئے کہتے۔ہم لکھنے والوں میں ایک مرض ہوتا ہے جسے عام لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ہمیں ہر بات کی جستجو ہوتی ہے۔اسی لئے اب میں حاجی صاحب سے وقت لے کر ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔کچھ دیر بعد حاجی صاحب تشریف لائے۔بڑے تپاک سے ملے اور پوچھا،”ہاں!فرماؤ،کیسے آئے ہو؟“میں نے کہا،”مجھے آپ سے ملنے کا اشتیاق تھا اس لئے آیا ہوں۔“حاجی صاحب کا چہرہ نورانی،سفید داڑھی اور سر پر عمامہ بہت بھلا لگ رہا تھا۔میں نے کہا:”حاجی صاحب!کیا وجہ ہے کہ پہلے آپ نے تمام جائیداد تقسیم کر دی،اللہ اللہ کرنے لگے مگر پھر دنیا داری میں مصروف ہو گئے۔حاجی صاحب نے کہا،”بیٹا!اُس میں بھی ایک راز تھا اور اس میں بھی ایک راز ہے۔“”وہ کیا․․․․؟“میں بے تابی سے بولا۔حاجی صاحب مسکرائے اور کہا،”اس سے پہلے کسی محفل میں ذکر کیا اور آج کر رہا ہوں۔سن کر فیصلہ کرنا کہ آج فیصلہ صحیح ہے یا پہلا فیصلہ صحیح تھا؟ایک دن میں اپنے گودام میں حساب کتاب کر رہا تھا۔دیکھا ایک کتا اپنی پچھلی ٹانگیں گھسیٹ کر گودام میں گھس رہا تھا۔پہلے تو خیال گزرا کہ اسے بھگا دوں پھر سوچا،ایک تو یہ زخمی ہے دوسرا یہاں پناہ کی تلاش میں آیا ہے۔لہٰذا،اسے کچھ نہ کہا جائے۔پھر اچانک خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ رازق ہے تو دیکھیں اسے کیسے روزی دیتا ہے یا یہ بھوکا ہی مر جائے گا؟یہ سوچ کر میں ایک طرف بیٹھ گیا۔جب ہلکا سا اندھیرا چھا گیا تو حیرت انگیز منظر میرے سامنے تھا۔ایک اور کتا منہ میں گوشت کا ٹکڑا دبائے آیا اور اسے کھلانے لگا۔میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔”سبحان تیری قدرت!“اور میں گھر چلا آیا۔اسی طرح وہ کتا کہیں سے کوئی نہ کوئی چیز لاتا رہا اور اسے کھلاتا رہا۔اس کی ٹانگیں تو ٹھیک نہ ہو سکیں مگر زخم بھر گئے اور وہاں سے چلا گیا۔اس واقعے کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ اس کتے کو بغیر کسی محنت اور تلاش کے رزق دے سکتا ہے تو مجھے کیوں نہیں دے گا؟بس میں نے سارا کاروبار،جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کی اور اللہ تعالیٰ سے لو لگائی۔“پھر آپ دوبارہ کیوں دنیا داری کے بکھیڑوں میں پڑ گئے۔کیا آپ کا اللہ تعالیٰ پر یقین کامل نہیں رہا؟میں نے حیرانی سے پوچھا۔حاجی صاحب ہنس پڑے۔”یہی واقعہ میں نے ایک محفل میں سنایا تو ایک شخص نے مجھے لاجواب کر دیا تھا کہ حاجی صاحب!آپ نے خود کو اس زخمی کتے سے تشبیہ دی کہ اسے رزق ملتا رہا تو آپ کو بھی ملے گا،مگر اس کتے سے کیوں تشبیہ نہیں دی جو اسے لا کر کھلاتا رہا؟یہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔واقعی․․․․․میں نے زخمی کتے کا سوچا،اس کتے سے تشبیہ کیوں نہ دی جو اس کو ”وسیلہ“ بنا رہا۔بس اسی دن میں نے اپنے بچوں سے چند لاکھ روپے لیے اور ایک کاٹیج انڈسٹری قائم کر دی۔اس وقت غریب بستیوں میں درجنوں سے اوپر کاٹیج انڈسٹریز قائم ہیں جن میں غریب عورتیں اور بچیاں کام کر رہی ہیں۔وہ اپنا رزق بھی کما رہی ہیں اور ساتھ مجھے دعائیں بھی دے رہی ہیں۔میرے خیال میں یہ کسی بھی نفلی عبادت سے کہیں بہتر عبادت ہے۔میرے اس وسیلے سے تقریباً سات سو خاندان پل رہے ہیں۔“یہ سننا تھا کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔واہ مولا!ایک شخص کے وسیلے سے سات سو خاندان پل رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمارے سرمایہ کاروں کو بھی ایسی نیکیاں کرنے کی توفیق دے،وہ بھی آخرت کا سوچیں اللہ تعالیٰ ہمیں کامل مسلمان بنائے۔آمین " نیلا گیدڑ - تحریر نمبر 2315,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/neela-geedar-2315.html,"پرانے زمانے کی بات ہے کسی جنگل میں ایک گیدڑ رہتا تھا۔ایک دن گیدڑ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔وہ دن اس کے لئے کتنا برا تھا۔اسے دن بھر بھوکا ہی رہنا پڑا۔وہ بھوکا اور تھکا ہارا چلتا رہا۔راستہ ناپتا رہا۔بالآخر دن ڈھلے وہ کھانے کی تلاش میں ایک شہر میں جا پہنچا۔اسے یہ بھی احساس تھا کہ ایک گیدڑ کے لئے شہر میں چلنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ خطرہ مول لینے پر مجبور تھا۔”مجھے بہرحال کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا ہے۔“اس نے اپنے دل میں کہا۔”لیکن کسی آدمی کا کتے سے دوچار ہونا نہ پڑے۔“اچانک اس نے خطرے کی بو محسوس کی۔کتے بھونک رہے تھے۔وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔وہ ڈر کر بھاگا۔(جاری ہے)لیکن کتوں نے اسے دیکھ لیا اور اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔کتوں سے پیچھا چھڑانے کے لئے گیدڑ تیز بھاگنے لگا لیکن کتے اس کے قریب پہنچ گئے۔گیدڑ جلدی سے ایک مکان میں گھس گیا۔یہ مکان ایک رنگریز کا تھا۔مکان کے صحن میں نیلے رنگ سے بھرا ہوا ایک ٹب رکھا ہوا تھا۔بھاگتے ہوئے گیدڑ کا پاؤں پھسلا اور وہ نیلے رنگ سے بھرے اس ٹب میں گر گیا۔کتوں نے گیدڑ کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔گیدڑ بری طرح گھبرایا ہوا تھا۔وہ اس وقت تک ٹب میں چھپا رہا جب تک اسے کتوں کے چلے جانے کا یقین نہ ہو گیا۔پھر وہ آہستہ آہستہ ٹب سے باہر نکل آیا۔گیدڑ نے دیکھا کہ اس کے پورے جسم پر نیلا رنگ چڑھ گیا تھا،وہ پریشان ہوا کہ اب کیا کرے۔اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی آدمی یا کتا دوبارہ دیکھ لے جنگل واپس چلنا چاہئے۔جلدی جلدی جنگل واپس آیا۔جن جانوروں نے اسے دیکھا،پہلے تو ڈر کر چھپ گئے۔انہوں نے اسے ایک نیا اور عجیب و غریب جانور سمجھا،کیونکہ آج تک انہوں نے اس طرح کا نیلا جانور نہیں دیکھا تھا۔یہاں تک کہ دوسرے گیدڑ بھی اُسے بالکل نہ پہچان سکے۔گیڈر بھانپ گیا کہ سب ہی جانور اس کے اس نئے روپ سے ڈر رہے ہیں۔بس پھر کیا تھا۔اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔وہ چیخ چیخ کر جانوروں کو پکارنے لگا۔”ٹھہرو۔دم لو۔کہاں جاتے ہو؟یہاں آؤ۔میری بات سنو۔“سارے جانور رُک کر گیدڑ کو دیکھنے لگے۔اس کے پاس جاتے ہوئے وہ اب بھی ڈر رہے تھے۔گیدڑ پھر چلا کر بولا۔”آؤ میرے پاس آؤ۔اپنے سب ہی دوستوں کو بلا لاؤ۔مجھے تم سب سے ایک ضروری بات کہنی ہے۔“ایک ایک کرکے سب ہی جانور نیلے گیدڑ کے پاس پہنچے۔چیتے،ہاتھی،بندر،خرگوش،ہرن۔غرض سب ہی جنگلی جانور اس کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔انہوں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا!”تم کون ہو؟“۔چالاک گیدڑ نے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ”میرا نام چیا چھاؤ ہے،مجھ سے ڈرو نہیں۔میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔مجھے اس جنگل میں تمام جانوروں کا بادشاہ بنا کر بھیجا گیا ہے۔میں ایک بادشاہ کی طرح سب کی حفاظت کروں گا۔“گیدڑ کے جسم پر نیلا رنگ سورج کی روشنی میں بڑا چمک دار اور خوبصورت لگ رہا تھا۔اس کا رنگ بالکل انوکھا تھا اور ایسے رنگ کا جانور کسی نے نہیں دیکھا۔یہ جانے بغیر کہ وہ کس قسم کا جانور ہے سب ہی جنگل کے جانوروں نے اس کی بات کا یقین کر لیا،اسے اپنا راجہ مان لیا۔وہ اس کے سامنے سر جھکا کر بولے”ہمیں آپ کی بادشاہت قبول ہے۔ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔“نیلے گیدڑ نے کہا۔”تمہیں اپنے بادشاہ کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی ہو گی۔تم مجھے ایسے کھانے کھلایا کرو جو بادشاہ کھاتا ہے۔“”ضرور حضور والا۔“سبھی جانوروں نے ایک ہی آواز میں کہا۔”ہم دل و جان سے اپنے بادشاہ کی خدمت کریں گے۔فرمائیے اس کے علاوہ ہمیں اور کیا کرنا ہو گا؟“”تمہیں اپنے بادشاہ کا وفادار رہنا ہے۔“نیلے گیدڑ نے جواب دیا۔”تبھی تمہارا بادشاہ تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔“جنگل کے جانور اس گیدڑ کے لئے قسم قسم کے مزیدار کھانے لانے لگے اور اس کی خاطر مدارات کرنے لگے۔گیدڑ اب بادشاہ کی طرح رہنے لگا۔گیدڑ کو کہیں بھی جانا ہوتا تو وہ ایک ہاتھی پر بیٹھ کر جنگل میں نکلتا،اس کے دونوں طرف محافظوں کے طور پر شیر چلتے تھے۔سب جانور روزانہ اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اسے سلام کرتے اپنی مشکلیں اسے بتاتے۔بادشاہ ان کی باتوں کو سنتا اور ان کی مشکلوں کا حل بتاتا۔ایک دن گیدڑ راجہ تمام جنگلی جانوروں کے ساتھ جنگل کا معائنہ کرنے نکلا اور چلتے چلتے گیدڑوں کی وادی کے قریب پہنچا تو اُسے دور سے کچھ شور سنائی دیا۔یہ گیدڑ کے غول کی آواز تھی۔گیدڑ کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ چاند دیکھ کر چیخنا اور آوازیں نکالنا شروع کر دیتے ہیں اور دوسرے گیدڑ بھی ان کی آوازوں میں آواز ملا کر چیختے ہیں۔اب جب گیدڑ نے اپنے ساتھیوں کی آواز سنی تو بہت خوش ہوا اور خود پر قابو نہ رکھ سکا۔اسے اپنی بادشاہت کا بھی خیال نہ رہا اور اپنا سر اُٹھا کر اس نے بھی گیدڑوں کی طرح چیخنا اور آوازیں نکالنا شروع کر دیا۔اس کا بولنا تھا کہ جانوروں پر اس کی اصلیت کھل گئی۔انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ نیلے رنگ کا جانور کوئی اور نہیں بلکہ رنگا ہوا گیدڑ ہے۔اس نے انہیں دھوکے میں رکھا ہے۔سب جانور مارے غصہ کے اسے پھاڑ کھانے کے لئے اس پر چڑھ دوڑے۔لیکن گیدڑ نے تو پہلے ہی سے بھاگنا شروع کر دیا تھا۔وہ بھاگتا گیا تیز اور تیز اور آخرکار سب کی پہنچ سے باہر ہو گیا۔اور اس طرح اس کی جان بچی۔ " قسمت کے کھیل - تحریر نمبر 2313,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qismat-ke-khail-2313.html,"کسی زمانے میں ایک گاؤں میں ایک غریب آدمی رہتا تھا،اس کا نام اسلم تھا۔وہ رسیاں بیچ کر اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ایک روز اس کی دکان پر ایک سوداگر آیا۔سوداگر کے ساتھ اس کا ایک دوست بھی تھا۔اسلم ان کو رسے دکھانے لگا۔سوداگر نے اپنے دوست سے کہا”میں نے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ دنیا میں ترقی اس لئے کر جاتے ہیں کہ ان پہ قسمت اچانک مہربان ہو جاتی ہے۔اب اس آدمی کو دیکھ لو اگر کہیں سے کوئی رقم اس کے پاس آ جائے تو اس کا کاروبار چل نکلے گا اور یہ خود رسے بنانے کے بجائے بیسیوں ملازم رکھ لے گا۔“”معاف کرنا جناب!“اسلم نے ان کی باتوں میں دخل دیتے ہوئے کہا”آپ درست فرما رہے ہیں،لیکن میرے پاس اتنی رقم آئے گی کہاں سے․․․؟“سوداگر بولا”دینے والی تو وہ پاک ذات ہے،اس نے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔(جاری ہے)جب میں کسی آدمی کو امداد کا حق دار دیکھتا ہوں تو اس کی ضرور مدد کرتا ہوں۔یہ بتاؤ کہ تم کتنی رقم سے اپنا کاروبار شروع کر سکتے ہو․․․؟“اسلم گھبرا گیا اور بولا”جناب عالی مجھ غریب کے لئے تو صرف بیس اشرفیاں ہی کافی ہوں گی۔“سوداگر نے اپنے ہاتھ سے فوراً بیس اشرفیاں دیں اور کہا”لو اپنا کام چلاؤ،دیکھیں قسمت کہاں تک تمہارا ساتھ دیتی ہے۔“اس سے پہلے کہ اسلم کچھ عرض کرتا وہ دونوں سوداگر جلدی سے باہر نکل گئے۔اسلم کچھ دیر تک تو اشرفیوں کو حیرانی سے دیکھتا رہا پھر گھر جا کر ان کو آٹے کے مٹکے میں چھپا کر رکھ دیا اور سو گیا۔صبح اٹھ کر اس نے مٹکے کو دیکھا تو وہ غائب تھا۔اس نے بیوی کو آواز دی۔”آٹے والا مٹکا کہاں ہے․․․․؟“”وہ تو میں نے حجام کی بیوی کو دے کر اس سے مہندی خرید لی ہے۔“”ارے احمق!اس میں تو بیس اشرفیاں تھیں جا اور بھاگ کر واپس لے آ۔“اسلم کی بیوی بھاگم بھاگ حجام کی بیوی کے پاس پہنچی تو معلوم ہوا کہ اس نے مٹکے کو کباڑ کی دکان پر بیچ دیا ہے۔بیوی منہ لٹکائے واپس آ گئی اور سارا ماجرا بیان کر دیا۔اسلم سر پیٹ کر رہ گیا۔ایک دن وہ دونوں سوداگر ایک بار پھر اس کی دکان پر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی دکان ویسے کی ویسی ہے۔ان کے پوچھنے پر اسلم نے سارا ماجرا بیان کر دیا۔”فکر نہ کرو․․․․“سوداگر نے کہا”یہ لو بیس اشرفیاں اور اس مرتبہ دیکھتے ہیں کہ تمہاری قسمت کہاں تک ساتھ دیتی ہے۔“اسلم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہ دونوں چلے گئے۔اس مرتبہ اسلم نے اپنی بیوی کو بتا دیا اور اشرفیاں اپنے بستر کے پہلو میں باندھ دیں اور سو گیا۔اس کے بستر کے قریب ہی دیوار میں چوہوں کا بل تھا۔رات کو چوہے اس کے بستر کے پہلو سے اشرفیاں نکال نکال کر اپنے بل کے اندر لے گئے۔اسلم صبح اُٹھا تو اس نے دیکھا کہ اشرفیاں غائب تھیں وہ پھر سر پیٹ کر رہ گیا۔چند روز بعد وہ دونوں سوداگر اس سے پھر ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی دکان کا حال ویسے کا ویسا ہی ہے تو انہوں نے اسلم سے کہا”تم نے دوسری مرتبہ بھی اشرفیاں گنوا دیں۔“جب وہ جانے لگے تو سوداگر کے دوست نے اس سے کہا”آج ہمارے پاس اشرفیاں تو نہیں ہیں،لیکن یہ ایک سیسے کی دھات کا ٹکڑا ہے،یہ لے لو شاید یہ تمہارے کسی کام آ سکے۔“یہ کہہ کر وہ دونوں چل دیے۔اسلم نے گھر آ کر سیسے کا وہ ٹکڑا ایک کونے میں پھینک دیا اور اپنی قسمت پر آنسو بہانے لگا۔آدھی رات ہو چکی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔اسلم دروازے کی طرف بڑھا،وہاں مچھیرے کی بیوی کھڑی تھی وہ بولی”میرا شوہر مچھلیاں پکڑنے کے لئے جال تیار کر رہا ہے کل صبح اس کو مچھلیاں پکڑنے جانا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے پاس جال کے ساتھ لٹکانے کے لئے کوئی وزن نہیں ہے کیا بھائی صاحب آپ کوئی بات یا دھات کا ٹکڑا دے سکتے ہیں․․․․؟“اسلم نے بغیر کچھ کہے سنے وہ سیسے کا ٹکڑا جو سوداگر کے دوست نے دیا تھا،اُٹھا کر اسے دے دیا۔اگلے روز مچھیرے نے ہزاروں مچھلیاں پکڑیں اور پھر اس نے سب سے بڑی مچھلی دے کر اپنی بیوی کو اسلم کے گھر بھیجا۔اسلم کی بیوی نے مچھلی کے قتلے کیے تو اس کے پیٹ میں سے ایک چمکدار پتھر نکلا۔پتھر کی چمک اتنی زیادہ تھی کہ اسلم کو رات کے وقت اپنے گھر میں دیا جلانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔اگلے روز ان کے گھر ایک تاجر کی بیوی آئی اور اس نے اسلم کی بیوی سے دریافت کیا کہ”رات تمہارے گھر میں روشنی کیسی تھی۔“بیوی نے سارا حال کہہ سنایا تو وہ کہنے لگی”اگر تم چاہو گی تو میں تمہیں پانچ اشرفیاں دینے کے لئے تیار ہوں وہ پتھر تم مجھے دے دو۔“اسلم کی بیوی نے کہا”میں اپنے شوہر سے پوچھ کر بتاؤں گی تم کل آ جانا۔“اسلم جب گھر آیا تو اس کی بیوی نے سارا ماجرا بیان کیا اسلم کہنے لگا”تم نے اچھا کیا کہ یہ پتھر اس کو نہیں دیا وہ اس کی قیمت پانچ اشرفیاں لگا رہی ہے تو یقینا یہ قیمتی پتھر ہو گا،وہ کل آئے گی تو تم انکار کر دینا۔“اگلے روز جب تاجر کی عورت آئی تو اسلم بھی گھر میں تھا اس نے وہ پتھر دینے سے انکار کیا لیکن عورت سودے بازی کرنے لگی۔آخر تنگ آ کر اسلم نے عورت سے کہا کہ اگر تمہارے پاس ہزار اشرفیاں ہیں تو وہ دے دو اور یہ لے لو۔”منظور ہے“۔عورت نے کہا اور فوراً گھر جا کر ہزار اشرفیاں لے کر آ گئی اور پتھر لے لیا۔اب اسلم ہزار اشرفیوں کا مالک تھا۔اس کا کاروبار دن بہ دن ترقی کی طرف گامزن تھا۔ایک دن وہی سوداگر دوبارہ آیا تو اسلم کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر حیران رہ گیا۔تقدیر کے کھیل نرالے ہیں جو کام اشرفیاں نہ کر سکیں،وہ سیسے کے ایک بے کار ٹکڑے نے کر دکھایا۔ " رزق نعمت - تحریر نمبر 2312,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rizq-naimat-2312.html,"رابعہ شرف الدین،کراچیاحمد ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔اس کو دال اور سبزیاں کھانا بالکل پسند نہیں تھا۔وہ بریانی،پیزا اور برگر جیسی چیزیں شوق سے کھاتا تھا۔ایک دن وہ اسکول سے آکر کھانا کھانے بیٹھا تو کھانے میں لوکی دیکھ کر اس کا منہ بن گیا۔امی سے کہنے لگا:”آپ کو پتا ہے مجھے دال اور سبزیاں بالکل پسند نہیں۔“یہ کہتے ہوئے کھانے کے سامنے سے اُٹھ کر چلا گیا۔اس کی امی نے اسے سمجھایا کہ دالیں اور سبزیاں تو ہماری صحت کے لئے ضروری ہیں۔اس نے ایک نہ سنی۔فریج کھولا کہ کھانے کو کچھ ہو گا،لیکن اس میں کچھ نہیں تھا۔اس کے پاس کچھ رقم تھی۔اس نے برگر کی دکان سے برگر لیا اور گھر آیا برگر کو پلیٹ میں رکھا اور فریج سے پانی کی بوتل اُٹھا کر لایا تو اس نے دیکھا کہ اس کے برگر پر مکڑی بیٹھی ہوئی ہے۔(جاری ہے)اس نے وہ برگر پرندوں کے لئے چھت پر رکھ دیا۔اب وہ چپس خرید کر گھر لایا تو دیکھا اس میں سے لال بیگ نکل کر بھاگا۔بھوک کے ساتھ ساتھ اس کا غصہ بھی بڑھ رہا تھا۔اس نے بریانی خریدی تو اس میں سے بال نکل آیا۔آخر اس نے جھلا کر فریج میں دیکھا تو اس میں ککڑی کا چھوٹا سا ٹکڑا موجود تھا۔اسی ککڑی کا ٹکڑا جسے کھانا تو دور کی بات ہاتھ لگانا تک پسند نہیں کرتا تھا۔اس کو وہ بے صبری کے ساتھ کھانے لگا،لیکن فوراً اسے احساس ہو گیا کہ وہ تو خراب ہو چکا ہے۔وہ مایوس ہو کر باورچی خانے کے دروازے پر ہی بیٹھ گیا۔ذرا دیر بعد اس کی امی وہاں سے گزریں اور پوچھا:”بیٹا!کیوں یہاں بیٹھے ہو!کیا بہت بھوک لگ رہی ہے؟“اس نے اُداسی سے سر جھکا کر تمام حال امی کو سنا دیا۔امی نے اسے سمجھایا کہ تم رزق کی بے ادبی کرتے ہو،یہ اس کی سزا ہے۔بیٹا!بہت سے لوگوں کو تو یہ بھی نہیں ملتا۔اس لئے رزق کی قدر کرو ورنہ خدا نہ کرے نوالے نوالے کو ترس جاؤ گے۔اس نے امی سے پکا وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اللہ کے رزق کی ناقدری بالکل نہیں کرے گا۔اس کی امی نے کہا کہ ہاتھ منہ دھو میں کھانا لاتی ہوں۔اب وہ اسی توری کو بہت بے صبری سے کھا رہا تھا جس کے سامنے سے وہ اُٹھ کر چلا گیا تھا۔ " بُستان صاحب کی سیڑھی - تحریر نمبر 2310,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bustan-sahib-ki-seerhi-2310.html,"احمد عدنان طارقبُستان صاحب بہت خوش اخلاق انسان تھے۔ان کے پڑوسی گھریلو استعمال کی کوئی چیز مانگتے تو وہ کبھی انکار نہ کرتے۔اکثر لوگ اُدھار لی ہوئی چیزیں واپس نہیں کرتے یا کئی دنوں بعد لوٹاتے۔سردیوں کی آمد تھی،جب انھوں نے اپنا بیلچہ اقرار صاحب کو باغیچے میں کام کرنے کے لئے دیا تھا۔بُستان صاحب کو برف ہٹانے کے لئے وہ بیلچہ درکار تھا،لیکن ابھی تک اقرار صاحب نے واپس نہیں کیا تھا۔انھوں نے اپنی سب سے کارآمد ٹوکری پڑوسن بیگم الیاس کو دی تھی اور اب اس کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔ایک دن سخت سردی پڑ رہی تھی۔عبدالجبار صاحب تشریف لے آئے اور بُستان صاحب سے کہنے لگے:”میرے گھر میں درخت کی ایک بھاری شاخ چٹخ گئی ہے میں نہیں چاہتا وہ کسی راہ گیر پر گر جائے۔(جاری ہے)میں سیڑھی پر چڑھ کر اسے کاٹ دینا چاہتا ہوں،لیکن میرے پاس سیڑھی نہیں ہے،اس لئے میں نے سوچا کہ میں آپ سے سیڑھی کے لئے درخواست کرتا ہوں۔“بُستان صاحب اپنے مزاج کے مطابق کہنے لگے:”ضرور ضرور لے جائیں کوئی بات نہیں ہے،لیکن مہربانی فرما کر اسے جلدی واپس کر دیجیے گا،کیوں مجھے بھی اچانک ضرورت پڑ سکتی ہے۔مجھے بیلچے کی بہت دنوں سے ضرورت ہے،لیکن میرا بیلچہ اقرار صاحب کے پاس ہے۔میں بازار سے چیزیں خرید کر نہیں لا سکتا،کیونکہ میری ٹوکری بیگم الیاس لے گئیں تھیں جو وہ ابھی تک واپس نہیں کرکے گئیں۔“جبار صاحب بولے:”میں یہ کام کرنے کے بعد فوراً سیڑھی واپس کر جاؤں گا۔“جبار صاحب اس وقت واقعی یہی سوچ رہے تھے۔انھوں نے سیڑھی کندھے پر اُٹھائی اور روانہ ہو گئے۔اگلے دن انھوں نے سیڑھی کو درخت کے تنے کے ساتھ لگایا اور اس پر چڑھ کر درخت سے شاخ کاٹی۔خاصی بڑی اور موٹی شاخ تھی۔جبار صاحب کا خیال تھا کہ آتش دان کے لئے اس لکڑی کے موٹے موٹے ٹکڑے کاٹے جا سکتے ہیں۔پھر انھوں نے ایک اور شاخ منتخب کی اور اسے بھی کاٹنے لگے۔ان کا خیال تھا کہ اس شاخ کی لکڑی کے ٹکڑے کرکے بُستان صاحب کو دیں گے اور اس طرح سیڑھی دینے کا شکریہ بھی ادا ہو جائے گا۔جبار صاحب نے بہت اچھا سوچا،لیکن یہ صرف سوچ ہی تھی اس پر وہ عمل نہیں کر سکے۔جب وہ شاخ کاٹ کر فارغ ہوئے تو بہت زیادہ تھک چکے تھے۔انھوں نے پہلے سیڑھی کی طرف دیکھا اور پھر لکڑی کے ٹکڑوں کی طرف اور پھر خود کلامی کرتے ہوئے بولے:”میں آج کسی صورت سیڑھی واپس کرنے بُستان صاحب کے پاس نہیں جا سکتا۔میں سیڑھی اور لکڑی کے یہ بڑے ٹکڑے کل ان کو دینے جاؤں گا۔اب مجھے گھر جا کر چائے پینے کے بعد آرام کرنا چاہیے۔جبار صاحب گھر کے اندر داخل ہوئے اور سیڑھی بھول گئے۔اسی طرح ایک ہفتہ گزر گیا اور انھیں سیڑھی کا ایک بار بھی خیال نہیں آیا۔موسم بہت سرد ہو گیا تھا۔برف اتنی پڑی کہ زمین سفید ہو گئی۔تالاب اور جھیلوں کا پانی جم گیا تھا۔بچوں کا دل مچلتا تھا کہ وہ تالاب کی جمی ہوئی سطح پر پھسلیں۔جبار صاحب کا چھوٹا بیٹا بھی یہی چاہتا تھا،لیکن جبار صاحب نے سختی سے اسے اس کام سے منع کر دیا تھا:”دیکھو حسن!برف کی سطح ابھی زیادہ مضبوط نہیں ہوئی ہے۔تم اس پر پھسلو گے تو برف تمہارے بوجھ سے ٹوٹ جائے گی اور تم پانی میں گر جاؤ گے۔“حسن کو ڈانٹنے کے بعد وہ خود سے باتیں کرنے لگے:”پتا نہیں،بچوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اتنے سرد موسم میں،اتنی ٹھنڈی اور تیز ہوا میں برف پر کیوں پھسلنا چاہتے ہیں۔میرا دل تو چاہتا ہے کہ آتش دان میں لکڑی کے ٹکڑے جلتے ہوں اور کمرہ گرم ہو۔“پھر وہ اچانک خود سے بولے:”میں کچھ لکڑی کے ٹکڑے ہی لے آتا ہوں۔“انھیں اچانک لکڑی کے وہ ٹکڑے یاد آ گئے تھے جو انھوں نے ایک ہفتہ پہلے کاٹے تھے۔وہ تقریباً دوڑتے ہوئے درخت کے پاس گئے اور لکڑی کے ٹکڑے تلاش کرنے لگے۔تبھی ان کی نظر بُستان صاحب کی سیڑھی پر پڑی جو اب بھی درخت کے ساتھ ٹکی ہوئی تھی۔جبار صاحب نے شرمندہ ہو کر سوچا:”مجھے بُستان صاحب کی سیڑھی لوٹانا یاد ہی نہیں رہا۔میں نے وعدہ کیا تھا کہ کام کرنے کے فوراً بعد انھیں لوٹا دوں گا،لیکن سستی کی وجہ سے میں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔“پھر انھوں نے اپنی بیگم کو جا کر کچھ لکڑی کے ٹکڑے دیے۔وہ جبار صاحب سے کہنے لگیں:”آجاؤ،اب آرام کر لو۔بہت سردی ہے۔“جبار صاحب نے انکار میں سر ہلایا اور کہنے لگے:”میں پہلے بُستان صاحب کو ان کی سیڑھی واپس کروں گا۔ایک ہفتے سے اس کو بھول بیٹھا تھا۔“بیگم بولیں:”ایک دو دن سے فرق نہیں پڑتا۔آج بہت سردی ہے اور آپ بہت تھک چکے ہیں۔“جبار صاحب بولے:”واقعی یہ بات درست ہے کہ میں تھکا ہوا بھی ہوں اور سردی بھی بہت ہے،لیکن مجھے ہر صورت میں سیڑھی کو واپس کرنے جانا ہے۔خدا حافظ۔“بیگم ناراض ہو کر بولیں:”آج کی اس سے بڑی بے وقوفی کوئی اور نہیں ہو سکتی۔“لیکن جبار صاحب سیڑھی واپس کرنے چل پڑے۔راستے میں جب وہ جمے ہوئے تالاب کے پاس پہنچے تو اسے غور سے دیکھنے لگے کہ برف کی سطح مضبوط اور گہری ہوئی ہے کہ نہیں،کچھ بچے اب بھی برف کے اوپر چہل قدمی کرتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگا رہے تھے کہ برف کی موٹائی ان کا بوجھ برداشت کر سکتی ہے کہ نہیں؟ایک چھوٹا بچہ تو بالکل تالاب کے بیچوں بیچ پہنچا ہوا تھا۔جبار صاحب نے دور سے اس کو دیکھا تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا:”کتنا بے وقوف بچہ ہے۔“غور سے دیکھا تو وہ اسے پہچان گئے وہ ان ہی کا بیٹا حسن تھا۔ابھی وہ اسے آواز دینے ہی والے تھے کہ اچانک برف کی سطح ایک آواز کے ساتھ ٹوٹی اور بے چارہ حسن یخ ٹھنڈے پانی میں غوطے کھانے لگا۔وہ اب پانی کی سطح سے اوپر اُبھرنے کی کوشش کر رہا تھا اور مدد کے لئے چلا بھی رہا تھا۔جبار صاحب کے لئے یہ بہت بڑا سانحہ تھا۔وہ سوچ رہے تھے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے؟تبھی کوئی چلایا:”سیڑھی․․․․سیڑھی ادھر لاؤ۔“تب جبار صاحب کو خیال آیا کہ وہ کیا اُٹھائے ہوئے کھڑے ہیں؟انھوں نے فوراً برف کی اس سطح پر سیڑھی کو لٹا دیا،جو ذرا مضبوط تھی،پھر آہستہ آہستہ حسن کی طرف بڑھانے لگے۔حسن نے ہاتھ پیر مارتے ہوئے آخر سیڑھی کو پکڑ لیا۔اب جبار صاحب نے آہستہ آہستہ سیڑھی کو اپنی طرف کھینچنا شروع کیا۔سیڑھی جب قریب آ گئی تو ساتھی ہی حسن بھی برف کی سطح پر پہنچ گیا۔جبار صاحب پریشان بھی تھے اور ناراض بھی۔وہ چلاتے ہوئے بولے:”تم بہت شرارتی،احمق اور بدتمیز بچے ہو۔اب جلدی سے گھر پہنچو ماں کے پاس،وہ تمہیں خشک کپڑے پہنا دیں گی۔“حسن روتا ہوا گھر کی طرف دوڑ پڑا۔جبار صاحب سیڑھی لے کر بُستان صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔بُستان صاحب خوش ہو کر بولے:”اتنے سرد موسم میں آپ سیڑھی واپس کرنے تشریف لائے ،جبار صاحب!بہت شکریہ۔“جبار صاحب بولے:”آپ کی بھابھی تو مجھے آنے نہیں دے رہی تھیں،لیکن میں شرمندہ تھا،اس لئے میں آ گیا۔یہ میرا فرض ہے۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ اگر آج بھی میں یہ سیڑھی لے کر نہ آتا تو شاید میرا بچہ پانی میں ڈوب جاتا۔میں اس وقت تالاب کے پاس تھا،جب وہ پانی میں گر گیا اور آپ کی سیڑھی میرے پاس تھی جس کی مدد سے میں نے اسے پانی سے نکالا۔“بُستان صاحب بولے:”تو پھر تو یہ انعام آپ کو قدرت کی طرف سے ملا میری سیڑھی واپس لانے کا۔میں اس واقعے کو کبھی نہیں بھلا سکتا۔“جبار صاحب بولے:”اور میں آپ کے لئے لکڑی لانا بھی نہیں بھولا۔“واقعی جبار صاحب نہیں بھولے تھے اور اب آگ جلانے کے لئے بُستان صاحب کے پاس لکڑی کے خشک ٹکڑے موجود تھے۔جبار صاحب نے اس واقعہ سے سبق سیکھا کہ سیڑھی واپس کرنے کی وجہ سے ہی ان کے بیٹے حسن کی جان بچ گئی۔اب وہ کسی سے جب بھی کوئی چیز اُدھار لیتے ہیں تو فوراً واپس کر دیتے ہیں،لیکن سبھی لوگ تو ایسا نہیں کرتے۔آپ کا کیا خیال ہے بچو! " بہادر اور لاڈلا - تحریر نمبر 2309,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bahadur-aur-ladla-2309.html,"نذیر انبالویامانت نے ڈگڈگی بجائی تو گلی کے بچے اپنے گھر سے باہر آ گئے۔امانت نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”آج لاڈلا اور بہادر آپ کے سامنے موجود ہیں،دونوں آپ کو سلام کرتے ہیں۔“یہ کہہ کر امانت نے دونوں کی رسی کھینچی تو دونوں نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بچوں کو سلام کیا۔”یہ بہادر ہے۔“امانت نے سبز رنگ کی عینک پہنے ایک بندر کی رسی کھینچی۔بہادر نے قلا بازی کھائی تو بچوں نے تالیاں بجائیں۔”اور یہ ہے لاڈلا،میرا لاڈلا۔“امانت نے سرخ رنگ کی عینک پہنے دوسرے بندر کی رسی کھینچی تو لاڈلا نے بھی قلا بازی لگا کر بچوں سے داد لی۔پھر امانت نے ڈگڈگی بجائی تو بہادر اور لاڈلا ناچنے لگے۔دونوں کبھی بابو بن جاتے اور کبھی لیٹ کر سائیکل چلانے لگتے۔(جاری ہے)یہ تماشا ایک گھنٹے تک جاری رہا۔بچوں نے زمین پر پیسے پھینکے تو بندروں نے جھک جھک کر سلام کرتے ہوئے پیسے اُٹھائے۔امانت کی جیب میں خاصے پیسے آ گئے تھے۔وہ دونوں کو لے کر پھل منڈی کی طرف گیا۔ان کے لئے کیلے اور امرود لیے۔بہادر اور لاڈلا نے خوب سیر ہو کر پھل کھائے۔امانت نے دونوں کو دو سال پہلے پانچ ہزار میں خریدا تھا۔دونوں بہت چھوٹے تھے۔دونوں کو اشرف نامی شخص پہاڑی مقام سے پکڑ لایا تھا۔وہ آزادی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ اُچھلتے کودتے تھے۔ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے تھے۔جنگلی پھل کھاتے،چشمے کا پانی پیتے،کیا مزیدار زندگی تھی۔اشرف نے جال بچھایا تو دونوں اس میں پھنس گئے۔جال کو اپنے دانتوں سے کاٹنے کی کوشش کی،مگر بے سود۔اشرف پنجرے میں بند کرکے انھیں شہر میں لے آیا۔خانہ بدوشوں نے گندے نالے کے پاس ڈیرا جمایا ہوا تھا۔یہاں کوئی کاغذ چنتا تھا اور کوئی بھیک مانگتا تھا۔کچھ لوگ بندر اور کچھ ریچھ گلی گلی میں نچا کر روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔اشرف جب بھی کوئی بندر پکڑ کر لاتا تھا اسے فروخت کرنے کے لئے خانہ بدوشوں کے پاس آتا تھا۔اشرف نے پنجرے میں بند بندر امانت کو دکھائے تو بندروں نے چیخ چلا کر اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔امانت نے پانچ ہزار روپے میں دونوں بندر خرید لیے اور اسی دن دونوں بندروں کے نام رکھ دیے۔بندر کا تماشا دکھانا امانت کا خاندانی پیشہ تھا۔اس کے باپ دادا یہی کام کرتے تھے۔امانت نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔باپ کے انتقال کے بعد اس کے چچا نے اس کی تربیت کی۔چچا کے پاس بھی بھورا بندر تھا۔نہایت پھرتیلا،شرارتی اور کرتب کرنے میں ماہر۔امانت نے چچا راجو سے بندروں کو سدھارنے کی تربیت کی۔اسی تربیت کے ذریعے اس نے بہادر اور لاڈلا کو ناچنے،بابو بننے،مزدور بننے اور سائیکل چلانے کی اداکاری کرنے میں ماہر بنایا۔امانت جہاں بھی تماشا دکھاتا،بچے اور بڑے سبھی بندروں کے کرتب سے محظوظ ہوتے تھے۔دونوں کماؤ پوت ثابت ہوئے تھے۔امانت ان کو لڈو اور برفی کھلاتا تھا۔امانت کا بیٹا شرافت بھی اب چلنے لگا تھا۔امانت بندروں کی رسی اسے پکڑا کر کہتا تھا کہ ان بندروں کو نچاؤ،کرتب دکھاؤ،شرافت رسی کھینچتا تو بندر قلا بازیاں لگانا شروع کر دیتے تھے۔بندروں کو قلا بازیاں لگاتے دیکھ کر شرافت خوش ہو جاتا تھا۔شرافت نے جب سے چلنا شروع کیا تھا،وہ ایک پل بھی ٹک کر نہ بیٹھتا تھا۔وہ آگے آگے ہوتا اور ماں اس کے پیچھے پیچھے ہوتی تھی۔گندے نالے کے ایک طرف گلی اور دوسری طرف بڑی سڑک تھی۔بڑی سڑک سے بڑی بڑی گاڑیاں گزرتی تھیں۔ماں نے عاجز آ کر اس کے پاؤں میں رسی باندھ کر اسے جھگی میں پڑی چارپائی سے باندھ دیا تھا۔شرافت آگے بڑھتا تو پاؤں میں بندھی رسی سے گر جاتا۔شام کو امانت آیا تو شرافت کے پاؤں میں رسی دیکھ کر بیوی پر ناراض ہوا۔شرافت کے پاؤں میں بندھی رسی کھولی،آزادی پا کر شرافت اپنے باپ سے لپٹ گیا۔وہ اتوار کا دن تھا۔امانت بہادر اور لاڈلے کو لے کر نئی بستی گلاب نگر گیا تھا۔دونوں نے اپنے کرتب سے بچوں کو محظوظ کیا۔امانت کے جیب میں خاصے پیسے تھے۔ان کے تھیلے میں کھانے پینے کی بھی خاصی چیزیں تھیں۔ایک پارک میں بیٹھ کر امانت نے نوٹ سیدھے کیے۔اس عرصے میں بہادر اور لاڈلا کیلے اور امرود کھاتے رہے۔امانت نے وہیں بیٹھے ہوئے فیصلہ کیا کہ وہ گھر جاتے ہوئے شرافت کے لئے برگر لے کر جائے گا۔وہ برگر دیکھ کر مچل جاتا تھا۔شام تک امانت نے کئی جگہوں پر تماشا دکھایا تھا۔جب وہ گھر پہنچا تو اس کے تھیلے میں برگر موجود تھا۔وہ جھگی میں داخل ہوا تو وہاں ننھا سا چراغ تو جل رہا تھا،مگر وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔بابو مجو نے جب بتایا کہ دوپہر سے شرافت نہیں مل رہا تو امانت کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔امانت کی بیوی کلثوم اپنے بیٹے کو مختلف گلیوں میں تلاش کرتی پھر رہی تھی۔کچھ دیر بعد امانت بھی اس سے جا ملا تھا۔کلثوم نے رو رو کر اپنا بُرا حال کر رکھا تھا۔شام سے رات ہو گئی،مگر شرافت کا کوئی سراغ نہ ملا تھا۔امانت اور کلثوم تھانے آ پہنچے تھے۔انسپکٹر توحید نے نہایت محبت اور توجہ سے ان کی بات سنی۔انھیں رخصت کرتے ہوئے تسلی دی کہ ان کا بیٹا جلد مل جائے گا۔تھانے سے نکل کر امانت اور کلثوم جھگی میں تو آ گئے تھے،مگر انھیں ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی جھگی کی رونق ختم ہو گئی ہو۔ماں گم شدہ بیٹے کے جوتے اور کپڑے دیکھ کر زار و قطار رو رہی تھی۔وہ ساری رات روتی رہی۔امانت کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے،مگر وہ برداشت کر رہا تھا۔شرافت کی گمشدگی کے باعث امانت کو بہادر اور لاڈلے کا بھی خیال نہیں رہا تھا۔وہ شام ہی سے بھوکے تھے۔دونوں پہلے تو اس طرح خاموش نہ بیٹھے تھے۔بھوکے ہونے پر خوب شور مچاتے تھے۔رات کے آخری پہر امانت اُٹھا،بہادر اور لاڈلے کو کھانے کے لئے کچھ دیا۔تھیلے میں برگر دیکھ کر امانت خود پر قابو نہ رکھ سکا۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اس کے رونے کی آواز دوسری جھگیوں میں سنی گئی۔کئی لوگ اسے تسلی دینے کے لئے آ گئے تھے۔روتے روتے امانت کی نظر بہادر اور لاڈلے کی گردن پر پڑی۔پٹے سے ان کے بال اُڑ گئے تھے۔پھر وہ روتے ہوئے بہادر اور لاڈلے کے بارے میں سوچنے لگا۔کلثوم اور امانت نے تین دن کرب میں گزارے۔بدھ کی شام جب تھانے میں انھوں نے اپنے بیٹے شرافت کو دیکھا تو بے اختیار اس کی طرف بڑھ گئے۔اسے خوب پیار کیا۔دونوں رو رہے تھے۔شرافت خوف زدہ ہو کر خاموش ہو گیا تھا۔انسپکٹر توحید نے بتایا کہ ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے،جس کے قبضے سے دس بچے برآمد کیے گئے ہیں،ان بچوں میں شرافت بھی شامل ہے۔وہ شخص بچوں کو ایک گروہ کے ہاتھوں فروخت کرتا تھا،جو انھیں معذور کرکے بھکاری بناتے تھے۔اگر بروقت کارروائی نہ ہوتی تو یہ بچے بھی فروخت کر دیے جاتے۔شرافت کے آنے سے جھگی میں رونق لوٹ آئی تھی۔امانت بار بار بہادر اور لاڈلے کی گردنوں کو دیکھ رہا تھا،جہاں مسلسل پٹا پڑا ہونے سے ان کے بال اُڑ گئے تھے۔آخر ایک فیصلہ کرکے امانت نے اشرف کی تلاش شروع کر دی،جس سے امانت نے بندر خریدے تھے۔آخر وہ اشرف کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔”تم ان دو بندروں کو کہاں سے پکڑ کر لائے تھے؟“امانت کے سوال پر اشرف نے بتایا:”میں انھیں ایوبیہ کے پہاڑی مقام سے پکڑ کر لایا تھا۔“”تمہیں میرے ساتھ وہاں چلنا ہو گا۔“امانت نے اشرف کو غور سے دیکھ کر کہا۔”کیوں؟“اس کیوں کے جواب میں امانت نے ساری بات بتائی تو اشرف نے کہا:’وہاں تک پہنچنے اور واپس آنے میں بہت پیسہ لگے گا۔“”میں پیسہ خرچ کرنے کے لئے تیار ہوں۔“امانت نے فوراً جواب دیا۔ایک ہفتے بعد امانت،بہادر اور لاڈلے کو لے کر اشرف کے ساتھ ایوبیہ میں موجود تھا۔درختوں کے جھنڈ کے قریب کھڑے تھے۔”ہاں،ہاں․․․․یہی وہ جگہ ہے جہاں سے میں نے ان بندروں کو پکڑا تھا۔بالکل یہی جگہ ہے۔“اشرف نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔امانت نے کچھ کہے بغیر دونوں بندروں کے پٹے کھولے،ان کو پیار کیا۔ان کی گردنوں سے اُڑے ہوئے بال دیکھے اور پُرنم آنکھوں سے انھیں تکتے ہوئے کہا:”جاؤ میرے پیارو،جاؤ اپنی ماں کے پاس واپس جاؤ،آزاد دنیا میں،جہاں کوئی تمہاری گردنوں میں پٹا نہ ڈالے۔آج سے تم آزاد ہو،جاؤ۔“بہادر اور لاڈلا کچھ دیر تو امانت کو تکتے رہے پھر چھلانگیں لگاتے ہوئے،درختوں کے جھنڈ میں دور بہت دور نکل گئے۔اب امانت خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔اس کے بعد امانت نے ساری زندگی محنت مزدوری کرکے روزی کمائی،مگر کسی جانور کو قید میں نہیں رکھا۔ " بھائی میاں کی دعوت - تحریر نمبر 2308,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhai-mian-ki-dawat-2308.html,"انوار آس محمدوہ محلے بھر میں بھائی میاں کے نام سے مشہور تھے۔دنیا میں ان کا کوئی نہ تھا۔وہ اپنے خادم کاشی کے ساتھ گھر میں رہتے تھے۔ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ایک چھوٹا سا چائے کا ہوٹل تھا جو اچھا چل رہا تھا۔ان کا گزارہ آسانی سے ہو جاتا تھا۔بھائی میاں کو بچوں سے بہت پیار تھا۔وہ ہر جمعہ کو نماز کے بعد پورے محلے کے بچوں کو اپنے گھر پر بلاتے تھے اور اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی آلو گوشت کی بریانی کھلایا کرتے تھے۔پورا محلہ بھائی میاں کو بہت پسند کرتا تھا۔ہر فرد ان کی بہت عزت کرتا تھا اور محلے کے بچے تو ان سے بہت ہی پیار کرتے تھے۔وہ بھی جمعہ کا دن تھا بچوں کی دعوت کا دن۔بھائی میاں کی اس دن سخت طبیعت خراب تھی۔انھیں تیز بخار تھا۔(جاری ہے)وہ پریشان بھی تھے کہ بچوں کے لئے کس طرح بریانی تیار کریں۔”بھائی میاں!دعوت اگلے جمعہ کو کر لیں،تب تک آپ کی طبیعت بھی ٹھیک ہو جائے گی۔“کاشی نے کہا۔لیکن بھائی میاں نہیں مان رہے تھے وہ ہر حال اس روایت کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔ابھی وہ کاشی سے بات ہی کر رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب آ گئے۔انھوں نے بھائی میاں کو دوا دی اور ایک انجکشن بھی لگا دیا۔بھائی میاں کو سکون ملا اور وہ سو گئے۔بخار بہت تیز تھا۔کاشی نے انھیں آرام کرنے دیا۔دوا میں نیند کی گولی بھی شامل تھی بھائی میاں دوپہر تک سوتے رہے،لیکن جب اُن کی آنکھ کھلی تو وہ گھبرا گئے بریانی پکانے کا وقت گزر چکا تھا۔انھوں نے کاشی کو بلایا اور کہا:”تم نے مجھے اُٹھایا کیوں نہیں؟اب بچوں کی دعوت کیسے ہو گی؟“وہ بہت اُداس تھے۔”مجھے ڈاکٹر صاحب نے منع کیا تھا جی۔“کاشی نے جواب دیا۔دوپہر کے تین بج رہے تھے۔بھائی میاں کا بخار ذرا کم ہوا تھا،لیکن وہ ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئے تھے۔وہ بستر پر اُداس لیٹے ہوئے تھے کہ آج بچوں کی دعوت نہیں کر سکے۔اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔کاشی نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو وہاں بہت سے بچے کھڑے تھے۔بھائی میاں نے انھیں اندر بلایا۔اس سے پہلے کہ وہ بچوں کو یہ بات بتاتے کہ آج بریانی نہیں بن سکی،تمام بچے ان کے پاس پہنچے۔کچھ بچوں نے ہاتھ میں پھول اُٹھائے ہوئے تھے اور کچھ اپنے اپنے گھر سے بریانی بنوا کر لائے ہوئے تھے۔بھائی میاں بچوں کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے کہ ایک بچے نے کہا:”بھائی میاں!ہمیں کاشی نے بتا دیا تھا کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں،لیکن آپ پھر بھی ہماری دعوت کرنا چاہتے ہیں تو ہم نے سوچا کہ آج ہم سب آپ کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں۔آج آپ ہماری طرف سے دعوت قبول کریں۔امی نے آپ کے لئے دلیا بھیجا ہے،کیونکہ آپ کو بخار ہے،یہ آپ کے لئے بہتر ہو گا۔“یہ بات سن کر بھائی میاں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔انھوں نے تمام بچوں کا شکریہ ادا کیا پھر سب نے مل کر کھانا کھانا شروع کیا۔اور یوں بھائی میاں کی پریشانی دور ہو گئی۔ " بہارے کی کہانی - تحریر نمبر 2307,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bahare-ki-kahani-2307.html,"حمنہ محمد عقیل شاہ،لیاریہالہ میٹرک کی طالبہ تھی۔نماز جمعہ کے بعد سب کھانا کھانے بیٹھے ہی تھے کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ابو دروازہ کھولنے چلے گئے۔جب وہ کمرے میں آئے تو ان کے ساتھ ہالہ کی ہم عمر ایک لڑکی تھی۔امی کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میرا نام بہارے ہے اور میں نورپور گاؤں کے آخری حصے والے گھر میں رہتی ہوں۔کچھ سال پہلے میرے امی ابو کا انتقال ہو گیا۔کوئی رشتے دار نہیں تھا،اس لئے میں نے خود ہی مٹی کے کھلونے بنا کر بیچنا شروع کر دیا،مگر اب مٹی کے کھلونوں کا دور ختم ہو گیا ہے۔دو دن سے گھر میں کچھ پکانے کے لئے نہیں ہے۔آپ لوگ یہ کھلونے خرید لیں یا پھر مجھے کچھ کھانے کو دے دیں۔ہالہ کو بہت دکھ ہوا بہارے کے بارے میں جان کر اس کی امی نے اس سے کھلونے لے کر اسے ایک ٹرے میں بریانی دی اور ابو نے کچھ پیسے بھی دیے۔(جاری ہے)اس نے امی سے درخواست کی کہ آپ مجھے اپنے گھر میں کام پر رکھ لیں۔میں ہر کام کر لیتی ہوں۔ہالہ کی امی کو اس سے ہمدردی تھی،اس لئے امی نے اسے دو دن بعد کام پر آنے کا کہہ دیا۔ہالہ حیران تھی کہ امی اسے کام پر کیسے رکھ سکتی ہیں،کیونکہ انھیں کسی اور کا کام پسند نہیں تھا۔ہالہ نے امی سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ دو دن بعد بتاؤں گی۔بہارے دو دن بعد آئی تو امی نے کہا کہ میں تمہیں کام پر رکھوں گی،لیکن تمہیں ہالہ کے ساتھ اسکول جانا ہو گا۔بہارے یہ سن کر بہت خوش ہوئی۔امی ابو کے انتقال کے بعد اس نے اسکول چھوڑ دیا تھا اور اب یہ سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی تھی،اس لئے اس نے فوراً ہامی بھر لی اور ہالہ کی امی کا بہت شکریہ ادا کیا۔اب وہ ہالہ کی دوست بن گئی تھی اور اسی گھر میں رہنے لگی تھی۔ہالہ کے ساتھ پڑھائی کرتی اور ہالہ کے ساتھ ہی گھر کا کام بھی کرتی۔ہالہ کی امی مہینے کے آخر میں اسے کچھ پیسے دینا چاہتی تھیں،مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا کہ آپ میرا اتنا خیال رکھتی ہیں۔مجھے اسکول بھیج رہی ہیں۔یہاں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے۔میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھلا سکتی۔بہارے ہر وقت اللہ سے گھر والوں کے لئے دعا کرتی تھی۔جن کے وسیلے سے اللہ نے اس کی زندگی کی مشکلات ختم کر دی تھیں۔ " حکمتِ عملی - تحریر نمبر 2306,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hikmat-e-amli-2306.html,"جدون ادیبجب میں محکمہ مال کے افسران اور پٹواری کی مدد سے اپنی زمینوں کا قبضہ لے کر گھر پہنچا تو بہت پُرسکون تھا۔چچا نے جائیداد کے بٹوارے کے لئے بڑے بھائی کے ساتھ بڑی زیادتی کی۔مجھے چند کھیت ملے تھے۔مال مویشی کا بڑا حصہ چچا کو مل گیا تھا۔میں نے شہر میں رہ کر تعلیم حاصل کی تھی اور گاؤں کے لوگوں سے مختلف سوچا کرتا تھا۔میرے پاس کتابیں اور انٹرنیٹ کی دنیا موجود تھی تو میں نے سیکھنے کا عمل شروع کیا۔جب میں نے اپنے باغ کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ وہاں زیادہ تر درخت آلو بخارے اور سیب کے ہیں،تب ایک خیال میرے دماغ میں آیا اور میں نے اس پر تحقیق شروع کر دی۔پتا چلا کہ فصل تیار ہوتے ہی کھڑی فصل کو بیوپاریوں کو بیچ دیا جاتا تھا۔جب میں کھیتوں کی طرف گیا تو ان کا بُرا حال تھا۔(جاری ہے)والد صاحب آخر میں بہت بیمار رہے تو وہ کھیتوں کی طرف توجہ نہ دے سکے تھے،چنانچہ میں نے مزدور لگا کر کھیتوں میں کام شروع کر دیا۔میں نے حکمت عملی سے کام لیا اور گندم اور مکئی اُگانے کے بجائے ٹماٹر اُگانے کا فیصلہ کیا۔اس دن میرا بہت مذاق بنا،کیونکہ پچھلے سال ٹماٹر اتنی بڑی مقدار میں لگائے گئے تھے کہ آخر میں ان کا خریدار ملنا مشکل ہو گیا تھا اور کسانوں کا بڑا نقصان ہوا تھا۔دراصل وہ ماضی دیکھ رہے تھے اور میں مستقبل۔جب ٹماٹر تیار ہوئے تو پتا چلا کہ اس مرتبہ لوگوں نے ٹماٹر کم اُگائے ہیں،چنانچہ ان کی قیمت بہت بڑھ چکی ہے یوں میں نے کئی گنا منافع حاصل کیا۔اب چچا کی آنکھیں کھلیں،مگر وہ اپنی اکڑ میں رہے،البتہ چچا کا لڑکا یعنی میرا چچا زاد بھائی خرم میرا دوست بن گیا۔میں نے اسے سکھایا کہ ایک اَن پڑھ اور پڑھے لکھے کسان میں کیا فرق ہوتا ہے۔میری آمدنی بہت بڑھ چکی تھی،اس لئے میں نے لوگوں کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا۔میری والدہ نے دو غریب لڑکیوں کی شادی کرائی۔میں نے گاؤں کے واحد اسکول کو فرنیچر تحفے میں دیا۔میری فصل گاؤں کے غریب ترین لوگوں کے گھر میں مفت پہنچی اور یوں ہر طرف برکت ہی برکت ہو گئی۔چچا حیران تھے کہ وہ اتنے تجربے اور چار بیٹوں کے ہوتے ہوئے اتنا نہیں کما رہے تھے جتنا میں اکیلا کما رہا تھا۔پھر وہ حسد کا شکار ہو کر میرے خلاف ہو گئے۔پہلے میری چار بھینسیں چوری ہوئیں پھر کسی نے میرے کھیتوں میں تیار فصل کو آگ لگا دی۔مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کس کا کام ہے،مگر میں نے صبر کیا اور کسی قسم کی کارروائی نہیں کی۔لوگوں کے کہنے پر اپنے گاؤں کی طرف سے کونسلر کے انتخاب میں میں نے بھی لڑنے کا فیصلہ کیا۔اس فیصلے سے ہر طرف ایک ہل چل پیدا ہو گئی۔پھر پتا چلا کہ چچا بیمار ہیں۔میں ان کی عیادت کو گیا۔وہ سخت علیل تھے۔انھوں نے مجھ سے تنہائی میں بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔سب چلے گئے تو وہ بولے:”خالد بیٹا!یوں لگتا ہے،میرا آخری وقت قریب ہے۔“”ایسا مت کہیں چچا!خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے۔“میں نے خلوص سے بھرے لہجے میں کہا۔انھوں نے میری طرف غور سے دیکھا پھر دکھ بھرے لہجے میں بولے:”میں چھوٹا بھائی ہونے کے باوجود تمہارے باپ سے برتری کے خواب دیکھتا تھا،مگر عزت،دولت،شہرت وہ ہر معاملے میں مجھ سے بہتر ہی رہے۔بھائی صاحب کا دکھ اندر ہی اندر مجھے کھوکھلا کر چکا ہے۔میں اب تم سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہتا ہوں۔تمہارا جو نقصان ہوا،اس کی ادائی کرنا چاہتا ہوں۔تم چاہو،لے لو تاکہ میں اطمینان سے مر سکوں۔“میرے والد اپنے چھوٹے بھائی سے جو چاہتے تھے،جیسا ان کو دیکھنا چاہتے تھے،وہ آج ویسے ہی بن گئے تھے۔تبدیل ہو گئے تھے۔تب میں مسکرایا اور جیب سے ایک کاغذ نکال کر ان کے سامنے کیا:”آپ مرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔بغیر کسی بیماری کے خود کو بیمار کیے ہوئے ہیں۔ادھر گاؤں والوں کو آپ کی ضرورت ہے اسی لئے یہ انتخاب آپ لڑ رہے ہیں۔دیکھیے،یہ پمفلٹ میں نے تیار کروایا ہے اور کل سے سوچ رہا تھا کہ آپ کو دکھاؤں۔“چچا کے دکھ اور بیماری کا مداوا شاید یہی الفاظ تھے۔میں نہیں چاہتا تھا کہ چچا کے ہوتے ہوئے بھتیجا گاؤں والوں کی نمائندگی کرے۔چچا نے خود ہی احساسِ ندامت ظاہر کر دیا تو میں نے بھی ان کو وہ کچھ دے دیا جس کے وہ مستحق تھے۔چچا نے انتخاب لڑا،مگر معمولی فرق سے ہار گئے،مگر ان کو اس کا کوئی دکھ نہیں تھا۔اس کے بعد چچا اور میں نے مل کر محنت کی۔لوگوں کی فصلوں کو اچھے داموں خرید کر منڈیوں تک خود پہنچانے اور بیچنے کا نظام قائم کیا۔نئی شجرکاری کی بے آباد جگہوں پر پھل دار درختوں کے پودے لگائے۔جنگلی جڑی بوٹیوں پر تحقیق کرکے ان کو سکھانے اور جمع کرنے لگے۔کچھ ہی سالوں میں ہم گاؤں کے سب سے مال دار لوگ بن گئے۔چچا نے لوگوں کی اتنی خدمت کی کہ وہ ان میں ہمارے دادا کا عکس دیکھنے لگے اور ان کی عزت اور احترام میں اضافہ ہو گیا۔ " دو ڈاکٹر - تحریر نمبر 2305,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/2-doctor-2305.html,"ثانی زہراہسپتال میں ایک غریب عورت روتی ہوئی اپنے بچے کو لے کر آئی۔اس کے بچے کو دیکھنے کا کام میڈیکل کے آخری سال میں ٹریننگ لینے والے ڈاکٹر وقار کے ذمے لگایا گیا۔میڈیکل کالج سے کچھ دنوں بعد ڈگری ملنے والی تھی،پھر وہ آزادی سے کہیں بھی کلینک کھول سکتا تھا۔بچے کی ایک ٹانگ بڑی اور ایک ذرا سی چھوٹی تھی۔بائیں ہاتھ میں اُنگلیاں بھی چار تھیں۔اس نے بچے کو دیکھ کر بُرا سا منہ بنایا کہ اس اپاہج کو زندہ رکھنے کا کیا فائدہ،لیکن یہ اس کا امتحان بھی تھا۔اس نے ڈگری کھونے کے ڈر سے بچے کی دیکھ بھال شروع کر دی۔آکسیجن لگائی تو بچہ سانس لینے لگا۔کچھ دن علاج کے بعد بچہ بالکل صحت یاب ہو گیا۔اس کی ماں دعائیں دیتی ہوئی رخصت ہو گئی۔وہ حقارت سے دونوں کو جاتا دیکھتا رہا۔(جاری ہے)وقت گزرتا گیا۔وقار ایک کامیاب ڈاکٹر بن گیا،لیکن اس کا مقصد صرف پیسہ کمانا تھا۔دولت کی ریل پیل نے رہی سہی انسانیت بھی ختم کر دی۔شادی کے بعد اکلوتی بیٹی کی ہر خواہش پوری کی۔ایک دن اچانک بیٹی کے پیٹ میں شدید درد شروع ہو گیا۔خود بھی علاج کیا اور دوسرے ڈاکٹروں سے بھی مشورہ کیا۔ڈاکٹر اس کی بیٹی کا علاج کرنے میں ناکام رہے۔تھک کر ایک سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔وہ انتہائی ماہر ڈاکٹر تھا۔حالانکہ اس کی عمر زیادہ نہیں تھی۔اس نے فوراً بچی کا مرض پکڑ لیا اور کچھ روز کے علاج سے اس کی بیٹی مکمل صحت یاب ہو گئی۔آج ڈاکٹر وقار اس ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرنے سرکاری ہسپتال آئے تھے،جو اس کے محسن تھے۔اتفاق سے ڈاکٹر صاحب اپنے کمرے سے باہر نکلے تو ڈاکٹر وقار حیران رہ گئے۔انھوں نے پہلی بار ڈاکٹر صاحب کو چلتے دیکھا تھا۔انھوں نے غور کیا تو شرم سے ان کا سر جھک گیا۔سرکاری ڈاکٹر لنگڑا کر چل رہے تھے،کیونکہ ان کی ایک ٹانگ چھوٹی تھی اور بائیں ہاتھ میں چار اُنگلیاں تھیں۔ " وہ اچھی بچی ہے - تحریر نمبر 2304,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/woh-achi-bachi-hai-2304.html,"مریم شہزاد”تم تو اچھی بچی ہو نا تم کہنا مان لو،یہ بڑی والی پینسل بھائی کو دے دو،شاباش۔“امی نے مہک کو پیار سے سمجھایا تو اس نے ایک نظر پینسل کو دیکھا اور پھر امی کو جنھیں یقین تھا کہ وہ ان کی بات مان لے گی،کیونکہ وہ اچھی بچی ہے۔اس نے بھائی کو بڑی پینسل دے دی اور خود چھوٹی پینسل سے اسکول کا کام کرنے لگی۔بھائی بڑی دیر سے اس کی پینسل لینے کی کوشش کر رہا تھا۔اس نے پینسل ہاتھ میں آتے ہی امی کے سامنے تو شکریہ کہا،مگر جیسے ہی امی اُٹھ کر گئیں مہک کو منہ چڑایا اور بولا:”اب تم دیکھنا میں تمہاری چہیتی پینسل کے ساتھ کیا کرتا ہوں۔“”دوسرے ہی دن اس نے پینسل چھیل چھیل کر برباد کر دی اور خود دوسری لے آیا۔مہک کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔(جاری ہے)یہ پینسل اس کو تحفے میں ملی تھی اور یہ تحفہ وہ بہت احتیاط سے استعمال کرتی تھی۔اس نے امی کے کہنے پر اسے دے دی تھی۔وہ اچھی بچی جو تھی۔“ایک دن اسکول میں فضہ نے کہا:”مہک!تم مجھے اپنی کاپی دے دو،میں دو دن اسکول نہیں آ سکی تھی۔“”بھئی تم نے پہلے بھی میری کاپی پھاڑ کر واپس کی تھی۔“مہک نے اپنا بیگ بند کرتے ہوئے کہا۔”اچھا پکا وعدہ اب خراب نہیں ہو گی تمہاری کاپی۔“فضہ نے کہا تو مہک سوچنے لگی۔فضہ نے پکا وعدہ کر لیا تو مہک نے کاپی بیگ سے نکال کر اسے دے دی۔”تم میری بہت اچھی سہیلی ہو مہک!بہت بہت شکریہ۔“فضہ نے کہا تو وہ مسکرا دی۔دوسرے دن فضہ نے چھٹی ہی کر لی جس کی وجہ سے مہک کا کام نامکمل رہ گیا،لیکن شکر ہے کہ وہ مس کی ڈانٹ سے بچ گئی،کیونکہ مس کو معلوم تھا کہ وہ اچھی بچی ہے۔کبھی بھائی اس کی کوئی چیز ہتھیا لیتا تو کبھی بہن اس کے پسندیدہ سوٹ پر قبضہ کر لیتی اور اس کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کرے۔مہک نہ اسکول میں شرارتیں کرتی نہ گھر میں۔کبھی اس کا بھی بہت دل چاہتا کہ خوب اُچھلے کودے،اُدھم مچائے،شرارتیں کرے،مذاق مذاق میں کسی کو بوکھلا دے،زور زور سے قہقہے لگائے۔وہ اپنے ساتھ دوسروں کے سلوک سے گھبرا گئی تھی۔جب وہ سوچتی کاش!میں بھی عام سی بچی ہوتی۔آج کل اس کو یہ احساس اور زیادہ ہو رہا تھا۔اب وہ چپ چپ رہنے لگی تھی۔کوئی کچھ کہتا تو چڑ جاتی،امی اس کی کیفیت دیکھ رہی تھیں۔”کیا بات ہے مہک!میری شہزادی کچھ پریشان ہے؟“ایک دن امی نے پیار سے پوچھا۔امی کے اس طرح پوچھنے پر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔امی نے گلے لگا کر پیار کیا:”میری پیاری بیٹی!کیوں رو رہی ہے؟“”میں بھی اب عام بچوں کی طرح بننا چاہتی ہوں۔“مہک نے روتے ہوئے کہا تو امی چونک گئیں۔انھوں نے حیران ہو کر پوچھا:”ارے،تم اچھی بچی کیوں نہیں رہنا چاہتی ہو؟“”سب میری چیزیں لے لیتے ہیں،میں شرارتیں بھی نہیں کرتی،چھوٹے بھائی کو بھی نہیں مارتی،آپ کے اور دادا،دادی کے بھی سب کام کرتی ہوں اور دوسرے سب تو ضدیں بھی کرتے ہیں،شور بھی مچاتے ہیں گھر بھی پھیلا دیتے ہیں تو میں کیوں ایسی نہیں ہوں۔“مہک نے افسردہ لہجے میں کہا۔امی نے اسے پیار کیا اور کہا:”اللہ تعالیٰ نے سب کی فطرت الگ الگ بنائی ہے۔کوئی لا ابالی ہوتا ہے،کوئی سنجیدہ۔کوئی شرارتی تو کوئی جھگڑالو،سب الگ الگ مزاج کے انسان بنائے ہیں،تم اچھی بچی ہو اور اچھی ہی رہو گی اور یہ کس نے کہا کہ اچھے بچے ہنس نہیں سکتے یا شرارت نہیں کر سکتے۔اگر دل چاہے تو تم زور زور سے ہنس بھی سکتی ہو،تم ہنسی مذاق بھی کر سکتی ہو۔مجھے پتا ہے کہ تم کسی کو نقصان پہنچانے کا سوچو گی بھی نہیں اور تم تو ہر کلاس میں بہترین طالبہ کی سند لیتی ہو۔سب بچوں میں تم خاص ہو،اس لئے سب تم کو پسند کرتے ہیں۔اگر نک چڑھی بن جاؤ گی تو سب تم سے دور ہو جائیں گے۔“مہک کی سمجھ میں امی کی بات آ گئی۔وہ اب بھی اچھی بچی ہے۔سب کے کام آنے والی،مگر چھوٹی چھوٹی شرارتیں بھی کر لیتی ہے اور دل کھول کر ہنستی بولتی بھی ہے،کیونکہ وہ سمجھ گئی ہے کہ اسے ہنستے مسکراتے رہ کر سب کے کام آنا ہے۔ " جذبہ - تحریر نمبر 2303,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jazba-2303.html,"یمنیٰ امجد،احمدپور شرقیہ”بیٹا!تم پڑھ لکھ کر کیا بننا چاہتی ہو؟“چچا ارشد ہدیٰ کے گھر آئے تو انھوں نے ہدیٰ کو پڑھائی میں مگن دیکھ کر اس سے سوال کیا۔”چچا!میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔“ہدیٰ نے ایک عزم سے کہا۔”واہ بھئی،بڑا اچھا انتخاب ہے ہماری بٹیا کا۔“چچا ارشد نے داد دی۔اس کے ابو نے بتایا:”جب سے پھوپھو کے ہسپتال سے ہو کر آئی ہے تب ہی سے اس نے فیصلہ کر رکھا ہے۔“ابو نے پیار بھری نظروں سے ہدیٰ کی طرف دیکھا۔چچا نے بڑے بھائی سے کہا:”بات بھی ٹھیک ہے بھائی صاحب!ہمارے ملک میں خواتین کے لئے سب سے محفوظ اور عزت والا شعبہ یہی ہے۔“”ہاں اور پیسہ بھی تو اسی شعبے میں ہے۔آپ نے دیکھا نہیں رضوانہ باجی نے کتنا بڑا گھر لے لیا،گاڑی،روپیہ،پیسہ سب کچھ تو ہے ان کے پاس۔(جاری ہے)“ابو نے بھائی کی بات آگے بڑھائی:”لیکن میں پیسے کے لئے نہیں․․․․“ہدیٰ نے کچھ کہنا چاہا۔”ہدیٰ بیٹا!یہ جوس لے جاؤ۔“امی نے آواز لگائی تو وہ ابو اور چچا پر ایک نظر ڈال کر اُٹھ گئی۔دونوں باتوں میں مصروف ہو چکے تھے۔ہدیٰ کی پھوپھی شہر میں ایک ماہر ڈاکٹر کے طور پر جانی جاتی تھیں۔پچھلے دنوں انھوں نے اپنا نیا ہسپتال قائم کیا تھا۔ہدیٰ نیا ہسپتال دیکھنے کے لئے پھوپھو کے پاس جانے کو بے قرار تھی۔وہ ڈاکٹروں کو مسیحا اور درد دل رکھنے والا انسان سمجھتی تھی۔ہدیٰ اپنی امی کے ساتھ ہسپتال پہنچی۔پھوپھی اتفاق سے ہسپتال کے باہر ہی مل گئیں۔”پھوپھو!مجھے آپ کا ہسپتال دیکھنا ہے۔“ہدیٰ نے پھوپھو سے کہا۔”ہاں،ہاں ضرور،آجاؤ چلتے ہیں۔“پھوپھو فوراً تیار ہو گئیں۔جیسے ہی وہ ہسپتال میں داخل ہوئے ایک عورت روتی پیٹی،چیختی چلاتی آئی اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی:”ڈاکٹر صاحبہ!میری بیٹی کی جان خطرے میں ہے،خدا کے لئے اس کا معائنہ کر لیں۔“”آپ کاؤنٹر پر فیس جمع کروا کر پرچی بنوا لیں۔“ڈاکٹر رضوانہ نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔”ڈاکٹر صاحبہ!ہم غریب لوگ ہیں آپ مہربانی کرکے چیک کر لیں،ہم پیسے بعد میں دے دیں گے۔“اس عورت کے الفاظ بیچ میں ہی رہ گئے اور ڈاکٹر رضوانہ اس کی پوری بات سننے کی زحمت گوارا کیے بغیر ہدیٰ کا ہاتھ تھامے آگے بڑھ گئیں۔”پھوپھو!آپ اس کی بیٹی کو دیکھ لیں اگر وہ سچ میں․․․․“ہدیٰ نے کچھ کہنا چاہا۔”ہدیٰ بیٹی!یہاں آنے والا ہر دوسرا مریض غریب ہونے کا بہانہ کرتا ہے۔ہم ایسے ہی مفت علاج کرنے لگے تو روپے کیسے کمائیں گے؟“پھوپھو نے دو ٹوک لہجے میں جواب دیا۔آج پندرہ سال بعد غریبوں کی ہمدرد ڈاکٹر ہدیٰ ایک مایہ ناز سرجن ہے اور شہر بھر میں مشہور ہے۔آج بے اختیار ڈاکٹر ہدیٰ کا دل بھر آیا۔اپنے پاس موجود اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے دل سے بے اختیار صدا آئی:”تم زمین والوں پر رحم کرو،آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔“ " فرار - تحریر نمبر 2302,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/faraar-2302.html,"ایمان خان”نوری‘او نوری․․․․کہاں مر گئی‘لو جی ذرا دیکھو اسے مہارانی صاحبہ کیسے گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے۔“”جی باجی‘اُٹھ گئی باجی“۔”نا تو مجھے یہ بتا یہ جو سارا کام بکھرا پڑا ہے تیرا باپ کرے گا؟مفت کی روٹیاں توڑ توڑ کے تیری یہ حالت ہو گئی ہے۔آج تو دیکھیں ذرا صرف ایک وقت کھانا ملے گا تو تیرے ہاتھ پاؤں بھی چلیں گے اور تیرا دماغ بھی ٹھکانے آ جائے گا۔جلدی سے جا صاحب کو کپڑے دے کر آ پھر بچوں کے لئے ناشتہ بھی بنانا ہے۔“نوری چھلانگ لگا کر اُٹھی جلدی سے اپنا بستر تہہ لگایا‘منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور تیزی سے باورچی خانے کا رُخ کیا۔چولہے کے ایک طرف چائے کا پانی چڑھایا اور دوسری طرف چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے روٹیاں بنانے لگی۔(جاری ہے)نوری عبدالکریم صاحب کے گھر ملازمہ تھی اس کو چند دن ہوئے تھے کام پر آئے ہوئے۔نوری کے ابو اس کے پیدا ہونے کے ایک سال بعد ہی چل بسے تھے اور اس کی ماں تین سال پہلے کینسر کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔نوری کے چچا نے اسے یہاں کام پر لگایا تھا اس وقت اس کی عمر صرف 9 برس تھی۔نوری باورچی خانے سے فارغ ہوئی تو باہر سے پھر مالکن کی آواز آئی․․․”نوری‘او نوری۔“”جی آئی باجی صاحبہ۔“”شام کو مہمان آ رہے ہیں دعوت کی تیاری کرنی ہے۔“”مہمان؟کیا مصیبت ہے۔“نوری کو اپنی آنکھوں کے سامنے برتنوں کا انبار نظر آنے لگا۔”جلدی ہاتھ چلا۔اور سُن آج گیسٹ روم کی ذرا اچھی طرح سے صفائی کر دینا اور ذرا دھیان سے اگر اس بار کوئی چیز ٹوٹی تو تیری ہڈیاں توڑ دینی ہیں میں نے۔“نوری کو پچھلی والی مار یاد آ گئی جو ایک گلدان ٹوٹنے پر اس کو صاحب جی کے موٹے چمڑے والے بیلٹ سے پڑی تھی۔اس مار کے زخم بھر جاتے ہیں لیکن اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔نوری کے ہاتھ پر اس مار کا نشان آج بھی موجود تھا جو حیرت انگیز طور پر ایک تتلی کی شکل اختیار کر گیا تھا۔گیسٹ ہاؤس سے لے کر گھر کی صفائی کرنے کے بعد وہ باورچی خانے میں چلی گئی اور اپنی مالکن کے دیئے ہوئے احکامات کے مطابق کام کرنے لگی۔دیر رات تک مہمانوں کی خاطر سے فارغ ہونے کے بعد نوری کی حالت خراب ہونے لگی سارے دن کی انتھک محنت کے بعد اس کے ننھے سے جسم کو تھکاوٹ نے گھیر لیا تھا۔اس کی کمزور ہڈیاں درد سے ٹوٹ رہی تھیں۔ایک طرف کاموں کے ڈھیر تھے جو اس کو کرکے سونے تھے دوسری طرف وہ خود تھی جو برآمدے میں بیٹھی وہیں ڈھیر ہو رہی تھی۔سامنے سے آنے والے ہوا کے جھونکے اس کو نیند کی تھپکیاں دینے لگے اس کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ اپنی ماں کی آغوش میں لیٹی سو رہی ہے۔اس کے وجود کی غنودگی فضا میں گھلنے لگی۔بھاڑ میں جائے کام بھاڑ میں جائیں برتن میں سونے لگی ہوں۔نوری وہیں لیٹی لیٹی سو گئی۔اچانک مالکن کی ٹھوکر لگنے سے اس کی آنکھ کھلی ”ہڈ حرام کام چور‘سارا گھر بکھرا پڑا ہے اور تو پھر آرام کرنے لگی۔چل اُٹھ یہاں سے جا کر میرے لئے چائے بنا کر لا‘صبح سے بھاگ بھاگ کے میری تو حالت خراب ہو رہی ہے۔“نوری خاموشی سے اُٹھی چائے بنانے چلی گئی۔برتنوں کو دیکھا تو اسے لگا جیسے اسے منہ چڑھا رہے ہیں‘اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔نوری غصے میں برتنوں کی طرف بڑھی اور ان سے کشتی لڑنے لگی۔سارے برتن دھونے کے بعد اس کو خیال آیا کہ ابھی آٹا بھی گوندھنا ہے اور بکھرے ہوئے گھر کو سمیٹنا بھی ہے۔آج سزا کے طور پر اس کو دوپہر کو ایک وقت ہی کھانا ملا تھا۔مالکن کا خیال تھا کہ اگر نوکروں کو ہر وقت کھانا کھلاتے رہو تو وہ کام نہیں کرتے سُست ہو جاتے ہیں حالانکہ آج دعوت تھی طرح طرح کہ کھانے پکے تھے لیکن نوری کی ہمت نہیں تھی کچھ بچا ہوا بھی اُٹھا کر کھا لے۔کام کا سوچ کر نوری کا دماغ چکرانے لگا بھوک سے اس کے معدے میں آنتیں مزید سکڑنے لگیں۔وہاں پر رہنا ناقابل برداشت ہو گیا تھا اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ یہ دن گزرتے ہی وہ یہاں سے چلی جائے گی۔اسے پنجرے میں بند پرندوں کا دُکھ بہت اچھے سے سمجھ میں آتا تھا۔اگلی صبح رہائی کا دن تھا اس کا اور پرندوں کے فرار کا دن۔وہ خود بھی چلی گئی تھی اور جاتے ہوئے سارے پنجرے بھی کھول گئی تھی۔ " عامل بابا اور جادوگر - تحریر نمبر 2301,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/amil-baba-aur-jadugar-2301.html,"حسنین علی ٹگر،حیدرآباددو دوست،بارہ سال کا عمر اور دس سال کا فراز،رات کو نیند نہ آنے کی وجہ سے بستر سے اُٹھ کر،اپنے گھروں کے پاس والے جنگل میں نکل پڑتے ہیں،جب دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔فراز:”ارے․․․․عمر․․․․تم؟“عمر:”فراز تم یہاں کیا کر رہے ہو،کیا تمہیں بھی نیند نہیں آئی۔“فراز:”نہیں،ویسے کیا تم نے وہ روشنی دیکھی؟۔“عمر:”مطلب وہ روشنی جو ابھی جنگل کی طرف سے اُبھری تھی۔“فراز:”ہاں۔“عمر:”چلو جا کر دیکھتے ہیں کیا ماجرا ہے۔“فراز:”ٹھیک ہے۔“دونوں جنگل کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔کچھ دیر چلنے کے بعد انہیں جنگل کے بیچوں بیچ دو لوگ دکھائی دیتے ہیں۔(جاری ہے)وہ چپکے سے جھاڑیوں میں چھپ کر دیکھتے ہیں۔ان میں سے ایک شخص دیکھنے میں کوئی عامل بابا لگتا تھا اور دوسرا شاید کوئی جادوگر تھا۔دونوں کی آوازیں گونج رہی ہوتی ہیں،جیسے کوئی مقابلہ چل رہا ہو․․․․جادوگر کے ہاتھ میں ایک چھڑی اور بابا جی کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی ہوتی ہے،وہ دونوں آپس میں تیز آواز سے جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔جادوگر:”جو چاہے کر لو عامل،مگر میری اس جادوئی آنکھ والی چھڑی کا مقابلہ نہیں کر پاؤں گے۔“بابا:”آخر تمہارا مسئلہ کیا ہے․․․․میں تو بس اپنی عبادت اور ریاضت کرنے یہاں آتا ہوں،نہ کہ تم سے مقابلہ کرنے اور ویسے بھی تمہارے جادو کا روحانیت سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔“جادوگر:”میرا مسئلہ تم ہو،تمہاری ریاضت کی وجہ سے میرا جادو کمزور پڑا،مگر اب میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔“اتنا کہہ کر وہ اپنی چھڑی لہراتا ہے اور اس میں سے ایک لال رنگ کی روشنی بابا جی کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔عامل بابا جلدی سے کچھ ورد پڑھتا ہے اور اپنے ہاتھ سے اس روشنی کو جنگل کی طرف پھیر دیتا۔جو کہ ان دونوں بچوں سے ٹکرا جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے،دونوں بچے ہوا میں اُڑنے لگتے ہیں۔جیسے ہی اس عامل بابا کی نظر ان بچوں پر پڑتی ہے وہ کچھ اور ورد دوہرا کر بچوں کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بچے واپس زمین پر آ جاتے ہیں اور وہ عامل بابا پھر جادوگر سے لڑنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔عمر:”آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟۔“فراز:”ایک مزے دار لڑائی چل رہی ہے،اور کیا․․․“عمر:”چپ کرو،ہمیں اس بابا کی مدد کرنی چاہئے۔“فراز:”ہاں میں بھی ان ہی کی طرف ہوں۔“عمر:”لگتا ہے جادوگر کی ساری طاقت اس چھڑی میں ہے،اس چھڑی کو اس سے لینا پڑے گا۔“اتنے میں جادوگر ایک نیا منتر پڑھنے لگتا ہے،مگر بچے اس کا منتر شروع ہوتے ہی جھاڑیوں سے باہر آ کر اس پر پتھر پھینکنا شروع کر دیتے ہیں۔جادوگر منتر بھول کر غلط پڑھ دیتا ہے اور ایک اپنے ہی جادو سے ایک بلی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔عامل بابا بچوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہے۔بابا:”واہ بچوں،تم نے تو کمال کر دیا،کیا میں تمہارے لئے کچھ کر سکتا ہوں۔“فراز(بلی کو اُٹھا لیتا ہے):”مجھے تو ہمیشہ سے ایک بلی چاہیے تھی۔“عمر(بابا جی سے مخاطب ہو کر):”جی!ہمیں بتائیے کہ یہ سب کیا تھا؟۔“بابا:”دراصل میں اکثر اپنا عمل پڑھنے اور مراقبہ کرنے یہاں آیا کرتا ہوں،مگر آج اس جادوگر نے مجھ سے لڑنا شروع کر دیا،مگر تم بچوں نے بہت بہادری دکھائی،تم چاہو تو اس بلی کو رکھ سکتے ہو۔“اس کے بعد عامل بابا آگے بڑھ کر جادوگر کی وہ چھڑی زمین سے اُٹھا کر توڑ دیتا ہے اور انہیں آئندہ رات کو اس طرح اکیلے باہر نکلنے سے منع کرتا ہے اور بچوں کو ان کی حفاظت کے لئے کچھ عمل تعلیم کر دیتا ہے آخر میں عامل بابا عمر کو اپنی انگوٹھی تحفہ میں دے دیتا ہے اور فراز بلی کو اپنے پاس ہی رکھ لیتا ہے اور پھر دونوں واپس اپنے گھر جانے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ " نااتفاقی کا انجام - تحریر نمبر 2299,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/na-itefaqi-ka-anjaam-2299.html,"ایک چڑا،چوہا اور مکھی ایک ساتھ رہتے تھے۔تینوں میں بہت دوستی تھی۔چڑا جنگل سے لکڑیاں لاتا،مکھی پانی بھرتی اور چوہا کھانا پکاتا۔تینوں اپنا اپنا کام بڑی ایمان داری سے کرتے تھے۔ایک دن چڑا لکڑیاں چننے باہر نکلا تو راستے میں ایک لومڑی سے اس کی ملاقات ہو گئی۔اس نے سلام کیا اور حال پوچھا چڑے نے کہا ”میں لکڑیاں لینے آیا ہوں۔سارا دن لکڑیاں جمع کرکے شام کو گھر جاؤں گا۔مکھی پانی بھرتی ہے اور میرا دوست چوہا کھانا پکائے گا“۔یہ سنتے ہی بی لومڑی نے کہا”لعنت ہو تمہاری سمجھ پر۔تم ایسے خوبصورت پرندے ہو کر دن بھر اوروں کے لئے کیوں مصیبت جھیلتے ہو؟دیکھو وہ دونوں تو چین سے گھر بیٹھے رہتے ہیں اور تم یوں مارے مارے پھرتے ہو۔ان سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ باری باری کام کریں۔(جاری ہے)ایک دن چوہا لکڑیاں لائے۔دوسرے دن مکھی اور تیسرے دن تم“۔یہ کہہ کر لومڑی تو چلی گئی۔مگر اتفاق سے بنے بنائے گھر میں نفاق کا بیج بو گئی۔چڑا بے وقوف ایسا بگڑا کہ اس نے شام کو لکڑیاں لا کر ایک طرف پھینک دیں اور خود منہ پھلا کر ایک کونے میں پڑا رہا۔چوہے اور مکھی نے کھانا پکایا۔جب دسترخوان بچھا تو چڑے کو کھانے پر بلایا گیا۔چڑے نے کہا“نہیں․․․․میں نہیں کھاتا۔مجھ سے یہ روز روز کا دھندا نہیں ہوتا۔میری جان مفت کی نہیں ہے کہ میں اکیلا ہی باہر کے سارے کام کروں اور تم دونوں چین سے بیٹھے رہو“۔بڑی تُو تُو میں میں کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ کل سے چوہا لکڑیاں لائے گا مکھی کھانا پکائے گی اور چڑا پانی بھرے گا۔صبح ہوئی تو مکھی کھانا پکانے کے لئے گھر رہی چڑا پانی بھرنے گیا اور چوہے میاں لکڑیاں لینے چلے گئے۔مگر ابھی چوہے میاں دس قدم بھی نہیں چلے تھے کہ ایک بلی نے انہیں دبوچ لیا۔چڑے میاں پانی بھرنے گئے تو اُن کا پاؤں پھسلا اور وہ کنویں میں جا گرے۔اُدھر مکھی نے بچی کھجی لکڑیاں چولہے میں رکھ کر آگ جلائی تو ایک چنگاری اُڑ کر اس پر پڑی اور وہ بھی جل مری اور یوں ان کی بے اتفاقی سے بسا بسایا گھر تباہ ہو گیا۔ " زندگی کا انمول سبق - تحریر نمبر 2298,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zindagi-ka-anmol-sabaq-2298.html,"امجد خانیہ ایک بادشاہ کی پرانی کہانی ہے۔اُس کا ایک بچپن کا دوست تھا جس کے ساتھ وہ کھیل کود کر جوان ہوا تھا۔بادشاہ اپنے اُس دوست کو ہمہ وقت ساتھ رکھتا تھا۔اُس کی عادت تھی کہ اُس کی زندگی میں خواہ کوئی بھی اچھی بُری بات ہو وہ ہمیشہ یہ ہی کہتا کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے۔ایک دن بادشاہ اور اُس کا دوست شکار کیلئے جنگل میں گئے۔دوست نے بادشاہ کیلئے بندوق میں گولی بھری اور بندوق تیار کرکے بادشاہ کو دی لیکن گولی بھرنے میں اُس سے کچھ غلطی ہو گئی اور جب بادشاہ نے شکار کے لئے گولی چلائی تو اُس کا انگوٹھا کٹ گیا۔یہ صورتحال دیکھ کر دوست نے اپنی عادت کے مطابق کہا ”جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے،اس میں یقینا کوئی بہتری ہو گی“۔(جاری ہے)یہ سُن کر بادشاہ کو شدید غصہ آیا اور بولا:”یہ بہتر نہیں ہے،میرا انگوٹھا ضائع ہو گیا ہے“۔اور تم کہہ رہے ہو اچھا ہوا اور ساتھ ہی حکم جاری کیا کہ اسے قید خانے میں ڈال دیا جائے۔ایک سال بعد بادشاہ دوبارہ ایک جگہ شکار کھیلنے گیا۔وہاں بدقسمتی سے اُسے آدم خور جنگلیوں نے پکڑ لیا اور اپنے علاقے میں لے گئے۔اُنہوں نے بادشاہ کے ہاتھ باندھ دیئے۔اب آگ جلا کر وہ بادشاہ کو جلانے ہی والے تھے کہ اُن کی نظر بادشاہ کے انگوٹھے پر پڑی تو پتہ چلا کہ بادشاہ ایک انگوٹھے سے معذور ہے۔وہمی اور تو ہم پرست قوم ہونے کی وجہ سے وہ کسی نامکمل انسان کو نہیں کھاتے تھے لہٰذا انہوں نے بادشاہ کو رہا کر دیا۔جب بادشاہ گرتا پڑتا اپنے محل میں پہنچا تو اُسے خیال آیا کہ کس طرح اُس کا انگوٹھا کٹ گیا تھا اور اُس نے اپنے دوست کو جیل میں بھجوا دیا تھا۔فوراً اُس نے اپنے خدام کو حکم دیا کہ اُس کے دوست کو باعزت دربار میں پیش کیا جائے۔جب اُس کا دوست آیا تو بادشاہ نے اُسے سارا حال سُنایا اور کہا کہ میں نے تمہارے ساتھ بہت بُرا کیا۔مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا،مجھے معاف کر دو۔تم صحیح تھے وہ اچھا اور بہتر ہی ہوا تھا کہ میرا انگوٹھا کٹ گیا تھا۔آج اس انگوٹھے کے نہ ہونے کی وجہ سے میری جان بچ گئی۔یہ سُن کر بادشاہ کا دوست مسکرایا اور بولا:”یہ بھی بہتر ہی ہوا کہ آپ نے مجھے جیل بھجوا دیا“۔اپنے دوست کی یہ بات سُن کر بادشاہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ یہ اچھا اور بہتر کس طرح تھا۔تم ایک سال تک جیل میں رہے اور کہہ رہے ہو کہ اچھا ہوا۔دوست مسکرا کر بولا:”ہاں!اچھا ہوا اور بہت بہتر ہوا کہ اگر میں جیل میں نہ ہوتا تو یقینا میں تمہارے ساتھ ہوتا اور وہ جنگلی اب تک مجھے ہڑپ کر چکے ہوتے کیونکہ میرا انگوٹھا صحیح سالم ہے“۔زندگی میں اکثر جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ یقینا اچھے کیلئے ہی ہوتا ہے۔لیکن انسان فطرتاً جلد باز واقع ہوا ہے اور اُسی وقت نتیجہ چاہتا ہے جبکہ قدرت کا نتیجہ تھوڑے وقفے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ اُمید کا سہارا کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے اور سوچ ہمیشہ مثبت رکھنی چاہئے۔ " سچا ساتھی - تحریر نمبر 2297,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sacha-sathi-2297.html,"ایمان حمزہایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلطانہ نامی ایک لڑکی اپنے والد کے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی تھی۔اس کی والدہ کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔وہ اپنے گھر کا کام خود ہی کرتی تھی اور پھر کالج بھی جاتی تھی۔کالج جاتے ہوئے وہ ہر روز راستے میں ایک جگہ پر پرندوں کو کھانا کھلایا کرتی تھی۔اس کے گھر میں بھی دو پرندے تھے،وہ انہیں روزانہ کھلایا کرتی تھی۔ایک دن زمیندار کے بیٹے نے اسے پرندوں کو کھانا کھلاتے دیکھا۔تو اس نے اپنے والد کے پاس جا کر کہا کہ وہ سلطانہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔زمیندار نے سلطانہ کے والد سے بات کی اور اپنے بیٹے کی شادی سلطانہ سے کروا دی۔سلطانہ اپنے پرندوں کا پنجرے کے ساتھ اپنے سسرال کے گھر گئی۔وہ پرندوں کو روزانہ کھلاتی تھی۔(جاری ہے)سلطانہ کی ساس کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی۔وہ ان پرندوں کو تنگ کرتی تھی۔وہ ان کے دانے زمین میں پھینک دیتی تھی۔ایک دن سلطانہ کی ساس نے پرندوں کا پنجرا زمین پر پھینک دیا۔سلطانہ نے اسے یہ کرتے دیکھ لیا۔جب سلطانہ نے اپنی ساس کو منع کیا تو اس کی ساس نے اسے ڈانٹ دیا۔سلطانہ اپنی ساس کی ان سب چیزوں سے پریشان ہونے لگی۔ایک دن جب سلطانہ کے شوہر نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے ساری بات بتا دی۔اس کا شوہر سلطانہ کو پرندوں کی بھلائی کے لئے انہیں پارک میں چھوڑنے کا مشورہ دیتا ہے۔اپنے شوہر کے کہنے پر سلطانہ نے باقی پرندوں کے ساتھ دونوں پرندوں کو بھی پارک میں چھوڑ دیا۔وہ کبھی کبھی کھانا دینے پارک میں جاتی تھیں۔اب پارک کے سارے پرندے سلطانہ کے اچھے دوست بن چکے تھے۔پرندوں نے بھی اب سلطانہ کے گھر آنا شروع کر دیا۔جب سلطانہ کی ساس کو یہ پتہ چلا تو وہ ناراض ہو جاتی ہے۔ایک دن وہ سلطانہ کو اپنے ساتھ ڈاکٹر کے پاس لے کر جا رہی تھی کہ راستے میں،کچھ چوروں نے سلطانہ کی ساس کے زیورات چوری کرنے کی کوشش کی۔تب سلطانہ کے پرندے آئے اور چوروں پر حملہ کیا۔جس کی وجہ سے چور فرار ہو گئے۔اس کے بعد سلطانہ اور اس کی ساس گھر لوٹ گئیں۔اب سلطانہ کی ساس نے پرندوں کے بارے میں اپنا ذہن بدل لیا تھا۔اس نے سلطانہ سے کہا کہ اب ہم دونوں پرندوں کو کھانا دینے اور پہلے دو پرندوں کو گھر واپس لانے کے لئے جائیں گے۔یہ سن کر سلطانہ بہت خوش ہوئی۔یہ کہانی ہمیں سبق دیتی ہے کہ ہمیں جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ " چڑیا اور تتلی - تحریر نمبر 2296,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chirya-aur-titli-2296.html,"بسمہ عاشق علیایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں ایک چڑیا کا گھونسلہ تھا۔اسی جنگل میں ایک تتلی بھی رہتی تھی۔تتلی کو اپنے رنگ برنگ پروں پر بہت غرور تھا ایک دن چڑیا آم کی ڈالی پر بیٹھی جھولا جھول رہی تھی اور ساتھ میں گانا بھی گا رہی تھی وہ گا رہی تھی چوں چوں چوں۔میں ہوں جنگل کی رہنے والی میرا گھر ہے آم کی ڈالی چوں چوں چوں۔تتلی بیٹھی چڑیا کا گانا سن رہی تھی وہ بولی ارے چڑیا بس آواز ہی آواز ہے تمہاری مجھے دیکھو کتنی اچھی شکل ہے میری کہاں میرے نیلے اور سنہرے پَر اور کہاں تمہاری بھوری رنگت چڑیا بولی مجھے اللہ تعالیٰ نے جیسا بنایا ہے اللہ کا شکر ہے درخت کے نیچے ایک بلی بھی تھی ان کی باتیں سن کر اس کے کان کھڑے ہو گئے۔چڑیا نے بلی سے کہا کہ میری آواز زیادہ خوبصورت ہے یا تتلی کی شکل بلی نے کہا کہ مجھے بوڑھی کو نہ تو تتلی کی شکل نظر آتی ہے اور نہ ہی تمہاری آواز سنائی دیتی ہے تم میرے پاس آ کر بیٹھ شاید قریب سے آواز سنائی اور شکل دکھائی دے۔(جاری ہے)درخت کی ڈال پر طوطا بیٹھا ہوا تھا۔وہ یہ باتیں سن کر بہت ہنسا اور بولا”ارے بی چڑیا بلی کو نہ تو تمہاری آواز اچھی لگتی ہے اور نہ ہی تتلی کی شکل اچھی لگتی ہے۔“ایک کوا زمین پر کچھ چُگ رہا تھا وہ بولا”بلی کو تو تمہاری ایک چیز پسند ہے۔“بلی یہ سن کر بہت خفا ہوئی اور غصے سے بولی”اس جنگل میں کتنے بدتمیز پرندے رہتے ہیں میں تو تمہیں پیار سے بلا رہی تھی اور یہ کہتے ہیں کہ میں تمہیں کھانا چاہتی ہوں۔“یہ سن کر طوطا اور کوا بہت ہنسے ”کائیں کائیں کائیں“ ”ٹیں ٹیں ٹیں“ ابھی کوا اور طوطا دونوں باتیں کر رہے تھے کہ بلی نے موقع پا کر تتلی پر حملہ کرنے لگی جو کہ پاس بیٹھی تھی تو چڑیا بولی کہ تتلی بہن اُڑ جاؤ تو تتلی فٹ سے اُڑ گئی اور درخت کے سبز پتوں میں چھپ گئی اور تتلی کی جان بچ گئی تو تتلی چڑیا کہ پاس گئی اور بہت شرمندہ ہوئی اور معافی بھی مانگی اور بولی اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیا۔پیارے بچوں اللہ تعالیٰ غرور و تکبر کرنے والوں کو نہ پسند کرتے ہیں۔ " دو گہرے دوست - تحریر نمبر 2295,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/2-gehre-dost-2295.html,"محمد علیم نظامیعاطف اور سعید دو گہرے دوست تھے۔دونوں کی دوستی ہمالیہ کی پہاڑیوں سے بھی زیادہ اونچی سمجھی جاتی تھی۔اگر عاطف کسی مشکل میں گرفتار ہوتا تو سعید اس کے کام آتا اور اگر سعید کو کچھ ہو جاتا تو عاطف اپنے تمام تر وسائل کو کام میں لا کر اس کی مدد کرتا۔الغرض دونوں ایک دوسرے کی مشکل یا بڑے وقت میں کام آتے اور ہنسی خوشی زندگی گزارتے تھے۔ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ عاطف کو سخت بخار نے آن لیا۔عاطف نے لاکھ جتن کئے مگر اسے کوئی فائدہ نہ ہوا۔آخر اس کا دھیان اچانک اپنے گہرے دوست سعید کی طرف گیا کہ وہ کس کھیت کی مولی ہے،چنانچہ عاطف نے اپنے پڑوس میں رہنے والے ایک لڑکے کو کہا کہ جاؤ!سعید کو بتاؤ کہ عاطف سخت بیمار ہے اس لئے وہ ہلنے جلنے کے قابل بھی نہیں ہے اس لئے وہ اس کے پاس آئے اور اسے ڈاکٹر کے پاس لے جائے۔(جاری ہے)جب سعید عاطف کے گھر پہنچا تو اس نے سخت لہجے میں عاطف سے کہا کہ اگر تمہاری طبیعت زیادہ خراب تھی تو تاخیر کرنے کی بجائے فوراً مجھے اطلاع دیتا۔بہرحال تیار ہو جاؤ اور ڈاکٹر کے پاس چلو۔عاطف تو پہلے ہی تیار تھا چنانچہ دونوں دوست موٹر سائیکل کے اوپر بیٹھ کر قریبی ڈاکٹر کے پاس پہنچے اور اسے ساری کہانی سنائی کہ کیسے عاطف کی طبیعت خراب ہوئی؟ڈاکٹر نے عاطف کا تفصیلی معائنہ کیا اور اسے ہدایت کی کہ تمہارا دوست سعید 24 گھنٹے تک تمہارے پاس رہے گا اور پابندی سے تمہیں دوائی دے گا۔انشاء اللہ ایک دو دنوں کے اندر اندر تمہاری طبیعت بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔عاطف کے ساتھ سعید کی دوستی کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سعید ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق عاطف کو دوائی دیتا جس کی وجہ سے ایک دو دنوں میں ہی عاطف کی طبیعت بحال ہو گئی اور سعید عاطف دونوں پھر سے پابندی سے کالج جانے لگے۔عاطف نے سعید کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا کہ جس نے مشکل حالات میں اس کا اتنا خیال رکھا اور اس کی تیمارداری کی۔سعید نے عاطف سے کہا کہ”دیکھو!انسان ہی انسان کے کام آتا ہے جس طرح تم کبھی مشکل حالات میں میرے کام آتے رہے ہو اسی طرح اگر میں نے تمہیں کچھ حفاظتی ٹپس دیئے ہیں اس میں شکریہ کی بھلا کیا بات ہے؟یہ بات کہہ کر عاطف نے سعید کو حفاظتی ٹپس دیئے ہیں کا کہہ کر اپنے گلے لگا لیا۔دونوں نے ایک دوسرے کو ڈھیروں دعائیں دیں اور عزم کیا کہ جس طرح پہلے دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اس طرح آئندہ بھی وہ ایک دوسرے کے کام آتے رہیں گے۔یہ کہہ کر دونوں دوست اپنی گہری دوستی پر ناز کرتے ہوئے بغلگیر ہوئے۔“ " بھیڑیا اور چیتا - تحریر نمبر 2294,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bheriya-aur-cheetah-2294.html,"روبینہ ناز،کراچیآج بھیڑیا اور چیتا بہت خوش تھے۔کیونکہ بہت دن بعد انہیں میمنہ اکیلا ملا تھا۔ورنہ اس کی ماں اس کی کڑی نگرانی کرتی تھی اور ہر وقت اس کے ساتھ رہتی تھی۔جب انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ اس کی ماں دور ہے تو انہوں نے اسے کھانے کا منصوبہ بنایا۔مگر ایک مسئلہ تھا کہ یہاں میمنے کا شکار نہیں ہو سکتا تھا۔کیونکہ اس کی آواز سن کر یہاں شیر بھی آ سکتا تھا اور دوسرے جانور بھی۔”ہم میمنے کو سیر کے بہانے کہیں دور لے جاتے ہیں تاکہ اسے اطمینان سے کھا سکیں۔“بھیڑیے نے چیتے سے کہا۔”ہاں تم ٹھیک کہتے ہو“ چیتا بھیڑیے کے منصوبے سے متفق ہو گیا تو دونوں میمنے کے قریب گئے اور تب بھیڑیے نے مکاری سے کہا۔”اتنا پیارا بچہ اکیلا بور ہو رہا ہے۔(جاری ہے)آؤ ہم تمہیں دوسرے جنگل کی سیر کروائیں۔“میمنے نے جب چیتے اور بھیڑیے کو دیکھا تو وہ ڈر گیا۔”ڈرو نہیں بچے ہم تمہارے انکل ہیں اور تمہارا خیال بھی رکھیں گے“ چیتا مصنوعی پیار سے بولا تو میمنہ مان گیا اور ان کے ساتھ چلنے لگا۔ادھر چیتے نے سوچا کہ کسی طرح بھیڑیے کو بھاگا کر میں اسے اکیلا ہی کھاؤں گا۔چنانچہ اس نے تھوڑی دور جا کر بھیڑیے کو زور دار ٹکر مار کر کھائی میں گرانے کی کوشش کی۔مگر جیسے ہی چیتے نے بھیڑیے کو دھکا دیا تو بھیڑیے نے اپنے تیز اور نوکیلے پنجے اس کے جسم میں گاڑ دیئے پھر دونوں ایک دوسرے پر حملہ کرنے لگے اور تھوڑی ہی دیر میں دونوں ہی گہری کھائی میں جا گرے۔میمنہ یہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ دشمن کبھی دوست نہیں ہوتا۔اتنے میں اس کی ماں باقی جانوروں کے ساتھ اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں تک پہنچی تو میمنہ ڈرا سہما اپنی ماں سے لپٹ گیا۔اس نے اسی وقت اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ آئندہ میں کبھی کسی کے کہنے میں نہیں آؤں گا اور کبھی اپنے گھر سے دور نہیں جاؤں گا۔یہ سُن کر اس کی ماں نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ " مور کے پَر - تحریر نمبر 2293,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mor-ke-par-2293.html,"ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک دانا حکیم جنگل میں سے جا رہا تھا۔اُس نے وہاں ایک مور کو دیکھا جو اپنے خوبصورت پروں کے ساتھ جھوم رہا تھا۔اس دوران اُس کا ایک ایک پَر اُس کے جسم سے الگ ہو گیا۔دانا حکیم یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بہت حیران ہوا۔وہ مور کے پاس گیا اور اُس کو مخاطب کرکے کہا:اے اس کائنات کے خوبصورت پرندے!کیا تجھ میں عقل نہیں ہے کہ تو اپنے حسین پروں کو جو خوبصورتی کا شاہکار ہیں،اس بے دردی سے اپنے جسم سے الگ کر رہا ہے۔تیرے یہ خوبصورت پَر جس کو لوگ محفوظ کرکے رکھتے ہیں،ان سے پنکھیاں بنائی جاتی ہیں،کیوں ان کے ساتھ ایسے کر رہا ہے،یہ بہت انمول ہوتے ہیں۔اے نادان تیرے خالق نے تجھے خوبصورت پروں سے نوازا ہے اور تو اپنے خالق کی اس نعمت کو دھتکار رہا ہے۔(جاری ہے)کیا تیرے اندر غرور آ گیا ہے۔جو اپنے رب کی نعمت کو اس طرح سے اپنے جسم سے دور کر رہا ہے۔مور نے حکیم کی یہ باتیں سنیں تو اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ زار و قطار رونے لگا۔مور کے یوں رونے سے حکیم بھی بہت دُکھی ہو گیا اور وہ اپنی باتوں پر نادم ہوا کہ میں نے کیوں اس بچارے مور کا دل دکھی کیا۔مور نے حکیم سے کہا:اے اللہ کے نیک بندے کاش تو میری حالت سمجھ سکتا اور جان سکتا کہ میں نے کیوں ایسا کیا ہے۔تو نے میری بات سنے بغیر ہی مجھے مجرم قرار دے دیا ہے۔حکیم اُس مور کی طرف متوجہ ہوا اور اُس کی باتوں پر غور کرنے لگا۔مور نے کہا کیا تو نہیں جانتا،ہر طرف سے روز ہزاروں بلائیں میرے ان پروں کی وجہ سے میری جان لینے کیلئے آتی ہیں۔ظالم شکاری انہی پروں کیلئے ہر طرف جال بچھاتا ہے۔سنگدل تیر انداز ان پروں کی خاطر ہی میری جان سے کھیلتے ہیں۔ان تمام آفتوں سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے میں نے اپنے تمام پَر اپنے جسم سے الگ کر دیئے ہیں۔اپنے آپ کو بدصورت بنا دیا تاکہ تمام بلائیں مجھ سے دور رہیں۔میرے نزدیک جان کی حفاظت بال و پَر کی حفاظت سے زیادہ ضروری ہے۔شہرت سے گوشہ عافیت چھن جاتا ہے اور شہرت بہت سی بلائیں اپنے ساتھ لاتی ہے۔ " احسان کا بدلہ - تحریر نمبر 2292,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehsaan-ka-badla-2292.html,"روبینہ ناز․․․․کراچیکسی گاؤں میں ایک ماہی گیر رہتا تھا،اُس کی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا،اس لئے اب گھر میں اُس کا صرف ایک بیٹا تھا۔ماہی گیر مچھلیاں پکڑ کر اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ پالتا تھا۔ایک مرتبہ ماہی گیر مچھلیاں پکڑنے کیلئے جا رہا تھا تو اُس کے بیٹے نے اُسے روک کر کہا:”بابا!میں مچھلی تو روز دیکھتا ہوں مگر میں نے آج تک کچھوا نہیں دیکھا،اس لئے آج میرے لئے کچھوا پکڑ کر لانا“۔یہ سن کر ماہی گیر نے اپنے بیٹے سے کہا:”میں کوشش کروں گا،جال میں کچھوا پھنس گیا تو ضرور لے آؤں گا ورنہ معذرت۔“ماہی گیر اپنے گھر سے نکل کر دریا کی طرف روانہ ہو گیا۔دریا کے کنارے پہنچ کر اُس نے اپنا جال نکالا اور دریا میں پھینک دیا۔(جاری ہے)کچھ دیر بعد جب اُس نے جال واپس کھینچا تو اُس میں کچھوا پھنسا ہوا تھا۔یہ دیکھ کر ماہی گیر بہت خوش ہوا۔کیونکہ گھر سے چلتے وقت اُس کے بیٹے نے اُس سے کچھوا پکڑ کر لانے کی فرمائش کی تھی۔ماہی گیر نے کچھوے سے کہا:”میری قسمت بہت اچھی ہے،کیونکہ میرے بیٹے نے مجھ سے کچھوا لانے کا کہا تھا،اب میں تمہیں اپنے بیٹے کو دکھانے کیلئے گھر لے کر جاؤں گا،وہ تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہو گا۔یہ سن کر کچھوے نے بڑی افسردگی کے عالم میں ماہی گیر سے کہا:”مجھے گھر مت لے جاؤ،میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،اگر آپ مجھے گھر لے گئے تو میرے بچے پریشان ہو جائیں گے۔یہ سن کر ماہی گیر کو کچھوے پر ترس آ گیا اور اُس نے کچھوے کو واپس دریا میں چھوڑ دیا۔کچھ عرصہ بعد ماہی گیر بیمار ہو کر دنیا سے رخصت ہو گیا۔کچھ وقت گزرا پھر ماہی گیر کے بیٹے نے اپنے باپ کا مچھلی پکڑنے والا جال اُٹھایا اور دریا پر جا پہنچا۔شروع میں تو اُسے خاصی محنت کرنا پڑی مگر بعد میں اُس کے جال میں مچھلیاں آسانی سے پھنسنے لگیں۔ایک روز وہ دریا کے کنارے اپنا جال ڈالے بیٹھا تھا،ہوا خاصی تیز چل رہی تھی۔یکایک وہ لڑکھڑایا اور اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا تو دریا میں گر کر ڈوبنے لگا۔اُس وقت وہ کچھوا ماہی گیر کے بیٹے کی مدد کیلئے پہنچا اور اُس سے کہا:”آج میں نے تمہارے باپ کے احسان کا بدلہ دے دیا ہے۔ماہی گیر کے بیٹے نے کچھوے سے پوچھا،میرے باپ نے تم پر کیا احسان کیا تھا؟جواب میں کچھوے نے اُسے پورا واقعہ سنا دیا اور کہا،اس طرح میں نے تمہاری جان بچا کر تمہارے باپ کے احسان کا بدلہ اُتار دیا ہے۔ " حسد کی سزا - تحریر نمبر 2291,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hasad-ki-saza-2291.html,"مہوش مختارفیضان پرائمری سکول سے ہی کرکٹ کی بدولت جانا جاتا تھا اور سب کو ہی اُس پر قدرے فخر تھا کہ وہ اتنی چھوٹی عمر سے ہی بہت اچھی کارکردگی دکھا رہا ہے۔پڑھائی میں بھی اے گریڈ لیتا ہے۔آٹھویں جماعت میں فیضان کی کلاس میں ایک بچے نے داخلہ لیا جس کا نام ولید تھا۔ولید اور فیضان کی شروع شروع میں بالکل نہ بنتی تھی۔فیضان اپنی اچھی پرفارمنس کے باعث کسی کو بھی آسانی سے گھاس نہ ڈالتا تھا۔چھ مہینے ہونے کو آئے تو مڈٹرم شروع ہو گئے۔فیضان کرکٹ کی وجہ سے پڑھائی پر توجہ مرکوز نہ کر پایا اور اس بار فیضان نے کلاس میں دوسری اور ولید نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ولید کو اساتذہ کی جانب سے سراہا جانا فیضان کو ایک آنکھ نہ بھایا۔آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی میرے سے آگے کیسے نکل سکتا ہے اور مجھ سے زیادہ میرے اساتذہ ولید کو کیسے سراہ سکتے ہیں۔(جاری ہے)یہ سب باتیں فیضان کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھیں۔جب وہ کرکٹ اکیڈمی میں بیٹنگ کی پریکٹس کر رہا تھا،کوچ نے فیضان کے چہرے کے تاثرات کو دیکھتے ہوئے اُس کی پریکٹس کو روک دیا اور وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی مگر فیضان نے ”نو سر آئی ایم اوکے“ کہہ کر بات کو وہیں ختم کر دیا۔فیضان نے کوچ سے پریکٹس ختم کرنے کی اجازت چاہی تو کوچ نے اُسے آرام کرنے اور تازہ دم ہونے کا کہا۔دو سال گزرنے کے بعد فیضان اب دسویں کلاس کا طالب علم تھا اور ولید نے بھی کوچ کے اسرار پر کرکٹ کھیلنا شروع کر دی تھی۔اُس کی ملاقات کوچ سے محلے کے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلنے کے دوران ہوئی۔کوچ نے ولید کو کرکٹ اکیڈمی میں داخلہ لینے کو کہا اور بتایا کہ ہمارا ایک اور اچھا کھلاڑی ہے جو تمہاری ٹکر کا ہے،اُس نے ہماری کرکٹ اکیڈمی کا نام روشن کرکے رکھا ہے۔اُسے کرکٹ کھیلتے کافی عرصہ ہو گیا ہے اور جنون کی حد تک وہ کرکٹ کھیلنے کا شوقین اور دلدادہ ہے۔تم نے اس سے پہلے کرکٹ کب کھیلنا شروع کی۔سر!بس!بس یوں ہی فری ٹائم میں دوستوں کے ساتھ آ جاتا ہوں کھیلنے مگر کرکٹ میں کیریئر بنانے کے حوالے سے کبھی نہیں سوچا۔تو میں دے رہا ہوں نہ تمہیں موقع تم آنا اس اکیڈمی کو وزٹ کرنا تم پہ کوئی پریشر نہیں ہے۔اگر تمہارا دل چاہے تو خوشی کے ساتھ اکیڈمی جوائن کرو اور اپنے ہنر کو نکھارو۔فیضان منگل کے روز جب اکیڈمی پریکٹس کرنے آیا تو اس نے دیکھا کہ کوچ اُس کی پریکٹس کی ٹائمنگ میں کسی اور کو پریکٹس کروا رہے ہیں۔فیضان حیران ہوا اور کوچ کی جانب بڑھنے لگا۔فیضان نے کوچ کے عقب میں دیکھا تو اُس پر لرزہ طاری ہو گیا اور غصے سے لال پیلا ہو گیا۔کوچ میری پریکٹس کا وقت شروع ہو چکا ہے آپ میری ٹائمنگ میں کسی دوسرے کو کیسے پریکٹس کروا سکتے ہیں۔فیضان!کوچ نے تھوڑی اونچی آواز میں کہا تم کیوں اس طرح کا رویہ اختیار کر رہے ہو وہ بھی کسی کو ملے بغیر اور اُسے جانے بغیر مجھے لگا کہ ولید سے مل کر تمہیں زیادہ خوشی ہو گی اور پریکٹس کرنے میں دُگنا مزہ آئے گا۔بالآخر تمہاری ٹکر کا بھی اس اکیڈمی میں کوئی آیا۔فیضان نے کوچ کی ایک نہ سنی اور وہاں سے چلا گیا۔ولید نے کوچ سے معذرت کی اور کہا کہ سر آپ مجھے اجازت دیں،میں کسی دوسری اکیڈمی میں داخلہ لے لوں گا۔مجھے نہیں لگتا کہ میرا یہاں رُکنا مناسب ہو گا۔کوچ نے ولید سے کہا کہ تم کہیں نہیں جاؤ گے،تم یہیں اسی اکیڈمی میں پریکٹس کرو گے اور ڈسٹرکٹ لیول میں حصہ لے کر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرو گے۔ولید اور فیضان ایک ہی ٹیم میں بیک وقت پریکٹس کیلئے آتے،ولید کی کارکردگی فیضان سے دیکھی نہیں جا رہی تھی۔پہلے سکول اور اب اکیڈمی میں بھی آخر کیوں یہ میری جان نہیں چھوڑ رہا کیوں میرا پیچھا کر رہا ہے۔بریک میں فیضان نے بلاوجہ ولید کو مارنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ یہ ایک بڑے جھگڑے کی شکل اختیار کر گئی۔کوچ نے دو جانب سے واقعے کی تحقیقات کرائیں اور فیضان کو تین مہینے کیلئے اکیڈمی سے نکال دیا۔ولید نے ڈسٹرکٹ لیول پر نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اکیڈمی کا نام فخر سے بلند کیا۔سبق:جو آپ کے پاس ہے اُسے کوئی نہیں چھین سکتا۔تو بہتر یہ ہی ہے کہ دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہوں ناکہ ان سے جلیں اور گمان کرنے لگیں کہ اُس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے جو کہ سراسر غلط امر ہے۔حاسد کو پچھتاوے کا سامنا کرنے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ " کایا پلٹ - تحریر نمبر 2290,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kaya-palat-2290.html,"ساجد کمبوہابوبکر زیادہ خاموش ہی رہتا تھا۔اپنے ہم جماعتوں سے الگ تھلگ اور کسی فکر میں گم رہنا شاید اس کی عادت تھی،لیکن اساتذہ سے بات کرتے ہوئے اس پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی اور یہ بات اس کی شخصیت کو متاثر کر رہی تھی۔وہ ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا،لیکن سکول کا کام وقت پر مکمل کرنے کی عادت پختہ تھی۔کسی نے اسے کلاس میں ٹیچر سے جھوٹ بولتے یا بہانہ کرتے ہوئے نہیں سنا تھا۔کسی سے لڑنا تو دور،اونچی آواز سے بات تک نہیں کی تھی۔شاید یہی وجہ تھی کہ تمام کمزوریوں کے باوجود اسے اساتذہ نے کسی بات پر سزا نہیں دی تھی۔کلاس میں بزم ادب سجتی تو ابوبکر گم صم ہو جاتا اور ٹیچر کی نظروں سے بچنے کی کوشش کرتا۔اس کی کلاس کے لڑکے مختلف سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے،مگر وہ پچھلی نشست پر خاموش بیٹھا رہتا۔(جاری ہے)بزم ادب میں طالب علم لطائف،نظمیں،گانوں کی پیروڈی سناتے اور مختلف مزاحیہ مضامین دلچسپ خبریں پڑھتے لیکن ابوبکر کبھی سامنے نہیں آیا تھا۔چند دن پہلے سکول میں نئے ٹیچر آئے اور یہ محفل سجانا ان کی ذمے داری ٹھہری۔وہ شروع میں تو نئے ٹیچر کی نظروں سے بچا رہا،مگر ایک دن انہوں نے اسے بزم ادب کے لئے تیاری کرنے کا کہہ دیا۔یہ سن کر ابوبکر کے چہرے کا رنگ ہی اُڑ گیا،مگر وہ ان سے کچھ نہ کہہ سکا۔اگلے دن ٹیچر نے اسے بلایا اور کچھ سنانے کے لئے کہا،مگر ابوبکر خاموشی سے کھڑا رہا۔سب طالب علم اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔”ابوبکر!کوئی لطیفہ سنا دو،کسی گانے کی پیروڈی،کوئی اچھا شعر یا کسی موضوع پر تقریر ہی کر دو۔چھوٹی سی بات کہہ دو،جس سے تمہارے ساتھیوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر جائے۔“ٹیچر نے پیار سے کہا،مگر ابوبکر کی نظریں زمین پر گڑی ہوئی تھیں۔اس کی یہ حالت دیکھتے ہوئے ٹیچر نے نرمی سے کہا،”بیٹا بولو،اس طرح تمہارے جھجک دور ہو گی۔اگر اپنی کلاس میں نہیں بولو گے تم میں اعتماد کیسے آئے گا اور زندگی کس طرح گزارو گے؟“انہوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔وہ جان گئے تھے اس میں کہیں کوئی بات ضرور ہے۔یہ لڑکے مجھ پر ہنستے ہیں۔ابوبکر نے ٹیچر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”ہنستے ہیں!یہ کیا بات ہوئی۔“اس میں کلاس میں موجود طالب علموں کی واقعی ہنسی نکل گئی جب کی ابوبکر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ٹیچر نے اسے اپنی نشست پر بیٹھنے کے لئے کہا۔ابوبکر آنسو پونچھتا ہوا اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا۔یوں وہ پیریڈ گزر گیا۔ادھر ٹیچر کو فکر تھی کہ یہ سب کیوں ہوا۔انہوں نے کھوج لگانے کا فیصلہ کیا۔اس کے لئے انہوں نے ابوبکر کے محلے میں رہنے والے ان لڑکوں سے بات کی،جو اسی سکول میں پڑھتے تھے۔انہوں نے بتایا کہا ابوبکر کے بڑے بھائی ہر وقت اس کا مذاق اُڑاتے رہتے ہیں اور اسے بزدل کہتے ہیں۔جب کہ کلاس میں بھی اسے اپنے ہم جماعتوں کی جانب سے اسی قسم کے رویے کا سامنا ہے۔اسی لئے وہ کسی سے بات کرنے سے گریز کرتا ہے اور الگ تھلگ رہنا پسند کرتا ہے۔یہ جان کر ٹیچر کو بہت افسوس ہوا۔انہوں نے کسی طرح ابوبکر کے والد سے ملاقات کی اور کہا گھر والوں کے رویے نے ایک اچھے اور باصلاحیت طالب علم کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے۔اپنے بچے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کی حوصلہ افزائی کریں۔انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بڑے بیٹے کو سمجھائیں کہ وہ ابوبکر کا خیال رکھے۔ابوبکر ماں باپ کے ساتھ ساتھ بڑے بھائی کی توجہ اور پیار کی بھی ضرورت ہے۔یہ سن کر ابوبکر کے والد بہت شرمندہ ہوئے کہا اب ایسا نہیں ہو گا۔انہوں نے گھر جا کر ابوبکر کے بھائی کو سمجھایا۔اس نے فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا اور اپنے والد سے وعدہ کیا کہ وہ چھوٹے بھائی کا خیال رکھے گا۔اب تو پورا گھر ہی ابوبکر کو پیار اور توجہ دے رہا تھا۔ادھر ٹیچر کی طرف سے معمولی معمولی باتوں پر حوصلہ افزائی نے ابوبکر پر بہت اعتماد بخشا۔اب وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اور غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگا۔رفتہ رفتہ اسے زندگی کے سفر میں دوسروں کا مقابلہ کرنے اور کسی بھی مرحلے پر پیچھے نہ ہٹنے کا سلیقہ آ گیا۔آج وہ اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ بیت بازی کے مقابلے میں شریک تھا۔ٹیچر ابوبکر کو یوں ہنستا کھیلتا دیکھ کر خوش تھے۔ان کی چھوٹی سی کوشش سے گویا ابوبکر کی کایا پلٹ گئی تھی۔اتنے میں چپڑاسی نے کہا آ کر کہ اسے پرنسپل صاحبہ نے بلایا ہے۔وہ سکول کے سالانہ فنکشن کے موقع پر اسے ایک اہم ذمے داری سونپنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ " نعمتوں کی قدر - تحریر نمبر 2289,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naimaton-ki-qadar-2289.html,"عائشہ عثمانمریم تھکی ہاری سکول سے گھر آئی اور گھر میں داخل ہوتے ہی زور زور سے چلانا شروع کر دیا۔امی!جلدی سے کھانا دیں۔آپ نے آج کیا پکایا ہے؟بتائیں مجھے سخت بھوک لگ رہی ہے۔امی نے اُس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا:”مریم کیا تمہیں پتہ نہیں ہے کہ جب گھر میں داخل ہوتے ہیں تو سلام بھی کرتے ہیں اور تم نے چلانا شروع کر دیا ہے اور آج تو سب چیزیں بھی اِدھر اُدھر پھینک دی ہیں،پہلے یونیفارم تو تبدیل کر لو پھر آ جاؤ میں کھانا لگا رہی ہوں۔“جب وہ یونیفارم بدل کر آئی تو کھانا لگ چکا تھا۔مریم نے دیکھتے ہی منہ بنا لیا اور کہا:”مجھے نہیں کھانا ایسا کھانا،کبھی تو اچھی چیز بنا لیا کریں،آپ کو معلوم ہے میں یہ آلو بینگن نہیں کھاتی۔ہر روز سبزی ہر روز سبزی۔(جاری ہے)مریم کی امی نے کہا:”بیٹا اللہ کا شکر ادا کرو کہ ہمیں دال،سبزی اور گوشت مل جاتا ہے،اُن لوگوں کو دیکھو،جو اس سے بھی محروم ہیں“۔انہوں نے سمجھایا مگر پھر بھی اُس نے اپنی امی کی بات نہ مانی اور کھانا کھائے بغیر ہی اُٹھ کر چلی گئی۔مریم ایک نہایت ذہین لڑکی تھی،بس کھانے کے معاملے میں اپنی امی کو تنگ کرتی تھی۔وہ اگلے روز سکول گئی تو اُس کے سکول میں عید ملن پارٹی تھی وہ بہت خوش تھی۔راستے میں وہ اپنی دوستوں کے ساتھ آ رہی تھی کہ اُس کا گزر کچرا کنڈی سے ہوا تو اُس نے وہاں کچھ بچوں کو کچھ چنتے ہوئے دیکھا۔اُس نے آگے بڑھ کر جب بچوں سے پوچھا تو وہ حیران رہ گئی جب ایک بچے نے آگے بڑھ کر بتایا وہ اس کچرے میں سے روٹی اور ڈبل روٹی کے ٹکڑے کھانے کیلئے چن رہے ہیں۔“تمہارے گھر میں دال،سبزی نہیں پکتی کیا؟“مریم نے اُس سے سوال کیا۔”نہیں!ہم غریب لوگ ہیں،ہمارے پاس کھانے پکانے تک کے پیسے نہیں ہیں“۔ایک بچے نے جواب دیا تو مریم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔آج جب وہ گھر پہنچی تو نہ کوئی سوال تھا نہ کوئی نخرہ یا مطالبہ۔امی نے مریم کو کھانے کیلئے آواز دی تو وہ باہر نہیں آئی۔اُدھر کمرے میں بیٹھی وہ اپنا اور اُن بچوں کا موازنہ کر رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے کتنی نعمتیں دی ہیں اور میں اُن نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتی۔وہ اپنی اتنی اچھی زندگی کا ہر لحاظ سے شکر ادا کر رہی تھی۔اچانک امی نے مریم کے کمرے میں دیکھا تو وہ رو رہی تھی۔امی نے جب مریم سے پوچھا تو اُس نے سارا واقعہ بتا دیا اور کہا آئندہ میں ہر چیز کھاؤں گی اور کبھی کھانے سے انکار نہیں کروں گی اور نہ ہی اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کروں گی۔اُس کی امی خوش تھیں کہ مریم کو اللہ کی شکر گزاری کی توفیق نصیب ہوئی اور ہدایت ملی۔اس لئے پیارے بچو!ہمیں ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اُس نے ہمیں کتنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ " اللہ سے نزدیک - تحریر نمبر 2288,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/allah-se-nazdeek-2288.html,"نور فاطمہ،لاہورمیری چھوٹی بہن فاطمہ ہر وقت مجھ سے عجیب و غریب سوال پوچھتی ہے،میں جب بھی گھر کے کسی کام میں مصروف ہوتی ہوں تو وہ ہر چیز کے متعلق مجھ سے سوال کرتی ہے۔بعض اوقات میں اُس کے سوالات کا جوابات دے دیتی ہوں مگر اکثر میں اُس کے سوالات کی بوچھاڑ سے تنگ آ کر اُسے ڈانٹ بھی پلا دیتی ہوں۔اُس کے سوال بھی تو عجیب نوعیت کے ہوتے ہیں کہ آپی مائرہ!جب انڈا اُبالتے ہیں تو بھاپ کیوں نکلتی ہے؟مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ یہ سوالات اس کی ذہانت کی دلیل ہیں۔کل دوپہر کو جب فاطمہ سکول سے واپس آئی تو اُس نے مجھ سے بڑے تجسس سے سوال کیا کہ آپی!آج مجھے ٹیچر کی ایک بات سمجھ نہیں آئی،اُنہوں نے بتایا کہ اللہ سے دوری ہماری ناکامی یا تباہی کا سبب بنتی ہے،مگر آپی!اللہ تعالیٰ تو آسمان پر ہوتا ہے اور ہم زمین پر،تو پھر ہم اللہ سے دور ہی ہیں۔(جاری ہے)ٹیچر نے یہ بات کیوں کہی؟میں نے جواب دیا:”فاطمہ اللہ ہر جگہ موجود ہوتا ہے وہ صرف آسمان پر موجود نہیں ہوتا ہے بلکہ اُس کی موجودگی ہر شے میں جھلکتی ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔اب آپ خود دیکھو کہ انسان کی شہہ رگ اُس سے کتنی دور ہے۔اُس سے دوری سے مراد اُس کی ذات سے دوری نہیں بلکہ اُس کے احکامات سے دوری ہے۔جیسے اُس نے ہم پر نماز فرض کی،روزے فرض کئے اور بہت سے کام ہمارے ذمے لگائے لیکن افسوس ہم اُس کے احکامات کو بجا نہیں لاتے ہیں۔اس طرح اُس کے احکامات سے دوری ہماری تباہی کا باعث بنتی ہے۔فاطمہ میری بات بہت غور سے سن رہی تھی اور پھر بولی:”آپی!آج کل ہم سب بہت سی برائیوں میں ملوث ہیں جیسے ہم جھوٹ بولتے ہیں،چوری،غیبت اور مکاری کرتے ہیں اور اللہ کے احکامات کی تعمیل نہیں کرتے ہیں تو ہم سب اللہ سے دور ہی ہیں ناں؟میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اُس نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بتاہی کا شکار ہو رہا ہے۔رات کو جب میں سونے کیلئے اپنے بستر پر آئی تو مجھے اُس کی بات یاد آئی اور میں نے محسوس کیا کہ واقعی ہم اللہ سے دور ہو گئے ہیں۔اُس کے احکامات سے منہ موڑ بیٹھے ہیں۔ہمارے معاشرے میں چوری،جھوٹ،قتل،و غارت،مکاری،غداری اور دہشت گردی عام ہے۔یہ سب باتیں تو اللہ سے دوری کی ہی دلیل ہیں۔پھر میں نے اللہ سے دعا مانگی کہ اے اللہ!ہمیں اپنے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا کر۔ " ضمیر کی خلش - تحریر نمبر 2287,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zameer-ki-khalish-2287.html,"ساجد کمبوہوہ آج نہ چاہتے ہوئے بھی کالج جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی۔اسے کوئی جلدی نہ تھی۔اس کی مما کو دو تین دن پہلے پتہ چل گیا تھا کہ کلاسز سٹارٹ ہو گئی ہیں۔انہوں نے سختی سے کہا تھا کہ وہ آج سے کالج ضرور جائے،پہلے ہی ایک سال ضائع ہو چکا ہے اب دوبارہ اسی کلاس سے سٹارٹ کرنا ہے اگر کلاس اٹینڈ نہیں کرو گی تو پاس کیسے ہو گی؟اس نے ہلکا پھلکا ناشتہ کیا،بیگ پکڑا اور تھکے تھکے قدموں سے کالج کی طرف روانہ ہو گئی۔تقریباً چار مہینے پہلے کا دن یاد آنے لگا جب داخلہ کی آخری تاریخ تھی اس کی ماما نے کئی ماہ کی بچت سے اس کے لئے داخلہ فیس کا بندوبست کیا تھا وہ فارم نتھی کر رہی تھی کہ کسی نے اس کے داخلہ فیس چرا لی،وہ داخلہ فیس سے محروم ہو گئی،اس کا بُرا حال تھا اس نے بہت ڈھونڈا بلکہ کئی فرینڈز نے ساتھ مل کر دوسری بچیوں کے بیگز جیومیٹری بکس اور کتابیں وغیرہ دیکھیں مگر داخلہ فیس کو آسمان کھا گیا یا زمین،کچھ نہ پتا چلا۔(جاری ہے)اس نے گھر آ کر نہ بتایا کیونکہ اس کی ماما نے کئی ماہ بچت سے اسے داخلہ فیس دی تھی وہ روتی ہوئی گھر آئی جب اس کی ماما نے پوچھا تو اس نے طبیعت خراب کا بہانہ کر دیا۔اسے علم تھا کہ اس کی ماما کی دوبارہ فیس دینے کی سکت نہیں ویسے بھی آج آخری تاریخ تھی۔اس میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اپنی ماما کو حقیقت بتائے۔ڈیٹ شیٹ آئی اس نے اپنی فرینڈ سے لے کر اس کی فوٹو کاپی بنوا لی اور امتحان کی تیاری کرنے لگی اسے پڑھتا دیکھ کر اس کی ماما بہت خوش تھی کہ بیٹی محنت کر رہی ہے۔وہ ڈیٹ شیٹ کے مطابق پیپر کے لئے بھی گئی۔اس کے بعد بھی کئی اک چوریاں ہوئیں کچھ لڑکیوں کا پتہ بھی چلا مگر اب کیا فائدہ وہ داخلہ سے رہ گئی تھی چونکہ ویمن کالج تھا کسی کو اندر جانے کی بھی اجازت نہ تھی۔وہ وقت کے مطابق آتی،ایک طرف ہو کر بیٹھ کر پڑھنے لگتی اور مقررہ وقت پر گھر آ جاتی۔والدہ کو بتاتی کہ پیپر آؤٹ کورس آ رہے ہیں والدہ حکومت اور پیپر بنانے والے کو کوستی تھیں کہ پڑھایا ہے اس سے پیپر کیوں نہیں لیتے یوں تمام پیپرز ہو گئے اور مقررہ تاریخ پر رزلٹ آ گیا اس نے خود ہی کہہ دیا کہ تین مضامین میں سپلی آئی ہے۔بہتر ہے دوبارہ تیاری کرکے سارے پیپرز دوں۔مرتا کیا نہ کرتا گھر والے مان گئے دو چار دن طنز کے تیر چلائے پھر نارمل ہو گئے اور پڑھنے کے لئے اس کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔سوچوں میں گم کالج گیٹ پہنچ گئی اس نے ٹشو سے آنسو صاف کیے اور گیٹ سے اندر داخل ہو گئی۔وہ فرسٹ ایئر میں اپنی کلاس میں گئی بہت سی نئی بچیاں شور کر رہی تھیں کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی سب خوش نظر آ رہی تھیں ابھی ایک دوسرے سے تعارف کا سلسلہ چل رہا تھا کون سے سکول سے آئی ہو اور کتنے مارکس ہیں؟وہ دیکھ کر حیران رہ گئی تھی ان میں شبانہ بھی تھی دوسری لڑکیاں تو اس کی طرف لپکیں مگر شبانہ نے منہ دوسری طرف کر لیا۔وہ حیران تھی کہ ان میں شبانہ کیوں ہے؟وہ تو کافی ہوشیار لڑکی تھی۔ہیلو شبانہ کیسی ہو؟ادھر کدھر آئی ہو؟مشعل کا کیا حال ہے؟تمہاری سروج کیسی ہے بھئی تمہارے کتنے مارکس تھے۔اس نے ایک ہی سانس میں پوچھا۔شبانہ نے اپنے بارے میں بتانے کے بجائے اس سے پوچھا تم یہاں کیسے ہو؟”میں تو اس کلاس میں رہ گئی تھی تمہیں پتہ ہے کہ آخری تاریخ کو میری داخلہ فیس کسی نے نکال لی تھی جس کی وجہ سے میں پیپر نہ دے سکی۔میرا ایک قیمتی سال ضائع ہو گیا اور تم سناؤ تم کسے ملنے آئی ہو؟“”میں بھی اسی کلاس میں ہوں میں تقریباً تمام مضامین میں فیل ہو گئی میرا رجسٹریشن اور دوبارہ داخلہ ہوا ہے جس کی وجہ سے میرا ڈھائی تین ہزار خرچہ آیا۔“”اوہ!مگر تم تو کافی ہوشیار اور چالاک تھی یہ کیسے․․․․․؟“”ہاں بھئی!یہ مجھے میرے کیے کی سزا ملی ہے۔“”کیا مطلب؟کیسی سزا؟اس نے حیرانگی سے پوچھا۔”یار میرے ضمیر پر بوجھ ہے تمہارے“ شبانہ نے آنکھیں نیچی کرکے کہا ”تمہاری داخلہ فیس کے پیسے میں نے چرائے تھے۔“ جب تمہارا داخلہ نہ ہو سکا اور تم پیپروں کے دوران بنچ پر بیٹھتی تو میرا دل خون کے آنسو روتا مگر میں وہ پیسے خرچ کر چکی تھی اور جب پیپر میرے سامنے آتا مجھے کچھ سجھائی نہ دیتا جواب آنے کے باوجود کچھ نہ لکھ پاتی۔میری اصلاح کرنے والا کوئی نہ تھا دوسرا میرے گروپ میں ثمرہ شامل ہو گئی جس نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا اور بہت بد دعائیں سمیٹیں اس وقت ہمیں اندازہ نہ تھا کہ یہ اتنا بڑا فعل ہے میں تو فیل ہو گئی مگر ثمرہ نقل کرتے ہوئے پکڑی گئی نگران سے اس نے بدتمیزی کی تو اس نے اس سے پیپر لے لیا اور امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا اور اسے سکول سے نکال دیا۔یہ سب سن کر کرن بولی۔شبانہ میں تمہیں معاف کر چکی اب اللہ سے معافی مانگو اور دوبارہ ایسا فعل نہ کرنا آؤ مل کر محنت کریں اگر صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے دونوں فرینڈز ایک بینچ پر بیٹھ گئیں۔دیکھا بچو!چوری کرنا کتنی بُری بات ہے چور کو اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کے اس فعل سے کسی کا کتنا نقصان ہوتا ہے۔ " شکریہ بابا - تحریر نمبر 2286,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shukriya-baba-2286.html,"روبینہ انصار علی”آٹھویں جماعت میں پہنچ گیا ہے،مگر اسکول سے شکایات آنا بند نہیں ہوئیں آخر یہ کرے گا کیا؟دن بھر موبائل موبائل!“مڈٹرم ٹیسٹ میں انتہائی کم نمبر لینے اور کلاس میں عدم دلچسپی کے باعث ایک بار پھر بابا کو پیرنٹس ٹیچر میٹنگ میں عاشر کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ اُس پر برس پڑے تھے۔”نہیں بابا!وہ․․․․وہ میں!“اس نے صفائی پیش کرنا چاہی۔”کیا وہ․․․!“اسی لمحے بابا کو کھانسی کا دورہ پڑ گیا اور وہ وہاں سے کھسک لیا۔”ہنہ․․․․!اب کھانسیں رات بھر،اللہ جانے دن بھر کتنی سگریٹیں پھونکتے ہیں۔“جب اس کی ٹیچر نے سگریٹ نوشی کے نقصانات پر لیکچر دیا تو اس وقت سے ہی اسے بابا کی کھانسی مشکوک لگنے لگی تھی۔(جاری ہے)وہ بھی اسی طرح کھانستے تھے جیسا ٹیچر نے بتایا تھا۔رعب ایسے جھاڑتے ہیں جیسے خود بڑے قابل ہوں․․․بس پڑھو،پڑھو اور پڑھو۔وہ بستر پر لیٹا مسلسل بڑبڑا رہا تھا۔عاشر اور اس کی بہن شہر کے بڑے اسکول میں زیر تعلیم تھے۔بہن تو پڑھائی میں اچھی تھی،مگر عاشر پڑھنے سے بھاگتا تھا۔یہی غم بابا کو گھائل کر ڈالتا تھا۔عاشر کی کلاس کو مختلف اداروں کے تعلیمی دوروں پر لے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔صبح سے سہ پہر تک دو نامور صنعتوں کا دورہ کروانے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ ابھی وقت ہے کیوں نا ایک معروف کیمیکل انڈسٹری کا دورہ بھی کر لیا جائے،چونکہ اس کے مالک کے اسکول منتظمین سے روابط بھی تھے لہٰذا آسانی سے اجازت مل گئی۔عاشر نے جب اس کیمیکل انڈسٹری کا نام سنا تو چونک گیا کہ اس کے بابا تو اسی کیمیکل انڈسٹری میں کام کرتے ہیں۔تھوڑی دیر بعد تمام بچے انتہائی ٹھنڈے،خوبصورت اور آرام دہ فرنیچر سے مزین بڑے سے ہال میں موجود تھے۔اوہ․․․․!تو یہاں مزے کرتے ہیں دن بھر․․․․گھر آ کر کیسے کہتے ہیں کہ تھک گیا ہوں․․․․اے سی میں رہتے ہیں اور ماما ہمیں ایسے جتلاتی ہے جیسے بابا ہم پر بڑا احسان کر رہے ہوں۔نجانے مجھے کچھ عرصے سے اپنے بابا کیلئے اس کے دل میں کہاں سے اتنی عداوت آ گئی تھی۔تمام بچوں کو گروپ میں تقسیم کرکے فیکٹری کے مختلف حصوں سے متعارف کروانے کا عمل شروع ہوا۔کئی ٹھنڈے کمروں،پر آسائش راہدریوں سے گزر کر جیسے ہی اصل مقام تک آئے،تمام بچوں نے ناک پر ہاتھ رکھ لیا کہ کیمیکل کی بو ناقابل برداشت تھی۔اگلے ہی لمحے تمام بچوں کو حفاظتی چشمے اور ماسک فراہم کئے گئے،مگر جیسے جیسے آگے بڑھتے جا رہے تھے،گھٹن کا احساس بڑھتا جا رہا تھا پھر ایک ایسا ہال آیا جہاں اندر جانا منع تھا حتیٰ کہ وہاں کے ورکر انتہائی حفاظتی وردی پہنے ہوئے تھے۔یار عاشر!ہال کا دروازہ کھولنے پر کیسی آگ سی محسوس ہوئی ہے اور بدبو بھی!اوہو کیسے کام کرتے ہوں گے یہ لوگ یہاں پر․․․․!جہنم ہے جہنم!ہاں یار!واقعی میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔عاشر نے اپنے دوست کی تائید کی۔ابھی یہ آگے ہی بڑھے تھے کہ بابا کی آواز پر عاشر چونکا۔یہ میرا بیٹا عاشر ہے۔بابا نے اس خطرناک ہال سے نکل کر وردی کا اوپری حصہ اُتار دیا تھا اور اپنے دوست کو متعارف کروا رہے تھے۔اس نے محسوس کیا کہ بابا کے لہجے میں کافی فخر تھا۔بابا اتنی خوشی سے کیوں بتا رہے ہیں جبکہ میں تو․․․!اسے اپنے نکمے پن کا احساس تو تھا نا․․․․!سلام دعا کے بعد بابا اور ان کے دوست آگے بڑھ گئے،مگر وہ بابا سے تصدیق کرنا چاہتا تھا کہ کیا وہ واقعی اس ”جہنم“ میں ڈیوٹی دیتے ہیں؟تم اپنے بیٹے کو اتنے مہنگے اسکول میں پڑھوا رہے ہو۔نہ جانے کیوں پیچھے آتے سوال کرتے عاشر کی زبان انکل کے سوال پر رُک گئی۔بس یار!میرا خواب ہے میں چاہتا ہوں میرا بچہ کل میری جگہ پر نہ ہو بلکہ ہمارے افسروں کی جگہ پر ہو۔بابا کی آواز میں کتنی آرزوئیں پنہاں تھیں۔تو تم اس کی فیسوں کو پورا کرنے کے لئے یہاں اوور ٹائم کرتے ہو،جہاں ہمارا آٹھ گھنٹے کام کرنا مشکل ہے۔یار!اتنی مشکل میں تو نہیں ڈالو اپنے آپ کو۔“”نہیں میرے بچوں کا روشن مستقبل میری نظروں کے سامنے رہتا ہے نا تو میں تمام حبس،بو،اپنا دمہ سب کچھ بھول جاتا ہوں۔“بابا کسی جذبے سے سرشار کہے جا رہے تھے۔”دمہ!“عاشر پر تو گویا آخری جملہ بجلی بن کر گرا۔اُف تو․․․․!اس کے قدم وہیں جم گئے حتیٰ کہ بابا اور ان کے دوست نظروں سے اوجھل ہو گئے۔مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میںمیں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کے روپ میںپیارے بابا!آپ ہمارے لئے اتنی محنت کرتے ہیں۔میں بھی آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آج سے پوری لگن سے پڑھوں گا اور آپ کے تمام خواب پورے کروں گا۔میری پچھلی تمام کوتاہیوں کو معاف کر دیں۔آپ کا عاشر۔اس نے ایک کارڈ بنایا اور بابا کے تکیے کے نیچے رکھ دیا کیونکہ فی الحال بابا کے سامنے جانے کی ہمت نہ تھی۔پیارے بچو!اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے والدین کی قدر کرنی چاہیے۔باپ جو زمانے کے سرد و گرم برداشت کرتے ہوئے مسلسل ایک مشین کی طرح کام کئے جاتا ہے تاکہ اس کے جگر گوشوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ان کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہے۔جو اولاد کے سکھ،خوشحالی،تعلیم،صحت اور روشن مستقبل کی خاطر سخت محنت کرتے زندگی گزار دیتا ہے۔صبح سے شام تک رزق کی خاطر ہزار صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود بچوں کو دیکھتے ہی اپنی تھکن بھول جاتا ہے۔آپ کو بھی چاہیے کہ ان کی خواہش کا خیال رکھیں محنت سے پڑھیں۔ان کے آرام کا خیال رکھیں۔ " غلطی کا احساس - تحریر نمبر 2285,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghalti-ka-ehsas-2285.html,"شاہ بہرام انصاری،ملتان”یہ کیا لفظ استعمال کیا تم نے بڑوں سے اس طرح بات کرتے ہیں۔“دادی نے فواد سے سخت لہجے میں کہا۔”دادی اس میں کیا برائی ہے۔“فواد نے بے پروائی سے جواب دیا اس طرح نہیں بولتے میں تمہاری دادی ہوں۔وہ اسے ڈانٹتے ہوئے بولیں،فواد کی زبان پر عجیب قسم کے الفاظ چڑھ گئے تھے وہ دوران گفتگو عامیانہ جملے ادا کرنے لگا تھا۔”اچھا دادی جان آئندہ نہیں کہوں گا۔“فواد نے کہا اور کھیلنے کیلئے باہر نکل گیا۔فواد کی امی کی وفات کے بعد دادی جان نے اس کی پرورش کی ذمہ داری سنبھال لی اور اسے کبھی ماں کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ادھر فواد کے والد صہیب اپنے بیٹے کی اچھی تعلیم و تربیت کیلئے سخت محنت کرتے۔لیکن ان کے گھر کے اردگرد کا ماحول اچھا نہ تھا۔(جاری ہے)زیادہ تر لوگ ان پڑھ اور طرح طرح کی اخلاقی برائیوں کا شکار تھے۔ان لوگوں کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے سے فواد کی پڑھائی‘عادات اور مزاج پر بھی گہرا اثر پڑا۔اب وہ کھیل کود میں زیادہ اور پڑھائی میں کم دلچسپی لیتا۔ایک بڑی پریشانی یہ تھی کہ وہ اپنی گفتگو میں بُرے الفاظ استعمال کرتا اور اپنے دوستوں سے گالیاں دے کر بات کرنے لگا تھا۔دادی اماں نے صہیب کو یہ سب بتایا تو وہ بھی فکر مند ہو گئے۔ان دنوں فواد کالج میں داخلہ لینے کیلئے کوشش کر رہا تھا اور آج ایک اچھے کالج میں داخلے کیلئے انٹرویو دینے گیا۔فواد کی باری آئی تو وہ پورے اعتماد سے ان کے سامنے پہنچا۔پرنسپل صاحب سے بات کرتے ہوئے ایک سوال کا جواب فواد نے نہایت عامیانہ انداز میں دیا اور اس دوران بُرا لفظ بھی اس کے منہ سے نکل گیا۔اس پر پرنسپل صاحب نے کہا ہم تم جیسے بد اخلاق لڑکے کو داخلہ دے کر اپنے کالج کا ماحول خراب نہیں کریں گے۔“اب تم جا سکتے ہو۔پرنسپل صاحب نے فیصلہ سنا دیا فواد کمرے سے نکل گیا۔وہ گھر پہنچا تو دادی اس کا اُترا ہوا چہرہ دیکھ کر شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔”دیکھو بیٹا!زندگی میں اگر ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اسے دور کر لیں تو یہی بات ہماری کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے۔“دادی نے پیار سے کہا تم کسی دوسرے کالج میں داخلہ لے سکتے ہو اب اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے آگے بڑھو۔کامیابی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔دادی نے مسکراتے ہوئے کہا تو فواد نے ان سے معافی مانگی اور کہا کہ وہ اب بُرے لڑکوں کی صحبت سے دور رہے گا اور ہر چھوٹے اور بڑے سے اچھے طریقے سے بات کرے گا۔ " بڑھاپے کا سہارا - تحریر نمبر 2284,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/burhapay-ka-sahara-2284.html,"شیخ معظم الٰہی،لاہورزمان اپنے ماں باپ کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا تھا۔اس کے والدین اس کی ہر خواہش کو پوری کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔زمان کے والد کافی مالدار تھے۔ان کا گھر چونکہ بڑا تھا اور زمان کا چچا غریب تھا۔اس لئے زمان کے والد نے اپنے بھائی کو گھر کا کچھ حصہ رہنے کے لئے دے دیا تھا۔ایک دن جب زمان سکول سے گھر واپس آیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے امی ابو کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا ہے۔زمان پر تو قیامت ٹوٹ پڑی۔کچھ دن تو سوگ میں گزرے پھر روزمرہ کا معمول شروع ہو گیا۔اب اس کے چچا نے زمان کے گھر پر قبضہ کر لیا۔اس کا رویہ زمان سے اچھا نہ تھا اور چچا اسے اپنے راستے کا پتھر سمجھتا تھا آخرکار ایک دن اس نے زمان کو گھر سے نکال دیا۔زمان نے بہت احتجاج کیا مگر کسی نے اس کی نہ سنی۔(جاری ہے)اس بات کو آج تین دن ہو گئے تھے۔زمان بھوک سے نڈھال تین دن سے سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا تھا۔پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے تھے۔اسے اپنی بے بسی پر رونا آ گیا۔وہ سڑکوں پر بھاگتا ہوا ایسے علاقے میں پہنچ گیا،جہاں پر رہائشی بنگلے بنے ہوئے تھے اور وہ علاقہ نسبتاً سنسنان تھا۔زمان نے تیزی سے بھاگنا شروع کر دیا۔وہ ایک گلی سے دوسری گلی تک بھاگتا رہا اور آخر ایک بنگلے کا گیٹ کھلا دیکھ کر اس میں گھس کر باغ میں چھپ گیا۔کافی دیر بیٹھے رہنے سے اسے نیند آ گئی۔رات کو اس بنگلے کے چوکیدار نے اسے دیکھا تو اپنے مالک کو بلا لیا۔مالک نے آ کر دیکھا تو زمان بخار سے تپ رہا تھا۔لہٰذا مالک نے چوکیدار کی مدد سے زمان کو اُٹھایا اور گھر کے اندر لا کر پلنگ پر لٹا دیا۔اتنے میں زمان کی آنکھ کھل گئی۔مالک کی بیگم نے اسے دوائی کے ساتھ دودھ دیا اور سلا دیا۔دونوں میاں بیوی کو بچے پر رحم آ گیا تھا۔صبح زمان نے اُٹھ کر ناشتہ کیا تو اس نے اپنے آپ کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کیا۔بیگم نذیر راٹھور نے پہلے تو اس کے حال احوال دریافت کیا پھر اس سے ساری بات پوچھی کہ وہ یہاں کیسے آیا؟اور اس کے ماں باپ کہاں ہیں؟زمان ذرا سی ہمدردی پا کر پگھل گیا اور انہیں سارا ماجرا کہہ سنایا۔بیگم نذیر راٹھور کو بیحد دکھ ہوا۔انہوں نے زمان کو اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔کیونکہ وہ بے اولاد تھیں۔غرض یہ کہ زمان ان کے گھر میں رہنے لگا۔نذیر راٹھور اور ان کی بیگم زمان کو بالکل اپنا بیٹا سمجھنے لگے۔زمان نے اب سکول جانا شروع کر دیا۔آخرکار ایک دن ایسا آیا۔جب زمان ڈاکٹر بن گیا۔نذیر راٹھور اور ان کی بیگم کو بہت خوشی ہوئی۔ایک دن زمان ہسپتال میں تھا اور ایک مریض جس کی حادثہ میں دونوں ٹانگیں ضائع ہو چکی تھیں۔اس کی نبض دیکھ رہا تھا۔مریض نے زمان کو پہچان لیا اور اس کا چہرہ اپنے قریب کرکے پوچھا۔بیٹا مجھے پہچانا میں تمہارا چچا ہوں۔زمان نے یہ سنا تو اپنا منہ پھیر لیا۔مریض نے زمان سے کہا کہ بیٹا مجھے معاف کر دو۔مجھے اپنے کئے کی سزا مل گئی ہے۔زمان نے چچا کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں بے چارگی دیکھ کر زمان نے انہیں معاف کر دیا۔اتنے میں نذیر راٹھور نے آواز دی کہ زمان!کہاں ہو تم؟میں تمہیں ہسپتال میں تلاش کر رہا ہوں اور تم کہاں ہو؟اچانک زمان کو ایک اجنبی کے سینے پر سر رکھے دیکھ کر چونکے۔مریض کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔زمان نے نذیر راٹھور کو ساری بات بتا دی۔زمان کے چچا نے بتایا کہ اس کی اولاد اسے چھوڑ کر چلی گئی وہ اور زمان کی چچی آج کل بڑی مشکل سے زندگی گزار رہے ہیں۔زمان نے اپنے چچا سے کہا کہ آپ اور چچی جان آج سے میرے ساتھ رہیں گے۔کیونکہ میرا اور آپ کا خون کا رشتہ ہے۔اور میں آپ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔نذیر راٹھور نے بھی زمان کی ہاں میں ہاں ملائی۔اسی طرح زمان کو اس کا چچا اور چچی کو بڑھاپے کا سہارا مل گیا اور یوں سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ " سمجھدار سعد - تحریر نمبر 2283,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/samjhdar-saad-2283.html,"روبینہ ناز،کراچی”سعد بیٹا!کیا کر رہے ہو؟“ سعدی کی امی ایک دم اس کے کمرے میں داخل ہوئیں تو دیکھا کہ وہ کاپیوں کے صفحے پھاڑ پھاڑ کر ان سے مختلف چیزیں بنا رہا تھا۔”کچھ نہیں امی“۔سعد نے ایک دم سب چیزیں چھپا دیں۔”کتنی بُری بات ہے ایک تو آپ اپنی کاپیوں کے صفحے پھاڑ رہے ہو اور پھر چھپا کر جھوٹ بھی بول رہے ہو،دکھاؤ کیا بنایا ہے۔“ امی نے ڈانٹا تو سعد نے ڈرتے ڈرتے تمام چیزیں اپنی امی کو دکھا دیں،کسی صفحہ کا اس نے جہاز بنایا ہوا تھا اور کسی کا پنکھا،کئی صفحوں پر تو بہت ہی عجیب چیزیں بنی ہوئی تھیں۔سعد میں نے کتنی بار سمجھایا ہے کہ اپنی کاپیوں کے صفحے نہ پھاڑا کرو،ہمت کرکے سعد اپنی امی سے بولا ”امی آپ کو پتہ ہے ناں مجھے نئی نئی چیزیں بنانے کا شوق ہے،میرا دل کرتا ہے ویسا ہی جہاز بناؤں جیسا آسمان پر اُڑتا ہے،نئی نئی چیزوں کو تخلیق کروں،بہت بڑی عمارتوں کے خاکے تیار کروں اور پھر میری تخلیق کی ہوئی ہر چیز بہت مشہور ہو جائے،اس لئے میں یہ سب چیزیں بناتا ہوں۔(جاری ہے)“یہ تو ٹھیک ہے بیٹا لیکن آپ جو کہہ رہے ہو وہ غلط ہے،آپ کو اس کیلئے بہت انتظار کرنا پڑے گا۔جو بچے اپنی چیزوں کی حفاظت اور قدر نہیں کرتے وہ زندگی میں کوئی بھی اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتے۔وہ وقت جلد ہی آئے گا جب اپنے خیالات کو عملی جامہ پہناؤ گے لیکن آئندہ سے مجھے یہ کتابوں کاپیوں کے صفحے پھٹے ہوئے نہ ملیں۔امی نے سعد کو سمجھاتے ہوئے کہا۔میں وعدہ کرتا ہوں آئندہ آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی،میں اپنا سکول بیگ اور کمرہ بالکل صاف رکھوں گا،تب ہی تو میں ایک کامیاب انجینئر بنوں گا۔”سعد نے سمجھداری سے جواب دیا۔“باکل اب آپ اپنی کاپیوں کو ٹھیک کرنا شروع کر دیں۔امی نے مسکرا کر سعد کو گلے لگا لیا اور دونوں مسکرانے لگے۔ " بدلہ نہیں لیتے - تحریر نمبر 2282,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badla-nahi-lete-2282.html,"محمد ابوبکر ساجد،پھولنگرننھی مہک بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ سونی نے اس کے اوپر ریت پھینک دی،آمنہ نے کہا‘سونی پر تم بھی ریت پھینکو اور ہم مل کر اسے مارتے ہیں ”مہک نے کہا“ نہیں بدلہ نہیں لیتے۔مہک بہت معصوم اور سادہ اچھی بچی تھی وہ ہر وقت صاف ستھری اور نکھری نکھری رہتی تھی،وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے۔اس کی تربیت بہت اچھے طریقے سے ہو رہی تھی۔اس میں کوئی بھی بری عادت نہ تھی نہ کبھی وہ کسی سے لڑتی تھی،نہ گالی گلوچ کرتی تھی بلکہ بچوں کو بری باتوں سے روکتی تھی وہ ہر ایک سے پیار سے بات کرتی،بڑوں سے ادب سے پیش آتی،ہر کام شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھتی،کوئی بھی چیز کھا کر شکر اللہ کہتی،اس کے معصوم سے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ کھلی رہتی تھی۔(جاری ہے)وہ راستے میں ہر رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرتی تھی،کوئی کیلے کا چھلکا،جھاڑی یا پتھر پڑا ہوتا اسے ہٹا دیتی،راہ چلتے جس سے بھی ملتی،سلام کرتی،اتنی چھوٹی عمر میں اس نے بہت سی اچھی باتیں سیکھ لی تھیں۔مہک کے پاپا حسن کا بزنس پارٹنر سیٹھ اکرم سے جھگڑا ہو گیا چونکہ ان کا پارٹنر لالچی اور بلیک میلر شخص تھا،اس نے حسن سے بدلہ لینے کیلئے چند غنڈوں کے ذریعے مہک کو اغوا بھی کروایا،ننھی مہک سہم کر رہ گئی،سیٹھ اکرم نے جب ننھی مہک کی بات فون پر اس کے پاپا سے کروائی کہ مہک ان کے پاس ہے،اگر اپنا فراڈ کا بیان واپس لے جو میں نے فراڈ کیا ہے تو میں تمہاری بیٹی کو صحیح سلامت واپس کر دوں گا۔تم جانتے ہو کہ میں بدلہ لینا خوب جانتا ہوں،حسن علی نے مہک کی آواز فون پر سُن کر سیٹھ اکرم سے وعدہ کر لیا کہ وہ اپنا بیان واپس لے لے گا کیونکہ انہیں مہک کی زندگی اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری تھی۔مہک نے سیٹھ اکرم سے کہا انکل بدلہ نہیں لیتے،بدلہ لینا بری بات ہے،آپ اگر میرے پاپا سے بدلہ نہیں لیں گے تو کوئی اور بھی آپ سے بدلہ لے سکتا ہے۔سیٹھ اکرم ننھی منی سی بچی کی زبان سے اتنی پختہ باتیں سُن کر حیران رہ گیا اس نے مہک کو گود میں اُٹھایا،پیار کیا اور کہا بیٹا مجھے معاف کر دو میں آئندہ کبھی کسی سے بدلہ نہیں لوں گا۔یہ کہہ کر اس نے مہک کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور گھر چھوڑ آیا اور حسن علی سے معافی مانگی اور مہک کی بات بھی بتائی اور اس طرح ایک بھٹکے ہوئے انسان کو ننھی بچی نے سیدھی راہ دکھائی۔ " کوّا بنا مور - تحریر نمبر 2281,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kawa-bana-mor-2281.html,"محمد ابوبکر ساجد،پھولنگرایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک کوے کو جنگل کی سیر کا شوق پیدا ہوا تو وہ کوا اُڑتا اُڑتا ایک جنگل میں چلا گیا۔جب وہ وہاں پہنچا تو اس نے ایک جگہ دیکھا کہ بہت سے مور جمع تھے اور سب پروں کو پھیلا کر اپنے خوبصورت پَر دیکھ کر خوش ہو رہے تھے اور رقص کر رہے تھے۔کوا بھی ان موروں کا تماشا دیکھنے لگا۔ان کے نیلے ہرے اور سنہرے پَر اسے بہت اچھے لگے۔کوے نے دل میں سوچا کہ ان کے پَر کتنے خوبصورت ہیں،یہ دُم پھیلا کر ناچتے ہیں تو اتنے بھلے لگتے ہیں۔میں اگر ان موروں کے پَر جو اِدھر اُدھر گر جاتے ہیں جمع کرکے اپنے پروں پر لگا لوں تو میں بھی مور بن جاؤں گا۔کوے نے یہ سوچ کر اِدھر اُدھر سے مور کے پَر جمع کئے،پروں میں لگائے اور پھر موروں میں جا کر انہی کی طرح رقص کرنے کی کوشش کرنے لگا۔(جاری ہے)جب موروں نے اپنی مخصوص آواز نکالی تو کوے نے بھی چاہا کہ وہ ان کی بولی بولے۔اس نے موروں کی بولی بولنے کیلئے اپنی چونچ کھولی تو وہ موروں کی آواز تو نہ نکال سکا البتہ اس کی چونچ سے کائیں کائیں کی آوازیں نکلنے لگیں،کائیں کائیں کی آواز سُن کر سب مور چونک پڑے اور کہنے لگے ارے یہ تو کوا ہے ہمارے پَر لگا کر ہمارے درمیان آ گیا ہے۔یہ کہہ کر سب موروں نے اس کوے کو گھیر لیا اور ٹھونگیں مارنے لگے۔کوے نے جب یہ دیکھا کہ اس کا راز کھل گیا ہے تو وہ موروں سے جان بچا کر اُڑا اور واپس اپنے ہم جولی کوؤں میں آ گیا لیکن ہوا یہ کہ جب کوؤں نے اسے دیکھا تو پہچان نہ سکے یہ کوئی مور ان کے درمیان آ گیا ہے سب کوے اس کو دیکھ کر کہنے لگے یہ کوا نہیں ہے،اس کے پَر تو مور کے سے ہیں۔یہ ہم میں کیوں آیا ہے؟یہ کہہ کر سب کوؤں نے ٹھونگیں مار مار کر اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔اپنے ساتھی کوؤں کے حملے کی وجہ سے کوا انہیں یہ بھی نہ بتا سکا کہ وہ مور نہیں بلکہ ان کا ہی ساتھی کوا ہے۔لہٰذا ہوا یہ کہ کوا بے چارہ نہ تو مور بن سکا اور نہ کوؤں میں رہا۔آخر اس نے مایوس ہو کر موروں کے سارے پَر جھاڑ دیئے اور کوؤں میں رہنے لگا۔پیارے بچو!اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں دوسروں کی نقل کرنے کی بجائے اپنی شخصیت کو اپنی اچھی عادتوں سے بہتر بنانا چاہئے۔ " خالہ کے گھر - تحریر نمبر 2279,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khala-ke-ghar-2279.html,"احمد عدنان طارق․․․․فیصل آبادشبیر اور عروہ کی خالہ اُنہیں کئی مرتبہ کہہ چکی تھیں کہ وہ دونوں جڑواں بہن بھائی،اُن کے گھر آ کر اُن کے پاس بھی رہا کریں،لیکن ہر مرتبہ ہی وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتے۔دونوں بہن بھائیوں نے امی جان کو بتایا ”ہم خالہ کے گھر جانا نہیں چاہتے کیونکہ وہاں کھیلنے کو کچھ نہیں ہے اس لئے وہاں ہمارا دل نہیں لگے گا۔“ امی ہنس کر بولیں ”بیٹا وہ اتنا کہتی ہیں تو ایک رات کیلئے چلے جاؤ۔“آخر ایک ہفتہ کی شام جب شبیر اور عروہ کوئی اور بہانہ نہ ڈھونڈ سکے تو اُنہیں رات سونے کیلئے خالہ کے گھر جانا ہی پڑا۔خالہ نے اُن کیلئے گھر کا دروازہ کھولتے ہی اُنہیں کہا:”مجھے افسوس ہے کہ تمہارے کھیلنے کیلئے میرے پاس کھلونے نہیں ہیں لیکن تمہیں مصروف رکھنے کیلئے میرے پاس باورچی خانے میں بہت کچھ ہے۔(جاری ہے)“شبیر سرگوشی کرتے ہوئے بہن سے کہنے لگا،کہیں خالہ ہم سے کچھ پکوانا تو نہیں چاہتیں یا پھر لگتا ہے کہ وہ ہم سے برتن دھلوائیں گی،عروہ نے قدم گھر میں رکھتے ہوئے منہ پر اُنگلی رکھ کر بھائی سے کہا:”شش !وہ سن لیں گی۔“خالہ امبر کا باورچی خانہ بہت بڑا تھا،اُس میں چلغوزے کی لکڑی سے بنا ایک بہت بڑا میز بچھا ہوا تھا جس پر مختلف قسم کی رنگ برنگی چیزیں رکھی تھیں۔شبیر میز کے ساتھ پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا اور خوشی سے بولا:”واہ!یہاں تو رنگ ہی رنگ ہیں،رنگین پنسلیں،چہرے رنگنے والے رنگ،گوند،چکنی مٹی،سفیدا،مزا آ گیا۔“خالہ ہنس کر بولیں ”تم جتنا گند ڈالنا چاہو،ڈال سکتے ہو۔تھوڑی دیر میں بھی آتی ہوں اور تمہارا ساتھ دوں گی“ کچھ ہی دیر میں دونوں جڑواں بہن بھائی اس حقیقت کو جان گئے تھے کہ خالہ چکنی مٹی سے مختلف قسم کے جانور اور گڑیاں بنا سکتی ہیں اور ہر قسم کے لباس بنا سکتی ہیں اور ڈراؤنے ماسک بھی۔وہ کاغذی گڑیاں بھی بنا سکتی تھیں اور اخبار کے کاغذ سے بڑے بڑے درخت بھی ،اُنہیں کھیلتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا اور جلدی ہی سونے کا وقت ہو گیا خالہ نے کھانا بنا لیا تھا وہ بولیں ”صفائی کرنے کی ضرورت نہیں بیٹا،میں کل خود ہی صاف کر لوں گی“ اگلی صبح اُنہیں ناشتہ درخت پر بنے گھر میں ملا جو خالہ نے کئی دن پہلے اُن کیلئے بنوا رکھا تھا۔دوپہر کے کھانے تک اُنہوں نے سیکھ لیا تھا کہ خوراک کے ڈبوں سے کھلونے کیسے بناتے ہیں؟قطب نما کیسے کام کرتا ہے؟اور کٹھ پتلیاں کیسے بنتی ہیں؟خالہ نے اُنہیں سکھایا کہ گھر میں مزیدار پیزا کیسے بناتے ہیں،ملک شیک کیسے بنتے ہیں؟اور چاکلیٹ بسکٹ کو بنانے کا کیا طریقہ ہے؟دونوں جڑواں بہن بھائی خالہ کے گھر ایک رات رہنے کیلئے گئے تھے مگر پورا ہفتہ سکون سے رہے کیونکہ وہاں اُن کی دلچسپی کا بہت سا سامان تھا،آخر جب وہ گھر لوٹے تو کئی دن تک وہ خالہ کے گھر کا ذکر کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ مختلف چیزیں بناتے وقت اُنہیں کتنا لطف آیا۔اُن کی امی مسکراہٹ کو دباتے ہوئے بولیں:”بیٹا مجھے معلوم ہے وہ میری جڑواں بہن ہے ہم بھی جب اکٹھے کھیلتے تھے تو ہمیں بھی تمہاری طرح ہی مزا آیا کرتا تھا۔“امید ہے بچو اب آپ کا کوئی بڑا چاہت سے آپ کو اپنے گھر بلائے گا تو آپ کوئی بہانہ نہیں بناؤ گے۔ " بہن کی محبت - تحریر نمبر 2278,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/behan-ki-mohabbat-2278.html,"روبینہ ناز،کراچیامجد کی عمر ابھی بہت کم تھی کہ اُس کے ابو کا انتقال ہو گیا۔رانی اُس کی چھوٹی بہن تھی۔امجد کی ماں دوسروں کے گھروں میں کام کاج کرکے وہ اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتی تھی۔اُس کی خواہش تھی کہ امجد ایک بڑا افسر بنے،اس لئے وہ اُس کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیتی تھی۔آج امجد صبح سے ہی بہت اُداس تھا،وہ جانتا تھا کہ آج رانی کی سالگرہ ہے۔ماں برتن دھو رہی تھی کہ ننھی رانی بھاگتی ہوئی آئی اور کہا:”امی آج میری سالگرہ ہے،مجھے مٹھائی اور کھلونے چاہئے۔ماں نے پہلے تو اُسے سمجھایا کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ہم یہ فضول خرچی کریں مگر رانی نہ مانی اور رونے لگی تو ماں نے اُسے ایک تھپڑ لگاتے ہوئے کہا:”میں دوسروں کے گھروں میں کام کرکے تمہیں پڑھا رہی ہوں،مزید پیسے کہاں سے لاؤں“ یہ کہہ کر وہ رانی کو گلے لگا کر زار و قطار رونے لگی۔(جاری ہے)امجد یہ سب دیکھ اور سُن رہا تھا،وہ چپ چاپ اُٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا۔اچانک اُس نے ایک فیصلہ کیا وہ سیدھا مزدوروں کی بستی میں پہنچا اور ٹھیکیدار سے کہا”صاحب!جی کوئی کام ہے تو مجھے اُس پر لگا دیں۔“ٹھیکیدار بہت رحم دل تھا،اُس نے کہا:”بیٹا تم تو ابھی بہت چھوٹے ہو،اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات پوری کرتا،امجد بول اُٹھا:”سر آپ کی مہربانی ہو گی،مجھے کام کی سخت ضرورت ہے۔“ٹھیکیدار نے اُس کی بات سُنی اور مان لی پھر امجد سارا دن ایک کمرے میں سفیدی کرتا رہا۔شام کو وہ پورے دو سو روپے لے کر بازار گیا۔بہن کیلئے مٹھائی اور فراک خریدی اور خوشی خوشی گھر میں داخل ہوا اور رانی کو آوازیں دینے لگا۔ماں نے وہ چیزیں دیکھیں تو امجد کو ایک زور دار تھپڑ مارا اور بولی:”تم نے یہ چیزیں کہاں سے لیں؟کیا بھیک مانگی تھی؟“امجد نے اپنے سفیدی سے بھرے ہاتھ ماں کے سامنے کر دیئے اور کہا:”ماں جی!میں نے بھیک نہیں مانگی بلکہ مزدوری کی تھی“ یہ سُن کر ماں نے امجد کے ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگائے اور بولی۔”بیٹا مجھے تم پر فخر ہے اب مجھے اُمید ہو گئی ہے کہ تم بڑے آدمی بنو گے اور دنیا میں تمہیں کوئی شکست نہیں دے سکے گا۔“ " ازمیر کی شہزادی - تحریر نمبر 2277,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/izmir-ki-shehzadi-2277.html,"روبینہ ناز،کراچیازمیر کا محل دلکشی میں اپنی مثال آپ تھا۔جہاں کی شہزادی بہت حسین اور نیک دل تھی۔ایک دن اُس نے اپنی ماں (ملکہ) سے باغ کی سیر پر جانے کی اجازت مانگی۔شہزادی اپنی ملکہ ماں کو بتائے بغیر کہیں نہیں جاتی تھی۔چنانچہ وہ ایک بگھی میں بیٹھ کر باغ کی سیر کرنے کیلئے روانہ ہو گئی۔باغ بہت حسین‘سرسبز اور شاداب تھا۔پھولوں کی خوشبو ماحول کو تازگی بخش رہی تھی۔شہزادی باغ کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ اُس نے اپنے قریب کھیلتی ہوئی ایک کم عمر لڑکی کو دیکھا۔وہ عرشی تھی،جو اُس باغ کے مالی کی بیٹی تھی۔اُس غریب لڑکی کو شہزادی نے اپنے پاس بٹھا لیا اور اُس سے باتیں کرنے لگی۔تھوڑی دیر میں وہ دونوں دوست بن چکی تھیں۔یہ دیکھ کر ایک شاہی ملازمہ نے اُس سے کہا:”آپ ازمیر کی شہزادی ہیں،اس غریب لڑکی سے دوستی کرنا آپ کی شان کے خلاف ہے۔(جاری ہے)شہزادی نے کہا:”میں جس اللہ کی بندی ہوں عرشی بھی اس کی بندی ہے،اللہ کی نظر میں بادشاہ غلام اور امیر غریب سب برابر ہیں“۔غرض شہزادی ہر ہفتے باغ کی سیر کو آتی اور عرشی سے بھی ملتی جس کے ساتھ اس کی دوستی اور پکی ہو گئی تھی۔شہزادی عرشی کیلئے تحفے بھی لاتی تھی۔دونوں سہیلیاں مل کر خوب سیر بھی کرتیں اور باتیں بھی کرتیں۔شہزادی کو اپنی غریب اور چنچل دوست عرشی بہت پسند تھی۔ایک روز شہزادی باغ میں گئی تو عرشی نے اُس کے سلام کا جواب بھی نہ دیا اور چپ چاپ چلی گئی تو شہزادی بھی حیران پریشان محل میں واپس آ گئی۔اگلے ہفتے شہزادی باغ میں پہنچی تو عرشی نے اُس سے معافی مانگی لیکن اب شہزادی اُس سے ناراض تھی۔اس لئے کوئی جواب دیئے بغیر ہی چلی گئی۔ملکہ نے جب شہزادی کو تھکا تھکا اور مایوس دیکھا تو اُس سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟تم کیوں اُداس ہو؟شہزادی نے پورا واقعہ ملکہ کو سنا دیا۔ملکہ نے شہزادی کو سمجھاتے ہوئے کہا:”شہزادیاں تو بڑے ظرف والی ہوتی ہیں،اگر تمہاری غریب دوست نے ایک بار تم سے بات نہ کی تو تم نے بھی اُس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا۔حالانکہ تمہیں چاہئے تھا کہ اُسے معاف کر دیتیں۔شہزادیاں تو دوسروں کے ساتھ ہمیشہ اچھا کرتی ہیں۔چنانچہ شہزادی اپنی دوست عرشی کیلئے بہت سے تحفے لے کر باغ پہنچی تو پتہ چلا کہ اُس باغ کے مالی کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔شہزادی بوجھل دل کے ساتھ محل واپس آ گئی۔ملکہ نے جب شہزادی کی یہ حالت دیکھی تو وجہ پوچھی شہزادی نے بتایا۔ملکہ نے عرشی کے باپ مالی کی نوکری بحال کر دی،اس کے بعد شہزادی اور عرشی پھر سے دوست بن گئیں۔ " کمال کی ٹوپی - تحریر نمبر 2276,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kamal-ki-topi-2276.html,"احمد عدنان طارق،فیصل آبادایک روز تزئین اپنے قصبے سے کچھ فاصلے پر لگنے والے میلے میں شرکت کرنے کیلئے گھر سے گئی۔اُس نے دیکھا کہ ایک ٹھیلے پر ایک آدمی آوازیں لگا کر ٹوپیاں بیچ رہا تھا ”ٹوپی لے لو ٹوپی‘پیاری پیاری ٹوپی“ تزئین نے اُسے کہا ”میں تو وہ سرخ ٹوپی لوں گی جس پر ستارے لگے ہوئے ہیں۔“ٹھیلے والا آدمی کہنے لگا ”وہ ٹوپی بیچنے کیلئے نہیں ہے“ تزئین نے پوچھا آخر کیوں؟آدمی نے سختی سے اپنی بات دہرائی ”وہ ٹوپی بیچنے کیلئے نہیں ہے۔“تزئین نے پیسے اُس کے ٹھیلے پر رکھے اور ٹوپی سر پر پہن لی اور پھر وہاں سے چل دی۔اُس آدمی نے پیچھے سے اونچی آواز لگائی ”اُسی سر پر واپس آ جاؤ جس کی تم ملکیت ہو“ یہ سنتے ہی تزئین کے ساتھ عجیب و غریب واقعات ہونے لگے۔(جاری ہے)اُس نے اپنی سہیلی عروہ کو آتے ہوئے دیکھا اور اُسے کہنے لگی،کیا حال ہیں عروہ؟لیکن عروہ نے اُس کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں دی بلکہ اُس کے پاس سے گزر گئی جیسے تزئین وہاں کھڑی ہی نہ ہو۔پھر تزئین نے چچا آصف کو دیکھا‘وہ بولی ”سلام چچا آصف“ لیکن وہ بھی اُس کے پاس سے یوں گزر گئے جیسے اُنہوں نے تزئین کو دیکھا ہی نہ ہو‘تزئین نے فوراً سوچا یہ سارے میری ٹوپی کے کمال ہیں،اسی نے مجھے سب لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل کر دیا ہے۔وہ جلدی سے بھاگی اور ٹھیلے والے آدمی کے پاس پہنچی۔آدمی اسے دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا!مجھے معلوم تھا تم واپس آؤ گی،کیا کوئی مشکل ہے؟تزئین بولی ”یہ تو بڑی مصیبت والی ٹوپی ہے“ آدمی نے کہا ”تو پھر مجھے واپس کر دو“ لیکن تزئین نے ٹوپی سر سے اُتارنے کی جتنی کوشش کی وہ اُس ٹوپی کو سر سے نہیں اُتار سکی۔ٹھیلے والا دکاندار مسکرایا اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگا،تبھی تزئین نے اُس کی شکل غور سے دیکھی۔اُس کے کان بونوں جیسے تکونے تھے اور اُس کا چہرہ بھی اُنہی کی طرح ٹیڑھا تھا۔ٹوپی تزئین کے سر سے اُتری اور دوبارہ ٹھیلے پر اپنی جگہ پر سج گئی۔تزئین بولی!یہ بہت عجیب بات ہے‘یہ تو جادو ہے۔ٹھیلے والا بولا ”ہاں بالکل ہے۔“اور پھر اُس نے تزئین کو نصیحت کرتے ہوئے کہا ”کبھی پوچھے بغیر کسی کی چیز استعمال نہ کرو،تمہیں نہیں معلوم کب کوئی مشکل ہو جائے اور واقعی تزئین نے ہمیشہ اس کی نصیحت پر عمل کیا۔“ " نقل چور کی توبہ - تحریر نمبر 2275,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naqal-chor-ki-tauba-2275.html,"احمد عدنان طارق،فیصل آبادشیرو ایک چھوٹا سا چیتے کا بچہ تھا،جسے ایک بہت بُری عادت تھی۔نہ صرف ہر کسی کی بلکہ ہر چیز کی نقل اُتارتا تھا۔جب کوئی طوطا ٹائیں ٹائیں کرتا تو شیرو بھی ٹائیں ٹائیں کرکے اُس کو چڑاتا اور جب طوطا ناراض ہو کر اُسے بکواس بند کرو کہتا تو وہ بھی یہی الفاظ واپس دہرا دیتا۔ایک دن وہ ایسے ہی مٹرگشت کیلئے گھر سے نکلا۔اُس نے دل میں یہ ٹھان رکھی تھی کہ آج وہ راہ میں ملنے والی ہر چیز کی نقل اُتارے گا اور اسی ارادے نے اُس دن اُسے مصیبت میں ڈالا۔پہلے اُس نے ایک چمگادڑ کو دیکھا جو ایک درخت کی شاخ سے اُلٹا لٹکا ہوا تھا۔وہ اس طرح لٹک کر سونے کی کوشش کر رہا تھا۔شیرو چمگادڑ سے کہنے لگا کہ وہ بھی اُس کی طرح اُلٹا لٹک کر سوئے گا۔(جاری ہے)چمگادڑ نے اُسے سمجھایا کہ وہ اس طرح نہیں کر سکتا صرف چمگادڑ ہی اس طرح اُلٹے سو سکتے ہیں۔شیرو یہ سن کر کچھ دیر سوچتا رہا لیکن پھر وہ ایک قریبی شاخ پر چڑھ گیا۔اپنے پاؤں اُس میں اٹکائے اُلٹا لٹک گیا۔اُس نے چمگادڑ کو شب بخیر کہا اور آنکھیں موند لیں۔اگلے ہی لمحے وہ منہ کے بل زمین پر آ پڑا۔چمگادڑ نے اُسے یاد دلایا کہ وہ پہلے ہی اُسے خبردار کر چکا تھا۔شیرو نے خود کو سنبھالا اور آگے کی طرف چل پڑا۔راستے میں اُسے ایک سارس ملا جو ایک ٹانگ پر کھڑا تھا۔شیرو نے اُسے پوچھا کہ وہ کیا کر رہا ہے؟سارس نے اُسے بتایا کہ اس طرح اُسے سکون ملتا ہے لیکن یہ کام تم کتنی دیر کر سکتے ہو؟شیرو نے سارس سے پوچھا تو سارس نے اُسے بتایا کہ وہ ہمیشہ ایسا کر سکتا ہے لیکن صرف پرندے ہی ایسا کر سکتے ہیں۔شیرو نے پھر تھوڑی دیر سوچا اور ایک ٹانگ پر کھڑا ہو گیا۔اب ”دوسری اُٹھا کر دکھاؤ“۔سارس نے ہنستے ہوئے اُسے کہا تو شیرو نے دوسری ٹانگ بھی اُٹھا لی۔اس سے وہ پھر منہ کے بل زمین پر جا گرا۔میں نے ”تمہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا“۔سارس نے اُسے یاد دلایا۔شیرو نے خود کو سنبھالا اور آگے کو روانہ ہو گیا۔راستے میں اُسے بھورے رنگ کا ایک گرگٹ ملا جو سبز پتوں پر بیٹھا ہوا تھا۔گرگٹ کے بارے میں حیرت انگیز بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے رنگ بدل سکتا ہے۔گرگٹ نے شیرو کو دیکھا تو فوراً سبز رنگ میں خود کو تبدیل کر لیا۔شیرو سبز پتوں میں اب اُسے دیکھ نہیں سکتا تھا۔شیرو نے اُسے آوازیں دیں۔وہ اُسے اِدھر اُدھر ڈھونڈ رہا تھا۔تب گرگٹ بولا کہ وہ ابھی بھی اِدھر ہی ہے۔ادھر دیکھو۔وہ ایک چھلانگ لگا کر بڑے سے سرخ پھول پر چلا گیا اور اپنا رنگ بھی سرخ کر لیا۔شیرو نے اُسے کہا کہ اب وہ اُسے دیکھے اور پھر خود سبز گھاس پر لوٹنے لگا۔“اب میں سبز رنگ کا ہو گیا ہوں۔“شیرو نے گرگٹ کو کہا۔لیکن گرگٹ نے کہا کہ ہر گز وہ سبز نہیں ہے۔صرف گرگٹ رنگ بدل سکتے ہیں۔یہ سن کر شیرو دوبارہ سوچنے لگا اور پھر کیچڑ میں لوٹ پوٹ ہونے لگا۔”اب میری طرف دیکھو۔اب تو میں بھورا ہو گیا ہوں ناں۔“اُس نے کہا۔پھر وہاں پر سفید موروں کے بے شمار پَر پڑے ہوئے تھے۔وہ اُن میں لوٹ پوٹ ہوتا رہا اور سفید پَر اُس سے چمٹتے گئے۔پھر اُس نے گرگٹ کو کہا کہ دیکھو اب میں مکمل سفید رنگ کا ہو گیا ہوں۔لیکن گرگٹ نے اُسے سمجھایا کہ یہ رنگ زیادہ وقت ایسا نہیں رہے گا۔اب شیرو نے گھر جانے کا ارادہ کیا۔وہ سارس کے پاس سے گزرا۔جو ابھی بھی ایک ٹانگ پر کھڑا تھا۔سارس اُسے پہچان نہیں سکا۔پھر وہ چمگادڑ کے پاس سے گزرا۔وہ ابھی بھی اُلٹا لٹکا ہوا تھا۔اُس نے بھی شیرو کو نہیں پہچانا۔وہ شام ڈھلے جب گھر پہنچا تو اُس کے بھائی اور بہنیں دریا کنارے کھیل رہے تھے۔اُنہوں نے سمجھا کہ کوئی سفید بھوت اُن کی طرف آ رہا ہے۔ہو ہو کرکے شیرو بھی بھوت بن کر انہیں ڈرانے لگا۔شیرو کے بھائی بہن اتنا ڈرے کہ وہ دریا میں کود گئے اور تیر کر دریا کے دوسرے کنارے پر جا پہنچے۔ہاؤ۔ہو ہو کرتا شیرو بھی اُن کے پیچھے دریا میں کود گیا۔لیکن ظاہر ہے جیسے ہی اُس نے دریا کے پانی میں چھلانگ لگائی تو کیچڑ اور سفید پَر اُس کے جسم سے علیحدہ ہو گئے۔جب دوسروں نے دیکھا کہ وہ تو شیرو ہے بھوت نہیں ہے تو وہ بہت ناراض ہوئے۔سب نے اُسے گلہ کیا۔شیرو نے انہیں یقین دلایا کہ وہ تو صرف اُن سے مذاق کر رہا تھا۔لیکن وہ اُسے معاف کرنے کیلئے صرف ایک شرط پر راضی ہوئے کہ اگر وہ وعدہ کرے کہ آئندہ کسی کی نقل نہیں اُتارے گا۔شیرو نے اُن سے وعدہ کیا اور تب سے اب تک پھر کسی کی نقل شیرو نے نہیں اُتاری۔ " نیکی کا صلہ - تحریر نمبر 2274,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naiki-ka-sila-2274.html,"ثنا خانایک بادشاہ اپنے ملک کی سیر کر رہا تھا کہ اسے خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی رعایا کا امتحان لیا جائے،اس نے ایک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ بند ہو گئی،اپنے ایک پہریدار کو نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھے چھپا کر بٹھا دیا،تاکہ وہ آتے جاتے لوگوں کے ردعمل سنے اور اسے آگاہ کرے۔اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا،جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا تو اس نے ہر اس شخص کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا تھا۔چٹان کے اردگرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے دھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہو گا اسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔(جاری ہے)اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا۔اس کا ردعمل بھی اس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی تو تھا۔اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔انہوں نے چٹان کے پاس رُک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل،بیہودہ اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی،قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے کہ وہاں سے ایک مفلوک حال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔کوئی شکوہ کئے بغیر جو بات اس کے دل میں آئی وہ یہ تھی کہ وہاں سے گزرنے والوں کو تکلیف ہوتی ہو گی اپنے ہمدردانہ احساس کی وجہ سے وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ایک وزنی پتھر کو اکیلے وہاں سے ہٹانا بہت مشکل کام تھا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنی مضبوط لاٹھی سے زور لگا کر بڑی جدوجہد کے بعد چٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے ایک چھوٹا سا گڑھا کھدا ہوا تھا جس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی اسے نظر آئی،کسان نے کھول کر دیکھا تو اس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا تھا جس میں لکھا تھا کہ حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔ " قیمتی چھٹیاں - تحریر نمبر 2273,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qeemti-chuttiyan-2273.html,"ارفع زینب،ڈیرہ غازی خانآریان کمپیوٹر پہ کچھ کام کر رہا تھا کہ اس کی بہن ثنا کمرے میں داخل ہوئی اور اعلان کیا:”کورونا وائرس کے خطرے کی وجہ سے حکومت نے اسکولوں میں ایک مہینے کی مزید چھٹیاں بڑھا دی ہیں۔“آریان بے اختیار اس کی طرف متوجہ ہوا تو وہ پھر بولی:”ساری چھٹیاں ہی بے کار گزری ہیں۔“آریان:”مگر اب نہیں گزریں گی۔“”وہ کیسے؟“ثنا نے پوچھا۔”آن لائن نمائش منعقد ہو رہی ہے۔پوری دنیا سے لوگ شرکت کریں گے۔“آریان نے کہا۔(جاری ہے)”پھر کیا ہو گا؟“ثنا نے پوچھا۔”چونکہ ہم دونوں اچھی تصویر بنا لیتے ہیں،اس لئے اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی تصویریں نمائش میں رکھیں گے۔ہو سکتا ہے لوگ یہ تصویریں پسند کریں اور ہم سے خرید لیں۔“آریان نے تفصیل سے بتایا۔”ہاں خیال تو اچھا ہے۔“ثنا بولی۔ثنا اور آریان نے اپنی تصاویر نمائش میں رکھنا شروع کیں۔کئی لوگوں نے انھیں پسند کیا اور کئی تو ان تصویروں کو آن لائن خریدنے پر تیار ہو گئے۔اس طرح آریان اور ثنا نے چھٹیوں میں اپنے موبائل اور کمپیوٹر کا اچھا استعمال کیا اور چھٹیوں کو بھی قیمتی بنا لیا۔ " اچھا کام اور اُس کا انعام - تحریر نمبر 2272,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/acha-kaam-aur-uss-ka-inaam-2272.html,"گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد آج سکول میں پہلا دن تھا،سب طلباء اور طالبات خوش اور پُرجوش دکھائی دے رہے تھے۔ان کی خوشی کی ایک وجہ اور بھی تھی کہ چھٹیوں سے پہلے پرنسپل صاحب نے اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ چھٹیوں کے دوران جن طلباء نے کوئی اچھا اور مفید کام کیا ہو گا ان کو ایک بڑا انعام دیا جائے گا،انہوں نے یہ بھی کہا کہ سکول کھلنے سے ایک دن پہلے سکول کے دفتر میں آ کر اپنے کام کی تفصیل دینی ہو گی اور اپنا نام لکھوانا ہو گا،اور سب بچے اپنا اپنا کام لکھ کر جمع کروا چکے تھے،بس اسی لئے آج بچے بہت خوش اور پُرجوش تھے کہ دیکھیں کس کا کیا اچھا کام اور کس کا کیا انعام نکلتا ہے۔سکول کا میدان پُررونق دکھائی دے رہا تھا،ہر طرف دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ایک کونے میں اساتذہ کی سٹیج نما نشستیں تھی،جس کے درمیان میں پرنسپل صاحب تشریف فرما تھے جیسے ہی وہ ڈائس پر آئے طلباء اور طالبات نے زور زور سے تالیاں بجانا شروع کر دیں،وہ سب منتظر تھے کہ اب پرنسپل صاحب انعام پانے والوں کے ناموں کا اعلان اور کام کی تفصیل بتائیں گے،کیونکہ یہ بات راز میں تھی کہ کس نے کیا اچھا کام کیا ہے۔(جاری ہے)پرنسپل صاحب نے پہلے انعام کا حقدار لاریب کامران کو قرار دیا،لاریب کامران تالیوں کی گونج میں سٹیج پر پہنچی،پرنسپل صاحب نے لاریب سے کہا کہ وہ اپنے اچھے کام کی تفصیل خود ڈائس پر آ کر بتائے۔لاریب نے بتایا کہ جب اس نے سوچا کہ ایسا کیا کام ہونا چاہئے جس سے اسے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے تو اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ان کے گھر میں ایک کمرہ ایسا ہے جو زیادہ استعمال نہیں ہوتا،تو کیوں نہ اسے تھوڑی سی محنت اور تبدیلی کے بعد لائبریری کی شکل دے دی جائے۔اس طرح کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو گا اور گھر میں آنے والے بچے اور بڑے سب اس سے استفادہ کر سکیں گے۔لاریب نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں اس نے گھر میں موجود سب کتابوں کو جو مختلف الماریوں اور میزوں وغیرہ پر بے ترتیب سے پڑی تھیں،انہیں ایک جگہ جمع کیا۔ان میں سے انگریزی،اردو،اسلامیات کی کتابوں کو الگ کیا،بچوں کی کہانیوں کی کتابوں اور رسالوں کو الگ کیا اور انہیں بڑی ترتیب اور نفاست سے اس کمرے میں موجود ایک شلف کے مختلف خانوں میں رکھ دیا،رات کو پاپا دیر تک پڑھنے کے عادی تھے جب انہوں نے انگریزی ادب کی کتاب کو ڈھونڈا تو وہ انہیں شلف کے اس خانے میں رکھی مل گئی جس کے اوپر،ای،یعنی ”انگلش بکس“ کا نشان لگا ہوا تھا۔انہیں یہ ترتیب بے حد پسند آئی،انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لاریب کی تجویز ہے اور وہ ایک لائبریری بنانا چاہتی ہے تو انہوں نے اس کی مدد کی اور ایک بک شاپ پر جا کر پرانی کتابیں جو سستے داموں میں مل رہی تھیں،لیکن اہم اور دلچسپ موضوعات پر مشتمل تھیں خرید لیں اور پھر لاریب نے انہیں بھی الماریوں اور شلف پر نمبر وائز ترتیب سے لگا دیا۔اپنے بابا کی مدد اور اپنی محنت سے اس نے تقریباً ایک ہفتے میں اچھی خاصی لائبریری بنا لی۔پرانے فرنیچر والے سے بک شلف خرید لی۔کچھ کتابیں اس کی پھپھو نے تحفے میں دے دیں۔بس ذرا سی کوشش اور تھوڑی سی لاگت سے ایک لائبریری کا پُرسکون گوشہ تیار ہو گیا،جہاں سب سکون سے بیٹھ کر پڑھتے تھے۔لاریب کے پڑوس سے بھی بچے کہانیوں کی کتابیں اور رسالے پڑھنے کے لئے آنے لگے،لائبریری کے دروازے پر لکھ کر لگا دیا گیا کہ لائبریری میں شوروغل منع ہے۔بچوں کی کہانیوں کی کتابیں اور رسائل کے بک شلف پر اس نے اپنے بھائی کی مدد سے خوش رنگ،رنگ کیا،بابا کی اور پھپھو کی مدد سے کھڑکی اور دروازے پر پردے لگائے جس سے لائبریری کا ماحول مزید پُرسکون ہو گیا۔اب جو بھی گھر میں آتا لائبریری کی تعریف کرتا اور تھوڑی سی دیر کے لئے ہی کیوں نہ ہو کتابوں اور رسالوں کی ورق گردانی ضرور کرتا۔جب لاریب یہ ساری بات بتا چکی تو پرنسپل صاحب ڈائس پر آئے اور کہا بچو․․․․!لاریب نے بے حد اچھا کام کیا ہے،کتاب پڑھنے کا ذوق پیدا کرنا،مطالعہ کرنے کا ماحول بنانا اور لائبریری کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھ کر اس کے لئے کوشش کرنا قابل تعریف ہے۔اسی لئے لاریب اول انعام کی مستحق ہے،اور یہ انعام ایک ہفتے کے لئے امی ابو کے ساتھ مری کی سیر کا ٹکٹ اور اخراجات کی سہولت ہے۔اس خوبصورت انعام پر بے حد تالیاں بجائی گئیں،اور لاریب کی تو خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔دوسرے انعام کے لئے دانیال کا نام پکارا گیا دانیال بھی تالیوں کی گونج میں سٹیج پر آیا اور پرنسپل کی ہدایت پر اچھے کام کی تفصیل کچھ یوں بیان کی،کہ میں نے سوچا کہ اگرچہ ہمارا گھر زیادہ بڑا نہیں ہے لیکن صحن میں اتنی جگہ موجود ہے کہ ایک کیاری بنائی جا سکے،میں نے اپنے بابا سے ضد کی اور انہیں منایا کہ آپ اپنی مصروفیت میں سے تھوڑا سا وقت نکالیں اور میری مدد کریں،میرے اصرار پر بابا مان گئے اور ایک مزدور کے ذریعے صحن کے ایک حصے کا پکا فرش اُکھاڑ دیا جس میں میں نے ایک حصے میں پودے اور دوسرے حصے میں سبزیوں کی پنیری لگائی۔سبزیوں کی پنیری لگانے کے لئے میں نے باقاعدہ معلومات لیں کہ کیسے اور کس طرح سبزیاں اُگانی چاہئیں۔کیسے پانی دینا چاہیے اور کیسے کھاد وغیرہ ڈالنا چاہیے۔اور کیا کیا احتیاط ضروری ہوتی ہیں۔ان تمام معلومات کے بعد ان پر عمل کرنے سے میری کیاری میں گلاب کا پودا کافی بڑا ہو گیا ہے،اور انشاء اللہ سبزیاں بھی اُگ آئیں گی۔میں نے اپنے کزنز اور دوستوں کو بھی اس بارے میں بتایا اور میرے کہنے پر کئی دوستوں نے اپنے گھروں میں پودے لگائے،اور ہم سب دوست مل کر ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور لوگوں کو اس کی اہمیت سمجھا رہے ہیں۔دانیال کو اس کی کارکردگی پر دوسرا انعام دیا گیا جو ایک قیمتی کلائی پر باندھنے والی گھڑی تھی جسے پا کر وہ بہت خوش ہوا۔تیسرے انعام کی حقدار ایبیا ٹھہری۔اس نے بتایا کہ وہ اپنے محلے اور گلیوں میں کوڑا کرکٹ پھینکنے والوں سے بچوں کی ٹیم کے ساتھ جا کر درخواست کی کہ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ گلی میں نہ پھینکیں۔اپنے محلے اور شہر اور ملک کو صاف رکھنا چاہیے۔اب آپ چاہے کسی پارک میں جائیں،بس میں سفر کریں یا اپنے گھر میں ہوں،گندگی نہ پھیلائیں۔خالی جوس کے ڈبے،چپس وغیرہ کے کاغذ کچرے دان میں ڈالیں تاکہ ہمارا شمار تہذب یافتہ لوگوں میں ہو اور ہم ایک صاف ستھری قوم کہلائیں۔ایبیا کو کتابوں کا سیٹ اور قیمتی قلم کا انعام ملا۔باقی بچوں کو بھی سرٹیفکیٹ دیئے گئے،بچے اس حوصلہ افزائی پر بے حد خوش تھے اور ان میں اچھے اچھے کام کرنے کا جوش و ولولہ پیدا ہو گیا تھا۔اس کے بعد پرنسپل صاحب نے تقریر کی،اور اس میں کہا کہ ہر وہ کام کہ جس سے اپنی ذات کے علاوہ دوسروں کو فائدہ پہنچے اور معاشرے میں اچھائی کا فروغ ہو،اعلیٰ اقدار کا فروغ ہو،قابل تحسین ہے اور ہم سب کو اس کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ " سونے کا ہاتھی - تحریر نمبر 2271,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sone-ka-hathi-2271.html,"ساجد کمبوہ،پھولنگرصدیوں پرانی بات ہے کہ ملک یمن میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔وہ بہت انصاف پسند اور رحمدل تھا۔ملک میں ہر طرف امن و امان تھا۔ایک دن اسے بیٹھے بٹھائے خیال آیا کہ رعایا کی خبر لینی چاہئے۔پس اس نے اعلان کروایا کہ بادشاہ کو کوئی ایسی کہانی سنائے جو اس نے کبھی نہ سنی ہو۔جو ایسی کہانی سنائے گا اسے ”سونے کا ہاتھی“ ا نعام میں دیا جائے گا۔ملک میں اعلان ہوتے ہی لوگ جوق در جوق بادشاہ کو کہانی سنانے کی غرض سے آنے لگے۔وہ بڑی مزے مزے کی کہانیاں سناتے۔بادشاہ سلامت کہتے۔”میں نے یہ کہانی پہلے سنی ہوئی ہے“۔لوگ تھک ہار کر لوٹ جاتے۔کہانی سنانے والوں نے چڑیا سے باز مروایا۔کبھی کچھوے کو خرگوش سے ہروایا کبھی درخت پر ہاتھی چڑھا دیا،کبھی مچھلی کو صحرا میں زندہ کروایا،دن کو الو اور چمگاڈر کی کہانیاں سنائیں۔(جاری ہے)لیکن بادشاہ سلامت ہر ایک کو کہتے،”میں نے یہ کہانی سنی ہوئی ہے۔“آہستہ آہستہ لوگ کم ہونے لگے۔یمن کے ایک گاؤں میں ”ارسلان“ نامی نوجوان رہتا تھا۔اس نے تمام باتیں سنیں اور ایک نئی کہانی لیکر بادشاہ کے درمیان میں پہنچ گیا۔”ہاں بھئی جوان آپ کیا کوئی نئی کہانی لے کر آئے ہو؟“ بادشاہ نے پوچھا۔حضور!کہانی نہیں ایک حقیقت لیکر حاضر ہوا ہوں۔ارسلان نے عاجزی سے کہا۔”بادشاہ سلامت!آپ سے پہلے آپ کے والد محترم بادشاہ تھے۔ان سے پہلے آپ کے دادا حضور بھی بہت عظیم الشان سلطنت کے مالک تھے۔آپ کے دادا حضور نے آپ کے والد محترم کی شادی پر سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا دیا۔جس طرح آپ کے والد اور دادا بادشاہ تھے اسی طرح میرے والد محترم اور دادا حضور بہت بڑے تاجر تھے۔آپ کے دادا نے میرے دادا سے کچھ برتن ادھار لئے تھے جن میں سونے کی سات دیگیں،پرات،پلیٹیں،چمچے اور دوسرے برتن تھے۔شادی کے بعد آپ کے دادا برتن واپس کرنا بھول گئے۔آج کل ہمارے حالات بھی کچھ بہتر نہیں ہیں ورنہ آپ سے برتن نہ مانگتا۔شاید آپ کے والد محترم یا دادا حضور نے آپ کو بتایا ہو؟“”میں نے یہ بات کبھی نہیں سنی۔بادشاہ نے فوراً جواب دیا۔“”اچھی بات ہے بادشاہ سلامت!آپ پھر سونے کا ہاتھی مجھے دے دیں۔“بادشاہ ارسلان کی عقلمندی پر بہت خوش ہوا۔اگر کہتا کہ بات سنی ہوئی ہے تو اسے اتنے سونے کے برتن دینا پڑتے اس نے جلدی سے کہہ دیا:”یہ بات میں نے نہیں سنی۔“دیکھا بچو!ارسلان نے بادشاہ سلامت سے عقلمندی سے سونے کا ہاتھی حاصل کر لیا۔ " عادت کی خرابی - تحریر نمبر 2269,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aadat-ki-kharabi-2269.html,"کبشہ ادریس،کراچیسالار ایک سمجھ دار اور عقل مند لڑکا تھا،لیکن اسے جھوٹ بولنے کی عادت تھی،جو سب ہی کو ناپسند تھی۔گھر والے تک اس کی اس عادت سے پریشان رہتے تھے۔ایک دن علی کو اپنے دوستوں کے ساتھ میدان میں کھیلنے جانا تھا۔جب اس کی امی نے اسے اجازت نہیں دی تو اس نے اپنی امی سے کہہ دیا کہ وہ اپنے دوست کے گھر پڑھنے جا رہا ہے۔(جاری ہے)یہ سن کر اس کی امی نے اسے اجازت دے دی اور اس طرح وہ جھوٹ بول کر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے چلا گیا۔جب وہ میدان میں پہنچا تو سمیع عمر کو گیند کرا رہا تھا۔اسی دوران کھیل میں گیند علی کی ٹانگ پر لگ گئی اور وہ گر گیا۔علی بُری طرح زخمی ہو چکا تھا۔محلے والے فوری طور پر علی کو ہسپتال لے کر گئے اور اس کے والدین کو اطلاع دی۔علی کے والدین جب ہسپتال پہنچے تو وہ بے ہوش تھا۔جب اسے ہوش آیا تو وہ مسلسل رو رہا تھا۔اس واقعے کے بعد علی نے اپنے والدین سے وعدہ کیا کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ " شہزادوں کا امتحان - تحریر نمبر 2268,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shehzadoon-ka-imtehan-2268.html,"عائشہ ناز،میرپور خاصوہ بہت نیک دل اور رعایا کا خیال رکھنے والا بادشاہ تھا۔اس کے دو شہزادے عبید اور عزیر تھے۔عبید عمر میں تو بڑا تھا مگر عقل اور سمجھ داری میں عزیر سے کم تھا۔ایک دن بادشاہ نے اپنے دونوں شہزادوں کو بلایا اور کہا:”میرے بچو!اب میں بوڑھا ہوتا جا رہا ہوں،اس لئے یہ سلطنت تم دونوں میں سے کسی ایک کے نام کرنا چاہتا ہوں اس کے لئے تم دونوں کو ایک امتحان سے گزرنا ہو گا۔تم دونوں الگ الگ سمتوں میں جاؤ۔میں تمہیں دس دس اشرفیاں دوں گا۔جس نے بھی رقم کو خوبی سے استعمال کیا،میں اسے بادشاہ بنا دوں گا۔“دوسرے دن دونوں نے اپنے والدین کو الوداع کہا اور چل پڑے۔کچھ دیر چلنے کے بعد عبید ایک شہر میں پہنچا،جہاں اسے گھڑیوں کی ایک بہت بڑی دکان دکھائی دی۔(جاری ہے)کافی دیر بعد اسے ایک سونے کی گھڑی پسند آئی اور اس نے وہ لے لی۔اس کا خیال تھا کہ بادشاہ کو یہ گھڑی بہت پسند آئے گی۔دوسری جانب شہزادہ عزیر ایک گاؤں پہنچا جہاں پانی کی بہت قلت تھی لوگوں کو پانی حاصل کرنے کے لئے میلوں دور دوسرے گاؤں جانا پڑتا تھا۔اس نے ان اشرفیوں سے وہاں کنواں کھدوا دیا اور پانی کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کر دیا۔واپس آ کر دونوں شہزادوں نے بادشاہ کو اپنی اپنی داستان سنائی۔بادشاہ نے عزیر سے کہا:”مجھے تم پر فخر ہے کہ تم نے رعایا کی پریشانی دور کر دی،جب کہ عبید نے اپنے لئے وقتی خوشی حاصل کی۔آج سے تم بادشاہ ہو۔“ " شیروں کی باتیں - تحریر نمبر 2267,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sheron-ki-batain-2267.html,"فاطمہ ناہید،کراچیایک مسافر ہوائی جہاز دورانِ پرواز خرابی کی وجہ سے گھنے جنگل میں اُتر گیا۔جنگل کے بادشاہ نے اپنی ملکہ شیرنی سے کہا:”جہاز میں لوگ زندہ ہیں۔یہی لوگ لکڑی حاصل کرنے کی خاطر ہمارے جنگل کو ختم کر رہے ہیں۔ان لوگوں کو ختم کر دینا چاہیے۔“وہ خاموش ہوا تو ملکہ شیرنی نے کہا:”انسان کو اللہ نے علم کی وجہ سے اشرف المخلوقات کہا،جو تمام مخلوقات سے افضل ہے۔انسان کو دنیا میں بھیج کر جانوروں کو اس کی خدمت پر مامور کر دیا۔(جاری ہے)“شیر بولا:”انسان بہت بے عقل ہے۔ہمیں مار دیتا ہے یا قید کر لیتا ہے۔ایسے علم کا کیا فائدہ جو وہ لکڑی کی لالچ میں ہمارے جنگل کو بھی ختم کر رہا ہے،جس سے ہمارے ساتھ ساتھ اس کا اپنا بھی نقصان ہو رہا ہے۔اگر ہم چھوٹے جانوروں کا شکار نہ کریں تو ان کی تعداد انسانوں سے زیادہ ہو جائے گی۔اس کے علاوہ جنگلات نہ ہونے سے ماحول میں آکسیجن کم ہو رہی ہے۔“شیرنی ملکہ نے کہا:”تم ناشکری کر رہے ہو۔انسان ناشکرا ہو سکتا ہے۔ہمیں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں انسان سے کیا لینا دینا اگر وہ اچھے کام کرے تو اس کا فائدہ اور اگر بُرے کام کرے تو اس کا ہی نقصان ہے۔“ " استاد کی تربیت - تحریر نمبر 2266,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ustad-ki-tarbiyat-2266.html,"ریاض احمد جسٹسزمانہ قدیم کی بات ہے کسی ملک میں ایک بادشاہ ہوتا تھا۔اس بادشاہ کو اپنے ملک میں محل نما بڑی بڑی عمارتیں بنانے کا بے حد شوق تھا۔اُس بادشاہ نے اپنی عمر کا آدھا حصہ عالی شان اور بلند و بالا عمارتیں بنوانے میں صرف کر دیا۔عوام بادشاہ کے اس عمل سے شدید نالاں تھی۔بادشاہ نے اپنے ملک اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کا کوئی خیال نہ رکھا تھا۔اُس دور میں نہ ہی بحری بیڑے خریدے جس سے تجارت کو فروغ حاصل ہو اور عوام کو روزگار کی سہولت ملتی اور نہ اس نے دوسرے ممالک کے ساتھ کوئی تجارتی روابط رکھے تھے۔سال میں صرف ایک حج کے موقع پر جب حج پر جانے کی تیاری کرتے تو آس پاس کے بہت سے قبائل کے لوگ جوق در جوق وہاں آ کر اکٹھے ہوتے تھے اور پھر حج پر روانہ ہوتے تھے۔(جاری ہے)حج سے فارغ ہو کر یہ لوگ ضروریات زندگی کی تقریباً سبھی اشیاء خرید کر اپنے ملک میں لے آتے تھے۔لوگ شدید تنگ دستی میں زندگی بسر کر رہے تھے۔بادشاہ کو اپنے شوق سے اتنی فرصت کہا کہ وہ عوام کے لئے کچھ سوچتا۔بادشاہ کے دو بیٹے تھے۔بڑے شہزادے کا نام سکندر تھا جس کا رنگ کالا تھا اور وہ بدصورت بھی تھا جبکہ دوسرے بیٹے کا نام گلاب تھا جو نہایت ہی خوبصورت اور صحت مند جوان تھا۔بادشاہ اپنے بڑے بیٹے کے لئے جس ملک میں بھی رشتے کی بات کرتا تو شہزادے کو دیکھ کر وہ اتنا کہتے کہ اگر آپ نے ہماری شہزادی بیٹی کا رشتہ لینا ہے تو آپ اپنے چھوٹے شہزادے کے لئے لے لیں۔یوں اس بات پر بادشاہ کے دونوں بیٹوں کے رشتے نہ ہوتے تھے۔ایک دن ایک وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا اور کہا ماشاء اللہ بادشاہ سلامت آپ کے دونوں بیٹے جوان ہیں اور دونوں ہی بہترین اساتذہ کے زیر تعلیم ہیں میرا مشورہ ہے کہ آپ ملک کی ذمہ داری اپنے دونوں جوان بیٹوں کے حوالے کر دیں۔یوں عوام بھی خوش ہو جائیں گی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہزادے بھی عوام دوست بن جائیں گے۔بادشاہ کو وزیر کی یہ بات بہت پسند آئی۔اُس نے چھوٹے شہزادے گلاب کے استاد کو محل میں بلوایا اور اپنے بیٹے کے متعلق چند سوالات کیے۔استاد کی اپنے شاگرد کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہ تھی۔بادشاہ سلامت کو استاد کی باتیں بہت بُری لگیں اور وہ غصہ میں آ گیا۔استاد استاد ہی ہوتا ہے۔اس نے بادشاہ سے کہا بھلا میں حاکم کو حکم کس طرح دے سکتا ہوں۔بادشاہ نے بڑے بیٹے سکندر کے استاد کو بھی محل میں بلوایا اور سکندر کی کارکردگی کے بارہ میں پوچھا۔استاد نے بادشاہ کو بس اتنا جواب دیا کہ اگر کسی بات کا کوئی شک ہے تو دونوں شہزادوں کو بلوا لیں آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ بہادر اپنے راستہ کا انتخاب خود کرتا ہے اور میدان میں مخالف سے کیسا سلوک کرتا ہے۔بادشاہ سلامت کو بات سمجھ آ گئی اور وہ بہت خوش ہوئے۔استاد کو ہیرے جواہرات اور نقد انعام سے نوازا اور دوسرے استاد کی کم عقلی پر بطور سزا اسے جیل بھیج دیا۔اس استاد کی صرف یہی غلطی تھی کہ اس نے اپنے شاگرد کو شاگرد نہیں بلکہ ایک بادشاہ کا بیٹا سمجھ کر تعلیم دی تھی۔شاگرد کسی بادشاہ کا بیٹا ہو یا عام غلام کا استاد کے لئے تو وہ صرف ایک شاگرد ہی ہوتا ہے۔بادشاہ کو چھوٹے شہزادے گلاب سے بہت پیار تھا۔استاد کی باتوں سے بادشاہ کو اس بات کا ادراک ہو چکا تھا کہ گلاب کو نظام حکومت سمجھنے میں ابھی بہت وقت درکار ہو گا جبکہ سکندر میں خوب فہم و فراست ہے۔بادشاہ نے انتظامی حوالہ سے اپنے ملک کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔وسطیٰ حصہ جس میں پھل،پھول،اناج کی فصلیں اور سرسز و شاداب درخت عام تھے اپنے پاس رکھا اور مشرق و مغرب کا نظام اپنے دونوں بیٹوں کے حوالے کر دیا۔اپنے حصہ کا نظام حکومت چلانے کے لئے چھوٹے شہزادہ گلاب کو بہت سے دانا وزیر،بہترین سپاہی اور سینکڑوں غلام دیئے تاکہ وہ آسانی سے نظام چلا سکے اور اسے کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔جو حصہ بادشاہ نے شہزادہ گلاب کے حوالے کیا اس میں باغات میووں سے بھرے پڑے تھے۔کھیت بھی فصلوں سے بھرپور تھے اور شہزادہ سکندر کو جس حصہ کو حکمران بنایا وہاں کی زمین بنجر اور پتھریلی تھی۔نہ باغات تھے اور نہ ہی درخت۔یہاں صرف برسات کے دنوں میں فصل اُگتی تھی۔بادشاہ نے اپنے بڑے بیٹے سکندر کو جو وزیر،سپاہی اور غلام دیئے تھے وہ بھی زیادہ عمر کے اور کمزور تھے مگر شہزادہ سکندر نے اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کی کیونکہ اس کو اپنے استاد کی طرف سے بہترین تعلیم کے ساتھ ساتھ بہادری اور شجاعت بھی ملی تھی۔سکندر نے اپنے حصہ کے علاقہ کا نظام سنبھالتے ہی اپنے غلاموں کو آزاد کر دیا تاکہ وہ بھی خود کو اس ملک کا شہری کہلوا سکیں۔بادشاہ سلامت یہ غلام مختلف ممالک سے خریدے تھے۔سکندر نے ان غلاموں کو جو اس کے حصہ میں آئے تھے آزاد کرکے مختلف کاموں پر لگا دیا اور جو غلام صحت مند تھے ان کو اپنی فوج کا حصہ بنا لیا۔یہ غلام جنگی سامان کی تیاری میں ماہر تھے۔سکندر نے یہاں کے لوگوں کی عزت نفس کو خاص خیال رکھا اور ان میں گھل مل کر رہنے لگا تاکہ حاکم اور محکوم کا فرق مٹ سکے۔یہاں تک کہ آزاد کردہ غلاموں کو بھی برابری کا مقام عطا کر دیا۔یوں سکندر عوام کے دلوں پر راج کرنے لگا۔دوسری طرف شہزادہ گلاب نے اپنے حصہ کی عنانِ حکومت سنبھالتے ہی وہاں کا نظم و نسق چلانے والے افراد جو ایک خاص مقام رکھتے تھے جبراً جیل کی سلاخوں کے پیچھے کر دیا تاکہ وہ لوگ اس کے کسی کام میں مداخلت نہ کر سکیں۔گلاب کی عادات تو پہلے ہی سے خراب تھیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گلاب کے حصہ کا علاقہ اس کی غلط پالیسیوں اور بے جا فضول خرچی کی وجہ سے اندر ہی اندر کھوکھلا ہو رہا تھا۔وہ ہر وقت نشے کی حالت میں رہنے لگا تھا اور یوں ایک دن موقع پا کر ایک ہمسایہ ملک نے شہزادہ گلاب کے علاقہ پر حملہ کر دیا۔وہ شہزادہ گلاب کو قید کرکے اس علاقہ پر قابض ہو گیا۔اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے اب وہ اپنے علاقہ کا حاکم نہیں بلکہ ایک قیدی تھا۔اس نے ان تمام اہم افراد کو جو کاروبار حکومت چلانے کے ماہر تھے،فوج جن کے زیر اثر تھی کو جیل کی تاریخ کو ٹھڑیوں میں ڈال دیا تھا۔یوں وہ اپنی فوج کو استعمال ہی نہ کر سکا اور شکست کھا گیا۔شہزادہ سکندر کو جب اپنے بھائی کی شکست اور علاقہ پر کسی اور کے قبضہ کا علم ہوا تو وہ چین سے نہ بیٹھ سکا۔اس نے اپنی تیار کردہ بھاری فوج لے کر مخالف فوج پر حملہ کر دیا۔یہ جنگ کافی دن تک جاری رہی اور بالآخر مخالف فوج پسپا ہو گئی اور اکثر نے ہتھیار ڈال دیے۔یوں سکندر دونوں علاقوں کا حکمران بن گیا۔سکندر کا انداز حکمرانی بالکل مختلف تھا۔وہ عوام کے دکھ سکھ میں ان کے ساتھ ساتھ رہتا۔اس نے کبھی بھی عوام کو یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ رعایا ہیں۔اس کے اس انداز حکمرانی پر عوام اس پر فریضہ تھی۔اس نے اپنی ذہنی صلاحیتوں سے کام لیا اور عوام سے وہاں کی پتھریلی اور بنجر زمین کو بھی زرخیز کر لیا۔جہاں فصل بارانی تھی اب وہاں کے لوگوں سے اس نے کنویں کھدوا کر نئے کھیتوں کو پانی سے سیراب کر دیا اور دیگر کاموں میں بھی یہ انداز اختیار کیے رکھا۔بادشاہ سلامت کو جب گلاب کی شکست اور قید کا علم ہوا تو بہت پریشان ہوئے پھر اچانک سکندر کی جواں مردی اور اعلیٰ ذہنی صلاحیت سے وہ علاقہ پھر حاصل کرنے کا سنا تو انہیں بہت خوشی ہوئی مگر ان کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ وہ سکندر کی فتح کا جشن منائیں یا گلاب کی شکست کا افسوس․․․․ایک کی شکست اور ملک کھو دینا اور دوسرے کی ذہنی صلاحیتوں اور بہادری۔یہ دونوں باتیں ہی قابلِ غور تھیں۔کافی سوچ بچار کے بعد بادشاہ سلامت کو سکندر کی لیاقت اور صلاحیت پر فخر محسوس ہو رہا تھا اور گلاب کی کم ہمتی،بے راہ روی اور نالائقی پر افسوس۔گلاب قید میں تھا۔بادشاہ نے سکندر سے اس سے رہائی کا کہا تو فرمانبردار شہزادے نے سرِ تسلیم خم کا اور گلاب کی رہائی کا وعدہ کیا۔گلاب نے بڑے بھائی سے معافی مانگی اور ہمیشہ اس کے ساتھ مل کر عوام کی خدمت کرنے کا سچا وعدہ کر لیا۔بادشاہ سلامت نے اب حکمرانی کا فریضہ مکمل طور پر شہزادہ سکندر کے حوالے کرنے کا سوچ لیا۔بادشاہ سلامت نے کئی ممالک کے بادشاہوں کو ایک مقررہ دن اپنے ہاں شاہی محل میں دعوت نامے ارسال کرکے مدعو کیا۔اس روز بادشادہ سلامت نے اپنے خاص پروگرام کا اعلان کرنا تھا۔شاہی محل تقریباً مہمانانِ گرامی سے بھر چکا تھا دوسرے ممالک کے بادشاہ اپنی اپنی نشستوں پر براجمان تھے۔ایک پڑوسی ملک کے بادشاہ نے بادشاہ سلامت کے پاس آ کر کہا کہ شہزادہ سکندر انتہائی بردبار،نیک سیرت اور تعمیر و ترقی کے ذہنی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں میں اپنی شہزادی بیٹی کے لئے سکندر کا رشتہ چاہتا ہوں۔بادشاہ سلامت نے جواب دیا بس کچھ دیر انتظار کریں۔تھوڑی دیر بعد بادشاہ سلامت یوں مخاطب ہوئے․․․․․معزز مہمانانِ گرامی آج میں بہت خوشی سے اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ شہزادہ سکندر بہت ہی ذہین اور ملک و عوام کی بہتری کے لئے بہترین منصوبہ ساز ہیں۔میں پورے ملک کی حکمرانی شہزادہ سکندر کے حوالے کرتا ہوں اور ساتھ ہی سلطان واسطی کی بیٹی شہزادی نیلم سے اس کی منگنی کا اعلان بھی کرتا ہوں۔بادشاہ سلامت نے اس اعلان کے ساتھ ہی شہزادہ سکندر کے سر پر تاج پہنایا۔وہاں موجود ہر فرد خوش تھا اور حیرت سے سکندر کو دیکھ رہا تھا۔بادشاہ سلامت کو بھی اس کی سمجھ آ گئی تھی کہ انسان شکل کا جتنا بھی خوبصورت کیوں نہ ہو اگر فطرت اور خصلت اچھی نہیں تو وہ جانوروں سے بھی بدتر ہے اور اسی احساس سے انہوں نے آج شہزادہ سکندر کو بادشاہی کا تاج پہنایا تھا۔ " سونے کا چمچ - تحریر نمبر 2265,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sone-ka-chammach-2265.html,"نازیہ آصفہاشم آٹھ نو سال کا بہت پیارا بچہ تھا۔ہر وقت شرارتیں کرنا ہنسنا ہنسانا اس کو بہت بھاتا تھا۔اس کی ماما کہتی تھیں ”ہاشم تو میری آنکھ کا تارا ہے“ اور دادی بھی بہت لاڈ کرتیں اور وہ اکثر یہ کہتیں کہ ”میرا ہاشم تو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا ہے“مگر دادی جب بھی ایسے کہتیں ہاشم ان کے پیچھے پڑ جاتا اور کہتا کہ ”لائیں میرا وہ سونے کا چمچ،مجھے دیں“۔دادی اماں ہنس کر ٹال دیتیں۔مگر آہستہ آہستہ ہاشم اس بات پہ بضد ہوتا گیا کہ مجھے سونے کا چمچ ہی لینا ہے۔اتوار کا دن تھا۔ایسے ہی دادی نے لاڈ سے پھر یہی کہہ دیا کہ میرا ہاشم تو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا تھا۔بس پھر کیا کہ ہاشم نے تو ضد پکڑ لی،کہ مجھے سونے کا چمچ چاہیے،مجھے ابھی میرا وہی سونے کا چمچ چاہیے دادی نے ٹالنے کی کوشش کی مگر ہاشم نہ مانا۔(جاری ہے)تو اس کے بابا نے شور سن کر اسے آواز دی،ہاشم دادی جان کو کیوں تنگ کر رہے ہو،میرے پاس آؤ ہاشم دوڑ کر بابا کی گود میں گھس گیا مگر وہی ضد کہ مجھے میرا سونے کا چمچ چاہیے۔اس کے بابا بولے ٹھیک ہے آؤ میرے پاس بیٹھ کے بات کرتے ہیں۔اس کے بابا نے ہاشم کو سامنے بٹھا لیا اور اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولے”میں تمہیں سونے کا چمچ لا دیتا ہوں مگر تمہیں اس سے پہلے مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا“۔ہاشم بولا جی بابا”اب تم تیسری کلاس میں ہو اب کے بعد جب بھی تمہارے امتحان ہوں گے تم نے پہلی پوزیشن لینا ہو گی اور تمہارے ہر رزلٹ پہ تمہیں ایک سونے کا چمچ ملے گا“۔ہاشم کا چہرہ تو خوشی سے کھل اُٹھا”بولا جی ٹھیک ہے“۔اب ہاشم بالکل بدل گیا اس نے خود کو وقت کا پابند بنا لیا۔صبح جلدی جاگ جاتا پارہ بھی پڑھتا،سکول کا کام دل لگا کر کرتا،اور فضول کام اس نے چھوڑ دیے تھے۔جب کلاس میں دسمبر ٹیسٹ ہوئے تو حسب وعدہ ہاشم نے پہلی پوزیشن حاصل کی تو اس نے سکول سے واپس آتے ہی بابا کو فون کرکے رزلٹ کے بارے میں بتایا۔اس کے بابا بھی بہت خوش ہوئے۔رات جب وہ دفتر سے واپس آئے تو ان کے پاس ایک سونے کا چمچ اور ایک خوبصورت باکس بھی تھا۔ہاشم چمچ لے کر بہت خوش ہوا۔مگر اس کے بابا نے کہا کہ ہاشم تم چند دن اس چمچ کو پاس رکھ کر اس ڈبے میں ڈال دینا مگر اسے پھر نکالنا نہیں۔اگلے امتحان پہ اور سونے کا چمچ ملے گا،اور تم سارے سونے کے چمچ جمع کرتے جاؤ گے ہاشم اتنے سارے سونے کے چمچ کے بارے سوچ کر ہی بہت خوش ہو رہا تھا۔اس نے پکا وعدہ کر لیا کہ وہ چند دن اس سونے کے چمچ سے کھیل کر اس باکس میں چمچ کو بند کرکے رکھ دے گا اور اگلے رزلٹ میں پھر سے سونے کا چمچ حاصل کرنے کے لئے محنت شروع کر دے گا۔اب تو ہر تین ماہ بعد جب کلاس میں امتحان ہوتا ہاشم کی پہلی پوزیشن آتی اور وہ سونے کا چمچ حاصل کرکے اپنے باکس میں ڈال دیتا۔اس کے پاس کافی سارے سونے کے چمچ جمع ہو گئے تھے۔آہستہ آہستہ ہاشم پانچویں کلاس میں پہنچ گیا آج اس کے بورڈ کے امتحان کا رزلٹ آیا تو اس نے پھر حسب وعدہ سونے کا چمچ جیت لیا۔اب ہاشم نے اگلی کلاس میں داخلہ لینا تھا،مگر ہاشم کے بابا نے ہاشم کے دوستوں کے لئے ایک پارٹی رکھی سب دوستوں کو گھر بلایا کیک اور بہت سی مٹھائیاں اور کھانے میز پہ سجائے گئے۔سب لوگ بہت خوش ہو رہے تھے۔کہ ہاشم کے بابا کے فون کی بیل بجی،تو انھوں نے بچوں سے ذرا پرے ہو کر بات کی،اور پھر سب بچوں کو بتایا”کہ سنو بچو“!ابھی ہمارے شہر کے سب سے بڑے سکول کے پرنسپل صاحب کا فون تھا اور وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ آپ ہاشم کو ہمارے سکول میں داخل کروائیں اس کی ساری تعلیم فری ہو گی اور ہم اس کو سکالر شپ بھی دیں گے۔سب بچوں نے خوش ہو کر اپنے دوست کے لئے تالیاں بجائیں۔پھر سب نے مل کر کیک کاٹا کھانا کھایا اور پھر سب بہت سے تحائف دے کر گھروں کو لوٹ گئے۔اگلے دن صبح ہاشم کی ماما اسے ناشتہ کروا رہی تھیں کہ انھیں بھی ایک کال موصول ہوئی کہ وہ انھیں کے شہر کے ایک بہت بڑے پرائیویٹ سکول کی پرنسپل بات کر رہی تھیں ان کا کہنا تھا کہ ہاشم کو ہمارے ادارے میں داخل کروائیں تو ساری تعلیم فری اور سکالر شپ بھی ملے گی اس کی ماما نے یہ بات ہاشم کو بتائی تو وہ حیران تھا کہ سب لوگ اسے اتنا پروٹوکول کیوں دے رہے ہیں۔اس کی دادی ایک بہت بڑا گفٹ باکس لے کر اس کے پاس آئیں اور بولیں کہ میرا بیٹا تو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا تھا۔سب ہنسنے لگے۔تب اس کے بابا نے اسے بولا کہ”اپنا وہ باکس لاؤ۔ہاشم باکس لے کے آیا تو اس کے بابا نے میز پہ ہاشم کو ملنے والی ساری ٹرافیاں گولڈ میڈل اور سرٹیفکیٹ رکھے اور ساتھ باکس سے چند چمچ بھی نکال کر رکھے تو ہاشم حیران ہو گیا کہ یہ کیا۔۔۔؟سارے چمچ کالے پڑ چکے تھے۔بہت بُرے لگ رہے تھے۔مگر ٹرافیاں،میڈل اور سرٹیفکیٹ جگمگا رہے تھے۔تب اس کے بابا بولے بیٹا یہ ہیں وہ اصل سونے کے چمچ جو تم منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے۔یہ کبھی بھی پرانے نہیں ہوں گے۔اور مجھے یقین ہے کہ تم ہر سال ان میں اضافہ کرتے جاؤ گے۔تب ہاشم نے دادی کا دیا ہوا گفٹ کھولا جس میں بچوں کی بہت مزے مزے کی کہانیوں کی کتابیں تھیں۔ہاشم یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اپنی مزے مزے کی کتابیں اُٹھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ " بدگمانی - تحریر نمبر 2264,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badgumani-2264.html,"امی جان نے میز پر ناشتہ لگایا،افشاں اور شرجیل کو آواز دی کہ تیار ہو گئے ہو تو آ جاؤ،سکول بس آنے ہی والی ہے۔ناشتے کے بغیر سکول نہیں جانا چاہئے۔افشاں تیار ہو گئی تھی اپنا سکول بیگ سنبھالے کمرے سے باہر آئی اور امی جان کے ساتھ میز کے گرد بیٹھ گئی امی جان نے گرم گرم پراٹھا اور انڈا اس کی پلیٹ میں رکھا اور افشاں ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئی،جبکہ شرجیل حسب معمول منہ پھلائے ہوئے تھا۔”بیٹا آؤ ناشتہ کرو“ امی جان نے پکارا ”مجھے نہیں کرنا ناشتہ“ اس کی اس بات پر ابو بھی کمرے سے نکل آئے تھے۔بولے ”شرجیل یہ روز روز گھر کا ماحول خراب کرنا مجھے پسند نہیں ہے،آؤ اور ناشتہ کرو۔“اس سے بدتمیزی سے کہا ”میں نے ایک دفعہ کہہ دیا ہے مجھے ناشتہ نہیں کرنا تو بس نہیں کرنا،اتنے میں سکول بس کا ہارن بجا تو افشاں اور وہ دونوں باہر لپکے۔(جاری ہے)دوپہر کو امی جان نے شرجیل کی پسند کا کھانا بنایا جب وہ دونوں سکول سے آئے تو امی جان نے بڑے پیار سے کہا کہ کپڑے تبدیل کرکے منہ ہاتھ دھو کر جلدی سے آ جاؤ میں نے تمہاری پسند کا کھانا بنایا ہے۔افشاں نے ایسے ہی کیا لیکن شرجیل نے اپنے کمرے میں جا کر اندر سے دروازہ بند کر لیا ہے۔امی جان نے بہت کہا افشاں نے بہت کوشش کی لیکن شرجیل نے ضد پکڑ لی کہ میں نہیں آؤں گا بھوک لگے گی تو خود ہی کھا لوں گا۔میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔افشاں مایوس واپس آ گئی،امی جان آزردہ ہو گئیں،ابو آئے تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔لیکن سب مل کر بھی شرجیل کی غلط فہمیاں دور نہ کر سکے۔شرجیل نے یہ معمول ہی بنا لیا تھا گھر میں اکھڑا اکھڑا رہتا،کسی کے کہنے پر کھانا نہیں کھاتا،بھوک لگتی تو خود ہی باورچی خانہ میں جا کر کھا لیتا کسی سے زیادہ بات نہیں کرتا بس جب جیب خرچ ختم ہو جاتا تو ابو سے مطالبہ کرتا کہ پیسے ختم ہو گئے ہیں ضرورت ہے دے دیں اور بس ابو امی جان اور افشاں سب پریشان تھے۔“بات اصل میں یہ تھی کہ افشاں اور شرجیل کی سگی امی کچھ سال پہلے وفات پا گئی تھیں۔وہ دل کی مریضہ تھیں بہت علاج معالجے کے باوجود زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکیں یہ صدمہ گھر بھر کے لئے بہت بڑا تھا۔افشاں شرجیل ابو اور دادی بہت عرصے تک اس صدمے کے زیر اثر رہے۔دادی جان جب تک زندہ تھیں انہوں نے گھر سنبھالے رکھا افشاں اور شرجیل کو ماں کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔افشاں اور شرجیل کے ابو اپنے کام میں کافی مصروف رہتے تھے۔دادی جان ان کا بہت خیال رکھتی تھیں لیکن کب تک بڑھاپے کے باعث گھر بھر کی ذمہ داریاں نبھانا ان کے لئے مشکل ہوتا جا رہا تھا اس لئے انہوں نے ابو کو سمجھا بجھا کر دوسری شادی کے لئے رضا مند کر لیا اور ایک نیک خاتون سے ان کی شادی کر دی۔اگرچہ یہ افشاں اور شرجیل کی سوتیلی والدہ تھیں لیکن فطرتاً نیک تھیں وہ دونوں بہن بھائی کو اپنے بچے سمجھتی تھیں اور بہت پیار کرتی تھیں۔افشاں نے ان کے پیار کا جواب پیار سے دیا اور انہیں اپنی امی کی طرح امی جان کہنا شروع کر دیا لیکن شرجیل کے ذہن میں سوتیلی ماں کا جو تصور پختہ ہو چکا تھا وہ نہ مٹ سکا۔وہ امی جان سے بدتمیزی سے پیش آتا ان کے پیار محبت کو دکھاوا سمجھتا،اسے لگتا وہ اصل میں ایسی نہیں ہیں جیسی نظر آتی ہیں۔ایک دن افشاں نے اسے بہت سمجھایا کہ میں بھی کہانیوں میں سوتیلی ماں کے بارے میں بہت کچھ پڑھ چکی ہوں۔لیکن ضروری نہیں کہ ہر سوتیلی ماں بُری ہو زندگی میں ایسا ہوتا ہے کچھ رشتوں کو کھونا پڑتا ہے اور نئے رشتے نبھانے پڑتے ہیں ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں سوتیلی ماں اچھی ملی ہے۔شرجیل نے سب سنا لیکن اس کے رویہ میں کوئی فرق نہ آیا۔دن گزرتے گئے جب شرجیل میٹرک میں پہنچا تو ان دنوں اس کے ابو کو اچانک کاروبار میں بہت بڑا خسارہ ہو گیا اور ان کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے حتیٰ کہ میٹرک کا داخلہ جانے والا تھا اور ان کے پاس داخلہ فیس کے پیسے نہیں تھے وہ سخت پریشان تھا۔شرجیل ابو کے کمرے کی طرف گیا تاکہ انہیں بتائے کہ اگر فیس جلد ادا نہ کی تو وہ میٹرک کا امتحان نہیں دے سکے گا اور اس کا سال ضائع ہو جائے گا۔ابو کے کمرے سے باتوں کی آواز آ رہی تھی وہ دروازے پر ہی رُک گیا۔امی جان کہہ رہی تھیں شرجیل کا امتحان بہت اہم ہے آپ یہ بیچ دیں تاکہ اس کا داخلہ چلا جائے۔ابو کی پریشان کن آواز آئی تمہارے پاس یہ آخری انگوٹھی بچی ہے اتنے دنوں سے جو گھر بھر کے اخراجات پورے ہو رہے ہیں وہ تمہارے زیورات بیچ کر ہی تو ہو رہے ہیں اب یہ آخری چیز بھی بیچ دوں گی؟کوئی بات نہیں میرے زیور اتنے اہم نہیں ہیں وہ دوبارہ بھی بن سکتے ہیں انشاء اللہ آپ اس پریشانی سے جلد نکل آئیں گے۔آپ یہ لے لیں اور فوری طور پر شرجیل کی داخلہ فیس کا انتظام کریں۔امی جان نے انگوٹھی ابو کی طرف بڑھائی تو ابو نے ہچکچاتے ہوئے پکڑ لی اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھے شرجیل جلدی سے دروازے سے ہٹا اور اپنے کمرے میں آ گیا۔اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں وہ دل میں بے حد شرمسار تھا کہ اس نے اس فرشتہ صفت خاتون کو ماں کا درجہ کیوں نہ دیا کیوں ہمیشہ ان کی دل آزاری کی۔اب شرجیل کی تمام غلط فہمیاں دور ہو چکی تھیں وہ امی جان کا فرمانبردار اور لاڈلا بیٹا بن چکا تھا کچھ ہی عرصے میں ان کے حالات بہتر ہو گئے اسے سمجھ آ گئی تھی کہ سنی سنائی باتوں پر کبھی کوئی پختہ رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ ”بدگمانیاں نہ کیا کرو بعض بدگمانیاں گناہ ہوتی ہیں“۔ " خوشبو - تحریر نمبر 2263,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khushbu-2263.html,"دادا ابو راشد کو تیار ہونے کا کہہ کر ذرا باہر گئے تھے،جاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں آدھ گھنٹے تک آتا ہوں،تب تک تم تیار ہو جانا جمعہ کی نماز کا وقت ہونے والا ہے،میرے ساتھ مسجد جانا۔”ٹھیک ہے دادا ابو“ راشد نے سعادت مندی سے جواب دیا تھا۔اب دادا ابو واپس آئے تو راشد بالکل بھی تیار نہیں تھا بلکہ مزے سے بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔دادا ابو کا موڈ سخت خراب ہو گیا۔انہوں نے ناگواری سے پوچھا ”تم تیار کیوں نہیں ہوئے؟“ وہ دادا ابو․․․․راشد بولا ”امی نے کہا ہے کہ تمہارے کپڑے تیار نہیں ہیں میں استری کرنا بھول گئی تھی اب بجلی بھی چلی گئی ہے،اور وقت بھی نہیں ہے اس لئے تم اگلے جمعہ کو مسجد چلے جانا“ دادا ابو چلے گئے لیکن وہ بہت ناراض دکھائی دے رہے تھے۔(جاری ہے)رات کے کھانے کے بعد دادا ابو نے راشد کی امی کو بلایا اور کہا ”آپ نے مجھے بہت مایوس کیا ہے،اگر ماں بچے کو جمعہ کی اہمیت نہیں بتائے گی تو بچے کو نماز کی عادت کیسے پڑے گی؟آپ نے راشد کے کپڑے تیار نہیں کئے اور کہہ دیا اگلے جمعہ کو مسجد چلے جانا اب رہنے دو“ راشد کی امی یہ سن کر ششدر سی رہ گئیں،انہوں نے راشد کی الماری سے اس کے دو شلوار سوٹ جو انہوں نے استری کرکے ہینگر میں لٹکا رکھے تھے لا کر دادا ابو کے سامنے رکھ دیئے،اب دادا ابو ساری بات سمجھ گئے،انہوں نے راشد کو بلایا جو اپنی امی کو وہاں دیکھ کر اور ہینگر میں اپنے کپڑے دیکھ کر بات کو سمجھ گیا اور بولا ”مجھے معاف کر دیں دادا ابو،اصل میں میری پسند کے کارٹون لگے تھے ٹی وی پر میں وہ دیکھ رہا تھا،جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا،اس لئے ایسے کہہ دیا آئندہ ایسا نہیں کروں گا“ تم آئندہ بھی ایسے ہی کرو گے․․․․!!امی نے غصے سے کہا ”جو اپنی ماں سے غلط بات منسوب کر سکتا ہے دادا ابو اور ماں کے بیچ غلط فہمی پیدا کر سکتا ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے“ ماما نے دادا ابو کو بتایا کہ کچھ عرصے سے راشد کی عادت جھوٹ اور چغلی کرنے کی ہو گئی ہے،کل اس نے باورچی خانے میں قیمتی چائے دان توڑ دیا اور ماسی پر الزام دھر دیا،جب میں باورچی خانہ میں گئی چائے دان کے ٹکڑے دیکھے تو راشد نے فوراً کہا ”ماسی یہاں تھی ابھی ابھی اوپر کے کمرے کی صفائی کرنے گئی ہے“ اب جو میں نے ماسی کو بلا کر پوچھ گچھ کی تو وہ رونے لگی کہ اس نے تو چائے دان کو ہاتھ تک نہیں لگایا،بعد میں پتہ چلا کہ راشد نے باورچی خانے کی الماری سے بسکٹ نکالتے وقت لا پرواہی سے کام لیا اس طرح چائے دان ٹوٹ گیا ”یہ تو بہت ہی غلط بات ہے دادا جان بولے“ اگر بچے میں جھوٹ یا چغلی کی عادت پختہ ہو جائے تو یہ نہ صرف اس کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ اردگرد کے لوگوں کے تعلق میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے،اس لئے ہمیں کچھ کرنا ہو گا امی نے کہا ”ٹھیک ہے آپ اسے سمجھائیں ان عادات کے نتائج سے آگاہ کریں اور میں بھی کوشش کرتی ہوں“ لیکن ایک بات ہے․․․!دادا ابو نے کہا ”راشد میں پہلے یہ عادت نہیں تھیں،کچھ عرصہ پہلے ہی پیدا ہوئی ہیں“ بالکل یہ ہی بات ہے ماما نے کہا ”میں بھی یہ ہی سوچ رہی تھی کہ راشد پہلے ایسا نہیں تھا،سچ بولتا تھا چاہے اسے ڈانٹ ہی پڑے غلط بیانی سے کام نہیں لیتا تھا“ ” اس کے لئے ہمیں کھوج لگانا پڑے گا کہ ایسا کیوں ہے“ دادا ابو نے کہا۔اگلے روز راشد کی امی اس کے سکول گئیں تو اس کی کلاس ٹیچر اور پرنسپل سے پتہ چلا کہ راشد کا کلاس میں بھی یہ ہی رویہ ہے،راشد اور اس کا دوست فرحان مل کر دوسروں کو تنگ کرتے ہیں،لڑائیاں کرواتے ہیں،جب ٹیچر تک بات پہنچتی ہے تو صاف مکر جاتے ہیں،راشد کی امی نے کلاس ٹیچر سے کہا ”پہلے تو فرحان نام کا اس کا کوئی دوست نہیں تھا؟یہ کب سے اس کا دوست ہے“ ٹیچر نے بتایا ”کہ فرحان تین ماہ پہلے ہی سکول میں داخل ہوا ہے پہلے یہ کسی دوسرے شہر میں تھا اس کے والد کا تبادلہ یہاں ہوا ہے اس لئے وہ اس سکول میں داخل ہوا ہے“ راشد کی امی اور ٹیچر نے جب یہ محسوس کیا کہ فرحان سے دوستی کے بعد راشد کے رویہ میں تبدیلی آئی ہے تو انہوں نے راشد کو فرحان سے دور کرنے کی کوشش کی،ٹیچر نے فرحان کو الگ بٹھانا شروع کر دیا،اس سے پہلے یہ ایک ہی سیٹ پر بیٹھتے تھے۔امی جان اور ٹیچر نے آہستہ آہستہ ان دونوں کو بُری عادات کے نقصانات کے بارے میں سمجھانا شروع کیا۔اصل میں فرحان بہت بگڑا ہوا بچہ تھا،اس کی دوستی کی وجہ سے راشد میں بُری عادات پیدا ہوئی تھیں،اب ٹیچر اور امی کے سمجھانے سے راشد سدھر گیا تھا اور اپنی حرکتوں پر شرمندہ بھی تھا،اسے احساس ہو گیا تھا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے یعنی وہ چل نہیں سکتا،ایک نہ ایک دن کھل جاتا ہے اور پھر شرمندگی ہوتی ہے۔اور اسے بڑوں کے سمجھانے سے یہ بات بھی سمجھ آ گئی تھی کہ بُری صحبت سے بچنا چاہیے،اس کا بہت نقصان ہوتا ہے،بُری صحبت شخصیت تباہ کر دیتی ہے۔راشد کو یاد تھا کہ فرحان اسے کہتا تھا کہ یار جھوٹ بول دیا کرو اور مکر جایا کرو۔لیکن راشد کو اس کی بات پر عمل کرکے ہمیشہ شرمندگی ہی اُٹھانا پڑی تھی لیکن اب اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ سوچ سمجھ کر اچھی عادات والے لڑکے کو اپنا دوست بنائے گا کیونکہ پھولوں کی صحبت میں رہنے والوں سے ہی خوشبو آتی ہے۔ " گڈ لک - تحریر نمبر 2262,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/good-luck-2262.html,"ساجد کمبوہایک ہرے بھرے جنگل میں بہت سے جانور رہتے تھے۔اس جنگل کا بادشاہ شیر کافی بوڑھا اور عقل مند تھا جس کی وجہ سے سبھی جانور پُرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ان سب کی آپس میں اچھی دوستی تھی۔وہ فارغ وقت میں خوب گپ شپ کرتے تھے۔لومڑی اور بھیڑیا بچپن کے دوست تھے۔وہ دونوں جب بھی ملتے تو خوب گھل مل کر باتیں کرتے۔ایک دن دونوں کی راہ چلتے ملاقات ہوئی تو بھیڑیے نے کہا ”بی لومڑی!اب جنگل میں شکار کم ہوتا جا رہا ہے۔انسان نے اس جنگل کے جانوروں کا شکار کرکے ہم جانوروں پر بڑا ظلم کیا ہے۔اب تو جنگل کے اردگرد بھی بھیڑیں بہت کم ہو گئی ہیں۔میں تو کھانے کو ترس گیا ہوں،کہیں بھی شکار نہیں ملتا۔“”اگر عقل ہو تو اس جنگل میں شکار بہت ہے“ بی لومڑی نے مکاری سے کہا۔(جاری ہے)”بی لومڑی!اب تو جانور بھی بہت ہوشیار ہو گئے ہیں۔انسان کو دیکھ کر چھپ جاتے ہیں اور ہمیں دیکھ کر بھی اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔ٹی وی کیبل اور موبائل نے بھی انہیں اتنا ہوشیار کر دیا ہے کہ فوراً ہی مس کال کرکے اپنے ساتھیوں کو ہوشیار کر دیتے ہیں،اب تو ٹویٹر اور وائی فائی بھی ان کی دست رس میں ہے۔“ بھیڑیے نے کہا۔”اچھا آؤ ٹرائی کرتی ہوں“ یہ کہہ کر لومڑی نے بھیڑیے کو ساتھ لیا اور ندی کی طرف چل پڑی۔وہاں دیکھا کہ بہت سی مرغابیاں اور دوسرے پرندے پانی میں تیرتے ہوئے اٹکھیلیاں کر رہے ہیں۔لومڑی نے بھیڑیے کو جھاڑیوں میں چھپا دیا اور خود مرغا بی کی طرف بڑھ گئی۔پھر اس نے مسکراتے ہوئے مرغا بی سے کہا۔ ”کیسی ہو میری پیاری دوست؟“مرغا بی بولی ”اچھی ہوں بی لومڑی!تمہاری چالاکی کے بڑے قصے سن رکھے ہیں اور اس لئے تمہیں دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔تمہارا دوست بھیڑیا کہاں ہے؟“وہ جھاڑیوں میں بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مان نہیں سکتا۔“ لومڑی نے مکاری سے کہا۔”وہ کیا کہہ رہا ہے؟“ مرغا بی نے حیرت سے پوچھا۔”چھوڑو بھی میری دوست!لومڑی نے مکاری سے کہا۔“”پھر بھی وہ جھاڑیوں میں کیوں چھپا بیٹھا ہے؟“ مرغا بی ابھی تک حیران تھی۔”وہ کہہ رہا تھا کہ مرغا بی کے پَر بڑے سخت ہوتے ہیں۔اگر اس کا تکیہ بنایا جائے تو اس پر سر رکھ کر کوئی سو نہیں سکتا۔مگر میں کہتی ہوں کہ تمہارے پَر بڑے نرم ہوتے ہیں،ان کا تکیہ بڑا نرم ہو گا۔“ لومڑی نے مکاری سے کہا۔”میرے پَر واقعی نرم ہوتے ہیں۔تمہارا دوست غلط کہتا ہے۔“ مرغا بی نے پانی میں چکر لگاتے ہوئے کہا۔”یہی بات میں نے بھیڑیے سے کہی تھی،مگر وہ مانتا ہی نہیں۔“ لومڑی نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا۔مرغا بی نے خوش ہو کر پانی میں غوطہ لگایا اور کافی دور جا کر پانی میں اُبھری۔اسے دیکھ کر لومڑی نے چالاکی سے کہا ”میں اسے بتا دیتی ہوں کہ تمہارے پَر کتنے نرم ہیں۔تم ایسا کرو کہ مجھے اپنا ایک پر دے دو،تاکہ وہ اسے چھو کر دیکھ لے۔“”ٹھیک ہے میں تمہیں اپنی دم کے چند پَر دیتی ہوں۔“ یہ کہہ کر مرغا بی جونہی لومڑی کی طرف مُڑی تو لومڑی نے اسے دبوچ لیا اور چند لمحوں میں ہڑپ کر گئی۔پھر اس کے نرم و نازک پَروں کا تکیہ بنا کر اس پر بیٹھ گئی۔بھیڑیا بڑی حیرانی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔بی لومڑی نے اس سے کہا ”دیکھا تم نے!یہاں ہر وقت شکار مل سکتا ہے،بس عقل استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔“یہ سُن کر بھیڑیا جھاڑیوں سے نکلا اور اپنے جسم پر مٹی اور کیچڑ لگا کر ندی کی طرف بڑھ گیا۔اب اسے بھی لومڑی کی طرح کسی بے وقوف اور نادان مرغا بی کی تلاش تھی۔لومڑی نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا اور ”گڈ لک“ کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔پیارے بچو!آپ نے اکثر سنا ہو گا خوشامد بُری بلا ہے۔مگر آج کل ترقی کی معراج خوشامد بن گئی ہے۔ہر افسر کی کوشش کہ میری خوشامد کی جائے میری آؤ بھگت کی جائے مجھے اعلیٰ درجہ دیا جائے۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ماتحت اپنے افسران کی چاپلوسی کرتے ہیں غیبت کرتے ہیں اور سہولیات حاصل کرتے ہیں۔وقتی طور پر تو فائدہ ہوتا ہے۔مگر آخرت خراب ہوتی ہے۔خوشامد پسند اپنا الو سیدھا کرتا ہے خواہ وہ انسان ہو یا جانور سچا اور کھرا بندہ کسی کو پسند نہیں۔مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اقوال زریں ہے کہ سچ بولنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسے یاد نہیں رکھنا پڑتا۔ورنہ جھوٹ بولنے والے کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ اس نے پہلے کونسا بیان دیا تھا۔ " اوہ میرا پیارا مٹو - تحریر نمبر 2261,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/oh-mera-pyara-matto-2261.html,"نازیہ آصفزین چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا بہت لائق اور پیارا بچہ تھا۔اس کے دو ہی شوق تھے ایک پرندے پالنا اور دوسرا پتنگ اُڑانا۔اس نے اپنے گھر کے پچھلے حصے میں جو لان تھا۔وہاں چھ بطخیں،چھ مرغیاں اور دو بڑے مرغے بھی پال رکھے تھے۔جو بہت صحت مند تھے۔ایک مرغے کا نام کٹو اور دوسرے کا مٹو تھا۔وہ دونوں ڈھیروں دانہ کھاتے مگر پھر بھی ان کا پیٹ نہ بھرتا تھا۔زین نے ان کے لئے ایک ننھا سا تالاب بھی بنا رکھا تھا جہاں وہ پائپ لگا کر روزانہ تازہ پانی بھر دیتا اور دانہ دنکا ڈال کر سکول چلا جاتا۔پرندے لان میں موجود امرود اور لیموں کے پیڑوں کے نیچے کھیلتے رہتے اور ساتھ ہی دوسرے کونے میں موجود کھجور کے تن آور درخت سے گرمی کھجوریں کھاتے رہتے۔(جاری ہے)زین سکول سے واپس آ کر پھر انھیں دانہ ڈالتا اور اپنی ڈور اور پتنگ لے کر چھت پہ چڑھ جاتا۔شام تک پتنگ اُڑاتا۔زین کی امی کو بطخوں اور مرغیوں کے تازہ دیسی انڈے بھی وافر مقدار میں دستیاب ہو جاتے،جو زین اور اس کے بہن بھائیوں کی خوراک کا حصہ بن جاتے زین بھی اپنا من پسند انڈا کھا کر خود کو بہت صحت مند محسوس کرتا۔زین کے بابا یہ سوچ کر خوش ہوتے کہ چلو اچھا ہے میرا بچہ موبائل جیسی گندی بیماری سے تو بچا ہوا ہے۔اسی طرح وقت بہت اچھے سے گزر رہا تھا،کہ ایک دن زین کو اپنے والدین کے ہمراہ اس کے ابو کے دوست کے گھر ایک پہاڑی گاؤں میں شادی پہ جانا پڑا۔اس نے رات کو ہی تالاب بھر دیا اور پاس دانہ دنکا بھی بکھیر دیا۔وہ صبح سویرے ہی گھر سے نکلے اور دن بھر شادی میں شمولیت کے بعد جب رات گئے واپس آئے تو ایک بج رہا تھا۔سب تھکے ہوئے تھے تو فوراً سو گئے۔اگلے روز اتوار تھا۔سب دیر تک سوئے رہے۔اس کی امی جاگیں اور وہ گھر کے پچھلے لان میں گئیں۔پرندوں کو دانہ ڈالا،کچھ پرندے تو دوڑتے ہوئے آئے مگر دو سفید بطخیں اور ایک بڑا مرغا مٹو نہیں آئے۔وہ پریشان ہو گئیں۔آگے جا کر دیکھا تو وہ تینوں امرود اور لیموں کی کیاریوں کے درمیان سوکھی گھاس پھوس میں گرے ہوئے تھے۔ان کے ششکارنے پہ بھی وہ بطخیں اور مٹو نہ اُٹھ سکے۔وہ فوراً کمرے میں آئیں تو زین جاگ چکا تھا۔انھوں نے اسے سارا احوال بتایا تو زین دوڑتا ہوا لان میں گیا اس کے ابو بھی اس کے پیچھے آ گئے۔زین نے فوراً اپنے پیارے ”مٹو“ کو اُٹھایا،تو وہ ایسے بے خود سا ہوا پڑا تھا۔مگر یہ کیا۔۔۔؟مٹو کے دونوں پنجے ڈور میں اُلجھے پڑے تھے اور اس کی ٹانگیں شدید زخمی ہو چکی تھیں جن سے مسلسل خون رس رس کر اس کے پنجوں پہ جم چکا تھا۔زین کے بابا نے فوراً بطخوں کو اُٹھایا تو ان بیچاریوں کا بھی یہی حال تھا۔سب کی ٹانگیں زخمی تھیں،زین کی ماما قینچی لے کر آئیں اور ڈور کاٹ کر پرندوں کی اُلجھی ٹانگوں کو آزاد کروایا۔مگر بھوک،پیاس اور زخموں کی شدت نے انھیں ادھموا کر دیا ہوا تھا۔زین اپنے بابا کے ساتھ مل کر فوراً انھیں جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔جہاں پہ بھی کافی رش تھا پتہ چلا اکثر لوگوں کے جانور اور پرندے زخمی تھے۔اس لئے وہاں بھی کافی انتظار کے بعد جب ان کی باری آئی تو ڈاکٹر صاحب کے چہرے کو دیکھ کر زین بہت زیادہ پریشان ہو گیا۔کیونکہ انھوں نے بتایا کہ مرغا تو مر چکا ہے مگر بطخوں کے زخموں پہ انھوں نے دوائی لگا دی اور کچھ دوائی ساتھ دے بھی دی کہ گھر جا کے بھی لگاتے رہیں۔زین بہت زیادہ افسردہ تھا کہ اس کا اتنا صحت مند مرغا ایک کمبخت ڈور نے قتل کر دیا تھا اور اس کی پیاری سفید بطخیں ابھی بھی اوندھی پڑی تھیں وہ کچھ کھا پی بھی نہیں سکتی تھیں۔سب گھر والے پریشان تھے۔زین کے آنسو ٹپ ٹپ گرتے دیکھ کر اس کے بابا بولے”بیٹا اسی لئے کہتا تھا پتنگ بازی اچھی چیز نہیں ہے“۔زین بولا ”مگر بابا میری ڈور تو اندر الماری میں پڑی ہے“۔اس کے بابا بولے بیٹا:”لڑکے چھتوں پہ پتنگیں اُڑاتے اور ایک دوسرے کی پتنگ کاٹتے ہیں تو ساتھ ہی ڈور بھی کٹ جاتی ہے۔پتنگ کا کاغذ تو آہستہ آہستہ گل سڑ جاتا ہے مگر ڈور ایسے ہی کہیں لٹکی رہتی ہے اور وہ درختوں کے ساتھ اُلجھ کر نیچے صحن یا لان میں بھی آ گرتی ہے۔پھر وہاں موجود پرندوں کے لئے ایسے ہی وبال جان بن جاتی ہے جیسے ہمارے ان پرندوں کے ساتھ ہوا“۔زین جو اپنے مٹو کو کھو کر پہلے ہی بہت پریشان تھا رونے لگ گیا۔اس کی امی نے اسے گلے لگا لیا اور کہنے لگیں ”بیٹے“ یہی بات سمجھنے کی ہے کہ ہم لوگوں نے اپنا ماحول،آب و ہوا تو آلودہ کی ہی ہے ساتھ ساتھ ہم پرندوں اور جانوروں کو بھی بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ہم بہت سادہ سی چیزوں اور کھیل کو بھی یوں اُلجھا رہے ہیں کہ کوئی بھی چیز صحت مند نہ رہ پائے۔زین بولا:”ماما وہ کیسے“؟زین کی ماما بولیں:”بیٹے شیشے کی ڈور کی جگہ سادہ ڈور بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔پھر زین کی ماما نے اسے بتایا کہ چند دن پہلے جو آندھی آئی تھی تو تب آس پاس سے اتنے سارے شاپر اُڑ کر ان کے لان میں آ گرے تھے اور ایسے ہی ایک شاپر ایک بطخ کے گلے میں ڈل گیا۔بطخ ڈر کر بھاگتی تو شاپر بھی اتنی تیزی سے اس کے پاؤں میں اُلجھتا جاتا۔جو انھوں نے بطخ کو پکڑ کر اُتارا تھا۔ہمیں یہ شاپر،ڈور اور نہ گلنے سڑنے والی چیزوں کو چھوڑ کر قدرتی چیزوں جیسے کپڑے کے تھیلے،مٹی کے برتنوں کی طرف آنا ہو گا ورنہ یہ سب چیزیں آسیب بن کر ایسے ہی ہمیں ستاتی رہیں گی“۔ " اُس دنیا کے جوتے - تحریر نمبر 2259,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/uss-duniya-ke-joote-2259.html,"احمد عدنان طارقبریرہ نے چلا کر امی کو پکارا جو باورچی خانے میں کیک بنا رہی تھیں اور انھیں بتایا:”امی مجھے تزئین نے اپنی سالگرہ پر بلایا ہے۔کیا میں جا سکتی ہوں؟“امی بولیں:”اگر تم کوئی شرارت نہ کرو تو تم اپنا نیلا نیا لباس پہن کر جا سکتی ہو۔“بریرہ نے امی سے پوچھا:”لیکن امی!میں جوتے کون سے پہنوں گی۔میرے پاس نیلے لباس کے ساتھ پہننے کے لئے نیلے جوتے نہیں ہیں اور میرے پرانے جوتے چھوٹے ہو گئے ہیں اور میرے پیروں میں پورے نہیں آتے۔“امی نے اس سے کہا:”اچھی بات ہے میں تمہیں نیلے جوتے خرید دیتی ہوں،لیکن تمہیں ان دنوں میں شرارتوں سے بچ کر اور اچھی بچی بن کر رہنا ہو گا،ورنہ میں تمہیں جوتے خرید کر نہیں دوں گی۔(جاری ہے)“بریرہ نے یہ نصیحت سن کر تہیہ کر لیا کہ وہ اچھی بچی بن کر رہے گی،لیکن کسی نہ کسی وجہ سے اس سے غلطی ہوتی رہی۔بریرہ کے ہاتھ سے امی کا پسندیدہ چائے کا کپ گر کر ٹوٹ گیا۔پھر ایک دن وہ پھولوں کا قیمتی گلدان اُٹھا کر لا رہی تھی کہ وہ بھی زمین پر گر کر ٹوٹ گیا اور اس کا سارا پانی قالین پر گر گیا۔بریرہ کی امی بہت ناراض ہوئیں۔بریرہ نے امی سے معافی مانگی۔اس نے دل میں سوچا کہ اللہ کرے امی اتنی ناراض نہ ہوں کہ وہ جوتے ہی نہ لے کر دیں۔اس نے دوبارہ دل میں پکا ارادہ کیا کہ اسے سالگرہ سے پہلے کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے،لیکن پھر غلطی ہو ہی گئی۔اس نے اپنی جرابوں کا نیا جوڑا گم کر دیا۔امی نے بریرہ کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا:”بریرہ!یہ تمہارے لئے سالگرہ سے پہلے آخری موقع ہے۔اگر تم نے اب کوئی بے وقوفی یا شرارت کی تو تم اپنے جوتوں سے محروم ہو جاؤ گی۔“بریرہ کو علم تھا کہ اس کی امی جو کہہ رہی ہیں اس پر عمل بھی کریں گی۔اگلے دو دن بریرہ بہت اچھی بچی بنی رہی۔پھر وہ دن آیا،جس سے اگلے دن تزئین کی سالگرہ تھی۔بریرہ نے پوچھا:”امی!کیا میں بازار جا کر جوتے خرید سکتی ہوں؟“امی بولیں:”ضرور!میں تمہیں سہ پہر کے وقت بازار لے جاؤں گی،لیکن ابھی تم جاؤ اور خالہ ماریہ کو میرا یہ رقعہ دے کر آؤ۔سیدھی جاؤ اور جلدی واپس آنا۔تمہارے پاس صرف اتنا وقت ہے کہ تم واپس آ کر دوپہر کا کھانا کھا سکو۔اتنی دیر میں شہر جانے کے لئے اکلوتی بس کا وقت ہو جائے گا جس کے ذریعے میں تمہیں شہر جا کر نئے جوتے دلا دوں گی۔“بریرہ بولی:”بہت اچھا امی جان!میں انشاء اللہ وقت پر پہنچ جاؤں گی۔“وہ رقعہ لے کر بھاگ کھڑی ہوئی۔راستے میں ایک جنگل آتا تھا۔بریرہ کو راستہ معلوم تھا۔وہ تیزی سے جنگل سے گزرنے لگی۔راستے میں بہت خوبصورت پھول کھلے ہوئے تھے،لیکن بریرہ انھیں دیکھنے کے لئے بھی کھڑی نہیں ہوئی۔پھر وہ خالہ کے گھر پہنچی۔انھیں رقعہ دیا،ان سے جوابی رقعہ لیا اور گھر کی طرف تیزی سے روانہ ہو گئی۔وہ سوچ رہی تھی کہ امی خوش ہوں گی،کیونکہ میں وقت سے پہلے ہی واپس پہنچ جاؤں گی۔وہ جنگل والے راستے سے واپس جا رہی تھی کہ راستے میں اس نے کسی کی افسردہ آواز سنی۔یہ عجیب سی آواز تھی۔نہ یہ آواز کسی جانور کی تھی اور نہ کسی پرندے کی۔بریرہ حیران تھی کہ یہ کس کی آواز ہو سکتی ہے۔وہ ایک لمحے کے لئے رُکی اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔تبھی درختوں سے کوئی چیز نکلی اور دوڑتی ہوئی اس کی طرف آئی۔اسے دیکھ کر بریرہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔وہ ایک بہت چھوٹا سا شخص تھا۔وہ بریرہ سے بھی قد میں کہیں چھوٹا تھا اور زار و قطار رو رہا تھا۔وہ چلایا:”چھوٹی لڑکی!آؤ میرے ساتھ۔میری مدد کرو۔میری تتلیوں کے پَر کانٹوں میں پھنس گئے ہیں۔“بریرہ اس کی طرف دوڑی جس طرف بونے نے اشارہ کیا تھا۔اس نے وہاں ایک حیرت انگیز منظر دیکھا۔وہاں ایک بہت خوبصورت رتھ کھڑا تھا،جسے پانچ تتلیاں کھینچ رہی تھیں،لیکن کسی نہ کسی طرح وہ ایک کانٹوں سے بھری ہوئی جھاڑی میں اُلجھی ہوئی تھیں۔آزاد ہونے کے لئے ان کے زور لگانے سے ان کے پَر پھٹ چکے تھے۔بونا اپنی آنکھیں پونچھتا ہوا بولا:”کیا تم میری مدد کرو گی؟اگر تم رتھ کی باگیں مضبوطی سے پکڑ لو تو میں تتلیوں کے پَر آزاد کروا سکتا ہوں،لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔“بریرہ بولی:”اوہ خدایا!میں تو دل و جان سے مدد کرنا چاہتی ہوں،لیکن میری امی کا حکم ہے کہ جلدی واپس آؤں۔انھیں شہر سے نئے جوتے لے کر مجھے دینے ہیں جو مجھے کل اپنی سہیلی کی سالگرہ پر پہننے ہیں۔میں دیر سے گئی تو میری بس چھوٹ جائے گی۔“بونا پھر رونے لگا اور بولا:”ٹھیک ہے میں سمجھ سکتا ہوں۔اوہ میری خوبصورت تتلیاں!وہ مر جائیں گی۔اگر تم راستے میں کسی اور بچی سے ملو جسے شہر سے جوتے نہ لینے ہوں تو اسے کہنا ہماری مدد کے لئے اِدھر آ جائے۔“بریرہ نے اس کی طرف دیکھا اور پھر تتلیوں کی طرف اسے معلوم تھا کہ جنگل کے راستے میں وہ کسی اور سے نہیں مل سکتی۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔پھر اچانک اس نے اپنے ذہن میں ایک فیصلہ کر لیا۔وہ بولی:”مت روؤ۔میں یہیں رہ کر تمہاری مدد کرتی ہوں۔ہو سکتا ہے میں کھانے تک وقت پر پہنچ ہی جاؤں۔“بونے نے اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے اسے کہا:”تمہارا ہزار دفعہ شکریہ،اب آؤ اور مضبوطی سے باگیں پکڑ لو۔میں جاتا ہوں اور تتلیوں کو پُرسکون کرتا ہوں۔“بریرہ چھلانگ لگا کر رتھ پر چڑھ گئی اور مضبوطی سے باگیں پکڑ لیں۔بونا دوڑ کر تتلیوں کے پاس پہنچا اور نوکیلے کانٹوں سے ان کے پَر آزاد کروانے لگا۔ایک کے بعد ایک کو اس نے آزاد کروایا۔خاصا وقت لگ گیا،کیونکہ تتلیوں کے پَر بہت نازک ہوتے ہیں۔آخر یہ کام مکمل ہو گیا۔بونے نے بریرہ سے خوشی خوشی کہا۔تتلیاں آزاد ہو چکی ہیں۔تمہارا تہ دل سے شکریہ۔مجھے اُمید ہے کہ تم وقت پر پہنچ جاؤ گی۔“بریرہ بولی:”مجھے ابھی اُمید ہے۔خدا حافظ۔اللہ کرے تم بھی گھر خیریت سے پہنچ جاؤ۔“اب اس نے دوڑنا شروع کیا۔وہ زندگی میں اس سے تیز کبھی نہیں بھاگی تھی،جتنی اس دن بھاگی۔وہ ہانپتی کانپتی گھر پہنچی۔امی بولی:”راستے میں بریرہ آخر تم کیا کرنے بیٹھ گئی تھیں۔کھانا کب کا میں نے کھا لیا اور بس باکل تیار کھڑی ہے۔“بریرہ روہانسی ہو کر بولی:”امی!میں کچھ نہیں کر سکتی تھی راستے میں ایک بونا مجھے ملا تھا․․․“امی ڈانٹ کر بولیں:”جھوٹ نہ بولو۔تمہارے نیلے جوتے تمہیں نہیں مل سکتے۔“بریرہ بولی:”امی!جوتوں کے بغیر تو میں سالگرہ پر بھی نہیں جا سکوں گی۔میرے پاس اور جوتے بھی نہیں ہیں۔“امی بولیں:”یہ تمہارا اپنا قصور ہے۔تم ایک بے وقوف لڑکی ہو۔اب جاؤ اور کھانا کھاؤ اور اس بارے میں اب ایک لفظ سننا نہیں چاہوں گی۔“بے چاری بریرہ وہ کھانے کی میز پر بیٹھ تو گئی،لیکن اس سے کھانا کھایا نہیں گیا۔وہ بہت مایوس تھی۔اس نے بس کو جاتے دیکھا تو نوالہ اس کے حلق میں اٹک گیا۔جوتے نہیں تو سالگرہ بھی نہیں۔وہ بہت افسردہ تھی۔باقی دن اسے چھوٹے بھائی کو کھلانا پڑا اور شام کو اسکول کا کام۔وہ جلدی سو گئی تاکہ کچھ مایوسی کم ہو۔اگلی صبح وہ جلدی اُٹھ گئی۔اس نے چاہا کہ امی کے لئے چائے بنائے۔اس نے گھر کا دروازہ کھول کر دیکھا کہ کیا گوالہ دودھ چھوڑ گیا ہے یا نہیں۔لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ سیڑھیوں پر ایک ڈبا پڑا ہوا تھا۔وہ شوخ پیلے رنگ کا تھا اور نیلی ڈوری سے بندھا ہوا تھا۔اس پر ایک چھوٹا رقعہ تھا جس پر لکھا تھا:”اس چھوٹی بچی کے لئے جس نے تتلیوں کی جان بچائی۔“بریرہ نے تیزی سے ڈبا اُٹھایا،اس کی ڈوری کھولی اور ڈھکن اُٹھا کر دیکھا۔آپ اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں کیا؟کہ اس ڈبے میں کیا تھا۔اس میں تھا دنیا کا خوبصورت ترین،نفیس ترین ریشمی تاروں سے بُنا ہوا نیلے جوتوں کا جوڑا۔دونوں جوتوں پر دو سنہری تتلیاں جڑی ہوئی تھیں۔ان کا قد اتنا ہی بڑا تھا جتنی کل والی تتلیاں۔بریرہ نے خوشی سے نعرہ لگایا۔اس نے جلدی سے جوتے پہننے کی کوشش کی۔وہ بالکل پاؤں کے ناپ کے تھے۔اس نے اپنی زندگی میں اس سے خوبصورت جوتے کسی دکان پر رکھے ہوئے نہیں دیکھے تھے۔وہ دوڑتی ہوئی امی کے پاس پہنچی اور کہنے لگی:”امی․․․․امی!دیکھیں وہی بونا سالگرہ میں پہننے کے لئے جوتے لے کر آیا ہے۔مجھے لگتا ہے اسے معلوم تھا کہ مجھے دیر ہو گئی ہے اور میں جوتے نہیں خرید سکتی۔“ظاہر ہے اب امی کو بریرہ کی بات ماننی ہی پڑی۔وہ بہت خوش ہوئیں۔وہ بریرہ سے کہنے لگیں:”اس تحفے کی تم حق دار تھیں۔میں نے بالکل تم پر یقین نہیں کیا کہ تم کسی بونے سے ملی ہو،لیکن اب میں مانتی ہوں،کیونکہ یہ جوتے اس دنیا کے نہیں ہیں۔تم انھیں پہن کر بہت پیاری لگو لگی۔“بریرہ بولی:”واہ جی واہ!ہر چیز ٹھیک ہو گئی۔میں سالگرہ میں جاؤں گی۔“اور واقعی سالگرہ میں وہ جوتے پہن کر سب سے پیاری لگ رہی تھی۔ " نیک مجرم - تحریر نمبر 2258,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naik-mujrim-2258.html,"جدون ادیبمولوی صاحب نے جرگے کے سربراہ حاجی صاحب کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا تھا۔ایسا وہ تب کیا کرتے تھے،جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا۔چنانچہ کھانے کے بعد وہ مولوی صاحب کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ بولے:”حاجی صاحب!آپ جانتے ہیں کہ عید الاضحی قریب ہے تو اسی سلسلے میں آپ سے ایک اہم مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔“”آپ ضرور بات کیجیے۔“حاجی صاحب نے بڑے ادب اور احترام سے کہا۔مولوی صاحب نے اپنے مخصوص دھیمے انداز میں کہنا شروع کیا:”آپ کی مدد سے ہم نے اپنے گاؤں میں چند اچھے کاموں کو رواج دیا۔لوگوں کو جہیز دینے سے منع کیا۔شادیاں سادگی سے کرنے کی طرف راغب کیا۔گاؤں کی دکانوں سے سگریٹ اور تمباکو کی فروخت ختم کی۔باہمی رضا مندی سے سب نے نماز کی پابندی کو قبول کیا۔(جاری ہے)اس سے ماحول بہت اچھا ہو گیا۔“”یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا۔“حاجی صاحب مسکرا کر بولے:”ہم کب ان باتوں کو جانتے تھے۔وہ دن بابرکت تھا جب آپ زخمی حالت میں گاؤں آئے اور مولوی صاحب نے آپ کو پناہ دی اور کچھ عرصے بعد اپنی بیٹی سے آپ کی شادی کر دی۔“”آپ درست فرماتے ہیں۔“مولوی صاحب عقیدت بھرے انداز میں بولے:”مولوی صاحب مرحوم نے مجھ گناہ گار کو پناہ دی۔بیٹا بنا کر دین کی تعلیم دی اور آخر میں اپنا سب کچھ مجھے سونپ گئے۔ان کا احسان کبھی نہیں بھول سکوں گا۔“وہ ایک لمحہ ٹھہر کر بولے:”میں جو بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ قربانی کے وقت ہم خود کو معاشرتی اونچ نیچ سے نہیں بچا سکتے۔میری تجویز ہے کہ گاؤں کے جتنے بھی لوگ قربانی کرتے ہیں وہ ایک جگہ جمع ہو کر کریں اور پھر سارا گوشت گاؤں کے تمام گھروں میں برابر تقسیم کر دیا جائے۔“”سبحان اللہ!“حاجی صاحب خوش ہو کر بولے:”بہت زبردست تجویز ہے۔“”اب پتا نہیں لوگ اس پر راضی ہوں گے کہ نہیں!مگر ایسا کرنے سے سب لوگوں کو برابر گوشت ملے گا اور خاص طور پر وہ لوگ جو قربانی نہیں کرتے،ان کو فائدہ ہو گا کہ وہ واقعی مستحق بھی ہیں۔“مولوی صاحب نے کہا۔”میں جرگے کے دیگر ارکان سے بات کرتا ہوں۔“حاجی صاحب نے کہا۔کچھ دن بعد قربانی کا دن آیا تو وہ سب کے لئے مسرت کا سبب بن گیا۔سب لوگ قربانی کرکے سارا گوشت ایک جگہ جمع کرتے رہے،پھر حاجی صاحب کی نگرانی میں سارے گاؤں والوں میں برابر تقسیم ہو گیا۔گھر گھر میں مولوی صاحب اور حاجی صاحب کے لئے دعائیں ہو رہی تھیں۔اسی شام دو جیپیں گاؤں میں داخل ہوئیں۔ان میں سے دس بارہ افراد ہتھیاروں سمیت نیچے اُترے۔ان لوگوں کی قیادت لمبی داڑھی والا ایک بڑی عمر کا شخص کر رہا تھا۔جسے سب کاکا جی کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔آن کی آن میں پورا گاؤں وہاں جمع ہو گیا۔حاجی صاحب جرگے کے ارکان کے ساتھ فوراً وہاں پہنچے۔کاکا جی کی شخصیت خاصی رعب دار تھی۔جب وہ بولے تو ان کی گونج دار آواز دور تک پھیل گئی۔”گاؤں والو!ہماری تم سے کوئی دشمنی نہیں۔ہم کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے،مگر کوئی راستے میں آیا تو وہ اپنے نفع نقصان کا خود ذمے دار ہو گا۔ہم بس اپنے ایک مجرم کو لینے آئے ہیں۔ہمیں برسوں بعد پتا چلا ہے کہ وہ اس گاؤں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔“”کون ہے وہ؟“ہر طرف سرگوشیاں ہونے لگیں۔اچانک مجمع میں سے مولوی صاحب نکل کر سامنے آئے اور کاکا جی سے مخاطب ہو کر بولے:”کاکا جی!آخر آپ نے مجھے ڈھونڈ لیا!ٹھیک ہے،میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔“مولوی صاحب کے الفاظ گویا بم تھے کہ ایک ہل چل مچ گئی۔آوازوں کی بھنبھناہٹ اتنی بڑی کہ حاجی صاحب کو ہاتھ اُٹھا کر سب کو خاموش کرانا پڑا۔پھر وہ بولے تو کاکا جی سمیت سب لوگوں نے ان کی بات کو غور سے سنا۔”آپ لوگ مہمانوں کی طرح نہیں آئے،مگر ہم مہمانوں کی طرح آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔سب سے پہلے ہم آپ کی خاطر تواضع کریں گے اور پھر جاننے کی کوشش کریں گے کہ آپ ہمارے سب سے معزز انسان کو کیوں اور کس جرم میں ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔“کاکا جی نے کچھ کہنے کی کوشش کی،مگر صاحب نے ان کو کچھ کہنے سے پہلے کسی کو حکم دیا کہ مہمانوں کے لئے مہمان خانہ کھول دیا جائے۔باقی باتیں وہیں ہوں گی۔آخر مہمان خانے میں بات چیت ہوئی تو پتا چلا کہ زمین کے ایک جھگڑے میں مولوی صاحب ان کو مطلوب تھے۔اُس دور میں مولوی صاحب نے غصے اور جوش میں اپنے چچا کے ساتھ مل کر اپنے پڑوسی کی زمین پر قبضے کے لئے جھگڑا کیا اور پڑوسی کو شدید زخمی کر دیا تھا۔پھر وہ خود بھی زخمی حالت میں فرار ہو گئے تھے۔مولوی صاحب نے حاجی صاحب سے مخاطب ہو کر کہا:”حاجی صاحب!مجھے جانے دیجیے۔گناہوں کا کفارہ اسی دنیا میں ادا کرنا بھی ایک سعادت ہے۔میں کوئی بدمزگی نہیں چاہتا۔میرے بیوی بچے آپ کے حوالے ہیں۔سزا بھگت کر خدا نے چاہا تو میں لوٹ آؤں گا۔“مولوی صاحب کے ان الفاظ کے بعد حجت ختم ہو گئی۔معزز مہمانوں نے حاجی صاحب کی ضیافت سے لطف اُٹھایا۔حاجی صاحب ساری رات مہمانوں کے ساتھ رہے۔مولوی صاحب نے اپنے گھر والوں کو تسلی دی۔صبر کی تاکید کی۔فجر کی نماز سب نے ان کی امامت میں ادا کی اور پھر وہ کاکا جی کے ساتھ جانے کے لئے نکلے۔پورا گاؤں افسردہ اور ان کو رخصت کرنے کے لئے جمع تھا۔ہر کوئی ان کے لئے پریشان تھا،مگر خود مولوی صاحب کے چہرے پر اطمینان تھا۔کاکا جی نے مجمع پر ایک نظر ڈالی اور بولے:”لوگو!ہم جس مقصد کے لئے آئے تھے،وہ پورا ہو گیا۔تمہارے مولوی صاحب ہمارے مجرم ہیں۔ہم ان کو اپنے جرگے میں لے جا کر اپنی روایات کے مطابق فیصلہ کریں گے،مگر تم لوگوں کی جرأت اور مہمان نوازی نے ہمارے دل جیت لیے اور پھر مولوی صاحب نے جس طرح اس گاؤں کی خدمت کی اور تم لوگوں نے ان کا ساتھ دیا وہ بہت متاثر کن ہے۔تو اب سمجھ لو کہ ہم کسی مجرم کو نہیں لے جا رہے،نہ تم سے مولوی صاحب کو چھین رہے ہیں،بلکہ اب کفارے کا عمل شروع ہو گا۔“”کفارہ․․․․!“کاکا صاحب رُکے تو حاجی صاحب نے کہا۔”ہاں کفارہ!“کاکا جی بولے:”میں اپنے جرگے کا سربراہ ہوں اور مولوی صاحب کی سزا معاف کرتا ہوں۔اس کا تاوان اپنی جیب سے بھروں گا۔متاثرہ فریق سے اس کو معافی بھی دلواؤں گا،مگر اس کی شرط کفارہ ہے اور کفارہ یہ ہے کہ انھوں نے جس طرح اس گاؤں کے لوگوں کو نیک بنایا۔جنت کے راستے پر ڈالا،اسی طرح یہ اپنے سابقہ گاؤں کے لوگوں کے لئے بھی کریں۔میرا وعدہ ہے یہ جلد واپس آئیں گے۔تمہارا گاؤں اس دنیا میں جنت کی طرح ہے۔یہ اپنے گاؤں کو جنت بنا دیں تو یہی اس کا کفارہ ہے۔“کاکا جی کے ان الفاظ نے گاؤں والوں کے غم کو خوشی میں تبدیل کر دیا۔وہ کاکا جی زندہ باد کے نعرے لگانے لگے اور قافلے کے روانہ ہونے کے بعد بھی دیر تک الوداعی انداز میں ہاتھ لہراتے رہے۔ " رونے نہیں دوں گا - تحریر نمبر 2257,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rone-nahi-doon-ga-2257.html,"نذیر انبالویبلال کے ہاتھ میں ہیلی کاپٹر کا ریموٹ تھا۔وہ ریموٹ کو جیسے جیسے حرکت دے رہا تھا،ہیلی کاپٹر اُسی سمت اُڑتا چلا جا رہا تھا۔وہ اب ہیلی کاپٹر کو کمرے سے صحن میں لے آیا تھا۔ریموٹ پر بلال کی اُنگلیاں خوب چل رہی تھیں۔وہ ریموٹ سے ہیلی کاپٹر کو حرکت دے رہا تھا۔اُڑتے اُڑتے اس کا تیز رفتار ہیلی کاپٹر درخت سے ٹکرایا تو اس کا ایک پَر ٹوٹ گیا۔پَر ٹوٹنے کی دیر تھی کہ ہیلی کاپٹر دھڑام سے زمین پر آ گرا۔بلال تیزی سے اپنے ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھا۔اپنے تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کو دیکھ کر بلال رو دیا۔کچھ دیر بعد بلال نے گیراج میں رکھے اوزاروں میں سے اپنے مطلوبہ اوزار لیے،شام تک بلال نے ایلفی سے ہیلی کاپٹر کے ٹوٹے پَر کو جوڑ لیا۔(جاری ہے)بلال نے پَر جوڑنے کے بعد اپنے پیارے ہیلی کاپٹر کو مخاطب کیا:”اب تم تندرست ہو،اُڑان کے لئے تیار ہو جاؤ۔“اگلے ہی لمحے ریموٹ بلال کے ہاتھ میں تھا۔ہیلی کاپٹر تھوڑی دیر اُڑا،پھر اس کا پَر ٹوٹ گیا تو وہ زمین پر آ گرا۔بلال اپنے ہیلی کاپٹر کو دوبارہ یوں زمین پر گرا دیکھ کر اُداس سا ہو گیا تھا۔”میں مارکیٹ سے تمہارے لئے نئے پَر خریدوں گا،میں تمہیں ٹھیک کروں گا،گھبرانا مت،تم اُڑان بھرو گے،اُڑو گے،خوب اونچا اُڑو گے۔“بلال ہیلی کاپٹر سے یوں باتیں کر رہا تھا جیسے وہ اس کی ہر بات سمجھ رہا ہو۔آپی،بلال کی اُداس شکل دیکھ کر پریشان سی ہو گئی تھیں۔”میرا خیال ہے،اب یہ ہیلی کاپٹر ٹھیک نہیں ہو گا۔“”یہ ہیلی کاپٹر ضرور ٹھیک ہو گا،آپ میرے ساتھ مارکیٹ چلیے۔“بلال نے معصوم سی صورت بنا کر کہا۔اگلے دن بلال ،آپی کے ہمراہ مارکیٹ میں موجود تھا۔ہیلی کاپٹر بلال کے ہاتھ میں تھا۔ہر دکان دار نے تقریباً ایک ہی بات کہی کہ یہ ٹھیک نہیں ہو سکتا،اس کے پَر مارکیٹ سے نہیں ملیں گے۔اسے اب پھینک ہی دیں۔“”کیوں پھینک دوں،اپنے پیارے سے ہیلی کاپٹر کو،یہ دوبارہ اُڑے گا۔“بلال کو دکان داروں کی بات اچھی نہ لگی تھی۔چند دنوں بعد ماموں عرفان کویت سے آ گئے۔آپی نے فون کرکے انھیں بلال کے ہیلی کاپٹر کے بارے میں بتا دیا تھا۔ماموں عرفان نے بیگ سے ایک بڑا ہیلی کاپٹر نکال کر میز پر رکھا تو بلال نے نئے ہیلی کاپٹر کو سرسری نظر سے دیکھا۔پرانے ہیلی کاپٹر نے اس کے دل میں ایسا گھر کیا تھا کہ دوسرا ہیلی کاپٹر اس کی جگہ نہ لے سکتا تھا۔اس نے تھوڑی دیر ہیلی کاپٹر اُڑایا،مگر بلال خوش نہیں تھا۔نیا ہیلی کاپٹر پرانے ہیلی کاپٹر کی جگہ نہ لے سکا تھا۔ماموں عرفان کے جانے کے بعد بلال نے ایک مرتبہ بھی نیا ہیلی کاپٹر الماری سے نہ نکالا۔سالانہ امتحان کی تیاری کے باعث اب اس کے پاس وقت کم تھا۔وہ جب بھی الماری میں جھانکتا،پرانے ہیلی کاپٹر کو دیکھ کر بے اختیار کہہ اُٹھتا:”میں تمہیں بھولا نہیں ہوں،میں تمہارا علاج کروں گا،تم ٹھیک ہو جاؤ گے،پہلے کی طرح اُڑو گے،اونچی اُڑان بھرو گے۔“وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ننھا بلال اب انجینئرنگ یونیورسٹی میں مکینکل انجینئرنگ کے آخری سال میں تھا۔وہ لوگ کچھ عرصے قبل ہی پرانے گھر سے ایک نئی ہاؤسنگ سوسائٹی کے بڑے سے گھر میں آئے تھے۔پرانے گھر سے آنے والا سامان ڈبوں میں بند پڑا تھا۔ایک ڈبے میں بلال کے بچپن کے کھلونے تھے،اُن کھلونوں میں ہیلی کاپٹر بھی تھا۔ہیلی کاپٹر ایک مرتبہ پھر بلال کے کمرے میں موجود تھا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد بلال نے جب اپنے والدین کو بتایا کہ وہ کھلونوں کے علاج کے لئے ہسپتال کھولے گا تو انھوں نے اسے حیرت سے دیکھا تھا۔”میرے ہسپتال کا نام ہو گا ”الیکٹرانک کھلونوں کا ہسپتال“ وہاں بیمار یعنی ٹوٹے ہوئے کھلونوں کا علاج کیا جائے گا،سب سے پہلے اپنے پیارے ہیلی کاپٹر کا علاج کروں گا،یہ دوبارہ اُڑے گا،یہ میرے بچپن کا دوست ہے۔“بلال یہ کہتے ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے ننھا سا بچہ بن گیا ہو۔چاند پلازہ میں کھلونوں کے ہسپتال کا افتتاح ہوا۔اس موقعے پر بہت سے بچے موجود تھے۔بچے اپنے ”بیمار“ کھلونے بھی ساتھ لائے تھے۔حمزہ اپنے سفید بھالو کے بیمار ہونے کے باعث پریشان تھا۔بلال نے بھالو کا چیک اپ کرنے کے بعد حمزہ کو تسلی دی کہ تمہارا بھالو ٹھیک ہو جائے گا،یہ پہلے کی طرح ناچے گا،گائے گا اور تالیاں بجائے گا۔جب بلال نے بھالو کے اندرونی سرکٹ کو درست کیا تو جیسے ہی بٹن دبایا تو بھالو ناچنے گانے اور تالیاں بجانے لگا۔حمزہ کے تو خوشی کے مارے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔وہ خوشی میں بھالو کی طرح تالیاں بجانے لگا تھا۔حمزہ کو خوش دیکھ کر بلال بھی خوش ہو گیا۔وہ تو اس وقت بھی خوش ہوا تھا جب اس کے بچپن کے ساتھی پیارے سے ہیلی کاپٹر نے علاج ہونے کے بعد پہلی اُڑان بھری تھی۔کھلونوں کے ہسپتال میں بیمار کھلونوں کی تعداد خاصی بڑھ گئی۔بچے روتے ہوئے آتے اور ہنستے مسکراتے واپس جاتے۔بلال نے چونکہ ایک مختلف کام شروع کیا تھا،اس لئے بہت سے چینل اس کا انٹرویو کرنے آنے لگے۔بلال سے جب کھلونوں کے ہسپتال بنانے کی وجہ پوچھی جاتی تو وہ ایک ہی جواب دیتا:”بچوں کو کھلونوں سے پیار ہوتا ہے،وہ اپنے کھلونوں سے مانوس ہو جاتے ہیں،جب کوئی کھلونا خراب ہوتا ہے تو بچہ اُداس ہو جاتا ہے۔میرا پیارا ہیلی کاپٹر خراب ہوا تو میں بھی اُداس ہوا تھا،بہت رویا تھا،اب میں کسی بچے کو اُداس نہیں ہونے دوں گا،کسی بچے کو کھلونا خراب ہونے پر رونے نہیں دوں گا۔“ " جذبہِ خدمت - تحریر نمبر 2256,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jazba-e-khidmat-2256.html,"اقراء،دانیہ اور ایلیا میٹرک کے امتحانات کے بعد فارغ تھیں۔انہوں نے سوچا کہ فارغ اوقات میں کوئی ایسا کام کرنا چاہئے جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے۔یہ تینوں سہیلیاں سمجھدار اور اچھی بچیاں تھیں۔اقراء نے بتایا کہ ہمارے گھر کام کرنے والی ماسی کے دو بچے پولیوں کی وجہ سے معذور ہو گئے تھے جو ایک مشکل معذور زندگی گزار رہے ہیں۔ماسی کا شوہر ایک معمولی مزدور ہے اس لئے اب ان کے حالات بہتر ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔اقراء نے بتایا کہ مجھے ان کے حال پر بہت رحم آتا ہے یہ سن کر ایلیا کہنے لگی میں نے ایک دن ایک آنٹی کو پولیو سے بچاؤ کی دوائی کے قطرے پلانے والی ٹیم سے جھگڑا کرتے دیکھا تھا۔وہ کہہ رہی تھیں کہ ہم کیوں اپنے بچوں کو یہ دوائی پلائیں،دانیہ کہنے لگی میں نے پڑھا تھا کہ پاکستان میں اب دوبارہ پولیو کی بیماری کے کیسز سامنے آنے لگے ہیں ان تینوں سہیلیوں نے سوچا کیوں نہ ہم اس بیماری کے بچاؤ کے لئے کچھ کام کریں۔(جاری ہے)انہوں نے اپنے والدین کی اجازت سے اپنے اپنے علاقے میں گھر گھر جا کر ایسی خواتین جو پڑھی لکھی نہیں تھیں اور وہ سمجھتی تھیں کہ پولیو کی بیماری سے بچاؤ کی دوائی کے قطرے بچوں کو نہیں پلانے چاہئیں۔ان کو سمجھانا شروع کیا اور انہیں آگاہ کیا کہ یہ آپ کے فائدے کے لئے ہیں۔اس دوائی سے آپ کے بچے عمر بھر کی معذوری سے بچ جائیں گے۔آپ اس دوائی کو غیر ضروری نہ سمجھیں اور پانچ سال کی عمر تک اپنے بچوں کو ضرور یہ دوائی پلوائیں۔آگاہی کی اس مہم میں بہت سی بچیاں اقراء،دانیہ اور ایلیا کے ساتھ شامل ہو گئیں اس طرح انہیں یہ ایک اچھا کام کرنے سے روحانی خوشی اور مسرت ہوئی اور بہت سے لوگوں کو اس سے فائدہ بھی پہنچا۔ " تین سکے - تحریر نمبر 2255,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/3-sikke-2255.html,"حفصہ صفدرایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔اس کا ایک ہی بیٹا تھا جو انتہا درجے کا سُست اور کاہل تھا۔وہ سارا سارا دن گھر پر پڑا سوتا رہتا اور کسان بے چارہ اکیلا کھیتوں میں کام کرتا۔کسان اب بوڑھا ہو رہا تھا۔اس نے سوچا کہ اب اس کے بیٹے کو اپنا کاہل پن ختم کر دینا چاہیے،لیکن کیسے؟آخر کسان کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔اگلے دن کسان نے صبح سویرے بیٹے کو جگایا اور کہا:”اُٹھو،شہر جا کر کچھ کام تلاش کرو،تاکہ تمہیں محنت سے کمائی رقم کی اہمیت کا اندازہ ہو۔“یہ کہہ کر کسان اپنی کدال سنبھالتا کھیتوں کی جانب بڑھ گیا۔باپ کے نکلتے ہی بیٹا فوراً ماں کی طرف پلٹا اور منہ بسور کر بولا:”اماں!میں کیسے کماؤں گا۔مجھے تو کوئی کام کرنا نہیں آتا۔(جاری ہے)“بیٹے کی بسورتی شکل دیکھ کر ماں بے چین ہوئی اور کمرے میں جا کر کچھ سکے لے آئی:”یہ سکے رکھ لو۔جب تمہارا باپ کمائی کے متعلق پوچھے تو اسے یہ پیسے دکھا دینا۔“چنانچہ بیٹا شہر کی طرف روانہ ہوا۔پورا دن وہ گھومتا پھرتا رہا اور خوب مزے کیے۔شام کو گھر لوٹا تو دیکھا کہ باپ برآمدے میں چارپائی پر بیٹھا ہے اور اس کا انتظار کر رہا ہے۔اس نے آگے بڑھ کر سکے باپ کی گود میں رکھے اور بولا:”ابا!آج پورے دن محنت کرکے یہ کمایا ہے میں نے۔“باپ نے ایک نظر سکوں پر ڈالی اور سکے اُٹھا کر برآمدے میں جلتے چولہے میں پھینک دیے اور اندر چلا گیا۔بیٹے نے لاپروائی سے کندھے اُچکائے اور کھانا کھا کر سو گیا۔دوسرے دن پھر کسان نے بیٹے کو شہر جانے کو کہا۔بیٹا بھی پھر شہر کی جانب چل پڑا۔شام کو اس نے ماں کے دیے سکے باپ کو دیے تو کسان نے پھر سے انھیں چولہے میں پھینک دیا۔کئی دن تک یہی معمول رہا۔یہاں تک کہ جب اس نے ماں سے سکے مانگے تو ماں نے کہا:”میرے پاس جتنے سکے تھے،سب ختم ہو گئے۔اب خود کماؤ اور سکے لا کر باپ کے ہاتھ میں رکھو۔“بیٹا ماں کے انکار پر مایوس سا ہو گیا اور شہر کی جانب چل پڑا۔شہر پہنچنے کے بعد کام کی تلاش میں ایک چائے والے کے پاس گیا۔چائے والا بولا:”میرے پاس جو لڑکا کام کرتا ہے وہ بیمار پڑ گیا ہے۔اگر تم اس کا کام سنبھال لو تو میں تمہیں تین سکے دے دوں گا۔“کسان کا بیٹا فوراً راضی ہو گیا۔اس دن گرمی میں کام کرتے ہوئے اس کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔اس روز اسے احساس ہوا کہ اس کا باپ کتنی محنت سے روزی کماتا ہے۔شام کو جب چائے والے نے اسے تین سکے دیے تو وہ بہت خوش ہوا۔وہ سیدھا اپنے گھر پہنچا تو باپ کو اپنا منتظر پایا۔بیٹے نے جلدی سے جیب سے سکے نکال کر باپ کے ہاتھ پر رکھے اور فخر سے کہا:”ابا!آج میں نے محنت سے تین سکے کمائے ہیں۔“کسان نے پھر سے سکے اُٹھا کر چولہے میں پھینک دیے۔بیٹا تڑپ اُٹھا اور صدمے سے بولا:”ابا جان!میں نے پورے دن کی محنت سے یہ سکے کمائے ہیں آپ نے انھیں چولہے میں پھینک دیا؟“کسان دھیمے سے مسکرایا اور بولا:”آج واقعی تم نے محنت سے کمائی رقم میرے ہاتھوں میں رکھی ہے۔اگر اس سے پہلے بھی تم خود کماتے تو ہر بار سکے پھینکنے پر یونہی تڑپتے جیسے آج تڑپے ہو۔مجھے خوشی ہے کہ تم نے رزقِ حلال کمایا ہے۔میرے لئے تمہارے محنت سے کمائے یہ تین سکے پچھلے سات دنوں کے سکوں سے زیادہ قیمتی اور اہم ہیں۔“یہ سن کر بیٹا بہت شرمندہ ہوا اور باپ سے معافی مانگی،پھر عہد بھی کیا کہ آئندہ اپنے ہاتھوں سے رزق کمائے گا،جب کہ کسان اپنی ترکیب کارگر ثابت ہونے پر مسکرا دیا۔ " جہاز کی تلاش - تحریر نمبر 2254,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jahaz-ki-talash-2254.html,"ثمین جہاں آرا،کراچیرامین ایک بہت ہی اچھی اور ذہین بچی تھی۔وہ اپنے والدین کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی۔اس کے ابو محکمہ جنگلات کے افسر تھے۔ایک دن جب رامین کی اسکول سے چھٹی تھی تو اس نے اپنے ابو کے ساتھ جنگل جانے کا فیصلہ کیا۔کچھ ہی دیر میں رامین ریسٹ ہاؤس میں موجود تھی۔وہ بہت خوش تھی۔ابو نے کہا:”ابھی تھوڑی دیر میں سلیم انکل کے بچے بھی آ جائیں گے تو تم ان کے ساتھ مل کر کھیلنا۔“رامین خوش ہوئی اور ابو کو اللہ حافظ کہا۔وہ کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرنے لگی۔اسی دوران میں ایک خوبصورت پرندہ کھڑکی پر آ کر بیٹھا۔رامین اسے دیکھنے اور پیار کرنے لگی وہ اُڑ کر درخت پر جا بیٹھا۔رامین اس کو پکڑنے کے لئے ریسٹ ہاؤس سے باہر آ گئی۔(جاری ہے)رامین نے جیسے ہی اس کو پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا وہ اُڑ کر دوسرے درخت پر جا بیٹھا اور یوں وہ کافی آگے نکل گئی۔سامنے پہاڑیاں دیکھ کر اسے ایک عجیب سے خوف کا احساس ہوا۔اب اسے ڈر لگ رہا تھا۔اسے خوف ناک آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔وہ پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔اچانک اسے کوئی چیز جھاڑیوں میں نظر آئی۔وہ ایک چھوٹا ہوائی جہاز تھا۔جہاز بہت بوسیدہ تھا۔وہ چاروں طرف سے گھوم کر اسے دیکھتی ہے۔وہ سوچتی ہے یہ کون سا جہاز ہے؟جنگی لگ رہا ہے۔اس نے موبائل فون پر ابو کو ایک ہی سانس میں ساری بات بتا دی۔اس کے ابو نے کہا:”بیٹا!آپ پریشان نہ ہو،ہم آ رہے ہیں۔جلد ہی ابو اور چند افسران وہاں پہنچ گئے،جہاز کا معائنہ کیا اور رامین کو شاباشی دی۔اس جہاز کی ان کو کافی عرصے سے تلاش تھی۔ " صبر کا پھل - تحریر نمبر 2253,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sabar-ka-phal-2253.html,"ساجد کمبوہصدیوں پرانی بات ہے ایک گاؤں کے چوپال میں کھجور،برگد اور بیری کے درخت تھے۔بیری اور برگد کے درمیان کھجور کا قد آور درخت تھا اسے اپنے قد آور ہونے پر بڑا غرور تھا۔وہ کبھی بیری اور کبھی برگد کے درخت کی طرف دیکھتا اور طنز کرتا۔برگد کے درخت تو اتنا پھیلاؤ رکھتا ہے مگر لکڑی کسی کام کی نہیں،نہ تو فرنیچر بناتا ہے اور نہ ہی تیری لکڑی خوشبودار ہے۔مجھے دیکھ میری شاخوں سے ٹوکریاں،چٹائیاں اور ٹوپیاں بنتی ہیں۔میرا پھل ایک مکمل غذا ہے۔اس پر برگد کا درخت کہتا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی۔سب حکیم میرے دودھ سے اور جڑوں سے دوائیاں بناتے ہیں جن سے بہت سی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔میرا پھل سینکڑوں جانور کھاتے ہیں۔(جاری ہے)مسافر میرے نیچے آرام کرتے ہیں صبح و شام پرندے میرے اوپر نیچے بیٹھ کر چہچہاتے ہیں مگر کھجور کے درخت کا رعب برقرار رہا۔اسے بیری کا چھوٹا قد ناگوار گزرتا۔اُسے ڈرپوک اور بزدل قرار دیتا،ہر وقت جھکے رہنے کا طعنہ دیتا۔بیری کا درخت کہتا مجھ پر اتنا پھل آتا ہے جس پر میں جھک کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔میرے پھولوں سے شہد کی مکھیاں رس چوس کر شہد بناتی ہیں جو غذا بھی ہے اور شفا بھی ہے۔کھجور کے پودے نے شکوہ کیا۔کبھی انسان نے مجھے پانی دیا ہے کیونکہ مجھ سے لالچ نہیں۔بیری کے درخت نے کہا بھائی تمہاری جڑیں مضبوط ہیں پانی کا ذخیرہ کر لیتے ہو ویسے بچے لالچ میں مجھے پانی دیتے ہیں کیونکہ مجھ سے بیر توڑ کر کھاتے ہیں جبکہ تمہارا پھل ان کی پہنچ سے بہت دور ہوتا ہے۔ہمیں انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ہونہہ یہ نیکی کا کون سا دور ہے تم اور برگد کے درخت ویسے ہی بزدل ہو مجھے دیکھو نہ کسی کو سایہ دیتا ہوں اور نہ ہی لکڑی،برگد کے درخت پر سارا دن پرندے شور کرتے ہیں جس سے میرے آرام میں خلل پڑتا ہے اور تم پر کنکر پتھر پڑتے ہیں تم ہر وقت آنسو بہاتے رہتے ہو اس لئے انہیں میٹھا پھل نہ دو۔کھجور کے درخت نے مشورہ دیا۔میرا پھل انسان کے لئے ہے مگر مجھے افسوس اس وقت ہوتا ہے جب میری شاخیں توڑتے ہیں اور کچا پھل توڑ کر ضائع کرتے ہیں اگر پھل پک جائے تو انہوں نے ہی کھانا ہے۔یوں نوک جھونک میں موسم گرما گزر گیا۔کھجور کا ایک اور ننھا پودا چند ماہ کا تھا جو زمین پر سر اُٹھائے کھڑا بھلا لگ رہا تھا۔گرمیوں کے بعد سردیوں کا موسم شروع ہوا۔اس بار سردی کے ساتھ بہت برف باری ہوئی کئی فٹ برف باری کی وجہ سے سردی میں مزید اضافہ ہوا جس سے کھجور کا ننھا سا پودا کانپنے لگا۔اب کھجور کے پودے کو احساس ہوا کہ وہ قد آور ہے اور اپنی مختصر شاخوں سے اس پر سائبان نہیں کر سکتا۔اس نے بیری اور برگد کے درخت سے درخواست کی کہ ننھے درخت کے لئے کچھ کریں ورنہ یہ مرجھا جائے گا۔اب بیری اور برگد کے درخت سوچ بچار کرنے لگے کہ وہ کیا کریں؟کس طرح ننھے پودے کے لئے سائبان بنیں؟دوپہر کو بچے سکول سے واپس آئے،آتے ہی سکول بیگز رکھے اور بیری کے درخت پر لگے پکے بیر توڑنے کے لئے کنکر پتھر لانا نہ بھولے۔بیری کا درخت صبر کر رہا تھا اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اس نے بچوں سے کہا میری بائیں شاخ پر میٹھے اور زیادہ بیر ہیں تم سب مجھ پر چڑھ کر توڑ لو۔بچے اجازت ملنے پر بہت خوش ہوئے۔وہ فوراً درخت پر چڑھ گئے اور بیر درخت سے توڑنے لگے جس سے شاخ ٹوٹ گئی اور سیدھی برگد کے درخت پر جا پڑی جس کے نیچے کھجور کا ننھا پودا تھا۔بچے ڈر کر نیچے اُترے اور گھروں کو بھاگ گئے۔دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ انسان خود غرض ہے دیکھ لو انہوں نے تیرا کیا حال کیا ہے۔تمہارا بازو توڑ دیا اور فرار ہو گئے۔واہ رے خود غرض تب بیری کا درخت بولا میں نے جان بوجھ کر انہیں ایسا کرنے پر اکسایا تھا لیکن کیوں؟کھجور کے درخت نے پوچھا کون خود کو زخمی کرواتا ہے۔تب بیری کے درخت نے جواب دیا وہ اس لئے میرے دوست کیونکہ میری ٹوٹی شاخ برگد کے درخت پر ہے جس سے ننھے پودے پر سائبان بن گیا ہے۔اب اسے اتنی سردی نہیں لگے گی اور یہ اگلے سال تک بڑا ہو جائے گا اور میرے دوست تم کتنے عظیم ہو۔تم نے قربانی دے کر میرے بیٹے کی جان بچا لی۔واقعی تمہارا جھکے رہنا خدا کا شکر ادا کرنا ہے۔کھجور کے درخت نے کہا یوں سردیوں کا موسم گزر گیا۔ایک غریب آدمی نے بیری کی سوکھی شاخ دیکھی اسے کلہاڑی سے الگ کیا اور جلانے کے لئے لے گیا۔دیکھا بچو قربانی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا جو دوسروں کے کام آئے وہی اچھا انسان ہے۔یاد رکھو قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اچھا انسان بننے کی توفیق دے۔آمین " بلی کا بچہ - تحریر نمبر 2252,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/billi-ka-bacha-2252.html,"عکاشہ رمضان بدر،حیدرآباداس وقت ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔رات بہت تیز بارش ہوئی تھی اور سرد ہوائیں بھی چل رہی تھیں،جس کی وجہ سے سردی بڑھ گئی تھی۔عاصم کو اس کی امی نے قریبی دودھ کی دکان سے دودھ لانے کے لئے بھیجا،تاکہ ناشتے میں چائے تیار کی جا سکے۔عاصم نے پیسے لیے اور باہر نکل آیا۔ابھی دودھ والے کی دکان دور تھی کہ عاصم کی نظر سردی سے کانپتے اور ٹھٹھرتے ہوئے ایک بلی کے بچے پر پڑی جو سڑک کے کنارے دیوار سے لگا اپنے بال کھڑے کرکے سردی سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا،لیکن سردی بہت شدید تھی۔بلی کا بچہ بُری طرح کانپ رہا تھا۔اسے کانپتے دیکھ کر عاصم کا دل بھر آیا۔وہ دودھ لینے کے بجائے گھر کی جانب واپس ہوا۔گھر میں داخل ہوا تو باورچی خانے میں موجود عاصم کی امی کی نظر اس پر پڑ گئی:”اوہو،لگتا ہے آج پھر پیسے گرا آئے ہو۔(جاری ہے)“عاصم نے سر جھکا لیا اور امی سے کہا:”امی جان!باہر سڑک کنارے بلی کا ایک بچہ سردی سے کانپ رہا ہے۔سردی بہت تیز ہے اور اس کی امی نہ جانے کہاں ہیں۔کہیں بلی کا بچہ سردی کی وجہ سے مر نہ جائے،اس لئے کوئی گرم کپڑا دے دیں جو اس پر ڈال کر اسے سردی سے بچا لیا جائے۔“یہ سن کر عاصم کی امی نے اس طرف دیکھا اور بولیں:”بیٹا!یہ تو آپ نے بہت اچھا سوچا۔“پھر امی نے پرانے کپڑوں سے ایک چھوٹا سا سویٹر نکال کر دے دیا اور کہا:”جاؤ،یہ سویٹر بلی کو پہنا دو۔“عاصم نے سویٹر کو دیکھتے ہوئے کہا:”امی جان!یہ تو مجھے پہنانا نہیں آئے گا۔“اس کی امی نے عاصم کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا:”چلو،میں بھی تمہارے ساتھ تمہاری نیکی میں شامل ہو جاتی ہوں اور سویٹر بلی کے بچے کو میں پہنا دوں گی۔“عاصم امی کو لے کر اس جگہ پہنچا،جہاں بلی کا بچہ سردی سے کانپ رہا تھا۔بلی کے بچے کو عاصم اور امی نے سویٹر پہنا دیا۔بلی کا بچہ اپنی چھوٹی چھوٹی،گول گول آنکھوں سے دونوں کو دیکھنے لگا جیسے شکریہ ادا کر رہا ہو اور احسان مند ہو۔ " ہم نے چور پکڑا - تحریر نمبر 2251,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hum-ne-chor-pakra-2251.html,"انعم توصیف،کراچیخالہ کی طبیعت خراب تھی۔امی ابو ان کی عیادت کے لئے ان کے گھر گئے ہوئے تھے۔گھر میں دو بہن بھائی کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔اُسامہ اور فلک کمرے میں بیٹھے باتیں ہی کر رہے تھے کہ ایک دم گھر کے پچھلے حصے سے کچھ گرنے کی آواز آئی۔جس سے وہ دونوں ہی چونک پڑے۔”بھائی!یہ کیسی آواز تھی۔“فلک کے چہرے پہ ہوائیاں اُڑنے لگیں۔اس وقت کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی،جسے سن کر اُسامہ کا بھی رنگ فق ہو گیا۔قدموں کی آواز اب قریب آتی جا رہی تھی۔اُسامہ نے ہمت کرکے کمرے کا دروازہ کھولا۔اپنے سامنے کھڑے آدمی کو دیکھ کر بے اختیار اُسامہ کی چیخ نکل گئی۔فلک کی آواز خوف کی وجہ سے گلے میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔”ارے بند کرو یہ چیخنا۔(جاری ہے)“وہ ایک چور تھا۔جو گھر کو خالی سمجھ کر دن کے وقت گھر کے اندر گھس آیا تھا۔”اچھے بچوں کی طرح چپ چاپ ادھر بیٹھ جاؤ۔جب تک میرا کام مکمل نہیں ہو جاتا۔یہاں سے ہلنا مت۔“دھان پان سے اس چور نے ان دونوں پہ رعب ڈالنے کی کوشش کی۔وہ ان دونوں کو کمرے سے لاؤنج میں لے آیا تھا۔سب سے پہلے اس نے باورچی خانے میں جا کر کھانا کھایا۔دونوں بچے حیرت سے باورچی خانے کی کھڑکی جو لاؤنج میں کھلتی تھی،یہ منظر دیکھ رہے تھے۔”میرے پاس پستول بھی ہے۔اگر کوئی ہوشیاری کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔“اُسامہ کو اپنی جگہ سے ہلتا دیکھ کر وہ وہیں سے چلایا۔امی ابو کے کمرے کا پوچھا اور دونوں کو لے کر کمرے میں چلا گیا۔”چلو اب اچھے بچوں کی طرح مجھے الماری کی چابی نکال کر دو۔“اُسامہ نے کسی روبوٹ کی طرح چلتے ہوئے چابی اس کے حوالے کر دی۔چور جلدی جلدی الماری کھول کر سامان کی تلاشی لینے لگا۔اس نے وہ دراز بھی کھولی،جس میں زیورات اور پیسے وغیرہ رکھے ہوتے تھے۔اُسامہ فوراً بول پڑا:”مجھے باتھ روم جانا ہے۔“”جاؤ،لیکن کوئی ہوشیاری نہ کرنا تمہاری بہن میرے قبضے میں ہے۔“جب دیر تک اُسامہ واپس نہ آیا تو چور فلک کو ڈھال بنا کر باہر نکلا۔اس کی نظر باورچی خانے پر پڑی جہاں اُسامہ دونوں ہاتھ پیچھے کرکے کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔”یہ تم نے ہاتھ کیوں پیچھے کر رکھے ہیں،دکھاؤ مجھے کیا ہے ہاتھ میں۔“”میں نہیں دکھاؤں گا۔“”کیسے نہیں دکھاؤ گے۔“اس نے پنجے جھکتے ہوئے اس کے ہاتھ آگے کرنا چاہے۔اُسامہ نے تیزی سے اپنے ہاتھ میں بھری پسی لال مرچیں اس کی آنکھوں میں ڈال دی۔چور بُری طرح چلانے اور اُچھلنے لگا۔وہ دونوں سرپٹ لاؤنج کی جانب دوڑے اور گھر سے باہر نکل کر کسی کو مدد کے لئے بلانے کے لئے دروازہ کھولنے ہی والے تھے کہ باہر سے ابو نے دروازہ کھول دیا۔گھر میں گھستے ہی چور کے چیخنے کی آواز نے ان دونوں کو ہی چونکا دیا۔ابو نے باورچی خانے کا رُخ کیا اور امی نے ان دونوں کی حالت دیکھ کر ان کو بانہوں میں بھر لیا۔چور کو کرسی پہ بٹھا کر امی کے دوپٹوں سے باندھا گیا اور پولیس کو اطلاع دی گئی۔پولیس اسٹیشن گھر کے قریب ہونے کی وجہ سے پولیس افسر بھی جلد ہی آ گئے۔چور کو مارتے ہوئے گھر سے لے گئے۔اُسامہ اور فلک کو ڈھیر ساری شاباشی ملی۔انسپکٹر صاحب نے چور کی پستول اُسامہ کے حوالے کر دی،کیونکہ وہ کھلونا پستول تھی۔ " خطرناک جنگل - تحریر نمبر 2250,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khatarnak-jungle-2250.html,"شہر سے دور ایک پہاڑی تھی۔یہ جنگلی پھولوں،پھل دار درختوں سے اس طرح ڈھکی تھی کہ ہوائی جہاز میں بیٹھ کے اوپر سے کوئی دیکھتا تو مٹی پتھر کچھ نظر نہیں آتا۔سب کچھ ہرا ہرا یا پھولوں کا نیلا،پیلا،نارنجی،سرخ رنگ ہی دکھائی دیتا۔پہاڑی کے برابر سے ایک سڑک گزرتی تھی جو شہر تک جاتی تھی۔سڑک پکی نہیں تھی۔ضرورت بھی کیا تھی اس لئے کہ ادھر لوگوں کا آنا جانا کم ہی تھا۔دن میں دو مرتبہ دودھ لے جانے والے گوالے اپنی سائیکلیں کھڑکھڑاتے گزرتے تھے یا پھر اپنے ریوڑ سنبھالتے ہوئے اِکا دُکا چرواہے تھے۔ہفتے میں ایک دو مرتبہ گھوڑوں پر سوار سرکاری کارندوں کا گزر ہوتا تھا۔کسی کا خط یا تار پہنچانا ہوتا تو ڈاکیا اپنی پرانی سائیکل سنبھالے ادھر نکل آتے۔وہ آدھا دن گزار کے پہاڑی کی دوسری طرف بستیوں میں گنتی کے چند خط پہنچاتے اور واپس شہر لوٹ جاتے۔(جاری ہے)خود بستی کے لوگ کبھی کبھار ہی شہر جاتے تھے۔وہ اپنی ضرورت کا سامان وہیں کے ایک دکاندار سے خرید لیتے تھے۔دکاندار دکان ہی میں رہتا تھا۔اکیلا آدمی تھا،کہیں آتا جاتا نہیں تھا۔دس بارہ دن بعد وہ اپنی گھوڑا گاڑی تیار کرتا اور سویرے سویرے شہر چلا جاتا۔سامان خرید کر وہ شام ہوتے ہوتے لوٹتا۔سورج ڈوبنے تک سب کچھ سنبھال کے فارغ ہو جاتا۔اندھیرا ہونے پر وہ دکان کے دروازے بند کر لیتا تھا پھر صبح سے پہلے نہیں کھولتا تھا۔چاہے کچھ بھی ہو جائے۔کوئی بھی آ جائے مگر کوئی کیوں آنے لگا․․․؟بستی کے لوگ مغرب ہوتے ہی گھروں میں بند ہو جاتے تھے۔پھر دوسرے دن سورج کے ساتھ ہی نکلتے تھے۔اس کی ایک وجہ تھی۔سب نے سُن رکھا تھا کہ پہاڑی پر بہت سے خطرناک جانوروں کا بسیرا ہے۔ایک تو وہاں چیتے کا جوڑا رہتا ہے۔بہت ہی ڈراؤنے دو خاندان ریچھ کے ہیں۔ایک بوڑھا شیر کہیں سے آ گیا ہے۔سنا ہے اور بھی بھیانک جانور پہاڑی پر بسے ہوئے ہیں۔ان خطرناک جانوروں کو بہت کم لوگوں نے دیکھا تھا۔اب جو تھے ان میں سے تو کسی نے بھی نہیں دیکھا ہو گا۔دیکھنے والے پہلے کبھی وہاں رہتے ہوں گے یا تو وہ مر کھپ گئے تھے یا جا چکے تھے۔ہاں خطرناک جانوروں کی آوازیں بہت لوگوں نے سن رکھی تھیں۔کسی کسی نے سایوں کی طرح انہیں گزرتے بھی دیکھا تھا۔وہ لوگ پریشان رہتے تھے اور خطرناک جانوروں کی آوازوں اور سایوں کے بارے میں اپنے بچوں کو بتایا کرتے تھے۔برسوں سے سب اسی طرح تھا۔گلیوں محلوں میں دن کے وقت تو خوب چہل پہل رہتی،رات ہوتے ہی سناٹا ہو جاتا تھا،بچے تک آواز نہیں نکالتے تھے۔گھروں میں بند اپنے بستروں پر لیٹے بیٹھے لوگ بس نیند کا انتظار کرتے تھے۔ایک دن شہر سے شکیل نام کا ایک لڑکا پہاڑی کے دوسری طرف جانے کے لئے روانہ ہوا۔وہ دکاندار کا بھتیجا تھا اور چچا کے بلانے پر چھٹیاں گزارنے جا رہا تھا۔دکاندار چچا نے اپنے خط میں اسے اچھی طرح سمجھا کر لکھ دیا تھا کہ وہ دن ہی دن میں پہاڑی کے ادھر پہنچ جائے۔رات کے وقت آنا ٹھیک نہیں ہے۔شکیل شہر سے چلا تو خوب دھوپ نکلی ہوئی تھی۔کچھ دور اس نے ایک بڑے میاں کو خاکی وردی پہنے چمڑے کا جھولا لٹکائے سائیکل پر آہستہ آہستہ جاتے دیکھا۔اس نے دوڑ لگا کر انہیں جا لیا۔وہ چچا کی دکان کا پتہ سمجھنا چاہتا تھا۔یہ ڈاک منشی تھے۔ہمدرد آدمی تھے۔انہوں نے بتایا کہ وہیں جا رہے ہیں اگر شکیل بیٹھنا چاہے تو سائیکل پر ان کے ساتھ بیٹھ سکتا ہے۔واہ واہ اس سے اچھی کیا بات ہو گی۔وہ خود بھی سائیکل چلانا جانتا تھا۔انہوں نے طے کیا کہ دونوں باری باری چلائیں گے ایک کو تھکانا اچھا نہیں۔خیر پہاڑی کے برابر سے جاتی اس سڑک پر یہ دونوں چلے جا رہے تھے کہ اتفاق سے ایک جیپ گاڑی پہاڑی ڈھلان پر سے اُترنے لگی۔سائیکل اس وقت بڑے میاں چلا رہے تھے،ان کا دھیان اس طرف نہیں تھا،جیپ کو اچانک سامنے پا کر وہ گڑبڑا گئے اور سائیکل کا پچھلا پہیہ گزرتی جیپ سے ٹکرا گیا۔دونوں دور جا گرے۔شکیل تو سڑک کے کنارے اُگی گھاس پر گرا تھا،معمولی خراشوں کے سوا اسے چوٹ نہ آئی۔ڈاکیے بے چارے بے ہوش ہو گئے۔سائیکل بھی ٹوٹ پھوٹ گئی۔جیپ والوں نے اُتر کر دیکھا۔غلطی ان کی نہیں تھی مگر ذمہ دار لوگ تھے۔انہوں نے کہا ہم ڈاکیے کو شہر کے ہسپتال لے جاتے ہیں تم بھی آنا چاہو تو آ سکتے ہو۔شکیل نے سوچا کہ دکان دور کتنی ہو گی،وہ چلتا رہے تو اچھا ہے۔اس نے جیپ پر ڈاکیے کو سوار کرایا،ان کی سائیکل چڑھا دی،تھیلا بھی رکھ دیا۔جیپ شہر کی طرف چلی گئی۔ان باتوں میں کافی وقت لگ گیا تھا اور سورج جھک آیا تھا۔شکیل نے سوچا وہ سڑک چھوڑ کر کسی چھوٹے راستے سے پہاڑی پر چڑھتا ہوا روشنی روشنی میں دکان تک پہنچ سکتا ہے۔وہ جنگلی پھولوں پھلوں سے لدے ٹیڑے میڑے درختوں کے درمیان رستہ بناتا پہاڑی پر چڑھنے لگا۔طرح طرح کی چڑیاں اور تتلیاں اُڑتی پھرتی تھیں۔خرگوش اور گرگٹ تھے اور درختوں کے تنوں پر چلتے شوخ رنگوں والے کیڑے مکوڑے تھے۔درختوں پر پھل پک رہے تھے۔ان سب خوبصورت چیزوں کو دیکھتا پھلوں کے مزے لیتا شکیل چلتا رہا۔وہ اپنے خیال سے ٹھیک چل رہا تھا۔سمجھ رہا تھا کہ گھنٹے بھر میں پہاڑی کے اُدھر اُتر جائے گا مگر وہ بھٹک گیا تھا۔شام گہری ہو گئی اور پرندے شور کرتے آنے لگے،دیکھتے دیکھتے سورج ڈوب گیا۔گھنے جنگل کے اندھیرے نے اسے اور بھٹکا دیا مگر وہ باہمت لڑکا تھا،چلتا رہا۔کچھ دیر میں چاند نکل آیا جس کے دھیمے اُجالے میں وہ راستہ ڈھونڈتا رہا۔رات آدھی سے زیادہ گزر گئی۔شکیل تھک گیا تھا،اسے بھوک بھی لگ رہی تھی مگر چاندنی رات میں پہاڑی کے ہرے بھرے درختوں اور اُڑنے پھرنے والے پرندوں اور جانوروں کی آوازوں سے ایسا کچھ سماں بندھا تھا اور رات کو کھلنے والے پھولوں کی خوشبو نے ایسا جادو چلایا تھا کہ شکیل کو بھوک اور تھکن کا زیادہ خیال نہیں آیا۔آخر اُجالا ہوتے ہوتے وہ دوسری طرف جا اُترا۔اس کا چچا دکان کھولنے کی تیاری کر رہا تھا۔شکیل کو پہچان کر وہ خوش ہوا اور پریشان بھی ہو گیا۔بھلا اس طرف سے،اس وقت کوئی یہاں کیسے پہنچ سکتا ہے․․․؟رات میں تو پہاڑی پر خطرناک جانوروں کا راج ہوتا ہے۔شکیل کے لئے ہر خطرناک جانوروں والی بات نئی تھی۔اسے گرگٹ،چڑیاں،جگنو،خرگوش اور دوسرے دلچسپ جانور بے شک ملے تھے اور جنگل کے رسیلے پھل اور رات میں کھلنے والے پھول بھی۔پہاڑی پر تو کوئی ایک بھی خطرناک جانور نہیں ہے۔چچا سوچ میں پڑ گئے۔یہاں ایسے خطرناک جانور ہوں گے ہی نہیں۔جس نے بھی پہلے پہل ان جانوروں کی بات پھیلائی تھی اس نے انہیں خود تو دیکھا نہیں ہو گا،بس اپنا وہم اور اپنا خوف دوسروں سے بیان کر دیا ہو گا یا بہت سے بہت اس نے ڈراؤنی آوازیں سنی اور سائے دیکھے ہوں گے،جنہیں وہ سمجھ نہیں پایا ہو گا۔درختوں کے ہلتے سائے اسے چیتے،شیر اور ریچھ نظر آئے ہوں گے۔رات میں جنگل کی دلچسپ آوازیں اس کے خوف کے ساتھ بدل گئی ہوں گی۔چچا نے کہا”دیکھو سب نے وہم کی اور ڈر کی سنی سنائی باتوں کو سچ سمجھ لیا اور ڈر گئے مگر تم بھی ہو۔تم نے رات کا یہ سفر بے خوفی سے کیا ہے اور ہر طرح کے وہم سے آزاد رہ کر کیا ہے۔یہ بات بہت اچھی ہے۔“ " میں اور ماسک - تحریر نمبر 2248,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mein-aur-mask-2248.html,"خنسہٰ محمد عقیل شاہ،کراچیایک دن میں اسکول سے واپس آ کر اپنے بستے سے چیزیں نکالنے لگی۔اچانک ہی مجھے کسی کی آواز سنائی دی۔میں نے غور سے سنا تو میں حیران رہ گئی۔میز پر پڑا ہوا ماسک مجھے آواز دے رہا تھا۔وہ بہت خوش نظر آ رہا تھا۔میں نے وجہ معلوم کی تو اس نے جواب دیا:”آج کل ہم سب ماسک بہت خوش رہنے لگے ہیں،کیونکہ کورونا نامی بیماری سے پہلے ہماری کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔کوئی ہمیں خریدتا ہی نہیں تھا۔“میں نے پوچھا:”یہ بات ٹھیک ہے کہ اب تمہاری اہمیت بڑھ گئی ہے،لیکن تمہیں خوش نہیں ہونا چاہیے،کیونکہ اس بیماری سے کتنے ہی لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔“ماسک:”ہاں میں جانتا ہوں اور مجھے افسوس بھی ہے،مگر میں خوش بھی اس لئے ہوں کہ اب میں لوگوں کے کام آ سکتا ہوں۔(جاری ہے)ان کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے میں مدد کر سکتا ہوں۔لوگوں کی ناک اور منہ میں اس بیماری کے جراثیم کو داخل ہونے سے روک سکتا ہوں۔“میں نے کہا:”مجھے تمہاری سوچ سے بہت خوشی ہوئی۔تم نے بہت سی بیماریوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔“ماسک بولا:”تعریف کا شکریہ!میری دعا ہے کہ جلد سے جلد اس بیماری کا نام و نشان مٹ جائے،لیکن اس کے باوجود میری ضرورت کم نہ ہو گی۔میں آلودگی کو بھی انسانوں کے اندر جانے سے روکنے میں مدد دے سکتا ہوں اور میری رائے ہے کہ اس بیماری کے ختم ہونے کے بعد بھی مجھے استعمال کیا جائے۔“میں:”جی میں آپ کی تجویز سے اتفاق کرتی ہوں اور میں آپ کی رائے دوسرے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کروں گی۔خدا حافظ!“ماسک:”اس عنایت کا شکریہ۔خدا حافظ!“ " دوغلی چمگادڑ - تحریر نمبر 2247,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/doghli-chamgadar-2247.html,"ایک جنگل میں بہت سارے جانور رہا کرتے تھے لیکن وہ سب آپس میں لڑتے رہتے۔ان جانوروں میں دو گروہ بن گئے تھے۔ایک چوپایوں کا اور دوسرا پرندوں کا۔ان دونوں گروہوں نے روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ کر فیصلہ کیا کہ ہمیں ایک بادشاہ چن لینا چاہیے جو ہمارے جھگڑوں کا فیصلہ کر سکے۔لیکن اس بات پر بھی ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا کہ بادشاہ کا انتخاب کیسے کیا جائے․․․․؟پرندوں کا اصرار تھا کہ بادشاہ کوئی پرندہ ہونا چاہیے،جبکہ جانوروں کا کہنا تھا کہ بادشاہ جانوروں میں سے ہونا چاہیے۔شیر نے بادشاہ ہونے کا دعویٰ کر دیا اور پرندوں کی طرف سے عقاب نے اپنی خدمات پیش کیں لیکن مسئلہ جوں کا توں رہا۔چوپائے اپنے ساتھیوں کی حمایت اور تعریف میں لگے ہوئے تھے تو پرندے اپنی اہمیت جتا رہے تھے۔(جاری ہے)اس بحث کے دوران چمگادڑ کا رویہ بڑا عجیب و غریب تھا۔وہ جب دیکھتی کہ پرندے جیت رہے ہیں تو وہ ان کی حمایت کا اعلان کر دیتی اور جب دیکھتی کہ جانوروں کا پلڑا بھاری ہے تو جانوروں میں شامل ہو جاتی اور جانور ہونے کا دعویٰ کرتی۔یہ سلسلہ چلتا ہی رہا اور آخر جانور پرندوں پر بازی لے گئے۔شیر کو جنگل کا بادشاہ بنا دیا گیا۔اب تمام جھگڑوں کا فیصلہ شیر ہی کرتا تھا۔شیر کے اچھے رویے کی وجہ سے جانور تو جانور،پرندے بھی مطمئن ہو گئے تھے مگر ان دونوں گروہوں کو چمگادڑ کے دوغلے رویے پر بے حد غصہ آتا تھا۔شیر کے جیتنے کے بعد جب چمگادڑ اس کو مبارکباد دینے پہنچی تو سب نے اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا کہ تم تو پرندوں میں شامل ہو کیونکہ کسی بھی چوپائے کے پَر نہیں ہوتے۔چمگادڑ روتی پیٹتی پرندوں کے پاس پہنچی اور کہا کہ چوپایوں نے مجھے مار بھگایا ہے کیونکہ میں جانور نہیں ہوں لیکن پرندوں نے اس کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ تم چوپایوں میں شامل ہو کیونکہ پرندے تو انڈے دیتے ہیں جبکہ تم اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہو۔یہ کہہ کر سب نے اسے وہاں سے مار بھگایا۔چمگادڑ نے بہت کہا کہ میں پرندوں میں شامل ہوں مگر کسی پرندے نے اسے اپنے ساتھ شامل نہ کیا۔اس کے بعد سے چمگادڑ کی زندگی تنہا گزرنے لگی۔وہ اب بھی تنہا ہے اور اپنی بری عادت کی سزا بھگت رہی ہے۔جب کبھی وہ خود کو مجرم سمجھنے لگتی ہے تو سزا کے طور پر درخت سے اُلٹی لٹک جاتی ہے اور روتی ہے اور جب سب پرندے سو جاتے ہیں تو رات کو سناٹے میں باہر آ جاتی ہے کہ کہیں کوئی پرندہ دیکھ نہ لے۔دوغلے رویے نے اسے منہ چھپانے پر مجبور کر دیا ہے۔ " پھولوں والی بستی - تحریر نمبر 2246,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/phoolon-wali-basti-2246.html,"قرة العین خرم ہاشمی”گوشی!کیسی ہو؟“گیارہ سالہ عدیلہ ٹوکری پکڑ کر گھر سے باہر نکلی تو اسی وقت گوشی بھی اپنے گھر سے نکلی۔گوشی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔عدیلہ بھی اپنی ٹوکری پکڑ کر اس کے ساتھ چلنے لگی۔دونوں سہیلیاں باتیں کرتی ہوئی قریبی باغ میں پہنچ گئیں۔اس گاؤں کے لوگ گلاب کے مختلف اقسام کے پھول بڑی تعداد میں کاشت کرتے اور پھر قریبی شہروں میں انھیں اچھے داموں میں بیچ دیتے۔اس لئے یہ بستی،پھولوں والی بستی کے نام سے مشہور تھی۔یہاں رنگ رنگ اور مختلف اقسام کے پھولوں کے باغات تھے۔”تم دونوں اتنی دیر سے آئی ہو۔“باغ میں کام کرتی بی بی گل نے ایک نظر ان دونوں پر ڈالی۔بی بی گل ان کے پڑوس میں رہتی تھیں۔دونوں بچیاں ان کے ساتھ ہی آتی اور جاتی تھیں۔(جاری ہے)بی بی گل بستی کی بچیوں کو قرآن کی تعلیم بھی دیتی تھیں۔وہ میٹرک پاس تھیں،اس لئے بستی کے بچوں کو صبح کے وقت پڑھاتی بھی تھیں۔دوپہر میں کام کرنے باغ میں آ جاتیں،کیونکہ یہ ان کا خاندانی پیشہ تھا۔وہ سب مل کر کام کرنے لگے۔وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے پھول توڑ توڑ کر اپنی اپنی ٹوکری میں ڈال رہی تھیں۔”تمہیں پتا ہے رانی نے کل کیا کیا؟“گوشی نے اچانک دھیمی آواز میں کہا۔”نہیں!وہ کل تمہارے کان میں کچھ کہہ رہی تھی ناں؟“”وہ اپنی سوتیلی ماں کے بارے میں بتا رہی تھی۔بہت ظالم ہے اس کی سوتیلی ماں۔“گوشی نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔”اچھا!مگر شکل سے تو بہت اچھی لگتی ہیں۔“عدیلہ نے حیرت سے سوال کیا۔”شکل کو رہنے دو۔بہت تنگ کیا ہوا ہے رانی کو۔اسے کھانے کو بھی نہیں دیتیں۔سب کام رانی سے کرواتی ہیں اور․․․․“گوشی جلدی جلدی رانی سے سنی ساری باتیں عدیلہ کو بتانے لگی۔شام کو جب وہ دونوں وہاں سے واپس آئیں تو عدیلہ نے گھر آ کر اپنی ماں کو گوشی سے سنی ہوئی ساری باتیں بتا دیں۔”ہائے اللہ!رانی بے چاری پر اتنا ظلم ہو رہا ہے۔“عدیلہ کی ماں سن کر تڑپ اُٹھی۔اگلے دن عدیلہ کی ماں نے یہ بات اپنی پڑوسن کو بتائی۔اس نے آگے کسی کو اور اس طرح یہ باتیں بستی میں چاروں طرف پھیل گئیں۔جب یہ باتیں گھومتی پھرتی رانی کے گھر پہنچیں تو اس کی سوتیلی ماں نے رانی کے ابا سے کہا:”میں نے کب اسے بھوکا رکھا؟یا مارا ہے؟‘”میں بات کرتا ہوں۔“رانی کے باپ نے پریشانی سے کہا۔جب ابا نے رانی سے پوچھا تو رانی پریشان ہو گئی۔”ابا!میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا۔میرا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ․․․․“رانی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔”تم نے جھوٹ کیوں بولا؟اس سے ہمارے گھرانے کی پوری بستی میں بے عزتی ہوئی ہے۔“ابا نے گرجتے ہوئے کہا۔”ابا!معاف کر دیں۔“رانی نے روتے ہوئے کہا۔”آج سے تمہارا بی بی گل کے گھر پڑھنے جانا بند ہے۔بس گھر میں رہو اور کام کرو۔“ابا نے فیصلہ سنایا اور چلے گئے۔رانی رونے لگی۔کچھ دن پہلے،رانی کی اپنی سوتیلی ماں سے کسی بات پر بحث ہو گئی،جس کا غصہ اس نے جھوٹی کہانی بنا کر نکالا،مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی بنائی ہوئی جھوٹی کہانی،پوری بستی والوں کو معلوم ہو جائے گی۔اسے گوشی پر سخت غصہ آ رہا تھا۔جس نے راز کو راز نہیں رکھا تھا۔کچھ دن تک جب رانی غیر حاضر رہی تو بی بی گل نے عدیلہ اور گوشی کو اس کی خیریت معلوم کرنے اس کے گھر بھیجا۔رانی نے گوشی کو دیکھا تو اس پر بہت غصہ ہوئی کہ اس کی وجہ سے آج یہ دن دیکھنا پڑا ہے۔گوشی اور عدیلہ واپس آئیں اور بی بی گل کو ساری بات بتائی۔ساری بات سن کر وہ سر پکڑ کر رہ گئیں۔”تم لڑکیاں میری دی گئی تعلیم و تربیت کا ایسے خیال رکھ رہی ہو؟ایک طرف رانی جھوٹی کہانیاں بنا کر دوسروں کو سنا رہی ہے اور دوسری طرف تم ہو جو کسی کے راز کو راز نہیں رکھ سکی۔“”بی بی گل!مجھ سے غلطی ہو گئی۔“گوشی نے روتے ہوئے کہا۔بی بی گل نے چپ کھڑی عدیلہ کی طرف دیکھا۔”اور عدیلہ تم نے بھی راز کو راز رکھنے کے بجائے گھر جا کر شور مچا دیا۔تم دونوں کی حماقت کی وجہ سے ساری بستی کا ماحول بوجھل ہو گیا ہے۔سب رانی کی ماں کو بُرا کہہ رہے ہیں،جب کہ اس بیچاری کا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔“بی بی گل نے فکر مندی سے کہا۔عدیلہ نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔اگلے دن بی بی گل ان دونوں کو لے کر رانی کے گھر گئیں۔رانی کے ابا اور سوتیلی ماں کو بٹھا کر ساری بات سمجھائی۔بستی میں بی بی گل کی بہت عزت تھی۔اس لئے سب ان کی بات غور سے سنتے تھے۔”بچیاں نادان ہیں۔ان سے غلطی ہو گئی ہے۔معاف کر دیں۔“بی بی گل نے نرمی سے کہا تو رانی کی سوتیلی ماں نے اُٹھ کر اسے گلے لگا لیا۔سب کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے۔ " جیکی - تحریر نمبر 2244,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jackie-2244.html,"جاوید اقبال صدیقی”امی!دیکھیے تو کتنا خوب صورت ہے،بالکل سفید ہے اسے ہم رکھ لیتے ہیں!“میں نے کہا:”عبداللہ!تم اسے لے کر کیوں آئے ہو؟اسے ہم رکھیں گے کہاں؟“”امی!اسے پیاس لگ رہی ہے۔اسے تھوڑا سا پانی پلا دیں۔یہ کہتا ہوا عبداللہ اندر گیا اور ایک پرانے برتن میں پانی لا کر اس کے آگے رکھ دیا۔اس نے پانی ایسے پینا شروع کر دیا جیسے کئی دنوں کا پیاسا ہو۔جب وہ پانی پی چکا تو عبداللہ نے ڈبل روٹی لا کر اسے دے دی جو اس نے جلدی جلدی کھا لی۔وہ مسلسل عبداللہ کو دیکھے جا رہا تھا اور ساتھ ہی پتلی سی لمبی دُم ہلا رہا تھا۔واقعی وہ اچھی نسل کا سفید رنگ کا پِلا تھا۔ہمارے پاس اسے رکھنے کے لئے مناسب جگہ نہیں تھی،مگر عبداللہ کی ضد کو دیکھتے ہوئے میں نے اسے گیٹ کے باہر بنے چبوترے پر رہنے کے لئے جگہ بنا دی،جہاں عبداللہ اسے وقت پر کھانا اور پانی دے دیتا اور وہ وہاں بیٹھا رہتا۔(جاری ہے)اس طرح چند مہینوں میں وہ بڑا ہو گیا اور پِلے سے ایک خوبصورت موٹا تازہ کتا بن گیا۔عبداللہ نے اس کا نام جیکی رکھا تھا۔جیکی خاموشی سے چبوترے پر بیٹھا رہتا۔گلی میں کسی بھی پیدل یا سوار گزرنے والے کو اس نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ہاں رات میں کبھی کبھار وہ کسی آوارہ کتے یا جانور کو دیکھ لیتا تو بھوکنا شروع کر دیتا۔عام طور پر وہ گھر سے باہر دروازے کے پاس لگے پودوں کے نیچے آرام کرتا رہتا۔اگر عبداللہ کسی کام سے جاتا تو وہ اس کے ساتھ ساتھ گلی کے کونے تک جاتا اور پھر واپس آ کر بیٹھ جاتا۔میرے بیٹے عبداللہ نے ایک بیٹر بھی پال رکھا تھا،جس کے پَر کٹے ہوئے تھے اور جو عام طور پر پنجرے میں بند رہتا تھا۔ایک دن شام کے وقت وہ کہیں باہر نکل گیا۔جیکی نے اسے روکا واپس گھر میں لانے کی کوشش کی۔اسی دوران سورج غروب ہو گیا۔کتوں کے ایک ساتھ بھوکنے کی آواز آنے لگیں۔دروازہ کھول کر باہر دیکھا تو تین چار کتے جیکی پر حملہ کر رہے تھے۔جیکی کا انداز ایسا تھا جیسے کسی چیز کی حفاظت کر رہا ہو۔عبداللہ نے کتوں کو بھگایا اور جیکی کے زخموں پر مرہم لگانے لگا تو دیکھا کہ اس نے بیٹر کو اپنے نیچے چھپا رکھا ہے۔اگلی صبح جانوروں کے ڈاکٹر سے دوا لی اور انجیکشن لگوایا۔اس طرح تقریباً ایک ہفتہ علاج کے بعد وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا۔بیٹر زندہ سلامت تھا۔اس طرح اس نے اپنی جان پر کھیل کر بیٹر کی جان بچائی تھی۔گرمی کا موسم تھا۔ہمارے پڑوسی کے گھر سے پانی بہہ کر گلی میں آ گیا۔جیکی نے جب پانی دیکھا تو جا کر اس میں بیٹھ گیا۔بعد میں جب پانی سوکھ گیا تو اس نے گیلی جگہ کھود کر ایک گڑھا بنایا اور اس میں بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر بعد جب پڑوسن نے دروازہ کھولا تو دیکھا جیکی مزے سے گڑھے میں سو رہا ہے۔انھوں نے ایک پتھر اُٹھایا اور سوتے ہوئے جیکی کو دے مارا۔اچانک پتھر لگنے سے وہ بے چارہ درد کے مارے چیخنے چلانے لگا۔میں گھبرا کر باہر نکلی۔خدایا جیکی کو کیا ہو گیا ہے۔جیکی بھاگ کر میرے پاس آ گیا۔مجھے دیکھتے ہی پڑوسن کہنے لگیں:”اگر کتا رکھنا ہے تو گھر کے اندر رکھو،اس نے ہماری جگہ خراب کر دی ہے۔“کچھ عرصے بعد میں عمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب روانہ ہو گئی۔پاکستان واپس آنے پر اپنے دروازے کے سامنے جب میں گاڑی سے اُتری تو پڑوسن نے نہ صرف میرے گلے میں پھولوں کا خوب صورت ہار ڈالا اور آگے بڑھ کر میرے ہاتھوں کے بوسے لینے لگیں۔ان کی آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر میں حیرت میں پڑ گئی۔دوسرے دن پڑوسن نے بتایا کہ میرا بیٹا گلی میں کھیل رہا تھا کہ قریبی کوڑے کے ڈھیر سے ایک سانپ رینگتا ہوا اس کے قریب آ گیا۔سانپ کے ڈسنے سے پہلے ہی جیکی نے پکڑ کر اسے بھنبھوڑ دیا۔میں جلدی سے آئی تو جیکی سانپ کو مار چکا تھا۔جیکی نے میرے بیٹے کی جان بچائی۔میں اپنے سابقہ رویے پر تم سے معافی چاہتی ہوں اور وعدہ کرتی ہوں کہ بے زبان جانوروں کو کبھی تنگ نہیں کروں گی۔ " دستِ شفا - تحریر نمبر 2243,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dast-e-shifa-2243.html,"عمار حسیناللہ نے ڈاکٹر حیدر کو کئی صلاحیتوں سے نوازا ہے جن کی مدد سے وہ مرض کی جڑ تک پہنچ جاتے ہیں۔قدرت نے شاید انھیں خاص دستِ شفا عنایت کر رکھا ہے۔اقبال میرے بچپن کا دوست ہے۔کچھ عرصے سے اسے بدہضمی کی شکایت تھی۔وہ بہت خوش خوراک تھا،لیکن اب کچھ کھاتا تو ہضم نہ ہوتا۔معدے کے امراض کے ماہرین سے علاج کے باوجود افاقہ نہ ہو سکا۔ایک دن میں اقبال کو لے کر ڈاکٹر حیدر کے پاس جا پہنچا اور تفصیل سے اقبال کے مسئلے سے آگاہ کیا۔ڈاکٹر صاحب خود اقبال سے بھی اس کا حال غور سے سنتے رہے اور کئی سوالات کرکے مسئلہ کے تمام پہلوؤں کے بارے میں تفصیلات نوٹ کرتے رہے۔پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا:”بیٹا!بالکل فکر نہ کرو،انشاء اللہ کل ہی سے سب کچھ بالکل معمول کے مطابق کھانے لگو گے۔(جاری ہے)تمہارے لئے بہترین دوا تیار ہے۔یہ دوا میری ساری عمر کے تجربے کا نچوڑ ہے۔تم اس کے چند قطرے ابھی میرے سامنے پانی میں ملا کر پی لو۔“اقبال نے فوراً ان سے دوا لے کر پانی میں اس کے چند قطرے ملائے اور پانی پی لیا۔تھوڑی دیر بعد بات کرنے کے بعد ڈاکٹر حیدر بولے:”لو جی اب تمہارا معدہ تمام نقائص سے پاک ہو چکا ہے۔اب تم مجھے بتاؤ کیسا محسوس کر رہے ہو!“”ڈاکٹر صاحب!آپ کی دوا واقعی جادو اثر ہے۔میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں۔“اقبال نے جواب دیا۔ڈاکٹر حیدر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا:”اقبال بیٹا!گھر جاؤ اور جو دل چاہے پیٹ بھر کر کھاؤ،صرف بازاری کھانوں سے پرہیز کرنا۔کھانے کا ایک اُصول یہ ہے کہ کھانا کم اور خوب چبا کر کھایا جائے۔یاد رکھو تمہیں جینے کے لئے کھانا ہے،کھانے کے لئے نہیں جینا۔میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر تمہیں بدہضمی ہوئی تو میں پریکٹس چھوڑ دوں گا۔“پھر ہم دونوں اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔میں رات گئے تک اقبال کے فون کا منتظر رہا کہ کہیں اس کے معدے میں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوئی،مگر اس کا فون نہیں آیا۔اگلے روز اقبال کی والدہ نے خوش خبری سنائی کہ اقبال بالکل ٹھیک،بہت خوش ہے اور رب رغبت سے کھا رہا ہے۔یہ سُن کر میں بہت خوش ہوا۔دو دن بعد میں یہ سوچ کر ڈاکٹر حیدر کے پاس چلا گیا کہ ان سے اس حیرت انگیز دوا کے متعلق پوچھوں جو ان کی ساری عمر کے تجربے کا نچوڑ تھی۔میں نے ڈاکٹر صاحب کے پاس جا کر انھیں اقبال کا سارا احوال سنایا اور ان سے دوا کی قیمت دریافت کی،تاکہ اسے خرید سکوں۔ڈاکٹر صاحب اپنی نشست سے اُٹھے اور مسکراتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے:”وہ تو محض سادہ پانی تھا۔“وہ میرے حیرت میں ڈوبے چہرے کو نظر انداز کرتے ہوئے مزید بولے:”آپ کے دوست کو درحقیقت کوئی مرض تھا ہی نہیں۔زیادہ اور بازاری کھانے کے ساتھ ساتھ اسے وہم بھی ہو گیا تھا کہ وہ جیسے ہی کچھ کھائے گا،اس کا پیٹ خراب ہو جائے گا۔میں نے تو بس اس کا نفسیاتی علاج کرکے وہم کی بیماری سے اسے نکالا ہے۔اسے اسی علاج کی ضرورت تھی۔اب اگر وہ میری ہدایت پر عمل کرتا رہا تو اسے انشاء اللہ کبھی یہ تکلیف نہیں ہو گی۔“اور واقعی اقبال کو اس علاج اور ہدایت کے بعد اس مسئلے کا سامنا نہیں ہوا۔ " رمضان المبارک کا تحفہ،عید الفطر - تحریر نمبر 2242,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ramzan-ul-mubarak-ka-tohfa-eid-ul-fitr-2242.html,"آمنہ ماہمپیارے بچو!رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ماہ رمضان خوشیاں اور رحمتیں بکھیرتا شروع ہو چکا ہے۔یقینا آپ بھی روزے رکھ رہے ہوں گے۔رمضان المبارک اللہ پاک سے اپنا روحانی تعلق مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ ہے،اس مہینے مسلمان اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے والے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔یہ مبارک مہینہ جب شروع ہوتا ہے تو رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں،شیاطین کو جکڑ لیا جاتا ہے،رزق میں برکت ہوتی ہے۔گھروں میں افطار کے وقت کچھ زیادہ ہی رونق دیکھنے میں آتی ہے۔غرض ایک روحانی فضا چہار سو پھیلی ہوتی ہے۔نماز کی پابندی،قرآن کی تلاوت،مساجد میں رونقیں دوبالا ہو جاتی ہیں،اس مبارک مہینے میں اللہ کی رحمتیں ٹھاٹھیں مارتی ہیں اور ندا ہوتی ہے کہ ان رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرو۔(جاری ہے)یہ صبر و برداشت،عبادت اور ریاضت کا مہینہ ہے،جس نے اس ماہ مبارک کا احترام کر لیا،سمجھو کہ اُس نے اللہ کی خوشنودی حاصل کر لی۔روزہ رکھنے کے بعد اس کی حفاظت کرنا بھی بہت ضروری ہے۔اپنے ہاتھ کو،زبان کو،آنکھوں کو کنٹرول کرنا چاہیے۔آپ کی وجہ سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔آپ کو معلوم ہو گا کہ اس ماہ مبارک میں ایک نیکی کرنے سے ستر نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ساتھیو!کوشش کریں کہ دوسروں کے کام آئیں،ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کریں۔غربا اور مساکین کا روزہ افطار کروائیں۔سحری کیلئے کھانے پینے کی اشیاء مہیا کریں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ جو آپ خود کھاتے ہیں،جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی چیزیں ان کو دیں۔روزے کا اجر اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔کوشش کریں کہ اس مبارک مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائیں۔پیارے بچو!ہم سب رمضان میں روزے رکھتے ہیں اور اچھے اچھے کام کرتے ہیں۔پھر اللہ پاک ہمیں عید الفطر کا تحفہ دیتے ہیں جس میں سب خوشیاں مناتے ہیں۔لیکن یاد رکھنا عبادت اور نیک کام صرف رمضان میں ہی نہیں کرنے بلکہ اس کے بعد بھی کرتے رہنا ہیں۔ " سہیلی زرمین کی افطاری - تحریر نمبر 2241,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/saheli-zarmeen-ki-iftari-2241.html,"آج سب سہیلیاں علیزہ کی طرف جمع تھیں،روزہ کھُلنے میں بس کچھ ہی دیر تھی علیزہ کے کچن سے کھانے کی خوشبوئیں آ رہی تھیں اور وہ بے چینی سے روزہ کھُلنے کی منتظر تھیں۔سب کو معلوم تھا کہ علیزہ کی ماما بہت اچھی ڈشز بناتی تھیں،اصل میں وہ چاروں سہیلیاں کلاس فیلوز تھیں اور رمضان چونکہ گرمی کی چھٹیوں میں آیا تھا اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہر روز کسی ایک کے گھر افطار پارٹی ہوا کرے گی یوں چھٹیوں کا مزہ دوبالا ہو جائے گا اور آج اسی پروگرام کے تحت علیزہ کے گھر افطار پر سب جمع تھیں۔مزہ واقعی بہت آیا کیونکہ سب چیزیں ان کی پسند کی تھیں۔چاکلیٹ کیک،پیزا،برگر،آئس کریم،فروٹ چاٹ،کھجوریں سب نے ڈٹ کر کھایا اور خوب انجوائے کیا۔دوسرے روز شبنم اور زارا کے گھر افطار کا اہتمام تھا ہر جگہ بہت پُرتکلف افطار اور کھانا تھا،دہی بڑے،چاٹ،سموسے،پکوڑے،روسٹ،کباب وغیرہ لیکن جس دن زرمین کے گھر کی باری تھیں۔(جاری ہے)انہیں بہت بوریت ہوئی ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہاں سے اُٹھ آئیں اور اپنے گھر آ کر افطار کر لیں۔بس چاٹ کھجوریں اور شربت․․․․!انہوں نے بمشکل روزہ افطار کیا اور جب کھانا آیا تو ان کی بوریت مزید بڑھ گئی صرف دال اور چاول․․․․․جیسے تیسے سب نے کھانا زہر مار کیا اور زرمین اور اس کی ماما سے اجازت لے کر وہاں سے نکلیں اور سب علیزہ کے گھر جمع ہو گئیں کیونکہ وہیں سے ان کے ماما پاپا نے انہیں لینے آنا تھا،یہاں آتے ہی انہوں نے زور شور سے زرمین کے گھر کی بوریت کا ذکر شروع کر دیا․․․․توبہ توبہ زرمین کو ذرا شرم نہیں آئی،اس نے کیسی پارٹی کی،علیزہ نے کہا”شربت کھجور سے افطار اور کھانے میں دال چاول․․․․یہ بھی کوئی کھلانے کی چیز ہے۔“شبنم نے کہا”نہ آئس کریم نہ پیزا․․․․ذرا مزہ نہیں آیا“زارا بولی”میں ہوتی تو اپنی دوستوں کے سامنے مر ہی جاتی،اگر ایسی پارٹی میرے گھر پر ہوتی“یاسمین نے کہا۔صرف شربت،کھجوریں اور چاٹ․․․․․؟علیزہ کی ماما جو دیر سے ان کی باتیں خاموشی سے سُن رہی تھیں غصہ سے بولیں”شرم تم سب کو آنی چاہیے،تم نے رمضان کے مقدس مہینے کو صرف کھانے پینے سے انجوائے کرنے کا مہینہ سمجھ رکھا ہے“سب لڑکیاں زور شور سے بولتے بولتے یکدم خاموش ہو گئیں،کیونکہ آنٹی واقعی غصے میں تھیں․․․․․میری بات سنو،انہوں نے کہا”روزہ افطار کروانے کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ اس کو بھی ثواب ملے گا جو ایک کھجور سے کسی کا روزہ افطار کروائے،افطاری کروانے کا مقصد نمود و نمائش،اور شو بازی یا دکھاوا نہیں ہونا چاہیے ورنہ اجر و ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔تم لوگوں کی باتوں سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کو افطاری کروانی ہی نہیں چاہیے جس کے مالی حالات زیادہ اچھے نہ ہوں،بلکہ افطاری کا ثواب صرف ان کو ہی لینا چاہیے جو روسٹ،کباب،پیزا،برگر وغیرہ افورڈ کر سکتے ہوں۔تم لوگوں کی سوچ پر حیرت اور شرمندگی ہو رہی ہے،زرمین کے والدین کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی گنجائش کے مطابق افطار پارٹی کا انتظام کیا اور تم لوگ باتیں بنا کر گناہ کما رہی ہو جبکہ ان کو روزہ کھلوانے کا ثواب مل گیا ہو گایہ سب باتیں سن کر سب لڑکیاں بہت شرمندہ ہوئیں اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا انہوں نے معذرت کی اور آئندہ اپنی سوچ کو بدلنے کا وعدہ بھی کیا۔ " تمغہ کی تلاش - تحریر نمبر 2239,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tamgha-ki-talaash-2239.html,"زویا فہد،کراچیشایان جس بستی میں رہتا تھا،وہاں کی روایت تھی کہ جب کوئی شخص کوئی کارنامہ انجام دیتا تھا تو اسے ایک شان دار تقریب میں تمغہ دیا جاتا تھا۔ایک روز شایان اور اس کا چھوٹا بھائی کاشان ایک دن پکنک منانے ایک باغ میں گئے۔زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ یکایک زمین ہچکولے کھانے لگی۔ایک بھیانک،بدصورت،قد آور دیو،ان کی طرف چلتا دکھائی دیا۔خوف سے کاشان کانپنے لگا۔دیو،کاشان کی طرف بڑھ رہا تھا جب کہ شایان پر دھیان نہیں دے رہا تھا۔شایان نے کاشان کو بھاگ جانے کا کہا اور خود شور مچا کر ایک نوکیلا بانس ہاتھ میں لے کر دیو کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگا۔کاشان گھبرا کر بھاگا۔دیو اپنے بھاری بھرکم ہاتھ اِدھر اُدھر مار کر شایان کو ڈھونڈتا رہا اور شایان اِدھر اُدھر لپکتا دیو سے بچتا رہا۔(جاری ہے)یکایک وہ ایک پتھر سے اُلجھ کر گر پڑا اور اسی وقت شایان پر دیو کا ہاتھ پڑ گیا۔ایک چیخ کے ساتھ شایان کو پتا چلا کہ اس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔دیو نے اسے پکڑا اور اسے دونوں ہاتھ سے مروڑنے لگا۔یکایک شایان نے ہاتھ میں تھاما نوک دار بانس اس کی آنکھ میں مارا۔دیو نے ایک ہاتھ سے اپنی آنکھ کو ڈھانپ کر اس میں سے رستے خون کو روکنے لگا۔شایان نے دوسرا وار کیا اور اس کو اندھا کر دیا۔یکایک دیو کو چکر آ گیا۔وہ ایک پتھر سے ٹکرا کر گر پڑا اور اس کا سر پھٹ گیا۔دیو بے ہوش ہو چکا تھا۔اسی وقت ابا جان،کاشان اور بستی کے لوگوں کو اس نے اپنی طرف دوڑتے دیکھا۔جب شایان کی آنکھ کھلی تو وہ بستی کے کچے ہسپتال میں لیٹا ہوا تھا۔وہاں بستی کا سردار،اس کا خاندان،اس کے دوست،اور نہ جانے کون کون وہاں پھول اور تحائف تھامے کھڑے تھے۔جیسے ہی وہ اُٹھا،سب نے اس کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے۔پھر سردار اُٹھا،اسے تعریفی الفاظ کہے:”بیٹا!تم نے آج ایک بہت انمول کارنامہ سر انجام دیا ہے۔تم نے اپنے بھائی کی خاطر اپنی جان کی پروا نہ کی۔تم نے ایثار و بہادری کی وہ روشن مثال قائم کی ہے،جو برسوں یاد رکھی جائے گی۔“یہ کہہ کر وہ اس کے پاس جھکے اور جب وہ اُٹھے تو سب تالیاں بجا کر نعرے لگانے لگے”شایان زندہ باد!“شایان نے اپنے سینے پر نظر ڈالی تو اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔اس پر ”تمغہ ایثار“ سنہرے رنگ میں کندہ تھے اور اس کے سائیڈ ٹیبل پر ایک سرٹیفکیٹ اور انعامی رقم کا لفافہ رکھا تھا۔اس کی دلی تمنا آج پوری ہو گئی تھی۔ " ننھی چیونٹی - تحریر نمبر 2238,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanhi-chiyunti-2238.html,"کسی جنگل میں ایک ننھی چیونٹی اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔ننھی چیونٹی کی ماں جب تک صحت مند تھی اپنے اور ننھی چیونٹی کے لئے مزیدار دانے لاتی،جب اس کی ماں بیمار اور بوڑھی ہوئی تو دانہ لانے کی ذمہ داری ننھی چیونٹی پر آن پڑی۔اس کی ماں نے اسے سمجھایا تھا کہ برسات سے پہلے پہلے بہت سا دانہ جمع کرنا ضروری ہے تاکہ سردیوں میں آرام رہے اور خوراک آسانی سے ملتی رہے۔ننھی نے پہلے دن محنت کی اور بہت دور سے چند دانے گھر تک لے جا سکی۔پھر مزید دانے لانے سے انکار کر دیا۔اس کی ماں نے فکر مند لہجے میں کہا ”ننھی!صرف ان چند دانوں سے تو کچھ نہ ہو گا۔آخر ہم سردیوں میں اپنا پیٹ کیسے بھریں گے۔اس وقت خوراک بالکل غائب ہو گی۔“ننھی چیونٹی نے کہا”یہ بہت مشکل کام ہے۔(جاری ہے)میں تو صرف چند دانے لا سکتی ہوں۔اس سے زیادہ نہیں۔“یہ کہہ کر ننھی سو گئی۔اگلے دن وہ پھر دانوں کی تلاش میں نکل پڑی۔اس نے سوچا کہ میں اب بڑے بڑے دانے اپنے گھر لے جاؤں گی،اس طرح میں زیادہ خوراک گھر میں جمع کر سکوں گی۔اسے ایک درخت کے قریب بہت سی چیونٹیاں جاتی نظر آئیں۔جب وہ درخت کے قریب پہنچی تو وہاں روٹی کے بے شمار ٹکڑے پڑے تھے۔اس نے دیکھا کہ جو چیونٹیاں چھوٹی ہیں وہ بڑی تیزی سے چھوٹے دانے منہ میں اُٹھائے لیے جا رہی ہیں۔جبکہ بڑے چیونٹے بڑے بڑے دانے منہ میں دبائے جا رہے تھے۔اس نے ایک بڑا سا دانہ منہ میں پکڑا اور چل پڑی،لیکن ابھی چند قدم چلی تھی کہ تھک گئی۔اس دوران ایک بوڑھے چیونٹے کی نظر ننھی چیونٹی پر پڑی۔اس نے پوچھا”بھئی ننھی کیا بات ہے․․․․؟“ننھی نے سارا واقعہ سنایا۔انکل چیونٹے ہنس پڑے۔وہ ننھی چیونٹی کو ایک درخت کے قریب لے گئے،جہاں ٹھنڈی چھاؤں تھی۔انکل نے چھوٹی چیونٹیوں کی طرف اشارہ کیا”تم بھی ان کی طرح پھرتی سے کام کرو اور چھوٹے دانے گھر لے جاؤ۔بڑے دانے تم نہیں لے جا سکتیں۔اچھا دیکھو ننھی!تم چھوٹے دانے میرے گھر پہنچاؤ اور میں بڑے بڑے دانے تمہارے گھر لے چلتا ہوں،لیکن ایک شرط ہے۔“”انکل!مجھے ہر شرط منظور ہے!“ننھی خوش ہو کر بولی۔”تم ہر روز تین گھنٹے کام کرو گی۔“انکل نے شرط بتائی تو ننھی نے فوراً کہا کہ اسے یہ شرط منظور ہے۔دن گزرتے رہے چیونٹی پابندی سے روزانہ چھوٹے چھوٹے دانے انکل کے گھر جمع کرتی اور انکل بڑے بڑے دانے ننھی کے گھر لے جاتے۔ننھی کی ماں انکل سے بہت خوش تھی کہ خوراک جمع کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔جب ننھی ذرا آرام کرتی تو انکل فوراً اسے اُٹھنے اور پابندی کرنے کی تاکید کرتے۔ایک دن انکل نے ننھی سے کہا۔”ننھی!بس اب دانے جمع کرنا بند کر دو۔“”انکل!میں کچھ دانے اور جمع کرنا چاہتی ہوں۔“ننھی نے جواب دیا۔اصل میں ننھی چاہتی تھی کہ انکل بڑے بڑے دانے اس کے گھر جمع کرتے رہیں۔”بس ننھی!خوراک بہت زیادہ جمع ہو گئی ہے۔اتنی کافی ہے۔“انکل نے ننھی کو سمجھایا تو اس نے بات مان لی۔پھر ننھی اور انکل اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔دن گزرتے رہے۔ننھی کے ہاں بہت سی خوراک جمع تھی۔خوراک کے بڑے بڑے دانے دیکھ کر ننھی انکل کی شکر گزار تھی۔ایک دن جب سردیاں زوروں پر تھیں۔سب جانور اپنے اپنے گھروں میں دبکے آرام کر رہے تھے کہ اچانک ننھی کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ننھی نے دروازہ کھولا تو خوشی سے اس کی چیخ نکل گئی۔مہربان انکل سامنے کھڑے تھے۔ننھی نے جلدی سے انہیں اندر بلا لیا اور ان کی خوب خاطر کی۔اس کی ماں بھی انکل کی بہت شکر گزار تھیں۔”انکل!آپ کی بہت مہربانی!“ننھی نے انکل سے کہا۔”کیوں ننھی!کس بات کی مہربانی․․․؟“انکل حیرت سے بولے۔”انکل آپ نے یہ اتنی ساری خوراک جو ہمیں دی۔“ننھی نے خوراک کے بڑے بڑے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا۔”اچھا!“انکل نے قہقہہ لگا کر کہا”لیکن تم نے وہ خوراک تو دیکھی ہی نہیں،جو میں نے گودام میں جمع کی ہے،جو تم لائی تھیں۔“”انکل!وہ تو چھوٹے چھوٹے دانے تھے۔ان کے مقابلے میں ان بڑے دانوں کا کیا مقام!“”خود دیکھو گی تو پتا چلے گا کہ کس کی خوراک زیادہ ہے۔وہ جو تم نے جمع کی تھی یا یہ بڑے دانے جو میں نے تمہارے گھر میں جمع کیے ہیں۔“انکل نے ماں سے اجازت لی کہ وہ ننھی کو اپنے گھر لے جا رہے ہیں تاکہ اسے خوراک دکھا سکیں۔ننھی کی ماں نے اجازت دے دی اور انکل ننھی کو لے کر اپنے گھر روانہ ہو گئے۔”ارے انکل!“ننھی کے منہ سے حیرت کے مارے چیخ نکل گئی۔”کیوں ننھی!دیکھا تم نے کتنی خوراک جمع کی ہے۔اب بتاؤ وہ خوراک زیادہ تھی یا یہ چھوٹے چھوٹے دانے!“انکل نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔”انکل!میں ماننے کو تیار نہیں ہوں۔میں اتنی ساری خوراک جمع نہیں کر سکتی۔“اس نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا۔”دیکھو ننھی!“انکل نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا”یہ سب خوراک تم نے جمع کی تھی۔یہ اس لئے بہت زیادہ ہے کہ تم نے ایک مہینے میں ہر روز بہت محنت سے کام کیا۔تم نے کام کے دوران ایک لمحہ بھی آرام نہیں کیا۔تم نے کام بڑی باقاعدگی سے مسلسل کیا۔یہ سب اس کا کمال ہے۔یاد رکھو!محنت اور کام کو باقاعدگی سے کرنے میں ہی کامیابی ہے۔اتنی بڑی کامیابی کہ تم حیران ہو گی۔اتنی حیران جتنی کہ تم اب ہو رہی ہو۔“پھر انکل نے ننھی کو اس ڈھیر میں سے کچھ چھوٹے چھوٹے دانوں پر مشتمل خوراک اور دے دی۔وہی ننھے اور چھوٹے چھوٹے دانوں پر مشتمل خوراک۔ " وفادار باز - تحریر نمبر 2237,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/wafadar-baaz-2237.html,"پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی ملک میں ایک شکاری رہتا تھا۔شکاری ایک نوجوان اور بہادر شخص تھا۔وہ شکار کی تلاش میں اکثر گھنے اور خطرناک جنگلوں میں جاتا رہتا تھا۔شکاری کے پاس ایک باز تھا جو اس کا بڑا وفادار تھا۔وہ جب بھی شکار پر جاتا تو باز کو بھی ساتھ لے جاتا۔باز بھی کئی قسم کے چھوٹے پرندے شکار کرتا تھا۔اسے باز سے بڑی محبت تھی،کیونکہ باز نے کئی مرتبہ اس کی جان بچائی تھی۔مثلاً ایک دن ایک سانپ اس پر حملہ آور ہونے لگا تو باز نے اس سانپ کو اپنے پنجوں سے ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔ایک دن شکاری نے شکار پر جانے کا ارادہ کیا اور حسب معمول باز کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔وہ ایک گھنے جنگل میں پہنچ گیا جہاں جنگلی جانوروں کی کثرت تھی۔اسے شکار کرتے ہوئے دو دن گزر گئے۔(جاری ہے)تیسرے دن اچانک وہ راستہ بھٹک کر ایک صحرا میں جا پہنچا جہاں چاروں طرف ریت ہی ریت تھی۔اس نے راستہ تلاش کرنے کی بڑی کوشش کی،مگر کامیاب نہ ہو سکا۔گرمی کی وجہ سے پانی کی شدید طلب ہو رہی تھی،لیکن اردگرد کہیں پانی نہ تھا۔گھومتے پھرتے اسے ایک سایہ دار درخت نظر آیا۔شکاری پیاس اور تھکن سے چور تھا اس لئے اس نے صحرا میں سایہ دار درخت کا ملنا غنیمت جانا شکاری اس کے نیچے جا بیٹھا۔باز بھی اس کے قریب ہی بیٹھ گیا۔ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ اچانک درخت پر سے پانی کے قطرے ٹپکنے لگے۔وہ بہت پیاسا تھا۔اس نے سامان سے پیالہ نکال کر وہاں رکھ دیا جہاں قطرے گر رہے تھے اور یہ بھی نہ سوچا کہ آخر درخت سے قطرے کیوں گر رہے ہیں۔تھوڑی دیر بعد پیالے میں اتنا پانی جمع ہو گیا کہ وہ پی سکے تو اس نے پیالہ اُٹھایا اور پانی پینے کی کوشش کی،لیکن اس سے پہلے کہ وہ پانی پیتا قریب ہی بیٹھا ہوا باز اُڑا اور جھپٹ کر وہ پیالہ اس کے ہاتھ سے گرا دیا۔باز کے اس طرح پانی گرانے پر اسے بڑا غصہ آیا،لیکن اس نے ضبط کیا اور خالی پیالہ اُٹھا کر پھر اس جگہ رکھ دیا۔جہاں اب بھی قطرے گر رہے تھے۔کچھ دیر بعد پھر پیالے میں اپنی اکھٹا ہو گیا تو اس نے دوبارہ ہاتھ بڑھا کر پیالہ اُٹھانے کی کوشش کی،لیکن باز بڑی تیزی سے لپکا اور اس کے پیالہ پکڑنے سے پہلے ہی گرا دیا۔اس مرتبہ شکاری اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا۔اس نے تلوار کے ایک ہی وار سے باز کا کام تمام کر دیا۔آخر جب اس کا غصہ کچھ کم ہوا تو اس نے غور کیا کہ آخر درخت پر سے پانی کیوں گر رہا ہے۔چنانچہ اس نے گردن اُٹھا کر اس طرف دیکھا جہاں سے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور یہ دیکھ کر وہ لرز اُٹھا کہ ایک بہت موٹا اور کئی گز لمبا سانپ درخت کے ایک ٹہنے سے لہٹا ہوا تھا اور اس کے منہ سے وہ قطرے گر رہے تھے جو درحقیقت زہر تھا۔اب اسے پیارے باز کا خیال آیا جس نے اس کی جان بچانے کی کوشش کی تھی اور اس کے ہاتھوں مارا گیا۔وہ بہت رویا،مگر کیا فائدہ جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔اگر وہ پہلے سوچتا تو باز کی جان بچ سکتی تھی۔اس کے بعد کسی نہ کسی طرح واپسی کا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا،لیکن وفادار ساتھی باز اس نے ہمیشہ کے لئے کھو دیا تھا۔ " اُچھلنے والا جوتا (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2236,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/uchalne-wala-juta-aakhri-hissa-2236.html,"نیلم علی راجہہاف ٹائم گزر چکا تھا۔کھیل پانی کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔اور یہ کیا ٹیم ریڈ نے کھیل شروع ہوتے ہی ایک اور گول کر دیا۔اب ٹیم بلیو کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ٹیم ریڈ کے لئے نعرے گونجنے لگے اور ٹیم بلیو کے شائقین پر خاموشی چھانے لگی۔فہد اور احمد بھی پریشان تھے کہ اب تو جیت مشکل دکھائی دیتی ہے۔فٹبال فہد کے پاس پہنچا وہ اس کو مخالفین سے بچاتا ہوا گول کے قریب لے گیا اور زور دار کک لگائی۔فٹ بال اتنے زور سے جا کر نیٹ میں لگا کہ اس کو روکتا گول کیپر قلا بازیاں کھاتا ہوا دور جا گرا۔پوری ٹیم کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔سب فہد کو شاباشی دینے قریب پہنچے۔اب ٹیم بلیو کے بھی نعرے لگنے لگے۔کھیل دوبارہ شروع ہوا۔(جاری ہے)کھیل ختم ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔فٹ بال احمد کے پاس پہنچا اس نے فہد کو پاس کیا۔فہد نے فٹ بال کو لے کر بھاگنا شروع کیا۔ایک بار پھر اسے محسوس ہوا کہ وہ عام سپیڈ سے تیز بھاگ رہا ہے۔اسے اپنے جوتوں کے تلووں میں حرارت محسوس ہوئی۔وہ فٹ بال کو لے کر گول کی جانب بھاگ رہا تھا۔باقی سب کو پیچھے چھوڑتا جا رہا تھا۔احمد اور ٹیم کے باقی کھلاڑی بھی اسے نوٹس کر رہے تھے،اسی لئے فٹ بال اسی کی طرف اُچھال رہے تھے۔فہد سب کو چھوڑتا ہوا جیسے ہی گول سے تھوڑا دور تھا۔اس نے مخالف ٹیم کے کھلاڑی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر کک لگائی۔فٹ بال سیدھا گول کیپر کے سر کے اوپر سے بجلی کی سی تیزی سے گزر کر نیٹ کو جا کر لگا۔گول کیپر حیرانی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔کیونکہ اسے فٹ بال آتا دکھائی ہی نہیں دیا۔میچ دو دو گول سے برابر ہو گیا۔پانچ منٹ کا کھیل باقی تھا۔شائقین میں جوش و خروش دوگنا ہو گیا۔ساتھ ہی ساتھ ٹیم ریڈ حیران و پریشان تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ٹیم بلیو کو بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا مگر وہ خوش تھے کہ میچ جیت جائیں گے۔جو ہو رہا ہے ہونے دیں۔اس بار ٹیم ریڈ کے کپتان نے اپنی ٹیم کو عندیہ دیا کہ جب دوسری ٹیم گول کرنے لگے تو زیادہ کھلاڑی گول کے قریب رہیں تاکہ وہ گول نہ کر سکیں اور میچ برابر ہی رہے۔ساتھ ہی ساتھ خاص ہدایات دیں کہ ٹیم بلیو کے فہد کا گھیراؤ کر لیا جائے تاکہ اس کے پاس فٹبال ہی نہ جائے۔میچ ایک بار پھر شروع ہوا۔۔۔۔ٹیم ریڈ کے چار کھلاڑیوں نے منصوبے کے مطابق فہد کو گھیر لیا۔اس کو فٹبال تک پہنچنے ہی نہ دیا جا رہا تھا۔ٹیم بلیو یہ صورتحال دیکھ کر پریشان ہو گئی۔جب فٹبال احمد کے پاس پہنچا تو اس نے فہد کو اشارہ کرتے ہوئے فٹبال اس کی طرف اُچھالا۔فہد نے فٹبال کو ہوا میں ہی کک لگانے کی کوشش کرتے ہوئے چھلانگ لگائی تو وہ اتنا اونچا اُچھلا کہ ان لڑکوں سے دور گول کے قریب جا کر اُترا۔وہ نیچے اُتر کر خود بھی دائیں بائیں حیرانی اور خوشی سے دیکھنے لگا۔جب ریفری نے میچ ختم ہونے میں دس سیکنڈ کا عندیہ دیا تو پھر فہد نے اپنے پاس موجود فٹبال کو اس قدر زور سے کک لگائی کہ فٹبال نیٹ پھاڑتی ہوئی شائقین کے پاس جا پہنچی۔ٹیم بلیو تو خوشی سے نہال ہو گئی۔جو ہار یقینی نظر آ رہی تھی وہ جیت میں تبدیل ہو گئی تھی۔ٹیم کے سب کھلاڑیوں نے فہد کو کندھوں پر اُٹھا لیا تھا۔فہد سب کا ہیرو بن چکا تھا۔ٹیم کے سب کھلاڑی اس سے اتنی پھرتی کی وجہ پوچھ رہے تھے۔وہ بس ٹال مٹول سے کام لے رہا تھا۔سب جیت کی خوشی میں اس بات کو سمجھ نہ سکے کہ وہ ٹال رہا ہے۔احمد نے فہد کو اکیلے پایا تو اس قدر پھرتی کی وجہ پوچھی۔فہد اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد اسے کونے میں لے گیا اور بتایا کہ یاد ہے کہ میں دعا مانگ رہا تھا مجھے میجک شوز مل جائیں۔تو میری وہ دعا پوری ہو گئی ہے۔احمد نے ناسمجھی کے عالم میں فہد کو دیکھا۔فہد نے اپنے جوگر اُتار کر اسے پہنائے اور بولا چھلانگ لگاؤ۔احمد نے چھلانگ لگائی تو وہ ہلکا سا اُچھلا۔فہد بولا دوبارہ لگاؤ۔دوبارہ کوشش کی نتیجہ وہی رہا۔سہ بار،بار بار کوشش پر بھی وہی نتیجہ نکلا۔احمد بولا”چھوڑ یار جھوٹ نہ بول مجھے اصل بات بتا کون سی دوا پی کر آئے ہو جو اتنی توانائی آ گئی ہے تمہارے اندر“۔فہد بولا:”میں سچ کہہ رہا ہوں“۔احمد کے کہنے پر فہد نے جاگر پہن کر چھلانگ لگائی۔وہ اوپر کو اُچھلا۔دوبارہ اونچی چھلانگ لگانے پر فہد کا سر چھت کو لگنے والا تھا کہ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو سر پر رکھ کر خود کو چوٹ لگنے سے بچایا۔احمد خوشی سے چلانے لگا:”ارے یہ تو واقعی میجک ہو گیا ہے۔تیری دعا قبول کو گئی ہے“۔فہد نے احمد کا ہاتھ پکڑ کر چھلانگ لگائی تو دونوں اوپر کو اُچھلے۔اب وہ دونوں اِدھر سے اُدھر اُچھلنے لگے۔اور اس بات پر خوش تھے کہ جب دل سے کسی چیز کی تمنا کی جائے تو اللہ ضرور سنتا ہے۔جس طرح فہد کی خواہش پوری ہوئی تھی۔ " اُچھلنے والا جوتے (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2235,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/uchalne-wala-juta-pehla-hissa-2235.html,"نیلم علی راجہفہد اور احمد دونوں جگری یار تھے۔ایک ہی جماعت میں پڑھنے کے ساتھ دونوں کے گھر بھی ایک دوسرے کے قریب تھے۔تھے تو دونوں فٹ بال کے بہترین کھلاڑی مگر باقی کھیلوں کے میچ دیکھنا ان کا من پسند مشغلہ تھا۔علاقے میں کسی کھیل کا میچ ہوتا دونوں کی حتیٰ الامکان کوشش ہوتی کہ ہر صورت پہنچ جائیں۔چاہے میلوں پیدل سفر کرنا پڑے۔وہ دونوں صبح فجر کے بعد نکل پڑتے۔ایسا ہی کچھ ہوا جب علاقے میں کرکٹ کا میچ منعقد ہوا۔دونوں کے پاس کوئی سواری نہ تھی۔لہٰذا طے پایا پانچ میل کا سفر پیدل طے کیا جائے گا۔شارٹ کٹ لے چکر میں جنگل والا راستہ منتخب کیا گیا۔دونوں میچ دیکھنے کے شوق میں اس سنسان راستے کی پرواہ کیے بنا چلتے رہے۔فہد تین میل جنگل میں چلتے چلتے تھک کر وہیں مٹی پر ہی بیٹھ گیا۔(جاری ہے)”مجھ سے اب اور نہیں چلا جاتا۔“”جلدی اُٹھ یار میچ مس ہو جائے گا۔آج سب سے اہم میچ ہے۔“احمد اسے اُٹھنے اور تیز چلنے پر اُکسا رہا تھا۔فہد نے گہری گہری سانسیں لیں۔ہاتھ میں پکڑی بوتل سے پانی کے گھونٹ بھرے پھر جھک کر جوگرز کے تسمے صحیح کرنے کے بعد فہد کو دیکھ کر بولا:”کیا ہی اچھا ہو کہ مجھے بھی تیز دوڑنے والے جوتے مل جائیں۔میں جہاں چاہوں منٹوں میں پہنچ جاؤں۔اور پھر تمہارے بھی روز روز کے طعنے اور گلے شکوے ختم ہو جائیں“۔فہد نے شکل بگاڑ کر کہا۔ایسا ممکن نہیں ہے۔فی الحال تو اپنے ان قدموں پر ہی آپ جناب کو زحمت کرنا ہو گی۔محنت میں عظمت ہے میرے دوست!“احمد نے اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔”دیکھنا ایک دن میں ایسے جوتے خود ایجاد کروں گا۔پھر تم باقی لوگوں کی طرح مجھ سے خریدنے آؤ گے“۔فہد کالر سیدھے کرتے ہوئے بولا۔”اچھا تو اب تم مجھے بھی جوتے بیچو گے،یعنی اپنے جھڑی دوست سے پیسے لو گے جوتوں کے!“احمد تو غم سے نڈھال شکوں پر اُتر آیا۔”چلو دل پر مت لو۔تمہیں پہلا جوتوں کا جوڑا گفٹ کر دوں گا۔کیا یاد کرو گے کس سخی دوست سے پالا پڑا ہے۔“فہد نے گردن اکڑاتے ہوئے کہا۔احمد کو اس کے انداز پر ہنسی آ گئی۔اور کہنے لگا:”اچھا میرے شیخ چلی سائنسدان اب جلدی چلیں“!!!دونوں میچ دیکھنے کے لئے وقت پر پہنچنے کی خاطر ایک بار پھر بھاگتے ہوئے اسٹیڈیم پہنچ گئے۔گیٹ بند ہونے والا تھا۔جلدی جلدی اپنے پاس دکھا کر دونوں اندر داخل ہو گئے اور کچھ لمحوں بعد گیٹ بند ہو گیا۔میچ دیکھ کر واپسی کے لئے بھی وہی راستہ منتخب کیا گیا۔جنگل سے گزرتے ہوئے دونوں دوست سکول میں ہونے والے فٹبال میچ کی باتیں کرنے لگے۔”میرا دل چاہتا ہے کہ میرے پاس میجک شوز آ جائیں صرف کل کے لئے ہی سہی۔میں ٹیم ریڈ کو وہ مزا چکھاؤں کہ وہ یاد رکھے“۔فہد نے جوشیلے انداز میں کہتے ہوئے جمپ لگا کر درخت کی شاخ کو نیچے کھینچا۔شاخ ہلنے سے بہت سے پرندے اِدھر اُدھر اُڑنا شروع ہو گئے۔اور فضا پرندوں کی آوازوں سے گونجنے لگ گئی۔وہاں بیٹھا الو یہ سب سن رہا تھا۔سب پرندے اُڑ گئے مگر الو وہیں بیٹھا رہا۔فہد نے الو کی طرف دیکھ کر اسے ہاتھ کے اشارے سے ہیلو کہا جیسے وہ اس کی بات سمجھ سکتا ہے۔”یار فہد ایسی خواہش کرو جو پوری ہو سکے۔“احمد اس کی بات سن کر بولا۔”یار بس تو دعا کر!دعا کرنے میں کیا حرج ہے“۔فہد نے احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر اپنے گھر کی طرف چل دیے۔اگلے دن سکول میں اہم فٹبال میچ تھا۔۔۔دونوں دوستوں نے میچ کی خوب پریکٹس کی تھی۔صبح سکول کے لئے تیار ہوتے ہوئے جب فہد نے اپنے شوز اُٹھائے تو کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔خیر اس نے سر جھٹک کر جلدی سے اپنے جوتے پہنے۔اور ناشتہ کرکے سکول وین کا انتظار کرنے لگا۔سکول وین کے آتے ہی اس میں سوار ہو گیا۔سکول گیٹ پر اُتر کر اپنی کلاس کی جانب بڑھتے ہوئے اسے محسوس ہوا کہ آج اس کی رفتار معمول سے کچھ تیز ہے۔اپنا وہم سمجھ کر وہ کلاس میں بیگ رکھ کر اسمبلی گراؤنڈ میں چلا گیا۔فٹبال میچ تیسرے پیریڈ کے بعد ہونا تھا۔وہ چونکہ ٹیم میں شامل تھا اس لئے وہ کلاس کی بجائے پریکٹس کے لئے گراؤنڈ میں ہی رُک گیا۔تیسرے پیریڈ کی گھنٹی بجتے ہی سب بچے اپنی اپنی کلاسوں میں سے لائن بنا کر گراؤنڈ میں قطار در قطار لگی کرسیوں پر بیٹھنا شروع ہو گئے۔میچ ریفری نے میچ شروع ہونے کی وسل بجائی اور باضابطہ طور پر میچ کا آغاز ہو گیا۔میچ ٹیم ریڈ اور ٹیم بلیو کے درمیان تھا۔ٹیم ریڈ ساتویں کلاس کے بچوں پر مشتمل تھی جبکہ ٹیم بلیو چھٹی کلاس کے بچوں پر مشتمل تھی۔فہد اور احمد اسی ٹیم کا حصہ تھے۔میچ شروع ہوا۔دونوں ٹیمیں بھرپور دفاع کرتے ہوئے گول کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا رہیں تھیں۔پہلا گول ٹیم ریڈ کی جانب سے ہو گیا۔سکور بورڈ اب ٹیم ریڈ کے لئے ایک کا ہندسہ اور ٹیم بلیو کے لئے صفر کا ہندسہ دکھا رہا تھا۔گراؤنڈ نعروں سے گونج رہا تھا۔سپورٹرز اپنی اپنی ٹیم کی خوب حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔(جاری ہے) " بھالو کا بدلہ - تحریر نمبر 2234,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhalu-ka-badla-2234.html,"ایک جنگل میں ایک بھالو رہتا تھا۔اس کا ایک دوست بھیڑیا بھی تھا جو مشکل وقت میں بھالو کی مدد کیا کرتا تھا۔ایک دن بھالو نے سوچا کہ میرا مکان بہت خراب ہو گیا ہے،کیوں نہ اسے گرا کر نیا بنایا جائے۔اس نے بھیڑیے کے سامنے یہ تجویز پیش کی۔بھیڑیا اس کی مدد کے لئے تیار ہو گیا۔کئی دن کی محنت کے بعد بھیڑیے اور بھالو نے ایک خوبصورت گھر تیار کر لیا۔اب بھالو نے بھیڑیے کا شکریہ ادا کیا تو اس نے جواب دیا ”شکریہ کی کیا بات ہے!دوست کی مدد کرنا دوست کا فرض ہے۔“ایک دن شیر کا بھالو کے گھر کے سامنے سے گزر ہوا۔اس نے جب اتنا خوبصورت گھر دیکھا تو آگ بگولا ہو گیا۔اس نے سوچا کہ میں جنگل کا بادشاہ ہو کر غار میں رہتا ہوں اور میری رعایا اتنے اچھے گھر میں رہتی ہے۔(جاری ہے)یہ سوچ کر اس نے بھالو کے گھر کو تہس نہس کرنے کا فیصلہ کر لیا۔شیر ہاتھی کے پاس پہنچا اور اسے بھالو کے گھر کو تباہ کرنے کا حکم دیا۔ہاتھی شیر سے بہت ڈرتا تھا لہٰذا فوراً راضی ہو گیا۔اس نے بھالو کے گھر کو اپنے بھاری پاؤں تلے دبا کر تباہ کر دیا۔بھالو کو اس بات پر بہت افسوس ہوا۔اس نے دل میں ارادہ کر لیا کہ میں شیر سے بدلہ ضرور لوں گا۔ایک دن بھالو جنگل کے قریب ایک قصبے میں گھس گیا،ایک شخص نے اسے دیکھ لیا اور اس خیال سے بھالو کو پکڑنے کا ارادہ کر لیا کہ وہ اسے کسی مداری یا سرکس والوں کے ہاتھ فروخت کر دے گا۔آخرکار وہ بھالو کو پکڑنے میں کامیاب ہو گیا۔بھالو نے آزاد ہونے کی بہت کوشش کی۔لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔آخر کچھ سوچ کر بولا”ارے انسان!اگر تو مجھے چھوڑ دے تو میں تجھے ایک موٹا تازہ شیر لا دوں گا۔“”آج کل تو انسان پر اعتبار نہیں کیا جاتا،میں جانور پر کیسے اعتبار کروں۔“آدمی نے منہ بنا کر کہا۔”بڑی خوشامد کے بعد آخر بھالو نے اس آدمی کو راضی کر لیا۔پھر اس نے آدمی سے کہا․․․․”اے انسان تو ایسا کر کہ یہاں پر جال ڈال دے۔باقی کام میرا ہے۔“اس کے بعد بھالو اپنے دوست بھیڑیے کے پاس گیا اور اس سے مدد چاہی۔بھیڑیے نے اسے ایک ہرن کی کھال دے دی۔پھر بھالو شیر کے پاس گیا اور بولا”بادشاہ سلامت!جنگل کے کونے پر ایک خوب موٹا تازہ ہرن کھڑا ہے۔میں آپ کو پیغام دینے چلا آیا۔“ہرن کا سنتے ہی اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔اس نے کہا”تم جاؤ میں آ رہا ہوں۔“بھالو تو یہی چاہتا تھا۔باہر آ کر بھاگتا ہوا جنگل کے کونے پر پہنچا اور ہرن کی کھال اوڑھ کر اِدھر اُدھر منہ مارنے لگا۔شیر نے اس پر جھپٹا مارا،لیکن بھالو بھاگ نکلا اور اس جگہ پہنچ گیا جہاں جال بچھا تھا۔بھالو کو تو جال کے بارے میں پتا تھا،اس لئے بھالو تو بچ کر نکل گیا مگر شیر جال میں پھنس گیا۔اسے جال میں پھنسے دیکھ کر بھالو نے ہنس کر کہا ”جنگل کے بادشاہ!یہ ہے انجام دوسروں کے گھر تباہ کرنے کا۔“ " اذان - تحریر نمبر 2233,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azaan-2233.html,"یمنی امجد،احمد پور شرقیہابراہیم ایک سیاح تھا،جو ایک نئے دریافت ہونے والے قلعے میں اپنے گائیڈ کے ساتھ تھا۔گائیڈ عیسائی تھا۔”یہ مسجد اس قلعے کا حصہ ہے۔“گائیڈ نے ابراہیم کو کھدائی کے دوران دریافت ہونے والے قلعے کا دورہ کراتے ہوئے بتایا:”اور اس مسجد کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں آواز کی بازگشت کئی بار سنائی دیتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ پہلے یہاں جو مسلمان آباد تھے،یہ مسجد ان کے دم سے آباد تھی۔“گائیڈ نے ابراہیم کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر تفصیل بتائی۔”لیکن ایسا تو پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے کہ آواز پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آتی ہے،مگر یہاں تو ایسا نہیں ہے۔“ابراہیم نے سوال کیا۔”تم مسلمان ہو نا؟“پادری نے تجسس سے پوچھا۔(جاری ہے)”تمہیں شک ہے کیا؟“”نہیں،بس یونہی پوچھ لیا۔“کچھ دیر بعد گائیڈ نے کہا:”تم یہاں اذان دے کر دیکھو۔آواز گونج کر ایک سماں پیدا کر دیتی ہے۔“”مم․․․․․میں؟“ابراہیم گھبرا گیا۔”ہاں تم!اذان تو آتی ہو گی تمہیں؟“ابراہیم کے ذہن میں ایک تلخ یاد تازہ ہو گئی۔جب وہ دس سال کا معصوم بچہ محلے کی مسجد میں سینے پر ہاتھ باندھے استاد کو سبق سنا رہا تھا۔ایک جگہ وہ اٹکا تو امام مسجد کا بید بُری طرح اس معصوم کی پُشت پر برسنے لگا۔اس ابتدائی مار پیٹ نے اسے دین سے ایسا دور کیا کہ پھر کبھی اس نے مسجد کا رُخ نہ کیا۔”کہاں کھو گئے؟“گائیڈ نے اسے ہلایا تو وہ ماضی سے حال میں لوٹ آیا۔وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔لاشعوری طور پر وہ یہ اطمینان کر رہا تھا کہ کہیں مسجد کا امام بید لے کر اس کے پیچھے تو نہیں چلا آیا۔پادری کے علاوہ کسی اور کو نہ پا کر اس نے اطمینان کا سانس لیا۔پھر آہستگی سے کہا:”افسوس مجھے اذان یاد نہیں۔“”کیا․․․؟“عیسائی گائیڈ کی زندگی کا عجیب لمحہ تھا کہ ایک مسلمان کو اذان یاد نہیں رہی۔ابراہیم کو شرمندہ دیکھ کر اس کی خفت مٹاتے ہوئے کہا:”کوئی بات نہیں،ایسا ہو جاتا ہے۔“ " موسم گرما اور احتیاطی تدابیر - تحریر نمبر 2232,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mausam-garma-aur-ehtiyati-tadabeer-2232.html,"ساجدہ کمبوہفرید صاحب یونہی گھر میں داخل ہوئے انہوں نے دیکھا کہ سبھی گھر والے ان کے بیٹے نصیر کے ارد گرد کھڑے تھے اور نصیر کی ماما نے اسے پکڑ رکھا تھا جبکہ اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔”بھئی کیا ہوا“؟فرید صاحب نے گھبرا کر پوچھا۔”باہر سے کرکٹ کھیل کر آیا ہے آتے ہی اس کی نوز سے خون نکلنے لگا ہے“اس کی ماما نے کہا اس کا مطلب ہے کہ اس کی نکسیر پھوٹ گئی ہے۔جلدی سے جاؤ ٹھنڈا پانی لاؤ۔زیادہ ٹھنڈا بھی نہ ہو اس کے سر پر ڈالیں گے فوراً اس کا خون رُک جائے گا۔”نصیر کا بھائی صغیر جلدی سے گیا اور فریج سے بوتل نکال لایا یہ لیں پاپا جان۔فرید صاحب نے پانی چیک کیا اور کہا”یہ مناسب ٹھنڈا ہے۔انہوں نے نصیر کے سر پر انڈیلنا شروع کیا کچھ دیر بعد خون بہنا بند ہو گیا۔(جاری ہے)سب نے سکون کا سانس لیا۔”یا اللہ تیرا شکر ہے میں تو گھبرا گئی تھی“نصیر کی ماما نے کہا۔خون دیکھ کر گھبرانا فطری عمل ہے اور خصوصاً اپنی اولاد کا،فرید صاحب نے کہا۔”یہ نکسیر کیسے پھوٹتی ہے بابا جانی“؟صغیر سے چھوٹی رمشا نے پوچھا۔گرمی کی وجہ سے،ناک کی چھوٹی اور باریک نالیوں میں خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ناک کی اندرونی جھلی پھٹ جاتی ہے اور خون بہنے لگتا ہے جسے ہم نکسیر پھوٹنا کہتے ہیں۔اس لئے گرم علاقوں میں نکسیر پھوٹنا ایک عام سی بات ہے نصیر کا مسلسل گرمی میں کرکٹ کھیلنا اس کا سبب بنا۔فرید صاحب نے رمشا کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا”کیا اس سے پہلے اس کا سدباب ہو سکتا ہے“نصیر کی ماما نے پوچھا صرف اس کے لئے احتیاط بہت ضروری ہے طبی ماہرین کے مطابق دوران خون کا دماغ کی جانب کسی وجہ سے دباؤ بڑھنے سے ناک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی جگہ پر شگاف پڑ سکتا ہے اور یہی نکسیر پھوٹنا کہلاتا ہے۔اس کی دو حالتوں میں ناک سے خون کے قطروں کا بہنا اور بعض اوقات قطروں کا نکلنا شامل ہوتا ہے۔اسی لئے سردیوں میں کم اور گرمیوں میں زیادہ نکسیر پھوٹتی ہے۔”کیا سردیوں میں بھی نکسیر پھوٹتی ہے‘؟فاطمہ نے پوچھا اس پر سبھی مسکرانے لگے اور طنزیہ نظروں سے فاطمہ کو دیکھنے لگے جس پر وہ شرمندہ ہو گئی۔جی بالکل سردیوں میں بھی نکسیر پھوٹ سکتی ہے فاطمہ کا سوال بہت اچھا ہے اس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں ناک پر چھوٹ کا لگنا منہ کے بل گرنا،بلڈ پریشر کا اچانک بڑھنا،ناک کی اندرونی جھلی کو ناخن سے کھجانا اور ناک کی اندرونی جھلی پر پانی کی کمی کا پیدا ہو جانا․․․․”موسم گرما میں زیادہ نکسیر پھوٹنے کی وجہ کیا ہے“؟نصیر کی ماما نے کہا۔ایک تو موسمی درجہ حرارت کا زیادہ ہونا اور موسم کے مطابق گرم فروٹ کا وافر استعمال کرنا،جس کی وجہ سے سر پر خشکی اور تیز موسمی بخار کی وجہ سے نکسیر کا پھوٹنا عام بات ہے۔گرمیوں میں زیادہ وقت دھوپ میں گزارنا،خواہ کھیل یا کھیت کھلیان۔پاپا جان!کیا نکسیر پھوٹنے سے مریض کو جان کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے؟نصیر نے پوچھا”کیوں نہیں“ زیادہ خون بہہ جانے سے جان کا خطرہ ہو سکتا ہے۔زیادہ خون بہہ جانے سے مریض کا بے ہوش ہو جانا معمولی بات ہے اور بروقت طبی امداد کا نہ ملنا بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔”پاپا جان!اس سے بچاؤ کی کیا تدابیر ہیں“؟صغیر نے پوچھا۔شدید گرمی میں باہر نکلنے سے گریز کریں،چھتری،کپڑے سے چہرہ ڈھانپ کر اور پانی کا زیادہ استعمال کرنے سے اس سے بچا جا سکتا ہے۔دن میں تین چار بار ضرور نہانا چاہیے اور سالن میں گرم مصالحوں اور تیز مرچوں کا استعمال مت کریں اس کے علاوہ انڈوں،مچھلی اور چائے کا استعمال بھی کم کرنا چاہیے۔”پاپا جان!آپ نے سب کچھ منع کر دیا ہم کھائیں کیا“؟فاطمہ نے کہا بھئی آپ زیادہ سبزیاں لوکی یعنی کدو شریف،شلجم،مولی،سلاد اور چٹنی کا استعمال کریں اس کے ساتھ ساتھ تخم ملنگون،چھلکا،دہی،دودھ اور دہی کا استعمال کریں۔نصیر بیٹا سن لو اپنے پاپا کی باتیں گرمیوں میں کرکٹ ہاکی سے اجتناب کریں۔بے مقصد گھر سے باہر نہ نکلیں اور دن میں تین چار بار نہانا چاہیے اس کی ماما نے کہا۔اور گرم چیزوں مثلاً سموسوں،پکوڑوں سے پرہیز اور آئس کریم ہمیں بھی کھلائیں،فاطمہ نے کہا پاپا جان!آپ نے طبی نقطہ نظر سے بھائی کا کرکٹ کھیلنا بند کر دیا ورنہ بھائی کب رُکنے والا تھا۔رمشا نے کہا پاپا جان!آپ نے نکسیر کے نام پر شیطان قید کر دیا ورنہ ماما کے کہنے پر․․․․فاطمہ باز آ جا ورنہ․․․نصیر نے غصے سے کہا۔دیکھا بچو!نکسیر کا پھوٹنا معمولی بات نہیں اس کے بہت سے نقصانات ہیں ذرا سی لاپرواہی سے جان جانے کا بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ سب کو تندرستی و صحت دے ۔آمین " شکر گزار بنیں - تحریر نمبر 2231,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shukar-guzaar-banain-2231.html,"سعدی فاروقبوڑھے بزرگ کہتے ہیں کہ ہرقل بادشاہ خاص مٹی سے بنی صراحی سے ٹھنڈا پانی لے کر پیتا تھا۔تو دنیا اس کی آسائش پر حسد کیا کرتی تھی۔تو اگر اسے آپ اپنے گھر کے فریج کا ٹھنڈا پانی پیش کریں گے تو وہ کیا سوچے گا؟اگر قارون کو بتا دیا جائے کہ آپ کے جیب میں رکھا اے ٹی ایم کارڈ اس کے خزانوں کی ان چابیوں سے بہتر ہے جنہیں اس کے وقت کے طاقت ترین انسان بھی اُٹھانے سے عاجز تھے تو اس پر کیا بیتے گی؟اگر کسریٰ کو بتا دیا جائے کہ آپ کے گھر میں رکھا صوفہ اس عالیشان تحت سے کہیں زیادہ بہتر ہے تو اس کے دل پر کیا گزرے گی؟اگر قیصر روم کو بتا دیا جائے کہ اس کے غلام شتر مرغ کے پروں سے بنے جن پنکھوں سے اسے ہوا پہنچایا کرتے تھے جو آپ کے گھر کے پنکھے اور اے سی کے ہزارویں حصے کے برابر بھی نہ تھے اس کو کیسا لگے گا؟آپ اپنی خوبصورت کار لے کر ہلاکو خاں کے سامنے خراٹے بھرتے ہوئے گزر جائیے۔(جاری ہے)کیا اب بھی اسے اپنے گھوڑوں پر غرور اور گھمنڈ ہو گا؟خلیفہ منصور کے غلام اس کے لئے ٹھنڈا اور گرم پانی کو ملا کر غسل کا اہتمام کرتے تھے اور وہ اپنے آپ میں پھولا نہیں سمایا کرتا تھا۔کیسا لگے گا اس کو اگر وہ آپ کے گھر میں لگا گیزر دیکھ لے تو؟تو جناب آپ بادشاہوں کی سی راحت میں نہیں رہ رہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بادشاہ آپ جیسی راحت کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔مگر کیا کہیے کہ آپ سے تو جب بھی ملیں آپ اپنے نصیب سے نالاں ہی نظر آتے ہیں۔ایسا کیوں ہے کہ آپ کتنی راحتیں اور وسعتیں بڑھ رہی۔آپ کا سینہ اتنا ہی تنگ ہوتا جا رہا ہے۔الحمدللہ پڑھیے،شکر ادا کیجئے،رب تعالیٰ کی ان نعمتوں کا جن کا شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ویسے بھی ماہ رمضان کا آغاز ہو چکا ہے،یعنی نیکیوں کی بہار کے دنوں کا آغاز ہو چکا ہے تو اس ماہ میں زیادہ سے شکر کریں،استغفار کریں اور اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیں۔ " دیو کی توبہ - تحریر نمبر 2230,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dio-ki-tauba-2230.html,"حسن رضا سردار وصفیکسی جگہ دیوؤں کی ایک قوم آباد تھی۔دیو بڑے امن پسند اور صلح پسند تھے۔وہ لوگوں سے محبت کرتے اور ان کے کام آیا کرتے تھے۔دیوؤں کی ریاست کے قریب ایک ریاست بونوں کی بھی تھی۔یہ بونے بھی بڑے نیک اور شریف تھے۔آپس میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے۔دیوؤں کے بادشاہ کا شہزادہ بڑا شریر اور فسادی تھا اور بونوں کو تنگ کرتا رہتا تھا۔ان کی ریاست میں زبردستی داخل ہو کر چھوٹے چھوٹے گھروں کو تباہ کر دیتا اور بہت خوش ہوتا۔بونوں کو خوف سے ڈر کر بھاگتے دیکھ کر وہ خوب قہقہے لگاتا۔ایک دن بونوں کا بادشاہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کس طریقے سے دیو شہزادے سے بچا جائے۔ایک شہد کی مکھی نے بادشاہ کو یوں اُداس اور پریشان دیکھا تو اس نے پاس آ کر پوچھا:”کیا بات ہے بادشاہ سلامت!آپ مجھے پریشان دکھائی دیتے ہیں؟“بادشاہ نے دیو شہزادے کے بارے میں بتایا تو شہد کی مکھی نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا:”بادشاہ سلامت!میں آپ کی مدد کروں گی اور آپ کو دیو شہزادے کے شر سے نجات دلاؤں گی۔(جاری ہے)“اس نے بادشاہ کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا۔ایک دن دیو شہزادہ آیا اور بونوں کو تنگ کرنے لگا۔وہ اپنی عادت کے مطابق بونوں پر ہنس رہا تھا۔ان کا مذاق اُڑا رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ تھک کر سو گیا۔اچانک دیو شہزادے کے کان میں شہد کی مکھی گھس گئی۔شہزادہ اُچھلنے اور چلانے لگا:”میری مدد کرو!میری مدد کرو۔“کوئی بھی اس کی مدد نہ کر سکا،اس کی حالت روز بروز خراب ہوتی گئی۔وہ سو بھی نہ سکتا تھا۔درد اور بے چینی کے سبب چیختا چلاتا رہتا۔بونوں کا بادشاہ دیو شہزادے سے ملاقات کے لئے آیا۔اس نے شہزادے سے کہا:”میں آپ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں،لیکن آپ وعدہ کریں کہ آئندہ آپ ہم بونوں کو کبھی تنگ نہ کریں گے۔“دیو شہزادہ زور سے چلایا:”میں وعدہ کرتا ہوں،آئندہ بونوں سمیت کسی کو بھی تنگ نہیں کروں گا۔خدا کے لئے مجھے اس مصیبت سے نجات دلائیے۔“بونوں کے بادشاہ نے شہزادے کو پیٹ کے بَل لیٹنے کو کہا۔پھر اس نے اپنے ساتھ آئے ہوئے بونوں کو حکم دیا کہ وہ شہزادے کو لاٹھیوں سے ماریں۔جب وہ خوب پٹ چکا تو بادشاہ نے شہزادے کے کان میں پھونک ماری۔شہد کی مکھی اشارہ پاتے ہی تیزی سے شہزادے کے کان سے نکل کر اُڑ گئی۔اس کے بعد شہزادے کو آرام آ گیا۔اب شہزادہ سدھر چکا تھا۔اس نے شرارتوں سے توبہ کر لی تھی۔اب وہ بونوں کی مدد کرتا،ان کے ساتھ کھیلتا اور انھیں کبھی تنگ نہ کرتا تھا۔ " کہیں ایسا نہ ہو - تحریر نمبر 2229,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kahin-aisa-na-ho-2229.html,"عشرت جہاںہمارے ایک دوست فاروق صاحب ادھیڑ عمر کے ہیں،لیکن اب تک اپنی وہمی طبیعت سے چھٹکارا نہ پا سکے۔ان دنوں ہم بھی ذرا فارغ تھے سوچا کہ ان سے مل کر ان کی وہمی طبیعت کی گتھی سلجھانا چاہیے۔اتفاق سے موصوف خود رکشے کے دھچکے کھاتے ہوئے غریب خانے پر تشریف لے آئے۔چائے کے دوران ہم نے بات شروع کی:”اللہ نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے،اب ایک گاڑی خرید لیں،تاکہ کہیں آنے جانے میں آسانی رہے اور وقت بے وقت کام آئے۔میاں!ان دھکوں اور پریشانی سے تو بچ جاؤ گے۔“”ہاں،کبھی کبھار سوچتے تو ہیں اپنی گاڑی کی بات ہی کچھ اور ہے۔“انھوں نے ہماری تائید کی۔”لیکن پھر خیال آتا ہے․․․․“وہ ذرا رُک کر بولے:”آج کل چوری،ڈاکازنی اور لوٹ مار کا دور ہے۔(جاری ہے)ایسا نہ ہو کہ ہم کسی پُرسکون سڑک پر رواں دواں ہوں،اچانک سڑک پر پیچھے سے کوئی لٹیرا نمودار ہو جائے۔گاڑی رکوائے،ہمیں اُتارے اور گاڑی بھگا لے جائے۔“انھوں نے منظرکشی کی۔پھر بولے:”یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ اسی رواں دواں سڑک پر کوئی جلد باز اچانک ہماری گاڑی کے نیچے کُچلا جائے۔“انھوں نے جُھرجُھری لی اور خاموش ہو گئے۔”اور یقینا یہ بھی آپ ہی کے ساتھ ہونا ہے۔“ہم سکون سے بولے اور بات بدل کر کہا:”آپ اپنا سرمایہ بینک میں کیوں نہیں رکھتے۔خدا کے بندے!اس دور میں بھی حفاظت کا بار اُٹھا رکھا ہے۔“”نا بابا ناں خدانخواستہ بینک دیوالیہ ہو گیا تو پھر․․․․․ہماری رقم تو ڈوب جائے گی ناں!اور اگر بینک میں ڈاکا پڑ گیا۔“انھوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے:”ہم تو بن موت مارے جائیں گے۔“انھوں نے ہماری بات کو نامعقول مشورہ قرار دے کر یکسر رد کر دیا۔”بھائی صاحب!آپ تو پہلے ہی بہت محتاط رہتے ہیں۔ایک ایک روپے کا حساب دن رات اُنگلیوں پر کرتے ہیں۔مشین میں حساب اس لئے نہیں رکھتے کہ حقیقی رقم کہیں کسی کو پتا نہ چل جائے۔دور جو سائنسی ٹھیرا۔“ہم نے طنزیہ لہجے میں کہا:”آپ جیسا محتاط کون ہو گا۔آپ نے تو ATM کارڈ کی بھی کئی فوٹو کاپیاں بنوا رکھی ہیں۔گم ہونے کی صورت میں مشکل نہ پیش آئے۔بٹنوں والا موبائل بھی کئی کئی تھیلیوں میں محفوظ رہتا ہے،کہیں پانی یا دھول مٹی نہ پڑ جائے۔“وہ خاموشی سے سنتے رہے۔ہم چڑ کر بولے:”کال سننے کے لئے ایک کے بعد ایک تھیلی کھلتی ہے اتنی دیر میں مسز کی کال مس کال بن جاتی ہے۔آپ سے تو ہم صرف عبرت حاصل کر سکتے ہیں۔“اس دوران وہ ہمیں رحم بھری نگاہوں سے گھورتے رہے اور ہم کھری کھری سناتے رہے۔”اچھا کھایا پیا کرو۔اچھے کھانے پر کوئی ٹیکس نہیں؟“ہم ان کے پُرسکون انداز پر جھلا اُٹھے۔”زیادہ کھانا صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔یہ بات تو آپ کے علم میں ہے۔“انھوں نے ہمیں سمجھایا:”شوگر،بلڈ پریشر نامی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔کھانا اچھا ہو گا تو زیادہ کھایا بھی جائے گا۔“ہم نے ایک اور وار کیا:”اچھا پہنا کرو۔“ہماری یہ بات سُن کر فوراً کہنے لگے:”آج کل تو ہر ہفتے فیشن بدل جاتا ہے۔مہنگے سے مہنگا خرید لو۔پھر آپ جیسے لوگ کہیں گے کہ فیشن کے مطابق نہیں پہنا۔اب مہنگا اور اچھا پہننے لگوں تو مانگنے والوں کی لائن لگ جائے گی۔“انھوں نے اپنی دور اندیشی پر داد طلب نگاہوں سے ہمیں دیکھا اور مسکرائے۔”اچھا سوچا کرو۔یہ تو کر سکتے ہو!“اس کے سوا ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہ بچا تھا۔ " روزہ رکھنے کا شوق - تحریر نمبر 2228,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/roza-rakhne-ka-shouq-2228.html,"عطرت بیگمشبانہ اور رضیہ رمضان کی آمد پر بہت خوش تھیں،دونوں نے پورے روزے رکھنے کا ارادہ کیا تھا رات کے کھانے کے بعد سب بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ رضیہ نے امی سے اپنے ارادے کا ذکر کیا ”ماما میں نے اس رمضان میں پورے روزے رکھنے ہیں“ اور شبانہ بولی ”ماما میں بھی پورے روزے رکھوں گی“ اچھا ماما نے کہا ”تم مجھے سچ سچ بتاؤ کہ روزے کیوں رکھنا چاہتی ہو مجھے بالکل سچ بتاؤ کہ تم کیوں ایسا چاہتی ہو کیا تم رمضان اور اس کی اہمیت سے واقف ہو؟“رضیہ نے شرماتے ہوئے کہا اصل میں․․․!شرماؤ نہیں ماما نے کہا مجھے بتاؤ؟تو رضیہ بولی ”اصل میں ماما آپ مجھے فاسٹ فوڈ کھانے سے روکتی ہیں کہ پیزا اور برگر وغیرہ نہ کھایا کرو زیادہ فاسٹ فوڈ نقصان دہ ہوتا ہے لیکن روزہ رکھنے کے بعد اگر میں افطاری کے وقت ضد کرتی ہوں کہ گھر کا کھانا نہیں بلکہ مجھے برگر چاہئے یا مجھے پیزا منگوا دیں تو آپ منگوا دیتی ہیں کہ روزہ کھولنے کے بعد کھانا نہیں کھائے گی تو کمزور اور بیمار ہو جائے گی۔(جاری ہے)“ اچھا․․․․ماما بولیں ”تو تم ماں کی محبت کا ناجائز استعمال کرتی ہو اور مجھے بلیک میل کرتی ہو؟“ رضیہ کچھ نہ بولی خاموش ہو گئی۔اب ماما نے شبانہ سے پوچھا اب تم بھی بتاؤ کہ پورے روزے کیوں رکھنا چاہتی ہو؟شبانہ نے کہا ”ماما میں رضیہ سے بڑی ہوں اس لئے آپ مجھے ہر کام کہہ دیتی ہیں،چائے بنا لاؤ،چھوٹے بہن بھائیوں کے کپڑے استری کر دو،لیکن رمضان میں اگر میں روزے سے ہوتی ہوں اور آپ سے کہتی ہوں مجھے روزہ لگ رہا ہے کام نہیں کرنا تو آپ مجھے کچھ نہیں کہتیں بلکہ خود ہی کر لیتی ہیں“ یعنی تم بھی روزے کا غلط استعمال کرنا چاہتی ہو،ماما تھوڑی دیر خاموش رہیں پھر بولیں ”میری باتیں اب تم دونوں غور سے سنو․․․․!میں تمہیں ڈانٹوں گی نہیں کیونکہ تم دونوں نے سچ بولا ہے اور میرے پوچھنے پر اپنے صحیح ارادے مجھے بتا دیئے،میں تمہیں روزے کی اہمیت بتانا چاہتی ہوں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا۔“روزہ صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر اور فرض سمجھ کر رکھنا چاہیے ایسا فرض جو اللہ نے ہمارے فائدے کے لئے ہم پر عائد کیا ہے تاکہ رمضان کے مہینے میں ہماری ٹریننگ ہو جائے اور ہم غلط کاموں سے بچے رہیں،بھوک پیاس کی شدت میں ہمیں دوسروں کی تکلیف کا احساس ہو اور کسی بھوکے پیاسے کی تکلیف دور کرکے خوشی ہو،روزہ رکھ کر دوسروں کی برائی کرنے سے بچیں اور زیادہ سے زیادہ اچھے کام کریں،روزہ رکھنے کے بعد ہماری شخصیت میں اچھی تبدیلی آئے ”رضیہ اور شبانہ نے ماما سے وعدہ کیا کہ اب وہ صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر روزہ رکھیں گی۔“ " آج میرا روزہ ہے - تحریر نمبر 2227,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aaj-mera-roza-hai-2227.html,"امی کو رمضان کی تیاریاں کرتے دیکھ کر کرن نے کہا”ماما میں بھی کل روزہ رکھوں گی“ٹھیک ہے تم روزہ ضرور رکھنا کیونکہ اس سال سے تم پر روزے فرض ہو گئے ہیں،لیکن پہلے میں تمہیں روزے کے بارے میں سمجھاؤں گی کہ روزہ کیا ہوتا ہے۔امی نماز کے لئے اس کو بلانے اس کے کمرے میں گئیں تو وہ سونے کی تیاری کر رہی تھی،امی نے کہا وضو کرکے نماز کے لئے آ جاؤ نماز پڑھتے ہیں،اس پر کرن فوراً بولی ابھی تو میں بہت تھکی ہوئی ہوں،تھوڑا سا سو لوں،امی نے کہا”نماز پڑھنا تو ویسے بھی ضروری ہے اور پھر تم تو روزے سے ہو یہ تو غلط بات ہے کہ ایک فرض پورا کرو تو دوسرا چھوڑ دو،چلو جلدی سے نماز کے لئے آ جاؤ“اس پر وہ بُرا سا منہ بنا کر بولی”امی آپ تو ایک بات کے پیچھے ہی پڑ جاتی ہیں“اس پر امی کو بہت غصہ آیا لیکن ضبط کر گئیں اور کرن کو جائے نماز پر آنے کا کہا،کرن نے جیسے تیسے نماز ختم کی اور پھر جا کر اپنے کمرے میں لیٹ گئی۔(جاری ہے)تھوڑی دیر بعد ماسی کی بیٹی”رابو“ ڈسٹنگ کے لئے اس کے کمرے میں گئی،رابو کے زور سے دروازہ کھولنے پر کرن کی آنکھ کھل گئی اور اس نے غصے میں آ کر رابو کو مارا اور کہا بدتمیز لڑکی․․․․!تمہیں پتہ نہیں کہ میرا روزہ ہے میں آرام کر رہی تھی تم نے مجھے ڈسٹرب کر دیا۔رابو روتی ہوئی باہر چلی گئی اور جا کر کرن کی ان سے شکایت کی تو انہوں نے آکر کرن سے پوچھا کہ تم نے اسے کیوں مارا؟کرن صاف مُکر گئی کہنے لگی یہ جھوٹ بولتی ہے میں نے تو نہیں مارا،امی چپ ہو گئیں روزہ کھلنے میں تھوڑا ہی وقت باقی تھا۔جب کرن روزہ کھول چکی اور کھانے پینے سے فارغ ہو چکی تو امی اسے لے کر کمرے میں آ گئیں اور کہا”آج تمہارا روزہ تھا؟“جی امی․․․آج میرا روزہ تھا کرن نے بڑے فخر سے کہا،امی نے کہا”بالکل نہیں“اس پر کرن حیران ہو کر بولی میں سحر سے لے کر افطار تک بھوکی رہی ہوں․․․․امی نے کہا”تم نے بالکل صحیح کہا تم صرف بھوکی اور پیاسی رہی ہو،تم نے روزہ نہیں رکھا․․․․روزہ بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ برائیوں سے بچنے کا نام ہے،زبان کا بھی روزہ ہوتا ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا،ہاتھ کا بھی روزہ ہوتا ہے کہ کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھانا کسی کمزور کو نہیں مارنا،اگر روزہ رکھ کر ماں باپ سے بدتمیزی کی جائے، بہن بھائیوں کے ساتھ جھگڑا کیا جائے تو ایسے روزے کا کیا فائدہ؟اللہ ایسے روزے کو پسند نہیں کرتا،روزہ اللہ نے ہماری تربیت کے لئے فرض کیا ہے تاکہ ہم اچھے انسان بنیں،برائی سے بچیں،دوسروں کی تکلیف کا احساس کریں،روزہ غصہ برداشت کرنے کا نام ہے“اب کرن کو سمجھ آ گیا تھا کہ روزے کا کیا مطلب ہوتا ہے،دوسرے دن اس نے روزہ رکھنے کے بعد وقت پر نماز ادا کی،کام کاج میں امی کا ہاتھ بٹایا،رابو آئی تو اس سے سوری کیا،اور آمنہ سے بھی لڑائی نہیں کی،جب روزہ کھلا تو افطار کے بعد کرن کو محسوس ہوا کہ جتنی خوشی اسے آج حاصل ہوئی ہے اس سے پہلے کبھی ایسی خوشی نہیں ملی تھی․․․! " میرا پاکستان - تحریر نمبر 2226,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mera-pakistan-2226.html,"پروفیسر ڈاکٹر ایف ایچ فاروقیانگریزوں نے ہندوستان سے رخصت ہوتے وقت اسے بھارت،مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں تقسیم کر دیا تھا۔بڑی افراتفری کا عالم تھا۔قتل عام ہو رہا تھا۔میں اپنے بوڑھے ماں باپ کے ہمراہ ایک سڑک سے گزر رہا تھا کہ کسی نے اچانک حملہ کرکے میرے ماں باپ کو شہید کر دیا۔اس وقت میری عمر دس گیارہ سال تھی۔میں گھبرا کر ایک جھاڑی کے نیچے چھپ گیا۔اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔پہلے تو میں سمجھا کہ وہ وحشی واپس آ گئے ہیں،مگر وہ دو میاں بیوی تھے۔انھوں نے انسانیت کا ثبوت دیا اور مجھے اپنے گھر لے گئے۔مجھے اس وقت مسلم اور غیر مسلم کا فرق معلوم نہیں تھا۔دونوں سکھ خاندان سے تھے۔گھر لا کر سردار جی اور ان کی بیوی نے مجھے پیار سے کھانا کھلایا۔(جاری ہے)وہ بے اولاد تھے اور مجھے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتے تھے۔جب حالات بہتر ہوئے تو مجھے اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔میں چار سال تک وہیں رہا۔مجھے پاکستان جانے کا بہت شوق تھا۔میرے والدین اکثر ذکر کرتے تھے کہ ہم لوگ آزاد ملک پاکستان جائیں گے۔ایک رات ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔پاکستان آنے کے شوق میں،میں اپنے محسنوں کو چھوڑ کر نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔سڑک پر ایک فوجی ٹرک جا رہا تھا،انھوں نے مجھے لاوارث سمجھ کر ٹرک میں بیٹھا لیا اور میرے کہنے پر وہ مجھے پاکستان کی سرحد پر چھوڑ گئے۔میں بُری طرح رو رہا تھا۔رات کے اندھیرے میں سرحد سے گزر کر ایک گاؤں میں آ گیا،جہاں ایک بوڑھی عورت نے ترس کھا کر مجھے اپنے گھر پناہ دے دی۔بوڑھی عورت کے پاس کچھ عرصہ گزارنے کے بعد میں لاہور شہر آ گیا اور ایک دکان پر ملازمت کر لی۔اس دکان میں ملازمت کرتے ہوئے مجھے کئی سال ہو گئے تھے۔ایک دن دو میاں بیوی اس دکان پر کچھ خریداری کے لئے آئے تو انھوں نے مجھ سے میرا نام پوچھا۔مجھے اپنا نام خود معلوم نہیں تھا۔میرے اصل والدین مجھے ”نوشا“ کہہ کر پکارتے تھے،شاید پورا نام نوشاد ہو۔جب میں سکھ خاندان میں آیا تو وہ ”بالا جی“ کہنے لگے۔میں سوچ میں پڑ گیا اور میں نے اپنا اصلی نام نوشا بتایا۔بوڑھی عورت مجھے غور سے دیکھ رہی تھی۔اس نے اپنے میاں کے کان میں کچھ کہا۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے،مگر میں انھیں پہچان نہیں پا رہا تھا۔آخر بوڑھی عورت نے کہا:”تم بالا جی تو نہیں ہو؟“میں بالا جی کا نام سن کر ڈر گیا۔انھوں نے میرے چہرے کا رنگ فق دیکھا تو کہا:”بیٹا!گھبراؤ نہیں تم ہمارے بیٹوں کی طرح ہو۔“یہ کہہ کر بوڑھی خاتون نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ان کے شوہر نے بھی گلے لگا لیا اور بہت دیر تک پیار کرتے رہے۔انھوں نے بتایا کہ جب تم چھوٹے تھے اور اپنے والدین کے قریب بیٹھے رو رہے تھے،تب ہم ہی تمہیں اپنے گھر لے گئے تھے،مگر تم پاکستان آنے کے لئے بے قرار تھے۔پھر تو میں بھی ان سے چمٹ گیا۔دونوں میاں بیوی نے بتلایا:”تمہارے جانے کے کچھ عرصے بعد ہم نے بھی پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا۔ہم اپنا ذاتی مکان فروخت کرکے پاکستان آ گئے۔اللہ کا شکر ہے کہ آج تم ہمیں مل گئے۔یہاں آ کر ہم نے اسلام قبول کر لیا۔میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔اب میں ان ہی کے گھر رہنے لگا۔ان ہی کی مرضی سے شادی کی۔میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ اس بات کا علم کسی کو نہ ہونے دیں کہ وہ میرے اصلی ماں باپ نہیں ہیں۔انھوں نے مجھے ہمیشہ اپنی اولاد کی طرح رکھا اور مرتے دم تک اپنا بیٹا ہی کہتے رہے۔میں ان کے احسانات کو کبھی بھی بھلا نہیں سکتا۔بچے بڑے ہو گئے۔آخر ایک دن میں نے اپنے بچوں کو حقیقت بتا دی کہ تمہارے دادا،دادی سگے نہیں تھے۔بچے حیران ہو کر دیر تک انھیں سلامِ عقیدت پیش کرتے رہے۔ " ایک ہی راستہ - تحریر نمبر 2225,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-hi-rasta-2225.html,"جدون ادیبانسپکٹر ساجد الیکٹرونک ذرائع سے ہونے والے جرائم کی چھان بین کے ماہر تھے اور اس سلسلے میں انھیں اپنے محکمے میں بہت شہرت ملی تھی۔اس وقت وہ ایک کیس کی فائل کو پڑھ رہے تھے کہ کسی انجان نمبر سے کال آئی۔انھوں نے ایک گہری سانس لی اور فون اُٹھا لیا۔دوسری طرف کوئی اجنبی تھا،مگر اس نے جو اطلاع دی وہ اہم تھی۔فون کرنے والے نے بتایا کہ سلیم نامی ایک نوجوان لڑکا ایک سماجی تنظیم کی آڑ میں کچھ ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث تھا۔انسپکٹر ساجد نے تھوڑی ہی دیر میں اس لڑکے کی کھوج لگا لی۔وہ کالج کا ایک طالب علم تھا اور بظاہر اس کا سابقہ ریکارڈ ٹھیک لگ رہا تھا۔انسپکٹر ساجد نے سلیم سے ذاتی طور پر ملنے کا فیصلہ کیا اور وہ اس کے گھر پہنچ گئے۔(جاری ہے)سلیم بظاہر ایک نیک اور ہمدرد لڑکا تھا۔انسپکٹر ساجد نے اپنا تعارف ایک سماجی کارکن کے طور پر کرایا تو سلیم نے کھل کر اپنے اور اپنی فلاحی تنظیم کے مقاصد بتائے اور اپنی ویب سائٹ بھی دکھائی۔”دراصل ہم غریب ترین بچوں کی مدد کرتے ہیں۔“وہ کہتا رہا:”اور وہ مدد اس طرح ہوتی ہے کہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو،پھر ہم اس کی ویڈیو بنا لیتے ہیں جو اپنے یوٹیوب چینل پر اَپ لوڈ کر دیتے ہیں۔اس چینل سے کوئی آمدنی ہونا شروع نہیں ہوئی،لیکن اگر ہوئی تو وہ بھی ان بچوں پر خرچ کریں گے۔“سلیم نے یہ کہہ کر ایک ویڈیو دکھائی۔اس میں کچرے کے ڈھیر کے پاس چند بچے ہاتھ سے بنے ایک بھدے سے بلے سے کرکٹ کھیل رہے تھے۔سلیم ان سے جا کر کچھ بات کرتا ہے۔پھر ان کو بیٹ دیتا ہے۔جو بچے تیز شارٹ لگاتے ہیں،تیز گیند کراتے ہیں،کیچ کرتے ہیں،وہ ان کو انعام میں بیٹ،گیندیں اور لکڑی کی وکٹیں تقسیم کرتا ہے۔آخر میں سارے بچے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ویڈیو ختم ہوئی تو سلیم بولا:”بظاہر ویڈیو نہ خاص ہے اور نہ اس کی مدد سے کسی کا کچھ بنے گا،مگر ہماری مثال اندھیرے میں ایک شمع جلانے والوں کی سی ہے کہ ہم اپنے حصے کا اندھیرا ختم کریں گے۔“انسپکٹر ساجد سلیم کی طرف دیکھتے رہ گئے۔انھوں نے ایسے نپے تلے انداز میں کسی کو بات کرتے نہیں سنا تھا۔چنانچہ ان کو سلیم کی باتوں میں لطف آیا،مگر وہ کوئی کام کی بات نہ جان سکے۔اسی شام کو انھوں نے سلیم کی ویب سائٹ کو دیکھا اور چندہ دینے کا طریقہ کار دیکھا تو حیران رہ گئے۔وہاں درج تھا کہ ہم ہر کسی سے چندہ نہیں لیتے۔چندہ دینے کے لئے آپ کو اپنی آمدنی کے جائز ہونے کا ثبوت دینا ہو گا۔علاوہ ازیں ہم صدقہ فطرانہ بھی نہیں لیتے۔صرف وہ خیرات لیتے ہیں جسے اللہ کی مخلوق پر بغیر کسی امتیاز کے خرچ کرنے کی مکمل اجازت ہو۔انسپکٹر ساجد نے ایک جعلی آئی ڈی کے ذریعے سلیم سے رابطہ کیا اور اسے دس ہزار روپے دینے کی پیش کش کی۔سلیم نے جواب دیا کہ وہ اس پر سوچے گا اور اپنے دوستوں سے مشورہ کرے گا۔اس نے انسپکٹر ساجد کو ایک فارم بھیج دیا،تاکہ وہ اپنی معلومات دے سکیں۔جلد ہی ایک بڑی تعداد میں لوگ سلیم سے رابطہ کرنے لگے جو اسے مالی امداد فراہم کرنا چاہتے تھے۔انسپکٹر ساجد ناشتہ کر رہے تھے کہ سلیم کا فون آ گیا۔جب وہ سلیم کے پاس پہنچے تو سلیم نے بتایا:”میرے بارے میں کوئی شخص غلط پرچار کر رہا تھا،اس کا پتا چل گیا ہے وہ اس کا دوست سہیل ہے۔“انسپکٹر ساجد نے فوری کارروائی کرتے ہوئے سہیل کو تھانے بلوا لیا۔جب وہ انسپکٹر ساجد کے سامنے آیا تو مطمئن لگ رہا تھا۔اس نے بغیر کسی سوال کے اپنا بیان دینا شروع کر دیا۔”انسپکٹر صاحب!میں اپنا جرم قبول کرتا ہوں۔میں نے آپ کو فون کیا اسی طرح میڈیا تک بھی سلیم کے متعلق اطلاعات پہنچائیں۔اس سارے معاملے کے پیچھے میں ہی تھا۔“”تو تم نے سلیم سے بدلہ لیا؟“انسپکٹر ساجد نے پوچھا:”اس بات کا کہ اس نے تمہاری منفی سوچوں کی بنا پر تمہیں اپنی تنظیم سے الگ کیا۔تم اسے نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔“سہیل مسکرایا اور بولا:”انسپکٹر صاحب!میں سلیم کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔وہ بہت ہی نیک طریقہ کیا ہے۔پھر بھی آج میرا دوست پورے ملک میں مشہور ہو چکا ہے۔اسے اب پیسے کی کوئی فکر نہیں ہے۔مجھے اُمید ہے،اس کی ذات سے لوگوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔میرا مقصد پورا ہو چکا ہے۔“انسپکٹر ساجد نے سوچتی نظروں سے سہیل کی طرف دیکھا اور پھر بولے:”تم بھی حیرت انگیز حد تک با خبر انسان ہو اور جدید زمانے کے تقاضے جانتے ہو۔بے شک تم نے غلط راستہ اختیار کیا،مگر میں تمہیں معاف کرتے ہوئے یہ مشورہ دیتا ہوں کہ آئندہ اس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مت کھیلنا اور سلیم اب بھی تمہیں اپنا دوست سمجھتا ہے،اس کے ساتھ مل جاؤ۔ایک اور ایک مل کر گیارہ ہوتے ہیں۔دونوں کا راستہ ایک ہی ہے،اس لئے اس کے ساتھ چلو۔یہی دوستی اور کامیابی کا راستہ ہے۔“”میں ضرور سلیم سے معافی مانگوں گا اور آپ کا بہت بہت شکریہ۔“سہیل نے کہا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔انسپکٹر ساجد اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگے۔ " تلافی - تحریر نمبر 2224,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/talafi-2224.html,"سید حبیب شاہاحمد اور سائرہ کے والد کسی سیٹھ کے ہاں ڈرائیور تھے۔انھوں نے سیٹھ صاحب سے تین لاکھ روپے قرض مانگا تھا،تاکہ وہ سائرہ کی شادی کر سکیں۔سیٹھ صاحب نے احمد کے والد صاحب کو تین لاکھ روپے دے دیے،جو ہر مہینے اپنی تنخواہ سے کٹواتے تھے۔چھ مہینے بعد اچانک احمد کے والد کو دل کا دورہ پڑا اور وہ وفات پا گئے۔والد کے انتقال کے بعد ان کا قرض چکانے کے لئے اسے والد کی جگہ کام کرنا تھا۔احمد گاڑی چلانا نہیں جانتا تھا،اس لئے اسے سیٹھ کے گھر کے سارے کام کرنا تھے۔قرض کی رقم بڑی تھی۔احمد کو سیٹھ صاحب کے ہاں چوبیس گھنٹے کام کی غرض سے رہنا پڑتا۔وہ اپنے گھر کے سارے کام احمد سے ہی کرواتے۔گھر کی صفائی ستھرائی،جھاڑ پونچھ،برتن اور کپڑے دھونا،حتیٰ کہ مالی کا کام بھی احمد سے ہی کرواتے۔(جاری ہے)احمد کی والدہ ہفتے میں ایک آدھ بار بیٹے کی خیر خبر لینے سیٹھ کے گھر آ جاتیں۔ایک بار احمد کی والدہ احمد سے ملنے پہنچی تو دیکھا کہ احمد ان کے گھر کے غسل خانے کی صفائی کر رہا تھا۔احمد کی ماں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ماں کے آنسوؤں کو دیکھ کر احمد نے والدہ سے ایک جملہ کہا:”صدا وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔وقت اچھا ہو یا بُرا گزر ہی جاتا ہے۔کل ہم پر اچھا وقت تھا جو گزر گیا آج بُرا وقت ہے یہ بھی گزر جائے گا۔“وہ احمد کو دلاسا دے کر واپس گھر چلی گئی۔احمد کی والدہ بیٹے سے ملنے جب بھی آتی تو کبھی احمد سیٹھ کے کتے کو نہلا رہا ہوتا تو کبھی ان کی گاڑی دھو رہا ہوتا،کبھی ان کے گھر کا فرش صاف کر رہا ہوتا تو کبھی ان کے گھر کی دیواریں رنگ کر رہا ہوتا،کیونکہ احمد کو اپنے والدین کا قرض اُتارنا تھا۔اس دوران سیٹھ کی طبیعت کافی حد تک خراب ہو چکی تھی۔شاید وہ کسی شدید بیماری میں مبتلا تھے۔گھر والے ان کی اتنی فکر نہیں کرتے جتنی دیکھ بھال احمد کرتا تھا۔کبھی ان کے پاؤں دباتا تو کبھی سر دباتا۔دوائیں ان کو وقت پر کھلاتا اور ان کو ہوا خوری کے لئے بھی لے کر جاتا،لیکن سیٹھ صاحب کی حالت روز بروز بگڑتی گئی۔سیٹھ صاحب نے ایک وصیت تیار کروائی جس کے مطابق احمد کے گھر کا قرضہ معاف ہو جائے گا اور جائیداد میں سے ایک مکان اور ایک دکان احمد کے نام ہو گی۔یہ وصیت صرف سیٹھ صاحب اور ان کے وکیل کے درمیان تھی۔کچھ عرصے بعد سیٹھ کا انتقال ہو گیا۔سیٹھ صاحب کا ایک بنگلہ جو کسی نئی آبادی میں تھا،اب وصیت کے مطابق احمد کے نام تھا اور ایک بڑی دکان بھی احمد کے نام تھی۔احمد کی والدہ ان حالات سے بہت خوش ہوئیں۔سب دکھوں کی تلافی ہو گئی تھی۔وہ پچھلی تمام پریشانیاں بھول کر سیٹھ صاحب کی مغفرت کے لئے دعا کرنے لگی۔ " ننھا ٹنکو اور پنکی مچھلی - تحریر نمبر 2223,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanha-tinko-aur-pinki-machli-2223.html,"عاصمہ بانوپیارے بچو!آپ نے وہ مثال تو سُنی ہو گی ”عقل بڑی کہ بھینس“ آج میں آپ کو بتاتی ہوں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ٹنکو ایک پیارا سا سفید خرگوش تھا۔ایک صبح جنگل سے گزرتے ہوئے،اس کی نظر راجو ہاتھی پر پڑی۔ٹنکو بولا:”سلام بھائی،دیکھو کتنی خوبصورت صبح ہے!ہوا بھی چل رہی ہے۔“ راجو نے حیرت سے ٹنکو کو دیکھا اور بولا۔”چلو ٹنکو یہاں سے بھاگ جاؤ۔میرے پاس تم جیسے چھوٹے سے جانور کے لئے کوئی وقت نہیں۔“ ٹنکو افسوس سے سر جھکا کر آگے بڑھ گیا سمندر کے کنارے اسے پنکی دکھائی دی۔وہ ایک بہت بڑی مچھلی تھی۔ٹنکو نے اونچی آواز میں پکارا۔ ”پنکی۔۔پنکی!میری بات سنو۔“ پنکی تیرتی ہوئی کنارے پر پہنچی۔اس کی نظر اوپر نیچے اُچھلتے ہوئے ٹنکو پر پڑی۔(جاری ہے)پنکی نے بلند آواز میں پوچھا۔”ٹنکو!کیا تم نے مجھے بلایا ہے۔“ٹنکو بولا،ہاں ہاں!میں نے ہی تمہیں آواز دی تھی۔ ”تم خود کو سمجھتے کیا ہو؟تم جیسے چھوٹے اور کمزور جانور سے بھلا میں کیوں بات کروں۔“ اتنا کہہ کر پنکی دوبارہ پانی میں اُتر گئی۔ٹنکو بے چارہ دیکھتا ہی رہ گیا۔اچانک اسے ایک ترکیب سوجھی۔اس نے دوبارہ پنکی کو آواز دی۔ ”پنکی․․․!کیا تم سمجھتی ہو کہ میں کمزور ہوں؟اگر میں تمہیں ”رسہ کشی“ میں ہرا دوں تو تم مجھے یقینا اپنا دوست بنا لو گی۔“ پنکی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ”ٹھیک ہے!جب چاہو مقابلے کے لئے آ جاؤ۔“ پھر ٹنکو راجو کے پاس پہنچا اور اسے آواز دی۔ ”راجو تم یہی سمجھتے ہو نہ کہ تم بہت بڑے طاقتور ہو اور میں بہت چھوٹا سا ہوں۔اب میں یہ ثابت کروں گا کہ ہم برابر ہیں۔“”ارے واہ!تم کیسے ثابت کرو گے؟“ راجو نے مذاق اُڑاتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں رسہ کشی کے کھیل میں ہرا کر،یہ لو رسہ۔“ راجو نے ہنستے ہوئے رسے کو اپنی کمر سے باندھ لیا۔ٹنکو رسے کا دوسرا سرا پکڑ کر بھاگتے ہوئے پنکی کے پاس پہنچا اور بولا۔ ”تم اس رسے کو اپنی دم پر باندھ لو اور جب میں کہوں تب اسے کھینچنا۔“ پنکی ٹنکو کی بے وقوفی پر خوب ہنسی۔ ”میں رسے کا دوسرا سرا اپنی کمر کے ساتھ باندھ لیتا ہوں۔“ ٹنکو چھلانگیں مارتا ہوا چلا گیا۔جھاڑیوں میں چھپ کر وہ زور سے چیخا، ”رسہ کھینچو۔“راجو نے مسکراتے ہوئے رسہ کھینچنا شروع کیا،مگر جلد اس کی مسکان غائب ہو گئی۔راجو بڑبڑایا، ”ٹنکو تو بہت طاقتور ہے،ادھر پنکی نے بھی یہی محسوس کیا اس نے مزید زور لگایا مگر رسے کو آگے نہ کھینچ سکی۔“ پنکی بڑبڑائی،ٹنکو مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتا۔دونوں نے اتنا زور لگایا کہ رسہ درمیان سے ٹوٹ گیا راجو بے چارا ڈھلان پر جا گرا اور پنکی گہرے پانی میں ایک چٹان سے جا ٹکرائی۔ٹنکو سب دیکھ رہا تھا۔وہ بغیر کچھ بتائے اُچھلتا کودتا گھر واپس چلا گیا۔راجو اور پنکی پریشان تھے کہ چھوٹے ٹنکو نے انہیں کیسے ہرا دیا۔اس دن کے بعد سے وہ ہمیشہ ٹنکو کی عزت کرنے لگے۔تو پیارے بچو!عقل کا استعمال کرکے ہم طاقتور کو بھی ہرا سکتے ہیں،لیکن یاد رکھیں عقل کا استعمال ہمیشہ اچھے کاموں کے لئے ہی کرنا چاہئے۔ " غرور کا سر نیچا - تحریر نمبر 2222,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gharoor-ka-sar-neecha-2222.html,"رینا بہت خوبصورت لڑکی تھی جب اس کی ماما اسے پیارا سا فراک پہنا کر اس کی دو چٹیاں کر دیتیں تو وہ بہت ہی پیاری لگتی جو دیکھتا پیار کرتا ہر کسی سے یہ سُن سُن کر کہ رینا بہت پیاری ہے بہت خوبصورت ہے گوری ہے․․․․رینا مغرور ہو گئی تھی کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتی تھی،چھٹیوں کے بعد جب وہ نئی کلاس میں گئی تو اس کے ساتھ والی سیٹ پر سونیہ بیٹھی تھی وہ بڑی لائق سٹوڈنٹ تھی لیکن اس کا رنگ ذرا کالا تھا،رینا منہ بنا کر اس کے ساتھ بیٹھی تھی چھٹی کے وقت گیٹ پر ماما کو دیکھتے ہی کہنے لگی․․․․․!میرا دن بہت بُرا گزرا ٹیچر نے مجھے چڑیل کے پاس بیٹھا دیا،چڑیل کے پاس․․․․؟ماما نے حیران ہو کر کہا․․․․ہاں ماما ایک کالی سیاہ لڑکی میرے جیسی گوری لڑکی کے پاس بیٹھی چڑیل ہی لگے گی نا․․․․اس نے باآواز بلند اس طرح کہا کہ پاس کھڑی سونیہ سن لے․․․․․گاڑی میں بیٹھی تو ماما نے اسے بہت ڈانٹا لیکن مجال ہے اس پر کوئی اثر ہو۔(جاری ہے)کہنے لگی․․․․ماما تنگ نہ کریں میں تھکی ہوئی ہوں․․․․اب اس کا یہ روز کا معمول ہو گیا تھا اس نے اپنے جیسے دو چار گوری گوری لڑکیوں سے دوستی کر لی تھی اور ان کے ساتھ مل کر سونیہ اور دوسری لڑکیوں کا مذاق اُڑاتی تھی کسی کو بندریا تو کسی کو چڑیل کہتی․․․․․یہ سوچے بغیر کہ ان کی کتنی دل آزاری ہوتی ہے․․․کسی کا دل توڑنا اللہ تعالیٰ کو کتنا ناپسند ہے کسی نے ٹیچر سے اس کی شکایت کر دی۔انہوں نے اسے آفس میں بلایا اور سمجھایا کہ تکبر یعنی غرور اللہ کو بہت ناپسند ہے غرور کرنے والے کو اللہ پسند نہیں کرتا بلکہ شکر گزاری کو پسند کرتا ہے یعنی اللہ نے اگر کوئی چیز،کوئی نعمت اپنے بندے کو دی ہے تو اللہ کا شکر کرنا چاہئے غرور نہیں کرنا چاہئے اور اللہ نے مذاق اُڑانے سے بھی منع کیا ہے کہ جس کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے شاید وہ اللہ کو مذاق اُڑانے والے سے زیادہ پسند ہو․․․․رینا پر وقتی طور پر تو ان باتوں کا اثر ہوا لیکن وہ جلد ہی اپنی بری عادت کی طرف آ گئی۔اس کی سالگرہ کا فنکشن تھا اس کی بہت ساری سہیلیاں اس کے گھر آئی ہوئی تھیں وہ میوزک لگا کر ڈانس کر رہی تھی رینا بہت انجوائے کر رہی تھی جب وہ اپنی دوستوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر مووی بنوا رہی تھی کہ ماسی کی بیٹی مشروب کی ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہوئی اور کیمرے کے سامنے آ گئی۔رینا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ایک زور کا تھپڑ اس کے منہ پر لگایا اور چیخ کر کہنے لگی بدتمیز لڑکی تم نے میری مووی خراب کر دی تم کالی اور بدصورت ہو کیمرے کے سامنے کیوں آ گئیں اب مجھے یہ مووی دوبارہ بنوانی پڑے گی۔اسی رات کی بات ہے کہ وہ دوستوں کے ساتھ آئسکریم کھانے گئی تو گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔جان تو بچ گئی لیکن شیشے کی کرچیاں اس کے چہرے پر اس طرح پیوست ہوئیں کہ زخم ٹھیک ہونے پر بھی نشان مٹنے کی اُمید نہیں تھی۔بہت دنوں کے بعد جب وہ سکول گئی تو اس کے چہرے پر زخموں کے نشان تھے اور رنگ بھی پھیکا ہو گیا تھا اس کے غرور کا سر نیچا ہو چکا تھا سب سے پہلی لڑکی جو اس کی دل جوئی کرنے آئی وہ سونیہ تھی جس کا اس نے ہمیشہ مذاق اُڑایا تھا اور دل آزاری کی تھی۔رینا حیران ہو گئی کہ سونیہ کا دل اتنا خوبصورت ہے اب اسے احساس ہوا کہ اصل خوبصورتی کیا ہوتی ہے․․․․رنگ روپ سب وقتی چیزیں ہیں،نا ختم ہونے والا حُسن تو دل کا خوبصورت ہونا ہوتا ہے۔چہرے کا اور رنگ کا حسن تو ناپائیدار ہے۔آج وہ اس مقام پر تھی کہ سب اس کا مذاق اُڑا سکتے تھے لیکن ٹیچر نے سب لڑکیوں سے کہا کہ رینا کو اللہ کی طرف سے سزا مل چکی ہے لہٰذا اس کو کوئی لڑکی پریشان نہ کرے اور سب اس کی دل جوئی کریں تاکہ سب سے اللہ راضی ہو اور پھر رینا نے ان تمام لڑکیوں سے جن کا مذاق اُڑاتی تھی معافی مانگی اور اللہ سے بھی معافی مانگی․․․اب وہ ایک اچھی سلجھی ہوئی بچی ہے سب کی دوست ہے․․․․!! " لالچ بُری بلا ہے - تحریر نمبر 2221,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lalach-buri-bala-hai-2221.html,"خدیجہ عابد،پشاورایک لکڑہارا روزانہ لکڑیاں کاٹنے جنگل جاتا اور پھر شہر آ کر بیچ دیتا۔ایک دفعہ اس نے جنگل کے سب سے بڑے درخت کو کاٹ دیا۔لکڑہارا بہت زیادہ خوش ہوا اور ساری لکڑیاں گھر لے گیا۔اس نے سوچا کہ اتنی زیادہ لکڑیوں سے میں بہت زیادہ پیسے کماؤں گا۔اگلے دن جب وہ اُٹھا تو پورے گاؤں میں شور تھا کہ کسی نے جنگل کے سب سے بڑے درخت کو کاٹ دیا ہے۔وہ درخت کسی عام آدمی نے نہیں بلکہ بادشاہ نے اپنے بیٹے کی پیدائش پر یادگار کے طور پر لگایا تھا۔اس وقت بادشاہ کے سپاہی اُس آدمی کی تلاش میں ہیں،جس نے وہ درخت کاٹا ہے۔لکڑہارے کو جب یہ پتا چلا تو وہ فوراً اپنے دوست کے گھر چلا گیا۔اس نے اپنے دوست کو سارا قصہ سنایا اور کہا:”میری مدد کرو،میں اب کیا کروں؟“اس کے دوست نے کہا:”بادشاہ کے سپاہی تو ہر گھر کی تلاشی لے رہے ہیں۔(جاری ہے)اب تم یہ بتاؤ کہ تم خود کہیں چھپو گے یا ان لکڑیوں کو چھپاؤ گے؟“لکڑہارے نے کہا:”لکڑیاں تو بہت زیادہ ہیں،اگر میں کہیں چھپ گیا تو میرے گھر کی تلاشی تو لی جائے گی اور گاؤں والے یہ بتا دیں گے کہ یہ میرا گھر ہے۔“اس کے دوست نے کہا:”تم یہاں سے بہت دور بھاگ جاؤ،جہاں تمہیں کوئی پکڑ نہ سکے۔“لکڑہارے نے کہا:”مجھے لگتا ہے کہ بادشاہ کے سپاہی ہمارے گاؤں کی طرف آنے ہی والے ہوں گے میں جا رہا ہوں۔“لکڑہارے نے جانے کے لئے دروازہ کھولا تو سامنے بادشاہ کے سپاہی تھے۔انہوں نے لکڑہارے کو پکڑ لیا اور کہا:”ہم نے تمہارے گھر کی تلاشی لی،وہاں ڈھیر ساری لکڑیاں ملی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک لکڑی پر شہزادے کا نام بھی تھا،کیونکہ جب وہ بارہ سال کا ہوا تو بادشاہ نے نشانی کے طور پر اس کا نام لکھوا دیا تھا۔چلو بادشاہ کے پاس۔“لکڑہارا بہت ڈر گیا۔جب اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا تو لکڑہارے نے کہا:”مجھے معاف کر دیں،مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔میں نے لالچ میں آ کر یہ سب کچھ کیا۔“بادشاہ نے کہا:”تم نے جو کیا ہے اس کی سزا تمہیں ملے گی اور مجھے یہ بھی پتا چلا ہے کہ تم درخت کاٹ لیتے ہو اور اس کی جگہ دوسرا پودا بھی نہیں لگاتے ہو،کیا تمہیں اس ملک کا اُصول نہیں پتا کہ اگر درخت کاٹتے ہو تو اس کی جگہ ایک پودا بھی لگانا چاہیے۔اب تمہیں ایک سال جیل کی سزا ملے گی۔“ " دو چڑیاں - تحریر نمبر 2220,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/2-chiriyaan-2220.html,"ثوبیہ محمد رمضان مغل،کراچی”ارے!پانی کہیں بھی نہیں ملا کیا․․․․؟“نیلی چڑیا نے زور زور سے ہانپتے ہوئے بھوری چڑیا سے پوچھا۔ایک گھر کی چھت میں لگے بارش کے پرنالے میں نیلی چڑیا سورج کی جھلسا دینے والی تپش سے اپنے آپ کو محفوظ کیے ہوئے تھی،لیکن پھر بھی گرمی سے ہانپ رہی تھی۔اُس کی چونچ مسلسل کھلی ہوئی تھی۔”کیا بتاؤں تمہیں․․․․سب جگہ پانی تلاش کیا،لیکن کہیں ایک قطرہ بھی نہیں ملا۔اب تو مجھ سے بولا بھی نہیں جا رہا۔“بھوری چڑیا نے افسردہ لہجے میں کہا۔شدید گرمی اور پیاس نے اسے بے حال کر دیا تھا۔وہ پسینے میں شرابور تھی۔پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہوئے دونوں کے حلق بہت خشک ہو گئے تھے۔تلاش اور جدوجہد کے باوجود پانی اسے کہیں بھی نہیں ملا۔(جاری ہے)”اچھا چلو!پریشان نہیں ہوتے،اللہ ہماری مدد کرے گا جو ہمیں روزانہ رزق دیتا ہے،وہی ہمارے لئے پانی کا بھی انتظام کر دے گا۔“نیلی چڑیا نے بھوری کے لہجے پر مایوسی دیکھی تو اسے تسلی دی۔آج گرمی اپنے عروج پر تھی۔سورج کی چلچلاتی دھوپ کی وجہ سے پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں بیٹھے ہانپ رہے تھے۔شہر میں درخت نہ ہونے کی وجہ سے سب پرندے چونچ کھولے کسی چھاؤں کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہے تھے۔ولید اور مہک کندھوں پر بیگ لٹکائے اسکول سے گھر واپس آ رہے تھے۔انہوں نے گھر میں قدم رکھا تو صحن میں دیوار پر بیٹھی ایک بھوری چڑیا پر نظر پڑی۔وہ گرمی سے منہ کھولے اپنے پروں کو زمین پر گرائے بے چینی سے اِدھر سے اُدھر سایہ کی تلاش کر رہی تھی۔کبھی کمرے کی چھت پر اُڑ جاتی تو کبھی دیوار پر آ کر بیٹھ جاتی۔نیلی چڑیا بھی وہیں آ گئی۔ان دونوں کو ننھی چڑیوں پہ بہت ترس آیا۔”ہمیں ان کے لئے ایک برتن میں پانی رکھنا چاہیے۔“ولید نے مہک سے کہا۔مہک برتن میں پانی بھر لائی اور وہ چاول کے پکے ہوئے تھوڑے سے دانے بھی ساتھ لے آئی۔ولید نے برآمدے میں ایک طرف پانی کے برتن کے ساتھ چاول کے دانے بھی فرش پر رکھ دیے۔دونوں بہن بھائی کمرے کے دروازے میں سے چھپ کر دیکھنے لگے۔نیلی چڑیا نے پانی کو دیکھا تو اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔وہ چاول کے دانے دیکھ کر خوشی سے جھوم اُٹھی تھی اُس نے چوں چوں چوں چوں شور مچا دیا۔ولید اور مہک ان کو چھپ کر دیکھنے میں محو تھے۔چڑیوں کو پانی پیتے،چاول کے دانے کھاتے ہوئے دیکھ کر دونوں کے چہرے خوشی سے سرشار تھے۔”بھوری بہن!“نیلی چڑیا نے اپنی سہیلی سے کہا:”میں نے کہا تھا ناں کہ اللہ ضرور ہمیں کہیں نہ کہیں سے رزق عطا کرے گا۔“دونوں پانی پینے لگیں۔وہ ساتھ ساتھ چاول کے دانے بھی کھاتی جا رہی تھیں۔نیلی چڑیا نے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیا۔چڑیوں نے سیر ہو کر پانی پیا۔اپنی پیاس بجھانے کے بعد انہوں نے دروازے کی جانب تشکر آمیز نظروں سے دیکھا اور پُھر سے اُڑ گئیں۔ولید نے کہا:”ہمیں چاہیے کہ ہم بے زبان پرندوں کا خیال ضرور رکھیں۔جب ہم کسی کی مدد کرتے ہیں تو اللہ خوش ہوتا ہے۔“دوسرے دن نیلی چڑیا اور بھوری چڑیا اپنے ساتھ دوسری چڑیوں کو بھی لے آئیں۔سب چڑیوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔جب انہوں نے مٹی کے صاف ستھرے کونڈوں میں پینے کا پانی اور دانہ دیکھا۔وہ سب خوشی خوشی پانی پی کر اپنی پیاس بجھانے لگیں۔ساتھ میں دانہ بھی کھا رہی تھی۔چڑیوں کو دیکھ کر ولید اور مہک کے دل کو ایسی راحت اور سکون کا احساس ہوا کہ آج سے پہلے انھیں کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا تھا۔اب وہ ہر روز پابندی سے چڑیوں کے لئے دانہ اور پانی کونڈوں میں رکھنے لگے۔ " غریب کسان کی نیکی ہی کام آئی - تحریر نمبر 2219,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghareeb-kissan-ki-naiki-hi-kaam-aayi-2219.html,"سدرہ اخلاق،سرگودھایہ زمانہ قدیم کی بات ہے ایک گاؤں کا نام راس نگر تھا۔وہاں کے لوگ بہت نیک اور اچھے تھے۔اس گاؤں میں ایک شخص احمد علی رہتا تھا جو تھا تو بہت ہی غریب لیکن نیک انسان تھا،پیشے کے لحاظ سے وہ ایک کسان تھا اور گاؤں کے چودھری کی زمین پر کام کرکے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالتا تھا۔چودھری بہت ہی ظالم اور مغرور تھا۔وہ دوسروں سے بُرا سلوک رکھتا اور لوگوں کی دل آزاری کرتا۔احمد کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام ”’نوری“ تھا وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی،احمد علی کی خواہش تھی کہ اس کی بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ایک دفعہ وہاں ایک فقیر آیا اور چودھری کے گھر کو دیکھ کر رُک گیا اور نوکر سے پانی مانگا۔اسی اثناء میں چودھری نے فقیر کی آواز سنی تو وہ غصے سے بولا۔(جاری ہے)دفع ہو جاؤ اور اس کی بہت بے عزتی کی۔فقیر بہت ہی پیاسا تھا،چودھری کا رویہ دیکھ کر وہ رو پڑا اور آگے چل پڑا۔قریب ہی کھیتوں میں احمد کام کر رہا تھا۔فقیر پیاس سے نڈھال تھا کہ چلنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔احمد فقیر کی یہ حالت دیکھ کر دوڑتا ہوا فقیر کے پاس آیا اور قریب ہی درخت کی چھاؤں تلے بیٹھایا۔جلدی سے اپنا کھانا اور پانی لے کر آیا اور فقیر کو پیش کر دیا۔فقیر پانی پی کر کچھ بہتر ہو گیا۔اس نے تھوڑا سا کھانا بھی تناول کیا اور خوش ہو کر احمد کو دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ہر خوشی پوری کرے۔کچھ دنوں بعد ایک دن وہ کھیتوں میں کام کر رہا تھا کہ اس کو ایک چابی ملی،اس نے چابی اپنی جیب میں ڈال لی جب وہ فارغ ہو کر گھر آیا تو اس نے وہ چابی اپنی بیوی کو دکھائی وہ دیکھنے میں کافی پرانی چابی تھی۔اس نے وہ چابی تکیے کے پاس رکھی اور سو گیا،رات کو اس نے خواب میں دیکھا کہ کھیت کے قریب ایک درخت ہے جس کے تنے کے نیچے ایک صندوق ہے جس کی یہ چابی ہے۔صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ سب کچھ بھول چکا تھا،اس نے چابی جیب میں ڈالی اور نوری کو سکول چھوڑنے چلا گیا،اس کے بعد وہ کھیتوں میں چلا گیا جب وہ تھک گیا تو وہ سانس لینے کیلئے اسی تنے پر آ بیٹھا جس پر اس نے فقیر کو بیٹھایا تھا اس کو سارا خواب یاد آ گیا،اس نے جلدی سے زمین کھودی تو وہاں صندوق موجود تھا۔وہ صندوق لے کر گھر آیا۔اس نے جلدی سے چابی نکالی اور صندوق کو کھولا۔جیسے ہی صندوق کھلا سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔سب حیران تھے اور کیوں نہ ہوتے۔صندوق قدیم زیورات اور سونے کے سکوں سے بھرا ہوا تھا۔احمد کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔وہ جلدی سے اُٹھا اور کچھ اشرفیاں اس نے رکھ کر باقی سارے گاؤں میں تقسیم کر دیں،احمد علی خوش تھا کہ اس کی نیکی کام آئی اور اب ان پیسوں کے ذریعے نوری کو تعلیم دلانے کی اس کی دیرینہ خواہش پوری ہو جائے گی۔بات گاؤں کے چودھری تک جا پہنچی اور چودھری نے جب احمد کی زبانی یہ سارا ماجرا سنا تو اس نے اُسی دن اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ کی اور اسی دن سے لوگوں کے کام آنے کا وعدہ کیا۔ " رحمدل بطخ اور شریر کوا - تحریر نمبر 2218,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rehamdil-batakh-aur-shareer-kawwa-2218.html,"کسی ملک میں ایک خوبصورت باغ تھا،یہ باغ خوبصورت رنگ برنگے پھولوں سے بھرا ہوا تھا،اس باغ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یہاں رہنے والے پرندوں نے اپنے بہت اچھے اچھے گھر بنائے ہوئے تھے،ہر پرندے کی کوشش تھی کہ اس کا گھر سب سے زیادہ پیارا نظر آئے، مورنی کا گھر تو اتنا خوبصورت تھا کہ سب پرندے رشک کرتے تھے،اس نے اپنے گھر کو موتیوں،پھولوں اور سنہری تاروں سے سجا رکھا تھا۔اور چڑیا تو پتہ نہیں کہاں کہاں سے مختلف قسم کی چیزیں لے آتی تھیں اس کا گھر بھی دیکھنے کے لائق تھا،طوطے کے گھر ہر ہفتے پارٹی ہوتی تھی سب پرندے وہاں جمع ہو کر خوب ہلہ گلہ کرتے،سب پرندے آپس میں دوست تھے،اور بطخ رانی کی تو کیا ہی بات تھی،جیسی وہ برف کی طرح سفید تھی اسی طرح اس کا گھر تھا،اس کے گھر میں ہر چیز سفید تھی،سفید پھولوں کی سجاوٹ،سفید موتی،رات کو اس کا گھر چاندنی میں اور بھی خوبصورت نظر آتا تھا۔(جاری ہے)بطخ رانی کی عادت بھی بہت اچھی تھی،سب پرندے اس کو بہت پسند کرتے تھے،کسی پرندے کو کوئی مسئلہ ہوتا تو بطخ رانی اس کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتی،اس باغ میں صرف’کوا‘ایک ایسا پرندہ تھا جسے کوئی پسند نہیں کرتا تھا،اس کی عادات ہی ایسی تھیں۔ہر کوئی اس کو سمجھاتا کہ تم بھی اپنا گھر بناؤ،لیکن کوا اتنا لاپرواہ تھا کہ اس نے اپنا گھر نہیں بنایا تھا،اِدھر اُدھر اُڑتا پھرتا رہتا تھا جب کبھی آوارہ گردی سے اُکتا جاتا،یا آندھی اور بارش ہوتی تو کسی نہ کسی پرندے کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا کہ پلیز مجھے اندر آنے دو۔ایک دن موسم بہت خراب تھا،تیز ہوا چل رہی تھی،بارش بھی ہو رہی تھی سب پرندے اپنے اپنے گھروں میں سکون سے تھے،اچانک بطخ رانی کے گھر کا دروازہ کسی نے زور سے کھٹکھٹایا،بطخ سمجھ تو گئی کہ کون ہو گا لیکن پھر بھی پوچھا کہ کون ہے․․․؟پلیز مجھے اندر آنے دو․․․․!باہر سے کوے کی آواز آئی،میں بارش میں بھیگ گیا ہوں،بجلی بھی چمک رہی ہے،مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے،بارش رُکتے ہی چلا جاؤں گا۔لیکن میرے گھر میں بہت سامان ہے،بالکل جگہ نہیں ہے،تم کسی اور پرندے کے گھر چلے جاؤ،بطخ نے کہا․․․․!سب نے انکار کر دیا ہے․․․․پیاری بطخ تم مجھے اندر آنے دو،کوے نے منت کی۔اصل میں کوا جس گھر میں بھی جاتا وہاں کوئی نہ کوئی چیز خراب کر دیتا تھا اس لئے سب اس سے بچتے تھے،اس ہی لئے اب وہ بطخ کی منتیں کر رہا تھا،اسے پتہ تھا کہ بطخ بہت رحم دل ہے،اچھا آ جاؤ․․․․بطخ نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا․․․․․!لیکن میری کوئی چیز خراب نہ کرنا،میرے ڈرائنگ روم کے قالین پر سو جاؤ اور ڈائینگ ٹیبل پر رکھی چیزوں کو ہاتھ نہ لگانا اس پر میں نے کھانے کا سامان رکھا ہے کیونکہ کل میری سالگرہ ہے سب پرندے آئیں گے۔تم فکر نہ کرو پیاری بطخ․․․․!کوے نے کہا،میں کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔اچھا ٹھیک ہے،شب بخیر․․․․اب سو جاؤ․․․․!بطخ نے کہا اور اپنے سونے کے کمرے میں چلی گئی․․․․صبح جب بطخ کی آنکھ کھلی تو وہ بہت خوش تھی،اس نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھا موسم بہت خوشگوار تھا،گزشتہ روز کی بارش کے بعد سارا باغ نکھرا نکھرا لگ رہا تھا،آج سالگرہ کی تقریب کا بہت مزا آئے گا،سب پرندے گانے گائیں گے اور مزے کے کھانے کھائیں گے،بطخ نے سوچا اور ڈرائنگ روم کی طرف بڑھی تاکہ کوے کو جگائے،لیکن یہ کیا․․․؟کوا سب کچھ کھا کر اور خراب کرنے کے بعد اُڑ چکا تھا․․․․․بطخ بیچاری بہت پریشان ہو گئی کہ اب کیا کرے․․․․؟اس کے مہمان آنے والے تھے،اس کی سالگرہ کا مزا خراب ہو چکا تھا،وہ بیٹھ کر رونے لگی،اتنے میں اس کے مہمان پرندے آ گئے وہ گفٹ بھی لائے تھے اور خوشی سے گانے گا رہے تھے․․․․پیاری بطخ کیک کاٹو تمہارا کیک مزے کا ہوتا ہے،مورنی نے کہا․․․․!لیکن بطخ اُداس بیٹھی تھی،جب پرندوں کو بطخ کی اُداسی کی وجہ معلوم ہوئی تو انہیں کوے پر بہت غصہ آیا اور انہوں نے کوے سے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا کہ آئندہ اسے باغ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔پھر سب پرندوں نے مل کر بطخ کی سالگرہ کی تقریب کا انتظام کیا،مورنی بہت سلیقہ مند تھی،اس نے جلدی سے کیک بنا لیا،طوطا بہت سے امرود لے آیا،چڑیا اور بلبل بھی پھل لے آئے،اس طرح چاٹ بنا لی گئی بطخ نے کیک کاٹا سب پرندوں نے بہت انجوائے کیا۔کھانے کے بعد میوزیکل پروگرام ہو رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی،مور نے جا کر دروازہ کھولا تو کوا زخمی حالت میں کھڑا تھا اس کے پر ٹوٹ چکے تھے وہ رو رہا تھا۔بطخ سے معافی مانگنا چاہتا تھا،اس نے بتایا کہ جب وہ بطخ کی چیزیں کھا کر اُڑا تو اس پر ایک عقاب نے حملہ کر دیا وہ مقابلہ نہیں کر سکا اور نیچے گر گیا جہاں ایک بلی نے پر نوچ لیے،بہت مشکل سے جان بچا کر یہاں تک پہنچا،سچ ہے برائی کا بدلہ ضرور ملتا ہے،بطخ نے کوے کی حالت دیکھ کر سب پرندوں کے مشورے سے اسے معاف کر دیا․․․! " بھیڑیا پکڑا گیا - تحریر نمبر 2217,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bheriya-pakra-gaya-2217.html,"بلال حسینایک بھیڑیا شکار کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھومتے گھومتے ایک غار کے پاس پہنچا،جہاں سے تازہ گوشت کی مہک آ رہی تھی،بھوک اور اُوپر سے تازہ گوشت اس سے رہا نہ گیا اور وہ غار کے اندر چلا گیا۔جب وہ غار میں پہنچا تو اس نے اپنے دوست چیتے کو بکری کھاتے ہوئے دیکھا تو حیرانی سے بولا”ارے تم!کہاں غائب تھے اتنے عرصے سے؟بڑے مزے آ رہے ہیں اکیلے ہی پوری بکری کھا رہے ہو۔“چیتا بولا،”ہاں بھائی!شکار کے لئے محنت کی اور اب اس محنت کا پھل کھا رہا ہوں،تم سناؤ خیریت تو ہے؟بڑے کمزور دکھائی دے رہے ہو،حالانکہ پہلے تو اچھے بھلے صحت مند تھے۔“بھیڑیے نے کہا،کیا بتاؤں!تم تو آسانی سے شکار کرکے کھا لیتے ہو،مگر مجھے کافی پریشانی ہوتی ہے،قریب کے گاؤں سے روزانہ جنگل میں بکریوں کا ایک ریوڑ گھاس چَرنے آتا تو ہے،مگر ریوڑ کے ساتھ بہت سے موٹے تازے کتے ہوتے ہیں اس لئے میں ان کا شکار نہیں کر پاتا۔(جاری ہے)”چیتے بھائی!تم مجھے کوئی آئیڈیا دو کہ میں کس طرح ان بکریوں کا شکار کروں اور واپس پہلے جیسی صحت بنا سکوں؟“چیتے نے کہا،”میرے ذہن میں ایک آئیڈیا ہے،میں نے جو بکری کھائی ہے،اس کی کھال تم لے لو اور کل صبح اسے پہن کر بیٹھ جانا پھر جیسے ہی ریوڑ آئے تم بکری کا بھیس بدل کر اس میں چپکے سے شامل ہو جانا اور آگے کیا کرنا ہے یہ تو تم خود جانتے ہو۔“سمجھ گیا چیتے بھائی!کیا آئیڈیا دیا ہے،واہ۔چیتے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بھیڑیے نے وہاں سے کھال اُٹھائی اور رخصت ہو گیا۔روزانہ کی طرح جب اگلے دن بکریوں کا ریوڑ آیا تو بھیڑیا وہ کھال پہن کر چپکے سے بکریوں کے ریوڑ میں شامل ہو گیا اور ایک بکری کو اپنی خوراک بنا لی،اس کے بعد وہ روزانہ ایسا کرنے لگا۔بھیڑیا بڑا خوش تھا کیونکہ وہ بغیر محنت کے روزانہ ایک بکری کو اپنی خوراک بنا رہا تھا،کچھ دن گزرے تو مالک کو بکریوں کے کم ہونے پر تشویش ہوئی،مگر اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سیکیورٹی ہونے کے باوجود بکریاں کیسے کم ہو رہی ہیں؟ مالک نے سیکیورٹی کی ذمہ داری چالاک لومڑی کو سونپ دی۔چالاک لومڑی چپ چاپ رات کو بکریوں کے باڑے میں گئی،جس وقت سب بکریاں آرام کر رہی تھیں،وہ دور سے بیٹھی ایک ایک بکری کو بغور دیکھ رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر ایک بکری پر پڑی جو ایک آنکھ سے سو رہی تھی اس طرح کہ ایک آنکھ کھولے دوسری بند کر لے اور دوسری کھولے تو پہلی آنکھ بند کر لے۔اس نے یہ ساری بات مالک کو بتائی تو فوراً مالک کے ذہن میں خیال آیا کہ اس طرح تو بھیڑیا سوتا ہے۔اس نے فوراً اپنے عملے کی مدد سے دھوکے باز بھیڑیے کو پکڑ لیا۔پیارے بچو!جھوٹ بول کر،دھوکا دے کر ہم عارضی طور پر تو کوئی خوشی حاصل کر سکتے ہیں،مگر یاد رکھیں کہ جھوٹ جلد یا کچھ دیر میں سامنے آ ہی جاتا ہے اور پھر آپ کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا!بھیڑیے کی اس کہانی سے سبق حاصل کریں اور پکا ارادہ کر لیں کہ کچھ بھی ہو جائے ہمیشہ سچ ہی بولنا ہے،کبھی کسی کو دھوکا نہیں دینا۔ " نامعلوم دوست - تحریر نمبر 2216,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/namaloom-dost-2216.html,"کافی رات ہو گئی تھی لیکن رازی ابھی تک جاگ رہا تھا۔وہ تصویر مکمل کئے بنا سونا نہیں چاہتا تھا۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ماما کمرے میں آئی تھی اور پوچھا تھا۔”تمہارے کمرے کی لائٹ کیوں جل رہی ہے ابھی تک سوئے کیوں نہیں؟رازی نے ماما کو بتایا کہ سکول میں مصوری کا مقابلہ ہے۔جس کی پینٹنگ سب سے اچھی ہو گی اسے انعام ملے گا اور وہ پینٹنگ شہر میں ہونے والی ایک بڑی نمائش میں رکھی جائے گی۔ماما اسے شب بخیر کہہ کر اور جلد سونے کی تاکید کرکے چلی گئی تھی۔اب رازی ہاتھ میں برش تھامے سامنے رنگ رکھے کوئی بہت بڑا شاہکار تخلیق کرنے کی کوشش میں تھا اس کے ذہن میں جو بھی خیال آتا وہ یہ سوچ کر اسے رد کر دیتا کہ نہیں اس سے بھی اچھا کوئی اچھوتا سا خیال ہو جس کو وہ رنگوں میں ڈھال کر کینوس پر منتقل کرے۔(جاری ہے)رات گہری ہو چکی تھی رازی نے سوچا وہ تصویر بنانا شروع کر دے۔ہو سکتا ہے بنانے کو دوران اچھے آئیڈیاز ساتھ ساتھ آنے لگیں اور کچھ اچھا بن جائے۔اچانک ہی اسے یاد آیا کہ آج شام پارک سے واپس آتے ہوئے اسے سڑک پر گرا ہوا شناختی کارڈ ملا تھا جو اس نے اپنے دوستوں کو دکھایا تھا کہ کسی کے والد کا تو نہیں لیکن کسی نے حامی نہیں بھری تھی۔ایک دوست نے کہا تھا کہ اس شناختی کارڈ پر جو تصویر ہے اس سے تو یہ انکل غیر ملکی لگ رہے ہیں۔ایک دوست نے کہا ان انکل کا بال بنانے کا اسٹائل بہت پیارا ہے رازی کو خیال آیا کہ کیوں نہ شناختی کارڈ والے انکل کی تصویر بناؤں۔یہ سوچتے ہی اس نے شناختی کارڈ پر دیکھ دیکھ کر ایک زبردست پینٹنگ تیار کر لی۔رنگوں کے مناسب استعمال سے اس تصویر کی خوبصورتی مزید بڑھ گئی اس نے اس تصویر کو پینٹ کرتے ہوئے بالوں کے اسٹائل پر بہت محنت کی اور تصویر پر کیپشن دیا”نامعلوم دوست“۔دوسرے دن سکول کے بڑے ہال میں مقابلہ تھا مشہور مصور آئے ہوئے تھے جو مقابلے کے جج تھے،بہت سی اچھی تصاویر مقابلے میں پیش کی گئیں۔پہلا انعام رازی کو ہی ملا اور اس کی بنائی تصویر کو شہر کی ایک بڑی آرٹ گیلری کی نمائش میں شامل کرنے کے لئے منتخب کیا گیا۔جس دن آرٹ گیلری میں تصاویر کی نمائش تھی۔رازی اپنے ماما پاپا کے ساتھ وہاں موجود تھا وہ سب لوگوں کے اپنی بنائی تصویر پر کیے گئے تبصرے سن رہا تھا۔سب لوگ اس کی بنائی تصویر کی تعریف کر رہے تھے کہ بچے نے یونانی نقوش والے شخص کو کس مہارت سے پینٹ کیا ہے۔بالوں پر بہت محنت کی ہے۔رازی اور اس کے ماما پاپا یہ تبصرے سُن کر خوش ہو رہے تھے۔اچانک کسی نے رازی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا جیسے ہی رازی نے مڑ کر دیکھا تو حیران رہ گیا۔اس کی بنائی ہوئی تصویر مجسم اس کے سامنے تھی وہ انکل بھی حیرت سے کبھی رازی اور کبھی اپنی تصویر کو دیکھ رہے تھے۔انہوں نے نرمی سے پوچھا بیٹا آپ نے مجھے کہاں دیکھا تھا؟رازی نے بتایا کہ مجھے سڑک پر گرا ہوا شناختی کارڈ ملا تھا جس پر آپ کی تصویر تھی․․․․”اوہو ہو․․․․․!“انہوں نے خوشی کے ساتھ کہا مجھے کئی روز سے شناختی کارڈ گم ہونے کی پریشانی تھی کیا وہ آپ کے پاس ہے؟جی میں نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے رازی نے کہا۔شکر ہے انکل نے سکون کا سانس لیا پھر انکل رازی کے ماما پاپا سے ملے انہوں نے انکل کو اپنے گھر مدعو کیا۔اگلے ہی دن انکل رازی کے لئے بہت سے تحائف لے کر ان کے گھر آئے پاپا نے ان کے لئے شاندار دعوت کا انتظام کیا تھا۔انکل ملک یونان سے سیاحت کی غرض سے آئے ہوئے تھے اور وہ اپنے ملک میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے وہ اپنے شناختی کارڈ کے گم ہونے سے بہت پریشان تھے جو انہیں بڑے عجیب انداز میں واپس مل گیا تھا۔انہوں نے رازی کو بہت سراہا ایک تو اس کے فن کی تعریف کی یقینا یہ ایک بہترین کاوش تھی اور دوسرا یہ کہ اس طرح سے ان کا گمشدہ کارڈ ملنے کے ساتھ ساتھ ایک نامعلوم دوست،ایک بہترین دوست بن گیا تھا اور وہ رازی کی فیملی کے پکے دوست بن گئے۔انہوں نے رازی کو اپنی فیملی سے ملوایا۔ان کا ایک بیٹا رازی کا ہم عمر تھا اسے بھی مصوری کا شوق تھا وہ بھی رازی کا دوست بن گیا۔رازی کے پاپا نے انہیں سیاحت کے ایسے مقامات کے بارے میں بتایا جن کے بارے میں انہیں پتہ نہیں تھا وہ کہتے تھے پاکستان بہت خوبصورت ملک ہے۔جب انکل اور ان کی فیملی کے واپس جانے کا وقت آیا تو رازی بہت اُداس ہوا لیکن انکل نے کچھ عرصے بعد ہی ان سب کو یونان سیاحت کے لئے بلوایا۔رازی کے ماما پاپا کو یونان بہت پسند آیا۔اب رازی ڈاکٹر بن چکا ہے اور اس کی شادی یونانی انکل کی بیٹی مریانہ سے ہو گئی ہے۔ وہ دونوں اپنی زندگی میں بہت خوش ہیں کبھی کبھی جب ان کی آپس میں ہلکی پھلکی نوک جھونک ہوتی ہے تو دونوں غصے میں یہ کہنا نہیں بھولتے ”کاش!سڑک پر گرا کارڈ نہ ملا ہوتا اور مریانہ کہتی ہے کاش!آپ کو میرے پاپا کا کارڈ نہ ملا ہوتا،اس پر دونوں ہنس دیتے ہیں اور لڑائی ختم ہو جاتی ہے۔“ " برفانی مہم جوئی - تحریر نمبر 2215,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/barfani-muhim-joyi-2215.html,"ارسلان اللہ خانراشد اور رمضان ہم مزاج دوست تھے۔کالج کے امتحانات سے فارغ ہوئے تو اس بار ناران کاغان کے برف پوش علاقوں کی سیر کا پروگرام ترتیب دیا۔دونوں نے موسم کے مطابق اپنا گرم سامان اور ضرورت کی تمام چیزیں ساتھ لیں،تاکہ کسی قسم کی کوئی دشواری نہ ہو۔اسی دوران ان دونوں نے اپنے استاد پروفیسر انور سے ملاقات کی جو ایک بہترین شکاری تھے اور اکثر مہمات پر جاتے رہتے تھے۔انھوں نے دونوں دوستوں کو بہت سی اہم باتیں بتائیں۔انھوں نے ایک کاغذ دیتے ہوئے کہا:”اس سفر کو محض تفریح کا ذریعہ نہ بناؤ،بلکہ اسے مہم بناؤ۔کاغان میں میرا دوست اکرم بٹ رہتا ہے،میں پرسوں تم دونوں سے وہاں ملوں گا۔پھر ہم برفانی مہم پر ساتھ جائیں گے۔“”یس سر!“راشد اور رمضان نے پُرجوش ہو کر کہا۔(جاری ہے)دونوں کاغان میں بٹ صاحب کے گھر پہنچ گئے۔”خوش آمدید میرے نوجوان دوستو!مجھے انور نے تم دونوں کے بارے میں بتا دیا تھا۔“”جی سر!ہمیں آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔“اگلے دن پروفیسر انور بھی کاغان آ گئے۔مزیدار کھانے کے بعد وہ اکرم بٹ کے ساتھ مل کر اپنی برفانی مہم جوئی کا نقشہ لے کر بیٹھ گئے۔اگلے دن چاروں حضرات مہم پر روانہ ہو گئے۔”آج تو خرگوش اور پہاڑی بکرے ہاتھ آئے،لیکن کل․․․․“پروفیسر انور نے بٹ صاحب کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔”یار راشد مجھے تو نیند ہی نہیں آ رہی۔جانے ان حضرات کے کیا ارادے ہیں؟ہم تو اچھا خاصا تفریح کرنے نکلے تھے اور بے وجہ ان کے ساتھ پھنس گئے۔“”رمضان!اب یہ مت بولو!دیکھو تم نے ہی کہا تھا کہ شکار کرنا ہے۔“اگلے دن بھرپور ناشتے کے بعد بٹ صاحب نے دونوں لڑکوں کو پستول چلانے کی ٹریننگ دی۔اس کے بعد پروفیسر انور شکاری لباس میں نمودار ہوئے۔آج تو بٹ صاحب بھی ماہر شکاری لگ رہے تھے۔جیپ میں بیٹھ کر چاروں افراد برفانی علاقے کی جانب چل دیے۔”دیکھو نوجوانوں!ہم اس وقت کاغان کے قریب ہی ایک گاؤں میں جا رہے ہیں جو برف سے ڈھک چکا ہے۔شدید برف باری ہے۔لوگوں کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی ختم ہو رہا ہے اور باہر وہ نکل نہیں سکتے،کیونکہ وہاں ایک آدم خور چیتا کہیں سے آ گیا ہے۔بٹ صاحب کو باقاعدہ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ سے آرڈر ملا ہے کہ گاؤں والوں کو اس عفریت سے نجات دیں۔“یہ سننا تھا کہ راشد اور رمضان کے حواس گم ہو گئے۔”بچوں!ڈر تو نہیں گئے یا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے!“”نہیں نہیں سر!ہمیں تو مزہ آ رہا ہے۔“کچھ ہی دیر میں جیپ برفانی گاؤں میں تھی۔مستقل برف باری ہو رہی تھی جو کبھی تیز ہو جاتی اور کبھی ہلکی۔کافی دیر تک گھوم پھر کر مقامی لوگوں کی مدد سے علاقے کا جائزہ لیا گیا۔جب سب تھک گئے تو گاؤں کا ایک شخص سب کو اپنے گھر لے گیا۔یخ بستہ ہواؤں اور جسم کو جما دینے والی سردی میں اس نے گرما گرم بکرے کا سالن اور نان سے اپنے مہمانوں کی ضیافت کی۔کچھ دیر سستانے کے بعد جب وہ باہر نکلے تو شام ڈھل رہی تھی۔روشنی ماند پڑ رہی تھی۔ہلکی ہلکی برف باری جاری تھی کہ اچانک کسی کی زور دار چیخ سنائی دی۔پروفیسر انور،بٹ صاحب کے ساتھ بندوقیں لے کر وہاں بھاگے۔پیچھے پیچھے رمضان اور راشد بھی تھے۔کچھ مقامی لوگ بھی ساتھ تھے۔تھوڑی دور جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی خون میں لت پت پڑا ہے اور ایک خوف ناک چیتا اس پر وار کرنے والا ہے۔اتنے سارے لوگوں کو ایک ساتھ دیکھ کر چیتا پہلے تو گھبرایا،لیکن اس پر بھوک کا اتنا غلبہ تھا کہ وہ بھاگنے کے بجائے وہیں کھڑا ہو کر باقی لوگوں پر غرانے لگا۔پروفیسر صاحب نے راشد اور رمضان کی جانب آنکھوں سے واپس جانے کا اشارہ کیا تو وہ پیچھے ہٹ گئے اور ایک ذرا اونچے اور محفوظ مقام پر جا کر سارا منظر دیکھنے لگے۔دراصل گاؤں والوں نے ان درندوں سے محفوظ رہنے کے لئے مختلف جگہوں پر کچھ مچان قسم کی محفوظ پناہ گاہیں تیار کر رکھی تھیں جن میں چھپ کر جان بچائی جا سکتی تھی۔راشد اور رمضان بھی ایک ایسی ہی پناہ گاہ تک پہنچ گئے تھے۔بٹ صاحب اور پروفیسر انور آگے بڑھنے لگے تو گاؤں کے لوگ بولے:”نہیں صاحب!آگے مت بڑھو․․․یہ بہت خطرناک جانور ہے،تمہیں مار ڈالے گا۔“پروفیسر صاحب نے منہ پر اُنگلی رکھ کر دھیرے سے کہا:”خاموش!چپ رہو۔مجھے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے دو۔“”بٹ!یہ مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔تم رائفل سنبھال لو اور باقی لوگ اس کو بھگانے کے بجائے زخمی کے پاس جا کر اس کی جان بچائیں ورنہ وہ تڑپ تڑپ کر مر جائے گا۔“ابھی یہ بات پروفیسر صاحب نے کہی ہی تھی کہ برفانی چیتے نے بجائے پروفیسر انور کے،بٹ صاحب پر حملہ کر دیا۔اس اچانک حملے کا سامنا کرنے کو کوئی تیار نہ تھا۔پروفیسر صاحب نے گاؤں والوں سے اپنی رائفل لی،لیکن بدحواسی میں ان سے گولی ہی نہ چلی۔ادھر چیتا بٹ صاحب کو گرا چکا تھا۔اُدھر سب کے اوسان خطا ہو چکے تھے۔بٹ صاحب کو اپنی موت کا یقین ہو گیا۔چیتے نے اپنے خونخوار دانتوں اور نوکیلے پنجوں سے حملہ کرکے انھیں لہولہان کر دیا تھا۔اچانک ایک گولی چلنے کی آواز آئی اور چیتا یک دم ڈھیر ہو گیا۔گولی چیتے کے بھیجے میں لگی تھی۔سب حیران تھے کہ آخر یہ کون اس نازک وقت میں فرشتہ بن کر آیا اور بٹ صاحب کی جان بچا لی۔اب جو سب نے دیکھا تو وہ ”راشد“ تھا۔لوگ ابھی تک حیران تھے کہ آخر یہ ہوا کیا ہے۔اسی دوران رمضان آگے بڑھا اور فوراً اس زخمی اور بٹ صاحب کو گاؤں والوں کی مدد سے قریبی کلینک لے گیا،جہاں ان کو طبی امداد فراہم کی گئیں۔راشد کو مقامی لوگوں نے کندھوں پر بیٹھا کر سارے برفانی علاقے کی سیر کرائی۔رمضان بھی اس کے ساتھ تھا۔رمضان کو بھی بٹ صاحب اور زخمی آدمی کی فوری امداد کرنے پر خوب سراہا گیا۔پروفیسر انور نے کہا:”مجھے تم پر فخر ہے،بچو!“بٹ صاحب اور زخمی آدمی نے بھی دونوں دوستوں کا بھرپور شکریہ ادا کیا۔گاؤں والوں نے سب کو تحائف سے نوازا اور سارا برفانی علاقہ مزے سے گھمایا۔یہ راشد اور رمضان کی سب سے یادگار برفانی مہم تھی۔ " درخت کی باتیں - تحریر نمبر 2214,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/darakht-ki-baatain-2214.html,"سارہ خان،میرپور خاصمیں اور میری چھوٹی بہن ایک درخت کے نیچے جھولا جھول رہے تھے۔میری چھوٹی بہن نے درخت کے کچھ پتے توڑے تو کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔اِدھر اُدھر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔چھوٹی بہن نے دوبارہ پتے توڑے۔دوبارہ وہی آواز سنائی دی۔میں نے پوچھا:”کون․․․․؟“آواز آئی:”میں درخت ہوں۔“پہلے تو میں حیران رہ گئی کہ درخت بھی بول سکتا ہے؟میں نے پوچھا:”تم کیوں کراہ رہے ہو؟“درخت نے کہا:”جب کوئی میرے پتے توڑتا ہے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔“میں نے کہا:”معاف کرنا،ہم نے تمہیں تکلیف دی۔جب کہ تمہارے بہت سے فائدے بھی ہیں۔“درخت بولا:”ہاں،میرے سائے میں بیٹھ کر لوگ سکون محسوس کرتے ہیں۔(جاری ہے)میں قدرتی ٹھنڈک فراہم کرتا ہوں۔اس کے علاوہ میں ہوا کو صاف رکھتا ہوں۔میں نے کہا:”آج کل ماحول میں آلودگی بہت زیادہ ہے اس کی وجہ کیا ہے؟“درخت نے بتایا:”اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان ہمیں کاٹ کاٹ کر تیزی سے ختم کر رہا ہے۔گلیاں چوڑی کرنے،نئی بستیاں بسانے کے لئے ہمیں کاٹ دیا جاتا ہے۔ہم آکسیجن بھی فراہم کرتے ہیں۔ہمیں ختم کرنے کی وجہ سے دنیا میں گرمی بھی بڑھ رہی ہے،جسے گلوبل وارمنگ کہتے ہیں۔گرمی کی شدت سے جنگلات میں آگ لگ جاتی ہے۔“میں نے پوچھا:”انسانوں کو کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں؟“درخت:”انسانوں کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔اگر کسی وجہ سے درخت کاٹنا پڑے تو اس کی جگہ دوسرا درخت لگائیں اور مہربانی کرکے میرے پتے نہ توڑا کریں۔“ " احساس - تحریر نمبر 2213,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehsaas-2213.html,"ثروت آفتاب،اسلام آبادشدید گرمی کا موسم تھا۔شہر کے لوگ سورج کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔سورج کے لئے یہ شکایتیں نئی نہیں تھیں۔یہ شکایت گرمیوں کے موسم میں اپنے عروج پر ہوتی تھی۔شکایتیں سُن کر سورج کو بہت بُرا لگتا تھا۔دوسرے دن صبح ہوئی،لیکن آج روشنی بہت مدہم تھی۔سب لوگ بیدار ہونے لگے۔ارے یہ کیا یہ تو کچھ نیا سا دن لگ رہا ہے۔کچھ نہ کچھ تو نیا ہے۔باہر زندگی پھر سے رواں دواں ہوئی،لیکن اس میں وہ بات نہ تھی۔کچھ روز ایسے ہی گزرے،پھر سے لوگوں کا شور شرابہ بلند ہو گیا،کسان چیخنے لگے،ہماری فصلیں نہیں تیار ہو رہی ہیں۔آم نہیں پک رہے،گندم نہیں پکے گی تو سب لوگ کیا کھائیں گے۔ڈاکٹر،حکیم چیخنے لگے دھوپ نہ ہونے سے بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔(جاری ہے)آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔لوگوں کو وٹامن ڈی نہیں مل رہا ہے،ہڈیاں کمزور ہو رہی ہیں۔بادل نہیں بن رہے ہیں اس لئے بارش نہیں ہو رہی۔خاکروب چیخنے لگے، دھوپ نہ ہونے سے صفائی ٹھیک سے نہیں ہو رہی ہے۔مصور چلائے،کائنات کے رنگ مدہم پڑ گئے ہیں،آخر یہ سورج کہاں ہے؟سب مل کر چیخنے لگے۔سورج نے آرام سے جواب دیا:”تم جیسے ناشکروں کے لئے مجھے ایسا کرنا پڑا۔میری ہی روشنی سے چاند بھی روشن ہوتا ہے۔چوبیس گھنٹے کام میں کروں اور بدنام بھی ہوں۔کوئی تعریف کا ایک جملہ بھی سننے کو نہیں ملتا۔اب میں یہاں نہیں آؤں گا۔“یہ سنتے ہی سب لوگوں میں بے چینی پھیل گئی اور سب لوگ پریشان ہو گئے،تب سورج نے کہا:”یہ سارا کچرا،یہ گندگی،یہ ماحولیاتی آلودگی تم سب کی پھیلائی ہوئی ہے۔تم لوگوں نے اس زمین کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔اس کی تباہی کے ذمے دار تم لوگ ہو۔جب تک تم لوگ اس کو ٹھیک نہیں کرو گے،میں بھی اپنی حرارت نہیں دوں گا۔جب تم لوگ معاملات درست کر لو،زمین کو صاف ستھرا کر لو تو مجھے بتا دینا۔“سبھی کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔سب نے صفائی کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔کافی محنت اور مشقت کے بعد صفائی ستھرائی مکمل ہوئی۔ سورج نے جب جھانک کر دیکھا تو اس کو بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا،کہ یہ وہی شہر ہے۔لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا،”شکر ہے سورج نے اپنی شکل تو دکھائی“سب لوگ خوشی سے سرشار تھے۔زندگی پھر سے رواں دواں ہو گئی۔ " چنچل بکری کا بہادر بیٹا - تحریر نمبر 2212,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chanchal-bakri-ka-bahadur-beta-2212.html,"مکرم نیازایک دریا کے کنارے بنے خوبصورت گھر میں چنچل نامی بکری اور اس کا بیٹا گلفام رہتے تھے۔چنچل اپنے بیٹے کو بے حد پیار کرتی تھی،اگر کسی کام سے اسے باہر جانا پڑے تو بیٹے کو گھر کے اندر مقفل کرکے جاتی۔ایک دن چنچل کو اپنی بیمار خالہ کی مزاج پرسی کے لئے جانا پڑا۔اُس نے گلفام سے کہا،”اپنا خیال رکھنا میں سورج غروب ہونے سے قبل واپس آنے کی کوشش کروں گی،کسی اجنبی کے لئے دروازہ مت کھولنا۔“چنچل کی روانگی کے کچھ دیر بعد ہی ایک بھیڑیا جو کافی دنوں سے اس انتظار میں تھا کہ کب بکری اپنے بچے کو اکیلا چھوڑ کر جائے گی کہ وہ اسے کھائے۔یہ موقعہ آج اُسے مل گیا،”آہا!چنچل تو اپنے موٹے تازے بیٹے کو گھر چھوڑ گئی ہے۔آج رات روسٹ بکرے کے ڈنر کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔(جاری ہے)“بھیڑیے نے اپنی آواز بدل کر دروازے پر دستک دے کر کہا،”میرے پیارے پوتے!دروازہ کھولو!میں تمہارا دادا ہوں،تم سے ملنے آیا ہوں۔“”گلفام نے دروازے کی جھری سے دیکھا تو کہا،ارے یہ تو وہی خوفناک بھیڑیا ہے،جس کے متعلق ماں نے مجھے خبردار کر رکھا ہے۔میں اس کی چال میں نہیں آؤں گا۔“”پیارے دادا جان،مجھے آپ کی آواز سن کر بہت خوشی ہوئی،میں آپ کے ساتھ بات کرنا،کھیلنا چاہتا ہوں۔لیکن پچھلا دروازہ تو باہر سے مقفل ہے اور سامنے والے دروازے کی چٹخنی کافی اوپر لگی ہوئی ہے“۔گلفام نے کہا”ٹھیک ہے بیٹا،میں دھکا دے کر کھولنے کی کوشش کرتا ہوں“بھیڑیے نے کہا۔”دادا جان،یہ دروازہ بہت مضبوط ہے اور آپ جیسے بزرگ سے کھلنا مشکل ہے۔آپ کسی لوہار سے لوہے کی کوئی سلاخ مجھے لا کر دیں تو میں اندر والی چٹخنی کھول دوں گا۔“گلفام نے بڑی ہوشیاری سے کہا۔بیوقوف بچہ کہیں کا،اسے اپنا نوالہ بنانے کے لئے مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا۔بھیڑیے نے غصے سے سوچا۔”بہتر ہے بیٹے۔میں بس یوں گیا اور یوں لایا۔انتظار کرو۔“بھیڑیا،لوہار بھالو کے پاس دوڑا دوڑا گیا اور اس سے لوہے کی سلاخ مانگی۔”میں ضرور دوں گا لوہے کی سلاخ۔اگر تم مجھے کھیت سے شہد کا کوئی چھتہ لا کر دو۔“بھالو لوہار نے کہا۔بھیڑیا شہد حاصل کرنے کے لئے کھیت کی طرف بھاگا،جہاں ایک کسان سے اس کی ملاقات ہوئی۔جناب!کیا آپ مجھے شہد کا کوئی چھتہ دینا پسند کریں گے؟کسان نے کہا،”بالکل!کیوں نہیں لیکن بات یہ ہے کہ میں آج بہت تھک گیا ہوں،ذرا میرے کھیتوں میں پانی ڈال دو،کسان نے کہا۔“بھیڑیا کڑی دھوپ میں کام کرنے لگا۔معلوم نہیں تھا کہ کھانے کے لئے اتنی محنت کرنا پڑے گی۔اسی دوران چنچل گھر واپس لوٹ آئی۔”ارے گلفام بیٹے،یہ کیا کر رہے ہو؟“”بھیڑیا میرے پیچھے ہے ماں لیکن میں نے بھی اسے ٹھکانے لگانے کی ایک نادر ترکیب سوچ رکھی ہے۔“گلفام نے اپنے منصوبے سے ماں کو واقف کیا،”واہ بہت خوب میرے ہوشیار بیٹے۔“میں گڑھا کھودنے میں اپنے نوکیلے سینگوں سے تمہاری مدد کروں گی۔ادھر کھیت پر۔۔۔”یہ لو شہد کا چھتہ،اب تم کام ختم کرکے جا سکتے ہو۔“کسان نے کہا۔”شکر ہے۔میں تو سمجھا تھا کہ یہ مجھ سے سارا دن مسلسل کام لے گا۔“بھیڑیے نے سوچا اور چھتہ لے کر بھاگتا ہوا لوہار کو شہد دینے اس کے پاس پہنچا۔لوہار نے شہد لے کر سلاخ دیتے ہوئے کہا،”یہ لو بھائی یہ بہت مضبوط ہے۔؟“وہ سلاخ لے کر فوراً بکری کے گھر آیا۔”میرے پیارے پوتے،میں تمہارے لئے لوہے کی سلاخ لے آیا ہوں،یہ دیکھو یہ رہی“۔”بہت بہت شکریہ دادا جان،آپ یہ مجھے کھڑکی سے دے دیں۔“گلفام نے کہا،”جاؤ ماں جلدی سے اس پردے کے پیچھے چھپ جاؤ۔“پھر گلفام نے جیسے ہی دروازہ کھولا،بھیڑیا ویسے ہی تیزی سے جھپٹا اور۔۔۔آ آ آ ہ ہ ہ ،دھڑاک،وہ دروازے کے سامنے کھُدے گڑھے میں گر گیا،پھر منصوبے کے مطابق چنچل اپنی سینگیں اُٹھا کے دوڑی اور خوب اس کی درگت بنائی۔بھیڑیا چلاتا رہا آ آ آ آ،بچاؤ!بلا آخر جان سے گیا،اسے لالچ کی سزا مل گئی۔چنچل نے اپنے بیٹے سے کہا،گلفام بیٹے،آج تم نے اس بھیڑیے کو اچھا سبق سکھایا ہے۔ہاں ماں،اب آپ کو یقین ہو گیا ہو گا کہ میں بخوبی اپنی حفاظت کر سکتا ہوں۔ " جنگل میں مور ناچا - تحریر نمبر 2211,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jangal-mein-mor-nacha-2211.html,"جنگل میں تمام جانور مل جُل کر رہتے تھے۔جنگل کا بادشاہ شیر بھی اپنی رعایا کا بہت خیال رکھنے والا تھا،ہرن،بارہ سنگھے،لومڑ،بندر اور بن مانس وغیرہ سب مل جُل کر رہتے تھے،اگر جنگل میں کبھی کوئی شکاری آ جاتا تو سب مل کر اس کی کوشش ناکام بنا دیتے،چوہے اس کا جال کتر لیتے،ہاتھی چوکیداری کے فرائض انجام دیتے ہوئے کسی اجنبی یا مشکوک شخص کو جنگل میں داخل ہونے ہی نہ دیتے۔ہفتے میں ایک بار جنگل میں ون ڈش پارٹی ہوتی تھی سب جانور اور پرندے مل کر کھانا کھاتے،دیر تک گپ شپ کرتے اگر کسی جانور کی سالگرہ ہوتی تو سب بندر سے ڈانس کی فرمائش کرتے۔کبوتر اور طوطے گانا گاتے جنگل میں کچھ دنوں سے ایک مور آ کر رہنے لگا تھا اس کے پَر بہت خوبصورت تھے،چال بھی نرالی تھی،اسے احساس تھا کہ اس کے پاؤں بدصورت ہیں اس لئے اس نے ریشم کے جوتے پہنے ہوتے تھے۔(جاری ہے)جنگل کے سب جانور اس سے بے حد متاثر تھے۔اس سے دوستی کرنا چاہتے تھے لیکن وہ کسی کو لفٹ نہیں کرواتا تھا اپنے آپ میں ہی مگن رہتا تھا۔اس نے جنگل کے ایک گوشے میں اپنا گھر بنا لیا تھا جہاں دن بھر وہ اکیلا ناچتا اور گاتا رہتا تھا۔ایک دن جانوروں نے اس کو ہفتہ وار ون ڈش کی دعوت دی جو بھی جانور یا پرندہ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ بُرا سا منہ بنا لیتا۔آخر سب سمجھ گئے کہ یہ دوستی نہیں کرنا چاہتا۔مور اکیلا شام کو سیر کرنے کے لئے نکلتا تھا۔ایک دن جنگل کے بادشاہ نے سب جانوروں کی دعوت کی تو مور کو بھی آنا پڑا لیکن اس نے کسی سے کوئی بات نہ کی۔بادشاہ کی بات کا مختصر جواب دے کر خاموش ہو گیا دن گزرتے گئے ایک دن بندر نے جانوروں کو متوجہ کیا کہ کئی دن گزر گئے مور نظر نہیں آ رہا۔بلی نے تجویز دی کہ بے شک وہ مغرور اور بد مزاج ہے پھر بھی ہمارا فرض ہے کہ جا کر معلوم کریں کہ اس کو کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔تمام جانوروں نے اس کی تجویز سے اتفاق کیا پھر بلی،ہرن اور بندر مل کر مور کے گھر گئے تو وہ شدید بیمار تھا اس کے خوبصورت پَر مُرجھائے ہوئے تھے۔بندر نے اس کے منہ میں پانی ڈالا تو اس کی آنکھیں کھلیں اتنے میں طوطے اور کبوتر بھی آ گئے لومڑی جو تھوڑا بہت ڈاکٹری جانتی تھی اس نے کہا کہ اس کو میرے گھر لے آئیں میں اسے دوا بنا کر دوں گی۔لومڑی نے جڑی بوٹیوں سے دوا تیار کی اور مور کو پلائی کئی دن تک سب جانوروں نے مور کی تیمارداری کی آہستہ آہستہ مور ٹھیک ہو گیا اب وہ اپنے روئیے پہ بے حد شرمندہ تھا۔اس نے سب جانوروں سے معافی مانگی۔پیارے بچو!آپ نے دیکھا مل جُل کر رہنے سے کتنے فوائد ہیں اور غرور کرنے والے کو ضرور سزا ملتی ہے اب مور سب کا دوست بن گیا ہے وہ ہر ایک کے کام آتا ہے جب مانو بلی کی سالگرہ ہوئی تو مور نے سب کو ناچ کر دکھایا سب بہت خوش ہوئے اور نعرے لگانے لگے کہ جنگل میں مور ناچا سب نے دیکھا سب نے دیکھا․․․․!لہٰذا بچوں یہ کہانی ہمیں اتفاق میں برکت کا سبق دیتی ہے۔ " جیت گیا انسان - تحریر نمبر 2210,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jeet-giya-insaan-2210.html,"جمال رومیبارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا۔اس وقت شام کے چار بجے تھے۔عابد چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے کھڑکی سے بارش کا نظارہ کر رہا تھا۔”عابد بیٹا!“امی کی آواز سن کر عابد ان کی جانب متوجہ ہو گیا۔”جی امی؟“عابد نے سوالیہ نظروں سے امی کی طرف دیکھا۔”بیٹا مجھے جلدی سے آدھا کلو دہی لا دو۔“امی نے کہا اور عابد کے ہاتھ میں سو روپے کا نوٹ تھما دیا۔عابد نے عجلت میں چائے ختم کی اور دہی لینے کے لئے گھر سے باہر چلا گیا۔عابد بارہ سال کا ایک دُبلا پتلا،لیکن ہونہار لڑکا تھا۔وہ مطالعے کا بے حد شوقین تھا۔کم عمری میں اس نے کئی کتابوں کا مطالعہ کر رکھا تھا۔دودھ دہی کی دکان عابد کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی۔(جاری ہے)عابد جلد ہی مرکزی سڑک پر پہنچ گیا۔”مجید انکل!آدھا کلو دہی دیجیے گا۔“عابد چہرے سے بارش کا پانی صاف کرتے ہوئے دکان دار سے بولا۔”اچھا بیٹا!ابھی دیتا ہوں۔“انھوں نے جواب دیا اور دہی نکالنے میں مصروف ہو گئے۔دکان پر لوگ معمول سے بہت کم تھے۔مجید بھائی ایک ادھیڑ عمر کے شریف اور ایمان دار انسان تھے۔ پچھلے کئی برس سے عابد کے محلے میں ان کی دودھ دہی کی دکان تھی۔عابد نے گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے دہی کی تھیلی اور بقایا پیسے امی کے حوالے کیے۔”یہ کیا ہے عابد؟“امی چونک کر بولیں۔عابد نے دیکھا امی حیرت سے کبھی دہی کی تھیلی کی طرف دیکھتیں اور کبھی پیسوں کی طرف۔”کیا ہوا امی؟“عابد نے کہا:”آپ نے دہی لانے کے لئے ہی تو کہا تھا۔“”ہاں بیٹا!لیکن میں نے صرف سو روپے کا نوٹ دیا تھا۔“امی نے سرخ نوٹوں کو گنتے ہوئے کہا۔امی زیرِ لب بڑبڑائیں:”اسی روپے کا دہی،بیس روپے واپس آنے چاہئے تھے،یہ چار سو بیس روپے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجید بھائی نے پورے چار سو روپے اضافی دے دیے۔شاید یہ سمجھ کر کہ تم نے انھیں پانچ سو روپے کا نوٹ دیا ہے۔“پھر احسان سے کہا:”فوراً جاؤ اور یہ رقم ان کو واپس کرو۔“امی نے چار سرخ نوٹ عابد کی طرف بڑھائے۔”امی!آپ یاد کریں،آپ نے پانچ سو روپے کا نوٹ دیا ہو گا۔“عابد بولا۔عابد کو خود بھی یاد نہیں تھا کہ نوٹ سو کا تھا یا پانچ سو کا۔وہ امی کا دیا ہوا نوٹ مٹھی میں دبا کر سیدھا دکان پر پہنچ گیا تھا۔”نہیں،مجھے اچھی طرح یاد ہے،میں نے سو روپے کا نوٹ ہی دیا تھا۔“امی نے یقینی انداز میں کہا۔”اچھا امی!بعد میں چلا جاؤں گا،بارش تیز ہو گئی ہے۔“عابد نے بہانہ بنایا۔اس وقت اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ دوبارہ باہر جائے۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اتنے اچھے موسم میں کہانیوں کی کوئی مزیدار کتاب پڑھے۔”نہیں،بہت دور نہیں ہے دکان،ابھی جاؤ۔“امی بولیں اور عابد کو چارونا چار گھر سے باہر جانا ہی پڑا۔دکان پر گتے کا ایک ٹکڑا لگا ہوا تھا:”’وقفہ برائے نماز“۔”اوہ نماز کا وقت ہے۔کل دے دوں گا۔“عابد نے سوچا اور گھر لوٹ آیا۔امی کھانا بنانے میں مصروف تھیں اس لئے انھوں نے عابد سے دوبارہ نہیں پوچھا۔اسکول میں عابد کا اگلا دن بہت اچھا گزرا۔چار سو روپے عابد کی جیب میں پڑے تھے۔اس نے یہ سوچ کر پیسے اپنے پاس رکھ لیے تھے کہ اسکول کی چھٹی کے بعد واپس کر دے گا۔چھٹی کے وقت عابد نے گزشتہ روز والے واقعے کا تذکرہ اپنے دوست ظہیر سے کیا۔”ارے یار،تو کیا ہوا۔“ظہیر نے عابد کے شانے پر ہاتھ مار کر کہا:”مزے کرو چار سو روپے تمہارے ہو گئے۔“”کیا مطلب؟“عابد نے پلکیں جھپکائیں:”یہ پیسے میرے کیسے ہو گئے؟“”ارے بھئی تم نے پیسے چوری تھوڑی کیے ہیں۔“ظہیر نے دلیل دی:”یہ پیسے تمہارے نصیب کے ہیں،تمہاری قسمت میں تھے،اس لئے تمہیں مل گئے،بات ختم۔“ظہیر کی بات سن کر عابد زیر لب بڑبڑایا:”یہ ٹھیک نہیں ہے،یہ ٹھیک نہیں ہے۔“”ٹھیک نہیں ہے۔“ظہیر نے سوالیہ انداز میں عابد کی بات دہرائی:”تو پھر جاؤ،دکان دار کو یہ پیسے واپس کر دو۔“ظہیر نے لاپروائی کے سے انداز میں کندھے اُچکائے اور آگے بڑھ گیا۔عابد سر جھکائے بوجھل قدموں سے گھر کی جانب چل پڑا۔اس کا ذہن سوچوں میں گم تھا۔ظہیر کی بات نے اس کے دل میں ایک عجیب سی ہلچل پیدا کر دی تھی۔اس نے سوچا کہ کیا عابد واقعی ٹھیک کہہ رہا تھا؟وہ بھی تو کتابیں پڑھتا ہے،وہ غلط کیوں کہے گا،یہ پیسے میں نے چوری نہیں کیے،یہ میری قسمت میں تھے،اس لئے مجھے مل گئے۔عابد ایک ایماندار لڑکا تھا۔اس نے سوچا:”لیکن اس طرح مجید بھائی کا نقصان ہو گا۔“وہ جتنا زیادہ سوچ رہا تھا اتنا ہی اُلجھتا جا رہا تھا۔اس کے اندر کا اچھا انسان اسے مسلسل ٹوک رہا تھا کہ ایسا کرنا ہر گز ٹھیک نہیں ہے،لیکن دوسری طرف ظہیر نے جو بات اس کے دماغ میں ڈال دی تھی وہ بات بھی اس کو بے چین کر رہی تھی۔منفی خیالات سے اس کا ذہن بھرتا جا رہا تھا کہ اس میں میری کیا غلطی ہے،مجید بھائی کو دھیان رکھنا چاہئے تھا۔اگر میں انھیں غلطی سے زیادہ پیسے دے دیتا تو کیا وہ مجھے میرے پیسے واپس کرتے!پھر اسے یاد آیا کہ ایک دن دودھ لینے کے بعد وہ بقایا پیسے لینا بھول گیا تھا تو اگلے دن مجید بھائی نے آواز دے کر اسے بلایا تھا اور پیسے واپس کیے تھے۔عابد نے اپنے ذہن سے تمام خیالات جھٹکتے ہوئے فیصلہ کر لیا کہ یہ پیسے اب میرے ہیں اور میں انھیں اپنی مرضی سے استعمال کروں گا،اپنی پسند کی چیز خریدوں گا۔اس کے ذہن میں کہانیوں کی وہ کتاب آئی جو اس نے احمد بھائی کی دکان پر دیکھی تھی،لیکن اس وقت خرید نہیں پایا تھا۔اب اس کتاب کو خریدنے کا ارادہ تھا۔پھر اس نے سوچا کہ کتاب تو ابو بھی لا دیں گے۔میں ان پیسوں سے مزے مزے کی چاکلیٹس خریدوں گا۔عابد کا اسکول اس کے گھر سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔وہ اسکول پیدل ہی آتا جاتا تھا۔جب وہ مجید بھائی کی دکان کے سامنے پہنچا تو ایک لمحے کے لئے اس کے قدم لڑکھڑائے اور وہ ٹھہر گیا۔اس کے اندر سے کوئی کہہ رہا تھا کہ تمہیں پیسے انھیں واپس کر دینے چاہئیں۔وہ کشمکش کا شکار تھا۔دکان پر بھیڑ معمول سے کچھ زیادہ ہی تھی۔مجید بھائی تندہی سے اپنا کام سر انجام دے رہے تھے۔ان کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح مسکراہٹ تھی۔انھوں نے لمحہ بھر کے لئے سر اُٹھایا۔ایک سرسری نظر عابد پر ڈالی اور پھر گاہکوں کو سامان دینے میں مصروف ہو گئے۔عابد تیز قدم اُٹھاتا ہوا گھر کی جانب چل دیا۔وہ مکمل طور پر شیطان کے بہکاوے میں آچکا تھا۔عابد رات کو سونے کے لئے بستر پر لیٹا تو ایک بار پھر اس کا ذہن ان پیسوں کی طرف چلا گیا۔اس کی سوچیں منتشر تھیں۔نیند اس سے کوسوں دور تھی۔عابد کروٹیں بدلتا رہا۔نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی،تب اسے خواب میں ایک کمرا دکھائی دیا جس میں سفید روشنی تھی۔پھر اسے ایک دھیمی سی مردانہ آواز سنائی دی۔کوئی اُس سے کہہ رہا تھا:”عابد!ایمان دار بنو․․․․نیک بنو․․․․ایمان داری کو کبھی مت چھوڑو․․․․․ایمان داری پر بے ایمانی کو غالب نہیں آنے دو“یہ مہربان آواز عابد نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔جیسے وہ اُس کا کوئی بہت ہی قریبی ہو۔”عابد!کیا تمہیں پہلی جماعت سے سچ بولنا نہیں سکھایا گیا؟کیا تمہارے والدین نے تمہیں بچپن سے ایمان داری کی تلقین نہیں کی؟شیطان کے بہکاوے میں مت آؤ!“عابد نے بولنے کی لاکھ کوشش کی،لیکن اس کی آواز اس کے گلے میں ہی دب گئی۔وہ بول نہیں پا رہا تھا۔وہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ بے ایمان نہیں ہے۔وہ تو ظہیر کی باتوں میں آ گیا تھا۔بہک گیا تھا۔عابد کی آنکھ کھلی تو اسے دیر تک اس مہربان آواز اور ان نصیحتوں کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔اس کے ذہن سے تمام بُرے خیالات یکسر محو ہو چکے تھے۔اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ وہ صبح ہوتے ہی مجید انکل کے پیسے واپس کر دے گا۔عابد خود کو بہت تروتازہ محسوس کر رہا تھا۔اُس کے دل سے بوجھ ہٹ چکا تھا۔صبح سات بجے عابد باہر جانے کے لئے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔عابد دکان پر پہنچا تو مجید بھائی چڑیوں کے لئے لٹکائے ہوئے برتنوں میں دانہ پانی ڈال رہے تھے۔”مجید انکل!یہ آپ کی امانت میرے پاس رہ گئی تھی۔“عابد مٹھی میں دبائے ہوئے نوٹوں کو مجید انکل کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔”پرسوں دہی لینے آیا تھا،اس وقت آپ نے غلطی سے اضافی پیسے واپس کر دیے تھے۔“”عابد میاں تمہارا بہت شکریہ!“مجید انکل نے عابد کے ہاتھ سے پیسے لیتے ہوئے کہا:”تمہارے جانے کے بعد مجھے احساس ہو گیا تھا کہ میں نے تمہیں اضافی پیسے دے دیے ہیں،میں نے مانگنا مناسب نہیں سمجھا،سوچا تمہیں یاد آ جائے گا تو خود ہی دے جاؤ گے۔“مجید انکل کی دکان سے واپسی پر عابد دلی اطمینان محسوس کر رہا تھا۔اسے خوشی تھی کہ اُس کے اندر کے اچھے انسان کی جیت ہو گئی ہے۔نیکی اور بدی کے انتخاب کی کشمکش میں عابد نے نیکی کا انتخاب کر لیا تھا۔ " کسی کا دل نہ توڑیں - تحریر نمبر 2209,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kisi-ka-dil-na-torain-2209.html,"عطرت بتولسب بچے خوشی سے اُچھلنے لگے کیونکہ بچوں نے دیکھ لیا تھا کہ مون ماموں اور کامی ماموں گاڑی سے اُتر رہے ہیں،اور ان کے ہاتھوں میں ایک بڑا سا پنجرہ نما ڈبہ ہے جس میں چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے چوزے ہیں جب وہ اندر آئے تو انہوں نے کہا ہم ہر بچے کے لئے دو دو چوزے لائے ہیں بولو منظور ․․․؟؟منظور ہے منظور ہے․․․․!سب بچے ایک آواز میں بولے۔اب کامی ماموں نے بچوں کو سمجھایا کہ اپنے چوزوں کو ٹائم پر دانہ اور پانی دینا ہے،یہ بے چارے بول نہیں سکتے کہ ہمیں بھوک یا پیاس لگی ہے،اس لئے ان ننھے منے چوزوں کا خیال آپ کو بہت رکھنا پڑے گا۔بچوں نے وعدہ کیا کہ وہ چوزوں کا بہت خیال رکھیں گے اور انہیں تنگ نہیں کریں گے۔اب چوزے سارا دن چوں چوں کرتے گھر میں بھاگے پھرتے تھے،بچوں نے چھوٹے چھوٹے برتن رکھ لیے تھے جن میں انہیں دانہ اور پانی ڈالا کرتے تھے جب چوزے دانہ کھاتے تھے تو بچے انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔(جاری ہے)دانیال کی کوشش ہوتی تھی کہ چوزے برگر بھی کھائیں اور پیپسی بھی پئیں لیکن وہ اپنی پسند کی چیزیں زیادہ کھاتے تھے سب سے دلچسپ وہ منظر ہوتا تھا جب کوئی چوزہ کیڑہ مکوڑہ منہ میں پکڑ کر تیزی سے بھاگتا تھا اور دوسرا اُسی تیزی سے اس کی طرف بھاگتا تھا کہ مجھے بھی دو․․․․ایلیا سب بچوں میں بڑی تھی اسے ایک ترکیب سوجھی اس نے ایک بڑے کپڑے دھونے والے ٹب میں پانی بھر کر اس میں نیل ملا دیا اور سب چوزوں کو پکڑ کر اس میں چھوڑ دیا۔اب چوزے ڈبکیاں لگا رہے تھے اور ٹھنڈے پانی سے خوش تھے جب باہر نکلے تو سفید چوزے ہلکے ہلکے نیلے ہو کر بڑے پیارے لگ رہے تھے۔ ایک دن شان ماموں نے آ کر بتایا کہ ایک موٹی سی بلی خطرناک ارادوں کے ساتھ چوزوں کے ڈبے کے اردگرد گھوم رہی ہے،بچے بڑے پریشان ہوئے اب جب بھی انہیں بلی نظر آتی وہ اسے بھگا دیتے،ان بچوں کے گھر میں ایک ماسی کام کرتی تھی ایک دن اس کا چھوٹا بیٹا بلو اس کے ساتھ آیا وہ بڑی دلچسپی سے بچوں کو چوزوں کے ساتھ کھیلتے دیکھ رہا تھا،وہ بچوں کے پاس گیا اور کہا ایک چوزہ مجھے دے دو میں اسے اپنے گھر لے جاؤں گا اور اسے دانہ پانی کھلاؤں گا کھیلوں گا لیکن سب بچوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم کیوں دیں اپنا چوزہ․․․․․وہ بے چارا مایوس ہو کر چلا گیا۔کومل خالہ نے سمجھایا کہ دے دو ہم تمہیں اور لے دیں گے لیکن بچے نہ مانے۔دوسرے دن سب بچے اپنے دوست کی سالگرہ کی تقریب پر گئے ہوئے تھے جب رات گئے واپس آئے اور ڈبے کے پاس گئے تو دیکھا کہ ایک موٹی سی بلی ڈبے میں بیٹھی ہے اور تمام چوزوں کا صفایا کر چکی ہے۔بچوں کا غم اور غصے سے بُرا حال ہو گیا۔نانو امی نے سب بچوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا بچو․․․․!تم نے ماسی کے بیٹے کا دل توڑا،وہ بھی تو تمہارے جیسا بچہ تھا،اُس کا دل بھی چاہتا تھا کہ وہ چوزوں سے کھیلے اس لئے اس نے تم لوگوں سے ایک چوزہ مانگا تھا جس پر تم لوگوں نے صاف انکار کر دیا۔اللہ کو غریب بہت پیارے ہیں،ہاتھ سے کام کرنے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے اسے حقیر نہیں سمجھنا چاہئے ہمیں اپنی خوشیوں کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد غریب لوگوں کا خیال رکھنا چاہئے تاکہ اللہ ہم سے خوش ہو۔اگر تم ماسی کے غریب بچے کو ایک چوزہ دے دیتے تو شاید تمہارے چوزے بلی نہ کھا سکتی اور اگر کھا بھی لیتی تو تمہیں یہ خوشی ہوتی کہ ایک تو ہم نے غریب بچے کو دے دیا تھا۔اب بچے بہت شرمندہ ہوئے انہوں نے نانو امی سے وعدہ کیا کہ آئندہ غریبوں کا خیال رکھیں گے تاکہ اللہ ہم سے خوش ہو اور کسی سوال کرنے والے کا سوال رد نہ کریں گے۔ " مہنگائی ہو گئی - تحریر نمبر 2208,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehngai-ho-gayi-2208.html,"عاصمہ فرحین”اُٹھ نکمے!دن نکل آیا ہے اور تُو ابھی تک سو رہا ہے۔“بندریا نے اپنے بیٹے ٹنکو کو چپل مارتے ہوئے کہا۔”اماں!صبح ہی صبح کیوں مجھے چپل سے مار رہی ہو۔“ٹنکو بندر درد سے کلبلایا۔”تیری بڑی بہن کی شادی قریب ہے اور تجھے کوئی فکر ہی نہیں ہے۔تیرے ابا اور بڑا بھائی جنگل کام کے لئے گئے ہوئے ہیں۔تجھے بھی ان کی طرح محنتی بننا چاہیے۔“ٹنکو گھاس کے بستر پر کسمسانے لگا تو اماں نے کہا:”جلدی سے منہ دھو کر آ،میں ناشتہ لاتی ہوں۔“ٹنکو ناشتہ کرنے کے دوران پیسے جلدی اور زیادہ جمع کرنے کے منصوبے بنانے لگا۔جلد ہی اس کے ذہن میں ایک منصوبہ آ گیا۔یہ بندروں کا ایک خاندان تھا اور یہ سب بندر جنگل میں رہتے تھے۔(جاری ہے)ٹنکو،اس کے اماں ابا،بڑا بھائی منکو اور بڑی بہن چنکی۔عزت سے زندگی گزارنے کے لئے وہ سب محنت کرتے تھے،سوائے ٹنکو کے۔چنکی کی شادی کی وجہ سے پیسے کمانے ابا اور منکو بڑے جنگل گئے ہوئے تھے۔اماں گھر کے سارے کام کرنے کے بعد شیر،چیتے اور زرافے کی بیگمات کے کپڑے سیتی تھی۔ٹنکو نے گھر کے قریب سبزی کی دکان کھول لی۔چنکی جنگل اسکول میں جانوروں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو پڑھاتی تھی۔ایک دن ٹنکو خوشی خوشی گھر سے باہر نکل آیا اور باہر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے لگا۔اس کے دوست بھی اس کی طرح اپنی اماں کا کہنا نہیں مانتے تھے۔بارہ بج گئے تھے۔چیل نے آ کر اسے خبردار کیا:”ٹنکو!جلدی سے دکان کھولو۔تمہاری اماں چپل لے کر تمہیں ڈھونڈ رہی ہے۔“ٹنکو کو چپل کی پٹائی سے ڈر لگتا تھا۔اسی لئے فوراً دکان کھول لی۔سب سے پہلے خرگوش بھیا آئے:”بھائی!دو کلو گاجریں تول دو۔“”یہ لو!“ٹنکو نے جلدی سے گاجریں تول کر اسے دی اور اصل قیمت سے زیادہ پیسے مانگے۔”مگر یہ تو بہت زیادہ ہیں۔“خرگوش بھیا نے منہ بنایا۔”کیا کروں بھیا!مہنگائی بڑھ رہی ہے۔اگر لینا ہے تو لو،ورنہ کہیں اور جاؤ۔“ٹنکو مکاری سے بولا۔قریب میں کوئی دکان نہیں تھی،س لئے ناچار خرگوش بھیا زیادہ پیسے دے کر گھر پہنچا۔اماں کو سبزی دے کر ابا کے پاس برتنوں کی دکان پر پہنچا اور سارا ماجرا ابا خرگوش کو بتایا۔”ٹھیک ہے اب تم بھی برتن تھوڑے مہنگے دام میں بیچنا،اس طرح ہم بھی زیادہ پیسے کما لیں گے۔“خرگوش کے بعد ہاتھی چاچا ٹنکو کے پاس پہنچے جن کی لوہے اور سریے کی دکان تھی۔انھوں نے گنا مانگا․․․․مہنگا گنا ملنے پر انھوں نے بھی لوہے اور سریے کے دام بڑھا دیے۔بکری اور گائے کو جب ٹنکو سے مہنگی گھاس ملی تو انھوں نے دودھ میں پانی ملانا شروع کر دیا اور پیسے بڑھا دیے۔اسی طرح سب جانور ایک دکان سے دوسری دکان پر جاتے اور مہنگی اشیاء خریدنے کے بعد اپنی چیزوں کے دام بڑھا دیتے۔اماں بندریا بہت خوش تھی،کیونکہ ٹنکو بیٹا اسے روزانہ بہت سے پیسے لا کر دے رہا تھا۔اب اسے ابا بندر اور منکو کا انتظار تھا۔تاکہ وہ جلدی سے اپنی بیٹی کی شادی کی تیاری کر سکے۔کچھ ہی دنوں میں وہ بھی سوٹ کیس میں بہت سارا سامان لے کر آئے تھے۔پھر ابا بندر اور اماں بندریا خریداری کے لئے نکلے۔سب سے پہلے وہ خرگوش برتن والے کے پاس گئے۔برتن کی قیمتیں بڑھ گئیں تھیں۔انھوں نے سوچا کہ برتن بعد میں لیں گے۔پہلے دوسرا سامان لے لیں۔پھر وہ آنٹی لومڑی کے پاس ملبوسات کی خریداری کے لئے گئے۔اماں بندریا نے کپڑے کی قیمت سن کر ریچھ سنار سے پہلے سونے کے زیورات لینے کا ارادہ کیا۔سونے کی قیمت سن کر ان دونوں کو پسینے آ گئے۔اس طرح وہ جنگل کی سب دکانوں پر گئے۔یہاں تک کہ خرگوش کی دکان پر واپس پہنچے۔آخر اماں بندریا سے رہا نہ گیا۔فوراً بولی:”ابھی کچھ دنوں پہلے تک تو سب چیزوں کے دام مناسب تھے۔اب ایسا کیا ہوا کہ ہر چیز مہنگی مل رہی ہے۔خرگوش بھیا ان کی بات سن کر ہنسنے لگے:”لو اماں جی!آپ کو ٹنکو نے نہیں بتایا کہ مہنگائی ہو گئی ہے۔“پھر ان دونوں نے سب سے پوچھا اور معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ سب سے پہلے ٹنکو نے مہنگائی شروع کی تھی۔پھر وہ دونوں میاں بیوی تھوڑی دیر چھپ کر اپنے بیٹے کو بھاؤ تاؤ کرتے ہوئے دیکھتے رہے۔اب اماں بندریا کو معلوم ہوا کہ اتنے سارے نوٹ کس طرح آ رہے ہیں۔آخر اماں بندریا سے رہا نہ گیا۔نوک دار سینڈل سے ٹنکو بندر کو مارنے لگی:”کم بخت!تیری بدعنوانی کی وجہ سے بازار میں ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔“جنگل کے سب جانور یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔آخر ہاتھی اور ریچھ نے ٹنکو کی جان بخشوائی۔ٹنکو اب اپنی حرکت پر شرمندہ ہو گیا تھا۔اس نے اپنے اماں ابا کے ساتھ ساتھ سب جانوروں سے نہ صرف معافی مانگی بلکہ کہا کہ وہ آئندہ محنت کرکے کمائے گا۔ادھر جنگل کا بادشاہ شیر بھی بازار کا دورہ کرنے آ گیا۔اس نے ریچھ کو ہدایت کی کہ ہر چیز کے نرخ مقرر کیے جائیں اور عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا دی جائے۔کچھ ہی دنوں بعد اماں بندریا اور ابا بندر نے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے نہ صرف دل کھول کر خریداری کی،بلکہ شادی پر پورے جنگل کو شادی کی دعوت دی۔چنکی کی شادی پر سب جانوروں نے مزیدار دعوت اُڑائی اور برسوں تک یہ شادی یادگار رہی۔ " کریم صاحب کا گھر - تحریر نمبر 2207,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kareem-sahab-ka-ghar-2207.html,"انوار آس محمدکریم صاحب بہت نیک انسان تھے۔ملازمت سے ریٹارمنٹ کے بعد وہ ایک چھوٹے سے گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔گھر میں محلے کے بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے۔گھر دو منزلہ تھا اوپر کی منزل کو وہ کرائے پر دیتے تھے جس کے کرائے سے ان کا گزارہ ہوتا تھا۔آج کل کریم صاحب پریشان تھے انھوں نے اپنا گھر نادر شاہ نامی ایک شخص کو کرائے پر دے دیا تھا۔وہ اچھا آدمی نہیں تھا،وہ بہت بدمزاج اور لڑاکا تھا۔اب نادر نے کریم صاحب کو بھی تنگ کرنا شروع کر دیا تھا،تاکہ وہ کریم صاحب کا گھر کسی نہ کسی طرح حاصل کر لے۔کریم صاحب نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا،لیکن کوئی بھی ان کی مدد نہ کر سکا۔اصل بات یہ تھی کہ کوئی بھی نادر شاہ سے دشمنی مول لینا نہیں چاہتا تھا۔(جاری ہے)کریم صاحب پولیس کے پاس جانے سے گھبراتے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ معاملہ کسی طرح حل ہو جائے،لیکن ایسا نہ ہوا۔نادر نے ایک دن کریم صاحب سے کہا کہ وہ ان کا گھر خریدنا چاہتا ہے اور بیس لاکھ روپے دے گا۔”لیکن میرا گھر تو چالیس لاکھ سے اوپر کا ہے۔“کریم صاحب نے کہا۔”مولوی صاحب!آپ کا خیال کرتے ہوئے اتنی رقم دے رہا ہوں،ورنہ میرے پاس دوسرے راستے بھی ہیں۔“نادر نے سمجھانے والے انداز میں دھمکی دی۔وہ شریف انسان تھے کچھ نہ بولے۔نادر نے انھیں سوچنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا۔مجبوراً کریم صاحب ایک رشتے دار کے ساتھ علاقے کے تھانے چلے گئے،لیکن علاقے کا ایس ایچ او بھی شاید نادر شاہ کا دوست تھا،وہ ٹال مٹول سے کام لینے لگا۔کریم صاحب نے ایک وکیل سے بات کی۔وکیل نے بھی یہی کہا کہ مقدمہ کئی سال چل سکتا ہے اور پیسے بھی خرچ ہوں گے۔ان حالات نے کریم صاحب کی پریشانی اور بڑھا دی۔جب بیوی نے کریم صاحب کو پریشان دیکھا تو اُس نے کہا:”آپ پریشان نہ ہوں اور گھر نادر شاہ کو بیچ دیں بیس لاکھ ہم دونوں کے لئے کافی ہیں ہم ویسے بھی بوڑھے ہو چکے ہیں۔اب اس عمر میں لڑائی جھگڑا کرنا یا عدالتوں کے چکر لگانا ہمارے بس کی بات نہیں،آپ نادر شاہ کی بات مان لیں۔“کریم صاحب نے نادر کو گھر فروخت کرنے کی حامی بھر لی۔نادر شاہ تو خوشی سے کھل اُٹھا۔نادر شاہ اگلے ہی روز کریم صاحب کے ساتھ رجسٹرار صاحب کے دفتر جا پہنچا۔جوں ہی وہ دفتر میں داخل ہوئے،رجسٹرار صاحب اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے،کیونکہ وہ اپنے استاد کریم صاحب کو پہچان گئے تھے۔”استاد محترم!آپ اپنا گھر کیوں فروخت کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی اتنا سستا؟“سلام کرنے کے بعد رجسٹرار صاحب نے پوچھا۔رجسٹرار اشرف اللہ ایک اچھے افسر تھے۔وہ بھی علاقے کے بدکردار لوگوں کو جانتے تھے۔وہ نادر شاہ کو بھی پہچان چکے تھے۔”آپ ڈریں نہیں،مجھے سب کچھ بتائیے۔“رجسٹرار صاحب نے کہا۔اور پھر کریم صاحب نے انھیں ہر بات سچ سچ بتا دی۔یہ صورتِ حال دیکھ کر نادر شاہ کے ہوش اُڑ گئے۔بس پھر کیا تھا،رجسٹرار نے چپکے سے پولیس کو بلایا اور نادر شاہ کو زبردستی گھر خریدنے اور دھمکیاں دینے کے جرم میں اسی وقت گرفتار کروا دیا۔کریم صاحب کا گھر خالی ہوا،تب جا کر کریم صاحب نے سکون کا سانس لیا۔ " چیل اور کبوتر - تحریر نمبر 2206,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/cheel-aur-kabootar-2206.html,"بچو!یہ اُس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلا رہی تھی اور تاک میں تھی کہ اُڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے۔وہ کبوتر بھی بہت پھرتیلے،ہوشیار اور تیز اُڑان تھے۔جب بھی وہ چیل کسی کبوتر کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک،پھرتیلے اور تیز اُڑان ہیں کوئی اور چال چلنی چاہیے۔کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہو سکیں۔چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔وہ کبوتروں کے پاس گئی۔کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی:”بھائیو!اور بہنو!میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پروں والا پرندہ ہوں۔(جاری ہے)تم بھی آسمان پر اُڑ سکتے ہو۔میں بھی آسمان پر اُڑ سکتی ہوں۔فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔میں طاقتور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں،تم نہیں کر سکتے۔میں بلی پر حملہ کرکے زخمی کر سکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔تم یہ نہیں کر سکتے۔تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں،تاکہ تم ہنسی خوشی،آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور تمہاری اس آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔میں تمہارے لئے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔کبوتر بھائیو!اور کبوتر بہنو!میں ظلم کے خلاف ہوں۔انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔میں چاہتی ہوں کہ تم سب ہر خوف سے آزاد رہ کر اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔میں چاہتی ہوں کہ تمہارے اور میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے،لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔چیل نے کہا کہ جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لو گے اور مجھے ہی حقوق اور پورا اختیار دے دو گے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذمے داری ہو گی۔تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرم رہو گے۔اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہو گی۔چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیار محبت سے کبوتروں کے سامنے ان باتوں کو طرح طرح سے دہراتی۔رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کرکے چیل کو اپنا بادشاہ مان لیا۔اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔چیل نے سب کبوتروں کی آزادی،حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔بچو!پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلا ڈر کر بھاگ گیا۔اس واقعے سے چیل پر کبوتروں کا بھروسہ مزید بڑھ گیا۔چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔اسی طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔کبوتر اب بغیر ڈرے چیل کے پاس چلے جاتے۔وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔ایک دن صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ انداز میں بولی:”بھائیو!اور بہنو!میں تمہاری حکمران ہوں۔تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کر سکتی ہوں؟یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤں،بلکہ یہ میرے سارے شاہی خاندان کا حق ہے۔آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔اُس دن اگر اُس بڑے سے بلے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کر دیتا۔“یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔سارے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے جاتے۔اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ان کی آزادی ختم ہو گئی۔وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے:”ہماری بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا؟اب کیا ہو سکتا ہے؟ " چڑیا کا گھونسلہ - تحریر نمبر 2205,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chirya-ka-ghonsla-2205.html,"بچوں نے دیکھا کہ کمرے کے روشن دان سے ایک چڑیا آئی اور ٹیوب لائٹ پر بیٹھ گئی۔پھر اُڑ کر چلی گئی۔دوپہر تک چار چڑیاں پھر آئیں،آ کر ٹیوب لائٹ پر بیٹھ گئیں۔پھر باہر سے چاروں تنکا چونچ میں رکھ کر لاتیں اور باہر جاتیں۔تین دنوں تک چڑیاں اپنا گھونسلہ بناتی رہیں۔اور بچے اُن کو توڑتے رہے۔چڑیوں کے ذریعے لائے گئے گھاس پھوس اور تنکے بچے اُٹھا اُٹھا کر گھر کے باہر پھینکتے رہے۔کئی دنوں تک بچوں اور چڑیوں کی یہ جنگ جاری رہی۔چڑیاں گھاس پھوس،تنکے،ڈوری،روئی،جو بھی ملتا لا لا کر اپنا گھونسلہ بناتی رہیں۔بچے صبح اُس کو دیکھتے ہی توڑ تاڑ کر پھینک دیتے۔بچوں نے کچھ دن بعد دیکھا کہ چڑیا کا ایک بچہ ٹیوب لائٹ پر بیٹھنے کی کوشش کر رہا ہے۔انھوں نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ ہم اسٹول پر کھڑے ہو کر ٹیوب لائٹ کے اوپری حصے کی طرف بنے ہوئے اس گھونسلے کو بھی توڑ کر باہر پھینک دیں۔(جاری ہے)بچے گھونسلہ توڑ کر پھینکنے کی بات چیت کر ہی رہے تھے کہ اُن کی ماں جو اُدھر سے گزر رہی تھیں انہوں نے سُن لیا اور کہنے لگیں:”بچو!کیا کر رہے ہو؟“بچے بولے:”ماں ماں!دیکھو نا ایک تو چڑیوں نے ہمارے کمرے میں اپنا گھونسلہ بھی بنا لیا ہے اور اوپر سے ایک بچہ بھی ہے جو گندگی پھیلا رہا ہے ہم اُس گھونسلے کو توڑنے کی بات کر رہے ہیں۔“ماں بولی:”نہیں نہیں،بچو!گھونسلہ مت توڑنا،اگر چڑیا تمہارا گھر توڑ دے تو تمہیں کیسا لگے گا؟“بچوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر بولے:”ماں ماں!دیکھو نا انھوں نے ہمارا کمرہ کتنا گندہ کر دیا ہے ہمارے بستر اور بیڈ پر بھی گندگی پھیلا دی ہے۔“ماں نے پیار سے بچوں کو نرمی سے سمجھایا کہ:”دیکھو بچو!جیسے میں تمہاری ماں ہوں،ویسے ہی چڑیاں بھی اپنے بچوں کی ماں ہیں،اگر کوئی تمہیں پریشان کرے گا تو مجھے دُکھ ہو گا اور اگر کوئی تمہاری ماں کو پریشان کرے گا تو کیا تمہیں اچھا لگے گا؟“بچے بولے:”نہیں نہیں ماں!آپ کو اگر کوئی تکلیف دے گا تو ہمیں بہت بُرا لگے گا۔“ماں بولی:”بچو!اسی طرح تم بھی چڑیوں کو مت مارو،ان کا گھونسلہ مت توڑو،وہ تو اپنے بچوں کے بڑا ہونے کا انتظار کر رہی ہیں۔جب ان کے بچے اپنے پروں سے خود اُڑنے کے لائق ہو جائیں گے تو وہ یہاں سے خود بہ خود اُڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔پھر وہ آسمان کی طرف اُڑتے ہوئے تمہیں بہت بھلے لگیں گے۔“بچے بولے:”جی امی جان!اب ہمیں سمجھ میں آ گیا،ہم اب کبھی بھی گھونسلوں کو نہیں توڑیں گے۔“ماں نے خوش ہو کر بچوں کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا:”شاباش!میرے لاڈلو!تم اسی طرح اچھی عادتیں اپنے اندر پیدا کرو۔“چند دنوں بعد چڑیا کے بچے بڑے ہو گئے اور پھر کچھ دن اور گھونسلے میں رہنے کے بعد وہاں سے اُڑ گئے ۔ماں نے یہ دیکھ کر کہا کہ:”دیکھو بچو!چڑیاں اُڑ گئیں۔“ " نیلا طوطا (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2204,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/neela-tota-aakhri-hissa-2204.html,"عطرت بتولآج سر میں درد ہے تو آج یہ ہو گیا آج وہ ہو گیا جب والدین وجہ پوچھتے تو آئیں بائیں شائیں کرتے،والدین پریشان تھے کہ کیا کریں امتحانات نزدیک آ گئے تھے،آخر تنگ آ کر والدین نے پروفیسر صاحب کے پاس جا کر وجہ پوچھنے کا فیصلہ کیا کہ آخر ایک دم یہ لڑکوں کا دل ٹیوشن سے اچانک اُچاٹ کیوں ہو گیا ہے،سب نے باہمی مشورے سے حمزہ اور بلال کے ابو کو نمائندگی کے لئے چُنا اور کہا کہ آپ پروفیسر صاحب سے عزت و احترام کے ساتھ بات کریں وہ جانتے ہوں گے کہ ان کے طالب علموں کے اس رویے کی وجہ کیا ہے،اتوار کے دن صبح چونکہ حمزہ کے ابو کی چھٹی تھی اس لئے وہ پروفیسر صاحب کی طرف گئے۔پروفیسر صاحب نے ان کی بہت خاطر تواضع کی لیکن وہ بہت پریشان لگ رہے تھے ان کا اُترا ہوا چہرہ دیکھ کر حمزہ اور بلال کے ابو اپنی پریشانی بھول گئے۔(جاری ہے)”پروفیسر صاحب آپ کچھ پریشان نظر آ رہے ہیں خیرت تو ہے؟“انہوں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا،بس کیا بتاؤں،میرا ایک بہت نایاب نسل کا نیلا طوطا اُڑ گیا ہے،وہ طوطا بولنے والا تھا میرے بیٹے نے کچھ روز قبل ہی بھیجا تھا۔اصل میں میرے بیٹے اور دو پوتے چھٹیوں میں میرے پاس آ رہے ہیں انہوں نے میرے لئے طوطا بھیجا، میرے پوتوں نے شرارت سے طوطے کو بہت سی باتیں اور لطیفے سکھائے تاکہ میں بور نہ ہوں،اب وہ پیاری پیاری باتیں کرنے والا طوطا اُڑ گیا حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پنجرہ کھلا رہ جائے،بس یہ غلطی مجھ سے ہی ہوئی“پروفیسر صاحب نے تفصیل سے اپنی پریشانی کا تذکرہ کیا، بلال اور حمزہ کے والد کو بھی اتنے نایاب طوطے کے گم ہونے کا بہت افسوس ہوا۔”میرا ارادہ تھا کہ میرے سٹوڈنٹس کے امتحانات ختم ہو جائیں گے تب تک میرے پوتے بھی آ جائیں گے تو میں ایک کھانے کا اہتمام کروں گا جس میں سب کو بلاؤں گا کھانے کے بعد سب طوطے کو بولتا دیکھیں گے،یہ خوبصورت طوطا صرف رات کو چند گھنٹوں کے لئے بولتا تھا اور دن کو زیادہ وقت سوتا تھا۔بہت خوبصورت نیلا،چمکیلا طوطا“ پروفیسر صاحب نے افسردگی سے کہا بلال اور حمزہ کے ابو واپس آ گئے،چلتے ہوئے پروفیسر صاحب نے کہا”میری پریشانی اپنی جگہ لیکن بچوں کو لازمی بھیجا کریں،باقاعدگی سے ان کی پڑھائی کا حرج نہیں ہونا چاہیے آج کل وہ بے قاعدگی سے آتے ہیں یہ اچھی بات نہیں ہے چھٹیاں نہیں ہونی چاہیں“اب حمزہ اور بلال کے ابو نے سب والدین سے کہا کہ لڑکوں کی باتوں میں نہیں آنا اب انہیں سب کو باقاعدگی سے بھیجنا ہے،سب کے والدین نے اتفاق کیا۔اگلے دن حمزہ کے ابو نے کہا کہ سب بچوں کو میرے گھر بھیج دیں۔ان کو میں خود چھوڑ کر آؤں گا،اگلے دن سب والدین نے ایسا ہی کیا،جس لڑکے نے بھی پس و پیش کی اس کے والدین نے کہا تم حمزہ کے گھر جا رہے ہو،سب لڑکے وہیں جا رہے ہیں اگر تم سب کا پروگرام بنا تو حمزہ کے گھر ہی بیٹھ کر پڑھ لینا،سب لڑکے یہ بات سن کر خوشی خوشی اپنے بیگ اُٹھائے حمزہ کے گھر پہنچ گئے،حمزہ بھی خوش تھا کہ سب آ گئے ہیں اب کوئی بہانہ بنا لیں گے،لیکن حمزہ کے ابو نے کہا”تم سب میرے ساتھ چلو میں خود تمہیں پروفیسر صاحب کے گھر چھوڑ کر آتا ہوں،انہوں نے بہت تاکید کی ہے کہ پڑھائی کا حرج نہیں چاہیے“اب لڑکے پس و پیش کرنے ہی والے تھے کہ حمزہ کے ابو نے سختی اور غصے سے کہا”میرے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں چلے گی“ اب جناب حمزہ کے ابو اور سب لڑکے ساتھ ساتھ باہر نکلے،پیدل چلتے ہوئے گلی سے نکل کر اب وہ سڑک پر پہنچنے والے تھے جہاں نزدیک ہی پروفیسر صاحب کی کوٹھی تھی،سردیوں کے دنوں میں آٹھ بجے ہی ایسا لگتا جیسے رات زیادہ ہو گئی ہو،اس روز شاید سٹریٹ بلب خراب تھا،ہلکے ہلکے اندھیرے میں لڑکے آہستہ آہستہ قدموں سے چل رہے تھے جیسے وہ جانا نہ چاہتے ہوں،گلی کے آخر میں برگد کا درخت تھا اس کے پاس سے گزر کر سڑک پر جانا تھا،حمزہ کے ابو تیزی سے مین روڈ پر پہنچ گئے پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو لڑکے برگد کے درخت کے تھوڑا پیچھے کھڑے تھے ان کے چہروں پر خوف کے آثار تھے جیسے وہ آگے بڑھنے سے ڈر رہے ہوں،حمزہ کے ابو کچھ حیران اور پریشان ہو کر پیچھے پلٹے اور لڑکوں کے پاس جا کر پوچھا”کیا بات ہے؟رُک کیوں گئے“لڑکے خاموش تھے اور ان کی نظریں برگد پر جمی ہوئی تھیں،اب حمزہ کے ابو نے اوپر نظر کی گھنا درخت تھا،اچانک پتوں کے سرسرانے کے ساتھ ہی ایک خوفناک سی آواز آئی”میں بھوت ہوں،میں ڈریکولا ہوں تمہیں کچا چپا جاؤں گا ہاہاہا،میں بھوت ہوں“تھوڑی دیر تو حمزہ کے ابو گنگ ہو کر رہ گئے لیکن اچانک ہی ساری بات ان کی سمجھ میں آ گئی،انہوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا سب لڑکے ان کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے اوپر سے مسلسل آوازیں آ رہی تھیں”میں بھوت ہوں میں بھوت ہوں“حمزہ کے ابو نے لڑکوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور آہستگی سے درخت پر چڑھنے لگے۔درخت کی چوٹی پر پہنچ کر جہاں سے آواز آ رہی تھی انہوں نے اندازے سے ہی تیزی سے ہاتھ بڑھایا اور ان کی توقع کے عین مطابق نیلا طوطا ان کے ہاتھ میں آ گیا،ان کی گرفت میں آنے کے باوجود وہ چلا رہا تھا”میں بھوت ہوں میں بھوت ہوں“اب لڑکوں کا خوف دور ہو چکا تھا، کچھ وہ سمجھ چکے تھے اور کچھ حمزہ کے ابو نے انہیں پروفیسر صاحب کے طوطے کی گمشدگی کا بتا دیا۔حمزہ کے ابو نے کہا”میں تم سب کے بہانے اچھی طرح سمجھ گیا ہوں،اس عمر میں جب کہ آپ بڑے ہو رہے ہیں جوان ہونے کو ہیں تو آپ کو شرم آ رہی تھی یہ بتاتے ہوئے کہ آپ کو ڈر لگتا ہے“سب لڑکے گھسیانے ہو گئے کیونکہ اصل وجہ یہ ہی تھی۔حمزہ کے ابو نے پروفیسر صاحب کو ان کا نیلا طوطا دیا تو ان کی خوشی دیدنی تھی اور اب لڑکے بھی بہت خوش تھے ان سب کو اپنی پڑھائی کا فکر تو بہت تھا لیکن بھوت کے خوف سے پروفیسر کی طرف جانے سے گھبرا رہے تھے اور گھر میں بتانے سے شرمندگی محسوس کر رہے تھے اب وہ سب خوش تھے اور والدین مطمئن۔ " نیلا طوطا (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2203,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/neela-tota-pehla-hissa-2203.html,"عطرت بتولامی اس وقت غصے اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں تھیں جسے چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں اور کافی بلند آواز میں حمزہ کو ڈانٹ رہی تھیں”آخر تم کیوں نہیں جاؤ گے ٹیوشن پڑھنے․․․․؟غضب خدا کا سالانہ امتحان اور وہ بھی بورڈ کے ․․․․ اور تم کہہ رہے ہو آج پھر چھٹی کرنی ہے کل بھی نہیں گئے تھے،آخر تمہیں اچانک ہوا کیا؟“امی․․․․!”بتایا تو ہے سر میں درد ہے“حمزہ نے کہا۔”سکول سے آ کر کھانا کھا کر تم نے نیند پوری کی، شام کو اُٹھ کر کھیلے،ٹی وی دیکھا اور اب جب ٹیوشن جانے کا وقت آیا تو تمہارے سر میں درد شروع ہو گیا“امی غصے میں بول رہی تھیں․․․․!امی جان․․․․!”پلیز آج چھٹی کروا دیں“حمزہ نے التجا کرنے والے انداز میں کہا تو امی تھوڑا نرم پڑ گئیں”اچھا پھر جب ٹیوشن کا وقت ختم ہو گا تو اپنے دوست بلال کو فون کرکے پوچھ لینا کہ آج پروفیسر صاحب نے کیا پڑھایا ہے اور اس سے کام لے لینا اب تھوڑا آرام کر لو پھر پڑھنا“۔(جاری ہے)امی․․․․”ٹھیک ہے“حمزہ خوش ہو کر بولا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ٹیوشن کا وقت آٹھ سے دس بجے تک تھا،امی نے سوچا کہ میں حمزہ کے دوست بلال کو خود ہی فون کر لیتی ہوں،بلال کی امی سے بات چیت بھی ہو جائے گی اور بلال سے حمزہ کی بات بھی کروا دوں گی تاکہ وہ ٹیوشن کا کام پوچھ لے،جب امی نے بلال کی امی سے حال احوال پوچھنے کے بعد کہا کہ بلال کی حمزہ سے بات کروا دیں وہ پڑھائی کے سلسلے میں بات کر لیں تو بلال کی امی نے بتایا کہ بلال آج ٹیوشن نہیں کیا،”کیوں․․․․؟“امی نے پوچھا تو بلال کی امی نے کہا”کہہ رہا تھا سر میں درد ہے،طبیعت ٹھیک نہیں ہے بہت ضد کر رہا تھا کہ آج نہیں جانا اس لئے میں نے مجبوراً چھٹی کروا دی“اچھا․․․․امی نے کہا”یہ ہی مجھے حمزہ نے کہا تھا“اصل میں بلال،حمزہ اور محلے کے کچھ اور لڑکے پروفیسر صاحب کے پاس ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے۔یہ سب لڑکے آٹھویں جماعت میں تھے اور ان کے اب بورڈ کے امتحانات ہونا تھے۔اس لئے سب والدین ان کی پڑھائی کے سلسلے میں حساس تھے،سکول کے بعد لڑکے گھر آ کر آرام سے بیٹھ کر پڑھتے نہیں تھے کبھی کرکٹ تو کبھی فٹ بال کھیلتے تھے کبھی ٹی وی کے سامنے سے اُٹھنے کا نام نہ لیتے تھے۔اس لئے ان سب سات آٹھ دوستوں کے گروپ کو ان کے والدین نے باہمی مشورے سے ایک اکیڈمی میں داخلہ دلوا دیا تھا لیکن ایک تو اکیڈمی گھر سے کافی دور تھی،دوسرا اس کی پڑھائی سے والدین مطمئن نہیں تھے،اور موقعے کی تلاش میں تھے کہ اس اکیڈمی سے جان چھرائیں۔خوش قسمتی سے محلے کی وہ خوبصورت اور عالی شان کوٹھی جو عرصہ دراز سے برائے فروخت کا اشتہار ماتھے پر سجائے تھی اچانک ہی بک گئی،اسے ایک بہت لائق فائق ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیز سے پڑھنے اور پڑھانے والے پروفیسر صاحب نے خرید لیا تھا وہ جلد ہی اس میں شفٹ بھی ہو گئے،پروفیسر صاحب کی بیگم وفات پا چکی تھیں اور بیٹے بیرون ملک رہائش پذیر تھے،یوں پروفیسر صاحب اپنے درینہ ملازم شیرا بابا کے ساتھ اس کوٹھی میں رہنے لگے۔پروفیسر صاحب انتہائی باذوق انسان تھے،ان کے گھر میں طرح طرح کے پرندے تھے،گھر کے پچھلے لان میں انہوں نے بہت خوشنما پنجرے بنوا رکھے تھے جن میں رنگین چڑیاں،کئی رنگ و نسل کے طوطے،خوبصورت مور وغیرہ تھے،وہ بتاتے تھے کہ ان کے پاس کئی نایاب نسلوں کے پرندے ہیں۔پروفیسر صاحب کی لائبریری بھی شاندار تھی اور ان کا ڈرائنگ روم الواع و اقسام کے نوادرات کی سجاوٹ کی وجہ سے دیدنی تھا،ان سب باتوں کے علاوہ پروفیسر صاحب بذات خود نہایت بااخلاق،ملنسار اور اچھی طبیعت کے مالک تھے جس وجہ سے تمام محلے والے ان کے گرویدہ ہو گئے تھے۔جب انہیں لڑکوں کے والدین کی پریشانی کا علم ہوا تو انہوں نے لڑکوں کو پڑھانے کی پیش کش کی جسے والدین نے بہت خوشی سے قبول کیا اور پھر سب لڑکے حمزہ،بلال سمیت ان کے پاس جانے لگے،وہ بہت محنت سے پڑھاتے تھے اور بہت نرمی اور پیار سے ہر بات سمجھاتے کہ آسانی سے سمجھ آ جاتی تھی۔سکول میں بھی ان کی کارکردگی اچھی ہو گئی والدین بھی خوش تھے اور لڑکے بھی ٹیوشن کے وقت خوشی خوشی مل کر پڑھنے جاتے تھے لیکن اب اچانک کیا ہوا کہ سب لڑکے حیلے بہانے بنا رہے تھے آج چھٹی کروا دیں۔(جاری ہے) " کھانا چور - تحریر نمبر 2202,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khana-chor-2202.html,"عائشہ اطہردانی کو مطالعے کا نیا نیا شوق ہوا تھا اور وہ بھی جاسوسی کہانیوں کا۔دن بھر جاسوسی کہانیاں پڑھتے پڑھتے وہ خود کو بھی کسی جاسوسی کہانی کا حصہ لگنے لگا تھا۔ان کی پُرتجسس نگاہیں مسلسل کسی مشن کی تلاش میں رہتی تھیں اور ہر شخص اسے چلتا پھرتا کیس نظر آتا تھا۔اسکول میں اسپورٹس ڈے کی تیاریوں کی وجہ سے بچوں کا صبح کا وقت گراؤنڈ میں گزرتا تھا۔کلاس میں داخل ہوتے وقت بچوں کی تھکن اور بھوک کا عالم ہی اور ہوتا تھا اور لنچ بریک کا انتظار مشکل ہوتا تھا۔گھنٹی بجتے ہی بچوں نے اپنے اپنے کھانے کے ڈبے اُٹھائے اور باہر جانے لگے۔”ارے میرے ٹفن سے کھانا کہاں غائب ہو گیا؟“جعفر کی آواز آئی۔”کیا مطلب؟“عمر نے پوچھا۔(جاری ہے)”مطلب یہ کہ میرا کھانے کا ڈبا خالی ہے۔میں نے خود امی کو اس میں لنچ رکھتے ہوئے دیکھا تھا۔“اس نے مس فرزانہ سے شکایت کی۔”بچو!اگر آپ میں سے کسی نے جعفر کا کھانا لیا ہے تو بتا دے،ورنہ ہم تلاشی لیں گے۔“مس فرزانہ نے خبردار کیا۔”نہیں مس!ہم نے نہیں لیا۔آپ تلاشی لے سکتی ہیں۔“بچوں نے خاصا بُرا مان کر کہا۔مس فرزانہ نے تمام بچوں کا لنچ چیک کیا،مگر وہ کہیں ہوتا تو ملتا۔”بیٹا!آپ مجھ سے پیسے لے لیں اور کینٹین سے کچھ لے لیں۔“مس فرزانہ نے پیشکش کی،لیکن جعفر نے صاف انکار کر دیا۔دانی نے جعفر کو اپنا آدھا حصہ دے دیا۔دوسرے دن حسن نے کھانا چوری ہونے کی شکایت کی۔”کون ہو سکتا ہے؟آخر کون ہو سکتا ہے؟“دانی سوچ میں پڑ گیا۔اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔یہ امر چپڑاسی بھی تو ہو سکتا ہے۔ وہ سارے وقت کوریڈور میں گھومتا رہتا ہے۔اوہ مجھے پہلے یہ خیال کیوں نہیں آیا؟یہ تو سامنے کی بات ہے۔“دانی پرنسپل کے دفتر میں گیا اور کہا:”مس!آپ کو پتا ہے کہ ہماری کلاس سے روز لنچ چوری ہو رہے ہیں اور مجھے پتا ہے وہ امر چپڑاسی ہے جو یہ حرکت کر رہا ہے۔اس کی ڈیوٹی ہمارے کوریڈور میں ہی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔“دانی نے پُریقین لہجے میں کہا۔مس عادلہ کے چہرے کے تاثرات بدل رہے تھے۔وہ بولیں:”امر ہمارا بیس سال پُرانا ملازم ہے اور آپ کے والد کی عمر کا ہے۔کیا وہ بچوں کا کھانا چوری کرے گا؟آئندہ آپ نے بغیر تحقیق کسی پر الزام لگایا تو آپ سے بازپرس ہو گی۔اب جا سکتے ہیں۔“مس عادلہ نے اچھی خاصی ڈانٹ پلا دی۔دانی شرمندہ ہو کر نہایت بوجھل دل کے ساتھ کلاس میں داخل ہوا اور اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔دانی نے محسوس کیا کہ کھیل کے دوران عمران عموماً واش روم جاتا تھا۔ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ فزکس کے سر واجد نے دانی سے اس کے ہوم ورک کا پوچھا۔”سر!میں کل ہوم ورک کرنا بھول گیا تھا۔“دانی نے سر کھجایا۔”دانی!آپ اسپورٹس میں نہیں جائیں گے،بلکہ لائبریری میں بیٹھ کر اپنا کام مکمل کریں گے۔“سر واجد نے دانی کو ہدایت کی۔دانی کی تو من کی مُراد بَر آئی۔لائبریری سے وہ مسلسل عمران کی نگرانی کر سکتا تھا۔جیسے ہی عمران نے واش روم کے بہانے کلاس کی طرف قدم بڑھائے دانی نے بھی فوراً کلاس کا رُخ کیا اور دیکھا کہ عمران اسد کے بستے میں سے لنچ نکال کر کھا رہا ہے۔دانی سوچتا جا رہا تھا کہ کیا کرے پھر اس نے مس فرزانہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔”مس!مجھے پتا ہے کہ وہ کون ہے جو لنچ کھا رہا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے رنگے ہاتھوں پکڑیں۔“”یار جعفر!آج میری امی نے کھانے میں بہت زبردست چیز تیار کی ہے۔“دوسرے دن صبح دانی نے عمران کو سنانے کے لئے زور سے کہا:”وقفے میں کھاؤں گا اُس وقت زیادہ بھوک لگتی ہے۔“حسب توقع عمران نے کھیلوں کے دوران واش روم کا بہانہ بنا کر کلاس کا رُخ کیا اور سیدھا دانی کے بیگ میں سے لنچ باکس نکالا۔برگر کھانے کے لئے اس نے جیسے ہی منہ کھولا مس فرزانہ کی آواز آئی:”ٹھہریے عمران!“عمران کے ہاتھ سے برگر نیچے گر گیا اور اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔کلاس میں مس فرزانہ کے علاوہ چپڑاسی بھی تھا۔”عمران!یہ کیا حرکت ہے؟“مس فرزانہ کو غصہ آ گیا۔”مس!میری امی آفس میں کام کرتی ہیں۔انھیں صبح جلدی جانا ہوتا ہے اور وہ مجھے پیسے پکڑا دیتی ہیں۔پیسے بچانے کی خاطر مجھ سے یہ غلطی ہوئی۔مجھے معاف کر دیں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔“عمران روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔عمر نے تعریفی نظروں سے دانی کو دیکھا:”بھائی دانی!تم تو اچھے خاصے جاسوس ہو۔“”ہاں بس اس چکر میں ڈانٹ خاصی کھانی پڑ گئی۔“دانی کو پرنسل اور سر واجد کی ڈانٹ یاد آ گئی۔ " ٹنکو کیسے بدلا - تحریر نمبر 2201,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tinku-kaise-badla-2201.html,"سمیرا انور،جھنگ”ٹنکو!تم باز کیوں نہیں آتے۔“بی مرغی نے غصے سے کہا۔”اماں میں نے ایسا کیا کر دیا ہے؟“ان کے تیور دیکھتے ہوئے ٹنکو نے معصومیت سے پوچھا۔”آج صبح تم نے ”مانی‘ بکری کا چہرہ پھر پھیلا دیا‘اس نے مجھ سے شکایت کی ہے۔“بی مرغی نے کہا تو ٹنکو اُچھلتا کودتا دور بھاگ گیا۔ٹنکو چالاک اور مغرور چوزہ تھا جو ہر کسی کو تنگ کرتا تھا۔اس کا کام ہی شرارتیں کرنا تھا۔وہ سیدھا کھیت میں پہنچا اور ایک چھوٹے قد کے بُھورے چوزے کو دیکھ کر اس کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا”یہ بونا کہاں سے آ گیا؟“”تم اس سے دور ہی رہو تو اچھا ہے۔“لالی چوزے نے اسے آنکھیں دکھائیں۔”کیوں،کیا یہ ڈنک مارتا ہے؟“اس نے دانت نکالے۔(جاری ہے)یہ میرا اچھا دوست ہے اور میں ہی اسے یہاں لایا ہوں”اب یہ ہمارے ساتھ رہے گا“لالی نے ناگواری سے کہا۔”دیکھتے ہیں یہ کتنے دن رہتا ہے یہاں؟“ٹنکو نے اَکڑ کر کہا۔”اس بار تم ضرور ہارو گے ٹنکو!“لالی نے کہا اور چلا گیا۔ٹنکو کو دوسروں کو نیچا دکھانے کی عادت تھی۔اسی لئے لالی چوزہ اس کے بے جا غرور کی وجہ سے اس سے خار کھاتا تھا۔پھر لالی نے اپنے دوست بھورے چوزے سے کہا۔”ہمت نہیں ہارنا ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے اور اس کا دماغ درست کرنا ہے۔“اُدھر ٹنکو نے سارے دانے بکھیر دیئے وہ ان دونوں سے اُلجھنا چاہتا تھا۔بھورا چوزہ دل میں کہہ رہا تھا۔”تمہیں یہاں سے بھگانا‘اب میرا مشن ہے۔“”دیکھو لالی!تم جانتے ہو کہ اس کھیت میں ٹنکو کی ہی چلتی ہے‘اس لئے تم اس سے لڑائی نہ کرو۔“بھورے نے کہا۔”ہم نہ جانے کب سے اسے برداشت کر رہے ہیں‘مگر وہ باز نہیں آتا۔اب ایسا نہیں ہو گا۔“لالی نے غصے سے کہا۔اگلے دن ٹنکو کھیت میں پہنچا تو لالی اور بھورے کو ایک ساتھ دیکھ کر آپے سے باہر ہو گیا۔اس نے آگے بڑھ کر بھورے کو ٹانگ مار کر نیچے گرایا اور بے دردی سے چونچیں مارنے لگا۔یہ دیکھ کر لالی نے اس پر چھلانگ لگائی اور اس کے سنہرے پروں کو اپنی چونچ میں دبا لیا۔اتنے میں بھورا کھڑا ہوا پھر دونوں نے مل کر اسے مارنا شروع کر دیا۔کوئی بھی ٹنکو کی مدد کو نہ آیا۔اس دوران کسی نے بی مرغی کو خبر دے دی تو وہ دوڑی چلی آئی۔اور بڑی مشکل سے انہیں الگ کرایا۔ٹنکو کا ایک پر زخمی ہوا تھا‘وہ درد سے چیخ رہا تھا۔یہ دیکھ کر بی مرغی نے کہا۔”میں تمہیں کتنا روکتی تھی کہ ہر ایک سے جھگڑا نہ کیا کرو‘لیکن تم نے میری بات نہ مانی۔“بھورے چوزے نے ٹنکو سے کہا”یہاں کوئی تمہیں اچھا نہیں سمجھتا‘اسی لئے کسی نے تمہاری مدد نہیں کی۔“پھر وہ لالی کو لے کر وہاں سے چلا گیا۔ٹنکو کو اب شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ کاش!میں سب سے لڑائی نہ کرتا تو اس وقت کوئی نہ کوئی میری مدد کے لئے ضرور آتا۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب مجھے اپنی ہٹ دھرمی اور ضد ختم کرنی ہو گی۔چنانچہ اگلے دن وہ اپنی اماں کے ساتھ لالی اور بھورے کے پاس گیا اور ان دونوں سے معانی مانگی۔اب وہ تینوں اچھے دوست بن گئے تھے۔ " آمنہ اور تین بھالو - تحریر نمبر 2200,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/amna-aur-3-bhalu-2200.html,"نوید اخترایک جنگل میں بھالوؤں کا ایک گھر آباد تھا۔اس گھر میں تین بھالو تھے۔سب سے بڑا ڈیڈی بھالو تھا۔اس سے چھوٹا ممی بھالو جبکہ سب سے چھوٹا منا بھالو تھا۔ایک روز صبح سویرے بھالو سو کر اُٹھے تو انہیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ڈیڈی بھالو کھیر بڑی مزیدار بناتے تھے اسی لئے منے بھالو نے فرمائش کی کہ آج ڈیڈی بھالو کھیر پکا کر کھلائیں۔ڈیڈی بھالو نے شہد،بادام اور میوہ ڈال کر بہت مزیدار کھیر تیار کی لیکن جب تینوں بھالو کھیر کھانے لگے تو یہ بہت زیادہ گرم تھی۔ممی بھالو نے تجویز پیش کی کہ جب تک کھیر ٹھنڈی ہو کیوں نہ ہم لوگ صبح کی سیر کر آئیں۔منے بھالو نے کہا”مجھے بہت بھوک لگی ہے میں سیر کرنے نہیں جاؤں گا۔مجھے کھیر ٹھنڈی کرکے کھانے کے لئے دو“ ممی بھالو نے سمجھایا”بیٹا!ضد نہیں کرتے بڑوں کا کہنا مانتے ہیں۔(جاری ہے)آؤ شاباش جلدی چلو ہم صبح کی سیر بھی کریں گے اور ساتھ ہی کچھ پھل بھی توڑ کر لائیں گے۔“تینوں بھالو جنگل میں سیر کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ممی بھالو نے آواز دے کر کہا منے بھالو اندر سے ایک ٹوکری لیتے آنا تاکہ پھل لانے میں آسانی رہے اور ہاں․․․․․گھر کا دروازہ بند کر دینا۔منا بھالو آخر میں گھر سے ٹوکری لے کر نکلا تو اپنے پیچھے گھر کا دروازہ بند کرنا بھول گیا۔آج جنگل میں موسم بہت خوشگوار تھا۔ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔مسحور کن ہوا چل رہی تھی۔آمنہ اپنے گھر کے قریب واقع اس جنگل میں سیر کے لئے آئی ہوئی تھی۔جنگل میں گھومتے پھرتے آمنہ جب بھالوؤں کے قریب آئی تو اسے اندر سے مزیدار کھیر کی خوشبو آئی۔اس بچی کا نام آمنہ تھا۔آمنہ نے گھر کے اندر جھانک کر دیکھا تو اندر کوئی نظر نہ آیا۔وہ گھر کے اندر چلی آئی۔اس نے دیکھا گھر کے اندر ایک میز کے گرد تین کرسیاں رکھی تھیں اور میز پر کھیر سے بھرے تین پیالے رکھے تھے۔آمنہ نے بڑے پیالے میں سے کھیر چکھی تو یہ بہت گرم تھی اس نے کہا”یہ تو بہت گرم ہے۔“پھر اس نے دوسرے پیالے میں سے کھیر کا چمچہ بھر کر منہ میں رکھا اور خود سے بولی”افوہ․․․․یہ بہت زیادہ میٹھی ہے۔“اب اس نے تیسرے پیالے میں سے کھیر کھا کر دیکھی اور کہنے لگی”واؤ․․․․یہ تو بہت مزیدار ہے۔“اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے کھیر کا پیالہ خالی کر دیا۔آمنہ کیونکہ کافی دیر سے جنگل میں سیر کر رہی تھی اس لئے کھیر کھانے کے بعد آمنہ نے سوچا کچھ دیر آرام کر لیا جائے۔یہ سوچ کر وہ ڈیڈی بھالو کی کرسی پر بیٹھی لیکن یہ کافی سخت تھی۔آمنہ نے سوچا یہ تو آرام دہ نہیں ہے اس لئے ممی بھالو کی کرسی پر بیٹھ کر دیکھا جائے۔جب وہ ممی بھالو کی کرسی پر بیٹھی تو وہ اندر دھنس گئی۔آمنہ بولی ”نہیں یہ کرسی بھی میرے لئے مناسب نہیں۔“یہ کہتے ہوئے اس نے منے بھالو کی کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن یہ کرسی کیونکہ بہت چھوٹی تھی اس لئے آمنہ کا وزن نہ سہار سکی اور ٹوٹ گئی۔آمنہ نے منے بھالو کی کرسی جوڑنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔آخر کافی تگ و دو کے بعد اس نے ٹوٹی ہوئی کرسی کے ٹکڑے وہیں چھوڑے اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔آمنہ کو کھیر کھانے کے بعد نیند آنے لگی تھی۔اس نے اوپر کی منزل پر جا کر دیکھا تو وہاں تین بستر بچھے ہوئے تھے۔آمنہ نے سب سے بڑے بستر پر لیٹنے کی کوشش کی۔یہ بستر ڈیڈی بھالو کا تھا۔آمنہ اس پر چڑھنے میں کامیاب نہ ہو سکی کیونکہ بستر کافی اونچا تھا۔پھر اس نے ممی بھالو کے بستر پر لیٹنے کی کوشش کی تو یہ بھی اس کے لئے مناسب نہ تھا۔آخر میں آمنہ منے بھالو کے بستر پر لیٹ کر سو گئی۔کافی دیر بعد جب تینوں بھالو سیر کرکے گھر واپس آئے تو انہیں گھر میں کچھ عجیب عجیب سا محسوس ہوا۔ڈیڈی بھالو نے کہا”ارے دیکھو کسی نے میری کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کی ہے اور شاید میرے پیالے سے کھیر کھانے کی بھی کوشش کی ہے۔“ممی بھالو نے کہا”ہاں․․․․دیکھو میری کرسی بھی اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہے اور میرے پیالے سے بھی لگتا ہے کسی نے کھیر کھانے کی کوشش کی ہے۔“آخر میں منا بھالو بولا”یہ دیکھو کسی نے میرے پیالے میں سے ساری کھیر کھا لی ہے اور میری کرسی بھی توڑ دی ہے۔“ابھی یہ تینوں باتیں کر ہی رہے تھے کہ انہیں اوپر اپنے بیڈ روم سے کچھ نا مانوس سی آوازیں سنائیں دیں۔آوازیں سن کر بھالو بہت پریشان ہوئے۔پھر ڈیڈی بھالو نے کہا میرا خیال ہے ہمیں اوپر جا کر دیکھنا چاہیے شاید کوئی ابھی تک ہمارے گھر میں موجود ہے۔ڈیڈی بھالو کی بات سن کر ممی اور منا بھالو ڈیڈی کے پیچھے پیچھے آہستہ قدموں سے چلتے اوپر والے کمرے میں پہنچے۔ڈیڈی بھالو نے کہا”دیکھو کسی نے میرے بستر پر لیٹنے کی کوشش کی ہے۔اس کی چادر اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہے۔“ممی بھالو نے کہا”کسی نے میرے بستر پر بھی لیٹنے کی کوشش کی ہے“ منا بھالو بولا”کوئی میرے بستر پر لیٹا تھا․․․نہیں نہیں بلکہ ابھی تک لیٹا ہے اور سو رہا ہے۔“منے بھالو کی بات سن کر ممی اور ڈیڈی بھالو بھی آ گئے،وہ اس کے بستر میں سو رہی تھی۔اسے دیکھ کر بھالو آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ وہ کون ہے۔بھالوؤں کی آوازیں سن کر آمنہ کی آنکھ کھل گئی وہ اپنے اردگرد بھالوؤں کو دیکھ کر پریشان ہو گئی اور جلدی سے بستر سے نکل کر باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔اپنے گھر پہنچنے تک آمنہ نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا اور آئندہ کبھی جنگل کے اس حصے میں نہ گئی۔ " کام والی - تحریر نمبر 2199,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kaam-wali-2199.html,"ثروت یعقوب،لاہوریہ تم نے کیسی صفائی کی ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ صفائی کی ہی نہیں۔تنخواہ لینے کا پتہ ہے بس کام کرتی نہیں ڈھنگ سے۔بیگم شازیہ ادریس احمد ملازمہ پر برس رہی تھیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ان کی یہ روز کی عادت تھی۔جتنی دیر ملازمہ کام کرتی وہ اس کو مسلسل کچھ نہ کچھ کہتی رہتی۔ کبھی انہیں کسی ملازمہ کی صفائی پسند نہیں آئی تھی۔وہ ایک انتہائی دولت مند خاتون تھیں اور وہ غریبوں کو نیچ اور ذلیل خیال کرتی تھیں۔ارے یہ تو نے کیا کیا؟چارپائی ناپاک کر دی میری اُٹھا اپنے بچے کو۔ثائمہ ایک دم لرز کر رہ گئی۔اس کی آنکھوں میں اپنی کم مائیگی کا احساس آنسو بن کر چمکنے لگا۔دراصل ثائمہ نے اپنی گود میں موجود دو سالہ بچے کو راہ داری میں بچھی ایک چارپائی پر لٹا دیا تھا۔(جاری ہے)امی جان کیا ہوا؟لیٹا رہنے دیں نا بچے کو،کچھ نہیں ہوتا۔ان کی شادی شدہ بیٹی کو ایک دم ترس آ گیا۔جاؤ تم لے جاؤ اپنے گھر․․․․․وہاں لٹا دو اپنی چارپائی پر․․․․مجھ سے نہیں ہوتا یہ سب برداشت۔ بیگم صاحبہ نے بیٹی کو بھی کھری کھری سنا دیں۔ثائمہ نے آنسو پونچھ کر بچے کو اُٹھا لیا۔او کام والی!آج کیاریوں کی صفائی کر دینا اچھے طریقے سے۔بیگم صاحبہ ثائمہ کو حکم دے کر کمرے میں چلی گئیں۔ثائمہ لفظ کام والی سن کر تڑپ کر رہ گئی تھی۔جانے کیوں اسے اس لفظ سے چڑ سی ہو گئی تھی۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ زندگی میں پہلی بار کسی کے ہاں ملازمت کر رہی تھی۔اپنا نام صرف کام والی سن کر وہ تڑپ جاتی تھی۔ایک بار اس نے بیگم صاحبہ کا اچھا موڈ دیکھ کر ان سے درخواست کی کہ وہ کام والی کہنے کے بجائے اس کا نام لے لیا کریں۔ہائے ہائے․․․․․بڑے پر پُرزے نکل آئے ہیں تم ملازموں کے۔کام والی نہ کہوں تو میڈم کہوں؟وہ ایک دم برس پڑیں اور ثائمہ نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔ثائمہ کو اسی دوران کسی اور جگہ ملازمت مل ہی گئی۔اب اسے قدرے سکون محسوس ہوا۔یہاں اسے کام والی کہہ کر نہیں پکارا جاتا تھا۔بیگم صاحبہ اسے نام لے کر پکارتیں اور ان کے بچے اسے خالہ جی کہا کرتے۔بیگم صاحبہ اس سے یا اس کے بچوں سے گھن نہیں کیا کرتی تھیں بلکہ اس کی دل جوئی کرتیں اور وقتاً فوقتاً اس کی مدد بھی کرتی رہتی تھیں۔آج اسے یہاں کام کرتے ہوئے 12 سال ہونے کو آئے تھے۔ثائمہ کام سے فارغ ہو کر گھر جانے کی تیاری کر رہی تھی کہ ایک برقع پوش خاتون اس گھر میں داخل ہوئی اور بیگم صاحبہ سے ملازمت کیلئے کچھ بات چیت کرنے لگی۔بیگم صاحبہ کو چونکہ اس وقت کسی ملازمہ کی ضرورت نہیں تھی اس لئے انہوں نے انکار کر دیا مگر اس کی کچھ مدد ضرور کر دی۔برقع والی خاتون نے بہت انکار کیا مگر بیگم صاحبہ نے کچھ رقم زبردستی اس کے ہاتھ میں تھما دی جس پر اس خاتون کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔آخر وہ خاتون اُٹھی اور واپس جانے کیلئے برقع کی چادر درست کرنے لگی۔اب ثائمہ کی نظر اس کے چہرے پر پڑی تو وہ دم بخود رہ گئی۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔یہ وہی عورت تھی وسیع و عریض کوٹھی کی مالکن۔غریبوں سے نفرت اور گھن کرنے والی۔ملازموں کو نیچ خیال کرنے والی۔ثائمہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر حیران تھی۔آخر وہ اس عورت کے ساتھ ہی باہر نکلی۔سنیں!ثائمہ نے اسے پکارا۔وہ چونک کر مڑی۔ثائمہ چونکہ نقاب میں تھی اس لئے وہ اسے نہ پہچان سکی۔آپ کو ملازمت کی ضرورت ہے،میں آپ کو ایک گھر میں ملازمت دلوا دیتی ہوں۔ثائمہ نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔وہ خوشی سے اس کے ساتھ چل دی۔ثائمہ اسے لے کر ایک بڑے سے گھر تک آئی اور دروازہ کھٹکھٹایا۔کچھ دن پہلے ثائمہ کو اس گھر سے ملازمت کی پیشکش کی گئی تھی مگر ثائمہ اتنی اچھی جگہ سے ملازمت چھوڑ کر کہیں اور نہیں جانا چاہتی تھی اس لئے انکار کر دیا تھا۔اب وہ بارہ سال پہلے والی اپنی بیگم صاحبہ کو یہاں ملازمت دلوانے آئی تھی۔آخر کچھ بات چیت کے بعد معقول تنخواہ پر اسے ملازمت مل گئی۔اسے آج ہی سے کام شروع کرنا تھا۔سو ثائمہ اسے چھوڑ کر خود واپسی کیلئے اُٹھ گئی۔کام والی۔وہ سامنے والے کمرے میں جاؤ۔ثائمہ ابھی دروازے تک ہی نہیں پہنچی تھی کہ اسے اپنے پیچھے گھر کی مالکن کی یہ آواز سنائی دی تو دو آنسو چپکے سے اس کی آنکھوں سے نکل کر نقاب میں جذب ہو گئے تھے۔جانے یہ آنسو بارہ سال پہلے کا واقعہ یاد کرکے نکلے تھے یا بیگم صاحبہ کے ساتھ ہونے والے مکافات عمل پر۔ " سیانے کوے کو ملی سزا - تحریر نمبر 2198,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/siyane-kawe-ko-mili-saza-2198.html,"سمیع چمن،حیدرآبادجنگل میں ایک ندی بہتی تھی اور اس ندی کے اردگرد پیپل کے ایک درخت پر کوے کا گھونسلا تھا اور دوسرے نیم کے درخت پر مینا کا گھونسلا تھا۔دونوں میں گہری دوستی تھی۔کوا بڑا چالاک اور سیانا تھا،ہر وقت چالاکی سے کام لیا کرتا تھا۔اس کے برعکس مینا سیدھی اور رحمدل جانور تھی اور وہ ہر کسی کے کام آتی تھی۔اس کے برعکس کوا سارا دن جنگل میں اِدھر سے اُدھر اُڑتا پھرتا اور جو کھانے کی چیز نظر آتی جھپٹ کر لے اُڑتا۔ ایک رات مینا کے گھر مہمان آ گئے۔مینا خوشی خوشی کھانا پکانے لگی۔مہمانوں کے بچے مینا کے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہو گئے۔ اتفاق سے نمک دان میں نمک ختم تھا‘مینا بڑی فکر مند ہوئی۔اب رات گئے وہ نمک کہاں سے لاتی۔(جاری ہے)سوچا چلو کوے کے گھر سے نمک لے آتی ہوں۔مینا جلدی سے کوے کے گھر کا دروازہ بجانے لگی۔کوے کے گھر میں اندھیرا تھا۔کوا اندر سے چیخا کون ہے کیوں دروازہ پیٹا جا رہا ہے؟مینا بولی ارے میں ہوں بھائی کوے تمہاری بہن مینا‘کوا بولا اوہو شاید مینا میرے لئے کھانے کی کوئی چیز لے کر آئی ہے۔کوا دوڑتا ہوا دروازے پر آیا جلدی سے دروازہ کھولتے ہوئے محبت سے کہنے لگا اوہو مینا بہن بھلا اتنی رات گئے خود کیوں آئیں مجھے بتلا دیتیں تو میں خود آ جاتا۔مگر جب اس نے محسوس کیا کہ مینا کے پاس تو کچھ نظر نہیں آ رہا تو بڑی مایوسی ہو گئی۔اور روکھے انداز سے بولا کیا بات ہے؟وہ کوے بھائی معاف کرنا آپ کو رات گئے تکلیف دی ہے مجھے کچھ نمک چاہئے گھر مہمان آ گئے ہیں۔گاؤں کی سب دکانیں بند ہیں۔سوچا آپ کا گھر تو سارا نمک کا ہے۔آپ سے نمک لے لوں مہربانی کرکے مجھے تھوڑا سا نمک دے دیں تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔بی مینا۔اتنی رات گئے آ کر نہ صرف میری نیند خراب کر دی ہے بلکہ میرا موڈ بھی خراب کر دیا۔“لو بھلا میرے گھر نمک کا گودام ہو گیا جو نکال کر دے دوں جائیے جائیے اپنا کام کریں۔مینا بولی۔آپ کا گھر نمک کا ہے۔ویسے بھی جھڑ جھڑ کر دیگر جگہوں پر گرتا رہتا ہے‘تھوڑا سا نکال کر دے دو کھانے میں ڈالنا ہے۔ارے جاؤ جاؤ کیا مجھے پریشان کرنے آ گئی ہو۔کوے نے غصے سے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔مینا کوے کے طرز عمل سے بڑی حیران ہوئی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوا اتنا مغرور اور احسان فراموش ہو گا۔اس نے کہا۔اے کوے بھائی!کچھ تو خیال کرو میں ہر وقت تمہارے کام آتی رہتی ہوں اور کبھی تمہیں کسی ضرورت پر مایوس نہیں کیا ہے آج پہلی بار۔مجبوری میں تم سے ذرا نمک مانگنے کیا آ گئی تم مجھ پر برس پڑے ہو۔ارے جاؤ بی مینا۔خوامخواہ لیکچر نہ دو اور یہ کہتے ہوئے گھر کا دروازہ بند کر دیا۔مینا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اسے کوے سے اس قسم کی قطعی اُمید نہیں تھی۔بیچاری آنسو بہاتی گھر واپس آ گئی۔بیچاری مینا نے مہمانوں کو بغیر نمک کا کھانا کھلایا۔واقعی کوے نے بڑی بے حسی کا مظاہرہ کیا تھا۔کھانا کھا کر سب سو گئے اچانک ٹھنڈی ہوا کے جھکڑ چلنے لگے اور آسمان پر ہر طرف بادل چھا گئے اور پھر بارش ہونے لگی بارش کی تیزی کی وجہ سے درخت شور کرنے لگے ہوا کے جھکڑے درختوں کی ٹہنیاں جھولنے لگیں۔بسیرا کرنے والے پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں دبکنے لگے۔مینا کا گھر تو موم کا بنا ہوا مضبوط تھا بارش سے اور مضبوط ہو گیا۔مگر کوے کا گھر جو نمک کا بنا ہوا تھا۔بارش کے ایک ہی ریلے میں تتربتر ہو کر پانی میں بہہ کر ختم ہو گیا۔کوے کا بُرا حال ہو گیا۔سارا دن بھیگتا ہوا اِدھر سے اُدھر چھپنے کی کوشش کرنے لگا کسی جانور نے بھی اس سے اظہار ہمدردی نہیں کیا۔آخر گرتا پڑتا مینا کے گھر آ گیا۔دروازے پر جا کر آوازیں لگانے لگا۔مینا بہن مینا بہن۔دروازہ کھولو میں مرا جا رہا ہوں۔مینا نے جلدی سے دروازہ کھول کر دیکھا کوا بُری طرح بارش میں بھیگا ہوا سردی سے تھر تھر کانپ رہا ہے۔مینا نے جلدی سے کوے کو گھر میں بلایا اور ایک کمرے میں لے جا کر اسے گرم گرم بستر پر لٹا کر اس پر لحاف ڈال دیا۔گرم چیزیں کھانے کو دیں کوا بڑا شرمندہ ہو رہا تھا کے اس نے مینا کے ساتھ کتنا خراب سلوک کیا تھا۔مینا بھی اسے منع کر سکتی تھی مگر مینا نے میرے سے بدلہ نہیں لیا۔وہ اللہ سے توبہ کرنے لگا۔صبح مینا گرم گرم چائے اور انڈا لے کر کوے کو ناشتہ کروانے کیلئے کمرے میں پہنچی اور آواز دیتے ہوئے بولی۔اُٹھیے کوے بھائی ناشتہ کر لیں۔بار بار آواز دینے پر بھی کوا نہیں بولا۔مینا نے گھبرا کر لحاف اُٹھا کر دیکھا کوا مرا پڑا تھا۔اسے اپنے سلوک اور ظلم کی سزا مل چکی تھی جو جیسا کرے گا ویسا ہی بھرے گا۔ " ضد کا انجام - تحریر نمبر 2197,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zid-ka-anjaam-2197.html,"وزیہ ظفر چکوالمما مجھے قلفی کھانی ہے پلیز لا دیں نا مما دیکھیں نا اب تو موسم بھی ختم ہونے والا ہے اور میں نے اب تک قلفی نہیں کھائی۔میں نے تم کو کتنی دفعہ کہا ہے ضد نہ کیا کرو قلفی سے تمہارا گلا خراب ہو جاتا ہے۔مما پلیز صرف ایک بار لے دیں۔آخر تم سمجھتی کیوں نہیں ہو قلفی تمہارے لئے ٹھیک نہیں۔مما یہ بھی تو کھا رہا ہے اس نے اپنے پاس بیٹھے بھائی منیب کی طرف اشارہ کرکے کہا۔مما بس یہ ایک چھوٹی سی خواہش ہے۔کوئی اور چیز کھا لو یہ لو سیب کھا لو نہیں مما مجھے بس آخری بار قلفی لا دیں۔میکائیل زینب پہلے بھی تم بے جا ضد کی وجہ سے اپنا کافی نقصان کر چکی ہو میں تمہیں کتنا منع کرتی تھی کہ اتنا میٹھا نہ کھایا کرو مگر تم نے میری ایک نہیں مانی اور اپنی اس ضد کی وجہ سے اپنے سارے دانت کھو چکی ہو۔(جاری ہے)مما آپ ہمیشہ مجھے ہی برا بھلا کہا کریں یہ منیب کو آپ نے کبھی کچھ نہیں کہا۔کیونکہ یہ تمہاری طرح ضد نہیں کرتا فوراً مان لیتا ہے۔مگر تم اپنی بے جا ضد اور ہٹ دھرمی دکھاتی ہو۔چلو شاباش اپنے کمرے میں جاؤ اور قلفی کا خیال دل سے نکال دو۔لیکن میں ہر حال میں آج قلفی کھا کر ہی رہوں گی وہ دل میں سوچ رہی تھی لیکن میں پیسے کہاں سے لوں گی۔آئیڈیا مما کے پرس سے لیتی ہوں اوہو چوری کرنا تو گناہ ہے پھر مما بولے گی کہ میکائیل چور ہے اور اللہ میاں بھی گناہ دیں گے چلو بعد میں مما کو بتا دوں گی۔اسے پیسوں کیلئے زیادہ محنت کی ضرورت نہ کرنی پڑی کچن میں رکھے ہوئے پیسے اُٹھا کر وہ گھر سے باہر نکلنے کا موقع تلاش کرنے لگی۔جلد ہی اسے موقع مل گیا۔ وہ سب سے نظریں بچا کر قلفی والی دکان پر پہنچ گئی۔اُف کتنا مزہ آئے گا مما تو کہتی تھی کہ میری طبیعت خراب ہو جائے گی بلکہ میری طبیعت تو ٹھیک ہو رہی ہے۔ایک اور لے لیتی ہوں پھر نجانے کب نصیب ہوں اُف ہائے کتنی اچھی ہے۔میری طبیعت کو تو کچھ بھی نہیں ہوا وہ ہر بار ہی سوچ کر قلفی کھاتے رہی کہ بس اب آخری مگر ہر بار اس کا دل اور کھانے کو مچل اُٹھا بالآخر پیسے ختم ہو گئے وہ گھر کی طرف چل پڑی لیکن راستے میں ہی اس کے گلے میں درد شروع ہو گیا۔ہائے اللہ اب کیا ہو گا مما تو مجھے مارے گی۔انہیں پتا چل جائے گا کہ میں نے قلفی کھائی ہے نہیں مجھے گھر نہیں جانا مما مجھے ماریں گی انہوں نے مجھے قلفی کھانے سے منع کیا تھا گھر گئی تو مما تو مجھے سخت مارے گی مجھے یہیں رہنا ہے گھر نہیں جانا ہائے سانپ سانپ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔وہ مسلسل چیخ چیخ کر رو رہی تھی اور روتے روتے ہی بے ہوش ہو گئی۔اُدھر فریال ملک نے رو رو کر سارا گھر سر پر اُٹھا رکھا تھا۔یا اللہ میری میکائیل جہاں کہیں بھی ہو اسے خیریت سے رکھنا۔میرے مولا میری بیٹی کی حفاظت کرنا۔عفان ملک نے پولیس کو اطلاع کر دی جگہ جگہ جا کر خود ڈھونڈا مگر میکائیل زینب نہ ملی۔جس دن سے میکائیل غائب تھی اُس دن سے فریال ملک نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔منیب احمد فریال کی حالت دیکھ کر رو پڑتا اور دل سے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں کو اُٹھا کر اپنی آپی کے ملنے کی دعا کرتا ایسے ہی آپی کو لگتا تھا کہ مما اس سے پیار نہیں کرتی بلکہ مما تو اس کو مجھ سے بھی بڑھ کر پیار کرتی ہے۔تبھی دروازے پر بیل ہوئی عفان دروازے پر گیا۔وہ پولیس والوں نے میکائیل کو اُٹھا رکھا تھا۔بابا میکائیل عفان ملک کو دیکھ کر فوراً بھاگ کر اُتری اور پاس کھڑی فریال کے گلے لگ گئی۔مما میں اب کبھی بھی آپ کو تنگ نہیں کروں گی۔مما میں جان گئی ہوں کہ آپ میری بھلائی کیلئے ہی مجھے ڈانٹتی ہیں اب میں کبھی بھی ضد نہیں کروں گی۔میں اپنی ضد کی وجہ سے پہلے بھی بہت نقصان اُٹھا چکی ہوں مگر اب نہیں مما آپ کی اور پاپا کی دعاؤں نے مجھے بچا لیا ورنہ وہ بردہ فروش مجھے مار ہی ڈالتے بس مما میں اب کبھی بھی آپ کو تنگ نہیں کروں گی اور آپ کی ہر بات مانوں گی تاکہ سب بھائی کی طرح مجھ سے پیار کریں۔ " بھوکے ٹومی کی توبہ - تحریر نمبر 2196,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhukay-tommy-ki-tauba-2196.html,"احمد عدنان طارق،فیصل آبادٹومی ایک چھوٹا سا کتے کا بچہ تھا جو ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتا رہتا تھا اسے ذرا تمیز نہیں تھی کہ کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا؟اور نہ ہی وہ اس بات کا خیال کرتا تھا کہ جو وہ کھا رہا ہے وہ کسی اور کا کھانا تو نہیں اس کے کھانے کی عادت دیکھ کر پڑوس میں رہنے والی بلی نیلو نے اسے کہا کہ وہ اسی طرح کھاتا رہا تو بہت موٹا ہو جائے گا مگر اس وقت بھی ٹومی ایک ہڈی بھنبھوڑنے میں اتنا مگن تھا کہ اس نے نیلو کی بات سنی اَن سنی کر دی۔ایک دن ٹومی کو بہت بھوک لگ رہی تھی۔ناشتے کے وقت سے پہلے ہی اس نے نیلو کے باورچی خانے میں جھانکا تو اسے وہاں نیلو کے لئے بسکٹ پڑے ہوئے نظر آئے۔اس نے آرام سے بسکٹوں کا صفایا کیا۔پھر صبح کا ناشتہ جی بھر کر کیا۔(جاری ہے)پھر اس نے کچھ دیر کے وقفے کے بعد اپنے مالک کے کھیت میں جانا پسند کیا۔وہاں اس نے بہادر گھوڑے کی کھُرلی میں جھانکا تاکہ اس میں سے ہی کچھ کھانے کو مل جائے۔بہادر نے اسے اپنے کھانے کی تلاشی لیتے ہوئے دیکھا لیکن اس کا بُرا نہیں منایا۔پھر ٹومی کو نیند آ گئی لیکن جب وہ دوبارہ جاگا تو اسے پھر سخت بھوک لگ رہی تھی۔اس نے اپنی رکابی سے دودھ پیا۔لیکن اس نے پیٹ میں اتنی جگہ رکھ لی تاکہ مزے سے دوپہر کا کھانا کھا سکے۔دوپہر کے کھانے میں البتہ ٹومی نے ہاتھ ہلکا ہی رکھا لیکن کھانے کے ایک گھنٹے کے بعد ہی اسے دوبارہ کچھ کھانے کی طلب ہونے لگی۔وہ دوبارہ کھیت کی طرف گیا۔اسے علم تھا کہ اس کے مالک نے کھانا کھا لیا ہو گا اور اس کے برتن پڑے ہوں گے۔اس نے مالک کی بچائی ہوئی ایک بوٹی کھائی۔اب وہ دوبارہ گھر کے باورچی خانے کی طرف گیا اور اس میں پڑی صفائی والی ٹوکری میں منہ ڈال کر اسے نیچے گرا دیا اور باورچی خانے کی بچی کھچی کھانے کی چیزوں میں منہ مارنے لگا۔سارے دن کے کھانوں میں اسے رات کا کھانا بہت پسند تھا اور آخر میں سونے سے پہلے ٹومی کی عادت تھی کہ وہ صحن میں مٹر گشت کرتے ہوئے مرغیوں کا گرا بچا کھچا دانہ بھی فرش سے چاٹ لیتا۔اس کی بھوکی طبیعت اسے چین نہیں لینے دیتی تھی۔اس رات جب وہ مرغیوں کے بچے کھچے ڈبل روٹی کے چورے کی ضیافت اُڑا رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر نیلو بلی پر پڑی جو اس وقت سیر کیلئے نکلی تھی۔یہ اس کا روز کا معمول تھا اور روز ہی اس کا کھانا چوری کرکے کھانا ٹومی کا معمول تھا اور یہ چوری کرنا اسے بہت پسند تھا۔ٹومی پورے زور سے دوڑا اس نے صحن عبور کیا اور پھر نیلو کیلئے بنائے گئے گھر کے دروازے سے اندر گھسنے لگا۔مگر پھر اس کے منہ سے بھاؤ،داؤ کی آوازیں نکلنے لگیں کیونکہ وہ نیلو کے گھر کے دروازے پر پھنس گیا تھا۔اس دن لالچی ٹومی نے اتنا کھا لیا تھا کہ اس کا پیٹ پھول کر گپا ہو رہا تھا۔نزدیک رہنے والے تمام جانور اسے اس حالت میں دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔ویسے بھی وہ چاہتے تھے کہ ٹومی کو ان سب کا کھانا چوری کرنے کی سزا ملنی چاہئے تھی۔نیلو واپس آئی تو اس کی بھی ہنسی نکل گئی۔اس نے ٹومی کی ٹانگیں پکڑیں اور اسے زور سے باہر کھینچا لیکن بے سود۔وہ بُری طرح پھنسا ہوا تھا۔پھر تمام جانوروں نے اکٹھے ہو کر زور لگایا تب کہیں جا کر ٹومی کو آزادی ملی۔ٹومی اتنا شرمندہ ہوا کہ آئندہ کبھی کسی کا کھانا نہ چرا کر کھانے سے توبہ کر لی۔ " خواب کا اثر - تحریر نمبر 2195,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khawab-ka-asar-2195.html,"کامران شاہد،کاہنہ نو،لاہورایمن آج بہت اُداس تھی کیونکہ آج اُسے اپنی ممی بہت یاد آ رہی تھیں،وہ سوچ رہی تھی کہ اگر آج وہ زندہ ہوتیں تو اس کی نئی مما اُس کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتیں۔وہ روز بچوں کو سکول جاتا دیکھتی تھی۔اُس کا بھی بہت دل کرتا تھا کہ وہ بھی سکول جایا کرے مگر ایسا ممکن نہ تھا کیونکہ اگر وہ سکول جاتی تو پھر گھر کے کام کاج کون کرتا؟۔ایمن سارا سارا دن گھر کے کام کرتی رہتی تھی۔کپڑے دھوتی،کھانا پکاتی پھر بھی اُسے اپنی سوتیلی مما سے ڈانٹ ہی پڑتی تھی۔ایک دن اُس کو کھانا بنانے میں دیر ہو گئی تو اُس کی سوتیلی مما نے ایمن کی بہت پٹائی کی۔اُس کے دو سوتیلے بہن بھائی بھی تھے جو باقاعدگی سے سکول جاتے تھے اور ٹیوشن بھی پڑھتے تھے۔(جاری ہے)ایک دن ایمن کپڑے دھو رہی تھی کہ پڑوسن آنٹی نسرین ایمن کی مما سے ملنے کیلئے آئیں۔آنٹی نسرین سکول ٹیچر تھیں،وہ ایمن کو اس طرح کام کرتے دیکھ کر بہت پریشان ہوتی تھیں اور ایمن کی سوتیلی مما کو سمجھایا بھی کرتیں کہ راحیلہ بہن،ایمن کو بھی سکول بھیجا کرو،بچی کو اَن پڑھ رکھنا مناسب نہیں۔مگر ایمن کی سوتیلی مما کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر بات ٹال دیا کرتی تھیں۔آج بھی وہ ایمن کے سکول میں ایڈمیشن کے بارے میں راحیلہ سے بات کرنے آئی تھیں۔مگر ایمن کی سوتیلی مما نے آنٹی نسرین کو صاف انکار کر دیا۔آنٹی نسرین نے ایمن کی سوتیلی مما کی بات سن کر عزم کیا کہ وہ خود ہی ایمن کو ٹیوشن پڑھا کر پڑھنا لکھنا سکھا دیں گی۔ایمن جب بھی گھر کے کاموں سے فراغت پاتی تو آنٹی نسرین اُسے ٹیوشن پڑھاتی۔وہ اپنی سوتیلی مما سے روزانہ چھپ کر آنٹی نسرین سے ٹیوشن پڑھا کرتی تھی۔ایک دن ایمن اپنا سبق یاد کر رہی تھی کہ اس کی سوتیلی بہن نے اُسے سبق یاد کرتے دیکھ لیا۔ایمن خوفزدہ ہو گئی اور ڈرنے لگی کہ کہیں اس بات کا پتہ اُس کی مما کو نہ چل جائے۔ایمن کی سوتیلی بہن آئمہ اُسے پڑھتا ہوا دیکھ کر مسکرا دی اور کہنے لگی:”تمہیں پڑھتا دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے،میں خود بھی چاہتی ہوں کہ تم میری طرح تعلیم حاصل کرو میرے ساتھ سکول جاؤ اور یہ بات میں اپنی مما کو بھی سمجھاؤں گی“۔ایمن نے یہ سب سنا تو بہت خوش ہوئی وہ اپنے کمرے میں جانے کیلئے مڑی تو اُس کی سوتیلی مما بھی پیچھے موجود تھیں اور خوب غصے میں تھیں۔یہ سب سُن کر اُن کا تو بلڈ پریشر ہائی ہو گیا اور وہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی بیڈ پر لیٹنے کی دیر تھی کہ وہ سو گئی اور خواب دیکھنے لگی۔خواب میں اُنہوں نے دیکھا کہ ایمن کی سوتیلی بہن اَن پڑھ ہے اور وہ لوگوں کے گھروں کا کام کرتی ہے اور رو رو کر اپنی مما سے کہہ رہی تھی، آپ نے مجھے اَن پڑھ کیوں رکھا؟تعلیم حاصل کیوں نہ کرنے دی؟اتنا ہی خواب دیکھا تھا کہ اُن کی آنکھ کھل گئی،وہ علم کی اہمیت جان چکی تھیں۔صبح ہوتے ہی وہ سکول گئی اور ایمن کا ایڈمیشن بھی اپنی بیٹی کے سکول میں کروا دیا۔ایمن یہ سب کچھ دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور حیران بھی۔مگر وہ بہت خوش تھی کیونکہ کل سے وہ بھی سکول جانے والی تھی کیونکہ ایمن کی سوتیلی مما جان چکی تھی کہ علم ایک بہت بڑی دولت ہے۔ " ایک تھی چمگادڑ - تحریر نمبر 2194,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-thi-chamgadar-2194.html,"ثروت یعقوب لاہورکسی جنگل میں پرندے اور جانور مل کر رہا کرتے تھے۔اُسی جنگل میں ایک خود غرض اور مکار چمگادڑ بھی رہتی تھی جو اپنی ضرورت کے مطابق کبھی پرندوں میں شامل ہو جاتی اور کبھی زمینی جانوروں میں۔ایک دن کسی بات پر جانوروں اور پرندوں میں لڑائی ہو گئی۔لڑائی کے موقع پر کبھی جانوروں کا پلہ بھاری ہو جاتا اور کبھی پرندوں کا۔مکار چمگادڑ جب دیکھتی کہ جانوروں کا پلڑا بھاری ہے تو وہ اُن کے ساتھ مل جاتی اور کہتی چونکہ میں بچے دیتی ہوں اور اپنے بچوں کو دودھ بھی پلاتی ہوں،اس لئے میں بھی جانور ہوں اور پھر جب کبھی وہ پرندوں کا پلڑا بھاری دیکھتی تو وہ پرندوں میں شامل ہو جاتی اور کہتی چونکہ میں ہوا میں اُڑتی ہوں اور میرے پر بھی ہیں،اس لئے میں تمہاری طرح کا ایک پرندہ ہوں۔(جاری ہے)یوں مکار چمگادڑ کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر شامل ہوتی رہی۔ آخرکار لڑائی جانوروں نے جیت لی۔یہ صورتحال دیکھ کر چمگادڑ جانوروں کی طرف آ گئی تاکہ اُن کے ساتھ مل کر فتح کی خوشی منائے۔مگر اُس کی خوشی تب خاک میں مل گئی جب جانوروں نے اُس کو یہ کہہ کر نکال دیا کہ تم ایک پرندہ ہو کیونکہ تم ہوا میں اُڑتی ہو اور تمہارے پر بھی ہیں۔تب چمگادڑ جلدی جلدی پرندوں کے پاس آئی تاکہ اُن کو اپنی وفاداری کا یقین دلا سکے مگر اب پرندے بھی اُس کی چالاکی سمجھ چکے تھے ۔اُنہوں نے بھی اُسے یہ کہہ کر اپنے گروہ سے نکال دیا کہ تم پرندہ نہیں ہو بلکہ ایک جانور ہو کیونکہ تم بچے دیتی ہو اور اپنے بچوں کو دودھ بھی پلاتی ہو،اس لئے پرندوں میں تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں۔یہ صورتحال دیکھ کر وہ بہت شرمندہ ہوئی اور شرمندگی کے مارے جنگل ہی چھوڑ گئی۔وہ دن اور آج کا دن چمگادڑ آج تک کبھی دن کی روشنی میں دنیا والوں کے سامنے نہیں آئی۔وہ ہمیشہ اندھیرے کے وقت باہر آتی ہے تاکہ دنیا والوں سے نظریں بچا کر مزید شرمندہ نہ ہونا پڑے۔عزیز دوستو!زندگی میں کبھی بھی منافقت اور چالاکی سے کام نہیں لینا چاہیے۔جس کے ساتھ تعلق بناؤ پھر اُس کے ساتھ خلوص اور وفاداری کا ثبوت دو ورنہ لوگ چمگادڑ کہیں گے۔ " بدلا ہوا فرخ - تحریر نمبر 2193,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badla-hua-farrukh-2193.html,"روبینہ ناز‘کراچیفوزیہ فرخ کی بڑی بہن تھی اور نویں کلاس کی طالبہ تھی۔دوسری طرف فرخ پڑھائی میں ناکام تھا،وہ ساتویں کلاس میں مشکل سے پاس ہو کر آٹھویں میں پہنچا تھا۔فرخ تفریح باز قسم کا لڑکا تھا،ہر وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہتا اور شام کو دوستوں کے ساتھ باہر جا کر آوارہ گردی کرتا تھا۔ماں باپ فرخ سے بہت تنگ تھے۔شروع میں اُنہوں نے اُسے سمجھایا مگر جب نہ مانا تو کئی بار اُس کی پٹائی بھی کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ بدتمیز ہو گیا۔فوزیہ پڑھائی میں بھی اچھی تھی،ماں باپ اور اساتذہ کا کہا بھی مانتی تھی اور ہر سال امتحان میں فرسٹ بھی آتی تھی۔آج پھر ابو نے فرخ کی پٹائی کی تو فوزیہ کو اُس کی فکر ہوئی۔(جاری ہے)آخر اُس نے فرخ کو سمجھانے کی کوشش کی اور اُس سے بڑے پیار سے کہا۔بھائی کیا بات ہے تم پڑھتے کیوں نہیں ہو۔ہر وقت کھیل اور لڑائی جھگڑا کیا ہے یہ؟فرخ نے جواب دیا:”باجی مجھ سے پڑھائی نہیں ہوتی،کیا کروں ٹیچر کو بھی تھوڑا کام دینا چاہیے تاکہ میں آسانی سے کر لوں“۔فوزیہ نے کہا تم اپنا ہوم ورک نہیں کرتے،اس طرح کیسے ہو گا؟چلو میں تمہاری مدد کروں گی مگر تمہیں بھی تو پڑھائی پر توجہ دینی ہو گی۔فوزیہ سمجھ چکی تھی کہ فرخ پڑھنا تو چاہتا ہے مگر کچھ گھبراتا ہے۔چنانچہ فوزیہ ہوم ورک کرنے اور مشکل سوال سمجھانے میں فرخ کی مدد کرنے لگی۔یہ سب تو وہ خود بھی پڑھ چکی تھی۔اس لئے سب بہت آسان تھا۔فرخ نے شروع میں تو اُسے تنگ کیا مگر اُس کی محنت رنگ لائی اور وہ پڑھائی میں توجہ دینے لگا۔اس دوران فوزیہ نے فرخ کو اَن پڑھ لوگوں کے مسائل اور ناکامیوں سے آگاہ کیا،اُس نے جو کچھ پڑھا اور سیکھا تھا وہ سب فرخ کو پڑھا دیا۔فوزیہ نے اپنے امی ابو سے کہا:”اگر آپ کو فرخ پر غصہ آئے تو اُسے مارنے کی بجائے پیار سے سمجھائیں“۔امی ابو نے ایسا ہی کیا۔وہ پہلے سے زیادہ فرخ کا خیال رکھنے لگے۔فرخ نے بھی کھیل کو چھوڑ کر اپنی پڑھائی پر توجہ دی۔یہ سب فوزیہ کی محنت ہی تو تھی۔وہ فرخ کو سبق آموز کہانیاں اور دنیا کے کامیاب لوگوں کے بارے میں دلچسپ باتیں بتاتی جس سے فرخ بالکل بدل گیا۔ساتھ ہی فوزیہ اپنی پڑھائی پر بھی توجہ دے رہی تھی اور پھر اُن کے سالانہ امتحان ہوئے۔رزلٹ آیا تو فوزیہ تو کامیاب ہوئی ہی اس بار فرخ نے بھی پوزیشن لے لی۔امی ابو بہت خوش تھے۔انہیں فرخ ایک بدلے ہوئے روپ میں نظر آیا تو انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ آخرکار اُن کا بچہ راہ راست پر آ گیا ہے۔ " ایماندار لڑکا - تحریر نمبر 2192,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/imandar-larka-2192.html,"فاطمہ ساجد․․․پھول نگرایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک مشہور چور رہتا تھا۔ایک دن اس چور نے اپنے بیٹے کو پاس بلایا اور کہا:”اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو تم چور بننا ہی پسند کروں گے۔“اس کام میں تمہیں بہت فائدہ ہو گا۔بیٹے نے جواب دیا۔”ابا جان!اگر میں آپ کی نصیحت پر عمل کروں گا تو کوئی میری عزت نہیں کرے گا اور میں لوگوں کی نظروں میں گر جاؤں گا۔میرا دل کہتا ہے کہ میں محنت کرکے اپنے لئے روزی روٹی کماؤں اور عزت کی زندگی بسر کروں۔چور یہ سن کر بہت خفا ہوا اور بیٹے سے کہا:”کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ اپنے باپ کا حکم ضرور ماننا چاہئے،تو میرے حکم سے انکار کیوں کرتا ہے؟ تمہیں چور بننا ہی پڑے گا ورنہ میں تمہیں گھر سے نکال دوں گا۔(جاری ہے)لڑکا دوسرے دن ایک کسان کے گھر گیا اور اس سے ایک گائے کا سودا کیا اور وعدہ کیا کہ میں فصل کاٹنے کے موقع پر گائے کی قیمت ادا کر دوں گا۔جب لڑکا گائے کو گھر لایا تو اُس کے باپ نے سمجھا کہ یہ گائے وہ چُرا کر لایا ہے،اس لئے اُس کو شاباش دی۔چور کے ذہن میں یہ خیال پریشانی کا سبب بنا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسان کو گائے کا پتہ لگ جائے اور ہم لوگوں میں رسوا ہو جائیں۔کچھ عرصہ بعد گائے نے ایک بچھڑا جنا اور وہ خوب دودھ دینے لگی۔دونوں باپ بیٹے مزے سے اُس کا دودھ پینے لگے۔جتنا دودھ چور پیتا تھا،اتنا ہی اُس کا لڑکا بھی پیتا تھا مگر چور روز بروز نڈھال ہوتا گیا کیونکہ اُس کے ذہن میں بار بار یہی خیال آتا تھا کہ کہیں گائے کی چوری کا راز کھل نہ جائے اور وہ رسوا نہ ہو جائے۔دوسری طرف اُس کا لڑکا دودھ پی پی کر موٹا تازہ ہو رہا تھا۔ایک دن بیٹے نے باپ سے پوچھا ابا جان!آپ روز بروز اتنے کمزور کیوں ہوتے جا رہے ہیں جبکہ میں تندرست ہوتا جا رہا ہوں۔اس پر باپ نے اپنے دل کا اصلی حال بتا دیا۔بیٹے نے کہا:”ابا جان!آپ کوئی فکر نہ کریں میں نے وہ گائے کسان سے چرائی نہیں بلکہ خرید لی تھی،اس لئے کوئی اس گائے پر اپنا حق نہیں جما سکتا۔جب چور نے اپنے ہونہار اور ایماندار بیٹے کی بات سنی تو وہ پھولا نہ سمایا۔اُس نے بیٹے کے سامنے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی چوری نہیں کرے گا بلکہ محنت مزدوری کرکے حلال کی روٹی کمائے گا۔ " نیا کھیل - تحریر نمبر 2191,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naya-kheel-2191.html,"آج بی بندریا اور ان کے ساتھی گہری سوچ میں گم تھے۔آج انہیں کوئی ایسا کھیل کھیلنا تھا،جو انہوں نے کبھی نہ کھیلا ہو،لیکن کافی سوچ بچار کے بعد بھی کوئی نیا کھیل ذہن میں نہیں آ رہا تھا۔کچھ دیر بعد بارش شروع ہو گئی،سب جلدی سے اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے۔صبح ہونے پر بادل چھٹ گئے،سورج کی کرنیں درختوں کو چھونے لگیں۔سب جانور دوبارہ سے کسی نئے کھیل کے بارے میں سوچنے لگے۔بی لومڑی کو ایک جگہ بہت سارے ناریل نظر آئے۔بی لومڑی جوش میں اُٹھی اور ناریل کو سر سے اِدھر اُدھر کھسکانے لگیں۔ایک ناریل اُڑ کر درخت پر جا کر لگا۔اتنے میں بی بندریا کو خیال آیا کہ کیوں نہ ناریل سے ہی کھیلا جائے۔سب جانوروں نے ناریل پر لات مارنا شروع کر دی۔جب سب تھک گئے،تو انہوں نے اس کھیل کا میچ کرانے کا سوچا۔(جاری ہے)میچ کرانے سے پہلے بادشاہ سلامت شیر سے اجازت لینی تھی۔اس کام کے لئے سب نے بی مرغی کا نام تجویز کیا،جو بہت تمیزدار تھی۔بادشاہ سلامت سے بھی اجازت مل گئی۔سب نے کھیلنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔چیل اور عقاب کا کام تھا کہ وہ تیز آنکھوں سے اچھا سا میدان ڈھونڈیں۔بندر اور چوہے کا کام تھا کہ وہ گول کے لئے لکڑیاں جمع کریں۔ چیتے اور لومڑی کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ لکڑیوں کو اچھے طریقے سے سنوار کر گول بنائیں۔باقی جانوروں نے بھی گراؤنڈ بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،شتر مرغ نے امپائر کے فرائض انجام دینے تھے۔اب سب سامان تیار ہو چکا تھا۔صرف کل کا انتظار تھا۔پھر آخرکار انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور صبح ہو گئی۔دو ٹیمیں بنائی گئیں،ہر ٹیم چھ چھ کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ایک ہاف پندرہ منٹ کا مقرر کیا گیا۔یہ میچ ونر 2 اور وکٹری 2 کے درمیان تھا۔ونر 2 کی ٹیم میں چیتا،چیل،کوّا،بیل،بکرا اور عقاب تھے۔دوسری ٹیم میں لومڑی،گیدڑ،زرافہ،مرغا،بطخ اور زیبرا پر مشتمل تھی۔اب میچ شروع ہو چکا تھا۔پہلے پانچ منٹ میں تو کسی کو کھیلنا ہی نہیں آ رہا تھا۔زرافے نے اتنی اونچی کِک ماری کہ سب جانور دیکھتے ہی رہ گئے۔پھر عقاب جلدی سے اُڑا اور گیند کو لے آیا۔چھٹے منٹ میں چیل نے چیتے کو بہت تیز پاس دیا۔چیتے نے اپنی برق رفتاری دکھائی اور لومڑی کو گراتے ہوئے بہت تیز کِک مار کر ونر 2 کی طرف سے گول کی شروعات کیں۔پندرہ منٹ ختم ہونے تک لومڑی نے بہت کوشش کی،مگر وہ گول بنانے میں ناکام رہی۔اب دوسرے ہاف کے بارہ منٹ گزر چکے تھے،اب وکٹری 2 کے لئے گول کرنا ضروری ہوتا جا رہا تھا۔زرافے نے گیدڑ کو پاس دیا۔گیدڑ نے بطخ کی جانب گیند اُچھال دی۔بطخ نے گول کرنے کی کوشش کی،مگر کوّے نے عمدہ گول کیپنگ کرتے ہوئے گول بچا لیا۔اس کے ساتھ میچ کا اختتام ہو گیا۔میچ کے مہمانِ خصوصی جنگل کے بادشاہ شیر نے سب کھلاڑیوں کو انعامات سے نوازا۔آخرکار میچ کے فاتح ونر 2 رہے۔ تمام جیتنے اور ہارنے والے جانوروں نے مل کر خوشی کے نغمے گائے اور بہت خوش ہوئے کہ آج انہوں نے جنگل میں ایک نیا کھیل کھیلا۔ " پچھتاوا - تحریر نمبر 2190,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pachtawa-2190.html,"عطرت بتول”پاپا آج آپ میرے سکول مجھے لینے نہ آئیے گا میں خود ہی آ جاؤں گا“ سرمد نے سکول بیگ کاندھے پر لٹکایا اور گیٹ کی طرف جاتے ہوئے پاپا سے کہا۔ ”کیوں؟“ پاپا حیران ہو کر بولے”وہ اصل میں پاپا مجھے شرم آتی ہے آپ کی پرانی سی موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہوئے،میرے سب دوستوں کے پاس گاڑیاں ہیں ان کے ڈرائیور یا ان کے والدین انہیں گاڑیوں میں لینے آتے ہیں“ سرمد کی بات سن کر اس کے پاپا کا چہرہ اُتر گیا اور وہ تیزی سے واپس مڑ گئے اور سرمد سکول کے اندر چلا گیا۔یہ آج صبح کا واقعہ پہلا نہیں تھا،روزانہ سرمد کا سکول جانے سے پہلے موڈ خراب ہو جاتا تھا وہ تمام راستے خاموشی سے بائیک پر بیٹھا رہتا تھا آج پاپا نے پوچھ لیا تھا تو یہ جواب ملا کہ اسے بائیک پر بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے۔(جاری ہے)سرمد کے پاپا کا ایک چھوٹا سا جنرل سٹور تھا،وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن وہ چاہتے تھے کہ ان کے بچے پڑھ لکھ جائیں اور اچھے انسان بنیں اس کے لئے وہ بہت محنت کرتے تھے،اسی وجہ سے انہوں نے سرمد کو بہت اچھے سکول میں داخل کروایا تھا،اس کے دو چھوٹے بھائی اور بہن بھی اسی سکول میں پڑھتے تھے،سرمد سب میں بڑا تھا اور ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا،پاپا کو اس سے بہت اُمیدیں تھیں لیکن سرمد کی وہاں چند امیر زادوں سے دوستی ہو گئی تھی،وہ ان کی گاڑیاں اور ان کی پاکٹ منی دیکھ کر ان جیسا ہی بننا چاہتا تھا اور پاپا کو بہت تنگ کرنے لگا تھا، کبھی کہتا مجھے آپ کا سستا سا موبائل دیکھ کر بہت شرم آتی ہے اسے باہر نہ لے کر جایا کریں،کبھی بائیک پر بیٹھتے ہوئے موڈ خراب کر لیتا۔اسے ذرا احساس نہ تھا کہ اپنے محدود وسائل کے باوجود اس کے پاپا اس کی زندگی بہتر بنانے کے لئے کتنی محنت کرتے ہیں، اس کی ماما کپڑوں کی سلائی کرتی ہیں دونوں سارا دن کام کرکے تھک جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ سرمد اور اس کے بہن بھائیوں کی فرمائشیں پوری کریں۔سرمد کی غلط سوچ اور اس کے منفی رویے کا اثر اس کے چھوٹے بہن بھائیوں پر بھی پڑ رہا تھا جس وجہ سے ماما پاپا ہر وقت پریشان رہنے لگے تھے۔آخر ایک دن اس کے پاپا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تنگ آ کر انہوں نے سرمد سے کہا ”بس کل سے تم سکول نہیں جاؤ گے،میرے ساتھ دوکان پر بیٹھو گے“ کیا․․․․؟سرمد نے حیرانی سے پوچھا تو پاپا بولے”تمہیں اپنی غربت پر شرم آتی ہے،آج تم پارٹی کے لئے مہنگے کپڑوں کی ضد کر رہے ہو جو میں افورڈ نہیں کر سکتا یہ ہی کر سکتا ہوں کہ تمہیں سکول ہی نہ بھیجوں“ ”ٹھیک ہے“ سرمد نے بھی غصے سے کہا اور زور سے دروازہ بند کرتا ہوا باہر نکل گیا․․․․!آج اس بات کو بہت سال ہو گئے ہیں سرمد کے چھوٹے بہن بھائی پڑھ لکھ چکے ہیں اور اس سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔چھوٹے بھائی نے میٹرک میں پوزیشن لی تو اسے سکالر شپ مل گئی باقی پڑھائی اس نے سکالر شپ پر کی اس کے پاپا اس سے بہت خوش تھے،بہن کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد لکچرر شپ مل گئی،سرمد سے دوسرے نمبر والا اس سے چھوٹا بھائی ڈاکٹر بن گیا۔آج سرمد افسردہ سا جنرل سٹور پر بیٹھا ہوتا ہے اور سوچتا ہے کاش اس کی سوچ غلط نہ ہوتی،کاش وہ صرف اور صرف پڑھائی پر توجہ دیتا وہ دوسروں کی گاڑیاں،موبائل اور پاکٹ منی سے متاثر نہ ہوتا اور محنت کرکے اپنی زندگی سنوارتا،ماں باپ کی دل آزاری نہ کرتا․․․․!۔لیکن اب کیا ہو سکتا ہے،اب تو وقت گزر چکا جو کبھی واپس نہیں آ سکتا چاہے وہ کتنا ہی پچھتائے۔بچو․․․․!آپ اس کہانی سے سبق سیکھیں،آپ کا وقت بہت قیمتی ہے اسے ضائع نہ کریں۔امیر بچوں کی نقل کرنے کی کوشش نہ کریں،جو ماں باپ لے کر دیں اس پر خوش رہیں ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھیں کہ وہ کیسے زندگی گزارتے ہیں،اپنی توجہ صرف اور صرف پڑھائی پر مرکوز رکھیں،صرف اسی سے آپ کی زندگی بہترین بن سکتی ہے۔ " چالاک بلی - تحریر نمبر 2189,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chalak-billi-2189.html,"نوید اخترایک شخص کے تین بیٹے تھے جب وہ فوت ہوا تو تینوں نے گھر میں موجود اشیاء آپس میں تقسیم کر لیں۔بڑے بیٹے نے کہا کیونکہ میں تم دونوں سے بڑا ہوں اس لئے آٹا پیسنے کی چکی میں لوں گا۔منجھلا بھائی بولا ”اور میں آج کے بعد اس جھونپڑی کا مالک ہوں۔“ سب سے چھوٹے بھائی عمر کو دونوں بھائیوں نے کہا اب گھر میں سوائے اس بلی کے اور کچھ نہیں اس لئے تم یہ بلی لے لو۔عمر بلی لے کر گھر سے نکل آیا۔وہ ایک درخت کے نیچے اُداس بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اس مشکل وقت میں کیا کرے۔بیٹھے بیٹھے عمر نے بے خیالی میں بلی کو مخاطب کرکے پوچھا ”بی مانو اب ہم دونوں کا کیا بنے گا؟“ بلی نے جواب دیا ”میرے آقا!آپ بالکل پریشان نہ ہوں جیسے میں آپ کو کہوں آپ اس پر عمل کرتے جائیں پھر دیکھنا آپ اپنے دونوں بھائیوں سے امیر ہو جائیں گے۔(جاری ہے)“ بلی کو بولتے دیکھ کر عمر بہت حیران ہوا۔اس نے بلی سے پوچھا ”مجھے کیا کرنا چاہیے؟“ بلی نے کہا آپ مجھے ایک جوڑا کپڑوں کا اور ایک جوڑا اچھے سے جوتوں کا خرید دیں اور باقی کام مجھ پر چھوڑ دیں۔عمر نے بلی کو کپڑے اور جوتے خرید کر دے دیئے۔بلی نے کپڑے اور جوتے پہنے اور جنگل میں سے ایک موٹا تازہ خرگوش پکڑ کر بادشاہ کے محل کی طرف چل پڑی۔مانو نے محل کے دربان کو کہا وہ کیمل آباد کے نواب کی طرف سے بادشاہ کے لئے تحفہ لے کر آئی ہے اس لئے اسے بادشاہ سے ملنے دیا جائے۔آج سے پہلے کسی نے بھی بلی کو بولتے نہیں سنا تھا۔اس لئے فوراً ہی مانو کو بادشاہ سے ملاقات کے لئے اندر بھیج دیا گیا۔بادشاہ اپنے دربار میں بیٹھا تھا کہ بی مانو نے جا کر کہا ”بادشاہ سلامت یہ خرگوش آپ کے لئے میرے آقا جناب عمر صاحب نواز آف کیمل آباد نے تحفہ کے طور پر بھیجا ہے برائے مہربانی میرے آقا کا تحفہ قبول فرمائیں۔“ بادشاہ نے بلی کو بولتے دیکھا تو بہت حیران ہوا۔اس نے مانو سے یہ بھی نہ پوچھا کہ ریاست کیمل آباد کہاں پر ہے۔خرگوش لے کر بادشاہ نے کہا ”تم اپنے آقا نواب آف کیمل آباد کا میری طرف سے شکریہ ادا کر دینا اور ان کو میرا سلام کہنا۔“ بلی نے کہا”جی اچھا․․․․حضور“اور وہاں سے واپس آ گئی۔چند روز بعد بلی نے دو موٹے موٹے تیتر پکڑے اور انہیں لے کر پھر بادشاہ کے دربار میں چلی گئی۔وہاں جا کر پہلے کی طرح مانو نے تیتر بادشاہ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نواب آف کیمل آباد کی طرف سے بادشاہ کے لئے تحفہ ہے۔کچھ دن بعد مانو بادشاہ کے دربار تحفہ لے کر گئی تو اس نے سنا کہ بادشاہ اپنی بیٹی کے ساتھ دریا کے کنارے سیر کے لئے جانے والا ہے۔وہ جلدی جلدی واپس آئی اور عمر کو کہنے لگی ”آقا آج آپ میرے ساتھ دریا پر چلیں اور وہاں دریا میں نہائیں۔“ عمر نے پوچھا اس کی کیا ضرورت ہے۔مانو نے کہا آپ کوئی سوال نہ کریں جیسا میں کہتی ہوں ویسے ہی کرتے جائیں۔عمر دریا میں نہانے لگا تو مانو نے اس کے کپڑے اُٹھا کر چھپا دیئے۔کچھ دیر بعد بادشاہ کی سواری ادھر آئی تو مانوں نے شور مچا دیا کہ اس کے آقا کے کپڑے کوئی چوری کرکے لے گیا ہے۔بلی کی آواز سن کر بادشاہ نے شاہی سواری روکنے کا حکم دیا بلی کو بلا لیا۔بلی نے بادشاہ سے کہا ”جناب میرے آقا دریا میں نہا رہے ہیں اور کوئی ان کے کپڑے اُٹھا کر لے گیا ہے۔“ یہ سن کر بادشاہ نے اپنے خاص ملازم کو طلب کیا اور کہا ”جلدی سے محل میں جاؤ اور نواب آف کیمل آباد کے لئے خوبصورت نفیس تراش کا سوٹ لے کر آؤ․․․․اور دیکھو یہ بہترین کپڑے کا بنا ہوا ہو کیونکہ ہم نے نواب آف کیمل آباد کو ان کے شایان شان کپڑوں کا تحفہ دینا ہے۔“ملازم کپڑے لے کر واپس آیا تو عمر کو کپڑے پہننے کے لئے دیئے گئے۔عمر نے دریا سے نکل کر کپڑے پہنے۔اب بلی نے بادشاہ سے عمر کا تعارف کروایا۔بادشاہ نے کہا نواب صاحب آپ ہمارے ساتھ ہی بگھی میں بیٹھ جائیں ہم آپ کو گھر چھوڑ دیں گے۔عمر خاموشی سے شاہی بگھی میں بیٹھ گیا۔اس کے ساتھ والی سیٹ پر شہزادی بیٹھی تھی۔بلی بھاگی بھاگی شاہی بگھی سے آگے چلنے لگی۔کچھ دور کھیتوں میں لوگ گھاس کاٹ رہے تھے۔بلی ان لوگوں کے پاس گئی اور بولی دیکھو بادشاہ سلامت کی سواری ادھر آ رہی ہے وہ تم سے پوچھیں گے یہ گھاس کے کھیت کس کے ہیں تو تم کہنا یہ نواب آف کیمل آباد کے ہیں اگر تم یہ جواب نہیں دو گے تو شاہی کارندے تمہیں قتل کر دیں گے۔یہ سن کر لوگ خوفزدہ ہو گئے۔شاہی بگھی وہاں پہنچی تو بادشاہ کے سوال کے جواب میں انہوں نے وہی کہا جو بلی نے انہیں سکھایا تھا۔کچھ دور اور آگے جا کر کھیتوں میں لوگ گندم کاٹ رہے تھے بلی نے انہیں بھی جا کر یہی کہا کہ بادشاہ سلامت پوچھیں گے یہ کھیت کس کے ہیں تو انہیں جواب دیا جائے کہ یہ گندم کے کھیت نواب آف کیمل آباد کی ملکیت ہیں۔دوسری صورت میں انہیں قتل کر دیا جائے گا۔بادشاہ کی سواری یہاں پہنچی تو بادشاہ کے سوال کے جواب میں لوگوں نے بتایا کہ یہ کھیت نواب آف کیمل آباد کے ہیں۔اب تو بادشاہ پر نواب آف کیمل آباد کی دولت کا بہت رُعب ہوا تھا کہ اس میں ایک بہت بڑا جن رہتا ہے۔مانو نے عمارت کے دروازے پر دستک دی۔جن نے دروازہ کھولا تو مانو نے ڈرتے ڈرتے کہا ”میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے آپ کو چند لمحوں میں کسی بھی رُوپ میں بدل سکتے ہیں۔“جن نے کہا ہاں تم نے بالکل ٹھیک سنا ہے۔اگر تمہیں یقین نہیں تو اندر آؤ میں تمہیں اس کا عملی مظاہرہ دکھاؤ۔اندر آ کر جن نے اپنے آپ کو ایک خوفناک شیر میں بدل لیا۔مانو بلی ڈر کر کمرے میں رکھی الماری کے اوپر جا بیٹھی اور کہنے لگی ”بے شک آپ جیسے بڑے ڈیل ڈول کے مالک کے لئے اتنے بڑے جانور کی شکل اختیار کرنا کوئی مشکل نہیں۔مزا تو جب ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی چھوٹے سے جانور کی طرح بنائیں مثلاً چوہا وغیرہ۔“جن نے بلی کی بات سن کر غصے سے کہا ہم یہ بھی کر سکتے ہیں۔اور ایک زور دار چنگھاڑ مار کر اس نے اپنے آپ کو چوہے میں تبدیل کر لیا۔یہ دیکھتے ہی بلی نے الماری سے چھلانگ لگائی اور جھپٹ کر چوہے کو نگل لیا۔اب وہ بالکل بے فکر ہو کر دروازے پر جا کھڑی ہوئی۔شاہی بگھی جب اس عظیم الشان عمارت کے قریب آئی تو بلی بھاگ کر آگے آئی اور بولی ”جناب میں بادشاہ سلامت کو نواب آف کیمل آباد کی رہائش گاہ پر خوش آمدید کہتی ہوں۔“ اتنی بڑی عمارت دیکھ کر بادشاہ کے دل میں عمر کی عزت مزید بڑھ گئی۔اب بادشاہ نے عمر سے پوچھا ”کیا میں آپ کے گھر کو اندر سے بھی دیکھ سکتا ہوں۔“عمر بیچارہ جو تمام واقعات سے بے خبر تھا صرف گردن ہلا کر رہ گیا۔بادشاہ نے عمر کی حویلی اور اس کے کھیتوں کی خوب تعریف کی۔اور اس نے عمر سے پوچھا کیا وہ شہزادی سے شادی کرنا چاہے گا۔عمر کو بھی شہزادی اچھی لگی تھی اس لئے عمر نے فوراً ہی شادی کی حامی بھر لی۔کچھ دن بعد شہزادی اور عمر کی شادی ہو گئی اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔ " آمنہ اور ایلیا - تحریر نمبر 2188,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/amna-aur-elia-2188.html,"عطرت بتولآمنہ اور ایلیا ویسے تو بہت اچھی بچیاں تھیں،لیکن ان کی ایک عادت بہت بُری تھی اور وہ یہ کہ ان کو بڑوں کی باتیں سننے کا شوق تھا،ان کی اس عادت سے سب گھر والے تنگ تھے لیکن مجال ہے کہ ان پر کوئی اثر ہو،شام کی چائے کے وقت جب امی چچی اور تائی جان لاؤنج میں محفل جمائے گپ شپ کر رہی ہوتیں،خاندانی سیاست پر تبصرہ کر رہی ہوتیں تو یہ دونوں بھی موجود ہوتیں،بظاہر تو قالین پر بے نیازی سے بیٹھی رسائل کی ورق گردانی کر رہی ہوتیں لیکن کان بڑوں کی باتوں پر ہوتے اس دن بھی یہ دونوں حسب معمول بڑوں کی محفل میں موجود تھیں، ایک دو بار امی نے کہا کہ آپ دونوں باہر جا کر کھیلو یا اپنی پڑھائی کرو لیکن انہوں نے سُنی اَن سُنی کر دی،چھوٹی چچی کی بات ان کو بڑے مزے کی لگ رہی تھی جو کہہ رہی تھیں کہ آج شام شادی کی تقریب میں کہیں خالہ ساجدہ نہ آئی ہوں،انہوں نے اتنا گہرا میک اپ تھوپا ہوتا ہے اور اتنا زیادہ زیور پہنا ہوتا ہے کہ انہیں دیکھ کر ہنسی آ جاتی ہے اور کیا․․․․امی نے بھی ہاں میں ہاں ملائی بہت ہی مضحکہ خیز شخصیت ہیں،باتیں تو اتنی لمبی کرتی ہیں کہ جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے،تائی جان نے بھی تبصرہ کیا۔(جاری ہے)اب سب خواتین خالہ ساجدہ کی شخصیت پر تبصرے کر رہی تھیں اور آمنہ ایلیا کو بہت ہنسی آ رہی تھی۔شام کو خاندان کی شادی پر جانے کے لئے سب گھر والے تیار ہو گئے،آمنہ اور ایلیا بھی تیار ہو گئیں اور جب وہ شادی حال میں پہنچے تو کافی مہمان آ چکے تھے اور خوش گپیوں میں مصروف تھے،آمنہ اور ایلیا نے بھی دو کرسیاں سنبھال لیں اور بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں،ایلیا کہنے لگی آمنہ تمہیں یاد ہے آج چچی اور امی وغیرہ خالہ ساجدہ کا ذکر کر رہی تھیں اور سب ہنس رہے تھے۔”ہاں ہاں“․․․․آمنہ بولی․․․․!شاید وہ آئی ہوں لیکن ہمیں تو ان کا پتہ نہیں کہ وہ کون سی ہیں۔بھئی جس آنٹی نے بہت زیادہ میک اپ تھوپا ہو گا اور بہت زیور پہنا ہو گا وہ ہی خالہ ساجدہ ہونگی․․․․!”کیا کہا تم نے․․․․؟“پیچھے سے تیز چیختی ہوئی آواز آئی ایلیا اور آمنہ نے بیک وقت پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کی سٹی گم ہو گئی کیونکہ غصہ سے لال بھبوکہ چہرہ لیئے بے تحاشہ زیور پہنے میک اپ تھوپے ایک خاتون غصہ سے انہیں گھور رہی تھی۔وہ یقینا خالہ ساجدہ ہی تھیں”ٹھہرو میں پوچھتی ہوں تمہاری امی اور چچی سے“ وہ یہ کہتے ہوئے انھیں اور سیدھا وہاں پہنچیں جہاں امی اور چچی بیٹھی تھیں۔پھر وہ گھمسان کا رن پڑا کہ توبہ ہی بھلی․․․اور گھر آ کر ایلیا اور آمنہ کی جو درگت بنی وہ ایک الگ کہانی تھی۔لیکن اس بات سے یہ فائدہ ہوا کہ دادی نے سارا قصہ سن کر بڑوں کو بھی لتاڑا کہ غیبت کرنا بہت بُری بات ہے اور پھر بچوں کے سامنے دوسروں کی باتیں بنانا اور بھی بُری بات ہے۔اس دن کے بعد سے دادی نے بڑوں اور بچوں پر غیبت کرنے پر پابندی لگا دی ان سب کو سمجھ آ گئی تھی کہ اللہ نے غیبت کو کیوں اتنا ناپسند کیا ہے۔ " اُلو کی بیوقوفی - تحریر نمبر 2187,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ullu-ki-bewaqoofi-2187.html,"ابو معاویہارے تم نے یہ کیا کر دیا؟یہ تو میرے بچے تھے،اپنے دوست کے بچے ہی کھا گئی۔شور کی آواز سُن کر اَڑوس پڑوس کے چمگادڑ،اُلو کے گھر جمع ہو گئے،وہاں اُلو چیل سے جھگڑ رہا تھا اور اپنے بچے کھا جانے پر غصہ کر رہا تھا۔اُلو نے روتے ہوئے اپنے پڑوسیوں کو بتایا:”نئے سال کی خوشی میں جو جنگلی پرندوں کی دعوت تھی نا“!اس میں میری اس چیل سے دوستی ہو گئی تھی،میں نے اس سے وعدہ بھی لیا تھا کہ تم میرے بچوں کو نہیں کھاؤ گی،لیکن!یہ بے وفا نکلی،دوست نہیں میری دشمن نکلی اور آج اس نے میرے بچوں کو کھا لیا۔اُلو روئے جا رہا تھا،بچوں کے غم میں اس کے آنسو رُک ہی نہیں پا رہے تھے۔اپنے پڑوسی کی حالت دیکھ کر چمگادڑوں نے بھی چیل کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔(جاری ہے)چیل نے انہیں خاموش کرواتے ہوئے کہا،آپ سب اس کے پڑوسی ہیں نا!پہلے میری بات سنیں،پھر فیصلہ کیجئے گا،چیل نے کہا:”ابھی تک آپ نے آدھی بات سُنی ہے،پوری بات آپ لوگوں کو پتا نہیں ہے،ذرا اپنے پڑوسی سے پوچھو کہ جب میں نے اس سے کہا کہ تمہارے بچے میں کیسے پہچانوں گی؟تو اس نے کیا جواب دیا تھا“؟سب چمگادڑوں نے اُلو کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا،ہاں بھئی!تم نے کیا بتایا تھا؟ہمیں بھی بتاؤ؟اُلو نے آنسو روکتے ہوئے کہا،میں نے وہی بتایا تھا جو حقیقت ہے کہ میرے بچے سب پرندوں کے بچوں سے زیادہ خوبصورت ہیں،ان کی آواز سُریلی ہے،ہاتھ نرم اور گورے گورے ہیں،ان کے پَر چمکیلے ہیں۔ہیں!تم نے یہ بتایا تھا،تعجب سے چمگادڑوں نے کہا،چیل کو اپنے بچوں کے بارے میں یہ نشایاں بتائی تھیں؟چیل نے کہا،اب بتاؤ!اس میں قصور کس کا ہے؟میں تو شکار کی تلاش میں اِدھر اُدھر اُڑ رہی تھی،ایک گھونسلے میں چار پانچ کالے کلوٹے،بد شکل موٹی اور بے سُری آواز میں ہُوکتے ہوئے نظر آئے تو میں نے سوچا کہ یہ بچے میرے دوست اُلو کے ہر گز نہیں ہو سکتے،کیونکہ نہ تو یہ خوبصورت ہیں اور نہ ان کی آواز میٹھی اور سُریلی ہے،یہ سوچ کر میں نے ان کو کھا لیا،اس کے بعد جو ہوا وہ تم سب دیکھ رہے ہو۔یہ سننے کے بعد ایک چمگادڑ نے آگے بڑھ کر اُلو سے کہا :”دیکھو!اس میں چیل کا کوئی قصور نہیں،ساری غلطی تمہاری خود کی ہے،تم نے اپنے بچوں کے بارے میں درست معلومات نہیں دیں،اس لئے تمہیں نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔دراصل ہر ماں باپ کو اپنے بچے بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں لیکن حقائق چھپانا بعض اوقات مہنگا پڑ جاتا ہے“۔ " مددگار بزرگ - تحریر نمبر 2186,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/madadgar-bazurg-2186.html,"فاطمہ اصغر”انوشا،انوشا بیٹے!آپ جواب کیوں نہیں دے رہی ہیں؟“امی نے انوشا کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔مگر امی یہ دیکھ کر پریشان ہو گئیں کہ وہ بیڈ پہ بیٹھی رو رہی ہے اور ساتھ ہی اُس کی ٹوٹی ہوئی پنسل اور پھٹی ہوئی کاپی پڑی ہے۔پیارے بچو!کیا آپ کو پتہ ہے کہ انوشا کون ہے اور وہ کیوں رو رہی ہے؟انوشا ایک بہت اچھی اور ذہین بچی تھی۔وہ ہر جماعت میں اول آتی تھی۔آج کل بھی اُس کے چوتھی جماعت کے امتحانات ہو رہے تھے اور کل اُس کا ریاضی کا پیپر ہے اور وہ بہت محنت سے اپنے پیپر کی تیاری کر رہی تھی۔اُس نے سب سوالوں کی تیاری کر لی تھی مگر آخر کے کچھ سوال سمجھ نہیں آ رہے تھے۔اُس نے خود سے سمجھنے کی بہت کوشش کی مگر پھر بھی سمجھ نہ آئے۔(جاری ہے)اس پر اُس نے غصے میں آ کر اپنی پریکٹس کاپی پھاڑ دی اور قلم بھی نیچے پھینک دیا۔جب اُس کی امی انوشا کے کمرے میں اُسے دودھ دینے کے لئے آئیں تو اُنہوں نے دیکھا کہ انوشا بیڈ پہ بیٹھی ہوئی ہے،اُس کی کاپی پھٹی ہوئی ہے اور قلم ٹوٹا ہوا ہے تو اُنہوں نے وجہ پوچھی۔انوشا نے ساری بات اُن کو بتا دی۔امی نے انوشا کو سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے بچوں کی مدد اور رہنمائی کے لئے اُن کے بڑوں کو بنایا ہے۔اس لئے جب بھی کوئی بات سمجھ نہ آ رہی ہو تو اپنے بڑوں سے مدد لے لینی چاہئے۔یہ سن کر انوشا بہت خوش ہوئی اور کاپی،قلم لے کر اپنی امی کے پاس بیٹھ گئی۔اُنہوں نے تمام سوالات باآسانی انوشا کو سمجھا دیئے۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بڑوں،بزرگوں کی قدر کرنی چاہیے اور اپنے ہر کام میں ان کی مدد لینی چاہیے۔ " نئی اُمید - تحریر نمبر 2185,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nayi-umeed-2185.html,"زینب عمرانابتسام اور اُس کے دوست بار بار شکست کھا کر تھک چکے تھے۔پتہ نہیں کیا ماجرا تھا کہ بے حد محنت کرنے کے باوجود وہ لوگ بیت بازی کا مقابلہ جیتنے سے رہ جاتے تھے۔ابتسام جماعت ششم کا ایک طالب علم تھا۔وہ تھا تو بہت ذہین مگر اُس کی یہ عادت بہت بُری تھی کہ اگر کوئی اُس کو کسی اچھی بات سے آگاہ کرتا یا اُسے کچھ اچھی چیز سکھانے کی کوشش کرتا یا اُسے کچھ سمجھاتا تو وہ اُس بات کو ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا۔یہی نہیں بلکہ وہ اپنے بڑوں کا بھی احترام نہ کرتا تھا۔کسی کی جیت یا کامیابی پر وہ اُس سے حسد کرتا تھا۔وہ اس سکول میں جماعت سوئم سے پڑھتا آ رہا تھا۔اُس کی دوستی ساحر،شارق اور عمیر سے ہوئی جو اس جماعت کے سب سے اچھے بچے تھے۔(جاری ہے)ابتسام ایک گندی مچھلی کی مانند اُن کی صحبت میں رہا تو اُس نے سارے تالاب کو گندا کرنے کا کام کیا اور ساحر،شارق اور عمیر بھی اُسی کی طرح بن گئے۔یوں وہ چاروں اپنی کلاس کے سب سے بداخلاق بچے بن گئے۔ان چاروں کا پسندیدہ مشغلہ بیت بازی تھا۔اسی لئے وہ اپنے سکول کے باقی مقابلوں میں حصہ لینے کے بجائے صرف بیت بازی کے مقابلے میں ہی حصہ لیتے مگر مجال ہے جو کبھی انہوں نے کسی مقابلے میں کامیابی حاصل کی ہو۔ابتسام اپنے کمرے میں بیٹھا پھوٹ پھوٹ کر روتا رہا۔وہ دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ کسی چیز کے لائق ہی نہیں ہے،وہ کبھی جیت ہی نہیں سکتا وہ ابھی یہ باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ یکا یک اُس کے کمرے کا دروازہ کھلا۔اُس نے جلدی جلدی اپنے آنسو صاف کئے اور دروازہ کھولنے والے کی طرف متوجہ ہو گیا۔دروازہ کھولنے والے اُس کے والد تھے۔اُنہوں نے اندر آ کر کمرے کا دروازہ بند کرکے اُس سے پوچھا:”ابتسام بیٹا!سب ٹھیک تو ہے نا؟آپ کی امی نے مجھے بتایا کہ آپ کسی سے بات نہیں کر رہے اور اپنے کمرے میں بند ہو۔ارے ارے․․․․․یہ میرے بیٹے کی آنکھوں میں آنسو کیسے؟“ابو نے ابتسام کی آنکھوں میں آنسو دیکھ لئے تھے۔ابتسام اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکا اور اپنے ابو کی گود میں سر رکھ کر روتے ہوئے کہنے لگا میں بار بار شکست کھا کر تھک چکا ہوں،پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے میرے ساتھ،میں تو اب بالکل نااُمید ہو گیا ہوں۔اُس کے ابو نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا!نہیں میرے بچے ایسا نہیں کہتے۔چلو میں تمہیں تمہاری ہارنے کی وجہ بتاتا ہوں۔ابتسام نے ابو کی گود سے سر اُٹھا کر کہا!کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں کیوں نہیں جیت پاتا؟آپ کو پتہ ہے تو مجھے بتایئے۔ابو نے کہا:”ہاں میرے بیٹے مجھے معلوم ہے،دیکھو پہلی وجہ تو یہ ہے کہ تم بڑوں کا احترام نہیں کرتے،کیا تمہیں پتہ ہے کہ بڑے اگر بچوں سے کچھ کہتے ہیں تو وہ اُن کے فائدے کیلئے ہی کہتے ہیں۔اُنہوں نے اپنی زندگی میں جو مشکلات جھیلی ہوتی ہیں اُن سے جو تجربات لئے ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں کو اس لئے بتاتے ہیں تاکہ وہ اُن سے ہوشیار رہیں“۔ابتسام اُن کی باتوں کو غور سے سُن رہا تھا۔ابو نے پھر کہنا شروع کیا:”جو بچے بڑوں کا کہنا مانتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں،پھر دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ کسی اور کی کامیابی پر اُس سے حسد کرنے لگتے ہو اور اُس کے ساتھ بُرا سلوک کرنے لگتے ہو۔بیٹا پتہ ہے،اگر ہم کسی سے حسد کرتے ہیں یا کسی کا بُرا چاہتے ہیں تو ہمارے ساتھ بھی بُرا ہوتا ہے۔اس سے دوسروں کو کچھ نہیں ہو گا بلکہ ہمیں نقصان ہو گا اور کوئی ہمیں پسند نہیں کرے گا۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ خود کو ایسا بنائیں کہ سب ہماری طرح بننا چاہیں اور ہمیں اللہ کا ہر بات پر شکر گزار ہونا چاہئے۔ابتسام نے ابو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ابو میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ابو نے اُس کی طرف دیکھا اور پھر کہا اب تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی چیز سے بہت جلد ہی نااُمید ہو جاتے ہو۔مجھے معلوم ہے کہ جب تم پہلی مرتبہ بیت بازی کا مقابلہ ہارے تھے تب ہی سے تم نااُمید ہو چکے ہو۔اسی لئے تم بار بار ہار جاتے ہو۔دیکھنا ایک دن ضرور تم کامیاب ہو گے۔اپنا اخلاق اچھا رکھو،اللہ پر بھروسہ رکھو،مجھے اُمید ہے کہ تم ضرور سمجھ گئے ہو گے۔ابو کی بات سُن کر ابتسام نے اپنی بھیگی ہوئی آنکھوں کو صاف کیا اور کہا:”ابو آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔میں اب آپ کی تمام باتوں پر عمل کروں گا اور کبھی بھی اللہ سے نااُمید نہیں ہوں گا۔ابو بہت خوش ہوئے اور اُنہوں نے ابتسام کو گلے لگا لیا کیونکہ اُس نے نیا عزم کر لیا تھا اور وہ بدل چکا تھا۔ " بادشاہ ہار گیا - تحریر نمبر 2184,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-haar-gaya-2184.html,"روبینہ ناز․․․․کراچیمینا ایک خوبصورت اور رحم دل لڑکی تھی۔اُس کی جانوروں کے ساتھ بہت دوستی تھی۔اسی لئے اُس نے جنگل میں ایک چھوٹا سا آشیانہ بنا رکھا تھا۔جس میں وہ اور اُس کے ماں باپ رہتے تھے۔وہاں اُس نے بہت سے جانور بھی پال رکھے تھے۔وہ اپنا زیادہ تر وقت اُن کے کھانے پینے اور اُن کے ساتھ کھیل کود میں گزارتی تھی۔جنگل کے ساتھ ہی ایک تالاب بھی تھا۔جس کا پانی مینا اور اُس کے گھر والے پینے اور نہانے کیلئے استعمال کرتے تھے۔وہ اپنی اس چھوٹی سی دنیا میں بہت خوش تھی کہ اچانک اُس کی پیاری سی دنیا کو کسی کی نظر لگ گئی۔ہوا یوں کہ ایک روز اُس ریاست کا بادشاہ وہاں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شکار کیلئے آ دھمکا،اُسے مینا کا پالتو مور بہت پسند آیا اور وہ مور اُس نے اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کر لیا،مینا روتی رہی چلاتی رہی لیکن بادشاہ نے اُس کی ایک نہ سنی اور اُس مور کو اپنے ساتھ محل لے آیا۔(جاری ہے)مینا نے آس پاس کے لوگوں سے اپنا مور واپس لانے کیلئے مدد مانگی لیکن کسی نے بھی مینا کی مدد نہ کی۔کوئی اور راستہ نہ پا کر آخرکار مینا نے اپنی مدد آپ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے تمام جانوروں اور تالاب کو ساتھ لے کر وہ بادشاہ کے محل کی طرف چل پڑی۔وہاں پہنچ کر اُس نے بادشاہ کو اپنے آنے کا مقصد بتایا تو بادشاہ کو بہت غصہ آیا۔اُس نے مینا اور اُس کے تمام ساتھیوں کو جیل میں قید کر دیا اور پھر اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان سب پر موٹے موٹے چوہے چھوڑ دیئے جائیں۔یہ دیکھ کر مینا نے اپنی ایک وفا دار بلی کو بلایا اور اُسے چوہے کھانے کا حکم دیا تو وہ بلی سارے چوہوں کو ہڑپ کر گئی۔اگلی صبح بادشاہ نے مینا اور اُس کے ساتھیوں کو صحیح سلامت دیکھا تو اُن سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان سب پر ہاتھی چھوڑ دیا جائے مگر مینا نے اپنی خاص چیونٹی کی مدد حاصل کی جس نے ہاتھی کی سونڈ میں گھس کر اُسے مار ڈالا۔اگلی صبح بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس لڑکی مینا کو میرے پلنگ کے ساتھ باندھ دو اور کھانا پینا مت دو۔اچھا ہے کہ یہ بھوکی ہی مر جائے۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا،رات کو مینا نے اپنے ساتھی تالاب کو بلا لیا جو بادشاہ کو پلنگ سمیت بہا کر لے گیا۔یہ دیکھ کر بادشاہ خوف سے چلانے لگا اور اُس نے فوری طور پر مور کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔مینا اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس جنگل میں آ گئی اور سب وہاں ہنسی خوشی رہنے لگے۔ " چمنی کی صفائی - تحریر نمبر 2183,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chimni-ki-safai-2183.html,"احمد عدنان طارق․․․فیصل آبادبھولو خرگوش بہت ناراض تھا۔وہ چمنی میں آگ لگانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا تھا۔اس نے پھونکنی سے آگ جلانے کی کوشش کی تو دھواں اُس کے حلق میں گھس گیا جس سے اُسے بے تحاشہ کھانسی آنے لگی اور آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔خرگوش نے سوچا کہ اُسے چچا بھالو کے پاس جا کر پوچھنا چاہئے کہ وہ کیا کرے۔چچا بھالو کوئلوں کی سوندھی سوندھی آگ کے پاس بیٹھے تھے،کوئلے جل رہے تھے اور سارے گھر میں سردی باہر سے کم تھی۔خرگوش بولا:”چمنی کی مزے کی آگ کیا مدد دیتی ہے میرے گھر میں تو بہت سردی ہے۔“چچا خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے،اس کی بات سن کر بولے لگتا ہے تمہاری چمنی گندی ہونے کی وجہ سے بند ہو گئی ہے،تمہیں اس کی صفائی کرنی ہو گی۔(جاری ہے)بھولو حیران ہو کر بولا:”صفائی لیکن میرے پاس تو جھاڑو ہی نہیں میں جھاڑو کس سے لوں۔“پھر گھر واپس آنے تک بھولو کی بھویں بھی چڑھی رہیں اور بڑی مونچھیں بھی۔وہ سوچ رہا تھا اور آخر سوچتے سوچتے اُسے ایک ترکیب سوجھ ہی گئی۔اگلے دن وہ بی لومڑی کے گھر گیا اور اُسے ادب سے کہنے لگا۔معاف کیجئے گا مجھے لگتا ہے میری چمنی میں ایک سونا تازہ مرغا پھنس گیا ہے۔ مجھے اُس کی اذان دینے کی آوازیں آ رہی ہیں۔بی لومڑی کو اس سے بڑی خوش خبری بھلا کیا مل سکتی تھی کہ وہ رات کا کھانا بھنے مرغ سے کھائے۔وہ فوراً بھولو کے ساتھ ہو لی۔وہ بھولو خرگوش کے گھر پہنچے تو وہ بولا:”گھر گندا ہے،برا نہ منائیے گا۔میں ایسے ہی ذرا گھر کی صفائی کر رہا ہوں۔“پھر اُس نے چمنی میں جھانکا اور بولا۔”مجھے اُس کی دم کے پر نظر آ رہے ہیں۔اگر آپ اس چمنی میں چڑھیں تو مجھے امید ہے کہ آپ اُسے پکڑ لیں گی۔“بی لومڑی ہانپتے کانپتے بڑی مشکل سے چمنی میں چڑھیں۔تو چمنی کے نیچے سیاہ راکھ کا ڈھیر لگنے لگا۔بی لومڑی کی لمبی دم بالکل ایک جھاڑو کا ہی کام کر رہی تھی،جو اِدھر اُدھر چمنی کی دیواروں سے لگ کر انہیں صاف کر رہی تھی۔اُس کا دم گھٹا جا رہا تھا وہ چلائی،مجھے کوئی مرغا نظر نہیں آ رہا۔”بھولا بولا۔تھوڑا سا اور اوپر جائیں۔“لومڑی تب تک چمنی سے نکل کر چھت پر پہنچ گئی تھی۔وہ حیران ہو گئی تھی کیونکہ اب وہ صرف ایک کام کر سکتی تھی کہ پھسل کر واپس جائے۔وہ ناراض ہو کر بولی۔میں تمہیں نیچے آ کر مزا چکھاتی ہوں بدمعاش بھولو،لیکن بھولو بھاگ کر ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ چکا تھا۔راکھ میں بالکل سیاہ ہوئی بی لومڑی اُس کے پاس سے گزری۔وہ خوشی سے بولا:”شکریہ بی لومڑی!میری چمنی صاف کرنے کا شکریہ۔“ " ایک تھی سنڈریلا - تحریر نمبر 2182,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-thi-cinderella-2182.html,"نوید اخترایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں ایک چھوٹی سی لڑکی رہتی تھی۔لڑکی بہت خوبصورت تھی۔اس کی بدقسمتی کہ اس کی والدہ فوت ہو گئی تھی اور اس کے والد نے دوسری شادی کر لی تھی۔لڑکی کی سوتیلی ماں بہت ظالم تھی۔اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں۔یہ تینوں بیچاری لڑکی پر بہت ظلم کرتیں اور اس کی تحقیر کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتیں۔تینوں اسے سنڈریلا کے نام سے پکارتیں کچھ ہی دن بعد سب اس کو سنڈریلا کے نام سے بلانے لگے۔یہاں تک کہ اس کے والد کو بھی اس کا اصل نام یاد نہ رہا اور وہ بھی سنڈریلا ہی کہہ کر بلانے لگا۔ایک روز ان کے گھر شاہی محل سے دعوت نامہ آیا۔دراصل بادشاہ اور ملکہ کو شہزادے کے لئے ایک خوبصورت لڑکی کی تلاش تھی۔انہوں نے ایک بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا اور ملک کی تمام لڑکیوں کو اس میں مدعو کیا۔(جاری ہے)تاکہ شہزادہ لڑکیوں کو دیکھ کر اپنی پسند بتا سکے۔دعوت نامہ دیکھ کر سنڈریلا کی دونوں سوتیلی بہنوں نے اس پر خوب طنز کیا اور کہنے لگیں تم تو اس دعوت میں نہیں جا سکو گی کیونکہ نہ تو تمہارے پاس اچھے کپڑے ہیں اور نہ ہی تم اتنی خوبصورت ہو کہ اس شاندار تقریب میں جا سکو۔یہ باتیں سن کر سنڈریلا کو بہت دکھ ہوا لیکن وہ خاموشی سے سب کچھ سنتی رہی۔آخرکار دعوت والے دن دونوں سوتیلی بہنوں نے سنڈریلا کو کہا کہ وہ دعوت میں جانے کے لئے تیار ہونے میں ان دونوں کی مدد کرے۔ سنڈریلا نے دونوں کی تیاری میں مدد کی۔بہت سا میک اپ کرکے اور نئے کپڑے پہن کر بھی وہ اتنی اچھی نہیں لگ رہی تھیں جتنی اچھی سنڈریلا اپنے پھٹے پرانے کپڑوں میں بغیر میک اپ کے تھی۔یہ دیکھ کر دونوں بہنیں غصے میں پاؤں پٹختی شاہی محل کی طرف چلی گئیں۔ان کے جانے کے بعد سنڈریلا اُداس اور غمگین بیٹھی تھی کہ ایک پری اس کے پاس آئی اور بولی ”میں تمہاری نگہبان پری ہوں۔تم اُداس مت ہو۔تم ضرور شاہی محل والی دعوت میں جاؤ گی۔“ سنڈریلا نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔میرے پاس نہ تو اچھے کپڑے ہیں اور نہ ہی کوئی سواری۔پری نے کہا تم جلدی سے اپنے گھر کے باغیچے میں جاؤ اور ایک بڑا سا کدو توڑ کر لے آؤ۔سنڈریلا پری کے کہنے پر اپنے باغیچے سے سب سے بڑا کدو توڑ کر لے آئی۔پری نے کدو لے کر جادو کی چھڑی لہرائی تو وہ ایک خوبصورت بگھی میں تبدیل ہو گیا۔اب پری نے کچن سے دو چوہے پکڑے اور ان کو چھڑی لہرا کر گھوڑوں میں تبدیل کر دیا۔گھوڑوں کو بگھی میں جوت کر پری نے ایک اور موٹا سا چوہا پکڑا اور جادو کے زور سے اس کو بگھی کا کوچوان بنا دیا۔سنڈریلا کھڑی حیرت سے یہ سب دیکھ رہی تھی کہ پری نے ایک مرتبہ پھر جادو کی چھڑی لہرائی اب سنڈریلا کے جسم پر خوبصورت جھلمل کرتا ریشمی لباس تھا اور میک اپ ہو چکا تھا۔پری نے کہا ”پیاری سنڈریلا اب تم فوراً دعوت میں پہنچ جاؤ۔اور ہاں․․․․دیکھو رات بارہ بجے سے پہلے تم واپس آ جانا کیونکہ اس وقت میرا جادو ختم ہو جائے گا۔“ سنڈریلا نے پری سے وعدہ کیا اور شاہی محل کی طرف چل دی۔محل میں سنڈریلا کی خوب پذیرائی ہوئی۔لوگوں نے دل کھول کر اس کے حسن کی تعریف کی۔یہاں تک کہ سنڈریلا کی دونوں سوتیلی بہنوں نے بھی اسے نہ پہچانا۔کچھ دیر بعد شہزادہ سنڈریلا کے پاس آیا اور اس سے پوچھا ”کیا تم میرے ساتھ ڈانس کرو گی۔“ سنڈریلا اُٹھ کر شہزادے کے ساتھ چلی گئی اور آدھی رات تک دونوں ڈانس کرتے رہے۔اچانک سنڈریلا کو یاد آیا کہ بارہ بجنے والے ہیں اور اس وقت پری کا جادو ختم ہو جائے گا۔یہ یاد آتے ہی سنڈریلا نے شہزادے سے ہاتھ چھڑایا اور باہر کی طرف بھاگی۔شہزادے نے سنڈریلا کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن سنڈریلا نے اس کی ایک نہ سنی۔یہ دیکھ کر شہزادہ بھی باہر کی طرف دوڑا۔محل کی سیڑھیوں پر آ کر شہزادہ بہت مایوس ہوا کیونکہ اس کے خوابوں کی رانی وہاں سے جا چکی تھی۔شہزادے نے یہ نہ دیکھا کہ وہاں ایک غریب لڑکی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہاتھ میں بڑا سا کدو لئے کھڑی تھی اور تین چوہے اس کے اردگرد بھاگ رہے تھے۔دراصل رات کے بارہ بج چکے تھے اور پری کا جادو ختم ہو گیا تھا۔شہزادہ مایوسی کے عالم میں محل کے اندر واپس جانے لگا تو اسے سیڑھیوں پر ایک شیشے کی طرح شفاف چمکدار خوبصورت نرم و نازک جوتا نظر آیا اس نے جوتا اُٹھا لیا۔دوسرے دن ہر گھر میں لڑکیاں بیٹھی اس خوبصورت لڑکی کے بارے میں باتیں کر رہی تھیں جس نے آدھی رات تک شہزادے کے ساتھ ڈانس کیا تھا اور اس کے جانے کے بعد شہزادے نے محفل ختم کر دی تھی۔سنڈریلا کی سوتیلی بہنیں بھی اس لڑکی کی خوش قسمتی کے متعلق گفتگو کر رہی تھیں کہ دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی۔ان میں سے ایک نے دروازے پر جا کر دیکھا تو شہزادہ باہر کھڑا تھا اور اس کے ساتھ ایک ملازم تھا جس نے ہاتھ میں ایک پلیٹ پکڑی ہوئی تھی اس پلیٹ میں مخمل میں لپٹا نازک سا جوتا رکھا تھا۔اس نے کہا جس کسی کے پاؤں میں یہ جوتا پورا آ جائے گا۔وہ ہی شہزادے کی دلہن بنے گی۔یہ سنتے ہی دونوں سوتیلی بہنوں نے جوتا پہننے کی کوشش کی۔لیکن ان کے پاؤں اتنے موٹے اور بھدے تھے کہ وہ جوتا ان کے پاؤں میں آیا ہی نہیں دونوں کی ناکام کوشش کے بعد سنڈریلا نے آگے بڑھ کر شہزادے سے پوچھا: ”کیا میں یہ جوتا پہن کر دیکھوں؟“ شہزادے نے ملازم کو اشارہ کیا اور اس نے جوتا سنڈریلا کو دے دیا۔سنڈریلا نے جوتا زمین پر رکھ کر اس میں پاؤں ڈالا تو بڑے آرام سے اسے پہن لیا۔شہزادے نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا تو کہنے لگا: ”بے شک یہ وہی ہے میرے خوابوں کی رانی جس کی تلاش میں،میں سر گرداں تھا۔“شہزادے نے سنڈریلا سے پوچھا: ”کیا تم میرے ساتھ شادی کرو گی“ سنڈریلا نے فوراً حامی بھر لی۔دوسرے ہی روز سنڈریلا اور شہزادے کی شادی ہو گئی اور ہاں اس شادی میں سنڈریلا کی سوتیلی بہنوں نے بھی شرکت کی۔ " ڈائنوسار - تحریر نمبر 2181,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dinosaur-2181.html,"احمد عدنان طارق،فیصل آبادکہیں دور ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک چھوٹا سا قصبہ آباد تھا۔یہ بے ترتیب سا قصبہ تھا اور اتنا خوبصورت بھی نہیں تھا لیکن آخر یہ لوگوں کا گھر تھا۔ایک دن اس شہر میں عجیب و غریب واقعات ہونے شروع ہو گئے۔درخت اور مکان جیسے بڑے زلزلے سے اِدھر اُدھر ہلنے اور ڈولنے لگے،لوگوں نے فیصلہ کیا کہ فوراً قصبے سے نکل جائیں،سب اندھا دھند بھاگنے لگے اور پاگلوں کی طرح لوگ تیزی سے چوٹی سے نیچے اُترنے لگے۔صرف ایک لڑکا جسے ہر چیز کے بارے میں جاننے کا شوق تھا وہ نہیں بھاگا بلکہ وہ ایک چٹان پر بیٹھا رہا جو چوٹی سے نیچے تھی۔ اُس کا صبر میٹھا ثابت ہوا کیونکہ بجائے پورا قصبہ نیچے گر کر تباہ ہونے کے اوپر ہی اوپر جانے لگا۔ایسا لگتا تھا کہ قصبہ بادلوں سے بھی بلند ہو گیا ہے اور پہاڑی کے نیچے ایک لمبی گردن اور چار ٹانگیں بھی نکل آئی ہیں۔(جاری ہے)وہ ایک ڈائنوسار تھا۔ایک بہت بڑا اور سویا سویا ڈائنوسار۔ڈائنوسار نے سوئی سوئی نظروں سے لڑکے کو دیکھا پھر کہنے لگا ”تم تو بہت چھوٹے سے ہو“ اُس نے کہا ”نہیں تم بہت بڑے ہو“ لیکن ڈائنوسار صرف اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا پھر اُس نے ایک قدم آگے بڑھایا اور بڑی سی جمائی لی۔کہنے لگا ”میں بہت تھک گیا ہوں۔“لڑکے نے اُسے بتایا کہ اُس کے پیٹ پر ان کا پورا قصبہ ہے اور شاید وہ بڑی دیر سویا رہا ہے لیکن ڈائنوسار اس کی باتیں نہیں سن رہا تھا۔اس کی آنکھیں بند تھیں۔اُس نے دوبارہ اپنی ٹانگیں اور گردن سکیڑی اور گہری نیند سو گیا۔جب ہر چیز معمول پر آ گئی تو قصبے کے لوگ جنگل سے گزر کر دوبارہ قصبے میں گھروں کو لوٹنے لگے۔اُنہوں نے دیکھا تو وہ لڑکا ابھی بھی بیٹھا ہوا پہاڑی کو گھور رہا تھا جب اُس نے سب کو بتایا کہ اصل معاملہ کیا تھا تو کسی نے اُس کا یقین ہی نہیں کیا۔سب کا خیال تھا کہ وہ جاگتے ہوئے بھی خواب دیکھتا رہتا ہے لیکن اُس کو حقیقت معلوم تھی۔کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ اتنی بڑی پہاڑی حرکت میں کیسے آئی اور زمین میں چار بڑے سوراخ کیسے بن گئے جو بالکل ڈائنوسار کے پنجے جیسے تھے۔صرف ایک بچہ اس کے بارے میں جانتا تھا جس کا نام عنریق تھا۔ " بہادر بہن - تحریر نمبر 2180,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bahadur-behan-2180.html,"مریم شفیق”دادا جان آج پھر دو دن پہلے والی کہانی سنائیں“ سلمان نے دادا جان سے فرمائش کی۔ساتھ بیٹھی غانیہ نے بھی اس کی پُرزور تائید کی۔دادا جان نے اپنی گال پر ہاتھ رکھا اور سوچنے کی کوشش کی کہ آخر کون سی کہانی اُنہوں نے دو دن پہلے سنائی تھی۔غانیہ نے دادا جان کو سوچ میں پڑتا دیکھ کر فوراً بتایا:”دادا جان جس میں پیچھے مڑ کر دیکھنے والا ہر انسان پتھر بن جاتا تھا“۔اچانک دادا جان مسکرائے اور پاس بیٹھے سلمان اور غانیہ کے سروں پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور کہانی سنانا شروع کر دی۔کہتے ہیں ایک گاؤں میں ایک بہن اور دو بھائی رہتے تھے۔تینوں بہن بھائی بہت بہادر تھے۔بادشاہ کو اُن کے بارے میں معلوم ہوا تو اُنہیں اپنے دربار میں طلب کیا۔(جاری ہے)بادشاہ نے اُنہیں بتایا کہ اُسے ایک جادوئی طوطا مطلوب ہے کیونکہ اگر وہ غلط لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا تو ریاست کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔چنانچہ غلط ہاتھوں میں لگنے سے پہلے ہی ہم جادوئی طوطے کا کوئی بندوبست کرنا چاہتے ہیں۔بادشاہ کے وزیر نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ وہ طوطا ایک گھنے جنگل میں پہاڑ پر رہتا ہے لیکن اُس جادوئی طوطے تک پہنچنے کا راستہ بہت پُر خطر ہے۔آج تک جو بھی اُس راستے پر گیا،کبھی واپس نہیں لوٹا۔تینوں نے وجہ دریافت کی تو وزیر نے بتایا کہ جوں جوں طوطے کیلئے جنگل کے پہاڑ پر چڑھتے جاؤ،پیچھے سے خوفناک آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں ،کبھی ایسی آوازیں آتی ہیں جس میں لالچ دیا جا رہا ہو گا کہ اگر وہ پیچھے مڑ کر دیکھے تو جو وہ مانگے گا،وہ ملے گا۔وزیر نے کہا کہ وہ سب دھوکہ اور فریب ہوتا ہے لیکن جو خوف لالچ میں مڑ کر دیکھ لیتا ہے،فوراً پتھر کا بن جاتا ہے۔بادشاہ نے فیصلہ اُن تینوں بہن بھائیوں پر چھوڑ دیا۔تینوں کو بادشاہ کی نیک نیتی پسند آئی۔چنانچہ اُنہوں نے بادشاہ کی مدد کرنے کی حامی بھر لی اور ارادہ کیا کہ اُن میں سے کوئی ایک جادوئی طوطے کی کھوج میں جائے گا۔باقی پیچھے کام سنبھالیں گے۔ایسے میں سب سے بڑا بھائی تیار ہو گیا۔باقی دونوں بہن بھائی نے بڑے بھائی کو فریب اور دھوکہ دہی والی آوازوں کو نظر انداز کرنے کی یاد دہانی کرائی۔ہفتہ ہو چلا تھا لیکن بڑے بھائی کی خبر نہ آئی۔وہ سمجھ گئے کہ بڑا بھائی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہے ایسے ہی دوسرے بھائی نے بھی ارادہ سفر باندھا اور منزل کی طرف بڑھ گیا لیکن وہ بھی واپس نہ لوٹا۔اب چھوٹی نے سوچا وہ اپنے بھائیوں کو مصیبت سے نجات بھی دلائے گی اور جادوئی طوطا بھی لائے گی۔جنگل کا ماحول اُسے بہت پُراسرار محسوس ہوا مگر وہ اللہ کا نام لے کر پہاڑ پر چڑھنے لگی۔راستے میں اُس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہونے لگا جو اس سے پہلے آنے والوں کے ساتھ ہوا تھا۔پہلے تو اُسے بہت خوفناک آوازیں سنائی دیں پھر لالچ کی کہ اگر وہ مڑ کر دیکھے گی تو اُس کے بھائی اُسے مل جائیں گے اور وہ جو مانگے گی ملے گا مگر وہ جانتی تھی کہ یہ سب جھوٹ اور فریب ہے۔ان آوازوں کو نظر انداز کرتی اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتی ہوئی وہ پہاڑ پر چڑھتی گئی اور آخرکار اپنی منزل تک پہنچ گئی۔جادوئی طوطا پکڑتے ہی فضا میں ہر طرف دھواں پھیل گیا۔اب سب آزاد تھے،چھوٹی کے بھائی خوشی سے اُس کی جانب لپکے۔باقی سب لوگوں نے بھی اُس کا شکریہ ادا کیا اور اپنے گھروں کی راہ لی۔تینوں بہن بھائیوں نے بادشاہ کو وہ جادوئی طوطا دے دیا اور سلطنت کے لوگ کسی بڑی آفت سے بچ جانے پر بہت شکر گزار ہوئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔یوں دادا جان نے مسکراہٹ کے ساتھ کہانی کا اختتام کیا۔غانیہ کہانی سن کر بہت خوش ہوئی لیکن اس بار سلمان نے سوچتے ہوئے سوال کیا”دادا جان ہمیں اس کہانی سے کیا سبق ملتا ہے؟“دادا جان نے پہلے کچھ سوچا اور پھر جواب دیا:”میرے پیارے بچو اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب ہم باہر کوئی چیز لینے جائیں یا ٹیوشن جائیں اور راستے میں کوئی اجنبی شخص آپ کو روک کر کھانے پینے،سیر کرنے یا کسی بھی قسم کا لالچ دے تو آپ اُس کی باتوں کی طرف دھیان مت دیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہوئے اپنی منزل یعنی دکان یا ٹیوشن کیلئے سیدھا جائیں اور سیدھا واپس گھر آئیں کیونکہ اُس انجان شخص کی ساری باتیں جھوٹ اور فریب ہوں گی۔ " شرارت کی سزا - تحریر نمبر 2179,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shararat-ki-saza-2179.html,"سمیرا اکبرپیارے بچو!ویسے تو جنگل میں بہت سے درخت تھے لیکن ایک بہت بڑے،پرانے اور گھنے درخت پر چار پرندوں کبوتر،فاختہ،مینا اور کوے نے اپنا اپنا گھونسلہ بنایا ہوا تھا۔یہ سب ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے اور مل جُل کر رہتے تھے،لیکن کوے کو ہر وقت کوئی نہ کوئی شرارت سوجھتی رہتی تھی۔وہ دوسرے پرندوں کو پریشان کرنے میں لگا رہتا تھا اور کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔کبوتر بہت معصوم،سیدھا سادہ تھا وہ کوے کی شرارت پر اُسے کچھ بھی نہیں کہتا تھا،یہی وجہ تھی کہ کوے کی زیادہ تر شرارتوں کا ہدف کبوتر ہی ہوا کرتا تھا۔کوا،کبوتر سے حسد کرتا تھا،کیونکہ کبوتر ہمیشہ دوسروں کے کام آتا،اور ہر مشکل میں ساتھ دیتا تھا،اس لئے سارے پرندے اُسے پسند کرتے تھے۔(جاری ہے)کبوتر کو اپنا گھر صاف ستھرا رکھنے کا بے حد شوق تھا۔کوا اس کا گھر گندا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔اس کی غیر موجودگی میں وہ اکثر اس کا کھانا بھی اُٹھا لاتا۔کبوتر نے مور میاں سے دو تین بار شکایت کی اور خود بھی کوے کو سمجھانے کی کوشش کی،لیکن کوے پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ وہ روز بروز بگڑتا چلا گیا۔ کوے کی ان حرکتوں کی وجہ سے فاختہ،مینا اور آس پاس کے پرندے بھی پریشان تھے۔وہ ضرورت پڑنے پر اس کے کام نہیں آتے تھے اور موقع ملتے ہی کوے سے اس کی شرارتوں کا بدلہ بھی لے لیتے تھے لیکن کبوتر نے کبھی بھی کوے سے بدلہ نہیں لیا تھا اور نہ ہی کبھی برا بھلا کہا بلکہ وہ،اسے سمجھاتا رہتا تھا۔ایک رات خوب بارش ہوئی۔کوے کا گھونسلہ درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر تھا۔بارش کی وجہ سے گھونسلہ ٹوٹ گیا اور کوا بھی زخمی ہو گیا۔درخت کے باقی پرندے بہت خوش ہوئے آج کوے کو اپنی شرارتوں کی اچھی سزا ملی ہے۔اب وہ کسی کو کبھی تنگ نہیں کرے گا اور درخت پر رہنے والے پرندے اس کی شرارتوں سے بچ جائیں گے۔وہ اس کی مدد کو بھی نہیں گئے۔جب بارش رُکی،تب کبوتر کو کوے کی خبر ہوئی۔وہ فوراً اس کی مدد کو پہنچا۔کبوتر نے زخمی کوے کے کھانے پینے کا انتظام کیا اور اس کا گھر بھی ٹھیک کرکے دیا جو بارش کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا۔کوا،کبوتر کا اتنا اچھا سلوک اور اخلاق دیکھ کر بہت شرمندہ ہوا۔اس نے کبوتر سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگی اور خود کو راہِ راست پر لانے کا وعدہ کیا۔کچھ ہی دن بعد کوے کے زخم ٹھیک ہو گئے،لیکن اب وہ پہلے والا شرارتی کوا نہیں رہا تھا۔کبوتر اور کوا بہت اچھے دوست بن گئے۔وہ دونوں مل کر دوسروں کی مدد کرتے،مشکل وقت میں ساتھ دیتے دوسرے پرندے بھی ہنسی خوشی رہنے لگے تھے۔کبوتر کی اچھائی نے کوے کو بھی بدل دیا تھا۔ " بارہ شہزادیاں - تحریر نمبر 2178,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/12-shehzadiyan-2178.html,"اُمامہ یوسف سہنسہ آزاد کشمیرقدیم زمانے میں ایک بادشاہ تھا،جس کی بارہ بیٹیاں تھیں یعنی بارہ شہزادیاں۔اُن کی خوبصورتی کا کیا کہنا تھا۔سب کی سب ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔بادشاہ نے اُن کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا تو اُس کو ایک حیران کن راز کا پتہ چلا کہ شہزادیاں رات بھر رقص کرنے کیلئے جاتی ہیں مگر کسی کو بھی نہیں پتہ چلتا کہ وہ کہاں جاتی ہیں۔بادشاہ بہت پریشان تھا۔اُس نے قلعے کے سب دروازے بند کروا دئیے تاکہ شہزادیاں باہر نہ جا سکیں لیکن اُس کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔وہ پریشان تھا کہ آخر ماجرہ کیا ہے۔بادشاہ نے اعلان کروایا کہ جو کوئی شہزادیوں کے رقص کا پتہ لگائے گا اُسے اپنی پسندیدہ شہزادی سے شادی کرنے کا موقع ملے گا اور وہ میرے مرنے کے بعد بادشاہ بھی بنا دیا جائے گا اور اگر وہ تین دن میں اس راز کا پردہ فاش نہ کر پایا تو اُسے موت کی سزا دے دی جائے گی۔(جاری ہے)یہ خبر ریاست میں ہر طرف پھیل گئی۔ایک شہزادہ آیا جو رقص کے راز کا پتہ لگانا چاہتا تھا اُس نے کہا:”میں آپ کی پڑوسی ریاست کا شہزادہ ہوں اور شہزادیوں کے رقص کا پتہ لگانے آیا ہوں“بادشاہ نے اُس کا استقبال کیا۔رات کا کھانا کھانے کے بعد اُسے شہزادیوں کے کمرے کے ساتھ والا کمرہ سونے کیلئے دے دیا گیا۔شہزادیوں کے کمرے کا دروازہ کھلا رکھا گیا اور شہزادے کا پلنگ ایسے رکھا گیا کہ وہ ساری رات اُن پر نظر رکھ سکے۔رات کو شہزادیاں اُس کے لئے شربت لے کر آئیں جس کو پیتے ہی اُسے نیند آ گئی۔جب اُس کی آنکھ کھلی تو شہزادیاں رقص کرکے واپس آ چکی تھیں۔تینوں دن ایسے ہی چلتا رہا،چوتھے دن جب شہزادہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا تو اُس کے پاس بادشاہ کے سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا۔بادشاہ نے اُسے موت کی سزا دے دی۔یونہی بہت سے لوگ آئے لیکن سب ناکام رہے۔پھر ایک دن ایک زخمی سپاہی اپنی قسمت آزمانے بادشاہ کی ریاست کی طرف چل پڑا۔راستے میں اُسے ایک بڑھیا ملی،سپاہی نے بڑھیا کی مدد کی،بڑھیا نے بدلے میں اُسے ایک پوشاک دی اور کہا کہ یہ پہن کر تم کسی کو نظر نہیں آؤ گے اور یہ بھی بتایا کہ جو جوس شہزادیاں تمہیں دیں وہ مت پینا۔سپاہی بادشاہ کی ریاست میں پہنچ گیا۔بادشاہ نے اُس کا استقبال کیا اور اُسے بھی شہزادیوں کے رقص کا راز معلوم کرنے کیلئے تین دن دئیے گئے۔رات کو بڑی شہزادی اُس کیلئے جوس لے کر آئی۔سپاہی چونکہ بہت ذہین تھا،اُس نے جوس پی تو لیا مگر نگلا نہیں کیونکہ اُس نے منہ میں سپنچ رکھا ہوا تھا۔جیسے ہی شہزادی کمرے سے باہر نکلی اُس نے سپنچ منہ سے نکالا اور سونے کی اداکاری کرنے لگا۔شہزادیاں اُس کو سوتا دیکھ کر خوش ہوئیں اور رقص کرنے کیلئے تیار ہو گئیں۔سب سے بڑی شہزادی نے اپنا پاؤں زور سے اپنے پلنگ پر مارا تو وہ زمین دوز ہو گیا اور پھر ساری شہزادیاں اُس خفیہ راستے سے نیچے اُترنے لگیں۔سپاہی یہ سب دیکھ رہا تھا اُس نے بڑھیا کی دی ہوئی پوشاک پہن لی اور اُن کا پیچھا کرنے لگا۔آدھا راستہ اُترنے کے بعد چھوٹی شہزادی کو شک ہوا کہ شاید کوئی اُس کے پیچھے ہے مگر پوشاک کی وجہ سے سپاہی کسی کو بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔پھر وہ سب سے خوبصورت حصے میں پہنچ گئی جہاں درختوں پر لگے پتے چاندی کے تھے۔سپاہی نے ثبوت کیلئے ایک پتہ توڑ لیا اس کے توڑتے ہی ایک زور دار آواز آئی جس سے سب ڈر گئیں۔آگے سب پتے سونے کے تھے،سپاہی نے ایک سونے کا پتہ بھی توڑ لیا اور آگے جا کے ایک ہیرا بھی ثبوت کیلئے لے لیا۔پھر شہزادیاں ایک جھیل کے کنارے پہنچ گئیں،جہاں 12 شہزادے ناؤ کے ساتھ اُن کا انتظار کر رہے تھے۔ہر ایک شہزادی ایک ایک شہزادے کے ساتھ بیٹھ گئی۔سپاہی چھوٹی شہزادی کے ساتھ بیٹھا رہا اور سب جھیل کے دوسرے کنارے پہنچ گئے جہاں ایک عالیشان قلعہ تھا اور وہاں ساز بج رہے تھے اور اُس کی دُھن پر سب شہزادیاں رقص کرنے لگیں۔صبح تین بجے تک یہ سب چلتا رہا جب تک اُن کے جوتوں میں چھید ہو گئے اور پھر سب واپس آ گئیں اور سپاہی بھی جلدی سے بھاگ کر اپنے کمرے میں جا کر سو گیا کہ کسی کو شک نہ ہو۔یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہا،سپاہی اُن کا تعاقب کرتا رہا اور ثبوت بھی لاتا رہا اور اُن سے پہلے ہی آ کر سو بھی جاتا یوں کسی کو شک بھی نہیں ہوا۔جب فیصلے کی گھڑی آئی تو بادشاہ نے سپاہی کو بلایا۔سپاہی نے کہا عالی جاہ!سبھی بارہ شہزادیاں اپنے کمرے سے زمین دوز سرنگ سے جاتی ہیں جہاں ایک قلعہ ہے،اُس نے ثبوت بھی دکھائے۔شہزادیوں نے یہ سب مان لیا۔بادشاہ نے اس سپاہی کو خوب انعام سے نوازا اور پوچھا میری کس بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہو؟۔اُس نے سب سے بڑی شہزادی کو پسند کیا اور پھر دونوں کی شادی دھوم دھام سے کر دی گئی۔بادشاہ نے اعلان کیا کہ میری وفات کے بعد میرا داماد اس سلطنت کا بادشاہ ہو گا اور پھر سبھی ہنسی خوشی رہنے لگے۔ " مثالی دوستی - تحریر نمبر 2177,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/misaali-dosti-2177.html,"محمد علیم نظامیخالد اور طارق آپس میں بہت گہرے دوست تھے۔ان دونوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا معمول بن گیا تھا۔خالد اور طارق دونوں آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے اور سکول میں بھی دونوں ایک ہی ڈیسک پر اکٹھے بیٹھتے تھے۔دونوں ایک دوسرے کو ہوم ورک کرنے میں برابر مدد دیتے تھے۔اگر خالد کو سکول کے کام میں کسی قسم کی دقت ہوتی تو طارق اُس کی مدد کرتا تھا اور اگر طارق کو پڑھائی میں کسی قسم کی مشکل پیش آتی تو خالد اُس کے کام آتا تھا۔الغرض خالد اور طارق کی دوستی کو مثالی کہا جاتا ہے۔سکول میں خالد اور طارق کی دوستی بھائیوں جیسی تھی مگر اُن کا ایک کلاس فیلو احمد اُن کی اس دوستی سے جلتا کڑھتا تھا۔اُس کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح خالد اور طارق کو نظر لگ جائے اور اُن دونوں کے راستے جُدا جُدا ہو جائیں مگر یہ بھی بلا کے ذہین تھے۔(جاری ہے)ایک دن احمد کو یہ ترکیب سوجھی کہ اُس نے دیکھا کہ خالد اور طارق اُس سے تھوڑی دور بیٹھے ہیں تو اُسے اُن دونوں دوستوں کو نظر لگانے اور اُن کے راستے الگ الگ کرنے کے بارے میں خیال آیا۔چنانچہ اس نے طارق اور خالد کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیئے۔ایک دن طارق اور خالد اکٹھے کلاس روم میں داخل ہوئے تو وہ پھسل گئے۔یہ سب کارستانی احمد جیسے حاسد کی تھی۔جب اُستاد کلاس میں داخل ہوئے تو اُنہیں یہ سب کچھ دیکھ کر بہت غصہ آیا۔اُنہوں نے زور دار آواز میں کہا کہ کون ہے جس نے خالد اور طارق کو بُوں زخمی اور رُسوا کرنے کی کوشش کی ہے۔پہلے تو سب لڑکوں کو سانپ ہی سونگھ گیا،پھر جب اُستاد نے اپنے ہاتھ میں ڈنڈا لے کر ایک ایک طالب علم کی خبر لی تو احمد سہم گیا اور اُس نے اقرار کر لیا کہ یہ اُسی کی بھونڈی حرکت ہے۔اس سے پہلے کہ اُستاد صاحب اسے پھینٹی لگاتے،خالد اور طارق دونوں سنبھل کر اپنے اُستاد کے پاس گئے اور کہا”سر!احمد نے اپنی غلطی تسلیم کر لی ہے اس لئے ہم اسے معاف کر رہے ہیں۔“آپ بھی اُسے معاف کر دیں۔چنانچہ استاد صاحب نے احمد کو تنبیہ کرتے ہوئے آئندہ سے کسی سے جلنے یا حسد نہ کرنے کی تلقین کی اور یوں احمد کو طارق اور خالد نے اپنے جیسا اچھا انسان بننے کیلئے زور دیا اور اُسے معاف کر دیا۔اُستاد صاحب نے احمد کو خالد اور طارق سے گلے ملنے کو کہا اور ان تینوں نے آپس میں پکی اور سچی دوستی کر لی اور یوں کلاس روم کا ماحول اچھا اور خوشگوار ہو گیا۔ " ربر خور - تحریر نمبر 2176,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rubber-khoor-2176.html,"روبینہ ناز،کراچیزین یہ تم کیا کھا رہے ہو اور تمہارے ہاتھوں میں کیا ہے؟عالیہ باجی نے زین سے پوچھا تو اُس نے ڈرتے ڈرتے اپنے ہاتھ اُن کے سامنے کر دئیے۔لیکن عالیہ باجی اُس وقت تک دیکھ چکی تھی کہ اُس نے اپنا ربر نیچے پھینکا اور پھر چالاکی سے اُس پر اپنا پاؤں رکھ دیا۔عالیہ باجی گزشتہ کئی دنوں سے دیکھ رہی تھیں کہ زین چپکے سے ربر کھاتا ہے۔اگر کوئی دیکھتا تو وہ کام کرنا شروع کر دیتا۔عالیہ باجی کو زین کی یہ عادت بری لگتی تھی لیکن پھر بھی اُنہوں نے سوچا کہ اگر زین کو سب کے سامنے ٹوکا تو اُسے شرمندگی ہو گی اور پھر سب اُس کا مذاق بھی اُڑائیں گے۔اس لئے اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک کہانی کے ذریعے زین کی اصلاح کریں گے۔”چلو بچو!اب کون سا پریڈ ہے“۔(جاری ہے)عالیہ باجی نے کلاس میں جاتے ہی پوچھا تو سب بچوں نے مل کر جواب دیا۔”کہانی کا؟“آج میں جو کہانی آپ کو سنا رہی ہوں وہ ایک بہت ہی پیارے بچے عامر کی کہانی ہے جو ویسے تو بڑا پیارا تھا لیکن نہ جانے کب اور کیسے اُسے ربر کھانے کی خراب عادت لگ گئی تھی۔“”ارے،اتنا گندا بچہ۔“حماد نے کہا۔پھر ایک بچے نے کہا:”عالیہ باجی کیا اُسے کھانا نہیں ملتا تھا جو وہ ربر کھاتا تھا“؟یہ سن کر سب بچے زور زور سے ہنسنے لگے لیکن زین سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔عالیہ باجی بولیں:”خاموشی سے کہانی سنو ورنہ مزہ نہیں آئے گا“۔پھر اُنہوں نے دوبارہ کہانی سنانا شروع کی۔اُس کی امی اُسے روز سکول جاتے وقت ایک نیا ربر دیتی تھیں لیکن اسکول سے واپسی پر وہ ربر غائب ہوتا جب اُس کی امی پوچھتی کہ تمہارا ربر کہاں گیا تو وہ روز ایک نیا بہانہ بنا دیتا۔کبھی کہتا کھو گیا کبھی کہتا کسی بچے نے نکال لیا۔کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔کچھ دن تک تو یہ سلسلہ چلتا رہا پھر اُس کی امی نے طے کیا کہ میں اس کا پتا لگا کر رہوں گی کہ عامر کا ربر جاتا کہاں ہے؟ایک روز عامر کی امی سکول پہنچیں اور ہیڈ مسٹریس سے شکایت کی کہ میرے بچے کا ربر روز کلاس میں غائب ہو جاتا ہے کہیں کوئی بچہ اُس کا ربر تو نہیں نکال لیتا؟ہیڈ مسٹریس نے اُن سے کہا:”میں خود اس مسئلے کو حل کروں گی آپ بے فکر ہو جائیں۔اگر کوئی بچہ ایسی حرکت کرتا ہے تو میں اُسے سخت سزا دوں گی۔“اُسی رات عامر کے پیٹ میں شدید درد ہوا کہ وہ اپنا پیٹ پکڑ کر زور زور سے رونے لگا۔اُنہوں نے محسوس کیا کہ عامر کا پیٹ کچھ پھول گیا تھا۔یہ دیکھ کر عامر کے امی ابو پریشان ہوئے اور اُسے فوراً ہسپتال لے گئے۔جہاں ڈاکٹروں نے چیک اپ کرنے کے بعد اُس کے امی ابو کو بتایا کہ اس کے پیٹ میں بہت سے ربر موجود ہیں جس کی وجہ سے درد ہو رہا ہے۔چونکہ ربر بناتے وقت بہت سے کیمیکل ملائے جاتے ہیں اس لئے عامر کے پیٹ میں انفیکشن ہو گیا ہے۔اتنا کہہ کر عالیہ باجی رُکیں اور بچوں سے پوچھا۔”جانتے ہو پھر کیا ہوا؟“”کیا ہوا باجی؟“بچوں نے ایک ساتھ پوچھا۔”عامر کے پیٹ کا آپریشن کیا گیا تو اس کے پیٹ میں سے بہت سے ربر نکالے گئے۔عامر کو تکلیف تو بہت ہوئی لیکن پھر اُس نے توبہ کر لی کہ آئندہ کبھی ربر نہیں کھاؤں گا۔“زین خاموشی سے کہانی سُن رہا تھا جب اُسے معلوم ہوا کہ ربر کھانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے تو اُس نے تہیہ کر لیا کہ آئندہ کچھ بھی ہو ربر کو منہ نہیں لگائے گا۔اس طرح وہ ڈانٹ کھائے بغیر ہی سدھر گیا۔بچو آپ بھی اس کہانی سے سبق حاصل کر لو کہ ربر ہو یا پنسل یا چاک،مٹی وغیرہ،ان میں سے خواہ کتنی بھی خوشبو آ رہی ہو ان کو کبھی بھی اپنے منہ کے پاس نہ لاؤ ورنہ آپ کا حال بھی عامر کے جیسا ہو سکتا ہے۔ " زینب اور ننھی چڑیا - تحریر نمبر 2175,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zainab-aur-nanhi-chirya-2175.html,"شمع نازچھ سال کی زینب کو چڑیاں بہت اچھی لگتی تھیں۔اُڑتی،پھدکتی،چہچہاتی چڑیاں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتی۔ہرے ہرے طوطے اسے خاص طور پر اچھے لگتے تھے۔ایک بار اس نے اپنی ممی سے کہا کہ وہ طوطا پالنا چاہتی ہے لیکن ممی نے کہا کہ طوطے قید میں رہنا پسند نہیں کرتے،انہیں اپنی آزادی بہت پیاری ہوتی ہے۔گھر کے سامنے درختوں پر بہت سی چڑیاں رہتی ہیں۔خوب چوں چوں کرتی ہیں،انہیں دیکھا کرو۔زینب نے ممی کی بات مان لی اور طوطا خریدنے کی ضد چھوڑ دی۔اسکول سے آنے کے بعد بالکونی میں کھڑے ہو کر طرح طرح کی چڑیوں کو دیکھتی ۔وہ سب برگد کے گھنے پیڑ پر بسیرا کرتی تھیں۔پیڑ نے سب کو پناہ دے رکھی تھی۔ایک دن زینب شام کو کمرے میں آئی تو دیکھا ایک چڑیا ان کے کمرے میں آ گئی ہے۔(جاری ہے)چھوٹی سی کالے رنگ کی لیکن بڑی پیاری،بڑی بھولی، پتلی سی دم تھی۔دم لگاتار اوپر نیچے ہل رہی تھی۔اس چڑیا کو اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔زینب چڑیا کو کمرے میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔بھاگ کر ممی کو بلا لائی۔انہوں نے بتایا یہ شاما ہے۔بڑا میٹھا بولتی ہے اور خوب سیٹیاں بجاتی ہے،یہاں شاید بھنک کر آ گئی ہے۔چلو اسے واپس بھیج دیں،انہوں نے چڑیا کو ہشکایا،تاکہ وہ دروازے سے واپس چلی جائے۔”یہ چڑیا ہے یا اس کا بچہ؟“زینب نے ممی سے پوچھا۔”یہ ممی چڑیا ہے“ ”تب تو اسے ضرور بھیج دیجئے۔اس کے بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔“زینب نے کہا اور ممی کے ساتھ وہ بھی چڑیا کو ہشکانے لگی۔چڑیا کچھ گھبرا گئی تھی۔شام گہری ہونے سے اسے دکھائی بھی کم دے رہا تھا۔وہ کبھی کمرے میں لگی ٹیوب لائٹ پر بیٹھتی تو کبھی پھدک کر دیوار کی گھڑی پر کبھی پنکھے کے پروں پر اور کبھی بڑی سی پینٹنگ کے فریم پر بیٹھ جاتی۔زینب اور ان کی ممی نے لاکھ کوشش کی لیکن وہ دروازے کی طرف گئی ہی نہیں۔دروازہ بالکونی پر کھلتا تھا اور وہ ادھر ہی سے آئی تھی۔”ایسا کرتے ہیں فی الحال اسے یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔صبح اسے راستہ مل جائے گا۔“ممی یہ کہہ کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔”ٹھیک ہے۔آج رات یہ ہماری مہمان رہے گی۔“زینب خوش ہو گئی۔کھانا کھانے کے بعد جب سب لوگ کمرے میں آئے تو پاپا نے کہا،اگر پنکھا چلایا گیا اور چڑیا اُڑی تو اس سے ٹکرا سکتی ہے۔ٹکرائی تو اس کے بازو ٹوٹ جائیں گے،ہو سکتا ہے مر بھی جائے۔زینب بہت پریشان ہوئی۔ اُس نے پاپا سے کہا،جب تک چڑیا چلی نہیں جاتی تب تک پنکھا نہیں چلائیں گے۔”گرمی بہت ہے“ممی پاپا نے فکر مند ہو کر کہا۔”ہم لوگ ایک رات ایسے ہی سو جائیں گے۔بغیر پنکھے کے۔کھڑکیاں کھول دیجئے۔تھوڑی باہر کی ہوا آ جائے گی۔“زینب نے تجویز پیش کی۔ممی اس کی رحم دلی دیکھ کر خوش ہو گئیں۔اس رات پنکھا نہیں چلا۔کچھ دیر گرمی برداشت کرتے رہے پھر سو گئے۔زینب اسکول جانے کی وجہ سے صبح سویرے اُٹھی۔اُٹھتے ہی چڑیا کو دیکھا۔وہ پنکھے کے پر پر بیٹھی ہوئی تھی۔”اچھا ہوا جو پنکھا نہیں چلایا“اس نے خوش ہو کر کہا۔ممی نے چڑیا کو پھر ہشکایا۔اس بار وہ تھوڑا سا ہی ادھر ادھر اُڑی۔جلد ہی اسے دروازہ نظر آ گیا۔وہاں سے اُڑ کر وہ بالکونی سے نکلی اور سیدھی پیڑ پر جا بیٹھی۔جاتے جاتے اس نے بڑی میٹھی سیٹی بجائی۔ممی،وہ کہہ رہی ہے تھینک یو۔”زینب تالی بجا کر بولی۔“”اب اس کے بچے خوش ہو جائیں گے کہ ممی آ گئی۔“وہ جلدی جلدی اسکول جانے کے لئے تیار ہونے لگی۔کلاس میں سب کو چڑیا کی کہانی سنانے کی جلدی جو تھی۔ " صبا کا مسئلہ - تحریر نمبر 2174,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/saba-ka-masla-2174.html,"روبینہ ناز،کراچی”صبا یہ تم ہر وقت پریشان اور اُداس کیوں رہتی ہو؟“یہ شائستہ تھی جو خاموش بیٹھی صبا کو دیکھ کر روزانہ سوچتی اور آج اُس نے پوچھ ہی لیا۔”نہیں تو“ یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔ضرورت مند کو جب مسیحا نظر آتا ہے تو اُس کی آنکھیں اسی طرح بھیگنے لگتی ہیں۔شائستہ نے سب بھانپ لیا اور وہ کہنے لگی ”صبا میں تمہاری دوست ہوں۔مجھے اپنا سمجھو اور اپنا مسئلہ شیئر کرو۔شاید میں تمہارے لئے کچھ کر سکوں۔“صبا نے جواب دیا:”نہیں میرا کوئی دوست نہیں مجھے کوئی دوست بنانا پسند نہیں کرتا کیونکہ میرا رنگ کالا ہے۔“”اوہ تو یہ بات ہے“ شائستہ معاملے کی طے تک پہنچ گئی۔وہ ایک ماہ پہلے ہی اس سکول میں آئی تھی۔(جاری ہے)اگلے روز شائستہ بریک میں صبا کو لے کر گراؤنڈ میں آئی اور اُسے بچوں کی کہانی والا صفحہ دکھایا اور انگلی رکھ کر ایک کہانی پڑھنے کو کہا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک کوا اپنے کالے رنگ کی وجہ سے بہت پریشان رہتا تھا اور سوچتا تھا کہ اُس سے کوئی پیار نہیں کرتا،نہ پرندے اور نہ دیگر جانور شاید اس کی کالی رنگت ہے۔چنانچہ وہ لبوں پر ہر وقت اللہ سے شکوے کرتا رہتا تھا۔ایک دن وہ دانے کی تلاش میں گھوم رہا تھا کہ اُس کی ملاقات ایک خوبصورت کبوتر سے ہوئی کوا اُس کی تعریف کرنے لگا اور اپنی قسمت کو کوسنے لگا کبوتر نے اُسے سمجھایا”ہماری خوبصورتی اُلٹا ہمیں نقصان دیتی ہے۔لوگ اس وجہ سے ہمیں پکڑ کر پنجرے میں بند کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے کسی دوست سے نہیں مل سکتے مگر تم کو یہ خطرہ برداشت نہیں کرنا پڑتا،تم آزاد ہو اور خوشگوار فضاؤں میں سانس لیتے ہو۔خدا کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔اس پر اُس کا شکر ادا کیا کرو۔کوا کبوتر کی بات سمجھ گیا اور اُس کو اپنے چھوٹے سے دماغ میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کر لیا۔ کہانی پڑھتے ہی صبا شائستہ کے گلے لگ گئی اور پھر اُس نے اپنی سہیلی کا شکریہ ادا کیا کہ اُس نے کتنی آسانی سے اُس کا مسئلہ حل کر دیا اور پھر صبا نے شائستہ سے درخواست کی کہ یہ صفحہ ہر ہفتہ پڑھنے کے بعد مجھے پڑھنے کیلئے دیا کرو۔ " جادوئی قلم - تحریر نمبر 2173,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jadui-qalam-2173.html,"تزئین ایک بہت شرارتی لڑکی تھی۔جو کسی کا کہنا نہیں مانتی تھی نہ کسی کا ادب کرتی تھی اور نہ کسی کو سلام کرتی۔سکول میں بھی وہ کورس کی کتابیں پڑھنے کے بجائے چھپ کر پریوں کی کہانیاں پڑھتی رہتی تھی۔جب بھی کوئی ٹیچر اُس سے سبق سنتیں تو وہ اُنہیں کچھ نہیں سناتی تھی۔اُسے تو الف ب بھی صحیح طرح سے لکھنی نہیں آتی تھی لیکن وہ جھوٹ بڑی ڈھٹائی سے بولتی تھی۔ایک روز سکول میں اُس کا قلم گم ہو گیا۔اُس نے اپنی ٹیچر سے کہا کہ ”میرا قلم کسی نے چرا لیا ہے۔“ٹیچر نے پوچھا:”کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ چوری ہی ہوا ہے؟“وہ بولی:”ہاں میری کلاس کی لڑکیوں میں سے کسی نے چرایا ہے۔“یہ سن کر ٹیچر مسکرائی اور اُسے ایک نیا اور خوبصورت قلم دے دیا اور کہا یہ ایسا قلم ہے کہ اس سے اچھا کرو گی تو اچھا لکھا جائے گا اور اگر کسی کے ساتھ برا کرو گی تو برا لکھا جائے گا۔(جاری ہے)ایسا قلم اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔گھر پہنچ کر اُس نے جلدی جلدی اپنا ہوم ورک کیا اور پھر باغ میں کھیلنے کیلئے چلی گئی۔اُس نے دوبارہ پڑھنے کی تکلیف بھی نہیں کی اور دن بھر خوب ڈٹ کر شرارتیں کرتی رہی اور شام کو اپنے چھوٹے بھائی کی پٹائی بھی کی۔اگلے روز ٹیچر نے تزئین سے کہا:”اپنا سبق سناؤ۔“تزئین نے پڑھنا شروع کیا لیکن پھر شرمندہ ہو گئی۔جادو کے قلم نے اس کا ہوم ورک نہیں کیا تھا بلکہ اس کی سارے دن کی شرارتیں لکھ دی تھیں۔اُس دن کے بعد سے تزئین خاصی بدل گئی ہے۔اُسے پتا ہے کہ جب بھی شرارت کرے گی،جادو کا قلم سب لکھ دے گا۔ " فقیر اور بادشاہ - تحریر نمبر 2172,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/faqeer-aur-badshah-2172.html,"زمرد سلطانہایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک فقیر جہاں بھی کہیں جاتا بس یہی صدا لگاتا۔”تین باتیں سن لو اور ہر بات کا معاوضہ سو روپے دے دو“ کوئی بھی اُس کی اس صدا پر کان نہ دھرتا تھا۔تنگ آکر فقیر دریا کی طرف نکل گیا۔وہ کنارے کنارے چلتا جاتا اور بڑبڑاتے ہوئے لوگوں کو کوستا جاتا تھا۔اتفاق کی بات ہے کہ وقت کا بادشاہ بھی سیر کیلئے وہاں آیا ہوا تھا۔اُس نے فقیر کو کوستے ہوئے سنا تو اُسے بلا کر وجہ پوچھی۔فقیر نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا! ”میں تھکا ہارا (چندرا) بدنصیب ہوں۔“ جس نے قیمتی سودا سستے داموں فروخت کرنے کی کوشش کی مگر کسی نے بھی میری نہ سنی۔بادشاہ بولا! ”فقیر!اب کہو میں تمہاری شرط منظور کرتا ہوں۔“ فقیر خوشی خوشی تیار ہو گیا۔(جاری ہے)اس کے بعد فقیر نے تین باتیں سنائیں۔(1)”رات دا جگن بھلا“(یعنی رات کو جاگنا مفید ہے)پہلی بات بتا کر فقیر نے بادشاہ نے اُس کا معاوضہ سو روپے کی شکل میں حاصل کر لیا۔(2)”آون آلے دا آدھر بھلا“(یعنی آنے والے کی تکریم کرنے میں بھلائی ہے)دوسری بات سنا کر فقیر نے بادشاہ سے مزید سو روپے لے لئے۔(3)”ضدل بلا دے سر اچ سو کھلا۔“(یعنی ضدی کے سر میں جب تک سو جوتے نہ لگیں اُس کی اصلاح نہیں ہوتی)۔یوں فقیر نے اپنی تیسری اور آخری بات کے عوض بھی سو روپے بھی لے لئے اور چلتا بنا۔وزیر نے عرض کیا!بادشاہ سلامت یہ تو عام سی باتیں تھیں آپ نے خواہ مخواہ فقیر کو اتنی اہمیت دی۔بادشاہ نے کہا!بات کو نہیں دیکھتے بات کے انجام کو دیکھتے ہیں۔اب تینوں باتوں کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے بادشاہ بھیس بدل کر رات کو محل سے نکل پڑا۔اُسے دو عورتوں کی آواز سنائی دی۔ایک ہنس رہی تھی اور ایک رو رہی تھی۔بادشاہ نے باہر سے آواز دی۔وہ بولیں کون؟۔بادشاہ نے کہا!پہرے دار۔وہ کہنے لگیں!جا چلا جا۔میں ہنس رہی ہوں میرا نام تدبیر ہے اور جو رو رہی ہے اُس کا نام تقدیر ہے۔بادشاہ نے اندر جھانک کر دیکھا تو خوبصورت عورتوں کے چہرے دکھائی دئیے۔دونوں نے کہا اس ملک کے بادشاہ کو شاہی باغ کے پیپل کا سانپ ڈس لے گا جس کے باعث بادشاہ کی موت واقع ہو گی۔بادشاہ وہاں سے رخصت ہو کر سیدھا اپنے محل میں پہنچا۔اب وہ اس بات کی صداقت کو پرکھنا چاہتا تھا۔اُس نے شاہی خزانے سے صدقات و خیرات کی تقسیم شروع کر دی۔وہ سانپ کے متعلق سوچ رہا تھا۔اُس نے پیپل سے محل تک راستہ بنایا اور اُس پر کپاس بچھا دی۔اُس راستے کے دونوں طرف پھولدار پودے لگوائے اور سانپ کا انتظار کرنے لگا۔ایک خاص وقت پر سانپ پیپل کی شاخوں کے درمیان سے نکلا اور اُس نے زمین پر چھلانگ لگا دی۔محل تک کا راستہ سانپ نے انتہائی آرام سے طے کیا۔سانپ اس بندوبست سے بہت خوش تھا۔محل میں پہنچا تو بادشاہ نفل پڑھ رہا تھا۔سانپ نے پھنکارتے ہوئے اپنی آمد کا یوں اعلان کیا۔ ”اے زمین کے ٹکڑے کے بادشاہ میں آگیا ہوں۔“ بادشاہ نے سکون سے نوافل کی ادائیگی جاری رکھی۔جب نوافل ختم ہو گئے تو آخری نفل کا سلام پھیر کر سر جھکا لیا اور بولا۔ ”لو رب کا حکم پورا کرو“ فرشتے کے دل میں رحم پیدا ہوا۔فرشتے کی فریاد پر رب نے اجازت دے دی۔غیب سے آواز آئی آدھی زندگی اس کو اور آدھی تجھ کو بخشی۔سانپ حملہ آور ہونے کی بجائے واپس روانہ ہوا۔بادشاہ نے سانپ سے کہا!میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتاؤ۔سانپ نے جواب دیا:”خدمت وہی ہے جو غرض پوری ہونے سے پہلے کی جائے۔“ بادشاہ کو رات کو جاگنے اور آنے والے کی قدر کرنے کا صلہ مل گیا۔اب فقیر کی تیسری بات آزمانے کا وقت آن پہنچا۔دوپہر کے وقت بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ (ست ماڑ) ساتویں منزل پر بیٹھا تھا نیچے شہر دکھائی دے رہا تھا۔۔۔یہ وہ زمانہ تھا جب جانور بھی انسانوں کی طرح بولتے تھے۔ایک روٹھی ہوئی بھیڑ نے ”چھترے“ سے کہا۔اگر تم اس وقت گھاس لے آؤ تو میں مان جاؤں گی۔چھترے نے تین چھلانگیں لگائیں لیکن کامیاب نہ ہوا۔بھیڑ گھاس کے تقاضے پر مسلسل اڑی رہی۔چھترے نے پہلے تو بہت منتیں کیں کہ گھاس کو بھول جاؤ جو باوجود کوشش کے نہیں حاصل ہو رہا۔تنگ آکر چھترے نے اپنی جلد کو جھاڑا (چھنڈ کیا) اور پھر بھیڑ کو ایک زور دار ٹکر دے ماری۔بس ٹکر کا لگنا تھا کہ بھیڑ نے درد سے نڈھال ہو کر سر جھکا لیا اور ضد ترک کر دی۔بادشاہ یہ منظر دیکھ کر ہنس پڑا۔ملکہ نے ہنسنے کی وجہ پوچھی۔بادشاہ نے صرف اس قدر جواب دیا۔”انسان بہتر کوٹھی“ ۔۔۔ ”دل بہتر کوٹھی“ بادشاہ نے کہا کوئی بات نہیں جانے دو۔ملکہ نے جھنجھلا کر تاش کے پتے پھینک دئیے اور کہا ”اگر کوئی بات نہیں تو جاؤ پھر۔نہیں کھیلتی میں تاش۔“ ملکہ کی ہٹ دھرمی کو دیکھ کر بادشاہ طیش میں آگیا،اُس نے غصے کی حالت میں سو مرتبہ جوتی ملکہ کے سر میں دے ماری۔ملکہ بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ اس واقعہ کے بعد ملکہ آج کسی سے اُس کا حال نہ پوچھے گی (مراد یہ ہے کہ کبھی ادھوری باتوں کا مطلب نہ پوچھے گی) اس طرح فقیر کی تیسری بات کی سچائی بھی بادشاہ پر آشکارا ہو گئی۔ " جادو کے بیج - تحریر نمبر 2171,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jadu-ke-beej-2171.html,"نوید اخترایاز اپنے والدین کے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔اس کی عمر اس وقت دس سال تھی۔کچھ عرصہ پہلے ایک خوفناک جن نے اس کے والد کو قتل کرکے ان کی ساری دولت لوٹ لی۔اب ایاز اور اس کی والدہ اکیلے رہ گئے۔ایاز کی والدہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتیں اور وہاں سے جو کچھ مل جاتا دونوں ماں بیٹا اس میں اپنا گزارا کر لیتے۔پھر ایسا ہوا کہ ایاز کی امی کی طبیعت خراب رہنے لگی اب وہ زیادہ گھروں میں کام بھی نہیں کر سکتی تھیں۔آخر ایک وقت ایسا آیا کہ دونوں کو ٹھیک طرح کھانا بھی میسر نہ آتا۔ایک دن ایاز کی امی نے اس سے کہا”بیٹا!تم اپنی گائے شہر لے جا کر بیچ آؤ تاکہ اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے ہم کچھ دن اپنا گزارا کر سکیں۔(جاری ہے)“ایاز نے سعادت مندی سے ”جی اچھا․․․․امی جان“ کہتے ہوئے گائے کی رسی کھولی اور شہر کی جانب چل دیا۔ایاز نے ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ اس کو ایک شخص نے آواز دے کر روکا اور پوچھنے لگا ”تم اتنی اچھی گائے لے کر کہاں جا رہے ہو“ ایاز نے کہا ”میں اس کو فروخت کرنے قریبی شہر لے جا رہا ہوں۔“ اجنبی شخص نے کہا ”اگر تم یہ گائے مجھے دے دو تو میں تمہیں اس کے بدلے یہ جادو کے بیج دوں گا۔“ایاز نے پس و پیش کی تو اجنبی بولا ”میں یقین دلاتا ہوں کہ تم گائے کے بدلے جادو کے بیج لے کر بہت فائدے میں رہو گے۔“ ایاز نے اس شخص کو گائے کی رسی پکڑاتے ہوئے جادو کے بیج اپنی مٹھی میں دبا لئے اور گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔گھر کے دروازے پر پہنچ کر اس نے اپنی امی کو زور زور سے آوازیں دینی شروع کر دیں۔اس کی امی نے کمرے سے باہر آتے ہوئے پوچھا ”تم اتنی جلدی گائے فروخت کر آئے۔“ تو ایاز نے بتایا کہ اس نے جادو کے بیجوں کے بدلے گائے دے دی ہے۔یہ سن کر اس کی امی بہت خفا ہوئیں اور انہوں نے غصے میں جادو کے بیج پھینک دیئے۔ایاز روتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا اور کچھ دیر یونہی روتے روتے سو گیا۔ایاز جب سو کر اُٹھا تو اسے بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔اچانک اس کی نظر کھڑکی سے باہر گئی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کمرے کی دیوار کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت بیل اُگی ہوئی تھی۔بیل اتنی اونچی تھی کہ اس کا اوپر والا حصہ آسمان کے اندر جاتا محسوس ہوتا تھا۔ایاز خوشی سے چلاتے ہوئے بیل کے اوپر چڑھنے لگا۔اس کی امی نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے ایک نہ سنی اور بیل کے اوپر مسلسل چڑھتا چلا گیا۔کافی دیر بعد اسے محسوس ہوا کہ آگے ایک دروازہ ہے۔ایاز اس دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔اچانک ایک بہت بڑے ہاتھ نے ایاز کو اُٹھا لیا اور گرجدار آواز آئی ”لڑکے تم کون ہو․․․․یہاں کیا کرنے آئے ہو۔“ آواز سن کر ایاز ڈر گیا اور خوفزدہ انداز میں کہنے لگا ”میرا نام ایاز ہے میں بہت تھک گیا ہوں اور مجھے بھوک بھی بہت لگی ہے۔کیا تم مجھے کچھ کھانے کے لئے دے سکتی ہو۔“وہ بہت بڑا ہاتھ دراصل جن کی بیوی کا تھا۔جن کی بیوی بولی ”خبردار آہستہ بولو․․․․میرے خاوند کو انسان پسند نہیں وہ انہیں دیکھتے ہی کھا جاتا ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے ایاز کو ڈبل روٹی اور جام کھانے کو دیا۔ابھی وہ کھا کر فارغ ہوا ہی تھا کہ جن کی بیوی بولی جلدی سے اس الماری کے اندر چھپ جاؤ میرا خاوند آ رہا ہے۔ایاز بھاگ کر الماری کے اندر گھس گیا۔جن نے کمرے میں داخل ہوتے ہی زور دار آواز میں کہا ”ہی!ہی!ہی․․․․ہا!ہا!ہا․․․․ہو!ہو!ہو!․․․․مجھے انسان کی بُو آ رہی ہے․․․․جلدی بلاؤ کدھر ہے وہ․․․․․میں اس کو کھا جاؤں گا․․․․مجھے بہت بھوک لگی ہے۔“ جن کی بیوی بولی سرتاج آپ کو کبھی کبھی وہم ہونے لگتا ہے۔ہمارے گھر کوئی انسان کیسے آ سکتا ہے اور ہاں کھانا تیار ہے میں نے میز پر لگا دیا ہے آپ سکون سے کھانا کھائیں۔کھانا کھا کر جن نے کہا ”بیگم ذرا میرا خزانہ لے کر آؤ․․․․میں اسے دیکھتا ہوں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے․․․․میں سونے سے پہلے اپنا خزانہ دیکھنا چاہتا ہوں۔“ جن کی بیوی خزانہ لے کر آئی تو ایاز نے الماری کے اندر سے جھانک کر دیکھا اور حیران رہ گیا کیونکہ خزانے کے اس ڈھیر میں سونے چاندی کے وہ سکے بھی تھے جو جن نے ان کے گھر سے لوٹے تھے۔کچھ دیر بعد جن گہری نیند سو گیا تو ایاز نے سوچا موقع اچھا ہے اب الماری سے نکلنا چاہیے۔یہ سوچ کر وہ الماری سے نکلا اور تیزی سے اس میز کی طرف گیا جس پر دولت کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ایاز نے جلدی جلدی ساری دولت تھیلے میں بھری اور بھاگ کھڑا ہوا۔اچانک اس کا پاؤں راستے میں پڑی کسی چیز سے ٹکرایا․․․․․کھڑکنے کی آواز سن کر جن کی بیوی نے اسے دیکھ لیا اور آواز دی ”او لڑکے ٹھہر․․․․․․یہ دولت کہاں لے جا رہا ہے۔“ بیوی کی آواز سن کر جن بھی بیدار ہو گیا اور لڑکے کے پیچھے بھاگنے لگا۔اب ایاز تیزی سے بھاگتے ہوئے بیل تک آیا اور نیچے اترنے لگا۔جن متواتر اس کا پیچھا کر رہا تھا۔لیکن بھاری جسم کی وجہ سے اسے نیچے آنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔اور وہ ایاز سے کافی پیچھے رہ گیا تھا۔گھر کے قریب پہنچ کر ایاز نے اپنی امی کو آواز دی ”امی امی جان․․․․․جلدی سے کلہاڑا لے کر آئیں“ ایاز جب زمین پر پہنچا تو جن ابھی کافی اوپر تھا۔اس نے جلدی سے کلہاڑا لے کر بیل کا تنا کاٹ دیا جن زور دار آواز کے ساتھ منہ کے بل زمین پر گرا اور مر گیا۔ایاز اور اس کی امی کو ان کی دولت واپس مل گئی اب وہ دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔ " بہادر شہزادہ - تحریر نمبر 2170,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bahadur-shehzada-2170.html,"احمد عدنان طارق،فیصل آبادبہت سال پہلے کی بات ہے کہ ایک بہادر شہزادہ جس کا نام سیف تھا،گھوڑے پر سوار ایک بادشاہ کے محل کے پاس آیا۔وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ سارے ملک میں ہر کوئی اُداس ہے۔بادشاہ کہنے لگا”میری بیٹی میری شہزادی مرحبا اچانک غائب ہو گئی ہے اور اُس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔“شہزادہ سیف نے وعدہ کرتے ہوئے کہا”میں شہزادی کو تلاش کرکے لاؤں گا۔“پھر وہ گھوڑے پر سوار ہوا۔اُس نے شہزادی مرحبا کو پہاڑوں پر جھیلوں میں تلاش کیا۔ہر شہر میں لوگوں سے اُس کے متعلق پوچھا لیکن کسی نے شہزادی کو نہیں دیکھا تھا۔آخرکار وہ ایک جھونپڑی کے پاس پہنچا جس میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی۔اُس نے شہزادے کی بات سنی تو اُسے کہا:”اگر تم میرے لئے جنگل سے لکڑیاں کاٹ دو۔(جاری ہے)جھیل سے پانی لے آؤ اور میرے کھیت میں ہل چلا دو تو میں شہزادی کو ڈھونڈنے میں تمہاری مدد کروں گی۔“شہزادے نے اُس کا کہا مانتے ہوئے سارے کام کر دیے تو ابھی اندھیرا چھا رہا تھا۔اُس نے شہزادے کو ایک موم بتی دی اور کہا”اس موم بتی کو جلاؤ تو تم اس سلطنت کے ذرے ذرے کو دیکھ سکتے ہو“شہزادے نے موم بتی کی روشنی میں ایک بہت بڑا سیاہ رنگ کا قلعہ دیکھا جس کے اندر شہزادی مرحبا قید تھی،بوڑھی عورت کہنے لگی”یہ سیاہ گھڑ سوار کا جادو کا قلعہ ہے۔“شہزادہ سیف پھر گھوڑے پر سوار ہوا اور اُسے دوڑانے لگا حتیٰ کہ وہ سیاہ گھڑ سوار کے جادو کے قلعے کے نزدیک پہنچ گیا لیکن قلعے کے چاروں طرف جادو کے کانٹوں سے بھری جھاڑیاں سر اُٹھائے کھڑی تھیں وہ جتنا اُنہیں تلوار سے کاٹتا وہ اور بھی زیادہ ہوتی جاتیں۔آخر مایوس ہو کر اُس نے پھر موم بتی جلائی تاکہ دیکھے کہ شہزادی مرحبا کس حال میں ہے؟موم بتی کا شعلہ جلا تو اتفاق سے جھاڑیوں میں آگ لگ گئی اور وہ خاک کا ڈھیر بن گئیں۔سیاہ گھڑ سوار گھوڑے کو تیز بھگاتا ہوا قلعے سے باہر نکلا اور شہزادے سیف کے ساتھ تلوار سے جنگ کی جس میں شہزادے نے اُسے شکست فاش دی۔لہٰذا بادشاہ نے بہادر شہزادے کو اپنی آدھی سلطنت انعام میں دی اور شہزادی مرحبا سے اُس کی شادی کر دی اور پھر وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔ " کامیابی مل گئی - تحریر نمبر 2169,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kamyabi-mil-gayi-2169.html,"سلمان یوسف سمیجہ‘علی پوردادو نے ٹیپو کو مایوس بیٹھا دیکھا تو اُس کے ساتھ آ بیٹھیں۔”کیا ہوا میرے ننھے ٹیپو کو؟“دادو نے اُس کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔”دادو“ٹیپو روہنسا ہو کر دادو کے گلے لگ گیا۔”بولو بولو!گھبراؤ مت تم اپنے دل کی ہر بات مجھ سے شیئر کر سکتے ہو۔“دادی نے محبت سے کہا تو ٹیپو نے بولنا شروع کیا:”وہ دادو!بات یہ ہے کہ ہم آج پھر میچ ہار گئے۔یہی نہیں ہم پچھلے دس پندرہ دنوں سے مسلسل میچ ہارتے چلے آ رہے ہیں۔میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا‘ایسا لگتا ہے کہ کامیابیاں مجھ سے روٹھ گئی ہیں،میں کوئی بھی کام کروں اُس میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔“ٹیپو اور زیادہ روہنسا ہو گیا۔”اچھا!تو یہ بات ہے“دادو نے کہا:”لیکن جیسے تمہاری زندگی کے معمولات ہیں اُس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ تم کبھی کامیاب انسان نہیں بن پاؤ گے۔(جاری ہے)“”کیا مطلب دادو؟میں نے کونسا برا کام کیا ہے کہ میں اپنی زندگی میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا!“معصوم انداز میں پوچھا۔”تم کامیابیاں حاصل نہیں کر سکتے،میں تمہیں وجوہات بتاتی ہوں۔“دادو وجوہات بتانے لگیں:”پہلی وجہ تو یہ ہے کہ صبح سویرے نہیں اُٹھتے‘غفلت کی نیند سوتے رہتے ہو‘کاہلی اور سستی میں پڑے رہتے ہو‘دوسری وجہ یہ ہے کہ چڑچڑے رہتے ہو‘اللہ کو یاد نہیں کرتے‘حد سے زیادہ شرارتیں کرتے ہو نہ ہی اپنے کمرے کو صاف رکھتے ہو اور نا ہی گھر میں صفائی رکھتے ہو۔ضد کرتے ہو‘اپنی فضول خواہشات پوری کرواتے ہو‘اس طرح کی کئی اور وجوہات میں جس سے تم کامیاب نہیں ہو پاتے‘اگر کامیابی پانا چاہتے ہو تو اپنی ساری بری عادت چھوڑ دو۔“”ٹھیک ہے‘میں ایسا ہی کروں گا۔“ٹیپو نے کہا اور اپنی کہی بات پر عمل بھی کیا اُس نے ساری بری عادتیں چھوڑ دیں اور ایک شام وہ خوشی خوشی دادو کے پاس آیا اور خوشی سے بولا:”دادو!ہم میچ جیت گئے‘میں نے ساری بری عادات چھوڑ دیں اور آخرکار کامیابی پا ہی لی۔“دادو ٹیپو کی کامیابی پر خوش تھیں۔اب آپ کی باری ہے دوستو!بری عادت ترک کرو‘زندگی بدلو اور کامیابیاں ہی کامیابیاں پاؤ۔ " پچھتاوا - تحریر نمبر 2168,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pachtawa-2168.html,"روبینہ ناز․․․․کراچی”اللہ کے نام پر کچھ دے دو بابا“ایک بھکاری روزانہ کی طرح اُس روز بھی وہیں بھیک مانگ رہا تھا۔وہ بڑے غور سے اُس بوڑھے کو دیکھ رہا تھا۔جو ابھی ابھی لکڑیاں کاٹ کر فارغ ہوا تھا۔اُس بوڑھے نے بھکاری کو دیکھا جو بالکل تندرست ہونے کے باوجود بھیک مانگ رہا تھا۔کچھ سوچ کر اُس نے بھکاری سے کہا:”تم تو بالکل تندرست ہو،محنت کرکے کیوں نہیں کماتے؟“”مجھے محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ سب کو روزی دے گا۔“بھکاری نے کہا تو یہ بات بوڑھے کے دل کو لگی۔اُس نے کام کو چھوڑا اور یہ سوچتا ہوا گھر کو چلا گیا کہ مجھے بھی میرے نصیب کا رزق ملے گا۔اگلے دن جب لکڑہارے کا شاگرد اُسے بلانے آیا تو اُس نے بھکاری والی بات اُسے بھی بتائی اور کہا:”ہمارے رب کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیں رزق دے گا تو ہمیں اس مشکل میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟“لیکن شاگرد تو کام کرنا چاہتا تھا وہ ہر روز کام کرتا اور اُس میں سے کچھ پیسے اپنے استاد کو بھی دیتا ہے۔(جاری ہے)جسے لے کر استاد کہتا”دیکھا میرے حصے کا رزق مجھ تک پہنچ جاتا ہے۔“اُس کی اس بات پر شاگرد خاموش ہو جاتا۔کیونکہ وہ اُسے سمجھا سمجھا کر تھک چکا تھا۔اسی طرح دن گزرتے گئے اور لکڑہارے کا شاگرد اپنی محنت کے بل بوتے پر کامیاب ہو گیا۔ایک دن وہ اپنے استاد کے پاس آیا اور اُس سے کہا”میں نے نیا گھر خرید لیا ہے اور آپ کو اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دینے آیا ہوں۔“”ٹھیک ہے،میں آجاؤں گا۔“استاد نے کہا اور جب وہ شام کو شاگرد کے گھر پہنچا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اُس نے بہت بڑا گھر بنا لیا ہے۔کھانا بھی ایسا شاندار تھا کہ اس نے پہلے کبھی ایسا کھانا نہ کھایا تھا۔کھانے کے بعد لکڑہارے کا شاگرد بولا۔”استاد یہ سب مجھے آپ کے سکھائے ہوئے ہنر کی وجہ سے ملا ہے مگر افسوس کہ آپ نے خود اس ہنر کو بھلا دیا۔یہ سچ ہے کہ ہر ایک کو اس کے نصیب کا رزق ملتا ہے مگر اللہ محنت کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور اُنہیں ان کی محنت کا اجر دیتا ہے۔“اب لکڑہارے کو احساس ہوا تھا کہ اُس سے کیا غلطی ہوئی ہے۔وہ اپنی بے وقوفی پر بہت پچھتایا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ " کوئل کا انتقام - تحریر نمبر 2167,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/koyel-ka-inteqam-2167.html,"فاطمہ ساجد‘پھولنگرپیارے بچو!کیا آپ کو معلوم ہے کہ کوئل اپنا گھونسلہ نہیں بناتی بلکہ کوے کے گھونسلے میں انڈے دیتی ہے۔جب اُس کے بچے اُڑنے کے قابل ہوتے ہیں تو انہیں اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔خدا کی قدرت کہاں”کائیں کائیں“ اور کہاں سریلی آواز کُوکُو۔آئیے آپ کو بتائیں کہ وہ ایسا کیوں کرتی ہے۔ہرے بھرے جنگل میں بہت سے درندے و چرندے اور پرندے بڑی پُرسکون زندگی بسر کر رہے تھے۔صبح چڑیوں کی چہچہاہٹ اور شام کو پرندوں کی سریلی آوازیں سنائی دیتیں۔کچھ دنوں سے کوئی پرندوں کے گھونسلے سے انڈے توڑ کر کھا جاتا اور ننھے منے بچے اُٹھا کر لے جاتا۔پرندے پریشان تھے،ہر کوئی دوسرے پر شک کرتا کوئل اُس وقت گھونسلہ بناتی تھی تو کوئی اُس کے گھونسلے سے بھی انڈے توڑ کر کھا جاتا۔(جاری ہے)اس معاملے کو سلجھانے کیلئے ایک میٹنگ بلائی گئی لیکن کوا نہیں آیا،سب کا شک اُسی پر گیا مگر ثبوت نہ تھا۔آخرکار فیصلہ ہوا کہ پرندوں میں الو سب سے ذہین ہے،یہ معاملہ اُس سے حل کرواتے ہیں۔وہ سب الو کے پاس گئے پہلے اُس نے غصہ کیا کہ میرے پاس رات کو آنا کیونکہ میں رات کا بادشاہ ہوں مگر جب پرندوں نے درخواست کی کہ ہماری پریشانی دور کرنے میں مدد کریں تو الو میاں نے سب کی باتیں سنیں اور فیصلہ کیا کہ کوا ہی ایسی حرکت کر سکتا ہے مگر ثبوت کے بعد اُسے پوچھیں گے۔اُس نے طوطے میاں کی ڈیوٹی لگائی کیونکہ اُس کا رنگ گہرا سبز تھا اور وہ درخت پر بیٹھا نظر نہیں آتا،اس لئے وہ کوے پر نظر رکھے۔باقی جانوروں سے کہا کہ وہ نارمل رہیں۔اب دوسرے جانوروں کے ساتھ طوطے میاں ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔آخر بے صبرا کوا زیر دام آ ہی گیا۔وہ بلبل کے انڈے توڑ کر کھا رہا تھا اور اُس کے چھلکے گھونسلے سے نیچے پھینک رہا تھا۔طوطا اچانک اُس کے سر پر پہنچ گیا اور کہا اُس کی چوری پکڑی گئی ہے۔سب جانوروں نے اُسے الو کی عدالت میں پیش کیا۔الو نے اُسے پوچھا؟وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟کوے نے کہا ایک دن میں بہت بھوکا تھا۔مجھے کھانے کو کچھ نہ ملا۔مجبوراً فاختہ کے گھونسلے میں ننھے منے بچے دیکھ کر انہیں کھانے کا خیال آیا۔یہ مجھے لذیذ لگے پھر یہ آسان شکار بن گئے۔میں نے گھونسلوں سے انڈے توڑ کر پئے اور ننھے بچے کھائے مجھ سے غلطی ہوئی مجھے معاف کر دیا جائے۔یہ غلطی نہیں بلکہ جرم ہے،تمہیں پتہ نہیں کہ اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور تم نے انہیں کھانا شروع کر دیا۔کوئل کو بہت غصہ آیا تھا‘اُس نے کہا اسے پھانسی دینی چاہئے یا پھر جنگل بدر کر دینا چاہئے۔الو میاں نے کہا ٹھہرو کوا غلطی تسلیم کر رہا ہے،بہتر ہے اسے معاف کر دیا جائے آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔فاختہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا‘ایسے جانور معاف کرنے کے قابل نہیں ہوتے انہیں مار دینا چاہئے۔کوا چونکہ ہمارے جنگل کا باسی ہے اس لئے اس کو اپنے بچوں کا خون معاف کرتی ہوں۔بلبل نے تائید کی۔دوسرے پرندوں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی‘کوا ایک ہوشیار جانور ہے یہ سانپ‘نیولے اور انسان سے ہمیں خبردار کرتا ہے۔شور مچا کر اُن کی توجہ اپنی طرف کر لیتا ہے اور ہم اُڑ کر دوسری طرف چلے جاتے ہیں اور․․․․․“مجھے آپ کا فیصلہ منظور نہیں اس ظالم کو سزا نہیں ملے گی تو ظلم بڑھتا رہے گا میری سریلی آواز پر نہ جائیں اس سریلے پن میں ایک درد ہے جو اس ظالم نے دیا ہے۔اس ظالم سے انتقام لوں گی‘کوئل یہ کہہ کر اُڑ گئی۔کوئل نے فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ اپنا گھونسلہ نہیں بنائے گی بلکہ کوے کے گھونسلے میں انڈے دے گی،پھر اُس نے ایسا ہی کیا۔وہ ایک ایک کرکے کوے کے انڈے نیچے پھینکتی اور خود ہی انڈے دیتی رہی۔مادہ کوا ان انڈوں کو سیتی ریتی ہے‘جب بچے نکل آتے ہیں،کوا انہیں خوراک کھلا کر بڑا کرتا ہے،جب وہ اُڑنے کے قابل ہوتے ہیں تو کوئل انہیں اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔یوں وہ کوے سے انوکھا انتقام لیتی ہے۔اب کوے کی بدقسمتی دیکھئے کہ وہ کوئل کے بچوں کو پالتا ہے۔اُس کے اندے ضائع ہو جاتے ہیں مگر اُسے کچھ نہیں ملتا۔پیارے بچو!اس بات سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی کے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہئے ورنہ اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اچھا بننے کی توفیق دے۔آمین " مغرور زرافہ - تحریر نمبر 2166,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maghroor-zarafa-2166.html,"محمد ابو بکر ساجد․․․․پھولنگرپیارے بچو!ایک جنگل میں بہت سے جانور رہتے تھے۔اُن میں ایک زرافہ بھی تھا جو قد کاٹھ اور ڈیل ڈول میں بہت بڑا تھا۔ایک دن اچانک شیر نے اپنی خوراک بنانے کیلئے اُس پر حملہ کر دیا۔زرافہ کی گردن چونکہ بہت لمبی ہوتی ہے،اُسے شہ رگ سے نہیں پکڑا جا سکتا تھا۔ اسی لئے شیر نے اُس پر پیچھے سے حملہ کیا۔اُس کی کھال بھی سخت تھی جس کی وجہ سے اُس کی کھال کو نقصان نہ پہنچا۔بلکہ اُلٹا زرافے نے شیر کو ایک ٹانگ مار دی۔ٹانگ سیدھی شیر کے سینے میں لگی اور وہ گر کر تڑپنے لگا۔زرافے نے غصے میں اُس پر اپنی ٹانگ سے دوسرا حملہ کیا جس سے شیر وہیں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔اب زرافہ غرور سے اَکڑنے لگا کہ اُس نے شیر کو مار دیا ہے،دوسرے جانور اُسے حقیر لگنے لگے تھے۔(جاری ہے)وہ اُنہیں اُلٹے سیدھے ناموں سے پکارنے لگا۔سب جانوروں پر زرافے کی دہشت طاری تھی۔ایک دن چند جانور لومڑی کے پاس آئے اور اُس سے زرافہ کی شکایت کرتے ہوئے فریاد کی کہ وہ زرافے کی دہشت سے نجات حاصل کرنے کا کوئی طریقہ بتائیں۔اب تو دوسرے شیر بھی اُس سے ڈرنے لگے تھے۔زیبرا نے روتے ہوئے کہا:بی لومڑی زرافہ مجھے لائنوں والا گدھا کہتا ہے،یہ بھی کہتا ہے کہ تم میں اور گدھے میں کوئی فرق نہیں ہے صرف لائنوں کی وجہ سے تم عقل مند نہیں بن سکتے۔گدھے نے کہا زرافہ مجھے ڈھینچوں ڈھینچوں کہتا ہے اور کہتا ہے کہ جانوروں میں سب سے بیوقوف ہوں۔ہرنی نے کہا!بی لومڑی زرافہ مجھے بکری کے خاندان سے ملاتا ہے۔اونٹ نے منہ اونچا کیا اور کہنے لگا:زرافے نے مجھے کہا کہ میری طرح بن جانے سے تم بہادر نہیں بن سکتے۔مجھے تو تم بیمار لگتے ہو،دیکھو یہ پھوڑا ہے جسے تم کوہان کہتے ہو۔بس بس سب چپ کرو‘زرافے کی سب باتیں اُسے مغرور ثابت کرتی ہیں،مجھے اس کا بندوبست کرنا ہو گا۔لومڑی نے کہا۔کچھ سوچتے ہوئے لومڑی دانستہ زرافہ کے سامنے گئی۔زرافے کا دھیان اُس کی طرف گیا ہی تھا کہ لومڑی زور زور سے ہنستی ہوئی ایک طرف چلی گئی زرافے کو بہت غصہ آیا۔اگلے دن پھر یہی ہوا۔لومڑی نے اُسے دیکھا تو زرافہ اور بھی تلملایا دو چار دن چھوڑ کر لومڑی نے پھر یہی کیا جس سے زرافہ آگ بگولہ ہو گیا کہ دو چار دن سے لومڑی مجھے دیکھ کر کیوں ہنستی ہے۔آخر اُس نے لومڑی سے کہا کہ ”تم میری طرف دیکھ کر ہنستی کیوں ہو؟“اس پر لومڑی نے کہا:”جناب جنگل میں جانور طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے کہ ایک خوبصورت‘بے ڈھنگا دراز قد لمبی سی گردن‘چھوٹا سا منہ‘چار ٹیڑھے پیر‘اتنا بڑا بدن اور چھوٹی سی دم والا ایک جانور ہے،میں جب تمہیں دیکھتی ہوں تو مجھے ہنستی آ جاتی ہے۔ویسے تمام جانور سچ کہتے ہیں ذرا ٹھہرو گے میں اپنے بچوں کو لے آؤں وہ بھی تمہیں دیکھ کر ہنس لیں۔زرافے کو احساس ہوا کہ واقعی میں خوبصورت ہوں جو اتنے جانور مجھے دیکھ کر باتیں کرتے ہیں۔لومڑی اپنے بچوں کو لے کر آئی وہ بھی اُسے دیکھ کر ہنسنے لگے۔وہ زرافے کو لے کر جھیل پر گئی۔وہ پانی میں اپنا عکس دیکھ کر شرمندگی محسوس کرنے لگا اُس نے دل میں سوچا کہ آج کے بعد کسی کو بُرا بھلا نہیں کہوں گا نہ ہی کسی کا مذاق اُڑاؤں گا ہم سب جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے پھر مذاق کیسا؟ " درزی پرندہ - تحریر نمبر 2165,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/darzi-parinda-2165.html,"سیدہ نازاں جبیںرامین روتے روتے سو گئی تھی،کیونکہ اس کی گڑیا کے کپڑے پھٹ گئے تھے۔جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ گڑیا کے کپڑے بالکل ٹھیک تھے۔اچانک اس کے کمرے کی کھڑکی پر دو پرندے آ کر بیٹھ گئے۔رامین پرندوں کا بہت خیال رکھتی تھی۔یہ دونوں درزی پرندے کہلاتے ہیں۔انھوں نے کہا:”اچھی رامین!یہ کپڑے ہم نے سیے ہیں۔“”کیا واقعی تمہیں سلائی آتی ہے؟“رامین نے ان پرندوں سے پوچھا۔”بالکل آتی ہے،تبھی تو ہمیں درزی پرندہ کہا جاتا ہے۔“درزی پرندے نے جواب دیا۔”اچھا!تو تم اپنا گھونسلا بھی سلائی کرکے ہی بناتے ہو گے۔ذرا مجھے بھی تو بتاؤ کہ کیسے بناتے ہو تم اپنا گھونسلا؟“رامین نے دلچسپی سے پوچھا۔مادہ پرندے نے بتایا:”سب سے پہلے تو ہم دونوں مل کر پتے جمع کرتے ہیں،پھر میں اپنے پیروں سے انھیں قریب لا کر اپنی تیز چونچ سے ان کے کنارے ملاتی ہوں اور پھر ان پتوں میں سوراخ کرکے مکڑی کے جالے،خشک گھاس پھوس،روئی وغیرہ کو دھاگے کی شکل دے کر اس سے پتوں کو سیتی ہوں۔(جاری ہے)“”اور سوئی کہاں سے لاتی ہو؟“رامین نے اہم سوال کیا۔”ہماری چونچ لمبی اور باریک ہوتی ہے۔ہم اسی سے سوئی کا کام لیتے ہیں۔پتوں کو ایک ساتھ ملا کر اور ان میں ٹانکے لگا کر ایک پیالے کی شکل دے دیتی ہوں۔“مادہ پرندے نے جواب دیا۔”لیکن تم بغیر ناپ کے کیسے گھونسلا سی لیتی ہو؟“رامین نے تجسس سے سوال کیا۔”پہلے میں خود کو ایک پتے میں لپیٹ کر دیکھتی ہوں،اگر ناپ ٹھیک نہیں ہوتا تو ایک یا دو پتے اور جوڑ لیتی ہوں اور پھر مزید اسی جسامت کے پتوں کو جمع کرکے سلائی کا کام شروع کرتی ہوں۔“مادہ درزی پرندے نے فخر سے بتایا۔”تم یا تمہارے بچوں کے بیٹھنے سے گھونسلا ٹوٹ نہیں جاتا؟“رامین نے پوچھا۔”ہم بہت احتیاط سے چوڑے،مضبوط اور لچکدار پتوں کا انتخاب کرتے ہیں،تاکہ ہمارے گھر کی بناوٹ بھی اچھی ہو اور وہ مضبوط بھی ہوں۔“نَر پرندے نے رامین کی اُلجھن دور کی۔”اور اگر کسی وجہ سے تمہارا گھونسلا ٹوٹ جائے یا خراب ہو جائے تو پھر کیا کرتے ہو؟“”کسی نقصان یا ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں اپنے گھر کی مرمت میں خود کرتی ہوں۔مزید پتے لا کر یا ٹانکے لگا کر اسے جوڑ لیتی ہوں۔“مادہ نے فخریہ اپنے ہنر سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔”اس کے علاوہ ہم گھونسلے کے اندر نرم گھاس،جانوروں کے بال اور پَر بھرتے ہیں،تاکہ گھونسلا آرام دہ اور محفوظ ہو۔“نَر پرندے نے بتایا۔”میری مدد کرنے کا بہت شکریہ درزی پرندوں!“رامین نے کہا۔”کوئی بات نہیں،ہمیں ایک دوسرے کے کام آنا چاہیے۔“درزی پرندوں نے خوش اخلاقی سے کہا اور اُڑ گئے۔ " مچھلی - تحریر نمبر 2164,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/machli-2164.html,"مچھیرے نے اللہ کا نام لے کر ندی میں جال ڈالا۔دن بھر کے انتظار کے بعد دو بڑی سی مچھلیاں ہاتھ لگیں۔وہ اپنا جال سمیٹ رہا تھا کہ ایک چیل تیزی سے جھپٹی اور اپنے پنجوں میں ایک مچھلی دبا کر اُڑ گئی۔مچھیرے کو بہت افسوس ہوا،مگر پھر وہ کچھ سوچ کر مسکرایا۔اس کا بیٹا چیل اور اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔مچھیرے نے کہا،”بیٹا اللہ کا شکر ادا کرو کہ ایک مچھلی بچ گئی۔دوسری مچھلی ہماری قسمت میں نہیں تھی۔جو چیز جتنی قسمت میں ہوتی ہے اتنی ہی ملتی ہے۔قسمت کو کوسنا ناشکروں کا کام ہے۔“وہ چیل اُڑتی ہوئی ایک پہاڑی کی طرف جا پہنچی۔ایک دوسری چیل نے اس سے مچھلی چھیننے کے لئے اس پر حملہ کر دیا۔دونوں چیلوں میں چھینا جھپٹی ہونے لگی اور مچھلی چیل کے پنجوں سے پھسل کر پہاڑی پر رہنے والے ایک درویش کی جھونپڑی کے سامنے گر پڑی۔(جاری ہے)درویش نے مچھلی کو اُٹھایا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا،”اے اللہ!آپ نے میری دعا قبول کر لی۔میں نے مچھلی ہی تو مانگی تھی۔مگر آپ کو تو معلوم ہے کہ میرے پاس مچھلی پکانے کے لئے نہ تو تیل ہے اور نہ مصالحہ۔مجھے تو پکی پکائی مچھلی چاہیے۔میں یہ مچھلی نہیں کھا سکتا۔اسے واپس منگوا لیجیے اور مجھے پکی ہوئی مچھلی بھجوائیے۔“یہ کہہ کر درویش جھونپڑی میں چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد جب وہ دوبارہ باہر آیا تو مچھلی وہاں نہیں تھی۔اسے ایک چیل نے اُٹھا لیا اور وہ دوسری چیلوں سے بچتی ہوئی،جو اس سے مچھلی چھیننے کے لئے اس کا پیچھا کر رہی تھیں،پہاڑی کی نیچے کی طرف اُڑ رہی تھی لیکن دو چیلوں نے اس پر حملہ کر دیا اور اس سے مچھلی چھیننے کی کوشش کی۔اس لڑائی میں چیل کے پنجوں سے وہ مچھلی نکل کر ایک غریب کسان کے آنگن میں جا گری۔کسان کی بیوی نے دوڑ کر وہ مچھلی اُٹھا لی اور کسان سے بولی،”میں تم سے کتنے دنوں سے کہہ رہی تھی کہ میرا دل مچھلی کھانے کو چاہ رہا ہے۔تم نے تو لا کر نہ دی،اللہ میاں نے آج مجھے بھیج دی۔میں نے منّت مانی تھی کہ جب بھی مچھلی پکاؤں گی پہاڑی والے بابا کو بھیجوں گی۔اب میں مصالحہ پیس کر مچھلی پکائے دیتی ہوں۔تم بابا کو جا کر دے آؤ اور کہنا کہ بابا دعا کریں کہ ہمارا ہونے والا بچہ زندہ اور سلامت رہے۔“کسان کی بیوی نے مچھلی پکائی کہ اتنے میں کسان کا دوست مچھیرا وہاں آ گیا۔کسان نے اپنے دوست سے کہا،”تم اچھے وقت پر آ گئے۔آج مچھلی پکی ہے۔کھانا کھا کر جانا۔“مچھیرے نے تعجب سے پوچھا،”مگر تم کو مچھلی کہاں سے مل گئی؟وہ تو میں ہی تم کو لا کر دیتا ہوں۔“”بس یوں سمجھ لو اللہ میاں نے آسمان سے ٹپکا دی ہمارے آنگن میں۔“کسان نے سارا ماجرا سنایا کہ کس طرح چیل وہ مچھلی وہاں گرا گئی۔مچھیرا یہ سن کر مسکرایا مگر کچھ بولا نہیں۔جب کسان پہاڑی بابا کو مچھلی دینے گیا تو مچھیرا بھی اس کے ساتھ گیا۔کسان نے پکی ہوئی مچھلی کا پیالہ پیش کیا اور دعا کی درخواست کی۔درویش نے ان دونوں کو دیکھا اور پوچھا،”مچھلی کہاں سے آئی؟“کسان نے کہا،”آسمان سے گری،بیوی نے منّت مانی تھی کہ اگر اسے مچھلی ملی تو وہ پہاڑی والے بابا کو پہلے کھلائے گی اور دعا کرائے گی کہ اس کا ہونے والا بچہ زندہ اور سلامت رہے۔“اب درویش مچھیرے سے بولا،”تم کون ہو؟“مچھیرے نے کہا،”میں مچھیرا ہوں۔آج صبح دو مچھلیاں پکڑی تھیں۔ایک میرے کنبے کی قسمت کی تھی اور دوسری چیل اُٹھا کر لے گئی۔“درویش سارا ماجرا سن کر بولا،”ہم سب نے مچھلی کھانے کی خواہش کی۔اللہ تعالیٰ نے ایک ہی وقت میں ہم سب کی خواہش جس انداز میں پوری کی،یہ اس کی ذات کا ادنی سا کرشمہ ہے۔ہمیں اُس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ " شمائلہ اور چالاک بھیڑیا - تحریر نمبر 2163,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shumaila-aur-chalak-bheriya-2163.html,"نوید اخترکسی دور دراز ملک میں ایک ننھی منی لڑکی اپنی امی کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ان کا گھر جنگل کے قریب ہی ایک چھوٹے سے گاؤں میں تھا۔اس لڑکی کا نام شمائلہ تھا لیکن گاؤں کے تمام لوگ اس کو شمائلہ لال ٹوپی والی کہا کرتے تھے کیونکہ وہ ہر وقت لال رنگ کی ٹوپی پہنے رہتی تھی۔ایک روز شمائلہ صبح سو کر اُٹھی تو اس کی امی نے کہا”بیٹی!تمہاری نانی اماں کچھ بیمار ہیں میں ایک ضروری کام کی وجہ سے آج انہیں ملنے نہیں جا سکتی۔ایسا کرو تم جا کر اپنی نانی اماں کی خیریت دریافت کر آؤ اور اس ٹوکری میں میں نے ان کے لئے کچھ پھل رکھ دیئے ہیں یہ ان کو دے آؤ۔“شمائلہ جب پھلوں کی ٹوکری لے کر جانے لگی تو اس کی امی نے آواز دے کر کہا”دیکھو بیٹی راستے میں کسی اجنبی سے کوئی بات نہ کرنا اور سیدھی نانی اماں کے گھر جانا۔(جاری ہے)“شمائلہ نے کہا”جی اچھا․․․․امی“نانی اماں کا گھر پورا جنگل عبور کرنے کے بعد تقریباً آخری کنارے پر تھا۔شمائلہ لال ٹوپی والی اُچھلتی کودتی اپنے آپ میں مگن جا رہی تھی کہ ایک بھیڑیے نے اس کا راستہ روک لیا اور پوچھا:”پیاری بچی تم اتنی صبح کہاں جا رہی ہو اور تمہاری اس ٹوکری میں کیا ہے“شمائلہ بولی”میری نانی اماں بیمار ہیں میں ان کی تیمارداری کے لئے جا رہی ہوں۔تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ اور مجھے جانے دو۔میری امی نے راستے میں کسی بھی اجنبی سے بات کرنے سے منع کیا تھا۔“بھیڑیے نے کہا ٹھیک ہے چلی جاؤ لیکن میرا خیال ہے کہ اگر تم نانی اماں کے لئے ان جنگلی پھولوں کا ایک گلدستہ بنا کر لے جاؤ تو وہ بہت خوش ہوں گے۔“شمائلہ کو یہ تجویز پسند آئی اور وہ جنگلی پھول توڑنے لگی۔بھیڑیا بھاگم بھاگ نانی اماں کے دروازے پر پہنچا اور دروازے پر ہلکی سی دستک دی اندر سے نانی اماں نے پوچھا”کون ہے؟“چالاک بھیڑیے نے آواز بدل کر کہا”یہ میں ہوں نانی اماں․․․شمائلہ لال ٹوپی والی۔“نانی اماں بولیں”بیٹی دروازہ کھلا ہے اندر آ جاؤ“بھیڑیے نے دروازہ کھولا اور ایک ہی جست میں نانی اماں کی چارپائی کے قریب جا کھڑا ہوا اور پلک جھپکتے میں نانی اماں کو نگل گیا۔اب اس نے نانی اماں کے کپڑے پہنے اور ان کا کمبل اوڑھ کر بستر پر لیٹ گیا۔کچھ دیر گزری تھی کہ شمائلہ وہاں آ پہنچی۔شمائلہ نے دروازے پر دستک دی تو چالاک بھیڑیے نے نانی اماں کی آواز کی نقل کرتے ہوئے پوچھا”کون ہے؟“شمائلہ بولی”یہ میں ہوں نانی اماں․․․․․شمائلہ لال ٹوپی والی”بھیڑیے نے نانی اماں کی آواز میں کہا”اندر آ جاؤ بیٹی․․․․دروازے کو کنڈی نہیں لگی ہوئی۔“شمائلہ دروازہ کھول کر خوش گھر کے اندر داخل ہوئی اور بولی”نانی اماں مجھے امی جان نے آپ کی خیریت دریافت کرنے بھیجا ہے اور اس ٹوکری میں انہوں نے آپ کے لئے کچھ پھل بھجوائے ہیں۔“بات کرتے کرتے شمائلہ کی نظر جب نانی اماں پر پڑی تو حیرت زدہ ہو کر پوچھنے لگی۔”آپ کے کانوں کو کیا ہوا یہ اتنے بڑے کیوں ہیں۔“بھیڑیے نے کہا”بیٹی تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے ذرا میرے قریب تو آؤ۔“شمائلہ نے بیڈ کے قریب آتے ہوئے کہا”اوہ․․․․نانی اماں آپ کی آنکھیں اس قدر بڑی کیسے ہو گئیں۔“بھیڑیے نے کہا”بیٹی ذرا میرے اور قریب آؤ“اب شمائلہ بیڈ کے بالکل پاس آ کر بولی”آپ کے دانت بھی بہت بڑے بڑے ہیں۔“بھیڑیے نے اپنی اصل آواز میں کہا”ہاں․․․میں تمہیں کھا جاؤں گا“یہ کہتے ہی بھیڑیا نانی اماں کے بستر سے نکل کر شمائلہ کو ہڑپ کر گیا۔شمائلہ اور نانی اماں کو کھا کر بھیڑیا اسی جھونپڑی میں لیٹ کر سو گیا۔ادھر ایک لکڑ ہارا جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جا رہا تھا۔اچانک اسے یاد آیا کہ بوڑھی نانی اماں کافی دن سے بیمار ہیں۔لکڑ ہارے نے سوچا کیوں نہ میں جنگل میں لکڑیاں کاٹنے سے پہلے نانی اماں کو ملتا جاؤں۔یہ سوچ کر وہ نانی اماں کے گھر جا پہنچا۔وہاں اس نے دیکھا کہ نانی اماں کے بستر پر ایک نہایت خونخوار قسم کا بھیڑیا سو رہا ہے۔جب کہ وہ خود گھر میں نہیں ہیں بھیڑیے کا پھولا ہوا پیٹ دیکھ کر لکڑ ہارا سمجھ گیا کہ نانی اماں کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔اس نے تیزی سے لکڑیاں کاٹنے والا کلہاڑا نکالا اور ایک ہی وار میں بھیڑیے کے دو ٹکڑے کر دیئے۔بھیڑیے کا پیٹ پھٹتے ہی نانی اماں اور شمائلہ باہر آ گریں۔لکڑ ہارا یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ دونوں صحیح سلامت تھیں۔شمائلہ اور اس کی نانی اماں نے لکڑ ہارے کا شکریہ ادا کیا۔اور شمائلہ خوشی خوشی اپنے گھر واپس روانہ ہو گئی لیکن اس دن کے بعد کبھی شمائلہ نے کسی اجنبی سے بات نہ کی۔ " ایک دن کا راجا - تحریر نمبر 2162,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-din-ka-raja-2162.html,"تیمور جان،بہلم پٹھاناکبر اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔والد موچی تھے۔اکبر سرکاری سکول میں پڑھتا تھا۔اسے کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا۔وہ ہر وقت سوچتا تھا کہ کاش!میں کسی ملک کا راجا ہوتا۔میں بہت امیر ہوتا،جو چاہتا وہ کرتا۔وہ اکثر خواب دیکھتا کہ وہ راجا بن گیا ہے۔سب اس کے احترام میں کھڑے ہیں۔عالیشان محل ہے،جہاں وہ ہیرے جواہرات کے تخت پر بیٹھا ہے،مگر جب وہ اُٹھتا ہے تو خود کو اس چارپائی پر پاتا۔ایک دن اکبر اپنے گھر کے قریب جنگل میں گیا۔اچانک اس نے ایک بلی دیکھی۔اس نے دیکھا کہ بلی کے پیر میں کوئی نوکیلی چیز چبھی ہوئی ہے۔وہ بلی کے پیر سے نوک دار چیز نکالتا ہے تو وہ بلی ایک خوبصورت پری میں تبدیل ہو جاتی ہے۔وہ پری کہتی ہے:”تم نے جادوئی تیر نکال کر مجھے آزاد کرایا۔(جاری ہے)میں تمہاری احسان مند ہوں۔اس لئے تمہاری کوئی دو خواہش پوری کروں گی۔“اکبر جلدی سے کہتا ہے کہ مجھے کسی ملک کا راجا بنا دو۔پری نے کہا:”آنکھیں بند کرو۔“اکبر نے آنکھیں کھولیں تو وہ حیران رہ جاتا ہے وہ تخت پر بیٹھا ہے۔سب درباری اس کے احترام میں کھڑے ہیں۔ایک درباری کہتا ہے:”حضور والا!آپ کے لئے کھانا تیار ہے۔“کھانا دیکھتے ہی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔اتنا لذیذ کھانا اس نے پہلے کبھی نہیں کھایا تھا،مگر اس کے ساتھ کئی مسئلے درپیش آتے ہیں۔لوگ اس کے پاس اپنے جھگڑوں کے فیصلے کرانے آنے لگے،مگر وہ درست فیصلے نہیں کر پاتا۔زیادہ کھانا کھانے کی وجہ سے وہ بیمار رہنے لگا۔اکبر نظام حکومت صحیح طریقے سے سنبھال نہیں پایا،اس لئے پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اس کے ملک کی کمزور حالت دیکھ کر حملہ کر دیا۔اکبر کو جنگ میں لڑنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا،اس لئے وہ ہار گیا۔پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اسے قید کر لیا۔اسے لذیذ کھانے کے بجائے جیل کا باسی کھانا ملتا ہے۔وہ اپنے والدین کو اپنے گھر کو یاد کرتا ہے۔جہاں پر اسے کوئی مشکل نہیں تھی۔اس کی طبیعت ٹھیک رہتی تھی۔ اسے کھانے کو خالص غذا ملتی تھی۔اسے پری کی بات یاد آئی۔اس نے مشرق کی طرف منہ کرکے تین تالیاں بجائیں۔پری آئی تو اس نے کہا:”مجھے پہلے جیسا بنا دو۔“پری نے کہا:”آنکھیں بند کرو۔“آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ وہ اسی جنگل میں ہے،اب پچھتاوے کیا ہوت،جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ " امانت - تحریر نمبر 2161,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/amanat-2161.html,"محمد احمد،بہاولپورنورین دس سال کی تھی اس میں دو بُری عادتیں تھیں پہلی یہ کہ جب دو لوگ بول رہے ہوں تو وہ ضرور درمیان میں مداخلت کرتی۔دوسری بُری بات یہ تھی کہ وہ ہر ایک کی بات سنتی اور دوسروں کو بتا دیتی مثلاً گھر میں کیا پک رہا ہے،کون جا رہا ہے،کون آ رہا ہے،کیا منگوایا جا رہا ہے۔ان عادات کی وجہ سے گھر کے باقی بچے اس سے دور ہوتے جا رہے تھے۔وہ نہ اسے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرتے اور نہ اسے کوئی بات بتاتے۔آخر سب بچوں نے فیصلہ کیا کہ کوئی اس سے بات نہیں کرے گا۔بچے اس کے آنے پر خاموش ہو جاتے یا اِدھر اُدھر چلے جاتے۔اس کے ساتھ کوئی کھیلتا بھی نہیں تھا۔بچوں کی اس حرکت کا نورین کے علاوہ اس کی نانی اماں بھی مشاہدہ کر رہی تھی کہ کیوں بچے اس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔(جاری ہے)نانی اماں نے سب بچوں کو بتایا کہ کل بچوں کے مسائل پر گفتگو ہو گی۔جس بچے کو جو بھی مسئلہ ہو وہ اسے حل کرنے کی کوشش کریں گی۔سب بچوں نے طے کیا کہ وہ نورین کی شکایت کریں گے۔جب سب بچے اکٹھے ہوئے تو حسان بولا:”ہم سب کو نورین کی شکایت کرنی ہے؟“”جی ہمیں نورین کی شکایت کرنی ہے؟“حسان اور عائشہ بیک وقت بولے۔اس سے پہلے کہ نانی اماں جواب دیتیں،نورین اچانک بولی:”میری ہی کیوں؟اور کیا شکایت کرنی ہے میری؟“”نانی اماں!یہ پھر درمیان میں بولی ہے۔“حسان نے کہا۔”پھر سے کیا مراد؟میں پہلے کب بولی ہوں؟بس ابھی تو بولی ہوں۔“”ارے بچو!تم تو آپس میں لڑنے لگے۔یہ بات آداب مجلس کے خلاف ہے۔اب سب خاموش ہو کر بیٹھو اور میں جس کا نام لوں،صرف وہی بولے گا۔سب سے پہلے نائلہ بولے گی،کیونکہ وہ بچوں میں سب سے بڑی ہے۔“نانی اماں نے قدرے ناراضگی سے کہا۔اس سے پہلے کے نائلہ بولتی،نورین پھر بول اُٹھی:”میرے پاس سب کے راز ہیں وہ میں فاش کر دوں گی۔“”میں نے کہا ہے کہ سب سے پہلے نائلہ بات کرے گی تم پھر بول پڑی اب خاموش ہو کر بیٹھو اور اپنی باری پر بات کرنا۔“نانی اماں نے کہا۔پھر نائلہ نے نانی اماں کو نورین کی بُری عادات کے بارے میں بتایا اور سب بچوں نے ایک ہی بات دہرائی نانی اماں نے نورین کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا:”کیا یہ بات درست ہے نورین؟“”میں ایسی نہیں ہوں اور تم سب کو تو میں دیکھ لوں گی۔“اس سے پہلے کہ نورین کچھ مزید بولتی ،نانی اماں نے کہا:”بیٹی!میں دیکھ رہی ہوں کہ تم بہت بدتمیزی سے بات کر رہی ہو۔مجھے لگتا ہے کہ تمہاری تربیت میں کچھ کمی رہ گئی ہے،مگر کہاں رہ گئی ہے۔آخر تم سب کی باتیں اِدھر اُدھر کیوں بتاتی ہو؟تم اپنے بڑوں کو بھی بتا سکتی ہو ناں؟اور ہر بات خبر کی طرح نشر کرنے سے کیا ملتا ہے تمہیں؟درمیان میں بولنا یعنی کسی کی بات کاٹنا یہ کتنی غیر اخلاقی بات ہے اور کیا دوسرے بچے بھی آپ کو ایسی باتیں بتاتے ہیں جیسے تم ان کو بتاتی ہو؟“نانی اماں نے نورین سے پوچھا۔نورین شرمندہ ہو کر خاموش ہو گئی۔”اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے یا بات ختم کروں!“نانی اماں نے کہا۔”اب میں کسی کی باتیں چھپ کر نہیں سنوں گی اور نہ کسی کو بتاؤں گی اور درمیان میں تو بالکل بھی نہیں بولوں گی۔“نورین نے پُرعزم انداز سے کہا۔”شاباش ہماری بات تمہاری سمجھ میں آ گئی،یہ بہت اچھی بات ہے ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا۔“نانی اماں نے کہا اور سب بچے وہاں سے اُٹھ کر چل دیے۔ " فراخ دل - تحریر نمبر 2160,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/farakh-dil-2160.html,"شہلا جمالان کا اپنا کاروبار تھا،جس میں دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی ہوتی جا رہی تھی۔پیسہ آنے کے باوجود انہوں نے اپنا آبائی محلہ نہ چھوڑا۔حالانکہ اب وہ کسی بھی مہنگے علاقے میں گھر خرید سکتے تھے۔”آج پانی پھر نہیں آیا؟“انہوں نے گھر میں داخل ہو کر اپنی بیوی سے پوچھا۔”نہیں۔“بیوی نے کھانا میز پر رکھتے ہوئے کہا۔”اچھا،پانی کا ٹینکر منگواتا ہوں۔“انہوں نے یہ کہہ کر کھانا شروع کیا۔طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے انہوں نے بڑا جنریٹر خرید لیا تھا۔گرمی سے لوگ بے حال ہوتے اور ان کے گھر سے جنریٹر چلنے کی آواز سنائی دیتی اور رات کو جب پورا محلہ تاریکی میں ڈوب جاتا تو ان کا گھر روشن ہو جاتا۔جب بجلی طویل عرصے کے لئے غائب ہوتی تو قریبی پڑوسی اپنے فریج کا گوشت رکھوانے آتے،تاکہ خراب ہونے سے بچ جائے۔(جاری ہے)وہ گھر پر ہوتے تو ناگواری کا اظہار کرتے اور بیوی پر غصہ کرتے۔”ہم نے کیا ٹھیکا لے رکھا ہے لوگوں کا۔میرا گھر کوئی فلاحی ادارہ نہیں،جہاں میں لوگوں کی مدد کروں۔“غصے میں ان کی آواز تیز ہو گئی۔بیوی نے وضاحت کی:”آخر یہ ہمارے پڑوسی ہیں،بجلی نے اتنا تنگ کر رکھا ہے کہ ان کے فریج میں رکھا گوشت خراب ہو جاتا ہے،اس لئے یہ دو تین پڑوسی ہمارے گھر گوشت رکھوا دیتے ہیں۔“”تم ہی نے انہیں اتنا منہ لگایا ہے جبھی یہ لوگ گھڑی گھڑی تنگ کرنے آ جاتے ہیں۔“ان کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔آخر پڑوسیوں کا بھی تو کچھ حق ہوتا ہے۔ہم اس طرح ان کے کام آتے ہیں اور جب آپ رات گئے دیر سے آتے ہیں تو یہ پڑوسی خواتین ہی ہوتی ہیں جو میرا دل بہلانے کے لئے میرے پاس بیٹھی رہتی ہیں۔“بیوی نے کہا۔ایک دن انہوں نے پانی کا ٹینکر منگوایا جس سے ان کا پورا ٹینک بھر گیا۔کچھ دیر بعد پڑوس کی دو خواتین تھوڑا پانی لینے آ گئیں۔بیوی نے خوش دلی سے انھیں پانی دے دیا۔بیوی کا یہ عمل وہ دیکھ رہے تھے۔اس وقت تو چپ رہے بعد میں بیوی سے کہا:”تمہاری یہ خدمت خلق کی عادت مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔“”میں تو بس دعا کرتی ہوں کہ اللہ نے جس طرح آپ کے رزق میں فراخی عطا کی ہے،اسی طرح آپ کو فراخ دل بھی بنا دے۔“بیوی نے جواب دیا ان کے پاس بڑبڑانے کے سوا کوئی جواب نہ تھا۔”کیا بات ہے غصے میں لگ رہے ہیں۔“بیوی نے پوچھا۔وہ ابھی جمعہ کی نماز پڑھ کر گھر آئے تھے۔وہ پانچ وقت کے نمازی تھے اور حج بھی کر چکے تھے۔”یہ محلے کے لوگ بھی عجیب ہیں مجھے بہت سخی سمجھتے ہیں،کہتے ہیں کہ پانی کی جو نئی لائن آپ اپنے گھر ڈلوا رہے ہیں،اگر اُسے محلے کی مرکزی لائن سے منسلک کر دیں تو سب کا بھلا ہو جائے گا ہم سب آپ کو زندگی بھر دعائیں دیں گے۔اب پیسہ میں لگاؤں اور فائدہ سب اُٹھائیں۔“انہوں نے ناگوار لہجے میں کہا۔اسی وقت ان کی چھوٹی بیٹی کمرے میں داخل ہوئی:”بابا!آپ مجھے فراخ دلی کا جملہ بنا دیجیے۔“”فراخ دل انسان کو اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں۔“انہوں نے جملہ بنا دیا۔”بابا!اب مجھے اس کا مطلب بھی تو بتائیے۔“بیٹی نے ضد کی۔”دیکھو بیٹا!فراخ دلی کا مطلب ہے دل بڑا ہونا اور جب انسان کا دل بڑا ہو گا تو وہ دوسرے انسانوں کا خیال بھی رکھے گا اور ان کی مدد بھی کرے گا۔“انہوں نے وضاحت کی۔”بابا!فراخ دلی کی اُلٹ کیا ہو گی وہ بھی لکھنا ہے مجھے۔“بیٹی نے کہا۔”بیٹا!فراخ دلی کی ضد ہے تنگ دلی یعنی دل کا چھوٹا ہونا اپنی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بھی کسی دوسرے کی مدد نہ کرنا۔“انہوں نے بیٹی کو سمجھایا۔”اچھا بابا!اب آپ مجھے دو چاکلیٹ لا دیجیے۔“بیٹی نے اپنے بابا سے لاڈ سے کہا۔”میں اپنی پیاری سی گڑیا کے لئے چاکلیٹ لا دوں گا،مگر یہ بتائیے کہ آپ ہر چیز دو کیوں منگواتی ہیں؟“انہوں نے مسکرا کر پوچھا۔”بابا!ایک میری چاکلیٹ اور ایک میری سہیلی کی۔میری استانی کہتی ہیں کہ مل بانٹ کر کھانا چاہیے۔مل جل کر کھانے میں جو مزہ ہے وہ اکیلے میں نہیں اور ابھی آپ نے فراخ دلی اور تنگ دلی کا فرق بتایا تو میں فراخ دل بننا چاہتی ہوں ،تنگ دل نہیں۔؟“بیٹی نے جواب دیا۔انہوں نے بیٹی کو پیار کیا اور گھر سے باہر جانے لگے۔”آپ اس دھوپ میں چاکلیٹ لینے جا رہے ہیں،شام کو چلے جائیے گا۔“بیوی نے انہیں روکا۔”بیگم!چاکلیٹ لینے بھی جا رہا ہوں اور محلے والوں کو یہ بتانے بھی کہ ہماری پانی کی لائن محلے کی مرکزی پانی کی لائن سے ہی منسلک ہو گی۔میں خود کو تنگ دل کے بجائے فراخ دل کہلانا چاہتا ہوں۔“انہوں نے مسکرا کر جواب دیا۔بیوی نے سکون کا سانس لیا کہ اس کی دعائیں رنگ لے آئیں۔جو بات وہ اپنے شوہر کو نہ سمجھا سکی وہ پَل بھر میں بیٹی نے سمجھا دی۔ " احسان - تحریر نمبر 2159,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehsaan-2159.html,"محمد عمر امتیازمیرا گھر ایک بہت خوبصورت اور سرسبز علاقے میں ہے،جہاں پھولوں سے لدے ہوئے درخت اور خوشنما پودے ہیں۔گھر کے قریب بھی ایک بڑا سا درخت ہے۔کچھ عرصے پہلے اس پر نہ جانے کہاں سے ایک بندر آ کر درخت پر رہنے لگا۔محلے کے بچے اس سے بہت خوش رہتے،کیونکہ بندر نے کبھی انھیں تنگ نہیں کیا،بلکہ اپنی نت نئی شرارتوں سے وہ بچوں کا دل بہلاتا۔میری اپنی گیارہ سالہ بیٹی منہل اور دو سالہ بیٹا علی اس کو کچھ نہ کچھ کھانے کو دیتے رہتے،مگر مجھے بندر سے نہ جانے کیوں چڑ تھی۔میں اکثر اپنے شوہر سے کہتی:”محلے والوں سے کہہ کر اس بندر کو کہیں چھوڑ آئیں۔“میرے شوہر ناراضی سے کہتے:”اس بے چارے نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا،تمہیں اس سے نہ جانے کیا بیر ہے۔(جاری ہے)“میں کہتی:”اچھا کم از کم بچوں کے کمرے کی کھڑکی میں جالی وغیرہ ہی لگوا دیں۔“وہ درخت بچوں کے کمرے کے قریب ہی تھا،جس پر بندر بیٹھا رہتا تھا۔میں اکثر تازہ ہوا کے لئے کھڑکی کے پٹ کھول دیا کرتی تھی۔میرے شوہر نے سوالیہ لہجے میں پوچھا:”کیا کبھی بندر اندر آیا یا کمرے میں گھس کر کوئی نقصان پہنچایا؟“ان کی مرضی دیکھ کر میں بھی خاموش ہو گئی۔چند دن بعد حسب معمول منہل سکول اور شوہر آفس گئے ہوئے تھے۔علی سو رہا تھا اور میں باورچی خانے کے کاموں میں مصروف تھی کہ اچانک علی کے چیخنے کی آواز آئی۔میں فوراً کمرے کی طرف بھاگی۔کمرے کا منظر دیکھ کر میں سکتے میں کھڑی رہ گئی۔اس منظر نے مجھے اپنا ایک منفی خیال ہمیشہ کے لئے بدلنے پر مجبور کر دیا۔بندر نے تقریباً دو فیٹ کا سانپ دُم سے پکڑ رکھا تھا اور اس کا سر فرش پر پٹخ پٹخ کر مار رہا تھا۔کچھ ہی دیر میں سانپ بے جان ہو گیا۔اچانک علی کی آواز سن کر میں ہوش کی دنیا میں واپس آ گئی۔میں نے لپک کر علی کو گود میں لے لیا۔بندر نے سانپ کو ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔اس نے کھڑکی سے باہر چھلانگ لگائی اور باہر رکھے کوڑے دان میں سانپ پھینک کر دوبارہ درخت پر بیٹھ گیا۔علی نے بندر کو دیکھ کر تالیاں بجائیں بندر نے علی کو خوش دیکھ کر درخت پر کودنا شروع کر دیا۔میری آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ " نیند میں اُڑان - تحریر نمبر 2158,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/neend-mein-uraan-2158.html,"احمد عدنان طارق ․․․ فیصل آبادسمندر کنارے جہازوں کی رہنمائی کیلئے ایک روشنی کا مینار کھڑا تھا جس کے اوپر ایک گھونسلہ بھی بنا ہوا تھا جس میں ایک سمندری بگلا اور ایک کھٹ بڑھئی رہتے تھے۔وہ دونوں بہت گہرے دوست تھے اور ہمیشہ سے اکٹھے رہ رہے تھے۔لیکن ننھا کھٹ بڑھئی پریشان تھا کیونکہ اُس کا دوست ایک بری اور خطرناک عادت میں مبتلا ہو گیا تھا۔وہ ہر رات جیسے ہی سوتا بگلا اپنے گھونسلے سے اُڑتا اور سمندر کے اوپر چلا جاتا۔جب کبھی وہ ایسا کرتا تھا اُس کی زندگی خطرے میں ہوتی تھی کیونکہ کئی مرتبہ اُسے شارک مچھلیاں ہڑپ کرنے لگیں تھیں۔کیونکہ وہ رات کو جب اُڑتا تھا تو وہ دراصل سویا ہوتا تھا۔کھٹ بڑھئی خوفزدہ تھا کہ کہیں وہ سوتے میں اُڑتا ہوا اُتنی دور نہ نکل جائے کہ پھر واپسی کا راستہ ہی نہ ملے۔(جاری ہے)ننھے کھٹ بڑھئی کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کرے۔وہ بگلے کو جگائے رکھنے کی کوشش کرتا لیکن وہ آخر اتنا تھک جاتا کہ گر جاتا۔کھٹ بڑھئی ہر وقت اُس مصیبت سے نکلنے کی ترکیب سوچتا اور پھر اُسے ایک ترکیب سوجھی۔اُس نے سوتے میں بگلے کی ٹانگ سے ایک سمندر کشتی کا لنگر باندھ دیا۔رات کو بگلے نے سوتے میں اُڑنے کی کوشش کی تو وہ لنگر کو گھسیٹ کر سمندر کے پانی میں لے گیا اور اس کے وزن سے ڈوبنے لگا لیکن پھر ٹھنڈے پانی نے اُسے جگا دیا۔وہ دوست سے ناراض ہوا لیکن پھر ٹھیک ہو گیا کیونکہ آخر وہ اُس کی بہتری کیلئے کوشش کر رہا تھا۔کھٹ بڑھئی پھر سوچنے لگا اور پھر اُس کے ذہن میں ایک اور ترکیب آ گئی۔جب بگلا سو گیا تو اُس نے ایک لمبی رسی اُس کی ٹانگوں سے باندھی اور اُس کا دوسرا سرا موسم بتانے والے مرغے سے باندھ دیا جو روشنی کے مینار پر بنا ہوا تھا۔جلدی بگلا سو گیا اور معمول کے مطابق ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب سوئے سوئے اُس نے پَر پھڑ پھڑائے اور اُڑنے لگا۔لیکن کیونکہ وہ مرغے سے بندھا ہوا تھا وہ سمندر میں نہیں گر سکتا تھا۔نہ اُسے ڈوبنے کا ڈر تھا اور نہ راستہ بھولنے کا۔اب وہ روشنی کے مینار کے اردگرد چکر لگاتا رہتا تھا۔اب کھٹ بڑھئی روز بگلے کی ٹانگوں سے رسی باندھ دیتا ہے اور پھر خود اپنے گرم بستر میں آرام سے سوتا ہے اور بگلا روشنی کے مینار کے اردگرد اُڑتا رہتا۔ " ہمارے ابو اور امی - تحریر نمبر 2157,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hamare-ammi-aur-abbu-2157.html,"مریم شہزادمیرا نام لامیہ ہے اور میں دس سال کی ہوں۔سب کہتے ہیں کہ میں بولتی بہت ہوں۔بات یہ ہے کہ میں سوچتی بہت ہوں،اس لئے بولتی بھی بہت ہوں۔میں سوچ رہی تھی کہ یہ جو میرے ابا ہیں،وہی جو ہر ایک کے ہوتے ہیں۔کسی کے بابا تو کسی کے ڈیڈی اور کسی کے پپا۔یہ سب کتنے پیارے ہیں۔صبح سویرے اُٹھ جاتے ہیں پھر ہم سب بہن بھائیوں کو سکول،مدرسے،یا کالج وغیرہ چھوڑ کر اپنے کام پر چلے جاتے ہیں،جہاں وہ شام تک کام کرتے ہیں۔آپ نے کبھی سوچا بھی ہے کہ اتنا سارا کام وہ کیوں کرتے ہیں!یہ پیارے پیارے ابو اپنے بچوں کے لئے اتنی ساری محنت کرتے ہیں،ان کے سکول کی فیس جمع کراتے ہیں،ان کو نئی نئی کتابیں،کاپیاں،پینسل،ربر،شاپنر،کلرز،سکول بیگ اور نہ جانے کیا کیا لا کر دیتے ہیں اور روزانہ سب بچوں کو جیب خرچ کے پیسے بھی دیتے ہیں اور جب ہم کہتے ہیں تو ہم کو سیر کے لئے بھی لے جاتے ہیں اور کبھی کبھار منع کر دیں تو ہم ان سے ناراض ہو جاتے ہیں،حالانکہ ہم کو سوچنا چاہیے کہ ہو سکتا ہے،وہ تھکے ہوئے ہوں یا پریشان ہوں یا ان کو کوئی اور کام ہو۔(جاری ہے)یہ کتنی غلط بات ہے کہ ہم ان سے ناراض ہو جاتے ہیں اور ہاں،عید کی شاپنگ،نئے نئے کپڑے،نئے جوتے اور کتنی ساری چیزیں دلاتے ہیں تو کیا ہم کو ان کا خیال نہیں رکھنا چاہیے؟اب آپ کہیں گے کہ بھلا ابو کا خیال کیسے رکھیں؟یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم تھا،میں نے دادو سے پوچھا۔انہوں نے بتایا کہ جب ابا سو رہے ہوں تو ہم شور نہ مچائیں،ہر وقت اُلٹی سیدھی ضدیں،فرمائشیں نہ کریں۔جب آفس سے یا دکان سے یا جہاں بھی وہ جاتے ہیں ،کام سے واپس آئیں تو ان کو سلام کریں اور پانی پلائیں۔اگر آپ کی دادو آپ کو اور بھی کوئی طریقہ بتائیں تو آپ اس طرح بھی خیال رکھ سکتے ہیں۔ہماری پیاری پیاری امی،مما،اماں بھی تو ہیں کبھی سوچا بھی ہے کہ یہ ہر وقت کیا کرتی رہتی ہیں!کبھی باورچی خانے میں مزے مزے کے کھانے پکا رہی ہیں تو کبھی کسی کو ہوم ورک کرا رہی ہیں۔کبھی آپی کو سلائی سکھا رہی ہیں تو کبھی خالہ،پھپو کا کام کرا رہی ہیں۔کبھی چھوٹے منو پپو کو سنبھال رہی ہیں تو کبھی خریداری کرکے آتے ہی باورچی خانے میں گھس جاتی ہیں۔ایسا کیا ہے جو ہر وقت باورچی خانے میں ہی لگی رہتی ہیں۔وجہ یہ ہے کہ ان کو اپنے بچوں سے بہت پیار ہوتا ہے۔وہ ان کے لئے مزے مزے کے کھانے بناتی ہیں۔کتنی بھی گرمی ہو گرم گرم پراٹھے اور روٹیاں بنا کر دیتی ہیں۔صبح ہم بھوکے نہ چلے جائیں،اس لئے صبح سویرے اُٹھ کر ہمارے لئے ناشتہ بنا لیتی ہیں پھر ابو اور سب گھر والوں کے دوسرے کام بھی کرتی ہیں۔کتنی غلط بات ہے کہ ہم پھر نخرے کریں کہ ہم کو یہ نہیں کھانا وہ نہیں کھانا،کچھ اور چاہیے۔ہم کو ان کا بہت خیال رکھنا ہے۔ان کی کاموں میں مدد کرنی چاہیے اور جو ہم پھیلائیں خود ہی سمیٹنا بھی چاہیے،تاکہ ہم بھی اچھے بچے بن سکیں۔آپ سب کا کیا خیال ہے کیا میں واقعی زیادہ بولتی ہوں،لیکن اگر میں یہ سب آپ کو نہیں بتاتی تو آپ کو کیسے پتا چلتا کہ امی اور ابو اپنے بچوں اور اپنے گھر والوں کے لئے ہی دن رات کام کرتے رہتے ہیں تو ہم کو بھی ان کا خیال رکھنا ہے۔ " اتفاق میں برکت ہے - تحریر نمبر 2156,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ittefaq-mein-barkat-hai-2156.html,"محمد علیم نظامیایک تھی چڑیا اور ایک تھا کوا۔ان دونوں میں بلا کی دشمنی تھی۔چڑیا جب اپنے بچوں کے کھانے پینے کے لئے دانہ چگتی اور اپنے منہ میں ڈال کر دوبارہ سے کسی اور جگہ دانہ دُنکا چگتی،دوسری طرف کوا اس تاک میں رہتا کہ کب چڑیا اپنے بچوں کو اکیلا چھوڑ کر ان کے لئے کھانے پینے کا بندوبست کرے اور وہ چڑیا کی غیر موجودگی میں اس بچوں کو اپنا شکار بنائے۔ایک دن چڑیا اپنے بچوں کے لئے دانہ دُنکا لینے کے لئے جب پرواز کرنے لگی تو کوا پکڑا گیا۔کیونکہ چڑیا نے کوے کی نیت کو بھانپ لیا تھا اور اس نے کوے پر حملہ تابڑ توڑ کرکے کوے کو ادھ موا کر دیا۔کوا جان بچا کر اپنے گھونسلے میں واپس چلا گیا جبکہ چڑیا کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ اس کی غیر موجودگی میں کوا کہیں پھر نہ اس کے بچوں پر حملہ نہ کر دے اور کہیں انہیں اپنی خوراک کا حصہ نہ بنا لے۔(جاری ہے)چنانچہ چڑیا نے اپنے دوسرے جانوروں کی مدد حاصل کرنے کی ٹھانی۔وہ سب سے پہلے کبوتر کے پاس گئی اور اُسے یہ سارا ماجرا سنایا۔کبوتر نے چڑیا کو یقین دلایا کہ وہ اس کے بچوں کی ہر ممکن مدد کرے گا اور اس کے بچوں کی حفاظت بھی کرے گا۔پھر چڑیا فاختہ کے پاس گئی فاختہ نے بھی چڑیا کو ہر طرح سے مدد کا یقین دلایا۔اس طرح کرتے کرتے چڑیا نے تمام اُڑنے والے جانوروں کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی۔دوسرے دن کوا حسب معمول اس وقت جبکہ چڑیا اپنے بچوں کے کھانے پینے کا انتظام کرنے گئی۔تو اس کے گھونسلے پر ٹوٹ پڑا۔جیسے ہی چڑیا کے بچوں کی چیخ و پکار سنی تو چڑیا کے تمام ساتھیوں نے کوے پر حملہ کر دیا۔کوا کبھی اِدھر جاتا کبھی اُدھر جاتا لیکن اسے کچھ سجھائی نہ دیا۔بالآخر کوے نے اس بات میں ہی اپنی عافیت سمجھی کہ یہاں سے بھاگ جائے چنانچہ کوا دُم دبا کر وہاں سے بھاگ گیا جبکہ چڑیا جب اپنی چونچ میں دانہ دُنکا لے کر اپنے گھونسلے میں بچوں کے پاس گئی اور انہیں صحیح سلامت پایا تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔اس نے فرداً فرداً سبھی جانور ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا جن کے تعاون سے اس کے بچوں کی جان بچ گئی۔ " کھچڑی کا قصور - تحریر نمبر 2155,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khichri-ka-kasoor-2155.html,"ناہید بھٹہ‘کھیوڑایہ 72ء یا 73 کی بات ہے۔جنوری کا مہینہ تھا اور اُن دنوں رات کو خاصی دھند پڑتی تھی۔ہفتے کا دن تھا،والد صاحب نے کہا کہ میں یہ مچھلی پکڑ کر لایا ہوں۔تمہاری چچی کو بھی دے دی ہے۔باقی تم تل لینا میں گاؤں جا رہا ہوں اور رات کو آ کر کھاؤں گا۔ہم سب بہن بھائی بڑے خوش تھے کیونکہ ایک تو سخت سردی تھی۔آج کل کی طرح نہیں کہ سردی کو ہی ترس جاؤ۔اوپر سے تلی ہوئی مچھلی وہ بھی گھر کی۔خیر ہم نے دوپہر کو اسے دھو کر مصالحہ لگا کر رکھ دیا۔تھوڑی دیر بعد ہی ہمارے بہت ہی پیارے اور خاص مہمان بھی آ گئے۔بس پھر کیا تھا امی تو بیٹھ گئی گپیں مارنے۔بچے سارے کھیل کود میں لگ گئے اور ہم ٹھہرے باورچی بچے۔ہم نے باورچی خانہ سنبھال لیا۔پھر کیا تھا،ہم تلتے جا رہے ہیں اور باقی سب کھاتے جا رہے ہیں۔(جاری ہے)باجی نے بھی ہماری مدد کی۔دیکھتے دیکھتے ساری مچھلی ختم ہو گئی۔اب میں اور باجی تھوڑے پریشان بھی ہوئے کہ ابا جی کیلئے مچھلی بالکل بھی نہیں بچی۔چچی جان کہنے لگیں کہ میں رات کو پکاؤں گی تو بھائی جان کیلئے رکھ لیں گے۔مگر رات کو اُنہوں نے نہ پکائی کہ دوپہر کو سب نے کھا تو لی ہے،میں پھر کسی اور دن پکا لوں گی اور بھائی جان گاؤں گئے ہوئے ہیں،اتنی سردی میں وہ کہاں آنے لگے۔بس ہمیں بھی اطمینان ہو گیا کہ ابا جی رات گاؤں ہی رُکیں گے۔مگر ہماری قسمت خراب تھی۔رات کو گیارہ بجے کے قریب ابا جی ٹھٹھرتے ہوئے گھر پہنچ گئے اور امی سے کہا کہ کھانا لاؤ۔آگے سے کھانا وہ جو کہ ابا جی کو زندگی میں کبھی بھی پسند نہیں تھا۔”کھچڑی“ وہ بھی سالن شوربے کے بغیر۔بس پھر کچھ نہ پوچھیں۔اُس کا کیا حال ہوا۔صبح برآمدہ ہمیں اور چڑیوں کو مل کر صاف کرنا پڑا اور سارے محلے میں ابا جی کے غصے کی کہانی بچے بچے کی زبان پر تھی کہ اُن کو غصہ بھی آتا ہے؟کیونکہ اُن کا غصہ کبھی کسی نے دیکھا ہی نہ تھا۔اُن کا صرف اور صرف پیار ہی پیار ساری زندگی دیکھا اور پھر اُسی دن رات کو ایک چھوٹی بوری میں اور مچھلی گھر آ گئی اور صبح ہوتے ہی ابا جی نے وہ خود صاف کی۔خود پکائی اور سب کو کھلائی۔بعد میں جب ہمیں اُن کی کہانی اور ہماری باتیں اُن کو پتہ چلی تو سب اپنی اپنی جگہ پر شرمندہ بھی ہوئے اور آخر میں قصور سارا نکلا تو پتہ ہے کس کا؟اور اُسے پتہ بھی نہیں تھا کہ میں قصور وار ہوں۔ یعنی کھچڑی،چنے کی دال اور چاول کا۔ " اونٹ کی گردن - تحریر نمبر 2154,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ount-ki-gardan-2154.html,"روبینہ ناز‘کراچیکسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔اُسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔اُس کا جہاں جی چاہتا منہ اُٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔کوئی جانور اگر اُسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔اُس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اُس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔وہ اُس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اُس کے کبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اُسے اُس کے کئے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔وہ بہار کا خوشگوار موسم تھا،ہر طرف پھول کھلے ہوئے تھے اور جنگل میں بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔(جاری ہے)اونٹ سو کر اُٹھا تو اُسے بڑی زبردست بھوک محسوس ہوئی۔وہ منہ اُٹھائے چرنے نکل گیا اور اپنی لمبی گردن اُٹھا کر درختوں کے پتے پھول اور پھل کھاتا رہا۔اسی دوران اُس نے ایک کانٹوں بھرے درخت کی ٹہنی دیکھی تو اُسے توڑنے کیلئے اپنی گردن اوپر اٹھائی۔اُس نے اپنے دانت خاردار ٹہنی میں گاڑے ہی تھے کہ اُس کی گردن ایک شاخ میں اُلجھ گئی۔اب تو اونٹ کی ساری شیخی ہوا ہو گئی۔وہ زور لگا لگا کر جب تھک گیا تو زور زور سے رونے لگا مگر کسی نے اُس کی نہ آواز سنی اور نہ ہی مدد کو آیا۔کچھ دیر بعد جب جنگل کے جانوروں کو اونٹ کی مشکل کا پتہ چلا تو وہ اس کو ہمدردی سے دیکھنے لگے لیکن اُس کی مدد پھر بھی نہ کر سکے۔اسی دوران چوہا بھی وہاں پہنچ گیا،اُس نے اونٹ کی جو یہ حالت دیکھی تو درخت پر چڑھنا شروع کر دیا۔جانوروں نے اُسے منع کیا مگر چوہے نے کسی کی نہ مانی اور اُس شاخ تک جا پہنچا جہاں اونٹ کی گردن پھنسی ہوئی تھی۔کمزور ہونے کے باوجود اُس نے کسی نہ کسی طرح اُس شاخ کو بلا بلا کر اونٹ کی گردن آزاد کی تو اونٹ کی جان میں جان آئی۔اب اونٹ کو معلوم ہو چکا تھا کہ جنگل میں ہر جانور اہم ہے۔اُس کا غرور خاک میں مل چکا تھا۔اُس نے سب جانوروں سے معافی چاہی اور چوہے کو اپنا پکا دوست بنانے کا اعلان بھی کیا۔سب جانور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے۔سچ ہے جو مشکل میں کام آئے وہ دوست ہے۔ " حرا کی توبہ - تحریر نمبر 2153,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hira-ki-tauba-2153.html,"عافیہ اسدمسٹر اور مسٹر احمد کو اللہ نے دو رحمتوں سے نوازا تھا۔بڑی بیٹی جتنی عقلمند اور سلیقہ شعار تھی،چھوٹی اتنی ہی شرارتی اور نادان۔حرا سارا دن اپنی شرارتوں سے پورے گھر کو سر پر اُٹھائے پھرتی تھی۔ماں اور بڑی بہن کے سمجھانے کا بھی اُس پر ذرا اثر نہ ہوتا۔ایک دن حرا کی امی جب دوپہر میں قیلولہ کر رہی تھی اور بڑی بہن اپنی پڑھائی میں مگن تھی تو حرا کا دل کھیلنے کو چاہا۔اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ پڑوسیوں کے ہاں جا کر بچوں کے ساتھ کھیلا جائے۔وہ چپکے سے دبے قدموں گھر سے نکلی تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے اور بچوں کے ساتھ کھیلنے لگی۔کھیلتے کھیلتے نادانی میں حرا سے باغیچے میں پڑا گملا ٹوٹ گیا۔اب اُسے سمجھ نہ آئے کہ وہ کیا کرے۔(جاری ہے)اُس نے سوچا گھر چلی جائے تاکہ اُسے کوئی کچھ کہہ نہ سکے اور پتہ لگنے پر وہ انکار کر دے گی۔شام کو پڑوسن خالہ حرا کی امی کے پاس آئیں،جبکہ وہ کمرے میں خواب و خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔حرا کی امی نے حرا کو جگایا اور پڑوسن خالہ کے پاس لائیں اور کہا حرا بیٹا کیا گملا آپ سے ٹوٹا تھا؟پہلے تو وہ خاموش رہی پھر بولی کہ نہیں!میں نے تو کوئی گملا نہیں توڑا اور کہہ کر چلی گئی۔ماں تو پھر ماں ہوتی ہے،وہ حرا کے چہرے سے ہی بھانپ گئیں کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔حرا کی امی اور بڑی بہن کو ایک ترکیب سوجھی۔اُنہوں نے سوچا کہ کیوں نہ حرا کو سبق سکھایا جائے اور اس کی جھوٹ کی عادت کو ختم کروایا جائے۔رات کو کھانے کے بعد جب حرا سونے کیلئے گئی۔اُس کی امی اور بہن نے مارکر سے اُس کے چہرے پر چھوٹے چھوٹے دانے نما نشان بنا دئیے۔صبح جب حرا سکول جانے کیلئے باتھ روم گئی تو آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر ڈر گئی اور اونچی اونچی رونا شروع کر دیا۔اس کی امی اور بہن اس کے پاس آئیں اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟تو اُس نے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کر دیا۔اس کی والدہ نے کہا جب چھوٹے بچے جھوٹ بولتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کے چہرے پر اس طرح کے نشان بنا دیتے ہیں۔حرا تم نے کوئی جھوٹ تو نہیں بولا۔پھر حرا نے روتے روتے جواب دیا کہ امی کل وہ گملا میرے سے ہی ٹوٹا تھا۔ڈانٹ پڑنے کے ڈر سے میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا۔مجھے معاف کر دیں،میں آئندہ جھوٹ نہیں بولوں گی۔امی نے حرا کو گلے سے لگایا اور پیار کیا پھر اس کا چہرہ دھلایا تو وہ صاف ہو گیا اور کہا:”دیکھا سچ بولنے پر سب ٹھیک ہو گیا۔یوں حرا نے آئندہ کیلئے جھوٹ بولنے سے توبہ کر لی۔ " احسان فراموش - تحریر نمبر 2152,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ahsaan-faramosh-2152.html,"ساجد کمبوہ․․․․پھول نگرصدیوں پرانی بات ہے،کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ملک میں امن وامان تھا،ہر طرف خوشحالی تھی،بادشاہ کے دربار میں وزراء امراء ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے،اُن میں ایک وزیر پیش پیش تھا۔وہ دوسروں کے سامنے شیخی بگھارتا،اُن پر رعب و دبدبہ رکھتا مگر جب بادشاہ کے سامنے آتا تو بھیگی بلی بن جاتا۔دوسرے وزراء امراء کی شکایتیں لگاتا،خود کو بڑا نیک پارسا بنا کر پیش کرتا۔ بادشاہ کے دوسرے درباری اُس سے بہت نالاں تھے۔چونکہ بادشاہ کا منظور نظر تھا،اس لئے سبھی خاموش رہتے تھے۔وزیر اعظم نے دو چار مرتبہ کہا کہ آپ کا وزیر قابل اعتبار نہیں،آپ کو جھک جھک کر سلام کرتا ہے،ایسے بندے پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے،اس کے تعلقات آپ کے دشمنوں سے بھی ہیں،آپ اس پر بھروسہ نہ کریں مگر بادشاہ نے سنی اَن سنی کر دی۔(جاری ہے)کچھ عرصہ بعد بادشاہ کے خلاف سازشیں عروج پر تھیں،وہ وزیر پس پردہ بادشاہ کے مخالفوں کے ساتھ تھا مگر جب بادشاہ کے سامنے آتا،اُن کی برائیاں کرتا،بادشاہ کوئی بات کرتا تو فوراً اُنہیں مخبری بھی کر دیتا تھا۔آخرکار بادشاہ کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔بادشاہ کو قید کر لیا گیا،اب وہ وزیر خود بادشاہ بننے کے چکر میں تھا مگر خوش قسمتی سے بادشاہ کا جانشین ہی تخت نشین ہوا۔تب اُس بادشاہ کو بڑا افسوس ہوا کہ اس نے وزیر اعظم کی بات کیوں نہ مانی مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔بادشاہ زیر عتاب تھا،اس لئے کوئی بھی اُسے ملنے نہ آتا،وزیر اعظم نے بہت سے فلاحی کام کئے تھے اُس کی بھی ملک میں بڑی عزت تھی وہ کسی نہ کسی طرح معزول بادشاہ سے ملاقات کرنے پہنچ گیا۔معزول بادشاہ نے وزیر اعظم کو دیکھتے ہی کہا:”کاش میں نے تیری تجویز پر عمل کیا ہوتا،وہ شخص دربان رکھنے کے قابل نہ تھا،میں نے اُس کی خوشامد سے متاثر ہو کر اُسے وزیر بنایا۔”بادشاہ سلامت آپ نے شیخ سعدی کا یہ شعر ضرور سنا ہو گا جس کا ترجمہ یوں ہے کہ”سعدی شیراز میں رہنے والے بدذات کو سبق نہ دے، اُسے کامل نہ بنا کیونکہ جب وہ کامل ہو جائے گا،وہ اپنے استاد کا ہی دشمن بن جائے گا۔اگر آپ نے خاندانی آدمی پر احسان کیا ہو گا تو آپ کی عزت کرے گا،کمی آپ کا دشمن ہو جائے گا جیسا کہ وزیر ہوا ہے۔ہاں اے وزیر میں نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول سنا تھا جس پر احسان کرو،اُس کے شر سے بچو اب پتہ چلا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کتنی سچی بات کہی۔وزیر اعظم نے کہا:”بادشاہ سلامت!حکایتوں کا تعلق حقیقت کے ساتھ ہو نہ ہو حکمت کے ساتھ ضرور ہوتا ہے۔ایسی ہی ایک حکایت آپ کی نذر کرتا ہوں۔کسی جنگل میں شیر اور شیرنی کو کھال کے متلاشی شکاریوں نے مار گرایا،اُن کے ننھے منے بچوں کو ہرنوں کے جوڑے نے دودھ پلا کر جوان کیا جب وہ جنگل کے بادشاہ بن گئے تو اُنہوں نے تمام جانوروں کو اکٹھا کیا اور ہرنوں کے جوڑے کو خراج عقیدت پیش کیا۔ہرن اور ہرنی کو ہاتھیوں پر بیٹھایا گیا،بندر ہاتھیوں کے دائیں بائیں اُچھل اُچھل کر ناچ رہے تھے۔مور محو رقص تھے بھالو میاں کرتب دکھا رہے تھے،کوئلیں کوک رہی تھیں طوطے ٹیں ٹیں کر رہے تھے اور چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔دونوں شیر جلوس کے آگے آگے بھنگڑا ڈال رہے تھے۔آسمان سے عقاب نے یہ عجیب و غریب منظر دیکھا،پھر غوطہ لگا کر نیچے آیا اور ہرنوں کے جوڑے سے پوچھا”یہ ماجرا کیا ہے؟،شیر تو ہرن کا شکار کرتے ہیں جبکہ انہوں نے تمہیں دولہا دلہن بنا رکھا ہے“۔ہرنوں کے جوڑے نے ہنستے ہوئے تمام کہانی سنائی اور کہا:”تم بھی کسی پر احسان کرکے دیکھو،تمہیں بھی اندازہ ہو جائے گا،اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے“۔کہانی سُن کر عقاب نے اپنی راہ لی،ندیاں نالے عبور کرتے ہوئے اُس نے دیکھا کہ ایک چوہا پانی میں غوطے کھا رہا ہے،قریب تھا کہ ڈوب جاتا،عقاب نے جھپٹ کر اُسے اُٹھایا اپنے پروں پر بیٹھایا اور فضا میں بلند ہو گیا۔تازہ ہوا اور عقاب کے جسم کی حرارت سے چوہے کے حواس بحال ہوئے تو آہستہ آہستہ حسب عادت چوہا عقاب کے پَر کترنے لگا۔عقاب کسی پر احسان کرنے کے نشے میں مست تھا۔اُدھر چوہے نے عقاب کے چھوٹے چھوٹے پَر کترنے کے بعد عقاب کا شہپر بھی کُتر ڈالا اور وہ زمین پر آ گرا۔چوہا تو اِدھر اُدھر بھاگ گیا مگر آسمان کی بلندیوں پر اُڑانیں بھرنے والا عقاب زمین پر رینگنے لگا۔اُس کے پروں سے خون رسنے لگا۔چونٹیاں اُس پر چڑھ دوڑیں۔ زخموں پر مکھیاں بھنبھنانے لگیں۔ایک بن مانس کی نظر عقاب پر پڑی تو اُس نے آگے بڑھ کر چیونٹیوں اور مکھیوں کو بھگایا اور عقاب کو گوشت کے چند ٹکڑے کھلائے اور اُس کی اس حالت کا سبب پوچھا۔عقاب نے پوری کہانی سنائی اور کہا:”مجھے ہرنوں کے جوڑے نے مروایا ہے، بن مانس ہنسا اور کہا قصور ہرنوں کا نہیں تمہارا اپنا ہے،اصل بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔احسان بڑی اچھی چیز ہے لیکن احسان کرتے وقت یہ ضرور دیکھ اور سمجھ لینا چاہئے کہ تم یہ احسان کس پر کر رہے ہو۔ہرنوں نے شیر کے بچوں پر احسان کیا۔اُنہوں نے اُن کی عزت کی اور تم نے اپنا احسان ایک چوہے پر برباد کیا۔حکایت سُن کر بادشاہ نے کہا:”یہ حکایت حقیقت کے قریب ہے، واقعی مجھ سے غلطی ہوئی میں نے بھی ایک بدذات پر احسان کیا تھا۔کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ بادشاہ بن گیا،اب وہ وزیر ایک جھونپڑے میں بیٹھا پچھتا رہا تھا:”کاش میں نے بادشاہ سے وفا کی ہوتی،شرپسندوں اور ملک دشمن عناصر کا ساتھ نہ دیا ہوتا،آج بھی وزیر ہوتا اور عزت کما رہا ہوتا۔پیارے بچو!سازشی عناصر وقتی طور پر کامیاب ہو سکتے ہیں مگر سچ کا بول بالا ہے،اگر ہم پر کوئی احسان کرے تو بھلائی سے پیش آنا چاہئے۔ " ماہم کا خواب - تحریر نمبر 2151,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maham-ka-khawab-2151.html,"شمع خانننھی ماہم ایک دن اپنی گڑیوں کے لئے چائے بنا رہی تھی کہ یکایک اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ماہم نے خیال کیا کہ اس کی کوئی سہیلی اس سے ملنے آئی ہو گی۔لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے تین بچوں کو گود میں لئے کھڑی ہے۔اس عورت کے بازوؤں کے ساتھ،سات رنگ کے خوبصورت پر بھی لگے تھے اور ماتھے پر ایک ستارہ جگمگا رہا تھا اور لباس تو ایسا تھا،جیسے تتلی کے پروں کا بنا ہو۔ماہم اسے مسکراتا دیکھ کر کہنے لگی:”آپ کون ہیں“؟عورت بولی:”میں ستارہ پری ہوں۔“ماہم نے پوچھا:”آپ کو کیا کام ہے“؟ستارہ پری بولی:”ذرا مجھے اپنے گھر میں آنے کی اجازت دے دو۔“ماہم کہنے لگی:”گھر میں آ کر کیا کریں گی؟“ستارہ پری بولی:”اپنے بچوں کو تمہارے غسل خانے میں نہلاؤں گی۔(جاری ہے)“ماہم نے جواب دیا:”اچھا آجائیں اور اپنے بچوں کو نہلا لیں۔“اب پری اپنے بچوں کو غسل خانے میں نہلانے لگی اور ماہم اپنی خوبصورت مہمان کی تواضع کے لئے دوڑ کر بازار سے بسکٹ لینے چلی گئی۔ واپس آئی تو دیکھا کہ اس کی خوبصورت مہمان غائب ہے۔لیکن غسل خانہ خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔ماہم نے حیرت سے غسل خانے میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ پری اپنا ایک خوبصورت دستانہ بالکنی پر بھول گئی ہے دستانہ بہت پیارا تھا۔اسے دیکھتے ہی ماہم کے منہ سے مارے خوشی کے ایک چیخ نکل گئی۔اس نے دوڑ کر اسے پہن لیا۔دستانہ پہنتے ہی وہ ایک اور ہی دنیا میں پہنچ گئی۔اس نے دیکھا کہ وہ بالائی کے ایک پہاڑ پر کھڑی ہے،جس سے دودھ کی ندیاں نیچے کی طرف بہہ رہی ہیں۔پہاڑ پر چاندی کے چھوٹے چھوٹے چمچے بھی بکھرے تھے۔ماہم نے ایک چمچہ اُٹھا لیا اور بالائی کے پہاڑوں کی مزیدار چوٹیاں کھانے لگی۔بالائی کھانے کے بعد اسے پیاس محسوس ہوئی تو وہ نیچے اُتر آئی۔دودھ کی ندیوں کے کنارے مصری کے کٹورے رکھے تھے ایک کٹورا ندی کے دودھ سے بھر کر اس نے پیا اور پھر آگے بڑھی۔ہر طرف باغ ہی باغ نظر آ رہے تھے۔جن میں رنگ برنگے شربت کے فوارے تھے۔فواروں کے حوض کے کناروں پر زمرد کے چھوٹے چھوٹے گلاس رکھے تھے۔اس نے ایک فوارے سے شربت کا ایک گلاس پیا۔پھر دوسرے فوارے سے کیونکہ ہر فوارے کے شربت کا مزہ نیا تھا۔اس کے بعد شیلا نے باغ کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔معلوم ہوا کہ اس میں چہکنے والے پنچھی بھی مٹھائی کے ہیں۔ایک کوئل اور ایک بلبل ماہم نے پکڑ کر کھا لی اور پھر آگے بڑھی۔آگے ایک بڑا خوبصورت بازار آگیا۔جس میں ہر طرف پریاں ہی پریاں نظر آ رہی تھیں۔ماہم ان میں جا گھسی اور بازار کا تماشا دیکھنے لگی۔دکانوں پر بڑی عجیب چیزیں بک رہی تھیں۔رنگ برنگی پھول تتلیاں،ستارے،موتی،اُڑنے والے پنچھی،گلدان،مربے،چاکلیٹ اور طرح طرح کے کھلونے۔یکایک ماہم کو ستارہ پری اپنے بچوں کے ساتھ ایک دکان پر کھڑی نظر آئی۔وہ ایک دکان سے اپنے بچوں کے لئے نرگس کے پھول چرا رہی تھی۔ماہم چلا کر بولی:”ستارہ پری دکان دار کے پھول کیوں چرا رہی ہو۔“ستارہ پری نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی”ماہم میرے قریب آؤ۔“جب ماہم اس کے پاس آئی تو ستارہ پری نے اس کی آنکھوں پر اپنے نرم نرم ہاتھ رکھ دیئے۔اور بولی”ماہم جو کچھ دیکھ رہی ہو نہ دیکھو۔جو کچھ سوچ رہی ہو نہ سوچو۔جو کچھ دیکھ چکی ہو بھول جاؤ۔“اس کے بعد ستارہ پری نے زور سے ایک خوبصورت قہقہہ لگایا اور اپنے نرم نرم ہاتھ ماہم کی آنکھوں سے ہٹا لئے۔ماہم ڈر گئی۔اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنا شروع کیا۔اب وہاں کچھ بھی نہ تھا۔وہ اپنے بستر پر لیٹی تھی۔اس کے بھیا کا سفید مرغا ککڑوں کوں ککڑوں کوں کر رہا تھا۔آسمان پر صبح کا ستارہ اس کی طرف دیکھ کر شرارت سے مسکرا رہا تھا۔ " لاڈلی شہزادی - تحریر نمبر 2150,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ladli-shehzadi-2150.html,"نوید امینگزرے وقتوں کی بات ہے کہ کسی دُور ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا وہ بہت رحم دل تھا اسی وجہ سے اس کی رعایا اس سے بہت خوش تھی۔ بادشاہ اور ملکہ اکثر اداس رہتے کیونکہ ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔آخر کافی دعاؤں کے بعد اللہ تعالیٰ نے ملکہ کو ایک انتہائی خوبصورت بیٹی عطا کی۔ بادشاہ نے شہزادی کی پیدائش پر پورے ملک میں بہت بڑے جشن کا اہتمام کیا اور ملک کے تمام لوگوں کو مدعو کیا۔اس ملک میں کچھ پریاں بھی رہتی تھیں۔بادشاہ نے ان سات پریوں کو بھی مدعو کر لیا۔دعوت والے دن سات کی بجائے آٹھ پریاں موجود تھیں دراصل ایک بہت ہی بوڑھی پری کو بہت دنوں سے کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا اس لئے سب سمجھے کہ وہ مر چکی ہے اسی وجہ سے بادشاہ نے اسے نہ بلایا۔(جاری ہے)جب تمام لوگوں نے شہزادی کو تحائف دیئے تو ایک پری آگے بڑھی اور بولی”میں شہزادی کو حسن کا تحفہ دیتی ہوں۔“دوسری نے کہا”میں اسے دیانت کا تحفہ پیش کرتی ہوں۔“تیسری پری بولی”میری طرف سے شہزادی کے لئے شان و شوکت کا تحفہ ہے۔چوتھی پری نے اپنی باری آنے پر شہزادی کو خوبصورت ناچ کا تحفہ دیا۔پانچویں پری نے خوبصورت آواز جبکہ چھٹی پری نے موسیقی کا تحفہ پیش کیا۔قبل اس کے کہ ساتویں پری شہزادی کو تحفہ دیتی بوڑھی پری غصے کی حالت میں آگے بڑھی اور بولی شہزادی کو چرخے کا تکلہ چبھے گا اور وہ مر جائے گی۔“بادشاہ اور ملکہ یہ سن کر رونے لگے اور تمام رعایا غمگین ہو گئی۔اتنی دیر میں ساتویں پری آگے آئی اور بولی میری طرف سے یہ تحفہ ہے کہ شہزادی مرے گی نہیں بلکہ سو سال کے لئے گہری نیند سو جائے گی اور سو سال بعد ایک خوبصورت شہزادہ آکر اس کو نیند سے بیدار کرے گا۔بادشاہ نے اپنے ملک سے تمام چرخے ختم کروا دیئے تاکہ شہزادی کو بچایا جا سکے۔سال پر سال بیت گئے یہاں تک کہ شہزادی سولہ سال کی ہو گئی اس دن شہزادی کی سولہویں سالگرہ کا جشن اپنے پورے عروج پر تھا جب شہزادی محل کی چھت پر ہوا خوری کے لئے گئی،وہاں اس نے دیکھا ایک بہت ضعیف عورت چرخہ کات رہی تھی۔شہزادی نے کیونکہ چرخہ کبھی نہیں دیکھا تھا اس لئے حیرت سے تکنے لگی۔بوڑھی عورت نے کہا بیٹی یہاں آؤ․․․․یہ لو․․․․اسے خود چلا کر دیکھو۔“یہ سن کر شہزادی بوڑھی عورت کے پاس جا بیٹھی اور جیسے ہی اس نے چرخے کو ہاتھ لگایا اس کا تکلہ شہزادی کی انگلی میں لگا اور وہ گہری نیند سو گئی۔بادشاہ اور ملکہ کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو دونوں بہت پریشان ہوئے۔ملکہ کہنے لگی اب ہم اپنی بیٹی کے بغیر کیا کریں۔بادشاہ نے شہزادی کو اس کی خواب گاہ میں آرام دہ بستر پر لٹا دیا۔ادھر جب ساتویں پری کو معلوم ہوا کہ شہزادی سو سال کے لئے سو گئی ہے تو وہ سوچنے لگی شہزادی جب نیند سے بیدار ہو گی تو اس زمانے میں اس کو کوئی بھی نہیں جانتا ہو گا۔یہ سوچ کر اس نے پورے محل پر جادو کر دیا۔اس جادو کی وجہ سے محل میں موجود تمام جاندار سو گئے حتیٰ کہ شہزادی کا پالتو کتا جو اس کی خواب گاہ کے دروازے پر بیٹھا تھا وہ بھی وہیں سو گیا۔پری نے جادو کے ذریعے محل کے گرد اونچی اونچی دیواریں بنا دیں اور ان دیواروں کے ساتھ لمبے لمبے درخت اور بیلیں اُگا دیں تاکہ کوئی محل میں داخل نہ ہو سکے۔ایک روز ہمسایہ ملک کا شہزادہ شکار کھیلتا ہوا اس طرف آنکلا اس نے محل دیکھا تو پوچھا یہ کس کا محل ہے لوگوں نے بتایا کہ یہ جادو کا محل ہے اس کے اندر ایک شہزادی سو سال سے سو رہی ہے جو شخص بھی اس کے اندر جانے کی کوشش کرتا ہے وہ زندہ واپس نہیں آتا۔شہزادے نے کہا میں ضرور اس محل میں جاؤں گا اور اس کا راز جاننے کی کوشش کروں گا۔لوگوں کے بہت سمجھانے کا بھی شہزادے پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ محل کی طرف چل پڑا۔محل کے قریب پہنچ کر شہزادے نے جونہی درختوں اور بیلوں کی شاخوں کو ہٹانے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا وہ خود بخود ہٹتی چلی گئیں اور شہزادے کو راستہ ملتا گیا۔شہزادہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا۔چلتے چلتے شہزادہ محل کے دروازے پر پہنچ گیا۔اس نے ابھی دروازے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ دروازہ بھی خود بخود کھل گیا شہزادہ دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔شہزادے نے ابھی بات پوری کی ہی تھی کہ زور دار دھماکہ ہوا تیز ہوا چلنے لگی اور شہزادی نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں اس کے ساتھ ہی محل میں سوئے ہوئے تمام جاندار جاگ گئے کیونکہ اب جادو کا اثر ختم ہو چکا تھا۔بادشاہ اور ملکہ اپنی بیٹی کو مل کر بہت خوش ہوئے سب نے مل کر شہزادی کی سولہویں سالگرہ منائی کیونکہ سو سال گزرنے کے باوجود سب لوگوں کی عمریں وہی تھیں جو ان کے سونے سے پہلے تھیں۔شہزادی اور شہزادہ خوشی سے جھومتے رہے۔کچھ دن بعد دونوں کی دھوم دھام سے شادی ہو گئی اور شہزادہ اپنی شہزادی کو لے کر اپنے ملک روانہ ہو گیا جہاں دونوں ہنسی خوش رہنے لگے۔ " پریاں اور غریب موچی - تحریر نمبر 2149,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pariyaan-aur-ghareeb-mochi-2149.html,"نوید اخترایک شہر میں ایک موچی رہا کرتا تھا۔مکان کے اوپر والے حصے میں اس کی رہائش تھی جبکہ نچلے حصہ میں اس نے اپنی دوکان قائم کر رکھی تھی۔ اسی دوکان کے ایک کونے میں اس نے نئے جوتے بنانے کے اوزار رکھے ہوئے تھے۔یہ اوزار ایک چھوٹی سی میز پر بڑے سلیقے سے رکھے ہوتے تھے۔موچی دن رات خوب محنت کرتا لیکن اس کے باوجود اسے اتنی آمدنی نہ ہوتی کہ وہ خوشحال زندگی گزار سکے۔یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب موچی کی تمام جمع پونجی بھی ختم ہونے کو تھی۔اب موچی بہت پریشان ہوا اور سوچنے لگا اس مرتبہ بل ادا کرنے کے بعد تو اس کے پاس نئے جوتے بنانے کیلئے بھی رقم نہیں بچے گی۔یہ خیال آتے ہی موچی کا دل کام سے اچاٹ ہو گیا۔وہ جو جوتے بنا رہا تھا اس کا چمڑا وہیں پڑا چھوڑ کر اُٹھا اور اپنے رہائش والے حصے کی طرف چلا گیا۔(جاری ہے)کھانا کھا کر دونوں میاں بیوی اپنی تنگ دستی کا حل تلاش کرتے کرتے سو گئے۔دوسرے روز صبح موچی ناشتے سے فارغ ہو کر اپنی دوکان میں پہنچا تو وہ بہت حیران ہوا کیونکہ کل جو چمڑا اس نے جوتوں کے لئے کاٹ کر چھوڑا تھا اس کے جوتے تیار تھے۔اور یہ جوتے اتنے خوبصورت تھے کہ موچی نے کبھی اتنے عمدہ جوتے نہ بنائے تھے۔موچی نے زور زور سے اپنی بیوی کو آوازیں دینی شروع کر دیں۔آوازیں سن کر اس کی بیوی دوکان میں داخل ہوئی تو موچی نے پوچھا ”کیا یہ اتنے خوبصورت جوتے تم نے بنائے ہیں؟“ موچی کی بیوی نے کہا”نہیں․․․․․میں ایسے اچھے جوتے کیسے بنا سکتی ہوں۔میں نے تو پہلے کبھی جوتے بنائے ہی نہیں۔“موچی نے جوتے اُٹھا کر دوکان کے دروازے کے ساتھ بنے ہوئے شوکیس میں اس طرح رکھ دیئے کہ دوکان کے باہر سے ہر شخص کی نظر ان پر پڑتی تھی۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک آدمی نے آکر جوتے خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔اس نے موچی کو جوتوں کی اتنی اچھی قیمت دی کہ موچی کبھی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔اب موچی نے اس رقم سے گھر کے لئے راشن خریدا اور مزید جوتوں کے لئے چمڑا بھی خرید لیا۔خریداری سے فارغ ہو کر موچی واپس آیا تو شام ہونے کو تھی۔موچی کی بیوی کھانا بنانے کی تیاری کرنے لگی جبکہ موچی چمڑا لے کر دوکان والے حصے میں آگیا۔موچی نے دو جوڑے جوتوں کے لئے چمڑا کاٹا۔وہ ابھی انہیں سینے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس کی بیوی نے آواز دے کر کہا”کھانا تیار ہے آکر کھانا کھا لو․․․․․․باقی کام صبح کر لینا۔“یہ سن کر موچی نے کاٹا ہوا چمڑا اپنے کام کرنے والی میز پر چھوڑا اور رہائشی حصے کی طرف آگیا۔دوسرے روز صبح جب موچی دوکان میں آیا تو وہ ایک مرتبہ پھر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔کیونکہ رات کو موچی نے جو چمڑا کاٹ کر رکھا تھا۔ اس کے آج پھر بہت عمدہ جوتے تیار تھے۔موچی نے ایک مرتبہ پھر اپنی بیوی کو بلا کر جوتوں کے بارے میں پوچھا لیکن اس نے اس مرتبہ بھی اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔موچی نے جوتے اُٹھا کر شوکیس میں رکھ دیئے۔تھوڑی دیر بعد جوتے بک گئے۔اب تو یہ روزانہ کا معمول بن گیا کہ موچی چمڑا کاٹ کر دوکان میں رکھتا اور صبح اسے جوتے تیار ملتے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے کچھ ہی دیر بعد یہ جوتے فروخت ہو جاتے۔موچی اور اس کی بیوی اب کافی خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ایک دن موچی کی بیوی نے کہا ہمیں معلوم تو کرنا چاہیے کہ رات کو کون ہمارے لئے جوتے بنا کر جاتا ہے۔موچی نے کہا آج رات کو ہم دوکان کی نگرانی کریں گے اور دیکھیں گے کہ کون ایسا مہربان ہے جو روزانہ ہمارے لئے کام کرتا ہے۔موچی اور اس کی بیوی شام ہوتے ہی کٹا ہوا چمڑا کام کرنے والی میز پر چھوڑ کر دوکان میں رکھی ایک بڑی سی الماری کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے اور تھوڑا سا دروازہ کھول کر دوکان میں جھانکنے لگے۔آدھی رات کے وقت آتشدان کی چمنی میں کچھ آوازیں آتی محسوس ہوئیں۔تھوڑی دیر بعد انہوں نے دیکھا کہ دو خوبصورت ننھی منی پریاں ہوا میں تیرتی ہوئی چمنی کے ذریعے دوکان میں داخل ہوئیں اور کام کرنے والی میز کے پاس رکھے سٹول پر بیٹھ کر انہوں نے جوتے سینے کا کام شروع کر دیا۔صبح ہونے سے کچھ دیر قبل جوتے کے دونوں جوڑے تیار ہو چکے تھے۔ خوبصورت جوتے میز پر اسی طرح چھوڑ کر دونوں ننھی پریاں ہوا میں اُڑتی ہوئی واپس چلی گئیں۔موچی نے اپنی بیوی سے کہا بہت دنوں سے یہ ننھی پریاں ہمیں اچھے اچھے جوتے بنا کر دے رہی ہیں۔میرا خیال ہے ہم بھی انہیں کوئی تحفہ دیں۔موچی کی بیوی بولی دونوں پریاں ننگے پاؤں تھیں اور ان کے کپڑے بھی عام سے تھے شاید انہیں ان کپڑوں میں سردی لگتی ہو کیوں نہ میں ان دونوں کے لئے کپڑے بنا دوں۔موچی نے بھی بیوی کی ہاں میں ہاں ملائی۔اسی دن موچی کی بیوی نے دونوں پریوں کے لئے بہترین گرم جیکٹیں تیار کیں اور ساتھ ہی دو جوڑے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جرابوں کے جوتے بھی بنائے۔دوسرے دن انہوں نے شام کے وقت کام کرنے کی میز پر بجائے جوتوں کے لئے چمڑا کاٹ کر رکھنے کے دونوں ننھی منی پریوں کے لئے جیکٹ اور جرابوں کے گفٹ پیک تیار کرکے رکھ دیئے اور الماری میں چھپ کر پریوں کا انتظار کرنے لگے۔آدھی رات کے بعد پریاں دوکان میں داخل ہوئیں اور کام کرنے والی میز کے پاس آکر کھڑی ہو گئیں۔میز پر جوتوں کے لئے چمڑے کی جگہ گفٹ دیکھ کر انہیں حیرانی ہوئی۔دونوں نے آپس میں مشورہ کے بعد گفٹ کھولے تو اس میں چھوٹی چھوٹی جرابیں اور جیکٹیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور انہوں نے فوراً جیکٹیں اور جرابیں پہن لیں۔اب وہ دونوں پریاں بہت خوش تھیں۔خوشی سے دونوں پریاں جھومتی رہیں۔اور پھر ہوا میں تیرتی ہوئی چمنی کے راستے دوکان سے باہر نکل گئیں۔اس کے بعد وہ کبھی دوکان میں کام کرنے نہ آئیں۔موچی نے جوتے بنانے کا کام جاری رکھا جو کہ عمدہ اور خوبصورت ہوتے تھے اور وہ پورے علاقے میں بہت امیر اور مشہور ہو گیا۔لیکن کوئی بھی اپنے جوتوں کا ننھی پریوں کے بنائے ہوئے نرم و نازک جوتوں سے موازنہ نہ کر سکا۔ " ننھی گلہری - تحریر نمبر 2148,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanhi-gulehri-2148.html,"اُمِ اویسننھی گلہری گلو جنگل کے اس حصے میں رہتی تھی،جہاں درخت خوب گھنے اور ہرے بھرے تھے۔ایک دن اس کی ماما نے کہا،”گلو!میں کھانے کی تلاش میں جا رہی ہوں،تمہارے بابا دوسرے جنگل گئے ہیں،میری غیر موجودگی میں گھر سے باہر نہ جانا،کیونکہ آج موسم کے آثار ٹھیک نہیں،بارش اور تیز ہوا چلنے کا امکان ہے۔“گلو نے اس وقت تو سر ہلا دیا لیکن ماما کے چلے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد اسے اپنی دوست منکی کا خیال آیا،جو اس کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر رہتی تھی۔منکی کا گھر جنگل کے بیچوں بیچ ایک بڑے سے ٹیلے کے دامن میں بنی سرنگ میں تھا۔آسمان پر بادل سورج سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے،تھوڑی ہی دیر میں سورج چاچا ہار گئے اور اپنا منہ چھپا لیا۔(جاری ہے)ہر طرف سیاہ بادل چھا گئے،ابھی گلو آدھے راستے میں تھی کہ اچانک بجلی چمکی،اُچھلتی کودتی،گلو ڈر گئی اور تیزی سے بھاگنے لگی۔سامنے سے خرگوش میاں اپنے گھر کی طرف جاتے دکھائی دئیے۔گلو کو بھاگتے دیکھ کر انہوں نے زور سے کہا:”ادھر کہاں جا رہی ہو؟چلو واپس اپنے گھر چلی جاؤ،تمہیں کس نے کہا تھا کہ اس موسم میں گھر سے نکلو؟“جونہی بجلی تیزی سے چمکی،گلو نے گھبراہٹ میں سامنے دیکھے بغیر چھلانگ لگائی اور اونچے درخت سے اس کا سر ٹکرا گیا۔آہ!درد کی ایک تیز لہر اُٹھی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھا جس پر ایک بڑا سا گومڑ بن گیا تھا اور ہائے ہائے کرتی آگے بڑھی۔خرگوش میاں بڑبڑائے،”اندھی ہو،نظر نہیں آتا؟“گلو تیزی سے دوسری طرف مڑی تو کانٹے دار جھاڑیوں میں پاؤں جا پڑا،اس کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی اور وہ لنگڑاتی ہوئی راستے کے درمیان میں چلنے لگی،بالآخر گرتی پڑتی وہ گھر پہنچ ہی گئی اسے چوٹ لگی تھی اور درد بھی ہو رہا تھا،گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر وہ رونے لگی اور روتے روتے سو گئی۔جب اس کی آنکھ کھلی تو بارش تھم گئی تھی،آسمان صاف ہو چکا تھا۔اس نے باہر جھانک کر دیکھا تو ماما واپس آتی دکھائی دیں۔اسے ایک بار پھر رونا آگیا،جونہی اس کی ماما اندر داخل ہوئیں وہ دوڑ کر ان سے لپٹ گئی۔ماما نے اسے مٹی اور کیچڑ میں لت پت دیکھا تو پریشان ہو گئیں،اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو گومڑ پر جا لگا،گلو زور سے رونے لگی اور روتے روتے ماما کو سارا قصہ سنا دیا۔ماما نے اسے اپنے ساتھ لگا کر پیار کیا اسے تسلی دی،اس کا منہ ہاتھ دھلا کر صاف کیا دوا لگائی۔صبح تک گلو ٹھیک ہو چکی تھی اور سب کچھ بھول بھال کر پھر سے اُچھل کود کر رہی تھی۔چند دنوں کے بعد گلو ماما کی غیر موجودگی میں پھر گھر سے باہر نکل گئی،اس کا دل چاہا کہ وہ تالاب کے کنارے لگے اخروٹ کے درخت پر جا کر اخروٹ کھائے۔وہ اُچھلتی کودتی،چھلانگیں لگاتی،دُم لہراتی،وہ جنگل کے دوسرے کنارے بنے تالاب تک پہنچ گئی اور اخروٹ کے درخت سے نرم نرم اخروٹ ڈھونڈ کر کھانے لگی۔واپسی پر اس نے دو اخروٹ ہاتھ میں پکڑ لیے،وہ انہیں چھپانا چاہتی تھی تاکہ کچھ دن بعد نکال کر کھا لے۔اِکا دُکا بادل اکھٹے ہو رہے تھے،اس نے سر اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو سورج میاں منہ چھپاتے دکھائی دئیے۔ہائے اللہ!آج پھر بارش ہو گی،مجھے فوراً گھر چلے جانا چاہیے۔اس نے سوچا،درخت سے نیچے اُتری اور اپنے گھر کی طرف دوڑنے لگی،راستے میں کھود نظر آئی،گلو نے جلدی جلدی اخروٹ اس میں چھپا دئیے اور چھلانگیں لگاتی آگے بڑھنے لگی،ابھی آدھے راستے میں تھی کہ بجلی چمکی پانی ٹپ ٹپ برسنے لگا۔راستے میں پتھر سے ٹھوکر لگی۔اف!اس کے منہ سے نکلا،پاؤں میں شدید درد کی ٹھیس اُٹھی،اسی وقت بارش سے بچنے کے لئے،درخت کی اوٹ میں بیٹھی بلی کی آواز سنائی دی:”ڈرنے کی کوئی بات نہیں،ہمت کرو!سامنے دیکھ کر قدم بڑھاؤ۔“گلو نے چوکنا ہو کر بی بلی کی طرف دیکھا اور اعتماد سے قدم بڑھانے لگی۔”شاباش!ننھی گلہری!شاباش!“اسے بلی کی آواز سنائی دی،وہ اور تیزی سے بھاگنے لگی۔تھوڑی ہی دیر میں وہ گھر پہنچ گئی،اگرچہ وہ ساری کی ساری بھیگ چکی تھی اور اس کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا،لیکن دانا دشمن کی حوصلہ افزائی نے اس کی ہمت بڑھا دی۔گلو نے ماما کے آنے سے پہلے ہی اپنا زخم خود ہی صاف کر لیا،گھر پہنچنے کی خوشی میں وہ ہر تکلیف بھول چکی تھی۔ " شہد کی ایک بوند (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2147,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shehad-ki-aik-boond-aakhri-hissa-2147.html,"داروغہ نے ایک ایک سے تفتیش کی اور کہا:جاؤ،دیکھو،کریانہ فروش زندہ ہے یا گزر گیا؟لوگوں نے آ کر اطلاع دی کہ کریانہ فروش زندہ ہے۔اسے صرف سر پر چوٹ آئی ہے۔باقی خیریت ہے۔داروغہ نے سب زیر حراست لوگوں کو قاضی کے حضور بھیج دیا اور لکھا:عالی رتبہ قاضی جو فیصلہ بھی دیں گے،اس پر عمل ہو گا۔قاضی نے کریانہ فروش،میاں شکاری،کریانہ فروش کے ہمسائے اور اس کے ساتھیوں سے جھگڑے کی تفصیل چاہی۔اس کے بعد گویا ہوا: نیولا،جانور ہے،وہ ایک بوند شہد چاٹنے کا خواہشمند تھا۔سو اس بیچارے کو سزا نہیں دی جا سکتی۔کتا بھی جانور ہے۔مانا کہ وہ نیولے پر حملہ آور ہوا مگر اسے بھی سزا نہیں دی جا سکتی۔البتہ اگر کریانہ فروش ذرا گزر اور صبر و تحمل سے کام لیتا،تو اس کے ہاتھوں کتا ہلاک نہ ہوتا اور اگر شکاری تھوڑے سے صبر و تحمل اور درگزر سے کام لیتا تو کریانہ فروش پر حملہ نہ کرتا کیونکہ یہ اسی کی غلطی تھی کہ وہ شکاری کتے کو اپنے ساتھ بازار لے آیا تھا۔(جاری ہے)لوگ بھی اپنے ہمسائے کی طرف داری کی خاطر جمع ہو گئے تھے اور اگر انہوں نے شکاری کو زدو کوب کیا تو دراصل اپنی دانست میں اپنے آشنا ہمسائے کے دفاع کی خاطر کیا۔ہمارے خیال میں سب لوگوں کو جرمانہ بھی ہونا چاہیے اور سزا بھی کیونکہ ان میں سے جس کسی پر بھی دوسرے کی طرف سے زیادتی ہوئی تو اس پر لازم تھا کہ داروغہ اور حاکم سے رابطہ کرتا انہیں نہیں چاہیے تھا کہ وہ بات کا بتنگڑ بنا دیتے۔اب کہو،کسی کو کوئی شکایت ہے؟تمام حاضرین خاموش رہے۔قاضی نے کہا:تم سب لوگوں کا دراصل ایک ہی گناہ ہے اور وہ ہے نادانی اور بے علمی۔جب تک لوگ ان پڑھ اور نادان رہیں گے،روزانہ اس طرح کے مسئلے پیدا ہوتے رہیں گے۔اگر لوگ پوری طرح تعلیم یافتہ اور فرض شناس ہوں تو کوئی شکاری اپنے شکاری کتے کو ہمراہ لیے بازار میں نہ آئے اور کوئی کریانہ فروش بلی کے بجائے کسی بے تربیت نیولے کو اپنی دکان میں نہ رکھے اور اگر کتا نیولے پر حملہ کر دے تو کتے کے سر پر ترازو کی ڈنڈی مار کر اسے ہلاک نہ کرے بلکہ قاضی سے رجوع کیا جائے،ہرجانہ لیا جائے اور جھگڑا ختم اور اگر کتا مارا جائے تو کوئی شخص کوزہ کسی کے سر پر نہ دے مارے بلکہ قاضی سے رجوع کرے اور کتے کی موت پر ہرجانہ طلب کرے۔جب شہر میں داروغہ،محتسب،حاکم اور قاضی موجود ہیں تو یہ چھوٹے موٹے جھگڑے حل ہو جاتے ہیں،بڑا عیب تو جہالت اور بے علمی ہے۔ ساری جنگیں اور جھگڑے ابتداء میں معمولی ہوتے ہیں اور نادان اور بے علم لوگ انہیں بڑھا کر بڑا بنا دیتے ہیں۔یہ جھگڑا بھی تو شہد کی ایک بوند سے شروع ہوا۔اب چونکہ شکاری ہی اس فتنے کا باعث ہوا اور اس کا کتا ہلاک ہو چکا اور کسی کو کوئی شکایت بھی نہیں رہی لہٰذا میں سب لوگوں کو بری کرتا ہوں۔ " شہد کی ایک بوند (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2146,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shehad-ki-aik-boond-pehla-hissa-2146.html,"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تھا شکاری۔اس کے پاس ایک خوب سدھایا ہوا شکاری کتا بھی تھا جو اس کا خدمت گزار تھا۔شکاری کتے کی کمر باریک اور ہاتھ پاؤں پتلے پتلے اور لمبے تھے۔وہ ہر جانور سے زیادہ پھرتیلا تھا اور تیز دوڑتا تھا۔جونہی شکاری اسے ہشکارتا وہ خرگوشوں اور ہرنوں کے پیچھے بھاگتا،انہیں اپنی گرفت میں لاتا اور اپنے مالک کے پاس لے آتا۔جب کبھی شکاری تیر سے کسی پرندے کو نشانہ بناتا تو کتا تیزی سے دوڑتا اور اس سے پہلے کہ شکار مر جائے،اسے زندہ حالت میں شکاری کے قدموں میں ڈال دیتا۔ایک روز شکاری،کتے کو ساتھ لیے شکار کی غرض سے نکلا اور ایک ہرن کا پیچھا کرتے کرتے ان کا گزر ایک سرسبز و شاداب پہاڑی علاقے سے ہوا۔اس کے نشیب و فراز میں طرح طرح کے درخت،پھول اور سبزہ بہار دکھا رہے تھے۔(جاری ہے)جلد ہی وہ اس پہاڑی علاقے کے ایک غار تک جا پہنچے۔شکاری نے دیکھا کہ غار کے آس پاس شہد کی مکھیاں پرواز کر رہی تھیں اور ایک پتھر کے سوراخ سے شہد قطرہ قطرہ ٹپک رہا تھا۔وہ سمجھ گیا کہ مکھیوں نے پتھروں کے سوراخوں میں چھتے بنا رکھے ہیں اور جیسا کہ آثار سے پتا چلتا ہے کسی انسان کا ایک عرصے سے اُدھر سے گزر نہیں ہوا چنانچہ وہاں شہد بڑی مقدار میں جمع ہو چکا ہے،پتھروں کی تہیں شہد میں بھر چکی ہیں اور ان کے شگافوں سے شہد بہہ نکلا ہے اور زمین پر گر گر کر خشک ہو رہا ہے۔شکاری یہ سب کچھ دیکھ کر بڑا خوش ہوا اور اپنے آپ سے کہنے لگا:اگر کوئی دوسرا شخص کبھی یہاں تک نہ پہنچ پایا تو میں ایک مدت تک شکار کی زحمت سے بچ جاؤں گا۔میں ہر روز یہاں آیا کروں گا،تھوڑا سا شہد یہاں سے شہر لے جا کر بیچ دیا کروں گا اور اس آمدنی سے اپنی گزر بسر کروں گا۔میرا خیال ہے کہ شہد کا یہ ذخیرہ مدتوں تک ختم نہیں ہو گا کیونکہ پہاڑ اور جنگل کا بڑا حصہ سبزہ و گل سے بھرا ہوا ہے اور شہد کی مکھیاں جن کا یہ ٹھکانا ہے،بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ان کا کام ہی شہد بنانا ہے۔شکاری کو صرف ایک مشکل درپیش تھی یعنی مکھیوں کا ہجوم مگر دنیا میں کوئی کام بھی مشقت اور تکلیف اُٹھائے بغیر ممکن نہیں۔شکاری نے اپنے لباس کو خوب کس لیا اور اپنے چہرے کو ایک رومال سے ڈھانپ کر،اپنے پینے کے پیالے کو جسے وہ اپنے ساتھ رکھتا تھا،شہد سے بھر لیا اور شہر کا رخ کیا تاکہ بازار میں اسے بیچ دے۔اس کا کتا اس کے ساتھ تھا۔شکاری ایک کریانہ فروش کے پاس گیا اور کہا:”میرے پاس تھوڑا سا خالص شہد ہے،اسے بیچنا چاہتا ہوں۔کریانہ فروش نے شہد کا پیالہ تھاما،تھوڑا سا شہد لے کر چکھا اور کہا:اس شہد کے کیا کہنے اور آپ پر آفرین!میرے پاس ہمیشہ کئی قسم کا شہد رہتا ہے جسے میں خود دیہاتوں سے لاتا ہوں۔اسے صاف کرتا ہوں اور اس سے موم الگ کرتا ہوں اور پھر خالص شہد بیچتا ہوں۔ایک اور قسم کا شہد بھی میرے پاس ہوتا ہے جسے لوگ موم کے ساتھ چھتے سے نکالتے ہیں،میرے پاس لے آتے ہیں اور میں اسے خرید لیتا ہوں اور اسے موم سمیت بیچتا ہوں۔ایک اور قسم کا شہد بھی ہے جسے لوگ صاف کرکے میرے پاس لاتے ہیں اور میں اس کی الگ سے خرید و فروخت کرتا ہوں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگ شہد میں چینی اور مربے کی چاشنی کی ملاوٹ کر دیتے ہیں اور شہد کی پہچان رکھنے والے ایسے شہد کو ناپسند کرتے ہیں۔جو خالص شہد جس علاقے سے آتا ہے،اپنا ایک مخصوص ذائقہ رکھتا ہے۔لیکن یہ شہد تو ان تمام سے بہتر ہے۔اس کی خوشبو اور ذائقے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل خالص ہے اور کسی ایسے علاقے سے آیا ہے جہاں کے پھول اور پودے بہت خوشبودار ہوتے ہیں۔میں انصاف پسند آدمی ہوں اور اپنے ہاں کے بہترین شہد کی قیمت فروخت سے بڑھ کر قیمت ادا کروں گا ہاں تم مجھ سے یہ وعدہ کرو کہ تمہارے پاس جتنا بھی شہد ہو،میرے لئے لاتے رہنا۔شکاری یہ سن کر خوش ہوا اور کہا:بہت اچھا،میں وعدہ کرتا ہوں۔میں کسی دوسرے خریدار سے نہیں ملا اور میرے پاس شہد بھی کافی مقدار میں ہے۔اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ تم نے شہد صحیح قیمت پر خریدا ہے اور میرے ساتھ دھوکا نہیں کیا تو میں ہر روز تمہارے لئے خالص شہد کا ایک کوزہ لایا کروں گا۔کریانہ فروش کو یہ سن کر خوشی ہوئی۔اس نے شہد کا کوزہ ترازو پر رکھا اور اس کا وزن کیا۔پھر اس نے چاہا کہ شہد کو کسی دوسرے برتن میں انڈیل کر خالی کوزے کا بھی وزن کرے تاکہ اسے شہد کا خالص وزن معلوم ہو سکے۔کریانہ فروش کی دکان میں ایک نیولا بھی تھا جسے اس نے ایک بلی کی جگہ پال رکھا تھا کہ وہ دکان میں موجود چوہوں کا خاتمہ کر سکے۔ جس وقت کریانہ فروش شہد دوسرے برتن میں انڈیل رہا تھا،شہد کی ایک بوند زمین پر گری۔نیولا جو کریانہ فروش کے کاموں کی نگہداشت کرتا تھا، فوراً آگے لپکا تاکہ زمین پر گرے شہد کے قطرے کو چاٹ لے۔اسی وقت شکاری کتے نے۔جو اس شکاری کے ساتھ تھا اور شروع ہی سے نیولے کو دیکھ کر ناخوش تھا،بڑھ کر نیولے پر حملہ کر دیا اور اس کی گردن پر کاٹ لیا جس سے اس کی گردن سے خون جاری ہو گیا۔کریانہ فروش نیولے سے بہت محبت کرتا تھا۔وہ نیولے پر شکاری کتے کے حملے سے سخت طیش میں آگیا اور اس نے برا بھلا کہتے ہوئے ترازو کی ڈنڈی ہاتھ میں لے کر کتے کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ چکرایا اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔میاں شکاری،جسے اپنا کتا بہت عزیز تھا،نہایت غصے میں آیا۔اس نے وہی شہد سے خالی کوزہ اُٹھایا اور کریانہ فروش کے سر پر پٹخ دیا۔کریانہ فروش ایک چیخ مار کر بے ہوش ہو گیا۔ کریانہ فروش کی دکان کے بالمقابل اس کے ہمسائے نے جو اس تمام جھگڑے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا،اہل بازار کو اطلاع کر دی اور شکاری کے گرد لوگوں کا ایک ہجوم آن اکٹھا ہوا اور اسے گالیاں دیتے ہوئے،لاٹھیوں سے پیٹنے لگا۔شکاری نے جب اتنے ہجوم کے مقابل خود کو اکیلا پایا تو اپنا شکاری چاقو اپنی کمر سے کھینچا اور کئی لوگوں پر وار کرکے انہیں زخمی کر دیا۔اب ہر طرف داد فریاد کا عالم تھا۔اسی اثناء میں پولیس کے سپاہی آن پہنچے۔انہوں نے شکاری میاں اور بازار کے چند لوگوں کو گرفتار کیا اور داروغہ شہر کے پاس لے گئے اور کہنے لگے:اس شکاری نے بازار میں ہنگامہ کیا اور یہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو گئے۔ " جادو کا شیشہ اور شہزادی (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2145,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jadu-ka-sheesha-aur-shehzadi-aakhri-hissa-2145.html,"ھما نے عورت کو اندر بلایا اور ربن دکھانے کی خواہش ظاہر کی۔بوڑھی عورت نے ایک ربن اس کے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا ”دیکھو یہ کتنا خوبصورت لگتا ہے“ربن گلے میں پہنتے ہی ھما فوراً بے ہوش ہو گئی۔ملکہ سمجھی شہزادی مر چکی ہے۔اس لئے وہ جلدی جلدی وہاں سے واپس بھاگ آئی۔بونے جب اپنے کام سے واپس آئے تو انہوں نے دیکھا ھما بے ہوش پڑی تھی۔ساتوں بونوں نے مل کر شہزادی کے گلے سے ربن کھولا۔ربن کھُلتے ہی اس کا سانس بحال ہوا اور وہ اُٹھ بیٹھی۔بونوں کے پوچھنے پر اس نے تمام واقعہ کہہ سنایا اور ان کا کہنا نہ ماننے پر معذرت بھی کی۔بونوں نے کہا کہ دیکھو آئندہ اچھی طرح یاد رکھنا اور ہماری غیر موجودگی میں کسی کو بھی اندر نہ آنے دینا۔شہزادی ھما نے ایک مرتبہ پھر بونوں سے وعدہ کر لیا اور کہا آئندہ وہ محتاط رہے گی۔(جاری ہے)ملکہ خوشی خوشی اپنے محل میں واپس پہنچ گئی۔دوسرے روز ملکہ نے شیشے سے وہی سوال کیا۔ملکہ کو پوری امید تھی کہ اس مرتبہ آئینے کا جواب اس کی مرضی کے مطابق ہو گا لیکن آئینے نے کہا ”ملکہ عالیہ بے شک آپ خوبصورت ہیں لیکن آپ سے زیادہ خوبصورت آپ کی سوتیلی بیٹی ھما ہی ہے۔اور وہ اب بھی زندہ سلامت اپنی جھونپڑی میں موجود ہے۔اس مرتبہ ملکہ نے فروٹ بیچنے والی عورت کا بھیس بدلا اور جنگل میں جا پہنچی۔جھونپڑی کے قریب پہنچ کر اس نے آواز دی”خوبصورت میٹھے سیب لے لو۔“ھما نے سیب دیکھے تو اس کو بہت پسند آئے۔اسے بونوں کی ہدایت یاد آئی تو اس نے سوچا اگر میں اس بڑھیا سے سیب لے کر کھا لوں تو بونوں کو کیا پتا چلے گا۔یہ سوچ کر اس نے بوڑھی عورت کو قریب بلایا۔عورت نے ایک خوبصورت سرخ سیب اس کو دیتے ہوئے کہا یہ سب سے خوش ذائقہ ہے۔شہزادی نے جیسے ہی سیب دانتوں سے کاٹا وہ جہاں کھڑی تھی وہیں گر گئی۔بوڑھی عورت یعنی ملکہ نے اسے اچھی طرح دیکھا اور جب اطمینان ہو گیا کہ وہ مر گئی ہے تو اپنے محل کی طرف واپس آگئی۔شام کو جب بونے واپس آئے تو انہوں نے شہزادی ھما کو مردہ حالت میں دیکھا۔بونے بہت اُداس ہوئے انہوں نے ھما کو ایک خوبصورت تابوت میں رکھ دیا اور روزانہ اس کے گرد بیٹھے رہتے۔کیونکہ وہ ھما سے محبت کرنے لگے تھے اور کسی بھی طرح اسے کھونا نہیں چاہتے تھے۔چند دن بعد قریبی ملک کے ایک شہزادے کا ادھر سے گزر ہوا اس نے شہزادی کو دیکھا تو بونوں سے کہا وہ شہزادی اس کو دے دیں۔لیکن بونوں نے انکار کر دیا۔شہزادہ بہت اصرار کرتا رہا کہ وہ شہزادی کو لے کر ہی جائے گا کیونکہ اس سے محبت ہو گئی ہے۔آخر شہزادے کے اصرار پر بونوں نے آپس میں صلاح مشورہ کرکے اسے ھما کا تابوت لے جانے کی اجازت دے دی۔شہزادے نے تابوت اُٹھانا چاہا تو وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ لڑکھڑایا اور تابوت اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر گر گیا۔تابوت گرنے کی وجہ سے شہزادی جھٹکے کے ساتھ گری تو اس کے حلق سے سیب کا ٹکڑا نکل کر باہر آ گرا۔اور شہزادی ھما اُٹھ بیٹھی دراصل ملکہ نے سیب کو زہر لگا کر شہزادی ھما کو کھلایا تھا اس لئے وہ سمجھی کہ ھما مر گئی ہے جبکہ سیب کا ٹکڑا حلق میں پھنسنے کی وجہ سے شہزادی بے ہوش ہو گئی تھی۔شہزادی ھما کو اُٹھتے دیکھ کر ساتوں بونے خوش ہوئے۔شہزادے نے فوراً شہزادی سے شادی کی خواہش کی۔بونوں نے مل کر ان دونوں کی شادی کے انتظامات کئے اور کچھ دن بونوں کے پاس رہنے کے بعد ھما کو لے کر شہزادہ اپنے ملک روانہ ہو گیا۔ " ذرا سی لاپرواہی - تحریر نمبر 2144,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zara-si-laparwahi-2144.html,"ارفع زینب چشتی،ڈیرہ غازی خاننادر صاحب ایسے علاقے میں رہتے تھے،جہاں پانی نہیں آتا تھا۔ہر ہفتے ان کو اور ان کے محلے داروں کو پانی دینے کے لئے ایک ٹینکر آتا تھا۔سب محلے دار اپنے اپنے کین بھر لیتے تھے،مگر ہوتا یوں کہ نادر صاحب اپنے کین کے ڈھکن اچھی طرح بند نہ کرتے۔ایسا کرتے کرتے ان کا ایک آدھ ڈھکن گم ہو گیا۔اتوار کا روز تھا۔نادر صاحب اور ان کے بچے چھٹی کا مزہ لے رہے تھے۔اس روز صبح ان کے گھر میں ناشتے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔اچانک پانی کے ایک کین میں چھپکلی جا گری۔کسی کو کچھ پتا نہیں تھا۔نادر صاحب اپنے بڑے بیٹے علی سے بولے:”علی!جاؤ کین سے ایک گلاس پانی بھر کے لاؤ۔“”جی ابو!“علی بولا۔وہ پانی کا گلاس بھر کے لایا۔(جاری ہے)نادر صاحب نے گلاس ہاتھ میں لیا اور پانی پینے لگے۔کچھ ہی دیر میں نادر صاحب کی طبیعت بگڑنے لگی۔علی نے جلدی سے ایمبولینس کو فون کیا۔15 منٹ کے بعد ایمبولینس پہنچ گئی۔نادر صاحب کو لٹایا گیا۔تھوڑی ہی دیر میں ایمبولینس ہسپتال پہنچ گئی۔ہسپتال پہنچ کر ان کو ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔نادر صاحب کے ساتھ بیٹا علی اور ان کی اہلیہ تھیں۔ڈاکٹر کے مطابق ان کی طبیعت مہلک زہر کی وجہ سے خراب ہوئی۔تین دن کے بعد ان کو ڈسچارج کر دیا گیا۔گھر پہنچ کر علی پانی بھرنے گیا تو اس کی نظر چھپکلی پر پڑی۔اس نے چیخ مار کر سب کو بلایا۔اب سب کی سمجھ میں یہ بات آ چکی تھی کہ ذرا سی بھی کاہلی یا لاپروائی نہیں کرنی چاہیے۔ " قول و فعل - تحریر نمبر 2143,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qoul-o-feal-2143.html,"محمد سعد اسد،تونسہ شریفآج عبداللہ اور احسن کی زور دار لڑائی ہوئی۔بات صرف یہ تھی کہ احسن نے عبداللہ کی کہانیوں کی کتاب اُٹھا لی تھی۔عبداللہ کو لڑائی کے لئے اتنا بہانہ کافی تھا۔عبداللہ کا ہاتھ زخمی ہوا تو احسن کے کندھے پر زخم آیا تھا۔ابو آئے تو دونوں کو پاس بلایا۔پیار سے سمجھایا کہ لڑنا اچھا نہیں ہوتا۔بُری بات ہوتی ہے۔تو دونوں شرمندہ ہوئے۔جب دونوں چلے گئے تو ابو نے عبداللہ کو پھر بلایا اور کہا:”بیٹا!تم بڑے ہو۔بڑوں میں صبر و تحمل ہوتا ہے۔بڑے،چھوٹوں کو معاف کر دیتے ہیں۔چھوٹوں سے غلطی ہو جاتی ہے۔انھیں معاف کر دینا چاہیے۔“عبداللہ”جی“کہہ کر چپ ہو گیا اور چلا گیا۔آج گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے۔چائے میں چینی کم تھی۔(جاری ہے)سو چائے بد مزہ ہو گئی تھی۔مہمانوں کے جانے کے بعد ابو نے آکر امی سے خوب جھگڑا کیا۔اچانک عبداللہ بول اُٹھا:”ابو!آپ عمر میں امی سے بڑے ہیں ناں!“ابو نے اثبات میں سر ہلایا۔”تو پھر آپ نے کہا تھا ناں کہ بڑے چھوٹوں کو معاف کر دیتے ہیں۔چھوٹے آخر چھوٹے ہوتے ہیں۔ان سے غلطی ہو جاتی ہے۔تو معاف کر دیں ناں امی کو۔“امی نے معنی خیز نظروں سے ابو کی طرف دیکھا۔ابو کا سر مارے شرم کے جھک گیا۔عبداللہ کی باتیں واضح طور پر کہہ رہی تھیں کہ آپ ہمیں تو اچھی باتوں پر عمل کا درس دیتے ہیں،مگر خود اُن پر عمل نہیں کرتے۔بعض اوقات ہم دوسروں کو اچھی باتوں پر عمل کرنے کی نصیحت کرتے ہیں،مگر خود عمل نہیں کرتے۔ " انتقام - تحریر نمبر 2142,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/intiqam-2142.html,"فاطمہ ناہید،کراچیکسی جنگل میں ایک گھوڑا اور ہرن دو دوست رہتے تھے۔ایک دفعہ کسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔ہرن کافی پھُرتیلا تھا،لڑائی مار پیٹ تک پہنچ گئی۔گھوڑے کو زیادہ چوٹیں آئی تھیں۔دونوں ایک دوسرے سے دور بیگانوں کی طرح رہنے لگے۔ایک دن گھوڑے نے جنگل میں ایک شکاری کو دیکھا تو اس نے سوچا کہ ہرن سے انتقام لیا جائے۔وہ شکاری کے پاس گیا اور پوچھا:”کیا تم کسی ہرن کو شکار کرنے آئے ہو؟“شکاری:”ہاں!“گھوڑے نے کہا:”میں تمہیں ایک ہرن کا ٹھکانہ بتا سکتا ہوں۔“شکاری دل ہی دل میں خوش ہوا،یعنی ایک تیر سے دو شکار۔اس نے گھوڑے سے کہا:”اگر تم میری مدد کرو تو کیا ہی بات ہے!کیا میں تمہاری پیٹھ پر بیٹھ جاؤں؟“گھوڑا فوراً راضی ہو گیا۔(جاری ہے)شکاری نے پھر کہا:”اگر تمہیں تکلیف نہ ہو تو میں تمہارے منہ میں لگام ڈال دوں؟“گھوڑے نے پوچھا:”اس سے کیا ہو گا؟“شکاری نے کہا:”جیسے ہی مجھے ہرن نظر آئے گا میں تمہاری لگام اس طرف موڑ دوں گا۔“آخر شکاری نے گھوڑے کو لگام ڈالی اور زور سے کھینچا۔ہرن کے ٹھکانے پر پہنچ کر گھوڑا ہرن کے پیچھے دوڑا۔کچھ دور جا کر ہرن نڈھال ہو گیا۔شکاری نے ہرن کو گولی مار دی۔گھوڑے کا انتقام تو پورا ہو گیا،لیکن وہ آج تک اسی لگام سے بندھا زندگی گزار رہا ہے۔ " آخری دس دن - تحریر نمبر 2140,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aakhri-das-din-2140.html,"سیدہ ماہم،شاہ فیصل کالونیچھٹیوں کے دن ختم ہونے میں آخری دس دن باقی تھے اور میں ہمیشہ کی طرح کتابوں کا پہاڑ سامنے رکھ کر بیٹھ گئی تھی اور ہر بار کی طرح اس بار بھی میں نے چھٹیوں کے آغاز میں سوچا تھا کہ سارا کام پہلے ہی کر لوں گی،مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی اس پر عمل نہیں کر سکی اور پھر وہی ہوا کہ آخری کے دس دنوں میں کتابوں کا پہاڑ سامنے رکھ کر بیٹھ گئی اور اپنی قسمت کو کوستی اور خود کو تسلی دیتی کہ میری کوئی غلطی نہیں ہے کام ہی بہت زیادہ ہے۔(جاری ہے)دو مہینے کی چھٹیوں کے ان آخری دس دنوں میں کام کم کرتی اور یہ فقرہ زیادہ دہراتی تھی کہ ننھی سی جان اور اتنا سارا کام۔جیسے تیسے آدھا اور ادھورا کام کرکے سکول گئی سکول میں پورا کام نہ کرنے پر ڈانٹ پڑی۔میں نے گھر جا کر یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ سے ہر سال چھٹیوں کے شروع میں ہی سارا کام کر لوں گی۔اس بار بھی میں کچھ ایسا ہی فیصلہ کرنے لگی تو مجھے یاد آ گیا کہ میں اگلے سال سے اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لوں گی،جس میں حاضری کی پابندی نہیں ہوتی،یعنی چھٹیاں ہی چھٹیاں۔ " سانپ کی خصلت - تحریر نمبر 2139,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sanp-ki-khaslat-2139.html,"حسنین گل،کراچیموسم سرما کی چھٹیوں میں ہم گاؤں گئے تو وہاں میرے چچا زاد بھائی نے بتایا کہ کچھ دن پہلے یہاں ایک لڑکے کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔تفصیل پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس لڑکے کو خطرناک جانور پالنے کا شوق تھا۔ایک دفعہ اسے ایک چھوٹا سا سانپ ملا۔اس نے سانپ کو بڑی سی بوتل میں بند کر دیا اور روزانہ اس میں دودھ ڈالنے لگا۔(جاری ہے)رفتہ رفتہ سانپ بڑا ہوتا گیا۔ایک دن اس لڑکے نے سوچا کیوں نہ میں اسے آزاد کر دوں۔اس نے سوچا ڈسنا تو اسے آتا نہیں ہے،کیونکہ اس نے ہمیشہ دودھ ہی پیا ہے۔پھر اس نے جیسے ہی بوتل کا ڈھکن کھولا سانپ باہر نکلا اور اسے ڈس لیا۔اس لڑکے کے آخری الفاظ یہ تھے کہ جس کے ساتھ نیکی کرو،اس کے شر سے بھی بچو،اور میں سوچنے لگا کہ واقعی سانپ،بچھو اور بعض لوگوں میں وفا نہیں ہوتی۔اگر ان کے ساتھ نیکی کی جائے تو ان کے شر سے بھی بچنا چاہیے۔ " غرور کی سزا - تحریر نمبر 2138,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gharoor-ki-saza-2138.html,"ایمن شاہد،میرپور خاصوجیہ آج بہت خوش تھی۔اسے سکول کے تقریری مقابلے میں تقریر کرنی تھی۔وہ ایک لائق اور فرمانبردار لڑکی تھی۔وہ اچھی قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی مقررہ بھی تھی،مگر اسے اپنی قابلیت پر غرور بھی بہت تھا۔استاد بھی اس سے خوش تھے،لیکن اس کے تکبر پر اسے سمجھاتے بھی رہتے تھے۔ان ہی دنوں اس کی جماعت میں ایک نئی لڑکی نایاب آئی تھی۔وہ بھی ایک اچھی مقررہ تھی،لیکن مغرور نہیں تھی،اس لئے سب کو اچھی بھی لگتی تھی۔اساتذہ بھی اس سے زیادہ خوش تھے۔وجیہ اس سے حسد کرنے لگی تھی۔جب کہ نایاب اس سے دوستی کرنا چاہتی تھی۔وجیہ کو یہ خیال ہمیشہ پریشان کرتا کہ نایاب کی وجہ سے اس کی قدر کم ہوئی ہے،اس لئے وہ اس سے حسد کرنے لگی تھی۔(جاری ہے)آج وہ زیادہ اچھی تقریر کرکے نایاب کو نیچا دکھانا چاہتی تھی۔وہ سمجھتی تھی کہ بہترین مقررہ ہونے کی وجہ سے کوئی اس سے نہیں جیت سکتا۔اسی خیال کے تحت اس نے ایک بار بھی تقریر کو صحیح طریقے سے نہیں پڑھا۔اس کے برعکس نایاب تیاری کرتی رہی۔جب وجیہ تقریر کرنے گئی تو وہ کئی جگہ اٹکی اور تقریر روانی سے نہ کر سکی۔جب کہ نایاب نے بڑے اعتماد سے کہیں رکے بغیر روانی سے تقریر کی۔وجیہ اب بھی سمجھ رہی تھی کہ پہلا انعام تو اسی کا ہو گا۔جب اسٹیج پر پہلے انعام کے لئے نام پکارا جانے لگا تو وہ کھڑی ہونے ہی والی تھی کہ آواز آئی ”نایاب صدیقی“ نایاب اسٹیج پر اپنی محنت کا پھل وصول کرنے چلی گئی۔وجیہ حیران کھڑی تھی کہ اسے دوسرے انعام کے لئے بلایا جائے گا،مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دوسرے انعام کے لئے بھی اسے نہیں پکارا گیا۔اور پھر تیسرا انعام بھی اس کو نہیں دیا گیا تو وہ بوجھل قدموں سے اپنے گھر کی طرف چل دی۔آج اسے اس کے تکبر کی سزا مل گئی تھی۔ " دو اُستاد - تحریر نمبر 2137,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/do-ustad-2137.html,"آمنہ ظفر،کراچیکسی تقریب میں کوئی صاحب اپنے ایک واقف کار بزرگ سے کافی عرصے بعد ملے اور پوچھا:”جناب!کیا آپ نے مجھے پہچانا؟“بزرگ نے غور سے دیکھا اور کہا:”ہاں میں نے آپ کو پہچان لیا ہے۔آپ پرائمری سکول میں میرے شاگرد رہ چکے ہیں۔کیا کر رہے ہیں آج کل؟“شاگرد نے جواب دیا:”میں بھی آپ کی طرح سکول ٹیچر ہوں اور ٹیچر بننے کی یہ خواہش مجھ میں آپ ہی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔“اُستاد نے پوچھا:”وہ کیسے؟“شاگرد نے جواب دیا:”آپ کو یاد ہے کہ ایک بار کلاس کے ایک لڑکے کی بہت خوبصورت گھڑی چوری ہو گئی تھی اور وہ گھڑی شرارت میں میں نے چرائی تھی۔آپ نے پوری کلاس سے کہا تھا کہ جس نے بھی گھڑی چرائی ہے،واپس کر دے۔(جاری ہے)میں گھڑی واپس کرنا چاہتا تھا،لیکن شرمندگی سے بچنے کے لئے ایسا نہ کر سکا۔آپ نے تمام طلبہ کو دیوار کی طرف منہ کرکے اور آنکھیں بند کرکے کھڑے ہونے کا حکم دیا،پھر سب کی جیبوں کی تلاشی لی اور میری جیب سے گھڑی نکال کر بھی سب کی تلاشی لی۔بعد میں میرا نام لیے بغیر وہ گھڑی جس کی تھی،اسے دے دی۔مجھے حیرت تھی کہ آپ نے میری اس حرکت پر مجھے شرمندہ نہ کیا۔میں نے اسی دن سے اُستاد بننے کا تہیہ کر لیا تھا۔“بزرگ مسکرائے اور کہا:”اصل بات کچھ یوں ہے کہ تلاشی کے دوران میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لی تھی۔مجھے بھی آج ہی پتا چلا ہے کہ وہ گھڑی آپ نے چرائی تھی۔“کیا ہم ایسے کردار کے مالک بن سکتے ہیں جو اپنے اعمال سے دوسروں کو نیک جذبات کی ترغیب دے سکیں نہ کہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر لوگوں کے سامنے انھیں شرمندہ کریں۔ " جادوئی طوطا - تحریر نمبر 2136,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jaadui-toota-2136.html,"مصباح آصف،احمد پور شرقیہکسی گاؤں میں ایک لڑکا اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔لڑکا محنت مزدوری کرکے گزر بسر کرتا تھا۔والد کا انتقال ہو چکا تھا۔لڑکے کو جانور پالنے کا بہت شوق تھا۔ایک دن لڑکا چھت پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک اس کو ایک طوطا نظر آیا۔اس نے اس طوطے کی طرف دیکھا تو وہ اس کے قریب آ گیا۔جیسے وہ اس سے دوستی کرنا چاہتا ہو۔اس نے طوطے کو آسانی سے پکڑ کر پنجرے میں محفوظ کر لیا۔اگلے دن جب لڑکا کام پر جا رہا تھا تو اس نے سنا کہ بادشاہ کی بیٹی پر کسی نے جادو کر دیا ہے اور وہ بہت بیمار ہے۔ایک جادوگر کو علاج کے لئے بلایا گیا تو اس نے بتایا کہ اس کا جادوئی طوطا اُڑ گیا ہے۔وہ مل جائے تو اس کے ذریعے شہزادی کی جان بچ سکتی ہے۔بادشاہ نے اس طوطے کو پکڑنے والے کے لئے منہ مانگے انعام کا اعلان کر دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ طوطا صرف دن کی روشنی میں نظر آتا ہے۔(جاری ہے)لڑکا کام سے فارغ ہو کر گھر گیا تو رات ہو چکی تھی۔جب وہ کھانا کھا کر اوپر سونے کے لئے گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا طوطا پنجرے میں نہیں ہے۔جب کہ پنجرے کا دروازہ بھی بند تھا۔لڑکا بہت اُداس ہو گیا۔جب وہ صبح اُٹھا تو دیکھا کہ طوطا پنجرے میں ہی موجود ہے۔اسے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔اچانک اسے وہ اعلان یاد آگیا جس کے بارے میں اعلان کیا گیا تھا کہ طوطا رات کو نظر نہیں آتا۔وہ اپنی ماں کے ساتھ اس طوطے کو لے کر محل گیا۔جادوگر جو پہلے سے شہزادی کے پاس موجود تھا لڑکے کو دیکھ کر اس سے اپنا طوطا لیا اور اس کا ایک پَر توڑ کر گیندے کے پھول میں لگایا اور شہزادی کے سرہانے رکھ دیا۔کچھ ہی دنوں میں شہزادی جادو کے اثر سے آزاد ہو گئی۔بادشاہ نے اعلان کے مطابق لڑکے کو مالا مال کر دیا اور ایک شاہی نوکری بھی عطا کر دی۔لڑکا اور اس کی ماں خوشی خوشی رہنے لگے۔ " مینڈک کی نصیحت - تحریر نمبر 2135,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maindak-ki-naseehat-2135.html,"محمد معیز انصاری،کراچیایک دریا میں مینڈکوں کا ایک خاندان رہتا تھا،وہ بہت مزے سے اپنے دن گزار رہے تھے۔اس دریا پر دو بیل روزانہ پانی پینے آتے۔ایک دن مینڈکوں نے دیکھا کہ صرف ایک بیل پانی پینے آیا ہے۔بزرگ مینڈک نے اس بیل سے پوچھا:”میاں بیل!تمہارا ساتھی آج تمہارے ساتھ پانی پینے کیوں نہیں آیا؟“بیل نے بڑی نفرت اور حقارت سے جواب دیا:”ہم دونوں کے درمیان لڑائی ہو گئی ہے۔اس لئے میں اکیلا یہاں آیا ہوں۔“جب بیل پانی پی کر چلا گیا تو بزرگ مینڈک نے بچوں سے کہا:”بچوں!جتنی جلدی ممکن ہو،اس دریا کے کنارے کو چھوڑ کر کہیں اور جا کر بسیرا کر لو۔“بچوں نے وجہ پوچھی تو بزرگ مینڈک نے کہا:”جہاں نا اتفاق اور دشمنی جنم لے لے وہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔(جاری ہے)“ایک نوجوان مینڈک اکڑ کر کہنے لگا:”تم جانا چاہتے ہو تو خوشی سے جاؤ،میں تو یہی رہوں گا۔بھلا بیلوں کی دشمنی کا ہم سے کیا تعلق۔“بزرگ مینڈک اپنے خاندان کو لے کر دریا کے دوسرے کنارے پر چلا گیا اور نا سمجھ مینڈک وہیں رہ گیا۔ایک دن ایسا ہوا کہ دونوں بیل ایک ساتھ پانی پینے آ نکلے۔پہلے انہوں نے ایک دوسرے کو نفرت سے دیکھا اور پھر دونوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔دونوں بیل لڑتے لڑتے لہو لہان ہو گئے۔نوجوان مینڈک مزے سے لڑائی دیکھ رہا تھا کہ بیل لڑتے لڑتے اس پر آن چڑھے۔مینڈک ان کے پاؤں کے نیچے آ کر کُچلا گیا۔مرنے سے پہلے نادان مینڈک کو بزرگ مینڈک کی نصیحت بہت یاد آئی کہ لڑائی اور دشمنی صرف لڑنے والوں کے لئے نہیں،بلکہ وہاں رہنے والوں کے لئے بھی خطرناک ہوتی ہے۔ " بڑوں کا ادب - تحریر نمبر 2133,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baron-ka-adab-2133.html,"احمد علی،رحیم یار خانقاسم ایک بہت ہی ذہین بچہ تھا۔وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔کلاس کے ذہین ترین طلبہ میں اس کا شمار ہوتا تھا۔قاسم کو اللہ تعالیٰ نے ذہن تو اچھا دیا تھا،لیکن وہ بڑوں کا ادب نہیں کرتا تھا۔اساتذہ کرام کی نقل اُتارنا،چوری چھپے ان پر جملے کسنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔وقت گزرتا گیا اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔اسی سلسلے میں اس نے ایک ہوٹل میں دوستوں کو پارٹی دی۔وہ پارٹی میں شرکت کے لئے اپنی موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک تیز رفتار کار نے اسے ٹکر ماری۔کار ڈرائیور تو وہاں سے رفو چکر ہو گیا،البتہ قاسم وہیں کراہتا رہا۔کچھ لوگوں نے انسانی ہمدردی کے تحت اسے ہسپتال پہنچایا۔وہاں پر اس کے گھر والوں کو بلایا گیا۔(جاری ہے)کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے اس پر نقاہت اور کمزوری طاری تھی۔اس کی ٹانگوں پر کافی زخم آئے تھے۔نتیجتاً اس کی دائیں ٹانگ کاٹ دی گئی۔کافی عرصے تک وہ بستر سے لگا رہا۔اس کے دوست عیادت کے لئے اس کے پاس آئے۔رفتہ رفتہ وہ بے ساکھیوں کے سہارے چلنے کے قابل ہوا تو اب اس نے پڑھائی کو خیر آباد کہہ کر نوکری کی تلاش شروع کی،لیکن ایک ٹانگ سے معذور شخص کو کیا نوکری مل سکتی تھی۔آخر اسے ایک سکول میں معمولی سکول ٹیچر کی نوکری مل گئی۔جب وہ لنگڑا کر کلاس میں داخل ہوتا تو چند شریر بچے اس کی نقل اُتارتے اور جب وہ ان کی طرف دیکھتا تو وہ معصوم بن جاتے۔ان بچوں کو دیکھ کر اسے اپنا ماضی یاد آ جاتا․․․․اور سوچتا کہ کاش!میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب کرتا تو شاید مجھے یہ دن ہی نہ دیکھنے پڑتے۔اب صرف وہ تھا یا اس کا بیمار،لاچار اور معذور بدن یا پھر اس کا پچھتاوا۔ " مغرور بھنڈی - تحریر نمبر 2132,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maghroor-bhindi-2132.html,"اقراء گل،کراچیگئے وقتوں کی بات ہے۔گرمی شروع ہو چکی تھی اور شدت سے بڑھ رہی تھی۔ہر انسان گرمی میں پسینے سے شرابور ہو رہا تھا اور یہی حال سبزیوں کا بھی تھا۔گاؤں میں بہت سے کھیت تھے۔ان کھیتوں میں کچھ سبزیاں اُگی ہوئی تھیں۔اچانک کسی کے چیخنے کی آواز آئی۔ڈر کے مارے آلو میاں،لیمو،ٹماٹر،بینگن،کدو اور مرچیں اکٹھے ہو کر ایک ساتھ آواز کی طرف دیکھنے لگے۔انھیں پتا تھا کہ یہ آواز مغرور بھنڈی کی ہے۔اسی وقت کھیت سے ایک لمبی اور اسمارٹ سی بھنڈی آ نکلی:”ہائے ہائے!کتنی گرمی ہے اور کتنی تیز دھوپ چمک رہی ہے،ارے ہٹو ہٹو یہاں سے آلو!ہر وقت آ کے کھڑے ہو جاتے ہو سر پر،اوپر سے اتنے موٹے موٹے ہو کہ بس۔ارے میری طرح اسمارٹ رہا کرو، خوبصورت رہا کرو۔(جاری ہے)ارے ہاں،میں تو بھول ہی گئی خوبصورتی تو تم لوگوں کو چھو کے بھی نہیں گزری۔خاص طور پر آلو میاں!تم کتنے گندے رہتے ہو اور کتنے موٹے ہو اور تمہیں کھانے والا بھی موٹا ہو جاتا ہے۔“ان ساری باتوں سے آلو کا دل بہت دکھا۔آلو دل کا اچھا تھا۔وہ ہمیشہ اس کی باتوں کو نظر انداز کرتا اور وہ بھنڈی کو کچھ نہیں کہتا تھا۔یہ بات ساری سبزیوں کو پتا تھی۔بھنڈی بہت مغرور تھی۔وہ ہمیشہ اپنے آپ کو خوبصورت سمجھتی تھی۔وہ ساری سبزیاں بھنڈی کو پسند نہیں کرتی تھیں، جب کہ سب آلو کو پسند کرتی تھیں۔بھنڈی کو یہ بات بہت بُری لگتی تھی۔اسے آلو سے بہت چڑ تھی۔ایک دن آلو نے ساری سبزیوں سے کہا کہ بھنڈی سے میری صلاح کرا دیں۔وہ سب بھنڈی کی طرف چل پڑے۔جب بھنڈی کو یہ پتا چلا تو بھنڈی نے ساری سبزیوں کو کھری کھری سنائی اور خوب بے عزتی کی۔آلو کو اس کے موٹے ہونے کا طعنہ دیا،جس سے آلو میاں کا دل ٹوٹ گیا اور بھنڈی کو بہت بُری بد دعا دی۔آپ لوگوں نے تو مشاہدہ کیا ہی ہو گا کہ اکثر جب آپ لوگ بھنڈی پکاتے ہیں اسے اکیلا یا صرف گوشت کے ساتھ پکاتے ہیں۔بھنڈی کے علاوہ کچھ اور سبزی بناتے ہیں تو آپ اس میں آلو ڈالتے ہوں گے۔جیسے کہ آلو مٹر،آلو پالک،آلو گوبھی،آلو ٹماٹر،آلو مرچیں اور بھی بہت سی سبزیاں ہیں جو آلو کے ساتھ اچھی لگتی ہیں۔اگر آپ بھنڈی کے ساتھ آلو ڈال بھی دیں تو آپ کو کھانے میں مزہ نہیں آئے گا،کیونکہ آلو ساری سبزیوں کا دوست ہے اور بھنڈی کو کوئی خاص پسند نہیں کرتا۔یہ ہے مغرور بھنڈی کا انجام۔یقینا میری طرح آپ کو بھی آلو بہت پسند ہو گا۔ " خواہش کا انجام - تحریر نمبر 2131,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khawahish-ka-anjaam-2131.html,"روبینہ کوثریونان پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔بادشاہ کو دولت سے بہت پیار تھا۔سونے کا تو وہ دیوانہ تھا اسے دن رات ایک ہی فکر تھی کہ زیادہ سے زیادہ سونا جمع کیا جائے۔جب وہ صبح سویرے سورج کی کرنوں کو دیکھتا تو اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی کہ کاش یہ سنہری کرنیں جس چیز پر پڑیں اسے سونے کا بنا دیں۔سونے کی اینٹوں،برتنوں اور زیورات سے بھرا بادشاہ کا خزانہ محل کے ایک تہہ خانے میں تھا۔بادشاہ کو جب فرصت ملتی وہ تہہ خانے میں چلا جاتا سونے کی اینٹوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا۔سونے کے برتنوں کو اُٹھا اُٹھا کر دیکھتا۔ایک دن بادشاہ تہہ خانے میں سونے کی چیزوں کو دیکھ رہا تھا۔اچانک کمرے میں روشنی پھیل گئی۔بادشاہ چونک گیا۔کمرہ ہر طرف سے بند تھا۔(جاری ہے)روشنی کہاں سے آگئی ابھی وہ یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ روشنی کے درمیان میں ایک شخص نظر آیا بادشاہ سمجھ گیا کہ بند کمرے میں آنے والا کوئی عام شخص نہیں ہو سکتا۔ضرور یہ کوئی خاص آدمی ہو گا۔بادشاہ کے کچھ بولنے سے پہلے ہی اس شخص نے کہا بہت سونا جمع کر رکھا ہے آپ نے۔بادشاہ نے کہا یہ تو بہت تھوڑا ہے میری خواہش ہے کہ اس طرح کے کئی خزانے ہوں۔اجنبی حیران ہو کر بولا۔اتنی دولت سے بھی تمہارا دل نہیں بھرا۔بادشاہ نے کہا دولت سے بھی بھلا کسی کا دل بھرتا ہے۔یہ تو جتنی بھی مل جائے کم ہے اجنبی نے کہا تم چاہتے کیا ہو۔بادشاہ نے جواب دیا میں چاہتا ہوں کہ جس چیز کو میں ہاتھ لگاؤں وہ سونے کی بن جائے۔اجنبی نے کہا ٹھیک ہے کل صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی تم جس چیز کو ہاتھ لگاؤ گے وہ سونے کی بن جائے گی۔اس کے ساتھ ہی اجنبی نے بادشاہ سے کہا ایک منٹ کے لئے آنکھیں بند کرو۔ بادشاہ نے آنکھیں بند کر لیں اور جب دوبارہ کھولیں تو کمرے میں وہ اکیلا تھا۔اجنبی جا چکا تھا۔دوسرے دن بادشاہ کی آنکھ صبح سویرے ہی کھل گئی۔وہ بہت خوش تھا جوں ہی سورج طلوع ہوا۔سورج کی سنہری کرنیں اندر آئیں۔بادشاہ حیران رہ گیا۔بادشاہ جس چیز کو ہاتھ لگاتا وہ سونے کی بن جاتی بستر کی چادر سونے کی بن گئی اس نے میز پر سے عینک اُٹھا کر آنکھوں پر لگائی اسے کچھ نظر نہ آیا کیونکہ عینک ساری کی ساری سونے کی بن گئی تھی۔ناشتے کا وقت ہو گیا تھا۔میز پر طرح طرح کے لذیذ کھانے موجود تھے۔بادشاہ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ اتنے میں ننھی شہزادی ہاتھ میں سنہرے رنگ کا گلاب کا پھول لے آئی اس نے روتے ہوئے کہا۔ابا جان میں باغ میں پھول توڑنے گئی تھی لیکن وہ سب پتھر کی طرح سخت ہو گئے ہیں۔پیاری بیٹی بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا اس میں رونے کی کونسی بات ہے۔اب تو یہ سونے کے بن گئے ہیں اور پہلے سے زیادہ خوبصورت اور قیمتی ہو گئے ہیں تم اطمینان سے ناشتہ کرو یہ کہہ کر بادشاہ نے چائے دانی اُٹھا کر پیالی میں چائے ڈالنے کی کوشش کی۔لیکن چائے دانی سونے کی بن گئی پیالی سونے کی اور پیالی میں چائے پگھلا ہوا سونا تھی۔سونا کون پی سکتا ہے اس نے روٹی مکھن انڈے اور مچھلی کھانے کی کوشش کی۔لیکن اس کا ہاتھ لگتے ہی ہر چیز سونا بن جاتی۔میں کھاؤں پیئوں کیسے؟کیسے کھائے پیئے بغیر زندہ رہوں گا۔بادشاہ پریشان ہو گیا۔شہزادی تھوڑے فاصلے پر ہنسی خوشی کھانے میں مصروف تھی۔اس نے سر اُٹھا کر دیکھا تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کا باپ کچھ پریشان سا ہے وہ اس کے پاس آ کر بولی بابا جان خیریت تو ہے آپ پریشان نظر آ رہے ہیں۔بادشاہ نے پیار سے اس کی پیشانی کو چوما بادشاہ کو بالکل یاد نہ رہا کہ اس کے چھونے سے ہر چیز سونے کی بن جاتی ہے شہزادی بھی سونے کی بن چکی تھی اس کے کالے بال سنہری ہو گئے تھے۔جسم پتھر کی طرح سخت ہو گیا تھا یہ دیکھ کر بادشاہ زار و قطار رونے لگا اور کہا اے اللہ یہ میں نے کیا کیا؟کاش میری شہزادی دوبارہ زندہ ہو جائے۔اچانک کل والا اجنبی نمودار ہوا اور مسکرا کر کہنے لگا کہو کیا حال ہے؟اب تو خوش ہو بہت سونا جمع ہو گیا تمہارے پاس۔بادشاہ کہنے لگا”میری بچی میری شہزادی مجھ سے جدا ہو گئی میں کچھ کھا پی نہیں سکتا ایسے سونے کا میں کیا کروں“۔اجنبی نے کہا اس کا مطلب ہے تمہیں حقیقت کا پتہ چل گیا ہے بتاؤ سونا اچھا ہے یا پانی کا ایک گھونٹ بادشاہ نے جواب دیا پانی کا ایک گھونٹ اجنبی نے پھر پوچھا سونا اچھا ہے یا روٹی کا ایک نوالہ بادشاہ نے کہا روٹی کا ایک نوالہ دنیا بھر کا سونا بھی روٹی کے نوالے کا مقابلہ نہیں کر سکتا اجنبی نے پھر پوچھا سونا اچھا ہے یا پھر بیٹی۔بادشاہ چیخ کر بولا”میری پیاری بیٹی پر میں اپنا تمام خزانہ قربان کرنے کو تیار ہوں“۔اجنبی نے کہا ٹھیک ہے تم تالاب میں جاؤ اور اس کا پانی تمام چیزوں پر چھڑکو جو تمہارے چھونے سے سونے کی بن گئی تھیں اور آئندہ سچے دل سے توبہ کرو کہ آئندہ کبھی اس طرح دولت کا لالچ نہیں کرو گے۔بادشاہ نے سچے دل سے توبہ کی اور تالاب میں کود گیا۔پھر اس نے پانی لا کر تمام چیزوں پر چھڑکا ہر چیز اصلی حالت میں آگئی شہزادی پر چھڑکا تو وہ پھر گوشت پوست کی لڑکی بن گئی اس نے حیرت سے پوچھا بابا میرے کپڑے کیسے گیلے ہو گئے یہ تو خشک تھے بادشاہ نے اسے گلے لگایا اور اسے پوری بات بتائی پھر باپ بیٹی نے مل کر ناشتہ کیا اور باغ میں جا کر پھولوں کی خوشبو سے لطف اُٹھانے لگے۔ " جادو کا شیشہ اور شہزادی - تحریر نمبر 2130,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jadu-ka-sheesha-aur-shehzadi-2130.html,"بہت عرصہ ہوا ایک ملک پر بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا۔اس بادشاہ کی ایک بیٹی تھی۔شہزادی بہت خوبصورت تھی۔اس کا نام ھما تھا۔ھما ابھی چھوٹی سی تھی کہ ملکہ کا انتقال ہو گیا اور بادشاہ نے کچھ دنوں بعد دوسری شادی کر لی۔بادشاہ کی دوسری بیوی بھی خوبصورت تھی اور وہ تھوڑی سی مغرور بھی تھی۔نئی ملکہ کے پاس ایک جادو کا شیشہ تھا۔ملکہ روزانہ صبح اُٹھ کر تیار ہوتی اور جادو کے شیشے سے پوچھتی ”شیشے شیشے ذرا یہ تو بتاؤ اس دنیا میں سب سے خوبصورت کون ہے؟“ شیشہ جواب دیتا ”بے شک ملکہ عالیہ آپ ہی سب سے خوبصورت ہیں۔“یہ جواب سن کر ملکہ بہت خوش ہوتی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ھما بڑی ہوتی گئی۔اور اس کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ایک روز ایسا ہوا کہ ملکہ نے حسب معمول جب شیشے سے پوچھا کہ سب سے خوبصورت کون ہے تو شیشے نے اس کو جواب دیا کہ ملکہ عالیہ بے شک آپ سب سے خوبصورت تھیں لیکن اب آپ کی سوتیلی بیٹی ھما سب سے خوبصورت ہے۔(جاری ہے)شیشے کا جواب سن کر ملکہ غصے سے آگ بگولا ہو گئی۔اس نے اپنے خاص ملازموں کو بلا کر حکم دیا کہ شہزادی ھما کو دور جنگل میں لے جا کر قتل کر دیں۔ملازم ھما کو لے کر جنگل چلے گئے۔جنگل پہنچ کر شہزادی کو قتل کرنے لگے تو ان کو اس پر بہت ترس آیا۔ایک ملازم نے اپنے ساتھیوں سے کہا ”کیوں نہ ہم شہزادی ھما کو چھوڑ دیں“ یہ سن کر باقی ملازموں نے ھما سے کہا تم اس جنگل میں کہیں بھاگ جاؤ اور واپس اپنے ملک میں نہ آنا ورنہ ملکہ تمہارے ساتھ ساتھ ہمیں بھی مروا دے گی۔شہزادی نے جان بخشی پر ملازموں کا شکریہ ادا کیا اور گھنے جنگل کے اندر ایک سمت چل پڑی۔کچھ دور جا کر ھما کو ایک چھوٹی سی جھونپڑی نظر آئی۔ھما اس جھونپڑی میں داخل ہو گئی۔اس نے اندر جا کر دیکھا کہ گھر میں کوئی ذی روح موجود نہیں تھا۔گھر کے اندر ایک چھوٹی سی میز رکھی تھی اور اس میز کے گرد سات چھوٹی چھوٹی کرسیاں رکھی تھیں۔جبکہ اس گھر کے ایک بیڈ روم میں چھوٹے چھوٹے سات بیڈ لگے ہوئے تھے۔شہزادی وہاں لیٹ کر سو گئی۔کافی وقت گزرنے کے بعد شہزادی ھما نیند سے بیدار ہوئی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ سات چھوٹے چھوٹے آدمی اس کے گرد کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔وہ سات بونے تھے۔جو ایک ہیرے کی کان میں کام کرتے تھے اور اب کام سے چھٹی کرکے واپس آگئے تھے۔انہوں نے شہزادی ھما سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور یہ کہ اس جھونپڑی میں کیسے آئی؟اس پر ھما نے ان بونوں کو محل سے جنگل میں آنے تک اپنی داستان سنا دی۔شہزادی ھما کی داستان سن کر بونوں نے اسے کہا ٹھیک ہے اب تم اس گھر میں ہمارے ساتھ رہو اور گھر کے کاموں میں ہمارا ہاتھ بٹایا کرو۔لیکن ایک بات یاد رکھنا جب ہم لوگ گھر پر موجود نہ ہوں تو کسی بھی اجنبی کو گھر میں نہ آنے دینا۔دوسری طرف ملازموں نے واپس جا کر ملکہ کو بتایا کہ انہوں نے شہزادی کو قتل کر دیا ہے تو وہ بہت خوش ہوئی اور بھاگی ہوئی اپنے کمرے میں لگے جادو کے شیشے کے پاس جا کر بولی ”شیشے شیشے اب بتا اس دنیا میں سب سے خوبصورت کون ہے؟“شیشے نے کہا”بلاشبہ شہزادی ھما ہی سب سے خوبصورت ہے اور وہ جنگل میں ایک جھونپڑی میں رہتی ہے“یہ جواب سن کر ملکہ کو بہت غصہ آیا۔اس نے گھر گھر جا کر چیزیں بیچنے والی عورت کا بھیس اختیار کیا اور جنگل میں چلی گئی۔تھوڑی سی تلاش کے بعد ملکہ کو وہ جھونپڑی مل گئی جس میں شہزادی ھما ٹھہری ہوئی تھی۔ملکہ نے جھونپڑی کے دروازے پر دستک دی۔ھما نے دیکھا ایک بوڑھی عورت ہاتھ میں ٹوکری پکڑے کھڑی ہے اور اس میں خوبصورت ربن رکھے ہیں۔پیارے پیارے رنگوں کے ربن دیکھ کر ھما کا دل للچانے لگا اور وہ بالکل بھول گئی کہ بونوں نے اسے کسی اجنبی سے ملنے سے منع کیا تھا۔(جاری ہے) " سفید بلی (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2129,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/safaid-billi-aakhri-hissa-2129.html,"ڈاکٹر تحسین فراقیدوسری طرف میرغضب حاکم کے ہاں اپنا کام انجام دینے کے بعد اس سے اجازت کا طالب ہوا کہ اپنے گھر لوٹے۔اسی دوران ایک دوست نے اس سے بچی کا حال احوال پوچھا۔میرغضب نے کہا:”بچی بالکل ٹھیک ہے“۔ساتھ ہی دوست کو یہ بھی بتایا کہ ہمارے گھر میں ایک ہوشمند اور وفادار سفید بلی بھی ہے اور اس وقت اکیلی بچی کے ساتھ ہے اور اس کا جھولا جھلا رہی ہے۔دوست ہنسا اور بولا:”تم بھی کتنے سادہ ہو کہ تنہا بچی کو بلی کے سپرد کر آئے ہو،بلی جو نادان ہوتی ہے۔کیا خبر جب تم گھر لوٹو اس نے بچی کو مار ڈالا ہو“۔اس کے لئے یہی بہت ہے کہ بچی اس کی دم کھینچے اور وہ غضبناک ہو کر اسے اپنے پنجے سے زخمی کر دے۔پھر اس نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ پچھلے برس ایک بلی ایک بچے کی اُنگلی نگل گئی تھی کیونکہ بچے کی اُنگلی روغن دار تھی۔(جاری ہے)میرغضب یہ باتیں سن کر پریشان ہو گیا اور فوراً گھر لوٹا۔راستے میں بھی اسے یہی خیال آتا رہا:”میرا دوست ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا“۔ممکن ہے بلی نے میری بچی کو زخمی کر دیا ہو اور وہ بیچاری میری سادگی اور بے وقوفی کی بھینٹ چڑھ گئی ہو۔وہ یہی سوچتا ہوا چلا آ رہا تھا کہ گھر کے دروازے پر آ پہنچا۔اتفاق سے ابھی تک دایہ بھی واپس نہیں آئی تھی اور بلی سانپ کو مار کر فارغ ہو چکی تھی۔وہ خون سے رنگین اپنے بالوں اور پنجوں کے ساتھ دروازے تک پہنچی تاکہ اپنی دانست میں مالک کی خدمت انجام دینے اور خطرناک سانپ کو ٹھکانے لگانے کی خبر اسے دے۔جونہی میرغضب نے دروازہ کھولا اور بلی کے بالوں اور پنجوں کو خون میں لت پت دیکھا،اس نے قیاس کیا کہ بلی نے یقینا بچی کو مار ڈالا ہے اور چونکہ گھر پہنچنے سے پہلے وہ ایسے ہی خیالوں میں گم تھا،سخت غضبناک ہوا،تلوار کھینچی اور ایک ہی ضرب سے سفید بلی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔پھر وہ بھاگا بھاگا جھولے کے قریب آیا تاکہ دیکھے کہ بچی پر کیا بیتی۔جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ایک کالا ناگ مرا پڑا ہے اور بچی صحیح سلامت ہے۔تب وہ سمجھا کہ بیچاری بلی نے کتنی عظیم خدمت انجام دی تھی۔وہ اپنے وہم اور جلد بازی میں بلی سے انتقام لینے پر بہت پشیمان ہوا اور فوراً پلٹا تاکہ مہربان بلی کی دلجوئی کرے لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔بلی زندہ نہ تھی۔تب میرغضب نے اپنے آپ سے کہا:جس طرح میں نے بلی کو سبق سکھانے میں غلطی کی اور صبر سے کام نہ لیا تاکہ میں اصل حقیقت کو سمجھ پاؤں اسی طرح ممکن ہے کہ حاکم بھی لوگوں کو سبق سکھانے میں جلد بازی سے کام لے اور میرے ہاتھ سے کسی کے حق میں ظلم ہو جائے اور پھر․․․․اسی دن․․․․․میرغضب نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور کوئی دوسرا پیشہ اختیار کر لیا۔ " امدادِ باہمی - تحریر نمبر 2128,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/imdaad-e-bahmi-2128.html,"رشنا جما الدین،کراچیبھالو کو بہت بھوک لگی تھی۔لمبے درختوں کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے سر اوپر اُٹھایا تو اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔وہاں شہد کا بڑا سا چھتا موجود تھا۔بھالو درخت کے گرد گھومنے لگا کہ کس طرح اوپر چڑھے درخت بہت لمبا تھا۔ہمت کرکے اس نے درخت پر چڑھنا شروع کیا،لیکن دھڑام سے نیچے گرا۔دوبارہ اُٹھا پھر کوشش کی پر ناکام رہا اور حسرت سے شہد کو دیکھنے لگا۔اچانک اس کے سر پر ایک اخروٹ گرا اس نے اخروٹ دیکھا پھر اوپر نظر اُٹھائی تو ایک گلہری درخت سے نیچے آ رہی تھی بھالو کو دیکھ کر رُک گئی اور بولی:”بھالو بھائی!مجھے بہت بھوک لگی ہے۔بہت دیر سے کوشش کر رہی ہوں اخروٹ نہیں ٹوٹ رہا۔آپ مجھے اخروٹ توڑ کر دے دیں۔“بھالو چڑ کر بولا:”مجھے بھی تو بھوک لگی ہے اتنی دیر سے کوشش کر رہا ہوں،شہد تک نہیں پہنچ پا رہا ہوں۔(جاری ہے)تم مجھے شہد لا دو،میں تمہیں اخروٹ توڑ کے دے دوں گا۔“گلہری بولی:”بھالو بھائی!میں آپ کو کیسے شہد لا کر دوں میرے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں درخت سے نیچے لانے تک بہہ جائے گا۔“بھالو نے کہا:”ہاں تم ٹھیک کہتی ہوں میری نہ سہی تمہارے بھوک مٹ جائے۔“پھر اس نے اخروٹ توڑ کر دیا۔گلہری جلدی جلدی اخروٹ کھانے لگی۔جیسے ہی اخروٹ ختم ہوا اس نے بھالو سے کہا:”ایک منٹ آپ یہاں رکیے۔وہ تیزی سے اوپر گئی اور اخروٹ کے خالی خول میں شہد بھر بھر کے لانے لگی۔بھالو مزے سے شہد کھاتا رہا۔جب خوب سیر ہو گیا تو اس نے گلہری کا شکریہ ادا کیا۔گلہری نے کہا:”اگر آپ میری مدد کرنے میں پہل نہ کرتے تو مجھے بھی آپ کی مدد کرنے کا خیال نہ آتا۔“ " خوشگوار زندگی - تحریر نمبر 2127,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khushgawar-zindagi-2127.html,"محمد شمیر بوسن،مہرے والاہم اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے ناراض ہو جاتے ہیں۔یہ بُری بات ہے۔ہمارے دین میں واضح حکم ہے کہ ہم تین دن سے زیادہ کسی کے ساتھ ناراض نہ رہیں،بلکہ صلح میں پہل کریں۔رشتے بہت عظیم ہوتے ہیں ان کی پاسداری اور تعظیم کریں۔نوک جھوک زندگی کا حسن ہے۔اختلافات،ناراضی،غصہ انسان کی ذات کا حصہ ہیں،مگر کسی انسان کو بُرا سمجھنا،مذاق اُڑانا،اپنے سے کم تر سمجھ کر بے عزتی کرنا،بڑا پن نہیں ہے۔دوسروں سے توقع رکھنے کے بجائے ان کی توقع پر پورے اُترو۔حق مانگنے سے پہلے اپنا فرض ادا کرو۔زندگی آسان ہو جائے گی۔دوسروں سے شکایت کرنے کے بجائے خود اپنے رویے پر غور کرو۔اسی کو اپنے گریبان میں جھانکنا کہتے ہیں۔(جاری ہے)خود احتسابی عمل سے گزریں تو احساس ہوتا ہے کہ کوتاہی اپنی بھی ہے۔ایک اچھے عمل سے تمام رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔معمولی باتوں کو وجہ بنا کر ہم اپنی زندگی کو خراب کرتے چلے جاتے ہیں۔زندگی میں سب کچھ مکمل اور دل پسند نہیں ہوتا ہے اور نہ انسان کو وہ سب کچھ حاصل ہوتا ہے جن کی وہ تمنا کرتا ہے۔صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنا چاہیے۔وہی بہترین فیصلے کرنے والا ہے۔ہر انسان کی ذات،خامیوں اور خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے الگ الگ عادت اور فطرت پر پیدا فرمایا ہے۔کسی انسان کے فائدے کے لئے خود نقصان اُٹھا لینا ایثار کہلاتا ہے۔ہر انسان میں زندگی کی اس کسوٹی پر پورا اُترنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔اپنے اردگرد نظر دوڑاؤ۔تم اگر کسی سے ناراض ہو تو معافی مانگنے میں پہل کرو۔اگر دوسرے کی غلطی ہے تو دل کو صاف کرکے معاف کر دو۔پیار محبت سے آپس میں مل کر خوشگوار زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ " کتاب کی فریاد - تحریر نمبر 2126,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kitab-ki-faryad-2126.html,"مسز سلمیٰ محمد عقیل شاہمیں ایک کتاب ہوں اور اپنے ماضی کو یاد کرکے بہت خوش ہوتی ہوں کہ کیا زمانہ تھا جب ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔میں دلچسپ کہانیاں بھی سناتی،دین کی باتیں بتاتی،سائنسی معلومات سے آگاہ کرتی۔اچھی شاعری سناتی۔میں انھیں ماضی میں بھی لے جاتی اور مستقل میں بھی پہنچا دیتی۔میں تحقیق کرکے ہمیشہ سچی بات بتاتی تھی۔آج کل انٹرنیٹ کی طرح نہیں،جہاں بظاہر معلومات کا طوفان آیا ہوا ہے۔اس طوفان میں حقیقت پکڑنا مشکل ہے۔پہلے ہر محلے میں ایک لائبریری ہوا کرتی تھی۔آنکھوں کو خراب کرنے والا انٹرنیٹ نہیں تھا،اس لئے بچوں اور نوجوانوں کی بینائی اچھی تھی اور ان میں ادبی ذوق بھی تھا۔ٹچ موبائل نے تو نئی نسل سے راتوں کی نیند اور دن کا سکون چھین لیا ہے۔(جاری ہے)آج وقت کی اہمیت کا بھی اندازہ نہیں رہا،نہ کسی کو اپنے نقصان کا ہوش ہے۔ویسے بھی آپ علم بیزار اور کھیل پسند لوگ ہیں۔یہ آپ کا قومی مزاج بن گیا ہے۔انٹرنیٹ ایجاد کرنے والوں نے تو ہم سے یعنی کتابوں سے ناتا نہیں توڑا۔وہاں ہماری اب بھی عزت ہے۔کوئی نئی کتاب آنے والی ہوتی ہے تو ہزاروں کاپیاں محفوظ کروا لی جاتی ہیں۔کتاب مقبول ہو تو قلم کار مالا مال ہو جاتا ہے۔(ہیری پوٹر کی مصنفہ ناول لکھنے سے پہلے ایک مفلس عورت تھی۔ان کا ناول اتنی تعداد میں فروخت ہوا کہ وہ مال دار ہو گئی)۔دوسری طرف وہ نیٹ کے نقصانات سے بھی واقف ہیں،اس لئے انھوں نے دفتری کاموں کے علاوہ اپنے ہاں اس کا استعمال محدود کر دیا ہے،خاص طور پر بچوں کی صحت کی خاطر اس کے استعمال کا دورانیہ بہت کم کر دیا ہے،کیونکہ وہ قومیں باشعور ہیں،وہ صرف ضرورت کے وقت ہی انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ان آلات سے جو تابکاری خارج ہوتی ہے،پورے انسانی جسم کے لئے مضر ہے۔جب کہ کاغذ پر چھپی ہوئی کتاب سے صحت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔لہٰذا اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہ ماریے۔خدارا ہمیں پڑھیے اور روحانی سکون حاصل کیجیے۔ہم ہی وہ کتابیں ہیں،جنہوں نے آج دنیا کو ترقی یافتہ بنایا۔ہمارے قریب آئیے۔ہم ہی آپ کے سچے دوست ہیں۔ " جیت - تحریر نمبر 2125,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jeet-2125.html,"سیدہ زینب علی،کراچیعامر گراؤنڈ پہنچا تو وہاں اسی کا انتظار ہو رہا تھا۔عامر اپنی ٹیم کا کپتان تھا۔ٹاس ہونے لگا۔ٹاس فاخر کی ٹیم نے جیتا اور پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔دونوں طرف سے بھرپور کھیل کا مظاہرہ ہو رہا تھا۔فاخر کی پوری ٹیم بیس اوورز میں 150 رنز بنا سکی۔اب عامر کی ٹیم کی باری تھی۔عامر کی ٹیم نے اچھا آغاز کیا۔اب اسکورنگ کچھ یوں تھی 144 رنز جب کہ صرف تین گیندیں باقی تھیں۔اور دس رنز چاہیے تھے۔میچ بہت سنسنی خیز ہو گیا تھا۔ابھی ناصر بیٹنگ پر تھا۔ایک بال مس ہو گئی،مگر پھر فوراً ہی اس نے ایک زور دار چوکا لگایا۔گویا اب ایک بال پر ایک چھکے کی ضرورت تھی اور ٹیم کی عزت عامر کے ہاتھ میں تھی۔عامر کا دل دھڑک رہا تھا۔آخری گیند پھینکی گئی تو عامر نے پوری قوت سے ہٹ لگائی۔(جاری ہے)فوراً ہی وہ اور اس کی ٹیم کے گویا سانس ہی رُک گئے۔بال باؤنڈری پر کھڑے خرم کے ہاتھوں کی طرف بڑھ رہی تھی،مگر اچانک پھر ایک حیرت انگیز بات ہوئی۔بال خرم کے ہاتھوں سے پھسل کر باؤنڈری پار کر گئی تھی۔بس پھر کیا تھا،عامر کی ٹیم خوشی سے چیخی اور پھر انھوں نے عامر کو اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا۔کچھ دیر کے بعد عامر کو ٹرافی دے دی گئی۔جب وہ ٹرافی لے کر ڈریسنگ روم کی طرف جا رہا تھا تو اس کے کانوں میں فاخر کی آواز آئی۔وہ کہہ رہا تھا:”تم لوگوں نے اتنی بُری کارکردگی کیوں دکھائی؟“کسی نے جواب دیا:”بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے کھیل پر بہت ناز تھا،ہم نے سوچا کہ ہم تو اتنا اچھا کھیلتے ہیں،ہمیں پریکٹس کی کیا ضرورت؟“”پریکٹس بہت ضروری ہوتی ہے کھیل کے لئے،محنت کریں،تبھی تو جیت حاصل ہوتی ہے۔“خرم نے کہا۔عامر سوچ رہا تھا کہ واقعی جو محنت کرتے ہیں،جیت اُنہی کی ہوتی ہے اور جو اپنے اوپر ناز کرتے ہیں،وہ کچھ نہیں کر پاتے۔ " سفید بلی (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2124,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/safaid-billi-pehla-hissa-2124.html,"ڈاکٹر تحسین فراقیپرانے زمانے میں ایک شخص تھا جو ایک حاکم کے ماتحت میرغضب (جلاد) کے فرائض سر انجام دیتا تھا۔جب کسی گنہگار کو کوڑے مارنے کا مرحلہ آتا تو اسے طلب کیا جاتا۔میرغضب کی ایک بیوی تھی،بڑی اچھی اور سلیقہ مند،اور وہ اسے اپنی جان کی طرح عزیز رکھتا تھا۔ابھی ان کا کوئی بچہ نہ تھا۔انہوں نے ایک خوبصورت سفید بلی پال رکھی تھی جو کئی برسوں سے ان کے ہاں رہتی تھی اور ایک معصوم بچے کی طرح ان کی خوشی اور شادمانی کا باعث تھی۔وہ اپنی دلچسپ شرارتوں اور کرتبوں سے انہیں ہنساتی اور خوش رکھتی تھی اور گھر کے چوہوں کی خبر بھی لیتی رہتی تھی۔کچھ عرصہ بعد ان کے ہاں ایک بچی کی ولادت ہوئی مگر میرغضب کی اہلیہ بچی کی ولادت کے دوران شدید بیمار ہو گئی۔(جاری ہے)طبیبوں کے علاج سے کچھ فائدہ نہ ہوا اور وہ چند روز بعد انتقال کر گئی اور نومولود بچی کو تنہا چھوڑ گئی۔بچی بڑی خوبصورت تھی اور میرغضب جو اپنی بیوی کی موت سے بڑا غمگین تھا،بیوی کی اس یادگار کو بہت عزیز رکھتا تھا۔اسے اپنی بچی کی نگہداشت کا بڑا خیال رہتا تھا۔اس نے اس کے لئے ایک دایہ کا اہتمام کیا جو اسے دودھ پلاتی اور اس کی پرورش کرتی۔وہ خود اپنا زیادہ تر وقت گھر پر گزارتا اور گھر کے کاموں میں مشغول رہتا۔سفید بلی بھی پہلے کی طرح اسی گھر کی باسی تھی۔اسے بچی کا رونا اور اس کی حرکتوں کا مشاہدہ اچھا لگتا تھا۔ ایک ماہ گزر گیا اور رفتہ رفتہ بلی اس بچی سے مانوس ہو گئی۔وہ اپنی اُچھل کود اور شرارتوں سے بچی کو ہنساتی۔جب اس نے دیکھا کہ اس کی دلچسپ اور انوکھی حرکتوں سے اہل خانہ خوش ہوتے ہیں تو خود اسے بھی خوشی اور اطمینان ملتا۔اپنی ہوش مندی کے ساتھ جو عام طور پر حیوانوں میں پائی جاتی ہے،وہ روز بروز کوشش کرتی کہ اہل خانہ اسے اور عزیز رکھیں اور وہ ان کی مہربانیوں سے فیض یاب ہو۔بلی دیکھتی تھی کہ بچی کی دایہ اس کے جھولے کو مسلسل حرکت دیتی ہے۔وہ یہ سمجھ گئی کہ جھولا جھلانا اچھا کام ہے۔جب کبھی جھولا رک جاتا تو بلی خود بڑھ کر اسے حرکت دیتی اور بچی رونا بند کر دیتی۔وہ اسے بہلانے کے لئے اُچھلتی کودتی۔بچی کا والد بھی یہ منظر دیکھ کر خوش ہوتا۔کچھ عرصے تک یہی معمول رہا حتیٰ کہ ایک روز بچی کی دایہ گھر سے باہر تھی اور بچی اپنے جھولے میں سو رہی تھی۔اس کا باپ جھولے کو حرکت دے رہا تھا کہ اچانک حاکم کے وہاں سے پیغام آیا کہ میرغضب فوراً حاضر ہو۔میرغضب کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔اس نے فوراً لباس تبدیل کیا۔تازیانہ اور تلوار ہاتھ میں لی،بلی کو گہوارے کے پاس لایا اور اسے حرکت دی۔بلی سمجھ گئی کہ اب یہ فرض اسے بجا لانا ہے۔اس نے جھولے کو حرکت دینا شروع کی اور میرغضب گھر سے نکلا کہ اپنا فرض بجا لائے۔بلی جھولا جھلا رہی تھی اور ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ ایک کالا ناگ کوئلوں کے ڈھیر کے اندر چھپا ہوا تھا،باہر نکلا اور وہاں سے کمرے میں گھس آیا۔وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح جھولے میں داخل ہو جائے۔بلی کی سانپ سے پرانی دشمنی چلی آ رہی ہے۔جب بلی نے دیکھا کہ سانپ جھولے میں جانے کا ارادہ کیے ہوئے ہے۔اس نے جھولے کو چھوڑا اور سانپ سے لڑنے کے لئے آگے بڑھی۔چونکہ بلی کو یہ بات معلوم تھی کہ سانپ جب بھی کسی بلی کو کاٹنا چاہتا ہے تو پہلے اس کی ناک کے اس حصے پر ڈنک مارتا ہے جس پر بال نہیں ہوتے چنانچہ اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنی ناک پر رکھا اور غراتی،اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتی،خُرخُر کی آواز نکالتی اور نیچے لہراتی سانپ سے لڑنے لگی۔اب سانپ اور بلی کی جنگ کا آغاز ہو گیا۔بلی کے پنجے مسلسل سانپ کے بدن پر پڑ کر اسے زخمی کر رہے تھے۔سانپ نے بھی بلی کے جسم کو اپنے شکنجے میں کس لیا تھا۔تھوڑی دیر کی لڑائی کے بعد بلی سانپ کو ماڑ ڈالنے میں کامیاب ہو گئی لیکن اس کی پوری سفید کھال سانپ کے خون سے تر اور سرخ ہو گئی تھی۔اس صورت حال میں بلی کی وحشت ناک آواز سے بچی بھی خوف زدہ ہو کر رونے لگی تھی۔(جاری ہے) " کر بھلا ہو بھلا - تحریر نمبر 2123,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kar-bhala-ho-bhala-2123.html,"آمنہ ماہمایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی کیونکہ اس کا نر مر چکا تھا۔وہ بیچاری ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ایک دن اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ تمہاری بیماری ایسی ہے کہ تم جلد مر جاؤ گی۔اسے یہ سن کر صدمہ ہوا کیونکہ اس کے پاس ایک انڈا تھا۔اسے ڈر لگا کہ اگر میں مر گئی تو اس انڈے کا کیا ہو گا جس کے خول سے جلد ہی بچہ نکلنے والا تھا اور پھر اس بچے کو کون سنبھالے گا۔لہٰذا وہ اپنے سب دوستوں کے پاس گئی جو جنگل میں رہتے تھے۔اس نے اپنے دوستوں کو اپنی ساری کہانی سنائی لیکن انہوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔بیچاری بطخ نے ان کی کافی منتیں کیں کہ خدا کے لئے تم لوگ مرنے کے بعد میرے بچے کو اپنا سایہ دینا لیکن کسی نے اس کی بات نہ مانی۔(جاری ہے)بیچاری بطخ بھی کیا کرتی۔اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنے بھائی مرغے کے پاس جاؤں،وہ ضرور میری مدد کرے گا لہٰذا وہ مرغے کے پاس گئی اور اسے سارا قصہ سنایا۔مرغ بھائی!آپ میرے بچے کے ماموں جیسے ہو پلیز آپ ہی میرے بچے کو اپنا سایہ دینا۔مرغا بولا!میں تمہارے بچے کو رکھ لیتا لیکن میری بیگم مرغی یہ بات نہیں مانے گی لہٰذا مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا لہٰذا تم مجھے معاف کر دینا۔بطخ ادھر سے مایوس ہو کر اپنے گھر واپس آ گئی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کیا جائے۔اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس نے موقع ڈھونڈ کر یہ کام انجام دے دیا اور خود جا کر ایک درخت کے کنارے بیٹھ گئی۔اس کے بعد بطخ کی طبیعت اور بگڑ گئی اور ایسی بگڑی کہ اس کی موت ہو گئی۔ جب مرغی کے بچے انڈوں سے باہر نکلے تو ان میں ایک بطخ کا بچہ بھی تھا۔مرغ تو سب جان گیا تھا لیکن اس نے مرغی کو بتانا مناسب نہ سمجھا۔مرغی نے کافی شور شرابہ کیا اور بولی:”میرے بچوں کے ساتھ بطخ کا بچہ نہیں رہے گا“۔مرغ نے اسے کافی سمجھایا لیکن مرغی نے اس کا کہنا نہیں مانا۔مرغی نے اپنے بچوں کو منع کر دیا کہ بطخ کے بچے سے کسی کو بات نہیں کرنی ہے۔سب نے مرغی کی بات مان لی لیکن دو چوزوں نے اپنی ماں کی بات نہ مانی اور وہ جو خود کھاتے تھے۔اپنے ساتھ اس بطخ کے بچے کو بھی کھلاتے تھے۔مرغی کو بطخ کے بچے سے سخت نفرت تھی،وہ اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔ایک دن مرغی کے ذہن میں خیال آیا کہ ہم سب مل کر دریا کے کنارے سیر کو جائیں گے۔ہم سب واپس آ جائیں گے اور بطخ کے بچے کو وہیں چھوڑ آئیں گے۔اس طرح سے جان چھوٹ جائے گی۔وہ لوگ سیر کو نکلے۔وہاں پہنچتے ہی ایک چوزہ دریا کے کنارے چلا گیا اور ڈوبنے لگا۔یہ دیکھ کر مرغی زور زور سے چیخنے چلانے لگی چونکہ بطخ کے بچے کو تیرنا آتا تھا لہٰذا اس نے فوراً دریا میں تیرنا شروع کر دیا اور اس چوزے کو نکال کر باہر لے آیا۔مرغی نے جب یہ دیکھا تو اسے اپنے کئے پر کافی شرمندہ ہوئی اور اس نے بطخ کے بچے سے معافی مانگ کر اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔اس طرح وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔دیکھا بچو!کیسے بطخ کے بچے نے مرغی کے بچے کو بچایا اور کیسے اس کا بھلا ہوا۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ کر بھلا ہو بھلا۔ " کامیابی کا راز - تحریر نمبر 2122,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kamyabi-ka-raaz-2122.html,"اریبہ ارم اعوان،مظفر گڑھاسد نے اس مرتبہ خوب محنت کی،لیکن پھر بھی اسے یقین نہیں تھا کہ وہ عدنان سے آگے بڑھ سکے گا اور جب نتیجہ آیا تو وہی ہوا۔عدنان اول آیا جب کہ اسد دوسرے نمبر پر آیا۔ہر سال اسد سالانہ امتحان کے لئے پُرزور محنت کرتا،لیکن پھر بھی عدنان سے پیچھے رہ جاتا۔جب اس مرتبہ بھی وہی ہوا تو اسد اپنے کمرے میں بیٹھ کر رونے لگا۔اسد کے والد کمرے میں داخل ہوئے تو اسد کو یوں روتا دیکھ کر حیران ہو گئے۔انھوں نے اسد سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا:”ابا جان!میں ہر سال خوب محنت کرتا ہوں،لیکن نہ جانے کیوں اول آنے سے رہ جاتا ہوں۔“اسد کی یہ بات سن کر اس کے والد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔انھوں نے اسد کو پیار سے سمجھایا:”بیٹا!یہی وجہ ہے کہ ہر مرتبہ تم کامیابی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے رہ جاتے ہو۔(جاری ہے)تمہارے اندر ایک خوف بیٹھ چکا ہے کہ تم عدنان سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔جب تم یہ بات سوچتے ہو تو تم جتنی بھی محنت کرتے ہو خود پر کم اعتمادی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پاتے۔عدنان سے آگے بڑھنے کا خیال دل سے نکال دو اور کچھ سوچے بغیر اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔“اسد نے خوب دل لگا کر محنت کی اور اب سالانہ امتحان دینے کے بعد آج اس کا نتیجہ تھا۔سکول میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔اسد کو یقین تھا کہ وہ اس مرتبہ ضرور اول آئے گا،کیونکہ اس نے سخت محنت کی ہے۔جب نتیجہ سنایا گیا تو سب سے پہلے تیسرے نمبر پر،پھر دوسرے نمبر پر آنے والے طالب علم کا نام پکارا گیا۔جب کہ اسد کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔پھر پہلے آنے والے طالب علم کا پکارا گیا جسے سن کر اسد خوشی سے پھولے نہ سمایا۔وہ سب کی پُرزور تالیوں میں اسٹیج کی طرف بڑھا۔پرنسپل صاحب نے اسے مبارک باد دی اور اسے انعام دیا۔آج وہ اول جب کہ عدنان دوسرے نمبر پر آیا۔اب وہ جان چکا تھا کہ ہمیں یہ سوچ کر محنت کرنی چاہیے کہ ہم ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔یہ کامیابی کا ایک راستہ ہے۔ " مغرور درخت - تحریر نمبر 2121,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maghroor-darakht-2121.html,"حسن رضا سردار وصفی،کامونکیایک خوبصورت باغ تھا،جہاں بے شمار درخت لگے ہوئے تھے۔ان میں سے سب سے بڑا مالٹے کا درخت تھا۔ایک دن تمام درختوں نے فیصلہ کیا کہ باغ کے بادشاہ کا انتخاب کیا جائے۔آپس میں صلاح مشورے کے بعد انھوں نے مالٹے کے درخت کو اپنا بادشاہ چُن لیا۔مالٹے کے درخت کے بادشاہ بننے پر لیموں کا درخت سخت ناراض ہو گیا،کیونکہ وہ خود بادشاہ بننے کا خواہش مند تھا۔لیموں کا درخت غرایا:”میں مالٹے کے درخت سے انتقام لوں گا۔“آخر لیموں کے درخت نے اپنی جڑوں کو لمبا کرنا شروع کر دیا۔وہ بادشاہ مالٹے کے درخت کے حصے کا پانی چراتا رہا،جس سے مالٹے کا درخت سوکھ گیا اور کسان نے اسے کاٹ ڈالا۔مالٹے کے درخت کے کٹ جانے پر تمام درخت بڑے غمگین ہوئے۔(جاری ہے)انھوں نے مجبوراً لیموں کے درخت کو اپنا نیا بادشاہ مان لیا۔لیموں کے درخت نے اپنی بُری عادت جاری رکھی۔وہ دوسرے درختوں کے حصے کا پانی چراتا رہا،جس سے اس کی شاخیں بڑی ہوتی گئیں اور اس کی لکڑی مضبوط ہو گئی۔جب کہ دوسرے درخت روز بہ روز کمزور ہوتے چلے گئے۔ایک دن باغ کے مالک نے دیکھا کہ لیموں کا درخت دوسرے درختوں کی نسبت کئی گنا اونچا اور پھیل چکا ہے۔اسے جب اس کی وجہ معلوم ہوئی تو اس نے تھوڑی دیر سوچا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔اچانک اسے یاد آیا کہ اس کی بیوی نے اس سے مضبوط لکڑی کی ایک میز بنوانے کی خواہش کی تھی۔لہٰذا کسان نے اپنا کلہاڑا اُٹھایا اور لیموں کا درخت کاٹ ڈالا۔دوسرے درخت یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کلہاڑے کا دستہ مالٹے کے درخت کی لکڑی کا بنا ہوا تھا۔لیموں کے درخت کے اس انجام پر دوسرے تمام درخت بے حد خوش ہوئے،کیونکہ انھیں لیموں کے درخت سے نجات مل گئی تھی۔تمام درختوں نے عہد کیا کہ ان میں سے ہر ایک اپنے دوسرے ساتھی کا خیال رکھے گا اور دوسرے کے حصے کا پانی نہیں پیے گا۔ " پانچ ماہرین - تحریر نمبر 2120,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/paanch-mahireen-2120.html,"محمد احمد آصفایک بادشاہ کے پاس اپنے اپنے فن کے پانچ ماہر آئے۔ایک کو منطق پر عبور حاصل تھا۔دوسرا زبان داں تھا۔تیسرا موسیقی کا ماہر تھا،چوتھا جوتشی اور پانچواں حکیم تھا۔بادشاہ نے ان کی باتیں اور ان کے دعوے سنے تو بہت خوش ہوا اور اپنے وزیر سے ان کی تعریف کرنے لگا۔بادشاہ نے انھیں انعام دینے کا ارادہ کیا تو وزیر مسکرایا اور کہا:”بادشاہ سلامت!آپ انھیں جو انعام دے رہے ہیں،یہ اس کے مستحق ہیں بھی یا نہیں!دیکھنا یہ چاہیے کہ اس دنیائے عمل میں ان کی کیا حیثیت ہے۔“بادشاہ نے کہا:”اس کا اندازہ کیسے ہو گا؟“وزیر نے جواب دیا:”یہ پانچ افراد ہیں،بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ان سے کہا جائے کہ اپنے لئے آج دوپہر کا کھانا یہ خود پکائیں۔(جاری ہے)چھوٹا سا کام ہے،یہ اگر کوئی صلاحیت رکھتے ہیں تو ضرور کر دکھائیں گے۔“بادشاہ نے اس مقصد کے لئے ایک مکان ان کے حوالے کر دیا اور ایک ملازم یہ دیکھنے کے لئے وہاں رکھا کہ یہ کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔انھوں نے سبزی پلاؤ بنانے کا فیصلہ کیا۔منطق میں ماہر شخص بازار سے گھی لانے کے لئے روانہ ہوئے۔وہ گھی لے کر آ رہے تھے اور مسلسل سوچ رہے تھے کہ اس برتن نے گھی کو پکڑ رکھا ہے یا گھی نے برتن کو پکڑ رکھا ہے۔جب بات سمجھ میں نہ آئی تو انھوں نے برتن کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنا چاہا۔اس دوران سارا گھی گر پڑا۔اب انھیں معلوم ہوا کہ برتن نے ہی گھی کو پکڑ رکھا تھا۔بات تو سمجھ میں آ گئی،مگر گھی ضائع ہو گیا۔دوسری طرف زبان وداب کے ماہر دہی لینے گئے۔دہی بیچنے والی عورت نے کہا:”لے لیجیے دہی اچھی ہے۔“وہ تڑپ کر بولے:”نہیں نہیں،دہی مذکر ہے موٴنث نہیں۔یوں کہو کہ دہی اچھا ہے۔“سیدھی سادی عورت کا ان باریکیوں سے کیا تعلق!کہنے لگی:”معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں دہی نہیں چاہیے اور یہ مذکر،موٴنث تو مجھے گالیاں لگ رہی ہیں۔جاؤ چلے جاؤ یہاں سے۔“وہ بغیر دہی لیے واپس روانہ ہو گئے۔جوتشی صاحب کچھ مصالحے خریدنے کے لئے گھر سے نکلے ہی تھے کہ بلی نے راستہ کاٹ لیا۔انھوں نے اسے بدشگونی سمجھا اور بڑے پریشان ہو گئے۔پھر بھی ہمت کرکے آگے بڑھے تو ایک درخت پر گرگٹ کو رنگ بدلتے دیکھا۔اب تو بدشگونی کی انتہا ہو گئی۔وہ بغیر کچھ خریدے واپس گھر آ گئے۔حکیم صاحب سبزی خریدنے بازار پہنچے تھے اور اس اُلجھن میں تھے کہ کون سی سبزی خریدیں۔کوئی سبزی خریدنے کا ارادہ کرتے تو سوچ میں پڑ جاتے کہ یہ تو بادی ہے۔دوسری طرف متوجہ ہوتے تو خیال آتا کہ اس میں ”صفرا“ کا مادہ زیادہ ہے۔بعض سبزیاں بلغمی مزاج کے لئے ٹھیک نہ پائیں۔آخر جب فیصلہ نہ کر پائے تو خالی ہاتھ گھر آ گئے۔یہاں موسیقی کے ماہر صاحب چاول پکا رہے تھے۔ہنڈیا اُبلنے لگی تو اس میں سے کھد کھد کی آوازیں آنے لگیں۔انھیں کسی سُرتال کے بغیر اس آواز پر بہت غصہ آیا۔سُر درست کرنے کے لئے ہاتھ نچایا۔ہاتھ چاول کی دیگچی پر پڑا۔وہ دور جا پڑی اور سارے چاول ضائع ہو گئے۔دوپہر گزر گئی اور سب بھوکے رہے۔سارا قصہ بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو وہ حیران رہ گیا۔کچھ دیر سوچنے کے بعد بادشاہ نے کہا:”سچ ہے جو علم فائدہ نہ پہنچائے،وہ بے کار ہے۔“ " دو جوتے - تحریر نمبر 2119,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/do-joote-2119.html,"پروفیسر ڈاکٹر ایف ایچ فاروقیکلیم بوٹ ہاؤس کے نام سے مشہور دکان شیخ کلیم اللہ کی تھی۔اس دکان کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔درمیان میں شیشوں کی دیواریں تھیں۔وہ درمیانی حصے میں کاؤنٹر پر بیٹھتے تھے اور تمام کارکنوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔شیخ صاحب کو سیلزمین کا گاہک سے بد زبانی کرنا بالکل پسند نہ تھا۔ایک بار انھیں ایک سیلزمین کی ضرورت پڑی تو ایک بورڈ لکھ کر لگا دیا۔عبداللہ نامی ایک شخص سیلزمین کی نوکری کے لئے دکان پر آیا اور شیخ صاحب کو سلام کیا۔شیخ صاحب کے معلوم کرنے پر جب اس نے تمام تفصیلات اور سابقہ تجربہ بتایا تو وہ اسے ملازمت دینے پر راضی ہو گئے۔عبداللہ نہایت توجہ اور دلچسپی سے تمام دن دکان پر کام کرتا۔(جاری ہے)فضول باتوں سے پرہیز کرتا۔وہ ہر گاہک سے اچھے اخلاق اور تہذیب سے گفتگو کرتا۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی شخص عبداللہ سے بدتمیزی کرتا تب بھی عبداللہ بُرا نہ مانتا اور نہایت نرمی سے جواب دیتا۔بعض اوقات گاہک کو جوتے کے انتخاب میں مشورہ بھی دیتا۔کمزور اور ناقص جوتے کی طرف گاہک کو حقیقت بتا دیتا۔آہستہ آہستہ عبداللہ کے اخلاق اور دیانتداری کی وجہ سے لوگ اپنے عزیزوں کو بھی اس دکان پر جانے کا مشورہ دیتے۔عبداللہ کے آنے سے فروخت نمایاں طور پر بڑھ گئی۔ عبداللہ کی تنخواہ میں بھی اضافہ ہو گیا۔شیخ صاحب عبداللہ سے بہت خوش تھے اور وہ اس کی تعریف بھی کرتے تھے۔ایک روز کسی گاہک نے کہا کہ یہ خوبصورت جوتا مجھے پسند آ گیا ہے،مگر اس وقت میرے پاس کچھ پیسے کم پڑ رہے ہیں۔اگر آپ میرا اعتبار کریں تو آپ کی مہربانی ہو گی اور میں شام تک باقی روپے ادا کر دوں گا۔شیخ صاحب نے تو صاف منع کر دیا،مگر عبداللہ نے کہا کہ کوئی بات نہیں آپ کل شام تک باقی پیسے دے جائیے گا اور جوتے کا ڈبا گاہک کے حوالے کر دیا۔گاہک کے جانے کے بعد شیخ صاحب نے خفگی کا اظہار کیا۔عبداللہ نے کہا:”شیخ صاحب!آپ فکر نہ کریں،یہ شخص ضرور آئے گا اور باقی رقم بھی ساتھ لائے گا۔“دوسرے دن وہی شخص آیا اور اس نے شیخ صاحب کو بتایا:”عبداللہ نے غلطی سے ایک ہی پاؤں کے دو جوتے ڈبے میں ڈال دیے تھے،لہٰذا ایک جوتا تبدیل کر دیں اور اپنے باقی پیسے لے لیں۔“عبداللہ نے جوتا تبدیل کر دیا اور باقی رقم لے کر مالک کو دے دی۔گاہک کے جانے کے بعد شیخ صاحب نے کہا:”عبداللہ!اب مجھے معلوم ہوا،تمہیں اتنا بھروسا کیوں تھا کہ وہ شخص باقی پیسے دینے ضرور آئے گا۔تم واقعی سمجھ دار سیلزمین ہو۔“ " روپ بہروپ - تحریر نمبر 2118,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/roop-behroop-2118.html,"اقصیٰ راؤ عبدالغفاردوپہر ایک بجے کا وقت تھا۔گرمی اپنے عروج پر تھی۔میں اپنے دفتری کام میں مصروف تھا۔کام کرتے کرتے سر اُٹھا کر میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔دور دور تک سڑک سنسان پڑی تھی۔عمارت کا چوکیدار بھی کرسی پر نیم دراز اونگھ رہا تھا۔دفتر کے باقی لوگ کھانے اور نماز کے وقفے کے دوران غائب ہو چکے تھے۔میں جانتا تھا کہ اب اِکا دُکا جو واپس آئیں گے وہ چار بجے سے پہلے نہیں آئیں گے۔میں سر جھکا کر کام میں مصروف ہو گیا۔اسی دوران مجھے افضل کا خیال آیا۔افضل میرا آفس کلرک تھا۔وہ کافی دیر سے کرسی پر بیٹھا بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ غالباً وہ مجھ سے پہلے اُٹھ کر نہیں جانا چاہتا تھا اور میرے فارغ ہونے کے آثار دور دور تک موجود نہ تھے۔(جاری ہے)”افضل!تم جا سکتے ہو۔“میں نے مسکرا کر کہا۔”سر!لنچ کا وقت ہو گیا ہے۔آپ کے لئے کھانا منگوا دوں؟“اس نے پوچھا۔”نہیں․․․․“میں نے گھڑی کی جانب نظر ڈالی:”تم جاؤ․․․․جماعت کا وقت پونے دو بجے ہے ناں۔میں نماز کے بعد باورچی سے کھانا منگوا لوں گا۔“”ٹھیک ہے سر!پھر میں باورچی سے کہہ جاتا ہوں کہ وہ دو بجے تک کھانا تیار رکھے۔“یہ کہہ کر وہ جانے کے لئے اُٹھا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔افضل نے ریسیور اُٹھا کر کان سے لگایا۔دوسری طرف سے کچھ آواز آئی:تو افضل نے کہا”سر!کوئی علی گل نامی شخص آپ سے ملنا چاہتا ہے۔“”علی گل․․․․“میں نے نام دہرایا۔یہ نام میرے لئے بالکل اجنبی تھا۔”ٹھیک ہے،بھیج دو۔“افضل باہر چلا گیا۔میں پھر سے مصروف ہو گیا۔چند لمحے بعد دروازے پر دستک ہوئی۔”آئیے․․․․“میں نے کہا۔اس کے ساتھ ہی دروازہ کھلا اور ایک ادھیڑ عمر شخص اندر داخل ہوا۔اپنی وضع قطع سے وہ کوئی بہت ہی امیر کبیر آدمی معلوم ہوتا تھا۔سلام کرکے وہ بیٹھ گیا۔”جی فرمائیے․․․․“میں نے کہا:”میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“”ایسا نہ کہیں جناب!ہم تو خود آپ کی خدمت کے لئے آ گئے ہیں،لیکن آپ تو کسی کو یہ موقع ہی نہیں دیتے۔“میں مسکرایا:”اب اپنی تشریف آوری کا مقصد بھی بیان فرما دیں۔“”جناب!آپ نے خان گروپ آف انڈسٹریز کا نام تو سنا ہو گا،اللہ کے فضل سے میں اس کا مالک ہوں۔شاید آپ جانتے بھی ہوں۔“”میں خان گروپ سے واقف ہوں،لیکن آپ سے یہ پہلی ملاقات ہے۔“میں نے معذرت کے ساتھ کہا۔”آپ عموماً اعلیٰ سطح پہ ہونے والی دعوتوں اور عشائیوں میں شریک نہیں ہوتے،غالباً اسی لئے آپ کے تعلقات محدود ہیں۔آپ کے بارے میں سنا ہے کہ زیادہ میل جول پسند نہیں کرتے۔“”آپ نے سنا ہے تو ٹھیک ہی سنا ہو گا۔“میں مسکرایا۔”میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا جناب!مجھے بتا دیا گیا ہے کہ آپ آج کل خاصے مصروف ہیں۔“اس نے کہنا شروع کیا:”دراصل بات یہ ہے کہ میں ایک بالکل اَن پڑھ آدمی ہوں۔ماضی میں حالات کچھ ایسے رہے ہیں کہ میں کوشش کے باوجود تعلیم حاصل نہ کر سکا۔کچھ ذاتی محنت تھی اور پھر قسمت نے یاوری کی کہ میں اس مقام تک پہنچ گیا،لیکن میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے علم کی روشنی سے محروم رہیں۔میں نے اپنے بڑے بیٹے کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھایا ہے اور اب میں اسے ڈاکٹر بنانا چاہتا ہوں۔“وہ صاحب یہاں تک کہہ کر خاموش ہو گئے۔”مجھے بہت خوشی ہوئی یہ سن کر کہ آپ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر معاشرے کا کارآمد شہری بنانا چاہتے ہیں۔“میں نے اسے داد دی۔وہ پھر بولا:”لیکن اب مجھے اپنے یہ خواب پورے ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔میں اپنے بیٹے کا داخلہ میڈیکل کالج میں کرانا چاہتا ہوں،لیکن انتظامیہ نے اس کا فارم لینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔میں نے اپنے طور پر تمام کوششیں کر لی ہیں،لیکن میں کامیاب نہ ہو سکا۔“”آخر اس کی وجہ کیا ہے؟“میں حیران تھا۔”دراصل اس کے نمبر میرٹ سے بہت کم ہیں،لیکن میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی وجہ میرے خوابوں کی تکمیل میں رکاوٹ بنے۔میں اپنے طور پر تمام کوششیں کر چکا ہوں اور اب بڑی اُمیدیں لے کر آپ کے پاس آیا ہوں جناب!“اس کا انداز التجائیہ تھا۔”میں اس معاملے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں،اگر آپ کا بیٹا میرٹ کے مطابق نمبر حاصل کر لیتا تو بھلا انتظامیہ کو اسے داخلہ دینے میں کیا تامل تھا۔“اس نے پھر کہنا شروع کیا:”مجھے معلوم ہوا ہے کہ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران سے آپ کے ذاتی اور بہت گہرے تعلقات ہیں اور آپ اس معاملے میں میری مدد کر سکتے ہیں۔میں آپ کی ہر طرح سے خدمت کرنے کو تیار ہوں۔فی الحال آپ میری طرف سے یہ حقیر نذرانہ قبول فرمائیں۔“اس نے اپنے تھیلے سے نوٹوں کی کئی گڈیاں نکالیں اور میرے سامنے رکھ دیں۔میرے دماغ میں خون کی گردش یکا یک تیز ہو گئی۔میں کپکپا کر رہ گیا۔میرا دل چاہا کہ سامنے پڑا ہوا پیپر ویٹ اُٹھا کر اس کے سر پر دے ماروں۔آخر میرے متعلق اس نے یہ اندازہ کیسے لگایا کہ میں اس کی یہ پیشکش قبول کر لوں گا۔میرا چیخنے کو دل چاہا،لیکن میرے اعصاب گویا سلب ہو کر رہ گئے تھے۔میں نے اپنی تمام ہمت جمع کی اور چیخ کو بولا:”ایک لمحے کے اندر اپنی اس دولت کے ساتھ یہاں سے دفع ہو جاؤ اور آئندہ میرے سامنے آنے کی جرأت نہ کرنا․․․․نکل جاؤ یہاں سے․․․“اس نے حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹا اور مایوسانہ انداز میں دفتر سے باہر نکل گیا۔میں نے اپنا سر کرسی کی پُشت پر ٹکا دیا۔مجھے سب کچھ گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔کچھ دن بعد ایک تعریفی خط مجھے موصول ہوا جو حکومت کے ”محکمہ انسداد رشوت ستانی“ کی جانب سے تھا۔خط سے واضح ہوا کہ انڈسٹری کے اَن پڑھ مالک کے روپ میں محکمے کا افسر تھا،جو مجھے آزمانے کے لئے آیا تھا۔بعد میں اس سے ملاقات بھی ہوئی۔اب وہ میرا بہت اچھا دوست ہے۔ " زبان کا زخم - تحریر نمبر 2117,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zaban-ka-zakham-2117.html,"شمع مدثرایک بادشاہ کسی جنگل میں اکیلا جا رہا تھا کہ اچانک اسے شیر نے آ لیا۔اتفاق سے ایک کسان بھی ادھر آ نکلا۔جس کے ایک ہاتھ میں ٹیڑھی ترچھی لکڑی اور دوسرے میں درانتی تھی۔شیر بادشاہ پر حملہ کرنے ہی والا تھا کہ کسان نے پھرتی سے ٹیڑھی لکڑی اس کے گلے میں دے کر درانتی سے اس کا پیٹ چاک کر دیا۔جس سے بادشاہ کی جان بچ گئی۔بادشاہ نے کسان کو اس مدد کے صلے میں گاؤں کی نمبرداری کے ساتھ بہت سی زمین بھی دے دیں اور کہا کہ ”ہر تہوار کے موقع پر ہمارے یہاں دوستوں،رشتہ داروں کی جو خاص دعوت ہوتی ہے اس میں تم بھی آیا کرو کیونکہ تم بھی اب میرے سچے دوست ہو“۔تھوڑے دنوں میں بادشاہ کے یہاں دعوت ہوئی تو کسان بھی آیا۔اول تو اس کے کپڑے اتنے اعلیٰ نہیں تھے۔(جاری ہے)دوسرے بادشاہ کے پاس بیٹھنے کا ادب و سلیقہ بھی نہ جانتا تھا۔اس سے کئی غلطیاں ہوئیں۔کھانا آیا تو وہ بادشاہ کے ساتھ ہی کھانے کو بیٹھ گیا۔بادشاہ نے ناراض ہو کر کہا:”تم بڑے گنوار آدمی ہو۔چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں کر سکتے۔بہتر یہی ہے کہ اسی وقت اُٹھ جاؤ“۔کسان شرمندہ ہو کر چلا آیا اور کئی سال تک بادشاہ کے پاس نہ گیا۔ایک دن بادشاہ گاڑی پر سوار ایک تنگ پل سے گزر رہا تھا کہ گاڑی کا ایک پہیہ نکل گیا۔اگر اسی وقت سہارا دے کر اس کی اونچائی دوسرے کے برابر نہ کی جاتی تو بادشاہ دریا میں گر جاتا۔حسن اتفاق کہئے یا تقدیر کہ وہی کسان اس وقت بھی وہاں موجود تھا۔اس نے پہیہ نکلتے ہی گاڑی کو اپنے بازو پر سنبھال کر بادشاہ کو گرنے سے بچا لیا۔بادشاہ کسان کی اس دوبارہ خدمت سے اس قدر خوش ہوا کہ اپنے ساتھ لے جا کر کئی دن مہمان رکھا اور چلتے وقت بہت سا انعام دے کر ہمیشہ آنے کی تاکید کر دی۔کسان نے کہا ”بادشاہ سلامت!میں نے دو دفعہ حضور کی جان بچائی ہے۔اب حضور بھی ایک میرا کہا مان لیں کہ میری پیشانی میں درد ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ آپ ایک تلوار کا ہاتھ مار دیں۔اس میں اگر ہڈی بھی ٹوٹ جائے تو کوئی خوف نہیں۔میں چند دن میں اچھا ہو جاؤں گا اور یہ درد جاتا رہے گا“۔بادشاہ پہلے تو مانتا نہیں تھا مگر کسان کے سخت اصرار کرنے اور زور دینے پر آخر اس نے تلوار کا ہاتھ مار ہی دیا،جس سے ایک انچ گہرا زخم پڑ گیا۔کسان زخم کھا کر چلا گیا اور چند روز میں معمولی علاج سے زخم اچھا ہو گیا۔کچھ دن بعد بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلا کر حال پوچھا تو کسان نے عرض کی ”بادشاہ سلامت!خدا کے فضل سے تلوار کے زخم کا اب نشان تک نہیں رہا مگر پہلی دعوت میں حضور کے ”بدتمیز،گنوار“ کہنے اور نکال دینے کا زخم اب تک میرے دل پر ویسے کا ویسا ہی ہے“۔یہ سن کر بادشاہ نے گردن جھکا لی اور کہا ”بے شک تم سچے ہو،میں ہی غلطی سے داناؤں کے اس قول کو بھول گیا تھا کہ تلوار کا زخم بھر جاتا ہے مگر زبان کا نہیں بھرتا“۔ " اچھے دوست - تحریر نمبر 2116,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ache-dost-2116.html,"قرة العین خرم ہاشمی،لاہوررضوانہ بیوہ عورت تھی۔اس کے شوہر کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا۔اس کے تین بچے تھے۔سب سے بڑا بیٹا مرتضیٰ،بیٹی ہما اور سب سے چھوٹا علی تھا،جو آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا۔مرتضیٰ ایم اے کر رہا تھا۔ساتھ ساتھ وہ ٹیوشن بھی پڑھاتا تھا۔ہما ایف۔اے کی طالبہ تھی۔وہ بھی ٹیوشن پڑھا کر اپنی تعلیم کا خرچہ اُٹھا رہی تھی۔صرف ایک علی تھا جو بہت لاپرواہ قسم کا لڑکا تھا۔اسے کھیل کود سے فرصت نہیں ملتی تھی۔آج کل اس کی دوستی محلے کے سب سے بدنام گروپ سے ہو رہی تھی،جس پر رضوانہ کو تشویش لاحق تھی۔”امی!علی کہاں ہے؟“مغرب کے وقت تھکا ہارا مرتضیٰ گھر میں داخل ہوا تو سوال کیا۔”تھوڑی دیر کھیلنے کا کہہ کر گیا تھا اور ابھی تک نہیں آیا۔(جاری ہے)“رضوانہ نے فکر مندی سے کہا۔”جی نواب صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ صدر میں گھوم پھر رہے ہیں۔“مرتضیٰ نے طنزیہ انداز میں کہا تو رضوانہ چونک گئی۔”مگر وہ تو کہہ رہا تھا کہ ․․․“رضوانہ چپ کر گئی۔”امی وہ ہر روز گلی میں کھیلنے کا کہہ کر کہیں اور چلا جاتا ہے۔“ہما نے بھائی کو پانی پیش کرتے ہوئے کہا۔رضوانہ پریشان ہو گئی۔”اچھا آپ فکر مت کریں۔میں اسے سمجھاؤں گا۔“مرتضیٰ نے ماں کو تسلی دی۔اگلے دن مرتضیٰ نے علی کو پاس بیٹھا کر پیار سے سمجھایا:”دیکھو علی!انسان کی پہچان اپنے دوستوں سے ہوتی ہے۔“علی سر جھکائے سُنتا رہا،مگر اثر کچھ نہ ہوا۔وقت تیزی سے گزرنے لگا۔علی بہت جلد پاشا کے رنگ میں رنگ رہا تھا۔اس کا پڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا تھا۔گھر والے سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے،مگر علی کسی کی نہیں سُنتا تھا۔ایک دن مارکیٹ کی ایک مشہور کریانہ اسٹور میں چوری ہو گئی۔پہلا شک پاشا اور اس کے گروپ پہ گیا۔کیونکہ چوری کے وقت وہ آس پاس موجود تھے۔پولیس پاشا اور اس کے سب ساتھیوں کو پکڑ کر لے گئی۔ان میں علی بھی شامل تھا۔علی کے گھر والوں کے لئے یہ صدمہ بہت بڑا تھا۔مرتضیٰ بھائی کو بچانے کے لئے جدوجہد کرنے لگا۔پولیس نے تفتیش شروع کر دی۔جب پولیس نے سختی سے کام لیا تو پاشا نے مان لیا کہ اسی نے چوری کی ہے۔پاشا کے سب ساتھیوں نے اعتراف کر لیا،مگر علی بے قصور ثابت ہوا تو دو دن بعد پولیس نے اسے چھوڑ دیا۔علی جب گھر آیا تو رضوانہ دروازے پہ کھڑی تھی۔علی کا حال بہت بُرا تھا۔پولیس نے اسے بھی مارا تھا۔علی ماں سے لپٹ گیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔”بھائی مجھے معاف کر دیں۔“علی نے مرتضیٰ کی طرف دیکھا اور اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔”علی!شکر کرو کہ تم پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا اور پولیس نے تمہیں چھوڑ دیا۔اسی وقت کے لئے تمہیں سمجھاتے تھے کہ اچھے لڑکوں سے دوستی کرو۔بُرے لوگوں کی دوستی کا انجام بھی بُرا ہوتا ہے۔“مرتضیٰ نے بھائی کو پیار کرتے ہوئے سمجھایا۔”بھائی!اب میں سمجھ گیا ہوں کہ ایک اچھے دوست اور بُرے دوست میں کیا فرق ہوتا ہے۔“علی نے کہا تو ان سب نے شکر ادا کیا۔اس واقعے نے علی کو ہمیشہ کے لئے کھرے اور کھوٹے لوگوں کی پہچان کروا دی تھی۔ " باغبان کا راز - تحریر نمبر 2115,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baghban-ka-raaz-2115.html,"جدون ادیبمدثر تیزی سے دوڑتا ہوا آیا اور گیند بلے باز کی طرف پھینکی۔سلیم نے جما کر بلا گھمایا اور گیند باؤنڈری کے اوپر سے ہوتی ہوئی شمسو کے باغ میں جا گری اور اس کے ساتھ ہی کھیل ختم ہو گیا،کیونکہ ان لڑکوں کے پاس اضافی گیند نہیں تھی اور یہ بھی ممکن نہ تھا کہ شمسو سے گیند مانگی جاتی۔روزانہ ہی اس کے باغ میں گیند جاتی، مگر وہ خبطی بوڑھا باغبان کبھی گیند واپس نہیں کرتا تھا۔گاؤں والوں سے بھی الگ تھلگ رہتا تھا۔وہ باغ کے کونے میں بنے اپنے بڑے سے گھر میں اکیلا رہتا تھا۔علی ہمت کرکے دیوار کود کر اندر چلا گیا۔باغ میں اسے کئی گیندیں ملیں۔وہ واپسی کے لئے پلٹ رہا تھا کہ شمسو اس کی طرف آتا دکھائی دیا۔علی ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا۔(جاری ہے)یوں لگتا تھا جیسے بوڑھے کو کسی کی موجودگی کا شبہ ہو گیا ہے۔وہ چوکنا ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔علی موقع پا کر باغ سے ملحق بوڑھے کے گھر میں گھس گیا اور مناسب وقت کا انتظار کرنے لگا۔اتنے میں شمسو بڑبڑاتا گھر کی طرف آیا۔علی ایک ستون کی آڑ میں تھا۔شمسو بڑبڑا رہا تھا:”اگر میں ان شیطان کے چیلوں کو ڈھیل دوں تو یہ میرا جینا عذاب بنا دیں․․․․انھیں سب پتا چل جائے گا خبیث کہیں کے!“علی کے کان کھڑے ہو گئے۔اتنے میں بوڑھے نے برآمدے کا بلب جلایا اور اندر چلا گیا۔علی دبے قدموں اس کے پیچھے لپکا۔بوڑھا ایک بڑے کمرے میں داخل ہوا۔اس نے احتیاطاً مڑ کر دیکھا اور پھر ایک طرف رکھی چارپائی ہٹا کر ایک خفیہ بنے ہوئے زمین دوز راستے میں داخل ہو گیا۔علی کا دل دھک دھک کرنے لگا۔اسے اپنے بدن سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔اسے لگا کہ وہ بے ہوش ہو جائے گا۔اسی وقت باہر سے شمیم نے مخصوص انداز میں آواز لگائی۔شمیم کی آواز سن کر علی کو حوصلہ محسوس ہوا اور وہ دبے قدموں دوبارہ باغ میں پہنچا اور دیوار کود کر باہر نکل گیا۔شمیم اس کی پھینکی ہوئی گیندیں جمع کر چکا تھا اور بہت خوش اور پُرجوش تھا،مگر علی چپ چپ سا اس کے ساتھ چلتا رہا۔علی گھر پہنچا تو یہ جان کر خوشی سے نہال ہو گیا کہ شہر سے اس کے چچا آئے ہیں۔اگلے دن علی نے چچا کو شمسو کے پُراسرار انداز کے بارے میں بتایا تو دونوں نے مل کر ایک منصوبہ بنایا۔شمسو ہفتے میں ایک دن گاؤں سے سودا سلف لینے جاتا تھا۔جب وہ گھر سے روانہ ہوا تو علی اور چچا باغ کے راستے اس کے گھر میں داخل ہوئے،مگر وہ یہ دیکھ کر بہت مایوس ہوئے کہ تمام کمرے بند تھے۔بڑے بڑے تالے اور مضبوط دروازے دیکھ کر وہ مایوس ہونے لگے،مگر پھر چچا کو ایک خیال آیا۔وہ برآمدے سے دیوار کے اوپر چڑھے۔چھت پر جا کر دیکھا اسٹور کی ایک کھڑکی کھلی مل گئی۔کھڑکی کے ذریعے وہ اندر داخل ہوئے اور سیڑھیاں اُتر کر علی کے بتائے ہوئے کمرے میں پہنچ گئے اور چارپائی اُٹھا کر تہ خانے میں داخل ہو گئے۔اندر کا راز جان کے ان کے ہوش اُڑ گئے۔ادھر علی بے چینی سے چچا کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔اچانک بیرونی دروازہ کھلا اور شمسو بڑبڑاتا ہوا اندر داخل ہوا۔وہ خود کو کوس رہا تھا کہ رقم لیے بغیر گاؤں چلا گیا۔علی نے چھپنے کی کوشش کی،مگر کسی چیز سے ٹکرا کر گر پڑا۔دوسرے لمحے شمسو نے اسے گردن سے دبوچ لیا اور گالیاں بکتا ہوا اس پر پِل پڑا۔علی نے دونوں بازو منہ کے سامنے رکھ کر خود کو بچانے کی کوشش کی۔شمسو نے مکوں اور لاتوں سے مار کر اسے ادھ موا کر دیا۔اسی وقت چچا کھڑکی کھول کر باہر نکلے تو شمسو نے لاٹھی سے ان پر وار کیا۔چچا تیزی سے ایک طرف ہٹ گئے اور اُچھل کر شمسو کو لات رسید کی تو وہ دور جا گرا۔شمسو اُٹھا تو اس کے ہاتھ میں ایک لمبا سا خنجر تھا۔علی درد سے کراہ رہا تھا۔وہ لڑکھڑاتا ہوا اُٹھا،شمسو نے چچا پر وار کیا،جسے چچا نے پھرتی سے جھک کر ناکام بنا دیا۔اس سے پہلے کہ شمسو دوبارہ وار کرتا،علی نے ڈنڈا اُٹھا کر شمسو کی کمر میں دے مارا۔وہ دہرا ہو گیا اور چچا نے جھپٹ کر اس کے ہاتھ سے خنجر چھین لیا اور دونوں نے مل کر اس پر قابو پا لیا اور رسی سے باندھ دیا۔علی بھاگتا ہوا گیا اور لوگوں کو بلا لایا۔شمسو کا راز کھل چکا تھا۔وہ تہ خانے میں منشیات بناتا تھا۔اسی تہ خانے سے ایک خفیہ راستہ جنگل میں نکلتا تھا جہاں سے وہ منشیات اپنے گروہ کے لوگوں کو پہنچاتا تھا۔شمسو کو گرفتار کر لیا گیا۔علی اور چچا کی خوب تعریف ہوئی۔چچا بہت خوش لگ رہے تھے۔ " ہمت والا - تحریر نمبر 2114,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/himmat-wala-2114.html,"محمد سعد اسد،تونسہ شریفبہت عرصہ ہوا،کسی شہر میں ”ٹومبو“ نام کا لکڑہارا رہتا تھا۔ایک دن ٹومبو جنگل میں لکڑیاں کاٹنے گیا تو ایک زہریلے سانپ نے اسے ڈس لیا۔ اس کا ہاتھ خوف ناک حد تک سوج گیا۔کسی رحم دل امیر شخص نے اس کا علاج کروایا،مگر زہر پھیلتا رہا۔آخر اس کا بایاں بازو کاٹنا پڑا۔اب وہ لکڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا۔اس نے سوچا،کہیں ملازمت کر لوں،مگر پھر سوچا کہ ایک ہاتھ کٹے شخص کو کون ملازم رکھے گا۔آخر اس نے کوئی ہنر سیکھنے کا فیصلہ کیا۔وہ ”کومفو کراٹے“ سیکھنے کے ادارے میں داخل ہوا تو وہاں موجود تمام لوگ اس پر ہنس پڑے کہ دیکھو یہ ایک ہاتھ کٹا شخص بھی ”کومفو کراٹے“ سیکھے گا۔کیا کومفو کراٹے سیکھنا اتنا آسان کام ہے۔(جاری ہے)ٹومبو نے سوچا کہ پلٹ جاؤں،مگر پھر ہمت کرکے کومفو کراٹے سیکھنے کا فیصلہ کر لیا۔”کومفو کراٹے“ کے استاد نے اسے ہر روز صرف ایک داؤ سیکھنے کی نصیحت کی۔استاد نے اسے محض دس،بارہ داؤ سیکھائے کہ اسی طرح مخالف کو پچھاڑا جائے۔دس بارہ دنوں کے بعد استاد نے اپنے ایک شاگرد کے ساتھ اس کا مقابلہ کروایا۔ٹومبو نے چند ہی سیکنڈوں میں اسے گرا دیا۔استاد کے شاگردوں کو شکست دینا ٹومبو کا معمول بن گیا،کیونکہ استاد ہر روز کسی شاگرد اور ٹومبو کا مقابلہ کرواتا،مگر ٹومبو جیت جاتا۔اسی دوران ”کومفو“ کے عالمی مقابلے کا اعلان ہوا۔ٹومبو نے اس میں بھی حصہ لیا۔فائنل تک ٹومبو مسلسل جیتتا رہا۔ٹومبو کے مدِمقابل کے دونوں ہاتھ سلامت تھے۔سب کا خیال تھا کہ ٹومبو ہار جائے گا۔پہلے راؤنڈ میں ٹومبو کو اگرچہ چوٹیں لگیں،مگر اس نے ہار نہیں مانی اور پہلے راؤنڈ کی طرح دوسرے راؤنڈ میں مقابلہ برابر کا رہا۔اگرچہ ٹومبو زخمی ہوا۔تیسرا راؤنڈ شروع ہوئے ابھی محض بیس سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ ٹومبو نے مدِمقابل کو پچھاڑ دیا۔دور دور سے آئے ہوئے لوگ حیرت میں مبتلا تھے کہ کس طرح اس ایک بازو والے نے مسلسل پانچ سال تک فاتح رہنے والے کو ہرا دیا۔ٹومبو کو خود بھی یقین نہیں تھا،مگر جب ریفری نے اس کی فتح کا اعلان کیا تو وہ بہت خوش ہوا۔مقابلے کے بعد وہ اپنے استاد کے پاس گیا۔اس نے عقیدت سے استاد کو سلام کیا۔استاد نے اسے بتایا کہ ٹومبو میں نے تمہیں وہ داؤ سکھائے تھے کہ جن کا توڑ صرف اس وقت ہو سکتا ہے،جب کہ بایاں بازوں پکڑ لیا جائے۔“ٹومبو حیرت زدہ رہ گیا اور اپنے استاد کا شکریہ ادا کیا۔آپ بھی سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ضروری نہیں ہے کہ خدا نخواستہ کوئی معذوری ہو صرف ہمت اور لگن کی ضرورت ہے تو کیا خیال ہے؟ " شکایت - تحریر نمبر 2113,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shikayat-2113.html,"ردا فاطمہ،سرگودھاشمائلہ بہت پیاری بچی تھی۔اپنی امی کی ہر بات مانتی تھی،لیکن اس میں ایک خامی بھی تھی۔دوسروں کی شکایت کرنا اسے بہت پسند تھا۔اس کی بڑی بہن کا نام رابعہ تھا۔ایک دن امی کی سہیلیوں کو گھر آنا تھا۔وہ مہمانوں کے لئے کھانے پینے کی چیزیں لینے جا رہی تھیں۔جاتے ہوئے رابعہ سے کہا:”بیٹی!میں ذرا سودا سلف لینے جا رہی ہوں۔تم گھر کا اور شمائلہ کا بہت خیال رکھنا۔“رابعہ نے کہا:”ٹھیک ہے امی!آپ بے فکر ہو جائیں۔“امی چلی گئیں تو رابعہ پڑھنے کے لئے ڈرائنگ روم میں آ گئی۔لکھتے لکھتے جب اس کے قلم سے سیاہی ختم ہو گئی تو شمائلہ کو آواز دی:”شمائلہ جلدی سے سیاہی لے آؤ۔“شمائلہ آپی کو سیاہی دے کر ابھی کمرے سے نکلی ہی تھی کہ آپی کی آواز آئی:”شمائلہ!جلدی سے صفائی والا کپڑا لے کر آؤ۔(جاری ہے)“شمائلہ جب کپڑا لائی تو دیکھا کہ ڈرائنگ روم کے سفید فرش پر نیلی سیاہی پھیلی ہوئی ہے۔آپی نے کہا:”تم امی کو مت بتانا میں ابھی یہ سارا صاف کر دیتی ہوں۔“شمائلہ کی نیت کچھ اور تھی،امی سے شکایت کرے گی تاکہ آپی کو ڈانٹ پڑے۔جیسے ہی امی آئیں۔شمائلہ نے کہا:”امی!رابعہ آپی نے فرش پر سیاہی گرا دی۔امی ڈرائنگ روم میں چلی گئیں اور دیکھا تو فرش چمک دمک رہا تھا۔انھوں نے شمائلہ کو ڈانٹا اور کہا:”آئندہ ایسا مت کرنا،ورنہ میں تمہیں سزا دوں گی۔“شمائلہ شرمندہ ہوئی اور سوچنے لگی کہ میں نے آپی کے لئے بُرا سوچا،جس کی سزا ڈانٹ کی صورت میں مجھے ملی۔واقعی مجھے اپنی اس عادت پر قابو پانا چاہیے۔پھر جلد ہی اس نے اپنی اس عادت سے نجات حاصل کر لی۔ " نیکی کا راستہ - تحریر نمبر 2111,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naiki-ka-rasta-2111.html,"ماہین خالد،ٹیکسلاایک بادشاہ اپنے وزیر کے ساتھ بھیس بدل کر گشت لگایا کرتا تھا۔ایک دن وہ اور اس کا وزیر ایک چوراہے سے گزرے تو انھوں نے وہاں لوگوں کا ہجوم دیکھا۔تمام لوگ ایک لاش کے اردگرد کھڑے تھے،مگر کوئی اس کے قریب نہ جاتا تھا۔بادشاہ نے وہاں کھڑے ایک آدمی سے پوچھا کہ لوگ اس لاش کو کندھا کیوں نہیں دے رہے؟تب ایک آدمی نے بتایا کہ لوگوں نے اسے ہر رات شراب خانے اور ایک بوڑھی بیوہ کے گھر کے باہر دیکھا ہے،اس لئے اس کے غلط کردار کی وجہ سے کوئی اس کو کندھا نہیں دے رہا۔آخر بادشاہ اس کا گھر کھوجتے کھوجتے اس کے گھر پہنچ گیا اور اس کی بیوی سے اس کے بارے میں پوچھا۔بادشاہ عام آدمی کے بھیس میں تھا۔اس لئے کوئی اس کو پہچان نہیں پا رہا تھا۔(جاری ہے)اس آدمی کو بیوی روتے ہوئے بولی:”بھائی صاحب!قسم اس خدا کی جس کے قبضے میں میری،آپ کی اور پوری کائنات کی جان ہے۔میرا شوہر ایک نیک آدمی اور اللہ کا ولی تھا۔لوگوں نے ہر رات اسے شراب خانے اور بوڑھی بیوہ کے گھر کے باہر تو دیکھا ہے،لیکن سچائی کوئی نہیں جانتا۔میرا شوہر رات شراب خانے جاتا اور وہاں سے دس مٹکے شراب کے گھر لا کر اسے بہا دیتا اور کہتا کہ اس نے دس مسلمانوں کو شراب کی لعنت سے بچا لیا۔اس کے علاوہ وہ بوڑھی بیوہ کے گھر جاتا اور اسے ہر روز تھوڑی سی رقم اور کھانا دیتا،تاکہ وہ اپنی جائز ضروریات کے لئے کوئی غلط کام نہ کرے۔وہ بوڑھی بیوہ اسے اپنا بیٹا مانتی تھی۔میں ہر دفعہ اس سے کہتی کہ اگر تمہارا یہی طریقہ رہا تو کوئی تمہاری لاش کو کندھا بھی نہیں دے گا۔اس سے وہ کہتا کہ تم اللہ پر بھروسا رکھو میرا جنازہ بادشاہ وقت اور بڑے بڑے علماء پڑھائیں گے۔“یہ کہہ کر وہ عورت چپ کر گئی اور بادشاہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اس نے اس عورت سے کہا:”بہن!میں ہی بادشاہ ہوں اور تمہارے شوہر کا جنازہ میں ہی پڑھاؤں گا۔“عورت بہت خوش ہوئی۔اس کے بعد بادشاہ نے علماء کرام کو بلایا اس کا جنازہ پڑھایا اور علماء کے قبرستان میں احترام سے اس کو دفن کر دیا۔ " چور پکڑے گئے - تحریر نمبر 2110,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chor-pakray-gaye-2110.html,"سیدہ زینب علی،کراچی”سر،سر!آج پھر جام نگر میں چوری ہو گئی ہے۔“اس بار چوری سیٹھ عارف صاحب کے بنگلے میں ہوئی ہے۔عارف صاحب بتا رہے ہیں کہ صبح جب وہ اُٹھے تو انھوں نے دیکھا کہ تجوری کا تالا ٹوٹا ہوا ہے اور تمام زیور اور نقدی وغیرہ غائب۔“انسپکٹر راشد غور سے اپنے ماتحت کی بات سن رہے تھے۔”سمجھ میں نہیں آ رہا کہ چور کس طرح اتنی صفائی کے ساتھ چوری کرتا ہے اور نکل جاتا ہے اور کسی کو پتا تک نہیں چلتا۔“انسپکٹر راشد پریشانی سے بولے۔جام نگر میں یہ تیسری واردات تھی۔اس سے پہلے بھی چور دو گھروں کی تجوریوں پر ہاتھ صاف کر چکا تھا۔ابھی ان دو وارداتوں کا سراغ نہیں ملا تھا کہ تیسری واردات بھی ہو گئی۔انسپکٹر راشد پریشان اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ماتحت ایک شخص کے ساتھ داخل ہوا۔(جاری ہے)اس شخص نے بتایا:”انسپکٹر صاحب!میں رات کو موٹر سائیکل پر اپنے گھر جا رہا تھا تو اچانک میری نظر دو لوگوں پر پڑی،جن کے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے اور ایک شاپر میں شاید زیورات وغیرہ تھے۔پھر وہ لوگ بائیک پر بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔“وہ شخص تھوڑی دیر کے لئے رکا۔”پھر․․․․؟“انسپکٹر راشد بے چینی سے بولے۔”مجھے ان پر شک ہو گیا اور میں ان کا پیچھا کرنے لگا۔وہ لوگ ایک ویران بستی کی طرف مڑ گئے۔میں نے ایک کاغذ پر بائیک کا نمبر نوٹ کر لیا تھا،یہ لیجیے۔“اس نے ایک کاغذ انسپکٹر راشد کو دیا۔انھوں نے نمبر دیکھا اور کاغذ اپنی جیب میں رکھ لیا۔”کیا تم اس بستی کا پتا بتا سکتے ہو؟“انھوں نے پوچھا۔”جی ضرور۔“اس شخص نے کہا اور ساتھ ہی پتا بتا دیا۔”آپ کا معلومات دینے کے لئے شکریہ۔“پھر وہ شخص چلا گیا۔انسپکٹر راشد نے اپنے ماتحت سے کہا:”ہمیں فوراً کارروائی شروع کرنی ہو گی،کہیں ایسا نہ ہو کہ چور مزید کوئی واردات کر دے۔تم فوراً نفری تیار کرو۔“”یس سر!“ماتحت نے سلیوٹ کیا اور نکل گیا۔کچھ ہی دیر میں انسپکٹر راشد اپنی جیپ میں بیٹھ گئے۔جیپ میں انسپکٹر راشد اور ان کے ماتحت بیٹھے تھے۔ان کے پیچھے کچھ نفری آ رہی تھی۔ایک جگہ اچانک انسپکٹر راشد نے جیپ روک دی۔ماتحت نے چونک کر ان سے وجہ پوچھی۔”وہ دیکھو!سامنے جو موٹر سائیکل کھڑی ہے اس کا نمبر وہی ہے جو اس شخص نے بتایا تھا۔“انسپکٹر راشد نے کہا۔”اوہ!اور سامنے بالکل وہی بستی ہے۔“ان کے ماتحت نے کہا۔”ایسا کرتے ہیں کہ جیپ باہر کھڑی کرکے پیدل آگے بڑھتے ہیں۔“”ٹھیک ہے سر!میں گاڑیوں کو رکواتا ہوں ضرورت پڑی تو بلوا لیں گے۔“”ٹھیک ہے۔“انسپکٹر راشد نے کہا۔کچھ دیر بعد ماتحت واپس آیا تو وہ دونوں آگے چل پڑے۔تھوڑا آگے پہنچ کر انھیں ایک آواز سنائی دی:”باس!آج تو بڑی اہم فائلیں چوری کی ہیں۔“”شاباش!ہمیں پولیس کبھی نہیں پکڑ پائے گی۔ہاہاہاہا۔“انسپکٹر راشد نے ماتحت سے کچھ کہا۔وہ چلا گیا۔واپس آیا تو اس کے ساتھ پوری نفری تھی۔ان سب نے دروازہ توڑ ڈالا اور ہال میں داخل ہو گئے۔سارے چور گھبرا گئے۔سب کو گرفتار کر لیا گیا۔یوں جام نگر کے چور پکڑے گئے۔ " وقت کا سفر - تحریر نمبر 2109,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/waqt-ka-safar-2109.html,"زینب محبوب اعوان”میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آج تمہاری بلی زخمی ہو جائے گی۔“عدیل نے سلیم کو بتایا تو سلیم نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا:”ضروری تو نہیں کہ تمہارا ہر خواب ہی سچ ہو۔“عدیل خاموش ہو گیا۔دوست اس کے خواب پر یقین نہیں کرتے تھے۔وہ صرف یہ کہتے تھے کہ جو تم خواب دیکھتے ہو اتفاقاً ویسا ہو جاتا ہے۔وہ دونوں اپنے اپنے گھر چلے گئے اور اس بات کو تو بھول ہی گئے۔شام کو کھیل کے بعد جب وہ گھر پہنچا تو پتا چلا کہ اس کی بلی گلی میں تیزی سے گزرتی ہوئی موٹر سائیکل کی زد میں آ کر زخمی ہو گئی ہے۔سلیم بہت شرمندہ تھا کہ اس نے عدیل کی بات کا یقین نہ کیا۔اس نے عدیل سے معافی مانگی۔آج سارے بچے بہت خوش تھے۔ان کے سکول کا ایک گروپ میوزیم دیکھنے جا رہا تھا۔(جاری ہے)عدیل اور سلیم بھی ان میں شامل تھے۔عدیل نے سلیم کو بتایا کہ مجھے خواب میں ایک پرانے پتھر کے نیچے ایک چابی نظر آ رہی ہے۔کچھ دیر بعد سب کے ساتھ عدیل اور سلیم میوزیم پہنچ گئے اور پتھر تلاش کرنے لگے۔اچانک عدیل نے ایک پتھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:”یہ وہ پتھر ہے“۔دونوں نے مل کر پتھر ہٹایا تو دیکھا وہاں ایک چابی دبی ہوئی نظر آئی۔جب عدیل نے چابی اُٹھائی تو تیز طوفانی ہوا چلنے لگی اور پرنسپل سارے بچوں کو بلانے لگے تاکہ کوئی بچہ گم نہ ہو جائے۔عدیل اور سلیم وہ دروازہ تلاش کرنے لگے جس کی یہ چابی تھی۔ایک جانب انھیں ایک پرانا دروازہ نظر آیا۔دروازے میں چابی لگتے ہی دروازہ کھل گیا۔وہ اندر داخل ہوئے تو دروازہ خود بہ خود بند ہو گیا۔وہ آگے چل پڑے۔چلتے چلتے شام ہو گئی۔وہ ایک گاؤں میں پہنچے۔وہاں پر ایک گھر کا دروازہ بجایا اور ایک آدمی باہر آیا اور اس نے عجیب لباس پہن رکھا تھا۔وہ ان دونوں کو اندر لے گیا اور ان سے سوال کرنے لگا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔جب دونوں نے اس آدمی کو بتایا تو وہ حیران رہ گیا اور کہا:” وہ اپنے زمانے سے سو سال پچھلے دور میں آ گئے ہیں۔“مجبوراً وہ دونوں وہاں رہنے لگے۔وہ روزانہ دروازہ تلاش کرنے کے لئے جنگل میں ضرور جاتے تھے۔اس طرح دو سال گزر گئے۔ایک دن عدیل نے خواب میں پھر وہی دروازہ دیکھا اور جلدی عدیل کو بتایا۔پھر وہ دونوں اسی راستے پر آ گئے تو دیکھا کہ سامنے دروازہ موجود تھا۔وہ بہت خوش ہوئے، لیکن پھر اُداس بھی ہوئے کہ پتا نہیں ان کے گھر والے کس حال میں ہوں گے۔وہ تو ان کے آنے کی اُمید ختم کر چکے ہوں گے،لیکن جب وہ دروازہ کھول کر باہر آئے تو دیکھا کہ ابھی استاد صاحب بچوں کو بلا کر ایک جگہ جمع کر رہے تھے۔طوفان ختم ہو چکا تھا،وہ خوش ہوئے اور بچوں میں شامل ہو گئے۔ " وہ ایک مکان - تحریر نمبر 2108,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/woh-aik-makaan-2108.html,"عائشہ تنویرسفید و سبز سنگِ مرمر کا بنا وہ خوبصورت مکان ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کی توجہ کا مرکز تھا۔بارہ سال کا نصیر اس بڑے اور اونچے مکان کو دیکھنے میں محو تھا۔مکان کی پیشانی پر واضح الفاظ میں ”فردوس بر زمیں“ یعنی زمینی جنت،کندہ تھا۔خطاطی کے انداز میں لکھے ہوئے یہ الفاظ جب اس نے پہلی بار پڑھے تو امی سے ان کے معنی پوچھے تھے۔اچانک اس مکان کا بڑا دروازہ کھلا،ایک گاڑی نکلی تو پیچھے سبز گھاس اور رنگ برنگے پھولوں سے سجے لان کے منظر کو اس نے مزید دلچسپی اور خوشی سے دیکھا،پھر دروازہ بند ہو گیا۔یہ مکان واقعی جنت کا ٹکڑا تھا۔اس کے اندر جانے اور رہنے کا شوق نصیر کے دل میں سر اُٹھانے لگا۔سوچوں میں مگن اسے اپنے ہاتھ میں کھنچاؤ کا احساس ہوا۔(جاری ہے)اس کے ہاتھ میں پکڑا تھیلا خاصا وزنی تھا۔جسے مین بازار تک اُٹھا کر لے جانا تھا۔وہ مکان پر حسرت سے نظر ڈال کر اپنے راستے پر چل دیا۔نصیر نو سال کا تھا،جب اس کے ابو کا انتقال ہو گیا۔اس کی امی لوگوں کے کپڑے سلائی کرکے گھر کا خرچ چلا رہی تھیں۔نصیر کی تعلیم کے اخراجات اس محدود آمدنی سے پورا کرنا ممکن نہیں ہوئے تو انھوں نے بچوں کے کپڑے سلائی کرکے دکانوں تک پہنچانے کا کام شروع کیا۔نصیر بھی سکول سے آکر امی کی مدد کرتا۔اب تو وہ اچھی خاصی سلائی کر لیا کرتا تھا۔پھر امی کے ساتھ بازار جانا یا دکان داروں سے آرڈر لینے جانا بھی اسی کا کام تھا۔امی نے اسے ہمیشہ یہی سکھایا کہ مانگنے کے سوا کسی کام میں عار نہیں۔ہاتھ سے محنت کرکے رزق حلال کی کوششیں کرنے والے اللہ پاک کی رحمت پاتے ہیں۔بازار آتے جاتے جب بھی نصیر کو وہ مکان نظر آتا،وہ وہیں ٹھیر جاتا۔”ایک دن میں بھی ایسا ہی مکان بناؤں گا۔“وہ خود سے عہد کرتا۔دن گزرتے رہے۔نصیر اب کالج جانے لگا تھا۔ساتھ ہی اپنے کارخانے کے انتظامی امور بھی سنبھالتا تھا۔ان کا سلائی کا کام اب کافی پھیل گیا تھا۔امی نے سلائی میں مدد کے لئے کاریگر رکھ لئے تھے۔وہ خود سارا کام جانتی تھیں۔گھر میں ہی قائم چند مشینوں والا یہ چھوٹا سا کارخانہ ان کی بڑی کامیابی تھی۔اب بھی وہ آتے جاتے اس خوبصورت مکان کو ضرور دیکھتا۔گزرتے وقت کے ساتھ مکینوں کی لاپروائی سے مکان کا بیرونی سفید پتھر اب قدرے گدلا ہو گیا تھا۔اس کے باوجود مکان اپنے منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے خوبصورت لگتا تھا۔اس مکان سے نصیر کی محبت آج بھی برقرار تھی۔آخر وہ دن بھی آ گیا،جب نصیر بچوں کے کپڑے بنانے والی ایک بڑی فیکٹری کا مالک بن چکا تھا۔اس کے پاس برسوں کی محنت و تجربے کے ساتھ تعلیم کا زیور تھا۔اب اس نے اتنے پیسے جمع کر لئے تھے کہ ایک اچھا گھر خرید سکے۔ویسا ہی سفید رنگ کا پُرسکون مکان یا شاید وہ ہی گھر جو اس کی محبت تھا،مگر کیا گھر والے بھی اپنا گھر بیچنا چاہیں گے یا نہیں،وہ نہیں جانتا تھا۔آخر ایک دن وہ اپنے بچپن کی خواہش پوری کرنے اس گھر کے دروازے پر جا کھڑا ہوا۔دوبارہ گھنٹی بجائی تو ملازم نے دروازہ کھولا۔”اشرف صاحب کا گھر ہے۔“نصیر نے دروازے پر لگی تختی پر لکھا نام دہرایا۔”جی،آپ بڑے صاحب سے ملنے آئے ہیں۔“ملازم چونک گیا۔اس کے لہجے میں تعجب تھا۔”جی۔“نصیر نے مختصر جواب دیا۔اب وہ دروازے پر کھڑے ہو کر کیا تفصیل بتاتا۔ملازم اسے اندر لے آیا۔نصیر نے اطراف میں نگاہ دوڑائی تو اس کی اُمیدوں پر اوس پڑ گئی۔برسوں پہلے کا تروتازہ لان غائب تھا۔پیلی پڑی ہوئی جگہ جگہ سے اُدھڑی گھاس،سوکھے پودے اور خشک تالاب ایک ویران منظر پیش کر رہا تھا۔ملازم کی رہنمائی میں وہ چلتا ہوا اندرونی کمرے کی طرف بڑھ گیا۔مکان کی حالت اس کے مالکوں کی عدم توجہ ظاہر کر رہی تھی۔سب سے بڑی بات یہ کہ ملازم ایک اجنبی کو کیوں اسے اندر لیے چلا جا رہا تھا۔کچھ بات تو ضرور تھی۔”یہ بڑے صاحب کا کمرا ہے۔“ایک دروازے پر رُک کر اس نے دروازہ بجا کر جواب کا انتظار کیے بغیر کھول دیا۔اندر موجود بیڈ پر ایک کمزور سے بزرگ نیم دراز تھے۔نصیر انھیں سلام کرتا اندر داخل ہوا۔انھوں نے مسکرا کر اس کا خیر مقدم کیا۔نصیر ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔ان کی پُرشفقت مسکراہٹ سے متاثر ہو کر وہ انھیں اپنے بارے میں سب تفصیل بتاتا چلا گیا۔وہ اس کی محنت و لگن سے حاصل کامیابی کی داستان سن کر بہت خوش ہوئے۔”واہ جوان،خوب ترقی کرو گے،محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی۔“وہ مسلسل اسے سراہتے رہے۔”آپ یہاں اکیلے رہتے ہیں؟“ان کی گفتگو سے ہمت پا کر اس نے سوال کیا۔”میرا بیٹا لندن میں ہوتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ میں بھی اس کے پاس وہیں آجاؤں،مگر میں ملک چھوڑنا نہیں چاہتا۔اب ٹانگوں میں تکلیف کے باعث خود سے اِدھر اُدھر حرکت کرنا مشکل ہے سو ملازموں کے رحم و کرم پہ ہوں۔عرصے سے کوئی مجھ سے ملنے نہیں آیا۔اسی لئے ملازم اتنے آرام سے تمہیں اندر لے آیا۔“انھوں نے بتایا تو نصیر نے جھرجھری سی لی۔قدرت نے اسے آئینہ دکھایا تھا۔پیسے جمع کرنا،اس مکان میں رہنا اس کا خواب تھا اور وہ پیسوں کے ڈھیر کے ساتھ بھی اس گھر میں کتنے تنہا تھے۔”مجھے بچپن سے آپ کا گھر بہت پسند تھا۔اکثر میں کھڑا ہو کر اسے دیکھتا رہتا۔اسے خریدنا،اس میں رہنا میرا خواب تھا۔اب یہ ویسا خوبصورت نہیں رہا۔میں تو اندر آتے ہوئے اُجڑے ہوئے لان کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔“اس نے غیر ارادی طور پر ان سے یہ بات کہہ دی۔”میرا یہ ملازم اشرف بچپن سے ہمارے ساتھ ہے،شاید اس لئے خیال کر لیتا ہے ورنہ باقی سارے ملازمین تو توجہ نہیں دیتے۔میرے لئے اب ان کی نگرانی ممکن نہیں ہے۔“انھوں نے یہ بات بھی مسکرا کر ہی کہی تھی۔”تم یہ گھر خریدنا چاہتے ہو؟“انھوں نے پوچھا تو نصیر نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا۔وہ ایک بار پھر مسکرائے:”میں اسے بیچنا نہیں چاہتا۔البتہ میں تمہیں ایک شرط پر دے سکتا ہوں۔“”آپ گھر نہیں بیچنا چاہتے تو کوئی بات نہیں،میں اسے شرطوں پر یا مفت میں نہیں لے سکتا۔“اس نے بات ختم کرنا چاہی،مگر وہ اس پر راضی نہ تھے۔”شرط تو سن لو پہلے۔“نصیر سر ہلا کر ان کی بات سننے لگا۔وہ دھیرے دھیرے کچھ کہہ رہے تھے۔اسے سمجھا رہے تھے۔اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔تھوڑی دیر میں ہی وہ دونوں مشورہ کرکے تفصیل سے کاغذ پر کچھ نکات درج کرنے لگے۔کچھ عرصے میں ہی نصیر نے گھر کی شکل بدل دی تھی۔اب وہ ایک بار پھر سے چمکتا دمکتا گھر تھا۔اشرف صاحب جنھیں وہ انکل کہتا تھا،اس کی کارکردگی سے بہت خوش تھے۔اپنی فیکٹری کے ساتھ وہ ان کے منصوبے کو بھی پورا وقت دے رہا تھا۔گھر میں ایک حصہ رہنے کے لئے مختص کیا گیا۔جہاں انکل کے اصرار اور کام کی نگرانی کے لئے نصیر اپنی امی کے ساتھ رہنے لگا تھا۔گھر کی پچھلی جانب ایک حصے میں بے سہارا خواتین کے لئے مفت سلائی سکھانے کا مرکز اور بزرگوں کے لئے مفت رہائش کا بندوبست کیا گیا تھا۔انکل کے چہرے پر زندگی کی بہار آ گئی تھی۔وہ باہر نکلتے،سب سے باتیں کرتے اور ان کے مسائل سنتے تھے۔ایک چھوٹے سے حصے میں بیماروں کے علاج کے لئے ایک ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر کا انتظام بھی کر لیا تھا۔اب یہ گھر بے سہارا لوگوں کیلئے جنت بن گیا تھا۔اُجڑے ہوئے گھر میں ایک بار پھر بہار آ گئی تھی۔ " مکار گیدڑ - تحریر نمبر 2107,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/makkar-geedar-2107.html,"ایاز قیصرایک مور تھا اور ایک تھا گیدڑ،دونوں میں بہت محبت تھی۔ایک روز دونوں نے طے کیا کہ چل کر بیر کھائے جائیں۔وہ دونوں کے دونوں مل کر چلے کسی باغ میں،وہاں ایک بیری کا درخت تھا۔جب اس درخت کے قریب پہنچے۔تو مور اُڑ کر درخت پر جا بیٹھا۔درخت پر بیٹھ کے پکے پکے بیر تو خود کھانے لگا اور کچے کچے بیر نیچے پھینکنے لگا۔گیدڑ نے کہا،”دوست یا تو مجھے بھی پکے بیر دے،نہیں تو جب تو نیچے اُترے گا،میں تجھے کھا جاؤں گا۔مور نے اس کی ایک نہ سنی اور بیر کھاتا رہا۔جب مور کا پیٹ بھر گیا،تو وہ نیچے اُترا،گیدڑ نے اسے دبوچ کر چیر پھاڑ کر کھا لیا۔گیدڑ جب مور کو کھا کے آگے چلا تو اس نے دیکھا کہ ایک بڑھیا بیٹھی اُپلے چن رہی تھی۔وہ اس کے پاس گیا اور اس سے کہا،”پکے پکے بیر کھائے،اپنا دوست مور کھایا، تجھے کھاؤں تو پیٹ بھرے“۔(جاری ہے)بڑھیا نے کہا،”جا پرے!نہیں تو اُپلا سر پر ماروں گی۔یہ سن کر گیدڑ نے بڑھیا پر چھلانگ لگائی اور اسے بھی کھا گیا۔وہاں سے آگے چلا تو ایک لکڑہارا لکڑیاں چیرتا ہوا ملا۔اس نے لکڑہارے سے کہا،”پکے پکے بیر کھائے، اپنا بھائی مور کھایا،اُپلے چنتی بڑھیا کھائی،تجھے کھاؤں تو پیٹ بھرے“۔لکڑہارے نے کہا”پرے ہٹ“۔گیدڑ نے اسے بھی کھا لیا۔آگے چلا تو اسے ایک تیلی ملا جو تیل تول رہا تھا گیدڑ نے اس سے کہا”پکے پکے بیر کھائے،اپنا بھائی مور کھایا،اُپلے چنتی بڑھیا کھائی، لکڑیاں چیرتا لکڑہارا کھایا،تجھے کھاؤں تو پیٹ بھرے۔تیلی نے کہا”بھاگ یہاں سے،نہیں تو ایک کپا ماروں گا“۔گیدڑ تیلی کو بھی کھا گیا۔آگے گیا تو دریا ملا،وہاں جا کر خوب پانی پیا۔جب پیٹ اچھی طرح بھر گیا،تب سارے جنگل کی مٹی سمیٹ کر اس کا چبوترا بنایا اور گوبر سے اسے لیپا۔دریا میں سے دو مینڈکیاں پکڑ کر اپنے دونوں کانوں میں لٹکا لی اور چبوترے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔اس دوران بہت سی گائے بھینسیں دریا پر پانی پینے آئیں تو گیدڑ ان سے لڑنے لگا اور بھینسوں سے کہا”میں تمہیں پانی نہیں پینے دوں گا“۔انہوں نے اس سے پوچھا،”کیوں؟گیدڑ بولا،”پہلے اس طرح کہو،چاندی کا تیرا چونترا،صندل سے لیپا جائے، کانوں میں تیرے دو مرکیاں،کوئی راجہ بنسی بیٹھا ہوئے“۔انہوں نے کہا”اچھا ہم پہلے پانی پی لیں،پھر کہیں گے“۔جب گائیں بھینسیں پانی پی چکیں۔تو گیدڑ نے کہا۔اب کہو۔تو انہوں نے کہا۔”مٹی کا تیرا چونترا،گوبر سے لیپا جائے،کانوں میں تیرے دو مینڈکیاں۔کوئی گیدڑ بیٹھا ہوئے“۔گیدڑ نے جو یہ سنا تو اسے بہت غصہ آیا اور وہ بھینسوں سے لڑنے لگا۔گائے بھینسیں بھی مقابلے پر اُتر آئیں،ان میں سے ایک بھینس نے سینگ مارا جس سے گیدڑ کا پیٹ پھٹ گیا اور اس نے جتنے مور اور آدمی کھائے تھے وہ سب نکل آئے اور اپنے اپنے گھر چلے گئے۔گیدڑ وہاں تڑپتا رہا لیکن اس کی مدد کو کوئی نہیں آیا اور وہ تڑپ تڑپ کے مر گیا۔ " چیونٹی اور بھڑ (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2106,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chiyunti-aur-bhir-aakhri-hissa-2106.html,"ڈاکٹر تحسین فراقیہے کوئی جو بھڑ سے کہے کے اے ہمہ آزار!جو شہد دے نہیں سکتی تو ڈنک بھی مت ماربھڑ کہنے لگی:ایسی باتیں کمزور لوگ کیا کرتے ہیں۔تم لوگ اپنا دل یہ سوچ کر خوش کرتے ہو کہ چیونٹیاں ہو اور بے آزار ہو اور شاعر نے تمہاری تعریف کی ہے لیکن تم نے اس زندگی سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔تم نے قصاب کی دکان کا گوشت کبھی نہیں کھایا اور انگور کی بیلوں سے لٹکے انگوروں کے رس کا مزہ کبھی نہیں چکھا۔ایک دن تمہاری زندگی اختتام کو پہنچ جائے گی اور تم مر جاؤ گی،زندگی کا لطف اُٹھائے بغیر!لیکن جب ہم مریں گے تو دھوکہ کھائے ہوئے لوگوں میں سے نہیں ہوں گے۔ہم نے دنیا میں عیش بھی کی ہیں اور اپنے ڈنک سے لوگوں سے انتقام بھی لیا ہے۔ہمارے ایک دن کی قدر و قیمت تمہاری عمر کے ایک برس سے بڑھ کر ہے۔(جاری ہے)میں چاہتی ہوں کہ کوئی ستر سالہ بدبخت شاعر ہماری تعریف نہ کرے۔چیونٹی نے تعجب سے کہا:اچھا تو تم لوگ قصاب کی دکان کا گوشت بھی کھاتے ہو؟بھڑ نے کہا:ارے واہ!اگر تمہیں نہیں معلوم تو میرے ساتھ آؤ تا کہ تمہیں معلوم ہو کہ ہم کیا کیا کارنامے کرتے ہیں۔چیونٹی نے کہا:تمہیں معلوم ہے میں تمہارے ساتھ پرواز نہیں کر سکتی۔ اگر سچ کہتی ہو تو مجھے اپنے ساتھ اُڑا لے چلو تا کہ میں دیکھوں اور یاد رکھوں۔مغرور بھڑ،چیونٹی کو اپنے کارناموں سے آگاہ کرنا چاہتی تھی۔اس نے چیونٹی کو اپنے دانتوں سے پکڑا اور قصاب کی دکان پر لا کر زمین پر بیٹھا دیا اور کہا:یہاں رہ اور دیکھ۔پھر وہ اُڑی اور بھیڑ کی دم پر آ بیٹھی جسے قصاب نے ذبح کرکے لوہے کے حلقے کے ساتھ لٹکا رکھا تھا۔جونہی قصاب گوشت لینے کے لئے اُٹھا،بھڑ خوف زدہ ہو کر اوپر کو اُڑی۔قصاب بھڑوں کی روز روز کی مصیبت سے تنگ آ چکا تھا۔اس نے اپنا بغدہ اُٹھایا اور بھیڑ کے جسم پر کچھ اس طرح مارا کہ کئی بھڑیں ضرب کھا کر مر گئیں اور کئی نیم جان ہو کر زمین پر گر گئیں۔چیونٹی کی ہمسایہ بھڑ بھی انہی میں تھی۔چیونٹی جو اس وقت ایک طرف دیکھ رہی تھی،آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور اپنی ہمسایہ بھڑ کا کھوج لگا لیا۔پھر اس سے کہنے لگی:مجھے بڑا دکھ ہے۔ ہم چیونٹیاں اس طرح کی زندگی جس میں ہر لمحہ خطرہ جان ہو،پسند نہیں کرتیں جب تک کہ کوئی بڑا مقصد ہمارے سامنے نہ ہو۔تب تک ہمسایہ بھڑ مر چکی تھی اور جواب دینے سے قاصر!چیونٹی مردہ بھڑ کا پاؤں منہ میں تھام اسے کھینچ کھانچ کر اپنے گھر میں لے آئی اور اسی دیوار پر چڑھ کر اوپر لے گئی۔پھر اسے خشک توت کے ساتھ رکھ کر دوسری چیونٹیوں کو اطلاع کی اور کہا:آؤ اس بھڑ کے بدن کو تکہ تکہ کریں۔اس کے اندر موجود زہر کہیں دور پھینک دیں اور اس کا گوشت ذخیرہ کر لیں،موسم سرما میں کام آئے گا۔ " چیونٹی اور بھڑ (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2105,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chiyunti-aur-bhir-pehla-hissa-2105.html,"ڈاکٹر تحسین فراقیایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کچھ چیونٹیوں نے ایک ویران گھر کے کھنڈر میں اپنا گھروندا بنا لیا۔وہ ایک مدت سے یہاں رہ رہی تھیں۔ایک روز چندتند،سرخی مائل بھڑیں بھی وہاں آ پہنچیں اور انہوں نے اسی ویران گھر کی دیوار میں اپنا چھتا بنا لیا۔چیونٹیاں اور بھڑیں اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتی تھیں۔یوں اس ڈھنڈار میں باپ،مائیں،ان کے بچے بچیاں،نواسے،نواسیاں،پوتے پوتیاں اور پرنواسے،پرنواسیاں ایک وسیع اور تہ در تہ گھر میں زندگی بسر کر رہے تھے اور جیسا کہ ان کا معمول ہے،وہ گرمیوں کے دنوں میں باغوں،صحراؤں اور کونوں کھدروں میں پھیل جاتیں اور صبح سے رات تک دانہ دنکا اکٹھا کرتیں،اپنے ذخیرے کو بھرتی جاتیں اور سردیوں کے دنوں میں مزے سے زندگی گزارتیں۔(جاری ہے)ایک دن بزرگ دیوار پر بیٹھی اِدھر اُدھر نگاہ کر رہی تھی۔کیا دیکھتی ہے کہ ایک چیونٹی خشک توت کو دانتوں میں تھامے اسے اپنے گھروندے تک لے جانا چاہتی ہے مگر چونکہ کمزور ہے،نیچے آرہی ہے۔اب وہ دانے کو اپنے دانتوں میں دابے دیوار کی بلندی کی جانب کھینچ رہی تھی۔ابھی وہ آدھے رستے تک بھی نہ پہنچ پائی تھی کہ خشک توت اس کے منہ سے پھر کر گر گیا۔چند بار ایسا ہی ہوا کہ بیچاری چیونٹی اسے زمین سے اُٹھاتی، آدھی راہ طے کرتی اور وہ زمین پر آ رہتا۔آخر کار ایک بار وہ دانے کو دیوار کے آخر تک لے جانے میں کامیاب ہو گئی۔اب اس نے دانہ لب بام رکھا اور اس کے پہلو میں کھڑی ہو گئی۔تھکن سے چور اس نے لمبا سانس لیا اور بولی:ہائے افسوس،میرے مولا،میں تو تھکن سے نڈھال ہو گئی۔بزرگ بھڑ جو چیونٹی کے صبر اور حوصلے پر حیران تھی،اپنی جگہ سے اُڑی اور چیونٹی کے پاس آ بیٹھی اور کہنے لگی:معاف کرنا،یہ تو تمہیں یقینا معلوم ہو گا کہ ہم ہمسائے ہیں اور اسی دیوار کے ایک سوراخ میں رہتے ہیں چیونٹی بولی،ہاں ہاں مجھے معلوم ہے،آپ کا شکریہ۔اصل میں ہر کوئی اپنے اپنے کام میں جتا ہوا ہے۔بھڑ بولی:بے شک زندگی ہے تو یہ سب کچھ ہے مگر یہ کیا کام ہوا کہ تم چیونٹیاں کرتی رہتی ہو؟“کون سا کام“؟چیونٹی بولی،آخر ہم کیا کام کرتی رہتی ہیں کہ تمہیں عجیب لگا“؟بھڑ بولی:بالکل بیکار،تمہارا کام یہی تو ہے کہ سارا سال یہاں وہاں سے کھانے کے لئے دانے اکٹھا کرتی ہو اور بڑی دقت سے انہیں کھینچ کھانچ کر اپنے گھروندے میں لے جاتی ہو اور وہاں ذخیرہ کر لیتی ہو۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس ننھے سے پیٹ کے لئے تم کس قدر حرص اور لالچ سے کام لیتی ہو!چیونٹی بولی!مجھے نہیں معلوم تم کہنا کیا چاہتی ہو۔کیا اس کام کے سوا،جو ہم کرتی ہیں،کوئی اور کام بھی ہے؟ہم گرمیوں کے پورے موسم میں کام میں جتی رہتی ہیں اور سردیوں کے دنوں میں اپنے گھر میں نیند لیتی ہیں اور اپنے جمع شدہ غلے کو کام میں لاتی ہیں۔ایسے میں تمہارا طرز عمل کیا ہوتا ہے؟بھڑ نے کہا:ہم کبھی دانے کھینچنے اور انہیں ذخیرہ کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ہم گرمیوں کے موسم میں بہترین خوراک کھاتے ہیں اور اس قدر کھاتے ہیں کہ سارے موسم سرما میں سیر رہتے ہیں اور سوئے رہتے ہیں حتیٰ کہ دوبارہ گرمیوں کا موسم آ جاتا ہے!چیونٹی بولی،بہت خوب،تمہارا اپنا رنگ ہے ہمارا اپنا ڈھنگ۔سب ایک جیسے تو نہیں ہوتے نا۔ہر کسی کا اپنا اپنا طریقہ اور راہ و رسم ہے۔تم لوگ تکلیف نہیں اُٹھاتے،لوگوں کا مال کھاتے ہو اور لوگ تمہارے ہاتھوں تنگ ہیں۔ہر کوئی تمہیں برا بھلا کہتا ہے لیکن ہمارا رزق حلال ہے، صحراؤں میں گرے پڑے دانے،گری پڑی شکر اور حیوانوں اور پرندوں کی بچی کھچی خوراک۔ہمیں لوگوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک شاعر نے بھی ہماری تعریف میں شعر کہا ہے:دانہ کش چیونٹی کو مت ستا مرے بھائیوہ بھی جان رکھتی ہے اور جان ہے پیاری(جاری ہے) " خزانے کی تلاش - تحریر نمبر 2104,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khazanay-ki-talaash-2104.html,"رضیہ فاروقایک گاؤں میں،سلطان نامی کسان اپنی بیوی اور چار لڑکوں کے ساتھ رہتا تھا۔سلطان کھیتوں میں محنت مزدوری کرتا تھا اور اپنے کنبے کو کھلایا کرتا تھا۔لیکن اس کے چاروں لڑکے سست تھے۔جو اسی طرح گاؤں میں گھومتے تھے۔ایک دن سلطان نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ میں ابھی بھی کھیتوں میں کام کر رہا ہوں۔لیکن میرے بعد ان لڑکوں کا کیا ہو گا؟انہوں نے تو کبھی سخت محنت بھی نہیں کی۔یہ تو کبھی کھیت میں نہیں گئے۔سلطان کی اہلیہ نے کہا کہ آہستہ آہستہ وہ بھی کام کرنا شروع کر دیں گے۔وقت گزرتا گیا اور سلطان کے لڑکوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ایک دفعہ سلطان بہت بیمار ہو گیا۔وہ طویل عرصے تک علیل رہا۔اس نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ وہ چاروں لڑکوں کو فون کرے۔(جاری ہے)اس کی بیوی نے چاروں لڑکوں کو بلایا اور انہیں لے کر آئے۔سلطان نے کہا کہ اب میں زیادہ دن نہیں جیوں گا۔سلطان پریشان تھا کہ اس کے جانے کے بعد اس کے بیٹوں کا کیا بنے گا۔اسی لئے اس نے کہا،بیٹے،میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ بھی کمایا ہے وہ میرے کھیتوں کے نیچے ہے۔میرے بعد،آپ اس سے خزانہ نکال لینا اور آپس میں بانٹ لینا۔یہ سن کر چاروں لڑکے خوش ہو گئے۔کچھ دیر عرصہ کے بعد سلطان کی موت ہو گئی۔سلطان کی موت کے کچھ دن بعد،اس کے لڑکے دفن شدہ خزانہ تلاش کرنے کے لئے کھیت میں گئے تھے۔انہوں نے صبح سے شام تک سارا کھیت کھود لیا۔لیکن انہیں کوئی خزانہ نظر نہیں آیا۔لڑکے گھر آئے اور اپنی والدہ سے کہا،ماں،باپ نے ہم سے جھوٹ بولا۔ہمیں کھیتوں میں کوئی خزانہ نہیں ملا۔اس کی والدہ نے کہا کہ آپ کے والد نے اپنی زندگی میں یہ مکان اور کھیت کمایا ہے۔اور اب تم سب نے کھیت کھود ہی لیا ہے تو اس میں بیج لگاؤ۔اس کے بعد،لڑکوں نے بیج بویا اور ماں کی ہدایت کے مطابق پانی دیا۔کچھ عرصے کے بعد فصل پک کر تیار ہو گئی۔لڑکوں نے اسے بیچ کر اچھا منافع کمایا۔جس کے بعد وہ اپنی والدہ کے پاس پہنچے۔والدہ نے کہا کہ آپ کی محنت ہی اصلی خزانہ ہے،یہی بات آپ کے والد آپ کو سمجھانا چاہتے تھے۔کہانی کا اخلاقی سبقہمیں کاہلی چھوڑ کر سخت محنت کرنی چاہئے۔محنت کرنا انسان کی اصل دولت ہے۔ " کتابوں سے دوستی - تحریر نمبر 2103,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kitabon-se-dosti-2103.html,"روبینہ نازارسلان اور ریحان بہت اچھے دوست تھے۔دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ان کا گھر بھی ایک ہی محلے میں تھا۔ریحان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔وہ نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ دوسری کتابوں کا بھی بہت شوق سے مطالعہ کرتا تھا۔اس کا سب کچھ کتابیں ہی تھیں۔ ارسلان جب بھی اس سے کوئی سوال کرتا ریحان اس کا دلیلوں کے ساتھ جواب دیتا۔جس سے ارسلان مطمئن بھی ہو جاتا اور اس کے اندر مطالعے کا شوق بھی پیدا ہوتا۔لیکن کھیل کود کے اس کے پاس وقت ہی کہاں تھا۔ایک دن جب ارسلان ریحان کے گھر گیا تو وہ ارسلان کو اپنے کمرے میں لے گیا۔کمرے میں داخل ہوتے ہی ارسلان کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔کیونکہ پورا کمرہ مختلف کتابوں کی الماریوں سے بھرا ہوا تھا۔(جاری ہے)ریحان نے بتایا کہ ”انسان کی بہترین دوست کتاب ہے۔“ارسلان کے پوچھنے پر اس نے بتایا۔”یہ سب کتابیں میری ہیں جو میں نے اپنی جیب خرچ سے خریدی ہیں۔ریحان نے اسے واقعات کی ایک دلچسپ کتاب پڑھنے کو دی۔جس کا پہلا واقعہ پڑھنے کے بعد اسے اگلا واقعہ پڑھنے کا شوق ہوا۔اس طرح ارسلان نے وہیں کھڑے کھڑے لگ بھگ بیس پچیس صفحات پڑھ ڈالے۔اور ریحان سے کتاب پڑھنے کے لئے اپنے ساتھ گھر لے گیا۔اب ارسلان روز شام کو گراؤنڈ میں جانے کے بجائے ریحان کے ساتھ اس کی لائبریری میں بیٹھ کر مطالعہ کرتا تھا۔ارسلان بہت بدل چکا تھا۔کتابیں اس کی زندگی کا حصہ بن چکی تھیں۔اب وہ پیسوں کو فضول خرچ کرنے کے بجائے انہیں جمع کرتا اور ہر ماہ ریحان کے ساتھ جا کر کتابیں خرید لاتا کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ کھیل کود میں وقت ضائع کرنا ہے اور کتابیں انسان کی بہترین اور وفادار دوست ہیں۔دوستو!اگر آپ بھی کوئی اچھا دوست بنانا چاہتے ہیں اور اپنے قیمتی وقت کو ضائع ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو کتابوں سے دوستی کر لیجئے۔ " دادا ابو کی کتاب - تحریر نمبر 2102,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dada-abu-ki-kitaab-2102.html,"مسعود احمد برکاتی”یہ خوبصورت ڈبا کیسا ہے؟“”یہ ڈبا نہیں ہے،کتاب ہے۔“”کتاب؟“”ہاں،وہ بہت پرانی کتاب ہے۔“”اچھا،کیا پہلے کتاب ایسی ہوتی تھی؟“”ہاں،پہلے کتابیں کاغذ پر ہی چھپتی تھیں۔“”کتنے پہلے؟“”بہت پرانی بات ہے‘اپنے دادا ابو کے بھی دادا ابو کے زمانے کی۔یہ تو 2095ء ہے نا،اس کتاب پر 1985ء لکھا ہوا ہے،سو سال سے بھی دس سال زیادہ ہو گئے،مگر یہ کتاب تمہیں ملی کہاں سے؟“”بھئی ماریا!تم تو بہت سوال کرتی ہو۔خیر سنو،وہ جو چھ منزل نیچے تہ خانہ ہے نا۔اس میں ایک اسٹور ہے۔دادا ابو نے وہاں ایک الماری اپنے قبضے میں رکھی ہوئی ہے۔اس میں یہ کتاب حفاظت سے رکھی تھی۔(جاری ہے)وہ کہتے ہیں کہ یہ میرے دادا کی کتاب ہے۔“”اچھا حیرت ہے۔!یہ تو کاغذ پر چھپی ہوئی ہے۔کاغذ بھی پلاسٹک کا نہیں ہے۔عجیب سا ہے۔بھدا بھدا۔“”ہاں،دادا ابو کے دادا ایسی ہی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔“”مگر اس کے حروف تو بالکل خاموش ہیں،نہ ہلتے ہیں نہ بولتے ہیں۔“جاجی نے ماریا کے کہنے کے بعد اس بات پر غور کیا اور کتاب کے ورق اُلٹنے پلٹنے لگا۔ایک صفحہ جو دیکھ چکا تھا جب اس نے دوبارہ وہی صفحہ دیکھا تو اس کے حروف بالکل ویسے کے ویسے اپنی جگہ تھے جیسے کوئی چپ چاپ لیٹا ہوا ہو۔نہ وہ آگے پیچھے حرکت کر رہے تھے اور نہ بول چال رہے تھے”ٹی وی بک“ تو ایسی نہیں ہوتی۔اس کے حروف تو چلتے بھی ہیں اور بولتے بھی۔ماریا سے ضبط نہ ہوا۔اس نے جاجی کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا:”بھائی!سنو تو کیا اتنی موٹی کتاب پڑھ کر پھینک دی جاتی تھی؟ایک بار پڑھی اور بے کار؟ہمارے کمپیوٹر ٹی وی میں تو 20-15 لاکھ کتابیں ہوں گی۔“”اور کیا،بلکہ اور زیادہ آسکتی ہیں۔ایک تختے پر کئی کتابیں آ جاتی ہیں۔“”ہاں اور کیا،کون مصیبت اُٹھائے اور اتنی موٹی موٹی کتابوں کے ڈھیر جمع کرتا رہے۔“جاجی،ماریا سے باتیں کرتے ہوئے کتاب کے ورق پلٹتا رہا۔کسی صفحے پر ایک تصویر تھی جس میں ایک بڑے سے کمرے میں ماسٹر صاحب بچوں کو پڑھا رہے تھے۔ ماریا کی نظر اس تصویر پر پڑی تو اس نے پوچھا:”یہ کیا ہو رہا ہے؟“جاجی نے بتایا:”ماسٹر صاحب بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔“ایسا معلوم ہوا جیسے ماریا کی آنکھیں حیرت سے پھٹ جائیں گی۔وہ بولی:”سکول؟ماسٹر صاحب؟کیا سکول گھر سے الگ ہوتا تھا؟اور ماسٹر صاحب مشینی ٹیچر کی طرح نہیں ہوتے تھے۔بلکہ وہ ہماری طرح انسان ہوتے تھے؟عجیب بات ہے!“جاجی نے کہا:”ہاں،اس کتاب میں یہی لکھا ہے کہ جیسے پہلے زمانے میں ڈاکٹر انسان ہوتے تھے،اسی طرح ٹیچر بھی انسان ہوتے تھے۔آج کل کی طرح مشینی ٹیچر نہیں ہوتے تھے۔“ماریا بات کاٹ کر بولی:”یہ تو بہت اچھا تھا۔مشینی ٹیچر سے تو میں عاجز ہوں۔ایک ہی بات طوطے کی طرح رَٹے جاتا ہے۔مجھے حیاتیات سے نفرت ہے،مگر وہ مجھے اسی کا ہوم ورک دیتا ہے۔امی ناراض ہوئیں تو میں نے بتایا کہ میری تو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا۔مشینی ٹیچر اتنی جلدی جلدی بولتا ہے کہ․․․․بس میرا دماغ خراب ہو گیا۔آخر امی نے ٹاؤن سینٹر سے ایک ماہر کو بلوایا۔اس نے مشینی ٹیچر کو کھولا،پھر دوبارہ جوڑ دیا اور بولا کہ کوئی خاص بات نہیں،مشن کی رفتار ذرا زیادہ تیز ہو گئی تھی۔خیر اب میری سمجھ میں آنے لگا ہے۔“”ارے ماریا‘سنو!ایک دن دادا ابو کہہ رہے تھے کہ میرے دادا نے مجھے بتایا کہ ہمارے زمانے میں کتابیں کاغذ پر چھپتی تھیں اور ہمیں موٹی موٹی کتابیں اُٹھا کر سکول جانا پڑتا تھا۔سکول بس ہمیں لے جاتی تھی۔اس زمانے میں آج کل کی طرح سکول کا کمرا،سونے کے کمرے کی طرح گھر میں نہیں ہوتا تھا۔پھر ہمارے زمانے میں ہی فوٹو اسٹیٹ مشینیں ایجاد ہوئیں اور ہمیں بہت سارے نوٹس ہاتھ سے لکھنے کے بجائے فوٹو کاپی کرانے کی سہولت ہوئی تو ہمیں حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی۔پھر بھی پڑھنا بہت پڑتا تھا۔اس زمانے میں علم نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔کتابیں بہت چھپنے لگی تھیں،لیکن آج کل تو معلومات اتنی پھیل گئی ہیں کہ پہلے کی طرح کتابیں ہوں تو ان کو پڑھنا تو کیا ان کی ورق گردانی کرنا بھی ناممکن ہو جائے۔یہ تو ہمارا مشینی ٹیچر ہے جو پردے پر جلدی جلدی ہمارے سامنے معلومات گزارتا ہے اور ہم صرف اپنے کام کی معلومات پڑھ یا سن لیتے ہیں۔اس طرح مہینوں کا کام منٹوں میں ہو جاتا ہے۔ماریا نے کہا کہ ہم اس روز دادا ابو کے ساتھ یونیورسٹی کی لائبریری گئے تھے تو انھوں نے بتایا تھا کہ ہمارے دادا کے زمانے میں اس لائبریری میں صرف لاکھ ڈیڑھ لاکھ کتابیں رکھی جا سکتی تھیں، مگر اب تو ایک ایک سی ڈی میں ایک ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں اور ایسی لاکھوں کتابیں لائبریری میں رکھی ہیں۔ان میں سے اپنی ضرورت کی کتاب تلاش بھی نہیں کرنی پڑتی،بلکہ بٹن دبا دو تو اس کتاب کی سی ڈی خود نکل آتی ہے۔تختی مشینی ٹیچر پر لگا دو تو کتاب کے صفحات خود بہ خود چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ساری کتاب پڑھ لو۔جو سبق یاد کرنا ہے رات کو ٹیپ ریکارڈر کھول کر سو جاؤ، جیسے کوئی آدمی تمہیں پڑھ کر سنا رہا ہے۔صبح سو کر اُٹھو گے تو سبق تمہارے ذہن نشین ہو چکا ہو گا۔ماریا چپ رہ کر زیادہ لمبی بات نہیں سن سکتی تھی۔بیچ میں بول اُٹھی:”دادا ابو نے بتایا کہ سو سال پہلے سکول گھر سے الگ ہوتا تھا اور بس میں جانا پڑتا تھا،کتنا مزہ آتا ہو گا سب کے ساتھ جانے میں۔“”ہاں واقعی بہت مزہ آتا ہو گا۔اب تو ہم بور ہو جاتے ہیں۔“”اچھا تو کیا سکول میں پڑھتے بھی سب مل کر تھے؟“”ہاں،دادا ابو تو یہی بتا رہے تھے۔ایک استاد کے کمرے میں جسے کلاس کہتے تھے 50-40 بچے بیٹھتے تھے اور سب ساتھ پڑھتے اور پڑھنے کے بعد کمرے سے باہر نکل کر کھیلتے بھی تھے۔پڑھنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ بھی ہوتا تھا۔جو بات کوئی بچہ بھول جاتا تو وہ دوسرے بچوں سے پوچھ لیتا تھا۔”آہاہا،کیسے اچھے دن تھے۔“”کیا انسانی استاد بھی ایسے ہی پڑھاتا تھا جیسے مشینی ٹیچر پڑھاتا ہے۔“”نہیں،ایسے تھوڑی پڑھاتا تھا۔وہ پڑھانے کے بعد سب بچوں سے پوچھتا تھا کہ سبق سمجھ میں آیا کہ نہیں اور جن کی سمجھ میں نہیں آتا تھا تو اس کو دوبارہ سمجھاتا تھا۔ گھر پر کام کرنے کو دیتا تھا اچھے بچوں کو شاباشی بھی دیتا تھا۔پیار کرتا تھا۔“مجھے تو یقین نہیں آ رہا۔ہمارا ٹیچر تو ہماری بات بھی نہیں سن سکتا۔ہم کتنی ہی محنت سے اور دل لگا کر پڑھیں،کوئی فرق نہیں پڑتا۔میرا تو دل چاہتا ہے کہ میں اسی زمانے میں ہوتی اور بہت سارے ساتھیوں کے ساتھ پڑھتی۔پھر ماسٹر صاحب سے سوال کرتی۔میری محنت سے وہ خوش ہوتے اور مجھے شاباشی دیتے اور پیار کرتے۔“”اور اگر سبق یاد نہیں ہوتا تھا تو وہ ڈانٹتے بھی تو تھے۔“”سچ؟یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ماسٹر صاحب کو ہمارا کتنا خیال ہے۔یہ شفقت مشینی ٹیچر میں کہاں۔“اتنے میں ان کی امی کی آواز سنائی دی۔انھوں نے مشینی ٹیچر کو چالو کر دیا تھا۔ماریا نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بوجھل قدموں سے اس کی طرف چلی گئی۔ " خونی جھیل - تحریر نمبر 2101,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khooni-jheel-2101.html,"ثناء اقبالایک زمانے میں جنگل میں ایک جھیل تھی۔جو خونی جھیل کے نام سے مشہور تھی۔شام ہونے کے بعد کوئی اس جھیل میں پانی پینے نہیں جاتا تھا۔ ایک دن چنوں ہرن اس جنگل میں رہنے کے لئے آئے تھے۔جنگل میں اس کی ملاقات جگو بندر سے ہوئی۔جگو بندر نے چنوں ہرن کو جنگل کے بارے میں سب بتایا لیکن اس جھیل کے بارے میں بتانا بھول گیا۔جگو بندر نے دوسرے دن جنگل کے تمام جانوروں سے چنوں ہرن کا تعارف کرایا۔جنگل میں چنوں ہرن کا سب سے اچھا دوست چیکو خرگوش بن گیا۔جب چنوں ہرن کو پیاس لگی تو وہ اس جھیل میں پانی پیتا تھا۔وہ شام کو بھی پانی پیتا تھا۔ایک شام جب وہ اس جھیل میں پانی پینے گیا تو جیسے ہی وہ پانی میں منہ ڈالنے ہی والا تھا کہ اس کی نظر ایک مگرمچھ پر پڑی جو بہت تیزی سے اس کی طرف چلتا آ رہا تھا۔(جاری ہے)یہ دیکھ کر وہ جلدی سے جنگل کی طرف دوڑا۔راستے میں اسے جگو بندر مل گیا۔جگو چنوں ہرن سے اتنی تیزی سے بھاگنے کی وجہ پوچھتا ہے۔چنوں ہرن نے اسے ساری بات بتا دی۔جگو بندر نے کہا کہ میں آپ کو یہ بتانا بھول گیا کہ یہ ایک خوبصورت جھیل ہے لیکن شام کہ وقت یہ انتہائی خطرناک ہو جاتی ہے۔جو شام کے بعد جھیل پر جاتا ہے واپس نہیں آتا ہے۔جگو فوراً سے بولا لیکن اس جھیل میں مگرمچھ کیا کر رہا ہے۔ہم نے اسے کبھی نہیں دیکھا اس کا مطلب یہ ہے کہ مگرمچھ تمام جانوروں کو کھاتا ہے، جو شام کے بعد جھیل میں پانی پینے آتا ہے۔اگلے دن جگو بندر جنگل کے تمام جانوروں کو لے کر اس جھیل پر گیا۔مگرمچھ نے تمام جانوروں کو آتا دیکھ کر خود کو چھپا لیا۔لیکن مگرمچھ کی کمر اب بھی پانی کے اوپر دکھائی دے رہی تھی۔سب جانوروں نے بتایا کہ جو چیز پانی کے باہر نظر آتی ہے وہ مگرمچھ سے۔یہ سن کر مگرمچھ نے کچھ نہیں کہا۔چیکو خرگوش نے اپنے تیز دماغ سے سوچا اور کہا کہ یہ کوئی پتھر نہیں ہے۔لیکن ہم اسے تبھی قبول کریں گے جب یہ خود بتائے گا۔یہ سن کر مگرمچھ نے کہا کہ میں ایک پتھر ہوں۔تمام جانوروں کو معلوم ہوا کہ یہ مگرمچھ ہے۔چیکو خرگوش نے مگرمچھ کو بتایا کہ تمہیں یہ تک نہیں معلوم کہ پتھر نہیں بولتے ہیں۔اس کے بعد،تمام جانوروں نے مل کر مگرمچھ کو اس جھیل سے نکالا اور خوشی خوشی زندگی گزارنا شروع کیا۔کہانی کا اخلاقی سبقاس کہانی سے،ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اگر ہمیں بغیر کسی خوف کے ایک ساتھ کسی بھی مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے،تو ہم اس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ " انگوٹھی کا ہنگامہ - تحریر نمبر 2100,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/angothi-ka-hungama-2100.html,"مصباح شاہ”تمہاری انگوٹھی تو بہت پیاری ہے اور اس کا نگینہ کتنا چمکدار ہے۔“عائشہ نے جنت کے ہاتھ میں نئی انگوٹھی دیکھ کر کہا جو اپنے جوتے کے تسمے باندھنے میں مصروف تھی۔”اچھا!“جنت نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا اور مسکرانے لگی۔گھنٹی بجی اور دونوں جلدی جلدی اسمبلی ہال کی طرف جانے لگیں۔وہ دونوں میٹرک کی طالبہ تھیں۔چھٹی کے وقت سکول کے گیٹ کے باہر عائشہ جنت کا انتظار کر رہی تھی۔جنت اس کے سامنے آئی اور اپنی بند مٹھی عائشہ کے سامنے کرکے بولی:”بوجھو اس میں کیا ہے؟“”مجھے کیا پتا!“عائشہ مسکرا کر بولی۔جنت نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کاغذ میں لپٹی ہوئی کوئی چیز اس کے ہاتھ میں پکڑا دی۔عائشہ نے اسے کھولنا چاہا تو جنت جھٹ سے بولی:”نہیں نہیں،ابھی نہیں گھر جا کر کھولنا۔(جاری ہے)“وہ دونوں گھر کی طرف چل دیں۔شام کو بازار میں عائشہ کی ملاقات جنت سے ہو گئی۔اس نے جنت سے کہا:”تم نے جو انگوٹھی مجھے دی ہے،وہ بہت ہی پیاری ہے۔کہاں سے لی تم نے؟“”وہ تو مجھے صاحبہ نے دی تھی۔“”یہ شور کیسا ہے؟مجھے لگتا ہے لڑائی ہو رہی ہے۔“وہ دونوں آگے مجمع کی طرف بڑھیں۔انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ مل کر انکل ارسلان سے بحث کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مال واپس کرو،ورنہ تمہارا بُرا حشر کر دیں گے۔انکل ارسلان کا کہنا تھا کہ انھیں تھوڑا سا وقت دیا جائے۔وہ نقصان کی تلافی کر دیں گے۔عائشہ یہ سب دیکھنے میں محو تھی۔اچانک اسے محسوس ہوا کہ انگوٹھی اُنگلی میں سے نکل کر کہیں گر گئی۔بہت ڈھونڈنے پر بھی نہ ملی تو وہ دونوں اپنے اپنے گھر کی طرف بڑھ گئیں۔دروازے پر دستک ہوئی۔جنت نے دروازہ کھولا عائشہ کی بہن حوریہ کو دیکھ کر اس نے پوچھا:”ارے حوریہ!تم․․․․․کیا ہوا؟“حوریہ نہایت پریشانی کے عالم میں بولی:”عائشہ گھر پر نہیں ہے۔میں دیکھنے آئی تھی کہ وہ تمہارے ہاں تو نہیں ہے!“بازار میں اس کی انگوٹھی گم گئی تھی۔جب نہیں ملی تو وہ مجھے چھوڑ کر اپنے گھر چلی گئی تھی۔”کون سی انگوٹھی؟“حوریہ نے پوچھا۔”وہ انگوٹھی میں نے اُسے صبح دی تھی۔“حوریہ نے جنت کی بات کاٹتے ہوئے کہا:”وہ انگوٹھی عائشہ نے صبح مجھے دکھائی تھی اس میں موجود نگینہ بہت چمک رہا تھا۔میں نے اس سے وہ انگوٹھی مانگی اس نے مجھے دکھانے کے لئے دی اور اس کے بعد وہیں بھول گئی۔“وہ دونوں باتیں کرتی ہوئی گلی کے کونے تک پہنچی تو جنت نے کہا:”دیکھو تو آج یہ گھر کھلا ہوا ہے،یہ تو ہمیشہ بند ہوتا ہے۔“تجسس سے مجبور ہو کر وہ دونوں دروازہ کھول کر اندر کی طرف بڑھیں،لیکن اندر کا منظر دیکھ کر اور آوازیں سن کر دونوں کا دل اُچھل کر حلق میں آ گیا۔”دیکھو مسٹر ارسلان!مجھے میرا ہیرا دو یا پھر اس کی قیمت دو۔ورنہ تم جانتے ہی ہو کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔“وہ آدمی ارسلان کو دھمکا رہا تھا جب کہ ارسلان صاحب کرسی پر مایوس انداز میں بیٹھے ہوئے تھے۔”میری بات سنیں،میری بیٹی نے غلطی سے وہ انگوٹھی جس میں ہیرا تھا،اپنی سہیلی کو دے دی ہے۔ہم ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں،جیسے ہی مل جائے گی،ہم آپ کے حوالے کر دیں گے۔مجھے جانے دیں میں آپ کے پاس آپ کے ہیرے سمیت ہی آؤں گا۔“ارسلان صاحب التجائیہ انداز میں بولے۔”ٹھیک ہے،لیکن آج رات تک کی مہلت ہے۔“وہ شخص جس کے چہرے پر نقاب تھا،اپنی لال آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ارسلان صاحب باہر نکل گئے۔دونوں آڑ میں ہو گئیں۔وہ آگے بڑھیں تو ایک طرف انھیں کچھ آہٹ محسوس ہوئی۔جنت اور حوریہ نے ایک کمرے کے دروازے کے اندر جھانکا تو وہاں سے عائشہ کی ایک جھلک نظر آئی۔وہ زمین پر لیٹی ہوئی تھی اور ایک آدمی پستول لیے کھڑا تھا۔ اچانک اس آدمی کی نظر ان پر پڑی اور وہ انھیں پکڑنے کے لئے ان کی طرف بڑھا۔حوریہ جو جنت کے پیچھے کھڑے تھی،فوراً بولی:”ہم دونوں بھاگیں گی تو یہ ہم دونوں کو پکڑ لیں گے۔تم آہستہ آہستہ سے بھاگنا جب تک یہ تمہیں پکڑے گا۔میں جا کر کسی کو مدد کے لئے بلا لوں گی۔“حوریہ نے فوراً بھاگنا شروع کیا۔جنت تھکے تھکے انداز سے بھاگ رہی تھی۔اس آدمی نے جلد ہی جنت کو پکڑ کر رومال اس کی ناک پر رکھ دیا تو اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔حوریہ بھاگتے بھاگتے گلی سے باہر نکل آئی۔گھبراہٹ کے مارے اسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے گھر کا راستہ ہی بھول گئی ہو۔اچانک اسے اپنے سامنے پولیس کی ایک گاڑی نظر آئی۔وہ بھاگتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھی۔ڈرائیور نے جب بچی کو اپنی گاڑی کے سامنے دیکھا تو فوراً گاڑی روک دی۔حوریہ جلدی سے پولیس افسر کی طرف بڑھی اور انھیں سب کچھ جلدی جلدی بتانے لگی۔حوریہ دوبارہ وہیں آئی جہاں سے وہ بھاگی تھی اور زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی۔باس نے کہا:”پہلے جا کر سوراخ سے دیکھو،کون ہے۔“”جی باس!“گن والا آدمی دروازے کی طرف بڑھا:”باس!وہ لڑکی ہے جو بھاگی تھی۔“”فوراً پکڑو اور اس سے پوچھو،شاید وہ انگوٹھی کے بارے میں جانتی ہو،ہمیں پتا چل جائے کہ انگوٹھی کہاں ہے۔“اس آدمی نے حوریہ کو اندر کی طرف کھینچا اور دروازہ بند کرنے کی کوشش کی۔حوریہ فوراً اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر روتے ہوئے بولی:”خدا کے لئے میری بہن کو چھوڑ دو پلیز پلیز۔“اس لڑکی کی آواز بند کرو اور اسے بھی اندر لے جاؤ۔“باس حکم دیتا ہوا اندر چلا گیا۔وہ آدمی جیسے ہی حوریہ کے منہ پر رومال رکھنے لگا،ویسے ہی اس آدمی کے منہ پر ایک زور دار مُکا پڑا۔وہ زور سے زمین پر گرا۔”ارے ہم لے کر جاتے ہیں اندر،اتنی جلدی کیا ہے۔“پولیس کے چار سپاہی جلدی سے اندر آئے اور اسے پستول کی زد پر لے لیا۔باس نے جھانک کر دیکھا کہ کیا معاملہ ہے۔اس پر بھی قابو پا لیا گیا۔جنت اور عائشہ دونوں کو ہوش میں لایا گیا۔تھانے میں ارسلان اور اس کے باس کے بیان سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں مل کر غیر قانونی طریقے سے ہیروں کی اسمگلنگ کرتے ہیں اور کچھ دن پہلے ہی انھیں ایک بہت بڑے مافیا سے قیمتی ہیرا مہیا کرنے کا آرڈر ملا تھا۔ارسلان صاحب نے وہ ہیرا حاصل کرکے ایک انگوٹھی میں جڑوا دیا تھا جیسے عام انگوٹھی پر ایک نگینہ لگا ہوتا ہے۔وہ انگوٹھی غلطی سے میز کی دراز میں رہ گئی۔ان کی بیٹی نے جب چمکتے ہوئے نگینے والی انگوٹھی دیکھی تو اُٹھا لی اور اپنی سہیلی جنت کی سالگرہ پر تحفہ میں دے دی۔جنت سے وہ انگوٹھی عائشہ تک پہنچی۔باس کو پتا چل گیا تو اس نے عائشہ کو اغوا کیا،تاکہ پوچھ سکے کہ انگوٹھی کہاں ہے؟ارسلان اور اس کے ساتھیوں کو جیل بھیج دیا گیا۔حوریہ نے وہ انگوٹھی لا کر پولیس افسر کو دے دی۔تھوڑی ہی دیر میں پورے محلے میں خبر پھیل گئی کہ حوریہ،جنت اور عائشہ نے مل کر اسمگلروں کو پکڑوایا ہے۔اگلے دن جب وہ تینوں سکول پہنچیں تو سارے بچے انھیں فخریہ انداز میں دیکھ رہے تھے اور ٹیچرز انھیں پکڑ پکڑ کر شاباش دے رہی تھیں۔ " خوشی کا دروازہ - تحریر نمبر 2098,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khushi-ka-darwaza-2098.html,"جاوید بسامرات کا وقت تھا۔آسمان پر چاند چمک رہا تھا،جس سے جاگیردار کی حویلی کی دیواروں پر چاندنی اُتر آئی تھی۔وہ ایک قدیم طرز کی عمارت تھی،جس کے ساتھ اونچا بُرج بھی تھا۔رات کے اس پہر بُرج کے اوپر والا حصہ روشن تھا۔اس کی کھلی کھڑکی سے جاگیردار کرسی پر بیٹھا نظر آ رہا تھا۔وہ گہری سوچ میں گم تھا۔کچھ دیر بعد وہ اُٹھا اور کھڑکی میں آ کر کھڑا ہوا۔اس کی نظریں درختوں سے پرے اندھیرے میں گھور رہی تھی۔جہاں چمگادڑ پَر پھیلائے اُڑ رہے تھے۔وقفے وقفے سے اُلوؤں کے بولنے کی آوازیں بھی سنائی دیتیں جو ایک درخت پر بیٹھے تھے ۔ان کی آنکھیں اندھیرے میں چمک رہی تھیں۔جاگیردار پلٹا اور آہستہ آہستہ بُرج کی سیڑھیاں اُترنے لگا۔اب وہ حویلی کے احاطے میں نکل آیا تھا،جہاں دور تک گھاس پھیلی تھی۔(جاری ہے)وہ ٹہلتا ہوا درختوں کے نیچے چلا گیا اور درخت کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا،لیکن وہاں بھی زیادہ دیر نہیں رُکا،بلکہ آگے بڑھا اور احاطے میں چہل قدمی کرنے لگا۔اس کی نظریں زمین پر جمی تھیں۔قریب ہی درخت پر دو اُلو بیٹھے تھے۔ایک بڑی عمر کا جہاں دیدہ اُلو تھا،جب کہ دوسرا نوجوان تھا۔نوجوان اُلو نے پوچھا:”یہ جاگیردار رات کو یہاں کیوں گھومتا رہتا ہے؟“”اسے نیند نہیں آتی۔“جہاں دیدہ اُلو بولا۔”کیا اسے کوئی پریشانی لاحق ہے؟“”نہیں۔“جہاں دیدہ اُلو نے جواب دیا۔”کیا خوش نہیں ہے؟“”ہاں،خوشیاں اس سے روٹھ گئی ہیں۔“”یہ اس علاقے کا سب سے بڑا جاگیردار ہے۔اس کی زمینیں سونے جیسی فصلیں اُگلتی ہیں۔اس سال فصلیں اتنی اچھی ہوئی ہیں کہ تمام گودام بھر گئے ہیں۔دو مہینے پہلے اس کے بیٹے کی شادی تھی۔بڑے بڑے زمیندار،رئیس اور تاجر یہاں جمع تھے۔“”پھر یہ خوش کیوں نہیں ہے؟“نوجوان اُلو نے سوال کیا۔”خوشیاں،دولت سے نہیں خریدی جا سکتیں۔“جہاں دیدہ اُلو بولا۔”مگر انسان عام طور پر پیسہ کما کر ہی خوش ہوتے ہیں۔“”ہاں،جاگیردار کے لئے پیسہ کمانا معمول کی بات ہے۔“”پھر اسے خوشی کیسے حاصل ہو گی؟“جہاں دیدہ اُلو کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا:”اس کی خوشی کا دروازہ بند ہو گیا ہے،کیونکہ یہ ہمیشہ اپنی ذات کے لئے سوچتا ہے اور اپنے جیسے لوگوں سے ملتا جلتا ہے۔“”اور یہ دروازہ کیسے کھلے گا؟“نوجوان اُلو نے پھر سوال کیا۔”اس کا جواب میں تمہیں صبح دوں گا۔“جہاں دیدہ اُلو نے کہا۔اگلے دن دونوں ایک گھنے درخت پر بیٹھے تھے۔ان کی نظریں کچھ دور حویلی کے ایک کمرے کی کھڑکی پر جمی تھی،جہاں سے جاگیردار کرسی پر بیٹھا نظر آرہا تھا۔اس نے حویلی کے ایک کمرے کو اپنا دفتر بنا رکھا تھا۔لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی۔جاگیردار بڑے بڑے سودے کر رہا تھا اور نوٹ اپنی تجوری میں بھرتا جا رہا تھا،مگر اس کے چہرے پر بے زاری تھی۔دفتر کے دروازے پر دربان موجود تھا۔سب اس کی اجازت سے اندر جا رہے تھے۔اسی دوران وہاں ایک بوڑھی عورت چلی آئی اور دربان سے کچھ کہنے لگی،لیکن دربان نے اسے منہ نہ لگایا۔وہ پیچھے ہٹ گئی۔کچھ دیر بعد اس نے پھر کوشش کی،مگر دربان نے اسے ڈانٹ کر بھگا دیا۔جہاں دیدہ اُلو نے نوجوان اُلو کو اپنے پَر سے ٹہوکا دیا اور بولا:”اس بوڑھی عورت کو دیکھ رہے ہو۔یہ ایک ہفتے سے یہاں آ رہی ہے۔اسے کچھ رقم کی ضرورت ہے تاکہ اپنی یتیم بیٹی کی شادی کر سکے،مگر دربان اسے جاگیردار سے ملنے نہیں دیتا۔“”یہ عورت اس گاؤں کی نہیں لگتی ورنہ اسے معلوم ہوتا کہ جاگیردار بہت کنجوس آدمی ہے۔وہ ایک دھیلے سے بھی کسی کی مدد نہیں کرتا۔“نوجوان اُلو بولا۔”نہیں یہ اسی گاؤں کی ہے۔بس اس کا دل کہتا ہے کہ یہ مدد لینے میں کامیاب ہو جائے گی۔“”بہت مشکل ہے،خیر آپ مجھے جاگیردار کے مسئلے کا حل بتا رہے تھے۔“”ہاں،اگر جاگیردار اس عورت کی مدد کر دے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔“”کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے؟“نوجوان اُلو نے سوال کیا۔”بالکل،مگر دربان بہت ظالم ہے وہ اسے ہر گز ملنے نہیں دے گا۔“نوجوان اُلو نے پَر پھڑپھڑائے اور درخت سے اُڑ گیا۔اس نے ہوا میں ایک چکر کاٹا پھر تیزی سے نیچے آیا اور دربان کے سر پر ٹھونک ماری۔ دربان گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔اُلو پھر اس کی طرف آ رہا تھا۔اس کے ارادے خطرناک تھے۔دربان اس سے بچنے کے لئے کوئی چیز تلاش کرنے لگا۔اس طرح وہ دروازے سے ہٹ گیا۔بوڑھی عورت کے لئے یہ اچھا موقع تھا۔وہ فوراً دفتر میں داخل ہو گئی۔جہاں دیدہ اُلو دل ہی دل میں نوجوان اُلو کی ہوشیاری پر شاباش دے رہا تھا۔آخر دربان نے ایک چھڑی ڈھونڈ لی اور اسے لہراتے ہوئے دفتر کی طرف بڑھا،مگر اتنی دیر میں عورت نے اپنی بات جاگیردار تک پہنچا دی تھی۔دربان نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر دفتر سے باہر نکال دیا۔بوڑھی عورت آنسو پونچھتی وہاں سے رخصت ہو گئی۔نوجوان اُلو اُڑتا ہوا اپنے ساتھی کے پاس آ بیٹھا اور بولا:”میں نے کوشش تو کی،لیکن لگتا ہے عورت کامیاب نہیں ہوئی۔“”اس نے اپنی بات جاگیردار سے کہہ دی ہے،لیکن وہ کچھ بولا نہیں۔“جہاں دیدہ اُلو نے کہا۔”یعنی میری محنت ضائع گئی؟“نوجوان اُلو مایوسی سے بولا۔”ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے۔“جہاں دیدہ اُلو بولا۔پھر دونوں وہاں سے اُڑ گئے۔اسی رات نوجوان اُلو شکار کی تلاش میں بہت دور نکل گیا۔کئی دنوں بعد جب وہ واپس حویلی میں آیا تو وہاں سناٹا چھایا ہوا تھا۔کچھ دیر بعد جہاں وہ دیدہ اُلو بھی اس کے پاس آ بیٹھا۔نوجوان اُلو نے فوراً پوچھا:”کیا بات ہے۔آج جاگیردار نظر نہیں آرہا؟“”اس نے خوشی کا بدن دروازہ نیکی کی چابی سے کھول لیا ہے۔اب اسے جلدی نیند آجاتی ہے اور سکون سے سوتا ہے۔“جہاں دیدہ اُلو بولا۔”کیا مطلب؟“نوجوان اُلو نے حیرت سے پوچھا۔”جاگیردار نے اگلے دن بوڑھی عورت کو ایک موٹی رقم بیٹی کی شادی کے لئے دے دی تھی۔وہ شادی میں خود بھی شریک ہوا۔اب وہ ایک ٹرسٹ بھی بنا رہا ہے جو غریبوں کی مدد کرے گا۔“جہاں دیدہ اُلو بولا۔”واہ․․․․یہ تو بہت اچھا کام ہو گیا۔“نوجوان اُلو خوش ہو کر بولا۔”ہاں،جو خوشی ضرورت مند کی مدد کرکے ملتی ہے وہ کسی دوسری چیز سے حاصل نہیں ہوتی۔“جہاں دیدہ اُلو دانائی سے بولا۔نوجوان اُلو سر ہلانے لگا۔ " جھوٹ کے پاؤں - تحریر نمبر 2097,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhoot-ke-paon-2097.html,"عشرت جہاںزوبیہ،مومنہ،سارا اور مریم ایک ساتھ سکول پہنچی تھیں۔ابھی کلاس روم میں کھڑی وہ ایک دوسرے کی خیریت دریافت کر رہی تھیں کہ صائمہ بھی پہنچ گئی۔اس کے انداز میں تیزی نمایاں تھی۔”مس سلمیٰ میرے ساتھ ہی گیٹ سے اندر داخل ہوئیں ہیں۔“”مس سلمیٰ؟“زوبیہ چونکی،لیکن مس نے تو کہا تھا کہ وہ دو دن تک سکول نہیں آئیں گی۔“”شاید انھوں نے ہمیں آزمانے کے لئے کہا ہو،انھوں نے مجھے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ وہ ٹیسٹ لیں گی۔“”ٹیسٹ!“ سارہ گڑبڑائی،میں نے تو تیاری ہی نہیں کی یہی سوچ کر کہ مس چھٹی پر ہیں دو دن میں آرام سے تیاری ہو جائے گی۔“زوبیہ بیگ سے کتاب نکالنے لگی۔مس سلمیٰ ان کی فزکس ٹیچر تھیں اور پڑھائی کے معاملے میں وہ کسی رعایت کی قائل نہ تھیں۔(جاری ہے)مومنہ،مریم اُلجھن کا شکار تھیں۔مریم نے سارہ سے پوچھا:”سارہ!آج مس سلمیٰ آئی ہیں؟“سارہ اور مس سلمیٰ ایک ہی محلے میں رہتی تھیں اور کبھی اِکٹھے بھی آ جایا کرتی تھیں۔”آج میرے ساتھ تو نہیں آئیں۔“سارہ نے جواب دیا۔”تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں۔“صائمہ غصے سے بولی۔”بحث میں کچھ نہیں رکھا ہے۔اگلا پیریڈ فزکس کا ہے اس سے پہلے کچھ تو پڑھ لیں۔“مومنہ کہتی ہوئی کتاب لے کر بیٹھ گئی۔دوسرے پیریڈ میں مس عائشہ ایکسٹرا پیریڈ لے رہی تھیں۔پڑھائی کے ساتھ انھوں نے لطیفوں اور چٹکلوں سے اس قدر مصروف رکھا کہ وہ ساری کوفت بھول گئیں۔پیریڈ ختم ہونے کے بعد انھوں نے صائمہ کی طرف دیکھا:”تم تو کہہ رہی تھی کہ مس سلمیٰ سکول آئی ہیں اور انھیں ٹیسٹ بھی لینا ہے۔“زوبیہ نے پوچھا۔”میں غلط تو نہیں کہہ رہی تھی ہو سکتا ہے واپس چلی گئی ہو۔“صائمہ نے جواب دے کر سب کو لا جواب کر دیا۔صائمہ ان کے گروپ میں نئی تھی بعض اوقات اس کا رویہ انھیں حیران کر دیتا۔دوسرے ہفتے میں ایک دن صائمہ کو ذرا دیر ہو گئی۔اس لئے اسے پچھلی بینچ پر بیٹھنا پڑا۔پیریڈ ختم ہونے کے بعد سب اپنی اپنی کتابیں سمیٹنے لگیں۔صائمہ اپنی سیٹ سے اُٹھ کر ان کے پاس آ بیٹھی۔”آج دیر کیوں ہو گئی تھی تاخیر سے آئی ہو۔“مومنہ نے پوچھا۔”آج اُٹھنے میں دیر ہوئی رات کے واقعے کے بعد سونے میں وقت لگا۔“صائمہ بولی۔”رات کا واقعہ؟کیا ہوا تھا؟“زوبیہ نے سوال کیا۔”ارے تمہیں نہیں پتا؟اس قدر شدید زلزلہ تھا،خوف کے مارے ٹھیک طرح سے نیند نہ آئی۔ساری رات سونے کی کوشش میں گزر گئی۔“”زلزلہ․․․رات زلزلہ آیا تھا․․․․کب؟سب ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے تکنے لگیں۔”تم لوگوں کو کچھ خبر ہی نہیں۔“صائمہ حیرت سے بولی:”بہت شدت کا زلزلہ تھا دروازے،دیواریں ہر چیز ہل رہی تھی۔“”ہمیں تو محسوس نہیں ہوا۔“مریم بولی:”گھر میں ذکر تو ہوتا۔“”تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں۔“صائمہ کو غصہ آگیا:”نہ مانو،وہ منہ پھُلا کر بیٹھ گئی۔”ہو سکتا ہے ہم لوگ گہری نیند میں ہوں،اس لئے پتا نہ چلا۔“سارہ نے کہا۔سب لڑکیاں خاموش ہو گئیں۔مریم کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔اس کے گھر میں اخبار اور رسائل باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔اس دن وہ ایک رسالہ لے کر آئی تھی جس میں بچوں کے لئے ایک کہانی شائع ہوئی تھی،جس پر صائمہ کا نام شائع ہوا تھا۔شہر کا نام بھی وہی تھا۔وقفے کے دوران وہ سب برآمدے میں بیٹھی ہوئی تھیں اور صائمہ کو مبارک باد دے رہی تھیں۔”تم نے بتایا ہی نہیں کہ تم کہانیاں بھی لکھتی ہو۔“مریم جوش سے بولی۔ان سب کے لئے یہ ایک نیا انکشاف تھا۔”بس کبھی کبھار لکھ لیتی ہوں۔“وہ انکساری سے بولی:”اس کے ہاتھ میں وہ رسالہ تھا جس میں اس کے نام سے کہانی شائع ہوئی تھی۔دو تین بار وہ کہانی پڑھ چکی تھی۔”یہ کہانی میں نے کئی دن پہلے لکھی تھی۔“لڑکیاں صائمہ سے مرعوب ہو رہی تھیں۔”ہمیں بھی طریقہ بتاؤ ناں کہانی کس طرح لکھتے ہیں۔“زوبیہ بولی۔”شائع کس طرح ہوتی ہے۔“سارہ نے بھی سوال کیا۔”اچھا بتاؤ اب کون سی کہانی لکھ رہی ہو۔“مریم نے پوچھا۔”جھوٹ کے پاؤں“اور اس کے لئے میں جھوٹ بولنے کی مشق کر رہی ہوں۔“صائمہ نے جواب دیتے ہوئے رسالہ بند کر دیا۔ " شاہی مصور - تحریر نمبر 2096,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shahi-musawir-2096.html,"رونق جمالکسی ملک کا بادشاہ جسمانی طور سے معذور تھا،اس کی صرف ایک ٹانگ اور ایک آنکھ تھی،لیکن ذہنی طور پر وہ انتہائی چاق چوبند اور ذہین تھا جس کی وجہ سے اس کی رعایا خوش حال زندگی گزار رہی تھی۔اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ سلطنت کا بادشاہ ہوتے ہوئے بھی سادہ زندگی بسر کرتا تھا۔وہ ضرورت مندوں کے تمام مسائل فوری طور پر حل کرتا تھا۔ایک روز بادشاہ کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنی اچھی سی تصویر بنوا کر دربار میں لگواؤں۔اس نے یہ خیال اپنے وزیروں اور مشیروں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کی تائید کی۔پھر کیا تھا بادشاہ کے حکم سے تمام ملکی و بیرونی ممالک سے مصوروں کو بادشاہ کی تصویر بنانے کے لئے مدعو کیا گیا۔دنیا بھر سے مصور، انعام و اکرام کی لالچ میں بادشاہ کے دربار میں پہنچے۔(جاری ہے)اس نے بھرے دربار میں اپنی اکلوتی ٹانگ پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ تمام مصوروں میں سے جس کی بنائی ہوئی تصویر سب سے اچھی ہو گی اس کی تصویر کو نہ صرف دربار میں لگایا جائے گا بلکہ اس مصور کو انعام و اکرام کے علاوہ بڑی جاگیر اور شاہی مصور کا عہدہ دیا جائے گا۔تمام مصور بادشاہ کا اعلان سن کر سوچنے لگے کہ بادشاہ سلامت تو پہلے سے ہی ایک ٹانگ سے لنگڑے ہیں جب کہ ان کے چہرے پر ایک آنکھ بھی نہیں ہے، پھر ان کی تصویر کس طرح خوبصورت بنائی جا سکتی ہے۔اگر ہم نے تصویر بنائی اور وہ پسند نہیں آئی تو انعام تو ملنا درکنار ہمیں سخت سزا ملے گی۔یہ سوچ کر تمام مصور دربار سے اُٹھ کر چلے گئے۔صرف ایک مصور رہ گیا جو انتہائی کم عمر تھا۔وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر بادشاہ کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور اسے سر سے پیر تک دیکھنے کے بعد مسکرا کر بولا،عالی جاہ،میں آپ کی تصویر بناؤں گا،مجھے یقین ہے میری بنائی ہوئی تصویر آپ کو بے حد پسند آئے گی،بس مجھے اپنے محل میں ایک کمرہ عنایت فرما دیں جہاں میں سکون کے ساتھ اپنا کام کر سکوں۔بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ مصور کے رہنے کے لئے محل کے بڑے کمرے میں انتظام کیا جائے۔رہائش کا انتظام ہونے کے بعد مصور بادشاہ کی تصویر بنانے میں مصروف ہو گیا۔دن رات کی محنت سے جب تصویر بن کر تیار ہو گئی تو وہ بادشاہ کے حضور حاضر ہوا اور بتایا کہ ”حضور والا،آپ کی تصویر تیار ہے،کل میں دربار میں اس کی نقاب کشائی کرنا چاہتا ہوں،تاکہ آپ کے تمام وزیر،مشیر،جاگیردار،نواب اور امراء میری بنائی ہوئی تصویر کو دیکھیں۔دوسرے روز دربار کھچا کھچ بھرا تھا،مصور بھی ایک بڑے کپڑے میں لپٹی تصویر لیے دربار میں موجود تھا۔سب کی نظریں تصویر دیکھنے کے لئے بے تاب تھیں۔مصور نے بادشاہ سے اجازت طلب کرکے تصویر سے کپڑا ہٹایا تو دربار میں موجود ہر شخص دنگ رہ گیا۔بادشاہ نے جب اپنی تصویر دیکھی تو وہ خوشی سے جھوم اُٹھا،اس نے آگے بڑھ کر مصور کو گلے لگا لیا۔مصور نے دکھایا تھا بادشاہ ایک پیر موڑ کر زمین پر بیٹھا ہے۔دونوں ہاتھوں میں بندوق ہے اور وہ ایک آنکھ بند کرکے سامنے کھڑے شیر کو نشانہ بنا رہا ہے۔بادشاہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ مصور نے کس خوبصورتی سے اس کی جسمانی خامیوں کو چھپاتے ہوئے اس کے جاہ و جلال کو اُجاگر کیا ہے۔اس نے وعدے کے مطابق مصور کو انعام و اکرام کے علاوہ بڑی جاگیر بھی عطا کی اور اسے شاہی مصور کا عہدہ بھی عطا کیا۔ " ہوشیار لڑکا (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2095,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hoshiyar-larka-aakhri-hissa-2095.html,"بڑھیا چھت پر گئی۔اس نے دیکھا کہ دونوں دوسرے ساتھی گلی میں کھڑے ہیں۔اس نے ان سے پوچھا:آیا یہ درست ہے کہ تمہیں حمام کے لئے رقم چاہیے۔انہوں نے جواب دیا:ہاں حمام کے لئے چاہیے۔بڑھیا بولی،بہت اچھا۔اس نے روپیہ اس پہلے شخص کے حوالے کیا۔اس نے روپوں کی تھیلی،جو دراصل اسی کی محنت کا حاصل تھے،تھامی اور ایک دوسرے رستے سے ہوتا ہوا اپنے شہر کو جانے کے لئے روانہ ہو گیا۔دوسرے دونوں ساتھی دیر تک پہلے کا انتظار کرتے رہے مگر اسے نہ آنا تھا نہ آیا۔ناچار وہ بڑھیا کے دروازے پر آئے اور صدا لگائی:ہمارا ساتھی ابھی تک لوٹا نہیں۔کیا ہوا؟بڑھیا بولی:وہ تو کافی دیر پہلے یہاں آیا تھا۔اس نے روپوں کی تھیلی لی اور باہر چلا گیا۔پھر کیا ہوا مجھے نہیں معلوم۔دونوں معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے اور لگے داد فریاد کرنے:بڑھیا!تم نے ہمارے پیسے اسے کیوں دیئے؟شور و غوغا سن کر وہاں لوگ اکٹھے ہو گئے اور لگے پوچھنے :کیا ہوا،کیا ہوا؟بڑھیا نے ساری کتھا کہانی کہہ سنائی۔(جاری ہے)اہل محلہ کہنے لگے:بڑھیا حق پر ہے۔اس نے تم سے اجازت لے کر روپے اس شخص کے حوالے کیے۔اب تمہارا بڑھیا سے کیا لینا دینا؟مگر وہ دونوں ساتھی مطمئن نہ ہوئے۔انہوں نے ایک گواہ بنا کر اسے ساتھ لیا اور شہر کے قاضی کے پاس جا کر شکایت کی اور اپنی حق تلفی سے اسے آگاہ کیا۔قاضی شہر نے بڑھیا کو طلب کیا اور کہا:انسان کو یا تو کسی کی امانت قبول نہیں کرنی چاہئے یا اگر کر لے تو اس کی شرائط پر عمل ضروری ہے۔اگر اُس شخص نے تجھے فریب دیا اور تین لوگوں کا مال لے اُڑا تو مال کی ضامن تو ہے لہٰذا لازم ہے کہ لوگوں کا مال واپس کر۔بڑھیا نے ہر چند عرض معروض کی اور کہا کہ میری کوئی غلطی نہیں قاضی نے اس کی ایک نہ سنی اور کہا جب کسی نے امانت قبول کر لی تو اگر غفلت سے وہ امانت ہاتھ سے چلی گئی یا ضائع ہو گئی تو امانتدار ہی اس کا ذمہ دار ہے اور اس پر لازم ہے کہ لوگوں کا حق انہیں لوٹائے۔ناچار بڑھیا نے ضمانت دی اور کہا:ممکن ہے کل تک میں فرار ہونے والے کا سراغ لگا لوں۔قاضی نے بھی اُن دو لوگوں سے کل تک کی مہلت لے لی۔بیچاری بڑھیا پریشانی کے عالم میں کمرہ عدالت سے باہر آئی۔وہ اس قدر پریشان تھی کہ گلی میں اپنے آپ سے باتیں کرتی بڑبڑاتی اور روتی ہوئی چلی جا رہی تھی۔وہ خود سے کہہ رہی تھی میں عجیب مصیبت میں گرفتار ہوں میں بڑی مشکل میں پھنس گئی ہوں۔گلی میں کچھ بچے کھیل رہے تھے جب انہوں نے بڑھیا کو اس حال میں دیکھا تو اس کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ایک لڑکے نے جو بڑھیا کو پہچانتا تھا اس سے پوچھا اماں جان!آپ کیوں رو رہی ہیں؟بڑھیا بولی مجھ سے ایک غلطی ہو گئی ہے اور اب مصیبت میں پھنس گئی ہوں۔کام مشکل ہے اور تم اس مسئلے کو نہیں سمجھ سکتے۔لڑکا بولا۔ہم خوش تھے اور کھیل کود کر رہے تھے کہ آپ اس حال میں یہاں آ پہنچیں اور ہم بے چین ہو گئے۔آپ کو بتانا چاہئے کہ ہوا کیا؟بڑھیا نے سارا احوال کہہ سنایا اور کہا اب تم نے دیکھا کہ یہ باتیں تمہاری عقل سے بالا ہیں۔لڑکا بولا کیوں بالا ہیں؟میں خوب سمجھ سکتا ہوں۔اگر میں اس مشکل کو حل کر دوں اور آپ کو اس غم سے نجات دلا دوں تو آپ میرے لئے کیا کریں گی؟بڑھیا بولی میں وعدہ کرتی ہوں کہ کھجور کے ایک خوشے سے تمہاری دعوت کروں گی۔لڑکا ہنسا اور بولا:اس مشکل کا حل یہ ہے کہ آپ جونہی قاضی کے سامنے پیش ہوں تو کہیں کہ دونوں استغاثہ کرنے والوں کو بلایا جائے اور محلے کے چند معتبر لوگوں کو بھی حاضر کیا جائے تاکہ گواہ رہیں۔اُس وقت آپ یہ کہیں کہ ہر دو شکایت کنندگاں تمام معروف و معتبر لوگوں کے سامنے امانت کے سپرد کیے جانے کی تفصیل اول سے آخر تک بیان کریں اور اس کارروائی کی تفصیل قاضی کے حضور تحریری طور پر پیش کریں پھر جب یہ سب باتیں وہ تفصیل سے کہہ دیں تو آپ یہ کہیں بہت خوب یہ بالکل سچ اور صحیح ہے لیکن میں نے یہ رقم تینوں لوگوں کی موجودگی میں دی ہے،تاہم اگر یہ بات ان کے لئے قابل قبول نہیں تو اس کی تلافی میری گردن پر ہے۔لازم ہے کہ تینوں لوگ یہاں حاضر ہو کر مجھ سے رقم کا مطالبہ کریں۔اُس وقت اپنے ساتھی کو حاضر کرنا ان دونوں کی ذمہ داری ہو گی اور ایسی صورت میں قاضی بھی آپ پر زور نہیں ڈال سکے گا۔ہوشیار لڑکے سے یہ باتیں سن کر بڑھیا بڑی خوش ہوئی اور اس نے فوراً قاضی کی عدالت کا رُخ کیا اور اسی طرح عمل کیا۔قاضی نے جب استغاثے والوں کی باتیں سن لیں اور بڑھیا کا جواب بھی سماعت کر لیا تو گویا ہوا یہی بات صحیح ہے اور بڑھیا سچی ہے۔تم لوگوں کو چاہئے کہ تینوں مل کر آئیں اور اپنی امانت لے جائیں اب چونکہ تم صرف دو لوگ ہو لہٰذا جاؤ اور تیسرے ساتھی کو لے کر آؤ اور اپنی امانت کا مطالبہ کرو میں یہیں منتظر ہوں۔اب اُن دونوں کے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے اس کے کہ جائیں اور قاضی کی ہدایت پر عمل کریں۔پھر حاکم بڑھیا کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے پوچھا بڑی بی!یہ کیسے ہوا کہ پہلی بار تم نے یہ جواب نہ دیا اور جب تم واپس آئیں تو تم نے یہ باتیں کہیں؟بڑھیا بولی حقیقت یہ ہے کہ میں نے یہ جواب کھجوروں کے ایک خوشے کے عوض خریدا ہے۔پھر اس نے ہوشیار لڑکے کا سارا قصبہ کہہ سنایا۔قاضی نے لڑکے کو عدالت میں طلب کیا اور جب اس کی باتوں میں ذہانت اور ہوش مندی کے آثار دیکھے تو حکم دیا کہ لڑکے کی تعلیم و تربیت کے لئے وسائل اچھے طریقے سے فراہم کریں یہی وہ لڑکا تھا جو آگے چل کر ایک ممتاز دانشور بنا۔ " جگنو کی دستک (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2094,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jugnu-ki-dastak-aakhri-hissa-2094.html,"ریاض احمد جسٹس”مگر ابو جان خدا نے اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلی۔نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا“ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جگنو کی عمر بھی بڑھ گئی تھی مگر ابھی تک اس نے اپنے آبائی پیشے کو ترک نہیں کیا تھا۔مگر اس کے ساتھ اس نے تعلیم بھی جاری رکھی ہوتی تھی اور پرائمری کلاس پاس کر چکا تھا․․․․ایک دن جگنو کسی فیکٹری کے قریب سے گزر رہا تھا کہ فیکٹری کے مالک نے اسے دیکھ کر کہا اے لڑکے ہماری فیکٹری میں بھی کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔اگر تم فیکٹری سے کوڑا اُٹھا کر دوسری جگہ منتقل کر دو تو میں تمہیں اس کام کا معاوضہ دوں گا۔“جگنو نے فیکٹری مالک کی بات سن کر کوڑا اُٹھانے کی حامی بھر لی۔جگنو کو فیکٹری سے کوڑا دوسری جگہ منتقل کرتے ہوئے تین دن گزر چکے تھے مگر ابھی کچھ کام باقی تھا۔(جاری ہے)جگنو نے شام ہونے تک فیکٹری کا تمام کوڑا دوسری جگہ منتقل کر دیا جب اس نے کام ختم ہونے کے بعد فیکٹری کے مالک کو بتایا تو وہ کہنے لگا ”بیٹا تم نے بہت ایمانداری سے کام کیا ہے دل تمہارے کیے ہوئے کام کو دیکھ کر خوش ہو گیا ہے مگر بیٹا میرا دوسرا گودام بے کار ٹائروں سے بھرا پڑا ہے۔بلاوجہ کے ٹائروں سے گودام بند پڑا ہے۔اگر گودام خالی ہو جائے تو میں اسے کسی دوسرے کام کے لئے استعمال کر سکتا ہوں۔پھر فیکٹری کا مالک جگنو سے کہنے لگا”ٹائروں سے بھرا ہوا گودام میں تمہیں کام کے بدلے انعام میں دیتا ہوں“ جگنو ٹائروں کو دیکھ کر سوچنے لگا میں اتنے بیکار ٹائروں کا کیا کروں گا۔وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ فیکٹری کے مالک نے جگنو سے کہا ”بیٹا گھبرانے والی کوئی بات نہیں۔میں تمہیں گودام خالی کرنے کا معاوضہ دوں گا۔جگنو فیکٹری کے مالک کی یہ بات سن کر خوش ہو گیا اور اس نے ٹائروں والی مارکیٹ میں جا کر ایک کباڑیے سے کہا کہ ”میرے پاس کافی تعداد میں ٹائر ہیں جو میں فروخت کرنا چاہتا ہوں۔اس طرح جگنو نے ٹائر اچھی قیمت میں فروخت کر دیئے جس سے اس کی مالی حالت میں بہتری آگئی۔ایک دن جگنو کوئی نئی کتاب خریدنے کے سلسلے میں بازار گیا تو بک سٹاپ پر انعامی بانڈز کی لسٹ آویزاں تھی۔جگنو کے پاس بھی ایک پرائز بانڈ تھا۔وہ لسٹ لے کر گھر آگیا۔جب اس نے انعامی بانڈ کے نمبروں سے اپنے نمبر میچ کیے تو سب سے پہلا انعام اسی کا تھا۔یوں جگنو کے پاس بہت ساری دولت جمع ہو گئی۔جگنو نے اس دولت کے استعمال کرنے کا نیک کاموں سے آغاز کیا۔اس کے علاقے میں غریبوں کے لئے کوئی معیاری سکول نہیں تھا۔اس نے اپنے علاقے میں سکول بنوا کر غریبوں کو مفت تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا اور اس طرح علم کی روشنی پھیلائی․․․کافی عرصہ بعد ایک دن جگنو اپنے محسن بابا جی کے مکان کے آگے سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر مکان پر لگے کاغذ کے ٹکڑے پر پڑی جس پر لکھا تھا کہ ”یہ مکان برائے فروخت ہے“ جگنو نے دروازے کی ڈور بیل بجائی تو بابا جی باہر نکلے سلام دعا کے بعد جگنو نے پوچھا کہ آپ یہ مکان کیوں بیچنا چاہتے ہیں اسی پر بابا جی نے دُکھ بھرے لہجے میں بتایا کہ میرا پوتا احمد پڑھ لکھ کر کسی اچھے عہدے پر فائز ہو گیا ہے اب وہ اس پرانے محلے میں نہیں رہنا چاہتا اس لئے ایک ہائی سوسائٹی میں چلے گیا ہے اور اپنے ماں باپ کو بھی ساتھ لے گیا ہے میں اور میری بیوی اتنے بڑے مکان میں اکیلے ہیں اس لئے اسے بیچ کہ کسی چھوٹے مکان میں رہنا چاہتے ہیں۔بابا جی کی بات سن کر جگنو نے کہا”روشنی کی ایک کرن اندھیرے پر غالب آسکتی ہے،آپ بھی اپنے حصے کا دیا جلا کر روشنی پھیلا سکتے ہیں ۔جگنو نے بابا جی کا پرانا مکان خرید کر اسے سکول بنا دیا اور وہاں بچوں کو مفت تعلیم دی جانے لگی۔اس طرح جگنو نے اپنی مختصر سی روشنی سے اپنے حصے کی روشنی بانٹ کر دوسروں کے لئے ایک مثال قائم کر دی۔ " دار چینی کا جادو - تحریر نمبر 2093,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/daar-cheeni-ka-jadu-2093.html,"محمد فاروق دانشمنے کو زور دار چھینک آئی تو دادا جان نے بھی اپنی ناک پر رومال رکھ لیا اور منے کی طرف دیکھ کر بولے:”میاں!اگر تمہیں زکام ہو گیا ہے تو جوشاندہ پی لو،کچھ ہی دیر میں چھینکیں بند ہو جائیں گی۔“امی جان نے جوشاندہ بنا کر دیا۔جوشاندے سے نزلے کا کچھ زور ٹوٹا تو نیند آئی،مگر صبح پھر ٹھنڈی ہوا سے چھینکیں شروع ہو گئیں۔دادا جان نے دار چینی کا سفوف شہد میں ڈال کر کھانے کا مشورہ دیا۔منے میاں ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے ،بولے:”دادا جان!کل ہمارے اُستاد نے بھی دار چینی کے فوائد کے بارے میں ہمیں بتایا تھا کہ دار چینی دراصل ایک بوٹی ہے جس کا استعمال عام طور پر کھانوں کو ذائقے دار بنانے کے لئے کیا جاتا ہے۔اس میں بہت سے مفید اجزاء اور وٹامنز پائے جاتے ہیں جب کہ دار چینی میں موجود تیل نہایت کارآمد ہوتا ہے۔(جاری ہے)قدیم یونانی ادویات میں دار چینی کے تیل اور اس کی چھال کے سفوف کو خاص مقدار میں شامل کیا جاتا تھا۔دار چینی کا سفوف،خون کو صاف کرنے،ہڈیوں کے جوڑوں اور پٹھوں میں چھپے جراثیم کو زائل کرتی ہے۔اس کا استعمال آنتوں کے افعال درست کرتا ہے۔“دادا جان بولے:”اب کچھ باتیں میں بھی تمہیں بتاتا ہوں،سنو۔دار چینی کے استعمال سے اعصابی نظام مضبوط ہو جاتا ہے،رات کو سونے سے قبل دار چینی دودھ میں ڈال کر پینے سے بچوں کی بستر میں پیشاب کرنے کی عادت ختم ہو جاتی ہے۔معدے کے السر،آنتوں کی سوزش، جگر کی کمزوری،سینے کی جلن،بھوک نہ لگنے جیسی شکایت کا تدارک ہو جاتا ہے۔جن بچوں کو سردی لگ جائے تو ایک گرام ثابت دار چینی یا سفوف کو ایک پیالی پانی میں پانچ منٹ جوش دیں،پھر اسے چھان کر استعمال کرائیں۔اس سے نزلے زکام سے بچاؤ بھی ممکن ہو گا۔“”دادا جان!آپ کو تو دار چینی کے بہت سے فوائد معلوم ہیں۔“دادا جان نے کہا:”جب ہم تمہاری عمر کے تھے تو سردی کے دنوں میں بارش میں نہا لینے یا بد پرہیزی سے ہونے والی شدید کھانسی کے دوران ہماری نانی اماں دار چینی کا سفوف،شہد میں ڈال کر چٹا دیا کرتی تھیں،کچھ ہی دیر میں آرام آجاتا اور ہم سکون کی نیند سو جایا کرتے تھے۔ پرانے وقتوں میں مائیں اپنے بچوں کو رات کو سوتے وقت نیم گرم دودھ میں دار چینی کا سفوف ملا کر دیتی تھیں،ان کا کہنا تھا کہ اس کے پینے سے بچوں میں بھولنے کی عادت ختم ہو جائے گی،حافظہ تیز ہو گا اور وہ پڑھائی میں دوسرے بچوں سے آگے نکل جائیں گے۔“”جی دادا جان!امی نے جب سے مجھے دار چینی ملا کر دودھ پلانا شروع کیا ہے،جو سبق رات کو پڑھ کر سوتا ہوں،وہ مجھے یاد رہتا ہے،اب مجھے بھی یقین ہو گیا ہے کہ آئندہ امتحان میں،میرے نمبر کلاس میں زیادہ ہوں گے،پھر بھی میں اس بار امتحانات میں سخت محنت کروں گا۔“دادا جان نے منے کے سر پر پھر سے شفقت بھرا ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر بولے:”بالکل بیٹا!سب لوگ تمہاری کامیابی کے لئے دعا گو رہتے ہیں۔“منے میاں خوشی سے جھومتے ہوئے بولا:”جی دادا جان،میری اس کامیابی میں دار چینی کا بھی خاص کمال ہو گا۔“ " وقت کا دوست - تحریر نمبر 2092,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/waqt-ka-dost-2092.html,"نذیر انبالویوقار کے والدین گھر پر نہیں تھے۔وہ اپنے پرانے نوکر سکندر کے ساتھ گھر پر تھا۔ماسٹر صاحب ٹیوشن پڑھانے آچکے تھے۔سکندر اسے بلانے آیا تو وقار نے ایک ہاتھ پیٹ پر رکھ لیا:”میں درد سے بے حال ہو رہا ہوں اور تمہیں ماسٹر جی کی پڑی ہے،آج میں آرام کروں گا۔جاؤ،سر کو بتاؤ۔“وقار نے کراہتے ہوئے سکندر سے کہا۔”جی چھوٹے صاحب!ماسٹر جی کو بتاتا ہوں۔“اسے یقین تھا کہ چھوٹے صاحب بہانے بازی کر رہے ہیں۔ماسٹر صاحب نے یہ بات سن کر افسردہ لہجے میں کہا:”اچھا تو پھر میں چلتا ہوں،کل آؤں گا۔“ماسٹر جی کے جاتے ہی سکندر گیٹ کے پاس کرسی پر بیٹھ کر اونگھنے لگا۔اسے اپنا ماضی یاد آنے لگا۔وہ بھی پڑھائی سے بھاگتا تھا۔ایک دن اس کا دل سکول میں نہیں لگ رہا تھا۔(جاری ہے)چھٹی ہونے کا وقت ابھی بہت دور تھا۔کتابیں،کاپیاں اور کرسی پر بیٹھے ماسٹر جی کچھ بھی تو اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔اس کا دل چاہتا تھا کہ بستہ اُٹھائے اور سکول سے باہر نکل جائے۔وہ جب بھی ایسا کرنے کا سوچتا سکول گیٹ پر موجود چوکیدار کے موٹے ڈنڈے پر اس کی نظر ٹھہر جاتی تھی۔پھر سوچتے سوچتے ایک ترکیب اس کے ذہن میں آئی۔اگلے ہی لمحے اس نے ترکیب پر عمل کر ڈالا۔اچانک وہ ڈیسک سے گر کر بے ہوش ہو گیا۔”سر جی․․․․․سر جی!سکندر بے ہوش ہو گیا ہے۔“بچوں نے شور مچایا۔کچھ دیر بعد سکندر نے آنکھیں کھولیں تو سر آفتاب اور ہیڈ ماسٹر صاحب اس کے پاس کھڑے تھے۔”آفتاب صاحب!اسے گھر چھوڑ کر آئیے۔“ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا۔”نہیں،نہیں میں خود چلا جاؤں گا۔“سکندر دل میں بے انتہا خوش تھا۔اس نے انتہائی کامیاب اداکاری کی تھی۔گھر میں قدم رکھتے ہی اماں نے اس کی بلائیں لیں اور لسی پلائی۔سکندر نے دل کھول کر وقت کو ضائع کیا تھا اور یہی سمجھتا تھا کہ نقصان والی کوئی بات نہیں،مگر وقت کے تیز دھارے نے اسے وقار کے ابو کے پاس ایک ملازم کی حیثیت سے لا کھڑا کیا تھا۔اس نے بہانے بازی کرتے ہوئے جس طرح وقت کو ضائع کیا تھا۔آج اسے اس کی قیمت صبح سے شام تک کام کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی تھی۔تنخواہ بھی اتنی نہ تھی کہ زندگی کی گاڑی آسانی سے چل سکے۔تین دن بعد وقار کے امی ابو واپس آئے۔سر بلال انھیں وقار کے بارے میں بتا چکے تھے کہ وقار نے ایک دن بھی نہیں پڑھا۔وقار سر جھکائے ابو کے سامنے کھڑا تھا۔اسے اپنا وقت ضائع ہونے کا نہیں آزادی ختم ہونے کا افسوس تھا۔امی جان نے اس پر کڑی نگرانی رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔وقار کو یہ نگرانی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔اب اس نے وقت برباد کرنے کا ایک طریقہ اور ایجاد کیا تھا۔سر بلال جب سوال سمجھا چکے تو وقار کہتا:”میری سمجھ میں نہیں آیا،دوبارہ سمجھائیے۔“صرف ایک ہی مضمون پر اتنا وقت صرف کرتا تھا کہ دوسرے مضامین کی باری ہی نہ آتی تھی۔سکندر کے ماموں نے آبائی زمین بیچی تھی،جس میں سے سکندر کی والدہ کو نقد رقم ملی تھی۔ماموں نے سکندر کا بینک اکاؤنٹ نہ ہونے کے باعث وہ رقم وقار کے ابو جان کے اکاؤنٹ میں بھیجی تھی۔بینک میں وقار کے ابو،سکندر اور وقار موجود تھے۔وہ سکندر کا بینک اکاؤنٹ کھلوانے آئے تھے۔سکندر نے شیشے میں جھانکا تو ایک بڑی سے میز کے پیچھے اعجاز نظر آیا۔چند منٹوں بعد دونوں بغل گیر ہو رہے تھے۔”یہ تمہارا ہم جماعت ہے؟“حیران ہو کر سکندر سے پوچھا۔”جی چھوٹے صاحب!اعجاز میرا ہم جماعت ہے۔میں بہانے بنا کر وقت ضائع کرتا رہا اور اس نے وقت کا درست استعمال کیا اور یہاں تک پہنچ گیا۔ہمارے ماسٹر جی شہید حکیم محمد سعید کا ایک قول جماعت میں اکثر سنایا کرتے تھے:”وقت اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس کا درست استعمال عبادت ہے۔“وقار کبھی اعجاز کو اور کبھی سکندر کو دیکھتا تھا۔بہانے بنانا،وقت برباد کرنا اور کام سے جی چرانا،وقار اپنے بارے میں سب جانتا تھا۔وہ جان گیا تھا کہ وقت کو برباد کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا تھا۔اس انجام سے بچنے کے لئے وقار نے اسی لمحے بہانوں کا گلا دبانے اور وقت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔”پیارے وقت!مجھے معاف کر دو،میں تمہیں آئندہ ضائع نہیں کروں گا،تمہارے ایک ایک لمحے کی قدر کروں گا،میں تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں،مجھے دوست بنا لو۔“وقار کی باتیں سن کر وقت خوش ہو گیا تھا۔اس نے وقار کو دوست بنا لیا۔یہ دوستی اب تک قائم ہے۔ " ایمانداری کا صلہ - تحریر نمبر 2091,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/imandari-ka-sila-2091.html,"کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا اسے طرح طرح کے پرندے اور جانور پالنے کا شوق تھا۔وہ سال میں ایک مرتبہ جانور اور پرندے پکڑنے خود بھی جنگل جاتا تھا۔اس کے پاس کئی طرح کے جانور اور پرندے تھے۔ایک مرتبہ بادشاہ جنگل گیا۔اس نے کئی اقسام کے طوطے اور دوسرے پرندے پکڑے۔بادشاہ کی نگاہ ایک ہرن پر پڑی۔اس نے پھندا ڈالنے کی رسی ہاتھ میں لی،اور گھوڑا دوڑا دیا۔ہرن بھاگتا بھاگتا جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔بادشاہ کے ہاتھ نہیں لگا۔وہ ناامید ہو کر لوٹنے لگا لیکن راستہ بھول گیا۔ہرن کے پیچھے پیچھے وہ بادشاہ اپنے ساتھیوں سے نہ جانے کتنی دور آگیا تھا۔اس کے چاروں طرف پیڑ ہی پیڑ تھے۔اس نے سوچا یہاں جنگل میں رکنا ٹھیک نہیں ہے۔کسی ایک سمت آگے بڑھوں۔شاید راستہ مل جائے اور شاہی محل پہنچ جاؤں یا اپنے ساتھیوں سے جا ملوں۔(جاری ہے)یہ سوچ کر بادشاہ ایک سمت چل پڑا۔بادشاہ کو چلتے چلتے بہت دیر ہو گئی،مگر کوئی راستہ اب تک نہیں ملا تھا۔سورج بھی غروب ہو رہا تھا۔سورج ڈوبنے سے پہلے بادشاہ کو ایک پگڈنڈی مل گئی۔وہ گھوڑا موڑ کر پگڈنڈی پر تیزی سے چلنے لگا۔کچھ دوری پر اسے اُجالا نظر آیا۔بادشاہ اسی طرف بڑھتا گیا،قریب پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ ایک جھونپڑی کے آگے ایک کسان اور اس کی بیوی میٹھے ہوئے تھے۔کسان بادشاہ کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا،ہکلاتا ہوا بولا”جہاں پناہ!․․․․آ․․․آپ․․․یہاں“ میں پرندے پکڑنے آیا تھا۔ایک ہرن کے پیچھے بھاگتے ہوئے راستہ بھول گیا ہوں۔اب رات میں یہیں گزارنا چاہتا ہوں،سویرے چلا جاؤں گا۔“بادشاہ بولا۔کسان بے چین ہو کر بولا:”جہاں پناہ یہ سب آپ ہی کا دیا ہوا ہے۔مگر آپ یہاں کیسے ٹھریں گے؟میرے پاس تو ایک اچھا بستر بھی نہیں ہے“۔تو کیا ہوا بادشاہ نے کہا۔”اگر میں کسان ہوتا تو کیا شاہی محل ہی کے ملائم بستروں پر سوتا․․․؟“کسان نے بادشاہ کا گھوڑا ایک درخت سے باندھ دیا،اور اس کے کھانے کو کچھ گھاس بھی ڈال دی۔بادشاہ نے آگے تاپتے ہوئے کسان سے پوچھا۔”تمہارا نام کیا ہے․․․․؟“”میرا نام امانت ہے جہاں پناہ۔“”اچھا کچھ کھانے کا سامان ہو تو لے آؤ بھوک لگ رہی ہے۔“”جناب!میرے پاس آپ کے کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے چند سوکھی روٹیاں ہیں ،وہ آپ کھا نہیں سکتے“۔”میں کھا لوں گا تم لے آؤ۔“کسان حیرت زدہ سا،صبح کی بنی ہوئی روٹیاں لے آیا۔بادشاہ نے روٹی کھا کر پانی پیا اور خدا کا شکر ادا کیا۔تھکاوٹ کی وجہ سے اُسے جلد ہی نیند آگئی۔صبح جانے کی تیاری کرتا ہوا بادشاہ سے بولا۔”امانت!تم کبھی محل کی طرف آؤ تو مجھ سے ضرور ملنا۔اب راستہ بتا دو،میں چلوں“۔امانت جب بادشاہ کو راہ دکھا کر لوٹا تو اس نے بیوی کے ہاتھ میں سونے کی زنجیر دیکھی۔بیوی بولی۔”جس جگہ بادشاہ سلامت سوئے تھے، وہاں یہ پڑی تھی“۔کسان نے بیوی کے ہاتھ سے زنجیر لے لی اور بولا۔”جلدی سے دو چار روٹیاں بنا دو میں ابھی شاہی محل جانا چاہتا ہوں“ ۔”کیوں․․․․؟“”آئی ہوئی دولت کو کیوں ٹھکراتے ہو․․․․؟“اس کی بیوی بولی۔”ہم نے کوئی چوری تھوڑے ہی کی ہے۔“امانت نے زنجیر کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا اس میں ایک چمک دار ہیرا بھی لگا ہوا تھا۔بیوی کی بات سن کر وہ غصے سے بولا۔”اپنی زبان کو لگام دو۔ یہ زنجیر نہ تیری محنت کی کمائی کی ہے نہ میری محنت کی کمائی ہے،میں اسے ضرور واپس کرنے جاؤں گا۔اب مزید کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ چپ چاپ روٹیاں بنا دو“۔اسی دن شام تک امانت شاہی محل پہنچ گیا۔پہرے دار نے اسے صدر دروازے پر ہی روک دیا۔وہ اسے اندر جانے نہیں دیتا تھا۔اس نے پہرے دار کی بہت خوشامد کی۔آخر میں اس نے کہا۔”اچھا مجھے اندر مت جانے دو۔بادشاہ سلامت سے اتنا کہہ دو کہ کل شام والا امانت آیا ہے“۔پہرے دار مان گیا اور اس نے خبر اندر بھجوا دی۔فوراً ہی امانت کو اندر بلوایا گیا۔امانت نے فرشی سلام کرنے کے بعد زنجیر بادشاہ کے سامنے رکھ دی۔بادشاہ خوش ہو کر امانت سے بولا۔”میں تمہاری ایمانداری سے بہت خوش ہوں۔یہ زنجیر میں نے جان بوجھ کر چھوڑی تھی“۔”جی جناب!جان بوجھ کر․․․․؟“”ہاں!میں تمہاری ایمانداری کا امتحان لینا چاہتا تھا۔تم کامیاب ہو گئے ہو۔اس لئے انعام کے مستحق ہو۔دیکھو،ایسا ہے کہ شاہی محل میں ایک خزانچی کی ضرورت ہے۔میں تمہیں اس عہدے پر رکھنا چاہتا ہوں،کیا تمہیں منظور ہے․․․․؟“جناب کا غلام ہوں،جو حکم دیں ،ویسے جہاں پناہ اس عہدے کے لائق میں نہیں ہوں۔پھر بھی آپ جو کہیں گے میں تعمیل کروں گا۔“اور دوسرے دن امانت نے خزانچی کا عہدہ سنبھال لیا۔کسی نے سچ کہا ہے کہ ایمانداری کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ " کنویں کا راز - تحریر نمبر 2090,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kunween-ka-raaz-2090.html,"عبیدالرحمن،کراچیسلمان اور عبداللہ شہر سے اپنے ماموں کے گھر چھٹیاں گزارنے آئے ہوئے تھے۔گاؤں کی صاف ستھری فضا انھیں بہت بھلی لگی۔دونوں کزن کے آنے سے حمزہ بہت خوش تھا۔وہ آپس میں بہت گہرے دوست بھی تھے۔صبح ناشتے کے دوران عبداللہ کو کچھ یاد آیا تو وہ بولا:”ماموں جان!اس گاؤں میں ایک بہت مشہور کنواں ہے۔اس کنویں کے بارے میں سب لوگ عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں۔ہمیں بھی وہ کنواں دیکھنا ہے۔“”ہاں بیٹا!وہ کنواں اپنی پُراسراریت کی وجہ سے بہت مشہور ہے،لیکن وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں۔“ماموں جان نے کہا۔آخر کافی منت سماجت کے بعد اُنھیں اجازت مل گئی۔وہ کنواں گاؤں سے تھوڑی دور ہے۔جہاں سے جنگل شروع ہو جاتا ہے۔(جاری ہے)پہلے وقتوں میں اس سے لوگ پانی بھرتے تھے۔اس کنویں کا پانی بہت میٹھا ہوا کرتا تھا۔پھر ہوا کچھ یوں کہ جو کوئی بھی کنویں سے پانی بھرنے جاتا،وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔پھر آہستہ آہستہ سب لوگوں نے کنویں سے پانی بھرنے جانا چھوڑ دیا اور بھی عجیب و غریب کئی باتیں کنویں سے متعلق مشہور ہیں۔“سلمان نے کنویں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا۔”مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے جن بھوت دیکھنے کا بچپن سے شوق ہے۔میں نے ہمیشہ جن بھوتوں کے بارے میں سنا اور بہت کہانیاں پڑھی ہیں،لیکن حقیقت میں آج تک نہیں دیکھے۔“سلمان کی بات سن کر عبداللہ نے کہا۔عبداللہ ان سے دس قدم کے فاصلے پر تھا۔عبداللہ کی چیخ فضا میں بلند ہوئی۔انھوں نے یک دم پیچھے مڑ کر دیکھا۔”یہ تو ابھی سے ہی ڈر گیا ہے۔“حمزہ ہنستے ہوئے بولا۔”زیادہ بولو نہیں۔اپنے دائیں طرف دیکھو۔“عبداللہ نے اسے کہا۔سلمان اور حمزہ نے فوراً دائیں جانب نظریں گھمائیں تو دونوں ساکت کھڑے رہ گئے۔اُن کے سر کی دائیں جانب درخت کی شاخ پہ سانپ آدھا لپٹا آدھا نیچے کی جانب جھولا جھول رہا تھا۔دونوں بجلی کی تیزی سے دوسری طرف جان بچا کر بھاگے۔حمزہ کا پاؤں سوکھی جھاڑی میں اٹک کر رہ گیا وہ گرتے گرتے بچا۔عبداللہ کی قمیض کا کونا سوکھی جھاڑی میں اٹک گیا۔اسے نکالنے کی کوشش میں قمیض کا کونا پھٹ گیا۔”وہ دیکھو۔مجھے کنویں کی دیواریں نظر آنے لگی ہیں۔“عبداللہ نے زور سے نعرہ لگایا۔وہ تینوں سستانے کے لئے رُک کر ایک گھنے پیڑ کے ساتھ ٹیک لگا کر آرام کرنے لگے۔انھیں بیٹھے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ سوکھے پتوں پر کسی کے چلنے کی سرسراہٹ پیدا ہوئی۔قدموں کی آوازیں تیز اور قریب ہوتی جا رہی تھی۔وہ تینوں پیڑ کے پیچھے چھپ گئے۔پانچ آدمی کنویں کے قریب پہنچے۔اُن کے ہاتھوں اور کندھوں پہ بڑے بڑے بیگ تھے۔وہ سب کندھوں پر بیگ تھامے کنویں کی سیڑھیاں ایک کے بعد ایک اُترتے چلے گئے۔وہ تینوں پیڑ کے پیچھے سے نکل کر ان کے پیچھے چل دیے۔قریب پہنچ کر انھوں نے دیوار سے لگ کر کنواں میں جھانکا اور پھر درختوں کے پیچھے چھپ کر ان کے جانے کا انتظار کرنے لگے۔وہ سب مطمئن ہو کر اپنے بیگ کنویں میں رکھ کر چلے گئے تو وہ تینوں سیڑھی کے ذریعے نیچے اُترے۔انھیں یہ دیکھ کر حیرت کا جھٹکا لگا کہ کنویں کے اندر بہت سارے بیگ ہیں جو نشہ آور چیزوں سے بھرے ہوئے تھے۔کنویں میں ایک طرف سرنگ بھی تھی۔ہمیں جلد واپس چلنا چاہیے۔”ماموں جان کو منشیات کے بیگ اور ان آدمیوں کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔“عبداللہ نے کہا۔وہ تینوں جلد از جلد کنویں سے باہر نکل آئے اور گھر پہنچ کر ساری بات ماموں کو بتا دی۔شام ہونے سے پہلے تمام مجرم پکڑے جا چکے تھے۔ " ہوشیار لڑکا (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2089,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hoshiyar-larka-pehla-hissa-2089.html,"پرانے زمانے میں ایک دفعہ تین آدمیوں کی ایک صحرا میں مڈبھیڑ ہوئی اور معلوم ہوا کہ تینوں کا پیشہ خردہ فروشی ہے۔وہ کسی شہر یا آبادی سے قسما قسم کی اجناس خریدتے اور انہیں گاؤں اور دیہات میں جا کر بیچ آتے۔وہ ایک دوسرے کے اخلاق اور کردار سے ناواقف تھے لیکن چونکہ ان کا پیشہ ایک ہی تھا اور وہ اتفاق سے ایک ہی جگہ اکٹھے ہو گئے تھے سو ایک دوسرے کی رفاقت میں چل پڑے۔اتفاقاً رستے میں انہیں ڈاکوؤں نے آلیا اور ان کا سب مال اسباب لوٹ لیا۔اب ان کے پاس سوائے تن کے کپڑوں کے کچھ بھی نہ رہا تھا۔ہمکاری اور ہمراہی کے علاوہ اب انہیں ایک دوسرے سے ہمدردی بھی ہو گئی تھی۔چونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اپنے اپنے وطن خالی ہاتھ جائیں سو چلتے چلتے وہ ایک اجنبی شہر میں وارد ہوئے اور انہوں نے عہد کیا کہ وہاں کوئی ایسا کام ڈھونڈ لیں گے جس سے انہیں کچھ آمدنی ہو جایا کرے جس میں سے وہ کچھ حصہ بچا لیا کریں اور جب ان کے پاس تھوڑا سرمایہ اکٹھا ہو جائے تو وہ پہلے کی طرح اپنے اپنے کاموں میں لگ جائیں اور تحفے تحائف،جنس اور روپیہ پیسہ لے کر اپنے اہل و عیال کے پاس لوٹ جائیں۔(جاری ہے)ان تین میں ایک شخص ایسا تھا جو خردہ فروشی کے علاوہ مستریوں کا کام بھی جانتا تھا لیکن اس کے دوسرے اور تیسرے ساتھی نے جوانی میں کوئی اور کام نہیں سیکھا تھا۔تینوں نے اجنبی شہر میں پہلی رات ایک قہوہ خانے میں گزاری اور اگلی صبح کام کی تلاش میں شہر کے وسطی میدان میں آگئے۔ان میدان میں معماری کا کام کرنے والے کاریگر جمع ہوتے تھے اور جن لوگوں کو ضرورت ہوتی تھی وہ ان سے معاملہ کرکے انہیں اپنے ہمراہ لے جاتے تھے۔اس روز ایک شخص آیا جس کو مستری کی ضرورت تھی۔ان تینوں میں سے پہلا اس شخص کے ہمراہ چل دیا۔چونکہ دوسرا اور تیسرا معماری کے کام سے واقف نہ تھا،لہٰذا دونوں بیکار رہے۔پہلا ساتھی تیز اور محنتی تھا۔اسے شام کو اچھا معاوضہ ملا اور مالک نے اسے اگلے دن جلد آنے کی تاکید کی۔ایک مدت گزر گئی۔ان دو بیکاروں کی آمدن ناپید تھی جبکہ ان کا پہلا ساتھی کام کیے جاتا تھا اور چونکہ تینوں نے اکٹھے رہنے کا فیصلہ کیا تھا لہٰذا جو معاوضہ ملتا تھا،تینوں مل کر خرچ کرنے لگے اور تھوڑی بہت بچت بھی ہونے لگی۔کافی عرصے بعد وہ حساب کتاب کے لئے مل بیٹھے۔معلوم ہوا کہ بچت شدہ رقم حساب کی رو سے کم ہے۔ان دو بیکاروں نے،جو رقم کی حفاظت کرتے تھے،اعتراف کیا کہ وہ بیکاری کی وجہ سے تنگ آگئے تھے اور ایک دن کسی شخص کے ساتھ جوا کھیلنے لگے تھے اور اس میں ہار گئے تھے۔انہوں نے اپنے ساتھی کو قول دیا کہ جب ان کو کوئی کام مل گیا تو وہ اس نقصان کی تلافی کریں گے۔کام کرنے والا بولا:یہ تو پہلے سے بھی برا ہوا۔مجھے جوا بازوں پر اعتماد نہیں۔بہتر یہی ہے کہ اب تک جو کچھ ہم نے بچایا ہے،اسے باہم تقسیم کر لیں اور اس کے بعد ہر کوئی اپنے اپنے لئے خود کام کرے۔یا پھر یہ کریں کہ بچت کی رقم کسی امانتدار کے پاس رکھوا دیں اور جب معقول رقم جمع ہو جائے تو آپس میں بانٹ لیں۔مجبوراً دوسرے دو ساتھیوں نے جو بیکار رہتے تھے،اس فیصلے سے اتفاق کیا۔اس زمانے میں بینکوں اور بچت اسکیموں وغیرہ کا رواج تو تھا نہیں،جس کے پاس بھی نقد رقم ہوتی تھی،اس کی حفاظت اس کے لئے خاصی مشکل ہوا کرتی تھی۔لہٰذا یا تو وہ اسے کسی جگہ چھپا دیا کرتے تھے یا پھر کسی قابل اعتماد شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھ دیتے تھے اور اس سے گواہوں کے دستخط کے ساتھ ایک تحریری سند لے لیا کرتے تھے۔جس قہوہ خانے میں یہ تینوں کھاتے پیتے تھے اور دیگر لوگوں سے واقف ہو گئے تھے،اس کے قریب ہی ایک بڑھیا کا گھر تھا۔انہوں نے بڑھیا کے پاس اپنی امانت رکھ دی اور یہ طے پایا کہ جب وہ رقم واپس لینا چاہیں تو تینوں کی موجودگی ضروری ہو گی اور ایسا نہ ہو تو تنہا کسی ایک شخص کو رقم نہیں دی جائے گی۔قہوہ خانے کے مالک نے بھی اس معاہدے پر گواہی دی۔اتفاقاً ایک روز بعد ان کا پہلا ساتھی بھی بیکار ہو گیا۔ایک روز جب وہ حمام میں جانا چاہتے تھے،ان کے پاس صابن اور حمامی کے لئے جیب میں پیسے نہ تھے۔پہلا بولا چلو چلتے ہیں بڑھیا سے تھوڑے سے پیسے بطور قرض لے لیتے ہیں۔دوسرا بولا:سمجھ میں نہیں آتا کہ پیسے ہمارے ہوں اور ہوں کسی دوسرے ہاتھ میں اور ہم اس سے قرض مانگیں!یہ تمہاری تجویز ہے،آخر میری بھی کوئی عزت ہے،میں تو اُدھر کا رخ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔تم خود چلے جاؤ۔تیسرا بولا:میں بھی اس صورت میں روپیہ قرض لینے سے قاصر ہوں۔پہلا سوچ میں پڑ گیا اور خود سے کہنے لگا:یہ کیسے لوگ ہیں۔تکلیف میں اُٹھاتا ہوں اور اپنی کمائی ان میں تقسیم کرتا ہوں اور ان کا حل یہ ہے کہ اس چھوٹے سے کام میں بھی بے مروتی کا ثبوت دے رہے ہیں۔مجھے دیکھو کہ میں نے اپنے لیے کیسے ساتھیوں کا انتخاب کیا ہے!بہتر یہ ہے کہ اپنا روپیہ لوں اور ان سے الگ ہو جاؤں تاکہ یہ مفت خورے کسی کام پر لگنے پر مجبور ہو جائیں۔انہوں نے سستی اور کاہلی کی عادت ڈال لی ہے۔میں مانتا ہوں کہ یہ معمار اور مستری کا کام نہیں جانتے مگر مزدوری تو کر سکتے ہیں۔پھر کیوں نہیں کرتے۔جمع شدہ رقم سب کی سب میری ہے اور اس پر خود میرا حق ہے۔اب تک انہوں نے جو کچھ میری آمدن سے کھایا ہے،انہیں مبارک مگر بس،اس کے بعد معاملہ ختم۔جس کام کی بنیاد عدل پر نہ ہو بالآخر رنج اور تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔انہی باتوں کو سوچتے ہوئے پہلا شخص کہنے لگا:بہت اچھا،میں جاتا ہوں اور کچھ روپیہ لے آتا ہوں لیکن اگر تمہیں یاد ہو تو ہمارا جمع جتھا یہی بچت کی ہوئی رقم ہے لہٰذا ممکن ہے کہ بڑھیا صرف مجھ پر اعتماد نہ کرے۔تم دور اسی گلی میں کھڑے ہو جانا تاکہ اگر وہ تم سے کوئی بات پوچھے تو تم ہاں میں جواب دے سکو۔انہوں نے کہا:ٹھیک ہے ہم گلی کے سرے پر کھڑے ہیں۔پہلے شخص نے انہیں گلی کی نکڑ پر چھوڑا،بڑھیا کے پاس گیا اور کہا:ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ کے پاس جمع شدہ امانت واپس لے لیں۔ہم چاہتے ہیں کہ اس رقم سے ایک حمام خریدیں اور اسی شہر میں حمامی بن جائیں۔بڑھیا بولی:انشاء اللہ بہت مبارک خیال ہے۔مجھے خوشی ہے کہ بالآخر آپ بھی بہتر کام کرنے والے ہیں۔حمام چلانا ایک اچھا کام ہے لیکن طے یہ ہوا تھا کہ آپ کی جمع شدہ رقم ایک شخص کو نہیں دی جائے گی اور لازم ہے کہ تینوں شخص موجود ہوں۔پہلا شخص کہنے لگا:ہم تینوں حاضر ہیں۔ہم ذرا جلدی میں ہیں تاکہ اپنے ارادے کو عملی صورت دیں۔میرے دو دوسرے ساتھی آپ کے گھر کے پچھواڑے میں کھڑے ہیں اور آپ چاہیں تو چھت پر جا کر ان سے پوچھ گچھ کر سکتی ہیں۔(جاری ہے) " جگنو کی دستک (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2088,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jugnu-ki-dastak-pehla-hissa-2088.html,"ریاض احمد جسٹساس وقت صبح کے ساڑھے نو بج چکے تھے۔احمد کے سکول جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر سارے گھر والے اپنے اپنے اے سی والے کمروں میں سو چکے تھے۔کچھ وقت گزرنے کے بعد ڈور بیل کی آواز سن کر گھر کے بڑے بزرگ کی آنکھ کھل گئی۔بزرگ کو ڈور بیل کی آواز سن کر خیال آیا کہ اس وقت ضرور میرا بڑا بھائی اماں جان کو لے کر آیا ہو گا کیونکہ وہ اکثر کام پر جاتے وقت اماں جان کو ہمیشہ کی طرح آج بھی اِدھر چھوڑنے آیا ہو گا۔گھر کے بزرگ کی ایک ٹانگ فالج کی وجہ سے کمزور پڑ گئی تھی اور ایک بازو بھی ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہا تھا۔اسے چلنے میں کافی دقت محسوس ہو رہی تھی اس لئے اسے صدر دروازے (مین گیٹ) تک پہنچتے ہوئے چند منٹ لگ گئے۔اس دوران تین مرتبہ ڈور بیل بج چکی تھی۔(جاری ہے)جب گھر کے بزرگ نے مین گیٹ کھولا تو نہ ہی سامنے بڑا بھائی تھا اور نہ ہی اماں جان تھیں مگر چار پانچ برس کے لڑکے نے بابا جی سے کہا میں نے آپ کے گھر کی ڈور بیل بجائی ہے۔”مگر کیوں بیٹا“ بزرگ نے کہا اور لڑکے کی طرف غور سے دیکھا۔اس کے دونوں ہاتھوں میں کوڑے کے شاپر تھے۔اس کے میلے کچیلے کپڑے دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اس کا تعلق کسی خانہ بدوش گھرانے سے ہے۔احمد کی مما احمد کو ہر روز سکول جانے سے پہلے مختلف پھلوں کا جوس بنا کر پلایا کرتی تھی اور بیکار گلے سڑے پھل کوڑے والے شاپر میں ڈال دیا کرتی تھی۔لڑکے نے بابا جی کو دروازے پر دیکھ کر کہا”بابا جی اندر سے مجھے کوڑے والا شاپر لا دو“ بابا جی نے لڑکے کی بات سن کر جواب دیا۔ ”بیٹا گھر کا کوڑا تو میں خود صبح سویرے کوڑے دان میں ڈال کر آتا ہوں۔“مگر بابا جی دو تین دن سے تو میں اس گھر کا کوڑا لے کر جا رہا ہوں۔ شاید آپ کے بڑے بیٹے نے آپ کو بتایا نہیں ہو گا۔لڑکے نے کہا”ہاں کل جس بی بی جان نے مجھے کوڑے والا شاپر دیا تھا وہ آج کہاں ہیں؟اس نے مجھے گیراج میں بیٹھا کر چائے کے ساتھ انڈا پراٹھا بھی کھلایا تھا۔“بابا جی بچے کی بات سن کر سمجھ گئے تھے کہ وہ ضرور احمد کی مما ہو گی۔پھر بابا جی کچن میں چلے گئے۔وہاں پھلوں کے چھلکوں کا ایک بھرا ہوا شاپر پڑا تھا۔وہ اُٹھا کر انہوں نے بچے کے حوالے کر دیا․․․․بچے نے شاپر میں ہاتھ ڈال کر ایک گلا سڑا آم نکال کر کھانے لگا تو بابا جی نے اس کے ہاتھ سے گلا ہوا آم چھین کر کہا”بیٹا یہ مت کھاؤ،میں تمہیں اندر سے ایک اچھا اور صاف ستھرا آم لا کر دیتا ہوں۔“یہ کھا کر تم بیمار پڑ سکتے ہو۔لڑکے نے بابا جی کی بات سن کر کہا”آپ وہ پہلے شخص ہیں جس نے ہمیں بھی انسان سمجھا اور اپنے برابر کا درجہ دیا ورنہ ہم تو روزانہ کوڑے کے ڈھیروں سے گلے سڑے پھل اُٹھا کر کھا جاتے ہیں اور اس طرح اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔آج تک کبھی کسی نے ہمیں گلے سڑے پھل کھانے سے نہیں روکا۔“بابا جی نے پھر لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا”بیٹا تمہاری عمر کے بچے تو اپنی ماؤں کی گود میں بیٹھ کر دودھ پیتے ہیں۔“بدقسمتی سے نہ تو تمہارے ہاتھ قلم اور کتاب ہے اور نہ ہی کھیلنے کے لئے کھلونے،نہ جانے تم روزانہ کتنے ہی گھروں میں جا کر ”کوڑا دو،کوڑا دو کی صدائیں لگاتے ہو مگر کبھی کسی نے تم پر رحم نہیں کھایا ہو گا۔“یوں بابا جی کی اسی لڑکے کے ساتھ دوستی ہو گئی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک دن بابا جی نے اس سے اس کا نام اور اس کے بہن بھائیوں کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ ”بابا جی میرا نام جگنو ہے اور میں ایک دن روشنی پھیلاؤں گا۔میرے چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔بڑے بھائی بھی سڑکوں سے کوڑا کرکٹ اُٹھا کر باپ کی مدد کرتے ہیں اور میری اماں صبح سویرے لوگوں کے گھروں میں کام کرنے کی غرض سے نکل جاتی ہیں اور اس کا سارا دن لوگوں کے گھروں میں کام کرنے میں گزر جاتا ہے۔“کچھ دن گزرنے کے بعد بابا جی نے اپنی بہو سے کہا۔”بیٹی تمہارا تعلق بھی تو ایک فلاحی ادارے سے ہے۔اگر تم چاہو تو جگنو اور اس کے بہن بھائیوں کا مستقبل بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔“ " آتش بازی (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2087,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aatish-baazi-2087.html,"روزبہ نے نقارچی کو بلایا کہ سارے کوہستانی علاقے میں اعلان کر دے تاکہ سارے سفید ریش،بزرگ اور عقل مند بندر اکٹھے ہو جائیں۔ جب سب آچکے،روزبہ ایک پتھر پر کھڑا ہو گیا اور بندروں سے مخاطب ہوا:بھائیو اور بہنو!میں تمہارا سردار ہوں اور میں نے اپنے خدا سے عہد کر رکھا ہے کہ ہمیشہ وہ کام کروں گا جس میں تم سب کی بہتری ہے اور تمہارے فائدے کی بات کروں گا۔میں نے آج ایک عجیب منظر دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارا انسانوں کے قریب رہنا چاہتا نہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے اچھے بُرے کی پہچان نہیں امور یہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ طے ہے کہ ایسے لوگ دوسروں کو نقصان پہنچانے میں بھی تامل نہیں کرتے۔سو ان کا ہمسایہ ہونے میں نقصان کا امکان ہے۔(جاری ہے)میں تم سب کا بھلا اس میں دیکھتا ہوں کہ ہم سب اس کوہستانی علاقے کو چھوڑ کر کسی دور دراز جگہ جا بسیں۔ہمیں چاہیے کہ اس پہاڑ سے کوچ کر جائیں تاکہ انسانوں کے قریب نہ رہیں۔یہ لوگ نہ خود پر نہ اپنے مال پر نہ اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں اور عین ممکن ہے کسی دن خود تمہیں بھی نقصان پہنچائیں۔سو جس قدر جلد ممکن ہے یہاں سے چل دیں۔سب تیار ہو جائیں تاکہ جنگل میں کہیں دور نکل جائیں اور ان انسانوں اور احمقوں سے دور رہ کر زندگی بسر کریں۔اس تقریر کے بعد بندر گومگو کا شکار ہو گئے۔ہر ایک بولا اور آخرکار روزبہ کی تجویز کے جواب میں وہ کہنے لگے:ہمارے خیال میں اگر انسان شہر میں آتش بازی کرتے ہیں تو کیا کریں،ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔ہم ان پہاڑوں میں رہنے کے عادی ہو چکے ہیں اور کسی دوسری جگہ نہیں جائیں گے۔روزبہ نے کہا:ٹھیک ہے۔میں نے اپنا فرض ادا کر دیا اور سچی بات کہہ دی۔اگر میری باتوں پر کان دھرو گے تو خود تمہارے فائدے میں ہے وگرنہ میں اور میرا خاندان یہاں سے جا رہے ہیں۔تم جانو تمہارا کام۔روزبہ یہ کہتے ہوئے اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لے کر اس پہاڑ سے ایک دوسرے پہاڑ پر جو شہر سے کافی فاصلے پر تھا،جا بسا۔بندر ایک دوسرے سے کہنے لگے:روزبہ بوڑھا،خبطی اور ڈرپوک ہو گیا ہے۔اسے جانے دیں،جہاں چاہے رہے۔یہ کہہ کر انہوں نے اپنے لئے ایک نیا سردار چُن لیا۔وہ اسی جگہ ایک مدت تک رہے حتیٰ کہ ایک دن ایک سانحہ رونما ہو گیا۔ہوا یہ کہ عید ہی کی رات تھی اور شہر میں جشن بپا تھا۔تفریح اور آتش بازی کا زور تھا اور پٹاخے اور ہوائیاں چھوٹ رہی تھیں۔آتش بازی کا ایک گول پٹاخہ جو فضا میں پوری طرح جلا نہیں تھا،ایک چھت پر آگرا۔چھت پر لکڑیاں سوکھنے کو رکھی ہوئی تھیں۔لکڑیوں نے آگ پکڑ لی،چھت لکڑی کی تھی،جل گئی اور آگ سوکھی گھاس کے ڈھیر تک جا پہنچی۔گھاس کا ڈھیر ہاتھیوں کے طویلے کی ملکیت تھا اور ہاتھی شہر کے حاکم کی ملکیت!فیلستان کے در و دیوار نے جو آگ پکڑی تو ہاتھیوں تک جا پہنچی۔جب تک لوگ وہاں آگ بجھانے پہنچے،بہت سے ہاتھی جل کر راکھ ہو گئے اور بہت سے زخمی اور مجروح۔جب یہ خبر حاکم شہر تک پہنچی،وہ سخت رنجیدہ ہوا۔اس نے فوراً فیل بانوں،چوپایوں کے ڈاکٹروں اور بیطاروں کو طلب کیا اور کہا کہ ہاتھیوں کے علاج کی فکر کریں۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ جلے ہوئے ہاتھیوں کا علاج ممکن نہیں ہاں البتہ ان ہاتھیوں کا جو زخمی ہیں اور جن کے بدن کی کھال پر آبلے پڑ گئے ہیں،علاج ممکن ہے اور یہ علاج سوائے بندروں کی چربی کے کچھ نہیں۔ضروری ہے کہ بندروں کی چربی کافی مقدار میں حاصل کرکے زخمی ہاتھیوں کی جلی ہوئی کھالوں پر ملی جائے تاکہ ان کے زخم آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیں۔حاکم شہر نے فوجیوں کو بلایا اور حکم دیا کہ شہر کے نزدیک واقع پہاڑی پر جائیں اور جو کوئی بندر وہاں پائیں اسے تیر،پتھر،جال یا کمند کے ذریعے یا اور جس طرح سے ممکن ہو،پکڑ کر مار ڈالیں اور اس کی چربی حاصل کریں تاکہ ہاتھیوں کا علاج ہو سکے۔اچانک شہر کے نزدیک کے پہاڑ پر حملے کا آغاز ہوا۔ہر طرف سے بندر جال میں پھنستے اور شکار ہوتے گئے۔بہت سے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر داد فریاد کرنے لگے: تم ہماری جان کے لاگو کیوں ہو گئے۔آخر ہمارا قصور کیا ہے؟ہم ایک عرصے سے ان پہاڑوں میں رہ رہے ہیں۔ہم نے کسی کا مال نہیں کھایا،کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔شکاریوں نے جواب میں آتش بازی اور ہاتھیوں کے جلنے کا قصہ کہہ سنایا اور کہا:ممکن ہے تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہاتھی بہت قیمتی ہیں اور جنگل میں بندر فراواں۔اس وقت بندروں نے اپنے آپ سے کہا:ہاں ہاں بہت سے بندر جنگل میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہم گناہ گار ہیں کہ ہم نے اپنے سردار اور بزرگ کی نصیحت پر کان نہ دھرے اور نادان انسانوں کے ہمسائے میں رہنا پسند کیا۔ایسے انسان جو اپنی دولت کو خود آگ لگاتے ہیں اور ہوا میں پھینک ڈالتے ہیں۔جب انہیں نقصان پہنچتا ہے تو اس کا تاوان بندروں سے وصول کرتے ہیں۔ " آتش بازی (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2086,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aatish-baazi-2086.html,"زمانہ قدیم میں بندروں کا ایک گروہ ہمدان شہر کے قریب پہاڑوں میں رہتا تھا۔ان کی تعداد بہت تھی اور ان کا سردار ایک بوڑھا اور تجربہ کار بندر تھا اور نام اس کا ”روزبہ“ تھا۔روزبہ ہمیشہ بندروں کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرتا تھا اور جب بھی انہیں کوئی مشکل پیش آتی تھی،اسے عقل مندی اور تدبیر سے حل کرتا تھا۔ بندر اس کا ازحد احترام کرتے تھے۔ایک دن غروب شام کے وقت بندروں کا یہ سردار ایک بلند پہاڑ پر چل پھر رہا تھا اور وہاں سے شہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔اچانک کیا دیکھتا ہے کہ شہر کے گلی کوچوں سے آگ کی لطیف اور باریک سی شاخیں فضا میں بلند ہوتی ہیں اور ان سے تڑاق پڑاق آوازیں سنائی دیتی ہیں۔روزبہ حیران ہوا اور کہنے لگا:”آخر شہر میں کیا ہو رہا ہے؟پھر اس نے اپنے ایک ملازم کو جس کا نام ”کارآگاہ“ تھا،آواز دی اور کہا:جلدی سے شہر جاؤ اور دیکھو کہ آگ کے یہ تیر سے کیا ہیں اور یہ شور کہاں سے آرہا ہے۔(جاری ہے)شہر کی صورتحال کیا ہے۔ہاں ذرا غور سے سن لو،ہر چیز کی خوب تحقیق کرکے آنا،اسے اچھی طرح سمجھ لینا تاکہ میں جو کچھ بھی پوچھوں،اس کا جواب تم لے کر آؤ۔اب جلدی سے جاؤ اور جلد لوٹو۔میں تمہارے انتظار میں ہوں۔کارآگاہ فوراً شہر کی جانب روانہ ہوا۔وہ تاریکی کی اوٹ لے کر قریب سے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ہر چیز کی تحقیق کرکے اور اس سے آگاہ ہو کر واپس آیا اور روزبہ کو بتایا:شہر کی کوئی خاص خبر نہیں۔کوئی جنگ نہیں ہو رہی۔ایک اچھی خبر ہے اور وہ یہ کہ کل عید کا دن ہے اور آج رات عید کی رات ہے۔لوگ جشن منا رہے ہیں،خوش ہو رہے ہیں اور بچے آتش بازی کر رہے ہیں۔جو آوازیں آپ نے سنیں وہ آتش بازی کے بارودی سامان کی ہیں۔آگ کے باریک سے تیر دراصل ایک قسم کی ہوائی ہے۔ہوائی ایک طرح کا پٹاخہ ہے جو ایک خوب آزمائے ہوئے بارود کو لپیٹ کر باریک نرسل کے سرے پر باندھ دیتے ہیں اور اس کے فتیلے کو آگ دکھاتے ہیں وہ فضا میں بلند ہو جاتا ہے۔روزبہ نے پوچھا:کیا یہ بارودی سامان اور پٹاخے بچے تیار کرتے ہیں؟کارآگاہ نے جواب دیا:نہیں،اسے بڑے تیار کرتے ہیں۔روزبہ نے پوچھا:کیا اس بارود سے کوئی اور کام بھی لیا جاتا ہے؟کارآگاہ نے کہا:کیوں نہیں،یہ صنعتوں اور جنگ میں کام آتا ہے۔روزبہ نے پوچھا:کیا یہ آتش بازی بچوں کو مفت میں ملتی ہے؟کارآگاہ نے کہا:نہیں،بچے پیسے دے کر اسے بڑوں سے خریدتے ہیں۔روزبہ نے کہا:اچھا،اس شہر کی ایسی نشانیوں سے تو معلوم ہوا کہ وہاں کے بڑوں کی عقل بھی بچوں کی سی ہے کیونکہ کسی مفید کام کے بجائے یہ لوگ پٹاخے اور ہوائیاں تیار کرتے ہیں اور بچے انہیں آگ لگاتے ہیں اور دھواں بنا کر ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔کارآگاہ بولا:ظاہر تو ایسا ہی ہے۔روزبہ نے پوچھا:اچھا یہ بتاؤ کہ اگر یہ آگ کسی کے گھر میں جا گرے اور وہاں آگ لگ جائے یا کسی کی آنکھ میں پڑ جائے اور اسے اندھا کر ڈالے یا کسی کے لباس پر گر کر اسے جلا ڈالے تو ایسی صورت میں یہ لوگ کیا کرتے ہیں اور اس نقصان کی ذمہ داری کس پر ڈالتے ہیں؟ کارآگاہ نے جواب دیا:کسی پر نہیں۔اس کا گناہ بچوں پر ڈالتے ہیں اور کوئی بھی اس نقصان کی تلافی نہیں کرتا۔روزبہ بولا:یہ کیسے نادان لوگ ہیں کہ ایک ایسی شے کو جسے صنعتوں میں استعمال میں لایا جاتا ہے،ایک بیہودہ کھیل میں صرف کر ڈالتے ہیں اور بچوں کے جیب خرچ لے اُڑتے ہیں اور بعد کو اگر اس آتش بازی سے کوئی خطرہ لاحق ہو جائے تو اسے بچوں کے سر منڈھ دیتے ہیں اور اگر کوئی نقصان ہو جائے تو کوئی تلافی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔بچوں کے بارے میں تو کہہ سکتے ہیں کہ بچے ہیں،ناتجربہ کار ہیں مگر بڑے ایسا کیوں کرتے ہیں۔کیا کھیل کم پڑ گئے ہیں۔شاید تفریح اور خوشی کی راہیں بند ہو گئی ہیں۔کیا ورزشی کھیل نہیں رہے،شاید گھڑ سواری کا مشغلہ باقی نہیں بچا،شاید کتاب نہیں رہی،شاید ناٹک اور تھیٹر نہیں رہے۔شاید کوئی پاکیزہ اور مفید تفریح نہیں رہی کہ یہ لوگ خوشی کے وقت آگ سے کھیلتے ہیں اور اپنے روپے پیسے دھوئیں میں اُڑا دیتے ہیں۔کارآگاہ بولا:واللہ میں کیا عرض کروں۔یقینا ان کی عقل یہ باتیں سمجھنے سے قاصر ہے،واقعی یہ نا سمجھ ہیں۔روزبہ بولا:ہاں ایسا ہی ہے لیکن کیا ان کے شہر کا کوئی حاکم نہیں جو انہیں اس احمقانہ کام سے روکے؟کارآگاہ بولا:کیوں نہیں،یقینا ہے لیکن اسے ان کاموں سے کیا بلکہ خود حاکم شہر کی طرف سے شہر کے میدان میں آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہاں بھی کئی چیزوں کو دھواں کر ڈالتے ہیں،آگ لگاتے ہیں اور اس کو جشن اور خوشی کا نام دیتے ہیں۔روزبہ بولا،اللہ اکبر!کہا یہ جاتا ہے کہ انسان بندروں سے زیادہ عقل رکھتے ہیں حالانکہ ہم بندر کبھی فضول کام نہیں کرتے اور درندے بھی جب تک وہ بھوکے نہ ہوں،شکار نہیں کرتے۔کتا بھی،جب تک اسے تکلیف نہ پہنچائی جائے،کسی کی ٹانگ میں دانت نہیں گاڑتا۔سچی بات تو یہ ہے کہ بعض انسان اس قدر احمق ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی کام بھی عقل اور منطق کی رو سے درست نہیں ہوتا۔(جاری ہے) " پنکی اور میکی کی دوستی - تحریر نمبر 2085,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pinki-aur-miki-ki-dosti-2085.html,"ہما بلوچبارہ سالہ پنکی کو تین دن سے سخت بخار تھا اور اُس کا خوبصورت سا کتا میکی اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔میکی بار بار پنکی کی طرف دیکھتا اور جب پنکی کو سویا ہوا پاتا تو افسردگی سے اپنی گردن فرش پر رکھ لیتا۔اُسے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ اُس کی سب سے اچھی دوست بیمار ہے اور وہ اپنی دوست کے لئے کچھ کر بھی نہیں سکتا۔پنکی کو بھی یہ دن بہت بور لگ رہے تھے اور وہ تندرست ہونا چاہتی تھی اس لئے وہ ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر تین دن سے بیڈ ریسٹ کر رہی تھی۔پنکی ایک کروٹ لیٹ لیٹ کر تھک گئی تھی،جب پنکی نے دوسری طرف کروٹ لی تو اس کی آہٹ پر میکی نے فوراً سر اُٹھا کر پنکی کے چہرے کی طرف دیکھا۔پنکی نے غنودگی میں اپنی آنکھیں کھولیں اور میکی کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔(جاری ہے)میکی بھی اپنی دُم ہلانے لگا اسے اچھا لگا کہ آج بہت دنوں کے بعد پنکی مسکرائی تھی۔باہر سے بچوں کے کھیلنے کی آوازیں آرہی تھیں تو میکی نے چھلانگ لگائی اور پنکی کی گود میں آگیا۔میکی پنکی کو پیار کرنے لگا اور اسے کچھ سمجھانے کی کوشش بھی کرنے لگا۔میکی بار بار کمرے کی کھڑکی کی طرف دیکھتا جہاں باہر سے بچوں کی آوازیں آرہی تھیں۔پنکی سمجھ گئی کہ میکی اس سے کیا کہنا چاہتا ہے۔پنکی نے کہا۔”میکی تم پریشان مت ہو،ہم بھی بہت جلد باہر کھیلیں گے،بس مجھے تھوڑا ٹھیک ہونے دو۔“یہ سن کر میکی خوش ہو گیا اور بھونکنے لگا اسے خیال آیا کہ کیوں نہ پنکی کو اس کی پسندیدہ گڑیا لا کر دی جائے تاکہ وہ کچھ دیر اس کے ساتھ کھیل سکے اس طرح اُس کا دل بہل جائے گا۔ میکی نے بیڈ سے چھلانگ لگائی اور پنکی کی الماری سے پنکی کی پسندیدہ گڑیا لینے چلا گیا۔پنکی کو پتا چل گیا تھا کہ میکی کہاں گیا ہے۔وہ خوش تھی کہ اپنی گڑیا کے ساتھ کھیلے گی۔ابھی پنکی سوچ ہی رہی تھی کہ میکی پنکی کی گڑیا لے آیا اور اس نے جوش میں آکر گڑیا پنکی کی طرف اُچھالی تو گڑیا ایک طرف دیوار کے قریب جا کر گری،گڑیا کو دیکھتے ہی پنکی جیسے ہی بیڈ سے اُتری تو فرش پر بکھرے کچھ کیلوں پر اُس کا پاؤں آگیا اور پنکی کے پاؤں سے خون بہنے لگا۔پنکی درد سے رونے لگی تو میکی اسے دیکھ کر پریشان ہو گیا۔اس کے اردگرد چکر کاٹنے لگا اور زور زور سے بھونکنے لگا۔میکی کی آواز سن کر امی ابو بھی آگئے اور وہ پنکی کو فوراً ہسپتال لے گئے۔میکی بے چارہ پنکی کے بغیر اُداس ہو گیا اور بار بار اس جگہ کو دیکھ کر غمگین ہو گیا کہ اس کی وجہ سے اس کی دوست کو چوٹ لگ گئی ہے۔وہ گیٹ کے باہر جا کر بیٹھ گیا اور پنکی کا انتظار کرنے لگا جب کافی دیر ہو گئی تو اُسے اچانک کچھ خیال آیا تو وہ اندر بھاگ گیا۔!پنکی کو تھوڑی گہری چوٹ لگی تھی جس کی وجہ سے اس کو شام تک ہسپتال میں رُکنا پڑا اور جب ڈاکٹر کی تسلی ہو گئی تو پنکی کو جانے کی اجازت دے دی گئی۔پنکی گھر آئی تو میکی دروازے پر ہی بیٹھا ہوا تھا اور وہ پنکی کو دیکھ کر خوش ہو گیا اور دُم ہلاتے ہوئے پنکی کے پاؤں چاٹنے لگا۔پنکی نے اسے اُٹھایا اور پیار کرنے لگی۔سب اندر آگئے تو میکی پنکی کو کچھ دکھانا چاہتا تھا،بار بار اس کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا لیکن امی میکی کو پنکی سے دور کر رہی تھیں جب پنکی نے دیکھا تو پنکی نے کہا۔!”امی۔۔۔مجھے لگتا ہے میکی مجھے کچھ دکھانا چاہ رہا ہے میں اپنے کمرے میں جانا چاہتی ہوں۔“پنکی کے بابا پنکی کو سہارا دے کر کمرے میں لے گئے تو میکی بھی ان کے پیچھے پیچھے آگیا،جب سب کمرے میں آئے تو میکی اس جگہ پر جا کر کھڑا ہو گیا جہاں پنکی کو کیل لگا تھا اور پنکی نے دیکھا اس جگہ پر کوئی بھی کیل نہیں تھے۔پھر میکی ایک نکر میں گیا تو سب نے دیکھا اب سارے کیل ایک طرف رکھے ہوئے ہیں جو کہ میکی نے کیے تھے تاکہ دوبارہ پنکی کا پاؤں ان پر نہ آجائے۔سب نے میکی کی طرف دیکھا تو ان کو احساس ہو گیا کہ میکی کو لگ رہا تھا کہ پنکی کو اس کی وجہ سے چوٹ لگی ہے تو پنکی نے بڑے پیار سے میکی کو پیار کرتے ہوئے کہا۔”میکی اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا،تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے،بس میں نے تھوڑی جلد بازی کی مجھے بستر سے نہیں اُٹھنا چاہیے تھا۔میری ذرا سی غلطی سے مجھے مزید دو دن اور بستر پر رہنا پڑے گا لیکن تم فکر مت کرو۔دو دن بعد ہم بھی باہر کھیلنے جائیں گے۔یہ سن کر میکی نے چھلانگ لگائی اور پنکی کی گود میں بیٹھ گیا،پنکی اسے پیار کرنے لگی۔ " کوئل اور کوا - تحریر نمبر 2084,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/koyel-aur-kawwa-2084.html,"تابش لطیفندی کے کنارے لیموں کا پیڑ لگا تھا اس کے قریب ہی آم کا درخت تھا۔لیموں کے پیڑ پر کوے کا گھونسلا تھا جب کہ آم کے درخت پر کوئل نے گھونسلا بنا رکھا تھا۔لیموں کے پیڑ کی شاخ پر بیٹھ کر کوا ”کائیں کائیں“ کرتا جب کہ آم کی ڈال پر بیٹھ کر کوئل کو کو کرتے ہوئے گاتی۔دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں پرندوں کا رنگ کالا تھا۔موسم بہار میں کوئل نے اپنے گھونسلے میں انڈا دیا،ادھر کوے کی مادہ نے بھی اپنے گھونسلے میں انڈے دیے۔کوا دن بھر باہر دانہ دنکے کی تلاش میں اِدھر اُدھر اُڑتا پھرتا جب کہ ”کوی“ گھونسلے میں بیٹھی انڈوں کی رکھوالی کرتی۔کوئل کو یہ آسانی میسر نہیں تھی،وہ اپنے آشیانے میں اکیلی رہتی تھی،اسے کھانے کی تلاش میں باہر بھی جانا پڑتا تھا،اس صورت میں وہ انڈے کی حفاظت نہیں کر سکتی تھی۔(جاری ہے)اسے ایک ترکیب سوجھی کہ کیوں نہ اپنا انڈا کوے کے گھونسلے میں رکھ دیا جائے۔کوے کی بیوی تو دن بھر گھونسلے ہی میں بیٹھی رہتی ہے، وہ اپنے انڈوں کے ساتھ میرے انڈے کی بھی حفاظت کرے گی۔ایک دوپہر جب کوی اپنے گھونسلے میں اونگھ رہی تھی،کوئل چپکے سے اپنا انڈا اس کے گھونسلے میں رکھ آئی۔کوے کی بیوی بے چاری سیدھی سادی تھی،حالانکہ کوا اپنی چالاکی کی وجہ سے بدنام ہے لیکن اس میں ریاکاری اور مکاری نام کو نہیں تھی۔گھونسلے میں ایک انڈا زیادہ ہو گیا تو بھی اسے پتا نہیں چلا۔وہ انڈے سہتی رہی،کچھ دنوں بعد ان میں سے بچے نکل آئے۔انہیں دیکھ کر کوا اور اس کی بیوی بہت خوش ہوئے۔کوی نے کوے سے کہا ”کائیں کائیں کائیں“ کتنے پیارے بچے ہیں۔کالے کالے چمک دار،کوا دن بھر محنت مشقت کرکے دانے لاتا، دونوں میاں بیوی اپنی چونچ سے سارے بچوں کو دانے کھلاتے،ان کے ساتھ کھیلتے اور انہیں کہانیاں سناتے۔کوے نے بچوں کو چلنا سکھا یا۔ ایک دن اس نے اپنی مادہ سے کہا کہ ”چلو اب ہم بچوں کو بولنا سکھائیں۔“لیموں کے پیڑ پر کوے نے اپنا اسکول کھولا۔اسکول کی گھنٹی بجی،اور پڑھائی شروع ہو گئی۔کوے نے بچوں سے کہا ”بولو کائیں کائیں کائیں۔ “سب بچوں نے اس کی آواز میں آواز ملا کر ”کائیں کائیں“ کہا لیکن ایک بچے کے منہ سے ”کو،کو،کو“ کی آواز نکلی۔یہ آواز سن کر کوا چونکا لیکن اس نے بچے سے کہا،”کو کو نہیں ،کائیں کائیں بولو“۔سارے بچے کائیں کائیں کرنے لگے لیکن وہ بچہ بدستور”کو کو“ کرتا رہا۔کوے نے اسے چونچ مار کر کہا”ٹھیک سے بولو،کائیں،کائیں،کائیں“ پر اس بچے کو بولنا آتا ہی نہ تھا۔کوے کا سر پھر گیا۔اس نے کہا ”یہ بچہ بالکل بدھو ہے،اسے کچھ نہیں آئے گا۔“ کچھ دنوں کے بعد سارے بچوں کے پنکھ نکل آئے اور کوے نے انہیں اُرنا سکھایا ۔ایک دن بارش ہو رہی تھی، کوئل آم کی ڈال پر بیٹھ کر گانے لگی ”کو،کو،کو،کو۔“ اس کے ساتھ ہی کوے کے گھونسلے سے ایک بچہ اُڑا اور کو کو کو، چلاتے ہوئے کوئل کے گھونسلے کی طرف چلا گیا۔کوے نے یہ ماجرا دیکھ کر کوی سے کہا ”ارے ارے یہ تو کوئل کا بچہ ہے،اپنی ماں کی آواز سن کر یہ اس کے گھونسلے میں گیا ہے۔افسوس ہم نے اپنے گھونسلے میں اس کی پرورش کی۔“ کوا اپنی بے وقوفی اور کوئل کی چالاکی پر کئی دن تک افسردہ رہا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔کوئل اب بھی کوے کی بے خبری میں اس کے گھونسلے میں اپنے انڈے رکھ آتی ہے،جب بچے نکلتے ہیں تو سب ہی ایک رنگ کے ہوتے ہیں،بڑے ہو کر جب وہ بولنا سیکھتے ہیں تو کائیں کائیں کی بجائے کو کو کرتے ہیں تو اس وقت کوے کو اپنی حماقت کا احساس ہوتا ہے پھر وہ اور اس کی مادہ انہیں مار کر اپنے گھونسلے سے بھگاتے ہیں۔ " نادان بڑھیا - تحریر نمبر 2083,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nadan-burhiya-2083.html,"روبینہ ناز کراچیجنگل کے کنارے بی جھونپڑی میں ایک بڑھیا بالکل اکیلی رہتی تھی وہ گزر بسر کے لئے جنگلی پھل کھاتی اور قریب ہی بہتی ندی کا پانی اور اس کی مچھلیاں بھی استعمال کرتی تھی۔ایک دن بڑھیا مچھلی پکڑنے ندی کنارے گئی۔تو وہاں اسے ایک عقاب زخمی حالت میں ملا۔بڑھیا مچھلی چھوڑ کر جلدی سے زخمی عقاب کو جھونپڑی میں لے آئی۔اور اس کا علاج اور مدد کرتی رہی۔مرہم پٹی کے بعد بڑھیا نے اسے آرام سے گھاس پھوس پر لٹا دیا۔کچھ دن بعد عقاب بالکل ٹھیک ہو گیا تو اس نے اُڑان بھری،اور یہ جا دو جا لیکن کچھ دیر بعد آکر بڑھیا کے پاس بیٹھ گیا اور احسان مند نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔جیسے وہ اپنی زندگی بچانے پر بڑھیا کا شکریہ ادا کر رہا ہو۔بڑھیا اس وقت مچھلی پکڑنے جا رہی تھی چلتے چلتے بڑھیا کی نظر عقاب کے ناخنوں پر پڑی تو وہ رُک گئی اور خود سے کہا۔(جاری ہے)”اوہو یہ تو اتنے لمبے ناخنوں کی وجہ سے کچھ بھی نہیں کھا سکتا۔ایسے تو یہ بھوکا مر جائے گا۔“یہ سوچ کر بڑھیا نے جھٹ عقاب کو پکڑا اور ورانتی کے ایک وار سے عقاب کے ناخن پنجوں سمیت کاٹ لیے اور مچھلی پکڑنے چل پڑی واپسی پر اس نے عقاب کو بے سدھ پڑے دیکھا تو مسکرائی اور خود سے کہا کہ سونے دو بے چارہ تھکا ہوا ہے پھر بڑھیا خود بھی سو گئی۔شام کو جاگنے پر اس نے دیکھا کہ عقاب اسی حالت میں پڑا ہوا ہے۔وہ عقاب کے قریب گئی بڑھیا تو اسے سوتا ہوا سمجھ رہی تھی لیکن عقاب زیادہ خون بہنے کی وجہ سے مر چکا تھا۔بڑھیا شرمندہ سی سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گئی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔بڑھیا کی نادانی کی وجہ سے ایک قیمتی پرندہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ " بڑا چوہا،چھوٹا خرگوش - تحریر نمبر 2082,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bara-chooha-chhota-khargosh-2082.html,"عبدالرحمن”چھوٹے میاں!میں سوچ رہا ہوں کیوں نہ ہم اپنی طاقت کو بڑھا لیں۔“بڑے چوہے نے چھوٹے خرگوش سے کہا۔دونوں میں بہت گہری دوستی تھی۔”بھائی جان!میں سمجھا نہیں،تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟“چھوٹا خرگوش کان ہلاتے ہوئے بولا۔”چھوٹے میاں!کل رات جب بندر تمہارے ہاتھ سے گاجر چھین کر بھاگ گیا تو مجھے بہت افسوس ہوا،میں رات بھر اپنے بل میں یہی سوچتا رہا کہ میں بھی بہادر ہوں،تم بھی بزدل نہیں ہو،پھر ہم میں ایسی کیا کمی ہے کہ بندر تم سے گاجر چھین کر بھاگ کھڑا ہوا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔“ بڑا چوہا تفصیل سے بولتا چلا گیا۔”تو پھر؟“چھوٹے خرگوش نے آنکھیں مٹکائیں۔”پھر یہ کہ چھوٹے میاں!ہمیں اپنی طاقت بڑھانے کے لئے کسی طاقتور جانور سے دوستی کر لینی چاہیے،پھر کوئی بھی جانور ہم سے کچھ چھیننے سے پہلے سو بار سوچے گا۔(جاری ہے)“بڑے چوہے نے اپنی دانست میں بڑی ہی دانش مندانہ بات کی۔”ہاہاہاہا․․․․ہاہاہاہا۔“چھوٹا خرگوش اپنے دوست بڑے چوہے کی بات سن کر ایسے زور زور سے ہنسنے لگا جیسے اس نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔”چھوٹے!تم میری اتنی سنجیدہ بات کا مذاق اُڑا رہے ہو،جاؤ میں تم سے نہیں بولتا۔“بڑا چوہا ناراض ہو کر دوسری طرف منہ کرکے ہاتھ میں پکڑی پنیر والی روٹی کو کترنے لگا۔”ارے،ارے،میرے”کان“سے زیادہ عزیز بڑے بھائی!تم تو ناراض ہو گئے۔“مگر بڑے چوہے نے کوئی جواب نہیں دیا۔اچانک اس نے محسوس کیا کہ چھوٹا خرگوش کہیں چلا گیا ہے،وہ حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا،پھر اسے کافی دیر بعد دور سے خرگوش آتا نظر آیا تو یہ دوبارہ منہ پھیر کر بیٹھ گیا۔اچانک اس کے کان کے قریب چھوٹے خرگوش کی آواز آئی:”یہ دیکھو،میں تمہارے لئے کتنا بڑا اور بالکل تمہاری طرح خوبصورت گفٹ لایا ہوں۔“چوہے نے جیسے ہی سر اُٹھا کر دیکھا تو اتنی بڑی بھینس کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور شرارتی خرگوش کی بات پر خوب ہنسا۔”آج سے یہ ہمارا دوست ہے،مگر اس کی ایک شرط ہے۔“خرگوش نے کہا۔اس سے پہلے کہ بڑا چوہا چھوٹے خرگوش سے بھینس کی دوستی کی شرط پوچھتا،چوہے نے دیکھا کہ ایک مچھر اُڑتا ہوا آیا اور بھینس کے چہرے پر بیٹھ گیا،پھر اس کے بعد ایک ایسی بات ہوئی کہ چوہا حیران رہ گیا،اس نے دیکھا کہ بھینس خوف کے مارے اُچھل رہی ہے،پھر اِدھر اُدھر بھاگنے دوڑنے لگی،پھر بھاگتے بھاگتے وہ ایک نہر میں چھلانگ لگا کر غوطے لگانے لگی۔”یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں۔“بھینس کو ایک چھوٹے سے مچھر سے اس قدر گھبراتے دیکھ کر بڑے چوہے نے چھوٹے خرگوش سے پوچھا تو وہ بولا:”میرے حسین دوست!بہادری کا تعلق جسم اور طاقت سے نہیں،بلکہ دل سے ہوتا ہے،اسی لئے ڈرپوک کو بزدل کہتے ہیں،یعنی بکری جیسے دل والا۔اب اس بھینس کو ہی دیکھ لو،کتنی طاقتور ہے،مگر حد درجے بزدل ہے،حتیٰ کہ جب اسے مچھر کاٹ لے تو بھاگ کر پانی میں غوطے لگانے لگتی ہے،اسے تو ڈوب مرنا چاہیے۔“”واقعی،اس بزدل سے تو میں کبھی بھی دوستی نہیں․․․․ارے ہاں یاد آیا․․․․اس نے اپنی دوستی کی شرط کیا رکھی تھی بھلا؟“بڑے چوہے کو بولتے بولتے ایک دم وہ شرط یاد آگئی تو اس نے پوچھا۔”بھینس نے یہ شرط رکھی تھی دوستی کی کہ تم اسے مارو گے نہیں۔“چھوٹے خرگوش نے شرط بتائی اور پھر دونوں خوب ہنسنے لگے۔ " جھگڑالو - تحریر نمبر 2081,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhagralu-2081.html,"ساجد کمبوہ پھول نگرسر اختر نے حاضری لگاتے ہوئے جب عامر کا نام پکارا تو وہ غیر حاضر تھا۔انہوں نے چند سیکنڈ دیکھا،پھر طاہر سے پوچھا:”بھئی وہ جھگڑالو بچہ نہیں آیا؟جو ہر بات پر لڑنے جھگڑنے کیلئے تیار رہتا ہے؟“”سر کل میچ میں اُس کی لڑائی ہو گئی تھی۔بات بھی اتنی خاص نہ تھی۔“”بس یہی اُس میں خرابی ہے،بات بات پر لڑائی“:سر نے کہا اور حاضری کمپلیٹ کی۔”سر!پرسوں خواہ مخواہ مجھ سے اُلجھنے لگا تھا،میں نے نظر انداز کر دیا ورنہ اُس کا ارادہ تو․․․“ماجد نے کہا۔گورنمنٹ ہائی سکول کی ٹینتھ کلاس تھی یوں تو کلاس میں ہر قسم کے بچے ہوتے ہیں مگر عامر شرارتی بدتمیز اور جھگڑالو تھا وہ بات بات پر لڑنے پر آمادہ رہتا۔(جاری ہے)اگلے دن پھر غیر حاضر تھا،سر اختر نے پوچھا تو اُس کے پڑوسی ندیم نے بتایا کہ اُس کے سر پر بیٹ لگنے سے چوٹ آئی ہے وہ دو چار دن سکول نہیں آئے گا۔اُس کے سر پر سات آٹھ ٹانکے لگے ہیں۔اس کا مطلب معاملہ سیریس تھا،ورنہ زیادہ سے زیادہ ایک دو گھونسے اور کپڑے وغیرہ پھٹتے یا بٹن ٹوٹتے۔سر نے کہا۔”سر!اس میں اس کی اتنی غلطی نہ تھی دوسرا لڑکا لڑاکا تھا،اُس نے معمولی بات پر بیٹ سے سر پھاڑ دیا۔ندیم نے کہا،بھئی وہ مکافات عمل کا شکار ہوا ہے جب اس کی غلطی ہوتی تو دوسروں سے زیادتی کرتا،آج اس کی غلطی نہ تھی،اُسے سزا ملی۔سر!سمجھے یہ مکافات عمل والی بات سمجھ نہیں آئی،اس کا عامر سے کیا تعلق؟طاہر نے پوچھا۔بھئی کوئی کسی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے،کسی کی چوری کرتا وہ اُس کی سزا پاتا ہے۔وہ سمجھے نہ سمجھے جیسے عامر دوسروں سے زیادتی کرتا تھا مگر اس بار اُس کی غلطی کم اور سزا زیادہ ملی۔کوئی بچہ کسی کی چوری کرتا ہے وہ پکڑا نہیں جاتا مگر کسی کی چوری نہیں بھی کرتا اور سزا مل جاتی ہے۔سر ایسے ہی میرے پاپا ایک دن کہہ رہے تھے کہ بٹیر کو مکافات عمل کا سامنا ہے جب ہم نے پوچھا تو انہوں نے بتایا یہی بٹیر دوسرے بٹیر کی پٹائی کرتا رہتا تھا،اب اس کی پٹائی۔بھئی پوری بات بتاؤ،کچھ بچوں کو سمجھ نہیں آرہی۔سر نے ابوبکر سے کہا۔سر ہم نے گھر میں بٹیر اور آسٹریلین طوطے رکھے ہوئے ہیں۔چار بٹیر ہیں،ایک بٹیر دوسرے کی خوب پٹائی کرتا تھا۔اکثر ڈرایا بھی مگر وہ باز نہ آتا تھا،اس نے دوسرے بٹیر کو مار مار کر گنجا کر دیا۔آخر تنگ آکر اُس بٹیر کو پیرٹ والے پنجرے میں ڈال دیا گیا۔وہاں ایک پیرٹ اُس پر سوار ہو جاتا ہے،چونچ سے اُس کے سر سے پَر اُکھاڑتا ہے۔اُسے سکون سے نہیں رہنے دیتا۔کبھی اُس کے پاؤں پر چونچ مارتا ہے،وہ بیچارا اِدھر اُدھر چھپتا پھرتا ہے۔میں نے اینٹوں کے اوپر شیشہ رکھا وہ نیچے گھس جاتا ہے۔یونہی دانہ دنکا کیلئے باہر آتا ہے۔طوطا اُس پر سوار ہو جاتا ہے،جب پاپا کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا یہ مکافات عمل ہے جب اُن سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ دوسرے بٹیر کو ناجائز تنگ کرتا تھا،اس کا بدلہ یہ پیرٹ لے رہا ہے۔ہاں بھئی سمجھ گئے۔سر اختر نے کہا۔جی سر!سمجھ گئے اس کا مطلب ہے کسی کو ناجائز تنگ نہ کریں کسی کی چیز نہ چرائیں لڑائی جھگڑا نہ کریں ورنہ․․․․جی ہاں ورنہ کسی اور سے سزا کیلئے تیار رہیں جیسے عامر کو سزا ملی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اچھا مسلمان بننے کی توفیق دے آمین۔بچوں نے بلند آواز میں آمین کہا۔ " تنہا لومڑی - تحریر نمبر 2080,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tanha-lomri-2080.html,"تبسم بشیر حسین،ڈنگہکسی جنگل میں بہت سارے جانور رہتے تھے،سب بہت پیارے تھے اور بہت پیار سے رہتے تھے۔اُن ہی میں ایک بہت شرارتی لومڑی تھی۔تھی تو وہ بہت چھوٹی مگر اُس نے بڑے بڑے جانوروں کو تنگ کر رکھا تھا۔سب جانوروں نے اُسے بہت برداشت کیا مگر کب تک؟ایک دن سب جانور ایک جگہ جمع ہو گئے اور لومڑی کو سبق سکھانے کا ایک منصوبہ بنایا۔اُنہوں نے طے کیا کہ وہ سب جنگل کی سب سے پرانی غار میں جا کر چھپ جائیں گے اور جب وہ اکیلی رہ جائے تو لازمی اُس کی عقل ٹھکانے آجائے گی۔اگلی صبح لومڑی پھر سے دورے پر نکلی کہ کیوں نہ کسی کو پریشان کیا جائے؟وہ سارا سارا دن گھومتی رہی مگر اُسے کوئی نہ ملا۔اُس نے سوچا کہ کل پھر کوشش کرے گی۔ایسے ہی کئی دن گزر گئے،اب وہ اکیلی رہ کر تنگ آگئی تھی۔(جاری ہے)ایک دن وہ اکیلی جنگل میں گھوم رہی تھی کہ اُسے خیال آیا،اُس نے ہمیشہ دوسروں کو تنگ ہی کیا ہے،دوسرے کو پریشانی دی،اُن کا بُرا چاہا،اس لئے کوئی اُس کے نزدیک نہ آتا تھا،وہ ایسا نہ کرتی تو یقینا سب اُس کے ساتھی ہوتے۔اب وہ جنگل کے ہر کونے میں جاتی اور ”مجھے معاف کر دو“ کی صدا لگاتی اور روتی رہتی۔وہ غار کے قریب صدا لگا رہی تھی اور رو رہی تھی کہ سب جانور باہر آگئے۔وہ اُنہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی،اپنی غلطی کی معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آئندہ ایسا نہیں کرے گی اور اس کے بعد سب جنگل میں خوشی خوشی رہنے لگے۔پھر لومڑی نے اُنہیں کبھی پریشان نہ کیا کیونکہ وہ اکیلے پن سے ڈر گئی تھی۔اس کے بعد جنگل میں خوشی ہی خوشی تھی۔ " میرا دل بدل دے - تحریر نمبر 2079,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mera-dil-badal-day-2079.html,"روبینہ ناز کراچیبابر جیسے ہی اپنے شان دار گھر میں داخل ہوا،اس کے دونوں بچے جو آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے،ایک دم سنجیدہ ہو گئے اور سکول کی کتاب کھول کر بیٹھ گئے ۔بوڑھا مالی بھی سہما ہوا نظر آرہا تھا اور ملازمہ بھی خوف زدہ دکھائی دے رہی تھی۔دوسروں کو اپنے سے حقیر سمجھنا اور ان کے ہر کام میں کیڑے نکالنا،بُرے القابات دینا بابر کی عادت تھی۔کھانے کے وقت اس کی بیوی بھی گھبرائی ہوئی آئی اور کھانے کی میز سجانے لگی،کیونکہ کھانے میں کسی قسم کی کمی بیشی کی صورت میں اسے اپنے بچوں اور ملازمین کے سامنے سخت باتیں سننا پڑتیں۔غرض بابر کی غیر موجودگی میں گھر خوشیوں کا گہوارہ نظر آتا۔اپنی فیکٹری کے ملازمین کو معمولی غلطی پر نوکری سے نکال دینا اس کی عادت تھی اس کی باتیں سن کر ملازمین خون کے گھونٹ پی کے رہ جاتے اور اس سے دور دور بھاگتے۔(جاری ہے)بابر اپنی کامیابیوں کو اللہ کا احسان سمجھنے کے بجائے اپنی عقل اور محنت کا نتیجہ قرار دیتا کہ اگر میں نہ ہوتا تو نہ فیکٹری ہوتی اور نہ تم سب کی خوشحالی۔ایک دن بابر نے اپنے ایک پرانے ملازم کو کسی غلطی پر ملازمت سے نکال دیا۔اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ ہی دن بعد بابر بیمار ہوا اور بستر سے لگ گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کی حالت بگڑتی چلی گئی۔فیکٹری کی دیکھ بھال ایمان دار منیجر کرنے لگا۔ادھر بابر کے گھر والے اس کی دل و جان سے دیکھ بھال کرتے تھے،مگر خوف زدہ اور خاموش رہتے کہ کہیں بابر سے ڈانٹ نہ پڑ جائے وہ زیادہ وقت اکیلا ہوتا اسے پہلی بار محسوس ہوا کہ کوئی بھی اس کے قریب نہیں رہنا چاہتا اور سب اس سے دور بھاگتے ہیں سوائے اس کے والد کے جن کے ساتھ بھی اس نے کئی بار بدتمیزی کی تھی۔اس نے آنکھوں میں آنسو بھر کر نہایت اداسی سے اپنے والد کو بتایا کہ کوئی بھی مجھ سے محبت نہیں کرتا،حالانکہ میں سب کے لئے اتنی محنت کرتا ہوں۔اس نے پہلی بار اعتراف کیا کہ میں نے اپنے خراب رویے سے اپنے پیاروں اور دوسروں کو خود سے دور کر دیا ہے ۔لیکن اب کیا کروں؟۔اس کے والد نے کہا”میرے بچے!اللہ سے دعا کرتے رہو کہ وہ تمہارے دل کی اصلاح کر دے۔“چنانچہ بابر اکیلے میں رو رو کر دن رات یہی دعا کرتا۔اپنے گھر والوں کی مسلسل دیکھ بھال سے وہ کچھ عرصے بعد صحت یاب ہو گیا۔فیکٹری کے ملازمین نے اس کی شخصیت میں حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھیں اور اسے خوش آمدید کہا،جب وہ گھر میں داخل ہوتا تو باآواز بلند السلام علیکم کہتا،سب سے مسکرا کر ملتا اور اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا جس کے بدلے میں سب لوگ خاص طور پر اس کے بیوی بچے اس سے خوش تھے اور اس سے محبت کرنے لگے تھے وہ بھی بہت خوش تھا کہ اللہ نے اس کا دل بدل دیا تھا۔ " ایمانداری کا انعام - تحریر نمبر 2078,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/imandari-ka-inaam-2078.html,"ایمان جاویدپیارے بچو!ایک لکڑہارا تھا جو لکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچ کر اپنا اور بیوی،بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ایک روز جنگل میں لکڑیاں کاٹتے ہوئے اس کی کلہاڑی کھو گئی۔اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ دوسری کلہاڑی خرید لیتا اس نے سارے جنگل میں کلہاڑی ڈھونڈی لیکن کہیں نہ ملی، تھک ہار کر وہ رونے لگا۔اچانک درختوں کے پیچھے سے ایک جن نکلا۔اس نے کہا،”کیا بات ہے میاں لکڑہارے؟تم رو کیوں رہے ہو؟“لکڑہارے نے روتے ہوئے کہا،”میری کلہاڑی کھو گئی ہے،سب جگہ تلاش کر لیا لیکن کہیں نہیں مل رہی،تم جن ہو،خدا کے لئے کہیں سے ڈھونڈ کر لا دو“۔یہ سن کر جن لکڑہارے کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد دوبارہ اس کے پاس آیا۔اس کے ہاتھ میں سونے کی کلہاڑی تھی۔(جاری ہے)اس نے لکڑہارے سے کہا”لو،میں تمہاری کلہاڑی ڈھونڈ لایا ہوں۔“لکڑہارے نے کلہاڑی دیکھ کر کہا،”یہ میری کلہاڑی نہیں ہے۔وہ تو لوہے کی تھی۔“جن پھر غائب ہو گیا اور اب وہ چاندی کی کلہاڑی لے کر آیا۔اس نے کہا”لو،یہ تمہاری کلہاڑی ہے۔“”نہیں۔یہ چاندی کی ہے،یہ بھی میری کلہاڑی نہیں،“لکڑہارے نے کہا۔یہ سن کر جن پھر غائب ہو گیا جب وہ لکڑہارے کے پاس دوبارہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں لوہے کی کلہاڑی تھی۔یہ کلہاڑی دیکھتے ہی لکڑہارا خوشی سے چیخا،”ہاں ہاں،یہی ہے میری کلہاڑی۔اللہ تیرا شکر ہے۔“جن بولا”تم بہت ایماندار شخص ہو۔میں یہ تینوں کلہاڑیاں تمہیں دیتا ہوں۔یہ تمہارا انعام ہے۔“لکڑہارے نے جن سے تینوں کلہاڑیاں لے لیں اور خوشی خوشی گھر چلا گیا۔ " مغرور لومڑی - تحریر نمبر 2077,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maghroor-lomri-2077.html,"ڈاکٹر جمیل جالبیایک بلی آبادی سے دور جنگل میں رہتی تھی،جہاں قریب میں ہی ایک لومڑی کا بھی بھٹ تھا۔آتے جاتے اکثر ان کی ملاقات ہو جاتی تھی، پھر گھنٹوں آپس میں باتیں ہوتیں۔ لومڑی کو اپنی چالاکی پر بہت غرور تھا،وہ بلی کو زیادہ تر اپنی چالاکیوں کے قصے سنایا کرتی تھی،جن میں سے زیادہ تر من گھڑت ہوتے تھے۔ایک دن جب سورج انتہائی آب و تاب سے چمک رہا تھا اور خوب دھوپ نکلی ہوئی تھی،ایک گھنے پیڑ کے نیچے دونوں کی ملاقات ہوئی۔خاصی دیر تک دونوں باتیں کرتی رہیں۔لومڑی نے کہا،”اے بی بلی،اگر دنیا میں سو طرح کی آفتیں آجائیں یا کوئی مجھ پر حملہ کر دے تو مجھے کوئی پروا نہیں۔مجھے ہزاروں گُر اور ترکیبیں آتی ہیں،میں ان سب مصیبتوں سے بچ کر نکل جاؤں گی،لیکن خدانخواستہ اگر تو کسی آفت سے دوچار ہو جائے تو کیا کرے گی“۔(جاری ہے)بلی بولی،”اے بوا،مجھے تو ایک ہی گُر اور ترکیب یاد ہے“۔اگر اس سے چوک جاؤں تو ہر گز میری جان نہ بچے اور ماری جاؤں۔یہ سن کر لومڑی کو بلی پر بہت ترس آیا اور کہنے لگی،”مجھے تیری حالت پر بہت رحم آتا ہے،میرا جی چاہتا ہے کہ ان ترکیبوں میں سے تین چار تجھے بھی بتاؤں،لیکن بہن زمانہ خراب آگیا ہے،کسی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا“۔ابھی وہ دونوں باتیں ہی کر رہی تھیں کہ انہیں شکاری کتوں کی آوازیں سنائی دیں،جو بہت قریب آگئی تھیں۔یہ آوازیں سن کر دونوں گھبرا گئیں۔بلی نے خطرہ بھانپ کر آؤ دیکھا نہ تاؤ،اپنی پرانی ترکیب پر عمل کیا اور جھٹ سے پیڑ پر چڑھ کر اونچی ڈالیوں میں دُبک کر بیٹھ گئی۔ اس دوران کتے اتنے نزدیک پہنچ چکے تھے کہ بی لومڑی اپنی کسی ترکیب پر عمل نہ کر سکیں۔ذرا سی دیر میں کتوں نے لومڑی کو دبوچ لیا اور چیر پھاڑ کر ٹکڑے کر دیئے۔ " سیدھا راستہ - تحریر نمبر 2076,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/seedha-rasta-2076.html,"شری مرلی چندایمان،امانت،اتحاد،یقین محکم،تنظیم،تعظیم،عبادت،ایثار،صبر اور شکر ایسے الفاظ ہیں جن کا مفہوم بہت ہی وسعت رکھتا ہے۔اگر ان میں ذرا سی بھی کمی ہو جائے تو ان کے معنی بدل جاتے ہیں اور معاشرتی بگاڑ پیدا کرتے ہیں،فساد کا باعث بنتے ہیں۔اسی طرح جھوٹ بولنے کا راستہ بڑی آسانی سے اختیار کر لیا جاتا ہے۔جب بھی ایمان کی بات آتی ہے تو کامل دین دار جیسے لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔انسان ایمان دار بن کر حلال روزی کمائے،رشوت سے دور رہے،اس میں ملاوٹ شامل ہو جائے تو روزی حلال نہیں رہتی۔امانت کے طور پر کوئی چیز آپ کے پاس رکھی جائے تو واپس لوٹا دینے تک مکمل حفاظت کی جائے۔یعنی وہ چیز ویسی ہی لوٹائے،جس صورت میں رکھی گئی تھی۔(جاری ہے)آپ کسی بھی کاروبار یا عہدے پر فائز ہوں تو اپنی ذمے داری پوری فرض شناسی سے نباہیں اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں، لاپروائی کا مظاہرہ نہ کریں اور نہ ایسی غفلت ہو جس سے رسوائی ہو۔آپس میں اتحاد قائم کریں۔سچ اور حق پر مکمل یقین رکھیں،تنظیم قائم کرکے اور ہر کام نظم و ضبط کے ساتھ کیا جائے۔جھوٹ سارے فساد کی جڑ ہوتا ہے۔بدقسمتی سے لوگ جھوٹ بولنے کو آسان سمجھتے ہیں اور یہ رواج سا بن گیا،جب کہ سچ بولنا جیسے خواب بن کے رہ گیا ہے،لوگ کاروبار سے لے کر گھریلوں معاملات،ذاتی زندگی میں،سرکاری دستاویزات،رشتے،ناطے اور معمولات میں سچ بولنے کو ضروری نہیں سمجھتے اور جھوٹ بولنے میں مہارت ہو جانے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔پُرسکون رہنے کے لئے ہمیشہ سچ کا سیدھا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ " جنگلی قبیلہ - تحریر نمبر 2075,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jangli-qabeela-2075.html,"سیدہ اقراء اعجاز،حیدرآبادجہاز آرام سے آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک ہوا میں ڈولنے لگا۔سب مسافر ڈر گئے۔کچھ زور زور سے چیخنے لگے۔کچھ مسافر دعائیں پڑھنے لگے۔پائلٹ جہاز پر کسی صورت قابو نہیں کر پا رہا تھا۔اس کا رابطہ کنٹرول روم سے بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔جہاز تیزی سے زمین کی طرف گر رہا تھا۔سب مسافر ڈر کے مارے رو رہے تھے۔آخر جہاز تباہ ہو گیا۔جس جگہ جہاز تباہ ہوا تھا یہ افریقہ کا ایک گھنا جنگل تھا۔معجزاتی طور پر تمام مسافر محفوظ رہے۔کچھ مسافر کو معمولی خراشیں آئیں تھیں۔سب مسافر جہاز سے باہر نکلتے ہی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگے جس نے انھیں بڑے حادثے میں محفوظ رکھا۔سب مسافر پریشان دکھائی دے رہے تھے۔اس گھنے جنگل میں مدد کا ملنا مشکل تھا۔(جاری ہے)آخر ہمت کرکے سب لوگ ایک سمت میں چل پڑے۔اچانک انھیں کچھ جنگلی لوگ نظر آئے۔انھوں نے درختوں کے پتوں کا لباس پہن رکھا تھا۔سب مسافر انھیں دیکھ کر ڈر گئے۔وہ سمجھے کہ یہ آدم خور جنگلی ہیں،لیکن وہ لوگ آدم خور نہیں تھے۔جہاز کے پائلٹ نے انھیں اشاروں میں سمجھایا کہ کیسے ان کا جہاز تباہ ہو گیا اور وہ مصیبت میں ہیں۔وہ جنگلی ان کی بات سمجھ گئے اور انھیں اپنے سردار کے پاس لے گئے۔سردار تھوڑی بہت ان کی زبان جانتا تھا۔اس نے سب مسافروں کی ہرن کے گوشت اور جنگلی پھلوں سے خاطر تواضع کی۔وہ سب مسافر جنگلیوں کے رقص سے بھی لطف اندوز ہوئے۔سب جنگلیوں نے بہت ساری لکڑیاں جمع کرکے آگ لگائی،تاکہ اگر کوئی جہاز وہاں سے گزرے تو وہ ان مسافروں کی ان کے ملک واپس جانے میں مدد کرے۔ ایک دن بعد وہاں سے ایک جہاز گزرا تو وہ آگ کے الاؤ کو دیکھ کر نیچے اُتر آیا۔اتفاق سے وہ جہاز انہی کے ملک کا تھا۔وہ سب مسافر اپنے ملک جانے کے لئے جہاز میں سوار ہو گئے۔سب جنگلیوں نے نم آنکھوں کے ساتھ انھیں رخصت کر دیا۔ " توازن - تحریر نمبر 2074,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tawazun-2074.html,"سیدہ اقراء اعجاز،لطیف آبادفاطمہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔وہ جماعت سوم میں پڑھتی تھی۔وہ بہت ذہین طالبہ تھی اور اپنی کلاس میں ہمیشہ اول آتی تھی۔اس دفعہ فاطمہ کے ابو نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس دفعہ بھی فاطمہ امتیازی حیثیت سے پاس ہوئی تو وہ اسے تحفے میں ’ٹچ موبائل‘ دیں گے۔نتیجہ آیا تو فاطمہ اول درجے میں پاس ہوئی تھی۔فاطمہ نے خوشی خوشی اپنے والدین کو نتیجہ دکھایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور اگلے ہی دن فاطمہ کے پاس نیا ٹچ موبائل موجود تھا۔موبائل آنے سے جیسے فاطمہ کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔اب اس کی توجہ پڑھائی پر کم اور موبائل پر زیادہ رہتی تھی۔ماہانہ ٹیسٹ کا نتیجہ آیا تو وہ دسویں نمبر پر آئی تھی،لیکن اسے اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی،کیونکہ اب اس کی زندگی کا محور صرف موبائل کے گرد گھومتا تھا۔(جاری ہے)آخر سالانہ امتحانات سر پر آگئے تو اسے کچھ فکر ہوتی،لیکن وہ سر جھٹک کر دوبارہ گیم کھیلنے لگی۔جب نتیجہ آیا تو وہ فیل ہو گئی۔فاطمہ گھر آکر بہت روئی۔اب اسے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔اس کی امی کمرے میں آئیں اور اسے پیار سے سمجھایا:”بیٹا!یہ سب تمہاری لاپروائی کا نتیجہ ہے۔اگر تم دونوں چیزوں میں توازن قائم رکھتیں تو ایسا نہ ہوتا۔“فاطمہ نے اپنی امی سے وعدہ کیا کہ وہ بہت محنت کرے گی اور اگلے سال پھر اول آئے گی۔اگلے سال کا نتیجہ اس کی توقعات پر پورا اُترا۔وہ اول آئی تھی۔فاطمہ نے خوشی خوشی اپنی امی کو بتایا:”امی!آپ نے بالکل صحیح کہا تھا۔زندگی میں توازن بہت ضروری ہے۔اگر ہم توازن قائم نہیں رکھیں گے تو نقصان کے ذمے دار ہم خود ہوں گے۔“ " محنت میں عظمت - تحریر نمبر 2073,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-mein-azmat-2073.html,"محمد بن ڈاکٹر نوید انجمکسی زمانے میں ایک ملک کے باشندے بہت کاہل تھے۔وہ کوئی کام کاج نہیں کرتے تھے،دن بھر سونا پانے کی اُمید میں زمین کھودتے تاکہ مالا مال ہو جائیں۔برسوں تک وہ اسی طرح زمین کھودتے رہے لیکن انہیں کچھ نہ مل سکا۔یہی وجہ تھی کہ وہاں کے باشندے بہت پریشان رہتے کیونکہ وہاں کا بادشاہ دولت چاہتا تھا اور دولت نہ ملنے کے سبب اس کا مزاج چڑچڑا اور غصیلا ہو گیا تھا۔ایک دن وہاں سے ایک نوجوان کا گزر ہوا جو بہت ہنس مکھ اور ذہین تھا۔وہ اسی راستے سے ایک گیت گاتا جا رہا تھا جہاں سونا حاصل کرنے کے لئے لوگ زمین کھود رہے تھے۔جب ان لوگوں نے اسے دیکھا تو بولے،”گانا مت گاؤ۔ہمارا بادشاہ بہت ہی غصیلا ہے وہ تمہیں قتل کروا دے گا“۔(جاری ہے)نوجوان ہنس کر بولا:”مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔لیکن تم مجھے اپنے بادشاہ کے پاس لے چلو“۔لوگوں نے زمین کی کھدائی بند کر دی اور اس آدمی کو لے کر بادشاہ کے پاس جانے لگے۔راستے میں انہوں نے اس سے پوچھا ”تمہارا نام کیا ہے؟“”مزدور،“اس آدمی نے جواب دیا۔”تم گیت کیوں گا رہے تھے؟“اس نے جواب دیا”کیونکہ میں بہت خوش ہوں“۔انہوں نے پوچھا،”تم خوش کیوں ہو؟“اس نے بتایا”میرے پاس بہت سونا ہے“اتنا سنتے ہی سب لوگ خوشی سے اُچھل پڑے۔انہوں نے بادشاہ کے پاس لے جا کر اسے ساری بات بتا دی۔بادشاہ نے اس آدمی سے پوچھا،”کیا یہ سچ ہے کہ تمہارے پاس بہت سارا سونا ہے؟“”ہاں،“نوجوان نے جواب دیا”میرے پاس سونے کی سات بوریاں ہیں“۔بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس آدمی کے ساتھ جا کر سونے کی ساتوں بوریاں لے آؤ۔بادشاہ کا حکم سن کر نوجوان نے کہا،”سونے کو لانے میں کافی وقت لگے گا کیونکہ وہ ایک ایسے غار میں رکھا ہوا ہے جس کی دیکھ بھال سات دیو کر رہے ہیں۔آپ اپنے ان آدمیوں کو میرے ساتھ ایک سال تک رہنے کی اجازت دیں،اس عرصہ میں ہم وہ سونا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے“۔نوجوان کی بات ماننے کے علاوہ بادشاہ کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا۔اس لئے اس نے اپنے بہت سے آدمی گھوڑے اور بیل اس نوجوان کے ساتھ بھیج دیئے اور جاتے وقت اس کو ہدایت کی،”اگر تم سال کے آخر تک سونا لانے میں ناکام رہے تو تمہارا سر دھڑ سے الگ کر دیا جائے گا“۔اس نوجوان نے ان لوگوں کو سلطنت کی زرخیز زمین جوتنے کے لئے کہا۔جب زمین تیار ہو گئی تو اس نیاس میں گیہوں کے بیج بوئے۔ایک سال بعد فصل تیار ہو گئی تو اس نے اس کی کٹائی کرائی جس کے بعد اس کے پاس منوں گندم جمع ہو گئی،جسے گھوڑوں پر لدوا کر وہ بادشاہ کے سپاہیوں کو ساتھ لے کر محل کی طرف روانہ ہوا۔چلتے چلتے وہ لوگ ایسے مقام پر پہنچے جہاں قحط پڑا ہوا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کے باشندوں نے وہ سارا گیہوں ہاتھوں ہاتھ خرید لیا۔اس کے بدلے میں اس نوجوان کو سونے کی سات بوریاں مل گئیں۔جنہیں لے کر وہ بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا۔اسے دیکھ کر بادشاہ نے اس سے پوچھا،”کیا تم سونا لے آئے؟“نوجوان نے مسکرا کر جواب دیا،”جی ہاں!“میں نے”گیہوں بیچ کر سونا حاصل کیا ہے“۔اس کے ملازموں نے جب اسے پوری کہانی سنائی تو وہ بہت خوش ہوا لیکن اسے اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا۔اس نے اپنی رعایا کو کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔کچھ سالوں بعد ہی ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہوا تو اس نے نوجوان کو دوبارہ اپنے دربار میں طلب کیا اور اس سے کہا،”ہم تمہارے بہت شکر گزار ہیں۔تم نے ہمیں ایک نئی راہ دکھائی ہے،ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمارے ہی ساتھ رہو“۔نوجوان نے بادشاہ کی بات سن کر کہا کہ”اس دنیا میں ابھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو محنت کی عظمت کو نہیں سمجھتے،مجھے ان کے پاس جا کر انہیں بھی راہ راست پر لانا ہے لہٰذا مجھے اجازت دیں مجھے افسوس ہے میں یہاں نہیں رُک سکتا“۔بادشاہ نے نوجوان کو بے شمار تحفے تحائف دے کر رخصت کیا۔ " نادانی کی سزا - تحریر نمبر 2072,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nadani-ki-saza-2072.html,"جمیل جالبیانتہائی گرم موسم میں ایک شیر شکار کو نکلا۔کئی گھنٹے ڈھونڈنے کے باوجود اسے کوئی شکار نظر نہیں آیا۔چلچلاتی دھوپ اور،تپتی ہوئی زمین پر چلنے سے وہ جلد ہی تھک گیا اور ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے آرام کرنے لیٹ گیا،درخت کی جڑ میں چوہوں کا بل تھا۔ابھی اسے سوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ کچھ شرارتی چوہے بل سے باہر نکلے اور اس کی پیٹھ پر چڑھ کر اُچھلنے کودنے لگے،جس سے شیر کی آنکھ کھل گئی۔چوہوں کی اس حرکت پر شیر غصے سے غرایا جس سے خوف زدہ ہو کر سارے چوہے بھاگ گئے،مگر ان میں سے ایک چوہا پیچھے رہ گیا جسے شیر نے لپک کر اپنے پنجے میں دبوچ لیا۔ابھی وہ اسے غصے سے مارنے ہی والا تھا کہ چوہے نے گڑگڑا کر کہا،”اے جنگل کے بادشاہ!مجھ غریب پر رحم کیجیے۔(جاری ہے)مجھ جیسے چھوٹے اور کمزور کو مارنے سے آپ کی خاندانی شرافت پر آنچ آئے گی اور سارے جنگل میں بدنامی الگ ہو گی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے ایک چوہے کو مار دیا،میری جان بخش دیں،ہو سکتا ہے کسی موقع پر میں آپ کے کام آسکوں“یہ بات سن کر شیر نے اس پر ترس کھایا اور ڈرتے کانپتے چوہے کو آزاد کر دیا۔کچھ دن بعد وہی شیر شکار کے لئے جنگل میں نکلا۔شکار کی تلاش میں پھرتے ہوئے وہ شکاریوں کے لگائے ہوئے جال میں پھنس گیا۔اس نے اس مصیبت سے نکلنے کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مارے،لیکن نہ نکل سکا۔آخر پریشانی کے عالم میں وہ زور سے دھاڑا۔وہاں قریب سے وہی چوہا گزر رہا تھا،اس نے جیسے ہی شیر کے دھاڑنے کی آواز سنی،وہ تیزی سے جال کے پاس آیا۔چوہے نے دیکھا کہ وہی شیر ہے جس نے اس کی جان بخشتی تھی۔وہ شیر کے پاس گیا اور کہا، ”بادشاہ سلامت،آپ نے اُس دن میری جان بخشی تھی،آپ فکر مت کریں،میں جال سے نکلنے میں آپ کی مدد کروں گا۔“یہ کہہ کر وہ اپنے تیز دانتوں سے جال کترنے لگا اور ذرا سی دیر میں اسے کاٹ کر شیر کو آزاد کرا دیا۔ جب شیر آزاد ہوا تو اس نے سوچا کہ وہ بھی چوہے کے احسان کے بدلے اسے کوئی بڑا انعام دے۔یہ سوچ کر اس نے چوہے سے کہا،”اے دوست!تو نے مجھ پر احسان کیا ہے،اس کے بدلے جو تو مجھ سے مانگے گا،میں دوں گا،بول کیا مانگتا ہے؟“چوہا یہ سن کر خوشی کے مارے پھولا نہ سمایا اور بھول گیا کہ وہ اپنے لئے کیا مانگے اور کون سی ایسی چیز مانگے کہ شیر اسے دے بھی سکے۔اپنی حیثیت بھول کر اس نے جلدی سے کہا، ”بادشاہ سلامت!اپنی شیر زادی کی شادی مجھ سے کر دیجیے۔“شیر یہ سن کر حیران رہ گیا لیکن کیوں کہ وہ زبان دے چکا تھا اور اپنے قول سے پھرنا بادشاہوں کی شان کے خلاف ہوتا ہے اس لئے اس نے چوہے کی بات مان لی اور رشتہ قبول کر لیا۔شادی کے دن نوجوان شیر زادی بن ٹھن کر نکلی اور جھومتی جھامتی اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی اپنی دھن میں چلنے لگی۔دولہا چوہا اس کے استقبال کے لئے سامنے کھڑا تھا جسے شیر زادی نے نہیں دیکھا تھا۔بے خیالی میں اس کا پاؤں چوہے پر پڑ گیا اور وہ بے چارا بغیر کوئی آواز نکالے،اس کے پیروں تلے کچل کر وہیں ڈھیر ہو گیا۔ " ہاتھی کی تربیت(آخری حصہ) - تحریر نمبر 2071,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hathi-ki-tarbiyat-2071.html,"جب انہیں اطمینان ہو گیا،بادشاہ نے حسب عادت،جیسا کہ دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ اس کا معمول تھا،اسے تیز بھاگنے کا حکم دیا۔ہاتھی نے تیزی پکڑی اور فیل بان سے بھی آگے نکل گیا۔اس نے جب یہ دیکھا کہ فیل بان کہیں پیچھے رہ گیا ہے،وہ شیر کی طرح جوش اور جولانی میں آیا اور جنگل کا رُخ کیا اور گویا یہ کہتا ہوا سرپٹ دوڑنے لگا کہ اب نہیں دوڑو گے تو کب دوڑو گے،گویا ماضی کی طرح وہی وحشی اور جنگلی ہاتھی بن گیا جیسا کہ تین سال پہلے تھا۔وہ اس قدر سرپٹ دوڑے جا رہا تھا جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔وہ بجلی اور جھکڑ کی طرح پہاڑ اور صحرا عبور کرتا جا رہا تھا۔بادشاہ نے ہر چند اسے قابو میں لانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔وہ ”رک جا“ کا حکم دیئے جانے پر اور غصے میں آتا اور پہلے سے زیادہ تیزی دکھاتا۔(جاری ہے)ایسی صورت میں ہاتھی پر سے چھلانگ لگانا ناممکن بھی تھا اور خطرناک بھی۔یہ عظیم الجثہ ہاتھی صبح سے رات گئے تک پہاڑ اور صحرا کے اطراف میں بھاگتا دوڑتا رہا حتیٰ کہ تھک گیا۔اس کی بھوک پیاس زوروں پر تھی۔ اب اسے ناند،گھاس اور طویلے کی یاد آئی اور جیسا کہ پچھلے تین سال میں اس کی عادت پختہ ہو چلی تھی،وہ اپنے فیل خانے کے تھان پر لوٹ آیا اور پُرسکون ہو گیا۔بادشاہ ہراساں تھا۔وہ شدید غصے کے عالم میں ہاتھی سے نیچے اُترا اور فیل بان کو طلب کیا اور طلب کرتے ہی حکم جاری کیا کہ اس کی مشکیں کس دی جائیں،اسے ایک کھلے رستے پر ڈال دیں اور طویلے کے چار سو کے چار سو ہاتھی اس کے اوپر سے گزار دیں تاکہ آئندہ کسی کو جرأت نہ ہو کہ بادشاہ کی سواری کے لئے کسی ان گھڑ اور اکھڑ ہاتھی کو پیش کریں۔فیل بان کو موت اپنے سر پر منڈلاتی نظر آئی اور خوف اور دہشت سے اس کی زبان گنگ ہو گئی۔خدمت گاروں نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھے اور اسے ایک کھلے رستے میں لا پھینکا۔پھر حکم دیا کہ ہاتھیوں کو لایا جائے اور ان کا غول کا غول اسے کچل ڈالے۔جونہی فیل بان نے موت کو اپنے قریب دستک دیتے سنا،اس نے نالہ و زاری کرتے ہوئے بادشاہ سے عرض کی:میں ایک مدت سے آپ کی میں کمر بستہ رہا۔کسی نے مجھ سے بدی سرزد ہوتے نہ دیکھی،نہ میں نے کوئی خیانت یا گناہ کیا۔کیا یہ مناسب ہو گا کہ میں انہی ہاتھیوں تلے کچل دیا جاؤں جن کی خود میں نے تربیت کی تھی؟مجھ پر رحم کھایئے۔ایسا نہ ہو کہ لوگ آپ کی ناانصافی کا چرچا کریں کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ آخر میرا گناہ کیا ہے؟بادشاہ نے کہا:اس سے بدتر کیا گناہ ہو گا کہ میں نے اس ہاتھی کی تربیت کے لئے تمہیں تین سال کی مہلت دی۔کیا کوئی کسر رہ گئی تھی کہ یہ مجھے ہلاک کر ڈالے۔آخر تمہاری تربیت کا اس پر کیا اثر ہوا؟فیل بان نے کہا:بادشاہ سلامت!اس میں شک نہیں کہ آج ہاتھی کا طرز عمل بڑا ہی ناپسندیدہ رہا اور اس لحاظ سے قابل افسوس ہے لیکن میں نے اس کی جو تربیت کی،اس کے اثر کی نشاندہی کرکے میں خود کو بیگناہ ثابت کر سکتا ہوں۔اگر میں ایسا نہ کر سکا تو ہر طرح کی سزا کیلئے تیار ہوں۔میری تجویز یہ ہے کہ بادشاہ سلامت اجازت دیں کہ میں ان کی موجودگی میں ہاتھی کا امتحان لوں۔اگر میں اس تربیت کے اثر کی نشاندہی ہی کر سکوں تو پھر ہر طرح کی سزا کا مستحق ہوں۔چونکہ میرے پاس کوئی راہ فرار نہیں لہٰذا بہتر ہے کہ دشمنوں کی زبان بند رہنے دیں۔ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی ناانصافی کے چرچے کریں۔بادشاہ یقینا نہیں چاہتا تھا کہ لوگ اسے ظالم قرار دیں،سو اس نے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا اور حکم دیا کہ فیل بان کے ہاتھ پاؤں کی رسیاں کھول دیں ۔حکم کی تعمیل ہوئی۔ہاتھی لایا گیا۔بادشاہ نے کہا:لو یہ رہے تم اور یہ رہا ہاتھی۔اب بتاؤ تم نے اس کی کس طرح تربیت کی؟ہاتھی نے جونہی فیل بان کو اپنے سامنے پایا،وہ پُرسکون ہو گیا کیونکہ اس نے اس فیل بان کے ہاتھ سے راتب کھایا تھا اور اس کی طرف سے مہربانی دیکھی تھی۔فیل بان نے معمول کے مطابق اس سے ہمدردی کی۔پھر اس کی پیٹھ پر سوار ہوا اور کہا کہ گھاس کا پولا اور پانی کی بڑی بالٹی لائی جائے۔دونوں چیزیں لائی گئیں اور ہاتھی کے سامنے رکھ دی گئیں۔ہاتھی نے اپنی سونڈ بڑھائی تاکہ گھاس اُٹھائے۔فیل بان نے اسے کہا:گھاس کو چھوڑ،پانی پی اور پانی کی بالٹی مجھے دے۔ہاتھی نے اپنی سونڈ سے بالٹی اُٹھائی اور اپنی دائیں طرف سے اسے اوپر لے گیا۔فیل بان نے بالٹی تھام لی اور کہا:اب گھاس کھا ہاتھی نے تھوڑی سی گھاس کھا لی۔فیل بان نے کہا:اب پانی کی بالٹی پکڑ۔ہاتھی نے اپنی سونڈ بلند کی اور بالٹی پکڑ لی اور نیچے رکھ دی۔فیل بان نے کہا:اچھا،دو قدم پیچھے ہٹ۔ہاتھ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔فیل بان نے کہا:اب ،دو قدم آگے۔ ہاتھی نے حکم کی تعمیل کی۔پھر فیل بان نے کہا:اب بادشاہ کی تعظیم بجا لا۔ہاتھی نے اپنا سر خم کیا اور اپنا ایک ہاتھ اپنے سینے کی طرف بڑھا سلام کیا۔اب کیا تھا،فیل بان ہاتھی سے نیچے اُتر آیا اور کہا:بادشاہ!آپ سلامت رہیں۔میں اپنی سی کوشش کرتا رہا اور ہاتھی کے دست و پا،سونڈ اور جسم سے جو کچھ ہونا ممکن تھا،اسے سکھا دیا اور اس کو راستے پر چلنے،رکن،کھانے اور نہ کھانے کے آداب سکھائے۔ہاتھی چونکہ میرے ہاتھ سے راتب کھایا تھا اور میں اس سے مہربانی اور محبت کا برتاؤ کرتا تھا،لہٰذا وہ اپنی حیوانی عقل کے مطابق میری اطاعت کرتا تھا۔میں اسے بارہا صحرا میں لے گیا اور واپس لایا۔بارہا اسے چھڑی سے مارا پیٹا اور اس سارے عرصے میں اس نے وحشت نہ دکھائی اور میرا کہا کرتا رہا۔لیکن میں ہاتھی کی زبان نہیں سمجھتا اور اس کے دل کی خواہشیں مجھ پر ظاہر نہیں اور میرے لئے ممکن نہیں کہ اس کی فکر اور سوچ کو بدل ڈالوں کیونکہ وہ عقل نہیں رکھتا اور سوائے گھاس پانی کے اور کسی شے کی پہچان نہیں رکھتا۔تین برس پہلے بھی میں نے عرض کیا تھا کہ جنگلی جانور کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تربیت اس کے بچپن سے کی جائے کیونکہ تب تک وہ وحشی پن سے واقف نہیں ہوتا۔وہ مخلوق جو ہمیشہ اور ہرحال میں تربیت قبول کرتی ہے،صرف انسان ہے کہ عقل رکھتا ہے،نپے تلے طریقوں کا شعور رکھتا ہے اور گھاس پانی اور اچھے برے کے باہمی فرق سے واقف ہوتا ہے۔بس مجھے یہی کہنا تھا اور اب میں بادشاہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں۔بادشاہ نے انصاف سے کام لیا اور کہا:تم نے سچ کہا۔اب چونکہ بات صاف ہو گئی لہٰذا یہ ہاتھی بھی تمہیں بخشتا ہوں۔میرے لئے یہی کافی ہے کہ لوگ کہیں:بادشاہ کے پاس چار سو ہاتھی تھے اور وہ انصاف کرتا تھا۔میری عظمت اور میرا فخر یہ نہیں کہ میں کسی بڑے ہاتھی کا مالک بنوں بلکہ میری بزرگی عدل و انصاف کرنے میں ہے۔ " غلام بنا بادشاہ - تحریر نمبر 2070,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghulam-bana-badshah-2070.html,"ریاض احمد جسٹسیہ اس زمانے کی بات ہے جب لوگ انسانوں کی تجارت کیا کرتے تھے۔انسانوں کو منڈیوں سے خرید کر غلام بنا کر رکھا جاتا تھا۔طاقتور غلاموں سے سخت محنت مزدوری کے کام کروائے جاتے تھے۔جب یہ غلام ذرا کمزور اور بوڑھے ہوتے ہوئے نظر آتے تو ان کے بدلے میں غلاموں کا تبادلہ منڈیوں میں کیا جاتا تھا۔ملک کناں میں ایک ایسا ہی نیک دل انسان عبداللہ تاجر رہتا تھا جو کہ انسانوں کا ہی بیوپار کیا کرتا تھا۔ایک دن یہ تاجر اپنے چند کمزور غلاموں کو انسانوں کی منڈی میں فروخت کرنے لے گیا۔جب یہ تاجر منڈی میں پہنچا تو اس نے ایک بڑے ہجوم میں دیکھا کہ ایک شخص غلام کو اونچی جگہ بیٹھا کر اس کی بولی لے رہا تھا۔اس تاجر نے سوچا کیوں نہ میں بھی اس غلام کو خریدنے کی بولی دوں۔(جاری ہے)جبکہ اس تاجر کے پاس دس غلام اور چار گھوڑے تھے۔ایک غلام خریدنے کے لئے یہ رقم بہت زیادہ تھی۔اس تاجر نے جب اپنے دس غلام اور چار گھوڑوں کو فروخت کر دیا تو اس نے بھی بولی میں حصہ لیا۔اس غلام کو خریدنے کے لئے تاجر لوگ بہت دور دور سے آئے ہوئے تھے۔وہ غلام جس بڑے تاجر کے پاس تھا وہ اس غلام کی کئی کئی خوبیاں بیان کر رہا تھا ہر خوبی کے بدلے میں رقم بڑھا کر بتاتا رہا۔بولی کئی دنوں تک لگتی رہی مگر وہ تاجر ہر روز غلام کی رقم بڑھا دیتا۔اس تاجر نے جب غلام کی خوبیاں پوچھیں تو بڑے تاجر نے کہا یہ غلام کوئی عام غلام نہیں ہے۔اس غلام پر میں نے بہت رقم خرچ کی ہے میں نے جب یہ غلام خریدا تھا اس وقت یہ دس برس کی عمر کا بچہ تھا۔میں نے اس غلام کو پورے پندرہ سال پڑھایا،لکھایا اور اس کی فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ کئی ملکوں کی بولیاں بھی سکھائی ہیں۔اس تاجر نے اس غلام کی جب خوبیاں سنی تو اس نے اپنے دل میں عہد کر لیا کہ وہ اس غلام کو ضرور خریدے گا چاہے اسے اس غلام کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔آخرکار اس تاجر نے کئی دنوں کے بعد اپنے ساٹھ غلاموں کے بدلے میں ایک مہنگا ترین غلام خرید لیا اور اس کو اپنے ساتھ گھر لے آیا اس غلام کو تاجر نے اپنے دوسرے غلاموں سے ملوایا جو تعداد میں کہیں زیادہ تھے۔آس پاس کے اور دور دراز کے بستی والوں نے جب یہ خبر سنی کہ عبداللہ تاجر نے ساٹھ غلاموں کے بدلے میں ایک غلام کو خریدا ہے۔کئی دنوں تک اس غلام کو لوگ دیکھنے کے لئے دور دور سے آتے رہے۔تاجر نے اس قیمتی غلام کا نام آزاد رکھ دیا اس غلام نے کہا میرے آقا اگر آپ مجھ پر بھروسہ کریں تو ان غلاموں کی ذمہ داری آپ مجھ کو سنبھالنے کا اختیار دے دیں۔اس سے پہلے ان غلاموں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری تاجر کی بیٹی کے پاس تھی۔تاجر نے غلام کو اس لئے آزاد نہیں کروایا تھا کہ وہ بھی اس غلام کو کسی منڈی میں جا کر اونچی بولی میں فروخت کرے گا بلکہ تاجر کے دل میں یہ خیال تھا علم خود ایک بہت بڑی دولت ہے میں نے اس غلام کو خرید کر گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔تاجر اب ملک میں اپنے نیک عمل کی وجہ سے پہچاناجانے لگا۔ایک دن رات کے وقت آزاد غلام دیوار پر کوئلے سے تصویریں بنا رہا تھا تاجر کی بیٹی نے جب یہ تصویریں دیکھیں تو اس کی روح کانپ اُٹھی۔آزاد غلام نے ان تصویروں میں آزادی اور غلامی کا جو تصور پیش کیا تاجر کی بیٹی سمجھ گئی کہ انسانوں کو خرید کر قید کیا جا سکتا ہے مگر ان کے جذبات کو نہیں۔تاجر کی بیٹی نے یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد آزاد غلام کو کہا تم اپنی مرضی سے آجا سکتے ہو۔اس طرح وقت گزرتا گیا۔آزاد غلام نے تاجر کے دوسرے غلاموں کو پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ فوجی تربیت بھی دی۔جبکہ تاجر نے ایک پڑھا لکھا غلام خریدا تھا اب اس تاجر کے پاس کئی پڑھے لکھے غلام تھے۔اس ملک کا بادشاہ کئی بار پانی کے مسئلہ کی وجہ سے اپنے ہمسایہ ملک سے جنگ کر چکا تھا مگر ہر بار ہارنے کی وجہ سے بادشاہ کے ذہن میں کامیابی کی کوئی ترکیب نہیں آرہی تھی۔کھیت سوکھ رہے تھے۔جانور بھوک اور پیاس کی وجہ سے مر رہے تھے۔ملک میں اناج کا قحط پڑ گیا۔دن بدن ملک میں اناج کی کمی بڑھتی جا رہی تھی۔ایک دن بادشاہ کے وزیر نے بادشاہ سے کہا بادشاہ سلامت آپ مجھے بولنے کی اجازت دیں تو میں ملک کی بہتری کے لئے آپ کو کوئی مشورہ دوں۔بادشاہ نے کہا اجازت ہے۔وزیر نے کہا یہاں سے دو بستیاں چھوڑ کر ایک عبداللہ تاجر بڑا مشہور ہے اس کے پاس ایک آزاد نام کا غلام ہے تاجر نے اسے ساٹھ غلاموں کے بدلے میں خریدا تھا اور یہ بھی سنا ہے عبداللہ کے پاس کئی فوجی تربیت یافتہ غلام بڑی تعداد میں ہیں۔بادشاہ سلامت اگر آپ آزاد غلام کو اس بار فوج کا سپہ سالار بنا کر بھیجیں تو مجھے یقین ہے اس مرتبہ ہمسایہ ملک سے جنگ ضرور جیتیں گے۔بادشاہ نے وزیر کی بات مان لی اور آزاد غلام کو اپنے محل میں بلوایا اور بہادر نوجوان ہمارے ملک کے حالات تمہارے سامنے ہیں۔ہمارے ملک میں پانی کی کمی کی وجہ سے اناج کی بہت قلت پڑ گئی ہے جس کی وجہ سے ہمارے کھیت سوکھ رہے ہیں اور جانور پیاس کی وجہ سے ہر روز مر رہے ہیں۔لوگ اپنا دیس چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔اگر تم ہمسایہ ملک سے جنگ جیت کر لوٹے تو تمہیں ایک بڑے عہدے پر فائز کر دیں گے۔آزاد نے بادشاہ کے آگے سر جھکا کر ادب سے کہا(انشاء اللہ) ہم یہ جنگ ضرور جیتیں گے۔بادشاہ نے اپنی فوج کی ذمہ داری کے فرائض آزاد کو دے دیئے۔آزاد نے پہلے کئی ہفتوں تک بادشاہ کی فوج کو تربیت دی پھر ایک بھاری لشکر کے ساتھ فوج روانہ ہونے سے پہلے تاجر کی بیٹی نے آزاد سے کہا میں بھی سپاہیوں کے ساتھ چلوں گی زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے اس سے پہلے تاجر کی بیٹی اپنے غلاموں کی دیکھ بھال کے کاموں میں حصہ لیتی تھی اور جنگ ہمسایہ ملک کے ساتھ شروع ہو گئی۔یہ جنگ کئی مہینوں تک جاری رہی۔آخرکار آزاد کی سردیوں میں جنگ کرنے کی وجہ بادشاہ کی سمجھ میں آگئی۔دشمن سخت سردیوں کی وجہ سے زیادہ دیر آزاد کی فوج سے ٹکر نہ لے سکا اور میدان میں ہتھیار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔وہاں کے بادشاہ کا رستم گھوڑا بھی آزاد نے اپنے قبضہ میں لے لیا اور فتح کا اعلان کر دیا اور اردگرد کے بہت سے علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔اپنی کامیابی قاصد کے ہاتھ بھیج دی جس پر یہ لکھا تھا کہ بادشاہ سلامت آداب فتح مبارک ہو مگر مجھے یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ کہنی پڑ رہی ہے کہ کمزور حکمران کہیں بھی ہوں وہ ناکام ہوتے ہیں۔میں اگر آپ کے پاس جنگ جیت کر واپس آتا ہوں تو آپ مجھے زیادہ سے زیادہ وزیر یا گورنر بنا دیں مگر میں اب واپس نہیں آنا چاہتا۔اگر آپ مجھے خوشی سے اس ملک کا بادشاہ تسلیم کر لیں تو میں آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے تیار ہوں۔اگر آپ مجھے اس ملک کا بادشاہ نہیں مانتے تو پھر جنگ کے لئے تیار ہو جائیں۔بادشاہ کو جب قاصد نے یہ پیغام پڑھ کر سنایا تو بادشاہ نے کہا بہادر لوگ اپنی جگہ خود بنا لیتے ہیں۔اس طرح آزاد دوسرے ملک کا بادشاہ بن گیا۔دونوں ملکوں کے حالات بہتر ہو گئے کھیتوں میں ہریالی آنے لگی۔آزاد نے عبداللہ تاجر کی بیٹی سے شادی کرکے خوشگوار زندگی کا آغاز کیا۔ " بادشاہ کا ہمشکل - تحریر نمبر 2069,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-ka-humshakal-2069.html,"محمد اقبال شمسشکار کے دوران ایک بادشاہ اپنے سپاہیوں سے بچھڑ گیا۔البتہ سپہ سالار ان کے ساتھ تھا۔وہ جنگل میں بھٹک کر واپسی کا راستہ بھول گئے۔ پریشانی ان کے چہروں پر نظر آنے لگی۔ابھی تھوڑی سی دیر گزری تھی کہ اچانک سپہ سالار چیخا:”بادشاہ سلامت!وہ دیکھیں ایک جھونپڑی نظر آرہی ہے،وہاں چلتے ہیں۔یقینا وہاں سے ہمیں مدد ضرور ملے گی۔“وہ جھونپڑی کے قریب گئے تو سپہ سالار نے آواز لگائی:”کوئی ہے؟“تھوڑی دیر میں ایک شخص باہر آیا۔بادشاہ اور سپہ سالار نے جیسے ہی اس شخص کو دیکھا حیرت کے مارے دونوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔وہ شخص ہُو بہ ہُو بادشاہ کا ہم شکل تھا۔دونوں حیرت سے اسے دیکھتے رہے۔پھر سپہ سالار نے اس سے کہا:”دیکھیں!ہم شکار کرتے کرتے راستہ بھٹک گئے ہیں۔(جاری ہے)یہاں سے نکلنے میں ہماری رہنمائی کریں۔“وہ شخص بولا:”کیوں نہیں،مگر آپ لوگ کافی تھکے ہوئے لگ رہے ہیں۔کچھ دیر میرے غریب خانے میں آرام کیجیے۔“”ٹھیک ہے۔“بادشاہ سلامت یہ کہہ کر جھونپڑی کے اندر داخل ہوئے۔چونکہ وہ کافی تھک چکے تھے،اس لئے آرام کے لئے لیٹے تو ان کی آنکھ لگ گئی۔سپہ سالار کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔سپہ سالار نے اس شخص کو جھونپڑی سے باہر آنے کا اشارہ کیا۔باہر آکر وہ اس شخص سے کہنے لگا:”تمہیں معلوم ہے کہ اندر سونے والا شخص کون ہے؟“”جی کوئی امیر شخص دکھائی دیتے ہیں۔“”وہ اس ملک کے بادشاہ سلامت ہیں۔“”کیا․․․․“وہ حیرت سے بولا۔”ہاں!اور شاید تمہیں نہیں معلوم کہ تمہاری شکل ان سے ہوبہو ملتی ہے۔اگر ان کے کپڑے تمہیں پہنا دیے جائیں تو تم بادشاہ لگو گے۔“”کیا واقعی!“وہ حیرت سے بولا۔سپہ سالار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا:”یقینا تم اپنی غریبی سے تنگ ہو گے۔اگر تم میری ایک بات مانو تو تم ہمیشہ کے لئے اپنی غربت سے نکل سکتے ہو۔“اس نے حیرت سے پوچھا:”اچھا!وہ کیسے؟“”وہ ایسے کہ تم میرے ساتھ مل جاؤ،ہم کسی چیز میں بے ہوشی کی دوا ملا کر بادشاہ کو پلا دیں گے۔ان کے کپڑے تم کو اور تمہارے کپڑے ان کو پہنا دیں گے۔اس طرح تم بادشاہ کے روپ میں میرے ساتھ محل چلو گے اور وہاں جا کر دربار کے دوران وزیرِ خاص کا منصب مجھے دلا دو گے۔بس تم بادشاہ بن کر شاہی کرسی پر بیٹھے رہنا اور سارے حکم میرے چلیں گے۔اس طرح ہم مزے کی زندگی گزاریں گے۔بولو منظور ہے؟“وہ کچھ دیر تک سوچتا رہا اور پھر بولا:”ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔“یہ سن کر سپہ سالار کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔صبح کا سورج طلوع ہوا۔چاروں طرف پرندوں کی آواز چہچہانے لگی۔بادشاہ سلامت بیدار ہوئے تو اس شخص نے ان کے لئے ناشتے کا انتظام کیا۔سپہ سالار نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس شخص کو اشارہ کیا۔اس پر اس نے اثبات میں سر ہلایا۔پھر اس نے سپہ سالار اور بادشاہ کو قہوہ پیش کیا۔”دیکھو میں ان کپڑوں میں بالکل بادشاہ لگ رہا ہوں نا؟“سپہ سالار نے نظر بھر کر اسے دیکھا اور خوش ہوتے ہوئے بولا:”ارے واہ!تم تو بالکل اصلی بادشاہ ہی لگ رہے ہو۔“پھر اس نے فوراً اپنی بائیں طرف دیکھا تو بادشاہ کو غریب کے کپڑوں میں ملبوس بے ہوش پایا۔سپہ سالار نے کہا:”تم نے بہت عقل مندی کا فیصلہ کیا ہے۔بادشاہ کو ہم اِدھر ہی بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔اب ہم محل میں راج کریں گے۔چلنے کی تیاری کرو،راستہ تو تمہیں معلوم ہی ہے۔“یہ کہہ کر دونوں گھوڑے پر سوار ہوئے اور محل کی طرف روانہ ہو گئے۔محل پہنچ کر سپہ سالار نے اس سے کہا:”آج شام کو جب دربار لگے گا تو تم وزیرِ خاص کو اس کے منصب سے ہٹا کر گرفتاری کا حکم دے دو گے اور اس کی وجہ یہ بتاؤ گے کہ اس نے آپ کی عدم موجودگی میں ملکی نظام کو صحیح طور پر نہیں سنبھالا ہے اور پھر وزیرِ خاص کے عہدے کے لئے ہمارا نام تجویز کرو گے۔“وہ بولا:”ٹھیک ہے۔آپ جیسا کہیں گے،میں ویسا ہی کروں گا،لیکن میرا خیال ہے کہ یہ کام ہم کل کریں گے،تاکہ کوئی شک نہ کر سکے۔“”ٹھیک ہے،کل شام کو یہ کام ہو جائے۔“یہ کہہ کر سپہ سالار چلا گیا۔شام کو دربار لگا۔آج دربار میں معمول سے زیادہ افراد تھے۔دربار میں تمام لوگ بادشاہ کا انتظار کر رہے تھے۔بادشاہ سلامت دربار میں تشریف لائے اور شاہی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے:”آج ہم ایک اہم فیصلہ سنانے جا رہے ہیں۔وہ یہ کہ ہم ایک غدار کو اس کے انجام تک پہنچائیں گے۔“یہ سن کر دربار میں ایک شور سا ہونے لگا۔سب آپس میں کھُسر پھُسر کرنے لگے۔جب کہ سپہ سالار مسکرائے جا رہا تھا۔”کون ہے وہ غدار عالم پناہ!“ایک وزیر نے پوچھا۔بادشاہ نے ایک نظر دربار پر ڈالی اور پھر اپنا ہاتھ اُٹھا کر وزیرِ خاص کی طرف اشارہ کیا۔یہ دیکھ کر وزیرِ خاص کے پسینے چھوٹ گئے۔پھر اچانک بادشاہ کا ہاتھ سپہ سالار کی طرف اُٹھا اور وہ چیخے:”وہ غدار سپہ سالار جابر ہے۔“یہ سن کر دربار میں ایک سکتہ طاری ہو گیا۔سپہ سالار چیخا:”یہ․․․یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں عالم پناہ!“یہ کہہ کر وہ بادشاہ کے قریب آیا اور سرگوشی میں بولا:”یہ کیا بکواس کر رہے ہو،وزیرِ خاص کو ہٹانے کا کہا تھا تم سے اور تم یہ کون سا کھیل کھیل رہے ہو؟ابھی میں سب کے سامنے تمہاری حقیقت بتا دوں گا کہ تم بادشاہ نہیں،بلکہ اس کے ہم شکل ہو۔“بادشاہ مسکرایا اور بولا:”تمہیں ابھی معلوم ہو جائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔“یہ کہہ کر اس نے اشارہ کیا۔سپاہی ایک شخص کو دربار میں لائے۔ سپہ سالار کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں،کیونکہ وہ بادشاہ کا ہم شکل تھا۔وہ کبھی بادشاہ کو اور کبھی ہم شکل کو دیکھتا۔بادشاہ نے سپہ سالار سے کہا:”تم حیران ہو رہے ہو گے کہ یہ سب کیا ہے!میں تمہیں بتاتا ہوں۔اصل بادشاہ میں ہی ہوں اور وہ میرا ہم شکل غریب انسان ہے،جسے تم میری جگہ بادشاہ بنانے آئے تھے۔جب تم نے اس شخص کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف سازش کی تو بظاہر وہ شخص مان گیا تھا،مگر اس کے ایمان نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔اس نے مجھے بے ہوش کرنے کے بجائے تمہیں قہوے میں کچھ ملا کر بے ہوش کر دیا اور مجھ سے اس نے ساری حقیقت بیان کر دی۔پھر جب تمہیں ہوش آیا تو وہ خود جھوٹ موٹ کا بے ہوش ہو گیا،تاکہ تم اسے بادشاہ سمجھو۔اس نے مجھے واپسی کا راستہ بھی سمجھا دیا تھا،تاکہ میں محل آسانی سے پہنچ سکوں۔“سپہ سالار حیرانگی سے یہ سب سن رہا تھا۔پھر بادشاہ اپنے ہم شکل سے مخاطب ہوئے:”اے نیک انسان!کیا تم بتانا پسند کرو گے کہ تم سپہ سالار کے ساتھ مل کر بادشاہ بن کر آرام کی زندگی گزار سکتے تھے۔پھر تمہارا اور ارادہ کیسے بدل گیا۔“وہ بولا:”دراصل حضور والا!ایمان سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ہوتی۔میں اپنی مختصر زندگی کے لئے آخرت خراب نہیں کر سکتا اور ویسے بھی جو آپ کو دھوکا دے سکتا ہے وہ بعد میں مجھے بھی مروا سکتا تھا اور ویسے بھی بے ایمانی کے سونے کے نوالے سے ایمان داری کی ایک وقت کی روٹی بہتر ہے۔“یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔بادشاہ سلامت بولے:”لے جاؤ اس سپہ سالار کو اور اسے زندان میں ڈال دیا جائے۔“سپاہی سپہ سالار کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔بادشاہ نے اس شخص کو کافی انعام و اکرام سے نوازا اور حکم دیا کہ اس کے رہنے کے لئے ایک گھر کا بھی انتظام کیا جائے اور اسے اس کی ایمان داری کے صلے میں معقول ماہانہ وظیفہ جاری کر دیا جائے۔“ " راز کی بات - تحریر نمبر 2068,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/raaz-ki-baat-2068.html,"آمنہ ماہمبرسوں پہلے کی بات ہے کہ جنگل میں ایک چوہا رہتا تھا۔اس کے بل کے قریب ہی اخروٹ کا ایک بڑا درخت تھا۔جب اخروٹ پکتے تو چوہا بہت خوش ہوتا،کیونکہ ہوا سے پکے ہوئے اخروٹ چوہے کے بل کے بالکل آس پاس آ گرتے تھے اور وہ مزے لے لے کر اخروٹ کترتا اور گری نکال کر کھا جاتا۔ایک مرتبہ اس نے سوچا کہ اگر میں اخروٹوں کو محفوظ کر لوں تو سال بھر ان کے مزے لے سکتا ہوں۔وہ کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھرنے لگا۔اس کے بل میں بہت جگہ تھی،مگر جب بارشیں زیادہ ہوتیں تو پانی اس کے بل میں بھر جاتا تھا۔وہ ایک سوکھے ہوئے درخت کے پاس پہنچا۔درخت کے تنے میں اسے سوراخ نظر آیا۔اس نے اندر جھانکا تو خوشی سے وہ اچھل پڑا۔وہ درخت اندر سے کھوکھلا تھا۔(جاری ہے)چوہے نے سوچا کہ اخروٹ ذخیرہ کرنے کی اس سے محفوظ جگہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔اب وہ اخروٹ لا کر اس کھوہ میں رکھتا جاتا۔ایک ہی دن میں اس نے اخروٹوں سے کھوہ کو بھر دیا۔وہ اپنے اس ذخیرے سے بے حد خوش تھا۔وہ ہر روز وہاں جاتا اور ایک آدھ اخروٹ کتر کر گری کھاتا۔چوہا اپنے اس خزانے سے مطمئن تھا۔اسے سردیوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ایک دن وہ اپنے بل کے باہر بیٹھا ہوا تھا کہ اسے ایک گلہری نظر آئی۔چوہے نے گلہری کو بلایا اور اسے بتایا کہ میں نے درخت کی کھوہ میں اخروٹوں کا ایک ذخیرہ چھپایا ہوا ہے۔یہ راز کی بات ہے اور میں صرف تم کو بتا رہا ہوں۔گلہری اس کی بات سن کر حیران ہوئی۔تھوڑی دیر بعد پھدکتی ہوئی ایک درخت پر چڑھ گئی۔درخت کی چوٹی پر ایک بلبل بیٹھی گیت گا رہی تھی۔گلہری کو چوہے کی وہ بات یاد آئی۔اس نے بلبل کو بلا کر کہا:”تم میرے پاس آؤ،میں تمہیں ایک راز کی بات بتاتی ہوں“۔بلبل اُڑ کر گلہری کے بالکل قریب آکر شاخ پر بیٹھ گئی۔اب گلہری نے اسے ساری بات بتائی اور یہ بھی کہا:”یہ راز کی بات ہے۔میں صرف تمہیں بتا رہی ہوں۔”بلبل بھی یہ بات سن کر بہت حیران ہوئی۔وہ دوبارہ گیت گانے لگی۔پھر وہ اُڑتی ہوئی ایک کھیت کے اوپر سے گزری۔کھیت میں ایک خرگوش گھاس کھانے میں مصروف تھا۔بلبل خرگوش کے قریب جا کر بیٹھی اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا:”میرے پاس ایک راز کی بات ہے۔اگر تم سننا چاہو تو ذرا غور سے سنو“۔خرگوش اُچھل کر بلبل کے پاس پہنچ گیا۔بلبل نے بڑی راز داری سے خرگوش کو بتایا:”کسی نے کھوہ والے درخت کے تنے میں اخروٹ ذخیرہ کیے ہوئے ہیں۔یہ راز کی بات ہے اور میں صرف تمہیں بتا رہی ہوں۔“خرگوش نے حیرانی سے اپنے بڑے بڑے کانوں کو دائیں بائیں گھمایا اور گھاس کھانے لگا۔جب اس کا پیٹ بھر گیا تو وہ اُچھلتا کودتا اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا،راستے میں اسے ایک خار پشت (سیہی) ملا۔خرگوش نے خارپشت سے کہا:”میرے پاس ایک راز کی بات ہے،اگر تم کسی کو نہ بتاؤ تو میں تمہیں بتانے کو تیار ہوں؟خارپشت نے کہا:”ٹھیک ہے،میں تمہاری بات مانتا ہوں۔اب تم مجھے وہ راز کی بات بتاؤ؟خرگوش نے کہا:”وہ بڑے درخت کے قریب جو سوکھا ہوا درخت ہے،اس کی کھوہ میں کسی نے اخروٹ ذخیرہ کیے ہوئے ہیں۔”خارپشت نے یہ سن کر حیرت سے اپنی چھوٹی سی تھوتھنی کو ہلایا اور اپنے نوکیلے کانٹوں والے لباس کے اندر خود کو چھپا لیا۔خرگوش لمبی لمبی چھلانگیں لگاتا ہوا اپنے گھر پہنچا۔خارپشت اپنی خوراک کی تلاش میں پھرنے لگا۔اسے جلد ہی اپنی مرغوب غذا کی بیل نظر آگئی۔خارپشت کو یہ میٹھی میٹھی جڑیں بہت پسند تھیں۔وہ جڑیں نکالنے کے لئے زمین کھودنے لگا۔اتنے میں ایک فاختہ کی آواز سنائی دی۔خارپشت نے اپنی چھوٹی سی گردن اکڑا کر دیکھا تو قریب ہی شیشم کے درخت پر بیٹھی فاختہ اسے نظر آگئی۔اس نے اپنے گلے سے مخصوص خرخراہٹ کی آواز نکال کر فاختہ کو اپنے پاس بلایا۔خارپشت نے فاختہ سے کہا:”میں نے ایک راز کی بات سنی ہے،اگر تم پسند کرو تو میں تمہیں بتاؤں؟فاختہ نے ہاں میں اپنی گردن ہلائی۔خارپشت نے کہا:”بڑے کھیت کے کنارے جو سوکھا ہوا درخت ہے۔اس کی کھوہ میں کسی نے اخروٹ ذخیرہ کر رکھے ہیں“۔فاختہ کے لئے یہ دلچسپ اور عجیب بات تھی۔وہ تھوڑی دیر بعد دانہ دنکا چگنے کے لئے اُڑتی ہوئی اس بڑے کھیت میں پہنچی کہ جس کے کنارے پر سوکھا ہوا درخت تھا۔اسے ایک چھوٹا سا چوہا نظر آیا جو کہ اپنا بل کھودنے میں مصروف تھا۔فاختہ اس کے قریب پہنچی اور کہا:”میرے پاس ایک بڑے مزے کی بات ہے،اگر تم کسی کو نہ بتاؤ تو میں تمہیں بتاؤں گی“۔چوہا زمین کھودنے کا کام چھوڑ کر فاختہ کے قریب آ کر بیٹھا اور کہنے لگا:”مجھے تم وہ بات بتاؤ۔میں کسی کو بھی نہیں بتاؤں گا“۔فاختہ نے سوکھے ہوئے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:”اس کے کھوکھلے تنے میں کسی نے اخروٹ چھپا رکھے ہیں“۔اخروٹوں کا نام سن کر چھوٹے چوہے کے منہ میں پانی بھر آیا۔وہ اخروٹ کترنے میں بہت لطف محسوس کرتا تھا۔تھوڑی دیر بعد جب فاختہ وہاں سے اُڑ کر چلی گئی تو چھوٹے چوہے نے سوچا کہ کیوں نہ میں جا کر فاختہ کی بات کی تصدیق کر لوں۔چنانچہ وہ سوکھے ہوئے درخت کے پاس پہنچا۔اسے تنے میں ایک سوراخ نظر آیا۔اس نے سوراخ میں جھانک کر دیکھا تو واقعی کھوہ کے اندر اخروٹوں کا ایک ڈھیر محفوظ تھا۔اس نے جلدی سے ایک اخروٹ نکالا۔اسے کترا اور اس کی گری مزے لے لے کر کھانے لگا۔اچانک اس کے ذہن میں ایک زبردست ترکیب آئی۔اس نے سوچا کہ کیوں نہ میں یہ سارے اخروٹ نکال کر اپنے بل میں لے جاؤں۔چنانچہ وہ ایک ایک اخروٹ نکال کر اپنے بل میں لے گیا۔وہ سارا دن اخروٹ اپنے گھر منتقل کرنے میں لگا رہا۔اسی شام بڑے چوہے کے گھر اتفاقاً گلہری،بلبل،خرگوش،خارپشت اور فاختہ جمع ہو گئے۔اب ان میں سے ہر ایک نے چوہے کو بتایا کہ سوکھے درخت کے کھوکھلے تنے میں کسی نے اخروٹ چھپا رکھے ہیں۔یہ کیسی مزے دار راز کی بات ہے۔چوہے نے حیرانی سے پوچھا:”تم سب کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟یہ تو میرا راز ہے“‘۔”اچھا اگر تمہیں پتا چل ہی گیا ہے تو کوئی بات نہیں۔آؤ میں تمہیں وہ ذخیرہ دکھاتا ہوں“۔سب جانور سوکھے درخت کے پاس پہنچے اور سوراخ میں سے درخت کی کھوہ میں جھانکا،مگر وہاں تو کوئی اخروٹ موجود نہ تھا۔سب بہت حیران ہوئے۔اب چوہا بہت افسوس کرنے لگا۔اس نے سوچا کہ اگر میں اپنے راز کو صرف خود تک رکھتا تو میرے اخروٹ اس طرح کوئی چرا کر نہیں لے جا سکتا تھا۔دوسری طرف چھوٹا چوہا اپنے بل میں اخروٹ کترنے میں مصروف تھا۔اسے اب سردیوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ " گھریلو آلودگی - تحریر نمبر 2066,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gharelo-aloodgi-2066.html,"نسرین شاہینقرآن پاک میں ماحول کی پاکیزگی اور اس کی حفاظت کرنے کے واضح احکامات موجود ہیں۔یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ہوا،پانی،زمین مل کر قدرتی ماحول کہلاتے ہیں۔حیاتیاتی زندگی کی بقا ان ہی تینوں عناصر پر مشتمل ہے۔دنیا بھر میں ہوا،پانی،زمین آلودگی کا شکار ہیں۔ اس لحاظ سے اگر ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر کریں تو حیاتیاتی زندگی کو لاحق خطرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ماحولیاتی آلودگی ”قدرتی موسم“ میں اثر انداز ہو رہی ہے۔ڈھلتے سورج کو دیکھیں تو فضا میں موجود آلودگی آپ کو صاف نظر آئے گی۔سورج کے غروب ہونے کے منظر کو دیکھیں تو نارنجی،پیلے،ارغوانی،گہرے نیلے رنگ کا امتزاج خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔آلودگی صرف صنعتوں کے گرد و غبار سے پیدا نہیں ہوتی،بلکہ کچھ قدرتی آفات اور خلائی ایٹمی مواد بھی اس سلسلے میں اہمیت رکھتے ہیں۔(جاری ہے)ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کا حل قدرت نے بتا دیا ہے۔سب سے پہلے تو یہ کہ انسان کی طرز زندگی اور قانونِ قدرت میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ماحولیات آلودگی کے خاتمے کے لئے اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں۔نہ صرف اپنے گھر کو بلکہ گھر کے بیرونی حصے کو بھی صاف رکھیں۔باہر کا حصہ گھر کا آئینہ ہوتا ہے،اسے صاف ستھرا رکھنا بہت ضروری ہے۔ساتھ ہی پھول پودے بھی لگائیں۔یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ جہاں درخت اور پودے ہوتے ہیں،وہاں آلودگی بھی کم ہوتی ہے۔ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ پھولوں اور پودوں سے کریں۔قدرت نے ماحول کی خوبصورتی اور پاکیزگی کے لئے درختوں کا تحفہ دیا ہے۔جب قدرت کے اس تحفے کی ناقدری کی جائے تو قدرتی ماحول کی خوبصورتی میں خلل پیدا ہو جاتا ہے اور قدرتی حسن تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔اب یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اپنا دینی،قومی اور اخلاقی فریضہ ادا کرتے ہوئے درختوں کی افزائش کریں۔اگر ہر فرد اپنے گھر کے باہر صرف ایک پودا لگائے اور اس کی خوب اچھی طرح دیکھ بھال کرے تو اس عمل سے نہ صرف گھر کے باہر کا حصہ خوش نما ہو جائے گا بلکہ ماحول بھی خوشگوار ہو گا۔یوں ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ بھی ہو سکے گا۔یہ درست ہے کہ ہر گھر میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ گھر کے بیرونی حصہ میں پودے لگائیں،لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ آپ پودے نہیں لگا سکتے،بلکہ آپ کا گھر چھوٹا ہے یا آپ فلیٹ میں رہتے ہیں تو بھی پودے لگانا مشکل نہیں۔فلیٹ کی بالکونی،کھڑکی،یا فلیٹ کے کسی بھی مناسب حصہ میں کم از کم ایک گملے کی جگہ ضرور نکال لیں۔بالکونی اس لحاظ سے مناسب معلوم ہوتی ہے،کیونکہ بالکونی کے اندر یا بالکونی سے باہر لوہے کی گرل میں آسانی سے گملے رکھے جا سکتے ہیں۔اسی طرح اگر آپ کا فلیٹ ایسا ہے کہ آپ کے دروازے کے آگے ایسی جگہ موجود ہے جہاں کم از کم ایک گملا رکھا جا سکتا ہے تو ضرور رکھیں۔اگر آپ کے گھر میں گملے رکھنے کی بالکل جگہ نہ ہو تو بھی آپ مایوس نہ ہوں۔اگر گھر کی بیرونی اور اندرونی دیوار پر کوئی خوبصورت،ہری بھری بیل لگا دیں اور وہ دیوار کو خوش نما کر دے تو کتنا خوبصورت لگے گا یہ منظر۔ہر لمحہ تازگی،پاکیزگی اور خوشگوار احساس ہو گا۔اگر گھر میں موجود یا گھر کے باہر موجود ستون مناسب جگہ پر ہوں تو ان پر بھی منی پلانٹ یا کوئی دوسری بیل لگائی جا سکتی ہے اور کچھ نہیں تو شیشے کی بوتلوں میں ہی منی پلانٹ لگا لیں تاکہ گھر میں کچھ نہ کچھ تو تازگی کا احساس ہو اور آلودگی کا خاتمہ ہو۔گھر کے علاوہ باہر کا ماحول بھی خوشگوار بنانے کی ضرورت ہے۔آپ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بھی پودے لگانے کی ”مہم“ کا آغاز کر سکتے ہیں اور اس مہم کا آغاز اپنے گھر،اپنے محلے اور اپنے اسکول سے بھی کر سکتے ہیں۔یقین کریں،پودے لگانے اور اس کی حفاظت کرنے سے آپ کو دلی خوشی اور اطمینان حاصل ہو گا اور ہاں!اس بات کا بھی خاص خیال رکھیں کہ باغ میں جائیں تو وہاں لگے ہوئے پھولوں اور پودوں کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ " پُرانی استانی - تحریر نمبر 2065,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/purani-ustaani-2065.html,"نادیہ ناز غوری”کیا بات ہے فرقان بیٹا!بہت خوش لگ رہے ہو؟“فرقان اسکول سے واپس آیا تو اس کی امی نے پوچھا۔”امی!آج سے گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئی ہیں۔اب میں دیر تک سوؤں گا اور خوب کھیلوں گا۔اب اسکول جانے کی کوئی فکر نہیں ہے۔“فرقان نے لاڈ سے امی کے گلے میں بانہیں ڈال کر بتایا۔”اور چھٹیوں کا کام کون کرے گا؟“فرقان کی امی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔”امی!پورے دو مہینوں کی چھٹیاں ہیں،یعنی ساٹھ دن۔بہت سارے دن ہیں۔کام بھی ہو ہی جائے گا۔گرمیوں کی چھٹیاں تفریح کے لئے ہوتی ہیں۔“فرقان نے امی کو سمجھانے والے انداز میں بتایا۔فرقان ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں اپنی نانی کے گھر گزارتا تھا۔اس سال بھی فرقان اپنی امی کے ساتھ نانی کے گھر گیا۔(جاری ہے)فرقان کی نانی ایک بڑے اسکول میں اُستانی رہ چکی تھیں۔وہ عام اُستانیوں سے بہت مختلف تھیں۔وہ بہت دلچسپ انداز سے بچوں کی تربیت کرتی تھیں۔ فرقان کی نانی نے فرقان کی اسکول کی کاپیاں دیکھیں تو ہر مضمون کی کاپی پر”لکھائی صاف کریں“،”لکھائی پر توجہ دیں“،”لکھائی اچھی کرنے کے لئے خوش خطی کی مشق کریں“جیسی ہدایات پڑھ کر افسردہ ہو گئیں۔”بھئی،ہمارے زمانے میں تو اسکول میں باقاعدہ تختی لکھائی جاتی تھی۔“نانی اپنا ماضی یاد کرتے ہوئے بولیں۔”اسکول میں تختی لکھوائی جاتی تھی!“فرقان نے حیرت سے کہا۔”ہاں بیٹا!ہم باقاعدگی سے تختی لکھا کرتے تھے۔سیاہی خود بناتے تھے اور تختی گاچنی مٹی مل کر اسے تیار کرتے تھے،پھر سرکنڈے کے قلم سے اس تختی پر لکھا کرتے تھے۔اس زمانے میں ایسی بہت سی دکانیں ہوتی تھیں،جہاں صرف خطاطی کے لئے استعمال ہونے والا سامان ملتا تھا،یعنی کاغذ،سیاہی اور خاص قسم کے قلم وغیرہ۔ہمارے زمانے میں ہر طالب علم خوش خط ہوا کرتا تھا۔اس زمانے میں خوش خط ہونا قابلیت اور ایک معیار سمجھا جاتا تھا۔“نانی نے ماضی کی یادیں بیان کرتے ہوئے کہا۔”نانی!کیا آج بھی تختی لکھ کر لکھائی بہتر کی جا سکتی ہے؟“فرقان نے تجسس سے پوچھا۔”کیوں نہیں بیٹا!ہم اپنی روایات کو آج بھی زندہ کر سکتے ہیں۔“نانی نے جواب دیا۔”میرے ہم جماعت میری خراب لکھائی کے سبب میرا مذاق اُڑاتے ہیں۔نانی جان!کیا آپ مجھے خوش خطی سکھائیں گی؟“فرقان نے اشتیاق سے پوچھا۔”ضرور!کیوں نہیں۔بیٹا!گرمیوں کی چھٹیاں صرف تفریح کے لئے نہیں ہوتیں۔ان میں کوئی نہ کوئی مفید کام یا ہنر ضرور سیکھنا چاہیے۔ہم کل ہی خوش خطی کا آغاز کریں گے۔“نانی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔اگلے دن فرقان کی نانی نے بازار سے خطاطی کا سامان منگوا لیا۔”بیٹا!خوبصورت لکھائی ایک فن ہے اور شخصیت کی آئینہ دار بھی ہوتی ہے۔تھوڑی سی توجہ اور محنت سے لکھائی خوبصورت بنائی جا سکتی ہے۔اس قلم سے تختی پر ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ لکھو۔نانی نے فرقان کو تختی دیتے ہوئے کہا۔فرقان نے جلدی سے لکھ کر دادی کو دکھایا۔”بیٹا!جلدی جلدی لکھنے کے بجائے،ہر لفظ ٹھہر ٹھہر کر،توجہ سے،دل لگا کر لکھو۔بیٹا!الفاظ بے جان نہیں ہوتے۔الفاظ،لکھنے والے کی توجہ اور محبت کو محسوس کرتے ہیں۔“دادی نے فرقان کی اصلاح کی اور دوبارہ لکھوایا۔اس بار فرقان نے پہلے سے بہتر لکھا۔نانی نے فرقان کو شاباش دی۔اس طرح روزانہ وہ فرقان کو خوش خط لکھواتیں۔ایک ماہ میں فرقان کی لکھائی بہت اچھی ہو گئی۔فرقان بہت خوش تھا کہ نانی نے کتنے آسان طریقے اور توجہ سے اسے خوش خطی سکھا دی۔ فرقان نے اپنا چھٹیوں کا کام مکمل کیا۔اسے اسکول کھلنے کا انتظار تھا۔وہ اپنی استانی اور جماعت کے ساتھیوں کو اپنی خوش خطی دکھانا چاہتا تھا۔چھٹیوں کے بعد،آج فرقان کا اسکول میں پہلا دن تھا۔آج تمام طالب علموں کو چھٹیوں کا کام جمع کروانا تھا۔جب فرقان نے مس سنبل کو اپنا ہوم ورک دیا،تو وہ فرقان کی خوبصورت لکھائی دیکھ کر حیران رہ گئیں اور پرنسل صاحبہ کو فرقان کی خوش خطی دکھائی۔وہ بھی فرقان کی خوش نویسی دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں اور فرقان سے اس تبدیلی کی وجہ پوچھی۔فرقان نے انھیں سارا ماجرا بتایا۔پرنسپل صاحبہ دلچسپی سے سنتے ہوئے سوچ میں پڑ گئیں۔انھوں نے فرقان کی لکھائی کی تعریف کی۔اگلے دن انھوں نے اعلان کیا کہ اس سال امتحان میں خوش خطی سے پرچہ حل کرنے والے بچوں کو ہر پرچے پر اضافی نمبر دیے جائیں گے۔اسکول سے واپس آکر فرقان نے نانی کو فون پر بتایا:”نانی!اسکول میں سب لوگ میری لکھائی سے متاثر ہوئے اور پرنسپل نے خوش خطی سے پرچہ حل کرنے والوں کو اضافی نمبر دینے کا اعلان کیا ہے۔“”یعنی آپ کے اضافی نمبر پکے!“نانی نے خوشی سے کہا۔”جی نانی!اور آپ کا انعام بھی پکا۔“فرقان نے شرارت سے جواب دیا۔اُدھر نانی کی مسکراہٹ گہری ہو گئی،کیونکہ ان کی محنت وصول ہو گئی تھی۔ " ہاتھی کی تربیت - تحریر نمبر 2064,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hathi-ki-tarbiyat-2064.html,"پرانے زمانے میں کشمیر کا ایک بادشاہ تھا جو عدل و انصاف میں مشہور تھا۔وہ ہاتھیوں کی پرورش اور نگہداشت میں بڑی دلچسپی لیتا تھا اس کے فیل خانے میں چار سو ہاتھی تھے جن کی دیکھ بھال کے لئے فیل بانوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔یہ فیل بان سنواری،جنگ اور سفر کے لئے ان ہاتھیوں کو تربیت دیتے تھے۔جب بادشاہ کو ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر درپیش ہوتا تو یہ فیل بان ہاتھیوں پر تخت کس دیتے۔درباری ان پر سوار ہو جاتے۔ہاتھیوں کا یہ قافلہ قابل دید ہوتا تھا۔جب کسی جنگ کا سامنا ہوتا،جنگجو،ہاتھیوں کے ہمراہ میدان جنگ کا رخ کرتے اور دشمنوں کو تباہ و برباد کر دیتے۔بادشاہ ہر روز ایک بار ہاتھیوں کا معائنہ کرتا۔فیل بانوں کے کام پر ان کی حوصلہ افزائی کرتا اور کبھی کبھی اپنے قریبی لوگوں کے ہمراہ شکار یا سیر کے لئے ہاتھیوں پر سوار ہو کر صحرا اور جنگل کی طرف نکل جاتا۔(جاری ہے)ایک روز بادشاہ خاص شکاریوں کے ایک گروہ کے ساتھ شکار کو روانہ ہوا۔انہوں نے جنگل میں ایک قوی ہیکل وحشی ہاتھی کو پکڑنے کے جتن کیے،ایسا قوی ہیکل ہاتھی جو اپنے بڑے جثے کے ساتھ بادشاہ کے فیل خانے میں تب تک نہیں دیکھا گیا تھا․․․․ایک تنومند اور ہیبت ناک ہاتھی جس کے برف کی مانند سفید دو بڑے بڑے دانت تھے،جو اپنی سونڈ کے ساتھ کسی بھی گائے کو ہوا میں اچھال سکتا تھا اور جو بجلی کے کڑکے کی طرح چنگھاڑتا تھا۔جو بجلی اور جھکڑ کی طرح دوڑتا تھا اور دور سے چار سنگین ستونوں پر بنے ایک گنبد کی طرح دکھائی دیتا تھا۔وہ جب اپنے بھاری بھر کم قدموں کے ساتھ چلتا تو اس کے پاؤں کے تلے کی زمین لرزتی تھی۔وہ ایک ٹکر سے کسی بھی پرانے درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا تھا اور اپنے ایک حملے سے تمام ہاتھیوں کو خوف زدہ کرکے بھاگنے پر مجبور کر دیتا تھا۔وہ ہمیشہ جنگل میں بھاگ دوڑ میں مشغول رہتا تھا اور آدمی کی شکل و صورت سے بالکل واقف نہ تھا۔اس نے زنجیر،رسی،طویلے اور فیل خانے کا نام تک نہیں سنا تھا․․․․․خوف ناک،غصیل اور وحشی ہاتھی!شکاریوں نے اسے پکڑا اور اس کی ٹانگوں کو الگ الگ مضبوط زنجیروں سے جکڑ کر بادشاہ کے حضور لے آئے۔بادشاہ نے ہاتھی کے توانا اور خوبصورت ڈیل ڈول کو پسند کیا اور اس کو اپنی ملکیت میں لائے جانے پر خوش ہوا۔اس خوشی میں اس نے شکاریوں کو بھاری انعامات سے نوازا۔پھر فیل بانوں کے سربراہ کو طلب کرکے اس سے پوچھا:اس ہاتھی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟سربراہ نے کہا:میں اس ہاتھی کے بارے میں کیا کہوں۔سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس ڈیل ڈول کا ہاتھی اس سے پہلے نہیں دیکھا۔افسوس صرف اس بات کا ہے کہ یہ جنگلوں میں گھومنے پھرنے والا جانور ہے اور اسے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ رکھ کر نہیں سدھایا جا سکتا۔بادشاہ نے کہا:جو بھی ہو اس ہاتھی کو سدھانا بہت ضروری ہے۔میری خواہش ہے کہ میں اس پر سواری کروں اور لوگ دیکھیں کہ اس سے پہلے کسی اور کے پاس اس ڈیل ڈول کا ہاتھی نہیں تھا۔فیل بانوں کے افسر نے کہا:اس ہاتھی کی تربیت بہت مشکل ہے۔اب یہ بچہ نہیں ،جنگل میں پلا بڑھا ہے اور اس نے بغیر کسی پابندی اور قید کے پرورش پائی ہے۔کسی بھی جانور کو چھوٹی عمر میں سدھانا چاہیے اور اسے جوانی میں کام اور آرام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔یہ ہاتھی اگر بعض باتیں سیکھ بھی لے،اس کا دل وحشی ہی رہے گا اور اس کی تربیت کے لئے لمبی مدت درکار ہو گی۔بادشاہ نے کہا:میں تمہیں تین سال کی مہلت دیتا ہوں۔تمہیں چاہیے کہ اس ہاتھی کی اس طرح تربیت کرو کہ یہ خدمت کے لائق ہو جائے اور جنگ اور سفر میں کارآمد ہو۔میں آج ہی سے اسے تمہارے سپرد کرتا ہوں۔اسے وعدے کے مطابق کام اور میدان جنگ کے لئے تیار ہونا چاہیے۔فیل بان نے اطاعت کے لئے سر جھکایا۔اس عظیم الجثہ ہاتھی کو ہاتھیوں کے طویلے میں لے جایا گیا۔ایک بڑا گھر اور باغ اس کے لئے مخصوص کر دیا گیا اور فیل بان اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس کی تربیت میں مشغول ہو گیا۔اس نے ایک مدت تک مضبوط زنجیروں میں جکڑ کر اس کی نگہداشت کی۔وہ اسے اپنے ہاتھ سے خوراک اور پانی دیتا۔رفتہ رفتہ ہاتھی تھوڑا تھوڑا رام ہو گیا۔اب وہ فیل بان کو پہچاننے لگا اور اس کی مہربانیوں کا عادی ہونے لگا تھا۔آہستہ آہستہ فیل بان ہاتھی کو یہ بات سکھانے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ کس طرح بیٹھے اُٹھے،حکم دینے پر کس طرح حرکت میں آئے اور کس طرح ’رُک“ کہنے پر رُک جائے۔کبھی کبھی فیل بان اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا اور اسے جنگل میں لے جاتا اور کبھی ایک لمبے عرصے تک اسے طویلے میں باندھے رکھتا۔بعض اوقات اسے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ لڑاتا اور کبھی اسے ان کے ساتھ باندھ دیتا اور ضروری آداب اور عادتیں سکھاتا۔یوں تین سال کی مدت گزر گئی اور وعدے کا دن آپہنچا۔بادشاہ نے ہاتھی کو لانے کا حکم دیا تاکہ وہ خود دیکھے کہ اس کی تربیت کیسی ہوئی ہے۔فیل بان نے ہاتھی کو حاضر کیا۔اب اس کے ہاتھ پاؤں زنجیر سے آزاد تھے۔بادشاہ نے دیکھا کہ وہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور فرمانبردار ہو گیا ہے اور اس میں وحشی پن کے آثار نہیں رہے۔بادشاہ نے پوچھا:کیا میں ہاتھی پر سوار ہو سکتا ہوں؟فیل بان بولا:میں خود اس پر بیسیوں بار سوار ہوا ہوں،جنگل کو گیا ہوں اور صحیح سلامت واپس آیا ہوں۔ہاتھی نے کبھی میرے حکم سے سرتابی نہیں کی۔بادشاہ نے حکم دیا کہ ہاتھی کے نزدیک پائیدان رکھ دیا جائے۔بادشاہ اس پر پاؤں رکھ کر ہاتھی پر سوار ہو گیا۔فیل بان بھی ایک الگ ہاتھی پر سوار ہو کر بادشاہ کے ہمراہ ہوا۔سفر شروع ہوا اور انہیں محسوس ہوا کہ ہاتھی آرام آرام سے آگے بڑھ رہا ہے اور حکم بجا لا رہا ہے۔ " نیا دروازہ - تحریر نمبر 2063,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naya-darwaza-2063.html,"جدون ادیبکورونا کی وبا پھیلی تھی تو علی کا گھرانہ بھی اس سے متاثر ہوا۔والد صاحب پہلے ہی دنیا سے گزر گئے تھے،گھر کا خرچ والدہ چلاتی تھیں۔وہ ایک اسکول میں چھوٹی سی کینٹین چلاتی تھیں اور گھر سے چیزیں بنا کر لے جاتی تھیں۔ان کے ہاتھ میں بہت ذائقہ تھا۔بچے ان کے چکن پراٹھا،رول اور چنے بہت پسند کرتے تھے۔دیگر چیزوں سے بھی تھوڑی بہت بچت ہو جاتی تھی،مگر جب سے اسکول بند ہوئے تھے تو ان کے گھر میں خاصی تنگی ہو گئی تھی۔کیا ہمارے لئے کوئی نیا راستہ کھلے گا!علی نے خود سے سوال کیا۔علی اس اُدھیڑ بُن میں باورچی خانے میں آیا تو دیکھا کہ اس کی امی اوون میں کیک بنا رہی تھیں۔”امی!کیک․․․․؟“وہ حیرت سے بولا۔امی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور بولیں:”گھر میں ایک سادہ سے کیک کی ساری اشیاء موجود تھیں تو سوچا کہ کیک بنا کر کھاتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔(جاری ہے)“علی بھی مسکرانے لگا اور جب امی نے گرما گرم کیک اس کے آگے رکھا تو اچانک ایک خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں آیا۔اس نے کیک کھاتے ہوئے امی سے پوچھا:”امی!اگر آپ ایسے کیک بنا دیا کریں تو میں ان کو بیچ سکتا ہوں۔ہو سکتا ہے ہمارے مسائل اس سے حل ہو جائیں۔“امی نے چند لمحے سوچا اور بولیں:”کیک تو میں تیار کر لوں گی،مگر ان کی فروخت ایک مسئلہ ہے۔“”کیوں نہ ہم گھروں میں اس کو بیچیں۔خود ہماری بلڈنگ میں پچاس سے زائد گھر ہیں۔یہاں چاروں طرف فلیٹ ہی فلیٹ ہیں۔ہم کیک تیار کرکے گھروں تک پہنچائیں گے۔“علی نے جوش بھرے لہجے میں کہا۔”مگر لوگوں کو کیسے پتا چلے گا کہ ہم کیک بنا کر فروخت کرتے ہیں۔“امی نے پوچھا۔پھر سب کچھ ایک ایک کرکے ہوتا چلا گیا۔علی نے ایک پمفلٹ تیار کیا۔اس پر کیک کی تصویریں مختلف انداز سے نکلوا کر اس کی قیمت درج کر دی اور خود جا کر ایک ایک فلیٹ میں بانٹ کر آیا۔قیمت بہت کم تھی اور جن لوگوں نے کیک کھایا،ان کو پسند آیا اور سب سے بڑھ کر بہت کم وقت میں گرما گرم کیک منگوانے والوں کے پاس پہنچ جاتا تھا۔کم خرچ بالا نشین والی بات ہوئی۔ٹیلی فون بار بار بجنے لگا۔جتنے زیادہ آرڈر آتے،علی بھاگم بھاگ پورے کرتا۔جتنا وہ تھکتا،اتنی ہی طمانیت محسوس کرتا۔پہلے ہی مہینے وہ اپنی بچت کا حساب کتاب کرنے بیٹھے تو حیران رہ گئے۔اتنی آمدنی کی توقع نہ تھی۔نہ انھوں نے کیک کا معیار گرنے دیا اور نہ قیمت بڑھائی۔بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا معیار بڑھتا گیا۔دوسرے ہی مہینے علی کی والدہ نے اپنی ایک سہیلی کو اپنی مدد کے لئے رکھ دیا۔کام بڑھا تو دور کے گھروں کے لئے ایک لڑکا رکھ لیا۔ایک ٹی وی چینل کی خاتون ایک دن علی کے گھر پہنچی اور کہا کہ وہ علی اور اس کی والدہ کا انٹرویو کرنا چاہتی ہیں۔جب ان کا انٹرویو نشر ہوا تو ان کی شہرت پھیل گئی۔تب ایک سماجی خاتون ان کے گھر آئیں اور ان کو پیش کش کی کہ وہ ان کے ادارے میں ضرورت مند اور خواہش رکھنے والی خواتین کو کیک بنانا سکھائیں تو وہ ان کو معقول ماہانہ معاوضہ دیں گی۔علی کی والدہ نے یہ سوچتے ہوئے ہامی بھر لی کہ اس طرح دوسروں کی مدد ہو سکے گی۔پھر وہ اس ادارے میں نہ صرف کیک بلکہ دوسرے کھانے بھی پکانا سکھانے لگیں۔کچھ عرصے کے بعد انھوں نے اپنا یوٹیوب چینل کھول لیا۔جلد ہی چینل سے اچھی آمدنی ہونے لگی اور ان کی آمدنی پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی۔ " امانت - تحریر نمبر 2062,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/amanat-2062.html,"تحریم خانگل رحمان ایک یتیم لڑکا تھا،جو اپنی ماں کے ساتھ ایک کچی آبادی میں واقع چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا،اس کے والد مزدور پیشہ تھے،جو دو سال پہلے ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔والد کی موت کے وقت گل رحمان کی عمر گیارہ سال تھی اور وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کی ماں لوگوں کے گھروں کے کام کرنے لگی اور اس طرح اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ پالنے لگی۔اس نے گل رحمان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔گل رحمان فجر کی اذان ہوتے ہی اپنی ماں کے ساتھ اُٹھ جاتا اور مسجد جا کر نماز ادا کرتا۔مسجد جاتے ہوئے وہ روزانہ ایک لڑکے کو کوڑے دان میں سے ردی کاغذ،پلاسٹک کی بوتلیں،خالی ڈبے وغیرہ چنتے ہوئے دیکھتا۔ایک صبح گل رحمان نے لڑکے سے پوچھا:”تم ردی اور کچرا وغیرہ اِکھٹا کرکے کیا کرتے ہو؟“لڑکے نے بتایا:”یہ میں ٹھیکے دار کو بیچ دیتا ہوں،وہ مجھے ان ردی چیزوں کے سو،دو سو روپے دے دیتا ہے۔(جاری ہے)“گل رحمان کے ذہن میں اچانک یہ بات آئی کہ اگر وہ بھی یہ کام کرے تو اسے بھی روزانہ اتنے ہی روپے مل سکتے ہیں۔اس نے اپنی ماں سے اس کام کا ذکر کیا تو انھوں نے منع کر دیا۔وہ روزانہ اپنی ماں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا کہ وہ اسے کام کرنے کی اجازت دے دے۔آخر ماں نے ایک دن اسے اجازت دے دی،مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس کی پڑھائی کا نقصان نہ ہونے پائے۔اب اس کا یہ معمول بن چکا تھا کہ وہ صبح سویرے اُٹھ کر اپنے علاقے کے کوڑے دانوں سے ردی کاغذ،خالی ڈبے،بوتلیں اور دوسری چیزیں اِکھٹا کرتا اور گھر آکر رکھ دیتا،پھر ناشتہ کرکے اسکول چلا جاتا۔شام کو جمع شدہ ردی ایک تھیلے میں ڈال کر ٹھیکے دار کو دے آتا۔دسمبر کا مہینہ تھا۔شدید سردی پڑ رہی تھی۔ابھی اُجالا پوری طرح نہیں پھیلا تھا،لیکن گل رحمان معمول کے مطابق صبح سویرے کام کے لئے گھر سے نکل پڑا۔گل رحمان کوڑے دان سے ردی وغیرہ اُٹھانے میں مصروف تھا۔گھر آکر اس نے کچرے کا تھیلا ایک طرف رکھ دیا۔شام کو جب وہ جمع شدہ ردی چیزیں چھانٹ رہا تھا تو اس کی نظر کالے رنگ کے ایک چھوٹے سے شاپر پر پڑی،جس میں ایک ڈبا تھا۔اس نے جب وہ ڈبا کھولا تو اس میں سونے کا ایک چھوٹا سا ہار اور دو بندے دکھائی دیے۔اس نے وہ ڈبا فوراً اپنی ماں کو دکھایا اور پوچھا:”ماں !یہ ڈبا مجھے کوڑے دان سے ملا ہے۔اس میں سونے کا ایک ہار اور دو بندے ہیں۔اب آپ بتائیں کہ میں اس کا کیا کروں؟“ماں نے کہا:”بیٹا!یہ کسی کی امانت ہے۔شاید کسی نے غلطی سے گھر کے کوڑے کے ساتھ ہی اسے بھی پھینک دیا ہو گا۔تم ایسا کرو کہ مسجد کے امام صاحب کو یہ تمام باتیں بتا دو،وہ ضرور کوئی صحیح مشورہ دیں گے۔“گل رحمان امام صاحب کے پاس پہنچا اور تمام واقعہ سنا دیا۔امام صاحب نے گل رحمان سے کہا کہ وہ کسی اور سے اس کا ذکر نہ کرے۔کل جمعہ ہے۔وہ نماز جمعہ پڑھنے آئے تو احتیاط سے ڈبا شاپر میں رکھ کر انھیں دے دے۔گل رحمان نے ایسا ہی کیا۔امام صاحب نے ڈبا اپنے پاس رکھ لیا اور نماز سے پہلے یہ اعلان کیا کہ گل رحمان نامی ایک لڑکے کو محلے کے کوڑے دان سے ایک ڈبا ملا ہے،جو اس نے امانت کے طور پر میرے پاس رکھوا دیا ہے۔اس میں سونے کی کچھ چیزیں ہیں۔جن صاحب کا یہ ڈبا ہو،وہ نماز کے بعد نشانیاں بتا کر مجھ سے لے جائیں۔نماز کے بعد ایک صاحب نے امام صاحب سے کہا کہ وہ ڈبا میرا ہے،میں بتا سکتا ہوں کہ اس ڈبے میں کیا کیا ہے۔امام صاحب کے پوچھنے پر انھوں نے وہی چیزیں بتائیں جو ڈبے میں تھیں۔مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پرسوں شام میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک شادی کی تقریب میں گیا تھا۔واپسی پر رات زیادہ ہو گئی تھی،اس لئے تھکاوٹ اور نیند کی وجہ سے میری بیٹی نے زیورات کا ڈبا شاپر میں رکھ کر بے پروائی سے میز پر رکھ دیا اور سو گئی۔وہ زیورات شاید اس کا ہاتھ لگنے سے میز پر سے کسی طرح نیچے رکھے ڈسٹ بن میں گر گئے۔میں نے صبح ڈسٹ کا کچرا دوسرے کچرے کے ساتھ کوڑے دان میں پھینک آیا۔شام کو دفتر واپس گھر آیا تو معلوم ہوا کہ وہ ڈبا جس میں ہار اور بندے تھے،وہ نہیں مل رہا ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ گل رحمان کی ایمان داری کی وجہ سے وہ زیورات اب تک محفوظ ہیں۔امام صاحب جب پوری طرح مطمئن ہو گئے تو چند نمازیوں کی موجودگی میں وہ زیورات ان صاحب کے حوالے کر دیے۔انھوں نے امام صاحب کا شکریہ ادا کرکے گل رحمان کو گلے سے لگا لیا اور اسے انعام دینے کی کوشش کی،مگر اس نے انعام لینے سے انکار کر دیا۔گل رحمان کے اس کارنامے کی خبر،جب اس کے سکول پہنچی تو ہیڈ ماسٹر اور سارے اساتذہ بہت خوش ہوئے۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا اور یہ اعلان کیا کہ آئندہ اس کے تمام تعلیمی اخراجات سکول فنڈ سے ادا کیے جائیں گے۔گل رحمان نے یہ خوشخبری اپنی ماں کو سنائی تو اس نے بیٹے کو گلے سے لگا لیا۔ " حسد کی سزا - تحریر نمبر 2061,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hasad-ki-saza-2061.html,"حرا افضلکسی ملک میں ایک شہزادہ تھا جس کا نام فروز تھا اس کی دو بیویاں تھیں ایک کا نام سنہری اور دوسری کا نام چندہ تھا سنہری کے بال لمبے اور سنہری رنگ کے تھے جس کی وجہ سے اس کا نام سنہری تھا اور وہ بہت ہی خوبصورت تھی شہزادے فروز کے ماں باپ چندہ سے زیادہ سنہری کو پسند کرتے تھے ان کی سنہری کو پسند کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ عقل مند اور اخلاق میں بھی اچھی اور سب کا خیال رکھنے والی لڑکی تھی اور فروز کے والدین کا یہ کہنا تھا کہ ان کے بعد فروز اور سنہری بادشاہ اور ملکہ بنے گے لیکن چندہ یہ ہر گز نہیں چاہتی تھی کہ سنہری ملکہ بنے وہ ایک بداخلاق، خود غرض،مطلب پرست اور چالاک تھی اسی لئے کوئی اسے پسند نہیں کرتا تھا یہاں تک کہ ان کی رعایا چندہ سے زیادہ سنہری کو پسند کرتی چندہ سنہری سے بہت نفرت اور حسد کرتی تھی اور اسی حسد اور نفرت کی آگ نے اسے پاگل کر دیا تھا ایک دن اس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اور وہ اپنی دوست جادوگرنی کے پاس گئی اور اسے ختم کرنے کا کہنے لگی سنو!میری پیاری دوست جادوگرنی مجھے سنہری اور بادشاہ ملکہ کو ختم کرنا ہے کیا تم میری اس میں مدد کروں گی چندہ نے پوچھا ہاں میں ضرور تمہاری مدد کرو گی یہ بتاؤ پہلے کسے مارنا ہے؟بادشاہ اور ملکہ کو چندہ نے کہا کیونکہ وہ بادشاہ اور ملکہ کو اس لئے ختم کرنا چاہتی تھی وہ ہمیشہ سنہری کے ہی گن گاتے رہتے ہیں جس سے وہ بے حد تنگ تھی۔(جاری ہے)جادوگرنی نے اسے ایک شربت کی بوتل دی اور کہا کہ اسے بادشاہ اور ملکہ کے کھانے میں روزانہ ایک چمچ ملا دینا چندہ نے بلکل ایسا ہی کیا اور کچھ دنوں میں بادشاہ اور ملکہ کی طبیعت بہت بگڑنے لگی بادشاہ اور ملکہ کی اچانک طبیعت خراب دیکھ کر سنہری اور فروز بہت پریشان ہوئے انھوں نے بادشاہ اور ملکہ کا بہت علاج کروایا مگر کسی کو ان کی بیماری سمجھ نہ آئی یہ سب کچھ سنہری کو بہت عجیب لگا بادشاہ اور ملکہ کی اچانک طبیعت خراب ہونا اور چندہ کا ان دنوں میں بادشاہ اور ملکہ کی خدمت کرنا ان سب باتوں پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ یہ سب چندہ کی سازش ہے تو پھر وہ چندہ پر نظر رکھنے لگی اور ایک دن جب چندہ جادوگرنی کے پاس گئی تو سنہری بھی چپکے چپکے اس کے پیچھے گئی چندہ نے جادوگرنی سے کہا جو زہر تم نے مجھے دیا تھا ملکہ اور بادشاہ کو دینے کے لئے وہ ختم ہو گیا ہے یہ زہر کوئی معمولی نہیں تھا اس پر میں نے جادو کیا تھا اور کل تک وہ مر جائیں گے۔جادوگرنی نے کہا سنہری فوراً محل کی طرف روانہ ہوئی اور دل میں سوچتی رہی کہ مجھے بادشاہ اور ملکہ کو بچانا ہو گا اگلے دن جب چندہ ناشتے کی ٹیبل پر ناشتہ کرنے بیٹھتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ راجہ اور رانی زندہ اور تندرست بیٹھے ہیں۔اسے بہت غصہ آیا اور وہ دوپہر کو جادوگرنی کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ یہ کیا ہوا تم نے تو کہا تھا کہ وہ مر جائیں گے لیکن وہ تو زندہ ہے اور بلکل ٹھیک ہیں چندہ نے کہا لیکن میرا جادو تو کبھی ناکام نہیں ہوا مجھے خود سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہو رہا ہے تبھی آواز آئی کیا ہم سمجھائے وہ سنہری اور اس کے ساتھ ایک پری تھی جو ہوا میں اُڑ رہی تھی سنہری تم اور یہ پری جیسی لڑکی کون ہے چندہ نے پوچھا یہ میری دوست پری ہے جس کی ایک دفعہ میں نے مدد کی تھی اور اس نے مجھے انعام کے طور پر ایک خواہش مانگنے کو کہا میں نے نہیں مانگی تب سے یہ میری دوست بن گئی اور اب تم اور تمہاری دوست دس سال کے لئے بلی بن جاؤ گے اور اتنی ہی دیر میں وہ دونوں سزا کے طور پر بلیاں بن گئی دس سال بعد سنہری اور فروز بادشاہ اور ملکہ بن گئے اب چندہ کو اس کے کیے کی سزا مل چکی تھی اب وہ ہر ایک کو حسد اور نفرت کرنے سے منع کرتی ہے اور لوگ اب خوشی خوشی رہتے ہیں۔ " خوددار اونٹ(آخری حصہ) - تحریر نمبر 2060,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khuddar-ount-2060.html,"بھیڑیا بولا:یہ بات تم نے درست کہی کہ اونٹ کو صحرا میں گھاس چرنی چاہیے مگر جہاں تک میرا تعلق ہے،سردست مجھے کوئی شکار دکھائی نہیں دیتا سوائے اس کے کہ اونٹ کو چیر پھاڑ دوں لیکن میں یہ کام کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اسے ہم سے کچھ لینا دینا نہیں۔لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم قرعہ اندازی کر لیں اور وہ جس کے نام کا نکلے،وہ نان کو اکیلا کھا لے تاکہ کسی ایک کا تو پیٹ بھرے۔پرانے وقتوں سے یہ کہاوت چلی آتی ہے کہ سو اُجڑے شہروں سے ایک آباد گاؤں بہتر۔یہ سن کر اونٹ کو سخت غصہ آیا۔اس کے منہ سے کف جاری ہو گیا اور وہ بولا:منہ سنبھال کر بات کر اور میرے مقابل مت آ کیونکہ تو اونٹ کے مقابلے میں پدا سا ہے کہ اسے شکار کر سکے اور اگر تجھے ایسی ہی اُلٹی بات سوجھی ہے تو میں تیرے سر پر ایک لات رسید کروں گا اور تو ڈھیر ہو جائے گا۔(جاری ہے)میں تیرے منہ پر ایک تھپڑ دوں گا اور تو ستر قلا بازیاں کھا کر پہاڑ کی چوٹی سے زمین پر جا گرے گا۔ایک بات تو یہ ہوئی ،دوسرے یہ کہ میں قرعہ اندازی کا بھی مخالف ہوں کیونکہ قرعہ اندازی ایک اندھی شے ہے اور قرعہ اندازی کے نتیجہ میں حق دار کو اس کا حق نہیں ملتا۔لگتا ہے کہ تو بدفطرتی اور مکاری پر اتر آیا ہے۔اب جب معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے تو سن لے کہ اس نان پر میرا حق ہے کہ میں سب سے بڑا ہوں اور بزرگ کا احترام لازم ہے۔بھیڑیا اونٹ کی باتیں سن کر خوف زدہ ہو گیا تھا لیکن ہمت کرکے بولا:بہت خوب بڑے میاں!مگر آخر بزرگی کا ثبوت کیا ہے۔بزرگی عقل سے ہے۔اونٹ بولا:نہیں بزرگی قد کاٹھ سے ہے۔جب یہی طے کر لیا گیا کہ کسی امر میں دلیل اور منطق سے کام نہیں لیا جائے گا اور انصاف نہیں کیا جائے گا تو اس وقت بزرگی ،زور اور مکے کا نام ہوتا ہے لیکن پھر بھی مجھے نان کھانے پر اصرار نہیں۔میں بہرحال کسی کی دھونس میں نہیں آتا۔لومڑی بولی:اب لڑائی جھگڑے سے باز آئیں۔میں اپنے حق سے دستبردار ہوتی ہوں لیکن اگر بزرگی عقل سے ہوتی ہے تو نان پر میرا حق ہے چونکہ میں سب سے زیادہ ہوش مند ہوں۔اب میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے جس سے حق دار کو اس کا حق مل جائے گا۔یہ کیسا رہے گا کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی آپ بیتی بیان کرے اور جس کی آپ بیتی سب سے عمدہ ہو وہ نان کا حق دار قرار پائے؟بھیڑیا بولا:مجھے اس سے اتفاق نہیں کیونکہ ہر شخص کی آپ بیتی اس کے اپنے زعم میں عمدہ اور پُرکشش ہوتی ہے۔ہر کوئی کچھ نہ کچھ خود پسند ہوتا ہے اور ممکن ہے میں اپنی آپ بیتی کو تمہاری آپ بیتی سے زیادہ عمدہ سمجھوں اور تم اس سے اتفاق نہ کرو اور ذوق کے فرق کی وجہ سے پھر سے اختلاف شروع ہو جائے۔بہتر یہی ہے کہ اونٹ کے قول پر عمل کریں اور کم عمری اور بزرگی کے احترام میں ہر کوئی اپنی اپنی تاریخ پیدائش بتائے اور جس کسی کی تاریخ پیدائش زیادہ پہلے کی ہو اور اس کی عمر زیادہ ہو وہ نان کا حق دار ٹھہرے۔لومڑی بولی:تجویز تو عمدہ ہے۔اونٹ نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا اور بولا:یا اللہ،تو شروع کریں۔پہلے اپنی تاریخ پیدائش کون بتائے گا“؟لومڑی نے جو مکاری میں مشہور ہے،تجویز پیش کی کہ سب سے پہلے بھیڑیا شروع کرے۔اس نے دل میں سوچا کہ اس میں کیا بُرائی ہے کہ جو کچھ بھیڑیا کہے میں اس سے زیادہ عمر کی بات کروں اور اونٹ کو بھی اپنی چکنی چپڑی باتوں سے فریب دوں اور بالآخر نان کی اکیلی حق دار ٹھہروں۔اونٹ نے اس سے اتفاق کیا کہ سب سے پہلے بھیڑیاں اپنی بات شروع کرے۔تب بھیڑیا بولا:جیسا کہ میرے والد نے اپنی دعا کی کتاب کی جلد کے پیچھے لکھا ہے،میری ماں نے مجھے حضرت آدم کی خداوند کے ہاتھوں تخلیق سے سات روز پہلے جنم دیا۔یہ سن کر حیرت سے اونٹ کا منہ تو کھلے کا کھلا رہ گیا مگر لومڑی نے بھیڑیے کی بات کو بہت آسان لیا اور کہا:ہاں ہاں ٹھیک کہا اس نے۔جب بھیڑیے کی ماں اسے جنم دے رہی تھی،میں نے شمع ہاتھ میں تھام رکھی تھی اور روشنی کا اہتمام کر رہی تھیں۔اس وقت میں دس سال کی تھی۔اونٹ نے جب یہ باتیں سنیں تو اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کے ساتھی جھوٹ کی راہ پر چل پڑے ہیں اور اب اس کے لئے کہنے کو کچھ نہیں رہا۔ یہ سوچ کر اونٹ نے اپنی گردن لمبی کی اور نان کی ٹکیا کو دانتوں سے پکڑ کر ایک لقمے کی طرح نگل گیا اور اسے کھانے کے بعد بولا:میں نے شروع ہی سے فیصلہ کیا تھا کہ میں یہ نان نہیں کھاؤں گا کیونکہ میری خوراک تو اصل میں گھاس ہے اور میں نے گمان کیا کہ چونکہ طے ہے کہ تم لوگ سچ بات کہو گے اور انصاف کو پیش نظر رکھو گے اس لئے میں چاہتا تھا کہ یہ نان اگر میرے مقدر میں ہوا بھی تو میں یہ تمہیں بخش دوں گا لیکن اب جب تم نے کام کی بنیاد مکاری پر رکھ دی اور معاملہ دگرگوں ہو گیا سو میں بھی ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ جو مائی کا لال بھی میرے جسم اور قد کاٹھ کو دیکھے گا،جان لے گا کہ میں بھی اپنی ماں کے بطن سے کل رات پیدا نہیں ہوا بلکہ تم سے بہت پہلے اس دنیا میں آیا ہوں اور اسے بہت دیکھا ہے اور جو چیز عیاں ہے اس کے بیان کی کیا ضرورت؟ " ہاتھی اور چڑیا - تحریر نمبر 2059,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hathi-aur-chirya-2059.html,"ایک بار ایک ہاتھی جنگل میں گھومنے کے لئے نکلا۔ہاتھی بہت ہی زیادہ رحم دل اور اچھی عادتوں والا تھا۔وہ ہاتھی اپنی دُم ہلاتا،آنکھیں مٹکاتا ،جھومتا،گاتا چلا جا رہا تھا۔جب وہ ندی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ چوہے کا ایک چھوٹا سا بچہ پانی میں ڈوب رہا ہے۔وہ بچہ زور زور سے بچاؤ بچاؤ بھی چلاتے جا رہا تھا۔ہاتھی کو اس پر رحم آگیا وہ فوراً پانی میں اُترا اور چوہے کے بچے کو اپنی سونڈ میں اُٹھا کر باہر نکال لایا اور وہاں سے چلنے لگا۔چوہے کے بچے نے ہاتھی کا شکریہ ادا کیا اور بائے بائے کہہ کر اپنے بل کی طرف چل دیا۔ایک چڑیا درخت پر بیٹھی ہوئی یہ سب دیکھ رہی تھی۔اس کو خود اپنا انڈا سینا بھاری پڑ رہا تھا وہ اس خواہش میں تھی کہ کوئی صورت نکل آئے کہ میں انڈے سے اُٹھ کر کہیں اُڑ جاؤں۔(جاری ہے)وہ ہاتھی کو دیکھ کر ہنستے ہوئے اس سے بولی:ہاتھی بھائی کہاں جا رہے ہو؟ہاتھی بولا:بس بہن!ذرا جنگل کی سیر پر نکلا ہوں۔چڑیا بولی:ہاتھی بھائی!میں نے دیکھا تم بہت رحم دل ہو،ابھی ابھی تم نے چوہے کے ایک چھوٹے سے بچے کی جان بچائی،واقعی یہ ایک بہت اچھا کام کیا تم نے۔میرا بھی ایک کام کر دو گے۔ہاتھی نے کہا:بولو بہن!کیا کام ہے؟چڑیا بولی:میں کل سے بھوکی پیاسی یہاں بیٹھی ہوں،گھونسلے کو چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتی،کیونکہ گھونسلے میں میرے انڈے ہیں۔اگر تم کچھ دیر اس کی دیکھ بھال کرو تو میں اپنے کھانے کا کچھ انتظام کر لیتی ہوں۔میرے آنے تک تم انڈے کو سینے رہنا۔ہاتھی بولا:”کیا پھر تم مجھے اپنے بچے کے ساتھ کھیلنے دو گی․․․․؟ہاں ہاں!کیوں نہیں؟چڑیا کہنے لگی۔بچے کو دیکھنے اور اس کے ساتھ کھیلنے کے لالچ میں بے چارا ہاتھی مان گیا۔چڑیا نے سوچا کہ ہاتھی انڈے کو سینا بھی رہے گا اور اس کے گھونسلے کی نگرانی بھی ہوتی رہے گی۔اور وہ کچھ دیر گھومتی پھرتی رہے گی۔اس چڑیا کو جنگل میں شکاریوں نے اپنے جال میں پھنسا لیا۔اب وہ بے چاری چڑیا اپنے گھر تک واپس نہ جا پائی۔بے چارہ سیدھا سادا ہاتھی انڈے پر بیٹھا اسے سینا رہا اور چڑیا بے چاری شکاری کے پنجرے میں جگہ جگہ گھومتی رہی،ہاتھی اس انتظار میں تھا کہ کب انڈے سے بچہ نکلے اور میں اس کے ساتھ کھیلوں۔کئی دن گزر گئے انڈے سے بچہ بھی نہ نکلا اور چڑیا بھی نہیں آئی۔وہاں سے جو بھی جانور گزرتے وہ ہاتھی کا مذاق اُڑاتے کہ:کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ ہاتھی کے سینے سے انڈے سے بچہ نکلا ہو؟ہاتھی بے چارا سنتا اور چپ رہ جاتا اور اسی طرح انڈے کو سینا اور گھونسلے کی حفاظت کرتا رہا۔لیکن کئی دن بیت جانے کے باوجود چڑیا نہیں آئی۔ایک دن سرکس والوں نے ہاتھی کو دیکھا وہ اسے پکڑ کر سرکس میں لے جانا چاہتے تھے۔لیکن ہاتھی بچے کے انتظار میں ٹس سے مس نہ ہوا۔سرکس والوں نے جب یہ دیکھا تو اسے گھونسلے سمیت اُٹھا کر لے گئے۔ہاتھی انڈے پر بیٹھا ہی رہا وہ کسی بھی طرح سے کھڑا نہ ہوا۔سرکس والوں نے لاکھ کوشش کی کہ وہ کوئی کرتب دکھائے لیکن ہاتھی بیٹھا ہی رہا۔اور وہ جو بھی کرتا بیٹھے ہی بیٹھے کرتا۔وہ انڈے پر بیٹھے بیٹھے ہی بینڈ بجاتا اور لوگوں کو ہنساتا۔یہ بھی لوگوں کے لئے ایک حیرت انگیز اور دلچسپ بات بن گئی کہ ہاتھی انڈے پر بیٹھا ہوا اُسے سینا رہا ہے۔دیکھیں بچہ نکلتا ہے یا نہیں؟ایک دن انڈا ہلنے لگا۔ہاتھی گھبرا گیا کہ یہ کیا ہوا؟انڈا چٹکا اور ٹوٹ گیا۔انڈے سے بچہ باہر نکلا تو سب لوگ حیران رہ گئے کہ انڈے سے ایک چھوٹا سا خوب صورت عجیب و غریب بچہ نکلا جو آدھا ہاتھی جیسا اور آدھا چڑیا جیسا تھا۔یہ تو لوگوں کے لئے ایک اچھا خاصا عجوبہ ہو گیا۔ہاتھی اور وہ بچہ دونوں مل کر خوب کھیلتے کو دتے اور سرکس میں طرح طرح کے کرتب دکھا کر لوگوں کو لطف اندوز کرتے۔ہاتھی اور اس کے بچے کی وجہ سے اُس سرکس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔یہاں تک کہ جنگل میں بھی اس سرکس کے اس عجیب و غریب بچے کی خبر پہنچ گئی۔ادھر چڑیا ایک دن موقع پا کر شکاری کے پنجرے سے باہر نکل آئی اور سیدھے جنگل کی طرف پرواز کر گئی،وہاں اس نے بھی سرکس کے اس عجیب و غریب بچے کا ذکر سنا۔اب چڑیا جنگل سے اس سرکس میں گئی۔اُڑتے اُڑتے جب وہ سرکس میں گھسی تو ایک نظر میں اس نے ہاتھی کو پہچان لیا۔کھیل ختم ہونے کے بعد جہاں ہاتھی بندھا ہوا تھا وہاں جا کر چڑیا نے اس سے کہا:اے بھائی ہاتھی!مجھے پہچانا کہ نہیں؟میں وہی چڑیا ہوں جس کے انڈے سے یہ بچہ نکلا۔ہاتھی نے کہا:ہاں ہاں!تجھ جیسی بے فکر چڑیا کو کون بھول پائے گا؟جسے خود اپنے انڈے اور بچے کا خیال نہ ہو۔چڑیا نے پہلے تو ہاتھی سے معافی مانگی پھر اسے بتایا کہ وہ لالچ میں آکر ایک شکاری کے جال میں پھنس گئی تھی۔اب بہت دنوں بعد جنگل میں پہنچی ہوں کہ مجھے تمہارے سرکس کی خبر ملی سو میں یہاں آگئی۔اب مجھے میرا بچہ واپس کر دو۔چڑیا کی یہ بات سُن کر ہاتھی نے کہا کہ اس معاملے میں میں خود کوئی فیصلہ نہیں کروں گا بلکہ بچے سے پوچھا جائے کہ وہ کس کے ساتھ رہے گا؟جب بچے سے پوچھا گیا تو اس نے کہا:میں نے پیدا ہوتے ہی اس ہاتھی کو ہی اپنے گرد دیکھا ہے۔ہاتھی نے مجھے ماں کی گود فراہم کی ہے لیکن میں ہوں تو چڑیا کا بچہ۔بچے کی یہ بات سن کر چڑیا بہت خوش ہوئی لیکن ہاتھی اداس ہو گیا۔اب چڑیا کے بچے نے کہا کہ میں ہاتھی اور اپنی ماں چڑیا دونوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔یہ سن کر ہاتھی اور چڑیا دونوں خوش ہو گئے۔ " خوددار اونٹ (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2058,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khuddar-ount-2058.html,"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لومڑی نے ایک گاؤں سے بھاگ کر ایک اور گاؤں میں رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔اس نے بیابان میں ایک بھیڑیے کو دیکھا کہ وہ بھی اسی رستے پر چلا جا رہا تھا۔دونوں کی مڈبھیڑ ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا اور اکٹھے چل پڑے۔ انہوں نے ایک دوسرے کا حال چال پوچھنے کے لئے بات چیت کا آغاز کیا۔ معلوم ہوا کہ بھیڑیے کو اس گاؤں کے بھیڑوں کے گلے کے محافظ کتوں سے شکایت پیدا ہو گئی تھی جو اسے بھیڑوں کو ہڑپ کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔بھیڑیا چاہتا تھا کہ اس گاؤں کو بالکل چھوڑ دے اور کسی دور دراز مقام پر جا ٹھکانا کرے۔وہ دونوں جب تقریباً چار میل آگے نکلے تو انہیں ایک اونٹ دکھائی دیا جو صحرا میں بھٹک رہا تھا۔وہ اونٹ کے نزدیک پہنچے اور اس سے کہا تو تو پالتو جانور ہے اور لوگ تجھے مفت خوراک مہیا کرتے ہیں آخر تو تن تنہا اس صحرا میں کیا کر رہا ہے؟اونٹ بولا:پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی کسی کو مفت خوراک مہیا نہیں کرتا۔(جاری ہے)اگر انسان روزی رساں ہوتے تو پہلے اپنے ہم جنسوں کو فراہم کرتے اور یوں دنیا میں اتنے سارے لوگ بھوکوں نہ مرتے اور یہ جو تم دیکھتے ہو کہ لوگ مجھے خشک گھاس کھانے کو دیتے ہیں تو یہ میری اُون، دودھ،گوشت اور بار برداری کی وجہ سے ہے۔اگر تم کام کرنے اور بوجھ ڈھونے کے لئے تیار ہوتے تو یہ قلیل خوراک وہ تمہیں بھی دیتے رہی یہ بات کہ میں پالتو جانور ہوں،بالکل ہوں مگر اسی وقت تک جب تک اہل لوگوں کے ساتھ میرا واسطہ ہو جب مجھے بے انصافی اور ظلم کا سامنا کرنا پڑے تو مجھ پر وحشت طاری ہو جاتی ہے۔کیا تم نے ”شترکینہ“ کا لفظ نہیں سنا ۔یہ اس وقت ہوتا ہے جب لوگ مجھ پر ظلم کرتے ہیں البتہ جب تک میں لوگوں کو انصاف پسند دیکھتا ہوں،میں بھی ایک حلیم طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والا جانور ہوتا ہوں اور اگر ایک چوہا بھی میری رسی کھینچتا ہے تو جہاں لے جانا چاہتا ہے میں اس کے ساتھ چل پڑتا ہوں۔میں دن رات کام کرتا ہوں۔بھوک پیاس برداشت کرتا ہوں۔بے آب و گیاہ بیابانوں کی خاک چھانتا ہوں،بوجھ اُٹھاتا ہوں اور دم نہیں مارتا۔خیر،اس صحرا میں اس وقت میرے آوارہ پھرنے کی وجہ یہ ہے کہ میرا مالک ناانصاف تھا۔مجھ پر زیادہ بوجھ لادتا،مجھے لاٹھیوں سے پیٹتا اور کبھی آرام کرنے کا موقع نہ دیتا میں بھی وحشی ہو گیا اور میں نے صحرا کا رستہ لیا۔ہر بات کی حد ہوتی ہے جب معاملہ حد سے بڑھ گیا تو میں کہ ایک اونٹ ہوں اور ہر ایک سے بڑا ہوں آخر اپنے سے چھوٹوں کا ظلم کس لیے برداشت کروں؟بھیڑیا بولا:یہ کیا بات ہوئی ممکن ہے کوئی ایسا شخص موجود ہو جو تجھ سے چھوٹا ہو مگر اس کی عقل اور شعور تجھ سے بڑھ کر ہو یا وہ ایسے کاموں سے آگاہ ہو جن سے تو واقف نہیں،اُس صورت میں تیرا یہ بھاری بھرکم جسم کس کام کا؟اونٹ گویا ہوا:یہ بھاری بھرکم جسم اس لئے ہے کہ بھاری بوجھ اٹھائے،اس لئے نہیں کہ دھمکی آمیز باتیں سنے۔لومڑی بولی:اونٹ سچ کہتا ہے۔اب ان باتوں کو چھوڑیں اور یہ دیکھیں کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہمیں فکر کرنی چاہئے کہ آخر ہم دوپہر اور شام کا کھانا کہاں سے لائیں گے؟بھیڑیا بولا:اس کی فکر نہ کرو۔کھلا ہوا منہ بے روزی کے نہیں رہتا۔کوئی بھی جگہ ہو،کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے۔لومڑی بولی:”بہت خوب،اب یہ طے کر لیں کہ اس سفر میں ہم باہم مل کر رہیں گے تاکہ بچھڑ نہ جائیں اور بالآخر کسی دوسری آبادی تک پہنچ جائیں“۔اونٹ ہنسا اور بولا:آبادی،آبادی!مجھے ان جانوروں پر بہت غصہ آتا ہے جو ہمیشہ آبادی ،شہر اور اس کی دوسری چیزوں کی فکر میں رہتے ہیں۔ آبادی میں میرے لئے صرف بوجھ ڈھونا ہے اور بس اور تمہارے لئے بھی صرف لاٹھی اور ڈنڈا ہے۔اللہ کی نعمتیں صحرا اور بیابان میں ہیں۔ آبادی میں رہنے والے انسان بھی اپنا نان و آب،لباس اور دیگر ساری چیزیں انہی صحراؤں،پہاڑیوں اور جنگلوں سے حاصل کرتے ہیں۔آبادی میں کچھ بھی نہیں۔ جو شے بھی ہے صحرا،پہاڑ اور جنگل میں ہے،اللہ کی زمین میں ہے۔تم بھی اگر مرغے کو پکڑنے کی فکر میں نہ ہوتے، بھیڑ کو ہلاک کرکے ہڑپ کر جانے کے پھیر میں نہ ہوتے،اگر صرف چرند ہوتے تو میری طرح آرام سے رہتے،سو مجھے تو آبادی سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن خیر اب ہم سفر کا آغاز کرتے ہیں اور چونکہ ابھی تک ہم میں سے کسی نے کسی سے بدی نہیں کی سو ہم اکٹھے سفر کرتے ہیں۔جب وہ ایک لمبی مسافت طے کر چکے اور ہر موضوع پر بات چیت ہو چکی تو وہ ایک ٹیلے کے کنارے موجود چشمے پر آپہنچے اور چونکہ سب کو پیاس لگی تھی،انہوں نے پانی پینے کا فیصلہ کیا۔وہ جونہی چشمے کے پاس پہنچے،بھیڑیے نے ایک صاف پتھر کے اوپر ایک خشک روٹی دیکھی اور خوشی سے چلایا:یہ لیجیے،میں نے کہا نہ تھا کھلا منہ بے روزی کے نہیں رہتا۔یہ پانی اور یہ نان!لومڑی اور اونٹ بھی قریب آگئے اور انہوں نے قیام کیا کہ کسی مسافر نے وہاں قیام کیا اور وہ ایک ٹوٹے ہوئے برتن،تھوڑی سی گھاس،راکھ اور اس طرح کی دوسری چیزوں کے علاوہ نان کی ایک ٹکیا بھی وہاں چھوڑ گیا تھا۔اونٹ بولا:کیا کیجیے،صرف ایک نان ہے اور ہم تین لوگ۔اگرچہ یہ بہت کم ہے لیکن اس خیال سے کہ کوئی بھی کل تک بھوک سے ہلاک نہ ہو جائے،ہمارے لئے کافی ہے۔بھیڑیا بولا:اس نان پر میرا حق ہے کیونکہ سب سے پہلے میں نے اسے دیکھا۔لومڑی بولی:یہ کیا بات ہوئی:پہلے ہی مرحلے پر حیلہ گری اور درشتی مناسب نہیں۔بہتر ہے کہ ہم اس نان کے تین حصے کر لیں۔اگر سچ پوچھو تو یہ نان مجھے کھانا چاہیے کیونکہ اونٹ صحرا میں گھاس کھا سکتا ہے۔بھیڑیے کو بھی شکار کرنا چاہیے۔میں سب سے زیادہ اس کی مستحق ہوں لیکن اب چونکہ ہم ایک دوسرے کے دوست بن چکے،یہی بہتر ہے کہ اس کے تین حصے کر لیں۔(جاری ہے) " سیاہ پھول - تحریر نمبر 2056,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/siyah-phool-2056.html,"سمعیہ تنویریہ کہانی ایک بچی کی ہے،بچے جو باغوں کے پھول ہوا کرتے ہیں۔خوبصورت اور معصوم سوچ کے متحمل،نیک خوابوں کے سجانے والے، گاؤں میں ایک چھوٹی بچی جس کا نام عروش تھا کھیلتی کودتی روز اپنے علاقے میں موجود ایک باغ جو پھولوں اور جھولوں سے بھرا نہیں تھا بلکہ وہاں صرف ایک ہی جھولا تھا جہاں روز سارے بچے قطار در قطار جھولے کا انتظار کرکے لطف و اندوز ہوتے عروش بھی روز سکول سے واپسی پر جھولا لینے جاتی کچھ دن بعد ایک موٹا لڑکا باغ میں جھولا لینے آگیا اور وہ کسی کو جگہ نہ دیتا۔عروش اپنی دوستوں کے ساتھ روز کی طرح آج بھی بہت پُرجوشی سے جھولا جھولنے کا انتظار کر رہی تھی،وہ جھولا بہت خوبصورت تھا وہ بیٹھنے والوں کو آسمان کی بلندیوں تک لے جاتا،مختصر یہ کہ وہ ایک جھولنے والا جھولا تھا۔(جاری ہے)اور وہ جھولا اس موٹے بچے کے بے ڈھنگے استعمال سے ٹوٹ گیا۔سب حیرت سے اس ٹوٹے ہوئے آخری جھولے کو دیکھ رہے تھے جو وہاں کے بچوں کیلئے کھیلنے کی واحد خوشی تھی۔سب بچے اپنے گھر لوٹ گئے۔لیکن عروش وہاں بیٹھی روتی رہی بہت دیر تک جب شام کو وہ گھر جانے کو اُٹھی تو اسے اپنی دھندلی آنکھوں کے پیچھے سے اس نے ایک پھول دیکھا وہ پھول سیاہ رنگ کا تھا غالباً وہ آج سے پہلے وہاں نہیں تھا وہ اپنی جگہ پر کھڑی حیرت سے اس خوبصورت سیاہ جادوئی پھول کو دیکھنے میں مگن تھی اور جھولے کے ٹوٹ جانے کے دُکھ کو بھول چکی تھی اس نے قدم باغ کے داہنے کونے کی طرف بڑھایا جہاں مرجھائی ہوئی جھاڑیوں کے درمیان وہ پھول کھلا تھا اس نے اس پھول کو اس گندی جگہ سے اکھیڑ کر باغ کے درمیان میں موجود درخت کے پاس بو دیا جہاں دھوپ پڑتی تھی اور خوشی خوشی گھر چلی گئی۔رات جب وہ سوئی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ رات بارش ہوتی رہی اور اس کا پھول مرجھا گیا صبح سکول جانے سے پہلے وہ اس جادوئی سیاہ پھول کو دیکھنے گئی اور اس کا خواب سچ ثابت ہوا وہ پھول مرجھا گیا تھا۔زیادہ اور تیز بارش کی وجہ سے اس نے اللہ سے اس پھول کی زندگی کی دعا کیں اور دعا قبول ہو گئی اس کی۔عروش روز اس کی دیکھ بھال کرتی اور پھر ایک رات اس نے پھر خواب دیکھا اس پھول کا قد لمبا اور مزید شاخیں بھی نکل آئی تھی وہ خوبصورت تنوار جھولوں سے بڑا پڑا تھا۔وہ ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں جھولوں سے بھڑا پڑا تھا۔بہت پیارے اور خوبصورت جھولوں سے میزن تھا صبح اُٹھ کر وہ خوشی سے باغ میں بھاگتی گئی کہ کاش یہ خواب بھی سچ ہو جائے اور وہ خواب واقعی سچ ہو گیا سب بچے اسی کا انتظار کر رہے تھے سب کی خوشی کی انتہا نہ تھی سب بہت خوشی سے اس جادوئی پھول سے لگے جھولوں کے ساتھ کھیلتے اور خوش ہوتے رہے۔نتیجہ:پیارے بچو!اس کہانی سے ہم نے سیکھا کہ دعا کرنی چاہیے اور خواب دیکھنے چاہیے اللہ اسے پورے کر دیتا ہے آپ بھی دعا کریں اگر آپ کو کچھ چاہیے اور یقین سے کریں اور مسکرائیں۔ " ہدایت - تحریر نمبر 2055,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hidayat-2055.html,"بلقیس ریاضایک ریستوران میں ایک ایسے عزیز بھائی سے ملاقات ہوئی جو کئی سال سکاٹ لینڈ رہنے کے بعد اپنے وطن لوٹ آئے تھے۔والدہ ان کی سکاٹ لینڈ کی تھیں اور والد پاکستانی تھے۔شادی کے بعد ماں مسلمان ہو چکی تھیں اور انہوں نے اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کیلئے اپنے آپ کو وقف کر لیا تھا۔ریستوران میں بیٹھے ہوئے میرے بھائی جن کا نام شہاب تھا وہ بتا رہے تھے کہ جب وہ چھوٹے سے تھے تو جمعہ کی نماز سے پہلے میری والدہ میرا لباس کمرے میں لاتے ہوئے کہتیں۔”شہاب بیٹا ان کو غسل کرکے پہن لو۔میں چھوٹی بہن کو تیار کر رہی ہوں تاکہ تمہارے والد کے ساتھ ہم لوگ بھی مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے جا سکیں۔“میں اکثر کہتا۔”ماما اس وقت میرا موڈ نہیں ہے پلیز مجھے مت لے کر جائیں“۔(جاری ہے)”بیٹا تم مسلمان ہو کر اس طرح کی باتیں کرتے ہو‘نماز پڑھو گے تو دیکھنا اللہ کس قدر خوش ہو گا“۔”کیا چاکلیٹ کھانے کیلئے دے گا“۔”بہت کچھ دے گا․․․․تم ان نعمتوں کا تصور بھی نہیں کر رہے جو اس نے تمہیں دینی ہیں“۔”ارے چھوڑیں ماما ان نعمتوں کو پہلے مجھے بتائیں اللہ چاکلیٹ دے گا کہ نہیں“۔ماما مسکرائیں اور کہتیں”اپنے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈال کر دیکھو شاید اللہ میاں نے چاکلیٹ یہاں رکھ دی ہو“۔میں جھٹ سے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالتا تو وہاں سے پیکٹ مل جاتا اور مسکراتا ہوا اپنا لباس پکڑ کر غسل خانے کی طرف بھاگتا اور جاتے جاتے یہ کہتا”ماما اللہ میاں کتنا اچھا ہے‘اس نے فوراً چاکلیٹ آسمان سے پھینک دی ہے۔“میرا ننھا سا ذہن اس وقت یہی محسوس کرتا کہ اللہ نے سچ مچ چاکلیٹ اوپر سے بھیجی ہے۔میں تیار ہو کر خوشی خوشی اپنے والدین کے ساتھ مسجد میں چلا جاتا۔وہاں پر کئی پاکستانی اپنے خاندانوں کے ساتھ نظر آتے۔مگر وہاں کی عورتیں خاص کرکے میری ماں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر حیرت زدہ ہوتیں۔ان سے کبھی کبھار سوال بھی کرتیں۔”کیا واقعی آپ مسلمان ہو چکی ہیں“۔میری ماں اپنے لبوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے یہی کہتیں۔”میں مسلمان ہوں۔آپ کو کوئی شک ہے؟“تو پوچھنے والی خواتین کھسیانی سی ہو جاتیں۔میری ماں ان کو لاجواب پا کر بوتلیں۔”میں سچی اور پکی مسلمان ہوں‘بلکہ میں اپنے بچوں کو بھی پکا مسلمان بنا رہی ہوں۔صرف کلمہ پڑھ کر مسلمان تھوڑی ہوتا ہے بلکہ تمام اسلامی احکامات پر پورا اُترنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔سو میں اپنے خاندان کے ساتھ پورا کر رہی ہوں۔ماں کی باتیں اور طرز زندگی نے ہمیں سیدھے راستے پر ڈال دیا ہے۔جب بھی رمضان شریف آتا ہے مجھے اپنی والدہ بہت یاد آتی ہیں‘گو وہ اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ہمیں روزہ رکھنے کی اتنی عادت ڈال چکی ہیں کہ بیماری کے دوران بھی ایک روزہ نہیں چھوڑتا۔سچ جانیں اور انگریز عورتوں کی طرح اگر میری ماں بھی چاہتی تو اس طرح کی تربیت نہ کرتی۔بعض انگریز عورتیں مسلمان تو ہو جاتی ہیں مگر اندر سے وہ مسیحی ہی رہتی ہیں آج ہم جو کچھ بھی ہیں خدا کے بعد اپنی ماں کی بدولت صحیح مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔“شہاب بھائی دھیرے دھیرے سوپ پیتے ہوئے اپنے بارے میں سب کچھ بتا رہے تھے۔میں سوچ رہی تھی کہ ہم لوگ تو مسلمان ہونے کا صرف دعویٰ ہی کرتے ہیں مگر عملی طور پر ہم لوگ منافق ہیں۔کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ہم سے تو یہ قوم ہی اچھی ہے‘جو روزے بھی دل کے ساتھ رکھتی ہیں اور اس پر پورا اُترتی ہے۔اس وقت اس بھائی کی والدہ موجود نہیں ہے۔مگر ان کی دی ہوئی تعلیم زندگی بھر ان کے ساتھ رہے گی۔ " پری اور پھول - تحریر نمبر 2054,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pari-aur-phool-2054.html,"بشریٰ ناز کرنایک دفعہ کا ذکر ہے کسی گاؤں میں ندی کے کنارے ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھی۔دونوں بیٹیاں بہت خوبصورت تھیں لیکن ہر وقت ایک دوسرے سے لڑتی جھگڑتی رہتی تھیں۔بڑی بہن کا نام نور اور چھوٹی کا نام پری تھا۔ایک دن نور پودوں کو پانی دے رہی تھی کہ نور نے ایک خوبصورت پھول دیکھا،اس نے وہ پھول اُٹھا لیا۔پری بھی وہیں موجود تھی،اس نے کہا،”یہ پھول مجھے دے دو“۔نور نے کہا،” نہیں پہلے یہ پھول میں نے دیکھا تھا“۔دونوں بہنوں نے بحث و تکرار کے بعد ہاتھا پائی ہونے لگی۔اتنی دیر میں وہاں ایک بونا آگیا،اس نے پوچھا،”تم دونوں کیوں لڑ رہی ہو“؟۔پری نے کہا”یہ پھول میرا ہے لیکن نور نے اسے اُٹھا لیا ہے اور اب مجھے نہیں دے رہی“۔(جاری ہے)یہ سن کر نور بولی،”یہ پھول پہلے میں نے دیکھا اس لئے اُٹھا لیا،اب یہ میرا ہے“۔بونے نے وہ پھول نور سے لیا اور بولا،”یہ پھول تم دونوں میں سے کسی کا نہیں ہے،تم دونوں میں سے جو بھی ندی پہلے پار کرے گا،یہ پھول اُسی کا ہو جائے گا“۔پری اور نور ندی پار کرنے کیلئے گھاٹ پر آئیں اور دونوں جلدی جلدی اپنی اپنی کشتیوں میں بیٹھنے لگیں۔نور اپنی کشتی پر چڑھنے کیلئے آگے بڑھی ہی تھی کہ اس نے ایک خرگوش دیکھا جس کے پیر میں کانٹا چبھا ہوا تھا۔نور نے اس کے پیر سے کانٹا نکال دیا۔جیسے ہی اس نے اس خرگوش کے پیر سے کانٹا نکالا،خرگوش نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ،”تم یہ چپو لے لو،اس سے تم جلدی ندی پار کر لو گی،نور نے وہ چپو لیا اور کشتی میں سوار ہو گئی۔دوسری طرف پری اپنی کشتی میں بیٹھی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی اس نے زمین سے پتھر اُٹھایا اور خرگوش کو دے مارا۔پتھر لگنے سے خرگوش تکلیف سے بلبلا اُٹھا۔یہ دیکھ کر بونا وہاں آیا اور غصے سے پری سے بولا،“تم نے ایک جانور کو مارا ہے،جادو کے زور سے میں تم کو بھی خرگوش بنا دیتا ہوں تاکہ تمہیں پتا چلے کہ کسی جانور کو مارتے ہیں تو اسے کتنی اذیت ہوتی ہے۔بونے کے یہ کہتے ہی پری،خرگوش بن گئی۔بونا غصے سے وہاں سے چلا گیا۔نور یہ سب دیکھ رہی تھی کہ کیسے اس کی بہن خرگوش بنی،وہ ندی پار کر چکی تھی۔وہ فوراً واپس آئی اور بونے کا پیچھا کرکے اس کے پاس پہنچ گئی اور کہا،”بونے بھائی رکو“․․․․اس کی آواز سن کر بونا رک گیا اور بولا۔”کیا بات ہے“؟․․․نور بولی،”بھائی میری بہن کو سبق مل گیا ہے، اسے معاف کر دیں،آئندہ وہ کسی جانور کو نہیں مارے گی“۔خرگوش نور کے ساتھ پری کے پاس واپس آیا اور اس پر منتر پڑھ کر پھونکا،وہ دوبارہ خرگوش سے انسان بن گئی جب کہ بونا یکایک ان کی نظروں سے غائب ہو گیا۔نور،پری کے ساتھ واپس گھر آگئی،انہوں نے دیکھا کہ بونے نے پھول وہیں ڈال دیا تھا۔پری نے اُٹھا کر وہ پھول نور کو دے دیا اور اُس دن کے بعد سے وہ کبھی کسی سے نہیں لڑی۔ " راہِ حق (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2052,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rah-e-haq-2052.html,"ریاض احمد جسٹسہر کام کروانے کے لئے زور زبردستی کی ضرورت نہیں ہے۔میرے بادشاہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں کسی کو بھی بغیر جرم کئے جو مرضی سزا دے دوں۔اصل حکومت تو اللہ تعالیٰ کی ہے پھر میں کون ہوتا ہوں اس کے حکم کے بغیر کسی کو مجرم ٹھہرانے والا۔میں نے بھی یوم حشر والے دن اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے۔کیونکہ یہ حکومت مجھے اللہ تعالیٰ نے امانت کے طور پر دی ہے اور میں نے اس کا جواب بھی دینا ہے۔یقینا اس کام کے لئے کوئی اور بھی حل ہو گا۔ایک دن تاجر اپنے دوستوں میں بیٹھ کر مزے مزے کے کھانے کھا رہا تھا اور غلام اپنے آقا کی خدمت میں مصروف تھا۔تاجر نے جب غلام کے چہرے پر نظر دہرائی تو وہ بہت پریشان لگ رہا تھا۔جب تاجر کے دوست چلے گئے تو تاجر نے غلام کو نہایت پیار اور محبت سے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ تمہاری آنکھوں میں آنسو!اس سے پہلے تو میں نے تمہیں اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا۔(جاری ہے)غلام نے جواب دیا میرے آقا آپ تو اپنے دوستوں میں بیٹھ کر مزے مزے کے کھانے کھاتے ہیں اور ڈھیروں باتیں کرتے ہیں۔اور ایک میں ہوں جو اپنے ماں باپ،بہن بھائیوں سے سینکڑوں میل دور ہوں اور اپنی زندگی کے دن گن گن کر گزار رہا ہوں۔تاجر غلام کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتا تھا۔کیونکہ اس نے غلام کو پیسے دے کر نہیں خریدا تھا بلکہ اس کے کسی دوست نے اسے تحفہ کے طور پر غلام دیا تھا۔پھر تاجر نے غلام سے سوال کیا کہ تم اپنی غلامی کی زندگی کب سے گزار رہے ہو؟آقا سے مخاطب ہو کر کہنے لگا”ایک دن میں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل تھا اور جنگل میں ہرن پکڑنے کی غرض سے چلا گیا۔اس دن سخت گرمی تھی۔ایک پیاسا ہرن پانی کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔میں نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر اس کے پیچھے اپنا گھوڑا دوڑانا شروع کر دیا۔یوں میں نے اپنے تمام تیر ہرن پکڑنے میں استعمال کر دیئے۔ہرن بچ بچا کر دور نکل گیا لیکن میں اس بات سے بے خبر تھا کہ جہاں میں پہنچ چکا ہوں وہ بستی وہ جاگیر میرے وطن کی نہیں ہے۔شام کے سائے پھیلنے لگے تھے سورج مکمل طور پر غروب ہو چکا تھا۔دور یا نزدیک سے کوئی بھی چیز نمایاں نظر نہیں آرہی تھی۔پھر چند بدو لوگ میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے رسیوں سے جکڑ لیا۔چند روز انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھا اور اس کے بعد انہوں نے کسی کے آگے فروخت کر دیا۔اس طرح نا جانے میں کتنے ہاتھوں میں بکنے کے بعد آپ کے دوست کی ملکیت بن گیا۔پھر اس نے مجھے بطور تحفہ آپ کے حوالے کر دیا۔یہ تھی میری کہانی۔تاجر نیک دل اور سخی تھا۔اس نے غلام کی کہانی سننے کے بعد کہا”میں نے تمہیں آزاد کیا،میں نے تمہیں اللہ کی رضا کے لئے آزاد کیا“۔غلام نے آزادی حاصل کرنے کے بعد کہا۔جب میں اللہ کی یاد سے غافل تھا تو غلامی میرا مقدر بن گئی اور جب میں نے اللہ کا ذکر کثرت سے کیا تو اللہ پاک نے میری رہائی کا خود ہی انتظام کر دیا۔تاجر نے اپنے آزاد کئے ہوئے غلام سے کہا کہ سچ کہا تم نے میں بھی اب تک اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل تھا جو انسانوں کی تجارت کو وسیلہ رزق سمجھ بیٹھا تھا۔اب جب تم نے مجھے اللہ کے خلاف کا احساس دلا ہی دیا ہے تو میں اللہ کی رضا کے لئے اپنے تمام غلام آزاد کرتا ہوں۔غلام کی بات پر تاجر پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے اللہ کی رضا کے لئے اپنے تمام غلام آزاد کر دیئے۔اب ہر وقت تاجر اللہ کی یاد میں رہنے لگا تھا۔وہ دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر آخرت کی فکر میں لگ گیا تھا۔اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہ کا شاہی محل بھی بن چکا تھا۔بادشاہ نے اپنے محل کی پرانی عمارت کو مرمت کروانے کے بعد مدرسہ کے لئے وقف کر دیا تھا۔یوں ملک میں تعلیم کا نظام عام ہو گیا۔سچ ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور انسان اپنے عمل سے " راہِ حق - تحریر نمبر 2051,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rah-e-haq-2051.html,"ریاض احمد جسٹسیہ قدیم زمانے کی بات ہے کسی ملک میں ایک بادشاہ ہوتا تھا۔اس بادشاہ کا شاہی محل بہت پرانا ہو چکا تھا اور وہ نیا محل بنانے کی فکر میں دن رات پریشان رہنے لگا تھا۔ایک دن وزیر نے موقع دیکھ کر کہا بادشاہ سلامت کیا میں آپ سے پریشان رہنے کی وجہ معلوم کر سکتا ہوں؟ بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ آپ تو جانتے ہی ہیں یہ محل ہمارے بزرگوں نے بنایا تھا اس کی خستہ حالت دیکھ کر ہمیں کچھ خوف سا محسوس ہونے لگا ہے ۔شائد اب یہ کسی بھی وقت گر سکتا ہے۔ہمارا خیال ہے کہ اسے گرا کر اسی جگہ پر نیا محل تعمیر کروایا جائے۔وزیر نے بادشاہ کی بات غور سے سن کر جواب دیا کہ بادشاہ سلامت ہمیں اس محل کو گرانے کی کیا ضرورت ہے ہم کسی دوسری جگہ پر بھی تو نیا محل بنوا سکتے ہیں پھر آپ کی یہ بزرگوں کی نشانی بھی اپنی جگہ محفوظ رہے گی۔(جاری ہے)بادشاہ وزیر کی بات سن کر خوش ہو گیا۔اگلے دن بادشاہ نے ایوان میں اپنے سبھی مشیروں اور وزیروں سے مشاورت کی جہاں سب نے بادشاہ کی بات پر اتفاق کرتے ہوئے کہا عالی جاہ!یہ آپ کا حق ہے نیا محل ضرور بننا چاہیے۔پھر بادشاہ نے کہا کہ پورے ملک میں اعلان عام کر دیا جائے جو شخص بادشاہ کے شاہی محل کا خوبصورت نقشہ کم از کم مدت میں تیار کرے گا اور اگر بادشاہ کو اس کا بنایا ہوا نقشہ پسند آگیا تو پھر اسے بادشاہ اپنا خاندانی شاہی گھوڑا انعام میں دے گے۔یہ انعام دولت حاصل کرنے سے کئی گنا زیادہ تھا۔سومنادی کے اعلان کرنے کے باوجود کوئی ایسا آدمی سامنے نہیں آیا جو بادشاہ کی بتائی ہوئی شرط پر پورا اتر سکے۔اس طرح وقت گزرتا رہا۔بادشاہ کی خواہش اب حسرت میں بدلنے لگی تھی۔پھر ایک دن وزیر نے بادشاہ کو بتایا کہ بادشاہ سلامت ایک شخص ایسا ہے جو آپ کی بتائی ہوئی شرط پر پورا اتر سکتا ہے لیکن وہ اس وقت کسی بڑے تاجر کے پاس غلام بن کر اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔بادشاہ کے لئے ایک غلام خرید کر آزاد کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔بادشاہ نے فوراً حکم دیا کہ تاجر کو اس غلام کی منہ مانگی قیمت ادا کی جائے پھر غلام کو آزاد کروانے کے بعد اسے شاہی لباس پہنا کر عزت کے ساتھ ہمارے سامنے حاضر کیا جائے۔بادشاہ کے حکم کے مطابق وزیر اس تاجر کے پاس چلا گیا لیکن تاجر نے اپنا غلام آزاد کرنے سے انکار کر دیا۔جبکہ وزیر نے تاجر سے کہا”اس غلام کے بدلے میں آپ اور غلام بھی لے سکتے ہیں یا پھر منہ مانگی قیمت حاصل کرنا آپ کا حق ہے“لیکن تاجر نہ مانا۔بادشاہ وزیر کے واپس لوٹنے کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔وزیر نے حاضر ہو کر بادشاہ کو بتایا کہ بادشاہ سلامت تاجر اپنا غلام کسی بھی قیمت پر آزاد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔وزیر کی بات مکمل ہوتے ہی دربار میں ہلچل مچ گئی۔بادشاہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور دربار میں موجود ایک وزیر بادشاہ سے کہنے لگا عالی جاہ!تاجر کی نافرمانی کی سزا تجویز کی جائے۔دوسرے وزیر نے کہا جو شخص بادشاہ کی نافرمانی کرے اسے اس ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔تیسرے وزیر نے کہا جو شخص بادشاہ کا ادب و احترام نہیں کرتا اسے تو زندان میں ڈال دینا چاہیے۔پھر وزیر خاص نے بادشاہ سے اجازت طلب کرنے کے بعد کہا کہ میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔بادشاہ نے اسے بولنے کی اجازت دی تو اس نے کہا”عالی جاہ!ملک میں اچھے سے اچھا کام کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔بس انہیں ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔اگر ایک شخص اپنا غلام آزاد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو کیا ہوا اس سے نہ تو آپ کی شان میں کوئی کمی آئے گی اور نہ ہی تاجر کا مرتبہ بلند ہو گا۔ ہمیں کسی بھی اجنبی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے پہلے ایک بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے جیسا کہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:”ہمیں دوستی کا آغاز تحفہ دینے سے کرنا چاہیے،اس سے محبت بڑھتی ہے اور دوسرے فریق کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ تحفہ قبول کرے“۔بادشاہ وزیر خاص کی بات سن کر خوش ہو گیا۔اس نے کہا کہ آج وزیر خاص نے ہمیں بہت بڑی غلطی کرنے سے بچا لیا ہے ۔ ورنہ ہم ضرور کچھ غلط کر بیٹھتے۔انسان کا رویہ ہی اس کی اصل پہچان ہے۔(جاری ہے) " بہترین دوست - تحریر نمبر 2050,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/behtareen-dost-2050.html,"محمد حسیب،سکھرحسن پانچویں جماعت کا طالب علم تھا اور جماعت کے ذہین لڑکوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔اسے کتابیں پڑھنے کا انتہائی درجے کا شوق تھا۔آج حسن جب جماعت میں داخل ہوا تو استاد سبق پڑھاتے ہوئے دوستوں کی خصوصیات بتا رہے تھے کہ اچھے دوستوں کی کیا کیا نشانیاں ہوتی ہیں مثلاً وہ اچھے مشورے دیتے ہیں۔ہمیشہ ساتھ نبھاتے ہیں۔بُرے وقت میں کام آتے ہیں۔نیکی کرتے ہیں اور نیکی کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ استاد نے جماعت کے تمام طلبا کو گھر کا کام دیا کہ وہ کل دوست عنوان سے مضمون لکھ کر لائیں۔جو سب سے اچھا مضمون لکھ کر لائے گا،اسے انعام دیا جائے گا۔دوسرے دن جماعت کے تمام بچے دوست پر مضمون لکھ کر لائے کسی نے اپنے دوست پر مضمون لکھا کہ میرا دوست ایسا لڑکا ہے۔(جاری ہے)نماز پڑھتا ہے اور پڑھنے کی ترغیب دیتا ہے۔کاشف نے زاہد نامی دوست پر مضمون لکھا کہ زاہد کا جیسا نام ہے ویسا کام ہے۔بہت پرہیز گار ہے وعدہ پورا کرتا ہے،خوش اخلاق ہے اور غریبوں کی مدد کرتا ہے۔حسن کا مضمون سب سے الگ تھا۔حسن نے لکھا:”میرا کوئی ایک نہیں بلکہ بہت سارے دوست ہیں“۔یہ دوست میری کتابیں ہیں جو ہر موقع پر میری رہنمائی کرتی ہیں۔جب مجھے کسی بات کا علم نہیں ہوتا،مجھے علم عطا کرتی ہیں۔جب میں کچھ سوچتا ہوں تو میری سوچ کو حقیقت کا روپ دینے میں مدد کرتی ہیں۔انسان کی خدمت کرنے کا درس دیتی ہیں۔میرے دوستوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے،جو سوتے وقت بھی میرے سرہانے ہوتی ہیں۔ان دوستوں کی وجہ سے میں یہ مضمون لکھ سکا ہوں۔وہ مجھ سے پیار کرتی ہیں۔میں ان سے پیار کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ میری اور ان کی دوستی سلامت رکھے۔آمینسر ایاز نے جب حسن کا مضمون سنا تو حسن کو پاس بلا کر شاباش دی اور بہترین مضمون قرار دے کر ایک کتاب بطور تحفہ عنایت کی۔کتاب دیکھ کر حسن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی،کیونکہ اس کے دوستوں میں ایک اور اضافہ ہو گیا تھا۔ " دو بیل اور شیر کی کہانی - تحریر نمبر 2049,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/do-bail-aur-sher-ki-kahani-2049.html,"کسی جنگل میں دو بیل رہتے تھے ایک لال اور ایک سفید جن کی آپس میں گہری دوستی تھی۔ایک ساتھ گھومنا پھرنا اور چرنے کے لئے بھی ایک ساتھ آنا جانا۔ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا،اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے۔شیر نے ایک چال چلی لال بیل سے چکنی چپڑی باتیں کرکے اور روشن مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا لال بیل اس کی باتوں میں آگیا کہ بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر کی دوستی زیادہ محفوظ نظر آرہی تھی۔لال بیل جب شیر سے مل گیا اور سفید بیل اکیلا رہ گیا تو چند دنوں کے بعد شیر نے اس کے شکار کا پروگرام بنایا اور اس پر حملہ کر دیا۔(جاری ہے)پہلے تو دونوں مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے مگر اب اکیلے بیل کیلئے شیر کا مقابلہ مشکل ہو گیا۔سفید بیل نے اپنے ساتھی بیل کو بہت پکارا،بہت آوازیں دیں،پرانی دوستی کے واسطے دیے اور بیل ہونے کے ناطے بھائی چارے کا احساس دلایا،مگر شیر کی دوستی کے نشے سے سرشار لال بیل ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنی برادری کے ایک فرد کو شیر کے ہاتھوں چیر پھاڑ کا شکار ہوتا دیکھتا رہا۔وہ آج بہت خوش اور مطمئن تھا کہ شکر ہے میں اس کے ساتھ نہیں تھا ورنہ آج میرا کام بھی اس کے ساتھ ہی تمام ہو جاتا۔تھوڑے دن گزرے کہ شیر نے اسے بھی شکار کرنے کا پروگرام بنا لیا۔جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باشندوں کو یہ پیغام دیا کہ․․․(میں تو اُسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا)۔ " لومڑی کی پیشن گوئی(دوسری اور آخری قسط) - تحریر نمبر 2047,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lomri-ki-peshan-goi-2047.html,"لومڑی بولی،ہائے افسوس!معلوم ہوتا ہے کہ کل آپ جنگل میں نہ تھے اسی وجہ سے آپ کو ابھی تک خبر نہ ہوئی۔آج صبح جنگل میں قیامت کاسا سماں تھا۔کل تمام درندے پرندے اور چرندے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے شیر کو بادشاہت سے ہٹا دیا اور وہ بھی جنگل سے بھاگ گیا۔ بات یہ ہے کہ شیر بڑا خبیث ہو گیا تھا۔ہر ایک پر ظلم اور جبر کرتا تھا۔بالآخر تمام جانوروں نے یکا کر لیا اور اسے بادشاہت سے ہٹا دیا۔پھر نیا بادشاہ مقرر کرنے کے لئے رائے طلب کی گئی کہ کسے اپنا حاکم اور رئیس مقرر کیا جائے تمام جانور بولے ہمارا حاکم اور رہنما بندروں میں سے چنا جائے۔بندر بولا میرے خیال میں یہ درست نہیں ایک بندر کتنا ہی ہوشیار اور سیاست کا ماہر کیوں نہ ہو وہ تمام جانوروں پر اپنا حکم چلانے کے لائق نہیں ہوتا ہم بندر یقینا اس قابل ہیں کہ ہر کام خوب انجام دیں مگر سیاست کرنا ہماری دسترس سے باہر ہے میں اس کام کے لائق نہیں ہوں۔(جاری ہے)جانوروں کا بادشاہ کسی ایسے شخص کو ہونا چاہئے جس کی سوجھ بوجھ تمام جانوروں سے زیادہ ہو اور اس کا بس ہر ایک پر چل سکے۔لومڑی بولی:میں آپ سے التجا کرتی ہوں کہ آپ مان جائیں۔جب سب جانور راضی ہیں تو اس میں برائی کیا ہے۔آج کے دن ظلم وستم اور دھونس اور دھاندلی رخصت ہوئے اور جب سب نے اظہار رائے کیا اور خود ہی ایک شخص کو چن لیا تو اس کی حمایت بھی یقینا کریں گے۔پھر یہ بھی ہے کہ بندروں کی ذہانت سب سے بڑھ کر ہے۔وہ انسانوں کی زبان بہتر سمجھتے ہیں،درختوں کی چوٹی تک جا پہنچتے ہیں،ہنر مند اور ذہین ہیں اور پھر ظلم اور اکڑ بازی تو کسی کو اچھی نہیں لگتی۔جانور ایسا رہنما چاہتے ہیں جو ظالم نہ ہو اور بندروں سے آج تک کسی نے بدی نہیں دیکھی۔پھر یہ بھی کہ بندروں کی جماعت نے آپ کا بیک آواز اور پورے اتفاق سے انتخاب کیا ہے اور اب وہ جنگل کے میدان میں جشن منا رہے ہیں۔انہوں نے میرے ذمے یہ کام لگایا کہ آپ کو اس خوشخبری سے آگاہ کروں اور التجا کروں کہ آپ جلد از جلد تشریف لے چلیں تاکہ حکومت کے کاروبار کو ترتیب دیا جا سکے۔آخر یہ کونسی اچھی بات ہے کہ آپ ذمہ داری قبول کرنے سے بچیں؟آپ کو ایثار سے کام لینا ہو گا،خدمت کرنا ہو گی۔سب حاضرین آپ کے منتظر ہیں۔میری درخواست ہے کہ آئیے چلیں۔بندر کو ابھی تک ان باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ اس کے دل میں حکومت کا لالچ پیدا ہو گیا تھا۔چنانچہ وہ بولا:کیا کہوں،مجھے نہیں معلوم۔لومڑی بولی:بس کام ہو گیا۔ان لمحوں کو غنیمت جانیے،جلدی کیجیے،آئیے چلیں۔بندر جو اس صورت حال سے خوش تھا،درخت سے نیچے اترا اور لومڑی کے ہمراہ چل پڑا۔وہ جس رستے سے آئے تھے،اسی طرف چل دیئے۔لیکن بندر ابھی تک شک کا شکار تھا گویا اسے لومڑی کی باتوں پر یقین نہ تھا۔چالاک لومڑی نے بندر کو مزید سوچنے کی فرصت نہ دی۔وہ باتیں کرتی جاتی تھی،بادشاہت اور حکومت کے بارے میں اظہار خیال کرتی جاتی تھی اور بندر کو نصیحت کرتی جاتی تھی کہ بادشاہت قبول کرنے کے بعد وہ ہمیشہ عدل و انصاف کو پیش نظر رکھے اور شیر کے ظلم و ستم کی تلافی کرے تاکہ اس کے عدل اور انصاف کے سائے تلے تمام جانور اللہ کا شکر بجا لائیں اور سکھ کا سانس لیں۔بس وہ اسی طرح چلتے گئے،چلتے گئے اور لومڑی مسلسل بولتی گئی اور جب وہ اس جگہ کے قریب پہنچنے لگے جہاں مچھلی پڑی تھی،لومڑی نے اپنی باتوں کے آخر میں کہا:میں ہمیشہ پیش گوئی کی قائل ہوں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فال اور پیش گوئی وغیرہ قصہ کہانی اور وہم پرستی ہے لیکن میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ پیش گوئی سچ ہے۔میرے والد مرحوم ہر چیز سے واقف تھے۔ان کے منہ سے کبھی نہ سنا کہ وہ فلاں بات نہیں جانتے۔وہ اگر کوئی بات کہتے اور دوسرا اس پہ یقین نہ کرتا اور دلیل طلب کرتا تو انہیں بڑا رنج ہوتا۔اس ضمن میں خود میرا تجربہ بھی یہ ہے کہ جب کبھی میں نے تہ دل سے نیت کی اور اپنے سارے حواس قائم رکھے تو کوئی ایسی صورت پیش آئی کہ پیش گوئی کا اچھا برا معلوم ہو گیا۔یہ کتنا اچھا ہو کہ اب اس کام کے بارے میں ہم فال لینے کا ارادہ کریں۔ہم یہ طے کریں کہ اگر ہمارے رستے میں کھانے کی کوئی عمدہ چیز نظر آجائے تو اسے نیک فال سمجھیں اور اگر کوئی چیر پھاڑ کرنے والا جانور نظر آئے تو اسے بری فال سمجھیں۔اس وقت آپ بھی اس فال کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کریں۔بندر بولا:”مجھے کچھ نہیں معلوم۔شاید تمہیں زیادہ علم ہے۔کہتے ہیں کہ لومڑیاں بڑی ہوش مند اور دانا ہوتی ہیں“۔اب وہ اس بساط کے قریب آگئے تھے جہاں مچھلی پڑی تھی۔لومڑی خوش ہو کر چلائی:واہ واہ!ہماری فال اچھی نکلی۔یہ ہے اس کی نشانی․․․․مچھلی․․․․․ایک تروتازہ مچھلی،خشک اور چٹیل بیابان میں!سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری فال کا حال خوب ہے۔اب اے عزیز بندر آپ کو اس مزیدار خوراک سے لذت لینی چاہیے اور آنے والے حالات سے مطمئن اور خوش ہو جانا چاہیے۔بندر کو یہ منظر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور وہ ہنستے ہوئے لومڑی سے گویا ہوا سچ کہا تم نے لیکن میری درخواست ہے کہ پہلے تم بسم اللہ کرو۔ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں اور خدا جو نعمت دے اسے مل کر کھائیں۔لومڑی بولی:یہ ناممکن ہے،سخت مشکل ہے کہ میں ایسی جسارت کروں۔یہ خوراک آپ کا حق ہے۔میں اسی میں خوش ہوں کہ میری فال پوری ہوئی۔ہم تو آپ کے نمک خوار ہیں۔میری التجا ہے کہ آپ اس لذیذ مچھلی کی طرف متوجہ ہوں اور پھر ہم آگے چلیں۔تمام جانور ہمارے انتظار میں ہیں۔بندر کی بھوک چمک اُٹھی تھی۔وہ فوراً مچھلی کی طرف لپکا۔اس نے ہاتھ بڑھایا کہ مچھلی کو اُچک لے لیکن ابھی اس کا ہاتھ مچھلی تک نہ پہنچا تھا کہ لکڑی اور پھندے نے اپنی جگہ سے حرکت کی اور بندر کے ہاتھ پاؤں جکڑے گئے اور جیسا کہ لومڑی نے قیاس کر رکھا تھا،وہ جال میں پھنس گیا۔اب لومڑی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔جال اپنا کام کر چکا تھا شکاری بھی ابھی نظر نہیں آرہا تھا۔لومڑی نے اس موقع کو غنیمت جانا وہ مچھلی کے قریب آئی اسے اُچک لیا اور کھانا شروع کر دیا۔بندر ابھی تک نہ سمجھ پایا تھا کہ یہ ساری میٹھی میٹھی باتیں اسی مچھلی کی خاطر تھیں،وہ لومڑی سے گویا ہوا یہ کیا ہوا؟میں کیسے جال میں آپھنسا اور تو ہے کہ مزے اُڑا رہی ہے؟لومڑی بولی ہاں ہاں ہر کسی کو اپنے عمل کا حساب کرنا چاہئے۔بادشاہت کا نتیجہ کبھی کبھی یوں بھی نکلتا ہے تم جال میں پھنس گئے کیونکہ تم نے مچھلی دیکھی مگر جال نہ دیکھا میں اس مچھلی کو کھا کھا کر مزے لے رہی ہوں کیونکہ میں ہر کام میں اپنے ہوش و حواس قائم رکھتی ہوں اور آنکھیں کھول کر چلتی ہوں․․․لو میں چلی۔ " بندر کی شرارت - تحریر نمبر 2046,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bandar-ki-shararat-2046.html,"روبا انور شہزاد،نارتھ کراچیزمان ہاؤس کے سب گھر والے بہت پریشان تھے۔گھر کے کچن سے روز کھانے پینے کا سامان غائب ہو رہا تھا۔انڈے،دودھ،مکھن،ڈبل روٹی وغیرہ شام تک تمام چیزیں فریج میں ہوتیں،صبح دیکھتے تو ہر چیز غائب ہوتی۔سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کون چرا رہا ہے اور وہ بھی صرف کھانے کی چیزیں۔چور جو کوئی بھی ہے وہ جنگل کی طرف سے آتا ہے کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ گھر کی سب چیزیں سلامت ہیں تو یقینا وہ بھوکا چور ہے،مگر چوری کیسے کر رہا ہے،یہ پتا کرنا ہے۔بڑے بھیا،ٹونی،منٹو،ایمان سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور اس مسئلے کا حل سوچنے لگے۔آخر ایک ترکیب پر سب متفق ہو گئے۔سب تیاریاں مکمل ہو گئیں۔اب رات ہونے کا انتظار تھا۔رات کو چاروں اپنے کمروں میں سکون سے سو گئے کہ صبح یہ راز فاش ہو جائے گا کہ چور کون ہے۔(جاری ہے)صبح ہی صبح ٹونی نے سب کمروں کے دروازے دھڑ دھڑائے اور اعلان کیا کہ آج چور کا نقاب اُلٹنے کا دن آپہنچا ہے تو نہایت موٴدبانہ گزارش ہے کہ تمام اہل خانہ لاؤنج میں جمع ہو جائیے تا کہ سب لوگ چور کی شکل سے لطف اُٹھا سکیں۔شکریہ۔ٹونی کا اعلان سن کر سب لاؤنج میں پہنچے جہاں ٹونی پہلے سے بڑے بھیا کا لیپ ٹاپ لے کر صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔کل رات ان چاروں نے چور کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لئے کچن میں کیمرے لگا دیے تھے،جس کی ویڈیو ٹونی سب کو دکھانے والا تھا۔ویڈیو چلنی شروع ہوئی تو دو منٹ گزرنے کے بعد بھی کچن میں کوئی ہلچل دکھائی نہ دی تو پاپا کہنے لگے:”بیٹا!کوئی فائدہ نہیں چور بہت ہوشیار ہے وہ لگتا ہے کل آیا ہی نہیں۔“ایمان بولی:”نہیں پاپا!کل بھی چور آیا تھا،کیونکہ صبح فریج خالی تھا،یکایک آوازیں آنا شروع ہوئیں سب متوجہ ہو گئے دیکھتے ہی دیکھتے کچن کی کھڑکی کھلی اور سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ویڈیو رکارڈنگ میں سب نے دیکھا کہ پہلے ایک بڑا بندر روشن دان کے راستے باورچی خانے میں کودا۔اس کے پیچھے دو چھوٹے بندر اور بھی تھے۔آہستہ سے وہ فریج کی طرف بڑھے۔پہلے بڑے بندر نے دودھ کا جگ نکالا اور منہ لگا کر پی گیا۔دوسرے بندر کو مکھن اور تیسرے بندر کو کیلے دیے اور انڈے اُٹھا کر روشن دان کی طرف اُچھلے اور ہاتھ بڑھا کر باہر کسی بندر کو دیے۔سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کوئی بندر اس طرح بھی چوری کر سکتا ہے،لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یقین آہی گیا۔ تھوڑی دیر میں فریج پورا خالی ہو گیا سبزی،پھل سب چیزیں بندروں نے ہڑپ کر لیں اور چلتے بنے اور جاتے وقت روشن دان بند کرنا نہیں بھولے۔آخر یہ معاملہ حل ہو ہی گیا۔زمان ہاؤس جنگل سے قریب تھا،جس کا فائدہ بندروں نے خوب اُٹھایا۔سب گھر والوں نے طے کیا کہ روشن دان کو مستقل بند کر دیا جائے،کیونکہ نہ تو تھانے میں رپورٹ ہو سکتی ہے اور نہ ہی انھیں سزا دینے کا کوئی قانون ہے۔ " اردو ہماری زبان - تحریر نمبر 2045,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/urdu-hamari-zuban-2045.html,"سید سبطین احمد،کورنگیاردو ایک زندہ زبان ہے اور زندہ زبان کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وقت اور زمانے کے ساتھ اس میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔اردو مغلیہ عہد میں پھلی پھولی۔وہیں اس کو عروج حاصل ہوا جو بہت کم زبانوں کو نصیب ہوا۔اردو سے پہلے برصغیر میں فارسی کے ساتھ ہندی بولی جاتی تھی،لیکن یہ عروج اس کو کبھی حاصل نہ ہو سکا۔اردو ہماری قومی زبان ہے اور آج بھی دنیا کی تیسری سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔اردو کو خدا نے ایسے ادیب و شعرا عطا کیے،جنھوں نے اس کو زندگی بخشی۔ان میں ولی دکنی،میرتقی میر،مرزا ادیب،سودا،ابراہیم،ذوق وغیرہ کے نام بہت نمایاں ہیں۔ہمارے ہاں اردو زوال کا شکار ہے۔اس کی اہمیت میں دن بدن کمی آرہی ہے،آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ایک دور تھا جب داغ دہلوی نے یہ شعر کہا تھا:اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغسارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہےلیکن پھر ایک وقت آیا کہ انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کر لیا اور پھر جہاں ہماری تہذیب کو نقصان پہنچا وہیں اردو کے راستے میں بھی رکاوٹ پیدا ہوئی۔(جاری ہے)انگریزوں نے ہر طرح سے انگریزی کو فوقیت دی۔بعد میں انگریز تو برصغیر چھوڑ گئے،لیکن آج بھی ہم ذہنی طور پر ان کے غلام ہیں،جو غلامی کی بدترین شکل ہے۔آج بھی کچھ لوگ ہمارے معاشرے میں ایسے پائے جاتے ہیں جو انگریزی کو علم کا پیمانہ سمجھتے ہیں کہ جو جتنی اچھی انگریزی بولے گا،وہ اتنا بڑا دانشور ہو گا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی صرف ایک زبان ہے جیسے اردو۔اس میں البتہ کوئی شک نہیں کہ انگریزی زبان نے دنیا کے بہت سے علوم کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔زبان کی ترقی اور تنزلی اس کو بولنے والے یعنی اہلِ زبان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔اب ہم کیا کر سکتے ہیں اردو کی ترقی کے لئے؟میں ایک سچی مثال پیش کرتا ہوں:میرے خالہ زاد بھائی اظہر اعلیٰ تعلیم کے لئے چین گئے،پہلے ایک سال انھوں نے صرف چینی زبان سیکھی،جب وہ واپس آئے تو میں نے پوچھا:”اظہر بھائی!وہاں تو ابتداء میں آپ کو بہت مشکل ہوئی ہو گی؟“انھوں نے جواب دیا:”بہت!وہاں کسی کو انگریزی آتی ہی نہیں اور اگر کسی کو آتی بھی ہے تو وہ شرم کے مارے نہیں بولتا۔“یہ ہوتی ہے زندہ اقوام کی پہچان وہ اپنی زبان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور اپنی زبان و تہذیب پر کسی اور زبان اور تہذیب کو فوقیت نہیں دیتے۔آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان بھی چینی ہے۔جب کہ دوسرا نمبر انگریزی کا ہے،اس کے بعد اردو کا نمبر ہے۔کچھ عرصہ قبل اردو کو پاکستان کی دفتری زبان کا درجہ بھی دے دیا گیا۔اب ہماری ذمے داری ہے کہ ہم فروغ اردو کے لئے کوشش کریں،اردو بولیں،لکھیں،پڑھیں اور اس پر فخر محسوس کریں۔اردو کے ساتھ ساتھ اپنی مادری اور علاقائی زبانوں سے محبت کرنا اور انھیں سیکھنا بھی ایک قابل قدر کام ہے۔اردو کی ترقی جب ہی ممکن ہے جب پوری قوم مل کر کوشش کرے۔ " لومڑی کی پیشن گوئی - تحریر نمبر 2044,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lomri-ki-peshan-goi-2044.html,"ایک تھی لومڑی جو دوسری تمام لومڑیوں کی طرح چالاک اور عیار تھی اور چونکہ اتنی طاقت نہ رکھتی تھی کہ شیر اور چیتے کی طرح شکار کر سکے اس لئے ہمیشہ چکنی چپڑی باتوں اور مکر و فریب کے ساتھ پرندوں اور چھوٹے جانوروں کو اپنے جال میں پھنساتی،میٹھی میٹھی باتوں سے اُن کی قربت حاصل کرتی اور پھر اچانک انہیں دبوچ کر ہڑپ کر جاتی۔ایک روز یہ لومڑی صحرا کے وسط سے گزر رہی تھی اور اپنے دل میں سوچ رہی تھی۔آج میں نے کچھ نہیں کھایا۔کڑاکے کی بھوک لگی ہے مجھے چاہئے کہ اپنے ہوش و حواس قائم رکھوں اور اگر میرا سامنا کسی خرگوش،چکور،پرندے،مرغے یا کسی اور جاندار سے ہو جائے تو مجھے ایسا حیلہ کرنا چاہئے کہ وہ مجھ سے خوف کھا کر بھاگ نہ لے۔لومڑی یہ سوچتی ہوئی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔(جاری ہے)وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ کسی جانور کو جو اس کی خوراک کے لائق ہو،پھانس لے تو اسے کیا تدبیر کرنی چاہئے اور کس طرح کی گفتگو کرنی چاہئے کہ وہ اس کے نزدیک آجائے۔اچانک اس نے رستے میں ایک عجیب و غریب چیز دیکھی۔رستے کے عین درمیان مٹھی بھر گھاس بکھری ہوئی تھی اور اس کے آس پاس لکڑی کا ایک ٹکڑا اور رسی کا ایک حصہ پڑا تھا اور ان کے درمیان ایک تازہ مچھلی نظر آرہی تھی․․․․ایک موٹی تازی مچھلی!لومڑی پہلے تو یہ سمجھی کہ بھوک کی شدت کے باعث اس کی آنکھیں کچھ سے کچھ دیکھ رہی ہیں اور مچھلی کہیں موجود نہیں لیکن وہ تھوڑا سا آگے بڑھی اور غور سے دیکھا تو واقعی ایک مچھلی وہاں موجود تھی اور اس کی بُو اس کے دماغ میں گھسی چلی آرہی تھی۔اگر کوئی گوشت خور جانور ہوتا تو فوراً لپکتا اور مچھلی کو ہڑپ کر جاتا لیکن لومڑی بھوکی ہونے کے باوجود اسی جگہ کھڑی رہی اور سوچتی رہی اچھا اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مچھلی موجود ہے،مچھلی کا گوشت بڑا لذیذ ہوتا ہے لیکن میرے لئے یہی سمجھنا ضروری ہے کہ اس جگہ مچھلی آئی کہاں سے؟یہاں دریا کا کنارہ بھی نہیں کہ کہا جائے کہ مچھلی اُچھل کر باہر آپڑی ہو اور ہلاک ہو گئی ہو۔مچھلی فروش کی دکان بھی یہاں نہیں،باورچی خانہ بھی یہاں دکھائی نہیں دیتا۔پھر یہ بھی کہ مچھلی کوئی صحرائی جانور نہیں کہ اپنے پاؤں چل کر یہاں آگئی ہو لہٰذا اس صحرا میں مچھلی کے ہونے کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ لکڑی اور ریتی شکار کا جال ہیں اور یہ مچھلی کسی شکاری نے یہاں لا ڈالی ہے اور خود کسی کونے کھدرے میں چھپ گیا ہے تاکہ کسی لالچی جانور کو اپنے دام میں پھنسا لے یا یہ کہ کسی ماہی گیر نے دریا سے ڈھیر ساری مچھلیاں پکڑیں اور اس رستے سے جاتے ہوئے یہ مچھلی اس کے پشتارے سے گر پڑی اور اسے پتا نہ چلا۔بہرحال خطرہ موجود ہے سو مچھلی کھانے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے۔دراصل لومڑی کچھ عرصہ پہلے دیکھ چکی تھی کہ کیسے اچانک شکاری کے جال میں حرکت ہوئی تھی اور اس کی ایک سہیلی پھندے میں آگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے آپ سے عہد کیا تھا کہ وہ ایسی چیزوں کے پکڑنے اور کھانے میں جلد بازی نہیں کرے گی جن کی اصل حقیقت اسے معلوم نہ ہو گی۔آج بھی اس نے اپنے دل میں کہا سردست تو اس صحرا میں کوئی نظر نہیں آتا کہ مچھلی کو لے کر بھاگ کھڑا ہو لہٰذا بہتر یہی ہے کہ مچھلی کو یہیں چھوڑ کر اصل صورتحال کا کھوج لگاؤں۔یہ بھی ممکن ہے کہ مجھے ایسی خوراک مل جائے جو اس جیسی ہو۔لومڑی نے مچھلی کو اسی طرح چھوڑا اور آگے بڑھنے لگی۔وہ کافی دور تک چلتی گئی مگر اسے کوئی شکار ہاتھ نہ آیا حتیٰ کہ دور سے اسے ایک بندر دکھائی دیا جو اسی رستے سے چلا آرہا تھا۔لومڑی جانتی تھی کہ بندر کو کھانا ناممکن ہے لیکن اسے اتنا معلوم تھا کہ ہر کسی کو میٹھی باتوں اور نرم گوئی سے دھوکا دیا جا سکتا ہے۔بندر کو دیکھ کر اس کے دل میں اچانک ایک خیال آیا اور اس نے اپنے آپ سے کہا جو چالاکی کی بھی مجھ سے بن پڑے مجھے بندر کو مچھلی کی بساط تک لے جانا ہو گا تاکہ میں اس کے بھید سے آگاہ ہو سکوں۔یہ سوچ کر اس نے اپنی چال چلنا شروع کر دی۔وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی اور اس کی پشت کی طرف ہو کر صدا بلند کی۔میاں بندر ذرا رکیے مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ایک لمحے کو ٹھہریے!بندر نے اپنا منہ موڑا اور جونہی لومڑی کو دیکھا،دوبارہ آگے بڑھنے لگا۔جب وہ ایک درخت کے نزدیک پہنچا تو اس پر چڑھ گیا اور ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔لومڑی بھی درخت کے نزدیک چلی آئی اور اس کے بالمقابل کھڑی ہو کر لگی تیز تیز باتیں کرنے قربان جاؤں،سلام عرض کرتی ہوں، میں نہیں جانتی خدا کا کیسے شکر بجا لاؤں کہ آپ سے یہاں ملاقات ہو گئی میں کتنی خوش نصیب ہوں کہ آج بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی اور آپ کی خدمت میں پہنچ پانے کی عزت مجھے مل گئی۔یقین کیجئے آج میں نے آپ کی تلاش میں تمام صحرا کی خاک چھانی تب جا کر یہاں پہنچی۔شکر خدا۔اب میری درخواست ہے کہ آپ جلدی کریں وقت کم رہ گیا ہے نیچے آئیے میری خواہش اور آرزو ہے تمام لوگ آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔بندر کو یہ باتیں سن کر بڑی حیرت ہوئی اس نے جواباً کہا مجھے نہیں معلوم تم کیا چاہتی ہو ان باتوں سے تمہارا مقصد کیا ہے؟لومڑی بولی آخر تمام جانور جنگل کے میدان میں اب جمع ہیں اور آپ کے تشریف لانے کے منتظر ہیں مہربانی کریں!آئیے ہم جلد لوٹ آئیں گے۔رستے میں بات چیت کریں گے۔بندر بولا جانور!میرے تشریف لانے کے منتظر ہیں؟آخر کس لیے؟کیا مقصد ہے؟یقینا تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔مجھے جانوروں سے کیا لینا دینا؟ " جشن نو بہار - تحریر نمبر 2043,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jashn-e-nou-bahar-2043.html,"صدف جاوید،کراچیٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔بہار کا موسم وادی نو بہار میں خوشی کا پیغام لایا تھا۔جنگل کا بادشاہ کافی عرصے بیمار رہنے کے بعد صحت یاب ہوا۔سارے جانور اسے صحت مند دیکھ کر خوش تھے۔شیر نے دھاڑ کر اپنی صحت یابی کا اعلان کیا۔اسی خوشی میں جشن منانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔جشن کی صبح کا آغاز پرندوں نے اپنے سریلے گیت سے کیا۔پھر مور نے اپنے خوبصورت ناچ سے سب کا دل لبھایا۔اس کے بعد بھالو میاں کی باری آئی۔انھوں نے ایسے مزے مزے کے لطیفے سنائے کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بَل پڑ گئے۔آخر بی لومڑی کو کہنا پڑا:”بس کریں بھالو میاں!اب دوسروں کو بھی اپنا کمال دکھانے کا موقع دیں۔پھر جانوروں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ شروع ہوا۔(جاری ہے)جس میں ہرن،کتے اور بکرے نے اول،دوم اور سوم انعام حاصل کیا۔تقسیم انعامات کے بعد شیر کو پھلوں اور پھولوں کی نمائش دیکھنے جانا تھا،جہاں سب بے چینی سے اس کی آمد کے منتظر تھے۔اچانک ایک دھماکا ہوا اور فضا دھندلی ہو گئی۔جشن افراتفری کا شکار ہو گیا۔سارے جانور جان بچا کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔پھول اور پھل زمین پر گر پڑے اور روندے جانے لگے۔ایسے میں شیر نے سب کو نظم و ضبط کے ساتھ رہنے کے لئے کہا۔”ایسی حالت میں کون ایک جگہ صبر سے کھڑا رہ سکتا ہے۔“مرغا یہ کہتے ہوئے بکرے کے ساتھ بھاگ رہا تھا کہ شیر کی گونج دار دھاڑ نے ٹھہرنے پر مجبور کر دیا۔فضا میں دھندلاہٹ کم ہوئی تو منظر صاف ہونے لگا۔شیر نے اردگرد نظر دوڑائی تو منکو بندر زخمی حالت میں پڑا نظر آیا۔اس کے ساتھ ہی سدا بہار کا پودا جھلسا ہوا تھا۔شیر نے حکیم گیدڑ کو ان کی مرہم پٹی کے لئے کہا۔سب ہی دھماکے پر حیران پریشان تھے۔ٹنکی بندریا نے جان کی امان پاتے ہوئے عرض کیا:”منکو اکثر انسانوں کی دنیا میں جاتا ہے۔وہیں اس نے جشن کے دوران آتش بازی کا مظاہرہ دیکھا تو اس نے بھی جشن کے لئے یہ سامان خرید لیا۔جس وقت آپ نمائش کے لئے جانے والے تھے،اس وقت وہ اسی فن کا مظاہرہ کرنے والا تھا،مگر ناسمجھی کی وجہ سے وہ منکو کے ہاتھ میں ہی پھٹ گیا۔پھر جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔شیر نے ٹنکی بندریا کی باتیں غور سے سنیں۔پھر منکو کو سمجھاتے ہوئے بولا:”نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔آتش گیر مادے انسان کے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔بسا اوقات انسان خود ہی اپنی بنائی ہوئی چیزوں کے ہاتھوں نقصان اُٹھاتا ہے۔اس فن کے مظاہرے کے لئے بہت مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا کوئی ماہر ہی کر سکتا ہے۔“منکو نے آئندہ کے لئے توبہ کی وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔شیر نے سب سے مخاطب ہو کر کہا:”ہمیں ایسی سرگرمیوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے جلنے،جھلسنے یا زخمی ہونے کا ڈر ہو۔ہمیں ہر مشکل گھڑی میں نظم و ضبط کے ساتھ متحد رہنا چاہیے۔“ " نقلی مچھیرے - تحریر نمبر 2042,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naqli-machirey-2042.html,"جاوید اقبالاکبر خان نے اپنی بکری کو پہاڑی سے پھسلتے دیکھا تو تیزی سے پتھروں کو پھلانگتا ہوا ڈھلوان پہ بھاگا۔بکری تو گرنے سے بچ گئی،مگر اکبر خان خود کو نہ سنبھال سکا۔اس کا پاؤں ایک جھاڑی سے اُلجھا اور وہ ڈھلوان پر پھسلتا ہوا دلدلی کیچڑ کی طرف لڑھکتا چلا گیا۔گرتے گرتے اکبر خان کا ہاتھ ایک جھکے ہوئے درخت کی ڈال پہ پڑ گیا یوں وہ دلدل میں گرنے سے بچ گیا وہ درخت کی شاخ کو مضبوطی سے تھامے ڈھلوان کی طرف کھسکنے لگا ڈھلوان پہ پہنچ کر اس نے شکر کا لمبا سانس لیا۔خوش قسمتی سے اسے چند معمولی خراشوں کے سوا کوئی اور چوٹ نہیں آئی۔اس نے کھڑے ہو کر چاروں طرف نگاہ دوڑائی،تاکہ اپنی بکریوں کو دیکھ سکے۔اسی وقت اس کی نظر ان دو آدمیوں پر پڑی جو لکڑی کا ایک بکس اُٹھائے جھاڑیوں میں چھپتے ہوئے پہاڑی غار میں داخل ہو رہے تھے،دونوں نے شہری لباس پہنا ہوا تھا۔(جاری ہے)”یہ کون لوگ ہیں؟یہ تو گاؤں کے نہیں لگتے۔“اکبر خان نے حیرانی سے زیر لب کہا۔وہ اپنی بکریوں کو بھول کر غار کی طرف چل پڑا اور اندھیرے غار میں داخل ہو گیا۔جب اس کی نظریں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو اس نے دیکھا کہ غار خالی تھا۔غار میں گھسنے والے شہریوں اور اس لکڑی کے بکس کا وہاں نام و نشان تک نہ تھا۔”یہ لوگ کہاں چلے گئے؟غار تو پیچھے سے بند ہے۔“اکبر خان نے خود سے کہا۔اس نے غار کا کونا کونا چھان مارا،مگر کچھ نظر نہ آیا۔اکبر خان اپنی بکریاں لے کر گھر لوٹنے لگا تو اس کی نظر دریا میں ایک کشتی پر پڑی،تین مچھیرے مچھلیوں سے بھری کشتی کھینچتے ہوئے دریا کی دوسری سمت جا رہے تھے۔دوسرے دن اکبر خان نے پھر ان دو آدمیوں کو غار میں داخل ہوتے دیکھا۔اکبر خان جلدی جلدی پہاڑی سے اُترا اور ان کے پیچھے غار میں داخل ہو گیا،مگر پہلے دن کی طرح آج بھی غار خالی تھا۔کسی ذی روح کا وہاں وجود نہ تھا۔”یا اللہ!یہ انسان ہیں یا بھوت کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟“اکبر خان سوچتا ہوا اپنی بکریاں لے کے گاؤں آگیا۔ساری رات وہ یہ واقعہ نہ بھلا سکا۔اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ یہ راز جان کر ہی چھوڑے گا۔دوسرے دن اس نے اپنی بکریاں گاؤں کے ایک ساتھی کی نگرانی میں چھوڑیں اور غار میں آکے چھپ گیا۔دوپہر کے قریب اس نے دونوں کو غار میں داخل ہوتے دیکھا اکبر خان جلدی سے ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں ہو گیا اور جھری سے دیکھنے لگا وہ لوگ ٹارچ لیے غار کے ایک کونے کی طرف گئے اور ایک خفیہ بٹن دبا دیا گھڑگھڑاہٹ کی آواز کے ساتھ غار کے فرش سے ایک پتھر سرک گیا اور نیچے شگاف نظر آنے لگا۔انھوں نے رسے کی مدد سے بکس شگاف سے نیچے لٹکا دیا۔نیچے سے کسی نے بکس پکڑ کر کھول لیا۔پھر ان دونوں نے کپڑے تبدیل کیے۔ اب وہ دونوں مچھیرے لگ رہے تھے۔پھر وہ بھی رسے کی مدد سے نیچے اُتر گئے۔اکبر خان نے پتھر کو پھر اپنی جگہ واپس آتے دیکھا۔شاید کسی نے نیچے سے بٹن دبا دیا تھا۔اکبر خان کچھ دیر وہیں چھپا رہا۔اسے یقین ہو گیا کہ اب وہ لوگ چلے گئے ہوں گے تو وہ اپنی پناہ گاہ سے نکلا اور غار کے کونے میں جا کر بٹن دبا دیا۔گڑگڑاہٹ کی آواز سے پتھر اپنی جگہ سے سرک گیا۔اکبر خان نے شگاف سے جھانکا تو نیچے دریا کا دھارا نظر آیا۔اب ساری صورت حال اکبر خان کے سامنے روز روشن کی واضح ہو چکی تھی۔یہ لوگ غیر قانونی طور پر کوئی چیز بکس میں چھپا کر لاتے تھے ۔ان کا تیسرا ساتھی جو شگاف کے نیچے کشتی لیے کھڑا ہوتا تھا وہ بکس وصول کر لیتا اور پھر تینوں مچھیروں کے روپ میں دریا پار اُتر جاتے۔اسسہ پہر اکبر خان قریبی پولیس چوکی میں بیٹھا پولیس کے افسروں کو ساری صورتحال بتا رہا تھا۔اگلے دن دونوں ملزم بکس لیے غار میں داخل ہوئے تو پولیس کا ایک دستہ ان کے استقبال کے لئے غار میں موجود تھا۔تھوڑی مزاحمت کے بعد دونوں مجرموں کو گرفتار کر لیا گیا۔پولیس کے دوسرے دستے نے ملزموں کے تیسرے ساتھی کو بھی دریا کے کنارے سے گرفتار کر لیا۔پولیس کی تفتیش سے پتا چلا کہ مجرم ہمسائے ملک کے تخریب کار تھے جو ملک میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور دھماکا خیز مواد اور اسلحہ اپنے مقامی ساتھیوں کو غار کے شگاف کے راستے مچھیروں کے روپ میں پہنچا رہے تھے۔ملکی سکوریٹی اداروں نے مجرموں کے مقامی سہولت کاروں کو بھی گرفتار کرکے تخریب کاری کا خطرناک منصوبہ ناکام بنا دیا۔قانون کی مدد کرنے اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر تخریب کاروں کو پکڑوانے پر اکبر خان کو بہادری کے اعلیٰ اعزاز سے نوازا گیا اور نقد انعام بھی دیا گیا۔ " سفارش - تحریر نمبر 2041,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sifarish-2041.html,"محمد سعد اسد،تونسہ شریف وہ ایک بڑی کمپنی میں منیجر تھا۔وہ آج جلد از جلد دفتر پہنچ گیا۔کمپنی کے لئے اسے ایماندار افراد کی ضرورت تھی۔بہت سے اُمیدواروں کا انٹرویو لیا،مگر کوئی اس کے معیار پر پورا نہ اُتر سکا۔آخری اُمیدوار اندر آیا۔اسے دیکھ کر ایسا لگا جیسے وہ پہلے بھی کہیں اسے دیکھ چکا ہے۔”السلام علیکم“اُمیدوار نے سلام کیا۔جواب میں وعلیکم السلام کہہ کر اس نے اُمیدوار سے نام پوچھا۔نام سن کر اس کے دماغ میں جھماکا سا ہوا۔یہ اس کا کلاس فیلو تھا،لیکن انجان بن کر اس نے اُمیدوار سے پوچھا:”رقم لائے ہو؟یا کوئی سفارش لائے ہو۔“”نہیں صاحب!یہ دونوں چیزیں میرے پاس نہیں ہیں۔حدیث میں ہے رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنم کا ایندھ ہیں اور اقربا پروری کرپشن کی ایک شکل ہے۔(جاری ہے)“افتخار نے اچھی خاصی تقریر کی اور پھر بولا:”معاف کیجیے گا سر!میں آپ کے نام سے واقف نہیں ہوں۔اگر․․․․“اس نے نام بتایا اور اُٹھ کر آنے والے کے قریب آگیا:”میرے دوست!گلے لگ جاؤ۔میں تمہارا وہی میٹرک والا دوست ہوں،جسے تم تحفے دیتے رہتے تھے،آج میں تم کو تحفہ دوں گا،یعنی میں فرم کے مالک سے تمہاری سفارش کر دوں گا۔“سفارش کا نام سن کر اُمیدوار کے قدم پچھلی سمت میں ہٹنے لگے:”ہر گز نہیں،اگر یہ میرا حق ہے تو مجھے مل جائے،ورنہ سفارش پر میں یہاں کام ہر گز نہیں کروں گا۔“منیجر نے خوشی سے بھرپور لہجے میں کہا:”یہ تمہارا امتحان تھا․․․․نہ صرف تمہارا بلکہ تمام اُمیدواروں کا۔جس میں صرف تم پورا اُترے۔یہ دوستی کا صلہ نہیں،بلکہ ایمانداری کا صلہ ہے۔“ " باتوں باتوں میں - تحریر نمبر 2040,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/batoon-batoon-mein-2040.html,"حمنہٰ محمد عقیل شاہ،کراچی”ارے بہن!تم تو جانتی ہو آج کل مہنگائی کتنی بڑھ گئی ہے۔آلو پیاز تک اتنے مہنگے ہو گئے ہیں۔“بلقیس باجی اپنی پڑوسن نسیمہ باجی سے باتیں کر رہی تھیں۔نسیمہ نے کہا:”ہاں بہن!تم ٹھیک کہتی ہو۔وہ کل․․․․“بلقیس بات کاٹ کر بولی:”ہاں بھئی کل ہی جب میں سبزی لینے بازار گئی تو ہر سبزی کے دام چڑھے ہوئے تھے۔بس مجبوری کے باعث تھوڑی سبزی لے ہی لی۔“بلقیس کہہ اُٹھی،کل میں نے بھی اپنے بیٹے کو آلو لینے بھیجا،اتنے مہنگے ہو گئے ہیں آلو اور تو اور․․․․ارے رہنے دو بہن!ہر چیز کے دام عروج پر ہیں۔ہم غریبوں کا تو کسی کو خیال نہیں ہے۔“یہ بلقیس باجی کے روز کا معمول تھا۔گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر دروازے میں کھڑی ہو جاتی کوئی بھی آس پڑوس کی عورت نظر آتی تو اس کے ساتھ باتوں میں لگ جاتی،بلکہ خود ہی بولتی رہتی اس بے چاری کو تو بولنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔(جاری ہے)آج بھی جب بلقیس کو نسیمہ باجی نظر آئی تو اس کو روک لیا اور باتیں شروع کر دیں۔بلقیس کے شوہر نے بھی اسے کتنی بار سمجھایا کہ اتنا نہیں بولنا چاہیے۔دوسروں کو بھی بات کرنے کا موقع دینا چاہیے،لیکن وہ کسی طور نہ بدلی۔ ایک دن بلقیس دوپہر کا کھانا بنا رہی تھی۔اس نے ٹماٹر اُٹھانے کے لئے فریج کھولا تو معلوم ہوا ٹماٹر تو نہیں ہیں۔اس نے سوچا پڑوسن سمعیہ سے ہی لے لیتی ہوں۔یہ سوچتے ہوئے وہ گھر سے نکلی اور دروازے کی کنڈی بھی نہیں لگائی کہ ابھی ایک منٹ میں ہی آجاؤں گی اور وہ سمعیہ کے گھر گئی اور بولی:”ارے سمعیہ!ذرا ایک ٹماٹر تو دینا۔“”ارے بلقیس باجی!ایک نہیں دو تین لے لیں بعد میں بھی ضرورت ہو گئی۔“سمعیہ بولی۔”نہیں بس ایک ہی دے دو،گرمی شدید ہے ورنہ اور بھی کچھ سبزی خریدنی تھی۔مارکیٹ تو جانا ہی ہے۔اتنی دھوپ میں باہر نکلوں گی تو بلڈ پریشر ہائی ہو جائے گا اور ڈاکٹر بھی اتنی گولیاں لکھ کر دے دیتے ہیں۔“اس طرح یہ داستان گفتگو چلتی رہی اور وہاں چوروں نے دروازہ کھلا ہوا دیکھ کر اپنا کام کر لیا۔جب ایک گھنٹے بعد بلقیس گھر پہنچتی تو کیا دیکھتی ہے کہ الماری کھلی ہے۔زیور غائب ہیں۔اتنا مہنگا ٹی وی بھی غائب ہے۔آج بلقیس کو اپنی عادت پر بہت غصہ آرہا تھا۔اگر ایک ٹماٹر لے کر واپس آجاتی یا کم از کم دروازہ ہی ٹھیک سے بند کر دیتی،مگر اب یہ سب سوچنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔بلقیس پریشانی سے صوفے پر بیٹھ گئی۔ " خوش نصیب پرندہ کون - تحریر نمبر 2039,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khush-naseeb-parinda-kon-2039.html,"ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی جنگل کے ایک درخت پر ایک سیانہ کوا رہتا تھا۔کوا بہت خوش حال زندگی گزار رہا تھا۔بغیر کسی فکر کے وہ پورا دن گھومتا پھرتا اور طرح طرح کے کھانے پینے کا لطف اٹھاتا۔شام ہوتے ہی کسی پھل دار درخت پر رات بسر کرتا۔زندگی کے حسین دن اسی طرح گزرتے رہے۔ایک دن کوا جنگل گھومنے نکلا۔گھومتے گھومتے اسے ایک جھیل نظر آئی۔یہ جھیل جنگل کے بیچوں بیچ تھی،جہاں کئی پرندے بسیرا کرتے تھے۔کوا پانی پینے کے لئے جھیل کے پاس اُترا تو اس کی ملاقات ایک ہنس سے ہوئی۔جلد ہی ہنس اور کوا دوست بن گئے،لیکن کوا ہنس سے ملاقات کے بعد کچھ پریشان رہنے لگا۔اس کی پریشانی یہ تھی کہ ہنس اتنا سفید کیوں ہے اور میں اتنا کالا کیوں․․․․کوا جھیل میں تیرتے ہنس کو دیکھ کر یہ سوچتا تھا کہ ہنس پانی میں اتنی آسانی سے مزے سے تیر سکتا ہے اور جو کچھ بھی وہ کھاتا ہے وہیں جھیل میں دستیاب ہے۔(جاری ہے)یہ ہنس دنیا کا سب سے خوش نصیب پرندہ ہے۔مجھے بھی ہنس جیسا بننا چاہیے،یہ سوچ کر کوے نے جھیل میں تیرنے کی کوشش کی لیکن وہ ڈوبنے لگا اور بڑی مشکل سے جھیل سے باہر آیا۔کوے نے اپنے خیالات ہنس کو بتائے۔ہنس نے ہنستے ہوئے کہا پہلے مجھے بھی لگتا تھا کہ میں سب سے زیادہ خوش ہوں لیکن اس وقت تک میں نے طوطا نہیں دیکھا تھا۔”تمہیں پتہ ہے کہ طوطے کے پاس دو تین مختلف رنگوں کے ہرے پیلے نیلے پَر ہوتے ہیں،طوطا تو انسانی آواز کی نقل کر سکتا ہے اور اچھے اچھے پھل کھاتا ہے۔“یہ سن کر کوا سوچنے لگا کہ طوطا سب سے زیادہ خوش نصیب پرندہ ہو گا۔ہنس سے پتہ پوچھ کر کوا ایک طوطے کے پاس گیا،اور اس سے انسانی آوازوں کی نقل اسے سکھانے کو کہا۔کوے نے یہ آوازیں نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن صرف کاؤ کاؤ کی آوازیں نکلی۔کوا افسردہ ہو گیا اور طوطے سے کہا،مجھے لگتا ہے کہ تم دنیا کے سب سے خوش نصیب پرندے ہو۔طوطے نے کوے کو بتایا،پہلے یہ سوچ کر میں بھی بہت خوش ہوتا تھا،پھر میں نے ایک مور دیکھا․․․میرے پاس تو صرف دو تین رنگ ہیں جبکہ مور کے پاس کئی رنگ ہیں۔مور خوبصورت رقص کر سکتا ہے۔اس کی بہت بلند آواز ہے،اپنی آواز سے مور جنگل میں موجود دیگر مخلوقات کو کسی بھی خطرے سے خبردار کرتا ہے۔میرے خیال میں مور دنیا کا سب سے خوش نصیب پرندہ ہے۔اب کوے کو مور سے ملنے کی تمنا ہوئی اور وہ مور سے ملنے جا پہنچا۔وہاں کوے نے دیکھا کہ مور گھبرایا ہوا سا ہے اور خود کو جھاڑیوں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے،کوا مور کے قریب گیا اور کہا:”پیارے مور!تم بہت خوبصورت ہو،تمہاری پَروں میں کتنے سارے رنگ ہیں،تمہاری دلکشی اور خوبصورتی اور رقص کی تعریف تو پورا جنگل کرتا ہے۔تم یوں جھاڑیوں میں کہاں چھپے بیٹھے ہو۔“مور نے جواب دیا:”او پیارے کوے،میرے ان ہی پَروں نے مجھے پریشانی میں ڈال دیا۔میرے لمبے اور رنگین پنکھ کی وجہ سے،شکاری مجھے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں،بعض اوقات وہ مجھے چڑیا گھر میں بھی ڈال دیتے تھے۔اس وجہ سے میں یہ سوچتا رہتا ہوں کہ اگر میں چڑیا ہوتا تو خوشی خوشی ہر جگہ گھوم سکتا تھا اور اگر کوئی خطرہ ہوتا ہے تو آسانی سے چھپ سکتا تھا۔کوے نے کہا:”میرا تو یہ خیال تھا کہ تم دنیا کے سب سے خوش نصیب پرندے ہو گے۔“مور نے کہا”میں بھی سوچتا تھا میں سب سے خوبصورت اور خوش نصیب پرندہ ہو لیکن اپنی خوبصورت کی وجہ سے میں چھپتا پھرتا ہوں۔“اس کے بعد مور نے کہا کہ میں نے کافی غور کیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ صرف کوا وہ واحد پرندہ ہے جسے کوئی شکاری نہیں پکڑتا جو کسی پنجرے میں قید نہیں،پچھلے کچھ دنوں سے مجھے یہی لگتا ہے کوا ہی سب سے خوش نصیب پرندہ ہے اور میں یہ سوچتا رہتا ہوں کہ اگر میں کوا ہوتا تو خوشی خوشی ہر جگہ آزادی سے گھوم سکتا تھا اور اگر کوئی خطرہ ہوتا تو آسانی سے چھپ جاتا۔ایک عقل مند بوڑھا اُلو ایک درخت پر بیٹھا ہوا ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔اس نے کوے اور مور کو اپنے پاس بلایا اور کہا۔”ہم میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ خصوصیات ہیں۔ہنس پانی میں تیر سکتا ہے۔طوطا انسانی آواز کی نقل کر سکتا ہے۔مور رقص کر سکتا ہے۔ چڑیا چھوٹی اور پھرتیلی ہوتی ہے۔میری طرف دیکھو۔میں تیراکی یا رقص نہیں کر سکتا لیکن مجھے اندھیرے میں بہت اچھی طرح سے دکھائی دیتا ہے۔میں اپنی گردن کو پیچھے کی طرف موڑ سکتا ہوں اور اپنے پیچھے چیزیں دیکھ سکتا ہوں۔کیا یہ بہت اچھا نہیں ہے!جب دن کے وقت دوسرے تمام پرندے سخت محنت کر رہے ہوتے ہیں تو،میں اپنے گھونسلے میں سکون سے سو رہا ہوتا ہوں۔“کوا مایوس ہوا کیونکہ اسے تو اپنی کسی خصوصیات کے بارے میں نہیں پتہ تھا۔اس نے اُلو کی بات کاٹی اور کہا،”مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ میں تمام پرندوں سے سب سے زیادہ ناخوش ہوں۔“اُلو مسکرایا اور جواب دیا،”فراست اور سمجھ بوجھ میں کوے کو دوسرے پرندوں میں برتری ہے،اُلو نے کوے سے پوچھا۔کیا تم نے پیاسے کوے کی کہانی نہیں سنی؟کوے مسئلے حل کرنے کے لئے کنکر جیسے اوزار استعمال کر سکتے ہیں!کوا بہت ذہین اور عقل مند بھی ہوتا ہے۔اس کی یادداشت بہت تیز ہے اور وہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتا ہے۔اسی لئے کسی بھی شکاری کا اسے پکڑنا اور نشانہ بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔“اُلو کو پرندوں میں بہت عقل مند مانا جاتا ہے۔اُلو نے کوے کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ قدرت نے ہم میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ صلاحیتیں دی ہیں،ہم میں سے ہر ایک کسی ایک چیز میں بہترین ہیں۔ہمیں خود پر ترس کھانے کی بجائے محنت کرنی چاہئے اور جو کام ہم کرتے ہیں اس میں مہارت حاصل کرنا چاہئے۔“پیارے بچو․․․․!اگر بغور جائزہ لیں تو ہم میں سے کچھ انسان بھی ایسے ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔زندگی کا موازنہ کرتے کرتے ناشکری کرنے لگتے ہیں۔جو اللہ نے دیا ہوتا ہے اس سے لطف حاصل نہیں کر پاتے۔اپنے پاس سو روپے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے ہزار پر نظر رکھنے کی وجہ سے بے چین زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔اللہ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے لیکن انسان پھر بھی ناشکرا ہے۔اپنے سے زیادہ والے سے موازنہ احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے۔موازنہ کرنا ہی ہو تو اپنے سے کمتر سے کیجیے اور پھر اللہ کا شکر کیجیے جس نے بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے۔ " آزادی کی کاوشیں - تحریر نمبر 2038,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azaadi-ki-kavishein-2038.html,"عروبہ بنت عبدالجبارآج جس ملک میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اس ملک کے نظریے کی تشکیل و ترویج برصغیر میں اس وقت جب ہندوؤں کا مکار چہرہ مسلمانوں کے سامنے آیا۔مسلمان جو صدیوں سے برصغیر پر راج کر رہے تھے ہندو اور انگریز انہیں تباہ کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے ہندو خود کو مسلمانوں کا ساتھی بھی ظاہر کر رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی چاپلوسی سے یہ باور کروانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ انگریزوں کے اتحادی ہیں اور ان کی ساکھ کو مسلمانوں سے خطرہ تھا جب انگریز برسراقتدار آئے تو صرف مسلمانوں نے انگریزوں کی مخالفت عین وقت ہندوؤں نے مسلمانوں سے منہ موڑ لیا۔ایک جانب یہ ہندوؤں کا انتہا پسندانہ اور متعصبانہ رویہ اور دوسری جانب انگریزوں کو یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ انہوں نے حکومت ہندوؤں سے نہیں مسلمانوں سے چھینی ہے یوں دن بدن حالات بری طرح بگڑنے لگے ہر جگہ مسلمانوں کو دبایا جاتا رہا خواہ وہ تعلیم کا میدان تھا،سیاست کا یا تجارت کا ایسے حالات میں علامہ اقبال نے مسلمان قوم کو اپنی شاعری سے بیدار کیا انہوں نے اپنی قوم میں حق پر ڈٹ جانے کا جذبہ پیدا کیا۔(جاری ہے)1930ء میں علامہ اقبال کی زیر صدارت مسلم لیگ کا اجلاس آلہ آباد میں منعقد ہوا آپ نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔یہ دو قومیں جو مذہب،رسم و رواج،رہن سہن ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف یہ ایک جگہ متحد نہیں رہ سکتیں ۔انہوں نے تجویز دی جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت موجود ہے ان صوبوں کو علیحدہ کرکے ایک ریاست تشکیل دی جائے جہاں مسلمان آزادی سے اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔علامہ اقبال کی اس تجویز سے تمام مسلمان قائداعظم کی رہنمائی سے ایک الگ مضبوط قوم کی شکل اختیار کر گئے ڈٹ گئے اپنے مقصد کے لئے لے کر رہیں گے پاکستان ہندوؤں نے مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے مسلمانوں کے علاقوں میں قتل عام شروع کر دیا۔ہندوؤں کے اس ظالمانہ رویہ پر مسلمانوں کے دلوں میں خوف کے بجائے مزاحمت کا حوصلہ پیدا ہوا اور ہندوؤں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے۔محمد علی جناح کی قائدانہ صلاحیت اور برصغیر کے مسلمانوں کے اتحاد کے سامنے انگریز اور ہندو بے بس ہو گئے ور ایک نئی ریاست کا قیام منظور ہو گیا۔یقین کیجئے:پاکستان کا صرف ”ہونا“ ہی دشمنوں کی شکست کی سب سے بڑی علامت ہے۔آخرکار انتھک کاوشوں کے بعد 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے آزادی کا سورج طلوع ہوا۔خدا کے فضل و کرم سے آج ہم آزاد ہیں۔ فلسطین اور برما کے مسلمانوں کے حالات دیکھ کر اپنی آزادی کی قدر و قیمت سے آشنا ہوئے ہم آج آزاد ہیں اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لئے ہم آزاد ہیں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے ہم آزاد ہیں:بغیر اس کے ممکن بھی نہیں شناخت میریمیرا وطن میرے شجرہ نصب کی طرح ہے " دو رتن - تحریر نمبر 2037,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dou-ratan-2037.html,"ڈاکٹر ایف ایچ فاروقیاس روز نویں جماعت کے طالب علموں نے دسویں جماعت کے طالب علموں کو الوداعی ضیافت کا انتظام کیا تھا۔اسکول کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔دعوت میں کھانے کا بہترین اہتمام کیا گیا تھا۔تقریب کے مہمان خصوصی ضلع کے کمشنر صاحب تھے۔تلاوت قرآن مجید کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب نے مختصر خطاب فرمایا اور کمشنر صاحب کا تعارف بھی کروایا۔کمشنر صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی تو تمام طلبہ نے کھڑے ہو کر اور زور دار تالیاں بجا کر مہمان خصوصی کا استقبال کیا۔انھوں نے تقریر کے دوران اپنی زندگی کا واقعہ بھی سنایا:”آپ کی طرح جب میں نے دسویں جماعت پاس کی اور ہماری الوداعی ضیافت ہوئی۔اُس وقت کے مہمان خصوصی گورنر صاحب تھے اور انھوں نے اپنی تقریر کے دوران ہمیں دو انمول رتن دیے تھے اور یہ تاکید فرمائی تھی کہ تم میں سے کسی کو موقع ملے تو نئی نسل کو یہ انمول رتن ضرور دینا۔(جاری ہے)رتن کا مطلب ہوتا ہے قیمتی موتی۔میں دو رتن جو اس وقت آپ کو دے رہا ہوں،وہ دراصل دو قیمتی اُصول ہیں اور وہ ہیں ایمانداری اور محنت۔جو بھی ان قیمتی اُصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لے گا،وہ کبھی ناکام و نامراد نہیں رہے گا۔پڑھائی ہو یا کوئی دوسرا کام،مزدوری ہو کہ دکانداری۔تجارت ہو کہ سیاست،ہر میدان میں کامیابی کا راز ان دو اُصولوں میں چھپا ہوا ہے۔آج یہ دو رتن میں آپ کے حوالے کر رہا ہوں۔اللہ آپ کو ترقی دے۔“تقریر کے اختتام پر تمام طلبہ نے خوشی سے تالیاں بجا کر مہمان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور عہد کیا کہ وہ ہمیشہ محنت اور ایمانداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر کامیاب انسان بنیں گے۔ " عمرو عیار کی جدید زنبیل - تحریر نمبر 2036,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/umro-ayyar-ki-jadeed-zanbeel-2036.html,"سیّدہ نازاں جبیں”عمرو عیار ایک خیالی کردار ہے،جو اپنی چالاکیوں اور جادوئی زنبیل کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔“دادی نے کہانی ختم کرنے کے بعد بتایا۔”دادی!یہ زنبیل کیا ہوتی ہے؟“عمر نے اپنی دادی سے پوچھا جو کافی غور سے عمرو عیار کی کہانی سن رہا تھا۔”بیٹا!زنبیل اس تھیلی کو کہتے ہیں جس میں بہت ساری چیزیں آجائیں۔“دادی نے جواب دیا۔”تو کیا عمرو عیار کے پاس ہر وقت وہ زنبیل ہوتی تھی؟“عمر نے پھر سوال کیا۔”ہاں بیٹا!عمرو عیار اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھتا تھا،تاکہ اگر کسی چیز کی ضرورت پڑے تو فوراً نکال لے۔“دادی نے بتایا۔”کاش دادی!ہمارے پاس بھی ایسی کوئی زنبیل ہوتی۔“عمر نے حسرت سے کہا۔(جاری ہے)”ہے نا،ہمارے پاس بھی زنبیل․․․․“دادی نے معنی خیز انداز میں کہا۔”کہاں ہے دادی؟دکھائیں مجھے بھی۔“عمر نے پُرجوش ہو کر کہا۔”بوجھو تو جانیں!اب یہ تو تم بتاؤ گے،کیونکہ سب سے زیادہ تم ہی استعمال کرتے ہو۔“دادی نے عمر کو تجسس میں ڈال دیا۔عمر واقعی سوچ میں پڑ گیا کہ ایسی کونسی چیز ہے۔”بھئی یہ آپ نے عمر سے کیا کہہ دیا؟وہ سب سے پوچھتا پھر رہا ہے کہ گھر میں زنبیل کہاں ہے۔“دادا نے دلچسپی سے اپنی بیگم سے پوچھا۔تب دادی نے ہنستے ہوئے ساری بات بتا دی۔دادا بھی یہ سن کر مسکرا دئیے۔”آپ بھی کمال کرتی ہیں بیٹھے بیٹھے!“دادا نے خوش مزاجی سے کہا۔”کیوں آپ خود بتائیں،میں نے کچھ غلط کہا کیا؟“دادی نے پوچھا۔”نہیں،آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ایک زمانہ تھا،جب گھروں میں ٹیلی فون سیٹ ہوا کرتے تھے،دیواروں پر کیلنڈر آویزاں ہوتے تھے۔“دادا پُرانے زمانے کو یاد کرنے لگے۔”ہاں․․․․اور ریڈیو سننے کے شوقین لوگوں کے پاس ریڈیو سیٹ ہوا کرتے تھے۔گانے سننے کے لئے ٹیپ ریکارڈر اور فلمیں دیکھنے کے لئے وی سی آر ہوا کرتے تھے۔“دادی بھی پرانے وقت کی یاد تازہ کرنے لگی۔”ٹیلی ویژن کے دو یا تین چینلز ہوا کرتے تھے۔“دادا نے مزید کہا۔”اور آپ کو یاد ہو گا،میرے پاس ایک چھوٹی سی گھڑی ہوا کرتی تھی،جسے میں اپنے سرہانے رکھ کر سوتی تھی،صبح کے لئے الارم لگا کر۔“ دادی نے اپنے میاں سے پوچھا۔”ہاں بیگم!مجھے یاد ہے۔“دادا نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔”اور تو اور تصویریں اور مووی بنانے کے لئے بھی خاص طور پر کیمروں کا استعمال کیا جاتا تھا۔“دادی اپنی دُھن میں بولے جا رہی تھی۔”صحیح کہہ رہی ہیں آپ،اس کے علاوہ کسی بھی طرح کی معلومات جمع کرنے کے لئے کتابوں کی ضرورت پڑتی تھی،لیکن پھر انٹرنیٹ نے ان کی جگہ لے لی۔“دادا نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔وہ کتابیں پڑھنے کے بے حد شوقین تھے۔”ہاں!مگر اب تو انٹرنیٹ کے لئے بھی کمپیوٹر کا استعمال کم ہی کیا جاتا ہے،کیونکہ․․․․“دادی کی بات ادھوری رہ گئی،کیونکہ اسی وقت عمر گیم کھیلتا ہوا کمرے میں آیا اور وہیں دادا دادی کے پاس بیٹھ گیا۔”دادی یہ دیکھیں میں پھر جیت گیا!“عمر نے خوشی سے بتایا۔”ہاں بھئی!زنبیل مل گئی تمہیں گھر میں؟“دادی نے عمر کی بات کو نظر انداز کرکے اس سے سوال کیا۔”کونسی زنبیل دادی؟“عمر شاید اب تک بھول چکا تھا۔”ارے وہی عمرو عیار کی زنبیل․․․جسے تم گھر میں تلاش کر رہے تھے اور مجھ سے بھی پوچھ رہے تھے۔“دادا نے بھی مسکراتے ہوئے دریافت کیا۔”اوہ اچھا وہ․․․․نہیں دادی میں نے بہت ڈھونڈی ،مگر مجھے نہیں ملی۔اب آپ ہی بتا دیں کہاں ہے وہ؟“عمر نے فوراً گیم بند کرکے دادی سے اصرار کیا۔”یہ رہی․․․․تمہارے ہاتھ میں!“دادی نے آخر راز پر سے پردہ اُٹھا دیا۔”میرے ہاتھ میں؟مگر دادی میرے ہاتھ میں تو موبائل فون ہے!“عمر ایک دم حیران ہو گیا۔”بیٹا!یہی تو ہے آج کے زمانے کی زنبیل․․․․․جس میں دنیا کی ہر چیز سما جاتی ہے۔گویا موبائل فون نہیں ہو گیا عمرو عیار کی زنبیل ہو گئی۔“دادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔”وہ کیسے دادی؟“گیارہ سالہ عمر سمجھ نہیں پا رہا تھا۔”وہ ایسے کہ اس میں فون کے ساتھ ساتھ ضرورت کی ساری ہی چیزیں موجود ہیں جیسے کہ کیلکولیٹر،ٹارچ،کیمرہ،ریڈیو،گھڑی،کیلنڈر،فلمیں ،کتابیں اور دنیا جہاں کی چیزیں۔“دادی نے تفصیل سے بتایا۔”اچھا․․․․․اب میں سمجھا۔بالکل ویسے ہی جیسے کہانی میں عمرو عیار کی زنبیل میں ہوتی ہے۔“عمر نے سمجھتے ہوئے کہا۔”آج کل تو سیل فون کے بغیر کسی کا بھی گزارہ نہیں ہوتا۔یہ اتنا ضروری ہو گیا ہے کہ اس کے بنا زندگی کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے۔“دادی نے موبائل کی خصوصیت بیان جاری رکھا۔”ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ بیگم!یہ اسمارٹ فون تو روز بہ روز جیسے کوئی جادوئی خزانہ ہوتا جا رہا ہے جس کے ہر وقت چوری ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔“دادا نے عمر کی معلومات میں اضافہ کیا۔”لیکن دادا!موبائل سے ہمیں کتنے فائدے ہوتے ہیں۔ہیں نا؟“عمر نے اپنی طرف سے سمجھ داری کی بات کی۔”ہاں بیٹا!فائدے تو ہیں،مگر نقصانات بھی بہت ہیں،اس لئے اس کا استعمال زیادہ نہیں کرنا چاہیے۔“دادا نے سمجھایا۔”نقصان کیسے ہو سکتا ہے دادا اس سے؟عمر نے سوال کیا۔”سب سے زیادہ تو یہ آنکھوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور تم بچے اس میں ہر وقت گیمز کھیل کر اور ویڈیوز دیکھ دیکھ کر اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہو۔“دادا نے کچھ نقصان بتائے۔”ارے مُوا یہ موبائل تو مجھے ہر فساد کی جڑ لگتا ہے،جسے دیکھو اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔“دادی نے اب کی بار چڑ کر کہا۔”دادی!یہ مُوا کیا ہوتا ہے؟“عمر نے معصومیت سے پوچھا۔”ہاہاہا․․․․بیٹا کچھ نہیں ہوتا،تمہاری دادی ایسے ہی کہہ رہی ہیں۔ویسے مُوا بے جان،نامراد وغیرہ کو کہتے ہیں۔“دادا نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔”پتا ہے دادا،کل میں برابر والے بلال کے گھر گیا تھا تو میں نے دیکھا کہ اس کا چھوٹا بھائی خود ہی موبائل چلا رہا تھا۔“عمر نے حیران ہوتے ہوئے بتایا۔”آئے ہائے،وہ دو سال کا زید!وہ اتنا سا بچہ موبائل فون استعمال کر لیتا ہے؟“دادی کو یہ سن کر شدید حیرت ہوئی۔”جی دادی!میں نے خود دیکھا تھا۔زید جب بہت رو رہا تھا تو بلال نے اسے چپ کرانے کے لئے موبائل فون دے دیا۔“عمر نے آنکھوں دیکھا حال بتایا۔”عمر بیٹا!ویسے تمہارے ہاتھ میں بھی ہر وقت موبائل فون ہوتا ہے۔یہ بہت خراب عادت ہے۔“دادی نے عمر سے کہا۔”نہیں تو دادی!ہر وقت تو نہیں․․․․بس وہ جب گیم کھیلتا ہوں تو․․․․․“عمر نے کھسیاتے ہوئے کہا۔”چلو اب عمر کو سیل فون کے نقصانات کے بارے میں پتا چل گیا ہے اب زیادہ استعمال نہیں کرے گا۔“دادا نے عمر کو شرمندہ ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا،اس لیے بات بنائی۔”جی دادا،میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ضرورت کے وقت ہی استعمال کروں گا۔“عمر نے شرمندہ ہوتے ہوئے عہد کیا۔”یہ ہوئی نا بات!ویسے بھی تم عمر ہو،عمرو عیار نہیں۔اس کی زنبیل میں اور آج کے دور کی زنبیل میں بہت فرق ہے۔“دادی نے مزاحیہ انداز میں حقیقت بیان کی۔”ہاں یہ تو ہے کہ عمرو عیار کی زنبیل دوسروں کو اور خود اس کو فائدہ پہنچاتی تھی،مگر اس کے نقصانات نہیں تھے۔“دادی نے فرق بتایا۔ایک ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ جو بچے موبائل فون کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان کے دماغ اور کان میں گلٹیاں ہو جانے کا امکان ہوتا ہے۔سیل فون کی شعاعیں دراصل کینسر پیدا کرتی ہیں اور بڑوں کے مقابلے میں بچے یہ شعاعیں زیادہ جذب کرتے ہیں،کیونکہ بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ آج کل بچے اسمارٹ فونز کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے،جس سے ان کا مستقبل متاثر ہوتا ہے۔پیارے نونہالو!اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں موبائل فون انتہائی ضروری ہے،مگر اس کا بہت زیادہ استعمال خطرناک اور نقصان دہ ہو سکتا ہے،اس لئے موبائل فون کو ضرورت کے تحت ہی استعمال کرنا چاہیے۔ " کبوتر باز - تحریر نمبر 2035,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kabootar-baz-2035.html,"محمد ذوالقرنین خانندیم کو کبوتروں سے بچپن ہی سے بہت لگاؤ تھا۔اسکول سے واپس آتے ہی وہ چھت پر چڑھ جاتا۔چار منزلہ مکان کی چھت سے جب بہت سارے کبوتر اُڑتے تو اس کی گردن فخر سے اَکڑ جاتی۔دادی نے ندیم کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ کبوتر بازی وقت کی بربادی ہے اور پرندوں پر ظلم ہے،مگر وہ نہیں مانا۔اس کا جواب تھا،یہ اس کا مشغلہ ہے۔کوئی کرکٹ کھیلتا ہے،کوئی کتابیں پڑھتا ہے۔میں کبوتر اُراتا ہوں، یہ ظلم کیوں کر ہوا۔میں وقت پر انھیں دانہ ڈالتا ہوں۔پیسے بھی خرچ کرتا ہوں۔گرمی سردی سے ان کی حفاظت کرتا ہوں۔اگر بیمار ہو جائیں تو انھیں دوا دیتا ہوں۔ہر طرح سے ان کا خیال رکھتا ہوں۔دادی اس کے دلائل سن کر کچھ دنوں کے لئے خاموش ہو جاتیں۔اس دن وہ بہت خوش تھا۔(جاری ہے)اس نے اپنے حریف پپو کے دو بہت قیمتی کبوتر پکڑ لیے تھے۔جس نے کھلم کھلا چیلنج دے رکھا تھا کہ جو اس کے کبوتر پکڑے گا،وہ دس ہزار روپے انعام کا حق دار قرار پائے گا۔سارے کبوتر باز یہ کارنامہ سر انجام دینے پر ندیم کو مبارک باد دے رہے تھے۔وہ پپو کے دونوں کبوتر تھامے سیڑھیاں اُتر رہا تھا،جب اس کا پاؤں پھسلا۔اس نے دیوار کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے تو بچا لیا،مگر ایک کبوتر اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔اس نے کبوتر کے پَر باندھے ہوئے تھے،مگر وہ نہ جانے کیسے اُڑ کر دیوار پر جا بیٹھا۔ندیم کی سانس اس کے حلق میں اٹک گئی۔اگر وہ اس کے ہاتھوں سے نکل جاتا تو اس کی بہت سبکی ہوتی۔اس نے قریب پڑا بانس بہت احتیاط سے اُٹھایا،جس کے ایک سرے پر جال بندھا ہوا تھا۔کبوتر نے خطرہ بھانپ لیا۔وہ اُڑ کر قریب ہی بجلی کے کھمبے پر جا بیٹھا۔وہ اب بھی ندیم کی پہنچ میں تھا۔اس نے ہاتھ میں پکڑے کبوتر کو پنجرے کے اندر پھینکا اور پوری توجہ فرار ہونے والے کبوتر پر مرکوز کر لی۔وہ جھک کر آگے بڑھا۔بہت پھرتی سے دیوار پر چڑھ گیا۔اس نے بانس گھمایا،تاکہ کبوتر جال میں پھنس جائے۔بانس بجلی کی تار سے ٹکرایا۔کرنٹ کے شدید جھٹکے نے اس کے ہوش حواس چھین لیے۔وہ نیچے گرتا چلا گیا۔کبوتر پکڑنے کی دُھن میں وہ یہ بھول گیا تھا کہ بانس بارش کی وجہ سے گیلا ہو گیا ہے۔ندیم جب ہوش میں آیا تو خوف اور حیرت سے اپنے پَر پھڑپھڑا کر رہ گیا۔وہ ایک کبوتر کا روپ دھار چکا تھا۔وہ اس وقت کسی انجان جگہ پر تھا۔مغرب کا اندھیرا چھا رہا تھا۔ایک لڑکے نے اسے اور باقی کبوتروں کو ایک تاریک کابک میں بند کر دیا،جہاں ہر جانب غلاظت تھی۔ چھوٹے چھوٹے کیڑے اس کے پَروں سے چمٹ گئے۔ہاتھ تو تھے نہیں دوسرے کبوتروں کی طرح اس نے بھی یہاں وہاں چونچ سے کھجانا شروع کر دیا۔جب کھجا کھجا کر بے حال ہو گیا تو وہ ساتھ بیٹھے کبوتر سے بولا:”کتنا غلیظ انسان ہے،کمبخت!دڑبا ہی صاف کر دیتا۔“اس کبوتر نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا:”ابھی چار مہینے پہلے ہی تو اس نے صفائی کی ہے۔یہ پھر بھی باقیوں سے اچھا ہے،سال میں دو بار صفائی کرتا ہے۔میں پہلے جہاں تھا،اس کبوتر باز نے تو کبھی ہمارے پنجرے میں جھانکنے کی زحمت بھی نہیں کی۔“ندیم کو یاد آیا،وہ بھی تو سال میں ایک دو بار ہی صفائی کرتا تھا۔اسے شدید بھوک لگ رہی تھی۔اسے یاد آیا،کبوتر باز عموماً دن میں ایک بار ہی کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں۔ان کے خیال میں وہ اس طرح چست رہتے ہیں۔اب اسے انتظار کرنا تھا۔دوپہر کے بعد اس لڑکے نے انھیں باہر نکالا۔اب وہ کپڑا ہلا ہلا کر انھیں اُڑنے پر مجبور کر رہا تھا۔وہ سب بھوکے پیاسے تھے۔ان میں سے کسی کا دل اُڑنے کو نہیں چاہ رہا تھا،مگر وہ جانتے تھے،اُڑان بھرنے کے بعد ہی انھیں دانہ ملے گا۔اس نے بھی دوسرے کبوتروں کے ساتھ اُڑان بھری۔وہاں دو اور ٹولیاں بھی اُڑ رہی تھیں تھوڑی دیر وہ سب اِکٹھا ہو کر اُڑنے لگے۔جب وہ جدا ہوئے تو ندیم کی سمجھ میں نہ آیا اس کی ٹولی کون سی ہے،لیکن جلد ہی اسے قریبی چھت پر دانہ پانی نظر آیا۔اس کے ساتھی کبوتر اسی چھت پر اُترے۔وہ بھی بھوک سے بے قرار ہو کر دانے کی جانب بڑھا۔تب ہی ایک جال اس پر آگرا۔وہ جو کوئی بھی تھا،اس نے بہت بے دردی سے اسے ہاتھوں میں جکڑ لیا تھا۔قینچی دیکھ کر اس نے خوف سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔وہ جانتا تھا،اب اس کے ساتھ کیا ہو گا۔اس شخص نے اس کے پَر کاٹے اور پنجرے میں بند کر دیا۔اس نے غٹرغوں غٹرغوں کرکے خوب احتجاج کیا،مگر کبوتر باز کب اس قسم کے احتجاج پر کان دھرتا ہے۔ایک بوڑھے کبوتر نے اسے مشورہ دیا کہ جب تک پَر نہ آجائیں،پنجرے سے باہر نہ نکلے۔وہاں ایک خوف ناک بلا پہلے بھی پانچ سات کبوتر ہڑپ کر چکا تھا۔جس بے احتیاطی سے اس کے پَر کاٹے گئے تھے،اس کا اندازہ تھا،انھیں دوبارہ اُگنے میں چالیس پینتالیس دن تو لگیں گے۔ایسا اس لیے کیا جاتا تھا کہ کبوتر اُڑ نہ پائے اور اس جگہ کو اپنا گھر تسلیم کرکے پچھلی جگہ کو بھول جائے۔دو دن بعد وہ شخص آیا۔ندیم اور اس جیسے تین پَر کٹے کبوتروں کو ایک کپڑے کے تھیلے میں ڈالا اور انھیں سائیکل پر رکھ کر چل پڑا۔اس کے دماغ سے یہ بات نکل گئی کہ اسے فروخت بھی جا سکتا تھا۔وہ بھی لوگوں کے کبوتر پکڑ کر انھیں بیچ دیتا تھا۔وہ اب ایک خستہ حال دکان کے ایک پرانے پنجرے میں بیٹھا کسی گاہک کے انتظار میں تھا۔اسے یقین تھا،اگر چند دن وہ ایسے ہی رہا تو مر جائے گا۔خریدار آتے دکان دار بہت بے دردی سے اسے تھامتا اور ان کے ہاتھ میں پکڑا دیتا۔وہ اس کو الٹ پلٹ کر دیکھتے۔کبھی پَر کھینچتے، کبھی چونچ کھول کر زبان دیکھتے۔بھاؤ تاؤ کرتے۔بات نہ بنتی تو دکان دار اسے دوبارہ پنجرے میں پھینک دیتا۔خدا خدا کرکے ایک کبوتر باز نے اسے خرید لیا۔اس نے سوچ لیا تھا،اب وہ اپنی چھت کو یاد رکھے گا،کبھی کسی دوسرے کی چھت پر نہیں بیٹھے گا۔کچھ روز بعد اس کے پَر نکل آئے۔اس کا مالک اس کی وفاداری سے بہت خوش تھا۔وہ اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ایک دن صبح ہی صبح اس کا مالک پنجرے میں گھس آیا اور اسے پکڑ کر ایک تھیلے میں ڈال دیا۔ندیم کا تو حلق خشک ہو گیا۔وہ شاید اسے بیچنے کے لئے لے جا رہا تھا۔ موٹر سائیکل پر وہ ایک ویران جگہ پر پہنچا۔جب اس نے ندیم کو تھیلے سے نکالا تو اس نے دیکھا کہ وہاں دوسرے کبوتر باز اپنا اپنا کبوتر ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں۔وہ ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔اس کی وفاداری دیکھ کر اس کا مالک اسے کبوتر بازی کے مقابلے میں لے آیا تھا۔ان تمام کبوتروں میں سے جو پہلے اپنی چھت پر سب سے پہلے پہنچ جاتا،وہ فاتح ہوتا۔مقابلے کا آغاز ہوا۔اسے اس کے مالک نے چھوڑ دیا تھا۔فضا میں ایک گول چکر کاٹ کر وہ تیزی سے ایک سمت میں اَڑنے لگا۔راستے میں جلا دینے والی لُو سے اس کا سامنا تھا۔پیاس سے اس کا بُرا حال تھا،مگر وہ اُڑا جا رہا تھا۔اچانک اسے ایک چیل نظر آئی،جو بالکل اس کے سر پر منڈلا رہی تھی۔چیل کی تیز نظر اس پر پڑ چکی تھی،اس نے ایک غوطہ لگایا اور اپنے نوکیلے پنجوں میں ندیم کو جکڑ لیا۔وہ درد سے چلا اُٹھا۔اسی وقت اسے اپنی دادی کی آواز آئی،جو اس کے والد کو بلا رہی تھیں:”ارے جلدی آؤ،ندیم ہوش میں آگیا ہے۔“اس کی چیخ سن کر سب اس کے گرد اِکھٹا ہو گئے تھے۔وہ کئی روز سے اسپتال میں بے ہوش پڑا تھا۔سب کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اس نے جس کسی سے بھی اس بات کا تذکرہ کیا،سب نے کہا کہ وہ محض ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ " قاتل کا سراغ - تحریر نمبر 2034,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qatil-ka-suragh-2034.html,"محمد احمد اسلمبادشاہ سلامت دریا کے کنارے محل میں بیٹھے کچھ کام کر رہے تھے کہ ایک بڑا مٹکا دریا میں بہتا دکھائی دیا۔بادشاہ نے حکم دیا:”اسے نکال کر لاؤ۔“مٹکا کھول کر جو دیکھا تو اس میں لاش تھی۔وزیر نے بتایا:”یہ تو فلاں جگہ کے کوتوال ہیں۔“بادشاہ نے حکم دیا:”اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔“اس کے بعد خود ہی فرمایا:”اچھا یہاں کے کمہاروں کو بلاؤ۔“تمام کمہاروں کو بلا کر ان سے معلوم کیا گیا کہ بتاؤ،یہ مٹکا کس علاقے کے کمہار کے ہاتھ کا بنا ہوا ہے؟ایک کمہار نے بتایا:”حضور!یہ میرے ہاتھ کا بنا ہوا ہے۔“بادشاہ نے پوچھا:”تمہارے مٹکے کہاں کہاں بکنے جاتے ہیں۔؟“اس نے کہا:”فلاں علاقے کے مسافر خانے اور سرائے میں جاتے ہیں۔(جاری ہے)“بادشاہ اس سرائے میں پہنچ گیا۔سرائے کے مالک سے ملاقات کی۔سرائے کے مالک نے کہا:”میں صاف صاف بتائے دیتا ہوں حضور!ایک دن میرے ہوٹل میں ایک آدمی آیا اور بالا خانے پر گیا۔میں نے اس سے کھانے کا پوچھا اور اس کے لئے کھانا تیار کرنے لگا۔کچھ دیر بعد دوسرا شخص آیا اور وہ بھی اوپر گیا۔میں نے سوچا کہ اسے بھی کھانے کی ضرورت ہو گی۔مجھے کھانے کی تیاری میں کچھ تاخیر ہوئی۔جب کھانا تیار کرکے اوپر گیا تو دیکھا کہ پہلا شخص مردہ پڑا ہے اور دوسرا غائب ہے۔میں نے سوچا کہ اب کیا کروں۔میرے پاس یہ مٹکا رکھا ہوا تھا۔میں نے اس کی لاش اس میں رکھ کر جمنا میں ڈال دی۔“بادشاہ کو یقین آگیا کہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔پھر اس سے معلوم کیا کہ تم اس کے قاتل کو پہچان بھی سکتے ہو؟اس نے کہا:”بالکل،اگر وہ میرے سامنے آجائے تو یقینا پہچان لوں گا۔“اب بادشاہ نے ایک ماہر مصور کو بلایا۔سرائے کے مالک کے بتائے ہوئے حلیے کے مطابق مصور نے تصویر بنا دی۔اب سرائے کے مالک سے پوچھا:”بتاؤ کیا یہی آدمی تھا؟“اس نے کہا:”جی ہاں بالکل یہی تھا۔“بادشاہ نے وہ تصویر اپنے پاس رکھ لی اور سمجھ گیا کہ یہ کام کسی ڈاکو ہی کا ہے۔عام آدمی کی اتنی جرات نہیں ہو سکتی۔وہ بھیس بدل کر ڈاکوؤں کے اس گروہ میں جا ملا،جو اس علاقے میں سرگرم تھا۔کچھ دن ان کے ساتھ رہا۔ان دن ڈاکوؤں میں بحث چل نکلی کہ کون کیا کارنامہ انجام دے سکتا ہے۔ہر ایک نے اپنے کمالات گنوائے،جب بادشاہ کا نمبر آیا تو انھوں نے کہا:”میرے اندر یہ کمال ہے کہ میں حکومت سے جتنا چاہوں،پیسہ منگوا لوں۔“ساتھیوں نے کہا:”اچھا تجربہ کرواؤ۔“بادشاہ نے ایک افسر کے نام ایک رقعہ لکھ کر ایک آدمی کو بھیج دیا کہ اتنے روپے رقعہ لانے والے کو دے دو۔افسران تحریر کو پہچانتے تھے،اس لئے پورا روپیہ دے دیا۔اب تو ڈاکو بہت متاثر ہوئے کہ اس سے تو حکومت بھی ڈرتی ہے۔ایک دن بادشاہ نے کہا کہ میں اپنے خرچ پر سب کی دعوت کرنا چاہتا ہوں،مگر شرط یہ ہے کہ کوئی ایک بھی شرکت سے محروم نہ رہے۔ڈاکوؤں نے کہا:”سب تو آجائیں گے،مگر ہمارا ایک ساتھی نہیں آسکتا۔“پوچھا:”کیوں؟“انھوں نے بتایا:”اس نے حکومت کے ایک افسر کو قتل کر دیا تھا،اس لئے وہ پہاڑوں میں روپوش رہتا ہے۔“بادشاہ نے کہا:”نہیں نہیں اسے بھی آنا ہو گا۔دعوت کے بعد واپس چلا جائے۔“اس پر ایک ڈاکونے کہا:”ٹھیک ہے ہم معلوم کرکے کل بتائیں گے۔“اگلے روز بتایا کہ وہ بھی آجائیں گے،چنانچہ دعوت کی تیاری شروع ہو گئی۔اس دوران بادشاہ نے ایک ڈاکو کو پیسہ لانے کے لئے ایک رقعہ دے کر کہا:”یہ بادشاہ کے کسی افسر کو دے دینا۔“رقعے میں خفیہ زبان میں فوج کو ڈاکوؤں کے ٹھکانے کی نشاندہی کی گئی تھی۔دعوت کے دن مقررہ وقت پر مفرور ڈاکو بھی آگیا۔وہ ہوبہو تصویر کے مطابق تھا،جو بادشاہ کے پاس تھی۔بادشاہ نے اسے پہچان لیا۔سب اس سے مصافحہ کرنے لگے۔جب اس نے بادشاہ سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو بادشاہ نے فوراً اس کی کلائی پکڑ لی اور پوچھا:”تو ہے کون؟“اس نے کہا:”میں اسی گروہ کا ساتھی ہوں اور تم کون؟“کہا:”میں اس ملک کا بادشاہ ہوں۔“اتنا سنتے ہی سب پر نکتہ طاری ہو گیا۔وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔اسی وقت فوج کے سپاہیوں نے ڈاکوؤں کے ٹھکانے پر حملہ کر دیا اور بادشاہ نے سب کو پکڑوا دیا۔ " بوڑھے کی دعا - تحریر نمبر 2033,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/borhe-ki-dua-2033.html,"شمع خانمسز خان ایک موٹی عورت تھی جو اکیلی ایک الگ تھلگ مکان میں رہتی تھی۔اس کا اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ ایک اچھی عورت ہے۔ وہ اکثر اپنی سہیلیوں کو بتاتی کہ میں بہت مہربان ہوں،لیکن خود کہنے سے تو کبھی کوئی مہربان نہیں ہو جاتا۔ایک دن ایک آدمی نے مسز خان کے گھر کے دروازے پہ دستک دی۔وہ بہت غریب تھا۔اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے،بال بکھرے ہوئے تھے۔وہ بہت پریشان حال تھا۔آدمی نے مسز چُن سے کھانے کے لئے کچھ مانگا۔مسز خان غصے سے تلملاتی ہی باہر نکلی اور یہ کہتے ہوئے اس غریب آدمی پر برس پڑی، ”جاؤ دفع ہو جاؤ۔میرے پاس تمہیں کھلانے کو کچھ نہیں۔اگر اتنے ہی بھوکے ہو تو خود محنت کرو اور کھاؤ“۔یہ کہہ کر اس نے زور سے دروازہ بند کر دیا اور وہ غریب آدمی بند دروازے کو حسرت سے دیکھتا رہ گیا۔(جاری ہے)دروازہ بند کرنے کے بعد مسز خان نے اندر جا کر اپنے لیے چائے کا ایک گرم کپ تیار کیا اور مزے لے لے کر پیتی رہی۔غریب آدمی سڑک کے کنارے چلتا ہوا ایک دوسرے مکان پر پہنچا جہاں مسز بشیر رہتی تھی۔جونہی مسز بشیر کی نظر اس غریب آدمی پر پڑی وہ اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی۔مسز بشیر نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا،”تم تھکے ہوئے دکھائی دیتے ہو اور تمہیں سردی بھی لگ رہی ہے۔آؤ!اندر آجاؤ اور یہاں بیٹھ جاؤ۔اگرچہ میرے پاس کوئی چائے وغیرہ نہیں ہے،لیکن تم پریشان نہ ہو۔میرے پاس ایک روٹی اور تین خوبصورت سیب ہیں۔ایک سیب میں کھا لیتی ہوں اور دو تم کھا لو۔“وہ آدمی اس عورت کے گھر کے اندر گیا اور بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر تک ان دونوں نے باتیں کیں۔پھر مسز بشیر اور اس آدمی نے مل کر روٹی اور سیب کھائے۔تب وہ آدمی کھڑا ہو گیا اور مسز بشیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگا،”آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔لہٰذا سورج غروب ہوتے وقت آپ جو کام شروع کریں گی وہ چاند کے نکلنے تک جاری رہے گا“۔پھر اس آدمی نے دوبارہ خاتون کا شکریہ ادا کیا اور اللہ حافظ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔مسز بشیر سوچنے لگی کہ اس آدمی نے کیا عجیب و غریب بات کہی ہے کہ جو کام تم سورج غروب ہونے کے وقت شروع کرو گی وہ چاند کے نکلنے تک جاری رہے گا۔وہ سوچ میں پڑ گئی کہ اس بات سے اس کی کیا مراد ہے؟پھر مسز بشیر کو میز پر ایک سیب رکھا ہوا دکھائی دیا۔وہ خود سے کہنے لگی،”بیچارے نے صرف ایک سیب کھایا ہے۔جب کہ میری خواہش تھی کہ وہ دونوں کھائے۔کیوں نہ میں اس بچے ہوئے سیب کو ٹوکری میں رکھ دوں“۔اس نے وہ سیب اٹھایا اور بڑی ٹوکری میں ڈال دیا۔پھر اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک اور خوبصورت سا سیب میز پر رکھا ہوا دکھائی دیا۔”یہ تو بڑی عجیب بات ہے!میں نے ٹوکری میں سیب ڈال دیا تھا،مگر یہ پھر کہاں سے آگیا“۔اس نے وہ سیب اٹھا کر پھر ٹوکری میں ڈال دیا اور مطمئن ہو گئی،مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسے میز پر ایک اور سیب رکھا نظر آیا۔ جب وہ سیب ٹوکری میں ڈالتی تو اسے میز پر ایک اور مل جاتا۔اب مسز بشیر سمجھ گئی کہ اس آدمی کی بات کا مطلب کیا تھا۔وہ ٹوکری میں سیب ڈالتی رہی،یہاں تک کہ چاند نکل آیا اور پھرمیز پر کوئی سیب نظر نہ آیا۔اب اس کی ٹوکری سیبوں سے بھر چکی تھی۔دوسرے دن اس نے وہ سیبوں سے بھری ٹوکری بازار میں جا کر بیچ دی۔اس طرح اس کے پاس بہت سی رقم آگئی۔مسز بشیر کی ساحلی مسز خان جس نے اس غریب کو دھکے دے کر نکال دیا تھا اس نے جب مسز بشیر کی سیبوں بھری ٹوکری دیکھی تو حیرت سے اس کی آنکھیں کھل گئیں۔اس نے مسز بشیر سے پوچھا،”یہ تمام سیب تم نے کہاں سے لیے ہیں؟تمہارے گھر میں تو سیب کا کوئی درخت بھی نہیں ہے!مسز بشیر نے اسے پورا واقعہ سنایا کہ کس طرح اس نے اس غریب آدمی کو کھانے کے لئے روٹی اور سیب دیے تھے اور کس طرح اس نے شکریہ ادا کیا۔مسز خان نے مسز بشیر سے تو کچھ نہ کہا،لیکن اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب کی بار وہ بوڑھا آئے گا تو اس کو خوب کھلاؤں گی، خوب پلاؤں گی۔اگلے دن وہ بوڑھا دوبارہ آیا۔مسز خان اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سمائی۔اس نے بوڑھے آدمی سے درخواست کی،”مہربانی کرکے میرے گھر کے اندر آئیں۔میں آپ کی خاطر مدارات کروں گی“۔بوڑھا گھر کے اندر آگیا۔مسز خان نے اسے پینے کے لئے چائے اور کھانے کے لئے بہت سے کیک دیے۔بوڑھے آدمی نے بہت سے کیک کھائے اور بہت سی چائے پی۔تب وہ کھڑا ہو گیا اور مسز خان کا شکریہ ادا کیا۔مسز خان غور سے وہ باتیں سننے کے انتظار میں تھی جن کے بعد اسے اپنی من پسند چیز ڈھیروں مل سکتی تھی۔پھر بوڑھا آدمی بولا،”سورج ڈوبنے کے وقت جو کام تم شروع کرو گی وہ چاند نکلنے تک کرتی رہو گی“۔یہ کہنے کے بعد بوڑھے نے اللہ حافظ کہا اور چلا گیا۔چونکہ مسز خان کے ذہن میں تھا کہ سورج غروب ہونے کا وقت اسے کیا کرنا ہے۔اس لئے اس نے ایک شلنگ کا سکہ میز پر رکھا اور کہا،”جب سورج غروب ہونا شروع ہو گا تو میں شلنگ اٹھا کر بیگ میں رکھوں گی اور پھر چاند کے نکلنے تک سکے اُٹھاتی اور بیگ میں ڈالتی رہوں گی جب کہ آج رات چاند دیر سے نکلے گا۔اس طرح صبح سے پہلے میں بہت دولت مند ہو جاؤں گی“۔آخر سورج غروب ہونے لگا اور وہ وقت آپہنچا جس کا مسز خان کو بے چینی سے انتظار تھا۔سورج غروب ہونے کے قریب ہی تھا کہ مسز خان بے دھیانی میں تیزی سے مڑی جس کے نتیجے میں وہ میز پر رکھے ہوئے چائے سے بھرے برتن سے ٹکرا گئی اور چائے فرش پر گر کر بہنے لگی۔ اس نے جلدی سے کپڑا لیا اور فرش صاف کرنے لگی۔جب وہ یہ کر رہی تھی تو اس وقت سورج غروب ہو گیا۔پھر کیا ہوا!وہ بیچاری فرش صاف کرتی رہی کرتی رہی،یہاں تک کہ چاند نکل آیا اور اس رات چاند دیر سے نکلا تھا۔چونکہ اس نے لالچ کی خاطر بوڑھے کی مدد کی تھی،اس لئے اسے اپنے کیے کی سزا مل گئی۔سچ کہتے ہیں”لالچ بری بلا ہے“۔ " چُنوں اور مُنوں - تحریر نمبر 2032,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chunu-aur-munu-2032.html,"محمد علیم نظامیچنوں اور منوں آپس میں بھائی بھائی تھے۔چنوں بڑا اور منوں چھوٹا تھا۔چنوں کی عمر دس سال اور منوں کی سات سال تھی۔ان دونوں بچوں کے امی ابو اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔چنوں اور منوں کو اُن کے دادا اور دادی نے اپنے گھر میں رکھا ہوا تھا۔چنوں اور منوں اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ اُن کے دادا ابو دادی اماں اور چچا بڑے خدا ترس تھے۔ایک دن چنوں نے اپنے چھوٹے بھائی منوں سے کہا کہ دیکھو بھائی!اب ہم بچپن کے دور سے نکل کر جوانی کی طرف بڑھ رہے ہیں،اس لئے ہمیں اپنے دادا ابو دادی اماں اور چچا کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے ہمیں امی ابو والا پیار دیا اور ہمارا ہر طرح سے خیال رکھا،یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں سکول میں داخل کروا کے اچھا انسان بنایا۔(جاری ہے)اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اُن کا حق ادا کریں اور جب تک ہم مکمل جوان ہو کر اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر لیتے تب تک ہمیں اُن کی خوب خدمت کرنی چاہئے تاکہ اللہ میاں ہم سے خوش اور راضی ہو جائیں۔منوں نے اپنے بڑے بھائی چنوں کی ہاں میں ہاں ملائی۔دونوں بھائیوں نے یہ عہد کیا کہ اللہ نہ کرے اگر ہمارے دادا،دادی اور چچا پر کبھی کوئی مصیبت آگئی تو ہم ہر ممکن طریقے سے اُن کی خدمت کریں گے۔وقت گزرتا چلا گیا اور چنوں اور منوں نے جوانی میں قدم رکھ دیا۔اب سکول کی بجائے دونوں بھائی اکٹھے صبح کالج جاتے اور اکٹھے گھر واپس آتے۔سبھی لوگ ان دونوں بھائیوں اور اُن کی تعلیم سے بہت خوش تھے۔ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ شیطان نے بڑے بھائی چنوں کو ورغلایا اور اس نے اپنے چھوٹے بھائی منوں کو بہت مارا اور اس کی تمام چیزیں اپنے قبضے میں کر لی اور اکیلا ہی گھر کو آگیا۔جب اس کے دادا دادی اور چچا نے چنوں سے پوچھا کہ تمہارا چھوٹا بھائی کدھر ہے،وہ تمہارے ساتھ کالج گیا تھا مگر اس وقت تمہارے ساتھ نہیں آیا ہے، آخر کیا ہوا؟چنوں نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ دادا جی منوں کالج سے چھٹی کرکے اپنے کسی دوست کے ساتھ فلم دیکھنے سینما گیا ہے۔دادا جی کو فکر لاحق ہوئی کہ وہ منوں جو ہمیشہ اچھے نوجوانوں کی طرح سیدھا کالج جاتا اور پھر چنوں کے ساتھ مل کر سیدھا گھر آتا تھا،آج اُسے کیا ہو گیا ہے کہ سینما جا کر فلم دیکھنے لگا ہے۔بہرحال دادا جی کو فکر لاحق ہو گئی اور انہوں نے چنوں کو ساتھ لے کر منوں کی تلاش شروع کر دی۔چنوں کے دادا جی نے آس پاس اِدھر اُدھر گلی محلے کے علاوہ ہر جگہ اُسے تلاش کیا مگر وہ کہیں نہیں ملا۔آخر کار تھک ہار کر دادا جی اور چنوں گھر واپس آگئے جب مغرب کی نماز کا وقت ہوا تو دادا جی دادی جی نماز پڑھنے لگ گئے جبکہ چنوں اپنی کتابیں اور دیگر سامان کھول کر بیٹھ گیا اور ہلکی پھلکی شرارت اور مسکراہٹ کے ساتھ نماز پڑھنے کی بجائے ایک جگہ بیٹھ کر دکھاوے کی خاطر کتابوں کا مطالعہ کرنے لگا۔اس کا صاف مطلب تھا کہ چنوں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے اور اُسے کسی کی پرواہ نہیں۔اچانک دروازے پر دستک ہوئی تو دادا جی کو منوں دکھائی دیا،وہ خوشی سے پاگل ہو گئے۔یہی حال دادی جی اور چچا کا تھا جبکہ چنوں شرمندہ ہو گیا کیونکہ اُس کا جھوٹ پکڑا گیا تھا۔منوں نے تھوڑی دیر سستانے کے بعد اصل حقیقت سے اپنے دادا جی کو آگاہ کیا تو اس کے دادا دادی حیران رہ گئے۔منوں نے بتایا کہ وہ کوئی فلم دیکھنے نہیں گیا تھا بلکہ کالج کے پروفیسر صاحب اپنے گھر میں میلاد میں اُسے شامل ہونے کیلئے لے گئے تھے۔اُس نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔چنوں نے جھوٹ بولا ہے۔دادا اور دادی کو چنوں پر غصہ آیا۔اس سے پہلے کہ وہ چنوں کے خلاف کوئی قدم اُٹھاتے کہ چنوں کو فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا کہ اُس نے جھوٹ بولا تھا۔بہرحال منوں اور دادا دادی جی نے چنوں کی غلطی سے درگزر کیا اور اس کے جھوٹ کے پکڑے جانے کے باوجود معاف کر دیا۔چنوں شرمندہ سا ہو کر رہ گیا۔دادا جی نے منوں کے ساتھ ساتھ چنوں کو نصیحت کی کہ آئندہ وہ جھوٹ نہیں بولے گا اور سچی بات کہے گا۔چنوں نے معافی مانگی اور ایک مرتبہ پھر سب لوگ اتفاق سے اکٹھے رہنے لگے۔سچ ہے کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے۔ " سچی خوشی - تحریر نمبر 2031,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sachi-khushi-2031.html,"نمرہ فیصل،کراچیہمارے گاؤں میں ایک بہت بڑا کراٹے کا مقابلہ ہونے والا تھا۔جیتنے والے کے لئے دس لاکھ روپے انعام تھا اور میں بہت محنت سے اپنی تیاری میں مصروف تھا۔ویسے تو میں بہت خوش تھا،کیونکہ جس محنت اور لگن سے میں تیاری کر رہا تھا،مجھے لگ رہا تھا کہ میں ہی جیتوں گا،لیکن اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں راجو کراٹے ماسٹر کا اعزاز نہ جیت جائے۔راجو کراٹے میں چیمپئن تھا اور وہ پہلے بھی بہت سے انعامات جیت چکا تھا۔مجھے کراٹے کا بہت شوق تھا،اس لئے میں نے اس مقابلے میں حصہ لیا تھا۔مجھے بے صبری سے اس دن کا انتظار تھا،جس دن کراٹے کا مقابلہ ہونے والا تھا۔آخر وہ دن آہی گیا۔سب لوگ خوب تیاری کے ساتھ آئے تھے،لیکن راجو تھوڑا افسردہ لگ رہا تھا۔(جاری ہے)مقابلہ شروع ہو گیا۔سخت محنت کے بعد میں نے مقابلہ جیت لیا،لیکن حیرت بھی ہو رہی تھی کہ راجو ہار کیسے گیا۔مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں جیت گیا ہوں۔راجو کچھ پریشان سا لگ رہا تھا۔مقابلہ ختم ہونے کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ تم پریشان لگ رہے ہو،کوئی پریشانی ہے کیا؟اس نے بتایا کہ میری ماں کی طبیعت خراب ہے اور شہر جا کر اس کا علاج کروانے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔میں نے مقابلے میں اس لئے حصہ لیا تھا کہ اگر میں جیت جاؤں گا تو مجھے پیسے مل جائیں گے،لیکن ماں کا خیال رکھنے کی وجہ سے تیاری نہ کر پایا اس لئے تم سے ہار گیا۔یہ کہنے کے بعد وہ اُداس ہو کر مایوسانہ انداز میں بیٹھ گیا۔مجھے اس پہ ترس آگیا اور میں نے وہ دس لاکھ روپے اس کو دے دیے۔پہلے تو اس نے پیسے لینے سے انکار کر دیا،لیکن میرے بے حد اصرار پر لے لیے۔مجھے اپنے جیتنے کی اتنی خوشی نہیں ہوئی،جتنی مجھے اس کو پیسے دینے کے بعد ہوئی۔واقعی آج مجھے سچی خوشی ملی تھی۔ " گھوڑا گدھا برابر - تحریر نمبر 2030,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghora-gadha-barabar-2030.html,"انور فرہاد”اے گدھے!ذرا ہٹ کے۔ذرا پرے․․․․“”کیوں․․․․؟ہٹ کے کیوں․․․․․․پرے کیوں․․․․․؟“”اس لئے کہ تیرے جسم سے بدبو آرہی ہے۔“”ٹیڑھے منہ والے گھوڑے!ایسی دُولتی ماروں گا کہ گر گئے تو اُٹھ نہیں پاؤ گے۔“”گدھے کہیں کے۔گدھے نہ ہوتے تو کچرا اُٹھانے والی گاڑی کیوں کھینچتے؟“ایک گھوڑا اور ایک گدھا،ایک میدان میں کھڑے ایک دوسرے سے لفظی جنگ لڑ رہے تھے۔”ٹھیک ہے۔“گدھا بولا:”میں کچرا گاڑی کھینچتا ہوں۔جہاں سے اور جس طرح مزدوری ملے کرنی چاہیے۔تم کون سا ہوائی جہاز کھینچتے ہو․․․․؟تم بھی تو ایک تانگے میں جُتے ہوئے ہو۔دیکھو انسان اپنے بچوں کو گدھا کہتے ہیں۔گدھا کہیں گا۔(جاری ہے)کیا تمہیں یہ عزت،یہ مرتبہ حاصل ہے؟“”نہیں،اور نہ مجھے چاہیے۔ارے گدھے!یہ عزت نہیں بے عزتی ہے۔رہی بات تانگے کی تو تانگے میں کوئی گندگی سواری نہیں کرتی۔ صاف ستھرے لوگ بیٹھتے ہیں تانگے میں۔“گدھا بولا:”مگر تم خود گندگی کرتے جاتے ہو۔جہاں سے گزرتے ہو،لید کرتے ہوئے جاتے ہو۔اسی لئے تو تمہیں اور تمہارے تانگے کو شہر بدر کر دیا گیا ہے،کہ شہر کو تمہاری گندگی سے پاک رکھا جائے۔“گھوڑے نے گولائی میں اپنی دُم گھمائی۔“ہلکے سے ہنہنایا۔پھر بولا:”شہر کے نام سے خوب یاد آیا۔ایک زمانہ تھا،جب بادشاہ سلامت جیسے لوگ گھوڑوں پر سواری کرتے تھے۔تمہارے باپ دادا نے کبھی کسی بڑے آدمی کو اپنی پیٹھ پر سوار کیا․․․․؟“گدھے نے بڑی ہوشیاری سے گھوڑے کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا:”مگر جب گاڑی آئی تو تمہارے باپ دادا کی حیثیت بھی خاک میں مل گئی اور گھوڑوں کو سواری کے بجائے مال برداری میں لگا دیا گیا۔“گھوڑا ذرا تلملایا،مگر سنبھل کر بولا:”مگر ہماری عزت داری میں کوئی فرق نہیں آیا۔آج بھی گھوڑوں کو شاہی سواری یعنی بگھی میں دیکھا جا سکتا ہے اور فلموں میں تو جنگ کے دوران فوجوں کو گھڑ سواری کرتے ہوئے اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔“”اے گھوڑے!کیا تم چاول کھا گئے ہو؟ایسی بے پَرکی اُڑا رہے ہو جیسے ہمیں اپنے اردگرد کی کوئی خبر نہیں۔“”کیسے خبر ہو گی تمہیں،گدھے جو ہو۔آج جو دنیا بھر میں فلمیں بنتی ہیں،ان میں گھوڑوں کو ماضی کے بادشاہوں کی جنگ میں شریک دکھایا جاتا ہے،مگر تم کیا جانو فلموں کی باتیں۔تم گدھے ہی رہو گے۔“گدھے نے زور دار قہقہہ لگایا۔جب اس کی ڈھینچوں ڈھینچوں ختم ہوئی تو بولا:”تمہاری بے خبری پر افسوس ہوتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے۔ تمہیں پتا ہی نہیں اب گدھے بھی فلموں میں کام کرتے ہیں۔کبھی گدھے گاڑیوں کی ریس دکھائی جاتی ہے۔کبھی مال برداری کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور ہاں خوب یاد آیا پاکستان میں ایک فلم بھی تو بنی ہے”انسان اور گدھا“ مگر تم نے کہاں دیکھی ہو گی یہ فلم۔اس میں ایک گدھے نے ایسی اداکاری کی ہے کہ․․․․․․“گھوڑا اس کی بات کاٹ کر بولا:”زیادہ شیخی نہ بگھارو․․․․وہ فلم گدھے کی وجہ سے نہیں اداکاری کی وجہ سے کامیاب ہوئی تھی۔“”تم کہاں کہاں گدھوں کی اہمیت کو جھٹلاؤ گے۔برصغیر ہندو پاکستان کے سب سے بڑے ناول نگاڑ کرشن چندر نے ایک گدھے کی سرگزشت ناول کے روپ میں لکھ کر گدھوں کو امر کر دیا ہے ۔کسی ادیب نے شاعر نے کسی گھوڑے پر ایسا کچھ لکھا ہے؟“گھوڑے نے کہا:”ناول نہیں لکھا تو کیا ہو۔بہت سی کہانیاں لکھی ہیں جن میں گھوڑوں کو انسان کا سب سے وفادار جانور قرار دیا گیا ہے۔“”انسان کا سب سے وفادار جانور تو کتا ہے۔جن لوگوں نے گھوڑوں کو یہ عزت بخشی ہے وہ نرے گدھے ہیں۔“”گھوڑا زور سے ہنہنایا۔اس کی ہنسی رکی تو بولا:”تم نے آخر اپنے گدھے پن کو تسلیم کر ہی لیا نا۔مان لیا نا۔“گدھا ابھی کوئی جواب نہیں دے پایا تھا کہ ادھر ایک بکری قریب آگئی اور دونوں کو مخاطب کرکے کہنے لگی:”میں دیر سے تم دونوں کی زبانی جنگ کا تماشا دیکھ رہی ہوں۔آخر مسئلہ کیا ہے تم دونوں کے درمیان؟“”دیکھو نا بی بکری!“گدھا بولا:”یہ گھوڑا مجھے گدھا کہتا ہے۔گدھا سمجھتا ہے۔“بکری بولی:”ارے بھائی!گدھے کو گدھا ہی کہا جائے گا۔گھوڑا نہیں کہا جائے گا۔“”یہی بات تو اس گدھے کی سمجھ میں نہیں آتی۔“گھوڑے نے مزے سے اپنی دُم ہلاتے ہوئے کہا۔”سمجھ میں آتا ہے۔سب سمجھ میں آتا ہے۔تم مجھے گدھا ثابت کرکے اپنے آپ کو بڑا افلاطون جتانے کی کوشش کر رہے ہو۔بی بکری!یہ بھی میری ہی طرح ایک جانور ہے۔کوئی پروفیسر قسم کا انسان نہیں ہے۔پھر مجھ سے جھگڑا کیوں مول لیتا ہے؟“بکری نے فوراً ہی کوئی جواب نہیں دیا۔ذرا دیر تک جگالی کی پھر دونوں کی طرف دیکھ کر کہا:”میرے دوستو!یہ تو تم جانتے ہوں کہ تمہارا خالق اور مالک اللہ ہے؟“گھوڑے نے کہا:”ہاں،بالکل جانتے ہیں۔“گدھے نے تائید کی:”اس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔“”اس کی نگاہ میں تو کوئی بُرا نہیں،کوئی چھوٹا نہیں یا بڑا نہیں۔دیکھو،وہ سب کو رزق دیتا ہے۔سب کو زندہ رہنے کے لئے طور طریقے سکھاتا ہے۔سب کے روزگار کا بندوبست کرتا ہے۔اگر اس نے کسی کو چھوٹا بنایا ہے اور کسی کو بڑا تو یہ اس کی حکمت ہے۔اس میں اس کی کوئی مصلحت ہے۔تم دونوں کو تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس کے فضل سے تم دونوں کو انسانوں کی نگرانی اور نگہبانی حاصل ہے۔انسان تمہارے لئے کھانے پینے کا بندوبست کرتا ہے۔تم سے اپنی ضرورت کے تحت کام لیتا ہے تو تمہیں آرام بھی پہنچاتا ہے۔“”ہاں․․․․یہ بات تو ہے۔“گھوڑے نے کہا۔”تم دونوں کو اللہ کا اس لئے بھی شکر ادا کرنا چاہیے کہ انسان تمہیں ہم بکریوں اور گایوں کی طرح ذبح کرکے کھاتا نہیں۔“”بی بکری!اب تو اللہ کی وہ مخلوق جو سب سے زیادہ اشرف ہے،افضل ہے،ہم گدھوں اور گھوڑوں کا گوشت بھی بازار میں فروخت کر دیتا ہے۔“”اور پکڑے بھی جاتے ہیں،پھر سزا کے مستحق بھی قرار دیے جاتے ہیں۔“بکری نے برجستہ کہا۔پھر جگالی کرنے کے بعد گدھے سے بولی :”آپ کی معلومات کی داد دینی پڑتی ہے۔کون کہتا ہے کہ تم محض گدھے ہو۔“پھر گھوڑے کی طرف دیکھ کر بولی:”مسٹر گھوڑے!آپ انھیں محض گدھا نہ سمجھیں۔ان میں بھی کچھ عقل ہے،سمجھ ہے،سوجھ بوجھ ہے۔“”ان تمام باتوں کے باوجود وہ گدھے میاں ہیں اور میں تو ہوں ہی گھوڑا۔“”ہاں،مگر دونوں اللہ کی مخلوق ہیں اور اس کی نگاہ میں دونوں اہمیت کے حامل ہیں۔پھر چھوٹے بڑے اور گدھے اور گھوڑے کا کیا جھگڑا؟پیار محبت کے ساتھ مل جل کر رہو کہ یہی اللہ کی خوشنودی کا سبب ہے۔یہی اس کی عبادت ہے۔“ " بلیوں کا دیس - تحریر نمبر 2029,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/billiyon-ka-dais-2029.html,"حمنہٰ محمد عقیل شاہ،کراچیوہ بلی تھی،لیکن انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پر چل رہی تھی۔سب بلیاں اُسی کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ایک بلی نے آگے بڑھ کر اُسے بلیوں کے دیس میں خوش آمدید کہا۔وہ سب انسانوں کی طرح بات کر رہی تھیں۔سامنے ایک صاف شفاف جھیل تھی۔وہ اس جھیل کی طرف بڑھ گئی۔جھیل میں اسے اپنا عکس نظر آرہا تھا۔وہ حیران و پریشان رہ گئی،کیونکہ اب وہ انسان نہیں تھی،بلکہ ایک بلی بن چکی تھی۔ہری ہری آنکھوں اور سفید رنگ والی خوبصورت بلی۔پھر اچانک ہی اسے اپنے امی ابو کا خیال آیا۔اس نے سب بلیوں سے پوچھا:”میں بلیوں کے دیس میں کیسے آئی؟مجھے اپنے گھر جانا ہے۔“ایک بلی بولی:”اب تم اپنے گھر صرف اس وقت جا سکتی ہو جب ایک مہینہ مکمل ہو جائے گا۔(جاری ہے)تم نہیں جانتیں کہ تم کیسے بلی بن گئی؟تم اپنی خواہش کے مطابق ہی بلی بنی ہو۔تم بھی ہم سب کی طرح بلی کی طرح آزاد رہنا چاہتی تھیں۔ہمیں بھی بہت شوق تھا کہ بلیوں کی طرح خوبصورت ہوں اور اسکول بھی نہ جانا پڑے۔اب ہم سب بلیاں ہیں اور ہمیں احساس بھی ہو گیا ہے،مگر اب ہم اپنی باری پر ہی انسانوں کی دنیا میں واپس جا سکیں گے۔“پھر وہ سب بلیاں اِدھر اُدھر گھومنے لگیں اور وہ اُداس ہو کر ایک درخت پر بیٹھ گئی۔توبہ کرنے لگی کہ کبھی بھی ایسی فضول خواہش نہیں کرے گی۔ اللہ نے اُسے جیسا بنایا ہے،اُسی میں خوش رہے گی۔مسکان نے اپنا خواب حفضہٰ کو سنایا تو وہ خوب ہنسی۔ " نیک دل بلی - تحریر نمبر 2028,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naik-dil-billi-2028.html,"خنسہٰ محمد عقیل شاہ،کراچیوہ منظر بہت پیارا تھا۔ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔عجیب طریقے کے پودے اور درخت اس جگہ کو انوکھا بنا رہے تھے۔اچانک ایک ہری اور نیلی آنکھوں والی بلی نمودار ہوئی اور انسانوں کی طرح درختوں پر چڑھ کر پھل توڑنے لگی۔ساتھ ہی سریلی،مگر مدھم آواز میں گانا بھی گا رہی تھی۔وہ پھل لے کر دائیں جانب مڑ گئی۔تھوڑی دور جا کر وہ ایک کھمبی نما گھر میں داخل ہوئی۔وہاں ایک اور بلی دکھائی دی۔وہ بھی انسانوں کی طرح کھڑی ہوئی تھی۔نیلی اور ہری آنکھوں والی بلی نے اس کو پھل دیے اور اپنا خیال رکھنے کا کہہ کر چلی گئی۔اس طرح وہ درختوں سے عجیب قسم کے پھل،کھمبیاں اور دوسری چیزیں توڑ کر لے جاتی اور انسانوں کی طرح باتیں کرنے والی دوسری بلیوں تک پہنچا دیتی۔(جاری ہے)وہ بلیوں کا شہر تھا،اس لئے ہر طرف صرف بلیاں ہی تھیں۔اس کو جب تسلی ہو گئی کہ وہ سب کو پھل پہنچا چکی ہے تو وہ بہت خوش ہوئی اور پھر سے اپنی سریلی اور مدھم آواز میں گانا گانے لگی اور اِدھر اُدھر اُچھل کود کرنے لگی۔سب بچوں کی نظریں اب بھی اس بلی پر تھیں وہ شاید اپنے گھر جا رہی تھی۔بچے بھی اس کا گھر دیکھنا چاہتے تھے کہ کیسا ہے؟اور کون کون اس کے گھر میں رہتا ہے۔اتنے میں ابو کی آواز آئی:”چلو بچو!اب ٹی وی کی جان چھوڑو،کچھ اہم خبریں آنے والی ہیں۔ٹی وی کا ریموٹ کہاں ہے،مجھے دو۔“بچے اس نیک دل بلی کو یاد کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔ " نابینا فقیر کی دانشمندی - تحریر نمبر 2027,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nabina-faqeer-ki-danishmandi-2027.html,"لیاقت مظہر باقریپیارے بچو!بہت سالوں کی بات ہے،ملک خراسان میں بخت شاہ کی حکومت تھی،جو بہت نیک اور رحم دل بادشاہ تھا۔اس کے برعکس،بخت شاہ کا وزیر،انتہائی مغرور اور بدمزاج شخص تھا۔وزیر بننے کے بعد قوت و اختیارات اور دولت کی ریل پیل نے اس کا دماغ خراب کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر شخص کو حقیر سمجھتا تھا۔ایک دن،بادشاہ بخت شاہ وزیر اور ان کا خاص ملازم سفر پر روانہ ہوئے۔وہ تینوں علیحدہ علیحدہ گھوڑوں پر سوار تھے۔جب وہ ایک صحرا سے گزرے تو اچانک انہیں ریت کے طوفان نے گھیر لیا۔گرد و غبار کی وجہ سے انہیں راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن ملازم نے بادشاہ کا ساتھ نہ چھوڑا اور اس کے ساتھ رہا جب کہ وزیر ان سے بچھڑ گیا۔کچھ دیر بعد جب طوفان تھما تو وہ دونوں الگ الگ وزیر کو تلاش کرنے لگے۔(جاری ہے)کافی دیر کی تلاش کے بعد ملازم کو ایک جھونپڑی نظر آئی۔جب وہ وہاں پہنچا تو اسے ایک اندھا فقیر بیٹھا دکھائی دیا۔ملازم نے اس سے انتہائی بدتمیزی سے پوچھا۔”اندھے،کیا تو نے اس طرف سے کسی گھوڑ سوار کے گزرنے کی آواز سنی ہے“؟فقیر نے جواب دیا:”نہیں بھائی،مجھے تو کچھ سنائی نہیں دیا۔“ملازم یہ سن کر آگے بڑھ گیا۔تھوڑی دیر بعد وزیر بھی اپنے ساتھیوں کو تلاش کرتا ہوا اِدھر سے گزرا۔جھونپڑی دیکھ کر وہ بھی رکا اور اس نے فقیر سے پوچھا:”او فقیر،کیا تم نے یہاں سے کسی آدمی کے گزرنے کی آوازیں سنی ہیں؟“۔اس نے وزیر کو بھی وہی جواب دیا جو ملازم کو دیا تھا،وزیر بھی وہاں سے آگے بڑھ گیا۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ بخت شاہ بھی اسی جھونپڑی کے پاس سے گزرا۔فقیر کو دیکھ کر گھوڑے سے نیچے اُترا پہلے فقیر کو سلام کیا۔اس کے بعد انتہائی ادب سے پوچھا۔”شاہ صاحب’کیا آپ نے کسی گھوڑے کی آوازیں سنی ہیں“؟نابینا فقیر نے جواب دیا،”جی ہاں جہاں پناہ،پہلے حضور کا ملازم اِدھر سے گزرا پھر آپ کا وزیر“بادشاہ کو یہ سن کر بہت حیرت ہوئی،اس نے پوچھا،”شاہ صاحب؟آپ تو نابینا ہیں آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں بادشاہ ہوں۔“اندھے فقیر نے مسکرا کر جواب دیا،”عالی جاہ“آپ کے ملازم نے مجھے اندھا کہا آپ کے وزیر نے مجھے فقیر کہا،حضور نے مجھے شاہ صاحب کہہ کر مخاطب کیا۔لہٰذا گفتگو اور لہجے سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ کون کس مرتبے کا ہے۔بخت شاہ،فقیر کی باتوں سے بہت خوش ہوا اور اسے انعام و اکرام دینے کی کوشش کی لیکن فقیر نے لینے سے انکار کر دیا۔بادشاہ فقیر کی جھونپڑی سے رخصت ہو کر محل پہنچا جہاں ملازم اس کا انتظار کر رہا تھا۔اس نے اسے فقیر سے بے سودہ انداز میں گفتگو کرنے پر سرزنش کی۔اس دوران وزیر بھی محل پہنچ گیا۔بادشاہ نے اسے بھی نابینا فقیر سے ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا۔پھر دونوں کو سمجھایا کہ”اعلیٰ مرتبے یا عہدے کے نشے میں کسی انسان کو کمتر اور حقیر نہیں سمجھنا چاہیے،یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا عطیہ ہے۔لیکن یاد رکھو،اگر خالق کائنات اگر کسی کو کچھ دیتا ہے تو وہ اسے واپس لینے کی بھی قدرت رکھتا ہے۔“ " جھگڑا یا پیار - تحریر نمبر 2026,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhagra-ya-pyar-2026.html,"ثروت یعقوب․․․․لاہورادریس احمد اور لطیف دو بھائی ہیں۔ادریس احمد لطیف سے تین سال چھوٹا ہے اور پڑھائی میں اُس سے دو سال پیچھے ہے۔لطیف ساتویں کلاس میں پڑھتا ہے۔دونوں کی عادتیں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔لطیف کم عمر ہونے کے باوجود اکیلا رہنا پسند کرتا ہے اور بات چیت بھی کم کرتا ہے جبکہ ادریس احمد اتنا شرارتی ہے کہ گھر کے سب لوگ اُس کی شرارتوں سے تنگ رہتے ہیں۔تاہم پڑھائی میں دونوں بھائی بہت اچھے ہیں اور کلاس میں ہمیشہ فرسٹ آتے ہیں۔اس لئے اُس کے پاپا اُس کی شرارتوں کے باوجود اُس سے خوش رہتے ہیں۔دونوں بھائیوں کے مزاج مختلف ہونے کی وجہ سے اُن میں اکثر جھگڑا بھی رہتا ہے۔شرارتی ادریس احمد کو اپنے چھوٹے بھائی لطیف کو چڑانے میں بے حد مزا آتا ہے لیکن اُس کا مقصد لطیف کا دل دکھانا نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف اُسے ہنسانے اور اُس سے کھیلنے کیلئے ایسا کرتا ہے جبکہ لطیف اتنا ناراض ہو جاتا ہے کہ کئی کئی دن تک اُس سے بات نہیں کرتا ۔(جاری ہے)اُن کے گھر کے نزدیک ایک بہت بڑا باغیچہ ہے جس میں آم، جامن اور امرود کے بہت سے درخت ہیں،اس باغیچے کی خاص بات یہ ہے کہ درخت ایک دوسرے سے بہت جڑے ہوئے ہیں،امرود کی ڈالیوں پر اکثر ہی ڈھیر سے طوطے اور چڑیاں بیٹھے ہوتے ہیں جنہیں دیکھنا لطیف کو بہت اچھا لگتا ہے۔یوں بھی وہ شام کو باغیچے میں چلا جاتا ہے اور کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر طوطوں اور چڑیوں کو دیکھتا رہتا ہے،کہانیاں پڑھتا رہتا جبکہ ادریس احمد موقع پاتے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کیلئے گھر سے باہر نکل جاتا اور خوب شرارتیں کرتا۔ایک دن دونوں بھائی کسی بات پر جھگڑ پڑے،نوبت مارپیٹ تک پہنچ گئی ،حالانکہ جب لطیف غصہ میں آتا تو ادریس خاموش ہو جاتا ہے لیکن اُسے بھی پتا نہیں اُس دن کیا ہوا کہ وہ لطیف سے اُلجھ گیا اور اس دوران میں اتفاق سے پاپا بھی آگئے۔اُنہوں نے دیکھا کہ ماں کے سمجھانے کے باوجود دونوں بچے لڑ رہے ہیں تو وہ بہت ناراض ہوئے۔اُنہوں نے کہا کہ میرے گھر میں نہ ہونے پر تم دونوں اس طرح لڑتے رہتے ہو؟آج تو میں ہوں کل نہیں رہوں گا،تو کیا اسی طرح سے لڑو گے پھر تمہیں کون سمجھانے آئے گا؟پاپا کی بات کا ادریس پر اتنا اثر ہوا کہ وہ بدل ہی گیا۔وہ لطیف سے زیادہ خاموش اور اکیلا رہنے لگا۔لطیف کو ادریس کا بدلا ہوا یہ روپ کچھ اچھا نہیں لگا۔وہ سوچنے لگا بھائی کا رویہ میرے ساتھ ایسا تو نہیں تھا،وہ تو چڑیوں کی طرح ہمیشہ چہکتا رہتا تھا،یقینا میری وجہ سے ہی یہ سب ہوا ہے۔اُس کو پہلی مرتبہ یہ محسوس ہوا کہ ادریس کی شرارتوں کی وجہ سے ہی گھر میں رونق لگی رہتی ہے۔اُس نے اپنے گھر میں ایسی اُداسی کبھی نہیں دیکھی تھی۔یہ سوچتے سوچتے وہ باغیچے کی طرف بڑھا۔اچانک اُس کی نظر پاس والے امرود کے درخت پر پڑی۔اُس نے دیکھا کہ ایک طوطا اپنی چونچ سے اپنے بچے کو امرود کھلا رہا ہے،یہ دیکھ کر اُس کو اپنی ماں کی یاد آگئی۔تب ہی آسمان کالے کالے بادلوں سے گھر گیا اور زور دار آندھی کے آثار بننے لگے۔دیکھتے ہی دیکھتے ہوا تیز ہو گئی اور ایک چھوٹا پیڑ اپنے بغل کے بڑے پیڑ کے سہارے تیز ہوا کا مقابلہ کرنے لگا۔لطیف کو محسوس ہوا کہ یہ بڑا پیڑ کوئی اور نہیں ادریس احمد ہے۔وہ تیزی سے دوڑتا ہوا گھر آیا اور ادریس احمد سے لپٹ کر رونے لگا۔ادریس احمد نے اُس کی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا،بھائی ادریس احمد ہم پھر جھگڑیں گے کیونکہ پیار ہو تو جھگڑا بھی پیار لگتا ہے۔ اُن دونوں کو خوش دیکھ کر اُن کے ممی پاپا بھی مسکرانے لگے۔ " بلی کا بچہ - تحریر نمبر 2025,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/billi-ka-bacha-2025.html,"صائمہ نے اپنے گھر میں ایک بلی کا بچہ پال رکھا تھا۔صائمہ اپنے اس بلی کے بچے کی بہت زیادہ دیکھ بھال کرتی تھی۔وہ اس بلی کا کھانا پینا وافر مقدار میں ایک کپ دودھ کا اس جگہ رکھ دیتی تھی جہاں سے بلی کا بچہ اپنا پیٹ بھرتا تھا۔الغرض صائمہ اپنے اس بلی کے بچے کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھی اور اگر کوئی اس بچے کو تنگ کرتا وہ سخت ناراض ہو جایا کرتی تھی۔ایک روز جب صائمہ صبح اُٹھی تو اسے اپنے اس بلی کے بچے کی آواز نہ آئی۔وہ گھبرا سی گئی۔فوراً اس نے اپنی جوتی پہنی اور روتے ہوئے گھر کے بار اِدھر اُدھر دیکھنے لگی کہ اس کی بلی کا بچہ کہاں ہو گا۔آیا وہ گھر سے باہر کھیل کود میں مصروف ہو گا یا پھر گھر سے بہت دور کہیں گم ہو گیا ہے یہ سوچ کر صائمہ زار و قدار رونے لگی۔(جاری ہے)ابھی اس کے آنسو خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ صائمہ کے گھر کی صفائی اور دوسرے کرنے والے کام والی ملازمہ نے صائمہ سے پوچھا کہ باجی!اگر آپ کہیں تو میں اپنے ہمسایوں اور دیگر لوگوں سے پوچھوں کہ انہوں نے آپ کی بلی کا گمشدہ بچہ تو نہیں دیکھا۔صائمہ نے ملازمہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اسے اجازت دے دی۔ملازمہ گھر سے نکل کر سب سے پہلے اپنے پڑوس میں واقع تین چار گھروں میں گئی مگر بلی کا بچہ نہ ملا۔اچانک ملازمہ کو گھر سے ذرا دور ایک بلی کے بچے کی رونے کی آواز آئی۔ملازمہ کا ماتھا ٹھنکا اور وہ اس جگہ گئی جہاں بچہ رو رہا تھا۔ملازمہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی وہ فوراً صائمہ کے پاس گئی اور اسے بچے کی آواز جہاں سے آرہی تھی ادھر لے گئی۔صائمہ خوشی سے پاگل ہو گئی۔اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے کیونکہ اس نے بلی کا بچہ بڑے ناز و نخرے سے پالا تھا۔مگر صائمہ کو اس وقت پریشانی لاحق ہوئی جب اس نے بلی کے اس بچے کے ماتھے پر چند دھبے خون کے لگے دیکھے صائمہ نے اپنے بلی کے بچے کو اُٹھا کر جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ڈاکٹر نے بلی کے بچے کے ماتھے پر مرہم پٹی کر دی اور صائمہ کو کہا کہ آپ کی بلی کا بچہ جھاڑیوں میں چلا گیا تھا جہاں کانٹے لگے ہوئے تھے وہی کانٹے اس بچے کو زخمی کر رہے تھے اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر نے صائمہ کو کہا کہ کم از کم ایک ہفتہ تک اس بلی کے بچے کی مرہم پٹی ہو گی اس دوران تمہیں اس کا خاص خیال رکھنا ہو گا۔صائمہ نے ڈاکٹر کی ہاں میں ہاں ملائی اور اسے گھر لے آئی اور اسے دودھ پلایا کھانے کو بھی چیزیں دی گئیں۔یوں ایک ہفتہ کے علاج کے بعد بلی کا بچہ تندرست ہو گیا اور اِدھر اُدھر اٹھکیلیاں کرنے لگا۔صائمہ کی خوشی دیدنی تھی۔کیونکہ اسے اپنی بلی کا بچہ جو مل گیا تھا۔جس سے وہ بے حد پیار کرتی تھی۔ " خرگوش کی چالاکی - تحریر نمبر 2024,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khargosh-ki-chalaki-2024.html,"عائشہ صدیقہکسی جگہ شرارتی خرگوش رہتا تھا جس کی ذہانت سے لومڑ جیسا چالاک جانور بھی اکثر مات کھاتا تھا۔اسے خرگوش پر بہت غصہ آتا تھا،اسی لیے وہ اسے اور اس کے دوستوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ایک دفعہ لومڑ بڑا سا بیگ کندھے پر ڈالے تیزی سے چلا جا رہا تھا۔ بیگ سے کسی کے چیخنے چلانے کی آواز آرہی تھی جس سے خرگوش کو اندازہ ہوا کہ اس میں اس کا دوست کچھوا قید ہے۔اب اسے اپنے دوست کو بچانے کی فکر لاحق ہوئی۔خرگوش جنگل کے درمیان سے تیزی سے بھاگتا لومڑ سے پہلے اس کے گھر پہنچا اور اس کے باغ کے سارے پھول توڑ کر زمین پر پھینک دیے اور خود گھر کے دروازے کے قریب ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گیا۔جونہی لومڑ کندھے پر بیگ لیے گھر پہنچا تو خرگوش نے آواز بدل کر سرگوشی کی ”اے لومڑ تمہیں بیگ یہاں رکھ کر فوراً باغ جانا چاہیے،کسی نے تمہارے باغ کے خوبصورت پھول توڑ کر برباد کر دیے ہیں“۔(جاری ہے)یہ سنتے ہی لومڑ کو غصہ آگیا۔اس نے بیگ زمین پر رکھا،چھڑی اُٹھائی اور باغ کی طرف بھاگا۔خرگوش نے جلدی سے بیگ کھول کر اپنے دوست کچھوے کو آزاد کیا اور اس کی جگہ شہد کی مکھیوں کا چھتّہ ڈال کر دروازے کے پاس رکھ دیا تاکہ لومڑ کو سزا مل سکے۔لومڑ نے دیکھا کہ باغ میں پھول بکھرے تھے پر کوئی موجود نہیں تھا تو اسے شک ہوا کہ یہ خرگوش کی حرکت تھی،جس نے اس کے باغیچے کا ستیاناس کر دیا تھا۔وہ واپس آیا اور بیگ اُٹھا کر اندر لے گیا۔جونہی اس نے بیگ کھولا تو شہد کی مکھیوں نے اس پر حملہ کر دیا اور وہ جان بچانے کے لئے دوڑنے لگا۔اس سے ہم نے یہ سبق سیکھا کہ جو دوسروں کا بُرا چاہتے ہیں ان کے ساتھ بھی بُرا ہوتا ہے اور اچھے دوست مشکل وقت میں ہمیشہ کام آتے ہیں اس لئے دوست بنانے کی کوشش زیادہ کرنی چاہیے۔ " مستقبل کی فکر - تحریر نمبر 2023,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mustaqbil-ki-fikr-2023.html,"رابعہ شرف الدین،کراچیکسی جنگل میں ایک ٹڈا رہتا تھا۔وہ دن بھر گھومتا اور ہرے پتے کھاتا،ایک دن وہ پتا کھا رہا تھا اور گنگنا رہا تھا کہ اسے ایک پھل اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔وہ قریب پہنچ گیا۔بہت سی چیونٹیاں مل کر اس کو اُٹھائے ہوئے تھیں۔ٹڈا بولا:”تم اتنی ساری چیونٹیاں یہ کہاں لے جا رہی ہو؟“وہ ایک جڑ کی طرف اشارہ کرکے بولیں:”خزاں کا موسم آنے والا ہے،اس لئے ہم اناج اور کھانا جمع کر رہے ہیں،تاکہ سردی کے موسم میں آرام سے رہ سکیں۔“ٹڈے نے دیکھا کہ درخت کی جڑ میں ایک سوراخ ہے اور چیونٹیاں اس میں اناج وغیرہ لے جا رہی ہیں۔اس نے یہ دیکھا تو بولا:”اے بے وقوف چیونٹیو!مستقبل کی فکر ابھی سے کیوں کر رہی ہو؟ابھی خوب مزے اُڑاؤ میری طرح مستقبل کا بعد میں دیکھا جائے گا۔(جاری ہے)“چیونٹیوں نے کہا:”اے ٹڈے!تم بھی اناج جمع کر لو ورنہ بعد میں پچھتاؤ گے۔“وہ بولا:”مجھے تو ابھی موسم کے مزے لینے دو۔مستقبل کا بعد میں دیکھا جائے گا۔“اور وہ بے فکری سے ہرا پتا کھانے لگا۔ایک دن ایک چیخ سنائی دی۔ایک چیونٹی کا پاؤں پتھر سے اٹکا اور وہ گر پڑی۔ٹڈا قریب آکر بولا:”کیا میں تمہیں تمہارے گھر پہنچا دوں؟“چیونٹی بولی:”میں تمہاری شکر گزار ہوں گی۔“ٹڈے نے اسے اپنی کمر پر بیٹھایا اسے گھر کے قریب اُتار دیا۔چیونٹی نے اس کا شکریہ ادا کیا۔جلد ہی خزاں کا موسم آگیا۔ایک پتا تک ہرا نہ بچا۔ٹڈا جس پتے کو چھوتا،وہ سوکھ کر گر جاتا۔آخر وہ بھوکا رہنے لگا۔اسے چیونٹیوں کی باتیں یاد آنے لگیں۔اسے یہ بھی یاد آیا کہ چیونٹیوں نے خوراک کا ذخیرہ کیا ہوا تھا۔اس نے دروازہ کھٹکھٹایا ایک چیونٹی باہر آئی اور بولی:”کون ہے؟“وہ بولا:”میں ہوں ایک غریب ٹڈا۔میرے پاس کچھ کھانے کو نہیں ہے کئی روز سے بھوکا ہوں۔میری مدد کرو۔“چیونٹی بولی:”تم ہی نے ہمارا مذاق اُڑایا تھا کہ ابھی مجھے مزے کرنے دو۔ہم نہ کہتے تھے کہ اناج جمع کر لو۔“آوازیں سن کر کچھ اور چیونٹیاں بھی آگئیں۔چیونٹیوں کے کچھ گروہ باہر آئے۔ٹڈے نے انھیں آدھی بات بتائی اس وقت تک ٹڈا بے ہوش ہو گیا۔اچانک ہی ایک چیونٹی بولی کہ کس طرح ٹڈے نے میری مدد کی تھی۔اندر لے چلو اس کو۔چیونٹیاں اس کو پتے پر لٹا کر اندر لے گئیں۔اسی چیونٹی نے اسے سوپ پلایا اور آگ کے قریب بیٹھایا۔آخر کچھ دیر میں وہ ہوش میں آگیا۔ اس نے چیونٹی کا شکریہ ادا کیا۔چیونٹی بولی:”اے نادان ٹڈے!اب تمہیں علم ہو گیا ہو گا کہ مستقبل کے لئے پہلے سے سوچنا کتنا ضروری ہے۔“وہ بولا:”ہاں،میں سمجھ گیا مستقبل کی فکر حال میں کرنا کیوں ضروری ہے۔مجھے آج ایک اور بات پتا چلی کہ نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔“ساری چیونٹیوں نے اس کو نئی زندگی کی مبارک باد دی۔ " میٹھے پھل - تحریر نمبر 2022,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/meethay-phal-2022.html,"سیدہ اقراء اعجاز،حیدرآبادانیق اچھا بچہ تھا،لیکن اس کا ہم جماعت سہیل بگڑا ہوا لڑکا تھا۔اس نے انیق کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا۔انیق بھی اسی طرح بدتمیز،جھوٹ بولنے والا،کام چور اور پڑھائی سے بھاگنے والا بچہ بن گیا۔وہ پہلی مرتبہ فیل ہوا تو گھر والوں نے بہت ڈانٹا۔اس پر مختلف پابندیاں لگا دی گئیں۔رات انیق بہت دیر تک جاگتا رہا۔اسے آج اپنے سب دوستوں کے سامنے بہت شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔وہ ہمیشہ کلاس میں نمایاں نمبر لے کر پاس ہوتا تھا،لیکن جب سے اس نے سہیل سے دوستی کی تھی تب سے اس کا پڑھائی پر سے دھیان ہٹ کر کھیلوں کی طرف ہو گیا تھا۔ اسی طرح سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔وہ ایک خوب صورت باغ میں کھڑا تھا،جہاں ہر طرف رنگ برنگے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔(جاری ہے)ایک طرف مزے دار پھلوں کے درخت لگے ہوئے تھے،جن کو دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آجاتا۔وہ سیب کے درخت پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا،تاکہ مزے دار سیب کھا سکے،لیکن وہ جیسے ہی چڑھنے کی کوشش کرتا ہے،فوراً دھڑام سے نیچے گر جاتا ہے۔آخر وہ تنگ آکر باغ کی نرم و نازک گھاس پر بیٹھ گیا۔اسی وقت اسے سامنے سے ایک بزرگ آتے ہوئے دکھائی دیے۔ان کا لباس سفید اور اُجلا اور چہرہ نورانی تھا۔انیق نے انھیں ادب سے سلام کیا اور کہا:”بابا جی!دیکھیں میں کب سے سیب کھانے کی کوشش کر رہا ہوں،لیکن بار بار درخت پر سے پھسل کر گر جاتا ہوں،کیا کروں؟“”انیق بیٹے!تم یہ مزے دار پھل کیسے کھا سکتے ہو۔یہ تو تمہارے لیے نہیں ہیں۔“بابا جی عجیب سے لہجے میں بولتے ہیں۔”کیوں،یہ میرے لیے کیوں نہیں ہیں؟“انیق نے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔”بابا جی نے کہا:”یہ مزے دار پھل تو ان کیلئے ہیں جو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیتے،وقت کی قدر کرتے ہیں۔بُرے دوستوں کی صحبت سے بچتے ہیں۔تم بتاؤ کیا یہ ساری خوبیاں تمہارے اندر ہیں؟“بابا جی کی باتیں سن کر انیق کا سر شرم سے جھک گیا۔اس نے سوچا واقعی میرے اندر تو یہ ساری بُرائیاں موجود ہیں۔#’#’فکر مت کرو بیٹا!تمہارے پاس اب بھی وقت ہے۔سہیل سے دوستی فوراً ختم کر دو،جھوٹ بولنا ترک کر دو اور مجھ سے دل لگا کر پڑھنے کا وعدہ کرو۔ان شاء اللہ اگلی دفعہ تم اچھے نمبروں سے کامیاب ہو گے اور ہاں!!یہ مزے دار پھل بھی کھا سکو گے۔“بابا جی کی بات سن کر انیق خوش ہو جاتا ہے،لیکن ابھی وہ کچھ کہنے کے لئے لب کھولتا کہ اچانک اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔اس دن کے بعد سے انیق اچھا بچہ بن گیا ہے۔اس نے سہیل سے دوستی ختم کر دی ہے اور جھوٹ بولنے سے بھی توبہ کر لی ہے۔اس نے اب وقت کی قدر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ محنت کرکے میٹھے اور مزے دار پھل کھا سکے۔ " چھوٹو - تحریر نمبر 2021,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chotu-2021.html,"حناء راحت،قصورچھوٹو ایک معمولی ڈھابے پر خدمت گار تھا،جو گاہکوں کو چائے پہنچاتا تھا۔ظہور احمد بھی وہیں ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ایک چھوٹے معصوم بچے کو اس طرح کام کرتے دیکھ کر اسے بہت ترس آیا۔اس نے سوچا کہ وہ اس چھوٹے بچے سے بات کرکے پوچھے کہ وہ کس مجبوری کی وجہ سے یہاں کام کرتا ہے۔وہ ہوٹل کے باہر بیٹھ کر چھوٹو کے باہر آنے کا انتظار کر رہا تھا۔چھوٹو باہر آیا تو ظہور احمد نے چھوٹو کو آواز دی اور اپنے پاس بلایا اور بڑے پیار سے پوچھا:”بیٹا!تمہارا کیا نام ہے؟اور تم کہاں رہتے ہو؟وہ بولا:”میرا نام شہریار ہے۔میں یہاں قریب ہی رہتا ہوں۔“اس نے اپنے علاقے کی طرف اشارہ کیا۔”بیٹا!تم اسکول نہیں جاتے ہو کیا؟“یہ سن کر شہریار اُداس سا ہو گیا اور بولا:”میں بھی چاہتا ہوں کہ اسکول میں پڑھوں پر میرے ابو نے مجھے یہاں کام پر لگا دیا ہے۔(جاری ہے)“”اگر میں تمہارے ابو سے بات کروں تو۔“شہریار بولا:”نہیں نہیں۔آپ ان سے بات نہ کریں،وہ بہت غصے والے ہیں۔“”شہریار میں تمہارے گھر ضرور آؤں گا۔“ظہور احمد نے کہا۔ظہور احمد ایک اسکول ٹیچر تھے اور اس بچے کو یوں کام کرتا دیکھ کر بہت فکر مند ہوئے۔صبح وہ اسکول کے لئے تیار ہوئے اور پہلے شہریار کے گھر پہنچے۔شہریار اور اس کے والد سے کہا:”میں آپ سے شہریار کے بارے میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔“اس کے والد نے روکھے انداز میں پوچھا:”میرے بیٹے کے بارے میں کیا بات کرنا چاہتے ہو؟“آپ اپنے بیٹے سے کام کیوں کرواتے ہیں؟“ظہور احمد نے کہا۔وہ بولے:”یہ میرے گھر کا معاملہ ہے آپ اس میں دخل کیوں دے رہے ہیں!میرے گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں،اس لئے میں نے اسے کام پر بھیجا ہے کہ وہ کچھ پیسے کما لے۔“ظہور احمد نے کہا:”اپنے بچوں کو پالنا اور انھیں تعلیم دلانا آپ کا فرض ہے۔آپ اس بچے کا بچپن اور تعلیم دونوں کا نقصان کر رہے ہیں اور اتنے چھوٹے بچے سے مزدوری کروانا قانوناً جرم ہے۔اب اگر آپ اپنے بچے کے ساتھ یہی کرتے رہے تو میں آپ کی رپورٹ کر دوں گا۔اس کے بعد آپ جانیں اور قانون۔آپ کو اس کی سزا بھی ملے گی اور جرمانہ بھی ہو گا۔“یہ سن کر شہریار کے ابو ڈر گئے کہ کہیں بڑا مسئلہ نہ بن جائے۔وہ بولے:”نہیں نہیں․․․․․میں شہریار کو اب کام پر نہیں بھیجوں گا،بلکہ اسے اسکول میں داخل کروا دوں گا۔“”آپ ابھی میرے ساتھ آئیں اور شہریار کو اسکول میں داخل کروائیں۔“ظہور احمد نے کہا۔شہریار کے والد بولے:”جی ٹھیک ہے،جیسے آپ کہیں۔“اور وہ ان کے ساتھ چل پڑے۔شہریار بہت خوش تھا کہ اب وہ بھی تعلیم حاصل کرکے اچھا شہری بن جائے گا۔ " قبولِ حج - تحریر نمبر 2020,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qabool-e-hajj-2020.html,"مجاہد حسین لغاریغریب سبزی فروش شوکت علی برسوں سے حج پر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔اس نے تنکا تنکا جوڑ کر اب اتنی رقم جمع کر لی تھی کہ حج کا خرچ برداشت کر سکتا تھا۔وہ حج پر جانے کے لئے تیار تھا کہ اس نے ایک رات خواب دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ کے قریب پہنچ چکا ہے،لیکن جوں ہی وہ خانہ کعبہ کی طرف دوڑ لگاتا ہے تو کعبے کے احاطے کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔یہ خواب اس نے مسلسل دو رات دیکھا۔گاؤں کے مولوی صاحب خوابوں کی درست تعبیر بتاتے تھے۔اس نے مولوی صاحب سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔مولوی صاحب نے اس سے پوچھا:”کیا تمہارے پڑوس میں کوئی بیمار ہے؟“شوکت علی نے ذہن پر زور دے کر کہا:”ہاں،برابر والے گھر میں محمد صدیق کو ہیپاٹائٹس کا مرض ہے۔(جاری ہے)بیماری نے شدت اختیار کر لی ہے،وہ شہر کے کسی اسپتال میں علاج کرانا چاہتا ہے،لیکن غربت کی وجہ سے اپنا علاج کروانے سے محروم ہے۔“مولوی صاحب نے شوکت علی سے کہا:”تمہارا حج تو تمہارے پڑوس میں ہے۔“شوکت علی بوکھلا گیا کہ مولوی صاحب نے کیا کہا ہے۔اس نے مولوی صاحب سے پوچھا:”میرا حج میرے پڑوس میں کیا مطلب؟“مولوی صاحب نے شوکت علی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:”بھائی شوکت!تمہارے لیے یہ بہتر ہے کہ تم اپنی جمع کی ہوئی رقم محمد صدیق کو دے دو،تاکہ وہ اپنا علاج کروا لے۔ممکن ہے تمہاری اس نیکی سے تمہیں قبولِ حج جتنا ثواب مل جائے۔“شوکت علی نے خوش ہوتے ہوئے کہا:”کیا ایسا ممکن ہے؟“مولوی صاحب نے اوپر اُنگلی اُٹھا کر کہا:”اللہ سے اُمید ہے کہ وہ تمہیں اس نیکی کا حج کے برابر ہی ثواب دے گا۔“شوکت علی نے خوشی خوشی اپنی جمع کی ہوئی رقم محمد صدیق کو دے دی۔ایک ماہ بعد صدیق ٹھیک ہو کر گھر واپس آگیا۔ایک دن محمد صدیق نے خواب دیکھا کہ کوئی شخص کان میں کہہ رہا ہے کہ اپنے محسن شوکت علی کو بتا دو کہ اس نے جو نیکی تمہارے ساتھ کی اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر اس کا حج قبول کر لیا ہے۔ " کاغذ کی تھیلی - تحریر نمبر 2019,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kaghaz-ki-theli-2019.html,"مسعود احمد برکاتیسلمان ایک چھوٹا سا لڑکا تھا۔وہ ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔اس نے اپنی کتاب میں پڑھا تھا کہ کوئی چیز ٹھنڈی کرنی ہو تو اُسے منہ سے پھونک پھونک کر ٹھنڈا نہیں کرنا چاہیے۔پھونکنے سے منہ کے جراثیم اس چیز میں پہنچ جاتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں۔جب سے سلمان نے کتاب میں یہ بات پڑھی اس وقت سے وہ خود بھی احتیاط کرنے لگا اور دوستوں اور بھائی بہنوں کو بھی منہ سے پھونک کر کھانا یا چائے ٹھنڈی کرنے سے روکنے لگا۔ایک دن وہ ڈبل روٹی لینے بیکری گیا۔بیکری والا جس کاغذ کی تھیلی میں ڈبل روٹی رکھ کر دینا چاہتا تھا،وہ ہاتھ سے نہ کھلی تو اس نے منہ کے قریب تھیلی لا کر زور زور سے پھونکیں ماریں۔تھیلی کا منہ کھل گیا۔(جاری ہے)سلمان یہ دیکھ رہا تھا ،جب بیکری والے نے ڈبل روٹی تھیلی میں رکھنا چاہی تو سلمان چیخ کر بولا:”ٹھیرو،رک جاؤ۔منہ سے پھونک کر تھیلی نہیں کھولتے،تمہارے منہ کے سارے کیڑے تھیلی میں چلے گئے،وہ گندی ہو گئی،دوسری تھیلی ہاتھ سے کھولو اور مجھے اس میں روٹی رکھ کر دو۔“سلمان نے اس سختی سے یہ بات کہی کہ بیکری والے کو غصہ آگیا۔وہ کہنے لگا:”ہمارا منہ گندا تھوڑی ہے،نہ میرے پاس اتنا وقت ہے کہ تھیلی کو ہاتھ سے مسلتا رہوں۔“سلمان نے اپنی بات دُہرائی تو بیکری والا بھی اپنی بات پر اَڑ گیا۔اس نے کہا:”لینا ہے تو لو،ورنہ جاؤ،میرے پاس فالتو وقت نہیں ہے۔“سلمان خالی ہاتھ گھر آگیا۔جب اس کے ابو کو قصہ معلوم ہوا تو انھوں نے سلمان سے کہا کہ بات تو تمہاری بالکل صحیح ہے،لیکن تمہارے کہنے کا انداز اور تمہارے الفاظ سخت تھے،اس لئے وہ ضد پر آگیا۔بات کرنے کا انداز ہوتا ہے۔اچھی بات کو اچھے الفاظ اور اچھے لہجے میں ہی کہنا چاہیے،اسی کو اخلاق اور اسی کو تہذیب کہتے ہیں۔ہمارے ہاں جہالت عام ہے،ابھی تمام لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ان کو بہت سی باتیں نہیں معلوم،اسی لئے وہ بیمار رہتے ہیں اور ان کو اخلاق سے کام لینا نہیں آتا۔بیکری والا بھی انھی لوگوں میں سے ہے۔اگر تم اس کو میٹھی زبان میں منہ سے پھونکنے کے نقصانات بتاتے اور نرمی سے کہتے کہ تمہارا منہ گندا نہیں ہے،لیکن جراثیم ہر ایک انسان کے جسم میں ہوتے ہیں،جو دوسروں کے لئے مضر ہوتے ہیں۔اس لئے ذرا سی تکلیف اُٹھا کر کاغذ کی تھیلی کا منہ ہاتھ سے کھول لیا کرو،تو وہ شاید بات مان جاتا۔بیکری والے نے جو طریقہ اختیار کیا وہ بھی صحیح نہ تھا،نہ انسان کی حیثیت سے اور نہ تاجر کی حیثیت سے۔اس انداز سے بات کرنے سے اس کا نقصان بھی ہوا،مگر اس کی جہالت اور اخلاقی کمزوری نے اس کو یہ نقصان برداشت کرنے پر مجبور کیا۔اپنے ابو کی یہ باتیں سلمان کی سمجھ میں آگئیں۔وہ شام کو پھر اسی بیکری والے کے پاس گیا اور اس کو اخلاق و محبت سے یہ ساری باتیں سمجھاتا رہا۔شروع شروع میں بیکری والا اُلجھنے کی کوشش کرنے لگا،لیکن سلمان کی باتوں کی مٹھاس نے اس کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔آخر وہ سلمان کی بات مان گیا۔سلمان خوشی خوشی گھر واپس آیا۔اس نے آج ایک اخلاقی سبق خود سیکھا تھا اور صحت کا ایک اُصول ایک دوسرے انسان کو سکھایا تھا۔ " پیچھے ہٹو اور جیت جاؤ - تحریر نمبر 2018,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/peechay-hato-aur-jeet-jao-2018.html,"حرا وقاصبچو!آپ نے کسی ایسے کھیل کا نام سنا ہے جس میں پیچھے ہٹنے والی ٹیم کو فاتح قرار دیا جاتا ہو۔سوچ میں پڑ گئے ناں!کہ پس پا ہونے والا کیسے جیت سکتا ہے؟آئیے،ہم آپ کی یہ اُلجھن دور کر دیتے ہیں۔یہ دنیا کا واحد کھیل ہے جس میں جیتنے کے لئے پیچھے ہٹنا ضروری ہے اور اس کھیل کا نام ہے رسا کشی۔اس کھیل کو انگریزی میں ٹگ آف وار (Tug Of War) کہتے ہیں۔رسا کشی میں دو ٹیموں کے درمیان طاقت و قوت کا امتحان ہوتا ہے۔ایک زمانے میں یہ کھیل پاکستان میں بہت مقبول تھا اور اسکولوں،کالجوں میں ساتھیوں سے طاقت کا مقابلہ کیا جاتا تھا۔یہ کھیل لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی کھیلا کرتی تھیں۔گاؤں،دیہات،میلوں وغیرہ میں اب بھی کھیلا جاتا ہے،کیونکہ یہ ایک سستا اور آسان کھیل ہے اور صحت کے لئے بھی مفید ہے۔(جاری ہے)بحری جہازوں کو دوران سفر روکنے کے لئے لنگر ڈالے جاتے تھے جو رسوں سے بندھے ہوتے تھے۔خیال ہے کہ رسا کشی کے کھیل کا تصور وہیں سے آیا ہے۔یہ بہت قدیم کھیل ہے۔تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مصر،ہندوستان،برما،چین اور نیو گنی میں کھیلا جاتا تھا۔کسی دور میں یہ شاہی کھیل تھا،جو قدیم زمانے میں مصر اور چین میں کھیلا جاتا تھا۔بارہویں صدی میں ہندوستان اور پندرہویں،سولہویں صدی میں فرانس اور برطانیہ میں کھیلا جانے لگا اور بہت مقبول ہوا۔رسا کشی کے کھیل میں آٹھ آٹھ کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیمیں ہوتی ہیں۔رسے کے درمیانی حصے میں ایک نشان لگایا جاتا ہے،پھر اس نشان کے دونوں طرف چار چار سینٹی میٹر کے فاصلے پر دو نشان اور لگائے جاتے ہیں۔بیچ میں ایک چھڑی گاڑ دی جاتی ہے۔رسے کا درمیانی حصہ اس کے برابر ہوتا ہے۔دونوں ٹیمیں رسے کے دونوں سروں کو مضبوطی سے پکڑ لیتی ہیں۔سیٹی بجتے ہی دونوں ٹیمیں رسے کو اپنی طرف پوری طاقت سے کھینچتی ہیں۔رسے کو کندھوں سے اوپر لے جانا منع ہوتا ہے اور یہ فاؤل مانا جاتا ہے۔ہر ٹیم کی کوشش ہوتی ہے کہ مقابل ٹیم کو اپنی طرف کھینچ لے اور ایسا کرنے کے لئے اسے پیچھے ہٹنا ہوتا ہے۔رسا کشی کا کھیل 1896ء سے 1920ء تک اولمپک کھیلوں میں شامل رہا۔بعد میں اسے اولمپک مقابلوں سے خارج کر دیا گیا،لیکن عالمی کھیلوں میں رسا کشی کا کھیل بد ستور کھیلا جاتا رہا۔ٹگ آف وار انٹرنیشنل فیڈریشن کے زیر اہتمام ممبر ممالک کے درمیان سالانہ ان ڈور اور آؤٹ ڈور عالمی چیمپئن شپ کا انعقاد ہوتا ہے۔برطانیہ میں ٹگ آف وار ایسوسی ایشن 1988ء میں قائم ہوئی اور ٹگ آف وار فیڈریشن کا قیام 1984ء میں عمل میں آیا۔اسکاٹش ٹگ آف وار ایسوسی ایشن 1980ء میں بنی تھی۔یہ کھیل بہت سے ممالک میں کھیلے جانے کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔مختلف ممالک کی قومی تنظیموں سے مل کر عالمی تنظیم وجود میں آئی، جو ٹگ آف وار فیڈریشن کہلاتی ہے۔2008ء میں 53 ممالک اس تنظیم میں شامل تھے۔انگلینڈ،آئر لینڈ،اسکاٹ لینڈ،سوئٹزر لینڈ،بیلجیم اور بھارت اس کھیل میں نمایاں طور پر حصہ لیتے ہیں۔ رسا کشی کے اس کھیل میں کبھی کبھی رسا ٹوٹنے سے حادثہ بھی پیش آجاتا ہے۔کئی کھلاڑیوں کے ہاتھ اور بازو بھی ٹوٹے،اس کے باوجود اس کھیل کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ " ننھا مددگار - تحریر نمبر 2017,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanha-madadgar-2017.html,"”کیا میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں؟“ننھے بریمل نے اپنی امی سے پوچھا،جو صبح کے ناشتے کی تیاری کر رہی تھیں۔”ہاں،کیوں نہیں۔“وہ خوش دلی سے بولیں۔”ایسا کرو کہ آٹے کے تھیلے میں سے تھوڑا سا آٹا لے آؤ،پھر برتن دھو لینا۔“بریمل خوشی خوشی آٹے کے بڑے تھیلے کے پاس پہنچا،لیکن وہ اس کی سوچ سے بھی زیادہ وزنی تھا۔اس نے تھیلا اُٹھانا چاہا،مگر آٹے کا تھیلا گر گیا،جس کی وجہ سے آٹا ہر جگہ بکھر گیا،بالکل سفید بادلوں کی طرح۔بریمل بھی آٹے میں لت پت ہو گیا۔اب وہ ایک سفید رنگ کا بھوت لگ رہا تھا۔”مجھے معاف کر دیجیے۔میں تو صرف آپ کی مدد کرنا چاہ رہا تھا۔“اس نے اپنی امی کو دیکھ کر افسردگی سے کہا۔”تم نے میرے لئے کام بڑھا دیا ہے۔(جاری ہے)اب مجھے سارے کچن کی صفائی کے ساتھ ساتھ تمہیں نہلانا بھی پڑے گا۔“بریمل کی امی نے غصے سے کہا۔بریمل نے نہا کر دوسرے کپڑے پہنے۔اس کے بعد وہ باغ میں چلا گیا،جہاں اس کے ابو کیاریوں کی کھدائی کر رہے تھے۔اس نے پوچھا:”کیا میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں؟“اس کے ابو نے کہا:”تم یہ جھاڑیاں صاف کر دو۔“اس کے ابو کی سانس پھولی ہوئی تھی اور ان کی پیٹھ بریمل کی طرف تھی۔”تم جانتے ہو نا کہ جھاڑیاں کیا ہوتی ہیں؟“انھوں نے زور دے کر پوچھا۔”جی ہاں۔“بریمل نے سر ہلا کر جواب دیا:”بس آپ یہ کام مجھ پر چھوڑ دیں۔“”بہت خوب،میں کافی پینے اندر جا رہا ہوں۔“وہ خوشی خوشی بولے۔”اب میں ابو کو بتاؤں گا کہ میں ان کی کتنی مدد کر سکتا ہوں۔“وہ بے وقوفوں کی طرح ہنسا۔اس نے پھاؤڑا اُٹھایا اور کیاریوں کی کھدائی کرنے لگا۔جلد ہی ٹرالی بھر گئی۔”ابو!میں نے سارا کام کر دیا ہے۔“اس نے اونچی آواز سے اپنے ابو کو پکارا۔”ٹھیک ہے۔میں آتا ہوں اور دیکھتا ہوں،تم نے کیا کیا ہے۔“کافی پینے کے بعد وہ جیسے ہی باغ میں پہنچے،ان پر سکتہ طاری ہو گیا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے کیاریوں کو دیکھنے لگے۔”یہ کیا کیا؟تم نے میرے سارے پودے اُکھاڑ دیے۔ان میں ابھی پھول کھلنے والے تھے۔“بریمل کے ابو رنجیدہ ہوئے۔تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بریمل بولا:”لیکن میں سمجھا کہ یہ سب جھاڑیاں ہیں۔“بریمل کے ابو نے بیلچہ اُٹھایا اور ٹرالی سے دوبارہ پودے نکالنے لگے۔”میں ان پودوں کو دوبارہ بوؤں گا۔“انھوں نے خفگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔بریمل ان کی ناراضگی دیکھ کر اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے بڑبڑایا:”میرا خیال ہے کہ میرا اس جگہ سے چلے جانا ہی بہتر ہے۔“اپنے کمرے میں پہنچ کر وہ چاروں طرف دیکھنے لگا۔اسے یاد آیا کہ اس کی امی اکثر اس سے کہتی تھیں:”بریمل!تمہارا کمرا اتنا بے ترتیب اور بکھرا ہوا ہوتا ہے،جیسے کہ جنگ کا میدان ہو۔“”میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔“وہ خوشی سے چیخا:”اگر میں اپنا کمرا صاف کر لوں گا تو امی بہت خوش ہوں گی۔“سب سے پہلے اس نے اپنے کپڑے سمیٹے اور الماری میں رکھے۔کمبل تہ کیا۔پھر اس نے جلدی جلدی لکڑی کے صندوق میں کھلونے رکھے ۔اب صرف کتابیں رہ گئی ہیں۔اس نے سوچا۔پلنگ کے اردگرد ڈھیر ساری کتابیں بکھری ہوئی تھیں۔بریمل نے انھیں جمع کرکے اُٹھایا، تاکہ وہ انھیں کتابوں کی الماری میں رکھ سکے،مگر کتابیں زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے ہاتھ سے پھسل گئیں اور وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور اپنے پلنگ پر گر گیا۔کتابیں اُچھل کر اس پر بارش کی طرح برسنے لگیں۔ایک زور دار دھماکا ہوا اور کمزور پلنگ ٹوٹ گیا،مگر بریمل کو کوئی چوٹ نہیں لگی تھی۔آواز سنتے ہی اس کے امی اور ابو تیزی سے بھاگتے ہوئے کمرے میں آئے۔”مجھے معلوم ہے،تم ایک بار پھر ہماری مدد کرنا چاہ رہے تھے۔“اس کی امی نے بُرا سا منہ بنایا۔”اور اب مجھے اس پلنگ کی مرمت کرنی پڑے گی۔“اس کے ابو نے غصے سے کہا۔اب بریمل فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ واقعی میں ایک اچھا مددگار بنے گا اور باہر سیر کرنے کے لئے پارک گیا۔ابھی وہ زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ اس نے دو بچے دیکھے،جو ایک درخت کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔”ہماری پتنگ اس شاخ پر اٹک گئی ہے۔“انھوں نے بریمل سے کہا۔”کوئی بات نہیں،میں ابھی اوپر چڑھ کر پتنگ شاخ میں سے نکالتا ہوں۔“اس نے بغیر سوچے سمجھے بے صبرے پن سے کہا۔وہ دھیان سے اوپر چڑھا اور پتنگ والی شاخ کے قریب پہنچ گیا اور آہستہ آہستہ سرکنے لگا۔پھر وہ پتنگ والی شاخ کے قریب پہنچ گیا۔نچلی شاخ کے سب سے آخری حصے پر پتنگ اٹکی ہوئی تھی۔میں اس شاخ کے قریب پہنچ سکتا۔اس نے سوچا۔مگر جب اس نے شاخ کو ہلایا تو پتنگ نیچے گر گئی۔”شکریہ۔شکریہ۔“بچے خوش ہو گئے۔”مجھے بھی خوشی ہے کہ میں نے تمہاری مدد کی۔“بریمل نے کہا:”آخر آج میں نے ایک اچھا کام کر ہی لیا۔“وہ خوشی خوشی بول رہا تھا۔دونوں بچوں نے اپنی پتنگ کو ڈور سے باندھا اور جانے لگے۔”بس تھوڑی دیر بعد ہی میں اپنے امی اور ابو کو بتاؤں گا کہ میں کتنا مددگار ثابت ہو سکتا ہوں۔“اس نے خوشی خوشی خود سے کہا۔پھر اس نے نیچے اُترنا شروع کیا،لیکن وہ دوسری طرف نہیں مڑ سکا۔”میں اُتر نہیں سکتا۔“وہ رنجیدہ ہو گیا۔اس نے دونوں بچوں کو آواز دے کر بلایا اور کہا کہ وہ اس کے گھر جائیں اور اس کے ابو سے کہیں کہ سیڑھی لے کر یہاں آجائیں۔اپنے آپ کو ایک اچھا مددگار ثابت کرنے والا وہ بریمل شاخ پر بیٹھ کر یہ سوچنے لگا کہ میں ان میں سے ایک ہوں،جسے مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ " گدھے کے سر پر سینگ - تحریر نمبر 2016,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gadhey-ke-sar-par-seeng-2016.html,"ایاز قیصرپرانے زمانے میں کچھ جانوروں نے ایک جلسہ کیا اور طے کیا کہ وہ دوسرے جانوروں سے الگ ہو کر اپنی سرکار بنائیں گے۔اس جلسے میں گدھا،شیر،ہاتھی اور خرگوش پیش پیش تھے۔انہوں نے اپنی ایک چھوٹی سی فوج بنا لی۔اس فوج کا کمانڈر ایک گدھے کو بنایا گیا۔وہ بہت عقل مند سمجھا جاتا تھا،اس لئے ہاتھی یا گینڈے کی بجائے اسے سرداری دی گئی۔اس گدھے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس کے سر پر کان سے اوپر نوکیلے سینگ لگے ہوئے تھے۔جنگل کے تمام جانور گدھے کے نوکیلے سینگوں سے ڈرتے تھے۔گدھا،شیر کے بہت سارے کام کرتا تھا ۔اس کے شکار کیے ہوئے جانوروں کا بھاری بوجھ اُٹھا کر اس کے گھر پہنچایا کرتا تھا۔شیر اس سے بہت خوش رہتا تھا جس کی وجہ سے سارے جانوروں پر اس کا رعب تھا۔(جاری ہے)لیکن ان جانوروں میں زرافہ ایسا تھا جو گدھے کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔اسے اپنی طویل القامتی پر بہت گھمنڈ تھا جب گدھے کو جنگل کی فوج کا کمانڈر بنایا گیا تو زرافہ کو بہت صدمہ ہوا،وہ اس سے اور زیادہ خار کھانے لگا۔دوسری طرف گدھا بھی اس سے نفرت کرتا تھا لیکن اس کے لمبے قد کی وجہ سے اس سے دور رہتا تھا۔دونوں کی دشمنی کھل کر سامنے نہیں آئی تھی لیکن خاموشی سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتے رہتے۔گدھے کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ دوسرے جانوروں کی بہ نسبت پڑھا لکھا تھا۔صبح سویرے جانوروں کو پریڈ کرانے کے بعد انہیں پڑھانے بیٹھ جاتا۔جنگل میں مختلف علاقوں کے جانوروں کے درمیان ہر سال کُشتی کے مقابلے ہوتے تھے۔اس مرتبہ شیر سے اجازت لے کر گدھے نے بھی اپنی ٹیم میدان میں اتار دی۔تین ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوا،گدھے کی ٹیم دوسرے نمبر پر آگئی۔گدھا خود اپنی ٹیم کے ساتھ میدان میں اُترا،اس نے اس طرح سینگ چلائے اور ایسی دولتیاں جھاڑیں کہ سب پریشان ہو گئے۔اس کامیابی سے شیر کے دل میں اس کی اہمیت اور بڑھ گئی لیکن اب گدھے کے دل میں غرور و تکبر پیدا ہو گیا تھا۔اس نے بات بات پر جانوروں کو ستانا شروع کر دیا۔جانور کافی عرصے تک برداشت کرتے رہے،آخر ان کی طرف سے زرافہ شکایت لے کر بادشاہ کے پاس پہنچا۔شیر نے گدھے کو سمجھانے کی کافی کوشش کی لیکن وہ غرور کے نشہ میں ایسا چور تھا کہ اس نے بادشاہ کی بات بھی نہیں مانی۔وہ اسی طرح سینگ مارتا رہا اور جانوروں کو زخمی کرتا رہا،بادشاہ کے پاس زرافہ کے ذریعے برابر شکایتیں پہنچتی رہیں۔ایک دن جنگل کے سارے جانور اکٹھا ہو کر شیر کے پاس خود گئے اور اس سے کہا کہ اگر گدھے کو لگام نہ دی گئی تو وہ سب یہ علاقہ چھوڑ کر کسی اور علاقے میں اپنا ٹھکانہ بنا لیں گے۔اب تو شیر کو بہت غصہ آیا اور اس نے گدھے کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا۔گدھے کو گرفتار کرکے شیر کے سامنے پیش کیا گیا۔اس نے حکم دیا کہ گدھے کے سینگ جڑ سے کاٹ دیے جائیں۔پھر کیا تھا،زرافہ کو اپنی دشمنی نکالنے کا موقع مل گیا۔اس نے اپنی لمبی لمبی ٹانگوں سے گدھے کو جکڑ لیا جب کہ لومڑی اور ریچھ سمیت تمام جانوروں نے اس پر حملہ کرکے اس کے سینگوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔گدھا تکلیف کی شدت سے بے ہوش ہو گیا۔جب اسے ہوش آیا تو اس کے سر سے سینگ غائب ہو گئے تھے جن پر غرور کرتے ہوئے اس نے تمام جانوروں کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔اس دن سے لے کر آج تک گدھے کے سر پر سینگ نہیں اُگے۔ " طرم خان اور پھنے خان - تحریر نمبر 2015,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/turram-khan-aur-phannay-khan-2015.html,"عروج سعدگاؤں میں ڈھنڈورچی اعلان کر رہا تھا:”سب گاؤں والے ایک ضروری اعلان سنیں۔آئندہ ہفتے جمعہ کی نماز کے بعد کُشتی کے میدان میں پھنے خان اور طرم خان ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے۔اس دلچسپ مقابلے کو دیکھنے کے لئے تمام گاؤں والے طے شدہ وقت پر میدان میں جمع ہو جائیں۔“اعلان کا سننا تھا کہ پورے گاؤں میں کھلبلی مچ گئی۔یہ گاؤں برف پوش پہاڑوں کے درمیان ایک سرسبز وادی میں واقع تھا۔چونکہ دیہاتی کھلے میدانوں میں مل جل کر بیٹھنے اور کھیل تماشوں کے شوقین ہوتے ہیں،لہٰذا سبھی اس سنسنی خیز مقابلے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔مگر یہ پھنے خان اور طرم خان کون تھے اور یہ مقابلہ کیوں ہو رہا تھا۔دراصل پھنے خان سچ مچ کے پھنے خان نہیں تھے اور نہ طرم خان حقیقت میں طرم خان تھے۔(جاری ہے)دونوں کو اپنے بارے میں یہ خوش فہمی تھی کہ گاؤں میں ان سے زیادہ بہادر اور طاقتور کوئی نہیں۔وہ کُشتی کے دو چار داؤ جانتے تھے اور گاؤں والوں کے سامنے اپنی بہادری کی شیخیاں بگھارتے رہتے تھے۔گاؤں کے لوگ انھیں اصل ناموں کے بجائے پھنے خان اور طرم خان کے نام سے پکارنے لگے تھے۔گاؤں کے چڑی مار کرم دین نے اتفاق سے ایک سرخاب پکڑ لیا۔سرخاب ایک انتہائی حسین پَروں والا،قیمتی اور نایاب پرندہ ہوتا ہے۔اس کے بارے میں مشہور ہے کہ جس کے پاس سرخاب ہو گا،اس کی قسمت چمک جائے گی۔کرم دین نے سرخاب بیچنے کے لئے اپنی دکان پر رکھ لیا،تاکہ اس کے اچھے سے اچھے دام مل سکیں۔اب اتفاق کی بات ہے کہ پھنے خان اور طرم خان ایک ساتھ سرخاب کو خریدنے کے لئے دکان پر پہنچے۔دونوں ایک دوسرے کو ناگواری سے گھورنے لگے۔طرم خان اپنی کہنی سے پھنے خان کو پیچھے دھکیلتے ہوئے دکان میں داخل ہوئے۔کرم دین اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔پھنے خان نے زور سے کہا:”کرم دین!میں سرخاب خریدنے آیا ہوں،کیا دام لو گے؟“طرم خان نے فوراً کہا:”میں دکان میں پہلے داخل ہوا تھا،سرخاب صرف میں ہی خریدوں گا۔“پھنے خان نے کہا:”خریدنے کی بات پہلے میں نے کی ہے۔“طرم خان نے کہا:”ارے اس پرندے کو خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔“پھنے خان نے کہا:”تم جیسا پھٹیچر تو یہ خرید ہی نہیں سکتا۔“یہ سنتے ہی طرم خان نے پھنے خان کو دھکا دے کر گرا دیا:”مجھے پھٹیچر کہتا ہے اپنی اوقات دیکھی ہے۔“اور دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔کرم دین نے جو یہ ماجرا دیکھا تو دوڑا دوڑا گاؤں کے قاضی صاحب کے پاس پہنچ گیا اور ساری بات کہہ سنائی۔قاضی صاحب نے دونوں فریقوں کو اپنے پاس بلا لیا اور یہ فیصلہ سنایا کہ دونوں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں۔کُشتی کا مقابلہ ہو گا۔جس نے مقابلہ جیت لیا وہ سرخاب خریدنے کا حق دار قرار پائے گا۔چنانچہ اعلان کرکے گاؤں والوں کو اس مقابلے کی اطلاع دے دی گئی۔ادھر گاؤں والے مقابلہ دیکھنے کے لئے بے چین تھے،اُدھر پھنے خان اور طرم خان نے بھی مقابلے کے لئے کمر کس لیں۔پھنے خان نے گھر پہنچتے ہی اپنی ماں سے کہا:”ماں جی!میرے لیے چھ گلاس لسی اور ساتھ چار چھ پراٹھے تو بنا دو۔آخر مجھے مقابلے کے لئے جان بھی تو بنانی ہے۔“طرم خان کے گھر کا منظر بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ان کی بیگم پراٹھوں پر بالائی ڈال ڈال کر ان سامنے رکھتی جاتیں اور وہ جلدی جلدی سب چٹ کر جاتے اور ساتھ ہی بیوی سے کہتے:”ارے سنتی ہو؟تھوڑی دیر میں مجھے گرم دودھ میں میوے ڈال کر دے دینا اور ہاں دوپہر کے کھانے میں پایوں کے ساتھ ساتھ چھ اُبلے ہوئے انڈے رکھنا مت بھولنا۔“شام میں دونوں سرسوں کے تیل سے اپنے بدن کی مالش کرواتے،اکھاڑے میں ڈنڈ پیلتے،بیٹھکیں لگاتے اور بھاری بھاری وزن اُٹھا کر کسرت کرتے۔یوں ہی ایک ہفتہ گزر گیا۔مقابلے کے روز کُشتی کے میدان میں گویا میلے کاسا سماں تھا۔اکھاڑے کے اردگرد رنگ برنگی جھنڈیاں لگائی گئی تھیں۔ایک طرف چبوترے پر اسٹیج بنایا گیا تھا،جہاں گاؤں کے معزز لوگ اور قاضی صاحب بیٹھے تھے۔سرخاب،قاضی صاحب کی کلائی پر بیٹھا تھا۔اس کے پیر ایک ڈوری سے بندھے ہوئے تھے تاکہ وہ اُڑ نہ سکے۔دوسری ہتھیلی میں دانے تھے جو سرخاب وقتاً فوقتاً چُگ رہا تھا۔کچھ لوگ باجے اور ڈھول بھی لائے تھے اور بجا بجا کر خوب شور کر رہے تھے۔باقی لوگ تالیاں بجا کر اپنے جوش و خروش کا اظہار کر رہے تھے۔سلیم گوالے نے اپنے برابر میں بیٹھے فضلو کمہار سے کہا:”آج تو کانٹے کا مقابلہ ہو گا،مگر طرم خان کے تیور بتا رہے ہیں کہ جیتے گا تو وہی۔“فضلو کمہار نے اپنے کان پر بیٹھی مکھی کو ہاتھ سے اُڑاتے ہوئے سلیم گوالے کی بات سے اختلاف کیا:”بھائی!تم کچھ بھی کہو،سرخاب کو تو پھنے خان ہی اپنے گھر لے کر جائے گا۔میں نے اسے روزانہ صبح پانچ پانچ میل کی دوڑ لگاتے ہوئے اور شام میں تین تین گھنٹے اکھاڑے میں کسرت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔وہ بڑی زبردست تیاری کرکے آیا ہے۔“آخر کُشتی شروع ہونے کا اعلان کیا گیا۔دونوں حریف آمنے سامنے کھڑے ایک دوسرے کو چِت کرنے کی نیت سے کبھی دائیں جانب گھومتے تو کبھی بائیں۔طرم خان کا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا۔اس نے آنکھیں سیکٹر کر اپنی لمبی لمبی کمان دار مونچھوں کو تاؤ دیا تو پھنے خان نے بھی اپنے چمکتے ہوئے،گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دونوں مٹھیاں بھینچ لیں۔دونوں نے مقابلہ شروع ہونے سے پہلے سرخاب پر نظر ڈالی جو بے فکری سے دانے چُگنے میں مصروف تھا۔مقابلے کے نگران نے سیٹی بجائی تو پھنے خان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،جھٹ طرم خان کی کمر پکڑنے کے لئے آگے بڑھا،مگر یہ کیا!طرم خان تو مچھلی کی طرح ان کے ہاتھوں سے پھسل گیا،کیونکہ طرم خان نے اپنے بدن پر سرسوں کا تیل ملا ہوا تھا تاکہ پھنے خان کی گرفت میں نہ آسکیں ۔اب طرم خان نے پھنے خان کا بایاں بازو پکڑ کر انھیں نیچے گرانے کی کوشش کی،مگر پھنے خان نے اپنی ایک ٹانگ ان کی ٹانگوں میں اَڑا کر انھیں ہی زمین پر گرا دیا۔طرم خان بل کھا کر فوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔دونوں حریف اپنے اپنے داؤ پیچ لڑا رہے تھے۔اچانک پہاڑیوں کے پیچھے سے ایک بہت بڑا عقاب نمودار ہوا اور ایک ہی جھپٹے میں سرخاب کو پنجوں میں دبا کر لے اُڑا۔یہ سب کچھ ایسے آناً فاناً ہوا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور قاضی صاحب سمیت تمام تماشائیوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔دونوں پہلوان مقابلہ جیتنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے کہ میچ کے نگران نے سیٹی بجاتے ہوئے مقابلہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔دونوں نے پہلے تو حیرانی سے نگران کو اور پھر تماشائیوں کو دیکھا جو اپنی اپنی جگہ سے اُٹھ کر میدان سے باہر جا رہے تھے۔پھر جیسے ہی ان کی نظر قاضی صاحب پر پڑی جو منہ اُٹھائے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔نگران نے انھیں بتایا کہ جس سرخاب کی خاطر وہ لڑ رہے تھے،اسے تو ایک عقاب اُچک کر لے گیا۔اب تو دونوں کی شکلیں دیکھنے کے قابل تھیں۔پھنے خان تو وہیں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور طرم خان آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ٹھنڈی آہیں بھرنے لگے۔ان نادانوں کے خیال میں قسمت بنتے بنتے بگڑ گئی تھی۔دوستو!قسمت تو انہی پر مہربان ہوتی ہے جو فضول کاموں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے محنت اور لگن سے اپنا کام کرتے ہیں۔ " دادا ابو - تحریر نمبر 2013,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dada-abu-2013.html,"مریم شہزاد”اف فو،یہ دادا ابو بھی بس․․․․․“کاشان نے بیزاری سے کہا تو اس کے چچا زاد بھائی طلحہ نے حیرت سے اس کو دیکھا۔”کیا ہوا دادا ابو کو،ایسے کیوں کہہ رہے ہو؟“اس نے پوچھا۔”کچھ نہیں،بس ایسے ہی۔“کاشان نے منہ بنا کر بات ٹالی۔”دادا تو بہت پیار کرتے ہیں اور پہلے تو مزے بھی بہت کرواتے تھے۔“”ہاں پہلے کبھی،جب ہم چھوٹے تھے،تب کی بات ہے یہ۔“”اب کیا ہوا؟“”کیا بتاؤں،چونکہ ہر وقت گھر پر ہوتے ہیں،اس لئے سب یہ ہی کہتے رہتے ہیں کہ شور نہ کرو،آہستہ بولو،ٹی وی کی آواز کم رکھو،باہر جا کر کھیلو،مزے دار چیز کھانے کو دل چاہے تو چھپ کر کھاؤ،ورنہ دادا ابو کا بھی دل چاہے گا اور ڈاکٹر نے اُن کو منع کیا ہے۔(جاری ہے)پہلے دادی بھی ہمارے ساتھ مل کر باتیں کرتی تھیں،کہانیاں سناتی تھیں،مزے مزے کی چیزیں بنا کر کھلاتی تھی۔ہم بھی ان سے خوب فرمائشیں کرتے تھے،مگر اب وہ بھی توجہ نہیں دیتیں،اب تو مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔“”کتنی بُری بات ہے کاشان،جب وہ تمہارے لاڈ اُٹھاتے تھے تو تم کو اچھا لگتا تھا اور اب جب انھیں تمہاری ضرورت ہے تو تم ایسی باتیں کر رہے ہو۔“طلحہ نے دکھ سے کہا۔”میری ضرورت؟کیا مطلب ،میں کیا کر سکتا ہوں۔“اس نے حیرت سے کہا۔”تم ہی تو سب کچھ کر سکتے ہو،تم ان کے سب سے بڑے پوتے ہو،دادا سب سے زیادہ پیار بھی تم سے ہی کرتے ہیں۔تم بھی اب ان کو وقت دیا کرو۔جب تم چھوٹے تھے،تب وہ تم کو باہر لے کر جاتے تھے،اب تمہاری باری ہے،تم بھی ان کو پارک لے جایا کرو،ان کے ساتھ مل کر بیٹھو اور اپنے بچپن کی باتیں انھیں یاد دلایا کرو۔“”ارے تم کو معلوم نہیں،وہ کتنے چڑچڑے ہو گئے ہیں اور ہر وقت غصہ کرتے ہیں،ان سے کون بات کرے۔“کاشان نے منہ بنایا۔”بچپن میں جب تم ضد کرتے تھے یا بیمار ہوتے تھے تو وہ بھی تو تمہارا خیال کرتے تھے۔تم نے سنا نہیں امی کیا کہتی ہیں،بچہ،بوڑھا برابر ہوتے ہیں،ان کو بھی بچوں کی طرح توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔“”تو کیا میں ان کو خوش کر سکتا ہوں؟“”کیوں نہیں،کوشش تو کرو۔“اسکول سے آکر وہ دیر تک طلحہ کی باتوں پر غور کرتا رہا۔عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو دادا ابو کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ رک گیا۔ اس نے چپکے سے دیکھا تو وہ خاموش لیٹے چھت کو دیکھ رہے تھے۔اس کے کانوں میں طلحہ کی آواز آئی:”تم کوشش تو کرو۔“کاشان نے ہلکے سے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر داخل ہو کر سلام کیا:”السلام علیکم،دادا ابو!“انھوں نے سر گھما کر اس کو دیکھا:”وعلیکم السلام،کیسے فرصت مل گئی آپ کو آج دادا کو سلام کرنے کی۔“انھوں نے خفگی سے کہا۔”کیا کر رہے تھے دادا ابو!“”وہ غصے سے بولے:”کچھ کر سکتا ہوں میں،تم دیکھ تو رہے ہو لیٹا ہوا ہوں بالکل اکیلا۔“یہ کیا بات کی آپ نے،کیوں کچھ نہیں کر سکتے،سامنے والے پارک تک تو چل ہی سکتے ہیں۔“کاشان نے ایک کوشش اور کی۔”تم ہی جاؤ اکیلے۔“”کیوں اکیلے کیوں،آپ جو ہیں،دونوں چلتے ہیں۔“کاشان کی بات سن کر دادا ابو نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔”کیا کروں گا جا کر ،چلنا بھی مشکل ہے۔“وہ ڈر رہے تھے کہ بہت دن سے باہر نہیں نکلے تھے،مگر کاشان کے کہنے سے د ل بھی چاہنے لگا تھا۔”آپ چلیں تو۔“اس نے پیار سے کہا تو دادا ابو مسکرانے لگے۔”اچھا،تم ضد کرتے ہو تو چلا چلتا ہوں،آج بھی تم بچوں کی طرح ضد کرتے ہو۔“وہ دونوں کمرے سے باہر نکلے تو سب حیران ہو گئے۔”کہاں لے جا رہے ہو دادا ابو کو،ان کی طبیعت خراب ہے۔“امی نے کہا۔”نہیں امی،دادا ابو بالکل ٹھیک ہیں اور میں دادا ابو کو نہیں،بلکہ یہ مجھے لے کر جا رہے ہیں پارک،میں چھوٹا اور یہ بڑے ہیں۔“اس نے سمجھ داری سے کہا تو امی بھی اس کی بات سمجھ گئیں کہ دادا خود کو بہت زیادہ بیمار سمجھ کر کچھ بھی نہیں کر پا رہے تھے۔اب کاشان اس قابل تھا کہ ان کو سنبھال سکے۔دادی نے بھی گھبرا کر کچھ کہنا چاہا تو دادا خود ہی بول اُٹھے:”خود ہی تو کہتی رہتی ہو کہ اُٹھ کر باہر جاؤ،اب جا رہا ہوں تو سب کو پریشانی ہے۔“تو وہ بھی چپ ہو گئیں۔وہ دونوں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پارک پہنچے تو وہاں ہریالی دیکھ کر دادا ابو کی طبیعت خوش ہو گئی۔سامنے ہی دادا ابو کے ایک دوست بینچ پر بیٹھے نظر آگئے تو وہ ان کے ساتھ ہی باتیں کرنے بیٹھ گئے۔کاشان نے کچھ دیر چہل قدمی کی پھر وہیں گھاس پر بیٹھ گیا۔اس کو بوریت محسوس ہو رہی تھی،لیکن اس نے سوچا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو میں کھیلتا رہتا تھا اور دادا ابو میرے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے اور روز ہی ایسا ہوتا تھا اور میرا تو آج پہلا دن ہے۔مجھے بھی خوشی خوشی انتظار کرنا چاہیے۔دادا اور ان کے دوست باتیں کرتے رہے کہ مغرب کی اذان ہو گئی تو کاشان ان کے پاس آکر بولا:اب چلیں۔“”ہاں ہاں چلو،مسجد میں نماز پڑھ کر چلتے ہیں۔“وہ اپنے آپ کو کافی بہتر محسوس کر رہے تھے۔”جیسے آپ کی خوشی۔“دونوں نماز پڑھ کر گھر آئے تو دادی بہت پریشان تھیں کہ آج تو بہت ہی غصہ کریں گے کہ اتنا تھکا دیا،مگر ان کو ہنستے مسکراتے دیکھ کر سب ہی خوش ہو گئے۔آج تو انھوں نے کمرے کے بجائے سب کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی،پھر رات کا کھانا بھی ساتھ ہی کھایا۔اس کے بعد کاشان ان کو کمرے میں لے آیا،کیونکہ وہ تھکن محسوس کرنے لگے تھے۔دادا ابو لیٹ گئے تو کاشان نے ان کے پیر دباتے ہوئے کہا:”آپ خود کو بیمار نہ سمجھیں۔میں روزانہ آپ کو سیر کرانے باہر لے جاؤں گا۔ان شاء اللہ آپ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔“کاشان آج بہت خوشی محسوس کر رہا تھا کہ اس کی وجہ سے سب کو اطمینان حاصل ہوا ہے۔اس نے فون کرکے طلحہ کو بھی بتایا تو اس نے کاشان کی مزید حوصلہ افزائی کی۔اب کاشان دادا کو پارک لے جانے کے ساتھ ساتھ ان کو پورا پورا وقت بھی دیتا ہے۔کبھی ان کی پسند کی کتابیں پڑھ کر سناتا ہے تو کبھی ان سے کتابوں کے بارے میں بحث مباحثہ کرتا ہے۔کبھی چھوٹے بہن بھائیوں کو ملا کر ان کے ساتھ لوڈو یا کیرم کھیلتا ہے۔سب کاشان سے بہت خوش ہیں اور دعائیں دیتے ہیں کہ وہ دادا کا اتنا خیال رکھتا ہے۔وہ خود بھی جان چکا تھا کہ بچے اور بوڑھے برابر ہوتے ہیں۔بزرگوں کو بھی اتنی ہی توجہ اور پیار دینا چاہیے،جتنا وہ اپنے بچوں کو دے چکے ہوتے ہیں۔کیوں ٹھیک ہے ناں۔ " بد دعا - تحریر نمبر 2012,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bad-dua-2012.html,"حافظ محمد دانیال حسنسیٹھ ساجد شہر کے بہت بڑے تاجر تھے۔اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت ساری دولت اور زندگی کی تمام نعمتوں سے نوازا تھا۔وہ اپنی بیگم اور اکلوتے بیٹے کے ساتھ ایک بہت بڑے بنگلے میں رہتے تھے۔بہت زیادہ دولت نے انھیں مغرور کر دیا تھا اور وہ غریبوں کی مدد کرنا بلکہ ان سے بات کرنا تک گوارا نہ کرتے تھے۔ایک دن وہ صبح سویرے اپنے پالتو جانوروں کو کھانا کھلا رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی چوکیدار چھٹی پر تھا۔مجبوراً انھیں خود دروازہ کھولنے جانا پڑا۔چوکیدار کو بُرا بھلا کہتے ہوئے جب انھوں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک ضعیف بزرگ کھڑے تھے اور حلیے سے غریب دکھائی دیتے تھے۔سیٹھ صاحب نے درشت لہجے میں ان سے آنے کی وجہ پوچھی۔(جاری ہے)بزرگ نے کہا:”اللہ کے نام پر کچھ مدد کر دو،اللہ آپ کے رزق میں برکت دے۔“یہ سننا تھا کہ ساجد صاحب کو غصہ آگیا۔انھوں نے نہایت بدتمیزی سے جواب دیا:”کیا میں اس لئے کماتا ہوں کہ تم جیسے کام چوروں کی مدد کرتا رہوں۔ہڑتال والے دن بھی چین نہیں ہے۔بھیک مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی،دفع ہو جاؤ یہاں سے۔“بزرگ نے یہ سن کر کہا:”غرور کا سر کبھی اُٹھا نہیں رہتا۔تم رزق کے ایک ایک نوالے کو ترسو گے۔“انھوں نے فقیر کی بات کو سنی اَن سنی کر دیا اور ابھی واپس پلٹے ہی تھے کہ خانساماں کی خوف ناک آواز سنائی دی وہ بھاگ کر باورچی خانے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ خانساماں زمین پر گرا ہوا ہے اور چائے کی پتیلی اور فرائی پین اس کے اوپر گرا ہوا ہے۔سیٹھ صاحب کی اہلیہ بیٹے کو ساتھ لے کر میکے گئی ہوئی تھی۔خانساماں ناشتہ بنا رہا تھا کہ یہ حادثہ پیش آگیا۔انھوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو ساتھ لیا اور قریبی کلینک لے گئے۔اس کے دونوں ہاتھ بُری طرح جل گئے تھے۔مجبوراً اس کو بھی چھٹی دینی پڑی۔ان کو خود کچھ بنانا نہیں آتا تھا۔انھوں نے سوچا کہ دفتر جا کر کچھ کھا لوں گا،لیکن پھر یاد آیا کہ آج تو ہڑتال ہے۔دفتر بند رہے گا۔اب انھوں نے سوچا کہ ناشتہ نہ سہی دودھ پی کر گزارہ کر لیں۔یہ سوچ کر انھوں نے باورچی خانے میں قدم رکھا۔آہٹ کی آواز سن کر ایک بلی بڑی تیزی سے بھاگی۔وہ پتیلی میں سے دودھ پی رہی تھی۔بلی ڈر کر بھاگی تو دودھ کی پتیلی بھی گرا گئی۔بلی کو اچھی طرح بُرا بھلا کہنے کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ دیر ٹی وی پر ہڑتال کی صورت حال دیکھی جائے۔ٹی وی دیکھتے ہوئے دن کے دو بج گئے تھے اور اب بھوک کی شدت سے مجبور ہو کر انھوں نے باورچی خانے کی دوبارہ تلاشی لے ڈالی۔انھیں بسکٹ کا ایک ڈبا ملا،لیکن جیسے ہی انھوں نے اسے کھولا تو دیکھا کہ چینٹیوں نے بسکٹ کو کھا کر بھربھرا کر دیا تھا وہ طیش میں آگئے،لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ہڑتال کی وجہ سے ہوٹل بھی بند تھے۔فریج میں ایک انڈا رکھا نظر آیا تو وہ خوش ہوئے۔تلنے کے لئے اسے توڑا تو وہ گندا نکلا۔ایک کونے میں ان کو دہی کا رائتہ نظر آگیا۔باسی روٹی سے ابھی کھانا شروع کیا ہی تھا کہ انھیں پیالے میں کوئی چیز تیرتی ہوئی دکھائی دی۔انھوں نے غور سے دیکھا تو رائتے میں کاکروچ تیر رہا تھا۔انھیں یہ دیکھ کر ان کا جی متلا گیا۔ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟سیٹھ کے گھر میں دولت کی ریل پیل تھی اور وہ روٹی کے ایک نوالے کو ترس رہا تھا۔اچانک ان کے ذہن میں فقیر کی بد دعا کے الفاظ گونجنے لگے۔اب انھیں احساس ہوا کہ صبح ان کے گھر پر سوالی بن کر آنے والا کوئی عام فقیر نہیں،بلکہ اللہ کے نیک بزرگ تھے اور یہ ان کی بے عزتی کرنے کی سزا تھی جو وہ بھگت رہے تھے۔یہ خیال آتے ہی انھوں نے گاڑی نکالی اور بزرگ کو ڈھونڈنے نکل پڑے۔شام سے رات ہو گئی،لیکن بزرگ کا پتا نہ چلا۔چلتے چلتے انھیں ایک پرانی جھونپڑی نظر آئی،جس میں ہلکی ہلکی روشنی تھی۔وہ گاڑی سے اُترے اور جھونپڑی میں داخل ہو گئے۔ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی،کیونکہ جھونپڑی میں وہی بزرگ عبادت کر رہے تھے،جن سے صبح ساجد صاحب نے بد اخلاقی کی تھی۔انھوں نے روتے ہوئے بزرگ سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی غرور نہ کریں گے۔مجھے احساس ہو گیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے،اصل حقیقت انسان کے اعمال اور کردار کی ہے۔بزرگ نے کمال شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پاس رکھی ہوئی کپڑے کی چھوٹی سے گٹھری ساجد کو دی۔ساجد نے گٹھری کھولی تو اس میں سوکھی روٹی اور اچار کا ٹکڑا رکھا تھا۔اس کے ساتھ بزرگ نے مٹی کے پیالے میں پانی ڈالا اور ان کے پاس رکھ دیا۔انھوں نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور خوب پیٹ بھر کر کھایا۔آج ان کو یہ کھانا گھر کے کھانے سے بھی زیادہ لذیذ محسوس ہو رہا تھا۔انھوں نے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے انھیں سیدھی راہ دکھا دی۔ " سنہرے دن - تحریر نمبر 2011,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sunehre-din-2011.html,"عروج سعدآج تو ابا کا موڈ بڑا خوشگوار تھا،کیونکہ لندن سے چاچو کا فون آیا تھا کہ وہ پاکستان آرہے ہیں۔دو دن کسی سیمینار میں شرکت کریں گے۔ابا چاہتے تھے کہ ان ہی دنوں تایا ابا بھی انڈیا سے آجائیں،تاکہ تمام بھائی اکٹھے ہو جائیں۔اتفاق سے تایا ابو کو ویزا مل گیا تھا۔ابا کی خوشی تو دیکھنے والی تھی۔ہم سب تو ان لوگوں سے پہلی مرتبہ مل رہے تھے۔ابا کے ساتھ ہم لوگ ایئرپورٹ گئے۔ان دونوں چچاؤں کو دیکھ کر ہم سب کو بڑی حیرت ہو رہی تھی کہ یہ تینوں ایک دوسرے سے کس قدر ملتے جلتے ہیں۔آنکھیں، مسکراہٹ،بات کرنے کا انداز،محبت خلوص پیار سب کچھ ہی تو ایک جیسا تھا اور ایک ہم بھائی بہن تھے ،جو ہر وقت لڑنے جھگڑنے کے لئے تیار رہتے تھے۔گھر آنے کے بعد ابا کے ساتھ ساتھ چاچو اور تایا ابا کے قہقہے گھر میں خوب گونج رہے تھے۔(جاری ہے)ان کے بچپن کے قصے سن کر ہم نے بھی خوب لطف اُٹھایا۔اچانک یاد آیا کہ بازار سے ہم چاکلیٹ لائے تھے اور فریج میں رکھی تھی۔جلدی سے بھاگ کر فریج کھولا تو چاکلیٹ غائب تھی۔ہم نے دل میں سوچا ہو نہ ہو یہ ٹیپو ہی ہو گا۔آج اس کی خوب پٹائی کریں گے۔ہاتھ کیسے لگایا اس نے ہماری چاکلیٹ کو۔ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے،ہم اسٹول پر پاؤں رکھ کر دیوار کے اوپر چڑھے امرود توڑ رہے تھے کہ نیچے رکھا ہوا اسٹول غائب ہو گیا۔جب ہم نے شور کیا تو اس نے ہماری ٹانگ زور سے کھینچ کر ہم کو نیچے گرا دیا۔”بس بہت ہو گیا۔“ہم نے غصے سے کھولتے ہوئے سوچا۔ابھی اس کو مزہ چکھانے جا ہی رہے تھے کہ ٹی وی لاؤنج سے چاچو کی آواز گونجی:”بھائی صاحب!یاد ہے،آپ کو ہمیشہ میری پلیٹ میں کھانا پسند تھا۔جب کہ وہی کھانا میز پر بھی رکھا ہوتا تھا،لیکن آپ اکثر میری ہی پلیٹ میں کھاتے۔میں بھی خوب غصہ کرتا تھا۔میں اپنا کھانا چھوڑ دیتا کہ اب آپ ہی سب کھائیں۔پھر آپ مجھے منانے لگتے،لیکن میں ضد پر اَڑ جاتا اور دل ہی دل میں جلتا کڑھتا بھی رہتا کہ مزید کیوں نہیں منا رہے ہیں اور آپ بھی خوب مزے سے ساری پلیٹ صاف کر دیتے۔“نعمان چاچو ہنستے ہوئے پھر بولے:”پتا نہیں کیوں اتنا چڑتا تھا میں بالکل پاگل تھا۔“ابا بولے:”میاں!بچپن کا زمانہ کون بھول سکتا ہے۔بچہ تو بچہ ہی ہے ناں ایک بات اور تمہیں بتائیں،کھانا مجھے تمہاری ہی پلیٹ میں سچ مچ بہت لذیذ لگتا تھا۔تم سب سے چھوٹے جو تھے۔تمہیں تنگ کرنے کا تو مزہ ہی کچھ اور تھا اور بعد میں خوب پیار بھی آتا تھا۔“ابا نے چاچو کو لپٹا کر پیار کرتے ہوئے کہا:”میرا جگر کا ٹکڑا۔“نعمان چاچو ہنستے ہوئے بولے:”بھائی!اب میرا بہت دل چاہتا ہے کہ آپ پھر سے مجھ کو تنگ کریں،میری پلیٹ چھین لیں،میرے ساتھ کھانا کھائیں،ہم سب پھر سے ایک ساتھ رہیں،اپنے اس دور کا لطف اُٹھائیں۔“تایا ابو بولے:”اللہ کا احسان ہے کہ میرے پاس دنیا کی ہر چیز ہے،مگر وہ محبت،خلوص،پیار،ایثار،اپنائیت کہیں نہیں ہے۔“چاچو نے کہا:”کتنے خوبصورت دن تھے وہ جب ہم سب ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔“”ابا بولے:”تم یہ دیکھو کہ ہم نے کبھی لڑائیوں کو دل پہ نہیں لیا۔صبح لڑتے تو شام تک بھول جایا کرتے کہ لڑے کس بات پر تھے۔ہم لڑتے ضرور تھے،مگر محبت بھی کم نہیں تھی۔سب سے زیادہ مزہ تو اس وقت آتا جب ہم دو ایک طرف ہو جاتے اور نعمان کو تنگ کرتے۔تھوڑی دیر میں ہمیں رحم بھی آجاتا تھا۔“تایا ابا بولے:”جب بھی ہم بھائیوں میں لڑائی ہوتی تو اماں ابا بات کرنے سے منع کر دیتے تھے کہ اب بات کرتے نہ دیکھوں تم لوگوں کو آپس میں۔اس حکم سے ہم لوگوں کو تکلیف ہوتی،سارے قصے کہانیاں یاد آتیں اور ایک دوسرے سے بات کرنے کے لئے تڑپنے لگتے۔“”پھر تو اماں بھی خوب ہنستیں اور کہتیں:”نکٹا مجھے بھائے نہ اور نکٹے بنا رہا جائے نہ۔“پتا نہیں کچھ ایسا ہی محاورہ تھا۔ابا یاد کرتے ہوئے بولے۔”سچ تو یہ ہے کہ روپیہ پیسہ سب مل جاتا ہے،نہیں ملتے تو یہ انمول خوبصورت رشتے نہیں ملتے۔“ابا نے کہا۔چاچو بولے:”’میں سمجھتا ہوں جن لوگوں کے نزدیک صرف پیسہ ہی سب کچھ ہوتا ہے وہ جذبہ انسانیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔“تایا ابو نے کہا:”نوک جھونک کہاں نہیں ہوتی،جہاں محبتیں ہوتی ہیں وہاں چھیڑ چھاڑ بھی ہوتی ہے۔سچ پوچھو تو میں نے بہت تنگ کیا ہے تم سب کو،لیکن خدا نخواستہ کبھی بُرا نہیں چاہا،نہ کبھی نفرت کی،ہاں شرارتیں تو خوب کی تھیں۔“ہم جو خاموشی سے بزرگوں کی یادیں،باتیں،قصے،کہانیاں سن رہے تھے،پہلے دل ہی دل میں ٹیپو کو گھونسے،مکے،لاتیں،تھپڑ سب ہی کچھ مار مار کے خوش ہو رہے تھے کہ ایک دم سے دل کے ایک کونے سے آواز آئی:”کوئی بات نہیں،ٹیپو نے ہماری چاکلیٹ کھا لی تو کیا ہوا،وہ ہے تو ہمارا بھائی چھوٹا سا،اس پہ تو سو چاکلیٹیں بھی قربان۔ہماری جان و روح ہمارا بھائی۔“یہ سوچ کر ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔سچ مچ محبت کے آنسو۔ " مِل جُل کر - تحریر نمبر 2010,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mil-jul-kar-2010.html,"عشرت جہاںدونوں بہن بھائی پھر سے کوئی نئی شرارت سوچ رہے تھے۔مومن کے ہاتھ میں اسٹیپلر تھا۔اقصیٰ نے کتابیں کاپیاں سامنے رکھ لیں۔دونوں نے اسٹیپل کرنے کی کوشش کی،مگر جب کامیابی نہ ملی تو اقصیٰ نے نئی ترکیب سوچ لی۔ایک ایک کرکے کاپی سے صفحے پھاڑے پھر انھیں موڑ کر اور اوپر تلے رکھ کر پنیں لگانے لگے۔دونوں اپنے کام میں مصروف تھے۔امی کے آنے کی خبر اس وقت ہوئی جب مومن کا کان امی کے ہاتھ میں تھا۔”یہ کیا کیا؟“وہ غصے سے بولیں۔کاپیوں کے صفحے بھی پھاڑے جا چکے تھے۔”گھائیں مائیں۔“اقصیٰ نے مزے سے جواب دیا۔”ابھی نکالتی ہوں تمہاری گھائیں مائیں۔“امی نے جھنجلا کر اقصیٰ کا کان بھی پکڑ لیا:”کاپیوں،کتابوں کی بربادی کر رکھی ہے دونوں نے۔(جاری ہے)“”سب بے کار تو ہیں،کیا کریں گے ان کا۔“اقصیٰ بولی۔”کتابیں کبھی بے کار نہیں ہوتیں انھیں پڑھو،سمجھو اور سمجھاؤ۔“”اسکول بند ہیں امی!جب اسکول نہیں جانا تو کیا کریں انھیں سنبھال کر۔“مومن بہن کی حمایت میں بولا۔”ان کی حالت درست کرو اور بیٹھ کر پڑھو۔“”ہم نہیں پڑھیں گے،جب اسکول نہیں جانا تو کیوں پڑھیں۔“اقصیٰ نے ماں کو لاجواب کرنا چاہا۔”اقصیٰ!آپ بڑی بہن ہیں بھائی چھوٹا ہے،ایسے میں اسے کچھ پڑھاؤ،کچھ سمجھاؤ۔“امی نے دونوں کے کان چھوڑ دیے۔”امی جان!پڑھاتی تو ہوں یہ میری بات ہی نہیں مانتا۔“”میں آپی سے نہیں پڑھوں گا،یہ مارتی ہیں۔“شکایتی پوٹلی کھلتی جا رہی تھی۔باورچی خانے سے شوں شوں کی آواز بلند ہو رہی تھی۔امی جان انھیں ان کے حال پر چھوڑ کر باورچی خانے کی طرف چلی گئیں۔تھوڑی دیر بعد وہ بچوں کے لئے دو پیالوں میں کھیر لے آئیں۔”ارے امی نے تو میری کھیر میں بادام ڈالے ہیں۔“اقصیٰ،مومن کو جلانے کے لئے بولی۔”میری کھیر میں کشمش نہیں ڈالے۔“مومن نے منہ بسورا۔”میری کھیر میں تمہارے کشمش بھی ہیں۔“اقصیٰ نے مزید جلایا۔”میں کھیر نہیں کھاؤں گا۔“مومن نے پاؤں مارے۔بُری بات،دسترخوان کو پاؤں نہیں مارتے۔“امی نے باورچی خانے سے واپس آکر تنبیہ کی۔”آپ نے آپی کی کھیر میں بادام ڈالے اور ساری کشمش بھی ڈال دیں میری کھیر میں کشمش نہیں ڈالے۔“مومن منہ پھیر کر بیٹھ گیا۔”بیٹا!کشمش ختم ہو چکی تھی۔بادام تھے اس لئے میں نے وہ ڈال دیے۔اگلی بار بابا کشمش لائیں گے تو ضرور ڈالوں گی۔اس وقت تو تم یہی کھا لو۔“امی نے سمجھانا چاہا،جب کہ اقصیٰ مزے لے لے کر کھیر کھا رہی تھی اور مومن کو للچا رہی تھی۔”ساری کشمش میری پلیٹ میں ہیں یہ دیکھو۔“اس نے ایک چمچ بھرا اور مومن کے سامنے لہراتے ہوئے اپنے منہ میں رکھ لیا۔اس کوشش میں کچھ کھیر دسترخوان پر گِر چکی تھی۔ادھر مومن کا واویلا بڑھ رہا تھا۔”میں نہیں کھاؤں گا۔“مومن کی بات سن کر امی نے سر پکڑ لیا۔”مجھے نہیں پتا،مجھے کشمش والی کھیر بنا کر دیں۔“مومن ضد پر اَڑا ہوا تھا۔تنگ آکر امی نے دونوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا:”تم لوگوں کو کیا پتا آج کل میں کس قدر پریشان ہوں،تم کو کیا معلوم گھر میں کھانا کس طرح بن رہا ہے۔تم دونوں کو کیا خبر تمہارے بابا کورونا کی وبا پھیلنے کی وجہ سے دوسرے شہر میں پھنسے ہوئے ہیں،اس وبا کے باعث جو جہاں تھا وہیں رک گیا ہے۔تم لوگوں کو احساس نہیں ہے کہ اس بلائے ناگہانی نے انسانوں کو کتنا پریشان کیا ہوا ہے۔“امی کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔ وہ اُٹھیں اور مزید کچھ کہے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔دونوں خاموش بیٹھے رہ گئے۔دونوں اپنے اپنے رویے پر غور کر رہے تھے۔بابا کے گھر میں نہ ہونے کی وجہ سے دونوں امی کو بہت ستانے لگے تھے۔اپنی من مانی کرنا،نت نئی شرارتیں کرنا،پڑھائی سے غفلت،امی کا ہاتھ نہ بٹانا۔دونوں اپنی کوتاہیاں نظر آنے لگیں۔انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔اقصیٰ اُٹھی اس نے دسترخوان پر رکھے کھانے کو ڈھانپ دیا۔دونوں باہر صحن میں آگئے۔کیاری میں لگے پودوں سے موتیا کے پھول اِکٹھے کرکے اپنے ہاتھوں میں لیے اور کمرے میں چلے آئے۔امی اخبار پڑھ رہی تھیں۔دونوں بہن بھائیوں نے موتیا کے پھول ان کے سامنے رکھ دیے۔انھیں پتا تھا کہ ان کی امی کو موتیا کی خوشبو کس قدر پسند ہے۔”اب ہم آپ کو کبھی نہ ستائیں گے۔“اقصیٰ بولی۔”مِل جُل کر کام کریں گے۔“مومن بولا۔”مِل جُل کر پڑھیں گے۔“اقصیٰ نے کہا۔”اور مِل جُل کر کھیلیں گے۔“مومن نے بات پوری کی۔دونوں اُمید بھری نظروں سے امی جان کو دیکھ رہے تھے۔انھیں معلوم تھا کہ ان کی امی ان سے ناراض نہیں رہ سکتیں۔وہ ضرور انھیں معاف کر دیں گی۔”آؤ،پوری دنیا کے انسانوں کے لئے مِل جُل کر دعائیں کریں۔“کہتے ہوئے امی جان نے آگے بڑھ کر دونوں کو گلے لگا لیا۔ " پہچان - تحریر نمبر 2009,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pehchaan-2009.html,"نذیر انبالوینہر کنارے واقع گلابی باغ میں رنگ برنگے گلاب کے پھولوں کے کھلنے کی دیر تھی کہ ہر طرف خوشبو ہی خوشبو پھیل گئی تھی۔مالی گلاب خان گلاب کے پھولوں کو دیکھ دیکھ کر پھولا نہ سماتا تھا۔گلاب خان کی عادت تھی کہ وہ ایک ایک پھول کو سونگھتا اور ایک ہی جملہ دہراتا:”واہ،کیا بھینی بھینی خوشبو ہے۔“گلاب خان کو کیا معلوم تھا کہ سارے ہی گلاب آپس میں باتیں کرتے ہیں۔اپنی خوبصورتی پر ناز کرتے ہیں۔وہ گلاب خان کے سامنے اپنی اپنی ٹہنی پر لہراتے ہوئے باتیں کرتے جاتے تھے۔گلاب خان ان کی باتیں سن نہ پاتا تھا۔گلاب کے پھولوں اور خوشبو کے درمیان کئی دنوں سے ایک بحث جاری تھی۔یہ بحث اُس وقت شروع ہوئی تھی جب ایک آدمی نے سرخ گلاب کے پھول کو سونگھتے ہوئے کہا تھا:”بہت اچھی خوشبو ہے،دماغ معطر ہو گیا ہے۔(جاری ہے)“یہ بات سن کر خوشبو نے سرخ گلاب کے پھول کی طرف دیکھا اور کہا:”تمہاری جو تعریف ہوتی ہے وہ میری وجہ سے ہوتی ہے،تمہاری ساری اہمیت میرے دم سے ہے۔میں نہ ہوں تو تمہیں کون پوچھے گا،میں ہوں تو تم ہو۔“سرخ گلاب نے خوشبو کو گھورتے ہوئے کہا:”واہ،اچھی کہی،تمہیں سونگھنے کے لئے ہمارا ہونا بھی ضروری ہے۔“”واہ گلاب میاں واہ،میں چلی گئی تو تم سب پھولوں کو کون پوچھے گا۔“خوشبو کی باتیں سن کر ہر گلاب نے اس کی طرف دیکھا تھا۔ایک ٹہنی پر اُگے ایک ننھے سے گلاب کے پھول نے خوشبو سے پوچھا:”کیا تم مجھے بھی چھوڑ جاؤ گی؟“”ہاں․․․․․ہاں․․․․․میں تم سب کو چھوڑ جاؤں گی،پھر کبھی واپس نہ آؤں گی۔“گلاب کے پھول سمجھے کہ خوشبو یہ بات انھیں ڈرانے کے لئے کہہ رہی ہے،لیکن انھیں اُس وقت صدمہ پہنچا جب رات کی تاریکی میں خوشبو چپکے سے پھولوں سے نکل کر دور کہیں چلی گئی۔خوشبو کے رخصت ہونے سے جہاں گلاب کے پھول اُداس تھے وہاں گلاب خان مالی بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ پھولوں میں خوشبو کیوں نہیں۔گلاب کے پھول لہرا لہرا کر گویا چیخ چیخ کر خوشبو کے جانے کے بارے میں بتا رہے تھے۔خوشبو باغ سے نکل کر ایک میدان کی طرف بڑھی،وہاں بچے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے۔بلے باز نے ایک زور دار ہٹ لگائی تو خوشبو کا وہاں سے گزر ہوا۔بلے باز نے اپنے ساتھی کو مخاطب کیا:”یہ خوشبو کیسی ہے؟شاید تم نے پرفیوم لگایا ہے۔“”نہیں تو،میں نے پرفیوم نہیں لگایا۔“دوسرے بلے باز نے جواب دیا۔خوشبو میدان کا چکر لگا کر بازار کی طرف بڑھ گئی۔وہ جہاں بھی جاتی۔خوشبو پھیل جاتی۔سب کو اُس کی موجودگی کا پتا تو چل رہا تھا،مگر کوئی اُسے دیکھ نہیں پا رہا تھا۔خوشبو جہاں بھی جاتی،لوگ ایک دوسرے سے یہی سوال کرتے کہ خوشبو کہاں سے آرہی ہے؟کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا۔وہ پکار پکار کر کہتی:”میں خوشبو ہوں،میرا نام خوشبو ہے۔“کوئی اس کی پکار سننے کے لئے تیار نہ تھا۔خوشبو کئی دنوں تک اِدھر اُدھر گھومتی رہی۔اُسے لگ رہا تھا کہ اس نے اپنی پہچان کھو دی ہے۔اس نے باغ اور باغ میں موجود گلاب کے پھولوں کو چھوڑ کر اچھا نہیں کیا۔گلاب کے پھول بھی اس کے بغیر اُداس تھے۔وہ خوشبو کی راہ تک رہے تھے۔جس گلاب کے پھول کا خوشبو سے جھگڑا ہوا تھا۔اس کا سر ندامت سے جھکا ہوا تھا۔سب پھول اس سے ناراض تھے۔اس کی وجہ سے خوشبو سب پھولوں کو چھوڑ کر چلی گئی تھی۔اس نے کہا:”میں نے خوشبو سے لڑائی کرکے اچھا نہیں کیا۔خوشبو واپس آئے گی تو میں اس سے معافی مانگ لوں گا،خوشبو کے بغیر ہم سب ادھورے ہیں۔“سرخ گلاب کی باتیں خوشبو سن رہی تھی۔وہ چپکے سے باغ میں لوٹ آئی تھی۔وہ درختوں کے قریب کھڑی تھی۔اس کے باغ میں آتے ہی ہر طرف خوشبو بکھر گئی تھی۔گلاب کے پھول سر اُٹھا اُٹھا کر خوشبو کو دیکھ رہے تھے۔”اے پیارے پھولوں!میں لوٹ آئی ہوں۔میں نے خوبصورت پھولوں کو چھوڑ کر جان لیا ہے کہ میری پہچان صرف اور صرف پھول ہیں۔“”اور ہماری پہچان صرف اور صرف تم ہو۔“سرخ گلاب نے خوشبو کی بات درمیان سے اُچک لی تھی۔”تو اب یہ دوری کیوں کر رہے ،خوشبو آؤ،پھولوں میں دوبارہ سما جاؤ۔“ایک ننھے پھول کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ خوشبو ہر پھول میں بس گئی۔ اب باغ کا ہر پھول پہلے کی طرح خوشبودار تھا۔اس دن کے بعد نہ گلاب کے پھول خوشبو سے جدا ہوئے اور نہ خوشبو انھیں چھوڑ کر کہیں گئی۔ " ہاتھی ہمارا ساتھی - تحریر نمبر 2008,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hathi-hamara-sathi-2008.html,"حامد مشہودہاتھی تو آپ نے چڑیا گھر یا سرکس میں دیکھا ہی ہو گا۔یہ بہت بھاری بھرکم اور لمبا چوڑا چوپایہ ہے،جس کا زیادہ سے زیادہ وزن 6350 کلو گرام،لمبائی چوبیس فیٹ اور قد سترہ فیٹ تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔خشکی کے تمام حیوانات میں اس کا وزن زیادہ ہوتا ہے،البتہ پانی کا جانور وہیل،ہاتھی سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔یہ جانور ٹکر مار کر بڑی بڑی کشتیاں بھی سمندر میں غرق کر دیتا ہے۔جسمانی طاقت کے ساتھ ساتھ ہاتھی دماغی طور پر بھی بہت ذہین ہوتے ہیں۔انسان اس ذہین جانور کو ہزاروں سال سے مختلف مقاصد کے لئے پالتا آرہا ہے،کیونکہ اسے تربیت دینا آسان ہے۔یہ انسان سے دوستی کرتا ہے اور اس کے ساتھ کھیلتا بھی ہے۔ان پر سوار ہو کر دور دراز کا سفر بھی کیا جا سکتا ہے۔(جاری ہے)بادشاہ اپنے پسندیدہ ہاتھی کو قیمتی زیور بھی پہناتے تھے۔طاقتور ہونے کی وجہ سے ہاتھی جنگوں میں استعمال ہوتے تھے۔قدیم جنگوں میں ہاتھی کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔یہ فوجیوں کو بھاری بوجھ سمیت میدان جنگ تک پہنچاتے تھے۔پرانے زمانے میں منجنیق ایک بہت بڑی کرین جیسی مشین ہوتی تھی،جو دشمن فوج پر بڑے بڑے پتھر پھینکتی۔اس کا ریڑھا ایک ہاتھی کھینچتا تھا۔حبشہ کا حاکم ابرہہ جب خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کے ناپاک ارادے سے چلا تھا تو اس کے ساتھ ہاتھیوں کی فوج تھی،مگر اللہ کے حکم سے ابا بیلوں کے ذریعے خود مارا گیا۔ہاتھی برصغیر میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ہاتھی چونکہ بہت طاقتور ہوتا ہے۔اس لئے یہاں ہندو دھرم میں اسے ”دیوتا“ بھی مانا گیا۔ اب بھی کئی ہندو گھرانوں کی شادیوں اور تقریبات میں ہاتھی مذہبی طور پر لائے جاتے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے 326 پہلے مقدونیہ کا جنگ جُو الیگزینڈر (سکندر بھی کہا جاتا ہے) جب برصغیر فتح کرنے آیا تو اُس کا سامنا دریائے جہلم کے کنارے پر مہا راجا پورس کے ہاتھیوں کے لشکر سے ہوا تھا۔اسی جنگ میں الیگزینڈر کا وہ مشہور گھوڑا مارا گیا،جس کی کمر پر بیٹھ کر اُس نے آدھی دنیا پر قبضہ کیا تھا۔غزنی کے حاکم محمود غزنوی نے محسوس کیا کہ ہندوستانی بادشاہوں اور راجاؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے فوج میں ہاتھیوں کی موجودگی بہت ضروری ہے۔اُس نے ہندوستان سے سینکڑوں ہاتھی مہاوت سمیت خرید لیے۔اسی طرح برصغیر میں شہاب الدین غوری کا مقابلہ مہا راجا پرتھوی راج سے ہوا،جس میں راجا کئی ہزار جنگی ہاتھی بھی لایا تھا۔مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر جب ہندوستان آیا تو اس کے ساتھ صرف گھوڑے اور خچر ہی تھے،مگر یہاں آکر ہاتھی کی طاقت دیکھ کر دنگ رہ گیا۔اسی طرح بہادر شاہ ظفر کا بہت لمبا چوڑا ہاتھی ”مولا بخش“ تاریخ میں زندہ ہے۔کہتے ہیں کہ مغلیہ خاندان کے پاس اس سے زیادہ لمبا چوڑا ہاتھی کبھی نہ رہا۔یہ صرف بادشاہ کو دِلّی میں دورہ کراتا تھا۔وہ نہا دھو کر حاضر ہوتا اور بہادر شاہ ظفر کو دیکھتے ہی گھٹنے ٹیک کر سلام کرتا۔بادشاہ کے علاوہ کوئی اس پر سوار نہیں ہو سکتا تھا۔یہ بچوں سے بہت دلچسپ انداز میں کھیلتا تھا۔مولا بخش نے انگریزوں کے ہاتھوں اپنے 82 سالہ بادشاہ کی گرفتاری اپنی آنکھوں سے دیکھی تو احتجاج میں بھوک ہڑتال کر دی۔انگریزوں نے اسے زبردستی کھلانا چاہا تو یہ سرکش ہو گیا اور لڈوؤں کچوریوں کے ٹوکرے برباد کر دیے۔اس نے ایک بات نہ مانی تو اسے نیلام کیا گیا۔ دِلّی کے بڑے تاجر سیٹھ ہزاری مل نے 250 روپے کی بڑی بولی دے کر اسے خریدا۔جب مولا بخش کو اس حادثے کی خبر ہوئی تو وہ دھڑام سے گر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ایرانی بادشاہ نادر شاہ ہاتھی سے ناآشنا تھا۔اُس نے جب دِلّی پر قبضہ جما لیا تو اسے سواری کے لئے ہاتھی پیش کیا گیا۔اس نے سواری سے صاف انکار کر دیا کہ اتنا بڑا جانور اور اس کے منہ میں لگام تک موجود نہیں۔انگریزوں نے ہند میں ہاتھی پر سواری تو کی،مگر اس سواری کو دل سے اچھا نہ سمجھا کہ اس پر مہاوت کا محتاج رہنا پڑتا ہے۔وائسرائے اور ملکہ کو ہاتھی پر سیر کرائی جاتی تھی۔بھارت میں اب بھی ستائیس ہزار سے زیادہ ہاتھی پائے جاتے ہیں۔اب بھی جے پور میں لوگوں نے درجنوں ہاتھی پال رکھے ہیں اور سیاح ہاتھی کرائے پر لے کر،پہاڑی پر واقع قلعہ آمیر کی سیر کو جاتے ہیں۔ان کی رہائش کے لئے وہاں ہاتھی گاؤں بنایا گیا ہے۔ " اُڑنے والا قالین - تحریر نمبر 2007,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/urne-wala-qaleen-2007.html,"احمد عدنان طارقآپ کسی جادوگر کو اس کی سالگرہ پر کیا تحفہ دے سکتے ہیں؟وہ تو ویسے ہی ہر چیز حاصل کر سکتے ہیں۔انھیں آپ جرابوں کا جوڑا۔چاکلیٹ کا ڈبا یا داڑھی مونڈنے کے بعد لگانے والا لوشن دے کر تو خوش نہیں کر سکتے۔زیادہ تر جادوگر تو ویسے بھی لمبی داڑھی رکھ لیتے ہیں،اس لئے وہ بھی ان کے لئے بے کار ہے۔ہاں انھیں خوش کرنے کے لئے کوئی تحفہ دینا ہو تو ان کے جادو کی صلاحیتیں بڑھانے والی کوئی چیز دی جا سکتی ہے۔جیسے کوئی منتروں والی کتاب ۔یا کوئی جادو کا کفگیر جو کسی جادوئی محلول کو حل کرنے میں مدد دے سکے۔اسی لئے ننھی تزئین جادو کی چیزوں والی دکان پر کاسنی جادوگرنی کے پاس گئی۔اس نے جادوگرنی سے فرمائش کرتے ہوئے کہا:”میں اپنے چچا کے لئے ایک تحفہ ڈھونڈ رہی ہوں،تاکہ ان کی سالگرہ کے موقع پر انھیں دے سکوں۔(جاری ہے)وہ جادوگر ہیں اور ان کے لئے تحفہ ڈھونڈنا بہت ہی مشکل ہے،کیونکہ وہ تو ہر چیز جادو کے ذریعے خود حاصل کر سکتے ہیں۔“کاسنی جادوگرنی ہنستی ہوئی بولی:”مجھے معلوم ہے کہ تمہیں کس طرح کا تحفہ چاہیے؟“وہ بہت اچھی دکاندار تھی اور کسی بھی گاہک کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتی تھی۔وہ کہنے لگی:”میرے ساتھ بھی یہی مسئلہ بن گیا تھا۔جب مجھے اپنے دادا کو تحفہ دینا تھا۔کیا تم نے کوئی خوبصورت سوٹ دیکھا ہے۔جادوگر بہت پرانی وضع کے جُبّے پہنتے ہیں،جو ان پر ذرا اچھے نہیں لگتے۔ایک خوبصورت سوٹ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟“پھر اس نے تزئین کو بھڑکیلے کپڑوں کے کئی جوڑے دکھائے،جن پر تارے ٹانکے ہوئے تھے۔ننھی تزئین کہنے لگی:”یہ کپڑے نہ تو چچا پر جچیں گے اور نہ وہ انھیں پہنیں گے۔میں کوئی ایسا تحفہ دیکھ رہی تھی،جس سے انھیں جادو کے سلسلے میں مدد ملے۔“کاسنی جادوگرنی نے کہا:”فٹ بال کھیلنے والے جادو کے جوتے کیسے رہیں گے؟آج کل دوبارہ ان کا رواج عام ہو رہا ہے یا پھر کوئی جادوگروں کے لئے نیا عصا!آج کل یہ ایلومینیم سے بنے ہوئے آرہے ہیں جن کا وزن بہت کم ہوتا ہے اور جادوگر آسانی سے انھیں اُٹھا کر گھومتے پھرتے ہیں۔“تزئین بے اختیار کہنے لگی:”نہیں․․․․نہیں۔“اس نے دکان میں اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی تو ایک کونے میں ایک بوری جیسی کھردری چیز پر اس کی نظر پڑی ،جسے لپیٹ کر رکھا گیا تھا۔اس نے کاسنی جادوگرنی سے بہت ادب سے پوچھا:”یہ کیا ہے؟“کاسنی جادوگرنی نے بڑی تیزی سے قالین کی تہیں کھولیں۔وہ بوری نما چیز اصل میں قالین تھا۔قالین کا ایک کونا پھٹا ہوا تھا،جیسے کسی چوہے نے کُتر ڈالا ہو۔قالین کے رنگ مدہم ہو چکے تھے۔کاسنی کہنے لگی:”جیسا کہ تم دیکھ رہی ہو۔اس کے اچھے دن جا چکے ہیں۔اس لئے تم اگر اسے خریدنا چاہو تو میں اس کی قیمت میں بہت کمی کر دوں گی۔اس طرح کے نئے قالین کی قیمت تو کوئی بادشاہ ہی ادا کر سکتا ہے۔یہ جادو کا قالین دنیا میں اُڑ کر کسی بھی جگہ جا سکتا تھا،لیکن اب یہ اپنا جادوئی اثر کھو چکا ہے۔اب تو یہ تمہارے ٹخنوں جتنا اونچا اُڑ سکے گا اور پانچ منٹ میں تھک کر واپس زمین پر آجائے گا۔“تزئین بولی:”میں اسے خریدنا چاہتی ہوں،لیکن آپ کو اس کی قیمت میں بہت کمی کرنی ہو گی۔“کاسنی جادوگرنی نے تزئین کی خواہش کے مطابق قالین کی قیمت میں غیر معمولی کمی کر دی۔تزئین قالین گھر لے آئی اور اسے سنہرے کاغذ میں بہت خوبصورتی سے لپیٹ دیا اور پھر اسے بڑی احتیاط سے لے کر چچا کے گھر کی طرف چل دی جو آبادی سے دور سب سے الگ بنا ہوا تھا۔چچا کے گھر پہنچ کر اس نے چچا کو سلام کرنے کے بعد سالگرہ مبارک کہا۔چچا اپنی آرام کرنے والی کرسی پر دراز تھے۔آج اپنی سالگرہ کے دوسرے دن وہ صرف آرام کرنا چاہتے تھے،لیکن وہ تیزی سے تزئین کی طرف لپکے، تاکہ تزئین کو بوجھ سے نجات دلائیں۔تزئین نے معذرت کی کہ وہ پہلے دن نہ آسکی۔چچا تحفے پر سے سجاوٹی کاغذ اُتارنے میں مصروف تھے۔تزئین نے پوچھا:”چچا کیا آپ کو تحفہ پسند آیا ہے،لیکن مجھے افسوس ہے کہ پرانا ہونے کی وجہ سے اب یہ زیادہ اُڑ نہیں سکتا۔“چچا کی آنکھوں میں چمک تھی وہ بولے:”واقعی یہ اُڑ نہیں سکتا ہو گا۔ایسی حالت میں کوئی قالین کہاں اُڑ سکتا ہے۔اسے صفائی کی ضرورت ہے اور جہاں جہاں سے یہ پھٹا ہوا ہے وہاں جادو کے دھاگے سے اس کی مرمت ہو سکتی ہے۔اس کے بعد یہ بالکل نئے جیسا ہو جائے گا۔کل دوبارہ آنا،تب تک میں اس کی مرمت کر لوں گا۔پھر تمہیں اصل تماشا دکھاؤں گا۔“تزئین کو مزید شاباش کی ضرورت نہیں تھی۔وہ ویسے ہی بہت خوش تھی۔اس نے چچا کو وہ تحفہ دیا تھا جس سے وہ خوش ہو گئے تھے اور وہ اب صرف قالین کے اُڑنے کا تماشہ دیکھنے کے لئے بے تاب تھی۔اگلی صبح وہ جلد ہی چچا کے گھر پہنچ گئے۔چچا بولے:”یہ بالکل ٹھیک ہو گیا ہے۔آؤ اس پر سواری کی کوشش کریں۔“تزئین کا خیال تھا کہ شاید قالین اس کا اور چچا کا بوجھ اِکھٹا نہ اُٹھا سکے گا،لیکن جب وہ قالین پر سوار ہوئی تو ایسا لگا،جیسے وہ کسی طاقتور گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو۔چچا نے پوچھا:”کیا تم تیار ہو؟اسے مضبوطی سے پکڑ لو۔شروع میں ہو سکتا ہے یہ کچھ شرارت بھی کرے۔“واقعی کچھ دیر میں قالین جیسے بے چین ہونے لگا،اُچھل کود کی،لیکن پھر انھیں لے کر ہوا میں بلند ہوا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ہوا کے شور کی وجہ سے تزئین زور سے بولی:”ہم کہاں جا رہے ہیں؟“چچا بولے:”جہاں ہمارا دل چاہے۔ہمیں صرف سوچنا ہے اور یہ اس پر عمل کرے گا۔“تزئین نے فوراً ساحل سمندر کا سوچا،جہاں وہ پہلے بھی جا چکی تھی۔تبھی قالین نے لٹو کی طرح گھومنا شروع کر دیا۔چکروں کی وجہ سے تزئین کا سر بھی گھومنے لگا۔اس کا دل چاہا کہ وہ قالین سے اُتر جائے۔چچا بولے:”سوچنا بند کرو۔ہم دونوں علیحدہ جگہوں کے متعلق سوچ رہے ہیں،جس کی وجہ سے قالین کا یہ حال ہو رہا ہے۔تزئین کا سر اتنا چکرا رہا تھا کہ وہ سوچ ہی نہیں سکتی تھی۔تبھی قالین نے چکر کھانا بند کیا اور وہ شمال کی طرف اُڑنے لگا۔چچا بولے:”میری شروع سے خواہش تھی کہ بحر منجمد شمالی کی سیر کروں،لیکن ٹھنڈی جگہوں پر جادو کرنے کے لئے بڑا زور لگانا پڑتا ہے۔میں پہلے اسی لئے وہاں نہیں جا سکا۔“تزئین اعتراض کرتے ہوئے بولی:”لیکن چچا!وہاں تو سردی ہو گی۔“چچا بولے:”تم فکر نہ کرو۔“پھر وہ تھوڑا سا بد بدائے تو ان کے جسموں پر گرم کپڑے آگئے۔بحر منجمد شمالی تک جب وہ پہنچے تو تھوڑا سا مایوس ہوئے۔وہاں ہر طرف برفیلے میدان تھے۔تزئین بولی:”مجھے تو اُمید تھی کہ مجھے یہاں برفانی بھالو ملیں گے۔“چچا بولے:”میں نے بھی یہی سوچا تھا،لیکن چلو،اب گھر جانے کا وقت آگیا ہے۔“اب کیونکہ وہ دونوں گھر جانے کا سوچ رہے تھے اس لئے قالین نے واپسی کا سفر بہت تیزی سے طے کیا۔جلد ہی وہ چچا کے گھر پہنچ گئے۔چچا نے تزئین سے چائے بنانے کا کہا۔تزئین نے ہنس کر کیتلی اُٹھا لی،کیونکہ چچا نے جادو کی چھڑی ہلا کر کیتلی میں چائے پہنچا دی تھی۔لیکن تبھی بدقسمتی سے قالین نے ایک انگڑائی سی لی تو تزئین کے ہاتھ سے کیتلی چھوٹ گئی اور ساری چائے قالین پر جاگری۔قالین تلملا کر بھاگا اور چشم زدن میں کمرے سے باہر نکل گیا۔چچا مختلف منتر پڑھتے رہے،لیکن قالین واپس نہیں آیا۔چچا ٹھنڈی سانس بھر کر بولے:”مجھے لگتا ہے اب ہم اسے دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ایسا ہونا ہی تھا۔ایسے قالین تکلیف برداشت نہیں کرتے،لیکن بیٹا!یہ بہت زبردست تحفہ تھا اور میں نے اس پر سوار ہو کر بڑی ناقابل فراموش سیر بھی کی۔اگر برفانی بھالو بھی مل جاتے تو اچھا ہوتا۔“سنا ہے کہ اس اُڑن قالین کو اُڑتے ہوئے دنیا کے کئی حصوں میں دیکھا گیا ہے۔اگر غلطی سے تم کبھی اس پر سوار ہو جاؤ تو اسے مضبوطی سے پکڑ کر صرف اس جگہ کا سوچنا،جہاں تمہیں سیر کے لئے جانا ہو اور ہاں اس پر گرم چائے گرانے کی غلطی نہ کرنا۔ " صفائی فوج - تحریر نمبر 2004,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/safai-fouj-2004.html,"غلام محی الدین ترکاستاد صاحب نے زین کا رول نمبر پکارا۔جواب میں کلاس میں خاموشی چھائی رہی۔انھوں نے چونک کر کلاس کی جانب نگاہ دوڑائی:”ہاں بچو!کسی کو معلوم ہے کہ زین تین دن سے کہاں غائب ہے؟“استاد کے لہجے میں گہری تشویش تھی۔”نہیں سر!کسی کو بھی نہیں معلوم۔“حمزہ نے کھڑے ہو کر جواب دیا۔وہ خود بھی زین کی مسلسل غیر حاضری سے پریشان تھا۔زین اس کا بہترین دوست تھا۔شام کو وہ زین کے گھر کے سامنے تھا۔دستک دینے پر زین نے ہی دروازہ کھولا۔وہ خاصا کمزور نظر آرہا تھا۔”زین!تم کہاں غائب ہو؟اسکول کیوں نہیں آرہے؟“حمزہ نے دیکھا کہ اسکول کا نام سن کر زین خاصا افسردہ ہو گیا ہے۔”حمزہ!تمہیں تو معلوم ہی کہ مجھے دھویں سے سخت الرجی ہے اور اسکول کے راستے میں کئی لوگ بے وقت کچرا جلاتے ہیں۔(جاری ہے)تین روز پہلے آیا تو کچرے سے ہونے والے دھویں کے باعث میری طبیعت خاصی خراب ہو گئی۔ایک ہفتے بعد زین کی طبیعت ٹھیک ہو چکی تھی۔گرمیوں کی چھٹیاں بھی شروع ہو گئی تھیں۔ایک دن اس نے محلے کے بچوں کو اپنے گھر جمع کیا۔ٹیپو،سراج،قاسم اور حسین اس کے پاس بیٹھے تھے۔”مجھے تم سب سے بہت اہم کام ہے۔تم سب میرے گہرے دوست ہو۔یقینا تم میرے کام آؤ گے۔ہم اپنے علاقے میں کچرا جمع کریں گے۔اس طرح ہمارا علاقہ صاف ستھرا ہو جائے گا۔یہی نہیں ہم کچرے سے پیسے بھی کمائیں گے۔“زین نے آخری بات کہی تو چاروں بچے حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔”کیا تم ٹھیک کہہ رہے ہو؟“سراج بے یقینی کا شکار تھا۔”ہاں،میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔“ہم کچرے سے پیسے بھی کمائیں گے اور ماحول بھی صاف ستھرا رکھیں گے۔“زین نے انھیں یقین دلانے کی کوشش کی۔”تو ٹھیک ہے،پھر ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔“ٹیپو نے جواب دیا۔“”ہم اپنی ٹیم کا نام صفائی فوج رکھیں گے۔“زین نے کہا۔”زین!اپنے علاقے کو صاف کرنے کے لئے ہم ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔“قاسم نے کہا تو زین مسکرانے لگا۔“تو پھر ابھی سے کام شروع کرتے ہیں۔“زین ایک بڑا سا گتا لے آیا۔اس گتے سے انھوں نے بہت سارے چھوٹے چھوٹے کارڈز بنائے ۔زین ان پر مارکر سے لکھنے لگا:”کچرا دیں․․․پیسے لیں۔“اپنے گھر کو صاف کریں اور کچرا صفائی فوج کو دے کر پیسے کمائیں۔یاد رکھیں،کچرا جلا کر آپ خود کو اور اپنے ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں۔کچرا جمع کروانے کے لئے اس نے اپنے علاقے کے ایک میدان کا پتا لکھا ہے۔اگلے دن صفائی فوج کے بچے گھر گھر کارڈز تقسیم کر رہے تھے۔وہ لوگوں کو کچرے کے بارے میں بتا رہے تھے۔ٹیپو اور قاسم سب سے پہلے عظمت صاحب کے گھر پہنچے تھے۔عظمت صاحب ان کی بات سن کر چونک اُٹھے:”صاحبزادے!تم کچرے کے پیسے دو گے،جب کہ خاکروب تو اُلٹا ہم سے پیسے لیتا ہے۔“ان کے لہجے میں خاصی حیرانی تھی۔”جی چاچا جی!ہم آپ کو ضرور پیسے دیں گے۔بس آپ کو چھوٹا سا کام کرنا ہو گا۔گھر کا گیلا کچرا جس میں سبزی اور پھلوں کے چھلکے،استعمال شدہ چائے کی پتی،چاول وغیرہ ہوں،انھیں ایک ساتھ رکھیں۔سوکھی روٹیاں،کاغذ اور گتے ایک ساتھ رکھیں۔مشروبات کے ڈبے،شیشے، پلاسٹک کی بوتلیں اور لوہے کا سامان ایک ساتھ رکھیں۔پھر دیکھیں ہم کیا کمال کرتے ہیں۔“ٹیپو کی بات سن کر وہ بے یقینی سے اسے دیکھتے رہے،پھر گھر کے اندر چلے گئے۔تھوڑی دیر بعد آئے تو اس نے ہاتھ میں تین تھیلیاں تھیں:”تمہارے کہنے پر کچرا اسی طرح دے دیا ہے،مگر مجھے تو اب تک تمہاری بات پر یقین نہیں آیا۔“”شکریہ چاچا جان!ہم آپ کا نام لکھ لیتے ہیں۔ایک ماہ بعد جب اس کی ادائی ہو گی تب آپ کو ہماری بات پر یقین آئے گا۔“ٹیپو مسکراتے ہوئے بولا۔ادھر میدان میں زین لوگوں کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔اس نے گھر کی پرانی اور بے کار چیزوں کے نام ایک بڑے سے چارٹ پر لکھ لیے تھے۔کافی دیر بعد سکینہ خالہ کا دروازہ کھلا اور وہ باہر نکلیں۔ان کے ہاتھ میں کچرے کی تھیلی تھی۔زین انھیں ہی دیکھ رہا تھا۔زین کو ان کے ہاتھ میں ماچس کی ڈبیا بھی نظر آئی۔یہ دیکھ کر زین چلا اُٹھا:”خالہ!یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟“سکینہ خالہ اسے دیکھنے لگیں۔”اے لڑکے!دیکھ رہے ہو،کچرے کو آگ لگا رہی ہوں۔انھوں نے جواب دیا۔”خالہ!کچرا جلانے سے فضا میں آلودگی پھیلتی ہے۔یہ اچھی بات نہیں ہے۔کیا آپ نے وہ کارڈ نہیں پڑھا جو صفائی فوج نے آپ کے گھر میں دیا ہے؟“زین ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔”صفائی فوج!“خالہ پہلے تو نام سن کر چونکیں،پھر ہنسنے لگیں:”صفائی کی بھی فوج ہوتی ہے بھلا؟“انھوں نے ہنستے ہوئے کہا۔”ہاں خالہ!اس فوج کا کام صفائی کرنا ہے۔“زین مسکراتے ہوئے بولا۔”اچھا تو وہ کارڈ تم لوگوں نے دیا تھا،اس کارڈ کو بھی میں نے کچرے میں ڈال دیا ہے۔بھلا مجھے پڑھنا کہاں آتا ہے؟“سکینہ خالہ نے جواب دیا تو زین نے اپنا سر پیٹ لیا۔”خالہ!ایسا کریں کہ آپ مجھے کچرا دے دیں۔میں اس کے بدلے میں آپ کو پیسے دوں گا۔“وہ مسکراتے ہوئے بولا۔”کیا؟کچرے کے پیسے دو گے۔خاکروب تو کچرا اُٹھانے کے پیسے لیتا ہے۔اے لڑکے!کہیں تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا۔یا مجھ سے مذاق کر رہے ہو؟“سکینہ خالہ کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔”نہیں خالہ!میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔“زین ان کا ہاتھ پکڑ کر میدان میں لے آیا اور رجسٹر پر ان کا نام لکھنے لگا:”ایک مہینے کا کچرا جمع کرنے پر آپ کو سارے پیسے مل جائیں گے۔“خالہ اس کی بات سن کر حیران تھیں اور اسی کیفیت میں وہاں سے چلی گئیں۔ذرا سی دیر میں پورے محلے میں یہ بات پھیل چکی تھی۔صفائی فوج کے کارڈز نے کمال کر دکھایا تھا۔لوگ اپنے گھروں سے کچرا لا رہے تھے۔ کچھ لوگ ان بچوں پر ہنس بھی رہے تھے،مگر صفائی فوج کو ان کے ہنسنے کی پروا ہی کب تھی۔ان بچوں نے پہلے ہی دن خاصا کچرا جمع کر لیا تھا۔ اب سارے بچے ماسک اور دستانے پہنے اس کچرے کو ان کی جگہ پر رکھ رہے تھے۔بابر صاحب دفتر سے گھر واپس آئے تو بچوں کو کام کرتے دیکھ کر رک گئے۔زین ان کے دوست کا بیٹا تھا،انھیں زین کا یوں کام کرنا سخت ناگوار گزرا،وہ سیدھے اس کے ابو کے پاس جا پہنچے۔”بھائی صاحب!آپ کے بیٹے کا تو دماغ چل گیا ہے،وہ میدان میں کچرا جمع کر رہا ہے۔بھلا کچرے کے پاس رہنا کہاں کی عقل مندی ہے؟“ابو ان کی بات سن کر میدان تک چلے آئے۔جہاں زین ہاتھوں پر دستانے چڑھائے پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے،باسی چاول، استعمال شدہ پتی ملا رہا تھا۔اس نے صفائی فوج کی مدد سے ایک گڑھا کھودا اور یہ چیزیں اس میں ڈال کر اسے بند کر دیا۔”زین!یہ تم کیا کر رہے ہو؟“ابو اسے یہ کام کرتا دیکھ کر حیران تھے۔”ابو!کھاد تیار کر رہا ہوں۔پھل،سبزیوں اور گھر کے گیلے کچرے سے زمین زیادہ زرخیز ہوتی ہے۔یہ کھاد تیار کرنا میں نے ایک کتاب سے سیکھا ہے۔“زین نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”مگر اس طرح گندگی میں رہنا تو اچھی بات نہیں،صحت کے خلاف بھی ہے۔“”ابو!اپنا علاقہ صاف کرنا تو ہم سب کا حق ہے۔ویسے بھی ہم نے لوگوں کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ کچرا کس طرح رکھنا ہے؟اس طرح ہمارا کام بھی آسان ہو گیا ہے۔اگر ہم ایسا نہ کریں تو آنے والے وقت میں ہر طرف بیماریاں ہی بیماریاں نظر آئیں گی اور آج ہماری کوششوں سے پورے محلے میں کہیں بھی کچرا نہیں جلایا گیا۔“ابو اس کی بات سن کر خوش ہو گئے۔اپنی مشکل کا حل زین نے خود نکال لیا تھا۔اگلے روز صفائی فوج کی توقع سے زیادہ لوگ کچرا جمع کروانے آئے تھے۔لوگوں کو پیسوں سے زیادہ اس بات کی خوشی تھی کہ اسی بہانے ان کا کچرا ٹھکانے لگ رہا تھا۔پورا علاقہ برسوں سے کچرے کا ڈھیر بن چکا تھا۔سرکاری خاک روب کبھی کبھار ہی نظر آتے تھے۔صفائی فوج کا کام آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا تھا۔ان بچوں کو ایک ایسے ادارے کے بارے میں علم ہوا جو بے کار اشیاء کو دوبارہ استعمال کے قابل بناتا تھا،انھوں نے فوراً اس ادارے سے رابطہ کیا۔ایک روز جب صفائی فوج میدان میں اپنا کام کر رہی تھی۔علاقے کے کچھ لوگ بھی کچرا دینے آئے تھے کہ اس ادارے کے لوگ وہاں آگئے۔”ہم آپ کی پرانی اور بے کار چیزیں دیکھنا چاہتے ہیں۔“زین نے کچرے کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا۔ان لوگوں نے کچرے کے ڈھیر میں سے بیشتر چیزیں خرید لی تھیں۔ان میں گتے،پلاسٹک اور شیشے کی بوتلیں،دانت صاف کرنے کے برش اور دوسری چیزیں شامل تھیں۔اب وہاں تھوڑا ہی کچرا باقی رہ گیا تھا۔”چاچا!آپ ان فالتوں چیزوں کا کیا کریں گے؟“ٹیپو نے پوچھا۔”فالتو!“وہ شخص لفظ فالتو پر زور دیتے ہوئے بولا:”یہ چیزیں فالتو نہیں ہیں بیٹا!سونا ہیں یہ سونا۔اگر لوگوں کو ان کی قدر معلوم ہو گئی تو انھیں کبھی ضائع نہ کریں۔ہم کاغذ،گتے وغیرہ دوبارہ استعمال کے قابل بناتے ہیں۔ان سے نوٹ بک بھی بنائی جاتی ہیں۔باقی چیزیں بھی کام کی ہیں۔ہم ان چیزوں کو استعمال کے قابل بناتے ہیں جو لوگ بے کار سمجھ کر ضائع کر دیتے ہیں۔“میدان میں موجود لوگ حیرانی سے اس شخص کی باتیں سن رہے تھے۔وصول شدہ رقم کچرا دینے والوں میں تقسیم کر دی گئی۔دن گزرتے رہے۔صفائی فوج کی محنت کی وجہ سے ان کا کام روز بہ روز پھیل رہا تھا۔بچے اب خود بھی کتابوں اور انٹرنیٹ کی مدد سے چیزوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانا سیکھ رہے تھے۔گھروں میں پڑے ہوئے بے کار کچرے سے ان بچوں نے خاصے پیسے کما لیے تھے۔زین سوچ رہا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ اسکول جانا شروع کر دے گا۔صفائی فوج کی شہرت شہر بھر میں پھیلنے لگی۔ایک دن ان بچوں کا انٹرویو ملک کے بڑے اخبار میں چھپا۔اس انٹرویو کو پڑھ کر ایک سرکاری محکمے کے سربراہ ان کے پاس آئے:”بچوں!تم نے ہماری بہت بڑی مشکل آسان کر دی ہے۔سرکاری خاکروب بھی اس علاقے کو صاف کرنے ضرور آئیں گے۔ہم جلد ہی تمہیں ایک بڑی عمارت دیں گے۔جہاں پر تم اطمینان سے کام کر سکو گے اور اپنی تعلیم بھی جاری رکھ سکو گے۔تم یہ کام دوسرے نوجوانوں کو بھی سکھا سکتے ہو۔“زین ان کی بات سن کر بڑا خوش ہوا۔اب تو بابر صاحب بھی صفائی فوج کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔اس فوج نے اپنی ذہانت اور محنت کی بدولت نہ صرف علاقے کو صاف ستھرا کر دیا تھا بلکہ کچرے سے آمدنی پیدا کرنے کا طریقہ بھی جان لیا تھا۔آپ بھی ان کی طرح ہمت کرکے ایسے کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔ " پُراسرار حویلی - تحریر نمبر 2003,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/purisrar-haveli-2003.html,"ثاقب محمود بٹ،اسلام آبادعمار،حسن اور زہرا کو آج ٹیوشن پڑھنے کے بعد واپسی پر دیر ہو گئی۔اندھیرا چھا چکا تھا۔عمار کے منع کرنے کے باوجود حسن اور زہرا نے گھر جانے کے لئے مختصر راستے کا انتخاب کیا۔مجبوراً عمار کو بھی اُن کے ساتھ جانا پڑا۔اس راستے پر ایک خوفناک ویران حویلی بھی آتی تھی۔اُس شام تینوں بچے جب حویلی کے سامنے سے گزرے تو حویلی میں روشنی دیکھ کر حیران رہ گئے۔زہرا فوراً بولی:”ہمیں اندر جا کر دیکھنا چاہیے۔ ہم نے آج تک اس گھر میں روشنی نہیں دیکھی۔“زہرا کے توجہ دلانے پر وہ تینوں روشنی کی طرف بڑھنے لگے۔دبے قدموں کے ساتھ وہ سب حویلی میں داخل ہوئے اور اُس روشن کمرے کی جانب بڑھنے لگے۔کمرے کی کھڑکی کے قریب پہنچ کر انھوں نے چپکے سے اندر جھانکا تو اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔(جاری ہے)چار افراد،جن کے پاس مختلف رنگوں کے تھیلے پڑے تھے اور وہ ڈھیر ساری رقم گننے میں مصروف تھے۔اُن کے پاس بہت سا اسلحہ بھی رکھا تھا۔یہ سب دیکھ کر بچوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔عمار نے اپنے منہ پر اُنگلی رکھ کر حسن اور زہرا کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور وہ تینوں دبے قدموں حویلی سے باہر نکلے اور دوڑ لگائی اور گھر پہنچ کر دم لیا۔بچوں نے انتہائی بہادری اور عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام حالات سے اپنے والد انسپکٹر اکرم کو آگاہ کیا اور حویلی کے اندر کا آنکھوں دیکھا حال سنا دیا۔انسپکٹر صاحب نے فوراً تھانے فون کیا اور پولیس فورس کو متعلقہ حویلی کا پتا سمجھا کر خود بھی اپنی جیپ میں بیٹھے اور حویلی کی جانب روانہ ہو گئے ۔اُن کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی پولیس نے حویلی کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔کچھ ہی دیر بعد پولیس کی نفری کے ساتھ انسپکٹر اکرم اُس پُراسرار حویلی میں داخل ہوئے اور اُن چاروں مشکوک افراد کو گرفتار کرکے باہر لے آئے۔بعد میں انکشاف ہوا کہ اُن چاروں مجرموں کا تعلق خطرناک جرائم پیشہ گروہ سے تھا۔اگلے روز کے اخبارات میں جہاں اُن چار مجرموں کی تصاویر چھپی تھیں،وہیں پولیس کی جانب سے عمار،حسن اور زہرا کو بھی سراہا گیا تھا،جن کی بدولت اُن جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری میں مدد ملی تھی۔پولیس کے اعلیٰ افسران نے تینوں بچوں کو تعریفی اسناد اور نقد انعامات سے نوازا۔ " خوفناک بنگلہ - تحریر نمبر 2002,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khofnak-bangla-2002.html,"عائشہ فردوس،کراچیحامد،حارث اور ماریہ تینوں بہن بھائی تھے۔انھیں سیر کرنے کا اور ڈراؤنی کہانیاں پڑھنے اور سننے کا بہت شوق تھا۔ان کے گھر سے کچھ دور ایک پرانی کھنڈر نما عمارت جو بہت عرصے سے ویران تھی۔ایک دن انھوں نے فیصلہ کیا کہ تینوں سیر کے بہانے باہر جائیں گے اور ایک رات کھنڈر میں گزار کر واپس آجائیں گے۔امی ابو کو تو اصل بات نہیں بتائی جا سکتی ورنہ وہ منع کر دیتے۔آخر مقررہ رات آپہنچی اور وہ گھر سے نکل گئے۔وہ کھنڈر کہانیوں کے کھنڈرات سے زیادہ خوفناک تھا آج وہاں روشنی بھی ہو رہی تھی۔ہمت کرکے تینوں ایک ساتھ اندر داخل ہوئے۔اندر ہر چیز گرد اور مٹی سے اَٹی پڑی تھی۔اونچی اونچی دیواروں پر مکڑیوں کے جالے بنے ہوئے تھے اور چھت پر ایک عجیب سی چمک تھی۔(جاری ہے)یہ سب کچھ دیکھ کر وہ مزید خوف زدہ ہو گئے۔انھوں نے سامنے دیکھا تو پانچ کمرے تھے اور ان سب کے دروازے بند تھے۔حارث ایک کمرے کی طرف بڑھا اور دروازے کو دھکیلا تو وہ ایک ہلکی سی چرمراہٹ کے ساتھ کھلنے لگا۔اسی لمحے ایک بڑا سا پرندہ اس کے سر کے اوپر سے اُڑتا ہوا باہر نکل گیا۔حارث چیخ کر پیچھے ہٹا اور اس نے اوپر دیکھا۔پوری چھت پر چمگادڑیں لٹکی ہوئی تھیں۔ان کی آنکھیں ہی تھیں جو اندھیرے میں چمک رہی تھیں۔اتنے میں وہ دروازہ جو حارث نے کھولا تھا آہستہ آہستہ پورا کھل چکا تھا۔اس کے ساتھ ہی باقی کمروں کے بھی دروازے خود بخود کھلنے لگے۔ وہ تینوں باہر نکلنے کے لئے مڑے تو دیکھا کہ بڑا دروازہ انتہائی خاموشی کے ساتھ بند ہو چکا تھا۔اچانک دروازوں میں سے دھواں خارج ہونا شروع ہو گیا۔اور پھر دھواں اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ راستہ نظر آنا بند ہو گیا اور ساتھ ہی عجیب عجیب سی آوازیں بھی سنائی دینا شروع ہو گئیں۔ایک عجیب سا ہیولا ان کی طرف بڑھ رہا ہے۔انھوں نے ڈر کے مارے دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔اگرچہ اندھیرے اور دھوئیں میں دیکھنا بہت مشکل تھا،لیکن وہ کسی نہ کسی طرح سے دروازے تک پہنچ گئے۔انھوں نے اس خوف ناک منظر کو دیکھنے سے بچنے کے لئے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔تینوں نے مل کر زور لگایا۔دوسری ہی کوشش پر دروازہ کھل گیا اور وہ باہر آکر گرے۔ " دوسری کہانی - تحریر نمبر 2001,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dosri-kahani-2001.html,"تماضر ساجدچھٹی ہوتے ہی میں اپنے دونوں دوستوں احتشام اور عادل کے ساتھ اسکول سے نکلا۔ہمیں لائبریری جانا تھا،جو مرکزی دروازے کے باہر تھی۔اسکول کی عمارت سے مرکزی دروازے تک آنے اور جانے کی دو سڑکیں برابر برابر بنی ہوئی تھیں۔لائبریری بند ہونے میں صرف آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ہم تینوں اپنی اپنی سائیکلوں پر سوار ہو کر نکلے۔باہر جانے والی سڑک پر گاڑیوں کا ہجوم تھا۔ہمیں چاہیے تھا کہ ہم رک کر بھیڑ ختم ہونے کا انتظار کرتے،مگر ہم تینوں جلدی میں ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آنے والی سڑک پر آگئے۔چوکیدار ڈنڈا ہلاتے ہوئے روکتا رہ گیا،مگر درمیان میں کھڑی گاڑیوں کے باعث وہ ہم تک نہ پہنچ سکا۔اسی وقت سامنے سے پرنسپل صاحب کی گاڑی اسکول کی طرف آتی دکھائی دی۔(جاری ہے)انھوں نے گاڑی یوں کھڑی کر لی کہ ہماری سائیکل گاڑی کے سائیڈ سے نکل نہ سکیں۔پرنسپل صاحب نے ملازم کو گاڑی سائیڈ پر کھڑی کرنے کا کہا اور ہمیں دوبارہ اسکول لے گئے۔میں نے پرنسپل صاحب کی کرسی کے پیچھے لگے وال کلاک پر بے بسی سے نظر ڈالی۔لائبریری جانا تو ناممکن تھا ہی ساتھ ہی سزا کے بغیر یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی نظر نہ آیا۔دل ہی دل میں،میں نے اللہ سے دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ آج ہمیں ڈانٹ سے بچا لیں۔پرنسپل صاحب نے غصے سے گھورتے ہوئے معاملہ دریافت کیا۔ڈرتے ڈرتے میں نے سچ بولنے میں ہی عافیت جانی۔پوری بات سن کر ان کا غصہ کچھ کم ہوا اور بولے:”اتنی کیا جلدی تھی؟کل چلے جاتے لائبریری۔“میں نے اثبات میں سر ہلایا:”مگر جناب!وہاں سے کچھ معلومات حاصل کرنی تھی۔ معلومات افزا کے جوابات کی کل آخری تاریخ ہے۔“”اچھا تو رسالے میں لکھتے ہو تم؟“ان کا لہجہ یک دم بدل گیا۔”جی ہم تینوں نہیں،صرف یہی لکھتا ہے۔“احتشام نے میری طرف اشارہ کرکے کہا۔”صرف جوابات ہی لکھتے ہو؟“پرنسپل صاحب نے مسکرا کر پوچھا تو میری جان میں جان آئی۔”نہیں سر!کبھی کبھار کہانی بھی شائع ہو جاتی ہے۔“پرنسپل صاحب نے پُرسوچ نگاہوں سے مسکراتے ہوئے پوچھا:”دیکھو،جانے کی تو مجھے بھی جلدی ہے،ایسا کرو تم تینوں مجھے ایک ایک کہانی سناؤ گے،ایک ہی موضوع پر،شرط یہ ہے کہ تم دونوں چاہے کہیں سے پڑھی ہوئی سناؤ،مگر یہ․․․․“انھوں نے میری طرف اشارہ کیا:”خود اپنی کہانی بنا کر سنائے۔“بُرے پھنسے،میں نے سوچا اور کہانی سوچنے لگا۔چونکہ سوچنے کے لئے بالکل وقت نہیں تھا،میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔سر کے سامنے گھومتی مکھی دیکھ کر منہ سے نکلا۔”ایک مکھی تھی۔“”اچھا تو ایک مکھی تھی۔“پرنسپل صاحب نے دہرایا۔”نہیں سر!“میرے ذہن میں یکدم کل شام کا چھوٹا سا واقعہ گھوم گیا۔”ایک کوا تھا،پیاسا کوا۔“”مگر پیاسے کوے کی کہانی تو ہمارے نصاب میں ہے۔“عادل نے اعتراض کیا۔”یہ وہ والا کوا نہیں ہے اور اس میں تم لوگوں کی ہی آسانی ہے۔“میں نے ان دونوں کو دیکھا اور کہا:”اب مجھے کہانی سنا لینے دو۔ہاں تو ایک پیاسا کوا ایک چھت پر لگے بڑے سے اینٹینے پر آکر بیٹھ گیا۔“سب کو شاید کہانی نئی محسوس ہوئی تھی اس لئے سبھی توجہ ہو گئے۔ویسے کہانی واقعی تازہ ہی میرے ذہن میں آئی تھی۔”وہ بے چارہ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔جس چھت پر وہ بیٹھا تھا اس کے برابر والا گھر ہمارا تھا۔میں اور میری بہن اس وقت سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔جب وہ آیا،ہم دونوں اس کا جائزہ لینے لگے۔میری بہن نے اس کی پیاس محسوس کر لی،اس لئے فوراً بیسن کے ساتھ پہلے سے رکھی کٹوری میں پانی لا کر سب سے آخری سیڑھی پر رکھ دیا۔تاکہ کوا آسانی سے پی سکے۔ہم دونوں سیڑھیوں سے نیچے اُتر آئے۔ہم نے دیکھا کہ کوا کافی دیر تک اپنے اردگرد موجود جگہوں پر دیکھتا رہا،مگر مجال ہے جو اس نے ذرا دیر کو سر نیچے کیا ہو۔آخر کوا تھک گیا تو پیاسا ہی وہاں سے اُڑ گیا۔نہ جانے بے چارے کو کہیں اور سے پانی ملا یا نہیں۔“کہانی سنتے ہوئے وقفہ آنے سے سب چونک اُٹھے۔سر بولے:”سبق کیا ملتا ہے اس سے؟“”سر!ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے غیروں پر بھی بھروسا کرنا چاہیے۔دشمن بھی ہماری ضروریات پوری کر سکتے ہیں اگر ہم انھیں موقع دیں تو․․․․“سر مسکرا دیے۔”کوڑی تو بہت دور کی لائے ہو،مگر چل جائے گا یہ سبق۔“پھر انھوں نے احتشام سے کہا:”چلیں آپ شروع ہوں۔“اس نے خشک زبان ہونٹوں پر پھیری اور گویا ہوا:”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک پیاسا کوا پانی کی تلاش میں نکلا۔اسے ایک گھڑا نظر آیا،مگر گھڑے میں پانی کم تھا۔وہ اُڑتا ہوا گیا اور کہیں سے نلکی ڈھونڈ لایا۔ایک سرا پانی میں ڈبو کر اور دوسرے کو منہ میں رکھ کر اس نے پانی پیا اور اللہ کا شکر ادا کرکے اُڑ گیا۔“احتشام نے کہانی ایک ہی سانس میں ختم کرکے گہرا سانس لیا،جیسے کہہ رہا ہوں شکر ہے جان چھوٹی۔کہانی کا انجام سن کر سر مسکرائے اور عادل کی طرف دیکھا۔”ایک پیاسا کوا۔“عادل نے میری طرف دیکھا اور دوبارہ شروع ہوا:”ایک پیاسا کوا پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر اُڑتا پھر رہا تھا۔ایک جگہ سے گزرا تو دہشت گردوں کی فائرنگ سے بے چارہ ہلاک ہو گیا۔بے چارے کی لاش ابھی تک لاپتا ہے۔“سر کھل کر مسکرا دیے:”اس سے پہلے کہ تم تینوں کے لاپتا ہونے کے اشتہار چلنے لگیں،فوراً گھر جاؤ،آئندہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہ کرنا اور اگر اس طرح اسکول سے کہیں اور جانا ہو تو صبح گھر والوں کو بتا کر آیا کرو۔ٹھیک ہے۔“”جی ٹھیک ہے۔“ہم تینوں خوش خوش بستے اور سائیکلیں سنبھالتے نکل گئے۔رش ختم ہو جانے کی وجہ سے راستہ صاف تھا۔میں لائبریری تو نہ جا سکا،مگر مجھے خوشی تھی کہ پرنسپل صاحب کو کہانی پسند آئی اور ہاں اس مہینے کوئز تو میں وقت پر نہ بھیج سکا۔رسالے میں بھیجنے کے لئے دو کہانیاں ضرور ہاتھ آگئیں۔ایک پیاسے کوے والی اور دوسری․․․ارے دوسری یہی جو اس وقت آپ پڑھ رہے ہیں۔ " پیٹونیا کے پھول - تحریر نمبر 1999,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/petunia-ke-phool-1999.html,"شازیہ ظفرحارث میاں جب اسکول سے گھر لوٹے تو انہیں لاؤنج میں رکھی اپنی ہوم ورک ٹیبل کے پاس رنگ برنگے پھولوں کے چار گملے رکھے نظر آئے۔انھوں نے بڑی حیرت سے دیکھا اور قریب صوفے پر اخبار پڑھتے دادا ابو سے سوال کیا․․․․دادا ابو یہ پھولوں کے پودے کہاں سے آئے کتنے پیارے ہیں․․․․دادا ابو نے اخبار پر سے نظریں ہٹائیں اور مسکراتے ہوئے کہا․․․․․حارث میاں․․․․!آج ہم نرسری کے پاس سے گزر رہے تھے۔پھولوں بھرے یہ گملے ہمیں بہت اچھے لگے۔ہم نے سوچا آپ ہمارے ساتھ پارک تو جاتے نہیں یہ گملے آپ کی ہوم ورک ٹیبل کے ساتھ ہی رکھوا دیتے ہیں تاکہ جب آپ یہاں ہوم ورک کریں اور ویڈیو گیمز کھیلیں تو ساتھ یہ پھول آپ کا دل لبھاتے رہیں۔(جاری ہے)حارث میاں یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے یہ رنگ برنگے پھول واقعی ان کے دل کو بھا گئے تھے۔گیارہ سالہ حارث میاں چوتھی جماعت کے طالب علم تھے۔ذہین تھے اور تمیزدار بچے تھے۔مگر کچھ عرصے سے آن لائن ویڈیو گیمز کھیلنے کی لت میں مبتلا ہوتے جا رہے تھے۔سارا گھر تشویش میں تھا۔دادا ابو کئی بار تاکید کرتے۔حارث میاں․․․․!ہوم ورک ختم کر لیا ہے تو ہمارے ساتھ پارک چلیے۔کھلی فضا میں بھاگ دوڑ اچھی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ہر وقت گھر میں بند رہنے سے بچوں کی نشوونما اچھی نہیں ہوتی۔ہم تو اپنے بچپن میں ہر کھیل کھیلا کرتے تھے۔حتیٰ کہ گھر کی قریبی نہر میں دوستوں کے ساتھ تیراکی بھی کیا کرتے تھے۔آپ کو پتا ہے نا کھلی تازہ ہوا کتنی صحت بخش ہے اور صحت مند لوگوں سے ہی صحت مند معاشرہ بنتا ہے۔مگر حارث میاں کے کان پہ جوں نہ رینگتی۔دادا ابو وہ پرانا دور تھا۔تب کمپیوٹر نہیں تھا تبھی آپ یہ کھیل کھیلا کرتے تھے۔اب ہم سارے دوست آن لائن میچ کھیلتے ہیں۔تبھی دادا ابو کے ذہن میں حارث کو سمجھانے کے لئے یہ ترکیب آئی۔حارث میاں پیٹونیا کے پھولوں کو دیکھ دیکھ خوش ہو ہی رہے تھے کہ دو تین دن بعد انہیں محسوس ہوا کہ پودے مرجھا سے رہے ہیں۔دادا ابو کو دکھایا۔حارث میاں․․․․․!شاید ان پودوں کو یہ جگہ پسند نہیں آئی۔دادا ابو میں تو انہیں وقت پہ پانی بھی دیتا ہوں۔حارث میاں اس صورتحال پہ خاصے افسردہ تھے۔پریشانی کی بات نہیں۔ہم ان میں سے دو گملوں کو باہر ٹیرس پہ رکھ کے دیکھتے ہیں۔آخر ان کا مسئلہ کیا ہے۔دادا ابو نے یہ کہتے ہوئے دو گملے باہر ٹیرس کی کھلی ہوا اور دھوپ میں رکھ دئیے۔حارث میاں مطمئن ہو کر اپنے مڈٹرم ٹیسٹ میں مشغول ہو گئے۔دس پندرہ دن بعد اسکول بیگ رکھتے ہوئے ان کی نظر کونے میں رکھے پیٹونیا کے گملوں پر پڑی۔یہ کیا ہوا۔چند سوکھے مرجھائے پتے۔نہ رنگ برنگے پھول نہ کلیاں۔حارث میاں کا ننھا سا دل دکھ سے بھر گیا۔فوراً ہی انہیں بقیہ دو گملوں کا خیال آیا۔وہ ٹیرس کی طرف دوڑے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ٹیرس پہ موجود دونوں گملوں میں پودے کافی بڑے اور گھنے دکھتے تھے اور ان میں بہت سارے رنگ بہ رنگے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔حارث میاں فوراً دادا ابو کے پاس پہنچے اور انہیں ان پودوں کا سارا احوال سنایا۔دادا ابو آپ تو ایک جیسے پودے لائے تھے پھر چاروں گملوں میں اتنا فرق کیسے ہو گیا․․․؟دادا ابو نے مسکراتے ہوئے حارث میاں کو سمجھایا۔بیٹا سارا فرق سورج کی دھوپ اور کھلی فضا کا ہے۔اندر لاؤنج میں پودوں کو دھوپ ملی نہ تازہ ہوا۔اس لئے وہ مرجھاتے چلے گئے۔جبکہ باہر ٹیرس والے گملے دھوپ میں بھی تھے اور انہیں صحت بخش تازہ ہوا بھی میسر تھی اس لئے وہ خوشی سے بڑھ رہے ہیں اور اتنے پھول بھی دے رہے ہیں۔حارث میاں بہت حیران ہوئے۔جیسے ایک دم ہی بہت کچھ سمجھ گئے ہوں۔اگلے روز شام میں سب گھر والوں نے دیکھا ہوم ورک ختم کرنے کے بعد حارث میاں جاگرز پہنے کسی کے انتظار میں بے چینی سے ٹہل ہیں ۔گیٹ کی گھنٹی بجی اور دادا ابو نے انہیں پکارا․․․․․ارے حارث میاں․․․․!آپ کے دوست بلانے آئے ہیں۔جی دادا ابو۔آج ہم سب پلے گراؤنڈ میں کرکٹ میچ کھیلنے جا رہے ہیں۔آپ ہی تو کہتے ہیں صحت مند لوگ ہی صحت مند معاشرہ بناتے ہیں اور صحت مند رہنے کے لئے کھلی صحت بخش فضا بہت ضروری ہے۔ دادا ابو مسکرائے۔ان کا مقصد پورا ہو گیا تھا۔ٹیرس پہ پیٹونیا کے پھول خوشی سے مسکرا رہے تھے۔ " وقت کی قدر کریں - تحریر نمبر 1997,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/waqt-ki-qadar-kareen-1997.html,"شازیہ نازشہزاد بہت لاپرواہ اور کھیل کود میں مگن رہنے والا لڑکا تھا۔سارا دن فضول کھیلوں میں وقت ضائع کرتا تھا۔شہزاد کی ماں اس کے بچپن میں فوت ہو گئی تھی اور اس کا باپ صبح سویرے کھیت میں چلا جاتا اور رات کو دیر سے گھر واپس آتا تھا۔جس وجہ سے شہزاد کی لاپروائی بہت بڑھ چکی تھی۔شہزاد کے باپ نے اس کو کئی مرتبہ سمجھایا کہ وقت ضائع کرنے کی بجائے اس کے ساتھ کھیت میں کام کروایا کرے یا پڑھنے جایا کرے لیکن شہزاد نے اپنی کسی عادت کو نہ بدلا۔پھر اس کے باپ نے ایک ترکیب سوچی اور شہزاد کو کہا کہ وہ صبح اس کے ساتھ کھیت میں چلے کیونکہ آج اس نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ان کے کھیت میں جو سب سے اچھی بالی ہے اور ان کے بیج آئندہ سال بونے پر فصل کئی گنا زیادہ آئے گی۔(جاری ہے)اس لئے وہ کھیت میں ساتھ چلے تاکہ جو بالی سب سے اچھی ہو وہ توڑ کر گھر لے اور سا بالی کے بیج نکال کر رکھ لیں گے تاکہ اگلے سال ان کو بو کر اپنی فصل کو کئی گنا بڑھا سکیں۔شہزاد نے فوراً حامی بھر لی کہ وہ صبح کھیت میں ناک کی سیدھ میں جانا ہو گا اور بالی توڑنی ہو گی۔ پیچھے مڑ کر توڑنے سے موجودہ فصل بھی خراب ہو جائے گی۔اب دونوں باپ بیٹا سو گئے اور صبح سویرے اُٹھ کر کھیت کی طرف چل پڑے۔کھیت میں پہنچ کر شہزاد کے باپ نے اس کو کہا کہ اب بالکل سیدھا کھیت میں چلا جائے اور جو بالی سب سے اچھی نظر آئے اس کو توڑ کر میرے پاس لے آنا۔شہزاد بہت خوش ہوا اور دوڑتا ہوا کھیت میں چلا گیا۔کھیت میں بہت ساری پکی ہوئی بالیاں آمنے سامنے دائیں بائیں موجود تھیں۔ہر بالی بے شمار دانوں سے بھری ہوئی تھی۔شہزاد نے جب ڈھیر ساری پکی ہوئی بالیاں دیکھیں تو خوش ہو گیا لیکن اس نے سوچا کہ آگے اس سے بھی اچھی اور دانوں سے بھری ہوئی بالیاں ہوں گی۔اس نے کوئی بالی نہ توڑی۔شہزاد کھیت میں آگے بڑھتا رہا۔یہاں تک کہ وہ کھیت کے دوسرے کنارے تک پہنچ گیا جہاں تمام بالیاں ابھی کچی تھیں۔شہزاد نے سوچا کہ وہیں سے واپس مڑ جائے اور کھیت کے شروع میں دانے سے بھری بالیاں توڑ لے لیکن پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے کی پابندی کی وجہ سے وہ کھیت میں واپس نہیں جا سکتا تھا۔اس لئے وہ پریشانی کے ساتھ خالی ہاتھ کھیت کے پہلے سرے کی طرف آگیا۔شہزاد کے باپ نے جب اس کو خالی ہاتھ آتے دیکھا تو پوچھا”بیٹا!کیا تم کو کوئی بھی بالی اچھی نظر نہیں آئی؟۔شہزاد نے افسردہ ہو کر کہا ابو جان! ہمارے کھیت میں ہر بالی ایک سے بڑھ کر ایک تھی لیکن میں یہ سمجھ کر آگے چلا جاتا تھا کہ شائد آگے اس سے اچھی اور دانوں سے بھری بالی مل جائے تو میں انہیں توڑ لوں گا جب کھیت کے آخری کونے پر پہنچا تو وہاں تمام بالیاں کچی تھیں۔شہزاد کے والد نے اس کو پیار کرتے ہوئے کہا بیٹا!تم نے نادانی میں اپنا وقت ضائع کیا۔اب تم واپس آکر بالیاں نہیں توڑ سکتے ہو۔شہزاد اپنی نادانی پر سخت شرمندہ ہو گیا اور نہایت افسوس سے سر جھکایا۔شہزاد کے والد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا بیٹا!عقلمند وہی ہے جو وقت کو ضائع نہیں کرتا اور ہر بالی کو دانے سے بھری دیکھ کر توڑ لیتا ہے۔شہزاد نے آئندہ وقت ضائع کرنے سے توبہ کر لی اور خوب دل لگا کر کام کرنے لگ گیا۔اچھے بچو!گزرا وقت واپس نہیں لوٹتا۔وقت کی قدر کرنے والا ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔ " لال جادوگر - تحریر نمبر 1996,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/laal-jadugar-1996.html,"عائشہ جمالکسی پہاڑ کی چوٹی پر ایک جادوگر رہتا تھا۔جادوگر کی ناک نیلے رنگ کی تھی سب لوگ اس کو نیلا جادوگر کہتے تھے اسی پہاڑ کی دوسری چوٹی پر دوسرا جادوگر رہتا تھا۔اس کی ناک لال رنگ کی تھی۔لوگ اس کو لال جادوگر کہتے تھے۔لال جادوگر اور نیلے جادوگر کی آپس میں کھٹ پٹ رہتی تھی۔ایک کہتا میری ناک لمبی ہے۔دوسرا کہتا نہیں میری ناک لمبی ہے۔دونوں جادوگر بڑے ضدی تھے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے،نیلا جادوگر اپنے گھر سے نکل کر باغیچے میں آیا۔بہار کا موسم اور صبح کا وقت تھا۔ہر طرف پھول کھلے تھے۔سبزہ لہلہا رہا تھا۔جادوگر نے خوش ہو کر کہا”آہا!کیا پیارا موسم ہے۔تب وہ سبزے پر لیٹ گیا اور گیت گنگنانے لگا۔اچانک اس نے چونک کر کہا”میری ناک میں اچھے اچھے کھانوں کی خوشبو آرہی ہے۔(جاری ہے)ذرا دیکھوں تو یہ کھانا کہاں پک رہا ہے۔اس نے اپنی نیلی ناک کو حکم دیا”چل میری ناک،چھومنتر کے زور سے لمبی ہوتی جا“ اور نیلے جادوگر کی ناک لمبی ہوتی گئی۔لمبی اور لمبی،یہاں تک کہ پہاڑ کی سات چوٹیوں کو پھلانگ گئی اور ہزار میل دور ایک گاؤں کے ایک پختہ مکان میں پہنچ گئی۔وہ مکان ایک زمین دار کا تھا۔اس کی ایک بیٹی تھی جس کا نام شاداں تھا۔اس دن شاداں نے اپنی سالگرہ منائی تھی اور اپنی ننھی منی سہیلیوں کو کھانے کی دعوت دی تھی۔پلاؤ،زردہ،بریانی اور ڈھیر سارے اچھے اچھے کھانوں کی پلیٹیں میز پر سجی تھیں۔کھانے کی میز پر بیٹھنے سے پہلے شاداں نے سب سہیلیوں سے کہا”آؤ،اپنے دوپٹے،چادریں اور شال اَلگنی پر ٹانگ دیں“۔لیکن وہاں اَلگنی کہاں تھی۔اچانک نیلے رنگ کی ایک چھڑی گھر کے صحن میں پھیلی ہوئی نظر آئی۔سب لڑکیوں نے اپنے رنگ برنگے دوپٹے،چادریں اور شال اس چھڑی پر لٹکا دیئے لیکن وہ چھڑی تو نہ تھی۔نیلے جادوگر کی نیلی ناک تھی۔یہاں سے ہزار میل دور پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے نیلے جادوگر نے اپنے دل میں کہا”یہ میری ناک میں کھجلی کیوں ہو رہی ہے؟“تب اس نے اپنی ناک سے کہا”اے میری ناک،چھومنتر کے زور سے چھوٹی ہوتی جا“۔پھر تو نیلے جادوگر کی نیلی ناک چھوٹی ہوتی گئی۔چھوٹی اور چھوٹی اور جب وہ ناک قریب آئی تو نیلا جادوگر خوشی سے اُچھل پڑا۔”کیسے رنگا رنگ اور قیمتی کپڑے ہیں،یہ کپڑے میں اپنی بیٹی کے جہیز میں دوں گا“ادھر شاداں اور اس کی سہیلیوں نے جب دیکھا کہ نیلی چھڑی ان کے قیمتی کپڑوں کو سمیٹ کر اڑی جا رہی ہے تو پلیٹیں چھوڑ کر دوڑیں۔بہت شور مچایا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔نیلے جادوگر نے وہ سارے قیمتی کپڑے لال جادوگر کو دکھائے اور کہا”اب بتاؤ بھلا تمہاری ناک لمبی ہے یا میری؟“لال جادوگر بہت کھسیانا ہوا۔اس کا منہ غصے سے لال ہو گیا۔اس نے زور زور سے پاؤں پٹکے اور گھر سے یہ کہتا ہوا نکلا کہ اب میں اپنا جادو دکھاؤں گا۔لال جادوگر پہاڑ کی اونچی چوٹی پر چڑھ گیا۔اس نے اپنی ناک کھجائی۔اسے دور تک پھیلا لیکن کوئی مزے دار خوشبو ناک میں نہ سمائی۔رات ہو گئی تو لال جادوگر اپنی ناک غصے سے مروڑتا ہوا پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اُتر آیا۔اس نے وہ رات بڑی بے چینی میں گزاری۔صبح ہوئی تو وہ پہاڑ کی دوسری چوٹی پر چڑھ گیا۔دیر تک اپنی ناک کھجاتا رہا۔دور تک ناک کو پھیلاتا رہا لیکن کوئی مزے دار خوشبو ناک میں نہ سمائی،یہاں تک کہ رات ہو گئی اور لال جادوگر اس روز بھی اپنی ناک کو غصے سے مروڑتا ہوا پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اُتر آیا۔تیسرے دن لال جادوگر تیسری چوٹی پر پہنچا چوتھے دن چوتھی چوٹی پر۔یہاں تک کہ اس نے سات چوٹیاں چھان ماریں لیکن مزے دار خوشبو نہ ملنا تھی نہ ملی۔دل میں کہا”میں اپنی ناک کو لمبا کروں گا لمبا کرتا جاؤں گا۔کہیں تو کوئی مزے دار چیز سونگھنے کو ملے گی“۔تب لال جادوگر نے اپنی لال ناک کو حکم دیا”اے میری لال ناک چھومنتر کے زور سے لمبی ہوتی جا“اور جادوگر کی لال ناک لمبی اور لمبی ہوتی گئی۔یہاں تک کہ سات چوٹیوں کو پھلانگتی اسی زمین دار کے گھر میں جا پہنچی۔زمین دار کا ایک بیٹا تھا۔اس کا نام شادو تھا۔اسی دن شادو نے اپنے دوستوں کو باغیچے میں کھیلنے کے لئے بلایا تھا۔شادو اور اس کے دوستوں نے دیکھا کہ لال رنگ کی ایک مضبوط ٹہنی باغیچے میں دور تک پھیلی ہوئی ہے۔سب بہت خوش ہوئے۔شادو نے چھلانگ لگائی اور ٹہنی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر جھولا جھولنے لگا۔دوسرے لڑکوں نے بھی چھلانگیں لگائیں اور ٹہنی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر جھولا جھولنے لگے۔زمین دار کے نوکر نے جو یہ کھیل دیکھا تو کہا”ٹھہرو،میں رسہ لاتا ہوں۔ٹہنی پر رسہ ڈال کر مزے سے جھولا جھولیں گے۔پھر تو سب لڑکوں نے لال جادوگر کی لال ناک پر رسے کا جھولا ڈال کر پینگیں چڑھائی شروع کر دیں۔ایک لڑکے کو شرارت سوجھی۔اس نے لال جادوگر کی ناک پر چاقو کی نوک سے کھودنا شروع کر دیا۔دوسرے لڑکے نے کوٹ سے پِن نکال کر ناک میں چبھو دی۔اب سنو کہ لال جادوگر درد کے مارے بلبلا اٹھا۔ناک میں پِن کی نوک لگتے ہی اسے سخت کھجلی ہوئی اور جب ناک میں چاقو کی نوک لگی تو وہ تکلیف کے مارے چیخ پڑا”ہائے،میری ناک!ہائے،میری ناک!“لال جادوگر کی یہ چیخ سن کر نیلا جادوگر گھر سے باہر نکل آیا۔اتنی دیر لال جادوگر نے جادو کا زور لگا کر ایک جھٹکے کے ساتھ اپنی لال ناک کھینچی،زمیندار کا لڑکا اور دوسرے لڑکے چھلانگ مار کر جھولے سے کود پڑے اور جب لال جادوگر کی لال ناک سمٹتے سمٹتے قریب آئی تو اس نے دیکھا کہ وہ بُری طرح سوجھ گئی تھی اور لہولہان تھی۔نیلا جادوگر لال جادوگر کی یہ دُرگت دیکھ کر خوب ٹھٹھے مار کر ہنسا۔بے چارہ لال جادوگر بہت شرمندہ ہوا۔ " آزاد پرندہ - تحریر نمبر 1995,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azad-parinda-1995.html,"جاوید اقبالوین اسکول کے سامنے رکی۔سارے بچے اُتر کر اسکول کی طرف چل دیے،مگر حسن اسکول جانے کے بجائے جنگل کی طرف جانے والے راستے کی طرف مڑ گیا۔آج کلاس میں انگلش کا ٹیسٹ تھا اور وہ ذرا بھی تیاری نہیں کر سکا تھا۔سر مصطفےٰ کی مار سے بچنے کے لئے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ آج اسکول ہی نہیں جائے گا۔تھوڑی دیر میں وہ جنگل کے سامنے پہنچ گیا۔جنگل کے داخلی راستے پر سنہری حروف میں لکھا تھا: ”جادوئی جنگل۔“حسن نے حیرانی سے یہ الفاظ پڑھے اور جنگل میں داخل ہو گیا۔جنگل میں چاروں طرف سبزہ پھیلا ہوا تھا اور رنگ برنگے پھول جگہ جگہ کھلے تھے۔تتلیاں پھولوں پہ اَٹھلا رہی تھیں۔پرندے چہچہا رہے تھے۔چلتے چلتے حسن ایک آبشار کے سامنے پہنچ گیا۔(جاری ہے)ایک چھوٹی سی پہاڑی سے آبشار کا پانی نیچے گر رہا تھا اور نیلگوں پانی ندی میں بہہ رہا تھا۔ندی میں کنول کے پھول تیر رہے تھے۔حسن اس نظارے میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک جھاڑیوں سے ایک خرگوش نکل کر سامنے آگیا۔خرگوش نے پیارا سا نیلا ہیٹ پہنا ہوا تھا۔پھر ایک گلہری گلابی ربن باندھے جھاڑی سے نکلی۔رنگ برنگے تنکوں کا چھوٹا سا تاج پہنے ایک چڑیا بھی درخت سے اُتر کر نیچے آگئی۔دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے پرندے اور جانور وہاں اِکھٹے ہو گئے اور حسن سے پوچھنے لگے:”تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟“وہ سب انسانوں کی زبان بول رہے تھے۔حسن کو خوشگوار حیرت ہوئی وہ بولا:”میں اسکول سے بھاگ کر یہاں آیا ہوں۔میں اس مشکل زندگی سے تنگ آگیا ہوں۔ہر وقت پڑھائی،ہر وقت گھر کے کام،آئے روز ٹیسٹوں کی مصیبت،ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ۔میں اب واپس اس دنیا میں نہیں جاؤں گا۔جانوروں کی زندگی کتنی اچھی ہے۔نہ پڑھنے کی مصیبت،نہ کاموں کی مشقت۔کھایا پیا بھاگے دوڑے،تھک گئے تو آرام کیا۔جہاں جی چاہا اُڑ کے پہنچ گئے۔مجھے ایسی ہی زندگی چاہیے آزادی کی زندگی۔“حسن کی بات سن کر خرگوش مسکرایا اور بولا:”دیکھو حسن!دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔بہ ظاہر جو نظر آتا ہے،حقیقت میں ویسا ہوتا نہیں ہے۔یہاں کی زندگی میں جو مشکلات ہیں تمہیں ان کا اندازہ نہیں ہے۔“حسن بولا:”جو بھی ہو میں اب واپس نہیں جاؤں گا۔میں آزادی کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ایک آزاد پنچھی جیسی زندگی۔“جانوروں اور پرندوں میں آپس میں کچھ کھسر پسر کی،پھر گلہری اپنی عینک ٹھیک کرتی ہوئی بولی:”ٹھیک ہے حسن!اگر تمہاری یہی مرضی ہے تو ہم تمہاری آرزو پوری کر دیتے ہیں۔“گلہری نے ایک درخت کو اشارہ کیا وہ درخت چل کے وہاں آگیا درخت کی شاخوں پہ سرخ رنگ کے پھل لگے تھے۔گلہری بولی:”حسن! اس درخت سے ایک پھل توڑ کے کھا لو پھر تم جو خواہش کرو گے،پوری ہو گی۔“حسن نے ہاتھ بڑھا کر ایک پھل توڑ لیا اور ایک خوب صورت پرندہ بننے کی آرزو کرکے پھل کھانا شروع کر دیا۔جیسے جیسے وہ پھل کھاتا جاتا، اس پر غنودگی طاری ہوتی جاتی۔پھر نیند سے بوجھل ہو کر اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔بیدار ہوا تو اسے احساس ہوا کہ وہ ایک پرندہ بن چکا ہے،ایک آزاد پرندہ۔اچانک شور سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔اس نے دیکھا کہ سب جانور اور پرندہ افراتفری میں اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔چھوٹے جانور پناہ لینے کے لئے جھاڑیوں کی طرف بھاگے،جب کہ پرندے درختوں کی شاخوں میں چھپنے لگے۔حسن حیرانی سے یہ سب دیکھ رہا تھا کہ اچانک اسے اپنے سر کے اوپر پَروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دی۔اس نے دیکھا کہ ایک بڑا سا پرندہ اس کے اوپر جھپٹنے والا ہے۔حسن کے منہ سے خوف کے مارے چیخ نکل گئی۔وہ اپنی جان بچانے کے لئے اُڑا اور ایک گھنے درخت کی شاخوں میں چھپ گیا۔وہ بڑا سا پرندہ اپنی خوف ناک چونچ کھولے اسے ڈھونڈ رہا تھا اور حسن اس سے بچنے کے لئے شاخوں اور پتوں میں چھپ رہا تھا۔ایک بار تو اس خوف ناک پرندے کی چونچ اس کے بالکل قریب آئی،مگر خوش قسمتی سے اس کے پَروں کا رنگ پتوں جیسا تھا،اس لئے پرندہ اسے نہ دیکھ سکا اور مایوس ہو کر ایک طرف کو اُڑ گیا۔خطرہ ٹل گیا تھا،مگر کافی دیر تک اسے شاخوں سے نکلنے کا حوصلہ نہ ہوا،پھر ڈرتے ڈرتے وہ اپنی پناہ گاہ سے نکلا۔اسے پیاس لگ رہی تھی۔وہ اُڑتا ہوا ندی کے کنارے آگیا۔جلدی سے پانی پیا۔اس کے دل کو دھڑکا لگ گیا کہ وہ پرندہ پھر نہ آجائے۔یہ آزادی اس کے لئے مصیبت بن گئی تھی۔وہ پھر درخت پر آکے چھپ گیا۔یونہی شام ہو گئی۔اسے یاد آیا شام کو گھر میں چائے کا دور چلتا تھا۔ساتھ سموسے اور بسکٹ ہوتے تھے۔رات کو مزے دار کھانا سب مل کر کھاتے تھے،پھر وہ کارٹون دیکھتا اور نرم بستر پر سو جاتا،مگر یہاں اندھیری رات تھی اور سناٹا تھا اور سونے کے لئے درخت کی کھردری شاخ تھی۔یہی سوچتے سوچتے اسے نیند آگئی۔رات کا جانے کون سا پہر تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی کوئی چیز بُری طرح اسے کاٹ رہی تھی۔چاند کی چاندی میں اس نے دیکھا بہت سے سرخ چیونٹیاں اس کے جسم سے چمٹی ہوئی تھیں اور اسے کاٹ رہی تھیں۔اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔اس نے اپنے پَروں کو زور زور سے پھڑپھڑایا،مگر چیونٹیاں بُری طرح اسے چمٹی ہوئی تھیں۔وہ درخت کے کھردرے تنے پہ لوٹ پوٹ ہو گیا۔تب کہیں چیونٹیوں نے اس کی جان چھوڑی۔وہ اُڑ کے درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا اور باقی رات جاگ کے گزار دی۔صبح ہوئی تو اس نے سکھ کا سانس لیا وہ درخت سے نیچے اُترا ایک جھاڑی میں اسے چھوٹا سا کیڑا نظر آیا۔اسے دیکھ کر اس کی بھوک چمک اُٹھی۔وہ کیڑے کو کھانے کے لئے اس کی طرف لپکا۔اچانک اس کی نظر کیڑے کے پیچھے بڑی سی بلی پر پڑی،جو اس پر نظریں جمائے اپنا پیٹ زمین سے لگائے آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔حسن کیڑے کو بھول کر اپنی جان بچانے کے لئے بھاگا۔بلی نے اُچھل کر اس پر چھلانگ لگائی۔اس کا پنجہ اس کے پَروں سے چھو گیا،مگر وہ بال بال بچ گیا۔اسی وقت درخت کے اوپر سے ایک سیاہ پرندے نے غوطہ لگایا اور حسن کو اپنے پنجوں میں دبوچ لیا۔خود کو پرندے کے شکنجے میں دیکھ کر حسن کے منہ سے زوردار چیخ نکل گئی۔اچانک حسن کے کانوں میں اس کی ماما کی آواز پڑی:”کیا ہوا حسن!میرے بچے!“حسن نے جلدی سے آنکھیں کھول دیں۔اس نے خود کو اپنی امی کے قریب پایا۔”کیا کوئی خواب دیکھا ہے میرے بیٹے نے؟“امی نے پوچھا۔”ہاں امی!بہت خوف ناک خواب تھا۔“حسن نے اپنی ماما کی آغوش میں سمٹتے ہوئے کہا۔اس کی امی پیار سے اس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیر رہی تھیں اور حسن سوچ رہا تھا۔یہاں کتنا تحفظ ہے۔بے چارے جانوروں اور پرندوں کو زندہ رہنے کے لئے کیسے کیسے خطروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔موت قدم قدم پر ان کا پیچھا کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنا کر ہم پر احسان کیا ہے۔اس کے ساتھ انسان ہونے کے ناطے کچھ ذمے داری بھی ہم پہ ڈالی گئی ہے۔یہ ذمے داریاں،کچھ فرائض ہمیں عمدہ طریقے سے نبھانا ہے۔تبھی ہم اچھے انسان کہلا سکتے ہیں۔ " نانی اماں کے ٹوٹکے - تحریر نمبر 1994,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nani-amma-k-totkay-1994.html,"انجم حسنہر سال کی طرح اس سال بھی مریم اور احمد اپنی گرمیوں کی چھٹیاں اپنی نانی کے گھر گزارنے گئے ہوئے تھے۔انھیں نانی اماں کے گھر بہت لطف آتا تھا۔ماموں جان کے بچے بھی پورے سال اسی انتظار میں رہتے کہ کب چھٹیاں ہوں گی اور کب مریم اور احمد لاہور آئیں گے۔ مریم اور احمد کے آتے ہی گھر میں رونق لگ گئی۔روزانہ سب بچے خوب کھیلتے اور پھر نانی اماں سے ڈھیروں کہانیاں سنتے۔آج جب بچے کھیل کود کر نانی اماں کے پاس بیٹھے تو احمد کچھ تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔ممانی جان نے احمد کو مشورہ دیا کہ وہ آرام کر لے،لیکن احمد کا دل تو کھیل میں تھا اور زاہد کے ساتھ کیرم کھیلنے لگا۔اچانک مریم کی نظر احمد پر پڑی۔اور اس نے اندازہ لگایا کہ اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔(جاری ہے)دیکھتے ہی دیکھتے احمد نے کھانسنا شروع کر دیا اور کھانس کھانس کر بے چارے احمد کا بُرا حال ہو گیا۔مریم اسے دیکھ کر پریشان ہو رہی تھی۔اتنے میں نانی اماں کمرے میں داخل ہوئی اور بولیں:”کیا ہوا بچو!کون اتنی بُری طرح کھانس رہا ہے ؟“مریم نے فوراً نانی اماں کو بتایا۔نانی اماں نے مریم کی پریشانی دیکھتے ہوئے سوچا کہ احمد کے علاج کے لئے کوئی گھریلو ٹوٹکا آزمانا چاہیے۔نانی اماں نے فوراً چائے کا ایک چمچ شہد لیا اور اس میں ادرک کا رس ملا کر احمد کو پلا دیا۔تھوڑی دیر میں احمد کی کھانسی میں آرام آگیا۔”نانی جان!یہ تو جادو ہو گیا۔“مریم نے حیرت سے کہا۔”اچھا اب سو جاؤ،اللہ نے رات آرام کرنے کے لئے بنائی ہے۔“نانی جان ذرا سخت لہجے میں بولیں۔جب صبح ہوئی تو بچوں کو ایک ترکیب سوجھی۔سب نے مل کر سوچا کہ کیوں نہ نانی جان کے ٹوٹکوں کی ایک کتاب بنائیں۔بس پھر کیا تھا،سب بچے نانی جان کے پاس پہنچے اور ان سے اور ٹوٹکوں کی فرمائش کی۔”نانی جان!یقینا آپ کو اور بھی بہت سے ٹوٹکے آتے ہوں گے،کیوں نہ ہم انھیں لکھ کر ایک کتاب بنائیں؟“زاہد نے مشورہ دیا۔”ضرور بچو!“نانی جان مسکراتے ہوئے بولیں۔جب تمہارے پیٹ میں درد ہو تو پودینے کے پتے کھا لو،یا پھر کچھ پتے پانی میں اُبال کر پی لو۔اگر کبھی ہاتھ جل جائے تو فوراً ایلو ویرا کا پتا جلی ہوئی جگہ پر لگا لو۔تھوڑی دیر میں بالکل آرام آجائے گا۔”نانی جان!ہمارے گھر جو کام والی آتی ہے اس نے امی کو بتایا تھا کہ اسے خون کی کمی ہے۔کیا خون بڑھانے کا کوئی ٹوٹکا ہے؟“احمد نے پوچھا۔”ہاں بیٹا!اس کا بھی علاج ہے۔اگر وہ اپنی غذا میں چقندر کا استعمال کرے تو اسے فائدہ ہو سکتا ہے اور انجیر کھانے سے بھی خون کی کمی میں بہتری آسکتی ہے۔“نانی جان نے بتایا۔اچھا اور لکھو،اگر قبض ہو جائے تو ایک چمچ گھی ایک کپ گرم دودھ میں ملا کر رات کو سونے سے ایک گھنٹہ قبل پی لو اور اگر دانت میں درد ہو تو لونگ چبا لو۔اسی طرح اگر نزلہ میں ناک بند ہو جائے تو لونگ کی بھانپ لینا مفید ہے۔”نانی جان!ابو کو تیزابیت کی شکایت رہتی ہے۔اس کے لئے کون سا ٹوٹکا ہے؟“مریم نے پوچھا۔”اپنے ابو سے کہنا رات کو کالے چنے پانی میں بھگو کر رکھیں اور صبح کھا لیں۔“اور ہاں جن بچوں کو سانس کی تکلیف رہتی ہو تو ہلدی،دار چینی اور کالی مرچ کے چند دانے اُبال کر پانی پی لیں۔“”لیکن بچوں یہ یاد رکھو کہ کوئی بھی ٹوٹکا مستقل کرنے سے فائدہ ہوتا ہے اور کبھی بھی کوئی ٹوٹکا بڑوں سے پوچھے بغیر نہیں کرنا چاہیے۔چلو اب میں بھی تھک گئی ہوں۔“سب بچے بہت خوش تھے۔نانی اماں کے ٹوٹکے تو بہت مفید تھے۔ " بادشاہ اور شیخ چلی - تحریر نمبر 1993,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-aur-sheikh-chilli-1993.html,"ایک گاؤں میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔اس کا ایک کام چور بیٹا تھا،شیخی بگھارنے میں بہت ماہر تھا،اس کو شیخ چلی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ بڑھیا محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ بھرتی تھی۔ایک دن بڑھیا بیمار ہو گئی،گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔رات کو ماں بیٹا دونوں نے فاقہ کیا۔اگلے دن ماں نے کہا”اب تم کچھ کام کرو،جنگل سے لکڑیاں ہی لا کر بیچ دیا کرو تاکہ گزر اوقات ہو سکے۔“ماں کی بات سن کر شیخ چلی نے جنگل کی راہ لی۔جو درخت اس کے راستے میں آتا،وہ اس سے پوچھتا۔”میں تجھے کاٹ لوں یا نہیں۔“ کسی درخت نے بھی اس کا جواب نہ دیا۔شام ہونے کو تھی،شیخ چلی گھر واپس آنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک درخت نظر آیا،اس نے پاس جا کر پوچھا۔(جاری ہے)”میں تجھے کاٹ لوں․․․․؟“درخت بولا”ہاں کاٹ لے مگر ایک نصیحت کرتا ہوں۔میری لکڑی سے پلنگ بنانا اور بادشاہ کے دربار میں لے جانا،اگر بادشاہ اس کی قیمت پوچھے تو کہنا کہ پہلے ایک دو راتیں اس پر سوئے،پھر اگر مناسب سمجھے تو خریدے۔“شیخ چلی نے درخت کی ہدایت کے مطابق اس سے لکڑیاں کاٹ کر پلنگ تیار کیا اور بادشاہ کے دربار میں پہنچا۔بادشاہ نے قیمت پوچھی تو شیخ چلی نے کہا”پہلے آپ اس کو ایک دو رات استعمال کریں،اگر اس میں کوئی خوبی پائیں تو انعام کے طور پر جو دل چاہے دے دیں۔“بادشاہ حیران ہوا اور شیخ چلی کے کہنے پر نوکروں کو حکم دیا کہ آج یہی پلنگ میرے کمرے میں بچھایا جائے۔رات ہوئی تو بادشاہ اسی پلنگ پر سویا۔آدھی رات کو پلنگ کا ایک پایا بولا”آج بادشاہ کی جان خطرے میں ہے۔“دوسرے نے کہا”وہ کیسے․․․؟“تیسرا بولا”بادشاہ کے جوتے میں کالا سانپ تھا۔“چوتھے نے کہا”بادشاہ کو چاہیے کہ صبح جوتے کو اچھی طرح جھاڑ کر پہنے۔“صبح بادشاہ نے اسی طرح کیا۔جوتے جھاڑے گرد اٹھی اس میں سے ایک سانپ نکل کر بھاگا۔دوسری رات جب بادشاہ سویا تو پھر پایوں نے باتیں شروع کیں۔ایک بولا کہ تم پلنگ کو سنبھالے رکھو۔میں کچھ خبریں جمع کر لوں۔تینوں پایوں نے پلنگ کو تھامے رکھا۔ جب چوتھا واپس آیا تو اس نے خبر سنائی کہ بادشاہ کا وزیر سازش کرکے بادشاہ کو ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔پھر دوسرا پایا گیا اور خبر لایا کہ بادشاہ کی ایک کنیز وزیر سے مل کر بادشاہ کو زہر دینا چاہتی ہے۔تیسرے پائے نے تجویز پیش کی کہ بادشاہ کو چاہیے کہ وزیر کو قید میں ڈال دیے۔چوتھا پایا گیا اور یہ خبر لایا کہ بادشاہ کو جو دودھ صبح پینے کو دیا جائے گا،اس میں زہر ہو گا۔بادشاہ یہ سب کچھ سن رہا تھا۔صبح اٹھ کر جب اسے دودھ دیا گیا تو اس نے نہ پیا بلکہ ایک بلی کو پلا دیا۔بلی اسے پیتے ہی مر گئی۔تحقیق کرنے پر بادشاہ کو پتہ چل گیا کہ واقعی اس کا وزیر اور کنیز دونوں مل کر اس کی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں۔بادشاہ نے اپنی کنیز اور وزیر دونوں کو قید میں ڈال دیا۔بادشاہ نے شیخ چلی کو بلایا اور بہت انعام دیا۔شیخ چلی اب مالدار ہو گیا۔بادشاہ کے دربار میں اس کی عزت ہونے لگی اور دونوں ماں بیٹا بڑے آرام کی زندگی بسر کرنے لگے۔ " شرارت کا انجام - تحریر نمبر 1991,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shararat-ka-anjaam-1991.html,"عائشہ جمالایک سفید خرگوش دریا کے کنارے رہتا تھا۔وہ روزانہ اپنے گھر سے نکل کر ایک پتھر پر بیٹھ جاتا اور دوسرے کنارے کے خوبصورت باغوں کو بڑی حسرت ہے تکا کرتا۔وہ تمام دن یہ سوچ کر کاٹ دیتا کہ کاش وہ بھی وہاں تک پہنچ سکتا اور ان خوبصورت باغوں کی خوب خوب سیریں کرتا!دوسرے کنارے تک تو صرف تیر کر پہنچا جا سکتا تھا،مگر خرگوش تیرنا نہیں جانتا تھا اور ادھر دوسرے کنارے کے پیارے پیارے نظارے اسے ہر وقت پکارتے رہتے۔ایک دن سفید خرگوش اسی سوچ بچار میں غرق تھا کہ یکایک وہ اچھل پڑا۔اسے دریا پار کرنے کی بڑی اچھی ترکیب سوجھ گئی تھی۔وہ کنارے پر آکر بیٹھ گیا اور جب مگرمچھ نے اپنا لمبوترا منہ پانی سے نکالا تو خرگوش نے اس سے پوچھا’کیوں بھائی مگرمچھ‘تم بتا سکتے ہو کہ دوست کس کے زیادہ ہیں،تمہارے یا میرے؟“مگرمچھ نے جواب دیا”خرگوش صاحب،بڑہانکنے کی ضرورت نہیں۔(جاری ہے)دوست میرے ہی زیادہ ہیں۔تمہیں کون پوچھتا ہے۔“”اچھا!“خرگوش نے کہا”اگر یہ بات ہے تو ایسا کرو کہ اپنے دوستوں کو بلاؤ اور انہیں ایک قطار میں کھڑا کر دو۔میں ان سب کو گن کر دیکھوں گا کہ کس کے دوست زیادہ ہیں۔میں اپنے دوستوں کو بلاؤں گا اور تم انہیں گن لینا۔منظور ہے؟“مگرمچھ راضی ہو گیا۔اس نے پانی میں غوطہ مار کر اپنے تمام مگرمچھ دوستوں کو پکارا اور ان کو ایک قطار میں پھیل جانے کا کہا۔مگرمچھ کے دوست اتنے زیادہ تھے کہ جب وہ ایک قطار میں پھیلے تو اس کنارے سے اُس کنارے تک مگرمچھ ہی مگرمچھ تھے۔سفید خرگوش شرارت سے مسکرایا،کنارے پر سے چھلانگ مار کر مگرمچھ کی پیٹھ پر آبیٹھا اور بولا”ایک۔“اچھل کر دوسرے مگرمچھ کی پیٹھ پر آبیٹھا اور بولا”دو۔“اور اسی طرح وہ مگرمچھوں پر کودتا پھاندتا تین،چار،پانچ،چھ،سات،آٹھ گنتا چلا گیا اور آخری مگرمچھ کی پیٹھ پر سے کود کر دوسرے کنارے پر جا پہنچا۔جب سفید خرگوش کی خواہش پوری ہو گئی تو وہ شوخی میں آگیا اور بولا”مگرمچھ بھائیوں!تمہارا بہت شکریہ۔ہا․․․․․ہا․․․․ہا․․․․․!دریا پار کرنے کے لئے میں نے تمہیں کیسا بے وقوف بنایا۔“خرگوش کی بات سن کر مگرمچھوں کو سخت غصہ آیا۔وہ اپنے خوف ناک منہ کھول کر اس پر جھپٹے،لیکن خرگوش بھاگ نکلا۔پھر بھی ایک مگرمچھ کے منہ میں اس کی دم آگئی اور وہ زخمی ہو گیا۔زخم کی وجہ سے خرگوش اپنی ساری شرارت بھول گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔بوڑھے مالی نے اس کے رونے کی آواز سنی تو بھاگا آیا۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک ننھا منا خرگوش زمین پر پڑا رو رہا ہے۔مالی کو اس پر بہت رحم آیا اور رونے کی وجہ پوچھی۔خرگوش نے اسے اپنی ساری کہانی کہہ سنائی۔مالی نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا․․․․”برخودار‘تم نے بہت بُرا کیا۔اگر تم وعدہ کرو کہ پھر کسی کو بے وقوف بنا کر اپنا کام نہیں نکالو گے تو میں تم کو اچھا کر دوں گا۔“خرگوش بولا”وعدہ کرتا ہوں،چاچا مالی۔بس میرا یہ زخم اچھا کر دو۔“مالی نے ایک درخت سے بہت سے بڑے بڑے پتے اور نرم نرم ڈالیاں توڑ کر خرگوش کے لئے ایک گدگدا سا گھونسلا بنایا اور اس سے کہا ”اب تم اس گھونسلے میں آرام سے رات بھر لیٹو صبح سو کر اٹھو گے تو یہ زخم خدا کے فضل سے اچھا ہو جائے گا۔“خرگوش گھونسلے میں آیا اور آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی اور جب صبح کو جاگا تو زخم بھر چکا تھا۔خوش ہو کر سامنے دیکھا تو بوڑھا مالی کھڑا مسکرا رہا تھا۔چھلانگ مار کر وہ مالی کے قدموں میں جا بیٹھا اور بولا”اگر اب میں کسی کو بے وقوف بناؤں تو خدا کرے کہ میری ساری کھال ادھڑ جائے۔“ " شیر کا انجام - تحریر نمبر 1990,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sher-ka-anjaam-1990.html,"محمد علیم نظامیایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں ایک شیر نے اپنی بادشاہت قائم کر رکھی تھی۔وہ جس جانور کو بھی حکم دیتا تو وہ جانور فوراً اس کا حکم بجا لاتا اور اگر کوئی جانور اس کی حکم عدولی کرتا تو اس کی شامت آجاتی۔شیر اسے مار مار کر آدھ موا کر دیتا اور دوسرے جانور یہ سب کچھ قریب سے دیکھتے رہتے۔ایک دفعہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ شیر نے حسب معمول گیدڑ کو حکم دیا کہ وہ بازار جائے اور اس کے لئے ڈھیر سارے کھانے لائے۔اگرچہ گیدڑ کے لئے ایسا کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔مگر گیدڑ نے شیر کے غصہ کو بھانپتے ہوئے دیکھا اور فوراً بازار نکل گیا تاکہ بادشاہ کے لئے کھانا پینا لا سکے مگر اسے اس وقت سخت حیرانگی ہوئی جب گیدڑ خالی ہاتھوں بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسے تمام بپتا سنائی کہ اس نے سارا شہر چھان مارا مگر اسے شیر کے لئے کہیں سے بھی خاطر خواہ کھانا نہ مل سکا۔(جاری ہے)بس پھر کیا تھا شیر پیچھے پیچھے اور گیدڑ آگے آگے۔اگرچہ گیدڑ شیر کے شکنجے میں تو نہ آسکا تاہم وہ اتنی دور نکل گیا کہ شیر کی پہنچ سے بہت آگے چلا گیا۔بادشاہ شیر جب تھک ہار گیا تو اس نے واپس جنگل جانے کا فیصلہ کیا۔دوسری طرف گیدڑ نے اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ میں دوسرے جانوروں کی طرح کمزور اور ناتوا ہوں اپنی قدرت سے شیر کو ایسا مزا چکھا کہ وہ کسی دوسرے جانور پر نہ تو حملہ کر سکے اور نہ ہی اسے کوئی حکم دے سکے۔دوسری طرف ایک بار پھر عادت سے مجبور ہو کر شیر نے لومڑی سے کہا کہ وہ اس کے بچوں کی نگہداشت کرے اور ایک صاف برتن میں اس کے بچوں کے لئے دودھ لے کر آئے۔لومڑی بھانپ گئی کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے اور شیر اسے بھی اپنے حکم سے زیر کرنا چاہتا ہے بہرحال لومڑی مرتی کیا نہ کرتی وہ بھاگم بھاگ شیر کے حکم کو بجا لانے کے لئے دوڑی کہ اچانک شیر کے پنجرے میں آسمانی بجلی آن گری۔شیر کے بچے بھی اس آسمانی بجلی سے سہم گئے جبکہ شیر بُری طرح زخمی ہوا اس کے بچے بھی ڈر کے مارے اِدھر اُدھر بھٹکنے لگے۔یہ اللہ کا حکم تھا کہ اس نے دوسرے جانوروں کی بد دعائیں لی اور شیر سے انتقام لے لیا کیونکہ شیر اپنے آپ کو مختار کل سمجھ بیٹھا تھا۔وہ سمجھتا تھا کہ وہ جنگل کے دیگر جانوروں کو بھی جب حکم دے گا وہ اسے پورا کریں گے مگر مشیت ایزدی کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا۔بہرحال جب جنگل کے دوسرے جانوروں نے شیر اور اُس کے بچوں کا یہ بُرا حال دیکھا تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سمائے سب جانوروں نے اللہ کا شکر ادا کیا جس کی قدرت نے شیر کو بادشاہت سے نکال باہر کیا۔تمام جانور بہت خوش تھے اور شیر کا حشر دیکھ کر خوشی و مسرت کے ملے جلے جذبات سے لبریز ہو گئے۔اب شیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ وہ ناحق دوسرے جانوروں پر اپنا رعب جتا رہا تھا۔شیر اور اس کے بچوں نے گرجدار آواز میں اللہ کا شکر ادا کیا اور اس سے اپنے کئے کی معافی مانگی۔اللہ رحیم و کریم ہے اس نے شیر پر بھی کرم کیا اور آہستہ آہستہ شیر تندرست ہوتا چلا گیا۔اب شیر کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا۔اس نے ایک محفل سجائی جس میں جنگل کے تمام جانوروں کو مدعو کیا۔شیر نے ان سب سے معافی مانگی اور اُن سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ کسی جانور پر ظلم نہیں ڈھائے گا۔اس کے ساتھ ہی عقل برخواست ہوئی اور تمام جانور اپنے اپنے ٹھکانوں پر جا کر سو گئے۔پیارے بچو!اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے اس لئے ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے․․․․․شیر اور تمام جانوروں میں دوستی ہو گئی اور یوں تمام جانور مل جل کر اکٹھے رہنے لگے۔ " نیت بخیر - تحریر نمبر 1989,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/niyyat-bakhair-1989.html,"نائمہ راضیہ”اُف،میرے خدایا!سفید پوشی کا بھرم تک رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔“نور احمد پائینچوں سے گھسی اور پھٹی ہوئی اپنی اکلوتی پتلون کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے آپ سے کہہ رہا تھا۔وہ پتلون کو اپنی ماں کی طرف اُچھالتے ہوئے بولا:امی!آپ ہی اسے ٹھیک کر سکتی ہیں۔“ماں نور احمد کے لئے ناشتہ تیار کر رہی تھی۔اس نے پتلون کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہا:”اچھا بھئی ابھی سی دیتی ہوں۔پہلے تم ناشتہ کر لو۔ کہیں تمہیں انٹرویو کے لئے پہنچنے میں دیر نہ ہو جائے۔“”ہاں ماں!ناشتہ لے آؤ۔اچھا ناشتہ تو کبھی کبھار ملتا ہے اور انٹرویو․․․انٹرویو تو اب روز روز کی بات ہے۔نور احمد نے ایک پرانے کپڑے سے اپنے بوسیدہ بوٹ صاف کرتے ہوئے کہا۔(جاری ہے)ماں نے ناشتہ لا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔نور احمد ناشتہ کرتے ہوئے ناشتے اور انٹرویو کی کڑیاں آپس میں ملانے لگے۔اس نے جلدی جلدی ناشتہ زہر مار کیا۔جنرل نالج کی کتاب اُٹھائی،ماں کی دُعائیں لیں اور گھر سے نکل کھڑا ہوا۔کسی زمانے میں نور احمد کے گھریلو حالات بہت اچھے تھے۔وہ اس وقت دسویں جماعت میں پڑھتا تھا۔جب اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ باپ کی وفات کے بعد نور احمد کی گھریلو حالت روز بروز ابتر ہوتی گئی اور زندگی بڑی ہی تنگ دستی میں گزرنے لگی۔ان حالات میں نور احمد کی ماں نے ایک سلائی مشین خرید لی اور محلے بھر کے کپڑے سینے لگی۔وہ بڑی زندہ دل عورت تھی۔اس نے اس کمر توڑ غربت میں بھی ہمت نہ ہاری اور عورت ہونے کے باوجود ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔دن رات کی محنت سے اس کی نظر کمزور اور اُنگلیوں میں تکلیف شروع ہو گئی تھی۔نور احمد نے کئی بار پڑھائی چھوڑ کر کوئی کام کرنے کا ارادہ کیا،لیکن اس کی ماں اُسے ایسا خیال بھی ذہن میں لانے پر ڈانٹ دیتی تھی۔آخر ماں کی انتھک محنت اور کوششیں رنگ لائیں اور نور احمد نے نمایاں نمبروں سے ماسٹر کر ہی لیا۔جس دن نور احمد نے یہ امتحان پاس کیا،اس دن اس کی ماں کی حالت دیدنی تھی۔اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔نور احمد کے پاس ہو جانے کی وجہ سے،وہ اپنے آپ کو پھر سے جوان محسوس کر رہی تھی۔اسی خوشی میں محلے میں لدو بانٹے گئے۔اب نور احمد کو ماسٹر کیے ہوئے تقریباً ایک سال کا عرصہ بیت چلا تھا،لیکن نوکری اس سے اس طرح دور تھی جیسے کسی غریب سے کوئی خوشی دور بھاگتی ہے۔نور احمد نے بہت سی جگہوں پر بڑے اچھے اور کامیاب انٹرویو دئیے تھے،لیکن نوکری کا تقرر نامہ آنے کی نوبت کہیں سے نہ آئی تھی۔وہ تقرر نامہ نہ آنے کی وجہ خوب اچھی طرح سمجھتا تھا،کیونکہ اس کے پاس کوئی شفارش نہیں تھی۔رشوت دینے کے لئے پیسے نہیں تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ کسی بڑے صاحب کے خانسا ماں یا ڈرائیور کا نزدیکی رشتے دار بھی نہیں تھا اور ایسے میں تقرر نامہ کی اُمید رکھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟نور احمد سوچتا کہ وہ ایک محب وطن شہری تھا۔وہ اپنے پیارے وطن میں بڑھتی ہوئی رشوت،سفارش اور اقربا پروری کے متعلق سوچتے ہوئے اکثر کُڑھتا۔اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا تھا،سوائے اس کے کہ وہ اپنے حوصلے پست نہ ہونے دے اور صبر سے کام لے۔وہ اپنا ہر انٹرویو ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ دیتا تھا۔اسے یقین تھا کہ کبھی نہ کبھی اس کی اُمیدیں ضرور بر آئیں گی اور پھر اُمید تو ایک ایسے سہانے خواب کی مانند ہے،جس کے سہارے ہر شخص اپنی پوری زندگی گزار سکتا ہے۔نور احمد آج بھی اسی سہانے خواب کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔انٹرویو والی بلڈنگ کے اردگرد اُمیدوار مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہے تھے۔کل دس سیٹوں کے لئے ایک ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔آبادی اور بے روزگاری کے اس تناسب پر غور کرتے ہوئے نور احمد اکثر تڑپ اُٹھتا۔بڑی مشکل سے خدا خدا کرکے وہ انٹرویو دے کر فارغ ہوا۔آج یہ اس کا پہلا انٹرویو تھا،جس میں وہ اتنا زیادہ کامیاب نہیں رہا تھا۔وہ بڑی بلڈنگ سے باہر آیا تو اس کا چہرہ کچھ اُترا ہوا تھا۔وہ مردہ قدموں سے چلتا ہوا سڑک پر آگیا۔دوپہر کے بارہ بج چکے تھے۔سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔سڑک پر پڑی ہوئی تار کول جیسے اُبل پڑی تھی۔دھوپ کی تپش سے اس کا جسم جیسے جل رہا تھا۔اس نے گرمی کو گرمی سے کاٹنے کے لئے ایک کپ گرم چائے پینے کا ارادہ کیا۔وہ اس نیت سے ایک نزدیکی ہوٹل میں جا بیٹھا۔چائے کا آرڈر دینے کے بعد اس نے اخبار اُٹھا لیا۔پہلے صفحے پر عموماً زیادہ تر سیاسی خبریں ہوتی ہیں اور نور احمد کو سیاست سے دلچسپی نہیں تھی۔اس نے پہلے صفحہ پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد اندر کا صفحہ نکال لیا۔اس نے اپنی ضرورت کے کالم ”ضرورت ہے“ پر نظریں گاڑ دیں۔وہ ہر روز ایسا ہی کیا کرتا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ ڈائری پر اپنی ضرورت کے مطابق پتے نوٹ کرتا،اس کی نظر کالم ”ضرورت ہے“ کے آخر میں ایک اپیل پر پڑی،لکھا تھا۔”مخیر حضرات سے اپیل کی جاتی ہے کہ سول ہسپتال میں بیمار پڑی ہوئی ایک بوڑھی اور بے آسرا خاتون کے لئے خون کا عطیہ دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔“خون کا گروپ بھی لکھا تھا۔اپیل پڑھتے ہی نور احمد کی آنکھوں کے سامنے اس کی اپنی بوڑھی ماں کا چہرہ گردش کرنے لگا۔نور احمد نے ایک نظر اپنے کمزور سے جسم پر ڈالی اور ہسپتال کی طرف روانہ ہو گیا۔ہسپتال پہنچ کر نور احمد نے بلڈ وارڈ کے انچارج سے رجوع کیا۔ڈاکٹر نے ایک نظر نور احمد کے دُبلے پتلے جسم پر ڈالی اور پھر کہا:”آپ کا جذبہ قابل ستائش ہے،لیکن آپ خون کس طرح دیں گے،کیونکہ آپ تو پہلے ہی بڑے کمزور ہیں۔“”آپ بلڈ گروپ چیک کر لیں،اللہ مالک ہے۔“نور احمد نے بڑے خلوص،حوصلے اور بہادری سے جواب دیا۔ڈاکٹر صاحب،نور احمد کو ”بلڈنگ روم“ میں لے گئے۔ڈاکٹر صاحب نے نور احمد کو آرام دہ تکیوں والے بستر پر لٹا دیا۔پھر اس کا بلڈ گروپ چیک کیا۔نور احمد کا بلڈ گروپ اور بوڑھی عورت کا بلڈ گروپ آپس میں مل گیا تھا۔خون لیا جانے لگا۔اس کے جسم سے ایک بوتل خون نکال لی گئی۔ایک بوتل خون کا عطیہ دینے کے باعث ڈاکٹر صاحب نور احمد کو بڑی مہربان اور ممنون نظروں سے دیکھ رہے تھے۔نور احمد اپنے جسم سے ایک بوتل خون نکل جانے کی وجہ سے بڑی کمزوری اور نقاہت محسوس کر رہا تھا۔اس کا چہرہ مرجھا گیا تھا۔اسے دیکھتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا،جیسے اس کے جسم سے خون کا ایک ایک قطرہ تک نچوڑ لیا گیا ہو۔باوجود اس کے وہ اپنی اس قربانی پر بہت خوش تھا۔وہ تھکے تھکے قدموں سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔وہ آہستہ آہستہ بوجھل قدموں سے کسی نہ کسی طرح اپنے گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔نور احمد بے سُدھ سا اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا اور اس کی ماں کی گود میں پڑا ہوا نوکری کا تقرر نامہ کسی شریر بچے کی طرح مسکرا رہا تھا۔نور احمد کو ایسے محسوس ہوا،جیسے اس کے جسم میں سیروں خون بڑھ رہا ہے۔ " انکل ایلف کی بہادری - تحریر نمبر 1988,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/uncle-elef-ki-bahaduri-1988.html,"حفصہ سلمانسر پر ترچھی ٹوپی،آنکھوں پر موٹی سی گول عینک اور منہ میں پرانا سگار لیے جب بھی بچے انکل ایلف کو دیکھتے تو اپنی ہنسی منہ میں ہی دبا لیتے، کیونکہ اگر انکل بچوں کو ہنستے ہوئے دیکھ لیتے تو ان کی شامت آجاتی۔انکل ایلف دیکھنے میں تو کچھ عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں، لیکن دراصل ان کے اندر کا انسان کسی بھی بہترین اور اچھے انسان سے کم نہیں۔انکل ایلف کسی زمانے میں انگریزی کے استاد رہ چکے تھے۔انگریزی کے ایف کو اپنے انداز میں ایلف پڑھتے تھے،اس لئے بچے انھیں انکل ایلف ہی کہنے لگے۔انکل ایلف لباس کے اوپر کوٹ بڑے شوق سے پہنتے ہیں،یہاں تک کہ گرمی میں بھی کوٹ ان سے الگ نہ ہوتا۔جب انکل شدید گرمی میں کوٹ پہن کر نکلتے،تو بچے اور بڑے سبھی گرمی محسوس کرنے لگتے۔(جاری ہے)انکل کے ہونے سے گلی میں رونق بھی رہتی ہے۔وہ کسی جاسوس کی طرح گلی کے ہر آنے جانے والے شخص پر نظر رکھتے ہیں۔ان کی موجودگی میں کسی چوکیدار یا محافظ کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی ۔ایک دفعہ گلی میں بہت شور سنائی دیا۔معلوم ہوا کہ چچا قاسم کا سات سالہ بچہ گم ہو گیا ہے۔محلے میں ڈھونڈا گیا،لیکن اس کا کہیں سراغ نہ ملا۔ مسجد میں اعلان بھی کرایا گیا۔سب لوگ مل کر بچے کو ڈھونڈنے لگے۔اچانک کسی کا دھیان انکل ایلف کی طرف گیا کہ چلو!انکل سے پوچھتے ہیں،کیونکہ انکل اکثر گلی میں آنے جانے والوں پر نظر رکھتے ہیں،ممکن ہے کہ ان کو کچھ معلوم ہو۔معلوم ہوا کہ انکل بھی گھر میں نہیں ہیں۔کچھ لوگوں کو انکل ایلف پر شک ہونے لگا کہ کیا پتا انکل نے بچے کو اغوا کر لیا ہو۔یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ انکل اور بچہ دونوں ایک ساتھ کہاں غائب ہو گئے۔انکل کے گھر والے بھی ان کے لئے فکر مند تھے۔چچا قاسم اور ان کی بیوی اپنے بچے کے لئے بہت پریشان تھے۔کسی کے کہنے پر انھوں نے انکل کے خلاف شک کی بنیاد پر رپورٹ درج کروا دی۔شام کے وقت لوگوں نے دور سے دیکھا کہ کوئی شخص گرد و غبار میں اَٹا ہوا کسی بچے کا ہاتھ پکڑے چلا آرہا ہے۔ایک آدمی نے غور سے دیکھ کر پہچانا تو اس نے اونچی آواز سے بولا،ارے یہ تو انکل آرہے ہیں اور ان کے ساتھ قاسم بھائی کا بچہ بھی ہے۔بس سب کی نظریں اس طرف اُٹھ گئیں۔اب ایک طرف تو لوگوں کی خوشی دیدنی تھی،اور دوسری طرف محلے والوں نے انکل کو حصار میں لیتے ہوئے سوالات کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ہر کوئی یہ جاننے کے لئے بے چین تھا کہ آخر بچہ انکل کے ساتھ کیسے آیا؟اس دوران کسی نے چچا قاسم کے گھر کی گھنٹی بجا کر انھیں بھی اطلاع کر دی کہ ان کا بیٹا انکل کے ساتھ آگیا ہے۔قاسم چچا اپنی بیوی کے ساتھ جلدی جلدی اسی جگہ آپہنچے،جہاں مجمع اِکٹھا ہو چکا تھا۔ماں باپ اپنے بیٹے سے لپٹ کر خوب پیار کرنے لگے۔لوگوں کے سوالات جاری تھے کہ اچانک پولیس کی موبائل سائرن بجاتے ہوئے تیزی سے گلی میں داخل ہو گئی۔ایس ایچ او صاحب موبائل وین سے اُترے۔ایس ایچ او صاحب نے لوگوں سے خاموش ہونے کو کہا اور انکل ایلف کی طرف قابل تحسین نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگے کہ جب تک آپ کے محلے میں انکل جیسی شخصیت موجود ہے،آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ایس ایچ او صاحب مسکرائے اور انکل سے کہنے لگے کہ جی!اب آپ انھیں تمام ماجرا سنا ڈالیے۔انکل نے سب کو متوجہ پا کر کہا:”دوستو!کل جب آپ لوگ دوپہر کے وقت گھروں میں تھے،یہ بچہ آئسکریم لینے کے لئے گھر سے نکلا۔اس وقت گلی میں کوئی نہیں تھا۔صرف سفید رنگ کی ایک اجنبی سوزوکی کھڑی تھی۔میں گیلری سے گلی میں دیکھ رہا تھا۔خطرہ محسوس کرکے میں نیچے آگیا۔اچانک دو آدمی گاڑی سے باہر نکلے ۔یہ بچہ جیسے ہی آئسکریم لے کر گاڑی کے قریب پہنچا تو اُن دونوں نے اسے پکڑا اور کھینچ کر اپنی گاڑی میں بیٹھا لیا۔اس سے پہلے کہ وہ سوزوکی چلتی،میں نے پیچھے سے شور مچایا۔اغوا کاروں نے یہ سوچ کر کہ اس شخص نے ہمیں دیکھ لیا ہے،یہ گاڑی کا نمبر سب کو بتا دے گا۔ چنانچہ تھوڑا آگے جا کر انھوں نے گاڑی پیچھے کی اور مجھے بھی اندر کھینچ لیا اور گاڑی تیزی سے چل پڑی۔انھوں نے میرے ہاتھ باندھے اور منہ میں کپڑا ٹھونس دیا،تاکہ شور نہ کر سکوں۔کافی دیر گاڑی چلنے کے بعد ایک سنسان علاقے میں داخل ہو گئی۔کوئی پرانی ٹوٹی ہوئی بلڈنگ تھی۔وہاں انھوں نے ہمیں ایک تاریک کمرے میں بند کر دیا۔ایک آدمی کو ہماری چوکیداری کے لئے باہر چھوڑ دیا اور باقی سب چلے گئے۔ اب ہم دو قیدی اور اس چوکیدار کے علاوہ اس سنسان علاقے میں کوئی نہیں ہے۔ویران جگہ ہونے کے باعث منہ سے کپڑا تو انھوں نے نکال دیا تھا،البتہ ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔مجھے ایک ترکیب سوجھی۔میں نے آواز لگائی کہ اے میاں،بوڑھے آدمی کو پانی تو پلا دو۔پہلے تو وہ تیار نہ ہوا،مگر زیادہ منت سماجت کی تو پانی لینے کہیں چلا گیا۔مجھے موقع ملا اور میں نے چپکے سے کوٹ کی جیب میں پڑا لائٹر نکال کر اپنی رسی کو جلایا۔رسی تھوڑی سی بل کھاتے ہوئے کھل گئی۔جب تک وہ پانی لے کر آتا،میں نے بچے کی رسی کھول دی اور اسے پلان بتایا کہ میں اسے ڈنڈے سے مار کر گراؤں گا،پھر اسے اسی رسی سے مضبوط باندھ دیں گے۔بہرحال جب چوکیدار پانی لایا تو میں نے کمرے میں رکھی موٹی لکڑی سے مار کر اسے گرا دیا اور ہم نے اسے مضبوطی سے باندھا۔یہاں سے نکل کر ہم روڈ پر آگئے۔معلوم نہیں تھا کہ کس سمت میں جانا ہے۔اللہ مدد،اللہ مدد کہتے ہوئے ہم دونوں ایک سمت تیز تیز جانے لگے۔کافی دور جا کر ہم بُری طرح سے تھک گئے۔اسی وقت ایک پولیس وین آتی دکھائی دی تو میں نے ہاتھ ہلا کر انھیں رُکنے کا اشارہ کیا۔وہ رُکے تو میں نے ساری بات انھیں سنائی۔پولیس نے بحفاظت ہمیں یہاں پہنچا دیا۔ایس ایچ او صاحب کو بھی انھوں نے خبر دے دی تھی۔انکل کی کہانی ختم ہوئی تو بڑی زور سے تالیاں بجنے لگ گئیں۔سب سے پہلے قاسم چچا انکل کے گلے لگ کر رونے لگے اور معافی مانگی تو انکل نے انھیں بہت دلاسا دیا۔پھر باقی محلے والے بھی انکل کی تعریف کرنے لگے۔انکل ایلف کی بروقت حاضر دماغی کی وجہ سے ایک سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ " سکون کی لہر - تحریر نمبر 1987,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sukoon-ki-leher-1987.html,"فرح مصباح”ڈاکٹر صاحب!جب سے میرے والدین اس دنیا سے گئے ہیں میری طبیعت اکثر ٹھیک نہیں رہتی۔خوش رہنا چاہتا ہوں،مگر نہ جانے کیوں خوش رہ نہیں پاتا۔ہر وقت ایک عجیب سی اُداسی چھائی رہتی ہے۔تنہائیوں کی تلاش میں رہتا ہوں اور محفلوں سے بھاگتا پھرتا ہوں۔“سعد ڈاکٹر صاحب کو اپنی غم داستان سنا رہا تھا۔”جی میں آپ کا غم سمجھ سکتا ہوں۔آپ ایک کام کریں،آپ اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لئے بلی یا پھر کوئی پرندہ پال لیں۔اس سے یہ ہو گا کہ آپ خود کو تنہا محسوس نہیں کریں گے۔“ڈاکٹر بولے۔”ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب۔میں ایسا ہی کرتا ہوں۔“یہ کہتا ہوا سعد دروازے کی جانب بڑھا۔اس نے اپنی گاڑی ایک ایسی دکان کے سامنے روکی،جہاں ہر طرح کی بلیاں میسر تھیں۔(جاری ہے)کچھ سفید رنگ کی تھیں تو کچھ کالی اور کچھ بھوری تھیں ۔ان کی قیمت اتنی زیادہ تھی کہ اسے ایسا لگا کہ گویا وہ سونے چاندی کی دکان میں آگیا ہو۔ایک بلی اسے بہت بھلی لگی،مگر اس کی قیمت بھی آسمانوں کو چھو رہی تھی۔وہ مایوس ہو گیا اور دروازے کی جانب بڑھا۔اس لمحے ایک صاحب اپنی بچی کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔ان کے ساتھ ایک چھوٹی سی بچی بھی تھی جو یقینا ان کی بیٹی تھی۔اس چھوٹی سی پیاری سی بچی کے ہاتھ میں ایک سفید رنگ کی ننھی سی بلی ٹوکری میں بیٹھی تھی۔ننھے ننھے آنسو اس معصوم بچی کی آنکھوں سے مسلسل بہہ رہے تھے۔سعد نے اس منظر کو سمجھنا چاہا،مگر ناکام رہا۔آخر وہ اس کے والد کے پاس جا پہنچا اور اُن کی ننھی بیٹی کے آنسوؤں کی وجہ پوچھی۔انھوں نے بتایا:”بیٹا!دراصل یہ بلی ہمارے پاس ایک عرصے سے ہے۔یہ میری بیٹی کو تحفے میں ملی تھی۔اب ہمارے مالی حالات ٹھیک نہیں ہیں،اس لئے ہم اسے بیچنے کے لئے یہاں آئے ہیں۔“”تو آپ یہ کتنے میں دیں گے۔میں اسے خریدنا چاہتا ہوں۔“یہ سن کر ان کی ننھی بیٹی مجھے گھورنے لگی۔”بیٹا!تمہیں جو رقم مناسب معلوم ہو،اتنی ہی دے دو۔“وہ بولے۔”انکل!کیا آپ مجھے یہ دو ہزار میں دیں گے؟“سعد نے سوال کیا۔”ہاں بیٹا!یہی ٹھیک ہے۔“یہ کہتے ہوئے انھوں نے بچی سے وہ ٹوکری لی،جس میں بلی آرام سے بیٹھی تھی۔وہ ٹوکری اس کے ہاتھ میں پکڑا دی۔اس پر وہ ننھی سی گڑیا بلک بلک کر رونے لگی۔سعد سے یہ منظر دیکھا نہ گیا۔اس نے جلدی سے دو ہزار روپے بچی کے والد کے ہاتھ میں پکڑا دیے۔پھر سعد بچی کی جانب بڑھا اور بلی اس کے ہاتھ میں تھما دی۔بچی نے بلی کو لپک کر ہاتھوں سے لیا اور اپنے گلے سے لگا لیا۔اس ننھی پری کی خوشی دیکھ کر میرے اندر سکون کی لہر دوڑ گئی۔”بیٹا تم نے یہ کیا کیا؟“انکل حیران کھڑے تھے۔”انکل۔یہ میری طرف سے آپ ایک تحفہ سمجھیں۔“وہ یہ کہتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا۔اب وہ پُرسکون تھا۔شاید ایسا سکون اسے کسی اور چیز میں نہیں ملتا۔ " چچا بہادر - تحریر نمبر 1986,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chacha-bahadur-1986.html,"اریبہ ارم اعوان،مظفر گڑھوہ چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل ایک خوبصورت گاؤں تھا۔جہاں سر سبز کھیت لہلہا رہے تھے۔صبح شام مختلف پرندوں کی سریلی آواز سے نغمگی پھیل جاتی۔پھولوں کی خوشبو فضا کو مزید معطر بنا دیتی۔پھر شاید اس خوبصورت گاؤں کو کسی کی نظر لگ گئی۔چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں تواتر سے ہونے لگیں۔لوگ ان وارداتوں سے تنگ آچکے تھے،مگر اس مسئلے کا حل نہیں مل رہا تھا۔پولیس نے بھی کوشش کی،مگر ناکام رہی۔وہ چوری یا ڈکیتی کرکے فوراً غائب ہو جاتے۔کوئی نہ کوئی ان کا شکار بن ہی جاتا تھا۔ایک دن چچا دین محمد شام کے وقت گھر لوٹ رہے تھے۔وہ کچھ خوف زدہ سے لگ رہے تھے۔وہ جلدی جلدی اپنے گھر کی طرف قدم اُٹھا رہے تھے۔ان کے ہاتھ میں سنہرے بالوں والی ایک خوبصورت سی گڑیا تھی جو وہ اپنی بیٹی کے لئے لے کر جا رہے تھے۔(جاری ہے)ان کے پاس کچھ نقدی بھی تھی۔ابھی وہ پگڈندی پر ہی تھے کہ جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی۔وہ خوف زدہ نظروں سے چاروں جانب دیکھنے لگے،مگر انھیں کوئی نظر نہ آیا۔ اندھیرا بھی بہت ہو چکا تھا۔ابھی وہ دو قدم ہی چلے تھے کہ کسی نے پیچھے سے ان پر چھلانگ لگائی۔وہ منہ کے بل گرے اور ان کے منہ سے درد ناک چیخ بلند ہوئی،لیکن وہ فوراً کھڑے ہو گئے۔فوراً ایک ڈاکو ان کے قریب آیا اور ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر کہا:”جو کچھ بھی ہے باہر نکالو اور ہمارے حوالے کر دو۔“جب چچا گرے تھے تو ان کے ہاتھ سے گڑیا کہیں دور جا گری تھی۔انھوں نے نقدی ڈاکو کے حوالے کر دی۔نقدی ان کے حوالے کرنے کے بعد چچا گھر آگئے۔ان کی یہ حالت دیکھ کر سب پریشان ہو گئے۔ان کی بیٹی راضیہ کو جب پتا چلا تو اپنے والد سے معافی مانگی کہ آئندہ فضول چیزوں کے لئے ضد نہیں کرے گی۔دوسرے دن صبح گاؤں میں ڈاکوؤں کے پکڑے جانے کی خبر پھیل گئی۔سب لوگ حیران تھے،مگر چچا مسکرا رہے تھے،کیونکہ یہ انہی کا منصوبہ تھا۔جب لوگ وارداتوں سے تنگ آگئے تو چچا نے ایک منصوبہ بنایا اور خود ہی اس پر عمل کیا۔انھوں نے پولیس کو منصوبے سے آگاہ کیا۔ پولیس کھیتوں میں چھپ گئی۔جب چچا نے چیخ ماری،جو پولیس کو ڈاکوؤں کی موجودگی کا احساس دلانے کا اشارہ تھی۔پولیس نے ڈاکوؤں کو پکڑ لیا۔اس بہادری پر چچا کو پولیس کے محکمے کی طرف سے بڑا انعام ملا۔اس کے ساتھ ہی حکومت نے بیٹی کی تعلیم کا خرچ بھی اُٹھا لیا۔چچا کی بہادری کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں کو بھی چوری سے نجات مل گئی اور ساتھ ہی ان کی بیٹی کا مستقبل بھی سنور گیا۔ " احساس - تحریر نمبر 1985,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehsas-1985.html,"زہرہ کنول اعوان،مظفر گڑھوہ بہت خوبصورت خواب دیکھ رہی تھی کہ اچانک اس کی کمر پر ایک زور دار لات پڑی اور وہ چیخ کر اُٹھ بیٹھی۔چچی کی آواز اس کے کانوں میں گونجی:”اُٹھ کم بخت!ابھی تک سو رہی ہے۔“فوزیہ کو کالج بھی جانا ہے،چل اُٹھ ناشتہ تیار کرکے میز پر لگا۔بے چاری سعدیہ اپنی کمر کو پکڑتے ہوئے اُٹھی اور روتی ہوئی باورچی خانے کی جانب چل پڑی۔وہ باورچی خانے میں جا کر ناشتہ بنانے کے ساتھ ساتھ تیزی سے برتن بھی دھونے لگی۔اب تک اس خوبصورت خواب کا منظر اس کے ذہن میں گھوم رہا تھا کہ اچانک اس کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس گرا اور ٹوٹ گیا۔گرنے کی آواز سن کر اس کی چچی آگ بگولا ہو کر وہاں پہنچی اور تھپڑ مارنے کے ساتھ ساتھ بُرا بھلا کہتی رہیں۔(جاری ہے)وہ بہت چھوٹی تھی جب اس کے والدین ایک حادچے کا شکار ہو کر انتقال کر گئے تھے تو اس کے چچا،چچی اسے اپنے گھر لے آئے اور بہت پیار سے رکھا۔تب ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔پھر جب ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی تو چچی نے اس پر ظلم کرنا شروع کر دیے۔وہ اپنی چچی کی مار پیٹ سے تنگ آگئی تھی۔ایک دن معمول کے مطابق چچی اسے باتیں سنا کر باہر گئی تھیں کہ اچانک ایک درد ناک چیخ سنائی دی۔سعدیہ سارے کام چھوڑ کر باہر آئی تو چچی کو زمین پر گرا ہوا دیکھا۔اس نے چچی کو سہارا دے کر اُٹھانے کی کوشش کی،مگر نہ اُٹھا سکی۔اس نے جلدی سے چچی کے موبائل سے چچا کو فون کرکے بلایا اور اس کے چچا جلدی سے گاڑی لے کر گھر پہنچے اور چچی کو ہسپتال لے کر پہنچے۔ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کی دائیں ٹانگ بُری طرح ٹوٹ گئی ہے۔ٹھیک ہونے میں تقریباً ایک ماہ کا عرصہ لگے گا۔اس دوران ان کا بہت خیال رکھنا ہو گا۔وہ سب گھر پہنچے تو اس وقت فوزیہ بھی کالج سے گھر آگئی تھی۔جب اس نے اپنی ماں کی یہ حالت دیکھی تو بہت پریشان ہوئی۔سعدیہ نے اسے بتایا کہ ڈاکٹروں نے ان کا خیال رکھنے کو کہا ہے۔فوزیہ نے کہا:”یہ سب مجھ سے تو نہیں ہو گا۔تم ہی خیال رکھا کرو۔“یہ کہتی ہوئی وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔اب چچی کو احساس ہوا کہ فوزیہ ان کے قریب بھی نہیں آئی اور نہ کوئی کام کیا۔جس سعدیہ پر وہ اتنے ظلم کرتی تھیں۔مشکل میں وہی سعدیہ ان کے کام آئی تھی۔ایک دن چچی نے سعدیہ سے معافی مانگی۔سعدیہ نے انھیں دل سے معاف کر دیا۔چچی ایک ماہ میں بالکل ٹھیک ہو گئیں ۔اس کے بعد چچی سعدیہ سے بہت پیار کرنے لگیں اور سارے کام مل کر کرتی تھیں،بلکہ اب انھوں نے سعدیہ کی پڑھائی دوبارہ شروع کروا دی تھی۔ " باادب - تحریر نمبر 1984,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baadaab-1984.html,"عاطف حسین شاہ،چکوالہاشم نہم جماعت کا ایک ذہین طالب علم تھا۔وہ ہر ٹیسٹ اور امتحان میں اول آتا تھا۔پھر رفتہ رفتہ ایک شرارتی دوست کی صحبت میں اس کا دھیان شرارتوں کی جانب ہو گیا۔سب بچے اس کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے محفوظ ہوتے۔ہاشم اسے اپنی کامیابی سمجھتا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہاشم کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں بڑی شرارتوں میں بدل گئیں۔چٹکی کی جگہ تھپڑ اور مکوں نے لے لی۔اب اس سے بچے تنگ ہونے لگے تھے۔ بچوں کے والدین ہاشم کی شکایتیں لے کر اسکول آجاتے۔اساتذہ نے اسے ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی،مگر ہاشم روز بہ روز بگڑتا چلا گیا۔اسکول کا سارا عملہ ہاشم کے اس رویے سے تنگ آچکا تھا۔استاد کے فرائض میں سکھانا شامل ہے۔جو بچے اساتذہ سے کچھ سیکھ جاتے ہیں،انھیں زندگی میں دھکے نہیں کھانے پڑتے۔(جاری ہے)اساتذہ اپنا فرض نبھاتے رہے اور ہاشم اساتذہ کی باتیں ہوا میں اُڑاتا رہا۔وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا اور امتحان سر پر آپہنچا۔ہاشم کو یہ گوارا نہیں تھا کہ کامیابی میں اس سے کوئی آگے نکل جائے۔اس نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کتابوں پر نظریں جما دیں۔یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ ایک سطر بھی اس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔اس نے بہت زور مارا،مگر دماغ نے اس کا ساتھ نہ دیا۔امتحان میں دو دن باقی تھے،مگر ہاشم مناسب تیاری نہ کر پایا۔وہ مقابلے سے پہلے ہی خود کو ہارا ہوا دیکھ رہا تھا۔اس پریشانی میں وہ اپنی تمام شرارتیں بھول گیا۔سر رضوان نے اس بات کو محسوس کیا۔انھوں نے ہاشم کو اسٹاف روم میں بلوایا اور وجہ پوچھی۔ہاشم کافی گھبرایا ہوا تھا،مگر سر رضوان کا شفقت بھرا لہجہ دیکھ کر اس نے ہمت کرکے ساری پریشانی بتا دی۔سر رضوان بولے:”ہاشم!کیا آپ با ادب با مراد کا مطلب جانتے ہیں؟“”جی سر!بڑوں کا ادب کرنے والے کو کامیابی ملتی ہے۔“ہاشم فوراً بولا۔”بالکل درست کہا،علم کا تعلق بھی ادب سے ہے۔اگر آپ واقعی زندگی میں جیتنا چاہتے ہیں تو علم سے جڑی ہر چیز کا ادب کرنا سیکھیں۔یاد رکھنا علم کا سب سے بڑا سر چشمہ اُستاد ہوتا ہے۔اُستاد کی توہین کرکے آپ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔“سر رضوان کو اس سے آگے بولنے کی ضرورت نہیں رہی تھی،کیونکہ ہاشم کی ندامت اس کے آنسوؤں سے ظاہر ہو چکی تھی۔ہاشم نے سر رضوان سے معافی مانگی اور عہد کیا کہ وہ آئندہ کبھی اُستاد کی توہین نہیں کرے گا۔دن رات ایک کرکے ہاشم نے محنت کی اور امتحان دے دیا۔جب نتیجہ نکلا تو پہلی تینوں پوزیشن میں ہاشم کا نام نہ آسکا۔وہ پاس ہو گیا تھا،اس کے لئے یہی بہت تھا۔اتنا خوش وہ کبھی اول آنے پر بھی نہ ہوتا تھا،جتنا آج تھا۔اس نے اُستاد کا احترام کرنا سیکھ لیا تھا۔اب وہ با ادب ہو چکا تھا۔ " ایثار کا پیکر - تحریر نمبر 1983,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/essar-ka-peekar-1983.html,"رابعہ فاروقمیرا نام شہلا ہے اور صائمہ میری چچا زاد بہن ہے۔ہم ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔وہ بہت اچھی فطرت کی مالک ہے۔کبھی دروازے پر کوئی مانگنے والی بھکارن آتی تو وہ ان کو پیسے دینے کے بجائے ان سے کہتی کہ اچھا بیس روپے دوں گی،ہمارے برتن دھو دو یا ہمارے پودوں کو پانی دے دو یا پیاز لہسن چھیل کر دے دو یا جھاڑو دے دو۔اکثر اوقات مانگنے والی عورتیں یہ سن کر رفو چکر ہو جاتیں کوئی شاذو نادر ہی ٹک پاتی۔چچی جان کہتیں:”صائمہ!تمہیں خدا سمجھے،کیوں ان کو اندر لے آتی ہو؟ان میں سے کوئی چور بھی تو ہو سکتی ہے۔“صائمہ محلے میں اکثر شبو خالہ کے گھر چلی جاتی۔ان کی چھوٹی بیٹی جسمانی طور پر معذور ہے۔صائمہ اس کو مختلف رسالوں سے کہانیاں پڑھ کر سناتی۔(جاری ہے)ایک روز میں صائمہ کو بلانے شبو خالہ کے گھر گئی تو دیکھا صائمہ معذور لڑکی کے بستر کے قریب کرسی پر بیٹھی کہانی سنا رہی تھی اور لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔صائمہ جب گھر واپس آئی تو چچی جان نے ڈانٹ کر کہا،اپنے گھر کا کام تو ہوتا نہیں دوسروں کی خدمت میں لگی رہتی ہے۔ان کے خیال میں وہ اپنا وقت برباد کر رہی ہے۔اسکول میں وقفے کے دوران چھٹی جماعت کی تین بچیاں اس کے پاس آتیں تو وہ ان کو حساب اور سائنس سمجھا دیتی۔یہ غریب گھرانے کی بچیاں ٹیوشن نہیں پڑھ سکتی تھیں۔ان کو بلا معاوضہ ٹیوشن پڑھاتی۔مجھے صائمہ پر کبھی غصہ آتا اور کبھی ترس۔اپنا کھیل کود چھوڑ کر دوسروں کے مسئلے حل کرتی ہے۔نہ جانے کب عقل آئے گی۔چچی جان کو اس کی عادتیں بُری لگتیں اور باتیں سناتیں تو تب بھی اُف نہ کرتی۔ہنس کر سنتی رہتی۔میرے اور صائمہ کے امتحان ہو رہے تھے۔ ہم دونوں دل لگا کر تیاری کر رہے تھے۔رات کے دس بجے کا وقت تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔دروازہ کھولا تو ہماری محلے دار اور کلاس فیلو فروا کھڑی تھی۔وہ بہت پریشان دکھائی دے رہی تھی۔”کیا بات ہے فروا!“صائمہ نے پوچھا۔”صائمہ!میں نے بہت محنت سے آخری دو ابواب کے نوٹس بنائے تھے۔پتا نہیں کہاں رکھ دیے۔سب تیاری مکمل ہے،لیکن وہ نوٹس نہیں مل رہے۔میں بہت پریشان ہوں۔اگر نوٹس نہ ملے تو میری پوزیشن پر اثر پڑ سکتا ہے۔“صائمہ نے جنرل سائنس کے آخری دو ابواب کے نوٹس جو صائمہ نے اپنے لیے تیار کیے تھے فروا کو دے دیے:”لو یہاں سے تیاری کر لو۔“ صائمہ نے مسکرا کر کہا۔”لیکن تم کیسے تیاری کرو گی؟“فروا نے حیرانگی سے پوچھا۔”میں نے ان دو ابواب کی تیاری کر لی ہے۔تم بے فکر ہو جاؤ۔“صائمہ نے اطمینان دلایا۔فروا کے جاتے ہی میں صائمہ پر برس پڑی:”اگر تم اسے نوٹس نہ دیتی تو میں یا تم فروا سے آگے جا سکتے تھے۔“صائمہ نے سکون بھرے لہجے میں کہا:”کوئی بات نہیں کسی پریشان انسان کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔“بہرحال بات آئی گئی ہو گئی۔ہمارے امتحان ختم ہو گئے۔اب نتیجے کا انتظار تھا۔آخر وہ دن بھی آپہنچا۔تمام طلبہ اسمبلی گراؤنڈ میں جمع تھے۔جیسے ہی ہماری جماعت کی باری آئی تو میں اور صائمہ چوکنے ہو کر بیٹھ گئے۔”پہلی پوزیشن پہ ہیں صائمہ انور۔“پرنسپل نے اعلان کیا۔صائمہ حیرت و خوشی کے مارے گُنگ ہو کر رہ گئی۔پرنسپل اور کلاس ٹیچر نے اسے ایوارڈ دیا اور خوب تھپکی دی۔دوسرے نمبر پر فروا تھی اور تیسرا نمبر میرا تھا۔آخر میں پرنسپل نے اسکول کی بیسٹ اسٹوڈنٹ کا اعلان کیا اور وہ کون تھی؟جی وہ تھی”صائمہ۔“پرنسپل نے صائمہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا:”اس بچی میں بہت صلاحیت ہے۔اس میں دوسروں کی خدمت کا جذبہ ہے۔یہ ایثار کا پیکر سب کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔ان شاء اللہ یہ بچی بہت آگے جائے گی۔“پرنسپل نے صائمہ کی پیٹھ پر تھپکی دی۔صائمہ کو ایوارڈ دیا گیا اور پرنسپل نے دو ہزار روپے بہ طور انعام دیے۔صائمہ کا چہرہ مسرت سے گلنار تھا۔ہمیشہ فروا فرسٹ پوزیشن پر آتی تھی، لیکن اس بار وہ دو نمبروں سے دوسری پوزیشن پہ آگئی۔فروا دوسری پوزیشن پر بھی خوش تھی،کیونکہ جنرل سائنس کے نوٹس کھو دینے کے بعد وہ بہت مایوس ہو گئی تھی اور وہ سمجھتی تھی کہ شاید وہ چوتھی پوزیشن پر چلی جائے۔تمام طالبات نے صائمہ کو مبارک باد دی۔مجھے بھی یقین ہوا کہ جب کوئی انسان اللہ کے دوسرے بندوں پر مہربانی اور آسانی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت اور انعام سے ضرور نوازتا ہے۔ " شیر اور زرافہ - تحریر نمبر 1982,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lion-and-giraffe-1982.html,"ثروت یعقوبشیر اور زرافے کی دوستی سے جنگل کے تمام جانور حیران تھے کیونکہ شیر جانوروں کا شکار کرتا تھا۔زرافے کے دوست ہرن اور زیبرا اکثر زرافے کو کہتے کہ شیر پر اعتبار نہ کرو۔ایسا نہ ہو کہ کسی دن شیر کو شکار نہ ملے اور وہ تمہیں شکار بنا لے۔لیکن زرافہ ہرن اور زیبرے کی بات کو ہنسی میں ٹال دیتا۔زرافہ اکثر شیر کو کہتا کہ اگر میں شکار نہ کروں تو کھاؤں گا کیا؟میں تمہاری طرح گھاس نہیں کھا سکتا جس طرح تم میری طرح گوشت نہیں کھا سکتے۔زرافہ شیر کی بات سن کر چپ ہو جاتا۔ایک دن جنگل میں شکاری آگئے۔زرافہ اپنی لمبی گردن سے درختوں کے پتے کھانے میں مصروف تھا اس کی نظر ان شکاریوں پر پڑی تو وہ فوراً شیر کے پاس گیا اور شیر کو ساری صورتحال بتائی کہ جنگل میں شکاری آگئے ہیں اور وہ ایک بڑے درخت پر مچان بنا رہے ہیں۔(جاری ہے)ضرور وہ جانوروں کا شکار کریں گے۔شیر ہنسنے لگا بولا زرافے بھائی تم بھی بہت بھولے ہو میں جنگل کا بادشاہ ہوں بھلا مجھے کون پکڑے گا۔انسان تو مجھ سے ڈرتے ہیں ان کی کیا مجال کہ مجھے ہاتھ بھی لگائیں۔زرافے نے شیر کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ شکاریوں کے پاس بندوقیں اور جال بھی ہے اس لئے وہ ہوشیار رہے۔شیر پھر ہنسنے لگا اور کہنے لگا زرافے میاں تم تو بہت بزدل ہو۔ شکاری بکریوں اور ہرن کو پکڑنے آئے ہونگے مجھے پکڑنے کی جرأت نہیں میں جنگل کا بادشاہ ہوں۔زرافہ شیر کی بات سن کر چپ ہو گیا۔شیر اس زور سے دھاڑا کہ درختوں پر بیٹھے پرندے بھی خوف کے مارے اُڑ گئے۔شیر نے زرافے سے کہا آؤ مجھے دکھاؤ کہ وہ شکاری کہاں ہیں میں آج ان کا شکار کرتا ہوں۔زرافہ پہلے تو بہت ڈرا لیکن جب شیر نے زیادہ زور دیا تو وہ شیر کو لے کر اس طرف چل دیا جہاں شکاریوں نے مچان بنا رکھی تھی،زرافے نے دور سے ہی دیکھ لیا۔شکاری اپنی تیاریاں مکمل کر چکے تھے۔زرافہ رک گیا۔شیر نے پوچھا کیا ہوا۔ زرافہ بولا شیر بھائی شکاری پوری تیاری میں ہیں کہیں ہمیں پکڑ نہ لیں۔شیر نے کہا تم یہیں ٹھہرو تم بہت بزدل ہو میں دیکھتا ہوں۔شیر یہ کہہ کر آگے بڑھا مجبوراً زرافہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا شکاریوں کے قریب جا کر شیر ایک مرتبہ پھر دھاڑا اس نے زرافے سے کہا تم کہتے تھے کہ شکاری مجھے پکڑنے آئے ہیں دیکھو انہوں نے ایک بکری پکڑ رکھی ہے اور اسے درخت سے باندھ رکھا ہے۔زرافے نے جب درخت کے اوپر دیکھا تو وہاں سے اسے جال نظر آیا وہ چیختا شیر بھائی شکاریوں نے بکری تمہیں شکار کرنے کے لئے باندھی ہے۔بکری کے قریب نہ جانا شیر نے زرافے کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔زرافے کہنے کو تو تم میرے دوست ہو لیکن بہت ڈرپوک ہو۔مجھے لگتا ہے شکاری تمہیں پکڑ کر لے جائیں گے میں نے کافی دنوں سے بکری کا شکار نہیں کیا۔آج بہت مزا آئے گا۔زرافہ بیچارا شیر کو منع کرتا رہا لیکن شیر اس کی بات سننے کے لئے تیار ہی نہ تھا۔اس نے جیسے ہی بکری پر حملہ کیا۔مچان پر بیٹھے ہوئے شکاریوں نے شیر پر جال پھینک دیا۔شیر جال میں بری طرح پھنس گیا۔زرافہ دور کھڑا ساری صورتحال دیکھ رہا تھا۔زرافے نے کہا میں نہ کہتا تھا کہ شکاری تمہیں شکار کرنے آئے ہیں اور تم ان کے جال میں پھنس گئے بعد میں شکاری شیر کو پنجرے میں بند کرکے چڑیا گھر لے گئے شیر کے جانے بعد جنگل کے تمام جانوروں نے خوشیاں منائیں صرف ایک زرافہ اداس تھا۔سچ ہے کہ حد سے زیادہ خود اعتمادی بعض اوقات نقصان دہ ہوتی ہے۔ہمیں دوسروں کی باتوں کو بھی دھیان سے سننا چاہئے۔ " عقاب ایک شکاری پرندہ - تحریر نمبر 1981,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/eagle-aik-shikari-parinda-1981.html,"روبینہ نازعقاب اڑنے والے پرندوں میں ایک بڑا پرندہ اور بہترین شکاری ہے۔دنیا بھر میں اس کی ساٹھ سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔بے شمار ممالک میں عقاب فوجی نشان کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔سب سے بڑے عقاب کے پر 250 سینٹی میٹر سے زائد لمبے ہوتے ہیں۔ عقاب بڑے جانوروں کے شکار کے لئے جانے جاتے ہیں جن میں ہرن،بکریاں اور بندر شامل ہیں۔عقاب کی زیادہ تر اقسام میں مادہ عقاب نر عقاب کے مقابلے میں بڑی اور طاقتور ہوتی ہے۔عقاب کی نظر انسانوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ تیز ہوتی ہے۔انسان کو بنیادی طور پر تین رنگ دکھائی دیتے ہیں جب کہ عقاب پانچ رنگ دیکھ سکتا ہے۔اب تک عقاب نے جس سب سے بڑے جانور کا شکار کیا ہے،وہ ایک ہرن تھا جس کا وزن 37 کلو گرام تھا۔(جاری ہے)یہ وزن اس عقاب کے وزن سے پانچ گنا زیادہ تھا۔فلپائن کے عقاب دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور ہیں۔ان کی لمبائی 120 سینٹی میٹر ہوتی ہے جب کہ وزن آٹھ کلو گرام ہوتا ہے۔ درخت پر سب سے بڑا گھونسلا بھی عقاب ہی بناتے ہیں۔عقاب ایک ذہین پرندہ ہے۔مثال کے طور پر یونان میں گولڈن عقاب کچھوؤں کو شکار کرتے ہیں اور ان کا خول توڑنے کے لئے کچھوؤں کو بلند ترین چٹانوں سے نیچے گرا دیتے ہیں۔جس طرح گھوڑا کھڑا کھڑا سونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسی طرح عقاب بھی شاخ پر بیٹھے ہوئے سو سکتا ہے۔سوتے وقت اس کے پاؤں شاخوں کو جکڑ لیتے ہیں۔ایک عقاب کی عمر لگ بھگ 70 سال ہوتی ہے۔اس عمر تک پہنچنے کے لئے اس شکاری پرندے کو سخت مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔جب اس کی عمر چالیس سال ہوتی ہے تو اس کے پنجے زیادہ شکار کرنے کے قابل نہیں رہتے۔اس طرح اس کی مضبوط چونچ بھی عمر کے بڑھنے سے بہت ٹیڑھی ہو جاتی ہے اور اس کے پر جس کے ذریعے وہ پرواز کرتا ہے بہت بھاری ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے اسے اُڑنے میں دقت پیش آتی ہے۔چنانچہ وہ پہاڑوں میں جاتا ہے اور سب سے پہلے اپنی چونچ کو پتھروں پر مارتا ہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جاتی ہے اور کچھ دن بعد جب نئی چونچ نکل آتی ہے تو اس سے سارے ناخن اُکھاڑ دیتا ہے پھر جب نئے ناخن نکل آتے ہیں تو وہ چونچ اور ناخن سے اپنا ایک ایک بال اکھاڑ دیتا ہے اور اس سارے عمل کے لئے اسے پانچ ماہ کی طویل تکلیف اور مشقت سے گزرنا پڑتا ہے۔پانچ ماہ بعد جب وہ اڑان بھرتا ہے تو پھر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس نے نیا جنم لیا ہو اس طرح وہ مزید تیس سال زندہ رہ پاتا ہے۔ " بلی کی بد دعا - تحریر نمبر 1980,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/billi-ki-bad-dua-1980.html,"احمد علیٹنکو بہت شرارتی بچہ تھا۔سکول اور محلے کا ہر چھوٹا بڑا اس کی شرارتوں سے تنگ تھا وہ تو بے زبان جانوروں کو بھی تنگ کرتا رہتا تھا۔امی ابو اسے سمجھاتے مگر ٹنکو باز نہیں آتا۔آج جب وہ اپنی چھوٹی بہن نازیہ کو تنگ کر رہا تھا تو اس نے غصے میں ٹنکو کو دھکا دے دیا۔ٹنکو فرش پر گر گیا اور زور زور سے رونے لگا۔وہ اسی طرح خود کو مظلوم اور معصوم ثابت کرتا تھا۔اس کے رونے کی آواز سن کر دادی اماں اپنے کمرے سے نکلیں اور رونے کی وجہ پوچھی تو ٹنکو نے جھوٹ بول کر خود کو بے قصور ثابت کر دیا۔دادی اماں نے اس کی بات پر یقین کر لیا اور نازیہ کو ڈانٹ کر چلی گئیں۔نازیہ ایک اچھی اور سمجھدار لڑکی تھی وہ خاموش رہی اور امی کو اصل بات بتا دی۔شام کو جب ٹنکو گھر سے باہر گلی میں گیا تو اچانک اس کی نظر ایک بلی پر پڑی جو اپنے دو بچوں کے ساتھ وہاں سے گزر رہی تھی۔(جاری ہے)اسے دیکھتے ہی ٹنکو کی آنکھیں شرارت سے چمکنے لگیں۔اس نے جلدی جلدی زمین سے پتھر اُٹھائے اور تاک تاک کر بلی کو مارنے لگا،دو چار پتھر بلی کو لگے اور ایک پتھر بلی کے چھوٹے بچے کو بھی لگا تو وہ تینوں خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے۔امی نے اسے کئی بار سمجھایا تھا کہ بے زبان جانوروں کو تنگ نہ کیا کرو،یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں،مگر ٹنکو یہ باتیں کہاں سمجھتا تھا۔آج ٹنکو اپنے کارنامے پر بہت خوش تھا۔وہ گھر لوٹا اور چائے پی کر تھوڑی دیر بعد دوبارہ باہر نکل گیا۔ابھی اس نے گلی میں قدم رکھا ہی تھا کہ ایک تیز رفتار سائیکل سے ٹکرا کر زمین پر گر پڑا۔اس کے ہاتھوں اور پیروں پر چوٹ آئی اور زخموں سے خون نکلنے لگا۔ٹنکو درد کی شدت سے رو رہا تھا۔سائیکل سوار کی کوئی غلطی نہ تھی،بلکہ ٹنکو ہی قصوروار تھا۔وہاں موجود لڑکوں نے اسے اُٹھایا اور اس کے گھر لے گئے۔ٹنکو کو اپنی امی کی بات یاد آگئی جنہوں نے اسے بے زبان جانوروں کو تنگ کرنے سے منع کیا تھا۔ابو فوراً اسے ہسپتال لے گئے اور مرہم پٹی کروائی۔ٹنکو کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔گھر آنے کے بعد اس نے امی سے کہا”آپ ٹھیک کہتی تھیں۔آج میں نے بے زبان بلی اور اس کے بچوں کو پتھر مارے تھے،اس نے مجھے بد دعا دی ہو گی اور یہ اسی کی سزا ہے۔“امی نے پیار سے ٹنکو کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولیں،”بیٹا!اگر تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو تم توبہ کرو اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا عہد کر لو۔اللہ بہت رحیم ہے وہ توبہ کرنے والوں کو معاف کر دیتا ہے۔“ان کی بات درست تھی۔ٹنکو نے سچے دل سے توبہ کی اور امی سے وعدہ کر لیا کہ وہ کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائے گا۔ " دو دوست دو دشمن - تحریر نمبر 1979,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/do-dost-do-dushman-1979.html,"زارا آصفگھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا،”اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لئے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے،میری میراث ہے۔“چوہا اس بات پر چڑ گیا۔اس نے کہا،”میرا خاندان بھی یہاں سینکڑوں سال سے آباد ہے اور مجھے بھی یہ جگہ اپنے باپ دادا سے ملی ہے اور یہ میری میراث ہے۔“یہ سن کر مینڈک غصے میں آگیا اور تو تو میں میں شروع ہو گئی۔بات اتنی بڑھی کہ ان کی دوستی میں فرق آگیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیا۔ایک دن چوہا وہاں سے گزرا تو مینڈک نے اس پر آواز کسی جو چوہے کو بہت بُری لگی۔اس کے بعد چوہے نے یہ کیا کہ وہ گھاس میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور جب مینڈک وہاں سے گزرتا تو اس پر حملہ کرتا ہے؟مرد ہے تو سامنے میدان میں آتا کہ کھل کر مقابلہ ہو اور تجھے میری قوت کا پتا چلے۔(جاری ہے)“چوہے نے یہ بات قبول کر لی اور دوسرے دن صبح ہی صبح مقابلے کا وقت مقرر ہوا۔مقررہ وقت پر ایک طرف سے چوہا نکلا۔اس کے ہاتھ میں ترسل کے پودے کا ایک لمبا تنکا تھا۔دوسری طرف سے مینڈک آگے بڑھا۔اس کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی تنکا تھا۔دونوں نے ایک دوسرے پر زبردست حملہ کیا اور پھر ذرا سی دیر میں دونوں گتھر گتھا ہو گئے۔ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ دور ہوا میں اُڑتی ہوئی ایک چیل نے دیکھا کہ ایک چوہا اور ایک مینڈک آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔وہ تیزی سے اڑتی ہوئی نیچے آئی اور ایک جھپٹے میں دونوں پہلوانوں کو اپنے تیز،نوکیلے پنجوں میں دبا کر لے گئی۔اب وہاں چوہا ہے نہ مینڈک۔دلدل اب بھی موجود ہے۔ " اوٹ پٹانگ - تحریر نمبر 1978,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/oat-patang-1978.html,"عطرت بتولنادیہ ماما سے کہنے لگی،ماما،ہمارے گھر کے سامنے جو خالی گھر تھا اس میں لوگ آگئے ہیں میں نے ٹیرس پر سے دیکھا ہے کل ان کا سامان آرہا تھا اور آج میں نے ان کے گیٹ پر اپنے جتنی لڑکیاں دیکھی ہیں،ماما پلیز میں چلی جاؤں؟بور ہو رہی ہوں ان سے کھیل لوں گی،ٹھیک ہے چلی جاؤ،ان کی ماما سے پوچھ لینا کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں،نادیہ اجازت ملنے پر خوش ہو گئی اور بھاگ کر سامنے والوں کے گھر چلی گئی، ایک آنٹی سامنے ہی بیٹھی تھیں نادیہ نے سلام کیا اپنا تعارف کروایا اور کہا اپنی بیٹیوں کو بلا دیں،اچھا آنٹی نے کہا اور زور زور سے اپنی بیٹی کو آواز دینے لگیں،جھگڑا،باہر آہ،جھگڑا باہر آہ،اتنے میں ایک لڑکی کمرے سے باہر نکلی،یہ سامنے والے گھر سے آئی ہے آنٹی نے نادیہ کی طرف اشارہ کیا،ا س سے دوستی کر لو،لڑکی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا،آپ کا نام جھگڑا ہے؟نادیہ نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا،اصل میں یہ بہت جھگڑالو ہے ہر بات پر لڑتی تھی اس لئے ہم نے اس کا نام ہی جھگڑا رکھ دیا آنٹی بولیں۔(جاری ہے)نادیہ کو بہت ہنسی آرہی تھی لیکن ضبط کرکے بولی آہ کھیلتے ہیں،ٹھیک ہے وہ لڑکی بولی،پہلے مہمان بچی کے لئے شربت تو بنا لاؤ آنٹی نے کہا،میں بناؤں؟جھگڑا ایک دم غصے میں آگئی،میں صبح سے کام کر رہی ہوں،اب بیوقوف سے کہیں،وہ بھی کوئی کام کر لیا کرے،جھگڑا نے سچ مچ جھگڑا شروع کر دیا اور زور زور سے آواز دینے لگی،بیوقوف،بیوقوف باہر آؤ،آواز سن کر لڑکی باہر آئی تو جھگڑا بولی جلدی سے مہمان کے لئے شربت بنا لاؤ،اچھا کہہ کر وہ لڑکی اندر چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد ایک ٹرے میں کپ لے کر آگئی،وہ آپ چائے لے آئیں سوری میں چائے نہیں پیتی آنٹی کو دے دیں نادیہ بولی نہیں نہیں یہ چائے نہیں ہے شربت ہے،وہ لڑکی بولی،اور تم شربت چائے کے کپ میں لے آئیں،اسی لئے تمہارا نام بیوقوف ہے آنٹی نے کہا،نادیہ حیران ہو کر ان کی باتیں سن رہی تھی اور اسے ہنسی بھی آرہی تھی اتنے میں میں اندر سے ایک اور لڑکی نکلی یا اللہ اس کا نام کوئی ڈھنک کا ہو نادیہ نے سوچا،اس لڑکی کے ہاتھ میں چپس کا پیکٹ تھا جسے وہ کھاتی ہوئی آرہی تھی،اچھا تو پیٹو تمہیں مل گئی فرصت کھانے سے؟بیوقوف نے کہا،ابھی اندر بیٹھی چاولوں کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کر رہی تھیں اب میرا چپس کا پیکٹ کھا رہی ہو،جھگڑا غصے سے بولی،پیٹو تمہاری بڑی بہن ہے اس سے مت لڑو آنٹی بولیں،چلو آؤ چلے سٹیشن پر گیمز کریں اور ساتھ ساتھ چاکلیٹ کھائیں پیٹو نے کہا، نہیں نہیں اب میں چلتی ہوں،پھر آؤں گی،نادیہ نے کھسکتے میں ہی عافیت سمجھی،گھر آکر اس نے امی اور بھائی کو یہ سب کچھ بتایا تو انہوں نے یقین ہی نہیں کیا بلکہ بھائی نے کہا تم اوٹ پٹانگ باتیں کر رہی ہو ایسے نام تو کسی کے ہو ہی نہیں سکتے بلکہ تمہارا نام ہو گیا آج سے اوٹ پٹانگ۔ " نورپور کی دھوبن - تحریر نمبر 1976,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/noorpur-ki-dhoban-1976.html,"تبسم فیاضبشیرن،نورپور کی دھوبن کے نام سے مشہور تھی۔یہ عورت نہایت ایمان دار اور اپنے کام سے کام رکھنے والی عورت تھی۔کسی کے معاملات میں مداخلت نہ کرتی۔اگر کبھی کسی کی جیب سے اسے پیسے ملتے تو وہ فوراً اسے مالک تک پہنچاتی۔اس کی ایمان داری کی وجہ سے نور پور کے تمام لوگ اسی سے کپڑے دھلواتے ،یہاں تک کہ بادشاہ،وزیر اور شہر کے قاضی کے کپڑے بھی بشیرن دھوبن ہی دھوتی تھی۔صاف ستھرے بے داغ کپڑے دیکھ کر سب کا دل خوش ہو جاتا۔ایک دن بشیرن کو شیروانی کی جیب سے ایک انگوٹھی ملی،جسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔الٹ پلٹ کر دیکھا۔ایسی چکا چوند انگوٹھی جس میں قیمتی ہیرا لگا ہوا تھا،اس نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔جلدی سے شیروانی کی نشانی دیکھی تو معلوم ہوا کہ یہ وزیر اکبر علی کی شیروانی ہے۔(جاری ہے)اس نے دل میں سوچا کہ جیسے ہی کپڑے سوکھیں گے،وہ سب سے پہلے اکبر علی کے کپڑے اس انگوٹھی سمیت واپس کرکے آئے گی۔انگوٹھی کو دوپٹے کے پلو میں باندھ کر وہ گھر کی طرف چل دی۔گھر پہنچی تو اُسے پتا چلا کہ اس کی اکلوتی بیٹی کو تیز بخار ہے اسی وقت دوڑ کر اسے کھلا پلا کر دوا دی ،پھر ماتھے پر پٹی رکھ رکھ کر بخار کم کرنے کی کوشش کرتی رہی۔آخر تھکن سے چور ہو کر بیٹی کے سرہانے ہی سو گئی۔آنکھ کھلی تو دیکھا آدھی رات ہو گئی۔بیٹی کی فکر میں انگوٹھی کی جانب اس کا ذہن ہٹ گیا اور وہ بھول گئی۔اُدھر محل میں بادشاہ سلامت کی انگوٹھی گم ہو گئی تھی۔محل کا ہر شخص فکر مند تھا اور کیوں نہ ہوتا وہ بادشاہ سلامت کے والد کی واحد نشانی تھی۔بادشاہ نے محل کا کونا کونا چھان لیا،لیکن انگوٹھی نہ ملی۔وزیر اکبر علی بھی دوسرے خادموں کی طرح چہرے پر فکر مندی سجائے انگوٹھی کی تلاش میں مصروف تھا۔اِدھر بشیرن دھوبن اپنی بچی کی طبیعت کی وجہ سے بے حد فکر مند تھی۔اسی پریشانی میں وہ کپڑے دھونے بھی نہ گئی۔تین دن کی تلاش کے بعد بادشاہ نے اعلان کروایا کہ جس کو بھی وہ انگوٹھی ملے یا ڈھونڈ کر لائے اسے ایک ہزار سونے کی اشرفیاں دی جائیں گی۔یہ اعلان سنتے ہی نورپور کا ہر شخص انگوٹھی ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا۔”لاؤ بیگم!میری شیروانی جو میں تین دن پہلے دربار میں پہن کر گیا تھا۔“وزیر اکبر علی کسی خیال سے خوش ہوتے ہوئے بولا۔”وہ تو میں نے کمرے میں کھونٹی پر لٹکا دی تھی۔“وزیر کی بیگم یہ کہہ کر شیروانی لینے چل دی۔”ارے یہاں سے شیروانی کہاں گئی؟“وزیر کی بیگم کی چیخ ہی نکل گئی۔وزیر اکبر علی دوڑتا ہوا آیا:”یہ کیا کر دیا شیروانی کہاں گم کر دی؟“اکبر علی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔اسی دوران وزیر کی بہن آگئی اور وزیر اکبر علی سے بولی:”بھائی!وہ تو میں نے دھوبن کو پرسوں ہی دے دی تھی۔“یہ سن کر اکبر علی کی آواز حلق میں گھٹ گئی،کیونکہ بادشاہ کی انگوٹھی چرانے کا ماجرا اس کے علاوہ صرف اس کی بیوی کو معلوم تھا اور چونکہ بہن اس بات سے بے خبر تھی،لہٰذا اس نے نہ بتانے میں ہی عافیت جانی۔بہن کے جاتے ہی اکبر غصے اور پریشانی سے ہاتھ ملنے لگا،کیونکہ وہ جانتا تھا کہ نورپور کی دھوبن بہت ایمان دار ہے۔اگر اس نے اعلان سن کر وہ انگوٹھی دربار میں بادشاہ سلامت کو پیش کر دی تو بادشاہ میری گردن اُڑا دے گا،کیونکہ یہ انگوٹھی وزیر اکبر علی کی شیروانی سے برآمد ہوئی تھی اور یہ بات دھوبن سچ سچ بتا دے گی۔اکبر علی جانتا تھا کہ بادشاہ سلامت کی یہ انگوٹھی ان کے والد کی نشانی ہے اور یہ انھیں جان سے زیادہ عزیز ہے،لہٰذا اسے پانے کے لئے بادشاہ بڑے سے بڑا انعام دینے سے گریز نہیں کریں گے۔انعام کی لالچ میں اور بادشاہ کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لئے اکبر علی نے یہ انگوٹھی چرائی تھی۔اسے نہیں معلوم تھا کہ سب تدبیریں اُلٹی ہو جائیں گی۔پوری رات وزیر اکبر علی مختلف منصوبے بناتا رہا۔آخر ایک منصوبہ اُسے بہتر لگا کہ دھوبن کو جھوٹا ثابت کرکے اسی پر چوری کا الزام لگا یا جائے تو وہ یقینا بچ جائے گا۔یہ سوچ کر وہ اطمینان سے سونے کے لئے لیٹ گیا۔بشیرن دھوبن کی بیٹی کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو وہ صبح ہوتے ہی اسے طبیب کے پاس لے کر نچی۔”ارے جسے بادشاہ کی انگوٹھی مل جائے گی،اس کے تو بھاگ ہی جاگ جائیں گے۔نہ جانے نورپور کا وہ کون خوش قسمت انسان ہو گا۔“ قریب بیٹھی عورتوں کی گفتگو سن کر دھوبن چونکی اور اسے وزیر اکبر علی کہ وہ انگوٹھی یاد آگئی۔ان ہی عورتوں سے دھوبن کو بادشاہ کی انگوٹھی کی ساری بات پتا چل گئی تھی۔دوا لینے کے بعد جلدی جلدی گھر پہنچی۔دوپٹے کا آنچل کھول کر انگوٹھی دیکھی اور وزیر اکبر علی کی اس حرکت کو سمجھتے ہوئے افسوس کرنے لگی۔وزیر اکبر علی نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سب سے پہلے اپنی بہن کو دوسرے گاؤں بھجوا دیا،تاکہ وہ اس کا راز نہ جان سکے۔اُدھر دھوبن سیدھی بادشاہ سلامت کے دربار پہنچی،کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وزیر اکبر علی اس وقت دربار میں ہو گا۔”بادشاہ سلامت!نورپور کی دھوبن دربار میں آنے کی اجازت چاہتی ہے۔“خادم خاص نے آکر بادشاہ سلامت سے اجازت چاہی۔ دربار میں دھوبن کا نام سن کر وزیر سٹپٹا گیا۔”اجازت ہے۔“بادشاہ سلامت نے دھوبن کو دربار میں پیش کرنے کی اجازت دی۔”کہو بشیرن!کیا بات ہے؟“بادشاہ سلامت نے دھوبن کو دربار میں مخاطب کیا۔”عالی جاہ!گستاخی معاف،میں آپ سے نہیں وزیر اکبر علی سے ملنے آئی ہوں،ان کی ایک امانت لوٹانی ہے۔“دھوبن نے نہایت عاجزانہ انداز میں کہا۔”اگر آپ کی اجازت ہو تو میں ان کی یہ شیروانی اور یہ انگوٹھی واپس کرنا چاہوں گی ،جو ان کی شیروانی کی جیب سے نکلی تھی۔“دھوبن نے دونوں چیزیں بادشاہ سلامت کے آگے کر دیں۔بادشاہ اپنی انگوٹھی دھوبن کے ہاتھ میں دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔اُدھر وزیر اکبر علی کے پسینے چھوٹ گئے۔”یہ․․․․یہ․․․․یہ میری انگوٹھی نہیں یہ تو بادشاہ سلامت کی ہے،تمہارے پاس کہاں سے آئی۔یہ یقینا تم نے ہی چرائی تھی اور اب مجھ پر تہمت لگانے آگئیں۔“وزیر نے نہایت مکاری سے دھوبن پر الزام لگایا۔بادشاہ سلامت دھوبن کو دیکھنے لگے۔دھوبن کو وزیر اکبر علی سے یہ توقع نہیں تھی،لیکن وہ بھی نہایت سمجھ دار تھی،فوراً عرض کی:”عالی جاہ!اگر میں یہ انگوٹھی چراتی تو پھر یہاں واپس کرنے کیوں آتی!یہ تو مجھے اکبر علی کی شیروانی کی جیب سے ملی ہے اور مجھ غریب کا محل سے کیا تعلق جو میں یہاں آکر چیزیں چراؤں۔“”بادشاہ سلامت!یہ دھوبن جھوٹ بول رہی ہے اور سراسر بہتان لگا رہی ہے۔“وزیر اکبر علی اتنے کڑوے سچ کو سن کر چیخ پڑا۔سچ پوچھیں تو دربار میں سب کو دھوبن کے سچ پر یقین تھا اور بادشاہ سلامت کو بھی دھوبن کی بات میں وزن محسوس ہوا۔”بادشاہ سلامت !میری بیگم نے یہ شیروانی پرسوں دھلنے دی تھی اور اس انگوٹھی کو غائب ہوئے آج چوتھا دن ہے۔اگر انگوٹھی میری شیروانی میں سے نکلی ہوتی تو یہ اسی وقت لے آتی،یہ دھوبن جھوٹ بول رہی ہے۔اس کے دل میں کھوٹ ہے،جبھی اتنے دن تک انگوٹھی اپنے پاس رکھے رہی۔“وزیر اکبر علی نے پینترا بدلا۔دھوبن نے اپنی بیٹی کی طبیعت کی ساری روداد بادشاہ سلامت کو سنا دی اور اس نے ساتھ ہی یہ بھی وضاحت کر دی یہ شیروانی وزیر کی بیگم نے نہیں،بلکہ اس کی بہن نے دھلنے کو دی تھی۔دھوبن کی بات کو سچا ثابت کرنے کے لئے وزیر کی بہن اور اس طبیب کو دربار میں بلوایا گیا۔طبیب تو حاضر ہو گیا،مگر وزیر کی بہن حاضر نہ ہوئی۔طبیب نے دھوبن کی بیٹی کی طبیعت ناسازی کے بارے میں بادشاہ کو سچی گواہی دی۔ادھر وزیر کی بہن کو شاہی خادموں کے ذریعے دربار میں بلایا گیا۔چونکہ بہن اپنے بھائی وزیر اکبر علی کی اس عیاری سے واقف نہ تھی،لہٰذا اس نے بھی دھوبن کے حق میں سچی گواہی دی۔یوں اکبر علی کے جھوٹ اور چوری کا پول کھل گیا۔بادشاہ نے وزیر اکبر علی کو عہدے سے برطرف کرکے دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی اور دھوبن کو ایک ہزار سونے کی اشرفیوں کے ساتھ ساتھ اس کی ایمان داری پر ماہانہ وظیفہ مقرر کرتے ہوئے مزید انعام و اکرام سے نوازا۔ " وقت - تحریر نمبر 1975,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/waqt-1975.html,"مرلی چند،شکارپوروقت کیا ہے؟وقت اللہ پاک کی امانت اور انسان کے لئے بہت ہی قیمتی اثاثہ بھی ہے،یہ وقت ہی ہے جو ہر دم یہ احساس دلاتا ہے کہ ہر وقت اچھا عمل کرنا چاہیے اور اچھی بات کرنی چاہیے۔سورج کا اپنے وقت پر طلوع ہونا اور شام کو غروب ہو جانا،چاند،ستاروں کی گردش،موسم کا بدلنا،صبح پرندوں کا اُڑنا اور شام کے سائے پھیلتے ہی اپنے اپنے گھونسلوں کی طرف واپس لوٹ کر آنا وقت کا پتا بتاتے ہیں۔(جاری ہے)وقت آہستہ آہستہ،لمحہ لمحہ،پل پل آگے بڑھتا رہتا ہے یعنی وقت کا پہیا مسلسل گھوم رہا ہے،ہم وقت کو قید نہیں کر سکتے۔تاریخ گواہ ہے جس انسان یا قوم نے وقت کی قدر کی اس نے کامیابی حاصل کی اور جس نے وقت کو برباد کیا،وقت نے بھی اسے تباہ کر دیا۔وقت آئینے کی طرح انسان کو اپنا عکس دکھاتا ہے۔آج اگر اچھا وقت نہیں تو کل یہ بُرا وقت بھی نہیں ہو گا۔آج اگر بُرا وقت ہے تو کل ضرور اچھا وقت آئے گا۔یہ خدا کی مصلحت ہے۔آؤ،وقت سے فائدہ اُٹھا کر،اچھا عمل کرکے اپنی یادوں کے اچھے نقوش چھوڑ جائیں۔ " آزادی ایک بڑی نعمت - تحریر نمبر 1974,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azaadi-aik-bari-naimat-1974.html,"محمد حذیفہ سجاد،دیناپورایک پنجرے میں بند دو چڑیاں اس زمانے کی باتیں کر رہی تھیں جب وہ آزاد فضاؤں میں پرواز کیا کرتی تھیں۔تب نیکو نے کہا:”ارے میکو! یہ انسان ہمیں اپنے شوق کے لئے قید کر لیتے ہیں۔ان کو ذرا سا احساس نہیں کہ ہم پر کیا گزرتی ہے۔“ایک نے کہا:”انسان تو ہر طرح آزاد رہتے ہیں۔“”آزادی کی اصل قدر تب معلوم ہوتی ہے جب وہ چھن جاتی ہے۔“دوسری چڑیا نے جواب دیا:”آزادی کی قدر ہم سے پوچھے جو اتنے دنوں سے قید ہیں۔“عبداللہ اپنے گھر میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔کورونا کی وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن تھا،اس لئے وہ گھر میں قید ہو کر رہ گیا۔نہ دوستوں سے مل سکتا تھا اور نہ کہیں گھومنے پھرنے جا سکتا تھا۔(جاری ہے)اس کی والدہ نے اُسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا:”تم پریشان مت ہو۔یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا۔“آخر ہفتوں بعد لاک ڈاؤن ختم ہوا تو عبداللہ بازار کی طرف جاتے ہوئے بہت خوش نظر آرہا تھا۔وہ ویڈیو گیمز والی دکان کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر پرندوں والی دکان پر پڑی۔اس نے پرندوں کو پنجروں میں یوں قید دیکھا تو اس کو اپنا لاک ڈاؤن کے دوران گھر میں گزرا وقت یاد آگیا کہ وہ اس وقت کتنا بے چین ہو گیا تھا۔اس کے قدم وہیں رک گئے۔اس نے دکان دار سے ان پرندوں کی قیمت پوچھی،پھر ویڈیو گیمز کھیلنے کے لئے جمع کی ہوئی رقم دکان دار کی طرف بڑھا دی،جو کہ پرندوں کی قیمت کے برابر تھی۔عبداللہ نے خود آگے بڑھ کر پنجروں کو کھول دیا۔پنجرے کا دروازہ کھلا تو دونوں چڑیاں چوں چوں کرتی ہوئی اُڑ گئیں،جیسے کہہ رہی ہوں۔”اللہ کا شکر ہے کہ اس نے بچے کے دل میں یہ احساس پیدا کیا کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔“ " غلطی کا احساس - تحریر نمبر 1973,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghalti-ka-ehsas-1973.html,"طیبہ اشرف،سالگھڑاسما چھٹی کلاس کی طالبہ تھی۔نہایت ہی ذہین اور عقل مند،ہمیشہ دوسروں کے بارے میں اچھا سوچتی اور کم زور طالبات کی مدد کرتی۔اسی کے ساتھ فروا بھی پڑھتی تھی۔ذہین بھی تھی اور پڑھائی میں بھی اچھی تھی،لیکن وہ دوسروں کی مدد نہیں کرتی تھی۔اسے صرف اپنی پڑھائی سے مطلب تھا۔اسما اور اس کی بڑی بہن کشف بھی اسے ہمیشہ سمجھاتی تھیں کہ دوسروں کی مدد کیا کرو،دوسروں کی مدد کرنے سے اللہ پاک خوش ہوتے ہیں،لیکن وہ ہر بات کو مذاق میں ٹال دیتی۔ایک دن ایسا واقعہ پیش آیا جس سے یہ بات فروا کی سمجھ میں آگئی کہ وہ آج تک غلط کرتی آئی ہے۔امتحان میں فروا کے دو پیپر اچھے ہوئے۔تیسرے پیپر میں وہ خوب تیاری کرکے اسکول گئی۔جب وہ پیپر شروع ہوا تو پتا چلا کہ وہ اپنا پین اور پنسل گھر بھول آئی تھی۔(جاری ہے)بہت پریشان ہوئی وہ کسی سے مدد بھی نہیں مانگ سکتی تھی،کیونکہ اس نے آج تک کسی کی مدد نہیں کی،اس لئے کون اس کی مدد کرتا۔وہ مس کی ڈانٹ سے بھی ڈر رہی تھی۔اس کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے اس کی ہم جماعت طالبات اسما،ارم اور لائبہ نے اس کی مدد کرتے ہوئے ایک پین اور پنسل اس کی طرف بڑھا دی۔اس واقعے کے بعد وہ بہت زیادہ شرمندہ ہوئی۔اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ کسی کی مدد کرنے سے کوئی چھوٹا نہیں ہو جاتا،بلکہ کسی کی مدد کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔اس نے اپنی ہم جماعت سہیلیوں سے اپنے رویے کی معافی مانگی اور آئندہ سب کی مدد کرنے کا پکا عزم کیا۔ " کفایت شعاری - تحریر نمبر 1972,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kifayat-shuari-1972.html,"وجیہہ زمان،جھنگ صدرمریم نہم جماعت کی طالبہ تھی۔وہ درمیانے درجے کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔پڑھائی میں اچھی ہونے کے ساتھ سلیقہ شعار لڑکی تھی،مگر اسے شاہ خرچی کی ایک بہت بُری عادت تھی۔وہ ہمیشہ مہنگی سے مہنگی چیزوں کو فوقیت دیتی تھی۔اس کا خیال تھا کہ مہنگے کپڑے اور جوتے پہننے سے اور برانڈ اشیاء استعمال کرنے سے انسان میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور وہ منفرد نظر آتا ہے۔اس کی امی اسے بہت سمجھاتیں کہ اچھاپہنا، اوڑھنا بُری نہیں،مگر ضروری نہیں کہ اس کے لئے فضول خرچی بھی کی جائے۔مریم چونکہ اپنے ابو کی لاڈلی تھی،لہٰذا وہ اس کی ضد کے آگے بے بس ہو جاتے۔مریم کی تایا زاد بہن کی شادی ہونے والی تھی۔مریم امی کے ساتھ شادی کے لئے کپڑے اور جوتے وغیرہ لینے بازار چلی گئی۔(جاری ہے)کپڑے کی دکان پر اس کی امی کو خوبصورت اور نفیس ریشمی کپڑے بہت پسند بھی آئے،مگر مریم نے انھیں نظر انداز کر دیا اور اپنی امی سے دوسری دکان پر چلنے کی ضد کرنے لگی۔وہ دونوں دکان پر پہنچ گئیں۔مریم بڑی دکان کے اندر داخل ہوتے ہی کپڑوں کے ڈیزائن دیکھنے لگی۔کچھ دیر بعد مریم ایک فراک اُٹھائے اپنی امی کے پاس آئی۔اس کی امی فراک کی قیمت پانچ ہزار دیکھ کر حیران رہ گئیں،مگر مریم کی ضد تھی کہ اسے وہی فراک لینی تھی۔آخر اس کی امی نے رقم ادا کرنے کے لئے پرس کھولا تو وہ پریشان ہو گئیں۔امی نے بتایا کہ گھر سے نکلتے ہوئے انھوں نے پرس میں پانچ ہزار کے دو نوٹ رکھے تھے،مگر اب ایک نوٹ غائب تھا،لہٰذا انھوں نے وہ فراک اسی دکان پر چھوڑی اور واپس پہلی دکان پر جا کر اپنے اور مریم کے لئے سوٹ خریدے اور گھر واپس آگئے۔سوٹ بہت خوبصورت تھے ،مگر مریم کو افسوس تھا کہ وہ مہنگا سوٹ نہ خرید سکی۔مریم کی امی فوراً اس کے دل کا حال سمجھ گئیں وہ مریم کو سمجھانے لگیں:”دیکھو بیٹا!ضروری نہیں انسان مہنگے کپڑے پہن کر ہی دلکش لگے۔وہ مناسب قیمت میں بھی خود کو سنوار سکتا ہے۔عام کپڑے کو اس طرح تیار کرکے پہننا کہ وہ دیدہ زیب لگے،یہ ایک فن ہے۔اس سے انسان میں اعتماد آتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے مناسب پیسوں میں اچھی چیزیں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔“شادی کی تقریب میں مریم بھی اپنی رشتے کی بہنوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئی۔مریم کی امی نے اس کی طرف دیکھا تو انھیں مریم کی آنکھوں میں اطمینان کی چمک دکھائی دی۔وہ خوش تھیں کہ مریم ان کی بات کو مکمل طور پر سمجھ چکی تھی۔ " نادان ساجھے دار - تحریر نمبر 1971,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nadan-sanjhey-dar-1971.html,"جاوید بسامکوا ایک درخت پر بیٹھا تھا کہ اس نے نیچے سے لومڑی کو گزرتے دیکھا۔اس کے بڑے بڑے کان سیدھے کھڑے تھے اور بالوں بھری دُم لہرا رہی تھی۔کوے کو غصہ آگیا۔اُسے یاد آیا کہ کس چالاکی سے لومڑی نے اس سے پنیر کا ٹکڑا ہتھیا لیا تھا۔جب لومڑی دور چلی گئی تو اُس نے کائیں کائیں کرکے آسمان سر پر اُٹھانے کی کوشش کی،مگر دوسرے کوؤں نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔کچھ دیر بعد کوے نے ایک بکری کو آتے دیکھا۔وہ لنگڑا کر چل رہی تھی۔کوا اُڑ کر نیچے آگیا اور بولا:”بی بکری!تم اس طرح کیوں چل رہی ہو؟“بکری نے سر اُٹھا کر دیکھا،آہ بھری اور بولی:”لومڑی نے مجھے کنویں میں گرا دیا تھا۔میری قسمت اچھی تھی کہ وہاں ایک آدمی آگیا۔اس نے مجھے نکالا،مگر میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔(جاری ہے)“”اوہ․․․․․تم وہی بکری ہو؟“”ہاں بھائی!میں وہی بدنصیب ہوں۔“بکری ممیا کر بولی۔”مجھ سے ایک دفعہ لومڑی نے پنیر کا ٹکڑا چھین لیا تھا۔“کوا بولا۔”اچھا،پھر تو ہم میں دوستی ہو سکتی ہے،کیونکہ ہمارا دشمن ایک ہی ہے۔“”ہاں،بلکہ ہمیں ان سب جانوروں کو تلاش کرنا چاہیے،جنھیں لومڑی سے تکلیف پہنچی تھی۔“کوے نے کہا۔بکری نے گردن ہلائی اور بولی:”ایک دفعہ ایک مرغا بھی اس کا شکار بن گیا تھا۔لومڑی نے اُس کی اتنی چاپلوسی کی کہ وہ بے چارہ باتوں میں آگیا اور اپنی جان سے گیا۔“”کیا تم اس کے کسی رشتے دار کو جانتی ہو؟“کوے نے پوچھا۔”نہیں،مگر مجھے معلوم ہے مرغوں کی بستی کدھر ہے۔آؤ،وہاں چلتے ہیں۔“یہ کہہ کر بکری چل دی۔کوا اس کے سر پر اُڑنے لگا۔بہت دور چلنے کے بعد وہ مرغوں کی بستی میں پہنچے۔مرغوں کی بستی ان کی بانگوں سے گونج رہی تھی۔سارے مرغے ککڑوں کوں․․․․․ککڑوں کوں کر رہے تھے۔کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔دونوں بستی میں گھومتے رہے۔آخر انھیں ایک کمزور سا مرغا نظر آیا،جس کے پَر نُچے ہوئے تھے۔اس کے گلے میں پٹی بندھی تھی اور وہ بانگ نہیں دے رہا تھا۔بکری نے اس سے بات کی۔وہ ان کے ساتھ بستی سے باہر آگیا۔کچھ دور آکر کوے نے کہا کہ ہم لومڑی کے ستائے ہوئے لوگ ہیں اور اس مرغے کے رشتے داروں کی تلاش میں ہیں جسے لومڑی نے کھا لیا تھا۔مرغے کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔وہ اپنی کمزور آواز میں بولا:”وہ بدنصیب مرغا میں ہی ہوں۔“”لیکن ہم نے تو سنا تھا کہ لومڑی اُسے کھا گئی تھی؟“دونوں حیرت سے بولے۔”نہیں نہیں،میں اتفاق سے بچ گیا تھا،مگر اس حادثے کے بعد سے بیمار چلا آرہا ہوں۔“مرغا بولا۔”اچھا ہوا تم مل گئے۔ہم لومڑی سے بدلہ لینے نکلے ہیں۔“کوے نے کہا۔”میں تمہارے ساتھ ہوں۔“مرغا خوش ہو کر بولا۔”چلو ایسی جگہ چلتے ہیں جہاں ہماری باتیں کوئی اور نہ سن سکے۔“بکری بولی۔تینوں چل دیے۔چلتے چلتے وہ انگوروں کے باغ میں پہنچے اور ایک دیوار کے سائے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔اچانک آواز آئی۔کوئی کہہ رہا تھا:”لومڑی کے ستائے ہوئے صرف تم نہیں ہو،میں بھی ہوں۔“انھوں نے اِدھر اُدھر دیکھا،مگر کوئی نظر نہیں آیا۔وہ خوف زدہ ہو گئے۔آواز پھر آئی:”ڈرو مت،میں وہ انگور کا گچھا ہوں جس کے بارے میں لومڑی کا خیال تھا کہ وہ کٹھے ہیں۔“یہ کہہ کر انگوروں کا ایک گچھا کود کر نیچے آگیا۔تینوں اسے دیکھ کر خوشی سے کھل اُٹھے۔کوا بولا:”ہماری طاقت بڑھتی جا رہی ہے۔اب لومڑی ہم سے نہیں بچ سکتی۔“چاروں نے مل کر نعرہ لگایا:”بی لومڑی!آگیاتمہارا بُرا وقت۔“وہ دیر تک جوشیلے نعرے لگا کر اپنا لہو گرماتے رہے،پھر کوے نے تقریر کی:”میرے دوستو!لومڑی بہت طاقتور ہے۔ہمیں اس سے نمٹنے کے لئے اتحاد کرنا ہو گا۔ہم مل کر اسے شکست دے سکتے ہیں۔جب سارے تنکے آپس میں ملتے ہیں تو مضبوط جھاڑو بن جاتی ہے۔ہم بھی مل کر لومڑی کا ستیاناس کر دیں گے۔“سب نے تائید کی،پھر کوا سرگوشی میں بولا:”اچھا اب آپ لوگ میرا منصوبہ سنیں۔پہلے ہم لومڑی کی نگرانی کریں گے،تاکہ پتا چل سکے کہ وہ کس وقت اپنے ٹھکانے سے باہر آتی ہے؟دن بھر کس کس سے ملتی ہے اور اسے کھانے میں کیا پسند ہے؟جب یہ معلوم ہو جائے گا تو ہم اپنا اگلا منصوبہ بنائیں گے اور لومڑی کو اس کے کیے کی سزا دیں گے۔”مگر لومڑی کی نگرانی کون کرے گا؟“مرغے نے پوچھا۔”پہلے بکری کو یہ خدمت انجام دینی ہو گی۔“کوا بولا۔اگلے دن بکری جھاڑیوں میں چھپ کر لومڑی کی نگرانی کر رہی تھی۔شام کو جب وہ انگور کے باغ میں آئی تو بہت غصے میں تھی۔وہ کوے سے لڑنے لگی:”تم عجیب احمق کوے ہو۔میرا سارا دن ضائع کر دیا۔بھلا بتاؤ یہ کوئی بات ہے کہ لومڑی کب باہر آتی ہے،کس سے ملتی ہے،کیا کھاتی ہے؟ارے بھائی وہ جانور ہے،کوئی انسان نہیں۔“”تو کیا تم نے اس کی نگرانی نہیں کی؟“کوے نے پوچھا۔”کی،ضرور کی،مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔“بکری چلائی۔”فائدہ ہو گا۔جب ہمیں یہ معلومات ہو جائے گی تو ہم اسے کسی ایسی جگہ لے جا کر مار سکتے ہیں،جہاں کوئی گڑھا یا کنواں ہو۔اس کے کسی دوست کو اپنے ساتھ ملا کر اس کے کھانے کی پسندیدہ چیز میں زہر ملا سکتے ہیں۔“کوا غصے سے بولا۔”تو سنو عقل مند کوے!وہ کوئی خاص جگہ پر نہیں رہتی،بس خوراک کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھومتی رہی،اس نے کسی سے ملاقات نہیں کی،کیونکہ اس کا کوئی بھی دوست نہیں،اسے جو کچھ کھانے کو ملا،اس نے کھا کر خدا کا شکر ادا کیا۔اب بتاؤ تم کیا کرو گے؟“کوے نے اپنا سر پیٹ لیا اور بولا:”تم بہت لڑاکا بکری ہو۔“”کیوں نہ ہم مل کر نگرانی کریں۔“مرغے نے صلاح دی۔انگوروں کے گچھے نے بھی اس بات کی تائید کی۔آکر فیصلہ ہوا کہ کل سب مل کر نگرانی کریں گے۔اگلے دن چاروں لومڑی کے بھٹ کے قریب چھپے ہوئے تھے،مگر وہی ہوا۔وہ بار بار باہر آتی اور اِدھر اُدھر منہ اُٹھا کر چل دیتی۔کچھ جانوروں سے وہ لڑی،کچھ سے جان بچا کر بھاگنا پڑا۔شام ہوئی تو وہ تھکے ہارے انگور کے باغ میں پہنچے۔سب بھوکے اور غصے میں تھے۔بکری چلائی:”اب تمہیں یقین آیا کہ میری بات غلط نہیں تھی۔“مرغا بولا:”تمہارا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے۔“”تو تم کوئی ترکیب کر و۔“کوا جل کر بولا۔”میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔“بکری چیخی۔”ہاں اور میں تو جیسے سارا دن دعوت اُڑاتا ہوں۔“کوا بولا۔”بھوک سے میری آنتیں قلابازیاں کھا رہی ہیں۔“یہ کہہ کر مرغا اچانک انگور کے گچھے پر جھپٹا۔کوا بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔وہ بھی میدان میں کود پڑا۔انگور کے گچھے نے بھاگنے کی کوشش کی،مگر بکری نے فوراً ہی منہ مارا۔غرض ذرا سی دیر میں انگور کا گچھا تینوں کے پیٹ میں پہنچ گیا۔پھر بکری نے لنگڑاتے ہوئے اپنی راہ لی۔کوا ہوا میں اُڑان بھر گیا۔اور مرغے نے ککڑوں کوں کرنے کی کوشش کی،مگر ناکام ہوا تو سر جھکا کر چل دیا۔یوں جلد بازی اور لڑنے کی وجہ سے تینوں اپنے مقصد میں ناکام ہوئے۔اسی لئے کہتے ہیں لڑنا اچھی بات نہیں ہے۔ " ابھی نہیں - تحریر نمبر 1970,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/abhi-nahi-1970.html,"عشرت جہاںراحیل نے بازار سے آکر سبزی کا تھیلا باورچی خانے میں رکھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔”ارے بھئی یہ راحیل کہاں ہے؟مجال ہے یہ لڑکا کوئی کام ڈھنگ سے کر لے۔باقی سامان کہاں رکھ دیا۔“باقی سامان ابو نے لاؤنج میں رکھ دیا تھا۔مہینے کے ابتدائی دنوں میں راحیل باقاعدگی سے ابو کے ساتھ بازار جانے لگا تھا،تاکہ سامان کے ساتھ اپنا پسندیدہ رسالہ بھی خرید سکے۔”بہت افسوس کی بات ہے تم یہاں رسالہ پڑھ رہے ہو اور ابو․․․․“نوشین آپی کے لہجے میں حسب معمول طنز چھپا تھا:”رکھو اسے ایک طرف اور پھر باقی سامان اُٹھا کر لاؤ۔“انھوں نے حکم دیا۔”آپ اُٹھا لائیں۔اب میں نہیں اُٹھوں گا۔“اس نے چِڑ کر جواب دیا۔(جاری ہے)”اچھا اب تم یوں جواب دو گے۔“آپی رسالہ جھپٹنے کو آگے بڑھیں۔راحیل اُچھل کر کھڑا ہوا اور رسالہ اُٹھائے باہر نکل آیا۔نوشین آپی دانت پیس کر رہ گئیں۔راحیل پڑھتے پڑھتے تھک گیا تھا،اس لئے مسہری پر لیٹ کر کل کا پروگرام ذہن میں ترتیب دینے لگا۔”کتابیں کاپیاں کھلی پڑی ہیں اور جناب آرام فرما رہے ہیں۔“یہ آپی کی آواز تھی۔راحیل کی آنکھیں بند تھیں،لیکن کان کھلے تھے۔”ہوم ورک بھی مکمل نہیں ہوا۔“آپی نے حساب کی نوٹ بک اُٹھا کر دیکھی۔”تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔ذرا دیر بعد کر لوں گا۔“وہ اُٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔”یہ ادھورا کام․․․“انھوں نے کاپی لہرائی۔”آپی!سر میں درد ہو رہا تھا اس لئے․․․․“”سر درد کا صرف بہانہ ہے،اُٹھ کر کام مکمل کرو۔“انھوں نے غصے سے گھورا۔”کر لیتا ہوں ابھی۔“راحیل کے لہجے میں بے زاری تھی۔”میں کہہ رہی ہوں فوراً اُٹھو اور ابھی ختم کرو۔“”نہیں کروں گا․․․اب نہیں کروں گا۔“وہ جھنجھلا کر بولا۔”دیکھتی ہوں ،کیسے نہیں کرو گے۔“آپی کان پکڑنے کو آگے بڑھیں۔”دیکھتا ہوں کیسے کروائیں گی۔“انھی کے انداز میں جواب دیتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکل آیا۔”راحیل!تمہیں دادی جان بلا رہی ہیں،ان کی بات سن لو۔“امی نے راحیل کو باہر جانے کے لئے تیاری کرتے دیکھا تو کہا۔”جی اچھا۔“کہتے ہوئے اس نے جوتے کے تسمے باندھے اور دادی جان کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔”السلام علیکم دادی جان!آپ بلا رہی تھیں۔“”وعلیکم السلام میرا بیٹا تیار ہو کر آیا ہے۔“دادی جان نے پیار کیا۔یہ لو دواؤں کی پرچی اور جلدی سے لے آؤ۔“”آپ کی دوائیں ختم ہو چکی دادی جان؟“”نہیں ابھی ختم نہیں ہوئیں،سوچا اس سے پہلے ہی منگوا لوں۔“دادی جان ہر کام وقت سے پہلے کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔”دادی جان!ابھی تو مارکیٹ بھی نہیں کھلی ہو گی،دس بج رہے ہیں۔“راحیل کے ہاتھ میں دواؤں کا پرچا تھا۔”ارے بھئی دیکھنے میں کیا حرج ہے،یوں گئے یوں آئے۔“”لیکن دادی جان!عالیان باہر کھڑا ہے اور ہم لوگ کل کے میچ کی تیاری کر رہے ہیں۔“”ایک تو تم لوگوں کے سیر سپاٹے ختم نہیں ہوتے۔“دادی جان خفگی سے بولیں،جاؤ اور پہلے یہ کام کرو۔“راحیل خاموشی سے باہر نکل آیا۔”امی!ابھی تو میں عالیان کے ساتھ جا رہا ہوں دادی جان کی دوائیں بعد میں لا دوں گا۔“راحیل نے پرچا امی کے پاس کچن شیلف پر رکھ دیا۔”پہلے گھر کا کام کرو،پھر دوستوں کے ساتھ مٹر گشت کرنا۔“امی نے جھاڑ پلا دی۔”ارے بھئی،کیا ہوا صبح صبح چائے کی جگہ ڈانٹ پلائی جا رہی ہے بیٹے کو۔“ابو جان نے اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔”ابو جی باہر عالیان میرا انتظار کر رہا ہے اور․․․“ابو جی کی ہمدردی پا کر راحیل بول پڑا۔”ہر کام کو جواب دے دیتے ہیں صاحب زادے ابھی نہیں بعد میں․․․“امی نے آخر میں اس کے لہجے کی نقل اُتاری۔”آپ لوگ بھی تو بچے کے ساتھ بچہ بن رہے ہیں۔“ابو بولے:”جاؤ بیٹا!عالیان انتظار کر رہا ہے باقی کام بعد میں۔“ابو کی اجازت پا کر راحیل خوشی خوشی چلا گیا۔”ہم بچوں کو زبردستی ذمے دار نہیں بنا سکتے بیگم!اگر اس وقت بچے کا کسی کام کا موڈ نہیں ہے تو اس کے مزاج کو سمجھیں۔پہلے اس کی ایک بات ماں لیں پھر اپنی دس باتیں منوا لیں اور کچھ ہو نہ ہو،زبردستی کی اس کوشش میں ہم انھیں ضدی اور ہٹ دھرم ضرور بنا دیتے ہیں۔“امی جان خاموشی سے بات سنتے ہوئے بیٹے کے ساتھ اپنے رویے پر غور کرنے لگیں۔ " اصل روپ - تحریر نمبر 1969,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/asaal-roop-1969.html,"حفصہ فیصلوسیم ایک بڑے صنعت کار طفیل ربانی کا پندرہ سالہ نوجوان بیٹا تھا،جو مہم جو مزاج کا مالک تھا۔مختلف کھنڈرات کا دورہ کرنا،خزانوں اور نوادرات کی تلاش اس کا شوق تھا۔پیسے کی فراوانی تھی۔والد بزنس میں مصروف ہوتے،جبکہ والدہ نے ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کر رکھی تھی،جہاں وہ مصروف رہتیں۔کچھ دن پہلے وسیم کی ملاقات پروفیسر نجمی سے ہوئی۔پروفیسر صاحب نوادرات جمع کرنے کے شوقین تھے۔وسیم اکثر ان سے ملتا رہتا تھا۔ایک دن وہ پروفیسر صاحب کے گھر ان سے باتیں کر رہا تھا کہ اچانک پروفیسر صاحب نے کہا:”نویلا کے جنگلات کے اندر ایک پرانا قلعہ ہے۔اس قلعے کے عقبی حصے میں بیش قیمت نوادرات دفن ہیں،اگر کسی طرح وہ نوادرات حاصل ہو جائیں،تو ہمارے دن پھر جائیں گے۔(جاری ہے)ان نوادرات کی قیمت کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔اگر ہم نے کسی غیر ملکی عجائب گھر کو وہ نوادرات بیچ دیے تو دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہمارا شمار ہو گا۔“وسیم حیران ہو کر پروفیسر نجمی کی باتیں سن رہا تھا:”لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ نویلا کے جنگلات دراصل سانپوں کی آماجگاہ ہیں۔سمجھو،وہاں تمہیں قدم قدم پر سانپ ہی سانپ ملیں گے۔“وسیم کو ایک لمحے کے لئے اپنے سارے جسم پر سرسراہٹ کا احساس ہوا،ساتھ ہی پروفیسر نجمی کی شخصیت بھی پُراسرار سی لگی۔”کیا ہوا بھئی؟ابھی سے ڈر گئے؟”پروفیسر صاحب نے اسے غور سے دیکھا۔”نہیں،نہیں تو!میں کسی سے نہیں ڈرتا۔“وسیم جوش سے بولا۔”شاباش میرے شیر!“یہ سن کر پروفیسر کو بہت خوشی ہوئی۔”اب تمہیں میں ایک دکان کا پتا بتاتا ہوں،جہاں سے تمہیں سانپوں سے بچاؤ کا لباس خریدنا ہے۔تھوڑا مہنگا ہو گا،مگر تمہاری حفاظت خوب کرے گا۔“”یہ میں آج ہی خرید لوں گا۔“”ٹھیک ہے،پھر جاؤ اور تیاری کرو،کل تمہیں اس مہم پر روانہ ہونا ہے۔“نویلا کے جنگلات کو گوگل میپ (Google Map) پر تلاش کرتا ہوا وسیم اپنی کار میں آگے بڑھ رہا تھا۔والدین گھر پر نہیں تھے،اس لئے گھر کے پرانے ملازم خان بابا کو نویلا جنگل کے بارے میں بتا کر روانہ ہو گیا۔وسیم بے حد پُرجوش تھا۔اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ نوادرات سے بھرا صندوق ابھی اس کے سامنے آجائے گا اور وہ اسے لے اُڑے گا،لیکن آگے راستہ بہت دشوار تھا۔ایک سرسراتا ہوا سانپ جنگل کی ابتداء میں ہی اچانک نظر آگیا تھا،جو اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔وسیم نے ایسا نیلا سانپ اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔اسے پروفیسر کی بات یاد آگئی کہ نیلے سانپ مکمل زہریلے ہوتے ہیں،یعنی ان کی نس نس میں زہر بھرا ہوتا ہے۔اس کے ذہن میں بے شمار سوالات جنم لے رہے تھے۔اس نے ’اسپارک گن“ سے سانپ کا نشانہ لیا،مگر اسپارک کی چنگاری نے بھی سانپ کا کچھ نہ بگاڑا۔وسیم نے سوچا کہ یہاں سے بھاگ جائے،لیکن پھر پروفیسر نجمی کے سامنے اپنی بے عزتی کا خیال آڑے آگیا۔ارے سانپ کہاں گیا؟وسیم نے آنکھیں ملیں،لیکن اب وہاں کسی سانپ کا نام و نشان نہ تھا۔”چلو بلا ٹلی“وسیم خوشی سے بولا،لیکن اچانک رسی کا پھندا،وسیم کے گلے میں آیا اور وسیم کا دم گھٹنے لگا،وہ جان توڑ رسی کے پھندے سے خود کو چھڑانے لگا اور یہ دیکھ کر اس کے حواس گم ہو گئے کہ جسے وہ رسی سمجھ رہا تھا،وہ سانپ تھا جو اس کے گلے میں پھندا بنا ہوا تھا۔اگلے ہی لمحے خوف سے وسیم کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔”آخر وسیم کدھر گیا ہے؟رات ہو گئی،وہ اب تک نہیں لوٹا،تم کیسی ماں ہو جس کو اپنے بیٹے کی خبر نہیں؟“طفیل صاحب اپنی بیگم کو ڈانٹ رہے تھے۔”وہ صرف میرا ہی نہیں آپ کا بھی بیٹا ہے۔“بیگم طفیل نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔”صاحب!وسیم میاں،نویلا کے جنگلات کی طرف گئے ہیں۔“خان بابا نے انکشاف کیا۔”یہ،یہ کون سے جنگلات ہیں اور کہاں ہیں؟“بیگم نے سوالی لہجے میں کہا۔”یہ لڑکا اور اس کی مہم جوئی․․․․ہم سب کو کسی دن لے ڈوبے گی۔“طفیل صاحب بولے۔”چھوٹے صاحب اپنی کار پر گئے ہیں۔“ملازم نے بتایا کار میں ٹریکر لگا تھا،اس لئے انھوں نے فوراً ٹریکر کمپنی کو فون کیا۔طفیل صاحب پولیس موبائل کے ساتھ نویلا کے جنگل کے باہر کھڑے تھے ،وسیم کی کار بھی وہاں موجود تھی،مگر وسیم کا کچھ پتا نہیں تھا۔طفیل صاحب دیوانہ وار جنگل کی طرف بڑھے،لیکن اسی لمحے ان کے موبائل فون کی گھنٹی بجی:”بیٹے کے لئے بہت پریشان ہیں،طفیل صاحب!“”کون،کون ہو تم؟کہاں ہے میرا بیٹا؟“”بیٹے سے بھی ملوائیں گے۔سنا ہے آپ کا بیٹا اکلوتا ہے۔“”کیا،کیا چاہیے تمہیں؟“طفیل صاحب بے صبری سے بولے۔”فقط بیس کروڑ!“”بیس کروڑ!“طفیل صاحب نے دہرایا۔انسپکٹر جامی جو طفیل صاحب کے ساتھ ہی کھڑے تھے ،ساری گفتگو سن اور سمجھ چکے تھے۔فون بند ہو چکا تھا۔طفیل صاحب کی حالت خراب ہو رہی تھی۔انسپکٹر جامی نے انھیں دلاسا دیا۔فون کرنے والے کے نمبر کو ٹریس کیا گیا،لیکن وہ نمبر ٹریس نہ ہوا۔”جہاں تک میرا اندازہ ہے،وسیم اسی جنگل میں موجود ہے۔“انسپکٹر جامی نے تجزیہ کیا۔پھر ایک افسر سے کہا:”حوالدار!مزید نفری بلاؤ۔ابھی جنگل کا محاصرہ کرنا ہے۔“”نہیں انسپکٹر!وہ میرے بیٹے کی جان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔“#’#’آپ بے فکر رہیں طفیل صاحب!وسیم کو کچھ نہیں ہو گا۔“”جنگل کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے۔وسیم کو لے کر باہر نکل آؤ،ورنہ انتہائی سخت کارروائی کی جائے گی۔“اعلان وقفے وقفے سے تین بار کیا گیا،لیکن کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔”ہم آخری بار تنبیہ کر رہے ہیں،دس تک گنتی گنی جائے گی،باہر آجاؤ،ورنہ نقصان اُٹھاؤ گے۔“پتوں کے سرسرانے کی آواز پر سب کی نگاہیں اس سمت اُٹھیں،جہاں سے پروفیسر نجمی اپنا حفاظتی لباس پہنے جنگل سے بہار آرہے تھے۔ان کی نشاندہی پر چند سپاہی بے ہوش وسیم کو اسٹریچر پر ڈال کر لے آئے۔سب لوگ اسے لے کر اسپتال پہنچے۔وسیم کو ہوش میں آتا دیکھ کر طفیل صاحب بیٹے کی جانب لپکے:”کیسا ہے میرا بیٹا!“##”پاپا!میں یہاں!وہ جنگل․․․․․پروفیسر․․․․․․نوادرات․․․․سانپ“وسیم اٹک اٹک کر بول رہا تھا۔”سب جھوٹ تھا بیٹا!اس پروفیسر نے تمہیں اپنی باتوں کے جال میں پھنسا کر اغوا کرنے کی کوشش کی تھی،وہ بیس کروڑ روپے کا مطالبہ کر رہا تھا۔یہ تھا اس کا اصل روپ۔پولیس کے بروقت اقدام اور اللہ کے فضل نے تمہیں بچا لیا۔مجھے معاف کر دو،میرے بیٹے!مجھے معاف کردو،پیسے کمانے کی دھن میں،میں اپنا فرض فراموش کر بیٹھا تھا۔“”مجھے بھی معاف کر دو میرے بیٹے!“بیگم طفیل بھی پیچھے سے شرم سار ہو کر آگے آئیں۔”نہیں،نہیں امی،پاپا!مجھے شرمندہ نہ کریں،میں نے بھی اس شوق کو اپنے سر پر حد سے زیادہ سوار کر لیا تھا۔“تینوں کی آنکھوں میں خوشی اور ندامت کے آنسو تھے۔ " عید کارڈ - تحریر نمبر 1968,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/eid-card-1968.html,"نذیر انبالویدادی جان کے پاس مفید باتوں اور یادوں کی ایک پٹاری تھی۔جب بھی وقت ملتا،انعم اور عمر دادی جان کے پاس بیٹھ جاتے۔دادی قصے سناتی جاتیں اور وہ پوری توجہ سے سنتے رہتے۔دادی جان کے پاس ایک ڈائری تھی،جس میں اچار،مربہ جات اور مختلف چیزوں کی چٹنیاں بنانے کی ترکیبیں لکھی ہوئی تھیں۔ایک بڑا سا البم بھی تھا،جس میں تصاویر کے ساتھ ساتھ بہت سے عید کارڈ بھی تھے۔عید کارڈ بہت خوبصورت تھے۔کسی کارڈ پر قدرتی مناظر تھے اور کسی پر سنہرے حروف لکھے ہوئے تھے۔دادی جان نے ایک سبز رنگ کا عید کارڈ دکھاتے ہوئے کہا:”بچو!یہ تمہارے تایا جان کا بھیجا ہوا ایک عید کارڈ ہے۔“”تایا جان کا بھیجا ہوا عید کارڈ۔“عمر نے عید کارڈ ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔(جاری ہے)کارڈ کے اندرونی صفحہ پر نہایت خوش خط لکھا ہوا تھا:پیاری امی جان!پیارے ابو جان!عید کے پُرمسرت موقع پر میری طرف سے دلی عید مبارک قبول کیجیے۔آپ کا پیارا بیٹاتوفیق احمددادی جان نے بتایا کہ جب تمہارے تایا ابو پڑھنے کے لئے شہر گئے تو انھوں نے ہاسٹل سے یہ عید کارڈ بھیجا تھا۔انعم نے اپنے اسکول کے زمانے میں ایسے عید کارڈ دیکھے تھے،مگر پھر موبائل فون کا استعمال زیادہ ہونا شروع ہوا تو عید کارڈ منظر سے غائب ہو گئے۔عمر نے اسی دور میں آنکھ کھولی تھی کہ موبائل فون پر فیس بک یا واٹس ایپ پر عید کی مبارک باد دینے کا رواج ہو گیا۔دادی جان کے البم میں اور بھی بہت سے عید کارڈ تھے۔ان عید کارڈوں کو دیکھ کر ایک خیال عمر کے ذہن میں آیا۔اس خیال کے آتے ہی اس نے انعم آپی سے کہا:”میں چاہتا ہوں کہ اپنی ڈرائنگ کا امتحان لوں،اپنے ہاتھ سے عید کارڈ بناؤں اور سب کو عید کی مبارک باد دوں،کیا اس کام میں آپ میری مدد کریں گی؟“آپی نے کہا:”میں تمہاری بھرپور مدد کروں گی۔تم عید کارڈ بناؤ گے اور میں دادی جان کی ڈائری میں درج کسی ایک چیز کی چٹنی بنانے کی کوشش کروں گی۔“”یہ تو بہت اچھی بات ہے۔“دادی جا ن نے دونوں کی باتیں سن لی تھیں۔انعم آپی اور عمر اپنے اپنے کام میں جت گئے۔عمر بہت سے رنگین کاغذ اور مارکر لے آیا۔آپی نے دادی جان سے مشورہ کرنے کے بعد خوبانی اور آلو بخارے کی چٹنی بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔امی جان کو بھی علم ہو گیا تھا کہ بچے دادی جان کے کمرے میں بیٹھ کر کوئی اہم کام کر رہے ہیں۔ دونوں نے دادی جان کی نگرانی میں عمدہ انداز میں اپنا کام مکمل کیا۔دادی جان نے عمر کے بنائے ہوئے عید کارڈ کو دیکھا۔سبز اور پیلے رنگ کا کارڈ بہت خوب صورت دکھائی دے رہا تھا۔رمضان المبارک کا آغاز ہوا تو پہلے روزے کے افطار پر میز پر جہاں اور مزے مزے کی کھانے کی چیزیں تھیں،وہیں آپی کی بنائی خوبانی کی مزے دار چٹنی بھی تھی۔ابو جان کے ساتھ ساتھ سب نے چٹنی کی خوب خوب تعریف کی۔ابو جان نے آپی کو پانچ سو روپے انعام دیتے ہوئے کہا:”اب یہ مزے دار کام گھر میں جاری رہنا چاہیے۔“عمر میاں نے اپنے بنائے عید کارڈ رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں ڈاک کے ذریعے بھیج دیے تھے۔ماموں جان بحرین میں اور پھوپھو قدسیہ ملتان میں عید کارڈ ملنے پر بہت خوش تھیں۔تایا جان اور چچا جان کے ساتھ ساتھ عمر نے امی جان اور ابو جان کو الگ الگ عید کارڈ دیے۔ایک خوب صورت کارڈ اپنے شفیق استاد،سر اجمل کو بھی بھیجا۔سب کو عمر کے بنائے عید کارڈ بہت پسند آئے تھے۔چاند رات کو عمر نے دادی جان کے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔”عمر میاں!اندر آجاؤ۔“عمر جب کمرے میں داخل ہوا تو اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت عید کارڈ تھا۔اس نے نہایت ادب سے کہا:”دادی جان!یہ عید کارڈ آپ کے لئے ہے۔“دادی جان نے عید کارڈ لیتے ہوئے محبت سے عمر کے سر پر ہاتھ رکھا۔عید کارڈ دیکھ کر دادی جان بولیں:”واہ،بہت عمدہ عید کارڈ ہے،میں اسے اپنے البم میں لگاؤں گی،ایک عرصہ کے بعد کوئی نیا عید کارڈ البم میں لگے گا۔جیتے رہو،عمر میاں!“آپ کا بھی شکریہ امی جان!“یہ آواز عمر کے ابو کی تھی۔ان کے ہاتھ میں عمر کا بنایا ہوا عید کارڈ تھا۔دادی نے کہا:”میرے بچو!دور جدید کی چیزوں سے تعلق ضرور رکھنا چاہیے،لیکن ماضی کی اچھی روایات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔عمر میاں نے بہت کم پیسے خرچ کرکے ہمیں اپنے ہاتھوں سے جو عید کارڈ بنا کر دیے ہیں،اس سے اخلاص،محبت اور تعلق کا احساس ہوتا ہے۔“دادی جان کی باتیں سن کر عمر بولا:”دادی جان!ایسا صرف اور صرف آپ کی وجہ سے ہوا ہے،انشاء اللہ ہمارے گھر میں یہ روایت قائم رہے گی۔ " علم کی دولت(آخری حصہ) - تحریر نمبر 1967,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ilm-ki-daulat-akhri-hissa-1967.html,"خالد حسین رضاجب بادشاہ آیا اور دربار کے تخت پر بیٹھا جس کے ساتھ ملکہ اور شہزادی بھی آگئے تو بادشاہ نے شہزادی کو اپنے سوال کرنے کی اجازت دی جس پر شہزادی اٹھی اور اپنا پہلا سوال کچھ یوں کیا کہ اس نے اپنی شہادت کی انگلی اوپر کی جانب بلند کر دی اور علی کی جانب دیکھنے لگی علی کچھ لمحے رکا اور کچھ سوچ کر اٹھا اور اپنی شہادت کی انگلی اور اس کے ساتھ والی دوسری انگلی بھی ہوا میں بلند کر دی یہ دیکھ کر شہزادی مسکرائی اور والدہ کو دیکھ کر سر کو ہاں میں ہلا دیا مطلب جواب صحیح ہے تو ملکہ نے کہا کہ خوب علی نے درست جواب دیا ہے یہ سن کر حاضرین بہت خوش ہوئے اور علی کو شاباش دی۔اب شہزادی نے دوسرے سوال کے لئے ایک تلوار منگوائی اور تلوار کو ہوا میں بہت تیزی سے چلایا اس کے بعد وہ اپنی نشست پر جا کر بیٹھ گئی۔(جاری ہے)اب تمام کے تمام لوگ حیران ہو گئے کہ یہ کیسا سوال ہے اور علی اس کا کیا جواب دے گا۔تمام نگاہیں علی کی جانب مرکوز ہو گئی اس دوران علی کچھ دیر سوچتا رہا اور اٹھ کر اپنی جیب سے قلم کو باہر نکال کر ہوا میں لہرا دیا یہ دیکھ کر شہزادی نے پھر خوشی سے اپنی والدہ کی جانب دیکھا اور ہاں میں سر ہلا دیا تو ملکہ کی جانب سے بہت پرجوش اور خوشی سے بھرپور آواز آئی کہ اس نے درست جواب دیا ہے یہ سن کر محل میں موجود جم غفیر کی جانب سے علی کو مبارک مبارک کی سدائیں سننے کو ملی اور تمام حاضرین یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ سوال کیا تھا اور جواب کیا کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کسی کو بھی۔اب تیسرے سوال کی باری تھی اور سب دعائیں مانگ رہے تھے کہ اللہ پاک علی کو اس تیسرے سوال پر بھی کامیابی عطا فرما،تیسرے سوال کے لئے شہزادی فروا اٹھی اور بھاگتی ہوئی دربار کی سیڑھیاں اتری اور اس طرح بھاگ کر سیڑھیاں اوپر چڑھی اور تھک کر اپنی نشست پر بیٹھ کر علی کی جانب دیکھنے لگی اب تو علی کو بھی پسینہ آنے لگا اور کچھ گھبرا گیا لیکن بڑے تحمل سے اٹھا اور سوچتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھ دیا یہ دیکھ کر شہزادی بہت خوش ہو گئی اور شرما کر وہاں سے بھاگ گئی تو ملکہ نے مبارک باد کا اعلان کر دیا کہ مبارک ہو علی نے تینوں سوالات کے جواب درست دئیے ہیں اور شہزادی نے علی کو پسند کر لیا ہے یہ سن کر وہاں موجود لوگ بہت زیادہ خوشی کا اظہار کرنے لگے اور ساتھ ساتھ راز دارانہ سوالوں کے راز دارانہ جوابات کو سمجھنے کو بے قرار تھے یہ ہی حال بادشاہ کا بھی تھا تو اس نے علی کو بلایا اور مبارک باد دیتے ہوئے پوچھا کہ اب بتاؤ کہ شہزادی نے کیا پوچھا اور تم نے کیا جواب دیا تو علی نے یوں تفصیل سے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت شہزادی کا پہلا سوال شہادت کی انگلی ہوا میں بلند کرکے یہ پوچھا تھا کہ کیا تم اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہو تو میں نے جواب میں شہادت کی انگلی کے ساتھ دوسری انگلی کو بلند کرکے جواب دیا کہ ہاں میں اللہ اور اس کے رسول پر یقین رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ کو اپنا پروردگار ماننے کے ساتھ ساتھ اس کے بھیجے ہوئے آخری نبی پر یقین رکھتا ہوں یہ سن کر بادشاہ اور وہاں موجود تمام لوگ مطمئن ہو گئے کہ ہاں واقعی یہ درست جواب تھا:دوسرا سوال کچھ یوں تھا کہ شہزادی نے تلوار کو ہوا میں لہرا کر پوچھا تھا کہ کیا اس سے بھی کوئی مہلک یا خطرناک ہتھیار ہو سکتا ہے جس کے جواب میں میں نے اپنی جیب سے قلم نکال کر لہرائی کہ قلم کا وار تلوار کے وار سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے یہ جواب بھی سن کر بادشاہ سمیت تمام حاضرین حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگے کہ واقعی اس نے بہت عقلمندی سے مدبرانہ جواب دیا ہے۔علی نے کہا کہ تیسرا سوال شہزادی نے یہ پوچھا تھا کہ میں سیڑھیاں اُترنے اور چڑھنے سے تھک گئی ہوں لیکن میرے جسم کا ایک حصہ نہیں تھکا،تو میں نے جواب میں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ دل جسم کا ایسا حصہ ہے جو پیدائش سے لے کر مرتے دم تک نہیں تھکتا اور ہر وقت اپنے حصے کا کام کرتا رہتا ہے۔یہ سن کر بادشاہ نے بھرے دربار میں اعلان کیا کہ اے لوگوں گواہ رہنا کہ میں نے حق دار کو اس کا حق ادا کر دیا ہے اور میں نے اپنی جان سے زیادہ عزیز بیٹی کو ایسے شخص کے حوالے کر رہا ہوں جس کے پاس وہ دولت ہے جسے کوئی بھی ختم نہیں کر سکتا جتنا چاہے اس دولت کو استعمال کرے کم ہونے کے بجائے یہ دولت بڑھتی جائے گی اور وہ دولت علم ہے جسے کوئی چھین بھی نہیں سکتا اور لوٹ بھی نہیں سکتا اس لئے میں اپنی شہزادی کی شادی علی سے کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔دوستو واقعی علی کی دولت ایسی دولت ہے جسے جتنا بھی بانٹو وہ کم ہونے کے بجائے بڑھتی رہتی ہے اس لئے آپ سب سے التماس ہے کہ یہ دولت اکٹھی کرو اپنے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے۔ " جھوٹے بھکاری - تحریر نمبر 1966,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhoote-bhikari-1966.html,"رابعہ فاروقگداگری ایک قابل مذمت پیشہ ہے،جس کی ممانعت کی گئی ہے۔اب اس پیشے میں نئی جدتیں پیدا کی گئی ہیں۔میں آپ کو اپنی زندگی کے دو سچے واقعات سے آگاہ کرتی ہوں،شاید آپ کسی کے آگے بے وقوف بننے سے بچ جائیں۔کچھ ماہ پہلے میں بازار سے گھر آرہی تھی۔میں ایک رکشہ روک کر بیٹھ گئی۔دو تین منٹ کے بعد رکشے والا موبائل پر کسی سے باتیں کرنے لگا۔اس کی باتیں مجھے واضح سنائی دے رہی تھیں۔وہ کہہ رہا تھا:”یار!میں بہت سخت پریشان ہوں۔بیٹی کے جگر کا آپریشن ہے ملتان میں۔پیسہ کم پڑ رہا ہے،سب سے مانگا ہے،لیکن کوئی نہیں دے رہا۔بیٹے نے اپنی موٹر سائیکل بیچ دی ہے،لیکن پھر بھی پیسے پورے نہیں ہو رہے۔“یہ سن کر میرے دل میں رحم کے جذبات غالب آگئے۔(جاری ہے)جب رکشہ رکا تو میں نے کرائے کے علاوہ 200 روپے مزید دے دیے۔گھر آکر میں مطمئن تھی کہ آج بڑا نیکی کا کام کیا۔اس واقعے کے تقریباً ڈھائی ماہ بعد کی بات ہے کہ اتفاقاً پھر وہی رکشے والا مجھے نظر آیا۔اس بار بھی میں بازار سے گھر آرہی تھی۔میں اسی رکشے میں بیٹھ گئی۔میں نے اسے پہچان لیا تھا،لیکن وہ مجھے نہیں پہچان سکا۔ظاہر ہے اس کے رکشے پر روزانہ کئی لوگ بیٹھتے ہوں گے اور اس بات کو کچھ عرصہ بھی گزر گیا تھا۔بہرحال دو تین منٹ کے بعد رکشے والے نے اپنا موبائل نکالا اور کسی سے بات کرنے لگا۔میرے دماغ میں جھماکا ہوا۔وہ اسی انداز سے بالکل وہی باتیں کر رہا تھا:”یار!میں بہت پریشان ہوں۔بیٹی کا آپریشن ہے۔رقم کا انتظام نہ ہوا تو میری بیٹی مر جائے گی،وغیرہ وغیرہ۔“میں فوراً سمجھ گئی کہ یہ آدمی دھوکے باز ہے۔دل تو چاہا کہ یہیں پر اس کی بے عزتی کروں،لیکن تماشا بننے کے خیال سے چپ ہو گئی۔میں نے فوراً اسے رکشہ روکنے کا کہا اور اسے مناسب کرایہ دے کر دوسرے رکشے میں گھر چلی گئی۔ایک اور واقعہ سنیے:بقر عید کے موقع پر جب ہمارا بکرا ذبح ہو گیا تو امی نے سارا گوشت ایک بڑے تھال میں رکھوا دیا۔جو جو مانگنے والے آتے امی ان کو تھال سے گوشت اُٹھا کر دے دیتیں۔میں بھی امی کی مدد کر رہی تھی۔بقر عید ایسا موقع ہوتا ہے کہ کسی سوالی کو ٹھکرانا بُرا لگتا ہے۔کوشش یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ غرباء اور مستحق لوگوں تک گوشت پہنچے۔دروازے پر دستک ہوئی۔ایک عورت سفید سادہ برقع میں آئی۔گوشت مانگا میں نے امی کے ہاتھ سے لے کر اسے دے دیا۔تقریباً دو گھنٹے بعد کچھ فقیر عورتیں اکٹھی آگئیں اور گوشت مانگا۔ایک عورت کی آواز کچھ جانی پہچانی لگ رہی تھی۔میں نے کہا:”تم تو ابھی گوشت لے کر گئی تھیں۔“بہرحال کچھ بحث کے بعد ہم نے اسے دوبارہ گوشت دے دیا۔اس طرح وہ عورت کچھ دیر بعد کالے برقع میں آکے پھر گوشت لے گئی اور ایسے ظاہر کیا جیسے پہلی دفعہ آئی ہو۔گوشت تو تھا ہی ان لوگوں کے لئے،لیکن ایک ہی گھر سے کئی بار گوشت لے جانا درست نہیں لگتا۔یہ اضافی گوشت کسی اور ضرورت مند کے کام آجاتا۔صدقہ خیرات اور مال خرچ کرنے سے انکار نہیں،لیکن اگر کوشش کرکے یہ اطمینان کر لیا جائے کہ سوالی واقعی ضرورت مند ہے یا نہیں۔اس کی مدد کرنے سے خوشی بھی ہو گی اور ثواب بھی ملے گا۔ " قید - تحریر نمبر 1965,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qaid-1965.html,"یمنیٰ امجد،بہاول پور”السلام علیکم“بارہ سالہ عادل نے اپنے دوست نعمان کے گھر میں داخل ہو کر اس کی والدہ کو سلام کیا۔”وعلیکم السلام“نعمان کی امی نے جواب دیا۔”نعمان کدھر ہے خالہ!“”اوپر پرندوں کے پاس ہے۔جاؤ،اوپر ہی چلے جاؤ۔“انھوں نے جواب دیا۔”جی اچھا۔“کہہ کر وہ اوپر چلا گیا۔”بہت اچھے موقع پر آئے ہو عادل!دیکھو میں نے چڑیوں کا نیا جوڑا لیا۔“نعمان نے عادل کو دیکھتے ہی کہا۔نعمان کو پرندے پالنے کا بہت شوق تھا۔اس کے پاس بہت سارے پرندے تھے۔جب کہ عادل کا خیال تھا کہ پرندوں کو قید کرنا مناسب نہیں ہے۔”کتنا پیارا ہے ناں؟“نعمان نے فخر سے بتایا۔”ہاں اچھا ہے۔(جاری ہے)“عادل نے مختصر جواب دیا۔”کیا سوچ رہے ہو عادل!“عادل نے کہا:”نعمان!پرندے آزاد ہی اچھے لگتے ہیں ان کو قید کرنا ٹھیک نہیں۔“عادل نے ایک بار پھر نعمان کو سمجھانے کی کوشش کی۔”تم میرے اس شوق کو پسند نہیں کرتے؟“نعمان برہم ہو کر بولا۔”نہیں نعمان!اگر تمہیں کوئی قید کر دے تو تمہیں کیسا لگے گا؟“”کوئی مجھے کیوں قید کرے گا۔میں انسان ہوں اور وہ پرندے،پرندے خریدنے کے لئے ہی بازار میں ہوتے ہیں نا۔میں انھیں خرید سکتا ہوں اور خریدوں گا،تمہیں بُرا لگتا ہے تو تم نہ آیا کرو یہاں۔“آج خلاف معمول نعمان کا موڈ خراب ہو گیا۔”مجھے چلنا چاہیے۔امی انتظار کر رہی ہوں گی۔“عادل روہانسا ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا۔پورا دن نعمان کے ذہن میں عادل کی باتیں گونجتی رہیں۔بستر پر لیٹ کر بھی وہ یہی سوچتا رہا اور جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔نعمان اسکول سے واپس آرہا تھا۔دوپہر کا وقت تھا۔گلیاں سنسان تھیں۔وہ جلد از جلد اپنے گھر پہنچنا چاہتا تھا،مگر اچانک پیچھے سے کسی نے اس کی ناک پر کپڑا رکھ دیا۔اس کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ایک بڑے کمرے میں پایا۔ابھی اس کے حواس پوری طرح بحال نہیں ہوئے تھے کہ ایک دیونما آدمی اندر داخل ہوا اور اس کے سامنے کھانا رکھ کر چلا گیا۔نعمان کو بھوک نہیں تھی۔اسے اپنے امی ابو یاد آرہے تھے۔اس نے رونا شروع کر دیا اور روتا ہی چلا گیا۔”نعمان بیٹا!کیا ہوا؟“وہ رو رہا تھا جب اس کی امی کی آواز اس کے کانوں میں ٹکرائی۔اس کی آنکھ کھل گئی۔”کیا ہوا بیٹا!بُرا خواب دیکھا کیا؟“”جی امی!میں کسی کی قید میں تھا۔“”قید․․․․اوہو!“اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔”عادل!مجھے معاف کر دو۔“نعمان اگلے دن عادل سے معافی مانگ رہا تھا۔عادل نے خوشگوار حیرت سے اسے دیکھا:”ایسی کیا بات ہو گئی نعمان!“”آؤ،تمہیں ایک چیز دکھانی ہے۔“نعمان اسے کھینچتا ہوا اپنے گھرکی چھت پر لے آیا۔عادل نے دیکھا اس کی چھت پر پڑے تمام پنجرے خالی تھے۔اسے بہت حیرت ہوئی۔”سارے پرندے کہاں گئے؟“اس نے حیران ہو کر پوچھا۔”میں نے آزاد کر دیے۔“نعمان نے مسرت بھرے لہجے میں جواب دیا۔آدھے گھنٹے بعد دونوں دوست کافی پیتے ہوئے قہقہے لگا رہے تھے۔”نعمان!جو بات میں تمہیں ایک عرصے میں نہ سمجھا سکا،وہ بات تمہیں ایک خواب نے سمجھا دی۔“عادل نے ہنستے ہوئے کہا۔نعمان کا سر جھکا ہوا تھا۔ " معلومات - تحریر نمبر 1964,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maloomat-1964.html,"مہوش لطیفپیارے بچو!موبائل فون تو یقینا دیکھا ہو گا۔آپ کے پاس بھی اسمارٹ فون ہو گا جس پر انٹرنیٹ کے ذریعے گیم کھیلنے کے علاوہ لکھنے پڑھنے میں بھی مدد لیتے ہوں گے۔لیکن صرف آپ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں موبائل فون استعمال کرنے والے،اس کے موجد کے نام سے ناواقف ہوں گے۔1973ء تک لوگ گراہم بیل کے ایجاد کیے ہوئے فون کو مواصلاتی رابطے کے طور پر استعمال کرتے تھے جو اس نے 1876ء میں ایجاد کیا تھا۔لیکن یہ فون جو برقی تاروں کی مدد سے کام کرتا تھا،گھروں میں یا دفاتر کی میزوں پر ایک ہی جگہ رکھا رہتا تھا۔بیسویں صدی کے ساتویں عشرے میں امریکی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے انجینئر،”مارٹن کوپر“نے ایک ایسے مواصلاتی ذریعے کی ایجاد کی ضرورت محسوس کی جو بے تار و برق ہو،جس سے گھر کے باہر،سڑک،شہر،بیرون شہر یا دوسرے ممالک میں گفتگو کی جا سکے۔(جاری ہے)1973ء میں وہ وائرلیس فون ایجاد کرنے میں کامیاب ہوا اور اس نے 3 اپریل 1973ء کو اس کے ذریعے اپنی کمپنی کے لینڈ لائن فون پر پہلی کال کرنے کا تجربہ کیا۔اس کے ایجاد کیے ہوئے موبائل فون کا وزن دو کلو گرام تھا جب کہ اس کی لمبائی،ایک فٹ سے زیادہ تھی۔اس ایجاد پر تقریباً دس لاکھ ڈالر لاگت آئی۔اس فون کی بیٹری ٹائمنگ انتہائی کم تھی اور اس پر بہ مشکل 35 منٹ بات کی جا سکتی تھی جب کہ اُسے دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لئے 10 گھنٹے تک بیٹری کو چارج کرنا پڑتا تھا۔ان بیٹریوں میں سیل لگے ہوتے تھے۔1983ء تک اس کے حقوق صرف ایک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے پاس محفوظ تھے اور اس وقت موبائل فون کی قیمت چار ہزار ڈالر تھی۔جب کہ پاکستان میں اس جدید ایجاد کو صرف مالدار لوگ ہی خرید سکتے تھے۔چند سال بعد کئی موبائل ساز کمپنیاں وجود میں آگئیں،جس کے بعد اس کی قیمتیں کم ہوتی گئیں یہاں تک کہ آج ہر شخص اسے خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے۔موبائل فون ایجاد ہوئے تقریباً 48 سال ہو گئے ہیں۔نئی صدی کے پہلے عشرے تک ہمارے ملک میں”کی پیڈ“والا فون استعمال ہوتا تھا، جس سے گفتگو کے علاوہ پیغام رسانی بھی کی جاتی تھی۔چند سال بعد آس میں ساکت کیمرہ نصب کرکے جدت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔وقت کے ساتھ ساتھ موبائل فون کی ہیئت بھی تبدیل ہوتی گئی،ایک فٹ طویل اور وزنی سیٹ کی جگہ چھ انچ کے ہلکے فونز نے لے لی۔آج یہ اسمارٹ فون کی صورت میں ہر شخص کے ہاتھ میں نظر آتا ہے۔اس کے ذریعے آپ پوری دنیا میں موجود اپنے عزیزوں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔اس میں موجود ساکت اور مووی کیمرے کے ذریعے تصاویر اور ویڈیو فلمیں بنا کر انٹرنیٹ کی سہولت کے ذریعے دنیا میں کہیں بھی بھیج سکتے ہیں۔واٹس ایپ کے توسط سے ضروری معلومات منگوا سکتے ہیں اور انہیں اپنے کمپیوٹر پر منتقل کرکے استفادہ کر سکتے ہیں۔اب دنیا کی بیشتر کمپنیاں، موبائل فون کی مختلف ٹیکنالوجیز پر کام کر رہی ہیں،جس کے بعد ہمیں نئے ڈیزائن اور جدید ٹیکنالوجیز سے مزید فون دیکھنے کو ملیں گے۔ " علم کی دولت - تحریر نمبر 1963,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ilm-ki-daulat-1963.html,"خالد حسین رضاایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ملک فارس کا بادشاہ بہت پریشان اور دکھی تھا حالانکہ سارے ملک میں بہت خوشحالی تھی اور اس ملک کی عوام بہت سکھی اور خوش تھی اس کے باوجود بھی ملک کا بادشاہ پریشانی میں مبتلا تھا کیونکہ اس کی ایک ہی بیٹی تھی شہزادی فروا جس نے اپنی شادی کے لئے بہت کڑی اور حیران کن شرط رکھ دی تھی وہ شرط یہ تھی کہ جو بھی میرے تین سوالات کا جواب دے گا،میں اس سے ہی شادی کروں گی۔وہ شہزادی اکلوتی اور امیر ترین ملک کے بادشاہ کی بیٹی تھی اس لئے بہت سے ہمسائیہ ملکوں کے شہزادے،امیر ترین تاجروں اور بہت زیادہ طاقتور سرداروں کے بیٹے اپنی قسمت آزمانے آئے کہ ہم ان سوالات کے جواب دے کر شہزادی سے شادی کرکے ملک کا بادشاہ بنیں گے لیکن وہ تمام کے تمام ناکام لوٹ گئے اور ان سوالات کے جواب نہ دے پائے۔(جاری ہے)اسی فکر نے بادشاہ کو بیمار کر دیا اور وہ رو رو کر اپنے پروردگار سے دعائیں کرتا کہ اے میرے مالک تو ہم پر رحم فرما اور ہمارے لئے آسانیاں پیدا فرما،اس کے اپنے ملک میں رہنے والے ایک استاد کے بیٹے علی نے بھی اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور اپنے والد کے حضور اپنی درخواست رکھی اور اجازت مانگی تو اس کے والد نے جواب دیا کہ بیٹا دیکھو بہت سے شہزادے اور بڑے بڑے عہدوں والے ناکام لوٹ گئے ہیں اور اگر تم بھی کامیاب نہ ہوئے تو میرا نام خاک میں مل جائے گا کیونکہ بادشاہ کے بہت سارے وزیر اور اس ملک کا قاضی میرے شاگرد رہ چکے ہیں تو وہ کیا کہیں گے کہ ایک عالم اور استاد کا بیٹا ناکام ہو گیا ہے تو علی نے جواب دیا کہ ابا حضور جہاں اتنے بڑے بڑے لوگ ناکام ہو گئے اگر میں بھی کامیاب نہ ہوا تو کیا ہو گا لیکن میں اپنی قسمت ضرور آزماؤں گا۔بیٹے کی ضد کے آگے اس کے باپ نے رضا مندی ظاہر کر دی اور دعا کی کہ اے میرے مالک میرے بیٹے کو کامیابی عطا کرنا اور مجھے اور میرے دیئے ہوئے علم کو سرخرو کرنا یہ سن کر علی بہت خوش ہوا اور خوشی خوشی اس امتحان کی تیاری کرنے لگا۔علی کی محل میں جا کر سوالوں کے جواب دینے کی خبر پورے ملک میں پھیل گئی اور چرچا ہونے لگا کہ دیکھو ایک عالم اور استاد کا بیٹا بھی اپنی قسمت آزمانے لگا ہے تو کیا وہ کامیاب ہو گا یا دوسروں کی طرح ناکام لوٹے گا۔پورے ملک میں جشن کا سماں بن گیا۔مقررہ وقت پر محل میں اتنا رش ہو گیا کہ کہیں بھی جگہ خالی نظر نہیں آرہی تھی تمام وزراء اور امراء اپنی مخصوص کردہ نشستوں پر موجود تھے اور ایک طرف علی بھی اپنی مخصوص کردہ نشست پر بیٹھا تھا اور تمام کے تمام حاضرین بادشاہ،ملکہ اور شہزادی کے انتظار میں تھے۔(جاری ہے) " ننھی سی جان - تحریر نمبر 1962,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanhi-si-jaan-1962.html,"سیدہ فاطمہ جبیںیہ بہار کی ایک روشن اور مہکتی صبح تھی۔زندگی کے جھمیلوں اور مصروفیات میں ایسی صحیں بار بار نہیں ملتی۔میں اپنے گھر کے چھوٹے سے باغ میں کتاب پڑھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ چائے کی دل آویز خوشبو سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔اچانک مجھے محسوس ہوا کہ باغ کے کونے میں پودوں کے پیچھے کچھ کھٹ پھٹ سی ہے۔میں نے اُٹھ کر جونہی دیکھا تو ایک ننھی سی جان بہت ہی خوبصورت کسی پرندے کا بچہ زخمی حالت میں پودوں کے درمیان گرا ہوا تھا۔میں نے اسے جلدی سے اٹھا کر باغ میں پڑے ایک پنجرے میں ڈال دیا۔اب میں اس سوچ میں تھی کہ اسے خوراک کس طرح فراہم کی جائے کہ اب تو یہ میری ذمہ داری ہے۔آخرکار میں نے ہمت کی اور باجرے کا ایک ایک دانہ کرکے اس پرندے کے منہ میں ڈالتی گئی اور اسے پانی پلایا۔(جاری ہے)اور اس کے زخموں پر مرہم پٹی کی۔تب جا کے اس کی جان میں جان آئی۔اب میرا روز کا معمول بن گیا تھا۔میں اسے کھانا کھلاتی اور اس کے زخموں پر مرہم پٹی کرتی۔ایک دن میں نے پنجرے کا دروازہ کھولا تو اڑ کے دروازے پر بیٹھ گیا۔میں بہت خوش ہوئی کہ اب تو اس نے اڑنا بھی سیکھ لیا ہے۔ایک دن میں یونیورسٹی سے واپس آئی تو پنجرا خالی تھا۔میں بہت پریشان ہوئی۔میں نے اِدھر اُدھر اسے تلاش کرنے کی کوشش کی مگر نہیں ملا۔اڑ گیا کہ بلی کے ہتھے چڑھ گیا کچھ پتہ نہیں چلا۔اس دن میں بہت اداس تھی۔کہ میں اس ننھی سی جان کو دنیا کے حادثوں سے نہیں بچا سکی۔اور اسے آزاد کرنے کا شوق دل میں ہی رہ گیا۔ " ماہ صیام آیا خوشیوں کا پیغام لایا - تحریر نمبر 1961,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mah-e-sayyam-aya-khushiyon-ka-paigham-laya-1961.html,"راحیلہ مغلپیارے بچو!آج کل لاک ڈاؤن کی وجہ سے سکول بند ہیں اس لئے آپ سب گھروں میں محفوظ ہو کر وقت گزار رہے ہیں،کیونکہ پوری دنیا اس وقت ایک وباء کی زد میں ہے لہٰذا ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ گھروں تک محدود ہیں۔لیکن ان پریشانی کے دنوں میں ہم سب پر ایک بار پھر اللہ کا کرم ہو گیا کہ رمضان کا مہینہ شروع ہو گیا یہ دوسرا رمضان ہے جو ہم کورونا لاک ڈاؤن میں گزار رہے ہیں۔یہ مہینہ تو ویسے بھی برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے،دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے تو کیوں نہ ان کے لاک ڈاؤن کے دنوں میں ماہ رمضان میں بہت زیادہ عبادت کریں،نمازیں پڑھیں،قرآن پاک پڑھیں اور اپنے رب سے معافی مانگیں،استغفار پڑھیں اور اللہ سے دعا مانگیں کہ اس دنیا سے اس وباء کا خاتمہ فرما دے،آمین!پیارے بچو اب جبکہ رمضان المبارک کے مبارک دنوں کا آغاز ہو چکا ہے تو کیوں نہ آپ کو رمضان المبارک کی نعمتوں کے بارے میں بتایا جائے تاکہ ہم اس مہینے کی برکتوں کو زیادہ سے زیادہ سمیٹ سکیں۔(جاری ہے)پیارے بچو!اس مبارک مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا،جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دیگر الہامی کتابیں یعنی زبور،توراة اور انجیل بھی اسی مقدس مہینے میں نازل ہوئیں۔اس مہینے میں نیکیوں کی قیمت بڑھ جاتی،گناہ بخشوانا آسان ہو جاتا ہے،معصیت کی نکیل کھینچ لی جاتی ہے،جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیاطین بند کر لئے جاتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے ثواب کی اُمید کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا،اس کے تمام گزرے گناہ معاف کر دئیے گئے(بخاری)اور جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان میں قیام کیا،اس کے تمام گزرے گناہ مٹ گئے(بخاری و مسلم)بخاری شریف کی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ان آدم کا ہر عمل اس کے اپنے لئے ہوتا ہے،سوائے روزہ کے۔روزہ محض اللہ کے لئے ہوتا ہے اور اس کا بدلہ وہی دے گا اور روزہ وہ عمل ہے ،جس میں ریاکاری نہیں آتی۔یوں تو اس مبارک مہینے میں ہر قسم کے نیک اعمال کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔مگر چند امور ایسے ہیں،جن کا اہتمام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔اس مبارک مہینے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت سے قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کبھی اُن سے سنتے اور کبھی اُن کو سناتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں تو ہمیشہ صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے،خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلاتے تھے۔لیکن رمضان مبارک کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں رُکتی تھی،ہاتھ آتے ہی فوراً صدقہ کر دیتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حال یہ تھا کہ جب رمضان آجاتا تو کمر بستہ ہو جاتے خود بھی جاگتے اور اہل و اعیال کو بھی جگاتے۔رمضان کے آخری عشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف کیا کرتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کا قیام کیا،اس کے تمام گزرے گناہ معاف کر دئیے گئے۔آپ میں سے کئی بچے تو اس وقت یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اُن پر تو رمضان کے روزے ابھی فرض نہیں ہوئے تو پھر اتنی گرمی میں روزے کیوں رکھیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس مہینے میں جس قدر بھی عبادت اور ریاضت کی جائے اس کا پورا پورا اجر ملے گا۔پیارے بچو!رمضان المبارک ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ اسلامی تعلیمات پر پہنے خودکار بند ہو جاؤ پھر اسے دنیا میں عام کرو۔رمضان کے مبارک موقع پر اپنے بھائیوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ بد نصیب ہے وہ شخص جو رمضان کو پائے اور جنت نہ کما سکے۔آپ لوگ اگر ان باتوں پر عمل کریں گے یقینا آپ کا رمضان کا مہینہ تو اچھا گزرے گا ہی اس کے ساتھ ساتھ وباء کے دن بھی سکون سے گزر جائیں گے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔چونکہ رمضان ایک بار پھر ہم سب کی زندگیوں میں سایہ فگن ہو چکا ہے۔ایک اور رمضان مطلب ایک اور چانس خود کو بخشوانے کا،اللہ کا قرب پانے کا،نیکیاں کمانے کا،جی بھر کر نیکیاں کمانے کا یہی تو واحد مہینہ ہے جس کی ایک نیکی بے حد و حساب اجر کی مستحق گردانی جاتی ہے۔رمضان کا مہینہ واحد مہینہ ہے جس میں ڈپریشن انگزائٹی قرہب سے بھی نہیں گزرتا۔ایسا کیوں ہے؟کیونکہ رمضان امید کی بشارت ہے۔ مغفرت کی بشارت،خوشیوں کی نوید،دائمی خوشیوں کی نوید سناتا رمضان کا ہر لمحہ فرحت وا نبساط سے مزین ہوتا ہے یہ کھانے پینے کا مہینہ نہیں ہے۔اسے کھانے پینے کی نظر مت کریں۔اس کی ہر گھڑی سے فائدہ اٹھائیے۔مغفرت مانگیے۔جنت مانگیے۔ وہ جنت جس کا متقین سے وعدہ ہے۔وہ جنت جس کے ایک دروازے کا نام ریان ہو گا۔جہاں سے صرف کثرت سے روزے رکھنے والے ہی گزر سکیں گے۔اللہ ہمیں باب الریان سے گزرنے والا بنائے۔آمینماہ صیام آیا خوشیاں لایا۔سجدوں میں جانے سے پہلے دل کے بند دروا کیجیے۔تب بنے گا رمضان خوشیوں کا موسم بہار بھی اور نیکیوں کا موسم بہار بھی۔ " انسانیت کا تقاضا - تحریر نمبر 1959,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/insaniyat-ka-taqaza-1959.html,"روبینہ نازسر آج آپ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں جیسے ہی سر عدنان نے اپنا سبق مکمل کیا احمد نے کہا کیونکہ آج سے ان کا کھیلوں کا ہفتہ شروع ہو رہا تھا۔سر عدنان ان کے مثالی استاد تھے کیونکہ وہ کتابی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقیات بھی سکھاتے تھے۔انہوں نے جیسے ہی ہاں کہا پوری کلاس خوش ہو گئی میچ شروع ہوا سب بچے اچھا اسکور بنا رہے تھے مگر جیسے ہی سر عدنان کی باری آئی وہ بغیر رن بنائے آؤٹ ہو گئے۔دوسرے دن انہوں نے کلاس میں آکر بچوں سے پوچھا ”میں کیسا اُستاد ہوں“”سر آپ دنیا کے بہترین اُستادوں میں سے ہیں“ہر بچے نے یہ ہی جواب دیا۔انہوں نے دوسرا سوال کیا”کیا میں اچھا کرکٹر ہوں؟“”سر آپ اس میں فیل ہیں“سر اس کا جواب سننے کے بعد تحمل سے بولے”میں جان بوجھ کر ہارا تھا تاکہ آپ سب کے چہرے پر خوشی دیکھ سکوں ہمیں کبھی کبھار دوسروں کی خوشی کے لئے بھی کچھ کر لینا چاہئے۔(جاری ہے)اس بات کا مقصد یہ بتانا تھا کہ اس دنیا میں کوئی بھی مکمل نہیں سب ادھورے کیونکہ ہر ایک میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خامیاں بھی ضرور ہوتی ہیں ہم اشرف المخلوقات ہیں اور انسانیت کا تقاضا یہی ہے۔“سر کی بات سارے بچے سمجھ چکے تھے اور انہوں نے سر کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ اچھے انسان بنیں گے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کریں گے ایک دن احمد کے گھر کچھ مہمان آئے ہوئے تھے اس کے بڑے بھائی نے اسے کولڈ ڈرنک لانے کو کہا اور ساتھ ہی کہا اس میں برف بھی توڑ کر ڈالنا۔احمد کا بھائی دائیں ہاتھ سے محروم تھا احمد کو جب احساس ہوا کہ اس کا بڑا بھائی اسے برف کو کیوں کہہ رہا ہے تو اس نے برف کو کپڑے میں لپیٹا اور دیوار پر دے مارا جب برف ٹوٹ گئی تو اس کا بھائی ہنسنے لگا کہ تمہیں تو برف بھی توڑنی نہیں آتی۔احمد کی امی نے اس سے پوچھا”تم نے برف دیوار پر مار کر کیوں توڑی؟“”امی بھائی دائیں ہاتھ سے محروم ہیں میں ان پر صرف یہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ جو کام دائیں ہاتھ سے نہ ہو سکے اس کا متبادل بایاں ہاتھ ہوتا ہے۔“یہ سن کر اس کی امی کی آنکھوں میں آنسو آگئے انہوں نے اسے شاباشی دی وہ دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ باہر کھڑے علی نے سب کچھ سن لیا تھا اس نے سوچا کہ اب وہ احمد کا مذاق نہیں اڑائے گا بلکہ اپنے چھوٹے بھائی کی طرح دوسروں کے لئے روشنی بنے گا۔“دوستو!آپ میں سے بھی اگر کوئی کسی محرومی کا شکار ہے تو اسے مایوس ہونے کے بجائے اس محرومی کا استعمال کرنا چاہئے اور کبھی نا امید نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہر انسان میں دوسرے سے مختلف خوبیاں ہوتی ہیں۔ " اصل وجہ - تحریر نمبر 1958,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/asaal-wajah-1958.html,"سیدہ اقراء اعجاز،حیدرآبادماہین ایک بہت ہی پیاری بچی تھی۔وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔وہ روزانہ صبح اسکول جاتی اور گھر واپس آکر کام کاج میں اپنی امی کا ہاتھ بٹاتی۔ایک دن ماہین اسکول تاخیر سے پہنچی تو ٹیچر نے اسے بہت ڈانٹا اور وقت پر آنے کی تاکید کی،لیکن اب تو روز یہی ہونے لگا۔ ماہین سب سے آخر میں اسکول پہنچتی اور مس سے خوب ڈانٹ کھاتی،لیکن اصل وجہ نہیں بتاتی تھی کہ کہیں اسے بہانہ نہ سمجھ لیا جائے۔پھر ماہین پورے ایک ہفتے اسکول نہیں آئی۔بچے مختلف باتیں کرنے لگے:”وہ روزانہ ٹیچر سے لیٹ آنے پر ڈانٹ کھاتی تھی،ہو سکتا ہے اس نے اسکول ہی چھوڑ دیا ہو۔“لیکن آخر ایک ہفتے کی چھٹی کے بعد ماہین اسکول آہی گئی۔آج وہ کلاس میں سب سے پہلے آئی تھی۔(جاری ہے)ٹیچر کلاس میں داخل ہوئیں تو سب بچوں نے اُٹھ کر انھیں سلام کیا۔مس نے سلام کا جواب دیا اور وہ ماہین کو دیکھ کر چونک گئیں۔انھوں نے ماہین کو اپنے پاس بلایا اور کہا:”ویسے تو تم روزانہ اسکول دیر سے آتی تھیں اور آج پورے ایک ہفتے کے بعد آئی ہو۔دل بھر گیا تمہارا چھٹیوں سے۔“مس غصے سے اسے ڈانٹے جا رہی تھی اور ماہین کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔اس نے مس سے کہا:”مس!میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔“”ہاں کہو۔“مس نے غصے سے کہا۔”مس!میں دیر سے اس لئے آتی تھی،کیونکہ میری امی کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔میرا کوئی بھائی یا بہن نہیں ہے۔والد کسی فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ناشتہ تیار کرنے اور ماں کو دوا دینے کی وجہ سے میں دیر سے آتی تھی،پھر ماں کا انتقال ہو گیا اس لئے کئی دن اسکول نہ آسکی۔ آئندہ ہمیشہ وقت پر آیا کروں گی،کیونکہ اب میں ماں کی خدمت نہیں کر سکوں گی۔“ماہین کی باتیں سن کر سب ہی بچے افسوس کرنے لگے اور مس بھی بہت شرمندہ ہوئیں۔ماہین یہ سب بتا کر زور زور سے رونے لگی۔ " بندروں کی ٹولی - تحریر نمبر 1957,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bandroon-ki-tooli-1957.html,"ایک جنگل میں بندروں کی ایک ٹولی رہتی تھی۔اس ٹولی میں دو بچے بھی تھے،جو بہت زیادہ شرارتی تھے۔ان کے ماں باپ بھی ان کی شرارتوں سے تنگ آگئے تھے۔اسی جنگل میں ایک ننھا ژراف بھی رہتا تھا۔وہ بہت ہی سیدھا سادا اور بھولا بھالا بچہ تھا۔ایک دن گھاس چرتے چرتے وہ جنگل کے اس حصے میں آگیا جہاں بندروں کی یہ ٹولی درختوں سے پتے اور پھل فروٹ توڑ توڑ کر کھانے میں مگن تھی۔دونوں چھوٹے شرارتی بندروں نے ژراف کو دیکھا تو انھیں حیرت ہونے لگی۔کیونکہ ان بچوں نے کبھی ایسا کوئی بھی جانور نہیں دیکھا تھا۔بندر کے ایک بچے نے کہا”ارے!دیکھو تو کتنا عجیب و غریب جانور ہے،آؤ اسے چھیڑتے ہیں۔“دونوں بندر کودتے پھلانگتے اس درخت پر پہنچ گئے جس کے نیچے کھڑے ہو کر ژراف پتے کھا رہا تھا۔(جاری ہے)اس درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر دونوں نے ژراف سے کہا”اے لمبو!تمہارا کیا نام ہے․․․․؟“ژراف نے بڑی نرمی سے کہا”میں ژراف ہوں،کیا مجھ سے دوستی کرو گے؟تم لوگوں کے نام کیا ہیں؟“دونوں بندر شرارت سے کھکھلا کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ”تم سے ہم کیوں دوستی کرنے لگے․․․؟کتنے بد صورت ہو تم،مینار کے جیسی گردن اور سیڑھی کے جیسے پیر۔ہمیں نہیں کرنی ایسے بے ڈھنگے جانور سے کوئی دوستی․․․․․!“اتنا کہہ کر دونوں بندر ژراف کو چڑانے لگے۔ایک بندر نے درخت سے ایک پکا ہوا پھل توڑ کر ژراف پر پھینک مارا۔پھل ژراف کے منہ پر لگ کر پھوٹ گیا اور اس کا رس اور گودا ژراف کے چہرے پر پھیل گیا۔یہ دیکھ کر دونوں بندر قہقہہ مار کر ہنسنے لگے اور کودتے پھلانگتے وہاں سے بھاگ گئے۔ژراف بے چارہ روہانسا ہو کر رہ گیا اور منہ لٹکائے وہاں سے چلا گیا۔ایک دن دونوں شرارتی بندروں نے یہ طے کیا کہ وہ جنگل میں خوب دور تک اکیلے گھومنے کے لئے چلیں گے۔صبح صبح جب باقی بندر سو رہے تھے،یہ دونوں شرارتی بندر چپکے سے نکل پڑے۔کچھ ہی دیر میں وہ بندروں کی ٹولی سے بہت دور نکل گئے۔جب انھیں زوروں کی بھوک لگی تو ان دونوں نے پیڑوں کی پتیاں اور پھل فروٹ کھا لیے۔انھیں اس طرح گھومنے پھرنے اور موج مستی کرنے میں بڑا مزہ آرہا تھا۔دوپہر ہو چلی تھی۔وہ دونوں گرمی سے بچنے کے لئے ایک درخت کی ہری بھری شاخوں پر جا کر بیٹھ گئے،اُس درخت کے نیچے ایک شیر آرام کر رہا تھا۔پیڑ کے آس پاس ایک بڑا ہرا بھر امیدان تھا۔میدان کے کنارے ایک ندی بہہ رہی تھی۔بندر اُس سہانے منظر میں ایسا کھوئے کہ انھیں اس بات کا احساس ہی نہ ہوا کہ یہاں ایک شیر بھی موجود ہے۔لیکن جب شیر اپنے چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھیوں کو اڑانے کے لئے غرایا تو بندروں نے شیر کو دیکھ لیا۔شیر کو دیکھتے ہی وہ بری طرح ڈر گئے۔کچھ ہی دیر بعد انھیں یہ محسوس ہوا کہ ہم درخت کے اوپر محفوظ ہیں۔ چونکہ ان کے اندر شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لئے یہاں بھی انھیں شرارت سوجھنے لگی۔ان دونوں شرارتی بندروں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور درخت کا ایک پھل توڑ کر نیچے گرا دیا۔پھل سیدھا شیر کی ناک پر گرا۔شیر نے غصے سے دہارتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا۔جب اس نے اوپر کی طرف دیکھا تو اس کی نظر بندروں پر پڑی۔بندر کھی کھی کرکے ہنس رہے تھے،لیکن وہ زیادہ دیر تک نہ ہنس سکے،کیونکہ شیر آپے سے باہر ہو رہا تھا۔اس نے گرج دار آواز میں دہاڑتے ہوئے کہا”کیا تمہیں معلوم نہیں میں اس جنگل کا راجا ہوں۔فوراً اس درخت سے نیچے اترو۔میں تم دونوں کو کھا کر اس گستاخی کی سزا دوں گا۔“بندروں کو پھر ہنسی آگئی۔انھیں یقین تھا کہ ہم درخت پر محفوظ ہیں۔شیر ان کو اس طرح دوبارہ ہنستے ہوئے دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہو گیا اور اپنے پیروں کو سمیٹ کر اسپرنگ کی طرح تیزی سے اچھلا۔ان دونوں شرارتی بندروں نے دیکھا کہ شیر کا جبڑا کھلا ہوا ہے اور اس کے تیز نوکیلے دانت ان کی طرف ہیں اور وہ بڑی تیزی سے اچھلتے ہوئے بالکل ان کے قریب آگیا ہے۔دونوں بندروں کے تو ہوش ہی اڑ گئے اور ان کی ساری شرارت دھری کی دھری رہ گئی اور وہ دونوں ڈر کے مارے ایک دوسرے سے بُری طرح لپٹ گئے۔شیر نے چھلانگ تو بہت اچھی لگائی تھی لیکن جس شاخ پر وہ دونوں بندر بیٹھے ہوئے تھے شیر وہاں تک نہیں پہنچ سکا۔شیر نے دوبارہ زبردست چھلانگ لگائی۔بندروں کی حالت بڑی پتلی ہو گئی تھی وہ ڈر کے مارے چیخنے چلانے لگے لیکن وہاں ان کی پکار سننے والا کوئی بھی نہیں تھا۔وہ تو اپنی ٹولی اور اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر بھاگ کر آئے تھے۔اس درخت کے آس پاس کوئی دوسرا درخت بھی نہ تھا کہ وہ چھلانگ لگا کر اس پر چلے جاتے، اور نہ ہی اس درخت پر کہ جس پر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے اونچائی کی طرف کوئی مضبوط شاخ تھی جس پر جا کر وہ بیٹھ سکتے یوں سمجھ لیں کہ شرارتی اور نافرمان بندر آج بُری طرح پھنس گئے تھے۔وہ اس حالت میں تھے کہ انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ یکایک ان کے کانوں میں دھیمے سے آواز آئی کہ”گھبراؤ مت!میں تم دونوں کو یہاں سے نکال لے جاؤں گا۔چپکے سے میری گردن کے سہارے میری پیٹھ پر اتر آؤ۔“وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ٹھیک اوپر درخت کے پتوں کے درمیان سے اسی ژراف کا سر نکلا ہوا تھا جس کا ان لوگوں نے کچھ دن پہلے خوب مذاق اڑایا تھا۔بندروں نے ایک دوسرے کو شرمندگی سے دیکھا کہ آج وہی ژراف ہماری جان بچانے کے لئے تیار ہے۔اس ژراف کو اس دن کی شرارتوں اور مذاق وغیرہ کا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔دونوں بندروں نے اپنی نگاہیں نیچی کر لیں۔ژراف نے کہا”میرے دوستو!جلدی کرو اگر شیر نے مجھے دیکھ لیا تو وہ ہم تینوں کو کھا جائے گا۔“بندر اب ڈرتے ڈرتے ژراف کی گردن پر پھسلتے ہوئے اس کی پیٹھ پر سوار ہو گئے اور ژراف انھیں لئے ہوئے تیز رفتاری سے وہاں سے کھسک گیا۔شیر کو پہلے تو پتا نہیں چل سکا کہ کیا ماجرا ہے۔لیکن جب اس نے ژراف کی پیٹھ پر سوار ہو کر دونوں بندروں کو بھاگ نکلتے ہوئے دیکھا تو اس نے دہاڑتے ہوئے ان کا پیچھا کیا۔بندروں نے پیچھا کرتے ہوئے شیر کو دیکھا تو ان کی جان نکلنے لگی اور وہ بری طرح چیخنے چلانے لگے۔شیر پوری قوت کے ساتھ بندروں کو پکڑنے کے لئے دوڑ لگا رہا تھا اور غرائے جا رہا تھا۔ژراف نے بندروں کو سمجھایا کہ ”ڈرنے کی کوئی بات نہیں اب تم دونوں بالکل محفوظ ہو ۔شیر مجھے کبھی نہیں پکڑ سکتا۔“اور سچ مچ ہوا بھی ایسا ہی کہ ژراف نے شیر کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔ایک محفوظ جگہ پر پہنچ کر ژراف رُک گیا بندر چھلانگ لگا کر اس کی پیٹھ سے نیچے اتر گئے۔تب ژراف نے ان دونوں سے کہا”اس دن تم دونوں نے میری لمبی گردن اور میری ٹانگوں کا بہت مذاق اڑایا تھا نا،آج دیکھ لیا ناکہ انہی کی وجہ سے تم لوگوں کی جان بچ سکی ہے۔لمبی گردن کی وجہ سے ہی میں تم دونوں کو دور سے دیکھ سکا اور درخت سے تم کو اتار سکا۔اور لمبی ٹانگوں کی وجہ سے تیز دوڑ سکا۔“بندر اس پر کیا کہہ سکتے تھے،دونوں نے شرم کے مارے اپنی اپنی گردنیں جھکا لیں اور خاموش رہے۔ان کی یہ حالت،خاموشی اور شرمندگی کو دیکھ کر ژراف نے ہنستے ہوئے خود کہا کہ”چلو!چھوڑو ان باتوں کو،بھول جاؤ پچھلے قصبے کو،اب آج سے تو تم میرے دوست بن کر میرے ساتھ روزانہ کھیلو گے نا۔“ژراف کی یہ بھلائی دیکھ کر دونوں شرارتی بندروں کو اپنی حرکتوں پر سخت غصہ آنے لگا کہ ان لوگوں نے اتنے اچھے اور پیارے ژراف کو کیوں ستایا تھا اور اس کا مذاق کیوں اڑایا تھا․․․․؟ان دونوں نے اسی وقت ژراف سے معافی مانگی۔ژراف نے کہا”دوستو!معافی کی کوئی ضرورت نہیں۔“اتنے بڑے دل والے ژراف کی یہ باتیں سن کر ان دونوں شرارتی بندروں نے فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد سے وہ کسی کو نہیں ستائیں گے اور کسی کا مذاق نہیں اُڑائیں گے۔انہوں نے ژراف سے کہا کہ”ہم نے جان بوجھ کر بہت ستایا تھا،آج سے ہم کسی کو بھی نہیں ستائیں گے،نہ کسی کو بُڑا بھلا کہیں گے۔آج سے تم ہمارے سب سے اچھے دوست ہو۔دونوں بندروں کی یہ بات سن کر ژراف کو بڑی خوشی ہوئی اور وہ ہنسی خوشی ساتھ رہنے لگے۔ " عقل مند کسان - تحریر نمبر 1956,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aqalmand-kissan-1956.html,"حریم خان،نارتھ کراچیبھارت میں حیدر آباد دکن سے سات میل دور کولگندہ نامی ایک شہر ہے،جہاں ایک کسان اپنے کھیتوں میں بیچ بو رہا تھا۔صبح کا وقت تھا۔ علاقے کا نواب سیر کرتا ہوا وہاں سے گزرا۔کسان کو محنت سے کام کرتے ہوئے دیکھ کر نواب نے سوچا کہ کسان سے اس کی خیریت دریافت کرنی چاہیے۔وہ گھوڑے سے اُترا اور کھیت کے کنارے پہنچ کر کسان سے پوچھا:”کیوں بھائی!کھیتی باڑی میں تم اس قدر محنت کرتے ہو،کتنا کچھ کما لیتے ہو؟کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے یا نہیں؟“کسان نے سر اُٹھایا اور نواب سے کہا:”فائدہ کیا جناب!فصل کٹنے کے بعد اس کے چار حصے کر لیتا ہوں۔“نواب نے پھر پوچھا:”اچھا تو ان چاروں حصوں کو خرچ کیسے کرتے ہو؟“کسان نے جواب دیا:”ایک حصہ تو حکومت کے ٹیکس میں چلا جاتا ہے۔(جاری ہے)دوسرا حصہ قرض چکانے میں ختم ہو جاتاہے۔تیسرا حصہ اُدھار دیتا ہوں اور باقی چوتھا حصہ یوں ہی لُٹا دیتا ہوں۔“نواب کو کسان کی یہ عجیب و غریب باتیں سن کر بہت تعجب ہوا۔حیرت سے پوچھا:”تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آئیں۔صاف صاف بتاؤ،تم قرض چکاتے بھی ہو اور دیتے بھی ہو۔ایسا کون سا قرض ہے جو ہر فصل پر ادا کرتے ہو اور پھر بھی ختم نہیں ہوتا اور وہ کون ہے،جسے تم ہمیشہ قرض دیتے ہو اور پھر ایک چوتھائی رقم تم یوں ہی اُڑا دیتے ہو؟“کسان نے جواب دیا:”جناب!بات دراصل یہ ہے کہ میرے والد نے ایک ساہو کار سے رقم اُدھار لی تھی۔والد کے مرنے کے بعد اس کا سود میں ادا کرتا ہوں۔ایک حصہ ٹیکس دینے کے دوسرا حصہ یہ ادا ہو جاتا ہے۔”اور تیسرا حصہ کسے اُدھار دیتے ہو؟“نواب نے پوچھا۔کسان نے کہا:”یہ میں اپنے دو لڑکوں پر خرچ کرتا ہوں،تاکہ بڑھاپے میں وہ مجھ پر خرچ کریں۔“نواب نے پوچھا:”اور یہ ایک حصہ فضول کیوں اُڑا دیتے ہو؟“کسان نے کہا:”میری ایک لڑکی بھی ہے۔آپ کو پتا ہے کہ آج کل جہیز کے بنا شادی نہیں ہوتی اور جہیز ایک فضول رسم ہے۔چوتھا حصہ اس کے جہیز کے لئے رکھتا ہوں۔میری نظر میں یہ رقم لٹانا ہی ہوا۔“نواب اس کی مدلل گفتگو سے بہت متاثر ہوا اور ایک بڑی رقم اسے انعام کے طور پر دے کر رخصت ہو گیا۔ " زندگی کا مقصد - تحریر نمبر 1955,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zindagi-ka-maqsad-1955.html,"طوبیٰ صدیقی،جڑا نوالہاسلم ایک غریب،لیکن نہایت ہونہار طالب علم تھا۔اس کے والد ایک معمولی سی دکان پر کام کرتے تھے۔ان کی تنخواہ بھی کم تھی۔اسکول میں اسلم کا ایک دوست جواد تھا جو امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ایک روز اسلم کے والد سڑک کے حادثے میں زخمی ہو کر معذور ہو گئے۔اگلے دن اسلم اسکول گیا تو کسی بھی کام میں اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔وہ سارا دن پریشان بیٹھا رہا۔اس کے دوست جواد نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔”اسلم!کیا بات ہے؟تم مجھے کچھ پریشان سے لگ رہے ہو۔“جواد نے پوچھا۔”کچھ نہیں بس تھوڑا سا سر درد ہے۔“اسلم نے ٹالنا چاہا۔”اگر کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاؤ میں تمہارا مخلص دوست ہوں۔(جاری ہے)میں ضرور تمہاری مدد کروں گا۔“جواد سے اپنے دوست کی پریشانی دیکھی نہ گئی تو اس نے پھر پوچھا۔اسلم نے سوچا کہ وہ اگر جواد کو اپنا سارا مسئلہ بتا دے تو شاید اس کے دل کا بوجھ کچھ کم ہو جائے۔اسلم نے اپنے ابو جان کے بارے میں ساری بات جواد کو بتا دی اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ کام پر نہ جانے کی وجہ سے اس کے والد کو تنخواہ بھی نہیں مل سکے گی۔جواد کو اسلم کے والد کے بارے میں سن کر بہت دکھ ہوا۔”میرے دوست!تم پریشان مت ہو۔میں اپنے ابو سے بات کروں گا۔وہ ضرور تمہارے مسئلے کا کوئی حل نکال لیں گے۔“جواد نے اپنے گھر پہنچ کر اپنے ابو کو اسلم کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔یہ سب کچھ جان کر جواد کے ابو کا دل بھی غم سے بھر گیا اور انھوں نے اسلم کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔اگلے روز اتوار کی چھٹی تھی۔اچانک اسلم کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔اسلم نے دروازہ کھولا تو سامنے جواد کو اپنے ابو کے ساتھ کھڑا دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور ان کو اندر لے آیا۔جواد کے ابو نے بات شروع کی اور اسلم کے ابو کو تسلی دی:”آپ بالکل نہ گھبرائیں۔جب تک آپ مکمل صحت یاب نہیں ہو جاتے،گھر کے خرچ کی طرف سے بے فکر ہو جائیں۔دواؤں کا خرچ اور اسلم کی فیس کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ہم کوشش کریں گے کہ آپ کے گھر والوں کا پوری طرح سے خیال رکھیں۔“یہ سن کر اسلم کے ابو کی آنکھیں انسوؤں سے بھر گئیں اور انھوں نے جواد کے ابو کا بہت شکریہ ادا کیا اور اس سے اسلم اور جواد کی دوستی مضبوط ہو گئی۔ " ببلو نے روزہ رکھا - تحریر نمبر 1954,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/babloo-ne-roza-rakha-1954.html,"محمد علیم نظامی”امی جان“امی جان”میں روزہ نہیں رکھوں گا“۔امی جان کی آواز پر ببلو چلایا۔لیکن بیٹا:آج سے رمضان المبارک کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور پہلا روزہ ہر بچے کو رکھنا چاہیے بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ تمام روزے رکھ کر بچے اپنے اللہ کو خوش اور راضی کریں۔”امی جان نے ببلو کو نصیحت کرتے ہوئے کہا“۔امی جان!آج کل سخت گرمی کا موسم ہے۔بچے تو کیا بڑے لوگ بھی روزہ رکھنے سے ہچکچاتے ہیں اور میں تو صرف ابھی 10 سال کا ہوا ہوں۔“”بیٹا 10 سال کی عمر میں ہر بچے کو فرض روزہ رکھنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔”مگر امی جان! مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں رمضان المبارک کے پورے روزے رکھوں۔“امی جان نے ببلو کی اس بات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”دیکھو بیٹا!جو بچے یا جو لوگ روزے رکھنے کی نیت کر لیتے ہیں اللہ تعالیٰ خود ہی انہیں اتنی قوت عطا کر دیتے ہیں کہ جب وہ روزے کا اہتمام کرتے ہیں تو خود بخود ہی ان میں اتنی سکت پیدا ہو جاتی ہے کہ سحری کے وقت سے لے کر افطاری تک انہیں روزہ کچھ نہیں کہتا بلکہ جب بچے اور بڑے روزہ کھولتے ہیں تو انہیں ایک قسم کی روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے۔(جاری ہے)“ببلو نے کسی حد تک اپنی امی جان کی بات سے اتفاق کیا مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ”دیکھیے امی جان!روزہ رکھنے کے لئے تو بھی ساری عمر پڑی ہے۔میں نے گرمی سردی میں سکول بھی جانا ہوتا ہے۔سکول کے کام میں پانچ چھ گھنٹے لگانے ہوتے ہیں۔پھر سخت دھوپ اور حبس میں گھر واپس آکر کس طرح میں روزہ برداشت کروں گا۔”اگر آپ نے مجھے روزے رکھانے ہی ہیں تو پھر ایک ماہ کے لئے سکول سے مجھے چھٹی لے دیں۔میں روزے کی حالت میں گھر میں بیٹھ کر یا لیٹ کر سارا دن گزار لوں گا اور یوں آپ کو بھی مجھ سے کوئی شکایت نہیں“۔؟امی جان ببلو کی یہ بات سن کر قدرے غصے میں آگئیں اور انہوں نے ببلو کی بات کاٹتے ہوئے اسے کہا کہ”دیکھو!ببلو میاں!تم اکیلے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے تمام مسلمان بچے اپنے سکولوں میں تمہاری جیسی عمر کے مطابق جاتے ہیں انہوں نے روزہ بھی رکھا ہوا ہوتا ہے اور تمام زندگی کے کام بھی کرتے ہیں۔سکول کے کام کے علاوہ سحری سے لے کر افطاری تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں۔تلاوت قرآن پاک کرتے ہیں۔ساتھ گھریلو کام کاج میں بھی حصہ لیتے ہیں اس کے باوجود وہ خوش و خرم اور تازہ دم رہتے ہیں۔پھر تمہیں کیا قباحت ہے کہ تم ایک روزہ بھی نہیں رکھنے کو کہہ رہے،30 روزے تو دور کی بات ہے۔امی جان کی یہ سبق آموز باتیں سن کر ببلو کچھ شرمندہ ہو گیا اور اس نے امی جان کی بانہوں میں اپنی بانہیں ڈالتے ہوئے قدرے خوشی سے کہا کہ دیکھیے امی جان!آپ کی روزہ کے متعلق باتیں میرے دل و دماغ میں سرایت کر گئی ہیں۔میں ان باتوں سے بہت متاثر ہوا ہوں۔میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آج پہلا روزہ رکھوں گا اور انشاء اللہ سارے روزے پورے کرکے اپنے اللہ،امی ابو اور بہن بھائیوں کو بھی خوش کروں گا۔ببلو نے روزہ رکھنے کی ہاں کہہ کر سب گھر والوں کو لاجواب کر دیا۔ " بُری صحبت - تحریر نمبر 1953,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/buri-sohbat-1953.html,"زہرہ کنول اعوان،مظفر گڑھعامر ہمیشہ اپنی والدہ کی نصیحت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا۔سب گھر والے اس کی اس عادت سے بہت تنگ تھے۔وہ گھر کی ساری جمع پونجی اپنے نشے کی بُری عادت میں صرف کر دیتا۔اس کا ایک ہی بھائی عمران تھا،جو بہت محنتی تھا۔عامر کے والد تین سال پہلے وفات پا گئے۔ان کی وفات کے بعد عمران نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر کا خرچ سنبھال لیا۔وہ صبح سویرے کام کی تلاش میں گھر سے نکل جاتا اور شام کو واپس لوٹ آتا،لیکن عامر بُری صحبت میں پڑ گیا اور اسے نشے کی لت پڑ گئی۔اس کے گھر والوں نے اسے بہت سمجھایا، لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔اس کے دوست اسے اس کے گھر والوں کے خلاف ورغلاتے اور وہ ان کی باتوں میں آجاتا۔(جاری ہے)ایک روز عامر نشہ کرکے رات کو دیر سے گھر پہنچا اور چلا کر اپنی والدہ سے کھانا مانگا تو اس پر اس کی والدہ نے کہا:”عامر بیٹا!گھر میں کچھ کھانے کو نہیں ہے۔“یہ سن کر عامر طیش میں آگیا،کیونکہ اسے بہت زیادہ بھوک لگ رہی تھی اور چلا چلا کر اپنی والدہ کو بُرا بھلا کہنے لگا۔عمران نے اسے روکا،مگر اس نے کسی کی ایک نہ سنی۔عمران نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔ان کی والدہ یہ سب دیکھ کر بلک بلک کے رو رہی تھیں۔اگلی صبح ماں نے عامر سے کہا:”پہلے کام کر،رقم لا،پھر گھر میں کھانا پکے گا۔“یہ سن کر عامر آگ بگولہ ہو گیا۔وہ اپنی ماں کو دھکا دے کر وہاں سے باہر نکل گیا۔جب وہ اپنے دوستوں کے پاس پہنچا تو اس کے پاس پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اس کے دوست اس سے جھگڑا کرنے لگے اور اسے اتنا مارا کہ وہ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑا۔وہ گلی میں بے ہوش پڑا تھا۔تب چچا کرم داد کا وہاں سے گزر ہوا۔انھوں نے عامر کو اس حالت میں پایا اور وہ اسے اسپتال لے گئے اور وہاں سے جب اس کے گھر میں اس کی ماں کو بتایا تو وہ بہت پریشان ہوئی۔جب عمران واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبا تھا اور وہ بہت خوش لگ رہا تھا،کیونکہ اس کی ایک فیکٹری میں نوکری لگ گئی تھی۔اس کی والدہ بہت خوش ہوئیں،لیکن جب عمران کو عامر کی اس بات کا علم ہوا تو وہ بہت پریشان ہوا۔اب عامر کو اپنے بُرے رویے اور بُری صحبت کی سزا مل گئی تھی۔وہ اب بھی نقاہت محسوس کررہا تھا۔اس نے اپنی والدہ سے اپنے بُرے رویے اور بُری صحبت کی معافی مانگی تو اس کی والدہ نے اسے معاف کر دیا۔کچھ دن بعد عامر نے ایک سرکاری اسکول میں داخلہ لے لیا۔اب عامر دل لگا کر پڑھائی کرنے لگا۔وقت کے ساتھ ساتھ ان کے گھریلو حالات اچھے ہو گئے۔ " حال میں ماضی(دوسرا حصہ) - تحریر نمبر 1952,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/haal-mein-maazi-1952.html,"جاوید بسام”اور یہ مرد؟“”یہ میرے والد ہیں،مگر تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو؟“بلاقی کرسی پر بیٹھ گیا:”آپ کے والدین کہاں ہیں؟“اس نے پوچھا۔”ان کا انتقال ہو چکا ہے۔“ماریا بولی۔بلاقی نے گہری سانس لی اور اپنا ماتھا سہلانے لگا۔”آخر بات کیا ہے؟“ماریا نے پوچھا۔”میں بتاتا ہوں۔“بلاقی بولا اور گزشتہ رات کی پوری روداد اسے سنا دی۔ماریا حیرت سے آنکھیں پھاڑے سن رہی تھی۔جب بلاقی خاموش ہوا تو وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی:”مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“بلاقی نے کچھ سوچا پھر بولا:”کیا کبھی اس گھر میں آگ لگی تھی؟“ماریا نے سر اُٹھایا اور غور سے بلاقی کو دیکھنے لگی۔(جاری ہے)پھر اس نے گردن ہلائی اور بولی:”ہاں ایسا ہوا تھا،مگر یہ ساٹھ سال پہلے کا واقعہ ہے اور وہ بچی میں تھی۔“بلاقی کو حیرت سے سانپ سونگھ گیا۔ماریا بھی خاموش تھی۔پھر بلاقی بولا:”اچھا میں چلتا ہوں بعد میں آپ کے پاس آؤں گا۔“یہ کہہ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ماریا بولی:”ٹھیرو،کیا تمہارے پاس ان باتوں کا کوئی ثبوت ہے؟“بلاقی نے جلا ہوا ہاتھ آگے کیا اور بولا:”میں جلد آپ کے پاس آؤں گا۔“یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔کچھ دیر بعد وہ چائے خانے میں بیٹھا تھا۔سامنے رکھی چائے ٹھنڈی ہو رہی تھی اور وہ سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔کچھ دیر بعد کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا اور بولا:”ہاں بلاقی!اب بتاؤ تم کیا کہہ رہے تھے۔میں اس وقت جلدی میں تھا۔“وہ گراہم تھا۔اس نے کرسی کھینچی اور بیٹھ گیا۔بلاقی نے کھوئی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا اور خاموش رہا۔گراہم ہنس کر بولا:”میاں!کہاں گم ہو؟تم کس آگ کا ذکر کر رہے تھے؟“بلاقی نے گہری سانس لی اور بولا:”اب بات نے اور رُخ اختیار کر لیا ہے۔دوپہر کو میں وہاں چلا گیا تھا۔وہاں کوئی جلی ہوئی عمارت نہیں ہے۔“پھر اس نے ماریا سے ملاقات کا احوال سنایا۔گراہم توجہ سے سن رہا تھا۔اس کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔جب بلاقی چپ ہوا تو وہ بولا:”تم نے یہ بات کسی کو بتائی تو نہیں؟“بلاقی نے نفی میں گردن ہلائی۔گراہم کچھ دیر سوچتا رہا،پھر سرگوشی میں بولا:”میرا خیال ہے تم نے وقت میں سفر کیا ہے۔“بلاقی نے سر ہلایا اور بولا:”ہاں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے وہاں موجود لوگوں کے کپڑے پرانی وضع کے تھے اور آگ بجھانے والی گاڑی بھی قدیم طرز کی تھی۔“”کیا میں ماریا سے مل سکتا ہوں؟“گراہم نے پوچھا۔بلاقی نے گردن ہلائی۔دونوں اُٹھے اور باہر نکل گئے۔کچھ دیر بعد وہ اس عمارت کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ماریا نے انھیں اندر بلا لیا۔بلاقی نے دوست کا تعارف کرایا اور بولا:”یہ آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔“ماریا نے سر ہلایا۔گراہم نے اس سے بہت ساری باتیں کی۔ماریا نے بتایا کہ وہ ایک اسکول میں استاد تھی۔اب ریٹائر ہو چکی ہے۔جب وہ چھے سال کی تھی تو اس گھر میں آگ لگ گئی تھی۔اس کے ماں باپ گھبراہٹ میں باہر نکل گئے تھے۔وہ اوپر تھی۔پھر ایک آدمی آیا۔وہ کوچوان تھا اور اسے اُٹھا کر نیچے لے گیا۔اس کے کوٹ میں آگ لگ گئی تھی۔اس رات ہم پڑوسی کے گھر میں رہے تھے۔“”کیا اس واقعے کے کچھ گواہ موجود ہیں؟“گراہم نے پوچھا۔ماریا کچھ دیر سوچتی رہی پھر بولی:”زیادہ تر لوگ تو وفات پا چکے ہیں۔کچھ یہاں سے گھر چھوڑ چلے گئے،مگر دو گھر چھوڑ کر ایک دندان ساز رہتا ہے۔اس وقت وہ نوعمر لڑکا تھا۔“”کیا ہم اس سے مل سکتے ہیں؟“گراہم نے پوچھا۔”ہاں“ماریا بولی۔وہ دندان ساز سے جا کر ملے۔اس نے بتایا کہ میں اپنے والد کے ساتھ دور کھڑا دیکھ رہا تھا۔وہ کوچوان بہت بہادر تھا۔ اس نے جس پھرتی سے ماریا کی جان بچائی تھی،سب حیران رہ گئے تھے۔وہ واپس لوٹ گئے۔اگلے دن گراہم نے بلاقی سے ملاقات کی اور جوش سے ہاتھ ملتے ہوئے بولا:”لو میاں بلاقی!تمہارے وقت میں سفر کی اسٹوری تیار ہو گئی۔کل اخبار میں شائع ہو جائے گی۔“بلاقی نے اسٹوری پڑھی اور بولا:”ہم کسی مشکل میں تو نہیں پڑ جائیں گے؟“”مشکل کیسی؟بلکہ ماریا اور تم پر دولت اور شہرت کے دروازے کھل جائیں گے۔“گراہم ہنس کر بولا۔پھر اس نے دو لفافے نکالے ان میں بڑے نوٹ تھے۔ایک پر بلاقی اور دوسرے پر ماریا کا نام لکھا تھا۔وہ بولا:”لو یہ تمہارا اور دوسرا ہم ابھی ماریا کو دینے چلتے ہیں۔“”مجھے یہ ٹھیک نہیں لگ رہا۔“بلاقی بولا۔”اوہ بھائی!ہم خبروں سے پیسہ کماتے ہیں تو اس کے حصول کے لئے خرچ بھی کرتے ہیں۔بس کوئی نئی بات ہو تو پہلے ہم کو بتانا۔“گراہم بولا۔پھر وہ ماریا کے پاس گئے اور اسے لفافہ دیا۔وہ خوش ہو گئی،کیونکہ وہ ریٹائر ہونے کے بعد مشکل سے گزر بسر کر رہی تھی۔اگلے دن اخبار میں میاں بلاقی کی ماضی میں سفر کی داستان شائع ہوئی۔ہر طرف شور مچ گیا۔لوگ اسی کی باتیں کر رہے تھے۔تمام اخبار فوراً بک گئے اور دوبارہ چھاپے گئے۔جب بلاقی صبح چائے خانے پر گیا تو دوستوں نے اسے گھیر لیا۔وہ اس کے منہ سے تمام واقعہ سننا چاہتے تھے۔کئی دن تک لوگ اس موضوع پر بات کرتے رہے۔آہستہ آہستہ لوگوں کی دو جماعتیں بن گئیں۔کچھ لوگوں کا خیال تھا یہ ممکن نہیں،جب کہ کچھ کو اس پر یقین تھا۔ایک دن شام کو بلاقی چائے خانے میں بیٹھا تھا کہ گراہم وہاں آیا۔وہ پریشان نظر آرہا تھا۔بلاقی نے وجہ پوچھی۔وہ مدہم آواز میں بولا:”میں مشکل میں پھنس گیا ہوں۔اس واقعہ پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ کہانی جھوٹی ہے۔“”مگر ان کو یقین کیوں نہیں آرہا۔میں تو ماریا کو پہلے سے نہیں جانتا تھا اور نہ کبھی اس علاقے میں گیا تھا۔“”ہاں مگر یہ تو تم کہہ رہے ہونا۔“”میں جھوٹ نہیں بولتا۔“بلاقی غصے سے بولا۔”مجھے پتا ہے تم جھوٹ نہیں بولتے،مگر لوگ اس پر کیسے یقین کریں؟ہمیں اس کا ثبوت ڈھونڈنا ہو گا۔“گراہم پریشانی سے بولا۔بلاقی کچھ سوچتے ہوئے اپنا گال کھجانے لگا۔دونوں دیر تک خاموش رہے۔آخر بلاقی نے گراہم کی پیٹھ پر ہاتھ مارا اور جوش سے بولا:”ہم ایک چیز بھول گئے ہیں۔“”وہ کیا؟“”ہمیں اس زمانے کے اخبار دیکھنے چاہئیں شاید ان سے کچھ مدد مل جائے۔“گراہم چند لمحے بلاقی کو غور سے دیکھتا رہا پھر میز پر ہاتھ مار کر بولا:”یہ تو میں بھول ہی گیا۔چلو،ابھی دفتر چلتے ہیں۔“گراہم کا اخبار اسی سال پرانا تھا۔وہ دفتر پہنچے۔پرانے اخبار تہہ خانے میں رکھے جاتے تھے۔گراہم نے چابی لی،تالا کھولا اور دونوں سیڑھیاں اُترنے لگے۔وہ ایک بڑا ہال تھا۔جس میں پرانے کاغذوں کی بُو پھیلی تھی۔گراہم نے روشنی کی۔وہاں بے شمار الماریاں تھیں، درمیان میں ایک لمبی میز اور کرسیاں بھی پڑی تھیں۔”میاں بلاقی!ذرا الماریوں پر لکھے سنہ پڑھتے چلو۔“گراہم بولا۔جلد ہی انھوں نے مطلوبہ الماری ڈھونڈ لی۔گراہم نے اسے کھولا اور تاریخوں پر نظر ڈورانے لگا۔پھر اس نے واقعے کے اگلے دن کا اخبار نکالا۔دونوں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔وہ بہت پُرجوش تھے۔آگ لگنے کی خبر انھیں پہلے صفحے پر ہی مل گئی۔اس میں وہی باتیں تھیں،جو وہ جانتے تھے۔ان کی دلچسپی خبر سے زیادہ تصویروں میں تھی۔وہ تین تصویریں تھیں جو کسی پڑوسی فوٹو گرافر نے کھینچ کر اخبار کو دے دی تھیں۔پہلی تصویر جلتے ہوئے گھر کی تھی،دوسری میں آگ بجھانے والوں کو دیکھایا گیا تھا اور تیسری تصویر بچی کے باپ اور کوچوان کی تھی۔ان کے عقب میں بگھی بھی نظر آرہی تھی۔دونوں حیرت سے آنکھیں پھاڑے تصویر کو دیکھ رہے تھے۔وہ زیادہ واضح نہیں تھی،مگر اس میں بلاقی کو آسانی سے پہچانا جا سکتا تھا۔گراہم نے بلاقی کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور بولا:”واہ میاں بلاقی!آخر مسئلہ حل ہو ہی گیا۔“اس نے اخبار لپیٹا اور دونوں باہر نکل گئے۔وہ بہت خوش تھے۔دوسرے دن لوگ پھر دھڑا دھڑ اخبار خرید رہے تھے۔اس میں تیسری تصویر چھاپی گئی تھی۔شام کو بلاقی،گراہم کے ساتھ ماریا سے ملنے گیا۔ماریا نے انھیں مزے دار کافی پلائی۔اس نے بھی وہ خبر پڑھ لی تھی۔وہ بولی:”بلاقی!تم نہ صرف بہادر آدمی ہو،بلکہ ذہین بھی ہو۔مجھے فخر ہے کہ میں بھی اس قصبے میں رہتی ہوں،جس میں تم رہتے ہو۔“بلاقی نے آہ بھری اور بولا:”مگر کچھ لوگ مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں۔“گراہم نے اسے ایک دھپ لگائی اور بولا:”مگر میں نہیں سمجھتا۔“سب زور زور سے ہنسنے لگے۔پھر ماریا اُٹھی اور بولی:”آج میں خریداری کے لئے بازار گئی تھی،تو تمہارے لئے یہ لے آئی۔“اس نے اخبار میں لپٹی کوئی چیز بلاقی کی طرف بڑھائی۔”یہ کیا ہے؟“بلاقی حیرت سے بولا اور کاغذ پھاڑا تو اس میں سے ایک بہت عمدہ کپڑے کا کوٹ برآمد ہوا۔گراہم نے تالی بجائی اور بولا:”لو میاں بلاقی!تمہیں نیا کوٹ بھی مل گیا۔“”ارے اس کی کیا ضرورت تھی؟“بلاقی نے کہا۔”تم رات کو اِدھر اُدھر گھومتے ہو شاید کہیں پھر ضرورت پڑ جائے۔“ماریا بولی۔بلاقی خوش دلی سے ہنس دیا۔پھر وہ وہاں سے رخصت ہو گئے۔(ختم) " نیکی کا جذبہ - تحریر نمبر 1951,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naiki-ka-jazba-1951.html,"محمد آفتاب تابش،اٹکفریحہ کی عمر 12 سال اور احمد کی عمر 14 سال تھی۔فریحہ اگرچہ عمر میں اپنے بھائی احمد سے چھوٹی تھی،لیکن اس سے زیادہ عقل مند تھی۔شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا تھا:”بزرگی عقل سے ہے،ماہ و سال سے نہیں“ایک دن احمد نے دیکھا کہ اس کی بہن نے چھوٹی سی مٹکی جس کے ایک طرف لمبائی میں چھوٹا سا سوراخ تھا،ہاتھ میں اُٹھا رکھی ہے۔احمد نے پوچھا:”یہ کیا ہے؟“فریحہ نے جواب دیا:”اس کا نام بچت گھر ہے۔“وہ دونوں برآمدے میں آئے اور ایک کونے میں بیٹھ گئے۔فریحہ نے بچت گھر کو زمین پر دے مارا اور اس کے ٹوٹتے ہی احمد کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں،کیونکہ اس کے سامنے دس دس،بیس بیس روپے کے نوٹ اور بہت سارے سکے بکھرے پڑے تھے۔(جاری ہے)احمد نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا:”فریحہ!ہم ان روپوں سے نئے کھلونے خریدیں گے؟“فریحہ:”نہیں بھائی!کھلونے تو ہمارے پاس پہلے ہی بہت ہیں۔میں نے یہ روپے تھوڑے تھوڑے کرکے اس لئے جمع کیے تھے کہ کسی دن ضرورت پڑنے پر کام آئیں گے،کیا تم نے کتاب میں نہیں پڑھا،آج کی بچت کل کام آئے گی۔“اپنی بہن کے منہ سے یہ سن کر وہ کھلونے نہیں خریدیں گے،احمد کا دل بجھ گیا۔اس نے اُداس لہجے میں پوچھا:”پھر ہم ان روپوں کا کیا کریں گے؟“اس پر فریحہ نے جواب دیا:”میرے پیارے بھائی!کیا آپ کو نہیں پتا کہ اس وقت کورونا کی بیماری پھیلی ہوئی ہے اور بہت سے لوگ مشکل کا شکار ہیں،ہم ان روپوں سے ضرورت مندوں کی مدد کریں گے۔آپ یہ نوٹ گنیں،میں سکے جمع کرتی ہوں۔“وہ دونوں سکے اور نوٹ گننے لگے،کل ملا کر پانچ سو تین روپے ہوئے۔”پانچ سو تین روپے“فریحہ نے سوچتے ہوئے دہرایا۔اسی لمحے احمد نے کہا:”اتنے کم روپوں سے ہم کسی کی کیا مدد کر سکتے ہیں،چلو کھلونے خریدتے ہیں۔“فریحہ:”احمد بھائی!مدد کرنے کے لئے رقم کا زیادہ ہونا ضروری نہیں،بلکہ جذبہ اور نیت ہونا ضروری ہے۔“احمد:”نیت کیا ہوتی ہے؟اور اس کا کیا مطلب ہوا؟“فریحہ:”بھائی!نیت کہتے ہیں دل کے ارادے کو۔کسی کام کا بدلہ آپ کو ظاہری عمل کے لحاظ سے نہیں،بلکہ آپ کے دل میں کسی عمل کا جو مقصد ہو گا،اس کے مطابق آپ کو جزا یا سزا ملے گی۔“احمد:”پھر بھی پانچ سو تین روپے سے کسی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔کیوں نہ ہم ان روپوں سے کھلونے خرید لیں۔“فریحہ:”فرق پڑتا ہے بھائی!اگرچہ نظر نہیں آتا،لیکن فرق پڑتا ہے۔فرض کریں آپ کو روزانہ پانی سے بھری ایک بالٹی ملے اور روزانہ اس بالٹی سے صرف دو گلاس پانی نکال کر گملے میں رکھے پودے میں ڈال دیے جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ بھری ہوئی بالٹی میں سے دو گلاس پانی نکالنے سے بالٹی کے پانی میں کچھ خاص فرق نہیں پڑا،لیکن پودے کو زندگی مل گئی اور اس کا صلہ وہ آپ کو اپنی خوشبو سے دے گا۔“احمد:”(حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے)واہ فریحہ!تم نے کتنی عمدہ بات کہی،واقعی فرق نہیں پڑتا،صرف دیکھنے اور سمجھنے والی نظر چاہیے۔“آپ ایسا کریں یہ روپے لیں اور جتنے ہو سکیں ”ماسک“لے آئیں۔پھر ہم دونوں مل کر اپنے پڑوس میں رہنے والے غریب لوگوں میں وہ ماسک بانٹیں گے،تاکہ وہ اپنی اور دوسروں کی قیمتی زندگی کو محفوظ بنا سکیں۔“ " میرا دوست - تحریر نمبر 1950,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mera-dost-1950.html,"احمد عدنان طارقیہ ملک چین کی لوک کہانی ہے۔اس وقت وہاں چھوٹے چھوٹے ریچھ نما جانور نہیں پائے جاتے تھے۔جن کا رنگ سیاہ اور سفید ملا جلا ہوتا ہے۔ان جانوروں کو چین میں”زیانگ ماؤ“کہتے ہیں اور ہم انھیں پانڈا کہتے ہیں۔اُس وقت بانس کے گھنے جنگلوں میں ریچھ رہا کرتے تھے،جن کی کھال سفید اور بہت نرم ملائم تھی اور ایسے چمکتی تھی جیسے آسمان سے گرنے والی نئی نئی برف۔چین میں ان ریچھوں کو”بائی زیانگ“ کہتے تھے جس کا مطلب تھا،سفید ریچھ۔اس جنگل کے قریب کسی گاؤں کے ایک چھوٹے سے گھر میں ایک کسان اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔اُس کی ایک ننھی مُنی سی بیٹی چن من تھی۔گرمیوں میں ایک دن چن من اکیلی جنگل کے باہر کھیل رہی تھی۔درختوں کی چھاؤں میں ایسی ٹھنڈک تھی جیسے بہتے ہوئے جھرنے کا پانی اور سبزے پر جگہ جگہ گیندے کے زرد پھول لہرا رہے تھے۔(جاری ہے)اس نے سوچا یہ سنہرے پھول جنگل میں تھوڑا سا اندر ہی تو اُگے ہوئے ہیں۔ چند لمحوں میں ہی میں تھوڑے سے پھول توڑ لوں گی۔وہ جنگل کے اندر پھولوں کو توڑنے گئی۔جب اس نے پھول توڑ لیے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی ہر طرف ایک جیسی پگڈنڈیاں تھیں۔اُسے بالکل اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ کون سی پگڈنڈی اس کے گھر کی طرف جاتی ہے؟وہ ابھی کچھ سوچ ہی رہی تھی کہ اُسے پتوں میں سرسراہٹ سنائی دی۔اُسے ایک معصوم سا جانور نظر آیا جس کے دو بڑے کان تھے۔یہ جنگل میں پایا جانے والا ننھا ہرن تھا۔چن من کو دیکھ کر وہ ڈر گیا اور درختوں کے بیچ بھاگ نکلا۔چن من بھی اُس کے پیچھے بھاگی کہ شاید یہ اُسے گھر کی طرف لے جائے،لیکن وہ جلد ہی اُس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔اب تو چن من بالکل ہی راستہ بھول گئی۔اب اُسے ڈر بھی لگنے لگا۔ اسی وقت اُسے ایسی آوازیں آئیں جیسے کوئی درد سے کراہ رہا ہو۔وہ آواز کی طرف گئی،تاکہ جو بھی تکلیف میں ہو،اُس کی مدد کر سکے۔قریب ہی کانٹوں والی ایک جھاڑی میں کوئی ننھا سا ریچھ کا بچہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے اپنے اگلے پیر کے پنجے کو ہلاتا اور منہ سے سہلاتا۔وہ ننھا ریچھ بالکل سفید تھا۔وہ تکلیف سے کراہ رہا تھا۔اُس کے پنجے کے تلوے میں ایک کانٹا چبھا ہوا تھا۔چن من نے بہت احتیاط سے کانٹا نکال دیا۔ننھا ریچھ اُس کے ہاتھوں پر پیار سے اپنا چہرہ مس کرنے لگا۔چن من نے بھی ہاتھوں سے اُس کے سر پر پیار کیا۔اُسی لمحے ایک بہت بڑی سفید مادہ ریچھ غراتی ہوئی تیزی سے درختوں سے نکلی،لیکن جب اُس نے دیکھا کہ اُس کا بچہ ایک ننھی بچی کے ساتھ کھیل رہا ہے تو اُس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔اس نے اپنی تھوتھنی سے پہلے اپنے بچے کو اور پھر چن من کو پیار کیا۔جیسے وہ بھی اس کی بچی ہو۔وہ سفید مادہ ریچھ اتنی اچھی تھی کہ چن من کو اس سے ذرا بھی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔وہ آگے بڑھی اور اس نے مادہ ریچھ کے گلے میں اپنی باہیں ڈال دیں اور ٹھنڈی سانس بھر کر بولی:”کاش تم مجھے میرے گھر کا راستہ بتا سکتیں۔“اچانک سفید مادہ ریچھ اُٹھی اور چل پڑی۔اس نے چن من اور ننھے ریچھ کو اشارہ کیا کہ وہ اس کے پیچھے آئیں۔جلد ہی چن من نے دیکھا کہ وہ اسے راستہ دکھاتے ہوئے جنگل سے باہر لے گئی۔اس کا گھر وہاں سے نزدیک ہی تھا۔چن من اس دن کے بعد اکثر جنگل میں جانے لگی۔اس کے ماں باپ خوش تھے،کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ سفید مادہ ریچھ اس کی حفاظت کرے گی۔چن من کو اور بھی بہت سے ریچھ ملے اور ان کے ننھے بچے بھی ،لیکن کانٹے والا بچہ ہی اس کا سب سے قریبی دوست رہا۔وہ اسے ’نیاؤ نیاؤ‘کہتی تھی۔جس کا مطلب تھا،بہت ہی نرم ملائم ،کیونکہ اس کی کھال بہت نرم اور خوبصورت تھی۔نیاؤ نیاؤ کی ماں نے چن من کو ایک بہت بڑے درخت کے تنے میں بنا ہوا اپنا گھر بھی دکھایا۔چن من بار بار جنگل میں گئی۔وہ ریچھ کے ننھے بچوں سے کھیلتی اور جنگل کے طور طریقے سیکھتی اور رات ہونے سے پہلے نیاؤ نیاؤ کی ماں حفاظت سے اسے جنگل سے باہر چھوڑ آتی۔موسم بہار کی ایک سہ پہر کو چن من،نیاؤ نیاؤ کے گھر بیٹھی تھی۔وہ ریچھ کے ننھے بچوں کو کھیلتا ہوا دیکھ رہی تھی۔اچانک اسے ایسا لگا جیسے کوئی خوں خوار جانور بانس کے درختوں میں چھپا بیٹھا ہے ۔پھر اسے ایک سرخ آنکھوں والا چہرہ نظر آیا۔پیلے رنگ کے لمبے لمبے دانتوں والا خوف ناک چیتا،جس کے چھوٹے چھوٹے کان مڑے ہوئے تھے اور اس کی کھال پر دھبے تھے۔چن من اُٹھ کر چلانے لگی۔وہ ریچھ کے ننھے بچوں کو خبردار کر رہی تھی،لیکن تب تک اسے دیر ہو چکی تھی۔نوکیلے دانتوں اور تیزی سے ہلتی دُم والا بھوکا چیتا نیاؤ نیاؤ پر پل پڑا تھا۔چن من کے دل میں نیاؤ نیاؤ کے لئے اتنی محبت تھی کہ وہ ڈری نہیں۔اس نے ایک بڑا پتھر اُٹھایا اور زور سے چیتے کو دے مارا۔وحشی جانور نے غصے سے اپنا شکار چھوڑ دیا اور غراتا ہوا چن من پر پل پڑا۔اتنی دیر میں سفید مادہ ریچھ بھی بجلی کی سی تیزی سے وہاں پہنچ گئی۔چیتا اس کے غصے کو دیکھ کر میدان چھوڑ کر بھاگا،لیکن بھاگتے ہوئے اس نے اپنے نوکیلے پنجوں سے چن من پر وار کیا اور اسے زمین پر گرا دیا۔نیاؤ نیاؤ کی ماں بھاگتی ہوئی چن من کے پاس آئی اور اسے پیار سے چاٹنے لگی اور کوشش کرتی رہی کہ وہ اُٹھ جائے،لیکن چن من کے جسم میں کوئی حرکت نہ ہوئی،کیونکہ اس نے اپنی جان دے کر نیاؤ نیاؤ کی زندگی بچا لی تھی۔پورے جنگل میں اس واقعہ اور چن من کے مرنے کی خبر پھیل گئی۔مشرق،مغرب،شمال اور جنوب کی سمتوں سے بیسیوں میلوں کی دوری سے غم سے نڈھال سفید ریچھ اکٹھے ہو گئے۔وہ روتے ہوئے اپنی دوست کو یاد کر رہے تھے۔وہ بار بار زمین کی مٹی میں اپنے پنجے مار رہے تھے اور انہی سے اپنی آنسو بھری آنکھیں پونچھ رہے تھے ۔ان کے ایسا کرنے سے آنسوؤں سے گیلی مٹی سے ان کے چہروں پر بڑے بڑے نشان بننے لگے۔پھر انہی پنجوں سے انھوں نے اپنی چھاتیاں غم سے کوٹیں تو ایسے نشان ان کے جسموں پر بھی پڑنے لگے۔اس دن کے بعد آج تک چین میں سفید ریچھ نہیں پائے جاتے،بلکہ سفید اور سیاہ دھبوں والے چتکبرے ریچھ”زیانگ ماؤ“ہوتے ہیں۔ جنھیں ہم پانڈا کہتے ہیں۔وہ اب بھی چن من کے غم میں نڈھال ہیں۔یہ افسوس ہمیشہ ان کے چہروں پر چھایا رہتا ہے۔ " میرا پہلا روزہ - تحریر نمبر 1949,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mera-pehla-roza-1949.html,"غلام حسین میمنرمضان کے مہینے میں ابھی پندرہ دن باقی تھے۔امی نے گھر کی صفائی شروع کر دی تھی۔روز گھر کے کسی نہ کسی حصے کی صفائی ہو رہی تھی۔ہم ہر سال یہ دیکھا کرتے ہیں۔امی کہتی ہیں کہ یہ مبارک مہینہ مہمان بن کر مسلمانوں کے پاس آتا ہے اور بے شمار فضیلتوں اور برکتوں کا تحفہ ساتھ لاتا ہے۔میں چونکہ رمضان کی آمد سے قبل ہی امی سے کہہ چکا تھا کہ مجھے اس بار روزہ ضرور رکھوائیے گا۔پہلے تو انھوں نے یہ کہہ کر مجھے ٹالنا چاہا کہ ابھی تمہاری عمر کم ہے،ذرا اور بڑے ہو جاؤ․․․․مگر میرا اصرار دیکھ کر انھوں نے ہامی بھر لی۔رمضان کا چاند نظر آیا تو سب گھر والوں کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔خوش تو میں بھی بہت تھا کہ رمضان کی بہاریں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔(جاری ہے)سب گھر والوں نے ایک دوسرے کو رمضان کے مہینے کی مبارک دی۔امی نے پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا:”جب چھٹا روزہ ہو گا تو تم اپنا پہلا روزہ رکھ لینا۔اس روز ہم تمہاری روزہ کشائی کریں گے۔“”امی!کل کیوں نہیں․․․․“میں نے پوچھا تو انھوں نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:”بیٹا!روزہ کشائی کی تیاری اور مہمانوں کو دعوت دینے میں کچھ وقت تو لگے گا۔“آخر وہ دن آہی گیا۔سحری تو میں روز ہی کرتا تھا،مگر آج کی سحری کا خاص ہی اہتمام تھا۔سب گھر والے مجھے کھلانے پر زور دے رہے تھے۔ابو پریشان تھے کہ کہیں کم عمری کی وجہ سے بھوک اور پیاس مجھے پریشان نہ کرے۔اتنی دیر میں اذان فجر ہوئی اور ہم مسجد کی طرف چل دیے۔ واپس آکر سب نے تلاوت قرآن پاک کی۔بعد میں ابو نے علیحدہ سے تلاوت اور ترجمہ سنا کر ہمیں سمجھایا۔کچھ دیر بعد سب دوبارہ اپنی نیند پوری کرنے کے لئے لیٹ گئے۔صبح ابو کے دفتر کی چھٹی تھی۔میری آنکھ کھلی تو امی اور باجی گھر کے کاموں میں لگی ہوئی تھیں۔امی نے شفقت بھری نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا کہ جاؤ سو جاؤ۔میں ظہر کے وقت تمہیں جگا دوں گی،مگر میری نیند تو پوری ہو چکی تھی۔اس لئے میں پڑھائی میں مصروف ہو گیا۔میں امی اور باجی کو دیکھنے لگا کہ وہ کس شوق سے مہمانوں کے لئے اہتمام کرنے میں مصروف تھیں۔دوپہر کے وقت پیاس اور بھوک کا احساس ہوا،مگر میں نے روزے کا تصور کرکے اسے کوئی اہمیت نہ دی۔روزے کے تصور سے ہی میرا دل بے حد خوش تھا۔نماز ظہر کے بعد ایک بار پھر تلاوت قرآن کا موقع ملا۔اس کے بعد میں ہمدرد نونہال لے کر مضامین اور کہانیاں پڑھنے لگا۔ امی اور باجی باورچی خانے میں افطاری کی تیاری میں مصروف ہو گئیں۔عصر سے کچھ دیر پہلے پیاس نے پریشان کیا،مگر میں اس وقت ٹی وی پر روزے کی فضیلت پر بیان سن رہا تھا۔عصر کے بعد بھوک اور پیاس کی شدت میں اضافہ ہوا۔اس وقت امی باورچی خانے میں کام سے فارغ ہو چکی تھیں۔انھوں نے مجھے بستر پر لٹا کر میرا سر اپنی گود میں رکھا اور میرے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔روزہ افطار کا وقت قریب آرہا تھا۔میرا دل خوش خوش تھا۔پہلا روزہ مکمل ہونے والا تھا۔کچھ مہمان آچکے تھے اور باقی مہمانوں کی آمد جاری تھیں۔اذان مغرب کے ساتھ ہی میں نے سب کے ساتھ روزہ کھولنے کی دعا پڑھی اور کھجور اور پانی سے روزہ افطار کیا۔اس کے بعد شربت،پھل اور سموسے کھانے کے بعد نماز پڑھی۔روزہ رکھ کر جو روحانی خوشی مجھے ملی تھی،اس نے میرا شوق اور بڑھا دیا تھا۔میں نے باقی روزے رکھنے کا عزم کر لیا،کیونکہ اب میں اپنے اندر روزہ رکھنے کی ہمت محسوس کر رہا تھا۔سب عزیزوں اور گھر والوں نے مبارک باد دی اور تحفے بھی دیے۔کھانے کے بعد مہمان رخصت ہو گئے اور ہم نماز عشاء اور تراویح کے لئے مسجد کی طرف روانہ ہو گئے۔ " روزہ اور تندرستی - تحریر نمبر 1948,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/roza-aur-tandrusti-1948.html,"قدسیہ حیدر”دادا جان!چاند نظر آگیا۔مبارک ہو۔“اُسامہ دوڑتا ہوا ان کے کمرے میں داخل ہوا۔دادا جان نے بھی اسے مبارک باد دی اور پوچھا:”اُسامہ بیٹا!ان شاء اللہ کل تم روزہ رکھو گے؟“”جی دادا جان!“”اور اس مرتبہ تو میں بھی رکھو گی۔“یسریٰ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔”جی ہاں!بالکل۔“دادا جان نے دونوں بچوں کو محبت کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا:”بچو!روزہ رکھنے کا بہت ثواب ہے۔“اُسامہ:”جی ہاں!اور ہماری استانی صاحبہ نے بتایا تھا کہ روزہ ہمارے جسم اور دماغ کی صحت کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔“یسریٰ نے پوچھا:”یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی،دادا جان!یہ کیسے ممکن ہے؟“دادا جان نے روزے کے فائدے بتاتے ہوئے کہا:”بچو!جب ہم روزے کی حالت میں کچھ گھنٹوں کے لئے کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں تو ہمارے معدے کو آرام ملتا ہے اور اس کے اندرونی نظام کی تجدید ہوتی ہے۔(جاری ہے)ہمارے جسم میں کھانے کے دوران جو نقصان دہ اجزاء پیدا ہو جاتے ہیں،وہ جسم سے باہر نکل جاتے ہیں۔اس طرح ہم کئی بیماریوں سے بچ جاتے ہیں۔“اُسامہ نے کہا:”ہمارے جسم کی زائد چربی بھی گھل جاتی ہے اور موٹاپا کم ہو جاتا ہے۔کولیسٹرول بھی کم ہو جاتا ہے۔“دادا جان نے تصدیق کی:”ہاں!یہی موٹاپا دل اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کی جڑ ہے۔“یسریٰ نے پوچھا:”اور دماغ کو کیسے فائدہ پہنچتا ہے اور یہ تیز کیسے ہو جاتا ہے؟“دادا جان نے ہنستے ہوئے بتایا:”دماغ سے کچھ ایسے کیمیائی مادے خارج ہوتے ہیں ،جو جسم کے خلیوں کی مرمت کرتے ہیں۔“اُسامہ نے کہا:”روزہ رکھنے سے ہماری وقت بے وقت کھانے کی عادت بھی ختم ہو جاتی ہے اور بد ہضمی بھی نہیں ہوتی۔“دادا جان نے اضافہ کیا:”اس طرح ہم میں نظم و ضبط بھی پیدا ہوتا ہے۔“اُسامہ نے کہا:”دادا جان!میں کبھی کبھار روزے کی حالت میں کمزوری محسوس کرتا ہوں اور افطار کرنے کے بعد مجھے سستی محسوس ہوتی ہے۔“دادا جان نے بتایا:”اس کا تعلق غذا کے استعمال سے ہے۔اگر سحری میں توانائی بخش اور افطار میں سادہ اور ہلکی غذا کھائی جائے تویہ شکایت نہیں ہو گی۔تم دونوں ایسا کرو کہ ایک ایک چارٹ بناؤ۔اُسامہ تم سحری میں کھائی جانے والی غذاؤں کا اور یسریٰ تم افطار میں بنائی جانے والی چیزوں کا چارٹ بناؤ۔“دونوں بچے چارٹ بنانے چلے گئے اور تھوڑی دیر میں چارٹ بنا لائے۔اُسامہ نے سحری کا توانائی سے بھرپور چارٹ بنایا اور دادا جان کو دکھایا۔انھوں نے چارٹ پڑھتے ہوئے کہا:”دلیا،روٹی،پراٹھا،اس میں موجود کاربوہائیڈریٹ تمام دن توانائی پہنچاتے ہیں۔انڈا،کباب،قیمہ اس سے پروٹین اور کیلشیئم ملتی ہے۔دودھ،دہی،لسی،پانی ان چیزوں سے جسم کو طاقت اور توانائی کے ساتھ پانی کی کمی پوری ہوتی ہے۔“”یسریٰ بیٹی!کیا تمہارا چارٹ تیار ہے؟“یسریٰ نے اپنا چارٹ آگے بڑھایا:”یہ دیکھے دادا جان!“دادا جان یسریٰ کا چارٹ دیکھ کر بولے:”درست!پھل اور خصوصاً اگر ایک یا دو کھجور کھائی جائے تو اس میں موجود شکر اور پوٹاشیم روزے کے دوران کھوئی ہوئی طاقت بحال کرتے ہیں۔سموسوں،رول اور پکوڑوں سے معدے پر بوجھ پڑتا ہے،کیونکہ یہ چیزیں دیر سے ہضم ہوتی ہیں اور معدہ جو کئی گھنٹے سے کام نہیں کر رہا ہوتا ہے،اس کے لئے یہ چیزیں نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔یسریٰ بیٹی کے چارٹ میں سینڈوچ، پھلوں یا سبزیوں کی سلاد،تازہ پھلوں کا رس یا لیموں کا شربت شامل ہے اور کھجور!سب سے بہترین چیز ہے جو فوری توانائی پہنچاتی ہے اور سنت کا ثواب بھی ملتا ہے۔“اُسامہ:”اب سمجھ میں آیا کہ روزہ ہمیں بیماریوں سے بھی بچاتا ہے۔“دادا جان بولے:”ماشاء اللہ!تم نے بالکل درست کہا۔اب تم دونوں سونے کی تیاری کرو،تاکہ سحری میں آسانی سے جاگ سکو۔“ " امی کا دوپٹہ - تحریر نمبر 1947,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ammi-ka-dopata-1947.html,"مریم شہزادمیں آج بہت خوش تھی،کل میرے اسکول میں فنکشن ہے جس میں مجھے امی کا کردار ادا کرنا ہے،اسکول میں فائنل تیاری کے بعد بھی آج مجھے گھر میں اچھی طرح سے تیاری کرنی تھی،کیونکہ ٹیچر نے کہا تھا کہ اپنی امی کو اچھی طرح سے دیکھنا کیسے اُٹھتی بیٹھتی ہیں،کام کرتے وقت دوپٹہ کیسے لیتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔آج چھٹی تھی،مگر اس کے باوجود میں صبح صبح ہی جاگ اُٹھی۔سارا دن میں امی کو دیکھتی رہی کہ کیا کیا کام کس طرح کیا۔رات کو اچانک یاد آیا کہ مجھے جو کپڑے کل پہننے ہیں اس کا تو دوپٹہ ہی نہیں تھا۔میں نے پریشان ہو کر امی سے کہا تو انھوں نے تسلی دی:”کوئی بات نہیں،تم یہ دوپٹہ لے لینا جو میں نے اوڑھا ہوا ہے،یہ اچھا میچ ہو جائے گا۔“”یہ دوپٹہ!․․․․“میں ایک دم پریشان ہو گئی۔(جاری ہے)”کیوں،کیا ہوا؟“امی نے پوچھا تو میں نے کہا:”نہیں کچھ نہیں،بس میں سونے جا رہی ہوں۔“میں بستر پر آکر لیٹ گئی،مگر نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔میری آنکھوں میں صبح سے اب تک کی امی کی مصروفیات چل رہی تھیں۔صبح صبح امی نے دھلا ہوا دوپٹہ لیا اور کچن میں آگئیں۔ناشتہ بناتے بناتے امی نے جتنی بار ہاتھ دھوئے اسی دوپٹے سے خشک کیے،پھر برتن دھونے کے بعد بھی دوپٹے سے ہی ہاتھ پونچھے۔کھانا پکاتے اور روٹی بنانے میں گرمی کی وجہ سے چہرے پر آیا ہوا پسینا صاف کرنے میں بھی دوپٹہ ہی کام آیا۔چھوٹا بھائی مٹی میں کھیل کر باہر سے آیا تب اس کے ہاتھوں کی مٹی بھی اسی دوپٹے سے صاف کر دی۔گرم پتیلی چولہے سے اتار کر ایک طرف رکھی تو وہ بھی دوپٹے سے ہی پکڑ کر،اور تو اور منی کی بہتی ہوئی ناک بھی کتنی ہی مرتبہ دوپٹے کے کونے سے صاف کر دی۔”اُف!میں یہ دوپٹہ کیسے لوں گی۔“میں یہ سوچتے سوچتے سو گئی۔صبح جب میں اُٹھی اور اسکول کے لئے تیار ہو کر باہر آگئی تو سامنے ہی امی کا دوپٹہ دھلا اور استری کیا ہوا رکھا تھا۔پتا نہیں امی نے یہ کب دھویا اور استری کیا۔میں نے سوچا اور خوشی خوشی دوپٹہ لے کر اسکول چلی گئی۔ " فقیر کی بد دعا - تحریر نمبر 1946,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/faqeer-ki-bad-dua-1946.html,"رابعہ فاروقچچا چمن محلے کے سب سے کنجوس آدمی تھے۔ان کے گھر کوئی مہمان چلا جائے تو رسمی گفتگو کے بعد پوچھتے:”چائے تو نہیں پئیں گے نا؟ نقصان دہ ہے۔ہاں شربت تھوڑا گرم ہے،چلے گا کیا؟کیک،بسکٹ والی دوکان ابھی بند پڑی ہے کیا کروں؟سموسے والا تو ابھی تیل گرم کر رہا ہے۔کافی وقت لگے گا۔آپ کہاں اتنی دیر بیٹھیں گے؟“وغیرہ وغیرہ۔مہمان بے چارہ یہ سن کر شرمندہ ہو جاتا۔ایک دن دوپہر کو کسی فقیر نے ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔چچا چمن نے دروازہ کھولے بغیر پوچھا:”کون ہے؟“فقیر بولا:”بیٹا!مہربانی کرو،مجھے دس روپے دے دو میرے پاس سالن ہے روٹی لے کر کھا لوں گا۔“”جاؤ،جاؤ،دفع ہو جاؤ،نہیں ہیں میرے پاس پیسے،پتا نہیں کہاں سے ایسے بے کار لوگ آجاتے ہیں مانگنے کے لئے۔(جاری ہے)کھانے سے دل نہیں بھرتا۔“چچا چمن نے بے چارے فقیر کو خوب باتیں سنائیں۔فقیر مایوس ہو گیا۔آخر اس کی زبان سے بد دعا نکلی:”اللہ تجھے ہمیشہ کھانے سے دور رکھیے،تو بھی کچھ نہ کھا سکے۔“اتنا کہہ کر وہ چلا گیا۔چند روز بعد چچا چمن کے معدے میں شدید درد اُٹھا۔درد اتنا شدید تھا کہ وہ تڑپ تڑپ اُٹھے۔گھر والے ان کو اسپتال لے گئے۔اسپتال میں چچا چمن کے مختلف ٹیسٹ ہوئے۔آخر معدے کا السر شخیص ہوا۔ڈاکٹر نے ہدایت کی کہ دس پندرہ دن تک اسپتال میں رہنا ہو گا،تاکہ مکمل علاج معالجہ کیا جا سکے۔اسپتال سے گھر واپس آئے تو کمزوری سے نڈھال تھے۔بہت بُرا حال تھا۔کوئی چیز ہضم نہ ہوتی۔دہی بھی کھاتے تو اُلٹی ہو جاتی۔ڈاکٹر کے پاس جاتے تو وہ کہتا بد پرہیزی کی ہے،ٹیسٹ کرواتے تو سب ٹھیک آتے۔دوا باقاعدگی سے استعمال کرنے کے باوجود طبیعت سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی۔رنگ پیلا پڑ گیا تھا۔تھوڑا سا کھانے پر بھی اُلٹی ہو جاتی۔چچا چمن کی راتوں کی نیند اُڑ چکی ہے۔اُن کو موت کا خوف ہونے لگا۔ایک رات سوچتے سوچتے انھیں نیند آگئی۔خواب میں دیکھا کہ پلاؤ کی دیگ کے قریب بیٹھے ہیں اور سب کو چاول بانٹ رہے ہیں۔صبح اُٹھ کر چچا چمن نے گھر والوں کو اپنا خواب سنایا۔انھوں نے مشورہ دیا کہ غریبوں کو کھانا کھلائیں۔چچا چمن نے خیر و باورچی کو بلوایا اور اس سے پوچھا:”بیٹا پلاؤ کی دس کلو والی دیگ پر کتنا خرچ آجائے گا؟“باورچی نے خرچ بتایا۔چچا چمن دس کلو کی دیگ پر ہونے والے خرچ کا سن کر بڑے پریشان ہوئے،لیکن پھر سوچا کہ شاید خیرات کرنے سے میں ٹھیک ہو جاؤں۔انھوں نے اتوار کی ایک دوپہر کو یہ مشکل مرحلہ طے کر ہی لیا۔محلے کے نوجوانوں کی مدد سے محلے داروں اور غریب غربا میں چاولوں کی تقسیم ہوئی۔چچا چمن اب کافی پُرسکون رہنے لگے،طبیعت بھی قدرے بہتر محسوس ہونے لگی،لیکن جب اس فقیر کا خیال آتا تو پھر وہی منحوس درد شروع ہو جاتا۔یونہی کئی دن بیت گئے۔ایک شام کو کسی فقیر کی آواز آئی:”اللہ کے نام پر دے دو بابا!“چچا چمن بھاگ کر گئے۔وہی فقیر کھڑا تھا،جس نے انھیں بد دعا دی تھی۔چچا چمن اس کا بازو پکڑ کر اندر لے آئے۔فوراً ہی انھوں نے اپنے بڑے لڑکے کو ہوٹل سے کئی قسم کے کھانے لانے کے لئے دوڑایا۔کچھ ہی دیر میں لڑکا ہوٹل سے شامی کباب،بریانی،قورمہ،روٹیاں اور آئس کریم لے آیا۔چچا چمن اور فقیر نے پیٹ بھر کر کھایا۔جاتے وقت فقیر بہت خوش تھا۔ایک ہفتے علاج کے بعد چچا چمن مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے تھے۔ " سبق - تحریر نمبر 1945,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sabaq-1945.html,"نذیر انبالویاحمد کو کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے امی ابو،دادا اور بڑے بھائی کے ساتھ ساتھ چچا ظہیر بھی کبھی کبھی اس کے لئے کہانیوں کی کتابیں لاتے رہتے تھے۔اس نے سب سے یہ کہہ رکھا تھا کہ امتحان میں کامیابی اور سالگرہ کے موقع پر اسے صرف کتابوں کا ہی تحفہ دیا جائے تو اسے زیادہ خوشی ہو گی۔کتابیں پڑھ پڑھ کر اسے لکھنے اور تقریر کرنے کا فن بھی آگیا تھا۔اسکول کے میگزین ”روشن مستقبل“ میں اس کی کہانی شائع ہوئی تو اس کی خوشی قابل دید تھی۔تقریری مقابلے میں جب اس نے اول درجہ حاصل کیا تو مارے خوشی کے اس کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔اسکول میں پرنسپل اور اساتذہ اس کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا تھا۔(جاری ہے)ایک دن احمد حسب معمول اسکول سے پیدل گھر آرہا تھا کہ ایک نوجوان موٹر سائیکل سوار نے اس کے قریب آکر احمد کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا:”تم احمد ہو۔“”جی،جی میں احمد ہی ہوں۔“احمد نے فوراً جواب دیا۔”جلدی سے موٹر سائیکل پر بیٹھ جاؤ۔“نوجوان نے کہا۔”کیوں،میں کیوں تمہاری موٹر سائیکل پر بیٹھوں؟“احمد کے قدم تیزی سے گھر کی طرف بڑھ رہے تھے۔”تمہارے ابو جان ایک حادثے میں شدید زخمی ہو گئے ہیں،وہ اس وقت اسپتال میں ہیں،تمہارے گھر والوں نے مجھے تمہیں لانے کے لئے بھیجا ہے،وقت ضائع مت کرو،جلدی سے موٹر سائیکل پر بیٹھ جاؤ۔“”میں تمہیں نہیں جانتا،میں اپنے گھر جاؤں گا۔“احمد کسی صورت موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے لئے تیار نہ تھا۔”تم مجھے نہیں جانتے،مگر میں تو تمہیں جانتا ہوں،تمہارے ابو کا نام ارشد ہے،تمہارے دادا عبدالقیوم ہیں اور تمہارے بڑے بھائی کا نام احسن ہے،یہ سب بتانا کافی نہیں،آؤ اب موٹر سائیکل پر بیٹھ جاؤ۔“نوجوان یہ کہتے ہوئے مسلسل اس کے ساتھ چل رہا تھا۔”میں اس کے باوجود تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا،میں صرف اور صرف اپنے گھر جاؤں گا۔دادا جان اور امی جان سے ملوں گا۔جاؤ یہاں سے ورنہ میں شور مچا کر لوگوں کو اکٹھا کر لوں گا۔“احمد کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔نوجوان گھبرا سا گیا۔اسی گھبراہٹ میں وہ تیزی سے بازار کی طرف جاتے ہوئے ایک راہ گیر سے ٹکرایا تو پل بھر میں وہاں ہنگامہ برپا ہو گیا۔احمد اس ہنگامے سے بے نیاز اپنے گھر کی طرف چلتا رہا۔وہ گھر میں داخل ہوا تو دادا جان کی مسکراہٹ نے اس کا استقبال کیا۔احمد کی گھبراہٹ اور زرد چہرہ دیکھ کر دادا جان نے پوچھا:”احمد!کیا ہوا ہے؟“”وہ․․․․وہ․․․․ابو جان کہاں ہیں؟“احمد سے بات بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔”وہ اس وقت اپنے آفس میں ہیں،تھوڑی دیر پہلے میری ان سے بات ہوئی ہے۔“دادا جان نے جواب دیا۔”تو پھر وہ نوجوان جھوٹ بول رہا تھا۔“”کون نوجوان؟“دادا جان کچھ سمجھ نہ سکے تھے۔احمد نے سارا قصہ سنا کر پوچھا:”اسے ہمارے گھر والوں کے نام کیسے معلوم ہو گئے؟“دادا جان نے اس کی حاضر دماغی کی داد دی اور بتایا:”ایک نوجوان لڑکے نے محلے کے دکان دار سے دوستی کر لی تھی۔وہ گھنٹوں وہاں بیٹھا باتیں کرتا رہتا تھا۔میرا خیال ہے کہ وہ نوجوان وہی ہو گا اور یہ معلومات اسے دکان دار سے حاصل ہوئی ہوں گی۔“احمد نے کہا:”میں نے چند دن پہلے ایک کہانی پڑھی تھی،جس میں ایک آدمی اسی طرح غلط بیانی کرکے بچوں کو اغوا کرتا ہے،جب نوجوان نے مجھے موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے لئے کہا تو مجھے فوراً وہ کہانی یاد آگئی تھی،جس میں بچہ اس آدمی کی باتوں میں آجاتا ہے اور بغیر کچھ سوچے سمجھے موٹر سائیکل پر بیٹھ جاتا ہے،نوجوان پھر اسے ایک کمرے میں بند کر دیتا ہے۔بچہ رات تک کمرے میں بھوکا پیاسا بند رہتا۔تاوان کی رقم کے لئے اس کے والد سے رابطہ کیا گیا۔ایک دن بعد بچے کے والد نے مطلوبہ رقم دینے پر آمادگی ظاہر کی۔وقت اور جگہ کا تعین ہو گیا۔جب وہ رقم لے کر پہنچے تو پولیس کے اہلکار فقیروں کا روپ دھارے وہاں پہلے ہی موجود تھے۔اغوا کرنے والے کو وہیں دھر لیا گیا۔شام تک بچہ اپنے گھر پہنچ چکا تھا۔میں نے جب یہ کہانی پڑھی تو میں نے اس سے یہ سبق حاصل کیا تھا کہ بچوں کو ہر لمحے اپنے حواس بحال رکھنا چاہیے اور نہایت ہوشیاری سے اپنی حفاظت کرنا چاہیے،تاکہ کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔“احمد بولتا چلا گیا۔دادا نے کہا:”کہانیاں لکھنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ بچے اس سے کچھ نہ کچھ سبق ضرور حاصل کریں۔“ " ہر ہاتھ ملانے والا شخص دوست نہیں ہوتا‎ - تحریر نمبر 1944,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/har-hath-milane-wala-shakhash-dost-nahi-hota-1944.html,"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شہر میں دو دوست رہتے تھے۔ ایک کا نام احمد تھا اور ایک کا نام شہریار۔ دونوں اچھی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن شہریار امیر تھا۔اس کے پاس بارہ مرغیاں تھیں جو سونے کا انڈا دیتی تھیں۔ احمد کو شہریار کی امیری پر حسد تھا۔ ایک دن احمد نے سوچا کہ کس طرح اس کی مرغیوں کو چرایا جائے تاکہ ایک دن وہ بھی اپنے دوست کی طرح امیر ہو جائے۔پھر ایک دن احمد بہت ہمت اور کوشش کرکے شہریار کی ایک مرغی چرانے میں کامیاب ہوگیا۔ اگلے دن جب شہریار نے اپنی ایک مرغی غائب دیکھی تو بہت پریشان ہوا۔ اس نے اپنے اردگرد محلے کے لوگوں سے معلوم کرنے کی کوشش کی مگر کسی کو بھی پتہ نہ تھا کہ شہریار کی مرغی کس نے چرائی ہے۔ اگلے روز رات کو پھر یہی ہوا اور اب شہریار کی بارہ میں سے دس مرغیاں رہ گئی تھیں۔(جاری ہے)شہریار کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔ وہ رات کے اندھیرے میں گھر کے خاص کونے میں چھپ گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا دوست احمد ہی آدھی رات کو گھر میں گھس کر شہریار کی مرغیاں چراتا ہے۔ شہریار یہ دیکھ کر بہت حیران بھی ہوا اور مایوس بھی کہ اس کا اپنا دوست ہی اس کی خوشیوں میں ڈاکا ڈال رہا ہے۔پھر کیا تھا شہریار چور کو پکڑنے میں کامیاب ہوگیا اور احمد کو اس کے جرم کی سزا ملی۔ احمد کے ہاتھ سزا کے طور پر کاٹ دیے گئے۔احمد اپنی غلطی پر بہت نادم تھا اور شہر کے باقی لوگ بھی اس سے عبرت حاصل کررہے تھے۔پیارے بچوں! ہر ہاتھ ملانے والا شخص دوست نہیں ہوتا۔ " بطخ - تحریر نمبر 1943,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/duck-1943.html,"محمد فرحان اشرفبطخ کا شمار پالتو پرندوں میں ہوتا ہے۔اسے دنیا بھر میں گوشت اور انڈوں کے لئے پالا جاتا ہے۔اس گروہ کے دیگر پرندے مرغابی اور ہنس ہیں۔دنیا میں بطخ کی 120 کے قریب اقسام پائی جاتی ہیں۔یہ ایسا پرندہ ہے جو اپنا زیادہ وقت پانی کے اندر گزارتا ہے۔اس کی کئی اقسام ہوا میں اُڑ سکتی ہیں۔گھروں میں پالی جانے والی بطخ زیادہ اونچا نہیں اُڑ سکتی۔بطخ کی سب سے اہم نشانی اس کی چوڑی چونچ ہوتی ہے۔اس کی چونچ میں دندانے ہوتے ہیں،جن کی مدد سے یہ مختلف چیزیں پکڑ سکتی ہے۔چونچ میں دو چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں،جو اس کی ناک کا کام دیتے ہیں۔اس کی چونچ دشمن پر حملہ کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔یہ اپنی چونچ سے اپنے پروں میں کنگھی کرتی ہے۔(جاری ہے)جسامتاس پرندے کا وزن ایک سے ڈیڑھ کلو گرام اور جسم کی لمبائی چونچ سے دُم تک تقریباً دو فیٹ ہوتی ہے۔بطخ کی گردن لمبی،ٹانگیں مضبوط اور پیر جھلی دار چوڑے ہوتے ہیں،جن کی مدد سے یہ پانی کے اندر تیرتی ہے۔بطخ کے پَر عام طور پر سفید اور سیاہ ہوتے ہیں،لیکن اس کی کئی اقسام کے پَر رنگین ہوتے ہیں۔بطخ کی اوسط عمر دس سال تک ہوتی ہے۔یہ پرندہ براعظم انٹارکٹکا (Antarctica) کے علاوہ ہر براعظم میں پایا جاتا ہے۔اس کی کچھ اقسام قطب شمالی کی ٹھنڈی جھیلوں کے کنارے پائی جاتی ہیں۔بطخ گھاس پھونس،آبی پودے،چھوٹی مچھلیاں،کیڑے مکوڑے اور مینڈک وغیرہ کھاتی ہے۔اس کا انڈا مرغی کے انڈے سے بڑا ہوتا ہے۔انڈے کی زردی سرخی مائل پیلی اور مرغی کے انڈے سے بڑی ہوتی ہے۔مرغی کے انڈے سے اس کے انڈے میں زیادہ مقدار میں غذائیت پائی جاتی ہے۔انڈے کا چھلکا مضبوط ہوتا ہے،جس کی وجہ سے یہ دیر تک محفوظ رہتا ہے۔برسات کے موسم میں مادہ بطخ پانی کے قریب گھونسلا بنا کر اس میں سات سے سولہ تک انڈے دیتی ہے۔ان انڈوں سے 28 دنوں کے بعد بچے نکل آتے ہیں۔انڈوں سے نکلتے ہی بچے اپنی ماں کے ساتھ پانی میں تیرنے لگتے ہیں۔بطخ گھونسلا بنا کر اسے اپنے پَروں سے سجاتی ہے۔بطخ کے کئی دشمن ہیں۔گہرے پانی میں تیرتے ہوئے مچھلیاں اسے شکار کر لیتی ہیں۔بھیڑیا اور لومڑی اس کے بچوں کو موقع ملتے ہی کھا جاتے ہیں۔ڈک ہاک نامی عقاب بطخ کو شکار کر لیتا ہے۔انسانوں کی طرح بطخیں بھی آپس میں مل جل کر رہتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ بھی رکھتی ہیں۔یہ پرندہ بہت جلد بیمار ہو جاتا ہے۔قدیم زمانے سے انسان اس پرندے کو پالتا آرہا ہے۔اہرام مصر کی دیواروں پر بھی اس کی تصاویر پائی گئی ہیں۔رومی لوگ انڈوں کے حصول کے لئے اسے پالتے تھے۔دنیا بھر میں بطخ کو پالنے کے بڑے بڑے فارم موجود ہیں۔بطخ کی فارمنگ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔دنیا کے کئی ممالک میں لوک داستانوں میں اس پرندے کا ذکر ملتا ہے۔کم گہرے پانی کی بطخ عام طور پر تالابوں،جھیلوں اور جوہڑوں کے کنارے رہتی ہے۔یہ پانی کی سطح پر تیرتی ہے اور وہیں سے خوراک حاصل کرتی ہے۔یہ خطرہ محسوس کرتے ہی اُڑ جاتی ہے۔زیادہ گہرے پانی میں رہنے والی بطخ خوراک کے حصول کے لئے پانی کے اندر دس فیٹ تک غوطہ لگاتی ہے۔اس قسم کی ایک بطخ لمبی دُم والی بطخ کہلاتی ہے۔جو پانی کے اندر 200 فیٹ کی گہرائی تک غوطہ لگا سکتی ہے۔پانی پر تیرتے ہوئے بھی یہ پانی میں بار بار غوطہ لگاتی رہتی ہے۔ " اعتبار - تحریر نمبر 1942,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aitbar-1942.html,"شہلا جمالیاسر کے والدین پڑھے لکھے تھے اور بہن بھائی بھی اچھی عادتوں کے مالک تھے۔یاسر پڑھائی میں تیز،لیکن جھوٹ بولنے کی عادت میں مبتلا تھا۔ایک دن یاسر نے ہوم ورک نہیں کیا،کیونکہ وہ اسکول سے آنے کے بعد شام تک دوستوں کے ساتھ کھیلتا رہا اور جب گھر آیا تو بہت تھک چکا تھا،اس لئے کھانا کھاتے ہی سو گیا۔دوسرے دن جب وہ اسکول گیا تو ٹیچر نے ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ پوچھی۔”میرے دادا جان کو دل کا دورہ پڑ گیا تھا،سب گھر والے پریشان تھے اور ہم سب اسپتال چلے گئے تھے۔رات کو واپس آئے،اس لئے ہوم ورک کرنے کا وقت نہیں ملا۔“یاسر نے معصوم سی صورت بنا کر کہا۔”اچھا بیٹا!کوئی بات نہیں آپ آج اپنا ہوم ورک مکمل کر لیجیے گا۔“ٹیچر نے جواب دیا۔(جاری ہے)”یاسر اس بات سے بہت خوش ہوا کہ اس کے جھوٹ کو سچ مان لیا گیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ میں بہت اچھی اداکاری کر لیتا ہوں اور وقت پڑنے پر جھوٹ سے کام لیا جا سکتا ہے۔“یاسر کی امی جب اسکول فیس جمع کرانے گئیں تو انھیں یاسر کی کلاس ٹیچر مل گئیں۔”مجھے یاسر نے بتایا تھا کہ اس کے دادا کو دل کا دورہ پڑا ہے،اب وہ کیسے ہیں؟“ٹیچر نے پوچھا۔”وہ تو بالکل ٹھیک ہیں،یاسر نے آپ سے ایسا کیوں کہا؟“امی نے پوچھا۔یاسر کی ٹیچر نے امی کو ساری بات بتائی۔امی نے ٹیچر سے معذرت کی اور پوچھا:”یاسر پڑھائی میں کیسا ہے؟“”اچھا پڑھنے والا بچہ ہے اگر اور محنت کرے تو مزید اچھے نمبر لا سکتا ہے۔“ٹیچر نے جواب دیا۔یاسر جب دوپہر کو اسکول سے گھر آیا تو امی نے کہا:”بیٹا!جھوٹ کبھی چھپ نہیں سکتا اور تم نے تو اپنی ٹیچر سے دادا جان کی جھوٹی بیماری کا بہانا کر دیا۔مجھے تمہارے جھوٹ کی وجہ سے بہت شرمندگی ہوئی۔“”امی!اگر مشکل وقت میں جھوٹ سے کام چل جائے تو اچھا ہے۔“یاسر نے ڈھٹائی سے کہا۔”نہیں بیٹا!جھوٹ،جھوٹ ہے یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ہمیشہ یاد رکھنا جھوٹ کبھی سچ نہیں بن سکتا اور نہ کبھی چھپ سکتا ہے۔“یاسر پر امی کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔وہ اسی طرح دوستوں اور گھر والوں سے جھوٹ بولتا رہا۔جھوٹ بولنے سے یاسر کو یہ نقصان ضرور ہوا کہ سب کا اعتبار اس پر سے اُٹھ گیا۔اب کوئی بھی یاسر کی بات پر یقین نہیں کرتا تھا،مگر یاسر کو اس کی پروا نہیں تھی۔”بیٹا!مجھے گھر میں کام ہے اور آج تمہاری اسکول فیس جمع کرانی ہے۔میں تمہیں اسکول کی فیس دے رہی ہوں،جمع کرا کے رسید لے آنا۔“ یاسر کی امی نے یاسر کو تاکید کی۔”جی امی!میں فیس جمع کرا دوں گا۔“یاسر نے جواب دیا۔یاسر نے اسکول جا کر جب فیس جمع کرانے کے لئے اپنا بستہ کھولا تو اس میں پیسے نہیں تھے۔وہ سارا دن اسکول میں پریشان رہا کہ فیس کے پیسے کہاں چلے گئے،جب کہ امی نے فیس کے پیسے اس کے ہاتھ میں دیے تھے اور اس نے وہ پیسے کتاب میں رکھے تھے،مگر اب وہ پورے بستے میں نہیں مل رہے تھے۔گھر پہنچ کر بھی یاسر اُداس رہا۔امی نے اُداسی کی وجہ پوچھی تو یاسر نے ساری بات بتائی۔”بیٹا!جھوٹ نہیں بولتے۔“امی نے خفگی سے کہا۔”نہیں امی!میں جھوٹ نہیں بول رہا۔“یاسر روہانسا ہو گیا۔”دیکھو میں نے تمہیں کتنا سمجھایا ہے کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولتے،مگر تم باز نہیں آئے۔“امی نے پھر ڈانٹا۔”امی!میں سچ کہہ رہا ہوں میں جھوٹ نہیں بول رہا۔“یاسر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ امی کو کیسے یقین دلائے۔دوسرے دن یاسر کی امی نے خود اسکول جا کر فیس جمع کرا دی۔اس واقعے سے یاسر کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا۔جب میں جھوٹ بولتا تھا تو سب یقین کر لیتے تھے اور اب جب کہ میں واقعی سچ بول رہا ہوں تو امی یقین نہیں کر رہی ہیں۔یاسر نے اپنی بڑی بہن کو ساری بات بتائی۔”جب انسان جھوٹ بولتا ہے تو اس کا اعتبار ختم ہو جاتا ہے اور کوئی بھی اُس پر یقین نہیں کرتا۔اسی لئے امی جان بھی تمہاری بات کا یقین نہیں کر پا رہی ہیں۔“یاسر کی بہن نے سمجھایا۔”میں آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔مجھے معلوم نہیں تھاکہ جھوٹ بولنے والا اگر کبھی سچ بھی بولے تو اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔“یاسر نے عزم سے کہا۔یاسر اسکول میں اُداس رہنے لگا تھا۔دوستوں سے اب مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولتا تھا اور پڑھائی میں مگن ہو گیا،مگر اسے اس بات کی فکر تھی کہ وہ امی کو اپنے سچ کا یقین کیسے دلائے،ان کا اعتبار کیسے حاصل کیا جائے۔امتحان ختم ہو چکے تھے اور یاسر کی چھٹیاں تھیں۔اس نے اپنے کمرے میں کہانیوں کی کتاب کھولی اور پڑھنے بیٹھ گیا۔ارے یہ کیا؟یہ پیسے کہاں سے آئے؟یاسر نے کتاب میں سے گرنے والے پیسے زمین سے اُٹھاتے ہوئے کہا۔اس نے پیسے گنے۔وہ اتنے ہی تھے جتنے اس کی امی نے اسکول کی فیس جمع کرانے کے لئے دیے تھے۔اسے یاد آیا اس نے فیس کے پیسے اسکول کی کتاب میں نہیں،بلکہ اس کہانیوں کی کتاب میں رکھ دیے تھے اور بھول گیا تھا۔پیسے لے کر یاسر فوراً امی کے پاس پہنچا۔”امی!امی!فیس کے پیسے مل گئے۔“یاسر نے خوشی سے چلا کر کہا۔”کس فیس کے پیسے؟“امی نے پوچھا۔”امی!وہی پیسے جو آپ نے مجھے فیس کے لئے دیے تھے اور مل نہیں رہے تھے۔میں کہانیوں والی کتاب میں رکھ کر بھول گیا تھا۔“”یہ تو اچھی بات ہے۔“امی نے جواب دیا۔”امی!میں نے جھوٹ نہیں بولا تھا،یہ دیکھیں یہ پیسے اس کا ثبوت ہیں۔“یاسر نے زور دے کر کہا۔”بیٹا!جب انسان اپنی ساکھ کھو دیتا ہے تو اس کے سچ پر بھی کوئی یقین نہیں کرتا۔جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے یہ انسان کو دوسروں کی نظروں میں گرا دیتا ہے اور سچ ہمیشہ انسان کو فائدہ پہنچاتا ہے۔“”امی!میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں اب کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔میں نے جھوٹ بولنے کی سزا بھگت لی ہے۔“یاسر نے امی سے لپٹ کر کہا۔امی نے یاسر کو پیار کیا اور کہا:”یہ جو فیس کے پیسے ہیں،ان میں اور پیسے ملا کر میں آپ کے لئے نئی سائیکل خریدوں گی یہ آپ کے سچ بولنے کا انعام ہو گا۔“یہ سن کر یاسر خوشی سے جھوم اُٹھا۔ " حال میں ماضی - تحریر نمبر 1940,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/haal-mein-maazi-1940.html,"جاوید بسامرات کا وقت تھا۔آسمان پر ستارے ٹمٹما رہے تھے۔میاں بلاقی بگھی دوڑاتا ایک جگہ سے گزر رہا تھا۔وہ بہت پرانا علاقہ تھا۔وہاں تمام گھر پیلے پتھروں کے بنے ہوئے تھے۔برسوں سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔اتفاق سے بلاقی وہاں پہلی دفعہ آیا تھا۔وہ ایک موڑ مڑ کر دوسری سڑک پر آیا تو کچھ دور لوگوں کا ہجوم نظر آیا۔وہ سر اُٹھائے ایک عمارت کی طرف دیکھ رہے تھے۔جس میں سے دھواں نکل رہا تھا۔جلد ہی بلاقی قریب پہنچ گیا۔اس نے بگھی روکی اور نیچے اُتر آیا۔وہ چھوٹی سی دو منزلہ عمارت تھی۔آگ نیچے لگی تھی،عمارت میں رہنے والے باہر نکل آئے تھے۔ایک عورت زور زور سے چلا رہی تھی:”کوئی مدد کرو․․․․اوپر میری بچی ہے۔“ایک آدمی نے اسے سنبھال رکھا تھا۔(جاری ہے)کچھ لوگ آگ بجھانے کے لئے اوپر جانے کی کوشش کر رہے تھے،لیکن لکڑی کے زینے نے آگ پکڑ لی تھی،اس لئے کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔بلاقی آگے بڑھ آیا۔پھر ایک آدمی زینے کی طرف بڑھا،مگر لوگوں نے اسے روک لیا۔بلاقی نے اُس سے پوچھا کہ بچی کس کمرے میں ہے؟وہ بولا:”دائیں طرف والے کمرے میں۔“بلاقی نے گردن ہلائی،اپنا لمبا کوٹ اُتارا اور اسے ڈھال بناتے ہوئے تیزی سے زینہ چڑھ گیا۔بہت سے لوگوں کے منہ سے بے ساختہ نکلا:”ارے دیکھو!وہ آگ میں گھس گیا ہے۔“عورتیں بھی چیخنے لگی تھیں۔بلاقی ایک ساتھ کئی سیڑھیاں پھلانگتا جلد اوپر پہنچ گیا۔وہاں آگ نہیں تھی،لیکن دھواں بھرا ہوا تھا۔وہ کھانستا ہوا دائیں کمرے میں داخل ہوا۔جہاں اس نے ایک بچی کو بستر پر بیٹھے دیکھا۔وہ پھرتی سے آگے بڑھا بچی کو اُٹھایا اور اسی طرح کوٹ کو ڈھال بنائے زینے کی طرف چلا۔آگ بڑھتی جا رہی تھی،وقت بہت کم تھا۔وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا باہر نکل آیا۔اس کے کوٹ میں آگ لگ گئی تھی۔اس نے کوٹ زمین پر پھینکا اور بچی کو ماں کے حوالے کر دیا۔بچی محفوظ تھی،بس بلاقی کے ہاتھ میں کچھ جلن ہو رہی تھی۔لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے۔وہ اس کی بہادری پر اسے شاباش دے رہے تھے۔عورت نے روتے ہوئے بلاقی کا شکریہ ادا کیا۔کچھ دیر بعد وہاں آگ بجھانے والی گاڑی آگئی۔سب پیچھے ہٹ گئے۔کوئی پڑوسن،بچی اور ماں کو اپنے گھر لے گئی تھی۔جلد ہی آگ بجھا دی گئی۔آدمی نے بلاقی کا پھر شکریہ ادا کیا۔بلاقی نے اس سے ہاتھ ملایا اور بگھی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہو گیا۔گھر پہنچ کر اس نے ہاتھ کا معائنہ کیا،ا س کی انگلیاں سرخ ہو رہی تھی۔اس نے دوا لگائی اور کھانا کھا کر سونے کے لئے لیٹ گیا۔اگلے دن بلاقی کی آنکھ صبح سویرے ہی کھل گئی۔اس نے ناشتہ کیا اور اپنے کام پر روانہ ہو گیا۔پہلے وہ سینٹرل پارک گیا،جہاں وہ اپنی بگھی کھڑی کرتا تھا اور گھوڑے کے آگے دانہ پانی رکھا۔جب وہ کھا چکا تو اسے پیار سے تھپتھپایا اور بگھی میں جوت کر ہلکی رفتار سے چلاتا ہوا بازار میں آگیا۔ایک چائے خانے کے باہر وہ بگھی سے اُترا اور اندر جا کر بیٹھ گیا۔پھر اس نے اخبار اُٹھایا اور خبروں پر نظر دوڑانے لگا،مگر آگ لگنے کی خبر کہیں نظر نہیں آئی،حیران ہو کر اس نے ایک بار پھر توجہ سے پورا اخبار دیکھا،لیکن اس میں ایسی کوئی خبر نہیں تھی۔وہ تعجب سے سر کھجانے لگا۔کچھ دیر وہ یونہی بیٹھا رہا پھر اس کی نظر اپنے دوست گراہم پر پڑی جو دوسری میز پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔وہ اخبار میں کام کرتا تھا۔ بلاقی اُٹھ کر اس کے پاس چلا گیا۔بلاقی کو دیکھ کر وہ بولا:”آؤ میاں بلاقی!ناشتہ کرو۔“”نہیں میں کر چکا ہوں۔“یہ کہہ کر اس نے اخبار کھولا اور بولا:”اس میں آگ لگنے کی خبر نہیں ہے۔“”کیسی آگ؟“گراہم نے پوچھا۔”کل رات قصبے کے شمالی علاقے کے ایک گھر میں آگ لگ گئی تھی۔“بلاقی بولا۔گراہم حیرت سے بولا:”ایسی تو کوئی خبر نہیں آئی تھی،میں پوری رات دفتر میں تھا۔“”ہو سکتا ہے تمہارے اخبار کو اطلاع نہ ملی ہو۔“”اگر ہمارا رپورٹر نہ پہنچ پائے تو آگ بجھانے والا عملہ خبر دے دیتا ہے۔“وہ بولا۔بلاقی حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔گراہم ہنس کر بولا:”بلاقی تم نے خواب دیکھا ہو گا۔“بلاقی نے اپنا جلا ہوا ہاتھ آگے کیا اور اسے پورا واقعہ سنایا،مگر گر اہم کو یقین نہیں آیا۔وہ بولا:”مجھے معلوم ہے تم کہانیاں بہت پڑھتے ہو اور یہ ہاتھ تم نے چائے بناتے ہوئے جلا لیا ہے۔“یہ کہہ کر وہ اُٹھا اور چل دیا۔بلاقی چلایا:”مگر میں جھوٹ نہیں بولتا۔“گراہم ہاتھ ہلائے ہوئے بولا:”مجھے دیر ہو رہی ہے،پھر ملیں گے۔“بلاقی نے منہ بنایا اور اُٹھ کر باہر نکل گیا۔کچھ دور اسے اخبار فروش آواز لگاتا نظر آیا۔بلاقی نے اس سے دوسرا اخبار خریدا اور بگھی میں بیٹھ کر پڑھنے لگا،مگر اس میں بھی آگ لگنے کی خبر نہیں تھی۔بلاقی دوپہر تک وہاں رہا۔اسے قریب کی دو ایک سواریاں ملیں،لیکن اس کا دماغ رات والے واقعہ میں اُلجھا رہا۔آخر اس نے وہاں چکر لگانے کا فیصلہ کیا۔کچھ دیر بعد وہ اس علاقے میں پہنچ گیا۔جب وہ،عمارت کے قریب گیا تو اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔اس نے بگھی روکی اور غور سے عمارت کو دیکھنے لگا۔اس پر جلنے کا کوئی نشان نہیں تھا۔بلاقی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔اس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو سامنے پانی کا گول ٹینک نظر آیا۔اسے وہ جگہ اچھی طرح یاد تھی،پھر بھی اس نے پورے علاقے کا چکر لگایا،مگر کہیں جلی ہوئی عمارت کے آثار نظر نہیں آئے۔آخر وہ دوبارہ وہاں آگیا۔اس کی نظریں عمارت پر جمی تھیں۔یہ بہت حیران کن معما تھا۔کچھ دیر بعد وہ بگھی سے اُترا اور دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا ہوا عمارت کی طرف بڑھا۔قریب جاکر کراس نے جھجکتے ہوئے دروازے پر دستک دی۔قدموں کی آہٹ ہوئی، دروازہ کھلا اور ایک بوڑھی عورت نے باہر جھانکا۔وہ سوالیہ نظروں سے بلاقی کو دیکھ رہی تھی۔بلاقی گھبرا کر بولا:”جی․․․میں بلاقی کوچوان ہوں۔“اس نے بگھی کی طرف اشارہ کیا۔عورت حیرت سے بولی:”مگر میں نے تو بگھی نہیں منگوائی۔“”جی خاتون!بے شک آپ نے بگھی نہیں منگوائی دراصل میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔“عورت کا نام ماریا تھا۔اس نے بلاقی کو اندر بلا لیا۔دونوں نشست گاہ میں بیٹھ گئے۔ماریا منتظر تھی۔بلاقی کچھ دیر سوچتا رہا۔پھر بولا:”بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ کو کس طرح بتاؤں؟دراصل کل میں یہاں سے گزر رہا تھا کہ میں نے اس گھر میں آگ لگی دیکھی۔“”آگ!تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے وہ کوئی اور عمارت ہو گی۔“ماریا حیرت سے بولی۔”مجھے اچھی طرح یاد ہے اور میں نے پورا علاقہ دیکھ لیا ہے،کہیں بھی آگ کے آثار نہیں آئے۔“ماریا تعجب سے اسے تکنے لگی۔”کیا آپ کے ہاں کوئی چھوٹی بچی ہے؟“بلاقی نے پوچھا۔”نہیں،میں یہاں اکیلی رہتی ہوں۔“”آپ کب سے یہاں رہتی ہیں؟“”اپنے بچپن سے۔“بلاقی کی نظریں کمرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔”تم بچی کا کیوں پوچھ رہے ہو؟“ماریہ نے سوال کیا۔وہ دراصل․․․․میں ابھی بتاتا ہوں۔“بلاقی بولا اور اُٹھ کر آتش دان کے قریب چلا گیا۔پھر بولا:”معاف کیجئے گا کیا،میں یہ تصویر میں دیکھ سکتا ہوں؟“”ہاں ضرور۔“ماریا بولی۔بلاقی نے ایک فریم اُٹھایا اور ماریا کے قریب چلا آیا:”یہ خاتون کون ہیں؟“اس نے پوچھا۔ماریا آنکھوں پر چشمہ درست کرتے ہوئے بولی:”یہ میری ماں ہیں۔“(باقی آئندہ شمارے میں) " نوٹ بیتی - تحریر نمبر 1939,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/note-beeti-1939.html,"آمنہ شیریں چشتی،شیر و جدیدمیں ایک نوٹ ہوں۔میری پیدائش اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ہوئی تھی۔وہاں سے مجھے کراچی کی بڑی مارکیٹ کی ایک دکان میں پہنچا دیا گیا۔کچھ دن میں اس دکان دار کی ایک بڑی دراز میں بند رہا۔پھر دکان کے مالک نے تنخواہ کے طور پر اپنے ایک ملازم کے حوالے کر دیا۔ وہ آدمی تنخواہ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔میں اس کے بٹوے میں بند پڑا تھا۔صبح ہوئی اس آدمی نے اپنے بچے کو اسکول جاتے ہوئے پیسے دیے۔وہ بچہ نیا نوٹ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور مجھے اسکول لے گیا۔کھیلتے ہوئے میں اس کی جیب سے نکل کر اسکول کے باغیچے میں پھولوں کی کیاریوں کے پاس گر گیا۔وہ بچہ بڑا پریشان ہوا۔اس نے مجھے بہت ڈھونڈا،لیکن میں اسے نہیں ملا۔(جاری ہے)آخر اسمبلی کا وقت ہو گیا۔وہ اندر چلا گیا۔تفریح کے وقت وہ بچہ پریشان اُداس کیاریوں کے پاس بیٹھا تھا کہ اس کی نظر مجھ پر پڑی۔وہ بہت خوش ہوا۔اس نے مجھے اُٹھا کر کینٹین والے سے چیز لے کر کھا لی۔کینٹین والے نے اپنے گھی تیل والے ہاتھوں سے اُٹھا کر مجھے ڈبے میں ڈال دیا۔مجھ پر چکنائی کے داغ لگ گئے۔مجھے بہت بُرا لگا۔کینٹین والے نے مجھے دے کر سبزی لے لی۔سبزی والے نے مجھے اپنی بیوی کو دے دیا۔وہ اس وقت سالن بنا رہی تھی۔مجھ پر شوربا لگ گیا۔اب میں بہت گندا لگ رہا تھا۔سبزی والے کے دو چھوٹے بچے تھے۔سبزی والے کی بیوی نے مجھے اپنے بڑے بیٹے کو دے دیا۔وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا،لیکن چھوٹا بیٹا یہ دیکھ کر رونے لگا۔وہ بڑے بھائی سے جھگڑا کرنے لگا اور اس سے مجھ کو چھیننے لگا۔اسی کھینچا تانی میں،میں درمیان سے پھٹ گیا۔بڑے لڑکے نے مجھ پر ٹیپ لگا کر چپکا دی۔اس طرح میں تقریباً ٹھیک ہو گیا۔دونوں بھائیوں نے میرے بدلے ایک گول گپے والے سے گول گپے خرید کر اکھٹے کھا لیے۔گول گپے والے نے میرے کچھ اور ساتھیوں کو میرے ساتھ ملا کر گوشت کی دکان سے گوشت خرید لیا۔گوشت والے کے گندے ہاتھوں سے مجھ پر اور داغ لگ گئے۔گوشت والے نے گھر جا کر مجھے اپنی بیوی کے حوالے کر دیا،لیکن اس دوران میرا نمبر تھوڑا سا پھٹ گیا۔گوشت والے کی بیوی مجھے لے کر ایک دکان پر جوتا خریدنے گئی۔جوتے والے نے مجھے قبول کرنے سے انکار کر دیا،کیونکہ میرا نمبر پھٹا ہوا ہے۔ واپسی پر گوشت والے کی بیوی نے مجھے کچرا کنڈی میں پھینک دیا۔اب میں بہت بوڑھا،گندا اور میلا ہو گیا ہوں۔میرا جسم زخموں سے چور چور ہے۔میں چاہتا ہوں کہ کوئی مجھے اُٹھا لے،کیونکہ مجھ پر قائداعظم کی تصویر بنی ہوئی ہے جو کہ ملک کے بانی ہیں۔مجھے قائداعظم کی بے حرمتی منظور نہیں ہے۔ " مغرور بادشاہ‎ - تحریر نمبر 1938,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/magroor-badshah-1938.html,"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں ایک مغرور شیر کی بادشاہت تھی۔ اس کو اپنی بادشاہت پر بہت غرور تھا۔ وہ جنگل میں موجود دیگر جانوروں پر ظلم و زیادتی کرتا اور ضرورت کے وقت کسی جانور کی مدد کرنے سے انکار کردیتا چونکہ اس کی بادشاہت تھی تو اس کا فرض تھا کہ وہ اپنی رعایا کا خیال رکھتا لیکن افسوس وہ ایک اچھا بادشاہ ثابت نا ہوسکا۔ایک دن جنگل کے تمام جانوروں نے مل کر یہ طے کیا کہ کیوں نا اس بادشاہ کو سبق سکھایا جائے۔سب مل کر شیر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔مگرمچھ: بادشاہ سلامت! ہم نے آپ کے لئے اپنے تلاب کے کنارے ایک خصوصی دعوت رکھی ہے جہاں آپ کے لئے خصوضی کھانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ وہاں بطخیں آپ کو مزے مزے کے کرتب دیکھائی گی اور آپ کو تلاب کی سیر بھی کروائیں گے۔(جاری ہے)شیر بادشاہ یہ سب سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے دعوت کو قبول کرلیا۔اگلے دن جب بادشاہ دعوت میں گیا تو وہاں سب سے پہلے بطخوں نے مزے مزے کے کرتب دیکھائے جنہیں دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔پھر مگرمچھ بولا: بادشاہ سلامت! آئیے ہم آپ کو تالاب کی سیر کرواتے ہیں یہ سن کر شیر مگرمچھ کی پیٹھ پر سوار ہوگیا۔ مگرمچھ پانی میں اتنی تیزی سے تیرنا شروع ہوا کہ شیر مضبوطی سے مگرمچھ کو ناپکڑ کرسکا اور وہ پانی میں زور سے لڑک گیا۔شیر نے زور سے چلانا شروع کردیا۔بچاؤ! بچاؤ!مگر پھر کیا تھا شیر کے غرور کا مزہ تو سب کو چھکانا تھا تو کسی نے پھر اس کی مدد نا کی اور بالآخر وہ ڈوب کر مرگیا اور اس کا غرور خاک میں مل گیا۔پیارے بچو! ہمیں کبھی بھی غرور نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ غرور کا انجام بہت برا ہوتا ہے بلکہ ہمیں ہمیشہ ڈھیر ساری نعمتوں کے لئے شکر گزار ہونا چاہیے۔ " اصلی خوشی - تحریر نمبر 1937,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/asli-khushi-1937.html,"زویا فہدسیب کے درخت پر ایک فاختہ اپنے ننھے بچے کے ساتھ رہتی تھی۔اسے یہاں ہر قسم کا سکون نصیب تھا۔ایک روز،فاختہ بی اپنے بچے کے ساتھ گھونسلے میں بیٹھی ہوئی تھی کہ سڑک کے کنارے چند لوگ اسے آتے دکھائی دیئے۔وہ چڑی مار تھے۔فاختہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ غلیل کا ایک پتھر اس کو لگا اور وہ زمین پر گر پڑی۔جب فاختہ کو ہوش آیا تو اس نے اپنے گرد ایک کٹورے میں پانی اور دوسرے میں باجرا دیکھا۔ایک جھولا اور ایک نرم گرم چادر بھی وہاں پڑی تھی۔وہ ایک باریک بند جالی اور دوسرے پنجروں کو دیکھ کر سمجھ گئی کہ وہ بھی ان چند بد نصیبوں میں شامل ہو گئی ہے جن سے آزادی کی نعمت چھین لی گئی ہے۔اب وہ اور اس کا بیٹا دونوں غمزدہ تھے۔کھانا پینا بھول کر اُداس رہنے لگے۔(جاری ہے)ان کو ایک چڑیا بیچنے والے شخص نے چڑی ماروں سے خریدا تھا۔ایک روز دکان میں ایک نیک فطرت بچہ،اپنے والد کے ساتھ آیا۔وہ دوسرے پرندوں کو دیکھتا ہوا فاختہ کے پنجرے کے سامنے رک گیا۔ اس نے دونوں پرندوں کو دیکھ کر اندازہ کر لیا کہ وہ دونوں آزاد ہونا چاہتے ہیں۔اس نے اپنے والد سے کچھ کہا۔والد نے فاختاؤں کو دیکھتے ہوئے تائید میں سر ہلایا اور فاختہ کو اس کے بچے سمیت خرید لیا۔گھر پہنچ کر اس نے فاختہ اور اس کے بچے کو آزاد کر دیا۔بی فاختہ اس آزادی پہ بے حد خوش تھیں اور یہ سمجھ چکی تھیں کہ یہ آزادی اس بچے کی وجہ سے ملی ہے۔فاختہ نے سوچا کہ اس سے بہتر ٹھکانا اس کو نصیب نہیں ہو سکتا،لہٰذا فاختہ نے اپنا گھونسلا اسی بچے کے باغ میں بنانے کا فیصلہ کر لیا۔اب بی فاختہ اپنے بچے کے ساتھ اس باغ میں آزادی سے اُڑتی پھرتی رہتی ہے۔بچہ بھی ان کو دانہ ڈالتا ہے اور اس دوستی میں اس کو بھی بہت مزہ آتا اور وہ سمجھ گیا کہ یہ اس کی چھوٹی سی نیکی کا صلہ ہے۔ " چڑا بیتی - تحریر نمبر 1936,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chira-beeti-1936.html,"سید زین العبادمیں ایک چڑا ہوں۔انسانوں کی طرح ہمارا بھی ایک خاندان ہے،جس میں میرے امی پاپا کے ساتھ میری دو بہنیں بھی ہیں۔میں اپنی دونوں بہنوں سے بڑا ہوں۔ہماری زندگی خطروں سے گھری رہتی ہے۔اگر ہم ہوا میں اُڑ رہے ہوں تو ہمیں کوؤں اور چیل جیسے گوشت خور پرندوں سے خطرہ ہوتا ہے۔ہمیں بہت ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔اگر ہم سے ذرا سی بھی چُوک ہو جائے تو ہم کسی دوسرے پرندے کی خوراک بھی بن سکتے ہیں۔ہمیں صرف آسمان پر ہی خطرہ نہیں ہوتا،بلکہ زمین پر آسمان سے زیادہ ہو شیار رہنا پڑتا ہے،کیونکہ زمین پر کتے،بلی وغیرہ ہماری تاک میں ہوتے ہیں۔ہمیں زمین پر صرف جانوروں سے نہیں،بلکہ انسانوں سے بھی خطرہ ہوتا ہے۔ایک دن کی بات ہے جب ہمارے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا۔(جاری ہے)میرے امی پاپا کھانے کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔سب کا بھوک سے بُرا حال تھا۔میری دونوں بہنیں بھوک کے مارے رو رہی تھیں۔مجھ سے ان کا رونا نہیں دیکھا گیا۔میں نے اُسی وقت کھانا تلاش کرنے کے لئے زمین پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔تھوڑی دور جا کر میں جس جگہ پر اُترا،وہاں ایک دکان تھی اور وہیں بہت سارا دانہ بھی پڑا تھا۔جیسے ہی میں دانہ لینے کے لئے زمین پر اُترا،ویسے ہی میں پرندوں کو پکڑنے والے جال میں پھنس گیا۔مجھے گمان تک نہیں تھا کہ زمین پر ایسا بھی ہوتا ہے۔اس دکان دار نے مجھے جال سے نکال کر ایک پنجرے میں ڈال دیا۔جہاں میری طرح اور بھی کئی قسم کے پرندے تھے۔اس وقت مجھے انسانوں سے نفرت محسوس ہوئی۔میں اپنے گھر کو یاد کرکے اُداس رہتا۔میں بس اس پنجرے سے آزاد ہونا چاہتا تھا جو مجھ جیسے چھوٹے پرندے کے لئے ناممکن تھا۔میرے پاس اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔میری آنکھوں سے آنسو بھی نکل رہے تھے۔ایک دن ایک لڑکا اپنی ماں کے ساتھ اس دکان پر آیا۔اس لڑکے اور اس کی امی کا کہنا تھا کہ اگر پرندوں کو آزاد کرو تو وہ ہمارے لئے دعا کرتے ہیں۔لڑکے کی امی نے دکان دار کو کچھ کاغذ (نوٹ) دیے۔وہ کاغذ لے کر دکان دار نے مجھے اور دوسرے پرندوں کو بھی آزاد کر دیا۔ایک بار پھر سے میں ہوا میں اُر سکتا تھا۔آزاد ہونے کے بعد جیسے ہی میں گھر پہنچا مجھے دیکھ کر میرے امی پاپا اور بہنیں بہت خوش ہوئے۔ مجھے احساس ہوا کہ ہر انسان بُرا نہیں ہوتا۔ " علی کی غلطی - تحریر نمبر 1935,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ali-ki-ghalti-1935.html,"محمد موذن مسعودہائے!میں کیا کروں اس لڑکے کا اندر داخل ہوتے ہی کمرے میں ہر طرف بکھری چیزیں دیکھ کر علی کی ماما نے ہاتھ سر پر مار کر دل ہی دل میں کہا اور واپس پلٹ گئیں۔انہوں نے علی کو پکارا جو ابھی کمپیوٹر پر گیم کھیل رہا تھا اور اس کا والیم بھی فل تھا۔اسے ماما کی آواز نہ آئی ۔ماما اسے آوازیں دیتے ہوئے اس کے پاس گئیں مگر وہ مکمل طور پر گیم میں کھویا ہوا تھا۔پتہ تو اسے تب چلا جب اس کی کمر پر ایک تھپڑ رسید ہوا۔اس نے پیچھے منہ کرکے دیکھا تو ماما اس کے پیچھے کھڑی تھیں اور ان کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ آج گرج چمک کے ساتھ بارش ہونے والی ہے۔علی نے ڈرتے ڈرتے ماما سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ماما نے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ میں تمہیں پچھلے دس منٹ سے آوازیں دے رہی ہوں۔(جاری ہے)مگر تم تو جیسے اس دنیا میں ہی نہیں ہو اور اپنی پانچوں بلکہ چھٹی حس بھی گیم میں گنوا چکے ہو۔پھر اس نے دھیمی آواز میں کہا”سوری مجھے پتہ نہ چلا۔ “اس کی ماما نے پھر گرج کر کہا:”اور ہاں! مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارے کمرے میں آندھی آئی تھی یا طوفان؟(علی نے کھسیاتے ہوئے کہا) میرے کمرے میں آندھی اور طوفان کے ساتھ بارش بھی آئی تھی۔اس کی ماما نے کہا:”اچھا“اگر وہ آندھی،طوفان اور بارش دس منٹ میں نہ گئے۔تو یہ ضرور ہو گا کہ تمہارا کمپیوٹر کوئی جن یا بھوت ضرور لے جائے گا۔نہیں۔۔۔!ایسا مت کرنا۔ماما میں ابھی چل کر اپنا کمرہ ٹھیک کرکے آتا ہوں۔یہ کہہ کر علی دوڑتا ہوا اپنے کمرے میں گیا اور جلدی جلدی اپنے کمرے کو ٹھیک کرنے لگا۔ماما بھی اس کی مدد کے لئے آگئیں۔جب کمرا مکمل طور پر ٹھیک ہو گیا تو علی نے ماما سے پوچھا ماما اب میں کھیلنے کے لئے جاؤں۔ماما نے کہا کہ نہیں میں نے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔علی نے جلدی سے کہا جو ہوا ماما ابھی میری گیم لگی ہوئی ہے۔ہو سکتا ہے کہ میں ابھی تک مر گیا ہوں۔اس بات پر اس کی ماما چونک پڑیں۔اس پر اس کی ماما کہنے لگیں کہ کیا کہا تم نے۔۔۔؟خدا نہ کرے کہ ایسا کچھ ہوا ہو۔علی ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ ارے!میں وہ بات نہیں کر رہا۔دراصل گیم میں جو آدمی میں کنٹرول کر رہا تھا،میں اس کی بات کر رہاہوں۔اس پر اس کی ماما نے کہا،اچھا!آئندہ ایسی کوئی بات نہ کرنا۔ویسے ٹھیک ہے تم جاؤ بعد میں بات کریں گے۔علی یہ سن کر جلدی جلدی رفو چکر ہو گیا۔کچھ دنوں کے بعد علی کے بابا جب دفتر سے واپس آئے تو علی نے پاپا سے کہا کہ اپنا بینک اکاؤنٹ نمبر بتائیں۔یہ سن کر اس کے بابا حیران ہوئے اور کہا!کیوں بیٹا تم اس کا کیا کرو گے؟پھر علی نے کہا کہ میں نے گیم میں ایک چیز خرید لی ہے۔اچھا وہ کتنے روپے کی ہے۔علی نے جھٹ سے کہا کہ بابا وہ صرف دو سو روپے کی ہے۔اچھا ٹھیک ہے یہ لو میرا کریڈٹ کارڈ۔اس پر علی نے کہا کہ بابا پلیز ماما کو نہ بتانا وہ ناراض ہوں گی۔تو علی کے بابا یہ بات بھی مان گئے۔علی بہت خوش ہوا۔ابھی وہ بابا سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ ماما نے اسے آواز دی۔وہ دوڑتا ہوا ماما کے پاس چلا گیا۔اگلے دن وہ جلدی جلدی اٹھا اور ناشتہ کرکے پڑھنے بیٹھ گیا کیونکہ اس کی ماما نے کہا ہوا تھا کہ پہلے تم نے اپنی پڑھائی کے تین گھنٹے پورے کرنے ہیں۔اس کے بعد تم کھیل سکو گے۔وہ پڑھتا رہا اور آخر کار تین گھنٹے پورے ہو گئے۔وہ بہت خوش نظر آرہا تھا۔اس نے اپنا بیگ لے جا کر دوسرے کمرے میں رکھا۔اس کے بعد کمپیوٹر پر گیم لگائی۔اور فوراً مطلوبہ چیز خرید لی اور دل ہی دل میں خوش ہونے لگا۔تقریباً آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔وہ گیم چھوڑ کر دروازہ کھولنے چلا گیا۔دروازہ کھولا تو سامنے بابا کھڑے تھے۔وہ کچھ حیران بھی ہوا اور کچھ پریشان بھی کہ پہلے تو بابا کبھی اس وقت گھر نہیں آئے۔علی نے پوچھا !کیا ہوا بابا ؟بابا نے علی سے کہا کہ بیٹا!کیا آپ مجھے وہ چیز دیکھا سکتے ہیں جو آپ نے دو سو میں خریدی ہے۔علی نے کہا۔جی بالکل بابا آئیے۔وہ دونوں اندر چلے گئے۔علی نے بابا کو کہا کہ یہ ہے وہ چیز جو میں نے خریدی ہے۔اس کے بابا یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جہاں پانچ سو لکھا ہوا تھا اس کے ساتھ ہی ڈالر کا نشان بھی موجود تھا۔بابا کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔اوہ میرے خدایا!امی بھی آگئیں تھی۔اور علی کے بابا کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔علی کی ماما نے اس کے بابا سے پوچھا کہ کیا ہو گیا ہے؟تو اس کے بابا نے انھیں ساری بات بتا دی ہے۔یہ سن کر علی کی ماما نے اسے کہا بیٹا!!اگر تم نے کوئی چیز خریدنی تھی تو پہلے آپ ہمیں تو بتا دیتے۔علی نے جھٹ معافی مانگ لی اور وعدہ بھی کر لیا کہ آئندہ ایسا نہ کروں گا۔اگر کوئی چیز خریدنی بھی ہوئی تو آپ کو ساتھ بیٹھا کر خریدوں گا۔اب اگر آپ کی کلاس میں اگر کوئی علی پڑھتا ہے تو اس کو یہ کہہ کر تنگ نہیں کرنا کہ تم کتنے بدھو ہو۔وہ اب سدھر چکا ہے اور اپنی ماما کو تمام باتیں بتاتا ہے۔ " پچھتاوہ - تحریر نمبر 1934,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pachtawa-1934.html,"نازیہ آصفموسم برسات اپنی خوبصورتیوں اور ذائقے دار پھلوں کے ساتھ ختم ہو چکا تھا۔درختوں کے پتے تیزی سے گر رہے تھے اور سردیوں کی آمد تھی۔ایک امرود کے درخت پر ایک ننھی سی چڑیا نے گھونسلا بنایا ہوا تھا۔چڑیا کا نام ہیبل تھا،اس گھونسلے میں اس کے بچے رہتے تھے۔مگر جب وہ بڑے ہوئے تو ایک دن ہیبل کو بتائے بغیر ہی ایسے اڑ کر گئے کہ واپس ہی نہ آئے۔ننھی ہیبل پہلے ہی ان کی وجہ سے اداس رہتی تھی۔ پھر جب سردیاں آئیں تو باقی پرندے بھی اپنے اپنے گھونسلوں میں دبک گئے۔اب اس امرود کے پیڑ سے امرود بھی تقریباً ختم ہو چکے تھے، بس ایک آدھ امرود باقی رہ گیا تھا امرود کے تنے میں چند بڑی بڑی چیونٹیاں رہتی تھیں۔ہیبل سارا دن شاخ پر بیٹھی ان چیونٹیوں کو دیکھتی رہتی۔(جاری ہے)سردیوں میں جب کبھی چیونٹیوں کا راشن ختم ہوتا تو ہیبل سے امرود مانگنے آجاتیں۔ہیبل امرود کے ٹکڑے کاٹ کر نیچے پھینک دیتی کہ انھیں اٹھا کر نیچے نہ لے جانا پڑے اور یہ چیونٹیاں آسانی سے امرود کے ٹکڑے اٹھا کر اپنے بل میں گھس جاتی تھیں۔ہیبل کی چند بڑی چیونٹیوں سے دوستی تھی۔اس کی دوستوں میں جینی،کینی،مینی شامل تھیں۔گزشتہ کئی دنوں سے بہت سردی پڑ رہی تھی۔ہیبل کو کوئی پرندہ نظر نہ آتا تھا۔وہ بہت اداس تھی۔اس کا دل چاہتا کہ کسی دوست سے باتیں کرے،مگر کوئی بھی اسے باتیں کرنے کے لئے نہ ملتا تھا۔اس نے سوچا چلو جینی،کینی اور مینی سے ملتی ہوں۔ان سے بات کرتی ہوں تو طبیعت خوش ہو جائے گی۔ہیبل نیچے آئی اور چیونٹیوں کے بل کے باہر آکر آوازیں دینے لگی۔جینی باہر آؤ،کینی میں ہیبل ہوں۔کوئی باہر نہ آیا تو اس نے پھر آواز لگائی، مینی دیکھو مجھے تمہاری ضرورت ہے۔مگر وہ سب تو اپنے گرم بستروں میں مزے سے لیٹی گرمیوں کے جمع شدہ پھل اور خشک میوہ جات سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔وہ سب خاموش رہی،کوئی بھی اس کی بات سننے نہ آئی۔کئی دن گزر گئے۔ہیبل کمزور ہوتی جا رہی تھی۔کوئی انسان باہر نہیں نکلتا تھا۔مہینے بھر سے شدید دھند اور سردی نے انسانوں کو بھی گھروں میں قید کر دیا تھا۔کچھ لوگ بیماریوں کے خوف سے بھی باہر نہیں نکلتے تھے۔ہیبل بیچاری کا سردی اور اداسی سے یہ حال ہو گیا تھا کہ وہ اٹھ کر چل بھی نہیں سکتی تھی۔کچھ کھانے کو بھی دل نہیں چاہتا تھا۔پھر ایک دن جب چیونٹیوں کا کھانا ختم ہو گیا تو پھر وہ اپنے بستر سے انھیں کہ کھانے کے لئے ڈھونڈھیں مگر باہر طوفانی بارش سے ہر طرف پانی جمع ہو گیا تھا۔یہاں تک کہ پانی چیونٹیوں کے بل میں بھی گھس آیا اور ان سب کا کھانا بھی خراب ہو گیا تھا۔چیونٹیاں سر پر پاؤں رکھ کر باہر بھاگیں۔اب سوائے پیڑ پر چڑھ جانے کے ان کے پاس بچاؤ کی کوئی تدبیر نہ تھی نہ کچھ کھانے کو تھا۔اب وہ جلدی سے گھونسلے کے پاس گئیں اور ہیبل کو آوازیں دینے لگیں مگر کوئی جواب نہ آیا۔جینی نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ اوندھی گری ہوئی تھی۔تینوں نے اندر جا کر اسے سیدھا کیا مگر وہ تو وہ بے سدھ پڑی رہی کیونکہ ہیبل مر چکی تھی۔اس کے پاس چند ٹکڑے امرود کے ویسے ہی پڑے ہوئے تھے۔پھر انھیں خیال آیا کہ شاید اس دن ہیبل ان کے لئے کھانا لائی ہو۔مگر انھوں نے گرم بستر سے اٹھ کر ہیبل کی بات سننا ہی گوارا نہ کیا تھا۔اب وہ سب رو رہی تھیں۔باقی ساری چیونٹیاں بھی پیڑ پر چڑھ رہی تھیں کیونکہ نیچے سارا پانی تھا۔اب آسمان پر بادل گرجے تو پھر بارش ہونے لگی۔سب نے مل کر ہیبل کے گھونسلے میں پناہ لی۔مگر اب وہ بہت زیادہ دکھی تھیں کہ ہیبل کتنی اچھی تھی۔انھیں کھانا بھی دیتی تھی۔اب وہ جب مر گئی تو بھی اس نے سب کو پناہ دی تھی۔مگر جب ہیبل اداس تھی تو انھوں نے اس کی بات سننا بھی گوارا نہ کیا۔ہائے اللہ!ہمیں معاف کر دینا۔۔۔ہم نے اپنی دوست کی پریشانی میں کوئی مدد نہ کی۔مگر اب ان کے پاس رونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔بچو!سخت سردی میں اپنے آس پاس کا خیال رکھیں،کسی بچے ،بوڑھے یا غریب کو آپ کی مدد کی ضرورت تو نہیں تاکہ آپ کو بھی پچھتانا نہ پڑے۔ " شیر کا ڈرپوک بچہ - تحریر نمبر 1933,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sher-ka-darpook-bacha-1933.html,"رضوانہ․․․․․لاہورایک دفعہ ایک شکاری نے جنگل سے ایک شیر کا بچہ پکڑا۔بچہ بہت چھوٹا تھا اور اپنی ماں کا دودھ پیتا تھا۔شکاری اسے اپنے گھر لے آیا۔شکاری کے بچے ننھے شیر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور وہ اس سے کھیلنے لگے۔کچھ دیر میں شیر کے بچے کو بھوک لگی،وہ اتنا چھوٹا تھا کہ کچھ کھانا نہیں جانتا تھا،بس دودھ ہی اس کی خوراک تھی۔شکاری یہ سوچ کر پریشان ہو گیا کہ اب کیا کیا جائے؟کیونکہ اسے پتا تھا کہ شیر کا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہے اور وہ دودھ کے سوا کچھ اور نہیں پی سکتا،آخر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی،اس نے شیر کے بچے کو اپنی بکری کے ساتھ چھوڑ دیا۔بکری کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔شیر کا بچہ کچھ ہی دیر میں بکری کے بچے کے ساتھ گھل مل گیا۔(جاری ہے)جب بکری کے بچے دودھ پینے کے لئے ماں کے پاس جاتے تو شیر کا بچہ بھی ان میں شامل ہو جاتا۔اس طرح شیر کا بچہ بکری کے بچوں کے ساتھ پلنے اور بڑھنے لگا۔وہ آہستہ آہستہ ان ہی کے رنگ میں رنگ گیا،وہ دیکھنے میں تو شیر لگتا تھا مگر اس کی تمام عادات اور خصلتیں بکری کے بچوں جیسی تھیں۔اس طرح شیر کا بچہ بکری کے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑا ہو گیاتھا، تو وہ شیر ہی مگر وہ باقی شیروں کی طرح بہادر نہیں،بلکہ ڈرپوک تھا۔ایک دن گاؤں پر بھیڑیوں نے حملہ کر دیا۔شکاری کا گھر چونکہ جنگل کے نزدیک تھا،اس لئے کچھ بھیڑیے شکاری کے گھر میں داخل ہو گئے۔ شکاری اس وقت کہیں گیا ہوا تھا۔بھیڑیوں نے بکری کے بچوں پر حملہ کر دیا،اچانک ان کی نظر شیر پر پڑی تو وہ ڈر کر بھاگنے لگے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ شیر ان پر نہ تو غرایا ہے اور نہ ہی حملہ کیا ہے تو ان کی ہمت بڑھ گئی اور انہوں نے بکری کے بچوں کو چیر پھاڑ دیا۔شیر کا بچہ اگرچہ ایک بڑا شیر بن چکا تھا مگر اس میں شیروں جیسی صلاحیتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔وہ کھڑا سب کچھ دیکھتا رہا اور ان کا مقابلہ نہ کر سکا۔بھیڑیے حملہ کرکے واپس چلے گئے اور شیر وہیں کھڑا رہا۔کچھ دیر کے بعد شکاری گھر واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ شیر کے ہونے کے باوجود بھیڑیوں نے حملہ کرکے بکریوں کو چیر پھاڑ دیا ہے اور شیر کچھ نہ کر سکا۔اسے بے حد صدمہ ہوا۔اس نے تو یہ سوچ کر شیر کے بچے کو بکری کے بچوں کے ساتھ چھوڑا تھا کہ وہ مصیبت میں ان کے کام آئے گا مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ بکری کے ساتھ رہتے رہتے اس کی اپنی صلاحیتیں ختم ہو چکی تھیں،اگر وہ شیروں کے ساتھ جنگل میں رہتا تو پھر ان کی طرح شکار کرنے کا عادی ہوتا اور ان ہی کی طرح بہادر بھی ہوتا۔شکاری نے سوچا کہ یہاں رہتے ہوئے تو یہ شیر بالکل بے کار ہے،کیونکہ یہ تو اس کے جانوروں کی رکھوالی یا حفاظت تک نہیں کر سکتا،اس لئے اس کا یہاں رہنے کا اب کوئی فائدہ ہی نہیں تو کیوں نہ اسے جنگل میں ہی واپس چھوڑ دیا جائے تاکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہتے ہوئے اس میں بھی ان جیسی ہی بہادرانہ صفات پیدا ہو جائیں۔یہ سوچتے ہی شکاری نے شیر کو اپنے ساتھ لیا اور اسے واپس جنگل میں چھوڑ آیا۔ " ٹھنڈی میٹھی آئس کریم - تحریر نمبر 1932,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/thandi-meethi-ice-cream-1932.html,"سعید لختندی کنارے ایک ننھا سا گھر تھا۔اس گھر میں ایک بطخ اور ایک بطخا رہتے تھے۔بطخ بہت اچھی تھی صبح سویرے اٹھتی نہاتی دھوتی اور کام کاج میں لگ جاتی۔بطخا بہت خراب تھا کام چور نکٹھو۔نہ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔دن بھر پڑا اینڈتا رہتا۔بطخ بطخے کو بہتیرا سمجھاتی،پروہ نہ سمجھتا۔ ایک کان سے سنتا دوسرے سے اڑا دیتا۔ایک دن بطخ بولی”کچھ خبر بھی ہے؟سارا اناج ختم ہو گیا اب کھائیں گے کیا؟“بطخے نے کہا”گھبراتی کیوں ہو خدا دے گا۔“بطخ بولی”خدا انہی کو دیتا ہے جو محنت کرتے ہیں۔کام چوروں کو خدا نہیں دیتا۔“بطخے نے کہا”تو میں کیا کروں؟نوکری تو ملتی نہیں۔“بطخ بولی”نوکری نہیں ملتی،نہ سہی مزدوری کرو۔(جاری ہے)“بطخے نے کہا ”خدا کو مان!میں اور مزدوری کروں؟توبہ !توبہ!ارے!میرا باپ تحصیل دار تھا۔اُس کے دروازے پر ہاتھی جھومتے تھے۔صبح شام لنگر بٹتا تھا۔سینکڑوں بھوکے پیٹ بھرتے تھے۔“بطخ بولی”باپ کو چھوڑ اپنے آپ کو دیکھ موا نکٹھو،کاہل،ٹٹو“یہ کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اب تو بطخا بہت گھبرایا بولا”اچھا رو مت آنسو پونچھ لو میں شہر جا کر نوکری ڈھونڈتا ہوں۔“بطخا اٹھا شہر گیا نوکری ڈھونڈی۔نہیں ملی۔حیران، پریشان۔کیا کرے،کیا نہ کرے !اتنے میں ایک اپنی بپتا سنائی۔دوست بولا”گھبراؤ مت ساتھ چلو میں آئس کریم بیچتا ہوں روز بیس روپے کماتا ہوں۔تم بھی بیچنا۔“دونوں کارخانے گئے دوست نے ایک ٹھیلا خود لیا دوسرا بطخے کو دیا اور بولا”ہاں!اب آواز لگا،ٹھنڈی میٹھی آئس کریم،۔ٹھنڈی میٹھی آئس کریم۔“گلی گلی،کوچے کوچے بطخے نے آئس کریم بیچی ساری بک گئی۔تھوڑی سی رہ گئی۔چلتے چلتے گھر آیا تو زور سے چلایا”ٹھنڈی میٹھی آئس کریم۔“بطخ نے آواز سنی جانی پہچانی تھی۔دوڑی دوڑی آئی۔کھڑکی سے جھانکا دیکھا تو اپنا بطخا تھا۔خوشی سے جھوم گئی۔بولی”شاباش!کام کرنا عیب نہیں۔بے کار پھرنا عیب ہے کچھ بکی بھی؟“بطخا بولا”بس تھوڑی سی رہ گئی ہے سکول کی طرف جا رہا ہوں وہ بھی بک جائے گی۔“بطخ نے کہا”اچھا!ایک مجھے بھی دے دیکھوں کیسی ہے۔“بطخا بولا”اچھا!پیسے دو اور لے لو۔“بطخ ہنس،ہنس کر بولی”چل ہٹ!اپنوں سے بھی پیسے؟“بطخا بولا”اپنا ہو یا غیر پہلے پیسے پیچھے مال اچھا اب میں جاتا ہوں بچے گی تو لیتا آؤں گا۔“یہ کہہ کر ٹھیلا آگے بڑھایا اور زور سے بولا”ٹھنڈی میٹھی آئس کریم۔“ " بابا جان کی نصیحت - تحریر نمبر 1931,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baba-jaan-ki-nasihat-1931.html,"سیدہ عروج فاطمہ․․․․ملتاناحسن کے امتحانات ختم ہو گئے تھے۔اس کے ابو اسے اپنے دوست کے گھر لے گئے،وہاں احسن نے ان لوگوں کی چیزوں کو چھیڑنا شروع کر دیا تھا۔”محمود انکل!یہ گھر تو بہت خوبصورت ہے۔یہ آپ نے کہاں سے لیا ہے؟“احسن نے شیشے کا بنا ہوا چھوٹا سا گھر اٹھانے کے بعد کہا۔”بیٹا جب میں اٹلی گیا تھا،تب میں وہاں سے یہ لے کر آیا تھا۔“محمود صاحب نے احسن کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔کچھ دیر بعد احسن نے گھر میز پر رکھ دیا تھا اور پھر اس کا دھیان دوسری چیزوں کی جانب چلا گیا تھا۔”یہ گلدان بھی بہت حسین ہے۔“احسن نے شیشے کا گھر میز پر رکھنے کے بعد گلدان اٹھا لیا تھا۔”احسن بیٹا!چیزوں کو یوں اُٹھاتے نہیں ہیں۔(جاری ہے)یہ کھیلنے کی چیز نہیں ہے،ٹوٹ جائے گا۔احسن کے ابو فارس صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔”بابا جان یہ مجھے بہت اچھا لگا ہے۔تھوڑی دیر بعد اسے اس جگہ پر رکھ دوں گا۔“احسن کی بات سننے کے بعد اس کے ابو کو بہت افسوس ہوا کہ ان کے بیٹے نے ان کی بات نہیں مانی۔جب وہ دونوں گھر واپس آگئے ،تب احسن نے محسوس کیا کہ ابو اس سے زیادہ بات نہیں کر رہے ہیں۔”بابا جان کیا آپ ناراض ہیں؟“احسن نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔”بیٹا!جب کسی کے گھر جاتے ہیں تو ان لوگوں کی چیزوں کو اٹھا کر دیکھنا اچھی بات نہیں ہوتی ہے۔سب یہی کہیں گے کہ احسن اچھا بچہ نہیں ہے،بہت شرارتی ہے۔آپ کو میں نے ایسا کرنے سے منع بھی کیا لیکن آپ نے میرا کہنا نہیں مانا۔مجھے اس بات کا بے حد افسوس ہوا ہے۔“احسن کے بابا جان نے اسے وہ بات بتا دی تھی ،جس کی وجہ سے وہ خفا ہوئے تھے۔”بابا جان آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔اس بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔آپ نے مجھے بہت پیاری بات بتائی ہے۔پھر کبھی آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔“احسن نے جو کہا تھا وہ کرکے بھی دکھایا۔اس کے بعد وہ جب بھی اپنے بابا جان کے ساتھ کسی کے گھر جاتا تو دوسروں کی چیزوں کو بس دور سے ہی دیکھ لیتا تھا۔پیارے بچو!اس کہانی سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ کسی کی چیزوں کو اٹھانا اور پھر کھلونا بنا کر کھیلنا بری بات ہے۔چیزیں گر کر ٹوٹ سکتی ہیں اور اس طرح دوسروں کا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔اچھے بچے ایسا کام نہیں کرتے ہیں۔ " بانٹنے کی عادت‎ - تحریر نمبر 1929,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bantne-ki-adat-1929.html,"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک غریب آدمی تھا۔ وہ محنت مزدوری کرتا تھا اور اس سے جو کچھ اسے ملتا صبروشکر کرکے وہ اور اس کے گھر والے اس میں گزارا کرتے۔ غریب آدمی کی خواہش تھی کہ وہ اپنے چھوٹے ننھے منے بچوں کو پڑھائے مگر اس کے پاس اتنے پیسے نا تھے کہ وہ تعلیم کا خرچہ اٹھا سکتا۔ غریب آدمی زندہ دل تھا۔ اگر وہ کسی کو بھوکا پیاسا دیکھتا تو اپنے کھانے میں سے اس کو تھوڑا ضرور کھلاتا۔ایک دن غریب آدمی کو دوردراز ایک گاوں میں مزدوری کے لئے جانا تھا۔ سفر بہت لمبا تھا۔ راستے میں تھوڑی تھکن کے باعث غریب آدمی نے سوچا کہ کیوں نا تھوڑی دیر آرام کرلیا جائے۔ یہ سوچ کر وہ غریب آدمی درخت کی چھاوں میں جاکر بیٹھا ہی تھا کہ اوپر سے ایک کاغذ گرا جس میں لکھا تھا "" امیر ہونے کا راز"" اور ساتھ ہی ایک نقشہ دیا ہوا تھا۔(جاری ہے)وہ غریب آدمی اسی وقت اس نقشے کا پیچھا کرتے ہوئے اس جگہ تک پہنچ گیا جہاں اس کو امیر ہونے کے راز کا پتا لگانا تھا۔کچھ ہی منٹ بعد امیر آدمی کو ایک پیاری سی پری دکھائی دی۔ وہ غریب آدمی سے مخاطب ہوئی "" تم امیر ہونا چاہتے ہو؟""غریب آدمی نے اثبات میں سر ہلایا۔پری نے کہا: "" وہاں دریا کے کنارے سونے سے بھرا ایک صندوق ہے لیکن وہ اتنی گہرائی میں ہے کہ تمھیں زمین کی کافی گہری کھدائی کرنی پڑے گی۔ یہ راز آج سے پہلے کسی شخص کو بھی معلوم نہیں تھا۔اگر تم اس صندوق کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو تم ایک امیر کبیر آدمی بن جاوگے۔""یہ کہتے ہی پری غائب ہوگئی۔غریب مزدور نے دریا کہ کنارے پہنچ کر کھدائی شروع کی۔ کافی دن کی سخت محنت کے بعد اس کو سونے سے بھرا ایک صندوق ملا یہ دیکھ کر غریب آدمی حیران بھی ہوا اور خوش بھی۔ کھدائی کافی گہری تھی لیکن غریب آدمی بھی مستقل مزاجی سے کھدائی میں لگا رہا اور ہار نا مانی اور ایک دن وہ سونے سے بھرا صندوق کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔غریب آدمی نے اس سے نا صرف اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا بلکہ اس سے دوسروں کی بھی مدد کرتا تھا۔پیارے بچو! بانٹنے سے ہمیشہ رزق بڑھتا ہے لہذا ہمیں اپنے اندر بانٹنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ " اہم پیغام - تحریر نمبر 1928,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehem-paigham-1928.html,"شیخ طارق امام،کراچیپروفیسر جون ہلٹن ایک دانشور،ایک مقرر،زندگی کے نشیب و فراز کا بہت قریب سے مشاہدہ کرنے والا شخص تھا۔اس کا تعلق امریکہ سے تھا۔ جس کو سننے اور دیکھنے کی لوگوں کو ہر وقت جستجو اور خواہش ہوا کرتی تھی۔لوگوں کو اس بات پر حیرانی تھی کہ غریب ماں باپ کا معمولی شکل و صورت والا لڑکا شہرت کی بلندی پر کیسے پہنچ گیا۔اس وقت جون ہلٹن ہر شہری کی ہر دل عزیز شخصیت تھی اور لوگ اس کی صلاحیت،قابلیت، شہرت اور کامیاب زندگی کا راز جاننا چاہتے تھے۔شہرت کی ایک اصلاحی اور فلاحی تنظیم نے جون ہلٹن کو شہریوں سے خطاب کی دعوت دی۔خطاب کے بینرز اور پوسٹر شہر کی گلیوں،شاپنگ مال،بس اسٹاپ اور دوکانوں پر آویزاں کر دیے۔بینرز اور پوسٹرز کو پڑھ کر شہریوں کی ایک بڑی تعداد جلسہ گاہ کی طرف اُمنڈ آئی۔(جاری ہے)لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ پاؤں رکھنے تک کی جگہ نہیں،آڈیٹوریم میں حد نگاہ لوگوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔آڈیٹوریم کے اردگرد کے علاقے لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔لوگوں کے ہجوم کو مد نظر رکھتے ہوئے انتظامیہ نے حکومت وقت کی مدد سے جون ہلٹن کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے آڈیٹوریم کی چھت پر اُتارنے کا فیصلہ کیا،تاکہ سیڑھیوں کے ذریعے ہال تک آنے میں جون ہلٹن کو کوئی دشواری نہ ہو۔آخر جون ہلٹن ہال میں موجود اسٹیج پر پہنچ گئے۔اسٹیج پر کونے میں ایک میز رکھی ہوئی تھی۔جون ہلٹن میز کو اسٹیج کے بالکل سامنے لے آئے،تاکہ تمام لوگوں کو میز نظر آسکے۔میز پر ایک کرسٹل کی بال رکھی ہوئی تھی۔ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔لوگ بے چینی سے انتظار میں تھے کہ اب جون ہلٹن کامیاب زندگی گزارنے کے گُر بتائیں گے۔جون ہلٹن نے جیب سے قلم نکال کر قلم کی مدد سے کرسٹل کی بال کو تیزی سے گھمانا شروع کر دیا۔15 منٹ کے بعد جون ہلٹن نے سر اُٹھا کر لوگوں کی طرف دیکھا تو لوگ جا رہے تھے۔یہ دیکھ کر ہال خالی ہو رہا ہے،جون ہلٹن نے بال کو اور تیزی سے گھمانا شروع کر دیا۔لوگوں کا خیال تھا کہ جون ہلٹن اب بوڑھا ہو گیا ہے اور اس میں اب بولنے کی صلاحیت نہیں رہی۔جون اب محض وقت ضائع کر رہے ہیں۔ جون ہلٹن نے 15 منٹ بعد سر اُٹھا کر ہال کی طرف دیکھا ہال کافی حد تک خالی ہو چکا تھا۔ہال میں صرف اتنے لوگ رہ گئے تھے کہ ان کو انگلیوں پر آسانی سے گنا جا سکتا تھا۔جون ہلٹن نے مائیک کو ہاتھ میں اُٹھاتے ہوئے گرج دار آواز میں کہا:”بس یہی لوگ کامیاب ہیں،جو اس وقت ہال میں موجود ہیں۔جو چلے گئے ،وہ چلے گئے۔“یہ کہتے ہوئے جون ہلٹن اسٹیج سے نیچے اُتر کر آڈیٹوریم کی چھت پر موجود ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔دوستو!جون ہلٹن نے ایک جملے میں بہت بڑا پیغام دیا ہے۔کامیاب شخص وہ ہے جس میں یہ تین خوبیاں موجود ہوں۔صبر،برداشت،مستقل مزاجی۔جون ہلٹن کے نزدیک ہال میں موجود لوگوں میں یہ تینوں خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ " ایمانداری کا صلہ - تحریر نمبر 1927,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/imaandari-ka-sila-1927.html,"اسلم شاہد․․․․لاہورریل گاڑی اپنی منزل کی جانب تیزی سے رواں دواں تھی۔سخت سردی کی وجہ سے مسافروں نے تمام کھڑکیاں اور دروازے بند کر رکھے تھے ۔رات گہری اور سردی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔عرفان اس سرد رات میں اپنے خیالات میں الجھا ہوا منزل مقصود کی جانب گامزن تھا۔آج اسے رہ رہ کر اپنی بوڑھی ماں کا خیال آرہا تھا،جسے وہ روتا ہوا چھوڑ کر کام کی تلاش میں دوسرے شہر جا رہا تھا۔عرفان ایک شریف خاندان کا چشم و چراغ تھا۔اس کا باپ ایک فیکٹری میں ملازم تھا،زندگی ہنسی خوشی بسر ہو رہی تھی لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ایک دن عرفان اسکول سے واپس گھر آیا تو گھر پر ایک بُری خبر اس کی منتظر تھی،اس کا باپ آج ان دونوں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔(جاری ہے)عرفان کی ماں کا رو رو کر بُرا حال تھا،خود عرفان کی حالت بھی ماں سے مختلف نہ تھی۔عرفان کو اپنے باپ کی موت کا بے حد دکھ تھا لیکن صبر کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔باپ کی موت کے بعد عرفان کے گھر کے حالات بھی خراب ہو گئے تھے۔کیونکہ جب کوئی کمانے والا ہی نہ ہو تو گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔ عرفان ایک باضمیر نوجوان تھا۔اس سے یہ برداشت نہ ہو سکا کہ اس کے ہوتے ہوئے بات فاقوں تک پہنچے،اس لئے عرفان نے اپنے شہر میں کام کی تلاش شروع کر دی لیکن اسے ہر جگہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔آخر تنگ آکر اس نے اپنی ماں سے دوسرے شہر جانے کی اجازت مانگی،آخرکار عرفان کے اصرار پر اس کی ماں نے بڑی مشکل سے اسے اجازت دے دی اور آج وہ اپنے مختصر سے سامان کے ساتھ دوسرے شہر جا رہا تھا۔”ٹکٹ دکھاؤ“ٹکٹ چیکر کی کرخت آواز نے اس کے خیال کا تسلسل توڑ دیا۔عرفان نے فوراً ٹکٹ چیکر کو اپنا ٹکٹ دکھایا۔ٹکٹ چیکر نے ٹکٹ دیکھ کر عرفان کو واپس کر دیا اور آگے بڑھ گیا۔عرفان نے گھڑی میں وقت دیکھا،رات کے تین بج رہے تھے۔کچھ دیر بعد اس کا اسٹیشن آگیا اور عرفان اپنا سامان لے کر اسٹیشن پر اتر گیا۔اسٹیشن پر اترتے ہی اسے ہوا کا ایک تیز جھونکا لگا،جس سے اس کا جسم کانپ کر رہ گیا۔رات ابھی کافی باقی تھی،اس لئے عرفان نے سوچا کہ صبح ہونے تک اسٹیشن پر ہی سویا جائے۔ابھی وہ سونے کے لئے مناسب جگہ تلاش کر ہی رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک پرس پر پڑی۔عرفان نے فوراً وہ پرس اٹھا لیا اور اسے کھول کر دیکھا، اس کے اندر بہت سے روپے تھے۔عرفان نے جب تمام پیسے پرس سے نکالے تو پرس کے اندر سے ایک شناختی کارڈ بھی ملا۔عرفان نے شناختی کارڈ پر ایڈریس دیکھا تو وہ قریبی شہر کا تھا۔عرفان نے اپنے دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ وہ یہ پیسے اس کے مالک تک پہنچائے گا۔کچھ دیر بعد اس شہر کو جانے والی گاڑی آگئی۔عرفان اس گاڑی پر سوار ہو گیا۔بہت جلد اس شہر کا اسٹیشن آگیا۔عرفان گاڑی سے اترا اور مکان تلاش کرنے لگا۔سورج اپنی کرنوں سے روشنی پھیلانے میں مصروف تھا،کچھ دیر بعد عرفان ایک مکان کے سامنے کھڑا تھا۔مکان ایک بہترین طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔عرفان نے کال بیل بجائی،کچھ دیر بعد ایک خوش پوش نوجوان باہر نکلا۔عرفان نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا اور جیب سے شناختی کارڈ نکال کر دیکھا،شناختی کارڈ پر اسی شخص کی تصویر لگی ہوئی تھی۔عرفان نے ساری صورتحال اسے بتائی اور اس کے پیسے اور شناختی کارڈ واپس کر دیا۔وہ شخص عرفان کی ایمانداری سے بہت متاثر ہوا۔ عرفان کو اپنے ساتھ اندر لے گیا۔اس شخص نے عرفان کی خوب خاطر مدارت کی اور دوسرے شہر آنے کی وجہ پوچھی۔یہ نوجوان ایک بہت بڑی فیکٹری کا مالک تھا۔عرفان نے اسے بتایا کہ وہ دوسرے شہر نوکری کی تلاش میں آیا ہے۔اس شخص نے عرفان کی ایمانداری کو دیکھتے ہوئے فوراً اپنی فیکٹری میں ملازم رکھ لیا۔عرفان بھی بہت خوش ہوا کہ اسے اس کی ایمانداری کا پھل مل گیا ہے۔اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم پر چاہے کتنی ہی مصیبت کیوں نہ آجائے،مصیبت سے کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور ہمیں ہمیشہ ایمانداری سے کام کرنا چاہیے۔ " جادو کی دیگ - تحریر نمبر 1926,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jadu-ki-deeg-1926.html,"حفصہ حفیظ کراچیایک غریب لکڑہارا جنگل کے قریب رہتا تھا۔وہ روز جنگل میں جاتا،لکڑیاں کاٹتا اور اسے شہر میں لے جا کر بیچ دیتا تھا۔وہ اس سوچ کے ساتھ زمین بھی کھودتا تھا کہ کبھی شاید اس میں سے اسے خزانہ مل جائے اور اس کی زندگی سنور جائے۔اسی امید کے ساتھ وہ روزانہ اپنے ساتھ جنگل میں بیلچہ اور کلہاڑی بھی لے کر بھی جاتا تھا۔ایک دن خزانے کی تلاش میں زمین کھودنے لگا۔اچانک اسے ایک بہت بڑی دیگ نظر آئی۔وہ اس دیگ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا،”لگتا ہے کہ اس دیگ کے اندر کوئی خزانہ چھپا ہوا ہے،جبھی تو اسے کسی نے جنگل میں درخت کے پاس زمین کھود کر دبایا ہوا ہے۔وہ خوشی خوشی دیگ کی طرف بڑھا تاکہ اس کے اندر ہاتھ ڈال کر خزانے کو دیکھ سکے۔(جاری ہے)اس نے جب دیگ میں ہاتھ ڈالا تو اسے پتا چلا کہ دیگ اندر سے بالکل خالی تھی،اس نے غصے میں دیگ اٹھا کر درخت کے پیچھے رکھ دی۔کچھ دیر وہ خزانے کی تلاش میں زمین کھودتا رہا،لیکن اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔اس نے غصے میں کلہاڑی اٹھا کر درخت کے پاس پھینک دی اور تھک ہار کر درخت کے قریب بیٹھ گیا۔اچانک اس کی نظر دیگ پر پڑی،اس نے دیکھا کہ وہ کلہاڑی اس دیگ میں جاگری تھی اور اب دیگ میں 100 کلہاڑیاں موجود تھیں۔وہ ان کلہاڑیوں کو دیکھ کر بہت حیران ہوا،ساتھ ہی اسے یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ یہ دیگ کوئی عام سی دیگ نہیں ہے،بلکہ یہ کوئی جادوئی دیگ ہے،جبھی تو اس کی ایک کلہاڑی 100 میں تبدیل ہو گئی ہیں۔وہ خوشی خوشی اس دیگ کو اٹھا کر گھر میں لے آیا۔لکڑہارے نے اس دیگ کو ایک کمرے میں چھپا دیا۔رات کے وقت اس نے جادوئی دیگ کو دوبارہ آزمانے کیلئے اس میں آم ڈالا،تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا تو دیگ میں 100 آم موجود تھے۔اب تو اس کا یقین پختہ ہو گیا کہ یہ واقعی کوئی جادوئی دیگ ہے۔وہ اس دیگ سے سونے کے سکے وغیرہ نکال کر انہیں بیچتا رہا اور امیر ہو گیا۔امیر ہونے کے بعد وہ دوسرے غریبوں کی مدد کرتا تھا،اس کے پاس اگر کوئی غریب شخص آتا تھا تو وہ کبھی اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ وہ ملک بھر میں اپنی سخاوت کی وجہ سے مشہور ہو گیا،اس کے اچانک امیر ہو جانے اور جادوئی دیگ کی کہانی ہر جگہ پھیل گئی۔اس ملک کے بادشاہ کے پاس بھی اس جادوئی دیگ کی خبر پہنچی۔بادشاہ بہت لالچی تھا۔اس کے پاس اپنا بہت سارا خزانہ موجود تھا،اس کے باوجود اسے مزید خزانے کی ہوس تھی۔اس نے سوچا کہ یہ دیگ اگر اسے مل جائے تو اس کے خزانے میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔اس سوچ کے ساتھ بادشاہ نے حکم دیا کہ لکڑہارے اور اس کی دیگ کو محل میں لایا جائے۔خادم گئے اور بادشاہ کی حکم کی تکمیل کی اور لکڑہارے کو دیگ سمیت پکڑ کر محل میں لے آئے۔لکڑہارے سے بادشاہ نے وہ دیگ لے لی اور اس کا معائنہ کرنے لگا۔اچانک وہ اپنے قدم نہ سنبھال سکا اور اس کا پاؤں دیگ میں جا پڑا۔اب جادوئی دیگ کی وجہ سے 100 بادشاہ نکل آئے۔ ایک جیسے 100 بادشاہ میں ایک اصلی بادشاہ تھا، باقی جادوئی تھے۔وہ سب دیگ کے حصول اور لالچ کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑنے لگے،یوں سب نے ایک دوسرے کو جادوئی دیگ کے لالچ میں قتل کر دیا۔یوں لالچ کی وجہ سے اصل بادشاہ خود بھی زندہ نہ رہا۔لکڑہارے نے خاموشی سے اپنی جادوئی دیگ اٹھائی اور اسے لے کر اپنے گھر چل دیا۔پیارے بچو!لالچ کرنا بُری بات ہوتی ہے۔اگر کسی کے پاس آپ سے زیادہ اچھی چیز موجود ہے تو آپ اس سے حسد نہ کریں،بلکہ جو کچھ آپ کے پاس موجود ہے اس پر شکر ادا کریں۔ " سچی لگن - تحریر نمبر 1925,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sachi-lagan-1925.html,"وجیہہ ندیم،کراچی”بے وقوف!تم تو بہت ہی بے وقوف ہو۔ہر وقت پڑھنے کے علاوہ تمہیں کچھ آتا ہی نہیں۔تم تو کتابی کیڑے کی طرح کتابوں میں دماغ خراب کرتی رہتی ہو۔ہاہاہا“اریبہ نے ساریہ کو اپنی بدتمیزی کا نشانہ بنایا۔ساریہ کلاس کی سنجیدہ ترین اور اول نمبر پر آنے والی طالبہ تھی۔جو فالتو وقت برباد کرنے کے بجائے ،اسے پڑھنے میں صرف کرتی۔کیمسٹری کا پیریڈ تھا۔سر اشتیاق زور و شور سے ”ایٹم“ پر لیکچر دے رہے تھے۔ اس دوران بھی طلبہ باتوں میں مصروف تھے۔ماریہ اور آمنہ ایک دوسرے کی کتابوں پر سائنس دانوں کی ڈاڑھی مونچھیں بنانے میں مصروف تھیں۔حلیمہ اور سلیمہ لیکچر سننے کے بجائے ”قائداعظم کے چودہ نکات“بڑ بڑا رہی تھیں۔(جاری ہے)علینہ کا دھیان کھانے کی طرف تھا۔باقی سب سرگوشیوں میں دنیا جہان کی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔اسی بدتمیزی کے دوران پیریڈ کی گھنٹی بجی ۔پھر دوسرے پیریڈ میں بھی اسی قسم کی صورت حال رہی۔چھٹی کے بعد ساریہ گھر پہنچ کر نڈھال سی صوفے پر گر گئی۔امی بولیں:”ساریہ بیٹا!کیا ہوا،کھانا تو کھا لو۔“ساریہ غصے سے بولی:”امی!میں کل سے اسکول نہیں جاؤں گی۔سوائے کھیل تماشے کے وہاں اور کچھ نہیں ہوتا۔اتنا شور ہوتا ہے کہ مس کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اسکول نہیں جاؤں گی۔“ساریہ روتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی اور دھڑام سے دروازہ بند کر لیا۔شام کو امی ساریہ کے پاس گئیں جو ٹیوشن جانے کے بجائے صوفے پر سر پکڑے بیٹھی تھی۔امی نے سمجھاتے ہوئے کہا:”دوسروں کی حرکتوں اور لاپرواہیوں کی وجہ سے تم خود اپنا نقصان کر لو گی۔اگر اور لوگ جہالت کے اندھیرے میں ڈوب رہے ہیں تو کیا تم علم کی روشنی کی طرف نہیں بلاؤ گی ساریہ!“بات ساریہ کی سمجھ میں آگئی۔ساریہ نے عہد کیا کہ وہ نہ خود علم سے پیچھے ہٹے گی بلکہ دوسروں کو بھی جزبہ دلائے گی۔اس نے اگلے دن سے ہی ”علم پھیلاؤ مہم“کا آغاز کر دیا اور کچھ دن بعد ہی اس کا بہت اچھا نتیجہ سب کے سامنے آیا۔ساریہ کی جماعت کی طالب علموں کا سالانہ امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ ایک روشن ستارے کی طرح چمک رہا تھا۔ " کھیل کے فوائد - تحریر نمبر 1924,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kheel-ke-fawaid-1924.html,"احمد نے جلدی سے دودھ کا گلاس پیا اور باہر بھاگا۔وہ اسکول میں ہونے والے کھیلوں کا شدت سے انتظار کر رہا تھا۔وہ اس سال ریس میں اول آنا چاہتا تھا۔وہ گزشتہ دو ماہ سے دوڑنے کی مشق کر رہا ہے۔اس کے والد بھی ایک انتہائی متحرک آدمی تھے۔انھوں نے احمد کو مشورہ دیا کہ جیتنے کے لئے وہ روزانہ دوڑ لگایا کرے۔احمد خوش تھا کہ آہستہ آہستہ اس کی دوڑنے کی صلاحیت بہتر ہو رہی ہے۔آج احمد اپنے دوست عرفان سے پہلے پارک پہنچ گیا اور جلدی سے دو چکر بھی کاٹ لیے۔تھوڑی دیر بعد عرفان بھی آگیا۔دونوں دوستوں نے ایک ساتھ دوڑنا شروع کر دیا۔اچانک عرفان نیچے گر پڑا اور تیز سانسیں لینے لگا۔دونوں رک گئے۔احمد:”عرفان!کیا ہوا؟“عرفان:”مجھے کمزوری محسوس ہو رہی ہے۔(جاری ہے)مجھ میں مزید بھاگنے کی ہمت نہیں۔“احمد:”عرفان!تم ریس میں کیسے شامل ہو گے۔“عرفان:”میں یہ جانتا ہوں،لیکن میں کیا کروں۔“احمد:”اوہ!یہ آسان ہے۔میرے والد نے مجھے سب سمجھا دیا ہے،میں تمہیں سب بتاتا ہوں۔سب سے پہلے تمہیں اپنے وزن میں بہتری لانی ہو گی۔“عرفان:”لیکن میرا وزن ٹھیک ہے۔“احمد:”تم دیکھنے میں تو ٹھیک نظر آتے ہو،لیکن تم کو اپنا BMI ضرور چیک کرنا چاہیے۔“عرفان:”بی ایم آئی کیا ہے؟“”احمد:”یہ باڈی ماس انڈیکس (Body Mass Index) کا مخفف ہے۔اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ آپ اپنی عمر کے مطابق صحت مند ہیں یا نہیں۔“عرفان:”تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟“احمد:”تمہیں روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ ورزش بھی کرنی ہو گی۔پارک میں روزانہ آؤ اور کچھ کھیل مثلاً فٹ بال کھیلو۔“عرفان:”اس سے کیا ہو گا؟“احمد:”پیدل چلنے یا فٹ بال وغیرہ کھیلنے سے تمہارے پٹھے یعنی اعصاب مضبوط ہوں گے اور تم خود کو چست و توانا محسوس کرو گے۔“عرفان:”ٹھیک ہے،میں روزانہ فٹ بال کھیلنے کی کوشش کروں گا۔“احمد:”یہ بہت اچھا ہو گا۔اس کے ساتھ ساتھ صحت مند اور متوازن غذا بھی ضروری ہے۔جیسے تازہ سبزیاں اور پھل،جو ضروری وٹامنز اور معدنیات سے بھرپور ہوتی ہیں۔“احمد نے بال اٹھاتے ہوئے کہا:”چلو،اب کھیلتے ہیں۔“پیارے بچو!کھیل کود آپ کے لئے بہت ضروری ہے۔روزانہ ورزش کریں اور اچھی غذا کھائیں۔ " علی کا خواب پورا ہوا - تحریر نمبر 1923,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ali-ka-khawab-poora-hua-1923.html,"ریاض احمدآنکھ ابھی لگی ہی تھی تو ماں نے آواز دی اُٹھو بیٹا کام پر جانے کا وقت ہو گیا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے رات پل بھر کی اور دن سو برس کا، لنگڑے کا ہوٹل چائے والا،چک چوالیس میں بڑا مشہور ہے۔یہ ہوٹل سڑک کے چاروں طرف سے نظر آتا ہے۔اس ہوٹل میں لوگ بڑی بڑی دور سے چائے پینے آتے ہیں۔ہوٹل کا مالک بڑا ہنس مکھ ہے،اکثر رات 10 بجے کے بعد لوگوں کو یہ بزرگوں کے قصے کہانیاں سناتا ہے۔اسی وجہ سے یہ ہوٹل کم چوپال کا منظر زیادہ نظر آتا ہے۔علی کو سارا دن کبھی گاہکوں کی تو کبھی مالک کی جلی کنی سننی پڑتی ہیں۔علی کہتا ہے جب کام کرنا ہے تو پھر غصہ کیسا کبھی اِدھر سے آواز آئی تو کبھی اُدھر سے جی ہاں جی ہاں کہتے کہتے صبح سے شام ہو جاتی ہے پھر ایک نیا دن اس طرح شروع ہو جاتا۔(جاری ہے)علی پوچھتا”صاحب جی اخبار میں کیا لکھا ہے“۔اور وہ کہتا ارے پہلے مجھے ٹھیک طرح سے تو پڑھ لینے دو،تمہیں بھی بتا دوں گا جاؤ جا کے چائے لاؤ۔سارا دن اس طرح کبھی کسی کو تو اور کبھی کسی کو اخبار میں لکھی ہوئی خبروں کو پوچھتا رہتا۔اس طرح علی کا وقت گزرتا چلا گیا ،علی 10 برس سے 15 برس کا ہو گیا۔ایک دن رمضان سے قبل ہوٹل کے مالک نے علی کو آواز دی اور کہا”آج رمضان کا چاند نظر آگیا ہے،کل سے اپنا ہوٹل بند تم کوئی مہینے بھر کے لئے ہر سال کی طرح تم کوئی دوسرا کام تلاش کر لو“۔یہ بات سن کر علی بہت پریشان ہو گیا،شام کو گھر آکر خاموشی سے رات کا کھانا کھائے بغیر سو گیا۔صبح کو علی کی ماں نے اٹھنے کو کہا اور کہنے لگی کہ بیٹا سبھی کام کھانے پینے والے تھوڑی ہوتے ہیں،تم کہیں مزدوری کیوں نہیں کر لیتے۔ماں کی یہ بات سن کر علی کی کچھ پریشانی کم ہوئی،سوچا ٹھیک ہے اس طرح گھر کا چولہا بھی جلتا رہے گا۔مزدوری کے لئے مزدوروں کے اڈے میں کھڑا ہو گیا،تھوڑی ہی دیر میں بڑی سی گاڑی میں سے ایک شخص اترا۔اس نے بہت پیار سے بلایا اور کہا بیٹا کام کرو گے۔علی نے جواب دیا جی ہاں! صاحب جی کروں گا۔علی نے پوچھا”آپ مجھ سے کون سا کام کروائیں گے“۔صاحب بولا میرے سکول کی دیوار ٹرک کی ٹکر سے ٹوٹ گئی ہے،مجھے ایک مزدور کی ضرورت ہے کیا تم چلو گے میرے ساتھ۔علی نے جب سکول نام سنا تو علی کی آنکھوں میں آنسو نکل پڑے اور گاڑی والا صاحب پوچھتا رہا تم مزدوری کے کتنے پیسے لو گے مگر وہ خوشی سے کچھ بھی منہ سے نہ بول سکا اور دو چار روز میں یہ کام ختم ہو گیا۔سکول کے ہید ماسٹر صاحب نے بلایا اور مزدوری کے پیسے دیئے،ساتھ یہ بھی کہا بیٹا ہمارے سکول کا چوکیدار بیمار ہو گیا ہے اگر تم چاہو تو کچھ دنوں کے لئے ہمارے پاس چوکیدار کی نوکری کر سکتے ہو۔اس طرح تمہیں سکول میں کام کرنے کا موقع مل جائے گا۔ہماری ضرورت بھی پوری ہو جائے گی۔علی کے لئے اس سے بڑی خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی تھی۔کچھ ہی دنوں میں علی نے سکول کے ماحول کو اپنا لیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بہت سی تبدیلی محسوس کی۔علی نے ایک دن ٹیچر سے کہا سر جی چھٹی کے بعد جب آپ دوسرے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں کیا میں بھی پڑھ سکتا ہوں۔ٹیچر یہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا علی بیٹا ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے تم چاہو تو بہت آگے جا سکتے ہو،اس طرح علی کا تعلیمی دور شرع ہو گیا۔اندر ہی اندر علی نے پڑھنالکھنا شروع کر دیا۔سکول کی یہ نوکری علی کے لئے کامیاب ثابت ہوئی۔وقت گزرتا چلا گیا اور علی پڑھتا چلا گیا۔آج علی کو اس سکول میں کام کرتے ہوئے 12 سال گزر چکے ہیں۔یہ بات کوئی نہیں جانتا تھا۔علی نے پرائیوٹ اکیڈمیوں میں پڑھ کر بی اے پاس کر چکا ہے۔علی ایک خاص دن کا انتظار کر رہا تھا۔آخر یہ موقع آہی گیا،ہیڈ ماسٹر صاحب نے علی کو آواز دی میرے لئے باہر سے اخبار لاؤ،علی کو بچپن ہی میں اخبار پڑھنے کا شوق تھا جب علی نے اخبار خریدا تو سب سے پہلے اندر کا صفحہ کھولا جہاں نوکریوں کے اشتہار پر علی کی نظر پڑی۔اس میں سب سے بڑی نوکری گورنمنٹ کالج میں ہیڈ کلرک کی تھی۔علی یہ خبر پڑھ کر خوشی سے جھوم اٹھا اور دوڑا دوڑا آکر ہیڈ ماسٹر صاحب سے کہنے لگا۔سر جی!آپ مجھے یہ ہیڈ کلرک کی نوکری دلوا دیں۔ہیڈ ماسٹر صاحب اور دوسرے ٹیچر علی کی یہ بات سن کر حیران ہو کر کھل کر ہنسنے لگے۔علی کیا آج تم پاگل تو نہیں ہو گئے یہ نوکری تو بی اے پاس کی لکھی ہوئی ہے۔تم تو ایک معمولی چوکیدار ہو۔تم نے اتنا بڑا خواب کیسے دیکھ لیا۔علی نے جواب دیا سر جی!میں نے اس سکول میں بہت کچھ پایا ہے ،نوکری کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔پرائیوٹ اکیڈمیوں کے ذریعے سے بی اے کا امتحان پاس کر لیا ہے۔ اس بات کا صرف ماسٹر غلام حسین کے سوا کسی اور کو علم نہیں۔جی ہاں!ہیڈ ماسٹر صاحب علی نے جو کچھ بھی کہا وہ سب سچ ہے۔علی اب ایک چوکیدار نہیں بلکہ اس ملک کا عظیم شہری ہے جس پر جتنا بھی ناز کرو وہ کم ہے۔اس طرح علی کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا چلا گیا مگر علی کہتا ہے لنگڑے کے ہوٹل کی چائے کا مزہ میں ابھی تک نہیں بھولا۔ " کاہل شیر - تحریر نمبر 1922,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kahil-sher-1922.html,"عبدالرحمنکسی جنگل میں ایک شیرنی رہتی تھی جس کے دو بچے تھے۔وہ اپنے دونوں بچوں سے بہت پیار کرتی تھی۔جب تک بچے چھوٹے تھے تب تک شیرنی روزانہ انہیں دوسرے جانوروں کا شکار کرکے لاتی اور خوب پیٹ بھر کر انہیں کھلاتی۔پر جب بچے تھوڑے بڑے ہوئے تو اس نے انہیں بھی شکار پر لے جانا چاہا تاکہ انہیں بھی شکار کرنا آئے۔بڑا بچہ فوراً تیار ہو گیا لیکن چھوٹا کہنے لگا میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے کچھ دنوں بعد چلوں گا۔آج نہیں کل وغیرہ جیسے بہانے بنانے لگا۔بڑا بچہ ماں کے ساتھ شکار پر جانے لگا۔کچھ دن اور بیت گئے پر چھوٹا بچہ اب بھی شکار پر جانے کے لئے راضی نہ ہوا۔دراصل وہ بہت کاہل تھا۔وہ سوچتا تھا کہ جب بیٹھے بیٹھائے کھانے کو مل جاتا ہے تو میں محنت کیوں کروں۔(جاری ہے)شیرنی اس کو بہت سمجھاتی کہ وہ شیر کا بچہ ہے اسے اپنی خوراک حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی ورنہ سستی اس کی عادت بن جائے گی۔چھوٹا بچہ اپنی ماں کی نصیحت کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا۔وقت تیزی سے گزرتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شیرنی کے دونوں بچے بڑے ہو گئے۔بڑا بچہ بہت پھرتیلا اور چست تھا اس کے برعکس چھوٹا بچہ سست اور نکما ہی رہا۔وہ اپنی ماں اور بڑے بھائی کے ٹکڑوں پر پل رہا تھا۔ایک دن جنگل میں شکاری آیا اور اس نے شیرنی کو اپنی گولی کا نشانہ بنا دیا۔بڑے بچے نے اس شکاری سے بدلہ لینے کی ٹھانی مگر شکاری جنگل میں غائب ہو چکا تھا۔بڑا بچہ اپنے بھائی کے پاس واپس آیا اور اس سے کہا کہ دیکھو بھائی ماں کے بعد تم میرے اپنے ہو ہماری اپنی کمزوری کے باعث جان گنوا بیٹھی۔میں ڈرتا ہوں کہیں تمہاری سستی اور کاہلی تمہیں نقصان نہ پہنچا دیں۔اس لئے اب تم سستی چھوڑو اور میرے ساتھ شکار پر جایا کرو۔یہ سن کر چھوٹا شیر غصے سے بھڑک اٹھا اور دھاڑ کر بولا تم مجھ سے حسد کرتے ہو۔میری پرواہ مت کرو۔مجھے خدا نے پیدا کیا ہے وہی میری حفاظت کرے گا وہی مجھے رزق دے گا۔اس پر شیر بولا بے شک خدا رازق ہے اس نے سب کو پیدا کیا اور وہی سب کو رزق بھی دیتا ہے پر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ تم محنت کرو اس کا پھل میں تمہیں دوں گا۔جب تم رزق کے لئے محنت نہیں کرو گے تو وہ تمہیں رزق کہاں سے دے گا؟اس پر چھوٹا شیر بولا مجھے یہ نصیحت دینے کی ضرورت نہیں۔میں اپنا اچھا برا خوب سمجھتا ہوں۔“اپنے چھوٹے بھائی کی اس ہٹ دھرمی پر بڑے شیر کو بہت دکھ ہوا اور وہ خاموش ہو کر چلا گیا۔دن گزرتے چلے گئے جب بھی وہ شکار کرتا اس کا حصہ اس تک پہنچا دیتا۔اور وہ بے حیائی کا لباس پہن کر اسے خوب مزے سے کھاتا۔کچھ دن بعد بڑے شیر کے بیوی بچے ہو گئے اب اسے اپنے بچوں کو بھی کھلانا پڑتا تھا اور اپنے چھوٹے بھائی کو بھی پالنا پڑتا تھا۔چنانچہ کبھی کبھی اس کے ننھے ننھے بچے بھوکے رہ جاتے۔بچوں کو بھوک سے تڑپتا دیکھ کر رفتہ رفتہ بڑے شیر نے اپنے چھوٹے بھائی کی بری عادتوں سے تنگ آکر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔اب چھوٹا شیر بھوکا رہنے لگا۔وہ کھا کھا کر سست ہو گیا تھا۔شکار کی اس میں ہمت نہ تھی۔چھوٹے موٹے خرگوش گیدڑ اور لومڑی جیسے جانور گزرتے وہ انہیں ہڑپ کر جاتا۔پھر بھی اس کا پیٹ نہیں بھرتا تھا۔آہستہ آہستہ وہ کمزور ہوتا گیا۔ایک دن بھوکا چوہا اس شیر کے پاس سے گزرا اس نے شیر کو مردہ سمجھا اور اس کے کان کتر کتر کر کھانے لگا۔پیٹ بھر کر چوہا خوشی سے اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور انہیں خوشخبری سنائی وہ سب بھی نعرے لگاتے اس پر چڑھ گئے اور من چاہے حصے سے گوشت نوچ نوچ کر کھانے لگے۔اس طرح یہ کمزور اور چھوٹی سی جنگل کی مخلوق جنگل کے بادشاہ کو عبرتناک انجام تک لے گئے۔سچ ہے۔”کاہل کا حشر ہمیشہ برا ہوتا ہے“ " باتونی آمنہ - تحریر نمبر 1921,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/batooni-amna-1921.html,"سیدہ اقراء،اعجاز،حیدر آبادچمن پور نامی گاؤں میں ایک چھوٹی پیاری سی بچی آمنہ رہا کرتی تھی۔وہ بہت اچھی اور والدین کا احترام کرنے والی بچی تھی۔استادوں کی عزت کرتی تھی،لیکن اس کی ایک عادت بُری تھی کہ وہ بولتی بہت تھی۔وہ بغیر رکے بولتی رہتی تھی۔والدین سمیت سب کو اس کی یہ عادت بُری لگتی تھی۔سب اسے سمجھاتے کہ کم بولا کرو،لیکن وہ اپنی عادت سے مجبور تھی۔ایک دن وہ اسکول جا رہی تھی کہ اسے راستے میں سفید رنگ کا ایک بہت خوبصورت خرگوش ملا۔آمنہ نے اسے گود میں اٹھا لیا اور اس سے باتیں کرتے کرتے وہ اسے اسکول لے آئی۔اس کے سارے ہم جماعت خرگوش کو دیکھ کر بہت حیران اور خوش ہوئے۔استانی صاحبہ کلاس میں داخل ہوئیں اور خرگوش کو دیکھ کر پوچھا:”یہ خرگوش کون لے کر آیا ہے؟“آمنہ نے ڈرتے ڈرتے سارا واقعہ ٹیچر کو بتایا۔(جاری ہے)ٹیچر نے کہا:”ٹھیک ہے آج تو لے آئی ہو،کل سے اسے گھر پر چھوڑ کر آنا۔“یہ سن کر آمنہ نے اقرار میں سر ہلا دیا۔اسکول سے واپسی پر وہ اس سے باتیں کرتی جا رہی تھی کہ اچانک اُسے احساس ہوا کہ جس پگڈنڈی پر وہ چل رہی ہے وہ اس کے گھر کی طرف نہیں جاتی ہے۔یہ احساس ہوتے ہی وہ زور زور سے رونے لگی اور کہنے لگی اب میں واپس اپنے گھر کیسے جاؤں گی کہ اچانک وہ خرگوش ایک خوف ناک دیو بن گیا اور بولا:”آخر مجھے وہ بچی مل ہی گئی،جو بہت بولتی ہو۔اب میں تمہیں اپنے بادشاہ کے پاس لے جاؤں گا۔ان کی طبیعت بہت خراب ہے وہ تمہاری باتیں سن کر بہت خوش ہوں گے۔“یہ سن کر آمنہ بہت گھبرائی اور رونے لگی۔دیو نے اشارہ کیا تو فوراً ہی وہاں ایک بڑا صندوق آگیا۔دیو نے آمنہ کو صندوق میں ڈال کر تالا لگا دیا،جس میں سانس لینے کے لئے صرف ایک چھوٹا سا سوراخ تھا۔دیو اسے اپنی دنیا میں لے کر بادشاہ کے پاس گیا اور کہا:”بادشاہ سلامت! آج آپ کے لئے میں ریڈیو لے کر آہی گیا۔“دراصل بادشاہ نے دیو سے کئی دنوں پہلے کہا تھا:”میں نے سنا ہے کہ انسانوں کی دنیا میں ایک ریڈیو ہوتا ہے جو ہر وقت بولتا ہے“لیکن دیو یہ بات جانتا تھا کہ ریڈیو کے سگنل ان کی دنیا میں نہیں آتے،اس لئے وہ آمنہ کو لے آیا تھا اور اس نے آمنہ کو یہ بات پہلے ہی سمجھا دی تھی کہ تم بادشاہ کو ہر گز یہ بات نہیں بتاؤ گی کہ تم کوئی ریڈیو نہیں،بلکہ جیتی جاگتی انسان ہو۔بادشاہ سلامت صندوق دیکھ کر بہت حیران ہوئے جس کے اندر آمنہ تھی۔بادشاہ نے کہا:”ریڈیو چلا کر دکھاؤ۔“دیو نے حکم دیا:”ریڈیو بولو۔“اور اندر سے آمنہ بولنے لگی۔بادشاہ سلامت بہت خوش ہوئے۔آمنہ ہر وقت بولتی رہتی اور بادشاہ سنتے رہتے۔آخر آمنہ بولتے بولتے بھوک اور پیاس کی شدت سے بے ہوش ہو گئی۔بادشاہ سلامت نے دیو کو بلایا اور کہا:”یہ ریڈیو چلتے چلتے بند ہو گیا ہے۔“دیو گھبرا گیا اور کہا:”کوئی بات نہیں بادشاہ سلامت!میں ابھی اسے ٹھیک کرکے لا دیتا ہوں۔“دیو آمنہ کو اسی پگڈنڈی پر لے آیا،جہاں سے اس نے اسے اُٹھایا تھا۔اس نے صندوق کھولا تو دیکھا کہ آمنہ کی آنکھیں بند تھیں اور اس کا رنگ پیلا ہو گیا تھا۔دیو نے پانی کے چھینٹے اس کے منہ پر مارے تو وہ ہوش میں آگئی۔دیو نے اسے کھانا کھلایا،پانی پلایا اور کہا کہ دوبارہ اس صندوق میں لیٹ جاؤ،لیکن آمنہ زور زور سے رونے لگی۔اچانک اسے بستی کا ایک آدمی اپنی طرف آتا نظر آیا۔وہ دوڑ کر اس کے پاس پہنچی اور اس سے کہا:”دیکھو،وہ دیو مجھے اغوا کرنا چاہتا ہے۔“آدمی نے اس طرف دیکھا تو وہاں نہ کوئی دیو تھا اور نہ کوئی صندوق تھا۔اس آدمی نے اسے گھر تک پہنچا دیا۔اس واقعے کے بعد آمنہ بہت کم بولتی،یعنی صرف ضرورت کے وقت بات کرتی تھی۔اب سب اسے پہلے سے بھی زیادہ پیار کرنے لگے۔ " ایک روپے کا ایک لفظ - تحریر نمبر 1920,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-rupaye-ka-aik-lafz-1920.html,"ارسلان اللہ خاناحسن بہت با ادب،تمیز دار اور نیک لڑکا تھا۔وہ اپنی جماعت میں ہمیشہ اول آتا تھا۔ان سب خوبیوں کے باوجود اُس میں بہت زیادہ بولنے کی خامی بھی تھی۔وہ جب ایک بار بولنا شروع کر دیتا تو اُس کو اس بات کا دھیان ہی نہ رہتا کہ وہ مسلسل بولے چلا جا رہا ہے۔اُس کے دوست تو جیسے تیسے یہ سب برداشت کر لیتے،لیکن دوسرے لوگوں کو اُس کی توہین کا ایک بہترین موقع مل جاتا۔ایک دن ایک نئے اُستاد پڑھانے آئے۔انھوں نے تمام طلبہ سے اپنا اپنا تعارف کرانے کو کہا۔جب احسن کی باری آئی تو اس سے قبل کہ وہ کچھ بولتا کچھ شرارتی لڑکے کہنے لگے:”ارے سر!اس کو بولنے کی دعوت مت دیں۔“اُستاد نے کہا:”کیوں بھئی؟“”سر!یہ ایک بار بولنا شروع کر دے تو اس کو چپ کرانا مشکل ہو جاتا ہے۔(جاری ہے)“اور پھر پوری کلاس ہنسنے لگی۔احسن کے لئے یہ پہلا موقع تھا جب اُسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔اُس نے کوشش کی کہ وہ خاموش رہنے لگے،لیکن اس کے لئے اپنی عادت پر قابو پانا مشکل تھا۔آہستہ آہستہ احسن کا مذاق بننے لگا۔حالت یہ ہو گئی کہ وہ جیسے ہی بات کرتا لڑکے اِدھر اُدھر جانے لگتے۔اب تو اُس کے دوستوں نے بھی اُس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ایک دن عصر کی نماز کے بعد احسن نے گڑگڑا کر اللہ سے دعا مانگی۔اُس کے بعد وہ مسجد کی دیوار سے ملے ہوئے باغ میں جا کر ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔اُس مسجد میں ایک بہت بڑی عمر کے بزرگ بھی نماز پڑھتے تھے۔بزرگ اچانک احسن کے برابر میں آکر بیٹھ گئے۔اُس نے احسن سے کہا:”بیٹا!ہمت نہ ہارو۔“احسن حیران رہ گیا کہ بزرگ کو اُس کی حالت کا کیسے پتا چلا۔بزرگ نے کہا:”بیٹا!اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔میں نے تمہیں اللہ سے دعا کرتے دیکھا۔انشاء اللہ سب ٹھیک ہو گا۔جیسے میں کہتا ہوں،ویسے کرو۔یہ لو دو ہزار روپے اور آنکھیں بند کرو۔“احسن حیران تھا کہ بظاہر مفلس نظر آنے والے یہ بزرگ اتنے پیسے دے رہے ہیں۔اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔آنکھیں بند کرتے ہی وہ ایک الگ ہی دُنیا میں پہنچ گیا۔اُس نے دیکھا کہ لوگ ایک لمبی قطار میں کھڑے ہیں۔احسن نے قطار میں کھڑے ایک شخص سے پوچھا:” یہاں کیا مل رہا ہے۔“آدمی نے جواب دیا:”بیٹا!یہاں الفاظ مل رہے ہیں۔ایک روپے کا ایک لفظ ہے۔“”الفاظ․․․․“بس یہی کہنا تھا کہ احسن کو ایسا لگا کہ اُس کی زبان اُس کا ساتھ نہیں دے رہی ہے۔وہ گونگا سا ہو گیا تھا۔اُس نے گھبراہٹ کے مارے جلدی سے دو ہزار روپے نکالے اور قطار میں کھڑا ہو گیا۔اُس نے دو ہزار روپے کے دو ہزار الفاظ خرید لیے۔دوسرے ہی لمحے اُس نے خود کو بزرگ کے پاس باغ میں پایا۔بزرگ نے کہا:” بیٹا! اب تمہارے پاس ایک دن کے لئے محض دو ہزار الفاظ ہیں۔ایک ایک لفظ تول کر بولنا۔اگر یہ الفاظ ختم ہو گئے تو تم بولنے کے قابل نہیں رہو گے۔“احسن پریشان ہو گیا،لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔تمام تر کوشش کے باوجود احسن نے یہ دو ہزار الفاظ اسی رات ختم کر دیے۔اگلے دن اسکول میں چڑانے والوں کو وہ کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا جس کے نتیجے میں وہ مذاق اُڑا اُڑا کر خود ہی خاموش ہو گئے۔دوپہر کے وقت ہی احسن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔وہ بولنے کے لئے تڑپ رہا تھا۔اللہ اللہ کرکے عصر کا وقت آیا اور نماز پڑھ کر وہ باغ میں اُسی بینچ پر بے صبری سے بزرگ کا انتظار کرنے لگا۔کچھ دیر بعد بزرگ بابا وہاں پہنچ گئے۔”کیسے ہو میرے بچے!دن کیسا گزرا تمہارا۔کہیں پریشان تو نہیں ہو گئے؟“احسن کی آواز بحال تھی۔اُس نے کہا:”بابا!یہ بہت مشکل کام ہے۔مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔“درویش نے احسن کی مٹھی میں ایک ہزار کا نوٹ تھمایا اور آنکھیں بند کرنے کے لئے کہا۔آنکھیں بند کرتے ہی احسن دوبارہ اُسی طلسماتی دنیا میں پہنچ چکا تھا۔اُسے ایک ٹھیلے والا نظر آیا وہ آواز لگا رہا تھا:”الفاظ خرید لو․․․․الفاظ خرید لو․․․․الفاظ والا آگیا․․․․الفاظ والا آگیا․․․․“لوگ یہ پکار سنتے ہی اُس کے گرد جمع ہونے لگے۔احسن نے بھی پھرتی دکھائی اور ایک ہزار الفاظ خرید لیے۔وہ گھومتے گھومتے ایک گلی میں چلا گیا،جہاں دو آدمی باہم اُلجھ رہے تھے۔ابھی لڑائی بڑھ ہی رہی تھی کہ ایک شخص کے الفاظ ختم ہو گئے اور وہ خود بخود خاموش ہو گیا۔دوسرا شخص بھی سامنے والے کے خاموش ہوتے ہی ٹھنڈا پڑ گیا اور لڑائی ختم ہو گئی۔اچانک اُس نے خود کو بزرگ کے پاس پایا۔بزرگ نے کہا:”بیٹا!اب تمہارے پاس ایک ہزار الفاظ ہیں۔بہت زیادہ احتیاط کرنا ہو گی۔“”جی بابا!انشاء اللہ میں آپ کی بات پر پورا عمل کروں گا۔“احسن نے اس بار بہت ہی احتیاط سے کام لیا اور جب اگلے دن وہ بزرگ کے پاس گیا تو اُس کے پاس دو سو الفاظ باقی تھے۔بزرگ بابا بہت خوش ہوئے۔احسن نے کہا:بابا!اب میرے اندر بہتری آرہی ہے۔میں اُسی وقت بولتا ہوں جب نہایت ضرورت ہوتی ہے۔تو اب میں آنکھیں بند کروں بابا؟“”ارے واہ میرے بچے!اب تمہاری منزل قریب ہے۔یہ لو پندرہ سو روپے۔“آج احسن کو طلسماتی دنیا بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔دلکش تالاب،سر سبز وادیاں،پانی کے جھرنے،خوبصورت پرندے۔احسن حیران رہ گیا۔ایسا حسین منظر کبھی اس کی نظروں سے نہیں گزرا تھا۔احسن نے ایک دکان سے پندرہ سو روپے کے پندرہ سو الفاظ خرید لیے۔احسن نے سوچا کہ اگر ہر شخص اسی طرح اپنے الفاظ کی قدر کرے تو انسان کتنے گناہوں سے بچ سکتا ہے۔اسی دوران اس کی آنکھ لگ گئی اور دوسرے ہی لمحے وہ باغ میں تھا۔بزرگ نے کہا:”بیٹا!اب تم اسی وقت میرے پاس آنا،جب یہ پندرہ سو الفاظ ختم ہو جائیں۔اب یہ تم پر منحصر ہے کہ تم انھیں ایک دن میں ختم کر لیتے ہو یا ایک ہفتہ چلا لیتے ہو۔“احسن نے یہ پندرہ سو الفاظ دس دن چلا لیے۔اب وہ سمجھ چکا تھا کہ بزرگ نے کس بہترین طریقے سے اُس کی تربیت کی ہے۔اُس کی خاموشی کی بدولت اب اُس کا مذاق اُڑانے والے بھی تھک چکے تھے۔اساتذہ بھی اُس سے خوش تھے اور پہلے سے زیادہ اُس کی تعریف کرتے تھے۔دس دن بعد بزرگ نے احسن سے کہا:”بیٹا!اب تمہیں الفاظ خریدنے کی ضرورت نہیں۔تم بولنے کے آداب سمجھ گئے ہو۔میں دعا کروں گا کہ تم ہمیشہ کامیاب رہو۔احسن بہت خوش ہوا۔بزرگ نے اُسے گلے لگا لیا۔احسن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ " اپنا اپنا کام - تحریر نمبر 1919,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/apna-apna-kaam-1919.html,"پروفیسر ڈاکٹر ایف ایچ فاروقیگاؤں میں ایک دھوبی تھا،جس نے ایک گدھا،ایک کتا اور ایک مرغا پال رکھا تھا۔دھوبی کے ساتھ جب گدھا گھاٹ پر جاتا تو کتا بھی اس کے ساتھ جاتا تھا۔گھاٹ پر پہنچ کر دھوبی گدھے کو ایک لمبی رسی سے باندھ دیتا۔کتا گدھے کے قریب گھاس پر سو جاتا تھا۔ایک دن مرغے نے کتے سے کہا:”تم دونوں آپس میں دوست ہو،مگر مجھے اپنا دوست نہیں سمجھتے۔“کتے نے جواب دیا:”تم بھی ہمارے دوست ہو ہم ایک ہی مکان میں رہتے ہیں اور ہمارا مالک بھی ایک ہے۔“مرغے نے کہا:”تم گدھے کے ساتھ باہر جاتے ہو۔میں تمام دن گھر کے چھوٹے سے صحن میں گھومتا رہتا ہوں۔میرا دل بھی چاہتا ہے کہ تم دونوں کی طرح باہر جا کر سیر کروں اور دنیا کی رونق دیکھوں۔(جاری ہے)“کتے نے مرغے کو سمجھایا:”ہر جانور اور ہر انسان کا کام مختلف ہوتا ہے۔گدھا بوجھ اُٹھاتا ہے۔میں تمام رات جاگ کر گھر کی رکھوالی کرتا ہوں، لیکن تم تمام دن سکون سے اِدھر اُدھر پھرتے ہو۔تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ تمہیں کوئی کام نہیں کرنا پڑتا۔“مرغا کتے کی باتوں سے مطمئن نہ ہوا اور بولا:”کل میں تمہارے ساتھ گھاٹ پر جاؤں گا اور پھر ہم سب شام کو واپس گھر آجائیں گے۔“دوسرے دن جب دھوبی حسب معمول گدھے پر میلے کپڑے لاد کر چلنے لگا تو کتے کے ساتھ مرغا بھی چل پڑا۔دھوبی کو معلوم نہ ہو سکا کہ اس کے پیچھے آج مرغا بھی ان کے ساتھ گھاٹ پر جا رہا ہے۔گھاٹ پر جا کر دھوبی حسب معمول کام پر لگ گیا اور گدھے کو ایک لمبی رسی سے باندھ دیا۔کتا بھی خاموشی سے درخت کے سائے میں لیٹ گیا۔مرغا ٹہلتا ہوا ذرا دور نکل گیا۔اچانک قریب ہی گھومتے ہوئے ایک آوارہ کتے نے جب مرغے کو دیکھا تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔اس کتے نے مرغے پر حملہ کر دیا۔ مرغا چوکنا تھا،لہٰذا وہ فوراً چھلانگ لگا کر ایک دیوار پر چڑھ گیا۔دھوبی کے کتے نے دیکھا کہ کوئی دوسرا کتا اس کے دوست مرغے کو پکڑنا چاہتا ہے تو اس نے زور زور سے بھونکنا شروع کر دیا۔کتے کی آواز سن کر دھوبی بھاگا بھاگا آیا تو وہ حیران رہ گیا کہ آج ان کے ساتھ مرغا بھی آگیا ہے۔دھوبی کو بہت غصہ آیا۔اس نے مرغے کو ایک ٹوکرے میں بند کر دیا۔گھر آکر اس نے بیوی کو نصیحت کی کہ اس مرغے کو ڈربے سے نہ نکلنے دینا۔اس دن کے بعد مرغے کی گھر بھر میں پھرنے کی آزادی بھی ختم ہو گئی اور مرغا تمام دن ڈربے میں قید رہتا۔آخر ایک دن مرغے نے کتے سے کہا:”میں نے تمہاری بات پر عمل نہیں کیا تھا،اس لئے میری آزادی ختم ہو گئی ہے۔اب تمام دن ڈربے میں قید رہتا ہوں۔“کتے نے مرغے کو سمجھایا:”جو بھی دوسروں کے کام کو آسان اور اپنے کام کو بوجھ سمجھتا ہے،وہ ہمیشہ ناخوش رہتا ہے۔اپنا کام نہایت دل لگی اور محنت سے کرنا چاہیے۔دوسروں کے کام آسان اور فائدہ مند نظر آتے ہیں،مگر قدرت نے ہر ایک کے کام الگ الگ مقرر کر دیے ہیں۔“مرغے نے کتے کا شکریہ ادا کیا اور عہد کیا کہ آئندہ وہ اپنے کام سے ہی کام رکھے گا۔ " بڑا ادیب - تحریر نمبر 1918,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bara-adeeb-1918.html,"عارف مجید عارفخاور ایک علم دوست اور مہذب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔اس کے والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔ اس کے بڑے بہن بھائی بھی اچھے اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔گھر کے دیگر افراد کی طرح خاور کو بھی مطالعے کا شوق تھا۔ان کے گھر روزانہ اخبار کے علاوہ بڑوں اور بچوں کے معیاری رسائل بھی باقاعدگی سے آتے تھے۔مطالعے کی وجہ سے اس کا رجحان کہانیاں لکھنے کی طرف ہوا،تاکہ اسکول اور خاندان میں اس کا نام فخر سے لیا جا سکے اور وہ بھی اچھا ادیب کہلائے۔اس خیال سے اس نے ایک چھوٹی کہانی لکھ ڈالی اور کسی کو بتائے بغیر بچوں کے ایک رسالے میں ارسال کر دی۔چار ماہ بعد ایک صبح جب اس نے تازہ شمارہ کھولا تو خوشی سے پھولے نہ سمایا۔(جاری ہے)اس کی پہلی تحریر رسالے کے نئے لکھنے والے ادیبوں کے حصے میں شامل تھی۔اس نے فوراً اپنی یہ کاوش گھر والوں کو دکھائی۔بڑے بھائی نے کہا:”کہانیاں لکھنا اچھی سرگرمی ہے،لیکن تعلیم سب سے افضل ہے،اس میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔“”بھائی جان!آپ بے فکر رہیں میں تعلیم پر پوری توجہ دوں گا،لیکن میں ایک بڑا ادیب بھی بننا چاہتا ہوں۔“خاور کے لہجے میں ایک عزم تھا۔کچھ ہی عرصے میں اس کی کہانیاں باقاعدگی سے مختلف رسائل میں شائع ہونے لگیں۔اسکول،خاندان اور دوستوں میں اُسے تعریفی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ایک دن بھائی جان نے اس سے پوچھا:”خاور!تم نے آفاق اثری کا نام سنا ہے؟“”جی․․․․وہ تو بچوں کے بہت مشہور ادیب ہیں،بلکہ میرے پسندیدہ قلم کار ہیں۔“بھائی جان نے کہا:”وہ میرے ایک دوست کے عزیز ہیں اور قریب ہی رہتے ہیں۔اگر تم چاہو تو میں اپنے دوست سے بات کرکے تمہیں ان سے ملانے لے جاؤں گا۔“اگلے ہی ہفتے خاور،بھائی جان اور ان کے دوست آفاق اثری صاحب کے گھر پہنچ گئے۔اثری صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ خاور سے محبت سے ملے اور اس کی شائع شدہ کہانیوں پر بھی نظر ڈال کر بولے،یہ اچھا مشغلہ ہے تم اسے جاری رکھو،یہ تمہاری تعلیم میں بھی معاون ثابت ہو گا۔خاور نے ہمت کرکے درخواست کی کہ وہ میری کہانیوں کی اصلاح فرما دیں تو نوازش ہو گی۔اثری صاحب رضا مند ہو گئے۔ خاور خوشی خوشی گھر آگیا،لیکن نہ جانے اسے کیوں اثری صاحب کا رویہ،انداز گفتگو اور وہ خود کچھ بناوٹی سے لگے جیسے اندرونی کیفیت چھپا کر مصنوعی انداز میں بات کر رہے ہوں،لیکن اس نے اس خیال کو فوراً دل سے نکال دیا۔خاور اب اور بھی دل جمعی سے کہانیاں لکھنے لگا۔کچھ عرصے بعد خاور نے ایک ایسی کہانی لکھی،جو اس کی اب تک کی سب سے اچھی تحریر تھی۔وہ کہانی لے کر اثری صاحب کے پاس جا پہنچا۔انھوں نے کہانی اپنے پاس رکھ لی اور کہا کہ میں ابھی مصروف ہوں،اگلے ہفتے آکر لے جانا۔ایک ہفتے بعد کہانی دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اچھی کہانی ہے۔میں نے ابتداء میں تبدیلی کی ہے باقی کسی اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہارے والے مسودے پر چائے گر گئی تھی،اسی لئے میں نے مکمل طور پر اپنے ہاتھ سے لکھ دی ہے۔خاور نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر کہانی رسالے کو ارسال کر دی۔اس نے مدیر کے نام خط میں لکھ دیا تھا کہ وہ آفاق اثری صاحب کا شاگرد ہے اور اس کہانی میں انھوں نے اصلاح بھی کی ہے۔ایک دن آفاق اثری کے پاس رسالے کے مدیر کا فون آیا۔مدیر نے کہا:”آفاق صاحب!کمال ہے آپ خود تو لاجواب لکھتے ہی ہیں آپ کے شاگرد بھی بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ خاور نامی آپ کے شاگرد نے ایک بہت اچھی کہانی بھیجی ہے اور آپ کا حوالہ بھی دیا ہے کہ آپ نے کچھ نوک پلگ سنواری ہے۔کہانی اتنی بہترین ہے کہ میں نے اسے خاص نمبر کی خاص کہانی کے طور پر منتخب کر لیا ہے اور آپ کی تحریر بھی اسی شمارے میں کہیں شامل کر لیں گے۔“مدیر صاحب کی پوری بات سنتے ہی آفاق صاحب کی عجیب سی کیفیت ہو گئی اور وہ ایک لمحے میں فیصلہ کرتے ہوئے بولے کہ جناب !یہ لڑکا چھوٹی موٹی فضول قسم کی کہانیاں لکھ لیتا ہے۔میں دل رکھنے کے لئے حوصلہ افزائی کر دیتا ہوں۔کبھی کبھار اصلاح بھی کر دیتا ہوں اور جس کہانی کا ذکر آپ کر رہے ہیں وہ تو میری اپنی تحریر ہے اور مجھے کچھ دنوں سے مل نہیں رہی تھی۔اب سمجھا کہ خاور چرا کر لے گئے ہیں۔آپ ابھی اسے شائع نہ کریں۔فون بند کرتے ہی آفاق اثری کا موڈ انتہائی بگڑ چکا تھا۔وہ غصے میں بڑبڑانے لگے کہ وہ کل کا بچہ اور مجھ پر فوقیت پاکر خاص کہانی کا درجہ بھی پائے اور سرورق کی زینت بھی ہو اور اس کے مقابلے میں میری کہانی اندرونی صفحات میں شامل ہو۔انھوں نے خاور کو فون کیا اور کہا کہ ان کا اصلاح شدہ مسودہ بھی ساتھ لائے۔اس میں کچھ ترمیم اور اضافے کے بعد دوبارہ بھیج دیں گے۔خاور نے ان کو دعائیں دیتے ہوئے سوچا کہ اثری صاحب کو اس کا اتنا خیال ہے کہ کہانی کو مزید بہتر کر رہے ہیں۔چند روز بعد خاور کو رسالے کی جانب سے ایک خط موصول ہوا۔اس نے بے تابی سے لفافہ چاک کیا۔جوں جوں وہ خط پڑھتا گیا۔اس کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔رسالے کے مدیر نے نرم الفاظ میں خاور کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ایک مشہور ادیب کی کہانی نقل کرکے اپنے نام سے بھیج دی۔یہ ادبی چوری ہے۔آپ اپنی سزا خود ہی تجویز کر لیجیے۔خاور نے جو آفاق اثری کا پیکر تراشا تھا وہ یکایک ٹوٹ گیا۔خاور نے اسی وقت ایک چیلنج کے طور پر عزم کیا کہ اب تعلیم کے ساتھ ساتھ کہانیاں لکھنے میں بھی اپنا مقام بنانا ہے۔اب میں یہ سب کچھ کرکے دکھاؤں گا۔خاور کی آنکھوں میں الگ ہی چمک تھی۔ " محنت رنگ لائی - تحریر نمبر 1917,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-rang-laayi-1917.html,"ایم رضوان ملغانیوہ ایک چھوٹی سی بستی تھی،جہاں کے مکینوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا۔گھروں کی عورتیں بھی اپنے گھروں کا چولہا جلانے کے لئے مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر کام کرتی تھیں اور دال روٹی سے گزر بسر ہو جاتی تھی۔شادُو کسان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی وہ دس سال سے اولاد کی آس لگائے ہوئے تھا۔اس کی مراد بر آئی تو اس نے اپنے کچے کمرے میں رکھی صندوق سے اپنی ساری جمع پونجی نکال کر بستی والوں پہ لٹا دی۔مٹھائیاں تقسیم کی گئیں،آس پڑوس کے بستی والوں کو بھی یاد رکھا گیا۔گاؤں والوں نے تو اس کا نام جمعہ خان رکھ چھوڑا تھا،کیونکہ وہ جمعے کے دن پیدا ہوا تھا۔شادُو نے بیٹے کا نام جمال رکھا تھا۔جب وہ بڑا ہوا تو ضد پر اَڑ گیا کہ اسے اسکول داخل ہونا ہے۔(جاری ہے)ان کی بستی میں اسکول کا نام بھی کسی نے نہ سنا تھا اور وہاں کسی بچے کا اسکول میں داخلہ لینے کی تکرار حیرانی کی بات تھی۔بستی کے ہر ہر فرد نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا کہ جمال عرف جمعہ خان کو اس کے عزائم سے ہٹایا جائے،لیکن سب ناکام رہے۔آخر وہ دن بھی آیا کہ جب اس کا داخلہ دوسری بستی کے اسکول میں کروا دیا گیا۔وہ بستی سے تانگے میں بیٹھتا۔تانگے والا اسے پکی سڑک پہ اُتارتا وہ بس میں سوار ہو کر دوسری بستی پہنچتا اور وہاں ماسٹر کریم داد،اسے سارے مضمون پڑھاتے تھے۔مڈل تک اسی اسکول میں پڑھنے کے بعد اس نے ہائی اسکول میں داخلہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو سب بستی والے غصے سے لال پیلے ہو گئے۔سب نے کہا:”کسان بن کچھ اور بننے کے خواب نہ دیکھ۔“لیکن جمال پہ تو ایک دُھن سوار ہو گئی تھی۔شہر میں اس نے ہائی اسکول میں داخلہ بھی لے لیا۔میٹرک میں صوبے بھر میں اس کی تیسری پوزیشن بنی تو وہ اور زیادہ پڑھائی کے معاملے میں سنجیدہ ہو گیا۔اس کی اَن تھک محنت اور دل لگا کر پڑھنے کا جنون اسے کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک لے گیا۔اتنا پڑھ لکھ جانے کے بعد اسے چھوٹی موٹی ملازمت گوارہ نہ تھی اور اونچی پوسٹ اور عہدے کے لئے تگڑی سفارش کا ہونا بھی ضروری تھی۔اس نے بہت کوشش کی،لیکن بے سود۔وہ بستی میں واپس آیا تو سب نے کہا:”کھیتی باڑی شروع کر دے۔“لیکن وہ آمادہ نہ ہوا اور بستی میں ہی اپنی مدد آپ کے تحت پرچون کی دکان کھول کر اسے بڑھاتا رہا۔دیکھتے ہی دیکھتے دکان ایک بڑے جنرل اسٹور کی شکل اختیار کر گئی۔بستی والے اس پر رشک کرتے جمال خود بھی سیٹھ بن جانے اور کہلائے جانے پر اِتراتا پھرتا۔انھوں نے اپنا کچا گھروندہ گرا دیا۔دو کمرے پکے بنا لیے جس کے آگے برآمدہ اور تین چار درخت بھی تھے،جن کی چھاؤں میں بیٹھ کر جمال کی ماں خوشی سے پھولے نہ سماتی۔ادھر شادُو روز کلف لگے کپڑے پہنتا،لنگی کی جگہ شلوار نے لے لی اور پگڑی بھی باندھتا تھا۔بستی میں جمال کا اکلوتا اسٹور تھا۔آس پڑوس کے بستی والے بھی وہیں سے آکر سودا سلف لے جاتے تھے۔زندگی اچھی گزر رہی تھی کہ اسے ایسا لگا جیسے گاؤں کا ماحول بدل گیا ہو۔روزمرہ کے معاملات میں فرق آگیا۔اب وہ نوجوان جو اپنے بڑوں کے ساتھ مل کر کھیتی باڑی کرتے تھے،اپنا سارا قیمتی وقت موبائل فون پر ضائع کرنے لگے۔بعض لڑکے چوریاں کرتے اور ان پیسوں سے موبائل خرید لیتے،پھر ہر وقت اسی میں لگے رہتے۔اس کی دکان پر آنے والے اکثر لوگ شکایتی لہجے میں کہتے کہ ہمارا لڑکا کام نہیں کرتا،اسے سمجھاؤ۔جمال سر پکڑ کر بیٹھ جاتا۔لڑکے اس کی دکان پر بیٹھ کر فضول باتیں کرتے،وہ انھیں سمجھا کر تھک جاتا،لیکن کوئی بھی اس کی باتوں پہ کان نہیں دھرتا تھا۔جمال عرصے سے اپنی ڈگری بھلائے بیٹھا تھا۔وہ اسے یاد آنے لگی۔دن رات وہ ندامت کے آنسو بہاتا کہ اگر وہ اپنی تعلیم اور شعور کو بستی کے ہر ہر فرد کے ذہنوں میں منتقل کرتا تو آج جو صورت حال ہے اس سے ان کی بستی دوچار نہ ہوتی۔کئی سوال تھے جو اسے تنگ کرتے تھے اور شرمندہ کرتے تھے۔وہ اپنے علم کی بنیاد پہ بہت کچھ کر سکتا تھا۔اس نے ایسا کیوں نہیں کیا!یہی ندامت اسے کھل رہی تھی۔آخر اس نے ایک فیصلہ کیا اور اس بارے میں والدہ کو آگاہ کر دیا کہ اب دکان ان کے حوالے کرکے بستی کے مستقبل کے معماروں کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے۔یہ سن کر اس کے والد بہت ناراض ہوئے اور ماں کی بھی یہی کیفیت تھی،لیکن جمال نے انھیں قائل کر لیا۔گاؤں میں اسکول کھل گیا۔وہ بچے جو بھٹک کر بے راہ راوی کا شکار ہو گئے تھے،راہ راست پہ آنے لگے تھے۔علم کی روشنی جسے اس نے اپنے دماغ میں محفوظ کی تھی،نوجوانوں میں منتقل کرنے لگا۔اس کی محنت رنگ لائی اور اس بستی سے اکثر لوگ علم و شعور کے پیکر بن کر نکلنے لگے۔ اگر اسے درست وقت پر اپنی غلطی کا احساس نہ ہوتا تو شاید آج بھی وہ بستی بے نام رہتی۔جب کہ آج وہ بستی”جمال والاں“ بستی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ " دوست ہو تو ایسا - تحریر نمبر 1916,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dost-ho-tu-aaisa-1916.html," " سنہری تھیلی - تحریر نمبر 1915,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sunehri-theeli-1915.html,"تنزیلہ احمدقصبے سے دور پہاڑی علاقے میں عاقل نامی لڑکا اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔گیارہ سالہ عاقل پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔اس کے والد پہاڑوں کو توڑ کر پتھر ملک کے مختلف حصوں میں بھیجنے والے ٹھیکے دار کے ساتھ کام کرتے تھے اور امی عورتوں کے لئے سلائی کڑھائی کرتیں اور یوں ان کی گزر بسر ہوتی۔پڑھائی سے فارغ ہو کر عاقل اپنی امی کا ہاتھ بٹاتا تھا۔وہ سلائی اور کڑھائی کیے ہوئے کپڑے ماں کے بتانے پر خواتین کے گھروں میں پہنچا آتا۔اس کی امی کو باہر بھی نہ جانا پڑتا اور وقت کی بچت بھی ہو جاتی۔جو سامان ماں کو چاہیے ہوتا باہر سے وہ بھی خرید لاتا۔ایک روز اسے کسی خاتون کے کپڑے دینے جانا پڑا،جن کا گھر کافی دور تھا۔جب وہ کپڑے دے کر واپسی کے لئے مڑا تو شام ہونے والی تھی۔(جاری ہے)ناہموار سنسان پہاڑی راستے پر وہ چلا آرہا تھا کہ اسے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔اسے محسوس ہوا کہ آواز بڑے پتھر کے پاس سے آرہی ہے۔”کون ہے؟“کہتا وہ پتھر کے قریب پہنچا تو وہاں اپنے برابر ایک بہت خوب صورت بچے کو دیکھا جو اپنا پیر پکڑے کراہ رہا تھا۔اس کے پاؤں میں نوکیلا کانٹا چبھا تھا جس کی وجہ سے پاؤں میں سوجن ہو رہی تھی اور خون بھی رس رہا تھا۔”تم کون ہو؟یہاں کیسے آئے،یہ کانٹا کیسے چبھا؟“اسے دیکھتے ہی عاقل نے حیرانی سے کئی سوال پوچھ ڈالے۔”بہت تکلیف ہو رہی ہے،کانٹا نکالنے کی ہمت بھی نہیں۔کیا تم میری مدد کرو گے؟“بچے نے مدد مانگی تو وہ سر ہلاتے ہوئے اس کے پاؤں کے پاس جھکا۔”ارے وہ دیکھو،کتنا خوب صورت پتھر ہے۔“عاقل نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔جیسے ہی بچے نے اُدھر دیکھا،عاقل نے جھٹ سے کانٹا نکال دیا۔”ارے کانٹا نکل گیا،میں ڈر رہا تھا کہ بہت تکلیف ہو گی،مگر تم نے تو کمال کر دیا۔“بچے نے خوشی سے کہا۔عاقل مسکرایا اور اپنی کلائی پر لپیٹا رومال پھاڑ کر اس کے پاؤں میں پٹی بھی باندھ دی۔”بہت شکریہ دوست!میں تمہارا احسان مند رہوں گا۔شام ڈھل رہی ہے،اب ہمیں اپنے گھر جانا چاہیے۔“”ٹھیک ہے،مگر تمہارا گھر کہاں ہے؟تم نے اپنا نام بھی نہیں بتایا۔“”میرا نام بنٹو ہے اور جنگل کے اُس پار ہمارا گھر ہے۔“بنٹو آہستگی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ ہلائے ہوئے مخالف سمت چلنے لگا۔عاقل بھی تیزی سے اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔گھر پہنچا تو امی کو پریشان پایا۔انھوں نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو عاقل نے سب سچ سچ بتا دیا۔ جس پر امی نے اسے بہت شاباشی دی۔عاقل کے ابو رات میں تھکے ہارے گھر آئے تو بہت پریشان تھے۔بیوی کے پوچھنے پر وہ بولے کہ ٹھیکے دار عام پتھر بیچنے کی آڑ میں غیر قانونی طور پر قیمتی پتھر اسمگل کرتا تھا۔وہ پکڑا گیا اور کام کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔اب پتا نہیں گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔دن گزرتے گئے۔سلائی کڑھائی سے کی گئی جمع پونجی ختم ہو چکی تھی۔اس روز ان کے گھر راشن نہیں تھا اور اتنے پیسے بھی نہیں کہ کچھ خریدا جا سکے ۔عاقل کی امی نے اسے کڑھائی والا کُرتا دیا کہ انہی خاتون کے گھر دے آؤ،تاکہ جو پیسے ملیں اس سے کھانے کا بندوبست ہو سکے۔جب وہ کپڑے پہنچا کر آرہا تھا تو اسے بنٹو نظر آیا۔دونوں دوست باتیں کرنے لگے۔بنٹو نے پریشانی کی وجہ پوچھی۔پھر اسے ایک سنہری تھیلی دی کہ اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھنا،جب کوئی مسئلہ ہو تو سچے دل سے دعا کرنا اور اس میں سے ایک بیج نکال کر زمین میں دبا دینا۔عاقل گھر پہنچا ماں کو پیسے دیے۔ابو دکان سے بن لے آئے اور انھوں نے شکر ادا کرکے بھوک کی شدت کم کی۔رات میں سونے سے پہلے عاقل نے دعا کی اور پھر تھیلی میں سے ایک چھوٹا سا بیج نکا ل کر گھر کے پچھلے حصے کی مٹی میں دبا دیا۔اگلی صبح وہ دروازے پر تیز دستک سے جاگے۔”کون ہے؟“عاقل کے ابو نے پوچھا اور دروازے پر کھڑے اپنے ایک دوست کو دیکھ کر خوش ہوئے۔”ایک بڑی کمپنی نے پہاڑوں کی کھدائی کا حکومت سے معاہدہ کیا ہے۔وہاں کے لوگوں نے تمہاری ایمانداری سے متاثر ہو کر تمہیں انچارج بنانے کے لئے کمپنی کے نمائندے سے کہہ دیا ہے۔میرے ساتھ چلو،انھوں نے تمہیں بلایا ہے۔“دوست کے بتانے پر وہ کھل اُٹھے اور اس کے ساتھ چلے گئے۔عاقل اور اس کی امی بہت خوش ہوئے۔عاقل بھاگ کر گھر کے پچھلے حصے میں گیا اور وہاں ایک چھوٹا سا پودا لہلہاتا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ایک روز اس نے دعا مانگی کہ ماں کے کام میں برکت ہو اور پھر بیج بو دیا۔اگلے روز اس بیج سے بھی پودا نکل آیا۔عاقل جب بھی کپڑے دینے پہاڑی پر جاتا تو واپسی پر وہاں ضرور رکتا،جہاں بنٹو سے ملاقات ہوئی تھی،مگر بنٹو نہ ملا۔وقت گزرنے کے ساتھ عاقل کے گھریلو حالات بہت بدل گئے تھے۔اس نے سنہری تھیلی اور اس میں موجود بیج بہت سنبھال کر رکھے۔وہ بنٹو کو کبھی نہیں بھولا تھا۔ایک رات اس نے ایک انوکھی خواہش کی اور بیج بو دیا۔اگلے روز اپنے گھر میں بنٹو اور اس کے ساتھ ایک بہت خوبصورت خاتون کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور بھاگ کر ان کے پاس گیا۔”تم کہاں کھو گئے تھے بنٹو!اتنے مہینے گزر گئے،مگر تم سے ملاقات نہیں ہوئی۔“”ہم یہاں سے چلے گئے تھے۔“بنٹو مسکرایا۔”کہاں چلے گئے،بتایا کیوں نہیں؟“”تمہاری نیکی اور رحم دلی سے متاثر ہو کر بنٹو تمہارا دوست بنا اور تمہیں جادوئی سنہری تھیلی اور بیج دیے۔ہم انسان دوست ہیں،مگر عام انسانوں کے سامنے نہیں آتے۔اس وقت تمہاری خواہش پر ہمیں تم سے ملنے آنا پڑا۔“خاتون نے کہا تو وہ سب چونکے۔”امی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔تم محنتی،اچھے اور رحم دل انسان ہو۔تم نے میری مدد کی اور میں نے تمہاری۔اگر تم ایسی خواہش کرتے جو بُری ہوتی تو پودا نہ اُگتا اور نہ کبھی خواہش پوری ہوتی۔تمہاری خواہش کا احترام کرتے ہوئے ہم تم سے ملنے پرستان سے آئے ہیں۔“”تو کک․․․․کیا آپ؟“عاقل نے ہکلاتے ہوئے کہا۔”ہاں ہم انسان نہیں،میں پری زاد ہوں اور امی ملکہ پری ہیں۔“ان کی بات سن کر عاقل بھونچکارہ گیا۔”اب ہمیں جانا ہو گا۔ہمیشہ اچھے کام کرنا،جھوٹ سے بچنا اور دوسروں کی مدد کرتے رہنا ورنہ سنہری تھیلی اور بیج غائب ہو جائیں گے۔اچھا دوست خدا حافظ!“بنٹو نے کہا اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے دونوں غائب ہو گئے۔ " چوری کی سزا - تحریر نمبر 1914,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chori-ki-saza-1914.html,"سارہ عمرعمران اور چنگیز ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔عمران کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔چنگیز کو گھر کے لاڈ پیار نے بگاڑ دیا تھا۔وہ کسی کا کہا نہیں مانتا۔ اپنی من مانیاں کرتا تھا۔ایک دن عمران لنچ میں سموسے لے کر آیا جس کا چنگیز کو علم ہو گیا۔اس کا دل مچلا کہ وہ بھی سموسے کھائے گا مگر کیسے یہ بات وہ سوچنے لگا۔اس نے سوچا کہ کیوں نہ عمران کا لنچ باکس چرا کر لنچ کھا لیا جائے بس اسی سوچ کی وجہ سے وہ موقع کے انتظار میں رہا۔جیسے ہی بریک کی گھنٹی بجی۔عمران ہاتھ دھونے گیا۔اس نے موقع دیکھتے ہی عمران کا لنچ باکس نکالا اور کلاس کی کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔وہ کھڑکی پچھلے میدان میں کھلتی تھی جہاں پہ زیادہ لوگ نہیں جاتے تھے۔ادھر اسکول کا کچھ پرانا سامان بھی پڑا ہوا تھا اس لئے اس طرف صرف خاکروب ہی جاتے تھے۔(جاری ہے)عمران واپس آیا تو کلاس خالی تھی اور لنچ باکس غائب تھا۔عمران یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا۔اس نے وہ دن بغیر لنچ کے ہی گزار دیا وہ بہت افسردہ تھا کہ اس کا لنچ باکس چوری ہو گیا ہے۔چنگیز لنچ میں انڈا پراٹھا لایا تھا مگر اس نے نہ وہ خود کھایا نہ ہی پریشان پھرتے عمران کو دیا۔اس کا دماغ تو سموسے کھانے میں لگا ہوا تھا۔بریک کے بعد عمران نے ٹیچر کو اپنا مسئلہ بتایا۔ٹیچر نے سب بچوں کے بیگ میں تلاشی لی لیکن کسی بچے کے بیگ میں لنچ باکس نہیں تھا۔عمران بہت پریشان ہوا لیکن اس نے خاموشی سے وقت گزار لیا۔چھٹی کے وقت وہ بس میں چلا گیا چنگیز سب بچوں کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔جیسے ہی سب گئے وہ پچھلے میدان کی طرف چلا گیا۔وہ چاہتا تھا کہ لنچ باکس اپنے بیگ میں ڈال کے گھر چلا جائے اور امی سے چھپ کر سموسے کھا لے۔پھر کل لنچ باکس واپس رکھ دے گا۔کھڑکی سے کود کر باہر جانے کا راستہ نہ تھا سو اسے پچھلے میدان میں جانے کے لئے کافی چلنا پڑا۔بس جانے کے لئے تیار کھڑی تھی۔وہ لنچ باکس بیگ میں ڈال کر میدان میں آگیا۔لیکن یہ کیا۔۔۔بس تو چلی گئی تھی۔چوکیدار نے بھی اسکول خالی دیکھ کر دروازہ بند کر دیا تھا۔چنگیز وہاں بیٹھ کر دھاڑے مار مار کے رونے لگا۔اس کو چوری کی سزا مل گئی تھی۔اس نے نہ خود لنچ کیا تھا اور نہ ہی عمران کو کرنے دیا تھا۔اس لنچ باکس کو اٹھانے کے چکر میں اس کی بس بھی نکل گئی تھی۔چنگیز بہت پریشان ہوا اس نے اللہ سے توبہ کی کہ آئندہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔روتے روتے وہ سو گیا۔جب چنگیز گھر نہیں آیا تو اس کی امی نے عمران کے گھر فون کیا۔اس نے کہا کہ وہ مجھے بس میں بھی نہیں دکھائی دیا البتہ وہ اسکول میں تھا۔انہوں نے اس کے ابو کو فون کیا اور وہ آفس سے گھر آئے اور سب مل کے اسے ڈھونڈنے کے لئے اسکول گئے۔ جب وہ اسکول پہنچے اور انہوں نے چوکیدار سے دروازہ کھلوایا تو وہ لیٹا ہوا تھا اس کے ہاتھ میں عمران کا لنچ باکس بھی تھا۔چنگیز کے ابو نے اسے اٹھایا اور گھر لے آئے۔چنگیز نے عمران اور سب سے معافی مانگی۔عمران نے بھی اسے معاف کر دیا اور پھر دونوں نے مل کر سموسے کھائے۔ " عملی اقدام - تحریر نمبر 1911,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/amli-iqdaam-1911.html,"مہوش اختر،نارتھ کراچیمریم اور علی بہن بھائی تھے،جب کہ سکندر اور زینب بھی اسی محلے میں رہتے تھے۔بچپن سے ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے چاروں میں بہت اچھی دوستی تھی۔علی نویں جب کہ باقی تینوں دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔محلے بھر کو صاف رکھنے کے لئے انھوں نے مل کر ایک منصوبہ بنایا۔ضروری سامان کی ایک لسٹ تیار کی گئی اور کام کو آپس میں تقسیم کیا گیا۔سب سے پہلا مرحلہ گھر والوں کو راضی کرنا تھا۔سکندر کی والدہ نہایت سمجھدار خاتون تھیں۔چاروں نے ان کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔انھوں نے بچوں کے فیصلے کو سراہا اور باقی تینوں بچوں کے والدین سے بھی اجازت دلوا دی۔دوسرے دن چاروں نے محلے والوں سے چندہ جمع کرنا شروع کیا۔گھروں پر جا کر ان کو اپنے مقصد سے آگاہ کیا۔(جاری ہے)لوگ انھیں جانتے تھے، اس لئے چندہ دینے پر بہ خوشی راضی ہو گئے۔جمع شدہ رقم سے بچوں نے جھاڑو،کچرا دان اور دیگر ضروری اشیاء خریدیں۔گٹر لائن کی مرمت کے لئے متعلقہ ادارے سے رابطہ کیا۔سیوریج نظام صحیح ہونے میں تین دن لگ گئے۔اب اگلہ مرحلہ صفائی کا تھا۔علی اور سکندر نے جھاڑو سنبھالی جب کہ زینب اور مریم نے کچرا اُٹھا کر کچرا دان میں ڈالنے کا کام شروع کیا۔ساتھ ہی ساتھ چاروں دوستوں کی نوک جھونک اور ہنسی مذاق بھی چلتی رہی۔یہ بچے کام اتنے جوش و جذبے،اعتماد اور مزے کے ساتھ کر رہے تھے کہ محلے کے دوسرے بچے بھی اپنے گھروں سے جھاڑو اُٹھا کر لے آئے اور ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔اس کام سے فارغ ہو کر جب چاروں نے گلی پر ایک نظر ڈالی تو ان کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا،کیونکہ ان کی کوششوں نے محلے کو خوبصورت اور دلکش بنا دیا تھا۔ایسے میں انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا:’ارے!زینب کہاں گئی؟“علی نے زینب کو غائب پا کر پوچھا۔”وہ گلی کے کونے پر کوڑا دان رکھنے گئی ہے۔“مریم نے بتایا۔ان لوگوں نے دیکھا کہ زینب نے کوڑے دان کے اوپر”مجھے استعمال کرو“ کے الفاظ تحریر کر دیے تھے جو لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کے لئے تھے۔”اب ہمیں اس صفائی مہم کا آخری کام کرنا ہے۔“علی نے گھر کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔سکندر نے کہا:”پھر ہماری گلی مستقل طور پر صاف رہنے لگے گی۔“علی نے کہا۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔“دوسرے دن انھوں نے لوگوں میں ایک پمفلٹ بھی تقسیم کیا۔جس میں گلی کو صاف کرنے میں تعاون کرنے پہ شکریہ ادا کیا گیا تھا اور ساتھ ہی مستقل طور پر صاف رکھنے کے لئے درخواست اور ضروری ہدایات درج تھیں۔بچوں کی ان کاوشوں کو سراہتے ہوئے محلے کے تمام لوگوں نے ان پر عمل کرنے کا عہد کیا۔بچے اپنے مشن کو مکمل ہوتا دیکھ کر بہت خوش تھے،کیونکہ ان بچوں نے نہ صرف اپنے علاقے کے لئے ایک اہم کام کیا تھا،بلکہ اپنے بڑوں کو اس طرف راغب کر لیا تھا۔مسئلے کو حل کرنے کے لئے عملی اقدام کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر انسان کو صرف دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے انفرادی طور پر اپنے حصے کا کام کرنا ہوتا ہے،کیونکہ قطرے قطرے سے ہی دریا بنتا ہے۔ " واردات - تحریر نمبر 1910,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/wardat-1910.html,"محمد احمد صدیقی،کراچیسیٹھ عرفان جلالی کپڑوں کے ایک بڑے تاجر تھے ان کے دو بیٹے تھے۔بلال اور عمار۔ان کی بیوی بہت پہلے انتقال کر چکی تھی۔ایک دن تین نقاب پوش عمار کو اغوا کرکے گاڑی میں ڈال کر ویران کوٹھی کی طرف لے گئے۔چند منٹ بعد ہی عمار کو ایک بڑے کمرے میں بند کر دیا گیا۔ سیٹھ عرفان جلالی کو اپنے بیٹے کی گمشدگی کی خبر ملی تو ان کے ہوش ہی اُڑ گئے۔آخر ان کے دو ہی تو بیٹے تھے۔صبح ہی اغوا کاروں نے فون کیا۔ان کا مطالبہ تھا کہ 30 لاکھ روپے کالی پہاڑی پر پہنچا دیے جائیں تو ان کو بیٹا واپس مل سکتا ہے،ورنہ اس کی لاش ہی ملے گی۔سیٹھ عرفان نے کچھ سوچ کر انسپکٹر فرقان مرزا سے رابطہ کیا۔کچھ ہی دیر بعد فرقان مرزا پہنچ گئے۔سیٹھ عرفان نے تمام حالات شروع سے لے کر آخر تک سنا دیے اور بتایا کہ وہ اپنے دوست اطہر سے ملنے گیا تھا۔(جاری ہے)اطہر کا پتا معلوم کرکے انسپکٹر فرقان ٹیم ساتھ لے کر اطہر کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔اُدھر اغوا کار اپنے باس کو رپورٹ دے رہے تھے کہ جب وہ اپنے دوست کے گھر سے باہر نکل کر جیسے ہی وہ ٹیکسی کی طرف بڑھا،ہم نے اس پر قابو پا لیا۔ٹیکسی والے کو بھی بے ہوش کر دیا۔”ارے یہ کیا غضب کر دیا؟“باس چلایا۔ٹیکسی والا ہوش میں آکر تمہارا حلیہ پولیس کو بتا دے گا۔اب دوڑو اور ٹیکسی والے کو ختم کر دو۔وہ تینوں فوراً ہی باہر نکل گئے۔انسپکٹر کو اطہر کا گھر تلاش کرنے میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔اسے دوست کے اغوا کے بارے میں بتایا گیا تو اطہر نے کہا کہ عمار اس کے پاس آیا تھا۔اطہر کے گھر سے وہ باہر نکلتے تو دو سپاہی دوڑتے ہوئے آئے:”سر!یہاں قریب ہی ایک ٹیکسی میں کوئی آدمی بے ہوش پڑا ہوا ہے، آپ چل کر دیکھ لیں۔وہ ٹیکسی تک آئے تو دیکھا کہ وہاں ایک آدمی بے ہوش پڑا تھا۔انسپکٹر نے اسے ہوش میں لانے کی تدابیر شروع کر دی چند منٹ بعد ہی وہ ہوش میں آگیا۔معلومات حاصل کرنے پر نقاب پوشوں کا حلیہ پتا چل گیا۔وہ ٹیکسی ڈرائیور کو اپنی حفاظت میں لے کر تھانے آگئے۔تھانے میں سب مجرموں کی تصویریں اسے دکھائیں تو اس میں سے ایک کو اس نے پہچان لیا اس طرح مجرموں کے نام بھی پتا چل گئے۔تمام کے تمام سزا یافتہ تھے۔سب انسپکٹر نے کہا آج کل ان کا ٹھکانا شہر کے جنوب کی طرف ہے۔ادھر ایک پتلی سی سڑک ہے آگے کالی پہاڑی ہے،جس کے قریب ایک کھنڈر نما مکان ہے۔انسپکٹر فرقان اپنی ٹیم کے ساتھ اس پرانی کوٹھی تک پہنچ گئے اور مجرموں کو گرفتار کرکے تہ خانے سے عمار کو بھی برآمد کر لیا۔ " بھیڑیا اور میمنا - تحریر نمبر 1909,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/wolf-aur-lamb-1909.html,"بچوں اُس بھیڑ کے بچے کی کہانی تو آپ نے سنی ہو گی جو ندی پہ پانی پینے آیا تھا۔وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک بھیڑیا بھی پانی پی رہا تھا۔ابھی اس بچے نے چند گھونٹ ہی پیے تھے کہ بھیڑیا اس کی طرف آیا اور بولا ”تم پانی گندا کیوں کر رہے ہو․․․․؟دیکھتے نہیں میں پانی پی رہا ہوں۔“بھیڑ کے بچے نے جسے میمنا بھی کہتے ہیں نے ڈرتے ہوئے کہا”جناب پانی تو آپ کی طرف سے میری طرف آرہا ہے۔“بھیڑیا گرج کر بولا”تم نے پچھلے سال مجھے بُرا بھلا کیوں کہا تھا․․․؟“”جناب پچھلے سال تو میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔میری عمر تو ابھی صرف چھ مہینے ہے۔“”پھر وہ تمہارا بھائی یا باپ ہو گا۔“بھیڑیے نے کہا اور میمنے پر حملہ کرکے اسے کھا گیا۔لیکن بچو!یہ کہانی اُس میمنے کی نہیں اس کے چھوٹے بھائی کی ہے۔(جاری ہے)وہ اکثر اپنی ماں سے اپنے بڑے بھائی کے بارے میں پوچھا کرتا تو اس کی ماں اسے یہ کہانی سناتی اور ساتھ ہی تاکید کرتی کہ ندی پہ پانی پینے نہ جانا۔تو پھر میں کہاں پانی پیوں․․․․؟وہ پوچھتا۔یہاں تو صرف ایک ہی ندی ہے۔تم اس وقت پانی پی لیا کرو جب بھیڑیا اور دوسرے بڑے جانور وہاں نہ آتے ہوں۔اس کی ماں کہتی۔ندی پہ پانی پینے جانور عموماً صبح اور شام کے وقت آتے تھے اس لئے میمنا دوپہر کے وقت پانی پی آتا۔لیکن دوستو!کہتے ہیں کہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔میمنے کا سامنا بھیڑیے سے ہونا تھا سو ہو کر رہا۔ہوا کچھ اس طرح کہ ایک دوپہر میمنا ندی پہ پانی پی رہا تھا کہ اسے دوسری طرف سے بھیڑیا اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔میمنا سنبھل کر کھڑا ہو گیا۔تم پانی کیوں گندا کر رہے ہو․․․؟دیکھتے نہیں میں پانی پی رہا ہوں۔بھیڑیے نے حسب روایت چالاکی سے کہا۔لیکن جناب پانی تو آپ کی طرف سے میری طرف آرہا ہے۔میمنے نے کہا۔تم نے پچھلے سال مجھے بُرا بھلا کیوں کہا تھا․․․․؟بھیڑیے نے پرانی چال چلی۔”جناب وہ میں نہیں ،میرا بڑا بھائی تھا اور آپ نے اس بے چارے کو کھا لیا تھا۔“میمنے نے ندی کے کنارے کی طرف کھسکتے ہوئے کہا۔میں تمہارے ساتھ بھی وہی سلوک کروں گا۔بھیڑیے نے دانت نکالتے ہوئے کہا اور میمنے پر چھلانگ لگا دی۔میمنا جلدی سے ایک طرف ہٹ گیا اور بھیڑیا اڑتا ہوا ندی میں جا گرا۔برسات کے دن تھے ندی بہت تیزی سے بہہ رہی تھی۔بھیڑیے نے تیر کر کنارے پر آنے کی بہت کوشش کی مگر پانی کا تیز بہاؤ اسے دور بہا لے گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑیا پانی میں ڈوب گیا۔چھوٹا میمنا آرام سے چلتا اپنے گھر پہنچ گیا۔ماں․․․․میں نے بھیڑیے کو پانی میں گرا دیا ہے۔اس نے اپنی ماں سے کہا اور پھر ساری روداد سنا دی۔ماں نے حیرت اور خوشی سے اس کی طرف دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر اپنے بہادر بیٹے کا منہ چوم لیا۔ " کھلونوں کی دنیا - تحریر نمبر 1908,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khalonoon-ki-duniya-1908.html,"عطرت بتولشام کا وقت تھا دیبا اور وکی ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے ان کے پسندیدہ کارٹون شروع ہونے والے تھے ماما اور پاپا کسی رشتہ دار کی عیادت کے لئے گئے تھے اور دونوں کو سمجھا کر گئے تھے کہ لڑنا نہیں اور گھر سے باہر نہیں جانا،اب وہ دونوں مزے سے کارٹون دیکھ رہے تھے کہ اچانک لائٹ چلی گئی اور گھپ اندھیرا ہو گیا۔دیبا اندھیرے سے بہت ڈرتی تھی وہ زور زور سے رونے لگی ڈر تو وکی کو بھی لگ رہا تھا لیکن وہ ظاہر نہیں کر رہا تھا کیونکہ وہ دیبا سے بڑا تھا۔وہ دیبا کو چپ بھی کروا رہا تھا اور ساتھ ماچس بھی ڈھونڈ رہا تھا تاکہ موم بتی جلا لے لیکن اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا دیبا روئے جا رہی تھی۔اچانک انھیں اندھیرے میں کوئی چیز چمکتی نظر آئی دیبا خاموش ہو گئی وہ دونوں غور سے ادھر دیکھ رہے تھے انہیں محسوس ہوا کہ یہ سامنے شوکیس پر رکھی دیبا کی باربی ڈول کی آنکھیں ہیں جو چمک رہی تھیں،اچانک باربی ڈول جمپ لگا کر ان کے سامنے والے شیشے کے سینئر ٹیبل پر آگئی اس کے ہاتھ میں مائیک تھا جس میں وہ بہت سریلی آواز میں گانا گا رہی تھی مائیک سے روشنی نکل رہی تھی،دیبا اور وکی خوش ہو کر تالیاں بجانے لگے ان کا ڈر بالکل ختم ہو گیا تھا۔(جاری ہے)جیسے ہی ڈول کا گانا ختم ہوا وکی کا کھلونا ڈرمر چھلانگ لگا کر آگیا اور ڈرم بجانے لگا اور ساتھ ہی مکی ماؤس بھی آگیا اب تو وکی اور دیبا بالکل بھول گئے کہ وہ اندھیرے میں بیٹھے ہیں۔آہستہ آہستہ ان کے سارے کھلونے شوکیس سے باہر آگئے۔اور ان کا دل بہلانے لگے پھر اچانک انھوں نے بانسری کی آواز سنی یہ آواز بہت خوبصورت تھی۔ان کا دل چاہ رہا تھا کہ جہاں سے آواز آرہی ہے وہیں چلے جائیں سب سے پہلے ڈول اُدھر مڑی جہاں سے آواز آرہی تھی اس کی چمکتی آنکھوں کی روشنی میں سارے کھلونے دیبا اور وکی سب اس کے پیچھے چلنے لگے سب ٹی وی لاؤنج سے باہر نکلے اور گیلری میں آگئے اور خوبصورت سریلی آواز پر چلتے ہوئے ماما پاپا کے بیڈ روم میں داخل ہو گئے وہاں ایک صوفے پر ایک بہت پیاری پری بیٹھی تھی وہی بانسری بجا رہی تھی پری نے بانسری بجاتے بجاتے بچوں کو بیڈ پر آنے کا اشارہ کیا دیبا اور وکی اپنے ماما پاپا کے بیڈ پر لیٹ گئے تو پری نے لوری شروع کر دی ایسی ہی لوری ماما ان کو سنا کر سلاتی تھیں اب وکی اور دیبا آہستہ آہستہ سو رہے تھے جب وہ گہری نیند میں چلے گئے تو سارے کھلونے بھی واپس شوکیس میں چلے گئے اور پری بھی شاید اب دوسرے بچوں کی مدد کرنے کے لئے اُڑ گئی تھی۔ایک گھنٹے بعد گیٹ کا تالا کھلنے کی آواز آئی اور ماما پاپا گھر میں داخل ہوئے۔ماما بہت پریشان دکھائی دے رہی تھی کیونکہ راستے میں ٹریفک ہونے کی وجہ سے انہیں کافی دیر ہو گئی تھی انھیں دیبا کا بہت فکر تھا کیونکہ وہ بہت چھوٹی تھی ابھی پلے گروپ میں تھی اور اندھیرے سے بہت ڈرتی تھی ماما کو جب ٹی وی لاؤنج میں بچے نظر نہیں آئے تو وہ بہت تیزی سے پورے گھر میں ڈھونڈ رہی تھیں پاپا موبائل فون کی ٹارچ آن کیے ساتھ تھے جب وہ اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئے تو دیکھا دونوں بچے سو رہے تھے اسی وقت لائٹ آگئی ماما نے دیکھا کہ بچوں کے چہرے پر ویسی ہی مسکراہٹ ہے جیسے ان سے لوری سننے کے بعد ان کے چہرے پر ہوتی تھی۔ " عقلمند خرگوش - تحریر نمبر 1907,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aqalmand-rabbit-1907.html,"سویرا علیآبادی سے دور ایک چھوٹا سا جانوروں کا گاؤں آباد تھا۔وہاں بہت سارے جانور ایک ساتھ ہنسی خوشی رہتے تھے۔صرف ایک جانور ایسا تھا کہ جو خوش نہیں تھا۔اور وہ تھا خرگوش۔کیونکہ کوئی بھی اسے اپنا دوست نہیں بناتا تھا۔وہاں جانوروں نے گروہ بنائے ہوئے تھے گھاس خور جانوروں کا گروہ،گوشت خور کا الگ گروہ،اور پتے اور پھل خور کا الگ گروہ۔اتفاق سے خرگوش کسی گروہ کا حصہ نہیں تھا۔اس لئے سب اسے فالتو سمجھتے اور وہ تھا بھی اکلوتا۔اس لئے وہ بیچارہ بہت کوشش کرتا کہ کوئی اسے اپنے ساتھ شامل کر لے پر کسی کو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔وہ بیچارہ اپنے آپ سے ہی باتیں کرتا رہتا۔اس وجہ سے کچھ کچھ چڑچڑا بھی ہو گیا تھا۔ایک دن شہر میں نئے چڑیا گھر کھلنے کی اجازت دی گئی۔(جاری ہے)چڑیا گھر والوں کو کسی نے اطلاع دی کے آبادی سے کچھ ہی دور آپ کو جانوروں کا ایک گاؤں ملے گا جہاں تقریباً سارے ہی جانور ہیں۔اگر آپ سارے گاؤں کو قید کر لیں تو چڑیا گھر فوراً شروع کیا جا سکتا ہے۔اچانک ایک دن جانوروں کے گاؤں کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔سب جانوروں کو قید کرنے کے لئے گاؤں کے چاروں طرف بانسوں کی چار دیواری بنا دی گئی اور ان بانسوں پر جال لگا کر جانوروں کے کہیں باہر جانے کے راستے کو بند کر دیا گیا۔یہ سارا کام کرنے میں رات ہو گئی۔چڑیا گھر کے منتظمین نے یہ طے کیا کہ ابھی کام روک کر گھروں کو چلتے ہیں ویسے بھی سب جانور تو جال کی وجہ سے قید ہیں کل صبح گاڑیاں لے کر آئیں گے اور جانوروں کو پکڑ پکڑ کر چڑیا گھر لے جائیں گے۔جب وہ سب چلے گئے تو سب طاقتور جانوروں نے کوشش کی کہ جال توڑ سکیں پر ناکام رہیں۔سب مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔آخر خرگوش بولا اگر آپ سب مجھ سے دوستی کرنے کا وعدہ کرو تو میں کچھ کروں۔پر سب جانور اس کو بیکار سمجھ کر بولے ہم پہلے ہی پریشان ہیں ہمیں اور پریشان نہ کرو۔خرگوش چپ ہو گیا۔پر زیادہ دیر سب کے پریشان چہرے دیکھ کر رہ نہ سکا۔اور خود ہی اٹھ کر جال کترنے لگا۔جب وہ دو چار رسیاں کاٹ چکا تھا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے“ ارے تم یہ کر سکتے ہو شاباش جلدی کرو۔صبح ہونے سے پہلے ہم سب دور نکل جائیں گے“خرگوش نے جال کترنا روک کر اپنی بات پھر سے دوہرائی ”کہ اگر آپ سب مجھے اپنا دوست بنائیں گے تو میں جال کاٹوں گا ورنہ مجھے تو چڑیا گھر جانے میں کوئی پریشانی نہیں کم از کم وہاں اور خرگوش تو ہوں گے ناں“سب جانور بولے“ہاں ہاں تم ہمارے دوست ہو اب وقت مت ضائع کرو جلدی جال کاٹو“خرگوش جلدی سے جال کاٹنے لگا۔اور سخت محنت کے بعد کافی جال کاٹ لیا۔بندروں نے جال کو پکڑ کر راستہ بنایا اور سب جانور جلدی جلدی باہر نکلنے لگے اور چیتوں کی راہ منائی میں ایک نئی سمت بھاگنے لگے۔گینڈے جال سے نکلتے ہوئے راستے میں پھنس گئے۔خرگوش غصے سے بولا“کتنا کھاتے ہو یار وزن دیکھو ذرا اپنا“پھر خرگوش نے مزید جال کاٹا اور گینڈے بھی جلدی سے نکل کر باقی جانوروں کے پیچھے بھاگ گئے۔خرگوش وہاں اکیلا رہ گیا تو غصے سے بولا“یہ سارے منحوس تو بھاگ گئے مجھے اکیلا چھوڑ کر میں نے خواہ مخواہ ان کی مدد کی“اتنے میں چند کینگرو بھاگتی ہوئی آئی اور خرگوش کو بولی“سوری خرگوش بھائی ہم آپ کو تو بھول ہی گئے چلیں ہم آپ کو ہی لینے آئے ہیں“ ایک کینگرو نے جلدی سے خرگوش کو اٹھا کر اپنی پاکٹ میں ڈال لیا اور نئے مقام کی طرف دوڑ پڑی۔سب جانوروں نے دور جنگل میں نئے سرے سے ڈیرے ڈالے اور ہنسی خوشی رہنے لگے اب وہاں خرگوش کو بہت اعلیٰ مقام دیا جاتا اس نے سب کو قید سے رہائی جو دلائی تھی۔تو دوستو نتیجہ یہ نکلا کہ کسی کو بھی کم تر نہیں سمجھنا چاہیے ہر ایک میں کوئی نہ کوئی خاص بات ضرور ہوتی ہے۔ " پھلوں کی دکان - تحریر نمبر 1906,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/phaloon-ki-dukan-1906.html,"عبدالرحمن امجد،ملتانآج بازار میں معمول سے زیادہ گہما گہمی تھی۔اتوار کا دن تھا۔ہر کوئی خریداری کے لئے آیا تھا۔ہاشو بھائی اپنی پھلوں کی دکان کی ہر چیز کو قرینے سے سجائے بیٹھے تھے۔ایک عمر ہو گئی تھی اسے پھل بیچتے۔سفید بال،داڑھی،جھریوں والا چہرہ،پاؤں میں چپل زیادہ خستہ حال نہ تھی،بادامی رنگ کے کپڑے پہنے شکل سے فرشتہ صفت آدمی لگتے تھے۔سب پھلوں کو صاف ستھرا کرکے پانی سے دھو کے اپنی اپنی جگہوں پر بڑے سلیقے سے سجا دیا،مگر اب کی بار خربوزے میاں کو آم بادشاہ کے ساتھ ہی رکھ دیا۔دراصل گرمی بہت تھی۔ہر کوئی پیلے پیلے میٹھے خربوزے دیکھ کر ان کی جانب لپکتا تھا۔میاں خربوزے بڑے خوش تھے کہ آج دکان کی زینت بنے بیٹھے ہیں اور ان کی بڑی قدر ہو رہی ہے۔(جاری ہے)ساتھ ہی دیکھتے کہ آم بادشاہ ان پر برہم دکھائی دے رہے ہیں۔ہاشو کو دکان سے باہر جاتا دیکھ کر اس کی تو سٹی گم ہو گئی۔”کیوں میاں!تمہاری یہ جرأت آج تخت شاہی پر آبیٹھے۔“آم خفگی سے بولا۔دراصل آم اپنے خانے کو کسی صورت بھی تخت شاہی سے کم نہ سمجھتے تھے،سو بولے:”آج یہاں آبیٹھے ہو،کل کسے معلوم ہمیں یہاں سے دھکا ہی دے ڈالو۔“خربوزہ منکسرانہ انداز میں بولا:”حضور!جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں۔“یہ سن کر تو آم فخر سے اکڑ گیا۔دوسرے پھلوں کے سامنے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا:”امان ہے،تم بھی کیا یاد رکھو گے۔“خربوزہ کچھ خوشامدانہ انداز میں بولا:”حضور!بندہ تو ناچیز ہے۔میری کیا مجال جو آپ کی برابری کروں۔حضور سے ہی قریب کا یہ فیض ہے کہ مجھے فرش سے عرش تک پہنچا دیا۔حضور کا نمک خوار ہوں۔حضور کا وفا دار رہوں گا۔ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔“خربوزے میاں کی تو جان پر بنی ہوئی تھی۔وہ آم کو ہاشو کے آنے تک باتوں میں اُلجھائے رہنا چاہتا تھا۔چاپلوسی کرتے ہوئے کہا:”مجھ خاک کی کیا اوقات ہو سکتی ہے۔نام تو آپ کا ہے۔ہر گھر میں آپ کا چرچا ہے۔بچے ہوں یا بوڑھے سب ہی حضور کے دیوانے ہیں۔ ذیابیطس کے مریض منع ہونے کے باوجود حضور سے محبت فرماتے ہیں۔اقبال اور غالب جیسے عظیم لوگ آپ کے چاہنے والوں میں شامل تھے۔میری کیا مجال․․․․․“آم بادشاہ تو گویا پھولے نہ سما رہے تھے۔کہنے لگے:”ہم تمہاری عرضی پر غور کرتے ہیں۔“ابھی کچھ اور کہنا چاہتے تھے کہ ہاشو نے آم بادشاہ کو ہاتھ میں دبوچ کر ایک گاہک سے کہا:”جناب!انھیں دیکھیے لاجواب آم ہیں۔خاص سندھ سے منگوایا ہے۔“”کتنے میں دو گے؟“گاہک بولا۔”ویسے تو بھائی اڑھائی سو ہے،مگر آج آپ کے لئے صرف دو سو روپے کلو۔“”ڈیڑھ سو ٹھیک ہے۔سارے تول دو۔آج دعوت کا اہتمام کرنا ہے۔“”جو حکم۔یہ پانچ کلو ہوتے ہیں۔“”ٹھیک ہے دے دو۔یہ لو آٹھ سو۔باقی تم رکھو لو۔“”شکریہ۔“اور اسی کے ساتھ ہی آم بادشاہ کی سلطنت دکان سے شاپر میں منتقل ہو گئی۔انھیں خربوزے کے سامنے اپنی شکست محسوس ہو رہی تھی۔ہارے ہوئے جواری کی طرح اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولے:”جلد ہی تمہارا انجام بھی یہی ہو گا۔ہاشو اور وہ آدمی آم کی آواز سن پاتے تو حیران رہ جاتے۔خربوزہ کچھ سوچ کر مسکرا رہا تھا۔ " بیٹے کی ذہانت - تحریر نمبر 1905,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/beete-ki-zehanat-1905.html,"رابعہ فاروق،ڈیرہ اسماعیل خانعبدالصمد جاسوسی ناول بہت شوق سے پڑھتا تھا۔اس کی چھٹی حس بھی تیز تھی۔عبدالصمد اپنے ابو اور دادی کے ساتھ رہتا تھا۔ایک دن عبدالصمد کے ابو اپنی والدہ کے علاج کے لئے بینک سے پچاس ہزار روپے نکلوا کر گھر لا رہے تھے۔تو ایک لٹیرے کی نظر میں آگئے۔ راستہ پر ہجوم تھا،اس لئے لٹیرے نے گھر تک ان کا پیچھا کیا۔ابو نے پیسے لا کر اپنی الماری میں رکھے اور لاک لگا دیا اور چابی تکیے کے نیچے رکھ دی۔آدھی رات کے وقت گھنٹی بجی۔ابو دروازے تک گئے:”کون ہے؟“ابو نے پوچھا۔لٹیرے نے عیاری سے جواب دیا:”بھائی!میں ایک غریب آدمی ہوں۔ایک ہوٹل میں برتن دھوتا ہوں۔اب گھر جا رہا ہوں۔مجھے بہت سخت سردی لگی ہوئی ہے۔(جاری ہے)آپ کو اللہ کا واسطہ مجھے کوئی سوئٹر یا چادر لا دیں۔“ابو یہ سن کر سوچ میں پڑ گئے۔دادی نے کہا”نہ جانے کون ہے بس اس کو چلتا کرو۔“اتنے میں لٹیرا پھر بولا:”بھائی!میرا گھر شہر سے بہت دور ہے مجھے بہت سردی لگی ہے۔مہربانی ہو گی،مجھے کوئی پرانی سی چادر دے دو،تاکہ میں پُرسکون طریقے سے گھر تک پہنچ جاؤں،ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ میں راستے میں گر پڑوں گا،کیونکہ مجھے سردی کی وجہ سے بخار ہو گیا ہے۔“یہ سن کر ابو کا دل پسیج گیا ابو اندر سے ایک بڑا سا گرم سویٹر اُٹھا کر لائے اور دروازہ تھوڑا سا کھول کر سویٹر آگے بڑھایا تو لٹیرے نے زور سے دروازے کو دھکا دیا اور اندر گھس آیا۔”جلدی سے تمام روپے میرے حوالے کرو،ورنہ اگلے جہان پہنچا دوں گا۔“لٹیرے نے ابو کی گردن پر خنجر رکھتے ہوئے کہا۔ابو نے کمرے میں آکر الماری کھولی تو دیکھا،اس میں پیسے نہیں تھے۔عبدالصمد جو اسی کمرے میں بستر پر بیٹھا ہوا تھا،کہنے لگا:”ابو جان!نعیم انکل کی بیٹی کی شادی کی تیاری ہے ان کے پاس پیسے نہیں تھے وہ اُدھار مانگنے آئے تو میں نے انھیں سارے پیسے دے دیے۔“”لیکن بیٹا!اس وقت تو․․․․“ابو حیران ہو کر بولے۔عبدالصمد نے ان کی بات کاٹ دی اور کہا:”ہاں ابو وہ ابھی نعیم انکل گھنٹہ بھر پہلے ہی پیسے لے گئے ہیں۔سوری میں نے آپ کی اجازت کے بغیر دے دیے۔“ابو اس لئے حیران تھے کہ آج تو کوئی پڑوسی ان کے گھر نہیں آیا تو پھر یہ عبدالصمد کیا کہہ رہا ہے؟“بہرحال کچھ سوچ کر وہ خاموش ہو گئے۔ اُدھر لٹیرا یہ سن کر زیادہ حیران پریشان ہو گیا۔بہرحال اس نے سارے گھر کی تلاشی لی،لیکن اسے کچھ نہ ملا۔آخر غصے میں آکر اس نے ابو سے کہا:”جیب میں جو مال ہے،دے دو۔“ابو نے اپنی جیب سے ساری نقدی نکال کر اسے دی جو تقریباً 450 روپے اور کوئی قیمتی گھر میں نہیں تھی۔وہ چلا گیا۔دراصل عبدالصمد نے جیسے ہی آدھی رات کے وقت دستک کی آواز سنی،اس کی چھٹی حس بیدار ہو گئی تھی۔اس نے جلدی سے پچاس ہزار روپے الماری سے نکال کر لفافے میں رکھے اور اس لفافے کو فریج کے سبزی والے خانے میں ساری سبزیوں کے نیچے چھپا دیا۔اس طرح اس کی چالاکی اور پھرتی سے اس کی دادی کے علاج میں کام آنے والے پیسے بچ گئے۔ " نوید بہار - تحریر نمبر 1904,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naveed-e-bahar-1904.html,"راحیلہ مغلپیارے بچو!سال کے چار موسم ہوتے ہیں،ہر موسم کی اپنی افادیت ہے۔سردیوں کے موسم میں کھانے پینے یا دھوپ سینکنے،گرم کمرے میں آرام کرنے،خوب نیند کے مزے لوٹنا اور شمالی علاقہ جات میں برف باری دیکھنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ہم خوش قسمت ہیں کہ چار موسموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں دوسرے موسموں کی قدر ٹھنڈے ممالک میں رہنے والوں سے پوچھیں جہاں سارا سال سردی اور برف باری رہتی ہے اور وہاں کے باسی سارا سال گلے،نزلہ زکام کی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں،اور جس دن دھوپ نکلنی ہے اس دن خوشی مناتے ہیں یہاں تو زیادہ تر لوگ ہر موسم سے جلد گھبرا جاتے ہیں اور آنے والے موسم کا شدت سے انتظار کرتے ہیں۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سردیوں کے بعد بہار کا موسم آتا ہے سردیوں کا موسم اب اپنی جانے کی تیاری میں ہے جبکہ موسم بہار کی آمد آمد ہے سردیاں جاتے جاتے کوئی نہ کوئی ”تحفہ“ دے جاتی ہیں اسے بچوں کی لاپروائی یا بے احتیاطی کہہ سکتے ہیں بہار کے آنے سے قبل ہی وہ گرمیوں کا سماں پیدا کر لیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ بہار بڑا خوشگوار موسم ہوتا ہے ہر کوئی اسے پسند کرتا ہے ۔(جاری ہے)کون ہے ایسا شخص جسے بہار کا موسم پسند نہ ہو گا۔اس موسم میں ایک خاص نکھار دیکھا گیا ہے ،موسم بہار میں نہ صرف ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوتی ہے بلکہ آنکھوں کو تازگی بخشنے والے رنگ برنگے پھول کھل اُٹھتے ہیں اور خوش آمدید کہتے ہیں ان کے ساتھ ساتھ ننھے منھے بچوں کے چہرے بھی کھلکھلا اُٹھتے ہیں۔گھروں کے اندر گرم کمرے میں بیٹھنے والے نونہال بھی اس موسم کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے گھروں سے باہر نکلنے میں دیر نہیں لگاتے وہ بھی کھلی ہوا میں جانا پسند کرتے ہیں،باہر سیر و تفریح کا پروگرام بناتے ہیں سکول میں ہاف ٹائم کے دوران کھلی گراؤنڈ میں خوب جی بھر کر کھیلتے ہیں۔موسم بہار ایسا موسم ہے جس میں دھوپ بھی نہیں چھبتی بلکہ درخت کے سائے میں بیٹھنے سے بڑا سکون ملتا ہے۔اس موسم میں ننھے منھے دوست چڑیا گھر،تفریحی پارک یا پھر گراؤنڈ کا رُخ کرتے ہیں۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ بھرپور سردی اور گرمی میں پارک ویران نظر آتے ہیں لیکن بہار کے موسم میں تفریحی گاہوں میں زیادہ رش ہوتا ہے۔سردی کا احساس نہ گرمی کی تپش کپڑے پہننے کا مزہ بھی آتا ہے اتنا پسینہ نہیں آتا کہ کپڑے بھیگ جائیں۔موسم تیزی سے بدل رہا ہے جب بھی موسم بدلتا ہے تو اپنے کچھ نہ کچھ اثرات ضرور چھوڑتا ہے اور ہم اپنی ہی لاپرواہی کی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں چھوٹے بچوں پر اس لئے حملہ آور ہوتی ہیں کہ وہ موسم کی پرواہ نہیں کرتے کھیل کود کے بعد انہیں پیاس بہت لگتی ہے اور وہ تازہ پانی کی بجائے ٹھنڈا پانی یا ٹھنڈے مشروبات کو ترجیح دیتے ہیں اسی لئے وہ گلے کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ابھی ایسا موسم نہیں کہ ٹھنڈے مشروبات پیئے جائیں یا یک دم گرم کپڑے پہننا چھوڑ دیں۔سردیوں کا موسم جب بہار میں داخل ہوتا ہے تو ٹھنڈے مشروبات پینے کو جی تو بہت چاہتا ہے دوسری طرف ہاف سلیو کپڑے پہننے کو بھی جی چاہتا ہے لیکن یہ دونوں ہی خطرے سے خالی نہیں،بڑے بزرگوں اور ماہرین کے مطابق اس موسم میں خاص احتیاط کی ضرورت ہے بے شک دوپہر کے وقت دھوپ کی تیزی جسم کو لگتی ہے لیکن ابھی مکمل طور پر موسم بہار نہیں آیا اور نہ ہی سردی نے الوداع کہا ہے۔یہ موسم انتہائی احتیاط کا موسم ہے زیادہ تر بدلتے موسم میں نزلہ زکام اور گلے کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور جب گلا زیادہ خراب ہو جائے تو بخار بھی ہو جاتا ہے پھر یہ موسم بہار کی بجائے”موسم بخار“ بن جاتا ہے۔ " پریاں اور چمکیلا پتھر - تحریر نمبر 1903,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/paariyaan-aur-chamkeela-pathar-1903.html,"حراء افضلایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دو پریاں نام ایمان اور نیلم تھیں۔ایک دفعہ وہ آسمان کی سیر کو نکلی ،وہ اُڑتے جا رہی تھی کہ اچانک ایمان کی نظر ایک چمکتے ہوئے پتھر پر پڑی اور اس نے کہا نیلم!نیلم وہ دیکھو وہ پتھر کتنا چمک رہا ہے۔مجھے وہاں جانا ہے نیلم نے اس جگہ کو غور سے دیکھا اور کہا نہیں ہم وہاں نہیں جا سکتے،کیوں نہیں جا سکتے؟ایمان نے پوچھا کیونکہ ہمارے والدین نے ہمیں وہاں جانے سے منع کیا ہے۔اور ہم ان کی نافرمانی نہیں کر سکتے نیلم نے جواب دیا اچھا ٹھیک ہے ایمان نے کہا ارے وہ دیکھو ایمان کتنے پیارے پھول ہیں وہاں چلیں نیلم نے کہا ہاں چلو ایمان نے کہا نیلم پھول دیکھ رہی ہوتی ہے اور اس کی خوشبو سونگھ رہی ہوتی ہے اور ایمان اس موقع کا فائدہ اٹھاتی ہے اور جلدی سے اس چمکتے پتھر کے پاس پہنچ جاتی ہے وہ جیسے ہی اس پتھر کو ہاتھ لگاتی تو پتھر سے روشنی نکلتی اور ایمان غائب ہو جاتی۔(جاری ہے)روشنی کی وجہ سے نیلم کی نظر پڑ جاتی ہے لیکن تب تک ایمان غائب ہو چکی ہوتی۔اوہ یہ کیا کر دیا تم نے ایمان تمہیں یہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔اب میں مما پاپا کو کیا بتاؤں گی کہ ایمان کہاں گئی یہ کہہ کر نیلم و اپس چلی گئی۔جب روشنی ختم ہو گئی تو ایمان حیران رہ گئی کیونکہ وہ بہت عجیب جگہ پر تھی وہاں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔یہ میں کہاں آگئی؟ایمان اِدھر اُدھر بھاگنے لگی اور باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگی،لیکن اسے کوئی راستہ نہ ملا اور وہ پریشان ہو کر رونے لگ گئی ہے۔کہ اچانک وہاں ایک اور پری آگئی اور کہنے لگے،رو مت!ان شاء اللہ ہم یہاں سے باہر ضرور نکلیں گے۔اس پری نے کہا!ایمان نے اس کی طرف دیکھا اور کہا تم کون ہو یہ کون سی جگہ ہے؟میرا نام چمن پری ہے اور یہ ایک ایسی جگہ ہے کہ یہاں سے کوئی نہیں نکل سکتا۔کیا مطلب ؟ایمان نے پوچھا۔چمن مسکرا کے کہنے لگی کیا تمہیں تمہارے ماں باپ نے کچھ نہیں بتایا نہیں ایمان نے جواب دیا تب چمن کہنے لگی کہ یہاں پر ایک چڑیل نے جادو کیا ہے اور اس جادو کو کوئی بھی آج تک نہیں توڑ سکا۔”کیا مطلب آپ کی بات کا“ایمان نے کہا۔نیلم آگئی تم،ایمان کدھر ہے؟نیلم کی ماں نے پوچھا السلام علیکم امی جان ایمان اپنی دوست کے ساتھ آج رات رہے گی کیونکہ اس کی دوست کی آج سالگرہ ہے وہ ہمیں راستے میں ملی تھی اور ایمان کو اپنے ساتھ لے گئی نیلم نے جواب دیا۔وعلیکم السلام ٹھیک ہے جاؤ تم آرام کرو میں کھانا لے کر آتی ہوں۔نیلم کی ماں نے کہا ٹھیک ہے امی نیلم نے کہا۔چمن پری ایمان کو بتانے لگی کہ یہ کہانی پندرہ سال پہلے کی ہے تب ہم پریوں اور چڑیلوں میں کافی اچھی دوستی تھی۔ایک دفعہ ملکہ اپنی بہن سے بات کر رہی تھی تو ان چڑیلوں میں ایک چڑیل جس کا نام فتنہ تھا نے ملکہ کی باتیں سن لی۔اور ملکہ اور ان کی بہن اسی چمکتے پتھر کے بارے میں بات کر رہی تھی کہ یہ پتھر بہت ہی خاص ہے یہ ہمیں وراثت میں ملا ہے اس سے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں یعنی ہم اس سے پوری دنیا پہ راج کر سکتے ہیں،پھر ملکہ کی بہن نے پوچھا کہ آپ کو اس کے بارے میں کیسے پتہ چلا۔تو ملکہ نے جواب دیا۔اس کے بارے میں اس کتاب میں لکھا ہے لیکن یہ بات کسی تیسرے کو پتہ نہیں چلنی چاہئے،جی ملکہ میں اس بات کا دھیان رکھو گی۔ملکہ کی بہن نے کہا پھر فتنہ نے جا کر سب چڑیلوں کو یہ بات بتا دی،لیکن کتاب والی بات نہیں بتائی ان لوگوں نے چمکتے پتھر کا غلط استعمال کرنا چاہا۔تو ہم نے ان کو غلط استعمال کرنے سے روکا تو اس طرح ہمارے درمیان لڑائی شروع ہو گئی اور پھر جب ہم جیت گئے۔تو ان چڑیلوں کو شکست کھانی پڑی لیکن فتنہ کو شکست کھانا پسند نہ تھا اس لئے اس نے ملکہ کی غیر موجودگی میں وہ کتاب چرا لی اور اس چمکتے پتھر پر جادو کر دیا اور تب سے آج تک یہاں سے کوئی باہر نہ جا سکا۔نیلم اب تو ایمان کو آجانا چاہیے تھا آخر دوپہر ہو چکی ہے بلکہ شام ہونے کو آئی ہے کیا اس نے تمہیں بتایا ہے کہ وہ کب واپس آئے گی؟یا تمہیں کچھ پتا ہے نیلم کی ماں نے نیلم سے پوچھا۔وہ نیلم وہ نیلم․․․․․بات کاٹتے ہوئے اس کی ماں نے کہا۔وہ کیا؟میری طرف دیکھیں! تمہارے لہجے سے مجھے پتہ چل رہا ہے کہ تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو۔وہ امی دراصل ایمان اور میں․․․․نیلم نے اپنی ماں کو ساری بات بتا دی ہے۔اے میرے خدا وہاں سے تو کوئی آج تک واپس نہیں آیا۔نیلم کی ماں نے کہا ماما آپ ابھی نہ جائیں اور پاپا کو بھی نہ بتائیں میں جاتی ہوں۔نیلم نے کہا۔ایمان کے دل میں ایک بات آتی ہے وہ کہتی ہے۔چمن پری ہم دونوں اگر اس جادو کو توڑ نہیں سکتیں تو نیلم توڑ سکتی ہے۔اس بک کو ڈھونڈ کر میں نیلم سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔چمن ہاں ٹھیک ہے۔کیا ہوا ایمان تم ٹھیک ہو؟چمن نے کہا۔میں نیلم سے رابطہ کر رہی تھی لیکن نہیں ہو رہا۔ایمان نے جواب دیا۔ہمت مت ہارو میں بھی تمہاری مدد کرتی ہو۔اتنی دیر میں نیلم!جاتی ہے وہ جیسے ہی آتی ہے کہ اسے سگنل ملتا ہے اور وہ کتاب ڈھونڈنے لگ جاتی ہے۔بہت کوششوں کے بعد پھر اس سے ایک بٹن دب جاتا ہے اور وہاں ایک غار آجاتی ہے وہ اس غار کے اندر جاتی ہے کہ وہاں فتنہ سوئی ہوتی ہے نیلم کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کرے۔وہ خاموشی سے کتاب لے کر،جادو کا اثر ختم کر دیتی ہے پھر وہ دونوں آزاد ہو جاتی ہیں۔چمن اور ایمان ایک دوسرے کے گلے لگتی ہیں اور وہ کتاب پھاڑ دیتی ہے اور اس کی وجہ سے فتنہ کا بھی خاطر ہو جاتا ہے۔نتیجہ:ہمیں اپنے والدین کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے اور مشکل میں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ " کالو میاں - تحریر نمبر 1902,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kalu-miyan-1902.html,"حمزہ نعیم،بہاول پوراسکول سے واپسی پر ننھے میاں گھر میں داخل ہوئے تو سلام کیے بغیر ہی سیدھے اپنے کمرے میں چلے گئے۔کچھ دیر بعد دروازے کی گھنٹی بجنے پر ننھے کی امی نے دروازے کے پاس جا کر پوچھا:”کون ہے؟“باہر سے محلے کی ایک خاتون غصے میں بھری آواز میں بولیں:”دروازہ کھولیے،میں شاہد کی امی ہوں۔“ننھے میاں کی امی نے دروازہ کھولا تو وہ اپنے بیٹے شاہد کے ساتھ گھر میں داخل ہو گئیں:”کہاں ہے ننھا،میں تو اسے بہت اچھا بچہ سمجھتی تھی، لیکن اس نے تو حد ہی کر دی۔“”بہن!آخر ہوا کیا ہے،کچھ بتائیے تو سہی۔“ننھے میاں کی امی نے نرم لہجے میں شاہد کی امی سے پوچھا۔”ہونا کیا ہے!میرے بیٹے کا رنگ کالا ہے،لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ کا بیٹا اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اسے کالو،کالو کہہ کر چھیڑتا رہے۔(جاری ہے)آج شاہد روتے روتے گھر واپس آیا ہے۔“”بہن!آپ بیٹھ جائیے میں ننھے میاں کو بلاتی ہوں:”ننھے میاں!کہاں چھپ گئے ہیں،آپ فوراً ادھر آئیے۔“امی نے غصے سے کہا۔کچھ دیر بعد ننھے میاں آگئے۔ننھے میاں کے ساتھ ان کی دادی بھی امی کی آواز سن کر آگئیں۔شاہد کی امی نے دادی کو سلام کیا اور ساری بات بتائی۔یہ سب سن کر دادی کہنے لگیں:”ننھے میاں!مجھے آپ سے ایسی اُمید نہیں تھی۔“”دادی!شاہد بھی مجھے روزانہ چڑاتا ہے۔“ننھے میاں نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا۔”ارے!بچوں میں یہ گندی عادت کیسے پیدا ہو گئی؟“دادی نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔پھر دادی دونوں بچوں کو سمجھاتے ہوئے بولیں:”کسی کے بُرے نام رکھنا،لمبے کو لمبو،موٹے کو موٹو اور چھوٹے قد والے کو چھوٹو یا ٹھگنا کہہ کر اس کا مذاق اُڑانا بہت بُری بات ہے۔میں آپ دونوں کو ایک سچی کہانی سناتی ہوں پھر مجھے بتانا کہ آپ دونوں نے اچھا کام کیا ہے یا بُرا؟“دادی نے بتایا کہ عالم اسلام کے پہلے موذن حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سیاہ فام تھے۔ایک شخص نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اس طرح پکارا:”ارے کالی عورت کے بیٹے!“حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے جب دربار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کی شکایت کی تو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”مجھے توقع نہیں تھی کہ تمہارے سینوں میں ابھی تک اسلام سے پہلے کے زمانے کا تکبر موجود ہو گا۔“”اس کے بعد اس شخص نے پتا ہے کیا کیا؟“دادی نے درمیان میں کہا:”ننھے میاں اور شاہد میاں!تم دونوں اسے غور سے سنو!اس شخص نے اپنا چہرہ زمین پر رکھ دیا اور کہا کہ بلال رضی اللہ عنہ!جب تک آپ اپنا پاؤں میرے چہرے پر نہیں رکھیں گے،میں اس وقت تک ہر گز اپنا سر زمین سے نہیں اُٹھاؤں گا۔آخر اس شخص کے بہت ضد کرنے پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا پاؤں اس شخص کے چہرے پر رکھا۔“دادی نے دونوں بچوں سے پوچھا:”میرے پیارے بچو! اب بتاؤ تم دونوں اچھا کام کر رہے تھے یا بُرا؟“ننھے میاں فوراً بولے:”دادی!واقعی یہ تو بہت بُرا کام ہے،شاہد مجھے معاف کر دو،میں آئندہ کبھی تمہیں ایسا نہیں کہوں گا۔“شاہد نے اُٹھ کر ننھے میاں کو گلے لگایا اور کہا:”مجھے بھی معاف کر دو،میں بھی آئندہ تمہیں تنگ نہیں کروں گا۔“دونوں بچوں کو یوں ملتا دیکھ کر شاہد کی امی کا غصہ ختم ہو گیا اور ننھے میاں کی والدہ اور دادی بھی خوش ہو گئیں۔ " بنٹی - تحریر نمبر 1900,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/banty-1900.html,"جاوید اقبال صدیقیفیضی اور طوبیٰ بہت خوش تھے ،کیونکہ آج ان کے بابا منڈی سے قربانی کا جانور لانے والے تھے۔دونوں بچے تیار ہو کر اپنے بابا جان کے ساتھ جانوروں کی منڈی میں پہنچ گئے۔منڈی میں ایک سے ایک خوبصورت گائیں،بیل،بچھڑے،بکرے،دُنبے،بھینسے اور اونٹ فروخت کے لئے لائے گئے تھے۔یہ ایک عارضی منڈی تھی جو شہر سے دور لگائی تھی۔دونوں بچے اپنے بابا کے ساتھ جانوروں کو دیکھتے ہوئے جا رہے تھے کہ ایک گائے کو دیکھ کر طوبیٰ رک گئی۔”دیکھیں بابا!یہ بہت خوبصورت گائے ہے،اسے خرید لیتے ہیں۔“طوبیٰ نے کہا۔بابا اور فیضی کو بھی یہ گائے بہت اچھی لگی۔تھوڑے سے بھاؤ تاؤ کے بعد انھوں نے گائے خرید لی اور اسے لے کر گھر آگئے۔رات بہت ہو چکی تھی دونوں بچے سو گئے۔(جاری ہے)سردی کا موسم تھا،اس لئے انھوں نے گائے کو اپنے چھوٹے سے آنگن میں ہی باندھ دیا۔اگلے دن صبح ہی دونوں بچوں نے اپنے بابا جان کے ساتھ مل کر گائے کو خوب نہلایا۔اس کے پاؤں میں خوبصورت کنگن،ماتھے پر ٹیکہ اور گلے میں دلکش رنگوں کا ہار ڈال دیا،جس سے وہ اور بھی خوبصورت لگنے لگی۔گائے بھی بہت خوش لگ رہی تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے گائے کو بھی طوبیٰ اور فیضی کی ہی تلاش تھی۔اگلے دن صبح فیضی کو ناشتہ کرتے دیکھ کر گائے نے بھیں بھیں شروع کر دیا۔اس نے جلدی سے اپنا پر اٹھا اس کے منہ کے قریب کر دیا جسے وہ مزے لے کر کھا گئی۔ایسے لگا جیسے گائے ایسے ہی مرغن پراٹھوں کی عادی تھی۔دونوں بچے گائے کی خدمت کرنے میں لگ گئے تھے۔جب بھی وہ گائے کے پاس جاتے وہ ان کے ہاتھ چاٹنے لگ جاتی،جس سے بچے اور بھی خوش ہوتے۔طوبیٰ سے تو اس کا پیار دیکھنے والا تھا۔وہ ہر وقت طوبیٰ کو دیکھتی رہتی تھی۔جب بھی طوبیٰ کوئی چیز کھلانے کے لئے اس کے قریب جاتی گائے تو جیسے گہری سوچ میں گم ہو جاتی۔”بیٹا!جلدی کرو گائے آگئی ہے اس کو باندھو۔“اماں نے بلو سے کہا۔”اماں!اس دفعہ گائے کا بچہ میرا ہو گا۔“بلو کہنے لگی۔بلو اپنی اماں اور ابا فضل دین کے ساتھ ایک دور دراز دیہات میں رہتی تھی۔کھیتی باڑی کرنا اور جانور پالنا اس خاندان کا پیشہ تھا۔ان کے گھر میں بہت سارے جانور تھے۔بلو کو اپنے جانور سے بہت پیار تھا۔ان کے گھر میں ایک گائے،تین بکریاں،بہت سی مرغیاں،چوزے،ایک خوبصورت بلی اور گھر کی حفاظت کے لئے ایک کتا بھی تھا۔کچھ ہی دنوں بعد گائے نے ایک خوب صورت بچہ دیا۔بلو نے اس کا نام بنٹی رکھ دیا۔بلو دن رات گائے اور اس کے بچے کی خدمت کرتی۔ بنٹی اب بڑی ہو گئی تھی،اس لئے وہ گھر بھر میں دوڑتی پھرتی تھی۔بلو جدھر جاتی،بنٹی بھی اس کے ساتھ جاتی۔بنٹی اپنی ماں کے پاس سونے کے بجائے بلو کے پلنگ کے پاس ہی سو جاتی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد بلو کے ہاتھ یا پیر کو چاٹتی رہتی۔بنٹی ایک سال کی ہونے والی تھی۔ ایک دن بلو کے ابا فضل دین نے کہا:”مجھے ڈر ہے کہ کہیں رات کو بنٹی،بلو کے پلنگ پر نہ چڑھ جائے اور بلو اس کے نیچے دب جائے۔لہٰذا ہمیں بنٹی کو رات میں گائے کے پاس ہی کھونٹے سے باندھنا چاہیے۔“ابا کے بے حد اصرار کے بعد بلو بنٹی کو کھونٹے سے باندھنے پر راضی ہوئی۔ایک دفعہ بنٹی بیمار ہو گئی اور اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا تو بلو دن رات بنٹی کی تیمار داری میں لگی رہی۔وہ دن میں دو دفعہ گاؤں کے حکیم چاچا کے پاس جاتی اور بنٹی کے لئے دوا لے کر آتی۔جب بنٹی نے کھانا پینا شروع کیا تو بلو کی جان میں جان آئی۔گاؤں والے بلو کا اپنی گائے سے اتنا پیار دیکھ کر بہت حیران ہوتے۔بنٹی بھی بلو کے ہاتھ سے ہی چارا کھاتی تھی۔اماں یا بابا اس کے پاس جاتے تو وہ منہ دوسری طرف کر لیتی۔ایک دفعہ جب بلو کو سخت بخار ہو گیا اور وہ اُٹھنے کے قابل نہ رہی تو بنٹی نے بھی چارا کھانا چھوڑ دیا۔وہ سارا سارا دن بلو کے پلنگ کو دیکھتی رہتی ۔جب کھائے پیے بغیر گائے نے دو دن گزار دیے تو اماں زبردستی بلو کو پکڑ کر اس کے پاس لائیں۔بلو نے اس کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور اسے پانی پلایا۔جب بلو واپس اپنے پلنگ پر جانے لگی تو بنٹی بھی اپنی رسی توڑ کر بلو کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔اب بنٹی ایک خوبصورت مکمل گائے بن چکی تھی۔ایک دن گاؤں کا قصائی چاچا کرمو بلو کے گھر آگیا اور کہنے لگا:”بھائی فضل دین!تمہارا جانور اب دو سال کا ہو گیا ہے۔کیا خیال ہے اس سال آجاؤں؟“بلو،چاچا کرمو کو دیکھ کر اُداس ہو گئی۔وہ اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا،کیونکہ وہ گاؤں کے سارے خوبصورت جانور لے جاکر منڈی میں بیچ دیتا تھا۔اس عید پر اس کی نظر بنٹی پر تھی۔”کیا بات ہے بیٹی!تم کچھ پریشان لگ رہی ہو۔“”اماں!میں بنٹی کو نہیں بیچنے دوں گی۔میں نے اسے بہت پیار سے پالا ہے،یہ میری دوست ہے۔میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔“بلو رونے لگی۔بلو کو روتے دیکھ کر اماں اس کے قریب آئیں اسے اپنے گلے لگا لیا اور کہنے لگیں:”دیکھو بیٹی!ہم غریب لوگ ہیں اور جانور پالتے ہیں،پھر ان کو بیچ کر ہمیں جو پیسے ملتے ہیں،ان سے ہم اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔یہ گائے تمہاری ہے،اسے بیچ کر جو پیسے ملیں گے،وہ تم اپنے پاس رکھ لینا،کل کو تمہارے کام آئیں گے۔“پھر ایک دن چاچا کرمو آکر بنٹی کو لے گیا۔بلو نے رو رو کر بُرا حال کر لیا۔وہ بار بار اماں سے سوال کرتی رہی کہ اب بنٹی کہاں ہو گی!چاچا کرمو اسے کہاں لے کر جائے گا!شہر والے اسے کہاں رکھیں گے!شہر میں اسے کھانے کو کیا ملے گا!ان ہی سوالوں میں گم رات کے پچھلے پہر بلو کو نیند آگئی۔عید میں ابھی چند دن باقی تھے۔محلے میں طرح طرح کے جانوروں کی گویا نمائش لگی ہوئی تھی۔طوبیٰ نے کہا:”کیوں نہ ہم اس کا پیارا سا کوئی نام رکھ لیں۔“فیضی میٹھی گولیاں کھانے کا شوقین تھا،جو بنٹی کہلاتی ہے۔فیضی نے بنٹی کھاتے ہوئے طوبیٰ سے کہا:”ہم اس کا نام بنٹی رکھ لیتے ہیں۔“جیسے ہی طوبیٰ نے گائے کو بنٹی کے نام سے پکارا۔گائے نے فوراً پلٹ کر طوبیٰ کو دیکھا۔”مما!لگتا ہے اس کا نام بنٹی ہی ہے۔“”ہاں بیٹا!گاؤں دیہات میں لوگ جانوروں کو بڑے پیار سے پالتے ہیں اور ان کا نام بھی رکھتے ہیں۔“مما نے کہا۔”ہم اس کو ذبح نہیں کریں گے۔اتنی پیاری گائے ہے ہم اس کو پال لیتے ہیں۔“”بیٹا!یہ اتنا بڑا جانور ہے ہم اس کو کہاں رکھیں گے۔ہمارے گھر میں جگہ ہی کہاں ہے۔“مما فیضی کو سمجھانے لگیں۔رات کو دیر تک دونوں بچے گائے کے ساتھ ہی رہتے اور صبح ہوتے ہی اس کے کھانے کے بندوبست میں لگ جاتے۔ان کو اپنے کھانے سے زیادہ بنٹی کے کھانے کی فکر ہوتی۔آج عید قرباں تھی۔فیضی تیار ہو کر اپنے بابا کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے چلا گیا۔نماز پڑھ کر جب وہ واپس آرہے تھے تو انھیں راستے میں قصائی مل گیا،جو ان کی گائے ذبح کرنے آرہا تھا۔قصائی کو گھر میں دیکھتے ہی دونوں بچوں نے کہرام مچا دیا۔فیضی ایک طرف کھڑا رو رہا تھا، جب کہ طوبیٰ نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا تھا۔رو رو کر بچے ہلکان ہو رہے تھے۔بابا فیضی کو جب کہ مما طوبیٰ کو چپ کرانے کی کوشش کرتے رہے۔اسی ہنگامے میں گائے ذبح ہو گئی۔بچوں کو ان کے ماموں اپنے ساتھ باہر لے گئے۔”بلو․․․․․بلو!جلدی اُٹھو۔آج عید کا دن ہے تم اب تک سو رہی ہو۔“اماں کی آواز پر بلوں آنکھیں ملتی ہوئی اُٹھ گئی۔وہ سیدھی اماں کے پاس آئی اور رونے لگی۔”کیا بات ہے بیٹی!آج عید کا دن ہے۔تم رو کیوں رہی ہو؟“”اماں!آج رات میں نے خواب میں دیکھا بنٹی دو بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی کچھ کھا رہی تھی۔وہ بہت خوش تھی۔اس کے گلے میں ہار اور پاؤں میں خوبصورت کنگن بھی تھے۔اماں!لگتا ہے اس کو وہ جگہ پسند آگئی ہے۔“”ہاں بیٹا!آج بنٹی اس سے بھی اچھی جگہ چلی جائے گی۔“ " حقیقی خزانہ(دوسری اور آخری قسط) - تحریر نمبر 1899,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/haqeeqi-khazana-1899.html,"مریم شاہایک دن سہیل کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا،جب اسے سنہرے گل دان کے اندر پانچ سو روپے رکھے ہوئے ملے۔ساتھ ہی پرستان سے خط لکھا گیا تھا:”یہ معمولی سی رقم اس کی محنت کا انعام ہے اور اگر وہ اسی طرح پڑھائی میں محنت کرتا رہے تو اسے اسی طرح انعامی رقم ملتی رہے گی۔“اب سہیل کو اور بھی یقین آگیا کہ ایک دن اسے خزانہ ضرور ملے گا۔اب وہ پہلے سے بھی زیادہ محنت کرنے لگا۔اسکول میں اساتذہ کرام پہلے تو بہت حیران ہوئے پھر اس کی اچھی تعلیمی کارکردگی پر بہت خوش ہوئے۔ہر ٹیسٹ میں وہ سب سے زیادہ نمبر لیتا تھا۔اس کے اساتذہ کرام کو یہ بات معلوم تھی کہ سہیل صرف زیادہ نمبر ہی نہیں حاصل کرتا،بلکہ جو کچھ وہ پڑھتا تھا وہ سمجھتا بھی ہے۔(جاری ہے)گھر میں اس کے والدین اور بڑی بہن نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔جب سہیل کو اپنی محنت کا صلہ ملنے لگا تو اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ اسی طرح پڑھائی جاری رکھے۔جب وہ دل سے پڑھنے لگا اور مضامین اس کی سمجھ میں آنے لگے تو اسے پڑھائی میں مزہ آنے لگا۔وہ دن سہیل کے لئے بہت خوشی کا تھا،جب اس نے نویں جماعت امتیازی نمبروں سے پاس کی تھی۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ جو پہلے پڑھائی میں بہت پیچھے تھا۔اتنے امتیازی نمبر لے سکتا ہے۔اس دن جب اس نے سنہرے گل دان کے اندر جھانکا تو اسے پانچ سو روپے کا نوٹ پھر نظر آیا۔سہیل نے مسکراتے ہوئے نوٹ نکالا اور رکھا ہوا خط پڑھنے لگا۔خط میں اسے مبارک باد دی گئی تھی اور اسے محنت جاری رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔یوں دن گزرتے رہے۔جب بھی وہ ٹیسٹ میں اچھے نمبروں سے پاس ہو جاتا تو اسے انعامی رقم ملتی۔تقریباً ہر مہینے اسے رقم ملنے لگی تھیں۔پھر دسویں جماعت کا نتیجہ بھی نکلا،جس میں سہیل نے بورڈ میں پہلے بیس طالب علموں کی فہرست میں جگہ بنا لی تھی۔اسے اچھی کارکردگی دکھانے پر وظیفہ بھی ملا تھا۔اس دفعہ سہیل کو سنہرے گل دان میں ایک ہزار روپے کا نوٹ ملا تھا۔خط میں اسے مبارک باد کے ساتھ مزید محنت کرنے کی تاکید کی گئی تھی۔سہیل نے شہر میں ایک اچھے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔اس نے میڈیکل کے شعبے کا انتخاب کیا تھا۔یہ دن تو سہیل کے لئے خوشی کا دن ہونا چاہیے تھا،لیکن اس دن اسے ایک اور پریشانی لاحق تھی۔ہوا یوں تھا کہ پرستان سے اسے شہر کے اچھے کالج میں داخلہ لینے کی خوشی میں انعامی رقم تو ملی تھی،لیکن ساتھ ہی خط میں اسے خبردار کیا گیا تھا کہ طب کی مزید تعلیم کے لئے اگر وہ کسی اچھے طبی کالج میں داخلہ لینے میں ناکام رہا تو اسے پرستان سے خزانہ نہیں ملے گا۔ساتھ ہی دوسری شرط پیش کی گئی تھی کہ اسے خاص لوگوں میں شامل ہونے کے لئے ڈاکٹر بننا پڑے گا۔ ڈاکٹر بننے کی شرط اس لئے تھی کہ سہیل نے خود اس شعبے کا انتخاب کیا تھا،ورنہ خاص لوگوں میں شامل ہونے کے لئے دوسرے طریقے بھی تھے،مگر سہیل کے لئے شرط ڈاکٹر بننا تھا۔پہلے پہل تو سہیل پریشان ہو گیا کہ اس نے پری میڈیکل کا انتخاب کیوں کیا۔وہ کچھ اور بھی تو لے سکتا تھا،کوئی آسان سا مضمون۔پتا نہیں وہ ڈاکٹر بنے گا بھی کہ نہیں۔آسان مضمون لینے پر اسے خزانہ ملنے کا امکان زیادہ ہوتا۔کچھ دن اس نے پریشانی میں گزارے۔اس دوران اسے تنبیہ کا خط ملا کہ اگر وہ پڑھنے کے بجائے پریشانیوں میں اسی طرح کھویا رہا تو پرستان اس سے رابطہ کرنا بند کر دے گا اور یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مشکلات سے گھبرانے والا انسان ہے۔پرستان کے مطابق خاص لوگ مشکلات سے نہیں گھبراتے۔جب سہیل نے یہ خط پڑھا تو ایسا لگا جیسے اچانک وہ نیند سے جاگ گیا ہو۔سخت محنت تو وہ برسوں سے کرتا آر ہا تھا،اب بھلا وہ کیوں محنت کرنا چھوڑ دیتا۔اس نے اپنے آپ میں حوصلہ بڑھانے کے لئے خود سے کہا،میں بہادر ہوں،محنت سے نہیں گھبراتا۔زندگی میں کچھ بننے کے لئے محنت اور صرف محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔زندگی کا دوسرا نام جدوجہد ہے۔جس کی زندگی کا کوئی نصب العین نہیں ہوتا وہ صرف وقت گزارتے ہیں،زندگی جیتے نہیں ہیں۔سہیل نے پھر پکا ارادہ کر لیا کہ وہ ڈاکٹر بنے گا۔صرف ارادہ نہیں،بلکہ اس نے سخت محنت بھی شروع کر دی تھی۔وہ کالج سے گھر آکر رات دیر تک پڑھتا رہتا۔اس دوران کبھی کبھار اس کا دل چاہتا کہ وہ بھی کھیلے،باہر سیر کرے۔وہ بطور ورزش ایک گھنٹہ گاؤں کے میدان میں اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کرکٹ وغیرہ کھیلتا تھا۔پھر وہ وقت بھی آگیا جب وہ انٹری ٹیسٹ امتیازی نمبروں سے پاس کرکے طبی کالج میں داخلے کے قابل ہو گیا۔جب اسے طبی کالج میں داخلہ ملا تو اس دن اس کے والدین اور آپا خوشی سے نہال ہو رہے تھے۔وہ بار بار اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے نہیں تھک رہے تھے۔سہیل بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنسا تھا جب اسے دو ہزار روپے کے ساتھ مبارک باد کا خط سنہرے گل دان میں سے ملا۔اب اسے انعامی رقم سے زیادہ خط پڑھنے کی خوشی ہوئی تھی۔خط میں کہا گیا تھا کہ اسے خزانہ اس دن ملے گا جب وہ ہاؤس جاب کرے گا۔سہیل کو یقین ہو گیا تھا کہ اب اس کی منزل قریب تھی۔اس نے چار سال اس خزانے کو پانے کے لئے بے تحاشا محنت کی تھی۔اگرچہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا،مگر منزل قریب آتی جا رہی تھی۔وقت تیزی سے گزرتا رہا۔آخر وہ وقت بھی آگیا،جب اسے ایم بی بی ایس کی سند مل گئی۔اس کی تعلیم مکمل ہو گئی تھی اور اسے ہاؤس جاب بھی مل گئی۔اسی دوران میں اس کے دل و دماغ کی دنیا بدل گئی تھی۔اس کے خیالات میں وسعت پیدا ہو گئی تھی۔وہ اب پہلے والا تخیل پرست انسان نہیں رہاتھا،بلکہ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے سے اس میں بہت اچھی تبدیلیاں آگئی تھیں۔ہاؤس جاب ملنے کے بعد ایک دن وہ اس کمرے میں سنہرے گل دان کے پاس دھیرے دھیرے چلتا ہوا آیا۔اس کے لبوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی۔اس نے سنہرے گل دان کے اندر جھانکا۔اس میں انعامی رقم اور مبارک باد کا خط تھا۔خط کے آخری سطور میں جو کچھ لکھا تھا،وہ عین اس کی توقع کے مطابق تھا۔خط میں لکھا تھا:”پیارے سہیل!ہاؤس جاب ملنے پر بہت بہت مبارک ہو۔تمہاری جدوجہد کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا،کیونکہ جدوجہد زندگی کا دوسرا نام ہے۔جب تک زندگی ہے ،انسان محنت و جدوجہد کرتا رہتا ہے۔اُمید ہے کہ اب تم اس مقام تک پہنچ گئے ہو،جہاں پہنچ کر تم یہ بات سمجھ گئے ہو گے کہ انسان کے لئے خزانہ اصل میں کیا ہوتا ہے؟اور کس طرح ملتا ہے؟حقیقی خزانہ محنت کا پھل ہوتا ہے۔تم نے اس مقام کو پانے کے لئے محنت کی ہے اور اب تمہیں محنت کا ثمر یعنی حقیقی خزانہ مل چکا ہے۔اب تم ڈاکٹر ہو۔اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرو تو یہ خزانہ نہ صرف تمہارے لئے مفید ہو گا،بلکہ قوم کے لئے بھی فائدہ مند ہو گا۔پرستان والی سعدیہ۔سعدیہ پودوں کو پانی دے رہی تھی جب سہیل اس کی طرف بھاگتا ہوا آیا۔”آپا!“سہیل نے اسے تشکر سے دیکھا۔اس کے لبوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں شکر گزاری تھی۔”کیا؟“سعدیہ آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔”میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ وہ پری آپ ہیں۔“”تو کیا اس عمر میں بھی نہ سمجھ پاتے!“سہیل کو پیچھے سے ابا کی آواز سنائی دی۔اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔اس کے والدین اسی طرف آرہے تھے۔اس بات پر سب ہنس پڑے۔سہیل اللہ تعالیٰ کے بعد بڑی بہن کا بہت شکر گزار تھا،جس نے حقیقی خزانے کی طرف اس کی رہنمائی کی تھی۔ " یادداشت یا حافظہ - تحریر نمبر 1898,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/yaaddasht-ya-hafza-1898.html,"اقراء گلپیارے بچو!ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں جو بھی تجربات اور مشاہدات کرتے ہیں انہیں اپنے ذہن میں محفوظ رکھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر تمام محفوظ شدہ مواد کو دہراتے ہیں اس عمل کو یادداشت یا حافظہ کہتے ہیں۔ہماری زندگی میں حافظے کا عمل بہت اہمیت رکھتا ہے۔عملی زندگی ہو یا تعلیمی میدان ہو،اگر حافظے کا عمل بہترین انداز میں سر انجام ہو تو ہی کامیابی کا حصول ممکن ہے۔لیکن کامیابی کا حصول صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب حافظے کے مراحل اور اقسام سے واقفیت ہو۔ورنہ ذہن میں محفوظ شدہ مواد کو نہ صرف جلد بھول جائیں گے اور بروقت اس مواد کو دہرا بھی نہیں سکتیں ہیں اور حافظے کا عمل کمزور ہو جانے سے زندگی میں صرف ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔(جاری ہے)حافظے کے عمل کے چار مراحل ہیں۔آموزش(Learning) خازنیت(Retention)،اعادہ(Recall) اور شناخت(Recognition) آموزش سے مراد کسی چیز،کام یا ہنر کو سیکھنا۔جبکہ خازنیت سے مراد سیکھے گئے کام یا ہنر کو ذہن میں محفوظ کرنا۔خازنیت کے بعد اعادہ کا مرحلہ آتا ہے۔جس میں محفوظ شدہ مواد کو دہرایا جاتا ہے۔اور شناخت کے عمل میں ضرورت کے وقت مواد کی پہچان شامل ہے اور پہچان میں مواد کی تصدیق کی جاتی ہے۔ننھے ساتھیو:اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو ایک صحت مند دماغ عطا کیا اور اس دماغ تک معلومات پہنچانے کے لئے ہمیں آنکھیں،کان،ناک،زبان اور جلد دی ہے۔ان حواس خمسہ سے حاصل شدہ معلومات کو مناسب اور صحیح طریقہ کار کے ذریعے اگر دماغ میں محفوظ کیا جائے تو زندگی میں ہم کبھی بھی ان معلومات کو دہرا سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو ذہن دیا ہے۔کوئی بھی نکما یا دماغی طور پر کمزور نہیں ہوتا۔غلطی ہمارے طریقہ کار میں ہوتی ہے جس کے ذریعے ہم اپنے کام کو سیکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر اعتماد پیدا کریں۔جس کام یا ہنر یا معلومات کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے اپنے اندر دلچسپی پیدا کریں۔ایسے طریقے اپنائیں کہ جن کی وجہ سے آپ کے اندر شوق پیدا ہو۔آپ خوشی خوشی اپنا کام انجام تک پہنچائیں۔کسی بھی چیز کو یاد کرنا چاہتے ہیں تو صرف رٹا نہ لگائیں بلکہ اس چیز کو سمجھیں اس چیز کو دیکھ کر بغور جائزہ لیں۔چھو کر محسوس کریں اور بول کر یاد کریں۔کیونکہ اگر کسی چیز کو زیادہ سے زیادہ حواس کے استعمال سے سمجھیں گے تو وہ بھولے گی نہیں اور لمبے عرصے تک یاد رہے گی۔ " کوے کی کمبختی - تحریر نمبر 1897,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kawe-ki-kambakhti-1897.html,"محمد علیم نظامیکسی جگہ ایک کوے نے اپنا چھوٹا سا گھر بنا رکھا تھا۔جہاں پر وہ رات کو قیام کرتا اور دن کو اپنے کھانے پینے کا اہتمام کرتا تھا اور مختلف جگہوں سے دانہ دُنکا چن کر وہاں کھا کر سو جایا کرتا تھا۔ایک دن ایسا ہوا کہ کوا دن کے وقت اپنا پیٹ بھرنے کی خاطر ایک ایسی جگہ پر جا پہنچا جہاں بہت زیادہ پانی تھا اور پانی کے اردگرد تھوڑا سا گوشت موجود تھا۔کوے نے پہلے اپنی پیاس بجھانے کے لئے پانی میں چونچ ڈالی لیکن اس کے منہ پر ایک زور دار چانٹا پڑا۔یہ چانٹا ایک چیل نے اس کے منہ پر مارا تھا جو پہلے سے پانی کے حوض میں موجود تھی اور اپنی پیاس بجھا رہی تھی۔ جونہی چیل نے کوے کے منہ پر چانٹا مارا کوے کو دن میں تارے نظر آنے لگے اور وہ ہواس باختہ ہو کر پانی کے اندر گر گیا کیونکہ اس نے اپنا توازن برقرار نہیں رکھا تھا۔(جاری ہے)چیل نے کوے کی وہ درگت بنائی کہ کوا ساری زندگی اسے یاد رکھے گا۔کوے نے چیل سے کہا کہ اے چیل بہنا!مجھے چھوڑ دو میں تم سے زیادہ طاقتور نہیں ہوں،تم مجھ سے جسامت میں بھی بھاری ہو اور طاقت میں بھی کسی سے کم نہیں ہو۔میں نے صبح کا کھانا بھی نہیں کھایا اس لئے گوشت کے چند ٹکڑے مجھے بھی چننے دو تاکہ میں اپنا پیٹ بھر سکوں۔میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ گوشت کے کچھ ٹکڑے کھا کر میں یہاں سے چلا جاؤں گا اور پھر تم جو جی میں آئے کرنا۔چیل چپکے سے کوے کی باتیں سنتی رہی پھر بولی!کہ اے کوے تم روزانہ یہاں آتے ہو،سب کچھ ہڑپ کر جاتے ہو اور دوسرے جانوروں کا اس میں کچھ نہیں ہوتا۔آج مجھ سے وعدہ کرو کہ اپنا حصہ لے کر یہاں سے چلے جاؤ گے اور دوسرے جانوروں کے لئے بھی دانہ دُنکا یا گوشت چھوڑ جاؤ گے۔کوے نے چیل کی بات مانتے ہوئے اس سے وعدہ کیا کہ آئندہ جو چیل کہے گی وہ ویسا ہی کرے گا۔چیل نے سوچا کہ اب کوے کو جانے دیا جائے کیونکہ اس کی کافی درگت بن چکی ہے اور اس کی یہ کمبختی کیا کم ہے کہ میں نے دوسرے جانوروں کی خاطر کوے کی کافی بے عزتی کی ہے۔چنانچہ چیل نے انصاف کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دن کے لئے تم اتنا گوشت لے جا سکتے ہو جتنا کہ ہضم ہو جائے کل سے تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا کرنا اور صرف اپنے حصے کا کھانا لے کر جانا تاکہ دوسرے جانور بھی اس سے مستفید ہوں ۔کوے نے ایک مرتبہ پھر چیل سے وعدہ کیا کہ وہ ویسا ہی کرے گا جو چیل کہے گی چنانچہ کوے نے تھوڑا سا گوشت اپنی چونچ سے اٹھایا،چیل کو خدا حافظ کہا اور خود اڑ کر اپنے گھر پہنچ گیا۔پیارے بچو!اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے اور صرف اتنا ہی ہر چیز میں سے اپنا حصہ لینا چاہیے نہ کہ لالچ میں آکر سارا حصہ ہڑپ کر دینا چاہیے۔ " عقل مند گدھا - تحریر نمبر 1896,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aqalmand-gadha-1896.html,"زینب غفارجنگل کے بادشاہ ببر شیر نے چشمے کے کنارے والی چٹان کے نیچے گھنی جھاڑیوں سے جھانک کر دور تک پھیلے دھان کے لہلہاتے کھیت پر نظر ڈالی،بہت دور ایک درخت کے نیچے کوئی چیز ہلتی ہوئی نظر آرہی تھی،شیر نے پنجوں سے آنکھوں کو ملتے ہوئے دوبارہ اس طرف دیکھا،یقینا وہ کالا ہرن تھا،شیر رات سے بھوکا تھا۔کالے ہرن کے لذیذ گوشت کے تصور ہی سے اس کے منہ میں پانی آگیا اور ایک ماہر شکاری کی مانند جھاڑیوں کی آڑ لیتے ہوئے اس نے ہرن کی طرف قدم بڑھائے․․․․․دوسری طرف بانسوں کے جھنڈ میں ایک چیتا بھی ہرن پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔بھوک سے اس کے پیٹ میں بھی چوہے دوڑ رہے تھے۔چیتے نے بھی ہرن کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ہرن دونوں طرف سے بڑھتے ہوئے خطروں سے بے خبر نرم نرم گھاس کھانے میں مشغول تھا کبھی کبھی وہ اپنی بادام جیسی آنکھیں گھما کر اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر گھاس کھانے لگتا۔(جاری ہے)جانور خطرے کی بو سونگھ لیتے ہیں۔ہرن کی بے چینی آنکھیں ظاہر کر رہی تھیں کہ اس نے خطرے کی بو سونگھ لی ہے۔اس نے کان کھڑے کرکے گردن گھما کر چشمے کی طرف دیکھا جہاں میدان میں دو ریچھ کے بچے کھیل رہے تھے،ابھی ہرن پہاڑ کی طرف رخ کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ مشرق اور جنوب سے شیر اور چیتے نے جھاڑیوں سے چھلانگ لگائیں اور دونوں تیر کی طرح ہرن کی طرف لپکے،ہرن لمبی لمبی قلانچیں مارتا ہوا پہاڑوں کی طرف بھاگا۔شیر اور چیتے کی رفتار کے مقابلے میں ہرن کی رفتار کم تھی،لیکن وہ اپنے ہلکے اور سڈول جسم کی وجہ سے ان دونوں کو غچہ دیتے ہوئے بھاگ رہا تھا،اس بھاگ دوڑ میں ان تینوں نے میلوں کا فاصلہ طے کر لیا،آخر کار ہرن ایک چٹان پر چڑھ گیا،جو اتنی اونچی تھی کہ اس پر شیر اور چیتا نہیں چڑھ سکتے تھے،شیر اور چیتا چٹان کے نیچے زبانیں نکالے ہانپ رہے تھے اور ہرن کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے تھے،جب سانسیں درست ہوئیں تو شیر نے کہا۔”یہ میرا شکار ہے پہلے میں نے تاکا تھا“۔چیتے نے غصے سے جواب دیا۔”آپ جنگل کے بادشاہ ضرور ہیں لیکن یہ جنگل ہے انسانوں کی دنیا نہیں کہ بادشاہ جو چاہے کرے،جانور اپنے حقوق کی حفاظت کرنا خوب جانتے ہیں۔یہ میرا شکار ہے“۔شیر دہاڑا:”انسان ہو یا جانور‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہر جگہ چلتا ہے میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں“۔شیر اور چیتے کی تکرار سن کر ہرن نے اطمینان کا سانس لیا اور کہا”میرے محترم بادشاہ ہو!یہ میری خوش نصیبی ہو گی کہ میں آپ جیسے شاہی خاندان کے افراد کی غذا بنوں،لیکن پہلے آپ دونوں طے کر لیں کہ آپ میں سے کون میرا لذیذ گوشت نوش فرمائے گا“۔شیر اور چیتا دوبارہ تکرار کرنے لگے،اسی دوران ادھر سے ایک گدھے کا گزر ہوا تو ہرن نے جھٹ سے مشورہ دیا”میرے خیال سے آپ دونوں اس سلسلے میں گدھے صاحب سے مشورہ لے لیں،کیونکہ مشورہ دینے کے لئے عقلمند ہونا ضروری نہیں“۔شیر نے کہا”چلو مجھے منظور ہے،وقت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے“۔چیتے نے گدھے کو حکم دیا”گدھے کے بچے!ادھر آ․․․․․“گدھا پہلے تو ڈرا کہ کہیں یہ دونوں اسے ہی ہڑپ نہ کر لیں،پھر ڈرتے ڈرتے دانت نکالتا ہوا ان کے قریب آیا اور جب اس نے پورا قصہ سنا تو خوشی سے مشورہ دیا”ہاں تو شیر صاحب آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ نے ہرن پر پہلے نظر بد ڈالی جب کہ چیتے صاحب کا دعویٰ ہے کہ ہرن کو دیکھ کر پہلے ان کی رال ٹپکی،کیونکہ یہاں کوئی گواہ نہیں ہے اس لئے میرا مشورہ ہے کہ آپ دونوں اپنی اپنی جگہ تشریف لے جائیں اور جب میں رینکنا شروع کروں تو آپ دونوں دوڑنا شروع کر دیں جو بھی پہلے یہاں پہنچ جائے گا وہی ہرن میاں کو نوش فرمانے کا حق دار ہو گا“۔شیر اور چیتا بھوک سے بے تاب تھے،لیکن دونوں کو اپنی تیز رفتاری پر ناز تھا اس لئے انہوں نے گدھے کی تجویز مان لی اور یہ طے ہوا کہ دونوں اپنی اپنی جگہ لوٹ جائیں گے اور اس دوران ہرن صاحب چٹان سے اتر کر نہا دھو کر ان میں سے ایک کی خوراک بننے کے لئے میدان میں کھڑے ہو جائیں گے اور جیسے ہی گدھے صاحب اپنی بے سری آواز میں رینکنا شروع کر دیں گے،دوڑ شروع ہو جائے گی۔شیر اور چیتا اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے،جب کافی دیر تک گدھے کے رینکنے کی آواز نہ آئی تو دونوں کا ماتھا ٹھنکا،پہلے تو انہوں نے ایک دوسرے کو گھورا،پھر چٹان کی طرف دوڑنا شروع کیا،جب وہ چٹان کے نزدیک پہنچے تو دیکھا وہاں چاروں طرف ویرانی اور سناٹا تھا۔ہرن کا کہیں پتا نہ تھا اور گدھے کے سر سے سینگ ہی نہیں پورا گدھا ہی غائب تھا۔شیر نے غصے سے چیخ کر کہا۔”اس گدھے کے بچے نے ہمیں دھوکا دیا“۔چیتے نے سر جھکا کر افسوس سے کہا۔”شیر صاحب!گدھا وہ نہیں ہم دونوں ہیں“۔ " سکون - تحریر نمبر 1894,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sukoon-1894.html,"دانیال حسنشوکت اپنے دوست ناصر کے گھر گیا تو اس کے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔شوکت اور ناصر ایک ہی محلے میں رہتے تھے اور ایک ہی کالج میں زیر تعلیم تھے۔ان دونوں کا ایک اور دوست تنویر بھی تھا جو دوسرے محلے میں رہتا تھا۔شوکت،تنویر سے ناراض تھا۔ناصر نے دونوں کی صلح کرانے کی کوشش کی،لیکن کامیاب نہیں ہو پایا۔واپس جاتے ہوئے شوکت ابھی دوسری گلی میں مڑا ہی تھا کہ اسے سامنے سے ناصر آتا ہوا دکھائی دیا۔ناصر نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔سلام دعا اور حال احوال کے بعد شوکت نے ناصر سے پوچھا:”میں تمہارے پاس آیا تھا،مگر تم گھر پر نہیں تھے،کہاں چلے گئے تھے؟“”تنویر کے پاس گیا تھا۔“ناصر نے بتایا تو شوکت کا منہ بن گیا،لیکن ناصر نے اپنی بات جاری رکھی:”وہ آج کل بہت پریشان ہے۔(جاری ہے)“”کیوں کیا ہوا؟“شوکت نے پوچھا۔”اس کے والد بیمار ہیں اور ڈاکٹر نے آپریشن کا کہا ہے،مگر․․․․․”اتنا کہہ کر ناصر خاموش ہو گیا۔”مگر کیا؟“”ان کے پاس رقم نہیں ہے۔“یہ کہہ کر اس نے اپنی بات مکمل کی۔”کتنا خرچ ہے؟“شوکت نے پوچھا۔ناصر نے اسے خرچ بتایا تو شوکت نے کہا:”اوہ اچھا اللہ بہتر کرے گا انشاء اللہ۔“”تم دعا بھی کرنا کہ اللہ ان کے حالات بہتر کرے۔“ناصر نے کہا۔”اچھا میں چلتا ہوں۔“شوکت اپنے گھر کی طرف مڑ گیا۔تنویر کے حالات سن کر شوکت پریشان ہو گیا۔اب اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ نہ صرف وہ تنویر سے صلح کرے گا،بلکہ اس کی پریشانی کم کرنے میں اس کی مدد بھی کرے گا۔شوکت کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔اس کے والد کی شوگر مل تھی اور گھر میں دولت کی فراوانی تھی۔اس کے والد بھی رحم دل اور نیک انسان تھے۔گھر پہنچتے ہی وہ سیدھا اپنے والد کے پاس پہنچ کر ان کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔”کیا بات ہے بیٹا!پریشان نظر آرہے ہو۔خیریت تو ہے؟“شوکت نے ساری بات ان کو بتانے کے بعد اپنا مقصد بھی بیان کیا۔یہ سب سن کر اس کے والد مطمئن نظر آنے لگے۔”یہ تو تم بہت اچھا کام کرنے جا رہے ہو۔تم یہیں روکو،میں آتا ہوں۔“وہ اپنے کمرے کی طرف گئے اور تھوڑی دیر بعد آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔انھوں نے لفافہ شوکت کو تھمایا اور کہا:”بیٹا!یہ لو اللہ تمہاری نیکی قبول فرمائے۔“شوکت نے لفافہ لیا اور اپنے والد کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ناصر کے گھر چلا گیا اور اس سے تنویر کے گھر چلنے کو کہا۔ناصر کے چہرے پر حیرت تھی:”کیا تم صلح کرنا چاہتے ہو؟“”ہاں صلح بھی اور نیکی بھی۔“”کیا مطلب!میں سمجھا نہیں۔“ناصر چونکا تو شوکت نے اسے بتایا:”میں اس سے ناراض ضرور تھا،لیکن مجھ سے اس کی پریشانی نہیں دیکھی گئی۔میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے نیکی کی توفیق دی۔”آؤ چلیں۔“وہ تنویر کے گھر کی طرف چل دیے۔ تنویر غریب ضرور تھا،لیکن وضع دار تھا۔وہ دونوں سے پُرتپاک انداز سے ملا اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کی خاطر تواضع کی۔شوکت نے محسوس کیا کہ تنویر کے چہرے پر پریشانی واضح تھی،لیکن وہ اسے چھپا رہا تھا۔”تنویر!میں اپنی ناراضگی ختم کرکے تم سے صلح کرنے آیا ہوں۔“تنویر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔تنویر گوکہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا،لیکن فراخ دل تھا۔اس نے فوراً ہی شوکت سے صلح کر لی۔تھوڑی دیر بعد شوکت نے اپنی جیب سے لفافہ نکالا اور تنویر کی طرف بڑھا دیا۔”یہ کیا ہے؟“تنویر نے حیرت سے پوچھا۔تمہارے ابو کے علاج کے لئے کچھ رقم ہے۔“شوکت نے بتایا۔”مگر․․․․․یہ میں کیسے․․․․․“وہ ہچکچایا۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔”رکھ لو تنویر!“ناصر نے کہا:”اللہ نے شوکت کو نیکی کی توفیق دی ہے۔تم بھی یہ قبول کر لو اور اس کی نیکی ضائع مت کرو۔“تنویر ایک بار پھر ہچکچایا،لیکن اس نے نم آنکھوں سے لفافہ لے لیا۔”شوکت!میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے تم جیسے دوستوں سے نوازا ہے۔“یہ کہتے ہوئے آنسو تنویر کے رخسار سے لڑھک کر اس کے لباس میں جذب ہو گئے۔”میں بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے نیکی کی توفیق عطا فرمائی ہے۔“شوکت نے سنجیدگی سے کہا:”یہ میری خوش بختی ہے اور اس دنیا میں بہت کم خوش نصیب ہوتے ہیں،جنھیں اللہ تعالیٰ نیکی کے لئے منتخب فرماتے ہیں۔“”تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔“ناصر نے کہا اور پھر وہ دونوں تنویر سے مل کر اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے۔شوکت یہ نیکی کرکے بہت سکون محسوس کر رہا تھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کی دی گئی توفیق کا شکر بھی ادا کر رہا تھا۔ " عقل کا آلہ - تحریر نمبر 1893,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aqal-ka-aala-1893.html,"سر پر تاج رکھنے والا پرندہ ہدہد آنکھوں پر عینک لگائے ایک شاخ پر چپ چاپ بیٹھا رہتا تھا،جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔دن کے وقت اس کے پاس کئی جانور اور پرندے آتے اور جنگل کا سب سے عقل مند پرندہ سمجھ کر اس سے صلاح مشورہ کرتے۔ننھا ہدہد اپنے دادا کے پاس بڑی حیرت سے یہ دیکھتا رہتا۔اس کا جی چاہتا کہ پرندے اور جانور اس کے پاس بھی آئیں اور اسے بھی اپنے اپنے مسائل بتائیں۔مثلاً ننھے میاں بتاؤ بارش کب ہوگی․․․․؟لیکن کوئی بھی اس کے پاس ایسی باتیں پوچھنے نہ آتا۔دوسری طرف بوڑھے ہدہد کے پاس ہر وقت جانوروں کا تانتا بندھا رہتا۔ایک روز دو گلہریاں اپنا جھگڑا لے کر آگئیں۔ایک کہنے لگی:جناب مجھے درخت کے نیچے ایک بل سے اخروٹوں کا ڈھیر ملا ہے۔دوسری نے کہا:سرکار،یہ جھوٹ بولتی ہے۔(جاری ہے)وہ اخروٹ مجھے ملے تھے،قبضہ اس نے جما لیا۔بوڑھے ہدہد نے اپنی عینک کے شیشوں سے جھانکتے ہوئے کہا:بے وقوف گلہریو!لڑائی جھگڑا اچھی بات نہیں۔اس وقت ایک ایک اخروٹ لے کر کھا لو،باقی اسی جگہ حفاظت سے رکھ چھوڑو۔سردیوں میں جب خوب برف باری ہو گی اور تمہیں میلوں تک کوئی چیز کھانے کو نہ ملے گی،تب یہی اخروٹ تمہارے کام آئیں گے لیکن تب بھی برابر برابر بانٹ کر کھانا۔گلہریوں کو یہ مشورہ پسند آیا اور وہ مطمئن ہو کر چلی گئیں۔ننھا ہدہد یہ فیصلہ سن کر بہت خوش ہوا اور سوچنے لگا:اگر کوئی جانور میرے پاس بھی اس قسم کا مقدمہ لے کر آیا تو میں بھی ایسا ہی فیصلہ کروں گا۔اتنے میں ننھی چڑیوں کا ایک غول بوڑھے ہدہد کے پاس آیا۔ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمیں ایک جگہ دانا پڑا نظر آیا ہے،مگر شبہ ہے کہ وہاں شکاری کا جال بھی ہے۔ہدہد نے کہا:جہاں بھی شبہ محسوس کرو اس سے بچو۔دل کو کھٹکا یوں ہی نہیں ہوا کرتا۔ننھا ہدہد قریب ہی ایک شاخ پر بیٹھا سارا دن عقل مند ہدہد کے پاس آنے والے جانوروں کو دیکھتا۔وہ حیران بھی ہوتا اور افسوس بھی کرتا کہ کوئی اس کے پاس کیوں نہیں آتا․․․․؟ایک دن ننھے ہدہد کو یہ خیال آیا کہ دادا ہدہد کے پاس جو عینک ہے،شاید اسی میں کوئی خاص بات ہے۔اس کے دل نے کہا دراصل یہی عینک انہیں عقل مندوں والی باتیں سکھاتی ہے۔یہ سوچ کر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ دادا کی عینک چرا لے۔ایک روز دوپہر کے وقت جب بوڑھا ہدہد آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا،ننھے ہدہد نے موقع غنیمت جانا اور چپکے سے اس کی عینک اتار لی۔اس کے بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا آیا اور بوڑھے ہدہد کی طرح ناک پر عینک ٹکا کر”عقل مد“بن بیٹھا۔پھر وہ جانوروں کا انتظار کرنے لگا کہ وہ اس کے پاس آئیں اور کام کی باتیں پوچھیں۔زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک چکوری آکر اس کے پاس بیٹھ گئی اور پوچھنے لگی:ہدہد میاں،آج رات آسمان پر پورا چاند نکلے گا یا نہیں․․․․؟ننھے ہدہد نے بوڑھے کی نقل کرتے ہوئے عینک کے شیشوں کے اوپر سے چکوری کو دیکھا اور اس کے بعد کچھ دیر ذہن پر زور ڈالا،مگر کوئی بات اس کی سمجھ میں نہ آئی۔کبھی خیال آتا کہ کہہ دے ہاں نکلے گا۔پھر سوچتا اگر پورا چاند نہ نکلتا تو بڑی شرمندگی ہو گی۔اس لئے اس نے سوچا گول مول بات ہی کرنی چاہیے۔یہی سوچ کر کہنے لگا کہ ہو سکتا ہے آج پورا چاند نکل آئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پورا چا ند نہ نکلے۔چکوری یہ دلچسپ جواب سن کر زور سے ہنسی اور اڑ گئی۔ننھے ہدہد کے پاس جو بھی آیا یہ ان کو مطمئن جواب نہ دے سکا۔ہر مرتبہ سوچتا ہی رہ گیا۔نہ عینک نے اسے کوئی جواب سمجھایا،نہ خود اس کے ذہن میں کوئی بات آئی۔آخر اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے تو ان باتوں کا کچھ پتہ نہیں۔ سب اس کی جھوٹ موٹ کی عقل مندی کا مذاق اڑاتے ہوئے چلے گئے۔ننھے ہدہد پر اب یہ بات کھل گئی تھی کہ عینک میں ایسی کوئی بات نہیں جو یہ کسی کو عقل مند بنا سکے۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کو ابھی واپس دے آئے گا۔بوڑھا ہدہد ابھی تک آنکھیں بند کیے اپنی جگہ بیٹھا تھا۔ننھا ہدہد اُڑ کر اس کے پاس پہنچا اور آہستہ سے عینک اس کی ناک پر رکھ دی۔بوڑھے نے ایک آنکھ تھوڑی سی کھول رکھی تھی اور اسے دیکھ رہا تھا۔آپ جاگ رہے ہیں․․․․؟ننھے ہدہد نے شرمندہ ہو کر پوچھا۔ہاں،میں نے تمہاری حرکتیں دیکھ لی ہیں۔بوڑھے ہدہد نے سنجیدگی سے کہا۔ جتنی عمر کم ہو گی،اتنا تجربہ بھی کم ہو گا اور عقل بھی اتنی ہی تھوڑی ہو گی۔درخت پر سارا سارا دن اور ساری ساری رات بیٹھے رہنے کے بجائے یہ وقت تمہیں جنگل میں گھوم پھر کر گزارنا چاہیے۔اس طرح تمہارے تجربے اور سمجھ بوجھ میں اضافہ ہو گا۔پھر جب تم میری عمر کو پہنچو گے تو عمر بھر کا تجربہ تمہیں میری طرح عقلمند بنا دے گا۔بوڑھے ہدہد کی یہ بات ننھے ہدہد کی سمجھ میں آگئی تھی۔اب وہ کچھ وقت بوڑھے ہدہد سے عقل مندی کی باتیں سنتا،پھر جنگل کی سیر کو نکل جاتا۔ وہ جہاں کہیں بھی جاتا،اپنا دماغ اور اپنی آنکھیں کھلی رکھتا اور ہر چیز کو بڑے غور سے دیکھتا اور یاد رکھتا۔اس طرح عمر کے ساتھ ساتھ اس کے علم میں اضافہ ہوتا گیا۔اب اگر کبھی کوئی اس سے مشورہ لیتا ہے تو اس کا دماغ پہلی کی طرح کورا نہیں تھا،وہ اپنے تجربوں کی وجہ سے پرندوں کو صحیح مشورے دیتا۔ " دعا کا اثر - تحریر نمبر 1892,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dua-ka-asaar-1892.html,"محمد علیدایان ایک بہت ہی نیک اور سمجھدار لڑکا تھا۔پڑھائی لکھائی میں دل لگانے والا اور اپنے بزرگوں کی اطاعت اور عزت کرنے والا۔دایان جس گاؤں میں رہتا تھا وہ گندم کی فصل کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔پر اس بار پورا سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے زمین فصل کے لئے بالکل تیار نہیں تھی۔دایا ن اپنے بڑوں اور گاؤں کے دوسرے لوگوں کے منہ سے گندم کی فصل کے حوالے سے پریشانی کی باتیں سنتا رہتا تھا۔ایک دن دایان کے ابو اس کی امی سے بات کر رہے تھے کہ گھر کی مرمت کے لئے انھوں نے قرض لیا تھا۔اور فصل کی کٹائی پر ادائیگی کا وعدہ کیا تھا۔پر بارشیں نہ ہونے سے تو اچھی فصل کی کوئی امید ہی نہیں۔دایان کے ابو قرض کی ادائیگی کے لئے بہت پریشان تھے۔دایان اپنے ابو سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔(جاری ہے)وہ ان کی پریشانی کا سن کر بہت پریشان ہو گیا تھا۔اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اپنے ابو کی پریشانی دور کرنے کے لئے کیا کرے۔اسی پریشانی میں وہ قرآن کا سبق پڑھنے مسجد چلا گیا۔مولوی صاحب نے سبق سنتے ہوئے دایان کی بے دھانی خاص طور پر محسوس کی۔چھٹی کے بعد جب سب بچے جا رہے تھے تو مولوی صاحب نے دایان کو روک لیا۔سب بچوں کے جانے کے بعد مولوی صاحب نے دایان سے پوچھا کہ بیٹا کیا بات ہے آج تم کس سوچ میں گم تھے۔دایان نے ان کو ساری بات بتائی۔مولوی صاحب شفقت سے مسکرائے اور بولے”میں خوش ہوا کہ تم اپنے ابو کی پریشانی پر ان کے لئے اتنے پریشان ہو گئے۔تم ایک اچھے بچے ہو“دایان بولا کہ” مولوی صاحب میں کیسے اپنے ابو کی پریشانی دور کروں۔“مولوی صاحب نے کہا”بیٹا انسان کی اوقات ہی کیا ہے کہ وہ خود سے کچھ کر سکے۔جو رب آزمائش ڈالتا ہے وہ ہی اس کا حل بھی نکالتا ہے۔دایان بیٹا تم اللہ سے اپنی پریشانی کا حل مانگو۔اور پورے یقین سے مانگو۔اللہ اپنے بندوں کی ضرور سنتا ہے۔مولوی صاحب سے بات کرکے دایان بہت خوش ہو گیا۔رات سونے سے پہلے دایان نے امی سے کہا کہ صبح اسے نماز کے لئے ضرور جگائیں۔صبح اس نے دل لگا کر نماز پڑھی اور پورے خلوص سے اللہ سے اپنے ابو کی پریشانی کے لئے دعا مانگی۔اور بارش کا انتظار کرنے لگا۔پورا دن گزر گیا پر بارش نہ ہوئی پر دایان ہر روز لگاتار نماز ادا کرتا رہا اور دعا مانگتا رہا۔کافی دن گزر گئے ۔دایان ایک بار پھر مولوی صاحب کے سامنے اپنی پریشانی لے کر گیا۔مولوی صاحب بولے دایان بیٹا اپنا یقین ٹوٹنے مت دینا بعض اوقات اللہ کو اپنے بندوں کا مانگنے کا انداز اتنا پسند آتا ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ میرا بندہ بار بار مانگے۔اگلی صبح دایان پھر پورے دل سے نماز کے لئے کھڑا ہوا اور نماز کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔”پیارے اللہ میاں جی مجھے معلوم ہے آپ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں ہمیشہ آپ سے ایسے ہی اپنے دل کی باتیں کرتا رہوں۔اللہ میاں جی میں اپنے ابو کے لئے بہت پریشان ہوں۔اگر اس سال ہماری گندم کی فصل اچھی نہ ہوئی تو میرے ابو اپنا وعدہ پورہ نہیں کر سکیں گے۔اللہ میاں جی آپ تو اپنے بندوں کی ہر جائز خواہش پوری کرتے ہیں ناں پلیز میری یہ دعا پوری کر دیں بارش برسا دیں۔میں ہمیشہ آپ کا اچھا بندہ بن کر رہوں گا۔“ابھی احمد نے ہاتھ چہرے سے ہٹائے نہیں تھے کہ اس چھوٹے سے گاؤں کے چاروں طرف گہرے کالے بادل آگئے تھے۔دایان دوڑ کر باہر نکلا اور کالے بادلوں کو دیکھ کر خوشی سے اپنے امی اور ابو کو آوازیں لگائیں۔امی ابو آئیں دیکھیں میری دعا قبول ہو گئی۔اللہ میاں جی آپ کا بہت شکریہ۔آئی لو اللہ میاں جی۔چھم چھم برستی بارش میں زمین پر امی ابو اور آسمان پر فرشتے اللہ کے اس ننھے بندے کی پہلی دعا کی قبولیت کی خوشی کو دیکھ رہے تھے۔ " اصول کی کامیابی - تحریر نمبر 1891,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/usool-ki-kamyabi-1891.html,"حافظہ حور لائبہ خداداد،کراچی”نعیم!اگر تم نے امتحان میں ہماری مدد نہ کی تو یہ تمہارے لئے بہت بُرا ہو گا۔“اسلم نے غصے سے کہا اور نعیم کو گھورتا ہوا چلا گیا۔اسلم،نعیم کا ہم جماعت تھا،لیکن انتہائی نالائق طالب علم تھا اور ہمیشہ نقل کرکے پاس ہوتا تھا۔اسلم کے ساتھ اس کے کئی نکمے دوست بھی تھے۔اس مرتبہ بھی انہوں نے نہ سارا سال پڑھائی کی اور نہ اب امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔اس لئے اسلم نے نعیم سے کہا تھا کہ تم امتحان میں ہمیں نقل میں مدد دینا،لیکن نعیم نے انکار کر دیا تھا اور اسلم مدد نہ کرنے پر تلملا کر بُرے انجام کی دھمکیاں دے کر گیا تھا۔نعیم اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا ۔جیسے ہی وہ سڑک پار کرکے ایک گلی میں مڑا تو اسلم اور اس کے ساتھیوں نے اس پر حملہ پر کر دیا۔(جاری ہے)اسلم نے نعیم کو گردن سے پکڑ کر زمین پر گرا دیا اور باقی سب نے مل کر اسے بہت مارا۔اچانک سامنے سے تین چار آدمی آئے انھیں دیکھ کر اسلم اور اس کے ساتھی نعیم کو چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گئے۔ان لوگوں نے نعیم کو سہارا دے کر اُٹھایا۔پھر نعیم گھر کی طرف چل دیا۔نعیم کی یہ حالت دیکھ کر اس کی امی بہت پریشان ہو گئیں۔”تمہاری یہ حالت کس نے کی ہے؟“امی نے اسے بیٹھاتے ہوئے پوچھا۔”امی!اسلم اور اس کے ساتھی مجھے امتحان میں نقل کروانے پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔“نعیم بولا۔”دیکھو بیٹا!اس طرح سے ان لڑکوں سے اُلجھنے میں کوئی فائدہ نہیں۔تمہیں اپنے ٹیچر سے بات کرنی چاہیے۔“امی نے کہا۔دوسرے دن وہ اسکول پہنچا اور اپنے استاد سے کہا:”سر!مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“”بولو بیٹا!کیا بات ہے۔“سر نعمان نے کہا۔پھر نعیم نے ساری بات ان کو بتائی۔”ٹھیک ہے بیٹا!میں اس لڑکے کے بارے میں پرنسپل صاحب سے مشورہ کروں گا۔“سر نعمان نے کہا۔وقفے کے دوران استاد نے پرنسل صاحب سے بات کی:”سر!میں نے اس لڑکے کے بارے میں پوری معلومات لی ہیں۔وہ انتہائی نالائق لڑکا ہے۔بہتر یہی ہے کہ اسے اسکول سے نکال دیا جائے۔“پرنسپل صاحب نے کہا:”اس کو آخری موقع دے کر دیکھتے ہیں ویسے بھی امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔امتحانات میں بیٹھنے دیں پھر کوئی فیصلہ کریں گے۔“امتحانات شروع ہو چکے ہیں۔انگلش کا پرچہ تمام طلبہ پوری توجہ سے امتحان میں دے رہے تھے۔کہ اچانک سر نعمان کی نظر اسلم کی جوابی کاپی پر پڑی جس کے اندر سے کاغذ کے ٹکڑے نظر آرہے تھے۔انھوں نے فوراً اسلم سے کاپی لے لی اور اسے کلاس سے نکال دیا۔امتحانات کے فوراً بعد اسلم کو اسکول سے نکال دیا گیا۔اس وقت نعیم کو بہت دکھ ہوا حالانکہ اسلم اور اس کے دوستوں نے اس کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا تھا۔”سر!کن خیالات میں گم ہیں آپ کی چائے ٹھنڈی ہو گئی ہے۔اپنے چپراسی کی آواز سن کر اچانک نعیم خیالات کی دنیا سے باہر آگیا۔نعیم ایک بہت بڑا سرکاری افسر بن چکا تھا اور آج صبح آفس میں نئے صفائی کرنے والے کو دیکھا تو اسے اس کا چہرہ جانا پہچانا سا لگا اور جب نعیم نے اس سے نام پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کا نام اسلم ہے اور آج سے وہ یہاں صفائی کرنے آیا کرے گا۔آج اُصولوں کا پابند نعیم بہت بڑی پوسٹ پر تھا اور نقل کے سہارے چلنے والا اسلم اس کے آفس میں جھاڑو لگانے آیا تھا۔ " میری کہانی - تحریر نمبر 1890,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/meri-kahaani-1890.html,"شکیل صدیقییہ کہانی لکھنے کے بعد میں نے اپنی اردو کی استانی کو دکھا دی تھی۔انھوں نے اسے ٹھیک کر دیا ہے۔اب میں اسے آپ کے پاس بھیج رہی ہوں۔کہانی لکھتے لکھتے میرے ہاتھوں میں درد ہونے لگا ہے،اس لئے میں اسے دوبارہ صاف کرکے نہیں لکھ سکتی۔اسے یوں ہی چھاپ دیجیے۔میں آپ کی شکر گزار ہوں گی۔نائلہ میرا خیال ہے کہ میں ایک ہونہار اور سعادت مند طالبہ ہوں،اس لئے کہ میں بلا ناغہ اسکول جاتی ہوں اور اپنا کام یعنی ہوم ورک وقت پر کر لیتی ہوں۔میری کہانی پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ میری اردو کلاس میں سب سے اچھی ہے۔میں انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتی ہوں،لیکن پابندی سے اردو کے رسالے بھی پڑھتی ہوں،اس لئے مجھے کافی حد تک اردو آگئی ہے۔میری استانی کہتی ہیں کہ میں سالانہ امتحان میں اول آسکتی ہوں۔(جاری ہے)امی مجھے بہت مارتی ہیں،اس لئے میں اپنی چیزیں نہایت بے پروائی سے اِدھر اُدھر رکھ دیتی ہوں یا پھر بھول جاتی ہوں۔آج ہی کی بات ہے کہ جب صبح اسکول جانے سے پہلے میں نے یہ پوچھ لیا کہ امی میرے جوتے کہاں ہیں تو انھوں نے باورچی خانے سے آکر پہلے تو میری گردن پر زور کا چانٹا مارا پھر کہنے لگیں یہ سامنے شیلف میں تو رکھے ہیں۔جب رات کو اسد نے اپنے جوتوں پر پالش کی تھی تو تمہارے جوتے بھی پالش کرکے شیلف میں رکھ دیے تھے۔بھلا آپ ہی بتایئے کہ اس میں مارنے کی کیا ضرورت تھی؟میں اپنے جوتے بیڈ کے قریب اُتارتی ہوں،تاکہ صبح آسانی سے پہن لوں مگر اسد جوتوں کو شیلف میں رکھ دیتا ہے۔رات کو اسکول کا کام کرنے کے بعد میں کتابیں اور کاپیاں بستے میں اسی وقت نہیں رکھتی تو اس سے کیا ہوتا ہے؟صبح بستے میں رکھ لیتی ہوں۔یونیفارم اتارنے کے بعد میں بستر پر رکھ دیتی ہوں کہ جب کھانے کے بعد بستر پر لیٹوں گی تو کھونٹی پر لٹکا دوں گی،لیکن امی کو تو جیسے موقع کی تلاش رہتی ہے۔وہ یونیفارم کو کھونٹی پر کیوں نہیں لٹکایا؟مجھے رونا آنے لگتا ہے کہ اسکول سے تھکی ہوئی آئی ہوں۔اس کے بجائے کہ اچھی چیزیں مجھے کھانے کو دیں،مارنے کو کھڑی ہو جاتی ہیں۔بہت دفعہ سمجھایا ہے کہ لوگ ایسے کاموں کے لئے ملازمہ رکھتے ہیں،لیکن ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔کہتی ہیں کہ زمانہ خراب ہے لہٰذا ملازمہ کو گھر میں نہیں رکھنا چاہیے۔امی تو جیسے میری تاک میں رہتی ہیں کہ میں کب کوئی غلطی کروں اور وہ مجھ پر جوتے برسائیں۔میں نے واش بیسن پر جا کر منہ ہاتھ دھولیے اور تولیے سے صاف بھی کر لیے،لیکن امی چیخنے چلانے لگیں کہ کہنی سے پانی کیوں ٹپک رہا ہے؟آپ خود سوچیے کہ ذرا سا پانی ہی تو ٹپک رہا تھا،کوئی دریا تو نہیں بہ رہا تھا۔اس میں ڈانٹنے کی کیا ضرورت تھی؟مگر انھیں تو بہانا چاہیے۔دھائیں دھائیں،دھپڑ دھپڑ۔اس جان دار مرمت کے بعد میری یادداشت مزید خراب ہو گئی۔جب کھانے بیٹھی تو ہاتھ منہ کے بجائے کئی بار کان کی طرف چلا گیا۔وہ تو امی میرے پاس ہی بیٹھی تھیں، اس لئے لقمہ کان میں نہ جا سکا۔البتہ ایک غلطی یہ ہوئی کہ مانو بلی کے بجانے میں نے موتی کتے کو گود میں بیٹھا لیا، جس سے کپڑے خراب ہو گئے ،کیونکہ وہ نہا کر آیا تھا۔امی نے اسے دھتکار کر بھگایا پھر میرا فراک تبدیل کیا۔امی کے رویے کا اثر رات تک رہا۔میں نے رات کو کھانے کے بعد کپڑے تبدیل کیے اور بستر پر لیٹ گئی۔تھوڑی دیر بعد اسد کیرم بورڈ کھیل کر آتا تو مجھے دیکھ کر ”باجی،باجی“چیخنے لگا۔”کیا بات ہے،کیوں چیخ رہے ہو؟“میں نے منہ سیکٹر کر پوچھا۔”تم نے میرے کپڑے کیوں پہن لیے؟“وہ چیخا۔”پہن لیے تو کیا ہوا؟ابھی تبدیل کیے دیتی ہوں۔“میں نے اس کا سر سہلا کر کہا:”امی سے نہ کہنا۔ایک چاکلیٹ دوں گی۔“اس نے کسی سے کچھ نہیں کہا۔امی کی مار کا اثر میرے دماغ پر پڑا تھا اور میری یادداشت ختم ہوتی جا رہی تھی۔جیسے کہ فلموں میں ہیرو یا ہیروئن کی یادداشت چلی جاتی ہے اور وہ کسی کو پہچان نہیں پاتے۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔دوسرے دن میں اسکول گئی تو لاؤنج میں جاکر ٹہلنے لگی۔اس لئے کہ ابھی کلاس میں جانے کا وقت تھا۔میں نے بھنے چنے خرید لیے تھے،اس لئے انھیں چبا رہی تھی۔گھنٹہ بج گیا،لیکن چنے تھے کہ ختم ہی نہیں ہونے میں آرہے تھے۔چنانچہ میں ٹہلنے لگی۔لڑکیاں کلاسوں میں چلی گئیں۔ایک بھاری بھرکم سی خاتون اپنے کمرے سے نکل کر ایک راؤنڈ لگا کر میرے قریب آگئیں اور بولیں:”چنے چباتی رہوں گی یا کچھ پڑھائی کا بھی ارادہ ہے؟“وہ ہیڈ مس تھیں،لیکن ان کا نام یاد نہیں آرہا تھا۔”جی،جا رہی ہوں۔“میں نے ملائمت سے کہا اور چنے کی تھیلی جیب میں رکھ لی۔میں بائیں طرف جا کر اپنی کلاس میں بیٹھ گئی تو اردو کی مس نے کہا:”علامہ اقبال پر ایک مختصر سا مضمون لکھیے۔کاپی سے ایک صفحہ پھاڑ لیجیے۔“میں نے اردو کی کاپی نکال کر اس سے ایک صفحہ پھاڑ لیا اور سوچنے لگی کہ مس نے یقینا علامہ اقبال پر مضمون لکھنے کو کہا ہے،مگر وہ کون تھے اور کہاں رہتے تھے۔اس وقت قطعی یاد نہیں آرہا تھا کہ کس زبان کے شاعر تھے؟جب پرچہ لے لیا گیا تو یاد آیا کہ علامہ اقبال پر مضمون لکھنے کو کہا گیا تھا جو شاعر مشرق ہیں،لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔مس نے میرے مضمون پر صفر دے دیا تھا۔ طبیعت گم صم سی رہی اور کسی سے بات کرنے کو دل نہیں چاہا۔چھٹی ہوئی تو گاڑی میں بیٹھ کر گھر پہنچ گئی۔یاد آیا کہ اسد کو تو لیا ہی نہیں۔وہ تو میرا بھائی ہے۔تھوڑی دیر بعد دوسری گاڑی سے کوئی لڑکا اتر کر سامنے آگیا۔مجھے جانا پہچانا سا لگ رہا تھا۔اچانک ایک بھاری بھرکم سی خاتون کہیں سے آن ٹپکیں اور ساتھ ساتھ چلنے لگیں ۔“آج اردو کا پیپر کیسا ہوا؟“انھوں نے پوچھا۔”مگر آپ کون ہیں؟“”تمہاری ماں ہوں ،اور کون ہوں۔“انھوں نے چڑچڑے پن سے کہا۔”میری کوئی ماں نہیں ہیں۔“میں نے کہا:”وہ بہت مارتی ہیں۔جب کہ میں کوئی شیطانی شرارت بھی نہیں کرتی۔“اچھا ٹھہرو۔ابھی بتاتی ہوں۔“انھوں نے غصے سے کہا۔پتا نہیں وہ کس کا گھر تھا۔بہرحال گھر پہنچ کر انھوں نے میرا بستہ تو شیلف میں رکھا اور پھر وہی کیفیت ان پر طاری ہو گئی:دھائیں دھائیں، دھپڑ دھپڑ۔اس سے یہ ہوا کہ چوٹ پڑتے ہی میری کھوئی ہوئی یادداشت واپس آگئی۔ " انعام - تحریر نمبر 1889,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/inaam-1889.html,"تبسم حسنی،کراچیایک چھوٹی سی کمہاروں کی بستی تھی،جہاں کمہار اپنے گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتے تھے۔فضل دین اسی بستی کا ایک محنت کش کمہار تھا، جس کے ہاتھ کی صفائی دور دور تک مشہور تھی۔گڑیا ان کی ایک ہی بیٹی تھی۔گڑیا صبح سویرے اُٹھ کر گھر کے کام میں ماں کا ہاتھ بٹاتی پھر اسکول چلی جاتی،اسکول کے بعد وہ اور اس کی سہیلیاں خوب کھیلتیں۔”میرے ابا مجھے مٹی کے برتن بنانا سکھائیں گے،پھر میں جب سیکھ جاؤں گی اپنے لئے بہت سارے برتن بناؤں گی۔“گڑیا کی سہیلی نے اسکول سے واپسی پر راستے میں کہا۔”ہم بھی اپنے ابا سے سیکھیں گے۔“ان کے ساتھ چلتی دوسری لڑکیوں نے بھی کہا۔گڑیا نے گھر آکر بستہ رکھا اور فضل دین کے سامنے بیٹھ گئی۔(جاری ہے)فضل دین کوئی لوک گیت گاتے ہوئے کام کر رہا تھا گڑیا خاموشی سے ان کے ہاتھوں کی کاری گری دیکھنے لگی۔جب مٹی کی صراحی تیار ہو گئی تو فضل دین نے اسے ایک طرف رکھ دیا۔”بابا جان!یہ کتنا خوب صورت ہے،لیکن اسے بنانا بہت مشکل ہے نا؟“گڑیا نے ابا سے پوچھا۔”کوئی بھی کام ہمیں تب تک مشکل لگتا ہے جب تک ہم اسے سیکھ نہیں جاتے،اسے سیکھنے کے لئے خوب محنت بھی کرنی پڑتی ہے،اور پھر ہمیں وہ کام آجاتا ہے اور آسان لگتا ہے۔اگر ہم محبت سے کوئی بھی کام کریں تو نہ محنت کا احساس اور نہ ہی کسی مشکل کا۔“فضل دین نے گڑیا سے کہا۔گڑیا کو اس کام میں دلچسپی نہ تھی،مگر باپ کو کام کرتے دیکھ کر اسے مزہ آرہا تھا۔کچھ دن بعد اسکول میں ایک دلچسپ مقابلے کا اعلان ہوا۔ چونکہ یہ کمہاروں کی بستی کا اسکول تھا،اس لئے مقابلے میں مٹی سے اشیاء بنا کر لانی تھیں۔ایک ہفتہ بعد یہ مقابلہ رکھا گیا تھا۔”بابا جان!اگلے ہفتے اسکول میں مقابلہ ہے،اور مجھے آپ سے یہ کام سیکھنا ہے،تاکہ میں بھی مقابلے میں حصہ لے سکوں۔“گڑیا نے گھر میں داخل ہوتے ہی فضل دین سے کہا۔”کیوں نہیں،اپنی گڑیا کو ضرور سکھاؤں گا۔“فضل دین نے پیار سے کہا:”کوئی بھی کام مضبوط ارادے کے علاوہ سخت محنت بھی مانگتا ہے۔اگر تمہارے پاس یہ دونوں ہیں تو پھر کوئی بھی تمہیں کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتا۔“آہستہ آہستہ اس کی دلچسپی ختم ہو رہی تھی۔وہ تھوڑا سا سیکھنے کی کوشش کرتی،پھر کھیلنے چلی جاتی۔ایک دن وہ اپنے ابا کے پاس بیٹھی تھی۔اس نے اپنی بیٹی سے کہا:”کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ جو بھی کام کرو وہ صبر اور محنت سے کرو،ورنہ پچھتانا پڑے گا۔“”بابا جان!اب میں بھی پوری توجہ اور محنت سے سیکھوں گی۔“گڑیا نے کہا۔اس دن کے بعد گڑیا بڑی محنت سے سیکھنے لگی۔اگر کام خراب ہو جاتا تو پھر کوشش کرتی۔بد دلی سے چھوڑ کر نہیں جاتی۔گڑیا نے اتنا تو سیکھ ہی لیا تھا کہ مقابلے میں حصہ لے سکے۔مقابلے والے دن سب ہی پُرجوش تھے۔گڑیا کو امید تھی کہ وہ بھی مقابلے میں انعام حاصل کر لے گی،لیکن اسے کوئی انعام نہیں ملا۔”بابا جان!میں نے کتنی محنت کی تھی پھر بھی ہار گئی۔“گڑیا نے فضل دین سے کہا۔”ہار پہ دل چھوٹا نہیں کرتے بچے!ہو سکتا ہے کہ جن بچوں نے انعام حاصل کیا ہے انھوں نے زیادہ محنت کی ہو۔پہلی بات پر ہی سب ختم نہیں ہو جاتا اور یاد رکھو ناکامی ،کامیابی کی پہلی سیڑھی کو کہا جاتا ہے،اس لئے تمہاری یہ ہار آگے تمہارے لئے کامیابیاں لے آئے گی،مگر شرط صرف محنت اور لگن کی ہے۔“فضل دین نے گڑیا کو سمجھایا۔اس دن کے بعد گڑیا اسکول اور کھیل کے ساتھ ساتھ پھر سے مٹی کی چیزیں بنانے لگی۔کمہاروں کی بستی کا یہ اسکول صرف پانچویں جماعت تک تھا۔اس کے بعد پڑھنے کے لئے شہر جانا پڑتا تھا۔اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے سوچا اسی طرح کا ایک مقابلہ بڑے پیمانے پر رکھا جائے۔اہم تعلیمی افسران کو مدعو کیا جائے تاکہ وہ بچوں کی قابلیت پر ان کی حوصلہ افزائی کریں اور اسکول کی مزید جماعتوں کی منظوری بھی دے دیں۔تین ماہ بعد اسکول کے سامنے بڑا سا پنڈال سجایا گیا تھا۔پنڈال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔اسٹیج پر مہمان بیٹھے تھے۔مقابلے میں حصہ لینے والے بچوں کے بنائے ہوئے شاہ کار بڑی سی میز پر سجائے گئے تھے۔مہمانان گرامی کی حوصلہ افزاء تقاریر کے بعد انعامات کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا۔گڑیا کو جیت کی اُمید تو تھی،مگر ہار کا خوف بھی تھا۔پہلے تیسرے انعام یافتہ کا نام پکارا گیا،پھر دوسرے اور آخر میں پہلے انعام یافتہ کا نام پکارا گیا۔گڑیا کی جیت کی آس ٹوٹ گئی تھی،مگر اس نے اپنا حوصلہ ٹوٹنے نہیں دیا۔فضل دین نے غور سے گڑیا کو دیکھا کہیں ہار پر وہ دکھی تو نہیں ہو رہی۔”کوئی بات نہیں بابا جان!ہار پر سب ختم تو نہیں ہو جاتا۔اگلی بار پھر کوشش کرلوں گی۔“تینوں انعام یافتہ بچوں کو انعام دیا جا چکا تھا۔”اُصولاً تو انعامات کی تقسیم تین درجوں میں کی جاتی ہے،مگر ہم نے سب سے خاص اور بہترین شاہ کار کے لئے الگ سے انعام کا فیصلہ کیا ہے۔“ہیڈ ماسٹر نے یہ خبر سنا کر بچوں میں جیسے جوش سا بھر دیا۔ ”اور انعام دیا جاتا ہے․․․․․“انھوں نے تھوڑا وقفہ کیا جس سے سارے پنڈال میں تجسس پھیل گیا۔”گڑیا فضل دین“ہیڈ ماسٹر نے مسکراتے ہوئے گڑیا کا نام پکارا جو بے یقینی سے اسٹیج کی طرف دیکھ رہی تھی۔پھر گڑیا دوڑتی ہوئی اسٹیج پر اپنا انعام لینے گئی۔پورا پنڈال تالیوں سے گونج اُٹھا تھا۔”بابا جان!میں جیت گئی۔“گڑیا نے ٹرافی لہراتے ہوئے فضل دین سے کہا۔”ہاں!گڑیا،تمہاری محنت اور حوصلہ جیت گیا۔“فضل دین گڑیا کو دیکھ کر مسکرا دیا۔ " لالٹین کا تہوار - تحریر نمبر 1887,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/laltain-ka-tehwar-1887.html,"تسنیم جعفرییہ تقریباً دو ہزار سال پہلے کی بات ہے جب مغربی چین میں ہان سلطنت قائم تھی۔شہنشاہ ہان وودی کا ایک وزیر تھا جو اپنی رحم دلی اور خوش طبعی کی وجہ سے بہت مقبول تھا اس کا نام ڈونگ فینگ شو تھا۔ایک بار سردیوں کے موسم میں کئی دن لگاتار برف باری ہونے کے بعد جب آسمان کھلا تو ڈونگ فینگ شاہی باغ کی سیر کو نکلا جہاں آلو بخارے کے خوبصورت پھول کھلے ہوئے تھے۔ڈونگ فینگ وہ پھول چننے لگا کیونکہ وہ شہنشاہ کی مصوری میں کام آسکتے تھے۔وہاں اس نے دیکھا کہ باغ کے کنویں پر ایک کنیز کھڑی رو رہی ہے وہ کنویں میں کودنا ہی چاہتی تھی کہ وزیر وہاں پہنچ گیا اور اس کو بچا لیا پھر اس نے کنیز سے خودکشی کرنے کی وجہ پوچھی۔کنیز جس کا نام لالٹین تھا اس نے بتایا کہ ”میرے ماں باپ اور ایک چھوٹی بہن ہے جو دور ایک گاؤں میں رہتے ہیں میں جب سے کنیز منتخب ہو کر یہاں محل میں آئی ہوں اپنے گھر والوں سے نہیں ملی۔(جاری ہے)ہر سال بہار کے تہوار پر میں ان کو بہت یاد کرتی ہوں میں سوچتی ہوں کہ اگر میں اپنے ماں باپ سے مل نہیں سکتی اور ان کی خدمت نہیں کر سکتی تو ایسے جینے کا کیا فائدہ اس سے تو بہتر ہے کہ میں مر ہی جاؤں۔“یہ کہہ کر لڑکی نے پھر کنویں میں چھلانگ لگانے کی کوشش کی لیکن ڈونگ فینگ شو نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔اسے لڑکی کی کہانی سن کر بہت دکھ ہوا تھا اور ہمدردی محسوس ہوئی۔”دیکھو لڑکی!اس طرح اپنی جان دینے سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں تمہارے گھر والوں سے ضرور ملاؤں گا میں کرتا ہوں کچھ بندوبست۔“اگلے دن ڈونگ فینگ شو نے ایک دست شناس نجومی کا روپ دھارا اور شہر کے چوک پر دکان لگا کر بیٹھ گیا۔وہ اپنے پاس قسمت کا حال جاننے کے لئے آنے والے ہر شخص کو ایک ہی بات بتانے لگا کہ:”نئے سال کے تہوار کے ٹھیک سولہ دن بعد چھانگ آن شہر کو زبردست آگ اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔“تھوڑی ہی دیر میں سارے شہر میں خوف و ہراس اور افراتفری پھیل گئی ہر کوئی اس کا حل جاننے کے لئے بے چین تھا۔”ایک پری ہے جو بڑے غصے میں ہے اور نئے سال کے سولہویں دن شہر کو آگ لگا دینا چاہتی ہے۔“اس نے مزید بتایا۔ ۔جلد ہی نجومی کی یہ پیش گوئی شہنشاہ کے محل تک بھی پہنچ گئی اور اس نے فوراً ڈونگ فینگ شو کو حاضر ہونے کو کہا اور سارا ماجرا پوچھا۔”حضور والا کل رات میں نے بہت بُرا خواب دیکھا میں نے دیکھا کہ ایک پری غصے میں شہر کو آگ لگا رہی ہے کیونکہ کسی نے اسے ڈمپلنگ (میٹھے سموسے)کھانے کو نہیں دیئے تھے۔“یہ سن کر شہنشاہ کا رنگ زرد پڑ گیا۔”حضور والا!میرا خیال ہے کہ آپ کنیز لالٹین کو حکم دیں کہ وہ نئے سال کے پندرہویں دن یہ میٹھے سموسے بنا کر پری کی نظر کرے اور ہمیں خدا کو خوش کرنے کے لئے صدقہ و قربانی دینی چاہئے اور شہر کے ہر شخص کو ایسا ہی کرنا چاہئے کہ میٹھے سموسے بنا کر بانٹے اور شمع روشن کرے۔اس کے علاوہ ہمیں سارے شہر میں شمعیں روشن کرنی چاہئیں تاکہ بلائیں دور رہیں،آتش بازی چلانی چاہئے اور دور نزدیک سب گاؤں کے لوگوں کو یہاں بلانا چاہئے تاکہ وہ بھی اس نیاز میں شریک ہو سکیں۔ “شہنشاہ اس مشورے سے بہت خوش ہوا اور جو بھی ڈونگ فینگ نے کہا وہ سب کروانے کا حکم دے دیا۔چینی نئے سال کے پندرہویں دن چھانگ آن شہر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا،بہت گہما گہمی اور میلے کا سما تھا،لوگ ٹولیوں کی صورت میں اِدھر اُدھر گھوم پھر رہے تھے،شہر کی روشنیاں دیکھ رہے تھے اور میٹھے سموسے کھا رہے تھے،دور دراز کے گاؤں سے بھی لوگ اس شہر کی سیر کرنے آئے تھے جہاں کوئی عام آدمی آنے کی سوچ بھی نہیں سکتا تھا،انہیں لوگوں میں سے ایک لالٹین کے ماں باپ اور بہن بھی تھے جب انہوں نے بڑی بڑی شاہی شمعوں پر لالٹین کا نام لکھا دیکھا تو خوشی سے ”لالٹین،لالٹین“ چلانے لگے،اس طرح انہوں نے لالٹین کو با آسانی ڈھونڈ لیا اور جلد ہی اپنی بیٹی سے آن ملے۔وہ دن اور رات بخیریت گزر گیا اور کسی پری نے شہر کو آگ نہیں لگائی،ہو سکتا ہے کہ وہ میٹھے سموسے کھانے میں مصروف ہو یا شہر کی روشنیاں دیکھ کر دور رہی․․․․!لوگوں نے یہی سوچا تھا۔شہنشاہ لالٹین کے اس اقدام سے بے حد خوش ہوا اور اس نے یہ اعلان کر دیا کہ ہر نئے سال کے پندرہویں دن یہ تہوار منایا جائے گا کہ لوگ میٹھے سموسے کھائیں اور خدا کو خوش کرنے کے لئے شمعیں روشن کریں،بلاؤں کو دور رکھنے کے لئے شہر کو روشنیوں سے سجایا جائے،آتش بازی چلائی جائے اور لوگ دور دراز گاؤں سے شہر کی سیر کرنے بھی آسکیں گے۔لالٹین نے اتنے مزیدار ڈمپلنگ بنائے تھے کہ عوام نے اس تہوار کو لالٹین کے نام سے”لالٹین کا تہوار“ رکھ دیا اور چونکہ شمعوں پر لالٹین کا نام لکھا گیا تھا اس لئے ان شمعوں کا نام بھی ”لالٹین“ رکھ دیا گیا پہلے لوگ یہ لالٹینیں رنگ برنگے کاغذوں سے اپنے ہاتھوں سے بنایا کرتے تھے اس کے علاوہ طرح طرح کے پھول اور جانوروں کی شکلیں بنا کر بھی گھروں کو سجایا کرتے تھے۔چینیوں کا یہ آرٹ دنیا بھر میں مقبول رہا ہے۔اس دن لوگ خوب گھومتے پھرتے ہیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ملتے ہیں،صحت اور سلامتی کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں۔اس طرح یہ عام سا واقعہ ایک بڑے قومی تہوار کی شکل اختیار کر گیا جو چین میں ہر نئے سال کے پندرہویں دن یعنی فروری کے دوسرے ہفتے آج تک بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ " غریب لکڑہارا - تحریر نمبر 1886,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghareeb-lakarhara-1886.html,"نور فاطمہکسی گاؤں میں فضلو نامی محنت کش رہتا تھا۔وہ روز مزدوری کی تلاش میں گھر سے نکلتا تھا،جو کبھی مل جاتی اور کبھی اسے خالی ہاتھ واپس آنا پڑتا ۔اس کی آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں تھا۔دن بھر محنت مشقت کے بعد اسے جو اجرت ملتی،وہ اس کے اہل خانہ کا پیٹ پالنے میں ہی صرف ہو جاتی جس کے بعد پھر خالی ہاتھ ہوتا۔اسی طرح وقت گزرتا رہا اور اس کے بچے بڑے ہوتے گئے۔اب ان کی ضرورتیں اس کی قلیل آمدنی سے پوری نہیں ہوتی تھیں،اس آمدنی کا دارومدار بھی مزدوری ملنے پر تھا۔اسے کئی کئی روز تک بے کار بیٹھنا پڑتا تھا۔ضرورتیں بڑھنے کے بعد اس کی بیوی نے اس سے کہا کہ اب آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ تلاش کرو،بچے بڑے ہو رہے ہیں،ان کی تعلیم اور دیگر ضرورتوں کے لئے بھی پیسے کی ضرورت پڑے گی۔(جاری ہے)محنتی تو وہ تھا ہی ،بیوی کی بات سن کر اس نے ایک فیصلہ کیا۔اگلے ہی روز وہ بازار گیا اور اس کے پاس جو تھوڑی بہت رقم تھی اس سے ایک کلہاڑا خرید کر لایا۔اس کے گھر کے قریب ہی جنگل تھا،اس نے وہاں سے لکڑیاں کاٹیں اور بازار میں لے جا کر فروخت کر دیں۔اس سے اچھی خاصی آمدنی ہوئی اور یہ اس کی زندگی کا پہلا دن تھا جب اس نے اور اس کے بیوی،بچوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔لکڑیاں کاٹنے کا کام اس کا مستقل روزگار کا ذریعہ بن گیا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے گھریلو حالات بہتر ہونے لگے۔وہ روز کوشش کرتا کہ زیادہ سے زیادہ لکڑیاں کاٹے تاکہ ان کی فروخت سے زیادہ پیسے آئیں ۔لیکن چند ماہ بعد ہی اس کے استعداد کار میں کمی آنے لگی اور اس کے کلہاڑے سے اتنی لکڑیاں نہیں کٹ پاتیں جتنی وہ ابتدائی دنوں میں کاٹتا تھا۔اس صورتحال سے اس کی روزانہ کی آمدنی بھی متاثر ہونے لگی اور اس کے گھریلو حالات پھر سے بدتر ہونے لگے۔اس کی بیوی نے اس سے سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ اب اس سے پہلے کی طرح زیادہ لکڑیاں نہیں کاٹی جاتیں حالانکہ وہ تمام دن محنت کرتا ہے۔کلہاڑا درخت پر پہلے کی طرح نہیں چلتا جس کی وجہ سے اسے لکڑیاں کاٹنے میں دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔اس کی بیوی نے انتہائی سوچ بچار کے بعد اپنے شوہر سے پوچھا،کہ اس نے کلہاڑا خریدنے کے بعد کتنی مرتبہ اس پر دھار لگوائی ہے،؟فضلو نے جواب دیا کہ اسے دھار لگوانے کا خیال ہی نہیں آیا،دوسری بات یہ کہ اگر میں کلہاڑا تیز کرانے جاؤں گا تو لکڑیاں کس وقت کاٹوں گا۔اس پر بیوی بولی کہ اگر کلہاڑے کو دھار لگوانے میں تھوڑا سا وقت صرف کر دو گے تو اس کی کارکردگی میں اضافہ ہونے کے بعد کم وقت میں زیادہ لکڑیاں کاٹ لو گے اور تمہیں مشقت بھی کم کرنا پڑے گی۔فضلو کی سمجھ میں بیوی کی بات آگئی اور اس کے بعد وہ باقاعدگی کے ساتھ کلہاڑے پر دھار لگوانے لگا،جس سے اس کی کارکردگی پہلے جیسی ہو گئی اور اس کے گھریلو حالات پھر سے بہتر ہونے لگے۔ " درخت اور ماحول - تحریر نمبر 1885,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/darakhat-aur-mahool-1885.html,"سلیم فرخیحریم کے والدین ملازمت پیشہ تھے۔اس کا ننھیال قریب تھا،اس لئے وہ اپنے نانا نانی کے گھر رہتی تھی۔وہیں قریبی اسکول میں وہ نویں جماعت میں پڑھتی تھی۔حریم کے نانا تعلیم یافتہ انسان تھے۔ایک دن انھوں نے حریم کو پریشان سا دیکھا تو اس سے پوچھا:”آج تم چپ چاپ ایک طرف بیٹھی ہو،کیا بات ہے؟“”نانا ابو!مس نے مجھے پودوں کے بارے میں پڑھایا ہے۔وہ نوٹس مجھے نہیں مل رہے ہیں اور اب مجھے پودوں کے بارے میں مضمون لکھنے کے لئے کہا گیا ہے۔“حریم نے نانا کو پوری بات بتا دی۔”بس اتنی سی بات ہے۔شام کی چائے کے بعد میرے پاس آنا،میں تمہیں سمجھا دوں گا۔“نانا نے اسے تسلی دی۔شام کو حریم کاغذ قلم لے کر نانا ابو کے پاس آئی اور پوچھا:”نانا ابو!درخت اور پودے وغیرہ ہوتے کیا ہیں؟“نانا ابو نے چشمہ اُتار کر اخبار ایک طرف رکھا اور بولے:”زمین سے اُگنے والے پیڑ پودے دنیا میں انسان کے آنے سے پہلے ہی موجود تھے۔(جاری ہے)ماہرین نباتات کی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ 60 کروڑ برس پہلے پودوں کی کچھ سادہ اقسام نے پانی سے نکل کر خشکی پر جڑیں پکڑ لی تھیں۔40 کروڑ سال پہلے پودوں کی اونچائی 30 سینٹی میٹر سے زیادہ نہیں تھی۔یہ ایک زندہ مخلوق ہے اور ان کا جسم بھی دوسرے جانداروں کی طرح خلیات پر مشتمل ہوتا ہے۔یہ اپنی نشوونما خود کرتے ہیں۔ان کے خلیات میں بھی زندگی کا مادہ پروٹوپلازم (Protoplasm) ہوتا ہے۔پودے سانس بھی لیتے ہیں اور اپنی خوراک بھی تیار کرتے ہیں۔“”پودے سانس کیسے لیتے ہیں،نانا ابو!ان کے تو پھیپھڑے ہی نہیں ہوتے۔“حریم نے اچانک سوال کیا۔”پودوں میں سانس لینے کا عمل دوسرے حیوانات سے بالکل الگ ہوتا ہے۔یہ پتوں کے ذریعے سانس لیتے ہیں۔حیوانات کو زندہ رہنے کے لئے آکسیجن (Oxygen) کی ضرورت ہے۔وہ آکسیجن لے کر کاربن ڈائی آکسائیڈ (Carbon Dioxide) پیدا کرتے ہیں، جب کہ پودے دن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں۔یعنی پودے اور حیوان(اس میں انسان بھی شامل ہے)ایک دوسرے کے لئے اہم ہیں۔“”نانا ابو!شاید اسی لئے ہمیں بتایا جاتا ہے اور حکومت بھی زور دیتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت اُگائے جائیں،تاکہ ہمیں صاف آکسیجن ملتی رہے۔“نانا ابو نے کہا:”ہاں،اور یہ آکسیجن لے کر ہم جو کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنے پھیپھڑوں سے خارج کرتے ہیں،درخت اسے جذب کر لیتے ہیں۔“”ایک ننھے سے بیج سے اتنا بڑا پودا کیسے بن جاتا ہے نانا ابو!کتنی حیرت کی بات ہے نا؟“حریم نے حیران ہو کر پوچھا۔”یہ اللہ کی قدرت ہے بیٹی!ایک بیج سے پیڑ پودوں کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے،لیکن یہ بیج اس وقت تک بے کار ہے جب تک اسے مناسب مقدار میں پانی اور حسب ضرورت سورج سے حرارت نہ ملے۔اس کے علاوہ بیج کی نمو عام طور پر تاریکی میں بہتر طور پر ہوتی ہے۔بیج اپنے مخصوص درجہ حرارت سے پھوٹتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ موسم سرما اور موسم گرما کی فصلیں (پھل،سبزیاں وغیرہ)الگ ہوتی ہیں۔“”نانا ابو!ایک بار مس نے بتایا تھا کہ پیڑ پودے ماحول کو صاف رکھتے ہیں،یعنی آلودگی سے بچاتے ہیں۔“حریم نے بتایا۔”ہاں،آج کے دور میں انسان آلودگی کے خوف سے پریشان ہے۔یہ عالمی مسئلہ ہے،لیکن انسان کا اپنا پیدا کردہ ہے۔لکڑی اور رہائشی جگہ حاصل کرنے کے لئے تیزی سے جنگلات کاٹے جا رہے ہیں،اس لئے فضا میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ رہی ہے،جس سے فضائی توازن بگڑ رہا ہے۔درخت جس عمل سے اپنی خوراک تیار کرتے اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں اسے ”ضیائی تالیف“ (Photosynthesis) کہا جاتا ہے۔ضیائی تالیف کا مطلب سورج کی روشنی کو خوراک میں تبدیل کرنا ہے اور یہ کام صرف پیڑ پودے ہی کر سکتے ہیں،اس عمل کے لئے چار چیزوں کو ضرورت ہوتی ہے یعنی پانی،کاربن ڈائی آکسائیڈ،سورج کی روشنی اور پیڑوں میں پایا جانے والا ”سبزینہ“(ان کے نمایاں سبزرنگ کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہے)جسے کلوروفل(Chlorophyll) بھی کہا جاتا ہے۔“”نانا ابو!کچھ ایسی باتیں بھی تو بتایئے،جو کچھ انوکھی سی ہوں؟“نانا ابو بولے:”ارے ہاں،پودوں سے متعلق دلچسپ اور حیرت انگیز باتیں بتانا تو بھول ہی گیا۔مزے کی بات یہ ہے کہ پیڑ پودے ماحول کے درجہ حرات کو محسوس کرکے رد عمل بھی ظاہر کرتے ہیں۔موسم کو خوب پہچانتے ہیں۔صحرا میں پانی کی کمی ہوتی ہے اس لئے کچھ پودے پانی کو جذب کرکے ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ان میں وقت کی پیمائش کا نظام بھی ہوتا ہے۔کچھ پودوں کے پتے چھونے سے گول ہو کر بند ہو جاتے ہیں۔کچھ پودے اپنے اوپر بیٹھنے والے کیڑے مکوڑوں کو پکڑ کر کھا جاتے ہیں۔دنیا بھر میں درختوں کی تقریباً چالیس ہزار قسمیں پائی جاتی ہیں۔“حریم نے پوچھا:”دنیا میں کچھ ایسے درخت بھی ہوں گے جو عجیب،دلچسپ ہونے کی وجہ سے مشہور ہوں۔“نانا ابو نے بتایا:”ایک مشہور درخت آسٹریلیا کا یوکلپٹس (Eucalyptus) ہے،جس کی اونچائی 114 میٹر ہے یعنی 38 منزلہ عمارت کے برابر۔اس کے علاوہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ایک درخت کا تنا اس قدر چوڑا ہے کہ اسے تراش کر درمیان سے ایک سڑک گزاری جا سکتی ہے۔ایک اور امریکی ریاست ایریزونا میں قدیم ترین نوکیلے پتوں والا صنوبر کا درخت ہے جو چار ہزار چھے سو سال پرانا ہے۔قطب جنوبی میں پائے جانے والے لیچن (Lichen) نامی درختوں کی عمر دس ہزار سال کے قریب ہے۔“حریم نے کہا:”نانا ابو!آپ نے میرا یہ اہم مسئلہ حل کر دیا ہے۔میں نے یہ ساری باتیں لکھ لی ہیں۔لگتا ہے،اسکول میں میرا مضمون مس کو ضرور پسند آئے گا۔شکریہ۔“نانا ابو نے اخبار پڑھنے کے لئے چشمہ لگاتے ہوئے کہا:”ضرور ضرور ان شاء اللہ۔“ " جامعتہ الازہر - تحریر نمبر 1884,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jamia-al-azhar-1884.html,"اسد اسلم”ارے بچو!آپ دونوں ابھی تک سوئے نہیں؟“دادا ابو نے مریم اور عبداللہ کو موبائل فون پر گیم کھیلتے ہوئے دیکھا تو کہا:”آپ دونوں تو اچھے بچوں کی طرح رات کو جلدی سو جاتے ہیں،پھر آج ایسا کیوں نہیں ہوا بھئی؟“دادا ابو نے دونوں سے سوال کیا۔”دادا ابو!ہمیں نیند نہیں آرہی ہے اور کل ہمارے اسکول کی چھٹی بھی ہے،اس لئے ہم نے امی ابو سے تھوڑی دیر گیمز کھیلنے کی اجازت لی ہے۔“مریم نے جواب دیا۔”اچھا،تو یہ بات ہے۔“دادا ابو مسکرائے:”لیکن موبائل فون پر گیمز ہی کیوں؟آپ دونوں کوئی کتاب یا رسالہ بھی تو پڑھ سکتے ہیں۔“دادا ابو نے مشورہ دیا۔”جی دادا ابو!آپ نے ٹھیک کہا،لیکن ہمارے پاس جتنی بھی کتابیں اور رسالے ہیں،وہ ہم پہلے ہی پڑھ چکے ہیں۔(جاری ہے)“اس بار عبداللہ نے جواب دیا۔”اچھا،چلیے کوئی بات نہیں۔آج کیوں نہ میں آپ کو ایک ایسی جگہ کے بارے میں بتاؤں،جس کے بارے میں شاید آپ نے پہلے سنا یا پڑھا نہ ہو؟“دادا ابو نے دلچسپ انداز میں سوال کیا۔”ضرور دادا ابو!ضرور بتائیے۔ہم تو خود گیمز کھیل کھیل کر بور ہو رہے ہیں۔“مریم نے خوش ہو کر جواب دیا۔دونوں بچے موبائل فون ایک طرف رکھ کر دادا ابو کی طرف متوجہ ہو گئے۔”اچھا تو میں آپ دونوں کو دنیائے اسلام کی ایک ہزار سال پرانی درس گاہ’جامعتہ الازہر‘کے بارے میں بتاتا ہوں۔یہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں واقع ہے۔“دادا ابو نے بات شروع کی۔”دادا ابو!یہ تو وہی ملک ہے نا،جہاں اہرام مصر بھی ہیں!ہماری استانی نے بتایا تھا کہ وہ دنیا کے ساتھ عجائبات میں سے ایک ہے۔“مریم نے جلدی جلدی کہا۔”اور وہاں تو بہت بڑا دریا،دریائے نیل بھی ہے،ہمارے قاری صاحب نے بتایا تھا کہ اس کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔“عبداللہ نے بھی اپنی معلومات سے آگاہ کیا۔”بالکل!آپ دونوں نے ٹھیک پہچانا،یہ وہی مصر ہے۔اس ملک کی تاریخ بہت ہی پرانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ دان اور سیاح یہاں کی یادگار عمارتوں میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں ان عمارتوں سے قدیم تہذیب اور ثقافت کا پتا چلتا ہے۔“دادا ابو نے بچوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی دیکھی تو اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے:”جامعتہ الازہر بھی ایسی ہی ایک جگہ ہے،جس کی تاریخ ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ساتویں صدی عیسوی میں خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی مسلمانوں نے مصر فتح کر لیا تھا۔دسویں صدی عیسوی میں قاہرہ میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی گئی۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی حضرت فاطمتہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اس مسجد کا نام”الازہر“رکھا گیا۔اس مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی بنایا گیا،جو ایک ہزار سال گزرنے کے بعد آج ایک یونیورسٹی یعنی جامعہ کی صورت میں موجود ہے۔“دادا ابو نے بچوں کی طرف دیکھا جو بہت غور سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔”دادا ابو!اس یونیورسٹی میں کیا کیا پڑھاتے ہیں؟“مریم نے سوال کیا۔”بیٹا!ابتدا میں یہاں صرف سینتیس اساتذہ تھے جو قرآن مجید،اسلامی قوانین،عربی زبان و قواعد وغیرہ کی تعلیم دیتے تھے،مگر اب یہاں سینکڑوں معلمین ہیں جو جدید سائنسی علوم مثلاً فلکیات،طب،طبیعات،کیمیا،انجینئرنگ اور کامرس وغیرہ بھی پڑھاتے ہیں۔“”دادا ابو!یہ تو بہت ہی زبردست بات ہے کہ اس جامعہ سے پڑھنے والے عالم دین پوری دنیا میں موجود ہیں۔“عبداللہ نے کہا۔”جی بیٹا!اور یہی وجہ ہے کہ اس درس گاہ کے فتوے پوری دنیا میں مستند سمجھے جاتے ہیں اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ کی حامل جامعات میں سے ایک ہے۔“دادا ابو نے جواب دیا۔بچے بڑے انہماک سے ساری باتیں سن رہے تھے۔دادا ابو نے اپنی بات جاری رکھی:”ناصرف مسلمان،بلکہ غیر مسلم بھی ا س کی عظمت کو مانتے ہیں۔1798ء میں جب فرانسیسی فوجوں نے نپولین بونا پارٹ کی سپہ سالاری میں مصر پر حملہ کیا تو وہ جامعتہ الازہر کے معیار تعلیم اور نظم و نسق کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔اس نے اپنی ڈائری میں جامعتہ الازہر کا خاص طور پر ذکر کیا اور وہاں کے اساتذہ اور طالب علموں کی بہت تعریف لکھی۔بعد میں جب مصر پر حکومت کرنے کا معاملہ آیا تو نپولین نے ایک مشاورقی کونسل بنائی،جس میں جامعتہ الازہر کے بڑے امام بھی شامل تھے۔“”دادا ابو!کیا ہم بھی جامعتہ الازہر جا سکتے ہیں؟“عبداللہ نے پوچھا۔”جی بیٹا!نہ صرف اس قدیم درس گاہ کو دیکھنے جا سکتے ہیں،بلکہ تعلیم حاصل کرنے بھی جا سکتے ہیں۔“شکریہ دادا ابو!آپ نے آج ہمیں بہت ہی معلوماتی باتیں بتائیں۔“مریم نے خوش ہو کر کہا۔ " ابتدائی طبی امداد - تحریر نمبر 1883,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ibtedai-tibbi-imdaad-1883.html,"سلیم فرخیبابر میاں انہماک سے پتنگ اُڑا رہے تھے۔پیچ لڑ گئے تھے۔مخالف کی پتنگ کاٹتے ہوئے جوشی میں جو پیچھے ہٹے تو کیاری کی منڈیر سے لڑکھڑا کر گر گئے۔فوراً اُٹھنے کی جو کوشش کی تو ان سے اُٹھا نہیں گیا۔پاؤں میں سخت تکلیف تھی۔انھیں فوراً ایک قریبی کلینک لے جایا گیا۔ ڈاکٹر صاحب بابر کو پہچانتے تھے۔لہٰذا وہ بابر کے پاؤں کا معائنہ کرنے لگے۔بولے:”لگتا ہے موچ آگئی ہے۔“بابر نے پوچھا:”ڈاکٹر صاحب!یہ موچ کیا ہوتی ہے؟“ڈاکٹر صاحب نے بتایا:”بابر میاں!دراصل انسانی جسم ایک انجن کی مانند ہے۔اس کے پُرزے ز یادہ تر پروٹین سے بنے ہوتے ہیں۔ جب کہ ہڈیاں کیلشیم کے مرکبات سے بنتی ہیں۔لوہے سے بنے انجن کی مرمت کے لئے لوہا درکار ہے اور انسانی جسم کی درستی کے لئے پروٹین اور کیلشیم کی ضرورت ہوتی ہے،جب ہمارا جسم جل جاتا ہے یا زخم ہو جاتا ہے تو جراثیم،پروٹین کو اپنی خوراک بنا لیتے ہیں۔(جاری ہے)ہڈی ٹوٹ جانے کی صورت میں کیلشیم کے مرکبات کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔اب میں بتاتا ہوں کہ موچ کسے کہتے ہیں۔ہڈیوں کے جوڑ اپنی جگہ سے ہٹ جانے کو موچ آنا کہتے ہیں۔اس صورت میں جوڑ میں سخت درد ہوتا ہے۔ورم آجاتا ہے اور کبھی جلد کا رنگ بھی بدل جاتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ سب سے پہلے جوڑ کو روئی سے ڈھانپ دیں۔دباؤ کی پٹی باندھیں ،تاکہ ورم زیادہ نہ ہو۔بعض دفعہ موچ جیسی کیفیت ہوتی ہے،لیکن یہ دراصل عضلات کا کھنچاؤ ہوتا ہے۔ایسی صورت میں متاثرہ جگہ کو گرمی پہنچائیں اور ہلکے ہاتھ سے اوپر کی طرف مالش کریں۔اگر چوٹ لگنے سے ورم ہو جائے تو کسی کپڑے کو ٹھنڈے پانی سے تر کرکے نچوڑ کر رکھیں یا ربر کی بوتل میں برف بھر کر متاثرہ جگہ پر رکھیں۔“اس دوران ڈاکٹر صاحب بابر کے پاؤں کا ہر طرح جائزہ لیتے رہے۔بابر نے کہا:”ایک بار چھوٹے بھائی کے گلے میں مٹر کا دانہ پھنس گیا تھا۔ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟“ڈاکٹر صاحب نے پاؤں کی ہڈی کا جوڑ بیٹھانے کے لئے دباؤ ڈالا تو بابر کی چیخ نکل گئی،لیکن ڈاکٹر صاحب نے اسے باتوں میں لگا لیا:”ہاں ،یہ حلق والا معاملہ بھی بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔“حلق یا سانس کی نالی میں کوئی چیز پھنسنے کے نتیجے میں سانس رکنے سے زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے،کیونکہ دماغ کو آکسیجن کی فراہمی رک جاتی ہے۔سانس بند ہونے لگے تو عالمی ریڈ کراس فرسٹ ایڈ کے طریقے ”پانچ اور پانچ“ کو اختیار کیا جاتا ہے۔اس میں متاثر شخص کے کندھوں کو پچھلی تکونی ہڈیوں کے درمیان ہاتھ کے نچلے حصے سے پانچ گھونسے لگائیں۔اس کے بعد پیٹ پر پانچ دفعہ زور زور سے دباؤ ڈالیں۔یہ عمل ”ہیملخ کی مشق“(Heimlich maneuver) کہلاتا ہے۔اسے اس وقت تک دہراتے رہیں جب تک پھنسی ہوئی چیز نکل نہ جائے۔اگر آپ اکیلے ہیں اور گلے میں کچھ پھنس گیا ہے تو اپنی ناف سے کچھ اوپر ہاتھ کی مٹھی رکھیں۔دوسرے ہاتھ کو اس مٹھی پر رکھ کر کسی سخت سطح مثلاً اِسٹول یا کرسی وغیرہ پر جھکائیں۔مٹھی کو اوپر نیچے پانچ مرتبہ دبائیں۔حلق کی رکاوٹ دور ہونے تک یہ عمل جاری رکھیں۔“بابر نے معلومات کی خاطر سوال کیا:”ڈاکٹر صاحب!خدانخواستہ اگر کوئی آگ یا گرم پانی سے جل جائے تو کیا کیا جائے؟“ڈاکٹر صاحب نے بابر کے پاؤں پر پٹی باندھتے ہوئے کہا:”جل جانے سے متاثرہ جگہ سرخ اور گر م ہو جاتی ہے اور ورم آجاتا ہے۔اس حصے کی خون کی باریک نالیاں پھیل جاتی ہیں،جس سے دوران خون میں رطوبتیں کم ہو کر بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے۔دماغ کو پورا خون نہ ملنے سے بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔آگ جلدی خلیات کے پروٹین کو امینو ایسڈز میں بدل دیتی ہے جو اعصاب کے ذریعے درد کا احساس پیدا کرتے ہیں،لہٰذا جلے ہوئے حصے پر چونے کا پانی،میٹھے سوڈے کا محلول وغیرہ لگانا چاہیے۔میٹھے سوڈے کا اندرونی استعمال بھی سکون کا باعث ہوتا ہے۔جو کپڑا جل کر جلد سے چپک گیا ہو،اسے الگ نہ کریں۔زیادہ جلنے کی صورت میں صاف کپڑے سے زخم کو ڈھانپ دیں یا جراثیم کش محلول میں ململ کے کپڑے کو بھگو کر جلے ہوئے حصے پر لپیٹ دیں۔جلی ہوئی جگہ پر تیل ہر گز نہ لگائیں۔جل جانے سے جو چھالے پڑ جاتے ہیں انھیں بھی نہ پھوڑیں۔“اسی وقت ایک بزرگ مریض اندر داخل ہوئے تو ڈاکٹر صاحب ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔بابر نے احتیاط سے اُٹھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی فیس ادا کی اور شکریہ کہہ کر باہرنکل آیا۔فرسٹ ایڈ کے بارے میں اسے پوری طرح علم تھا،مگر وہ اب تک بنا نہیں سکا تھا۔اب اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ ضروری ادویہ اور اوزار ایک بکس میں ضرور رکھے گا۔ " آپ کا دوست پانی - تحریر نمبر 1879,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ap-ka-dost-paani-1879.html,"کیا حال ہے دوستو!آپ مجھ سے تو یقینا واقف ہیں۔جب بھی پیاس لگتی ہے تو آپ مجھے استعمال کرتے ہیں۔کپڑے اور برتن دھونے کے لئے میں ہی کام آتا ہوں۔سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ آپ خود کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے میرا ہی استعمال کرتے ہیں۔میں آپ کا گہرا دوست ہوں اور آپ کی روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ ہوں۔آپ میرے بغیر گزارہ کر ہی نہیں سکتے اور اسی لئے میں آپ کی زندگی میں بے حد اہمیت کا حامل ہوں ۔چونکہ میں بہت اہم ہوں،اس لئے آپ کو میرا بہت خیال رکھنا چاہیے۔آپ مجھے کبھی ضائع نہ کریں اور نہ مجھے آلودہ ہونے دیں۔میں دریاؤں میں بہتا ہوں،آسمان سے برستا ہوں اور سمندروں میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہوں۔میں کرہ ارض کی سطح کو 71 فیصد گھیرے ہوا ہوں،مگر چونکہ میرا زیادہ تر حصہ نمکین یا کھارا ہے،اس لئے آپ میرے زیادہ تر حصے کو پی نہیں سکتے اور نہ کھانا پکانے میں استعمال کرسکتے ہیں۔(جاری ہے)کرہ ارض پر موجود تمام تر پانی میں سے صرف دو اعشاریہ ایک فیصد پانی پینے کے قابل ہے۔تو بھئی میں تو قیمتی ٹھہرا نا؟ویسے حال ہی میں جب مجھے پتا چلا کہ سائنس دانوں نے نمکین پانی کو میٹھا کرنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ صرف 30 منٹوں میں سمندر کے نمکین پانی کو پینے کے قابل بنایا جا سکتا ہے ۔واہ یہ ہوئی نا بات!یہ سب چند برس قبل ہی ممکن ہوا تھا،دراصل میرے ذخائر میں کمی آنی شروع ہوئی اور سائنس دانوں نے اندازہ لگایا کہ 2025ء تک دو ارب لوگو ں کو میں یا تو میسر ہی نہیں ہو گا یا پھر میری بہت کم مقدار ان تک پہنچ سکے گی۔بہت سے سائنس دان سر جوڑ کر بیٹھے اور مجھے میٹھا بنانے کا طریقہ ایجاد کرکے ہی دم لیا۔پانی کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے سائنس دانوں نے شمسی توانائی کو استعمال کرتے ہوئے بہت ہی کم لاگت میں ڈیسیلینیشن (Desalination) کا طریقہ ایجاد کیا۔ڈیسیلینیشن بہت ہی سادہ عمل ہے۔شمسی توانائی کے ذریعے مجھ میں تیرتا ہوا ایک آلہ ڈالا جاتا ہے،جو مجھ میں گرمی پیدا کرکے نمک کو مجھ سے الگ کر دیتا ہے۔ایک آسٹریلین سائنس دان نے نمکین پانی کو میٹھا بنانے کے لئے یہ طریقہ معلوم کیا۔یہ ٹیکنالوجی ناصرف رائج طریقوں سے سستی پڑتی ہے اور ان سب سے زیادہ موٴثر بھی ہے۔تو پیارے دوستو!میں خوش ہوں کہ آپ کے مزید کام آسکتا ہوں۔اب سمندر میں موجود میرا بڑا حصہ فیکٹریوں،صنعتوں اور سبزیاں اُگانے کے کام بھی آسکے گا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک اب میرا استعمال بہت بہتر طریقے سے کر رہے ہیں۔آسٹریلیا،سنگاپور، مراکش، چین،برطانیہ اور کینیڈا کے لوگ میرا خیال رکھتے ہوئے مجھے خوبی سے استعمال کرنا سیکھ رہے ہیں۔ایک بات اور جو بے حد اہم ہے وہ یہ کہ میری ڈیسلینیشن کی باقیات ،جن میں کیمیکل برائن (Chemical Brine) شامل ہے،ان کو بھی بہت احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ان کو دوبارہ سمندر میں پھینکنا نہیں چاہیے،کیونکہ اس کی وجہ سے ناصرف سمندری پانی مزید کھارا ہو جاتا ہے،بلکہ یہ سمندری حیات کے لئے بہت بڑا خطرہ بھی ہے۔آپ سب کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ سمندری پانی دنیا بھر میں بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے،مگر اسے استعمال کرتے ہوئے آپ کو تھوڑی سمجھداری دکھانی ہو گی۔مجھے استعمال کرنے میں کفایت شعاری اپنائیں،تاکہ میں آپ کا تمام عمر دوست رہ سکوں۔ " غلط فہمی - تحریر نمبر 1878,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghalat-fehmi-1878.html,"حافظہ عائشہ محسن،کراچی”آنٹی!رحمان کہاں ہے،وہ آج اسکول نہیں آیا۔“عاقب نے رحمان کے گھر آکر اس کی امی سے پوچھا۔”بیٹا!دراصل اس کو آج شدید بخار تھا۔اسی وجہ سے اسکول سے چھٹی کر لی۔“رحمان کی امی نے بتایا۔رحمان اور عاقب دونوں بہترین دوست تھے۔ان کی دوستی مثالی تھی۔”اوہ مجھے اس نے بتایا بھی نہیں․․․․کہاں ہے وہ مجھے اس سے ملنا ہے۔“عاقب نے رحمان کی طبیعت خرابی کا سنا تو بہت پریشان ہو گیا۔”وہ اندر کمرے میں ہے جاکر اس سے مل لو۔“رحمان کی امی بتا کر چلی گئیں اور عاقب رحمان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔اندر جا کر دیکھا تو وہ بے خبر سو رہا تھا۔عاقب نے اس خیال سے کہ اس کی نیند خراب نہ ہو،رحمان کو جگانا مناسب نہ سمجھا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔(جاری ہے)رحمان کی امی کو بتا کر عاقب اپنے گھر چلا گیا۔”امی!کیا کسی نے فون کرکے پوچھا تھا کہ میں اسکول کیوں نہیں گیا؟“رحمان نے نیند سے بیدار ہو کر سوپ پیتے ہوئے اپنی امی سے پوچھا۔اس کا واضح اشارہ عاقب کی طرف تھا،مگر اتفاقاً رحمان کی امی اسے عاقب کے آنے کا بتانا بھول گئیں اور کہنے لگیں:”نہیں بیٹا!کسی نے فون نہیں کیا۔“یہ سن کررحمان افسردہ ہو گیا اور سوچنے لگا کہ کیا واقعی عاقب کے لئے میں اہم نہیں ہوں،میں اسکول جاؤں یا نہ جاؤں میرے دوست کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟اور اس طرح کی کئی غلط سوچیں رحمان کے دماغ میں اُبھریں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رحمان،عاقب کی طرف سے بدگمان ہو گیا اور پھر اپنے آپ سے کہنے لگا:”مجھے بھی کیا ضرورت ہے اس سے بات کرنے کی خواہ مخواہ اسے اپنا خیر خواہ سمجھتا ہوں،اسے تو میری خاطر ایک فون کرنے کی بھی فرصت نہیں ہے۔“یہ سب سوچ کر رحمان سو گیا۔اگلے دن اس کی طبیعت بحال ہو گئی تو وہ اسکول چلا گیا۔عاقب اسے دیکھ کر فوری لپکا:”ارے رحمان!کیسے ہو؟“”تم تو رہنے دو عاقب!میں جیسا بھی ہوں تمہیں کیا فرق پڑتا ہے!“رحمان نے بے رُخی سے جواب دیا اور جماعت میں چلا گیا۔عاقب حیرت کے مارے وہیں کھڑا رہ گیا۔”رحمان!میری بات تو سنو!“چھٹی کے وقت رحمان پہلی بار عاقب کے بغیر اپنے گھر جا رہا تھا تو پیچھے سے عاقب کی آواز آئی۔”تم جیسے دوست کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ،جاؤ یہاں سے!“رحمان نے چلا کر کہا اور قدم بڑھا دیے۔عاقب کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔”بیٹا!تمہاری بات ہوئی عاقب سے؟وہ میں تمہیں بتانا بھول گئی تھی کہ کل وہ تمہارے بارے میں پوچھنے آیا تھا اور تمہیں سوتا دیکھ کر واپس چلا گیا۔“”کیا واقعی؟“رحمان کا مارے شرمندگی سے منہ کھلا کا کھلارہ گیا۔اس نے غلط فہمی کی وجہ سے کتنا بڑا نقصان کر ڈالا تھا۔ " وہ کنجوس نہیں تھا - تحریر نمبر 1877,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/wo-kanjoos-nahi-tha-1877.html,"ثاقب فرید،جھنگتصور،ساجد اور ناصر تینوں گہرے دوست تھے۔ناصر دو مہینے پہلے ہی کالج میں آیا تھا۔تصور اور ساجد سے اس کی دوستی بھی ہو گئی تھی۔ناصر ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والا خوش اخلاق لڑکا تھا۔کلاس کے کسی طالب علم کو اس سے کوئی شکایت نہیں تھی،لیکن ساجد اور تصور اسے کنجوس کہتے تھے۔وہ دونوں اپنے زیادہ تر پیسے سموسوں،چنا چاٹ اور دوسری تلی ہوئی چیزیں کھانے میں لگا دیتے تھے۔ناصر ان کے ساتھ نہ جاتا۔یہی وجہ تھی کہ وہ ناصر کو کنجوس کہتے تھے۔یہی بات جب سر خالد صاحب کے سامنے ہوئی تو انھوں نے پیار سے انھیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ اس طرح کسی کا مذاق نہیں اُڑایا کرو۔ہو سکتا ہے کہ ناصر کی کوئی مجبوری ہو،اس لئے وہ آپ کے ساتھ نہ جاتا ہو۔(جاری ہے)ویسے بھی تلی ہوئی چیزیں صحت کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔وہ دونوں کھوج میں تھے کہ ناصر اپنی پاکٹ منی کہاں خرچ کرتا ہے؟تصور نے ساجد کے ساتھ مل کر پلان بنایا کہ پتا لگانا ہے ناصر اپنی جمع کی ہوئی رقم کا کیا کرتا ہے۔ایک دن چھٹی کے وقت تصور اور ساجد نے اپنی اپنی موٹر سائیکلیں کچھ فاصلے سے ناصر کی موٹر سائیکل کے پیچھے لگا دیں۔ناصر نے موٹر سائیکل ایک خستہ حال گھر کے باہر روکی اور گھر کے اندر داخل ہو گیا۔کچھ دیر بعد تصور اور ساجد بھی وہاں پہنچ گئے اور دروازے سے اندر جھانکنے لگے۔انھوں نے دیکھا کہ ایک چارپائی پر کوئی بیمار نوجوان اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ بیٹھا تھا اور دوسری پر ناصر بیٹھا تھا۔ناصر نے کھٹکا محسوس کرکے تصور اور ساجد کو بھی اندر بلا لیا۔بوڑھی عورت نے ساجد اور تصور کو بتایا کہ کچھ دنوں پہلے ایک حادثے میں بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ناصر میرے بیٹے کا دوست ہے۔ناصر گھر کے خرچ کے لئے کچھ پیسے دیتا ہے۔یہ سن کر دونوں کو ناصر پر فخر محسوس ہوا اور انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ بھی پیسے بچا کر ضرورت مندوں کی مدد کریں گے۔انھوں نے ناصر سے بھی معافی مانگی۔سر خالد کو ناصر کے بارے میں پتا چلا تو انھوں نے تینوں کی تعریف کی اور ان کے عزم کو سراہا۔ساتھ میں انھوں نے ناصر کو بھی سمجھایا کہ کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ کچھ کھا پی لینا چاہیے۔اب ناصر اور اس کے دوست کبھی کبھی باہر کی چیزیں بھی کھاتے اور غریبوں کی مدد بھی کرتے۔اب تصور اور ساجد اسے کنجوس نہیں،بلکہ اپنا عظیم دوست کہتے ہیں۔درد دل رکھنے والے لوگ عظیم ہی ہوتے ہیں۔ " نئے سال کا استقبال - تحریر نمبر 1876,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naye-saal-ka-istaqbaal-1876.html,"راحیلہ مغلپیارے بچو!نیا سال شروع ہو چکا ہے۔اس بار دنیا بھر میں نئے سال کا استقبال اس امید پر کیا جا رہا ہے کہ 2020ء میں کورونا کی وجہ سے زندگی جس طرح مفلوج ہو گئی تھی،2021ء میں بحال ہو جائے گی۔اللہ کرے ایسا ہی ہو اور یہ موذی وبا اس نئے سال میں قصہ پارینہ بن جائے۔نیا سال اگرچہ کیلنڈر بدلنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن انسانی زندگی پر اس کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ایک سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں اور ہر دن ایک نئی صبح کے ساتھ نئی امیدیں اور توقعات لے کر طلوع ہوتا ہے حالات ٹھیک ہوں تو یہ دن پلک جھپکتے ہی گزر جاتے ہیں،مشکلات درپیش ہوں تو ایک ایک دن پہاڑ بن جاتا ہے گزرے سال میں ایسا ہی ہوا۔کورونا نے زندگی کو گویا ایک بوجھ بنا دیا،جسے اتارنا عذاب بن گیا گزرے برس کے آخری ماہ اس لئے بھی مشکلات میں گزرے کہ کورونا ویکسین آنے کی تاریخ 2021ء میں دی جاتی رہی۔(جاری ہے)ہر شخص یہی دعا مانگتا رہا کہ وہ ویکسین اور نیا سال آنے تک اس وبا سے بچا رہے۔اب یہ نیا سال شروع ہو گیا ہے اور پوری انسانیت کی دعا ہے کہ یہ دنیا کے لئے خیر و عافیت کا سال ثابت ہو،معمول کی زندگی پھر لوٹ آئے،گہما گہمی اور شہروں کی چکا چوند فضا پھر سے بحال ہو جائے پیارے بچو:لاک ڈاؤن اور اسکولوں کی بندش کی وجہ سے آپ نئے تعلیمی سلسلے”آن لائن ایجوکیشن سسٹم“ سے روشناس ہوئے۔جس میں آپ نے کمپیوٹر،لیپ ٹاپ اور موبائل سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے تدریسی سلسلے کو جاری رکھا۔بغیر امتحان دیئے اگلی کلاس میں ترقی یقینا آپ کو پسند نہیں آئی ہو گی۔2021ء میں بھی اس مرض سے نجات نظر نہیں آرہی۔اب تو آپ بھی گھروں میں بیٹھے بیٹھے بے زار ہو گئے ہوں گے اور اسکول میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی یاد ستا رہی ہو گی۔آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ دنیا اور خاص کر ہمارے ملک کو اس وبا سے نجات دلائے تاکہ اسکول دوبارہ کھلیں اور آپ آن لائن کی بجائے اپنی کلاسوں میں تدریسی عمل شروع کر سکیں۔ " جھوٹ مت بولیں - تحریر نمبر 1875,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhoot-mat-bolain-1875.html,"محمد ساجدصبح کے آٹھ بجے کا وقت تھا ایک گھر کے باہر کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا آٹھ نو برس کا ایک لڑکا باہر کی طرف لپکا اس نے دروازہ کھولا سامنے اپنے پاپا کے دوست عدنان کو موجود پایا۔انہوں نے کہا:بیٹا!اپنے پاپا جان کو باہر بھیجنا ان سے ایک ضروری کام ہے۔وہ لڑکا گھر واپس ہوا اور اپنے پاپا جان کے روم میں گیا اور کہا پاپا جان!پاپا جان!باہر آپ کے دوست انکل عدنان آئے ہیں۔چند آوازوں کے بعد انہوں نے عدنان کا نام سنا اور کہا:جاؤ انہیں کہہ دو میں گھر پر نہیں ہوں۔مجھے ابھی اور سونا ہے یہ کہہ کر انہوں نے کروٹ بدل لی۔مگر پاپا جان آپ گھر پر ہیں اور یہ جو میں نے کہا ہے وہ کرو انہوں نے غصے سے کہا:مجبوراً اسد دروازے پر آیا اور کہا انکل پاپا جان گھر نہیں ہیں۔(جاری ہے)عدنان صاحب واپس چلے گئے مگر اسد کو سارا دن ملال رہا کہ اس کے والد نے جھوٹ بولا ہے اور اسے بھی جھوٹ بولنے میں مجبور کیا ہے۔وہ اپنے دادا ابو کے پاس گیا اور کہا دادا ابو آج یہ واقعہ پیش آیا ہے۔پاپا جان نے جھوٹ بولا ہے اور مجھے بھی ترغیب دی صرف نیند پوری کرنے کے لئے․․․․․!!!دادا ابو نے کہا بیٹا بات تو بری ہے یہ آپ کے پاپا جان کو سوچنا چاہئے تھا ہم مسلمان ہیں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھوٹ بولنے سے منع ہی نہیں کیا بلکہ لعنت بھی بھیجی ہے ہم سے تو انگریز اچھے ہیں جو جھوٹ نہیں بولتے جبکہ ہم مسلمان دن رات․․․․دادا جان انگریز تو عیسائی ہیں کیا جھوٹ بولنا انہیں بھی منع ہے؟بیٹا جی وہ بھی اہل کتاب ہیں اللہ نے سب کو جھوٹ بولنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔اچھا بیٹا رات کو سب کو یہ واقعہ سناؤں گا کہ انگریز جھوٹ سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔رات کو سبھی کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔کھانے کے بعد سبھی منتظر تھے کہ اسد کے دادا ابو کون سا واقعہ سنائیں گے۔پاکستان سے ایک طالب علم حصول تعلیم کے لئے برطانیہ گیا وہ ایک گھر میں پے انگسٹ کے طور پر ایک گھر میں ٹھہرا دادا ابو یہ پے انگسٹ کیا ہوتا ہے،عمر نے پوچھا۔بیٹا!جیسے لوگ ہوٹلوں میں رہتے ہیں اسی طرح ایک گھر میں ایک کمرے میں جو کرائے دار ہوتا وہ گھر والوں کے ساتھ گھریلو کھانا کھاتا ہے کوئی علیحدہ کھانا نہیں ہوتا۔ایک فرد کے لئے علیحدہ کمرہ نہ بھی ہو وہ ان کے بیٹے کے ساتھ بھی رہ سکتا ہے۔ایسے ہی ایک گھر میں وہ ٹھہرا۔میاں بیوی اور ایک چھ سات سال کا بچہ تھا۔اسے رہتے ہوئے کچھ ماہ ہو گئے تھے ایک دن میاں بیوی کو کہیں کام سے جانا تھا انہوں نے سٹوڈنٹ سے پوچھا کہ اسے کسی کام سے باہر تو نہیں جانا؟اس نے کہا نہیں مجھے باہر کوئی کام نہیں۔ہم اپنا بچہ آپ کے پاس چھوڑ جائیں۔؟اس نے رضا مندی ظاہر کر دی۔کیونکہ کیوٹ سا بچہ اس سے کافی مانوس تھا۔دونوں ایک ساتھ رہتے تھے۔کچھ دیر بعد وہ کھیلتا ہوا کچن میں چلا گیا وہ اپنے دھیان پڑھ رہا تھا کہ اچانک کوئی چیز ٹوٹنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی بچے کے چیخنے کی آواز آئی وہ جلدی سے کچن میں گیا دیکھا کہ پانی پینے والا شیشے کا گلاس بچے کے اردگرد ٹوٹا پڑا تھا اور پانی بھی بہہ رہا تھا جبکہ بچہ ایک طرف سہما کھڑا تھا۔اس نے بچے کو تسلی دی کہ پریشان مت ہو جب آپ کی والدہ واپس آئیں گی میں ان سے کہوں گا کہ گلاس مجھ سے ٹوٹا ہے۔اسی شام وہ بچہ اس سٹوڈنٹ کے پاس آیا وہ بہت افسردہ تھا اس نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا”انکل میں نے اپنی ماما کو سچ سچ بتا دیا ہے کہ گلاس مجھ سے ٹوٹا ہے مجھے اچھا نہیں لگا کہ میری غلطی آپ اپنے سر لیں اور سب سے بڑی بات مجھے جھوٹ بولنا اچھا نہیں لگا تھا۔اگلی صبح وہ سٹوڈنٹ یونیورسٹی جانے کی تیاری کر رہا تھا اس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی اس نے دروازہ کھولا سامنے اس کے بچے کی ماما کھڑی تھیں اس نے سب سے پہلے صبح بخیر کہا اور نہایت شائستگی سے کہا”کہ ہم آپ کو ایک نفیس اور شریف آدمی سمجھتے تھے مگر آپ نے ہمارے بچے کو جھوٹ کی ترغیب دیکر اپنا وقار خراب کر لیا ہے۔ہم نے آج تک اپنے بچے سے جھوٹ نہیں بولا اور نہ اسے جھوٹ بولنے کی ترغیب دی ہے۔لہٰذا ہم آپ کو ساتھ نہیں رکھ سکتے۔آپ مہربانی فرما کر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اپنی رہائش گاہ کا بندوبست کر لیں۔اس کے بعد سب نے دیکھا کہ اسد کے پاپا کا سر جھکا ہوا تھا اس نے کہا بھئی سوری آئندہ سے وعدہ جھوٹ نہیں بولوں گا۔مجھے نیند آرہی تھی اور میری طبیعت کچھ ناساز تھی۔اسد کے دادا ابو نے کہا”بیٹا ہم سب کو اپنا احتساب کرنا چاہیے کوئی گاہک ہو یا دوکاندار مالک ہو یا نوکر،کمپنی ورکر ہو یا مالک سکول ہو یا ٹیچر․․․․دن میں کئی بار جھوٹ بولتے ہیں اور اسے معمولی سمجھتے ہیں یاکسی کو بیوقوف بنانے کے لئے․․․․میں اللہ تعالیٰ سے بھی معافی مانگتا ہوں اسد کے پاپا نے کہا بہت اچھی بات ہے اس کا سہرا اسد کے سر جاتا ہے یہ مجھے نہ بتاتا اور نہ ہم سب کو احساس ہوتا۔سب بچوں سے گزارش ہے کہ وہ بھی جھوٹ مت بولیں۔ " سبز اور زیتونی۔۔۔کچھوے زندگی کی دوڑ ہار رہے ہیں - تحریر نمبر 1873,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sabz-aur-zeetoni-kachwe-zindagi-ki-dour-har-rahe-hain-1873.html,"سیدہ نازاں جبیںعمر اور فرمان آج بہت خوش تھے۔آج وہ اپنے والدین کے ساتھ ہاکس بے کے ساحل پر آئے ہوئے تھے۔شور مچاتی لہریں اور تاحد نگاہ پانی ہی پانی،ایک عجب سا سماں باندھ رہے تھے۔اچانک عمر کی نظر ایک چیز پر پڑی جو رینگتی ہوئی سمندر کی طرف بڑھ رہی تھی۔”مما!وہ دیکھیں․․․․․وہ کیا ہے؟“عمر نے حیرت سے پوچھا۔فرمان اور مما نے بھی فوراً اس طرف دیکھا،جہاں عمر نے اشارہ کیا تھا۔پاپا ان لوگوں سے آگے نکل گئے تھے، اس لئے انھوں نے نہیں سنا۔”بیٹا!وہ کچھوے کا بچہ ہے،جو انڈے سے نکل کر اب سمندر کی طرف جا رہا ہے۔“ممانے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”سمندر میں کچھوے بھی ہوتے ہیں کیا مما؟“11 سالہ عمر نے سوال کیا۔(جاری ہے)”ہاں بیٹا!یہ کچھوے ہمارے ماحول اور سمندروں کا ایک اہم حصہ ہیں،اگر یہ نہ ہوں تو سمندری حیات کے نظام میں بگاڑ پیدا ہو جائے۔“ مما نے جواب دیا۔”لیکن مما!یہ کچھوے تو بہت چھوٹے ہیں،یہ کیسے سمندر تک پہنچیں گے؟“13 سالہ فرمان نے فکرمند ہو کر پوچھا۔”یہ ایک دکھ بھری داستان ہے بیٹا!چلو سکون سے بیٹھ جاتے ہیں،پھر میں آپ کو”سبز اور زیتونی“کچھوؤں کے بارے میں بتاتی ہوں۔“ مما نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔پھر وہ تینوں ماں بیٹے وہیں ریت پر ایک جگہ بیٹھ گئے تو ان کی مما نے بتانا شروع کیا:”تم دونوں نے خرگوش اور کچھوے کی کہانی تو ضرور پڑھی ہو گی،جس میں کچھوا خرگوش سے ریس جیت لیتا ہے؟“مما نے کہانی سنانے سے پہلے دونوں سے سوال کیا۔”جی،جی پڑھی ہے۔“دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔”کچھوے نے وہ ریس تو جیت لی،مگر افسوس کہ اپنی زندگی کی دوڑ میں اسے شدید مشکلات کا سامنا ہے اور ان کی نسل ختم ہو جانے کا خطرہ ہے۔“مما نے اُداسی سے بتایا۔”لیکن کیوں مما؟کیسے؟“فرمان نے بھی فکر مندی سے پوچھا۔”دنیا میں سمندری کچھوؤں کی کل سات اقسام پائی جاتی ہیں،جن میں سے دو پاکستان کے ساحلوں پر اپنی نسل بڑھانے کے لئے آتے ہیں۔ان میں سبز کچھوا (Green Turtle) اور زیتونی کچھوا(Olive Ridley Turtle) شامل ہیں۔“مما نے جواب دیا۔سبز اور زیتونی․․․․․کتنے اچھے نام ہیں،یہ کس نے رکھے؟عمر نے دلچسپی سے پوچھا۔”سبز کچھوے،کچھوؤں کی واحد قسم ہے،جو سبزی خور ہوتے ہیں اور سمندر کی گھاس اور الجی (Algae) کھاتے ہیں،اسی وجہ سے ان کی جلد ہرے رنگ کی ہوتی ہے اور یہ ”سبز کچھوے“ کہلاتے ہیں۔زیتونی کچھوے کا خول زیتونی سبز ہوتا ہے،اس لئے اسے ”زیتونی کچھوا“ کہا جاتا ہے۔یہ چھوٹے سمندری جانور اور پودے دونوں کھاتے ہیں،کیونکہ یہ (Omnivore) ہوتے ہیں۔“مما نے مزید تفصیل سے بتایا:” یہ کچھوے انڈے دینے کے لئے ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے مختلف ممالک کے ساحلوں پر جاتے ہیں،جن میں پاکستان کے ساحل بھی شامل ہیں۔یہ یہاں ہر سال اگست سے دسمبر کے مہینوں میں آتے ہیں۔“”واقعی!یہ تو دلچسپ بات ہے۔“عمر نے کہا۔”دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سبز کچھوؤں کی مادہ جس ساحل پر پیدا ہوتی ہے،انڈے دینے کے لئے اسی ساحل پر لوٹ کر آتی ہے۔زیتونی کچھوؤں کی مادہ بڑے بڑے گروہوں کی شکل میں (ایک لاکھ کے لگ بھگ) ساحل پر آتی ہے اور اس عمل کو ”Arribada“ کہتے ہیں۔ یہ اسپینش لفظ ہے جس کا مطلب ہے پہنچنا۔“مما نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے مزید بتایا: انڈے دینے کے بعد مادہ کھچوا اس جگہ سے دور چلی جاتی ہے اور واپس پلٹ کر نہیں آتی ۔بچے خود ہی انڈوں سے نکلتے ہیں اور اپنی زندگی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔یہ انڈے سے نکلتے ہی سمندر کی طرف جاتے ہیں،لہٰذا اس سفر کے دوران زیادہ تر بچے مر جاتے ہیں!“ مما نے دکھ والی بات بتائی۔”وہ کیسے مما؟“فرمان نے پھر پوچھا۔”انڈوں سے نکلنے کے بعد جب یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف بڑھتے ہیں تو انھیں چیل،کوے کھا جاتے ہیں یا وہ آوارہ کتوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔“مما کی بات سن کر دونوں کو افسوس ہوا۔سبز اور زیتونی کچھوے خاص طور پر پاکستان کے ساحلوں پر آتے ہیں،مگر ان کی زندگی خطرے میں رہتی ہے۔اگر یہ اسی طرح مرتے رہے تو ایک دن آئے گا کہ ایک بھی کچھوا باقی نہیں رہے گا۔“مما نے حقیقت بتائی۔اتنے میں کسی نے پلاسٹک کی تھیلیاں سمندر کی طرف اُچھال دیں،جو اُڑتی ہوئی ان لوگوں تک آپہنچیں۔”ہماری عوام جگہ جگہ کچرا پھینکنے سے باز نہیں آتی ہے!“پاپا نے کہا جو ان کے پاس آگئے تھے۔”پاپا!ہماری سائنس کی ٹیچر پلاسٹک کی آلودگی کے بارے میں بتا رہی تھیں،یہ تھیلیاں نقصان دہ ہوتی ہیں؟“فرمان کے ذہن میں صحیح وقت پر سوال اُبھرا۔”پتا ہے،کچھوے کے بچے ساحل پر استعمال شدہ مچھلی کے جالوں اور پلاسٹک کی تھیلیوں میں پھنس جاتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اکثر کچھوے ان تھیلیوں کو جیلی فش سمجھ کر کھا جاتے ہیں،جس سے ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔“پاپا نے معلومات فراہم کیں۔”ہمیں بھی کچھوؤں اور ان کے بچوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔“مما نے بچوں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔”وہ کیسے؟“دونوں نے ایک ساتھ پوچھا۔”ساحل سمندر پر کسی طرح کا بھی کچرا نہ پھینکیں اور کچھوؤں کے بچوں کو سمندر تک پہنچنے میں مدد دیں۔اس طرح ان کی اموات میں کمی آسکتی ہے اور سبز اور زیتونی جیسے نایاب نسل کے کچھوؤں کو بچایا جا سکتا ہے۔“پاپا نے تجاویز پیش کیں اور دلوں کو چھو لینے والا ایک پیغام بھی دیا، جس پر سب کو عمل کرنے کی ضرورت ہے:”کچھوؤں کے بچوں کی حفاظت کریں،کیونکہ ان کی ماں ان کے ساتھ نہیں ہوتی ہے!“ " بڑا کام - تحریر نمبر 1871,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baraa-kaam-1871.html,"محمد حماد،کراچیمیرے گھر کے قریب ایک آٹو ورک شاپ تھی،جہاں ایک چھوٹا سا لڑکا کام کرتا تھا،جسے سب چھوٹو کہہ کر پکارتے تھے۔اس لڑکے کی عمر نو،دس سال ہو گی۔میں اپنے اسکول کے ساتھیوں کے ساتھ آتے جاتے اسے دیکھا کرتا تھا اور اپنے ساتھیوں سے کہتا کہ شکر ہے،میں یہ کام نہیں کرتا،ورنہ میرے کپڑے بھی اس کی طرح گندے ہوتے اور مجھے بھی ان گندے ٹائروں کو ہاتھ لگا کر کھولنا پڑتا۔وقت گزرتا گیا۔میں چھٹی سے میٹرک تک پہنچ گیا۔چھوٹو بھی اب کچھ بڑا ہو گیا تھا اور اب وہ زیادہ اعتماد سے کام کرتا تھا،مگر کپڑے اب بھی وہی میلے کچیلے ہوتے۔میں کبھی کبھار اس سے کہتا کہ تم اپنی زندگی برباد کر رہے ہو،کاش!تم بھی کچھ پڑھ لکھ لیتے اور ہماری طرح صاف ستھرے رہ کر معاشرے کا ایک اچھا فرد بنتے۔(جاری ہے)چھوٹو ہمیشہ جواب دیتا:”آدمی پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو،سب سے بڑی چیز انسانیت اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی ہے۔“بہت سارا وقت گزر گیا۔میں نے یونیورسٹی سے بڑی ڈگری حاصل کی۔امتیازی نمبروں سے پاس ہوا تھا،اس لئے مجھے ایک فرم میں بہت اچھی ملازمت مل گئی۔میرے والدین نے میری شادی کرا دی۔میری دو بیٹیاں ہوئیں۔میں اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتا تھا اور اکثر اس کا تذکرہ بھی کر دیتا تھا کہ علم نے مجھے نفع دیا اور آج میں اپنی تعلیم کی وجہ سے اپنے بچوں کی اچھی پرورش کر رہا ہوں۔ایک بار میں اپنی کار میں کہیں جا رہا تھا کہ اچانک پنکچر ہو گیا۔قریب ہی ایک آٹو ورک شاپ تھی۔میں گاڑی کو دھکا لگاتا ہوا وہاں تک پہنچا۔ اتفاق سے یہ ورک شاپ وہی تھی،جہاں کبھی چھوٹو کام کرتا تھا۔وہاں ایک کاریگر نے ٹائر کھولا۔ایک شخص پر نظر پڑی جو گیرج کا مالک لگ رہا تھا،مگر وہ بھی میلے کپڑوں میں تھا۔میں نے غور سے دیکھا۔یہ چھوٹو تھا اور اس سے زیادہ تعجب مجھے ان چند نوجوان کاریگروں پر ہوا جو کافی پڑھے لکھے اور مہذب لگ رہے تھے اور بہت ہی ادب سے بات کر رہے تھے۔میں قریب گیا اور چھوٹو کو سلام کیا۔وہ بھی مجھے پہچان گیا۔کچھ دیر بات ہوئی ۔پنکچر لگ چکا تھا۔میں چھوٹو سے رخصت ہوا اور جاتے ہوئے ان نوجوانوں کو بتایا:”اس ورک شاپ کا مالک چھوٹو میرا پرانا واقف کار ہے۔“ان میں سے ایک نے کہا:”جناب!چھوٹو نہ کہیں ہمیں اچھا نہیں لگتا۔آج جو ہم آپ کے سامنے ہیں تو ان ہی کی بدولت ہیں۔ہماری فیس، یونیفارم،کتابیں سب کا خرچ یہی اُٹھاتے ہیں۔ہمارے علاوہ کئی اور طالب علموں کا خرچ بھی اُٹھاتے ہیں۔یہ چھوٹو نہیں یہ تو ہمارے لئے رحمت کا فرشتہ ہیں۔“ان کی یہ بات سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں نے پڑھ لکھ کر بڑا کام کیا یا اس نے دوسروں کو پڑھا لکھا کر بڑا کام کیا۔ " اصل خوبصورتی۔آخری قسط - تحریر نمبر 1870,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/asaal-khoobsoorti-last-qist-1870.html,"شاہ بہرام انصاری”انہوں نے اس کے گالوں پر ہاتھ لگاتے ہوئے پوچھا۔“ہیں امی!کریم لگانے سے تو مجھے رنگ گورا ہونے کا فائدہ ہو رہا ہے اور آپ الٹا نقصان کا کہہ رہی ہیں۔”زارا حیرانی سے بولی تو امی اسے سمجھانے لگیں:”میری بیٹی!کہتے ہیں نا ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔اسی طرح کریم کے چند روز استعمال سے تمہیں اس کے جو فوائد نظر آرہے ہیں،کچھ عرصے بعد یہی نقصان دکھائی دیں گے۔جتنے دن تم اسے چہرے اور ہاتھوں پر لگاتی رہو گی،وہ صاف و سفید رہیں گے اور جب اس کے استعمال میں ناغہ ہو گا تو وہ تمہاری اصل رنگت کے برابر بھی نہیں اچھے لگیں گے۔چہرے کے موجودہ رنگ کو برقرار رکھنے کے لئے تمہیں کریم کے استعمال کو اپنی عادت بنانا پڑے گا اور اسے ہر روز مستقل لگانا ہو گا۔(جاری ہے)اگر تم نے اس کا باقاعدگی سے استعمال جاری نہ رکھا تو جلد دوبارہ پہلے جیسی ہو جائے گی۔“کریم کی ڈبی پر پانچ دن کے اندر نکھار والے الفاظ اسے امی کی باتیں ہضم نہیں ہونے دے رہے تھے لہٰذا وہ گڑبڑاتے لہجے میں پوچھنے لگی:”مگر امی!کریم کے اندر بڑی سی پرچی بھی ہے جس پر لکھا ہے کہ چند دن کے استعمال سے ہی چہرہ ہمیشہ کی طرح صاف اور چمکدار ہو جائے گا۔“اس کی بات پہ وہ مسکراتے ہوئے بولیں:”بیٹی!تم خود سوچو کیا ایسا ممکن ہے اور یہی نہیں ،ان گندی کریموں کے استعمال کے اور بھی بہت سارے نقصان ہیں۔سب سے پہلے انہیں خریدنے میں تمہارے ڈھیر سارے پیسے خرچ ہوں گے۔اس کے بعد ظاہر ہے جب کریم لگانے سے تمہاری رنگت میں تبدیلی آئے گی تو دیکھنے والا ہر کوئی سمجھ جائے گا کہ تم کچھ استعمال کر رہی ہو اور تم سے اس کے بارے میں پوچھے گا۔“زارا حیرت سے آنکھیں پھیلائے یہ سب باتیں سن رہی تھیں۔”امی!کیا واقعی ایک کریم لگانے کے اتنے سارے نقصانات برداشت کرنے ہوں گے؟“امی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولیں:”جی بیٹی جی!اور اس کا سب سے بڑا نقصان تمہاری جلد کو ہو گا۔تمہیں پتہ ہے ہر 28 دن بعد ہماری جلد دوبارہ بنتی ہے مگر یہ عمل اتنا سست ہوتا ہے کہ ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا۔اگر تم اپنی جلد کے قدرتی عمل اور رنگ کو ان بازاری کریموں سے نقصان پہنچاؤ گی تو زیادہ عرصے کے استعمال کے بعد تمہارا چہرہ خراب ہو جائے گا پھر وہ اپنی اصل رنگت اور لچک بھی کھو بیٹھے گا۔کریم لگانے سے تمہیں اپنے چہرے پہ جو سرخی دکھائی دے رہی ہے،دراصل یہ جلد پتلی ہو رہی ہوتی ہے۔ان تمام نقصانات کے علاوہ سب سے بڑی بات یہ کہ تم خود اپنے آپ سے مطمئن نہیں ہو گی یعنی تمہیں ہر وقت یہ احساس رہے گا کہ تمہارا یہ صاف اور گورا چہرہ قدرتی طور پر خوبصورت نہیں بلکہ ان کریموں کے استعمال کی بدولت ہے اور لوگ تمہاری ذاتی شخصیت کی نہیں ان کریموں کے کمال کی ہی تعریف کر رہے ہیں۔بس بیٹی!تم ظاہری خوبصورتی کی بجائے اپنے اندر کی خوبصورتی کی چاہ کرو۔اپنی خود اعتمادی،صلاحیتوں اور اچھے اخلاق و رویے سے لوگوں کو متاثر کرو اور ان کے دل جیتو۔تم نے سنا ہو گا کہ خوبصورتی تو ختم ہو جاتی ہے لیکن خوب سیرتی قبر تک جاتی ہے۔بس تم بھی صورت کی بجائے سیرت کو ترجیح دو۔چہرے اور جلد کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ہم باقاعدگی سے نہائیں اور پورے جسم کی صفائی کا خاص خیال رکھیں،یہی اصل خوبصورتی ہے۔اپنی جلد کو تم جتنا سادہ رکھو گی،وہ بڑھاپے تک اتنی ہی تروتازہ اور نرم و ملائم رہے گی پھر بھی میں تمہیں چند بے ضرر سادہ گھریلو ٹوٹکے بتاؤں گی جن میں صرف قدرتی اجزاء شامل ہوں گے۔اس سے تمہارا چہرہ روزمرہ کی گرد و غبار سے محفوظ رہے گا۔اس کے برعکس کریموں سے تمہارے چہرے پر دانے نکل آئیں گے جو بعد میں نشان چھوڑ جائیں گے۔پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرو اور تمام نمازیں پڑھو۔پانچ بار وضو کرنے سے تمہارا چہرہ خود بخود نکھر جائے گا۔اس کے ساتھ تمہیں اپنی خوراک کے لئے بھی صحت بخش غذائی اشیاء کا انتخاب کرنا ہو گا۔درحقیقت چہرے کی خوبصورتی اور جسم کی صحت مندی بھی اچھی خوراک اور ورزش کی مرہون منت ہے۔“امی کی باتیں غور سے سن کر زارا کہنے لگی:”امی!میں وعدہ کرتی ہوں کہ اب سے جلد کی خوبصورتی اور حفاظت کے لئے معیاری غذا،روزانہ کی ورزش،گھریلو نسخوں اور صفائی کو اپنا معمول بناؤں گی۔“امی اس کی سمجھداری پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بولیں:”شاباش بیٹی!اور اس کے ساتھ اپنے ذہن کو پریشانی اور فضول سوچوں سے دور رکھو تاکہ تم پوری طرح تازہ دم نظر آؤ۔ " اصل خوبصورتی۔پہلی قسط - تحریر نمبر 1869,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/asaal-khoobsoorti-pehli-qist-1869.html,"شاہ بہرام انصاری”امی!ذرا مجھے ستر روپے تو دیجیے گا۔“زارا امی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد جھانکتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔“کیا ہوا،بیٹی ،اتنی اچانک سے ستر روپے کی ضرورت کہاں سے پڑ گئی؟“تھوڑی دیر پہلے انہوں نے زارا کو ہفتہ وار جیب خرچ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ضرورت ہو تو کچھ پیسے اور لے لو جس پر اس نے انکار کر دیا تھا اس لئے وہ تھوڑا اچنبھے سے پوچھ رہی تھیں۔”وہ امی․․․․میں نے کریم منگوانی تھی جس کے لئے پورے ستر روپے کم ہو رہے ہیں۔جب آپ مجھے زیادہ پیسے دینے لگیں تھیں تو میں نے سمجھا تھا کہ پیسے پورے ہوں گے کیونکہ ابھی پچھلے ہفتے کے جیب خرچ میں سے کچھ رقم بچی ہوئی تھی بعد میں میں نے پرس سے نکال کر گنے تو نئے ملا کر بھی ستر روپے کم تھے۔(جاری ہے)آپ تو خود مجھے زیادہ پیسے رکھنے کا کہہ رہی تھیں اس لئے سوچا ابھی مانگ لیتی ہوں کیونکہ ڈبی میں جتنی کریم پڑی ہوئی ہے،وہ رات کو بھی پوری نہیں آئے گی۔“ان کے معمولی استفسار پر زارا نے پورے سیاق و سباق سے اپنا مدعا بیان کیا۔ادھر امی کا دھیان اس ساری تفصیل سے ہٹ کر صرف ایک لفظ”کریم“پر تھا۔انہیں بالکل پتہ نہیں تھا کہ زارا کوئی کریم وغیرہ استعما ل کر رہی ہے۔چند دنوں سے انہیں اس کی رنگت میں کچھ تبدیلی سی محسوس ہو رہی تھی جسے وہ سرد موسم کی آمد کی وجہ جان کر نظر انداز کر گئی تھیں۔نہ انہوں نے خود کبھی کریم استعما ل کی تھی،نہ زارا کے پاس اتنے پیسے ہوتے تھے کہ وہ مہنگی کریموں پر فضول میں خرچ کر سکے لہٰذا اس کی گنجائش نہیں رہتی تھی کہ اس پر کسی کریم کے استعمال کا شک کیا جائے۔ ویسے بھی ہفتے کے جیب خرچ سے بمشکل اس کے تعلیمی اخراجات ہی پورے ہوتے ہوں گے اس لئے اس بات کا امکان بھی نہیں تھا کہ وہ اس میں سے کچھ پیسے بچا کے رکھ لے۔”زارا بیٹی!کیا کہا تم نے،کیا تم کوئی کریم استعمال کر رہی ہو؟دراصل امی نے ایک بار اس سے پوچھ بھی لیا تھا کہ کہیں وہ چہرے پر کچھ لگا تو نہیں رہی جس پر وہ صاف مکر گئی تھی۔اسی لئے انہوں نے اس کو واضح بتا دینے کے باوجود تصدیق چاہی۔”جی جی امی!اس دن آپ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے جھوٹ بول دیا تھا کیونکہ میں ڈر رہی تھی کہ کہیں آپ مجھ سے ناراض نہ ہو جائیں۔”زارا سچ کہہ رہی تھی کیونکہ اس ڈر کے آثار فی الوقت اس کے لہجے سے بھی ظاہر ہو رہے تھے۔امی نے اسے اپنے کمرے میں جانے کو بولا اور کہا کہ وہ نماز پڑھ کر اسے پیسے دیتی ہیں۔زارا اپنے کمرے میں جا کر بے صبری سے ان کا انتظار کرنے لگی۔ادھر امی نماز سے فارغ ہو کر آٹا گوندھنے میں لگ گئیں۔اس دوران وہ سوچتی رہی کہ کتنی جلدی زارا اتنی بڑی بھی ہو گئی کہ اپنی خوبصورتی کا سامان کر رہی ہے۔خیر آٹا گوندھنے کے بعد وہ اسے ٹھہرنے کے لئے رکھ کر زارا کے کمرے کی جانب بڑھیں،وہ کمرے میں بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہل رہی تھی۔انہیں دیکھ کر اپنے بیڈ پہ بیٹھ گئی،وہ اس بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئیں۔ان کے ہاتھ میں پیسے نہیں تھے لہٰذا زارا ان سے پوچھنے لگی کہ امی نے خود اس سے پوچھ لیا۔ ”بیٹی!تم کب سے اور کس کے مشورے سے یہ کریم استعمال کرنے لگی ہو؟“ان کے انداز میں تاحال نرمی تھی۔”امی! وہ ہم پچھلے مہینے شادی پہ گئے تھے نا،وہاں صفیہ خالہ کی بیٹی آئی ہوئی تھی۔بڑی پیاری لگ رہی تھی بالکل سفید رنگت اور چہرے پر ایک بھی دانہ نہیں تھا۔میری تو اس سے نظر ہی نہیں ہٹ رہی تھی ،سچ میں بالکل چاند کی طرح چمک رہی تھی وہ میں نے اس کی تعریف کی تو بولی تم بھی فلاں کریم کا استعمال کرکے دیکھو،پندرہ دن کے اندر تم بھی میری طرح نظر آؤ گی۔بس اس کا مشورہ تھا اور دیکھا آپ نے واقعی صرف ایک ڈبی کے استعمال سے میرا چہرہ کتنا صاف ہو گیا ہے۔کچھ لگائے بغیر ہی لگتا ہے جیسے ہلکا ہلکا میک اپ کیا ہو۔“زارا اپنے چہرے پہ آئی ہلکی سرخی کی جانب اشارہ کرکے پرجوش ہو رہی تھی۔”بیٹا!صفیہ خالہ کی بیٹی نے تمہیں احمقانہ مشورہ دیا اور تم نے عمل بھی کر لیا۔مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا بلکہ الٹا مجھ سے جھوٹ بولا کیوں؟“امی اب اس سے ناراضگی کا اظہار کرنے لگی تھیں۔”امی مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں آپ مجھے غصے میں آکر ڈانٹ نہ دیں۔“زارا نے توجیہہ پیش کی۔“زارا بیٹا!تم نے چہرے کی محض ظاہری خوبصورتی کے لئے جلد کے کسی ماہر ڈاکٹر سے پوچھے بغیر کریم کا استعمال شروع کر دیا۔کیا تمہیں اندازہ ہے کہ اس کے نقصانات کیا ہوں گے؟“(جاری ہے) " بوڑھے آدمی نے محنت کا پھل کیسے پایا - تحریر نمبر 1868,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/borhe-admi-ne-mehnat-ka-phaal-kaise-paya-1868.html,"محمد علیم نظامیکسی جگہ پر دو بوڑھے آدمی رہتے تھے۔یہ بے چارے دونوں ایک جھونپڑی میں اس لئے رہتے تھے کہ بہت غریب تھے ان کی بیگمات اور بچے ان سے دور شہر میں رہتے تھے،روز روز کی لڑائی جھگڑے سے تنگ آکر ان دونوں بوڑھے آدمیوں نے اکٹھے رہنے کا فیصلہ کیا۔یہ دونوں اس لئے گھر سے جھونپڑی میں منتقل ہو گئے تھے تاکہ ان کا بڑھاپا تو آرام و سکون سے گزرے اور انہیں عمر کے آخری حصے میں کچھ تو اطمینان نصیب ہو۔یہ دونوں بوڑھے آدمی اس لئے بھی کوئی کام نہیں کرتے تھے کہ اس بڑھاپے میں اتنی سکت اور ہمت نہیں رکھتے تھے۔ایک دفعہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کی جگہ کے قریب مسجد سے یہ اعلان ہوا کہ کسی ماں باپ کا بچہ گم ہو گیا ہے اور جو کوئی اسے ڈھونڈ کر لائے گا اسے پچاس ہزار بطور انعام دیا جائے گا۔(جاری ہے)جب ان دونوں بوڑھے آدمیوں کے کانوں تک یہ اعلان پہنچا تو ان میں سے ایک نے بچہ ڈھونڈنے سے انکار کر دیا جبکہ دوسرے بوڑھے نے سوچا کہ اگر وہ بچہ ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا تو اس کے وارے نیارے ہو جائیں گے اور اسے اتنا بڑا انعام ملے گا کہ وہ اپنی باقی ساری زندگی سکھ چین سے گزار سکے گا۔چنانچہ اگلے روز بوڑھا آدمی خود ہی بچہ ڈھونڈنے میں شہر جانے کی جدوجہد کرنے لگا اور بچے کو جھونپڑی سے لے کر شہر تک ہر جگہ تلاش کرنے لگا۔اس دوران دوسرا بوڑھا آدمی جھونپڑی میں ہی رہا اور وہ سوچنے لگا کہ اگر اس کا دوست دوسرا بوڑھا آدمی اپنی کوشش میں کامیاب ہو گیا تو وہ اپنا نیا گھر بسا لے گا مگر اسے ناکامی سے دو چار ہونا پڑے گا۔دوسرا آدمی صبح سے لے کر شام تک بچے کو ڈھونڈنے میں لگا رہا اور بالآخر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا اور بالآخر بچہ اسے مل گیا۔وہ خوشی سے سرشار ہوا اور اس نے بچے کو گود لیا اور واپس اپنی جونپڑی میں آکر بچہ ماں باپ کے حوالے کیا۔بچے کے ماں باپ نے وعدہ کے مطابق 50 ہزار روپے کا چیک بوڑھے کو دیا۔ بوڑھے آدمی نے 50 ہزار روپے پا کر اتنی خوشی کا اظہار کیا کہ جس کا کوئی حساب نہیں تھا۔بوڑھا 50 ہزار روپے پا کر واپس جھونپڑی میں گیا جہاں اس نے دیکھا کہ بوڑھا آدمی لیٹا ہوا تھا اور غالباً اسے کوئی قتل کرکے چلا گیا۔جس آدمی نے انعام جیتا تھا وہ جھونپڑی سے نکل کر شہر کی طرف چلا گیا اور اس نے وہاں ایک گھر خریدا اور خوشی سے رہنے لگا۔بچو!اس طرح اُس نے محنت کی وجہ سے اپنی زندگی آسان بنا لی۔ " لذیذ کھیر - تحریر نمبر 1867,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lazeez-kheer-1867.html,"بنت محمد اقبالمیں اس وقت اپنی سہیلی ہادیہ کے گھر دعوت میں شریک تھی کہ میرے چھوٹے بھائی نے آکر آہستہ سے کچھ کہا۔”ارسلان!یہ کیسا مذاق ہے؟“میں نے اپنے بھائی ارسلان کو گھورتے ہوئے دانت پیسے۔”نہیں آپی،یہ مذاق نہیں ہے۔میں سچ کہہ رہا ہوں۔“ارسلان پُراعتماد لہجے میں بولا۔”اچھا!تو تمہیں کیسے پتا چلا؟“مجھے اب تک اس کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔”آپی!جب میں نے آپ کی بنائی ہوئی باقی کھیر فریج میں رکھنے سے پہلے چکھی تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ نے کھیر میں چینی کی بجائے نمک ڈال دیا ہے۔“وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر سرگوشی کے انداز میں بولا۔”اچھا ٹھیک ہے۔تم جاؤ اور کسی کو کچھ نہ بتانا۔“میں نے تاکیدی لہجے میں کہا تو ارسلان چلا گیا۔(جاری ہے)ہادیہ کا گھر میرے گھر کے سامنے ہی تھا۔ہادیہ نے یہ دعوت سالانہ امتحان میں پہلی پوزیشن لینے پر دی تھی۔اس دعوت میں میرے علاوہ ہماری دو اور سہیلیاں عافیہ اور سمیرا بھی مدعو تھیں۔چونکہ ہم تینوں بھی اچھے نمبروں سے پاس ہوئیں تھیں،اس لئے طے یہ پایا تھا کہ ہم بھی ایک ایک پکوان گھر سے بنا کر لائیں۔میں نے کھیر بنانے کی ٹھانی اور بنا بھی لی،لیکن شاید بجلی چلے جانے کی وجہ سے میں نے اس میں چینی کے بجائے نمک شامل کر دیا تھا۔اب جب ارسلان نے مجھے یہ اطلاع دی تو میری تو حالت خراب ہونے لگی۔مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر میری سہیلیوں نے میری بنائی ہوئی نمکین کھیر چکھ لی تو وہ تو ساری زندگی میرا مذاق اُڑائیں گی اور ہادیہ!اف اللہ! وہ تو اسکول،مدرسے اور محلے میں میری بدمزہ کھیر کا ڈھنڈورا پیٹ دے گی۔وہ ویسے تو بہت اچھی لڑکی ہے،لیکن عیب جوئی کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔یہاں تک کہ اپنے بہن بھائیوں تک کی پردہ پوشی نہیں کرتی۔ یہ سب سوچنے کے بعد میں نے ان سب کی نظر بچا کر کھیر اِدھر اُدھر کرنے کا فیصلہ کیا،لیکن افسوس!یہ ناممکن تھا،کیونکہ میں تھوڑی دیر پہلے ان کے سامنے اپنی”لذیذ کھیر“کی تعریفوں کے لمبے لمبے پل باندھ چکی تھی۔اب اگر میں ایسا ویسا کچھ کرتی تو سب محسوس کر لیتے۔”کیا ہوا عائشہ!یہاں کیوں کھڑی ہو؟“یہ ہادیہ کی آواز تھی۔”وہ،ویسے ہی۔“میں دھڑکتے دل کے ساتھ ہکلاتے ہوئے کہا۔”اچھا آؤ،کھانا لگ چکا ہے۔“اس نے کہا اور پھر ہم دونوں کھانے کی میز پر آگئے۔”بھئی!میں تو سب سے پہلے اپنی پسندیدہ ڈش،کھیر کھاؤں گی اور سب یہ بھی سن لیں کہ اگر کھیر مزے کی ہوئی تو ساری کی ساری میری ہو گی۔“کھانا شروع ہوتے ہی ہادیہ کے اس’اعلان‘نے میری دھڑکن بے ترتیب کر دی۔“”کیوں بھئی!کس خوشی میں؟“عافیہ نے ہاتھ نچا کر کہا تو ہادیہ بولی:”میرے اعزاز میں تم لوگ مجھے کوئی تحفہ تو دو گے نہیں۔اب اگر میں یہ کھیر تم لوگوں کی طرف سے تحفہ سمجھ کر رکھ لوں گی تو کیا بُرائی ہے؟اور ویسے بھی میٹھے میں تو اور بھی بہت کچھ یہاں موجود ہے۔“”اچھا بھئی !پہلے چکھ تو لو۔آخر عائشہ نے خود بنائی ہے۔ایسا نہ ہو کہ تم سے ایک چمچ بھی نہ نگلا جائے۔”سمیرا نے مجھ پر شوخی میں بجھا طنز کا تیر چلایا،لیکن اس وقت میں مسکرانے کے علاوہ کوئی جوابی کارروائی کرنے کے قابل نہ تھی۔”واہ بھئی!مزہ آگیا۔اتنی لذیذ کھیر!“ہادیہ کھیر کا ایک چمچ منہ میں ڈال کر خوشی سے اُچھلی۔”کیا بہت مزے کی ہے؟“میں نے بے یقینی سے پوچھا۔”بالکل!اور میری خواہش کے مطابق اب یہ ساری میری ہے۔“میں نے ،اتنا بڑا جھوٹ بولنے پر،ارسلان کی درگت بنانے کا فیصلہ کر لیا۔”ایسا کرتی ہوں،یہ کھیر فریج میں رکھ آتی ہوں۔بعد میں کھالوں گی۔“ہادیہ چہک کر بولی اور کھیر کا پیالہ لے کر باہر چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئی تو ہم سب خوشی خوشی دعوت کے مزے لینے لگے۔”ہادیہ!دراصل میں نے آج پہلی بار کھیر بنائی تھی،لیکن بنانے کے بعد جلدی میں چکھ نہ سکی۔میں نے سوچا کہ یہاں کھا لوں گی،لیکن یہاں تو معاملہ کچھ اور ہو گیا۔کیا تم مجھے اس کھیر میں سے چکھنے کے لئے تھوڑی سی دے دو گی؟“دعوت ختم ہونے کے بعد جب عافیہ اور سمیرا جا چکیں تو میں نے ہادیہ سے التجائیہ انداز میں کہا۔”ہاں!کیوں نہیں۔ضرور!“ہادیہ نے خندہ پیشانی سے کہا اور کھیر لینے چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ کھیر کا وہی پیالہ تھامے اندر آئی،جس میں میری بنائی ہوئی کھیر تھی۔اس نے بڑے پیالے سے تھوڑی سی کھیر چھوٹے پیالے میں ڈال کر چمچے کے ساتھ میری طرف بڑھا دی۔میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک چمچہ منہ میں ڈالا تو میرا منہ بن گیا۔یوں لگا جیسے کھیر کی جگہ کوئی کڑوی کسیلی دوا منہ میں ڈال لی ہو۔ہادیہ میری اس حالت سے محظوظ ہو رہی تھی۔میں نے مشکل سے کھیر نگلی اور ہادیہ سے پوچھا:”ہادیہ!کیا یہ وہی کھیر ہے،جو تم نے مزے لے لے کر کھائی تھی؟“”جی بالکل!یہ وہی کھیر ہے۔“ہادیہ مسکرائی،بلکہ کھلکھلا کر بولی۔”لیکن یہ سب تم نے کیوں کیا اور کھانے سے پہلے کھیر کیوں چکھی؟“”عائشہ!میں نے پردے کے پیچھے سے گزرتے ہوئے تمہاری اور ارسلان کی باتیں سن لی تھی۔میں نے سب تمہاری پردہ پوشی کے لئے کیا اور کھیر کھانے سے پہلے اس لئے چکھی،تاکہ تم سکون سے کھانا کھا سکو۔“”لیکن ہادیہ!آج سے پہلے تو تم نے میرا بلکہ کسی کا بھی کوئی عیب نہیں چھپایا۔پھر آج میرا ایک چھوٹا سا عیب چھپانے کے لئے تم نے یہ بدمزہ کھیر کیسے نگل لی؟“میرا سوال سن کر ہادیہ مسکرائی اور پھر بولی:”بھٹکا ہوا انسان جب چاہے سیدھے راستے پر آسکتا ہے۔اللہ نے مجھے نیک راہ دکھا دی ہے۔میں نے ایک فیصلہ اور بھی کیا ہے۔“”کیسا فیصلہ؟“”عائشہ!کہتے ہیں کہ اگر آپ نے کسی کو تکلیف دی ہو تو جب تک وہ معاف نہ کرے ،اللہ میاں معاف نہیں کرتے،اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جن لوگوں پر طنز کرکے میں نے ان کی دل آزاری کی ہے،میں ان سب سے معافی مانگوں گی۔“میں نے اس کے لہجے میں پکا عزم محسوس کرکے خوشی سے کہا:”یہ تو بہت اچھی بات ہے۔“میری بات سن کر وہ میرے ہاتھ تھام کر بولی:”تو پھر میں ابتدا تم سے کرتی ہوں۔عائشہ!اگر تمہارے کسی عیب کا چرچا کرنے سے تمہارا دل میری طرف سے میلا ہوا ہو تو مجھے معاف کر دو۔“ہادیہ کی بات ختم ہوتے ہی میں نے اسے گلے لگا لیا۔ " حقیقی خزانہ - تحریر نمبر 1866,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/haqeeqi-khazana-1866.html,"مریم شاہسہیل اور سعدیہ بہن بھائی تھے۔سہیل نویں جماعت میں تھا اور سعدیہ گیارہویں میں پڑھتی تھی۔سہیل خوابوں کی دنیا میں رہنے والا لڑکا تھا، جب کہ سعدیہ بہت سمجھدار لڑکی تھی۔سست مزاج سہیل اسی خیال میں رہتا تھا کہ کسی دن کوئی بزرگ یا کوئی پری کسی خزانے کا پتا اسے بتا دے گی اور وہ دنیا کا امیر ترین آدمی بن جائے گا۔ایک دن وہ بستے میں سے کتابیں نکال رہا تھا کہ ایک سنہرے رنگ کا پلاسٹک کا ایک چھوٹا سا گلدان نظر آیا،جس میں پھول کی جگہ ایک کاغذ اٹکا ہوا تھا۔وہ حیران تھا کہ یہ گلدان اس نے پہلے کہیں نہیں دیکھا۔اس نے کاغذ کھول کر دیکھا،لکھا تھا:”یہ بات ہمارے علم میں آئی ہے کہ آپ ایک خزانہ پانا چاہتے ہیں ،تاکہ آپ کی ساری مالی مشکلات حل ہو سکیں۔(جاری ہے)خزانہ ہر ایک کو نہیں ملتا،وہ صرف خاص لوگوں کو ملتا ہے۔اگر آپ ان خاص لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو اسی کاغذ پر ہاں لکھ کر اپنے گھر کے اسٹور روم میں رکھ دیں۔اُمید ہے کہ یہ سب ہمارے درمیان راز رہے گا۔“(پرستان)سہیل کو یقین نہیں آرہا تھاکہ یہ سب سچ ہے۔اس نے اسی کاغذ پر ”ہاں“ لکھ کر اپنے گھر کے اسٹور روم میں ایک کونے میں رکھ دیا۔سارا دن وہ اسٹور روم کو تکتا رہا۔اگلے دن اسکول جانے سے پہلے وہ بھاگ کر اسٹور روم میں گیا۔گلدان اسی طرح پڑا ہوا تھا۔کیا پرستان سے کوئی نہیں آیا؟اس نے مایوسی سے سوچا اور آگے بڑھ کر سنہرا گلدان اُٹھا لیا۔اس میں کاغذ اسی طرح تہہ کیا ہوا رکھا تھا۔اس نے کاغذ نکالا اور کھول کر دیکھا۔اگلے ہی لمحے وہ خوشی سے اُچھل پڑا تھا۔یہ کل والا کاغذ نہیں تھا۔یہ دوسرا کاغذ تھا جس پر دوسرا پیغام لکھا ہوا تھا:”ہاں“ لکھنے کا مطلب ہے کہ آپ خاص لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں،مگر’عام‘سے مختلف ہونے کے لئے کچھ شرائط پوری کرنا ضروری ہیں۔کیا آپ تیار ہیں ان شرائط کو ماننے کے لئے؟’ہاں‘یا ’نہیں‘اسی کاغذ پر لکھ کر گلدان اسی جگہ رکھیے۔“(پرستان)سہیل نے جلدی سے جیب سے قلم نکال کر ’ہاں‘لکھا۔کاغذ کو تہہ کیا اور گل دان اسی جگہ رکھ دیا۔سارا دن وہ انہی خیالوں میں ڈوبا رہا۔اگلے دن وہ پھر بھاگ کر اس کمرے میں گیا۔اس دفعہ’پرستان‘سے بھیجے گئے خط نے سہیل کو حیران کر دیا تھا۔خط میں لکھا تھا کہ اگر وہ خاص لوگوں میں شامل ہونا چاہتا ہے تو پہلی شرط یہ تھی کہ اسے محنت کرنا ہو گی۔پڑھائی میں دل لگانا ہو گا۔اگر اس نے ایک خاص حد سے زیادہ نمبر نہ لیے اور سارے نصاب کو دل و دماغ میں نہ بیٹھایا تو پرستان اس سے رابطہ کرنا بند کر دے گا اور یوں اسے خزانہ نہیں ملے گا۔سہیل شش و پنچ میں پڑ گیا تھا۔اسے پہلے ہی پڑھنا اچھا نہیں لگتا تھا اور اب پرستان نے پڑھائی میں محنت کرنے کی شرط رکھ دی ہے۔اگر بات صرف زیادہ نمبر لینے کی ہوتی تو وہ رٹا لگا کر ڈھیر سارے نمبر لا سکتا تھا ،مگر پرستان نے صاف طور پر لکھا تھا کہ صرف نمبر نہیں حاصل کرنے ،بلکہ دل و دماغ سے سمجھنا بھی ہے،یعنی علم کو صحیح معنوں میں حاصل کرنے کی بات تھی۔سارا دن سہیل اس بات پر سوچتا رہا۔اس نے سوچا کہ پرستان سے حاصل ہونے والا خزانہ خاص لوگوں کو ملتا ہے اور وہ کوئی معمولی خزانہ نہیں ہو سکتا اور نہ خزانہ حاصل کرنے والے لوگ معمولی ہو سکتے تھے۔اگر وہ دل لگا کر پڑھائی کرے تو نہ صرف اسے خزانہ ملے گا،بلکہ وہ پڑھائی سے فائدہ بھی حاصل کرے گا۔اس رات سہیل نے اسی کاغذ پر ’ہاں‘لکھا۔اب سہیل نے پڑھائی میں محنت کرنی تو شروع کی،مگر وہ تو محنت کرنے کا عادی ہی نہیں تھا۔اس کا سارا دن پڑھائی میں گزر جاتا۔کبھی کبھار تو وہ اپنے معمول سے تنگ آجاتا،کیونکہ اس نے کبھی اتنے ذوق و شوق سے نہیں پڑھا تھا۔خیر،دن گزرتے گئے۔اس دوران وہ ہر صبح اس کمرے میں رکھے سنہرے گلدان کے اندر جھانکنا نہ بھولتا۔کبھی کبھار اس کے لئے سنہرے گلدان کے اندر پرستان سے خط لکھا ہوا ملتا۔ جس میں اسے محنت کرنے پر شاباشی وغیرہ دی جاتی اور اس کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کچھ سطور لکھی ہوتیں۔اگر کبھی وہ پڑھنے میں ذرا سی کوتاہی برتتا تو اسے خط میں تنبیہ کی جاتی کہ اگر وہ خزانہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے پڑھائی میں لاپرواہی چھوڑنی پڑے گی۔(جاری ہے) " تالاب کا راجا - تحریر نمبر 1865,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/talab-ka-raja-1865.html,"میمونہ ارم مونشاہایک جنگل میں چھوٹا سا تالاب تھا،جس میں بہت سے مینڈک آپس میں ہنسی خوشی اور اتفاق سے رہتے تھے۔ایک بار ایسا ہوا کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے تمام درخت اور پودے مرجھانے لگے۔دور دور کے جنگلی جانوروں نے اپنی پیاس بجھانے کے لئے اس تالاب کا رُخ کیا۔آہستہ آہستہ تالاب کا پانی کم ہونے لگا اور بہت سے مینڈک ان بڑے جانوروں کے پاؤں کے نیچے آکر کچلے گئے ۔رہے سہے مینڈک اپنی جان بچانے کے لئے کسی اور جگہ جانے کا سوچ رہے تھے،مگر وہاں دور دور تک کوئی تالاب نہیں تھا۔ایک دن اس جنگل میں کسی کالج کے طالب علم پہنچے،جنھیں لیبارٹری میں تجربے کرنے کے لئے کچھ مینڈک چاہیے تھے۔انھیں دیکھ کر تالاب کے سارے مینڈک ڈر کے مارے چھپ گئے۔ایک بوڑھے مینڈک نے کہا:”ہم میں سے کچھ مینڈک ان لوگوں کے پاس جا کر ان سے مدد مانگتے ہیں،شاید یہ ہماری کچھ مدد کر سکیں۔(جاری ہے)“یہ سن کر باقی سب مینڈکوں نے احتجاج کیا کہ ان کی تعداد پہلے ہی بہت کم رہ گئی ہے،اگر مزید مینڈکوں کو بھی وہ اپنے ساتھ لے گئے تو جنگل میں تو ان کی نسل ہی ختم ہو جائے گی۔بوڑھے مینڈک نے کہا:”میری بات غور سے سنو۔میں بھی ساتھ جاؤں گا اور وہاں کسی سے مدد کی اپیل کروں گا کہ ہماری نسل بچانے میں ہماری مدد کریں۔ ویسے انسان اتنے بُرے بھی نہیں ہوتے،جتنا ہم نے انھیں سمجھ رکھا ہے۔انسانوں سے زیادہ تو جنگلی جانور خطرناک ہوتے ہیں،جنھوں نے ہمارے بہت سے مینڈکوں کو ہلاک کر دیا ہے۔“ان سب میں تین چار مینڈک بہت سمجھ دار تھے،انھوں نے کہا:”باقی سب کی سلامتی کے لئے ہم اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔“جیسے ہی جنگل میں وہ لوگ تالاب کے پاس آئے ،بوڑھا مینڈک ان کے سامنے گیا اور کہا:”تم لوگ کیا چاہتے ہو؟“”ہم ایک میڈیکل کالج کے طالب علم ہیں اور ہمیں تجربات کرنے کے لئے کچھ مینڈکوں کی ضرورت ہے۔“ایک طالب علم نے جواب دیا۔”ٹھیک ہے،لیکن اپنے ساتھیوں کے ساتھ میں بھی جاؤں گا۔مجھے تمہارے کالج کے پروفیسر سے کچھ بات کرنی ہے۔“ان لوگوں نے سب مینڈکوں کو شیشے کے بڑے جار میں ڈالا اور وہاں سے چلے گئے۔باقی رہ جانے والے مینڈک اپنے ساتھیوں کے لئے پریشان تھے وہ بوڑھے مینڈک کی کامیابی کے لئے دعا مانگنے لگے۔تجربہ گاہ میں جانے کے بعد انھوں نے بوڑھے مینڈک کو جار سے نکال کر پلیٹ میں رکھا اور پروفیسر کو بلانے چلے گئے۔پروفیسر نے آکر بوڑھے مینڈک سے پوچھا:”وہ اس سے کیوں ملنا چاہتا تھا؟“بوڑھے مینڈک نے آنسو بہانا شروع کر دیئے اور جنگل میں ہونے والے واقعات سے پروفیسر صاحب کو آگاہ کر دیا۔بوڑھے مینڈک کی بات سن کر پروفیسر صاحب کو دکھ ہوا۔انھوں نے کہا:”ٹھیک ہے میں تمہاری مدد کرنے کے لئے تیار ہوں۔مجھے پہلے جا کر پورے جنگل کا معائنہ کرنا ہو گا۔“یہ کہہ کر پروفیسر صاحب نے اپنے ایک شاگرد کو ان مینڈکوں کا خیال رکھنے کو کہا اور خود کچھ ساتھیوں کو لے کر جنگل کی طرف چلے گئے۔پورا دن گھومنے کے بعد ایک جگہ پر انھیں بڑا سا تالاب نظر آیا،جسے دیکھ کر وہ لوگ خوش ہوئے۔پروفیسر صاحب نے واپس آکر یہ خوش خبری بوڑھے مینڈک کو سنائی،پھر سارے مینڈکوں کو اپنے ساتھ لے کر تالاب پر چلے گئے۔وہاں جاکر بوڑھے مینڈک نے تالاب میں رہ جانے والے باقی ساتھیوں کو باہر بالایا اور کہا کہ پروفیسر کی مدد سے انھیں رہنے کے لئے بڑی اور اچھی جگہ مل گئی ہے۔سب مینڈکوں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان لوگوں کے ساتھ اس نئے تالاب پر چلے گئے۔”رکو بڑے میاں!“پروفیسر صاحب نے بوڑھے مینڈک سے کہا۔بوڑھا مینڈک پانی سے باہر آیا اور سوالیہ نظروں سے پروفیسر کو دیکھنے لگا۔پروفیسر نے اپنے ہاتھ میں پکڑا،جار کھولا اور اس میں رکھے اس کے باقی ساتھیوں کو بھی آزاد کر دیا۔بوڑھے مینڈک نے اس مہربانی کی وجہ پوچھی تو پروفیسر نے جواب دیا:”چونکہ تمہاری نسل ختم ہو رہی تھی اور ہم نہیں چاہتے کہ جس طرح بے شمار جانور دنیا سے ختم ہو گئے ہیں،تم بھی مٹ جاؤ ،اس لئے تمہیں تحفظ دینے کے لئے آزاد کر دیا ہے۔اب ہم کسی مینڈک کو پکڑنے یہاں نہیں آئیں گے۔“یہ سن کر بوڑھے مینڈک نے ایک بار پھر پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور پانی میں جا کر اپنے ساتھیوں سے کہا:”میں نے کہا تھا نا!انسان اتنے بُڑے بھی نہیں ہوتے جتنا ہم انہیں سمجھ لیتے ہیں۔“سب مینڈکوں نے بوڑھے مینڈک کی اس بات کی تائید کی اور اسے اپنا راجا بنا لیا اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔ " تھانگ شہزادی کی کہانی - تحریر نمبر 1864,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/thang-shehzadi-ki-kahani-1864.html,"تسنیم جعفریپرانے وقتوں کی بات ہے چین کے ایک شہر سے دو فرشتوں کا گزر ہوا۔راستے میں رات پڑ گئی اس لئے انہوں نے وہیں قیام کا ارادہ کیا اور ایک امیر آدمی کے دروازے پر دستک دی۔وہ امیر آدمی نہایت بد اخلاق اور کنجوس تھا،اس نے رات ٹھہرنے کی اجازت تو دے دی لیکن ان کو اپنے عالیشان مہمان خانے میں ٹھہرانے کے بجائے نیچے تہہ خانے میں ٹھہرایا جو بہت ٹھنڈا،تاریک اور بدبودار تھا۔گوکہ وہ جگہ ان کے شایان شان نہیں تھی لیکن مجبوراً وہ ٹھنڈے اور سخت فرش پر لیٹ گئے۔بزرگ فرشتے کو نیند نہیں آرہی تھی اس نے کروٹ لی تو نظر سامنے دیوار پر پڑی اس نے دیکھا دیوار میں ایک سوراخ ہے وہ فوراً اٹھا اور دیوار کی مرمت شروع کر دی تھوڑی کوشش اور محنت سے وہ دیوار کے سوراخ کو بند کرنے میں کامیاب ہو گیا جب چھوٹے فرشتے کی آنکھ کھلی تو وہ بزرگ فرشتے کا یہ کام دیکھ کر حیران رہ گیا اور پوچھے بنا نہیں رہ سکا:”اس بد دماغ شخص نے تو ہمارا ذرا لحاظ نہیں کیا․․․․․․اور آپ ہیں کہ اس کی ٹوٹی دیوار بھی مرمت کر دی؟“”برخوردار حقیقت وہ نہیں جو نظر آتی ہے!بزرگ فرشتے نے مختصر جواب دیا پھر وہ وہاں سے نکل کر آگے چل پڑے۔(جاری ہے)اگلے دن وہ ایک گاؤں پہنچے اور رات پڑنے پر وہیں قیام کا ارادہ کیا۔وہ ایک غریب کسان کے گھر گئے اور ان سے رات گزارنے کیلئے جگہ دینے کی درخواست کی۔کسان اور اس کی بیوی بہت خوش اخلاق،مہربان اور مہمان نواز تھے۔انہوں نے فوراً اپنے گھر کی سب سے اچھی جگہ ان کے سونے کیلئے خالی کردی اور جو کچھ بھی گھر میں موجود تھا کھانے کیلئے پیش کر دیا۔آرام دہ بستر پر انہوں نے بڑے سکون سے رات بسر کی صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ کسان کی اکلوتی گائے مری پڑی تھی،کسان اور اس کی بیوی اپنی گائے کے لئے رو رہے تھے جو ان کا کل اثاثہ تھی اس کا دودھ بیچ کر ہی گزر بسر ہوتی تھی۔چھوٹے فرشتے کو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔”آپ نے یہ سب کیوں ہونے دیا جبکہ آپ کو پتہ تھا کہ یہی ایک گائے ان کا کل اثاثہ تھی؟اس نے بزرگ فرشتے سے پوچھا۔حقیقت وہ نہیں جو نظر آتی ہے!“بزرگ نے صرف اتنا کہا اور وہاں سے نکل کر اپنی راہ پر چل پڑے۔بتایئے آپ نے ایسا کیوں کیا۔پہلا شخص جس کے پاس ہم ٹھہرے تھے وہ بہت امیر تھا پھر بھی آپ نے اس کی مدد کی اور اس کی ٹوٹی دیوار بنا دی جبکہ یہ کسان غریب تھا اور گائے کے علاوہ اس کا کوئی آسرا نہ تھا،اس نے اپنا سب کچھ ہمارے لئے پیش کر دیا پھر بھی آپ نے اس کی گائے کو مر جانے دیا؟چھوٹے فرشتے نے راستے میں پھر احتجاج کیا۔”حقیقت وہ نہیں جو نظر آتی ہے برخوردار۔!جب ہم امیر آدمی کے گھر ٹھہرے تھے تو میں نے دیکھا کہ تہہ خانے کی دیوار میں خزانہ دفن تھا جو اس سوراخ سے ظاہر ہو رہا تھا اور باہر آسکتا تھا،سوچو اگر امیر آدمی کو وہ خزانہ مل جاتا تو وہ اور زیادہ بد دماغ ہو جاتا۔اس لئے میں نے اس خزانے کا منہ بند کیا تھا۔پھر جب ہم غریب کسان کے گھر ٹھہرے تو میں نے دیکھا کہ وہاں موت کا فرشتہ آیا ہے جو کسان کی بیوی کی جان لینا چاہتا تھا میں نے اس سے التجا کی کہ وہ کسان کی بیوی کے بدلے اس گائے کی جان لے لے کیونکہ کسان اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے اور وہ اس کی ہر کام میں مدد کرتی ہے۔اس طرح میں نے کسان کو زیادہ بڑے صدمے سے بچایا۔“یہ حقیقت ہے کہ اکثر ہم جو دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ ویسا نہیں ہوتا،نظر بھی دھوکہ دے جاتی ہے جو کچھ بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ٹھیک ہو رہا ہوتا ہے لیکن ہم حقیقت کو سمجھ نہیں پاتے اور جلد بازی میں غلط نتیجہ نکال لیتے ہیں اگر ہم اس مقام پر تھوڑا سا صبر کر لیں تو ہمارا ہی فائدہ ہوتا ہے کیونکہ حقیقت خود بخود سامنے آجاتی ہے۔ " مالک کی پکڑ - تحریر نمبر 1863,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maalik-ki-pakar-1863.html,"رمشا جاویداوہو وہاب!تم کتنے ڈرپوک ہو۔دیکھ تو سہی اس نے تمہاری سائیکل کی چین توڑ دی ہے۔غریب بچوں میں تمیز کہاں ہوتی ہے۔تم اسے کم از کم ڈانٹ ہی دیتے۔“وقار خفگی سے بڑبڑاتا ہوا وہاب کے پیچھے گھر میں داخل ہوا۔اس کی آواز اتنی اونچی تھی کہ لان میں بیٹھی ردا آپی نے بھی سن لی۔وہ مذاق اُڑاتے ہوئے بولیں:”وہاب ضرور اس بچے کی بددعا سے ڈر گیا ہو گا۔“وہاب اور وقار دونوں بھائی تھے اور رِدا ان کی بڑی بہن تھی۔وہاب نے دونوں کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سائیکل ایک کنارے کھڑی کی اور چپ چاپ کمرے میں چلا گیا۔وقار،رِدا آپی کو کچھ دیر پہلے کی تمام روداد تفصیل سے سنانے لگا کہ کیسے وہ اسکول سے گھر آنے لگے تو راستے میں ایک کچرا چُننے والے بچے نے بغیر کسی وجہ کے وہاب کی سائیکل پر ڈنڈا مارا اور کس طرح وہاب ڈر کر وہاں سے بھاگ آیا کہ کہیں وہ بچہ اپنا ڈنڈا وہاب کے سر پر ہی نہ دے مارے۔(جاری ہے)”مجھے تو وہ بچہ تھوڑا پاگل سا لگا تھا۔“آخر میں وقار نے اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے کہا۔وقار بار بار وہاب کی نئی سائیکل اور بستے کی طرف دیکھ رہا تھا۔”وہاب بیٹا!اگر تم فارغ ہو تو دکان سے مجھے دہی لادو گے؟“وہاب اور وقار ٹیوشن پڑھ کر گھر آرہے تھے جب پڑوس میں رہنے والی ادھیڑ عمر خاتون نے اپنی کھڑکی سے وہاب کو آواز دی۔”جی آنٹی!میں بستہ رکھ کر آتا ہوں۔“وہاب نے فوراً ہامی بھر لی۔”کیا تم دو گھنٹے تک مسلسل پڑھائی سے تھکے نہیں؟“وقار نے منہ بنا کر پوچھا۔وہاب مسکرا دیا۔وقار جانتا تھا کہ اس سے کچھ کہنا فضول ہے۔پھر بھی وہ بولا:”تم بہت ڈرپوک ہو۔کیا ہوتا اگر تم انکار کر دیتے،لیکن نہیں تمہیں تو ڈر ہے کہ کہیں آنٹی بابا سے تمہاری شکایت نہ کر دیں۔“وہ بڑبڑاتے ہوئے سر جھٹک کر چابی سے دروازہ کھولنے لگا۔”اللہ اکبر․․․“بابا نے اچانک گاڑی روکی۔آگے بیٹھے دادا ابو نے اگر سیٹ بیلٹ نہ باندھی ہوتی تو ضرور ان کاسر بھی پیچھے بیٹھے وہاب کی طرح آگے کو ٹکراتا۔وہ تینوں کسی کام سے گھر سے نکلے تھے اور بڑی سڑک پر آتے ہی ایک رکشے والے نے غلط موڑ کاٹتے ہوئے اپنا رکشا بابا کی گاڑی سے ٹکرا دیا۔رکشا اُلٹ چکا تھا اور بابا کی گاڑی کا بھی نقصان ہوا تھا۔ان کی جانب کا شیشہ ٹوٹنے سے ہاتھوں اور پیروں پر چوٹ آئی تھی۔”ذوہیب!نیچے اُتر کر پکڑو اس رکشے والے کو۔یہ کوئی طریقہ ہے جب اور جہاں دل چاہا اپنا رکشا گھسا دیا۔دیکھو تو سہی تمہیں کتنی چوٹ آئی ہے۔“دادا ابو ایک دم غصے میں بابا سے بولے۔”جانے دیں ابو!اس بے چارے کا بھی تو نقصان ہوا ہے۔“بابا نرمی سے بولے۔”جی دادا ابو!کیا پتا وہ کسی پریشانی میں یا جلدی میں ہو۔ابو اس سے سختی سے پیش آئیں گے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو سکتے ہیں․․․․․اور بابا!پلیز پہلے اسپتال چلیں اور اپنی پٹی کروائیں،دیکھیں آپ کے ہاتھوں سے کتنا خون بہہ رہا ہے۔“وہاب نے پریشان ہو کر کہا۔”ارے تم دونوں باپ بیٹا ایک نمبر کے ڈرپوک ہو۔“دادا ابو تلملا کر گاڑی سے باہر نکلے۔لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہو چکا تھا۔”اللہ جانے،ابا اس غریب کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔“بابا پریشانی سے بولے۔اسی وقت ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر ذوہیب صاحب کو سہارا دے کر باہر نکالا۔اس کے ہاتھ میں کپڑے کی پٹی سی تھی۔لوگوں نے مل کر رکشا سیدھا کر دیا تھا۔اب وہ دونوں منتظر تھے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔وہاب نے دیکھا کہ دادا ابو نے رکشے والے کے کندھے کو شفقت سے تھپتھپایا۔وہاب مسکرا دیا۔اس نے سوچا،اب شاید دادا ابو رکشے والے کی مالی مدد کریں۔پٹی بندھواتے ہوئے ذوہیب صاحب نے پلٹ کر دیکھا۔دادا ابو اپنی جیب سے چند بڑے نوٹ نکال کر اس غریب رکشے والے کو تھما رہے تھے اور وہ عاجزی سے جھکا جا رہا تھا۔لوگ مطمئن لگ رہے تھے۔”میں نے خون بند کرنے کے لئے فوری طور پر پٹی باندھ دی ہے۔آپ قریبی اسپتال جا کر زخم صاف کروا کر پٹی کروا لیں۔“آدمی نے کہا۔اتنی دیر میں وہاب نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر شیشے کے ٹکڑے گاڑی سے نکال دیے تھے۔دادا واپس آگئے۔ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بولے:”شکر ہے،مجھے وقت پر یاد آگیا تھا کہ سب سے سخت پکڑ زبان کی ہوتی ہے۔بس یہی سوچ کر میں ڈر گیا کہ اگر مجھ سے زیادہ طاقتور مالک نے میری پکڑ کر لی تو کیا ہو گا۔“تینوں نے ایک ساتھ جھرجھری لی اور دادا ابو نے گاڑی کا رُخ قریبی اسپتال کی طرف کر دیا۔ " مل کر پاکستان بچائیں - تحریر نمبر 1862,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mill-kar-pakistan-bachayein-1862.html,"ریاض احمد جسٹساسلم مرزا صاحب!اور اپنے ابا جان کی روزانہ ہونے والی گفتگو کو ڈائری میں لکھ دیا کرتا تھا۔اُسے وہ سب یاد تھا کہ کس طرح مرزا صاحب اور ابا جان کی بیٹھک ہوا کرتی تھی کبھی تحریک آزادی پاکستان کی باتیں اور کبھی ماضی کے شاعروں کے قصے اُسے گزرے دنوں کا لمحہ لمحہ ازبر تھا۔آج بھی وہ اُن گزرے لمحات کی کتاب کا ورق ورق کھولتا ہے تو اُسے اپنے ابا جان اور مرز اصاحب کی ہر بات سنائی دینے لگتی تھی۔وہ کیسے بھول سکتا تھا کہ ابا جان نماز مغرب کے بعد ہمیشہ چھت پر مرزا صاحب کے آنے کا انتظار کرنے بیٹھ جایا کرتے تھے کبھی کرسیوں کو صاف کرتے تو کبھی میز پر رکھی کتابوں کو صاف کرنے لگ جاتے تھے۔مرزا صاحب کیلئے حقے کا پانی بار بار تبدیل کرتے تھے کیونکہ مرزا صاحب کی عادت تھی کہ وہ کچے گھڑے کے پانی میں رات کو گڑ ڈال دیتے اس طرح پانی میٹھا ہو جاتا تھا اور حقہ پینے میں مرزا صاحب کو بہت مزہ آتا تھا۔(جاری ہے)اسلم جوں جوں سوچتا گیا وہ واقعات اور حالات کی گہرائیوں میں اُترتا چلا گیا۔ایک دن ابا جان نے بے چینی سے اسلم کو آواز دی کہ کہیں دروازہ تو بند نہیں کہ دروازہ بند دیکھ کر مرزا صاحب واپس نہ چلے جائیں تو اسلم نے بتایا کہ مرزا صاحب آگئے ہیں۔مرزا صاحب کی بغل میں کتابیں اور ہاتھ میں چھڑی تھی۔اسلم اُن کے ہاتھ پکڑ کر سیڑھیوں کے راستے چھت پر لے کر آگیا۔ابا جان نے مرزا صاحب کو آرام دہ کرسی پر بیٹھا دیا اور مرزا صاحب کے ہاتھوں میں حقے کی نالی پکڑا دی اور ساتھ میں اِدھر اُدھر کی باتیں بھی شروع کر دیں۔حقے کے ”گڑگڑ“ کی آوازیں آنے لگی تھیں۔مرزا صاحب نے تھوڑا کھانستے ہوئے دبی آواز میں پوچھا میاں شوکت !آج حقے کا پانی کیا کہیں اور سے منگوا لیا ہے؟میاں شوکت نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ پانی تو اپنے گھر کا ہی ہے مگر آج حقہ تازہ کرتے کرتے دل نے بزرگوں کو یاد کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔مرزا صاحب نے کہا ہم اُن سب کو کیسے بھول سکتے ہیں جنہوں نے اپنے گھر بار اور پیاروں کی پرواہ کئے بغیر اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر ہمیں آزادی کی ہر نعمت عطا کی۔اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے پاکستان کو ہمیشہ سلامت رکھے۔اسلم کو یہ بھی یاد تھا کہ ابا جان اور مرزا صاحب کے ساتھ دادا ابو بھی کبھی کبھی شامل ہو کر محفل کو اور خوشگوار بنا دیا کرتے تھے۔وہ تحریک آزادی کے حوالہ سے بچوں کو بڑے پیار سے بتایا کرتے تھے۔ایک شام کو اسلم جب گھر میں داخل ہوا تو حویلی چراغوں کی روشنی میں جگمگا رہی تھی۔اسلم نے پوچھا کہ آج یہ حویلی میں چراغاں کیوں کیا گیا ہے تو دادا جان نے کہا آج 25 دسمبر ہے ہمارے قائداعظم کا یوم ولادت ۔یہ چراغوں کی روشنیاں قائداعظم کی ولادت کے دن کے حوالہ سے ہمیں خوشیاں مہیا کر رہی ہیں۔ابا جان اور مرزا صاحب کے چہروں پر بھی خوشیاں رقص کر رہی تھیں دادا جان نے اسلم کے چھوٹے بہن بھائیوں کو اپنے پاس بیٹھا لیا اور کہا آج ہم سب مل کر بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی ولادت کی سالگرہ کا کیک کاٹیں گے۔تھوڑی دیر بعد باقی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا ہر مہمان خوش اور شاداں دکھائی دے رہا تھا۔اسلم کے چھوٹے بہن بھائیوں نے قومی ترانہ سنایا اور بزرگوں نے اپنے محبوب قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کا کیک کاٹ کر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا۔کیک کٹتے ہی حویلی تالیوں سے گونج اُٹھی۔دادا جان بہت خوش تھے کہ اچانک رو پڑے تو ابا جان نے پوچھا بابا کیا ہوا تو انہوں نے جواب دیا ہم پاکستان میں قائد کا زیادہ عرصہ ساتھ نہ دیکھ سکے اُن کی جدائی تڑپا رہی ہے۔دادا جان نے سب مہمانوں کو کہا کہ وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھ جائیں تاکہ آرام سے وطن عزیز کی سلامتی اور ترقی کیلئے دعا کر سکیں۔دعا کے بعد اسلم کے بہن بھائیوں نے پوچھا دادا جان قائداعظم کے کتنے بہن بھائی تھے؟تو دادا جان نے بتایا قائداعظم کا نام محمد علی جناح ہے اُن کے دوسرے بھائی احمد علی جناح اور تیسرے بچو بائی تھے اور بہنوں میں رحمت بائی،مریم بائی ،شیریں بائی اور فاطمہ بائی(جو بعد میں فاطمہ جناح کے نام سے پہچانی جاتی ہیں)تھیں۔قائداعظم کے والد کا نام جناح پونجا تھا جو چمڑے کا کاروبار کرتے تھے اور والدہ کا نام مٹھی بائی تھا۔قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ء بروز اتوار اسلامی تاریخ 8 ذوالحجہ 1293ھ کو وزیر مینشن چھانگلہ سٹریٹ کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے قرآن مجید پڑھا اور سولہ برس کی عمر میں مشن ہائی سکول کراچی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان تشریف لے گئے جب آپ انگلستان پہنچے تو وہاں گائیڈ سے قانون کی تعلیم دینے والی درسگاہوں کی معلومات حاصل کیں جب آپ وہاں کی مشہور درس گاہ لنکن ان پہنچے تو اُس کے در و دیوار پر کچھ نگار کنندہ پائے نوجوان محمد علی اُن کو سمجھ نہ سکے۔اُن کے پوچھنے پر گائیڈ نے بتایا کہ یہ فرسکو ہے اور اس میں دنیا کو بڑے بڑے قانون عطا کرنے والوں کے نام نگار کئے گئے ہیں۔محمد علی نے پوچھا کہ سب سے اوپر کس کا نام درج ہے تو گائیڈ نے بتایا کہ سب سے اوپر جن قانون دان کا نام ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں چنانچہ آپ نے فوری اُسی درس گاہ میں تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔تعلیم مکمل کی واپس آئے وکالت کی اور پھر تحریک آزادی کی باگ ڈور سنبھالی۔مسلمانوں کے لئے الگ وطن کی خاطر دن رات محنت کی جب قائداعظم نے 1935ء میں مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی تو مادر ملت فاطمہ جناح بھی سیاست میں فعال ہو گئیں۔انہوں نے مسلمان خواتین کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا۔انہوں نے خواتین سے کہا کہ وہ اپنے اندر نظم و ضبط پیدا کریں کیونکہ اُن کے تعاون کے بغیر پاکستان کا قیام ممکن نہیں۔پاکستان کا قیام عمل میں آگیا تو حضرت قائداعظم نے فرمایا پاکستان کا آئین قرآن مجید ہو گا میں نے ترجمہ کے ساتھ قرآن پڑھا ہے۔میرا پختہ یقین ہے کہ قرآن سے بڑھ کر کوئی اور آئین نہیں ہو سکتا میں نے مسلمانوں کا سپاہی بن کر پاکستان کی یہ جنگ جیتی ہے۔علماء قرآن کے عین مطابق پاکستان کا آئین تیار کریں۔ابا جان نے کہا ہم یہ سب کس طرح بھول سکتے ہیں۔میاں شوکت نے مرزا صاحب سے کہا آج ہمارے عظیم قائد کا یوم پیدائش ہے۔یہ دن ہمیں ہمارے عظیم رہنما کی یاد دلاتا ہے۔مرزا صاحب نے جواب دیتے ہوئے کہا مجھے ابھی تک یاد ہے قائداعظم نے لاہور میں طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تعمیر پاکستان کی راہ میں مصیبتوں اور دشواریوں کو دیکھ کر گھبرائیے نہیں تازہ جوان اور نئی اقوام کی تاریخ میں کئی ابو اب ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ انہوں نے محض قوت ارادی،عمل اور کردار سے خود کو بلند کر لیا۔آپ خود بھی فولادی قوت کے مالک ہیں اور عزم و ارادے میں آپ بے مثال ہیں ۔مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ آپ دوسروں کی طرح اور اپنے اباؤ اجداد کی طرح کامیاب نہ ہوں۔آپ کو صرف مجاہدوں کاسا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔آپ ایک ایسی قوم ہیں جس کی تاریخ شجاعت،بلند کردار اور آہنی ارادوں کے لوگوں اور کارناموں سے بھری پڑی ہے،اپنی شاندار روایات کے مطابق زندہ رئیے بلکہ ان میں عزم و ہمت کے ایک اور باب کا اضافہ کیجئے اور طالب علم خصوصی طور پر اپنی تعلیم پر دھیان دیں۔اپنے آپ کو عمل کے لئے تیار کریں یہ آپ کا فریضہ ہے۔آپ کی تعلیم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آپ دور حاضر کی سیاست کا مطالعہ کریں اگر آپ نے خود کو تعلیم یافتہ نہ بنایا تو نہ صرف آپ پیچھے رہ جائیں گے بلکہ خدانخواستہ ختم ہو جائیں گے۔سچ کہا مرزا صاحب آپ نے قائداعظم کی باتیں تو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں انہی باتوں کو ہم تازہ کرنے کے لئے بیٹھے ہیں۔اسلم بیٹا تم کس سوچ میں گم ہو گئے ہو مرزا صاحب کو چاہئے تو ڈال کر دو۔اس کے بعد مرزا صاحب سے ان کا تازہ کلام سننا ہے مرزا صاحب کا کلام سن کر تحریک آزادی کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ۔اسلام بیٹا تمہارے بزرگوں نے اس پاک وطن کے حصول کے لئے خون پسینہ ایک کر دیا۔تب جا کر ہمیں آزادی کی ہر نعمت ملی ہے۔اسلم وہ سب باتیں یاد کرکے بہت اداس ہو جاتا تھا ابا اور مرزا صاحب کی بیٹھک اور ساری باتیں اور اس کا وہ ڈائری لکھنا سب یاد تھا۔اس دن بھی ابا جان اور مرزا صاحب کی بیٹھک جاری تھی مرزا صاحب نے ابھی اپنا کلام سنانا شروع ہی کیا تھا کہ ریڈیو پر یہ اعلان نشر ہوا کہ پاکستان کے دو ٹکڑے کر دئیے گئے ہیں۔یہ خبر سن کر مرزا صاحب پھوٹ پھوٹ کر خون کے آنسو رو دیئے۔مرزا صاحب نے کہا آج مجھے انگریز پروفیسر کی کہی وہ بات یاد آگئی ہے جس نے اپنی کتاب میں قائداعظم کے بارہ میں کچھ یوں کہا تھا کہ کچھ رہنما سرحدیں تبدیل کر دیتے ہیں کچھ قوم کو بیدار کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں یہ کہہ کر مرزا صاحب نے ایک لمبی آہ بھری اور اپنا سر میز پر رکھ دیا اور ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئے۔میاں شوکت نے کہا کہ ہم قائداعظم کو کیا منہ دکھائیں گے۔قائداعظم کے دیئے ہوئے پاکستان کے ہم نے دو ٹکڑے کر دیئے ہم سے ایک ملک بھی سنبھالا نہ گیا․․․آگے ملک کیسے چلے گا؟اسلم نے قائداعظم کی تصویر کی طرف دیکھ کر کہا ہم بچے کھچے پاکستان کی حفاظت کریں گے۔پاکستان کی خدمت کے لئے ہماری زندگی وقف ہے۔نوجوانو!اٹھو اقبال کا شاہین بنو اور آگے بڑھو تب جا کر قائداعظم کی روح کو سکون ملے گا۔پاکستان زندہ باد " طاہر،ایک ذہین لڑکا - تحریر نمبر 1861,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tahir-aik-zaheen-larka-1861.html,"محمد علیم نظامیپیارے بچو!آپ نے اکثر لاہور شہر کے کئی چھوٹے بڑے علاقوں میں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ان میں گڑھے پڑے دیکھے ہوں گے۔ایسی چیزیں انسانی زندگی کے لئے خطرناک ہوتی ہیں۔خاص طور پر جو بچے صبح سویرے اپنی وین یا بس پر سکول جاتے ہیں اور جب ان کی وین یا بس ان گڑھوں پر سے گزرتی ہے تو بچے ہچکولے کھاتے ہیں اور اپنی نشستوں سے اُچھل کر ایک دوسرے کے اُوپر گرتے ہیں۔ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک غریب گھرانے کا بچہ جس کا نام طاہر تھا وہ بھی اپنی وین پر سکول جا رہا تھا۔جب اس کی وین سکول سے چند قدموں کے فاصلے پر رہ گئی تو اچانک طاہر کی وین ایک گہرے کھڈے میں جا گری اور اس وین میں سوار تمام بچے خوفزدہ ہو کر چیخیں مارنے لگے۔آس پاس کے لوگوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو وہاں جتنے بھی لوگ تھے سب وین کی طرف بھاگے تاکہ ممکنہ حادثہ سے بچوں کو بچایا جائے۔(جاری ہے)چنانچہ سبھی لوگوں نے وین کے دروازے کو توڑ کر اس کے اندر گرے پڑے بچوں کو باہر نکالنا شروع کیا۔خوش قسمتی سے طاہر وہ واحد بچہ تھا جو کسی بڑی یا گہری چوٹ سے محفوظ تھا باقی تمام لڑکوں کو چوٹیں آئی تھیں۔طاہر نے ان لوگوں کو کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے۔وہ بھی آپ لوگوں کی مدد کرے گا اور زخمی بچوں کو وین سے باہر نکالنے اور انہیں ابتدائی طبی امداد دینے کے لئے ان کے ساتھ کسی قریبی ڈاکٹر کے پاس جائے گا۔لوگ طاہر کی اس ذہانت سے بہت خوش ہوئے۔چنانچہ طاہر نے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر زخمی بچوں کو وین سے باہر نکالنا شروع کیا تقریباً ایک گھنٹے کے اندر اندر تمام بچے وین سے باہر تھے۔خوش قسمتی سے کسی بھی بچے کو زیادہ گہری چوٹ نہیں آئی تھی۔طاہر نے ایک دو بچوں کو اپنے کندھے پر بیٹھا کر پاس سے گزرنے والی وین میں زخمی بچوں کو سوار کیا اور ڈاکٹر کے پاس لے گیا اسی طرح کرتے کرتے طاہر نے کئی بچوں کو کلینک پہنچایا۔جبکہ دوسرے افراد بھی طاہر کی طرح بچوں کی مدد کر رہے تھے۔جب تمام زخمی بچے ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئے تو ڈاکٹر نے طاہر کو جو کہ خاص طور پر پریشان تھا کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔سب بچے خیریت سے ہیں بس کسی کسی بچے کو معمولی چوٹ آئی ہے میں ابھی مرہم پٹی کر دیتا ہوں۔ یوں ڈاکٹر صاحب نے تمام زخمی بچوں کا علاج کیا اور انہیں مرہم پٹی کرکے گھر بھیج دیا اور کم از کم تین دن تک گھر پر آرام کرنے کو کہا اور پھر سکول جانے کی اجازت دی۔ یوں طاہر کی ذہانت اور دوسرے لوگوں کے بروقت بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے سے کوئی بڑا حادثہ پیش نہ آیا اور یوں تمام خوشی خوشی اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ " ذہانت - تحریر نمبر 1859,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zehanat-1859.html,"ساجد کمبوہصدیوں پرانی بات ہے ملک یمن پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔بادشاہ رحمدل اور انصاف پسند تھا۔اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتا تھا پڑوسی ملکوں سے اچھے تعلقات تھے وہ جنگ و جدل سے بھی پرہیز کرتا تھا۔بادشاہ کی طرح شہزادے بھی رعایا کا بہت خیال رکھتے تھے۔ایک دن ملکہ کا ہیرے جواہرات اور قیمتی موتیوں والا ہار گم ہو گیا محل کے داروغے نے بہت کوشش کی ہار مل جائے مگر ہار نہ ملا اس نے انعام کا اعلان بھی کیا مگر کسی نے بھی اتنا قیمتی ہار واپس نہ کیا آخرکار معاملہ بادشاہ تک پہنچا اس نے دربار میں اعلان کیا کہ ہمیں اپنے نوکروں،خدمتگاروں پر بھروسہ ہے مگر افسوس ان میں سے کسی نے نمک حرامی کی ہے اور ہار واپس کرنے پر تیار نہیں کوئی ایسا ذہین آدمی چاہئے جو ہمیں ہار ڈھونڈ کر دے ہم اسے مالا مال کر دیں گے بہت سے لوگ آئے انہوں نے نوکروں،خادموں سے پوچھ گچھ کی مگر کوئی بھی ہار واپس کرنے پر تیار نہ ہوا۔(جاری ہے)ایک دن دربار لگا ہوا تھا ایک آدمی ایک گدھا پکڑے دربار میں آیا۔بادشاہ سلامت یہ جادوئی گدھا ہے یہ آپ کا ہار ڈھونڈ کر دے گا۔ابو ذر نے کہا مگر کیسے؟بادشاہ نے حیرانگی سے پوچھا۔وہ ایسے بادشاہ سلامت!سب نوکر،خادم،خاد مائیں باری باری اس کی دم کو ہاتھ لگائیں گی جونہی ہار چرانے والا ہاتھ لگائے گا یہ ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگے گا۔سارے درباری حیران ہو گئے انہوں نے کہا ہمیں ہار سے غرض ہے۔ابو ذر نے دو خیمے لگانے کا کہا ایک خیمے میں گدھا باندھ دیا اور دوسرے خیمے میں بادشاہ کے ساتھ بیٹھ گیا۔اب سب نوکروں،خادموں کو حکم دیا کہ وہ گدھے کی دم کوہاتھ لگانے کے بعد اس خیمے سے ہوتے ہوئے باہر کو جائیں،سب باری باری گدھے والے خیمے سے ہوتے ہوئے گدھے کی دم کو ہاتھ لگاتے دوسرے خیمے میں داخل ہوتے گئے۔ابو ذر سلام کے بہانے اُن کے ہاتھوں کو سونگھتا اور باہر جانے کی اجازت دیتا۔نوکر خادم آتے گئے اور اُن کے ہاتھ سونگھتے انہیں باہر جانے کی اجازت دیتا جا رہا تھا کہ اچانک ایک خادم کو پکڑا اور بادشاہ سے کہا بادشاہ سلامت یہ آپ کا چور ہے اس نے ملکہ صاحبہ کا ہار چرایا ہے۔جب بادشاہ نے اس کی طرف دیکھا وہ بادشاہ کے قدموں میں گر پڑا۔بادشاہ سلامت مجھے معاف کر دیں میں لالچ میں پڑ گیا تھا میں ابھی ہار واپس کرتا ہوں۔بادشاہ نے اسے ہار لانے کا حکم دیا اور ابو ذر سے پوچھا تم نے بڑی آسانی سے چور پکڑ لیا۔یہ کیسے ممکن ہے؟کیا گدھے نے تیری مدد کی؟ابو ذر نے مسکراتے ہوئے کہا بادشاہ سلامت میرے گدھے میں کوئی کوالٹی نہیں گدھا تو گدھا ہوتا ہے میں نے اس کی دم پر تیز خوشبو لگائی تھی اور مشہور کیا تھا کہ چور دم کو ہاتھ لگائے گا وہ بولنے لگے گا۔باقی سب نے گدھے کی دم کو ہاتھ لگایا چونکہ یہ چور تھا اس نے ہاتھ نہیں لگایا نہ اس کے ہاتھ پر خوشبو لگی۔پس میں نے پہچان لیا یہی چور ہے اتنے میں وہ نوکر ہار لے آیا اس نے بادشاہ کو دیا۔بادشاہ نے حسب وعدہ ابو ذر کو ڈھیروں انعام دیا۔ " کیمرہ - تحریر نمبر 1858,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/camera-1858.html,"محمد جاوید بروہیسائنس دانوں نے بے شمار چیزیں ایجاد کی ہیں ان میں ایک سائنس کی حیرت انگیز ایجاد کیمرہ بھی ہے کیمرے اور فوٹو گرافی کا اصول سب سے پہلے مسلمان سائنسدان ابن الہیشم نے معلوم کیا تھا۔سب سے پہلا ”پن ہول کیمرہ“ انہوں نے ہی بنایا تھا پہلا پن ہول کیمرہ دسویں صدی میں ایجاد ہوا تھا عام طور پر فرانس کے باشندے جوزف نیپکے کو کیمرے کا موجد کہا جاتا ہے اس نے 1826ء میں کیمرہ بنایا اور اس میں جدت پیدا کی اور اس پر بہت کام کیا اس نے بچومن کی تہہ رکھنے والی پیوٹر پلیٹ (Pewter plate) کو ”کیمرہ آسکیورا“میں پیچھے رکھ کر اپنی پہلی کامیاب فوٹو گراف بنائی بعد میں اس نے طریقہ کار کو بدلا پیوٹر کی جگہ تانبے کی پلیٹیں اور ان پر بچومن کی جگہ سلور کلورائیڈ کی تہیں استعمال کیں۔(جاری ہے)1839ء میں لوئیس ڈیگرے نے اس میں مزید اصلاح کی جس کا نام اس نے ”ڈیگر یو ٹائپ“ رکھا کیمرے کی ایجاد کے بعد سائنس کی تحقیق کی راہیں کھل گئیں۔تصاویر سے ماضی کی یادیں تازہ ہوئیں ہیں اور ماضی میں ہوتے واقعات کے بارے میں پتہ چلتا ہے فوٹو گرافی یونانی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہیں Painting by Lighting (روشنی سے پینٹنگ)دیگر ایجادات کی طرح کیمرے میں بھی اور لوگ ملوث رہے ہیں انہوں نے کیمرے پر کافی تحقیق کیں اور مختلف قسم کے کیمرے ایجاد کئے کوڈک کیمرہ امریکہ کے ایسٹ مین واکر نے 1881ء میں ایجاد کیا یہ پہلا پورٹیبل کیمرہ تھا ایسٹ مین نے ایک جملہ وضع کیا”آپ صرف بٹن دبائیں باقی سب کچھ ہم کریں گے“۔کیمرے میں شیشے کی پلیٹیں پہلی مرتبہ 1851ء میں استعمال کی گئیں۔کیمرے کی ساخت میں جدت آگئی ہے۔نت نئے کیمرے بنائے جا رہے ہیں آٹو میٹک کیمرہ آئن اسٹائٹ اور کیسٹویکی نے 1939ء میں ایجاد کیا۔پہلا ڈیجیٹل کیمرہ اسٹینون نے 1975ء میں بنایا۔پہلا رنگین ڈیجیٹل کیمرہ ایپل کمپنی نے لانچ کیا رنگین فوٹو گرافی کا موجد لپ مین تھا رنگین فوٹو گرافی سب سے پہلے فرانس میں 1891ء کو نظر آئی تین رنگی فوٹو سب سے پہلے فرانس میں 1904ء کو منظر عام پر آئی اس کا موجد لومینری تھا۔فوٹو گرافی کا کاغذ بائیک لینڈ نے ایجاد کیا۔یولارڈ کیمرہ ایڈون لینڈ نے 1947ء میں ایجاد کیا اس کا تعلق امریکہ سے تھا انڈرس فوٹو گرافی Edgerton نے تخلیق کی کیمرہ بڑے کام کی چیز ہے۔سامنگ جاپان نے پہلو کیمرے والا موبائل فون نومبر 2000ء میں لانچ کیا نیگیٹو عکس ولیم ہنری فاکس ٹالبوٹ نے انگلینڈ میں ایجاد کیا۔ " آزادی انہیں بھی چاہیے - تحریر نمبر 1855,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azaadi-inhain-bhi-chahiye-1855.html,"روبینہ طاہرجانوروں سے مجھے بے انتہا محبت ہے،اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ میرے پاس بلبل،کوئل،مینا،طوطا اور بہت سے پرندے ہیں۔امی،ابو مجھے ہمیشہ سمجھاتے ہیں کہ بیٹا!پرندوں کو قید میں نہ رکھو کیونکہ یہ آزاد فضا کے باسی ہیں،انہیں قید میں رکھنے سے تمہیں گناہ ہو گا۔”مگر ابو میں تو ان کا بہت خیال رکھتی ہوں،ان کو ہر طرح کے پھل کھلاتی ہوں،سردیوں میں ان کی حفاظت کے لئے میں نے ان کے پنجرے میں بلب بھی لگا رکھے ہیں۔انہیں(پرندوں)تو خوش ہونا چاہئے،بھلا جنگل میں کوئی ان کا اتنا خیال رکھتا ہے؟“ابو میری بات سن کر ہمیشہ کی طرح مسکرا دیتے (شاید وہ سمجھتے تھے کہ میں نادان ہوں،جب ہی ایسی باتیں کرتی ہوں)حالانکہ ابو کو کیا پتا کہ میں ان پرندوں سے کتنا پیار کرتی ہوں،مگر ان کو آزاد کردوں،یہ میرے لئے بہت مشکل تھا۔(جاری ہے)ایک دن امی،ابو شادی کی تقریب میں گئے ہوئے تھے،میں اس وجہ سے نہیں گئی کیونکہ کل میرا پیپر تھا۔امی،ابو کے جانے کے بعد میں نے پرندوں کو دانہ ڈالا اور امتحان کی تیاری کے لئے کمرے میں دروازہ بند کرکے بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر میں مجھے پیاس محسوس ہوئی،میں نے دروازہ کھول کے پانی پینے کے لئے جانا چاہا․․․․․مگر یہ کیا؟ دروازہ تو لاک ہو چکا تھا۔مگر کیسے؟شاید میں نے دروازے کو جھٹکے سے تیزی سے بند کیا تھا مگر اب کیا کروں۔امی،ابو تو رات نو بجے سے پہلے نہیں آئیں گے اور ابھی تو ساڑھے سات بجے ہیں،میں بہت پریشان ہوئی۔پھر سوچا روشندان سے کسی کو آواز دی جائے،شاید کوئی آس پڑوس کا سن لے اور مدد کو آجائے مگر روشندان بہت اونچا تھا۔بس اب ایک ہی راستہ تھا کہ امی،ابو کا انتظار کیا جائے۔وقت تھا کہ گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔اب مجھے احساس ہوا کہ ابھی ہم جو تھوڑی دیر کو ایک کمرے میں قید ہو گئے ہیں تو کتنا ہلکان و پریشان ہو رہے ہیں حالانکہ مجھے تو بس تھوڑی دیر کے لئے بغیر کسی تکلیف اور پریشانی کے اپنے ابو امی کا انتظار کرنا تھا،اس کے علاوہ کوئی مسئلہ نہ تھا اور یہ پرندے ،جن کو ہم نے کب سے قید کر رکھا ہے ان کا بھی تو دل چاہتا ہو گا کہ یہ آزاد ہو جائیں،جس طرح کہ اس وقت ہمارا دل تڑپ رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کمرے کی قید سے آزاد ہو جائیں،ان پرندوں کا بھی دل چاہتا ہو گا کہ وہ اپنے ہم جولیوں میں رہیں،آزاد فضا میں خوشی سے اُڑ سکیں۔بس اس واقعے نے ہماری سوچ بدل دی۔اتنے میں گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔ابو آئے تو ہم اس قید سے آزاد ہوئے اور ہم نے ابو کو بتایا کہ کل ہم تمام پرندوں کو آزاد کر دیں گے۔امی نے کہا۔”ابھی کیوں نہیں؟“ہم نے کہا۔”امی جان!ابھی بہت رات ہو گئی ہے،میں نے ان کو ابھی چھوڑ دیا تو ان کو اپنی منزل ڈھونڈنے میں دشواری ہو گی۔“صبح کے وقت ان کو اچھی طرح دانہ پانی ڈال کر اور جی بھر کر دیکھ کر میں ان کو رخصت کر دوں گی۔ابو میری بات سن کر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کہا۔”واقعی تم پرندوں سے بہت محبت کرتی ہو اور یقینا آج کے بعد یہ تم سے بھی بہت محبت کریں گے جب وہ خود کو آزاد فضا میں پائیں گے کیونکہ آزادی انہیں بھی چاہیے۔“ " بڑوں کی نصیحت - تحریر نمبر 1854,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baroon-ki-naseehat-1854.html,"قرة العین فاروق”سویرا!میں نے تمہیں آج اسکول آتے دیکھا تو ہنسی نکل گئی۔کیا تم آج بھی اپنی دادی کے ساتھ اسکول آتی ہو،میرا مطلب ہے کہ اب ہم میٹرک میں آگئے ہیں،اب تو اکیلی اسکول آیا کرو۔“فرحانہ نے کہا۔”ہاں!میں اپنی دادی اور کبھی کبھی دادا کے ساتھ اسکول آتی ہوں۔تمہیں کیا مسئلہ ہے،میری مما کہتی ہیں کہ ہم جتنے بھی بڑے ہو جائیں، اپنے والدین کیلئے بچے ہی رہیں گے۔“سویرا نے فرحانہ کو جواب دیا اور غصے میں اس کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی۔”اسے کیا ہوا؟“فرحانہ نے حیرت سے کلاس کی لڑکیوں سے پوچھا۔”ہمیں کیا پتا؟‘ایک لڑکی نے جواب دیا اور سب اپنا اپنا لنچ کرنے لگیں۔لنچ ٹائم ختم ہوا،تب تک سویرا کا موڈ خراب تھا۔(جاری ہے)چھٹی کے وقت اس کے دادا اسے لینے آئے۔وہ گھر پہنچی تو اس کی امی کو بھی سویرا کا موڈ ٹھیک نہیں لگا۔جب سب کھانا کھا چکے تو سویرا نے خود اپنی امی اور دادی کو ساری بات بتائی ،جو اس کے اور فرحانہ کے درمیان ہوئی تھی۔”یہ فرحانہ کون ہے،میں نے پہلے تو کبھی آپ کے منہ سے یہ نام نہیں سنا۔“”مما!ہماری کلاس میں نئی لڑکی آئی ہے۔“سویرا نے جواب دیا۔”بیٹی!فرحانہ یا دوسری لڑکیاں آپ سے جو بولتی ہیں،انہیں بولنے دو۔ہمیں آپ عزیز ہیں،ہم آپ کو اکیلے کہیں نہیں جانے دے سکتے۔ زمانہ پہلے بھی خراب تھا اور اب بھی خراب ہے۔آپ کے ساتھ کسی کا جانا آپ کیلئے ہی بہتر ہے،اس طرح آپ حفاظت میں رہیں گی اور ہمیں بھی تسلی رہے گی۔“سویرا کی دادی نے کہا۔”بیٹی دادی جان ٹھیک کہہ رہی ہیں،بچے والدین کو بہت عزیز ہوتے ہیں اور جو لڑکی آپ سے اس طرح کہہ رہی ہے آپ اسے سمجھائیں کہ کسی بڑے کے ساتھ اسکول آنے میں کوئی برائی نہیں بلکہ بھلائی ہے۔“”جی دادی جان اور مما،فرحانہ یا کسی بھی لڑکی نے آئندہ ایسی کوئی بات کہی تو میں اسے یہی جواب دوں گی۔“سویرا نے کہا۔کچھ دن گزرے تھے کہ فرحانہ چھٹی کے بعد تھوڑا دیر سے اسکول سے پیدل گھر جانے لگی،اس کے گھر کے راستے میں سویرا کا گھر پڑتا تھا۔ سویرا کا گھر اسکول سے نزدیک ہی تھا مگر وہ پھر بھی کسی بڑے کے ساتھ اسکول پیدل آتی تھی۔فرحانہ کو راستے میں عجیب سے حلیے میں ایک عورت اور مرد نظر آئے،پہلے تو اس نے خاص نوٹس نہ کیا،وہ فرحانہ سے چند قدم کے فاصلے پر ان کے پیچھے چلنے لگے۔تھوڑی دیر گزری تھی کہ فرحانہ کو ان سے ڈر لگنے لگا،اس نے سوچا کہ اگلی سنسان گلی میں مڑنے سے بہتر ہے کہ رش والی سڑک سے جایا جائے۔وہ بہت خوف زدہ ہو رہی تھی کہ اس انجان عورت نے پیچھے سے آواز دے کر اسے روکنے کو کہا۔فرحانہ نے اس کی آواز سنی اَن سنی کر دی اور تیز تیز قدم اٹھانے لگی بلکہ بھاگنے لگی۔اس کے پیچھے ان دونوں مرد و عورت کے قدم بھی تیز ہونے لگے۔اب فرحانہ کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ کیا کرے ،کیسے ان سے پیچھا چھڑائیے۔گلی کے نکڑ پر سویرا کا گھر تھا پھر رش والی سڑک شروع ہوتی تھی۔اس رش والی سڑک سے اس کے گھر کا راستہ بہت لمبا پڑتا، اس نے فوراً سویرا کے گھر جانے کا سوچا بلکہ سوچا کیا،اس کے قدم خود بخود سویرا کے گھر کی طرف اٹھ گئے۔وہاں پہنچ کر اس نے دروازہ زور زور سے کھٹکھٹانا شروع کر دیا،ساتھ ہی گھر کی گھنٹی پر تو جیسے ہاتھ رکھ کے بھول گئی اور اونچا اونچا بولنے لگی کہ جلدی دروازہ کھولو،میرے پیچھے کچھ لوگ پڑے ہیں،جلدی کھولو دروازہ۔سویرا کچھ دیر پہلے ہی اسکول سے اپنی دادی کے ساتھ گھر آئی تھی۔اس کے گھر والے اچانک اس طرح سے دروازہ پیٹنے اور گھنٹی کی آواز سے گھبرا کر دروازے کی طرف بھاگے اور دروازے کے قریب پہنچ کر فرحانہ کی آوازوں سے اور پریشان ہو گئے اور جھٹ دروازہ کھول دیا۔دوسری طرف وہ مشکوک مرد اور عورت فرحانہ کو اس طرح دروازہ بجاتے دیکھ کر بھاگ گئے۔اندر سے جلدی سے سویرا کے سارے گھر والے نکل آئے اور سویرا کا بڑا بھائی دروازے کے پاس پڑا ڈنڈا اٹھا لایا کہ یہ کون اس طرح سے دوپہر میں دروازے پر دستک پہ دستک دیئے جا رہا ہے۔آیا واقعی مدد کیلئے پکار رہا ہے یا فراڈیئے تو نہیں آگئے۔دروازہ کھولتے ہی فرحانہ نے سویرا کو آواز دی۔”امی یہ وہی فرحانہ ہے،جس کا میں نے آپ کو کچھ دن پہلے بتایا تھا۔“سویرا نے کہا۔”بیٹی اسے اندر تو آنے دو،دیکھو کیسی سہمی کھڑی ہے۔“اندر آکر فرحانہ ،سویرا کی امی کے گلے لگ کر رونے لگی اور جو ابھی اس کے ساتھ واقعہ پیش آیا تھا،وہ سب کو بتایا۔وہ سویرا سے بہت شرمندہ ہو رہی تھی کہ کچھ دن پہلے اس نے کیسے سویرا کا کسی بڑے کے ساتھ اسکول آنے پر مذاق بنایا تھا۔”چلو بیٹی میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ کر آتی ہوں۔تمہارے گھر والے انتظار کرتے ہوں گے۔“سویرا کی دادی نے کہا۔”میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔“سویرا کی امی نے کہا اور پھر دونوں فرحانہ کو اس کے گھر چھوڑنے گئیں اور اس کے گھر والوں کو سمجھایا کہ اپنے بچوں کو ایسے اکیلے کہیں جانے نہ دیا کریں بلکہ بلاوجہ گھر سے نہ نکلنے دیں،چاہے کسی دوست یا رشتے دار کے گھر یا قریبی دکان پر بچوں کو جانا ہو تو ان کے ساتھ کسی نہ کسی بڑے کا ہونا ضروری ہے،اگر گھر میں دو تین بہن ،بھائی ہیں اور کہیں ضروری جانا ہو تو مل کر جائیں۔سویرا کی امی اور دادی کی باتیں سن کر فرحانہ نے توبہ کی کہ آئندہ وہ کسی کا بھی بلاوجہ مذاق نہیں اُڑائے گی اور کبھی کسی کو اُلٹا سیدھا مشورہ نہیں دے گی۔ " ہرن کی نصیحت - تحریر نمبر 1853,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hiran-ki-nasehat-1853.html,"ایک جنگل میں گھنے درختوں کے درمیان ایک ہرنی اور اس کا بہت پیارا بچہ رہا کرتے تھے۔ہرنی کا بچہ ابھی بہت چھوٹا تھا اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا بھی نہ آیا تھا کہ اس کی ماں نے اسے جنگل میں رہنے کے طریقے سمجھانے شروع کر دیئے۔ہرنی کو خود بھی پتہ نہ تھا کہ وہ اپنے بچے کے بڑے ہونے تک اس کے ساتھ رہ سکے گی یا نہیں۔ہر وقت شکاری بندوقیں اور جال لیے ہرن کی تلاش میں جنگل میں پھرتے رہتے تھے ۔شیر،چیتے اور دوسرے درندوں کا خطرہ الگ پریشان رکھتا تھا۔ہرنی بس ذرا سی آہٹ پر اُٹھ دوڑتی۔وہ اپنے ٹھکانے سے زیادہ دور نہیں جا سکتی تھی کیونکہ اسے اپنے ننھے منے بچے کی فکر لگی رہتی۔ننھا ہرن خطرے کے وقت سہم اور سمٹ تو جاتا مگر ابھی اس میں اتنی طاقت نہیں آئی تھی کہ ماں کے پیچھے پیچھے اپنی جان بچانے کے لئے بھی دوڑ پڑے۔(جاری ہے)ایسے میں ہرنی اسے اونچے اونچے پودوں اور جھاڑیوں میں چھپ جانے کا اشارہ کرتی اور خود جست لگا کر شکاری کی پہنچ سے دور نکل جاتی۔ہرنی کو بڑی شدت سے اس دن کا انتظار تھا جب ننھا ہرن اتنا بڑا ہو جائے گا کہ اس کے ساتھ سیر کرنے جنگل میں نہر کے کنارے جا سکے گا۔کچھ عرصے بعد ننھا ہرن اپنی ماں کے پیچھے پیچھے جنگل میں دور تک چلا جاتا۔وہ دیر تک کھلے آسمان تلے دھوپ میں بیٹھے رہتے یا نہر کے کنارے گھاس چرتے رہتا۔ماں نے اپنے بچے کو جست بھرنا اور اونچی اونچی گھاس میں دم سادہ کر چھپنا سکھا دیا تھا،ہرنی اپنے بچے کو جان بچانے کے سارے گُر ایک ایک کرکے سکھا رہی تھی۔ایک دن ہرنی نے اپنے بچے کو پیار کرتے ہوئے کہا۔ننھے مجھے نہیں معلوم کب میرا تیرا ساتھ چھوٹ جائے۔یوں تو جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو تم خود الگ راستہ اختیار کر لو گے اور تمہاری حفاظت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہو گی،لیکن ہو سکتا ہے اس سے پہلے ہی کوئی مصیبت مجھے تم سے الگ کر دے۔بچہ ماں کی باتیں بڑی غور سے سنا کرتا۔ماں اسے سمجھاتی۔جہاں بھی خطر ہ ہوتا ہے دل کو فوراً کھٹک ہو جاتی ہے۔پس ہمیشہ دل کی آواز پر دھیان دینا۔کان کھڑے رکھنا اور جان بچانے کے لئے بھاگتے وقت بند اور تنگ راستوں کی بجائے کھلی اور کشادہ جگہوں کا انتخاب کرنا۔اونچے ٹیلوں سے گزرو تو وہاں ٹھہرنا بالکل نہیں کہ اونچی جگہ پرسب کی نظریں پڑتی ہیں اور نشانہ صاف لگتا ہے۔ہرنی نے اپنے بچے کو ایک اور بڑے کام کی بات بتائی۔”دیکھو تم ہرن ہو بہت کمزور نازک اور خوبصورت،انسان کی تو بات ہی الگ ہے۔کتے اور بھیڑیے سے لے کر شیر تک سب ہی تمہارے دشمن ہیں۔خود کو ان سے بچانا اور اپنا اٹھنا بیٹھنا اپنے جیسوں کے ساتھ رکھنا۔اپنے سے زیادہ طاقتور سے دوستی نہ لگانا اور نہ نقصان اٹھاؤ گے۔ایک دن اس کی ماں دوسرے ہرنوں کے ساتھ کہیں دور نکل گئی۔ننھے ہرن کا اکیلے میں جو دل گھبرایا تو وہ بھی جنگل کی سیر کو چل پڑا۔چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں سوکھی گھاس کے ڈھیر پر سنہری دھوپ میں شیر کے تین چھوٹے چھوٹے بچے اچھل کود کر رہے تھے۔ننھا ہرن پہلے تو دور کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔بچے کبھی ایک دوسرے کے اوپر چڑھنے کی کوشش کرتے اور کبھی گتم گتھا ہو جاتے۔ہرن بچے کو ان کا یہ کھیل کود بہت پسند آیا اور آخر وہ بھی ان کے قریب جا پہنچا اور ان کی شرارتوں میں شامل ہو گیا۔شیر کے بچوں نے اس نئے ساتھی کا خوشی سے خیر مقدم کیا اور اسے بھی اپنے ساتھ کھیل میں شامل کر لیا۔وہ اسی طرح دیر تک کھیلتے رہے پھر ننھے ہرن کو اچانک اپنی ماں کا خیال آیا اور وہ واپس آگیا۔اس کی ماں واقعی اس کا انتظار کر رہی تھی اور خاصی پریشان بھی تھی۔ننھے ہرن نے خود ہی ماں کو بتا دیا کہ وہ اتنی دیر کہاں رہا ہے۔ہرنی کا دل دھک سے رہ گیا۔اس نے بچے کو ڈانٹ پلائی اور سمجھایا کہ شیر تمہارا دشمن ہے،شیر کے بچے آج نہ سہی کل جب بڑے ہو جائیں گے تو تمہیں چیر پھاڑ کر کھا جائیں گے۔ہرنی نے اسے بتایا کہ یہ بھی تو خطرہ ہے کہ کسی بھی وقت بڑا شیر ہی اسے اپنے بچوں کے ساتھ تمہیں کھیلتے ہوئے دیکھ کر ماڑ ڈالے۔ننھے ہرن کو یہ نصیحت ہر گز پسند نہ آئی۔وہ بس یہی کہتا رہا کہ ماں․․․․․!تم فکر مت کرو۔شیر کے بچوں سے میری دوستی ہو گئی ہے۔وہ مجھے چاہتے ہیں اور کبھی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔اگلی صبح جب ہرنی دوسرے ہرنوں کی ڈار کے ساتھ گئی تو پھر کبھی مڑ کر واپس نہ آئی۔اسے شکاری پکڑ کر لے گئے۔اب ہرن کا بچہ اکیلا رہ گیا۔ماں کے چلے جانے سے وہ خاصا پریشان رہنے لگا،لیکن اب وہ اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ گھاس چر کر اپنا پیٹ بھر سکتا تھا۔دو تین دن تک تو اس نے ماں کی نصیحت پر عمل کیا اور شیر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے نہ گیا لیکن پھر ایک دن جب وہ درختوں کے نیچے اکیلے بیٹھے تنگ آگیا تو اس نے شیر کے بچوں کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا۔شیر کے بچوں نے پہلے کی طرح اچھل کود مچا رکھی تھی لیکن ان چند دنوں میں ان کے جسم خاصے مضبوط ہو گئے تھے۔ہرن بھی ان کے ساتھ کھیل کود میں شامل ہو گیا تو ان کی اچھل کود اور بڑھ گئی۔ابھی کھیلتے ہوئے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ بچوں کی ماں شیرنی بھی وہاں آگئی۔اسے ننھے ہرن کی یہ جرأت بڑی ناگوار گزری کہ وہ شیر کے بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔شیرنی دبے پاؤں آگے بڑھی اور اس نے ننھے ہرن کو ایک بھرپور پنجہ رسید کیا۔ہرن ہوا میں بلند ہوا اور کئی گز دور جا کر گرا۔وہ شدید زخمی ہو چکا تھا۔شیرنی اپنے بچوں کو لے کر اس پر جھپٹی لیکن زخمی ہونے کے باوجود ننھا ہرن پوری قوت سے دوڑتا ہوا ان کی پہنچ سے دور جا نکلا۔ایک جگہ وہ نڈھال ہو کر گر پڑا۔ایسے میں اسے اپنی ماں کے الفاظ شدت سے یاد آرہے تھے۔”اپنا اٹھنا بیٹھنا اپنے ہی جیسوں کے ساتھ رکھنا، اپنے سے طاقتور کے ساتھ دوستی نہ کرنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔“ننھے ہرن کے زخم ایک دن ٹھیک ہو گئے اور پھر اس نے کبھی ایسی غلطی نہ کی اور ہمیشہ ماں کی نصیحت کو یاد رکھا۔ " فرضی دعوت - تحریر نمبر 1851,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/farzi-dawat-1851.html,"ریحانہ ظفربغداد کی ایک مشرقی ریاست پر برمکی خاندان کے ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔اس نے اپنے رہنے کے لئے شان دار محل بنوایا تھا۔بادشاہ کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کے در سے کبھی کوئی سوالی خالی ہاتھ نہ لوٹا تھا۔وہ غریبوں کا ہمدرد تھا۔ایک دن محل کے دروازے پر ایک فقیر پہنچا۔اس کے جسم پر پھٹے ہوئے کپڑے تھے۔اس کی حالت سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کئی روز سے بھوکا ہے۔محل کا بڑا دروازہ کھلا ہوا تھا۔دروازے پر کئی پہرے دار کھڑے تھے۔فقیر نے ان پہرے داروں سے کہا:”مجھ پر رحم کرو۔میں نے کئی روز سے کچھ نہیں کھایا ہے۔اب تو میرے لئے ایک قدم آگے بڑھنا بھی دشوار ہو رہا ہے۔“پھر فقیر نے اس شاندار محل کے در و دیوار پر نظریں ڈالتے ہوئے کہا:”اس عظیم الشان محل کا مالک کون ہے؟یقینا وہ بہت دولت مند ہو گا۔(جاری ہے)مجھے اس کا نام بتاؤ۔“پہرے دار نے فقیر کو غور سے دیکھا اور کہا:”تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟بڑی حیرت کی بات ہے ۔تم یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ برمکی بادشاہ کا محل ہے۔بغداد کا سب سے ذہین،عقل مند اور دولت مند حکمراں ہے۔“فقیر نے پہرے دار کی بات سن کر کہا:”ہاں،میں نے بادشاہ کے بارے میں سنا ہے۔وہ تو غریبوں کا سچا ہمدرد ہے۔پہرے دار صاحب! آپ مجھے چاندی کا ایک سکہ دے دیں،تاکہ میں اپنے لئے روٹی خرید لوں۔بھوک سے میری جان نکلی جا رہی ہے۔“پہرے دار نے فقیر سے کہا:”اگر تم بھوکے ہو تو اندر محل میں کیوں نہیں چلے جاتے؟تمہیں کوئی نہیں روکے گا۔میرا آقا بھی اندر ہی ہے۔اس سے ملو اور مدد کی درخواست کرو۔وہ تمہاری مدد ضرور کرے گا۔“یہ سن کر فقیر خوش ہو گیا اور پہرے دار کا شکریہ ادا کرکے محل کے اندر چلا گیا۔محل کے اندر ایک شاندار اور خوبصورت تخت پر بادشاہ بیٹھا تھا۔اس نے فقیر کو اندر آتے دیکھ لیا تھا۔فقیر ڈرتے ڈرتے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔شہزادہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔آخر اس نے کہا:”ڈرو نہیں،چلے آؤ۔ہم تمہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔بتاؤ کیا بات ہے؟“فقیر ادب سے آگے بڑھا اور بادشاہ کے سامنے جھک کر بولا:”میرے آقا!میں ایک غریب آمی ہوں۔آپ سے مدد چاہتا ہوں۔صبح سے بھوکا ہوں۔اب تک کچھ کھانے کو نہیں ملا۔“بادشاہ نے اس کی بات غور سے سنی اور پھر فوراً تالی بجاتے ہوئے آواز لگائی:”کوئی ہے؟ایک برتن اور پانی کا لوٹا لاؤ۔ہم اور ہمارا مہمان کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئیں گے۔“فقیر مڑ کر دیکھنے لگا کہ پانی کون لا رہا ہے،مگر کوئی بھی نہ آیا،مگر بادشاہ ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے پانی آگیا اور وہ اپنے ہاتھ دھو رہا ہے۔نہ خادم نظر آرہا تھا،نہ برتن اور نہ پانی!فقیر حیران تھا۔پھر بادشاہ نے فقیر سے کہا:”معزز مہمان !آپ بھی ہاتھ دھو لیں!“فقیر سوچ رہا تھا کہ جب پانی ہی نہیں ہے تو ہاتھ کیسے دھوؤں گا،مگر بادشاہ کے سامنے کیا بول سکتا تھا،مجبوراً اسے بھی وہی کرنا پڑا جو بادشاہ نے کیا تھا یعنی جھوٹ موٹ ہاتھ دھونے لگا۔اب بادشاہ نے دوبارہ تالی بجائی اور دوسرا حکم دیا:”کوئی ہے؟جلدی!ہمارے اور ہمارے مہمان کے لئے کھانا لاؤ۔دیر نہ لگے!“نہ کوئی خادم آیا اور نہ کھانا،مگر بادشاہ یہ ظاہر کر رہا تھا جیسے ان کے سامنے دسترخوان بچھا دیا گیا ہے اور اس پر کھانا لگا دیا گیا ہے۔اس کے بعد بادشاہ نے اس طرح منہ چلانا شروع کر دیا جیسے وہ کھا رہا ہو۔اس نے فقیر سے بھی کہا:”آؤ دوست!تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اسی طرح کھاؤ جس طرح اپنے گھر میں کھاتے ہو۔تم نے کہا تھا کہ تم صبح سے بھوکے ہو،مگر کھا نہیں رہے ہو۔کیوں؟“فقیر نے دل ہی دل میں کہا:”کاش یہاں کھانے کو کچھ ہوتا!“پھر اس نے زور سے کہا:”میرے آقا!میں تو خوب کھا رہا ہوں۔“اس کے بعد وہ بھی تیزی سے منہ چلانے لگا،مگر منہ میں کچھ بھی نہ تھا،اس لئے اس کے مسوڑھے دکھنے لگے،بادشاہ برابر فقیر سے اصرار کرتا رہا کہ تکلف نہ کرے،وہ کبھی فقیر سے کہتا کہ تم نے یہ نہیں کھایا،کبھی کہتا وہ نہیں کھایا،کبھی کہتا کہ میٹھا تو تم نے لیا ہی نہیں۔کبھی کہتا کہ اس نرگسی کوفتے کی کیا بات ہے!کبھی کہتا کہ بریانی کا جواب نہیں۔غرض اس طرح وہ جھوٹ موٹ کی تعریف کرکے خیالی کھانا خود بھی کھاتا رہا اور فقیر کو بھی کھلاتا رہا۔بیچ میں کئی بار بادشاہ نے فرضی اور خیالی خادم کو بلا کر اس سے خصوصی طور پر فرضی اور خیالی کھانے منگوائے اور انھیں بڑے اصرار کے ساتھ فقیر کو کھلایا۔فقیر غریب بھوک سے بے حال خیالی کھانوں سے پیٹ بھرتا رہا۔یہ الگ بات ہے کہ اس کے پیٹ میں سچ مچ چوہے دوڑ رہے تھے۔کھانا کھانے کے بعد بادشاہ نے اپنے معزز مہمان (فقیر) کے لئے فرضی اور خیالی میوے اور پھل منگوا کر فقیر کو بھی کھلائے اور خود بھی کھائے ۔اس نے اخروٹ،بادام،چلغوزے،آم،سیب سب کچھ فقیر کو کھلا دیا اور ایسی ڈکار لی جیسے اس کا پیٹ بھر گیا ہو۔ غریب نے اس کے انداز سے ڈکار لینے کی کوشش کی،مگر اس کی آواز بھی نہ نکلی۔اس غریب کے پیٹ میں گیا ہی کیا تھا جو ڈکار آتی۔آخر جب فرضی کھانا کھاتے کھاتے فقیر کے جبڑے جواب دے گئے تو اس نے پیچھے ہٹتے ہوئے بادشاہ سے کہا:”حضور والا!آپ کا بہت بہت شکریہ!اب میرے پیٹ میں مزید کھانے کی گنجائش نہیں ہے۔“فقیر کے الفاظ سن کر بادشاہ بہت زور سے ہنس پڑا۔اس نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا:”بہت عرصے سے مجھے تم جیسے آدمی کی تلاش تھی۔“یہ کہہ کر بادشاہ اپنے تخت سے اُترا۔اس نے فقیر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بڑی نرمی اور محبت سے کہا:”تم ایک نیک دل اور شریف انسان ہو،میں ایک ایسے ہی دوست کی تلاش میں تھا،جس میں یہ سب خوبیاں ہوں۔تم میں صبر بھی ہے اور برداشت بھی۔تم نے آخر تک جس صبر اور سکون کے ساتھ میرا ساتھ دیا،اس پر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ایک بھوکے انسان میں صبر،ضبط اور برداشت کی کمی ہوتی ہے،مگر تم نے یہ ثابت کر دیا کہ بھوکا انسان بھی صبر،ضبط اور برداشت کر سکتا ہے۔آج سے ہم دونوں دوست ہیں۔تم میرے ساتھ میرے محل میں رہو گے اور اب میں تمہارے لئے شان دار دعوت کا انتظام کرواتا ہوں۔“اس کے بعد بادشاہ نے تالی بجائی۔فوراً ہی بہت سے خادم وہاں آگئے۔بادشاہ نے انھیں حکم دیا:”ہمارے معزز مہمان،بلکہ ہمارے دوست کو لے جاؤ،انھیں غسل کراوٴ،بہترین لباس پہناوٴ اور ان کے لئے خصوصی دعوت کا انتظام کرو۔“کچھ ہی دیر بعد فقیر شاہی لباس پہنے بادشاہ کے ساتھ اس کے وسیع دسترخوان پر بیٹھا تھا۔اس بار ان کے سامنے بالکل اصلی کھانے تھے۔ دونوں دوست کھا بھی رہے تھے اور قہقہے بھی لگا رہے تھے۔ " خالد اور احسان - تحریر نمبر 1848,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khalid-aur-ehsaan-1848.html,"محمد علیم نظامیخالد اور احسان دو گہرے اور پکے دوست تھے۔ان دونوں میں دوستی میٹرک کے امتحان کے بعد ہوئی جب خالد نے احسان کی پڑھائی میں مدد کی۔دراصل خالد تعلیم میں ہوشیار تھا جبکہ احسان کافی حد تک کُند ذہن تھا۔چنانچہ احسان کو خالد نے کہا کہ اگر وہ میٹرک کے امتحان میں اس کی مدد کرے اور اسے تمام مضامین خاص کر حساب اور انگلش میں اسے مہارت حاصل کرنے کے لئے کہا تو وہ یقینا اچھے نمبروں سے پاس ہو گا۔احسان نے جب خالد کی یہ بات سنی تو اس نے فوراً ہاں کر دی۔خالد نے احسان کو نصیحت کی کہ وہ کل سے یعنی امتحان سے تقریباً پندرہ دن تک کتابوں کے ساتھ اس کے گھر آتا رہے اس سے جس حد تک ممکن ہو گا وہ کرے گا۔اس بات پر احسان نے خالد کا شکریہ ادا کیا اور دونوں کی دوستی پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئی۔(جاری ہے)اچانک ایسا ہوا کہ احسان جو خالد سے میٹرک کے امتحان سے پہلے پڑھائی کی ٹپس لے رہا تھا تقریباً دو تین دن پہلے بیمار ہو گیا۔خالد نے اس شش وپنج میں احسان کو مبتلا ہوتے دیکھا تو اسے بھی فکر لاحق ہو گئی۔اب دونوں مل بیٹھ کر سوچنے لگے کہ اب کیا کیا جائے یا تو احسان اپنی علالت کی وجہ سے امتحان سے دستبردار ہو جائے یا پھر فوری طور پر اسے کسی اچھے سے ڈاکٹر کو دکھایا جائے چنانچہ خالد نے احسان کو کہا کہ امتحان کی تیاری کے لئے اس نے احسان کی ہر ممکن مدد کی۔اب جبکہ امتحان شروع ہونے میں دو تین دن باقی رہ گئے ہیں اس لئے اس کا امتحان میں شریک نہ ہونا اچھی بات نہ ہوئی۔بہتر یہی ہے کہ ڈاکٹر کے پاس جا کر اس کا فوراً علاج کیا جائے چنانچہ خالد احسان کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور ڈاکٹر صاحب سے کہنے لگا کہ وہ احسان کو ایسی دوائی دیں جس سے وہ جلد از جلد ایک دو دنوں کے اندر اندر ٹھیک ہو جائے۔ڈاکٹر صاحب نے خالد کو بتایا کہ احسان کو ٹائیفائیڈ بخار ہے انشاء اللہ میں اسے ایسی دوائی لکھ کر دوں گا۔جس کے استعمال سے دو دنوں کے اندر اندر وہ صحت یاب ہو جائے گا۔میں احسان کو تین چار گھنٹے تک اپنے کلینک میں رکھوں گا اور پھر انشاء اللہ وہ گھر چلا جائے گا۔خالد اور احسان دونوں نے ڈاکٹر صاحب کی اس بات سے اتفاق کیا۔ڈاکٹر صاحب نے تین گھنٹے احسان کو اپنے کلینک میں رکھنے کے بعد گھر بھیج دیا اور خالد کو سمجھایا کہ فلاں دوائی وقت پر دیتے رہیں اس سے اور کافی فائدہ ہو گا۔چنانچہ جب احسان گھر پہنچا تو اس کے امی ابو اور بہن بھائیوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔اب احسان تندرست ہو چکا تھا۔اب احسان خالد کے گھر جا کر جلد ہی میٹرک میں امتحان شروع ہونے سے پہلے جن مضامین میں کمزور تھا ان میں ہوشیار ہو گیا۔جب میٹرک کا امتحان شروع ہوا تو خالد اور احسان اکٹھے سکول جانے لگے اور اکٹھے گھر آتے۔جب میٹرک کے امتحان کے تین ماہ بعد رزلٹ آیا تو خالد اور احسان دونوں نے نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ثابت ہوا کہ دوستی گہری اور سچی ہی مشکل وقت میں کام آئی ہے۔احسان نے خالد کا شکریہ ادا کیا کہ جس کی کافی کوششوں کے بعد وہ اس قابل ہوا کہ اس نے نہ صرف امتحان میں حصہ لیا بلکہ اچھی پوزیشن بھی حاصل کی۔ " ایک نیکی - تحریر نمبر 1846,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-naiki-1846.html,"محمد عمر امتیازمیرا تعلق پولیس کے محکمے سے رہا ہے۔یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب پولیس کے سپاہیوں کو کچھ زیادہ سہولیات میسر نہیں تھیں۔ہم اپنے ذاتی گھوڑوں پر ہی سفر کیا کرتے تھے اورجب چھٹی پر ہم اپنے گاؤں جاتے تو ہم سے سرکاری بندوقیں رکھوا لی جاتی تھیں۔ہمارے پاس اپنی حفاظت کے لئے صرف خنجر وغیرہ ہی ہوتے تھے۔تقریباً چھے ماہ بعد ایک دن میں اپنے گاؤں چھٹی پر جا رہا تھا تو کمشنر صاحب نے کہا:”کافی اندھیرا ہو گیا ہے اور تمہارے گاؤں کے راستے میں جنگل بھی پڑتا ہے ،صبح چلے جانا۔“مگر اپنے بیوی بچے سے ملنے کے لئے میرا دل بے قرار ہو رہا تھا۔میں نے کہا:”صاحب!ایک عمر انھی راستوں اور جنگل میں گھومتے پھرتے گزاری ہے ۔یہ راستے،یہ وادیاں حتیٰ کہ یہاں کی مٹی بھی میری دوست ہے۔(جاری ہے)“صاحب یہ سن کر مسکرا دیے۔موسم بہت خوب صورت ہو رہا تھا۔گھوڑا تیز رفتاری سے رواں دواں تھا۔جنگل شروع ہوتے ہی میں نے گھوڑے کی رفتار تھوڑی سی ہلکی کر دی۔اس جنگل سے میری بہت خوب صورت یادیں جڑی ہوئی تھیں۔حالانکہ یہ جنگل میرے گاؤں سے کافی فاصلے پر تھا،مگر بچپن میں ہم سارے دوست ہر ہفتے یہاں آکر خوب شرارتیں کرتے،نہر میں نہاتے اور درختوں پر چڑھ کر تازہ پھل توڑ کر کھاتے تھے۔یہ سب سوچ کر میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔اچانک مجھے کسی بچے کے کھلکھلانے کی آواز آئی۔میں چونک گیا اور جلدی سے گھوڑے کو ہلکی سے تھپکی دی۔پالتو جانور اپنے مالک کے اشارے سمجھتے ہیں۔اس نے بھی دم سادھ لیا اور ہنہنایا نہیں۔میں خوف زدہ ہونے کے بجائے فوراً کھوج میں لگ گیا کہ یہ آواز کس سمت سے آئی ہے۔کچھ فاصلے پر ہی گھنی جھاڑیوں کے پیچھے سے مجھے دوبارہ بچے کے ہنسنے کی آواز آئی۔میں نے گھوڑے کو ایک طرف کھڑا کیا اور آہستہ سے تھوڑی جھاڑیاں ہٹا کر دیکھا تو سال بھر کا ایک نہایت خوب صورت گول مٹول سا بچہ اکیلا بیٹھا ہوا ہے۔اچانک ایک درخت کے پیچھے سے ایک بھیڑیا نمودار ہوا۔اس نے اپنی تھوتھنی سے بچے کے گدگدی کی تو بچہ پھر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔بھیڑیا بھاگ کر پھر درخت کے پیچھے چھپ گیا۔میں معاملہ سمجھ گیا۔یہ بھیڑیوں کی فطرت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی انسانی بچے کو کھانے کے لئے اُٹھا کر لاتے ہیں تو پہلے اس کے ساتھ خوب کھیلتے ہیں۔جب دل بھر جاتا ہے تو چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔میں چاہتا تو خنجر سے بھیڑیے پر حملہ بھی کر سکتا تھا،مگر بچے کی وجہ سے میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔میں نے سوچ لیا کہ مجھے کیا کرناچاہیے۔جیسے ہی بھیڑیا بچے کو گدگدی کرکے درخت کے پیچھے چھپا،میں ایک ہی جست میں بچے تک پہنچا اور اسے دبوچ کر بھاگا۔آناً فاناً اپنے گھوڑے تک پہنچا اور گھوڑے پر اُچھل کر سوار ہو گیا اور گھوڑا سرپٹ دوڑا دیا۔اس طوفانی کارروائی سے گھبرا کر بچہ مسلسل رو رہا تھا۔جنگل پار کرکے ایک جگہ گھوڑا روک کر میں نے پہلے بچے کو بہلایا۔وہ خاموش ہوا تو میں نے اسے آرام سے آگے بیٹھالیا۔میں نے گھوڑے کا رُخ اس جنگل کے قریب ہی ایک گاؤں کی طرف کر دیا۔میں گاؤں کے قریب ایک کھیت میں پہنچا ہی تھاکہ کچھ لوگ مشعلیں لئے ایک طرف جاتے نظر آئے۔میں نے آواز دے کر انھیں اپنی طرف متوجہ کیا اور بچے کے متعلق پوچھا۔ایک آدمی بے تابانہ آگے بڑھا۔اس کا مُرجھایا ہوا چہرہ بچے کو دیکھ کر کھل اُٹھا۔اس نے خوشی سے چیختے ہوئے کہا:”گڈو۔“بچہ بھی فوراً اس کی طرف لپکا۔وہ بچے کو گود میں لے کر دیوانہ وار اس کو چوم رہا تھا۔میں گھوڑے سے اُتر گیا۔گاؤں والوں کے پوچھنے پر میں نے انھیں تمام ماجرا کہہ سنایا۔بچے کے باپ کا بس نہیں چلا رہا تھا کہ میرے پاؤں سے لپٹ جائے۔روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا:”اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کرو،کم ہے۔وہی زندگی بخشنے والا ہے۔“اس آدمی نے مجھ سے میرا نام اور گاؤں کا نام پوچھا۔میں نے سب بتا دیا اور گھوڑے پر سوار ہو گیا۔اس آدمی نے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور التجا بھرے لہجے میں بولا:”صاحب!میری بیوی روتے روتے بے ہوش ہو گئی ہے اور گڈو میں تو میرے ماں باپ کی بھی جان ہے۔دونوں رو رو کر نڈھال ہو چکے ہیں۔انھیں جب پتا چلے گا کہ گڈو کی جانب بچانے والا ہمارا محسن ایسے ہی چلا گیا تو وہ بہت ناراض ہوں گے۔“کچھ اور لوگوں نے بھی اس کی تائید کی۔میں نے مسکرا کر کہا:”میرے بھائی!مجھے کسی چیز کی چاہ نہیں۔آپ لوگوں کی خوشی ہی میرے لئے انمول تحفہ ہے۔بس اپنے والدین سے کہناکہ مجھے ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔“چونکہ میرے اپنے والدین انتقال کر چکے تھے۔اسی لئے میں تمام والدین کا بے حد احترام کرتا تھا۔اس وقت رات کافی ہو چکی تھی،میں نے ان سب کو اللہ حافظ کہا اور اپنے گاؤں کی طرف چل دیا۔کچھ سالوں بعد اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر پولیس کی نوکری چھوڑ کر اور گاؤں کی زمینیں اور گھر بیچ کر میں شہر آگیا،لیکن جب تک میں اپنے گاؤں میں رہا،وہ آدمی سال میں دوبار لازمی میرے پاس آتا اور ہمیشہ موسمی پھل،گُڑ،خشک میوے اور بچوں کے لئے تحفے لاتا۔میں اس غریب آدمی کا خلوص دیکھ کر بہت نادم ہوتا اور ہمیشہ اسے منع کرتا،مگر وہ بھی ہمیشہ میرے اچھے عمل کا ذکر کرکے آبدیدہ ہو جاتا۔آج میں خوش حال زندگی گزار رہا ہوں۔میرے دو بیٹے سول انجینئر اور بیٹی ڈاکٹر ہے۔مجھے اکثر ایسا لگتا ہے جیسے میری ایک نیکی نے میرے بچوں کے لئے بھی راستے آسان کر دیئے ہوں۔ " چونی کی برکت - تحریر نمبر 1845,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chawani-ki-barkat-1845.html,"ساجد کمبوہ پھولنگرہمارے کرنسی نوٹوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ”رزق حلال عین عبادت ہے“ اسلام نے رزق حلال کمانے والے محنت کش مزدور اور ان لوگوں کو خوشخبری سنائی ہے جو رزق حلال کما کر کھاتے ہیں اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں جو ایسا رزق کماتا اور کھاتا ہے اللہ تعالیٰ کی اس پر بے شمار نعمتیں ،رحمتیں ہوتی ہیں۔وہ صحت مند،تندرست،اس کی اولاد تابعدار،کامیاب زندگی گزارتی ہے ایسے بندے کو اللہ نے دوست کہا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ بہترین کھانا اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔بہت سے انبیاء نے بھیڑیں چرائیں،تجارت کی حضرت داؤد علیہ السلام بھی لوہے کی زریں بناتے تھے۔لوہا اُن کے ہاتھ میں نرم یعنی موم کی طرح ہو جاتا تھا جیسے چاہتے ویسے موڑ دیتے تھے۔(جاری ہے)حضرت عیسیٰ علیہ السلام بچپن میں ایک رنگساز (رنگریز) کے پاس رہے خود ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیڑیں چرائیں اور تجارت بھی فرمائی۔گو پیشے الگ الگ ہوں مگر منافع جائز اور معقول ہو تجارت ہو یا فصلیں وغیرہ بوئے اور کاٹے کبھی دفتر،فیکٹری میں ہو یا مزدوری ہر جگہ رزق حلال ہی بہترین رزق ہے۔آپ نے اورنگزیب عالمگیر کا نام سنا ہو گا۔بادشاہ وقت تھا وہ قرآن پاک کی کتابت کرکے،ٹوپیاں سی کر روزی کماتا تھا سرکاری خزانے سے اپنے لئے کچھ حاصل نہ کرتا تھا اُن کا ایک واقعہ حاضر خدمت ہے۔اورنگزیب عالمگیر کے اُستاد محترم کا نام ملاں احمد جیون تھا۔آپ نے اُن سے دینی و دنیاوی فیض حاصل کیا تھا۔اورنگزیب جب بادشاہ بنا اُس نے اپنے اُستاد محترم کو پیغام بھیجا کہ شرف ملاقات بخشے ملاں جیون ایک بہت بڑا مدرسہ چلاتے تھے وہاں ہزاروں بچے قرآن پاک حفظ کرتے اور دینی تعلیم حاصل کرتے جب رمضان کا مہینہ آیا روزہ و اعتکاف کے لئے ملاں ایک مہینہ بچوں کو چھٹی دیتے تھے تاکہ وہ گھر میں آرام وسکون سے روزے رکھیں اور اعتکاف والے اعتکاف کریں۔مدرسہ ایک ماہ بند رہتا تھا۔ملاں احمد جیون اپنے شاگرد کی دعوت پر بادشاہ سے ملنے اُن کے پاس تشریف لے گئے بڑے عرصہ بعد ملاقات ہوئی تھی اورنگزیب نے اُن کی خدمت کے ساتھ ساتھ اُن سے روحانی فیض بھی حاصل کیا۔ایک ماہ بعد ملاں نے جب واپسی کا ارادہ فرمایا تو اورنگزیب نے مزید رکنے کی استدعا کی۔سادہ مزاج،خوش گفتار ملاں نے بتایا کہ اب مزید رُک نہیں سکتا کیونکہ بچوں کی تعلیم کا حرج ہو گا اورنگزیب نے اپنے استاد محترم کی خدمت میں ایک چونی ہدیہ پیش کی اور محل کے دروازے پر خدا حافظ کہا۔اس کے بعد اورنگزیب ملکی معاملات،جنگ و جدل،رعایا کی خدمت میں مصروف ہوگیا یوں چودہ برس کا عرصہ بیت گیا۔ایک دن ایک آدمی نے اورنگزیب کو بتایا کہ بادشاہ سلامت اب آپ کے استاد محترم ملاں احمد جیون بہت بڑے زمیندار بن گئے اب بڑی سی حویلی میں رہتے ہیں شاہانہ انداز ہے،نوکر چاکر ہیں،سفر کے لئے بہترین گھوڑے ہیں اور ملاں اب پہلے والے ملاں نہیں رہے۔اورنگزیب نے اپنا ایک ایلچی ملاں احمد جیون کے پاس بھیجا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی ملاں نے وعدہ کیا اور رمضان شریف جب مدرسہ بند ہوا اور تشریف لائے نہایت سادہ لباس،مزاج میں عاجزی لگتا نہیں تھا کہ وہ اتنے بڑے زمیندار ہیں اورنگزیب نے اُن کی خوب خدمت سیوا کی اور اُن سے کچھ نہ پوچھا جو اکثر لوگوں نے بتایا تھا کہ اتنے بڑے زمیندار ہو گئے ہیں۔ایک دن باتوں باتوں میں ملاں جیون نے کہا”اورنگزیب تمہاری اُس چونی میں بہت برکت تھی میں نے اس چونی سے کپاس کا بیج لیا (جسے بنولہ کہتے ہیں) اس سے کپاس کاشت کی اللہ نے اتنی برکت دی کہ بیان سے باہر،چند سالوں میں اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا بہت کرم کیا۔ اس پر اورنگزیب نے عرض کی!استاد محترم وہ چونی رزق حلال سے کمائی تھی۔اس پر اورنگزیب نے ایک ایلچی چاندنی چوک میں ایک ہندو بنیا کے پاس بھیجا اور اُسے کہا کہ وہ فلاں سال کے حساب کتاب والا رجسٹر لیتا آئے۔ایلچی نے جب اس ہندو بنیا جس کا نام اُتم چن تھا کو بادشاہ کا حکم سنایا وہ کھاتہ لئے ہانپتا کانپتا بادشاہ کے حضور حاضر ہو گیا۔اورنگزیب نے کہا کہ وہ فلاں سال کے فلاں مہینے اور فلاں دن کا کھاتہ دیکھے اور حساب کتاب کا بتائے اس پر اُتم چن کو کچھ حوصلہ ہوا اس نے کھاتہ کھولا اور درج تفصیل بتانے لگا۔ملاں احمد جیون اور بادشاہ اس کی تفصیل سننے لگے ایک جگہ پر آکر اُتم چن خاموش ہو گیا،کیا ہوا؟بادشاہ سلامت ایک چونی کسی کو مزدوری میں دی مگر مزدور کا نام نہیں پوچھ سکا۔اگر اجازت ہو کچھ تفصیل یاد ہے وہ عرض کروں؟بادشاہ نے اجازت دی اس پر اُتم چن نے کہا بادشاہ سلامت اُس رات موسلا دھار بارش ہوئی میرے گھر میں پانی بھر گیا میرے کمرے کی چھت ٹپکنے لگی تھی میں بہت پریشان ہوا اسی پریشانی میں باہر نکلا ایک آدمی لالٹین پکڑے نظر آیا میں نے اُس سے پوچھا بھائی مزدوری کرو گے؟اُس نے کہا ہاں کر لوں گا میں نے اُس سے مل کر کمرے کا سامان نکالا چھت پر مٹی ڈالی پھر سامان واپس رکھا اس کام میں چار پانچ گھنٹے لگ گئے اتنی دیر میں صبح کی اذان ہونے لگی اس پر اُس مزدور نے کہا سیٹھ صاحب آپ کا کام ہو گیا مجھے اجازت دیں۔میں نے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا جیب میں صرف چونی تھی۔میری مجبور میرے پاس اگر روپیہ نہ سہی اٹھنی ضرور دیتا میرا ضمیر آج بھی کہہ رہا ہے کہ اسے مزدوری کم دی آج پندرہ برس ہونے کو آئے ہیں مجھے وہ عظیم شخص بھولتا نہیں میں نے اسے کہا بھی تھا کہ وہ صبح میری دکان پر آکر مزید مزدوری لے سکتا ہے مگر اس نے کہا مجھے اتنی مزدوری ہی ٹھیک ہے۔اس پر بادشاہ نے اسے جانے کی اجازت دے دی وہ آداب بادشاہی کرکے رخصت ہو گیا۔جب سیٹھ اُتم چن چلا گیا تو اورنگزیب نے کہا۔استاد محترم میں بھیس بدل کر اکثر گلیوں بازاروں میں جاتا ہوں اور عوام کی خبر گیری کے لئے اُس دن بارش میں لالٹین لئے کھڑا تھاکہ سیٹھ اُتم چن نے مجھے مزدوری کے لئے کہا اور یہ چونی اس کی مزدوری تھی۔اس پر ملاں احمد جیون نے کہا مجھے یقین تھا کہ یہ رزق حلال ہے ورنہ اتنا پھل اتنی برکت کسی اور دولت میں کہاں۔اللہ تعالیٰ رزق حلال کمانے والوں پر کرم کرتا ہے۔اس پر بادشاہ نے کہا۔استاد محترم میری کوشش ہے کہ قرآن پاک کی کتابت کرکے مصلے بنا کر اور ٹوپیاں سی کر گزارہ کرتا ہوں اور شاہی خزانہ کو امانت سمجھتا ہوں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو رزق حلال دے۔(آمین) " منگیتا اور لارینا آخری قسط - تحریر نمبر 1840,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mangita-or-larena-akhri-qist-1840.html,"صائم جمالٹھیک ہے پھر یہ تو بہت اچھی بات ہے بوڑھی عورت نے بیجوں کا تھیلا لارینا کو دے دیا۔ منگیتا کا بخار اور تیز ہو گیا تھا پوری رات وہ سو نہ سکی وہ اپنے بستر پر کروٹیں لیتی رہی اُس کی آنکھیں پیلی ہونے لگی۔ لارینا کو بہت خوشی ہوئی اپنی بہن کو تکلیف میں دیکھ کر اس نے اُس کو اُن بیجوں کے متعلق ایک مرتبہ بھی نہیں بتایا اور بیجوں کو اپنے بستر کے نیچے چھپا دیا۔اگلی صبح جب لارینا کی آنکھ کھلی تو اُس نے دیکھا کہ منگیتا پسینے سے بھیگی ہوئی ہے وہ مسکرائی اور وہ جب گھر سے باہر نکلی بوڑھی عورت داخل ہوئی”تم نے بلا اجازت میرے گھر میں داخل ہونے کی جرأت کیسے کی؟“لارینا قہربار گرجی۔ بوڑھی عورت مسکرائی اُس نے اپنی انگلی چٹکائی اور ہر طرف دھواں سا ہو گیا کچھ دیر بعد لارینا نے دیکھا کہ وہ بوڑھی عورت ایک خوبصورت نوجوان میں تبدیل ہو گئی”ارے یہ کیا؟کیا تم ایک فرشتہ ہو؟لارینا حیرانی سے بولی”میں کوئی فرشتہ نہیں ہوں میں ایک شہزادہ ہوں۔(جاری ہے)ہاؤس ویلی ڈوم کا․․․․․․میں گھوم رہا ہوں دنیا میں ایک ایسی رحمدل خاتون کی تلاش میں جس سے میں نکاح کر سکوں اور مجھے ماننا پڑے گا کہ آخر کار مجھے ایک ایسی خاتون مل ہی گئی جس کی مجھے تلاش تھی اگر وہ مجھے قبول کر لے تو۔“بے شک میرے شہزادے! میں نے اس دن کے لئے کتنے دن انتظار کیا چلو اس جگہ سے کہیں دور چلے جاتے ہیں اور ہمیشہ راضی خوشی و خرم سے رہیں گے۔“لارینا خوشی سے اُچھلنے لگی۔”خاموش ہو جاؤ تم بے رحم خاتون،میں تمہارے متعلق بات نہیں کر رہا تھا“شہزادے نے غصے سے کہا ”آں ہاں“ لارینا اپنا سامنہ لے کر رہ گئی۔ شہزادے نے اپنی نظریں منگیتا کی طرف گھمائی اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اُس کے جسم کے اردگرد سنہری نور بکھر گیا۔ منگیتا جو اپنے بستر پر اپنی آنکھیں بند کیے لیٹی تھی وہ بھی اس سنہرے نور سے روشن ہو گئی۔لارینا نے یہ سب حیرت زدہ ہو کر دیکھا۔جلد ہی منگیتا نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور کھڑی ہو گئی پوری طرح صحت مند محسوس کرتے ہوئے شہزادے نے اپنی آنکھیں کھولیں تو سنہرا نور غائب ہو گیا۔ منگیتا حیرت زدہ ہو گئی کیونکہ اسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ شہزادہ مسکرایا اور اس نے سب کچھ منگیتا کو سمجھایا میں پوری رات باہر تھا تمہیں دیکھتے ہوئے تمہاری بہن اتنی بے رحم ہے اُس نے پوری رات تمہیں بیجوں سے محروم رکھا جو میں نے تمہاری صحت یابی کے لئے اس کو دیئے تھے بلکہ تمہاری بہن تمہاری حالت دیکھ کر خوش ہو رہی تھی اور تمہاری بد ترین حالت کی دعا کرکے خوشی محسوس کرتی رہی۔منگیتا شہزادے سے یہ سب سن کر بہت غمگین ہو گئی اس کو اپنی بہن پر بہت افسوس ہوا وہ اپنی بہن لارینا کی طرف مڑی ”بہن کیوں؟تم مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہو۔ منگیتا نے روتے ہوئے کہا۔”اوہ․․․․․!برائے مہربانی میرے پاس اس پورے ناٹک کے لئے وقت نہیں ہے اپنے شہزادے کے ساتھ یہاں سے دفع ہو جاؤ اور مجھے تنہا چھوڑ دو میں کبھی تمہیں پسند نہیں کرتی تھی اور نہ ہی کبھی پسند کروں گی“ لارینا نے انتہائی نفرت آمیز لہجے سے کہا۔یہ سن کر منگیتا کی آنکھوں سے اشک بہہ نکلے پر شہزادہ اسے تسلی دینے کے لئے آگے آیا اور بولا۔ ا س کی وجہ سے مایوس مت ہو وہ تمہاری محبت اور رحمدلی کے قابل ہی نہیں ہے چلو یہاں سے رخصت ہو اور میری سلطنت میں چلو،میں تمہیں اپنی بیوی بنانا چاہوں گا اگر تم مجھے اپنا شوہر قبول کرو تو․․․․”پر وہ میری بہن ہے “منگیتا بولی۔ کچھ لوگ کبھی نہیں بدلتے بہتر ہو گا تمہیں اس کا علم ابھی سے ہو جائے“شہزادے سے منگیتا سے کہا”کیا تم دونوں کا یہ ناٹک ابھی تک ختم نہیں ہوا میں بور ہو رہی ہوں جلدی سے یہاں سے چلے جاؤ اور دوبارہ کبھی پلٹ کر نہ آنا اس طرف لارینا غصیلی آواز میں دونوں سے مخاطب ہوئی۔پھر منگیتا نے شہزادے کی طرف دیکھ کر رضا مندی میں سر ہلایا۔ شہزادے نے اپنی انگلیاں چٹکائی اور دونوں ہوا میں غائب ہو گئے۔ شہزادہ اسے اپنے محل لے آیا یہ شادی شان و شوکت سے ہوئی اور وہ دونوں بہت مطمئن زندگی گزارنے لگے جبکہ لارینا ویسی ہی رہی دوسروں کے لئے بے رحم وہ ذرا بھی نہیں بدلی۔ منگیتا نے پھر بھی اس بات کا خیال رکھا کہ اس کی بہن کو معقول کھانا ملتا رہے بنا اس کو اس کا علم ہوئے۔ شہزادہ کئی دفعہ ہنستا کہ منگیتا کو ابھی بھی امید ہے کہ اس کی بہن بدلے گی۔ خیر کچھ لوگ کبھی نہیں بدلیں گے میری بہن ایک دن بدلے گی مجھے یہ علم ہے میں اس کی بات نہیں کر رہا اس کے لئے تمہارے اعتماد کی بات کر رہا ہوں اور دونوں مسکرانے لگے․․․․ " منگیتا اور لارینا پہلی قسط - تحریر نمبر 1839,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mangita-or-larena-pehli-qist-1839.html,"صائم جمالایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی علاقے میں ایک مچھیرا اپنی دو بیٹیوں منگیتا اور لارینا کے ساتھ رہتا تھا۔ یہ سر سبز علاقہ تھا اس میں بہت خوبصورت جھیلیں بھی تھیں۔اس علاقے کا نام ”لازون“ تھا۔ منگیتا بڑی بیٹی تھی اور وہ سبھی سے محبت سے پیش آتی وہ بہت رحم دل تھی جبکہ چھوٹی لارینا اپنی بہن سے بہت مختلف تھی وہ دوسرے لوگوں کے لئے بے رحمتی کا مظاہرہ کرتی،تتلیاں پکڑتی اور انہیں بوتل میں بند کر دیتی اور اکثر اپنی بہن سے بے ادبی سے بات کرتی۔منگیتا گھر کا سارا کام کرتی اور اس بات کا خیال رکھتی کہ کھانا وقت پر پک جائے جب سے اُن کی والدہ کا انتقال ہوا سارے گھر کی ذمہ داری منگیتا پہ آگئی جبکہ لارینا تو کسی کام کو ہاتھ تک نہ لگاتی۔(جاری ہے)منگیتا کی کوشش ہوتی اس کا والد تھکا ہارا کام ختم کرکے جب گھر آئے تو کھانا تیار ہو۔لارینا نے کبھی بھی کسی کام میں اپنی بہن کی مدد نہیں کی تھی وہ اپنے والد کے متعلق ذرا بھی پروا نہ کرتی کہ کیسے وہ ان دونوں بہنوں کے لئے سارا دن مچھلیاں پکڑ کر بیچ کر آتا اُن کی ضروریات پوری کرنے کے لئے لارینا اپنا زیادہ وقت جھیل پر بیٹھ کر گزارتی اپنے بال بناتے ہوئے اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے ”کیا میں شہر کی سب سے خوبصورت لڑکی ہوں؟“آہاہا میں بھی کسی سے مذاق کر رہی ہوں۔پوری سلطنت میں مجھ سے زیادہ خوبصورت کوئی بھی نہیں ہے،اس چھوٹے سے قصبے لازون کی کیا بساط ہے۔ہا․․․․․․ہا․․․․ہا۔لارینا نے بلند فخر یہ قہقہہ لگایا۔ ایک دن مچھیرا بہت بیمار ہو گیا اور گزر گیا۔ منگیتا بہت غم زدہ ہو گئی وہ گھنٹوں روتی اور ماتم مناتی رہی پر جلد ہی اسے یہ علم ہو گیا کہ اس کے گھر کی پوری ذمہ داری اب اس کے کندھوں پر آگئی ہے اس نے اپنا ہوش سنبھالا اور اپنے فیصلے کے بارے میں جا کر لارینا کو بتایا ہمیشہ کی طرح لارینا جھیل پر بیٹھی تھی اپنی خوبصورتی کو اتراتے ہوئے ”بہن!میں تم سے اس وقت ایک اہم موضوع پر بات کرنے آئی ہوں۔“منگیتا بولی:”آہ․․․․!چلی جاؤ کیا تم دیکھ نہیں رہی ہو کہ میں کتنی مصروف ہوں۔“لارینا نے چلا کر کہا ”میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گی۔ ایک منٹ بات سن لو۔“منگیتا نے التجا آمیز لہجے میں کہا”کیا بات ہے جلدی بولو“لارینا نے کہا”تمہیں پتہ ہے اب ابا ہمارے پاس نہیں رہے اب ہمارے لئے کمانے والا کوئی نہیں رہا اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب میں ہر روز مچھلی پکڑ کر بازار میں جا کر بیچوں گی مجھے علم نہیں کہ یہ ہمارے گزارے کے لئے کافی ہو گا یا نہیں پر میں اپنی پوری کوشش کروں گی۔“منگیتا نے کہا۔”ٹھیک ہے اب جو کچھ بھی ہو تم مجھے اب اکیلا چھوڑ دو“ لارینا بے رُخی سے بولی”نہیں مجھ سے اس قدر بے رُخی دکھانے کی ضرورت نہیں ہے میں تم سے محبت کرتی ہوں تمہاری بڑی بہن ہوں یہ بات تم اچھی طرح سے جانتی ہو۔“”مجھے تمہاری محبت کی ضرورت نہیں ہے بہن ،میں غلط گھر میں پیدا ہوئی تھی پر یہ تم جان لو حالات ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے میرے مقدر میں ایک روز ملکہ بننا لکھا ہے اور اس حقیر شہر اور تمام لوگوں کو پیچھے چھوڑ دینا ہو گا مجھے میرا خوبصورت شہزادہ آئے گا مجھے لینے کے لئے ضرور تم دیکھو گی۔“لارینا فکر یہ انداز میں گویا ہوئی۔منگیتا نے آہ بھری میرے لئے تمہاری خوشی کے علاوہ اور کوئی تمنا نہیں ہے میری بہن یہ کہہ کر منگیتا گھر واپس آگئی۔دن گزرتے گئے اور منگیتا نے بہت زیادہ محنت کی اپنے اور اپنی بہن کے گزارے کے لئے اُس نے اپنے باپ کا کام سنبھال لیا۔ایک دن وہ بہت کم پیسے لے کر واپس آئی تو اُسے بہت فکر ہوئی۔”لارینا!مجھے معاف کرنا․․․․․․پر جو میں کماتی ہوں وہ ہم دونوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی نہیں ہے کیا کل سے تم مچھلی بیچنے میں میری مدد کرو گی؟کیا․․․․․؟؟؟تم نے ابھی ابھی کیا کہا لارینا طنزاً بولی۔میں کہہ رہی ہوں کہ تم مچھلی بیچنے میں میری مدد کرو تاکہ ہم گزارے کے لئے معقول پیسے کما سکیں،مہربانی کرکے۔”ضرور تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہو گا میں مستقبل کی ملکہ ہوں اور تم چاہتی ہوکہ میں ایک محنت کش عورت بن جاؤں ،بالکل بھی نہیں۔“․․․․ ”بہن!پر بات تو سنو“منگیتا نے التجا کی۔میں جھیل پر جا رہی ہوں اور یہ کہہ کر لارینا جھیل کی طرف چل دی۔منگیتا بہت مایوس ہو گئی وہ بیٹھ گئی اور رونے لگی میں سب کیسے کر پاؤں گی۔ لارینا گھر سے باہر نکلی تو دروازے پر اس نے ایک بڑھیا کھڑی دیکھی۔”تمہیں کیا چاہئے بڑھیا؟“لارینا نے حقارت سے کہا”او پیاری بچی!میں بھوکی اور پیاسی ہوں اور میلوں چل کر آئی ہوں کیا تم مجھے کچھ کھانے کو دے سکتی ہو؟“کیا میں تمہیں خادمہ لگتی ہوں میرے سامنے سے ہٹ جاؤ۔لارینا نے بوڑھی عورت کو دھکا دیا اور اپنے راستے پر چل دی۔بوڑھی عورت رونے لگی”یا خدا!میری مدد فرما“بوڑھی عورت کی پکا ر سن کر منگیتا فوراً اپنے گھر سے باہر آئی وہ بوڑھی عورت کو زمین پر گرے دیکھ کر خوفزدہ ہو گئی اور اپنے ہاتھ آگے کرکے بوڑھی عورت کو کھڑا کیا اور اسے اپنے ساتھ گھر کے اندر لے آئی۔بوڑھی خاتون نے اسے بتایا کہ کیسے لارینا نے اس کو دھکادے کر گرایا۔منگیتا یہ سن کر بہت پریشان ہوئی۔میں معافی چاہتی ہوں اپنی بہن کی اس حرکت پہ وہ کبھی کبھی تھوڑی بے رحم ہو جاتی ہے مجھے افسوس ہے۔”کوئی بات نہیں تم رحمدل لگتی ہو،کیا تم مجھے پینے کے لئے پانی اور کھانے کے لئے تھوڑی روٹی دو گی؟“ بوڑھی عورت نے التجا کی۔منگیتا نے اپنے حصے کا کھانا اور پانی بوڑھی عورت کو پیش کیا۔بوڑھی عورت نے خوشی خوشی پانی پیا اور کھانا کھایا۔بہت بہت شکریہ میری بچی تم ایک رحمدل انسان ہو ،یہ کہہ کر بوڑھی عورت چلی گئی۔پھر منگیتا خالی پیٹ بستر پر آکر لیٹ گئی اُس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔صبح کا ناشتہ صرف ایک بندے کا تھا اس نے وہ اپنی بہن لارینا کو دے دیا اور خود بغیر ناشتہ کے کام پر چلی گئی اب بڑی مشکل سے منگیتا کو نیند آئی۔کچھ دنوں بعد کام کی زیادی کی وجہ سے منگیتا بیمار پڑ گئی اور ہمیشہ کی طرح لارینا نے کوئی پروا نہ کی اور جھیل پر چلی گئی جانے سے پہلے منگیتا نے اُس سے کہا کہ گھر میں کوئی جمع پونجی نہیں ہے مہربانی کرکے مچھلی بیچنے چلی جاؤ گزارا کیسے ہو گا میری بہن“میں کہیں نہیں جا رہی میں آخری بار تم سے کہہ رہی ہوں“یہ کہہ کر لارینا گھر سے باہر آئی تو اسے دروازے پر دوبارہ وہ بوڑھی خاتون نظر آئی۔”پھر سے تم آگئی اب تمہیں کیا چاہئے؟“میں نے سنا ہے کہ منگیتا بیمار ہے میں اس کے لئے یہ بیج لائی ہوں یہ کھا کر وہ ٹھیک ہو جائے گی مجھے اندر جانے دو تاکہ میں ہر گھنٹے بعد اسے ایک بیج دے سکوں اور اس کی تیمارداری کر سکوں تم دیکھو گی کہ وہ صبح تک ٹھیک ہو جائے گی۔“لارینا نے اپنے دانت پیسے کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ منگیتا ٹھیک ہو ۔اُس نے مسکرانے کا دکھاوا کیا ”تمہیں خود کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے وہ میری بہن ہے مجھے وہ بیج دے دو میں اُسے خود کھلا دوں گی اور اس بات کا خیال رکھوں گی کہ اس کا اچھے سے خیال رکھوں“․․․․․لارینا نے مکارانہ مسکراہٹ سے بڑھیا کو کہا۔(جاری ہے) " تِل - تحریر نمبر 1838,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/til-1838.html,"اشتیاق احمد”پچیس سال پہلے آپ کا چار سالہ بیٹا گم ہو گیا تھا۔“یہ جملہ تھا یا بم جو سیٹھ ماجد کے دماغ پر گرا۔وہ بُری طرح چونکے۔آنکھوں میں حیرت دوڑ گئی۔انھوں نے نظر بھر کر نوجوان کو دیکھا۔اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر آدمی بھی تھا۔ابھی ابھی یہ دونوں ان کی کوٹھی میں داخل ہوئے تھے۔ ملازم نے انھیں بتایا تھا کہ دو آدمی ان سے ملنے کے لئے آئے ہیں۔جونہی وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے ،تو ادھیڑ عمر آدمی نے یہ جملہ کہا۔”ہاں ہاں بالکل!لیکن آپ اس بارے میں کیا جانتے ہیں؟“وہ تیزی کے ساتھ قدرے زور سے بولے۔”آپ کو کچھ یاد ہے کہ جس روز آپ کا بیٹا گم ہوا تھا،اس کے جسم پر کیسا لباس تھا؟اس کے گلے میں کیا تھا؟“”ہاں کیوں نہیں!اس کا لباس سبز اور سرخ رنگ کا تھا اور گلے میں سونے کا قیمتی لاکٹ تھا۔(جاری ہے)پولیس نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ کوئی اسے اس لاکٹ کی وجہ سے اُٹھا کر لے گیا،لیکن اگر یہ بات ہوتی تو صرف لاکٹ لے جاتا،بچے کو کبھی نہ لے جاتا۔میرا خیال تھا کہ اغوا کرنے والا شاید خرکار تھا،لیکن آپ کو اس بارے میں کیا معلوم ہے؟“”یہ دیکھیے!“یہ کہہ کر ادھیڑ عمر آدمی نے ایک تھیلے میں سے سفید اور سرخ لباس نکالا اور میز پر ان کے سامنے پھیلا دیا۔”یہ ․․․․․یہ تو بالکل وہی لباس ہے۔یہ تمہیں کہاں سے ملا؟“ان کی آواز لرزنے لگی۔”ابھی بتاتا ہوں․․․․․پہلے اسے بھی دیکھ لیں۔“اب اس نے تھیلے میں سے ایک لاکٹ نکالا۔اس لاکٹ کو دیکھ کر سیٹھ امجد بہت زور سے اُچھلے اور بولے:”یہ بھی بالکل وہی ہے۔آخر تم بتاتے کیوں نہیں کہ یہ کہاں سے ملے؟“”آپ کا بیٹا آپ کے سامنے ہے۔“”کیا ؟“سیٹھ امجد تقریباً چیخ اُٹھے۔”ہاں یہی آپ کا بیٹا ہے۔میں نے ہی اسے اغوا کیا تھا۔“”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟پچیس سال بعد تمہیں میرا بیٹا لوٹانے کا خیال کیسے آگیا؟“انھوں نے بے یقینی کے عالم میں کہا۔”جرم کے احساس نے اس عمر میں مجھے بہت زیادہ ستانا شروع کر دیا ہے۔آخر تنگ آکر میں نے فیصلہ کیا کہ اسے آپ کے حوالے کردوں۔“”لیکن تم نے اسے اغوا کیوں کیا تھا؟“انھوں نے اب بھی بے یقینی کے عالم میں کہا۔”بچے اغوا کرکے بیگار کیمپ والوں کو فروخت کرنا میرا پیشہ تھا۔میں نے اور بھی کئی بچے اغوا کیے،لیکن یہ بچہ مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں نے اسے اپنے پاس رکھ لیا۔اس روز سے میں نے اسے باپ بن کر پالا،یہاں تک کہ میں نے اسے میٹرک تک پڑھایا بھی۔آپ اس سے پوچھ لیں ۔آج سے پہلے یہ مجھ ہی کو اپنا باپ خیال کرتا رہا ہے۔جوں جوں یہ بڑا ہوتا گیا،باپ کی محبت میرے اندر بڑھتی گئی،یہاں تک کہ ایک دن میں نے بچے اغوا کرنے سے توبہ کرلی،لیکن جرم کا احساس پھر بھی اپنی جگہ رہا۔اب میں حاضر ہوں،آپ کا بچہ حاضر ہے،آپ پسند کریں تو مجھے پولیس کے حوالے کر دیں،چاہیں تو معاف کر دیں۔“”میں تمہیں اپنے بچے کی خاطر تو معاف کر سکتا ہوں،لیکن تم نے تو اور بھی بچے اغوا کیے ہیں۔ان کا کیا ہو گا؟ان کے ماں باپ کا کیا ہو گا؟“” وہ تو جانے کہاں ہوں گے!ان کی واپسی تو ناممکن ہے۔ان بچوں کے ماں باپ سے تو بات کرنا بھی ان کے لئے تکلیف دہ ہو گا،اس لئے آپ معاملہ یہیں تک رہنے دیں۔“”ارے میں ابھی اپنے بچے سے تو ملا تک نہیں۔“یہ کہہ کر سیٹھ نے نوجوان کو سینے سے لگا لیا۔ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔اسی حالت میں وہ بولے:”میرے بچے!تمہاری ماں تمہارے غم میں روتے روتے کب کی مر گئی۔میں سخت دل تھا جو زندہ رہا۔میں اس شخص کو تمہاری خاطر معاف کرتا ہوں۔“ادھیڑ عمر آدمی بولا:”لیکن سیٹھ صاحب!آپ ایک مہربانی اور کریں۔“”کہو،کیا کہتے ہو؟“”میں نے اسے باپ بن کر پالا ہے،آپ اتنی اجازت دے دیں کہ میں کبھی کبھی یا مہینے میں ایک آدھ بار اس سے ملنے کے لئے آجایا کروں گا۔“وہ بولے:”اجازت ہے۔“”اب میں اجازت چاہوں گا۔“”ایسے نہیں،اب تم کھانا کھا کر جاؤ گے۔میں ذرا ایک دوست کو فون کر لوں۔آؤ میرے بچے!میں تمہیں تمہارا گھر دکھا دوں۔“نوجوان سیٹھ صاحب کے ساتھ ہو گیا۔”تم گھوم پھر کر کوٹھی دیکھو،میں ذرا ایک دو فون کر لوں۔“وہ اپنے کمرے میں آئے اور کسی کو فون کیا،پھر باورچی خانے میں آئے اور ملازم کو کھانا لگانے کی ہدایت دی۔اس کے بعد وہ ادھیڑ عمر آدمی کے پاس آبیٹھے۔نوجوان ابھی کوٹھی میں گھوم پھر رہا تھا۔”حامد کہاں رہ گیا؟‘ادھیڑ عمر آدمی بولا۔”تو تم نے اس کا نام حامد رکھا ہے،جب کہ میں نے اپنے بیٹے کا نام خاور رکھا تھا۔“”آپ اسے جس نام سے چاہیں پکارا کیجیے۔“”ہاں کیوں نہیں“وہ مسکرائے۔پھر چونک کر بولے:”اور آپ کا نام کیا ہے میں نے پوچھا ہی نہیں۔“”میرا نام رشید خاں ہے۔“اس نے کہا۔عین اس وقت ملازم کھانے کی ٹرالی اندر لے آیا۔ساتھ ہی حامد اندر آگیا۔”آؤ حامد!تم بھی ان کے ساتھ کھالو کھانا۔اس کے بعد یہ رخصت ہو جائیں گے اور پھر آئیں گے۔دونوں کھانا کھانے لگے۔اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجی۔پھر ملازم کے ساتھ چند پولیس والے اندر داخل ہوئے۔”یہ کیا؟پولیس!“رشید خاں زور سے اُچھلا۔نوجوان کے چہرے پر بھی حیرت دوڑ گئی۔”ہاں پولیس۔میں ایسے چکروں میں آنے والا نہیں۔“سیٹھ امجد مسکرائے۔”جی کیا مطلب؟“دونوں ایک ساتھ بولے۔”تم دونوں فراڈ ہو،لیکن تم سے میں یہ ضرور پوچھوں گا کہ تم نے میرے بچے کا کیا کیا تھا؟“سیٹھ صاحب بولے۔”آپ ہمیں بتائیں کیا معاملہ ہے؟“پولیس افسر نے کہا۔سیٹھ امجد نے ساری بات پولیس افسر کو بتا دی۔پھر بولے:”یہ نوجوان ضرور اس کا بیٹا ہے۔یہ اسے اس نیت سے لایا ہے کہ میں اسے اپنا بیٹا مان لوں۔پھر یہ اس کے ذریعے سے میری دولت پر عیش کرتا،لیکن میں اتنا سیدھا نہیں۔میں نے آخر دنیا دیکھی ہے۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ پچیس سال پہلے اسی شخص نے میرے بچے کو اغوا کیا تھا،کیونکہ اس نے جو لاکٹ اور کپڑے مجھے دکھائے ہیں،وہ میرے ہی بچے کے ہیں۔ آپ اس سے پوچھیے انسپکٹر صاحب!“”ہاں ضرور،کیوں نہیں!اے مسٹر!اب ذرا سچ اُگل دو۔“”یہ واقعی سیٹھ صاحب کا بچہ ہے۔میں سچ کہتا ہوں۔“”نہیں ہر گز نہیں․․․․میں آج بھی اپنے بچے کو پہچان سکتا ہوں۔“سیٹھ امجد بولے۔”کیا مطلب؟آپ اب بھی اپنے بچے کو پہچان سکتے ہیں؟“پولیس افسر نے کہا۔”ہاں اس لئے کہ میرے بچے کے دائیں کندھے کے نیچے بغل کے پاس ایک سیاہ اُبھرا ہوا تِل ہے جو اس نوجوان کی بغل کے نیچے ہر گز نہیں ہو سکتا۔“ادھیڑ عمر آدمی اور نوجوان دونوں کے چہروں پر حیرت تھی۔”کیوں ہو گئے چودہ طبق روشن!“پولیس انسپکٹر ہنسا۔”یہ انہی کا بیٹا ہے۔میں نے غلط بیانی نہیں کی۔“اپنے باپ کو قمیض اُتار کر دکھا دو مسٹر!تاکہ اس کے منہ پر لگی کالک اور گہری ہو جائے۔“پولیس انسپکٹر بولا۔نوجوان نے اپنی جگہ سے حرکت نہ کی۔وہ تو بُت بنا کھڑا تھا۔”اس کی قمیض اُتار دو۔“پولیس انسپکٹر نے اپنے ماتحت سے کہا۔ماتحت آگے بڑھا اور اس نے قمیض اُتار دی۔دوسرا لمحہ حیران کن تھا۔نوجوان کی بغل کے نیچے سیاہ اُبھرا ہوا تِل صاف نظر آرہا تھا۔سیٹھ امجد چونک اُٹھا اور بولا:”یہ․․․․میں کیا دیکھ رہا ہوں؟یہاں تو تِل موجود ہے۔“نوجوان نے کھوئے کھوئے انداز سے کہا:”تت․․․․․تل۔“”میرے بچے!میرے بیٹے!میرے سینے سے لگ جاؤ۔تم ہی میرے خاور ہو۔“یہ کہہ کر سیٹھ صاحب نے اسے اپنے جسم سے چمٹا لیا۔ادھیڑ عمر آدمی بُت بنا بیٹھا تھا۔”تب تو یہ شخص سچا ثابت ہو گیا۔اب اس کے لئے کیا حکم ہے سیٹھ صاحب!“انسپکٹر نے کہا۔”اسے جانے دیں۔اگرچہ اس نے بہت خوف ناک جرائم کیے ہیں،لیکن آج یہ بہت بڑی نیکی کا کام بھی کیا ہے،ایک باپ کو بچھڑے بیٹے سے ملایا ہے۔“نن․․․․․نہیں۔“نوجوان ہکلایا۔”کیا مطلب!یہ کیا کہا بیٹے تم نے؟“”یہ بے گناہ نہیں،بہت بڑا گناہ گار ہے۔اس نے مجھے آج تک نہیں بتایا کہ میں اس کا بیٹا نہیں ہوں۔مجھ سے اس نے ہمیشہ یہی کہا کہ میں تمہارا باپ ہوں۔آج اس نے اپنے منصوبے کا ذکر کیا۔اس نے مجھے بتایا تھا کہ پچیس سال پہلے ایک بچے کو اغوا کرکے بیچ دیا تھا،لیکن اس کا لاکٹ اور کپڑے سنبھال کر رکھ لیے تھے۔اس خیال سے کہ بہت دولت مند باپ کا بیٹا ہے۔یہ چیزیں کبھی کام آسکتی ہیں۔آج یہ منصوبہ بنا کرمجھے ساتھ لایا تھا کہ سیٹھ صاحب کو ان کے بیٹے کے طور پر مجھے پیش کرے گا۔اس طرح میں بیٹا بن کر دولت سمیٹوں گا اور اس دولت میں اسے بھی برابر کا حصہ دیتا رہوں گا،یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس نے مجھے بھی اپنے ساتھ جرم کے راستے پر لگایا ہوا تھا۔“وہ سب دھک سے رہ گئے،پر سیٹھ صاحب نے نوجوان کو سینے سے لگایا اور پولیس انسپکٹر کا ہاتھ رشید خاں کی کلائی پر جم گیا۔رشید خاں کا سر جھک گیا۔ " لومڑی کی آخری چالاکی - تحریر نمبر 1832,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lomri-ki-akhri-chalaki-1832.html,"لومڑی ایک اونچے ٹیلے پر اداس بیٹھی تھی،سامنے ہرے بھرے میدان میں جانور اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔کچھ گھاس چر رہے تھے تو کچھ ان کی تاک میں لگے تھے۔کچھ شکار مار کر اس کے گوشت سے اپنا پیٹ بھر رہے تھے تو کچھ ندی سے پانی پی رہے تھے۔پرندے بھی جھنڈ بنائے ادھر سے ادھر اڑ رہے تھے۔وہ جنگل کا ایک خوش گوار دن تھا لیکن اس دن لومڑی پر سنجیدگی طاری تھی۔جنگل کی زندگی میں لومڑی کو اہم مقام حاصل تھا۔وہ شیر کی خاص مشیر تھی۔شیر ہر کام اس کے مشورے سے کرتا تھا،تمام جانور اس کے ساتھ عزت سے پیش آتے تھے اور دل سے اس کی عقل کو سراہتے تھے،لیکن وہ اپنی اس حیثیت سے خوش نہ تھی اور اپنے اس کردار سے تنگ آچکی تھی۔شروع میں تو وہ اپنی اس عزت افزائی پر پھولے نہیں سماتی تھی اور فخر سے گردن اکڑا کر چلتی تھی لیکن اب حالات بدل چکے تھے۔(جاری ہے)دراصل جب وہ دوسرے جانوروں کو ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے،بے وقوفانہ باتوں پر قہقہے لگاتے،بے مقصد گھاس پر دوڑتے اورلوٹے لگاتے دیکھتی تو آہ بھر کر رہ جاتی ۔اس کا بھی دل چاہتا تھا کہ لطیفوں پر دل کھول کر ہنسے،گھاس پر لوٹے لگائے،ریچھ کے لمبے لمبے بال نوچ کر بھاگ جائے،لیکن جب وہ ایسا کچھ کرنا چاہتی تو دوسرے جانور حیرت سے اسے دیکھنے لگتے اور وہ شرمندہ ہو جاتی ۔کچھ واقعات نے اس جانوروں کی نظروں میں ایسا بنا دیا تھا کہ وہ اس سے ایسی چھوٹی باتوں کی توقع نہیں کرتے تھے۔حالانکہ وہ خود کو دوسرے جانوروں کی طرح ہی سمجھتی تھی۔یہاں تک اپنی عقل و چالاکی کو بھی اہمیت نہ دیتی تھی جو جنگل کے ساتھ ساتھ انسانی آبادیوں تک میں اتنی مشہور ہو چکی تھی کہ ہوشیار آدمی کو”لومڑی کی طرح چالاک“کا خطاب دیا جانے لگا تھا۔جب وہ ان واقعات پر نظر دوڑاتی جن کی وجہ سے اسے یہ مقام حاصل ہواتھا تو سر پیٹ کر رہ جاتی۔اسے ان میں عقل کا عمل دخل کم،موقعہ سے بروقت فائدہ اٹھانا اور دوسروں کا احمقانہ رویہ زیادہ نظر آتا۔مثلاً وہ واقعہ جس میں اس نے شیر اور بھیڑیئے کے ساتھ مل کر تین شکار کیے اور جب شیر نے پوچھا کہ تقسیم کس طرح کی جائے․․․․؟اور بھیڑیئے نے پہلے جواب دے کر اپنی جان گنوائی تھی تو لومڑی نے فوراً سبق سیکھا اور ”تینوں شکار شیر کے ہیں“ کہہ کر عقل مندی کی سند حاصل کی،حالانکہ اگر یہ سوال شیرپہلے اس سے پوچھ لیتا تو وہ بھی بھیڑئیے والا جواب دیتی ۔اسی طرح جب ایک دن اس نے ایک کوے کو پنیر کا ٹکڑا منہ میں دبائے دیکھا تو اس کا جی للچایا۔یہاں اس نے محض کوے کی خوشامد ہی کی تھی۔اب وہ کوا ہی اتنا بیوقوف تھا کہ ذراسی تعریف پر پھولے نہیں سمایا اور پنیر کا ٹکڑا لومڑی نے مزے لے لے کر کھایا۔چند واقعات ایسے بھی تھے جن میں اس نے منہ کی کھائی لیکن وہاں کسی جانور کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کی عزت بنی رہی۔جب وہ ایک دن انگور کے باغ میں گئی اور پکے ہوئے انگوروں کو دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا تو اس نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح انگور حاصل کر سکے لیکن ناکام رہی۔بالآخر اپنی جھینپ مٹانے کے لئے یہ کہتے ہوئے رخصت ہو گئی کہ”انگور کھٹے ہیں“۔حالانکہ وہ انگور ذرا بھی کھٹے نہ تھے بلکہ خوب پکے ہوئے میٹھے انگور تھے۔اب لومڑی تنگ آچکی تھی۔وہ سارا دن بھوکی ٹیلے پر بیٹھی رہی۔رات ہوئی تو تمام جانور وہاں جمع ہو گئے۔ایک طرف شیر بھی بیٹھا تھا۔سب خوش گپیاں کر رہے تھے۔چاندنی رات تھی،پورے چاند نے آسمان کو روشن کر رکھا تھا۔بادلوں کی ٹکڑیاں اڑی چلی جا رہی تھیں۔بھیڑیئے کچھ بے چین تھے وہ بار بار گردن اوپر کرکے بھیانک آوازیں نکالتے۔شیر ناراض ہو کر انہیں گھورتا لیکن اس کا پیٹ بھرا ہوا تھا لہٰذا نظر انداز کر دیتا۔باتوں کے درمیان جانوروں میں بحث چھڑ گئی کہ چاند حرکت کر رہا ہے یا بادل سب آسمان کی طرف نظر اٹھائے اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔کچھ کا خیال تھا کہ چاند حرکت کر رہا ہے جبکہ کچھ جانور بادل کے حق میں تھے۔ ان کی بحث بڑھتے بڑھتے جھگڑے میں تبدیل ہونے لگی تو شیر کو غصہ آگیا۔وہ زور سے وہاڑا سب کو سانپ سونگھ گیا۔”تم لوگ کون ہوتے ہو فیصلہ دینے والے یہ تو دانا کا کام ہے۔“سب کی نظریں لومڑی کی طرف گھوم گئیں۔ایک بار پھر گیند لومڑی کے کورٹ میں آگری تھی،اس کا غصے سے برا حال تھا۔اسے بالکل پتا نہ تھا کہ کیا چیز حرکت کر رہی ہے۔پھر اسے خیال آیا یہ اچھا موقع ہے ایسا جواب دیا جائے جو احمقانہ ہو تاکہ آئندہ کے لئے اس کی جان چھوٹ جائے۔وہ بولی”بھائیو اور بہنوں․․․․!اگر چاند رکا ہوا ہے تو بادل چل رہے ہیں اور اگر بادل رکے ہوئے ہیں تو چاند چل رہا ہے۔“کسی کی بھی سمجھ میں اس کا یہ بے تکا جواب نہ آیا لیکن یہ الفاظ ایک ایسے جانور کے منہ سے نکلے تھے جس سے وہ احمقانہ جواب کی توقع نہیں رکھتے تھے چنانچہ سب نے واہ واہ شروع کر دی ان میں شیر بھی شامل تھا۔لومڑی خاموشی سے اٹھی اور نا معلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئی۔ " زوباریہ کی سالگرہ - تحریر نمبر 1831,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zobariya-ki-salgirah-1831.html,"صائم جمالباجی مسرت صبح سے کاموں میں مصروف تھی۔تعلیمی ادارے اوپن تو ہو گئے تھے مگر بچے ایک دن جاتے اور دوسرا دن ریسٹ،یہ ہماری حکومت کی جانب سے اعلان تھا کہ زیادہ سکول کالجز میں رش نہ بڑھے اس لئے اس حکمت عملی پر عمل پیرا تھے۔باجی مسرت کی بیٹی زوباریہ اس کی بھی آج چھٹی تھی جبکہ عمائمہ اور مصفراء آج سکول گئیں تھیں۔زوباریہ گول مٹول بھاری بھرکم جسامت کی دلکش لڑکی تھی وہ کھاتی بہت تھی اس لئے دن بدن گول گپہ بنتی جا رہی تھی جبکہ عمائمہ اور مصفراء سمارٹ اور پھرتیلی بچیاں تھیں۔یہ تینوں پڑھائی میں ذہین تھیں۔زوباریہ کو گھر میں پیار سے سب زوبی کہتے تھے اُس کے والد بیرون ملک تھے۔عمائمہ اور مصفراء اس کی کزنز تھیں۔زوبی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اس لئے خوب ناز نخرے اٹھواتی تھی اور یہ اپنے ماموں صائم اور جمشید کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔(جاری ہے)باجی مسرت چاک و چوبند اور پھرتیلی خاتون تھیں جھٹ پٹ سارے کام انجام دے دیتی۔ابھی وہ گھر کے کاموں سے فری ہو کر اپنی بیٹی کے کمرے کی طرف آئی۔زوبی اپنے بھاری بھرکم جسے سمیت چارپائی پر دراز خراٹے لے رہی تھی۔ ”ارے بیٹا!کب تک سوتی رہو گی اُٹھ جاؤ؟آج 4نومبر ہے کل تمہاری سالگرہ ہے کچھ تیاری نہیں کرنی اٹھ جاؤ بازار سے ہو آئیں۔ تمہارے کپڑے اور کچھ ضروری سامان لے آئیں۔زوبی آنکھیں ملتے ہوئے لمبی جمائی لے کر بولی۔مما پہلے گرما گرم چائے بنا دیں ساتھ میں کچھ کھانے کو بھی دیدیں پھر چلتے ہیں بازار“اُس کی نانو تنگ کر بولیں:ارے لڑکی اب پورا بازار نہ اُٹھا لانا اب کیا یہ سالگرہ کے فنکشن آگئے،ہمارے زمانے میں تو یہ اوٹ پٹانگ فنکشنز نہیں ہوتے تھے یہ اوشا بوشیاں تو اب ہوتیں ہیں،پیسے کا ضیاع۔ہی․․․․․ہی․․․․ہو ہو․․․․․․تاتا․․․․․ماتا مچائے رکھتے۔اماں کا کام تھا ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا۔اُن کی طبیعت ہی ایسی تھی اس لئے کوئی بھی اُن کی بات کا برا نہ مناتے۔زوبی نے مسکراتے ہوئے نانو جان کے گلے بازو حمائل کر دیئے۔پیاری نانو جان!آپ کے زمانے میں اور اب کے زمانے میں بہت فرق ہے آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ اور زمانے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔اماں جانی ہمارے گھر میں تو سارے بچے ہی سالگرہ مناتے ہیں۔ٹھیک کہتی ہو بیٹا!ویسے ہی کافی عرصہ ہو گیا گھر میں کوئی چہل پہل نہ ہوئی اس کمبخت کورونا نے سب خوشیاں نگل لیں اب کچھ حالات بہتر ہیں اچھا ہے گھر میں میرے سب بچے اپنے بال بچوں سمیت ایک ساتھ اکٹھے ہو جائیں گے۔مل بیٹھنے اور دُکھ سُکھ کرنے کا موقع آجائے گا پھر زوبی اپنی مما کے ساتھ بازار جانے کی تیاری کرنے لگیں۔اتنے میں اُن کے ماموں جان آگئے وہ انہیں گاڑی میں بٹھا کر بازار لے گئے۔یہ جس دکان پر بھی جاتے ان کو کپڑوں میں کوئی لباس پسند نہ آرہا ہو وہی پچھلے سال والے پرنٹ منہ چڑھا رہے تھے۔دکاندار کہہ رہے تھے کہ چھ ماہ تو فیکٹریاں بند رہیں کورونا کی وجہ سے نیا مال تیار نہیں ہو سکا اس لئے جو سٹاک میں پڑا ہے اُسی میں سے ہر کوئی لیے جا رہا ہے۔انشاء اللہ جلد ہی نیا مال آنا شروع ہو جائے گا کیونکہ فیکٹریاں کھل گئیں ہیں اور نیا مال تیار کر رہی ہیں۔پھر اُنہی میں سے باجی مسرت اور زوباریہ نے کپڑے سلیکٹ کر لیے۔ زوبی نے اپنی نانو کے لئے بھی دو جوڑے سوٹ لئے اور اپنی برتھ ڈے کے لئے عمدہ سافراک پسند کر لیا۔ساتھ میں میچنگ جوتے و دیگر سامان لے کر یہ شام ڈھلے گھر آگئیں۔خوشی کے مارے پوری رات زوبی کو نیند نہیں آرہی تھی صبح 5نومبر تھا اُس کی سالگرہ کا دن۔لیکن وہ تھوڑی اُداس بھی تھی کہ کافی سالوں سے اکیلی اپنی ماں و دیگر بچوں کے ساتھ سالگرہ منا رہی تھی اُس کے ابو کافی عرصہ سے پاکستان نہیں آئے بے حد مصروفیت کی وجہ سے ۔اپریل 2020ء میں انہوں نے آنا تھا لیکن پھر حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ وہ وہیں رہ گئے فلائٹس بند ہو گئیں لیکن وہ ویڈیو کال روز کر لیتے اور اپنی پیاری بیٹی زوبی کا حال احوال پوچھ لیتے۔5نومبر کا خوشگوار دن آگیا۔زوبی نے صبح اُٹھ کر اپنی مما اور نانو جان کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی اور پھر قرآن پاک کی تلاوت کی۔اس کی مما اور نانو نے پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے زندگی کے نئے سال کی شروعات کے لئے ڈھیروں ڈھیر دعائیں دیں۔زوبی رقت آمیز لہجے سے اپنی نانو جان اور مما کو گلے لگ گئی۔شام تک اُس کے ماموں صائم نے پورے گھر کو برقی قمقموں سے سجا دیا۔ہال میں رنگ برنگے غبارے و دیگر سجاوٹ کی چیزیں لگا کر خوبصورت ماحول بنا دیا۔اُن کے بڑے ماموں ممانی اور ان کے بچے حماد،حمنہ،ہادیہ اور لنتا ناز سب ٹائم سے آگئے۔اُس کی خالہ بھی اپنے دونوں شریر بچوں انس اور عنایہ کے ساتھ آگئیں،انس،لنتا اور مصفراء کے شور شرابے عروج پر تھے پھر ہال کمرے میں بڑی ٹیبل رکھ دی گئی اور اُس پر زوبی کے ماموں نے اُس کا فیورٹ چاکلیٹ کیک سجا دیا جس کے ہر طرف رنگ برنگی کینڈلز جل رہی تھیں۔زوبی سرخ فراک میں ونگز لگائے پری بنی اپنی مما کے ساتھ کھڑی تھی۔یہ دلفریب منظر اماں نے کھڑکی سے دیکھا اور فوراً وہ بھی ہال میں داخل ہو گئی۔بچوں کی تالیوں کے شور میں کیک کاٹا گیا اور سب کو سرو کرنے کی ڈیوٹی زوبی کی مما اور خالہ کی تھی۔ ابھی باجی مسرت کیک پر چھری رکھ رہی تھی کہ انس نے شرارت سے لنتا کو کیک پر دھکا دے دیا۔لنتا کا منہ پورے کا پورا کیک میں گھس گیا اور عجیب مضحکہ خیز لگ رہی تھی سب بچے ہنس رہے تھے وہ تو بھلا ہوا ماموں صائم کا وہ احتیاطاً دو کیک لے آئے تھے پھر باجی نے فریج سے فوراً دوسرا کیک نکالا اور سب کو سرو کیا یوں یہ یادگار اور دلفریب تقریب کا اختتام ہو گیا اور اگلی صبح سب اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے۔ " قوس قزح کیا ہے - تحریر نمبر 1830,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rainbow-kiya-hai-1830.html,"آمنہ ماہمبارش تھمے،بادل چھٹ جائیں اور سورج اپنا چمکتا دمکتا مکھڑا نکالے تو بعض وقت اس کے بالکل سامنے آسمان پر ایک رنگین کمان سی بن جاتی ہے۔اسے قوس قزح یا دھنک کہتے ہیں۔یہ صرف دن میں دکھائی دیتی ہے۔رات میں نہیں،کیونکہ یہ سورج کی روشنی ہی سے بنتی ہے۔سورج کی روشنی ظاہر میں سفید نظر آتی ہے لیکن اصل میں اس کے اندر مختلف رنگ کی کرنیں ہوتی ہیں جو آپس میں گڈمڈ ہونے کی وجہ سے الگ الگ دکھائی نہیں دیتیں۔جب یہ کرنیں شیشے یا پانی میں گزرتی ہیں ٹیڑھی ہو کر الگ الگ ہو جاتی ہیں اور ہم ان کے رنگ جدا جدا دیکھ سکتے ہیں۔اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے ایک منشور لیجیے۔یہ خاص قسم کے شیشے کا ایک مثلث ٹکڑا ہوتا ہے۔اس منشور کو سورج کی طرف کرکے آہستہ آہستہ گھمائیے۔(جاری ہے)آپ کو اس کے اندر کئی رنگ نظر آئیں گے۔اب کسی اندھیرے کمرے میں جایئے اور اتنی کھڑکی کھولیے کہ اس میں سے سورج کی باریک سی کرن اندر آسکے۔اس کرن کے سامنے ایک میز رکھیے اور میز پر سفید کاغذ،منشور کو روشنی کے سامنے کرکے آہستہ آہستہ گھمایئے۔کاغذ پر رنگین دھنک سی جھلملاتی نظر آئے گی۔بالکل اسی طرح آسمان پر دھنک پڑتی ہے۔بارش تھمنے کے بعد ہوا میں پانی کے ننھے ننھے ذرے رہ جاتے ہیں۔سورج کی کرنیں ان ذروں میں سے گزرتی ہیں تو ٹیڑھی ہو کر الگ الگ ہو جاتی ہیں اور ہم کمان کی صورت میں ان کے علیحدہ علیحدہ رنگ دیکھتے ہیں۔مگر یہ تماشا تھوڑی دیر کے لئے ہوتا ہے۔جونہی ذرے ختم ہوتے ہیں کرنیں آپس میں گڈمڈ ہو جاتی ہیں۔اور رنگین کمان غائب ہو جاتی ہے۔دھنک پڑنے کے لئے ضروری ہے کہ سورج یا توعین مشرق میں ہو یا عین مغرب میں۔یعنی سورج کی شعاعیں پانی کے قطروں پر ترچھی پڑنی چاہیں۔اگر سورج مشرق کی جانب ہو گا تو دھنک مغرب کی طرف پڑے گی اور مغرب کی جانب ہو گا تو مشرق کی طرف۔ " ماں - تحریر نمبر 1828,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mother-1828.html,"ساجد کمبوہوہ ایک مزدور تھا ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا اور گاؤں سے دور ایک شہر میں محنت مزدوری کرتا تھا کورونا وائرس نے جہاں لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا وہاں ہوٹل مارکیٹس سکول یونیورسٹیاں کالج سرکاری دفاتر بند کئے وہاں کئی فیکٹریوں کو بھی بند کر دیا گیا۔فیکٹری کی بندش سے وہ بے روزگار ہو گیا اب اس کی جیب میں ایک لکھا ہوا خط اور پانچ سو کے قریب روپے تھے یہ خط اس کی والدہ نے لکھا تھا مجھے کم از کم دو ہزار روپے کی ضرورت ہے جلدی بھیجو اگر حالات نارمل ہوتے یہ دو ہزار کچھ بھی نہ تھا خبر نہیں یہ حالات کب تک رہیں گے؟اس کو اپنا گزارا بھی کرنا تھا ادھر والدہ کا مطالبہ تھا کہ جلدی پیسے بھیجو۔فیکٹری والوں نے تنخواہ اور واجبات روک رکھے تھے۔(جاری ہے)جب وہ بس سے اترا ہاتھ جیب میں ڈالا وہ چونک اٹھا کہ جیب کترے نے پیسے اور خط اڑا لیا تھا اب کیا کروں؟اپنا گزارا بھی مشکل اور والدہ کا حکم بھی پورا کرنا نا ممکن وہ کوارٹر پر سانجھے داری سے کھانا کھا رہا تھا کہ ایک دن اس کی والدہ کا خط ملا کھولنے سے پہلے ہی وہ سہم گیا جانے والدہ کتنے غصے میں ہونگی اسے کیسے پیسے پہنچاؤں گا اسے وہ خط یاد آیا جو اپنی والدہ کو لکھا تھا کہ میری نوکری چھوٹ گئی ہے وہ فی الحال پیسے نہیں بھیج سکتا۔اسے خط پوسٹ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔وہ بھی چور لے اڑا تھا۔مجبوراً اس نے خط کھولا لکھا تھا کہ تمہارے بھیجے ہوئے دو ہزار کا منی آرڈر ملا بہت خوشی ہوئی اللہ تجھے شاد و آباد رکھے۔آمینوہ پریشان ہو گیا ماں جی کو پیسے کس نے بھیجے وہ اس پوزیشن میں نہ تھا کچھ دن بعد اسے ایک اور خط ملا اس پر لکھا تھا۔بھائی پانچ سو تیرے اور پندرہ سو اپنے پاس سے ملا کر ماں جی کو دو ہزار بھیج دیئے ہیں کیونکہ ماں تو ماں ہی ہوتی ہے تیری ہو یا میری وہ کیوں بھوکی رہے۔تمہارا مجرم․․․․․․جیب کترا۔ " درخت اور پودے بھی باتیں کرتے ہیں - تحریر نمبر 1827,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/darakhat-or-poode-bhi-batain-karte-hain-1827.html,"محمد اویسپیارے بچو!یہ تو آپ جانتے ہیں کہ پودے بھی جاندار ہوتے ہیں۔اس کرہ ارض میں رنگ بھرنے والے خوبصورت پھول،ہرے بھرے درخت اور نازک پودے اس کائنات کو رنگین ہی نہیں بلکہ معطر بھی رکھتے ہیں اور کیسے ممکن ہے کہ خوشبو پھیلانے والے یہ پھول،پودے احساسات و جذبات سے عاری ہوں۔آئیے ہم آپ کو پودوں اور درختوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ آپس میں کس طرح باتیں کرتے ہیں۔اسٹاک ہوم کے سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ پودے بھی آپس میں باتیں کرتے ہیں لیکن ان کی یہ باہمی گفتگو بے مقصد نہیں ہوتی بلکہ اس کے ذریعے وہ نہ صرف ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں بلکہ نشوونما میں مدد بھی دیتے ہیں۔ماہرین نے دریافت کیا کہ پودے اپنی جڑوں سے خاص کیمیائی مادوں کا اخراج کرتے ہیں جو ان کے قریب موجود،دوسرے پودوں تک پہنچ کر ان کی شناخت کرتے ہیں۔(جاری ہے)اور انہیں یہ بتاتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں اُگنے والا پودا ان ہی جیسا ہے یا ان سے مختلف ہے۔سائنس دانوں کا خیال ہے کہ نباتات انسانوں اور جانوروں کی طرح حس رکھتے ہیں یہ مسکراتے بھی ہیں اور تکلیف پر روتے بھی ہیں،یہ باتیں بھی کرتے ہیں اور مثبت و منفی اثرات کو محسوس بھی کرتے ہیں۔درختوں کی جڑیں جو زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ان درختوں کے لئے ایک نیٹ ورک کا کام کرتی ہیں،جس کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے نمکیات اور کیمیائی اجزاء کا تبادلہ کرتے ہیں۔تحقیق کے مطابق جب کوئی کیڑا پتے یا تنے پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس مقام سے ایک قسم کا مالیکیول نکلتا ہے جو پودے کے دیگر حصوں کو بھی اس خطرے سے آگاہ کر دیتا ہے ،جس کے بعد پودے کے دیگر حصوں میں دفاعی نظام متحرک ہو جاتا ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پودے کے کسی حصے کو نقصان پہنچنے پر ایک برقیاتی چارج نکلتا ہے جو پودے کے دیگر حصوں تک پھیل جاتا ہے۔ " اللہ کی شکر گزاری - تحریر نمبر 1826,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/allah-ki-shuker-guzari-1826.html,"روبینہ نازحماد اپنے گاؤں کے سکول کی آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ایک قابل ،محنتی اور والدین و اساتذہ کا تابعدار طالب علم تھا۔والدین کی خدمت کے ساتھ ساتھ ان کی نصیحت بڑے غور سے سنتا اور عمل کرتا تھا۔ان کا تعلق گاؤں کے ایک غریب گھرانے سے تھا اس کے والدین اس کو ایک کامیاب انسان بنانا چاہتے تھے۔ایک دن امی سے کہنے لگا امی جان میرے سارے کلاس فیلوز کے پاس کتابوں کا اچھا بیگ ہوتا ہے قلم کاپیاں اور دیگر ضروری اشیاء ہر دن نئے نئے لاتے ہیں اور خاص کر ان کا نہایت ہی اعلیٰ اور عمدہ کھانوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس میرے پاس اس جیسی اشیاء نہیں ہوتیں اور لنچ بھی معمولی ہوتا ہے۔احمد نے امی سے شکوے کے انداز میں کہا۔یہ سن کر شفقت سے امی کی آنکھیں بھر آئیں۔(جاری ہے)لیکن پھر حوصلہ کرکے تسلی دینی شروع ہوئیں اور بولی بیٹا!ہمیں آپ کا احساس ہے کہ اس طرح تمہیں تعلیم کی سہولیات نہیں ہونی چاہئے مگر تم دیکھتے ہو کہ یہ پیسہ تمہارے والد کے خون پسینے کی کمائی ہے ہم یہ بچا بچا کر تمہارے سکول کی فیس اور دیگر تعلیمی ضروریات پر خرچ کرتے ہیں یہاں کچھ دیر کے لئے اس کی امی پانی پیتے خاموش ہو گئی۔حماد امی کی بات غور سے سن رہا تھا۔اس کی امی پھر بولیں۔”بیٹا تم ناشکری نہ کرو بلکہ اس کھانے پر اللہ کا شکر ادا کیا کرو۔اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ”اگر تم شکر کرو گے تو تم کو زیادہ نعمت دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔”شکر کیا ہے؟امی جان حماد نے بے چینی سے پوچھا۔خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ ”نعمت کو غیر مناسب جگہ خرچ مت کرو۔یہ ناشکری ہے“امی نے جواب دیا۔حماد نے یہ سن کر وعدہ کیا کہ آئندہ میں کبھی کسی بھی نعمت کی ناشکری اور اس قسم کی باتیں نہیں کروں گا تو امی نے شفقت سے اس کی پیشانی کو بوسہ دے کر گھر کے کام کاج میں لگ گئی کچھ ہی عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اللہ نے حماد کے والد کو ایک اچھی جگہ نوکری عطا کی جس کی وجہ سے حماد کی وہ شکایت خود بخود دور ہو گئی اور بقیہ زندگی خوشی کے ساتھ بسر کرتے رہے۔پیارے بچو!تم بھی حماد کی طرح اگر شکر گزاری کے ساتھ زندگی گزارو گے تو تمہاری زندگی بھی خوشگوار بن جائے گی۔ " پرانے زمانے کے جانور کیسے تھے - تحریر نمبر 1825,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/purane-zamane-k-janwar-kaise-thay-1825.html,"آمنہ ماہملاکھوں سال پہلے دنیا میں عجیب و غریب جانور پائے جاتے تھے۔ان میں سے کچھ تو اتنے بڑے تھے کہ ان کے سامنے ہمارے ہاتھی بھی بونے معلوم ہوتے ہیں۔سائنس دان ان جانوروں کو ڈینوسار کہتے ہیں اور جس زمانے میں یہ موجود تھے وہ”تاریخ سے پہلے کا زمانہ“کہلاتا ہے۔اس وقت دیو جیسے پرندے ہوا میں اڑتے تھے۔ان کے بازوؤں پر کھال منڈھی ہوئی تھی۔پر اور بال نہیں تھے۔ایک خوفناک ہاتھی بھی پایا جاتا تھا۔جسے میمتھ کہتے ہیں۔اس کی صورت بہت ہیبت ناک تھی اور سارا جسم لمبے لمبے بالوں سے ڈھکا ہوا تھا اور دانت زمین کو چھوتے تھے۔ان کے علاوہ اور بھی بہت سے عجیب وغریب جانور تھے جو اب ناپید ہوگئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہمیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ جانور کبھی دنیا میں موجود تھے؟ان میں سے کئی جانوروں کے ڈھانچے برف میں دبے ہوئے ملے ہیں۔(جاری ہے)ان ڈھانچوں سے سائنس دانوں نے ان کی شکل وصورت کے متعلق اندازہ لگایا ہے اور یہ بھی معلوم کر لیا ہے کہ وہ کس زمانے میں پائے جاتے تھے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ میمتھ ،دس ہزار سال پہلے،الاسکا(امریکہ)اور سائبیریا(روس)میں رہتے تھے۔جب ان علاقوں میں برف کا طوفان آیا تو وہ اس میں دب گئے۔ڈینوسار،ایک کروڑ چالیس لاکھ سال پہلے،کیلی فورنیا(امریکہ)میں رہتے تھے۔ان میں سے کچھ تارکول کی ایک جھیل میں گر گئے۔سائنس دانوں نے اس جگہ سے ان کے ڈھانچے نکالے ہیں۔دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔جانور مر جاتے تو مٹی یا ریت ان کے جسموں کو ڈھانپ لیتی تھی۔اس طرح ان کا گوشت تو گل سر جاتا تھا مگر ہڈیاں محفوظ رہتی تھیں۔آہستہ آہستہ یہ مٹی یا ریت پتھری بن جاتی تھی اور ان جانوروں کے ڈھانچے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جاتے تھے۔ " پانی پیو توانا رہو - تحریر نمبر 1824,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/paani-piyo-tawana-raho-1824.html,"سلیم فرخیگڈو اپنی کلاس میں دیگر طلبا کے ساتھ ٹیچر کا لیکچر سن رہا تھا کہ اچانک اس کے ایک کلاس فیلو نے الٹی کی اور بے ہوش ہو گیا۔سب اس کو لے کر اسکول کے کلینک بھاگے۔ڈاکٹر صاحب نے فوراً اس کو پنکھے کے نیچے لٹایا اور قمیض کے بٹن کھول کر گیلا تولیا اس کے جسم پر پھیرنے لگے۔ وہ ہوش میں آیا تو ڈاکٹر صاحب نے اس کو پہلے نمک چینی ملا پانی یا او آریس دیا اور پھر جوس بھی پلایا۔دھیرے دھیرے اس کی طبیعت ٹھیک ہو گئی۔گڈو نے ٹیچر سے پوچھا کہ آخر میرے دوست کو کیا ہوا تو ٹیچر نے بتایا کہ یہ ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوا تھا۔آپ بھی حیران ہو رہے ہوں گے کہ آخر ڈی ہائیڈریشن کیا ہے؟تو چلیں یہ گتھی بھی سلجھا دیتے ہیں۔ہمارے جسم میں سب سے زیادہ مقدار پانی کی ہوتی ہے یعنی 65فیصد۔(جاری ہے)خون میں 90فیصد اور گوشت میں 75فیصد پانی ہوتا ہے۔پانی کے ذریعے غذائی مواد خلیوں تک آسانی سے پہنچ جاتا ہے اور غذا کا فاضل مواد پانی ہی کی وجہ سے جسم سے با آسانی خارج بھی ہو جاتا ہے۔پانی جسم کی قدرتی حرارت بھی مناسب اور منظم رکھتا ہے۔ڈی ہائیڈریشن کیا ہےجسم میں پانی کی کمی کو ڈی ہائیڈریشن(Dehydration)کہتے ہیں اور جسم کو ضرورت کے مطابق پانی مل جانے کا یہ عمل ری ہائیڈریشن (Rehydration)کہلاتا ہے۔وجوہات گرمیہمارے ملک کے زیادہ تر علاقوں میں موسم زیادہ تر گرم ہے۔حبس اور گرمی کی وجہ سے پسینے کی صورت میں بہت سا پانی جسم سے خارج ہو جاتا ہے،جس سے ہم نڈھال اور کمزور ہو جاتے ہیں۔گرم موسم میں سخت ورزش یا بہت زیادہ جسمانی محنت کا کام کرنے سے بھی چونکہ پسینے کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔اس کی وجہ سے ہمارے جسم میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے۔پینے کا گندا یا آلودہ پانیطبی ماہرین کے مطابق 80فیصد بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں۔مختلف ذرائع کے مطابق شہر میں فروخت ہونے والی سبزیاں اس گندے پانی سے کاشت کی جاتی ہیں،جو مختلف صنعتوں اور کارخانوں سے خارج ہوتا ہے۔یہ پانی زہریلا ہوتاہے۔پانی میں آلودگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پانی سپلائی کرنے والی پائپ لائنیں زنگ آلود ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں اور ان میں گٹر کا گندہ پانی شامل ہو جاتا ہے۔ایسا پانی پینے سے انسان کا نظام ہضم خراب ہو جاتا ہے اور اسہال کا مرض لاحق ہو جاتا ہے جس سے جسم میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے۔علاماتاگر جسم میں پانی کی کمی ہو جائے تو پیاس بہت زیادہ لگتی ہے۔پیشاب گاڑھا اور گہرا پیلا ہو جاتا ہے۔منہ خشک ہو جاتا ہے۔جلد کی لچک کم ہو جاتی ہے۔سر چکراتا ہے،گھبراہٹ اور متلی بھی ہوتی ہے۔دودھ پیتے بچوں کے سر کا اوپری نرم حصہ بھی دھنس جاتا ہے۔علاجاگر اسہال کی شدت کم ہے تو عموماً کسی دوا کی ضرورت نہیں ہوتی۔صرف نمکول ملا پانی پینے سے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔نمکول گھر پر خود بھی بنایا جا سکتا ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے:ایک لیٹر اُبلا ہوا ٹھنڈا پانی لے کر اس میں آدھا چمچہ عام نمک اور آٹھ چمچے شکر (چینی کے بجائے گڑ کی شکر بہترہے)شامل کریں اور اچھی طرح حل کر لیں۔اس نمکول میں آدھی مقدار میں پھلوں کا رس یا ناریل کا پانی بھی ملا سکتے ہیں۔اس محلول کو جوش نہ دیں اور 24گھنٹے کے اندر پی کر ختم کر لیں۔ڈی ہائیڈریشن کے دنوں میں خوراکپتلی کھچڑی یا شولا صبح و شام کھایا جائے سالن میں روٹی ڈبو کر کھائی جائے بکرے اور مرغی کا گوشت سالن کے ساتھ لینا چاہئے پھلوں میں کیلا اور انار فائدہ مند ہے۔اس کے علاوہ آلو بخارا،سونف اور پودینہ موثر ہے۔احتیاطکم از کم آٹھ دس گلاس صاف پانی روز پیا کریں،کیونکہ آلودہ پانی بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے۔جن میں نظام ہضم،سوزش جگر(ہیپاٹائٹس)، ٹائیفائیڈ،اسہال اور گلے کے امراض شامل ہیں۔اس لئے احتیاطاً پانی کو کم از کم پانچ منٹ تک ضرور ابالنا چاہیے۔امید ہے کہ اب آپ ڈی ہائیڈریشن کو پوری طرح سمجھ چکے ہوں گے اور ری ہائیڈریٹڈ رہیں گے۔ " پانڈا - تحریر نمبر 1823,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/panda-1823.html,"محمد فرحان اشرفپیارے بچو!آپ نے دستاویزی فلموں میں لُڑھکتا،پتے کھاتا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا دور سے بڑے ریچھ جیسا نظر آنے والا جانور پانڈا ضرور دیکھا ہو گا۔ پانڈا گول مٹول سا جانور ہے،جو اپنے موٹے اور لمبے جسم کے باعث مائٹی(Mighty) پانڈا بھی کہلاتا ہے۔ حیوانات کے ماہرین اسے ریچھ کی ایک قسم تسلیم کرتے ہیں اور اسے پانڈا ریچھ کہتے ہیں،ہم بھورے،سیاہ ریچھ اور برفانی ریچھ کو پانڈا کے کزن کہہ سکتے ہیں ۔پانڈا کہاں پایا جاتا ہے؟پانڈا چین کے مرکزی صوبوں میں موجود بانس کے جنگلات میں پایا جاتا ہے ۔یہ وہاں بانس کے درختوں کے جھنڈ میں گیلی مٹی کھود کر گڑھا بناتا ہے اور اس میں چھپا رہتا ہے۔ ریچھ کی طرح پانڈا اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور پانی میں تیر بھی سکتا ہے،لیکن یہ پانی سے دور رہتا ہے اور چڑھائی پر آسانی سے چڑھ جاتا ہے۔(جاری ہے)پانڈا کو دن کے وقت کم نظر آتا ہے،مگر رات کے وقت اس کی نظر خاصی تیز ہو جاتی ہے۔ اس کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہے جس سے یہ خوراک اور اپنے ساتھیوں کو تلاش کرتا ہے۔افزائش نسلپانڈا کی مادہ بہار کے موسم میں ایک یا دو بچے دیتی ہے۔ پیدائش کے وقت یہ بچے ایک بڑے چوہے جتنے ہوتے ہیں۔ ماں بچوں کو تقریباً ایک سال تک دودھ پلاتی ہے اور ڈیڑھ سال تک اپنے پاس رکھتی ہے۔پانڈا کی اقسامقن ڈنگ پانڈاپانڈا کی دو اقسام”قن ڈنگ پانڈا“ اور سرخ پانڈا چین میں پائے جاتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ دنیا بھر میں پائے جانے والے تمام پانڈا چین کی ملکیت ہیں۔ چین سے باہر تمام پانڈاچین نے لیز پر حاصل کررکھے ہیں۔ پوری دنیا میں ان کی کل تعداد 300کے لگ بھگ ہے۔سرخ پانڈاسرخ پانڈا کو چھوٹا پانڈا اور سرخ بلی نما ریچھ بھی کہا جاتا ہے۔یہ جنوب مغربی چین اور مشرقی ہمالیہ کے پہاڑوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ قد میں پالتو بلی سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے۔ یہ بانس کے علاوہ کیڑے،انڈے اور پرندے بھی کھا لیتا ہے۔ ان کی تعداد بہت کم ہے اور عمر زیادہ سے زیادہ 22سال تک ہوتی ہے۔ سرخ پانڈا بہت غصیلا ہوتا ہے اور تنگ کرنے پر فوراً حملہ کر دیتا ہے۔ پانڈا دن میں 14گھنٹے سویا رہتا ہے اور باقی وقت کھانے پینے اور سستی سے ایک جگہ بیٹھ کر گزار دیتا ہے۔ایک دن میں پانڈا 15کلو گرام تک خوراک کھا جاتا ہے۔ پانڈا کو چڑیا گھر میں رکھنا خاصا مہنگا ہے،کیونکہ اس کے کھانے کے تازہ بانس کے درخت مہیا کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ پانڈا کو اُنیسویں صدی تک صرف چین میں جانا جاتا تھا۔1869ء میں ایک عیسائی مبلغ کو ایک مقامی چینی نے پانڈا کی کھال تحفے کے طور پر دی،اس طرح پہلی باریورپ کو اس جانور کا علم ہوا۔1916ء میں ایک جرمن ماہر حیوانات’ہیو گو وی گولڈ‘(Hugo Weigold) نے پانڈا کا باقاعدہ ذکر کیا اور اس جانور پر تحقیق کی۔پانڈا بھی اُن جانوروں میں شامل ہے،جو ختم ہونے کے خطرے سے دو چار ہیں۔ چین میں اس جانور کی آزادی کے لئے کئی تحقیقاتی مراکز قائم کیے گئے ہیں اور چین حکومت نے ا س کے شکار پر پابندی لگا دی ہے۔ 2008ء کے اور اولمپکس چین کے شہر بیجنگ میں منعقد ہوئے ،ان میں نمایاں نشان پانڈا تھا۔ " شہزادی دھنک کی سالگرہ - تحریر نمبر 1821,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shehzadi-dhanak-ki-salgirah-1821.html,"آمنہ کوثرشام کا وقت ہو رہا تھا اور سب بچے بہت خوش تھے کیونکہ انھیں روزانہ کی طرح دادی اماں سے کہانی سننی تھی۔ابھی سب رات کے کھانے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ سب بچے بھاگ کر دادی کے کمرے میں جا پہنچے۔سب لوگ بچوں کو جاتے ہوئے حیرت زدہ نظروں سے دیکھنے لگے کہ آخر بچوں کو ہو کیا گیا ہے۔شام ہوتے ہی نہ گیمز کی لڑائی ٹی وی ریمورٹ پر مارا ماری۔دادی اماں بولیں”یہ سب کہانیوں کا کمال ہے۔بچے قدرت سے دور ہو چکے تھے۔انھیں کہانیوں کی دنیا کا پتہ ہی نہ تھا۔اب یہ کہانی کی دنیا کے شوق میں باقی سب چیزوں کو بھول جاتے ہیں“۔پھوپھو بولیں”اوہ تو یہ سب کہانی کے چکر میں آپ کے کمرے میں جا پہنچتے ہیں“۔دادی اماں مسکرائیں ۔دادی اماں جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئیں وہاں پر پہلے سے جمع فوج نے شور مچانا شروع کر دیا۔(جاری ہے)”دادی اماں آج ہم کون سی کہانی سنیں گے۔دادی اماں آج ہم کونسی کہانی سنیں گے۔“دادی اماں مسکرائیں”پیارے بچو!آج ہم شہزادی دھنک کی کہانی سنیں گے۔“سب بچے ایک زبان بولے ”شہزادی دھنک کی کہانی“۔دادی اماں بولیں”ہاں بچو!شہزادی دھنک کی کہانی۔“پھر دادی اماں نے شہزادی دھنک کی کہانی سنانی شروع کی۔”یہ کہانی ہے عالیہ کی جو اپنے گھر کی بہت لاڈلی ہے۔عالیہ کو دھنک بہت پسند ہے اس لئے سب اسے شہزادی دھنک کے نام سے بلاتے ہیں۔آج اس کی سالگرہ ہے اور وہ بہت افسردہ ہے کیونکہ کسی نے اسے سالگرہ کی مبارکباد نہیں دی۔اسے امید تھی کہ میرے صبح اٹھتے ہی سب مجھے سالگرہ کی مبارکباد اور تحفے دیں گے لیکن کسی نے ایسا نہیں کیا۔البتہ کسی کو شاید میری سالگرہ یاد ہی نہیں۔“بشریٰ متجسس ہوئی”دادی یہ دھنک کیا ہوتی ہے“۔دادی نے کہا”دھنک کا دوسرا نام قوس قزح ہے۔انگلش میں ہم اسے Rainbowکہتے ہیں۔ دھنک سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے جس میں سرخ،مالٹائی،پیلا،نیلا،جامنئی،سبز اور گہرا نیلا شامل ہیں۔جب بارش کے قطرے فضا میں ہوتے ہیں اور سورج کی روشنی ان پر سے گزرتی ہے تو سات رنگوں کی ایک کمان آسمان پر بن جاتی ہے۔اسے دھنک کہتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دھنک آسمان پر واقعی موجود نہیں ہوتی مگر یہ دیکھنے والے کی جگہ پر منحصر ہوتا ہے۔نیوٹن نے اس بات کو ثابت کیا کہ سفید روشنی دھنک کے سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے۔بچو!کیا آپ کو پتہ ہے کہ دھنک ایک نہیں بلکہ مختلف انداز میں ترتیب پاتی ہے۔اسے”دھنک کے ذائقوں“ کا نام دیا جاتا ہے۔“عقیل کہنے لگا”دادی مجھے بھی یہ دھنک دیکھنی ہے۔“ دادی مسکرائیں”بچو!ہم دھنک کو ہر وقت نہیں دیکھ سکتے۔“مناحل گڑ بڑائی”تو دادی اماں پھر ہم کب دیکھیں گے دھنک کو۔“ارحم کہنے لگا کیا میں صبح صبح اٹھ کر دھنک کو دیکھ سکتا ہوں۔“زینب کہنے لگی”ہاں تم کبھی بھی دیکھ سکتے ہو۔تم تو دھنک شہزادے ہونا!۔“قہقہے گونجنے لگے۔ دادی اماں بولیں”نہیں بچو!عموماً جب آدھے آسمان پر بادل ہوں اور آدھا آسمان صاف ہو تو آسمان پر دھنک بنتی ہے۔لیکن جیسے کہ میں نے بتایا ہے اسے ہر جگہ نہیں دیکھا جا سکتا۔یہ جگہ پر منحصر ہوتا ہے کہ روشنی وہاں سے کس زاویے سے گزر رہی ہے۔“بشریٰ کہنے لگی”دادی شہزادی دھنک کی سالگرہ کا کیا بنا۔“دادی کہنے لگیں ”عالیہ پریشان حال میں ہی سکول چلی گئی۔سکول بھی اس کی کسی دوست نے اسے مبارکباد نہ دی۔سکول سے واپسی پر وہ اپنی نانی اماں کے گھر چلی گئی۔وہاں بھی کسی کو عالیہ کی سالگرہ یاد نہ تھی۔عالیہ بہت اداس ہو گئی۔‘ارحم نے پوچھا”دادی کیا عالیہ سے کوئی پیار نہیں کرتا۔“دادی مسکرائیں”نہیں بچو ایسی بات بالکل نہیں۔“سب پوچھنے لگے”تو پھر کسی کسی کو عالیہ کی سالگرہ یاد کیوں نہیں۔“دادی کہنے لگیں یہ تو کہانی کے آخر میں پتہ چلے گا۔“سب خاموش ہو گئے۔دادی نے کہانی کو آگے بڑھایا۔”عالیہ سارا دن اداس پھرتی رہی اوریہ سوچتی رہی کہ کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا کسی کو میری سالگرہ یاد نہیں۔اب میں کسی سے بات نہیں کروں گی لیکن جب رات کو وہ ماموں کے ساتھ گھر واپس آئی تو حیران رہ گئی۔سب لوگ پہلے سے گھر میں موجود تھے۔نانی لوگ،کنزنز اور اس کی دوستیں سب نے بلند آواز کہا”Happy birthday Dhanak shehzadi“۔عالیہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ سب کو میری سالگرہ یاد تھی۔گھر کو سب نے اتنا اچھا سجایا ہوا ہے اور کیک پر دھنک بنی ہوئی ہے۔یوں سب نے عالیہ کو سر پرائز دیااور اس کی ساری اداسی غائب ہو گئی۔“بشریٰ کہنے لگی”دادی اماں میری سالگرہ بھی ایسے ہی کرنا آپ۔“سب ہنسنے لگے۔ارحم کہنے لگا”مجھے تو دھنک دیکھنی ہے جب بارش کا موسم ہو گا میں ضرور دیکھوں گا۔“سب بچے کہنے لگے”ہم بھی دیکھیں گے۔“دادی اماں کہنے لگیں”چلو اب بہت رات ہو گئی ہے سب بچے جا کر سو جاؤ۔“سب بچے سونے چلے گئے اور دادی اماں خوش ہو گئیں کہ بچے قدرت کی قریب آرہے ہیں۔دور تک کوئی نہ آیا ان رتوں کو چھوڑنےبادلوں کو جو دھنک کی چوڑیاں پہنا گئیں " حرکت میں برکت - تحریر نمبر 1820,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/harkat-main-barkat-1820.html,"شہید حکیم محمد سعید”حرکت میں برکت ہے“مجھے معلوم نہیں کہ یہ مقولہ کس کا ہے،مگر میں نے یہ بات اپنے بچپن میں اپنی والدہ سے سنی ہے۔وہ اپنی عمر کے بہتر سال تک یہ مقولہ دہراتی رہیں اور میں اب تک اس مقولے پر عمل کر رہا ہوں اور اس کی معنویت کی داد دیتا رہا ہوں۔میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک انسان کے لئے ،جو اپنے مقصد ولادت کو پورا کرنے کا عزم رکھتا ہو اور جو دنیا میں ایک مفید انسان بننا چاہتا ہو اور جو صحت مند اور کار آمد زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتا ہو،اس سے بہتر کوئی مقولہ ہو سکتا ہے۔اتنا پڑھنے کے بعد اور اتنا سمجھنے کے بعد آپ انتہائی سکون کے ساتھ غور کیجیے کہ کیا حرکت کے بغیر آپ کوئی بھی کام کر سکتے ہیں؟انسانی جسم ایک ایسی حیاتیاتی مشین ہے کہ جس میں تبدیلی اور تعمیر کا سلسلہ زندگی کی ابتدا سے زندگی ختم ہونے تک جاری رہتا ہے۔(جاری ہے)مختصراً یہ کہ جسم خلیات (سیلز) کا ایک مرکب ہے۔یہ خلیات مرتے،گھلتے رہتے ہیں،پھر ان کی جگہ نئے خلیات لیتے رہتے ہیں اور حیات و صحت کا سلسلہ اسی طرح باقی وجاری رہتا ہے۔یہ ایک فطری عمل (پروسس) ہے،جسے جاری رہنا چاہیے اور خوبی کے ساتھ یہ فطری عمل اُسی صورت میں جاری رہ سکتا ہے کہ جسم میں حرکت ہو،کیونکہ حرکت ہی وہ شے ہے،جو پرانے خلیوں کو ختم کرتی ہے اور نئے خلیے ان کی جگہ لیتے ہیں اور جسم پھر تازہ ہو جاتا ہے۔اگر حرکت نہ ہو اور انسان سستی کا پلندہ ہو کر پڑا رہے تو فطری عمل سست ہو جائے گا اور صحت و تازگی نہیں آئے گی، بڑھاپا آئے گا۔ایک موٹر کار کو مثال بنانا چاہیے۔اس میں انسان جیسے کل پرزے موجود ہیں۔اس موٹر کی غذا پٹرول یا ڈیزل ہے۔موٹر کو یہ غذا ملتی ہے تو وہ چلتی ہے۔یہ غذا نہ دیجیے،موٹر چلنی بند ہو جائے گی۔موٹر کو کھڑا رکھیے،حرکت نہ دیجیے۔اس کے کل پرزوں کو زنگ لگ جائے گا۔تار وغیرہ گل کر رہ جائیں گے۔ایسی موٹر سستی کا پلندا ہو گی۔اب سستی کے اس پلندے کے پیٹ یعنی ٹینک میں پٹرول یا ڈیزل ڈالے جائیں گے تو اس کا انجام آپ خوب جانتے ہیں کہ کیا ہو سکتا ہے۔ذرا غور کیجیے کہ ایک انسان سستی کا پلندا بنا بیٹھا ہے اور کھائے چلا جا رہا ہے تو اس کا انجام ایک دن آخر کیا ہو گا؟بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟زندگی تو بس یہ ہے کہ انسان متحرک ہو۔ہر شعبہ زندگی میں ایک روح رواں ہو اور ہر فعل و عمل میں شعلہ جواں ہو اور مہ تاباں ہو۔اچھا انسان وہی ہے کہ جو حرکت میں رہے اور حیات کی ساری برکت حاصل کر لے۔برکت،حرکت کرنے والے کی ملکیت ہے اپنی ہر صبح کا آغاز حرکت سے کیجیے۔ورزش کیجیے۔ٹہلنا،دوڑ لگانا،تیرنا،گھڑ سواری ،کھیلنا وغیرہ سب ورزش ہے۔حیات و صحت کے لئے ورزش ضروری ہے۔آ ج کی مصروف زندگی نے انسان کو اس قدر مشکل میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ اپنی حیات و صحت سے بھی غافل ہو گیا ہے۔غفلت کی یہ بڑی عجیب قسم ہے،مگر یہ غفلت بڑی خطر ناک ہے۔ہمیں جاگنا چاہیے۔حرکت میں آنا چاہیے۔بے شک حیات و صحت پر آپ کا حق ہے،مگر ایک پہلو اور بھی ہے،جس پر آپ کو غور کرنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ آپ کی صحت آپ کے ملک کے لئے بھی ضروری ہے ۔قوم و ملت کا ہر فرد اگر تندرست و توانا اور متحرک ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ پاکستان توانا و تندرست ہے۔اس کے معنی یہ ہوئے کہ صحت مند رہنا ایک حق بھی ہے اور آپ کا فرض بھی ہے۔اس طرح نصب العین صحت ملی ٹھہرا۔میری رائے میں اس سے زیادہ اچھا نصب العین دوسرا کوئی نہیں ہو سکتا۔”حرکت میں برکت ہے۔“ مقولے کے معنی اب بالکل واضح ہو گئے،لہٰذا اپنی ہر صبح کا آغاز آپ حرکت سے کیجیے۔اگر آپ کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے تو پھر آپ اپنے گھر پر ہی ورزش کیجیے۔میں تو اپنی صحت کے لئے ٹینس بھی کھیلتا ہوں،دوڑتا بھی ہوں اور حسب موقع ورزش بھی کرتا ہوں۔مصروف تو میں بھی بہت ہوں،مگر اپنی صحت کے لئے ورزش ضرور کرتا ہوں اور اس کی برکت سے فیض اُٹھاتا ہوں۔ " بہانے باز - تحریر نمبر 1819,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bahane-baz-1819.html,"محمد طارق”صاحب!میرے چھوٹے بیٹے کو کافی دنوں سے بخار تھا۔ٹیسٹ کرانے پر پتا چلا کہ ٹائیفائیڈ ہے۔اب کسی بڑے ڈاکٹر کو دکھانا ہے۔ ٹائیفائیڈ کا علاج بھی مہنگا ہے۔صاحب جی!مجھے تین ہزار روپے کی ضرورت ہے۔“کرم دین نے سیٹھ ابرار کو اپنی فریاد سنائی اور ساتھ ہی مدد کی اپیل بھی کر دی۔”اللہ پاک تمہارے بیٹے کو صحت عطا فرمائے۔“سیٹھ ابرار شفقت بھرے انداز میں بولے اور ہزار،ہزار کے تین نوٹ کرم دین کی جانب بڑھا دیے۔کرم دین نے نوٹ جیب میں ڈالے اور دعائیں دیتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔بیگم ابرار بھی وہیں آگئیں اور انھوں نے کرم دین کو پیسے لیتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔کرم دین کے جانے کے بعد وہ بولیں:”میں کہتی ہوں اس کو اپنی اوقات میں رکھیں،اتنا سر پر نہ چڑھائیں۔(جاری ہے)آئے دن کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتا ہے،پیسے اینٹھنے کا۔کچھ عرصہ پہلے بھی پانچ ہزار روپے لے کر گیا تھا یہ کہہ کر کہ بڑے بیٹے کو چوٹ لگی ہے۔سر پر ٹانکے آئے ہیں۔اسپتال میں داخل ہے اور اس سے پہلے اپنی بیوی کے لئے آپ سے اچھی خاصی رقم لے گیا تھا کہ اس کے گردے میں پتھری ہے اور اس کا آپریشن کروانا ہے اور آپ ہیں کہ حاتم طائی بنے بیٹھے ہیں،جو آیا جھولی بھر دی۔پیسے تو جیسے درختوں پہ اُگتے ہیں۔“بیگم صاحبہ ابرار صاحب کو جلی کٹی سنا رہی تھیں۔”بیگم! ضرورت مند کی مدد کرنے سے مال کم نہیں ہوتا،بلکہ بڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوتے ہیں۔چلو اب غصہ تھوکو،کھانے کا وقت ہو گیا ہے۔“یہ کہہ کر سیٹھ ابرار ہاتھ دھونے کے لئے واش بیسن کی طرف بڑھ گئے۔کرم دین تیس سالہ محنتی ،لیکن باتونی نوجوان تھا اور چھ مہینے قبل ہی سیٹھ ابرار نے اس کو اپنے ہاں ملازمت پر رکھا تھا۔اس نے سیٹھ ابرار کو بتایا تھا کہ اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور کرائے کے مکان میں اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ رہتا ہے۔باپ بیمار رہتا ہے۔سیٹھ ابرار نے خفیہ طور پر چھان بین کرالی تھی۔اس میں سچ کے ساتھ ساتھ کچھ غلط بیانی بھی تھی۔شام کو جب سیٹھ صاحب اپنی فیکٹری سے واپس آئے تو بیگم صاحبہ کو اپنا منتظر پایا۔سلام ،دعا کے بعد جب سیٹھ صاحب نے خیریت دریافت کی تو وہ پھٹ پڑیں اور زور زور سے کہنے لگیں:”میں نہ کہتی تھی کہ مجھے تو پہلے ہی یہ سب کچھ ڈراما لگتا ہے۔آئے دن کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے رقم لے جاتا ہے۔“”آخر ہوا کیا ہے؟“سیٹھ صاحب بیگم صاحبہ کی بات کاٹتے ہوئے بولے۔”یہ پوچھیں کہ کیا نہیں ہوا۔“وہ تنک کر بولیں۔”اچھا تو بتاؤ کیا نہیں ہوا؟“سیٹھ صاحب نے اطمینان سے کہا۔”جب کرم دین آپ سے پیسے لے کر گیا تو میں نے اپنے پرانے ملازم کو بھیجا کہ ذرا اُس کا پیچھا کرے اور پتا کرکے بتائے کہ واقعی اس کا بچہ بیمار ہے یا بہانے بازی کرکے یہ پیسے لے گیا ہے۔واپس آکر عبدالقیوم نے مجھے جو بات بتائی اسے سن کر تو میں حیران رہ گئی۔اُس نے بتایا کہ کرم دین کی تو ابھی شادی ہی نہیں ہوئی۔“بیگم صاحبہ نے بات مکمل کی اور سیٹھ ابرار کی طرف فاتحانہ انداز میں دیکھا جیسے اُس نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہو،مگر اگلے ہی لمحے وہ چونک گئیں،کیوں کہ سیٹھ ابرار کی آنکھوں میں حیرت کے بجائے،لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔”شاید آپ کو میری بات پر یقین نہیں آیا۔“بیگم صاحبہ نے چڑ کر کہا۔سیٹھ صاحب کچھ دیر تک مسکراتے رہے پھر بولے:”بیگم جو بات آپ کو آج پتا چلی ہے وہ مجھے جب ہی پتا چل گئی تھی جب میں نے کرم دین کو ملازمت پر رکھا تھا۔“”کک․․․․․کیا!“بیگم صاحبہ اُچھل پڑیں۔”اس کے باوجود بھی․․․․․“بیگم صاحبہ نے کچھ کہنا چاہا،مگر سیٹھ ابرار ان کی بات کاٹتے ہوئے بولے:”اس کے باوجود بھی کہ مجھے علم ہوتا تھا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے،پھر بھی میں اس کی مدد کر دیا کرتا تھا،کیوں کہ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یہ واقعی ضرورت مند ہے،مگر اپنی حقیقی ضرورت کو بیان کرنے کے بجائے وہ مختلف بہانے بناتا ہے تاکہ اُس کی بات میں وزن ہو اور میں انکار نہ کر سکوں۔دراصل میں اس کے باپ کا مقروض ہوں۔یہ بہت پرانی بات ہے۔وہ میرا کلاس فیلو بھی رہ چکاہے۔ایک دفعہ میں نے اس سے کچھ پیسے ادھار مانگے تھے۔اُس کے پاس نقد رقم نہیں تھی۔اس نے مجھے پرائز بانڈ دے دیا تھا۔اتفاق سے وہ بانڈ کھل گیا اور مجھے لاکھوں روپے مل گئے ہیں ۔یہ بات میں نے اُسے بتائی اور رقم بھی اُسے دینے کو تیار تھا،لیکن اُس نے کہا کہ اس رقم کے حق دار تم ہی ہو۔میں نے اُسی رقم سے کاروبار شروع کیا تھا۔میں اس کا یہ قرض کبھی نہیں اُتار سکتا۔یہ بات اُس کے بیٹے احمد دین کو بھی معلوم ہے۔ آج کل اس کا باپ سخت بیمار ہے۔اس کے علاج کے لئے ہی کرم دین پیسے مانگتا ہے۔یہ سب کچھ جو تم دیکھ رہی ہو،یہ سب کریم دین کے باپ کی وجہ سے ہے۔اس کا یہ طریقہ غلط ہے اور میں خود مناسب موقع کی تلاش میں ہوں،تاکہ اس کی اصلاح کر سکوں۔“سیٹھ صاحب اطمینان سے بولتے رہے اور بیگم حیرت سے سنتی رہیں۔اس کہانی سے جو سبق ملا ہے وہ یہی ہے کہ ہمیں بلا جانے بوجھے کسی پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہئیے،بلکہ حالات و واقعات کو جان کر ہی کسی کے متعلق اچھی یا بُری رائے قائم کرنی چاہئیے۔ " انوکھا چور - تحریر نمبر 1818,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/anokhey-chor-1818.html,"مریم صدیقینیہا کے بیگ سے آج پھر ریاضی کی کاپی غائب تھی۔وہ سر پکڑے بیٹھی تھی کیونکہ کل اس کا اہم ٹیسٹ تھا،لیکن گزشتہ چند روز کی طرح آج بھی اس کے اسکول بیگ میں اس کی کاپی نہیں تھی۔دو دن پہلے اس کی اردو کی کاپی بھی اس کے بیگ میں نہیں تھی،ساری رات پریشانی کے عالم میں گزری۔صبح اُٹھ کر یہ سوچ کر بیگ دیکھا کہ رات میں شاید ٹھیک سے نہ دیکھ پائی ہوں۔حیرت انگیز طور پر اس وقت اردو کی کاپی بیگ میں ہی موجود تھی۔اس نے اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹکا اور اسکول جانے کے لئے تیار ہونے لگی۔آج جب اس نے ٹیسٹ کی تیاری کے لئے بیگ کھولا تو اس میں ریاضی کی کاپی موجود نہ تھی۔ایک مرتبہ پھر پریشانی نے اسے آگھیرا۔ابھی وہ کاپی کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ سعد ادھر چلا آیا۔(جاری ہے)”سعد بھائی!آپ نے میری ریاضی کی کاپی کہیں دیکھی ہے؟“نیہا نے سعد کو دیکھتے ہی پوچھا۔سعد نے انکار میں گردن ہلائی۔اس نے بہن کو پریشان دیکھ کر کہا:”ایک تو تمہاری کاپی روز کھو جاتی ہے،سنبھال کر کیوں نہیں رکھتیں؟“سعد کی بات پر نیہا نے پریشانی سے اسے دیکھا۔”نہیں بھائی!مجھے اچھی طرح یاد ہے،کاپی میں نے اپنے بیگ میں ہی رکھی تھی۔“”اچھا پریشان مت ہو،آؤ مل کر ڈھونڈتے ہیں۔“کچھ ہی دیر میں سعد اور نیہا نے پورا کمرہ،لاؤنج،صحن،یہاں تک کے کچن اور امی ابو تک کا کمرہ بھی چھان مارا،لیکن کاپی کہیں نہیں ملی۔نیہا کے ذہن میں مس افروز کا چہرہ گھوم رہا تھا۔کل یقینا شامت آنے والی ہے۔کل کا سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔اب صرف مالی بابا کا کمرہ رہ گیا ہے،چلو وہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔سعد نے ان کے کمرے کی جانب قدم بڑھائے ،لیکن نیہا کو اپنے پیچھے نہ آتے دیکھ کر وہیں رک گیا۔”کیا ہوا نیہا؟ایسے کیوں کھڑی ہو؟ارے تم رو کیوں رہی ہو؟“نیہا کو روتا دیکھ کر سعد نے اسے وہیں قریب رکھے صوفے پر بیٹھایا۔”مل جائے گی کاپی نیہا!لیکن رونے سے نہیں تلاش کرنے سے۔دیکھو نیہا!کسی بھی مشکل میں رونا بہت آسان ہوتا ہے،لیکن اس مشکل سے باہر آنے کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے،کوشش کیے بغیر کبھی مشکل حل نہیں ہوتی۔“سعد نے اسے سمجھا کر بڑے بھائی ہونے کا فرض ادا کیا۔سعد،نیہا سے تین سال بڑا تھا اور آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا جب کے نیہا پانچویں جماعت کی طالبہ تھی۔دونوں کا شمار اسکول کے لائق ترین طلبہ میں ہوتا تھا،لیکن گزشتہ کچھ روز سے ان کے گھر میں اچانک ہی یہ نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ہر دوسرے روز نیہا کے بیگ سے کوئی نہ کوئی کاپی غائب ہو جاتی اور صبح کے وقت اس کے بیگ میں موجود ہوتی ۔شروع میں تو امی اور سعد نے اس کی لاپروائی کہہ کر توجہ نہ دی کہ وہ خود ہی ٹھیک سے نہیں دیکھتی ،لیکن روز بروز کی شکایت سے وہ بھی پریشان ہونے لگے۔نیہا کی پڑھائی کا جو نقصان ہو رہا تھا وہ الگ۔نیہا کو چپ کرانے کے دوران وہ یہ بھول ہی گیاکہ اسے مالی بابا کے کمرے میں کاپی ڈھونڈنی تھی۔مالی بابا جن کا نام سلیم تھا وہ ان کے ہی گھر کے پچھلے حصے میں اپنی بیوی اور دو بچوں علی اور حسن کے ساتھ رہتے تھے۔جہاں ایک کمرہ،کچن اور غسل خانہ بنا ہوا تھا۔ان کی بیوی سلمیٰ گھر کے کاموں میں امی کا ہاتھ بٹا دیا کرتی تھیں اور علی اور حسن دن بھر شرارتیں کرتے تھے۔کاپی ڈھونڈنے سے قبل سعد نے سوچا کے وہ نیہا کو کل کے ٹیسٹ کی تیاری کرادے۔اس کے بعد وہ کاپی ڈھونڈ لے گا۔وہ نیہا کے ساتھ اسٹڈی روم میں آگیا۔کتاب کی مدد سے اس نے نیہا کے ٹیسٹ کی تیاری کرائی،مشق کرانے کے بعد پہاڑے یاد کرنے کا کہہ کر وہ امی کے پاس چلا آیا۔”امی روز روز نیہا کی کاپی کا اس طرح غائب ہو جانا اور پھر مل جانا کچھ عجیب نہیں ہے؟“اس نے امی سے کہا تو وہ بھی سوچ میں پڑ گئیں۔”میں سوچ رہا تھا کہ کہیں علی اور حسن شرارت میں کہیں چھپا تو نہیں دیتے؟ویسے بھی نیہا سارا دن ان کے ساتھ لڑتی رہتی ہے تو وہ شرارت کے طور پر اس کی کاپی چھپا دیتے ہوں؟“اس نے امی کے سامنے اپنے خیال کا اظہار کیا۔”تم جاؤ اور جاکر ان بچوں سے پوچھ لو،مگر ہاں پیار سے پوچھنا۔“انھوں نے سعد کو سمجھاتے ہوئے کہا۔سعد سر ہلاتا ہوا گھر کے پچھلے حصے کی جانب چلا آیا۔”تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو؟“حسن اور علی کمرے کے باہر کھڑکی کے نیچے کسی چیز پر جھکے ہوئے تھے۔سعد کو سامنے دیکھ کر ہڑ بڑا کر سیدھے ہوئے۔”کچھ نہیں سعد بھائی!ہم باتیں کر رہے تھے۔“یہ حسن تھا جو علی کے سامنے آکر کھڑا ہو چکا تھا۔سعد نے دیکھا علی کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔”مجھے سچ سچ بتا دو ابھی موقع دے رہا ہوں،ورنہ پھر ابو کو ہی بتانا،سعد نے کہہ کر کندھے اُچکائے۔دونوں کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔”اور یہ تم کیا چھپا رہے ہو؟“،علی جو کھڑکی میں ہاتھ ڈال کر اندر کچھ رکھنے کی کوشش کر رہا تھا،سعد کے کہنے پر رک گیا۔”دکھاؤ مجھے کیا ہے تمہارے ہاتھ میں؟“، سعد نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔”دیکھو اگر تم مجھے نہیں بتاؤ گے تو میں ابو کو بتا دوں گا۔پھر سوچ لینا بہت ڈانٹ پڑے گی۔“سعد کے کہنے پر علی نے پیچھے کیا ہوا ہاتھ آگے کر دیا جس میں نیہا کی ریاضی کی کاپی تھی۔”یعنی میرا شک صحیح نکلا،یہ تم دونوں کی شرارت تھی۔“دونوں سر جھکائے سعد کے سامنے کھڑے تھے۔اس دوران بچوں کی ماں سلمیٰ وہاں آگئی۔”کیا ہوا سعد بیٹے!ان دونوں نے پھر کوئی شرارت کی ہے؟“سلمیٰ نے سعد کو دیکھ کر پوچھا۔ان کے پوچھنے پر سعد نے ساری بات بتا دی۔وہ غصے سے دونوں کو مارنے کے لئے آگے بڑھیں لیکن اسی وقت سعد کی امی اور نیہا بھی وہاں آگئے۔اپنی کاپی علی کے ہاتھ میں دیکھ کر نیہا تو آپے سے باہر ہو گئی۔اسے ویسے بھی دونوں بھائیوں سے کچھ زیادہ لگاؤ نہیں تھا۔سعد کی امی نے کاپی لے کر دیکھی تو کاپی بالکل صحیح حالت میں تھی۔انھوں نے اسے خراب نہیں کیا تھا،لیکن پھر وہ اس طرح نیہا کے بیگ سے کاپی نکالتے کیوں ہیں؟سب کے ذہنوں میں یہی سوال تھا اور اب تو سعد،علی اور حسن کے ابا بھی وہاں موجود تھے۔سعد کی امی کے پوچھنے پر علی نے بتایا:”ہم بھی سعد بھائی اور نیہا باجی کی طرح پڑھنا چاہتے تھے۔ایک دن ہم نے نیہا باجی سے کہا کہ وہ جو بھی اسکول میں پڑھ کر آتی ہیں، ہمیں بھی پڑھا دیا کریں تو انھوں نے کہا تم لوگ پڑھ لکھ کر کیا کرو گے؟تمہارا جو کام ہے وہی کیا کرو،یہ کہہ کر وہ ہمارا مذاق اُڑانے لگیں۔علی کی بات پر سب نے نیہا کو دیکھا جو سر جھکائے کھڑی تھی۔”پھر میں نے اور حسن نے سوچا کے ہم دونوں خود ہی پڑھیں گے،پھر ہم روز نیہا باجی کے بستے سے ایک کاپی لاتے اور اس میں جو بھی لکھا ہوتا تھا سلیٹ پر اس کی نقل کرتے۔یوں ہم روز کچھ نہ کچھ پڑھنے لگے لیکن ہم ان کی کاپی خراب نہیں کرتے۔“علی کی بات پر سعد کے ابو کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔سلمیٰ اور سلیم شرمندگی سے سر جھکائے کھڑے تھے۔سعد کی امی نے آگے بڑھ کر علی اور حسن کو گلے سے لگایا تو سلمیٰ اور سلیم حیرت سے انھیں دیکھنے لگے۔سعد کے ابو نے نیہا کو دیکھا جو اب تک سر جھکائے کھڑی تھی۔”نیہا بیٹا!ادھر آئیے۔“نیہا ان کے قریب جا کر کھڑی ہو گئی۔”بیٹا!ہم نے آپ کو کب یہ سکھایا کہ ہم مالک ہیں اور یہ ملازم؟ہم نے تو آپ کو سکھایا ہے کہ اللہ کے سب بندے برابر ہوتے ہیں،مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ آپ نے علی اور حسن سے اس انداز میں بات کی۔اگر آپ پڑھ سکتی ہیں،اسکول جاتی ہیں تو وہ کیوں نہیں؟مجھے افسوس ہے کہ یہ خیال مجھے خود ہی کیوں نہ آیا۔“ان کے لہجے میں خفگی تھی۔”آئی ایم سوری بابا!“نیہا نے ان کی جانب دیکھ کر کہا۔”سوری آپ ان دونوں سے کہیے اور آپ کی سزا یہ ہے کہ آج سے آپ ان دونوں کو پڑھائیں گی۔“اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔”اور غلط کام آپ دونوں نے بھی کیا ہے،کسی سے چھپ کر اس کی چیز لینا یا استعمال کرنا چوری کہلاتا ہے اور چوری کرنا بہت بُری بات ہے۔آپ بھی نیہا سے سوری کہیے اور آپ دونوں کی سزا یہ ہے کہ کل سے آپ دونوں بھی اسکول جائیں گے۔“ان کی بات پر علی اور حسن نے حیرت سے انھیں دیکھا اور خوشی کے مارے ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ " بکری اور میں میں - تحریر نمبر 1817,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bakri-or-mein-mein-1817.html,"مسعود ذکیبکری ایک خود پسند اور مغرور جانور ہے ۔ہر وقت اپنی بڑائی کے گن گاتی اور ”میں میں“کرتی رہتی ہے ۔لوگ عام طور پر خود پسندوں کو پسند نہیں کرتے،مگر بکری کو پسند کرتے ہیں،کیونکہ وہ دودھ دیتی ہے ۔کبھی کبھار دودھ کے ساتھ مینگنیاں بھی دے دیتی ہے،مگر گوالا ہوشیاری سے دودھ میں سے مینگنیاں نکال لیتا ہے ۔بکری کا دودھ ایک جلد ہضم ہونے والی خوراک ہے،اس لئے یہ شیر خوار بچوں کے لئے مفید غذا ہے(پیارے بچو!ذرا دھیان رہے ش پر زبر نہیں زیر پڑھیے گا ۔اگر غلطی سے زبر پڑھ دیا تو ممکن ہے بکری خوف زدہ ہو کر بھاگ کھڑی ہو)بکریوں کے عموماً دو ہی سینگ ہوتے ہیں ۔ عموماً اس لئے کہ کچھ بکریوں کے سینگ لڑائی جھگڑے میں ٹوٹ جاتے ہیں ۔لڑائی جھگڑا ویسے تو بُری عادت ہے ،مگر بکریوں کو بڑا فائدہ یہ پہنچتا ہے کہ وہ بقر عید پر قربانی کا جانور بننے سے بچ جاتی ہیں،مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی،کبھی نہ کبھی تو چھری کے نیچے آئے گی،لہٰذا یہ قصائی کے ہتھے چڑھ جاتی ہے ۔(جاری ہے)وہ اس کا گوشت الگ کرتا ہے اور چھیچھڑے الگ ۔کبھی کبھی آنکھ بچا کر چھیچھڑے بھی گوشت کے ساتھ تول دیتا ہے ۔ہاں چھیچھڑے تو بلیوں کی پسندیدہ خوراک ہیں ۔بلیاں اس کے سہانے خواب دیکھتی ہیں اور اس خواب کی تعبیر کے لئے قصائی کی دوکان کے اردگرد منڈلاتی رہتی ہیں اور دانت نکال کر ایک دوسرے سے لڑتی ہیں ۔بکریاں جی جان سے خالص دودھ دینا چاہتی ہیں،مگر گوالا اُن کے منصوبے پر پانی پھیر دیتا ہے ۔دودھ میں ملاوٹ معلوم کرنے کے لئے ایک آلہ استعمال کیا جاتا ہے جسے شیرپیما(لیکٹو میٹر)کہتے ہیں اُس سے پتا چلتا ہے کہ دودھ کا معیار بنانے میں بکری اور گوالے کا کتنا کتنا حصہ ہے ،یعنی اس آلے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے ۔گوالے اس آلے کو سخت نا پسند کرتے ہیں ۔اس سے یہ بات پتا چلی کہ جب کوئی چیز ایجاد کی جائے تو یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ اس سے کسی کا نقصان تو نہیں ہو گا،ورنہ خواہ مخواہ لڑائی جھگڑے کا اندیشہ رہتا ہے ۔کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیا کرتے تھے ۔ہمیں تو یقین نہیں،مگر کتابوں میں ایسا ہی لکھا ہے ۔ہمارا تو خیال ہے کہ شیر اور بکری صرف ایک ہی صورت میں اکٹھے ہو سکتے ہیں جب بکری شیر کے پیٹ میں ہو ۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ جب بکری زیادہ ہی ترنگ میں آتی ہے تو میں میں کی رٹ لگائے رکھتی ہے ۔اس صورت میں قصائی کو بلا کر اس کے گلے پر چھری پھروا لی جاتی ہے ۔یہ ہے خود پسندی اور اپنے آپ کو سب سے اعلیٰ سمجھنے کا انجام ۔ہر وقت ” میں ہی میں“نہیں کرنا چاہیے ۔کبھی کبھی دوسروں کی بات بھی سن لینی چاہیے ۔اس میں بڑا فائدہ ہے،ورنہ پھر بکری جیسے انجام کے لئے تیار رہنا چاہیے ۔باقی رہے نام اللہ کا ۔ " ایک چیل کی کہانی - تحریر نمبر 1816,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-cheel-ki-kahani-1816.html,"ڈاکٹر جمیل جالبیبچو!یہ اُس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلا رہی تھی اور تاک میں تھی کہ اُرتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے،ہوشیار اور تیز اُران اُرنے والے تھے۔جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔آخر اُس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک،پھرتیلے اور تیز اُران کے حامل ہیں۔کوئی اور چال چلنی چاہیے۔کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہو سکیں۔چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی:بھائیو!اور بہنو!میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پروں والا پرندہ ہوں۔(جاری ہے)تم بھی آسمان پر اُر سکتے ہو۔ میں بھی آسمان پر اُڑ سکتی ہوں۔فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔میں طاقتور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں،تم نہیں کر سکتے۔میں بلی کو حملہ کرکے زخمی کر سکتی ہوں ور اُسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کر سکتے۔تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں ،تاکہ تم ہنسی خوشی ،آرام اور اطمینان کے ساتھ اُسی طرح رہ سکو۔جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔میں تمہارے لئے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔بھائیو!اور بہنو!میں ظلم کے خلاف ہوں۔انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے ،لیکن یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ تم دل وجان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لو گے اور مجھے ہی حقوق اور پورا اختیار دے دو گے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذمہ داری ہوگی۔تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھرتم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرم رہو گے۔اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہو گی۔چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیار محبت سے اُن باتوں کو طرح طرح سے دہراتی۔رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کرکے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفا دار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔بچو!پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اُسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلا ڈر کر بھاگ گیا۔چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔اسی طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔ایک دن صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل اُن کے پاس آئی۔وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی”بھائیو!اور بہنو!میں تمہاری حکمران ہوں۔تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔میں آخر کب تک بغیر کھائے اور پیئے زندہ رہ سکتی ہوں؟میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کر سکتی ہوں؟یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤ،بلکہ یہ میرے سارے شاہی خاندان کا حق ہے۔آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔اُس دن اگر اُس بڑے سے بلے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کر دیتا۔”یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوترکوپنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔سارے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دجوچ کر لے جاتے۔اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔اُن کی آزادی ختم ہو گئی۔وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے۔“ہماری بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا؟اب کیا ہو سکتا ہے؟تو پیارے بچو جو بھی کام کرو اس میں عقل کا استعمال بے حد ضروری ہے۔ " بلبل خوش آواز پرندہ - تحریر نمبر 1815,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bulbul-khush-awaz-parinda-1815.html,"محمد فرحان اشرفبلبل ایک خوب صورت آواز والا پرندہ ہے۔یہ برصغیر پاک وہند،مشرق وسطیٰ،جاپان،انڈونیشیا اور تمام افریقی ممالک میں زیادہ تر بارانی جنگلات اور ان کے نزدیک پایا جاتا ہے۔جسامتبلبل عام چڑیا سے بڑی ہوتی ہے ۔اس کی گردن چھوٹی،پَر گول اور چھوٹے،چونچ چڑیا کی چونچ سے بڑی اور تھوڑی سی مڑی ہوئی ہوتی ہے ۔بلبل کی آنکھیں چھوٹی اور گول ہوتی ہیں،جب کہ کچھ کی آنکھوں کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔بلبل 11انچ تک لمبی ہوتی ہے۔خوراکبلبل پھل،بیج اور کیڑے مکوڑے کھانے والا پرندہ ہے۔کچھ اقسام کے بلبل مینڈک اور چھوٹے چھوٹے چوہے بھی شکار کرتے ہیں۔یہ مل جل کر رہنے والا پرندہ ہے اور جھنڈ کی شکل میں خوراک تلاش کرتا ہے۔گھونسلایہ اپنا گھونسلا درخت پر تقریباً 10فیٹ اونچائی پر بناتی ہے۔(جاری ہے)بلبل اپنا گھونسلا پتوں،شاخوں اور باریک تاروں سے بناتی ہے۔انسانی آبادی میں رہنے والی بلبل اپنا گھونسلا گھروں کی دیواروں کے سوراخوں میں بناتی ہے۔اس کی چند اقسام اپنا گھونسلا دریا یا ندی کے کنارے جھاڑیوں میں بناتی ہیں۔بلبل کے بچےمادہ بلبل جون سے ستمبر کے دوران دو سے پانچ تک گلابی رنگ کے انڈے دیتی ہے۔پیدائش کے وقت بچوں کے جسم پر پَر نہیں ہوتے اور یہ چڑیا کی بچوں جیسے ہوتے ہیں۔دو ہفتوں بعد ان کے پَر آجاتے ہیں اور یہ اُڑنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔اقسامدنیا میں بلبل کی 130کے قریب اقسام پائی جاتی ہیں۔سرخ بلبل پاکستان،بھارت،سری لنکا اور عرب ممالک میں پائی جاتی ہے۔پھولے گلے والی بلبل کمبوڈیا،لاؤس،چین،میانمار اور تھائی لینڈ میں پائی جاتی ہے۔پیلی بلبل برونئی،انڈونیشیا،ملائیشیا اور میانمار میں پائی جاتی ہے ۔نکوبار بلبل صرف بھارتی جزائر نکوبار میں ہی ملتی ہے۔گرین بلبل سب سے چھوٹی ہوتی ہے۔یہ افریقی ممالک کینیا،موزمبیق،تنزانیہ اور زمبابوے میں ملتی ہے۔تنکا سر بلبل سب سے بڑی ہوتی ہے اور میانمر،انڈونیشیا اور ملائیشیا میں پائی جاتی ہے۔پہاڑی بلبل برصغیر پاک وہند کے پہاڑی علاقوں کا پرندہ ہے۔کارڈینلیہ براعظم شمالی اور جنوبی امریکا میں پائی جانے والی بلبل ہے۔اس میں اور عام بلبل میں صرف جسامت کا فرق ہے۔یہ بلبل کے مقابلے میں شوخ رنگ ہوتی ہے۔یہ صرف بیج کھانے والا پرندہ ہے اور امریکا کے میدانوں اور کھیتوں کے نزدیک پایا جاتا ہے۔دشمنبلبل ہر وقت چوکنا رہتی ہے۔بلی،گیڈر،لومڑی،چیل اور عقاب موقع ملتے ہی اسے شکار کر لیتے ہیں۔عقاب سے بچنے کے لئے بلبل نیچی پرواز کرتی ہے۔سانپ اور نیولا اس کے گھونسلے میں موجود انڈے اور بچے کھا جاتے ہیں۔عالمی ادب اور بلبلبلبل کو سریلی آواز کی وجہ سے ہر زمانے میں بہت پسند کیا جاتا رہا ہے۔اس کا ذکر دنیا کی کئی قدیم داستانوں میں ملتا ہے۔الف لیلیٰ میں بلبل کو مختلف بولیوں کی وجہ سے ہزار داستان کہا گیا ہے۔اُردو میں اس کی کئی کہانیاں اور نظمیں ہیں۔آسکروائلڈ کی کہانی بلبل اور گلاب دنیا کی بہترین کہانیوں میں سے ہے۔ " پہلی تحریر - تحریر نمبر 1814,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pehli-tehreer-1814.html,"محمد حسن دانش منصوری جسی،کراچی”کس سوچ میں کھوئے ہو احسن!“سر شوکت،احسن کو خیالات کی دنیا سے باہر لے آئے ۔”کچھ نہیں سر!“اس نے اپنی بات کو ٹالنا چاہا،پھر سر شوکت کے اصرار پر اس نے بتایا کہ وہ کوئی تحریر لکھنے کے بارے میں سوچ رہا ہے ۔”کیسی تحریر؟“سر نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔احسن نے بتایا:”میں پابندی سے ایک رسالہ پڑھتا ہوں اور اس رسالے پر تبصرہ بھی کرتا ہوں ۔اب سوچ رہا ہوں کہ کوئی تحریر لکھوں کہ شاید میں بھی چھوٹا موٹا ادیب بن جاؤں ۔“یہ سننا تھا کہ پوری کلاس قہقہے کی آواز سے گونج اُٹھی ۔سر شوکت صاحب نے تمام بچوں کو خاموش کرایا اور تعریف کے انداز میں بولے:”اس میں کون سی بُری بات ہے،پڑھائی کے ساتھ ساتھ دیگر سر گرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔(جاری ہے)“سر شوکت نے بچوں کو سمجھاتے ہوئے مزید کہا:”اگر آپ لوگوں کا ساتھی اچھی سر گرمیوں میں حصہ لے رہا ہے تو اس کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔“پھر سر نے احسن کو مخاطب کرکے کہا:”بیٹا!اگر تمہاری تحریر شائع ہوئی تو میں تمہیں خصوصی انعام دوں گا ۔“سر شوکت کے اس مختصر تعریف بھرے الفاظ سے احسن کا حوصلہ مزید بڑھ گیا اور ہر سال میں تحریر لکھنے کا ارادہ کر لیا ۔کچھ دیر بعد چھٹی کی بیل بجی ۔تمام بچے اپنے بیگ کاندھوں پر لٹکا کر گھر کی طرف چل پڑے ۔اس کلاس میں شریر بچوں کا ایک گروپ بھی تھا ۔سر شوکت کے کلاس سے باہر جاتے ہی شریر گروپ کے سر براہ رافع نے سب ساتھیوں کو مخاطب کرکے شرارتی انداز میں کہا:”بچوں! اللہ نے ہمیں دو کان اس لئے دیے ہیں کہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دو ۔“شریر سردار کی یہ بات سن کر اس کے سارے چیلے ہنسنے لگے ۔احسن نے بھی اپنا بیگ اُٹھایا اور گھر کی طرف چل پڑا ۔جوں ہی وہ اسکول سے نکلا تو اس کے شریر کلاس فیلو رافع،نعمان اور فہیم نے اسے روکا اور کہا کہ آج تمہاری وجہ سے کلاس میں ہماری بے عزتی ہوئی ہے ،لہٰذا اب تم سے بدلہ ہم پرواجب ہے ۔یہ کہتے ہوئے انھوں نے احسن کو مارنا شروع کر دیا ۔مارنے کے بعد رافع نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر تم نے یہ بات سر کو بتائی تو ہم سے بُرا کوئی نہ ہو گا ۔احسن روتا ہوا گھر پہنچا ۔احسن ایک یتیم لڑکا تھا ۔وہ بچپن سے ماں باپ دونوں کی شفقت سے محروم ہو گیا تھا ۔اس کی تربیت نانی نے کی تھی اور وہ نانی کے گھر پر ہی رہتا تھا ۔نانی نے جب اسے روتا ہوا گھر میں داخل ہوتے دیکھا تو وہ بے حد پریشانی ہو گئی ۔اس نے اسے گلے لگایا اور پوچھا:”احسن بیٹا!کیا ہوا تمہیں؟ کسی نے مارا ہے کیا؟“احسن نانی کو کوئی جواب دیے بغیر کمرے میں چلا گیا اور چارپائی پر منہ چھپا کر لیٹ گیا ۔تھوڑی دیر بعد وہ نیند کی آغوش میں جا چکا تھا ۔سوکر اُٹھا تو اس نے تمام واقعہ نانی کو بتا دیا ۔نانی نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا:”بیٹا!دنیا میں اچھے لوگ کم ہونے کے باوجود بُرے لوگ پر غالب آتے ہیں ۔اس لئے بیٹا! اچھائی کا راستہ کبھی مت چھوڑنا اور استادوں اور بڑوں کا کہنا مانتے رہنا،کامیابی تمہارے قدم چومے گی ۔احسن نے نانی کی نصیحت کو غور سے سنا اور ان باتوں پر عمل کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا ۔مہینے کی پہلی تاریخ ہوئی تو اسکول سے واپسی پر اس نے رسالہ خریدا اور گھر آکر رسالہ کھول کر اس نے صفحات پلٹنا شروع کیے ۔اتنے میں اس کی نگاہ اپنی تحریر پر پڑی ۔اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھاکہ یہ واقعی اس کی اپنی تحریر ہے ۔وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا ۔اس نے ماموں جان اور نانی جان کو رسالے میں اپنی تحریر دکھائی تو ماموں جان نے اسے سو روپے کا انعام دیا ۔اگلے دن وہ رسالہ لے کر اسکول پہنچا اور کلاس میں سر شوکت صاحب کے سامنے رکھتے ہوئے پر اعتماد لہجے میں بولا:”سر!یہ دیکھیے آپ کے شاگرد کی محنت کا نتیجہ ۔“سر شوکت نے جب اس کی تحریر دیکھی تو وہ بے حد خوش ہوئے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہنے لگے:”شاباش بیٹا!یہ ہوئی بات ۔ مزید محنت کرو ۔ایک دن تم بڑے ادیب بنو گے اور میں تمہیں ہیڈ ماسٹر صاحب سے انعام دلواؤں گا ۔“سر شوکت صاحب کے یہ تعریفی الفاظ سن کر شریر گروہ کے سر براہ رافع کے منہ پر تو ایسا لگ رہا تھا جیسے بارہ بج رہے ہوں ۔ " دو مائیں - تحریر نمبر 1813,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/two-mothers-1813.html,"تسنیم شریفیہ موسم گرما کی ایک دوپہر کا ذکر ہے۔اس روز موسم خاصا خوش گوار تھا۔پچھلے کئی دنوں کی جھلستی دھوپ میں آج کچھ کمی تھی۔شاید اس لئے امی پڑوسن کے ساتھ بازار گئی ہوئی تھیں۔انھیں میرا نیا یونیفارم خریدنا تھا اور میں اچھی طرح جانتا تھا کہ ان کی واپسی تین چار گھنٹے سے پہلے ممکن نہیں۔ابا جان اپنے کمرے میں سو رہے تھے۔یعنی راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا۔اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر میں نے جو ناول پڑھنا شروع کیا تھا وہ ضخیم تھا اور دلچسپ بھی۔اسے پڑھتے پڑھتے وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔ جب امی نے آکر ہاتھ سے چھینا تب پتا چلا کہ کتنا وقت گزر گیا ہے۔امی ناول اپنے ساتھ کمرے میں لے گئیں اور ان سے مانگنے کی مجھے جرأت نہ ہوئی۔(جاری ہے)اپنے معمول کے کام کرتے ہوے بھی میرا دھیان ناول کی طرف تھا۔کیا شہزادے نے شہزادی کو کالے دیو کی قید سے چھڑوا لیا ہو گا۔کیا شہزادی اپنے ملک واپس چلی گئی ہو گی۔یقینا دونوں کی شادی ہو جائے گی۔مگر اس سے پہلے شہزادے کا دیو سے مقابلہ بھی تو ہو گا۔ ابھی تو شہزادہ کوہ قاف پہنچا ہی تھا کہ․․․․اب آگے جو کچھ ہونا تھا وہ کل ہی معلوم ہوتا،کیونکہ ناول امی کے کمرے میں تھا۔میرے دادا کے کمرے میں چار کھڑکیاں تھیں۔دو سڑک کی طرف کھلتی اور دوگلی کی طرف۔ہمارا گھر گلی کے کونے پر تھا۔میرے کمرے میں ایک ہی کھڑکی تھی جو دادا جان کے کمرے میں کھلتی تھی۔میں اکثر دروازے کے بجائے کھڑکی سے کود کر دادا کے کمرے میں جاپہنچتا۔دادا کے کمرے میں کبوتروں نے گھونسلا بنا رکھا تھا۔ان کے کمرے کی ساری کھڑکیاں کھلی رہتی تھیں جس سے صرف ہوا ہی نہیں،بلکہ چوہے،بلیاں اور کبوتر بھی آجاتے تھے۔بلیاں اور چوہے تو واپس چلے جاتے تھے،مگر کبوتروں نے گھر ہی بنا لیا تھا۔دادا کے انتقال کے بعد کبوتر بھی وہاں سے چلے گئے تھے۔گھونسلا ویران ہو گیا تھا،البتہ بلی اور چوہے اسی طرح آتے جاتے رہے۔میں نے دادا کے کمرے کو اپنا اسٹڈی روم بنا لیا۔مجھے جب بھی کوئی کہانی پڑھنی ہوتی تو میں دادا کی مسہری پر لیٹ جاتا۔کھڑکیوں سے آتی ٹھنڈی ہوائیں،خاموشی اور سکون کہانی کا لطف دوبالا کر دیتے۔میں بے فکری سے ناول پڑھنے میں مگن ہو گیا۔ناول انتہائی دلچسپ اور سنسنی خیز موڑ پر پہنچ چکا تھا۔شہزادے کا دیو سے سامنا ہو گیا تھا۔اچانک نہ جانے کہاں سے ایک چڑیا چوں چوں کرتی میرے سرہانے بیٹھ گئی۔میں نے جیسے ہی اس کی طرف دیکھا وہ پُھر سے اُڑ گئی۔ میں واپس ناول کی طرف متوجہ ہوا تو چڑیا پھر سے آگئی۔میں نے کوئی توجہ نہ دی۔شہزادہ ،پری کی دی ہوئی جادو کی چھڑی سے دیو کو زیر کرنے ہی والا تھاکہ پھر چڑیا آگئی۔وہ بے قرار سی کبھی یہاں بیٹھتی کبھی وہاں۔میں غصے سے اسے دیکھنے لگا۔کہانی کا سارا مزا کر کرا ہو گیا تھا،مگر چڑیا میرے جذبات سے بے پروا چوں چوں کرتی اِدھر اُدھر پھدک رہی تھی۔اچانک مجھے احساس ہوا کہ چڑیا مجھے کچھ کہنا چاہ رہی ہے۔اب کہانیاں پڑھ پڑھ کے مجھ میں اتنی عقل تو آہی گئی تھی۔میں ناول رکھ کر اس کی حرکتیں دیکھنے لگا۔جلد ہی مجھے پتا چل گیا کہ چڑیا مجھ سے کیا کہ رہی ہے۔چڑیا کا ننھا سا بچہ زمین پر گر گیا تھا۔وہ چاہتی تھی کہ میں اس کے بچے کی مدد کروں۔میں نے ناول ایک طرف رکھا اور چڑیا کے بچے کو اُٹھا لیا۔بچہ کیا تھا گوشت کا لوتھڑا تھا۔آنکھیں بھی بند تھیں البتہ پیٹ خوب پھولا ہوا تھا۔چڑیا نے اسے خوب کھلا پلا رکھا تھا۔آتی جاتی سانسوں سے اس کا پیٹ پھول اور پچک رہا تھا۔میں نے اسے اُٹھایا تو اس نے جھرجھری سی لی۔اب بچہ تو میں نے اُٹھالیا،مگر اسے رکھوں کہاں؟چڑیا شاید میری پریشانی بھانپ گئی۔وہ تیزی سے گھونسلے کی طرف گئی،پھر نیچے اُتر آئی۔بار بار گھونسلے میں جاتی اور مجھ سے کچھ فاصلے پر بیٹھ جاتی۔اس نے کبوتر کے گھونسلے کو آباد کر رکھا تھا۔چڑیا نے مجھے یہ تو بتا دیا کہ بچہ کہاں رکھنا ہے،مگر کیسے رکھنا ہے؟اس کا جواب مجھے خود تلاش کرنا تھا۔میں اسٹور روم سے لکڑی کا اسٹول اُٹھا لایا۔اسٹول پر چڑھ کر بھی میرا ہاتھ گھونسلے تک پہنچنے سے قاصر تھا۔ادھر چڑیا تھی کہ بے قرار ہوئی جا رہی تھی۔میں نے مسہری پر سے گدا ہٹا کے زمین پہ ڈالا اسٹول کو مسہری پر رکھا اور چڑھ کر دیکھا۔گھونسلہ اب بھی ذرا سے فاصلے پر تھا۔میں کچن سے پٹرا اُٹھا لایا۔اب صورت حال یہ تھی کہ مسہری پر پٹرا،پٹرے پہ اسٹول،اسٹول پر میں،میرے ہاتھ میں چڑیا کا بچہ اور میرے سر پر چکراتی چڑیا․․․․․”یہ کیا ہو رہا ہے؟“امی کی تیز آواز گونجی۔میں نے گھبرا کر نیچے دیکھا تو اسٹول ڈگمگایا۔میں نے امی کے منہ سے ایک خوف زدہ سی آواز سنی۔میں نے خود کو سنبھالا۔”نیچے اُترو فوراً۔‘امی نے تیز آواز میں کہا۔میں اپنے ہاتھ میں موجود بچے کو بھول کر اُترنے لگا تھا کہ چڑیا چوں چوں کرتی ایک بار پھر میرے سر پر چکرانے لگی۔میں نے اپنی امی کو دیکھا۔ان کی آنکھوں میں خوف تھا۔انھیں ڈر تھا کہ کہیں میں گر نہ جاؤں۔ایک طرف میری ماں تھی،جسے میرے گرنے کا اندیشہ تھا۔دوسری طرف وہ ماں تھی جس کا بچہ گر چکا تھا۔نہ میں چڑیا کی زبان سمجھتا تھا نہ چڑیا میری،لیکن مجھے لگا کہ چڑیا شاید امی کی بات سمجھ گئی ہے تب ہی کبھی گھونسلے میں جا بیٹھتی کھڑکی میں اسے کسی پل چین نہ تھا۔میرے سامنے دو مائیں تھیں اور دونوں کے دل دھک دھک کر رہے تھے۔ایک بچہ لا چار تھا اور دوسرا بچہ گرنے سے ڈر رہا تھا۔میں نے اپنے خوف پر قابو پایا اور ہاتھ بڑھا کر بچے کو گھونسلے میں رکھ دیا۔چڑیا اُر کر گھونسلے میں چلی گئی۔میں بھی آہستگی اور احتیاط سے اسٹول سے اُترا۔میرے نیچے اُترتے ہی امی نے تیزی سے بڑھ کر مجھے لپٹا لیا۔”اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو؟“انھوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔”مجھے کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔آخر دو دو مائیں میرے لئے دعائیں کر رہی تھیں۔“امی نے میری بات سن کر میرا ماتھا چوما اور دوبارہ مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیا۔مجھے یقین تھا کہ اس وقت گھونسلے میں بیٹھی ماں بھی اپنے بچے کو ایسے ہی پیار کر رہی ہو گی۔ " ندامت - تحریر نمبر 1812,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nidamat-1812.html,"خنسہٰ محمد عقیل شاہ،لیاری،کراچی”امی!میرے موزے کہاں ہیں؟پلیز آپ ڈھونڈ دیں ۔“افزا نے اپنی امی کو پکارتے ہوئے کہا ۔”افزا!تم سے کتنی بار کہا ہے کہ موزے دراز میں رکھا کرو،مگر تمہاری سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی ۔ہر چیز اِدھر اُدھر پھینک دیتی ہو ۔“اس کی امی نے کہا ۔”امی!اچھا اب نہیں کروں گی ۔ابھی تو ڈھونڈ دیں مجھے اسکول کے لئے دیر ہو رہی ہے ۔“”یہ دیکھو تم نے صوفے کے نیچے پھینک دیے تھے اور پریشان ہو،خود ڈھونڈ نہیں سکتی تھیں ۔“امی نے افزا کو ایک چپت لگاتے ہوئے کہا:”اپنی اس عادت کو ختم کرو ۔“کلاس میں تیسرا پیریڈ چل رہا تھا اور مس لیکچر دے رہی تھی ۔اس وقت پرنسپل صاحبہ کلاس میں داخل ہوئیں تو سب بچوں نے انھیں ادب سے سلام کیا اور پرنسپل نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو تمام بچے بیٹھ گئے ۔(جاری ہے)پرنسپل نے کہا:”بچوں!آپ سب کے لئے ایک خوشخبری ہے ۔ہفتے کو آپ سب کو اسکول انتظامیہ کی طرف سے پکنک پر لے جایا جا رہا ہے ۔ جو بچے جانا چاہتے ہیں وہ اپنا نام اپنی اساتذہ کے پاس لکھوا لے اور بچوں آپ سب کو صاف ستھرے ہو کر یونیفارم میں آنا ہے ۔وہاں پر بڑے بڑے لوگ آئیں گے ۔“پرنسپل کے جاتے ہی بچے خوشی سے ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کون کون آئے گا ۔افزا نے اپنی سہیلی فاطمہ سے پوچھا:”فاطمہ!تم پکنک پر آؤ گی ۔“فاطمہ نے کہا:”ہاں اقرا!ہم دونوں مل کر خوب مزے کریں گے ۔“افزا کو بھی اس کی امی نے اجازت دے دی،اس لئے وہ بہت خوش تھی ۔اسے بس ہفتے کے دن کا انتظار تھا ۔آخر ہفتے کا دن آہی گیا ۔افزا صبح جلدی اُٹھ گئی اور تیار ہونے لگی ۔اس نے یونیفارم اُٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو وہاں پر یونیفارم تھا ہی نہیں وہ بہت پریشان ہو گئی اور اسے یاد آیا کہ اس نے یونیفارم کل اُتار کر یہاں پر لٹکایا نہیں تھا ۔پتا نہیں کہاں پھینک دیا تھا ۔افزا نے اپنی امی کو بتایا:”امی!میں نے یونیفارم کل پتا نہیں کہاں رکھا تھا مجھے یاد بھی نہیں آرہا اور اب میں پکنک پر کیسے جاؤں گی ۔“میں تم سے ہمیشہ کہتی تھی نا کہ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھا کرو،لیکن تم نے کبھی میری بات ٹھیک طرح سے سنی ہی نہیں ۔تمہیں کسی بھی چیز کی قدر ہی نہیں ہے ۔اتنی لاپرواہی نہیں کرتے ۔اب تم پکنک پر کیسے جاؤں گی ۔“اس کی امی نے غصے سے کہا ۔اب افزا کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہو رہا تھا اور وہ سر جھکائے کھڑی تھی اور شرمندگی و ندامت کے آنسو اس کے چہرے پر رواں تھے ۔”امی!مجھے معاف کر دیں،میں نے آپ کی بات نہ مانی اور ہمیشہ لاپرواہی کرتی رہی ۔آج اس کی سزا مجھے مل گئی ۔اب میں پکنک پر بھی نہیں جا سکتی ہوں ۔“افزا نے روتے ہوئے اپنی امی سے معافی مانگی ۔”مجھے خوشی ہے بیٹا!کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور اُمید ہے تم آئندہ اپنی ہر چیز کا خیال رکھو گی ۔“امی نے افزا کو گلے لگاتے ہوئے کہا:”یہ لو اپنی یونیفارم ،یہ بے جگہ پڑی تھی ۔میں نے دھو کر استری کرکے رکھ دی تھی ۔“افزا کی باچھیں کھل گئیں اور وہ امی سے لپٹ گئی ۔ " علم کی روشنی - تحریر نمبر 1811,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ilaam-ki-roshni-1811.html,"شاہ میر اور شہیر دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔شہیر کو پڑھائی سے بالکل دلچسپی نہیں تھی جبکہ شاہ میر اپنی کلاس کا ذہین طالب علم تھا اور ہمیشہ امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتا تھا۔شہیر کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا۔ اس کے والد کا اچھا خاصا کاروبار تھا۔پیسے کی فراوانی نے اسے قدرے مغرور بنا دیا تھا۔شہیر دولت کو اتنی زیادہ اہمیت دینے لگا تھاکہ اس کی نظر میں تعلیم کی اہمیت تقریباً ختم ہو کر رہ گئی تھی۔وقت گزرتا رہا اور دونوں میٹرک میں پہنچ گئے ۔میٹرک کا امتحان شاہ میر نے اے گریڈ میں پاس کیا جبکہ شہیر نے سی گریڈ حاصل کیا۔اسکول سے نکلتے ہی سب ساتھی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔شاہ میر اپنے تعلیمی مراحل طے کرتا رہا۔اس نے ایم اے اردو کے امتحان میں نمایاں طور پر کامیابی حاصل کر لی۔(جاری ہے)بعد میں اسے ایک مقامی کالج میں بحیثیت لیکچرار ملازت مل گئی۔وہ اردو کا استاد تھا۔کلاس میں اردو زبان کی اہمیت اور افادیت بیان کرتا،اردو ادب کے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر روشنی ڈالتا تھا۔وہ کالج کے طلبہ میں بہت مقبول تھا۔علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اس کے پسندیدہ شاعر تھے اور وہ اقبال رحمة اللہ علیہ کی شاعری بڑی خوبصورتی سے پڑھاتا۔وہ اپنے طالب علموں کو اقبال کے افکار پر عمل کرنے کی نصیحت کرتا اور انہیں اپنی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے پر زور دیتا تھا۔شاہ میر انہیں کہتا کہ ہمیں اپنی تمام عمر علم کے حصول کے لئے کوشاں رہنا چاہیے۔ایک دن وہ اپنے طلبہ کو لیکچر دے کر کلاس سے باہر نکلا ہی تھا کہ ایک اجنبی شخص اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور بڑی عاجزی سے بولا”جناب میں میٹرک پاس ہوں۔آپ کے کالج میں اگر کوئی نوکری ہو تو مجھے خدمت کا موقع دیں۔میں ساری زندگی آپ کا احسان مند رہوں گا۔“یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔شاہ میر نے ایک نظر اس شخص کو دیکھا،جیسے کچھ پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔اس شخص کے بال بکھرے ہوئے اور داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔اس نے میلے کچیلے کپڑے پہن رکھے تھے اور چہرے سے مفلسی کے آثار نمایاں تھے۔شاہ میر نے اسے غور سے دیکھا اور پھر چونک اٹھا۔اس کے منہ سے حیرانی کے عالم میں نکلا”ارے شہیر!․․․․یہ تم ہو․․․․اور یہ کیا حال بنا رکھا ہے․․․․!آخر یہ سب کیا ہے؟“استاد کے منہ سے اپنا نام سن کر شہیر چونک پڑا اور بوکھلا گیا۔وہ اپنے کلاس فیلو شاہ میر کو پہچان کر اپنی داستان سنانے لگا”شاہ میر تم نے ٹھیک پہچانا․․․․میں شہیر ہوں․․․․حالات کا مارا ہوا․․․․تم مجھے تعلیم کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ علم کے حصول کے لئے ساری عمر سر گرم رہنا چاہیے لیکن میں دولت کے غرور میں تمہاری بات سنی ان سنی کر دیتا تھا۔میں نے میٹرک کے بعد تعلیم کو خیر باد کہا اور اپنے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔پڑھائی سے تو میری شروع ہی سے جان جاتی تھی اور میں تمہیں بھی یہی کہا کرتا تھا کہ پیسے کے مقابلے میں تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں۔یہ سراسر میری غلطی تھی۔ان ہی دنوں میرے ابا جان کاروبار کے سلسلے میں دوسرے شہر جا رہے تھے کہ کار کا حادثہ ہو گیا اور وہ ہمیں بے یار و مدد گار چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔ہم پر بہت مشکل وقت آپڑا تھا۔میرے ابا جان کا شراکت کا کاروبار تھا۔ان کی وفات کے بعد خدا جانے ان کے شراکت دار نے کیا چکر چلایا کہ وہ سارے کاروبار کا خود ہی مالک بن گیا اور ہم اپنے حصے سے محروم ہو گئے ۔میری والدہ نے گزر اوقات کے لئے ہمارا بڑا مکان بیچ کر نسبتاً چھوٹا مکان خرید لیا۔رفتہ رفتہ ساری رقم خرچ ہو گئی۔جب حالات نے نوکری کرنے پر مجبور کیا تو میٹرک پاس ہونے کی وجہ سے کوئی اچھی نوکری نہ مل سکی۔میرے پاس کوئی سفارش بھی نہ تھی جو میرے کام آسکتی۔ان حالات نے مجھے محنت مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا۔یہ ایسے لمحات تھے جن کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔میں نے اچھے حالات میں آنکھ کھولی تھی ،میں خواب میں بھی ایسے بدترین حالات کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔پچھلے چھ برسوں سے میں ایسے ہی حالات کا شکار ہوں اور آج مجھے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔تم ٹھیک کہتے تھے کہ علم ایک روشنی ہے جو نہ صرف اندر کے اندھیرے دور کرتی ہے بلکہ صحیح راستے کی طرف رہنمائی بھی کرتی ہے۔میں نے اس سارے عرصے میں بہت مشکل حالات دیکھے ہیں اور اب میں جان گیا ہوں کہ پیسے ہی سے انسان بڑا آدمی نہیں بنتا۔“یہ کہہ کر شہیر چپ ہو گیا اس کی آنکھوں سے آنسورواں تھے۔شاہ میر نے اسے حوصلہ دیا اور اس کی ہمت بڑھائی۔شاہ میر تدریس کے با عزت پیشے سے وابستہ تو تھا ہی،وہ مالی طور پر بھی قدرے مستحکم ہو چکا تھا۔لہٰذا اس نے شہیر کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے شام کے وقت اپنی اکیڈمی میں کلرک کی نوکری دے دی۔شہیر فارغ وقت میں اپنے تعلیمی مراحل طے کرتا رہا۔آخر ایک دن اپنی محنت سے پرائیویٹ ایم اے کا امتحان پاس کر لیا۔اب وہ بھی نئی نسل کو اپنے علم کی روشنی سے منور کر رہا تھا۔اس نے بھی شاہ میر کے ساتھ مل کر طلبہ کو پڑھانا شروع کر دیا تھا۔یوں چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اب شہیر کے پاس ہمیشہ موجود رہنے والی دولت آگئی تھی۔ " سونے کی گھڑی - تحریر نمبر 1810,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/soone-ki-ghari-1810.html,"ایم رضوان ملغانیاس رات ابا بڑی دیر سے گھر آئے اور آتے ہی اپنے کمرے میں چلے گئے۔ عموماً وہ جب بھی گھر آتے کچھ نہ کچھ لے کر آتے تھے۔ اس بار وہ خالی ہاتھ تھے۔ آج انھوں نے سلام بھی نہیں کیا تھا،جہاں امی کو پریشانی لاحق ہوئی،وہیں مجھے بھی گڑبڑ لگنے لگی۔میں اُٹھ کر ابا کے کمرے کی طرف جانے لگا تو امی نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور خود بڑھ گئیں۔میں طرح طرح کی باتیں سوچتا ہوا صحن میں ٹہلنے لگا۔کچھ دیر بعد امی کی واپسی ہوئی۔مجھے ان کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ہی انداز ہو گیا تھاکہ ضرور میری ہی کوئی بات ہے۔ میرا شک یقین میں تب بدلا جب انھوں نے غصے سے کہا:”جاؤ ،تمہارے ابو بلا رہے ہیں تمہیں۔“یہ کہہ کر وہ باورچی خانے کی جانب چلی گئیں۔(جاری ہے)میں ان کے پیچھے بھاگا:”امی !بتائیں تو آخر ہوا کیا ہے؟“میں جان گیا تھا کہ انجانے میں شاید مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو گی تب ہی وہ اتنے غصے میں ہیں۔میں ابھی اپنا سوال دوبارہ دہرانے والا تھا کہ ابا جان کی گرجاتی ہوئی آواز کانوں میں گونجی:”حمد ان!سنا نہیں تم نے!جلدی آؤ۔“میں خوف سے ڈرتا کانپتا اندر چلا گیا:”جی ابا جان!“میں نے انھیں دیکھے بنا کانپتی آواز میں کہا۔”ادھر آکے بیٹھو،میرے پاس۔“ اب کے ان کے لہجے میں سختی نہ تھی،لیکن میں سہما ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتے میں ان کے پاس جاکر بیٹھ گیا تھا۔”یاد کرو وہ دن جب تمہارا ہائی سکول میں پہلا دن تھا اور میں نے تمہیں کیا نصیحت کی تھی؟“وہ آہستہ آہستہ،لیکن رنجیدہ آواز میں کہہ رہے تھے۔”جی ابا جان!مجھے اچھی طرح یاد ہے اور میں نے آپ کی ہر نصیحت پر عمل بھی کیا۔“میں نے یہ جملہ انھیں دیکھ کر کہا تھا، تاکہ انھیں میری سچائی پر جھوٹ کا شبہ نہ ہو۔”اگر ایسا ہے تو جاؤ اپنا بستہ لے کر آؤ۔“میں فوراً ان کی بات سمجھ نہیں پایا اور حیرت سے انھیں دیکھتا رہا۔”تم نے سنا نہیں کیا کہہ رہا ہوں،جاؤ اپنا بستہ لے کر آؤ۔“اس بار انھوں نے سخت لہجے میں کہا۔میں پھر ڈر گیا اور بستہ لینے چلا گیا۔ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے بستہ مجھ سے چھین لیا۔بستے کی دونوں زپیں کھول کر اس کی تلاشی لینے لگے،انھیں مطلوبہ شے نہ ملی تو انھوں نے بستہ اُلٹ دیا ساری کاپیاں اور کتابیں پلنگ پر بکھر گئیں اور ان کا پیوں کتابوں کے بیچ میں ایک گھڑی جگمگاتی دکھائی دی گھڑی کی چمک دمک سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ سونے کی ہے۔”یہ کہاں سے آئی تمہارے بیگ میں!بولو جواب دو۔“انھوں نے ایک ہاتھ میں گھڑی لہرائی اور دوسرے ہاتھ سے میرے بازو کو دبوچ کر کہا۔”ابا!مجھ سے قسم اُٹھوالیں میں نہیں جانتا یہ کس کی ہے اور میرے بستے میں کیسے آئی۔“میں نے روتے ہوئے جواب دیا۔”بکواس بند کرو اور سچ سچ بتاؤ مجھے۔“وہ ایک بار پھر غصے سے بولے تھے۔میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے گزرے دن یاد کرنے لگا ۔کافی سوچ بچارکے بعد مجھے یاد آیا۔یہ اس دن کا واقعہ ہے جب بارش ہو رہی تھی اور میرا سکول جانے کا قطعاً دل نہیں چاہ رہا تھا۔ابا چھتری لے کر باہر جانے لگے تو ان کی مجھ پر نظر پڑی۔”ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئے،جلدی تیار ہو کر آؤ میں انتظار کرتا ہوں تمہارا ،آج رکشے سے جائیں گے سکول۔“انھوں نے اس انداز میں کہا کہ مجھے ان کی بات ماننی پڑی۔میں تیار ہو کر آیا تو امی نے فوراً ناشتہ میرے آگے رکھ دیا۔میں نے جھٹ پٹ ناشتہ ختم کیا اور ابا کے ساتھ ہو لیا۔رکشے میں سوار ہوئے تو ابا مجھے بتانے لگے:”آج سکول میں پرنسپل نے پارٹی رکھی ہے شہر کا کوئی بڑا سیاست دان آرہا ہے ۔دہم کلاس کے دو اور سیکشن بنوانے ہیں۔اسٹاف روم کی چھت ٹپکتی ہے۔پانی کی ٹنکی لیک ہو گئی ہے۔میری کینٹین بھی چھوٹی ہے اسے بڑا کرنا ہے ۔لاکھوں کا خرچہ ہے۔اس وجہ سے پرنسپل صاحب نے انھیں مدعو کیا ہے۔“وہ ذرا دیر کے لئے رکے پھر بولے:”ممکن ہے دوپہر کا کھانا بھی سکول میں ہی پرنسپل کے ساتھ ہو۔کاش دلاور چودھری مان جائے اور فنڈ کی منظوری دے دے۔“وہ تحمل سے بتا چکے تو میں بھی دل ہی دل میں دعا کرنے لگا۔ابا جان گزشتہ برسوں سے اس سرکاری سکول میں کینٹین چلا رہے تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ سکول میں جب بھی کوئی خاص موقع یا تقریب ہوتی منتظم کے طور پر ان کا سکول میں ہونا لازم ہوتا۔ہم سکول پہنچے تو مجھے ابا جان نے اسمبلی کے لئے گھنٹی بجانے کا حکم دیا اور خود پرنسپل آفس چلے گئے۔ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں لسٹ تھی میں نے اس لسٹ کی بابت پوچھا تو بتانے لگے کہ یہ پکوان تیار کروانے ہیں ۔وہ بتاتے ہی کینٹین چلے گئے اور میں سکول سے لیٹ آنے والوں لڑکوں کے نام ایک فائل میں نوٹ کرنے میں لگ گیا۔پرنسپل صاحب نے یہ قانون بنایا تھا کہ سکول کی ہر کلاس کا مانیٹر اپنی باری آنے پر یہ ڈیوٹی سر انجام دے گا ۔اس روز منگل تھا اور منگل کے دن میری باری ہوتی تھی۔میں فائل ہاتھ میں لئے لڑکوں کے نام درج کرنے میں لگا ہوا تھا کہ میں نے فیصل کو بھی اس قطار کا حصہ بنتے دیکھا۔وہ انتہائی غصے سے آگ بگولہ ہو کر مجھے دیکھ رہا تھا۔اس کا نام فائل میں لکھنے کی باری آئی تو وہ بولا:”میرا نام فائل میں لکھنے کی غلطی مت کرنا۔“وہ انتہائی بد تمیزی اور اکھڑ لہجے میں حکم دینے والے انداز میں بولا۔”’میں اس وقت اپنی ذمے داریاں نبھا رہا ہوں اور میرا فرض ہے جو بھی لیٹ آئے سب کے نام فائل میں درج کروں۔“میں اس کا نام لکھنے لگا ۔اس کا نام لکھ چکا تو اس نے مجھے اُنگلی کھڑی کرتے ہوئے کہا:”تمہیں تو میں دیکھ لوں گا۔“وہ کمرہ جماعت کی طرف بڑھ گیا اور میں باقی طالب علموں کے نام لکھ کر فائل پرنسپل صاحب کے دفتر پہنچا کر کلاس روم میں داخل ہو گیا۔ششماہی امتحانات سر پر تھے سب کو اپنی اپنی فکر تھی۔تقریباًسب ہی کے فزکس کے پریکٹیکل مکمل تھے اور سب نے چیک کروا دیے تھے ،لیکن ایک فیصل تھا کہ جس نے ابھی تک پریکٹیکل مکمل نہیں کیا تھا۔وہ کافی دنوں سے مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں اس کا پریکٹیکل مکمل کر دوں۔میرا اپنا کام زیادہ تھا۔امتحانات کی تیاری بھی کرنی تھی۔لہٰذا اس کے بار بار اصرار کرنے پر میں نے بھی بار بار انکار ہی کیا تھا۔سر خاور جو فزکس پڑھاتے تھے ،اس دن آپے سے باہر ہو گئے ۔انھوں نے فیصل کو کافی ڈانٹ ڈپٹ کر پرنسپل آفس بھجوا دیا۔ یہ فیصل کی بد قسمتی تھی کہ اس وقت پرنسپل آفس میں علاقے کے ایم این اے دلاور چودھری بھی موجود تھے۔اس طرح کی کسی شکایت کا علاقے کے ایم این اے کے سامنے انھیں موصول ہونا کافی تضحیک کی بات تھی۔پرنسپل صاحب شدید قسم کے جذباتی ہو گئے اور فیصل کے جماعت نہم کے بورڈ کے امتحانات کا داخلہ فارم بھجوانے سے انکار کر دیا اور سزا کے طور پر آفس میں کان پکڑ کر ایک ٹانگ پر کھڑے ہونے کا کہا۔فیصل جیسے لڑکے کے لئے یہ سب برداشت کرنا انتہائی مشکل تھا۔شاید تب ہی وہ مجھ سے بدلہ لینے کے کئی منصوبے ترتیب دیتا رہتا تھا۔آدھی چھٹی کی گھنٹی بجی تو بچوں نے فیصل کو پرنسپل آفس میں اس حالت میں کھڑے دیکھ کر اس کا خوب مذاق اُڑایا ۔کئی لڑکوں نے فقرے کسے،کئی لڑکوں نے سیٹیاں بجائیں کہ اس وقت ابا جان کھانے کا سارا انتظام کر چکے تھے ۔ہال میں میز پہ کھانا لگا دیا گیا تھا۔ آدھی چھٹی کے فوراً بعد دلاور چودھری کو تقریر بھی کرنا تھی ۔سارا اسٹاف پرنسپل صاحب اور دلاور چودھری ہال میں جمع تھے۔ادھر فیصل اکیلا کھڑا سب کو کھانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔ ادھر جب میری نظر پرنسپل آفس کی کھڑکی سے اندر پڑی تو میں نے اس کے ہاتھ میں جگمگاتی ہوئی گھڑی کو دیکھا ۔اس کی نظر گھڑی سے ہٹ کر مجھ پر پڑی تو میں اس کی چمکتی آنکھوں میں شرارت بھانپ لی تھی ،لیکن دلاور چودھری صاحب کی دھواں دھار تقریر کے بعد میں سب کچھ بھول بھال گیا تھا۔دراصل وہ گھڑی دلاور چودھری ہی کی تھی۔پرنسپل آفس کے ساتھ متصل واش روم میں جاتے ہوئے وہ اپنی گھڑی اُتار کر ٹیبل پہ رکھ گئے تھے ۔ہال میں جاتے ہوئے بھی شاید وہ گھڑی پہننا بھول گئے تھے۔اسی کا فائدہ اُٹھا کر فیصل نے آدھی چھٹی کے وقت ہی وہ گھڑی میرے بیگ میں ڈال دی تھی ۔فیصل کا یہ منصوبہ اس لحاظ سے بھی کامیاب رہا کہ چودھری صاحب نے سکول کے لئے فنڈ دینے کی منظور ی دے دی تھی اور اس خوشی میں پرنسپل صاحب نے اور دیگر اسٹاف نے انھیں تحائف دینے کا بندوبست بھی کر رکھا تھا۔ایک ہاتھ سے تحائف وصو ل کرتے اور دوسرے ہاتھ میں موبائل پکڑے اسے کان سے لگائے وہ اگلی میٹنگ میں آنے کا کہہ کر روانہ ہوگئے۔اسی ہڑ بڑی میں شاید وہ بالکل بھول گئے تھے کہ ان کے ہاتھ میں سونے کی بیش قیمت گھڑی بھی تھی۔فیصل گھڑی میرے بیگ میں ڈال کر نو دو گیارہ ہو گیا تھا،میری بد قسمتی کہ اس کے نکل جانے کے بعد ابا جان نے مجھے پرنسپل آفس بھیجا کہ میں الماری سے ٹشو بکس لے آؤ،مجھے آفس آتے کئی لڑکوں نے دیکھا اور سب نے یہ بھی دیکھا کہ جب میں آفس گیا تو وہاں فیصل موجود نہیں تھا، اس لئے جب گھڑی کے سلسلے میں چودھری صاحب کا فون آیا اور پرنسل صاحب نے ابا سے ذکر کیا تو ان کا سو فیصد شک مجھ پر ہی تھا۔جب میں نے اباجان کو سارا واقعہ سنایاتو ابا جان نے میری پیشانی چوم لی اور انھیں میری بات پر یقین آگیا۔میں ابا جان کے ساتھ فیصل کے گھر گیا۔فیصل خود بھی اپنے کیے پہ شرمندہ تھا۔اس نے نہ صرف مجھ سے بلکہ ابا جان سے بھی معافی مانگی اور یہ تہیہ کیا کہ آئندہ وہ اپنا کام خود کرے گا!گھڑی کسی طریقے سے چودھری صاحب کو بھجوادی گئی تھی۔ " میں ہوں․․․مانو بلی - تحریر نمبر 1809,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/main-hoon-mano-billi-1809.html,"صائم جمالاسلام علیکم!میرا نام مانو بلی ہے ۔میں آج کل اپنے جنگل کو چھوڑ کر شہر میں آئی ہوئی ہوں۔ کیوں آئی ہوں تو اس لئے کہ مجھے جنگل کی زندگی پسند نہیں ہے ۔اوہ!خدایا میرے پیٹ میں تو بھوک سے چوہے بھی مرے پڑے ہیں ۔ارے یہ سامنے ہی تو گوشت کی دکان ہے ،چلو وہیں چلتی ہوں ۔وہاں جا کر کیا دیکھتی اور سنتی ہوں کہ ایک قصائی صاحب تازہ اور باسی گوشت مکس کر رہے ہیں جبکہ قصائی کا ملازم کہہ رہا ہے کہ استاد اس طرح تو لوگ بیمار پڑ جائیں گے ۔لیکن قصائی صاحب نے بڑا کرارا سا تھپڑ ملازم کو جڑ دیا اور بولا۔”تجھے بڑی پروا ہے لوگوں کی۔ مرتے ہیں تو مرنے دو پہلے بھی کون سا نہیں مر رہے کورونا وائرس سے زیادہ خطر ناک کام تو نہیں میں کر رہا جہاں اس وائرس سے اتنے مر گئے وہاں کچھ اور مر جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے ۔(جاری ہے)بھئی مجھے تو اپنی جان پیاری تھی اس لئے میں تو وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی ۔راستے میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بوڑھی عورت سڑک پار کرنا چاہتی ہے اور بار بار یہ کہتی ہے کہ ہائے میرا بچہ میں کیسے ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر اسے فیس دوں تاکہ وہ میرے بچے کا آپریشن کرے۔لیکن وہ سڑک کس طرح پار کر سکتی ہے کیونکہ لوگوں نے تو جگہ جگہ پر غلط پارکنگ کی ہوئی ہے ۔خیر اسے تو اپنے بچے کی جان بچانی تھی اس لئے کسی نہ کسی طرح سڑک پار کر گئی ۔اور پھر جو لوگوں نے اسے گالیوں سے نوازا توبہ الامان۔بھئی اس بوڑھی عورت کی وجہ سے کئی گاڑیاں جو لہرا گئیں تھیں ۔بھئی ہائی اسپیڈ پر اچانک بریک لگائی جائے تو گاڑیاں اسی طرح لہراتی ہوں گی جیسے اب۔”ارے یہ سامنے تو ایک اور مانو بلی نظر آرہی ہے اور اس کے منہ میں بڑا سا گوشت کا ٹکڑا ہے ۔اتنے میں وہ مجھ تک پہنچ گئی اور بولی۔”ارے بی بلی تم یہاں پر نئی ہو؟“میں نے بے اختیار سر ہلا دیا۔”اچھا اچھا پھر تو ہماری مہمان ہوئی نا؟“”بھوکی ہو یہ گوشت کا ٹکرا کھالو۔“”نہیں یہ تو تم اپنے لئے لائی ہو۔“میں نے کہا تو وہ بولی۔ارے تمہارا خیال میں اور میرے ساتھی نہیں رکھیں گے تو اور کون رکھے گا آخر کوبلیت بھی تو کسی چیز کا نام ہے۔بہت بہت شکریہ․․․․․کھانا کھا کر میں نے سوچا تھوڑی سی چہل قدمی کرلوں اس لئے آگے چل پڑی ۔ابھی میں نے تھوڑی سی واک کی تھی کہ میں نے ایک روتے ہوئے بچے کو دیکھا جو پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا اماں مجھے بھوک لگی ہے۔ کوئی بات نہیں یہ جو سامنے انکل کی برگر کی دکان ہے یہ اسے ایک برگر دیدے گا۔ لیکن یہ کیا ہوا؟چٹاخ چٹاخ تھپڑ بچے کے منہ پر پڑے اور ساتھ ہی انکل کی کرخت آواز کانوں میں پڑی۔چل دفع ہو جا یہاں سے،اور اپنے ماں باپ کے پاس جا کر مر۔وہ بیچارہ معصوم بچہ بھاگ کھڑا ہوا اور کیسی درد بھری آواز میں رو رہا تھا۔حیرت ہے میں نے تو سنا تھا کہ انسان صرف محبت کرنا جانتا ہے ۔لیکن یہاں کیا ہو رہا ہے؟ میں اپنے آپ سے یہ سوا ل کرتی ہوئی چلی جا رہی تھی کہ مجھے لوگوں کے رونے کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی کوئی بولا۔”ظالموں نے سب کو مار ڈالا کسی کو نہ چھوڑا۔“بعد میں لوگوں کی زبانی معلوم ہوا کہ بازار میں نا معلوم افراد نے فائرنگ کرکے وہاں پر موجود ہر فرد کو گولیوں سے چھلنی کر دیا اور پھر وہاں سے فرار ہو گئے۔اوہ!میرے خدایا یہاں پر انسان انسان کو اس قدر بے رحمی سے مار ڈالتا ہے ۔ہمارے جنگل میں تو ہر کوئی پیار محبت سے رہتا ہے اور پھر شہر تو پیار اور محبت سے بنتے ہیں ۔میری اماں کہتی ہیں اگر دلوں میں دوسروں کے لئے محبت نہ ہو تو دل و حشی درندہ بن جاتا ہے ۔کیا اس ملک کے سبھی انسانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ختم ہو گئی ہے؟تو جنگل تو یہ جگہ ہوئی نا؟اور جہاں ہم رہتے ہیں وہ شہر ہوا کیونکہ پیار اور محبت تو وہاں زیادہ ہے اس کے ساتھ ہی مانو بلی نے اپنے شہر کی راہ لی۔ساتھیو!یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے اس وقت ملک کن حالات سے دوچار ہے ہمیں ہر لمحہ پیار محبت بانٹنا ہے کیونکہ خدا نے بھی ہمیں انسانوں سے پیار محبت کی تلقین کی ہے۔ تو آئیے ہم انسانوں سے محبت کا عہد کریں۔ " جیب کترا - تحریر نمبر 1808,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jaib-katra-1808.html,"صفت اللہ ذیشان”جلدی کیجئے امی!پہلے ہی مجھے کافی دیر ہو چکی ہے ۔اب آپ پوری چائے کی پیالی پلا کر ہی دم لیں گی۔کبھی کبھار تو ہلکا ناشتہ کرنے کی اجازت بھی ہونی چاہیے۔“جاوید نے اپنی ماں کے آگے ہاتھ جوڑے ہوئے کہا۔امی ہنس پڑیں اور بولیں:”بیٹا!کیا دفتر میں اپنے افسروں کے سامنے بھی اس طرح بولتے ہو؟وہاں تو،سر،اور جی نہیں سر،کے سوا تمہارے منہ سے کچھ نہیں نکلتا ہو گا۔“”امی!وہ دفتر ہے،یہ گھر ہے۔وہاں افسر ہیں اور آپ میری پیاری سی امی جان ہیں۔کافی فرق ہے۔“یہ کہہ کر جاوید نے اپنا لنچ بکس لیا اور سلام کرکے گھر سے باہر نکل آیا۔آج جمعرات کا دن تھا۔ سڑک پر کافی گہما گہمی تھی۔جاوید جیسے ہی بس اسٹاپ پر پہنچا،سواریوں سے بھری ہوئی ایک بس اسی وقت پہنچ گئی۔(جاری ہے)کافی دھکم پیل کے بعد جاوید بس میں سوار ہو گیا۔سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے وہ بس کا ڈنڈا پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔چند لمحوں بعد کنڈکٹر نے ٹکٹ کے پیسے مانگے تو جاوید نے پرس نکالا اور پیسے دے کر ٹکٹ لے لیا۔پھر بس جاوید کے اسٹاپ پر رُکی تو جاوید لوگوں کو آگے پیچھے کرتا ہوا نیچے اُتر گیا۔نیچے اُترتے ہی اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔کوئی ظالم بڑی صفائی سے اس کی جیب صاف کر چکا تھا۔اب اس کو یاد آیا کہ جب اس نے ٹکٹ دینے کے لئے پرس نکالا تھا تو اس کے قریب ہی کھڑے ایک نوجوان کی نظریں اس کے پرس پر تھیں۔ یقینا وہ ایک جیب کترا تھا،مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔جاوید فٹ پاتھ پر کھڑا اپنے نقصان کا اندازہ کرنے لگا۔ تقریباً چھے سو روپے ،شناختی کارڈ اور اُف،وہ ظالم پرس کے ساتھ چیک بھی لے گیا۔ چیک کا خیال آتے ہی اس کی نگاہوں کے سامنے”رانی “ کی معصوم صورت ابھر آئی اور اس کی پریشانی بڑھ گئی۔جاوید ایک درد مند نوجوان تھا۔اس نے محلے کے چند اپنے جیسے نوجوانوں کے ساتھ مل کر ایک فلاحی تنظیم کی بنیاد ڈالی تھی ،جس کا مقصد غریب لوگوں کی مدد کرنا تھا۔ان نوجوانوں کی محنت کی وجہ سے کئی غریب خاندان اپنے پیروں پر کھڑے ہو چکے تھے۔ ان غریبوں کی مدد کرنے کے لئے تنظیم کے نوجوان نیک دل اور مال دار حضرات سے چندہ وصول کرتے اور پھر اس چندے سے غریب لڑکیوں کے لئے جہیز وغیرہ خریدتے۔رانی کے والدین بھی غریب تھے ۔جب رانی کا رشتہ طے ہوا تو ان نوجوانوں کو پتا چل گیا۔انھوں نے فوراً ہی اس غریب بہن کے لئے چندہ جمع کرنا شروع کر دیا۔اس دن جاوید نے اسی سلسلے میں ایک سیٹھ صاحب سے چندہ لیا تھا،مگر سیٹھ صاحب نے نقد رقم کے بجائے چیک دیا تھا۔ یہ چیک دس ہزار روپے کا تھا۔آج جاوید کو چیک رانی کے والدین کو پہنچانا تھا، مگر پرس کے ساتھ ،وہ جیب کترا چیک بھی لے اُڑا۔جاوید کو اپنی رقم سے کہیں زیادہ اس چیک کا غم تھا جو اس جیب کترے کے لئے صرف کاغذ کا ٹکڑا تھا،مگر اس کے نہ ملنے سے رانی کی شادی رک سکتی تھی۔اسی پریشانی میں دس روز گزر گئے ۔اس دوران جاوید نے اخبار میں اشتہار بھی دیا کہ شاید چیک مل جائے،مگر کچھ نہ ہوا۔رانی کی شادی میں پانچ دن رہ گئے تھے ۔لڑکے والوں کا فرنیچر کا مطالبہ جوں کا توں رہا۔رانی کے والدین کے ساتھ جاوید کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ایک روز جاوید اپنے دفتر میں بیٹھا اس سوچ میں گم تھاکہ چپراسی نے ایک خط اسے لا کر دیا ۔خط پر جاوید کا نام لکھا تھا ۔جاوید نے لفافہ کھولا تو اُچھل پڑا۔اس میں سے وہی چیک نکلا جس کے لئے جاوید پریشان تھا۔لفافے میں چیک کے علاوہ ایک چھوٹا پرچہ بھی پڑا تھا۔ جاوید نے دھڑکتے دل کے ساتھ پرچہ کھولا اور پڑھنے لگا۔لکھا تھا:محترمہ جاوید انور صاحب!السلام علیکم!میں آپ کا مجرم آپ سے مخاطب ہوں ۔آپ کا پرس میں نے ہی لیا تھا۔مانا کہ مجھ سے غلطی ہوئی ،مگر میں بہت مجبور تھا۔ مجھے روپوں کی سخت ضرورت تھی ۔دراصل میری بہن ”رانی“ کی شادی ایک اچھے خاندان میں طے ہو گئی ہے ،مگر لڑکے والوں کے مطالبات اتنے زیادہ ہیں کہ مجبوراً مجھے یہ قدم اُٹھانا پڑا۔اُمید ہے کہ آپ اپنے ایک ضرورت مند بھائی کو معاف کر دیں گے۔”اور ہاں! آپ کے پرس میں کافی بڑی رقم کا ایک چیک بھی تھا جو میرے کسی کام کا نہ تھا،کیونکہ وہ کر اس چیک تھا اور صرف اسی شخص کے اکاؤنٹ میں جمع ہو سکتا تھا جس کا اس پر نام لکھا ہو ۔لہٰذا وہ چیک آپ کو واپس بھجوا رہا ہوں۔ایک بار پھر آپ سے معافی چاہتا ہوں۔“ایک بہن کا مجبور بھائی یہ خط پڑھ کر جاوید سوچنے لگا کہ میں نے خود رانی کے لئے یہ چیک حاصل کیا تھا۔ اگر رانی کا بھائی اللہ پر بھروسا کرتا اور کچھ دن اور صبر کرتا تو یہ چیک بھی رانی کے کام آجاتا،مگر اس نے غلط راستہ اختیار کیا ۔خود بھی پریشان ہوا اور مجھے بھی پریشان کیا۔ " حادثہ - تحریر نمبر 1807,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hadsa-1807.html,"زارا آصفمجھے ابھی بھی میری زندگی کا ایک حادثہ یاد ہے جو شاید مجھے ہمیشہ ہی یاد رہے گا۔اس حادثے نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔پانچ سال پہلے کی بات ہے جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا،اُن دنوں میری دوستی کچھ بُرے لڑکوں کے ساتھ ہو گئی تھی۔ہم سب دوست اکٹھے ہوتے اور نئے نئے شرارتی منصوبے بناتے اور پھر ان کو پورا کرنے میں لگ جاتے۔کہتے ہیں جیسی صحبت ویسی عادت،ایک دن مجھ سے میرے دوستوں نے کہا:”آج ہمیں سکول نہیں جانا ہے۔“میں اور میرے دوست عابد اور منیر نے اپنے اپنے بستے ایک جگہ چھپا دیے اور ایک کھیت میں جاپہنچے،اور وہاں پانی کے حوض میں نہانے لگے۔کھیت میں کچھ خالی بوتلیں پڑی تھیں۔عابد نے کہا کہ:”ان بوتلوں کو لے جا کر بازار میں بیچ دیتے ہیں۔(جاری ہے)“کچھ ہی دیر میں وہاں سے ردی خریدنے والے بابو کاکا گزر رہے تھے۔ہماری تو جیسے چاندی ہو گئی۔ہم نے بابو کاکا کو تمام بوتلیں بیچ ڈالیں اور بدلے میں جتنے روپے ملے ہم تینوں نے آپس میں برابر برابر بانٹ لیے۔اسی دوران منیر کھیت میں بنے کمرے کے اوپر چڑھ گیا جس پر اس کی چابی رکھی ہوئی تھی،اس نے چابی اُٹھا کر سڑک کی طرف پھینک دی۔اس طرح چھٹی کے وقت تک ہم اِدھر اُدھر گھومتے رہے۔ساڑھے چار بجے کے قریب ہم نے بستے نکالے اور اپنے اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔جب شام ہوئی تو گھر میں اخبار والا اخبار دے کر گیا۔میرے والد صاحب خبریں پڑھتے ہوئے اچانک چونک پڑے۔آج کی تازہ خبر میں تھاکہ:”دن دہاڑے لالہ جی کے کھیت میں چوری ہو گئی۔کھیت میں بنے ہوئے کمرے میں رکھے ہوئے کئی ہزار روپے اور ضروری چیزیں چور لے اُڑے۔“اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی ،ردی خریدنے والے بابو کاکا باہر کھڑے تھے ،میں انھیں دیکھ کر گھبرا اُٹھا۔انھوں نے میرے والد صاحب کو بتایاکہ آج آپ کے لڑکے کو میں نے لالہ جی کے کھیت میں دیکھا تھا۔میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔مجھے یاد آیا کہ منیر نے اس کمرے کی چابی سڑک کی طرف پھینک دی تھی۔بابو کاکا نے کہا کہ:”بیٹا گھبراؤ مت اصلی چور پکڑ لیے گئے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھو کہ ہمیشہ نیک اور اچھے لڑکوں کے ساتھ رہا کرو۔“ان کے جانے کے بعد ابو اور امی نے مجھے بہت ڈانٹا ۔ دوسرے دن میری والدہ مجھے سکول چھوڑنے گئیں اور میری ٹیچر کو بتایا کہ کل کیا واقعہ ہوا تھا اور یہ کہ میں دن بھر گھومتا رہا۔ٹیچر نے بھی بڑے پیار سے مجھے سمجھایا کہ ہمیشہ غلط کاموں سے دور رہو۔اس کے بعد ہم تینوں دوستوں نے عہد کیا کہ کبھی بھی کوئی غلط کام نہیں کریں گے۔ " بانو اور رانو - تحریر نمبر 1806,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/banu-or-ranu-1806.html,"شمع نازبانو اور رانو نام کی دو لڑکیاں تھیں۔ وہ دونوں اچھی سہیلیاں تھیں۔ بانو اور رانو دونوں ایک ہی محلے میں رہتی تھیں لیکن بانو سکول اور گھر کے ہر کام میں دلچسپی لیتی تھی وہ تھی بھی بہت ذہین اور عقل مند،جب کہ رانو آرام پسند اور تھوڑا بے وقوف اور کم عقل تھی۔ایک مرتبہ بانو نے گرمیوں کے دنوں میں اپنی نانی جان کے گھر جانے کا ارادہ کیا اور نانی جان کے گھر جانے کی تیاری کرنے لگی۔راستے میں اُسے ایک گائے ملی، گائے نے کہا:”بیٹی! میرے آس پاس جو گوبر ہے اُسے صاف کر دو تاکہ میں آرام سے بیٹھ سکوں۔“رانو نے گوبر صاف کر دیا اور آگے بڑھنے کے بعد ایک برگد کا پیڑ ملا،پیڑ نے کہا:”بیٹی !میرے پاس جو سوکھے پتے پڑے ہیں اُنھیں صاف کر دو،لوگ میرے سائے میں بیٹھ کر گندگی پھیلا جاتے ہیں۔(جاری ہے)“ بانو نے سوکھے پتے صاف کر دیئے۔اب وہ آگے بڑھنے لگی تب ہی اُسے ایک پتھر ملا،اُس نے کہا:” ’بیٹی!یہاں میرے چاروں طرف جو ٹکڑے پڑے ہیں اُنھیں صاف کر دو۔“ بانو نے اُسے صاف کر دیا اور وہ اپنی نانی جان کے گھر پہنچ گئی۔ وہاں جا کر اُس نے اپنی بوڑھی نانی جان کے کاموں میں ہاتھ بٹایا،جب بانو اپنے گھر واپس آنے لگی تو اُس کی نانی جان نے اُسے بہت سارے تحفے دیے۔واپس آتے وقت اُسے وہی پتھر ملا جس کے چاروں طرف ٹکڑوں کے بجائے سونے کی اینٹ پڑی ہوئی تھی۔پتھر نے کہا:”بیٹی!تم جتنی چاہو اینٹ لے لو۔بانو نے کچھ اینٹیں لے لیں اور آگے بڑھنے گئی۔ پھر اُسے برگد کا وہی پیڑ ملا،رانو نے پیڑ کے کہنے پر اس کی شاخوں سے لٹکے ہوئے قیمتی کپڑوں میں سے کچھ کپڑے لے لیے۔ اب بانو آگے بڑھی اُسے وہی گائے ملی ،گائے نے کہا:”بیٹی تم جتنا چاہو اُتنا دودھ پی لو اور یہ میٹھا بھی ساتھ لے جاؤ۔ بانو اس طرح اپنے گھر واپس آگئی۔اور سبھی باتیں اُس نے اپنی سہیلی رانو کو بتائیں۔رانو نے بھی اُس کی باتیں سن کر اپنی نانی جان کے گھر جانے کا ارادہ کر لیا اور وہ جانے کی تیاری کرنے لگی۔راستے میں جاتے وقت اُسے وہی گائے ملی ۔گائے نے کہا:”بیٹی!تم یہ گوبر صاف کر دو۔ اس پر رانو نے کہا میں بانو نہیں ہوں جو آپ کی بات مانوں۔“آگے بڑھنے پر اُسے وہی برگد کا پیڑ اور پتھر ملے اور ان دونوں نے جب رانو سے صفائی کرنے کو کہا تو اس نے انھیں بہت ٹکا سا جواب دے دیا۔اب وہ اپنی نانی جان کے گھر پہنچ گئی نانی جان کے گھر جا کر اُس نے کوئی کام نہیں کیا بلکہ خوب کھایا پیا اور نئی نئی چیزوں کی بے جاضد بھی کی۔جب رانو اپنے گھر لوٹنے لگی تو اُس کی نانی نے اپنی کام چور نواسی کو کچھ بھی تحفہ نہیں دیا۔ راستے میں واپس آتے وقت وہی پتھر اور برگد کے پیڑ ملے۔ ان دونوں نے رانو پر چھوٹے چھوٹے پتھروں اور سوکھے پتوں کی برسات کر دی،رانو وہاں سے بچ بچا کر نکلی کہ وہی گائے مل گئی گائے نے ایسے ایسی زور کی لات ماری کہ وہ دور جا گری اس طرح اُسے بہت زخم آئے اور وہ زخمی حالت میں اپنے گھر پہنچ گئی۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ دوسروں کے کام آنا اچھی بات ہے۔ " جھگڑالو بلی - تحریر نمبر 1805,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhagralo-billi-1805.html,"حمزہ نعیم،بہاول پورایک دن جنگل کا بادشاہ اپنے وزیر چیتے کے ساتھ ریاست کی سیر کے لئے روانہ ہوا۔راستے میں وزیر نے جنگل کے حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا:”بادشاہ سلامت!آپ کی حکومت سے ہر کوئی خوش ہے۔سارے جانور امن اور سکون سے رہتے ہیں،لیکن ایک بلی ہے جو سب کے ساتھ لڑتی رہتی ہے۔اسی وجہ سے سب اسے جھگڑالو بلی کہتے ہیں۔“”ہم کسی کو بھی اپنے جنگل میں فساد پھیلانے کی اجازت نہیں دے سکتے،اسے ضرور سبق سکھائیں گے۔“شیر نے جواب دیا۔وزیر بولا:”جناب!وہ بڑی غصے والی اور بد تمیز ہے،کہیں آپ کی بے عزتی نہ کر دے۔“”تم پریشان نہ ہو،جیسا شکار ویسا جال۔“شیر نے کہا۔شیر اور چیتا دونوں جنگل میں گھومتے رہے یہاں تک کہ دوپہر کا وقت ہو گیا۔(جاری ہے)بادشاہ نے گھنے درختوں کے پاس سستانے کا ارادہ کیا۔شیر درختوں کے سائے میں لیٹا آرام کر رہا تھا کہ اوپر سے ایک ہڈی اس کے سر پر گری۔شیر نے غصے سے اوپر دیکھا تو ایک شاخ پر موٹی سی ایک بلی بیٹھی نظر آئی،جو بڑے مزے سے گوشت چبا رہی تھی اور ہڈیاں نیچے پھینک رہی تھی۔شیر نے اشارے سے وزیر کو بلا کر اس بلی کے بارے میں پوچھا۔وزیر نے بلی کی طرف دیکھا تو پہچان لیا اور کہنے لگا:”حضور!میں نے صبح جس جھگڑالو بلی کے بارے میں بتایا تھا،یہ وہی ہے۔شیر نے وزیر سے کہا:”بلی کو ہمارے سامنے پیش کرو۔“وزیر،بلی سے مخاطب ہو کر بولا:”خالہ!نیچے آؤ،بادشاہ سلامت کو تم سے ضروری بات کرنی ہے۔“وزیر کو جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔بلی چیخ کر بولی:”مجھے خالہ کیوں کہا؟ابھی میری عمر ہی کیا ہے؟اپنے لفظ واپس لو۔“شیر سمجھ گیا کہ وزیر سچ ہی کہہ رہا تھا،یہ تو واقعی جھگڑالو بلی ہے۔اس نے وزیر کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور خود پیار سے کہنے لگا:”محترمہ!میرا وزیر تو جاہل ہے،اس کی طرف سے میں معافی چاہتا ہوں،ذرا نیچے آیئے ایک حکومتی معاملے میں آپ سے مشاورت کرنی ہے۔“بلی منہ چڑھاتے بولی:”اچھا،معاف کیا ،بولو کیا مشورہ چاہیے؟“شیر نے بڑے پیار سے کہا:”تم ایک لائق فائق بلی ہو،پورے جنگل میں تمہاری سمجھداری اور دانشمندی کے چرچے ہیں،لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ تمہیں اپنا وزیربنا لوں۔“یہ سنتے ہی موجودہ وزیر کے تو کان کھڑے ہو گئے اور وہ حیرت سے شیر کو دیکھنے لگا،مگر شیر نے آنکھ سے اشارہ کرتے ہوئے تسلی دی۔دوسری جانب وزارت کی پیش کش سن کے بلی تو پھولے نہ سمائی،خوشی خوشی چھلانگ لگا کر درخت سے نیچے اُتر آئی اور شیر کے قریب آکر خوشی سے بولی:”بادشاہ سلامت!مجھے قبول ہے۔“لیکن شیر نے ایسا زور دار پنجہ مارا کہ بلی اُڑتی ہوئی درخت سے ٹکرائی۔بلی نے اُٹھ کر بھاگنا چاہا، مگر ناکام رہی،شیر نے فوراً اسے گرفتار کرنے کا حکم دیا۔مقدمہ چلا اور بلی کو اپنے کیے کی سزا مل گئی۔اس کے بعد بلی نے سب سے معافی مانگی اور کبھی کسی کو پریشان نہ کیا۔ " علامہ اقبال - تحریر نمبر 1804,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/allama-iqbal-1804.html,"تحریم اصغرعلامہ اقبال قومی شاعر،مصور پاکستان،ایک مفکر اور فلسفی تھے۔یہاں ان کی زندگی کے بے شمار واقعات میں سے چند پیش کیے جا رہے ہیں۔ایک دفعہ راجا نریندر ناتھ نے علامہ اقبال کو دعوت پر مدعو کیا۔علامہ اقبال جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ کمرے میں ہرن کی کھالیں بچھی ہوئی ہیں۔علامہ اقبال ان سے بچ بچ کر گزرنے لگے۔راجا نریندر ناتھ نے بڑی حیرت سے یہ منظر دیکھا اور وجہ دریافت کی تو علامہ اقبال نے فرمایا ”ہرن کی کھال پر بیٹھنے اور چلنے پھرنے سے انسان کے اندر لا شعوری طور پر غرور پیدا ہو جاتا ہے۔“یہ سن کر راجا صاحب اس قدر حیران اور متاثر ہوئے کہ کئی لمحے خاموش کھڑے علامہ اقبال کے چہرے کو تکتے رہے۔1911ء کا واقعہ ہے کہ جب انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم ”شکوہ“ خاص انداز میں پڑھی۔(جاری ہے)اس جلسے میں علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد بھی موجود تھے اور اپنے فرزند کے شاعرانہ کمال اور ہر دل عزیزی کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔علامہ اقبال جب نظم پڑھ چکے تو ان کے بڑے مداح اور قدر شناس خواجہ صفدر آگے بڑھے اور جوش مسرت سے اپنا قیمتی دو شالہ علامہ اقبال کے شانوں پر ڈال دیا۔ علامہ اقبال نے اسی وقت یہ قیمتی دو شالہ انجمن حمایت اسلام کے منتظمین کو دے دیا۔اس کے بعد یہ یادگار اور متبرک دو شالہ مجمع میں نیلام کیا گیا۔سب سے بڑی بولی سے حاصل شدہ رقم انجمن حمایت اسلام کو دے دی گئی۔ایک دفعہ طلبہ کا ایک گروہ علامہ اقبال سے ملنے آیا اور انہوں نے ایک عجیب سوال کیا:”آپ کو نوبل پرائز کیوں نہیں ملا؟“طلبہ کا خیال تھا کہ جب دنیا کی بڑی بڑی شخصیات اور بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کو نوبل پرائز مل سکتا ہے تو پھر علامہ اقبال اس قدر ممتاز شخصیت ہونے کے باوجود اس عالمگیر ایوارڈ سے محروم کیوں ہیں؟علامہ اقبال جو طلبہ کے ہر قسم کے سوالات خندہ پیشانی سے سن لیتے تھے۔یہ سوال سن کر بھی مسکرائے اور فرمایا:”اگر مجھے نوبل پرائز مل چکا ہوتا تو مجھ سے یہ سوال پوچھا جاتا کہ آپ نے کون سے ایسے کار ہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں جو آپ کو یہ انعام دیا گیا؟لیکن نہ ملنے پر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“اس مدلل جواب کے بعد بحث کی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔علامہ اقبال ایک دفعہ ٹرین سے لاہور جا رہے تھے۔اسی ڈبے میں ککے زئی خاندان کے ایک بزرگ کو یہ معلوم ہوا کہ شاعر مشرق ان کے ہمسفر ہیں تو خوشی اور حیرت ہوئی۔علامہ اقبال نے بڑی گرم جوشی سے ان سے ہاتھ ملایا اور سگریٹ کی ڈبی پیش کی۔بزرگ نے وہ سگریٹ لے کر سلگانے کے بجائے جیب میں رکھ لی۔علامہ اقبال نے حیرت سے وجہ دریافت کی تو بزرگ نے کہا:”یہ متبرک سگریٹ میرے خاندان میں یادگار کے طورپر محفوظ رہے گی۔“علامہ اقبال نے مسکراتے ہوئے دوسری سگریٹ پیش کی اور فرمایا:”اچھا تو اس سے شوق فرمائیے۔“لیکن بزرگ نے سلگانے کے بجائے وہ بھی جیب میں رکھ لی۔علامہ اقبال مسکرائے اور خاموش ہو گئے۔علامہ اقبال اور دکن کے مہا راجا سرکشن پرشاد کے درمیان پر خلوص مراسم تھے۔ایک دفعہ علامہ اقبال حیدر آباد دکن تشریف لے گئے اور مہا راجا کے ہاں قیام فرمایا۔مہا راجا نے علامہ اقبال کی میزبانی اپنی حیثیت کے مطابق امیرانہ طرز پر کی۔ وہیں ایک صاحب پرانی وضع کا انگرکھا ،مغلئی پاجامہ اور دو پلی ٹوپی پہنے یکے پہ سوار علامہ اقبال سے ملنے آئے۔علیک سلیک کے بعد مصافحہ ہوا اور دوران گفتگو پتا چلا کہ وہ صاحب مغلیہ خاندان کے شہزادے ہیں اور کافی عرصے سے علامہ اقبال سے ملاقات کے خواہش مند تھے۔انھوں نے علامہ اقبال سے کہا کہ آپ تو دکن کے وزیر اعظم کے محل میں رہائش پذیر ہیں،میں غریب آدمی ہوں یہ آرام و آسائش نہیں لا سکتا، تاہم میری دلی تمنا یہ ہے کہ ایک وقت کا کھانا میرے گھر بھی تناول فرما لیں تو میرے لئے بڑی سعادت کا باعث ہو گا۔علامہ اقبال نے دعوت قبول کرلی اور مقررہ وقت پر مغل شہزادے کے ہاں پہنچے۔وہ صاحب اپنے دروازے پر تنہا علامہ اقبال کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ان کے خلوص اور محبت کا یہ علم تھا کہ گویا واقعی علامہ اقبال کی راہوں میں آنکھیں بچھا دی ہوں۔علامہ اقبال سواری سے اُترے تو مغل شہزادے نے ہاتھ تھام لیا اور اندازے سے ذوق کا یہ مصرعہ پڑھا:”دیکھا دم نزع دل آرام کو عید ہوئی۔“یہ مصرعہ سن کر علامہ اقبال کو مغلیہ سلطنت کی شان و شوکت یاد آگئی اور یہ سوچ کر کہ ان کا میزبان اسی خاندان کا ایک مفلس اور غریب شہزادہ ہے،ان پر رقعت طاری ہو گئی اور آنسو جاری ہو گئے۔ایک دن علامہ اقبال حسب معمول بنیان پہنے اور تہبند باندھے گھر کے برآمدے میں بیٹھے ہوئے حقہ پی رہے تھے اور ساتھ ساتھ احباب سے تبادلہ خیال جاری تھا۔ممتاز حسن بھی اس محفل میں شریک تھے۔جو بعد وزارت خزانہ کے سکریٹری اور نیشنل بینک آف پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر رہے۔دو قد آور فوجی جوان جو حلیے سے شمالی پنجاب کے باشندے معلوم ہوتے تھے۔وہاں آئے اور بڑی خاموشی سے وہاں موجود خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔تھوڑی دیر بعد ان میں سے ایک نے ممتاز حسن سے پوچھا:”ترجمان حقیقت سر ڈاکٹر علامہ اقبال بیر سٹرایٹ لا ممبر، پنجاب قانون ساز کونسل کہاں ہیں۔“ممتاز صاحب کو اس سوال پر بے اختیار ہنسی آگئی۔علامہ اقبال کے دوست اور اسلامیہ کالج کے پروفیسر محمد شفیع نے ان سے ہنسنے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ صاحب ترجمان حقیقت سر ڈاکٹر علامہ اقبال کی تلاش میں ہیں جو ان کو ابھی تک نہیں مل سکے۔اس پر محمد شفیع صاحب نے ان نوجوانوں کی جانب دیکھا اور علامہ اقبال کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ یہ کون ہیں؟اس پر محفل میں ایک قہقہہ بلند ہوا اور ان قہقہہ لگانے والوں میں خود علامہ اقبال بھی شامل تھے۔اس قہقہے کے انداز سے وہ فوجی سمجھ گئے کہ ترجمان حقیقت علامہ اقبال وہی ہیں جو اس قدر قلندارانہ شان اور سادگی سے ان کے سامنے بیٹھے ہیں۔قیام پاکستان سے قبل ریاستوں کے حکمران بظاہر آزاد،لیکن اصل میں انگریزوں کے ماتحت تھے۔ریاست کے وزیر اعظم کی تقرری وائسرائے ہند کے حکم سے ہوتی تھی۔وہ جس کو چاہتے ریاست کا وزیراعظم بنا دیتے۔اس طرح نامزد ہونے والا وزیراعظم بظاہر ریاست کے نواب کے ماتحت ہوتا،لیکن در پردہ ریاست کا تمام نظم ونسق وائسرائے ہند کے احکام کے مطابق چلتا تھا۔یوں وزیراعظم کے ہاتھ میں نواب ایک کٹھ پتلی بن جاتا تھا۔ایک دفعہ ایک صاحب جو ریاست بہاول پور کے وزیراعظم نامزد کیے گئے،ان کی نواب آف بہاول پور سے بالکل نہیں بنتی تھی۔وہ دونوں ایک دوسرے کی ضد تھے۔پہلے تو نواب صاحب خود وائسرائے ہند کو شکایات سے بھرپور خط لکھتے رہے، لیکن شنوائی نہ ہوئی۔نواب صاحب نے مجبور ہو کر علامہ اقبال کو خط لکھا اور اپنا وکیل بنانا چاہا جو اس وقت نامور بیرسٹر تھے۔علامہ اقبال نے بطور بیرسٹر معاملہ کو جانچا اور پھر چار ہزار روپے فیس مقدمے کی طے کرکے ہامی بھرلی۔چناچہ علامہ اقبال لاہور سے دہلی روانہ ہوئے اور اسٹیشن سے سیدھے وائسرائے ہند کے دفتر میں جاپہنچے اور سیکرٹری کو اپنا کارڈ دکھایا۔سیکرٹری نے کہا کہ اُصول یہ ہے کہ آپ اپنا نام رجسٹر پر لکھ دیں اور میں یہ رجسٹر اندر بھیج دوں گا،جسے بلانا مقصود ہوتا ہے اسی کو بلایا جاتا ہے۔لہٰذا آپ بھی کارڈ دینے کے بجائے نام لکھ دیں۔علامہ اقبال نے کہا کہ اگر وائسرائے میرے کارڈ پر نہ ملنا چاہیں تو میں واپس چلا جاؤں گا،لیکن رجسٹر پر نام نہیں لکھوں گا۔سیکریٹری مجبوراً کارڈ اندر لے کر گیا۔ وائسرائے نے ملنے کے لئے رضا مندی ظاہر کی اور علامہ اقبال سے آنے کا سبب دریافت کیا۔علامہ اقبال نے بتایا کہ وہ ایڈوکیٹ کی حیثیت سے نواب آف بہاول پور کی جانب سے پیش ہوئے ہیں کہ ریاست کا وزیراعظم آپ کے حکم سے وہاں تعینات ہوا ہے۔نواب صاحب اور اس کے درمیان اختلافات ہیں،جس سے ریاستی امور تعطل کا شکار ہو رہی ہے۔ وائسرائے نے کہا کہ یہ تعیناتی اُصول و ضوابطہ کے مطابق ہوئی ہے اور نواب صاحب کو اسے پسند کرنا چاہیے۔علامہ اقبال نے فرمایا کہ معاملہ بالکل معمولی ہے۔حکمران کی سیاست کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وائسرائے اور ریاست کے درمیان تعلقات خوشگوار ہوں،لیکن وزیراعظم کی در اندازی اور ناقبولیت کی وجہ سے اس عظیم مقصد کو نقصان پہنچے گا۔آپ کو اپنی پالیسی کی مرکزی قوت بحال رکھنے کے لئے ایسے نازک مسئلے پر وزیراعظم کی حمایت ترک کر دینی چاہیے اور کوئی ایسا شخص متعین کرنا چاہیے جو نواب صاحب کو بھی پسند ہو اس سے حکومتی پالیسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا،بلکہ آپ کے وقار میں اضافہ ہو گا۔آخر وائسرائے نے وزیراعظم کی تبدیلی کا وعدہ کر لیا۔ جب یہ بات طے ہو گئی تو وائسرائے نے کہا کہ آپ پرسوں میرے ساتھ ڈنر کریں۔علامہ اقبال نے کہا کہ مجھے تو آج لاہور جانا ہے۔ وائسرائے نے کہا کہ اچھا چلیں کل ہی سہی۔اقبال نے فرمایا کہ لیکن مجھے تو آج ہی جاناہے کل تک نہیں ٹھہر سکتا۔(وائسرائے کے سامنے والیِ ریاست بھی بولنے کی جرات نہ کرتے تھے)۔وائسرائے نے کہا کہ میری خواہش تھی آپ کے ساتھ کھانا کھاتا،مجھے اس سے خوشی ہوتی۔علامہ اقبال نے فرمایاکہ اگر یہ خواہش ہے تو آج بھی پوری ہو سکتی ہے۔چنانچہ اسی روز دوپہر کا کھانا وائسرائے کے ساتھ تناول فرمایا اور لاہور چلے آئے ۔علامہ اقبال کے خادم علی بخش کے سامنے علامہ اقبال کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کو وہ پوری عمر یاد کرتے رہے ۔وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میری خدمات سے خوش ہو کر فرمایا کہ علی بخش بتاؤ میں تمہیں ایسا کیا دوں کہ تم خوش ہو جاؤ۔میں نے کہا کہ اس رات آپ کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا تھا اور میں نے اس کے بارے میں سوال کیا تھا۔علامہ اقبال نے فرمایا کہ میں تمہیں اس شرط پہ بتاتا ہوں کہ میری زندگی میں تم کسی کو نہیں بتاؤ گے۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک رات نصف شب کے قریب علامہ اقبال بستر پر بے چینی اور اضطراب سے کروٹیں بدل رہے تھے۔اچانک اُٹھ کھڑے ہوئے اور گھر کے اس دروازے کی طرف گئے جو میکلوڈ روڈ کی طرف کھلتا ہے۔میں (علی بخش) بھی پیچھے گیا۔اتنے میں پاکیزہ اور خوب صورت لباس والے بزرگ اندر داخل ہوئے۔آپ (علامہ اقبال) اُن کو اندر لے آئے اور اُن کو پلنگ پر بیٹھا کر خود نیچے بیٹھ گئے اور ان کے پاؤں دبانے لگے۔علامہ اقبال نے بزرگ سے پوچھا کہ آپ کے لئے کیا لاؤں؟بزرگ نے کہا کہ دہی کی لسی بناکر پلادو۔آپ نے مجھے بازار سے لسی لانے کا حکم دیا۔میں حیران تھا کہ اس وقت لسی کہاں سے لاؤں؟لیکن جیسے گھر سے باہر نکلا ایک بازار دکھائی دیا جو میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔بازار میں ایک لسی والے کی دکان نظر آئی۔اُس کے پاس گیا تو اس نے جگ لے کر دھویا اور پھر لسی بنا کر دی۔ پیسے پوچھے توکہا کہ علامہ صاحب سے ہمارا حساب کتاب چلتا رہتا ہے۔میں واپس آیا اور جگ علامہ اقبال کو پیش کیا۔انھوں نے ایک گلاس بھر کر بزرگ کو دیا۔انھوں نے پی لیا پھر دوسرا پیش کیا۔انھوں نے وہ بھی پی لیا اور جب تیسرا گلاس بھرا تو بزرگ نے کہا کہ خود پی لو۔کچھ دیر بعد بزرگ اُٹھ کر چل دیے۔علامہ اقبال بھی اُن کو دروازے تک پہنچانے گئے اور میں بھی اُن کے پیچھے گیا۔وہ بزرگ گھر سے نکلنے کے کچھ دیر بعد اچانک غائب ہو گئے اور باہر وہ بازار بھی نہ تھا جہاں سے میں لسی لایا تھا۔اُس وقت تو حضرت نے مجھے نہیں بتایا کہ کیا معاملہ ہے، لیکن جب اُس روز میں نے دوبارہ پوچھا تو کہا کہ میں تمہیں بتاتا ہوں لیکن ایک شرط کے ساتھ کم از کم میری زندگی میں کسی کو نہیں بتاؤ گے۔پھر کہا کہ جو بزرگ گھر میں تشریف لائے تھے وہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیہ تھے اور جنہوں نے لسی بنا کر دی وہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ تھے۔ " شاہد کی بلی کیسے مری - تحریر نمبر 1803,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shahid-ki-billi-kaise-mari-1803.html,"محمد علیم نظامیاللہ تعالیٰ نے اس روئے زمین پر جو نعمتیں اتاری ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے بندے ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوں اور پاک پرور دگار کا شکر ادا کریں۔شاہد بھی ایک ایسا ہی دس پندرہ سالوں کا نوجوان تھا جو اس بات کی خواہش رکھتا تھا کہ وہ موسم سرما اور موسم گرما والی چیزیں اور کھانے کھائے اور اپنی صحت کو بہتر بنائے۔اور ساتھ ہی اپنی تعلیم و پڑھائی پر بھی توجہ دے۔ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ صبح نیند سے جاگنے کے بعد شاہد سکول جانے کی تیاری میں مصروف تھا۔یونیفارم اس نے پہلے ہی پہن رکھی تھی اب اس نے صرف ناشتہ کرنا تھا۔ شاہد جو نہی ناشتہ کی میز پر بیٹھا تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔اس نے پہلا لقمہ منہ میں ڈالنا ہی چاہتا تھا کہ اس کی بلی ناشتہ پر ٹوٹ پڑی اور سب کچھ چٹ کر گئی۔(جاری ہے)یہ شاہد کی پالتو بلی تھی جو کافی عرصہ سے شاہد سے مانوس تھی اور شاہد بھی ہاتھوں میں اٹھا کر بلی کو بہت پیار کرتا تھا۔بہر حال یہ زہریلا ناشتہ تھا یا اس ناشتہ میں شاہد کی بلی کے منہ میں کوئی زہریلی چیز پہلے سے موجود تھے۔دوسری طرف شاہد نے بھی اس ناشتہ کا صرف ایک لقمہ منہ میں ڈالا تھا کہ اس کی طبیعت بھی خراب ہو گئی۔جبکہ بلی ناشتہ کرنے کے بعد مر گئی تھی۔جب شاہد نے یہ سب صورتحال دیکھی تو اس نے اپنے ابو سے کہا کہ مجھے جلدی ڈاکٹر کے پاس لے جائے۔ابو نے شاہد کی اس بات سے اتفاق کیا اور شاہد کو اپنی گاڑی میں بیٹھا کر جلدی سے ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئے۔ڈاکٹر نے فوری طور پر شاہد کا معائنہ کیا اور ڈاکٹر کو شاہد کے ابو نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب!جونہی شاہد نے پہلا لقمہ ڈالا تو اس کی حالت غیر ہونے لگی۔شاید بلی کے منہ میں کوئی زہریلی چیز تھی جس کی وجہ سے وہ مر گئی۔شاہد کے ابو کی یہ بات سن کر ڈاکٹر نے شاہد کو بتایا کہ اگر تمہارے ابو تمہیں فوری طور پر میرے پاس تمہیں لے کر نہیں آتے تو تمہاری جان کو بھی زبردست خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ " سرخ کور کی نوٹ بک - تحریر نمبر 1802,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/surakh-cover-ki-note-book-1802.html,"روبینہ نازماہ نور محنتی اور قابل ہونے کے ساتھ اپنے والدین کی لاڈلی بیٹی تھی۔اور چہارم کلاس کی طالبہ تھی۔لیکن ذہین کے ساتھ وہ انتہائی شرارتی بھی تھی۔اپنی کلاس فیلو اور سہیلیوں کو تنگ کرنا گویا ماہ نور کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ایک دن سکول میں بریک کے وقت ماہ نور نے اپنی کلاس فیلو ثانیہ کا لنچ باکس چھپا دیا تو ثانیہ کافی دیر تک اپنا لنچ باکس تلاش کرتی رہی اور آخر نہ ملنے پر تھک کر بیٹھ گئی۔دوسری جانب ماہ نور ثانیہ کی حالت پر بہت دیر ہنستی رہی اور چھٹی ہونے کے قریب ثانیہ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چپکے سے اس کا لنچ باکس اس کے بیگ میں ڈال دیا۔اگلے دن اتوار اور بچوں کا پسندیدہ دن تھا۔باقی تمام بچوں کی مانند ماہ نور بھی اپنی سہیلیوں کے ہمراہ سارا دن کھیل کود میں مگن رہی اور اپنی شرارتیں بھی انجام دیتی رہی اور پھر شام کو حسب معمول محلے کی بچیاں جو ماہ نور کی ہم جماعت تھیں وہ ماہ نور کی امی کے پاس ٹیوشن پڑھنے آگئیں۔(جاری ہے)ویسے تو ان سب کو اتوار کے دن چھٹی ہوتی مگر چونکہ سوموار کو ان کی کلاس میں مس صدف کی نگرانی میں خوش خطی کا مقابلہ تھا۔چنانچہ سب بچیوں نے جن میں ماہ نور بھی شامل تھی۔نے ماہ نور کی امی سے مدد لیتے ہوئے بہت خوبصورتی سے اپنی نوٹ بکس پر ہوم ورک لکھا۔جب سب نے اپنی اپنی نوٹ بکس پر لکھ لیا۔تو ماہ نور کی امی کے کہنے پر ایک بچی نے ان پانچوں بچیوں کی کاپیاں جمع کی اور ماہ نور کی امی کے سامنے رکھ دی۔کاپیاں چیک کرنے کے بعد ماہ نور کی امی کسی کام سے گئی تو امی سب کو باتوں میں مشغول پاکر ماہ نور نے چپکے سے سرخ کو ر والی ایک کاپی اٹھائی اور الماری میں رکھ دی یہ سوچ کر کہ یہ غزالہ کی کاپی ہے اور خود کھیل کود میں مگن ہو گئی اگلے دن ماہ نور سکول گئی اور بستہ چیک نہ کیا کہ سب اشیاء موجود ہیں کہ نہیں منصوبے کے مطابق پہلے پریڈ میں مس صدف نے تمام بچیوں سے خوش خطی دکھانے کو کہا ماہ نور کی باری آنے پر اس نے پورا بیگ چھان مارا۔مگر اس کی کاپی نہ ملی تو مس سے اسے بہت ڈانٹ پڑی دراصل غزالہ اور ماہ نور کی کاپی کا کور سرخ رنگ کا تھا اور ماہ نور نے غلطی سے اپنی کاپی کو الماری میں رکھ دیا اور یہ سمجھ کر یہ غزالہ کی ہے۔نتیجہ یہ آیا کہ مس کو غزالہ کی لکھائی بہت اچھی لگی اور انعام کی حقدار بھی وہ پائی۔آج پہلی بار ماہ نور پیچھے رہ گئی ۔جس کا اسے بہت افسوس ہوا۔گھر آکر اس نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا تو اس کی امی نے اسے پریشان دیکھ کر وجہ پوچھی تو اس نے سب معاملہ تفصیل سے بتایا تب اس کی امی نے اسے سمجھایا۔”کہ دوسروں کو پریشان کرنا بہت بری بات ہے اور غلطی کی سزا تو ملتی ہے۔ہمیں کبھی کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔“یہ سن کر ماہ نور رونے لگی اور اس نے سچے دل سے توبہ کی اور پھر کبھی ایسی شرارت نہیں کی۔جس سے کسی کا نقصان ہو۔دوستو! ہمیں بھی چاہیے کہ کبھی ایسی شرارت نہ کرے۔جس سے دوسروں کو تکلیف ہو۔کیونکہ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو کسی کو تکلیف دیں۔ " چڑیا کی کہانی - تحریر نمبر 1801,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chirya-ki-kahani-1801.html,"وہ کافی دیر سے پرواز کر رہی تھی اور کسی تلاش میں تھی۔مسلسل پرواز کرنے سے اس کے پَر بُری طرح تھک چکے تھے،بھوک بھی ستانے لگی تھی۔اب وہ کوئی محفوظ ٹھکانہ تلاش کر رہی تھی۔کافی دیر کے بعد اسے ایک گھر نظر آیا،جہاں صحن میں ایک چھوٹی بچی ادھر ادھر پھدکتے چھوٹے چھوٹے چوزوں کو دانہ ڈالنے میں مصروف تھی،یہ دیکھ کر ننھی چڑیا فوراً صحن میں اتر گئی اور زمین پر بکھرے دانے چگنے لگی۔مرغی نے جب اپنے بچوں کے درمیان کوئی نئی مخلوق دیکھی تو وہ ننھی چڑیا کے قریب آگئی،چڑیا اس کی آنکھوں میں چھپے غصے کو بھانپ گئی۔اسی لمحے وہاں ایک بلی نمودار ہوئی،مرغی اور بلی دونوں چڑیا کو ایسے دیکھ رہے تھے،جیسے کوئی فتح حاصل کر لی ہو،ننھی چڑیا دونوں کے ارادوں کو بھانپ چکی تھی۔(جاری ہے)چڑیا ابھی ان دونوں کے جارحانہ ارادوں کے خوف میں مبتلا تھی کہ اچانک وہاں ایک اور شکاری آدھمکا۔وہ کتا چڑیا کو دیکھ کر اس انداز میں بھونکنے لگا،جیسے مرغی اور بلی کو بتا رہا ہو کہ یہ نیا مہمان صرف میرا ہے۔چڑیا اس نئے شکاری کی آمد پر بری طرح بوکھلا گئی۔کتا اب چڑیا کے بہت قریب آچکا تھا۔چڑیا کو فوراً کوئی محفوظ جگہ تلاش کرنی تھی،وقت بہت کم رہ گیا تھا،وہ خونخوار آنکھوں والا کتا،چڑیا پر جھپٹنے ہی والا تھا کہ چڑیا پھرتی سے پھدک کر صحن میں موجود کھڑکی پر آبیٹھی ،یہ ٹوٹی ہوئی کھڑکی اس ننھی جان کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب رہی ،چڑیا دبک کر کھڑکی کے ایک کونے میں بیٹھ گئی،اُس کا چہرہ خوف کی شدت سے زرد ہو گیا تھا،اس نے سوچا اگر یہ کھڑکی اسے نظر نہ آتی تو شاید اب تک وہ خونخوار آنکھوں والے کتے کے معدے میں ہوتی۔وقت کے ساتھ ساتھ خوف بھی بڑھتا جا رہا تھا،چڑیا دل سے اللہ سے دعا مانگ رہی تھی کہ اسے اس مصیبت سے چھڑکا تامل جائے۔بھوکی چڑیا اپنی بد قسمتی کے بارے میں سوچنے لگی۔کاش!وہ چڑیا نہ ہوتی،بلکہ انسان ہوتی ،کوئی اسے اپنا نوالہ نہ بناتا۔اسے ہر وقت اپنی جان بچانے کے لئے دوسرے خونخوار جانوروں سے اپنی حفاظت نہ کرنی پڑتی۔آرام سے چین کی زندگی بسر کرتی،کوئی کتا یا بلی اسے کھانے نہ آتا اور نہ وہ آج اس طرح خوف میں رات کا ٹ رہی ہوتی۔وہ رات واقعی بہت دہشت ناک تھی۔بھوکی پیاسی چڑیا اب تک دبکی بیٹھی اپنی قسمت کو کوس رہی تھی،اس نے اپنا سر باہر نکال کر نیچے کا جائزہ لیا،وہ خونخوار آنکھوں والا کتا ابھی تک اپنے شکار کی تاک میں بیٹھا تھا۔پوری رات چڑیا بھوکی پیاسی خوف میں مبتلا،اپنی قسمت کو کوستی رہی،پوری رات آنکھوں آنکھوں میں کٹ گئی،اگلی صبح بھوکی چڑیا نے ایک نظر نیچے ڈالی،وہاں اب کوئی شکاری نہ تھا،اچانک وہ چھوٹی بچی کھڑکی کے قریب آئی،اس نے چڑیا کو دیکھا،اسے وہ چڑیا قریباً ادھ مری ایک کونے میں پڑی بے جان سی نظر آئی۔بچی نے اپنے ہاتھ کی انگلی سے چڑیا کو چھوا تو اسے احساس ہوا کہ چڑیا زندہ ہے۔اب چڑیا کا دل خوف سے ڈوب رہا تھا کہ نہ جانے وہ بچی اس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والی تھی۔اچانک اس بچی کی آواز آئی۔”اوہو․․․لگتا ہے اس ننھی چڑیا کے پَر نہیں ہیں۔“اس پورے جملے کا صرف ایک لفظ چڑیا کے ذہن میں جیسے اٹک کر رہ گیا،چڑیا نے لمبی سانس لی،جلدی سے اپنے”پَر“پھڑپھڑائے اور تھوڑی ہی دیر میں وہ نیلے آسمان میں گم ہو گئی۔وہ نادان چڑیا اب تک بھولی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے”پَر“کی نعمت سے نوازا ہے،جو انسان کے پاس نہیں۔ہر جاندار کو اللہ تعالیٰ نے مکمل پیدا کیا ہے۔ بس تھوڑے غور و فکر سے اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو خود تلاش کرنا اس جاندار کا کام ہے۔ " سرخ آسمان - تحریر نمبر 1799,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/surkh-asmaan-1799.html,"عطا محمد تبسم”نانا!آج سورج گرہن ہے۔“یحییٰ نے ڈرائنگ روم میں اخبار پڑھتے ہوئے نانا کو تازہ خبر سنائی۔”اچھا یہ کیا ہوتا ہے۔“نانا نے یحییٰ سے پوچھا۔”وہ سورج کے سامنے ایک پلانیٹ آجاتا ہے نا،تو سورج غائب ہو جاتا ہے۔“اس نے اپنی معلومات بتائی۔”ارے نانا!ابھی اندھیرا ہو جائے گا،جیسے رات ہو جاتی ہے۔“وریشاء نے بھی تیزی سے کہا:”اور آسمان سرخ ہو جائے گا۔“اتنے میں عبدالباری،زہرہ اور عبدالواسع بھی خوف چہرے پر سجائے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔”یہ واسع باہر جا رہا ہے،سورج کی طرف دیکھے گا تو آنکھیں خراب ہو جائیں گی۔“زہرانے بھی اپنی دانائی جتائی۔”ہاں بچوں!یہ بات تو درست ہے کہ سورج گرہن میں سورج کی طرف دیکھنے سے آنکھیں خراب ہونے کا خطرہ رہتا ہے،لیکن یہ سورج گرہن کیوں ہوتا ہے؟“نانا نے اخبار ایک جانب رکھ دیا اور بچوں سے پوچھا۔(جاری ہے)”اللہ میاں ناراض ہو جاتے ہیں نا،اس لئے سورج چھپ جاتا ہے۔“وریشاء جلدی سے بولی۔”بھئی اللہ میاں ناراض تو نہیں ہوتے،ہاں یہ بات صحیح ہے کہ سورج گرہن اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔“نانا نے جواب دیا۔”سورج گرہن منحوس ہوتا ہے۔“زہرا بولی۔”نہیں بیٹا!یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں،اب تو سائنس نے ہر چیز کا پتا لگا لیا ہے ،ہمارے سائنس دان برس ہا برس سے سورج گرہن کا مشاہدہ کرنے کے لئے دور دراز کا سفر طے کرکے گرہن زدہ علاقوں میں جاتے ہیں اور اس بارے میں سچ کا پتا چلاتے ہیں۔“”نانا!سچ کیا ہے ہمیں بھی بتائیں۔“عبدالباری نے پوچھا۔”ہاں بیٹا!ہمیں ہمیشہ سچ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے،سچی بات یہ ہے کہ سورج گرہن کو بعض مذاہب میں آج بھی منحوس سمجھا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک سورج کا گرہن لگنا اللہ کی بندوں سے ناراضی کی نشانی ہے،لیکن اسلام میں سورج گرہن کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے کہ سورج اور چاند اللہ کے متعین کردہ راستے پر چل رہے ہیں اور گردش میں ہیں۔سائنسی تحقیق میں بھی اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ سورج اور چاند زمین کے گرد اپنے اپنے مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں،لیکن کبھی کبھی یہ ایک دوسرے کے سامنے آجاتے ہیں۔زمین پر سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند گردش کے دوران سورج اور زمین کے بالکل بیچ میں آجاتا ہے،جس کے بعد زمین سے سورج کا کچھ یا پھر پورا حصہ نظر نہیں آتا۔چاند کا زمین سے جتنا فاصلہ ہے اس سے 400 گنا زیادہ فاصلہ سورج اور چاند کے درمیان ہے،اس لئے زمین سے سورج گرہن واضح طور پر نہیں دیکھا جاتا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ سورج گرہن کو پوری دنیا میں دیکھا جا سکے۔سورج گرہن کے وقت ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ”صلوٰة کسوف“ادا کرو جس کا اردو ترجمہ”نماز خوف“ کے ہیں،جب کہ چاند گرہن کے وقت کسی بھی خاص عبادت کا حکم نہیں دیا گیا۔سورج گرہن کی کئی اقسام بھی ہیں۔کبھی مکمل سورج گرہن ہوتا ہے،کبھی جزوی،کبھی مخلوط اور کبھی حلقی سورج گرہن ہوتا ہے۔“”نانا!یہ مکمل سورج گرہن کیا ہوتا ہے؟“واسع نے بہت سوچ کر سوال پوچھا۔”بھئی زمین کو مکمل سورج گرہن اس وقت لگتا ہے جب چاند کا فاصلہ زمین سے اتنا ہو کہ جب وہ سورج کے سامنے آئے تو سورج مکمل طور پر چھپ جائے ،چونکہ چاند اور زمین کے مدار بیضوی ہیں۔چاند کا زمین سے فاصلہ بدلتا رہتا ہے اس لئے ہر دفعہ مکمل سورج گرہن نہیں لگتا۔ مکمل سورج گرہن کے وقت چاند کا فاصلہ زمین سے نسبتاً کم ہوتا ہے،سورج کے مکمل چھپ جانے کی وجہ سے خطے میں نیم اندھیرا ہو جاتا ہے اور دن کے وقت ستارے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔یہ گرہن ایک مقام پر سات منٹ چالیس سیکنڈ تک ہوتا ہے ،لیکن کم بھی ہو سکتا ہے۔زمین کے جس خطے میں مکمل سورج گرہن لگتا ہے،وہاں دوبارہ 340 سال بعد اس طرح کا گرہن لگنے کا موقع آتا ہے۔“”اور یہ حلقی سورج گرہن کب ہوتا ہے؟“اس بار زہرا بولی۔”زمین پر حلقی سورج گرہن اس وقت لگتا ہے کہ جب چاند ،سورج اور زمین کے درمیان آجاتا ہے،مگر اس کا سورج سے فاصلہ زیادہ ہوتا ہے،اس لئے سورج کو مکمل طور پر چھپا نہیں سکتا۔اس صورت حال میں چاند کا سائز چھوٹا ہوتا ہے اور سورج کی روشنی زمین پر پڑتی ہے۔رہا مخلوط سورج گرہن تو اسے یوں سمجھو کہ زمین پر بعض اوقات سورج گرہن اس طرح نظر آتا ہے کہ بعض جگہ پر مکمل گرہن نظر آتا ہے اور کسی مقام پرمخلوط نظر آتا ہے،اس صورت میں حلقی سورج گرہن کا حلقہ بہت باریک ہوتاہے۔اب یہ بھی سن لو کہ اب تک دیکھا جانے والا سب سے طویل سورج گرہن 1999ء میں یورپ میں دیکھا گیا تھا اور یہ تاریخ میں اب تک کا سب سے دیر تک نظر آنے والا سورج گرہن تھا۔“”نانا!سورج گرہن کے بارے میں تو آپ نے بتا دیا کیا چاند بھی گرہن ہوتا ہے۔“وریشاء نے کہا،جو بہت دیر سے سن رہی تھی۔”ہاں بیٹا!چاند گرہن بھی ہوتا ہے۔جب زمین کا وہ سایہ جو گردش کے دوران کرہ زمین کے چاند اور سورج کے درمیان آجانے سے چاند کی سطح پر پڑتا ہے اور چاند تاریک نظر آنے لگتا ہے،اسے چاند گرہن کہتے ہیں۔چونکہ زمین اور چاند دونوں سورج سے روشنی حاصل کرتے ہیں ۔ زمین سورج کے گرد اپنے مقررہ مدار پر گھومتی ہے اور چاند میں سال میں دوبار آتا ہے اور اس کا سایہ ایک دوسرے پر پڑتا ہے، چاند پر سیایہ پڑتا ہے تو چاند گرہن اور سورج پر پڑتا ہے تو زمین پر سورج گرہن دکھائی دیتاہے۔چلو اب سب لوگ کمرے میں بیٹھ کر ناشتہ کرو۔ " علم کا خزانہ - تحریر نمبر 1798,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ilm-ka-khazana-1798.html,"ریاض احمد جسٹسیہ قدیم زمانے کی بات ہے کسی ملک میں ایک رحم دل بادشاہ حکومت کرتا تھا جو اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے بڑا مشہور تھا۔بادشاہ نے اپنے وزیروں کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ اُسے ملک کے کونے کونے کی خبروں سے باخبر رکھا جائے تاکہ کوئی بھی غریب آدمی انصاف سے محروم نہ رہے۔ایک دن بادشاہ کا وزیر سمندر کے کنارے کسی کام سے اپنے قافلے کے ساتھ گزر رہا تھا کہ اُس نے ایک بوڑھے آدمی کو سمندر کے کنارے کے ساتھ ساتھ دوڑتے اور یہ کہتے ہوئے سنا”میرا خزانہ سمندر کے اُس پار ہے“بوڑھا آدمی دوڑتا ہوا کبھی اس طرف آتا اور کبھی دوڑتا ہوا دوسری طرف جاتا۔وزیر بوڑھے کی یہ بات سن کر بڑا حیران ہوا۔اس نے سوچا کیوں نہ اس بوڑھے آدمی کو پکڑ کر اُس کے خزانے کا پتہ معلوم کروں۔(جاری ہے)وزیر نے اُس بوڑھے آدمی کو قید کر دیا اور بادشاہ کو اس بات سے بے خبر رکھا کئی دن گزرنے کے بعد بھی وزیر اُس بوڑھے آدمی سے خزانے کا پتہ نہ پوچھ سکا۔وزیر نے سوچا تھا کہ میں بوڑھے آدمی کا بتایا ہوا خزانہ حاصل کرنے کے بعد ملک کا امیر ترین آدمی بن جاؤں گا مگر اُس کا خواب پورا نہ ہو سکا۔وزیر بوڑھے آدمی کو روز مارتا اور ایک ہی سوال پوچھتا کہ خزانہ کہاں ہے مگر بوڑھا ایک ہی جواب دیتا کہ ”میرا خزانہ سمندر کے اُس پار ہے“ وزیر بوڑھے کی روز ایک ہی بات سن کر تنگ آچکا تھا۔وہ سمجھ گیا کہ بوڑھے کے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے۔اگر کوئی خزانہ ہوتا تو یہ پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ سمندر کے کنارے زندگی بسر نہ کرتا۔یہ تو کوئی مجھے پاگل،دیوانہ لگتا ہے۔کیوں نہ میں اپنے دل کی میل کو صاف کرکے یہ ساری باتیں بادشاہ سلامت کو بتاؤں۔ہو سکتا ہے یہ بوڑھا آدمی بادشاہ کو ہی خزانے کا پتہ بتا دے یا اُس کو پاگل سمجھ کر چھوڑ دے۔وزیر نے یہ سارا معاملہ بادشاہ سلامت کو بتایا۔بادشاہ نے اپنے خادموں سے کہا اس بوڑھے آدمی کو صاف ستھرے کپڑے پہنا دوں اور کھانا کھلا کر میرے پاس لے آؤ پھر بادشاہ نے کہا ”بابا جی آپ کا خزانہ کہاں ہے؟“بوڑھے آدمی نے پھر وہی جواب دیا کہ میرا خزانہ سمندر کے اُس پار ہے۔بادشاہ نے وزیر کو حکم دیا کہ بوڑھا آدمی جہاں کہتا ہے اُسے وہاں لے جاؤ۔وزیر نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔اگلے دن صبح سویرے گھوڑے تیز رفتاری سے دوڑتے چلے جا رہے تھے۔پھر مختلف راستوں سے گزرنے کے بعد ایک جگہ زمین نرم ہونے کی وجہ بادشاہ کے وزیر کا گھوڑا زمین میں پھنستا چلا گیا۔ مجبوراً قافلے کو رات وہی قیام کرنا پڑا۔پھر اگلی صبح ہوتے ہی وہ اپنی منزل کی طرف چل پڑے سفر کئی دنوں تک جاری رہا۔جنگلوں سے نکل کر قافلے نے پہاڑوں کا رخ کیا۔پھر سمندر پار کیا تو ایک تنگ سی پہاڑی راستے سے گزر کر قافلہ وہاں پہنچا تھا اس لئے گھوڑوں کو باہر رکنا پڑا پھر بوڑھا آدمی خوشی سے سب کو چھوڑ کر ایک غار کے اندر چلا گیا جہاں اُس نے اپنا خزانہ دبایا ہوا تھا۔غار کے اندر جا کر بوڑھے آدمی نے قافلے والوں کو آواز دی۔آجاؤ میرے ساتھیو!۔۔۔خزانہ مل گیا ہے۔جب غار کے اندر آکر قافلے والوں نے پھٹی پرانی ڈھیر ساری کتابوں کو دیکھا تو وہ حیران ہو ئے کیا اُس بوڑھے آدمی کا یہ خزانہ ہے مگر قافلے والے کر بھی کیا سکتے تھے جب وزیر اور اُس کے ساتھی پھٹی پرانی کتابیں کو گھوڑوں پر لاد کر بادشاہ کے محل میں پہنچے تو بادشاہ بوڑھے آدمی کی پھٹی پرانی کتابیں دیکھ کر حیران رہ گیا اور دل میں سوچنے لگا کہ کیا بوڑھے آدمی کا خزانہ یہ پھٹی پرانی کتابیں ہی ہیں۔مگر بادشاہ عقل مند تھا اس نے بوڑھا آدمی سے پوچھا۔۔۔بابا جی آپ ان کتابوں کی قیمت مجھ سے کیا لیں گے۔۔۔ بوڑھے آدمی نے جواب دیا۔۔۔میں یہ کتابیں کسی قیمت پر نہیں بیچوں گا کیوں کہ یہ کتابیں میرے بزرگوں نے اپنے بزرگوں سے لی تھیں ۔بادشاہ بوڑھے آدمی کی بات سن کر بڑا حیران ہوا۔بادشاہ نے ایک مرتبہ پھر بوڑھے آدمی سے کہا۔۔آپ مجھ سے ان کتابوں کے بدلے میں آدھی بادشاہت لے لیں۔۔۔کیا آپ کو یہ سو دا منظور ہے؟۔۔۔بوڑھے آدمی نے پھر کتابیں دینے سے انکار کر دیا۔بادشاہ نے بوڑھے آدمی کو ہر طرح سے آزما لیا۔بوڑھے آدمی نے آخر کار کہا کہ بادشاہ سلامت اگر آپ مجھے ساری بادشاہت بھی دے دیں تب بھی میں اپنے بزرگوں کی امانت آپ کو نہیں دوں گا۔بادشاہ بوڑھے کی بات سن کر بے حد خوش ہوا اور کہا کہ علم بہت بڑی دولت ہے بادشاہ نے بوڑھے آدمی کی شاگردی اختیار کرلی اور ایک عالم کا شاگرد کہلوانے میں فخر محسوس کیا۔بیشک درخت اپنے پھل سے اور انسان اپنے عمل سے پہچانا جاتا ہے۔ " چاند کہاں سے آیا - تحریر نمبر 1797,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chand-kahan-se-aya-1797.html,"ہماء بلوچپیارے بچو!چاند،سورج کے خاندان سے ہے۔اس لئے سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سورج کا یہ خاندان کہاں سے آیا؟سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سورج پہلے پہل ایک بہت بڑے ڈھیلے کی طرح تھا اور مٹی اور گیسوں کے گھنے بادلوں میں چھپا ہوا تھا۔اس کے بعد بے شمار چھوٹے چھوٹے ڈھیلے ان گھنے بادلوں میں جمع ہونا شروع ہوئے اور یہ سب اس بڑے ڈھیلے یعنی سورج کے گرد گھومنے لگے جو مرکز میں تھا۔کئی دفعہ یہ ڈھیلے آپس میں ٹکرائے اور ایک دوسرے میں دھنس بھی گئے۔اس طرح آہستہ آہستہ بے شمار چھوٹے چھوٹے سیارے بن گئے ۔ان چھوٹے سیاروں میں سے کچھ دوسرے سیاروں سے مل کر بہت بڑے ہو گئے۔اور یہ سورج کے سیارے کہلائے۔چھوٹے سیاروں میں سے چند سیاروں کی حرکات مختلف قسم کی تھیں۔(جاری ہے)ان میں سے ایک سیارہ زمین کے قریب آگیا اور زمین کی کشش نے اسے اپنے قابو میں کر لیا۔اسی سیارے کو ہم چاند کہتے ہیں۔یہ زمین کے گرد گھومتا ہے اور زمین اسے اپنے ساتھ لے کر سورج کے گرد گھومتی ہے۔دوسرے بہت سے چھوٹے سیاروں کو بھی بڑے سیاروں نے قابو میں کر لیا اور وہ بھی ان چاند بن گئے۔مثلاً مریخ کے دو چاند ہیں۔ اور مشتری کے بارہ۔چاند ہمیشہ گول کیوں نہیں دکھائی دیتا؟بعض دفعہ چاند آسمان میں گول اور پورا نظر آتا ہے لیکن دو ہفتے کے بعد وہ ہلال ہو جاتا ہے اور پھر دو ہفتوں کے بعد پورا نظر آنے لگتا ہے۔اس درمیانی عرصے میں بھی اس کی شکل ہر رات بدلتی رہتی ہے۔لیمپ،سٹول اور کسی دوست کی مدد سے آپ بھی تجربہ کرکے معلوم کر سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟پہلے دو باتیں سمجھ لیجیے۔اول یہ کہ چاند زمین کے گرد گھومتا ہے۔دوسرے یہ کہ چاند اپنی روشنی سے نہیں چمکتا بلکہ سورج کی روشنی اس پر پڑ تی ہے تو وہ چمکنے لگتا ہے۔لیمپ کو آپ سورج سمجھ لیں۔آپ خود زمین بن جائیں اور آپ کا دوست چاند۔اپنے پیچھے لیمپ رکھ لیں اور منہ دوست کی طرف کرکے سٹول پر بیٹھ جائیں۔آپ کا دوست آپ کے سامنے کھڑا ہوا ہے اور لیمپ کی طرف دیکھ رہا ہے۔اس کا پورا چہرہ روشن ہو گا۔اب آپ اپنے دوست سے کہیں کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دائرے کی صورت میں آہستہ آہستہ چلے۔اس کا چہرہ آپ ہی کی طرف رہنا چاہیے۔آپ بھی ساتھ ساتھ مڑتے جائیے تاکہ آپ اسے دیکھ سکیں۔جب وہ دائرے کے ایک چوتھائی حصے میں پہنچے لگا تو اس کے دائیں رخسار پر لیمپ کی روشنی پڑے گی اور بایاں رخسار سائے میں ہو گا۔جب وہ دائرے کے درمیان میں آئے گا تو اس کے چہرے پر روشنی نہیں پڑے گی۔آپ اس سے کہیے کہ حرکت کرتے رہو۔چند لمحے بعد اس کے بائیں رخسار پر روشنی پڑنے لگے گی اور اس کا یہ رخسار اسی طرح روشن ہو جائے گا جس طرح آسمان میں نیا چاند دکھائی دیتا ہے۔جب وہ اس جگہ واپس پہنچے گا جہاں وہ کھڑا ہوا تھا تو اس کا پورا چہرہ روشن ہو جائے گا ۔چاند ہمیشہ اسی طرح گھٹتا بڑھتا ہے۔چاند میں داغ کیوں ہیں؟چاند پر دھبے دھبے سے نظر آتے ہیں۔غور سے دیکھنے پر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ کسی انسان کا منہ ناک اور آنکھیں ہوں۔پرانے زمانے کے سائنس دانوں کا خیال تھا کہ یہ دھبے سمندر ہیں۔لیکن اب سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ کالے دھبے اصل میں لمبے چوڑے میدان ہیں۔سب سے وسیع میدان چھ سو میل رقبے میں پھیلا ہوا ہے۔چاند کا ہالہ کیا ہے؟بعض وقت چاند کے گرد روشنی کا ایک بڑا سا حلقہ دیکھنے میں آتا ہے۔جب یہ چیز دکھائی دے تو آپ سمجھ لیں کہ ایک ہلکا سا بادل جو چھوٹے چھوٹے صاف شفاف برف کے ریزوں سے بنتا ہے،ہوا میں تیر رہا ہے۔جب چاند کی کچھ شعاعیں برف کے ان شفاف ریزوں کے درمیان میں سے گزر کر سیدھی آپ کی آنکھوں تک پہنچتی ہیں تو آپ کو چاند دکھائی دیتا ہے۔لیکن جب دوسری شعاعیں ان ریزوں سے ٹکراتی ہیں تو سیدھی جانے کے بجائے خم کھا جاتی ہیں اور جب آپ کی آنکھوں تک پہنچتی ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی ایسے حلقے سے نکل رہی ہیں جو چاند سے بہت بڑا ہے۔اسی حلقے کو ہالہ کہتے ہیں ۔ایسا ایک حلقہ بعض وقت سورج کے گرد بھی نظر آتا ہے اور اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے۔ " واپسی کا سفر - تحریر نمبر 1796,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/wapsi-ka-safar-1796.html,"مسرت کلانچوی”میں ایک گاؤں میں ڈاکٹر بن کر نہیں جا سکتی۔اونہہ۔“سدرہ نے اپنی تقرری کا لیٹر میز پر پٹخ دیا۔”اتنی محنت سے تم ڈاکٹر بنی ہو۔“سدرہ کی امی شیریں بیگم منہ بسور کر بولیں:” سرکاری ملازمت کے انٹرویو اور ٹیسٹ بھی پاس کیے،لیکن محکمے نے تمہیں ڈاکٹر بنایا بھی تو کہاں کا ․․․․․ ایک گاؤں کے معمولی ہسپتال کا․․․․․“سدرہ کے ابو بولے:”ٹھیک ہے سدرہ!تم وہاں مت جاؤ۔میں تمہیں شہر کے کسی بڑے ہسپتال میں ملازمت دلوادوں گا۔گاؤں کے دھکے کھانے کی کیا ضرورت ہے۔“”بالکل ٹھیک۔“شیریں بیگم نے جیسے حتمی فیصلہ سنایا:”تم شہر کی پلی بڑھی ہو۔شہر کا آرام و آسائش دیکھا ہے۔آسودہ زندگی گزاری ہے تم گاؤں کی سخت اور سہولتوں سے عاری زندگی کیسے گزار سکتی ہو۔(جاری ہے)“اس تمام گفتگو کے دوران سدرہ کے دادا بالکل خاموش بیٹھے تھے۔ایک گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے۔گم صم جیسے کسی دوسری دنیا میں کھو گئے ہوں۔”ابا جی!آپ کیا سوچ رہے ہیں؟“احمد خان نے پوچھا۔”سدرہ گاؤں ضرور جائے گی۔“دادا کی بات پر سب چونک گئے۔”دادا جی!“سدرہ اُٹھ کر دادا کے پاس آئی:”آپ جانتے ہیں میں نے کبھی گاؤں میں ایک دن بھی نہیں گزارا،بھلا میں وہاں جا کر رہ سکتی ہوں؟“”گاؤں کے لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے بیٹی!“دادا بولے۔”دادا جی!آپ فکر نہ کریں میں نہیں جاؤں گی تو کوئی اور لڑکی وہاں چلی جائے گی۔نوکری کی ضرورت مند لڑکیاں مجبوراً گاؤں چلی جاتی ہیں۔“”مگر اس گاؤں کو تمہاری ضرورت ہے سدرہ!صرف تمہاری۔تمہیں وہاں مجبوراً نہیں خوشی سے جانا ہو گا۔مجبوراً جانے والی لڑکیاں جلد وہاں سے تبادلہ کرا لیتی ہیں۔“”لیں اور سنیں․․․․یہ ابا جی کیا کہہ رہے ہیں۔“شیریں بیگم سدرہ کے والد سے مخاطب ہوئیں:”ایک تو ابا جی سدرہ کو گاؤں میں بھیجنا چاہ رہے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ سدرہ وہاں سے تبادلہ کرا کے شہر بھی نہ آئے۔“شیریں بیگم کے لہجے میں عجیب سی پریشانی تھی۔”آپ سدرہ کو مجبور مت کریں ابا جی!“احمد خان بولے:”اب بچے اپنے بارے میں بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔“”ٹھیک ہے سدرہ خود فیصلہ کرے گی اور جو بھی فیصلہ کرے گی آپ کو ماننا پڑے گا۔“یہ کہہ کر دادا اپنے کمرے میں چلے گئے۔احمد خان اور شیریں بیگم ایک دوسرے کو پریشان ہو کر دیکھ رہے تھے۔دونوں کے چہرے پر پریشانی کے علاوہ کوئی اور تاثر بھی نہ تھا۔آنکھوں میں ایک اَن ہونا خوف بھی۔سدرہ اس تاثر کو سمجھ نہ سکی اور اپنے کمرے میں آگئی۔رات کا اندھیرا ہولے ہولے اُجالے کی طرف سفر کر رہا تھا۔سدرہ کے کمرے کی کھڑکی کھلی تھی۔کھڑکی کے ساتھ لگے سنبل کے درخت پر بیٹھا اکیلا پرندہ نہ جانے کہاں سے اُڑ کر آیا تھا۔شاید راستہ بھول گیا تھا۔رات کی خاموشی اور تنہائی میں اس پرندے کی سیٹیوں جیسی آواز میں درد بھرا گیت سمویا تھا۔دادا جی ہاتھ میں دودھ کا گلاس پکڑے اندر آئے۔سدرہ کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔وہ بولے:”لو بیٹا!دودھ پی لو۔“اس نے گلاس پکڑ لیا:”شکریہ دادا جی!آپ میرا کتنا خیال رکھتے ہیں۔“”تم ابھی تک پڑھ رہی ہو؟“دادا جی اس کے پاس بیٹھ گئے۔”جی دادا جی!“وہ بولی:”نیند نہیں آرہی تھی۔پڑھائی بھی نہیں ہو پا رہی ہے مجھ سے۔بس اس پرندے کی آواز سن رہی ہوں جو ابھی تک جاگ رہا ہے۔“”ہاں بیٹا لگتا ہے اپنی ڈار سے بچھڑ گیا ہے جو پرندے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جاتے ہیں وہ سو نہیں سکتے۔اسی طرح درد بھری صدائیں دیتے ہیں۔اپنے دوستوں کو پکارتے ہیں۔“”دادا جی!کیا یہ پرندہ اپنوں سے نہیں مل پائے گا۔یوں ہی پکارتا رہے گا؟“”نہیں بیٹا!کسی وقت اس کی پکار ان تک پہنچ جائے گی۔وہ بھی اسے پانے کے لئے بے تاب ہوں گے۔وہ اسے لینے آجائیں گے۔“دادا کچھ توقف کے بعد بولے۔”اس پرندے کی طر ح کبھی انسان بھی اپنوں سے جدا ہو جاتا ہے۔اپنی دھرتی چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور پھر دھرتی کی خوشبو اسے صدا دیتی ہے۔اسے پکارتی ہے۔اس زمین کے ہر ذرے کا اپنے باسی پر حق ہوتا ہے۔اس دھرتی کا باسی لوٹ کر آجائے تو اس دھرتی پر بن موسم کے بہار آجاتی ہے۔“”کیا واقعی؟“سدرہ نے پلکیں جھپکتے ہوئے پوچھا۔”ہاں․․․․․“دادا نے جواب دیا:“تم نے کبھی گاؤں کی بہاریں دیکھی ہیں؟سرسوں کے پیلے پھولوں کا رقص نہیں دیکھا؟وہاں برستی بارش کی ترنگ نہیں سنی؟مجھے یقین ہے کہ تم جاؤ گی تو موسم اپنے سارے رنگ اوڑھے تمہارا استقبال کرے گا۔تمہیں ایک دن کے لئے گاؤں کا مہمان ضرور بننا چاہیے۔“”ہم کس کے پاس جائیں گے دادا جی!وہاں کون ہے ہمارا؟“”بابا نور دین کے پاس۔“دادا نے کہا۔”اچھا وہ بابا․․․․․“‘سدرہ کچھ سوچتے ہوئے بولی:”جو کبھی کبھی گاؤں سے آتے ہیں۔مجھے بہت پیار کرتے ہیں۔میرے لئے گڑ،دیسی گھی،مکھن،ساگ اور نہ جانے کیا کیا لاتے ہیں۔“”ہاں وہی بابا۔تم نے کہا تھا نہ کہ ایک دن کے لئے بھی گاؤں نہیں گئی تو تمہیں میرے ساتھ ایک دن بابا نور دین کے گاؤں میں گزارنا ہو گا۔بیٹا ! تمہیں جاننا چاہیے کہ گاؤں کیسے ہوتے ہیں۔“”اچھا دادا جی!میں آپ کی بات مان لیتی ہوں۔کل ہی آپ کے ساتھ چلتی ہوں،لیکن وعدہ کریں کہ مجھے دوبارہ کسی بھی گاؤں میں ملازمت کرنے کا نہیں کہیں گے۔کریں وعدہ․․․“ سدرہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جسے دادا نے ہنس کر تھام لیا۔اگلی صبح جب سدرہ نے اپنے امی ابو کو بتایا کہ وہ دادا کے ساتھ ایک دن کے لئے بابا نور دین کے گاؤں جا رہی ہے تو شیریں بیگم سخت پریشان ہوگئیں اور چیخ اُٹھیں:”ہر گز نہیں۔تم ایک دن کے لئے بھی نہیں جاؤ گی۔ابا جی نے نہ جانے تمہیں کیا پٹی پڑھا دی ہے کہ تم اس گندے گاؤں جانے کے لئے تیار ہو گئی ہو۔جہاں راستے میں جانوروں کا گوبر پڑا ہوتا ہے۔جہاں خاک اُڑتی ہے اور ہر جگہ مکھیاں بھنبھناتی ہیں۔نہ صاف پانی،نہ اچھا کھانا۔توبہ توبہ وہاں کوئی زندگی ہے۔“پھر وہ شوہر سے مخاطب ہوئیں:”آپ سمجھائیں خان صاحب!اپنی بیٹی کو۔“احمد خان بھی بڑے آزردہ لگ رہے تھے۔بولے:”بیگم!جانے دو۔یہ جب وہاں کی تکلیف دہ زندگی دیکھے گی تو ایک دن بھی نہ رہ پائے گی۔مجھے یقین ہے کہ جیسے صبح کا بھولا شام کو گھر آجاتا ہے اسی طرح سدرہ بھی شام کو واپس آجائے گی۔“گاؤں جانے والی کچی،دھول اُڑاتی سڑک پر گاڑی رواں دواں تھی۔سڑک کی دونوں جانب میرے بھرے کھیت تھے۔درمیان میں ایک نہر بھی بہ رہی تھی جس کے کناروں پر شیشم کے درخت سر اُٹھائے آسمان کو تک رہے تھے۔نہر میں بچے نہا رہے تھے۔ایک جگہ ٹیوب ویل لگا تھا جہاں سے عورتیں گھڑے بھر رہیں تھیں۔ایک جگہ کسان زمین پر ہل چلا رہے تھے۔دور دور تک سبز گھاس لہرا رہی تھی۔یہاں مویشی گھاس چر رہے تھے۔جب گاڑی وہاں سے گزری تو مویشی چرنا چھوڑ کر انھیں دیکھنے لگے۔یہ سب کچھ سدرہ کو دلچسپ تو لگ رہا تھا،لیکن ایسی زندگی میں اس کے لئے ذرہ بھر بھی کشش نہ تھی۔وہ سوچ رہی تھی کہ واقعی ابو صحیح کہہ رہے تھے۔میں شام کو ہی واپس گھر آجاؤں گی۔ گاڑی دائیں جانب چھوٹی سڑک پر مڑی تو سدرہ کی نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر اسی گاؤں کا نام لکھا تھا جہاں کی تقرری کا خط سدرہ کو ملا تھا۔وہ سیٹ پر اُچھل پڑی:”یہ کیا دادا جی!آپ مجھے کہاں لے آئے ہیں۔مجھے آگے نہیں جانا۔گاڑی واپس موڑیں۔“سدرہ روہانسی ہو گئی:” آپ نے تو کہا تھا بابا نور دین کے پاس․․․․“”یہی نور دین کا گاؤں ہے بیٹی!“لیکن مجھے نہیں جانا۔“اس کی آنکھیں بھر آئیں:”اب میں سمجھی،آپ زبردستی یہاں کے ہسپتال میں مجھے ملازمت کرائیں گے۔“”دیکھو․․․․میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔میں اپنے وعدہ پر قائم ہوں۔اب تمہیں بھی اپنا وعدہ پورا کرنا ہو گا اور ایک دن یہاں رہنا ہو گا۔“سدرہ خاموش ہو گئی۔تھوڑی دور جا کر دادا نے اچانک قبرستان کے قریب گاڑی روک دی۔”اُترو بیٹی!“دادا بولے۔”یہ ہم کہاں آگئے ہیں دادا!“یہ اس گاؤں کا قبرستان ہے بیٹی!“عجیب بات ہے دادا جی!آپ مجھے بابا نور دین کے پاس لے جانے کے بجائے یہاں قبرستان لے آئے ہیں۔“”ہاں بیٹی!پہلے یہاں آنا ضروری تھا۔اُترو ہمیں یہاں فاتحہ پڑھنی ہے۔“سدرہ گاڑی سے اُتر کر دادا جی کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔دادا جی ایک کچی قبر کے پاس کھڑے ہو گئے اور فاتحہ پڑھنے لگے۔سدرہ نے بھی فاتحہ پڑھی۔”وہ قبر کسی کی ہے دادا جی!“”یہ ایک عورت کی قبر ہے جو اسی گاؤں میں رہتی تھی۔بچی کی پیدائش پر اس کی حالت بگڑ گئی۔بچی تو بچ گئی،لیکن گاؤں میں کوئی لیڈی ڈاکٹر نہ تھی جو اس کا صحیح طرح علاج کرتی۔جب گھر کے مرد اسے چارپائی پر ڈال کر شہر کے ہسپتال لے جا رہے تھے تو وہ راستے میں دم توڑ گئی۔“”اوہ․․․بہت دکھ ہوا۔سدرہ کا دل بھر آیا اور وہ بچی؟“”اسے شہرمیں رہنے والے رشتے دار کے ایک بے اولاد چچا نے گود لے لیا۔اسے بہت پیار سے پالا پوسا،پڑھایا اور ایک مقام تک پہنچایا۔“”اچھا․․․․․تو کیا آپ اس بچی کو جانتے ہیں؟“سدرہ نے اشتیاق سے پوچھا۔”ہاں․․․․․اس کا نام ہے لیڈی ڈاکٹر سدرہ بانو․․․․․بیٹا!یہ تمہاری ماں کی قبر ہے۔“سدرہ کو لگا جیسے ایک دھماکا سا ہوا ہے اور اس کے چاروں جانب اندھیرا چھا رہاہے۔اس کے قدموں کے نیچے زمین زلزلے سے لرز رہی ہے،اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔وہ نیچے گر گئی اور اپنی باہیں ماں کی قبر پر پھیلا دیں۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔روتی رہی۔روتی رہی اور پھر دادا نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔”صبر کرو سدرہ بیٹی!آج تم اپنی زندگی کی بڑی حقیقت جان گئی ہو۔اسے اللہ کی رضا جان کر قبول کرلو۔یہی حقیقت تمہیں زندگی کی بلندیوں کی طرف لے جائے گی۔چلو تمہارے ابا کے پاس چلتے ہیں۔“دادا جی سدرہ کو حکیم نور دین کے گھر لے آئے۔وہ صحن میں درخت کے نیچے جڑی بوٹیاں صاف کر رہے تھے۔انہوں نے حیرت اور خوشی سے سدرہ کو دیکھا اور جلدی سے اُٹھ کر ان کے پاس آئے۔”نور دین!دیکھو میں تمہاری بیٹی کو تمہارے پاس لے آیا ہوں۔“دادا بولے۔”تمہاری بیٹی ڈاکٹر بن گئی ہے۔میں نے اس کے محکمے کے افسروں سے مل کراس کی تقرری اسی کے گاؤں کے ہسپتال میں کرادی ہے۔“سدرہ اپنے باپ کے گلے لگ کر رونے لگی۔نور دین کی آنکھوں سے بھی خوشی بھرے آنسو بہنے لگے۔اسے برسوں کی ریاضت اور صبر کا اجر مل گیا تھا۔برسوں کی جدائی رنگ لائی تھی۔دکھوں کا موسم بیت گیا تھا اور خوشیوں کی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔پڑوس والوں کو بھی پتا چل گیا تھا کہ شہر سے نور دین کے گھر مہمان آئے ہیں۔انہوں نے ان کے لئے ناشتہ بھجوا دیا۔نور دین نے دونوں کو میٹھی لسی پلائی ۔مکھن ساگ اور مکئی کی روٹی ان کے آگے رکھی جو سدرہ کو بہت لزیذ لگ رہی تھی۔نور دین بولا:”سدرہ بیٹی!گاؤں کا ماحول بہت صاف ستھرا ہے۔نہ گلیوں میں گندگی،نہ فضاؤں میں گاڑیوں کا دھواں ،نہ آلودہ پانی،نہ باسی پھل سبزیاں۔یہاں نلکے میں صاف تازہ اور ٹھنڈا پانی آتا ہے۔کھانے کی ہر چیز تروتازہ ہے۔قدرتی ماحول کی ایک ایک خوب صورتی ہے۔“کچھ دیر بعد ایک بوڑھی عورت آئی اور بولی:”میری بہو کی طبیعت بہت خراب ہے۔آپ تو جانتے ہیں ہمارے گاؤں کے ہسپتال میں کوئی لیڈی ڈاکٹر آتی ہی نہیں۔بھولے سے آجائے تو ٹکتی نہیں۔واپس شہر چلی جاتی ہے۔ہم کل صبح اپنی بہو کو شہر کے ہسپتال لے جائیں گے۔دعا کریں اللہ اسے صحت دے۔“نور دین نے فوراً دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دیے۔جب وہ چلی گئی تو سدرہ بولی:”دادا جی !مجھے ابھی واپس جانا ہے۔“”بیٹی!اتنی جلدی کیا ہے۔تمہیں تو یہاں ایک دن رہنا ہے۔“”دادا جی!مجھے واپس آنے کے لئے جانا ہے۔میں اپنا سامان اور میڈیکل بکس لینے جا رہی ہوں اور پھر آج ہی واپس آؤں گی۔اس عورت کی بہو میری پہلی مریضہ ہوگی۔“نور دین نے سدرہ کو گلے لگا لیا:”مجھے یقین تھا کہ میری بیٹی اس مقام تک ضرور پہنچے گی جسے دیکھ کر میرا سر فخر سے بلند ہو جائے گا۔“”تم جانتے ہو سفر تو کوئی لمبا نہیں نور دین!ہم رات تک واپس آجائیں گے۔“دادا کی آواز بھی خوشی سے بھرا گئی۔سدرہ اور دادا دوپہر کو گھر واپس آگئے تو سدرہ کی امی ابو ہنسنے لگے۔ ابو بولے:”میں نہ کہتا تھا صبح کا بھولا شام کو واپس گھر آجاتا ہے اور میری بیٹی تو شام سے بھی پہلے واپس آگئی ہے۔“امی کہنے لگیں:”میری بیٹی اب کبھی گاؤں نہیں جائے گی،کیوں سدرہ؟“سدرہ آگے بڑھی ۔اس کی آنکھوں میں عزم،حوصلہ اور یقین کے جگنو جگمگا رہے تھے۔وہ بولی:”میں واپس جانے کے لئے آئی ہوں۔“”میں اب گاؤں کی کسی ماں کو شہر کے راستے میں دم نہیں توڑنے دوں گی۔اللہ کی مدد کے ساتھ مجھے وہاں کی ماؤں کو زندگی دینا ہے۔“شیریں بیگم نے چونک کر سدرہ کو دیکھا۔اُسے لگا سدرہ اب پہلے جیسی نہیں ہے۔وہ ایک نئے روپ میں اس کے سامنے کھڑی ہے۔اس کی آنکھوں میں اس کی اپنی ماں مسکرا رہی ہے۔اس کی آنکھیں،اس کے ہونٹ،اس کی پیشانی،اس کی رنگت سب کچھ اس کی ماں پر تھے۔لگتا تھا وہی آج زندہ ہو کر اس کے سامنے آگئی ہے اور اس سے اپنی بیٹی واپس مانگ رہی ہے۔”ٹھیک ہے بیٹی!میں خوشی سے تمہیں اجازت دیتی ہوں؟“شیریں بیگم کی آواز بھرا گئی۔”ہمیں تم پر ناز ہے بیٹی!“احمد خان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔”شکریہ امی․․․شکریہ ابو!“سدرہ ان کے آگے جھک گئی اور دونوں نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ " عید کا تحفہ - تحریر نمبر 1795,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/eid-ka-tohfa-1795.html,"نذیر انبالویماہ شعبان کی آخری تاریخ تھی۔ریحان کی امی جان نے رمضان المبارک اور عید الفطر کی تیاری مکمل کر لی تھی۔انہوں نے ریحان کے لئے تین اور اس کے ابو جان کے لئے دو جوڑے سلوا لیے تھے۔شعبان کے شروع میں خریداری کی اور درز ی کو سلائی کے لئے کپڑے دے دیے۔یوں سارے کام آسانی سے ہو گئے۔ریحان کی عمر گیارہ سال تھی۔”عقل مند لوگ وہی ہوتے ہیں ،جو وقت سے پہلے کام کرتے ہیں۔“ریحان کی امی کا کہنا تھا،جنہوں نے شعبان میں ہی سارے کام مکمل کر لیے تھے۔انہوں نے مختلف لوگوں کو عید کے تحائف دینے کے لئے بیس جوڑے خرید لیے تھے۔شام کے وقت چوکیدار کو جوڑا ملا تو وہ بہت خوش ہوا۔ گھر میں کام کرنے والی ماسی نے جوڑا لے کر خوب دعائیں دیں۔دودھ والا جب جوڑا لے رہا تھا تو اپنے پسندیدہ رنگ کو دیکھ کر پھولا نہیں سما رہا تھا۔(جاری ہے)دو تین دن میں سارے جوڑے تقسیم ہو گئے تھے۔امی جان نے کچی آبادی کی ایک بیوہ اور اس کے بچوں کو خصوصی طور پر کپڑے سلائی کرا کر دیے تھے۔ریحان اپنے ابو جان کے ساتھ مسجد گلزار میں پانچ وقت کی نماز ادا کرنے بھی جاتا تھا۔مسجد کے امام ،موٴذن اور دو خدام کے لئے بھی امی جان نے سفید رنگ کے جوڑے خرید کر ریحان کے ہاتھوں مسجد میں پہنچا دیے تھے۔وہ جمعہ کا دن تھا۔نمازی تیزی سے مسجد میں داخل ہو رہے تھے۔ایک شخص صدر دروازے سے مسجد میں داخل ہونے لگا تو ایک گارڈ نے اسے رکنے کا اشارہ کیا۔نور محمد نے اپنی بندوق کندھے پر لٹکا رکھی تھی۔مشکوک شخص کی گھبراہٹ سے نور محمد اسے دائیں طرف لے گیا۔مشکوک شخص نے گہرے نیلے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔گارڈ نور محمد کے اشارے پر دوسرا گارڈ مسرور بھی اس کی طرف لپکا۔”جی نور محمدبھائی!“یہ کہتے ہوئے مسرور نے مشکوک شخص کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔خوف کے مارے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔”میرے․․․․میرے پاس کچھ نہیں ہے۔میری تلاشی لے لو۔“مشکوک شخص نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرتے ہوئے کہا۔نور محمد نے تیزی سے مشکوک شخص کی تلاشی لینا شروع کی۔ تیسرا گارڈ اب دیگر نمازیوں کی تلاشی لے کر انھیں مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دے رہا تھا۔”اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔“نور محمد نے اپنے ساتھی مسرور کو مخاطب کیا۔”شکل سے تو یہ․․․․“مسرور نے اتنا کہہ کر اپنا جمعہ ادھورا چھوڑ دیا۔”مشکوک تو یہ مجھے دکھائی دے رہا ہے،شناختی کارڈ دکھاؤ۔“نور محمد نے مشکوک شخص کو گھورتے ہوئے کہا۔”جی․․․․جی․․․․یہ․․․․یہ․․․․ہے میرا شناختی کارڈ۔“مشکوک شخص نے جب اپنا شناختی کارڈ نور محمد کی طرف بڑھایا تو اس نے اس کا نام پڑھ کر خود کلامی کی:”شوکت رضا۔“”جی․․․․․میرا نام شوکت رضا ہے،نہر کے قریب بستی میں میرا گھر ہے۔“شوکت رضا نے اتنا کہا تو نور محمد بولا۔”ٹھیک ہے تم اندر جا سکتے ہو۔“شوکت رضا اِدھر اُدھر کچھ دیکھتے ہوئے مسجد میں داخل ہو گیا۔وہ پہلی بار مسجد گلزار میں داخل ہوا تھا۔ایک اہم کام اس کے سپرد تھا۔حکم کس کا تھا،وہ ایسا کیوں کروا رہا تھا،اسے اس کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔اس کی تو دو مہینے پہلے ایک ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے اپنے ہم جماعت راجو سے ملاقات ہوئی تھی۔نام تو اس کا ریاض تھا،مگر گھر اور گھر سے باہر سبھی اسے راجو کہتے تھے۔اس نے قیمتی لباس پہن رکھا تھا۔وہ کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ اس کی نظر شوکت رضا پر پڑی۔وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر دیوار کے ساتھ بیٹھے شوکت کی طرف بڑھا۔”تم غالباً شوکت ہو۔شوکت رضا!“”ہاں،میں شوکت رضا ہوں اور تم راجو ہو راجو۔“شوکت رضا نے راجو کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔”ہاں،میں راجو ہوں،سکول کا سب سے شرارتی اور نالائق طالب علم،ریاض احمد عرف راجو،بہت وقت گزر گیا ہے،بیس سال ہو گئے ہمیں سکول سے میٹرک کیے ہوئے ۔سناؤ کیا مصروفیات ہیں؟“راجو یہ کہتے ہوئے شوکت رضا کے برابر میں بیٹھ گیا۔”ایک کمپنی میں ملازم تھا۔کمپنی دیوالیہ ہو گئی،اس لئے ملازمت ختم ہو گئی،اب کام کی تلاش میں ہوں۔“شوکت رضا نے بغیر تمہید کے ساری بات راجو کو بتادی۔”اب ملازمت کی فکر مت کرو،سمجھ لو تمہیں ملازمت مل گئی ہے۔“راجو نے زور سے میز پر ہاتھ مارا تو اردگرد بیٹھے ہوئے لوگوں نے اُسے ناخوش گوار انداز میں گھورا۔”ملازمت کہاں کرنا ہو گی،کس نوعیت کا کام ہے؟“شوکت رضا کے سوال پر راجو نے سرگوشی کے انداز میں اسے سب کچھ بتا دیا۔دونوں نے ایک دوسرے کے موبائل فون نمبر محفوظ کر لیے۔دو دن بعد پھر دونوں ایک ہوٹل میں بیٹھے تھے۔راجو نے بیس ہزار روپے اسے دیتے ہوئے مسجد گلزار کا نام بتایا۔”تمہیں ایک ماہ تک اس مسجد میں باقاعدگی سے پانچویں وقت نماز ادا کرنی ہو گی،آتے جاتے ہوئے وہاں موجود گارڈز سے علیک سلیک ضرور کرنا،ممکن ہوتو انھیں کھانے پینے کی چیزیں بھی دینا ایسا کرنے سے وہ تم سے واقف ہو جائیں گے اور پھر․․․․“”اور پھر کیا؟“شوکت رضا نے راجو کو خاموش دیکھ کر پوچھا۔”پھر وہی کام ہو گا جس کا ہمیں پیسہ ملے گا۔“راجو کی صورت اس وقت بہت بھیانک لگ رہی تھی۔شوکت رضا نے کبھی مسجد کا رُخ نہیں کیا تھا وہ کبھی کبھی نماز جمعہ اور عیدین کی نماز ادا کرنا ہی کافی سمجھتا تھا۔مسجد گلزار میں پہلے دن اس کی خوب تلاشی لی گئی۔کئی دنوں تک اس پر کڑی نظر رکھی گئی،پھر گارڈ اسے دیکھتے ہی اس کی تلاشی لیے بغیر مسجد میں داخل ہونے دیتے۔جب چند دن گزرے تو ایک دن وہ گارڈ کے لئے کینو لے گیا۔ایک کینو نکال کر خود کھایا اور باقی کینو ڈیوٹی پر موجود گارڈز کو دے دیے۔نور محمد نے پہلے دیکھے اور پھر مخصوص انداز میں شوکت رضا کو گھورا۔اس کی چھٹی حس اسے کچھ کہہ رہی تھی،کچھ سمجھا رہی تھی۔”مجھے تو دال میں کچھ کا لا لگ رہا ہے،ہمیں اس پر کڑی نظر رکھنا ہو گی۔نور محمد کی بات سن کر اس کے دوستوں نے بھر انداز میں اس کی تائید کی تھی۔شوکت رضا ،راجو سے مسلسل رابطے میں تھا۔راجو اس کے کام سے بہت خوش تھا۔اسے یقین تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔انہیں اب رمضان المبارک کے شروع ہونے کا انتظار تھا۔جب رمضان المبارک کا آغاز ہوا تو ریحان کے سکول اور ابو جان کے دفتر کے اوقات تبدیل ہو گئے۔ریحان بارہ بجے اور ابو جان دو بجے گھر آجاتے تھے۔ریحان دیگر نمازیوں کے ساتھ تراویح ادا کرنے کے لئے بھی ابو جان کے ساتھ مسجد گلزار جاتا۔تراویح کے وقت تین مسلح گارڈز مسجد سے باہر اپنے فرائض نہایت چوکس طریقے سے سر انجام دیتے۔شوکت باقاعدگی سے نماز تراویح میں آتا۔وہ آتے ہوئے گارڈز کے لئے ٹھنڈے پانی کی بولتیں لے کر آتا۔اب اُسے اُمید ہو چلی تھی کہ عید پر دس لاکھ روپے اس کی جیب میں ہوں گے۔ اب تو امام صاحب سے بھی اس کی واقفیت ہو گئی تھی۔نماز تراویح ادا کرنے کے بعد وہ کچھ دیر کے لئے امام صاحب کے پاس بیٹھ جاتا تھا۔راجو نے اُسے پندرہ رمضان کے بعد کارروائی کرنے کا بتایا تھا۔ایک رات وہ نماز تراویح پڑھنے کے لئے مسجد میں داخل ہونے لگا تو ریحان اپنے ابو جان کے ساتھ مسجد کے صدر دروازے پر کھڑا سکیورٹی گارڈز سے باتیں کر رہا تھا۔شوکت وہیں رک گیا۔ریحان نے اس کے سامنے پلاسٹک کے خوب صورت لفافے میں بند سفید رنگ کے جوڑے گارڈز کی طرف بڑھائے ۔لفافے پر لکھا تھا:”عید کا تحفہ“ گارڈز نے شکریہ ادا کرکے یہ محبت بھرا عید کا تحفہ قبول کر لیا۔کچھ دیر بعد شوکت مسجد میں موجود تھا۔ نماز پڑھتے ہوئے بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے ریحان کا گارڈز کو دیا عید کا تحفہ گردش کر رہا تھا۔نماز پڑھتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے تھے۔اب وہ وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔اس نے مسجد گلزار کے نمازیوں کو عید کا تحفہ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔نماز تراویح پڑھ کر اس نے مسجد سے نکلتے ہوئے تمام گارڈز سے ہاتھ ملایا۔اب اس کا رُخ قریبی پولیس اسٹیشن کی طرف تھا۔وہاں اس نے سب کچھ انسپکٹر وسیم کو بتا دیا تھا۔انسپکٹر وسیم نے اس کے جذبے کی قدر کرتے ہوئے اس کی تعریف کی اور اسے یقین دلایا کہ قانون کی مدد کرنے اور سچ بولنے پر اس کی بھرپور مدد کی جائے گی۔ رات گئے راجو پولیس کی گرفت میں تھا۔راجو کی ٹھکائی ہوئی تو اس نے سب کچھ اُگل دیا۔پولیس حرکت میں آئی اور نمازیوں کو خون میں نہلانے کا ارادہ رکھنے والے گرفتار ہو گئے۔شوکت بھی پولیس کی حراست میں تھا۔اس لئے خصوصی طور پر اسے مسجد گلزار میں نماز عید ادا کرنے کی اجازت مل گئی۔عید کے دن چار سو نمازیوں کو دیکھ کر شوکت پھولا نہیں سما رہا تھا۔اس نے اپنا بساط کے مطابق مسجد گلزار کے نمازیوں کو عید کا جو تحفہ دیا اس تحفہ کی وجہ سے نماز سکون و اطمینان سے نماز عید ادا کر رہے تھے۔ " مفید سزا - تحریر نمبر 1794,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mufeed-saaza-1794.html,"مصباح شاہ،کراچیسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو گئی تھیں۔اس وقت ہم چاروں بہن بھائی”چھٹیاں کیسے گزاریں“کے موضوع پر مذاکرات کر رہے تھے۔سونیا کی نظر امی پر پڑی جو باورچی خانے میں کھانا بنا رہی تھیں۔اچانک اس کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔وہ جوشیلے انداز سے بولی :”ہم اپنا باورچی خانہ کھولتے ہیں۔“”ارے وہ تو پہلے سے ہی کھلا ہوا ہے اور وہاں امی کھانا بھی بنا رہی ہیں۔“ارمغان عجیب سی نظروں سے سونیا کو دیکھتے ہوئے بولا۔”ارے موٹی عقل والے آدم زاد میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم اپنا ہوٹل کھو لتے ہیں جہاں ہم کھانا بنائیں گے،لوگوں کو کھلائیں گے ،پیسے کمائیں گے۔چھٹیوں سے فائدہ اُٹھائیں گے اور پیسے بھی ہاتھ آجائیں گے۔(جاری ہے)“سونیا بالکل بڑے لوگوں کی طرح سمجھاتے ہوئے بولی۔”پہلے پہل تو ارمغان سنتا رہا پھر بولا:”اچھا مجھے یہ تو بتاؤ کہ یہ موٹی عقل کا مطلب کیا ہوتا ہے میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ عقل ہو تی کیسی ہے۔لمبی،چھوٹی،پتلی یا موٹی،چوکور یا گول،یہ چلتی ہے یا اُڑتی ہے اور تمہیں کیا پتا میری عقل موٹی ہے یا پتلی تم دیکھ کر آئی ہو!“بھیانے مداخلت کی:”اچھا ،یہ بتاؤ کہ ہم اپنا ہوٹل کھولیں گے کہاں؟کھانا بنائے گا کون؟اور کھانا کھانے آئے گا کون؟“صبا نے کہا:”مجھے یہ ٹھیک لگ رہا ہے،ہمارا وہ کمرہ جو مین روڈ پر کھلتا ہے اُسے ہم ہوٹل بنائیں گے،کھانا باورچی خانے میں بنا کر کمرے میں رکھ دیں گے۔ایک بڑا سا بینر بنوالیں گے،جس پر لکھا ہوگا کہ ہم نے ایک شان دار ہوٹل بنایا ہے جہاں نہایت ہی لذیذ کھانا دستیاب ہے ۔بھیا راضی ہوئے تو سارا کام آسان ہو گیا۔تیسرے دن ہم نے اپنا اپنا کام سنبھال لیا۔سونیا اور صبا نے پچھلا کمرا پہلے ہی صاف ستھرا کرلیا تھا۔بھیا نے کھانا پکانے کا سامان اکھٹا کیا اگر چہ کچن میں سب کچھ بکھیرنے پر انہیں امی سے ڈانٹ بھی پڑی،جو انہوں نے چپ چاپ سن بھی لی۔ارمغان سب کو ہوٹل کے بارے میں بتانے کے لئے چل پڑا،جہاں اسے عجیب عجیب باتیں سننی پڑیں،لیکن اس نے بہترین صبر کا مظاہرہ کیا۔جب کھانا بنانے کی باری آئی تو ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کے مصداق سب نے کھانا خراب کرنے میں پورا پورا حصہ لیا۔سونیا نے دادا ابا کے ہاضمے کے چورن کو بطور گرم مصالحہ ڈالا۔ارمغان نے نمک چیک کیا تو کم ہونے پر نمک ڈھونڈنے کے لئے نظریں دوڑائیں، بیسن کے پاس پڑے نمک کو چاولوں میں ڈالا جو حقیقت میں برتن دھونے والا سفید سفوف تھا۔صبا نے جب چاولوں کو پانی کے اندر پھنس پھنس کر تیرتے ہوئے دیکھا تو ان کی آسانی کے لئے تھوڑا سا اور پانی ڈال دیا۔بھیا نے دم پر رکھے چاولوں کو چیک کرنے کے لئے پتیلی کا ڈھکن اُٹھایا تو دھواں ان کے چہرے پر پڑا دھویں سے بچنے کے لئے وہ جلدی سے پیچھے ہٹے۔ عین اسی وقت ان کا پاؤں پتیلی پر لگا اور پتیلی ان کے پاؤں پر آکر دھم کرکے گری۔باورچی خانے کا ایک ایک کونا چاولوں کے نقش ونگار سے مزین ہو گیا اور ایک بار پھر وہ اپنا پاؤں پکڑ کر کہنے لگے:”ارے․․․․․ارے جل گیا۔ارے جل گیا۔“جب کہ ارمغان،سونیا اور صباح انھیں ایسے گھور رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں اگر بڑے نہ ہوتے تو بتاتے ہم آپ کو۔تھوڑی دیر بعد کا نظارہ کچھ یوں تھا کہ ابو اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھے شہاب نامہ پڑ رہے تھے جب کہ یہ چاروں بالکل ابو کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔سزا کے لئے ابو کے حکمیہ الفاظ سنائی دیے:”میری لائبریری کتابوں سے بھری ہوتی ہے۔تم میں سے ہر ایک کم از کم پانچ کتابیں پڑھے اور اپنی رائے کا اظہار کرے۔تاریخ کی کتابیں تمہیں بتائیں گی کہ ماضی میں کیا ہوتا رہا ہے۔سفر ناموں سے تم ہر ملک اور ہر شہر کی سیر کر سکتے ہو۔سائنس کے موضوع پر کتابوں سے پتا چلے گا کہ انسان کیسے ترقی کرتا ہے اور آئندہ کیا ہونے والا ہے۔مذہبی اور اخلاقی کتابیں پڑھ کر زندی گزارنے کا سلیقہ آجائے گا ۔یہ تمہارے لئے ایسی سزا ہے جس سے تم بھر پور فائدہ اُٹھا سکتے ہو اور چھٹیاں بھی اچھی گزریں گی۔“وہ چاروں کچھ سوچتے ہوئے ابا جان کی لائبریری کی طرف چل دیے۔ " بلاعنوان انعامی کہانی - تحریر نمبر 1793,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bila-unwan-inaami-kahani-1793.html,"م۔ندیمبہت دنوں کی بات ہے۔کسی شہر میں ایک مال دار آدمی رہتا تھا۔اس کا نام فقیر چند تھا۔وہ شہر کا سب سے مال دار آدمی تھا،مگر کنجوس مکھی چوس بھی تھا۔اس کا حلیہ بھی عجیب تھا۔باہر کو نکلی ہوئی توند،چھوٹا سا قد،جب وہ چلتا تو معلوم ہوتا تھا کہ فٹ بال لڑھک رہی ہے۔فقیر چند کی بیوی بہت اچھی عورت تھی۔وہ غریبوں کی مدد کیا کرتی تھی۔منگل کے دن تو سیٹھ فقیر چند کی حویلی کے دروازے پر سارے شہر کے فقیروں اور اپاہجوں کا ہجوم رہتا تھا،کیونکہ اُس دن سیٹھ کی بیوی ہر فقیر کو ایک پاؤ آٹا خیرات دیا کرتی تھی۔سیٹھ جی کو یہ بات بہت بُری لگتی تھی،مگر وہ بیوی کا مان بھی رکھتے تھے،اس لئے کچھ کہتے نہ تھے۔ایک بار سیٹھ جی نے بیوی کو سمجھایا بھی تھا:”ان فقیروں،سادھوؤں کو خیرات دینے سے کوئی فائدہ نہیں۔(جاری ہے)یہ سب بازار میں بیچ دیتے ہیں اور افیم کھاتے ہیں،دَم لگاتے ہیں اور موج کرتے ہیں۔یعنی ہمیں بے وقوف بناتے ہیں۔“اس بات پر بیوی نے سیٹھ جی سے کہا تھا:”خدا نے ہمیں جو اتنی ساری دولت دی ہے،وہ اسی خیر خیرات کا نتیجہ ہے۔“پھر اس نے سیٹھ جی کو ان کی غریبی کا زمانہ یاد دلایا،جب ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔سیٹھ جی کو اس بات سے سخت چِڑ تھی کہ کوئی ان کا بیتا ہوا زمانہ یاد دلائے کہ وہ کیا تھا اور اب کیا ہیں،کیونکہ وہ اپنے آپ کو خاندانی سیٹھ کہتے تھے،اس لئے وہ چپ ہو رہے۔دنیا کے دوسرے مال دار آدمیوں کی طرح سیٹھ فقیر چند کو بھی اپنی دولت بڑھانے کی فکر لگی رہتی تھی۔ان کے گودام میں شکر،نمک،تیل، گیہوں،چاول اور دالوں کے انبار لگے رہتے تھے۔وہ شہر کے سب سے بڑے تھوک بیوپاری تھے۔جب قیمتیں بڑھتیں تو سیٹھ جی کا خون بڑھ جاتا اور اگر بھاؤ گھٹتا تو سیٹھ جی پریشان ہو جاتے۔ان کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی۔بھوک غائب ہو جاتی۔ایک سال ایسا ہوا کہ ملک میں بارش نہیں ہوئی۔قحط پڑ گیا۔اناج بازار سے غائب ہو گیا اور غلے کی قیمتیں بہت بڑھ گئیں۔سیٹھ جی نے اناج کی فروخت بند کر دی،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اناج کی قیمتیں اور بڑھیں گی۔منگل کے دن شہر کے فقیروں اور اپاہجوں کو جو آٹا ملا کرتا تھا وہ بھی ملنا بند ہو گیا ۔ایک دن صبح صبح سیٹھ جی ناشتہ کرکے آرام سے بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ایک آدمی ان کے پاس آیا اور ہاتھ جوڑ کر بولا:”سیٹھ فقیر چند جی!آپ کی دولت بڑھے،آپ کی صحت اچھی رہے،میں غریب آدمی ہوں۔میرے بچے بھوکے مر رہے ہیں۔مجھے چند سیر چنے دے دیجیے۔میں چنے کھلا کر ان کا پیٹ بھردوں گا اور آپ کو ساری زندگی دعائیں دوں گا۔“سیٹھ کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے اسے ڈانٹ کر بھگا دیا۔دوسرے دن وہ آدمی پھر آیا۔اس کے ہاتھ میں پیتل کا ایک لوٹا تھا۔سیٹھ جی نے اسے دیکھا تو غصے سے بولے:”اب کس لئے آئے ہو؟میں تم کو ایک دانہ بھی نہیں دے سکتا۔اپنی خیر چاہتے ہو تو یہاں سے فوراً نکل جاؤ، ورنہ․․․․“اس آدمی نے سیٹھ جی کی بات کاٹ کر کہا:”مگر سیٹھ جی!آپ ہی کے فائدے کی بات ہے۔آپ مجھے نہیں پہچانتے،کوئی بات نہیں۔کم از کم اس پیتل کے لوٹے کو تو پہچانتے ہی ہوں گے ۔اس پر آپ کا نام بھی کھدا ہوا ہے۔فقیر چند ولد گھسیٹ چند۔شاید آپ کو یاد ہو جب آپ نئے نئے شہر میں آئے تھے تو یہ لوٹا رامو بھڑ بھونجے کے پاس چار آنے میں گروی رکھا تھا اور آپ نے رسید بھی لکھ دی تھی۔یہ بات ذرا پرانی ہے، کوئی بیس سال پہلے کی ۔آپ اسے چھڑانا بھول گئے۔خیر کوئی بات نہیں،بڑے لوگوں کی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔میرا فرض تھا کہ میں آپ کی چیز آپ کو واپس کر دوں۔کیا خیال ہے؟کچھ یاد آیا آپ کو؟“سیٹھ جی کا غصہ یہ سنتے ہی کافور ہو گیا۔انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی ان کی بات چیت تو نہیں سن رہا ہے۔پھر کہنے لگے:”ہاں ہاں،مجھے خوب یاد ہے۔تم نے اچھا کیا میرا لوٹا لے آئے۔میں ابھی تمہیں چار آنے دیتا ہوں۔میرا لوٹا مجھے دے دو۔“رامو ہنسا:”ہاہا․․․․سیٹھ جی!آپ مذاق کر رہے ہیں۔بیس سال میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔جب آپ کی جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔آپ کا لباس ایک پھٹی دھوتی تھی۔آپ کے پاس صرف ایک پیتل کا لوٹا تھا۔آپ جب کنگال تھے،اب لکھ پتی ہیں۔جب فقیر چند تھے اور اب سیٹھ فقیر چند ہیں۔ذرا آپ ہی ایمان داری سے کہیے،اس نایاب پیتل کے لوٹے کی قیمت کیا چار آنے ہی رہے گی۔“”اچھا تو میں اس کی قیمت پانچ روپے دوں گا۔لاؤ میرالوٹا مجھے واپس کر دو۔“رامو نے اس لوٹے کو انگلیوں پر نچاتے ہوئے کہا:”دیکھیے اس پر آپ کا نام بھی لکھا ہے۔آپ نے جو رسید لکھی تھی،اس پر آپ کے دستخط بھی ہیں اور وہ بھی میرے پاس محفوظ ہے۔میں سوچتا ہوں اس لوٹے کو بازار میں نیلام کر دیا جائے۔آپ بھی وہیں قیمت لگائیے۔بھلا سیٹھ فقیر چند کا لوٹا!اس کی قیمت تو ایک ہزار بھی کم ہے۔ایک۔دو۔تین․․․سیٹھ فقیر چند کا گروی رکھا ہوا پیتل کا لوٹا،پھر سارا شہر جان لے گا کہ سیٹھ فقیر چند بیس سال پہلے کیا تھے۔اچھا سیٹھ فقیر چند جی!اب میں چلتا ہوں۔آپ کا لوٹا میرے پاس حفاظت سے رہے گا۔“یہ کہہ کر رامو دروازے پر سے نکل کر یہ جا وہ جا۔سیٹھ اُسے بلاتے ہی رہ گئے،مگر وہ نہ رکا۔سیٹھ جی کو سکتہ سا ہو گیا۔بھوک غائب ،نیند کوسوں دور۔ان کو رہ رہ کر یہ خیال پریشان کر رہا تھا کہ اگر اس رامو بھڑ بھونجے نے ان کا راز فاش کر دیا تو کیا ہو گا۔ان کی ساری عزت خاک میں مل جائے گی۔لوگ کیا کہیں گے۔سیٹھ فقیر چند جس کو لوگ جھک کر سلام کرتے ہیں،جس کا لاکھوں روپیہ بینک میں جمع ہے،جس کی عزت سارے شہر میں ہے،وہ اتنا غریب آدمی تھا کہ پیتل کا لوٹا ایک بھڑ بھونجے کے پاس گروی رکھا․․․سیٹھ کو اپنے اوپر غصہ آرہا تھا،مگر سچ بات تو یہ تھی کہ انھیں کیا پتا تھا کہ بیس سال بعد وہ لکھ پتی بن جائیں گے۔بیس سال پہلے سیٹھ فقیر چند واقعی غریب آدمی تھے۔وہ اپنے گاؤں سے نوکری کی تلاش میں شہر آئے۔جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی۔کسی طرح پیدل سفر کرتے کرتے شہر تک آگئے تھے۔نئی جگہ،جان نہ پہچان۔بھوک نے الگ پریشان کیا۔ناچار ہو کر ایک ترکیب سمجھ میں آئی۔انہوں نے اپنا پیتل کا لوٹا گروی رکھا اور چار آنے کی رسید لکھ دی۔دو پیسے کے چنے لئے اور پیٹ بھرا۔پھر فقیر چند کو ایک سیٹھ کا ہاں منشی گیری کی نوکری مل گئی۔یہ سچ ہے کہ فقیر چند نے اتنی محنت اور ایمان داری سے کام کیا کہ سیٹھ کا اعتبار ان کو حاصل ہو گیا۔تجوریوں کی چابیاں ان کے قبضے میں رہنے لگیں۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سیٹھ اچانک بیمار پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گئے۔فقیر چند کی نیت میں فتور آگیا۔تجوری کھول کر انہوں نے ایک تھیلی نکال کر چھپا دی۔کسی کو خبر بھی نہ ہوئی۔سیٹھ کی موت کے بعد دولت تقسیم کے معاملے پر ان کے لڑکوں میں جھگڑا چلا۔فقیر چند کام سے الگ ہو گئے۔شہر کے ایک کونے میں چھوٹی سی دکان کھول کر بیٹھ گئے۔ رفتہ رفتہ دکان بڑھی اور فقیر چند،سیٹھ فقیر چند بن گئے۔سوچ سوچ کر سیٹھ جی ہار گئے۔آخر ان سے نہ رہا گیا۔دوسرے دن سویرے ہی وہ رامو بھڑ بھونجے کی دکان پر پہنچے۔دیکھا تو ان کا لوٹا رسی سے بندھا ہوا چھپر سے لٹک رہا تھا۔سیٹھ جی کو دیکھ کر رامو مسکرایا اور بولا:”سیٹھ جی!آپ نے ناحق تکلیف کی۔میں خود حاضر ہو جاتا۔ بتایئے میرے لئے کیا خدمت ہے؟“سیٹھ کار سے اُترے اور رامو کے ساتھ اس کے ٹوٹے پھوٹے گھر میں گئے۔رامو نے ان کو چار پائی پر بٹھایا۔خود زمین پر بیٹھا۔سیٹھ کو رامو کا گھر اور اس کا حلیہ دیکھ کر اپنی بیس سال پہلے کی زندگی یاد آگئی۔جب ان کی حالت بھی تقریباً ایسی ہی تھی۔”رامو!میں تم کو ایک ہزار روپیا دوں گا۔میرا لوٹا مجھے دے دو۔“”سیٹھ جی!آپ کا لوٹا آپ کے قدموں پر حاضر کردوں گا۔مجھے ایک پیسہ بھی نہیں چاہیے۔آپ کی دولت آپ کو مبارک۔میں اتنا ہی کہوں گا کہ آپ بھی کبھی اتنے ہی غریب تھے،یعنی ہماری ہی برادری کے ایک معمولی سے آدمی․․․آج آپ بڑے آدمی ہیں۔اپنے آپ کو اور اپنے بھائیوں کے دکھ درد کو بھول گئے ہیں۔آپ کے گوداموں میں غلہ پڑا ہے۔ان گنت انسان بھوکوں مر رہے ہیں۔اگر آپ چاہیں تو بھوکے مرتے انسان بچ سکتے ہیں۔آپ کو اپنی عزت کی فکر ہے،بھوکے مرتے انسانوں کی نہیں۔“”تو تم کیا چاہتے ہو؟“”میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مرتے ہوئے انسانوں کو بچائیے۔اس میں سچی خوشی ہے۔یہ آپ کا فرض بھی ہے۔میں آپ کا لوٹا نیلام کر سکتا ہوں،مگر میں اتنا ذلیل آدمی نہیں۔غریب ضرور ہوں۔آپ کو لوٹے کی کتنی فکر ہے،یہ آپ کے چہرے سے ظاہر ہے۔کاش آپ کو اتنی ہی فکر غریبوں کی بھی ہوتی۔”بس کرو رامو!بس کرو۔تم سچ کہتے ہو۔تم نے میری آنکھیں کھول دیں۔میں ایک ایک دانہ مفت بانٹ دوں گا۔“یہ کہہ کر سیٹھ جی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ایک ہفتے تک سیٹھ فقیر چند کے گوداموں سے غریبوں کو مفت غلہ بٹتا رہا۔یہی نہیں سیٹھ فقیر چند نے کئی ہزار کی رقم اور کپڑا مفت غریبوں میں تقسیم کرنے کے لئے بھی دیا۔پھر شہر کے دوسرے آدمیوں نے بھی سیٹھ کی دیکھا دیکھی ایسا ہی کیا۔سیٹھ کی بیوی اور دوسرے لوگ سیٹھ کی دریا دلی پر حیران تھے،مگر یہ بات صرف رامو جانتا تھا کہ یہ ساری کرامت پیتل کے لوٹے کی تھی۔ " ادھوری تعبیر - تحریر نمبر 1792,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/udhoori-tabeer-1792.html,"مدیحہ ذکاء بھٹیملک کا فوج کا سپہ سالار حسب معمول اپنے سپاہیوں کے ساتھ شہر کے گشت پر تھا۔وہ مختلف جگہوں سے ہوتا ہوا ایک بازار کے نزدیک پہنچا۔ اچانک اس کی نظر بازار کے کونے میں کھڑے ہوئے ایک بھکاری پر گئی،جو مسلسل اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔اس بھکاری کی آنکھوں میں اُسے ایک عجیب سی چمک نظر آئی۔اچانک بھکاری اُس کے قریب آیا۔”بولو،کیا کہنا چاہتے ہو؟“سپہ سالار اس کو دیکھتے ہوئے بولا۔بھکاری تھوڑی دیر خاموش رہا پھر وہ سرگوشی میں بولا:”اگر خوش حالی چاہتے ہو تو جنگل کے شمال کی طرف میری کٹیا ہے،وہاں آجانا۔“ یہ کہہ کر وہ ایک طرف کو چل دیا۔سپہ سالار اسے گھورتا ہی رہ گیا۔سپہ سالار کی زندگی نہایت ہی پر سکون طریقے سے گزر رہی تھی کہ ایک دن اس کی بیوی نے فرمائش کر دی کہ اسے بڑا سا محل جیسا گھر چاہیے۔(جاری ہے)اس پر وہ بولا:”نیک بخت!موجودہ تنخواہ میں،میں تمہارے لئے محل جیسا گھر کیسے بنوا سکتا ہوں؟“وہ بولی:”میں کچھ نہیں جانتی،تم سے کم عہدے والوں نے اتنے اچھے اچھے گھر بنوا لیے ہیں اور ہم ابھی تک اس پرانے گھر میں رہ رہے ہیں۔“وہ روز روز کی تکرار سے تنگ آچکا تھا۔اچانک اسے اس بھکاری کا خیال آگیا جو کچھ عرصے پہلے اسے بازار کے کونے پر ملا تھا اور جو کہہ رہا تھا کہ خوش حالی چاہیے تو جنگل کے شمال کی طرف میری کٹیا ہے وہاں آجانا۔اس نے اپنے گھوڑے پر زین باندھی اور جنگل کی شمالی سمت چل پڑا۔کچھ دور جنگل میں اسے ایک کٹیا نظر آئی۔اس نے اپنا گھوڑا ایک درخت کے ساتھ باندھا اور کٹیا کے اندر داخل ہو گیا۔اندر وہی بھکاری موجود تھا۔بھکاری نے اسے دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی وہ بولا:”مجھے معلوم تھا کہ تم ضرور آؤ گے۔“سپہ سالار بولا:”تم میرے لئے خوش حالی کی بات کر رہے تھے۔مجھے اپنی بیوی کے لئے محل نما گھر چاہیے۔“بھکاری نے قریب رکھے ہوئے صندوق میں سے اشرفیوں سے بھری چار تھیلیاں نکالیں اور اسے دیتے ہوئے بولا:”میں تمہیں صرف ایک کام کے بدلے اشرفیوں سے بھری ایسی ہزار تھیلیاں دے سکتا ہوں۔“سپہ سالار اُچھلتے ہوئے بولا:”کیا کہا!ہزار تھیلیاں؟ان سے تو میں دس محل بنوا سکتا ہوں،مگر کام!کام کیا ہے؟“اس کے لہجے میں تجسس تھا۔بھکاری بولا:”تمہیں اپنے ملک کے کچھ اہم فوجی راز مجھے دینے ہوں گے۔“سپہ سالار اُچھل پڑا:”کیا!یہ تم کیا کہہ رہے ہو!کون ہو تم؟“بھکاری بولا:”سوالات مت کرو،خوش حالی ایسے ہی نہیں آجاتی۔کہو،سودا منظور ہے؟“سپہ سالار کافی دیر تک سوچتا رہا۔آخر اس نے رضا مندی میں سر ہلا دیا اور دوسرے دن کچھ اہم راز بھکاری کے حوالے کر دیے۔اس نے اپنے ضمیر کا سودا تو کر لیا تھا،مگر وہ بے چینی محسوس کر رہا تھا۔کچھ دنوں سے وہ ایک ہی قسم کا خواب دیکھ رہا تھا۔نہ جانے کیوں اس نے خواب کی تعبیر خود ہی سوچ لی کہ وہ مرنے والا ہے۔آج رات اسے پھر وہ خواب نظر آیا۔وہ بے چین ہو گیا،اس سے رہا نہ گیا اور وہ آدھی رات کو ہی شاہی نجومی کے گھر پہنچ گیا۔دستک سن کر شاہی نجومی آنکھیں ملتا ہوا باہر آیا۔اس نے اتنی رات کو اپنے دروازے پر سپہ سالار کو دیکھا تو وہ چونک اُٹھا:”خیریت تو ہے۔آپ اتنی رات کو میرے دروازے پر!“سپہ سالار بولا:”ہاں،دراصل ایک ہی خواب مجھے کئی بار نظر آیا ہے۔میں پریشان ہوں،مجھے اس کی تعبیر بتائیے۔“شاہی نجومی اسے لے کر اندر آیا اور اس سے خواب سنا۔خواب سننے کے بعد وہ بولا:”اس کی تعبیر یہ ہے کہ اب آپ صرف تین دن تک آسمان دیکھ پائیں گے،اس کے بعد․․․․“”بس آگے ہم جانتے ہیں۔ہمیں بس آپ کی تصدیق درکار تھی،سو وہ حاصل ہوئی۔ہم معافی چاہتے ہیں کہ اتنی رات میں آپ کو ناحق تکلیف دی۔“یہ کہہ کر وہ فوراً باہر کی طرف چل دیا۔شاہی نجومی اُسے ہکا بکا جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا۔صبح سویرے ہی سپہ سالار محل روانہ ہوا۔وہ بادشاہ سے فوراً ملاقات کرنا چاہتا تھا۔بادشاہ سلامت کے طلب کرنے پر وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا:”بادشاہ سلامت!میں آپ سے آج ایک اہم بات کرنے والا ہوں۔“”ہاں کہو،ہم ہمہ تن گوش ہیں۔“بادشاہ بولا۔سپہ سالار سر جھکاتے ہوئے بولا:”بادشاہ سلامت!میں اب اس دنیا میں تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا،مگر دنیا سے جانے سے پہلے میں اپنے جرم کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں ،تاکہ اپنابوجھ کم کرکے اس دنیا سے رخصت ہوں۔“”کیا جرم کیا ہے تم نے؟“بادشاہ نے پوچھا۔”سپہ سالار بولا:”دراصل دولت کی لالچ میں آکر میں نے اپنے ملک کے کچھ دفاعی راز پڑوسی ملک کو فراہم کر دیے ہیں۔“”کیا!یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟“بادشاہ نے غصے میں کہا۔”جی ہاں ،اور وہ بہت جلد ہمارے ملک پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔“سپہ سالار بولا۔یہ سن کر بادشاہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ غصے سے بولا:” تم نے غداری کی ہے اور اس کی سزا موت ہے۔“بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیتے ہوئے کہا:”لے جاؤ،اسے اور زندان میں ڈال دو،کل ہم اسے سر عام پھانسی دیں گے۔“ابھی سپاہی اسے پکڑ کر لے جاہی رہے تھے کہ اچانک باہر سے دو سپاہی بھاگتے ہوئے آئے اور بولے:”بادشاہ سلامت!مجھے صرف ایک موقع دیں۔مرنے سے پہلے میں کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔میں نے دشمنوں کو راز دیا ہے تو میں اس کا تدارک بھی میں ہی کر سکتا ہوں۔آپ مجھ پر بھروسا رکھیے۔“بادشاہ سلامت نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا:”ٹھیک ہے،مگر میرے سپاہی تم پر مسلسل نظر رکھیں گے۔“اس نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا اور تلوار لہراتا ہوا دشمنوں کی طرف لپکا۔جنگ مسلسل تین دن تک جاری رہی۔سپہ سالار نے جو کہا تھا،سچ کر دکھایا۔دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔جنگ کے بعد اب سپہ سالار بادشاہ کے رو برو کھڑا تھا۔بادشاہ بولا:”گو کہ تم پھانسی کی سزا کے مستحق ہو، لیکن تم نے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرتے ہوئے دشمنوں کو خاک چٹائی ہے،اس لئے ہم تمہاری پھانسی کی سزا ختم کرکے معمولی سزا دے رہے ہیں،یعنی سال بھر کے لئے اندھیرے کنویں میں رہنے کی سزا۔“وہ بولا:”لیکن میں نے جو خواب دیکھا تھا اس کے مطابق تو میری موت واقع ہونی تھی۔شاہی نجومی نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔“بادشاہ بولا:”موت تو برحق ہے اور ہر شخص کو اس کا مزہ چکھنا ہے۔اگر تم یہ گناہ کرنے سے پہلے ہی اپنی موت کو یاد رکھتے تو کبھی اس گناہ کے مرتکب نہ ہوتے۔کیا ضروری ہے کہ جب انسان اپنی موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھے جب ہی گناہوں سے باز آئے۔جب موت برحق ہے تو انسان اسے یاد کرکے اپنے گناہوں سے کیوں باز نہیں آتا۔“یہ کہہ کر بادشاہ خاموش ہو گیا۔سپاہی جب اسے لے جانے لگے تو پاس ہی شاہی نجومی بھی کھڑا تھا۔وہ نجومی سے بولا:”اس کا مطلب ہے کہ تمہاری بتائی ہوئی تعبیر غلط تھی؟“نجومی بولا:”میری تعبیر غلط نہیں تھی،آپ ادھوری بات سن کے روانہ ہو گئے تھے،یعنی میں نے ادھوری تعبیر سنی تھی۔“ادھوری تعبیر،کیا مطلب؟“سپہ سالار نے پوچھا۔نجومی نے کہا:”میں نے کہا تھا کہ آپ صرف تین دن تک آسمان دیکھ پائیں گے،اس کے بعد․․․․آپ پوری بات سنے بغیر اپنی موت ازخود تجویز کرتے ہوئے چلے گئے تھے۔پوری تعبیر یہ تھی کہ آپ تین دن تک سورج دیکھ سکو گے،اس کے بعد آپ بہت دنوں تک ایک ایسی جگہ رہیں گے،جہاں سے آپ سورج نہیں دیکھ پائیں گے۔“ " رکشے والا سیٹھ - تحریر نمبر 1790,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rikshey-wala-saith-1790.html,"م۔ندیم علیگکریم بھائی کا ہینڈ بیگ کھو گیا تھا۔وہ بینک سے روپیہ نکال کر اپنی کار میں بیٹھے اور راستے میں دو تین جگہوں پر دوستوں سے ملاقات کرنے کو رکے۔فون کرکے انہوں نے دریافت بھی کر لیا،مگر ان کے بیگ کا پتا نہیں چل سکا۔اس بیگ میں اسی ہزار روپے تھے،مگر ان کو روپوں کی اتنی فکر نہیں تھی جتنی ان اہم کاغذات کی تھی جو اسی بیگ میں تھے۔دراصل اس میں ایک بڑی تجارتی کمپنی سے مال ایکسپورٹ کرنے کا معاہدہ اور آرڈر تھا اور کچھ کاغذات حساب کتاب سے متعلق تھے۔اگر یہ کاغذات اور روپے کسی ملازم سے کھو جاتے تو یقینا اس پر چوری یا غبن کا الزام لگا کر اس کو پولیس کے حوالے کر دیتے،مگر یہ غلطی تو ان سے ہی ہوئی تھی،اس لئے وہ کسی پر غصہ بھی نہیں اُتار سکتے تھے۔(جاری ہے)بھلا جس کو اتنی بڑی رقم ملے گی وہ کیوں واپس کرے گا!وہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئے جا رہے تھے اور ساتھ میں ہونے والے نقصان کا حساب لگا رہے تھے۔وہ دن اور تمام رات بہت بے چینی سے گزرا۔ان کا ارادہ تھا کہ وہ اخبار میں اشتہار دے دیں کہ جو بھی اس بیگ کو تلاش کرکے ان تک پہنچائے گا اس کو بیس ہزار روپے انعام دیں گے۔ دوسرے دن کچھ لوگ ان سے ملنے آنے والے تھے ان سے بھی ملاقات نہیں کی اور نوکر سے کہلوا دیا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔نوکر ڈرتے ڈرتے بولا:”حضرت!ایک آدمی آپ سے ملنا چاہتا ہے۔“”میں نے تم سے کہہ دیا کہ میں بہت پریشان ہوں۔میں کسی سے نہیں ملوں گا۔“وہ غصے سے بولے۔”مگر وہ کہتا ہے کہ آپ سے بہت ضروری کام ہے۔آپ کی امانت واپس کرنا ہے۔“”امانت کیسی امانت“انہوں نے سوچا اور پھر بولے:”بلاؤ!شاید وہ میرے بیگ کا کچھ بتا سکے۔دیکھو چلا نہ جائے۔“تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان ان کے سامنے کھڑا تھا۔اس نے پوچھا:”کیا آپ کا نام کریم بھائی ہے۔“”ہاں ہاں میرا نام کریم ہے۔“”کیا آپ کی کوئی چیز کھوئی ہے؟“”میرا روپوں کا بیگ ہے اس میں اسی ہزار روپے اور کاغذات ہیں۔“کریم بھائی نے کھڑے کھڑے ہی جواب دیا۔پھر خیال آیا کہ بد حواسی میں اس نوجوان سے بیٹھنے کو بھی نہیں کہا تو بولے:”میاں صاحب زادے!بیٹھو بیٹھو۔“اس نوجوان نے کپڑے سے لپٹا ہوا بیگ نکالا اور ان کو تھماتے ہوئے کہا:”جناب!اس میں آپ کی ساری امانت ہے،آپ رقم گن لیں۔یہ مجھے ایک کار کے قریب پڑا ملا تھا۔میں نے سوچا،یقینا کار سے اُترتے ہوئے گر گیا ہو گا۔اس سے پہلے کہ کوئی چور اُٹھا کر لے جائے،اسے اس کے مالک تک پہنچا دینا چاہیے۔میں اِدھر اُدھر پتا کرنے لگا۔واپس آیا تو وہ کار جا چکی تھی۔مجبوراً پتا معلوم کرنے کے لئے مجھے بیگ کھولنا پڑا۔“کریم بھائی نے بیگ کھولا اور اس میں سے کاغذات کو نکال کر ان کو چوما،کیوں کہ وہی سب سے زیادہ قیمتی تھے۔پھر دس ہزار کی ایک گڈی نکال کر اس نوجوان کی طرف بڑھا دی اور بولے:”صاحب زادے!تم نے مجھے بہت بڑی پریشانی اور نقصان سے بچا لیا۔اللہ تم کو خوش رکھے۔یہ انعام نہیں،بلکہ نذرانہ ہے۔“نوجوان نے سادگی سے کہا:”جناب والا!ایمان داری کا اپنا انعام آپ ہے۔میں نے یہ کام کسی انعام کے لالچ میں نہیں کیا۔اگر آپ کا پتا نہیں ملتا تو میں اسے پولیس کے حوالے کر دیتا۔“کریم بھائی نے بہت اصرار کیا،مگر نوجوان نے انعام کی رقم لینے سے انکار کر دیا۔ کریم بھائی اس کی ایمان داری اور سادگی سے بہت متاثر ہوئے اور اس سے اس کے خاندان کے بارے میں گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ نوجوان کا نام ناصر حسین ہے اور کسی پرائیوٹ کمپنی میں کلرک ہے گھر میں بوڑھے ماں اور باپ ہیں۔اور پھر ناصر حسین نے ایک ایسا واقعہ سنایا کہ جس کو سن کر کریم بھائی کے دل و دماغ میں بے چینی پیدا ہو گئی۔”دراصل میرے والد کے ساتھ اسی قسم کا حادثہ پیش آچکا ہے۔میری عمر اس وقت آٹھ دس سال کی تھی میرے والد اپنی پینشن اور فنڈ کا چیک کیش کرا کر ایک آٹو رکشہ میں آرہے تھے۔راستے میں میرا سکول تھا۔وہ مجھے سکول سے لے کر خوش خوش گھر واپس آرہے تھے۔میں کلاس میں فرسٹ آیا تھا۔ان کو اپنا رزلٹ کارڈ دکھلا رہا تھا۔اس خوشی میں انہوں نے آٹو رکشہ رکوا کر ایک دوکان سے مٹھائی خریدی اورکچھ دوسرا سامان بھی خریدا تھا۔بد قسمتی سے روپوں کا تھیلا آٹو رکشے میں رہ گیا جس میں بیس ہزار روپے تھے۔میری بہن کی شادی ہونے والی تھی اور ابا نے یہ روپے اس کی شادی کے لئے نکالے تھے۔آٹو رکشہ والے کو ہم نے بہت تلاش کیا اور پولیس میں رپورٹ بھی لکھوادی،لیکن اتنے بڑے شہر میں کسی شخص کا ملنا نا ممکن تھا جس کو ہم جانتے بھی نہ ہوں۔میری اماں اور ابا کو بہت صدمہ ہوا ان کی تمام عمر کی کمائی یہی رقم تھی اور پھر میری بہن کی شادی ہونے کو تھی،مگر میرے ابا بہت صابر انسان ہیں۔انہوں نے اس آٹو رکشے والے کو نہ بد دعا دی اور نہ کوسا،بلکہ جب بھی اماں کچھ اس کے بارے میں بُرا بھلا کہنے لگتیں تو ابا منع کر دیتے اور کہتے:”صبر کرو منے کی اماں!شاید اللہ کی کوئی بہتری اس میں پوشیدہ ہو۔شاید اس آدمی کو ان روپوں کی ہم سے زیادہ ضرورت ہو۔اللہ رازق ہے ہمیں کہیں اور سے دے دے گا۔شاید وہ رقم ہماری قسمت میں نہیں تھے۔میرے ابا نے اپنے آبائی مکان کو فروخت کر دیا اور میری بہن کی شادی میں ان روپوں کو خرچ کیا اور ہم لوگ ایک کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔میں نے کسی طرح سے ہائی سکول پاس کیا اور ایک کمپنی میں نوکری کرلی۔مجھے یہ بیگ پاکر احساس ہوا کہ اس کے مالک کو اس کے کھو جانے سے نہ جانے کتنا بڑا نقصان پہنچے اس لئے جلد سے جلد یہ امانت اس کے سپرد کر دینی چاہیے۔بس میری یہ خواہش ہے کہ میں اس قابل ہو جاؤں کہ اپنا پرانا مکان پھر حاصل کرلوں۔“”ناصر میاں!تمہاری کہانی بہت دکھ بھری ہے۔اس سے مجھے بہت بڑا سبق حاصل ہوا۔مجھے یقین ہے کہ ایک دن تم اپنا مکان ضرور حاصل کرلو گے۔میری کمپنی میں ایک اکاؤنٹ کے آدمی کی ضرورت ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ تم اس کے لئے موزوں شخص ہو۔کیا تم میری کمپنی میں کام کرنا پسند کرو گے۔ہاں یہ تم پر کوئی احسان نہیں کررہا ہوں،بلکہ تمہاری ایمان داری ہماری کمپنی کے لئے انعام ہو گی۔“”مجھے آپ کی کمپنی میں،آپ کی نگرانی میں کام کرکے بہت خوشی ہو گی جناب!مگر میں اپنے ابا جی سے بھی رائے لے لوں۔“ناصر نے جواب دیا۔”ہاں میں تمہارے ابا سے جلد ہی ملوں گا۔مجھے یقین ہے کہ ان کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا کہ تم میری کمپنی میں کام کرو اور اگر اعتراض ہو گا تو میں ان کو منالوں گا۔“کریم بھائی نے ناصر کی پیٹھ تھپ تھپائی۔اب ناصر حسین کریم بھائی کی کریم آٹو کمپنی میں اکاؤنٹینٹ تھا اور ساٹھ ہزار روپے ماہانہ پاتا تھا اور کمپنی کی گاڑی اس کو گھر لے جاتی تھی اور گھر چھوڑنے آتی تھی۔اس واقعے کو ایک سال بیت چکا ہے۔ناصر حسین کے گھر کا نقشہ بدل چکا ہے۔اب اس کے پاس اتنی رقم ہے کہ وہ اپنا پرانا مکان خرید سکتا ہے۔وہ اپنے ابا کو لے کر اپنے پرانے مکان کو دیکھنے جاتا ہے تو ان کو بہت مایوسی ہوتی ہے۔اس مکان کی تو صورت ہی بدل چکی تھی۔اب وہاں دو منزلہ خوب صورت عمارت کھڑی تھی جس کی قیمت کئی لاکھ ہو گی اور ابھی اس کی آرائش کا کام چل رہا تھا۔دریافت کرنے پر پتا چلا کہ کسی امیر آدمی نے اس کو ایک سال قبل خرید لیا تھا اور سال بھر سے یہاں تعمیر جاری تھی۔ناصر حسین نے ٹھنڈی سانس لی اور ابا سے بولا:”ابا میاں!شاید اب ہم اپنا مکان واپس نہ لے سکیں گے۔“باپ نے بیٹے کے سر پر محبت سے ہاتھ رکھا اور کہا:”بیٹا!شاید اللہ کی کوئی مصلحت ہماری بہتری کے لئے،اس میں ہو گی۔اس کا شکر ادا کرو کہ ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔“کریم بھائی ایک دن اچانک ناصر حسین کے گھر پہنچ گئے اور ناصر کے والد سے اپنا تعارف کرایا:”مجھے کریم بھائی کہتے ہیں۔ناصر میاں میری کمپنی میں کام کرتے ہیں۔بہت محنتی اور لائق نوجوان ہیں۔“کریم بھائی نے کہا۔”جناب والا! آپ کا کس زبان سے شکریہ ادا کروں۔آپ کا بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے ناصر کو اپنی کمپنی میں کام دیا اور اس پر اعتبار کیا۔ابھی تو وہ ناتجربے کار ہے۔“ناصر کے والد نے کہا۔”محترم!تجربے کے لئے عمر کی قید نہیں ہوتی۔کبھی کبھی نوجوان جلد وہ تجربے حاصل کر لیتے ہیں جو ہم بوڑھے لوگ بھی مدتوں نہیں کر پاتے۔“کریم بھائی نے ہنس کر کہا۔”میں آپ کی کیا خدمت کروں۔آپ مجھے حکم دیتے تو میں آپ کے دولت خانے پر حاضر ہو جاتا۔میں غریب آدمی ہوں،آپ بہت بڑے انسان ہیں۔آپ کا یہ احسان ہے کہ مجھے یہ عزت بخشی۔“ناصر کے باپ نے کہا۔”آپ مجھے شرمندہ نہ کریں،میں ایک گناہ گار انسان ہوں۔آپ کی خدمت میں حاضری میرے لئے ایک نئی زندگی کا باعث ہے۔“کریم بھائی نے ناصر کے والد کے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا۔”ارے یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔اللہ نے آپ کو دولت ،عزت،راحت ہر چیز دی ہے۔آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے ۔آپ اللہ کے نیک بندے ہیں۔“”بھائی صاحب!یہ واقعی اللہ کا رحم و کرم ہے کہ وہ اپنے گناہ گار بندوں کو بھی نعمتوں سے نوازتا ہے،مگر میں واقعی گناہ گار ہوں اور بہت دکھی انسان ہوں۔“کریم بھائی نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔”ناصر میاں نے بتایا تھا کہ اب سے تقریباً پندرہ سال پہلے کوئی آٹو رکشے والا آپ کے روپوں کا تھیلا لے کر بھاگ گیا تھا۔“”جی ہاں،مجھے وہ حادثہ کل جیسا لگتا ہے،مگر اب اس کے دہرانے سے کیا حاصل۔اللہ کرے کہ وہ رقم اس آٹو رکشے والے کے لئے آرام کا باعث ہوئی ہو۔“ناصر کے ابا نے جواب دیا۔”ہوا یہ کہ جب آٹو رکشے والا گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پیچھے کی سیٹ پر ایک تھیلا رکھا ہوا ہے۔اس نے تھیلا کھولا تو اس میں بیس ہزار روپے تھے۔اس نے سوچا کہ یہ روپے واپس کردوں اور اس کو شیطان نے بہکایا کہ یہ بے وقوفی مت کرنا یہ تو تمہاری قسمت کے ہیں رکھ لو۔اس آٹو رکشے والے نے وہ رقم واپس نہیں کی اور آٹو رکشہ چلانا چھوڑ کر ورک شام قائم کرلی۔اس چوری کی رقم سے اس نے مشین خریدی۔کام چلا نکلا۔پھر ایک پرزوں کا کار خانہ قائم کیا۔سرکار سے قرضہ لے کر کام بڑھایا اور پندرہ سالوں میں وہ لکھ پتی بن گیا۔اب کاروں کے پرزے اس کے کا خانے میں بنتے ہیں اور بھی کئی کام کر لیے ہیں،مگر اس کا دل اس کو برابر ملامت کرتا ہے کہ اس نے بہت بڑا گناہ گیا ہے۔وہ آپ کی رقم مع جرمانے کے واپس کرنا چاہتا ہے۔“”مگر سیٹھ صاحب!آپ کو یہ سب کیسے معلوم ہوا؟“”اجی مجھے کیسے معلوم ہوتا۔اسی آٹو رکشے والے نے مجھے یہ سب بتایا ہے۔“”تو آپ اسے جانتے ہیں۔“”خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔“”تو کیا آپ مجھے اس سے ملوادیں گے؟“”اجی وہ آپ کے پاس سرکے بل آئے گا،مگر بھائی جان! ایک شرط ہے کہ آپ اسے دل سے معاف کر دیں گے۔وہ بہت شرمندہ ہے۔شیطان نے اسے بہکا دیا تھا۔وہ کہتا ہے کہ آپ کا مکان بھی آپ کو واپس کر دے گا۔“کریم بھائی نے اس آٹو رکشے والے کی وکالت کی۔”مگر جناب!وہ مکان تو کسی سیٹھ نے خرید لیا ہے اور اس پر لاکھوں روپے خرچ کیے ہیں۔بھلا وہ مجھے کیوں ملے گا۔“”معافی کی شرط یہی ہے کہ مکان آپ کو واپس ملنا چاہیے۔بولیے منظور ہے؟“”جی․․․․مجھے منظور ہے۔میرا مکان مجھے مل جائے گا۔“ناصر کے والد نے خوش ہو کر کہا۔”تو آپ نے گویا اسے معاف کر دیا،سچے دل سے۔“”ہاں جناب!مگر اسے لائیے تو،ملوائیے تو ،کہاں ہے ہو۔“”جناب والا!وہ چور،وہ گناہ گار،وہ شیطان،نامعقول اور سزا کا مستحق انسان آپ کے سامنے کھڑا ہے۔جس کا نام سیٹھ کریم بھائی ہے۔“”ارے یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سیٹھ صاحب!یہ نہیں ہو سکتا۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“ناصر کے والد کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔”’جی ہاں یہ سب سچ ہے۔میں ہی ہوں وہ گناہ گار انسان جس نے آپ کو بہت صدمہ دیا۔میں آپ کے گزرے ہوئے پندرہ سال واپس نہیں کر سکتا اور نہ ان مصیبتوں کا جرمانہ ادا کر سکتا ہوں،مگر آپ کا مکان آپ کو واپس کرتا ہوں۔جس کو میں نے ایک سال قبل ناصر میاں سے پہلی ملاقات کے بعد ہی خرید لیا تھا اور یہ طے کرلیا تھا کہ آپ کا مکان بہترین شکل میں آپ کو واپس کروں گا۔مکان کے یہ کاغذات اب آپ کے ہوئے۔“ناصر میاں کے ابا نے کریم بھائی کو سینے سے لگالیا۔آپ بہت بڑے دل کے انسان ہیں۔احساس گنا ہ اور اس سے توبہ کرنا بہت بڑی بات ہے،میں نے آپ کو معاف کیا۔اللہ تعالیٰ بھی آپ کو معاف فرمائے۔کاش ہمارے ملک میں سارے سیٹھ آپ جیسے ہو جائیں۔“یہ سن کر کریم بھائی کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل پڑے۔ایک درخواست اور ہے اگر آپ قبول کرلیں تو مجھ پر بہت بڑا احسان ہو گا۔میری ایک بیٹی ہے۔میں چاہتا ہو کہ ناصر میاں جیسے نیک اور محنت نوجوان سے اس کی شادی ہو۔کیا آپ اس کی اجازت دیں گے؟“کریم بھائی بولے۔”ناصر آپ کا بیٹا ہے۔آپ بہ خوشی اس کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کر سکتے ہیں۔یہ ہماری خوش قسمتی ہو گی کہ ناصر آپ کی سر پرستی میں رہے۔“ناصر میاں کے والد نے آسمان کی جانب نظر اُٹھا کر کہا:”اے رب کریم تو جو بھی کرتا ہے ہماری بھلائی کے لئے کرتا ہے،تیرا شکر ہے۔“ " سخاوت - تحریر نمبر 1788,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sakhawat-1788.html,"انوار آس محمدمیری گاڑی بہت پرانی ہو چکی ہے۔اس وجہ سے آئے دن خراب ہوتی رہتی ہے۔اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔گاڑی خراب تھی،اس لئے مجھے جیسے ہی تنخواہ ملی،میں گاڑی کو اپنے مکینک کے پاس لے گیا۔مہنگائی اتنی ہے کہ بہت دیکھ بھال کر خرچ کرنا پڑتا ہے۔مکینک تو بہت مصروف تھا،اس لئے اس نے گاڑی اپنے ایک شاگرد کے حوالے کر دی اور میرے پاس آکر آہستہ سے کہا:”نجم صاحب!لڑکا نیا ہے،لیکن اپنے کام میں ماہر ہے۔بہت غریب ہے اس لئے میں نے کام پر رکھ لیا ہے۔“مجھے تو کام سے دلچسپی تھی،چاہے کوئی بھی کرے۔لڑکا گاڑی کی مرمت کرنے میں مصروف ہو گیا اور میں کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا۔وہ واقعی بہت مہارت سے کام کر رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد بات چیت شروع ہو گئی۔(جاری ہے)وہ بہت غریب تھا۔ماں گھروں میں کام کرتی تھی۔باپ بے چارا فالج کا شکار تھا اور کوئی کام نہیں کر سکتا تھا۔ایک بہن تھی جس کی شادی کرنا تھی۔اس کی شادی کے لئے پیسے بھی جمع کرنا تھے۔میں اس کی باتیں سنتا رہا اور اس پر ترس کھاتا رہا۔اچانک آواز آئی:”اللہ کے نام پر کچھ دے دے بیٹا!“دیکھا تو ایک فقیرنی تھی جس کا ایک ہاتھ بھی کٹا ہوا تھا۔ میں نے اپنا پرس نکالا۔دس روپے کا نوٹ تلاش کیا،لیکن نہیں ملا،نہ میرے پاس سکے تھے۔”معاف کرو اماں!“ میں نے کہا اور سوچنے لگا کہ میں تو خود مہنگائی کا مارا ہوں،میں زیادہ پیسے بھیک میں نہیں دے سکتا۔فقیرنی اُداس ہو کر آگے بڑھ گئی۔مکینک لڑکے نے جب اسے جاتے دیکھا تو آواز دے کر روکا:”اماں رکو۔“فقیرنی ٹھہر گئی اور لڑکے نے جلدی سے اپنی جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر فقیرنی کے حوالے کر دیا۔فقیرنی خوش ہو گئی اور اس کو دعا دیتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔میں اس غریب مکینک لڑکے کو حیرت سے دیکھنے لگا۔پچاس روپے کانوٹ اُف،پچاس کا نوٹ تو میرے پرس میں بھی تھا،لیکن میں نے فقیرنی کو نہیں دیا۔وہ غریب مکینک لڑکا بہت سخی نکلا۔غریب ہونے کے باوجود اس نے بوڑھی فقیرنی کی مدد کی۔”صاحب!بے چاری بوڑھی ہے ایک ہاتھ بھی نہیں ہے اس عمر میں کوئی کام بھی نہیں کر سکتی۔“لڑکے نے مجھے دیکھ کر کہا۔میں لڑکے کی بات سن کر حیران ہو رہا تھا۔مجھ جیسے لوگ اپنے اوپر ہزاروں روپے خرچ کر دیتے ہیں،لیکن اگر کوئی مانگ لے تو پانچ دس روپے سے زیادہ پیسے نہیں دیتے۔مجھے لڑکے کی سخاوت پر فخر ہونے لگا اور اپنے آپ سے شرمندہ ہونے لگا۔ " سب سے اچھا نمونہ - تحریر نمبر 1787,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sab-se-acha-namoona-1787.html,"شہید حکیم محمد سعیدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے سب سے اچھا نمونہ ہے۔حدیث و سیرت اور تاریخ کی کتابوں کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اسوہ حسنہ کی زیادہ پیروی ہی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو باتیں پسند تھیں، وہ ہمیں بھی پسند ہونی چاہیے۔جو چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نا پسند تھیں،وہ ہمیں بھی ناپسند ہونی چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو اخوت اور بھائی چارے کی سختی کے ساتھ تاکید فرماتے تھے۔اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہر مسلمان کو اپنا بھائی سمجھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیموں کے والی،محتاجوں کے داتا،بیواؤں کے سر پرست،مسلمانوں کے رہبر،حتیٰ کہ کافروں اور مشرکوں کے لئے بھی رحمت تھے۔(جاری ہے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا معیار دراصل ان کے اوصاف کو اپنانا ہے۔مسلمانوں کے ہادی برحق صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو سکتے ہیں،دوسرا کوئی نہیں۔پاکستان اسلام کا قلعہ ہے،مسلمانوں کا گہوارہ ہے۔اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کی حفاظت اور اس کی فلاح و بہبود کے لئے انتھک کوشش کرے،تاکہ مسلمانوں کا یہ محبوب وطن جو اسلام ہی کے نام پر حاصل ہوا ہے،غیروں کی شرارتوں کا شکار نہ ہو جائے۔اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے اور ہم مسلمانوں کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد اور نا قابل تسخیر بنائے۔ہم جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں،وہ اخلاق کے سب سے اعلیٰ مرتبے اور بلند ترین مقام پر فائز ہیں۔یہ بات میں نہیں لکھ رہا، کسی انسان کی بات نقل نہیں کر رہا ،بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔قرآن حکیم کی سورئہ القلم کی چوتھی آیت کا ترجمہ یہ ہے:”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز ہیں۔“خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”میں تو بھیجا ہی اس لئے گیا ہوں کہ اخلاق کی فضیلتوں کو کمال کے درجے تک پہنچا دوں۔“اور حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی بڑائیوں سے انسانی تاریخ روشن ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اخلاق کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ایسا نمونہ نہ پہلے دنیا نے دیکھا نہ آئندہ دیکھے گی۔مسلمان ہی نہیں،غیر مسلم بھی یعنی وہ لوگ بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہیں مانتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بلندیوں کو ماننے پر مجبور ہیں۔برطانوی مفکر جارج برنارڈشا نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجود ہوتے تو دنیا میں امن ہوتا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنوں کے ساتھ ہی نہیں،رشتے داروں کے ساتھ ہی نہیں، دوستوں کے ساتھ ہی نہیں،دشمنوں کے ساتھ بھی اخلاق برتے اور وہ عمدہ سلوک کیا جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی ہمارے لئے ہر لحاظ سے بہترین نمونہ ہے۔اگر ہم اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کریں تو دین اور دنیا دونوں کی بھلائی کے دروازے ہمارے لئے کھل جائیں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے،اس کے محبوب تھے،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان بھی تھے۔خود اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوایا ہے کہ:”میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔“ (سورئہ کہف،آیت 110)اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سے اعمال ہر انسان کے لئے قابل عمل ہیں اور ہر انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔یہ نہ سمجھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رسول تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سی بات مجھ میں کہاں!حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو زندگی کا آسان اور سچا طریقہ سکھایا اور جو کچھ فرمایا اس پر عمل کرکے بھی بتایا ،اس لئے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اس طریقے کو اپنائیں۔اسلام آسان دین ہے۔اسلام ایسا طریقہ زندگی ہے جس پر عمل کرنے سے انسان کو تکلیف نہیں ہو سکتی۔جس پر عمل کرنے سے انسان کو سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کو ہر مسلمان کے لئے فرض قرار دیا ہے۔سب سے بڑی دولت علم ہے۔روپیہ پیسہ آنے جانے والی چیز ہے،لیکن علم ہمیشہ رہنے والی،ہمیشہ طاقت دینے والی،ہمیشہ مدد کرنے والی چیز ہے۔ہم جتنا علم حاصل کریں گے،اتنے ہی خوش رہیں گے، لہٰذا ہمیں دولت حاصل کرنے یا بڑھانے کے بارے میں نہیں،اپنا علم بڑھانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ " ایک نیا عزم - تحریر نمبر 1786,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-naya-azm-1786.html,"لائبہ شکیل،لاہوررات تین بجے کا وقت تھا۔سب لوگ سو رہے تھے،لیکن وہ اب بھی ایک موم بتی کی روشنی میں بیٹھا کچھ پڑھ رہا تھا۔دل میں بہت سے مقاصد لئے محنت کرنے میں مصروف تھا۔یہ سکندر تھا جو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔اس کی عمر تقریباً پندرہ سال تھی۔اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا ،مگر اس کے پاس فیس کے لئے پیسے نہ تھے۔وہ اپنے ابا کے ساتھ سردار صاحب کے گھر ملازمت کرتا تھا۔سردار کا بھی ایک بیٹا تھا۔جس کا نام حیدر تھا۔وہ حیدر سے اس کی پرانی کلاسوں کی کتابیں لے کر پڑھتا تھا۔اس طرح پانچویں جماعت تک تو پڑھ لیا،مگر آگے پڑھائی مشکل تھی۔اب حیدر کی کتابوں سے پڑھنا ناممکن تھا۔انہی سوچوں میں کب رات گزری پتا ہی نہیں چلا۔اگلی صبح سکندر اپنے باپ کے ساتھ کام پر جانے کے لئے تیار ہوا۔(جاری ہے)آج وہ کچھ اُداس سا تھا۔کام میں بھی کچھ دل نہ لگ رہا تھا۔تب ہی سردار صاحب کا ایک دوست گھر آیا۔جب اس نے سکندر کو پریشان دیکھا تو اس سے وجہ پوچھی۔پہلے تو سکندر کچھ ہچکچایا،لیکن پھر سب کچھ کہہ ڈالا۔سردارصاحب کے دوست بولے:”بیٹا!وقت بدلتے پتا نہیں چلتا۔کب لاٹھی کس کے ہاتھ میں ہو۔ایک وقت تھا کہ میں تمہاری جگہ میں موجود تھا۔“یہ سن کر سکندر حیران ہو گیا۔”ہاں بیٹا! ٰیہی سچ ہے! لیکن اس وقت ایک ہمدرد آدمی نے میری مدد کی تھی اور مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں بھی کسی ضرورت مند طالب علم کی مدد کروں گا۔تو بیٹا! آج مجھے تمہاری صورت میں وہ ضرورت مند طالب علم مل گیا ہے۔اب تمہیں بھی مجھ سے وعدہ کرنا ہو گا کہ تم بھی کسی ضرورت مند طالب علم کی مدد کرو گے۔“یہ کہہ کر وہ سکندر کو لئے ایک سکول کی طرف بڑھے۔وقت نے کیسے پہیے لگائے پتا ہی نہیں چلا۔آخر دس سال گزر گئے۔ایک بہت عمدہ اور چمک دار لباس میں ملبوس ایک شخص ٹیبل پر بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔جب اس کی نظر ایک بچے پر پڑی جو کہ کاغذ کے ٹکڑے اکٹھے کر کے انھیں پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کی آنکھوں کی چمک نے اسے اپنا بچپن یاد کرادیا۔وہ آدمی سکندر تھا۔جب اس نے بچے کو دیکھا تو اسے سردار صاحب کے دوست سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا۔وہ اپنی ٹیبل سے اُٹھ کر بچے کے قریب پہنچا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ " ہماری ذہانت - تحریر نمبر 1785,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hamari-zehanat-1785.html,"صدیق الرحمن شاہ،سرگودھاامتحان میں جب میری اول پوزیشن آئی تو خوشی سے نہال ہو گیا۔امی ابو نے سراہا اور خاندان کی دعوت کر دی۔دراصل لاڈلا بیٹا تھا،مگر افسوس امی،ابو کی خواہش و کوشش کے باوجود مہنگی ٹیوشن بھی مجھے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ دلا پائی کہ جس پر میں یا امی ابو فخر کرسکتے،مگر اس بارچوں کہ اول آیا تو خاندان بھر کی دعوت کر ڈالی۔مقررہ دن میرے ہم عمر کزنز،چچا،تایا،پھوپھی وغیرہ سب میری اس کامیابی پر خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔میں سب کی آنکھوں میں اپنے لئے عزت اور انوکھی سی اپنائیت محسوس کر رہا تھا۔ہاں اگر کوئی میری کامیابی سے متاثر نہیں تھا تو وہ میری آپی جان۔ان کے مطابق یہ کوئی کمال نہ تھا ۔اس بات نے مجھے مزید طیش دلا دیا کہ بقول آپی یہ کامیابی میری ذاتی محنت کا نتیجہ نہ تھی۔(جاری ہے)ہم دونوں میں ٹھن گئی۔میں نے کہا کہ اگر آپ کو یقین نہیں تو آپ مجھ سے نصابی کتب تو کیا ان کے علاوہ بھی جو سوال کرنا چاہتی ہیں،کریں ۔یہ بات میں نے دراصل اس لئے کہی تھی کہ آپی کا روز مرہ کا ایک بڑا عتراض یہ بھی تھا کہ میں نصابی کتابوں کے رٹے لگاتا ہوں مزید کسی موضوع پر نہ کبھی سوچا ہے نہ غور و فکر کیا ہے۔”ٹھیک ہے شام کو ابو اور امی کی موجودگی میں،میں تمہارا امتحان لوں گی۔“آپی نے کہا اور چھت پر چلی گئیں۔وہ رسائل اور کتب جن پر کبھی نگاہ التفات بھی نہ ڈالی تھی،آج میں امتحان کی تیاری کے لئے کھولے بیٹھا تھا۔نہ جانے کیسا امتحان ہو گا۔لکھنے والا یا سنانے والا۔کون کون سے سوالات ہوں گے۔جوابات دے بھی پاؤں گا یا آج میری شیخی کی اُڑتی ہوئی جھاگ بیٹھ جائے گی۔فیصلہ شام کو ہونا تھا۔جلد ہی امتحان گاہ یعنی طے شدہ کمرے میں پہنچے۔آپی ایسے بیٹھی تھیں جیسے جج مجرم کے کٹہرے میں آنے کا انتظار کر رہا ہو۔امی ابو ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے۔”میں صرف ایک سوال کروں گی۔“آپی نے کہا۔”کیا․․․․․صرف ایک سوال؟“ہم تینوں کے منہ سے بہ یک وقت نکلا۔”ہاں!صرف ایک سوال اور وہ یہ کہ تمہیں روز بیس روپے کا نوٹ جیب خرچ کے لئے ملتا ہے۔اس نوٹ پر 20 کا عدد کتنی مرتبہ لکھا ہوتا ہے؟“اس بے وقوفانہ اور عام سے سوال پر میں دل میں ہنسا اور جھٹ سے بولا:”گیارہ مرتبہ۔“میں یہ کام پہلے ہی کسی کے پوچھنے پر کر چکا تھا۔”غلط“۔آپی کا فیصلہ میری توقع کے خلاف تھا۔بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کھیل کو دوستوں کے ساتھ کئی مرتبہ کھیل چکا تھا۔پورے نوٹ کو کئی مرتبہ الٹ پلٹ کر ”11مرتبہ “ سے زائد ”20“ نہ تلاش کر سکا۔وہ بھی صرف ریاضی کے ہندسوں میں نہیں،بلکہ انگریزی میں لکھا”Twenty“ اور اردو میں لکھا”بیس“بھی شامل کر چکا تب ہی بہ مشکل گیارہ بن سکے۔پھر آپی سے ہی پوچھا توانھوں نے کہا کہ سینکڑوں مرتبہ۔میں حیران رہ گیا۔آخر انھوں نے نوٹ کے اگلے اور پچھلے طرف بنی تین لکیروں کی طرف اشارہ کیا۔پہلے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا،مگر پھر عدسے کی مدد سے دیکھا تو یہ لکیریں نہیں بلکہ ان کی جگہ ننھے ننھے”20“ جگمگا رہے تھے۔ اگر نوٹ کو دائیں طرف سے دیکھنا شروع کریں تو ایک لکیر قائداعظم کی ٹوپی سے جا ملتی ہے۔چور نظروں سے آپی کی طرف دیکھا تو وہ اس ادا پر مسکرادیں اور مجھے ان کے روز مرہ کے اعتراض میں صداقت نظر آنے لگی۔سوال تھا تو غیر متعلقہ،مگر میری نالائقی کو ثابت کر گیا۔ " امانت - تحریر نمبر 1784,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/amanat-1784.html,"پروفیسر ڈاکٹر ایف ایچ فاروقیآج سے تقریباً دو سال قبل میں ایک شادی میں شرکت کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ ٹرین میں کراچی سے لاہور آرہا تھا۔گاڑی روہڑی اسٹیشن سے گزری تو ہم ددنوں نے کھانا کھایا اور اپنی اپنی برتھ پر لیٹ گئے۔اچانک گاڑی میں موجود لوگوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ ٹرین میں آگ لگ گئی ہے۔آگ انجن کے نزدیک دو بوگیوں میں لگی تھی،مگر گاڑی ہوا کی رفتار سے جا رہی تھی،لہٰذا آگ کے شعلے بڑی تیزی سے دوسری بوگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔لوگوں نے زنجیر کھینچ کر گاڑی روکنے کی کوشش کی اور آخر گاڑی ایک زبردست جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔جان بچانے کے لئے لوگوں نے ٹرین سے چھلانگیں لگا دیں۔بہت سے لوگ انسان دوستی کے جذبے سے کمزور اور پھنسے ہوئے مسافروں کی مدد کر رہے تھے۔(جاری ہے)میں بھی اس نیکی کے کام میں اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر لوگوں کی مدد کرنے لگا۔ہماری بوگی انجن سے ذرا دور تھی،اس لئے تپش کم تھی۔قریبی گاؤں کے لوگ بھی مسافروں کی مدد کے لئے آگئے تھے۔ہر طرف چیخ پکار کی آوازیں گونج رہی تھیں۔اچانک میری نظر ایک بوڑھی عورت کی طرف پڑی جو ایک بھاری صندوق کے نیچے دبی ہوئی تھی اور بُری طرح زخمی تھی۔اس کے سر اور منہ سے خون نکل رہا تھا۔میں اس بوڑھی عورت کے قریب پہنچا اور اس کے اوپر سے بکس ہٹایا تو اس نے اشارے سے اور بڑی دھیمی آواز میں کہا:”بیٹا! یہ ایک کالے رنگ کا بیگ ہے جو میری بیٹی کی امانت ہے۔تم اس بیگ کو میری بیٹی تک پہنچا دینا۔“میں نے بیٹی کا نام اور پتا معلوم کرنے کی کوشش کی تو اس کے منہ سے صرف اتنا نکلا کہ وہ ملتان میں رہتی ہے اور اس کا نام رضیہ ہے اور وہ سکول سکول․․․․․․“ یہ کہتے کہتے بڑھیا کی جان نکل گئی۔میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ اس کالے بیگ کو اپنے سامان کے ساتھ محفوظ کرلے ،کیونکہ اگر پولیس آگئی تو ہمیں کوئی چیز اُٹھانے نہیں دے گی۔لہٰذا ہم نے وہ بیگ اپنے سامان کے ساتھ محفوظ کر لیا۔گھر پہنچنے کے بعد بوڑھی عورت کی امانت کو اس کی لڑکی تک پہنچانا چاہا،مگر پتا نا مکمل تھا۔پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے بیٹے کے ساتھ ملتان آیا اور مختلف اسکولوں میں رضیہ نام کی استانی یا اس نام کے کسی دوسرے اسٹاف کے بارے میں معلوم کیا ،تاکہ یہ بیگ ہم اسے دے دیں۔ہماری تمام تر کوشش کے باوجود وہ لڑکی نہ مل سکی اور ہم واپس لاہور آگئے۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک بار پھر ہمارا ملتان جانا ہوا۔اس بار ایک عزم کے ساتھ رضیہ کی تلاش شروع کر دی۔اب ہم جس جگہ بھی جاتے لوگوں سے رضیہ نامی لڑکی کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس نے بتایا کہ وہ نام تو نہیں جانتا البتہ ہمارے محلے میں ایک عورت رہتی ہے جس کی والدہ کا انتقال ٹرین کے حادثے میں ہوا تھا۔ہم اس شخص کے ہمراہ وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ اس کا نام رضیہ ہے اور وہ سکول کے قریب ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی ہے۔مزید معلوم کرنے پر رضیہ نے بتایا کہ ماں کے پاس میرا کچھ روپیہ اور زیور تھا۔وہ زیورات میری والدہ مجھے واپس کرنے کے لئے ٹرین سے آرہی تھیں کہ یہ حادثہ پیش آگیا۔میں ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ میرے بیٹے نے رضیہ سے کہا کہ وہ اپنی والدہ کی کوئی فوٹو ہمیں دکھائے ،تاکہ ہمیں تسلی ہو۔مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ میرے بیٹے نے اپنے موبائل سے حادثے کے وقت اس بوڑھی عورت کا فوٹو لے لیا تھا۔فوٹو دیکھ کر ہمیں تسلی ہو گئی کہ وہ بوڑھی عورت واقعہ رضیہ کی ماں ہی تھی۔ہم نے کالے بیگ کو کھول کر نہیں دیکھا تھا ،مگر جب رضیہ کی موجودگی میں ہم نے بیگ کھولا تو واقعی اس میں سونے کے زیورات کے علاوہ معقول نقدی بھی تھی۔ہم نے وہ بیگ رضیہ کے حوالے کیا تو رضیہ کی آنکھوں میں خوشی اور غم سے آنسو تھے۔غم اپنی ماں کے بچھڑنے کا تھا اور خوشی اس بات کی تھی کہ اس کی عمر بھر کی کمائی محفوظ تھی۔ " مظلوم بھوت - تحریر نمبر 1783,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mazloom-bhoot-1783.html,"احمد عدنان طارققصبے کے باہر ایک وسیع و عریض میدان کے بیچوں بیچ سر مئی رنگ کا عظیم الشان قلعہ تھا۔کسی کو قلعے کے اندر جانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ سب کو معلوم تھا کہ قلعہ آسیب زدہ ہے۔اگر چہ سب جانتے تھے کہ قلعے کی دیواروں کے اندر کوئی نہیں رہتا۔راتوں میں قلعے کے بڑے بڑے سنسان کمروں سے ایک کمزور سہمی ہوئی سی آوازے سنائی دیتی ۔کبھی کبھارقلعے کی چمنیوں سے آگ کے شعلے نکلتے اور یہ شعلے کسی آگ کے بھوت کی تصویر بناتے اور یہ تصویریں فضا میں بلند ہوتی ہوئی سیاہ آسمان میں گم ہو جاتیں۔بہت سے دلیر اور مہم لوگوں نے اس بھوت پر قابو پانے کی بہت کوشش بھی کی،لیکن صبح کے اُجالے میں قلعے کے سب سے بڑے کمرے میں مردہ حالت میں بیٹھے ملتے تھے۔(جاری ہے)اُن کی کرسی ہمیشہ آتش دان کے سامنے ہوتی ،جس میں ہمیشہ آگ کی بجائے بجھی ہوئی راکھ ہوتی۔سردیوں کے آغاز میں ایک دن قلعے کے قریبی قصبے میں ایک پھیری والا آیا جو بڑا ہنس مکھ تھا۔اس کا نام ایستبان تھا اور وہ بہت نڈر نوجوان تھا۔وہ قصبے کے بازار میں ایک جگہ رک کر اپنے برتن اور دوسری چیزیں بیچ رہا تھا کہ ایسے میں اس سے چیزیں خریدنے والی خواتین نے قلعے کے متعلق کہانیوں کا ذکر کیا۔انہوں نے ایستبان کو بتایا کہ ایسی ہی راتوں میں قلعے کی چمنیوں سے بھوت کی شکل والا دھواں اور آگ کے شعلے نکلتے ہیں۔اگر کوئی ہمت کرکے قلعے کے نزدیک جائے تو ماتم کرتی ظلوم آواز بھی سن سکتا ہے۔ایستبان نے حیران ہو کر اُن سے پوچھا:”معزز خواتین!مجھے ایستبان بہادر کے نام سے جاناجاتا ہے۔میں کسی انسان سے ڈرتا ہوں اور نہ کسی بھوت سے۔میں صرف خدا کی ذات سے ڈرتا ہوں۔ مجھے تو خوشی ہو گی اگر میں قلعے میں آج کی رات گزاروں اور اس مظلوم روح کو دلاسا دے سکوں۔“خواتین حیرت زدہ نظروں سے اُسے گھورنے لگیں۔پھر انہوں نے ایستبان کو بتایا:”کیا تم جانتے ہو کہ اگر کوئی قلعے سے چمٹے ہوئے بھوت کو بھگا دے تو قلعے کا مالک اسے انعام میں ایک ہزار سونے کی اشرفیاں بھی دے گا۔“یہ بات سن کر خوشی سے ایستبان کی ہنسی نکل گئی۔اس نے دل میں تہیہ کر لیا کہ اگر یہ بات سچی ہے تو وہ ہر صورت آج رات قلعے میں ہی گزارے گا اور قلعے کو اس میں بسنے والے آسیب سے چھٹکارا دلوائے گا۔ایستبان کھانے کا بہت شوقین تھا۔اس نے خواتین سے کہا کہ وہ اپنے شوہروں سے کہہ کر رات گزارنے کے لئے اسے لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑے لا کر دیں تاکہ وہ قلعے میں ساری رات آگ جلا سکے۔ اسے مصالحہ لگے ہوئے گوشت کے پارچے،ایک بڑی صراحی میں پانی،بارہ انڈے اور ایک توا لا کر دیں۔قصبے کے لوگوں نے خوشی خوشی اس کی فرمائش پوری کردی۔سورج غروب ہوا تو ایستبان نے یہ ساری چیزیں اپنے گدھے پر لا دیں اور اسے ہنکاتا ہوا قلعے کی طرف روانہ ہو گیا۔لوگ ایستبان بہادر کو چھوڑنے گئے،لیکن زیادہ دور تک نہیں۔سورج ڈوب چکا تھا اور سرد ہوا چیختی ہوئی آوازیں نکال رہی تھی۔ہوا میں خنکی بھی تھی اور بارش کی بوندھیں بھی۔ایستبان نے گدھے کو قلعے کے دروازے کے پاس باغیچے میں گھاس چَرنے کے لئے چھوڑ دیا۔پھر اس نے لکڑی کے ٹکڑے اور کھانے کی چیزیں قلعے کے بڑے کمرے میں پہنچائیں۔کمرے میں اندھیرا تھا۔چمگادڑوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اسے کمرے کی چھت کے قریب سنائی دے رہی تھی۔اس نے آتش دان میں لکڑی کے بڑے بڑے سوکھے ہوئے ٹکڑے ڈالے اور انھیں جلانے لگے۔سرخ اور سنہری شعلے لپک لپک کر چمنی میں بلند ہونے لگے۔ایستبان بیٹھ گیا اور آگ کی تمازت محسوس کرنے لگا۔اس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا:”آگ سے سردی بھی بھاگ جاتی ہے اور خوف بھی نزدیک نہیں آتا۔“اس نے توا آگ پر رکھا اور احتیاط سے گوشت کے پارچے سینکنے لگا۔بہت سوندھی خوشبو آنے لگی۔پھر اس نے پانی اُنڈیلنے کے لئے ابھی صراحی کو اُٹھایا ہی تھا کہ چمنی سے وہی مری ہوئی کمزور آواز آئی:”اوہ میں مرا،اوہ میں مر گیا۔“ایستبان نے جلدی جلدی پانی کا گھونٹ حلق سے نیچے اُتارا اور پھر صراحی قریب ہی رکھ لی۔وہ بولا:”اے میرے دوست !تم نے میرا استقبال خوشی سے نہیں کیا،لیکن کم از کم یہ میرے گدھے کی آواز سے بہت اچھی ہے جسے مجھے ہر وقت سننا پڑتا ہے۔پھر بھی آخر یہ آواز انسانی ہے۔“یہ کہہ کر وہ گوشت کے پارچے توے پر پلٹنے لگا۔دوبارہ آواز آئی:”اوہ میں مرا،اوہ میں مر گیا۔“ایستبان نے پکے ہوئے گوشت کے ٹکڑے احتیاط سے رکابی میں رکھے۔پھر اس نے ایک انڈا توڑ کر توے پر ڈال دیا۔وہ انڈے کو تل ہی رہا تھا آواز دوبارہ آئی۔اب آواز میں کپکپاہٹ اور خوف کی جھلک تھی۔کوئی بولا:”نیچے مجھے سنبھالنا۔میں گرنے والا ہوں۔“ایستبان بولا:”ٹھیک ہے،لیکن میرے توے پر نہ گرنا۔“تبھی دھپ سے کوئی چیز گری۔یہ انسانی ٹانگ تھی،جو چمنی کے باہر قریب ہی پڑی ہوئی تھی۔ٹانگ پائجامے میں ملفوف تھی۔ایستبان نے ایک گوشت کا پارچہ انڈے کے ساتھ کھایا اور پانی کے دو تین گھونٹ بھرے۔خنک ہوا قلعے کے اردگرد سیٹیاں بجاتی گزر رہی تھی اور تیز بارش پورے زور سے کھڑکیوں سے ٹکرا رہی تھی۔تبھی وہی آواز جس میں بہت جلدی تھی،آئی:”نیچے دھیان رکھنا،میں گرنے والا ہوں۔“پھر ایک اور دھپ کی آواز کے ساتھ کوئی چیز چمنی سے نیچے گری۔ایستبان نے قریب پڑی چیز کو دیکھا وہ دوسری انسانی ٹانگ تھی جیسی پہلی تھی۔ایستبان آتش دان سے تھوڑا ہٹ کر لکڑی کے اور ٹکڑے لایا اور انھیں آگ میں جھونک دیا۔پھر اس نے کچھ اور گوشت کے قتلے اور انڈا توے پر ڈالا۔تبھی چلاتی ہوئی آواز گونجی:”میں گرنے والا ہوں مجھے سنبھالنا۔“ایستبان ہنستے ہوئے بولا:”آجاؤ بھئی آجاؤ،لیکن میرے انڈے کو بچانا۔“تب دھپ کی آواز آئی جو پہلی آوازوں سے کہیں زیادہ تھی۔یہ انسانی جسم تھا جس نے نیلی قمیض اور بھوری جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔تب ایستبان تیسرا انڈا کھا رہا تھا اور گوشت کا ایک اور ٹکڑا۔تب پھر دو دفعہ آواز دوبارہ آئی اور دونوں دفعہ دو انسانی بازو گرے۔اب ایک طرف تو ایستبان مزید گوشت کے ٹکڑے سینک رہا تھا تو دوسرے طرف سوچ رہا تھا کہ اب گرنے کے لئے سر ہی بچا ہے۔مجھے بھی اشتیاق ہو رہا ہے کہ میں اس شخص کا چہرہ دیکھ سکوں تبھی آواز آئی:”دیکھو دیکھو میں گر رہ ہوں۔“اور پھر وہی ہوا جس کے بارے میں ایستبان سوچ رہا تھا،یعنی سر بھی چمنی سے فرش پر آگرا۔اچھا بھلا سر تھا۔سیاہ لمبے بال تھے اور سیاہ آنکھیں بھی جو تھوڑی کھینچی اور مردہ سی لگ رہی تھیں۔گوشت کے ٹکڑے ابھی آدھے باقی تھے۔بھوت کے جسم کے سارے حصے ایک دوسرے سے جڑ گئے۔اب وہ ایک پورا انسان تھا یا بھوت۔ایستبان بولا:”شب بخیر!کیا تم گوشت کا پارچہ اور انڈا کھانا پسند کرو گے؟“بھوت نے جواب دیا:”نہیں مجھے اب خوراک کی ضرورت نہیں ہوتی،لیکن میں تمہیں ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔تم قلعے میں آنے والے پہلے شخص ہو جس نے میرے ٹکڑے جڑتے دیکھے پھر بھی نہیں ڈرے،ورنہ دوسرے لوگ تو ٹکڑے دیکھ کر ہی دہشت سے مر جاتے تھے۔“ایستبان نے بڑی سنجیدگی سے کہا:”وہ شاید اپنے ساتھ کھانا اور آگ جلانے کے لئے لکڑی لے کر نہیں آئے ہوں گے۔“ یہ کہہ کر وہ دوبارہ توے کی طرف متوجہ ہوا تو بھوت منت کرتے ہوئے بولا:”اگر تم میری مدد کردو تو تم میری روح کو قید سے آزاد کروا سکتے ہو اور میں پر سکون ہو سکتا ہوں۔یہاں صحن میں ایک برگد کا درخت ہے۔جس کی جڑوں میں تین تھیلے دفن ہیں۔ایک تھیلے میں تانبے کے سکے بھرے ہیں ۔دوسرے میں چاندی کے سکے اور تیسرے میں سونے کے سکے ہیں۔میں نے زندگی میں دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر لوٹے تھے۔میں انھیں چھپانے کے لئے قلعے میں لے کر آیا تھا ،لیکن جب میں انہیں دبا چکا تو میرے ساتھیوں نے مجھے پکڑ لیا اور قتل کرکے میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ،لیکن وہ سکے نہیں ڈھونڈ سکے۔اب میرے ساتھ آؤ اور انہیں کھود کر نکالو۔تانبے کے سکے قصبے کی عبادت گاہ کو دے دو،چاندی کے سکے غریبوں میں بانٹ دو اور سونے کے سکے تم رکھ لو۔ممکن ہے اس طرح میرے گناہوں کی تلافی ہو جائے۔“ایستبان صحن میں بھوت کے ساتھ گیا۔گدھے کی نظر بھوت پر پڑی تو وہ رینک رینک کر ہلکان ہو گیا۔برگد کے قریب بھوت نے کہا:”کھودو ۔“ایستبان نے بولا:”تم کھودو۔“لہٰذا بھوت کام میں جُٹ گیا۔کچھ ہی دیر میں تینوں تھیلے برآمد ہو گئے۔بھوت بولا:”وعدہ کرو تم میرے کہے پر عمل کرو گے۔“ایستبان نے وعدہ کر لیا۔بھوت بولا:”یہ میرے جسم کے ساتھ لپٹے ہوئے کپڑے علیحدہ کردو۔“ایستبان نے جیسے ہی ایسا کیا بھوت نظروں سے اوجھل ہو گیا۔اس کے کپڑے فرش پر یوں پڑے تھے جیسے وہ خود اُتار کر گیا ہو۔ایستبان سکوں کو بھی بڑے کمرے میں لے گیا ایک اور انڈا تل کر کھایا اور پھر گھوڑے بیچ کر سو گیا۔اگلی صبح قصبے کے لوگ اس کی لاش اُٹھانے قلعے میں آئے،لیکن انہوں نے دیکھا کہ وہ تو خوش باش بیٹھا انڈے تل رہا ہے۔وہ ہکلاتے ہوئے بولے:’تم زندہ ہو؟“ایستبان نے جواب دیا:”کیوں نہیں بھائی!آپ کے انڈے اور گوشت نے رات بھر میرا بڑا ساتھ دیا ہے۔اب میں ذرا قلعے کے مالک سے مل کر اپنی ایک ہزار اشرفیاں حاصل کرتا ہوں۔قلعے کا بھوت ہمیشہ کے لئے چلا گیا ہے۔تم اس کے کپڑے ثبوت کے طور پر صحن میں دیکھ سکتے ہو۔“لوگ ابھی حیرت سے اس کا منہ ہی تک رہے تھے کہ اس نے تینوں تھیلے گدھے پر لادے اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔پہلے اس نے اشرفیاں حاصل کیں۔پھر وہ قصبے میں لوٹا اور عبادت گاہ کے منتظم کو تانبے کے سکے دیے۔پھر غریبوں میں چاندی کے سکے بانٹے اور سونے کے سکوں اور اشرفیوں سے قصبے کے بچوں کونڈر اور باشعور بنانے کے لئے ایک سکول قائم کر دیا۔ " یوم الارض اور ہماری گریٹا - تحریر نمبر 1782,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/youm-al-arz-or-hamari-greeta-1782.html,"سیدہ نازاں جبیںننھی منی فاختہ اور زیتون کی شاخ کو دنیا بھر میں امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ایک فاختہ اپنے گھونسلے میں آرام سے بیٹھی تھی کہ اچانک اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا۔”یہ اچانک مجھے کیا ہو رہا ہے؟اتنی بے چینی کیوں ہو رہی ہے؟“فاختہ نے اپنے آپ سے کہا۔اس نے گھونسلے سے باہر نکل کر نیچے دیکھا تو اسے دھواں نظر آیا۔اس کے گھونسلے کے نیچے کچھ لوگوں نے کچرا جلایا تھا۔یہ دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی اور گھونسلے سے اُڑ کر دوسری جگہ جانے کا سوچنے لگی۔نئے گھونسلے کی تعمیر کے لئے موزوں درخت کی تلاش میں نکل پڑی،مگر اسے کہیں ایسے درخت نظر نہیں آئے۔وہ اِدھر اُدھر ماری ماری پھرتی رہی،اچانک اسے گرمی کا احساس ہوا تو اس نے سمندر کا رُخ کیا،مگر سمندر کی تو بہت بُری حالت تھی۔(جاری ہے)یہاں تو مچھلیاں کم اور پلاسٹک زیادہ نظر آرہے تھے۔مچھلیوں کو سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی۔فاختہ یہ دیکھ کر مایوس ہو گئی اور دوسرے سمندروں کی طرف پرواز کرنے لگی،مگر وہاں جا کر اس کی مایوسی میں مزید اضافہ ہو گیا،کیونکہ دنیا کے کئی ساحلوں پر مردہ مچھلیاں پڑی ہوئی تھیں۔یہ دیکھ کر فاختہ کو بہت دکھ ہوا۔سمندر پلاسٹک کی بوتلوں،پلاسٹک کی تھیلیوں اور پلاسٹک کے برتنوں سے اَٹے ہوئے تھے۔یہ سب وہ اشیاء تھیں جنھیں ہم ایک بار استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں اور پھر یہ سارا کچرا سمندر میں پہنچ جاتا ہے،جس سے مچھلیاں اور دیگر سمندری حیات کا دم گھٹ جاتا ہے۔فاختہ یہ سب افسوس سے دیکھ رہی تھی کہ اسے سگریٹ کے بچے ہوئے حصے نظر آئے،جنہوں نے سمندروں کو آلودہ کر دیا تھا۔سگریٹ پینے سے پھیپھڑے تو تباہ ہوتے ہی ہیں اور ان سے سمندری حیات بھی تباہ ہو جاتی ہے۔فاختہ سمندر کی حالت سے افسرد ہ ہو کر کھیتوں کی طرف پرواز کر گئی۔وہاں بھی ایک عجیب سا منظر اس کا منتظر ہوتا ہے۔وہاں کچھ لوگ جن کی پشت پر بڑے بڑے ڈبے لگے ہوئے ہوتے ہیں اور منہ پر کپڑا باندھا ہوا تھا،خوب اسپرے کر رہے ہوتے ہیں۔بدبو سے فاختہ سمجھ گئی کہ یہ لوگ کوئی دوا چھڑک رہے ہیں۔وہ آگے اُڑتی رہی۔راستے میں اسے کئی معصوم پرندے مرے ہوئے نظر آئے جو یہ زہریلی دوا برداشت نہ کرسکے۔ننھی منی فاختہ کا دل دکھ میں ڈوب گیا۔اب معصوم فاختہ دریا کی طرف اُڑنے لگی۔اچانک اسے مینڈکوں کی اضطراب میں بھری ہوئی آوازیں سنائی دیں۔اس نے مینڈکوں سے پوچھا تو ایک مینڈک نے روتے ہوئے بتایا:”فاختہ بہن!کھیتوں میں چھڑکی ہوئی دواؤں کا سارا فضلہ دریاؤں میں آجاتا ہے اور پھر ہمیں سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے۔“فاختہ یہ صورت حال دیکھ کر اور اُداس ہو گئی۔وہ وہاں سے پرواز کرتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔اچانک اسے ایک ننھی پری نظر آتی ہے۔فاختہ کو کچھ اُمید ہوئی۔وہ فوراً اس پری کے پاس گئی۔”اے ننھی پری!دنیا کا حال خراب ہو گیا ہے،یہ تباہ ہو رہی ہے اور ہم سب مر رہے ہیں۔خدارا ہمیں بچالو۔“فاختہ پری سے فریاد کرتی ہے۔”تم پریشان مت ہو پیاری فاختہ!میں کچھ کرتی ہوں۔میں کسی کو مرنے نہیں دو ں گی اور نہ اس کو برباد ہونے دوں گی۔“ننھی پری پُر عزم ہو کر بولی۔پھر اس پری نے اپنے ساتھیوں کے پاس جاکر مشورہ کیا۔اس کے بعد سے ہر جمعہ کے دن وہ پری دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر ہڑتال کرنے لگی،جسے Fridays for futureکا نام دیا گیا۔ہر جمعہ کو سارے بچے سکول جانے کے بجائے ہڑتال کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس ننھی پری کا پیغام پوری دنیا میں پھیل گیا۔یہ ننھی پری ہماری”گریٹا تھنبرگ“ (Greta Thunberg) ہے جو 3جنوری 2003کو سویڈن میں پیدا ہوئی۔گریٹا تھنبرگ نے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں پہلی مرتبہ 2011میں سنا جب وہ صرف آٹھ سال کی تھی۔ماحول کی خراب صورت حال نے اسے اُداس کر دیا تھا۔پھر 2018 کے آخر میں اس نے موسمیاتی تبدیلی کے سلسلے میں تحریک سکول کی سطح پر شروع کی اور سویڈش پارلیمنٹ سے سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کر دیا۔30مئی 2019کو گریٹا کی کتاب شائع ہوئی،جو اس کی گیارہ تقریروں پر مشتمل ہے۔یہ کتاب اس نے گلوبل وارمنگ اور موسم کی نازک صورت حال کے بارے میں لکھی تھی۔اس ننھی پری کے ہاتھ میں جادوئی چھڑی تو نہیں ہے،مگر اس کے جادوئی بول کمال کرتے ہیں اور دنیا کے بڑے بڑے لوگوں کو کچھ کر گزرنے پر مجبور کرتے ہیں۔بائیس اپریل کا دن دنیا بھر میں”یوم ارض“ (Earth day) کے طورپر منایا جاتا ہے۔اس دن سب لوگ زمین کے بارے میں سوچتے ہیں،اسے بہتر بنانے پر غور کرتے ہیں۔آئیے!اس بار یوم ارض پر ہم سب اس ننھی پری گریٹا کا ساتھ دیں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔اس سال یوم ارض کا موضوع ”کلائمٹ ایکشن“ ہے۔آئیے ہم اپنے ماحول کو بچانے کا آغاز کریں اور ماحول دوست سر گرمیوں میں حصہ لیں۔ننھی فاختہ جو بہت دن سے گریٹا کی سرگرمیاں دیکھ رہی تھی،اب اسے یقین ہو چکا کہ یہ ننھی پری ضرور دنیا کے لئے اور ہم پرندوں کے لئے کچھ اچھا کرے گی،لہٰذا اس نے قریب جا کر اپنے منہ سے زیتون کی شاخ نکا ل کر گریٹا کے ہاتھ میں تھمادی ۔پیاری گریٹا! یہ دنیا ،یہ زمین اب تم سب بچوں کے حوالے۔تم ہی ہم سب کا مستقبل ہو۔“ " چمکتا چاند ستارہ رہے (آخری قسط) - تحریر نمبر 1781,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chamakta-chand-sitara-rahe-akhri-qist-1781.html,"توصیف سرور کمبوہننھی اسما رہ نے اپنے ماموں عدید کا کافی ہاتھ بٹایا جیسے گوند والے پیالے کو ختم ہوتا دیکھتی فوراً دوبارہ بھر کرلے آتی اور عدید دھڑا دھڑ جھنڈیاں جوڑتا رہا جبکہ نور فاطمہ ابھی بہت چھوٹی تھی وہ شرارتوں میں مگن پھر وہ باہر گلی میں گندے پانی اور کیچڑ میں لت پت بیٹھی کھیل رہی تھی جب اس کی مما کی نظر پڑی تو فوراً اسے گھر لے کر آئی اور نہلا کر سفید فراک جس پر سبز چاند تارے بنے ہوئے تھے پہنا دیئے پھر نور فاطمہ اپنے نانا ابو کے پاس بیٹھی ٹی وی دیکھنے لگی۔ابھی سب جھنڈیوں سے فارغ ہوئے تھے کہ ان کے ابو سرور صاحب اور چاچو امجد نے بچوں کو آواز دی کہ کمرے میں آجاؤ دھوپ تیز ہو رہی ہے اور ٹی وی پہ پریڈ شروع ہونے لگی ہے سب بچے آکر دیکھ لو بعد میں سب نہا کر سفید اور سبز سوٹ پہن لینا اور ان پر سٹیکر بھی لگا لینا۔(جاری ہے)سب بچے پریڈ دیکھنے لگے جب پروگرام ختم ہو گیا تو ارسلان نے بلند آواز میں اعلان کیا۔ابو میں پڑھ لکھ کر آرمی جوائن کرلوں جی بیٹا کیوں نہیں!ضرور”اسمارہ،نور فاطمہ اور احد کے ابو بھی تو اتنے عرصے آرمی میں افسر ہیں ہم ان کو کہہ کر آپ کو لگوادیں گے ابھی تو تم نویں جماعت میں ہو۔کچھ عرصہ صبر کرو اور اعلیٰ تعلیم کے لئے میں تم کو شہر کے بڑے کالج میں داخل کروں گا کیونکہ ہمارے گاؤں میں تو ایسی کوئی سہولیات نہیں ہیں۔اپنے پوتے ارسلان کی یہ خواہش سن کر اس کے دادا جی کا سینہ فخر سے بلند ہو گیا۔پھر سب نے نہا دھو کر نئے سفید رنگ کے شلوار قمیض پہن لئے اور سروں پر سبز ہلالی پرچم والی ٹوپیاں پہن لیں۔حسان نے سب کو عمدہ قسم کے سٹیکر دئیے جو وہ اگست کے شروع سے ہی جمع کر رہا تھا وہ روز مرغی کا ایک انڈا بیچ کر پیسے جمع کرتا رہا۔اس کی والدہ روز اپنے بچوں کو ایک ایک انڈا دیتی کہ کھا لیا کرو ان کے گھر کافی مرغیاں تھی لیکن ان دنوں گھر کے حالات کچھ بہتر نہ تھے۔نیا گھر بنایا اور اوپر سے بڑے بھائی کی شادی کی اس لئے کافی اخراجات ہو گئے۔پیسوں کی قلت تھی کچھ دن پہلے تو عید الاضحی گزری اس لئے حسان روز چپکے سے ایک انڈا نعمان بھائی کی شاپ پہ بیچ آتا اور پیسے جمع کرتا رہا آج اس نے ان پیسوں سے سٹیکر خرید لئے اور اپنے بھائیوں کو گفٹ کر دیئے اس کے اس جذبے سے سب بہت حیران ہوئے اور ممانی تصور نے اس کو گلے لگا لیا حسان بہت خوش ہوا۔”ابو جی! آج ہمیں آپ شہر تھوڑی دیر گھمانے لے کر چلیں کیونکہ اس بار 14اگست ایسے دنوں میں آیا کہ تعلیمی ادارے بند ہیں لیکن اب لاک ڈاؤن میں نرمی کر دی گئی ہے۔اس لئے تھوڑا شہر میں گھوم پھر آتے ہیں ہمیں سفاری پارک لے چلیں اور کچھ کھلا پلا دیں۔ہم مینار پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں”عدید نے ضد آمیز لہجے میں کہا۔“ہاں پُتر سرور !جالے جا ان معصوم پھولوں کو ذرا تفریح ہو جائے گی ان کی۔”دادا جی نے اپنی جیب سے دو سو روپے بھی نکال کر اپنے بیٹے کو تھما دئیے۔سرور صاحب نے بالآخر بچوں کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ ہُرے ہمارے ابو زندہ باد عدید اور ارسلان نے خوشی سے نعرے لگائے۔پھر یہ سارا قافلہ رکشہ پر بیٹھ کر شہر کی طرف چلا آیا۔راستے میں انہوں نے دیکھا کہ آج کچھ خلاف معمول لوگوں کی آمد ورفت تھی اور ہر طرف سبز ہلالی پرچم اور جھنڈیاں لہرا رہی تھیں۔جاتے ہوئے ان کی والدہ عنایت بی بی نے ان کو سبز کلر میں دیدہ زیب ماسک بھی دیئے کہ بیٹا یہ حفاظتی ماسک لازمی پہن لو جو دیکھنے میں بھی دلفریب تھے اور ضرورت بھی تھی۔ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم پکڑے جوش و خروش سے یہ قافلہ جا رہا تھا۔سرور صاحب کا رکشہ ہواؤں سے باتیں کرتا جا رہا تھا اور عدید نے اس میں ملی نغمے فل آواز میں لگا رکھے تھے اور توصیف حسن اور ضمن رکشے کی چھت پر بیٹھے پرچم لہرا رہے تھے ۔اسمارہ،نور فاطمہ،احد اور حسان چھوٹے تھے اس لئے وہ رکشہ کے اندر بیٹھے مسکراہٹیں بکھیرتے جا رہے تھے۔تفریحی پارکوں میں زیادہ رش نہیں تھا۔چندا کا دکا لوگ تھے لیکن پارک بھی جھنڈیوں سے سجے ہوئے تھے اور باہر سکیورٹی والے بھی کھڑے تھے ۔وہ بغیر ماسک والے بچے کو اندر نہیں جانے دے رہے تھے اور سب کے ہاتھوں پر سینی ٹائزر کا چھڑکاؤ کر رہے تھے۔زیادہ رش نہیں لگنے دے رہے تھے اور جلدی جلدی بچوں کو باہر نکال دیتے کہ ہجوم نہ بنے۔تھوڑی دیر میں بچے پارک سے زبردستی باہر نکالے سرور صاحب نے پھر بچوں نے برف کے گولے والے انکل کی ریڑھی کی طرف دیکھ کر شور مچا دیا کہ ہم برف کے گولے کھائیں گے برف کے گولے کھا کر عدید نے سب کو اکسایا کہ اب کچھ نمکین چیز ہو جائے سب نے کہا”زندہ باد عدید بھائی“اور سرور صاحب کے سر ہو گئے اور سموسے پکوڑے کھا کر ہی دم لیا۔انہوں نے سرور صاحب کی جیب کو کافی ہلکا کر دیا اب سرور صاحب نے واپسی کا ارادہ کیا اور رکشہ صاف کرنے لگے جس میں توصیف نے ان کی مدد کروائی ۔حسن اور ضمن باری باری بچے گن کر رکشہ میں بیٹھاتے جا رہے تھے۔نور فاطمہ اور احد نے اپنے کپڑے برف کے گولوں سے خراب کر لئے اور ڈر رہے تھے کہ امی سے اب ڈانٹ پڑے گی لیکن ارسلان نے دلاسہ دیا کہ کچھ نہیں کہتی آج تو آزادی کا دن ہے انجوائے کرو سب اداس مت ہو۔سرور صاحب کا رکشہ ہچکولے کھاتا واپسی کے لئے رواں دواں تھا۔ایک جگہ پہ بڑا کھڈا تھا اور بہت بڑا جمپ لگا اور بچوں کی خوف سے چیخیں نکل گئیں پھر حسن نے نور فاطمہ کو پکڑلیا اور اسمارہ کا بازو توصیف نے پکڑ لیا یوں یہ قافلہ بخیریت گھر واپس آگیا”بچو!پھر انجوائے کیا آج کا دن؟“عنایت بی بی بولیں،جی تائی امی بہت زیادہ حسان نے مسکراتے ہوئے کہا۔مغرب کی اذان ہو چکی تھی سب نے نماز ادا کی رات کا کھانا تیار تھاگاؤں میں لوگ مغرب ٹائم ہی رات کا کھانا کھا لیتے ہیں۔مامی تصور نے بہت مزے کا سوجی کا حلوہ بنایا تھا سب نے کھانا کھا کر میٹھا کھایا اور پھر دادا جی کے کمرے کی طرف چل دئیے۔دراصل دادا جی روز بچوں کو کہانی سناتے تھے۔جب دادا کے کمرے میں داخل ہوئے تو وہ چار پائی پہ بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔اس وقت ان کے پاس چاچو امجد اور قاری عباس صاحب بیٹھے تھے یہ ان کا روز کا معمول تھا کھانے کے بعد حقہ پینے اور روز مرہ کے حالات پہ بحث و مباحثہ اور تبصرے کرتے۔عدید نے دادا جی کے پاس جا کر آہستگی سے کہا”دادا جی ہم نے کہا نی سننی ہے آپ کب فری ہوں گے۔“اتنے میں قاری عباس اور چاچو امجد اٹھ کر بیٹھک میں چلے گئے تو دادا نے اشارہ کیا آجاؤ سب۔دادا جی کوئی اچھی سی کہانی سنایئے نا توصیف نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔”ارے بچو!میرا تو خیال تھا آج آپ لوگ تھک چکے ہوں گے اور کہانی سننے کے لئے نہیں آئیں گے۔“”واقعی دادا جی ہم تھک تو کافی گئے ہیں لیکن ہمیں کہانی سنے بغیر نیند نہیں آئے گی۔“ارسلان بولا۔چلو بچوں!ٹھیک ہے میں تم لوگوں کے اصرار پر کہانی ضرور سناؤ گا۔ " لیٹر بکس کا بھوت - تحریر نمبر 1780,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/letter-box-ka-bhoot-1780.html,"جاوید بساماگر آپ کبھی سکھ نگر کی ساتویں سڑک پر جائیں تو وہاں آپ کو کوئی قابل ذکر چیز نظر نہیں آئے گی۔وہ ایک عام سی سڑک ہے۔کچھ بڑے گھروں کے دروازے اس طرف کھلتے ہیں۔جن میں پرانے درخت اور پودے لگے ہیں۔ایک گھر کی دیوار پر بوگن ویلیا کی بیل بھی چڑھی ہے۔جس میں گلابی پھول لگتے ہیں۔اس کے نیچے دیوار کے ساتھ ایک لال رنگ کا لیٹر بکس لگا ہے۔بیل پھیل کر اس پر جھک آئی ہے۔اب وہ بہت کم استعمال ہوتا ہے،مگر سالوں پہلے لوگ اس میں بہت خط ڈالنے آتے تھے۔یہ اسی دور کا ذکر ہے کہ ایک دن وہاں ایک بھوت گھومتے ہوئے آنکلا۔پہلے وہ ایک ویران مکان میں رہتا تھا۔اب کسی نئی جگہ کی تلاش میں تھا۔اسے یہ جگہ پسند آئی اور وہ یہاں رہنے لگا۔سارا دن وہ کانٹے دار جھاڑیوں میں رہتا،لیکن رات کو سڑک پر چہل قدمی کرتا رہتا۔(جاری ہے)وہ دن کا زیادہ تر وقت سو کر گزارتا تھا ،مگر جب جاگ رہا ہوتا تو سڑک سے گزرنے والوں کو دیکھتا رہتا۔لوگ وہاں آتے اور خط ڈال کر چلے جاتے۔ کبھی پھیری والے آوازیں لگاتے ہوئے گزرتے اور کبھی گاڑیاں آتی جاتی رہتیں۔کچھ دن ہی گزرے تھے کہ بھوت بور ہونے لگا۔وہ صبح سے شام تک اپنی بوریت کا حل تلاش کرتا رہا۔پہلے اس نے سوچا سڑک سے گزرنے والے لوگوں کو تنگ کیا جائے،لیکن یہ اسے اچھا نہ لگا،وہ ایک ہمدرد بھوت تھا۔کسی کو تکلیف دے کر اسے کوئی خوش نہیں ملتی تھی پھر اسے خیال آیا چلو ہلکی پھلکی شرارت تو کی جا سکتی ہے۔وہ اگلے دن لیٹر بکس میں گھس کر بیٹھ گیا۔اب جوں ہی کوئی خط ڈالتا وہ اس کے ہاتھ کو چھوتا،لوگ حیران ہو کر پیچھے ہٹ جاتے پھر وہ ڈرتے ڈرتے اندر جھانکتے،کبھی وہ خط کو واپس باہر پھینک دیتا۔لوگ گھبرا کر اسے اُٹھالیتے اور لیٹر بکس میں ڈال دیتے ۔وہ سمجھتے کہ ہو اسے گر گیا ہے۔کچھ دن تو یہ سب چلتا رہتا پھر بھوت کا دل اس سے بھی اُکتا گیا اور وہ کوئی نیا کام کرنے کا سوچنے لگا۔اچانک اسے خیال آیا کیوں نہ خط پڑھے جائیں۔اب جوں ہی کوئی خط لیٹر بکس میں ڈالا جاتا۔وہ اسے نکال کر پڑھنا شروع کر دیتا۔خط پڑھ کر اسے بہت لطف آتا،حالانکہ اس میں انسانوں کی عام سی باتیں ہوتی تھیں۔کسی میں خیریت سے پہنچنے کی اطلاع ہوتی تو کسی میں شادی بیاہ کا ذکر ہوتا۔ایک دن بھوت نے ایک خط پڑھا جو کسی عورت نے اپنے بھائی کو لکھا تھا:”پیارے حامد بھائی!اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔یہاں بھی سب خیریت ہے۔بس مجھے اُن روپوں کی ضرورت پڑ گئی ہے جو آپ نے ایک مہینے کے وعدے پر چھے مہینے پہلے اُدھار لیے تھے۔مجھے وہ چالیس ہزار روپے فوراً بھیج دیں ،تاکہ میں اپنا رکا ہوا کام مکمل کر سکوں۔آپ کی بہن زرینہ۔“خط پڑھ کر بھوت کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی وہ بڑبڑایا:”اُدھار دے کر واپسی کی اُمید رکھنا بے وقوفی ہے۔“پھر وہ دوسرے خط پڑھنے لگا۔دن اسی طرح گزر رہے تھے ۔کچھ دنوں بعد بھوت کو پھر زرینہ کا خط نظر آیا۔اس نے کھول کر پڑھا،لکھا تھا:”بھائی!آپ نے خط کا جواب نہیں دیا نہ پیسے بھیجے۔مجھے بہت ضروری چاہییں ،فوراً بھیجیں۔“بھوت نے قہقہہ لگا یا اور بولا:’لو،اب بھائی صاحب خط کا جواب بھی نہیں دے رہے۔کسی نے سچ کہا ہے کہ اُدھار،تعلق کو کاٹ دیتا ہے۔“اب وہ انتظار میں رہتا کہ زرینہ کا خط آئے،آخر پندرہ دن بعد خط آہی گیا ۔لکھا تھا:”بھائی!آپ کیوں مجھے پریشان کر رہے ہیں۔پیسے کیوں نہیں دیتے۔میرے شوہر مجھ پر ناراض ہو رہے ہیں۔“بھوت طنزاً مسکرایا اور بولا:”لو جی یہ پیسے ڈوب گئے اور رشتے میں بھی دراڑ آگئی۔“پھر اسے خیال آیا ذرا دیکھوں تو کہ بھائی کیوں رقم نہیں بھیج رہے۔اس نے لفافے پر لکھے پتے پر نظر دوڑائی۔وہ قریبی شہر کا تھا۔اگلے دن بھوت نے اُران بھری اور وہاں جا پہنچا۔جلدی ہی اس نے حامد کا گھر تلاش کر لیا۔وہ انسانوں کی نظروں سے غائب تھے۔اس لئے آسانی سے گھر میں داخل ہو گیا۔وہاں اسے ایک ادھیڑ عمر عورت اپنا کام کرتی نظر آئی۔مرد کام پر گیا ہوا تھا اور بچے سکول۔بھوت باہر آیا اور گلی کا جائزہ لینے لگا۔گھر کے سامنے بادام کا ایک گھنا درخت لگا تھا۔اسے بادام بہت پسند تھے۔وہ درخت پر چڑھا اور بادام توڑ کر کھانے لگا۔اسے وہ جگہ اچھی لگی اور سارا دن وہ درخت پر ہی بیٹھا رہا۔رات ہوئی تو ایک آدمی موٹر سائیکل پر آتا نظر آیا۔وہ گھر کے دروازے پر آکر رک گیا۔بھوت سمجھ گیا کہ یہ حامد ہی ہے۔جب وہ اندر چلا گیا تو بھوت بھی اُڑ کر گھر میں اُتر گیا۔اس نے دیکھا حامد منہ ہاتھ دھو رہا ہے،عورت کھانے کی تیاری کر رہی ہے اور بچے مزے سے کھیل رہے ہیں۔کچھ دیر بعد سب کھانے کے لئے بیٹھ گئے۔بیوی بولی:”تمہاری بہن کا خط آیا ہے۔وہ پیسوں کا تقاضا کر رہی ہے۔“یہ سن کر حامد نے منہ بنایا اور بولا:”آج کل بہت مندہ ہے۔میں خود پریشان ہوں۔“”بس خاموش رہو،خود تنگ آکر خط لکھنا بند کر دے گی۔“بیوی فوراً بولی۔حامد نے سر ہلایا۔کھانے سے فارغ ہو کر اس نے جیب سے تین سو روپے نکال کر بڑے بیٹے کو دیے کہ بازار سے جا کر آئس کریم لے آئے سب نے مزے سے آئس کریم کھائی۔بھوت نے سر ہلاتے ہوئے گھر پر نظر ڈالی۔ان کے رہن سہن سے لگتا تھا کہ وہ اچھا کما رہے ہیں۔ بھوت وہاں سے نکلا اور درخت پر جا بیٹھا۔دوسرے دن جب حامد دکان جانے کے لئے گھر سے نکلا تو بھوت تیار تھا۔وہ اُچک کر اس کے پیچھے بیٹھ گیا،دل میں کہہ رہا تھا چلو آج اس مشینی گھوڑے کی سواری کرکے دیکھتے ہیں ۔سفر شروع ہوا۔حامد بہت تیز موٹر سائیل چلا رہا تھا۔بھوت کو لگ رہا تھا کہ وہ ضرور کسی گاڑی کو مار دے گا یا کوئی اس سے ٹکرا جائے گا۔ایک بار تو سامنے سے آتے ایک تیز رفتار ٹرک کو دیکھ کر بھوت نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں،مگر وہ خیریت سے بازار پہنچ گئے۔بھوت نے اللہ کا شکر ادا کیا اور آئندہ موٹر سائیکل پر بیٹھنے سے توبہ کی۔حامد نے اپنی دکان کھولی۔وہ کپڑے کی دکان تھی۔دو لڑکے ملازم بھی تھے۔بھوت ایک کونے میں چھپا نظر رکھے ہوئے تھا۔وقت گزر رہا تھا۔دوپہر تک اِکا دُکا گاہک آئے،مگر شام کو کام اچھا ہوگیا۔بھوت واپس درخت پر لوٹ گیا۔رات کو حامد گھر آیا تو وہ بھی گھر میں داخل ہو گیا۔کھانے کے بعد سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔حامد کی بیوی نے کہا:”اگلے مہینے میری کزن کی شادی ہے۔مجھے کچھ جیولری اور میک اپ کا سامان خریدنا ہے۔مجھے پیسے چاہییں۔“حامد نے فوراً چار ہزار روپے نکال کر دے دیے۔”آج کیسا کام رہا؟“بیوی نے پوچھا۔”مندہ ہی تھا۔“حامد نے کہا۔”واہ واہ․․․․․․اپنے لئے سب کچھ ہے،مگر دوسروں کے لئے بس بہانے۔اچھا اب مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔“بھوت بڑبڑایا۔اگلے دن وہ پھر دکان پر موجود تھا۔جوں ہی کوئی گاہک دکان میں آکر کپڑا دیکھتا،بھوت ہلکے سے قہقہہ لگاتا جو صرف گاہک کو سنائی دیتا۔وہ حیرت سے حامد کو دیکھتا اور واپس پلٹ جاتا۔وہ سمجھتا تھا کہ دکان دار نے اس کا مذاق اُڑایا ہے۔سارا دن بھوت یہی کرتا رہا بس ایک دو گاہک ہی کچھ خرید کر رخصت ہو ئے۔حامد بہت پریشان تھا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔دو تین دن تک یہی ہوتا رہا۔حامد رات کو اپنی بیوی کو بتاتا کہ کاروبار روز بہ روز کم ہوتا جا رہا ہے۔وہ بھی پریشان ہو گئی تھی۔بھوت نے ایک دن دیکھا وہ گلی میں آنے والے ہر فقیر کو خیرات دے رہی ہے اور اس سے دعا کی درخواست کر رہی ہے۔بھوت مزے سے بادام کھا رہا تھا۔وہ سر ہلا کر بولا:”اچھا تو اب عملی کام کا وقت آگیا ہے۔“جب حامد کام پر چلا گیا تو بھوت نے ایک بوڑھے فقیر کا روپ دھارا اور لاٹھی ٹیکتا،اللہ کے نام پر مدد کرو،کی صدا لگاتا گلی میں چلا آیا۔حامد کے گھر کا دروازہ فوراً کھلا اور اس کی بیوی نے فقیر کو دس روپے دیے۔فقیر نے اسے خوب دعائیں دیں۔وہ بولیں:”بابا کھانا کھاؤ گے؟“”ہاں کھلادو۔“فقیر بولا۔کھانا کھا کر فقیر نے پھر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دیے۔حامد کی بیوی لجاجت سے بولی:”بابا! دعا کرو ہمارا کام اچھا ہو جائے۔آج کل بہت مندہ ہے۔“فقیر نے بہت دعائیں دیں پھر بولا:”بیٹی! دعا کے ساتھ ساتھ دوا بھی کرنی پڑتی ہے۔اکثر رکاوٹ تب ہوتی ہے جب ہم کسی کا کچھ روک لیتے ہیں۔ذرا سوچو کہیں آپ نے کسی کا حق تو نہیں دبا لیا؟“یہ کہہ کر فقیر نے اپنی لاٹھی سنبھالی اور چل دیا۔حامد کی بیوی سوچ میں گم اسے جاتا دیکھتی رہی۔رات ہوئی تو حامد گھر آیا۔کھانا کھا کر وہ باتیں کرنے لگے۔بھوت درخت پر ہی لیٹا ہوا تھا۔اس کی طبیعت ٹھیک نہ تھی اسے انسانوں کا کھانا راس نہیں آیا تھا،مگر اس کے کان اُدھر ہی لگے تھے۔عورت کہہ رہی تھی:”میری سمجھ میں آگیا ہے کہ کام کیوں نہیں چل رہا۔تم کل فوراً بینک سے پیسے نکلواؤ اور اپنی بہن کو بھیج دو۔“حامد بولا:”کبھی کچھ کہتی ہو اور کبھی کچھ۔“”بس اب جو کہہ رہی ہوں وہ کرو۔“بیوی بولی۔اگلے دن بھوت نے دیکھا حامد بینک کی طرف جا رہا ہے اس نے مسکراتے ہوئے گردن ہلائی اور اپنے شہر کی طرف اُڑان بھر گیا۔ اسے یقین تھا کہ خط لکھنے والی عورت کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر وہ پھر اسی طرح خط پڑھنے لگا۔آخر ایک دن اسے زرینہ کا خط نظر آگیا۔اس نے لکھا تھا:”بھائی ہمیشہ خوش رہیں۔آپ نے میرا کام کر دیا،مجھے پیسے مل گئے ہیں۔بہت شکریہ۔“بھوت نے منہ بنایا اور بڑبڑایا:”لو کام کسی نے کیا ہے اور شکریہ کسی کا ادا کیا جا رہا ہے۔خیر ہمیں کیا۔ہم تو بھوت ہیں۔بھوتوں کو کسی ستائش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہمیں تو بس رات کو خالی سڑک پر چہل قدمی کرنا اچھا لگتا ہے۔“ " غریب کا حوصلہ - تحریر نمبر 1779,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghareeb-ka-hosla-1779.html,"طالب ہاشمیدوسری صدی ہجری میں معن بن زائدہ شیبانی ایک مشہور امیر گزرا ہے۔وہ بڑا بہادر اور دریا دل آدمی تھا۔سارے عرب میں اس کی سخاوت کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ایک دفعہ عباسی خلیفہ ابو جعفر اس سے سخت ناراض ہو گیا اور اس نے حکم دیا کہ معن بن زائدہ کو گرفتار کرکے اس کے سامنے پیش کیا جائے۔معن بن زائدہ کو خلیفہ کے حکم کی خبر ملی تو وہ کسی جگہ چھپ گیا،لیکن ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ خلیفہ کے آدمی کسی نہ کسی دن اسے ڈھونڈ ضرور لیں گے۔آخر ایک دن اس نے بھیس بدلا اور ایک اونٹ پر سوار ہو کر بغداد سے نکل کھڑا ہوا۔تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ایک سیاہ رنگ کے آدمی نے یکا یک ایک طرف سے نکل کر اس کے اونٹ کی مہار پکڑ لی اور اونٹ کو بیٹھا دیا۔(جاری ہے)پھر اس نے معن بن زائدہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا:” میرے ساتھ چلو۔“معن نے کہا:”تم ہو کون اور یہ کیا حرکت ہے؟“اس نے کہا:”میں تو جو ہوں سو ہوں،لیکن تو ضرور معن بن زائدہ ہے،جس کی امیر المومنین کو تلاش ہے اور جس کو گرفتار کرنے والے کو امیر المومنین نے بہت بڑا انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔“معن نے کہا:”بھئی تمھیں غلط فہمی ہو گئی ہے۔میرا معن بن زائدہ سے کیا تعلق ؟“سیاہ فام آدمی نے کہا:”تم مجھے دھوکا نہیں دے سکتے۔اللہ کی قسم!میں تمھیں اچھی طرح پہچانتا ہوں۔اس سے پہلے کہ انعام کے لالچ میں اور لوگ بھی یہاں پہنچ جائیں،میرے ساتھ چل پڑو۔“معن نے جب دیکھا کہ وہ شخص اس کو جانتا ہے اور کسی طرح اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا تو اس نے اپنی جیب سے ہیروں کا ایک ہار نکالا اور اس کے ہاتھ میں دے کر کہا:”بھائی!اس ہار میں بڑے قیمتی ہیرے ہیں۔ان کی قیمت اس انعام سے کہیں زیادہ ہے جو خلیفہ نے میرے گرفتار کرنے والے کے لئے مقرر کیا ہے۔تم یہ ہار لے لو اور میری جان کے دشمن نہ بنو۔“وہ شخص ہار کو کچھ دیر دیکھتا رہا ،پھر کہنے لگا:”واقعی یہ ہار بہت قیمتی ہے۔اسے لے کر تمھیں چھوڑنے کا فیصلہ میں اسی وقت کروں گا جب تم میرے ایک سوال کا جواب سچ سچ دو گے۔“معن نے کہا:”کیا سوال ہے تمہارا؟“اس نے کہا:”تمہاری سخاوت اور دریا دلی کی سارے عرب میں دھوم مچی ہوئی ہے۔یہ بتاؤ کہ کیا کبھی تم نے اپنی ساری دولت بھی کسی کو بخشی ہے؟“معن :”نہیں۔“سیاہ فام آدمی :”اچھا آدھی؟“معن :”وہ بھی نہیں۔“سیاہ فام آدمی:”اچھا ایک تہائی؟“معن :” ایک تہائی بھی نہیں۔“سیاہ فام آدمی:”اچھا دسواں حصہ؟“معن:”ہاں،اس کا اتفاق شاید کبھی ہوا ہو۔“اب اس شخص نے مسکرا کر کہا:”یہ تو کوئی بڑی بات نہ ہوئی۔میں امیر المومنین منصور کی سرکار میں صرف بیس درہم ماہوار پر ملازم ہوں۔یہ ہار جو تم مجھے دے رہے ہو،لاکھوں درہم قیمت کا ہے۔یہ میں تمہیں بخشتا ہوں،تاکہ تم کو معلوم ہو جائے کہ سخاوت کس چیز کا نام ہے اور تم سے بھی بڑے سخی اس دنیا میں موجود ہیں۔“یہ کہہ کر اس نے ہارمعن بن زائدہ کی طرف پھینک دیا اور اونٹ کی مہار چھوڑ کر وہاں سے چل دیا۔معن نے اس کو آواز دے کر کہا:”اے جوان!جس طرح تم نے مجھے شرمندہ کیا ہے ،اس سے تو مرجانا بہتر ہے۔یہ ہار لے جاؤ میں نے خوشی سے تمہیں دیا ہے۔“یہ سن کر خلیفہ کا وہ غریب ملازم ہنسا اور کہنے لگا:”تم چاہتے ہو کہ اپنے آپ کو مجھ سے بڑھ کر سخی ثابت کرو۔اللہ کی قسم!یہ کبھی نہ ہوگا۔یہ ہار میں نے تمہیں بخشا۔اب میرے لئے اس کو چھونا بھی حرام ہے۔“یہ کہہ کر وہ تیزی سے شہر کی جانب چلا گیا۔معن بن زائدہ کا اپنا بیان ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنے بڑے حوصلے والا کوئی غریب آدمی نہیں دیکھا۔ " چمکتا چاند ستارہ رہے - تحریر نمبر 1778,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chamakta-chand-sitara-rahe-1778.html,"توصیف سرور کمبوہ”ارسلان بیٹا اٹھ جاؤ فجر کا ٹائم نکلتا جا رہا ہے اور اپنے دونوں بھائیوں عدید اور توصیف کو بھی اٹھا دو ورنہ تمہارے دادا جی چھڑی سے اٹھائیں گے۔“عنایت بی بی نے ارسلان کو آواز دی۔رات بچے دیر تک اپنے گھر اور گلی میں لائٹنگ کرتے رہے اور ہر طرف پرچم لگا رہے تھے کیونکہ کل 13اگست تھی اس لئے بچے 14اگست کے لئے اہتمام کرتے رہے اس لئے دیر سے سونے کی وجہ سے اب ان کی آنکھ نہیں کھل رہی تھی جبکہ ننھی اسمارہ اور نور فاطمہ ٹائم سے اٹھی ہوئی تھیں اور شور شرابہ کر رہی تھیں۔اوئے!توصیف،عدید اٹھ جاؤ ابھی جھنڈیوں کا سارا کام رہتا ہے پھر دھوپ نکل آئے گی۔“عدید اور توصیف آنکھیں ملتے ہوئے فوراً اٹھ گئے نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد بچے اپنے دادا جی کے کمرے میں آگئے۔(جاری ہے)انہوں نے دیکھا تو دادا جی قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول تھے۔وہ چار پائی پر بیٹھ گئے اور ان کے فری ہونے کا انتظار کرنے لگے۔دادا جی آنکھ چرا کر بچوں کی طرف بھی دیکھ لیتے اور تلاوت بلند آواز میں شروع کر دی پھر تھوڑی دیر بعد وہ فارغ ہو گئے۔انہوں نے قرآن پاک کو چوم کر الماری میں رکھ دیا پھر وہ بچوں کی طرف متوجہ ہو گئے تو سب بچوں نے دادا جی کو سلام کیا انہوں نے خوش ہو کر سلام کا جواب دیا اور پیار سے باری باری سب کے سر پر ہاتھ پھیرا۔عدید نے محبت سے کہا۔دادا جی جشن آزادی مبارک ہو۔”ارے بیٹا!کیا آج 14اگست ہے؟“جی دادا جی،توصیف نے فوراً جواب دیا اور کہا۔دادا جی ہم سب اب جھنڈیاں لگانے لگے ہیں کہ اچانک ہمیں خیال آیا کہ پہلے آپ کو آزادی کی مبارکباد دے دیں اور پھر اپنا کام شروع کریں۔”جیتے رہو اور جاؤ جلدی سے جھنڈیوں کا کام نپٹالو اور پھر زمین پہ بھی جانا ہے کپاس کی گوڈی کرنی ہے اور سبزیاں توڑ کر منڈی بھی لے کر جانی ہیں۔“دادا جی نے کہا”ہر گز نہیں۔آج ہم آزادی منائیں گے اور آج سبزیاں منڈی نہیں لے کر جائیں گے کیونکہ کل شام کو چاچو امجد اور بھائی عرفان نے سبزیاں توڑ لیں تھیں وہ صبح صبح منہ اندھیرے ریڑھی پہ رکھ کر لے گئے ہماری آج ہر کام سے چھٹی ہم آزادی منائیں گے۔چاچو کے بچے بھی ہمارے ساتھ انجوائے کریں گے۔ان کے چاچو بھی انہی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے جبکہ چھوٹے چاچو جاوید فیصل آباد تولیے کی فیکٹری چلا رہے تھے وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ وہی رہتے تھے کبھی کبھی چکر لگاتے تو گھر کی رونق دوبالا ہو جاتی۔دادا جی کے وہ سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے تھے ان سب کے لئے ڈھیروں تولیے فیکٹری سے بنا کر لے آئے اور پورے خاندان والوں کو دیتے۔”سب بچے برآمدے میں چٹائی پہ آکر بیٹھ جاؤ اور ناشہ کرلو۔“بچوں کہ ممانی تصور خانم نے دروازے سے جھانک کر آواز لگائی اور فوراً رفو چکر ہو گئی۔ان کو عنایت بی بی نے کہا تھا پیاری تصور ذرا بچوں کو بلا لو پہلے ناشتہ کر لیں پھر یہ سب جھنڈیاں لگانے میں مصروف ہو جائیں گے اور جلدی جلدی توے پر پراٹھے بنائی جا رہی تھی۔ گرما گرم پراٹھوں کی خوشبو نے عدید کو پاگل کر دیا اور سب بچوں میں آگے آگے اچھلتا ہوا آرہا تھا۔بے دھیانی میں ممانی تصور سے ٹکرا گیا اور اس کے ہاتھ سے میٹھی لسی کی بالٹی گر گئی جس سے ماموں طفیل پوری طرح سے نہا گئے کیونکہ راستے میں ہی پیڑھی پر بیٹھے تھے پھر ان کے اور ممانی کے کافی پھکڑ تاڑی ہو گئے۔طفیل محل پیلا پڑ گیا اور دوبارہ نہانے چلا گیا۔نانی زبیدہ نے آکر دونوں کا معاملہ رفع دفع کروایا جو کہ عنایت بی بی کے پاس بیٹھی دہی کے ساتھ گرما گرم پراٹھے کھا رہی تھیں۔تھوڑی دیر میں سب بچوں نے مزے مزے سے آلو والے پراٹھے دہی کے ساتھ کھائے اور اپنی والدہ کے سر ہو گئے کہ گوند(الٹی)تیار کر دی آپ نے۔عنایت بی بی بولیں صبر کرو وہ تو رات ہی میں نے اور تصور نے تیار کرکے رکھ دی تھی۔نیم کے درخت کے نیچے پتیلا پڑا ہے جاؤ جاکر اور جھنڈیاں جوڑ لو خیال رہے ممانی کے کمرے میں یاد سے جھنڈیاں لگانا اور نہ وہ ناراض ہو جائے گی اور سارے گھر میں لڑائی مچ جائے گی وہ رات میرے ساتھ اس لائے ہاتھ بٹاتی رہی پھر جدید اور توصیف باؤلز میں گوند ڈال کر بیٹھ گئے اور دھاگوں پہ رنگ برنگی جھنڈیاں چپکانے لگے اور ضمن،حسان اور ارسلان جھنڈیوں کی لائن سیدھی کرتے جا رہے تھے۔”اوئے،نور فاطمہ جھنڈیوں پہ پانی گرائے جا رہی ہو اس کو روکو۔“حسن نے چلاتے ہوئے کہا۔تین سالہ نور فاطمہ گلاس میں پانی ڈال کر جھنڈیوں پہ گرا رہی تھی اور خوشی سے اچھل رہی تھی۔دادا جی گھر میں لگے نیم کے درخت کے نیچے بیٹھے حقہ پی رہے تھے اور یہ سب نظارہ انجوائے کر رہے تھے پاس ہی ان کے سب سے بڑے بیٹے سرور صاحب براجمان تھے۔وہ دونوں باپ بیٹا14اگست کے حوالے سے بحث ومباحثے میں مصروف تھے پھر چاچو امجد بھی زمینوں سے واپس آکر ان کے پاس بیٹھ گئے اور اب بحث و تکرار عروج پر تھی۔بچوں نے ان کی بلند آوازیں سن کر نظر انداز کر دیا کہ یہ تو ان کے روز کے معمولات ہیں۔”عرفان!پتر پہلا کام ناشتے والا کرلو ہم نے برتن سمیٹتے ہیں اور تم نہار منہ آم کھانے بیٹھ گئے ہو۔“عرفان نے موقع غنیمت جان کر جلدی جلدی گرم گرم ہی آم کھانے شروع کر دئیے باقی سارے بچے جھنڈیوں میں مصروف تھے۔بیٹا نہار منہ گرم گرم نہیں کھاتے میں ٹھنڈے کر دیتی ہوں پھر سارے بچے ایک ساتھ کھا لینا پھر عنایت بی بی اور تصور خانم نے دو بڑے ٹب میں آم بھگو دئیے۔عدید سے بھی نہ رہا گیا وہ بھی جھٹ سے وہ آم اٹھالایاایک جھولی میں رکھ لیا اور دوسرا منہ میں ٹھونس لیا اور ساتھ ساتھ جھنڈیاں جوڑتا جا رہا تھا۔ساری جھنڈیاں جوڑ کر بچوں نے پورے گھر کو دلہن کی طرح سجا دیا اور باہر لگی میں بھی پک سڑک تک جھنڈیاں لگا دی۔عدید اور توصیف شہر سے کافی مقدار میں جھنڈیاں لائے تھے۔کچھ پیسے انہوں نے گھر والوں سے لئے اور کچھ عدید نے گندم نعمان بھائی کی دکان پہ پہنچ کر حاصل کر لئے اس لئے سبز ہلالی جھنڈیوں کا کافی انتظام ہو گیا۔ " معلومات - تحریر نمبر 1777,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maloomaat-1777.html,"کائنات کیا ہے؟زمین،چاند،سورج،ستاروں اور سیاروں کو کائنات کہتے ہیں۔کائنات کے بعض ستارے زمین سے اتنی دور ہیں کہ ہم انہیں صرف دوربین کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں۔کچھ ان سے بھی زیادہ دور ہیں اور انہیں طاقتور سے طاقتور دوربین سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ وہ وہاں واقعی موجود ہیں۔سائنس دانوں نے دوربینوں اور بڑے بڑے،کیمروں کی مدد سے ان کی تصاویر لی ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ان سے بہت پرے ایسے ستارے بھی ہوں گے جو ابھی تک دریافت نہیں ہو سکے۔کائنات کب پیدا ہوئی؟اکثر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ اسی طرح رہے گی۔یعنی نہ تو اس کی کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا۔(جاری ہے)البتہ ستارے اور سیارے ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ان میں سے ہر ایک کی ابتداء کسی نہ کسی شکل میں ضرور ہوئی اور اس وقت سے اب تک ان کی شکل خاصی بدل چکی ہے۔ستارے جب بہت پرانے ہو جاتے ہیں تو ان کے اندر کی گرمی کم ہو جاتی ہے اور اس سے ان کی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے۔آخر ایک دن وہ بجھ کر فنا ہو جاتے ہیں۔لیکن ان کی جگہ خالی نہیں ہوتی۔اس جگہ کوئی اور ستارہ پیدا ہو جاتا ہے۔ایسا کروڑوں سالوں سے ہو رہا ہے۔زمین گول کیسے ہوئی؟آپ کھڑکی میں سے باہر جھانکتے ہیں تو آپ کو مکانات ،گلی کوچے،درخت اور کھیت نظر آتے ہیں۔لمبے اور پہاڑ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ان کے علاوہ آپ اور بھی ہزاروں چیزیں دیکھتے ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی شے ایسی نہیں جس سے اس بات کا پتہ چلے کہ زمین گول ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زمین گول ہے اور یہ ایک بہت بڑی گیند کی مانند ہے۔اس کی گولائی آپ کو اس لئے نظر نہیں آتی کہ آپ اس کے بہت قریب ہیں۔اگر آپ ہوائی جہاز یا خلائی راکٹ میں بیٹھ کر اوپر جائیں تو آپ کو زمین کی گولائی کا پتہ چل سکتا ہے۔فضاء سے زمین کی جو تصویریں لی گئی ہیں ان سے بھی آپ کو زمین کے گول ہونے کا ثبوت مل سکتا ہے۔زمین کو بنے کروڑوں سال ہو گئے ہیں۔ شروع میں یہ مختلف مادوں کا ایک بے بلگم سا ڈھیر تھی۔یہ ڈھیر سورج کی کشش کے باعث اس کے گرد گھومنے لگا۔اس عرصے میں اس ڈھیر میں اور بہت سے مادے بھی آکر شامل ہوتے گئے۔یہ تمام مادے کشش ثقل کی وجہ سے آپ تپس گھتے ہوئے ہیں۔کشش ثقل ہر چیز کو مادوں کے اس ڈھیر کے مرکز کی طرف کھینچتی ہے۔جب مختلف چیزیں ایک وقت میں ایک ہی مرکزی کی طرف کھینچتی چلی جائیں تو وہ گیند کی شکل میں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔زمین کے ساتھ بھی یہی ہوا اور اسی طرح گول ہوئی۔کچھ عرصے بعد زمین کی سطح سخت ہو گئی۔یہ سطح سنگترے کے چھلکے سے کچھ ملتی جلتی ہے۔سنگترے کے چھلکے پر گڑھے اور ابھار ہوتے ہیں۔ زمین کی سطح پر بھی ایسے ہی گڑھے اور ابھار ہیں جنہیں ہم پہاڑ اور وادیاں کہتے ہیں۔جس طرح سنگترہ پوری طرح گول نہیں ہے اسی طرح زمین بھی پوری طرح گول نہیں ہے۔زمین سورج کے گرد کیوں گھومتی ہے؟آپ نے وہ گیند تو دیکھی ہو گی جس میں ڈوری بندھی ہوتی ہے اور بچپن میں اس سے کھیلا بھی ہو گا۔جب ڈوری کو زور سے گھمایا جاتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے گیند ڈوری کو کھینچ رہی ہے اور ڈوری توڑ کر بھاگنے کی کوشش میں ہے مگر ڈوری اسے بھاگنے نہیں دیتی۔جب تک آپ ڈوری کو گھماتے رہتے ہیں،گیند آپ کے گرد ہوا میں چکر کاٹتی رہتی ہے۔زمین بھی گیند کی طرح سے اور سورج سے اپنے گرد گھماتا ہے۔اب آپ پوچھیں گے کہ وہ ڈوری کہاں ہے جس سے زمین بندھی ہوئی ہے جو اب یہ ہے کہ زمین سے سورج تک کوئی ڈوری نہیں۔لیکن ایک ایسی چیز ضرور ہے جو ہمیں نظر تو نہیں آتی لیکن وہ زمین کو سورج کی طرف کھینچتی ہے اور اسے ادھر ادھر نہیں بھاگنے دیتی۔یہ چیز سورج کی کشش کھلاتی ہے۔سورج زمین کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔لیکن زمین گیند کی طرح اس سے بھاگنے کی کوشش کرتی ہے۔اس طرح زمین کا کھچاؤ سورج کے کھچاؤ کے برابر ہو جاتا ہے اور زمین ایک خاص راستے پر سورج کے گرد،گردش کرتی ہے۔یہ راستہ زمین کا مدار کہلاتا ہے۔ " آزادی کا دن - تحریر نمبر 1776,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azaadi-ka-din-1776.html,"سونیا ایمان”چاچو جان!جشن آزادی مبارک ہو آپ کو جلدی سے اٹھ جائیں صبح ہو گئی ہے“ننھی مصفرا ہاتھ میں قومی پرچم پکڑے اپنے چاچو کے کمرے میں داخل ہوئی۔اوہ!بیٹا صبح ہو گئی مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔دراصل رات کو دیر تک چاچو جان سارے گھر اور گلی میں لائٹنگ کرتے رہے اس لئے دیر تک جاگتے رہے اور اب ننھی مصفرانے آکر اپنے پیارے چاچو کو جگایا۔اوہ!مصفرا تو آج بہت پیاری لگ رہی ہے اس لباس میں مصفرانے سبز اور سفید رنگوں سے بنی فراک پہنی ہوئی تھی اور پری لگ رہی تھی۔اتنی دیر میں زوبی نے بھی دروازے سے منہ نکالا اور کہا ماموں جان جلدی سے فریش ہو جائیں میں آپ کا ناشتہ ریڈی کر رہی ہوں اور چائے کے لمبے لمبے گھونٹ بھرتی کچن کی طرف چل دی۔صائم نے باہر صحن میں دیکھا تو بچوں کی گہما گہمی تھی ہر طرف شور شرابہ ہو رہا تھا۔(جاری ہے)معاذ،انس اور حمر جھنڈیاں جوڑ جوڑ کر لائنیں بنا رہے تھے اور ”پاکستان زندہ باد“کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔عنایہ اور مصفرا ہاتھوں میں قومی پرچم پکرے ملی نغمے گا رہی تھیں۔تعلیمی مراکز بند ہونے کی وجہ سے اس بار صائم نے بچوں کا پورا آزادی پروگرام گھر میں ہی ترتیب دیا تھا حالات جیسے بھی تھے بہر حال آزادی کا دن تو آخر منانا تھا اس لئے گھر میں ہی ایک چھوٹی سی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔صائم نے رات ہی صحن میں شامیانہ لگوا دیا تھا تاکہ دن کو بچے یہاں جشن آزادی کا دن پورے جوش و خروش سے منا سکیں۔ناشتہ کرنے کے بعد صائم نے اپنے کزنز کے ہمراہ لان میں اسٹیج بنایا اور باقی بچے سبز ہلالی جھنڈیوں کو جوڑ کر صحن سجاتے جا رہے تھے۔”ارے اس مصفرا کو روکو ساری جھنڈیاں خراب کر رہی ہے“۔معاذ نے چلاتے ہوئے کہا مصفرا اپنی دھن میں مگن عنایہ کے ساتھ صحن میں باگ دور کر رہی تھی اور بے دھیانی میں جھنڈیوں کی لائن پر چڑھ گئی کچھ جھنڈیاں اُس کے پاؤں تلے آکر پھٹ پڑیں۔مصفرا کی ماما نے اس کو ڈانٹا”بُری بات بیٹا جھنڈیوں پر پاؤں نہیں رکھتے ان پر چاند تارے بنے ہوئے ہیں“۔معاذ اور انس گوند سے جھنڈیاں دھاگوں پہ چپکا کر لائنیں بناتے جا رہے تھے اور عبدالرحمن،عمر اور نور لائنیں سیدھے کرکے رکھو تاکہ ایک دوسری سے الجھے نہ اور گوند جلدی خشک ہو جائے۔لیٹی(گوند) کا بڑا پتیلا باجی اور زوبی نے صبح صبح یہ بچوں کو تیار کردیا تھا۔اب اس سے جتنی مرضی جھنڈیاں لگائیں۔بی بی جان اپنے کمرے میں قرآن پاک کی تلاوت کرکے اب تسبیح کر رہی تھیں اور ملک وقوم کی سلامتی کے لئے دعا کر رہی تھیں۔تھوڑی دیر میں بچوں نے پورے گھر کو رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجا دیا۔صحن میں کچھ کرسیاں لگا دیں پھر اس پر سارے بچے تیار ہو کر بیٹھ گئے اب پروگرام کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں۔صائم نے مائیک میں کہا سب سے پہلے تلاوت قرآن پاک کے لئے عمر کو اسٹیج پر بلایا پھر عمر نے بلند آواز میں تلاوت کی اور پھر باقاعدہ پروگرام کا آغاز ہو گیا۔بچوں کی خوشی کی انتہا نہیں تھی گھروں میں رہ رہ کر بور ہو گئے تھے۔عید الاضحی گزرے کچھ دن ہوئے عید پر بھی زیادہ ہلا گلہ نہیں ہو سکا تھا تو صائم نے سوچا چلو 14اگست آرہی ہے بچوں کے لئے گھر میں چھوٹی سی تقریب کا بندوبست کرتا ہوں اور اب 14اگست کا مبارک دن آگیا۔صائم نے فیملی کے چند لوگوں کو گھر میں اکٹھا کر لیا جن میں بچے بوڑھے جوان سب نے شمولیت اختیار کی۔عنایہ کی آنٹی مسرت نے اپنی پرانی دوست نسرین کو بھی اس کے بچوں سمیت انوائٹ کرایا وہ بھی چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرے آناً فاناً پہنچ گئیں۔بچے باری باری اسٹیج پر جاتے اور ملی نغموں اور تقاریر سے سب فیملی ممبرز کو محفوظ کر رہے تھے۔گھر کی بڑی خواتین نے کھانے پینے کا بھی اہتمام کر لیا۔قربانی کا ابھی گوشت پڑا تھا زوبی نے اس سے مزیدار پلاؤ تیار کرایا۔آپانسرین اور عرہاشم نے مل کر پکوڑے سموسے تل لیے عنایہ کے چھوٹے ماموں جمشید نے کافی مقدار میں کولڈ ڈرنک اور آم کی پیٹیاں لادیں۔یوں ایک پُر کیف تقریب کا انتظام ہو گیا۔اب انس اسٹیج پر آکر تقریر کرنے لگا اور سب خاموشی سے سننے لگے۔میرے ہم مکتب ساتھیو اور بزرگو اسلام علیکم! آج 14اگست ہے آزادی کا دن جس کے لئے نہ جانیں کتنی جانوں کے نذرانے پیش ہوئے تب ہمیں حاصل ہوا اپنا پیارا وطن پاکستان۔اگست 1947ء میں برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی نصیب ہوئی اور ایک علیحدہ وطن کا تحفہ نصیب ہوا۔آزادی کتنی بڑی نعمت ہے اس کا اندازہ لگانا ہو تو کشمیر اور فلسطین کو دیکھئے جہاں آزادی کی جدوجہد کرتے ہوئے کئی نسلیں ختم ہو چکی ہیں لیکن ان کی جدوجہد آج بھی جاری ہے ،وہ آج بھی آزادی کے لئے جانیں قربان کر رہے ہیں۔غلامی سے بدتر کوئی چیز نہیں یہ انسانی فطرت کو اعلیٰ ترین اوصاف سے محروم کر دیتی ہے ان سے بصیرت چھین لیتی ہے ۔آزادی قدرت کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے اس انعام کی قدر کریں اس وقت ہم جن حالات سے دو چار ہیں سب مل کر دعا کریں اپنے ملک کی خیرو سلامتی کے لئے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس مشکل گھڑی سے آزادی دلائے اور حالات پھر سے ویسے ہو جائیں ۔تعلیمی مراکز کھل جائیں ہم سٹوڈنٹس کے لئے یہ بہت بڑا نقصان ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پاکستان کو سر سبز،خوشحال اور قائم دائم رکھے آمین۔آپ سب کو میری طرف سے جشن آزادی مبارک تالیوں سے پورا پنڈال گونج اٹھا اور انس اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔بی بی جان بہت خوش ہوئیں انہوں نے اس تقریب کو بہت سراہا اور سب کو داد دی کہ انہوں نے ایسا خوبصورت پروگرام گھر میں ترتیب دیا جس میں بچوں کا جوش و ولولہ عروج پر تھا پر زوبی آپا مسرت اور آپا نسرین نے فریشمنٹ کا سارا سامان سرو کیا اور یوں یہ خوبصورت تقریب اختتام پذیر ہوئی اور سب بچے خوشی خوشی اپنے اپنے گھروں کو چل دئیے۔پاکستان زندہ باد " عید الاضحی - تحریر نمبر 1775,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/eid-ul-adha-1775.html,"سورج ڈوب چکا اور رات ہو چکی تھی جو بھی اس راستے سے گزرتا وہ یہی کہتا کہ سر پنچ کشن لال کی یہ بکری تو گئی جان سے۔شیر اسے کھا جائے گا یا بھیڑیا چٹ کر جائے گا۔چاروں طرف سناٹا چھانے لگا۔میرے تو ہوش اُڑ گئے۔مجھے ماں کی یاد آنے لگی اور بہن چھوٹی کے ساتھ کھیلنا کودنا بھی یاد آنے لگا۔میں سوچنے لگی ہائے!اب کیا ہو گا۔جنگل سے طرح طرح کی ڈراونی آوازیں آرہی تھیں میں نے رونا اور چلانا چاہا پھر میں نے سوچا کہ کہیں میری آواز سُن کر شیر نہ آجائے۔اچانک کسی کا سایا نظر آنے لگا اور کوئی میری طرف بڑھنے لگا میں ڈر گئی لیکن کیا دیکھتی ہوں کہ وہ ایک خرگوش ہے۔اس نے مجھ کو بندھا دیکھا اور خود ہی دور بھاگ گیا۔میں تھوڑی دیر تک اور کھڑی رہی اور پھر نیچے بیٹھ گئی۔رات اور گہری ہوتی گئی،مجھے بار بار ہر آہٹ پر یہ لگتا تھا کہ شیر اب آیا ،شیر اب آیا۔(جاری ہے)مجھے کسی کے دھیرے دھیرے چلنے کی آہٹ محسوس ہوئی ۔بس میں سمجھ گئی کہ اب میرا کام تمام ہو جائے گا سو میں نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لیں۔مجھے ایسا لگنے گا کہ اب مجھے شیر یا بھیڑیا بس دبوچنے ہی والے ہیں اچانک کسی نے میرے گلے پر ہاتھ رکھا میں بہت زیادہ ڈر گئی اور کانپنے لگی۔میں نے محسوس کیا کہ یہ ہاتھ تو بہت زیادہ نرم وملائم بالکل منا کے ہاتھ جیسا۔ہاں یہ منا ہی تھا اس نے میرے گلے کی رسی کھول دی اور میرے کان میں کہا:”جا جلدی سے گھر کی طرف بھاگ جا۔“میں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور گھر کی طرف پوری رفتار سے دوڑنے لگی۔ماں میرے بغیر زور زور سے نسیا رہی تھی۔مجھے واپس آیا ہوا دیکھ کر میری بہن چھوٹی خوشی سے اچھلنے کودنے لگی۔مجھے آج پتا چلا کہ منا مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے اور وہ میرا سچا اور اچھا دوست ہے۔دوسرے دن پتا چلا کہ شیر اُدھر سے گزر رہا تھا جب اس نے بالٹی میں پانی دیکھا تو اس کو پینے کے لئے آگے بڑھا اور جال میں پھنس گیا لوگوں نے اسے پکڑ کر چڑیا گھر بھجوایا۔اس طرح منا کی مجھ سے دوستی اور پیار کی وجہ سے میری جان بھی بچ گئی اور شیر بھی پکڑا گیا۔ " مُنّا میرا دوست - تحریر نمبر 1774,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/munna-mera-dost-1774.html,"ہماء بلوچجب سے جنگل کٹنے شروع ہوئے ہماری تو مصیبت ہی ہو گئی یہ جنگل میں شکار نہیں ملتا تو شیر اور بھڑیے گاؤں میں گھس آتے ہیں جو ملا اسے ہی مار کر کھا جاتے ہیں،چاہے بچھڑا ملے،بھیڑ،بکری یا کتا بلی۔ہمارے گاؤں میں پچھلے کئی دنوں میں بہت ساری اس طرح کی وار دات ہو چکی ہے۔رات میں چپکے سے شیر آیا اور ایک گائے کو مار کر کھا گیا ۔دوسرے دن ہمارے پڑوسی کی گائے کے بچھڑے کو کھا گیا۔بھیڑیے نے ایک رات ہمارے گاؤں کے سر پنج کے کتے تامی کو ہی کھا ڈالا۔گاؤں والوں کے دلوں میں ڈر بیٹھ گیا کہ شیر اور بھیڑیے کسی دن کہیں آدمی کو نہ کھا لیں اور آدم خوربن کر بڑا نقصان پہنچائیں۔گاؤں کے لوگ اس مسئلے کو لے کر چوہدری کے گھر پہنچے وہاں پہنچ کر سب اپنی اپنی ہی بولی بول رہے تھے کوئی کہہ رہا تھا:”اس سال بارش کم ہوئی تمام تالاب سوکھ گئے۔(جاری ہے)“کوئی کہہ رہا تھا:”جنگل میں اب درخت نہیں بچے ہیں ہم پکانے کے لئے لکڑیاں کہاں سے کاٹ کر لائیں؟“وغیرہ۔چوہدری نے تبھی بیچ میں کہا کہ:”پانی کی تلاش میں ہی شیر اور بھیڑیے گاؤں میں آرہے ہیں اور جنگل میں درختوں کی لگا تار کٹائی ہونے سے چھوٹے چھوٹے جنگلی جانور گاؤں کی طرف آکر اپنے پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں۔شیر اور بھیڑیے کو شکار نہ ملنے کی وجہ سے وہ بھی گاؤں کی طرف رُخ کرتے ہیں ایسے حادثات کے ذمہ دار تو ہم ہی ہیں۔“راحیل دُکھی لہجے میں کہنے لگا:”شیر نے تو میری گائے کی بچھڑی کو ہی کھا گیا ہے چوہدری صاحب کوئی علاج سو چیے۔“احمد خان نے کہا:”رشید لوہار سے ایک جال بنوا لیتے ہیں اور شیر اور بھیڑیے کو اس میں پھنسا لیتے ہیں تاکہ ہم سکھ کی سانس لے سکیں۔“احمد خان کی بات سب کو ٹھیک لگی۔رشید لوہار نے کہا کہ:”ایسا جال بناؤں گا کہ شیر ہو یا بھیڑیا،پیر رکھتے ہی پھنس جائیں گئے۔“لوگوں نے کہا کہ یہ بھی بھلے کر لیا جائے کہ شیر اور بھیڑیے کو پھنسانے کے لئے کیا کیا جائے؟کوئی بھیڑ بکری جال کے پاس باندھنی پڑے گی تب ہی تو شیر یا بھیڑیا وہاں آئیں گے۔”بکری میں دے دوں گا۔“عبدالہادی یعنی میرے مالک نے کہا ۔میں کھوٹنے سے بندھی یہ سب سن رہی تھی۔میرے تو پیروں کے نیچے کی زمین کھسک گئی۔میرا سر چکرانے لگا۔مجھے چوہدری کے اوپر غصہ آنے لگا۔تامی نے اپنی جان دے کر میری جان بچائی تھی۔وہ زور زور سے بھونکتا رہا۔کسی نے دھیان ہی نہیں دیا آخر کار بھیڑیے نے اسی کو اپنا شکار بنا لیا۔مُنا بھی چارپائی پر بیٹھا لوگوں کی باتیں سُن رہا تھا۔وہ بول پڑا:”میں اپنی بکری نہیں دوں گا۔گاؤں میں کئی لوگوں کے یہاں کئی کئی بکریاں ہیں۔ہم کیوں اپنی بکری دیں؟“․․․․اُسے اس طرح بیچ میں بولتا دیکھ کر احمد خان نے ڈانٹ کر کہا:”بچے اس طرح بڑوں کے بیچ میں نہیں بولا کرتے۔“کئی لوگوں نے ایک ساتھ مڑ کر مُنا کی طرف دیکھا وہ سب کو گھور رہا تھا۔مجھے بہت اچھا لگا چلو کوئی تو ہے جو میرے بارے میں سوچتا ہے۔میری جان میں جان آئی۔مُنا ضدی ہے،وہ میرے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ہمارے خاندان میں صرف تین جانور ہیں۔میری ماں ،میری بہن چھوٹی اور میں․․․ماں کو جال کے پاس باندھا جائے گا تو شیر یا بھیڑیا کھا جائے گا۔میری بہن چھوٹی ابھی بہت چھوٹی تھی وہ چارا کم کھاتی تھی۔روز وہ ماں کا دودھ پیتی تھی۔ماں کے بغیر وہ پل بھر نہیں رہے سکتی تھی اور دودھ کے بغیر تو اس کا زندہ رہنا ہی مشکل ہو جائے گا۔اب صرف میں بچی تھی۔رشید لوہار نے لوہے کا جال بنا دیا،گاؤں کے کنارے والے راستے پر باندھنے کے لئے مجھے لے کر گئے۔مُنا نے بہت ہائے تو کی بہت رویا،گڑگڑایا لیکن اس کی بات کسی نے نہ سنی مجھے ایک کھوٹنے سے باندھ دیا گیا۔میرے سامنے ہری ہری گھاس ڈال دی گئی ایک بالٹی میں میرے لئے پانی بھی رکھ دیا گیا۔میں ڈری سہمی تھی،کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ مجھے اس جگہ کیوں باندھا گیا ہے میں نے چارا تو نہیں کھا یا ہاں ! تھوڑا سا پانی ضرور پیا۔ " مجھے بکرا چاہئے - تحریر نمبر 1773,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mujhe-bakra-chahiye-1773.html,"صائم جمال”مجھے بکرا چاہئے اس عید پہ ہر حال میں ”آٹھ سالہ ارشمان نے چلاتے ہوئے اپنی امی جان سے کہا۔جب سے دادا دادی ہم سے الگ ہو گئے ہیں ابو قربانی کرتے ہی نہیں ہیں۔میرے سب دوستوں کے گھر ہر سال قربانی ہوتی ہے،سب میرا مذاق اڑاتے ہیں۔اچھا بیٹا میں اس بار پوری کوشش کروں گی تیرے ابو کو قائل کرنے کی لیکن وہ کسی کی کہاں سنتے ہیں،اتنی کنجوسی اچھی بات نہیں ہے اس کی انہی حرکتوں کی وجہ سے ان کے اماں ابا الگ ہو گئے تاکہ اس کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو۔حالانکہ اس سال فصل بھی اچھی ہوئی ہے اور سبزی کا کاروبار بھی اچھا جا رہا ہے۔سبزی منڈی میں اس بار تیرے ابو کی کافی سبزی گئی ہے اور اچھے داموں فروخت ہوئی کل ہی تمہارے ماموں کا فون آیا تھا کہ اس بار تو بھائی صاحب کے وارے نیارے ہو گئے،مگر ہمارے حالات پتہ نہیں کب تبدیل ہوں گے۔(جاری ہے)ارشمان گویا ہوا۔ارشمان کے والد کی زمین بھی تھی اور سبزی کریانہ کی شاپ بھی تھی لیکن اس کی فطرت پر لے درجے کی لالچی تھی ہر وقت ارشمان کے ماموں لوگوں سے اپنی گھریلو ضروریات پوری کرواتا رہتا اپنی بیوی نورین کو خرچہ نہ دینا اور وہ مجبور ہو کر بھائیوں سے خرچہ لے کر آتی۔”امی آپ ماموں سے کہیں وہ ہمیں بکرا لے دیں“بیٹا اُن کے پہلے ہی مجھ پر اتنے احسانات ہیں میری ہمت نہیں ہو رہی لیکن میں کوشش کروں گی اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔اللہ تمہارے بابا کو ہدایت دے یہ دنیا کا مال دنیا میں ہی رہ جانا ملک کے حالات کیسے ہوئے پڑے ہیں ،کیسی کیسی آفات سے دنیا دو چار ہے مگر مجال ہے اس ڈھیٹ آدمی پہ کوئی اثر ہو۔نور ین نے ارشمان کی ضد کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ بھائیوں کے پاس جاتی ہوں کہ اس بار پیسے نہ دیں بلکہ کوئی مناسب سا بکرا لے دیں کیونکہ پیسے بہانے بہانے سے اس کا شوہر اس سے لے لیتا۔چنانچہ وہ اپنے دونوں بچوں ارشمان اور ارحہ کو لے کر اپنے میکے گئی۔”بھابھی !دراصل میں بھائی جن سے ملنے آئی ہوں“عید میں چند دن رہ گئے ہیں ویسے تو ہر سال مجھے سب بھائی ٹائم سے عید بھجوا دیتے ہیں مگر اس بار شاید مصروفیت کی وجہ سے ابھی بھائیوں نے عید نہیں بھجوائی ابھی۔بھابھی !بچے اس بار ضد کر رہے ہیں کہ ہمیں بکرا لینا ہے میں نے ان کو بہت سمجھایا ہے مگر یہ نہیں مان رہے۔ہمارے اپنے بچے ہیں اتنی مہنگائی ہے اور ابھی میں نے اپنی چھوٹی بہن کی شادی کی ہے ہم چچا زاد کزنز بھی ہیں شروع سے ایک ہی گھر میں رہیں اماں کے انتقال کے بعد حوریہ کو میں نے اپنی بہن سے زیادہ بیٹی بن کر پالا اور اس کی شادی اچھے گھرانے میں کی تاکہ اس کو محسوس نہ ہو کہ اس کی ماں نہیں ہے اس لئے اب اپنے شوہر کو اپنے قابو میں کرو اور اپنے اخراجات خود پورے کیا کرو ہمیں بخش دو بہن اب۔اس کی التجا کے برعکس بھابھی نے جس حقارت سے جواب دیا،نورین کا دل چاہا زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔بڑی بھابھی کی آواز سن کر چھوٹی بھابھی بھی آگئی اور وہ بھی بولنا شروع ہو گئی حالانکہ وہ جاب کرتی تھی لیکن دل کی بہت چھوٹی تھی دونوں بھابھیوں کا بہت گٹھ جوڑ تھا لیکن نورین کے بھائی اچھے تھے۔انہوں نے نورین کو کبھی کسی بات کا طعنہ نہیں دیا۔نورین کے بھتیجے آہان نے ان کی ساری گفتگو سنی اور اس کا دل اپنی ماں اور چاچی سے بہت جلا اور اپنی پھوپھو۔بہت ترس آیا جیسے آہان پہ اُس کی ماں کی نظر پڑی تو فوراً موضوع بدلا اور نورین سے کہا اچھا اچھا تمہارے بھائی آئیں گے تو میں اُن سے بات کروں گی۔نورین نے اپنے بچوں کو سمجھایا اور دوبارہ بھائی کی طرف نہ جانے کا عبد کرلیا۔اُس کے دونوں بچے بے چارے صبر کرکے چپ ہو کر رہ گئے۔عید سے ایک دن پہلے بھابھی اپنے بیٹے آہان کے ساتھ نورین کے گھر آئی اور رسما چند ہزار نورین کو تھما دیئے کہ بچوں اور اپنے لئے کپڑے لے لینا لیکن نورین نے لینے سے انکار کر دیا،آہان یہ صورتحال دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔بھابھی نے گھر آکر یہ بات سب سے چھپالی اگلے دن عید تھی اور یہ ساری صورتحال کی اپنے شوہر کو ہوا تک نہ لگنے دی اور کہا کہ بھئی نورین کے حالات تو اب کافی بہتر ہو گئے ہیں اُس کے شوہر کو عقل آگئی ہے۔بھائی سُن کر مطمئن ہو گیا۔آج عید الاضحی کا مبارک دن تھا۔بچوں نے قربانی کے جانوروں کو بہت سجایا ہوا تھا ان کے پاؤں میں گھنگھروں باندھے ہوئے تھے ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔عید نماز کے بعد قصاب نے آکر قربانیاں کردیں پھر گوشت کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔بڑی بھابھی نے سب سے پہلے اپنی بہن کے لئے صاف ستھرا گوشت الگ کر لیا کہ شادی کے بعد اُس کی پہلی عید ہے ہم سب پہلے اس کی طرف جائیں گے۔باقی گوشت بعد میں تقسیم کرتے ہیں لیکن نورین کے بھائی جو بھی فقیر اُن کے دروازے پہ آرہا تھا اُن کو گوشت دیئے جا رہے تھے۔بھابھی نے اقریار کا حصہ بھی کچن میں رکھ لیا اور اس میں سے بڑا پیکٹ بنا لیا اپنی بہن کے لئے لیکن نورین کا خیال کسی کو نہ آیا کہ اس کے گھر بھی گوشت بھیجنا ہے وہ بے چاری راہ دیکھ رہی ہو گی۔بھابھی نے اپنے شوہر اور بچوں کو ساتھ لیا اور مٹھائیاں ،پھل،کیک اور گوشت لے کر اس کی بہن حوریہ کے گھر جا پہنچے۔اتنا کچھ دیکھ کر دولاڈ سے بولی”ابا کیا ضرورت تھی اتنا سب کچھ لانے کی“یہ گوشت کیوں لائے ہم نے تو آج رات آپ کی طرف آنا تھا اور ویسے بھی ہماری تو قربانی تھی۔”ارے میری بھولی بہن لڑکی چاہے اپنے گھر کتنی بھی سُکھی ہو مگر میکے کامان تو اُسے ہمیشہ رہتا ہے اور جہاں تک گوشت کی بات ہے تو ہم نے اس کے تین حصے کیے ہیں۔غربا کو ہم اُن کا حصہ دے آئے ہیں اقربا کے حصہ میں سے تمہیں دینے آئے ہیں اس سے آپس میں اپنائیت کا احساس بڑھتا ہے۔اللہ نے سب اصول انسان کی بہتری کے لئے بنائے ہیں ہمارے گھر میں تو تمہارا حق اور حصہ پہلے کی طرح ہے اور ہمیشہ رہے گا“۔”ایک منٹ ماما“آہان نے ماں کو ٹوکا۔آہان اب میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا اور سب بچوں میں کافی سمجھدار تھا۔”کیا کہا آپ نے اس گھر میں آنٹی حوریہ کا حق اور حصہ ہمیشہ رہے گا؟کیونکہ خالہ حوریہ اس گھر کی بیٹی ہیں۔اور نورین پھوپھو کیا وہ اس گھر کی بیٹی نہیں؟اگر ہیں تو پھر ایک ہی گھر میں دو بیٹیوں کے لئے مختلف اصول کیوں؟آپ نے قدرت کے جو اصول بھی بتائے ہیں وہ سب پہ لاگو ہوتے ہیں اس گھر کی ایک بیٹی جسے اللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہے اس کے باوجود بھی اس کے حقوق اور حصے کا علم ہے مگر اس گھر کی دوسری بیٹی جو بے بس اور لاچار ہے اُس کے والدین بھی حیات نہیں،اس کے حقوق اور حصے کا خیال کیوں نہیں آپ کو؟یاد ہے نا آپ کو چند دن پہلے پھوپھو نورین اور ان کے بچوں ارشمان اور ارحد کو کس قدر ذلیل ورسوا کرکے نکالا تھا وہ اس وجہ سے عید پہ ہمارے گھر آئیں نہیں اور کسی نے ابھی تک اُن کو گوشت بھی نہیں بھیجا اور پاپا کو ابھی تک آپ نے اس بات سے لاعلم رکھا انہوں نے اُس دن پیسے بھی نہیں رکھے اور واپس کر دئیے کیا یہ گھر اب اُن کا نہیں رہا اُن کے والدین نہیں رہے تو وہ اس گھر کا راستہ ہمیشہ کے لئے بھول جائیں؟آہان کی باتوں میں سچائی تھی وہ بہت شرمسار ہوئیں اور اپنے شوہر سے معافی مانگی اُس کے دل سے کالک اُتر چکی تھی وہ چھوٹی بھابھی کی باتوں میں آچکی تھی۔آہان!بیٹا تم اپنی پھوپھو کو فون کرو ہم سب اس کی طرف آرہے ہیں پھر وہ سب مٹھائیاں ،کیک اور بکری منڈی سے اچھا سا بکرا لے کر نورین کے گھر آگئے۔نورین سے اس کی بھابھی نے اپنے روئیے کی معافی مانگی اور سب کے چہرے خوشی سے کھلکھلا اٹھے اس طرح ارشمان کی خواہش پوری ہوگئی۔ " قصائی میاں - تحریر نمبر 1772,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kasai-miyan-1772.html,"شاہ بہرام انصاریبقر عید کی آمد آمد تھی اور قصائی میاں بہت پریشان تھے کیونکہ انہیں ابھی تک کسی جانور کو ذبح کرنے کا آرڈر نہیں ملا تھا۔صبح سے وہ چار پائی پر سر جھکا کر بیٹھے سوچ رہے تھے کہ اگر آرڈر نہ ملا تو فاقے کی نوبت آن پہنچے گی۔قصائی میاں کا اصل نام تو اکرم تھا۔ان کے آباؤ اجداد ہندوؤں کی ظالمانہ کارروائیوں کی نذر ہو گئے تھے اور وہ بڑی مشکلوں سے جان بچاتے نئے وطن کی سرحد پار کر آئے تھے اس وقت ان کی عمر مشکل سے تیرہ برس ہو گی۔ہاروڈ کراس کرنے کے بعد لاہور کے مہاجر کیمپ میں انہوں نے عارضی سکونت اختیار کر لی وہاں ان کی ملاقات نزدیکی قصبے سے آئے ہوئے بزرگ آدمی اور ان کی بیوی سے ہوئی جن کی اولاد نہیں تھی۔دونوں بڑھاپے میں زندگی بسر کر رہے تھے اور مدت سے پیاسے صحرا پر ابر برسنے کا انتظار کر رہے تھے۔(جاری ہے)اکرم کو دیکھ کر دونوں کے دل میں اولاد کی آرزو کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا اور انہیں اکرم کو ہمراہ لے جانے پر اکسانے لگا۔انہوں نے اسے اپنے ساتھ رہنے کا کہا اور اس کی رائے پوچھی کہ کیا وہ ان کے ساتھ جانا چاہتا ہے؟اکرم ان شفیق ہستیوں میں گھل مل گیا تھا اس لئے ان کے ہمراہ جانے پر تیار ہو گیا۔دونوں نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا اور اس طرح وہ ان کے ساتھ رہنے لگا۔بزرگ نے اپنا نام معراج دین بتایا تھا۔وہ قصاب کے پیشے سے وابستہ تھے ان کا گھر چھوٹا سا تھا جو تھوڑے سے صحن اور ایک کمرے پر محیط تھا یہ گھر اکرم کے گھر کی نسبت کافی چھوٹا سہی لیکن یہاں آکر اس کو سکون کا احساس ہوا تھا ماں باپ کا جو سایہ اس سے چھن گیا تھا۔معراج دین اور ان کی بیوی کی صورت میں اسے دوبارہ مل چکا تھا۔سچ تو یہ تھا کہ دونوں نے اسے سگے بیٹے سے بڑھ کر پالا اسے پہلے پہل گھر والوں کی شدید یاد آتی لیکن ان دونوں کی رفاقت میں وہ انہیں بھلانے میں کامیاب ہو گیا۔اماں اسے صبح سویرے جگا کر بھیجتی واپسی پر مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ کھلاتی اور سر پہ تیل لگا کے آنکھوں میں سرمہ ڈالتی پھر معراج بابا اسے گاؤں کے ماسٹر کے پاس پڑھنے چھوڑ آتے۔اکرم کو پڑھنے کا شوق نہیں تھا چنانچہ اس نے پڑھائی کے معاملے میں گھٹنے ٹیک دئیے معراج بابا اسے اپنے ساتھ مکان پر لے کر جانے لگے کچھ عرصہ بعد اماں کا انتقال ہو گیا۔اکرم غمزدہ رہنے لگا کیونکہ اسے ان کی وفات کا گہرا رنج ہوا تھا۔اس کا دکان پر جی نہ لگتا تھا معراج بابا نے یہ سوچ کر اسے قصائی کے کام پر لگا دیا کہ اس کا دھیان بٹا رہے گا۔اب اکرم بڑا ہو گیا تھا اس لئے اس کی شادی ہوگئی اور معراج بابا بھی دار فانی سے کوچ کر گئے اکرم کو بہت دکھ ہوا اس نے بھی معراج بابا اور اماں کی خدمت کرتے ہوئے اپنے بیٹے ہونے کا حق ادا کر دیا تھا۔اب اکرم اپنے قصبے کا ماہر قصائی تھا اور اسی بدولت”قصائی میاں“کہلایا جانے لگا تھا۔قصائی میاں جانوروں کی فطرت سے اس قدر آشنا ہو چکے تھے کہ ان کی آوازیں سمجھ لیتے تھے۔عید الاضحی کی آمد پر ان کی مصروفیت حد سے تجاوز کر جاتی لیکن اس بار یہ با رونق تہوار جانوروں کی کمی کے باعث ادھورا لگ رہا تھا۔قصائی میاں کے ساتھ ایسا پہلی دفعہ ہو رہا تھا سیزن میں کام تلاش کرنا پڑ رہا تھا ورنہ اس موسم میں ان کا سر کھجانا دشوار ہو جاتا تھا اس ساری برائی کی جڑ قصبے کی بکرا منڈی کا مالک ریحان بٹ تھا قصبے میں اس کے علاوہ دوسرا کوئی جانور فروخت کرنے والا نہیں تھا اسی بات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے قربانی کے جانوروں کی قیمتیں دگنی کر دی تھیں اپنے تئیں اس نے پوری کوشش کی تھی جتنا زیادہ ہو سکے بستی کے لوگوں سے رقم بٹور لی جائے اگر قصائی میاں یا کوئی اور شخص اس سے شکایت کرتا تو وہ انہیں جانور دینے سے انکار کر دیتا۔قصائی میاں نے ریحان کی بیوی سے شائستہ الفاظ میں مدد کی درخواست کی۔اس کی بیوی بہت صابر اور کفایت شعار خاتون تھی اس نے قصائی میاں کی بات کو سمجھ لیا اور ریحان کو سمجھانے لگی۔”دیکھو ریحان میں آپ کو غلط سمت چلنے سے روکنا چاہتی ہوں۔آپ جانوروں کی قیمتیں بڑھا کر قصبے کے لوگوں کی خوشیوں میں حائل ہو رہے ہیں جبکہ وہ پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں آپ کو تو چاہئے تھا کہ آپ قربانی کے جانوروں کو مناسب ریٹ پر بیچتے لیکن اب چند لوگ جو قربانی کرنے کی استطاعت رکھتے تھے وہ بھی جانور خریدنے سے قاصر ہو گئے ہیں۔عید الاضحی اور قربانی کے جانور لازم وملزوم ہیں لیکن آپ کے لالچ و خود غرضی نے انہیں واپسی کے لئے رات سفر باندھنے پر مجبور کر دیا ہے اگر آپ ایسے عمل کے بجائے لوگوں کو سستے داموں جانور دیتے تو ان کی قربانی میں آپ بھی ثواب کے حصے دار ٹھہرتے۔آپ اپنی اصلاح کرکے اب بھی یہ نیکی کما سکتے ہیں۔ریحان بٹ پر اس کی بیوی کی باتیں اثر کر گئیں اور اس نے منڈی جا کر تمام جانور بلا نفع بیچنے کا اعلان کر دیا۔قصبے کے رہائشیوں نے خوشی خوشی سارے جانور خرید لئے اور عید کے دن قصائی میاں کے آگے مختلف جانوروں اور ان کو ذبح کرانے والوں کا ہجوم تھا ایک کے بعد ایک جانور کی گردن پر چھری پھیر کر قصائی میاں اسے جلدی جلدی قربان کر رہے تھے کیونکہ ابھی انہیں اپنا اور ریحان کا بکرا بھی ذبح کرنے جانا تھا۔ " ادھوری عید - تحریر نمبر 1771,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/adhoori-eid-1771.html,"ساجد کمبوہپیارے بچو!عید کی آمد آمد ہے عید کا سب کو انتظار ہوتا ہے امیر ہو یا غریب سب کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نئے کپڑے پہنے،ڈھیر سارے پیسے ہوں،خوب ہلہ گلہ ہو،جھولے ہوں،پیزا اور بر گرہو،چھوٹی عید میں سب کی یہی مصروفیت ہوتی ہیں مگر بڑی عید میں قربانی ہوتی ہے گائے بیل دنبہ اونٹ اور بکرا کی قربانی کا ثواب الگ اور چٹ پٹے کھانوں کا مزہ الگ کوئی دل کلیجی کھا رہا ہوتا ہے کوئی کباب سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے بچوں کو اتنی سمجھ نہیں ہوتی مگر بڑوں کو خوب سمجھ ہوتی ہے کہ قربانی کیا ہے؟کیوں ہے؟اس کا مقصد کیا ہے؟مگر بد قسمتی سے وہ صرف قربانی گوشت کے لئے کرتے ہیں،فریج بھر لیتے ہیں دو دو تین تین ماہ کھاتے رہتے ہیں قربانی کا عظیم فلسفہ نہیں سمجھتے یہ تحریر اُن کے لئے خاص ہے جو صاحب حیثیت ہوتے ہیں مگر دل کے کنجوس ہوتے ہیں گائے بیل میں حصہ بھی رکھ لیتے ہیں اور بکرا مینڈھا بھی قربان کرتے ہیں کسی کے گھر بھیجنا ہوتو گائے بیل اور فریج بھرنا ہوتو بکرے کا گوشت میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک صاحب عید قربان کے کافی دن بعد حج کرکے آئے اور بکرے کی ران لئے قصائی کی دکان پر گئے تاکہ گوشت بنوایا جاسکے وہ صاحب حیثیت لوگ ہیں شہر میں اُن کا بڑا نام ہے۔(جاری ہے)پیارے بچو!آپ خود کوشش کریں کہ گوشت اُن غریب غربا تک پہنچائیں جنہیں سال بھر چھوٹا کیا بڑا گوشت نصیب نہیں ہوتا اور والدین سے بھی گزارش ہے کہ وہ مستحق افراد تک قربانی کا گوشت ضرور پہنچائیں جو سفید پوش ہیں ۔عید کے دن سوائے آنسوؤں کے کچھ قربان نہیں کر سکتے یہی قربانی کا فلسفہ ہے۔بابابابا تین دن رہ گئے ہیں گوشت والی عید میں ہمیں بھی گوشت کھانے کو ملے گا۔صوبیہ نے کہا۔ہاں وہاں کیوں نہیں بیٹا ہمارے اردگرد محلے میں بہت سے افراد قربانی کرتے ہیں بابا نے کہا مگر بابا پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں گوشت نہیں بھیجا تھا اب تو پورا سال ہو گیا ہے گوشت دیکھے ہوئے کوئی بات نہیں بیٹا یہ دیکھ اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا تھا کچھ کھایا تو تھا بابا نے کہا پیاری بیٹی ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔بیٹا گھبراؤ نہیں آج مولوی صاحب بیان فرما رہے تھے کہ قربانی غریب مسکین لوگوں کو نہیں بھولنا چاہئے ان کے حقوق ہوتے ہیں اس بار دیکھنا ہمیں گوشت ضرور بھجوائیں گے۔بابا نے کہا عید قربان آئی صوبیہ کا بابا نماز عید پڑھ کر گھنٹہ پہلے گھر آچکا تھا۔بابا ابھی تک گوشت نہیںآ یا۔ بڑی بہن عافیہ نے کہا چپ ہو جاؤ کیوں شک کرتی ہو؟بابا خاموشی سے دونوں کی باتیں سنتا رہا․․․․دوپہر تک کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا تو صوبیہ کی ماں بولی۔سنیئے میں نے پیاز ٹماٹر بھی کب سے کاٹ کر رکھ چھوڑے ہیں لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا کہیں بھول نہ گئے ہو گوشت بھجوانا آپ خود جا کرلے آئیں وہ مصروف ہوں گے۔صوبیہ کی ماں تمہیں پتہ ہے میں نے آج تک کسی سے کچھ نہیں مانگا اللہ کوئی سبب بنادے گا۔سہ پہر ہونے لگی کہیں سے بھی گوشت نہ آیا سب بھوکے بیٹھے تھے صوبیہ کے بار بار کہنے پر اور رونے کے انداز پر وہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں گئے(ہزار روپے فیس لیتے ہوئے مسکرا کر بات کرتے مگر اب وہی ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر کیا ہمیں بھی گوشت مل سکتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کے چہرے کا رنگ بدل گیا وہ حفارت سے بولے پتہ نہیں کہاں کہاں سے آجاتے ہیں گوشت مانگنے تڑاخ سے دروازہ بند کردیا۔اب وہ سوچ میں پڑ گیا عزت نفس کہتی کہ گھر چلا جائے مگر بیٹی کا کملایا ہوا چہرہ سامنے نظر آرہے تھا وہ مجبوراً شیخ صاحب کے گھر گیا اور دست سوال کیا۔شیخ صاحب نے عجیب سی نظروں سے دیکھا اور گھر گئے کافی انتظار کے بعد ایک شاپر پکڑایا اور جلدی سے دروازہ بند کر دیا۔گھر پہنچ کر دیکھا تو چربی اور ہڈیاں تھیں۔آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔صوبیہ اور اس کی ماں کمرے میں آئیں ان کے آنسو دیکھ کر بولیں بابا غمگین نہ ہوں ہم پیاز بھون لیتی ہیں یا چٹنی بنا لیتی ہیں ویسے بھی میں نے گوشت نہیں کھانا میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے یہ سننا تھا کہ آنسو سیلاب بن گئے اب وہ رونے والے اکیلے نہیں تھے سارا گھر شامل تھا کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی دیکھا تو پڑوسی اکرم تھا جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔انور بھائی کیا حال ہے یہ لو گوشت بھائی گاؤں سے لے کر آیا ہے۔اکرم کے ہاتھ میں تین چار شاپر تھے۔نہیں نہیں اکرم بھائی آپ کا شکریہ ہمارے پاس بہت سا گوشت ہے۔شکریہ ارے انور بھائی ٹینشن مت لو میں بھی اسی محلے کا رہنے والا ہوں۔یہاں انسان نہیں فرعون بستے ہیں بھائی۔آپ میرے بھائی ہو۔ احسان نہیں ہے۔اس نے زبردستی وہ شاپر انور کو پکڑا دئیے۔ہم سے اتنا کھایا نہیں جائے گا تم بھی کھالو یہ کہہ کر اکرم لوٹ گیا۔خوشی اور تشکر سے سب گھر والوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اکرم کے لئے ڈھیروں دعائیں نکلیں۔عید کے دن مغرب کے وقت اچانک موسم خراب ہو گیا آندھی بارش سے ہر طرف جل تھل ہو گیا اور ساتھ ہی بجلی چلی گئی رات یوں ہی گزر گئی اگلے دن پتہ چلا کہ ٹرانسفارمر جل گیا ہے۔ دوسرے دن شام کو ٹرانسفارمر اتار کے لے گئے تیسرے دن تک ٹھیک نہیں ہوا چوتھے دن وہ کسی کام سے صوبیہ کے ساتھ نکلا دیکھا کہ شیخ صاحب اور ڈاکٹر صاحب گوشت کے شاپر بھرے گھر سے باہر کوڑے دان میں پھینک رہے تھے۔بجلی نہ آنے کی وجہ سے فریج میں پڑا سارا گوشت خراب ہو چکا تھا اور اس پر کتے جھپٹ رہے تھے اسے دیکھ کر صوبیہ نے کہا بابا اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے قربانی ان کتوں کے لئے کی تھی؟جسے سن کر شیخ صاحب اور ڈاکٹر صاحب کے چہرے دیکھنے والے تھے۔ " سمندری پریاں آخری قسط - تحریر نمبر 1770,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/samundari-pariyaan-akhri-qist-1770.html,"آمنہ ماہموہاں ان شعلہ نکالنے والی مچھلیوں کو سمندری بیلوں سے باندھ دیا گیا تھا تاکہ ٹیمپوں کاکام دیں۔محل کی گھرداری کا انتظام پرانے پرانے کیکڑوں کے سپرد تھا،جو اندر یا باہر برابر بھرتے رہنے اور صفائی ستھرائی وغیرہ کے کام اس قدر مستعدی کے ساتھ انجام دیتے کہ سینکڑوں لونڈیاں،باندیاں بھی نہ کر سکتیں،کیونکہ سونے کے علاوہ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کیے ہی جاتے اور ایک لمحے کے لئے بھی خالی نہ بیٹھتے۔کیکڑوں کی نہایت خوب صورت اور نرالی وردیاں بنائی گئی تھیں،ان کی پشتوں پر خوش نما رنگوں کا سمندری سبزہ اگادیا گیا تھا۔انہیں اپنی تمام عمر میں کبھی ایسا اچھا زمانہ نہیں ملا تھا۔اس کی پرانی زندگی بدل گئی تھی۔وہ آدمیوں کو چمٹنا اور شرارت کرنا قطعی بھول گئے تھے،پریوں کی تربیت نے انھیں پہلے سے بہت بہتر بنا یا تھا۔(جاری ہے)محل اب ہر طرح سے آراستہ اور نئے بادشاہ کے قابل ہو گیا تھا۔آخر کار بادشاہ سلامت آئے اور اپنے ساتھ ملکہ کو بھی لائے۔تمام پریاں خوش تھیں۔سمندر کی مخلوق خوشی کے ساتھ جوش میں غوطے لگانے لگی۔ہر ایک نے پورے دن کی چھٹی منائی ،سوائے کیکڑوں کے ،جو قدرتاً کام کرنے کے ایسے عادی تھے کہ بیکار رہنا ان کے لئے عذاب تھا۔دعوت بھی اس ٹھاٹھ کی ہوئی کہ نہ ایسا سلیقہ کسی نے دیکھا ہو گا ،نہ ایسے کھانے کھائیں ہوں گے۔دوسرے دن سلطنت کا نظام قائم کیا گیا۔پریوں میں جو سب سے زیادہ سمجھدار تھی،وہ بادشاہ کی وزیر مقرر ہوئی اور خوب صورت سے خوب صورت اور نیک سے نیک کم عمر پریاں ملکہ کی خدمت کار بنائی گئیں۔پرستان میں نر ہویا مادہ ،جتنی خوبصورت شکل ہوگی اسی قدر خوش اخلاق اور سلیقہ شعار بھی ہوگی۔اس لئے سمجھ لو کہ ملکہ کی خدمت میں رہنے کے لئے کن کو چنا ہو گا۔بادشاہ اور ملکہ کو وہاں جتنے ایک بادشاہت میں کام ہوا کرتے ہیں،انتے ہی یہاں بھی کام تھے۔وہ اپنی عمل داری میں دورے کرتے کہ کہیں کوئی ایک دوسرے پر ظلم تو نہیں کرتا۔بڑی دیکھ بھال یہ کرنی تھی کہ ظالم شارک اور ازومچھلیاں ضعیف اور کمزور مچھلیوں کے ساتھ تو شرارت نہیں کرتیں یا دوسری مخلوق کا حد سے زیادہ توخون نہیں کرتیں۔سمندر کے اژد ہے اپنے آپ سے باہر نہیں نہیں ہوتے،کنڈلی ٹنڈلی مار کر دوسروں کا راستہ تو نہیں روک لیتے۔ان باتوں کے سوا یہ کام بھی تھا کہ جانوروں کے جھگڑوں کا تصفیہ کریں اور پریوں میں سے جوکام میں سست ہو یا شرارت کرے ۔اس کو سزادیں۔اچھا ان کی سزا کا کیا طریقہ تھا؟پریوں یا سمندر کی مخلوق کو وہ سزا کیا دیتے؟شریر پریوں کو یہ سزا ملتی کہ رات کو اوپر سمندر کے کنارے جانا اور سنہری ریت ہر اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنا کودنا،چٹانوں پر بیٹھنا،اپنے بالوں میں کنگھی کرنا اور گانا بجانا بند۔پانی کے اندر پڑی ترسا کریں۔بد ذات جانوروں کی یہ سزا ہوتی کہ وہ کچھ عرصے کے لئے کیکڑوں کا ہاتھ بٹانے پر مجبور کر دیے جاتے۔کیکڑے ان کو کیکڑے جیسا سیدھا کر دیتے کہ پھر ان سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوتا۔شریروں اور نافرمان جانوروں کو جس طرح سزا ملتی،اسی طرح اچھا کام کرنے والوں اور ظلم ماننے والوں کو انعامات بھی دیے جاتے۔سب سے بڑا انعام یا صلہ یہ تھا کہ درباریوں میں جگہ دی جاتی۔وہ بادشاہ کے سمندری سلطنت کے بڑے بڑے دوروں پر ان کے ساتھ ہوتے اور جہاں ان کا جی چاہتا ،سیر کرتے پھرتے۔جب کبھی وحشت ناک طوفان آتے اور پانی کی موجیں شور کے ساتھ سمندر مملکت پر حملہ آور ہوتیں تو پریاں پانی کی بلند سے بلند سطح پر پہنچ جاتیں اور بڑے بڑے جہازوں کو چٹانوں سے ٹکرانے اور ریت میں دھنس جانے سے بچانے کی بے انتہا کوشش کرتیں،پھر اگر ان کی کوشش ناکام رہتی،ڈوبنے والے جہاز ڈوب ہی جاتے تو نہایت سریلی آوازوں میں ان کا مرتبہ پر سمجھیں اور ڈوبے ہوئے ملاحوں کی ریت میں دفن کرایتیں۔کبھی کبھی جہاز راں اور ملاح بھی ان کی جھلک دیکھ لیتے،انھیں جل پری یا جل مانس کہتے اور کبھی ان کو نہیں ستاتے۔صرف دیکھتے ،خوش ہوتے اورگزر جاتے۔اب آپ نے سن لیا کہ خشکی کی پریوں کی طرح سمندر میں پریاں کس طرح پیدا ہوئیں اور کیوں کر وہاں آگئیں۔ " معلومات - تحریر نمبر 1769,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maloomaat-1769.html,"عبدالہادیمچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔الو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔کیا آپ بحیرہ مروار کے متعلق یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ اگر آپ اس سمندر میں گر بھی جائیں تو بھی آپ اس میں نہیں ڈوبیں گے۔پاکستان کا ”مکلی قبرستان،ٹھٹھہ“جوکہ مسلمانوں کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔جہاں ایک ہی جگہ پر لاکھوں مسلمان دفن ہیں۔(جاری ہے)یہ قبرستان 6میل کے طویل ایریا میں پھیلا ہوا ہے۔عدد کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا نوٹ زمبابوے نے 2009ء میں جاری کیا تھا جو کہ 100ڈالر یعنی 100کھرب زمبابوے ڈالر کا تھا۔کیا آپ شیروں کے بارے یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ شیر کے بچے جب اپنے والدین کو کاٹتے ہیں تو وہ اکثر رونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔بچھو چھے دن تک اپنا سانس روک سکتا ہے۔بچھو پانی کی تہہ میں سانس نہیں لے سکتا لہٰذا وہ اپنا سانس روک لیتا بھلے اسے چھے دن وہاں پڑا رہنے دو۔وہ سانس نہیں لے گا لیکن زندہ رہے گا۔ " سمندری پریاں (قسط 2) - تحریر نمبر 1768,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/samundari-pariyaan-qist-2-1768.html,"آمنہ ماہماب تک وہاں کوئی ایسا نہ تھا،جو ان باتوں کا انتظام کرتا،ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا اور جسے سمندر کی سطح پر امن قائم کرنے کا خیال آتا۔ پریوں کے لئے یہ کام کم نہ تھے،امن وامان پیدا کرنا چھوٹی سی بات نہیں،لیکن تم جانتے ہو کہ پریوں کے پاس وقت کی کمی نہیں اور وہ کبھی تھکتی نہیں،اس لئے مصروف ہو کر وہ اتنی خوش ہوئیں کہ پورے ایک مہینے تک چاندنی رات میں بھی کھیلنے کودنے کے لئے سمندر کے کنارے پر نہ آئیں۔جب تیس راتیں لگاتار گزر گئیں اور کوئی پری باہر نہ آئی تو آخر کار بادشاہ کو فکر ہوئی کہ کہیں کوئی مصیبت تو نہیں آگئی،کیا بات ہے کہ پریاں سمندر سے باہر نہیں آئیں۔اس نے ان کی خبر لینے کے لئے اپنا الیچی بھیجا۔الیچی سمندر میں پریوں کے پاس پہنچا۔(جاری ہے)ان کا حال پوچھا اور بادشاہ کا پیغام دیا۔پریوں نے کہا”بادشاہ سلامت کی خدمت میں ہماری طرف سے عرض کر دینا کہ ہمیں بھی اپنی سہیلیوں سے اتنے دن تک نہ ملنے کا بہت افسوس ہے۔ہم کو یہاں آکر اتنی خوشی اور اس قدر مصروفیت رہی کہ معلوم نہ ہوا کہ کتنا وقت گزر گیا۔آج رات ہم ضرور حاضر ہوں گے اور اب تک جو گزرا ہے ،وہ سنائیں گے۔“رات ہوئی تو پریاں سمندر کے کنارے پانی سے باہر نکل آئیں۔سارا پرستان ان سے ملنے کے لئے جمع ہو گیا اور جب انھوں نے سمندر کی تہہ کے عجیب وغریب حالات اور وہاں کی مخلوق کا ذکر کیا تو بادشاہ ،ملکہ اور تمام درباری پریاں حیران رہ گئیں اور بڑی دلچسپی لی۔بادشاہ نے کہا،تم بڑی اچھی نیک دل پریاں ہو۔تم کو اس کا صلہ ملنا چاہیے۔چونکہ تمہاری مصروفیت بہت زیادہ ہے اور تمہارا رہنا بھی ٹھہرا دور دراز،اس لئے مناسب ہے کہ تم اپنا بادشاہ بھی الگ بنا لو اور لہروں کے نیچے اپنی سلطنت قائم کرلو۔شاہی خاندان میں سے ایک شہزادہ تمہارا بادشاہ بن سکتا ہے ،تم اس کے رہنے کے لئے ایک محل بناؤ،جس میں جا کر وہ رہے اور تم پر حکومت کرے۔سمندر کی پریاں خوش ہو گئیں۔انہوں نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا کہ انھیں اپنا علیحدہ بادشاہ ملا اور اپنی الگ سلطنت حاصل ہوئی۔وہ اپنے نئے بادشاہ کے محل کی تعمیر کرنے کے لئے سمندر میں چلی گئیں۔سمندر کی تہ میں پہنچتے ہی پریوں نے محل کا ڈول ڈال دیا۔ایک مہینے کے اندر ہی محل تیار ہو گیا۔محل کے دور دیوار چمکیلی سیپ کے تھے اور اس کی چھتیں سفید باریک چاندنی جیسی ریت کی۔دیواروں پر رنگ رنگ کی نازک نازک سمندری بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔کہیں سرخ،کہیں سبزی مائل زرد تو کہیں قرمزی۔جتنے کمرے تھے ،اتنے ہی رنگ کی آرائش ۔تخت شاہی اور دربار کی نشستیں عنبر کی۔تاج بڑے بڑے موتیوں کا۔سفید محل کے چاروں طرف سمندر کے پھولوں کے درختوں سے آراستہ باغات تھے۔جگہ جگہ فوارے ،جو رات دن چلا کرتے ۔رات کی روشنی کے لئے چمکتی ہوئی مچھلیاں تھیں،جو ہر طرف اپنے چمکیلے جسموں سے روشنی پھیلاتی پھرتیں اور جہاں ہر وقت اجانے کی ضرورت تھی۔(جاری ہے) " تین دوست - تحریر نمبر 1767,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/3-dost-1767.html,"آمنہ غفارطوطا،چوہا اور خرگوش آپس میں گہرے دوست تھے۔وہ تینوں مل جل کر رہتے تھے۔خرگوش سب کے لئے کھانا پکاتا،گھر کو صاف کرتا اور سنبھالتا۔چوہا گھر کے لئے اناج،راشن پانی،سبزی ترکاری بازار سے لاتا اور طوطا جنگل سے کچھ لکڑیاں بازار میں جاکر بیچ آتا۔اس طرح تینوں خوب محنت اور مشقت کرتے اور خوشی خوشی رہتے۔ان کی یہ گہری دوستی اور میل ملاپ پڑوس میں رہنے والی لومڑی کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔مکار لومڑی نے ایک دن موقع پا کر طوطے کا حال چال دریافت کیا۔”ہم لوگ خوب مزے سے اور خوش ہیں۔“طوطے نے جواب دیا۔”ہاں بھائی!تو ہی ہے جو اتنی زیادہ محنت کرتا ہے۔دن بھر جنگل میں لکڑیاں اکٹھی کرتا پھرتاہے اور تیرے دونوں ساتھی گھر بیٹھے آرام سے موج مستی کرتے رہتے ہیں۔(جاری ہے)طوطے نے کہا:”نہیں نہیں!وہ دونوں بھی خوب کام کرتے ہیں۔“․․․․”کیا خاک کام کرتے ہیں چوہا ذرا سا پانی بھر کر لاتا ہے،دوڑ کر بازار سے تھوڑی سی سبزی لا کر دن بھر گھر میں پڑا لیٹا رہتا ہے۔خرگوش صبح اور شام روٹی پکا لیتا ہے اور دن بھر چوہے کے ساتھ مل کر گپ ہانکتے رہتا ہے۔بس !بے وقوف تو تو ہے طوطے بھائی!جو دن بھر مارا مارا پھرتا رہتا ہے،جنگل سے لکڑیوں کا گٹھا بنا کر بازار لے جاتا ہے اور اسے بیچ کر پیسے لاتا ہے تجھے تو پورا دن کام کرنا پڑتاہے۔“لومڑی نے مکاری سے کام لیتے ہوئے طوطے کو اپنے جھانسے میں لینے کی کوشش کی۔طوطا بولا”نہیں نہیں:ایسا ہر گز نہیں ہے“․․․․”اچھا !ٹھیک ہے۔“اتنا بول کر لومڑی اپنے راستے چلی گئی۔اور طوطا لکڑی لینے جنگل چلا گیا،اس کے دل میں خیال آیا کہ لومڑی صحیح کہہ رہی ہے کام کاج تو میں جی زیادہ کرتا ہوں۔طوطا شام کو گھر لوٹنے کے بعد چوہے اور خرگوش سے کہا کہ:”روز روز لکڑیاں لاتے لاتے میں بہت زیادہ تھک گیا ہوں۔اس لئے ہم آپس میں کام بدل لیتے ہیں۔میں گھر پر رہ کر کھانا بنایا کروں گا۔چوہے اور خرگوش نے جب یہ انوکھی بات سنی تو بہت حیران رہ گئے۔پہلے تو ان دونوں نے طوطے کو منانے کی کوشش کی لیکن جب وہ نا مانا تو پھر چوہے نے کہا:”چلو!ٹھیک ہے،میں ہی جنگل سے لکڑیاں لے آیا کروں گا۔“دوسرے دن چوہا لکڑی لانے جنگل چلا گیا۔شام ہو گئی لیکن چوہا گھر واپس نہیں آیا۔خرگوش کو بہت فکر ہوئی اس نے کہا کہ:”چلو طوطے بھائی! چوہے کو جنگل میں تلاش کرتے ہیں“․․․․․”تم گھر پر ہی رہو میں خود جا کر دیکھتا ہوں کہ چوہے کو دیر کیسے ہو گئی؟“طوطے نے کہا۔طوطا تھوڑی دیر بعد لوٹا وہ بہت اداس تھا اس نے خرگوش کو بتایا کہ چوہا جب لکڑی لے کر لوٹ رہا تھا تو بلی نے اسے مار کر کھا لیا۔خرگوش کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔طوطا بھی رونے لگا کہ تین دوستوں میں سے ایک کی فضول میں مکار لومڑی کے بہکانے کی وجہ سے جان چلی گئی۔سویرے اُٹھ کر طوطا خرگوش کو لومڑی کی ساری باتیں بتا کر روتے ہوئے معافی مانگنے لگا اور کہا کہ اب ہم دونوں مل جل کر ہی رہیں گے اور یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ آیندہ کبھی بھی مکار لومڑی سے نہیں ملے گا۔ " چھوٹی سی نصیحت - تحریر نمبر 1766,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/choti-si-naseehat-1766.html,"عطرت بتولارشد اور امجد دو بھائی تھے دونوں اپنے ماں باپ کے ساتھ گاؤں میں رہتے تھے۔اگر چہ وہ غریب تھے لیکن وقت اچھا گزر رہا تھا غربت کے باوجود ماں اپنے بچوں کا بہت خیال رکھتی تھی اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو صاف ستھرے اچھے کپڑے پہنائے اور اچھا کھانا کھلائے۔لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ماں کچھ عرصہ بیمار رہ کر فوت ہو گئی ان دونوں بھائیوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ان کے ابو اور چچا،وغیرہ ان کا خیال کرنے لگے لیکن ماں کی کمی انھیں بہت محسوس ہوتی تھی اور اب گاؤں میں ان کا دل نہیں لگتا تھا گاؤں میں روزگار بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔تنگ دستی اورغربت بڑھ رہی تھی حالات ایسے تھے کہ یہ دونوں بھائی اسکول بھی نہیں جا سکتے تھے ان کے ابو نے حالات میں بہتری لانے کے لئے گاؤں چھوڑ کر شہر جانے کا فیصلہ کیا۔(جاری ہے)شہر میں آکر ان کے ابو نے محنت مزدوری شروع کردی اور حالات بہتر کرنے کے لئے ان دونوں بھائیوں کو بھی چھوٹے چھوٹے کاموں پر لگا دو۔ارشد کو ایک سٹور پر ملازمت ملی اب وہ سارا دن سٹور پر رہتا گاہک آتے رہتے وہ انہیں ان کی مطلوبہ چیزیں نکال کر دیتا کاپیاں،پنسلیں،کلرز،اس سٹور پر زیادہ پڑھنے لکھنے کی چیزیں تھیں۔ایک دن اس سٹور پر ایک آنٹی آئیں وہ بچوں کی کہانیاں لکھتی تھیں ارشد کو معلوم ہوا تو اس نے کہا میری کہانی بھی لکھ دیں،تمہیں کیسی کہانیاں پسند؟آنٹی نے پوچھا ماں کی کہانی لکھ دیں،ارشد نے کہا،میری امی فوت ہو چکی ہیں۔ارشد بولا ٹھیک ہے،آنٹی نے کہا،لیکن ایک بات مانو گے؟جی ،ارشد نے کہا،تم نے کہا کہ ماں کی کہانی لکھ دیں اس کا مطلب ہے کہ تمہیں اپنی ماں سے بہت محبت ہے اور ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا پڑھے،اگر تم اسکول نہیں جا سکے تو فارغ وقت میں پڑھ سکتے ہو ،تھوڑی سی کوشش سے اور کسی کی مدد سے تمہیں لکھنا پڑھنا آجائے گا اس طرح نہیں کہانیاں پڑھنی آجائیں گی اچھائی اور برائی کا پتہ چلے گا۔کیونکہ تعلیم ہی اچھی زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتی ہے ۔ایک پڑھے لکھے انسان اور ان پڑھ میں بہت فرق ہوتا ہے بہت سے ایسے بچوں کی مثالیں موجود ہیں جو چھوٹی عمر اسکول نہیں جا سکتے لیکن جب انھیں تعلیم کی اہمیت کا احساس ہوا تو انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا ،تعلیم کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی ارشد جس سٹور میں کام کرتا تھا اس کے مالکان بہت اچھے لوگ تھے انہوں نے ارشد کا شوق دیکھ کر اسے کام کے بعد فارغ وقت میں پڑھنے کا موقع دیا،ارشد نے سوچا وہ پڑھے لکھے گا اچھی باتیں سیکھے گا تو یقینا اس کی ماں کی روح خوش ہو گی۔اس طرح اُس نے پڑھنا لکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ اُس نے تعلیم مکمل کرلی۔اب وہ ایم کام کر چکا ہے ،ایک فیکٹری میں مینیجر کی جاب کر رہا ہے آج بھی وہ اُس خاتون کو یاد کرتا ہے جس نے اُس کو نصیحت کی اور بات اُس کے دل میں اُتر گئی اس طرح اُس نے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور آج ایک باوقار زندگی گزار رہا ہے۔ " مور کی اُداسی - تحریر نمبر 1765,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/moor-ki-udassi-1765.html,"رامینآج موسم برسات کا ایک پیارا اور خوبصورت دن تھا۔ہلکی ہلکی پھوار برس رہی تھی۔انسانوں کے ساتھ جنگل کے سب ہی جانور بھی بہت خوش تھے۔ایک مور خوشی کے عالم میں اپنے رنگین اور خوب صورت پر پھیلائے جنگل میں ناچ رہا تھا۔یکا یک اسے اپنی کرخت اور بھدی آواز کے ساتھ اپنے بد صورت پیروں کا بھی خیال آیا،تو وہ ایک دم اُداس ہو گیا۔اس کا چہرہ ز رد پڑ گیا اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔اس کی نظر ایک بلبل پر پڑی۔جو قریبی درخت کی شاخ پر بیٹھا گا رہا تھا۔اس کی آواز سن کر مور نے خود سے کہا”اس کی آواز کتنی حسین ہے۔انسان ہو یا جانور سب ہی اس کی آواز کے دیوانے ہیں لیکن جب میں اپنی آواز نکالتا ہوں تو سب میرا مذاق اڑاتا ہے۔میں بھی کتنا بد نصیب ہوں۔(جاری ہے)“اس لمحے جنگل میں ایک بزرگ نمودار ہوئے اور انہوں نے مور سے کہا”تم اس قدر اد اس اور پریشان کیوں لگ رہے ہو؟“مور نے بزرگ کو دیکھا اور سسکیاں لیتے ہوئے کہا،”میرا جسم کتنا خوبصورت ہے اور میرے پر تو بہت ہی حسین ہے لیکن میرے لئے یہ ساری خوب صورتی بے کار ہے کیوں کہ میری آواز اتنی کرخت اور بھدی ہے کہ جو بھی اسے سنتا ہے وہ خوب ہنستا ہے۔بزرگ نے پیار سے کہا”تم وہ واحد پرندے ہو جو اداس اور پریشان دکھائی دے رہے ہو۔خدا نے اپنی مخلوق کو بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں۔تمہیں خوبصورتی اور حسن سے نوازا ہے۔عقاب کی طاقت عطا کی ہے۔بلبل کی میٹھی اور سریلی آواز ہے،اس لئے اپنی خامیوں پر پریشان مت ہو بلکہ اپنی خامیوں کے ساتھ جینا سیکھو اسی میں خوشی بھی ہے اور اطمینان بھی“۔مور بزرگ کی بات سن کر شرمندہ ہوا اور بولا ”آپ ٹھیک کہتے ہیں جسے ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔میں اللہ کا احسان مند ہوں کہ اللہ نے مجھے خوبصورت پر عطا کیے“۔اس دن کے بعد سے مور نے اُداس رہنا چھوڑ دیا اور خوش رہنے لگا۔ " سمندری پریاں - تحریر نمبر 1764,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/samundari-pariyaan-1764.html,"آمنہ ماہمایک وقت ایسا بھی تھا کہ سمندر میں کوئی پری نہیں رہتی تھی۔سمندر میں رہنے والی مخلوق کو معلوم تھا کہ پریاں تمام جان دار چیزوں پر نہایت مہربان ہوتی ہیں۔جب ان میں کوئی دکھ بیماری یا مصیبت ہوتی ہے تو وہ ان کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں،اس لئے سب رنجیدہ تھے کہ ہم نے ایسی کیا خطا کی ہے،جو ہمارے ہاں پریاں آکر نہیں رہتیں۔چنانچہ سمندر کے سارے رہنے والوں نے پرستان میں اپنا ایلچی بھیجا اور وہاں کے بادشاہ سے درخواست کی کہ کچھ پریاں سمندر میں بھی بسنے کے لئے بھیج دی جائیں ،تاکہ ہمارے آڑے وقتوں پر کام آجائیں۔ایلچی جب پرستان کے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کی”جو پریاں ہمارے ہاں آکر رہیں گی،ہم ان کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آئیں گے اور انھیں خوش رکھنے میں حتی المقدور کوئی کسر نہیں رکھیں گے“۔(جاری ہے)بادشاہ اپنی درباری پریوں سے مخاطب ہو کر بولا ”تم نے سنا،سمندر کا ایلچی ہمارے پاس کیا درخواست لے کر آیا ہے؟اب بتاؤ ،تم وہاں جانا اور نیلے سمندر کے پانی کے نیچے رہنا پسند کرتی ہو؟پریوں نے کانپ کر کہا:ہم وہاں جانے اور رہنے کے لئے بالکل تیار نہیں۔ہم یہیں خوش ہیں۔اس کے بعد بادشاہ نے جنگل کی پریوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ سمندر میں جا کر رہنے میں تمہاری کیا مرضی ہے؟وہ بھی سب سر ہلا کر کہنے لگیں کہ یہ ہرے بھرے جنگل ،پھلوں پھولوں سے لدے ہوئے باغات،ان میں بولتی چڑیاں اور کھیلیں کرتے ہوئے جانور چھوڑ کر کہیں جانا ہمیں گوارا نہیں ۔بادشاہ نے اسی طرح باری باری تمام پریوں کی مرضی معلوم کی اور سب سے سمندر میں جانے سے کھلم کھلا انکار کر دیا۔اب صرف پانی کی پریاں رہ گئی تھیں۔آخر میں بادشاہ ان کی طرف مخاطب ہوا اور یہ دیکھ کر ہر ایک کو حیرت ہوئی کہ وہ بلا جھجک فوراً تیار ہو گئیں اور کہنے لگیں”ہم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان ندی نالوں،تالابوں،کنوؤں اور باؤلیوں سے باہر نکلیں ۔گھر بیٹھے ہماری مراد پوری ہوئی۔اتنے لمبے چوڑے اور گہرے سمندر کا کیا کہنا ہے۔ہمارے اچھلنے کودنے ،بھاگنے دوڑنے کے لئے اس سے زیادہ اچھی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟وہاں ہزاروں لاکھوں قسم کی مچھلیاں ہیں اور مچھلیوں کے علاوہ طرح طرح کے عجائبات۔اب جہاں جہاں ہم رہتے ہیں،ان میں چند مچھلیوں اور چھوٹے چھوٹے جھینکا جیسے جانوروں کے سوا کیا رکھا ہے؟بڑے سے بڑا دریا بھی ہمارے لئے کافی نہیں،جب کہ ندی نالوں کو ہم قید خانے سے کم نہیں سمجھتے۔حضور !ہماری اس سے بڑھ کر کوئی تمنا نہیں کہ ہم سمندر کی پریاں بن جائیں۔ہاں ایک بات کا خیال رہے کہ ہم پانی میں کس طرح رہ سکیں گے؟دوسرے اپنے تمام زندگی بھر کے ساتھیوں کو اچانک چھوڑنے کے خیال سے دل دکھنا ہے۔ہمیشہ کے لئے ہم کو انہیں خدا حافظ کہنا پڑے گا اور پھر ہم اپنے پیارے بادشاہ اور ملکہ کی صورت بھی شاید کبھی نہ دیکھ سکیں۔بادشاہ نے کہا”نہیں ،ایسا نہیں ہو گا۔ان باتوں کا ذرا خیال نہ کرو۔جب تمہارا دل چاہے،روزانہ رات کے وقت تم اوپر آسکتی ہو اور چاندنی رات میں ہم میں سے بعض پریاں سمندر کے کنارے ریٹ پر جا کر تمہارے ساتھ کھیلا کودا اور گایا بجایا کریں گی،لیکن دن میں ہم سب اپنا اپنا کام کریں گے،البتہ ہمارا ایک دوسرے سے ملنا دشوار ہے۔رہا سمندر کے اندر ہر وقت رہنا،یہ معمولی بات ہے ۔میں تمہاری موجود و صورت تبدیل کردوں گا اور تم کو پانی میں رہنے سے کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑے گی۔پاؤں کی جگہ تمہاری مچھلیوں کی سی دمیں پیدا ہو جائیں گی اور پھرتم سمندر کی ہر مخلوق کی طرح بخوبی تیرا کرو گی۔بلکہ ان سے بھی زیادہ پھرتی کے ساتھ۔بادشاہ کی یہ تقریر سن کر سمندر کا ایلچی بھی خوش ہو گیا کہ ان کی عرض بھی قبول ہو گئی اور سمندر کی نئی پریاں بھی خوش تھیں کہ انھیں سمندر کی نئی حکومت ملی۔چنانچہ جب یہ پانی کی پریاں سمندر کے کنارے پہنچیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے پاؤں آپس میں جڑ کر ایسی خوبصورت چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی دمیں بن گئے کہ ان کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا اور وہ اپنے ہاتھوں سے پانی چیرتی اور تیرتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چلی گئیں۔پریوں کو سمندرمیں کرنے کے لئے بے انتہا کام تھے،کیوں کہ سارے بڑے جانور چھوٹوں کو ستایا اور مار ڈالاکرتے تھے۔ " لالچ کا انجام - تحریر نمبر 1763,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lalach-ka-injaam-1763.html,"ہرے بھرے درخت برفباری کی وجہ سے سفید نظر آرہے تھے۔سردیوں کے دن تھے۔برفباری ہوتے ہی جنگل میں سناٹا چھا گیا تھا۔جن جانوروں نے سردی کی آمد سے پہلے ہی خوراک ذخیرہ کرلی تھی،وہ مزے سے گھر میں بیٹھ کر کھاپی رہے تھے۔جنہوں نے کوئی انتظام نہیں کیا تھا،وہ سردی سے کانپتے ہوئے خوراک کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔لومڑی رات کا کھانا موٹے خرگوش اور گول مٹول چکور سے حاصل کرتی تھی۔سردیوں کی آمد سے پہلے وہ روٹی کے ٹکڑے جمع کر لیتی جو سردیوں کے دنوں میں اس وقت کام آتے جب کھانے کی کوئی چیز نہ ہوتی۔ایک دن موٹا خرگوش اپنی نانی کے گھر گیا ہوا تھا اور چکور گھر پر نہیں تھا۔اس رات لومڑی اور اس کے شوہر لومڑ نے رات کو باسی ٹکڑے کھائے۔صبح سویرے لومڑی نے خوراک کی تلاش میں جنگل کا ایک چکر لگایا لیکن کھانے کی کوئی چیز دستیاب نہ ہوئی۔(جاری ہے)وہ ناکام واپس لوٹی تو اس کا بھوکا شوہر بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔”کچھ ملایا خالی ہاتھ لوٹ آئی ہو․․․؟“اس نے بڑی بے صبری سے سوال کیا۔لومڑی نے اپنے نکھٹو شوہر کو گھور کر دیکھا،پھر کہا۔”اس شدید سردی میں بھلا کیا مل سکتا ہے․․․؟“”تو کیا اب پھر باسی روٹی کے ٹکڑے کھانے پڑیں گے․․․؟“لومڑ نے جھنجھلا کر کہا تو بھوری آنکھوں والی لومڑی کو اپنے کاہل شوہر پر غصہ آگیا اور بولی۔”کام کے ناکاج کے دشمن اناج کے․․․کبھی خود بھی خوراک تلاش کر لیا کرو۔“یہ کہتے ہوئے لومڑی نے ڈبے میں روٹی کے باسی ٹکڑے نکالے اور لومڑ کے آگے رکھ کر بولی۔”جب تک خوراک کا بندوبست نہیں ہو جاتا ہمیں انہی ٹکڑوں پر گزارہ کرنا ہو گا۔“یہ کہہ کر وہ روٹی کے ٹکڑے کھانے لگی۔لومڑ نے ان ٹکڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔”رات کو باسی ٹکڑے کھانے سے میرے دانتوں میں درد ہو رہا ہے،میرا تو دل چاہ رہا ہے کہ آج گوشت کھاؤں۔مجھے امید ہے کہ میری خواہش ضرور پوری ہوگی۔“لومڑی نے کہا۔”تم چاہتے ہو کہ ہر چیز تمہیں بیٹھے بٹھائے مل جائے۔میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی جو تم جیسا نکھٹو اور کاہل شوہر ملا ہے جسے کھلانابھی خود ہی پڑتا ہے۔“یہ کہہ کر وہ کچھ دیر بڑ بڑاتی رہی،پھر خاموشی سے روٹی کے باسی ٹکڑے چبانے لگی۔بھوکے لومڑ نے کچھ دیر تک اپنے سامنے رکھے ہوئے روٹی کے ٹکڑوں کی طرف دیکھا تک نہیں لیکن جب بھوک نے ستایا تو منہ بناتے ہوئے ایک ٹکڑا اٹھا کر چبانے لگا۔ابھی وہ ٹکڑا چباہی رہا تھا کہا آسمان پر پھڑپھڑاہٹ کی آواز سنائی دی،پھر چار بطخیں نیچے زمین پر اتر آئیں۔انہوں نے لومڑ اور لومڑی کو روٹی کے ٹکڑے چباتے ہوئے دیکھا تو ان کے قریب آگئیں کہ شاید وہ روٹی کے کچھ ٹکڑے کھانے کے لئے پھینک دیں۔لومڑی نے بڑی مشکلوں سے روٹی کے ٹکڑے جمع کیے تھے،اس لئے اس نے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ان کی طرف نہ پھینکا لیکن لومڑ نے روٹی کا ایک بڑا ٹکڑا بطخوں کی طرف پھینک دیا۔چاروں بطخیں روٹی کے ٹکڑے پر لپکیں۔ان میں سے جو صحت مند بطخ تھی،اس نے روٹی کا ٹکڑا حاصل کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے ہڑپ کر گئی۔لومڑ نے دوسرا ٹکڑا پھینکا تو وہ بھی اسی بطخ نے کھا لیا،تیسرا ٹکڑا بیچ میں گرا اور چاروں بطخیں اس پر تیزی سے جھپٹیں لیکن یہ ٹکڑا بھی تگڑی بطخ لے اڑی۔یہ دیکھ کر لومڑی ،لومڑ پر چلائی۔”پاگل تو نہیں ہو گئے جو روٹی کے ٹکڑے اس طرح ضائع کر رہے ہو․․․؟“لومڑ نے کہا۔”یہ خشک ٹکڑے کھا کر میرے پیٹ میں درد ہو گیا ہے،اس لئے میں ان بطخوں کو کھلا رہاہوں۔“یہ کہتے ہوئے اس نےچوتھا اور پانچواں ٹکڑا بھی بطخوں کی طرف پھینک دیا۔تگڑی بطخ یہ ٹکڑے بھی کھا گئی۔اس کی ساتھی بطخوں نے احتجاج کیا تو اس نے ان کی خوب پٹائی کی۔بطخ کی یہ حرکتیں دیکھ کر لومڑی نے کہا۔”کتنی لالچی ہے یہ بطخ ،اپنی ساتھی بطخوں کا حصہ بھی کھا رہی ہے۔“لومڑ نے کوئی جواب نہیں دیا۔اب وہ روٹی کے ٹکڑے صرف اسی لالچی بطخ کی طرف پھینکنے لگا۔دوسری بطخوں کا حصہ کھا کھا کر تگڑی بطخ کا پیٹ پھول گیا۔اس نے اتنا کھا لیا کہ اب اس سے ادھر ادھر دوڑنا بھی مشکل ہو گیا۔’‘’بس کرو،تم نے تو سارے ٹکڑے اسی لالچی بطخ کو کھلا دیے ہیں۔“لومڑی نے چلا کر لومڑ سے کہا لیکن اس نے لومڑی کی بات پر کوئی دھیان نہ دیا۔یہ دیکھ کر لومڑی بہت خفا ہوئی اور بڑبڑائی ہوئی اپنے بھٹ کے اندر چلی گئی۔تگڑی بطخ ٹکڑوں کے لالچ میں لومڑ کے قریب آچکی تھی۔لومڑ بھی جان بوجھ کر ٹکڑے اپنے قریب گرا رہا تھا۔جیسے ہی تگڑی بطخ تھوڑا سا قریب آئی ،اس نے اچھل کر بطخ کو پکڑ لیا۔اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس سے بھاگانہ گیا،یہ دیکھ کر دوسری بطخیں فوراً اڑ گئیں۔لومڑ مزے سے لالچی بطخ کو منہ میں دبائے بھٹ کے اندر داخل ہوا۔اس نے بطخ کے پر نوچے اور گوشت لومڑی کو پیش کرتے ہوئے کہا۔ ”میں نکھٹو اور کام چور سہی لیکن اتنا احمق بھی نہیں کہ اپنی ساری خوراک ایسے ہی کسی کو کھلادوں،اب تمہاری سمجھ میں آگیا ہو گا کہ میں سارے ٹکڑے اس لالچی بطخ کو کیوں کھلا رہا تھا۔آؤ اس سرد موسم میں بطخ کے گرم گرم گوشت کامزا اڑائیں۔“لومڑی جو کچھ دیر پہلے لومڑ پر بے حد خفا تھی،اب اسے لومڑ دنیا کا عقلمند جانور دکھائی دے رہا تھا۔اس نے کہا۔”تم واقعی بہت چالاک ہو،میں تمہیں مان گئی۔“اس کے بعد دونوں نے مل کر لالچی بطخ کے مزیدار گوشت کی دعوت اڑائی۔ " کوئل - تحریر نمبر 1762,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/koyle-1762.html,"کوئل عصفوری Passerineخاندان کی Cuculidaeنسل کا پرندہ ہے جو درمیانے قد و قامت،کبوتر سے نسبتاً چھوٹا مگر لمبوتری شکل میں ہوتا ہے۔اس کی دُم خاصی لمبی اور چونچ چھوٹی اور مرغی کی چونچ سے مشابہہ ہوتی ہے۔اس کی آواز میں بانسری کی دُھن رچی بسی ہوتی ہے۔کوئل کی نسل میں کچھ قسمیں ایسی بھی ہیں جو اپنے انڈے دوسرے پرندوں کے گھونسلوں میں سینے کے لئے چھوڑ دیتی ہیں۔جس کی بہترین مثال یورپ میں پائی جانے والی کوئل کی نسل ہے اور جب اُن انڈوں میں سے کوئل کے بچے نکلتے ہیں تو پہچان کے بعد دوسرے پرندے ان بچوں کو اپنے گھونسلوں سے بھگا دیتے ہیں۔کوئل کی زیادہ تر اقسام اپنے انڈے خود ہی سیتی ہیں۔اس خاندان میں امریکن کوئل Roadrunners Ainsاور Coucalsبھی شامل ہیں جو اپنے بچوں کے لئے درختوں اور جھاڑیوں میں گھونسلے بناتے ہیں۔(جاری ہے)کوئل درمیانی جسامت کا پرندہ ہوتا ہے مگر اس کی ایک قسم،جس کی رنگت بھوری ہے،جسامت میں نہایت چھوٹی اور ہلکے پھلکے وزن میں پائی جاتی ہے۔حیرت انگیز طور پر اس کا وزن 17گرام اور دُم تک لمبائی 15سینٹی میٹر ہوتی ہے۔اس کے مقابلے میں کوئل کی ایک اور نسل Channal Billed Cuckoosایسی پائی گئی ہے جس کی لمبائی تقریباً 63سینٹی میٹر اور وزن 630گرام تک ہوتا ہے۔کوئل کے پیروں میں چار انگلیاں ہوتی ہیں جن میں سے دو سامنے کی جانب اور دو پیچھے کی جانب مڑی ہوئی ہوتی ہیں۔اڑتے وقت اس کی رفتار 30کلو میٹر فی گھنٹہ تک ہوتی ہے۔کوئل بارش میں نہانا پسند کرتا ہے اور بارش تھمنے کے بعد جب سورج نکلتا ہے تو غسل آفتابی اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔آم کا موسم آتا ہے تو کوئل کی بہار بھی اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔کوئل کی پسندیدہ آماجگاہ جنگلات ہیں مگر ان کی کچھ نسلیں شہروں میں بھی بسیرا کر لیتی ہیں۔ان کی خوراک میں زیادہ تر حشرات ،لاروے،پھل اور اجناس وغیرہ شامل ہیں۔کوئل ایک خانہ بدوش پرندہ ہے۔وہ خوراک کی تلاش اور موسموں کی سختیوں سے بچنے کی خاطر ہر سال ہزاروں میل کا سفر کرتا ہے ۔یورپ میں یہ ننھا پرندہ افریقہ سے طویل سفر کے بعد وہاں آتا ہے اور سردیاں شروع ہوتے ہی واپسی کی پرواز شروع کر دیتا ہے۔آپ کو یہ جان کر یقینا حیرت ہو گی کہ یہ ننھی سی جان ہر سال دس ہزار میل سے زیادہ پرواز کرتی ہے۔اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شمالی امریکہ کے سفر کے لئے یہ پرندہ چار ہزار میل کی ایک مسلسل اڑان میں بحیرہ کرین عبور کرتاہے۔پرندوں پر ایک اور حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 1995ء سے یورپ میں کوئل سمیت پرندوں کی دوسری کئی اقسام کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر معمولی موسمی تبدیلیاں ان کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ تحقیق میں شامل پہلا کوئل افریقی ملک کیمرون سے گزرتے ہوئے سخت موسم کے باعث ہلاک ہو گیا تھا۔ماہرین کے مطابق کوئل کا اصل وطن افریقہ ہے اور وہ خوراک کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتاہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نر اور مادہ کوئل کی عادات کافی مختلف ہیں۔برطانیہ میں نر پرندوں کی آمد پہلے شروع ہوتی ہے۔جبکہ مادہ پرندے کئی ہفتوں کے بعد وہاں پہنچنے ہیں اور ان کی پرواز کے راستے بھی مختلف ہوتے ہیں۔اردو زبان میں کوئل کی آواز کو انتہائی خوش الحان قرار دیا گیا ہے۔غور کرنے پر محسوس ہوتا ہے کہ اس کی آواز خوشی اور حزن وملال دونوں کے حسین امتزاج کی حامل ہے۔ " سونے کی تین ڈلیاں - تحریر نمبر 1760,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/soone-ki-3-daliyaan-1760.html,"مسعود احمد برکاتیدو بھائی تھے۔ایک امیر تھا ایک غریب تھا۔امیر کا نام امیروف اور غریب کا نام سلیموف۔دونوں میں بنتی نہیں تھی۔بات یہ تھی کہ امیروف سلیموف کو پسند نہیں کرتا تھا۔ایک دن سلیموف کو ضرورت پڑی تو اس نے کچھ دیر کے لئے بڑے بھائی سے گھوڑا مانگا۔سردیاں آنے والی تھیں اور جنگل سے لکڑیاں لانی تھیں۔امیروف چاہتا تو نہ تھا پھر بھی اس نے گھوڑا دے دیا۔سلیموف جنگل سے لکڑیاں لے آیا۔رات ہو گئی تھی۔ اس کے پاس رسی نہیں تھی۔اس لئے اس نے دروازے سے اس کی دم باندھ دی۔رات کو گھوڑا بھاگ گیا۔دم ٹوٹ گئی۔سلیموف بڑی مشکل سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر گھوڑا واپس لایا،مگر امیروف نے بے دم کا گھوڑا لینے سے انکار کر دیا۔اس نے کہا کہ میں تو کچہری میں مقدمہ کروں گا۔(جاری ہے)دونوں بھائی شہر روانہ ہو گئے۔شہر بہت دور تھا۔راستے میں رات ہو گئی۔امیروف کے ایک دوست کا گھر قریب تھا۔وہ دونوں اس دوست کے گھر ٹھہر گئے۔امیروف اور اس کا دوست گھر کے اندر آرام کرنے لگے۔سلیموف کو گھر کے اندر جگہ نہ ملی تو وہ چھجے پر لیٹ گیا۔سلیموف کی آنکھ لگ گئی ۔سوتے میں اس نے کروٹ لی تو وہ نیچے گر گیا۔نیچے دوست کا بچہ بیٹھا تھا۔وہ دب کر مر گیا۔دوست بہت غصے ہوا۔اس نے کہا،”میں بھی مقدمہ کروں گا۔“اب تینوں شہر کو چل پڑے۔راستے میں پل آیا۔سلیموف نے دو دو مقدموں میں سزا کے ڈر سے پل پر سے چھلانگ لگا دی۔نیچے ایک نوجوان اپنے بوڑھے بیمار باپ کو لے کر جا رہا تھا۔سلیموف بوڑھے پر جاپڑا۔بڈھا مر گیا۔نوجوان بھی مقدمہ کرنے کے لئے ان کے ساتھ ہو گیا۔چلتے چلتے شہر آگیا تو وہ کچہری پہنچے۔جج آیا اور کچہری لگی۔سلیموف نے راستے سے ایک پتھر اٹھا کر رومال میں لپیٹ لیا تھا۔امیروف نے اپنا دعوہ پیش کیا۔سلیموف نے ڈرانے کے لئے رومال میں بندھا پتھر جج کو دکھایا۔جج سمجھا کہ رومال میں رشوت کا سونا ہے۔اس نے خوش ہو کر سلیموف کے حق میں فیصلہ دے دیا اور کہا کہ جب تک گھوڑے کی دم نہ نکل آئے گھوڑا سلیموف کے پاس رہے گا۔اب دوسرا مقدمہ پیش ہوا۔امیروف کے دوست نے کہا کہ سلیموف نے میرے بچے کو کچل کر مار دیا۔سلیموف نے پھر رومال دکھایا اور جج پھر دھوکہ کھا گیا۔اس نے فیصلہ دیا کہ جب تک سلیموف امروف کے دوست کو بچہ نہ لا کر دے،امیروف کا دوست سلیموف کو اپنے گھر رکھے اور کہیں جانے نہ دے۔دوست نے سوچا ایک تو میرا بچہ امر دوسرے میں سلیموف کو اپنے گھر رکھوں اور کھلاؤں پلاؤں۔اس کا کیا بھروسہ یہ دوسرے بچے کو بھی مار دے۔تیسرا مقدمہ کچہری میں پیش ہوا کہ سلیموف نے پل سے کود کر بوڑھے کو مارا ہے۔سلیموف کا رومال دیکھ کر جج پھر لالچ میں آگیا۔اس نے سوچا تیسری سونے کی ڈالی بھی مجھے دینے کا اشارہ کر رہا ہے۔اس نے فیصلہ دیا کہ بوڑھے کا نوجوان بیٹا اور سلیموف اس جگہ جائیں۔ نوجوان پل پر جائے اور سلیموف پل کے نیچے کھڑا ہو جائے۔نوجوان سلیموف پر کودے اور اس کی جان لے لے۔کچہری ختم ہوئی۔ چاروں باہر آئے۔امیروف نے پریشان ہو کر کہا کہ میں دم نکلنے کا انتظار نہیں کر سکتا۔مجھے گھوڑے کی ضرورت ہے۔تم مجھے میرا گھوڑا اسی حالت میں دے دو۔سلیموف نے کہا کہ نہیں ٹھہرو اور اس وقت کا انتظار کرو جب گھوڑے کی دم نکل آئے۔امیروف بہت پریشان ہوا۔اس نے سلیموف کی منت سماجت کرکے اور پانچ روبل (روسی سکہ)،سترہ بوری اناج اور ایک بکری دے کر اپنا گھوڑا واپس حاصل کیا۔اب سلیموف نے امیروف کے دوست سے کہا کہ بھوک لگ رہی ہے ،کھانا کھلاؤ۔دوست گھبرایا۔اس نے کہا کہ بھائی،میں تمہارا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔سلیموف نے کہا کہ جج نے یہی فیصلہ دیا ہے ۔جب تک میں تمہیں بچہ لا کر نہ دوں تمہارے ساتھ رہوں گا۔امیروف کے دوست نے پچاس روبل،تئیس بوری اناج اور ایک دودھ دینے والی گائے دے کر سلیموف سے اپنی جان چھرائی۔آخر سلیموف نوجوان کے پاس گیا اور کہا کہ آؤ پل پر چلو اور وہاں سے چھلانگ لگاؤ۔نوجوان نے سوچا کہ اگر میں اتنی اوپر سے کودا تو خود ہی مر جاؤں گا۔اس نے بھی سلیموف کو دو سو روبل،انتیس بوری اناج اور ایک بیل دے کر راضی کر لیا۔جج نے اپنا آدمی سلیموف کے پاس بھیجا کہ سونے کی تین ڈلیاں دے دو۔سلیموف نے رومال میں سے پتھر نکال کر دکھایا اور کہا کہ میں غریب آدمی ہوں،میرے پاس سونا کہاں،میں نے تو جج کو رومال اس لئے دکھایا تھا کہ اگر تم نے میرے خلاف فیصلہ دیا تو میں تمہیں اس پتھر سے ماروں گا۔جب اس آدمی نے جج کو جا کر یہ بات بتائی تو جج نے سکون کا سانس لیا کہ میں بچ گیا،ورنہ سلیموف مجھے مار ڈالتا۔ سلیموف خوش خوش گھر واپس آگیا۔ " قصہ ایک بھیڑیے کا - تحریر نمبر 1759,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qissa-aik-bheriye-ka-1759.html,"ڈاکٹر جمیل جالبیایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چاندنی رات میں ایک دبلے پتلے،سوکھے مارے بھوکے بھیڑیے کی ایک خوب کھائے پیئے،موٹے تازے کتے سے ملاقات ہوئی۔دعا سلام کے بعد بھیڑیے نے اس سے پوچھا،”اے دوست !تُو تو خوب تروتازہ دکھائی دیتاہے۔سچ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ سے زیادہ موٹا تازہ جانور آج تک نہیں دیکھا۔بھائی!یہ تو بتا کہ اس کا کیا راز ہے؟میں تجھ سے دس گنا زیادہ محنت کرتا ہوں اور اس کے باوجود بھوکا مرتا ہوں۔“کتا یہ سن کر خوش ہوا اور اس نے بے نیازی سے جواب دیا،”اے دوست!اگر تو بھی میری طرح کرے تو مجھے یقین ہے کہ تو بھی میری طرح خوش رہے گا۔“بھیڑیے نے پوچھا،”بھائی!جلدی بتا،وہ بات کیا ہے؟“کتے نے جواب دیا،”تو بھی میری طرح رات کو گھر کی چوکیداری کر اور چوروں کو گھر میں نہ گھسنے دے۔(جاری ہے)بس یہی کام ہے۔“بھیڑیے نے کہا،”بھائی!میں دل وجان سے یہ کام کروں گا۔اس وقت میری حالت بہت تنگ ہے۔میں ہر روز کھانے کی تلاش میں سارے جنگل میں حیران وپریشان مارا مارا پھرتا ہوں۔بارش،پالے اور برف باری کے صدمے اٹھاتا ہوں،پھر بھی پیٹ پوری طرح نہیں بھرتا۔اگر تیری طرح مجھے بھی گرم گھر رہنے کو اور پیٹ بھر کھانے کو ملے تو میرے لئے اس سے بہترکیا بات ہے۔“کتے نے کہا،”یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں ،سچ ہے۔اب تو فکر مت کر۔بس میرے ساتھ چل۔“یہ سن کر بھیڑیا کتے کے ساتھ ساتھ چل دیا۔ابھی وہ کچھ دور ہی گئے تھے کہ بھیڑیے کی نظر کتے کے گلے پر پڑے ہوئے اس نشان پر پڑی جو گلے کے پٹے سے پڑ گیا تھا۔بھیڑیے نے پوچھا،”اے دوست!تیرے گلے کے چاروں طرف یہ کیا نشان ہے؟“کتے نے کہا،”کچھ نہیں۔“بھیڑیے نے پھر کہا،”اے دوست!بتا تو سہی یہ کیا نشان ہے؟“کتے نے دوبارہ پوچھنے پر جواب دیا،”اگر تو اصرار کرتا ہے تو سن،میں چونکہ درندہ صفت ہوں۔دن کو میرے گلے میں پٹا ڈال کر وہ باندھ دیتے ہیں تاکہ میں سور ہوں اور کسی کو نہ کاٹوں اور رات کو پٹا کھول کر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ میں چوکیداری کروں اور جدھر میرا دل چاہے جاؤں۔رات کو کھانے کے بعد میرا مالک میرے لئے ہڈیوں اور گوشت سے تیار کیا ہوا راتب میرے سامنے ڈالتا ہے اور بچوں سے جو کھانا بچ جاتا ہے،وہ سب بھی میرے سامنے ڈال دیتا ہے۔گھر کا ہر آدمی مجھ سے پیار کرتا ہے۔جمع خاطر رکھ ،یہی سلوک ،جو میرے ساتھ کیا جاتا ہے،وہی تیرے ساتھ ہو گا۔“یہ سن کر بھیڑیا رک گیا۔کتے نے کہا،”چلو چلو!کیا سوچتے ہو۔“بھیڑیے نے کہا،”اے دوست!مجھے تو بس معاف کرو۔یہ خوشی اور آرام تجھے ہی مبارک ہوں۔میرے لئے تو آزادی ہی سب سے بڑی نعمت ہے ۔جیسا تو نے بتایا اس طرح اگر کوئی مجھے بادشاہ بھی بنا دے تو مجھے قبول نہیں۔“یہ کہہ کر بھیڑیا پلٹا اور تیزی سے دوڑتا ہوا جنگل کی طرف چل دیا۔ " سفید کبوتری - تحریر نمبر 1758,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/safeed-kabootri-1758.html,"زکریا تامراس بڑی سی دنیا کے کسی حصے میں ایک سر سبز اور شاداب جنگل تھا۔جس کے بیچوں بیچ ایک نہر بہتی تھی۔یہیں ایک سفید کبوتری اپنے ایک بچے کے ساتھ بڑے چین وآرام سے رہتی تھی۔ایک دن کبوتری اپنے دانے دُنکے کی تلاش میں اپنے گھونسلے سے نکلی۔تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کا بچہ گھونسلے میں نہیں ہے۔اس نے اپنے بچے کو گھونسلے کے آس پاس بہت ڈھونڈا لیکن اس کا کہیں پتا نہ چلا۔کبوتری کا ننھا سا دل غم سے بھر گیا اور وہ یہ طے کرکے گھونسلے سے نکلی کہ جب تک بچہ نہیں ملے گا وہ اسے ڈھونڈتی رہے گی۔وہ اڑتی رہی۔ہر طرف اپنے بچے کو تلاش کرتی رہی۔وہ کہیں نہ ملا۔آخر تھک ہار کر وہ نہر کے کنارے آبیٹھی اور رنج اور غم کے مارے رونے لگی۔(جاری ہے)وہیں ایک مچھلی پانی میں تیر رہی تھی۔اس نے جو کبوتری کو اس طرح روتے دیکھا تو پانی میں سے سر نکالا اور بولی،”اے خوبصورت کبوتری!تم پر کیا مصیبت آئی ہے جو اس طرح رو رہی ہو؟کیا تم بیمار ہو؟“کبوتری نے جواب دیا،”میں بیمار نہیں ہوں۔میں اس لئے رو رہی ہوں کہ آج جب میں اپنے گھونسلے میں واپس آئی تو میں نے دیکھا کہ میرا چھوٹا سا بچہ وہاں نہیں ہے۔مجھے ڈر یہ ہے کہ وہ جنگل کی سیر کرنے نکل گیا ہو گا اور چونکہ وہ ابھی بہت چھوٹا ہے اس لئے گم ہو گیا ہو گا۔“مچھلی نے کہا،”تمہارا فرض تھا کہ اس کی نگرانی کرتیں۔میں بھی تمہاری طرح ایک ماں ہوں اور میں سمجھتی ہوں کہ تمہیں اس وقت کتنا رنج ہو گا۔“کبوتری نے کہا،”میں اس لئے اور بھی زیادہ پریشان ہوں کہ میرا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہے ۔وہ نہیں جانتا کہ اپنی حفاظت کیسے کرے۔مچھلی نے کہا،”میں تمہارے بچے کو ڈھونڈنے میں تمہاری مدد کروں گی۔میں اس کی تلاش میں اس نہر کے آخری سرے تک جاتی ہوں۔“کبوتری نے کہا،”تمہاری اس مہربانی کا شکریہ لیکن وہ تو پرندہ ہے ۔پانی میں نہیں رہ سکتا۔“مچھلی بولی،”ہو سکتا ہے اسے پیاس لگی ہو اور وہ پانی پینے نہر میں آیا ہو۔اس لئے میں اس کو ڈھونڈنے جاتی ہوں۔تم بھی اسے ڈھونڈو۔رونے دھونے سے کوئی فائدہ نہیں۔اس سے تمہارا بچہ ملنے سے تو رہا۔“کبوتری نے مچھلی کا شکریہ ادا کیا اور اسے اللہ حافظ کہہ کر اپنے بچے کی تلاش میں نکل گئی۔بڑی دیر تک وہ اسے ڈھونڈتی رہی لیکن جب وہ نہ ملا تو تھک ہار کر ایک کھیت میں زمین پر بیٹھ گئی۔اسے اپنا بچہ بہت یاد آرہا تھا۔اس کا دل بھر آیا اور وہ رونے لگی۔ایک خرگوش جو کھیت میں بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا،نے اسے دیکھا۔وہ اس کے پاس آیا اور پوچھنے لگا،”کیا بات ہے؟کیوں رو رہی ہو؟اگر بھوکی ہو تو میں تمہیں اس کھیت میں لے چلتا ہوں۔یہاں تمہارے کھانے پینے کے لئے بہت مزیدار چیزیں ہیں۔“کبوتری نے روتے ہوئے جواب دیا،”میں بھوکی نہیں ہوں۔“خرگوش بولا،”پھر کیا بات ہے۔کیوں روتی ہو؟“کبوتری نے کہا،”میں اس لئے رو رہی ہوں کہ میرا پیارا چھوٹا سا بچہ کھو گیا ہے۔صبح سے یہ وقت ہو گیا ہے،وہ مجھے نہیں ملا۔میں نے ہر طرف اسے تلاش کر لیاہے۔“خرگوش اگر چہ کھانے میں مصروف تھا لیکن اس نے کبوتری کو تسلی دی اور کہنے لگا،”رنجیدہ مت ہو۔میں تمہارے بچے کو تلاش کرنے میں تمہاری مدد کروں گا۔جتنی تیزی سے میں دوڑ سکتا ہوں،دوڑوں گا اور سارے جنگل میں اسے تلاش کروں گا۔“کبوتری نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اڑ گئی۔خرگوش بھی کبوتری کے بچے کو جنگل میں تلاش کرنے کے لئے روانہ ہو گیا۔اپنے بچے کی تلاش میں اڑتے اڑتے کبوتری کی نگاہ ایک گدھے پر پڑی جو ایک سبزہ زار میں کھڑا گھاس چر رہا تھا۔وہ اس کے پاس آئی اور پوچھنے لگی،”کیا تم نے ایک چھوٹا سا سفید کبوتر دیکھا ہے؟“گدھے نے اپنی پوری حماقت کے ساتھ جواب دیا،”تم نے بھی عجیب بے کار سوال کیا ہے۔کیا تم نے آج تک کوئی گدھا ایسا دیکھا ہے جو سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتا ہو؟ہم گدھے ہمیشہ یا تو گھاس کھاتے رہتے ہیں یا بوجھ اٹھائے چلتے رہتے ہیں۔دونوں حالتوں میں ہمارا سر نیچے جھکا رہتا ہے۔“اسی دوران ایک کالی بلی وہاں آگئی اور یونہی پوچھنے لگی،”کیا بات ہے؟“گدھے نے کہا،”اس کبوتری کا بچہ کھو گیا ہے۔تم نے تو اسے نہیں دیکھا؟“بلی بولی،”افسوس کہ میں نے اسے نہیں دیکھا۔اگر وہ مجھے مل جاتا تو میرے ناشتے کا انتظام ہو جاتا۔“یہ الفاظ سن کر کبوتری کا دل پھر بھر آیا اور وہ رونے لگی۔بلی کبوتری کو روتا دیکھ کر بولی،”میرے خیال میں بہتر یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو تاکہ میں تمہیں کھا جاؤں۔اس طرح تمہارا غم بھی مٹ جائے گا اور میری بھوک کا علاج بھی ہو جائے گا۔“گدھا بلی کی یہ باتیں سن کر غصے میں آگیا اور ڈانٹ کر بلی سے کہنے لگا،”اگر تو اسی وقت یہاں سے چلی نہ گئی تو تیرے ایسی لات رسید کروں گا کہ تو گاؤں کے بھوکے کتوں کے پاس جا پڑے گی۔“بلی نے جو یہ بات سنی تو وہاں سے بھاگ جانے میں ہی اپنی خیریت سمجھی۔بلی کے جانے کے بعد گدھا کبوتری سے بولا،”جلدی کرو۔رات آرہی ہے ۔تم اڑ جاؤ۔بلی کی باتوں سے خود کو ہلکان نہ کرو۔“کبوتری نے گدھے کا شکریہ ادا کیا اور اسے اللہ حافظ کہہ کر پھر اپنے بچے کی تلاش میں اڑ گئی۔اب رات کی سیاہ چادر آہستہ آہستہ پھیلتی جا رہی تھی۔تھکی ہاری،غم زدہ کبوتری نے ناچار اپنے گھونسلے کا رخ کیا۔جب وہ گھونسلے میں پہنچتی تو خوشی سے چلا اٹھی،”میرے بچے!“اس کا ننھا سفید بچہ گھونسلے میں بیٹھا ہوا تھا۔کبوتری کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے،مگر یہ خوشی کے آنسو تھے۔اس نے اپنے بچے سے پوچھا،”تم کہاں تھے؟“بچے نے جواب دیا،”میں ذرا اِدھر اُدھر سیر کرنے گھونسلے سے نکل گیا تھا لیکن جب واپس آنے کے لئے پلٹا تو گھر کا راستہ بھول گیا۔“کبوتری نے پوچھا،”پھر یہاں تک کیسے پہنچے؟“بچے نے جواب دیا،”مجھے راستہ تو یاد نہیں رہا تھا۔بس اندر سے کسی نے میری رہنمائی کی اور مجھے یہاں پہنچا دیا۔“کبوتری کو یاد آیا کہ وہ جب چھوٹی سی تھی تو ایک دن اسی طرح کھو گئی تھی۔وہ کہنے لگی،”میرے بچے !تم ٹھیک کہتے ہو۔جب کوئی اپنی راہ کھو دیتا ہے تو گھر کی محبت اس کو راہ دکھاتی ہے اور گھر تک پہنچا دیتی ہے ۔چاہے خطر ناک دشمن ہی کیوں نہ راہ میں بیٹھے ہوں۔“ " سورج کی تلاش - تحریر نمبر 1757,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/soraaj-ki-talash-1757.html,"سید فہد بلالٹنڈرا ایک برفانی علاقہ ہے۔یہاں رہنے والوں کو اسکیمو کہتے ہیں۔ٹنڈرا میں شدید سردی ہوتی ہے اور سورج کم نکلتا ہے۔اس علاقے میں نیذر نامی ایک لڑکا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔اس کا باپ رینڈیئر پالتا تھا۔رینڈیئر ایک بڑے بارہ سنگھے جیسا جانور ہوتا ہے۔یہ لوگ ایک چراگاہ میں رینڈیئر چرانے کے بعد دوسری چراگاہ میں چلے جاتے۔نیذر سکول نہیں جاتا تھا بلکہ اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا۔آرکٹک میں راتیں مہینوں تک لمبی ہوتی ہیں،اس لئے نیذر بھی رات کو سوتا اور رات ہی کو جاگتا۔ان دنوں برف زمین کو ڈھکے رکھتی ہے۔آسمان پر چاندستارے چمکتے رہتے ہیں۔کبھی آسمان کے جنوب میں روشنی کی پٹیاں آسمان سے گزر رہی ہوتی ہیں اور کبھی لگتا ہے جیسے روشنی کا سبز پردہ ٹھنڈے ستاروں کو ڈھکے ہوئے ہے اور کبھی یہ روشنی ہزاروں نیلے تیروں جیسی نظر آتی ہے۔(جاری ہے)نیذر کو یہ سب دیکھ کر حیرت ہوتی۔وہ اپنے باپ سے پوچھتا،”کیا ستارے نئی چراگاہ میں بھی ہمارے ساتھ چلیں گے؟“اس کو لمبی قطبی راتوں کی عادت تھی لیکن پھر بھی وہ بے صبری سے دن کا انتظار کرتا رہتا۔وہ اپنے باپ سے کہتا،”شاید سورج ہمیں بھول گیا ہے۔ہو سکتا ہے وہ کہیں گم ہو گیا ہو اور اس کو راستہ نہ مل رہا ہو۔“اس کا باپ اس کی بات پر ہنستا اور کہتا،”سورج اپنا راستہ خود ڈھونڈلے گا۔ذرا صبر کرو۔وہ دیکھو سامنے!پہاڑیوں کے بیچ صبح طلوع ہو رہی ہے۔ایسا لگ رہا ہے جیسے وہاں آگ جل رہی ہو۔جلد ہی دن نکل آئے گا اور رات کو بھگا دے گا۔“نیذر سوچتا کہ اب برف ڈر کر پگھل جائے گی اور نیچے سے گھاس نکل آئے گی۔ایک دن نجانے کیا ہواکہ ہوا تیز چلنے لگی اور سورج کی روشنی ہلکی پڑنے لگی۔شاید یہ ہو انہیں تھی بلکہ کوئی ہوائی جہاز گزرا تھا۔نیذر کو ہوائی جہاز پر بڑا غصہ آیا،کیوں کہ اس کے اتنے نیچے اڑنے سے رینڈیئر ڈر گئے تھے۔نیذر نے غصے میں ہوائی جہاز کو اشارہ کیا کہ وہ اوپر چلا جائے۔اس کا کتا ”پوش“بھی بھونکنے لگا۔پائلٹ نے اس کا اشارہ دیکھ لیا اور جہاز کو اونچائی پر لے گیا۔جہاز سورج کی سرخ روشنی میں سرخ اور پھر نارنجی ہو گیا۔نیذر نے سوچا،”کاش وہاں کوئی بڑا سا درخت ہوتا جس پر چڑھ کر وہ سورج دیکھ سکتا تھا لیکن ٹنڈرا میں اگنے والے برچ کے درخت اتنے چھوٹے تھے کہ ان پر چڑھ کر بھی سورج نظر نہیں آسکتا تھا۔نیذر یہی سوچ رہا تھا کہ اس کے سامنے سے ایک سفید سی چیز گزری۔یہ ایک برفانی لومڑی تھی۔پوش تیزی سے بھاگا،مگر لومڑی اس سے بھی تیز بھاگی۔نیذر نے اسے چیخ کر واپس بلایا۔پوش ایک دوبار بھونکا جیسے لومڑی سے کہہ رہا ہو کہ خیر چاہتی ہوتو آئندہ یہاں نظر نہیں آنا۔جلد ہی ہوا بہت تیز چلنے لگی۔روشنی اور بھی ہلکی پڑ گئی۔ایسا لگتا تھا کہ برفانی طوفان آنے والا ہے۔آسمان پر گہرے بادل چھا گئے۔ہوا جھکڑوں میں بدل گئی۔نیذر نے چیخ کر پوش سے کہا،”آؤ گھر چلیں۔“لیکن برف کے زرے اڑاڑ کر پوش کی آنکھوں میں گھسنے لگے۔نیذر کو پتہ تھا کہ جب برفانی طوفان آتے ہیں تو کتے پناہ حاصل کرنے کے لئے برف کھود کر اس میں چھپ جاتے ہیں۔برف ٹھنڈی تو ہوتی ہے،لیکن تیز ہوا سے بچا لیتی ہے۔نیذر کو اپنے باپ کے الفاظ بھی یاد آئے تھے۔وہ پوش کے بارے میں کہتا تھا کہ یہ بہت ہوشیار کتا ہے۔اس کی بات پر غور کرنا۔وہ ٹنڈرا میں رہنا جانتا ہے۔ لہٰذا اس نے کتے کو برف کی گاڑی سے کھول دیا اور اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔دونوں برف پر لیٹ گئے۔وہ سردی سے بری طرح کانپ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس وقت گھر میں کتنی گرمی ہو گی۔جلد ہی برف نے انہیں ڈھک لیا۔صرف گاڑی اور ایک لمبے ڈنڈے کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہاں کوئی ہے۔پوش کے ساتھ لیٹے لیٹے نیذر کو نیند آگئی۔اس نے خواب میں دیکھا کہ اس کی ماں اسے ڈھونڈ رہی ہے۔اس کا نام لے کر آوازیں دے رہی ہے۔پھر اس کا باپ نظر آیا۔اس کے بعد کتے بھونکنے لگے اور بھونکتے ہی رہے۔کسی نے نیذر کو زور سے ہلایا۔اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔کتوں کے بھونکنے کی آوازیں بہت قریب سے آرہی تھیں۔نیذر نے اپنے کپڑوں پر سے برف جھاڑی اور اپنی آنکھیں ملیں۔تب اس نے دیکھا کہ سامنے برف گاڑی اور کتے کھڑے تھے اور وہ خواب نہیں تھا۔اس کے باپ نے اسے برف سے اٹھا لیا۔نیذر باپ سے لپٹنا چاہتا تھا لیکن وہ اسے ڈانٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا،”تم بھاگے کیوں؟اگر برف کے طوفان میں گم ہو جاتے تو؟“نیذر کچھ نہیں بولا۔چپ کھڑا رہا۔اس نے آہستہ سے کہا،”میں اکیلا نہیں تھا۔پوش میرے ساتھ تھا۔سورج گم ہو گیا تھا۔ہم دونوں اسے ڈھونڈ رہے تھے۔“اس کے باپ کا غصہ ایک دم ختم ہو گیا۔وہ حیرت سے بولا،”تم سورج کو ڈھونڈ رہے تھے!یہ رہا سورج۔“یہ کہہ کر اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔نیذر نے دیکھا کہ برف کا طوفان ختم ہو چکا ہے اور دورافق کے کنارے آگ کا گولہ سا نظر آرہا ہے۔ایسا لگتا تھا کہ جیسے ہوا،رینڈیئر،کتے اور سارا کا سارا ٹنڈرا سورج کی گلابی روشنی میں نئی زندگی پا گیا ہے۔نیذر نے چلا کر کہا،”میں نے سورج کو پالیا۔“ " کنویں کے مینڈک - تحریر نمبر 1756,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kunween-ke-maindak-1756.html,"اُمرائی انوریایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ بڑی سخت گرمی پڑی اور برسات کا موسم بھی صاف نکل گیا۔تالاب اور جھیلیں خشک ہونے لگیں۔جھیلوں میں مچھلیاں تڑپ تڑپ کر مرنے لگیں۔بگلوں نے اب دریا کا رخ کیا جہاں بے شمار مچھلیاں رہتی تھیں۔ایک بگلے نے ایک موٹی تازی مچھلی پکڑی اور چونچ میں دبا کر لے اڑاکہ کسی درخت پر بیٹھ کر مزے سے کھاؤں گا،مگر مچھلی بھی طاقتور تھی ،زور سے پھڑ پھڑائی اور یوں بگلے کی چونچ سے آزاد ہو کر نیچے گری۔اتفاق سے بگلا اس وقت ایک کنویں کے اوپر سے گزر رہا تھا۔مچھلی آزاد ہو کر گری تو کنویں میں آن پڑی۔اس کنویں کے اندر کئی چھوٹے بڑے مینڈک بہت دنوں سے رہتے تھے۔مچھلی کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔انہوں نے ایسی چیز کبھی نہیں دیکھی تھی۔(جاری ہے)ایک بڑا سا مینڈک ہمت کرکے آیا اور مچھلی سے پوچھنے لگا،”تم کون ہو؟کہاں سے آئی ہو؟“مچھلی نے اسے بتایا،”میں پانی کی مخلوق ہوں۔مجھے مچھلی کہتے ہیں۔میں دریا میں رہتی تھی اور دریا ہی میرا گھر ہے۔“مینڈک نے حیرانی سے پوچھا”دریا کیا ہوتا ہے؟“مچھلی نے بتایا،”دریا بہت لمبا چوڑا ہوتا ہے۔اس میں گہرا پانی ہوتا ہے جو بہتا رہتا ہے ۔بہت لمبا چوڑا۔جب پانی بہتا ہے تو لہریں اٹھتی ہیں اور ہمیں جھولا جھلاتی ہیں۔“مینڈک اچھل کر کنویں کے ایک کنارے پر پہنچا اور وہاں سے تیرتا ہوا آیا اور مچھلی سے پوچھا،”کیا دریا اتنا چوڑا ہوتا ہے؟“مچھلی نے کہا،”نہیں بھائی مینڈک!یہ فاصلہ تو کچھ بھی نہیں۔دریا تو کہیں زیادہ چوڑا ہوتاہے۔“مینڈک پھر اچھلا اور اچھل کر کنویں کے دوسرے کنارے پر گیا۔پھر وہاں سے تیرتا ہوا آیا اور مچھلی سے پوچھنے لگا،”دریا کیا اتنا لمبا ہوتاہے؟“مچھلی کو ہنسی آگئی اور وہ کہنے لگی،”نہیں نہیں میاں مینڈک!یہ فاصلہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔دریا تو میلوں لمبا ہوتا ہے۔“مینڈک بڑی بڑی آنکھیں نکال کر مچھلی کو دیکھنے لگا اور بولا،”تم ضرور مجھ سے مذاق کر رہی ہو۔بھلا کوئی دریا ہمارے کنویں سے بھی بڑا ہو سکتا ہے۔تم یا تو میرا مذاق اڑا رہی ہو یا تم نے ضرور کوئی خواب دیکھا ہے۔بھلا سوچنے کی بات ہے کہاں یہ لمبا چوڑا کنواں اور کہاں تمہارا دریا!“مچھلی بے چاری کیا جواب دیتی۔خاموش ہو گئی اور آہستہ سے مینڈک سے کہنے لگی،”بھائی مینڈک!بات دراصل یہ ہے کہ جب تک تم نے کنویں سے نکل کر باہر کی دنیا نہیں دیکھو گے،تمہیں کسی بات کا یقین نہیں آئے گا۔دنیا دیکھنی ہے اور نئی نئی چیزیں دیکھنی ہیں تو کنویں سے نکلو،مگر مشکل یہ ہے کہ تمہارا کنواں سچ مچ بہت گہرا ہے۔میں سوچتی ہوں کہ بگلے کی چونچ سے تو نکل آئی،مگر اس کنویں سے کس طرح نکلوں گی۔“تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ کچھ بچے پانی کی تلاش میں اس طرف آنکلے۔ان کے ہاتھ میں ڈول اور لمبی سی رسی تھی۔ایک لڑکے نے ڈول کو رسی سے باندھ کر کنویں میں ڈالا۔ڈول میں پانی کے ساتھ مچھلی اور مینڈک بھی آگئے۔ایک لڑکا خوشی سے چلا اٹھا،”دوستو!ڈول تو ہم نے پانی نکالنے کے لئے ڈالا تھا۔یہ مچھلی اور مینڈک کہاں سے آگئے۔“دوسرا لڑکا بولا،”یہ بے چاری مچھلی اس کنویں میں کہاں سے آگئی۔چلو اسے دریا میں چھوڑ آئیں۔ہمیں تو پانی چاہیے۔“بڑے رحمدل بچے تھے کہ انہیں مچھلی کے حال پر ترس آگیا۔دوڑتے ہوئے دریا پر گئے اور مچھلی اور مینڈک کو دریا میں چھوڑ آئے۔اگر دریا کا پانی بھی کنویں کے پانی کی طرح شفاف ہوتا تو دریا میں سے پانی لے جایا کرتے۔مینڈک نے جب دریا دیکھا تو حیران رہ گیا۔اب اسے مچھلی کی باتوں پر یقین آنے لگا اور سوچنے لگا کہ اب میں واپس کنویں میں جاکر دوسرے مینڈکوں کو بتاؤں گا کہ مچھلی جو کچھ کہہ رہی تھی وہ سچ تھا۔میں وہ سب دیکھ کر آرہا ہوں! " دو چوہے - تحریر نمبر 1755,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dou-chuhey-1755.html,"ڈاکٹر جمیل جالبیدو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ایک چوہا شہر کی ایک حویلی میں بل بنا کر رہتا تھا اور دوسرا پہاڑوں کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔گاؤں اور شہر میں فاصلہ بہت تھا،اس لئے وہ کبھی کبھار ہی ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ایک دن جو ملاقات ہوئی تو گاؤں کے چوہے نے اپنے دوست شہری چوہے سے کہا،”بھائی!ہم دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں۔کسی دن میرے گھر تو آئیے اور ساتھ کھانا کھائیے۔“شہری چوہے نے اس کی دعوت قبول کرلی اور مقررہ دن وہاں پہنچ گیا۔گاؤں کا چوہا بہت عزت سے پیش آیا اور اپنے دوست کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی۔کھانے میں مٹر،گوشت کے ٹکڑے ،آٹا اور پنیر اور میٹھے میں پکے ہوئے سیب کے تازہ ٹکڑے اس کے سامنے لا کر رکھے۔(جاری ہے)شہری چوہا کھاتا رہا اور وہ خود اس کے پاس بیٹھا میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہا۔اس اندیشے سے کہ کہیں مہمان کو کھانا کم نہ پڑ جائے،وہ خود گیہوں کی بالی منہ میں لے کر آہستہ آستہ چباتا رہا۔جب شہری چوہا کھانا کھا چکا تو اس نے کہا،”ارے یار جانی!اگر اجازت ہوتو میں کچھ کہوں؟“گاؤں کے چوہے نے کہا،”کہو بھائی!ایسی کیا بات ہے؟“شہری چوہے نے کہا،”تم ایسے خراب اور گندے بل میں کیوں رہتے ہو؟اس جگہ میں نہ صفائی ہے اور نہ رونق۔چاروں طرف پہاڑ،ندی اور نالے ہیں۔دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔تم کیوں نہ شہر میں چل کر رہو۔وہاں بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔سرکار دربار ہیں۔صاف ستھری روشن سڑکیں ہیں۔کھانے کے لئے طرح طرح کی چیزیں ہیں۔آخر یہ دو دن کی زندگی ہے۔جو وقت ہنسی خوشی اور آرام سے گزر جائے وہ غنیمت ہے ۔بس اب تم میرے ساتھ چلو۔دونوں پاس رہیں گے۔باقی زندگی آرام سے گزر ے گی۔“گاؤں کے چوہے کو اپنے دوست کی باتیں اچھی لگیں اور وہ شہر چلنے پر راضی ہو گیا۔شام کے وقت چل کر دونوں دوست آدھی رات کے قریب شہر کی اس حویلی میں جا پہنچے جہاں شہری چوہے کا بل تھا۔حویلی میں ایک ہی دن پہلے بڑی دعوت ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے افسر،تاجر،زمیندار،وڈیرے اور وزیر شریک ہوئے تھے۔وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حویلی کے نوکروں نے اچھے اچھے کھانے کھڑکیوں کے پیچھے چھپا رکھے ہیں۔شہری چوہے نے اپنے دوست ،گاؤں کے چوہے کو ریشمی یرانی قالین پر بٹھایا اور کھڑکیوں کے پیچھے چھپے ہوئے کھانوں میں سے طرح طرح کے کھانے اس کے سامنے لا کر رکھے۔مہمان چوہا کھاتا جاتا اور خوش ہو کر کہتا جاتا،”واہ یار!کیا مزیدار کھانے ہیں۔ایسے کھانے تو میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔“ابھی وہ دونوں قالین پر بیٹھے کھانے کے مزے لوٹ ہی رہے تھے کہ یکا یک کسی نے دروازہ کھولا۔دروازے کے کھلنے کی آواز پر دونوں دوست گھبرا گئے اور جان بچانے کیلئے اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔اتنے میں دو کتے بھی زور زور سے بھونکنے لگے۔یہ آواز سن کر گاؤں کا چوہا ایسا گھبرایا کہ اس کے ہوش و حواس اڑ گئے۔ابھی وہ دونوں ایک کونے میں دبکے ہوئے تھے کہ بلیوں کے غزانے کی آواز سنائی دی۔گاؤں کے چوہے نے گھبرا کر اپنے دوست شہری چوہے سے کہا،”اے بھائی!اگر شہر میں ایسا مزہ اور یہ زندگی ہے تو یہ تم کو مبارک ہو۔میں تو باز آیا۔ایسی خوشی سے تو مجھے اپنا گاؤں ،اپنا گندا بل اور مٹر کے دانے ہی خوب ہیں۔“ " عقلمند کسان - تحریر نمبر 1754,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aqalmand-kisaan-1754.html,"محمد مقبول الٰہیایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔وہ صبح سے شام تک کھیتوں میں کام کرتا تھا۔کھیتوں کی مکمل پہرے داری کرتا تھا،مگر جب فصل پک کر تیار ہو جاتی تو گاؤں کا سردار اس کی ساری فصل زبردستی لے لیتا اور اسے تھوڑا سا حصہ دے دیتا۔کسان اور اس کی بیوی کی بڑی مشکل سے گزر اوقات ہوتی تھی۔ایک دن کسان کھیت میں کھدائی کر رہا تھا۔بے خیالی میں وہ زیادہ زمین کھود گیا۔اچانک ہی اسے محسوس ہوا کہ زمین کے اندر کچھ ہے۔اس نے بڑی مشکل سے وہاں سے ایک صندوق نکالا۔وہ بڑا حیران ہوا۔اس نے صندوق کھولا۔اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔صندوق ہیرے اور جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔اس نے سوچا کہ اس بات کا علم گاؤں کے سردار کو نہ ہونا چاہیے ورنہ وہ اس کو زبردستی چھین لے گا۔(جاری ہے)وہ خزانے کو چھپتے چھپا کر گھر لے آگیا۔اس نے اپنی بیوی سے پوچھا،”اس دولت کو کہاں چھپایا جائے؟“بیوی نے جواب دیا،”اس کو ہم صحن میں دفن کر دیتے ہیں۔“کسان نے ایسا ہی کیا۔کچھ دیر بعد اس کی بیوی کہنے لگی،”میں پانی بھرنے جا رہی ہوں۔“بیوی کے جانے کے بعد کسان سوچ میں پڑ گیا۔وہ اپنے دل میں کہنے لگاکہ میری بیوی اس دولت کا ذکر دوسری عورتوں سے ضرور کرے گی اور پھر اس راز کا علم سردار کو بھی ہو جائے گا۔یہ خیال آتے ہی کسان اٹھا اور ہیروں سے بھرا صندوق صحن سے نکالا اور گھر سے باہر ایک خفیہ جگہ میں دفن کر دیا اور واپس آگیا۔جب اس کی بیوی گھر آئی تو اس نے سنجیدگی سے کہا،”کل ہم جنگل سے مچھلیاں پکڑ کر لائیں گے۔“بیوی نے حیران ہو کر کہا،”مچھلیاں اور جنگل سے؟خوشی سے تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟“کسان مسکرا کر بولا،”کل جب تم جنگل جاؤ گی تو خود دیکھ لینا۔“اگلے دن کسان سورج نکلنے سے پہلے گھر سے نکلا اور گاؤں کے مچھیرے سے بہت ساری تازہ مچھلیاں خرید لایا۔اس نے تندور کی روٹیاں بھی خریدیں اور جنگل کی طرف چل پڑا۔وہاں ایک جگہ دیکھ کر اس نے مچھلیاں زمین پر پھیلا دیں اور کچھ آگے جا کر درختوں پر روٹیاں لٹکا دیں۔یہ سب کام کرکے وہ گھر واپس آگیا۔اس کی بیوی ابھی تک سو رہی تھی۔جب سورج نکلا تو کسان اپنی بیوی کو لے کر جنگل کی طرف چل پڑا۔اس کی بیوی نے زمین پر مچھلیاں دیکھیں تو حیران رہ گئی۔پھر اس نے سب مچھلیوں کو اپنی ٹوکری میں رکھ لیا ۔آگے جا کر درختوں پر روٹیاں دیکھیں تو کسان سے کہنے لگی،”درختوں پر روٹیاں لگی ہوئی ہیں۔“کسان نے کہا،”یہاں روٹیوں کی بارش ہوتی ہے۔کچھ روٹیاں درختوں پر اٹک جاتی ہیں۔“اس کی بیوی بڑی حیران ہو رہی تھی۔کسان اور اس کی بیوی کے دن پھر گئے۔اب وہ پہلے سے زیادہ اچھا کھاتے تھے۔تھوڑے دن بعد ہر طرف یہ بات پھیل گئی کہ کسان کو کوئی خزانہ مل گیا ہے۔اب یہ راز بھی نہیں رہا تھا ۔ہر کوئی جانتا تھا کہ خزانہ اس نے گھر کے صحن میں چھپا رکھا ہے۔پھر بھلا یہ بات سردار سے کیسے چھپی رہ سکتی تھی ۔پہلے اس نے کسان کی بیوی کو اور پھر کسان کو اپنے ہاں بلوایا۔کسان جب سردار کے پاس گیا تو سردار نے کہا،”کیا یہ سچ ہے کہ تمہیں ہیرے جواہرات سے بھرا صندوق ملا ہے؟“کسان نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا،”یہ بالکل جھوٹ ہے۔“سردار نے گرج کر کہا،”تمہاری بیوی مجھے سب کچھ بتا چکی ہے۔“کسان نے ہاتھ جوڑ کر کہا،”میری بیوی کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔یہ تو آج کل الٹی سیدھی باتیں کرنے لگی ہے۔“جب کسان کی بیوی نے یہ سنا کہ اس کا شوہر اسے پاگل کہہ رہا ہے تو وہ غصے سے بولی،”حضور!جو کچھ میں نے بتایا ہے وہ حقیقت ہے ۔یہ صندوق ہمارے صحن میں دفن ہے۔“سردار نے خوش ہو کر پوچھا،”یہ ہیرے جواہرات کا صندوق کس دن ملا تھا؟“کسان کی بیوی نے کہا،”اس دن صبح کو جس کے ایک دن بعد ہم جنگل سے مچھلیاں پکڑنے گئے تھے۔یہ سچ ہے ۔یہ وہ دن تھا جب آسمان سے پکی پکائی روٹیوں کی بارش ہوئی تھی۔“یہ عورت تو واقعی پاگل ہے۔”سردار نے مسکراتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا۔سردار کے ایک خادم نے سردار کے کان میں کچھ کہا۔سردار نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ کسان کے گھر جاؤ اور صحن کھود کر خزانے کا پتا لگاؤ۔خادموں نے سارا صحن کھود ڈالا ،مگر وہاں انہیں کوئی خزانہ نظر نہ آیا۔وہ سب واپس چلے گئے ۔یوں غریب کسان اپنی عقلمندی سے نہ صرف ظالم سردار کے ظلم سے بچ گیا،بلکہ اپنا خزانہ بھی بچا لیا۔ " پھنس گیا کنجوس - تحریر نمبر 1752,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/phans-giya-kanjoos-1752.html,"آمنہ ماہمپُرانے زمانے کی بات ہے ایک گاؤں میں ایک آدمی رہتا تھا۔وہ بہت ہی کنجوس تھا۔ایک بار وہ ایک جنگل سے گزررہا تھا تو اس نے کھجور کا ایک درخت دیکھا،جس میں بہت سارے میٹھے میٹھے کھجور لگے ہوئے تھے۔پھر کیا تھا؟۔۔۔کنجوس آدمی کو مفت میں کھجوریں مل گئی،اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔مال مفت دل بے رحم۔اس نے جلدی جلدی درخت پر چڑھنا شروع کر دیا۔وہ جب کافی اونچائی تک چڑھ گیا تو اچانک ایک شہد کی مکھی نے اسے ڈنک مار دیا۔اس نے دیکھا کہ درخت پر شہد کی مکھیوں کا ایک بڑا سا چھٹا لگا ہوا ہے ،وہ گھبرا اُٹھا،اس نے نیچے چھلانگ لگانے کے بارے میں سوچا،۔۔۔لیکن یہ کیا؟نیچے ایک کنواں تھا۔وہ بہت زیادہ ڈر گیا اور وہ خدا سے دعا مانگنے لگا کہ:”اے خدا!مجھے بچالے میں سو فقیروں کو کھانا کھلاؤں گا۔(جاری ہے)“پھر اس نے دھیرے دھیرے نیچے اترنے کی کوشش کی،تھوڑا نیچے آنے کے بعد اس نے کہا”سو نہیں تو پچھتر کو تو کھلا ہی دوں گا۔“تھوڑا اور نیچے آنے پر اس نے کہا:”چلو پچھتر نہیں تو پچاس کو تو ضرور کھلاؤں گا۔“ایسا کرتے کرتے وہ نیچے آنے تک ایک (1) فقیر تک پہنچ گیا۔اور نیچے اتر کر وہ سلامتی کے ساتھ اپنے گھر چلا گیا۔اس نے سارا حال اپنی بیوی کو کہہ سنایا۔دوسرے روز بیوی نے ایک ایسے فقیر کو بلایا جس کا پیٹ خراب تھا اور جو کھانا ٹھیک ڈھنگ سے کھا نہیں سکتا تھا۔فقیر بھی اتفاق سے کنجوس اور چالاک آدمی تھا،اس نے بیس روٹیاں،دہی،کھیر اور دودھ پیک کرنے کو کہا اور جاتے وقت کنجوس آدمی کی بیوی سے کہا:”اجی!میرا نذرانہ!“اس نے سونے کے سکے فقیر کو دئیے۔شام کو جب کنجوس آدمی گھر واپس آیا تو اس نے فقیر کے بارے میں پوچھا،تو اس کی بیوی نے اُسے سارا ماجرا کہہ سنایا،کنجوس آدمی کو بہت غصہ آیا،وہ لاٹھی لے کر فقیر کے گھر پہنچا۔فقیر کی بیوی بہت چالاک تھی،اُس نے جب کنجوس آدمی کو غصے کی حالت میں اپنے گھر کی طرف بڑھتے دیکھا تو وہ دروازے کے باہر آکر زور زور سے چلانے لگی کہ:”پتا نہیں کس نے میرے شوہر کو کیا کھلا دیا ہے؟اُن کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے ،ہائے!میں کیا کروں؟ایسا لگتا ہے اب وہ زندہ نہیں بچیں گے،ارے کوئی ہے جو میری خبر گیری کرے۔“کنجوس آدمی یہ سُن کر بری طرح سہم گیا،اس نے فقیر کی بیوی سے کہا:”آپ چلائیں مت،میں آپ کے شوہر کے علاج کے لئے ابھی گھر جا کر دو سونے کے سکے بھیج دیتا ہوں۔“چالاک فقیر گھر کے اندر بیٹھا مزے لے لے کر خوب ہنس رہا تھا۔اس طرح ایک کنجوس نے ایک بڑے کنجوس کو پھنسا لیا۔ " غلط مشورہ - تحریر نمبر 1751,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghalat-mashwara-1751.html,"عبدالرحمنایک گاؤں میں ایک کسان تھا،جسے جانوروں کی بولی سمجھ میں آتی تھی۔ایک شام کسان اپنے باڑے میں چارا ڈالنے گیا۔اس وقت کسان کا بیل اور گھوڑا آپس میں باتیں کر رہے تھے۔کسان کان لگا کر اُن دونوں کی بات چیت کو دھیان سے سننے لگا۔بیل اُداسی سے گھوڑے سے کہہ رہا تھا:”واہ گھوڑے بھائی!تمہارے تو جب دیکھو ٹھاٹ ہی ٹھاٹ ہیں۔دونوں وقت کی مالش سے تمہارا جسم چم چم کرتا رہتا ہے۔ کھانے کے لئے چنے بھی تمہیں خوب ملتے ہیں،پھر مالک کو پیٹھ پر بیٹھا کر اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے بھی جاتے ہو۔ایک میں ہوں کہ دن بھر کھیت میں لگے رہتا ہوں۔ذرا بھی سستا یا نہیں کہ مالک کے کوڑے پیٹھ پر دنا دن برسنے لگتے ہیں اور شام کو واپس آؤ تو یہ روکھا سوکھا چارا کھانے کو ملتا ہے۔(جاری ہے)“گھوڑے نے یہ سُن کر اتراتے ہوئے کہا:” اداس کیوں ہوتے ہو بیل بھائی!میں جیسا کہوں،تم ویسا کرو تو تم بھی میری طرح شان وشوکت سے رہ سکتے ہو۔“بیل نے بے تابی سے کہا:”جلدی جلدی بتاؤنا گھوڑے بھائی کہ مجھے شان وشوکت سے جینے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟“گھوڑے نے ہنستے ہوئے بیل سے کہا:”آسان کام ہے ،کل جب مالک کے نوکر تمہیں لینے کے لئے آئیں تو اُنھیں خود کو چھونے نہ دینا،اُنھیں سینگ دکھانا،ایک دم عجیب وغریب حرکتیں کرنا،زمین پر لیٹ جانا،کچھ مت کھانا اور منہ سے سفید جھاگ نکالنے لگنا،بس پھر تو تمہارا عیش ہی عیش ہو گا۔“سیدھے سادھے بیل کو غلط مشورہ دیتے ہوئے گھوڑے کو دیکھ کر کسان نے یہ ٹھان لیا کہ وہ ایک نہ ایک دن گھوڑے کو ضرور بہ ضرور اچھا سبق سکھائے گا کہ وہ آیندہ کبھی بھی کسی جانور کو غلط مشورہ دینے کی کوشش نہیں کرے گا۔دوسرے دن جب کسان کے نوکر بیل کو لینے گئے تو بیل نے گھوڑے کے دیے ہوئے غلط مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایسی آودھم مچائی کہ نوکروں کے چھکے چھوٹ گئے اور وہ ڈر کر بھاگے بھاگے کسان کے پاس پہنچے اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔کسان نے بیل کی حالت جانچنے کا ناٹک کرتے ہوئے کہا کہ:”لگتا ہے بے چارا بیل بہت زیادہ محنت ومشقت کرنے سے بیمار پڑ گیا ہے اس لئے آج سے یہ آرام کرے گا اور بیل کی جگہ آج سے گھوڑے کو بل میں جوتا جائے گا اور جب تک بیل اچھا نہیں ہو جاتا کھیت میں گھوڑا ہی کام کرے گا۔“اب تو گھوڑے کی شامت آگئی۔ دن بھر کھیت میں کوڑے کھا کھا کر گھوڑے کی ساری شان وشوکت نکل گئی۔وہ من ہی من میں پچھتانے لگا کہ اس نے بیل کو غلط مشورہ دے کر اچھا نہیں کیا۔ایک ہفتے بعد کسان نے جان بوجھ کر گھوڑے اور بیل کے لئے ایک ہی جگہ پر گھاس ڈالی تاکہ وہ جان سکے کہ دونوں کے درمیان کیا بات ہوتی ہے؟گھوڑے کو دیکھ کر بیل چہکتے ہوئے بولا:”واہ دوست !کیا مشورہ دیا تم نے:میں تو قسمت سے راجا ہو گیا اب تو کچھ کام نہیں کرنا پڑتا اور وقت وقت پر ہرا ہرا تازہ چارا کھانے کو ملتاہے۔“یہ سُن کر گھوڑا بھانپ گیا کہ بیل کی نیت اب کام پر جانے کی نہیں ہے۔گھوڑے نے دل میں سوچا اگر بیل اپنے کام پر نہیں جائے گا تو اسی طرح کچھ دن اور کھیت پر کام کرتے کرتے وہ تو پر لوک سدھار جائے گا ،اس نے کچھ سوچتے ہوئے بیل سے کہا:”دوست !بڑے دکھ کے ساتھ تمہیں کہنا پڑ رہا ہے کہ مالک نے تمہیں ایک قصائی کو بیچ دیا ہے ،کیوں کہ مالک کی نظر میں اب تم کسی بھی کام کے نہیں رہے۔یہ دیکھ بھال اور دو وقت کا ہراہرا چارا اس لئے دیا جا رہا ہے کہ تم صحت مند ہو جاؤ اور قصائی سے اُس حساب سے اچھی رقم وصول کی جاسکے۔“یہ سنتے ہی بیل سوکھے پتے کی طرح تھر تھر کانپنے لگا اور گھبراتے ہوئے اس نے گھوڑے سے کہا کہ:”گھوڑے بھائی!اب تم ہی مجھے بچانے کی کوئی ترکیب نکالو،میں اس طرح ناٹک کرکے مرنا نہیں چاہتا ہوں۔“گھوڑے نے تیر نشانے پر لگتا دیکھ کر کہا کہ:”کل سے بیمار ہونے کا ناٹک مت کرنا،مالک کو تم بھلے چنگے لگوگے تو وہ تمہیں نہیں بیچے گا۔“گھوڑے کی چالاکی دیکھ کر کسان زو رسے ہنس پڑا۔دوسرے دن بیل کو بھلا چنگا دیکھ کر کسان نے اُسے پھر سے کھیت پر بلوالیا۔اور گھوڑے نے ہمیشہ کے لئے کان پکڑ لیا کہ اب کسی بھی جانور کو غلط مشورہ نہیں دے گا۔ " مچھلی سب کو ملی - تحریر نمبر 1750,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/machli-sab-ko-mili-1750.html,"میم ندیممچھیرے نے اللہ کا نام لے کر ندی میں جال ڈالا۔دن بھر کے انتظار کے بعد دو بڑی سی مچھلیاں ہاتھ لگیں۔وہ اپنا جال سمیٹ رہا تھا کہ ایک چیل تیزی سے جھپٹی اور اپنے پنجوں میں ایک مچھلی دبا کر اڑ گئی۔مچھیرے کو بہت افسوس ہوا،مگر پھر وہ کچھ سوچ کر مسکرایا۔اس کا بیٹا چیل اور اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔مچھیرے نے کہا،”بیٹا اللہ کا شکر ادا کرو کہ ایک مچھلی بچ گئی۔دوسری مچھلی ہماری قسمت میں نہیں تھی۔جو چیز جتنی قسمت میں ہوتی ہے اتنی ہی ملتی ہے۔قسمت کو کوسنا نا شکروں کا کام ہے۔“وہ چیل اڑتی ہوئی ایک پہاڑی کی طرف جا پہنچی۔ایک دوسری چیل نے اس سے مچھلی چھیننے کے لئے اس پر حملہ کر دیا۔دونوں چیلوں میں چھینا جھپٹی ہونے لگی اور مچھلی چیل کے پنجوں سے پھسل کر پہاڑی پر رہنے والے ایک درویش کی جھونپڑی کے سامنے گر پڑی۔(جاری ہے)درویش نے مچھلی کو اٹھایا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا،”اے اللہ!آپ نے میری دعا قبول کرلی۔میں نے مچھلی ہی تو مانگی تھی۔مگر آپ کو تو معلوم ہے کہ میرے پاس مچھلی پکانے کے لئے نہ تو تیل ہے اور نہ مصالحے ۔مجھے تو پکی پکائی مچھلی چاہیے۔میں یہ مچھلی نہیں کھا سکتا۔اسے واپس منگوا لیجیے اور مجھے پکی ہوئی مچھلی بھجوائیے۔“یہ کہہ کر درویش جھونپڑی میں چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد جب وہ دوبارہ باہر آیا تو مچھلی وہاں نہیں تھی۔اسے ایک چیل نے اٹھا لیا اور وہ دوسری چیلوں سے بچتی ہوئی،جو اس سے مچھلی چھیننے کے لئے اس کا پیچھا کر رہی تھیں،پہاڑی کے نیچے کی طرف اڑ رہی تھی لیکن دو چیلوں نے اس پر حملہ کر دیا اور اس سے مچھلی چھیننے کی کوشش کی۔اس لڑائی میں چیل کے پنجوں سے وہ مچھلی نکل کر ایک غریب کسان کے آنگن میں جا گری۔کسان کی بیوی نے دوڑ کر وہ مچھلی اٹھالی اور کسان سے بولی،”میں تم سے کتنے دنوں سے کہہ رہی تھی کہ میرا دل مچھلی کھانے کو چاہ رہا ہے۔تم نے تو لاکر نہ دی،اللہ میاں نے آج مجھے بھیج دی۔میں نے منت مانی تھی کہ جب بھی مچھلی پکاؤں گی پہاڑی والے بابا کو بھیجوں گی۔اب میں مصالحہ پیس کر مچھلی پکائے دیتی ہوں۔تم بابا کو جاکر دے آؤ اور کہنا کہ بابا دعا کریں کہ ہمارا ہونے والا بچہ زندہ اور سلامت رہے۔“کسان کی بیوی نے مچھلی پکائی کہ اتنے میں کسان کا دوست مچھیرا وہاں آگیا۔کسان نے اپنے دوست سے کہا،”تم اچھے وقت پر آگئے۔آج مچھلی پکی ہے۔کھانا کھا کر جانا۔“مچھیرے نے تعجب سے پوچھا،”مگر تم کو مچھلی کہاں سے مل گئی؟وہ تو میں ہی تم کو لا کر دیتا ہوں۔“”بس یوں سمجھ لو اللہ میاں نے آسمان سے ٹپکادی ہمارے آنگن میں۔“کسان نے سارا ماجرا سنایا کہ کس طرح چیل وہ مچھلی وہاں گرا گئی۔مچھیرا یہ سن کر مسکرایا مگر کچھ بولا نہیں۔جب کسان پہاڑی بابا کو مچھلی دینے گیا تو مچھیرا بھی اس کے ساتھ گیا۔کسان نے پکی ہوئی مچھلی کا پیالہ پیش کیا اور دعا کی درخواست کی۔درویش نے ان دونوں کو دیکھا اور پوچھا،”مچھلی کہاں سے آئی؟“کسان نے کہا،”آسمان سے گری ،بیوی نے منت مانی تھی کہ اگر اسے مچھلی ملی تو وہ پہاڑی والے بابا کو پہلے کھلائے گی اور دعا کرائے گی کہ اس کا ہونے والا بچہ زندہ اور سلامت رہے۔“اب درویش مچھیرے سے بولا،”تم کون ہو؟“مچھیرے نے کہا،”میں مچھیرا ہوں۔آج صبح دو مچھلیاں پکڑی تھیں۔ایک میرے کنبے کی قسمت کی تھی اور دوسری چیل اٹھا کرلے گئی۔“درویش سارا ماجرا سن کر بولا،”ہم سب نے مچھلی کھانے کی خواہش کی۔اللہ نے ایک ہی وقت میں ہم سب کی خواہش جس انداز میں پوری کی ،یہ اس کی ذات کا ادنی سا کرشمہ ہے۔ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔“ " پھر چاند نکلا - تحریر نمبر 1749,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/phir-chand-nikla-1749.html,"عمران حسناتمسز چُن ایک موٹی عورت تھی جو اکیلی ایک الگ تھلگ مکان میں رہتی تھی۔اس کا اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ ایک اچھی عورت ہے۔وہ اکثر اپنی سہیلیوں کو بتاتی کہ میں بہت مہربان ہوں،لیکن خود کہنے سے تو کبھی کوئی مہربان نہیں ہوجاتا۔ایک دن ایک آدمی نے مسز چُن کے گھر کے دروازے پہ دستک دی ۔وہ بہت غریب تھا۔اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے،بال بکھرے ہوئے تھے ۔وہ بہت پریشان حال تھا۔آدمی نے مسز چُن سے کھانے کے لئے کچھ مانگا۔مسز چُن غصے سے تلملاتی ہی باہر نکلی اور یہ کہتے ہوئے اس غریب آدمی پر برس پڑی ،”جاؤ دفع ہو جاؤ۔میرے پاس تمہیں کھلانے کو کچھ نہیں۔اگر اتنے ہی بھوکے ہوتو خود محنت کرو اور کھاؤ۔“یہ کہہ کر اس نے زور سے دروازہ بند کر دیا اور وہ غریب آدمی بند دروازے کو حسرت سے دیکھتا رہ گیا۔(جاری ہے)دروازہ بند کرنے کے بعد مسز چُن نے اندر جاکر اپنے لئے چائے کا ایک گرم کپ تیار کیا اور مزے لے لے کر پیتی رہی۔غریب آدمی سڑک کے کنارے چلتا ہوا ایک دوسرے مکان پر پہنچا جہاں مسز ٹنگ رہتی تھی۔جونہی مسز ٹنگ کی نظر اس غریب آدمی پر پڑی وہ اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی۔مسز ٹنگ نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا،”تم تھکے ہوئے دکھائی دیتے ہو اور تمہیں سردی بھی لگ رہی ہے۔آؤ!اندر آجاؤ اور یہاں بیٹھ جاؤ۔اگر چہ میرے پاس کوئی چائے وغیرہ نہیں ہے،لیکن تم پریشان نہ ہو۔میرے پاس ایک روٹی اور تین خوبصورت سیب ہیں۔ایک سیب میں کھا لیتی ہوں اور دو تم کھا لو۔“وہ آدمی اس عورت کے گھر کے اندر گیا اور بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر تک ان دونوں نے باتیں کیں۔پھر مسز ٹنگ اور اس آدمی نے مل کر روٹی اور سیب کھائے ۔تب وہ آدمی کھڑا ہو گیا اور مسز ٹنگ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگا،”آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔لہٰذا سورج غروب ہوتے وقت آپ جو کام شروع کریں گی وہ چاند کے نکلنے تک جاری رہے گا۔“پھر اس آدمی نے دوبارہ خاتون کا شکریہ ادا کیا اور اللہ حافظ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔مسز ٹنگ سوچنے لگی کہ اس آدمی نے کیا عجیب وغریب بات کہی ہے کو جو کام تم سورج غروب ہونے کے وقت شروع کروگی وہ چاند کے نکلنے تک جاری رہے گا۔وہ سوچ میں پڑ گئی کہ اس بات سے اس کی کیا مراد ہے؟پھر مسز ٹنگ کو میز پر ایک سیب رکھا ہوا دکھائی دیا۔وہ خود سے کہنے لگی،”بے چارے نے صرف ایک سیب کھایا ہے۔جب کہ میری خواہش تھی کہ وہ دونوں کھائے۔کیوں نہ میں اس بچے ہوئے سیب کو ٹوکری میں رکھ دوں۔“اس نے وہ سیب اٹھایا اور بڑی ٹوکری میں ڈال دیا۔پھر اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک اور خوبصورت سا سیب میز پر رکھا ہوا دکھائی دیا۔”یہ تو بڑی عجیب بات ہے!میں نے ٹوکری میں سیب ڈال دیا تھا،مگر یہ پھر کہاں سے آگیا۔“اس نے وہ سیب اٹھا کر پھر ٹوکری میں ڈال دیا اور مطمئن ہو گئی،مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسے میز پر ایک اور سیب رکھا نظر آیا۔ جب وہ سیب ٹوکری میں ڈالتی تو اسے میز پر ایک اور مل جاتا۔اب مسز ٹنگ سمجھ گئی کہ اس آدمی کی بات کا مطلب کیا تھا۔وہ ٹوکری میں سیب ڈالتی رہی ،یہاں تک کہ چاند نکل آیا اور پھر میز پر کوئی سیب نظر نہ آیا۔اب اس کی ٹوکری سیبوں سے بھر چکی تھی ۔دوسرے دن اس نے وہ سیبوں سے بھری ٹوکری بازار میں جا کر بیچ دی ۔اس طرح اس کے پاس بہت سی رقم آگئی۔مسز ٹنگ کی ساحلی مسز چُن جس نے اس غریب کو دھکے دے کر نکال دیا تھا اس نے جب مسز ٹنگ کی سیبوں بھری ٹوکری دیکھی تو حیرت سے اس کی آنکھیں کھل گئیں ۔اس نے مسز ٹنگ سے پوچھا،”یہ تمام سیب تم نے کہاں سے لیے ہیں؟تمہارے گھر میں تو سیب کا کوئی درخت بھی نہیں ہے!“مسز ٹنگ نے اسے پورا واقعہ سنایا کہ کس طرح اس نے اس غریب آدمی کو کھانے کے لئے روٹی اور سیب دیے تھے اور کس طرح اس نے شکریہ ادا کیا۔مسز چُن نے مسز ٹنگ سے تو کچھ نہ کہا،لیکن اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب کی بار وہ بوڑھا آئے گا تو اس کو خوب کھلاؤںگی،خوب پلاؤں گی۔اگلے دن وہ بوڑھا دوبارہ آیا۔مسز چُن اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سمائی۔اس نے بوڑھے آدمی سے درخواست کی،”مہربانی کرکے میرے گھر کے اندر آئیں۔میں آپ کی خاطر مدارات کروں گی۔“بوڑھا گھر کے اندر آگیا۔مسز چُن نے اسے پینے کے لئے چائے اور کھانے کے لئے بہت سے کیک دیے۔بوڑھے آدمی نے بہت سے کیک کھائے اور بہت سی چائے پی۔تب وہ کھڑا ہو گیا اور مسز چُن کا شکریہ ادا کیا۔مسز چُن غور سے وہ باتیں سننے کے انتظار میں تھی جن کے بعد اسے اپنی من پسند چیز ڈھیروں مل سکتی تھی۔پھر بوڑھا آدمی بولا،”سورج ڈوبنے کے وقت جو کام تم شروع کروگی وہ چاند نکلنے تک کرتی رہو گی۔“یہ کہنے کے بعد بوڑھے نے اللہ حافظ کہا اور چلا گیا۔چونکہ مسز چُن کے ذہن میں تھا کہ سورج غروب ہونے کے وقت اسے کیا کرنا ہے ۔اس لئے اس نے ایک شلنگ کا سکہ میز پر رکھا اور کہا،”جب سورج غروب ہونا شروع ہو گا تو میں شلنگ اٹھا کر بیگ میں رکھوں گی اور پھر چاند کے نکلنے تک سکے اٹھاتی اور بیگ میں ڈالتی رہوں گی جب کہ آج رات چاند دیر سے نکلے گا۔اس طرح صبح سے پہلے میں بہت دولت مند ہو جاؤں گی۔“آخر سورج غروب ہونے لگا اور وہ وقت آپہنچا جس کا مسز چُن کو بے چینی سے انتظار تھا۔سورج غروب ہونے کے قریب ہی تھا کہ مسز چُن بے دھیانی میں تیزی سے مڑی جس کے نتیجے میں وہ میز پر رکھے ہوئے چائے سے بھرے برتن سے ٹکرا گئی اور چائے فرش پر گر کر بہنے لگی۔اس نے جلدی سے کپڑا لیا اور فرش صاف کرنے لگی۔جب وہ یہ کر رہی تھی تو اس وقت سورج غروب ہو گیا۔پھرکیا ہوا!وہ بے چاری فرش صاف کرتی رہی کرتی رہی،یہاں تک کہ چاند نکل آیا اور اس رات چاند دیر سے نکلا تھا۔چوں کہ اس نے لالچ کی خاطر بوڑھے کی مدد کی تھی ،اس لئے اسے اپنے کیے کی سزا مل گئی۔ " ننھا چوزہ - تحریر نمبر 1748,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanha-chooza-1748.html,"عبدالرحمنمرغی بڑے جتن سے اپنا ایک انڈہ بچا پائی تھی۔کیوں کہ اس کے سارے انڈے ناشتے میں کھالیے گئے تھے۔بے چاری شبو اُسے لے کر ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ بیس بائیس دن ان کی لمبی محنت کے بعد انڈے کا چھلکا توڑ کر چوزہ باہر آگیا۔ مرغی کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔چوزہ تھا بڑا چنچل اور شریر․․․․مرغی دانہ چگنے جب باہر جانے لگی تو اس نے چوزے کو نصیحت کی کہ یہاں سے ہٹنا نہیں ۔ماں جب باہر چلی گئی تو چوزہ گھر کا معائنہ کرنے لگا۔اسے سامنے چوہے کی بل دکھائی دی ۔چوہا ابھی ابھی گھوم پھر کر واپس آیا تھا۔اس نے چوزے کو دیکھا تو للچا اُٹھا،اور دل ہی دل میں کہنے لگا:”ہائے!اتنا پیارا چوزہ!“اس کے من میں کھوٹ آگیا وہ سوچنے لگا،کاش !اس کے نرم وملائم اور ریشمی پر مل جائیں تو میں اپنا گدا بنا کر سکون کی نیند سو سکوں۔(جاری ہے)وہ چوزے سے بول اُٹھا:”پیارے چوزے مجھ سے دوستی کروگے؟“”ہاں! ہاں!“چوزہ کہہ اُٹھا اور حیرت سے پوچھا:”کیا تم مجھے اپنا دوست بناؤ گے؟“”کیوں نہیں!“چوہے نے جھٹ سے جواب دیا اور کہا۔”میں تمہیں دنیا کی سیر کراؤں گا ،مالکن کے کچن روم میں لے جاکر اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا۔“”سچ مچ!“چوزہ چمک اُٹھا۔اور چوہے کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا۔چوہا ترکیب سوچنے لگا کہ کس طرح اس کے پر کترے جائیں۔سو اُس نے کہا:”دوست !میرے گھر نہیں آؤگے؟“چوزے نے کہا:”کیوں نہیں؟دوستی کی ہے تو اس کو نبھاؤں گا بھی۔“اتنا کہہ کر چوزہ چوہے کی بل میں گھسنے لگا لیکن وہ اُس باریک سوراخ میں کہاں جا پاتا؟اس کی گردن اس میں پھنس گئی۔چوہا فوراً اس کے نرم وملائم اور ریشمی پروں کو کترنے لگا۔چوزہ بولا:”میرے دوست‘ مجھے بہت درد ہو رہا ہے اور مجھ کو گھٹن محسوس ہو رہی ہے کہیں میرا دم نہ نکل جائے۔“”میرے پیارے دوست !تھوڑا اور ٹھہرو میں بل کا سوراخ بڑا کر رہاہوں“چوہے نے چالاکی سے کہا۔تب ہی بڑی مرغی دانہ چُگ کر واپس آگئی،اپنے پیارے بچے کی گردن چوہے کی بل میں پھنسی دیکھ کر کرااُ ٹھی اور فوراً اس کو باہر کھینچ لیا ۔اسی جھٹکے میں چوزے کا پر کتر نے میں مصروف چوہا بھی بل سے باہر آگیا۔شبو اس کے کرتوت کو سمجھ کر غصہ سے آ گئی۔اس نے زور سے چوہے کو چونچ ماری کہ اس کی ہڈی پسلی ایک ہو گئی۔چوزہ اپنی بگڑی ہوئی حالت دیکھ کر زور زور سے روزے لگا۔کیوں کہ اس کی گردن کے پاس کے سارے پر صاف ہوگئے تھے ۔شبو نے بڑے لاڈ سے اس کو کہا:”کوئی بات نہیں میرے لعل یہ بچپن کے پر ہیں کچھ دنوں کے بعد تمہارے دوسرے پر اُگ آئیں گے“۔اور پھر سمجھایا کہ ”تمہیں میری نصیحت یاد رکھنی چاہیے تھی!“․․․․․․”ہاں!امی جان:“ چوزہ بہت شرمندہ ہوا۔ " دلچسپ و عجیب - تحریر نمبر 1747,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dilchasp-o-ajeeb-1747.html,"جاوید جمال گوشیزبان سے پیانو بجانے والاہنرچ لوئی نامی آسٹرین موسیقار اپنی زبان سے پیانو بجا سکتا ہے۔پیر باندھ کر تیرنے والاکینیڈا کا مشہور تیراک ”گہری سولرفن“ تیراکی میں بہت ماہر تھا اس نے اپنے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ کر سمندر میں پانچ میل تک تیر کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔سات کا ہندسہآسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں ایک بچہ پیدا ہوا اتفاق سے یہ بچہ 1777ء میں ساتویں مہینے کے ساتھ بجکر سات منٹ پر پیدا ہوا اس بچے کا وزن سات پونڈ سات اونس تھا۔خون کی بارشجنوبی اٹلی کے شہر سگندری میں ایک دفعہ خون کی بارش ہوئی جس سے لوگ خوفزدہ ہو گئے کیمیائی امتحان سے معلوم ہوا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ پرندوں کا ایک غول ہوا کے طوفان میں پھنس کر ہلاک ہو گیا اس طرح ان کا خون ہوا میں شامل ہو کر بارش کی شکل میں برس پڑا۔(جاری ہے)گھڑی کی ایجادگھڑی کی ایجاد سے پہلے لوگ کس طرح وقت معلوم کرتے تھے؟ وقت سے آگاہی قدیم زمانے کے لوگوں کے لئے اتنی ہی اہم تھی جتنی آج ہمارے لئے ہے۔مکینیکل یا الیکٹرک گھڑیوں کی ایجاد سے قبل لوگ سورج سے چلنے والی گھڑی ،پانی سے چلنے والی گھڑی حتیٰ کہ جلتی ہوئی رسی سے وقت کا اندازہ کرتے تھے۔سورج سے چلنے والی گھڑیSundialسورج سے چلنے والی گھڑی کئی صدیوں تک لوگ وقت معلوم کرنے کے لئے سورج سے چلنے والی گھڑیوں پر انحصار کرتے تھے۔انیسویں صدی سے ٹیکنیکل اور الیکٹریکل گھڑیوں نے سورج سے چلنے والی گھڑیوں کی جگہ لے لی ہے ورنہ اس سے قبل یہی گھڑیاں وقت سے آگاہی فراہم کرتی تھیں۔سورج سے چلنے والی گھڑیوں میں حرکت کرتے ہوئے سائے کے ذریعے وقت بتایا جاتا سورج کی بدلتی ہوئی پوزیشن کی وجہ سے اس کی شعاعوں کا رُخ بھی تبدیل ہوتا رہتا جس کی بنا پر جیسے جیسے دن گزرتا سورج کی روشنی سے بننے والا سایہ بھی اپنی سمت تبدیل کرتا رہتا اگر کسی Sundialکے ذریعے بالکل صحیح وقت معلوم ہو تو اس کا اس مخصوص جگہ کے حساب سے ڈیزائن ہونا ضروری ہے جہاں اُسے نصب کیاجائے گا۔پانی سے چلنے والی گھڑیپانی سے چلنے والی گھڑی میں برابر وقتوں سے قیف کے ذریعے گھڑی کے نیچے لگے ہوئے برتن میں پانی ڈالتے تھے جس کی بنا پر برتن میں پانی کی سطح بلند ہو جاتی اور اس کے ساتھ ہی دندانے دار سلاخ بھی اوپر کی طرف حرکت کرتی رہتی تھی اوپر اٹھتی ہوئی سلاخ گھڑی کے درمیان میں لگے ہوئے پہیے کو گھماتی جس کے نتیجے میں گھڑی کے کانٹے بھی حرکت کرتے تھے۔ " کرسٹو فر کولمبس - تحریر نمبر 1746,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/christopher-columbus-1746.html,"ہماء بلوچپیارے بچو!آج آپ کو کرسٹو فر کولمبس کے بارے میں بتاتے ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے امریکہ دریافت کیا۔ویسے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لیف ایرک سن ،کولمبس سے کوئی پانچ سو سال پہلے شمالی امریکا پہنچ گیا تھا، اور مسلمان بھی کولمبس سے پہلے امریکہ پہنچ گئے تھے ۔جس کی وجہ کولمبس کا امریکہ کی پہاڑی پر مسجد کی موجودگی کا اشارہ ہے ۔اور بعض کے نزدیک مار کوٹی نے امریکہ دریافت کیا تھا۔لیکن اکثر لوگوں کے نزدیک نئی دنیا کی دریافت کا سہرا کولمبس ہی کے سر ہے۔کرسٹو فر کولمبس ایک بحری مہم جو تھا جس نے 15ویں صدی میں امریکہ کو دریافت کیا۔ وہ 1451ء میں جنوا اٹلی میں پیدا ہوا۔سپین کے قتالوی عیسائی حکمرانوں کی ملازمت میں رہا۔(جاری ہے)ملکہ ازابیلا اور فرڈیٹینڈ نے اسے چھوٹے جہاز دئیے جن سے اس نے 1492ء میں امریکہ دریافت کیا۔کولمبس کی اس دریافت نے دریافتوں ،مہم جوئی اور نو آبادیوں کا ایک نیا سلسلہ کھولا اور تاریخ کے دھارے کو بدل دیا۔․چودہ سال کی عمر میں بحری زندگی کا آغاز کیا اور بحیرہ روم،ازدرس اور شمالی سمندروں کا سفر کیا۔1474ء میں اس نے مغرب کی طرف سفر کرکے ہندوستان پہنچنے کا ارادہ کیا اور اس غرض کے لئے یورپ کے بعض شاہی درباروں سے مالی امداد کا طالب ہوا لیکن کامیابی نہ ہوئی ۔آخر 1496ء میں ہسپانیہ کے بادشاہ فرڈننڈ اور اس کی ملکہ ازابیلا اس کی مدد پر آمادہ ہو گئے اور وہ اسی سال 3اگست کو ہیولوا کے مقام سے روانہ ہو گیا۔سانتا میریا اس کا اپنا جہاز تھا اور اس کے ساتھ ٹینا اور ٹپسا دواور چھوٹے چھوٹے جہاز بھی تھے۔جزائر کینیری میں تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد یہ لوگ 6ستمبر کو مغرب کی طرف روانہ ہوئے اور 12اکتوبر کو انہیں جزائر بہاما کا مقام سان سالویڈور نظر آیا۔کولمبس نے اتر کر فرڈی نینڈ اور ازابیلا کے نام سے ان جزائر پر قضہ کر لیا اور تاریخ کے ایک نئے دور کی بنیادی رکھی۔ان مہینوں میں کولمبس نے بڑی دولت فراہم کی اور بڑا نام پیدا کیا ۔آخری سفر کے دو سال بعد 20میں،1506کو ویلاڈولڈ کے مقام پر اس کا انتقال ہو گیا۔ " تحفہ - تحریر نمبر 1745,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tohfa-1745.html,"آمنہ شیخکسی گاؤں میں ایک غریب لکڑہارا رہتا تھا۔وہ روزانہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور انھیں بیچ کر اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتا تھا۔لکڑہارا بہت غریب تھا لیکن ایمان دار ،رحم دل اور اچھے اخلاق والا آدمی تھا۔وہ ہمیشہ دوسروں کے کام آتا اور بے زبان جانوروں، پرندوں وغیرہ کا بھی خیال رکھتا تھا۔ایک دن جنگل میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کے بعد وہ کافی تھک گیا اور ایک سایہ دار درخت کے نیچے سستانے کے لئے لیٹ گیا۔لیکن جیسے ہی اس کی نظر اوپر پڑی اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔اس نے دیکھا کہ ایک سانپ درخت پر بنے ہوئے گھونسلے کی طرف بڑھ رہا تھا۔اس گھونسلے میں کوّے کے بچے تھے جو سانپ کے ڈر سے چیں چیں کر رہے تھے ۔بچوں کے ماں باپ دونوں دانہ جگنے کہیں دور گئے ہوئے تھے ۔(جاری ہے)رحم دل لکڑہارا اپنی تھکان بھول کر فوراً اُٹھ بیٹھا اور کوّے کے بچوں کو سانپ سے بچانے کے لئے درخت پر چڑھنے لگا۔سانپ نے خطرہ بھانپ لیا اور گھونسلے سے دور بھاگنے لگا۔اسی دوران کوّے بھی لوٹ آئے۔لکڑہارے کو پیڑ پر چڑھا دیکھا تو وہ سمجھے کہ اس نے ضرور بچوں کو مار دیا ہو گا۔وہ غصے میں کائیں کائیں چلانے لگے اور لکڑہارے کو چونچیں مار مار کر اَدھ مُرا کر دیا۔ بے چارہ لکڑہارا کسی طرح جان بچا کر نیچے اترا اور چین کی سانس لی۔لیکن جب کوّے اپنے گھونسلے میں گئے تو بچے وہاں ڈبکے ہوئے بیٹھے تھے ،بچوں نے ماں باپ کو ساری بات بتادی اور تب ہی انہوں نے دیکھا کہ سانپ بھی درخت سے اُتر کر بھاگ رہا ہے ۔اب کوّوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔وہ بہت زیادہ شرمندہ ہوئے۔کوّے لکڑہارے کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے ۔کوّے نے گھونسلے میں رکھا ہوا اصلی موتیوں کا قیمتی ہار جو انھیں کچھ ہی دن پہلے گاؤں کے تالاب کے کنارے ملا تھا۔اس ہار کو اُٹھا کر لکڑہارے کے آگے ڈال دیا اور تھوڑی دوری پر بیٹھ کر کائیں کائیں کرنے لگے ۔جیسے کوّے اپنے پیارے بچوں کی جان بچانے پر رحم دل لکڑہارے کا شکریہ ادا کر رہے ہوں ۔غریب لکڑہارا بھی قیمتی ہار پا کر بہت خوش ہوا اور اُس نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔جب لکڑہارا لکڑیوں کا گٹھا سر پر اُٹھا کر اپنے گاؤں کی طرف چلا تو کوّے بھی اس کے اوپر کائیں کائیں کرنے اُڑ رہے تھے۔ لیکن چونچ مارنے کے لئے نہیں بلکہ اُسے دور تک الوداع کرنے کے لئے․․․ " چٹورا ٹنکو - تحریر نمبر 1744,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chatora-tinku-1744.html,"عطرت بتولٹنکو بہت پیٹو اور پرلے درجے کا چٹورا تھا۔ اس کا روزہ رکھنے کو دل چاہتا تھا لیکن چٹوری طبیعت نہیں چاہتی تھی وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے کا عادی تھا سب اسے موٹو کہہ کر چھیڑتے تھے ،وہ جب صبح سو کر اٹھتا سب رو زے سے ہوتے لیکن وہ اٹھتے ہی شور مچا دیتا ،ماما ناشتہ ،جلدی سے ناشتہ ،تم چڑی روزہ ہی رکھ لیا کرو، تاکہ تمہیں کچھ تو برداشت کی عادت پڑے ،اگلے سال سے روزے تم پر فرض ہو رہے ہیں پھر تو رکھنے پڑیں گے ۔لیکن ایک دن کیا ہوا جب وہ ناشتہ کرنے کے بعد ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا ہاتھ میں چٹ پٹے نوڈلز کی پلیٹ تھی کہ اسے گھر میں غیر معمولی چہل پہل محسوس ہوئی، ماما ڈرائنگ روم کی سیٹنگ بدل رہی تھیں اور پاپا لسٹ بنا رہے تھے اور آپی بڑا سا بانس سنبھالے جالے اُتارنے میں مصروف تھیں ،ماما آج کوئی آرہا ہے ؟ٹنکو نے پوچھا،ہاں آج بہت سے مہمان آئیں گے آج رفی کی روزہ کشائی ہے ،کمال ہے ،فتنو نے حیران ہو کر سوچا ،رفی اس سے ایک سال چھوٹی بہن تھی ،اس کا تو بھوک پیاس سے برا حال ہو گا اس نے سوچا ،لیکن جب وہ رفی کے کمرے میں گیا تو حیران رہ گیا وہ سکون سے بیٹھی ،سپارہ پڑھ رہی تھی ،شام کو افطاری میں خوب رونق تھی ،چچا،پھپو،خالہ ،نانو، دادو سب آئے ہوئے تھے ،سب نے رفی کو خوبصورت ،گفٹ دیے،کھلونے ،کپڑے،پیسے،رفی کے پاس اتنی چیزیں دیکھ کر ٹنکو خوب للچا یا اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ بھی روزہ رکھے گا اگلے دن ہی اس نے ماما سے کہا کہ وہ مکمل روزہ رکھے گا تو روزہ کشائی کا فنکشن کریں گی ؟ضرور ،ماما نے جواب دیا، اب جناب ٹنکو نے روزہ رکھ لیا ،دن کے بارہ بج گئے ٹنکو ابھی تک ثابت قدم تھا۔(جاری ہے)ماما کو اطمینان ہو گیا کہ اب وہ روزہ پورا کرلے گا وہ بجے دوپہر سب نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر سونے کے لئے لیٹ گئے ماما نے کہا وہ چار بجے اٹھ کر انتظامات کریں گی ،ٹنکو کو نیند نہیں آرہی تھی وہ کروٹیں بدل رہا تھا اسے خیال آیا کہ سب سو رہے ہیں اگر وہ کچھ کھالے گا تو کسی کو پتہ نہیں چلے گا یہ سوچ کر وہ چپکے سے اٹھا اور رفی کے کمرے کی طرف بڑھا کیوں کہ رفی کے کمرے میں چاکلیٹ کا ڈبہ تھا جو اسے خانہ نے گفٹ کیا تھا۔رفی اور اپیا بے سود سو رہی تھیں ٹینکو کو یاد تھا کہ رفی نے چاکلیٹ کا ڈبہ الماری میں رکھا تھا وہ دبے پاؤں الماری کی طرف بڑھا ڈبہ نکالا چاکلیٹ دیکھتے اس کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے جلدی جلدی چاکلیٹ نکالی اور منہ میں بھرلی اور کچھ اپنی جیب میں ٹھونس رہا تھا کہ آپی کے موبائل فون کا الارم بجنے لگا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئیں ٹنکو کو بھاگنے کا موقع نہ مل سکا وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا بہت شرمندہ ہو رہا تھا اب تو گھر بھر کو اس کی حرکت کا پتہ چل گیا تھا۔آپی سب کو بتا رہی تھیں کہ میری آن لائن کلاس ہونی تھی اس لئے میں نے الارم لگا لیا تھا کہ جلدی سو کر اُٹھ جاؤں اگر میرا الارم نہ بجتا تو ہم سب بیوقوف بن جاتے کہ ٹینکو کا روزہ ہے ،آپی اور رفی ٹینکو کا مزاق اڑا رہی تھیں لیکن ماما اور پاپا ٹنکو سے بات نہیں کر رہے تھے سخت ناراض تھے ،ٹنکو سمجھ رہا تھا کہ ماما اور پاپا تھوڑا سا ڈانٹیں گے اور بس بات ختم ہو جائے گی لیکن اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس نے کوئی بڑی غلطی کی ہے ،دو دن ہو گئے تھے انہوں نے کوئی بات نہیں کی ماما خاموشی سے ناشتہ کھانااس کے سامنے رکھ دیتی تھیں۔اب ٹنکو بہت اداس ہو گیا تھا تیسرے دن ماما نے اس کے سامنے ناشتہ رکھا تو وہ رونے لگا، ماما سوری ،ماما سوری پلیز معاف کردیں اور مجھ سے بولیں ،معافی اللہ تعالیٰ سے مانگو ماما نے کہا روزہ صرف اللہ کے لئے ہوتا ہے ،جب کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا اللہ اس وقت بھی دیکھ رہا ہوتا ہے،مجھے سچ بتاؤ ٹنکو تم نے روزہ کیوں رکھا تھا ؟اس لئے تاکہ تمہیں رفی کی طرح گفٹ ملیں ؟جی ماما ٹنکو نے شرمندگی سے اعتراف کر دیا،بس اسی لئے تم میں روزہ پورا کرنے کا شوق اور ہمت نہیں ہوئی کیونکہ تمہارا روزہ دکھا وے کا تھا، یاد رکھو روزہ اللہ کا حکم سمجھ کر اور کسی لالچ اور دکھاوے کے بغیر رکھتے ہیں ،جی ماما ٹینکو اچھی طرح سمجھ گیا تھا اس نے دل سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی پھر ماما پاپا نے بھی معاف کر دیا۔ " نیک دل شہزادہ - تحریر نمبر 1741,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naik-dil-shehzada-1741.html,"مریم فاطمہمصر میں ایک نیک دل شہزادہ حکومت کرتا تھا۔ وہ تھا شہزادہ مگر نہ تو اس میں شاہوں والا غرور تھا اور نہ ہی وہ جاہ وجلال ۔وہ عام انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتا۔ روکھی سوکھی کھاتا بیشتر وقت اپنی رعایا کی خدمت اور خدا کی یاد میں بسر کرتا۔اس کی نیک چلنی کا پوری ریاست میں چرچا تھا۔ اسے یہ خصوصیات اپنے رحمدل باپ سے وراثت میں ملی تھیں ۔ایک دن شہزادہ معمول کے مطابق رعایا کے مسائل سننے کے بعد جنگل میں ،دنیا سے بے نیاز ،خدا کی یاد میں محو تھا ،کہ اس نے دیکھا کہ ایک غریب لکڑہارا اپنے گدھے کو ساتھ لئے ہوئے لکڑیاں کاٹ رہا ہے اور اس سے باتیں بھی کیے جا رہا ہے حالانکہ اسے معلوم تھا کہ نہ تو گدھا اس کی بات سن رہا ہے نہ ہی سمجھ رہا ہے اور پھر دوڑ اروقطار رونے لگا۔(جاری ہے)شہزادہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ لکڑہارا روزانہ لکڑیاں کاٹتا ،گدھے سے چند باتیں کرتا اور پھر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگتا۔چند روز یہی معاملہ رہا، جب رحمدل شہزادے سے اس کا رونا دیکھا نہ گیا اور وہ یہ کتھی سلجھانے میں ناکام رہا تو بلآ خر درخت کی اوٹ سے باہر آگیا اور لکڑہارے سے پوچھا: اے لکڑہارے تیرے اس طرح ہلک ہلک کر رونے کی وجہ کیا ہے ؟غریب بوڑھا ،ہمدرد انسان سامنے پاکر اور شدت سے رونے لگا اور سسکیوں کے ساتھ اپنی بد بختی کی کہانی سنانے لگا۔میرا ایک بیٹا تھا، جسے خدا نے بے تحاشا دولت سے نوازا تھا ہر طرح کا عیش اسے میسر تھا، مگر اس دولت کا غرور اس کے تن بدن پر اس قدر سادی ہو چکا تھا کہ اسے اپنی دولت کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔اپنے غریب رشتہ داروں کو دھکے دیتا،ا نہیں ذلیل ورسوا کرتا۔ پھر اس کی بربادی کا دن آگیا اور میری دور کی ایک رشتہ دار دوسری ریاست سے میرے گھر سوالی بن کر آئی نہ سوچ کر کہ مشکل میں اپنے ہی کام آتے ہیں وہ بہت غریب تھی اس کی بیٹی کی شادی قریب تھی مگرکوئی انتظام نہ ہوپایا تھا ،اسے کچھ رقم کی ضرورت تھی ،وہ اللہ کی نیک بندی تھی بیشتر وقت عبادت میں گزارتی تھی ،مگر میرا بیٹا دولت کے نشے میں اندھا ہو چکا تھا، اس عورت کو دھکے مار کر گھر سے نکال دیا۔یہی وہ وقت تھا جب ہماری بربادی شروع ہوئی ۔اسی رات سرخ آندھی چلی بجلی کڑکی اور تیز بارش ہوئی ۔میں اور میرا بیٹا اپنے نرم بستر پر میٹھی نیند سو رہے تھے ،اور وہ عورت پوری رات ہمارے دروازے سے لگی روتی رہی، شدید طوفان اور رات کے گھنے اندھیرے میں دوسری ریاست واپس جانا اس کے لئے ممکن نہ تھا، اور وہ ضعیف عورت پوری رات اس طوفان مقابلہ کرتی رہی اور میرے بیٹے کو رحم نہ آیا صبح جب میری آنکھ کھلی تو مجھ پہ قیامت ٹوٹ پڑی۔میرا بیٹا گدھے کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ گھر کا سارا سامان آسمانی بجلی گرنے سے جل کر خاک ہو چکا تھا سب کچھ برباد ہو گیا تھا، اس سب میں میرا قصور یہ ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو غرور وتکبر کرنے سے نہ روکا، برائی کی طرف بڑھتا ہوا گیا کوئی قدم نہ روکا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ میں جنگل سے لکڑیاں کاٹتا ہوں اور اپنے ہی بیٹے پہ لاد کر بیچنے لے جاتا ہوں ،اور اسی سے ہم باپ بیٹے کا گزرا چلتا ہے ۔یہ سن کر شہزادے کی آنکھیں نم ہو گئیں اور وہ لکڑہارے سے مخاطب ہوا: اے ضعیف انسان انو نے بہت ظلم کیا ۔بے شک برائی پر خاموش رہنا اور اسے نہ روکنا، اس کا ساتھ دینے کے مترادف ہے تونے اپنے بیٹے کو برائی سے نہ روکا، مجھے تیری حالت پر افسوس ہے ۔اب میں اپنی اس غریب رشتہ دار کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں ۔اس کی تلاش مجھے رلاتی ہے شاید وہ میری امداد کر سکے وہ مجھے مل جائے میں اس سے معافی مانگوں گا۔شاید میرے گناہوں کا ازالہ ہو سکے مگر افسوس وہ مجھے کہیں نہیں ملتی ۔یہ کہہ کر لکڑہارا رونے لگا۔ شہزادے نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔تو اپنے گناہوں کی معافی اللہ سے مانگ ۔وہ بہت رحیم ہے ،اگر اس نے تجھے معاف کر دیا تو وہ تجھے اس عورت تک پہنچانے کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہٹا دے گا ،وہ بہت مہربان ہے ۔اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔بوڑھا لکڑہارا اسی وقت سجدے میں گرکر ہلک ہلک کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگا ۔اچانک دور سے کسی گھوڑے کی ناپوں کی آواز سنائی دینے لگی ۔ایک خوبصورت شہزادی سفید رنگ کے حسین گھوڑے پر سوار تھی۔قریب آکر شہزادے سے مخاطب ہوئی:اے شہزادے آخر یہ کیا ماجرا ہے ؟شہزادے نے بوڑھے کی رام کہانی شہزادی کو سنا دی ۔شہزادی کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور وہ گھوڑے سے اتری اور لکڑہارے سے کہنے لگی میں ہی وہ لڑکی ہوں جس کی ماں تیرے در پر سوالی بن کر آتی تھی ۔مگر اے بد بخت تیرے مغرور بیٹے نے اس نیک عورت کی زندگی ہی چھین لیں۔ ساری رات تیرے دروازے پر تیز بارش میں طوفان کا مقابلہ کرتی رہی، کہ شاید تجھے رحم آجائے ۔بالآخر تیز بارش کی ٹھنڈی بوندوں کو وہ بوڑھی جان برداشت نہ کر سکی اور دنیا سے چلی گئی۔جب صبح ہوئی۔ تو رحمدل بادشاہ معمول کے گشت پر تھا اس کا وہاں سے گزر ہوا ،وہ میری ماں کو جب گھر لایا تو ماں کی لاش دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی ،اب میرا سہارا کوئی نہ تھا۔بادشاہ یہ سب دیکھ کر بہت پریشان ہوا بالآخر اس نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا کچھ عرصہ میں اس کے محل میں رہی اور اسے نے مجھے نیک لڑکی پاکر اپنے بیٹے سے میری شادی کرادی۔شاید یہ میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ تھا ۔جس نے میری خاطر اپنی جان قربان کر دی اور اس رب نے مجھ غریب کو فرش سے اٹھا کر عرش پر بیٹھا دیا اور اس نیک شہزادے سے میری شادی کرادی جو اس وقت تیرے سامنے کھڑا ہے اور تجھے تیرے مغرور بیٹے کے کرموں نے عرش سے فرش پر گرادیا۔خدا کی قدرت دیکھ کر لکڑہارا شرمندگی سے زمین میں گڑھتا جا رہا تھا اور رورو کر شہزادی سے معافی مانگی ۔شہزادی بہت رحمدل تھی ۔لکڑہارے کے آنسوؤں سے اس کا دل بھر آیا اور اس نے اس کو معاف کر دیا۔ خدا کی قدرت، لڑکا اس کے اپنے اصل روپ میں واپس آگیا اور خداکے حضور سجدے میں گر گیا اور شہزادی سے بھی معافی مانگنے لگا۔ شہزادی نے اسے بھی معاف کر دیا۔ آخر دونوں باپ بیٹا اپنی جھونپڑی کی طرف روانہ ہو گئے اور زندگی کا باقی وقت اللہ کی یاد میں گزارنے لگے۔ " مگر مچھ - تحریر نمبر 1740,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/magarmach-crocodile-1740.html,"مگر مچھ (Crocodile) کا نام سنتے ہی آدمی سہم جاتا ہے ۔یہ رینگنے والا بڑا جانور ہے ۔یہ زمین اور پانی دونوں جگہوں پر زندہ رہ سکتا ہے ۔اس لئے اسے جل تھلیا بھی کہتے ہیں ۔مگر مچھ ،پانی میں بہت زیادہ طاقت ور ہوتا ہے زمین پر اس کے چلنے کی رفتار تیز نہیں ہوتی ہے ۔پانی میں تیزی اور آسانی کے ساتھ تیرنے لگتا ہے ۔مگر مچھ ایشیاء، امریکہ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے میٹھے اور کھارے پانی کی جھیلوں ،ندیوں اور دریاؤں میں پائے جاتے ہیں ۔یہ عموماً مچھلیوں، جانوروں اور دیگر جانوروں کو کھا کر زندہ رہتے ہیں۔زمین پر پائے جانے والا یہ قدیم جانور ہے ۔کہا جاتا ہے کہ کم وبیش بیس کروڑ سال سے مگرمچھ زمین پر ہے ۔اس کی بیرونی ساخت اسے کامیاب شکاری بناتی ہے ۔تیرنے کے دوران مگر مچھ اپنے پیروں کو جسم سے چپکا لیتے ہیں ،ان کے پیروں کی انگلیوں میں ایک جھلی ہوتی ہے جو انہیں تیرنے میں مدد دیتی ہے اور کم گہرے پانی میں اسے چلنے میں مدد دیتی ہے۔(جاری ہے)پانی میں ان کے نتھنے بند ہو جاتے ہیں ۔مگر مچھ کے حلق میں ایک ڈھکن ہوتا ہے جو پانی کو اندر داخل ہونے سے روکتا ہے ۔ان کی زبان باہر نہیں آتی کیونکہ زبان ایک جھلی سے جڑی ہوتی ہے ۔مگر مچھ کے جسم پر چوڑے چھلکے پائے جاتے ہیں جس میں سوراخ ہوتے ہیں اس کے سر پر آنکھ ،کان اور نتھنے پائے جاتے ہیں۔مگر مچھ گھات لگا کر جھپٹ کر حملہ کرتے ہیں ۔آہستہ آہستہ تیرتے ہوئے بے خبر شکار کو دبوچ لیتا ہے ۔رات میں اس کی بینائی تیز ہوتی ہے ۔ ان کے منہ میں 74نو کیلے دانت ہوتے ہیں جو شکار کے جسم میں پیوست ہو جاتے ہیں اور یہ دونوں جبڑوں کو پوری قوت سے دباتے ہیں جس کی وجہ سے شکار باہر نہیں نکل سکتا۔مگر مچھ کا جبڑا باقی تمام جانوروں کے جبڑوں سے زیادہ طاقت ور ہے ۔مثال کے طور پر آسٹریلیا کے کھارے پانی میں رہنے والا مگر مچھ، شیر سے تین گنا زیادہ زور سے کاٹ سکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ مگر مچھ کا جبڑا بہت حساس بھی ہے ،ہماری اُنگلی کے پور سے بھی زیادہ حساس ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ مگر مچھ کی جلد اتنی موٹی اور سخت ہوتی ہے ․․․․؟مگر مچھ کے جبڑے میں ہزاروں اعصابی ریشے ہوتے ہیں جو بہت ہی حساس ہوتے ہیں ۔تحقیق دان ڈنکن لیچ نے ان پر تحقیق کرنے کے بعد لکھا”مگر مچھ کے جبڑے میں موجود تمام اعصابی ریشے کھوپڑی میں ایک ہی سوراخ سے نکلتے ہیں۔“اس طرح جبڑے کے اعصابی ریشے محفوظ رہتے ہیں اور جبڑے کو اس قدر حساس بنا دیتے ہیں کہ سائنس دان آلات کے ذریعے بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔اس وجہ سے مگر مچھ جان لیتا ہے کہ اُس کے منہ میں خوراک ہے ۔ اسی وجہ سے مادہ مگر مچھ اپنے بچوں کو کچلے بغیر اپنے منہ میں لے سکتی ہے۔ یہ گوشت کے لوتھڑے نگل جاتا ہے جب اس کا پیٹ بھر جاتا ہے تو مگر مچھ خشکی پر آکر منہ کھول کر سو جاتا ہے ۔دیگر پرندے آکر اس کے منہ سے گوشت کے ٹکڑے کھانے لگتے ہیں ۔مگر مچھ کی قوت سماعت بہت تیز ہوتی ہے ۔سوتے وقت مگر مچھ ،اپنا منہ کھلا رکھتے ہیں اور ہانپنے لگتے ہیں ۔انہیں پسینہ نہیں آتا تا ہم جسم کی حرارت کو منہ سے خارج کرتے ہیں۔مگر مچھ ایک تا 5میٹر لمبے ہوتے ہیں اور ان کا وزن 200کیلو سے زائد ہوتا ہے ۔انڈوں سے بچے نکلتے ہیں تب ان کی لمبائی 8انچ ہوتی ہے ۔مادہ مگر مچھ ،جھاڑیوں اور ندیوں کے کنارے زمین کھود کر انڈے دیتی ہے اور انڈے دینے کے بعد ان پر مٹی ڈال دیتی ہے ۔اوپر بیٹھ کر انڈے سینکتی ہے ۔مگر مچھ کی پشت سخت چھلکوں سے بھری ہوتی ہے جس کا سلسلہ سر سے لے کر دم کے آخری سرے تک ہوتا ہے جبکہ نچلے حصہ کی کھال نرم اور ہموار ہوتی ہے ۔مگر مچھ کی کھال سے کئی چیزیں بنائی جاتی ہیں جو بہت زیادہ قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔ " سوہا شہزادی - تحریر نمبر 1739,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/soha-shehzadi-1739.html,"پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ملک یمن پر ایک نیک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔وہ اپنی رعایا کے ساتھ بہت نیک سلوک کرتا تھا، اس کی چار بیٹیاں تھیں ،جن میں سے ایک شہزادی بہت حسین تھی ،جس کی خوبصورتی پر باقی شہزادیاں نفرت کرتی تھیں۔اس شہزادی کا نام شہزادی سوہا تھا۔ ایک دفعہ ان کا باپ کسی کام کی غرض سے بیرون ملک گیا ،اس نے اپنی ساری بیٹیوں سے ان کی خواہشات پوچھیں۔ان تین بہنوں نے قیمتی زیورات لانے کو کہا جب بادشاہ نے چوتھی بیٹی سے پوچھا کہ اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہوتو مجھے بتادو۔شہزادی سوہا نے کہا مجھے ایک گلاب کا پھول چاہئے ان کا باپ کوئی نہ کوئی بات بھول جاتا تھا اس لئے صرف شہزادی سوہا کے لئے پھول لے آیا، باقی چیزیں وہ بھول چکا تھا۔ جب وہ گھر آیا تو شہزادیاں دروازے پر کھڑی اپنے باپ کا انتظار کر رہی تھیں ،جب ان کا باپ آیا تو صرف ایک پھول کے علاوہ اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی ۔(جاری ہے)شہزادیوں نے اپنے باپ کو برا بھلا کہہ کر باپ کی نافرمانی کی ۔شہزادی سوہا کمرے میں جاکر رونے لگی ۔اس کا باپ کمرے میں آیا اس کا پھول اسے دے دیا۔ بادشاہ نے کہا ”دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز والدین کی خدمت ہے ۔چنانچہ جب بادشاہ دوسری مرتبہ بیرون ملک گیا تو سب نے اپنی اپنی چیزیں لانے کے لئے کہا مگر شہزای سوہا اس پر خاموش رہی ،اس نے سوچا کہ اس بار کوئی ایسی بات نہ ہو کہ جس سے میرے باپ کا دل دکھے تو بادشاہ نے اپنی بیٹیوں کے لئے زیورات لئے۔راستے میں ایک جنگل تھا ،بادشاہ اس جنگل میں سے گزر رہا تھا تو اس نے درخت پر بیٹھے ایک چمگادڑ کو دیکھا ۔وہ چمگادڑ اصل میں ایک خوف ناک جن تھا۔اس نے بادشاہ کو قید کر لیا ۔ایک شہزادہ یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، اس نے اپنی تیز دھار تلوار نکالی اور چمگادڑ کی گردن پر دے ماری ،چمگادڑ اسی وقت مر گیا۔شہزادہ بادشاہ کو محل لے گیا اور ان کی بیٹیوں کو سارا قصہ سنا دیا ۔شہزادیاں اپنے باپ کے پاس آئیں اور اپنے باپ سے نافرمانی پر معافی مانگی۔ بادشاہ نے اس وقت اپنی ساری بیٹیوں میں سے سوہا پر فخر محسوس کیا اور اپنی ساری بیٹیوں کو گلے لگا لیا، سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔دیکھا بچو!والدین کا ادب کرنے سے برکت ہوتی ہے ہمیں بھی چاہئے کہ شہزادی سوہا کی طرح اپنے والدین کی خدمت کریں اور ایسی بات زبان پر نہ لائیں جس سے والدین کا دل دکھے۔ " شیر اور تین گائے - تحریر نمبر 1738,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sheer-or-3-gayee-1738.html,"کسی جنگل میں تین گائیں اکٹھی رہتی تھیں۔ ان میں سے ایک سفید، دوسری کالی اور تیسری بھورے رنگ کی تھی ۔جنگل میں ان کے کھانے کے لئے بہت سبزاتھا اور پینے کے لئے ایک صاف ستھرا بہتا ہوا چشمہ تھا۔ وہ تینوں آپس میں بہت محبت کے ساتھ رہتی تھیں ،جب بھی کوئی جانور ان پر حملہ کرتا تو وہ تینوں مل کر اس کا مقابلہ کرتیں اور اسے بھاگنے پر مجبور کر دیتیں۔ایک دن ایک شیر اس جنگل میں آنکلا۔ سر سبز وشاداب جنگل شیر کو بہت اچھا لگا ۔شیر ابھی اس جنگل میں رہنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس کی نظر ان تینوں پر پڑی ۔آہا، تین،موٹے تازے شکار ،انہیں کیسے شکار کیا جائے ․․․․؟شیر نے دل میں سوچا۔ شیر نے فوراً آگے بڑھ کر ان سے سلام دعا کی پھر عاجزی کے ساتھ ان سے بولا۔ اے خوبصورت گائیوں ،کیا تم اجازت دوگی کہ میں بھی اس جنگل میں کچھ دن تمہارا مہمان بن کر رہوں․․․؟ان تینوں نے کچھ دیر سوچا پھر ایک دوسرے سے کہنے لگیں ۔(جاری ہے)ہم تین ہیں اور یہ اکیلا ،یہ اگر رہے بھی تو ہمارا کیا بگاڑ سکے گا۔اس لئے انہوں نے اسے خوشی خوشی وہاں رہنے کی اجازت دے دی۔ شیر ان کے ساتھ جنگل میں رہنے لگا۔ گائیں تو وہی سبز پتے اور گھاس کھاتیں لیکن شیر چھوٹے موٹے جانوروں پر گزارا کرتا تھا مگر ہر وقت ان گائیوں کو کھانے کی فکر میں رہتا۔ چھوٹے چھوٹے جانور شیر کے ڈر سے دوسرے جنگل میں جانے لگے ۔اب شیر کو اور بھی مشکل ہو گئی ۔اس کو کئی کئی دن بھوکا رہنا پڑتا۔ شیر سوچتا کہ اگر یہ تین گائے کے بجائے ایک ہوتی تو میں مزے لے کر اسے کھا جاتا۔ اس نے سوچا کہ ان تینوں گائیوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے تو ان کو کھانے میں آسانی ہو جائے گی چنانچہ ایک دن شیر کالی اور بھوری گائے کے پاس آیا۔ ان سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے کے بعد بولا۔ یہ سفید رنگ کی گائے ہم سب کے لئے بہت بڑی مصیبت ہے کیونکہ اس کا سفید رنگ دور ہی سے نظر آجاتا ہے ۔جبکہ میرا اور تمہارا رنگ دور سے نظر نہیں آتا۔شیر اتنا کہہ کر لمحہ بھر کو رکا اور پھر کہنے لگا۔ اب اگر کسی انسان نے دور سے بھی اس سفید گائے کو دیکھ لیا تو وہ اسے پکڑنے آئے گا پھر اس کو ہم بھی نظر آجائیں گے اور وہ ہم سب کو قید کرکے لے جائے گا۔ بھوری اور کالی گائے شیر کی بات سن کر خوف زدہ ہو گئیں اور سوچنے لگیں ۔واقعی ! اگر کسی انسان نے سفید گائے کو دیکھ لیا تو ہم سب پھنس جائیں گے ۔شیر نے جب دیکھا کہ یہ دونوں اس کی باتوں میں آگئی ہیں تو پھر اس نے اپنے دل کی بات کہہ دی ۔اگر تم دونوں مان جاؤ تو میں اسے ختم کر سکتا ہوں تاکہ پھر کوئی خطرہ نہ رہے ۔دونوں گائیں راضی ہو گئیں․․․․ شیر نے سفید گائے پر حملہ کیا اور اسے ہڑپ کر گیا۔کچھ عرصے بعد شیر کی نظر اب کالی گائے پر پڑ گئی ۔پھر وہ بھوری گائے کے پاس گیا اور کہنے لگا۔ارے بھوری گائے میرا اور تیرا رنگ بالکل ایک جیسا ہے ۔دور سے دونوں شیر نظر آتے ہیں لیکن یہ جو کالی گائے ہے ہمارے لئے مسئلہ ہے اس گائے کو انسان دور ہی سے دیکھ سکتا ہے ۔بھوری گائے اب بھی نہ سمجھی کہ شیر اصل میں ان کا دشمن ہے وہ اسے دوست سمجھ کر مسئلے کا حل پوچھنے لگی۔بھائی شیر اب کیا کریں․․․․․!کرنا کیا ہے ۔میں اسے بھی ختم کر دیتا ہوں ۔پھر میں اور تم اس جنگل میں سارے جانوروں پر حکومت کریں گے اور کوئی بھی ہمارے قریب آنے کی ہمت نہیں کر سکے گا۔ بھوری گائے نے شیر کو اجازت دے دی تو شیر نے کالی گائے کو بھی کھا لیا۔ اب شیر اور بھوری گائے جنگل میں اکیلے رہنے لگے ۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک دن شیر نے بھوری گائے سے کہا ۔مجھے بھوک لگ رہی ہے اور جنگل میں کھانے کے لئے تیرے سوا کچھ بچا نہیں ،اس لئے میں اب تجھے ہی کھاؤں گا۔گائے نے گھبرا کر کہا ۔مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے تم تو کہہ رہے تھے کہ ہم دونوں دوست رہیں گے ۔شیر نے گائے کے بھولے پن پر مسکراتے ہوئے کہا ۔اے بھولی گائے ،تم کس چکر میں پڑی ہو ،بھلا کبھی شیر اور گائے کی بھی دوستی ممکن ہے ۔شیر تو گائے کو شکار کرکے کھاتا ہے ۔اب بھوری گائے سوچنے لگی ۔کاش میری وہ دونوں سہیلیاں زندہ ہوتیں تو شیر کبھی مجھے شکار نہیں کر سکتا تھا۔وہ سمجھ گئی کہ شیر کا مقصد حقیقت میں تینوں کو کھانا تھا ۔اس لئے اس نے پہلے ان تینوں کو جدا کیا پھر ایک ایک کرکے کھا گیا ۔جب تک ان تینوں میں اتفاق اور اتحاد تھا اس وقت تک شیر بھی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکا تھا مگر اتفاق اور اتحاد کی جگہ خود غرضی نے لے لی تو ایک ایک کرکے تینوں ہی اپنی زندگی گنوا بیٹھیں ۔پیارے بچو․․․․․ہم سب کو آپس میں محبت و اتفاق سے رہنا چاہیے اور دوسروں کی باتوں پر سوچے سمجھے بغیر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ " ماوٴنٹ واشنگٹن کی چوٹی - تحریر نمبر 1737,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mount-washington-ki-chotti-1737.html,"ثروت یعقوبماوٴنٹ واشنگٹن نامی پہاڑی چوٹی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شمال مشرقی علاقے نیو ہیپمشائر کی بلند ترین چوٹی ہے ۔کسی زمانے میں یہاں کے رہنے والے اسے ہوم آف دی گریٹ اسپرٹ یعنی عظیم روح کا گھر کہکر پکارتے تھے ۔مگر آج دنیا بھر کے لوگ اسے ہوم آف دی ورلڈز درسٹ دیدر یعنی دنیا کے بد ترین موسم کا گھر کہتے ہیں ۔ماوٴنٹ واشنگٹن کا موسم نہایت سرد ہے ۔یہاں سال بھر شدید برفباری ہوتی ہے ۔جس کی وجہ سے یہاں کی برف بہت ٹھوس ہوتی ہے ۔ہر وقت گہری دھند چھائی رہتی ہے اور شدید طوفانی ہوائیں چلتی رہتی ہیں ۔یہ چوٹی 6,288فٹ بلند ہے یہاں کو موسم ماوٴنٹ ایورسٹ اور قطب جنوبی جیسا سرد ہے ۔ماوٴنٹ واشنگٹن کی چوٹی پر کم ترین درجہ حرارت 46.0ریکارڈ کیا گیا تھا۔(جاری ہے)اس چوٹی کے شدید موسم کی بنیادی وجہ اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے ۔یہ چوٹی متعدد طوفانوں کے راستے میں کھڑی ہے ۔خاص طور سے ان طوفانوں کے راستے میں جو بحراوقیاونس سے جنوب، خلیجی خطے اور بحران کاہل کے جنوب مغربی علاقوں کی طرف جاتے ہیں ۔خاص طور سے موسم سرما میں یہاں خطر ناک طوفانی ہواؤں کے جھکڑ بھی چلتے ہیں ۔1932ء میں اسی چوٹی پر ماوٴنٹ واشنگٹن آبزرومیٹری کی ابتدائی عمارت تعمیر کی گئی تھی ۔جس کو زنجیروں کے ساتھ زمین سے مضبوطی سے باندھا گیا تھا کہ کہیں طوفانی ہوائیں اسے اڑانہ دیں۔ " انعام - تحریر نمبر 1736,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/inaam-1736.html,"ہماء بلوچپرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ تھا جو اپنی رعایا پر بڑا مہربان تھا۔ اس نے 100کلو میٹر لمبی سڑک تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ جب سڑک تعمیر ہو گئی اور اس کے افتتاح کا وقت آیا تو اس نے اپنے تین وزیروں سے کہا کہ ایک بار پوری سڑک کا جائزہ لے کر آؤں تا کہ پتہ چل سکے کہ کہیں کوئی نقص تو باقی نہیں رہ گیا؟ تینوں وزیر چلے گئے ۔شام میں پہلا وزیر واپس آیا اور کہنے لگا بادشاہ سلامت پوری سڑک بہت شاندار بنی ہے ۔مگر سڑک پر ایک جگہ کچرا پڑا نظر آیا اگر وہ اٹھا لیا جائے تو سڑک کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جائیں گے ۔دوسرا وزیر آیا تو اس نے بھی بالکل یہی احوال سنایا کہ سڑک پر ایک جگہ کچر ہے اگر وہ اٹھا لیا جائے تو سڑک پر انگلی اٹھانے کی گنجائش باقی نہیں رہے گی ۔(جاری ہے)تیسرا وزیر آیا تو وہ بہت تھکا ہوا نظر آیا اور پسینے سے اس کے کپڑے گیلے ہو رہے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا بھی تھا۔ بادشاہ کو اس نے بتایا کہ بادشاہ سلامت سڑک تو بہت عالیشان بنی ہے مگر سڑک پر مجھے ایک جگہ کچرا پڑا نظر آیا جس کی وجہ سے سڑک کی خوبصورتی ماند پڑ گئی تھی ۔میں نے اس کو صاف کر دیا ہے ۔اب سڑک کی خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے ہیں۔اور وہاں یہ ایک تھیلا بھی تھا شاید کوئی بھول گیا ہو گا۔ بادشاہ یہ سن کر مسکرایا اور کہا ۔یہ کچرا میں نے رکھوایا تھا اور یہ تھیلا بھی ۔اس تھیلے میں پیسے ہیں جو تمہارا انعام ہے اور پھر بادشاہ نے بلند آواز میں کہا۔دعوے تو سب کرتے ہیں اور خامیاں بھی سب نکالتے ہیں ۔چاہتے سب ہیں کہ سب کچھ اچھا ہو جائے مگر عملدر آمد کوئی نہیں کرتا۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سب اچھا ہو تو ہمیں خود کو بدلنا ہو گا۔ اور اپنے وطن کو روشن پاکستان بنانے کے لئے کردار ادا کرنا ہو گا۔ " سقراط اور کمہار - تحریر نمبر 1735,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/suqrat-or-kumhar-1735.html,"آمنہ ماہمپیارے بچو سقراط کا نام تو آپ نے سنا ہی ہو گا وہ ایک مشہور سائنسدان تھا سقراط جب بچہ تھا تو روزانہ چہل قدمی کے لئے جایا کرتا تھا۔ جس راستے سے سقراط کا گزر ہوتا ہے اس راستے میں ایک کمہار کا گھر تھا جو مٹی کے برتن بنایا کرتا تھا۔ وہ کمہار کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور اسے غور سے دیکھتا رہتا تھا۔ اسے برتن بنانے کا یہ عمل دیکھنا بہت پسند تھا۔ایک دن کمہار نے اس کی لگن دیکھ کر اپنے پاس بلایا اور پوچھا۔ بیٹا تم یہاں سے روز گزرتے ہو اور میرے پاس بیٹھ کر دیکھتے رہتے ہو۔۔۔۔ تمہیں اس میں کیا پسند ہے اور تم کیا دیکھتے ہو؟سقراط نے مختصراً جواب دیا کہ میں آپ کو برتن بناتے ہوئے دیکھتا ہوں اور مجھے بہت اچھا لگتا ہے آپ کو برتن بناتے ہوئے دیکھنا۔(جاری ہے)اس کے بعد سقراط خاموش ہو گیا ۔لیکن کچھ ہی دیر میں دوبارہ بولا۔ اس سے میرے ذہن میں چند سوال پیدا ہوئے ہیں جو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں ۔کیا آپ مجھے ان چند سوالوں کے جوابات دیں گے؟سقراط کی بات سن کر کمہار بولا۔جی بالکل کیوں نہیں بلکہ یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔تم پوچھو جو پوچھنا چاہتے ہو میں تمہارے سوالوں کے جوابات دوں گا ۔اب سقراط نے کمہار سے سوال کرنا شروع کئے۔سقراط نے پوچھا آپ جو برتن بناتے ہیں اس کا خاکہ کہاں بنتا ہے؟ کمہار نے جواب دیا اس کا خاکہ سب سے پہلے میرے ذہن میں بنتا ہے۔ یہ سن کر سقراط خوشی سے بولا۔ ”اچھا میں سمجھ گیا“کمہار نے حیرت سے پوچھا۔”کیا سمجھے بیٹا؟“”یہی کہ ہر چیز تخلیق سے پہلے خیال میں بنتی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کے خیال میں ہم پہلے بن چکے تھے تخلیق بعد میں ہوئے۔اس کے بعد سقراط نے اگلا سوال کیا جب آپ برتن بنا رہے ہوتے ہیں تو ایسا کیا کرتے ہیں کہ یہ اتنا خوب صورت بنتا ہے؟کمہار نے جواب دیا بیٹا میں اسے محبت سے بناتا ہوں ۔میں جو بھی چیز بناتا ہوں ،اسے خلوص سے بناتا ہوں اور اسے بناتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرتا ہوں تاکہ کوئی کمی کوتاہی نہ رہ جائے۔ سقراط نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔”اس کی بھی سمجھ آگئی ،کیوں کہ بنانے والا ہم سے محبت کرتا ہے، کیوں کہ اس نے ہمیں بنایا جو ہوتا ہے ۔اگلا سوال یہ ہے کہ آپ اتنے عرصے سے برتن بنا رہے ہیں ،کوئی ایسی خواہش ہے ،جو آپ چاہتے ہیں کہ پوری ہو۔؟”جی میری ایک خواہش ہے جو میں چاہتا ہوں کہ پوری ہو وہ خواہش یہ ہے کہ میں ایسا برتن بناؤں کہ دنیا عش عش کر اٹھے اور پھر ویسا برتن میں کبھی نہ بنا سکوں کمہار نے حسرت سے کہا۔یہ سنتے ہی سقراط اچھل پڑا۔ اور بولا بنانے والا (اللہ تبارک وتعالیٰ) ہر بار ایسی تخلیق کرتا ہے کہ دنیا بے اختیار عش عش کر اٹھے ،کیوں کہ خالق کو پتا ہے کہ میں جو یہ انسان اس دنیا میں بھیج رہا ہوں، اس جیسا کوئی اور دوبارہ نہیں آئے گا۔ کمہار سقراط کی باتیں سن کر بہت حیران ہوا اور سوچنے لگا کہ اتنا سا بچہ کس قدر گہری سوچ کا مالک ہے ۔لیکن تب تک سقراط وہاں سے جا چکا تھا۔ پیارے بچو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سے کتنا پیار کرتے ہیں انہوں نے ہمیں کتنی محبت اور پیار سے بنایا ہے تو پیارے بچو چلیں آج ہی اللہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی خوشی کے لئے نمازیں پڑھا کریں گے اور تلاوت قرآن بھی دل سے پڑھیں اور سمجھیں گے ۔انشاء اللہ " عدل جہانگیری - تحریر نمبر 1734,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/adal-e-jahangiri-1734.html,"جاوید جمال گوشیبرصغیر پاک وہند میں مغلوں کا دور حکومت ”سنہری زمانہ“ کہلاتا ہے ۔نور الدین سلیم جہانگیر کا عدل مشہور ہے۔ اس نے اپنے محل کے باہر زنجیر عدل لٹکا رکھی ہے۔ کوئی بھی فریادی اور مفلوم اس زنجیر کو کھینچ کر بادشاہ سے انصاف حاصل کر سکتا تھا۔ اس سلسلے میں کسی چھوٹے بڑے کی تمیز نہ تھی۔مہر انساء نور جہاں جہانگیر کی چہیتی ملکہ تھی۔اسے بڑی قدر ومنزلت حاصل تھی یہاں تک کہ وہ شاہی فرمان بھی جاری کر سکتی تھی ۔بہت کم عورتوں کو ایسا اقتدار ملا۔ ایک دن نور جہاں اپنے محل کی بالکنی میں بیٹھی ہوئی بیرونی منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ ایک شامت کا مارا راہ گیر محل کے نیچے سے گزرا۔اچانک اس کی نظر نور جہاں پر پڑی تو وہ ٹمنکی باندھ کر اسے دیکھنے میں محو ہو گیا ۔(جاری ہے)نور جہاں نے اسے گستاخی سمجھتے ہوئے اس راہ گیر پر تیر چلا دیا اور وہ مر گیا۔مرنے والا راہ گیر ایک دھوبی تھا۔ اس کی بیوی کو خبر ہوئی تو وہ سر پیٹ کر رہ گئی وہ بیوہ اور اس کے بچے یتیم ہو چکے تھے ۔یہ صدمہ اس کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ وہ ایک مظلوم عورت تھی اور انصاف کی طلب گار تھی اسے اپنے بادشاہ جہانگیر کے عدل وانصاف پر پورا اعتماد تھا چنانچہ اس نے محل پر پہنچ کر زنجیر عدل کھینچی۔ جہانگیر نے اس کی فریاد سنی اور اسے مکمل انصاف کا یقین دلایا۔جہانگیر نے ملکہ نور جہاں کو دربار میں طلب کیا ۔وہ ایک عام ملزم کی طرح پیش ہوئی ۔جہانگیر نے نور جہاں کا بیان لیا۔ اس نے اعتراض کر لیا کہ وہ واقعی قاتلہ ہے اس نے راہ گیر کو قتل کیا ہے کیونکہ وہ گستاخی کا مرتکب ہوا تھا۔جہانگیر نے دربار کے قاضی سے پوچھا کہ اس معاملے میں شریعت اسلامی کا کیا حکم ہے ؟”قاضی نے فتویٰ دیا کہ شریعت میں قتل کی سزا قتل ہے۔“ جہانگیر نے قاضی کا فتویٰ سن کر فرمان جاری کیا کہ ملزمہ کو گرفتار کرکے لایا جائے اور اسے پھانسی پہ چڑھا دیا جائے ۔شاہی فرمان سن کر دربار میں سنانا چھا گیا ۔نور جہاں کو گرفتار کرکے لے جانے لگے تو اس نے کہا کہ ”شریعت قتل کے بدلے خون بہا کی بھی تو اجازت دیتی ہے۔“اس پر جہانگیر نے دوبارہ قاضی سے فتویٰ پوچھا۔ قاضی نے کہا کہ ”خون بہا کی اس صورت میں اجازت ہے کہ مقتول کے قریبی رشتہ دار رضا مند ہوں ۔“مقتول کی بیوہ دربار میں موجود تھی ۔وہ عدل وانصاف کا یہ مظاہرہ دیکھ کر متاثر ہوئی ۔وہ بولی جہاں پناہ!”مجھے انصاف مل گیا ہے ۔میں اپنے شوہر کا خون معاف کرتی ہوں۔“ ملکہ نور جہاں نے اسے زرد جواہر سے مالا مال کر دیا۔بچو! اس سے ہمیں یہ اخلاقی سبق ملتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ " انس کا پہلا روزہ - تحریر نمبر 1733,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/anas-ka-pehla-roza-1733.html,"صائم جمالرمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی سب بچوں نے خوشی سے شور مچا دیا اُن کے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ پڑے ایسے میں ننھا انس بھی خوشی سے ایک ٹانگ پہ اچھلنے لگا۔ اب تو ہر روز خاص اہتمام ہوا کرے گا سحری اور افطاری کا عمائمہ نے چیختے ہوئے سب بچوں کو کہا ”میں بھی اپنی مما سے کہہ کر روز افطاری میں چنا چاٹ اور پکوڑے بنوایا کروں گی۔“ علنتا بولی! اس دفعہ سب بچوں میں بہت جوش وولولہ تھا۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے تعلیمی مراکز کافی دنوں سے بند تھے ۔بچے گھروں میں رہ رہ کر شدید اکتا گئے تھے پہلے تو جب چھٹیاں ہوتیں تو بہت خوش ہوتے تفریح گاہ چڑیا گھر پارکوں یا کسی عزیز رشتہ داروں کے ہاں چلے جاتے مگر اس بار معاملہ مختلف تھا ایسے میں ماہ رمضان کی آمد سے ہر چہرہ خوشی سے کھلکھلا اٹھا۔(جاری ہے)”میں بھی لازمی روزہ رکھوں گا ننھے انس نے اپنی مما سے کہا ۔بیٹا تم ابھی کافی چھوٹے ہو ،گرمی بھی ہے دیکھ لو بہت لگے گا تم کو روزہ․․․․․نہیں․․․․․نہیں․․․․․میں لازمی رکھوں گا روزہ علنتا، عمائمہ ،حماد اور معاذ سب روزے رکھتے ہیں وہ مجھ اکیلے کا مذاق اڑائیں گے ۔ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری مرضی اللہ میرے بیٹے کو ہمت وحوصلہ دے اس سے زیادہ اور خوشی کی میرے لئے کیا بات ہو گی ۔ماہ رمضان تو نیکیوں اور عبادتوں کا مہینہ ہے اس برکت والے مہینے میں سب بچے دل کھول کر عبادات کریں اور دعائیں مانگیں اللہ تعالیٰ اس کورونا جیسے وائرس کی نیست ونا بود کر دے اور متاثرین کو صحت عطا کرے ۔صبح سحری کے وقت سب بچے ٹائم سے اٹھ گئے بڑی اماں نے سب بچوں کو آوازیں دے کر اٹھا دیا۔ بچوں نے مزے سے سحری کھائی اور پھر فجر کی اذان شروع ہو گئی ۔اذان کے ہونے کے کچھ دیر بعد بڑی اماں اپنے کمرے میں نماز پڑھنے چلی گئیں ۔بچوں نے بھی نماز ادا کی اور بڑی اماں کے کمرے میں آکر ان کے پاس بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگے ۔یہ نظارہ اتنا پر کیف اور روحانیت سے بھر پور تھا انس کی مما نے دروازے سے جھانکا اور ہولے سے مسکرا کر پلٹ گئیں۔بچے ٹائم پاس کے لئے روز کوئی نہ کوئی گیم کھیلتے کبھی پڑھائی کرتے اور پھر آرام کرتے ۔آج سب کا روزہ تھا انہوں نے پلان کیا کیوں نہ صحن میں کرکٹ میچ کھیلا جائے اس طرح اچھا ٹائم پاس ہوجائے گا اور پھر ظہر کے ٹائم تک کھیل کر نماز پڑھیں گے اور اپنے ملک کی سلامتی کے لئے دعا مانگیں گے ۔ننھا انس بھی اُن کے پاس میچ میں پیش پیش تھا۔ حماد اور معاذ بہت شریر تھے انہوں نے سوچا کیوں نہ آج زیادہ بولنگ انس سے کروائی جائے ۔علنتا اور عمائمہ نے بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملائی ۔پہلے عمائمہ اور معاذ بیٹنگ کرنے لگے اور انس بولنگ۔ پھر کیا تھا تھوڑی دیر بعد عمائمہ تو آؤٹ ہو گئی اور علنتا اس کی جگہ آگئی ۔حماد فیلڈنگ کر رہا تھا وہ ان سب سے بڑا تھا جلدی سے بال کیچ کر لیتا تاکہ ساتھ والوں کے گھر بال نہ چلی جائے ۔بڑی اماں نے بچوں کو میچ کھیلتے دیکھا تو اپنے کمرے میں سے تسبیح کرتے ہوئے باہر آئیں۔ ”بچو !اتنی دھوپ ہے اب بس کرو تم سب کے روزے ہیں روزہ لگ جائے گا اور انس تو ابھی بہت چھوٹا ہے اس کا پہلا روزہ ہے اس کا خیال کرو کیوں اس کو اتنا بھگا رہے ہو ۔علنتا بولی !دادی امی بس تھوڑا سا اور کھیل لیں پھر ہم کمرے میں آجاتے ہیں ۔بڑی اماں بڑبڑاتے ہوئے اپنے کمرے میں آگئی ۔اب اتنا بھاگ بھاگ کر انس پیاس سے نڈھال ہو گیا مگر اس ننھی سی جان نے اُف نہ کی اور جوش وولولے سے کھیلتا رہا۔ اتنے میں حماد کے ابو گھر میں داخل ہوئے انہوں نے بچوں کو ڈانٹا اور اندر جانے کو کہا سب بچے سر پٹ بھاگے بلا اور بال چھوڑ کر ۔انس میچ میں اتنا مگن تھا وہ باہر سے کمرے میں آیا تو اس کے ذہن سے نکل چکا تھا کہ اس کا روزہ ہے ۔پیاس کی شدت سے نڈھال وہ سیدھا فریج کی جانب بڑھا پانی پینے کے لئے اتنے میں علنتا نے اسے دیکھ لیا لیکن وہ دروازے کی آؤٹ میں چھپ کر اسے دیکھنے لگی ۔انس نے جلدی سے فریض کھولا اور پانی کی بولت کا ڈھکن کھول کر غٹا غٹ پینے لگا۔ علنتا نے شور مچا دیا:”انس نے روزہ توڑ لیا ۔۔۔انس نے روزہ توڑ لیا”۔۔۔معاذ اور عمائمہ بھی شور سن کر کمرے میں آگئے اور سب ہنسنے لگے ۔معاذ نے کہا کیوں انس صاحب آپ کو بہت شوق تھا روزے کا اب توڑ بھی لیا اب دیکھنا تمہارے ابو تمہاری پٹائی کریں گے بڑے دعوے کر رہے تھے کہ میں بھی روزہ رکھوں گا ابھی تو آدھا ٹائم پڑا ہے ۔انس نے وہیں زمین پہ پانی والی بوتل پھینٹی اور ڈر کر اپنے کمرے میں آگیا اور زار وقطار رونے لگا ۔یا اللہ یہ مجھ سے کیا ہو گیا اب بابا مجھ سے ناراض ہونگے اور ماریں گے بھی وہ نڈھال ساہو کر بستر پر لیٹ گیا ۔ظہر کا وقت ہو گیا تھا لیکن وہ اتنا پریشان تھا کہ اسے نماز پڑھنا بھی بھول گئی ۔اچانک بڑی اماں اپنی تسبیح ڈھونڈتے ہوئے اس کے کمرے میں آئی تو دیکھا کہ انس منہ پہ ہاتھ رکھ کر پکوڑے لے رہا تھا ہچکیوں سے رو رہا تھا اس نے تو آج اپنے ابو سے فرمائش کی تھی سائیکل کی کیونکہ اس کے ابو نے خود کہا تھا کہ میں اپنے پیارے بیٹے کو نئی سائیکل لے کر دوں گا اگر یہ روزہ پورا کرے گا اب تو سائیکل بھول گئی اور ڈانٹ ذہن میں سما گئی اس کی امی نے کہا تھا آج میں افطاری میں سب ڈشز اپنے بیٹے کی فیورٹ بناؤں گی۔”انس بیٹا کیا ہو ااتنے افسردہ کیوں ہو نماز پڑھ لی آپ نے “انس نے نفی میں سر ہلا دیا اور رونے لگا ۔بڑی اماں نے آگے بڑھ کر اسے ساتھ لگا لیا اور پوچھا کسی نے مارا ہے میرے لعل کو ؟پھر انس نے ساری روداد اپنی نانی جان کوسنا دی ۔نانی جان مسکرا کر بولیں آپ کو کس نے کہا آپ کا روزہ ٹوٹ گیا۔ انس بولا علنتا اور معاذ نے بیٹا میری بات غور سے سنو۔آپ نے تو بھول کر پانی پیا ہے آپ کو کون سا یاد تھا کہ آپ کا روزہ ہے بھول سے کچھ کھاپی لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ہاں! اگر جان بوجھ کر یا چوری چھپ کے کچھ کھایا پیا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔اُٹھو میرا بچہ وضو کرو اور نماز پڑھو میں اور ان بچوں کی خبر لیتی ہوں اگر علنتا نے دیکھ لیا تھا تو فوراً روک دیتی نہ کہ چھپ کر دیکھتی رہی اصل گنہگار تو وہ ہے علنتا دروازے کی لوٹ سے ساری باتیں سن رہی تھی اس نے انس اور بڑی اماں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی ۔بڑی اماں نے کہا اب نماز پڑھو اور اللہ تعالیٰ سے بھی معافی مانگو ننھی سے جان انس کو تم نے اتنا پریشان کیا پھر انس نے وضو کرکے نماز پڑھی اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اس کا بھروسا نہیں ٹوٹا۔ " بھینس کے بارے میں معلومات - تحریر نمبر 1732,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhens-k-bare-main-malomat-1732.html,"ہماء بلوچپیارے بچو!بھینس کو فارسی میں الجا موس کہتے ہیں جس کی جمع الجوامیس ہے یہ لفظ عربی میں بھی کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے ، بھینس تقریباً دنیا کے تمام ممالک میں پائی جاتی ہے پاکستان اور بھارت میں بھینس سب سے زیادہ پالی جاتی ہے پوری دنیا میں سب سے اعلیٰ نسلی بھینس پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ضلع ساہیوال میں ساہیوال نسل کی نیلی راوی بھینس مشہور ہے، بھینس کے بارے عام معلومات تو ہر کسی کو معلوم ہی ہیں لیکن آج میں آپ کو بھینس سے متعلق کچھ الگ معلومات فراہم کروں گی۔بھینس طاقتور اور مضبوط جسم رکھنے والا جانور ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے بزدل جانور ہے اگر اسے مچھر کاٹ لے تو پانی میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ اس کو شیر بھی دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتا ہے ،بھینس اپنے مالک کے اشارے سمجھ سکتی ہے یعنی بھینس کو بے وقوف سمجھنا غلط ہے اس کا مالک اگر اسے پکارے فلاں فلاں تو دوڑی چلی آتی ہے یہ اس کی شریف النسل اور ذکی ہونے کی دلیل ہے ۔(جاری ہے)بھینس اپنی جگہ سے بہت زیادہ مانوس ہو جاتی ہے اپنے بچوں کی خاطر پوری رات جاگنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور جاگتی رہتی ہے۔بھینس کی کھال کی دھونی دینے سے گھر کے تمام پسو ہلاک ہو جاتے ہیں ،بھینس کی چربی کو اندرانی نمک کے ساتھ ملا کر خارش زدہ جگہ یا چہرے کے داغوں پر لگا لیا جائے تو خارش اور چہرے کے داغ ختم ہو جاتے ہیں ۔بھینس کو خواب میں دیکھنا ایسے طاقت ور آدمی کی علامت ہے جو اپنی طاقت سے زیادہ تکالیف برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،بھینس کو اردو میں بھینس بنگالی میں سوہیش پنجابی میں مجھ کشمیری میں منیش کہتے ہیں۔ " عاصم کی کہانی - تحریر نمبر 1731,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/asim-ki-kahani-1731.html,"انعم صدیقیعاصم میرا بچپن کا جگری دوست تھا وہ نہایت ذہین تھا۔ وہ خوبصورت اور خوش قسمت تھا ،مگر حد درجہ مغرور تھا۔ ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں اس کے خاندان کی بہت عزت کی جاتی تھی ۔اس کے خاندان کا ہر فرد شریف اور دوسروں کی نگاہوں میں محترم تھا۔ گاؤں کا ہر شخص انہیں جاننا اور رشک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ ضرورت مندوں کا خاص خیال رکھتے تھے ۔بے شمار گھروں کا خرچہ اس گھر نے اٹھایا ہوا تھا۔ وہ تھے بھی بہت مالدار ،ہزاروں ایکڑ زمین کے تنہا مالک ،کئی کھیت اور باغات ان کی ملکیت تھے۔میں اور عاصم دونوں گاؤں کے واحد سکول میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے تھے ۔سکول کا ہر فرد ہم دونوں کا احترام کرتا تھا ۔تمام اساتذہ عاصم سے بہت پیار کرتے تھے ۔(جاری ہے)ہمارے گاؤں کا وہ واحد گھر تھا جو بستی کے آخر میں گھنے باغات اور سر سبزو شاداب کھیتوں کے درمیان ایک خوبصورت محل کی مانند مسکراتا ہوا نظر آتا تھا ۔اس کے پیچھے ایک نہر بہتی تھی ۔ہماری تعلیم بھی بہت اچھی چل رہی تھی ۔شروع میں عاصم بھی میری ہی طرح کلاس کی اگلی سیٹ کا مالک تھا ،مگر آہستہ آہستہ اس کی توجہ تعلیم سے ہٹتی چلی گئی ۔وہ مغرور ہو گیا اور اب ہماری دوستی بھی پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔برے دوستوں سے مل کر وہ اپنی شرافت کھو چکا تھا۔ بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں اساتذہ کا بھی احترام نہیں رہا تھا۔خاندان پر غرور اور اپنے مال پر گھمنڈ کرنا اس کی عادت بن چکی تھی۔ اس کی بری عادتیں سب پر ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں ،مگر اس سے میرے تعلقات بد ستور قائم رہے ۔جب کبھی میں اسے نصیحت کرتا وہ برامان جاتا۔ اس کے باوجود میں اسے برابر نصیحت کرتا رہتا۔ کئی اساتذہ اسے سدھارنے کی کوشش کرتے رہے ،مگر بے سود۔ اسی طرح سال گزرتے رہے ۔وہ صرف اس بناء پر کامیاب ہو رہا تھا کہ وہ ایک شریف خاندان کا چشم وچراغ تھا ورنہ ،نہ اس کی صلاحیتیں نکھر سکیں اور نہ ہی اسے کسی دوسرے فن سے دلچسپی تھی کہتے ہیں کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا اور ایسا ہی کچھ عاصم کے ساتھ ہوا۔جب ہمارا دسویں کا امتحان قریب آیا تو ایک رات اچانک زور دار ہوائیں چلنے لگیں جو کچھ ہی دیر میں تیز وتند آندھی کی شکل اختیار کر گئیں۔ طوفان بھی زوروں پر تھا۔ صبح اس سال میں ہوئی کہ بڑے بڑے درخت اپنی جڑوں سے اکھڑ چکے تھے ۔طوفان کے باعث ساری فصل تباہ ہو چکی تھی ۔کئی عمارتیں منہدم ہو چکی تھیں ۔عالیشان ،بنگلوں کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ ہزاروں انسان موت کے گھاٹ اتر چکے تھے اور عاصم کا سارا خاندان بھی اس مصیبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔صرف چند افراد بچ سکے تھے ۔جن میں عاصم بھی تھا۔ اس کے والدین بھی دنیا سے رخصت ہو چکے تھے ۔اس وقت عاصم کی عمر تقریباً 18سال تھی ۔ان کی ساری جائیداد بھی تباہ ہو چکی تھی اور گاؤں کے دوسرے افراد کا بھی بہت نقصان ہوا تھا۔ ہمارے گاؤں کا واحد سکول بھی طوفان کی نذر ہو کر کھنڈر بن چکا تھا۔ اس وقت میری اور عاصم کی حالت نا قابل بیان تھی۔ چند دنوں بعد عاصم نے اپنی تعلیم ترک کر دی ،مگر میں نے بد ستور تعلیم اور عاصم سے اپنی دوستی بھی جاری رکھی ، میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر لاہور چلا گیا ۔اس دوران میں نے عاصم کو بھی ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔کچھ عرصے بعد خط وکتاب بھی ختم ہو گئی ۔اسی طرح سال گزرنے لگے تقریباً 20سال بعد میں اپنے شہر لوٹا اور شعبہ تعلیم کے بڑے عہدے پر فائز کر دیا گیا ۔عاصم کا خیال آتے ہی اس کے پتے پر جب اس کو تلاش کیا تو یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ وہ ہمارے ہی محلے میں آئس کریم بیچتا ہے ۔جب میں نے اس سے ملاقات کی تو وہ مایوسی کے انداز میں مجھے دیکھتا رہا، کچھ دیر بچپن کی یاد تازہ کرنے کے بعد جب میں رخصت ہو رہا تھا تو وہ ایک ہاتھ بڑھا کر کہنے لگا”یار پاس کچھ پیسے ہوں تو میری مدد کرتے جاؤ“۔اس کا یہ حال دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ مگر یہ سب اس کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ تھا۔ بچو! عاصم کی کہانی سے ہمیں یہ عبرت ملتی ہے کہ کبھی بھی اپنے بڑوں کی نافرمانی نہ کریں اور خدائے بزرگ وبرتر کی عطا کردہ نعمتوں پر غرور کی بجائے شکر ادا کریں۔ " مچھر کے بارے میں حیران کن معلومات - تحریر نمبر 1729,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mosquito-k-bare-main-heeran-kun-malomat-1729.html,"سجاد عثمانیمچھر، جس کو ہم معمولی سا کیڑا سمجھتے ہیں لیکن حشرات الارض (Insects) میں سے سب سے زیادہ خطر ناک جاندار ہے جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لوگ مرتے ہیں ،سب سے زیادہ انسان جس جاندار کی وجہ سے مرتے ہیں وہ مچھر ہی ہے ،اس لئے اس کو Earth Animais deadliestکہا جاتا ہے۔ یہی مچھر سکندر اعظم (GreatTheAlexande)کی موت کا سبب بنا۔ مچھروں کی تقریباً 3500سو انواع (Species) ہیں اور ان میں سے صرف 200اقسام ایسی ہیں جن کی صرف مادہ مچھر (Mosquitoes Female) ہی خون پینے کے لئے کاٹتی ہیں اور یہ ہر قسم کے جانور کو کاٹتے ہیں جیسے سانپ ، مینڈک ، پرندے، گھوڑے ، گائے، انسان وغیرہ باقی نر مچھر پھولوں پتوں وغیرہ سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں ۔جدید تحقیقات کے مطابق مچھر کا وجود انسان کے وجود سے بھی پہلے کا ہے ،یہ زمین پر دس کروڑ( Million 10) سال سے رہ رہا ہے جو کہ نظر یہ ارتقاء کے لئے ایک بڑی مشکل پیدا کرتا ہے کیوں کہ مچھرکے ایک سوملین یعنی 10کروڑ سال پرانے فوسلز (Fossils) اور آج کے مچھر میں کوئی ارتقائی تبدیلی نہیں آئی ۔(جاری ہے)کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مچھر دو ارب سال پہلے بھی موجود تھا۔مچھر کی عمر 5یا 6ماہ تک ہوتی ہے ،اس کے تین دل دو دماغ اور دو آنکھیں ہوتی ہیں اور ہر آنکھ میں تقریباً ایک ہزار (Lenses) ہوتے ہیں جو آزادانہ طور پر (Independent)مختلف سمتوں میں دیکھ سکتے ہیں ۔مچھر ایک سیکنڈ میں ایک ہزار مرتبہ اپنے پر (Wings) مارتا ہے اس کے باوجود وہ ایک گھنٹے میں صرف ایک سے ڈیڑھ میل کا فاصلہ ہی طے کر پاتے ہیں ۔مادہ مچھر ایک ہی وقت میں 200انڈے دیتی ہے ۔مچھروں میں سب سے زیادہ خاص بات ان کے خون چوسنے کا طریقہ ہے ۔مچھرکے منہ میں 6سوئیاں (Needle Six) ہوتی ہیں جن میں سے ہر ایک کا اپنا کام ہوتا ہے ان کی مدد سے دو صرف مطلوبہ خون ہی چوستے ہیں خراب یا غیر ضروری خون نہیں پیتے ۔مچھر جب انسان کے کسی حصے کو کاٹتا ہے تو اس حصے کو پہلے اپنے لعاب سے سن کرتا ہے، پھر اس حصہ میں اپنی چھ سوئیاں انجیکشن کی طرح ڈال کر خون پینا شروع کرتا ہے ۔اور اس کا لعاب Kiter Painکا کام کرتا ہے جس وجہ سے کاٹتے وقت درد محسوس نہیں ہوتا ۔یہ پورا عمل ایک Deviceکی طرح ہوتاہے جیسے Device implantatioN ruralہوتی ہے انسان نے یہ Deviceبھی مچھر کو دیکھ کر بنائی ہے ۔مچھر میں انتہائی حساس حرارتی Receptorsہوتا ہے جس کی مدد سے کسی بھی جاندار کی موجودگی اور مختلف رنگوں میں خارج شدہ حرارت کو سمجھتا ہے اور اس حرارت کے اعتبار سے جاندار کو پہچان لیتا ہے ۔جس وجہ سے مچھر اندھیرے میں بھی جاندار کو پا لیتا ہے ۔اور جسم کے اندر خون کی نالیوں کو بھی پہچان لیتا ہے ۔انسان کا خون صرف مادہ مچھر ہی پیتے ہیں اور یہی مادہ مچھر ہر سال لاکھوں انسانوں کی موت کا سبب بنتے ہیں۔ " جلد بازی کا انجام - تحریر نمبر 1728,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jald-bazi-ka-injaam-1728.html,"علی حسنایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک چوہدری رہتا تھا ۔اس کے ساتھ حویلی میں ایک ملازم خاص (میراثی) بھی رہائش پذیر تھا۔ مالک اور نوکر ایک ایسی سست الوجود قوم سے تعلق رکھتے تھے جو ٹھہرے ہوئے ،پر سکون مزاج کی مالک تھی اور آج کا کام کل پر چھوڑنے کی عادی تھی ۔ایک دن چوہدری پکوڑے کھانے کے بعد اخبار سے بنے لفافے کے مطالعہ میں مصروف تھا کہ اس نے خبر پڑھی کہ محکمہ زراعت نے جدید پیوندکاری کے ذریعے گندم کا ایسا بیج ایجاد کیا ہے جو دگنی فصل دیتا ہے۔چوہدری نے ملازمین کو اکٹھا کرکے نئے بیج کے متعلق صلاح مشورہ شروع کیا ۔صلاح مشورے کی مختلف نشستیں جاری رہیں اور آخر ایک سال بعد گندم کا بیج مذکورہ ہونے کا فیصلہ ہو گیا۔فصل بونے کا موسم قریب آیا تو چوہدری نے ملازم خاص کو بیج لانے کے لئے شہر بھیجا۔(جاری ہے)میراثی لاری پر طویل سفر طے کرکے شہر پہنچا تو تھکاوٹ سے چور تھا ۔وہ شہر میں اپنے ایک عزیز کے گھر گیا تا کہ چند دن آرام کرکے سفر کی تھکاوٹ دور کرے اور بیج خرید کر واپسی کا قصد کرے ۔میراثی کو شہر میں مختلف عزیزوں اور دوستوں کے ہاں آرام کرتے اور ”بتیاں شتیاں“ دیکھتے ایک سال کا عرصہ گزر گیا ۔آخر جب دوبارہ فصل کاشت کرنے کا موسم آیا تو چوہدری کو میراثی کی یاد آئی۔ اس نے ایک اور نوکر کو شہر بھیجا تاکہ میراثی کو ڈھونڈ کر لائے ۔دراصل چوہدری کو روایت سے ہٹ کر فصل بونے کی جلدی پڑ گئی تھی۔نوکر نے بڑی مشکل سے میراثی کو شہر میں تلاش کیا اور چوہدری کا پیغام پہنچایا۔میراثی جب بیج کی بوری گھر پر اٹھائے گاؤں پہنچا تو بارش کے باعث ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ تھا ۔وہ حویلی کے گیٹ سے داخل ہوا تو اس کا پاؤں پھسلا اور وہ دھڑام سے بوری سمیت گر گیا۔ بوری پھٹ گئی اور سارا بیج کیچڑ میں بکھر گیا ۔چوہدری نے آگے بڑھ کر میراثی کو اٹھانا چاہا تو وہ کیچڑ میں لیٹے لیٹے ہاتھ کھڑا کرکے بولا”بس رہنے دیں چوہدری صاحب! آپ کی جلد بازیوں نے ہمیں مار ڈالا ہے“۔ چوہدری پر کھڑوں پانی پڑ گیا اور اسے اپنی غیر حکیمانہ عجلت پر سخت ندامت ہوئی۔جلد بازی شیطان کا کام ہے۔ " رمضان میاں - تحریر نمبر 1727,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ramzan-mian-1727.html,"محمد علیم اللہ اصلاحیجیسے جیسے عید کا دن قریب آرہا تھا رمضان میاں کی الجھن بڑھتی جا رہی تھی ۔سال کے بارہ مہینوں میں ایک رمضان ہی کے مہینے میں تو اسے کچھ سکون میسر آتا تھا ۔اب وہ بھی ختم ہونے کو تھا ۔کچھ سال پہلے تک حالات اتنے دگرگوں نہ تھے ۔وہ محنت مزدوری کرکے کسی نہ کسی طرح گھر کا خرچ پورا کر لیتا تھا ،لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے کمر توڑ مہنگائی اور اقتصادی بحران نے تو جینا ہی مشکل کر دیا تھا ۔اب اس قلیل آمدنی میں پورے گھر کا خرچ چلانا بہت مشکل ہو رہا تھا ۔روزگار کے مواقع بھی کچھ بہتر نہ تھے۔ اور اوپر سے حکومت کی نت نئی پالیسیوں نے تو سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔ان حالات میں ایک مزدور کی گزر اوقات بہت مشکل ہو گئی تھی ۔(جاری ہے)گھر میں ایک بوڑھی ماں ،بیوی اور تین بچے تھے، چھ افراد کے اخراجات کسی پہاڑ سے کم نہ تھے ۔بڑوں کو تو سمجھایا جا سکتا تھا لیکن بچے ماننے میں کہاں آتے تھے ۔ان کو تو بس ایک ہی دھن تھی کہ عید آرہی ہے اب نئے کپڑے بنیں گے گھر میں سویاں تیار ہو گی۔ اوروں کی طرح ہمیں بھی عیدی ملے گی۔رمضان شروع ہوا تو تھوڑا سکون ملا تھا۔ چلو اب ایک وقت ہی کے کھانے کا بندوبست کرنا پڑے گا ۔بیمار ماں نے بھی روزے رکھنے شروع کر دئیے کہ اس بہانے بیٹے کو کچھ سکون ملے گا۔ بیوی نے ان بچوں کو جن پر ابھی روزے فرض بھی نہ ہوئے تھے ثواب کا لالچ دے کر روزے رکھنے کے لئے راضی کر لیا تھا ۔اب صرف ایک وقت کے کھانے کا امکان باقی تھا۔ اس کے علاوہ بستی کے کھاتے پیتے لوگ بھی کبھی کبھی افطاری کے نام پر کچھ پکوان اور پھل وغیرہ بھیج دیتے ،جس سے کچھ گزر اوقات ہو جاتی تھی۔ رمضان میاں سوچ رہے تھے ،عید آنے کو ہے لیکن یہ مہینہ تو جیسے پر لگا کر اڑتا جا رہا تھا بس اب آخری عشرہ باقی رہ گیا تھا ۔عید آنے کو ہے ۔اب کیا ہو گا ؟بچوں کے کپڑے کہاں سے بنیں گے ؟گھر میں سوئیاں وغیرہ کا تو کوئی انتظام ہی نہیں ہے، اور آگے پھر سے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ کاش کہ ساری عمر رمضان کا ہی مہینہ ہوتا۔ " دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیسے ہوتا ہے - تحریر نمبر 1726,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/doodh-ka-doodh-paani-ka-paani-kaise-hota-hai-1726.html,"آمنہ ماہمدودھ کا دودھ پانی کا پانی ایک مشہور کہاوت ہے اور ایسے موقع پر سنی جاتی ہے ،جب کسی کا سچ اور جھوٹ کھل کر سامنے آجائے یا کسی کو اس کے اچھے یا برے فعل کا بدلہ مل جائے ۔اس کہاوت کے پس منظر میں جائیں تو ہمیں ایک قصہ پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے جو یہاں آپ کی دلچسپی کے لئے نقل کیا جا رہا ہے۔ ایک گوالا تھا جو زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کے خبط میں مبتلا ہو گیا ۔اس پر پیسے جمع کرنے کی دسٹن سوار ہو گئی تھی اور وہ لالچ میں اندھا ہو چکا تھا۔اس کے ذہن میں دولت کمانے کا سیدھا اور آسان طریقہ یہ آیا کہ وہ دودھ میں پانی ملا کر بیچنا شروع کرے ۔اس نے ایساہی کیا ۔شہر میں رہ کر اس نے نا جائز طریقے سے بہت جلد مال بنالیا۔ جب اس کے پاس اچھی خاصی رقم اکٹھی ہو گئی تو وہ اپنے گاؤں جانے کی تیاری کرنے لگا۔(جاری ہے)گوالے نے ایک روز اپنی ساری رقم ایک تھیلی میں ڈالی اور گاؤں کی طرف چل دیا۔ ان دنوں شدید گرمی پڑ رہی تھی ۔پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا ۔گوالا بھی گرمی کی وجہ سے نڈھال تھا ۔اس کے راستے میں ایک دریا پڑا تو اس نے نہانے کا ارادہ کیا اور روپوں کی تھیلی ایک درخت کے نیچے رکھ کر دوسری کی نظر میں آنے سے چھپانے کی غرض سے اس پر کپڑے ڈال دیے ۔اس طرف سے مطمئن ہونے کے بعد اس نے لنگوٹ کس لیا اور پانی میں کود پڑا۔گوالا جس علاقے میں نہانے کے لئے رکا تھا، وہاں بندر بہت پائے جاتے تھے ۔اتفاق سے ایک بندر اسی درخت پر بیٹھا ہوا تھا جس کے نیچے گوالے نے رقم کی تھیلی رکھ کر اس پر کپڑے ڈال دیے تھے ۔اس نے یہ سارا ماجرا دیکھ لیا تھا۔ بندر بہت شرارتی تھا۔ اس نے گوالے کو دریا میں نہاتے دیکھا تو درخت سے اترا اور روپوں کی وہ تھیلی اٹھا کر درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔گوالا پانی سے نکلا تو اس کی نظر بندر پر پڑی جس کے پاس رقم والی تھیلی تھی ۔اس نے بندر کو ڈرانے کی کوشش کی کہ کسی طرح وہ تھیلی نیچے پھینک دے ،لیکن بندر اس سے ذرا نہ گھبرایا۔ اس نے تھیلی کھولی اور روپے ایک ایک کرکے ہوا میں اڑانے لگا ،کچھ زمین پر اور کچھ دریا میں گرنے لگے۔ گوالا روپوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہا ،لیکن یہ آسان نہ تھا۔اس دوران وہاں لوگ جمع ہو گئے اور تماشا لگ گیا۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو اس گوالے کی بے ایمانی سے واقف تھے ۔انھوں نے جب گوالے کو یوں روتا پیٹتا دیکھا تو کہنے لگے، ”دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو گیا۔“یعنی اس نے جو پیسے دودھ میں پانی ملا کر نا جائز طریقے سے کمائے تھے وہ پانی ہی میں مل گئے۔ " خرگوش کے دوست - تحریر نمبر 1725,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rabbit-friends-1725.html,"کسی جنگل میں ایک بہت بڑے گھنے درخت کے نیچے ایک خرگوش نے اپنا مکان بنا رکھا تھا۔ اس خرگوش کا نام بنی تھا ایک دن بنی کی آنکھ کھلی تو دن خاصا چڑھ چکا تھا۔ یوں بھی گرمی کا موسم تھا ۔ بنی نے سوچا کہ اسے جلدی جلدی ناشتا کرکے بازار چلے جانا چاہیے تاکہ سوداسلف لے آئے ۔گرمی بڑھ گئی تو گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو جائے گا، بنی نے جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو کر رات کے بچے ہوئے کھانے سے ناشتہ کیا ،کپڑے بدلے ،سودا لانے کی ٹوکری سنبھالی اور ٹوکری ہاتھ میں لے کر بازار جانے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔خرگوش اچھلتا ہوا اپنے گھر سے تھوڑی دور پہنچا تھا کہ اسے ایک باریک سی آواز سنائی دی ۔”بھائی بنی․․․․بھائی بنی!“بنی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آواز کہاں سے آئی ہے ۔اس نے اوپر دیکھا ،نیچے دیکھا اِدھر دیکھا، اُدھر دیکھا لیکن آواز دینے والا نظر نہ آیا۔(جاری ہے)”میں یہاں ہوں۔“آواز دوبارہ سنائی دی ۔اب بنی نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ آواز تو قریب ہی اگی ہوئی لمبی لمبی گھاس میں سے آرہی ہے ۔اب اس نے گھور کر دیکھا تو وہاں چوہے میاں آنکھوں پر چشمہ لگائے کندھے پر ایک تھیلا لادے کھڑے تھے۔”آہا ! چوہے میاں۔ آپ کہاں․․․․․؟“بنی نے کچھ خوشی اور کچھ حیرت سے پوچھا۔”میں نے سوچا ،بنی سے ملے ہوئے کئی دن ہو چکے ہیں اس لئے چلا آیا، لیکن تم تو کہیں جارہے ہو․․․․؟“ چوہے میاں نے کہا۔”ہاں! ذرا بازار تک ارادہ ہے ۔ آج کتنی گرمی ہے ۔سچ مچ جھلسا دینے والی گرمی سوچا کہ جلدی سے سودا لے آؤں ۔گرمی بڑھ گئی تو بازار تک پہنچنا بھی مشکل ہو جائے گا۔“”ہاں!واقعی گرمی تو بہت ہے ۔تھوڑی دیر اور ہو گئی تو سچ مچ یہ گرمی جھلسا دے گی ۔“چوہے نے بنی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پوچھا ،”کہو تو میں بھی ساتھ چلوں․․․․؟“”ضرور ․․․․ضرور ۔بھلا اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے ․․․․․؟“ بنی نے کہا پھر دونوں دوست بازار کی طرف چل دیے ۔بنی اچھلتا کودتا ہوا جا رہا تھا اور چوہے میاں کچھ دوڑتے اور کبھی چھلانگیں لگاتے ۔تھوڑی ہی دور چلے ہوں گے کہ انہیں پھر ایک باریک سی آواز سنائی دی۔”بھائی بنی! آداب ۔بھائی چوہے میاں آداب“بنی اور چوہے میاں کو ایسا محسوس ہوا جیسے آواز ان کے پیروں کے نیچے ہی سے آئی ہو ،اس لئے پہلے تو انہوں نے نیچے دیکھا ،پھر دائیں جانب اور پھر بائیں جانب ،لیکن انہیں کوئی نظر نہ آیا۔”میں یہاں ہوں“آواز دوبارہ سنائی دی ۔اب انہیں آواز کی سمت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے اس سمت میں غور سے دیکھا تو لمبی گھاس کے درمیان میں انہیں ایک ننھا منا خوبصورت لال رنگ کا پرندہ نظر آیا۔ اس پرندے کو اس کے رنگ کی وجہ سے ”لال“ ہی کہتے ہیں ۔”واہ بھائی لال!“تم تو بڑی سایہ دار جگہ تلاش کرکے بیٹھے ہو ۔بنی اور چوہے میاں نے ایک ساتھ کہا۔”ہاں بس! گرمی سے گھبرا کر ذرا دیر کے لئے یہاں رک گیا تھا۔“لال نے جواب دیا۔”واقعی گرمی بہت زیادہ ہے ۔سچ مچ جھلسا دینے والی گرمی ۔“بنی نے جواب دیا۔”آپ لوگ کہاں جا رہے تھے ․․․․؟“لال نے پوچھا۔”سودا لینے بازار جارہے تھے ۔گرمی زیادہ ہے نا!اس لئے سوچا تھا کہ جلدی سے سودا لے آئیں، ورنہ گرمی اور بڑھ گئی تو جھلس کر رہ جائیں گے۔“ بنی اور چوہے میاں نے جواب دیا۔”میں بھی سودا لینے ہی کے لئے گھر سے نکلا ہوں ۔کہو تو تمہارے ساتھ ہی چلا چلو!“لال نے پوچھیا۔”یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔دو سے تین بھلے “بنی نے کہا۔بنی اچھلتا کودتا ،چوہے صاحب بھاگتے ،چھلانگیں لگاتے اور لال صاحب کبھی پیدل چلتے اور کبھی اڑتے ہوئے بازار کی سمت بڑھنے لگے ۔ابھی تینوں بازار کے قریب پہنچے ہی تھے کہ انہیں بھائی ہرن مل گئے۔انہوں نے آواز دے کر تینوں کو روکا اور پوچھنے لگے کہ وہ تینوں کہاں جا رہے ہیں۔”سخت گرمی پڑ رہی ہے ۔اس لئے بازار جا رہے ہیں تاکہ اس سے پہلے کہ گرمی بڑھے اور ہمیں سچ مچ جھلسا دے ہم سودا لے کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔“ بنی ،چوہے صاحب اور لال نے ایک ساتھ کہا۔ ”بڑا اچھا خیال ہے کہو تو میں بھی تمہارا ساتھ دوں․․․․؟“بھائی ہرن نے پوچھا۔”اس سے اچھی بات کیا ہو گی ۔ضرور چلو۔“ تینوں نے کہا ۔تھوڑی دیر بعد وہ چاروں بازار میں پہنچ چکے تھے۔بنی نے اپنے لئے تازہ تازہ سبزیاں خریدیں کچھ لیموں لئے اور شکر بھی خریدی ۔چوہے صاحب نے اپنے لئے پھل اور باجرے کے دانے خریدے ۔بھائی ہرن نے اپنے لئے خشک میوہ اور تھوڑا سا بھوسا خریدا۔ ابھی وہ سب سامان خرید کر دکان سے باہر نکلے بھی نہیں تھے کہ انہیں ایک زور دار کڑک سنائی دی ۔بنی نے کہا،”یہ تو بجلی کی کڑک ہے۔“چاروں جلدی سے دکان کے باہر آئے اور آسمان کی طرف دیکھا ۔کالے کالے بادلوں نے سورج کو چھپا دیا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد بادل زور سے گرجتا بھی تھا اور بجلی بھی چمک رہی تھی ۔”بارش ہونے والی ہے ۔جب ایسے بادل چھاتے ہیں تو بارش ضرور ہوتی ہے ۔“چوہے نے کہا ۔”چلو جلدی کرو۔“بھائی ہرن گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے بولا”تم تینوں میری پیٹھ پر چڑھ جاؤ۔“اسی وقت بوندیں بھی پڑنے لگیں ۔بنی ،چوہا اور لال تینوں بھائی ہرن کی پیٹھ پر بیٹھ کر اپنی اپنی منزل کو پہنچ گئے ۔ایک دوسرے کی مدد کرنے سے سب کو فائدہ ہوتاہے۔ " نیکی کا بدلہ، سبق آموز کہانی - تحریر نمبر 1724,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naiki-ka-badla-sabaq-amoz-kahani-1724.html,"ساجدہ کمبوہننھی فاطمہ زور زور سے احسان کا بدلہ سٹوری یاد کررہی تھی کسی جنگل میں ایک شیر درخت کے نیچے آرام کر رہا تھا ۔ادھر سے ایک شرارتی چوہے کا گزر ہوا۔ اس نے دیکھا کہ شیر سو رہا ہے وہ اس کے اوپر چڑھ گیا اور شرارتیں کرنے لگا اس کی اچھل کود سے شیر کی آنکھ کھل گئی اس نے چوہے کو پکڑ لیا اور کہا تم نے مجھے تنگ کیا ہے تجھے سزا ملے گی اس پر چوہے نے روتے ہوئے کہا ،جنگل کے بادشاہ مجھ سے غلطی ہوئی مجھے معاف کردیں اس پر شیر کو رحم آگیا اس نے چوہے کو چھوڑ دیا چوہا ایک طرف دوڑ گیا۔کچھ دنوں بعد اسی چوہے نے دیکھاکہ شیر کسی شکاری کے لگائے جال میں پھنسا ہوا تھا وہ آگے بڑھا اور اپنے نوکیلے دانتوں سے جال کترنے لگا اس نے جلدی ہی جال کی رسیاں کاٹ کر شیر کو آزاد کر دیا اس پر شیر نے چوہے کا شکریہ ادا کیا اس پر چوہے نے کہا آپ نے مجھ پر احسان کیا تھا آج میں آپ کے کام آگیا۔(جاری ہے)اتوار ہونے کی وجہ سے فاطمہ صبح سے یہ سٹوری بار بار بلند آواز سے یاد کر رہی تھی۔شام کو جب ان کے پاپا جان ڈیوٹی سے آئے تو آمنہ نے کہا” پاپا جان یہ صبح سے سٹوری یاد کررہی ہے۔ خبر نہیں اسے یاد ہوئی کہ نہیں ہمیں یاد ہو گئی ہے ۔آپ کو اس لئے یاد ہو گئی آپ نے پہلے پڑھی ہے ۔فاطمہ کیا خاموش رہنے والی تھی ۔ بھئی احسان یا نیکی کا بدلہ میں بہت سی سٹوریاں تھیں یہ ایک فرضی کہانی ہے ۔اسے شیر اور چوہے کے پیرائے میں دلچسپی کے لئے لکھا گیا ہے تاکہ بچے دلچسپی سے یاد کریں ۔میں آپ کو ایک دلچسپ کہانی سناتا ہوں جو سچی ہے یقینا آپ کی ٹیچر کو بھی پسند آئے گی ۔صرف دو تین نام مشکل ہیں وہ یاد کرنے ہوں گے ۔اب بچے دلچسپی سے کہانی سننے لگے۔ پاپا جان سنانے لگے کہ ”بہت عرصہ کی بات ہے سکاٹ لینڈ (برطانیہ کا ایک جزیدہ ہے) جس میں ایک غریب کسان رہتا تھا ایک دن اپنے کھیتوں میں کام کررہا تھا کہ اسے کسی بچے کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی دیں ۔وہ آواز کی سمت گیا اس نے دیکھا کہ ایک بچہ ایک جوہر میں ڈوب رہا تھا وہ جوہر دلدلی تھا۔ وہ جتنا باہر نکلنے کی کوشش کرتا اتنا نیچے جا رہا تھا کسان نے اسے کہا کہ وہ آرام سے کھڑا ہو جائے ۔میں اس کے لئے کچھ کرتا ہوں ۔وہ جلدی سے ایک لمبی اور خشک لکڑی اٹھائے آیا اور اس نے وہ لکڑی اس بچے کے آگے کی اور کہا کہ اسے مضبوطی سے پکڑ لے یوں دونوں کی کوشش سے بچہ باہر آگیا ۔کسان نے بچے سے کہا وہ اس کے ساتھ گھر چلے اور یہ گندے کپڑے بدل لے۔ اس پر اس بچے نے کہا آپ کا شکریہ میرے والد صاحب میرے لئے پریشان ہوں گے اس نے ایک طرف دوڑ لگا دی۔اگلے دن ایک شاندار بگھی اس کسان کے گھر کے سامنے آکر رکی اس سے ایک بارعب شخصیت بگھی سے اتری اس نے کسان کا شکریہ اداکیا کہ اس نے اس کے بچے کی جان بچائی ہے اسے کیا صلہ دوں؟اس پر کسان نے کہا کہ مجھے کسی صلے کی ضرورت نہیں میں نے اپنا فرض نبھایا تھا میری جگہ کوئی بھی ہوتا وہ یہی کرتا ۔مجھے کسی صلے کی ضرورت نہیں ۔بہت اصرار پر بھی کسان نے کچھ صلہ نہ لیا ۔آخر مایوس ہو کر جاتے جاتے اس رئیس کی نظر اس کسان کے بیٹے پر پڑی جو کچھ وقت پہلے ان کے پاس آکر کھڑا ہو گیا تھا اس رئیس نے پوچھا یہ آپ کا بیٹا ہے“؟کسان نے محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے کہا جی جناب یہ میرا بیٹا ہے۔رئیس نے کہا ایسا کرتے ہیں اسے اپنے ساتھ لندن لے جاتا ہوں اسے پڑھاتا ہوں ۔بیٹے کی محبت میں کسان اس پیشکش پر راضی ہو گیا۔ اس کا بیٹا لندن پڑھنے چلا گیا اور اتنا پڑھا کہ آج دنیا اسے ”الیگزینڈر فلیمنگ“ کے نام پر جانتی ہے ۔وہ فلیمنگ جس نے پنسلین ایجاد کی وہ پنسلین جس نے کروڑوں لوگوں کی جان بچائی۔وہ رئیس جس کے بیٹے محو کسان نے دلدل سے نکالا تھا وہی بیٹا جنگ عظیم سے پہلے ایک بار پھر ہسپتال میں زندگی اور موت کی کٹکش میں تھا اور اسی فلیمنگ کی ایجاد کردہ پنسلین سے اس کی زندگی بچائی گئی یوں وہ رئیس جس کا نام روڈ ولف چرچل اور اس کا بیٹا ونسٹن چرچل تھا۔پاپا جان تاریخ پڑھتے ہوئے چرچل نام کئی بار پڑھا ہے وہی چرچل آمنہ نے حیرانگی سے کہا۔جی بیٹا ! وہ چرچل جو جنگ عظیم دوئم میں برطانیہ کا وزیر اعظم تھا ۔اسے مرد آہن بھی کہتے ہیں اس کا قول ہے ”کہ بھلائی کا کام کریں کیونکہ بھلائی پلٹ کر آپ کے پاس آتی ہے۔پاپا جان یہ سٹوری تو بہت اچھی ہے صرف کچھ نام مشکل ہیں اچھا ٹرائی کروں گی فاطمہ نے کہا ،بس پھر سمجھ لیں اگلے سنڈے تک فلیمنگ اور چرچل کی گردان سنیں گے ۔آمنہ نے کہا کوئی بات نہیں یہ اچھی سٹوری دو سرے بچے بھی یاد کریں۔ ان کے پاپا نے کہا سبھی مسکرانے لگے۔ " میں کاغذ ہوں - تحریر نمبر 1723,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/main-kaghaz-hoon-1723.html,"محمد ساجدپیارے بچو! میں کاغذ کا ایک رجسٹر ہوں میری قیمت صرف 100روپے ہے میرا رنگ سفید ہے جس پر سرخ اور سبز لائنیں لگائی گئی ہیں۔ مجھ پر سیاہ رنگ کا لیمنیشن چڑھا ہوا ہے اس پر ”چاند کاپی ہاؤس“ کا مونو گرام لگا ہوا ہے اس سے میری شان وشوکت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے ۔میں بڑے فخر سے حاجی بک ڈپو پر رہتا تھا ۔میرے اردگرد کئی قسم کی کاپیاں اور رجسٹر پڑے تھے جو مجھ سے کم خوبصورت اور سستے تھے ۔ان میں ییلو رجسٹر نکمے اور سستے کاغذ سے بنایا گیا تھا۔ وہ مجھے بہت برا لگتا تھا۔ایک دن ابوبکر کے پاپا مجھے خرید کر لے گئے میرا سر فخر سے بلند ہو گیا کہ اتنے رجسٹروں میں مجھے پسند کیا گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ ابو بکر مجھے دیکھ کر خوش ہو گا مجھ پر ہوم ورک یا ناوشن ورک کرے گا۔(جاری ہے)مجھے سنبھال کر رکھے گا۔ مگر اس نے مجھ پر کارٹون بنائے ، مجھے پھاڑ کر ہوائی جہاز اور کشتیاں بنائیں اور ٹیڑھی میڑھی لائنیں لگائیں پھر کچھ صفحات پھاڑ کر ڈسٹ بن Dust Binمیں پھینک دئیے تو میرے آنسو نکل آئے۔پیارے بچو! کیا آپ کو علم ہے کہ مجھے کیسے بنایا جاتا ہے ؟یقینا نہیں پتا آئیے میں آپ کو بتاؤں مجھے یعنی کاغذ کو کیسے بنایا جاتا ہے اور میری ضرورت کیوں ہے؟میرے آباؤ جداد کا تعلق چین سے ہے مجھے صدیوں پہلے انہوں نے درختوں کی چھال، مچھلی پکڑنے والے کے جال باریک پیس کر پانی کی مدد سے بنایا پھر دھوپ میں خشک کیا ۔یوں میری ابتدائی شکل بنی ۔چین والوں نے تقریباً چھ سو سال تک مجھے دنیا سے چھپائے رکھا کہ میں کیسے بنتا ہوں ۔میرے ذریعے تجارت کی اور بہت منافع کھایا یوں انسان نے اپنی اپنی زبان کے مطابق مجھ پر لکھا جس طرح زمانہ ترقی کرتا گیا جوں جوں میں بھی ترقی کرتا گیا۔ سائنس نے خوب ترقی کی نئی نئی ایجادات ، نئے نئے تجربے ہوئے اور مجھے بنانے کے بھی جدید طریقے اپنائے گئے ۔پہلے میرا رنگ وروپ ہر درخت کی چھال کے مطابق تھا مگر آہستہ آہستہ مجھ میں بہت سی تبدیلیاں آئیں اور میرے مختلف رنگ وروپ بنائے گئے۔پیارے بچو! آپ میں اکثر نے گندم کا ننھا سا پودا ضرور دیکھا ہو گا جب گندم پک جاتی ہے تھریشر کی مدد سے دانے اور بھوسہ الگ الگ کر لیا جاتا ہے اس بھوسے کو توڑی یا ”سٹرا“ Strawکہتے ہیں اس کے علاوہ دریا کے کنارے کے ساتھ اُگی کائی Kahiبھی استعمال ہوتی ہے ۔سب بچوں نے ”سفیدے“ کا درخت بھی دیکھا ہو گا اسے باریک پیس کر بھی کاغذ بنایا جاتا ہے ۔آپ نے گنا بھی دیکھا ہو گا اور گنے کا رس بھی پیا ہو گا ۔شوگر ملوں میں جس سے چینی بنتی ہے اس کی ویسٹ Wasteکو ”بکاس“ کہتے ہیں اس سے بھی کاغذ بنتا ہے ۔مجھے سفید کاغذ بنانا ہے ۔براؤن، ییلو یا کونسا رنگ وروپ دینا ہے ۔کاپی ،ٹشو، ڈرائینگ شیٹ وغیرہ بنانا ہے پھر اس کے مطاق کیمیکل اور کلرز ڈالے جاتے ہیں۔اس کے بعد پمپ کی مدد سے پائیوں کے ذریعے مجھے رولز پر ڈالا جاتاہے ۔فیلٹFeltسے ہوتا ہوا رولزRollersپر ہوتا گرم ڈرائپروںDryersپر ہوتا ہوتا بن جاتا ہوں اور ان گرم رولرز پر خشک ہوتا ہوں اور بڑی بڑی ریلیز پر لپیٹ دیا جاتا ہوں پھر ان میں بڑی بڑی ریلیز Realsکوری رائینڈر (Rewinders) چلایا جاتا ہے اور دئیے گئے سائزز کے مطابق راؤنڈ بلیڈRound Bladesسے مجھے کاٹا جاتا ہے ۔میری چوڑائی کو ڈیکل کہتے ہیں عموماً مشینوں کے ڈیکل چھ کہتے ہیں عموماً مشینوں کے ڈیکل چھ فٹ سے دس فٹ ہوتاہے اس کے بعد مجھے فنشنگ ہاؤس منتقل کر دیا جا تا ہے وہاں بھی مختلف کٹرز مثلاً گلویٹن ،سمپلیس Simplexاور ڈپلسDuplexکٹرز اور پاکستانی کٹروں سے میرے حصے بخرے کئے جاتے ہیں۔مجھے بنانے کے دوران میرے وزن کا بہت خیال رکھا جاتا ہے میری کئی شکلیں ہیں مثلاً وائیٹ پیپر براؤن ، ییلو ،کوٹڈ، فوٹو کاپی ،کمپیوٹر، کائیٹ پیپر اور ٹشو پیپر ہیں ۔مزے کی بات نوٹوں والا پیپر اور قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی بکس کا پیپر بھی مجھ سے بنایا جاتا ہے ۔اگر کاپی بنوالی ہوتو 63گرام ،اچھی بکس کے لئے 68گرام ڈرائینگ شیٹس کے لئے 230گرام، ٹشو پیپر کے لئے 20تا 22گرام، کائیٹ پیپر 35گرام مربع میٹر کے حساب سے بنایا جاتا ہے پیارے بچو آپ نے دیکھا مجھے بنانے میں کتنی محنت لگی اور مجھے کتنی تکلیف ہوئی مجھے بار بار پیسا گیا مجھے بار بار کاٹا گیا مجھے گرم رولروں پر سے گزارا گیا ،مجھے گیسوں سے نرم کیا گیا ،لیکن مجھے اس کا ہر گز افسوس نہیں کیونکہ آپ کی خدمت میرا فرض ہے میرے ذریعے آپ پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن جائیں ۔مجھے افسوس اس وقت ہوتا ہے جب آپ مجھ پر کارٹون بناتے ہیں ۔بے تکی لکیریں مارتے ہیں مجھے پھاڑ کر جہاز بنا کر اڑاتے ہیں یا پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہیں اس وقت میرے آنسو ․․․․․ہاں ہاں میرے آنسو نکل آتے ہیں۔ پیارے بچو! آپ مجھ سے وعدہ کریں آپ مجھے اچھے طریقے سے استعمال کریں گے مجھ پر ہوم ورک کریں اور سنبھال کر رکھیں گے ․․․․وعدہ ․․․․پکا وعدہ․․․․شاباش " پنکی رومی اور رمضان - تحریر نمبر 1721,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pinki-roomi-or-ramzan-1721.html,"سیدہ عطرت بتول نقویپنکی اور رومی بڑے مزے مزے سے باتیں کر رہی تھیں وہ سمجھ رہی تھیں کہ ان کی باتیں کوئی نہیں سن رہا ،ان کے خیال میں امی سو رہی تھیں لیکن امی جاگ بھی رہی تھیں اور ان کی باتیں سن بھی رہی تھیں ان کو ہلکے سردرد کی وجہ سے نیند نہیں آرہی تھی وہ قریب ہی صوفے پر بیٹھی دونوں لڑکیوں کو خاموش ہونے کا کہنے ہی والی تھیں کہ ان کو گفتگو کے موضوع کا اندازہ ہو گیا اس لئے وہ خاموش ہو کر باتیں سننے لگی تاکہ پوری بات سن لیں پھر کچھ کہیں،پنکی کہہ رہی تھی تو پھر ڈن ہے نارومی؟افطاری کے بعد رات کو سحری تک جاگا کریں گے اور فلمز دیکھیں گے ڈینو سار والی اور الہ دین مجھے بہت پسند آئی تھی وہ میں دوبارہ دیکھوں گی ،ڈن رومی بولی اور میں نے موبائل میں کافی گیمز اپ لوڈ کرلی ہیں روزے میں گیمز کھیلیں گے تو اچھا ٹائم پاس ہو جائے گا۔(جاری ہے)بہت مزا آئے گا اور پنکی یاد آیا کہ تم کہیں نوریہ کو نہ انوائٹ کر لینا مجھے بہت بُری لگتی ہے بہت اتراتی ہے جیسے کہیں کی شہزادی ہو ۔لیکن اس سے دوستی ہے اور وہ گھر کے قریب رہتی ہے اگر اس کا موڈ ہوا تو ہمارے ساتھ انجوائے کرے گی؟پنکی بولی ،اسے زیادہ لفٹ نہیں کروائیں گے۔ رومی نے کہا اب امی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا وہ اٹھ کر بیٹھ گئیں، امی آپ جاگ گئیں؟رومی اور پنکی بیک وقت بولیں ،میں سو نہیں رہی تھی بلکہ تمہارے پروگرام سن رہی تھی جو تم نے رمضان کے مبارک مہینے کے لئے بنائے ہیں۔کیا تمہیں ذرا بھی رمضان کی اہمیت معلوم نہیں؟رمضان کے روزے اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرض کئے ہیں کہ ہماری عادات بہتر ہوں اور ہماری ایسی ٹریننگ ہو جائے کہ برے کاموں سے بچیں اور تم ایسے پروگرام بنا رہی ہو جس میں رمضان کو تم نے صرف تفریح کرنے کا مہینہ سمجھ لیا ہے۔امی کا غصہ دیکھ کر دونوں ایک دوسرے کو کہنے لگیں پہلے تم نے کہا تھا ،نہیں پہلے تم نے کہا تھا ،خاموش ہو جاؤ امی بولیں ،میری بات غور سے سنو ،غیبت کرنا یعنی کسی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرنا ویسے ہی بری بات ہے لیکن رمضان کے مقدس مہینے میں تو اور زیادہ بری بات ہے اور تم دونوں اپنی دوست کی نہ صرف اب غیبت کررہی ہو بلکہ رمضان میں بھی اس کے ساتھ کچھ غلط کرنے کا سوج رہی ہو ،رمضان صرف بھوکا پیاسا رہنے کانام نہیں بلکہ ہر برائی سے بچنے کا نام ہے ،روزہ رکھ کر ٹائم پاس کرنے کے لئے فلمیں دیکھنا، میوزک سننا ،گپیں لگانا صحیح نہیں،اپنے اندر ہر غلط عادات کو ختم کرنے کا نام رمضان ہے ،عبادت کے ساتھ دوسروں کا احساس کرنا ،اچھی کتب کا مطالعہ کرنا، اپنی تعلیمی کمزوری کو دور کرنا ،ماں باپ کا کہنا ماننا یہ سب ہونا چاہیے ،رومی اور پنکی نے امی سے سوری کیا کہ وہ غلط سوچ رہی تھیں اب وہ رمضان ایسے ہی گزاریں گی جیسے امی نے سمجھایا۔ " عظیم قائد - تحریر نمبر 1719,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azeem-quaid-1719.html,"عمیمہ صہیبمیرا نام قائد اعظم محمد علی جناح ہے ۔میں25دسمبر1876ء میں کراچی میں پیدا ہوا۔ میرے والد کا نام جینا پونجا تھا اور والدہ کا نام مٹھی بائی تھا ۔میں نے کچھ عرصے کر سچن مشن ہائی سکول میں پھر لندن کی آکسفورڈیونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ۔مجھے اپنی ذہانت کی وجہ سے لندن کے مرکزی دفتر میں اپرنٹس شپ کا بھی موقع ملا۔میری والدہ،میرے انگلینڈ جانے پر راضی نہ تھیں ،مگر پھر وہ ایک شرط پر مان گئیں کہ انگلینڈ جانے سے پہلے میری شادی کر دی جائے۔1893ء میں میری شادی ایمی بائی سے کردی گئی ۔اس کے بعد میں انگلینڈ چلا گیا۔ میں نے اپنی ساری زندگی تعلیم اور محنت کو اہمیت دی ۔برطانیہ سے واپس آنے کے بعد وکالت شروع کردی ۔اس دوران میں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی ۔(جاری ہے)کانگریس کا حصہ بننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ مسلمانوں کے حقوق کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ۔ سب چیزوں کا اختیار غیر مسلموں کے پاس ہے۔ مسلمان ان کے احکامات پر عمل کرنے پر مجبور ہیں۔یہ سب دیکھنے اور محسوس کرنے کے بعد میری سوچ میں انقلاب آیا کہ کیوں نہ مسلمانوں کے لئے ایک الگ جماعت قائم کی جائے اور ان کے حق کے لئے لڑا جائے ۔میں نے دو قومی نظریہ پیش کیا ۔میں لوگوں کو یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا تعلق دو یکسر علیحدہ قومیں ہیں ۔میں نے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ اور نئے ملک کے لئے جدوجہد شروع کردی ۔مجھے یہ سب کرتے ہوئے نہایت کٹھن حالات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر مسلمانوں کو 1947ء میں پاکستان جیسا عظیم تحفہ ملا ۔میری آرزوپوری ہو چکی تھی ۔پاکستان بننے کے ایک سال بعد تک میں زندہ رہ سکا اور 11ستمبر 1948ء میں میں نے وفات پائی۔ " قارون کا خزانہ - تحریر نمبر 1718,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/karoon-ka-khazana-1718.html,"زونیرہ شبیرحضرت موسی کی قوم میں ایک بہت دولت مند شخص تھا اس کا نام قارون تھا۔ اس کے پاس اتنی دولت تھی کہ اس کے خزانوں کی چابیاں ایک بڑی جماعت اٹھاتی تھی وہ شخص یعنی قارون دولت ناخود پر خرچ کرتا تھا نہ ہی کسی غریب شخص پر ۔بس مال جمع کرتا رہتا تھا ۔اسے اپنی دولت پر بڑا فخر تھا اس کا کہنا تھا کہ میں نے یہ دولت اپنی محنت سے حاصل کی ہے ۔لوگوں نے اسے بہت سمجھایا کہ تمام دنیا کے لوگوں کو دولت صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی عطا کرتاہے اس لئے تم اپنی دولت کو اللہ ہی راہ میں خرچ کرو لیکن قارون نے کسی کی بات نا مانی اور مسلسل اللہ کی نافرمانی کرتا رہا۔پھر ایک دن وہ بڑے فخر کے ساتھ قوم کے لوگوں کے سامنے نکلا جو لوگ دنیا کے طالب تھے وہ اس کو دیکھ کر کہنے لگے کاش ہمیں بھی قارون کے جتنی دولت ملتی یہ کتنا خوش نصیب ہے لیکن جولوگ اللہ سے ڈرتے تھے وہ کہنے لگے نیک لوگوں کے لئے آخرت میں اس سے بھی کہیں بہتر انعام موجود ہے۔(جاری ہے)جب قارون اپنی سرکشی سے بعض نہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی دولت کے ساتھ ہی زمین میں گاڑھ دیا۔ کوئی بھی اس کو عذاب الٰہی سے بچا نا سکا۔ جو لوگ اس کے جیسے بننے کی تمناکر رہے تھے قارون کا انجام دیکھ کر کہنے لگے۔”شکر ہے اللہ نے ہمیں بچا لیا“اگر ہمیں بھی قارون کے جتنی دولت ملتی اور ہم بھی سرکش اور گمراہ ہو جاتے تو اللہ ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا۔پیارے بچو ہمیں کبھی بھی کسی سے حرص نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ نے ہمیں جو کچھ عطا کیا ہے اس پر اترانا نہیں چاہیے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کسی کو حقیر اور کمتر نہیں سمجھنا چاہیے۔ " زرخیز - تحریر نمبر 1717,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zarkhaiz-1717.html," " صحبت کا اثر - تحریر نمبر 1716,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sohbat-ka-asaar-1716.html,"ساجد کمبوہصدیوں پرانی بات ہے کہ ملک یمن میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ بہت انصاف پسند، نیک اور رعایا کا خیال رکھنے والا تھا۔ بادشاہ کا وزیر بہت دانا، عقل مند تھا۔ وہ بادشاہ کو اچھے اچھے مشورے دیتا جو رعایا کے لئے بہت فائدہ مند ہوتے ۔وزیر بہت ضعیف ہو چکا تھا وہ بادشاہ کے والد کا بھی وزیر رہا تھا ۔اس نے ایک دن بادشاہ سلامت سے کہا کہ اب میری صحت اجازت نہیں دیتی آپ کوئی نوجوان ،ذہین وزیر رکھ لیں ۔مگر بادشاہ اس کے لئے تیار نہ تھا ۔بادشاہ نے کہا”وزیر محترم آپ کی موجودگی میں کسی وزیر اعظم کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ آپ جیسا عقل مند اور ذہین وزیر نہیں ملے گا۔”بادشاہ سلامت میں اپنی زندگی میں ایک اچھا، ذہین وزیر دیکر جانا چاہتا ہوں ۔(جاری ہے)آپ رعایا میں اعلان کر دیں ۔میں ان کا امتحان لونگا اور کامیاب ہونے والے کو وزیر رکھ لیں ۔پس بادشاہ نے اعلان کروا دیا کہ بادشاہ کو ایک نوجوان ،ذہین وزیر کی ضرورت ہے ملک بھر سے درجنوں افراد دربار پہنچ گئے ۔وزیر نے ہر شخص کو تین تین دینار دیتے ہوئے کہا ۔وہ سوالوں کے جواب چاہیے اگر جواب مل جائیں تو دربار میں آجائیں ورنہ آنے کی زحمت نہ کریں ۔”انسانی زندگی میں خون کا اثر زیادہ ہوتاہے یا صحبت کا“؟”دوسرا سوال اب ہے،تب ہو گا، نہ اب ہے نہ تب ہو گا۔“دونوں سوال سن کر سبھی اپنے اپنے علاقوں میں چلے گئے آخر ایک ماہ بعد ایک شخص حاضر ہوا اور کہا،”بادشاہ سلامت آپ کے دونوں سوالوں کے جواب لے آیاہوں۔“سبھی حیران تھے کہ سوالوں کی سمجھ نہیں آئی اور جواب بھی لے آیا ہے ،اس نے کہا پہلے سوال کا جواب صبح دوں گا۔دوسرے سوال کا جواب یہ ہے یہ لیں ایک دینار کا پنیر لے آیا ہوں لیں اس کی مٹھاس چکہیں یہ اب ہے ایک دینار مسجد میں دے دیئے ہیں اس کا ثواب تب ہو گا جب آپ وفات پا جائیں گے ۔اور تیسرا دینار ایک شعبدہ باز کو دے دیتے ہیں ۔نہ فائدہ اب ہے اور نہ مرنے کے بعد تب ہو گا۔ بادشاہ نے وزیر کی طرف دیکھا اس نے سر ہلادیا گویا ٹھیک ہے ۔اگلے دن ابھی بادشاہ سورہاتھا اچانک آواز آئی۔”چلو بھی اُٹھو اور نماز کا وقت ہو گیا ہے ۔بادشاہ حیران رہ گیا کہ یہ طوطا کہاں سے آیا ہے اور نماز پڑھنے کا کہہ رہا ہے یوں دس بارہ دن طوطا بادشاہ کو بیدار کرتا رہا۔بادشاہ کو اچھا لگنے لگا ۔ایک دن اچانک آواز آئی اُٹھو ہڈ حراموں طبلہ بجاؤ، سارنگی بجاؤ،چلو اُٹھو ہڈحراموں طبلہ․․․․بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ طوطے نے کیا حرکت کی ہے اس نے تالی بجائی اور خادم حاضر ہوا اس نے حکم دیا اس نامراد کو پکڑو جب دربار لگے تو اسے پیش کرنا کہ کس کی اتنی جرأت ”خادم طوطا لیکر چلا گیا۔“”جب دربار لگا بادشاہ نے حکم دیا“طوطے کو یہ الفاظ کس نے سکھائے“؟ پہلے نماز کا کہتا تھا اب طبلہ سارنگی کا کہہ رہا ہے وہی نوجوان اٹھا اس نے سر جھکاتے ہوئے کہا”بادشاہ سلامت یہ آپ کے پہلے سوال کا جواب ہے ۔یہ ایک نہیں دو طوطے ہیں ایک طوطا ایک حافظ صاحب کے پاس رکھوایا تھا وہ نماز کا کہے گا اور دوسرا طوطا میرا ٹیوں کے ہاں رکھا تھا ۔یہ صحبت کا اثر ہے پہلے نماز کا اور دوسرا طبلہ سارنگی کا کہے گا ۔حالانکہ دونوں کا خون ایک ہے اور صحبت الگ الگ بادشاہ بڑا خوش ہوا وزیر نے کہا بادشاہ سلامت اسے وزیر رکھ لیں یہ عقل مند اور ذہین ہے ۔چند ماہ بعد وزیر کا انتقال ہو گیا ۔کچھ عرصہ بعد پڑوسی ملک کے بادشاہ نے حملہ کر دیا۔ وزیر نے کہا بادشاہ سلامت آپ خود جائیں یا کسی تجربہ کار سپہ سالار کو بھیجیں مگر بادشاہ نے نو جوان شہزادے کو بھیج دیا۔بادشاہ خود شکار کو روانہ ہو گیا ۔شہزادہ بھی خیمے میں آرام کرتا رہا اور فوجیوں کو بھیج دیا۔ فوج بے دلی سے لڑی اور شکست کھا کر بھاگ گئی ۔یہ خبر سن کر بادشاہ کو بہت صدمہ ہوا۔بادشاہ نے وزیر کو حکم دیا کہ شکست کے اسباب معلوم کرلے ۔ایک دن بادشاہ ،شہزادے اور فوجیوں نے سنا کہ وزیر نے اعلان کروایا ہے کہ اس شخص کا انتقال ہو گیا جو جنگ میں شکست کا باعث بنا تھا جس نے دیکھنا ہو وہ چھاؤنی پہنچ جائے ۔سبھی حیران تھے کہ یہ بد بخت کون ہے جو شکست کا سبب بنا تھا۔بادشاہ شہزادے اور دربار اسے دیکھنے کے لئے چھاؤنی گئے ایک کمرے میں ایک جگہ کوئی کفن میں لپٹا پڑا تھا۔بادشاہ نے اس کا کفن اٹھایا دیکھا ایک بڑا سا آئینہ پڑا تھا۔ اس کو اٹھاکر دیکھا اپنا چہرہ نظر آیا۔ ساتھ ایک رقعہ پڑا تھا جس پر بادشاہ نے وزیر سے پوچھا ہم ملک کے بادشاہ ہیں یہ عوام ہماری رعایا ہے ہم اس کے کیسے دشمن ہو گئے۔وزیر نے سر جھکاتے ہوئے کہا”بادشاہ میں نے مشورہ دیا تاکہ کسی بہادر سپہ سالار کو بھیجیں مگر آپ نے میری بات نہ مانی اور شہزادے کو بھیج دیا ۔شہزادہ خیمہ گاہ میں آرام کرتارہا اس نے فوج کو لڑنے کے لئے بھیج دیا۔ فوجیوں نے بھی بہادری کا مظاہرہ نہ کیا یوں سب اپنے دشمن آپ ہوئے ۔اب بھی موقعہ ہے آپ خود اس کی سر کوبی کے لئے جائیں ۔پھر دیکھیں بادشاہ خود لڑنے کے لئے گیا اس کی فوج بھی بڑی بہادری سے لڑی اور دشمن کو شکست دی۔دیکھا بچو!اسی طرح آپ بھی محنت کریں گے کامیابی آپ کے قدم چومے گی ۔اچھی صحبت اختیار کریں گے تو اچھے بنیں گے اور خدا نخواست بری صحبت اختیار کریں گے تو برے ہونے کا خدشہ ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں نیک بننے اور زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی توفیق دے ۔آمین " بارہ اسلامی مہینوں پر مختصر نظر - تحریر نمبر 1715,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/12-islami-months-per-mukhtasar-nazar-1715.html,"محمد علیم نظامیپیارے بچو!جس طرح اسلام میں بارہ مہینوں پر مسلمان یقین اور اعتماد رکھتے ہیں اس طرح بارہ مہینے ہی انگلش کی زبان میں کہلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی مہینوں میں پہلا مہینہ محرم ،دوسرا مہینہ صفر ،تیسرا مہینہ ربیع الاول، چوتھا ربیع الثانی، پانچواں مہینہ جمادی الاول ،چھٹا مہینہ جمادی الثانی،ساتواں مہینہ رجب ،آٹھواں مہینہ شعبان،نوواں مہینہ رمضان،دسواں مہینہ شوال، گیارہواں مہینہ ذی العقد اور بارہواں مہینہ ذی الحج ہیں۔پیارے بچو !اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایسی کوئی نعمت نہیں بھیجی جس کے بے شمار اور ان گنت فوائد نہ ہوں ۔شوال کے مہینے کو ہی لیجئے ۔جو نہی یہ مہینہ سر اٹھاتا ہے تو تمام عالم اسلام میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔(جاری ہے)یہ اسلامی مہینے بڑے بابرکت اور مقدس مہینے بڑی محبت اور چاہت کے لئے اپنے اندر رحمتیں سمیٹتی لیے ہوتے ہیں۔پیارے بچو!چونکہ تمام بارہ اسلامی مہینے مسلمانوں کو اپنی بابرکت اور رحمتیں سے ہر دم رحم وکرم سے نوازتے رہتے ہیں مگر ماہ شوال اور بارہ رمضان اپنے اندر سارا سال کی خوبیوں کے علاوہ سال بھر کی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یوں تو پورے بارہ اسلامی مہینے اپنے اندر بے شمار نیکیاں پھیلانے میں آگے آگے ہوتے ہیں مگر ماہ شوال اور ماہ رمضان المبارک پاکیزہ اور صحت مند لوگوں کے لئے خاص طور پر خوشیوں کا باعث بنتے ہیں۔پیارے بچو!اس طرح باقی بارہ مہینے اگر چہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہوتے ہیں مگر ماہ رمضان میں تمام عالم اسلام کے پر جوش مسلمان لوگ اس لئے اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خوش ہو کر ان پر اپنی رحمت نازل فرمائیں اور ان کے گیارہ مہینے بھی اسی طرح ہی خداوند کریم کی حمد وثناء کرتے رہیں تاکہ مسلمانوں کی بخشش کا سامان پیدا ہو سکے ۔اگر چہ باقی 10اسلامی مہینے بھی اپنے اندر لا جواب اور بے مثال نیکیاں پھیلا کر اپنے اللہ اور رسول اکرم کو خوش اور راضی کرتے رہیں۔پیارے بچو!اوپر والی سطور میں بارہ اسلامی مہینوں کا مختصر ذکر کیا گیا ہے جس طرح ما ہ شوال اور ماہ رمضان کی اپنی اور ہی الگ بات ہے مگر ان دونوں مہینوں کو یاد رکھنے اور ان کی آمد کا انتظار کرنا اور عبادت گزار بندہ بن کر رہنا ہی عظمت ہے۔ " بزرگوں کا خیال - تحریر نمبر 1714,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bazurgoon-ka-khayal-1714.html,"عطرت بتولعینی پڑھائی میں تو اچھی تھی لیکن گھر کے کام کاج کو ہاتھ نہیں لگاتی تھی امی بہت سمجھاتی تھیں لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا امی سارا دن کام کرکے تھک جاتی تھیں لیکن اسے کوئی احساس نہیں تھا اگر چہ اب وہ آٹھویں کلاس میں آگئی تھی، اس کی روٹین یہ تھی کہ سکول سے آکر کھانا کھانا پھر سوجانا شام کو اٹھ کر ہوم ورک کرنا اور اس کے بعد رات تک ٹی وی دیکھنا ،گیمزکھیلنا، یا فون پر دوستوں سے باتیں کرنا امی بہتیرا کہتی تھیں کہ کم از کم رات کو کچن میں کام کروا لیا کرو لیکن وہ بھلا کہاں سنتی تھی ،اب کچھ عرصے سے کرونا وبا کی وجہ سے سکول بند تھے عینی اور چھوٹے بہن بھائی گھر میں تھے سارادن فرمائشیں ہو ئی امی یہ بنا دیں وہ بنادیں ۔چونکہ کام والی بھی نہیں آرہی تھی چھٹی پر تھی اس لئے امی کام کی زیادتی کی وجہ سے بیمار ہوگئیں اب مجبوراً عینی کو گھر کا کام کرنا پڑا تو اسے احساس ہوا کہ امی کتنی محنت کرتی تھیں اور کتنا تھک جاتی ہو نگی اور ایسی صورت میں جبکہ ماسی بھی نہیں آرہی تھی لیکن پھر بھی وہ پیار سے ہی سمجھاتی تھیں سختی نہیں کر تی تھیں اس نے تہیہ کیا کہ اب وہ امی کے ساتھ کام کروایا کرے گی ان کا کہنا مانے گی اور تنگ نہیں کرے گی۔(جاری ہے)اس نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی سمجھایا کہ ہمیں اپنی امی کا خیال رکھنا چاہیے ،امی نے جب عینی کا بدلا ہوا اچھا رویہ دیکھا تو بہت خوش ہوئیں اور عینی کو بہت دعائیں دیں ،بچو!آپ بھی اپنی امی کی مدد کیا کریں اور ان کی دعائیں لیا کریں کیوں کہ ماں کی دعا سے بڑھ کر کوئی قیمتی چیز نہیں ہے۔ " شرارتی بندر - تحریر نمبر 1712,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shararti-bandar-1712.html,"صائم جمالیہ کہانی گاؤں سات فتح کی ہے ،کہتے ہیں کہ گاؤں سات فتح کے ایک بزرگ علامہ اکرام حفیظ نے ایک جنگل میں کچھ عرصے قیام کیا ۔وہاں بزرگ اکرام حفیظ کی دوستی بہت سے بندروں سے ہو گئی ۔یہ بزرگ کا بہت احترام کرتے تھے اور یہ بندر اپنے وقت کے بھی بہت پابند تھے ۔ہر بندر کے ذمہ کوئی نہ کوئی ڈیوٹی تھی جس کے ذمے جو کام ہوتا تھا اسے بہت ہی ذمہ داری سے انجام دیتا تھا۔صبح ہی صبح یہ بندر بزرگ علامہ اکرام حفیظ کے لئے ناشتے میں ناریل، انجیر، کیلا، انگور اور دوسرے میوہ جات لے کر آتے تھے ۔علامہ اکرام حفیظ بھی اپنے گھر سے اپنی والدہ ماجدہ کے ہاتھوں کی بنی السی کی مٹھائی جو دیسی گھی میں بنی تھی لے کر آتے تھے وہ بندروں کو کھلاتے بندر اور چست وچابند ہو جاتے ۔(جاری ہے)علامہ اکرام صاحب ہر وقت اپنے پاس سونف رکھتے جو صبح نہار منہ پھانک لیا کرتے اس سے سارا دن ہاضمہ درست رہتا اور عقل ٹھکانے رہتی ۔جب یہ بزرگ اکرام حفیظ واپس اپنے گاؤں جانے لگے تو انہوں نے بندروں کو ایک نشانی دی جو کہ زمین پر ایک دائرے کی شکل میں تھی ،اس دائرے پر جب سورج کی کرنیں پڑتی تو وقت کا آسانی سے پتہ چل جاتا تھا۔ بندر، بزرگ علامہ اکرام صاحب سے یہ تحفہ پاکر بہت خوش ہوئے اور جب بزرگ جانے لگے تو بندروں نے بزرگ کو تحفے میں ایک بندر دیا تاکہ ان کا سفر آسانی سے کٹ جائے اور گپ شپ کرتے ہوئے جائیں ۔یہ بندر بہت شرارتی تھا۔بزرگ بہت خوش ہوئے چلو سفر کے لئے ایک اچھا دوست مل گیا یہ میری سنتا جائے گا اور میرا سفر پر سکون گزرے گا۔بزرگ اکرام حفیظ کے جنگل میں سے چلے جانے کے بعد بندروں نے بزرگ کی نشانی کی حفاظت کے لئے اس گھڑی کو مٹی سے ڈھانپ دیا تاکہ یہ کبھی خراب نہ ہو ۔بزرگ شرارتی بندر کو لے کر اپنے گاؤں سات فتح میں آگئے۔گاؤں کے لوگ علامہ صاحب کے ساتھ بندر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔بزرگ کے دو چیلوں نے جو کہ مظہر اور احمد تھے جو بزرگ کی بہت خدمت کرتے تھے نے بزرگ اور بندر کی پر تکلف دعوت کی ۔مظہر نے بندر کی شاندار رہائش کا انتظام کیا ۔دوسرے دن بزرگ علامہ اکرام کے دوست بزرگ عبدالسلام ان کے گھر تشریف لائے اُن کو بھی خبر ہو گئی کہ علامہ صاحب کی واپسی ہوگئی ہے بمعہ ایک بندر کے ،عبدالسلام ،بندر سے مل کر بے حد خوش ہوئے اور علامہ اکرام صاحب کے اس دوست کو بہت سراہا کہ اکرام صاحب اب آپ کا دل لگا رہے گا اس جانور کے ساتھ ۔عبدالسلام نے اپنے گاؤں آنے کی بھی دعوت دی اور کہا کہ مولانا صاحب میں اپنی گاڑی پہ آپ دونوں کو کل لے جاؤں گا ۔بندر بہت خوش تھا مظہر اور احمد دونوں اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے اور کھیلتے رہتے کچھ عرصے بعد بزرگ اکرام صاحب کا انتقال ہو گیا تو بندر کی ذمہ داری مظہر نے سنبھال لی اور اس کی بہت سیوا کرتا اپنے کاندھے پہ بیٹھا کر ساتھ والے گاؤں سولہ مراد لے جاتا اور شام کو واپس آجاتا۔اس شرارتی بندر کے بہت مزے ہو گئے وہ سارا دن گاؤں میں سیر کرتا اور شام کو آکر مظہر کے ساتھ سوجاتا اتنا پیار اور توجہ پاکر بندر بہت شرارتی ہوتا گیا ۔دن بدن گاؤں میں ایک بزرگ خاتون بی، جمالو بھی رہتی تھیں جو کہ بہت ہی کنجوس تھی ۔ایک روز بندر آپابی جمالو کے گھر گیا اور آپا سے بولا:”آپ کو کھیر بنانا آتی ہے؟“آپا بولیں:”ہاں آتی ہے“بندر بولا:”ہم سے اچھی کھیر کوئی نہیں بنا سکتا کیونکہ جنگل میں ہم سب بندر مل کر کھیر بناتے ہیں اور کھیر کھلے میدان میں رکھ دیتے ہیں ،کھیر میں تازہ ہوا شا مل ہونے سے اس کا ذائقہ بہت اچھا ہو جاتاہے“۔آپا آپ بھی کبھی ہمارا طریقہ آزما کر دیکھیں ۔جب کھیر بنائیں تو کچن کی کھڑکی اور دروازے کھلے رکھنا پھر دیکھنا کھیر بہت مزیدار بنے گی“دوسرے دن آپانے ایسا ہی کیا جب کھیر بنائی تو کھڑکی اور دروازے کھلے رکھے۔کھیر بناتے بناتے آپا کافی تھک گئیں اور ذرا کمر سیدھی کرنے کیلئے لیٹ گئیں ۔آپا بی جمالو کی کب آنکھ لگ گئی پتہ ہی نہ چلا۔بندر چپکے سے آیا جی بھر کر کھیر کھائی اور باقی اپنے دوست مظہر کیلئے لے گیا۔جب آپا کی آنکھ کھلی تو ساری کھیر غائب ،آپانے باہر نکل کر شور مچا دیا اس کا شور سن کر آس پاس کے کافی لوگ اکٹھے ہو گئے اور پنچایت بیٹھا دی کہ چور کو پکڑیں ۔سب لوگ گاؤں کے دو معتبر بزرگ سید اشفاق شاہ اور سید تبسم شاہ کے سامنے آکر بیٹھ گئے ۔بندر بھی وہاں ایک چار پائی پہ اپنے استاد مظہر کے ساتھ بیٹھ گیا اور اخبار پڑھنے لگا سب لوگوں نے اپنا شک بندر پہ ظاہر کیا ۔بندر بولا:آپ لوگوں کو شرم آنی چاہئے ایک شریف بندر پہ الزام لگا رہے ہو ۔ہمارے جنگل میں تو ایسے نہیں ہوتا اور آپ لوگوں کے پاس کیا ثبوت ہے کہ کھیر میں نے کھائی ہے اور ساتھ ہی مظہر کے کان میں کہا اُستاد آپ نے اب سارا معاملہ سنبھالنا ہے ورنہ آپ کا بھانڈا بھی پھوٹ جائے گا۔ گاؤں کے بزرگ سید تبسم شاہ نے کہا:”ہاں ہاں بھئی لوگو!بولوتمہارے پاس کوئی ثبوت ہے ؟تم میں سے کسی نے بندر کو کھیر کھاتے ہوئے دیکھا ہے؟“سب لوگ خاموش ہو گئے اور ایک ایک کرکے چلے گئے ۔بندر بڑے مزے سے ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھ کر بیٹھا بزرگ کا حقہ پینے لگا اور بزرگ تبسم شاہ سے بو لا:”آپ کبھی ہمای طرف تشریف لائیں میں اور استاد جی آپ کو گڑ اور سونف والا دودھ پلائیں گے اور عمدہ قسم کا حقہ بھی پلائیں گے ۔سید اشفاق شاہ نے تو معذرت کر لی لیکن سید تبسم شاہ نے پکا وعدہ کر لیا کہ میں ضرور آؤں گا۔ سید تبسم شاہ بندر کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئے اور کہا:”تم فکر مت کرو اور آزادی سے اس گاؤں میں رہو ،یہاں کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔مظہر اور احمد نے بھی بندر کو تسلی دی اب بندر کے تو مزے لگ گئے اس نے تو لوگوں کا جینا محال کر دیا ایک روز تو وہ گاؤں کے بزرگ سید اشفاق شاہ کا نیا کرتا لے کر بھاگ گیا ۔بزرگ عبدالسلام پوسٹ مین کے بکس میں سے سارے لفافے پھاڑ ڈالے۔ عبدالسلام پوسٹ مین بہت غصے میں آگیا تو اس نے بندر کے استاد مظہر سے شکایت کی اور کہا:”بزرگ اکرام صاحب تو دنیا سے چلے گئے پیچھے گاؤں والوں کے لئے کیا سیاپا چھوڑ گئے ہیں ۔سب لوگ پریشان تھے کہ اس شرارتی بندر کاکیاکیا جائے ۔احمد رحمانی نے مشورہ دیا کہ بندر کی شادی کر دی جائے سب نے اس سے اتفاق کیا اور بندر کوالٹی میٹم دیا گیا کہ اگر ہمارے گاؤں میں رہنا ہے تو شادی کرنی ہو گی ،نہیں تو دوسری صورت میں تم ہمارا گاؤں چھوڑ دو ہمیں یہاں شرارتی بندر نہیں چاہئے ۔اب بندر تو بہت پریشان ہو گیا بندر کو ایک ترکیب سوجھی وہ آپا بی جمالو کے پاس آیا س وقت آپا کسی دعوت میں جانے کی تیار کررہی تھی ،بناؤ سنگھار کر رہی تھی ،ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں پاؤں میں چاندی کی پازیب ،کان میں سونے کا جھمکا پہن رہی تھی بندر بولا:”آپا :آپ کے پاس اتنے گہنے ہیں پلیز مجھے کچھ گہنے دیدو میں جنگل جاکر اپنے لئے دلہن لے آؤں گا پھر کسی کو تنگ نہیں کرونگا ۔آپا پہلے سوچ میں پڑ گئی اور پھر اس کو اس پر ترس آگیا اور کچھ گہنے دے دیئے ۔دوسرے دن بندر استاد مظہر اور احمد رحمانی کے ساتھ جاکر جنگل سے چاند سی دلہن لے آیا،گاؤں والے بہت خوش ہوئے کہ اب بندر کی عقل ٹھکانے آجائے گی اور شرارتیں نہیں کریگا کچھ عرصہ سکون سے گزر گیا اور بندر میاں اپنی بیوی کے ساتھ دعوتیں اڑاتے رہے ۔ڈاکیا عبدالسلام بھی خوش ہو گیا کہ اب بندر کو اپنی پڑ جائے گی اور یہ کسی کو تنگ نہیں کرے گا ۔کچھ سال جوں توں گزر گئے لیکن جب بندر کے یہاں چار بچے ہو گئے تو گاؤں سا ت فتح کے لوگ اور بھی پریشان ہو گئے اب بندر اپنی پوری فیملی سمیت لوگوں کانا ک میں دم کیے ہوئے تھی ایک بچہ سکول کی چھت پر اچھل رہا تو دوسرا دودھ والے کے سائیکل لے کر بھاگ رہا ،تیسرا مولوی صاحب کی چھڑی لے کر درخت پر لٹک رہا اور جو سب سے چھوٹا اس نے آپا اور ڈاکیا عبدالسلام کا جینا محال کیا ہوا سب لوگ کہتے کاش مولانا اکرام ہوتے تو وہی اس شرارتی بندر کو جہاں سے لائے تھے چھوڑ کر آتے ۔آخر سید تبسم شاہ اور عبدالسلام نے لوگوں کی رائے سے فیصلہ کیا کہ بندر اور اس کی فیملی کو گاؤں سے جوتے مار مار کر نکال دیا جائے پھر بندر اپنی فیملی کو لے کر گاؤں سولہ مراد جو کہ پاس ہی تھا ،چلا گیا وہاں استاد مظہر کا دوست عدید سرور رہتا تھا وہ اس کے پاس آگئے ۔عدید سرور نے ان کو ایک الگ کمرہ دے دیا اور کہا کہ آرام سے رہو ورنہ میرے دادا مجید صاحب نے تم کو ڈنڈے مار مار کر یہاں سے بھگا دینا ہے میں نے صرف اپنے دوست مظہر کی دوستی میں تم کو یہاں رکھا ہے ہماری زمینوں پر بہت سارے امرود، کیلے اور بیر کے درخت ہیں وہاں چلے جایا کرنا مزے سے سب پھل کھانا اور مجھے بھی اوپر سے اتار کر دیا کرنا۔عدید اور بندر روز باغ کی طرف نکل جاتے اور پھل کھاتے کچھ عرصہ ٹھیک رہا پھر بندر نے اپنی اصلیت دکھانی شروع کر دی یہاں کے لوگ بہت سخت مزاج تھے ایک دن بندر کے بچے نے گاؤں کے بزرگ صدام کی عینک توڑ دی اور خوشی کجلے کی پگ کھینچ کر نیچے گرادی ۔خوشی کجلے نے غصے سے بندر کو پتھر مارا اور عدید کے پاس شکایت لے کر آیا۔ یہاں کے گاؤں میں ایک شکاری کتی سوزی بھی ان کے ساتھ مل گئی لوگو ں نے بندر اور سوزی کی ٹانگیں توڑ دیں ۔عدید نے بندر اور اس کی فیملی کو دوبارہ گاؤں سات فتح میں بھیج دیا ۔گاؤں والاں نے جب بندر کی یہ حالت دیکھی اس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی اور دم بھی کٹی ہوئی اس کے بچوں کی بھی حالت بہت خراب تھی لوگوں کو ان پر بہت ترس آیا انہوں نے بندر کو واپس گاؤں میں رکھ لیا بندر نے سب گاؤں والوں سے معافی مانگی اور آئندہ شرارتوں سے تو بہ کرلی ۔بندر اس کے بچوں کو آپا بی جمالو نے اپنے گھر رکھ لیا اور انہوں نے کان پکڑ لیے کہ آئندہ ہم میں سے کوئی بھی شرارت نہیں کرے گا۔ ہم دوسرے گاؤں سولہ مراد سے بہت کچھ سیکھ کر آئے ہیں با ہم باقی کی زندگی امن اور سکون سے گزاریں گے۔ " دھوکہ - تحریر نمبر 1711,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dhooka-1711.html,"آمنہ ماہمایک عقاب اور ایک الو میں دوستی ہو گئی ۔عقاب بولا ”بھائی الواب تمہارے بچوں کو کبھی نہیں کھاؤں گا۔ مگر یہ تو بتاؤ کہ ان کی پہچان کیا ہے۔؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی دوسرے پرندے کے بچوں کے دھوکے میں ہی کھا جاؤں ۔“الو نے جواب دیا۔“بھلا یہ بھی کوئی مشکل بات ہے ۔میرے بچے سب پرندوں کے بچوں سے زیادہ خوبصورت ہیں ۔ان کے چمکیلے پر دیکھ کر تم ایک ہی نظر میں پہچان جاؤ گے اور۔۔۔“عقاب نے الو کی بات کاٹ کر کہا”بس بس میں سمجھ گیا ۔اب ،اب میں کبھی دھوکا نہیں کھا سکتا۔ مگر بھائی ہر بات کو پہلے ہی پوچھ لینا اچھا ہے ۔پھر پچھتانے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ اچھا پھر ملیں گے ۔اللہ حافظ۔“یہ کہہ کر عقاب اڑ گیا۔دوسرے دن عقاب شکار کی تلاش میں ادھر ادھر اڑ رہا تھا کہ اسے ایک اونچے درخت کی شاخ پر کسی پرندے کا گھونسلا نظر آیا۔(جاری ہے)گھونسلے کے اندر چار پانچ کالے کلوٹے بد شکل بچے موٹی اور بھدی آواز میں چوں چوں کررہے تھے ۔عقاب نے سوچا یہ بچے میرے دوست الو کے ہر گز نہیں ہو سکتے ۔کیوں کہ نہ تو یہ خوبصورت ہیں اور نہ ان کی آواز میٹھی اور سریلی ہے ۔یہ سوچ کر عقاب نے ان بچوں کوکھانا شروع کر دیا۔ وہ سب بچوں کو کھا چکا تو الو اڑتا ہوا آیا اور شور مچا کر کہا۔”ارے تم نے یہ کیا کیا ؟یہ تو میرے بچے تھے ۔“عقاب گھبرا کر اڑ گیا ۔ایک چمگاڈر نے جو پاس ہی اڑ رہی تھی ،الو سے کہا”اس میں عقاب کا کوئی قصور نہیں ۔ساری غلطی تمہاری ہے جوکوئی کسی کو دھوکا دے کر اپنی اصلیت چھپانے کی کوشش کرتا ہے اس کا یہی انجام ہوتاہے۔ " مغرور نوریہ کا خواب - تحریر نمبر 1709,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maghroor-noriya-ka-khawab-1709.html,"سیدہ عطرت بتول نقویوہ ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی ۔اکلوتی ہونے کی وجہ سے اسے اپنے امی، ابو کا بہت زیادہ لاڈوپیار ملا ،وہ اس کی ہر فرمائش پوری کرتے تھے شاید اسی وجہ سے نوریہ کچھ مغرور ہو گئی تھی اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی اس کے گھر میں ایک پرانی بوڑھی خادمہ موجود تھی جس نے نوریہ کو گودوں میں کھیلایا تھا نوریہ اکثر اس سے بد تمیزی کرتی تھی حالانکہ اس کی امی اسے سمجھاتی تھیں کہ یہ ہماری بہت پرانی ملازمہ ہے اور بہت اچھی خاتون ہے تمہیں اس کا ادب کرنا چاہیے لیکن نوریہ بھلا کہاں سنتی تھی ۔ان کے سامنے اماں بی یعنی ملازمہ کی بے عزتی کرتی تھی کہ تم نے میرے کپڑے اچھی طرح سے استری نہیں کیے انہیں دوبارہ استری کرکے لاؤ، میرے شوز اچھی طرح سے پالش کرو۔(جاری ہے)ایک دفعہ نوریہ کی سہیلیاں آئی ہوئی تھیں ۔بی اماں ٹرے میں شربت کے گلاس رکھ کر لائی نوریہ کو کلاس پر کچھ لگا ہوا محسوس ہوا اس نے بی اماں سے ٹرے پکڑ کر زور سے دیوار میں دے ماری سارے گلاس ٹوٹ گئے شربت بہہ گیا اس نے بڑی بد تمیزی سے بی اماں سے کہا آپ کو کچھ نظر نہیں آتا۔گلاس اچھی طرح سے نہیں دھوئے ،دوبارہ جا کر اچھی طرح سے شربت بناؤ، بی اماں نے گلاسوں کی کرچیاں اٹھا کر فرش صاف کیا اور آنکھوں میں آنسو لیے کچن کی طرف چلی گئیں ۔اسی رات نوریہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک ملازمہ کے روپ میں ہے اور کسی کے گھر کاکام کررہی ہے اور جو گھر کی مالکن ہے اس نے بہت قیمتی کپڑے پہنے ہوئے ہیں وہ صوفے پر بیٹھی ہے اور جب نوریہ اس کے لئے چائے لے کر جاتی ہے تو اسے محسوس ہوتاہے یہ مالکن اصل میں بی اماں ہے اور وہ غصے سے چائے کا کپ دیوار پر دے مارتی ہے اور کہتی ہے دوبارہ بنا کر لاؤ بس اسی وقت نوریہ کی آنکھ کھل جاتی ہے اسے محسوس ہوتاہے اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں ۔نوریہ پر اس خواب کا بہت اثر ہوتاہے اسے احساس ہوا کہ اگر وہ بی اماں کی جگہ ہوتو یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے ۔یہ سوچ کر اپنا رویہ درست کر لیتی ہے ان سے معافی بھی مانگ لیتی ہے سچ ہے کہ انسان جب تکلیف میں مبتلا شخص کی جگہ اپنے آپ کو لا کر دیکھے تو پھر اپنی غلطیوں کا احساس ہوتاہے اب نوریہ بہت اچھی بچی بن گئی کسی کو تنگ نہیں کرتی ۔ " علامہ اقبال اور بچے - تحریر نمبر 1708,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/allama-iqbal-or-bache-1708.html,"سید انوار احمدلپ پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میریزندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری!پیارے بچو!یقینا آپ ہر روز صبح سویرے سکول میں اسمبلی کے دوران بڑے پر جوش انداز میں یہ دعا پڑھتے ہوں گے ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ خوبصورت دعا کس نے لکھی ہے ؟ہو سکتاہے کچھ بچوں کو معلوم ہو اور کچھ کو نہیں بہر حال ہم بتائے دیتے ہیں ،یہ خوبصورت دعا ہمارے قومی شاعر، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے آج سے تقریباًایک صدی قبل آپ جیسے پیارے پیارے بچوں کے لئے لکھی تھی۔اس کے علاوہ انہوں نے بڑے لوگوں کے لئے بھی بے شمار نظمیں لکھی ہیں ۔ان نظموں کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کا احساس دلایا اور انہیں سمجھایا کہ مسلسل محنت ،ثابت قدمی اور پختہ یقین سے ہر چیز حاصل کی جا سکتی ہے۔(جاری ہے)علامہ اقبال 9نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔آپ بچپن ہی سے نہایت ذہین اور اسلامی ذہن کے حامل تھے ۔آپ کو قرآن پاک کی تلاوت کا بڑا شوق تھا ۔صبح سویرے بلا ناغہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے ۔ان کی زندگی کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح اور ان میں جذبہ آزادی کو بیدار کرنا تھا۔علامہ اقبال کو بچوں سے بڑی محبت تھی ۔وہ جانتے تھے کہ آج کے بچے کل کے معمار ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ان کی بہتر انداز میں تربیت کی جائے اور انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے ۔علامہ اقبال نے بچوں میں اچھی اچھی عادتیں پیدا کرنے اور ان کی بہتر تربیت کے لئے نہایت دلچسپ ،آسان اور سبق آموز نظمیں لکھیں۔جن میں بچے کی دعا ،ہمدردی ،مکڑا اور مکھی ،پہاڑ اور گلہری ،گائے اور بکری،پرندے کی فریاد،بچہ اور جگنو وغیرہ شامل ہیں ۔یہ تمام نظمیں ان کے پہلے مجموعہ کلام بانگ درا میں شامل ہیں ۔ان نظموں میں بچوں کے لئے خاص نصیحت ہے۔ " دنیا کے چند ذہین ترین جانور - تحریر نمبر 1707,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dunya-k-chaand-zaheen-tareen-janwar-1707.html,"ماہین بلوچپیارے ساتھیو!ذہانت کسی کی میراث نہیں ہوتی یہ محاورہ عام طور پر انسانوں کے لئے بولا جاتاہے ،تاہم ایسے جانور بھی موجود ہیں جو کسی سے کم نہیں ۔ایسے ہی کچھ ذہین جانوروں کے بارے میں ہم آپ کو بتارہے ہیں۔گرے پیرٹدنیا میں سب سے ذہین جانور دراصل ایک پرندہ ہے ،جسے انگریزی میں گرے پیرٹ اور اردو میں خاکستری طوطا کہا جاتاہے ۔اس نسل کے طوطے انتہائی ذہین اور وفا دار ہوتے ہیں ،خصوصاً ایک طوطا ایلکس تو 50مختلف اشیاء میں تمیز کرنے کی صلاحیت اور منطقی طور پر ان کی شناخت بھی کراسکتاہے۔ہاتھیاس کے بعد ہاتھی کا نام آتاہے جو بہت ذہین اور جذباتی جانور ہے ۔وہ اپنے مردہ رشتے داروں کو پہچاننے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کے پاس سے اس وقت تک نہیں ہٹتے جب تک وہ گلنے نہ لگے۔(جاری ہے)چیمپئنزیچیمپئنزی ،جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،حال ہی میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وہ مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں۔انسان کا وفا دار کتااس کے بعد کتے ہیں ،جنھیں انسانوں کا بہترین دوست سمجھا جاتاہے ۔یہ بھی انتہائی ذہین جاندار ہے جو 300الفاظ اپنے ذہن میں محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتاہے۔کوےچھٹے نمبر پر عقلمند کوے ہیں جو جانتے ہیں کہ کس طرح سوچنا ہے ،سیکھنا ہے اور احساس کرنا ہے ۔یہ بہت منتقم مزاج اور اپنے دشمنوں کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں۔چیونٹیچیونٹی بھی کسی سے بھی پیچھے نہیں ،یہ ننھی سی مخلوق انتہائی ہوشیار ہوتی ہے ،بڑے گروپوں میں جمع ہو کر یہ چھوٹی آبادیوں والی چیونٹیوں کو غلام بنا لیتی ہیں ۔ان کو معلوم ہوتاہے کہ سورج کس وقت کہاں ہو گا۔ڈولفنآخری نمبر پر انسان دوست ڈولفنز ہیں ،یہ آئینے میں خود کو دیکھ کر پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہیں ،انہیں اپنی ماں،گروپ لیڈر اور رشتے داروں کی پہچان بھی ہوتی ہے۔ " گھنے جنگل سے گریٹر اقبال پارک تک - تحریر نمبر 1706,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghanne-jangal-se-greater-iqbal-park-tak-1706.html,"راحیلہ مغلپیارے بچو!آئیے آپ کو گریٹر اقبال پارک کی کہانی سناتے ہیں۔ پرانے وقتوں کی بات ہے دریائے راوی بادشاہی مسجد اور قلعہ اکبری کی شمالی دیواروں کے قریب سے گزرا کرتا تھا ۔کئی صدیاں اس جگہ بہنے کے بعد دریا آہستہ آہستہ اپنا رُخ تبدیل کرتا ہوا اپنی موجودہ گزرگاہ تک جا پہنچا۔ گویا جس جگہ راوی کی لہریں کبھی ٹھاٹھیں مارا کرتی تھیں وہاں ایک وسیع وعریض میدان وجود میں آگیا ۔وقت کے ساتھ ساتھ یہاں ایک خطر ناک گھنا جنگل اُگ آیا۔شالا مار باغ سے بادامی باغ تک پھیلا ہوا یہ جنگل اس وقت گنجان تھا کہ یہاں دن کے وقت بھی کوئی شخص گزرتے ہوئے خوف محسوس کرتا تھا ۔سکھوں کا دور آتے آتے یہ جنگل ڈاکوؤں اور لٹیروں کی پناہ گاہ بن گیا تھا ۔انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا تو انہوں نے اپنی حفاظت کے پیش نظر اس جنگل کو صاف کر دیا تاکہ انگریز مخالف گر وہ یا دیگر سماج دشمن عناصر یہاں چھپ کر کارروائیاں نہ کر سکیں ۔(جاری ہے)جنگل کٹنے کے بعد یہاں چٹیل میدان وجود میں آگیا جسے انگریزوں نے پلٹن میدان کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا جہاں انگریز فوج کی پریڈ وغیرہ ہوا کرتی تھی ۔علاوہ ازیں گھڑ دوڑ اور نیزہ بازی کے مقابلے بھی اس میدان میں منعقد کرائے جاتے تھے ۔شام کے وقت اندرون شہر کے لوگ میدان میں چہل قدمی اور سیر کے لئے آیا کرتے تھے ۔1930ء کے لگ بھگ میدان میں آم اور دوسرے پھلوں کے درخت لگوائے گئے ۔علاوہ ازیں میدان کو گھاس اور پودوں سے بھی آراستہ کیا گیا ۔اس طرح یہاں جو باغ وجود میں آیا اُسے اس وقت کے گورنر جنرل ہند (وائسرائے) لارڈ منٹو کی نسبت سے منٹو پارک کا نادم دے دیا گیا۔ یہ نام قیام پاکستان تک مشہور رہا اور اب تک یہ نام ذہنوں میں محفوظ ہے ۔جس زمانے میں لاہور شہر صرف قلعہ اور اس کے گردو نواح تک محدود تھا اس وقت منٹو پارک بڑی اہمیت کا حامل تھا۔شہر کے قریب ترین ہونے کی وجہ سے منٹو پارک عوام میں بے پناہ مقبول تھا۔ اس وقت تک لاہور کے دوسرے پارک اور باغات صرف انگریز حکمرانوں اور امراء کے لئے مخصوص تھے اسی لئے منٹو پارک کی اہمیت زیادہ ہو گئی تھی ۔عام شہریوں کی تفریح وعوامی تقریبات کے لئے منٹو پارک کو خصوصی اہمیت حاصل تھی ۔اس لئے یہ مقام اپنے اندر کئی یاد گار داستانیں سمیٹے ہوئے ہے ۔پتہ چلتا ہے کہ شروع ہی سے یہ پارک ادبی محافل ،بڑے پہلوانی دنگلوں اور سیاسی اجتماعات کا مرکز رہا ۔بسنت پر یہاں پتنگ بازی کے مقابلے ہوئے جن میں ہر مذہب کے لوگ ذوق وشوق سے حصہ لیتے تھے ۔منٹو پارک میں فٹ بال، ہاکی، کبڈی ،کُشتی اور کرکٹ کے مقابلے ہوا کرتے ۔پارک کا مغربی حصہ مختلف کھیلوں اور ادبی محافل کے لئے مخصوص تھا۔آل انڈیا مسلم لیگ کا 27ویں اجلاس 22،23اور 24مارچ1940کو اسی منٹو پارک میں منعقد ہوا۔ 23مارچ کو یہاں پاکستان کے قیام کی تاریخی قرار داد پیش کی گئی جسے 24مارچ کو منظوری دے کر تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ۔اور بعد ازاں اسی جگہ پر مینار پاکستان تعمیر کیا گیا ۔اب اس کا نام گریٹر اقبال پارک ہے۔ " بچے گھروں میں رہ کر کیا کریں - تحریر نمبر 1705,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bache-gharoon-main-reh-kar-kiya-kareen-1705.html,"راحیلہ مغلپیارے بچو!کرونا وائرس اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اب دنیا کا کوئی بھی ملک نہیں جو اس وباء سے محفوظ ہو ۔پاکستان سمیت کئی ممالک میں لاک ڈاؤن ہو چکا ہے ۔ملک میں اسکولز کو بند ہوئے دو ہفتے سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے ۔وہ بچے جو تقریباً سارا دن ہی گھر سے باہر گزارتے تھے اب سارا دن گھر میں رہتے ہیں ۔شروع شروع میں تو بچے بہت خوش تھے کہ سکول سے چھٹیاں ہو گئیں ہیں اب گھر پر رہ کر آرام کریں گے لیکن اب اس آرام سے وہ بور ہو چکے کیونکہ پہلے تو چھٹیاں ہوتی تھیں تو بچے نانی ماں کے گھروں میں جاتے تھے پارکوں میں سیر کرتے تھے یا بازار سے چیزیں لا کر کھاتے تھے لیکن ان حالت میں وہ نہ تو کسی کے گھر جا سکتے ہیں نہ ہی پارکس میں جا سکتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ بچے گھر پر رہ کر کیا کریں؟آج ہم اپنے اس آرٹیکل میں بچوں کو یہی بتائیں گے کہ گھر پر رہ کر اپنے آپ کو کس طرح مصروف رکھیں کہ وہ بورنہ ہو سکیں۔(جاری ہے)پیارے بچو!یہ تو آپ سب جانتے ہیں کہ آپ کو وباء سے محفوظ رکھنے کے لئے چھٹیاں دی گئی ہیں ۔اس لئے کہ گھر پر رہ کر آپ زیادہ محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ہماری رائے یہ ہے کہ گھر میں رہتے ہوئے ہر وقت مو بائل ہی استعمال نہ کرتے رہیں بلکہ پورے دن کی مصروفیات کے لئے ٹائم ٹیبل بنالیں اور اس کے مطابق اپنا دن گزاریں تاکہ آپ بوریت سے بچ سکیں ۔صبح ناشتے کے بعد ٹی وی پر کارٹون یا کوئی پروگرام دیکھیں ۔پھر اپنے والد یا والدہ کے ساتھ کوئی گیم کھیلیں ۔اپنے والدین سے کہہ کر ان ڈور گیمز منگوائیں ،لڈو کھیلیں ،کیرم بورڈ کھیلیں ،یا کرکٹ کھیل لیں ۔اس کے بعد لنچ کریں ،چھوٹے بچے اگر سونا چاہیں تو سوجائیں لیکن بڑے بچے اس وقت کو سنہرا سمجھتے ہوئے اپنے اُن مضامین کی تیاری کریں جن میں وہ کمزور ہیں ، اس کے بعد رات کا کھانا کھائیں اور کوئی بھی اچھی سی کہانیوں والی کتابیں پڑھیں ،جن بچوں کے گھروں میں کہانیوں والی کتابیں نہیں ہیں وہ اپنے والدین سے کہہ کر کتابیں منگوائیں اور اس وقت کو اچھے طریقے سے اپنے مصروف میں لائیں ۔اس کے علاوہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے متعلق جو ہدایات اور معلومات آپ تک پہنچ رہی ہیں ان پر عمل کریں ،جو احتیاطی تدابیر اور ہدایات حکومتی سطح اور ڈبلیو ایچ او کی طرف سے جاری کردہ ہیں ان کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔ ڈریں نہیں بس اتنا سمجھ لیں کہ وباء ایک خاص وقت کے لئے آتی اور خود ہی ختم ہو جاتی ہے ۔اس لئے اس سے ڈرنا نہیں بلکہ احتیاط کرنی ہے ۔اس کے علاوہ جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں ۔اللہ تعالیٰ ہی تمام جہانوں کے مالک ہیں۔ انہی کے حکم سے سب ہوتاہے ۔تقدیر کی اچھائی برائی اللہ کے حکم سے ہے ۔ہمیں اب اللہ کو راضی کرنے والے کام کرنے ہیں ۔اپنے بڑوں کے ساتھ ملکر نماز پڑھیں جن بچوں کو نماز آتی ہے وہ کوشش کریں کہ پانچ وقت کی نماز ادا کریں ۔وضو کی عادت ڈالیں کیونکہ اس طرح وضو بھی ہو جاتاہے اور کرونا وائرس کی احتیاطی تدابیر پر عمل بھی ہو جاتاہے ۔صبح وشام کی حفاظتی دعائیں بھی پڑھیں۔وہ بچے جو سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں وہ سوشل میڈیا اور خبریں دن میں صرف ایک بار دیکھیں ،کیونکہ بار بار سننے سے صرف دل خراب ہو گا اور پریشانی بڑھے گی ۔سوشل میڈیا پر بہت ساری نیوز FAKEیا جعلی ہوتی ہیں ۔جو بچیاں ہیں وہ اپنے گھروں میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹائیں کچن کے کاموں اور گھر کی صفائی میں اپنی والدہ کی مدد کریں آپ دیکھیں کہ دن ایسے گزر جائے گا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ " اعتماد - تحریر نمبر 1704,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aitmad-1704.html,"صائم جمالایک دن بہار کے شروع میں ایک شخص ندی کے پانی میں اور کھیت میں سونا تلاش کر رہا تھا۔ گھنے جنگل کے قریب اس نے شیر کی گرج سنی۔ اس نے بہت احتیاط سے اردگرد دیکھا ۔گرج کی آواز دوبارہ آئی ۔سمت کا تعین کرتے ہوئے جہاں سے آواز آئی تھی اس نے بیس قدم کے فاصلے پر ایک بڑے شیر کو دیکھا جہاں وہ کھڑا تھا۔آدمی شکاری نہ تھا اور نہ ہی اس کا ارادہ درندے کو مارنے کا تھا اگر وہ اس پر حملہ نہ کرے، اس نے جنگل میں کافی سال گزارے تھے اور وہ جانتا تھا کہ شیر خونخواردرندہ ہوتاہے وہ اس خطر ناک صورتحال سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا ۔شیر اس کی طرف بڑھا تب اس نے دھیمی آواز میں کراہنا شروع کر دیا۔ آدمی نے دیکھا شیر کا پچھلا پنجہ ایک پھندے میں پھنسا ہوا تھا۔(جاری ہے)آدمی نے پھندے میں پھنسے درندے کی جانب بڑھنا شروع کر دیا جو کہ آدمی کے قریب آنے پر ڈرا ہوا دکھائی دے رہا تھا اور جلدی سے وہ اتنا پیچھے ہٹ گیا جتنی کہ پھندے کی زنجیر نے اسے جانے دیا۔ آدمی نے دیکھا کہ یہ شیرنی تھی اس کے تھنوں میں دودھ بھرا ہوا تھا اس کی جسمانی حالت اچھی تھی اس بات کا قوی امکان تھا کہ اسے پھنسے ہوئے ابھی دو ہی دن ہوئے ہونگے۔آدمی وہاں حیرانی میں کھڑا کافی دیر یہ سوچتا رہا کہ کیا کرے ۔اس نے واپس مڑنے کی حرکت کی تب اسے بھوکی شیرنی کے بچوں کا خیال آیا جو اپنی ماں کا انتظار کر رہے تھے۔ بچوں اور ان کی ماں کے لئے ضرور کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے وہ سوچنے لگا۔اس نے شیرنی کے بچوں کو تلاش کرنا شروع کر دیا وہ اسے قریبی چٹانوں کے غار میں مل گئے وہ یقینا بھوکے تھے،بھوک نے بچوں کو اجنبی مخلوق سے ڈرنا بھلا دیا اس نے ایک ایک کرکے بچے کپڑے کے تھیلے میں ڈالے اور انہیں ان کی ماں کے پاس لے آیا جو کہ پھندے میں گرفتار تھی ۔بچے جلدی سے اپنی ماں کے پاس چلے گئے ۔آدمی ایک محفوظ جگہ پر کھڑا ہو کر خاندان کے دوبارہ ملاپ کو دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ ان کی طرف بڑھنے لگا لیکن ایک غصے بھرے گرج نے اسے وہیں روک دیا۔ماں نے اس کو بچوں کے قریب آنے کی اجازت نہ دی ۔آدمی ایک قریبی درخت کے پاس گیا اور اس کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا میں اس وحشی درندے کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے کیا کروں؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا ۔وہ وہاں کافی دیر بیٹھا رہا اور پھنسے ہوئے درندے کی مدد کرنے کا طریقہ سوچتا رہا۔ تب وہ کھڑا ہوا اور تقریباً بھاگتا ہوا اپنے عارضی لکڑی کے بنے ہوئے کمرے میں گیا تھوڑی دیر بعد وہ ہاتھ میں گوشت کا ٹکڑا لیے واپس آگیا۔اس نے گوشت کا ٹکڑا شیرنی کی طرف پھینکا۔شیرنی نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد کھانے کا تحفہ قبول کیا اور اسے کھالیا۔چاروں بچے جن کی بھوک مٹ چکی تھی آدمی کے پاس آئے اور اس کے پاس دوڑنے ،اُچھلنے ،کودنے لگے ۔ایسا معلوم ہوتا تھا انہیں آدمی پہ پورا اعتماد ہو گیا ہے ۔اگلے چند روز تک آدمی شیرنی کو دن میں دو مرتبہ خوراک دیتا رہا، ہر مرتبہ جب وہ گوشت کا ٹکڑا دیتا وہ بچوں اور ان کی ماں کے اور زیادہ قریب چلا جاتا۔ پانچویں دن جب شیرنی گوشت کا ٹکڑا کھا رہی تھی آدمی اس کے قریب آکر بیٹھ گیا درحقیقت وہ شیرنی کے اس قدر قریب آچکا تھا کہ وہ اس پر حملہ بھی کر سکتی تھی اگر وہ ایسا چاہتی وہ وہاں کافی دیر بیٹھا بچوں کو تھپکی دیتا رہا۔شیرنی ساکن کھڑی تھی اور اپنی نگاہیں بھی اس سے نہیں ہٹا رہی تھی تب آہستہ بہت آہستہ آدمی نے اپنے ہاتھ کو حرکت دی اور اس کی پھنسی ہوئی ٹانگ پر ہاتھ رکھ دیا اور تب وہ تھوڑی سی پیچھے ہٹ گئی لیکن اس پر حملہ کرنے کی کوشش نہیں کی ۔آدمی اور قریب ہو گیا اور اس پنجے کو دیکھا جو اصل میں پھندے میں پھنسا ہوا تھا اور سوجا ہوا تھا وہ جانتا تھا اگر یہ پھندے سے آزاد ہو گئی تو جلد ٹھیک ہو جائے گی ۔اس نے اپنا ہاتھ پھندے پر رکھ کر اس پر دباؤ ڈالا وہ کھل کر اچھلا اور شیرنی پھندے سے آزاد ہو گئی وہ اس کے پاس چل کر آئی اس کے ہاتھوں کو سونگھا جنگل میں جانے سے پہلے شیرنی رکی ،واپس مڑی اور آدمی کی طرف دیکھا ،وہ اسے الوداع کہہ رہی تھی۔ " انوکھا کارنامہ - تحریر نمبر 1703,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/anokha-karnama-1703.html,"اطہر اپنے امی ابّا کے ساتھ سکھر میں رہتا تھا۔ووہ بارہ سال کا تھا اور آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔چند دنوں کے بعد اس کی راحیلہ خالہ کی شادی ہونے تھی۔وہ اس کی امی کی سب سے چھوٹی بہن تھیں اور کراچی میں رہتی تھیں۔ ان کی شادی کی اطلاع ملی تو اطہر کی امی شادی میں جانے کی تیاری کرنے لگیں۔اطہر کے ابّا کی سکھر میں بہت سی زمینیں تھیں – ان زمینوں پر مختلف فصلیں کاشت کرنےکے لیے بہت سارے مزدور کام کرتے تھے۔ان دنوں گندم کی فصل تیار ہوگئی تھی – اس موقع پر اطہر کے ابّا کا زمینوں پر رہنا ضروری تھا تاکہ وہ اپنی نگرانی میں اس کی کٹائی کروا کر گوداموں میں رکھوا سکیں کیوں کہ اگر بارش ہوجاتی تو اس کے خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس لیے وہ ان کے ساتھ نہیں جا سکتے تھے۔(جاری ہے)اس کی امی نے سوچا کہ وہ اطہر کے ساتھ چلی جائیں گی۔انہوں نے اطہر کی پانچ دن کی چھٹی کی درخواست اس کے اسکول میں بھجوا دی تھی جو منظور ہوچکی تھی۔ان پانچ دنوں کی چھٹی کے لیے اطہر نے اپنی مس سے گھر کا کام بھی لے لیا تھا تاکہ کلاس کے دوسرے بچوں سے پیچھے نہ رہ جائے۔اطہر ایک اچھا اور نہایت ذہین بچہ تھا۔اسے اسکول سے غیر حاضری ذرا پسند نہیں تھی۔اسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔وہ ہر روز صبح خود ہی بیدار ہو کر اسکول جانے کی تیاری شروع کردیتا تھا۔اس کی اس عادت کی وجہ سے اس کی امی کو بڑی آسانی ہوگئی تھی کیوں کہ انھیں اسے بار بار اٹھانا نہیں پڑتا تھا۔وہ پڑھ لکھ کر ایک قابل انسان بننا چاہتا تھا تاکہ اپنے ملک کی خدمت کرسکے۔جب اطہر کی اسکول سے چھٹیاں منظور ہوگئیں تو اس کے ابّا نے اپنی زمینوں کے معاملات کو دیکھنے والے مینیجر سے کہہ کر ٹرین میں کراچی کے لیے ان کی دو سیٹیں بک کروادیں۔ دو روز بعد انھیں سفر پر روانہ ہونا تھا۔دو روز پلک جھپکتے گزر گئے۔ان کی روانگی کا دن آگیا تھا۔اس کے ابّا انھیں ٹرین میں بٹھانے کے لیے ساتھ ہی آئے تھے۔ ٹرین کو رات تین بجے آنا تھا۔ان کے ساتھ صرف ایک سوٹ کیس تھا جس میں شادی کی تقریبوں میں پہننے والے کپڑے وغیرہ تھے۔اس کی امی نے اپنے سونے کے سارے زیورات پلاسٹک کے ایک ڈبے میں رکھ کر انھیں اپنے پرس میں چھپا لیا تھا اور اب وہ پرس ان کے شانے سے لٹک رہا تھا۔ٹرین آئ۔اس میں چھ سیٹوں کا ایک کوپہ تھا۔سکھر اسٹیشن پر دو مسافر اتر گئے تھے۔ان کی چھوڑی ہوئی نشستوں پر ہی ان کے ٹکٹ بک کیے گئے تھے۔ اوپر والی برتھوں پر دو مسافر سو رہے تھے۔ انھیں کراچی تک جانا تھا۔ایک مرد، عورت اور ان کا بچہ سامنے والی سیٹ پر بیٹھے تھے۔بچہ اپنی ماں کی گود میں گہری نیند سو رہا تھا۔یہ لوگ حیدرآباد تک جا رہے تھے۔اطہر کھڑکی والی سیٹ کے پاس بیٹھ گیا۔اس کے ابّا نے ریلوے اسٹیشن کی ایک دکان سے اسے بہت سارے بسکٹ، ویفرز اور چپس کے پیکٹ دلا دیے تھے تاکہ اس کا سفر مزے سے گزرے۔اس کے امی ابّا باتوں میں مصروف تھے۔ اطہر کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔اچانک اس نے ایک بڑی بڑی مونچھوں والے شخص کو دیکھا۔اس کے گال پر چاقو کے گھاؤ کا نشان بھی تھا جس کی وجہ سے اس کی شکل خوفناک نظر آتی تھی۔وہ ان کی کھڑکی کے نزدیک آکر کھڑا ہوگیا۔اس کی نظریں اس کی امی کے پرس پر لگی ہوئی تھیں۔خوف کی ایک سرد لہر اطہر کے جسم میں دوڑ گئی۔اس کا دل تو چاہا کہ اپنے ابّا کو اس طرف متوجہ کرے مگر عین اسی وقت گارڈ نے وسل بجا دی اور گاڑی ایک جھٹکے سے ہلکے ہلکے چلنے لگی۔اس کے ابّا جلدی سے اٹھے، اطہر کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کی امی کو خدا حافظ کہہ کر باہر نکل گئے۔ان کے جانے کے بعد اطہر اس آدمی کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ اسے نظر نہ آیا۔شائد وہ کسی ڈبے میں سوار ہوگیا تھا۔اس کے ابّا اسٹیشن پر کھڑے ہاتھ ہلا کر اسے خدا حافظ کہہ رہے تھے۔وہ بھی باتھ ہلانے لگا۔ ٹرین کی رفتار تیز ہوگئی تھی۔اس کی امی نے شال اوڑھ لی اور زیورات کے پرس کو اس میں چھپا لیا۔ وہ اپنی بہن کی شادی کے بارے میں سوچ رہی تھیں اور دعا کررہی تھیں کہ شادی کے بعد وہ ایک خوش و خرم زندگی گزارے۔انھیں کچھ اونگھ سی آنے لگی تھی اس لیے انہوں نے آنکھیں بند کرلیں۔ٹرین انتہائی تیز رفتاری سے چیختی چنگھاڑتی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔اطہر کو چلتی ٹرین سے باہر دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔درخت، جھاڑیاں، میدان، گھر سب تیزی سے پیچھے کی جانب بھاگتے نظر آتے تھے۔گاڑی چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر رکتی رکتی آخر صبح نو بجے حیدرآباد پہنچ گئی۔اس دوران اطہر کی بھی آنکھ لگ گئی تھی۔سونے سے پہلے اس نے ڈبے کے دروازے کو چیک کرلیا تھا کہ اس کی کنڈی لگی ہوئی ہے۔حیدرآباد پہنچ کر گاڑی رکی تو مسافروں کے شور سے اطہر کی آنکھ کھل گئی۔اس کی امی بھی بیدار ہوگئی تھیں اور انہوں نے چائے والے سے دو چائے لانے کا بھی کہہ دیا تھا۔حیدرآباد پر وہ فیملی اتر گئی تھی اور یہاں سے کوئی نیا مسافر سوار نہیں ہوا تھا۔سامنے والی سیٹ خالی ہوگئی تھی اس لیے اطہر اس پر بیٹھ گیا۔اچانک اس کی نظر باہر اسٹیشن پر پڑی۔وہ ہی بڑی بڑی مونچھوں والا شخص جس کے گال پر چاقو کے گھاؤ کا نشان تھا، ایک مرتبہ پھر ان کی کھڑکی کے سامنے آ کر کھڑا ہوگیا اور اندر جھانک کر دیکھنے لگا۔ اطہر کو پھر خوف محسوس ہونے لگا اور دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔اس مرتبہ بھی وہ آدمی زیادہ دیر وہاں نہیں رکا اور لوگوں کی بھیڑ میں جاکر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔اطہر اس پراسرار شخص کی جانب سے شبے میں آگیا تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔اپنی امی سے اس بات کا تذکرہ کرتا تو وہ خوفزدہ ہوجاتیں۔تقریباً دس پندرہ منٹ کے بعد ٹرین پھر چل پڑی۔کراچی جانے والے مسافر بدستور اوپر کی برتھوں پر سو رہے تھے۔اطہر نے حیدرآباد پر اترنے والے مسافروں کے جاتے ہی اندر سے کنڈی لگا لی تھی۔اسے ڈر تھا کہ وہ مونچھوں والا آدمی وہاں نہ آجائے۔اطہر اپنے ساتھ اسکول کا بستہ بھی لایا تھا۔اس کا خیال تھا کہ مس نے جو اسے چھٹیوں کا کام دیا ہے وہ کراچی میں کچھ وقت نکال کر اسے کرتا رہے گے۔اسے اپنا اسکول اور وہاں کے دوست یاد آنے لگے تھے ۔ وہ اپنا بستہ کھول کر بیٹھ گیا۔ابھی تک چائے والا چائے نہیں لایا تھا۔اس کی امی اٹھیں اور بولیں۔“اطہر بیٹا۔انشا الله تعالیٰ تھوڑی دیر میں ہم کراچی پہنچ جائیں گے۔ہمیں لینے کے لیے کامران، شکیلہ، عارف اور عاکف آئیں گے۔ میں ذرا واش روم میں جا کر منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر حلیہ درست کر لوں۔سفر کے دوران کیسی شکل ہوگئی ہے۔ تم میرا پرس سنبھالو”۔یہ کہہ کر انہوں نے پرس اطہر کو دے دیا اور چلی گئیں۔اطہر نے پرس کو اپنی گود میں رکھ لیا اور کچھ سوچنے لگا۔اس کی نظروں میں اسی مونچھوں والے آدمی کی شکل گھومنے لگی تھی۔یکا یک کسی خیال سے اس کی آنکھیں چمکنے لگیں اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔امی کو گئے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ چائے والا ایک ٹرے میں دو ڈسپوزیبل گلاسوں میں چائے لے کر آگیا۔ چائے اچھی تو تھی مگر مہنگی تھی کیوں کہ اطہر نے اسے سو روپے کا نوٹ دیا تو چائے والے نے اسے بیس روپے واپس کیے تھے۔اس کی امی واپس آئیں تو سب سے پہلے انہوں نے اپنا پرس اطہر سے لیا اور اسے شال میں چھپا کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئیں۔پھر دونوں چائے پینے لگے۔سیٹ پر اطہر کی بکھری کتابیں دیکھ کر انہوں نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔“پڑھنے کی اتنی جلدی بھی کیا ہے۔تم یہاں بھی اپنی کتابیں لے کر بیٹھ گئے”۔“اچھا ہے نا امی۔تھوڑا بہت کام تو کر ہی لوں گا۔وہاں پر عارف اور عاکف ہوں گے۔ایسا نہ ہو کہ کھیل کود کے دوران مجھے اسکول کا کام کرنے کا موقع ہی نہ ملے”۔اطہر نے کہا۔اس کی امی شفقت سے مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگیں۔پھر ایک بجے وہ لوگ کراچی کے کینٹ اسٹیشن پہنچ گئے۔اطہر کے کامران ماموں، شکیلہ ممانی اور ان کے دونوں بچے عارف اور عاکف اسٹیشن پر موجود تھے۔سب لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کامران ماموں کی ہائی روف گاڑی اسٹیشن سے باہر کھڑی تھی۔اطہر نے ایک مرتبہ پھر اپنے ڈبے کا جائزہ لیا کہ کوئی چیز بھول تو نہیں گئے۔پھر وہ سب باہر کی جانب چل پڑے۔چونکہ سامان زیادہ نہیں تھا اس لیے انہوں نے قلی نہیں کیا تھا۔سوٹ کیس کامران ماموں نے اٹھا لیا تھا۔اسٹیشن سے باہر کچھ دور کامران ماموں کی گاڑی کھڑی تھی۔آس پاس رکشے، ٹیکسی اور موٹر سائیکلوں کا بے تحاشہ شور تھا۔کچھ دور پر کھٹارا اور بہت پرانی مسافر بسیں بھی نظر آئیں۔ان کے انجنوں کی آواز اتنی تیز تھی کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔یہ رونق اطہر کو کراچی میں ہی نظر آتی تھی۔ یہ مناظر دیکھ کر اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔اس کی پشت پر کتابوں کا بیگ تھا۔ عاکف کی نظر بیگ پر پڑی تو اس نے پوچھا۔“اطہر۔اس بیگ میں کیا ہے؟”“اس میں بڑی قیمتی چیزیں ہیں۔“ اطہر نے مسکرا کر کہا۔اس کی امی نے بھی عاکف کا سوال سن لیا تھا۔وہ مسکرا کر بولیں۔“یہ اطہر کے اسکول کا بیگ ہے اور اس میں اس کی کتابیں ہیں۔مجھ سے کہہ رہا تھا کہ یہاں کچھ وقت نکال کر چھٹیوں کا کام کرلیا کرے گا”۔ان کی بات سن کر عارف اور عاکف کو بڑی حیرت ہوئی۔اطہر حالانکہ اپنی خالہ کی شادی میں شرکت کے لیے آیا تھا اور شادیوں میں تو چوبیس گھنٹے ہّلہ گلّہ رہتا ہے۔مگر اس کے باوجود اس کا دھیان پڑھائی لکھائی سے غافل نہیں ہوا تھا۔ اطہر کی اس بات سے دونوں بھائی بہت متاثر نظر آ رہے تھے۔انہوں نے دل میں سوچ لیا تھا کہ وہ بھی اپنی پڑھائی لکھائی کو ہر چیز پر فوقیت دیں گے۔وہ سب گاڑی کے نزدیک پہنچ گئے تھے۔عاکف کچھ دور جا کر گاڑی کے سامنے کھڑا ہوگیا اور اپنے موبائل سے ان لوگوں کی ویڈیو بنانے لگا۔کامران ماموں نے سوٹ کیس رکھنے کے لیے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔عارف اور اطہر وہاں رکھی ہوئی فالتو چیزوں کو ترتیب سے رکھنے لگے تاکہ سوٹ کیس رکھنے کی جگہ بن جائے۔اطہر کی امی اور ممانی وہیں سڑک پر کھڑی ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھیں۔اچانک ایک موٹر سائیکل ان کے قریب آکر رکی۔پچھلی سیٹ پر ایک شخص بیٹھا تھا جس کی بڑی بڑی مونچھیں اور گال پر زخم کا نشان تھا۔یہ وہ ہی شخص تھا جسے اطہر نے سکھر اور حیدرآباد کے اسٹیشنوں پر اپنے ڈبے میں جھانکتے ہوئے دیکھا تھا۔اس نے اطہر کی امی کے بازو سے لٹکے ہوئے بیگ پر جھپٹا مارا۔اس کی امی کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔پرس چھینتے ہی موٹر سائیکل تیز رفتاری سے چل پڑی اور اگلے موڑ پر جا کر نظروں سے غائب ہوگئی۔یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا تھا کہ چند لمحوں تک تو کسی کی سمجھ میں کچھ آیا ہی نہیں۔ وہ سب اطہر کی امی کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ وہ بے چاری ابھی تک حواس باختہ تھیں۔کچھ دیر بعد جب ان کی حالت سنبھلی تو انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں اپنے بھائی سے کہا “کامران۔اس پرس میں میرے سونے کے زیورات تھے۔میں انھیں راحیلہ کی شادی میں پہننے کے لیے لائی تھی”۔کامران ماموں ایک حوصلے والے انسان تھے۔انہوں نے بہن کو تسلی دی اور بولے “شکر ہے ان زیورات پر ہی بات ٹل گئی۔ورنہ ایسی وارداتوں میں تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔زیورات تو اور بھی بن جائیں گے۔میں ہی آپ کو بنوا کر دوں گا۔آپ انھیں ہی پہن کر راحیلہ کی شادی میں شرکت کریں گی”۔بھائی کے دلاسے سے بھی اطہر کی امی کی تشفی نہیں ہوئی تھی۔ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔اطہر آگے بڑھا اور بولا “امی۔آپ فکر کیوں کرتی ہیں۔گاڑی میں بیٹھیں۔آپ کے قیمتی زیورات کسی نے نہیں چھینے۔وہ تو میرے اسکول کے بیگ میں ہیں۔میں نے عاکف سے اسی لیے تو کہا تھا کہ اس بیگ میں قیمتی چیزیں ہیں”۔اطہر کی یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔عارف نے آگے بڑھ کر الجھے ہوئے لہجے میں کہا “اگر تمہارے بیگ میں زیورات ہیں تو کیا پھپھو کے پرس میں تمہاری کتابیں تھیں؟ اتنے ذرا سے پرس میں وہ آئی کیسے تھیں؟”“میں سب کچھ بتا دوں گا مگر ہمیں یہاں سے جلد روانہ ہوجانا چاہیے”۔اطہر نے کہا۔سب جلدی جلدی گاڑی میں بیٹھ گئے۔اطہر کی امی اس کی بات سن کر خوش تو ہو گئی تھیں مگر انھیں حیرانی بھی بہت تھی۔ان کے ذہن میں بہت سے سوالات گردش کر رہے تھے۔جب گاڑی چل پڑی تو اطہر نے اونچی آواز میں کہا “ہم لوگ سکھر سے چل رہے تھے تو مجھے بڑی بڑی مونچھوں والا ایک مشکوک شخص اپنے ڈبے کے پاس نظر آیا – وہ کھڑکی میں سے امی کے پرس کو دیکھے جا رہا تھا۔جب میں نے دوسری مرتبہ بھی اسے اپنے ڈبے کے قریب کھڑکی سے اندر جھانکتے دیکھا تو میرا شبہ یقین میں بدل گیا کہ وہ ضرور ہماری تاک میں ہے۔گاڑی حیدرآباد سے چلی تو امی اپنا حلیہ درست کرنے واش روم چلی گئیں تاکہ جب آپ لوگ انھیں دیکھیں تو وہ آپ کو اچھی لگیں”۔اس کی بات سن کر اس کی امی نے ایک ہلکی سی چپت اس کے سر پر ماری اور مسکراتے ہوئے اسے جھوٹ موٹ گھورنے لگیں۔اطہر کی بات سن کر سب مسکرانے لگے تھے۔اطہر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا “امی جاتے ہوئے اپنا پرس مجھے تھما گئیں – میرے دل میں اس خوفناک شخص کی طرف سے شہبات تو پیدا ہو ہی چکے تھے اس لیے میں نے چپکے سے پرس کھولا۔اس میں رکھے ڈبے سے زیورات نکال کر احتیاط سے اپنی کتابوں کے بیگ میں رکھے۔ پھر زیورات کے خالی ڈبے میں اپنے ویفرز اور بسکٹوں کے پیکٹ رکھ کر اسے دوبارہ پرس میں رکھ دیا۔ امی کو پتہ بھی نہیں چلا کہ میں کیا کارستانی دکھا چکا ہوں”۔اطہر کی کہانی سن کر اس کی امی تو خوشی سے نہال ہوئی جا رہی تھیں اور بار بار پیار بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ممانی نے اطہر کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔“آپی گھر جاکر اطہر کی نظر اتار دیجیے گا۔یہ تو بہت عقلمند بچہ ہے۔دیکھیے تو سہی کتنی عقلمندی سے ان بدمعاشوں کو چکمہ دے دیا جو سکھر سے آپ کے پیچھے لگے ہوئے تھے”۔“چراغ تلے اندھیرا”۔عاکف نے منمنا کر کہا۔سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔“اس بات سے عاکف تمہارا کیا مطلب ہے؟ اطہر کی تعریف سن کر جیلیسی تو فیل نہیں کر رہے؟” عارف نے کہا۔“حسد سے تو الله بچائے۔یہ بہت بری چیز ہوتی ہے”۔عاکف نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا “میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ میں نے بھی ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔اس کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دے رہا”۔“پہلے کارنامہ تو بتاؤ، سننے کے بعد ضرور دھیان دیں گے”۔اس کے ابّو نے ہنس کر کہا۔وہ بھی صورت حال کے بدل جانے سے بہت خوش نظر آ رہے تھے۔“میں نے اس پورے واقعہ کی ویڈیو موبائل میں بنا لی ہے۔اس ویڈیو میں موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے دونوں ڈاکو صاف نظر آرہے ہیں۔ پرس چھیننے کی واردات اور ان کی موٹر سائیکل کا نمبر، تمام چیزیں اس ویڈیو میں آگئی ہیں۔اب ہم یہ ویڈیو پولیس کو دے دیں گے اور وہ انہیں بڑی آسانی سے گرفتار کر لے گی۔ویسے بھی ان بدقماش لوگوں کی چھینا جھپٹی سے کراچی کے عوام ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔ان کے پکڑے جانے سے کچھ تو اس عذاب میں کمی آئے گی۔ہوسکتا ہے ان کے دوسرے ساتھی بھی ہوں جو پکڑے جائیں”۔اس کی بات سن کر اطہر کی امی بولیں “ہم الله کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ ہمارے بچے اتنے ہوشیار اور ذہین ہیں اور آس پاس کی ہونے والی تمام باتوں پر دھیان رکھتے ہیں۔عاکف تم نے بھی بہت بڑا کام کیا ہے۔مجھے تو لگتا ہے کہ یہ ایک منظم گروہ ہے جسے پولیس تمہاری بنائی ہوئی ویڈیو کی مدد سے پکڑ لے گی۔سچ تو یہ ہے کہ تم دونوں نے ایک انوکھا کارنامہ انجام دیا ہے”۔پھر ہوا بھی ایسا ہی۔گھر پہنچ کر اطہر کے ماموں نے اپنے دوست انسپکٹر فرحت عثمانی کو فون کیا اور اسے اس واقعہ کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔وہ بھاگا بھاگا ان کے گھر آیا کیوں کہ اس طرح کی وارداتوں نے کراچی والوں کا جینا اجیرن کردیا تھا اور پولیس چاہتی تھی کہ ان وارداتوں کی روک تھام کے لیے ایسے لوگوں کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔ویڈیو دیکھ کر اس نے اطہر اور عاکف کو بہت شاباش دی۔ اس نے ان کے کارنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔“دونوں بچے بہت ذہین اور ہوشیار ہیں۔اطہر نے حالات کا جائزہ لے کر ایک بہت اچھا قدم اٹھایا اور عاکف نے بغیر کسی گھبراہٹ کے ان بدمعاشوں کی ویڈیو بنائی۔یہ ویڈیو ان کی گرفتاری میں بہت مدد دے گی۔بچوں کو ایسا ہی حاضر دماغ ہونا چاہیے”۔عاکف نے مجرموں کی ویڈیو ایک یو ایس بی میں کاپی کرکے انسپکٹر کے حوالے کردی تھی اور وہ اسے لے کر مزید کارروائی کرنے کے لیے چلا گیا۔اگلے روز انسپکٹر نے اس موٹر سائیکل کے مالک کا پتہ چلا کر اسے گرفتار کرلیا۔اس کی مدد سے اس گروہ کے بقیہ لوگ بھی پکڑے گئے۔وہ بڑی بڑی مونچھوں والا بدمعاش جو سکھر سے اطہر اور اس کی امی کے پیچھے لگا ہوا تھا، وہ بھی گرفتار ہوگیا تھا۔دوران تفتیش اس نے بتایا کہ وہ کسی کام سے کراچی سے سکھر آیا تھا۔اس کی رہائش اطہر کے محلے میں ہی تھی۔یہاں اس کے رشتے دار رہتے تھے۔ایک روز اسے پتہ چلا کہ اطہر اپنی امی کے ساتھ خالہ کی شادی میں شرکت کے لیے کراچی جا رہا ہے۔عورتیں تو بغیر زیورات کے شادیوں میں شرکت کرنا پسند ہی نہیں کرتیں، اس لیے اسے پکّا یقین تھا کہ اس کی امی اپنے زیورات پرس میں رکھ کر لے جائیں گی۔چونکہ اسے بھی واپس کراچی جانا تھا اس لیے اس نے بھی اسی ٹرین میں ٹکٹ بک کروالیا تھا اور کراچی میں موجود اپنے ساتھیوں سے موبائل پر رابطہ کرکے انھیں لوٹنے کا منصوبہ بنالیا۔مگر ان لڑکوں کی ہوشیاری کی وجہ سے وہ سب پکڑے گئے۔اس نے مزید بتایا کہ جب انہوں نے اڈے پر جا کر پرس کی تلاشی لی تو اس میں رکھے ڈبے میں سے بچوں کے کھانے کی چیزیں ملی تھیں۔اس پر اس کے ساتھیوں نے اس کی بیوقوفی کا خوب مذاق اڑایا تھا کہ اتنی معمولی چیزوں کو ہتھیانے کے لیے اس نے اتنی محنت کی۔یہ بہت بڑا گروہ تھا۔اس گروہ میں شامل لوگ شہریوں کے موبائل اور نقدی بھی چھینا کرتے تھے۔ یہ اتنے بے رحم اور خطرناک مجرم تھے کہ لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے والے معصوم شہریوں پر گولیاں چلانے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ان لوگوں کو گرفتار کرنے کی وجہ سے انسپکٹر فرحت عثمانی کے افسروں نے اسے بہت شاباش دی۔جب انسپکٹر فرحت عثمانی نے افسران کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ ان خطرناک مجرموں کی گرفتاری میں اطہر اور عاکف کا بہت بڑا حصہ ہے تو دو روز بعد محکمہ پولیس کی جانب سے انھیں بھی ایک تقریب میں مدعو کیا گیا اور ان کی بہادری اور ذہانت کے اعتراف میں انھیں گرانقدر انعامات اور تعریفی سرٹیفکیٹ دیے گئے۔ان کا یہ کارنامہ ان کی تصویروں کے ساتھ کراچی کے صبح اور دوپہر کے تمام اخبارات میں بھی شائع ہوا تھا جس کی وجہ سے ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ " وطن کی خاطر - تحریر نمبر 1702,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/watan-ki-khatir-1702.html,"جاوید جمال گوشیدروازے پر دستک ہوئی تو فوجی ریاض کھانستے ہوئے چار پائی سے اٹھے اور دروازہ کھول دیا ۔باہر ان کا چھوٹا بیٹا ماجد کھڑا تھا وہ اندر آگیا اس وقت سورج غروب ہو چکا تھا اور مغرب کی سرخی چھائی ہوئی تھی ۔بہاولپور کے پاس ایک گاؤں میں فوجی ریاض اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا وہ کچھ عرصہ پہلے آرمی کی ملازمت سے ریٹائر ہوا تھا اس نے سب بچوں کی شادیاں کر دی تھیں کچھ عرصہ پہلے ماجد کی شادی ایک اچھے گھرانے میں کردی لیکن ماجد کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کر رہا تھا اسے فوجی ریاض نے گاؤں میں کریانہ کی دکان کھول دی تھی لیکن وہ اس پر بھی سیریس ہو کر نہ بیٹھتا جو کماتا خود ہی ہڑپ کر جاتا ۔بیوی کو بھی کچھ نہ دیتا اب تو عنایہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹی سے نواز دیا تھا ۔(جاری ہے)فوجی ریاض اور اس کی بیوی کشور سلطانہ اس کی طرف سے بہت پریشان رہتے ماجد بہت جھگڑا لو طبیعت کا مالک تھا اس کی کسی سے نہ بنتی جبکہ بڑا بیٹا ساجد بہت فرمانبردار تھا۔ اپنا کماتا جس سے اپنے بیوی بچوں کا خرچہ چلا رہا تھا اس کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ماجد گھر میں آئے دن لڑ جھگڑ کر باہر آوارہ گردی کرتا رہتا ۔فوجی ریاض اور اس کی والدہ کشور سلطانہ نے کافی دفعہ اس کی چھترول کی لیکن وہ پھر بھی باز نہ آتا ۔سب گھر والوں کو بے حد تنگ کیا ہوا تھا اس نے آج بھی باہر سے گھوم پھر کر گھر آیا تھا کھانا کھانے کے بعد فوجی ریاض نے اس سے کہا”بیٹے!اب تم خود باپ بن گئے ہو گھر کا خرچہ بہت مشکل سے چل رہا ہے اس لئے سیریس ہو کر کوئی کام کر لو ہم کب تک بیٹھے رہیں گے ۔ایک دن ہمارا بھی بلاوہ آجانا ہے “ماجد بولا!”ابو میرا ایک دوست ہے اس کا پلاسٹک بنانے کا کارخانہ ہے اس کے ابو نے مجھے اپنی فیکٹری میں کام کرنے کو کہا ہے اور میں کل سے وہاں جاؤں گا۔“بیٹے آجکل حالات بہت خراب ہیں احتیاط سے جانا اور دل لگا کر کام کرنا۔“فوجی ریاض نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے کہا۔”ٹھیک ہے ابو ویسے بھی فیکٹری ہنگاموں والی جگہوں سے کافی دور ہے وہاں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔“ماجد نے اپنے ابوکو مطمئن کرتے ہوئے کہا ۔اس طرح ماجد روز کام پر جانے لگا آج اسے کام پر جاتے ہوئے چوتھا روز تھا۔اس نے کہا کہ فیکٹری میں تنخواہ ماہواردی جاتی ہے لیکن اس نے تیسرے روز رات کو فوجی ریاض کے ہاتھ میں دس ہزار روپے رکھے تو وہ حیران ہو گیا انہوں نے کہا کہ تمہیں دو روز کی اتنی تنخواہ دیدی تو ماجد ٹال گیا ۔فوجی ریاض کے دل میں شک پیدا ہو گیا کہ ماجد کہیں بُرے لوگوں کے ساتھ تو نہیں شامل ہو گیا۔ایک روز ماجد صبح سویرے کام پہ چلا گیا ۔اس کی ماں اور بیوی گھر کے کام کاج میں مصروف ہو گئی ابھی دس بجے تھے کہ ماجد لڑ کھڑاتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور چار پائی پر گر کر بے ہوش ہو گیا۔ اس کی ٹانگ پر گولی لگی تھی اور اس میں سے خون نکل رہا تھا ۔فوجی ریاض نے زخم پہ پٹی باندھی تاکہ خون زیادہ نہ نکلے ۔پٹی باندھنے کے بعد فوجی ریاض نے اس کی بیوی سے کہا کہ اس کا خیال رکھو میں ڈاکٹر کو لے کر آتا ہوں ۔لیکن ابھی وہ دروازے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ زور سے دستک ہوئی ۔انہوں نے جلدی سے دروازہ کھولا باہر دو سپاہی اور ایک پولیس انسپکٹر کھڑے تھے وہ انہیں دیکھ کر پریشان ہوگئے انسپکٹر نے فوجی ریاض سے کہا جناب ہم ایک دہشت گرد کو تلاش کررہے ہیں کوئی آدھا گھنٹہ قبل دہشت گردوں نے مارکیٹ میں فائرنگ کی تھی جس سے کئی آدمی ہلاک اور بہت سارے زخمی ہو گئے ہیں ۔ہماری گشت پر مامور ٹیم ادھر سے گزر رہی تھی دہشت گردوں نے ہمیں دیکھا تو فرار ہو گئے ۔اس میں سے ایک دہشت گرداسی گلی میں داخل ہوا ہے اگر آپ کے گھر میں آیا ہے تو بتائیں اس کی ایک ٹانگ میں گولی لگی ہے ۔فوجی ریاض نے انسپکٹر کی بات سنی تو گرتے گرتے بچے انہیں زمین و آسمان گھومتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے ۔ان کا شک درست نکلا ان کا بیٹا ان بُرے لوگوں میں ملوث تھا۔وہ اس کی کمائی کو حلال روزی سمجھ رہے تھے انہوں نے تو خود لوگوں کی حفاظت کا پیشہ اپنایا تھا پاک آرمی کے بہادر جوان بن کر ملک وقوم کی خدمت کی اور ان کا بیٹا کسی روش پہ چل نکلا وہ لوگوں کی جانیں لے رہا تھا ایک طرف بیٹے کی محبت تھی تو دوسری طرف وطن کی سلامتی کچھ دیر دونوں میں کشمکش ہوتی رہی آخر بیٹے کی محبت پر وطن کی محبت غالب آگئی ۔فوجی ریاض نے انسپکٹر سے کہا جناب میرے گھر میں ایک دہشت گرد چھپا بیٹھا ہے اسے گرفتار کرلیں ۔انسپکٹر نے اندر داخل ہو کر ماجد کو جواب ہوش میں آچکا تھا اور درد سے کراہ رہا تھا اسے گرفتار کر لیا۔ ہمارے پیارے وطن پاکستان کو فوجی ریاض جیسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے تب ہی ہمارا ملک امن و امان کا گہوارہ بن سکتاہے۔ " محنت کا جادو - تحریر نمبر 1701,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-ka-jado-1701.html,"عرفان الحقدور دراز کے کسی قصبے میں ایک محنتی لکڑ ہارا رہتا تھا۔وہ دن بھر قریبی جنگل میں لکڑیاں کاٹتا اور شام ہوتے ہی وہ لکڑیاں قصبے کے بازار میں بیچ آتاہے ۔ان لکڑیوں کے بدلے اسے جتنے پیسے ملتے وہ بہت زیادہ تونہ ہوتے تھے ،مگر سادہ مزاج لکڑ ہارے اور اس کی بیوی کی گزر بسر کے لئے کافی تھے ۔لکڑہارے کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی ،گھر کا سونا پن دور کرنے اور اپنی بیوی کا دل بہلانے کے لئے اس نے ایک طوطا پال رکھا تھا۔طوطے کی ٹیں ٹیں اور بول چال چھوٹے سے گھر میں رونق لگائے رکھتی تھی ۔اس طوطے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس کے پروں میں دو چمکتے ہوئے سنہرے پر بھی تھے ۔ان پروں کی چمک اتنی تھی کہ وہ سونے کے معلوم ہوتے تھے ۔سارے قصبے میں لکڑ ہارے کے اس طوطے کی دھوم تھی ۔(جاری ہے)بہت سے لوگوں نے لکڑ ہارے اور اس کی بیوی سے اس طوطے کو منہ مانگے داموں میں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا ،مگر دونوں میاں بیوی اس طوطے کو اپنی اولاد کی طرح پیار کرتے تھے ،اس لئے انھوں نے طوطے کو فروخت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔اس قصبے میں رحمو نام کا ایک لڑکا بھی رہتا تھا ۔جو قصبے کے واحد حلوائی کا اکلوتا ،مگر نکما بیٹا تھا۔حلوائی کی شدید خواہش تھی کہ رحمو کاروبار میں اس کا ہاتھ بٹائے، مگر رحمو کا کام دن بھر شیخیاں بگھارنا اور جادوئی کہانیاں پڑھنا تھا ۔اس نے جانے کہاں سے سن لیا کہ لکڑہارے کا طوطا کوئی عام طوطا نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک جادوئی طوطا ہے ،اس کے دونوں سنہرے پروں کو روشنائی میں ڈبو کر جو بھی لکھا جائے گا وہ سچ ہو جائے گا ۔وہ لکڑ ہارے اور اس کی بیوی کے پیچھے پڑ گیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح طوطا اس کے ہاتھ فروخت کردیں، مگر دونوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی صاف انکار کر دیا ۔ان کے اس حد درجہ انکار نے رحمو کا شک یقین میں بدل دیا کہ ہونہ ہو یہ طوطا جادوئی طوطا ہے ۔رحمو طوطا حاصل کرنے کے لئے دن بھر مختلف منصوبے بناتا رہتا تھا۔بہت سوچ بچار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس طوطے کو چرائے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔لکڑ ہارے کے گھر کی دیوار زیادہ اونچی نہیں تھی ۔رحمو کے خیال میں رات کے اندھیرے میں وہ آسانی سے اس دیوار کو پھلانگ کر طوطے کا پنجرہ اُٹھا کے لا سکتا تھا ۔ایک رات جب سب گہری نیند سو رہے تھے ،رحمو اپنے گھر سے نکلا۔وہ احتیاط سے چلتا ہوا لکڑ ہارے کے گھر جا پہنچا۔ آگے پیچھے نظر دوڑا کر وہ دیوار پر چڑھ گیا ،مگر جب دوسری طرف اُترنا چاہا تو ایک دم اس کا پاؤں پھسلا اور زور دار آواز کے ساتھ صحن میں جاگرا۔لکڑہارا صحن میں بچھی ہوئی چار پائی پر سورہا تھا۔وہ زور دار آواز سے آنکھیں ملتا ہوا جاگ گیا ۔حواس بحال ہونے پر کیا دیکھتا ہے کہ گھر کے صحن میں ایک اجنبی شخص سر سے لے کر پاؤں تک کالے کپڑوں اور چہرے پر نقاب لگائے پڑا کراہ رہا ہے ۔لکڑہارے نے چور چور ،کا شور مچا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کے گھروں سے لوگ ڈنڈے لے کر لکڑ ہارے کے گھر میں داخل ہو گئے اور اس کا نقاب اُلٹ دیا۔رحمو کا چہرہ سب کے سامنے آگیا ۔لوگوں پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔رحمو کے ابا سب کی نظر میں ایک شریف انسان تھے ،کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کا بیٹا اس طرح چوری کرتے ہوئے پکڑا جائے گا ۔رحمو کا بھی شرم اور درد سے حال بُرا تھا۔اس کا دل چاہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں ،تاکہ اسے لوگوں اور اپنے ابا کا سامنا نہ کرنا پڑے ،مگر اب پچھتائے کیا جب چڑیا چگ گئی کھیت۔اس کے والد کو گھر سے بلوایا گیا ۔وہ آئے اور غصے میں لگے اس کو مارنے پیٹنے ۔بڑی مشکل سے قصبے والوں نے رحمو کو بچایا۔ سب اس کی اس گھٹیا حرکت کی وجہ جاننا چاہتے تھے ۔پہلے تو ندامت کے مارے رحمو کی آواز نہ نکلی ،مگر جب لوگوں کا دباؤ بڑھا تو نا چار اس نے اپنا منہ کھولا اور اپنی بے وقوفی کا سارا ماجرا قصبے والوں کو سناڈالا ۔اس کی بات سن کر کچھ لوگ تو قہقہہ لگا کر ہنس پڑے اور رحمو کا مذاق اُڑانے لگے ،جب کہ کچھ لوگ ،جواب بھی بھوت پریت اور جادو ٹونے کو حقیقت مانتے تھے ،وہ اس بات کو آزمانے کا مشورہ دینے لگے ۔لکڑ ہارا اور اس کی بیوی اس بات کے سختی سے مخالف تھے ،کیونکہ اس سے ان کے طوطے کو تکلیف پہنچتی ،مگر جب سب کا اصرار بہت بڑھا تو انھیں بھی اجازت دینا پڑی ۔طوطے کی ٹیں ٹیں کی پروانہ کرتے ہوئے ،اس کے دونوں سنہرے پَروں کو کتر دیا گیا ۔روشنائی لاکر، رحموکو دی کہ وہ جس طرح چاہے ،اپنی اور مجمع میں موجود اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی تسلی کرلے ۔اس نے ایک چھوٹا سا پرندہ بنایا اور انتظار کرنے لگا کہ کب اس کے بنائے ہوئے پرندے میں جان آئے، مگرکافی دیر بعد بھی اس تصویر میں کسی قسم کے زندگی کے آثار نظر نہ آئے تو رحمو کی پشیمانی اور بھی بڑھ گئی ۔وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے لکڑ ہارے کے قدموں میں گر پڑا اور معافی مانگنے لگا ۔لکڑ ہارے کے قدموں میں گر پڑا اور معافی مانگنے لگا۔ لکڑ ہارے نے اسے اُٹھا کر گلے سے لگا کر کہا،کہ بیٹا!میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھ۔ا صل جادو انسان کے اندر ہوتاہے اور وہ ہے محنت کا جادو۔ اپنے بازووں کے زور پر حاصل کی گئی دولت چاہے جتنی بھی کم ہو ،مگر اس میں برکت اور سکون دنیا کے کسی بھی خزانے سے زیادہ ہوتاہے۔ لکڑہارے کی باتوں نے رحمو کی آنکھیں کھول دیں۔ وہ آگے بڑھ کر اپنے والد کے گلے لگ گیا اور ان سے معافی مانگ کر اس نے آئندہ ان کا دست وبازو بننے کا عہد کیا اور محنت سے روزی کمانے لگا اور محنت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا اُصول بنالیا۔ " بے زبانوں پر ظلم - تحریر نمبر 1700,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bezubanoon-per-zulm-1700.html,"توصیف سرور کمبوہعدید جتنا عقل مند اور ذہین تھا اتنا ہی شریر اور من چلا بھی تھا وہ پن اور فن میں بہت ماہر تھا ۔بچے تو بچے بڑے بھی اس کے منہ لگنے سے گھبراتے تھے محلے والے اسے شیطان کا باپ کہا کرتے تھے بہت زیادہ بولتا تھا۔عدید جب بچوں اور بڑوں کو چھیڑتے چھیڑتے اکتا جاتا تو غلیل لے کر کسی باغ میں نکل جاتا اور ننھی منی چڑیوں کا شکار کھیل کر دل بہلاتا کہیں کسی بھی پرندے کا گھونسلہ نظر آجاتا تو جب تک اسے توڑ پھوڑ کر نیچے نہ پھینک دیتا تب تک اسے چین نہ آتا۔گھر میں چڑیاں یا کبوتر گھونسلہ بنا لیتے تو بیچاروں کی شامت آجاتی ۔اس کی والدہ اور دادا مجید اکثر اس کی چھترول کرتے لیکن وہ پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آتا سب محلے والے اس سے تنگ تھے اس کے دادا جی نے زمینوں پر مرغیاں رکھی ہوئی تھیں مگر میں یہ اُن کو تنگ بہت کرتا تھا۔(جاری ہے)آئے دن اُن میں سے کوئی نہ کوئی مرغی غائب ہو جاتی ۔مرغی کو گھر والوں سے چوری پکڑ کر اپنے کزنز حسن ،ضمن اور بھائی ارسلان کے ساتھ مل کر ذبح کر کے قریبی ہوٹل پر لے جاتے اور کڑاہی بنوا کر کھا لیتے ۔اُن کی والدہ عنایت بی بی نے بڑے شوق سے مرغیاں پالی ہوئیں تھیں ۔ان کے انڈے وہ گھر میں بھی کھاتے اور باقی گاؤں میں بیچ دیتے جس سے اچھے خاصے پیسے مل جاتے لیکن اب روز ہی مرغیاں کم ہونے لگیں اور یہ سارے کار نامے عدید کرتا ۔اگر کہیں کوئی بد نصیب گدھا یا گدھی عدید کے ہتھے چڑھ جاتے تو ان کی واپسی درگت بنتی کہ وہ دھینچوں دھینچوں کرکے آسمان سر پر اٹھا لیتے ۔عدید میاں کا خیال تھا کہ بے زبان جانوروں کو اللہ میاں نے پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ انہیں جس طرح چاہے مارا پیٹا جائے اور اپنا دل خوش کیا جائے ۔ایک دن عدید اکیڈمی سے ٹیوشن پڑھ کر گھر آیا تو اس کی طبیعت سست تھی وہ سوچنے لگا کس طرح دل بہلایا جائے ۔چھوٹے پرندوں کو تو وہ بہت تنگ کر چکا تھا کسی بڑے جانور کے بارے میں سوچ رہا تھا۔عدید سوچتے سوچتے سو گیا اُس نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک میدان میں پہنچ گیا سامنے ایک مریل سا گدھا گھاس چر رہا تھا گدھے کو دیکھ کر عدید میاں کھکھلا اٹھے کہ آج اس کی باری ہے اس کو ایسا دھوتا ہوں ساری زندگی یاد کرے گا ۔عدید چپکے سے گدھے کے پاس گیا اور گردن پکڑ کر اس کا منہ رسی سے خوب جکڑ کر باندھ دیا بے چارہ گدھا اتنا کمزور اور دبلا پتلا تھا کہ چپ چاپ کھڑا اپنی درگت بنواتا رہا منہ باندھنے کے بعد عدید اچک کر اس کی پیٹھ پہ چڑھ گیا اور دھونے لگا اور رسی کھینچ کراس کے اوپر اچھی طرح لپٹ گیا اور پھر بولا ہاں بیٹا !مزا آرہا ہے مجھے تو بہت آرہا ہے اب ذرا کھیتوں کی سیر ہو جائے بہت دنوں سے سواری کے لئے ترس رہا تھا۔گدھے نے دیکھا کہ بن چلے گزارہ نہیں تو آہستہ آہستہ چلنے لگا جتنی اس میں ہمت تھی مگر عدید کو اس کی سست چال بڑی بُری معلوم ہوئی زور سے رسی کھینچی اور لات ،رکر بولا”ہوں! ذرا چال دکھا چال!“ہاں ایسے اور تیز میں تپنے لگاہوں اچھا ٹھہر جا ․․․ایسے نہیں تو مانے گا یہ کہہ کر عدید نیچے اترا اور پیڑ سے موٹا سا ڈنڈا توڑ کر اس کی پٹائی شروع کر دی گدھا ڈنڈے کھا کر اور بے حال ہو گیا جیسے تیسے ہو سکا بھاگا اس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھی ۔عدید اس پر ڈبل ظلم کر رہا تھا اور اس کو گدھے پر ذرا ترس نہ آرہا تھا اس کی پیٹھ زخمی ہو گئی وہ درد سے بلبلا رہا تھا عدید زخمی پیٹھ پہ جما بیٹھا تھا تکلیف کے مارے گدھا چیخنے لگا عدید بولا !ہوں تو اب بہانے ہو رہے ہیں ؟ٹھہر جانا معقول اگر مارتے مارتے چمگادر نہ بنا دیا تو میرا نام عدید نہیں یہ کہہ کر سڑاک سڑاک دس پندرہ آنڈے اس کے منہ پر جڑدئیے لیکن گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔اس کے آنسو بہہ رہے تھے اور بدن کانپ رہا تھا ایک دفعہ تو اس نے عدید کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہ رہا ہو !تو کس قدر پتھر دل ہے مرتے کو مارنا کہاں کی انسانیت ہے ۔خدا کے لئے مجھ پہ رحم کر اور مجھے چھوڑ دے مگر عدید رحم کے معنی نہیں جانتا تھا اس نے خوب دل کی بھڑاس نکالی اور گدھے کو مار مار کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا ۔گدھے نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا اور کہا!”گدھا میں نہیں تم ہو“گدھے کو بولتا دیکھ کر عدید کی سٹی گم ہو گئی آج تک اس نے کسی جانور کو اس طرح بولتے نہیں دیکھاتھا گھبرا کر نیچے اُتر آیا اور ہلکا کر بولا ”تو ․․․․․تو․․․․بولتا بھر․․․․بھی ․․․․․بھی ہے ؟گدھے نے آہستہ سے سر ہلایا اور بولا کیا کروں پھر ؟بولنا ہی پڑا۔میں بوڑھا کمزور جانور چلنے کی مجھ میں سکت نہیں مالک نے گھر سے نکال دیا ہے اور اب آپ بجائے اس کے کہ مجھ پر ترس کھائیں اُلٹا ظلم کر رہے ہیں کاش!آپ بھی میری طرح جانور ہوتے پھر آپ کو پتہ چلتا کہ ہم بے زبانوں میں بھی جان ہوتی ہے اور ہم بھی دکھ درد اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح انسان، یہ کہہ کر گدھا ایک طرف چل دیا اور عدید میاں سر کھجاتے رہ گئے ۔اچانک سامنے سے تصدق علی عرف صدر بڑا سا ڈنڈا پکڑے بھاگا چلا آرہا تھا اور جب صدر عین عدید کے پاس پہنچا تو پانچ چھ ڈنڈے اس کو جمائے اور چار ڈنڈے اس کے منہ پہ مارے اور غصے سے بولا!”کام چور نمک حرام کام سے چھپا پھر تاہے رسی تڑوا کر بھاگ آیا ہے برتن تیرا باپ پل مرادپہ لے کر جائیگا اور زمینوں سے چارہ کون لائے گا؟“تو گھر چل تیری ایسی مرمت کرونگا کہ عمر بھر یاد رکھے گا !عدید کو بہت غصہ آیا یہ گنوار صدر اسے مارے جانتا نہیں یہ خبیث کمہار کہ اس کے چاچو افضل پولیس میں تھانیدار میں پیٹھ سہلا کر بولا”نالائق تیری یہ جرات کہ تو مجھ پہ ہاتھ اُٹھائے چاچو سے کہہ کر تجھے حوالات میں بند کرو ادونگا۔بے غیرت تو نے مجھے گدھا سمجھ رکھا ہے جو میں برتن بازار لیکر جاؤں اور مویشیوں کے لئے چارہ لاد کر لاؤں؟تصدق صدر کمہارنے لال لال دیدے دکھائے اور عدید کو ایک ڈنڈا زور سے مار کر بولا!اب میں تیرے اوپر پہلے سے بھی زیادہ بوجھ ڈالا کروں گا ۔صدر کمہار اس کی پیٹھ پہ ڈنڈے مارتا رہا اور پنتے پیٹتے عدید کی دم اور پیٹھ لہو لہان ہو گئی عدید کو غش سا آنے لگا اور اس کی نظروں کے سامنے تارے سے ناچنے لگے وہ چیخیں مار مار کر رونے لگا ۔اے خدا !کیا میں سچ مچ گدھا بن گیا ہوں یہ کیا ہو گیا!پروردگار!برتن لاد کر صدر نے پیچھے سے ایک ڈنڈا مارا اور ڈانٹ کر بولا چل اب سیدھی طرح “وہ روتا دھوتا قسمت کو کوستا چلا جا رہا تھا یکا یک اس نے اپنے آپ کو اس طرح جھٹکا دیا کہ سارے برتن نیچے گر کر چکنا چورہو گئے ۔برتن گرنے کے بعد وہ بے تحاشا بھاگنے لگا بھاگم بھاگ ․․․چلا جا رہا تھا سر پت اندھا دھند ․․․․پیچھے صدر کمہار ڈنڈا گھماتا آرہا تھا ”پکڑنا پکڑنا یہ میرا گدھا ہے ،عدید کے گھر کے باہر کھمبا تھا عدید جو تیزی سے اپنے گھر کی طرف مڑا تو اس کا سر بڑے زور سے بجلی کے کھمبے سے جا ٹکڑایا اور ․․․․․وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا اس کی والدہ عنایت بی بی اس کے سرہانے کھڑی تھی وہ کہہ رہی تھی ۔شاباش بیٹا آفرین ہے تم پر ․․․آج تو تم شیطان سے شرط باندھ کر سوئے تھے نو بج رہے ہیں اور تم ابھی تک سوئے پڑے ہو ،عدید نے آنکھیں جھپک کر پہلے امی جان کو دیکھا اور پھر اپنے آپ کو !ارے تو کیا میں خواب دیکھ رہا تھا لاحول پڑھ کر اٹھ بیٹھا مگر صدر کے ڈنڈے کا خوف ابھی تک اس کے دل میں بیٹھا رہا ۔وہ اُٹھا اور کمرے سے باہر نکل آیا باہر اس کا کزن حسان ڈنڈا لئے مرغی کے پیچھے بھاگ رہا تھا عدید نے یہ منظر دیکھ کر فوراً حسان کو ڈانٹ کر کہا !یہ کیا کر رہے ہو شرم نہیں آتی ہے بے زبانوں کو تنگ کر رہے ہوں؟اگر میں تمہیں اس طرح پریشان کروں تو ؟اس دن سے عدید میاں بڑے رحم دل اور خدا ترس ہو گئے کبھی کسی جانور کو تنگ نہیں کیا اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی آئندہ کے لئے توبہ کرلی !اب وہ پرندوں اور جانوروں کا بہت خیال رکھتا تمام لوگ حیران تھے کہ عدید کی عادت میں تبدیلی کیسے ہو گئی انہیں کیا پتہ یہ سب کچھ صدر کے ڈنڈے کی کرامت تھی۔ " بچوں اور والدین کے حقوق وفرائض - تحریر نمبر 1699,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bachoon-or-waldain-k-huqooq-o-faraiz-1699.html,"محمد علیم نظامیایک اولاد کے لئے اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کو اس کے لئے ڈھال بنایا ہے ۔بچوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو فرائض مقرر کئے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ اولاد بھی اپنے والدین کے دکھ سکھ میں شریک ہوں اگر اولاد نیک ہوتو والدین کیلئے سونا چاندی بن جاتے ہیں اور اگر نیک نہ ہوں تو وہی اولاد اپنے والدین کے لئے وبال جان بن جاتی ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کے لئے بھی جو حقوق وفرائض طے کئے ہیں وہی حقوق اولاد کے لئے بھی مقرر کئے گئے ۔اگر اولاد والدین کیلئے سادہ اور سلجھی ہوئی ثابت ہوتی ہے تو والدین کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بھی اپنے بچوں کے لئے ویسا ہی طریقہ کار اپنائیں جیسا کہ اس نے اولاد کے لئے مختص کئے ۔والدین اور بچوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتاہے ۔(جاری ہے)اگر اولاد میں سے کوئی ایک بچہ بھی بیمار پر جاتاہے تو والدین کے لئے یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ اس کا بچہ بیمار ہوا اور کیسے صحت یاب ہو گا۔اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں افراد بیمار پڑ جائیں تو اولاد اس تک ودو میں لگ جاتی ہے کہ کیسے وہ اپنے والدین کی صحت کا تدارک کریں گے ۔جو بچے اپنے ماں باپ کے لاڈلے ہوتے ہیں وہ ہر دم اپنے امی ابو کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ !ہمارے پیارے امی ابو کو ٹھیک کردے ۔ان کی بیماری کو دور کر دے اور انہیں واپس صحت کی طرف لوٹا دے ۔اسی طرح اگر بچے بیمار پڑ جائیں تو ان کے والدین اس خواہش کا ورد کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمارے بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور اے اللہ تعالیٰ تیرے کرم سے ہمارے بچے کو جلد از جلد واپس صحت کی طرف پہنچادے ۔اللہ تعالیٰ نے اولاد پر اللہ تعالیٰ کے حقوق مقرر کئے ہیں ۔ان کا تقاضا یہ ہے کہ بچے بغیر کسی تاخیر کے اپنے ماں باپ کا علاج کروائیں چاہے انہیں اتنے ہی پاپڑبیلنے پڑ جائیں ۔اولاد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے والدین جیسی انمول چیز کا دھیان اپنی طرف رکھے اور جسے ہی دیکھے کہ ان کے والدین نقاہت اور کمزوری محسوس کر رہے ہیں اور ان سے اچھی طرح چلا پھرانہیں جاتا تو وہ مکمل علاج کے لئے قریبی علاج کا دلے جائیں اور اپنے ماں باپ کا علاج معالجہ کرائیں۔ " شہید ملت - تحریر نمبر 1697,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shaheed-millat-1697.html,"ایمن شاہد، میر پور خاصقائد ملت لیاقت علی خان کا شمار ان عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے جو پاکستان کے لئے پیدا ہوئیں ،پاکستان کے لئے زندہ رہیں اور پاکستان کے لئے ہی جان قربان کی ۔وہ ملک کے صف اول کے رہنماؤں میں سے تھے اور قائد ملت کے نام سے مشہور تھے ۔قائد اعظم کے دست راست اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکریٹری تھے۔قائد ملت کرنال کے نواب خاندان میں 1895ء میں پیدا ہوئے تھے ۔ان کا سلسلہ نسب ایران کے مشہور فرمانروانوشیرواں سے ملتاہے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے اُتر پردیش میں حاصل کی ۔بی اے علی گڑھ یونی ورسٹی سے کیا اور بیرسٹری کی تعلیم کے لئے انگلینڈ کی آکسفورڈ یونی ورسٹی میں داخل ہو گئے ۔1921ء میں انھوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی ۔وہ فطرتاً خاموش طبع اور محنتی انسان تھے ۔(جاری ہے)ان کے دل میں قوم کا گہرا درد تھا ۔ظاہر داری اور منافقت سے انھیں نفرت تھی۔قائد اعظم نے ان کی قابلیت کی قدر کرتے ہوئے انھیں اپنا دست راست بنا لیا ۔1947ء کو پاکستان وجود میں آیا تو وہ ملک کے پہلے وزیر اعظم بنے ۔یوں ایک نہایت اہم ترین ذمے داری ان کے کاندھوں پر آن پڑی۔ انھوں نے اپنی قابلیت ،تدبیر اور سیاسی سوجھ بوجھ کا پورا پورا ثبوت دیا۔عالمی برادری میں بھی انھوں نے پاکستان کا نام بلند کیا۔ قائداعظم کی وفات کے بعد تو ان پر مزید ذمے داری پڑ گئی ۔انھوں نے ہر مشکل کا مقابلہ نہایت مد برانہ اور تحمل مزاجی سے کیا۔ ان کی عظیم خدمات کے اعتراف کے طور پر قوم نے انھیں قائد ملت کا خطاب دیا ۔ان میں یقینی طور جرأت ،مستقل مزاجی اور بہترین انتظامی قابلیت موجود تھی ۔جس سے شب وروز کام لے کر انھوں نے آخری دم تک ملک وملت کی بے غرض خدمت انجام دی ۔انھوں نے امریکا کا دورہ کیا اور وزرائے اعظم کا نفرنس میں شامل ہو کر پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کروایا ۔بھارت نے جب پاکستانی سرحدوں پر فوج جمع کی تو آپ نے بھارت کو مکا دکھا کر اپنی قوم کو متحد ہونے کا پیغام دیا۔وہ مسلمانان عالم کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کے خواہش مند تھے ۔16اکتوبر1951ء کو آپ راولپنڈی میں ایک اہم تقریر کرنے والے تھے ،آپ نے کھڑے ہو کر صرف یہ کہا تھا کہ میرے پیارے ہم وطنو!کہ سید اکبر نامی ایک شخص نے آپ پر فائرنگ کردی ۔جس کے نتیجے میں انھوں نے قوم کو ہمیشہ ہمیشہ چھوڑ گئے ۔کسی ملک کو ایسے مخلص اور قابل سیاست دان مشکل سے ملا کرتے ہیں ۔جب آپ زندہ تھے تو قائد ملت تھے پھر شہید ہونے کے بعد شہید ملت کہلائے ،آپ کو پاکستان سے اس قدر محبت تھی کہ جو شہادت کے وقت بھی آپ کی زبان سے جو جملہ نکلا وہ یہ تھا:”خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔“ " نوبل پرائز - تحریر نمبر 1696,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nobel-prize-1696.html,"ڈاکٹر سیدہ صدف اکبرنوبل پرائز ایک ایسا قابل فخر انعام ہے جس کو دنیا بھر میں بے حدمعتبر مانا جاتاہے ۔نوبل پرائز کے بانی الفریڈ نوبل جو اپنے دور کے مایہ ناز موجد،انجینئر اور ماہر کیمیا تھے اور انہوں نے اپنی 335ایجادات کے ذریعے بے پناہ دولت حاصل کی تھی ۔ایک اندازے کے مطابق الفریڈ نوبل کی دولت 186ملین ڈالر سے بھی زائد تھی ۔نوبل جو پیدا تو سویڈن میں ہوئیں مگر اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ روس میں گزارا۔انہوں نے اپنی جمع کی ہوئی رقم کو ابتدائی پانچ انعامات کے لئے مقرر کر دیا تھا اور پھر ان کی موت کے بعد یہ انعام ہر سال ایسے خاص افراد یا اداروں کے نام دیا جانے لگا جنہوں نے فزکس ،کیمیا، طب، ادب اور امن کے میدانوں میں کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہو۔(جاری ہے)1897ء میں نوبل پرائز کا باقاعدہ آغاز ہوا اور ابتداء میں ریجنر سو ہلمین اور روڈولف کو نوبل فاؤنڈیشن کا سر براہ مقرر کیا گیا اور پھر ان افراد کی منظوری کے بعد نارویجین نوبل کمیٹی اور فزکس اور کیمسٹری میں رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز بنائے گئے جبکہ فزکس اور میڈیسن میں نوبل انعام دینے کے لئے کا رولنسکا انسٹیٹیوٹ کی نوبل اسمبلی اور ادب کے لئے سوئیڈش اکیڈمی کو نامزد کیا گیا جبکہ امن کے شعبہ میں ناروے کی قانون ساز اسمبلی کے منتخب کردہ پانچ افراد کی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔اور پھر 1901ء میں فزکس، کیمسٹری، ادب، فزیالوجی، میڈیسن اور امن کے شعبہ جات میں نوبل انعامات دےئے گئے ۔نوبل انعام کی تقسیم کا اعلان ہر سال اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کیا جاتاہے اور پھر دس دسمبر کو ہر سال نوبل انعام کی تقریب کا انعقاد کیا جاتاہے جس میں ہر انعام یافتہ ایک طلائی میڈل، ایک عدد ڈپلوما اور کچھ مخصوص رقم ادارے سے وصول کرتاہے۔تاریخ میں پہلا نوبل انعام جرمنی سے تعلق رکھنے والے ول ہیلم کو دیا گیا۔جان برڈین جو ایک ماہر فلکیات تھے انہیں فزکس میں دوبار نوبل انعام سے نوازا گیا اس کے علاوہ میری کیوری نے 1903ء میں فزکس اور پھر 1911ء میں کیمسٹری کا نوبل انعام حاصل کیا۔فزکس کے میدان میں ابھی تک صرف تین خواتین نوبل انعام حاصل کر چکی ہیں ۔میری کیوری کے بعد ماریا جیوپرٹ نے 1963ء میں جبکہ 2018ء میں ڈونا اسٹک لینڈ نے فزکس میں نوبل انعام حاصل کئے۔1939ء سے 1943ء تک کے دور میں کسی بھی فرد یا ادارے کو کسی بھی فیلڈ میں نوبل پرائز سے نہیں نوازا گیا جبکہ 1968ء میں بنک آف سویڈن نے نوبل پرائز کی فہرست میں معیشت کے نوبل پرائز کے اضافے کا اعلان کیا۔ " پانچواں مجرم - تحریر نمبر 1695,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/panchwaan-mujrim-1695.html,"بیگم سلمیٰ محمد عقیل شاہوہ پانچوں سر جھکائے کھڑے تھے ۔انھیں شیطان کے چیلے پکڑ کر شیطان کی عدالت میں لائے تھے ۔ پانچوں حیران تھے کہ آخر وہ کس جرم کے تحت یہاں لائے گئے ہیں ۔آخر ایک کالے پردے کے پیچھے سے شیطانی ہنسی کے ساتھ ہی ایک آواز گونجی:”مجرم نمبر ایک کاجرم بتایا جائے ۔“”استاد !اس نے دن رات ایک کرکے اپنے والدین کی خدمت کی ۔ان کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ان کے بڑھاپے کا سہارا بنا۔“ایک شیطانی ہنسی کے ساتھ ہی پھر خاموشی چھا گئی ۔”مجرم نمبر 2کا جرم کیا ہے ؟“”اس کے دل میں بہت محبت اور ہمدردی ہے جس کی وجہ سے اس نے اپنے مرحوم بھائی کے بچوں اور بیوہ بھابھی کی سر پرستی کی ۔ان کے بچوں کو اپنے بچوں سے زیادہ پیار دیا اور اعلیٰ اور بہتر تعلیم دلائی ۔(جاری ہے)یہاں تک کہ بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے ۔یہی اس شخص کا جرم ہے ۔“ایک بار پھر شیطانی ہنسی بلند ہو ئی۔”مجرم نمبر 3نے کیا جرم کیا ہے ؟“تیسرا مجرم بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔”اُستاد!اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے اپنے خاندان سے بغاوت کی اور اپنی بہن کو گاؤں سے تعلیم دلانے کے لئے شہر لے آیا اور اپنی بہن کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ بے انتہا محبت دی اور ایک مہذب خاندان میں اس کی شادی کردی ۔یہی اس کا جرم ہے ۔“”اور مجرم نمبر 4کو کس جرم میں پکڑا ہے؟“”استاد!اس مجرم کے اندر خدمت خلق کا بڑا شوق پیدا ہو گیا تھا۔اس نے ایک جگہ تربیت گاہ قائم کی تھی ،جہاں لوگ تربیت پا کر اپناکا روبار کر سکتے تھے اور اس طرح بے شمار لوگوں کو معاشرے کا اچھا شہری بنانے میں کامیاب ہوا۔یہی اس کا جرم ہے ۔“”بس بس میرا دماغ پھٹ جائے گا۔ایسے مجرموں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ہمارا کام مشکل ہوتا جارہاہے۔“”استاد !پانچواں مجرم باقی ہے ۔“”بس کرو ،بس کرو ان مجرموں کے کارنامے مزید نہیں سن سکتا،لے جاؤ سب کو سو سو کوڑے لگا کر اندھیری کوٹھڑی میں بند کردو،تاکہ ان کے دماغ سے نیکی کا بھوت اُتر جائے ۔“پانچوں ایک ساتھ بول پڑے :”نہیں ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہمیں مت مارو،مت مارو۔“صبور بے چینی کے عالم میں نیند سے بیدار ہوا:”میرے خدایا!یہ کیسا خواب تھا۔“وہ بستر سے اُٹھ کر دادا جان کے کمرے کی طرف گیا ،لیکن دادا جان تو فجر کی نماز کے بعد تازہ ہوا کے لئے باہر گئے ہوئے تھے ۔صبور دادا جان کے کمرے میں ان کے بستر پر لیٹ گیا اور دادا جان کا انتظار کرنے لگا۔دادا جان کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے:”صبور بچے!آج کیا بات ہے چھٹی ہونے کے باوجود تم اتنی جلدی جاگ گئے ہو،کوئی پریشانی ہے کیا؟“”دادا جان!آپ پہلے بیٹھیے تو سہی پھر میں بتاتا ہوں۔“دادا مسہری پر بیٹھ گئے تو اس نے کہا:”دادا جان!میں نے آج بہت ہی عجیب خواب دیکھا ہے ۔میں بہت پریشان ہوں ۔ایسا کیسے ہو سکتاہے؟“دادا جان نے کہا:”بیٹا !مجھے کچھ بتاؤ تو ،جب ہی میں کچھ جواب دے سکوں گا۔“پھر صبور نے اپنا خواب دادا جان کو سنایا۔خواب سننے کے بعد دادا جان ہلکی مسکراہٹ لئے صبور کو غور سے دیکھنے لگے ۔”سچ دادا جان !میں بہت پریشان ہوں۔“”صبور بچے!اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔حالات جتنے بھی مشکل ہو جائیں حق اور سچ کا ساتھ دینا چاہیے۔“”کیا مطلب دادا جان!“”شیطان کی نظر میں تو ہر نیک آدمی اس کا دشمن ہے ۔ہمیں اپنے فرض سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ شیطان کی نظر میں تو میں بھی مجرم ہوں۔“”وہ کیسے ؟“ صبور نے پوچھا۔”تم خواب میں پانچ میں سے چار مجرموں کے حالات جان چکے ہو ۔میں تمھیں بتانا تو نہیں چاہتا تھا،لیکن خیر!پانچویں مجرم کی کہانی سناتاہوں۔“”کیا مطلب دادا جان!“”سنو!جب پاکستان بنا تو بہت لوگوں نے ہجرت کی ۔اس وقت سفر کرنا بہت خطر ناک تھا۔دشمن ہمارے خون کا پیا سا تھا۔قتل وغارت گری کے طوفان سے بچ کر کچھ لوگ مہاجر کیمپ تک پہنچ گئے تھے ۔بیشتر خاندان ایسے تھے جن میں کوئی والدین سے محروم ہو گیا تھا،کوئی اپنی اولادوں سے بچھڑ گیا تھا۔مہاجر کیمپ میں چھوٹے چھوٹے دو لاوارث بچے بھی تھے ۔ایک لڑکا اور ایک لڑکی ۔میں نے اور تمہاری مرحومہ دادی نے ان دونوں کو سینے سے لگایا اور اپنی اولاد کی طرح پالا۔شروع میں مشکل سے گزارہ ہوا تھا۔میں نے چھوٹا سا کاروبار کیا ۔اللہ نے برکت دی ۔خوش حالی آگئی ۔وہ دونوں بچے بڑے ہو گئے تو اچھے گھرانوں میں ان کی شادی کردی۔“صبور دادا کی باتیں سننے میں محو تھا۔اچانک پوچھا:”اب وہ دونوں بچے کہاں ہیں؟“”ایک بچہ تو ڈاکٹر مسرور ہے ،جو تمہارے ابو ہیں ۔دوسری تمہاری پھوپی ہیں جو ایک گرلز کالج میں پروفیسر ہیں۔“ صبور کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔”دادا جان!اگر میں یہ خواب نہ دیکھتا تو آج آپ کی عظمت سے بھی واقف نہ ہوتا۔“دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا:”تم مجھے اپنے خواب کا پانچواں مجرم بھی کہہ سکتے ہو۔“صبور دیر تک دادا جان کے سینے سے لگ کر بیٹھا رہا ،جہاں چاہت اور محبت کی ٹھنڈ تھی اور سکون ہی سکون تھا۔ " بخشی میاں - تحریر نمبر 1694,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bakhshi-mian-1694.html,"عشرت جہاںبخشی میاں کا دروازہ اکثر بند رہتا تھا ۔کھڑکی اس وقت کھلتی جب انھیں پھلوں کے چھلکے پھینکنے ہوتے ،یا گلی میں کھیلتے بچوں کو ڈانٹنا ہوتا۔اکثر ان کی تیز آواز سنائی دیتی :”گھر میں ٹک کر بیٹھا نہیں جاتا۔اودھم مچا رکھا ہے محلے میں،کھڑکیاں توڑنے کو پیدا ہوئے ہیں ،سب بھاگ جاؤ۔ اب گلی میں مجھے کوئی نظر نہ آئے۔“ وہ کھڑکی سے سر نکال کر چلاتے تو بچے اپنے اپنے گھروں کے دروازوں کے پیچھے سے انھیں جاتا دیکھ کر ذرا دیر بعد پھر سے اکٹھا ہو جاتے اور کھیل کود میں مگن ہو کر سب کچھ بھول جاتے ۔دوسروں کے بچوں کو تو کیا انھوں نے کبھی اپنے بچوں کو بھی کھیل کود میں پڑنے نہ دیا تھا۔اگر کبھی وہ گھر سے باہر نکل بھی آتے اور بخشی میاں کو پتا چل جاتا تو وہیں سے پکڑ لاتے ۔(جاری ہے)پھر بچوں کے ساتھ ساتھ بیوی کو بھی سنا ڈالتے ۔بخشی میاں محلے کے کسی فرد کو اپنے لائق نہ سمجھتے ۔ان کے خیال میں لوگ اس قابل نہیں کہ انھیں منہ لگایا جائے ۔بیٹے بڑے ہو کر ذرا قابل ہوئے تو ایک ایک کرکے گھر چھوڑ گئے۔ اپنی دنیا بنانے کے لئے انھیں نکلنا ہی پڑا۔بیٹوں کے جانے کا ذمے دار بھی وہ بیوی کو ہی ٹھہراتے :” اگر تم ڈھنگ سے ان کی تربیت کر تیں تو وہ جاتے ہی کیوں؟“ وہ اکثر طعنہ دیتے اور بے چاری بیوی خاموشی سے سن لیتی ۔بخشی میاں کے گھر سے باہر جانے کے بعد اللہ سے فریاد کرنے لگی ۔بیٹے بھی یاد آنے لگے ۔اسے گزرے ہوئے وہ دن یاد آگیا ،جب وہ اپنے تینوں بیٹوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی․․․․․”میری خواہش ہے کہ میں اتنی دولت کماؤں کہ آپ کے لئے ایک محل خرید سکوں!“بلال نے سر اُٹھا کر ماں سے کہا۔”اور میری خواہش ہے کہ میں ایک بڑا باغ خریدوں،جس میں قسم قسم کے پھل دار درخت ہوں، پھول ہوں ،سبزہ ہو،جھولے اور بہت کچھ ۔“دانیال کی آنکھوں میں بھی خواب سجے تھے ۔”اور میری خواہش ہے کہ میں ایک جہاز خریدوں،جس میں بیٹھ کر اماں کے ساتھ ملکوں ملکوں کی سیر کر سکوں۔“چھوٹا بھائی نہال بولا۔”اور میری خواہش ہے ،میرے تینوں بیٹے میرے پاس ہی رہیں ،میری آنکھوں کا تارا بن کر۔“ماں محبت سے بولی ۔”ہم سب بلال بھائی کے محل میں رہیں گے،دانیال بھائی کے باغ کی سیر کریں گے اور میرے جہاز میں گھومیں پھریں گے ۔“نہال چہک کر بولا۔سب ہنسنے لگے ۔ماں بچوں کی باتیں یاد کرکے روتے روتے ہنس پڑی ۔اُدھر بخشی میاں دوستوں میں بیٹھے اپنے کارنامے سنا رہے تھے ۔”ارے نانبائی کی اولاد ہے ۔بے شک آج اہم عہدے پر ہے ،مگر ہے تونانبائی ۔“انھوں نے حاکم شہر کے خاص افسر کے بارے میں شوشہ چھوڑا۔”بخشی بھیا!سوچ سمجھ کر بولا کرو۔یہ کیا کہہ رہے ہو ۔دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔“ ایک دوست بولا۔بخشی میاں چہک کر بولے:”نابھئی ہم کیا کسی سے ڈرے بیٹھے ہیں ۔اس کے باپ دادا گلیوں میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے ۔انسان کو اپنی اوقات یاد رکھنی چاہیے۔“وہ سوچ سمجھ کر بولنے والوں میں سے نہ تھے ۔نواز خان سے انھیں نہ جانے کیا پر خاش تھی کہ اس کے خلاف بولتے رہتے ۔ خیر اس وقت تو بات آئی گئی ہو گئی،مگر وہ جو کہتے ہیں منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی ،وہی معاملہ ہوا۔ایک دن حاکم شہر کے چند کارندے آئے اور بخشی میاں کو لے گئے ۔نواز خان کو تواضع نے ان کے چودہ طبق روشن کر دیے ۔کئی دن مہمان خانے میں رہ کر گھر آئے تو ان کی چلتی زبان رک گئی ۔بیوی کو بھی ان کی بد زبانی سے نجات مل گئی ۔سچ ہے اونٹ پہاڑ کے سامنے آتاہے تو اسے اپنے قد کا اندازہ ہوتاہے ۔انھیں اپنی کڑوی زبان کے نقصان کا اندازہ ہوا تو اس کے مزاج میں تبدیلی آگئی ،بلکہ کا یا پلٹ گئی ۔بیٹوں کو پتا چلا تو گھر لوٹ آئے ۔ابا کے مشورے سے تینوں بھائیوں نے مل کر ایک جگہ بڑا سا خوب صورت گھر لیا،جس میں ایک خوب صورت ساباغ بھی تھا۔ماں نے تین خوب صورت اور خوب سیرت شہزادیوں جیسی دلہنیں تلاش کرکے بیٹوں کی شادیاں کردیں ۔یوں سب مل جل کر ہنسی خوشی رہنے لگے۔ " شیر کی بادشاہت - تحریر نمبر 1693,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sheer-ki-badshahat-1693.html,"سیدہ مبشرہ ،کراچیایک جنگل میں ہاتھی کی حکومت تھی جو بظاہر بہت طاقت ور دکھائی دیتا تھا،لیکن دن بھرتالاب کے کنارے سست بیٹھا رہتا اور اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزار دیتا۔جنگل بہت وسیع وخوب صورت تھا،اسی وجہ سے دوسرے جنگل کے جانوروں کی نظر پر تھی ۔دشمن پہلے بھی ایک دفعہ حملہ کر چکا تھا،لیکن شیر کے گروہ نے دشمنوں کو مار بھگایا۔ہاتھیوں کی لا پرواہی دیکھتے ہوئے دشمن ایک بار پھر حملے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ہاتھی اس بات سے بالکل بے خبر تھے ،لیکن شیروں کو اس بات کی خبر جلد ہی ہو گئی اور شیروں نے خفیہ طور پر مقابلے کی تیاریاں شروع کردیں اور رات کو جاگ کر پہرا دینے لگے۔شیر نے ایک دن ہاتھی اور تمام جانوروں کو اِکھٹا کیا اور خطرے سے آگاہ کیا۔(جاری ہے)یہ بات ہاتھی کو بُری لگی ،لیکن اس نے اپنا غصہ ضبط کر لیا کہ آخر شیر کہنا کیا چاہ رہا ہے ۔شیر نے کہا کہ پڑوسی جنگل کے جانور کسی بھی وقت ہم پر حملہ کر سکتے ہیں ۔یہ سن کر ہاتھی زور سے قہقہہ لگانے لگے ۔ان کی دیکھا دیکھی گینڈے بھی ہنسنے لگے کہ بھلا ہم اتنے بڑے اور طاقت ور ہیں اور وہ معمولی جانور بھلا کیسے ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ہرن ،بندر،خرگوش وغیرہ اپنے بچوں کی طرف سے پریشان ہو گئے اور شیر کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ سب جانوروں کی حفاظت بادشاہ کی ذمے داری ہے ،مگر ہاتھیوں نے یہ بات سنی اَن سنی کردی۔شیر کی باتوں میں سچائی تھی اور یہ سچائی ایک دن ہاتھیوں اور گینڈوں پر واضح ہو گئی۔ایک رات دشمن جانور حملہ آور ہو گئے ۔دور سے دشمن کے قدموں کی آہٹ سن کر شیر خود بھی چوکنا ہو گئے اور دوسرے جانوروں کو بھی جگا دیا ،تاکہ وہ اپنی حفاظت کر سکیں ،لیکن ہاتھی اور گینڈے نیند کے مزے لے رہے تھے ۔پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔دشمنوں نے سوئے ہوئے ہاتھیوں اور گینڈوں کو اپنا نشانہ بنایا،لیکن عین اسی وقت شیروں نے دشمنوں پر اس طرح حملہ کیا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔لڑائی کافی دیر تک ہوئی۔صبح ہونے کے آثار نظر آنے لگے۔صبح کی روشنی میں دشمن جانوروں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ہاتھیوں اور گینڈوں کی خاصی تعداد ہلاک ہو گئی ۔اب ہر طرف امن کی فضا تھی۔سب جانوروں کے مشورے سے ایک عقل مند اور ذہین شیر کو بادشاہ کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ " اچھائی کا انعام - تحریر نمبر 1692,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/achai-ka-inaam-1692.html,"دعا مصطفی ،خیر پور میرسکسی گاؤں میں عباس اپنے ماں باپ اور بہنوں کے ساتھ رہتا تھا۔وہ بہت ہی نیک ،سمجھ دار اور ایمان دار لڑکا تھا۔وہ لوگ بہت ہی غریب تھے ۔عباس اس گاؤں کے چودھری کی زمین پر کام کرتا تھا۔چودھری بڑا ہی کنجوس تھا۔وہ عباس کو کام کے بدلے تھوڑے سے پیسے دیتا جس سے ان لوگوں کی گزر بسر بہت مشکل سے ہو پاتی ۔وہ جنوری کی ایک سرد شام تھی ۔عباس کھیت میں اکیلا کام کر رہا تھا۔سب کسان اپنے اپنے گھر جا چکے تھے ۔عباس نے یہ سوچ کر کام بند نہیں کیا کہ چلو تھوڑا کام ہے آج ہی مکمل کرلوں گا ۔تھوڑی دیر بعد سارا کام ختم ہو گیا۔عباس سامان باندھ رہا تھا کہ دور سے ریل کے آنے کی آواز سنائی دی ۔آواز قریب ہوتی جارہی تھی ۔عباس نے سوچا کہ چلو آج قریب جاکے ریل دیکھ لیں ۔(جاری ہے)وہ وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ ریل کی پٹڑی بیچ سے ٹوٹی ہوئی تھی ۔ابھی ریل کچھ دور تھی اس نے سوچا ریل میں پتا نہیں کتنے مسافر سوارہوں گے ،ان کی جان کو خطرہ ہے۔ یہ سوچ کر عباس بھاگتا ہوا اوپر چڑھ کر آوازیں دینے لگا ”ریل کی پٹڑی ٹوٹی ہوئی ،ریل کوروکو۔“ریل کے ڈرائیور نے جب یہ آواز سنی تو جلدی سے ریل کو روک دیا اور باہر آکر پوچھنے لگا ”کیا بات ہے لڑکے!ریل کیوں رکوادی؟تمھیں پتا ہے اس ریل میں وزیر اعلیٰ کی والدہ بھی موجود ہیں۔“ڈرائیور یہ کہہ کر چپ ہو گیا تو عباس نے بتایا:”ارے چاچاجی!آگے ریل کی پٹڑی ٹوٹی ہوئی ہے ۔اگر میں وقت پر نہیں بتاتا تو آج ان لوگوں کی جان جا سکتی تھی ۔دیکھیے اس ریل میں کتنے مسافر سفر کررہے ہیں۔“”مہر بانی بیٹا!تم نے ہماری جانیں بچا لیں۔“ڈرائیور چاچا نے کہا۔”نہیں چاچا یہ تو ہمارا فرض ہے۔“”اچھا بیٹا! آپ کے والد کا نام کیا ہے؟“”میرے والد کا نام غلام محمد ہے۔“اگلے دن عباس کھیت میں کام کررہا تھا کہ اچانک اس کی نظر کالے رنگ کی کارپر پڑی ۔اس کا دروازہ کھلا اور اس میں ایک سوٹ پہنے ایک آدمی اور دو گارڈ کھیتوں کی طرف آنے لگے ۔اس آدمی نے پوچھا:”یہاں غلام محمد کا بیٹا کام کرتاہے؟“”جی میں ہوں غلام محمد کا بیٹا،فرمائیے۔“عباس نے قریب آکر جواب دیا۔اس آدمی نے عباس سے کہا:”تم نے میری ماں سمیت بہت سے انسانوں کی جان بچائی ہے اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ لوگوں کو حکومت کی طرف سے ایک اچھا گھر اور ایک بڑی رقم انعام کے طور پر دیا جائے ۔تمھاری تعلیم مفت ہو گی۔ملک کو تم جیسے ہونہار کی ضرورت ہے ۔چلو ہمیں اپنے والد سے ملواؤ۔“عباس بہت خوش تھا کہ اللہ پاک نے اس کی اچھائی کا بہترین صلہ دیا۔ " حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ - تحریر نمبر 1691,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hazrat-umar-farooq-ra-1691.html,"عائشہ کشفحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے ۔ان کا دور خلافت اسلامی فتوحات کا سنہری دور تھا۔ان کے دور میں شام، مصر،عراق اور ایران کے کئی علاقے فتح ہوئے ۔انھوں نے اپنے عہد خلافت میں اسلامی حکومت کی حدود کو وسیع کیا۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا نظام ترتیب دیا جو آج تک پوری دنیا میں رائج ہے ۔انھوں نے سن ہجری کا آغاز کیا ،جیل کا تصور دیا،موٴذنوں کی تنخوا ہیں مقرر کیں ،مسجدوں میں روشنی کا بندوبست کیا ،پولیس کا محکمہ بنایا۔دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں ،بیواؤں اور بے آسراؤں کے وظیفے مقرر کیے۔فوجی چھاؤنیاں بنوائیں اور فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا اور بے انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا اور دنیا میں پہلی بار با اختیار لوگوں کا احتساب بھی شروع کیا۔(جاری ہے)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے :”جو حکمران عدل کرتے ہیں،وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں۔“ان کا فرمان تھا کہ قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتاہے۔ان کے دستر خوان پر کبھی دو سالن نہیں رکھے گئے۔وہ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سوجاتے تھے۔ان کے کُرتے پر14پیوند تھے اور ان پیوندوں میں ایک سرخ چمڑے کا پیوند بھی تھا۔وہ موٹا اور کھردرا کپڑا پہنتے تھے۔انھیں نرم اور باریک کپڑے پسند نہیں تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کسی کو گورنر بناتے تھے تو اسے نصیحت فرماتے :”کبھی ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہونا،باریک لباس نہ پہننا ،چھنا ہوا آٹا نہ کھانا،دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی کے آنے پر دروازہ بند نہ کرنا۔“حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فقرہ آج بھی انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتاہے:”مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں ،تم نے کب سے انھیں غلام بنالیا۔“وہ اسلامی دنیا کے پہلے خلیفہ تھے ،جنھیں امیر المومنین کا خطاب دیا گیا اور دنیا کے واحد حکمران تھے جو فرمایا کرتے تھے:”میرے دور میں اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کی سزا مجھ کو بھگتنا ہو گی۔“حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور میں جس جس خطے میں اسلام کا جھنڈا لہرایا،وہاں سے آج بھی ”اللہ اکبر“کی صدائیں آتی ہیں ،وہاں آج بھی لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ان کا بنایا ہوا نظام دنیا کے 245ممالک میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ۔آج بھی جب کسی ڈاک خانے سے کوئی خط نکلتاہے، پولیس کا کوئی سپاہی وردی پہنتاہے ۔کوئی فوجی جوان 4ماہ بعد چھٹی پر جاتاہے یا پھر حکومت کسی بچے ،معذور ،بیوہ یا بے آسرا شخص کو وظیفہ دیتی ہے تو وہ غیر ارادی طور پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عظیم ترین حکمران تسلیم کرتی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مشرکین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام میں اگر ایک عمر اور ہوتا تو آج دنیا بھر میں صرف دین اسلام ہی نافذ ہوتا۔ " گمنام دوست - تحریر نمبر 1690,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gumnaam-dost-1690.html,"سیدہ عطرت بتول نقویکافی رات ہو گئی تھی لیکن رازی ابھی تک جاگ رہا تھا وہ تصویر مکمل کیے بغیر سونا نہیں چاہتا تھا اس تھوڑی دیر پہلے ہی ماما کمرے میں آئی تھیں اور پوچھا تھا کہ تمہارے کمرے کی لائیٹ کیوں چل رہی ہے ابھی تک سوئے کیوں نہیں ،رازی نے ماما کو بتایا کہ سکول میں مصوری کا مقابلہ ہے جس کی پینٹنگ سب سے اچھی ہو گی اس کو انعام ملے گا اور پینٹنگ شہر میں ہونے والی ایک بڑی نمائش میں رکھی جائے گی ۔ماما اسے شب خیر کہہ کر اور جلد سونے کی تاکید کرکے چلی گئی تھیں اب رازی برش،رنگ وغیرہ لے کر بیٹھا تھا کہ کوئی بہت زبردست شاہکار قسم کی تصویر بناؤں لیکن جو آئیڈیا بھی اس کے ذہن میں آتا تھا رازی اس کے بارے میں یہی سوچتا کہ نہیں کوئی اور اس سے بھی اچھا،اب رات گہری ہو گئی رازی نے سوچا کہ وہ تصویر بنانا شروع کر تاہے آئیڈیاز ساتھ ساتھ آتے جائیں گے ۔(جاری ہے)اچانک ہی اسے یاد آیا کہ آج شام کو پارک سے آتے ہوئے اسے سڑک پر گرا ہوا ایک شناختی کارڈ ملا تھا اس نے اپنے دوستوں کو دکھایا کہ کہیں ان کے بابا کا تو نہیں ہے لیکن سب نے کہا کہ نہیں ان کے والد کا نہیں ہے ایک دوست نے کہا کہ اس شناختی کارڈ پر جس انکل کی تصویر ہے وہ غیر ملکی لگ رہے ہیں ایک دوست نے کہا کہ ان انکل کا ہیر اسٹائل بہت پیارا ہے رازی کو آئیڈیاز آیا کہ شناختی کارڈ پر جس انکل کی تصویر ہے وہی بنا لیتا ہوں اس نے شناختی کارڈ پر دیکھ دیکھ کر بہت زبردست پینٹنگ تیار کرلی رنگوں کا استعمال بہت اچھا کیا اور انکل کے ہیر اسٹائل کو بہت اچھا پینٹ کیا اور تصویر پر کیپشن دیا نا معلوم دوست۔دوسرے دن سکول کے بڑے ہال میں مقابلہ تھا مشہور مصور آئے ہوئے تھے جو مقابلے کے جج تھے بہت سی اچھی تصاویر مقابلے میں پیش کی گئیں ۔پہلا انعام رازی کی تصویر کو ملا اور اس کی تصویر شہر کی ایک بڑی آرٹ گیلری کی نمائش میں شامل کرنے کے لئے منتخب ہو گئی ۔جس دن آرٹ گیلری میں تصاویر کی نمائش تھی رازی اپنے ماما پاپا کے ساتھ وہاں موجود تھا وہ سب لوگوں کے تبصرے سن رہا تھاجو اس کی تصویر پر کررہے تھے ،سب لوگ اس کی بنائی ہوئی تصویر کی تعریف کررہے تھے ۔بچے نے یونانی نقش ونگار والے شخص کو کتنی اچھی طرح سے پینٹ کیا ہے بالوں پر کتنی محنت کی ہے ۔رازی اور اس کے ماما پاپا یہ تبصرے سن کر خوش ہو رہے تھے ۔مڑ کر دیکھا تو وہی تصویر والے انکل کھڑے تھے بالکل ویسے ہی تھے جیسے تصویر میں تھے اور وہ بڑی حیرت سے کبھی اپنی پینٹنگ کو اور کبھی رازی کو دیکھ رہے تھے پھر انہوں نے بڑی نرمی سے پوچھا کہ بیٹا آپ نے مجھے کہاں دیکھا تھا؟رازی نے بتایا کہ مجھے ایک گرا ہوا شناختی کارڈ ملا تھا جس پر آپ کی تصویر تھی ،اوہ اچھا انکل بولے مجھے تو کئی دنوں سے شناختی کارڈ گم ہونے کی پریشانی تھی ،کیا وہ آپ کے پاس ہے؟جی میں نے سنبھال کر رکھا ہے ،رازی نے کہا،شکر ہے انکل نے سکون کا سانس لیا،پھر انکل رازی کے ماما پاپا سے ملے انہوں نے انکل کو اپنے گھر انوائیٹ کیا،اگلے دن انکل رازی کے لئے ڈھیروں تحفے لے کر آئے ۔پاپا نے ان کے لئے شاندار دعوت کا انتظام کیا تھا۔انکل ملک یونان سے سیاحت کی غرض سے آئے ہوئے تھے ۔وہ اپنے ملک میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور اپنا شناختی کارڈ کے کھو جانے پر پریشان تھے جو انہیں بڑے عجیب انداز میں واپس مل گیا تھا اب وہ رازی فیملی کے پکے دوست بن گئے تھے انہوں نے رازی کو اپنی فیملی سے ملوایا ان کا ایک بیٹا رازی کا ہم عمر تھا اسے بھی مصوری کا شوق تھا وہ بھی رازی کا دوست بن گیا۔رازی کے پاپا نے سیاحت کی کئی ایسی جگہوں کا انہیں بتایا جنہیں وہ نہیں جانتے تھے وہ کہتے تھے پاکستان بہت خوب صورت ملک ہے جب انکل اور اس کی فیملی کا یونان واپس جانے کا وقت آیا تو رازی بہت اُداس ہوا۔لیکن انکل نے کچھ عرصہ بعد ہی ان سب کو یونان کی سیاحت کے لئے بلوایا۔رازی اور اس کے ماما پاپا کو یونان بہت پسند آیا۔اب رازی اور انکل فیملی کی دوستی بہت پرانی ہو گئی تھی ۔اس بات کو کافی عرصہ گزر گیا تھا۔رازی ڈاکٹر بن چکا تھا اور اس کی شادی انکل کی بیٹی مریانہ سے ہو چکی تھی وہ دونوں بہت خوش تھے ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے لیکن کبھی کبھی ان میں ہلکی پھلکی لڑائی ہو جاتی تھی اور ان دونوں کو غصے میں یہ کہنا نہ بھولتا تھا کہ کاش مجھے سڑک پر پڑا ہوا شناختی کارڈ نہ ملتایا پھر مریانہ کہتی کاش آپ کومیرے پاپا کا شناختی کارڈ نہ ملتا،اس پر دونوں کو ہنسی آجاتی اور لڑائی ختم ہو جاتی۔ " قدیم جاپانی فنون - تحریر نمبر 1689,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qadeem-japani-funoon-1689.html,"عروج سعدجاپان ہے تو ایک نہایت چھوٹا سا ملک جو دوسری جنگ عظیم میں تقریباً تباہ ہو گیا تھا ،لیکن جنگ کے خاتمے کے بعد جاپانیوں نے اپنی ہمت اور علم دوستی کی بنا پر سائنس اور ٹیکنالوجی ،کے میدان میں اس قدر ترقی کی کہ ساری دنیا اُن پر رشک کرنے لگی۔کیا آپ جانتے ہیں کہ جاپانی شاید دنیا کی وہ واحد قوم ہے جس نے جدید وقدیم کو اس خوب صورتی سے اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر رکھا ہوا ہے کہ اسے دیکھ کر ان کے سلیقے ،نفاست اور جمالیاتی ذوق پر رشک آتاہے ۔ان کے فنون اس قدر دلچسپ ہیں کہ دنیا بھر میں لوگ انھیں پسند کرتے ،سراہتے اور سیکھتے بھی ہیں۔آئیے ان کے بارے میں آگاہی حاصل کریں۔بَون سائی(Bon Sai)بون سائی کے لفظی مطلب ہیں ٹرے میں پودا اُگانا۔(جاری ہے)اس میں فن کا رانہ بات یہ ہے کہ بڑی جسامت کے درختوں کو چھوٹے چھوٹے کھلے منہ کے گملوں میں اُگایا جاتاہے ۔ہم انھیں بونے درخت بھی کہہ سکتے ہیں ۔جن کے تنوں اور جڑوں کو مہارت اور احتیاط کے ساتھ چھانٹا جاتا ہے اور تاروں کے ذریعے سے شاخوں کو موڑ کر درخت کو کسی بھی شکل میں پروان چڑھا یا جاتاہے ۔کچھ عرصے کی محنت اور دیکھ بھال سے یہ بونے درخت اتنی جاذب نظر شکل وصورت اختیار کرتے ہیں کہ دیکھنے والے حیران ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔مزید حیران کن بات یہ ہے کہ اگر پھل اور پھول دار درختوں کی بون سائی کی شکل دی جائے اور مناسب نگہداشت کی جائے تو ان درختوں پر پھل اور پھول بھی لگتے ہیں ۔ذرا سوچیں ہماری کھانے کی میز پر آموں سے لدا ہوا بونا درخت اور ڈرائنگ روم کے کونے میں نیم کا بونا درخت سب کو کتنا بھلا معلوم ہو گا!اَوری گامی(Origami)اگر آپ کو کہیں کاغذ کا کوئی ٹکڑا نظر آئے تو آپ کیا کریں گے ؟یقینا آپ اچھے بچوں کی طرح اُسے کوڑے دان میں پھینک دیں گے،لیکن جاپانی کاغذ کے ٹکڑوں کو پھینکتے نہیں ،بلکہ انھیں انتہائی مہارت کے ساتھ خاص زاویوں سے تہ کرکے ایسی شکلوں میں تبدیل کر دیتے ہیں کہ ہم حیرت میں ڈوب جاتے ہیں ۔یہ فن اَوری گامی کہلاتاہے ۔جاپانی زبان میں اس کے لفظی معنی”کاغذ کوتہ کرنے“کے ہیں ۔یہ تقریباً ایک ہزار سال قدیم فن ہے۔ ابتداء میں اس فن کے ماہروں کو جاپان کے شہنشاہوں کے دربار میں اپنا فن دکھانے کی دعوت دی جاتی تھی ،جہاں وہ بادشاہ اور درباریوں کو کاغذ موڑ کر خوب صورت پھول ،پرندے اور جانوروں کے ماڈل بنا کر حیرت زدہ کردیتے تھے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہنر عام لوگوں میں منتقل ہو گیا۔ آج نہ صرف جاپان،بلکہ پوری دنیا میں بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی یہ فن سکھایا جاتاہے ۔اَوری گامی خاص طور پر بچوں کے لئے ایک بہترین مشغلہ ہے ۔جس کے ذریعے بچے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے محض کاغذ سے مختلف چیزیں تیار کرتے ہیں ۔یہ کاغذی چیزیں عموماً بغیر کسی قینچی یا گوند کے صرف ہاتھوں سے بنائی جاتی ہیں ،یعنی”کم خرچ ،بالا نشین۔اِکے بانا(Ikebana)یہ بھی ایک خوب صورت جاپانی فن ہے ،جس کے معنی”پھولوں کی سجاوٹ “ہے ۔یہ تقریباً پانچ سو سال قدیم ہنر ہے ،جس میں پھولوں اور پتوں والی شاخیں ایسے منفرد اور دل نشین انداز میں ترتیب سے سجائی جاتی ہیں کہ دیکھنے والے اَش اَش کر اُٹھتے ہیں ،یہاں تک کہ سوکھی ہوئی ٹہنیوں کو اس مہارت سے سجایا جاتاہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔اس فن کی شروعات بدھ مذہب کے مندروں میں پھولوں کی آرائش سے ہوئی ۔مندروں میں تہواروں کے موقع پر بدھ مذہب کے پیرو کاروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مندروں کو پھولوں کے ذریعے بہترین انداز میں سجایا جائے ۔اس کوشش میں جاپانیوں نے پھولوں کی آرائش کے نت نئے اور اچھوتے انداز اختیار کیے جو کہ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں جانے اور مانے گئے اور باقاعدہ ایک فن کی شکل اختیار کر گئے۔اِکے بانا کے فن کار اسے صرف ایک تخلیقی عمل ہی نہیں سمجھتے ،بلکہ پھول پتیوں کی سجاوٹ کو وہ اپنی روحانی خوشی کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں ۔اپنی تخلیقات کو دنیا کے سامنے پیش کرکے وہ سب کو اس خوشی میں شریک کرتے ہیں ۔کسی بھی ترتیب کو عمل میں لانے کے لئے فن کار خوب صورتی ،پھولوں اور گلدانوں کی بناوٹ اور دوسری باریکیوں کو مد نظر رکھتے ہیں۔آپ بھی اپنی کیاریوں سے اپنی پسند کے پھول اور ہری بھری شاخیں لائیں اور انھیں اپنی پسند اور ذوق کے مطابق ترتیب دے کر اپنے گھر کو سجائیں۔ " کوالا - تحریر نمبر 1688,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kuala-1688.html,"سیدہ نازاں جبیں کی پُر تائثر تحریر”مجھے بہت نیند آرہی ہے ۔“ایک کوالا نے انگڑائی لیتے ہوئے دوسرے سے کہا۔”ہاں سو جاؤ۔ میں بھی سورہا ہوں پھر اٹھ کر کھانا کھائیں گے۔“دوسرے کوالا نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔ابھی انہیں بیٹھے ہوئے اور اونگھتے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اچانک دور سے شور شرابے کی آوازیں آنے لگیں۔وہ دونوں ایک دم بیدار ہو گئے اور سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔”یہ کیسی آوازیں ہیں؟“ایک کوالا نے دوسرے سے پوچھا۔”پتا نہیں ،چلو نیچے اتر کر دیکھتے ہیں۔“دوسرے نے جواب دیا۔وہ دونوں درخت سے نیچے اتر گئے اور آگے بڑھنے لگے ۔جیسے ہی تھوڑی دور گئے تو ایک دل دہلا دینے والا منظر ان کا منتظر تھا ۔(جاری ہے)آسمان نارنجی رنگ کا ہو چکا تھا۔ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا اور سب جانور افراتفری میں ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے ۔”آگ۔۔۔آگ۔۔۔بھاگو۔۔۔جلدی۔۔۔!!“کوئی جانور ان کے قریب سے یہ کہتا ہوا بھاگ نکلا۔کک ۔۔۔کک ۔۔کیا۔۔۔آ۔۔آ۔۔آگ لگ گئی!مگر کیسے؟“ایک کوالا کے منہ سے مارے خوف کے بے ربط الفاظ نکلے۔”بھاگو۔۔جلدی بھاگو۔۔۔جلدی کرو۔“دوسرا کوالا اپنے ساتھی کو کھینچتا ہوا بھاگنے لگا۔اچانک آگ کا ایک بھڑکتا ہوا شعلہ ان کی طرف لپکا۔وہ دونوں بری طرح سٹپٹا گئے اور جان بچانے کے لئے اندھا دھند بھاگنے لگے ۔وہ اپنی دانست میں بہت تیز بھاگ رہے تھے مگر ہائے ری قسمت!وہ شعلہ ان سے زیادہ تیز رفتار نکلا اور دونوں کو آدبوچا اور دونوں کوالا کے ہاتھوں اور پیروں کو جلا ڈالا۔دونوں کی چیخیں نکل گئیں ۔آن کی آن میں اس تباہ کن آگ نے پورے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔وہ دونوں معصوم کوالا بہت ہی سہم گئے تھے ۔کہیں سے جانوروں کے رونے اور چیخنے کا شور سنائی دے رہا تھا،کہیں سے لکڑیوں کے چٹخنے کی آوازیں آرہی تھیں تو کہیں درختوں کے پتے اور جھاڑیاں جھلس رہے تھیں اور جل جل کر گرتے ہوئے قد آور درختوں نے تو دونوں معصوم کوالا کو شدید خوف زدہ کر دیا تھا۔”امی ۔۔۔امی ۔۔۔کہاں ہیں آپ؟ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز ہمارے پاس آجائیں ۔“ایک کوالا نے روتے ہوئے اپنی ماں کو آواز دی ۔”ابو۔۔۔ابو۔۔۔یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟پلیز ہمیں بچالیں۔“دوسرا کوالا بھی مدد کے لئے اپنے باپ کو پکارنے لگا۔مگر کوئی نہ آیا۔نہ جانے ان کے والدین کہاں تھے ۔کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔دیکھتے ہی دیکھتے کئی کوالا اور دوسرے جانور جل کر ختم ہو گئے !وہ دونوں معصوم کوالا ڈرے سہمے بھاگتے رہے اور شدید خوف میں مبتلا ہوتے رہے ۔جان تو سب ہی کو پیاری ہوتی ہے آخر۔ایسی خوف ناک آگ انھوں نے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔وہ دونوں کوالا زور زور سے رونے لگے اور اپنے ماں باپ کو یاد کرنے لگے اور ساتھ ہی آسمان کی طرف منہ کر کے دعائیں مانگنے لگے۔کوالا(ایک ریچھ نما جانور)درختوں پر رہنے والا آسٹریلیا کا مقامی جانور ہے ۔یہ سبزی خور ممالیہ ہے ۔کوالا جنوبی آسٹریلیا ،کوئنز لینڈ،نیو ساؤتھ ویلز اور وکٹوریہ میں پایا جاتاہے جو کہ آسٹریلیا کے مشرقی اور جنوبی ساحلی علاقے ہیں۔یہ اپنی جسامت اور نقوش کے اعتبار سے آسانی سے پہچانا جاسکتاہے ۔یہ بغیر دُم والا ایک ہٹا کٹا جانور ہے ۔اس کا سر بڑا،کان نرم ملائم اور ناک چمچے کی شکل سے ملتی جلتی ہے ۔کوالا کے جسم کی لمبائی 60سے 85سینٹی میٹر ہوتی ہے اور اس کا وزن 4سے 15کلو ہوتاہے۔اس کی کھال کا رنگ گرے اور چاکلیٹی براؤن ہوتاہے۔کوالا مشرقی آسٹریلیا میں رہتے ہیں جہاں یو کلپٹس کے درخت وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔ان کے تیز پنجے اور پیروں کی انگلیاں آسانی سے انہیں اونچائی پر رکھتی ہیں ۔کوالا کے لئے یو کلپٹس کے درخت ہی سب کچھ ہیں ۔یہ خوراک کے طور پر اس کے پتے کھاتے ہیں اور زیادہ پانی بھی نہیں پیتے کیونکہ زیادہ ترنمی ان کو یوکلپٹس کے پتوں سے مل جاتی ہے ۔ہر ایک کوالا بہت زیادہ مقدار میں ان پتوں کو کھاتاہے ۔جنگل کی اس خوفناک آگ سے جنوبی آسٹریلیا میں کم از کم25,000کوالا موت کے منہ میں چلے گئے!جس کے نتائج اتنے تباہ کن ہیں کہ کوالا کی نسل کی ختم ہونے کا خطرہ ہے ۔یہ گول مٹول روئیں والے ممالین جانور 1920اور1930کی دہائیوں میں اپنی کھال کے لئے وسیع پیمانے پر شکار کیے جاتے تھے اور اس کے علاوہ دیگر ماحول دشمن اقدامات سے ان کی آبادی بہت کم ہو کر لاکھوں سے ہزاروں کی تعداد میں ہوگئی تھی۔آگ ایک درخت سے دوسرے درخت تک تیزی سے پھیلتی ر ی۔شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے ۔دونوں ننھے کوالا امیدوبیم کی کیفیت میں خوف وہراس کا شکار ہو کر بیٹھے تھے کہ اچانک انھوں نے کچھ انسانوں کو اپنی جانب آتا دیکھا۔”ارے وہ دیکھو!کچھ لوگ ہماری طرف آرہے ہیں۔“ایک کوالا نے دوسرے سے کہا۔”یہ لوگ کیوں آرہے ہیں ؟مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔“دوسرے کوالا کے لہجے میں خوف تھا۔دونوں کوالا بچے اتنے سہمے ہوئے تھے کہ لوگوں کو اپنے قریب آتا دیکھ کر دوبارہ رونے لگے ۔اتنے میں وہ لوگ ان کے نزدیک پہنچ گئے ۔کچھ لوگوں نے کافی جانوروں کو آگ میں سے نکالا ،کسی نے کپڑے ڈال کر بچایا تو کوئی پانی کا چھڑکاؤ کر رہا تھا۔ان دونوں کو بھی کسی نے بہت پیار سے اپنی گود میں اٹھالیا اور جنگل سے باہر لے گئے ۔باہر بہت سی گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں ۔ان لوگوں کی گود میں جاکر بچوں کا ڈر خوف جاتا رہا اور وہ قدے پر سکون ہو گئے ،جیسے کسی پنا گاہ میں آگئے ہوں۔ پھر ان لوگوں نے دونوں کوالا کے زخموں پر مرہم لگایا ،انہیں پانی پلایا اور دوائیں بھی دیں۔یہی عمل باقی تمام جانوروں کے ساتھ کیا گیا۔دونوں کوالا مارے تشکر کے ان لوگوں سے لپٹ گئے جیسے کہ ان کا شکریہ ادا کررہے ہوں۔ پھر ان دونوں کوالا اور دوسرے جانوروں کو گاڑی میں بٹھانے کے بعد کچھ لوگ پھر سے جنگل کی طرف چلے گئے اور کچھ وہیں موجود رہے ۔”یہ لوگ ہمیں بچانے کے لئے آئے ہیں۔“ایک کوالا نے دل میں سوچا۔”شکر ہے اللہ!ہم بچ گئے ۔“دوسرا کوالا بھی دل ہی دل میں شکر ادا کر رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد پھر بہت سارے لوگ ایک ساتھ آتے دکھائی دئیے۔جب وہ سب ایک جگہ جمع ہوگئے تو انھوں نے قطاریں بنالیں اور پھر زمین پر جھک گئے ۔”ارے ،کیا کر رہے ہیں یہ لوگ اب؟“دونوں کوالے حیران پریشان ہو کر سوچے جارہے تھے ۔پھر انہوں نے ان لوگوں کو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا۔”یہ لوگ دعا مانگ رہے ہیں۔“ایک کوالا نے دل ہی دل میں کہا۔اور پھر دعا ہو گئی قبول ۔۔۔موسم بدلا اور بارش ہونے لگی۔یہ مسلمان تھے جو بارش کے لئے اپنے رب کے حضور ”نماز استسقا“پڑھ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائیں سن لیں ۔نماز استسقا بارش کے لئے پڑھی جاتی ہے ۔جنگل کی آگ اب صرف اور صرف بارشوں سے ہی رک سکتی تھی ۔اس نماز میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی اور عیسائی بھی شامل ہو گئے تھے کہ اب دعا کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔بے شک انسان کے پاس تمام تر سہولیات وٹیکنالوجیز موجود ہیں مگر کبھی کبھی ایسی ناگہانی آفات آجاتی ہیں کہ انسان بے بس ہو جاتاہے اور سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی مدد نہیں کر سکتا۔اب بھی مسلسل بارشوں کی ضرورت ہے تاکہ جنگل کی آگ مکمل طور پر بجھ جائے اس لئے دعاؤں کی بہت ضرورت ہے ۔آئیے ہم سب بھی اللہ کے حضور دعا مانگتے ہیں کہ اللہ ان معصوم جانوروں پر رحم کرے اور جنگل کی آگ بجھ جائے ۔آمین۔ " رحم دل دوست - تحریر نمبر 1687,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rehem-dil-dost-1687.html,"ایک جنگل میں بندروں کی ایک ٹولی رہتی تھی ۔اس ٹولی میں دو بچے بھی تھے، جو بہت زیادہ شرارتی تھے ان کے ماں باپ بھی ان کی شرارتوں سے تنگ آگئے تھے ۔اسی جنگل میں ایک ننھا ژراف بھی رہتا تھا۔ وہ بہت ہی سیدھا سادا اور بھولا بھالا بچہ تھا۔ایک دن گھاس چرتے چرتے وہ جنگل کے اس حصے میں آگیا جہاں بندروں کی یہ ٹولی درختوں سے پتے اور پھل فروٹ توڑ توڑ کر کھانے میں مگن تھی ۔دونوں چھوٹے شرارتی بندروں نے ژراف کو دیکھا تو انھیں حیرت ہونے لگی ۔کیونکہ ان بچوں نے کبھی ایساکوئی بھی جانور نہیں دیکھا تھا۔ بندر کے ایک بچے نے کہا”ارے!دیکھو تو کتنا عجیب وغریب جانور ہے ،آؤ اسے چھیڑتے ہیں۔“دونوں بندر کودتے پھلا نگتے اس درخت پر پہنچ گئے جس کے نیچے کھڑے ہوکر ژراف پتے کھا رہا تھا ۔(جاری ہے)اس درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر دونوں نے ژراف سے کہا”اے لمبو!تمہارا کیا نام ہے ․․․؟“ژراف نے بڑی نرمی سے کہا”میں ژراف ہوں ،کیا مجھ سے دوستی کروگے․․․؟تم لوگوں کے نام کیا ہیں․․․؟“دونوں بندر شرارت سے کھکھلا کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ ”تم سے ہم کیوں دوستی کرنے لگے ․․․․؟ کتنے بد صورت ہو تم ،مینار کے جیسی گردن اور سیڑھی کے جیسے پیر۔ہمیں نہیں کرنی ایسے بے ڈھنگے جانور سے دوستی ․․․․!“اتنا کہہ کر دونوں بندر ژراف کو چڑانے لگے ۔ایک بندر نے درخت سے ایک پکا ہوا پھل توڑ کر ژراف کی طرف پھینکا ۔پھل ژراف کے منہ پر لگ کر پھوٹ گیا اور اس کارس اور گودا ژراف کے چہرے پر پھیل گیا۔یہ دیکھ کر دونوں بندر قہقہہ مار کر ہنسنے لگے اور کود تے پھلا نگتے وہاں سے باگ گئے ۔ژراف بے چارہ روہانسا ہو کر رہ گیا اور منہ لٹکائے وہاں سے چلا گیا۔ایک دن دونوں شرارتی بندروں نے یہ طے کیا کہ وہ جنگل میں خوب دور تک اکیلے گھومنے کے لئے چلیں گے ۔صبح صبح جب باقی بندر سو رہے تھے ،یہ دونوں شرارتی بندر چپکے سے نکل پڑے۔ کچھ ہی دیر میں وہ بندروں کی ٹولی سے بہت دور نکل گئے ۔جب انھیں زوروں کی بھوک لگی تو ان دونوں نے درختوں سے پھل فروٹ کھالیے ۔انھیں اس طرح گھومنے پھرنے اور موج مستی کرنے میں بڑا مزہ آرہا تھا۔دوپہر ہو چلی تھی وہ دونوں گرمی سے بچنے کے لئے ایک درخت کی ہری بھری شاخوں پر جا کر بیٹھ گئے ،اُس درخت کے نیچے ایک شیر آرام کر رہا تھا۔پیڑ کے آس پاس ایک ہرابھرا میدان تھا۔میدان کے کنارے ایک ندی بہہ رہی تھی ۔بندر اُس سہانے منظر میں ایسا کھوئے کہ انھیں اس بات کا احساس ہی نہ ہوا کہ یہاں ایک شیر بھی موجود ہے ۔لیکن جب شیر اپنے چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھیوں کو آرانے کے لئے غرایا تو بندروں نے شیر کو دیکھ لیا ۔شیر کو دیکھتے ہی وہ بری طرح ڈر گئے ۔کچھ ہی دیر بعد انھیں یہ محسوس ہوا کہ ہم درخت کے اوپر محفوظ ہیں ۔چونکہ ان کے اندر شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لیے یہاں بھی انھیں شرارت سوجھنے لگی ۔ان دونوں شرارتی بندروں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور درخت کا ایک پھل توڑ کر نیچے گرادیا۔پھل سیدھا شیر کی ناک پر گرا ۔شیر نے غصے سے دہاڑتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا۔جب اس نے اوپر کی طرف دیکھا تو اس کی نظر بندروں پر پڑی ۔بندر کھی کھی کرکے ہنس رہے تھے ،لیکن وہ زیادہ دیر تک نہ ہنس سکے،کیونکہ شیر آپے سے باہر ہو رہا تھا۔اس نے گرج دار آواز میں دہاڑتے ہوئے کہا ۔”کیا تمہیں معلوم نہیں میں اس جنگل کا بادشاہ ہوں ۔فوراً اس درخت سے نیچے اترو۔میں تم دونوں کو کھاکر اس گستاخی کی سزادوں گا۔“بندروں کو پھر ہنسی آگئی ۔انھیں یقین تھا کہ ہم درخت پرمحفوظ ہیں ۔شیر ان کو اس طرح دوبارہ ہنستے ہوئے دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہو گیا اور اپنے پیروں کو سمیٹ کر اسپرنگ کی طرح تیزی سے اچھلا ۔شرارتی بندروں نے دیکھا کہ شیر کا جبڑا کھلا ہوا ہے اور اس کے تیز نوکیلے دانت ان کی طرف ہیں اور وہ بڑی تیزی سے اچھلتے ہوئے بالکل ان کے قریب آگیا ہے ۔دونوں بندروں کے تو ہوش ہی اڑ گئے اور ان کی ساری شرارت دھری کی دھری رہ گئی اور وہ دونوں ڈر کے مارے ایک دوسرے سے بُری طرح لپٹ گئے ۔شیر نے چھلانگ تو بہت اونچی لگائی تھی لیکن جس شاخ پر وہ دونوں بندر بیٹھے ہوئے تھے وہ وہاں تک نہیں پہنچ سکا۔شیر نے دوبارہ چھلانگ لگائی ۔بندروں کی حالت بڑی پتلی ہو گئی تھی وہ ڈر کے مارے چیخنے چلانے لگے لیکن وہاں ان کی پکار سننے والا کوئی بھی نہیں تھا۔وہ تو اپنی ٹولی اور اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر بھاگ کر آئے تھے ۔اس درخت کے آس پاس کوئی دوسرا درخت بھی نہ تھا کہ وہ چھلانگ لگا کر اس پر چلے جاتے ،اور نہ ہی اس درخت پر کہ جس پر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے اونچائی کی طرف کوئی مضبوط شاخ تھی جس پر جا کر وہ بیٹھ سکتے یوں سمجھ لیں کہ شرارتی اور نا فرمان بندر آج بُری طرح پھنس گئے تھے ۔وہ اس حالت میں تھے کہ انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ یکا یک ان کے کانوں میں دھیمے سے آواز آئی کہ”گھبراؤ مت ! میں تم دونوں کو یہاں سے نکال لے جاؤں گا۔ چپکے سے میری گردن کے سہارے میری پیٹھ پر اتر آؤ۔“وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ٹھیک اوپر درخت کے پتوں کے درمیان سے اسی ژراف کا سر نکلا ہوا تھا جس کا ان لوگوں نے کچھ دن پہلے خوب مذاق اڑایا تھا۔بندروں نے ایک دوسرے کو شرمندگی سے دیکھا کہ آج وہی ژراف ہماری جان بچانے کے لئے تیار ہے ۔اس ژراف کو اس دن کی شرارتوں اور مذاق وغیرہ کا ذرا بھی خیال نہیں ہے ۔دونوں بندرو ں نے اپنی نگاہیں نیچی کرلیں ۔ژراف نے کہا”میرے دوستو!جلدی کرو اگر شیر نے مجھے دیکھ لیا تو وہ ہم تینوں کو کھاجائے گا۔“بندر اب ڈرتے ڈرتے ژراف کی گردن پر پھسلتے ہوئے اس کی پیٹھ پر سوار ہو گئے اور ژراف انھیں لیے ہوئے تیز رفتار سے وہاں سے کھسک گیا۔شیر کو پہلے تو پتا نہیں چل سکا کہ کیا ماجرا ہے ۔لیکن جب اس نے ژراف کی پیٹھ پر سوار ہو کر دونوں بندروں کو بھاگ نکلتے ہوئے دیکھا تو اس نے دہاڑتے ہوئے ان کا پیچھا کیا۔بندروں نے ان کا پیچھا کرتے ہوے شیر کو دیکھا تو ان کی جان نکلنے لگی اور وہ بری طرح چیخنے چلانے لگے ۔شیر پوری قوت کے ساتھ بندروں کو پکڑنے کے لئے دوڑ لگا رہا تھا اور غرائے جارہا تھا۔ژراف نے بندروں کو سمجھایا کہ ”ڈرنے کی کوئی بات نہیں اب تم دونوں بالکل محفوظ ہو ۔شیر مجھے کبھی نہیں پکڑ سکتا۔“اور سچ مچ ہوا بھی ایسا ہی کہ ژراف نے شیر کو کافی پیچھے چھوڑدیا۔ ایک محفوظ جگہ پر پہنچ کر ژراف رک گیا بندر چھلانگ لگاکر اس کی پیٹھ سے نیچے اتر گئے ۔تب ژراف نے ان دونوں سے کہا ”اس دن تم دونوں نے میری لمبی گردن اور میری ٹانگوں کا بہت مذاق اڑایا تھا نا،آج دیکھ لیا نا کہ انہی کی وجہ سے تم لوگوں کی جان بچ سکی ہے ۔لمبی گردن کی وجہ سے ہی میں تم دونوں کو دور سے دیکھ سکا اور درخت سے تم کو اتار سکا ۔اور لمبی ٹانگوں کی وجہ سے تیز دوڑ سکا۔“بندر اس پر کیا کہہ سکتے تھے ،دونوں نے شرم کے مارے اپنی اپنی گردنیں جھکالیں اور خاموش رہے ۔ان کی یہ حالت ،خاموشی اور شرمندگی کو دیکھ کر ژراف نے ہنستے ہوئے خود کہا کہ ”چلو!چھوڑو ان باتوں کو ،بھول جاؤ پچھلے قصے کو ،اب آج سے تو تم میرے دوست بن کر میرے ساتھ روزانہ کھیلو گے نا۔“ژراف کی یہ بھلائی دیکھ کر دونوں شرارتی بندروں کو اپنی حرکتوں پر سخت غصہ آنے لگا کہ ان لوگوں نے اتنے اچھے اور پیارے ژراف کو کیوں ستایا تھا اور اس کا مذاق کیوں اڑایا تھا․․․․؟ان دونوں نے اسی وقت ژراف سے معافی مانگی ۔ژراف نے کہا”دوستو!معافی کی کوئی ضرورت نہیں۔“اتنے بڑے دل والے ژراف کی یہ باتیں سن کر ان لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد سے وہ کسی کو نہیں ستائیں گے اور کسی کا مذاق نہیں اڑائیں گے ۔دونوں شرارتی بندروں نے ژراف سے کہا کہ ”ہم نے تمہیں جان بوجھ کر بہت ستایا تھا ،آج سے ہم کسی کو بھی نہیں ستائیں گے ،نہ کسی کو بُرا بھلا کہیں گے ۔آج سے تم ہمارے سب سے اچھے دوست ہو ۔دونوں بندروں کی یہ بات سن کر ژراف کو بڑی خوشی ہوئی اور وہ ہنسی خوشی ساتھ رہنے لگے ۔ " ننھا مجاہد - تحریر نمبر 1684,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanha-mujahid-1684.html,"صائم جمال”امی مجھے جہاد پہ جانے کا بہت شوق ہے میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے وطن اور مسلمانوں کے دشمنوں کے خلاف لڑوں ان کا مقابلہ کروں۔“ آہان نے اپنی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا۔” لیکن منے تم تو ابھی بہت چھوٹے ہو۔“ اس نے آہان کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”امی میرے خیال میں یہ قدیا عمر کا چھوٹا، بڑا ہونا اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنا انسان کے ارادے کی مضبوطی اور ہمت کا بلند ہونا اہم ہے بس میں نے کہہ دیا ہے کہ میں اپنے کشمیری مجاہدین کے ہم قدم دشمن کا مقابلہ کروں گا اور دشمن کے ناپاک قدم ہمیشہ کے لئے اکھاڑ دوں گا اور اس جنت نظیر وادی کشمیر کامحافظ بنوں گا ۔“ارے منے تم تو اتنی بڑی بڑی باتیں کر رہے ہو۔ امی نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ آہان سے پوچھا تو آہان نے اپنے سوال کا جواب نہ پاتے ہوئے منہ دوسری طرف پھیر لیا لیکن امی نے بھی آہان کی ناراضگی کی وجہ بھانپ لی اور کہا”اچھا منے اس کا ایک آسان سا طریقہ ہے کہ پہلے تم دل لگا کر پڑھو ٹھیک !پھر تم آرمی میں داخلہ لے لینا اور اپنے بھائیوں اور سر زمین کے بہادر جیالے بن جانا۔(جاری ہے)“”لیکن امی آپ کو پتہ ہے اس سب میں کتنا وقت صرف ہو جائے گا اور ہمارے پاس وقت کم ہے کیونکہ دشمن پاک وادی پر اپنی ہٹدھرمی کیے بیٹھا ہے اور آہستہ آہستہ اس کی خوبصورتیوں ،اس کے معصوم لوگوں کو نگل رہا ہے۔“”میں جانتی ہوں کہ اس سب میں بہت وقت لگے گا لیکن کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ صبر کا پھل ضرور ملتاہے اور اللہ تعالیٰ بھی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے بس تم اپنے اسی جذبہ اور ہمت کو بلند اور تازہ رکھنا پھر دیکھنا جلدی ایک بہادر اور مضبوط بازو والے محافظ بن جاؤ گے ۔ہاں تم اس ساری کوشش کے ساتھ ساتھ ایک طریقہ سے بھی جہاد میں حصہ لے سکتے ہو۔“”وہ کیسے امی؟جلدی بتائیں نا؟“”اچھا بابا بتاتی ہوں“امی نے آہان کی اتنی بے چینی دیکھتے ہوئے کہا تم اس طرح سے جہاد میں حصہ لے سکتے ہو کہ تم ایسا کرو کہ اپنے جیسے چند دوستوں ،جن میں تمہارے جیسا جوش وجذبہ ہو ،تم ان سب کو ملا کر ایک تنظیم بناؤ اور پھر ہفتہ میں ایک دفعہ اپنی اس ٹیم کے ساتھ اپنے محلے ،سکول ،گلی اور عزیز رشتہ داروں سے چندہ اکٹھا کرکے کشمیر فنڈز میں دے کر اپنے مجاہد بھائیوں کی امداد کرویہ بھی جہاد کا ایک طریقہ ہے تاکہ مجاہدین کو اسلحے اور دوسری ضروریات یا وسائل کی کمی نہ ہو اور تم جیسے بہادر جوانوں کے میدان میں آنے تک وہ مضبوط قلعے کی مانند رہیں۔انشاء اللہ تعالیٰ اللہ ضرور انصاف کرے گا اور ظالم کو اس کے ظلم کی ضرور سزا ملے گی اب بولو آہان بیٹا کچھ سمجھ میں آئی میری بات ؟امی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔واقعی امی جان یہ بھی جہاد میں حصہ لینے کا ایک بہترین طریقہ ہے میں آج ہی ایسی تنظیم بناتاہوں۔”شاباش بیٹا“امی نے پیار سے آہان کا ماتھا چوم لیا تو آہان نے بھی فوجیوں کے انداز میں اپنی امی کو سلوٹ کیا اس کی روشن آنکھوں کی چمک اس کے عزم اور ارادے کی مضبوطی کا صاف پتہ دے رہی تھی۔ " چھوٹی نیکی کو حقیر نہ سمجھو - تحریر نمبر 1682,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/choti-naiki-ko-haqeer-na-samjho-1682.html,"غریب اللہ غازیپیارے بچو!ابو نصر العیاد نامی ایک شخص اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ غربت وافلاس کی زندگی بسر کررہا تھا۔ایک دن وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو بھوک سے نڈھال اور بلکتا روتا گھر میں چھوڑ کر خود غموں سے چور کہیں جا رہا تھا کہ راہ چلتے اس کا سامنا ایک عالم دین سے ہوا جس کا نام احمد بن مسکین تھا۔عالم دین کو دیکھتے ہی ابو نصر نے کہا کہ اے شیخ میں دکھوں کا مارا ہوا غموں سے تھک گیا ہوں۔عالم دین نے کہا کہ میرے پیچھے چل آؤ ہم دونوں سمندر پر چلتے ہیں۔ سمندر پر پہنچ کر عالم دین نے اسے دورکعت نفل پڑھنے کو کہا نماز پڑھ چکا تو اس نے ایک جال دیتے ہوئے کہا کہ اسے بسم اللہ کرکے سمندر میں پھینک دو ۔پھینکے گئے جال میں پہلی بار ایک بڑی مچھلی پھنس گئی جال کو باہر نکالا گیا عالم دین نے کہا کہ جاؤ اس مچھلی کو بازار میں فروخت کرو اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سے اپنے اہل خانہ کے لئے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر لے جاؤ۔(جاری ہے)ابو نصر سے شہر میں جا کر مچھلی فروخت کی اور حاصل ہونے والے پیسوں سے ایک قیمے والا اور ایک میٹھا پراٹھا خریدا اور سیدھا عالم دین کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگا ان پراٹھوں میں سے کچھ لینا قبول کرو۔عالم دین نے کہا کہ تم نے اپنے کھانے کے لئے جال پھینکا تھا قدرت نے تمہیں مچھلی دے دی میں نے تمہاری نیکی اپنی بھلائی کے لئے کی تھی ۔اس لئے یہ پراٹھے تم اپنے گھر لے جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلاؤ۔ابو نصر اپنے پراٹھے لیے خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اس نے راستے میں بھوکوں سے ماری ایک عورت روتے دیکھا جس کے پاس اس کا بیٹا بھی تھا۔ابو نصر نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے دونوں پراٹھے دیکھے اور اپنے آپ سے کہا کہ اس عورت اور اس کے بچے اور اس کے اپنے بچے اور بیوی میں کیا فرق ہے معاملہ تو ایک جیسا ہی ہے ۔وہ بھی بھوکے ہیں اور یہ بھی بھوکے ہیں۔یہ دونوں پراٹھے کس کو دوں۔عورت کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کی طرف دیکھا تو اس نے اپنا سر جھکا دیا اور پراٹھے بھوکی عورت کی طرف بڑھا دئیے اور بولا خود بھی کھاؤ اور اپنے بیٹے کو بھی کھلاؤ عورت کے چہرے پر خوشی اور اس کے بھوکے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ تھی لیکن ابو نصر غمگین دل کے ساتھ واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا کہ اپنے بھوکے بچوں اور بیوی کا سامنا کیسے کرے گا ۔گھر جاتے ہوئے اس نے ایک منادی والا دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ کوئی ہے جو اسے ابو نصر سے ملا دے ۔لوگوں نے منادی والے سے کہا کہ یہ دیکھو یہی ابو نصر ہے منادی والے نے کہا کہ آج سے 20سال قبل تیرے باپ نے 30ہزار درہم امانت رکھے تھے ۔جب سے تیرا والد فوت ہوا ہے میں تمہیں تلاش کر رہا ہوں آج میں نے تمہیں پا لیا ہے تو یہ 30ہزار درہم تیسرے باپ کا مال ہے لے لو۔ابو نصر کا کہنا تھا وہ بیٹھے بٹھائے امیر ہو گیا تھا۔اس کے کئی گھر بنے تجارت پھیلتی گئی اس نے کبھی بھی اللہ کی راہ میں دینے میں کنجوسی سے کام نہیں لیا ۔ایک ہی بار میں ایک ایک ہزار درہم فراخدلی سے صدقہ اور خیرات کرنے والا بن گیا ۔ایک بار اس نے خواب میں دیکھا کہ حساب کتاب کا دن آن پہنچا ہے میدان میں ترازو نصب ہے منادی کرنے والے نے آواز دی کہ اب ابو نصر کو لایا جائے اور اس کے گناہ وثواب کو تولا جائے ابو نصر کہتا ہے کہ ایک پلڑے میں میری نیکیاں اور دوسرے پلڑے میں میرے گناہوں کو رکھا گیا تو گناہوں والا پلڑا بھاری تھا میں نے پوچھا کہ میرے صدقات وخیرات کہاں گئے جو میں نے اللہ کی راہ میں دئیے تھے تو سننے والوں نے میرے صدقات نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دئیے ۔ہر ہزار درہم کے صدقے کے نیچے خواہشات اور ریا کاری کا ملمع چڑھا ہوا تھا ان صدقات کو روٹی سے بھی زیادہ ہلکا پایا میرے گناہوں کا پلڑا اب بھی بھاری تھا میں روپڑا اور کہنے لگا ہائے رب میری نجات کیسے ہو گی ۔منادی والے نے میری بات کو سنا تو اس نے کہا کہ اس کا کوئی اور عمل ہے تو اسے بھی لے آؤ۔ میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ کہہ رہا تھا کہ ہاں اس کے دئیے ہوئے دو پراٹھے ہیں ۔جو ابھی تک میزان میں نہیں آئے دونوں پراٹھے ترازو کے نیکی والے پلڑے میں ڈالے گئے تو نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا لیکن تھوڑا سا بھاری تھا عورت کے آنسو نیکیوں کے پلڑے میں ڈالے گئے جس کے پہاڑ جیسے وزن سے نیکیوں کا پلڑا مزید بھاری ہو گیا ۔منادی والے نے پوچھا کوئی اور عمل بھی اس کا باقی ہے تو فرشتے نے کہا کہ ہاں ابھی اس بھوکے بچے کی مسکراہٹ ہے اسے اس پلڑے میں ڈالا گیا تو نیکیوں والا پلڑا بھاری سے بھاری ہوتا چلا گیا ۔منادی کرنے والا بول اٹھا کہ یہ شخص نجات پا گیا ۔ابو نصر کہتاہے کہ میں جب نیند سے بیدار ہوا تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اے ابو نصر تجھے تیرے بڑے بڑے علاقوں نے نہیں بلکہ آج تجھے تیرے دو پراٹھوں نے بچایا ہے ۔پیارے بچو!اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ کسی بڑی نیکی پر مغرور نہیں ہونا چاہئے اور کسی بھی چھوٹی نیکی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے ۔ایک اور بات کا دھیان رکھیں کہ نمائش کا جذبہ فطرت انسانی کا ایک لازمہ بن کر رہ گیا ہے اب ہماری نیکیاں اور خوبیاں بھی لا شعوری طور پر ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتی جب ہم بڑی خوبصورتی اور فخر وانسباط کے ساتھ دوسروں پر اس کا اظہار کر سکیں یاد رکھیں کہ ظاہری نام ونمود اور دنیاوی شہرت کی حرص انسان کی نیکیوں کو درجات سے محروم کر دیتی ہیں۔ " کام چور لڑکا - تحریر نمبر 1681,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kaam-chor-larka-1681.html,"نونی یوں تو بڑا اچھا بچہ تھا مگر اس میں ایک بات بہت بری تھی- اور وہ بات یہ تھی کہ وہ ایک کام چور لڑکا تھا- اس سے اگر کسی کام کو کرنے کا کہا جاتا تو وہ صاف منع کردیتا تھا-اس کی امی باہر برآمدے میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہوتیں اور اس سے کہتیں ""نونی بیٹے- ذرا باورچی خانے سے مجھے تھوڑے سے لہسن لا دو-"" تو وہ صاف منع کردیتا ""میں نہیں لاؤں گا- آپ خود ہی لے لیں"" اور اپنے کھیل میں ہی لگا رہتا-جب اسے پیاس لگتی تو وہ بیٹھے بیٹھے آواز لگاتا ""امی- پیاس لگی ہے- پانی لا دیجیے""-اسکول کا کام وہ بہت مشکلوں سے کرتا تھا- امی کے بار بار کہنے پر کام ختم کر بھی لیتا تو کتابوں کو بستے میں نہیں رکھتا تھا- انھیں قالین پر ہی بکھرا چھوڑ دیتا- اس کی امی کی نظر جب ان پر پڑتی تو وہ انھیں اٹھا کر اس کے بستے میں رکھتیں-چھٹی کے روز اس کے ابّو ڈرائنگ روم میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے اور اخبار والا اخبار پھینک کر چلا جاتا تو وہ کہتے ""نونی- شا باش- ذرا دوڑ کر اخبار تو اٹھا لے آؤ""-نونی جھٹ بہانہ بنا دیتا- ""ابّو- باہر موٹا بلّا بیٹھا ہے- مجھے ڈر لگ رہا ہے""- ابّو بے چارے خود جا کر اخبار اٹھا کر لے آتے-وہ اپنے اسکول کا کام بھی بہت نخروں سے کرتا تھا- اسے اسکول جانا اچھا نہیں لگتا تھا- اس کا دل چاہتا تھا کہ صبح دیر تک مزے سے سوتا رہے- لیکن ابّو کی ڈانٹ کے ڈر سے اسے اٹھنا پڑتا تھا- اسکول پہنچ کر وہ اپنی ڈیسک بھی صاف نہیں کرتا تھا- پھونکیں مار کر اس پر لگی گرد صاف کرنے کی کوشش کرتا - اس کے سارے دوست اپنی ڈیسک میں رکھے ڈسٹر نکال کر اپنی اپنی ڈیسکیں صاف کررہے ہوتے تھے- وہ سوچتا کہ اگر امی اسکول میں بھی ہوتیں تو مزہ آجاتا- وہ ڈیسک بھی صاف کردیا کرتیں-اگر کہیں کام چوری کا مقابلہ ہو رہا ہوتا تو کوئی کام نہ کرنے کی وجہ سے نونی کو پہلا انعام مل سکتا تھا-اب وہ چوتھی جماعت میں آگیا تھا اور تقریباً آٹھ برس کا ہوگیا تھا- اتنا بڑا ہونے کے باوجود اس میں کوئی کام کرنے کی عادت پیدا نہیں ہوئی تھی- اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو اسے جوتوں کے تسمے باندھنے آئے اور نہ پینٹ شرٹ کے بٹن لگانے- صبح اسکول جاتے ہوۓ وہ یونیفارم اور جوتے پہن کے بیٹھ تو جاتا تھا مگر بٹن لگانے اور تسمے باندھنے کے لیے اسے امی کا انتظار کرنا پڑتا تھا کیوں کہ وہ ناشتہ تیار کرنے میں مصروف ہوتی تھیں- اس کے ابّو آفس جانے کی تیاری کر رہے ہوتے تھے اس لیے وہ اس کی کوئی مدد نہیں کرتے تھے-ایک روز صبح کے وقت اس کی امی نے کہا- ""نونی بیٹے- دلیے کا پیالہ میز پر رکھ دو- میں توس سینک رہی ہوں""-نونی نے کہا- ""امی میری پینٹ کا بٹن نہیں لگا ہے- اگر میں کرسی سے کھڑا ہوا تو وہ اتر جائے گی""-یہ سن کر اس کی امی بے چاری خاموش ہوگئیں- انھیں خود ہی دلیے کا پیالہ میز پر رکھنا پڑا-اس کے کوئی کام نہ کرنے کی عادت پختہ سے پختہ ہوتی جا رہی تھی- اس کی امی بہت پریشان رہنے لگی تھیں- وہ سوچتی تھیں کہ اس بری عادت سے چھٹکارا نہ پایا تو نونی بڑا ہو کر کیا کرے گا- اس کے کام نہ کرنے کی عادت کی وجہ سے اسے بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا- انہوں نے اس سلسلے میں ایک روز اس کے ابّو سے بھی بات کی- وہ تھوڑی دیر تو خاموشی سے کچھ سوچتے رہے پھر بولے- ""بات تو فکر کی ہے- ہم کوشش کریں گے کہ اس کی اس عادت کو ختم کروائیں""-ایک دفعہ اتوار کے روز نونی کی امی دوپہر کا کھانا پکانے میں مصروف تھیں- نونی اپنے ابّو کے ساتھ بیٹھا ٹی وی پر کارٹون دیکھ رہا تھا- کارٹون کے دوران جب اشتہارات کا وقفہ آیا تو نونی نے اپنے ابّو سے کہا- ""ابّو- مجھے کارٹون دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے- میرا دل چاہتا ہے کہ میں ہر وقت کارٹون ہی دیکھتا رہوں""-اس کے ابّو نے مسکرا کر کہا- ""کارٹون تو ہوتے ہی مزے دار ہیں- بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ ہر وقت انہیں دیکھتے رہیں- مگر یہ بات ممکن نہیں ہے- سب لوگ اگر ہر وقت ٹی وی کے آگے ہی بیٹھے رہیں گے تو پھر دوسرے کام کون کرے گا""-""ابّو- یہ بات تو آپ نے ٹھیک کہی- اگر ہمارا دودھ والا، اخبار والا، خاکروب اور ہمارے گھر میں کام کرنے والی ماما یہ سب لوگ مزے سے بیٹھ کر کارٹون ہی دیکھتے رہیں تو پھر دودھ اور اخبار کون لائے گا- ہمارے گھر کا کچرا کون اٹھائے گا، ہمارے گھر کی صفائی اور کپڑوں کی دھلائی کون کرے گا""- نونی نے کہا-اس کی بات سن کر اس کے ابّو بڑے پیار سے بولے- ""ہمارے نونی نے تو بہت اچھی بات کی ہے- نونی تو بہت سمجھدار بچہ ہوگیا ہے""-ابّو کے منہ سے اپنی تعریف سن کر نونی خوش ہوگیا- اس نے مزید کہا- ""اور ابّو اگر آپ بھی ہر وقت کارٹون ہی دیکھتے رہیں تو پھر آفس کیسے جائیں گے- آفس نہیں جائیں گے تو آفس والے پیسے بھی نہیں دیں گے- اگر پیسے نہیں ملے تو ہمارے گھر کا خرچہ کیسے چلے گا""-""بالکل"" اس کے ابّو نے سر ہلا کر کہا- ""اگر تم غور کرو تو دنیا کے بہت سارے انسان ہمارے لیے کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے ہیں- کوئی ہمارے لئے کپڑے بنا رہا ہے تو کوئی جوتے، کوئی ہمارے اسکول کی کاپیاں کتابیں پرنٹ کر رہا ، کوئی ان کاپیوں کتابوں کو رکھنے کے لیے بستے تیار کر رہا ہے اور کوئی بچوں کے کھیلنے کے لیے طرح طرح کے کھلونے بنا رہا ہے- کسان ہمارے لیے اناج اور سبزیاں اگاتے ہیں- مزدور ہمارے رہنے کے لیے گھر بناتے ہیں- غرض کہ اس طرح کے کاموں کی اتنی مثالیں ہیں کہ ہم انھیں گنتے گنتے تھک جائیں اور وہ ختم نہ ہوں- جو لوگ ہمارے لیے اتنے بہت سے کام کر رہے ہیں ہمیں ان کا احسان مند ہونا چاہیے""-ابّو کی بات سن کر نونی سوچ میں پڑ گیا تھا- اس نے کہا ""اور ابّو- امی بھی صبح سے رات تک گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہیں- ان کی وجہ سے ہمیں تمام چیزیں ریڈی ملتی ہیں- ان کی تو اگر طبیعت بھی خراب ہو تب بھی وہ کاموں میں مصروف رہتی ہیں تاکہ ہمیں کوئی تکلیف نہ ہو""-""یہ تو ہے- ماشااللہ تمہاری امی بہت ہمت والی ہیں- ایسی ہی ہمت والی تمام بچوں کی مائیں ہوتی ہیں- انھیں گھر کے بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں- اچھا اب تم مجھے یہ بتاؤ کہ ہم نے جو یہ تمام باتیں کی ہیں ان سے ہمیں کیا سبق ملا ہے؟""نونی نے تھوڑا شرماتے ہوۓ کہا- ""جب اتنے سارے لوگ ہمارے کاموں میں مصروف ہیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی کام کیا کریں تاکہ جیسے ان کے کاموں سے ہمیں فائدہ پہنچتا ہے ہمارے کاموں سے انھیں بھی پہنچے""-""شاباش""- اس کے ابّو نے خوش ہو کر کہا- ""بچے تو چھوٹے ہوتے ہیں- وہ بڑے بڑے کام تو کر نہیں سکتے- لیکن یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ گھر کے کاموں میں اپنی امی اور بھائی بہنوں کی تھوڑی بہت مدد کریں- خود یونیفارم اور جوتے وغیرہ پہن لیں- اپنے بستوں میں خود ہی کاپیاں کتابیں اور دوسری چیزیں سنبھال کر رکھ لیں- اپنے جوتوں پر پالش کرلیں- پیاس لگے تو خود ہی اٹھ کر پانی پی لیں- اسکول سے آکر یونیفارم کو ہینگروں میں ٹانگ کر احتیاط سے الماری میں رکھ دیں- کھانا کھانے کے بعد برتنوں کو کچن میں لے جا کر رکھ دیں- اس کے علاوہ ایسے ہی دوسرے چھوٹے موٹے کام جو وہ بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں، انھیں کریں- انھیں اگر بچپن سے ہی چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی عادت ہوگی تو وہ بڑے ہو کر بڑے بڑے کام بھی کر سکیں گے- یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک اچھا اور ذمہ دار انسان ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتا ہے""-ابو کی باتوں کا نونی کے دل پر بہت اثر ہوا تھا- اتنے میں اس کی امی کی آواز آئ- ""کھانا تیار ہوگیا ہے- آپ لوگ ہاتھ دھو کر ٹیبل پر پہنچ جائیں""-ان کی بات سن کر نونی جھٹ کچن میں پہنچا- اپنے ہاتھ دھوئے- اس کی امی خالی پلیٹیں اور چمچے ٹیبل پر رکھنے جا رہی تھیں- نونی نے کہا- ""امی- آپ کھانا نکالئے- یہ چیزیں میں ٹیبل پر رکھوں گا""-اس کی بات سن کر اس کی امی حیرت زدہ رہ گئیں- نونی نے ان کے ہاتھوں سے پلیٹیں اور چمچے لیے اور انھیں ٹیبل پر رکھ آیا- اس کی امی جب سالن کا ڈونگہ لے کر وہاں پہنچیں تو وہ دوڑ کر گلاسوں کا اسٹینڈ اور فرج میں سے پانی کی ٹھنڈی بوتل لے آیا اور انھیں میز پر رکھ دیا-یہ سب دیکھ کر نونی کے ابّو بیٹھے مسکرا رہے تھے- نونی کی امی نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا- ""نونی- مجھے تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا- یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں""-""امی- ابّو نے مجھے بتایا ہے کہ دنیا کے بہت سارے لوگ ہمارے لیے ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے ہیں اور ہماری سہولت کے لیے مختلف چیزیں بناتے رہتے ہیں- ان ہی کی وجہ سے ہمارے گھر میں طرح طرح کی چیزیں ہیں جن سے ہم آرام اٹھاتے ہیں- کام کرنا بہت اچھی بات ہے- ہمارے کاموں کی وجہ سے دوسروں کو آرام ملتا ہے- آج کی بعد میں بھی کام کیا کروں گا- یہ میری غلطی تھی کہ پہلے میں کچھ بھی نہیں کرتا تھا اور اپنے سارے کام آپ سے کرواتا تھا""-"" نونی بیٹا- میں خوش ہوں کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور تم کام کی اہمیت سے واقف ہوگئے ہو- ابھی تو تم چھوٹے ہو، بڑے ہو کر تمہیں کام کی اہمیت کا مزیداندازہ ہوگا- ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے کام کرنے سے نہ صرف ہمیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے- اپنے کسی عمل سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا نیکی کا کام ہے""-""اب آپ کو مجھ سے کسی کام کا کہنا نہیں پڑا کرے گا- میں خود سے ہی سارے کام کیا کروں گا""- نونی نے کہا- اس کی بات سن کر اس کی امی کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی- " وفادار سادھو - تحریر نمبر 1679,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/wafadar-saadhu-1679.html,"محمد ذوالقرنین خانچاکر بلوچ بہت ماہر تیر انداز تھا۔وہ منصور الملک کی فوج میں معمولی سپاہی بھرتی ہوا تھا مگر اس کی تیر اندازی اس کے کام آئی اور جلد ہی اسے پچاس تیر اندازوں کا امیر بنا دیا گیا۔وہ بہت تند ہی سے سرحد پر اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔کھبی کبھار چھٹی مل جاتی تو گھر بھی چلا جاتا۔اس کا خواب تھا وہ ایک ہزار ی کمان دار بنے ۔اس کی کمان میں ایک ہزار تیر انداز سپاہی ہوں ۔ایک روز اسے خط کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ اس کے والد کی طبیعت بہت خراب ہے ۔یہ پڑھ کر اس نے فوراً گھر کی راہ لی۔اسے کچھ دن ہی ان کی خدمت کا موقع ملا تب موت نے انہیں آلیا۔اب گھر میں کمزور بوڑھی ماں رہ گئی تھی ۔ایک جانب اس کا خواب تھا دوسری جانب کمزور بوڑھی ماں۔(جاری ہے)فیصلہ کرنے میں اسے ایک لمحہ بھی نہیں لگا۔اس نے فوج کو خیر باد کہہ دیا اور کھیتی باڑی کرنے لگا۔ماں نے ایک لڑکی پسند کی اور چاکر بلوچ کی شادی ہو گئی ۔زندگی خاموشی سے آگے بڑھ رہی تھی جب منصور الملک کے ہاں دس سال بعد بیٹا پیدا ہوا ملک بھر میں جشن کا سماں تھا۔کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کیا جا رہا تھا۔ان دنوں چاکر بلوچ کو بھی کچھ فراغت تھی تو ایک مرتبہ پھر تیر کمان اٹھانے کا خیال دل میں پیدا ہوا۔گاؤں والوں کا بھی خیال تھا کہ اسے ان مقابلوں میں حصہ لینا چاہیے ۔کچھ مشق کے بعد اس کا تیر عین نشانے پر لگنے لگا۔گاؤں والے اس کی مہارت دیکھ کر دنگ رہ گئے ۔تیر اندازی کے مقابلے میں جب وہ تیسرے مرحلے میں داخل ہوا تو ہر طرف اس کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔اس دن گھر جاتے ہوئے میر طاہر نے چند محافظوں کے ہمراہ اس کا راستہ روک لیا۔وہ اس علاقے کا داروغہ تھا۔”چاکر بلوچ، تمہارا نشانہ بہت سچا ہے۔“گھوڑے سے اترتے ہوئے میر طاہر بولا۔چاکر جانتا تھا کہ میرطاہر نے اسے کسی خاص وجہ سے روکا ہے ۔کسی راہ چلتے کی تعریف میر طاہر کی عادت نہیں تھی۔صاحب!وہ بات کہیے جس کے لئے مجھے آپ نے روکا ہے ۔چاکر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔میر طاہر کی مسکراہٹ غائب ہو گئی ۔اب اس کے چہرے پر رعونت دکھائی دے رہی تھی ۔اس نے ایک ریشمی تھیلی نکال کر حقارت سے اس کی جانب بڑھائی ۔”چاکر! یہ اس انعام سے بہت زیادہ ہے جو مقابلہ جیتنے کی صورت میں تمھیں ملے گا۔یہ رکھ لو اور اس مقابلے سے دستبردار ہو جاؤ۔“اگر میں انکار کردوں؟۔چاکر نے طنزیہ لہجے میں سوال کیا۔اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہو سکتاہے ۔میر طاہر نے سرد لہجے میں دھمکایا۔میں تمہاری پیشکش ٹھکراتاہوں ۔چاکر بلوچ نے بے خوف ہو کر کہا۔میر طاہر اسے کچھ دیر غضب ناک نگاہوں سے گھورتا رہا پھر چابک لہراتا وہاں سے چل دیا۔مقابلے کا دن آپہنچا اور جب اس نے مد مقابل کو دیکھا تو اس کی سمجھ میں ساری بات آگئی ۔میر طاہر کا بھانجا اور پچاس ہزاری سالار میر قاسم کا بیٹا اس کے سامنے کھڑا تھا۔چاکر جیسے ماہر تیر انداز کے سامنے اس کی ایک نہ چلی وہ یہ مقابلہ ہار گیا۔اس جیت پر پچاس ہزار سالا ر میر قاسم نے چاکر کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا”ہر باپ کی طرح میری خواہش تھی کہ یہ مقابلہ میرا بیٹا جیتے مگر کچھ صلاحیتیں خدا داد ہوتی ہیں ۔چاکر کے پاس وہ خوبی ہے جس کی بدولت اس کا نشانہ چوکتا نہیں ۔میں نے اپنے بیٹے سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ یہ مقابلہ جیت گیا تو اسے بیش قیمت تحفہ دوں گا۔چاکر بلوچ نے مجھے بہت متاثر کیاہے۔انعام کے ساتھ یہ اس تحفے کا بھی حقدار ہے۔میر قاسم کا یہ اعلان سن کر گاؤں والوں نے خوشی سے چاکر کو کندھوں پر اُٹھالیا۔سب اس تحفے کو دیکھنے کے لئے بیتاب تھے۔تحفہ دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ ایک دیو قامت افریقی ہاتھی تھا۔امید ہے آپ ہمارے تحفے کی قدر کریں گے اور اس کی خوراک کی فکر نہ کرنا سالانہ تمھیں اس کا خرچ مل جائے گا۔میر قاسم نے چاکر بلوچ سے مصافحہ کرتے ہوئے اونچی آواز میں کہا تاکہ سب سن لیں۔چاکر کسی صورت وہ تحفہ قبول کرنا نہیں چاہتا تھامگر میر قاسم کی دشمنی مول لینے کی سکت اس میں نہ تھی ۔اس لئے کسی نہ کسی طرح وہ ہاتھی کو گاؤں لے آیا۔ایک اجاڑ کھیت میں اس کا عارضی ٹھکانہ بنا دیا۔اگلے دن چند سپاہی وہاں آدھمکے اور ہاتھی کی خوراک کے بارے میں چاکر سے سوال کرنے لگے ۔اس کے بعد انہوں نے چاکر کے کھیت میں گھس کر محنت سے اگائی گئیں سبزیاں اکٹھی کیں اور ہاتھی کے سامنے ڈھیر کردیں ۔ایک کاغذ پر ان کی تفصیل لکھی اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ سال پورا ہونے پر اسے رقم ادا کر دی جائے گی۔وہ روز یہی کرتے ۔چاکر کے سارے کھیت برباد کر دیے گئے ۔وہ اسے تنگ کرنے کے لئے کبھی کہتے ہاتھی کمزور لگ رہا ہے اس کے لئے مزید خوراک کا انتظام کرو۔کبھی کہتے صاف نہیں اسے نہلانے کا بندوبست کرو۔چاکر اور اس کے گھر والوں کا سکون غارت ہو کر رہ گیا تھا۔ہاتھی چاکر کے علاوہ کسی کو قریب آنے نہیں دیتا تھا۔اس لئے صفائی بھی اسے کرنی پڑتی ۔زندگی بہت مشکل ہو گئی تھی ۔سارے کام چھوڑ کر وہ ہاتھی کی خدمت میں لگا ہوا تھا۔وہ اس بات کی اکثر اپنی ماں سے شکایت کرتا تو وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دیتی اور اسے بتاتی کہ صبر اختیار کرنے سے زحمت رحمت بن جاتی ہے۔دوسری طرف اس کی حالت کا سن کر میر طاہر قہقہے لگاتا اور اپنے بہنوئی میر قاسم کی چالبازی کو سراہتا۔ان دنوں میر طاہر کسی کام سے مرکز چلا گیا۔دو ڈھائی ماہ بعد میر قاسم کی دلچسپی بھی کم ہو گئی تو سپاہیوں نے آنا بھی کم کر دیا۔چاکر اور ہاتھی ایک دوسرے سے مانوس ہو گئے تھے ۔ہاتھی جس کا نام اس نے سادھو رکھا ہوا تھا،ساری رات وہ ایک ہی حالت میں سر جھکائے گزار دیتا۔سادھو اس کے اشارے سمجھنے لگا تھا۔چاکر نے سواری بھی سیکھ لی تھی ۔وہ جب سادھو پر سوار ہوتا تو اسے بہت لطف ملتا۔سادھو کو پانی میں اچھل کود پسند تھی ۔چاکر ہر دوسرے روز اسے جھیل کی جانب لے جاتا۔کبھی کبھی وہ اس پر سوار ہو کر جنگل میں دور تک چلا جاتا۔وہ وہاں سے شہد اکٹھا کرتا انواع اقسام کے پھل توڑ لاتا۔ایک مرتبہ شہد اتارتے ہوئے جب مکھیوں نے ان پر حملہ بول دیا تو تب اسے معلوم ہواکہ سادھو بھاگتا بہت تیز ہے۔یوں وہ اسے دوڑانے بھی لگا۔ان دنوں وہ اس پر کھڑے ہو کر سواری کرنا سیکھ رہا تھا۔ایک رات سپاہی آئے اور اسے بتایا کہ منگولوں نے سرحد پر حملہ کر دیاہے ۔سالار پچاس ہزاری میر قاسم کے حکم سے وہ ہاتھی واپس لے جارہے ہیں۔ صبح فجر تک انہوں نے ہر جتن کرلیا مگر سادھو سر جھکائے وہیں کھڑا رہا۔سورج نکلتے ہی میر طاہر دو سو سپاہی لے کرپہنچ گیا۔آہنی زنجیروں سے سادھو کو جکڑ دیا گیا۔سب مل کر زور لگا رہے تھے ۔اتنے میں کسی سپاہی نے نیزے کی انی سادھو کے پاؤں میں ماری ۔سادھو بپھر گیا۔چنگھاڑتے ہوئے پچھلے پاؤں پر کھڑا ہوا پھرایک جھٹکے سے بھاگ کھڑا ہوا۔سپاہی اس کے ساتھ گھسٹتے چلے گئے ۔اس کا رخ جنگل کی جانب تھا۔بادشاہ منصور الملک نے اپنے تمام پچاس ہزاری سالاروں کو مشرقی سرحد پر پہنچنے کا حکم دیاتھا۔میر قاسم نے اس مہم پر جانے کے لئے سادھو کو واپس بلوایا تھا۔رواج تھا کہ جنگ کے دوران پچاس ہزاری سالار ہاتھیوں پر سوار رہتے تھے ۔میر قاسم کے پاس جو سب سے بڑا ہاتھی تھا وہ سادھو ہی تھا ۔وہ کسی چھوٹے ہاتھی پر بیٹھ کر بادشاہ کے سامنے جانے میں شرم محسوس کررہا تھا۔دس دن گزر گئے سپاہی سادھو کو نہ پکڑ سکے ۔ایک شام میر قاسم خود چاکر کے گھر پہنچ گیا۔اسے کہا سادھو کو لے کر سرحد کی جانب چلے دوسری صورت میں اس کی ساری زمین ضبط کرلی جائے گی اور اسے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔چاکر کو غصہ تو بہت آیا مگر وہ بے بس تھا۔ایک مہینے بعد وہ سرحد پر منگولوں کے لشکر کے سامنے موجود تھا۔چاکر میر قاسم کے فیل بان کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔میر قاسم نے بہت کوشش کہ سادھو کسی اور فیل بان کو قبول کر لے مگر وہ بگڑ جاتا۔جنگ شروع ہو چکی تھی ۔منگول تا بڑ توڑ حملے کر رہے تھے ۔منصور الملک کا لشکر ان حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے پسپا ہورہا تھا۔میر قاسم اس وقت ایک او نچے ٹیلے موجود تھا اور میدان جنگ کا منظر دیکھ رہا تھا۔ہوا کا رخ پہچان کر میر قاسم نے چاکر کو حکم دیاکہ ہاتھی کو خیموں کی طرف لے جائے ۔ایساکرنا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔میر قاسم کو میدان جنگ سے جاتا دیکھ کر اس کے سپاہی حوصلہ ہار دیتے اور بھاگ کھڑے ہوتے ۔منگول اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اس طرف سے حملہ آور ہو جاتے ۔سارے لشکر میں افراتفری پھیل جاتی تب انہیں شکست سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔وہ ہاتھی چاکر کا تھا اور چاکر میر قاسم کا سپاہی بھی نہیں تھا کہ اس کا حکم مانتا۔اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔میر قاسم نے اسے اپنے پاس رتھ میں آنے کو کہا ۔ان دونوں کے درمیان کوئی بات ہوئی ۔تھوڑی دیر بعد سپاہیوں نے دیکھا کہ رتھ کو ہاتھی سے علیحدہ کر دیا گیا۔فیل بان کو نیچے اتار کر ان کا سالار تیر کمان سنبھالنے خود ہاتھی پر بیٹھ گیا۔اس کے بعد ہاتھی چنگھاڑتا ہوا ٹیلے سے نیچے اترا اور غضب ناک انداز میں منگولوں کی جانب بڑھا۔وہ دشمن کو روندتا ہوا بہت دور تک نکل گیا۔منگولوں نے ہاتھی کو گھیر لیا تھا اور نیزے اور تلواروں سے اس پر حملہ آور ہو رہے تھے ۔ان کا سالار ہاتھی پر کھڑا ہو کر ان پر تیر برسا رہا تھا۔سپاہیوں نے جب یہ منظر دیکھا ۔تو نعرہ تکبر بلند کرتے ہوئے پر جوش انداز میں اپنے سالار کی مدد کو لپکے ۔منصور الملک جو اپنی فوج کو پسپا ہوتے دیکھ کر مایوس ہو چکا تھا یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔اسے میر قاسم سے اس بات کی کم از کم توقع نہیں تھی ۔دوسرے سالاروں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو وہ بھی میدان جنگ کی طرف دوڑے ۔اب تمام لشکر میں ایک توانائی دوڑ گئی ۔وہ پوری قوت سے منگولوں سے جا ٹکرائے ۔گھمسان کارن پڑا۔منگولوں کے قدم اکھڑے گئے ۔جلد ہی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔سادھو زخموں سے نڈھال تھا ۔اس پر موجود چاکر بلوچ کی حالت بھی بہت خستہ تھی ۔تیر چلاچلا کر اس کے دونوں بازو شل ہو گئے تھے انگلیوں سے خون رس رہا تھا۔اس نے میر قاسم کی وردی پہن رکھی تھی ۔میر قاسم انتہائی بزدل واقع ہوا تھا۔اس نے جب یہ دیکھا کہ چاکر واپس جانے کے لئے تیار نہیں تو اسے اپنی وردی دے کر اس کی قمیض اور پگڑی خود پہن لی اور وہاں سے فرار ہو گیا۔جنگ ختم ہو چکی تھی ۔وہ بہت مشکل سے سادھوپر سے اترا۔دو سپاہیوں نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔سادھو جیسے اس کے اترنے کا منتظر تھا پاؤں موڑ کر بیٹھا اور چند لمحوں بعد ایک طرف ڈھے گیا۔چاکر نے جب یہ منظر دیکھا تو والہانہ سادھو کی جانب بڑھا۔سادھو کی آنکھیں بند تھیں ۔چاکر بچوں کی طرح اس سے لپٹ کا رو رہا تھا۔یہ منظر دیکھ رہ آنکھ اشک بار تھی۔چاکر بلوچ اس وقت منصور الملک کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔منصور الملک کو پہلے ہی شک تھا کہ ہاتھی پر کھڑے ہو کر تیر چلا نے والا میر قاسم نہیں ہو سکتا۔میر قاسم کومیدان جنگ سے بھاگنے کے جرم میں جلد ہی گرفتار کر لیا گیا۔منصور الملک چاکر کی بہادری سے حد درجے متاثر ہوا اور اسے پچاس ہزاری سالار مقرر کر دیا۔سادھو زحمت بن کے آیا تھا مگر اس سمیت پورے ملک کے لئے رحمت بن گیا تھا۔ " عجیب وغریب جزیرہ - تحریر نمبر 1678,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ajeeb-o-ghareeb-jazeera-1678.html,"محمد احمد آصفمیرا نام سند باد ہے ،لیکن سمندروں میں کثرت سے سفر کرنے کی وجہ سے لوگ مجھے سند بار جہازی بھی کہتے ہیں ۔میرے پہلے سفر کی کہانی کچھ یوں ہے کہ جب میری عمر 22سال ہوئی تو میرے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ نیک اور خدا سے ڈرنے والے انسان تھے ۔اس کے علاوہ وہ اپنے شہر کے سب سے بڑے تاجر بھی تھے ۔مجھے میراث کے طور پر بہت سا مال ملا ۔پھر وہی ہوا جو ایسے حالات میں ہوا کرتا ہے ،دولت کی فرا وانی کی وجہ سے میں عیش وعشرت میں پڑ گیا۔ صبح دن چڑھے تک سوتا رہتا۔پھر اُٹھ کر گلاب کے عرق ملے پانی سے غسل کرتا، قیمتی پوشاک پہننا اور پھلوں کا ناشتہ کرتا۔پھر گانے بجانے کی محفلیں شروع ہو جاتیں۔میری یہ حالت دیکھ کر بہت سے خوشامدی اور مفت خورے دوست میرے گرداکھٹے ہو گئے ۔(جاری ہے)ان کا مقصد دن رات میری تعریفیں کرکے مفت روٹی کھانا تھا۔میں نے بھی سخاوت کا حق ادا کیا اور دونوں ہاتھوں سے دولت خوب لٹائی۔رفتہ رفتہ میں امیر سے غریب ہونے لگا۔جب میرے حالات کمزور ہوئے تو دوست احباب اِدھر اُدھر ہونے لگے ۔میں ان کی بے وفائی پر حیران رہ گیا۔پھر ایک دن مجھے خیال آیا کہ یوں اپنی دولت کو ضائع کرنا درست نہیں ۔گھر میں بیٹھ کر کھاؤ تو قارون کا خزانہ بھی ختم ہو جاتاہے ۔چنانچہ سوچا کہ جو دولت باقی رہ گئی ہے،اسے تجارت میں لگانا چاہیے اور جو نفع حاصل ہو اس سے گھر چلانا چاہیے۔اگلے دن میں نے اپنا مال واسباب بیچا اور دوسرے تاجروں کے ساتھ اپنے شہر کی بندرگاہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ہم خلیج فارس کے راستے جزائر مشرق کے قریب سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔دوران سفر ہم کئی بندرگاہوں پر اُترے پچھلا سامان بیچا اور نیا خریدا۔ سب کچھ بالکل ٹھیک تھا۔ایک دن موسم خوش گوار تھا۔ہمارا جہاز بڑی تیزی سے سمندر کے سینے کو چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔اچانک ہمارے راستے میں ایک چھوٹا سا جزیرہ آگیا۔ہمیں معلوم بھی نہ تھا کہ ہمارے ساتھ کچھ بُرا ہونے والا ہے ۔کپتان اس جزیرے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا اور نقشہ نکال کر دیکھنے لگا اور حیرت سے بولا:”نقشے میں تو اس جگہ کوئی جزیرہ نہیں ،معلوم نہیں یہ کہاں سے آگیا۔یہ کوئی جادو کا جزیرہ تو نہیں؟“ہم سب اس کی یہ بات سن کر ہنس پڑے۔جزیرہ کھیل کے میدان جتنا وسیع تھا اور اس پر نرم نرم زرد رنگ کی گھاس لہرا رہی تھی ۔کپتان نے ملاحوں کو حکم دیا:”باد بان کھول دو اور جہاز کو جزیرے کے قریب لے جاؤ۔“پھر ہم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:”تم میں سے جو مسافر بھی مختصر وقت کے لئے جزیرے پر جانا چاہے ،اسے میری طرف سے اجازت ہے۔“ہمارے لئے بڑی غیر متوقع بات تھی ۔ہم بیس کے قریب مسافر جزیرے پر اُترے اور اِدھر اُدھر چہل قدمی کرنے لگے ۔کباب ہماری پسندیدہ غذا تھی ۔دو چار آدمی جہاز سے لکڑیاں اُتارے لائے اور آگ جلانے کی تیاری کرنے لگے ۔ہم بہت خوش تھے اور ایک دوسرے سے خوب مذاق کر رہے تھے ۔ابھی کباب بھوننے شروع کیے تھے کہ جزیرے نے آہستہ آہستہ ہلنا شروع کر دیا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے جزیرہ اپنی جگہ سے خاصا ہٹ گیا ۔اس کے بعد ہم نے شدید جھٹکا محسوس کیا ۔ہر شخص یہی سمجھا کہ زلزلہ آرہا ہے۔اتنے میں جہاز کے کپتان کی آواز آئی:”جلدی واپس آؤ ورنہ مچھلی پانی میں واپس چلی جائے گی ․․․․․جلدی کرو،جلدی۔“تب ہمیں پتا چلا کہ جسے ہم جزیرہ سمجھ رہے ہیں وہ کوئی بہت بڑی مچھلی تھی جو دھوپ سینکنے کے لئے سمندر کی سطح پر آئی ہوئی تھی۔مسافروں میں سے جو تیرز رفتار تھے وہ تیر کر جہاز پرپہنچ گئے ۔کچھ درمیان میں ڈوبنے لگے اور میں تو ابھی مچھلی کی پشت پر ہی تھا کہ اتنے میں اس مچھلی نے پانی میں ڈبکی لگانا شروع کر دی۔بڑا عجیب منظر تھا۔مچھلی آہستہ آہستہ نیچے لہروں میں جارہی تھی اور میرے چاروں طرف پانی بلند ہو رہا ہے ۔کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ جزیرہ نہیں ،بلکہ مچھلی ہے ۔مجھے اور تو کچھ سمجھ نہ آیا تو میں نے جلدی سے لکڑی کا ایک ٹکڑا پکڑ لیا اور جلانے کی غرض سے جزیرے پر لایا گیا تھا۔آخری منظر جو میں نے دیکھا یہ تھا کہ ملاحوں کا شوروغل برپا تھا اور جہاز مجھ سے دور ہوتا جا رہا تھا۔اتنی بڑی مچھلی کے پانی میں غوطہ لگانے کی وجہ سے پانی میں بھونچال سا آگیا۔سخت گھبراہٹ کا وقت تھا میں نے مضبوطی سے لکڑی کو اپنے دونوں بازوؤں میں لے لیا اور آنکھیں بند کرلیں ۔میں کچھی لہروں کے اوپر ہوتا کبھی نیچے ۔چند گھنٹے بعد اندھیرا چھا گیا اور بارش شروع ہو گئی ۔میرا خوف سے بُرا حال تھا۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں ساری رات کہاں بتہا رہا۔آخر خدا خدا کرکے صبح ہو گئی اور دور ساحل کی زمین نظر آنے لگی ۔موجیں آہستہ آہستہ مجھے ساحل کی طرف لے گئیں اور میں اوندھے منہ گیلی ریت پر لیٹ گیا۔سردی ،تھکن اور بھوک سے میری جان نکلی ہوئی تھی ۔منہ میں بھی کچھ پانی چلا گیاتھا ۔کتنی ہی دیر اسی حالت میں لیٹا رہا۔جب سورج ذرا بلند ہوا تو اس کی شعاعوں سے جسم میں کچھ حرارت پیدا ہوئی اور میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔سامنے ایک جزیرہ پھیلا ہوا تھا۔میں گزشتہ دن والے واقعے سے اتنا ڈرا ہوا تھاکہ مجھے لگا کہ شاید یہ بھی کوئی مچھلی نہ ہو ۔اسی غرض سے میں نے اپنا قدم چند مرتبہ زور زور سے زمین پر مارا،لیکن وہاں پر گیلی زمین کے سوا کچھ نہ تھا۔میں نڈھال بھی ہو چکا تھا اور کمزور بھی ،لیکن پھر بھی ہمت کرکے کچھ آگے بڑھا اور چند جڑی بوٹیوں سے اپنی بھوک مٹائی۔جب ذرا جان میں جان آئی تو چل پھر کر جزیرے کا جائزہ لینے لگا۔جزیرے کے درمیان گھاس کا ایک میدان تھا جہاں چند حبشی ،گھوڑے چرا رہے تھے ۔مجھے دیکھ کر انھوں نے نعرہ لگایا اور دوڑ کر میرے قریب آگئے۔ یہ چار پانچ لمبے قد کے مضبوط جسموں والے لوگ تھے ۔ان کا رنگ سیاہ اور دانت سفید تھے ۔وہ مجھ سے کسی اجنبی زبان میں بات کرنے لگے ۔پہلے تو میں نے اشاروں سے جواب دینے کی کوشش کی جب ان کی سمجھ میں نہ آئی تنگ آکر عربی میں کہا:”تم کون ہو؟“ایک بوڑھا حبشی آگے بڑھا اور مجھے عربی میں جواب دینے لگا:” یہی تو ہم تم سے پوچھ رہے ہیں کہ تم کون اور اس جزیرے پر کیسے آئے ہو؟“میں نے انھیں اپنی ساری کہانی سنادی۔وہ میرے ساتھ بڑے احترام سے پیش آئے اور اپنے خیمے میں جاکر کھانا کھلایا۔پھر کہنے لگے :”نو جوان !تم دل مضبوط رکھو۔تم ایک رحم دل بادشاہ کے ملک میں ہو ۔ہم سب اس کے غلام ہیں اور روزانہ یہاں شاہی گھوڑے چرانے لاتے ہیں ۔ہم تمھیں دربار میں پیش کریں گے ۔بادشاہ تمھیں دیکھ کر یقینا بہت خوش ہو گا۔“یہ سن کر میری ہمت بڑھی اور پچھلے واقعات کا خوف دور ہوا۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔شام کو وہ مجھے شاہی محل میں لے گئے جو آبادی کے درمیان میں بنا ہوا تھا۔اگلے دن میں بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا۔بادشاہ نے میری کہانی سن کر مجھے تسلی دی اور کہا کہ تم میرے مہمان ہو۔جب تک چاہو یہاں رہو ۔اس کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ شاہی مہمان کی حیثیت سے میرا مکمل خیال رکھاجائے ۔چنانچہ میں زندگی کے باقی دن وہاں گزارنے لگا۔ہر وقت مایوس اور غمگین رہنے لگا،کیونکہ جو کچھ میرے پاس تھا وہ بھی ضائع ہو گیا اور گھر والے بھی چھٹ گئے ۔اسی جزیرے پر ایک بندرگاہ تھی جہاں ساری دنیا سے تجارتی جہاز آتے جاتے تھے ۔بندرگاہ اتنی بڑی تھی کہ لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے ہر وقت میلے کا سماں رہتاتھا ۔میں اکثر اوقات وہاں چلا جاتا تھا اور کچھ وقت گزار کر واپس چلا آتا۔ ایک دن میں دوپہر کے وقت وہاں کھڑا تھا کہ ایک جہاز آکر رکا۔ملاحوں نے لنگر ڈال دیا اور تجارتی سامان اُتارنا شروع کر دیا۔تاجر اپنا اپنا سامان وصول کرکے گوداموں میں جانے لگے ۔اچانک میری نظر چند گٹھوں پر پڑی جن پر موٹے حروف سے میرا نام لکھا ہوا تھا ۔اتنے میں میں نے کپتان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ ملاحوں کو حکم دے رہا تھا :”سند باد کا سامان ادھر علیحدہ ایک طرف رکھ دیا اس کا سامان دوسرے سامان میں نہ ملنے پائے۔میں نے کپتان کی شکل وصورت پر غور کیا تو یاد آیا کہ یہ وہی ہے جس کے ساتھ میں نے سفر شروع کیا تھا۔میں دوڑ کر اس کے پاس گیا اور ابتدائی سلام دعا کے بعد بتایا کہ میں ہی سندباد ہوں جس نے اس کے ساتھ سفر شروع کیا تھا ایک جزیرہ نما مچھلی کی وجہ سے اس سے جدا ہو گیا۔کپتان نے میری بات کا یقین کرنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا کہ جب مچھلی نے پانی میں غوطہ لگایا تو سندباد ہماری آنکھوں کے سامنے ڈوب گیا تھا۔میں نے اس سے بحث کی اور کئی نشانیاں بتائیں ۔آخر وہ مطمئن ہو گیا اور میرا سامان میرے حوالے کردیا۔میں نے سامان وہیں بندرگاہ کے گودام میں رکھوایا اور شاہی محل کی طرف چل پڑا۔میرا بس نہ چلتا تھا ورنہ اُڑ کر بادشاہ کے پاس پہنچ جاتا اور اسے بتایا کہ میرا تجارتی سامان اتفاق سے دوبارہ مل گیا ہے۔بادشاہ کو جب اس بات کی خبر ملی تو وہ بھی خوش ہوا اور میرے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اس کے بعد میں چند دن مزید اس جزیرے پر رکا،پھر بادشاہ سے اجازت لے کر رخصت ہوا۔اس نے تحفے تحائف دے کر مجھے روانہ کیا۔اس کے بعد میں راستے میں کئی بندرگاہوں پر اُترا۔اپنا پرانا مال بیچا اور نیا خریدا ۔ایک طویل مدت کے بعد میں اپنے شہر واپس لوٹا۔جب گھر پہنچا تو قبیلے والوں نے میراپر تپاک خیر مقدم کیا اور ایک بہت بڑی ضیافت بھی کی ۔میرے ساتھ تجارتی سامان کے طور پر صندل کی لکڑی ،مور اور برگد کے مرتبان ،لونگ ،دار چینی،گلاب کے عطریات ،کافور،سونے چاندی کے زیورات ،ریشم وحریر کے کیڑے اور بہت سے جواہرات تھے ۔یہ سارا سامان ہمارے شہر میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔مجھے تجارت میں تقریباً ایک لاکھ سونے کے سکوں کا نفع ہوا۔میں نے ایک باغ خریدا اور اس میں ایک عالی شان مکان بنوایا۔اس طرح آرام وسکون کی زندگی گزارنے لگا۔جلد ہی میں ماضی کی ساری تکلیفیں اور مصائب بھول گیا اور خوش وخرم رہنے لگا۔ " مرزا شکاری - تحریر نمبر 1677,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mizra-shikari-1677.html,"خلیل جبارجنگل میں ایک بہت اونچے درخت پر مچان بنالی گئی تھی ،تاکہ جانور اُچھل کر مچان پر نہ آسکے ۔مرزا واحد بیگ بہت جوش میں دکھائی دے رہے تھے۔وہ بار بار اپنی رائفل کو دیکھ رہے تھے ۔انھیں بچپن میں شکاریات پر مبنی کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا۔اس بنا پر انھیں شکار سے دل چسپی ہو گئی تھی ۔مرزا صاحب ان دنوں پڑوسی ملک میں ایک ماہ کے دورے پر آئے ہوئے تھے ۔یہاں پر جس شہر اور گاؤں میں ان کے عزیز ورشتے دار موجود تھے ،ان سے ملاقاتیں کر رہے تھے ۔وہ جس گاؤں میں قیام کیے ہوئے تھے وہاں ایک جنگلی آدم خور شیر نے گاؤں والوں کو بہت تنگ کیا ہوا تھا۔جب انھیں یہ پتا چلا کہ ان کے ایک عزیز ملا حبیبی اس اس شیر کو ہلاک کریں گے مرزا بھی ضد کرکے ان کے ساتھ چل دیے۔(جاری ہے)ملا صاحب نے بہت سمجھایا کہ تم گھر پر ہی رہو میں شیر کے ہلاک کیے جانے پر تمہیں بلالوں گا،مگر وہ نہ مانے۔مجبوراً انھیں انکل بد حواس کو اپنے ساتھ شکار پر لے جانا پڑا۔ملا حبیبی ایک تجربہ کار اور ماہر شکاری تھے۔انھوں نے مچان ایسی جگہ بنایا جہاں آدم خور شیر کو دیکھا جا سکتا تھا ۔پتوں پر کسی جانور کے چلنے کی آواز پر ملا حبیبی نے اپنے منہ پر اُنگلی رکھ کر سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔سب خاموشی سے آواز کی سمت دیکھنے لگے ۔ایک شیر درخت سے بندھی بکری کے پاس آیا۔ملا حبیبی نے رائفل سے شیر کا نشانہ لیا اور فائر کھول دیا۔گولی شیر کے دماغ میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔مرزا صاحب نے زندگی میں پہلی بار شیر کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔وہ حیران رہ گئے کہ کتنی آسانی سے ملا حبیبی نے شیر کو ہلاک کر دیا۔سب لوگ مچان نے اُتر کر شیر کو دیکھ رہے تھے ۔مرزا جی میں ہمت نہیں تھی کہ وہ شیر کو پاس جا کر دیکھ لیں ۔جب سب شیر کو دیکھ چکے تو ان کو سبکی محسوس ہوئی اور وہ بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی مچان سے نیچے اُترے اور ڈرتے ڈرتے شیر کے پاس گئے ۔وہ حیرت سے شیر کو دیکھنے لگے ۔انھوں نے اپنی زندگی میں اتنے قریب سے شیر کو پہلی بار دیکھا تھا ۔وہ مرچکا تھا ،مگر تھا تو شیر ہی نا۔مرزا اس وقت مرے ہوئے شیر سے بھی خوف زدہ تھے ،لیکن ملا حبیبی کے گھر پہنچنے پر ان کا ”خوف“ختم ہو چکا تھا اور اپنے چہرے سے خاصے مطمئن نظر آرہے تھے۔مرزا جی جب ضلع نینی تال کے ایک گاؤں رام نگر پہنچے وہاں انھوں نے اپنے عزیزوں میں شکاریات سے متعلق من گھرٹ قصے سنا دیے۔ لوگ ان کو حیرت سے دیکھنے لگے کہ وہ اتنے بہادر شکاری ہیں کہ ڈھیروں آدم خور شیروں کو ہلاک کر چکے ہیں ۔ان کی خوب تعریفیں ہونے لگیں اور مرزا کا سینہ احساس برتری سے پھول سا گیا۔مرزا نے شکاریات کے موضوعات پر بہت کہانیاں پڑھی تھیں۔انھیں شکار کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔کہانیوں میں انھوں نے یہی پڑھا تھا کہ شکاری مچان بنا کر بیٹھ گیا، ایک درخت سے جنگلی بھینسا، بکری یا گائے باندھ دی۔آدم خور شیر جیسے ہی اس بندھے ہوئے جانور کے پاس آیا،شکاری نے رائفل سے فائر کھول دیا۔شیر کے مرجانے پر وہ ہیروبن گیا۔مرزا صاحب ،ملا حبیبی کے ساتھ شکار پر کیا گئے ،خود کو شکاری سمجھ بیٹھے ۔وہ شکار کرنے کے منصوبے بنانے لگے تھے۔وہ نامور شکاریوں میں اپنا نام شامل کرانا چاہتے تھے۔مرزا کو اکثر ایسے خواب نظر آنے لگے تھے ۔جس میں وہ خود کو افریقہ کہ جنگلات میں پاتے ،جہاں وہ خطر ناک درندوں کو منٹوں میں ہلاک کر دیتے تھے ۔شکار کرنے پر وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے،مگر آنکھ کھلنے پر ان کی خوشی خاک میں مل جاتی ۔وہ خود کو افریقہ کے جنگلات میں مچان کے بجائے گھر کی چار پائی پر پڑا ہوا پاتے تھے ۔وہ اپنے مستقبل سے پر اُمید تھے کہ زندگی میں انھیں شکار کرنے کا موقع ضرور ملے گا اور لوگ ان کی بہادری پرواہ وا کریں گے۔اس گاؤں میں مرزا کے سسرالی رشتے دار رہتے تھے ۔وہاں کے رشتے داروں میں بہادری دکھانے کا مطلب تھا کہ ان کی بہادری کے قصے پاکستان بھر میں پہنچ جاتے اور ان کی سسرال میں عزت بن جاتی ۔اس علاقے میں ایک آدم خور شیر نے گاؤں میں خوب دھوم مچا رکھی تھی ۔نہ جانے کتنے لوگوں کو وہ ہلاک کر چکا تھا۔گاؤں کے لوگوں نے مرزا کے فرضی قصے سن کر انھیں آدم خورشیر کا شکار کرنے پر راضی کر لیا۔وہ راضی تو پہلے ہی تھے بس اپنی خوشامد کرانا چاہتے تھے ۔وہ اپنی اس عزت افزائی پر پھولے نہیں سما رہے تھے ۔اس طرح ان کے شکار کرنے کی خواہش پوری ہو جاتی ۔شیر کا شکار کرنا وہ ملاحبیبی سے سیکھ چکے تھے ۔اس لئے انھیں اب کسی قسم کی پریشان نہ تھی ۔مرزا نے سب سے پہلے ان مقامات کو دیکھا جہاں وہ آدم خور شیر دیکھا گیا تھا۔ان مقامات کو اچھی طرح دیکھ لینے پر ایک جگہ منتخب کرکے مچان بنالی گئی ۔وہاں سے شیر کو آتا آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا۔رات ہونے سے پہلے پہلے ایک بکری کو مچان سے کچھ فاصلے پر باندھ دیا گیا تھا۔مرزا نے اپنے ساتھ گاؤں کے چند لوگوں کو بھی اپنے پاس بیٹھالیا تھا،تاکہ گاؤں کے لوگ اس کے کارناموے کو بڑھ چڑھ کر بیان کریں ۔زیادہ لوگوں کے مچان پر بیٹھنے سے جگہ تنگ ہو گئی تھی ،مگر مرزا کو اس کی پرواہ نہیں تھی ۔ان کے ذہن میں یہی بات تھی کہ شیر بکری کو کھانے ضرور آئے گا اور وہ اس پر فائر کھول دیں گے ۔رات خاصی گزر جانے پر درختوں کے پتوں پر چلنے کی آواز آنے لگی ۔اس کا مطلب تھاکہ شیریا کوئی اور جانور آرہا ہے ۔آواز آہستہ آہستہ ان کے قریب ہوتی جارہی تھی اور پھر مچان کے نزدیک آواز محسوس ہوئی اور خاموشی چھا گئی ۔کوئی جانور وہاں دکھائی نہ دے سکا۔سب حیران تھے کہ آواز آنے کے باوجود جانور کیوں دکھائی نہیں دیا۔”کہیں یہاں آسیب کا سایہ نہ ہو۔“ایک شخص بولا۔”مجھے بھی ایسا لگ رہا ہے ۔“دوسرا شخص بولا۔”کیا یہاں آسیب بھی ہوتاہے۔“مرزا نے خوف زدہ ہوتے ہوئے پوچھا۔”ارے صاحب!جنگلوں میں آسیب نہیں ہو گا تو کیا انسان ہوں گے ۔“تیسرا آدمی بولا۔جنگل میں ایسے ایسے خطر ناک آسیب ہوتے ہیں کہ انسانوں کو کہیں سے کہیں اُٹھا کر پھینک دیتے ہیں۔“پہلے آدمی نے سنسنی پھیلائی۔”کیا یہ ممکن ہے کہ اس مچان کے اردگرد بھی آسیب ہو؟“مرزا نے پوچھا۔”بالکل یہاں آسیب ہے ۔دیکھا نہیں جانور کے پتوں پر چلنے کی آوازیں آرہی ہیں اور جانور دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔“دوسرا آدمی بولا۔آسیب کا سن کر مرزا بری طرح خوف زدہ ہوگئے تھے اور ان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ فوراً مچان سے چھلانگ لگاکر بھاگ جائیں اور وہ ایسا کر بھی لیتے ،مگر وہ یہ سوچ کر خاموشی سے مچان پر بیٹھے رہے کہ مچان سے کود کر بھاگنے میں ان کا سامنا آدم خور شیر سے ہوسکتاہے ۔آسیب سے وہ بچ سکتے ہیں،مگر آدم خور شیر انھیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر دوبارہ پتوں پر کسی جانور کے چلنے کی آواز سنائی دی۔آواز پر وہ چونکے۔تھوڑی دیر تک پتوں پر جانور کے چلنے کی آواز آتی رہی اور ایک شیرنی جھاڑیوں کے پاس سے برآمد ہوئی۔”یہ تو شیرنی ہے ۔“ایک بولا۔”خاموش!کوئی بھی ہو،اب اس کا بچنا مشکل ہے۔“مرزا نے منہ پر اُنگلی رکھ کر سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔مرزا پر آسیب کا خوف پہلے ہی تھا،اب شیرنی کو دیکھ کر ان کے خوف میں اضافہ ہو گیا تھا۔شیرنی کا نشانہ لگانے کو جب انھوں نے رائفل سنبھالی تو ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔کانپتے ہاتھوں سے انھوں نے شیرنی کا نشانہ لیا اور گولی چلادی۔ان کا نشانہ خطا گیا اور شیرنی بھاگ گئی۔مرزا ابھی شیرنی پر فائر کرکے سنبھلے بھی نہ تھے کہ مچان کی لکڑیاں ان سب کا وزن برداشت نہ کر پائیں اور کئی لکڑیاں ٹوٹ گئیں ۔سب سے پہلے مرزا نیچے گرے ۔رائفل ان کے ہاتھ سے کہیں گر پڑی ۔مرزا کی خوش نصیبی یہ تھی کہ وہ سخت زمین پر گرنے کی بجائے کسی نرم اور ملائم چیز پر گرے تھے ۔اچانک اس چیز نے بھاگنا شروع کر دیا۔مرزا صاحب بھی گھبرا گئے کہ یہ کیا چیز ہے ۔دراصل مچان کے نیچے چاندکی روشنی پہنچ نہیں پارہی تھی ۔جیسے ہی وہ چیز چاند کی روشنی آئی ۔انکل بدحواس کے ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے ۔جس شے پر وہ سوار تھے وہ آدم خور شیر تھا۔پہلی دفعہ درختوں کے پتوں پر دراصل شیر کے چلنے سے آواز پیدا ہوئی تھی ۔وہ پیچھے کی جانب سے آیا تھا اور مچان پر بیٹھے ہوئے سب لوگوں کی نظر سامنے تھی اس لئے اپسے وہ دیکھ نہ پائے۔ شیر کا پیٹ بھرا ہوا تھا ،اس لئے شیر بکری پر حملہ کرنے کی بجائے مچان کے نیچے بیٹھ گیا تھا۔فائر کی آواز اور اس پر انکل بد حواس کے گرنے پر شیر نے گھبرا کر دوڑ لگا دی۔شیر خوف زدہ تھا کہ اس پر کیا بلا آکر گر پڑی ہے ۔وہ تیز تیز دوڑتا ہوا دریا کے کنارے اپنی کچھار میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔مرزا بھی شیر کو دیکھ کر بری طرح خوف زدہ تھے ۔انھوں نے شیر کے بالوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا،کیونکہ ان کے بال چھوڑ دینے پر خطرہ تھا ۔شیر ان کوگرا کر ہلاک کر سکتا تھا۔موت کے تصور سے وہ گھبرا گئے تھے اور وہ اس دن کو کوس رہے تھے کہ جب انھوں نے شکاری بننے کا سوچا تھا ۔شکاری بننے کے خبط نے ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔وہ دل ہی دل میں آیندہ شکار نہ کرنے کا عزم کرنے لگے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کررہے تھے کہ اب اگر زندگی بچ گئی تو وہ پھر کبھی کسی چوزے کا بھی شکار نہ کریں گے۔اب سامنے دریا نظر آنے لگا تھا۔اچانک چاروں طرف سے گاؤں کے لوگ ڈنڈے لے کر نکل آئے تھے ۔یہ گاؤں کے وہ لوگ تھے جو جنگل میں چھپے ہوئے تھے ۔ان کا خیا ل تھا کہ اگر شیر شکار ہونے سے بچ گیا تو زخمی ہو جانے پر دریا کا رخ کرے گا پھر وہ شیر کو گھیر کر ہلاک کر دیں گے ۔ان لوگوں نے جو مرزا کو شیر پر سوار دیکھا تو وہ حیران رہ گئے کہ وہ اتنے بہادر ہیں جو شیرکو زندہ قابو میں کرنا چاہتے ہیں ۔لوگوں کو دیکھ کر مرزا کی ہمت بندھی اور اسی دوران شیرکے جسم کے بالوں پر سے ان کے ہاتھوں کی گرفت کمزور پڑ گئی ۔یہ اتفاق تھا کہ جہاں وہ گرے نرم نرم گھاس تھی ۔شیر نے خود کو ان لوگوں کے گھیرے سے نکلنے کی بہت کوشش کی ،مگراسے کامیابی نہ ہو سکی ۔گاؤں کے لوگ سخت غصے میں تھے ۔اس شیر نے گاؤں کے کئی لوگوں کو اپنا شکار بنایا تھا۔شیر نے فرار کی کوشش ناکام ثابت ہوئی ۔گاؤں والوں نے ڈنڈوں اور کلہاڑیوں کے وار سے شیر کو ہلا کر دیا۔شیر کے ہلاک ہونے پر گاؤں کے لوگوں نے مرزاکوا پنے کاندھوں پر بیٹھا لیا۔گاؤں میں ان کی بہادری کی دھوم مچ گئی تھی اور مرزا اپنے دل میں جان بچ جانے پر خوش تھے ۔ان کی بیگم کو بڑی حیرت ہورہی تھی کہ وہ اتنے بہادر کب سے ہوگئے ۔اس بہادری کا راز صرف مرزا ہی کو معلوم تھا۔ " کبھی کسی کا دل نہ توڑو - تحریر نمبر 1676,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kabhi-kissi-ka-dil-na-toro-1676.html,"شیخ معظم الٰہیاسمبلی ختم ہوتے ہی لڑکیاں اپنی اپنی کلاسوں میں جانا شروع ہو گئیں ۔ میرب طاہر بھی اپنی دوستوں کے ساتھ اپنی کلاس میں آکر بیٹھ گئی ۔تھوڑی دیر کے بعد اسلامیات کی ٹیچر مس فرحانہ آگئیں ۔حاضری لگانے کے بعد سب بچوں کو کتابیں نکالنے کا کہہ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گئیں پھر ہر لڑکی سے سبق سننے کے بعد وہ لڑکیوں کو سبق کے بارے میں سمجھانے لگیں کہ ہمیں کبھی بھی کسی کا دل نہیں توڑنا چاہیے کیونکہ اللہ پاک اور ہمارے پیارے نبی اکرم نے بھی اس بات کو نا پسند قرار دیا ہے کسی کا دل دکھانا بہت بڑا گنا ہ ہے ہمیں ایسے عمل سے بچنا چاہیے جو تباہی اور اللہ پاک کی ناراضگی کی طرف جاتاہے۔کلاس کی سب لڑکیاں مس فرحانہ کی باتوں سے بہت متاثر ہوئیں۔(جاری ہے)چھٹی کے بعد جب میرب طاہر اپنے گھر آئی تو اس کی والدہ نے اسے خوش خبری سنائی کہ تمہاری خالہ اپنے خاندان کے ساتھ ہمارے محلے میں آکر رہیں گی اب تمہارے ساتھ کھیلنے اور باتیں کرنے کے لئے تمہاری خالہ کی بیٹی افشاں بھی ہوگی میرب طاہر یہ بات سن کر بہت خوش ہوئی کیونکہ افشاں اس کی ہم عمر اور خوش شکل لڑکی تھی ۔جلد ہی میرب طاہر کی خالہ اپنے خاندان کے ساتھ اس کے محلے میں شفٹ ہوگئیں پہلے وہ لوگ مری میں رہتے تھے ۔میرب طاہر کبھی مری نہیں گئی تھی ۔آج افشاں سے اس کی پہلی ملاقات ہو رہی تھی ۔میرب طاہر نے مسکرا کر اسے کہا کہ السلام وعلیکم افشاں کیسی ہو۔ افشاں نے منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی میں کہا کہ ہائے!میرب آئی ایم فائن۔میرب طاہر کو بے حد افسوس ہوا کہ وہ اردو بولنے کی بجائے منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بول رہی ہے ۔میرب طاہر بولی کی افشاں تم اردو کیوں نہیں بولتی ہو؟افشاں نے بد تمیزی سے جواب دیا کہ تمہیں پہلے بتانا چاہیے تھا کہ تم انگریزی نہیں جانتی ۔مری میں میری سب دوست انگریزی میں بولتی ہیں۔یہ بات کرتے وقت افشاں کا سر ضرورت سے زیادہ اکڑا ہوا تھا۔میرب طاہر نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ انگریزی تو مجھے بھی آتی ہے مگر میں صرف اردو میں بولتی ہوں ۔کیونکہ یہ ہماری قومی زبان ہے ۔افشاں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ تمہیں تو سیاست دان ہونا چاہیے تقریر اچھی کر لیتی ہو ۔یہ کہہ کر وہ اپنے گھر چلی گئی ۔اب ایسا ہی ہونے لگا۔کسی نہ کسی بات پر دونوں کے درمیان بحث چھڑ جاتی ۔مگر دونوں قائل نہیں ہوتی تھیں۔یہی نہیں بلکہ افشاں میں اور خراب عادتیں بھی تھیں ۔وہ سکول میں لڑکیوں کا مذاق بھی اڑاتی تھی کسی کو غریب ہونے کا طعنہ دیتی کسی کو گہری رنگت کا مذاق بناتی ۔ایک دن تو حد ہو گئی جب بھری کلاس میں افشاں نے میرب طاہر کی سب سے اچھی دوست نازش کو اس کی غربت کا طعنہ دیا اور یہ بھی کہا کہ وہ تو میرب طاہر کے ابو کے پیسوں پر پل رہی ہے وہی اس کی پڑھائی کا خرچہ اٹھاتے ہیں میرب طاہر کا شرم کے مارے سر جھک گیا۔نازش اتنی بے عزتی پر بری طرح رو پڑی۔یہ درست تھا کہ نا زش کے گھر کا تقریباً خرچہ میرب طاہر کے والد ہی اٹھاتے تھے۔میرب کے کہنے پر ہی اس کے والد نازش کی فیس بھرتے تھے ۔نازش کے والد کو کینسر تھا ۔اس کی ماں سارا دن لوگوں کے گھروں کاکام کرتی تھی اور اس کی ساری تنخواہ شوہر کے علاج پر خرچ ہو جاتی تھی اس لئے میرب طاہر کے والد طاہر منیر صاحب اس گھر کا خرچہ اٹھاتے ان کا ایک اچھا خاصا کاروبار تھا۔میرب طاہر نے گھر آکر سارا واقعہ اپنی والدہ کو سنایا۔ اس کی والدہ کو افشاں کا رویہ بہت برا لگا۔انہوں نے کہا کہ ”یہ بہت بری بات ہے افشاں کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ افشاں کی والدہ نے بھی اسے سمجھایا تو اس نے جان چھڑانے کے لئے معافی مانگ لی ۔ایک روز افشاں اپنی ڈرائنگ بک میں بہت خوبصورت تصویر بنا کر لائی اور کلاس میں سب کو دکھانے لگی ۔لیکن سب نے اس کی ڈرائنگ میں خرابیاں نکالیں ۔ہر کوئی اس کی ڈرائنگ کی برائی کر رہا تھا۔افشاں کا چہرہ اتر گیا تھا اس دن کے بعد اکثر یہی ہونے لگا۔ افشاں جو کام کرتی سب کلاس اس کے کام میں خرابی نکال دیتی ۔افشاں اس بات سے لاعلم تھی کہ میرب طاہر اور دوسری ہم جماعتوں نے ایک منصوبے کے تحت اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا ہے ۔کیونکہ وہ سب افشاں کی بھلائی چاہتے تھے ۔بہترین دوست وہی ہوتاہے جو اپنے دوست کے عیب دور کرے ۔کچھ ہی دنوں کے بعد میرب طاہر کے سکول میں مصوری کا مقابلہ ہوا۔کلاس کی تمام لڑکیاں اپنے اپنے گھروں سے اچھی اچھی تصویریں بنا کر لائی تھیں میرب طاہر اور افشاں نے بھی اس مقابلے میں حصہ لیا ۔دونوں نے بہت خوبصورت تصویریں بنائی تھیں۔ میرب طاہر نے اپنی تصویریں دوستوں کو دکھائیں تو سب نے ان کی تصویروں کی تعریف کی جب افشاں نے اپنی تصویریں دکھائیں تو ہر ایک نے اس کی تصویروں کو ناپسند کیا ۔ایک لڑکی نے کہا کہ افشاں!ہم نے کئی بار تم سے کہا ہے کہ اپنا وقت اور پیسے ایسے فضول کام میں برباد مت کرو۔اس طرح سب کلاس نے اس کی خوب کھنچائی کی ۔افشاں نے لڑکیوں کے رویے سے بہت حیران ہو ئی پھر اپنی سیٹ پر بیٹھ کر بے اختیار رونے لگی۔یہ دیکھ کر ساری لڑکیاں حیران وپریشان ہو گئیں۔میرب طاہر نے آگے بڑھ کر کہا ارے افشاں کیا ہوا کیوں رو رہی ہو؟افشاں ہچکیاں لینے لگی اور کہا کہ میں نے اتنی محنت سے یہ تصویریں بنائی تھیں گھر میں سب کو پسند آئیں مگر یہاں سب نے انہیں ناپسند کیا۔میرب طاہر نے سوالی نظروں سے اسے دیکھا اور کہا کہ افشاں کیا تمہیں برا لگا؟افشاں نے رو دینے والے انداز میں کہا کہ ہاں!ظاہر ہے کہ میں نے اتنی محنت سے تصویریں بنائی ہیں میرب طاہر مسکرا کر بولی کہ دیکھو افشاں!جب تمہاری بنائی ہوئی تصویروں کو سب نے ناپسند کیا تو تمہیں برا لگا اس طرح جب تم کسی کو گہری رنگت کی وجہ سے یا کبھی موٹے دبلے ہونے اور کبھی غریب کا مذاق اڑاتی ہوتو سوچو انہیں کتنا دکھ ہوتا ہو گا۔ہر انسان کو اللہ پاک نے پیدا کیا ہے کسی کو گورا کسی کو کالا کوئی لمبا کوئی بھگنا کوئی امیر تو کوئی غریب تمہیں کس نے حق دیا ہے کہ تم اللہ پاک کی بنائی ہوئی مخلوق کا مذاق اڑاؤ۔جیسی تکلیف تمہیں ہوئی ہے ویسی ہی تکلیف ان سب کو ہوتی ہے۔افشاں کے سر شرم سے جھک گیا ۔آج اسے اپنی ہر زیادتی یاد آرہی تھی ۔اس نے ساری کلاس کے سچے دل سے معافی مانگی میرب طاہر سمیت ساری کلاس نے اسے خلوص دل سے معاف کردیا۔اللہ پاک درگزر سے کام لینے والوں کوپسند کرتاہے ۔اتنی زیادہ سہولت اور خوشیاں میسر ہونے کے باوجود ہم پریشان اور تنگ دست رہتے ہیں اور اضافے کی خواہش رکھتے ہیں ۔کتنے عظیم ہیں وہ لوگ جو قناعت پسند ہیں جو اللہ پاک پر توکل رکھتے ہیں۔ " ڈائنو سار - تحریر نمبر 1675,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dinosaur-1675.html,"آمنہ ماہمپیارے بچو!آپ نے ڈائنو سار کا نام تو سن رکھا ہو گا،ویسے بھی جب کبھی دنیا کے قوی ہیکل جانور کا ذکر ہوتاہے تو ڈائنو سارز کے سوا کوئی اور نام ہمارے ذہن میں آتا ہی نہیں ۔جانوروں کی یہ نسل لاکھوں سال پہلے ناپید ہو گئی تھی ۔ایک رائے کے مطابق خوراک کی کمی ان کی نسلوں کے خاتمے کا سبب بنی ۔بھوک کے مارے ڈائنو سارز آہستہ آہستہ موت کے منہ میں چلے گئے ۔دوسری رائے کے مطاق دنیا پر آسمانی حملے میں یہ قوی ہیکل جانور بے موت مارے گئے ۔یعنی آسمان سے شہاب ثاقب ،دمدار ستاروں یا ٹوٹے تاروں کی بارش میں یہ قوی ہیکل جانور بھی زمین میں دفن ہو گئے ۔ آئیے اس آرٹیکل میں آپکو ڈائنو سار کے بارے میں حال ہی میں سامنے آنے والی چند خوبیوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو ہم نے پہلے کبھی سنی تھیں نہ ہی اندازہ لگایا تھا۔(جاری ہے)سائنسدانوں کی جدید ترین تحقیق کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ڈائنو سارز کو”آگ پروف“بننے کی صلاحیت سے مالا مال کیا ہوا تھا۔ زمین گرم ہونے کی صورت میں وہ خود کو اس درجہ حرارت کے مطابق ایڈ جسٹ کر لیا کرتے تھے۔ان میں ایسی اقسام موجود تھیں جنہیں تپتی زمین پر چلنے میں درد محسوس ہوتا نہ وہ آگ سے بچنے کی کوشش کرتے ۔ڈائنو سارز اس دور میں بھی یہاں زندہ رہے جسے ”آتش فشانی کا دور“کہا جاتاہے ،بے تحاشالاوا پھوٹنے کی وجہ سے ماہرین ارضیات اس دور کو (Volcansim Darakensberg) بھی کہتے ہیں۔ماہرین نے اس بارے میں تحقیق کو جنوبی افریقہ کی اہم ترین تحقیقات میں شامل کیا ہے ،جس سے سوچ کے نئے دروازے کھلے۔کیپ ٹاؤن یونیورسٹی میں جیالوجی کے پروفیسر ایمسی بورڈی کی یہ تحقیق کئی جریدوں میں شائع ہوئی ہے ۔جریدے ”انورس“ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق”ڈائنوسارز نے وقت کے ساتھ ساتھ کچھ صلاحیتیں حاصل کرلی تھیں جیسا کہ آگ پر چلنا یا زہریلے نباتات کے درمیان رہنا۔جنوبی افریقہ کے علاقے کا روبیسن میں ڈائنو سارز کے قدموں کے آتش فشاں پہاڑوں کے راستوں کے بیچوں بیچ درجنوں نشانات ملے ہیں ۔سائنس میگزین کے مطابق”یہ بات حال ہی میں ہمارے علم میں آئی ہے کہ یہ قوی ہیکل جانور طبیعتاً بھی اور جسمانی طور پر بھی کئی ایسی خوبیوں کے مالک تھے جن کا پہلے ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔جیسا کہ انہیں حرارت اور ابلتی ہوئی زمینیں پسند تھیں ،زہریلے پودوں کے درمیان رہنا بھی انہیں اچھا لگتا تھا ۔زیر زمین نرم جگہوں پر ان کی رہائش رکھنے کا بھی سراغ ملا ہے ،اف خدایا!انہیں خوف آیا، نہ ان کے پیروں کو آگ لگی ۔تحقیق کے مطابق یہ پہاڑ لگ بھگ 18.3کروڑ برس قبل لاوے سے بھرے ہوئے تھے ۔ان کا راستہ بھی لاوے سے اٹا پڑا تھا،درمیانی راستوں میں ڈائنو سارز بھی مٹر گشت کرتے رہتے تھے ۔بھئی کیا جانور تھے یہ!آسمانی شے کا شکار ہو کر ختم ہونے سے پہلے یہ عام زمین کے علاوہ زہریلی جگہوں پر بھی رہتے تھے ۔جیسا کہ ارضی سائنسدانوں کے مطابق”ڈائنو سارز کے قدموں کے نشانات آتش فشاں پہاڑوں کے راستوں میں بھی ملے ہیں۔ دور تک چلنے کے باوجود ان کے نشانات اپنی اصل حالت میں اور ایک جیسے ہیں ،یعنی پنجوں کے نشانات قدرتی نوعیت کے ہیں ۔لگتا ہے کہ ان کے پیروں پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ۔انہوں نے مزید بتایا کہ 25ڈائنو سارز کے قدم ایک جگہ رکے ہوئے نہیں ،بلکہ وہ حرکت کر رہے ہیں ۔ان کے قدم لاوے کے عین درمیان پائے گئے ہیں ۔ایک نہیں 5راستوں پر ان کے قدموں کے نشانات نے سائنس دانوں کو حیران کر دیا ہے ۔ماہر ارضیات ونباتات اب تک یہ نہیں جان سکے کہ کون کون سی طبی تبدیلیوں یا صلاحیتوں نے انہیں اس گرما گرم ماحول میں بھی زندہ رہنے میں مدد دی۔یہ بات سائنس دان نہیں جانتے ۔جنوبی افریقہ کا یہ علاقہ لاوے پر تحقیق کے حوالے سے اہم ہے کیونکہ یہاں کے پہاڑ صدیوں پہلے شدید ترین لاوا اُگلا کرتے تھے ،مگر اب خاموش ہیں ۔پروفیسر ایمسی یہاں لاوے کی اقسام اور اس میں پائے جانے والے کیمیکلز پر تحقیق کر رہے تھے ۔وہ لاوے کی مدد سے زمین کی اندرونی ساخت کا بھی پتہ چلانا چاہتے تھے۔دوران تحقیق اس نئے انکشاف سے وہ چکرا کر رہ گئے ۔لاوے میں اس مٹی کی آمیزش پائی گئی ہے جہاں یہ جانور رہائش رکھتے تھے یعنی لاوے میں قدموں کے نشانات کے علاوہ بھی ڈائنو سارز کی موجودگی کے کئی دوسرے اشارے ملے ہیں ۔ان کے مطابق ایسا اسی وقت ہوتاہے جب کوئی جانور اس جگہ کو اپنا گھر”ہوم ایریا“بنالے۔ " کیسا بڑا آدمی - تحریر نمبر 1674,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kaisa-bara-aadmi-1674.html,"تسبیح محفوظ علینہایت عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جن کا مقصد زندگی صرف اور صرف خلق خدا کی خدمت ،فلاح اور بھلائی ہوتاہے ۔بہت عظمت والی ہے وہ قوم جو انتہائی عظیم لوگ پیدا کرتی ہے ۔یہ لوگ زبان،ذات ،قبیلے ،علاقے اور مذہب کا فرق کیے بغیر ہر ایک سے محبت ،ہر ایک کی خدمت کرنے کے لئے اپنی توانایاں صرف کر دیتے ہیں ۔یہ لوگ چمکتے ستاروں کی مانند قوم کے لئے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔ہمارے وطن عزیز کی ایسی ہی ایک ہستی کا نام عبدالستار ایدھی ہے ۔عبدالستار ایدھی 1928ء میں ہندوستان کی ریاست گجرات کے ایک گاؤں بانٹوا میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد گرامی عبدالشکور ایدھی کپڑے کا معمولی سا کاروبار کرتے تھے ۔غربت کی وجہ سے عبدالستار ایدھی زیادہ نہ پڑھ سکے۔(جاری ہے)آپ کو بچپن میں دو پیسے خرچ کے لئے ملتے تھے ۔ایک پیسہ وہ خود خرچ کرتے تھے اور ایک پیسہ کسی ضرورت مند کو دیتے تھے ۔جب وہ اُنیس برس کے ہوئے تو والدہ اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں ۔قیام پاکستان کے بعد 4ستمبر 1947ء کو خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کرلی ۔1948ء میں میٹھا در میں لوگوں کی خدمت کرنے کی لگن کے تحت”بانٹوا میمن ڈسپنسری“میں کام کرنے لگے ۔پاکستان کے شمالی علاقے بشام میں 1972ء میں شدید زلزلہ آیا تو کراچی سے ایمبولنس لے کر زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے پہنچ گئے۔آپ کی طبیعت میں سادگی انتہا درجے کی تھی ۔حد تو یہ ہے کہ زندگی بھر ایک ہی انداز کا لباس پہنا ۔ملیشیا یعنی کھدر کے کپڑے کا کرتا پاجامہ، جناح کیپ اور اسفنج کی چپلیں ۔ان کے پاس صرف تین جوڑے تھے ۔خوراک میں دال چاول کھانا پسند کرتے تھے۔آپ کو بہت سے اعزازات ملے جن میں سے چند یہ ہیں:1۔ 2009ء میں یونیسکو کا”خدمت انسانیت ایوارڈ۔2۔ 1992ء میں حکومت سندھ کا”سماجی خدمت گزار برائے پاکستان ایوارڈ“3۔ جامعہ کراچی کی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری۔4۔ حکومت پاکستان کا سب سے بڑا سول ”نشان امتیاز“5۔ 1997ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ایدھی ایمبولنس کو دنیا کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس کے طور پر شامل کیا گیا۔8جولائی 2016ء کو یہ عظیم انسان اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔آپ کے انتقال پر سرکاری طور پر سوگ منایا گیا ۔آپ کا جسد خاکی آپ کے قائم کردہ ایدھی ولیج میں آپ کی وصیت کے مطابق سپرد خاک کیا گیا۔ " آم کا درخت - تحریر نمبر 1673,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aam-ka-darakhat-1673.html,"سید ماجد علیموتی بندر اپنی ٹولی کے ساتھ آم کے ایک درخت پر رہتا تھا۔موتی بہادر اور سمجھ دار مگر تھوڑا بھولا بھی تھا۔تمام بندر اس کی عزت کرتے تھے اور اس کا ہر کہا مانتے ،لیکن ادھر کچھ دنوں سے سب بندر پریشان تھے ۔بات یہ تھی کہ آم کا پیڑ سوکھ رہا تھا۔ اس پر پھل نہیں لگتے تھے ۔پتے بھی جھڑنے لگے تھے چنانچہ اس پیڑ پر رہنا بندروں کے لئے مشکل ہو گیا تھا ۔جنگل میں کئی ہرے بھرے پیڑ تھے ۔بندر کسی بھی پیڑ پر رہ سکتے تھے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے کئی بار موتی سے بات کی مگر موتی کہیں اورجانے کو تیار ہی نہ تھا ۔موتی کو آم کے اس پیڑ سے بہت لگاؤ تھا۔ اس کے بابا نے بتایا تھا کہ اُن کی ٹولی دادا پر دادا کے زمانے سے ہی اس پیڑ پر رہتی آئی ہے ۔اس پیڑ کے آم بہت میٹھے ہوا کرتے تھے ۔(جاری ہے)اور یہ پیڑ ہم لوگوں کو بہت سایہ دیا کرتا تھا۔موتی کو اس پیڑ سے بہت پیار تھا۔ اسے چھوڑ کر کہیں جانے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ دوسرے بندروں نے موتی کو کئی بار سمجھایا کہ پیڑ سوکھ رہا ہے ،اس پر رہنا مشکل ہے مگر پیڑ چھوڑنے کی بات سوچ کر ہی موتی کا دل بھر آتا تھا۔ٹولی میں پنکو نامی ایک بندر بھی تھا۔وہ بہت سمجھدار مگر تھوڑا شرارتی بھی تھا۔موتی پنکو کو بہت چاہتا تھا۔سب جانتے تھے کہ ایک دن پنکو ہی ٹولی کا نیا سردار بنے گا۔کچھ بندروں نے پنکو سے کہا:”پنکو بھائی،تم ہی موتی کو سمجھاؤ۔ اب اس پیڑ پر رہنا بے وقوفی ہے ،نہ اس پر پھل لگتے ہیں ،نہ ہی یہ ہمیں بارش اور دھوپ سے بچاتاہے۔“”مجھے بھی لگتاہے کہ ہمیں یہ پیڑ چھوڑ دینا چاہیے۔میں نے بھی کئی بار موتی بابا سے بات کی ہے مگر انہیں اس پیڑ سے بہت پیار ہے ۔پیڑ چھوڑنے کی بات سوچ کر ہی وہ دکھی ہو جاتے ہیں“پنکو نے کہا۔”پر ایسا کب تک چلے گا؟“بندروں نے اداس ہو کر کہا :”بھائیوں اس طرح دکھی ہونے سے کچھ نہ ہو گا۔ سوجھ بوجھ سے ہر مشکل کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔“پنکو نے ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا۔”تم سب سے ہوشیار ہو،تم ہی کوئی راستہ نکالو۔“سب بولے۔”گھبراؤ مت ،میں سوچ کر کچھ کرتاہوں۔“اتنا کہہ کر پنکو سوچ میں پڑ گیا۔اگلے دن وہ روتا ہوا موتی کے پاس آیا۔”ارے ،کیا ہوا؟کیوں رو رہے ہو؟“موتی نے پوچھا ۔”بابا آج بڑی بھول ہو گئی ۔آج آم کھانے کا دل چاہا تو میں ندی کنارے والے آم کے باغیچے میں چلا گیا ۔“”ارے بیوقوف ،تم سب کو کتنی بار سمجھایا ہے کہ اُدھر نہ جایا کرو۔باغیچے کے رکھوالے کے پاس بڑی بڑی لاٹھیاں ہیں۔“موتی نے غصے سے کہا۔”وہی ہوا بابا ۔ایک رکھوالے نے مجھے دیکھ لیا۔مجھے لاٹھی سے مارا اور لاٹھی میرے ہاتھ پر لگی ۔لگتاہے ،ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔“پنکو نے بتایا ،موتی نے پنکو کے ہاتھ کو ٹٹول کر دیکھا اور بولا:”ہڈی نہیں ٹوٹی ۔بس ،تھوڑی سی چوٹ لگی ہے ۔ہاتھ پر پٹی باندھنے سے ٹھیک ہو جائے گی۔“موتی نے پنکو کے ہاتھ پر پٹی باندھ دی ۔دو دن بعد پنکو اچھلتا کودتا موتی کے پاس آیا۔اس نے پٹی گلے میں لٹکا رکھی تھی ۔”بابا،میراہاتھ ٹھیک ہو گیا ہے ،اب درد نہیں ہو رہا۔“پنکو خوشی سے بولا۔”وہ تو ٹھیک ہے ،پر تم نے پٹی گلے میں کیوں لٹکا رکھی ہے؟“موتی نے ہنستے ہوئے پوچھا۔”اس پٹی نے میرا ہاتھ ٹھیک کیا ہے ۔مجھے یہ اچھی لگتی ہے ۔میں اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گا۔“پنکو نے کہا۔”عقل سے کام لینا سیکھو۔ایک دن تمہیں اس ٹولی کا سردار بننا ہے ۔ایسی بیوقوفی والی باتیں کرو گے تو کون تمہاری عزت کرے گا۔“موتی نے سمجھایا۔”بابا،آپ بھی تو اس سوکھے پیڑ سے اتنا پیار کرتے ہیں۔اب نہ اس پر پھل لگتے ہیں ،نہ پتے اُگتے ہیں ۔پھر بھی آپ اسے چھوڑکر جانا نہیں چاہتے۔بس میں بھی یہی چاہتاہوں،اسے کبھی نہیں پھینکوں گا۔“پنکو ضد کرنے لگا۔موتی سوچ میں پڑ گیا۔وہ سمجھ گیا تھا کہ پنکوں کی طرح وہ بھی بیوقوفی ہی کر رہا تھا۔سوکھے پیڑ پر رہنا غلط تھا۔سب بندر مشکل میں تھے ۔سب کسی دوسرے پیڑ پر رہنا چاہتے تھے ۔بس ،اس پیڑ سے دلی لگاؤ کی وجہ سے اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔”پنکو ،تم واقعی بہت اچھے ہو ۔کتنی آسانی سے تم نے مجھے میری بھول کا احساس دلا دیا۔ہم آج ہی اس پیڑ کو چھوڑ کر کسی دوسرے پیڑ پر چلے جائیں گے ۔“موتی نے کہا۔”ایسا ہے تو میں بھی اس پٹی کو ابھی پھینک دوں گا۔ “پنکو نے خوشی سے کلکاری مارتے ہوئے کہا۔پھر اُس نے کہا”بابا، ایک بات کہوں؟ آپ غصہ تو نہیں کریں گے؟“”بولو ،کیا بات ہے ؟“موتی نے پوچھا۔”بابا ،میرے ہاتھ میں کوئی چوٹ نہیں لگی تھی بلکہ میں آم کے باغیچے میں گیا ہی نہیں تھا ۔سب ایک ڈراما تھا ۔”پنکو نے کہا۔”پنکو ،تم بہت شرارتی ہو۔“موتی نے کہا اور کھلھلا کر ہنس دیا۔سب بندر آم کے اس سوکھے پیڑ کو چھوڑ کر چل دیے ،وہ بہت خوش تھے ۔پنکو سب سے زیادہ خوش تھا۔ اپنی سوجھ بوجھ سے اس نے ٹولی کو مصیبت سے باہر نکال لیا تھا۔ " عادل بادشاہ - تحریر نمبر 1672,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/adil-badshah-1672.html,"محمد حسیب عباسی ،سکھرپرانے زمانے کی بات ہے ۔ایک ملک پر سخت گیر بادشاہ حکومت کرتا تھا۔وہ رعایا پر طرح طرح کے ٹیکس عائد کرتا اور ٹیکس کے پیسے دوسرے ممالک میں جاکر فضولیات میں ضائع کرتا۔بادشاہ کی دیکھا دیکھی وہاں کے تاجروں نے بھی عوام پر ظلم شروع کر دیا۔ایک روپے والی چیز پانچ روپے کی بیچ کر ناجائز منافع کماتے ۔بادشاہ کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے ،عوام کس حال میں ہیں۔بادشاہ جب رعایا پر ٹیکس لگا کر تھک گیا تو عوام نے ٹیکس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ۔بادشاہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک بڑے ملک سے سود پر قرض لیا جو آمدنی سے زیادہ تھا۔ملک قرض وسود کی دلدل میں دھنستا گیا۔اتنے میں بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔(جاری ہے)بادشاہ کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ بنا جو نیک ،صالح اور ایمان دار تھا۔وہ اپنی رعایا کو خوش حال دیکھنا چاہتا تھا۔اس نے غریبوں پر ٹیکس کم کر دیے اور امیر لوگوں پر ٹیکس لگائے ،تاکہ ملک کا قرضہ اُتر سکے ،لیکن تاجروں نے ٹیکس دینے کے بجائے چیزیں مہنگی کردیں اور طرح طرح کے جتن کرنے لگے کہ کسی طرح بادشاہ کی حکومت ٹھیک نہ چلے۔جب بادشاہ کو خبر ہوئی کہ تاجر عوام سے چیزوں کی زیادہ قیمت وصول کر رہے ہیں اور مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے تو بادشاہ کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ۔اس نے اپنے وزیر کو کمہار کے روپ میں بازار بھیجا کہ جاؤ بازار سے ایک مٹکا خریدلاؤ اور پوری مارکیٹ سے قیمت کی جانچ کر ناتا کہ پتا چلے کہ کون کون تاجر عوام کو لوٹ رہا ہے۔وزیر ایک دوکان پر گیا،مٹکے کی قیمت معلوم کی۔دوکان دار نے چارروپے بتائی۔دوسرے دوکان سے معلوم کیا،اس نے پانچ روپے بتائی ۔ غرض سب دوکان داروں نے مہنگائی کے لئے بادشاہ کو ذمے دار ٹھہرایا اور خود کو لا چار ظاہر کیا۔ساری باتیں وزیر نے بادشاہ کو بتا دیں۔اگلے دن بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ آج مٹکالے کرجاؤ اور بیچنا شروع کر دو ۔وزیر نے ایسا ہی کیا بازار کے سب دوکان داروں نے اس کی قیمت 50پیسے سے زیادہ قیمت نہیں لگائی۔وزیر نے کہا:”کل تو آپ یہی مٹکا 5روپے کا دے رہے تھے اور آج پچاس پیسے کا خرید رہے ہو۔“وزیر نے سب واقعات بادشاہ کو بتا دیے۔بادشاہ نے ان تاجروں کو سخت سزا دی ،جو عوام کا خون چوس رہے تھے ۔چند تاجروں کو سزا دی تو باقی سب تاجر راہ راست پر آگئے۔اس طرح تاجروں نے ٹیکس بھی دینا شروع کر دیے جس سے ملک کا قرضہ بھی اُتر گیا۔ہر چیز سستی ہو گئی ،ملک خوش حال ہو گیا۔اب عوام نیک بادشاہ کو دعا دے رہے ہیں۔ " افریقہ بارے جو آپ نہیں جانتے - تحریر نمبر 1671,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/africa-bare-ju-ap-nahi-jante-1671.html,"وردہ بلوچرقبے کے لحاظ سے افریقہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا براعظم ہے ۔یہ خشکی کا 22فیصد اور کل سطح زمین کا چھ فیصد بنتاہے۔افریقہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا براعظم ہے ۔دنیا کی 16فیصد آبادی اس میں رہتی ہے ۔سب سے زیادہ آبادی براعظم ایشیاء میں ہے ،جس میں دنیا کے تقریباً59انسان بستے ہیں۔دنیا کا سب سے غریب اور پسماندہ براعظم افریقہ ہے۔اس براعظم کی نصف آبادی کی عمر 25سال سے کم ہے ۔دنیا میں ملیریا کے 90فیصد کیسز افریقہ میں ہوتے ہیں۔دنیا کی نسبت افریقہ میں جنگلات کا کٹاو دُگنا ہے ۔افریقہ میں پرندوں کی کل انواع کا 25فیصد رہتاہے۔ایک ہزار سے زائد زبانیں اس براعظم میں بولی جاتی ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق افریقہ میں کل دوہزار کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں۔(جاری ہے)سارے افریقہ 1881ء سے 1914ء کے دوران نو آبادی بنایا گیا،سوائے ایتھوپیا اور لائبیریا کے ۔یہ دور ”Scramble Africa For“کہا جاتاہے اور یہ نو سامراجیت کا عہد تھا۔افریقہ میں 54خود مختار ملک ہیں جو کسی دوسرے براعظم سے زیادہ ہیں۔دنیا میں تازہ پانی کی دوسری سب سے بڑی جھیل افریقہ میں ہے ۔اس کا نام جھیل وکٹوریا ہے ۔افریقی ملک مصر میں سالانہ سب سے زیادہ سیاح جاتے ہیں۔سال بھر میں ایک کروڑ کے قریب سیاح اس کا دورہ کرتے ہیں ۔دنیا کے تیز ترین پانچ جانوروں میں سے چار کا تعلق افریقہ سے ہے :چیتا ،وائلڈ بیسٹ ،شیر اور تھامسنز غزال۔ یہ تمام جانور50میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ تیز بھاگ سکتے ہیں۔چیتے کی رفتار 70میل فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے۔چارلس ڈارون نے سب سے پہلے خیال پیش کیا کہ جدید انسان سب سے پہلے افریقہ میں رہتا تھا،لیکن مغربی دنیا میں سیاہ فاموں کے بارے میں تعصب کی وجہ سے اسے بہت سے لوگوں نے تسلیم نہ کیا۔افریقی ملک ایتھوپیا میں 32لاکھ برس قدیم ایک انسان کی باقیات مل چکی ہیں ۔اس کا نام ”لوسی “رکھا گیا۔زیادہ تر ماہرین لسانیات کا ماننا ہے کہ لفظ ”افریقہ “،”افری“سے اخذ ہواہے۔یہ شمالی افریقہ میں قرطاجیہ کے قریب تیسری صدی قبل مسیح میں رہنے والے لوگوں کو کہا جاتا تھا۔اس میں ”قہ ca“ کا اضافہ رومی ہے جس کا مطلب ”ملک“یا”زمین“ہے۔افریقہ کا سب سے بڑا مذہب اسلام ہے اور اس کے بعد عیسائیت ہے ۔افریقہ کی 85فیصد آبادی کا تعلق ان دو مذاہب سے ہے۔افریقہ کا مہلک ترین جانور ”ہپو“ہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے زیادہ جانی نقصان دوسری جنگ کانگو (2003-1998ء) میں ہوا جس میں 54لاکھ افراد مارے گئے۔ریاست ہائے متحدہ امریکا،چین،انڈیا،نیوزی لینڈ،ارجنٹائن اور یورپ افریقہ میں سما سکتے ہیں۔دنیا میں نکالا گیا نصف سونا افریقی ملک جنوبی افریقہ سے نکلا۔صحارا سب سے بڑا گرم صحرا ہے ۔یہ امریکا سے بڑا ہے۔قدیم مصری شہر کنعان دنیا کا پہلا منصوبہ بند شہر تھا۔دنیا کا سب سے بڑا رینگنے والا جانور (رپٹائل)نیل کا مگر مچھ افریقہ میں رہتاہے۔ " بکتر بند جسم کا مالک گینڈا - تحریر نمبر 1670,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baktar-band-jism-ka-malik-gainda-1670.html,"ہماء غفارگینڈوں کی پانچ اقسام ہیں اور زیادہ تر یہ ایک دوسرے سے مختلف علاقوں میں رہتی ہیں۔بڑا جسم ،کھڑا ہونے اور چلنے کا مخصوص انداز ،اور تھوتھنی پر ایک یا دو سینگ گینڈوں کی پہچان ہیں۔گینڈے بڑے جسم کے ہوتے ہیں لیکن ان کا دماغ غیر معمولی چھوٹا ہوتاہے ۔بڑے گینڈوں میں بھی دماغ کا وزن ڈیڑھ پاونڈ سے زیادہ نہیں ہوتا۔یہ اتنے بڑے ہاتھی کی نسبت پانچ گنا چھوٹا ہوتاہے ۔چھوٹا دماغ ان جانوروں میں عام ہے جن میں شکاری حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کی جسمانی استعداد ہوتی ہے مثلاً ان کا جسم بکتر بند ہوتاہے۔گینڈوں کی پانچ اقسام تا حال باقی ہیں ۔یہ سفید گینڈا،سیاہ گینڈا، انڈین گینڈا،جاوی گینڈا اور سماٹری گینڈا ہیں۔سب سے بڑی قسم سفید گینڈا ہے جس کی دو ذیلی قسمیں جنوبی سفید گینڈا اور شمالی سفید گینڈا ہیں۔(جاری ہے)جنوبی سفید گینڈا افریقہ کے انتہائی مقبول علاقوں میں رہتا ہے اور شمالی سفید گینڈا وسطی افریقہ میں ۔جنگل میں جنوبی سفید گینڈوں کی تعداد 20ہزار کے لگ بھگ ہے ۔شمالی سفید گینڈا معدوم ہونے کے قریب ہے ۔یہ گینڈے اب چڑیا گھروں اور محفوظ قدرتی علاقوں میں رہتے ہیں۔کوئی نہیں جانتا کہ اس گینڈے کو سفید (وائٹ)کیوں کہتے ہیں۔شاید یہ ولندیزی لفظ”Wijd“کی ایک شکل ہے جس کے معنی چوڑے یا ”wide“ کے ہیں۔یا پھر اس کے سینگ کے رنگ کی بدولت یہ نام پکارا جاتاہے ،جو گینڈوں کی دوسری اقسام کی نسبت ہلکا ہوتاہے۔سیاہ گینڈے دراصل بھورے یا سر مئی رنگ کے ہوتے ہیں۔ یہ جنوبی اور وسطی افریقہ میں کثرت سے ہوا کرتے تھے ۔لیکن اب ان کی تعداد جنوبی سفید گینڈوں کی نسبت آدھی رہ گئی ہے ۔ان کا وزن دوٹن سے خال خال ہی بڑھتاہے ،اور سفید رشتہ داروں کے برعکس یہ گھاس نہیں ،جھاڑیاں کھاتے ہیں۔ان کی متعدد ذیلی اقسام بھی ہوا کرتی تھیں لیکن اب انٹر نیشنل یونین آف دی کنزرویشن آف نیچر کے مطابق صرف تین رہ گئی ہیں ،اور یہ تمام معدوم ہونے کے شدید خطرے سے دو چار ہیں۔اگر دنیا میں کوئی ایسا مقام ہے جہاں انسان چاہے گا کہ اسے نہیں ہونا چاہیے تو وہ ہے ہڑ بڑا کر دوڑتے ہوئے گینڈے کا راستہ۔یہ جانور خوف محسوس کرنے پر 30میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹکڑا سکتاہے ۔گینڈوں کی نظر دوسرے جانوروں کی نسبت کمزور ہوتی ہے، اس لئے بھی ان کے راستے میں آنا برا ثابت ہوسکتاہے ۔گینڈے تنہائی پسند ہوتے ہیں اور ان میں سب سے قریبی رشتہ ماں اور بچے ہی کا ہوتاہے۔ " نیکی کا حسن - تحریر نمبر 1669,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naiki-ka-hassan-1669.html,"سیدہ عطرت بتول نقویسردیوں کی چھٹیوں کے بعد جب لڑکیاں سکول گئیں تو پتہ چلا کہ ان کے سکول میں سالانہ تقریبات ہونے والی ہیں کھیلوں کے مقابلے بھی ہوں گے اس کے علاوہ مضمون نویسی اور ڈریس شو یعنی کافی اچھے پروگرامز ہوں گے سب لڑکیاں بہت خوش اور پر جوش تھیں۔سمیرا اور اس کی سہیلیاں بھی بہت خوش تھیں اور انہوں نے تیاریاں شروع کر دی تھیں سمیرا پڑھائی میں بہت اچھی تھی اس نے بڑی محنت سے مضمون تیار کیا اور مقابلے میں شامل کرنے کے لئے ٹیچر کو دے دیا دوسری لڑکیوں نے بھی اپنے مضمون جمع کروا دئیے۔اگلے دن گیمز کے مقابلے تھے لڑکیوں کا ہاکی میچ پلے گراؤنڈ میں ہوا جس میں بہت اچھی کار کردگی دکھانے پر سمیرا کو ٹرافی ملی ،سمیرا کو انعام دیا اس سے اگلے دن جب مضمون نویسی کے مقابلے کا اعلان ہوا تو اس میں بھی سمیرا کی پہلی پوزیشن تھی۔(جاری ہے)سمیرا کے اساتذہ اور والدین بہت خوش تھے سکول میں ہر کوئی سمیرا کی تعریف کر رہا تھا وہ سب سے مبارکباد وصول کررہی تھی ۔ڈریس شو کے مقابلے کے لئے سمیرا نے بہت ہی خوبصورت اور منفرد لباس تیار کیا تھا اور اسے پوری امید تھی کہ یہ مقابلہ بھی وہی جیتے گی کیونکہ وہ ہر مقابلے کے لئے بہت زیادہ محنت کرتی تھی ،سکول سے جب چھٹی ہوئی تو ٹیچر نے لڑکیوں کویاد کروایا کہ کل ڈریس شو ہے سب کا سلیقہ نظر آنا چاہیے اور سب وقت کی پابندی کے ساتھ سکول کے ہال میں پہنچ جائیں،سب لڑکیوں نے کہا ٹھیک ہے ،سمیرا سکول کے گیٹ کے پاس بیٹھی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی آج شاید ڈرائیور بابا ٹریفک میں پھنس گئے تھے ابھی تک نہیں آئے تھے ۔زیادہ تر لڑکیاں جارہی تھیں بس تھوڑی سی تھیں جو لینے کے لئے آنے والوں کا انتظار کر رہی تھی ۔اچانک سمیرا کو دبی دبی سسکیوں کی آواز آئی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو برآمدے کی سیڑھیوں پر اس کی کلاس فیلونوشین بیٹھی رو رہی ہے ۔سمیرا نے پاس جاکر رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کوئی بات نہیں ہے ویسے ہی دل بھر آیا۔کوئی پرانی بات یاد آگئی ہے ۔لیکن سمیرا مطمئن نہیں ہوئی اس نے بہت زور دے کر پوچھا بہت ہمدردی کا اظہار کیا تب نوشین نے بتایا کہ جیسے تہیں معلوم ہے میری مضمون نویسی میں بھی دوسری پوزیشن آئی ہے اور گیمز میں بھی تمہارے بعد میرا نمبر ہے میں نے ہر مقابلے میں حصہ لیا ہے ڈریس شو میں بھی میں اپنا نام لکھوا چکی ہوں لیکن میں ڈریس کا انتظام نہیں کر سکی کیونکہ ہم غریب لوگ ہیں امی نے بہت کوشش کی لیکن ان سے انتظام نہیں ہو سکا اب مجھے کل کی پریشانی ہے کہ ٹیچر کے سامنے شرمندگی ہو گی ۔یہ سن کر سمیرا نے کہا کہ تم میرا ڈریس لے لو مجھے پہلے دو انعام مل چکے ہیں اب اگر میں اس تیسرے مقابلے میں حصہ نہیں لوں گی تو کوئی بات نہیں نوشین بولی ایسا نہیں ہو سکتا،میں تمہارے ساتھ ایسے کیسے کر سکتی ہوں،بس مجھے میرے حال پر چھوڑ دو،لیکن سمیرا نہیں مانی کہنے لگی اگر ایک ہی کلاس ایک ہی سکول میں پڑھنے والے ایک دوسرے کی مدد نہیں کریں گے ایک دوسرے کے مسائل سے واقف نہیں ہوں گے تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ ؟ویسے بھی ہم مسلمان ہیں ہمیں ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس ہونا چاہیے۔سمیرا نے نوشین کو بہت پیار اور بہت اصرار سے سمجھایا تو نوشین مان گئی ،اس طرح اگلے دن سمیرا اپنا بہت خوبصورت اور منفرد ڈریس نوشین کے لئے لے آئی جسے پہن کو نوشین نے اول انعام حاصل کیا اور سمیرا کو دوسرا انعام ملا۔نوشین نے یہ کہہ کر اُس سے ڈریس لیا کہ وہ بھی مقابلے میں حصہ لے گی کیونکہ اس کے حالات ایسے ہیں کہ وہ فوری طور پر ڈریس کا انتظام کر سکتی ہے اس طرح سمیرا نے بھی حصہ لیا اور دوم آئی لیکن کسی کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ اول انعام حاصل کرنے والی نوشین کا خوبصورت ترین ڈریس سمیرا کا تھا جس نے ایثار سے کام لیا۔ سمیرا کو نوشین کی مدد کرکے ،اس کے آنسوؤں کو خوشی میں بدل کر،بے حد اطمینان سکون اور دلی مسرت حاصل ہوئی محسوس ہوا کہ نیکی بے حد قیمتی چیز ہے۔ " بھوکا بھیڑیا - تحریر نمبر 1668,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhooka-bheriya-1668.html,"عبدالرحمنایک بھیڑیا کئی دنوں سے بھوکا تھا۔وہ خوراک کی تلاش کرتے کرتے تھک چکا تھا مگر اسے خوراک نہ ملی بھوک نے جب اسے اپنی لپیٹ میں لیا تو اس نے جنگل سے نکل کر شہر جانے کا فیصلہ کرلیا۔یہ سوچ کر وہ جنگل سے نکل کر شہر کی طرف نکل پڑا۔ابھی وہ شہر سے دور ہی تھا کہ اسے راستے میں ایک صحت مند کتا ملا۔کتے نے بھیڑیے کو دیکھ کر کہا خیریت تو ہے جنگل سے نکل کر شہر جارہے ہو اور بہت کمزور ہو گئے ہو کیا کھانے کو کچھ نہیں مل رہا؟بھیڑیے نے کتے کی بات سن کر ایک سرد آہ بھری اور بھوکا کیا بتاوں میری حالت دیکھ کر تو تم سمجھ ہی گئے ہو گے کہ میں کئی دن سے بھوکا ہوں، خیر مجھے چھوڑو تم تو بہت صحت مند نظر آرہے ہو لگتاہے روزانہ بہت عمدہ کھانا کھاتے ہو اسی لئے تو بہت موٹے تازے ہوگئے ہو ؟کتے نے بھیڑیے کی بات سن کر کہا میرا مالک بہت اچھا ہے میں اس کے گھر کی رکھوالی کرتاہوں اس لئے وہ مجھے اچھا کھانا کھلاتاہے ،اگر تم چاہوتو میرے ساتھ چلو میں تمہیں کسی گھر کی رکھوالی کی نوکری دلوا دونگا،کام کرنے کی وجہ سے تمھیں بھی خوب اچھا کھانا ملے گا۔(جاری ہے)کھانے کا نام سن کر بھیڑیے کے منہ میں پانی آگیا اس کی بھوک مزید چمک اٹھی۔بھیڑیا خوش ہو کر بولا مجھے منظور ہے مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو میں نوکری کرلوں گا۔کتے نے کہا ٹھیک ہے چلو میرے ساتھ یہ کہہ کر کتے نے بھیڑیے کو اپنے ساتھ لیا اور آبادی کی طرف چل پڑا۔راستے میں دونوں باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ بھیڑیے کو کتے کے گلے میں ایک گول سا نشان نظر آیا نشان والی جگہ پر سے کچھ بال بھی اترے ہوئے تھے اس نے کتے سے پوچھا تمہاری گردن پر یہ نشان کیوں ہے اور بال بھی اترے ہوئے ہیں؟کتے نے کہا یہ نشان اس پٹے کا ہے جو میرا مالک میرے گلے میں ڈال دیتاہے ۔یوں میں دن بھر زنجیر سے بندھا رہتا ہوں پھر جب رات ہوتی ہے تو میرا مالک مجھے آزاد کر دیتا ہے میں پھر ساری رات اس کے گھر کی رکھوالی کرتاہوں۔کتے کی بات سن کر بھیڑیا یک دم رک گیا۔کتے نے پوچھا چلتے چلتے کیوں رک گئے ہو اب تو گھر بھی بہت قریب آگیا ہے۔بھیڑیا جنگل کی طرف رخ کرتے ہوئے بولا بھئی مجھے یہ کام نہیں کرنا۔غلامی کی عیش وعشرت سے تو آزادی کی بھوک ہی اچھی یہ کہہ کر بھیڑیا جنگل کی طرف بھاگ پڑا۔ " جھوٹ - تحریر نمبر 1667,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhoot-1667.html,"سیدہ نازاں جبیںاسلم نویں جماعت کا طالب علم تھا۔وہ ایک خوش اخلاق اور با ادب لڑکا تھا۔پڑھائی میں بھی اچھا تھا لیکن طبیعت میں خاصا لا ابالی پن تھا، اسے گھومنے پھرنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ ہر سال سکول کی چھٹیوں میں وہ گھر والوں کے ساتھ کہیں نہ کہیں سیروتفریح کے لئے جایا کرتا تھا اور اس مرتبہ بھی جانے کے لئے پر جوش تھا۔اسلم کے اندر ایک بہت بری عادت تھی کہ وہ جھوٹ بہت بولتا تھا۔اس کے والدین اور اساتذہ نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ ”دیکھو بیٹا!جھوٹ بولنا گناہ ہے ۔جو شخص جھوٹ بولتا ہے وہ ہر کسی کے لئے نا قابل اعتبار ہو جاتاہے “۔ اپنی اس عادت کی وجہ سے اس کو کئی بار نقصان بھی اٹھانا پڑا۔وہ ہر بار اپنے والدین اور استادوں سے وعدہ کرتا کہ آئندہ جھوٹ نہیں بولے گا،مگر اس کا یہ وعدہ ہمیشہ پانی پر لکیرثابت ہوتا۔(جاری ہے)موسم گرما کی تعطیلات ہوئیں اور سکول دو ماہ کے لئے بند ہو گئے۔ہمیشہ کی طرح چھٹیوں کا کام ملا تاکہ بچے پڑھائی کی طرف سے غافل نہ ہو جائیں۔ اسلم کو ان ہی دنوں کا شدت سے انتظار تھا،اسی لئے اس نے ایک مہینہ کے اندر تمام کام مکمل کرلیا اور پھر اپنے امی ابو سے فرمائش شروع کردی۔”ابو!ہم لوگ گھومنے کب جائیں گے؟“اسلم نے اپنے والد سے سوال کیا۔اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔”جائیں گے بیٹا!بہت جلد،انشاء اللہ“۔ابو نے مسکرا کر جواب دیا۔”ارے! اس کا بس چلے تو آج ہی جانے کی ضد شروع کر دے۔“امی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔”بیٹا!ایسی بھی کیا جلدی ہے ؟ابھی تو تمہاری چھٹیاں ختم ہونے میں پورا ایک مہینہ باقی ہے“۔ابو نے اسلم کو سمجھاتے ہوئے کہا۔”ابو جی!آپ کو پتا ہے ،مجھے سمندر کی سیر کرنے کا کتنا شوق ہے ۔میں کبھی نہیں گیا ساحل سمندر پر،اور ماموں بتا رہے تھے کہ جب پانی چڑھے گا تو پابندی لگ جائے گی پھر سمندر میں جانے نہیں دیا جائے گا“۔اسلم نے منہ بسورتے ہوئے جلد بازی کی وجہ بتائی۔”تو ضروری ہے کہ سمندر کی ہی سیر کی جائے ۔ہم تمہیں کسی پارک لے جائیں گے ،جہاں جھولے ہوں گے وہاں انجوائے کر لینا۔“امی نے اس کا دھیان دوسری طرف لگانا چاہا۔”نہیں بھئی،مجھے سمندر کی سیر کے لئے ہی جانا ہے ۔سب جاتے ہیں،میری کلاس کے سب بچوں نے ساحل سمندر پر پکنک منائی ہے ۔میرا بھی بہت دل چاہ رہا ہے“۔ اسلم بہ ضد تھا۔”اچھا بابا!ہم تمہیں لے چلیں گے ساحل سمندر ،انشاء اللہ ۔اب خوش؟“ابو نے ہتھیار ڈالتے ہوئے اس کی بات مان لی۔اسلم خوش ہوگیا اور انتظار کرنے لگا ۔یہ بھی اتفاق تھا کہ امی ،ابو مصروفیات کی وجہ سے پروگرام نہیں بنا پارہے تھے ۔وہ روزانہ اپنے والدین کے سر پر سوار ہو جاتا اور اسے وہی جواب ملتا۔اسلم مایوس ہونے لگا اور سوچنے لگا کہ اسے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا پھر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔اس نے اگلے دن ہی اپنے دوستوں آصف اور کاشف سے رابطہ کیا۔آصف اور کاشف دونوں بھائی تھے اور اسلم کے ساتھ سکول میں ہی پڑھتے تھے۔”یار !کیوں نہ ساحل سمندر کی سیر کو چلیں؟تم دونوں کا کیا خیال ہے ؟“اسلم نے پر جوش لہجے میں آصف اور کاشف سے پوچھا۔”سمندر !!!ارے واہ․․․․․خیال تو بہت اچھا ہے مگر جا کون رہا ہے جس کے ساتھ ہم جائیں گے ؟“آصف نے خوش ہوتے ہوئے جواباً سوال کیا۔”ہم تینوں جارہے ہیں ۔میں،تم اور کاشف“۔اسلم نے ایک ترنگ میں جواب دیا۔”ہیں!!!ہم تینوں ،ایک دوسرے کے ساتھ․․․․․مطلب اکیلے؟؟ہم اکیلے کیسے جا سکتے ہیں یار؟“کاشف نے حیران ہو کر پوچھا۔آصف بھی دنگ رہ گیا۔”ارے یار!کچھ نہیں ہوتا۔سب ہی جاتے ہیں ہم کوئی انوکھے تھوڑے ہی ہیں۔پھر ہم تینوں ساتھ ہوں گے تو اکیلا پن کیسا“۔اسلم نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”مگر یار!ہمیں گھر سے اجازت نہیں ملے گی اس طرح اکیلے جانے کی“۔ آصف نے حقیقت سے آگاہ کیا۔”ہاں ․․․․․اسی بات کا تو افسوس ہے کہ نہ تو اجازت ملے گی ،نہ گھر والے کہیں لے کر جائیں گے اور چھٹیاں ختم ہو جائیں گی۔اسی لئے میں نے سوچا ہے کہ ہم گھر پر کوئی بہانہ بنادیں گے اور پھر چلیں گے۔کیوں؟“اسلم نے قائل کرنے والے انداز میں کہا۔نہیں،نہیں یار!گھر والوں سے جھوٹ بول کر نہیں جائیں گے۔اگر پکڑے گئے یا کہیں پھنس گئے تو بہت پٹائی ہو گی۔“کاشف نے ڈرتے ہوئے کہا۔”اوہو!تم دونوں کیا ڈرپوک لوگوں کی طرح باتیں کررہے ہو۔اب ہم اتنے بھی بچے نہیں ہیں۔“اسلم نے کہا۔”اچھا!چلو ٹھیک ہے․․․․․مگر یہ تو سوچو کہ ہم گھر والوں سے کیا کہیں گے؟“کاشف نے ہار مانتے ہوئے اصل مسئلے کی طرف توجہ دلائی۔”ہاں یار!گھر پر کیا کہیں گے؟یہ تو سوچا ہی نہیں“۔ آصف نے بھی بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی۔”میں نے سوچ لیا ہے ۔گھر والوں سے کہیں گے کہ ایک ضروری اسائنمنٹ بنانا رہ گیا ہے ۔تھوڑا مشکل ہے اسی لئے ہم ایک ساتھ مل کر بنا رہے ہیں اور ہمیں پورا دن لگ جائے گا اور یہ اسائنمنٹ ہم تمہارے گھر پر بنائیں گے اور تم لوگ کہنا میرے گھر پر بناؤ گے“۔اسلم پہلے سے ہی سوچ کر بیٹھا تھا کہ کیا بہانہ بنایا جائے۔”کیا؟ہمارے گھر پر؟؟پاگل ہو گئے ہو کیا!!اگر واپسی پر زیادہ دیر ہو گئی اور ہمارے والدین نے ایک دوسرے کے گھر فون کرکے پوچھ لیا تو؟؟“کاشف نے پریشانی اور حیرت کے عالم میں اسلم اور آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔آصف بھی حیران رہ گیا تھا۔”کاشف صحیح کہہ رہا ہے اسلم!اگر ہمیں دیر ہوگئی تو ہمارے جھوٹ کا پتا چل جائے گا پھر بہت پٹائی ہو گی یار!!“آصف نے پریشان کن لہجے میں کہا۔”ارے یار!!ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔میں نے کہا نا کہ ہم جلدی واپس آجائیں گے۔شام ہونے سے پہلے ہی وہاں سے نکل جائیں گے اور شام تک گھر پہنچ جائیں گے ۔اب تم لوگ یہ سب سوچنے کے بجائے ساحل سمندر کے بارے میں سوچو۔کیا کیا ساتھ لے کر جانا ہے اور کیا تیاری کرنی ہے یہ سوچو۔ایک ہی دن کی تو بات ہے یار․․․․!!“اسلم نے اب کی بارزچ ہو کر کہا۔آخر کار آصف اور کاشف دونوں ہی مان گئے اور پھر تینوں نے اپنے اپنے والدین سے ”اسائنمنٹ“بنانے کی اجازت لے لی جوکہ چند سوال جواب کے بعد انہیں مل گئی اور پھر وہ تینوں جانے کی تیاری کرنے لگے۔سامان زیادہ نہیں تھا اس لئے آسانی سے سکول بیگ میں آگیا اور اگلے ہی دن یہ تینوں صبح سمندر کی سیر کے لئے روانہ ہو گئے ۔اسلم نے اپنے ابو کا کیمرہ نظر بچا کر اپنے بیگ میں ڈال لیا تھا تاکہ تصویریں بنا سکے۔ساحل سمندر پہنچ کر تینوں بالخصوص اسلم کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔##”واہ !سمندر دیکھ کر ہی مزہ آگیا۔سوچوابھی اور کتنا مزہ آئے گا“۔اسلم نے خوشی سے اپنے دوستوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”واقعی یار!یہ تو سوچا ہی نہیں تھا۔کیا دل فریب منظر ہے ،خوب صورت اور یہ لہریں !!“آصف بھی سمندر کے منظر میں کھوسا گیا۔”ارے وہ دیکھو!اونٹ اور گھوڑے․․․․․․بھئی میں ان دونوں کی سواری کروں گا میں نے پہلے بتا دیا ہے“۔کاشف نے بھی پر جوش لہجے میں کہا۔”ہاں کیوں نہیں!ہم بھی سواری کریں گے اور یہ سامنے جوریسٹورنٹ ہے،کھانا وہاں کھائیں گے“۔ اسلم نے جواب دیا اور پھر اپنے بیگ سے ابو کا کیمرہ نکال کر تصویریں کھینچنے لگا۔ان تینوں نے خوب تصاویر بنائیں اور سارا دن مزے کرتے رہے ۔دل بھر کر نہائے ،ایک دوسرے کے ساتھ پانی میں خوب کھیلے۔”یار!اتنا مزہ آرہا ہے کہ واپس جانے کا دل ہی نہیں چاہ رہا“۔یہ کاشف تھا جو آنے کے لئے پہلے راضی ہی نہیں تھا۔”دیکھ لو!سب سے زیادہ تم ہی مخالفت کررہے تھے اس پروگرام کی۔اگر گھر والوں کے آسرے پر رہتے تو انتظار ہی کرتے رہ جاتے“۔ اسلم نے اتراتے ہوئے کہا۔”صحیح بات ہے !اتنا مزہ گھر والوں کے ساتھ بھی نہیں آتا“۔آصف بھی اپنی دھن میں مگن تھا۔اس کے بعد انھوں نے اونٹ اور گھوڑے پر سواری کی اور بہت سے گیمز کھیلے ۔پھر بھوک لگنے لگی۔”یار !بھوک لگ رہی ہے ،چلوچل کر کھانا کھاتے ہیں“۔ اسلم نے کہا اور تینوں سامنے بنے ہوئے شاندار سے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے چلے گئے ۔وہاں سمندر میں نہا کر آنے والوں کے لئے باہر تخت بھی لگے ہوئے تھے ،جہاں انھوں نے بیٹھ کر کھانا کھایا۔کھانا بہت لذیذ تھا۔تینوں نے خوب سیر ہو کر کھایا۔پھر انھوں نے مل کر اپنی اپنی پاکٹ منی سے بل ادا کیا پھر سمندر کا رخ کیا اور آتی جاتی لہروں سے جی بھر کر لطف اندوز ہوئے۔ کھیل کود اور تفریح میں دن گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اور اب شام ہونے لگی۔پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اچانک موسم تبدیل ہو گیا۔آسمان پر بادل چھانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے کالی گھٹا میں بدلنے لگے ۔تیز ہوائیں چلنے لگیں اور آناً فاناً موسلادھار بارش شروع ہو گئی ۔وہ تینوں اس صورت حال سے بوکھلا گئے۔بارش نے شدت اختیار کر لی تھی اور اس کے ساتھ گرج چمک ان کے دل دہلانے کو کافی تھی۔اب ان تینوں کے اوسان خطا ہو گئے اور انھوں نے واپس جانے کا ارادہ کیا مگر واپسی کا یہ سفر ان لوگوں کے لئے کتنا دشوار ہو گا،اگر ان کے وہم وگمان میں بھی ہوتا تو وہ شاید کبھی یہ پروگرام نہ بناتے ۔بارش تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی ۔تھوڑی ہی دیر میں سارا شہر جل تھل ہو گیا۔گلیوں میں اور سڑکوں پر پانی جمع ہو گیا اور آنے جانے کے راستے بند ہونا شروع ہو گئے۔”یار!یہ بارش تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے “۔آصف نے پریشان کن لہجے میں کہا۔”ہاں یار!اور پانی دیکھو کتنا جمع ہو گیا ہے چلنا دشوار ہورہا ہے“۔ اسلم بھی اب بہت پریشان ہو گیا تھا۔”میرے اللہ!!بجلی بھی چمک رہی ہے ․․․․․مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔ہم گھر واپس کیسے جائیں گے اب ؟“کاشف نے خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا۔وہ تینوں بارش سے بچنے کے لئے ایک درخت کے نیچے جا کھڑے ہوئے۔”یہاں کھڑے ہو کر انتظار کرتے ہیں بارش رکنے کا،پھر کوئی رکشا یا ٹیکسی کرکے واپس جائیں گے۔“اسلم نے تسلی دیتے ہوئے کہہ تو دیا ،مگر انداز سے اس کاد ل بھی دھک دھک کر رہا تھا اور وہ شدید خوف زدہ ہو چکا تھا۔”پتا نہیں اتنی بارش میں کوئی سواری ملے گی بھی یا نہیں!یا اللہ تو ہماری مدد فرما۔“آصف نے بے بسی سے کہا اور دعا مانگنے لگا۔دعا مانگتے مانگتے آصف نے آسمان کی طرف دیکھنا چاہا مگر جیسے ہی اس نے نگاہیں اٹھائیں تو اس کی نظر ایک گھنے سے درخت پر پڑی اور پھر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔آصف کو سکتے ہیں دیکھ کر کاشف اور اسلم نے جوں ہی اس کی نگاہوں کے تعاقب میں آنکھیں دوڑائیں تو ان کی چیخ نکل گئی ۔وہ دوآنکھیں تھیں جو انہیں ہی گھور رہی تھیں مگر وہ کون سی بلا تھیں،یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا،کیونکہ اندھیرا ہو گیا تھا اور سوائے آنکھوں کے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ان تینوں پر لرزہ طاری ہو گیا تھا اور خوف کی شدت سے ان کی آوازیں بھی کپکپارہی تھیں۔”وہ․․․․وہ․․․․او․․․او․․․اوپر․․․․․کک․․․․کیا ہے؟“آصف نے ہکلاتے ہوئے کہا۔مگر اسلم اور کاشف کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی ۔مارے خوف کے ان کے بھی ہوش اڑ گئے تھے۔اچانک ہی اس مخلوق نے درخت سے چھلانگ لگا دی اور ان تینوں کی چیخیں نکل گئیں۔وہ سمجھے شاید اس مخلوق نے ان پر حملہ کر دیا ہے اور اب ان کی خیر نہیں۔”میاؤں!!“وہ ایک کالی بلی تھی،۔اس لئے اندھیرے میں اس کی صرف آنکھیں چمکتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔وہ بلی تھوڑی دیر میں ”میاؤں میاؤں“کرتی ہوئی نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔اس عرصے میں ان تینوں کا اچھا خاصا خون خشک ہو چکا تھا۔کچھ دیر بعد جب ان کے حواس بحال ہوئے تو انھوں نے فوراً ہی سواری تلاش کرنا شروع کر دی ۔آخر ایک ٹیکسی نظر آئی ،لیکن کرایہ زیادہ مانگ رہا تھا۔”600روپے !!!اتنے پیسے تو ہمارے پاس نہیں ہیں انکل!پلیز آپ پیسے کم کرلیں،ہمیں جلدی گھر جانا ہے ۔پلیز“۔اسلم نے ملتجی لہجے میں کہا۔”نہیں بیٹا ،پیسے تو کم نہیں ہو سکتے یہ بارش دیکھ رہے ہو،سڑکوں کی حالت خراب ہو چکی ہے گاڑی چلانا ایک مشکل کام ہے ایسے میں۔ہر جگہ پانی کھڑا ہے“۔ٹیکسی ڈرائیورٹس سے مس نہ ہوا۔”دیکھیں انکل ،ہم پہلے ہی بہت مشکل سے یہاں تک پہنچے ہیں۔آپ پلیز کرایہ تھوڑا کم کرلیں“کاشف نے منت کرتے ہوئے روہانسی آواز میں کہا۔”نہیں،ایک روپیہ بھی کم نہیں ہو سکتا۔واپسی پر بھی کوئی سواری نہیں ملے گی۔‘ٹیکسی ڈرائیور نے دو ٹوک جواب دے دیا۔ایک گھنٹہ اسی طرح سواری کی تلاش میں گزر گیا ،مگر کوئی سواری نہ ملی ۔جو بھی سواری ملتی ڈرائیور اتنی دور جانے سے ہی انکار کر دیتے یا کرایہ بہت زیادہ مانگتے۔ ان تینوں کے پاس اب اتنے پیسے نہیں بچے تھے کہ اتنا زیادہ کرایہ دے سکتے۔اب رات ہو چکی تھی ۔بارش گرج چمک کے ساتھ جاری تھی اور اب اندھیرے نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، کیونکہ لائٹ جا چکی تھی ،پورا شہر تاریکی میں ڈوب چکا تھا۔اب صحیح معنوں میں وہ تینوں پچھتا رہے تھے۔پریشانی اور خوف کے مارے ان کا برا حال تھا اور وہ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے جارہے تھے کہ وہ صحیح سلامت ،خیروعافیت سے گھر پہنچ جائیں۔”میں تو پہلے ہی منع کر رہا تھا کہ جھوٹ بول کر نہیں جاؤ،مگر تم لوگوں نے میری ایک نہ سنی۔اب گھر والوں سے بھی رابطہ نہیں کر سکتے اور گھر جانے کا بھی دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے“۔کاشف نے غصے سے اسلم اور آصف سے کہا۔”کاشف ٹھیک کہہ رہا ہے ۔میں بھی اس پروگرام کے حق میں نہیں تھا،بس تمہاری باتوں میں آگیا۔کاش!میں یہاں نہ آتا“۔آصف نے اسلم کو قصورو ار ٹھہراتے ہوئے افسوس کیا۔”واقعی یار!تم دونوں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔اب مجھے بھی بہت ڈر لگ رہا ہے ۔بس کسی طرح ہم خیریت سے گھر پہنچ جائیں“۔اسلم شرمندہ تھا اور پچھتا رہا تھا۔”خیریت سے گھر پہنچے کے بعد بھی خیریت نہیں ہو گی!کیونکہ اب تک تو ہمارے والدین شاید ہمیں تلاش کرنے نکل پڑے ہوں گے۔“ کاشف نے کہا۔ادھر بچوں کے گھر والوں کا بھی فکر سے برا حال تھا،کیونکہ وہ ایک دوسرے کے گھر فون کرکے پوچھ چکے تھے۔ان کے بچے کہیں نہیں تھے۔ انھوں نے تھوڑی دیر مزید انتظار کیا پھر اسلم،کاشف اور آصف کے والد انہیں ڈوھنڈنے کے لئے گھر سے نکل گئے اور ان کی والدہ جائے نماز بچھا کر اللہ کے حضور دعائیں مانگنے لگیں۔”سنیے !جب بچے مل جائیں تو انہیں ڈانٹیے گا نہیں،آرام سے گھر لے آئیے گا“۔ یہ آصف اور کاشف کی والدہ تھیں جو اپنے شوہر سے نرمی کی درخواست کررہی تھیں۔مگر ان کے شوہر نے کوئی جواب نہیں دیا۔”آج تو اس کی خیر نہیں!یہ مل جائے ذرا تو اس کی ٹانگیں توڑدوں گا!!!“۔اسلم کے والد کا غصے سے برا حال تھا ،کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی جھوٹ بولنے کی عادت سے خوب واقف تھے۔اسلم کی والدہ خوف اور پریشانی کے عالم میں دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہی تھیں۔وہ جانتی تھی کہ اس وقت اپنے شوہر سے کچھ کہنا بے سود ہے!”آخر یہ لوگ کہاں جا سکتے ہیں؟“اپنے بچوں کے تمام دوستوں کے گھر جا کر معلوم کرنے کے بعد آصف اور کاشف کے والد نے مایوسی سے اسلم کے والد سے پوچھا۔”یہی میں بھی سوچ رہا ہوں“۔اسلم کے والد نے ٹارچ گھماتے ہوئے پریشانی کے عالم میں جواب دیا۔”کہیں خدا نخواستہ انہیں کسی نے ․․․ “ کاشف کے والد نے ڈرتے ڈرتے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔”نہیں،نہیں !اللہ نہ کرے․․․․․ایسا کچھ نہیں ہوا ہو گا،مجھے یقین ہے “۔اسلم کے والد نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ یہ کہہ کر وہ بھی اندر سے لرز گئے تھے۔پھر اچانک ایک خیال بجلی کی طرح ان کے دماغ میں کوندا اور ان کا دل کہنے لگا کہ بچے وہیں ہوں ۔”چلیں میرے ساتھ!مجھے معلوم ہے کہ وہ کہاں ہوں گے“۔ انہوں نے آصف کے والد سے کہا۔”کہاں ؟بتائیے؟؟“آصف کے والد نے بے چینی سے پوچھا۔”ساحل سمندر۔“اسلم کے والد نے جواب دیا۔”ساحل سمندر؟۔آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟“آصف کے والد نے سوال کیا۔”کیونکہ اسلم کو سمندر کی سیر کا بہت شوق ہے ۔وہ کافی دنوں سے ہم سے ضد کر رہا تھا کہ اسے لے کر چلیں۔مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ وہیں گئے ہوں گے“۔اسلم کے والد نے وجہ بتائی۔”چلیں پھر جلدی کریں۔“آصف اور کاشت کے والد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ پر لگا کر اڑتے ہوئے پہنچ جائیں ۔یہی حال اسلم کے والدکا بھی تھا۔ساحل سمندر کی طرف جاتے ہوئے انہیں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ہر جگہ پانی کھڑا تھا،اس لئے ان کی گاڑی بار بار بند ہورہی تھی اور اندھیرے کی وجہ سے گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں صاف دکھائی بھی نہیں دے رہا تھا۔رات کا وقت ،سمندر کا کنارا ،تیز بارش اور اندھیرے میں ان کا ملنا آسان بھی نہیں تھا۔ان کے والد کے دل دکھ سے بھر گئے تھے اور آخر وہ انتہائی مایوسی کے عالم میں سر جھکائے بوجھل قدموں سے واپس گھر کی طرف چل دئیے۔”لگتاہے اب پولیس کی مدد لینی پڑے گی“۔ اسلم کے والد نے بے چارگی سے کہا،جب کہ آصف، کاشف کے والد تو سکتے کی کیفیت میں تھے ۔دونوں کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ ان کی ماؤں کو کسی پل قرار نہیں آرہا تھا اور وہ بے چینی سے بار بار پہلو بدل رہی تھیں اور اپنے شوہروں سے مطالبہ کر رہی تھیں کہ ان کے بچوں کو کسی طرح،کہیں سے بھی ڈھونڈ کر لائیں۔ادھر وہ تینوں ڈرتے ڈرتے چلے جا رہے تھے کہ شاید کوئی گاڑی مل جائے اور وہ گھر پہنچ سکیں کہ تیز ہیڈ لائٹس سے ان کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ایک گاڑی ان کے قریب آکر رکی۔ایک لمحے کے لئے ان کے دل اُچھل کر حلق میں آگئے کہ کہیں کوئی انہیں اغواء تو نہیں کر رہا؟ پھر گاڑی سے مخصوص یونیفارم پہنے کچھ لوگ اتر کر ان کے پاس آئے اور کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں وہ ایدھی کے رضا کارہیں۔یہ سن کر ان کی جان میں جان آئی۔پھر ایدھی کے رضاکاروں نے ان سے پوچھا،”بیٹا !اتنی رات کو اس بارش میں آپ لوگ کہاں جارہے ہیں؟اور اس قدر گھبرائے ہوئے کیوں ہیں، سب خیریت تو ہے ؟؟“تب انھوں نے روتے روتے سارا ماجرا کہہ سنایا۔پھر ایدھی کے رضا کار انھیں گاڑی میں بیٹھا کر ایدھی سینٹر لے گئے ۔وہاں جا کر ان سے ان کے گھر کا فون نمبر پوچھا اور ان کے گھروں پر فون کرکے اطلاع دی کہ ان کے بچے یہاں ایدھی سینٹر میں موجود ہیں اور خیریت سے ہیں،وہ صبح آکر انھیں لے جائیں۔رات کے وقت تیز بارش میں یہ ناممکن تھا کہ وہ بچوں کو لینے آپاتے۔سڑکیں کسی دریا کا منظر پیش کررہی تھیں۔ان کے والدین کو اس فون سے کچھ تسلی ہو گئی۔وہ رات ان تینوں ے ایدھی سینٹر میں کانٹوں پر لوٹتے ہوئے گزاری اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر ایدھی کے رضا کار فرشتہ بن کر نہ پہنچتے تو ان کا کیاحال ہو تا اور وہ لوگ گھر کس طرح جاتے۔صبح ہوتے ہی ان کے والدین انہیں لینے پہنچ گئے اور بچے اپنے اپنے گھر پہنچ گئے۔ان تینوں کے والدین نے انھیں ڈانٹنے اور مارنے کا ارادہ ترک کر دیا،کیونکہ ان کے خیال سے ان کے کیے کی سزا انہیں اچھی خاصی مل گئی تھی ۔وہ اپنے بچوں سے کچھ دن ناراض رہے ،مگر یہ ناراضگی زیادہ دن نہیں رہ سکی،کیونکہ ان تینوں کو سبق مل گیا تھا اور انھوں نے سچے دل سے توبہ کرلی تھی اور اپنے والدین سے معافی مانگ کر آئندہ کبھی جھوٹ نہ بولنے کا عہد کر لیا تھا۔ " کشتی - تحریر نمبر 1666,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kashti-1666.html,"آمنہ ماہمکشتی کے استعمال کا زمانہ قدیم ہے قدیم ترین کھدائی کے دوران پائی جانے والی کشتیوں کی تاریخ 700سال پرانی ہے ،نیدر لینڈ میں پائی جانے والی دنیا کی ایک قدیم ترین کشتی ”پیسو کینو“ایک کھوکھلے درخت سے بنائی گئی جو 8200اور 7600قبل مسیح کے درمیان تیار کی گئی ۔اس کی نمائش باقاعدہ نیدر لینڈ کے شہر”ایسن“کے ڈرینٹ میوزیم میں کی گئی۔کویت میں ساحل سمندر سے 7ہزار سال پرانی ریڈکشتی ملی ہے۔ بحر ہند اور قدیم مصر میں کشتی کا استعمال 3000قبل مسیح ملتاہے ،19ویں صدی کے وسط تک بیشتر کشتیاں قدرتی مواد سے بنائی جاتی تھیں جن میں سرکنڈ ،چھال اور جانوروں کی کھالیں شامل ہیں۔جنوب مغربی ہندوستان میں کیرالہ کے جنوب میں کالی کٹ کے گاؤں بے پور جہاں لکڑی کے کام کا آغاز ہوا تو لکڑی کا ایک بڑا بیڑا بنایا گیا جو 400ٹن کی نقل وحمل کے لئے استعمال ہوتا تھا۔(جاری ہے)واسکوڈی گاما بھی درحقیقت ایک ملاح ہی تھا۔تاریخ میں اسے تاجر کے نام سے جانا جاتاہے۔وہ ہندوستان کی بندرگاہ کالی کٹ کے مقام پر لنگر انداز ہوا۔اس کی آمد ایسٹ انڈیا کی امدادی کا نقطہ آغاز تھی۔1895ء میں ڈبلیو ایچ مولن نے جست سے کشتیاں تیار کیں،1930ء تک کشتی سازی کی سب سے بڑی صنعت مالک وہی تھا۔1960ء کے وسط میں فائبر گلاس سے بنی کشتیاں تفریحی مقاصد کے لئے استعمال ہوئیں۔یہ کشتیاں سیرگاہوں پر استعمال ہوتی ہیں۔ ملتان جھیل سمیت کئی شہروں کی جھیلوں میں سکولوں کے بچوں کی تفریح کے لئے ایسی ہی کشتیوں کا استعمال کیا جاتاہے۔ساگو ان کی لکڑی کی تجارت بھی کشتیوں کے ذریعے شروع ہوئی۔کہا جاتاہے کہ ہندوستانی طرز کی کشتیوں کو قدیم عرب اور یونانی بھی استعمال کرتے تھے۔قدم زمانے میں تجارت، سفر اور فوجی مقاصد کے لئے کشتیوں کے استعمال کا ریکارڈ رکھا جاتاتھا۔منگ خاندان سے تعلق رکھنے والا چین کا وانلی شہنشاہ کا دور 72-1515تک تھا،یہ تیر اندازی اور گھڑ سواری کا ماہر تھا،کشتی رانی کا بھی اسے بہت شوق تھا،اس نے دریاؤں تک رسائی کے لئے کشتی تیار کرائی تھی ۔وہ اپنی ملکہ کے ساتھ کشتی کی سواری سے لطف اندوز ہوتا تھا۔قدیم چین سے متعلق نمائش میں کشتی رائی کرتے ہوئے بادشاہ کی خیالی تصاویر بھی رکھی جاتی ہیں۔ " اللہ نگہبان ہے - تحریر نمبر 1665,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/allah-nigehban-hai-1665.html,"ہماء غفار”اٹھ کر بیٹھیں دادی میں کھانا لے آیا ہوں۔ ہم دونوں کھانا کھائیں۔“احمد نے اپنی بزرگ دادی کو اٹھایا اور اخبار کے ٹکڑے میں لپٹی روٹیاں نکالیں۔دونوں نے مل کر کھانا کھایا۔دادی نے پیار سے احمد کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دعا دی کہ ”بیٹا ہمت اور حوصلہ رکھو وہ اللہ ہمارے ساتھ ہے وہ سب سے بڑا نگہبان ہے۔“احمد کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔لیکن خاموشی سے سعادت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے نظریں جھکائے رکھیں۔کیونکہ اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو گیا ہے؟وہ والدین اس کی زندگی میں کبھی پریشانی نہیں آنے دیتے تھے وہ آج اس کے ساتھ نہیں تھے ۔انتہائی غربت کے باوجود جس والدین نے اپنے بیٹے کو حالات کا مقابلہ کرنا سکھایا اور ہر حال میں خوش اور شکر ادا کرنا سکھایا وہ والدین اچانک حادثے میں موت کا شکار ہو گئے۔(جاری ہے)غریبی کے باوجود اپنے بیٹی کی پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اسد کے والد ایک ہوٹل پر ملازم تھے اور والدہ سلائی کرتی تھیں ۔لیکن اب حالات اتنی تیزی سے بدل گئے کہ اسد کو سکول چھوڑ کر ہوٹل میں ملازم بن کر رہنا پڑا۔ایسی زندگی کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا․․․․․․اپنے ہی سوالوں میں الجھا اسد اٹھا اور کھانے کے برتن کچن میں دھوکر رکھ دیئے اور وہ اخبار کا ٹکڑا جس میں روٹیاں لپیٹ کر لایا تھا اسے انتہائی احتیاط سے اٹھایا صاف کیا اور اپنے ساتھ کمرے میں پڑھنے کی غرض سے لے آیا۔اخبار پڑھنے کے دوران اس کی نظر ایک طرف لکھی ہوئی اقوال زریں پر پڑی۔جس میں لکھا تھاکہ”اللہ تعالیٰ ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتاہے اپنے بندوں سے“اسد نے بہت ہی حیرت اور تجسس سے یہ تحریر دوبارہ پڑھی۔کیونکہ اسے دادی کے کہے ہوئے الفاظ بھی سمجھ آگئے۔اسد نے اپنے خود ہی آنسو صاف کیے کہ اب وہ اپنے ماں باپ کو یاد کرکے روئے گا نہیں کیونکہ ایک ایسی ذات ہے جو اس کو ماں باپ سے بھی زیادہ محبت کرتی ہے بلکہ وہ ایسے کام کرے گا جس سے اس کے ماں باپ کو ثواب پہنچے۔اُس ایک فقرے کو پڑھنے سے اسد میں خود اعتمادی لوٹ آئی۔اُس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ جس طرح اس کے والدین نے کبھی ہمت نہیں ہاری وہ بھی حالات کا سامنا ڈٹ کے کرے گا۔اسد اٹھا اور اپنا بیگ اٹھا لایا جیسے اس کی کتابیں اب اس کا مقصد ہوں۔یوں اسد نے دن میں ہوٹل میں کام کرنا اور شام کو پڑھنا شروع کر دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے اسد نے حالات کا مقابلہ اتنی ہمت اور جرأت سے کیا کہ اپنی محنت اور اُس کی وجہ سے ملنے والے وظائف سے ایک ڈاکٹر بن گیا۔آج اسد نے نہ صرف اپنے آپ کو سنبھال لیا بلکہ بہت سے غریب لوگوں کے بچوں کی پڑھائی کے اخراجات بھی اٹھاتا ہے تاکہ کسی بھی بچے کی پڑھائی حالات کی وجہ سے نہ رُکے۔بچو!اگر آپ کے اردگرد بھی کوئی ایسا بچہ ہے جو غریب پڑھ نہیں سکتا خصوصاً یتیم بچے تو آگے بڑھیں۔آپ کے تھوڑے سے حوصلے اور مدد سے اس کی زندگی سنور جا سکتی ہے۔ " بھاری بستے اور ہمارے طلبہ - تحریر نمبر 1664,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhari-baste-or-hamare-talba-1664.html,"راحیلہ مغلیوہان کا تعلق چین سے ہے اس کی عمر محض دس برس ہے وہ اس وقت صرف ایک برس کا تھا جب اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا جب کچھ بڑا ہوا تو اس نے اپنی معذوری کو ذہنی معذوری نہیں بننے دیا دیگر ہم عمروں کو سکول جاتے ہوئے دیکھ کر اس کے اندر بھی علم کے حصول کا جذبہ بیدار ہوا،اس نے سکول جانے کو اپنا معمول بنا لیا،اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہ ہونے والے اس باہمت بچے نے نہ تو ہوم ورک نہ کرنے کا لنگ تراشا اور نہ ہی کسی بہانہ سازی سے کام لیا،وہ اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے بل کھڑا ہو کر ان ہتھیلیوں پر چل کر سکول جانے لگا ،سکول پہنچنے میں اسے ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا اس کی ہم سفر اس کی ایک بہن ہوتی جو اس کا بستہ اُٹھاتی جب کبھی وہ تھک جاتی تو تھوڑا سستانے کے بعد دونوں بہن بھائی دوبارہ عازم سفر ہوتے ۔(جاری ہے)یوں سکول جانے میں اسے ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا۔یہ واقعہ بظاہر ایک ہمت وعظمت کی داستان ہے لیکن وطن عزیز میں ہمارے انتہائی کم عمر نو نہال کتابوں کے بھاری بھرکم عمر نو نہال کتابوں کے بھاری بھر کم بیگوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں،سورج طلوع ہوتاہے تو ہمیں وطن عزیز کی شاہراہوں پر نو نہالوں کے قدم درسگاہوں کی جانب اٹھتے نظر آتے ہیں،ان کی کمر کے ساتھ لٹکے بستے کے وزن سے کندھے جھکے ہوتے ہیں،پک اینڈ ڈراپ دینے والی گاڑیوں کی چھتوں اور سامنے لگے لوہے کے راڈ بستوں سے بھرے ہوتے ہیں۔چھٹی کلاس کے طالب علم کی عمر 11سے12برس اور وزن 30سے 32کلو ہوتاہے،پانچویں کلاس کے ایک طالب علم کی عمر 10سے 11برس بچے کا وزن صرف 28سے 30کلو گرام تک ہوتاہے ،چوتھی کلاس کے بچے کا وزن جس کی عمر 9سے 10برس کے درمیان ہوتی ہے جبکہ کا وزن 24سے 26برس تک ہوتاہے ۔سوئم کلاس کے 8تا 9سال کے بچے کا وزن 22سے 25کلو تک ہوتاہے اسی طرح دوسری کلاس کے بچے کی عمر 7تا 8سال ہوتی کا وزن 20تا 22کلو ہوتاہے ۔پہلی کلاس کے بچے کی عمر 6تا 7برس اور وزن 16سے 18کلو ہوتاہے جبکہ کے جی کے 5تا 6سال کے بچے کا وزن 14سے16کلو تک ہوتاہے ۔ان پر کتابوں کا وزن بلحاظ عمر اور وزن زیادہ ہوتاہے۔سکول بیگ کا وزن بچے کے وزن کا 15فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہیے لیکن ان کے جھکے ہوئے کندھوں پر بیگز کا وزن دیکھ کر یوں محسوس ہوتاہے جیسے وہ گھر کی دہلیز کسی سزا کے تحت پار کر رہے ہوں۔ " سعدی نے چڑیا گھر دیکھا - تحریر نمبر 1663,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/saadi-ne-chirya-gher-dekha-1663.html,"تسنیم جعفریننھا سعدی چار سال کا ہونے والا تھا لیکن ابھی تک اس کے سکول میں داخلے کے بارے میں کوئی ٹھیک ٹھیک فیصلہ نہیں ہوپایا تھا کہ آخراس کو کہاں اور کس سکول میں پڑھنا ہے ۔کیونکہ سعدی کے پاپا کا تبادلہ کسی دوسرے شہر ہونے والا تھا۔ممی کو سعدی کے سکول میں داخلے کی بہت فکر لگی رہتی تھی۔”ممی دیکھیں میں یہ کیا لایا ہوں․․․․․؟یہ بکرا مجھے باہر مل گیا تھا میں گھر لے آیا،اس کو کہاں باندھوں․․․․․؟“ایک دن سعدی باہر سے آیا اور ممی سے بولا ،وہ ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے اس کے ہاتھ میں بکرے کی رسی ہو اور وہ اس کو کہیں باندھنا چاہ رہا ہو۔”بیٹا اس کو گھر کے اندر کیوں لے آئے گند پھیلائے گا،باہر صحن میں باندھنا۔“”جی اچھا ممی․․․․․میں اس کو باہر لے جاتا ہوں،آپ اس کے کھانے کے لئے کچھ دے دیں۔(جاری ہے)“ممی ایک بار پھر پریشان ہو گئیں ،سعدی اکثر ایسا ہی کرتا تھا،اس کو جانوروں سے بہت پیار تھا،گھر میں قربانی کا بکرا آیا تھا جس کو وہ ابھی تک بھولا نہیں تھا۔”سعدی بیٹا․․․․میں چاہتی ہوں کہ آپ کا جلد از جلد سکول میں داخلہ ہو جائے اور آپ کی باقاعدہ پڑھائی شروع ہو جائے۔“”ممی آپ میرے سکول کی بالکل فکر نہ کریں․․․․․میں پڑھتا تو ہوں نا․․․․․!آپ مجھے اتنا اچھا پڑھاتی ہے ایسے تو کوئی بھی نہیں پڑھا سکتا،پھر مجھے سکول جانے کی کیا ضرورت ہے․․․․․․․میں تو بس آپ سے ہی پڑھوں گا۔“سعدی نے ممی کو پریشان دیکھ کر تسلی دی۔اس کی اس ننھی منی سی تسلی سے ممی کو بہت خوشی ہوئی ،انہوں نے سعدی کو گود میں اٹھا لیا اور پیار کرتے ہوئے کہا،”اتنے سمجھدار بیٹے کے ہوتے ہوئے بھلا مجھے کیوں فکر ہو گی ،اب آپ جا کر اپنا بیگ لے کر آؤ اور بیٹھ کر پڑھو،میں کھانا بنانے جا رہی ہوں،آپ کو کچھ کھاناہے․․․․․․؟“”نہیں․․․․․․پایا کے آنے پر ہم کھانا کھائیں گے۔“ممی چلی گئی تو سعدی نے بیگ کھول کر اردو کی کاپی نکالی اور لکھنے کی پریکٹس کرنے لگا۔سعدی نا صرف سمجھدار تھا بلکہ بہت فرما نبردار بھی تھا،سب کا کہنا مانتا تھا اور سب کے کام خوشی خوشی کرتا تھا۔وہ انسانوں سے ہی نہیں جانوروں سے بھی بہت محبت کرتا تھا۔اس کے گھر کے صحن میں اگر کوئی پرندہ بھی آجاتا تو اس کی ایسے خاطر تواضع کرتا جیسے ممی مہمانوں کے آنے پر کرتی ہیں ،وہ جلدی سے کچن میں جاتا اور کھانے کے لئے جو چیز بھی ملتی تو ممی سے پوچھ کر اس ننھے مہمان کے آگے ڈال دیتا۔رنگ برنگی تتلیاں تو اس کو بے حد پسند تھیں،ان کے پیچھے وہ سارا سارا دن بھاگتا رہتا تھا لیکن پکڑتا نہیں تھا کیونکہ ان کے پر خراب ہو جاتے ۔گرمی کے موسم میں تو وہ روزانہ پانی سے بھرا برتن اپنے صحن میں رکھتا کہ کہیں کوئی ننھا مہمان پانی کی تلاش میں آئے تو پیا سا ہی نہ چلا جائے۔ ممی پاپا دونوں اللہ کا بہت شکر ادا کرتے تھے کہ ان کے بیٹے کی اتنی اچھی عادتیں ہیں کہ سبھی تعریف کرتے ہیں۔دوپہر کو پایا کی گاڑی کا ہارن بجا تو سعدی جلدی جلدی اپنی کتابیں سمیٹنے لگا کیونکہ اب اس نے پاپا کے ساتھ کھانا کھانا تھا۔سعدی نے دروازہ کھولا تو پاپا نے اس کو گود میں اٹھا لیا اور پوچھا:”اچھا تو آج ہمارے بیٹے نے کیا کام کیا․․․․․؟“”پتا ہے پاپا آج کیا ہوا․․․․؟“آج ہمارے گھر ایک عجیب مہمان آیا․․․․․“سعدی نے تجسس سے بتایا۔”عجیب مہمان ․․․․؟کون آیا تھا بھئی․․․․“پاپا نے حیرت سے ممی کی طرف دیکھا۔”ادھر دیکھیں نا پاپا․․․․․میں بتاتا ہوں ۔“سعدی نے پاپا کا منہ اپنی طرف کیا۔”پاپا اس کی لمبی دم اور سرنیلے رنگ کے تھے ․․․․․․وہ اتنا پیارا تھا نا پاپا․․․․․․․میں نے ایسا پرندہ پہلے کبھی نہیں دیکھا․․․․․․“سعدی کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔”اوہ اچھا․․․․․نیل کنٹھ ہو گا ،وہ نیلے رنگ کا ہوتاہے۔“پاپا نے سعدی کی مشکل حل کی”اور کون کون سے رنگ تھے بیٹا اس میں․․․․․؟“”اب تو یاد نہیں پایا․․․․وہ جلدی جلدی پانی پی کر اڑ گیا،میں اس کو ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں سکا ۔ میں اس کو غور سے دیکھتا تو بتا سکتا تھا کہ اس میں اور کون کون سے رنگ تھے۔مجھے تو صرف اس کا سر اور دم ہی نظر آئے تھے ،کیا وہ دوبارہ نہیں آسکتا پاپا․․․․․․؟“”ایسا کرتے ہیں کہ اس اتوار کو چڑیا گھر چلیں گے، پھر آپ سارے پرندے خوب غور سے دیکھنا اور پاپا کو بتانا کہ ہمارے ہاں کون کون سے مہمان آتے ہیں․․․․اب ہاتھ دھو کر آجاؤ کھانا لگا دیا ہے۔“ممی نے آکر کھانا لگنے کی اطلاع دی تو وہ دونوں جلدی سے ہاتھ دھونے لگے کیونکہ پایا کو کھانا کھا کر دوبارہ آفس جانا ہوتاہے۔”ہاں یہ ٹھیک ہے ویسے بھی ہم بہت عرصے سے چڑیا گھر نہیں گئے․․․․․جب سعدی دو سال کا تھا تب گئے تھے ،تب بھی سعدی جانوروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا۔“پاپا کھانے کی میز پر بیٹھتے ہوئے بولے۔”تھینک یوممی․․․․․آپ کتنی اچھی ہیں۔“”ارے مگر اس سنڈے کو تو سعدی کی سالگرہ بھی آرہی ہے نا ،سعدی پورے چار سال کا ہو جائے گا۔“ممی نے یاد دلایا۔”بس تو پھر اس بار سعدی کی سالگرہ ہم چڑیا گھر چل کر مناتے ہیں،کیونکہ سعدی ․․․․․؟“پاپا نے کہا۔”اوکے ڈن․․․․!سعدی اس بات پر بہت خوش ہو گیا اور ممی کو بھی یہ آئیڈیا پسند آیا۔“”پاپا․․․․․․پاپا اٹھیں نا،جلدی سے اٹھ جائیں اب۔“سعدی نے سوتے ہوئے پاپا کو زور زور سے ہلایا۔”کیوں بیٹا کیا ہو گیا ہے․․․․․“کون آگیا صبح صبح․․․․․․؟پاپا بوکھلا کر اٹھ بیٹھے۔”آیا تو کوئی بھی نہیں پایا․․․․․․ہمیں جانا ہے،کیا آپ بھول گئے․․․․․․؟“”اوہو․․․․․مگر اتنی صبح صبح ہمیں کہاں جانا ہے․․․․․کچھ پتا بھی تو چلے․․․․․؟“(جاری ہے) " تنہا مقابلہ کرنا سیکھئے - تحریر نمبر 1661,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tanha-muqabla-karna-sekhiye-1661.html,"غریب اللہ غازیہمت ہی سے عمل کی راہیں کھلتی ہیں۔ حکمت ،شجاعت اولعزمی اور جہانگیری وجہاں بانی کے ہر موڑ پر صرف ہمت کا پرچم لہراتا ہوا نظر آتا ہے ہم آپ کو جنگلی گائے کا واقعہ بتاتے ہیں کہ ایک جنگل میں بہت ساری گائیں کھاس چرتی تھیں اور پیاس کے وقت پانی پینے جاتی تھیں۔تو اُن پر مگر مچھ حملہ کر دیتا۔سب گائیں بھاگ جاتیں مگر ایک گائے کا پاؤں مگر مچھ پکڑ لیتا۔اب گائے کے لئے زندگی اور موت کا کھیل شروع ہو جاتا ہے گائے اپنی زندگی بچانے کی جدوجہد شروع کر دیتی ہے اور مگر مچھ اپنی بھوک مٹانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتاہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس کی ہم ذات وہم قبیلہ گائیں دور کھڑی اس کشمکش کو دیکھ رہی ہوتی ہیں لیکن کوئی ایک بھی گائے اس کی مدد کو نہیں آتی پکڑی جانے والی گائے مگر مچھ کو پانی سے باہر تک کھینچ لاتی ہے لیکن اس کشمکش نے بھی مکمل طور پر ختم کرنے کا پختہ ارادہ کیا ہوتاہے اس کی ٹانگ کو مضبوطی سے پکڑے رکھتاہے۔(جاری ہے)گائے کی ہمت جواب دینے لگتی ہے وہ حسرت بھری نگاہوں سے اپنے ہم قبیلہ کو دیکھتی ہے اور گردن جھکا دیتی ہے اور مگر مچھ اسے دوبارہ گھسیٹ کر پھر پانی میں لے جاتاہے وہ ایک بار پھر امید بھری نظروں سے دور کھڑی اپنی دوستوں رشتہ داروں کی طرف دیکھتی ہے جن کے ساتھ وہ ہر روز پانی پینے آتی تھی لیکن دوسری گائیں حسب معمول محوتماشاہی رہیں مگر وہ پھر اپنا بھر پور زور لگاتی اور پانی سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے لیکن مگر مچھ نے اس کی ٹانگ کو بڑی مضبوطی سے پکڑ رکھاتھا لیکن گائے بھی مصمم ارادہ کر چکی تھی کہ اس نے خود کو حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑنا لیکن طاقتور مگر مچھ کے آگے وہ ہمت ہارنے لگی مگر مچھ اسے آہستہ آہستہ گہرے پانی میں لے جانے لگا۔لیکن یہاں پر قدرت اپنا کھیل شروع کر دیتی ہے دو دریائی گھوڑے گائے کی مدد کو آجاتے ہیں جو اپنی بھر پور طاقت کے ذریعے اسے مگر مچھ سے آزاد کرا دیتے ہیں اور زخمی گائے پانی سے باہر آجاتی ہے اپنی جان بخشی پر خدا کا شکر ادا کرتی ہے۔پیارے بچو!یہ زندگی آپ کی ہے اور اسے آپ نے ہی گزارنا ہے لوگ صرف تماشائی ہوتے ہیں حالات سے لڑنا انسان نے خود ہوتاہے زندگی کی جنگ اکیلے لڑنا پڑتی ہے لوگ صرف مبارک باد دینے یا صرف تعریف کرنے کے لئے آتے ہیں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ مرنے سے پہلے یہ کن حالات سے گزر رہا تھا یا جینے سے پہلے وہ زندگی کی کتنی مشکل اور اذیت ناک لڑائی لڑرہا تھا۔ " پاکستان ہمارا گھر ہماری جنت - تحریر نمبر 1660,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pakistan-hamara-gher-hamari-jannat-1660.html," " معلومات - تحریر نمبر 1659,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/malomat-1659.html,"راحیلہ مغلساتھیو!آپ کے خیال میں دنیا کا خطر ناک ترین جانور کون سا ہے؟شارک؟چیتا؟یا پھر مگر مچھ؟ہم آج آپ کو دنیا کے چند خطر ناک ترین جانوروں کے بارے میں بتا رہے ہیں۔مچھرعالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال تقریباً سات لاکھ 25ہزار افراد مچھر سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوتے ہیں۔ صرف ملیریا20کروڑ افراد کو متاثر کرتاہے جن میں سے اندازاً چھ لاکھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔مچھر ڈینگی بخار،زرد بخار اور دماغ کی سوزش کا باعث بھی بنتے ہیں۔سانپایک اندازے کے مطابق سانپ سالانہ 50ہزار افراد کی موت کا سبب بنتے ہیں۔دنیا کا سب سے زہریلا سانپ انلینڈ ٹائیپن ہے جو ویسٹرن ٹائیپن بھی کہلاتاہے۔اس کے زہر سے انسان کی 45منٹ کے اندر موت واقع ہو سکتی ہے۔(جاری ہے)انلینڈ ٹائیپن کے ڈسے ہوئے 80 فیصد افراد کی موت ہو جاتی ہے ۔لیکن یہ سب سے بڑا قاتل نہیں کیونکہ یہ انسانوں کو شاذو نادرہی کاٹتا ہے۔کانٹوں جیسی جلد والے سانپ کو” سا سکیل وائپر‘ ‘کہا جاتاہے۔اس کا شمار دس زہریلے ترین سانپوں میں نہیں ہوتا اور اس کے کاٹے ہوئے صرف دس فیصد افراد کی موت ہوتی ہے۔یہ آباد علاقوں کے قریب رہتاہے اور بہت تیزی سے کاٹتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سا سکیل وائپر سے سالانہ پانچ ہزار افراد کی موت ہوتی ہے ،جو کسی بھی دوسرے قسم کے سانپ کے کاٹنے سے ہونی والی اموات سے کہیں زیادہ تعداد ہے۔انلینڈ ٹائیپن کا آبائی گھر وسطی آسٹریلیا ہے جبکہ سا سکیل وائپر پاکستان ،انڈیا ،سری لنکا ،مشرق وسطی کے کچھ حصوں اور افریقہ میں بھی پایا جاتا ہے۔کریٹ نسل کے سانپوں کے شمار بھی دنیا کے خطر ناک ترین جانوروں میں ہوتا ہے جو مشرقی ایشیا ء میں پائے جاتے ہیں۔کتاانسان کے سب سے اچھے دوست ؟شاید ،لیکن انسانیت کے نہیں۔ایک اندازے کے مطابق باولے کتے سالانہ 25ہزار افراد کی موت کا باعث بنتے ہیں ۔وہ ممالک ،جہاں آوارہ کتوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے بشمول بھارت اور پاکستان، سب سے زیادہ متاثرہ ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق 55ہزار سالانہ اموات میں 20ہزار اموات باؤ لے کتوں کے کاٹنے سے ہوتی ہیں،جن میں بیشتر نشانہ بچے بنتے ہیں جو متاثرہ کتوں کی زد میں آجاتے ہیں۔خون چوسنے والی مکھیسیسی مکھی عام مکھی کے مقابلے میں چھوٹی ہوتی ہے۔یہ اپنے لمبے ڈنگ سے جانوروں اور انسانوں کا خون چوستی ہے۔یہ مکھی افریقی ٹریپانو سومیا سس نامی بیماری کا باعث بنتی ہے جسے سلیپنگ سکنیس یا سونے کی بیماری بھی کہا جاتاہے ۔اس بیماری سے بخار،سردرد،جوڑوں کا درد، قے ،دماغ کی سوجن اور سونے میں مشکل ہوتی ہے ۔سب صحارا خطے میں 20ہزار سے 30ہزار افراد ہر سال اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس بیماری سے دس ہزار افراد کی موت ہوتی ہے۔مگرمچھضروری نہیں کہ مگر مچھ انسانوں پر حملہ کریں لیکن وہ موقع ملنے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔صرف افریقہ میں ہر سال مگر مچھوں کی جانب سے انسانوں پر حملوں کے کئی سو واقعات سالانہ پیش آتے ہیں،جن میں سے نصف سے زائد جان لیوا ثابت ہوتے ہیں لیکن اس کا انحصار حملہ کرنے والے مگر مچھ کی نسل پر ہے۔بہت سے حملے دور دراز کے علاقوں میں ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں زیادہ رپورٹ نہیں کیا جاتا۔دنیا بھر میں مگر مچھ سالانہ ایک ہزار انسانوں کی جان لیتے ہیں،یہ تعداد شارک کے حملوں سے مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔دریائی گھوڑااس بے ڈھنگے جانور کا شمار زمین پر خطر ناک ترین ممالیہ جانوروں میں ہوتاہے جو افریقہ میں سالانہ تقریباً پانچ افراد کو موت کے منہ میں دھکیلتا دیتاہے ۔دریائی گھوڑے جارحانہ مخلوق ہیں اور ان کے بہت تیز دانت ہوتے ہیں۔یہ انسان کو کچل سکتے ہیں۔ " متحد سربراہ اور قوم۔۔۔تحریر: شمائلہ ملک - تحریر نمبر 1658,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/muttahid-sarbarah-aur-qoum-1658.html," " اسکیم زیر وزیرو - تحریر نمبر 1657,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/scheme-zer-vazero-1657.html,"معراجاللہ تعالیٰ ماسٹر کریمو کو مرنے کے بعد کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،بلکہ جنت کا داروغہ ہی بنا ڈالے۔ان کے انصاف کا طریقہ بھی سب سے نرالا ہے۔وہ باقاعدہ عدالت لگاتے ہیں،جہاں مجرموں کو ان کے سامنے حاضر کیا جاتاہے۔کریمو خاں صاحب جج کے فرائض انجام دیتے ہیں اور مجرموں کو ان کے جرم کے مطابق سزا سناتے ہیں۔مثلاً معمولی مجرموں کو دو چار بیت مار کر چھوڑ دیتے ہیں۔بعض کو سزائے قید سناتے ہیں۔یعنی مجرم کوچھٹی کے بعد بھی گھنٹہ دو گھنٹے سکول میں ٹھہرنا پڑتاہے۔بعض کو سزائے قید با مشقت دیتے ہیں،یعنی چھٹی کے بعد سکول میں ٹھہرنے کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی بھی کرنی پڑتی ہے۔سب سے بدترین سزا پھانسی ہوتی ہے۔پھانسی دینے کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ مجرم کی ٹانگوں میں رسی باندھ کر اسے اُلٹا لٹکایا جاتاہے۔(جاری ہے)دومنٹ کے بعد ہی اس کی حالت غیر ہونے لگتی ہے۔آنکھوں تلے اندھیرا چھا جاتاہے۔دل دھما دھم،دھما دھم دھڑکنے لگتاہے،لیکن کیا مجال جو ماسٹر کریمو خاں کے کانوں پر جوں رینگ جائے۔اس خاکسار کو بھی پھانسی کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔یہ سب ہمارے جانی دشمن مقصودے عرف مقصود چودھری کی مہربانی سے ہوا۔ایک دن میں سکول کے صحن میں سے گزر رہا تھا ۔دو لڑکے بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور بولے:”ماسٹر کریمو خاں صاحب نے کہا ہے کہ چھٹی ہو گئی ہے۔گھنٹی بجا دو۔“میں نے بے فکر ہو کر گھنٹی بجا دی۔اس کے ساتھ ہی لڑکوں کا ایک غول شور مچاتا ہوا نکلا۔اچانک زلزلہ سا آگیا۔میرا منہ چرخے کی طرح گھوم گیا اور میں لڑھکنیاں کھاتا ہوا دور جا گرا۔میں نے بہت مشکل سے سر گھما کر دیکھا ،یہ ماسٹر کریمو خاں تھے ،جنھوں نے ابھی چند سیکنڈ پہلے کوئی ڈیڑھ پاؤ کا چانٹا مجھے رسید کیا تھا۔”تم نے گھنٹی کس کے حکم سے بجائی ہے؟“انھوں نے غصے سے پوچھا۔”آپ کے حکم سے۔“میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔انھوں نے ایک اور ڈیڑھ پاؤ کا چانٹا رسید کیا اور دھاڑے :”کیا بکتے ہو۔“میری آنکھوں سے پردہ ساہٹ گیا ۔میں صاف طور سے جان گیا کہ میرے خلاف ساز ہو ئی ہے اور اس میں مقصود کا ہاتھ ہے۔کریمو خاں چیخ کر بولے:”اب قطب مینار بنے ہوئے کیوں کھڑے ہو؟بکتے کیوں نہیں؟“میں اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتا تھا،لیکن بد حواسی میں کچھ بھی تو نہ کہہ سکا۔ماسٹر کریمو خاں کو مونچھیں غصے سے پھڑک رہی تھیں اور میرا دل دھڑ دھڑدھڑک رہا تھا۔”اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔“کریمو خاں شاہانہ انداز میں بولے۔جب مجھے اُجڈ قسم کے لڑکے کھینچتے ہوئے لے جارہے تھے تو روفی نے میرے کان میں کہا:”مجھے تمھارے بے قصور ہونے کا پورا یقین ہے۔ خبر دار!گھبرانا مت۔ہر مومن کی زندگی میں آزمائش کی گھڑی آتی ہے۔“میری ہمت ایک دم بڑھ گئی اور میں یوں اکڑ اکڑ کر چلنے لگا کہ جیسے میری تاج پوشی ہونے والی ہے۔نہ جانے میں نے کیا کچھ کہا،لیکن کریمو خاں نے میری بات سننے سے انکار کر دیا۔میں نے احتجاج کیا۔اس پر کریمو خاں اور بگڑے ،وہیں بیت مار مار کر میری چمڑی اُدھیڑ دی اور مجھے سولی پر لٹکانے کا حکم دے دیا گیا۔جب میں پھانسی سے اُتارا گیا تو بہت دیر تک ہوش وحواس درست نہ ہوئے۔مقصود چپکے چپکے مسکراتا رہا۔میں جانتا تھا کہ یہ ساری گڑ بڑاسی نے کی ہے۔روفی دانت پیس کر بولا:”اللہ دشمن کو بھی ایسا دشمن نصیب نہ کرے۔“جب وہ گردن اکڑائے ہوئے ہمارے پاس سے گزرا تو انور موٹو نفرت سے بولا:”شکل بھوتوں کی،دماغ شیطانوں کا۔“اسی شام میرے کمرے میں میٹنگ ہوئی ۔روفی نے کہا:”اگر اس شرارت کا بدلا نہ لیا تو روفی نام نہیں،بلکہ میرا نام پلٹ کر فیرو رکھ دینا۔“اچانک موٹو زور سے بولا:”بھئی واہ!کیا منصوبہ ذہن میں آیا ہے۔اس کا نام ہے،زیر وزیرو پلان۔“اقبال عرف بھالو کھانس کر بولا:”بھئی ذرا سلیس اردو میں بولو۔“موٹو بولا:”ہم اس کے ذہن میں یہ بیٹھا دیں کہ وہ بہت ہی لائق لڑکا ہے اور اسے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔وہ پڑھے بغیر ہی اول آجائے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا․․․․“میں نے کہا:”وہ تو ویسے ہی پھسڈی ہے ۔اس فضول اسکیم سے کیا فائدہ ۔“روفی جلدی سے بولا:”جب ہم بولا کریں توٹو کا مت کرو۔سمجھے بدھو۔“ان تینوں نے زور وشور سے اس پروگرام پر عمل شروع کردیا۔مقصودے کو کلاس کا مانیٹر بنوایا گیا۔کرکٹ ٹیم کا کپتان بھی اور نہ جانے کیاکیا۔ نتیجہ نکل آیا۔میں اپنی جماعت میں سوم آیا۔انور موٹو اور بھالو بھی پاس ہو گئے۔روفی رعایتی نمبروں سے پاس ہو گیا۔ہمارا جانی دشمن مقصود فیل ہو گیا۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا:”مقصود فیل ہونے والوں میں اول نمبر پر ہے۔اس کے ہر مضمون میں زیرو زیرو نمبر آئے ہیں۔“ہمیں اپنے پاس ہونے کی اتنی خوشی نہیں تھی جتنی مقصودے کے فیل ہونے کی۔روفی ہم سے بار بار کہتا:”اللہ کی قسم دل میں ٹھنڈک پڑ گئی۔“پھر وہ مقصودے کے پاس پہنچا اور بہت راز داری سے بولا:”ابھی گھر مت جانا،بلکہ کسی پارک میں چھپ جاؤ۔شام تک چودھری صاحب کا غصہ کم ہو جائے گا،بلکہ وہ تمھارے لئے اتنے فکر مند ہوں گے کہ سب کچھ بھول بھال جائیں گے۔“موٹو نے مشورہ دیا:”تم پارک کی بارہ دری میں چھپ جاؤ ۔وہ سب سب محفوظ جگہ ہے۔“اور اس بے وقوف نے ہماری بات پر پوری طرح عمل بھی کیا۔جب ہم چودھری صاحب کے مکان کے پاس سے گزررہے تھے تو وہ ہمیں دیکھ کر بولے:”کیوں میاں!نتیجہ نکل آیا ہے تمھارا؟“روفی فخر سے بولا:”ہم سب پاس ہو گئے ہیں جی۔“”اور مقصود کا کیا رہا؟“چودھری صاحب نے پوچھا۔روفی نے کہا:”ماسٹر کریمو خاں بتا رہے تھے کہ وہ سکول میں اول آیا ہے۔“میں نے روفی کا ٹہوکا مارا۔وہ بگڑ کر بولا:”دیکھو جی،جب میں بولا کروں تم ٹوکا مت کرو۔“چودھری صاحب خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔وہ پونچھوں پر تاؤ دے کر بولے:”تم گلزار حلوائی کے پاس سے گزرو تو اسے پانچ سیر لڈو کا کہہ دینا۔“میں نے روفی سے اس حمایت کی وجہ دریافت کی تو وہ بولا:”کل ہی کی تو بات ہے کہ اس نے تمھیں پھانسی دلوائی اور آج تم اس کی پٹائی کا موقع ہاتھ سے جانے دے رہے ہو۔“موٹو سوچتے ہوئے بولا:”شاید حکیم افلا طون کا قول ہے یا کسی اور کاکہ دشمن کا کچو مر نکال دینا عین عقل مند ی ہے۔“مقصودے کے اول آنے کی خبر پورے شہر میں بجلی کی طرح پھیل گئی۔روفی نے دو روپے دے کر ڈاکیے کو تاکید کر دی تھی کہ ہر گھر میں گھنٹی بجا بجا کر مقصودے کی خبر بھی سناتا جائے۔ہم کوئی گھنٹے یا ڈیڑھ گھنٹے کے بعد چودھری صاحب کے گھر کے پاس سے گزرے ۔وہ دروازے پر مونڈھا بچھائے بیٹھے تھے۔روفی کو دیکھ کر چودھری صاحب نے کہا:”مقصود ابھی تک نہیں آیا۔“روفی نے مسکین سی صورت بنا کر کہا:”جی وہ مارکے ڈر سے نہیں آرہا ہے اور باغ کی بارہ دری کے اندر چھپا ہوا ہے۔“چودھری صاحب نے حیران ہو کر پوچھا:”وہ کیوں بھلا؟“روفی بولا:”ماسٹر کریمو خاں نے کہا تھا کہ مقصود فیل ہونے والوں میں اول نمبر آیا ہے۔اس کے ہر مضمون میں زیرو زیرو نمبر آئے ہیں۔“چودھری صاحب کا منہ لٹک گیا۔ہم نے مقصودے کی تلاش میں چودھری صاحب کی پوری پوری مدد کی اور اس کو باغ کے اس کونے سے ڈھونڈنکالا،جہاں کچھ دیر پہلے روفی نے خود اسے چھپایا تھا۔ادھر چودھری صاحب کے گھرمبارک دینے والوں کا تا نتا بندھ گیا۔چودھری صاحب ہر ایک سے کہتے کہتے تھک گئے کہ مقصود فیل ہو گیا ہے۔غضب تو یہ ہوا کہ ملا لاحول ولا بھی منہ میٹھا کرنے پہنچ گئے۔جب انھیں اصل بات معلوم ہوئی تو غصے سے بولے:”اجی لاحول ولا۔میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ ان شاء اللہ اس دفعہ بر خور دار فیل ہو گیا۔اف لا حول ولا۔“ان کے جانے کے بعد چودھری صاحب برس پڑے اور مقصودے کی وہ پٹائی کی کہ وہ ہفتے بھر تک کمر سینکتا رہا۔اس شام جب ہم روفی کے گھر پہنچے تو چچا شبراتی کو منتظر پایا۔ان کے تیوربتا رہے تھے کہ وہ سخت غصے کی حالت میں ہیں۔انھی ہماری شرارت کا علم ہو چکا تھا۔چچا شبراتی غصے میں دھاڑے :”یہ کیا حرکت کی تم نے ؟“روفی ان کا جاہ وجلال دیکھ کر تھر تھر کانپنے لگا۔ان کی یہ عادت ہے کہ دو چار ہاتھ مار کر کہتے ہیں:”اب بول۔“”چچا جان!میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں بے قصور ہوں۔“چچا جان نے جلال میں آکر ایک خوف ناک سی آواز نکالی اور اس زور سے ہاتھ گھمایا کہ اگر روفی کے پڑ جاتا تو وہ زمین میں دھنس کر رہ جاتا، لیکن میری گناہ گار آنکھوں نے دیکھا کہ چچا جان کا ہاتھ روفی کے سر سے گزر گیا اور وہ چک پھیری کھا کررہ گئے۔ادھر روفی نے ایک زور دار چیخ ماری اور میرے ہاتھوں میں جھول کر رہ گیا۔ہم نے اس زور شور سے فریاد کی کہ درودیوار ہل گئے۔چڑیاں درختوں سے اُڑگئیں۔مکان کے برآمد میں سے خواتین دوڑی ہوئی آئیں۔ چچا شبراتی گھبرا کر بھاگ نکلے۔”ہائے مرنے والا بہت خوبیوں کا مالک تھا۔“انور موٹو چیخ چیخ کر مرثیہ پڑھنے لگا۔روفی آنکھ کھول کر بولا:”اتنی زور سے مت روکہ مجھے ہنسی آجائے اور بھالو!تم مجھے گد گدی کیوں کررہے ہو؟یاد رکھو ہوش میں آکر سب سے پہلے تمھاری ٹھکائی کروں گا۔“موٹو تعجب سے بولا:”اوہو!تو تم ابھی زندہ ہو۔لعنت ہی ایسی زندگی پر۔تم جی کر کیا کروگے؟تم کو تو ڈھنگ سے مرنا تک نہیں آتا۔“روفی نے پھر آنکھیں بند کرلیں۔خواتین ہمارے پاس آگئیں اور رونے پیٹنے میں شریک ہو گئیں تب میں نے آہستہ سے کہا:”شاید بے ہوش ہو گیا ہے۔“”اسے جوتا سنگھاؤ۔“موٹو نے بسورتے ہوئے کہا۔میں نے اسے ڈانٹا:”بے وقوف !مریض کو دودھ جلیبی کھلانی چاہیے۔“روفی کمزور رسی آواز میں بولا:”ہاں ہاں،مجھے دودھ جلیبی کھا کر ہی ہوش آئے گا۔“روفی کی دادی جان نے دس کا نوٹ بھالو کو دیا اور اس کے لئے جلیبیاں منگوائی گئیں۔وہ راستے میں پاؤ بھر جلیبیاں تو ویسے ہی اُڑا گیا۔بد قسمتی سے چچا شبراتی بھی ادھر آنکلے۔دادی نے انھیں خوب ڈانٹا۔آخر انھیں جان بچا کر دوبارہ فرار ہونا پڑا۔وہ دن اور آج کا دن چچا شبراتی جب بھی پٹائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پہلے اِدھر اُدھر دیکھ لیتے ہیں۔آج بھی انھیں شبہ ہے کہ تھپڑ نہیں لگا تھا اور روفی نے سب ڈراما کیا تھا،لیکن روفی کا اصرار کہ وہ پٹنے کے بعد بے ہوش ہوا تھا۔ " اہم چیز - تحریر نمبر 1656,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/eheem-cheez-1656.html,"جاوید بساموہ ایک ادیب کا کمرا تھا۔ویسا ہی جیسا ایک ادیب کے کمرے کو ہونا چاہیے۔ ہر طرف الماریاں تھیں،جن میں کتابیں اوررسالے بھرے تھے۔ایک لکھنے کی میز تھی،جس پر کاغذوں کے پلندے اور کہانیوں کے مسودے دھرے تھے۔دائیں دیوار کے ساتھ ایک سوفا رکھا تھا۔جب وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے تھک جاتا تو سوفے پر بیٹھ کر لکھنے لگتا۔ایک دیوار پر کیلنڈر لگا تھا۔جس پر گھنے جنگل میں جاتا راستہ نظر آرہا تھا۔ میز پر جہاں کچھ پرانی کتابیں رکھی تھیں۔وہاں پتیل کا ایک قلم دان بھی موجود تھا۔اس میں ایک بہت خوب صورت قلم اٹکا رہتا تھا۔ادیب ہمیشہ اسی قلم سے لکھتا، حالانکہ داز میں اور بھی قلم موجود تھے۔ایک طرف ریت گھڑی رکھی تھی،اگر چہ جدید گھڑیاں آچکی تھیں،مگر وہ پرانی چیزوں کا شوقین تھا اور وقت کا اندازہ اسی سے لگاتا تھا۔(جاری ہے)دیوار پر لگے ریک پر ایک باد بانی جہاز کا ماڈل بھی رکھا رہتا تھا۔بظاہر اس کا وہاں کوئی کام نہ تھا،مگر نہ جانے کیوں ادیب نے وہاں رکھا ہوا تھا۔ادیب اپنے کام سے فارغ ہو کر روزانہ دوپہر کے بعد وہاں آتا،کرسی پر بیٹھتا ،کاغذ آگے رکھتا اور قلم ہاتھ میں لے کر سوچ میں ڈوب جاتا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنی نئی کہانی کو ذہن میں ترتیب دے رہا ہے۔پھر کچھ دیر بعد وہ قلم چلانے لگتا۔یہ اس کا روز کا معمول تھا۔وہ شام تک وہاں رہتا پھر ٹہلنے نکل جاتا۔ایک دن جب کمرا خالی تھا۔قلم ،ریت گھڑی اور باد بانی جہاز آپس میں باتیں کرنے لگے۔قلم بولا:”اس کمرے میں سب سے اہم چیز میں ہوں۔میرے بغیر وہ کچھ نہیں لکھ سکتا۔“ریت گھڑی نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا:”اتنا غرور اچھا نہیں،اگر تم نہ ہو تو وہ کسی دوسرے قلم سے بھی لکھ سکتاہے۔“”میرا خیال ہے ،یہاں رکھی ہر چیز کی اہمیت ہے ،ورنہ وہ یہاں نہیں ہوتی ۔“باد بانی جہاز نے باتوں میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔قلم غصے سے بولا:”مجھے تو تمھارا یہاں کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔دیکھنا کسی دن وہ تمہیں اُٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دے گا۔“بادبانی جہاز طنزیہ انداز میں مسکراکر بولا:”پرانی کہاوت ہے”گدھا کیا جانے زعفران کا مزہ“ تمھیں نہیں پتا میں آرٹ کا ایک شاہکار ہوں۔مجھے ایک فن کارنے بڑی محنت سے تیار کیا تھا اور ادیب نے بھاری قیمت ادا کرکے مجھے خریدا تھا۔“”اور میں کئی بازاروں میں ڈھونڈنے کے بعد اسے ملی تھی۔“ریت گھڑی بولی۔”مگر تم دونوں اس کے کسی کام نہیں آتے۔کام صرف میں آتا ہوں۔تم تو بس یوں ہی رکھے رہتے ہو۔“قلم نے کہا۔ریت گھڑی ناگواری سے بولی:”میں بھی کام آتی ہوں۔گھر میں اور گھڑیاں بھی ہیں،مگر وہ وقت ہمیشہ میرے چہرے پر دیکھتا ہے۔“باد بانی جہاز نے اعتماد سے کہا:”تم نہیں جانتے،جب وہ لکھتے ہوئے کہیں اٹک جاتاہے تو اس کی نظریں مجھ پر ٹک جاتی ہیں۔جس سے اسے نئے خیالات آتے ہیں اس نے اپنی اکثر کہانیوں میں میرا ذکر کیا ہے۔“”اونہہ ،میں نہیں مانتا۔سب سے زیادہ اہمیت میری ہے۔میں اگر نہ ہوں تو وہ لکھے بھی نہیں۔“قلم غرور سے بولا۔”یہ تمھاری خام خیالی ہے۔ہم بھی اہمیت رکھتے ہیں۔“ریتے گھڑی بولی۔”اچھا، ایسی بات ہے تو ہاتھ کنگن کو آر سی کیا،ایسا کرتے ہیں۔ہم کچھ کچھ دیر کے لئے غائب ہو جاتے ہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کے بغیر کام رکتا ہے اور کس کے بغیر نہیں۔“قلم بولا۔ریت گھڑی اور باد بانی جہاز فوراً راضی ہو گئے۔کچھ دیر بعد جب ادیب کمرے میں آتا تو قلم اپنی جگہ سے غائب تھا۔ادیب کرسی پر بیٹھا،کاغذ آگے رکھا اور ہاتھ بڑھا کر قلم اُٹھانا چاہا تو قلم دان خالی تھا۔اس نے اِدھر اُدھر دیکھا،کتابوں کو اُلٹا پلٹا،مگر قلم نہیں ملا۔اس نے میز کے نیچے نظر دوڑائی ،لیکن وہ وہاں بھی نہیں تھا۔اس نے دراز کھولی وہاں کئی قلم موجود تھے۔اس کا ہاتھ انھیں اُٹھانے کے لئے بڑھا،مگر پھر وہ رک گیا اور ڈھیلے ڈھالے انداز میں کرسی کی پشت سے ٹک کر سوچ میں گم ہو گیا۔کچھ دیر یوں ہی گزر گئی،پھر وہ چونک کر اُٹھا۔ٹوپی جھاڑ کر سر پر جمائی اور گھر سے باہر نکل گیا۔اس کارخ شمال کی طرف تھا۔جہاں درختوں کی طویل قطاریں تھیں۔آج وہ چہل قدمی کے لئے جلدی چلا گیا تھا۔کچھ دیر بعد قلم واپس آگیا۔وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولا:”دیکھا تم لوگوں نے آج اس نے کچھ بھینہیں لکھا،کیونکہ میں موجود نہ تھا۔“وہ دونوں بولے:”اتنا خوش مت ہو۔ابھی ہماری باری باقی ہے۔“”پروا نہیں،مجھے معلوم ہے تم لوگ اس کے لئے اتنے اہم نہیں ہو۔“یہ کہہ کر قلم نے قہقہہ لگایا۔پھر وہ ساری رات خوشی سے گاتا رہا۔اگلے دن ریت گھڑی کی باری تھی۔جب ادیب کمرے میں آیا تو وہ غائب ہو چکی تھی۔اس نے کاغذ قلم سنبھالا اور سوچ میں ڈوب گیا۔پھر اس کی نظر اس سمت میں گئی جہاں ریت گھڑی رکھی تھی۔وہ جگہ خالی تھی۔وہ حیرانی سے اس جگہ کو تکنے لگا پھر کمرے میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں،مگر گھڑی کہیں نہیں تھیں۔وہ دروازے کی طرف منہ کر بولا:”میری ریت گھڑی کہاں گئی؟“اندر کہیں سے اس کو نک چڑی بیوی کی آواز آئی:”ہمیں نہیں پتا کہاں گئی ۔“اس نے اپنا سر کھجایا اور سادہ کاغذ پر نظریں گاڑھ دیں۔وہ اُنگلیوں میں قلم کو گھما رہا تھا۔کچھ دیر وہ اسی طرح بیٹھا رہا پھر اُٹھا اپنی ٹوپی جھاڑ کر سر پر جمائی اور باہر نکل گیا۔اس کا رخ شمال کی طرف تھا۔اس دن بھی وہ کچھ نہیں لکھ سکا تھا۔کچھ دیر بعد ریت گھڑی واپس آگئی۔وہ خوشی سے سر شار تھی۔وہ بولی :”لو دیکھو میری بھی اہمیت ہے۔وہ آج بھی کچھ نہیں لکھ پایا۔“قلم کا منہ ٹیڑھا ہو گیا۔اس رات ریت گھڑی بہت خوش تھی۔اس کی باریک ریت اوپر کے حصے سے گنگناتی ہوئی نیچے گرتی رہی۔تیسرے دن بادبانی جہاز کی باری آئی۔ادیب کمرے میں آیا تووہ غائب ہو چکا تھا۔اس نے حیران ہو کر پورے کمرے میں ڈھونڈا ،مگر وہ نہیں ملا۔وہ دروازے میں چلا آیا اور پکارا:”آج میرا بادبانی جہاز غائب ہے،روز میری کوئی نہ کوئی چیز غائب ہو جاتی ہے۔آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟“اس کی نک چڑی بیوی کی آواز آئی:”ہمیں نہیں پتا۔“وہ واپس پلٹا اور کاغذ قلم سنبھال کر بیٹھ گیا۔کچھ وقت یوں ہی گزر گیا پھر وہ اپنی ٹوپی جھاڑ کر سر پر جمائی اور گھر سے باہر نکل گیا آج بھی وہ چہل قدمی کے لئے جلدی چلا گیا تھا۔کچھ دیر بعد بادبانی جہاز واپس آگیا۔وہ ہنس رہا تھا۔اس کی ہنسی پانی میں ہچکولے کھاتے جہاز کی جلتر نگ جیسی تھی۔ ریت گھڑی بولی:”لوثابت ہو گیا۔ہم تینوں اس کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔“قلم نے ایک بار پھر منہ بنا لیا اور چپ سادھ لی۔اس کے پاس بولنے کے لئے اب کچھ نہیں بچا تھا۔اگلے دن سب چیزیں اپنی جگہ موجود تھیں۔ادیب حسب معمول کمرے میں آیا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔وہ سوچ میں گم تھا۔پہلے کچھ دیر تک وہ قلم کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا،پھر اس نے ریت گھڑی کو اُٹھایا اور غور سے اس کی گرتی ریت کو تکنے لگا پھر اسے رکھ کر ادیب کی سوچتی نظریں بادبانی جہاز پر جم گئیں۔وہ آگے جھکا اور اسے اپنی آنکھوں کے قریب لے آیا۔کچھ دیر وہ دیکھتا رہا۔پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔اسے ایک انوکھی کہانی کا خیال سوجھ گیا تھا جو ان تینوں کے گردگھومتی تھی۔اس نے قلم اُٹھایا اور کہانی لکھنی شروع کردی۔یہ کہانی جو آپ پڑھ رہے ہیں،وہ ہی تو نہیں ہے؟ " گلہری - تحریر نمبر 1655,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gulehri-1655.html,"محمد فرحان اشرفگلہری،کترنے والے جانوروں کے خاندان کا رکن ہے۔یہ ایسے جانور ہوتے ہیں جو اپنی خوراک کتر کتر کر کھاتے ہیں ۔مارموٹ ،پریری ڈاگ،چپ منک اور خود گلہری اس خاندان کے مشہوررکن ہیں۔ مارموٹ پہاری علاقے میں پائی جانے والی بڑی گلہری ہے۔یہ گڑھوں اور غاروں میں اپنا گھر بناتی ہے اور شدید سردی کا موسم سو کر گزارتی ہے۔یہ عام طور پر سرخ یا بھورے رنگ کی ہوتی ہے۔پریری ڈاگ براعظم شمالی امریکا کے گھاس کے میدانوں میں پائی جاتی ہے۔یہ زمین میں سرنگیں بنا کر رہتی ہے۔اس کا جسم موٹے چوہے کے برابر ہوتا ہے۔یہ عام طور پر ہلکے سرخ،سلیٹی یا سفید رنگ کی ہوتی ہے۔چپ منک شمالی امریکا کے جنگلوں میں پائی جاتی ہے۔یہ درختوں کے نیچے لمبی لمبی سرنگیں بنا کر رہتی ہے۔(جاری ہے)اس کا جسم چھوٹا اور گال پھولے ہوئے ہوتے ہیں۔یہ اپنے گالوں میں خوراک ذخیرہ کرتی ہے۔ دنیا میں گلہریوں کی250 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔اس جانور کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ درختوں پر رہنے والی،زمینی اور اُڑنے والی گلہریاں۔درختوں پر رہنے والی گلہریاں دنیا میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔یہ زیادہ وقت درختوں پر رہتی ہیں۔کھانے کی تلاش میں زمین پر آتی ہیں۔درختوں یا بڑی بڑی شاخوں میں گھر بنا کررہتی ہیں۔اس کی مشہور اقسام سکیورس،سرخ اور لومڑ گلہری ہیں۔زمینی گلہریاں زمین میں سرنگ بنا کر رہتی ہیں۔یہ اپنے پچھلے پیروں پر کھڑی ہوجاتی ہیں۔چپ منک، مارموٹ اور پریری ڈاگ زمینی گلہریاں ہیں۔اُڑن گلہریوں کے پچھلے پیروں کے درمیان جھلی ہوتی ہے۔ یہ ایک درخت سے دوسرے درخت تک لمبی چھلانگ لگاتی ہیں۔ہوا میں اُڑتے ہوئے اپنی دُم کی مدد سے توازن قائم رکھتی ہیں۔اس کی 44ذیلی اقسام بھی ہیں۔یہ سائبیریا کے علاوہ بحیرہ بالٹک سے بحرا لکاہل تک کے جزائر میں پائی جاتی ہیں۔گلہری کا جسم پتلا،دُم گھنی اور آنکھیں بڑی ہوتی ہیں۔اس کی دُم ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگ لگاتے ہوئے پیرا شوٹ کا کام دیتی ہے۔یہ اپنی دُم سے جگہ صاف کرنے اور تیز دھوپ میں سر پر سایہ کرنے کا کام بھی لیتی ہے۔اس جانور کی دُم کے بالوں سے بہترین قسم کے برش تیار کیے جاتے ہیں،جن سے مصور تصویریں بناتے ہیں۔اس جانور کا شمار ان جانوروں میں ہوتاہے،جو اپنی دُم سے بہت کام لیتے ہیں۔اس کی کھال نرم اور ملائم ہوتی ہے۔اس کی چند اقسام میں کھال کافی موٹی ہوتی ہے۔اس کا رنگ اقسام کے لحاظ سے مختلف ہو سکتاہے۔ہمارے ہاں پائی جانے والی گلہری کا رنگ سلیٹی ہوتاہے۔اس کے جسم کی لمبائی دُم سمیت 13انچ سے لے کر تین فیٹ تک ہوتی ہے۔اس کے ہر پاؤں میں چھوٹی چھوٹی چار سے پانچ انگلیاں ہوتی ہیں۔اس کی اگلی ٹانگیں چھوٹی ہوتی ہیں اور ایک انگوٹھا نما اُبھار بھی اگلے پیروں پر ہوتاہے ۔اس کے پاؤں کے نیچے نرم تلوے ہوتے ہیں۔اس کے دانت بہت مضبوط اور تیز ہوتے ہیں۔اگلے دو دانت بڑے ہوتے ہیں۔یہ اپنے اگلے دانتوں سے خوراک کترنے اور توڑنے کا کام لیتی ہے۔خوراک پیسنے والے دانت اس کے منہ کے اندر ہوتے ہیں۔یہ اپنے دانتوں کو لکڑی کے ساتھ رگڑ کر تیز کرتی رہتی ہے۔ گلہریاں درختوں پر بڑی تیزی کے ساتھ چڑھتی ،اُترتی ہیں۔بجلی کی طرح تیزی سے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگ لگاتی ہیں۔درخت پر گلہریوں کو کوئی شکار نہیں کر سکتا۔جہاں پر در خت کثرت سے ہوں،وہاں پر گلہریاں پائی جاتی ہیں۔گلہریاں سوائے انٹار کٹکا اور آسٹریلیا کے ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔یہ بہت پیاری اور پھر تیلی ہوتی ہیں اور انسانوں سے جلد مانوس ہو جاتی ہے۔یہ ہر وقت دوڑتی پھرتی ہے،صرف اُس وقت بیٹھتی ہے،جب کچھ کھاپی رہی ہو۔اسے درختوں کا چوہا بھی کہا جاتاہے۔گلہری بہار کے موسم میں دو سے پانچ تک بچے دیتی ہے۔پیدائش کے وقت ان بچوں کے جسم پر کھال نہیں ہوتی اور یہ اندھے بھی ہوتے ہیں۔دو تین ہفتوں کے اندر اندر یہ چلنے پھرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔گلہری کے دشمن ،کتا ،بلی ،عقاب اور لومڑی وغیرہ ہیں۔یہ اندشمنوں سے ہر وقت چوکنا رہتی ہے۔زمین پر رہنے والی گلہریاں گروہ کی شکل میں رہتی ہیں۔ایک گلہری ان کی گروپ لیڈر ہوتی ہے،جو چاروں جانب نگاہ رکھتی ہے۔خطرہ محسوس ہوتے ہیں وہ تیز سیٹی نما آواز منہ سے نکالتی ہے،سب گلہریاں خبر دار ہو کر بھاگ جاتی ہیں۔ درختوں پر رہنے والی گلہریاں خشک پھل اور پھول کھاتی ہیں۔ان کی کچھ اقسام پرندوں کے انڈے اور بچے بھی کھا لیتی ہیں۔ان کی پسندیدہ خوراک درختوں کی چھال ہے۔زمینی گلہریاں خشک پھل،پھول ،درختوں کی چھال،پودوں کی جڑیں اور کیڑے مکوڑے کھاتی ہیں۔اُڑن گلہریاں بھی یہی خوراک کھاتی ہیں۔زمین اور درختوں پر رہنے والی گلہریاں گرمیوں کے موسم میں خوراک جمع کرکے زمین کے اندر یا پرانے درختوں کی کھوؤں میں محفوظ کر دیتی ہیں۔سردی کے موسم میں خوراک دستیاب نہ ہونے کی صورت میں گلہریاں محفوظ کی ہوئی خوراک کھاتی ہیں۔گلہریاں کمزور یاد داشت کی مالک ہوتی ہیں۔اس لئے اکثر خوراک محفوظ کرکے بھول جاتی ہیں،لیکن ان کے سونگھنے کی حس تیز ہوتی ہے،جس سے یہ اپنی محفوظ کی ہوئی خوراک تلاش کر لیتی ہیں۔”راٹو فا“دنیا میں پائی جانے والی سب سے بڑی گلہری ہے۔یہ بھارت اور نیپال کے جنگلات میں پائی جاتی ہے۔اس کا جسم تین فیٹ تک لمبا ہوتاہے۔بیس سے چالیس فیٹ تک ہوا میں چھلانگ لگا سکتی ہے،جب کہ دنیا کی سب سے چھوٹی گلہری افریقی بونی ہے۔یہ گیبون، استوائی گنی اور کانگو میں پائی جاتی ہے۔اس کا جسم 70ملی میٹر لمبا ہوتاہے۔پاکستان میں بھی ایک گلہری دیہات میں عام پائی جاتی ہے۔یہ انڈین پام کہلاتی ہے۔اس کی جسامت چوہے جتنی ہوتی ہے۔اس کی دُم چھوٹی اور گھنی ہوتی ہے۔اس کی کھال کا رنگ پشت پر بھورا ہوتا ہے ،جس پر تین سفید پٹیاں نمایاں نظر آتی ہیں۔اس کے پیٹ کی کھال سفید ہوتی ہے۔کان چھوٹے اور تین کونوں والے ہوتے ہیں۔یہ خطرے کے وقت چپ چپ کی آواز نکالتی ہے۔گلہریاں کمزور یاد داشت کی مالک ہوتی ہیں۔اس لئے اکثر خوراک محفوظ کرکے بھول جاتی ہیں۔کاش!ہم نے گلہری سے نیکی کرکے بھول جانے کی صفت ہی لے لی ہوتی۔ " عظیم انسان - تحریر نمبر 1654,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azeem-insaan-1654.html,"پروفیسر ڈاکٹر فضل حق فاروقیعام دنوں کی طرح آج بھی کلینک میں مریضوں کا ہجوم تھا۔ہر شخص اپنی باری کا ٹوکن لینے کی کوشش کررہا تھا۔کلینک نے ایک چھوٹے سے ہسپتال کی شکل اختیار کرلی تھی،جس میں دس بارہ مریضوں کے لئے بستر بھی تھے۔میں جب بھی بیمار ہوتا ہوں تو اسی ہسپتال کے ڈاکٹر صاحب سے علاج کرواتا ہوں۔ڈاکٹر صاحب کا معمول تھا کہ دوپہر دو بجے کلینک آتے اور رات دیر تک کلینک میں موجود مریضوں کا معائنہ کرتے۔ہر شخص پرچی پر لکھے ہوئے نمبر کے مطابق ڈاکٹر صاحب سے حال کہہ کر دوا لکھواتے تھے۔دوبجے دوپہر کو جب ڈاکٹر صاحب آئے تو خاموشی چھاگئی۔ڈاکٹر صاحب کا معمول تھا کہ کلینک پر آتے ہی کلینک پر کام کرنے والے تمام لوگوں کے متعلق معلوم کرتے کہ سب آگئے ہیں یا کوئی غیر حاضر ہے۔(جاری ہے)آج ڈاکٹر صاحب کو کمپاؤنڈر لڑکے نے بتلایا کہ انکل رحمان کے علاوہ سب لوگ آگئے ہیں۔آج انکل رحمان کو کلینک میں آنے میں کچھ دیر ہو گئی تھی۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی کرسی پر بیٹھ کر ابھی کام شروع ہی کیا تھا کہ انکل رحمان اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ مٹھائی کے دس بارہ ڈبے لے کر آئے۔انکل رحمان نے ڈاکٹر صاحب کو سلام کیا اور کہا:”ڈاکٹر صاحب!آپ یہ مٹھائی خود بھی کھائیں اور کلینک میں موجود تمام لوگوں میں تقسیم کروادیں۔“ڈاکٹر صاحب نے حیران ہو کر پوچھا:”رحمان صاحب!کیا آج آپ کی کوئی لاٹری نکل آئی ہے جو یہ مٹھائی تقسیم کررہے ہیں۔“رحمان انکل نے کہا:”ہاں،ڈاکٹر صاحب!آج اللہ نے میرے اوپر بہت مہربانی کی ہے۔اللہ کے فضل وکرم سے میرا بڑا بیٹا ڈاکٹر بن گیا ہے اور اب وہ بھی آپ کی طرح مریضوں کا علاج کیا کرے گا۔“ڈاکٹر صاحب بہت حیران ہوئے اور پوچھا:”آپ نے کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ آپ کا بیٹا میڈیکل کی تعلیم لے رہا ہے۔آپ نے ضرور کوئی بڑی نیکی کی ہو گی۔“رحمان انکل نے کہا:”ڈاکٹر صاحب!آپ کے اس ہسپتال میں روزانہ دو،تین سو مریض علاج کے لئے آتے ہیں۔ان میں بہت سے انتہائی غریب بھی ہوتے ہیں۔میں آپ سے کہتا تھا کہ روزانہ کم از کم دس مریضوں کا علاج مفت کیا جائے ،مگر آپ نے میری درخواست پر توجہ نہیں کی۔میں جب غریب اور نادار مریضوں کو دیکھتا تو مجھے بہت دکھ ہوتا میں نے اللہ کا نام لے کر نیکی کا ارادہ کیا اور روزانہ دو تین مریضوں کے ٹوکن اپنے پاس سے اور دوائی بھی دلواتا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ میری اس چھوٹی سی نیکی کی برکت سے ہی اس دوران میرے بیٹے نے ایف ایس سی میں بہت اعلیٰ نمبر حاصل کیے۔میری خوشی کی انتہا نہ رہی، پھر میں نے مزید نیکی کا ارادہ کیا جتنی تنخواہ لیتا تھا،اس کا ایک تہائی حصہ ہر ماہ غریب مریضوں پر خرچ کرنے کا ارادہ کیا۔میرے گھر والوں نے سادگی اختیار کی۔آپ دوپہر میں کلینک کھولتے ہیں لہٰذا صبح کے وقت میں نے ایک سکول میں نوکری کر لی،لیکن اپنے بیٹے کی تعلیمی ضروریات میں کمی نہ آنے دی۔یوں سمجھ لیجیے ڈاکٹر صاحب!کہ میں نے اللہ کے پاس کمیٹی ڈال دی تھی۔اللہ کی مہربانی سے میری کمیٹی نکل آئی اور میرے کو آسانی سے میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا تھا اور آج اللہ نے اس کو ڈاکٹر بھی بنا دیا ہے میں اپنے رب کا بہت شکر گزار ہوں۔ڈاکٹر صاحب!اب میں اپنا آبائی مکان فروخت کردوں گا اور خود کرائے کے مکان میں رہ کر اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیج دوں گا۔“انکل رحمان کی باتیں سن کر کلینک میں موجود تمام لوگوں نے دل میں تہیہ کیا کہ وہ بھی اللہ کے پاس کمیٹی ڈالیں گے اور غریبوں کی مدد ضرور کریں گے۔ڈاکٹر صاحب نے اُٹھ کر انکل رحمان کو سلیوٹ کیا اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:”آپ عظیم انسان ہیں آج سے ہسپتال میں مستحق مریضوں کا علاج مفت ہو گا۔مجھے کسی صلے کی ضرورت نہیں۔ اللہ نے مجھ پر بہت کرم فرمایا ہے۔آپ نے میرے دل میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ " پھول ناراض نہیں ہوں گے - تحریر نمبر 1652,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/phool-naraz-nahi-hoon-ge-1652.html,"نذیر انبالویدادی جان نے عبداللہ کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو انھیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ بخار کی شدت میں خاصی کمی ہو گئی ہے۔وہ ساری رات اپنے پوتے کی چار پائی کے قریب بیٹھی رہی تھیں۔عبداللہ کی والدہ دو سال پہلے ایسے ہی موسم میں اللہ تعالیٰ کے پاس چلی گئی تھیں۔عبداللہ اس وقت آٹھ سال کا تھا۔ماں کی جدائی میں وہ خوب رویا،آخر صبر آہی گیا۔سردیوں نے اپنی آمد کا اعلان کیا تو عبداللہ کو کشمیری سبز چائے کی یاد ستانے لگی۔دادی جان خود بیمار تھیں۔گھر کا کام کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔کار خانے جانے سے پہلے ابوجا ن گھر کا کچھ کام کر دیتے اور باقی کام دادی جان دن بھر میں کرتیں۔انھیں معلوم تھا کہ عبداللہ کو سبز چائے بہت پسند ہے ۔وہ ہر روز ایک مرتبہ اپنے پوتے کے لئے سبز چائے بناتیں۔(جاری ہے)عبداللہ مزے دار سبز چائے چسکیاں لے لے کر پیتا اور ہر گھونٹ پر”واہ واہ‘کرتا جاتا۔باورچی خانے میں الماری میں چار کپ دکھائی دیتے تھے۔ہر کپ پر ایک ایک تصویر تھی۔تین کپ تو ہر روز استعمال ہوتے تھے۔بس ایک کپ الماری ہی میں رکھا رہتا۔وہ کپ عبداللہ کی امی جان کا تھا۔ عبداللہ جب بھی باورچی خانے میں آتا اس کی نظر کپ پر پڑتی تو بے اختیار سے امی جان کی یاد آجاتی۔کیا خوب صورت دن تھے۔جب موسم بہار میں پہاڑیوں پر رنگ برنگے پھول کھلتے تو عبداللہ امی جان کی اُنگلی پکڑے ان پھولوں کو دیکھنے ضرور جاتا۔پھول تو اس بار بھی کھلے تھے،مگر اس بار امی جان نہیں تھیں۔اب کی بار اس کی انگلی دادی جان نے پکڑی تھی۔ایک رنگ برنگے پھول کو دیکھتے ہوئے اچانک اس نے سوال کیا:”کیا ہم ایسے پھول گھر میں اُگاسکتے ہیں؟“”ہاں ،میرے بیٹے!ایسا کیا تو جا سکتاہے۔“دادی جان نے محبت بھرے انداز میں جواب دیا۔عبداللہ نے گھر میں پھول اُگانے کے لئے اپنے دوست دانیال کے ابو کی مدد لی۔دانیال کے ابو کی پودوں کی نرسری تھی۔زمین کی تیاری سے لے کر پھولوں کے ننھے ننھے پودے اُگانے تک ایک تجربہ کار مالی نے عبداللہ کی رہنمائی کی۔پودوں کی حفاظت عبداللہ کے ساتھ ساتھ دادی جان نے بھی اپنے ذمے لے لی تھی۔اب تو ہر روز عبداللہ پودوں کو پانی دیتا۔ہر پودے کو غور سے دیکھتا۔ننھے ننھے پتوں پر اوس کے قطرے جب سورج کی روشنی سے چمکتے تو بہت بھلے دکھائی دیتے۔عبداللہ کی جب بھی آنکھ کھلتی،وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کھول کر پودوں پر نگاہ ڈالتا۔وقت کے ساتھ ساتھ پودے بڑھتے چلے گئے۔اس دن تو عبداللہ کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔جب دو تین پودوں پر کونپلیں پھوٹ پڑیں تھیں۔دادی جان نے اسے بتایا کہ اب ان کونپلوں سے پھول نکلیں گے۔پیارے پیارے،خوب صورت پھول۔عبداللہ کو اس روز کا شدت سے انتظار تھاجب پھولوں کو ان کے آنگن میں کھلنا تھا۔اگلے دن عبداللہ نے سکول جاتے ہوئے اور پھر واپس آتے ہی کونپلوں کو غور سے دیکھا۔وہ چھٹی کا دن تھا۔عبداللہ نے بستر سے نکل کر کھڑکی کے پٹ کھولتے تو ایک پودے پر کھلے ہوئے پھول پر اس کی نظر پڑی تو وہ خوشی سے بھاگتا ہوا کمرے سے باہر آکر چلانے لگا:”دادی جان،ابو جان،دادی جان،!ابو جان!“دادی جان تو تھوڑی دیر کے بعد باہر آئیں۔پہلے ابو جان اس کے سامنے سوالیہ نشان بنے کھڑے تھے۔”ابو جان!وہ دیکھیے کتنا خوب صورت پھول کھلا ہے،آپ خود دیکھ لیجیے۔“ابو جان اور دادی جان نے عبداللہ کو ایک عرصے کے بعد اتنا خوش دیکھا تھا۔امی جان کے دنیا سے جانے کے بعد وہ مر جھا سا گیا تھا۔دادی جان نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا:”میرے آنگن کا پھول اسی طرح کھلا رہے۔“عبداللہ کے گھر میں بنے چھوٹے سے باغیچے میں پھول کھلتے ہی چلے گئے۔وہ ان رنگ برنگے پھولوں کے بارے میں اپنے دوستوں کو بتاتے ہوئے بہت فخر محسوس کرتا۔اپنے ماموں زاد بھائی شارق کو ان پھولوں کی تصویریں واٹس ایپ کیں تو اس نے لکھا کہ وہ جلد آکر ان پھولوں کو دیکھے گا۔آنگن کے ساتھ ساتھ پہاڑیوں کے پھولوں نے بھی اپنی بہار د کھانا شروع کر دی تھی۔بہارکے موسم میں وادی کشمیر پھولوں کی خوشبو سے مہک اٹھتی ہے۔عبداللہ نے اس موسم بہار میں شارق کے ساتھ پہاڑیوں پر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔شارق نے اتوار کو اس کے پاس آنے کے لئے کہا۔سب تیاریاں مکمل تھیں۔عبداللہ نے ایک بیگ میں کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھ لی تھیں۔شارق کے آنے سے ایک دن پہلے پورے علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا۔دادی جان نے اسے بتایا کہ ان حالات میں کوئی اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتا۔ابو جان بھی کار خانے نہ جا سکے۔سکول بھی بند تھا۔کچھ دن تو موبائل فون کی سہولت حاصل تھی،پھر وہ سہولت بھی ختم ہو گئی۔سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے۔عبداللہ اپنے آنگن میں کھلے پھول دیکھ کر تو خوش تھا ہی اس کی خواہش تھی کہ وہ پھولوں کو دیکھنے کے لئے پہاڑیوں پر بھی جائے۔اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پھول اس کا انتظار کررہے ہیں۔جب بھی کرفیو میں ذرا نرمی ہوتی وہ دادی جان کی اُنگلی پکڑ کر ضد کرتا:”چلیں پہاڑیوں پر پھول دیکھنے کے لئے۔“دادی جان اس سے کہتیں:”پہاڑ دور ہیں،کرفیو پھر لگ جائے گا،واپسی نہیں ہو سکے گی۔“”ہم واپس نہیں آئیں گے،پھولوں کے پاس ہی رہیں گے،چلیے دادی جان!“عبداللہ کی معصومیت پر دادی جان کو پیار آجاتا وہ آخر اپنے پیارے پوتے کو کس طرح سمجھاتیں۔عبداللہ اپنی ضد پر اَڑا رہا۔ضد کرتے کرتے وہ رو دیا تھا۔دادی جان اور ابو جان اس کے سرخ وسپید رخساروں پر پھیلتے آنسو دیکھ کر تڑ پ کر رہ گئے تھے۔دادی جان نے اُسے گود میں بیٹھا لیا تھا۔عبداللہ کا جسم گرم تھا۔ شام تک بخار کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی،اس لئے گھر میں جو دوا تھی ،وہ عبداللہ کو پلادی گئی۔جب بخار کی شدت زیادہ ہوئی تو دادی جان نے ٹھنڈی پانی میں تولیہ ڈبو کر اس کی پیشانی پر رکھ دیا۔یہ عمل وہ رات بھر دہراتی رہیں۔صبح تک بخار خاصا کم ہو گیا تھا۔ سورج نے کھڑکی سے جھانک کر اپنی آمد کی خبر دی تو عبداللہ نے آنکھیں کھول دیں۔کھڑکی کا پٹ کھلتے ہی اپنے آنگن میں کھلے پھولوں پر اس کی نظر پڑی تو اس کی آنکھوں کے سامنے پہاڑیوں پر کھلے پھول لہلہانے لگے۔”دادی جان!وہ پہاڑیوں کے خوب صورت پھول․․․․․“##ابھی باہر کر فیو ہے ،ہم وہاں نہیں جا سکیں گے۔“دادی جان نے اس کی بات درمیان سے اُچک لی تھی۔”کرفیو کب ختم ہو گا؟“عبداللہ نے پوچھا۔”معلوم نہیں،یہ کر فیو کب ختم ہو گا۔“”پھول مجھ سے ناراض تو نہیں ہوں گے۔وہ میرا انتظار تو کررہے ہوں گے؟“عبداللہ کی معصوم باتوں پر صدقے واری جاتے ہوئے دادی جان بولیں:”پھول تم سے ناراض نہیں ہوں گے۔انھیں معلوم ہے کہ تم ان کے پاس کیوں نہیں آئے۔ناشتا کرکے دوا کھالو،وہ دن ضرور آئے گا جب ہم پھولوں کی وادی میں جائیں گے۔“”دادی جان!وہ دن کب آئے گا؟“عبداللہ نے اپنے آنگن میں بہار دکھاتے پھولوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔”وہ دن بہت جلد آئے گا۔“دادی جان نے جواب دیا۔عبداللہ کو اس دن کا انتظار ہے جب وہ وادی میں پھولوں سے ملنے جائے گا۔وہ دن خدا جانے کب آئے گا! " یوم یکجہتی - تحریر نمبر 1651,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/youm-e-yakjehti-1651.html,"سردار سر فراز ڈوگرہر سال 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بڑے جوش اور جذبے سے منایا جاتاہے اس سلسلے میں سرکاری وغیر سرکاری سکولوں میں تقاریب کا اہتمام کیا جاتاہے،بچے کشمیر کے حوالے سے تقاریر کرتے ہیں اور اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ وقت آنے پر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے کیونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔پاکستانی اپنی شہ رگ کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔کسی بھی قوم کا نو جوان طبقہ جب اپنے آپ کو مظلوم ومحکوم پاتاہے تو قدرتی طور پر اس کے اندر آزاد ہونے کا جوش اور جذبہ انگڑائی لیتاہے کیونکہ ایک طرف تو غلامی کا احساس ،جبکہ دوسری طرف قومی جذبہ کی حرارت اسے تڑپاتی ہے لہٰذا یہی تڑپ اسے متحرک کرکے ایک بہترین حریت پسند بنا دیتی ہے اور وہ اپنی قوم کی آزادی حاصل کرنے کے لئے ہر وقت ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہتاہے اس معاملہ میں اگر بچوں یا نوجوان طبقہ کو تاریخ سے روشناس یا آگاہ نہ کرایا جائے تو قوم کے یہ بچے اور نوجوان نسل علمی طور پر نہ تو محب وطن بن سکتے ہیں اور نہ ہی قومی جذبات ان کے اندر پیدا ہو سکتے ہیں۔(جاری ہے)بچوں اور نوجوانوں کی تربیت اور آگاہی کے لئے ضروری ہے کہ انہیں نہ صرف اپنی تاریخ بلکہ تمام تر تواریخ کا درس دینا چاہیے ان کے لئے یہ آگاہی اس لئے ازحد ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ ملک وملت کے لئے ایک تنآور اور پھل دار درخت کی صورت اختیار کر پائیں ،وہ معاشرے کے مفید اور کار آمد شہری کہلائیں،ملک وقوم ان سے فائدہ حاصل کر سکیں۔کچھ ایسی یہ صورتحال اس وقت کشمیر کے اندر دکھائی دیتی ہے ہمارے کشمیری بہن بھائی اور بڑے بزرگ بھی آزادی چاہتے ہیں،وہ اپنا حق مانگتے ہیں لیکن انہیں ان کے جائزحقوق سے محروم رکھا جارہا ہے جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے،حکمران نے کشمیر کا نعرہ تو لگایا اور یقینا کوشش بھی کی ہو گی لیکن کوئی بھی حکمران کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کروا سکا ،ہمارے کشمیری بھائی بچے اور بوڑھے اپنی آزادی حاصل کرنے کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں اور دیتے رہیں گے ،آئے روز ان پر ظلم کیا جاتاہے جس وجہ سے کشمیری قوم اور بالخصوص نو جوان نسل کے اندر ایک احساس محرومی پائی جاتی ہے جسے احساس محکومی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔بھارت غاصب بن کر ایک کروڑ سے زائد مسلمانان کشمیر کو محکوم بنا کر ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہوئے ہے۔مظلوم عورتوں اور بچوں تک کو اپنی وحشت کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔نہایت بوڑھے اور بزرگ افراد پر بھی ظلم وجبر سے باز نہیں آتا اور نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ پورے کشمیر میں دندناتا پھرتاہے۔عورتوں اور بچوں پر ظلم کرنا،انہیں تشدد کا نشانہ بنانا وہ اپنی دلیری اور بہادری سمجھتاہے کئی ایک واقعات ایسے بھی سامنے آئے کہ ان بھارتی درندوں نے معصوم بچوں کو گولیوں سے بھون ڈالا، نوجوانوں کو اندھا کر دیا اور کئی ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ کمسن بچوں کو سنگین جرائم میں ملوث کرکے انہیں عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ان میں سے بیشتر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان پر کون سا جرم عائد کیا گیا ہے۔یہاں تک کہ چند برس قبل ایک دو سال کی بچی پر مقدمہ درج تھا پولیس رپورٹ کے مطابق اس بچی نے پولیس پر اس وقت حملہ کیا تھا جب پولیس اس کے والدکو گرفتار کرنے آئی تھی رپورٹ پر یہ لکھا گیا ہے کہ اس نے نہ صرف پولیس کو مارا بلکہ پولیس سے اپنے والد کو رہا کروالیا اس سے بڑا اور جھوٹ کیا ہو گا کیا دو سال کی بچی یہ کام کر سکتی ہے؟بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں واقع بچوں کی طبی نگہداشت کیلئے واحد ہسپتال ہے جہاں اب تک سینکڑوں بچے موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں۔جہاں ہسپتال کا یہ عالم ہے وہاں عام بچے کو اس طرح زندگی گزار رہے ہوں گے ان پر کیا بیت رہی ہو گی۔صرف یہی نہیں اب تک کئی بچوں اور عورتوں کو زندہ جلا ڈالا۔بچوں کے سامنے ان کی ماؤں بہنوں پر ایسے ہتھکنڈے استعمال کئے جسے سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔انہیں ذہنی وجسمانی تکلیفیں دی گئیں مگر آسمانوں کو چیرتی ہوئی ان کی دلخراش صدائیں اور آہ وبکا بھی ان بھارتی ظالموں اور درندوں کے دلوں میں رحم پیدا نہ کر سکی۔ان سب مظالم کے باوجود کشمیر عورتیں، نوجوان ،بوڑھے اور بچے اپنے ایمان کی روشنی اور وادی کی حفاظت میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور یقینا دیتے رہیں گے۔ان کے حوصلے پہاڑوں سے بلند اور چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہیں کشمیر کا بچہ بچہ آزادی چاہتا ہے اور آزادی کے نعرے لگاتا ان بھارتی درندوں کے سامنے میدان میں نکل پڑتاہے۔ان کے اندر آزادی کی تڑپ نے مرنے کا خوف نکال دیا۔وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں مگر غلامی کے ساتھ نہیں۔وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں مگر بزدلی کے ساتھ نہیں،وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں مگر بے حمیتی کے ساتھ نہیں۔وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں مگر محکومی کے ساتھ نہیں وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں مگر بے بسی کے ساتھ نہیں ہاں!وہ سب زندہ رہنا چاہتے ہیں مگر وقار کے ساتھ عزت کے ساتھ،آزادی کے ساتھ ،شان کے ساتھ،ہمت کے ساتھ،غیرت کے ساتھ جوایک زندہ قوم کا حق ہے اور زندہ قومیں ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔آج تمام کشمیری بھائی،بہنیں، بوڑھے،جوان اور بچے ہندو بنیے اور بھارت فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ہیں اور اپنا حق مانگ رہے ہیں۔آزادی کا حق جسے کافروں نے جبراً چھین رکھا ہے اور وہ وقت بھی اس وقت زیادہ دور نہیں جب کشمیری نو جوان اور کشمیر کا بچہ بچہ اپنا آزادی کا یہ حق بھارت سے چھین لے گا اور کشمیر کی یہ خوبصورت اور حسین وادی اپنے تمام تر حسن کے ساتھ آزاد ہواؤں اور فضاؤں میں مہک اٹھے گی ۔انشاء اللہ " اُونٹ رے اُونٹ - تحریر نمبر 1649,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ont-rey-ont-1649.html,"آؤ بچو ایک کہانی سنو،کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔اس بادشاہ نے اپنے محل کے باہر ایک خوبصورت گھر بنایا تھا۔اس گھر میں ایک بہت بڑا دالان تھا۔دالان میں بہت سے جانور رہتے تھے۔وہ جانور صبح سے شام تک کام کرتے تھے۔کام کرنے کی شرط یہ تھی کہ بادشاہ کی ملکہ خود کھانا پکا کر انہیں دوپہر کو کھلایا کرے،لیکن ملکہ بڑی سست عورت تھی۔ہر روز کوئی نہ کوئی بہانا ڈھونڈلیتی ۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ سرے سے کھانا ہی نہ پکاتی اور سب جانور بھوکے رہ جاتے۔ایک دن کا ذکر ہے ،ملکہ نے کھانا پکانے میں دیر کر دی۔جانور کام کرتے کرتے تھک گئے تھے اور بھوک سے نڈھال ہورہے تھے۔سب نے بادشاہ کے پاس شکایت کی۔بادشاہ نے ملکہ کو بلا کر ڈانٹا اور کہا کہ یہ جانور بے چارے دن بھر کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور تم ذرا بھی ان کا خیال نہیں کرتیں۔(جاری ہے)بُری بات ہے ۔اس پر ملکہ ناراض ہو گئی اور محل چھوڑ کر چلی گئی اور شہر سے دور ایک سرائے میں روٹھ کر بیٹھ گئی۔اُدھر بادشاہ اور جانوروں کو ملکہ کے روٹھ کر چلے جانے کا بڑا افسوس ہوا ۔وہ ملکہ کے بغیر اداس تھے۔کام میں ان کا جی نہیں لگتا تھا۔آخر وہ سب کے سب مل کر بیٹھے اور مشورہ کرنے لگے کہ کسی نہ کسی طرح ملکہ کو واپس لانا چاہیے۔صلاح ٹھہری کہ پہلے چڑیا کو بھیجا جائے۔چڑیا نے پَر پھڑ پھڑائے اور اُڑگئی۔اُڑتی گئی،اُڑتی گئی ،یہاں تک کہ سرائے کی دیوار پر جا کر بیٹھ گئی اور ملکہ سے کہا:”ملکہ صاحبہ! آپ ناراض نہ ہوں ہم آپ کو کسی طرح کی تکلیف نہیں دیں گے۔خود ہی کھانے کا بندوبست کر لیں گے۔آئیے محل کو چلیں۔“ملکہ نے کہا:”بھاگ جاؤ میں نہیں آؤں گی۔“چڑیا بے چاری غم کی ماری لوٹ آئی۔جانوروں نے جب یہ سنا کہ چڑیا ناکام لوٹ آئی ہے تو انہوں نے فیصلے کے مطابق بلی کو بھیجا۔بلی روانہ ہو گئی!چلتی گئی چلتی گئی،یہاں تک کہ سرائے میں داخل ہوئی۔ملکہ کو بڑے ادب سے سلام کیا اور کہا:”پیاری ملکہ!ہم نے اپنی من موہنی چڑیا کو بھیجا۔اس نے بڑی چیں چیں کی،آپ نہیں مانیں۔آئیے گھر چلیں۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ آپ سے کھانا نہیں مانگوں گی۔اپنے کھانے کا خود ہی انتظام کرلوں گی۔“ملکہ نے کہا:”نہیں میں نہیں آؤں گی۔“بلی بے چاری بھی مایوس ہو کر واپس آگئی۔اب چوہیا اُٹھی۔اس نے بھی جا کر ادب سے سلام کیا۔پھر کہا:” چڑیا نے چیں چیں کیا،آپ نہیں مانیں ،بلی میاؤں میاؤں کرتی آئی۔آپ نے انکار کر دیا۔اب میں آئی ہوں،تشریف لے چلیے،میں اپنی نرم اور نازک دم سے آپ کو پنکھا جھلوں گی“۔لیکن ملکہ پھر بھی نہ مانی۔اب کوے کی باری آئی۔وہ تیزی سے اُڑا اور کائیں کائیں کرتا سرائے میں ملکہ کے پاس پہنچا اور کہا:”ملکہ حضور !چڑیا نے چیں چیں کی۔بلی نے میاؤں میاؤں کی۔چوہیا نے دم ہلائی ،آپ پھر بھی نہیں مانیں۔آئیے میرے ساتھ آئیے“ ․․․․․ملکہ نے پھر انکار کر دیا۔اب گدھے نے اپنا پالان اٹھایا اور بڑے ناز نخرے سے اچھلتا ،کودتا،ناچتا ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا سائے میں جا پہنچا اور ملکہ کو پہلے بہت ہی ادب سے سلام کیا ،پھر کہا:”چڑیا نے چیں چیں کی،آپ نہیں مانیں،بلی نے میاؤں میاؤں کی آپ نہیں آئیں،چوہیا نے دم ہلائی آپ نہیں آئیں ،کوے نے کائیں کائیں کی آپ نہیں آئیں۔اب میں یہ نرم نرم پالان لے کر حاضر ہوا ہوں۔آئیے،اس پر بیٹھے اور گھر تشریف لے چلیے۔لیکن ملکہ نے پھر جانے سے انکار کر دیا۔اب تو سب جانور بہت پریشان ہوئے۔ایک بار پھر سب مل کر بیٹھے اور سوچنے لگے کہ کیا کیا جائے۔اُن میں اونٹ موجود تھا۔اس نے کہا:”میں چلتا ہوں۔دیکھیں ملکہ کیسے گھر نہیں آتیں؟“وہ اٹھا اور اپنے گلے میں گھنٹی لٹکائی،گھٹنوں پر گھنگھر وباندھے اور چھم چھم کرتا سرائے کی طرف روانہ ہو گیا۔وہاں پہنچ کر وہ ملکہ کے سامنے جا کھڑا ہوا اور بولا:”ملکہ صاحبہ!چڑیا نے چیں چیں کی،بلی نے میاؤں میاؤں کی،چوہیا نے دُم ہلائی،کوے نے کائیں کائیں کی،گدھا پالان لے کر آیا،آپ نہیں مانیں ۔اب میں حاضر ہوا ہوں۔میں آپ سے کھانا نہیں مانگتا۔میں آپ کی ویسے ہی خدمت کرنے والاہوں ۔آئیے گھر چلیں۔“ملکہ نے سر جھکالیا اور سوچنے لگی۔بے شک اونٹ بڑے کام کا جانور ہے۔دن رات چلتا رہتاہے اور تھکنے کا نام نہیں لیتا۔کئی دن تک کھانے اور پانی کے بغیر گزارہ کرتاہے۔اس کے بالوں سے کمبل اور قالین اور گرم کپڑے بنتے ہیں یہ تو بڑا نیک جانور ہے۔اس کا کہا ضرور ماننا چاہیے ،اور پھر ملکہ اونٹ پر بیٹھی اور گھر آگئی۔وہاں سب جانوروں نے ملکہ کا استقبال کیا۔ملکہ نے سب کو گلے لگایا اور پیار کیا۔چڑیا،کوا،اونٹ کی گردن پر بیٹھ کر چہچہانے لگے۔چوہیا اس کی دم پکڑ کر لٹک گئی۔بلی مہار ہاتھ میں لئے چلنے لگی۔اونٹ اچھلتا ،ناچتا چلا جاتا تھا۔پیچھے بادشاہ اور ملکہ اپنے پیارے جانوروں کا کھانا اٹھائے چلے آرہے تھے۔واہ میاں اونٹ کیا کہنے تمہارے!! " والدین کی نصیحت کا اثر - تحریر نمبر 1648,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/waldeen-ki-nasihat-ka-asaar-1648.html,"انور ایک کھلنڈرا اور نالائق لڑکا تھا۔جب وہ اس دنیا میں آیا تھا تو اس کے امی ابو کو اس سے اس بات کی بہت اُمید تھی کہ وہ بڑا ہو کر نہ صرف اپنا اپنے سکول وادارے اور ملک وقوم کا نام روشن کرے گا اور یوں نہ صرف اس کی زندگی سنورے گی بلکہ اس کے امی ابو بھی نازک حالات سے باہر آجائیں گے۔انور کے پہلے چار پانچ سال تو جیسے تیسے کرکے گزر گئے مگر جب اس کے امی ابو نے سوچا کہ اب انور کو تعلیم کے لئے سکول داخل کروانا چاہیے تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بن کر اچھے اور خوشگوار حالات میں اپنی زندگی گزار سکے۔جوں جوں انور بڑا ہوتا چلا گیا تواس کے امی ابو کی یہ فرمائش بڑھتی چلی گئی کہ انور کو اسی عمر میں سکول داخل کروا دینا چاہیے مگر نہ جانے انور کو کیا سوجھی کہ اس نے امی ابو کا کہنا ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ امی ابو سے پڑھائی کا بوجھ نہیں اٹھایا جائے گا میں صرف کھیلوں میں نام پیدا کروں گا۔(جاری ہے)وہ بھی اس صورت میں جبکہ مجھے ان تمام کھیلوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں گی اور تمام لوازمات فراہم کی جائیں گی۔انور کی یہ مایوس کن بات سن کر کہ اس کے امی ابو سٹپٹا کر رہ گئے کہ انہوں نے انور سے جو امیدیں باندھ رکھی تھیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہی اس لئے اس پر سختی کرنی پڑے گی۔تاہم جب انہوں نے لوگوں سے مشورہ کیا تو سبھی نے انہیں یہ تجویز دی کہ دیکھیے،اگر آپ نے انور کو مارا پیٹا یا اس پر سختی کی تو وہ سنورنے کی بجائے ڈھیٹ اور ضدی بن جائے گا اور پھر کسی چھوٹے بڑے کی بات کو نہیں مانے گا۔انور کے امی ابو کو یہ بات دل کو لگی ۔چنانچہ انہوں نے ایک دن انور کو اپنے پاس بلا کر کہا کہ دیکھو!ہمارے حالات اچھے نہیں ہیں ہم تین وقت کا کھانا کتنی مشکل سے کھاتے ہیں یہ تمہیں بھی معلوم ہے اس لئے سکول داخل ہو جاؤ اور وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے نکلو۔انشاء اللہ تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ انور کے دل کو یہ بات اپنے امی ابو کی لگی تاہم اس نے اپنے امی ابو سے کہا کہ وہ ایک دو دن میں سوچ وبچار کرنے کے بعد بتائے گا۔انور کے امی ابو بہت خوش ہوئے کہ اگر چہ انور نے سکول میں داخل ہونے کی حامی تو ابھی تک نہیں بھری ۔مگر امید ہو چلی ہے کہ شاید انور ان کی بات مان لے۔دوسرے دن انور کے امی ابو نے اس سے اس کی سکول میں داخل ہونے کی مرضی تو پوچھی جس پر انور نے ہاں کر دی۔اس کا صاف مطلب تھا کہ انور پر اس کے امی ابو کی نصیحت وپیار ومحبت سے سمجھانے کا اثر ہو گیا ہے چنانچہ دوسرے دن ہی انور کے امی ابو اسے سکول داخل کرواکے گھر چلے آئے۔یوں انور روزانہ باقاعدگی سے سکول جانے لگا اور دل لگاکر محنت کرتے کرتے پائلٹ بن گیا جو کہ اس نے شروع میں خواب دیکھا تھا۔ایک وہ بھی دن تھے جب انور کے گھر فکر وفاقہ تھا اور کھانے کو کوئی چیز نہ ملتی تھی اور اب یہ حالات تھے کہ انور کا گھرانہ خوشحال اور اطمینان بخش طریقے سے رہنے لگا۔انور کی شادی ہو گئی یعنی اس کے گھر میں ایک اور فرد کا اضافہ ہو گیا اور یوں انور اور اس کا گھرانہ بڑے ٹھاٹھ بھاٹھ سے رہنے لگا۔ " نا فرمان اولاد - تحریر نمبر 1642,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nafarmaan-olaad-1642.html,"آمنہ بتولپرانے وقتوں کی بات ہے کہ راجیت پور گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی۔جس کا نام رخسانہ تھا۔اس عورت کا ایک بیٹا تھا۔جس کا نام اسد تھا۔اور وہ بہت ہی خوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔کہ اچانک ایک دن رخسانہ کا خاوند ایک حادثے میں فوت ہو گیا۔اس وقت اسد 6سال کا تھا۔رخسانہ کا خاوند ان دونوں ماں بیٹے کے لئے روزی کمانے کا ذریعہ تھا۔لیکن اب رخسانہ اور اس کا بیٹا دونوں مفلسی کی زندگی گزارنے لگے۔رخسانہ اپنے بیٹے کو اچھا،کامیاب شخص بنانا چاہتی تھی۔اس لئے اس نے خود محنت مزدوری کرنا شروع کر دی۔اُس نے اسد کا داخلہ ایک بہت ہی اچھے سکول میں کروایا۔پھر وقت گزرتا گیا اور بیس سال کے بعد اُس کا بیٹا اسد ایک کامیاب انجینئر بن گیا۔اب ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔(جاری ہے)اور اس عورت نے اپنے بیٹے کی شادی بھی کر دی۔شادی کے بعد اسد پہلے جیسا نہ رہا۔اسد نے اپنی ماں سے برا سلوک کرنا شروع کر دیا۔اب رخسانہ کافی بوڑھی ہو چکی تھی اور اسد نے اس کا صحیح سے خیال نہ رکھا۔وہ نہ ہی اسے وقت دیتا اور نہ ہی اس کی صحت کی پرواہ کرتا۔ایسا لگتا تھا کہ اسد اپنی ماں کی تمام قربانیوں کو بھلا چکا تھا۔رخسانہ اب بڑھاپے کی وجہ سے بیمار رہنے لگی۔اور گھر میں اس کادم گھٹنے لگا۔ایک دن اُس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ مجھے کہیں باہر لے جاؤ تو اسد نے انکار کر دیا۔رخسانہ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹا یہ میری آخری خواہش ہی سمجھ کر مان لو۔اس پر اسد رضا مند ہو گیا۔پھر وہ اپنی ماں اور بیوی کو فارم ہاؤس لے گیا وہاں پہنچ کر رخسانہ بہت تھک گئی۔اُس نے اپنے بیٹے کو پاؤں دبانے کے لئے بولا تو اسد نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ اماں میرے پاس وقت نہیں ہے۔رات کا ایک پہر تھا اور رخسانہ کی طبیعت بہت خراب ہو گئی۔اس نے اپنے بیٹے کو آوازیں دیں مگر اس کے بیٹے نے نیند میں سنی ان سنی کردیں۔رخسانہ مر گئی ۔اور اسد کو خبر تک نہ ہوئی۔اتنے میں اسد کی بیوی آوازیں دیتی ہے کہ میرے سر میں بہت درد ہورہا ہے۔اسد فوراً بھاگ کر گیا اور اس کے سر کو دبانے لگا۔ اسی لمحے وہ دیکھتا ہے کہ کمرے میں باہر کی طرف بہت ہی تیز روشنی دکھائی دے رہی ہے۔اور پھر وہ روشنی مختلف اطراف بٹ جاتی ہے۔اسد دیکھتاہے کہ صحن میں ایک بہت خوبصورت لڑکی اپنے ہاتھ میں سونے کا برتن لئے کھڑی ہے ۔اسد نے کہا تم کون ہو اور یہاں پر کیا کررہی ہو۔لڑکی نے کہا میں سنہری پری ہوں اور جو بھی اس دنیا میں اچھے کام کرتاہے میں اللہ کے حکم سے اس کو انعام دیتی ہوں۔اور برے اعمال کرنے والے کو سزا۔پری نے کہا کہ اسد تم نے ماں کی خدمت کرنے میں غفلت کی ہے۔کیا تمہیں اپنی ماں کی تمام قربانیاں یاد نہیں ہیں اور اب تم ان کی کبھی خدمت نہ کر سکو گے۔ کیونکہ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔اور تم کو معافی مانگنے کا موقع بھی نہ مل سکا۔اب تم پوری زندگی خود کو کوستے رہو گے۔اسد کو پری کی کہی بات پر یقین نہ آیا اور وہ اپنی جگہ جا کر سو گیا۔اسد نے صبح اٹھ کر ماں کو جگایا تو وہ مر چکی تھی۔اس نے سوچا کہ پری ٹھیک کہہ رہی تھی۔اسد کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔اور اب اس کو کہیں سکون نہ آتا۔اس واقعے کے دس دن بعد پری دوبارہ اس کے خواب میں آئی اور کہا کہ تم خوش قسمت ہو۔اسد تمہاری ماں نے تمہیں معاف کر دیا ہے ۔اور یاد رکھو،زندگی میں کبھی موقع ملے تو دوسروں کی خدمت کرنا۔اسد اپنی ماں کو ہر وقت یاد کرتا رہتا اور خود کو کوستا رہتا کہ میری ماں کتنی رحم دل عور ت تھی کہ اس نے مجھے معاف کر دیا۔کوئی بھی والدین اپنی اولاد کو دکھ میں نہیں دیکھ سکتا۔دوستو !یاد رکھو کے والدین کی خدمات سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے۔اور اپنی آنکھوں کو کھول لو اس سے پہلے کہ تمہارے ماں باپ کی آنکھیں بند ہو جائیں ۔والدین کی خدمت ایک عبادت ہے۔ " انگوٹھی اور بانسری - تحریر نمبر 1640,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/angothi-or-bansuri-1640.html,"پرانے زمانے کی بات ہے کسی شہر میں دو دوست رہا کرتے تھے- ایک کا نام عدنان تھا اور دوسرے کا مانی- عدنان ایک سوداگر کا بیٹا تھا اور اور مانی کا باپ شہر کا کوتوال تھا- عدنان تجارت کے کاموں میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا – جب کہ مانی فن سپاہ گری سیکھ رہا تھا تاکہ شاہی فوج میں شامل ہو کر اپنے ملک کی خدمت کرسکے-یوں تو عدنان تجارت کا مال لے کر اپنے باپ کے ساتھ ہی سفر پر روانہ ہوتا تھا مگر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کے ساتھ سفر پر روانہ ہونے والا تھا تو اس کا باپ بیمار پڑ گیا- بیماری کی وجہ سے وہ کافی کمزور بھی ہوگیا تھا اس لیے اسے آرام کی ضرورت تھی- عدنان نے سوچا کہ اس مرتبہ وہ اکیلا ہی تجارت کا مال لے کر نکل جائے-اس کے ارادے کی خبر مانی کو ملی تو وہ بھی گھومنے پھرنے کی غرض سے اس کے ساتھ ہو لیا- ان کے سفر پر جانے کی وجہ سے ان کے گھر والے فکر مند ہوگئے تھے کیوں کہ ان دنوں بہت ہی خطرناک اور ظالم ڈاکوؤں نے لوٹ مار مچا رکھی تھی- وہ سنسان جگہوں سے گزرنے والے قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور اگر کوئی مزاحمت کرتا تھا تو اسے قتل بھی کردیتے تھے- دونوں دوستوں نے اپنے گھر والوں کو تسلی دی اور بیٹھ کر یہ منصوبہ بنانے لگے کہ خدانخواستہ اگر کبھی انھیں ڈاکوؤں نے گھیر لیا تو وہ کیا کریں گے-سفر کے دوران انھیں کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ بڑے آرام سے اس ملک میں پہنچ گئے جہاں عدنان کو اپنا تجارتی مال فروخت کرنا تھا- چند ہی روز گزرے تھے کہ اس کا سارا سامان فروخت ہوگیا- اس تجارت میں اسے بہت فائدہ ہوا تھا- وہ دونوں چونکہ جس مقصد کے لیے آئے تھے وہ پورا ہوگیا تھا اس لیے انہوں نے اپنے گھروں کی واپسی کی تیاری شروع کردی- انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے بہت سے تحفے تحائف بھی خریدے تھے-سفر کے لیے ان کے پاس ان کے گھوڑے تھے- عدنان کے گھوڑے پر دو چمڑے کے تھیلے لٹکے ہوۓ تھے جو سونے کی اشرفیوں سے لبا لب بھرے ہوۓ تھے- یہ اشرفیاں اسے اپنا مال بیچ کر حاصل ہوئی تھیں- مانی کے پاس بھی چند سو اشرفیاں تھیں جو وہ اپنے گھر سے ساتھ لے کر نکلا تھا تاکہ سفر میں اس کے کام آسکیں- اس کی اشرفیاں اور تحفے تحائف کے تھیلے اس کے گھوڑے پر لدے ہوۓ تھے-دو دن اور ایک رات کی مسافت کے بعد وہ اپنے ملک میں داخل ہوگئے – اب ان کا تھوڑا ہی سا سفر باقی تھا جس کے بعد وہ اپنے گھروں کو پہنچ جاتے- اچانک انہوں نے سامنے سے دھول اڑتی دیکھی- ان کے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں- اس دھول کو دیکھ کر اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سن کر دونوں دوست گھوڑوں سے اتر گئے اور تشویش بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے-تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بہت سے گھڑ سوار ان کے نزدیک پہنچ گئے اور انہوں نے دونوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا- وہ لوگ شکل و صورت سے ڈاکو لگتے تھے- ان کے ہاتھوں میں چمکتی ہوئی تیز تلواریں تھیں-سب سے آگے خوفناک شکل اور بڑی بڑی مونچھوں والا ایک لحیم شحیم شخص تھا- وہ ان کا سردار معلوم دیتا تھا- اس نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ایک خوفناک قہقہ بلند کیا اور اپنے ساتھیوں سے بولا - ""شکل سے یہ لوگ امیر زادے لگتے ہیں- سارا مال ان سے چھین لو- مزاحمت کریں تو قتل کردو""-عدنان اور مانی ماہر تلوار باز تھے اور بہادر بھی بہت تھے- لیکن اتنے بہت سے ڈاکوؤں سے وہ لوگ ہرگز نہیں جیت سکتے تھے- عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا- ""ہم دو ہیں اور تم لوگ بہت سارے- عقل کا تقاضہ ہے کہ ہم تمہارا مقابلہ نہ کریں- تم ہمارا مال لے لو اور ہمیں جانے دو""-ڈاکوؤں کا سردار ایک مرتبہ پھر بلند آواز میں ہنسا – پھر اس کا اشارہ پا کر اس کے دو ساتھی گھوڑوں سے اترے اور ان کے گھوڑوں کی طرف بڑھے تاکہ ان پر لدے سامان پر قبضہ کر سکیں-مانی کی انگلی میں ایک انگوٹھی تھی- عدنان کے ہاتھ میں ایک بانسری تھی- ڈاکوؤں کو آتا دیکھ کر اس نے یہ بانسری اپنی جیب سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی تھی- جب ڈاکو ان کے تھیلے گھوڑوں سے اتار کر اپنے قبضے میں لے رہے تھے تو مانی نے اپنی انگوٹھی انگلی سے اتاری اور اسے زمین پر پھینک کر اس پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا- عدنان نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بانسری جلدی سے اپنے لباس کی جیب میں چھپا لی-دونوں ڈاکو تو اپنے کام میں مصروف تھے مگر ڈاکوؤں کے سردار نے دونوں کی یہ حرکت دیکھ لی تھی- وہ گھوڑے سے اتر کر آگے بڑھا- اس نے مانی کو دھکا دے کر ایک طرف ہٹایا اور زمین سے انگوٹھی اٹھالی- پھر اس نے عدنان کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس کی بانسری بھی نکال لی اور بولا- ""بے ایمان لڑکو- یہ بتاو کہ تم لوگ یہ انگوٹھی اور بانسری کیوں چھپا رہے تھے؟""-مانی نے گڑ گڑا کر کہا ""اے ڈاکوؤں کے سردار- ہم سے ہمارا سارا مال لے لو مگر یہ انگوٹھی اور بانسری ہمیں واپس کر دو""-ڈاکوؤں کے سردار نے غور سے انگوٹھی اور بانسری کو دیکھا اور بولا ""نہ تو یہ انگوٹھی سونے کی ہے اور نہ ہی بانسری پر ہیرے جواہرات جڑے ہوۓ ہیں- پھر تم لوگ ان معمولی چیزوں کے لیے اتنا پریشان کیوں ہو؟""-مانی نے بے بسی سے عدنان کو دیکھا اور بولا ""انگوٹھی اور بانسری کا ایک راز ہے- ادھر سامنے پہاڑوں کے پاس والے جنگل میں ہزاروں سال پرانا ایک درخت ہے- اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ جنگل کا سب سے بڑا درخت ہے اور جھیل کے نزدیک ہے- اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اس انگوٹھی کو انگلی میں پہن کر اس بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا""-مانی کی باتیں سن کر ڈاکوؤں کے سردار کی آنکھیں چمکنے لگیں- اسے وہ تمام کہانیاں یاد آگئیں جن میں طرح طرح کی جادو کی چیزیں ہوا کرتی تھیں- مانی کی باتوں سے اس نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ انگوٹھی اور بانسری جادو کی ہیں- اس نے انھیں اپنی جیب میں رکھ لیا اور دل میں سوچنے لگا کہ وہ جنگل میں جا کراس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی پہن کر بانسری بجائے گا اور پھر دیکھے گا کہ کیا ہوتا ہے-دونوں ڈاکو عدنان اور مانی سے لوٹا ہوا سامان اپنے گھوڑوں پر لاد چکے تھے- سردار نے اپنے ساتھیوں کو وہاں سے روانہ ہونے کا اشارہ کیا – انہوں نے اپنے گھوڑے موڑے اور انھیں تیزی سے بھگاتے ہوۓ نظروں سے اوجھل ہوگئے- شکر یہ ہوا کہ انہوں نے عدنان اور مانی کے گھوڑے اپنے قبضے میں نہیں لیے تھے ورنہ انھیں گھر پہنچنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا-ڈاکوں کے چلے جانے کے بعد عدنان نے کہا- ""خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہوۓ مجھے اچھا نہیں لگ رہا""-""فکر کیوں کرتے ہو- الله نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا""- مانی نے گھوڑے پر سوار ہوتے ہوۓ اسے تسلی دی- پھر دونوں دوست اپنے گھروں کی جانب چل پڑے-دونوں نے اپنے گھر والوں کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ جانے کی کہانی سنائی- ان کی کہانی سن کر سب نے اظہار افسوس کیا مگر وہ اس بات پر خوش بھی ہوۓ اور الله تعالیٰ کا شکر بھی ادا کیا کہ ڈاکوؤں نے دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا-یہ اگلے روز دوپہر کی بات ہے- ڈاکوؤں کا سردار اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں آیا- وہ سب جھیل کے نزدیک اس پرانے درخت کے نیچے جمع ہوگئے- ڈاکوؤں کا سردار بہت خوش تھا کہ اب اس انگوٹھی اور بانسری کے راز سے پردہ اٹھ جائے گا- اس نے انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہنا اور پھر بانسری بجانے لگا-بانسری کی لے اتنی تیز تھی کہ آس پاس کے درختوں پر بیٹھے ہوۓ پرندے شور مچاتے ہوۓ اڑ گئے- ڈاکوؤں کا سردار بانسری بجانے میں مصروف تھا- اس کے تمام ساتھی اسے بڑی حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے-اچانک قریبی درختوں پر سے بے شمار سپاہی کود کود کر زمین پر اترے اور بے خبر ڈاکوؤں کے سروں پر پہنچ گئے- بہت سے سپاہی بڑی بڑی جھاڑیوں میں بھی چھپے ہوۓ تھے- وہ بھی باہر آگئے- ان سپاہیوں کے ساتھ مانی کا کوتوال باپ بھی تھا-سپاہیوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں- انہوں نے تمام ڈاکوؤں کو گھیرے میں لے لیا- ایک تو ڈاکو بے خبر تھے- دوسرے سپاہی اتنے زیادہ تھے کہ ڈاکو ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے اس لیے وہ بڑی آسانی سے قابو میں آگئے- سپاہیوں نے ان کی تلواریں اور خنجر اپنے قبضے میں لے کر ان کو گرفتار کر لیا-اسی وقت جھاڑیوں کے پیچھے سے عدنان اور مانی بھی نکل آئے- انھیں دیکھ کر تمام ڈاکو حیرت زدہ رہ گئے- یہ دونوں تو وہ ہی نوجوان تھے جنہیں کل ان لوگوں نے لوٹا تھا اور جن سے ان کے سردار نے انگوٹھی اور بانسری چھینی تھیں-مانی نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا- ""میں نے ٹھیک ہی کہا تھا نا کہ اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہن کر بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا- اب بتاؤ کہ یہ سب کچھ دیکھ کر تمہیں حیرت ہوئی یا نہیں؟ ""اس کی بات سن کر عدنان مسکرانے لگا- مانی نے پھر کہا- ""ہمیں پتہ تھا کہ ہماری باتیں سن کر تم ضرور اس جگہ پہنچو گے تاکہ انگوٹھی اور بانسری کے راز سے واقف ہو سکو- میں نے اپنے ابّا جان سے کہہ کر ان سارے سپاہیوں کو درختوں اور جھاڑیوں میں چھپا دیا تھا تاکہ یہ تمہیں گرفتار کر سکیں""-عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا- ""جب ہم لوگ تجارت کا مال لے کر اپنے سفر پر روانہ ہوۓ تھے تو ہم نے منصوبہ بنا لیا تھا کہ اگر ڈاکوؤں سے واسطہ پڑ گیا تو ہم انھیں انگوٹھی اور بانسری کی کہانی سنائیں گے تاکہ جب وہ اس درخت کے پاس آئیں تو سپاہی انھیں گرفتار کرلیں- تم لوگوں نے بڑے عرصے سے اس علاقے میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا- اب تمہیں اپنے کیے کی سزا ملے گی- اگر تم لوگ لوٹ مار کے بجائے محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال رہے ہوتے تو اس ذلت سے دو چار نہ ہونا پڑتا""-ڈاکوؤں کا سردار اس بات پر سخت شرمندہ تھا کہ عدنان اور مانی نے اسے بڑی آسانی سے بے وقوف بنا لیا تھا- اس نے اپنا سر جھکا لیا-مانی کے باپ کوتوال نے عدنان اور مانی سے کہا- ""اگر ہم ان خطرناک ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوۓ ہیں تو یہ تم دونوں کی عقل مندی کی وجہ سے ہوا ہے- یہ تو کسی طرح ہاتھ ہی نہیں آتے تھے- انہوں نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی تھیں- برے کام کا برا انجام ہوتا ہے- اب یہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچیں گے""-بعد میں ڈاکوؤں پر مقدمہ چلا اور انھیں لمبی لمبی سزائیں ہو گئیں- عدنان اور مانی کو بھی ان کی اشرفیاں اور دوسرا سامان واپس مل گیا تھا- یوں ان دونوں کی ذہانت کی وجہ سے یہ ڈاکو اپنے انجام کو پہنچے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا- " کتنی چلی سائیکل - تحریر نمبر 1639,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kitni-chali-cycle-1639.html,"بچپن میں ہمارا شمار اپنی گلی کے بد تمیز اور انتہائی شریر بچوں میں ہوتا تھا۔حالانکہ ہم بد تمیز تو ذرا بھی نہیں تھے،ہاں البتہ شریر ضرور تھے،کیونکہ شرارتیں کرنا تو ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ہمارے ساتھیوں میں ایک بے حد سیدھے سادے اور بھاری بھر کم جسم کے مالک،ٹینک نما ٹمو صاحب بھی تھے۔جب وہ چلتے تو ان کی دھپ دھپ سے بے چاری زمین کانپ کانپ جاتی اور جب وہ سائیکل پر سوار ہوتے تو ان کے ناقابل برداشت بوجھ سے اس بے زبان سائیکل کا دم گھٹنے لگتا۔اور اس کی دل خراش چیخیں ہمیں دور سے ہی سنائی دے جاتیں۔چوں․․․․․․اُوں․․․․چاں!اس گوشت کے پہاڑ سے مونا علی تو سخت الرجک تھی۔جہاں کہیں اسے پتلا ہونے کا کوئی نسخہ یا ٹوٹکا ہاتھ آتا،جھٹ ٹمو صاحب کی خدمت میں پیش کردیتی،طرح طرح کی ورزشیں بتاتی،اُچھلنے کو دنے کے مشورے دیتی۔(جاری ہے)لیکن ٹمو صاحب تھے کہ ان کے کان پر جوں تو جوں مکھی تک نہ رینگتی اور وہ پیٹو بکرے کی طرح ہڑپ ہڑپ مونگ پھلی چھیل چھیل کر کھائے چلے جاتے جیسے کہ مونا علی نے اُن سے کچھ کہا ہی نہیں۔ہم سب ساتھیوں کو اکثر ٹمو صاحب پربے حد غصہ آتا،لیکن پھر بھی اُس گوشت کے پہاڑ سے کُٹی کرنا کسی کوبھی کسی صورت گوارانہ تھا․․․․․!اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹمو صاحب میں ہزار خامیوں کے باوجود بھی دو ایک خوبیاں ایسی تھیں کہ انہیں کسی بھی صورت نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔مثال کے طور پر باغ سے آم ہم چراتے اور مار ٹمو صاحب کھاتے․․․․․․کرائے پر سائیکل لے کر ہم چلاتے اور کرایہ ٹمو صاحب ادا کرتے․․․․․گلی میں کرکٹ کھیلتے ہوئے کسی کے مکان کی کھڑکی کا شیشہ ہم سے ٹوٹتا اور سزا ٹمو صاحب بے چارے کو ملتی۔ان باتوں کے علاوہ ٹمو صاحب کے اور بھی بے شمار فائدے تھے،جن کا ذکر کرنا ہمارے بس میں نہیں ․․․․․لیکن صاحب، اس کے باوجود ٹمو صاحب کا موٹاپا ہمیں ہر وقت شدت سے کھٹکتا رہتا۔ایک دن ہم سب ساتھی مونا علی اور ٹمو صاحب کے انتظار میں بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے کہ ہاتھ میں ایک اخبار لہراتے ہوئے مونا نے دور سے ہانک لگائی:”بن گیا کام!“اُس کے چہرے پر مسکراہٹ ہی مسکراہٹ تھی۔”ارے مونی !کیا ہوا،کوئی پرائز بونڈ نکل آیا ہے؟“ہم سب نے بیک زبان پوچھا۔وہ ہمارے سامنے اخبار پھیلاتے ہوئے بولی:” بھئی!یہ خبر پڑھو!“اور پھر خود ہی اونچی اونچی آواز میں پڑھنے لگی:”250پونڈ وزن کے ایک آدمی نے مسلسل 9دن تک سائیکل چلائی،جس سے اس کا وزن 150پونڈ رہ گیا․․․․․“”ارے مونی!تم تو خود ہی پڑ پڑ بولے جارہی ہو،مجھے سکون سے خبر پڑھنے دو۔“ہم نے کہا۔مونا پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئی۔ہم نے پوری خبر بڑے اطمینان سے پڑھ لی تو ایک دم ہمارے ذہن میں ٹمو صاحب کو سمارٹ بنانے کا خیال آیا۔پھر ہم نے اپنے اس خیال سے تمام ساتھیوں کو آگاہ کیا۔ایک لمحے کے لئے تو سب کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے ،لیکن اگلے ہی لمحے سب منہ لٹکا کر بیٹھ گئے۔مونا اداسی سے بولی:”وہ موٹو ہر گز نہیں مانے گا۔“”مانے گا کیوں نہیں۔“ہم نے کہا۔”ضرور مانے گا․․․․․میرے ذہن میں ایک ایسی چٹ پٹی ترکیب ہے․․․․کہ بس،آنے دو ذرا پہاڑی بکرے کو۔“”آگیا ۔“عامر چلایا۔”پہاڑی بکرا آگیا۔“”ارے ٹمو کے بچے کہاں مر گئے تھے۔“ہم نے کہا۔”جلدی سے اِدھر آؤ اور سنو،آج ہم نے ایک زبردست پروگرام بنایا ہے۔“ٹمو صاحب جلدی سے سائیکل سے نیچے اترے․․․․․بس گرتے گرتے ہی بچے․․․․․اور ہانپتے کانپتے آکر ہمارے پاس بیٹھ گئے۔”کیا پروگرام ہے؟“ٹمو صاحب نے پھولے ہوئے سانس سے پوچھا۔”پہلے یہ بتاؤ․․․․تم نے سائیکل چلانی کس سے سیکھی ہے؟“ہم نے کہا۔”کیوں ،کیا بات ہے؟“انہوں نے پوچھا۔”ایمان سے بہت ہی اچھی چلاتے ہو۔“ہم نے اپنی ترکیب کو با اثر بنانے کے لئے مکھن لگانا شروع کیا۔ٹمو صاحب پہلے ہی کسی گول گپے سے کم نہ تھے،اپنی تعریف سن کر اور بھی پھول گئے۔ہمیں اپنی ترکیب کے ناکام ہوجانے کا خطرہ محسوس ہوا۔ہم نے دل میں سوچا․․․․․․تعریف کرنا ٹھیک نہیں․․․․․کوئی اور حربہ آزمانا چاہیے․․․․ایک دو لمحے دماغ پر زور دیا۔دماغ نے فوراً ہی ایک شاندار ترکیب بتادی۔ہم نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا:”ارے ٹمو !ہم نے سوچا ہے اب تم ایک گاڑی ضرور خرید لو۔“”گاڑی خرید لوں؟“ٹمو صاحب کو حیرت کا کرنٹ لگا۔وہ اچھل کر ہم سے دور جا بیٹھے:”ابو سے سائیکل بھی رو رو کر لی ہے ،تم کہتی ہو گاڑی خرید لو یہ ناممکن ہے․․․․!“وہ اپنا پچیس پونڈ وزنی سر ہلاتے ہوئے بولے۔”ارے بابا․․․․․!گھبراتے کیوں ہو۔ہم تمہیں گاڑی دلوائیں گے۔“ہم نے کہا۔”وہ کیسے ؟“ٹمو صاحب خوشی سے لرزنے لگے۔”بہت ہی آسان طریقہ ہے․․․․یہ خبر پڑھو ۔شاید تمہاری موٹی عقل میں کچھ آجائے۔“یہ کہہ کر ہم نے اخبار ٹمو صاحب کے آگے کر دیا۔”شکیل احمد نے مسلسل 9دن تک سائیکل چلا کر ایک سابقہ ریکارڈ توڑ دیا۔حکومت پنجاب کی طرف سے اسے دس ہزار روپے کا چیک دیا گیا۔اس کے علاوہ پانچ ہزار روپے کا نقد انعام شہریوں نے دیا۔“”باپ رے باپ!سائیکل چلانے پر اتنا بڑا انعام!“ٹمو صاحب نے ابھی آدھی خبر ہی پڑھی تھی کہ اُچھل کر کھڑے ہو گئے۔”ہم چاہتے ہیں تم بھی سائیکل چلاؤ اور ایک بڑا انعام جیتو!“مونا علی بے تابی سے بولی․․․․․”انعام میں ملنے والی رقم سے میں تمہیں قسطوں پر ایک گاڑی لے دوں گی،اور پھر مزے ہی مزے․․․․․!“”ٹھیک ہے․․․․ٹھیک ہے!“ٹمو صاحب انعام کے لالچ میں مان گئے۔”ہم سبز رنگ کی گاڑی خریدیں گے․․․․․․پھر سارا دن اس میں گھومیں گے․․․․پوں ․․․․․پوں․․․․․․پوں ․․․․پوں کرتی ہوئی ہماری گاڑی جدھر سے بھی گزرے گی،لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھیں گے․․․․․․ہائے اُس وقت کتنا مزا آئے گا․․․․․!“ٹمو صاحب کا خوشی کے مارے بڑا حال ہورہا تھا۔وہ خیالی پلاؤ کی دیگیں پکاتے ہوئے اپنی سائیکل کی طرف بڑھے․․․․تو ہم نے ان کی جیب سے پچاس روپے کے دو نوٹ نکال لیے۔”میری جیب سے یہ نوٹ کیوں نکال لیے ہیں!!“ٹمو صاحب کا دل ڈوبنے لگا۔”ارے بابا!انتظام وغیرہ بھی تو کرنا ہے۔“پھر تو ٹمو صاحب ہمارا ہر مطالبہ مانتے گئے۔تھوڑی سی بات چیت کے بعد اگلے دن ٹھیک 9بجے جناح ہال میں سائیکل چلانے کا پروگرام مرتب ہوا اور ٹمو صاحب اور ہم سب اپنے اپنے گھروں کوچلے گئے۔اگلے دن ہم ابھی سورہے تھے کہ ٹمو صاحب اپنی سائیکل کے ساتھ آن دھمکے۔ہم آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ بیٹھے اور انہیں بتایا:”ٹمو صاحب!جناح ہال میں سائیکل چلانے کی اجازت نہیں مل سکی۔“یہ سنتے ہی ٹمو صاحب نے دھواں دھار رونا شروع کر دیا اور آسمان سر پر اٹھالیا:”ہائے میرے پچاس پچاس روپے کے دو نوٹ۔“”ارے بابا!تمہارے روپے محفوظ ہیں۔“ہم نے بڑی مشکل سے انہیں چپ کرایا اور انہیں مکان سے باہر لے گئے۔تھوڑی دیر کے بعد سب ساتھیوں کے آجانے پر مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ جناح ہال کی بجائے کمیٹی پارک میں ٹمو صاحب سائیکل چلائیں گے،جس پر ٹمو خوش ہو گئے۔ہم سیدھے اپنے گھر گئے۔چچا جان کی شادی کے دس سالہ پرانے کالے پیلے جتنے بھی ہار کھونٹی پر لٹکے تھے،وہ سب اُتار لائے اور ٹمو صاحب کے گلے میں ڈال دیے۔پھر ہم سب ان کے پیچھے پیچھے تالیاں بجاتے کمیٹی پارک پہنچ گئے۔گلی کے کچھ بچوں نے دیکھا تو پاکستان زندہ باد ،ٹمو زندہ باد کے نعرے لگائے۔ہم نے ٹمو صاحب کو سائیکل پر سوار کیااور بہترین دعاؤں کے ساتھ ٹمو صاحب نے سائیکل چلانے کا آغاز کیا،جب دس منٹ گزرے تو وہ زور سے چلائے:”کتنی چلی سائیکل؟“ہم نے محسوس کیا کہ ٹمو صاحب شدت سے کانپ رہے ہیں۔تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر چلائے:”ہائے میری ٹانگیں․․․․کتنی چلی سائیکل!“”شور کیوں مچاتے ہو۔ابھی پندرہ منٹ بھی نہیں ہوئے․․․․تمہیں نو دن سائیکل چلانی ہے۔“ہم نے غصے سے کہا۔”نو دن !“ٹمو صاحب نے چیخ ماری۔”ہائے مرا“اور اس کے ساتھ ہی وہ دھڑام سے نیچے گرے اور قلا بازیاں کھاتے ہوئے ایک بنچ کے پاس آرام سے لیٹ گئے۔ہم اُن کی طرف دوڑے ۔ٹمو صاحب بے ہوش پڑے تھے لیکن ان کے منہ سے برابر آواز آرہی تھی ۔”کتنی چلی سائیکل ،کتنی چلی سائیکل،کتنی چلی سائیکل․․․․․ہائے میں مرا․․․․․ہائے میں مرا․․․․․!“ " ننھا چڑا - تحریر نمبر 1638,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanha-chira-1638.html,"ایک دفعہ کاذکر ہے ۔ایک تھا․․․․․․․!جھٹ کہہ دوگے:”بادشاہ!“جی نہیں۔ یہ کہانی بادشاہ کی نہیں۔ چڑے کی ہے۔ایک تھا چڑا۔تھا تو ننھا سا۔پر بہت شریر تھا۔جب اُس کے پَر نکل آئے تو وہ پھدک کر گھونسلے کے کنارے پر جا بیٹھا،اور اپنے ننھے ننھے پَر پھیلا کر کہنے لگا:”ابا جان!ہم سیر کرنے کے لئے جاتے ہیں۔“اماں جان بولیں:”بیٹا !بہت دور نہ جانا۔“ابا جان بولے:”جلد ہی گھر لوٹ آنا،نہیں تو کھانے کو چاول نہ ملے گے۔“ننھے چڑے نے اپنی چونچ سے دُم کو کھجاتے ہوئے جواب دیا:”ابا!کچھ پرواہ نہیں۔چاول نہیں ملے گے تو نہ سہی۔اب ہمیں چاول واول کی کیا پرواہ ہے۔ہم خود بہت سے چاول لے کر آئیں گے۔ایک آپ کے لئے لائیں گے،ایک اماں جان کے لئے ،ایک بڑی آپا کے لئے اور ایک چھوٹی آپا کے لئے بھی لائیں گے۔(جاری ہے)“یہ کہہ کر وہ پھر سے اُڑ گیا۔پہلے پہل اس کا ننھا سا دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگا۔یوں معلوم ہوتا تھا،اب گرا کہ اب گرا۔اور جو اتنی بلندی سے گر پڑا،تو ہڈی پسلی کی خیر نہیں۔لیکن ننھا سا ہونے کے باوجود وہ بڑا ہوشیار تھا،جلد ہی سنبھل گیا۔پھر تو اس کا حوصلہ اور بھی بڑھ گیا۔اور وہ ہوا میں اونچا ہی اونچا اڑنے لگا۔اونچے اونچے مکانوں اور درختوں سے بھی اونچا۔اپنے دل سے کہنے لگا:”واہ جی واہ!یہ تو بڑے مزے کی سیر ہے۔اب تو بس ہم یوں ہی اُڑا کریں گے۔“لیکن تھوڑی ہی دیر میں ننھا چڑا تھک گیا اور ڈولنے لگا۔اس سے پہلے کہ وہ زمین پر گر پڑتا،اسے دور سے وہ مور نظر آیا،جو سکول کی چوٹی پر لگا ہوا تھا،اور جس سے ہوا کا رُخ معلوم کرتے ہیں۔ننھا چڑا جوں توں کرکے اس کے پاس پہنچا اور ذرا سستانے کے لئے اس کی دُم پر جا بیٹھا اور اپنی دم کو کھجانے لگا۔مورنے جب یہ دیکھا تو سخت ڈانٹ پلائی۔”اوپا جی!اتنی بے ادبی!چل اُتر میری دُم پر سے۔“ننھے چڑے نے جواب دیا:”صاحب،خفا نہ ہوں!آپ کی دُم خراب نہیں ہونے لگی۔بھلا لکڑی بھی کبھی خراب ہوئی ہے؟“مورنے سخت غصے سے لال پیلے ہو کر کہا:”کیا کہا،لکڑی کی اور میری دُم؟ابے بد تمیز چڑے!یہ کیا کہہ رہا ہے تو۔ابے میری دم تو سونے کی ہے سونے کی۔سنا تم نے بے ادب پاجی۔“اب تو چڑے سے ضبط نہ ہو سکا،جھٹ جواب میں کہا:”ابے جا بڑا وہ بن کر آیا ہے۔جیسے ہم کچھ جانتے ہی نہیں کہ لکڑی پر سنہری رنگ پھرا ہوا ہے اور تو اپنے دل میں سمجھتا ہو گا کہ ہم بھی جانور ہیں،مگر تم اس وہم میں نہ رہیو۔تو تو سب ایک کھلونا ہے کھلونا!“یہ کہہ کر ہنسی کے مارے ننھے سے چڑے کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔اور وہ اُچھلنے لگا۔مورنے غصے میں چیخ کر کہا:”ابے اوچڑے کے بچے!ابے کھلوناکوئی اور ہو گا۔میں تو کئی کئی میل تک مشہور ہوں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب کم از کم نوسو ننا نوے لوگ میری نرالی سج دھج کو نہ دیکھتے ہوں۔پوچھ کیوں؟یہ اس لیے کہ میں بہت خوب صورت ہوں۔“ننھے چڑے نے مسکین صورت بنا کر کہا:”ہاں جی ،بجا فرمایا ہے حضور نے ،لیکن ذرا یہ تو فرمائیں کہ کیا اُڑبھی سکتے ہیں جناب؟“مورنے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا:”ابے اوپاجی!ابے تو کیا جانے !جو لطف ہمیں حاصل ہیں،ان کے بارے میں تونے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا اور وہ تجھے خواب میں بھی حاصل نہ ہوئے ہوں گے۔تجھ میں بس یہی ایک بات ہے نا،کہ تم سوکھے ہوئے پتے کی طرح کبھی اوپرچلے گئے،کبھی نیچے آگئے اور کیا ہے؟بس تم صرف ایک خوبی پر اتنا تکبر کرتے ہو اور اس پر اتراتے پھرتے ہو۔کیوں بے چڑیا کے بچے!بتا تجھ میں اور کیا خوبی ہے؟“یہ کہہ کر مور اس زور سے ہنسا کہ وہ زور زور سے ہلنے لگا۔ننھا چڑا اُس کی دُم پر سے گرتے گرتے بچ گیا،مگر صاحب کیا مجال کہ اُس نے بُرا منایا ہو،یا غصہ کا اظہار کیا ہو،بلکہ اس کی ننھی سی پیشانی پر بل تک نہیں آیا۔بولا:”میں تو اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کرتاہوں کہ اُس نے مجھے اڑنے کی طاقت جیسی نعمت عطا فرمائی ہے۔ کھانے پینے کے لئے ہزاروں چیزیں بخشی ہیں۔تم ان سب چیزوں سے محروم ہو،پھر بھی اکڑتے پھرتے ہو۔اگر اِدھر کی دنیا اُدھر ہو جائے ،تب بھی میں اس نعمت کو چھوڑ کر تیری طرح ہمیشہ ایک ہی جگہ پر کھڑا رہنا کبھی پسند نہ کروں اور تو اس بات پر اترایا ہوا ہے ،اور بہت فخر کرتاہے کہ ایک ہی جگہ جڑا ہوا ہے۔کیا تو اس کو خوبی سمجھتاہے؟کیوں بے بتا؟“اس دفعہ ننھا چڑا بہت زیادہ خوش تھا اور اس نے اس زور سے قہقہہ لگایا کہ اس کی ننھی سی دُم میں سے تین ننھے ننھے بال اُکھڑ کر باہرنکل آئے۔پھر بولا:”اور تو یہ بھی تو نہیں جانتا کہ اس وقت شہر میں کیا ہورہا ہے؟بتا بے جانتاہے؟“مورنے جواب دیا:”میں تو صرف ایک بات جانتا ہوں۔“چڑے نے پوچھا:”بھلا وہ کیا؟“مورنے بڑے فخر سے جواب دیا:”وہ یہ کہ اب ہوا کا رخ کس طرف ہے اور سب سے پہلے مجھے ہی معلوم ہوتاہے کہ مینہ برسنے والا ہے۔اگر تو کچھ دیر تک اور یہاں بیٹھا رہے ،تو تجھے بھی یہ باتیں سکھادوں گا۔ لے دیکھ اب پہلا قطرہ گرا ہے۔لو ابھی چند ہی لمحوں کے بعد مینہ برسے گا۔“جوں ہی مینہ کا پہلا قطرہ گرا ،چڑے کے کان کھڑے ہوئے۔وہ خوب جانتا تھا کہ ان حضرت کا ارادہ کیا ہے۔یہ حضرت چاہتے ہیں کہ میں ان کی دُم پر بیٹھا رہوں اور جب مینہ برسے تو میں بھیگ جاؤں۔“ننھا چڑا فوراً اس کی دُم پر سے اُڑ گیا۔وہ اپنے چھوٹے چھوٹے پروں کی مدد سے جلدی جلدی ہوا کو چیرتا ہوا چلا جارہا تھا اور پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا،لیکن جب وہ اپنے گھر پہنچا تو چونچ سے لے کر دُم تک مینہ میں بھیگ چکا تھا۔ننھے چڑے کی اماں جان بولیں:”ارے شریر!تجھ سے خدا سمجھے۔کہاں تھا اب تک؟اگر بیمار ہو گیا تو میں کیا کروں گی؟“ابا جان نے جھڑک کر کہا:”کہاں گیا تھا بے بدمعاش؟“اس کی بڑی اور چھوٹی آپا بولیں:”لاؤ بھیا، ہمارے چاول۔اُوئی تم تو برف کی طرح ٹھنڈے ہو رہے ہو۔“لیکن شریر چڑے نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں ۔جھٹ سے اپنی بہنوں کے پاس گیا اور لیٹنے کے ساتھ ہی سو گیا۔ " بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ہاتھی - تحریر نمبر 1635,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-bahadur-shah-zafar-ka-hathi-1635.html,"صدف سراجیہ کہانی پرانی ہونے کے ساتھ ساتھ سچی بھی ہے۔یہ بات مغلوں کے دور کی ہے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ایک ہاتھی تھا۔نام تھا اس کا مولا بخش ”یہ ہاتھی اپنے مالک کا بے حد وفا دار تھا۔ہاتھی خاصہ بوڑھا تھا مگر تھا بہت صحت مند۔بہادر شاہ ظفر سے پہلے بھی کئی بادشاہوں کو سواری کروا چکا تھا۔فطرتاً شریر اور شوخ تھا۔ہر وقت مست رہتا تھا۔اپنے مہاوت کے علاوہ کسی کو پاس نہ آنے دیتا تھا۔یہ ہاتھی کھیلنے کا بڑا شیدائی تھا۔قلعے کے قریب بچے اس کے گرد اکٹھے ہو جاتے تھے اور مولا بخش ان کے ساتھ ساتھ کھیلتا رہتا۔پہلے بچے اسے کہتے کہ ایک ٹانگ اٹھاؤ وہ اٹھا لیتا۔بچے کہتے ایک گھڑی(یعنی ایک منٹ)پوری ہونے سے پہلے نہ رکھنا۔وہ ایک گھڑی یعنی ایک منٹ تک ایسے ہی رہتا۔(جاری ہے)پھر بچے کہتے گھڑی پوری ہوئی تو وہ ٹانگ نیچے رکھ دیا۔پھر وہ مخصوص آواز نکالتا جس کا مطلب ہوتا کہ”بچو!اب تمہاری باری آئی۔۔”چنانچہ بچے اپنی ٹانگ اٹھا لیتے۔گھڑی پوری ہونے سے پہلے کوئی بچہ ٹانگ نیچے کرنے لگتا تو ہاتھی زور زور سے سر ہلاتا۔یعنی ابھی گھڑی پوری نہیں ہوئی۔جب بچوں کے ساتھ بہت خوش رہتا تھا۔انہیں اپنی سونڈ سے گنے اٹھا اٹھا کر دیتا۔جس دن بچے نہ آتے اس دن شور مچاتا مجبوراً مہاوت بچوں کو بلا کر لاتا ویسے تو یہ بہت شوخ ہاتھی تھا لیکن جب بادشاہ کی سواری کا موقع آتا تو بہت موٴدب اور سنجیدہ ہوجاتا۔جب تک بادشاہ صحیح طرح بیٹھ نہ جائے کھڑا نہ ہوتا۔1857ء میں جب انگریز قلعہ پر قابض ہوئے اور بہادر شاہ ظفر نے ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لی تو مولا بخش بہت اداس ہو گیا۔بادشاہ سے بچھڑنے کا اسے اتنا غم ہوا تھا کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔قلعے کے نئے انگریز انچارج سانڈرس کو یہ خبر ملی تو اس نے لڈو اور کچوریوں سے بھرے ٹوکرے منگوائے اور ہاتھی کے سامنے رکھے ۔ہاتھی نے اپنی سونڈ سے وہ تمام ٹوکرے اٹھا کر پھینک دئیے۔سانڈرس کو غصہ آگیا کہ یہاں تو ہاتھی بھی باغی ہے۔اس نے ہاتھی کی نیلامی کا حکم دیا۔ہاتھی کو بازار میں کھڑا کر دیا گیا مگر کوئی بھی بولی نہیں لگا رہا تھا۔پھر ایک پنساری نے اڑھائی سو روپے کی بولی لگائی اور ہاتھی اس کے ہاتھ نیلام کرنے کا فیصلہ ہوا۔مہاوت نے یہ دیکھ کر کہا‘مولابخش !ہم دونوں نے بادشاہ کی بہت غلامی کر لی اب تو تجھے ہلدی بیچنے والے کے دروازے پر جانا پڑے گا۔“یہ سننا تھا کہ ہاتھی دھم سے زمین پر گرا اور مر گیا۔ہاتھی کی وفا داری کا یہ قصہ بہت انوکھا ہے۔مولا بخش نے اپنے مالک کے علاوہ کسی کے پاس رہنا پسند نہ کیا اور اس غم نے اس کی جان لے لی۔ " دو سہیلیاں - تحریر نمبر 1633,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/do-saheliyaan-1633.html," " وقت کا تحفہ - تحریر نمبر 1630,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/waqt-ka-tohfa-1630.html,"کشور پروینمعاذ اور محب دونوں ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔دونوں کا تعلق معاشی طور پہ تقریباً ایک جیسے گھرانوں سے تھا مگر دونوں کے ماحول اور عادات واطوار میں بہت فرق تھا۔محب قدرے سلجھا ہوا اور بڑوں کی بات سمجھ کر ماننے والے لڑکا تھا جب کہ معاذ بگڑا ہوا اور اپنی من مانی کرنے والا تھا۔محب اسے بہت سمجھا تا مگر معاذ اس کی ایک نہ سنتا۔پھر بھی محب اس کی بری باتوں کا نظر انداز کرکے اس کی اصلاح میں مصروف رہتا۔ایک دن معاذ نے محب سے بازار چلنے کا کہا تو وہ دونوں شام میں کھیل کے بعد بازار ہو لیے۔وہاں چل کر معاذ نے بہت سے پٹاخے اور آتش گیر مواد خریدا۔محب نے حیران ہوتے ہوئے معاذ کو مخاطب کیا،”یہ کیا معاذ!یہ سب سامان تم نے کیوں خریدا ہے؟“”ارے یار!نیا سال آرہا ہے ناں اور میرے کزن کی شادی بھی ہے“،معاذ نے لا پرواہی سے جواب دیا۔(جاری ہے)”ہاں تو سال نو اور شادی کا ان سب چیزوں سے کیا تعلق؟اور اب تو آتش بازی پہ پابندی بھی لگ چکی ہے“،محب نے کہا۔”وہی کام کرنے میں تو مزا ہے جس پہ پابندی ہو“،محب کی بات پہ معاذ نے زبردست قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔”اورویسے بھی انسان اپنی خوشی کے مواقع پہ انہی باتوں سے تو اپنی خوشی اور جذبات کا اظہار کرتاہے۔تم دیکھنا میں شادی پہ اور نئے سال پہ کیسی رونق کرتا ہوں“،معاذنے جوش سے کہا۔”مثلاً کیسے رونق کرو گے تم؟“محب نے پوچھا۔”ساری رات ایکو پہ تیز آواز میں گانے چلیں گے،باربی کیو اور زبردست آتش بازی“،معاذ جیسے ابھی سے انجوائے کررہا تھا۔”اور یہ تیز آواز سن کر اردگرد کے لوگوں کو کتنی تکلیف ہو گی؟کل ہی ہمارے محلے میں ایسی ہی ایک تقریب تھی ساری رات جاگنے کی وجہ سے میرے دادا جی کا بلڈ پریشر ہائی تھا آج “،محب نے ناگواری سے کہا۔”ارے یار!یہ سب چلتا ہے ،ہوتا رہتاہے“،معاذ کو گویا کوئی پروانہ تھی۔”مگر معاذ۔۔۔“محب قدرے پریشان تھا۔”ارے میرے شریف بھائی!ایسا کرنا اس بار نئے سال کی سیلیبریشن پہ تم بھی ہمارے ساتھ رہنا۔دیکھنا کتنا انجوائے کروگے“،معاذ نے محب کو پیشکش کی جسے محب نے فوراً مسترد کر دیا۔”مجھے معاف کرو!بلکہ میری بات سمجھو اللہ نے ہمیں یہ زندگی،یہ سال،ماہ،خوشیاں اس لیے نہیں دیں کہ ہم انہیں یوں آتش بازی اور مخلوق خدا کو تکلیف دے کر گزاریں۔میری مانو تم بھی باز آؤ۔یہ بھی نقصان دہ ہے“،محب نے معاذ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔”اچھا میرے بھائی!سوچوں گا ابھی تو میری جان چھوڑو“،معاذ نے اکتاتے ہوئے ہاتھ باندھے اور اس کا اکتا یا ہوا انداز دیکھ کر محب نے نہ چاہتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کرلی۔کچھ عرصے میں معاذ کے کزن کی شادی تھی جس کے لئے وہ پرجوش تھا اور بہت تیاری کررکھی تھی اس کی اس تیاری کے حوالے سے محب نے اسے بہت سمجھایا مگر معاذ نے ایک نہ سنی اور تو اور وہ تو سال نو کے لئے بھی یہی سب کرنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔معاذ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ پٹاخے اور آتش بازی میں مصروف تھا کہ ایک پٹاخہ اڑ کر سجاوٹ پہ لگا اور اس کی وجہ سے آگ لگ گئی اور اسی آگ نے معاذ اور کچھ لڑکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اللہ کا کرم ہوا کہ جانی نقصان نہ ہوا مگر پھر معاذ اچھا خاصا زخمی ہوا کہ اسے ہسپتال میں ایڈمٹ کرنا پڑا۔آج رات سال نو کا آغاز ہونا تھا اور معاذ اپنے بستر پہ پڑا تھا سامنے موجود پھول اور کارڈز اس کے اپنوں کی محبت کی ترجمان تھے مگر وہ بہت اداس تھا۔اتنے میں گھڑی نے بارہ ہند سے پورے کیے،فضا پٹاخوں کے شور اور آتش بازی سے گونج اٹھی اور معاذ جو ہر سال اس ہنگامے میں خود پیش پیش ہوتاتھا آج بے آواز رو رہا تھا۔اتنے میں محب اپنے ابو کے ساتھ ہاتھوں میں پھول لیے اندر داخل ہوا اور معاذ کو روتا دیکھ کر تیزی سے اس کی جانب بڑھا۔”ارے ارے معاذ !کیا ہو گیا ہے تمہیں؟تم تو بہت حوصلے والے ہو،انشاء اللہ تم جلد ٹھیک ہو جاؤ گے“ محب نے معاذ کے آنسو پونچھے۔”ہاں معاذ بیٹا! سب ٹھیک ہو جائے گا۔آپ پریشان نہ ہوں“، محب کے والد نے بھی اسے تسلی دی۔”نہیں انکل!میں اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں رو رہا“،معاذ نے افسردگی سے کہا۔”تو پھر تم کیوں رو رہے ہو؟“،محب حیران ہوا۔”یہ ندامت کے آنسو ہیں ۔تم نے مجھے کتنا سمجھایا تھا مگر میں نہ مانا۔ہمیشہ میں دوسروں کو تکلیف دیتا رہا مگر مجھے احساس نہ ہوا مگر آج خود پہ بیتی تو مجھے پتا لگ رہا ہے“،معاذ سے افسوس سے کہا۔”اوہ !“محب نے گہری سانس لی۔”میں تو تمہیں سمجھاتا تھا مگر تم سنتے ہی نہیں تھے“،محب نے کہا۔”جی بیٹا!نیا سال اللہ کی طرف سے دیا گیا تحفہ ہے۔وقت کا تحفہ ،جسے ہم نے قدر سے گزارنا ہے۔ماضی میں کی گئی بری چیزیں چھوڑنی ہیں اور مستقبل اچھا کرنا ہے“محب کے والد نے پیار سے سمجھایا۔”جی انکل اب آئندہ سے بالکل ایسا ہی کروں گا اور ہمیشہ وقت کے تحفے کی قدر کروں گا ان شاء اللہ،معاذ نے کہا۔’‘’ان شاء اللہ‘،محب کے والد نے معاذ کے سرپہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”تو پھر اس سب کا کیا ہو گا؟“محب جیسے پریشان سا بولا۔”کس کا؟“معاذ نے حیرانی سے پوچھا۔”پٹاخے اور آتش بازی کا سامان“،محب شرارت سے معاذکو دیکھ رہا تھا۔”توبہ کرو“،معاذ نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور دونوں دوست ساتھ ہنس پڑے۔سال نو کا وقت کا تحفہ دونوں دوستوں پہ مسکرانے لگا۔ " رونے والا درخت - تحریر نمبر 1628,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/roone-wala-darakht-1628.html," " چار دوست - تحریر نمبر 1626,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/4-dost-1626.html," " اندھیر نگری چوپٹ راج - تحریر نمبر 1624,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/andher-nagri-chopat-raj-1624.html," " احمد کا گھوڑا - تحریر نمبر 1621,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ahmad-ka-ghora-1621.html,"بہت مدت گزری،ملک عرب کی کسی بستی میں ایک شخص رہتا تھا۔اس کا نام احمد تھا۔وہ بہت دولت مند تھا،اور اسی قدر شریف بھی تھا۔احمد لوگوں کی مدد کرنااپنا فرض سمجھتا تھا،جو کوئی بھی اُس کے دروازے پر آتا تھا،خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔یہ بات تو سب ہی جانتے تھے کہ وہ اپنی ہر چیز دے سکتاہے،چنانچہ اس نے مانگنے والوں کو قیمتی سے قیمتی شے بھی دی تھی۔البتہ اس کے پاس ایک ایسی چیز بھی تھی جسے وہ کسی صورت میں بھی اپنے آپ سے جدا نہیں کر سکتا تھا،اور یہ چیز تھی ایک خوبصورت گھوڑا۔عرب کے گھوڑے یوں بھی بڑے خوب صورت اور تیز رفتار ہوتے ہیں،مگر احمد کا یہ گھوڑا تو بے نظیر تھا،اور اتنا خوب صورت کہ آدمی دیکھے تو پھر دیکھتا ہی رہ جائے۔عرب کے بڑے بڑے دولت مندوں نے اس کے لیے بہت بڑی قیمت ادا کرنے کی پیش کش کی،لیکن احمد نے ہر کسی کی پیش کش مسترد کردی۔(جاری ہے)اسے تو یہ گھوڑا اس قدر عزیز تھا،کہ وہ اسے ایک لمحے کے لیے بھی آنکھوں سے اوجھل ہونے نہیں دیتا تھا۔انسان کو اپنی جان سے زیادہ کوئی اور چیز پیاری نہیں ہوتی ۔مگر دیکھنے والوں کا کہنا یہ تھا کہ احمد کو یہ گھوڑا یقینا اپنی جان سے بھی بہت زیادہ عزیز اور پیارا تھا۔عرب کے دولت مندوں نے جب دیکھا کہ احمد کسی قیمت پر بھی اپنا گھوڑا فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ صبر کرکے بیٹھ رہے۔اب کوئی بھی احمد سے اس کے گھوڑے کی قیمت دریافت نہیں کرتا تھا،اگر چہ ہر شخص کی خواہش یہ ضرور تھی کہ کسی نہ کسی طرح یہ گھوڑا خرید لے ،تاکہ دیکھنے والے یہ کہہ سکیں کہ یہ ہی وہ شخص ہے جس نے احمد کا گھوڑا خریدلیاہے۔اور تو سب لوگ مایوس ہو چکے تھے،مگر اب بھی ایک شخص ایسا موجود تھا جو ہر وقت گھوڑے پر قبضہ کرنے کے متعلق سوچتا رہتا تھا ۔اس کا نام زبیر تھا ،جس کے خود اپنے پاس بیسیوں نہایت اعلیٰ قسم کے گھوڑے اصطبل میں بندھے رہتے تھے ،لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی گھوڑا ایسا نہیں تھا جو خوب صورتی اور تیز رفتاری میں احمد کے گھوڑے کا مقابلہ کرسکے۔ایک دن زبیر اپنے دوستوں میں بیٹھا باتیں کررہا تھا۔اس وقت گھوڑوں کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔زبیر نے کہا:”کاش!کوئی شخص میرے سارے گھوڑے لے جائے اور ان کے بدلے میں مجھے صرف احمد کا ایک گھوڑا لادے۔“یہ بات سب دوستوں نے تعجب سے سنی۔کسی نے بھی کچھ نہ کہا،لیکن ایک نوجوان جس کا نام قاسم تھا ،بولا:”کیا آپ سچ مچ احمد کا گھوڑا لینا چاہتے ہیں؟“زبیر کہنے لگا:”میں بالکل سچ کہہ رہاہوں کہ جو شخص مجھے احمد کا گھوڑا لا کر دے گا۔میں فوراً اپنے سارے کے سارے گھوڑے اس کے حوالے کردوں گا۔میں وعدہ کرتاہوں۔“قاسم کے علاوہ باقی سب دوستوں کو بھی زبیر کے اس پاگل پن پر سخت حیرت ہوئی ۔جو شخص اپنے گھوڑے کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز جانتا ہے،وہ اپنا گھوڑا کس طرح اس کے حوالے کردے گا۔خیر بات ختم ہو گئی اور قاسم اپنے گھر روانہ ہو گیا۔گھر جا کر اُس نے مختلف تجویزیں سوچیں کہ احمد سے کیا کہے گا اور کس طرح کہے گا۔یہ سب تجویزیں سوچنے کے بعد وہ دوسرے دن اس بستی کی طرف روانہ ہو گیا جہاں احمد رہتا تھا۔جب قاسم اس بستی میں پہنچا اور وہ احمد سے ملا ،تو احمد کی باتوں سے اس کو معلوم ہو گیا کہ واقعی اس کو اپنے گھوڑے سے بے پناہ محبت ہے اور جو کچھ اس نے سوچا تھا ،بالکل غلط تھا۔احمد پر توکوئی بات بھی اثر نہیں کر سکتی تھی۔وہ کسی قیمت پر بھی راضی نہ ہوا۔قاسم نا امید ہو کر احمد کے مکان سے باہر نکل آیا اور سوچنے لگا کہ اسی دن اپنے گھر واپس لوٹ جائے،مگر پھر اچانک ایک نیا خیال اس کے ذہن میں آگیا اور اس کے چلتے ہوئے پاؤں رُک گئے۔وہ اسی وقت بازار روانہ ہو گیا۔اس نے ایک چادر خریدی اور اسے بغل میں دابا۔پھر بازار میں اِدھر اُدھر گھومنے لگا۔اسی اثنا میں اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہو گئی جو احمد کا بہت ہی گہرادوست تھا۔اس نے قاسم کو بتایا:”احمد دن میں صرف ایک وقت اپنے گھوڑے پر سواری کرتا ہے اور یہ وقت ہواہے صبح کا۔احمد صبح کے وقت اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر کافی دور تک سیر کے لیے جاتاہے اور جب واپس آتا ہے تو پھر کسی صورت بھی اس پر سواری نہیں کرتا اور گھوڑا سارا دن اپنی جگہ پر بندھا رہتاہے۔اور احمد بھی اس کے قریب ہی موجود ہوتاہے تاکہ کوئی چور اسے لے نہ جائے یا کوئی دشمن اسے کوئی ایسی زہریلی چیز نہ کھلادے جس سے گھوڑا بیمار ہو کر مر جائے۔قاسم کو اس بات کی خبر تو ہو گئی تھی کہ احمد صبح کے وقت گھوڑے پر سوار ہو کر سیر کے لیے دور تک جاتاہے۔پھر قاسم کی ایک اور آدمی سے ملاقات ہو گئی۔اس آدمی سے یہ بھی پتا چل گیا کہ احمد جاتا کدھر ہے۔دوسرے دن قاسم بہت سویرے اُٹھ گیا۔اس نے اپنی چادر لپیٹی اور پھر اس طرف روانہ ہو گیا،جس طرف سے احمد نے گزرنا تھا۔کافی دور پہنچ کر وہ ایک ٹیلے کے ساتھ پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا۔اور احمد کا انتظار کرنے لگا۔صبح کی روشنی ابھی پھیلی نہیں تھی۔رات کا آخری پہر گزررہا تھا۔کچھ دیر کے بعد افق پر روشنی نمودار ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ پھیلنے لگی۔یکایک دور سے ایک سیاہ سایہ حرکت کرتا ہوا نظر آیا۔سایہ قریب آتا جارہا تھا۔قاسم نے سمجھ لیا کہ احمد کے سوا اور کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔سایہ حرکت کرتا رہا۔یکایک کچھ دور ایک سوار دکھائی دینے لگا۔قاسم نے جب دیکھ لیا کہ احمد قریب آرہا ہے تو وہ اپنے پیٹ کو پکڑ کر اس طرح ہائے ہائے کرنے لگا ،جیسے وہ سخت تکلیف کی حالت میں ہے اور تڑپ رہا ہے۔اب احمد اس کے بہت قریب آگیا تھا،اور اس کے کانوں تک قاسم کے ہائے ہائے کی آواز پہنچ گئی تھی،جیسے ہی احمد نے کراہنے کی آواز سنی اُس نے اپنا گھوڑا روکا اور پھر گھوڑے سے نیچے اتر آیا اور بولا:”کیوں بھائی!کون ہو تم اور کیا تکلیف ہے تم کو۔اس طرح ہائے ہائے کیوں کررہے ہو؟“قاسم نے احمد کی طرف دیکھا اور بولا:”جناب !میرے پیٹ میں اچانک سخت درد شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مجھ سے ایک قدم بھی چلا نہیں جاتا سخت مجبور ہو کر یہاں بیٹھ گیا ہوں۔“احمد نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور اپنے گھوڑے پر بیٹھا تے ہوئے بولا:”چلیے،میں آپ کو شہر لیے چلتا ہوں۔وہاں آپ کو کسی حکیم کے پاس لے چلوں گا اور آپ کو دوائی لے دوں گا۔“قاسم نے احمد کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پھر گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگا۔اچانک قاسم نے کہا:”جناب!ذرا گھوڑا روکیے،میری چادر گر پڑی ہے۔“احمد نے اپنا گھوڑا روک لیا اور دیکھا کہ قاسم کی چادر دور جاپڑی ہے۔وہ گھوڑے سے نیچے اُترا اور چادر اٹھانے گیا۔اس سے پہلے کہ وہ چادر تک پہنچے ،قاسم نے للکار کر کہا:”اب اُدھر ہی رہو،میں گھوڑا لیے جارہاہوں۔یہ گھوڑا اب میری ملکیت ہے اور پھر یہ کہہ کر قاسم نے گھوڑے کو ایڑی لگائی اور گھوڑا ایک دم ہوا سے باتیں کرنے لگا۔احمد نے آواز دی:”بھائی صاحب!بے شک گھوڑا آپ لے جائیں،مگر میری صرف ایک بات سن لیں۔“”کیا ہے؟“قاسم نے گھوڑا روک کر پوچھا۔احمد بولا:”کسی سے یہ بات ہر گز نہ کہنا کہ تم نے دھوکا دے کر یہ گھوڑا حاصل کیا ہے۔تم ایک مسلمان ہو اور کوئی مسلمان کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیتا۔“قاسم نے احمد کی بات سنی اور گھوڑے کی باگ کو جھٹکادیا۔گھوڑا بھاگنے لگا۔ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اس نے باگ کھینچ لی۔احمد کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے،اور اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی رگ رگ میں کانٹے چبھ رہے ہوں۔اس سے آگے نہ بڑھا گیا،وہ واپس لوٹ آیا۔احمد ابھی وہیں موجود تھا۔قاسم گھوڑے سے نیچے اُترا اور احمد کے سامنے اس طرح کھڑا ہو گیا جیسے خود کو ایک بہت بڑا مجرم سمجھتاہے۔ایک دولمحے چپ رہنے کے بعد کہنے لگا:”جناب!مجھے معاف کر دیجیے۔یہ لیجیے اپنا گھوڑا۔میں اپنے خدا سے ،اور آپ سے سخت شرمندہ ہوں۔“ " بے بس بادشاہ - تحریر نمبر 1620,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bebas-badshah-1620.html,"انگلینڈ میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔اس کا نام”میڈاس“تھا۔اس کے پاس دولت کی کمی نہیں تھی۔وہ سونے کی بنی ہوئی چیزوں کو بہت پسند کرتا،اور ہر وقت اس فکر میں رہتا کہ اس کے پاس سونے کی بنی ہوئی بہت سی چیزیں ہوں۔اپنے اس شوق میں اپنی رعایا کو بھول گیا تھا۔اپنے ملک کے لوگوں کی بھلائی کے لیے وہ کوئی کام نہیں کرتا تھا۔اس لیے اس کے ملک کے لوگ بہت غریب تھے۔بادشاہ کا وزیر اعظم بادشاہ کو کہتا”عالی جاہ!ہمیں اپنے ملک کے غریبوں کی مدد کرنی چاہئے،وہ بہت بری حالت میں ہیں۔“بادشاہ جواب دیتا”وزیراعظم!تمہیں ان غریبوں کا اتنا خیال کیوں ہے،کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم اپنی دولت ان بھوکے ننگوں میں لٹادیں اور خود فقیر ہو جائیں۔نہیں یہ نہیں ہو سکتا،ہم ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے“یہ کہہ کر وہ اپنے محل کے کمرے میں چلا جاتا اور اپنے پاس جمع کئے ہوئے سونے کے سکے گننے لگتا۔(جاری ہے)وہ جتنا زیادہ سونے کے سکے گنتا اسے اتنا ہی مزہ آتا۔بادشاہ میڈاس کی ایک بڑی ہی پیاری لڑکی تھی جس کا نام ”میری گولڈ“تھا۔میری گولڈ بہت خوبصورت تھی۔اسے پھول بہت پسند تھے اورجب بھی موقع ملتا وہ باغ میں جاکر پھول جمع کرتی تھی،جب بھی میری گولڈ کی سالگرہ ہوتی تو بادشاہ اسے سونے کے بنے ہوئے تحفے دیتا۔ایک دن جب اس کا وزیر اسے غریبوں کی مدد کرنے کو کہہ رہا تھا۔بادشاہ غصے ہو کر بولا”تم کو نہیں معلوم کہ میں دنیا کا امیر ترین بادشاہ بننا چاہتا ہوں اور تم ہو کہ میری دولت کم کرنے کا سوچتے رہے ہو۔“بادشاہ نے وزیر سے کہا”میں چاہتا ہوں کہ میں جس چیز کو چھوؤں تو وہ سونے کی ہو جائے۔“وزیر نے کہا”یہ تو بہت خطر ناک سوچ ہے۔اس سے بہت نقصان ہو سکتاہے۔“بادشاہ نے کہا”گستاخی خاموش ہو جاؤ اور مجھے تمہارے مشورہ کی ضرورت نہیں ہے۔“اسی وقت وہاں سے ایک پری گزررہی تھی اس نے جب بادشاہ کی خواہش سنی تو اس نے لالچی بادشاہ کو سبق سکھانا چاہا۔پری بادشاہ کے سامنے آئی اور کہا”میں نے تمہاری خواہش سنی ہے اور اسے پورا کرنا چاہتی ہوں۔“بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا۔پری نے کہا”کل صبح تم کسی چیز کو بھی چھوؤ گے وہ سونے کی ہو جائے گی۔“بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا،اب اسے رات کو نیند ہی نہیں آرہی تھی کہ جلد ی سے صبح ہو اور اس کی خواہش پوری ہو۔اس نے اپنے آپ سے کہا”میں سب سے امیر بادشاہ بن جاؤں گا۔لوگ میری دولت کی مثالیں دیں گے۔کتنا اچھا لگے گا،جب میرے پاس ہر چیز سونے کی ہو گی۔“صبح بادشاہ بہت جلد نیند سے جاگ گیا۔اس نے جیسے ہی اپنے کمبل کو چھوا،تو کمبل سونے کا ہو گیا۔بادشاہ بہت خوش ہوا،اب اس نے کرسی کو چھوا تو کرسی بھی سونے کی ہو گئی جگ کو چھوا وہ بھی سونے کا ہو گیا۔موم بتی کے اسٹینڈ کو چھوا تو وہ بھی سونے کا ہو گیا۔اپنے پلنگ کو چھوا تو وہ سونے کا ہو گیا۔اپنے کمرے کی سب چیزوں کو سونے کا کرنے کے بعد بادشاہ اپنے محل کے باغ میں گیا۔وہاں اس نے پھولوں کو چھوا تو وہ بھی سونے کے ہوگئے۔میری گولڈ کے پلے ہوئے ہرن اور خرگوش کو چھوا تو وہ بھی سونے کے ہو گئے،ہر چیز کو سونے کا بنا کر بادشاہ خوشی خوشی محل میں واپس آیا۔جب وہ ناشتہ کرنے میز پر بیٹھاتاکہ ناشتہ کرسکے۔میز پر ناشتہ لگ چکا تھا،ناشتے میں دنیا کی ہر نعمت موجود تھی۔بادشاہ نے کھانے کو ہاتھ بڑھایا۔اس نے سیب کو اٹھانا چاہا تو وہ سونے کا بن گیا۔وہ جس چیز مثلاً ڈبل روٹی ،دودھ کا گلاس،مکھن ،جام ،ٹرے،ٹوکری وغیرہ کو ہاتھ لگاتا وہ چیز سونے کی بن جاتی ۔وہ ناشتہ نہ کرسکا۔بچو!کیا کبھی سونے کی چیزیں بھی کھائی جا سکتی ہیں۔یہ چیزیں تو صرف رکھنے کے لیے ہوتی ہیں۔انہیں کھاتا کون ہے ،جو بادشاہ کھا سکتا۔صبح جب شہزادی میری گولڈ اپنے محل کے باغ میں پھول توڑنے گئی تو وہاں کا عجیب نظارہ دیکھ کر حیران ہو گئی کہ سارے باغ اور اس کے پالتو جانور مختلف نظر آرہے تھے۔وہ بہت اداس ہو گئی۔اس نے کہا”سب پھولوں کی خوشبو کھو گئی ہے۔میرے پالتو جانور بھی حرکت نہیں کر رہے ہیں۔یہ ان سب کو کیا ہو گیا۔“میری گولڈ یہ دیکھ کر بہت روئی،اور روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس پہنچ گئی اور اس کی ساری بات بتادی۔بادشاہ نے کہا”شہزادی مت رو،تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ اب میں سب سے امیر بادشاہ ہوں۔“یہ سن کر میری گولڈ خوش ہونے کے بجائے اور زیادہ رونے لگی۔بادشاہ نے اپنی شہزادی کو چپ کرانے کے لیے اسے تھپکی دی تو بادشاہ کا ہاتھ لگتے ہی میری گولڈ سونے کی ہو گئی۔ایک جیتی جاگتی شہزادی اب ایک سونے کا مجسمہ بن گئی۔یہ دیکھ کر بادشاہ بہت پریشان ہو گیا۔اس نے تمام حکیموں کو اپنے دربار میں بلایا تاکہ وہ شہزادی کا علاج کر سکیں،مگر اسے تو کوئی بیماری ہی نہیں تھی۔تمام حکیموں نے بڑی کوشش کی کہ شہزادی کو واپسی اصلی حالت میں لاسکیں،مگر وہ ناکام رہے،اب تو بادشاہ غمگین ہو گیا۔اس کی جیتی جاگتی شہزادی اب ایک سونے کا مجسمہ تھی،اور وہ اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔بادشاہ نے اپنی اداسی کو دور کرنے کے لیے شہر کا دورہ کیا۔دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا تھا اور غریب سے غریب انسان بھی کھانا کھارہا تھا،مگر بادشاہ بھوکا تھا۔اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا اور اب لوگوں کو کھاتا دیکھ کراس کو بھی بھوک لگی۔لیکن وہ کھانے کو چھوتے ہوئے ڈرتا تھا۔اسے ڈر تھا کہ جیسے ہی اس نے کھانے کی کسی چیز کو چھوا تو وہ سونے کی ہو جائے گی۔بادشاہ نے یہ بھی دیکھا کہ محل سے باہر بہت سے بچے کھیل کود رہے تھے۔یہ دیکھ کر وہ اداس ہو گیا کہ اب اس کی بیٹی کبھی نہیں کھیل سکتی۔بادشاہ اس لمحے کو کوس رہا تھا،جب اس نے یہ خواہش کی تھی کہ اس کے چھونے سے ہر چیز سونے کی ہو جائے۔اس نے کہا”کاش میں خواہش نہ کرتا تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا،شہزادی بھی ٹھیک ہوتی اور میں بھی پہلے کی طرح سکون اور آرام سے ہوتا۔“اس طرح پچھتا تا ہوا وہ محل واپس آگیا۔اچانک اس کے سامنے وہی پری آگئی۔پری نے بادشاہ سے پوچھا”تم اداس کیوں ہو بادشاہ ،کیا اب تم سب سے بڑے امیر بادشاہ نہیں ہو؟“بادشاہ نے کہا”اچھی پری!اب میں سب سے امیر بادشاہ ہوں،لیکن اتنا سونا بھی مجھے خوش نہیں کر سکا۔اچھی پری مہربانی کرکے میری مدد کریں۔“یہ سن کر پری جان گئی کہ اب بادشاہ کبھی لالچ نہیں کرے گا۔پری نے بادشاہ کو پانی سے بھرا ہوا پانی کا جگ دیا اور کہا”اس جگ کا پانی ہر اس چیز پر چھڑک دو،جس کو تم نے چھواہے۔“بادشاہ جگ لے کر پہلے باغ کی طرف بھاگا،جب اس نے پھولوں پر جگ کا پانی چھڑکا تو وہ پہلے کی طرح تازہ اور خوشبودار ہو گئے۔یہ دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔اس نے شہزادی کے پالتو جانوروں پر پانی چھڑک دیا ،تووہ بھی دوڑنے بھاگنے لگے۔پھر وہ شہزادی کی طرف بھاگا اور شہزادی پر پانی چھڑکا تو میری گولڈ دوبارہ جیتی جاگتی انسان بن گئی۔اب تو بادشاہ خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔اس دن کے بعد بادشاہ نے لالچ سے توبہ کی اور اپنے ملک کی رعایا کے لیے فلاحی کام شروع کئے۔اس نے غریبوں کی مدد کرنے اور ان کے لیے اچھے اچھے منصوبے تیار کئے۔اسے احساس ہو گیا تھا کہ سونا اور دولت ہی انسان کو خوشی نہیں دے سکتے۔صرف نیکی انسان کو سچی خوشی دے سکتی ہے۔اب وہ غریبوں کا ہمدرد اور نیک بادشاہ بن گیا تھا۔اس لیے اس کے ملک کے لوگ اس کو اب بہت پسند کرنے لگے تھے اور وہ خوشی خوشی اپنے ملک پر حکومت کرنے لگا۔ " سنہری لڑکی اور بھالو - تحریر نمبر 1619,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sunehri-larki-or-bhalu-1619.html,"ایک جنگل کے کنارے ایک خوبصورت لڑکی رہتی تھی۔وہ جتنی خوبصورت تھی ،اتنے ہی خوبصورت اس کے بال تھے۔اس کے سنہری بالوں کے لچھے دیکھ کر سب ہی اس کو ”گولڈی لوکس“کہتے تھے۔ہر صبح جب اس کی ماں گولڈی لوکس کے بالوں میں کنگھی کرتی تو کہتی ”میری پیاری گولڈی لوکس کے بال کتنے پیارے چمکیلے اور خوبصورت ہیں جیسے سونے کے لچھے ہوں۔“ایک دن گولڈی لوکس صبح کی سیر کو نکلی تو چلتے چلتے جنگل کی طرف نکل گئی۔جنگل میں پرندے چہچہارہے تھے اور پھول کھلے ہوئے تھے۔درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے اسے بہت اچھے لگے اور وہ جنگل کے اندر گھستی چلی گئی۔چلتے چلتے اس کو احساس ہوا کہ وہ راستہ بھول گئی ہے۔اس کو اندازہ بھی نہیں ہورہا تھا کہ وہ کس طرح جنگل سے نکل کر اپنے گھر جائے۔(جاری ہے)وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑا رہی تھی کہ اس نے درختوں کی طرف دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا۔وہ بھاگ کر اس طرف گئی تو اس نے دیکھا کہ درختوں کے درمیان ایک چھوٹا سا خوبصورت سامکان ہے۔اس نے اس مکان کے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ دروازہ کھلتا چلا گیا۔وہ مکان کے اندر داخل ہوئی تو اس نے دیکھا کہ میز پر دلیے کے تین پیالے رکھے ہوئے ہیں۔گولڈی لوکس کو پتہ نہیں تھا کہ یہ مکان تین بھورے بھالوؤں کا ہے۔بڑا بھالو جو کہ چھوٹے بھالو کا باپ تھا،درمیانہ بھالو جو چھوٹے بھالو کی ماں تھی،اور منابھالو جو کہ ان کا بیٹا تھا۔اس صبح اماں بھالو نے دلیہ پکایا تھا تاکہ وہ ناشتہ کرسکیں۔مگر جب ابابھالو نے دلیہ چکھا تو کہا”یہ دلیہ تو بہت گرم ہے اس سے میری زبان ہی جل گئی۔چلو اس کے ٹھنڈا ہونے تک صبح کی سیر کر آئیں۔“جب گولڈی لوکس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو کوئی جواب نہیں آیا کیونکہ تینوں بھالو سیر کو گئے تھے۔گولڈی لوکس جب گھر میں داخل ہوئی تو صرف آتش دان میں آگ جل رہی تھی اور لکڑی چٹکنے کی آواز آرہی تھی۔اس نے چاروں طرف دیکھا تو میز پر تین پیالے رکھے ہوئے تھے۔ایک بڑا پیالہ ،دوسرا درمیانہ پیالہ اور تیسرا پیالہ بہت ہی چھوٹا سا تھا۔ان میں دلیہ تھا اور دلیہ کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔دلیے کو دیکھتے ہی گولڈی لوکس کی بھوک چمک اٹھی اور اس نے چمچہ اٹھایا اور بڑے پیالے کو دلیے کو چکھا۔وہ!یہ تو بہت گرم ہے۔اس نے درمیانی پیالے کا دلیہ چکھا تو یہ بہت ٹھنڈا تھا۔چھوٹے پیالے کا دلیہ نہ زیادہ گرم تھا،نہ زیادہ ٹھنڈا۔اس نے وہی دلیہ کھانا شروع کیا اور سارا دلیہ کھا گئی۔میز کے گرد تین کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔بڑی کرسی بہت اونچی تھی،درمیانی کرسی بہت نرم تھی ،چھوٹی کرسی میں جو بیٹھی تو اسے ٹھیک لگی۔وہ اس پر بیٹھ کر جھولنے لگی۔جھولتے جھولتی آخر کرسی ٹوٹ گئی اور گولڈی لوکس زور سے زمین پر گر گئی۔پھر وہ دوسرے کمرے میں گئی تو وہاں بھی تین بستر بچھے ہوئے تھے،بڑا بستر بہت سخت تھا،درمیانہ بستر بہت نرم تھا اور چھوٹا بستر بہت نرم وملائم تھا۔گولڈی لوکس بہت ہی تھک گئی تھی اس لیے وہ چھوٹے بستر پر لیٹ گئی اور لیٹتے ہی اسے نیند آگئی۔اب ان بھالوں کی سنیے۔جب یہ تینوں بھالو صبح کی سیر کرکے واپس آرہے تھے تو اپنے ساتھ لکڑیاں بھی جمع کرکے لائے تھے۔ابابھالو نے بڑا بنڈل بنایا،اماں بھالو نے درمیانہ گٹھا بنایا اور منابھالو نے سب سے چھوٹا گٹھا بنایا۔جب یہ تینوں اپنے مکان کے دروازے پر آئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دروازہ کھلا ہوا ہے ۔جب کہ وہ اندر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ دلیے کو کسی نے چھیڑا ہے۔ابا بھالو نے کہا”میرادلیہ کس نے چکھا؟“اماں بھالو نے کہا”اور میرادلیہ کس نے چکھا؟“منابھالو بولا”میرادلیہ کس نے کھایا اور کھاکے ختم کر دیا؟“ابابھالو پریشان ہو کر کرسی پر بیٹھے تو کہا”میری کرسی پر کون بیٹھنا چاہتا تھا؟“اماں بھالو کی کرسی بھی اپنی جگہ پر نہیں تھی۔تھوڑی کھسکی ہوئی تھی اس نے یہ دیکھ کر کہا ”میری کرسی پر کون بیٹھا؟“آخر میں منا بھالو چیخ کر بولا”میری کرسی پر کوئی بیٹھا؟کس نے میری کرسی توڑ دی؟“ابا بھالو نے چاروں طرف دیکھا اور پھر وہ سب دوسرے کمرے میں گئے۔ابا بھالو بولے”میرے پلنگ پر کون لیٹا تھا؟“اماں بھالو بولی”اور میرے پلنگ پر کون لیٹا تھا؟“منابھالو بولا”اور میرے پلنگ پر کون لیٹا اور اب بھی سویا ہوا ہے؟“ابا بھالو بولے”ہائیں کون لیٹا ہوا ہے؟“ابابھالو کی بھاری آواز سن کر گولڈی لوکس جاگ گئی۔اس نے جب تین بھالوؤں کو دیکھا تو خوف زدہ ہوکر ڈر گئی اور بستر سے چھلانگ لگا کر بھاگ کھڑی ہوئی اور دوڑتی چلی گئی۔بھاگتے بھاگتے وہ اچانک ٹھیک راستے پر پہنچ گئی اور وہاں سے اپنے گھر چلی گئی،گھر پہنچ کر اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور پکا ارادہ کرلیا کہ وہ آئندہ جنگل میں نہیں جائے گی۔ " بونے کے جوتے - تحریر نمبر 1618,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bone-k-joote-1618.html,"مونگی ایک موچی تھا- اس کی دکان گاؤں میں تھی- وہ روزانہ صبح دکان کھولتا، دن بھر گاؤں والوں کے پھٹے پرانے جوتوں کی مرمت کرتا اور جب شام ہوتی تو دکان بند کر کے گھر چلا آتا- چونکہ وہ بہت غریب تھا اس لیے اس کی دکان نہایت ٹوٹی پھوٹی حالت میں تھی- اس کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں تھے کہ اس کی مرمت کروا سکتا- بارشوں میں اس کی چھت ٹپکنے لگتی تھی اور دکان میں موجود سامان بھیگ جاتا- اس نے سوچ رکھا تھا کہ جیسے ہی اس کے پاس کچھ پیسے جمع ہوں گے، وہ سب سے پہلے دکان کی مرمت کروائے گا-ایک روز صبح جب وہ اپنی دکان پر جانے کے لیے بیدار ہوا تو اس کی بیوی لالی بولی-""لکڑیاں ختم ہو گئی ہیں- میں آٹا گوندھ کر رکھتی ہوں- تو جلدی سے لکڑی والے سے مجھے لکڑی لادےتاکہ میں ناشتہ بناؤں""-مونگی نے دو چھپکے پانی کے منہ پر مارے اور گاؤں کی لکڑیوں کی ٹال کی جانب روانہ ہوگیا- جب وہ لکڑیوں کی ٹال پر پہنچا تو وہ بند تھی- اس کے پڑوس میں بھوسے والے کی دکان تھی- بھوسے کی دکان کا مالک مونگی کا دوست تھا- اس نے بتایا کہ ٹال والا کل شہر گیا تھا اور آج دوپہر تک واپس آئے گا-مونگی نے سوچا کہ اگر لکڑیاں نہیں ملیں تو پھر لالی ناشتہ کیسے تیار کرے گی- یہ سوچ کر اس نے جنگل جانے کی ٹھانی تاکہ وہاں سے کچھ لکڑیاں لے کر گھر چلا جائے- جنگل بالکل قریب تھا- وہ جنگل کی طرف چل پڑا- اس کے پاس کلہاڑی تو تھی نہیں کہ وہ لکڑیاں کاٹتا- اس لیے جنگل میں پہنچ کر اس نے بہت ساری خشک جھاڑیاں جمع کر لیں- پھر ان کا گٹھا بنایا اور اس گٹھے کو اٹھا کر گھر کی طرف چل دیا-ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ سامنے سے اس کو ایک ننھا منا بونا آتا دکھائی دیا- وہ اپنے پاؤں گھسٹ گھسٹ کر آہستہ آہستہ چل رہا تھا- مونگی کو لگا کہ اس کے پاؤں میں تکلیف ہے- مونگی ایک رحمدل آدمی تھا- بونے کے پاؤں کی تکلیف کا خیال دل میں آیا تو اس نے اس کی مدد کرنے کی ٹھانی- اس نے جھاڑیوں کا گٹھا زمین پر رکھا اور بونے کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا-بونا جب اس کے قریب پہنچا تو مونگی نے کہا- ""ایسا معلوم دیتا ہے جیسے تمھارے پاؤں میں تکلیف ہے- کیا میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں؟""-بونے نے کہا- ""میرے پاؤں میں کوئی تکلیف نہیں ہے- دراصل میں نے جو جوتے پہن رکھے ہیں وہ میرے پاؤں سے بہت بڑے ہیں- میں تیز تیز چلنے کی کوشش کرتا ہوں تو یہ پاؤں سے اتر جاتے ہیں""-مونگی نے اس کی بات سن کر اس کے پیروں پر ایک نظر ڈالی- بونے کے پاؤں تو چھوٹے چھوٹے تھے مگر اس نے جوتے اتنے بڑے پہنے ہوۓ تھے جیسے خود مونگی پہنتا تھا- اتنے بڑے جوتے پہننے کی وجہ سے ہی بونا زمین پر پاؤں گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا-مونگی نے کہا- ""اتنے بڑے جوتے پہن کر چلنا پھرنا بہت تکلیف دہ کام ہے- یہ جوتے تو بہت بڑے ہیں- تمہیں کہاں سے ملے؟""-بونے نے جواب دیا- ""میں بونوں کی دنیا میں رہتا ہوں- ہماری دنیا سامنے والے پہاڑوں کے پیچھے ہے- میرا کسی کام سے تمہاری دنیا میں آنا ہوا-یہاں پہنچنے کے لیے پہلے تو مجھے پہاڑ پر چڑھنا پڑا اور پھر اترنا بھی پڑا- اس وجہ سے میں بہت تھک گیا تھا- میرے سامنے ایک جنگل تھا- جنگل میں پہنچ کر تھوڑا سا آرام کرنے کی غرض سے میں ایک درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں گھاس پر لیٹ گیا- اپنے جوتے اتار کر میں نے اپنے قریب ہی رکھ لیے تھے- میری تھوڑی دیر کے لیے آنکھ لگ گئی تھی- جب میں سو کر اٹھا تو میرے جوتے غائب تھے- میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا- میری نظر سامنے درخت پر بیٹھے ایک بڑے سے بندر پر پڑی- وہ دانت نکال کر مجھے دیکھ رہا تھا اور اس نے میرے جوتے پہنے ہوۓ تھے- میں اس کی طرف لپکا تو وہ درختوں کی شاخوں پر جھولتا ہوا وہاں سے غائب ہوگیا- میں بہت پریشان تھا- جنگل میں جا بجا کانٹے اور چھوٹی چھوٹی کنکریاں پڑی ہوتی ہیں- میں بغیر جوتوں کے ان پر چل بھی نہیں سکتا تھا- لیکن مجبوری تھی- میں نے اپنا سفر پھر شروع کیا- ابھی میں تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ایک جگہ مجھے جھاڑیوں میں یہ جوتے پڑے نظر آئے- شاید کسی قافلے نے وہاں پڑاؤ ڈالا تھا کیوں کہ وہاں پر بہت سے مٹی کے ٹوٹے ہوۓ برتن اور دوسری اشیا بھی پڑی ہوئی تھیں- یہ جوتے پھٹے پرانے تھے مگر میں نے انہیں غنیمت جانا اور انہیں پہن کر اپنے سفر پر روانہ ہوگیا""-مونگی نے کہا- ""یہ جوتے تو بہت ہی تکلیف دہ ہیں- مگر فکر کی بات نہیں- تم میرے ساتھ چلو- میں جوتے بناتا ہوں- آج میں اپنا کام نہیں کروں گا- تمھارے لیے سبک اور خوب صورت سے جوتے بناؤں گا- انھیں پہن کر تم بہت آرام محسوس کرو گے-اس کی بات سن کر بونا کچھ فکرمند ہو گیا اور بولا- ""میں تو بونوں کی دنیا میں رہتا ہوں- میرے پاس وہیں کے پیسے ہیں- مگر یہ پیسے تمہاری دنیا میں نہیں چلیں گے""- یہ کہہ کر بونے نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر بونوں کی دنیا کے پیسے نکال کر مونگی کو دکھائے- مونگی نے دیکھا کہ اس کی ہتھیلی پر پیتل کے بنے ہوۓ چھوٹے بڑے چوکور ٹکڑے رکھے تھے- ان پر نہ تو کوئی تصویر تھی اور نہ ہی کچھ لکھا ہوا تھا-مونگی ایک اچھا آدمی تھا- اس نے بونے سے کہا- ""ہاں اس طرح کے پیسے ہمارے یہاں نہیں چلتے- لیکن میں تمھارے لیے پھر بھی جوتے بناؤں گا- تم پیسوں کی طرف سے فکر مت کرو- سمجھنا وہ جوتے میری طرف سے تمھارے لیے ایک تحفہ ہوں گے""-بونا یہ سن کر خوش ہوگیا- مونگی اسے ساتھ لے کر گھر آیا اور جنگل سے لائی ہوئی جھاڑیوں کا گٹھا چولہے کے پاس رکھ دیا- مونگی کے ساتھ ایک بونے مہمان کو دیکھ کر لالی نے جلدی سے چولہا جلایا اور ناشتہ تیار کرنے لگی-ناشتے کے بعد مونگی بونے کو لے کر اپنی دکان پر آیا اور اس کے جوتے بنانے میں مصروف ہوگیا- دوپہر تک جوتے تیار ہوگئے تھے- وہ نہایت نرم و ملائم کھال سے بنے تھے اور بونے کی پنڈلیوں تک لمبے تھے- بونے نے انھیں پہن کر دیکھا خوش ہوگیا اور بولا - ""مونگی- تمہارا بہت بہت شکریہ- تم نے بہت خوب صورت اور آرام دہ جوتے بنائے ہیں- تم ایک بہت اچھے انسان ہو- میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا اب میں چلتا ہوں تاکہ رات ہونے سے پہلے اپنے گھر پہنچ جاؤں""-مونگی نے اسے خدا حافظ کہا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا-اس بات کو بہت دن ہوگئے- مونگی اس بونے کو بھول بھال گیا تھا- اچانک ایک روز رات کو اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی- مونگی نے دروازہ کھولا اور یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ وہ ہی بونا اس کے دروازے پر کھڑا ہے- سامنے ایک چھوٹی سی بگھی کھڑی تھی- بونا اسی بگھی میں سوار ہو کر آیا تھا-وہ بونے کو لے کر گھر میں آیا- لالی بھی بونے کو دوبارہ اپنے گھر میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی- اس نے گڑ کے میٹھے چاول بنائے تھے- اس نے وہ چاول بونے کے آگے رکھے- بونے کو میٹھے چاول بہت پسند تھے- اس نے لالی کا شکریہ ادا کیا اور چاول کھانے میں مصروف ہوگیا-کھانے کے بعد اس نے مونگی سے کہا- ""مونگی تمہارے بنائے ہوۓ جوتوں کی میرے ملک میں ہر طرف دھوم مچ گئی ہے- وہاں کے تو سب لوگ چاول، میزری یا پھر گندم کے سوکھے پودوں سے بنے جوتے پہنتے ہیں- ایسے شاندار چمڑے کے بنے ہوۓ خوب صورت جوتے انہوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے- ان جوتوں کی خبر شاہی محل میں بھی پہنچ گئی ہے- ہمارے بادشاہ نے مجھے تمھارے پاس بھیجا ہے اور کہا ہے کہ تم ان کے، ملکہ کے اور ان کے بچوں کے جوتے بناؤ گے- اسی لیے میں تمہیں لینے آیا ہوں- بس اب چلنے کی تیاری شروع کردو- ہمارا بادشاہ اس کام کا تمہیں بہت سا انعام دے گا ""-بونے کی باتیں سن کر مونگی کو بہت خوشی ہوئی- اس نے کہا- ""ہاں ہاں- میں ضرور تمھارے ساتھ چلوں گا- اسی بہانے میں بونوں کی دنیا بھی دیکھ لوں گا- سنا ہے بونوں کی دنیا بہت خوب صورت ہے- سب لوگ بہت پیار محبّت سے رہتے ہیں""-""مونگی- تم نے ٹھیک سنا ہے- ہماری دنیا کے لوگ بہت اچھے ہیں- بالکل تمہاری اور تمہاری بیوی کی طرح- تم نے بھی تو میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا تھا- میرے پاس تمہیں دینے کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں تھا اس کے باوجود بھی تم نے مجھے جوتے بنا کر دئیے- تمہاری بیوی بھی بہت اچھی ہے- اس نے بھی میری بہت خاطر مدارت کی تھی""- بونے نے کہا-مونگی اس کی بات سن کر بولا- ""ہم نے جو کیا تھا وہ ہمارا فرض تھا- ویسے بھی کسی کے کام آنا بہت اچھی بات ہے""-بونے نے اپنی جیب سے سونے کی چند چھوٹی چھوٹی ڈلیاں نکال کر مونگی کو دیں اور بولا- ""یہ سونے کی ڈلیاں ہمارے بادشاہ نے تمھارے لیے بھجوائی ہیں تاکہ انہیں بیچ کر تم جوتے بنانے کے لیے چمڑہ اور دوسری چیزیں خرید سکو- اس کے علاوہ تمہیں ایک گھوڑا بھی خریدنا پڑے گا- اس پر بیٹھ کر ہی تم ہمارے ملک جا سکو گے- وہ پہاڑوں کے پیچھے ہے اور یہاں سے کافی فاصلے پر ہے- بس اب تم تیاری شروع کردو- میں ایک ہفتے بعد پھر آؤں گا اور تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا""-یہ کہہ کر بونا اپنی سنہری بگھی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہوگیا- بگھی میں ایک چھوٹا سا گھوڑا جتا ہوا تھا- بونا بگھی پر سوار ہوگیا تو گھوڑا ہلکی سی آواز میں ہنہنایا، سر گھما کر مونگی کو دیکھا اور پھر روانہ ہوگیا-مونگی نے جب سونے کی ڈلیاں لالی کو دکھائیں تو وہ بھی بہت خوش ہوئی-مونگی نے اب اپنے سفر کی تیاریاں شروع کر دی تھیں- اس نے نرم و نازک چمڑہ، نئے اوزار، ریشمی دھاگا اور جوتے بنانے میں کام آنے والی دوسری چیزیں خریدیں- اس نے سواری کے لیے ایک گھوڑا بھی خرید لیا تھا- اسے اس بات کی بہت خوش تھی کہ اس کے کام کو بونوں کی دنیا میں بھی پسند کیا گیا تھا-اب اسے بونے کی آمد کا انتظار تھا- آخر خدا خدا کرکے ایک ہفتہ گزرا اور ایک صبح بونا اپنی بگھی میں سوار اس کے گھر آ پہنچا- مونگی تو تیار ہی بیٹھا تھا- اس نے لالی کو خدا حافظ کہا اور بونے کے ساتھ چل پڑا- بونے کی بگھی آگے آگے تھی اور مونگی اپنے گھوڑے پر سوار اس کے پیچھے چلا آ رہا تھا-اونچے اونچے پہاڑوں کو عبور کرکے وہ ایک میدان میں پہنچے- میدان ختم ہوا تو سامنے کسی شہر کے آثار نظر آئے- اسی شہر میں بونا رہتا تھا- مونگی جب شہر میں داخل ہوا تو اس نے بہت سے چھوٹے چھوٹے خوب صورت گھر دیکھے- وہاں پر خوب چہل پہل نظر آ رہی تھی اور چھوٹے چھوٹے بونے رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے-ان کے جانور بھی ان ہی کی طرح چھوٹے تھے- مونگی کو گلیوں میں مرغیاں بھی نظر آئیں- ان مرغیوں کا قد چوزوں جتنا تھا اور وہ بھاگتی پھر رہی تھیں- مونگی انھیں دیکھ کر سوچنے لگا کہ جانے ان کے چوزے کتنے بڑے ہوتے ہوں گے-وہاں اسے پھلوں کے درخت بھی نظر آئے- وہ تھے تو درخت مگر جھاڑیوں جتنے تھے اور پھلوں سے لدے ہوۓ تھے- ان میں لگے سیب بیروں جتنے تھے اور کیلے مونگی کی چھوٹی انگلی کے برابر تھے- یہ ہی حال ان پر بیٹھے پرندوں کا تھا- چڑیاں بھونروں جتنی تھیں اور کائیں کائیں کرتے کوے چھوٹی چڑیوں کے جتنے تھے- یہ تمام چیزیں دیکھنے میں مونگی کو بڑا مزہ آ رہا تھا-بونا مونگی کو لے کر ایک بہت ہی خوب صورت اور بڑی سی عمارت کے پاس لایا- یہ بادشاہ کا محل تھا- یہ محل اتنا بڑا تھا کہ مونگی تھوڑا سا جھک کر اس میں داخل ہوگیا- محل کے اندر بادشاہ اور ملکہ اپنے بہت سے شہزادوں اور شہزادیوں کے ساتھ بیٹھے تھے-مونگی نے ادب سے بادشاہ اور ملکہ کو سلام کیا- بونے نے مونگی کا تعارف ان لوگوں سے کروایا- بادشاہ نے کہا- ""مونگی- ہمیں خوشی ہے کہ تم اپنے کام میں بہت ماہر ہو- ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمارے، ملکہ کے اور بچوں کے جوتے تیار کرو""-مونگی نے کہا- ""جہاں پناہ- میں آپ سب کے جوتے ضرور تیار کروں گا- مجھے امید ہے کہ میرے بنائے ہوۓ جوتے آپ کو ضرور پسند آئیں گے""-محل کا ایک بڑا ہال مونگی کے حوالے کردیا گیا تھا- مونگی وہاں بیٹھ کر اپنا کام کر سکتا تھا- اس نے تھیلوں میں سے اپنا سامان نکال کر سامنے رکھا- پھر بادشاہ، ملکہ اور ان کے بچوں کے پاؤں کی پیمائش کی – اس کے بعد وہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا-اس کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا بہت اچھا انتظام تھا- وہ مسلسل آٹھ روز تک اپنے کام میں لگا رہا- آٹھ روز گزرے تو تمام جوتے تیار ہوگئے تھے- اس کے بنائے ہوۓ جوتے اتنے خوب صورت تھے کہ بادشاہ اور ملکہ انھیں دیکھ کر دنگ رہ گئے- ان کے شہزادے اور شہزادیوں نے جب انھیں پہن کر دیکھا تو وہ بھی بہت خوش ہوۓ-مونگی کا کام ختم ہوگیا تھا اس لیے اس نے بادشاہ سے اپنے گھر جانے کی اجازت طلب کی- بادشاہ نے اسے بہت ساری سونے کی ڈلیاں دیں- اتنی ساری دولت پاکر مونگی بہت خوش تھا- اس کا دوست بونا اسے دور تک چھوڑنے آیا تھا-مونگی گھر پہنچا اور ساری سونے کی ڈلیاں لالی کے حوالے کردیں- مونگی نے ان ڈلیوں کو بیچ کر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنی ایک بہت اچھی سی ایک دکان بنائی تاکہ وہ بارشوں کے موسم میں بھی اپنا کام اطمینان سے کرسکے- جب یہ کام مکمل ہوگیا تو اس نے اپنا ایک اچھا سا گھر بھی بنا لیا- اب اس کے دن پھر گئے تھے اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی کے دن گزارنے لگا- اس طرح مونگی کو بونے سے اچھا سلوک کرنے اور اس کی مدد کرنے کا انعام مل گیا تھا- " کامل یقین - تحریر نمبر 1617,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kamil-yaqeen-1617.html,"اقراءشہزاد سکول سے گھر آیا تو بہت تھکا ہوا تھا۔اسی لیے گھر آتے ہی فریش ہونے کے بعد نماز پڑھی اور کھانا کھاتے ہی سوگیا۔جب اٹھا تو عصر کی اذان ہورہی تھی۔شہزاد نے نماز عصر باجماعت ادا کی اور سکول بیگ کھول کر بیٹھ گیا۔لیکن سکول بیگ کھولتے ہی اس کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات نمودار ہوگئے۔کیونکہ اسے انگلش کی کتاب نہیں مل رہی تھی۔شہزاد نے پورا بیگ خالی کر دیا لیکن کتاب نہیں ملی۔وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ادھر ادھر تلاش کرنے لگا۔کچھ ہی دیر میں دروازے پر بیل بجی۔تو شہزاد نے دروازہ کھولا۔شہزاد کے پاپا جو میٹنگ کے سلسلے میں شہر سے باہر گئے ہوئے تھے،گھر میں داخل ہوئے شہزاد نے پاپا سے اپنی پریشانی کا اظہار کرنا چاہا لیکن پاپا کی تھکاوٹ کو دیکھتے ہوئے مناسب نہیں سمجھا۔(جاری ہے)ماما نے پاپا کے لیے کھانا لگایا پاپانے کھانا شروع کیا لیکن کھانا کھاتے ہوئے اچانک سے شہزاد کے پاپا رک گئے۔اپنی جیب چیک کی اور پھر اٹھ کر باہر بھی گئے۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ ڈھونڈرہے ہوں۔لیکن ملا نہیں۔شہزاد کے پاپا نے واپس آکر کھانا مکمل کیا۔شہزاد نے سب کچھ غور سے دیکھا اور اس بات پر حیران تھا کہ اگر پاپا کی کوئی چیز گم ہوئی ہے تو وہ تو بالکل پریشان نہیں ہوئے اور کچھ ملا بھی نہیں پھر بھی اتنے مطمئن کیسے؟چند گھنٹے گزر جانے کے بعد جب پاپا آرام کرچکے تھے۔تو شہزاد پاپا کے کمرے میں گیا۔پاپا نے بھی شہزاد کو پیار سے اپنی گودمیں بیٹھا لیا اور کہا کہ”شہزاد بیٹا کیا آپ ٹھیک ہو۔“”جی پاپا“شہزاد نے نہایت ادب سے جواب دیا۔”پاپا کیا آپ کی کوئی چیز گم ہو گئی ہے؟آپ کھانا کھانے کے دوران کچھ ڈھونڈرہے تھے۔“شہزاد نے بہت تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔شہزاد کی بات سن کر پاپا نے جواب دیا۔”جی بیٹا میرا موبائل گم ہو گیا ہے۔جو شاید کہیں گر گیا ہے یا دوران سفر میں نے دھیان نہیں رکھا اور وہ کہیں پڑا رہ گیا۔“”لیکن پاپا موبائل تو نہیں ملا آپ اتنے مطمئن کیسے؟کیا آپ کو پریشانی نہیں ہوئی۔“شہزاد نے پاپا کا جواب سن کر بے چینی اور تجسس سے پوچھا۔شہزاد کی بات سن کر پاپا کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی اور نہایت ہی اطمینان بھرے لہجے میں شہزاد کو سمجھانے لگے۔”دیکھو بیٹا!یہ سارا نظام کائنات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس دنیا میں وہی ہوتاہے جو اللہ کی مرضی ہوتی ہے۔ہمارے نصیب میں جو کچھ لکھا ہے وہ ہمیں ضرور ملتاہے اور اگر کچھ ہمارے نصیب میں نہیں لکھا تو لاکھ کوششیں کر لیں ہمیں نہیں مل سکتا۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ اور اس کے راستے پر چلیں اور اللہ کی ذات پر کامل یقین رکھیں۔اس کے ہر فیصلے کو قبول کریں۔کبھی اس کے فیصلے پر ناراضگی اور ناخوشی کا اظہار نہ کریں یہی ایمان ہے۔اگر میرے نصیب میں موبائل کا ملنا لکھا ہے تو موبائل ضرور مل جائے گا۔اگر موبائل کا گم ہونا ہی لکھا ہے تو جیسے اللہ کی مرضی ۔اگر میں پریشان ہوتا اس طرح اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض ہوجاتا یہی وجہ ہے کہ میں اب بھی مطمئن ہوں۔شہزاد نے پاپا کا جواب سنا تو بہت خوش ہوا۔اس کو نہ صرف اپنے سوالوں کا جواب ملا بلکہ اس کی اپنی پریشانی بھی ختم ہو گئی کیونکہ انگلش کی کتاب نہ ملنے کی وجہ سے وہ سارا دن بہت پریشان رہا۔اسے بہت سکون محسوس ہوا کیونکہ اب وہ بہت مطمئن تھا۔وہ جان گیا تھا کہ اگر ہماری زندگی میں پریشانی آتی ہے تو اس پر پریشانی کا حل بھی اللہ کے پاس ہے۔بس ہمیں اس ذات پر کامل یقین رکھنا چاہیے۔شہزاد ابھی ان سوچوں میں محوتھا کہ اچانک دروازے پر گھنٹی بجی شہزاد بھی اپنے پاپا کے ساتھ دروازہ کھولنے کے لیے گیا۔دروازے پر ایک اجنبی شخص تھا۔اس نے شہزاد کے پاپا سے کہا کہ”سر آپ اپنا موبائل میری گاڑی میں ہی بھول گئے تھے۔میں نے موبائل میں موجود نمبر کے ذریعے آپ کے گھر کا ایڈریس معلوم کیا ہے۔یہ لیں آپ کا موبائل۔شہزاد کے پاپا نے اس شخص کا شکریہ ادا کیا اور پھر شہزاد کی طرف مسکراتی نظروں سے دیکھا جیسے وہ شہزاد کو موبائل کے ملنے پر اسے اور بھی کچھ سیکھنے کی طرف اشارہ کر رہے ہوں۔اگلے دن شہزاد جب سکول گیا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا کیونکہ وہ اپنی بک سکول میں ہی چھوڑ گیا تھا اور اسے کسی نے اٹھایا بھی نہیں۔شہزاد نے اپنے ڈیسک سے کتاب اٹھاکر بیگ میں ڈالی اور آنکھوں میں شکر ادا کرنے کی نمی لیے ہاتھ اٹھائے اور شکر الحمد اللہ کہا۔پیار بچو!اگرہم بھی زندگی کے ہر کام میں اللہ کی مدد مانگیں اور اس ذات پر کامل یقین رکھیں تو ہماری زندگی میں بھی اطمینان ہی اطمینان ہو گا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کبھی اپنے بندوں کو ماؤس نہیں کیا اور وہ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتاہے۔لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ایمان میں پختگی پیدا کریں اور اس پر کامل یقین رکھیں۔ " باپ کا وعدہ - تحریر نمبر 1616,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baap-ka-wada-1616.html,"امریکہ کے ایک گاؤں میں ایک بہت ہی پیارا سا بچہ اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔اس کا نام”جون“تھا۔جون کا باپ ایک بہت مشہور فنکار تھا۔جوتقریبات میں گاتا بجاتا تھا۔اس لیے اس کا زیادہ وقت شہر میں گزرتا تھا۔مگر جون یہ چاہتا تھا کہ اس کا باپ زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارے مگر جون کا باپ اپنی مصروفیت کی وجہ سے جون کے لیے وقت نہیں نکال سکتا تھا۔ایک دن جون کا باپ شہر سے آیاتو اس کے لیے ایک بہت ہی خوبصورت ساپیانو لے کر آیا۔جون کو پیانو بہت پسند آیا۔وہ دن جون نے اپنے باپ کے ساتھ کھیلتے کودتے گزارا۔جون نے اپنے باپ سے کہا”اس کے سکول میں سالانہ باسکٹ بال کا میچ ہوتاہے اور وہ چاہتاہے کہ وہ اس میچ میں حصہ لے کر پہلا انعام حاصل کرے۔“جون نے کہا”ڈیڈی مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔(جاری ہے)میں جانتا ہوں کہ آپ باسکٹ بال کے چیمپئن رہ چکے ہیں۔“جون کے باپ نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اسے باسکٹ بال ضرور سکھائے گا۔اس دن جون کے باپ کا فون آیا کہ کرسمس کے سلسلے میں ایک خاص شو ہے جس میں اس کو ضرور آناہے۔کیونکہ اس شوکو دیکھنے وہاں کے میئر آرہے ہیں۔جب جون کے باپ نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ وہ شو کے سلسلے میں شہر جارہا ہے تو جون یہ سن کر اپنے باپ سے ناراض ہو گیا۔جون کے باپ نے اسے مناتے ہوئے اس وعدہ کیا کہ وہ بہت جلد شہر سے واپس آکر اس کے ساتھ کرسمس منائے گا اور اس کو باسکٹ بال بھی سکھائے گا۔یہ کہہ کرجون کا باپ شہر چلا گیا۔باپ کے جانے کے بعد جون افسردہ ہو کر بیٹھ گیا اور پھر کھڑکی سے برف باری دیکھنے لگا کہ اچانک برف کا طوفان آگیا۔طوفان کو دیکھ کر جون پریشان ہو گیا کہ کہیں اس طوفان کی وجہ سے اس کے باپ کوکوئی حادثہ پیش نہ آجائے۔ایسا ہی ہوا جون کے باپ کو بہت ہی بھیانک حادثہ پیش آیا۔ہوایوں کہ اس کی گاڑی برف کے طوفان میں پھنس گئی اور برف میں دب گئی،اس طوفان میں وہاں کوئی مدد کے لیے بھی موجود نہ تھا جس کی وجہ سے وہ ٹھنڈ اور طوفان میں پھنس کر مر گیا۔وہاں تو یہ ہوا اور یہاں جون اپنے باپ کا بے تابی سے انتظار کررہا تھا،مگر وہ معصوم یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا باپ اب کبھی نہیں آئے گا۔گاؤں میں کرسمس کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ہر بچہ اپنے باپ کے ساتھ کرسمس کی تیاریوں میں مصروف نظر آیا۔جون جب بھی کسی بچے کو باپ کے ساتھ دیکھتا تو اسے بہت دکھ ہوتا اور وہ شدت سے اپنے باپ کو یاد کرتا ،جیسے جیسے کرسمس کے دن قریب آرہے تھے جون کی بے چینی اور بے تابی بڑھتی جارہی تھی۔وہ ہر آہٹ پر دروازے کی طرف دیکھتا کہ شاید اس کا باپ آجائے۔جون کو اداس دیکھ کر اس کی ماں نے اپنے بھائی کو بلا لیا،تاکہ وہ اس کی اداسی دور کر سکے۔آخر کرسمس کا دن بھی آگیا اس دن جون نے اپنے ماموں کے ساتھ مل کر ایک بہت بڑا برف کا آدمی”سنو مین“بنایا۔اس نے اسے اپنے ڈیڈی کا کیپ،دستانے اور مفلر پہنایا اور خود اپنی ماں اور ماموں کے ساتھ کرسمس کی تقریبات میں شریک ہونے چلا گیا۔تقریب سے آنے کے بعد جون بہت تھک چکا تھا وہ آتے ہی سو گیا۔رات کو کسی وقت اس کی آنکھ کھلی تو اسے باہر بہت تیز ہواؤں کا شور سنائی دیا۔جب اس نے باہر جھانکا تو واقعی بہت تیز ہوا چل رہی تھی وہ سمجھا کہ شاید طوفان آنے والا ہے مگر طوفان نہیں بلکہ اس کے باپ کی روح اس سے ملنے آئی تھی اور جون سے ملنے کے لیے وہ اس سنو مین میں گھس گئی جو کہ جون نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔روح کے گھستے ہی سنومین میں جان پڑ گئی اور وہ چلنے لگا۔اگلے دن جب جون اپنے گھر کے قریب کھیلنے گیا تو کچھ بد تمیز لڑکوں نے جون پر آوازیں کسیں اور کہا جون کا باپ نہیں ہے اس لیے وہ اکیلا گھوم رہا ہے۔اس کا باپ اس سے نفرت کرتاہے اس لیے اسے ملنے نہیں آتا۔یہ کہہ کر وہ جون پر برف کے گولے مارنے لگے۔جون نے رونا شروع کر دیا اور اپنے باپ سے شکایت کرنے لگا”ڈیڈی اگر آج آپ میرے ساتھ ہوتے تو کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ مجھے کچھ کہے“۔یہ کہہ کر روتے ہوئے جون نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔اچانک اس پر برف کے گولے آنا بند ہو گئے اور ایک عجیب سا شور سنائی دیا۔جون نے دیکھا تو وہ حیران رہ گیا کہ جو لڑکے اس پر گولے برسا رہے تھے ۔ان پر اچانک جون کے پیچھے سے برف کے گولے آنا شروع ہو گئے تھے ۔جون نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سنومین گولے پھینک رہا تھا۔سنومین جون کے پاس کھڑا اسے پیار سے دیکھ کر کہنے لگا۔جون میں آج سے تمہارا دوست ہوں اب تمہیں کوئی پریشان نہیں کرے گا۔یہ دیکھ کر اس نے پھر گولے ان لڑکوں پر پھینکنے شروع کئے۔جون اور سنومین نے ان لڑکوں کی خوب پٹائی کی اور انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔سنومین اور جون اچھے دوست بن گئے۔جون سنو مین کو اپنے گھر کی طرف لے آیا۔اس دن کے بعد جون نے دوبارہ ہنسنا اور مسکرانا شروع کر دیا۔جون کو خوش دیکھ کر جون کی ماں نے جون سے پوچھا”بیٹا جون!کیا تمہارا کوئی نیا دوست بنا ہے ،جو تمہیں اتنا خوش رکھتاہے ۔کون ہے وہ؟کیا نام ہے اس کا ؟“جون نے اپنی ماں کو بتایا”ممی وہ ایک سنومین ہے جو مجھے اتنا خوش رکھتاہے،اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ مجھے باسکٹ بال سکھائے گا۔پیانو بھی سکھائے گا جو مجھے ڈیڈی نے لاکر دیا ہے۔“یہ سن کر جون کی ماں کو غصہ آگیا اور اس نے جون کو ڈانٹنا شروع کر دیا اور کہا”تم نفسیاتی مریض بن گئے ہو۔“جون نے اپنی ماں کو یقینی دلانے کی بہت کوشش کی مگر اس کو یقین نہ آیا۔اب جون سنومین کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگا۔سنومین نے اسے باسکٹ بال کھیلنا سکھانا شروع کیا۔جون ہر صبح سنومین کے ساتھ باسکٹ بال کھیلنے چلا جاتا۔سنومین نے اسے باسکٹ بال میں چیمپئن بنادیا،آخر وہ دن بھی آگیا جب جون کے سکول میں باسکٹ بال چیمپئن شپ تھی۔اس روز جون بہت خوش تھا،اسے یقین تھا کہ وہ میچ جیت جائے گا۔جون کی ماں نے اس سے پوچھا۔”تم نے باسکٹ بال کس سے سیکھی“جون نے جواب دیا”میں نے اپنے دوست سے باسکٹ بال سیکھی ہے۔“جب وہ جانے لگا تو اس نے اپنی ماں سے کہا ممی آج میرا میچ ہے آپ ضرور آئیے گا اور دیکھئے گا کہ میں چیمپئن ہو گیا ہوں۔یہ کہہ کر جون میچ کھیلنے چلا گیا۔اس کے ساتھ سنومین بھی تھا،جسے اس نے پہئے والی گاڑی میں بٹھا رکھا تھا۔جب باسکٹ بال کا میچ شروع ہوا تو جون اتنا زبردست کھیلا کہ لوگوں کو حیران کر دیا اور وہ مچی جیت گیا۔میچ کے بعد وہ سیدھا اپنے دوست سنومین کے پاس گیا۔سنومین بہت ہی خوش تھا،وہ سنومین کو لے کر آگیا اور گھر کے قریب ہی کھڑے ہوکر باتیں کرنے لگے۔جون کی ماں بھی جون کے پیچھے اس جگہ آگئی جہاں جون اور سنومین آپس میں باتیں کررہے تھے۔یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔جون نے اپنی ماں کو دیکھا تو خوشی سے کہنے لگا”ممی یہ ہے میرا دوست جس نے مجھے آج چیمپئن بنایا کہ میں باسکٹ بال کا میچ چیت گیا۔“سنومین نے کہا”جون میں آج جو کچھ تمہیں بتا رہاہوں اسے صبر کے ساتھ سننا۔بات یہ ہے کہ میں تمہارا ڈیڈی ہوں میں تو اسی روز مر گیا تھا جس دن میں شہر جارہا تھا،مگر میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ میں کرسمس تمہارے ساتھ مناؤں گا اور تمہیں باسکٹ بال میں چیمپئن بناؤں گا تو میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے،لیکن بیٹا جون میں ہمیشہ تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا کیونکہ میں ایک روح ہوں،مجھے جانا ہو گا․․․․․․․جون تم بہت بہادر بچے ہو،مجھے یقین ہے کہ تم اپنی ممی اور اپنے آپ کو سنبھالو گے اور زندگی کے ہر طوفان کا مقابلہ بڑی بہادری سے کروگے۔اچھا مجھے اجازت دو۔”خدا حافظ “جون کو اپنے باپ کی موت کا بہت افسوس ہوا مگر جون نے اپنے باپ کی کہی ہوئی ساری باتوں پر عمل کیا۔ " ایمانداری کا انعام - تحریر نمبر 1615,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/imaandari-ka-inaam-1615.html,"ہاشم تین روز سے گھر پر بیٹھا ٹھنڈے موسم کا انتظار کررہا تھا۔لیکن موسم ہے کہ گرم سے گرم ہوتا جارہا تھا۔جو کچھ جیب میں تھاگھر پر بیٹھ کر کھاپی لیا۔اب مجبوراً وہ جال اُٹھا کر دریا کنارے پہنچا۔اُس نے پورے دریا کا جائزہ لیا۔ہوا تیز چلنے کی وجہ سے دریا میں عجیب وغریب شورمچاہوا تھا۔ہوا کی طاقت سے اُٹھنے والی لہریں ایک دوسرے سے مل کر دریا کے کنارے سے ٹکراتیں اور پھر واپس لوٹ جاتیں۔ہاشم کی ہمت تو جواب دے گئی تھی۔اس کے باوجود اُس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور ہمت کرکے اپنی چھوٹی کشتی میں جال سمیت داخل ہو گیا۔پہلے تو اُس نے کشتی کی صفائی کی اور کشتی کو کھول کر دریا کے بہاؤ پر چھوڑ دیا۔بیچ دریا میں پہنچ کر اُس نے جال کو سنبھالا اور کھلے دریا میں جال کو ڈال کر کشتی میں آرام سے بیٹھ گیا۔(جاری ہے)لہریں زیادہ ہونے کی وجہ سے کشتی کو بُری طرح سے ہچکولے آرہے تھے۔تھوڑی ہی دیر بعد جال میں تناؤ محسوس ہوا۔ہاشم نے سمجھا کہ کوئی بڑی مچھلی جال میں پھنس گئی ہے۔وہ خوش خوش کشتی کو صحیح سمت پر کرکے جال کو آہستہ آہستہ باہر نکالنے لگا۔جال جیسے ہی باہر آیا تو اُس میں کافی تعداد میں چھوٹی بڑی مچھلیاں تھیں۔جال کو اپنی کشتی پر پھیلا کر اس میں سے مچھلیاں نکالنے لگا۔جال میں پھنسی ہوئی ایک سنہری مچھلی انسانی آواز میں بولی۔”دیکھ ہاشم ماچھی مجھے جلدی سے نکالو نہیں تو میں مرجاؤں گی۔“ہاشم ماچھی نے جال سے سنہری مچھلی کو نکال کر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔مچھلی پھر بولی․․․․․․”ہاشم میں سخت تکلیف میں ہوں۔میرادم گھٹ رہا ہے تم مجھے اور ان تمام مچھلیوں کو رہا کردو۔میں تمہیں بہت سا انعام دونگی۔“لیکن ہاشم کسی صورت بھی ان مچھلیوں کو چھوڑنے پر تیار نہ تھا۔مچھلی روپڑی اور روتی ہوئی آواز میں بولی۔”میں اس دریائی قبیلے کی شہزادی ہوں۔میں ان مچھلیوں کے ساتھ گھومنے نکلی تھی۔لیکن غلطی سے تمہارے جال میں پھنس گئی ہوں۔میرے گھر والے بہت پریشان ہوں گے۔میں تم سے ہاتھ جوڑ کر کہتی ہوں۔تم مجھے چھوڑ دو اس کے بدلے میں تم جوکہو گے وہ میں کرنے کے لئے تیار ہوں۔“”کیا تم میری کشتی کو سونے میں تبدیل کر سکتی ہو؟“ہاشم ماچھی سنہری مچھلی سے بولو۔”ہاں میں کر سکتی ہوں․․․․․․․․اگر تم مجھے اور میرے تمام ساتھیوں کو رہا کردو تو میں اپنے گھر روانگی سے پہلے تمہارا یہ کام کردوں گی۔“”کیا تم سچ کہہ رہی ہو؟“سنہری مچھلی بولی۔”ہم کبھی بھی کسی کو دھوکہ نہیں دیتے تم مجھے چھوڑ کر تو دیکھو․․․․․جب سب مچھلیاں رہا ہو جائیں گی تو میں تمہارا یہ کام کرکے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی دنیا میں چلی جاؤں گی۔“”اچھا تو پھر یہ لو سب سے پہلے میں تمہیں چھوڑرہا ہوں۔“ہاشم نے سنہری مچھلی کے بعد دوسری تمام مچھلیوں کو باری باری سمندر کے پانی میں ڈال دیا۔سنہری مچھلی نے جانے سے پہلے اپنی گردن پانی سے باہر نکالی اور ہاشم سے بولی”اب میں جارہی ہوں ۔تم اپنی کشتی کی طرف دیکھو۔وہ سونے میں تبدیل ہو چکی ہے۔“ہاشم نے جب کشتی کو دیکھا تو ہر چیز سونے کی بن چکی تھی۔ہاشم بہت خوش تھا۔اُس نے کشتی کو کنارے سے لگا کر اس کی اچھی طرح صفائی کی اور سوچنے لگا۔اس کشتی کو فروخت کرکے اس سے جو رقم حاصل ہو گی اُس سے اپنا مکان بناؤں گا اور دوسری نئی کشتی خرید کر اس سے مچھلیوں کا کاروبار شروع کروں گا۔یہ سوچتا ہوا وہ خوش خوش اپنے گھر پہنچا اور اپنی بیوی کو یہ ساری باتیں بتائیں۔بیوی بھی سنتے ہی بے حد خوش ہو ئی۔دوسرے روز ہاشم کی کشتی کو دیکھنے کے لئے کئی لوگ آئے جس نے سب سے زیادہ بولی لگائی کشتی اُس کے حوالے کرکے اپنی تمام رقم سمیٹ کر سیدھا گھر آگیا۔چند ہی دنوں میں وہ امیر ترین مچھیرا بن گیا۔اب اس کے پاس خوبصورت کشتی اور اپنے رہنے کے لیے نیا مکان ،اچھے لباس سب ہی کچھ تھا۔ہاشم نے کچھ رقم بچا کر بینک میں محفوظ کرلی تاکہ مشکل وقت میں کام آئے۔ہاشم نیک اور بے حد شریف آدمی تھا۔و ہ اپنے گاؤں کے غریب لوگوں کی خاموشی سے مدد بھی کرتا رہتاتھا۔ہاشم کا ایک ہی بیٹا تھا جسے وہ پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا۔اُس نے اپنے بچے کو سکول میں داخل کروادیا۔وہ خوشی خوشی سکول جانے لگا۔دن گزرتے رہے ایک وقت ایسا آیا جب ہاشم ماچھی کے بیٹے نے سکول کالج اور یونیورسٹی کی تمام منزلیں طے کرکے تعلیم کو مکمل کرلیا۔آج اس نے فوڈ سائنس میں ماسٹر کی ڈگری اعلیٰ نمبروں سے حاصل کی۔اس خوشی میں ہاشم نے ایک بہت بڑی پارٹی کا اہتمام کیا جس میں امیر غریب سب ہی اس کے مہمان بن کر آئے سبھی لوگ ہاشم ماچھی کو اُس کے بیٹے کی مبارکبادیں دے رہے تھے۔ہاشم کے بیٹے کو لوگوں نے خوشی میں بہت سے انعامات بھی دئیے۔ان لوگوں میں ایک نوجوان قاسم بھی تھا جس نے اُس کے بیٹے کو مبارک باد دی اور جاتے ہوئے ایک پیکٹ ان کے حوالے کر لے اچانک غائب ہو گیا۔تقریب ختم ہونے کے بعد ہاشم ماچھی لوگوں کے دئیے ہوئے انعامات کو دیکھ رہا تھا تو اُس کو وہ پیکٹ بھی یاد آیا۔اس نے اُسے کھول کر دیکھا تو اس میں پھولوں کا گلدستہ اور ایک خط موجود تھا۔جس میں ہاشم کے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر مبارک دی تھی اور لکھا تھا کہ تمہاری سونے کی کشتی اور تمام اشیاء دریا کے کنارے پر موجود ہیں اسے موسول کرلو اور کاروبار کرویہ ہماری طرف سے آپ کے لئے انعام ہے ہاشم ماچھی آج بھی اس سوچ میں ہے کہ وہ کون تھا۔لوگ کہتے ہیں کہ ہاشم کے لئے یہ اُس کی ایمانداری کا انعام تھا۔ " ظالم بھیڑئیے کا انجام - تحریر نمبر 1614,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zalim-bheriye-ka-anjaam-1614.html,"ایک خوبصورت سفید بکری کے سات بچے تھے۔بکری اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی تھی۔اس کو ہر وقت ڈرلگا رہتا تھا کہ کسی دن بھیڑیا آکر اس کے بچوں کو نہ کھا جائے۔ایک دن وہ جنگل میں کھانے کی چیزیں تلاش کرنے جانے لگی،تو اس نے اپنے ساتوں بچوں کو اپنے پاس بلایا۔بکری نے کہا”پیارے بچو!جب تک میں باہر رہوں۔اس بات کا خیال رکھنا کہ بھیڑیا تمہارے قریب نہ آنے پائے۔دروازے بند کرکے رکھنا اگر بھیڑیا اندر آگیا ،تو وہ تم سب کو کھاجائے گا،وہ تمہیں بھیس بدل کر دھوکا دے سکتاہے۔مگر تم اس کی کھردری آواز اور کالے پیروں سے پہچان لینا۔“بچوں نے جواب دیا”پیاری ماں!!فکر نہ کریں،ہم اپنی بہت اچھی طرح حفاظت کریں گے۔“بکری اپنے بچوں کو چھوڑ کر جنگل چلی گئی۔زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی اور ساتھ آواز بھی دی۔(جاری ہے)”پیارے بچو۔۔۔!!!دروازہ کھولو میں تمہاری امی ہوں اور تم سب کے لیے اچھی اچھی کھانے کی چیزیں لائی ہوں۔“وہ چیخ کر بولے”ہم دروازہ نہیں کھولیں گے ،تم ہماری ماں نہیں ہو۔ہماری ماں کی آواز بہت ملائم ہے،اور تمہاری کھردری ہے۔تم تو بھیڑئیے ہو۔“بھیڑئیے نے یہ سنا تو وہ ایک دُکان پر گیا،اور وہاں سے بہت سی چاکلیٹ لے کر کھا لی،اُسے امید تھی کہ اب اس کی آواز نرم ہو گئی ہوگی،پھر وہ بھاگتا ہوا دوبارہ بکری کے گھر آیا۔دروازہ پر دستک دے کر بھیڑیا بولا”پیارے بچو․․․․․!!دروازہ کھولو میں تمہاری ماں ہوں اور تم سب کے لیے اچھی اچھی کھانے کی چیزیں لائی ہوں۔جب بھیڑیا بولا تو اس نے اپنے پاؤں کھڑکی پر رکھ دئیے۔“بچوں نے نرم آواز سنی پہلے تو وہ سمجھے کہ ان کی ماں آگئی ہے،مگر انہوں نے اس کے کالے پاؤں دیکھے تو سمجھ گئے،کہ یہ بھیڑیا ہے وہ چیخے”ہم دروازہ نہیں کھولیں گے۔تم ہماری ماں نہیں ہو،ہماری ماں کے پاؤں کالے تو نہیں ہیں تم تو بھیڑئیے ہو“۔بھیڑئیے نے یہ بات سنی تو ایک بیکری کی طرف بھاگا،اور بیکری والے سے کہنے لگا”میرے پیروں پر چوٹ لگ گئی ہے ان پر آٹا لگادو۔“بیکری والا بھیڑیا دیکھ کر ڈر گیا،اور اس نے اس کے پیروں پر آٹا لگا دیا۔اس کے بعد بھیڑیا بھاگا ہوا چکی والے کے پاس گیا اور کہنے لگا”میرے پیروں پر سوکھا آٹا چھڑک دو“۔چکی والے نے سوچا”یہ کسی کو دھوکا دینا چاہتاہے“تو اس نے بھیڑئیے کے پیروں سوکھا آٹا چھڑکنے سے انکار کر دیا۔بھیڑئیے نے کہا”اگر تم یہ نہیں کروگے،تو میں تم کو کھاجاؤں گا۔“چکی والے نے ڈر کربھیڑئیے کے پاؤں پر سوکھا آٹا چھرک دیا۔اب تیسری مرتبہ بھیڑیا بکری کے گھر گیا اور پھر دستک دی اور بولا”پیارے بچو․․․․․․!!دروازہ کھولو میں تمہاری ماں ہوں اور تم سب کے لیے اچھی اچھی چیزیں لائی ہوں۔“بچوں نے نرم آواز سنی مگر ابھی بھی وہ احتیاط کررہے تھے۔انہوں نے کہا”پہلے اپنے پاؤں ہمیں دکھاؤ،تاکہ ہم جان سکیں کہ تم ہماری پیاری ماں ہو۔“بھیڑئیے نے اپنے پاؤں کھڑکی پر رکھے تو بچے سمجھے کہ یہی ہماری ماں ہے۔اس کی آواز بھی نرم ہے اور پاؤں بھی سفید ہیں۔انہوں نے دروازہ کھول دیا اور سامنے دیکھا تو وہ ڈر گئے کیونکہ ان کے سامنے بھیڑیا تھا،جو ان کا دشمن تھا۔بچے چھپنے کے لیے بھاگنے لگے۔ایک بھاگ کر میز کے نیچے چھپ گیا،دوسرا کو دکر بستر پر چڑھ گیا تیسرا چولہے میں چھپ گیا،چوتھا باورچی خانے میں جا چھپا ،پانچواں الماری میں چھپ گیا۔چھٹاٹب کے نیچے جا چھپا اور ساتواں گھڑی کے کیس میں چھپ گیا۔بھیڑیا ان کو تلاش کرنے لگا اور اس نے ان سب کو جلد ہی تلاش کر لیا اور ایک،ایک کرکے سب کو نگل گیا۔اس نے چھ بچوں کو جلدی جلدی نگلا،مگر ساتواں بچہ جو گھڑی کے کیس میں چھپا ہوا تھا بچ گیا۔اسے بھیڑیا نہ ڈھونڈسکا،چھ بچوں کو نگلنے کے بعد بھیڑئیے کو نیند آنے لگی وہ وادی میں چلا گیا اور ایک درخت کے نیچے لیٹ کر آرام کی نیند سو گیا۔شام کو جب بکری جنگل سے گھر آئی تو اس نے دیکھا کہ دروازہ کھلا ہوا ہے۔گھر کے اندر تمام سامان میز،کرسیاں اور سب چیزیں الٹی پڑی تھیں۔برتن ٹوٹے پڑے تھے،تکیے اور چادریں گری پڑی تھیں گملے ٹوٹے پڑے تھے۔گھر کی یہ حالت دیکھ کر بکری بہت پریشان ہو گئی اور اپنے بچوں کو ہر جگہ تلاش کرنے لگی،مگر بچے کہیں نہیں ملے۔وہ مایوس ہو کررونے لگی،پھر اس نے ایک ایک بچے کا نام لے کر بلایا شروع کیا مگر کوئی جواب نہیں ملا اور جب اس نے ساتویں بچے کا نام لے کر اسے بلایاتو ایک پتلی سی آواز آئی۔پیاری ماں میں یہاں گھڑی کے کیس میں ہوں۔بکری خوشی سے بھاگی گئی اور اس نے گھڑی کے کیس کو کھول کر اپنے بچے کو نکالا۔بچے نے اپنی ماں کو بتایا کہ کس طرح بھیڑئیے نے چھ بچوں کو کھالیا۔جب بچہ یہ دکھ بھری کہانی سنا چکا تو ماں اور بچہ دونوں مل کر خوب رونے لگے۔کچھ دیر بعد بے چاری بکری اپنے بچے کو ساتھ لے کر وادی میں گھومنے چلی گئی۔وہ بہت ہی دکھی ہو کر سر جھکائے جارہی تھی ۔وادی میں ایک درخت کے نیچے اسے بھیڑیا سکون کی نیند سوتا ہوا نظر آیا ،جو اتنی زور سے خراٹے لے رہا تھا،کہ اس کے خراٹوں سے درخت کی شاخیں بھی ہل رہی تھی۔بکری بھیڑئیے کے چاروں طرف پھری اس نے دیکھا کہ اس کا پیٹ بہت پھولا ہوا ہے۔جب اس نے زیادہ غور سے دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ کوئی چیز اس کے پیٹ میں گھوم رہی ہے۔بکری نے سوچا ہو سکتاہے کہ میرے جو بچے اس نے نگلے ہیں،وہ اس کے پیٹ میں زندہ ہوں۔اس نے اپنے چھوٹے بچے سے کہا بھاگ کر جاؤ ،اور جلدی سے میری قینچی اور سوئی دھاگہ لے آؤ۔بچہ بھاگ کر سب چیزیں لے آیا۔بکری نے قینچی سے بھیڑئیے کا پیٹ کاٹ دیا اور سارے بچے اچھلتے کودتے باہر آگئے۔سب کے سب بچے ٹھیک ٹھاک تھے اور انہیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا تھا۔سب بچے دوبارہ آپس میں زندہ مل کر بہت خوش تھے اور بے چاری بکری پھر رونے لگی۔مگر اس مرتبہ یہ دکھ کے آنسو نہیں تھے ۔بلکہ خوشی کے آنسو تھے۔سارے بچے بھیڑئیے کے چاروں طرف خوشی سے اچھل رہے تھے۔بکری نے اپنے بچوں سے کہا”جاکر بڑے بڑے پتھر اٹھا کر لاؤ۔“بچے خوشی خوشی بڑے بڑے پتھر اٹھا لائے اور پتھروں کو بھیڑئیے کے پاس لا کر رکھ دیا۔بکری نے بھیڑئیے کے پیٹ میں پتھر رکھنے شروع کر دئیے اور جتنے پتھر اس کے پیٹ میں آسکتے تھے پھر اس کے پیٹ کو سوئی دھاگے سے سی دیا۔بھیڑیا سارے وقت خراٹے لیتا رہا اسے ذرا بھی پتہ نہیں چلا کہ کیا ہو گیا ہے کافی دیر سونے کے بعد بھیڑیا جاگ گیا تو اس نے پیاس محسوس کی اور وہ کنویں پر پانی پینے گیا جب وہ چلا تو پتھر اس کے پیٹ میں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔بھیڑیا چیخا”کھائے تو میں نے چھ بکری کے بچے ہیں،مگر یہ پتھروں کی طرح ٹکرارہے ہیں۔“اس کا پیٹ بہت بھاری ہورہا تھا،وہ بڑی مشکل سے چل رہا تھا۔اس لیے وہ کنویں تک بہت دیر میں پہنچا اور جب کنویں پر پانی پینے جھکا تو پتھروں کے بوجھ کی وجہ سے وہ سر کے بل کنویں میں گر گیا۔اس کے گرنے سے چھپا کے کی آواز آئی ۔بکری اور بچوں نے زور کا چھپا کا سنا ،تو وہ بھاگے ہوئے آئے انہوں نے کنویں میں جھانک کردیکھا تو بھیڑیا ڈوب گیا تھا۔سب بچوں نے خوشی سے شور مچایا”بھیڑیا مر گیا،بھیڑیا مر گیا۔“بکری کو بھیڑئیے کے مرنے کی بہت خوشی ہوئی۔اب اس کا ڈر دور ہو گیا تھا۔وہ جنگل جاتی تو بے فکر ہوکر جاتی کیونکہ بھیڑئیے کا خوف باقی نہیں رہا تھا۔ " پیاری چڑیا - تحریر نمبر 1613,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/piyari-chirya-1613.html,"بڑی مدت ہوئی یورپ کے ملک سپین میں ایک لال چڑیا،سنہری چڑیا اور پھر پھر چڑیا رہتی تھیں۔ایک دن اُرتے اُرتے لال چڑیا نے گھوم کر سنہری چڑیا کی طرف دیکھا،جو برگدے کے درخت کی چھوٹی سی ،جھکی ہوئی ٹہنی پر بیٹھ گئی تھی۔وہ پلٹی اور سنہری چڑیا کے قریب بیٹھتے ہوئے بولی:”کیوں ری ،تھک گئی کیا؟“چڑیا نے زور سے گردن ہلائی اور قدرے تیز آواز میں بولی:”ہاں،میں تھک گئی ہوں۔لال چڑیا پریشان ہو کر کہنے لگی:”دیکھو!پھر پھر چڑیا کا گھر اب تھوڑی ہی دور رہ گیا ہے۔ہمت کرو،ہمیں اندھیرا ہونے سے پہلے،واپس لوٹنا ہے۔“اس کی بات سن کر سنہری چڑیا یک دم اُڑی اور لال چڑیا کے سامنے دو تین پھیرے لینے کے بعد واپس ٹہنی پر جا بیٹھی۔لال چڑیا نے محسوس کیا،اس کی دوست سخت غصے میں ہے۔(جاری ہے)اس نے نرم آواز میں کہا:”اچھی دوست!وہ بے چاری ہمارا انتظار کررہی ہوگی۔اٹھو،اب چلتے ہیں۔“”میں اس کے گھر نہیں جاؤں گی۔وہ مجھے اچھی نہیں لگتی۔“سنہری چڑیا واقعی سخت غصے میں تھی۔لال چڑیا مدہم آواز میں بولی:”اگر ایسی بات تھی تو پہلے․․․․․“سنہری چڑیا نے اس کی بات درمیان سے اچکتے ہوئے کہا:”وہ تو میں تمہاری خاطر چلی آئی تھی۔“ ”شکریہ!اب میری خاطر ہی اس کے گھر چلو سچ کہتی ہوں،وہ بہت اچھی دوست ہے اور پیاری!اچھے دوست قدرت کا انمول تحفہ ہوتے ہیں،اس کی قدر کرنی چاہیے،کیونکہ اچھے دوست بار بار نہیں ملا کرتے۔“لال چڑیا نے کہا۔”تمہاری بات ٹھیک ہے ،لیکن میں اس کے گھر نہیں جاؤں گی۔“سنہری چڑیا نے اٹل لہجے میں کہا۔”یہ بات ہے تو تم واپس چلی جاؤ۔میں اس سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کروں گی۔“اتنا کہتے ہی لال چڑیا پھر سے اُڑی اور تیزی سے اپنی دوست پھر پھر کے گھر کی طرف اڑنے لگی۔جب وہ اس کے گھر پہنچتی تو دیکھا،وہ بے چاری بخار میں بُری طرح پھنک رہی تھی۔اس کے ننھے منے بچے اس کے آس پاس گھبرائے،پریشان اور سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔لال چڑیا کو دیکھتے ہی وہ شور مچانے لگے۔پھر پھر نے بھی نظریں اٹھا کر اپنی دوست کو دیکھا اور نحیف سی آواز میں بولی:”لال!تم آگئیں۔“”کیا ہوا پھر پھر؟“لال چڑیا اپنی دوست کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ اٹھی۔پھر پھر کے بڑے بچے نے روتے ہوئے کہا:”آنٹی !امی کو کل سے بخار ہے اور ․․․․․اور ہم نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔آنٹی بھوک لگ رہی ہے۔“چھوٹے بچے نے مچل کر کہا۔لال چڑیا نے بڑھ کر اس کا منہ چوم لیا۔پھر بولی:”اب میں آگئی ہوں۔آپ کے لیے کھانے کا بندوبست کروں گی۔“پھر پھر نے محبت بھری نظروں سے اپنی پیاری اور مخلص دوست کی طرف دیکھا اور پھر اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔یہ دیکھ کر لال چڑیا بولی:”دوست!میں بچوں کے لیے دانا دنکا لاتی ہوں۔“اتنا کہہ لال چڑیا نے پھر پھر کا گھونسلہ چھوڑ دیا۔سنہری چڑیا نے اپنے اردگرد موجود،بہت سی رنگ برنگی چڑیوں کو مخاطب کیا:”وہ ہے تو میری دوست، لیکن بہت ضدی ہے ۔میں تو راستے سے پلٹ آئی اور وہ ہو نہ ہو یقینا کسی مشکل میں ہو گی۔“”ضدی لوگوں کا انجام ہمیشہ بُرا ہوتاہے۔“ایک گول مٹول،چھوٹی سی چڑیا نے کہا۔”تمہاری بات درست ہو سکتی ہے مگر میرے خیال میں ضد اگر کسی نیک اوراچھے کام کے لیے ہو تو نہایت عمدہ بات ہے۔میں لال چڑیا کو بچپن سے جانتی ہوں۔وہ بلاوجہ ضد نہیں کرتی۔“نیلی چڑیا نے کہا۔یہ خوبصورت چڑیا،سنہری چڑیا کے برابر میں بیٹھی تھی۔سنہری چڑیا نے گردن گھما کر اسے دیکھا اور پھر بُرا سامنہ بنا کر بولی:”ہو نہہ !تمہیں تو لال چڑیا کی کوئی بات بھی بری نہیں لگتی۔نہ جانے اس نے تمہیں کیا کھلادیا ہے۔“نیلی چڑیا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور آہستہ سے کہنے لگی:”تمہیں تو اس بے چاری سے خدا واسطے کا بیر ہے․․․․․ورنہ یہ حقیقت ہے کہ وہ پورے جنگل میں سب سے پیاری اور عقل مندہے۔“یہ بات سن کر سنہری چڑیا کو تاؤ آگیا،مچلتی ہوئی بولی:”اگر اس کی حمایت ہی کرنی ہے تو یہاں سے چلتی پھرتی نظر آؤ․․․․․․ہو نہہ!بڑی آئی․․․․․․․“”سچی بات ہمیشہ کڑوی لگتی ہے۔“نیلی چڑیا نے مسکرا کر کہا۔سنہری چڑیا نے کوئی جواب نہ دیا۔عین اسی وقت دور سے لال چڑیا آتی دکھائی دی۔نیلی چڑیا کے چہرے پر موجود مسکراہٹ گہری ہو گئی،وہ بولی:”لو،بہنو!لال آرہی ہے۔ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘ُ‘لال چڑیا،نیلی چڑیا کے قریب آکر بیٹھی تو سنہری چڑیا نے منہ بنا کر اس کی طرف سے پھیر لیا۔لال چڑیا یہ دیکھ کر مسکرادی۔پھر نیلی چڑیا بولی:”لال بہن!سچ سچ بتاؤ،تم اس وقت کہاں سے آرہی ہو؟“”بات کیا ہے․․․․․․تم سب کیوں جمع ہو؟“لال چڑیا نے حیرت سے کہا۔”لال بہن!دراصل سنہری چڑیا نے ہمیں آکر بتایا،تم کہیں دور نکل گئی تھیں۔سنہری چڑیا نے تمہیں بہت سمجھایا کہ شام کے بعد،چڑیوں کا اپنے گھروں سے دور رہنا ٹھیک نہیں․․․․․․․بے شمار دشمن ہماری تاک میں رہتے ہیں۔لیکن تم نے اس کی ایک نہ مانی اور ضد کرکے مقررہ حدود سے نکل گئیں۔“مٹیالی چڑیا نے ایک ہی سانس میں کہا۔اس کی باتیں سن کر لال چڑیا نے سنہری چڑیاکو دیکھا اور بولی:”میں حیران ہوں،سنہری چڑیا نے یہ بات کی۔وہ اصل میں،میں نے اپنی دوست پھر پھر سے وعدہ کیا تھا،میں آج کے دن اس سے ملنے جاؤں گی،چنانچہ اب وہیں سے آرہی ہوں۔وہاں تھوڑی دیر ہو گئی،وہ بیمار تھی،اس کے بچوں کے لیے دانا دنکا پہنچا کر آرہی ہوں،معذرت خواہ ہوں۔“اس کی بات ختم ہوتے ہی سنہری چڑیا پھر سے اڑی اور یہ جاوہ جا۔”سنہری چڑیا بھاگ گئی۔اس کامطلب ہے،اس نے ہمیں ورغلانے کی کوشش کی۔“ایک چڑیا نے کہا۔لال چڑیا بولی:”دوستو!سنہری چڑیا کی باتیں جان کر مجھے بے حد دکھ ہوا ہے۔“ایک ننھی سی چڑیا اڑکر،قریبی درخت کی جھکی ہوئی شاخ پر بیٹھتے ہوئے بولی:”دوست اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی․․․․․․․اللہ ہمیں بُرے دوستوں سے بچائے۔“تمام چڑیاں ایک ساتھ بولیں:”آمین!“ " اُڑنے والا گھوڑا - تحریر نمبر 1612,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/urne-wala-ghora-1612.html,"پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ملک یونان میں ایک خوبصورت اور باوقار شہزادہ البرٹ رہتا تھا۔اس کی اچھی عادتوں کی وجہ سے بادشاہ اس پر بہت مہربان تھا۔شہزادہ البرٹ کی سوتیلی ماں کو بادشاہ کا شہزادے کی طرف جھکاؤ ایک آنکھ بھی نہ بھاتا تھا۔اس نے شہزادہ البرٹ کی الٹی سیدھی شکایتیں لگا کر بادشاہ کو مجبور کر دیا کہ وہ شہزادہ البرٹ کو قتل کردے۔بادشاہ شہزادے کو قتل نہیں کرنا چاہتا تھا،چنانچہ بادشاہ نے شہزادہ البرٹ کو ایک خط دے کر اس کو اپنے دوست بادشاہ کے پاس روانہ کیا۔جو شہزادہ البرٹ کے والد کے دوست تھے اور قریب کے ملک ہی میں بادشاہ تھے۔شہزادہ البرٹ کو جو خط دیا گیا تھا اس میں بادشاہ نے لکھا تھاکہ”شہزادے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔“شہزادہ البرٹ نے سوچا کہ اجنبی بادشاہ جب اس خط کو پڑھے گا تو اس کے ساتھ بہت مہربانی سے پیش آئے گا اسے کیا معلوم کہ درحقیقت یہ خط اس کی”موت کا پروانہ“ہے۔(جاری ہے)شہزادہ البرٹ جب دوسرے ملک پہنچا اور بادشاہ سے ملاقات کی تو اس کی اچھی عادتوں کی وجہ سے بادشاہ کو شہزادہ البرٹ بہت پسند آیا اور اس نے زمانے کے رسم ورواج کے مطابق اس سے آنے کا مقصد پوچھے بغیر نودن تک اس کی خوب خاطر مدارت کی۔دسویں دن جب بادشاہ نے شہزادہ البرٹ سے آنے کا مقصد پوچھا تو اس نے بادشاہ کی خدمت میں اپنے والد کا خط پیش کر دیا۔بادشاہ نے جب خط پڑھا تو بہت ہی پریشان ہو گیا،کیونکہ اتنی اچھی عادتوں والے شہزادے کو وہ قتل نہیں کرنا چاہتا تھا،مگر وہ بادشاہ کی بات بھی نہیں ٹالنا چاہتا تھا ،چنانچہ اس نے اس مسئلے پر بہت سوچا اور اس سے چھٹکارہ پانے کا ایک دوسرا راستہ نکال ہی لیا۔بادشاہ کے ملک میں ایک بڑی مصیبت آئی ہوئی تھی وہ یہ کہ ایک خوفناک بلا جس کا سر ببر شیر کی طرح بڑا تھا۔اس کے جبڑے بہت خوفناک تھے۔اس کے منہ سے شعلے نکلتے تھے۔اس کا جسم ایک بکری کی طرح تھا اور اس کی دُم ڈریگون یعنی اژدھا کی طرح تھی۔یہ خوف ناک بلا سب لوگوں کے لیے مصیبت بنی ہوئی تھی۔اس بلانے بہت سے مردوں ،عورتوں اور بچوں کو کھالیا تھا۔چنانچہ بادشاہ نے شہزادے سے درخواست کی کہ اس خوفناک بلا کو مار ڈالے،جو اس علاقے کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے۔یہ بہت ہی خطر ناک کام تھا مگر شہزادے نے اس کام کے کرنے سے انکار نہیں کیا۔وہ نیک دل شہزادہ تھا اور لوگوں کو تکلیف اور مصیبت سے نجات دلانا چاہتا تھا۔اس نے عقل کی دیوی سے مدد کی درخواست کی۔عقل کی دیوی ہر بات جانتی تھی۔ساتھ ہی اسے معلوم تھا کہ شہزادہ کتنا بہادر ہے چنانچہ اس نے شہزادے کی مدد کی اور اسے ایک تحفہ دیا۔جب شہزادہ البرٹ نے تحفہ دیکھا تو وہ حیرت اور خوشی سے اچھل پڑا یہ ایک بہت ہی پیارا اور خوبصورت سفید رنگ کا گھوڑا تھا جس کے کندھوں پر بھی بہت ہی خوبصورت سفید چمک دار پَر تھے۔شہزادہ البرٹ اچھل کر گھوڑے پر سوار ہو گیا۔جیسے ہی وہ سوار ہوا گھوڑا ہوا میں بلند ہوکر اڑنے لگا۔شہزادے نے گھوڑے کا رُخ بلا کی طرف کر دیا اور جب اسے وہ بلا نظر آنے لگی تو اس نے اس پر تیر برسانے شروع کر دئیے۔جب خوفناک بلا کو تیر لگے تو اس نے تکلیف سے چنگھاڑنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ اس کے منہ سے خوفناک شعلے نکلنے لگے اور اس نے اپنی دم زمین پر ماری تو اس کی وجہ سے زمین ہلنے لگی،لیکن ان چیزوں سے شہزادہ البرٹ کوکوئی پریشانی نہیں ہوئی کیونکہ وہ زمین پر تو تھا ہی نہیں وہ تو اپنے اڑنے والے گھوڑے پر بہت بلندی پر تھا اس لیے وہ بلا کے شعلوں سے محفوظ تھا۔بلانے بہت کوشش کی کہ شعلے شہزادہ البرٹ تک پہنچ جائیں،مگر وہ ناکام رہی اور شعلے بھی اس کے منہ میں بننا ختم ہو گئے تھے۔کافی دیر تک شہزادہ تیر برساتا رہا۔یہاں تک کہ بلا کے جسم میں درجنوں تیر گھس گئے اور وہ لہو لہان ہو کر تڑپنے لگی۔ایک ہولناک چنگھاڑ کے ساتھ خوفناک بلا زمین پر گر کر ہمیشہ کے لیے مر گئی۔اس طرح شہزادہ البرٹ کی بہادری سے ان لوگوں کو برسوں بعد اس بلاسے نجات ملی۔بادشاہ اور اس کے ملک کی رعایا یہ دیکھ کر خوشی سے بے قابو ہو گئے۔بلا سے چھٹکارا پانے پر ملک میں بہت خوشیاں منائی گئیں۔اس کے بعد بھی بادشاہ نے شہزادہ البرٹ کو بڑے سخت اور مشکل کام سپرد کئے۔مگر اپنے اڑنے والے گھوڑے کی مدد سے وہ ہر مرتبہ سرخرو ہوجاتا،آخر بادشاہ نے شہزادہ البرٹ کو بہت سے تحفے اور انعامات سے نوازا،اور اپنے ملک میں امن وسکون کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ " غریب شہزادہ۔۔۔تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1611,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghareeb-shahzada-1611.html," " دوستی - تحریر نمبر 1610,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dosti-1610.html,"اسلم بڑا پیارا بچہ تھا۔اس کے ابو کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ان کا کاروبار خوب چلتا تھا۔زندگی بڑے آرام اور مزے سے گزررہی تھی۔اسلم اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔گھر میں اور کوئی بچہ نہ تھا،جو اس کے ساتھ مل کر کھیلتا۔اس کے ماں باپ اسے طرح طرح کی چیزیں لا کے دیتے تاکہ وہ خوش رہے۔اسلم کو کھلونوں اور چیزوں کی زیادہ پرواہ نہ تھی۔اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔وہ کھلونوں سے کھیلنے کی بجائے کتابیں پڑھا کرتا تھا۔مدر سے میں بھی اس کی یہی حالت تھی۔پڑھائی خوب دل لگا کر کرتا تھا۔کھیل کود کے وقت زیادہ تر انہی ہم جماعتوں سے ملتا تھا،جو پڑھنے لکھنے کے بہت شوقین ہوتے تھے۔کلاس میں بیٹھتا تو انہی لڑکوں کے پاس بیٹھتا ،انہیں اپنا دوست بناتا۔ان دوستوں میں اس کا ایک دوست ارشد تھا۔(جاری ہے)یہ بڑا خوب صورت اور ذہین بچہ تھا۔اسلم کی اس سے بڑی دوستی تھی۔ارشد بھی اسلم کو بہت چاہتا تھا۔دونوں سگے بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔اتفاق سے ارشد کا مکان اسلم کے مکان کے بالکل ساتھ تھا۔اس لیے مدرسے سے واپس آنے کے بعد دونوں دوستوں کو ایک دوسرے سے ملنے اور کھیلنے میں بڑی آسانی تھی۔ارشد کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔اس کی ایک چھوٹی بہن تھی۔اس کا نام نسیم تھا۔ارشد کی امی محلے میں سلائی کاکام کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی تھی۔اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے کتابیں خرید سکیں،اور اس کی پڑھائی کے اخراجات پورے کر سکیں،لیکن ارشد کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔اسلم کے ابا بہت خدا ترس اور نیک انسان تھے۔وہ بھی ارشد کو بہت پیار کرتے تھے،اسی لیے وہ جب کبھی اپنے بیٹے اسلم کے لیے کوئی نئی کتاب یا کاپی خریدتے تو اس کے دوست یعنی ارشد کے لیے بھی ضرور خریدتے۔اسلم خود بھی اپنے دوست کا بہت خیال رکھتا تھا اور کبھی کوئی کاپی کوئی قلم اپنے دوست کے لیے لے آتا اور پھر موقعہ دیکھ کر تحفے کے طور پر دے دیتا تاکہ ارشد کو یہ محسوس نہ ہو کہ یہ اس پر احسان کررہا ہے۔ارشد کی امی بھی اسلم کو بہت پیار کرتی تھیں۔جب یہ دونوں دوست مل کر پڑھتے یا کھیلتے تو وہ انہیں دیکھ دیکھ کر بے انتہا خوش ہوتی تھیں۔ارشد کا زیادہ وقت اسلم کے گھر ہی گزرتا تھا۔گھر میں اُٹھنے بیٹھنے کے لیے صاف ستھری جگہ تھی اور ہر طرح کا آرام بھی تھا،اس لیے ارشد کی ماں خود ہی اسے وہاں زیادہ وقت گزارنے کی اجازت دے دیتی تھیں۔محلے والے تو خیر ان سے واقف ہی تھے،لیکن دوسرے لوگ ان دونوں بچوں کو ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے،ایک ساتھ سکول آتے جاتے،اکٹھے لکھتے پڑھتے،کھیلتے دیکھتے تو یہی سمجھتے کہ دونوں سگے بھائی ہیں۔ایک دن کا ذکر ہے کہ اسلم کے ابا اپنے کاروبار کے سلسلے میں کسی دوسرے شہر میں گئے تھے۔اسلم چاہتا تھا کہ ارشد کو ساتھ لے کر کوئی فلم دیکھنے جائے اس کی امی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا:”نہیں بیٹا!آج تم فلم دیکھنے مت جاؤ،کیوں کہ تمہارے ابا گھر پر نہیں ہیں اگر تم بھی فلم دیکھنے چلے گئے تو میں گھر پر اکیلی رہ جاؤں گی۔لہٰذا تم کل فلم دیکھنے چلے جانا۔“اس روز اسلم اور ارشد کا موڈ شاید اچھا نہیں تھا،اسی لیے وہ زیادہ دیر تک پڑھ نہ سکے اور پھر ارشد اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔ارشد کے جانے کے بعد اسلم بھی اٹھ کر اپنی چارپائی پر لیٹ گیا اور کافی دیر تک کروٹیں لیتا رہا۔اس کی امی سمجھیں،شاید اسلم فلم پر جانے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے کچھ اداس اور بے چین ہے۔انہوں نے اسلم سے پوچھا:”بیٹا!کیا بات ہے ،تم ابھی تک جاگ رہے ہو،کیا نیند نہیں آرہی ۔کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟“اسلم نے جواب دیا:”نہیں امی،کوئی تکلیف نہیں،بس نیند نہیں آرہی۔معلوم نہیں طبیعت کیوں بے چین ہورہی ہے۔“اس کی امی نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا:”چلو بیٹا !آنکھیں بند کرو۔نیند خود بخود آجائے گی۔“تھوڑی دیر کے بعد ماں بیٹا دونوں سوگئے۔رات کو اچانک اسلم کی امی کی آنکھ کھل گئی۔انہوں نے شاید کوئی ڈراؤنا سا خواب دیکھا تھا۔انہوں نے گھبرا کر ادھر ادھر نظر ڈالی تو دیکھا کہ اسلم کی چارپائی خالی پڑی ہے۔وہ ایک دم گھبرا کر اپنی چار پائی سے نیچے اتر آئیں۔کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا۔اسلم چھجے کے ایک کونے میں کھڑا تھا۔امی نے اسے پیار کیا اور پوچھا:”بیٹا!کیا بات ہے،یہاں کیوں کھڑے ہو؟“اسلم بولا:”امی !ادھر سے کسی کے رونے کی آواز آرہی ہے،ایسا لگتا ہے جیسے ارشد کی آواز ہے“۔اسلم کی امی نے دیکھا کہ ارشد کے مکان میں روشنی ہورہی ہے۔کان لگا کر سنا تو واقعی ارشد کے کر اہنے کی آواز آرہی تھی۔اسلم کو جب یہ پتہ چلا تو وہ بے تاب ہو گیا اور سیڑھیوں کی طرف لپکا۔اس کی امی اس کے پیچھے پیچھے گئیں وہاں جا کر دیکھا کہ ارشد بیمار ہے اور سخت بے چین ہے اور اس کی امی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہیں۔اسلم تو جاتے ہی ارشد سے لپٹ گیا اور اسے تسلیاں دینے لگا۔اس کی امی بھاگ کر اپنے گھر گئیں اور نوکر کو بلا لائیں اور پھر فوراً سے ڈاکٹر کی طرف دوڑایا۔خود بیٹھ کر ارشدکی امی کو دلا سادینے لگیں۔چند ہی منٹوں میں نوکر ڈاکٹر کو لے کر آگیا۔اس نے ارشد کو دیکھا اور پھر کہا:”گھبرائیے نہیں،بچے کو بخار ہے۔ذرا تیز ہو گیا ہے۔اس لیے بے چین ہے،اللہ نے چاہا تو بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا“۔ڈاکٹر نے فوراً ارشد کو ٹیکہ لگایا۔نسخہ لکھا،کچھ ہدایات دیں اور کہا کہ بچے کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھیں۔اسلم بڑے غور سے یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا۔وہ اپنے گھر گیا اور فرج میں سے برف لایا۔ایک طشت میں ڈال کر پانی ٹھنڈاکیا۔اور پھر پٹی بھگو کر ارشد کے سر پر رکھ دی۔ارشد اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس کی حالت دیکھ کر اسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اس نے ایک دم اپنا منہ دوسری طرف کرلیا۔تھوڑی دیر کے بعد نوکر ڈاکٹر کے یہاں سے دوا لے کر آگیا۔ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ارشد کو دوا پلادی گئی۔کچھ ہی دیر بعد ارشد کی بے چینی کم ہو گئی اور پھر وہ سو گیا۔اسلم اور اس کی امی جب سے دونوں آئے تھے،ارشد کی امی کی ڈھارس بندھ گئی تھی۔اب جو بچے کی آنکھ لگ گئی تو ان کے دل کو ذرا تسکین ہوئی۔ارشد اب سکون سے سورہا تھا۔اس کی امی نے اسلم سے کہا :”اسلم بیٹا!اب تمہارے بھائی کی آنکھ لگ گئی ہے،تم بھی جاؤ،آرام کرو،رات کافی گزر چکی ہے‘’‘۔لیکن اسلم نہیں مانا،کہنے لگا:”نہیں خالہ جان!میں نہیں جاؤں گا۔آپ آرام کریں۔میں یہیں ارشد کے پاس بیٹھوں گا۔“بڑی مشکل سے اسے راضی کیا گیا،اسلم اور اس کی امی خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوئے۔صبح سویرے جب ارشد کی امی کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ارشد کا بخار اتر گیا ہے اور وہ آرام سے سورہا ہے اور اسلم ایک طرف بیٹھا ہے۔ارشد کی امی نے اسے گلے سے لگا لیا۔ " نشان حیدر - تحریر نمبر 1608,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nishan-e-haider-1608.html,"راحیلہ مغل”نشان حیدر“مطلب شیر کا نشان ،یہ پاکستان کا سب سے بڑا فوج اعزاز ہے جو دشمن کے مقابلے میں بہادری کے شاندار جو ہر دیکھانے والے پاک فوج کے جوانوں کو ملتاہے۔نشان حیدر جنگ میں دشمن سے حاصل ہونے والے اسلحے کو پگھلا کر بنایا جاتاہے جس میں20فیصد سونا بھی استعمال کیا جاتاہے۔اب تک نشان حیدر پانے والوں میں سے سب سے زیادہ عمر طفیل محمد شہید ہیں جنہوں نے44سال کی عمر میں شہادت پائی اور سب سے کم عمر نشان حیدر پانے والے راشد منہاس شہید ہیں جنہوں نے20سال6مہینے کی عمر میں شہادت پائی۔نشان حیدر پانے والے بہادر جوانوں کے نام اور کارنامے درج ذیل ہیں۔راجہ محمد سر ور شہیدضلع راولپنڈی تحصیل گوجر خاں میں پیدا ہوئے۔آپ سب سے پہلے نشان حیدر پانے والے جوان ہیں۔(جاری ہے)1948ء میں راجہ محمد سرور شہید کو کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔27جولائی کو آپ نے اوڑی سیکٹرمیں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا تو معلوم ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خار دار تاروں سے محفوظ کیا ہوا ہے۔آپ نے اپنے6جوانوں کے ساتھ مل کر شدید گولیوں کی بوچھاڑ میں ان خاردارتاروں کو کاٹ دیا۔آپ پر بے شمار گولیاں برسائی گئیں جن میں سے ایک آپ کے سینے پر لگی اور آپ جام شہادت نوش کیا۔آپ کے جذبہ شہادت کو دیکھتے ہوئے آپ کے جوانوں نے دشمن پر بھر پور حملہ کیا جس کی وجہ سے دشمن اپنے مورچے چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔میجر طفیل محمد شہیدآپ صوبہ پنجاب میں ہو شیار پور میں پیدا ہوئے۔اگست1958ء میں آپ کو چند بھارتی مورچوں کا صفایا کرنے کا کام سونپا گیا۔7اگست کو آپ نے دشمن کے ایک مورچے کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔جب بھارتیوں نے اپنی مشین گن سے فائرنگ شروع کیا تو اس فائرنگ کا نشانہ بننے والے سب سے پہلے جوان طفیل محمد شہید تھے۔بہادری کے جو ہر دیکھاتے ہوئے آپ نے دشمن کی مشین گنوں کو مکمل خاموش کروادیا۔اور شدید زخمی ہونے کے باوجود آپ اپنے جوانوں کی قیادت کرتے رہے یہاں تک کہ دشمن اپنی چار لاشیں اور تین قیدی چھوڑ کر افرار ہو گئے۔شدید زخموں کی وجہ سے آپ جام شہادت پی گے۔میجر عزیز بھٹی شہید6ستمبر1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں کمپنی کی کمان کررہے تھے۔12ستمبر کی صبح عزیز بھٹی شہید نے دیکھا کہ ہزاروں دشمن سپاہی برکی کے شمال کی طرف درختوں میں چھپے ہوئے ہیں۔آپ نے اپنے جوانوں کے ساتھ مل کر فائرنگ شروع کی جس سے دشمن کے سپاہی وہیں ڈھیر ہوتے گے۔عزیز بھٹی دوبارہ دشمن کی نقل وحرکت کا جائزہ لینے لگے تو دشمن نے گولہ باری شروع کردی۔ایک گولہ عزیز بھٹی شہید کے سینے میں لگا جس سے آپ وہی شہید ہوگے۔راشد منہاس شہیدآپ کراچی میں پیدا ہوئے۔راشد منہاس نے اپنے ماموں سے متاثر ہوکر پاک فضائیہ کا انتخاب کیا۔20اگست1971ء کو راشد کی تیسری تنہا پرواز تھی۔وہ ٹرینر جیٹ طیارے میں سوار ہوئے ہی تھے کہ ان کا انسٹر کٹر سیفٹی فلائٹ آفیسر مطیع الرحمان خطرے کا سگنل دے کر کاک پٹ میں داخل ہو گیا۔وہ تیارے کو اغوا کرکے بھارت لے جانا چاہتا تھا۔راشد منہاس کو ماڑی پور کنٹرول ٹاور سے ہدایت دی گئی کہ طیارے کو ہر صورت اغوا ہونے سے بچایا جائے۔جب اپنے آفیسر سے کشمکش کے درمیان راشد منہاس نے محسوس کیا کہ طیارے کو کسی محفوظ جگہ لینڈ کرنا ناممکن ہے تو راشد منہاس نے اپنے طیارے کا رخ زمین کی طرف کر دیا۔جس کی وجہ سے راشد منہاس نے جام شہادت نوش کیا اور نشان حیدر جیسے اعزاز کے حق دار قرار پائے۔میجر شبیر شریف شہیدمیجر شبیر شریف پنجاب کے ضلع گجرات میں ایک قصبے کنجاہ میں پیدا ہوئے۔3دسمبر1971میں سلیمان کی ہیڈورکس پر آپ کو تعینات کیا گیا تاکہ آپ اونچی زمین پر قبضہ کر سکیں جو کہ اس وقت دشمن کے قبضے میں تھی۔6دسمبر کو دشمن نے شدید جملہ کر دیا جس کی وجہ سے میجر شبیر شریف شہید نے اپنی اینٹی ٹینک گن سے دشمن پر حملہ کر دیا۔دشمن کی فائرنگ کے نتیجے میں آپ نے جام شہادت نوش کیا۔سوار محمد حسین شہیدسوار محمد حسین18جون1959ء کو ضلع راولپنڈی تحصیل گوجر خاں میں پیداہوئے۔آپ نے بطور ڈرائیور پاک فوج جو آن کی اس کے باوجود جنگ میں عملی طور پر حصہ لیا۔آپ نے پاکستان اور بھارت کی جنگ میں حصہ لیا۔آپ نے بہادری کے عظیم جوہر دیکھائے۔دس دسمبر1971ء کی شام دشمن کی مشین گن سے نکلی گولیاں آپ کے سینے پر پیوست ہو گئی اور آپ جام شہادت نوش فرما گئے۔میجر محمد اکرم شہیدآپ ضلع گجرات کے گاؤں ڈنگہ میں پیدا ہوئے۔1971ء کی پاکستان اور بھارت جنگ میں ہلی کے مقام پر آپ نے اپنے جوانوں کے ساتھ مل کر دشمن کا بھاری جانی اور مالی نقصان کیا اور بہادری کے جوہر دیکھا تے ہوئے جام شہادت نوش کر لیا۔لانس نائیک محمد محفوظ شہیدآپ ضلع راولپنڈی کے گاؤں پنڈ ملکاں میں25اکتوبر1944میں پیدا ہوئے۔1962ء میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔لانس نائیک محمد محفوظ شہید نے پاکستان اور بھارت کی جنگ میں حصہ لیا ان کا یونٹ واہگہ اٹاری سیکٹر پر تعینات تھا اور بہادری وشجاعت کے عظیم جوہر دیکھاتے ہوئے دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔آپ نے دشمن کے بنکر میں گھس کر ایک دشمن فوجی کی گردن دبوچ لی اور اسے جہنم واصل کردیا جب کہ دوسرے دشمن فوجی نے آپ پر حملہ کرکے آپ کو شہید کردیا۔کرنل شیر خاں شہیدآپ ضلع صوابی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔آپ کارگل تنازعہ کے دوران عظیم وہمت اور شجاعت کی ایک نئی علامت بن کر ابھرے۔آپ نے بہادری کی نئی مثالیں قائم کیں اور دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچایا۔آپ نے دشمن کی چوکیوں پر قبضہ کے دوران مشین گن کا نشانہ بم گے اور آپ نے شہادت کا رتبہ پا لیا۔حوالدار لالک جان شہیدگلگت بلتستان کی وادی یا سین میں پیداہوئے۔1999میں جب کارگل تنازعہ چل رہا تھا تو لالک جان کو ایک اہم ترین چوکی پی حفاظت کا ذمہ سونپا گیا۔5اور6جولائی کی درمیانی شب دشمن نے اس چوکی پر بھر پور حملہ کیا۔لالک جان اور ان کے جوانوں نے دشمن کا بھر پور مقابلہ کیا اور دشمن کا کافی جانی اور مالی نقصان کیا جس پر دشمن پسپا ہو کر چلا گیا۔اگلی رات دشمن نے پھر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں لالک جان شدید زخمی ہو گے لیکن پھر بھی علاج کروانے کی بجائے دشمن سے مقابلہ کرتے رہے۔اگلی صبح زخموں کی تاب نا لاتے ہوئے آپ شہید ہو گے۔سیف علی جنجوعہانہوں نے اپنی ایک پلاٹون کی نا مکمل اور مختصر نفری سے ایک بریگیڈ فوج کا اس وقت تک مقابلہ کیا اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اُن کی پوسٹ پر دشمن نے ٹینکوں اور تو پخانے اور جنگی جہازوں سے حملہ کیا دشمن نے تمام حربے استعمال کیے مگر تمام بے اثر رہے دشمن نے اُن کی پوسٹ پر ہر طرف سے دباؤ ڈال دیا مگر سیف علی جنجوعہ ڈٹے رہے اس طرح انہوں نے مشین گن سے دشمن کا ایک جہاز بھی مار گرایا۔جب تک مزید پاکستانی فوج نہیں پہنچی آپ نے اپنے جوانوں کے ساتھ مل کر دشمن کو ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھنے دیا۔بم گرنے کی وجہ سے آپ جام شہادت نوش فرمالیا۔اس وقت پاکستان کے تمغے نہیں بنے تھے اس لئے حکومت پاکستان نے “ہلال کشمیر”اعزاز کو برطانیہ کے“وکٹوریہ کر اس”کے برابر لکھا تھا۔جب پاکستان کے تمغے بنے تو سیف علی جنجوعہ شہید کے کمپنی کمانڈر لیفٹینٹ محمد ایاز خان (ستارہ سماج)صدر پاکستان سوشل ایسوسی ایشن نے حکومت پاکستان کو مسلسل اڑتالیس سال لکھا کہ نائیک سیف علی شہید کو نشان حیدر کے اعزاز کا اعلان کیا جائے۔پی ایس اے کی سفارش پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویزمشرف نے 6ستمبر1999ء کو نائیک سیف علی جنجوعہ شہید کیلئے نشان حیدر کے اعزاز کا اعلان کیا۔ " بچوں کے جمیل جالبی - تحریر نمبر 1607,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bachoon-k-jamil-jalibi-1607.html,"رانا محمد شاہدعلم و تحقیق کے حلقے کا ایک بڑا نام ڈاکٹر جمیل جالبی تھے،جو18اپریل2019ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ڈاکٹر صاحب ان بڑے ادیبوں میں سے تھے جو بچوں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کو بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔انھوں نے بچپن سے ہی کہانیاں لکھنا شروع کر دی تھی۔صرف12سال کی عمر میں انھوں نے اپنی پہلی تخلیق”سکندر اور ڈاکو“کے نام سے کہانی لکھی،جو سکول میں بطور ڈرامہ بھی پیش کی گئی۔ان کی پہلی تحریر دہلی سے شائع ہونے والے رسالے”بنات“میں شائع ہوئی۔سب سے پہلی کتاب”جانور ستان“کے نام سے شائع ہوئی۔یہ جارج آرول کے ناول کا ترجمہ تھا۔کہا جاتا ہے کہ بڑے ادیب بچوں کے لیے لکھنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں،مگر ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تمام مصروفیات کے باوجود بچوں کے لیے کہانیاں ضرور لکھتے تھے۔(جاری ہے)ننھے بچوں کے لیے ان کی لکھی ہوئی کہانیاں بید کی کہانیاں ،بلیاں،حضرت امیر خسرو،چھن چھن چھن چھن اور نئی گلستاں بہت مشہور ہوئیں۔اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے فسانہ آزاد کے مزاحیہ کردار خوجی پر مبنی داستان”خوبی پر کیا گزری “کے عنوان سے رسالہ”ہونہار“کے لیے قسط وار تحریر کی۔”خوجی پر کیا گزری“ایک دلچسپ سلسلہ تھا۔جسے بچے نہ صرف شوق سے پڑھتے تھے بلکہ اس کی نئی قسط کا انتظار بھی کیا کرتے تھے۔”حیرت ناک کہانیاں“،”اور اپنی دوسری کہانیوں کی صورت میں انھوں نے بچوں کے لیے ایسا علمی ورثہ چھوڑا ہے جس سے آنے والی نسلیں سیراب ہوتی رہیں گی۔ابتدائی عمر سے ہی انھیں کتاب لکھنے کا شوق تھا۔ایک انٹرویو میں اپنے اس شوق کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں:”جب میں چھوٹا تھا تو اکثر میری پٹائی اس بات پر ہوتی تھی کہ میں کا پیاں پھاڑ کر ان سے کتاب بناتا تھا اور دوپہر کو جب سب لوگ سوجاتے تھے،میں غسل خانے میں چھپ کر کاپیوں کے ورق علیحدہ کرتا،ان سے کتاب بناتا اور اپنے کورس کی کتاب اس پر نقل کر کے اپنا نام نمایاں طریقے سے لکھ دیتا․․․․․․․․محمد جمیل خان۔اس سے اباجی بہت خوش ہوتے تھے،لیکن ہمارے سکول کے ہیڈماسٹر کو میری اس قسم کی سر گرمیوں سے سخت شکایت رہتی تھی۔وہ اکثر اباجی سے شکایت کر دیتے تھے کہ یہ کاپیاں پھاڑ دیتاہے۔“جالبی صاحب کی اس بات سے اندازہ ہوتاہے کہ کتاب لکھنے یا مصنف بننے کا رجحان شعوری طور پر ان میں بچپن سے موجود تھا۔بچوں کے رسالے ہمدرد نونہال کے مدیر مسعود احمد برکاتی بچوں کے ادب کا ایک بڑا نام تھے۔ان کی یہ خوبی تھی کہ وہ ان نامورو بڑے ادیبوں سے بچوں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ لکھوالیتے تھے ،صرف بڑوں کے ادب تک محدود تھے۔یہ مسعود احمد برکاتی کا ہی کمال تھا کہ انھوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی سے نادان بکری، ناشکرا ہرن،نادانی کی سزا،قصہ ایک بھیڑیے کا ،دو دوست دو دشمن ،دو چوہے اور مغرور لومڑی جیسی بہترین کہانیاں لکھوائیں اور ڈاکٹر صاحب نے بھی بڑی محبت سے وہ شاہکار کہانیاں لکھیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی بچوں کے لیے لکھنے کے ساتھ ساتھ اس فکر میں بھی مبتلا رہتے تھے کہ بچوں کے لیے بہت کم لکھاجارہا ہے۔اس فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:”قوم کے ادیب بڑے بوڑھے اور راہبروراہنما یہی کہتے ہیں کہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں،لیکن جیسے وہ اپنے مستقبل سے بے پرواہ ہو گئے ہیں،اسی طرح بچوں کے مستقبل سے بھی لا تعلق ہیں۔ہمارے ہاں بڑے بڑے لکھنے والے ہیں۔سب ایک سے ایک طرم خاں،مگر کیا مجال کہ بچوں کا ذرا بھی خیال ہو۔نہ ان کے لیے لکھتے ہیں،نہ ان کے لیے سوچتے ہیں۔کہتے ہی جاتے ہیں کہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ذرا ان سے کوئی یہ تو پوچھے کہ قبلہ!آپ کی بات سر آنکھوں پر ،لیکن آپ نے خود بچوں کے لیے کیا لکھا ہے؟بچوں کو تو روز ایک کتاب چاہیے۔اچھی لکھی ہوئی ،اچھی چھپی ہوئی۔تصویروں اور خاکوں سے بنی ہوئی۔جن سے ان کی تربیت ہو،جنھیں پڑھ کر وہ سوچیں،سمجھیں۔ان کی معلومات میں اضافہ ہو۔ان کا ذہن کھلے اور مستقل کے لیے وہ تیار ہو جائیں۔“میں نے جب نیا نیا لکھنا شروع کیا تو انہی دنوں ہمدرد نونہال میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی کہانی”ناشکرا ہرن“پڑھی۔وہ کہانی آج بھی ذہن پر نقش ہے۔میں نے تھوڑی مشقت کے بعد لائبریری سے نونہال کا وہ شمار ہ نکالا۔اپریل1995ء کا وہ شمار ہ دیکھا اور ڈاکٹر صاحب کی کہانی پھر سے پڑھی تو اپنے بچپن کا زمانہ اور بچپن کے سارے رنگ آنکھوں کے سامنے آگئے۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس مختصر سی کہانی میں ایک بڑا پیغام دیا تھا۔یہ کہانی میں اس تحریر کا حصہ بنا رہاہوں،تاکہ نئے پڑھنے والے نونہال نہ صرف اس سے لطف اندوز ہوں بلکہ وہ پیغام بھی لے سکیں۔”نا شکرا ہرن“․․․․․․یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب بندوق ایجاد نہیں ہوئی تھی اور لوگ تیر کمان سے شکار کھیلتے تھے۔ایک دن کچھ شکاری شکار کی تلاش میں جنگل میں پھر رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ایک ہرن پر پڑی۔وہ سب اس کے پیچھے ہو لیے۔شکاری ہرن کو چاروں طرف سے گھیر رہے تھے اور ہرن اپنی جان بچانے کے لیے تیزی سے بھاگ رہا تھا۔جب وہ بھاگتے بھاگتے تھک گیا تو ایک گھنی انگور کی بیل کے اندر جا چھپا۔شکاریوں نے اسے بہت تلاش کیا،لیکن اس کا کچھ پتا نہ چلا ۔آخر مایوس ہو کر وہ وہاں سے لوٹنے لگے۔جب کچھ وقت گزراتو ہرن نے سوچا کہ اب خطرہ ٹل گیا ہے اور وہ بے فکر ہوکر مزے سے اسی انگور کی بیل کے پتے کھانے لگا،جس میں وہ چھپا ہوا تھا۔ایک شکاری جو سب سے پیچھے تھا جب وہاں سے گزرا تو انگور کی بیل اور اس کے گچھوں کو ہلتے دیکھ کر سمجھا کہ یہاں ضرور کوئی جانور چھپا ہے۔ا س نے تاک کر کئی تیر مارے اتفاق سے ایک تیر ہرن کے جا لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔مرتے ہوئے ہرن نے اپنے دل میں کہا:”اے بد بخت!تیری ناشکری کی یہی سزا ہے۔مصیبت کے وقت جس نے تجھے پناہ دی تو نے اسی پر ظلم ڈھایا۔“اتنے میں شکاری بھی وہاں پہنچ گئے۔کیا دیکھتے ہیں کہ وہی ہرن مرا پڑاہے۔“ " محنت کا جادو - تحریر نمبر 1603,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-ka-jadu-1603.html,"عرفان الحقدور دراز کے کسی قصبے میں ایک محنتی لکڑ ہارا رہتا تھا۔وہ دن بھر کڑی محنت سے قریبی جنگل میں لکڑیاں کا ٹا کرتا تھا۔شام ہوتے ہی وہ کٹی ہوئی لکڑیاں قصبے کے بازار میں بیچ آتا۔ان لکڑیوں کے بدلے اسے جتنے پیسے ملتے وہ بہت زیادہ تونہ ہوتے تھے ،مگر سادہ مزاج لکڑہارے اور اس کی بیوی کی گزر بسر کے لیے کافی ہوتے۔دونوں میاں بیوی کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی جس کی کمی دونوں کو بہت محسوس ہوتی تھی اور وہ نیک اولاد کے لیے اللہ میاں سے دعائیں مانگتے رہتے تھے۔بچوں کی غیر موجودگی انھیں افسردہ بھی کردیا کرتی تھی،مگر اسے اللہ کی رضا جان کے مطمئن ہو جایا کرتے تھے۔لکڑہارے نے گھر کا سونا پن دور کرنے اور اپنی بیوی کا دل بہلانے کے لیے ایک طوطاپال رکھا تھا۔(جاری ہے)طوطے کی ٹیں ٹیں اور بول چال چھوٹے سے گھر میں رونق لگائے رکھتی تھی۔لکڑہارے کی بیوی اس طوطے سے بے حد پیار کرتی تھی۔اس طوطے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کے پَروں میں سے دو چمکتے ہوئے پَر سنہرے رنگ کے بھی تھے۔ان پَروں کی چمک اتنی تھی کہ وہ سونے کے معلوم ہوتے تھے۔اس خوبی نے اس طوطے کی خوب صورتی میں چار چاند لگا دیے تھے۔سارے قصبے میں لکڑہارے کے اس طوطے کی دھوم تھی۔بہت سے لوگوں نے لکڑہارے اور اس کی بیوی سے اس طوطے کو منہ مانگے داموں میں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا،مگر دونوں میاں بیوی اس طوطے کو اپنی اولاد کی طرح پیار کرتے تھے،اس لیے انھوں نے طوطے کو فروخت کرنے سے صاف انکار کردیا۔اس قصبے میں رحمو نام کا ایک لڑکا بھی رہتا تھا۔جو قصبے کے واحد حلوائی کا اکلوتا ،مگر نکما بیٹھا تھا۔حلوائی کی شدید خواہش تھی کہ رحمو کاروبار میں اس کا ہاتھ بٹائے،مگر رحمو کا کام دن بھر شیخیاں بگھارنا اور جادوئی کہانیاں پڑھنا تھا۔جادوئی کہانیاں پڑھ پڑھ کر وہ اپنے آپ کو بھی کسی طلسمی کہانی کا کردار سمجھنے لگا تھا اور کسی جادوئی ذریعے سے پیسے کمانا اس کی زندگی کا واحد مقصد بن کررہ گیا تھا۔اس نے جانے کہاں سے سن لیا کہ لکڑہارے کا طوطا کوئی عام طوطا نہیں ہے،بلکہ یہ ایک جادوئی طوطا ہے۔اس کے دونوں سنہرے پَروں کو روشنائی میں ڈبو کر مخصوص طریقے سے جو بھی لکھا جائے گا وہ سچ ہو جائے گا۔جو تصویر بنائی جائے گی وہ حقیقت کا روپ دھار لے گی۔یہ سب کچھ جانتے ہی وہ لکڑہارے اور اس کی بیوی کے پیچھے پڑ گیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح طوطا اس کے ہاتھ فروخت کردیں،مگر دونوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی صاف انکار کردیا۔ان کے اس حد درجہ انکار نے رحمو کا شک یقین میں بدل دیا کہ ہو نہ ہویہ طوطا جادوئی طوطا ہے،جبھی یہ لوگ اسے کسی قیمت پر فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اب حال یہ تھا رحموطوطا حاصل کرنے کے لیے دن بھر مختلف منصوبے بنا تا رہتا تھا۔بہت سوچ بچار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس طوطے کو چرائے بغیر کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔لکڑہارے کے گھر کی دیوار زیادہ اونچی نہیں تھی۔رحمو کے خیال میں رات کے اندھیرے میں وہ آسانی سے اس دیوار کو پھلانگ کر طوطے کا پنجرہ اُٹھا کے لا سکتا تھا۔طوطے کے شور سے بچنے کے لیے اس نے دو تین ہری مرچیں بھی رکھ لیں تھیں۔ایک رات جب سب گہری نیند سورہے تھے ،رحمو اپنے گھر سے نکلا۔اس نے کالے رنگ کا چست لباس پہن رکھا تھا۔جس نے اسے تاریکی کا حصہ بنا دیا تھا۔سارا قصبہ سنسان پڑا تھا دور دور تک کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔وہ احتیاط سے چلتا ہوا لکڑہارے کے گھر جا پہنچا۔آگے پیچھے نظر دوڑا کر وہ جھٹکے سے دیوار پر چڑھ گیا،مگر جب دوسری طرف اُترنا چاہا تو ایک دم اس کا پاؤں پھسلا اور زور دار آواز کے ساتھ رحمو لکڑہارے کے صحن میں جاگرا۔لکڑہارا صحن میں بچھی ہوئی چار پائی پر سورہا تھا۔وہ رحمو کے گرنے کی زور دار آواز سے آنکھیں ملتا ہوا جاگ اُٹھا۔حواس بحال ہونے پر کیا دیکھتا ہے کہ گھر کے صحن میں ایک اجنبی شخص سر سے لے کر پاؤں تک کالے کپڑوں اور چہرے پر نقاب ڈالے پڑا کراہ رہا ہے۔لکڑہارے نے چور چور،کا شور مچادیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کے گھروں سے لوگ ڈنڈے لے کر لکڑہارے کے گھر میں داخل ہو گئے۔چور کو دیکھ کر غصہ تو سب کو بہت آیا ،مگر اس کی یہ حالت اور درد بھری صدائیں سن کر اس چور کو اُٹھایا اور چار پائی پر لٹا کر اس کا نقاب اُلٹ دیا۔نقاب کا اُلٹنا تھا کہ رحمو کا چہرہ سب کے سامنے آگیا۔لوگوں پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔چھوٹے سے قصبے میں سب لوگ ایک دوسرے سے واقف ہوتے ہیں۔رحمو کے ابا سب کی نظر میں ایک شریف انسان تھے ،کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کا بیٹا رحمو اس طرح چوری کرتے ہوئے پکڑا جائے گا۔رحمو کا بھی شرم اور درد سے حال بُرا تھا۔اس کا دل چاہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے،تاکہ اسے لوگوں اور اپنے ابو کا سامنا نہ کرنا پڑے،مگر اب پچھتائے کیا جب چڑیا چگ گئی کھیت۔اس کے والد کو گھر سے بلوایا گیا۔وہ آئے اور غصے میں لگے اس کو مارنے پیٹنے۔بڑی مشکل سے قصبے والوں نے رحمو کو بچایا۔سب اس کی اس گھٹیاحرکت کی وجہ جاننا چاہتے تھے۔پہلے تو ندامت کے مارے رحمو کی آواز نہ نکلی،مگر جب لوگوں کا دباؤ بڑھا اور پولیس کو بلائے جانے کی دھمکی دی گئی تونا چار رحمو نے اپنا منہ کھولا اور اپنی بے وقوفی کا سارا ماجرا قصبے والوں کو سنا ڈالا۔رحمو کی بات سن کر کچھ لوگ تو قہقہہ لگا کر ہنس پڑے اور رحمو کا مذاق اُڑانے لگے،جب کہ کچھ لوگ ،جواب بھی بھوت پریت اور جادو ٹونے کو حقیقت مانتے تھے،وہ اس بات کو آزمانے کا مشورہ دینے لگے۔لکڑہارا اور اس کی بیوی اس بات کے سختی سے مخالف تھے،کیونکہ اس سے ان کے طوطے کو تکلیف پہنچتی،مگر جب سب کا اصرار بہت بڑھا تو انھیں بھی اجازت دینا پڑی۔قینچی لائی گئی اور طوطے کی ٹیں ٹیں کی پروانہ کرتے ہوئے اس کے دونوں سنہرے پَروں کو کتر دیاگیا۔ پڑوس کے گھر سے روشنائی لاکر،رحمو کو دیے گئے کہ وہ جس طرح چاہے،اپنی اور مجمع میں موجود اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی تسلی کرلے۔رحمو نے ایک چھوٹا سا پرندہ بنایا اور انتظار کرنے لگا کہ کب اس کے بنائے ہوئے پرندے میں جان آئے اور آسمانوں میں اُڑتا چلا جائے،مگر کافی دیر بعد بھی اس تصویر میں کسی قسم کے زندگی کے آثار نظر نہ آئے تو رحمو کی پشیمانی اور بھی بڑھ گئی۔جادو وغیرہ کے چکر میں پڑ کر اپنی اور اپنے والد کی عزت ہمیشہ کے لیے گنوادینے کا احساس اس پر حاوی ہونے لگا۔رحمو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے لکڑہارے کے قدموں میں گر پڑا اور معافی مانگنے لگا۔لکڑ ہارے نے اسے اُٹھا کر گلے سے لگالیا۔اس کے آنسو پونچھ کر کہنے لگا کہ بیٹا!تم میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہو،اس لیے معافی مانگنے کی تو کوئی ضرورت نہیں،مگر میری ایک بات ہمیشہ یادرکھنا۔ اصل جادو انسان کے اندر ہوتاہے اور وہ ہے محنت کا جادو۔اپنے بازؤں کے زور پر حاصل کی گئی دولت چاہے جتنی بھی کم ہو،مگر اس میں برکت اور سکون دنیا کے کسی بھی خزانے سے زیادہ ہوتاہے۔لکڑہارے کی سیدھی سچی باتوں نے رحمو کی آنکھیں کھول دیں۔وہ آگے بڑھ کر اپنے والد کے گلے لگ گیا اور ان سے معافی مانگ کر اس نے آئندہ ان کا دوست وبازو بننے کا عہد کیا اور محنت سے روزی کمانے لگا اور محنت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا اُصول بنالیا۔ " آپ کو دیکھا جارہاہے - تحریر نمبر 1602,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ap-ko-dekha-ja-raha-hai-1602.html,"کاشف عمرکاشان نیک،مگر غریب والدین کی اولاد تھا۔اس کے ابو سارا دن کام کاج کے سلسلے میں گھر سے باہر ہوتے۔شام کو تھکے ہارے آکر چار پائی پر گر جاتے،لیکن امی نے اس کی خوب اچھی تربیت کی تھی،لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کا شان روز بروز بگڑتا جا رہا تھا۔یہ سب کچھ ہائی سکول میں جانے کے بعد ہوا تھا۔والدہ کو محسوس ہوا کہ ان کا بیٹا کسی غلط محبت کا شکار ہو چلا ہے۔کا شان اور امان کی ملاقات پہلی بار سکول کی کینٹین میں ہوئی تھی۔پھر دونوں کی دوستی حیرت انگیز طور پر بڑھتی چلی گئی۔امان کی بُری عادتوں کے باوجود وہ امان کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔اسے پاؤں تلے زمین نکلتی تب محسوس ہوئی جب پتا چلا کہ اس کا دوست چھوٹی موٹی چیزوں کی چوری کو خاطر میں نہیں لاتا اور بے دھڑک انتہائی پھرتی کے ساتھ دوستوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کر لیتاہے۔(جاری ہے)پہلے پہل تو کا شان روک ٹوک کرتا رہا،لیکن امان ٹس سے مس نہ ہوا۔غیر محسوس طور پر کا شان دھیرے دھیرے اس کے رنگ میں رنگنے لگا۔دونوں مل کر جیب خرچ پورا کرنے کے لیے دوسروں کی جیبوں اور چیزوں کا صفایا کرنے لگے۔ایک دن کا شان اور امان بائیک پر سوار ایک سپر سٹور کے سامنے تھے۔آج دونوں کو زور کی بھوک لگی تھی۔جیب میں ایک پائی بھی نہ تھی۔آج دونوں نے سکول سے بھی چھٹی کی تھی۔بائیک ایک طرف کھڑی کی،اب دونوں کا رُخ سٹور کے دروازے کی طرف تھا۔سٹور اچھا خاصا بڑا تھا۔ہفتہ بھر پہلے بھی امان نے یہاں سے انتہائی پھرتی کے ساتھ نوڈلز کا ڈبہ بغلی جیب میں منتقل کر دیا تھا۔دونوں سٹور کے اندر ایسے ٹہل رہے تھے جیسے وہ کچھ خریدنے آئے ہوں۔”میں ہاتھ صاف کروں گا تم اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑانا کہیں کوئی دیکھ نہ لے۔“امان نے کا شان کے بائیں کان میں سر گوشی کی۔امان کے سامنے چاکلیٹ کے ڈبے پڑے تھے۔وہ للچائی نظروں سے ان کو دیکھ رہا تھا۔اگلے لمحے اس کا بایاں ہاتھ حرکت میں آیا۔وہ ڈبا اُٹھانے ہی والا تھا کہ اسے اپنا ہاتھ دبتا محسوس ہوا۔ایک لمحے کے لیے اس کا دل زور سے دھڑکا،لیکن مڑکر دیکھا تو کاشان اسے آنکھ کے اشارے سے روک رہا تھا اور ساتھ ہی کن آنکھیوں سے چھت کی طرف دیکھنے کو کہا۔جیسے ہی امان نے نگاہ اُٹھائی وہ کانپ کررہ گیا۔دونوں کیمرے کی آنکھ میں تھے۔اوپر لٹکتے بورڈ پر موٹے حروف میں لکھا تھا:”آپ کو دیکھا جارہا ہے۔“پہلی دفعہ جب یہاں آیا تھا تو کیمرے نہیں تھے۔”شکر ہے تم نے بر وقت بتلایا ،ورنہ جانے کیا درگت بنتی۔“دروازے سے باہر آتے ہوئے امان نے جھر جھری لیتے ہوئے کہا۔دونوں بنا کوئی چیز اُٹھائے پلک جھپکتے وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔دوسری طرف کا شان کی والدہ کے ہاتھ دعا کے لیے اُٹھے ہوئے تھے:”یا اللہ!میرے بیٹے کو سلامت رکھ۔اے دلوں کے پھیرنے والے!میرے بیٹے کا دل بُرائی سے نیکی کی طرف پھیر دے۔“ان کی دعا قبول ہوئی تہجد میں اُٹھ کر بھی آج انھوں نے خوب رو رو کر دعا کی تھی۔شاید امی کی دعا کی برکت تھی جو آج وہ کیمرے کی زد میں آنے کے باوجود بال بال بچے تھے۔”یہاں نہ سہی کہیں اور قسمت آزمائی کرتے ہیں۔“امان بائیک دوڑاتے ہوئے بول رہا تھا۔چند لمحوں میں ان کی بائیک ایک لمبی چوڑی دکان کے سامنے رکی۔دونوں بائیک سے اُتر کر اندر چلے آئے۔کاؤنٹر پر ایک نوجوان بیٹھا تھا۔اندر آتے ہی اس نے دونوں کو بس ایک نظر دیکھا۔پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ان سے پہلے دو تین گاہک اور بھی موجود تھے۔اب دونوں اِدھر اُدھر ٹہلتے ،موقع کی تلاش میں تھے ۔احتیاطاً کا شان نے اوپر نیچے نگاہیں دوڑائیں ،لیکن کسی کیمرے کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا،لیکن دیوار پرایک جگہ کچھ لکھا دیکھا تو اسے ایک زبردست جھٹکا لگا تھا۔”کیا ہوا تمھیں؟“امان نے اس کا چہرہ فق ہوتے دیکھا تو دھیمی آواز میں پوچھا ،لیکن دوسری طرف مکمل سناٹا تھا۔کاشان نے دیوار کی طرف اُنگلی اُٹھائی۔نظر پڑتے ہی امان بھی کانپ کررہ گیا۔دیوار پر آویزاں فریم پر لکھے ایک جملے نے انھیں بدل کر رکھ دیا تھا۔ابھی تک وہ ایک مصنوعی کیمرے کی آنکھ کو دیکھ کر فوراً محتاط ہو جاتے۔آج انھیں پتا چل گیا تھا کہ کوئی دیکھنے والا انھیں مسلسل دیکھ رہا ہے۔ان کا ہر عمل نوٹ کیا جارہا ہے۔دیوارپرلکھا تھا:”اللہ دیکھ رہا ہے۔“دونوں اُلٹے پاؤں پلٹ گئے،ہمیشہ کے لیے۔کاشان کی امی کی دعا قبول ہو چکی تھی۔ " ہیرا پھیری - تحریر نمبر 1599,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/heera-pheeri-1599.html,"عشرت جہاںچور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔یہ مثال بابر بھائی پر صادق آتی تھی۔کہیں بیٹھے ہوں عادت سے مجبور ہو کر کچھ نہ کچھ اُٹھا ضرور لیتے تھے۔محلے کے ایک درزی کے پاس بیٹھنے لگے تو بٹن دھاگے اور سوئیاں غائب کرنا شروع کردیں۔گھر لالا کر جمع کرنے لگے۔انور درزی کو پتا چلا تو پرانی تعلق داری کالحاظ کرتے ہوئے کہا تو کچھ نہیں،لیکن دوکان سے فارغ کر دیا۔پھر کسی کارخانے میں کام کرنے لگے،چند دن محتاط رہے۔خود کو بہ مشکل تمام روکے رکھا،مگر بل آخر ہاتھ کی صفائی دکھانے لگے۔پہلے کپڑوں کے چھوٹے ٹکڑے پھر بڑے ٹکڑوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔بیوی نے ہر چند منع کیا:”کیوں نیک کمائی کو خراب کرنے کا کام کررہے ہو؟اچھی بھلی روزی سے جاؤ گے،مالکوں کو پتا چلا تو نکالنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔(جاری ہے)“بیوی نے بار ہا سمجھایا۔”امیر کبیر سیٹھ لوگ ہیں،یہ لوگ چھوٹے دل کے نہیں ہوتے بھلا انھیں معمولی باتوں کی کیا پروا،یوں بھی چھوٹے موٹے کپڑوں سے کیا بنتاہے بھلا؟“وہ لا پرواہی سے بولے۔”اگر کچھ نہیں بنتا تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے یہ حرکتیں۔“بیوی زور سے بولی۔ان سے جواب نہ بن پڑا تو باہر کی راہ لی اور پھر ایسا ہی ہوا کہ ایک دن فیکٹری سے بھی نکال دیے گئے۔کئی دن بے روز گار پھرتے رہے۔آخر دور پار کے ایک رشتے دار کو رحم آیا اور کسی کینٹین میں کام پر لگوادیا۔بابر بھائی قصہ گوئی میں ماہر تھے۔سب کا دل لگائے رکھتے خود ان کا بھی اس کام میں دل لگ گیا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شام میں جو کھانا بچ جاتا اکرم بھائی تمام ملازمین میں برابر تقسیم کر دیتے ۔کسی دن بریانی ،کبھی پائے نہاری تو کبھی قورمہ۔کسی دن کھانا زیادہ مل جاتاہے تو کسی دن کم۔چند دن تو بابر بھائی قناعت پر قائم رہے۔لیکن کب تک؟کہتے ہیں کہ انسان شکل بھی بدل سکتاہے ،مگر عادت نہیں۔چوری اور ہیرا پھیری کی بُری لَت انھیں اس طرح چمٹ چکی تھی کہ اسے وہ غلط بات سمجھتے ہی نہیں تھے۔جب کھانا بن کر تیار ہو جاتا تو و ہ اپنے لیے پہلے سے ہی نکال کر ایک طرف رکھنے لگے۔اب چاہے کم ہو یا زیادہ ان کی بلا سے ۔انھیں تو اپنے حصے سے غرض تھی۔آہستہ آہستہ گھی مرچ مصالحوں میں بھی ڈنڈی مارنے لگے۔اکرم بھائی کو پہلے تو شک ہوا۔بہ نظر غائر انھوں نے سب کا جائزہ لیا اور آخر کار بابربھائی پر ان کو یقین پختہ ہو گیا۔یہاں بھی لحاظ ،مروت آڑے آیا،اکرم بھائی چاہتے تو رنگے ہاتھوں پکڑ کر ذلیل کر سکتے تھے،لیکن انھیں سبق سکھانے کے لیے انھوں نے انوکھا طریقہ اختیار کیا۔”ہاں بھئی،عمران بیٹا!بابر بھائی کے لیے ذرا گرما گرم بریانی تولے آؤ۔“بابر بھائی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انھوں نے قریب بیٹھالیا۔”حمزہ بیٹا!سلاد اور رائتہ بھی لے آؤ۔‘بابر بھائی حیران حیران سے بیٹھے تھے۔اگر چہ اکرم بھائی کا رویہ تمام ملازمین کے ساتھ اچھا تھا،لیکن آج وہ ان پر خصوصی مہربان تھے۔ایک پلیٹ بریانی انھوں نے اکرم بھائی کے اصرار پر جھجکتے جھجکتے ختم کی،پلیٹ صاف کرکے رکھ ہی رہے تھے کہ دوسری پلیٹ سامنے دھر دی۔”بابر صاحب !اور کھائیں۔“اکرم بھائی نے خوش دلی سے کہا۔”الحمد اللہ،پیٹ بھر گیا ہے اکرم بھائی!“بابر بھائی نے پیٹ پر ہاتھ مار کر ڈکارلی۔”نہیں جناب!یہ کھانا تو آپ کو کھانا ہی پڑے گا۔اس پر آپ ہی کا نام لکھا ہے۔“اکرم بھائی کے انداز پر وہ چونکے۔دوسری پلیٹ بڑی مشکل سے ختم کی جو مقدار میں بھی زیادہ تھی۔لڑکے کن آنکھوں سے بابر بھائی کو دیکھ رہے تھے۔”پانی ۔“انھوں نے پانی مانگا۔”پانی نہیں آج صرف کھانا ملے گا۔“اکرم بھائی کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔عمران تیسری پلیٹ لیے سر پر کھڑا تھا۔اس کے چہرے پر شرارت ناچ رہی تھی۔”نہیں․․․․․․․․نہیں․․․․․․․اکرم بھائی !اب گنجائش نہیں ہے۔“بابر بھائی ہکلائے۔”آپ کو کھانا پڑے گا بابر بھائی!“اکرم بھائی نے دیدے گھمائے۔”خدا قسم صرف ایک پلیٹ کی گنجائش تھی آپ کے کہنے پر دوسری بھی کھا چکا ،مگر اب․․․․․“دھان پان سے بار بھائی رو دینے کو تھے۔”اللہ کے بندے!جب انسان کی ضرورت محدود ہے وہ لالچ کیوں کرتاہے۔کیوں اپنا اعتبار ختم کرتاہے۔“اکرم بھائی تیزی سے بولے۔”میری توبہ ۔مجھے معاف کردیں اکرم بھائی!“انھوں نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگائے ،اگر آئندہ ایسی حرکت کروں تو جو چور کی سز اوہ میری سزا۔“ان کی بات سن کر لڑکے ہنسنے لگے۔ان کے انداز پر اکرم بھائی بھی مسکرادیے۔ " پانچ لاکھ - تحریر نمبر 1598,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/5-lakh-1598.html," " قائداعظم کے مشغلے - تحریر نمبر 1597,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/quaid-e-azam-k-mashgale-1597.html," " یہ منھ اور مسور کی دال - تحریر نمبر 1595,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/yeh-moun-or-masoor-ki-daal-1595.html," " کہانی کاہل میاں کی - تحریر نمبر 1594,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kahani-kahil-mian-ki-1594.html," " ننھی منی چڑیاں - تحریر نمبر 1593,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanhi-munni-chiryaan-1593.html," " افواہ سازی - تحریر نمبر 1592,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/afwah-sazi-1592.html," " پری کا بھائی (آخری قسط) - تحریر نمبر 1590,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pari-ka-bhai-last-qist-1590.html,"ہوا دراصل یہ تھا کہ شہزادہ اکبر نے بے خیالی میں اپنا گھوڑا باہر ہی باندھ دیا تھا- شہر کا کوتوال بھی دوسرے سپاہیوں کی طرح بادشاہ کے حکم پر اصغر کو گرفتار کرنے کے لیے شکاری کتے کی طرح اس کی بو سونگھتا پھر رہا تھا- اس نے جو ایک ویران اور سنسان جگہ پر ایک کھنڈر نما مکان کے قریب ایک گھوڑا بندھا دیکھا تو اس کا ماتھا ٹھنکا- وہ گھوڑے سے اتر کر خاموشی سے اس مکان کی طرف بڑھا- اندر اصغر، زریں پری اور شہزادہ کو اپنی آپ بیتی سنانے میں مصروف تھا- اصغر کو دیکھ کر تو کوتوال کی بانچھیں کھل گئیں- وہ بھاگا بھاگا گیا اور بہت سارے سپاہیوں کو لے آیا اور اب اس نے اصغر کو دھمکی دی تھی کہ وہ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردے ورنہ اس کی تکا بوٹی کردی جائے گی-شہزادہ اکبر اور اصغر دونوں ہی کوتوال کی اس اچانک آمد پر حیرت آمیز پریشانی میں مبتلا ہو گئے تھے مگر زریں پری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی-شہر کوتوال نے دو سپاہیوں کی طرف ایک رسی پھینکی اور بڑی نخوت سے بولا- ""ملکہ عالیہ کے قاتل کی مشکیں کس دو- یہ سمجھتا تھا کہ قید خانے سے بھاگ کر بچ جائے گا، مگر مجھ جیسے کوتوال کی گرفت سے بچ کر نکل جانا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے-""دونوں سپاہیوں نے رسی تھامی اور اصغر کی طرف بڑھنے لگے- اصغر بے بسی سے شہزادہ اکبر کو دیکھ رہا تھا جو خود بھی بہت رنجیدہ نظر آنے لگا تھا-____________وہ دونوں سپاہی ابھی ان کے قریب پہنچے ہی تھے کہ زریں پری نے جادو کے قالین کو چپکے سے بلند ہونے کا حکم دیا- وہ تینوں قالین پر بیٹھے تھے- قالین فضا میں بلند ہوا اور خاصی بلندی پر جا کر ٹھہر گیا- تمام سپاہی ہکا بکا رہ گئے- وہ دو سپاہی جو اصغر کو باندھنے کیلئے آئے تھے، اس منظر سے اتنا متاثر ہوۓ کہ انہوں نے پہلے تو چیخ ماری پھر اچھل کر پیچھے ہٹے اور دھڑام سے زمین پر گر کر بے ہوش ہو گئے-اصغر اور شہزادہ اکبر بھی کچھ کم حیران نہیں تھے- مگر وہ جان گئے تھے کہ یہ زریں پری کا جادوئی قالین ہے- اصغر نے ایک اطمینان بھری سانس لیتے ہوۓ کہا- ""سپاہیوں کی آمد اس قدر اچانک تھی کہ میں سواے دم بخود ہوجانے کے کچھ بھی نہ کر سکا- زریں بہن اگر تم مدد نہ کرتیں تو میں بری طرح پھنس جاتا-"" زریں پری بھائی کے تعریف کرنے پر شرما گئی اور اس کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی- شہزادہ اکبر نے نیچے جھانکتے ہوۓ کہا- ""بے چارے سپاہی کس قدر بے بسی اور حسرت سے ہمیں دیکھ رہے ہیں-"" اصغر اور زریں پری بھی نیچے دیکھنے لگے- کوتوال نے انھیں اپنی طرف متوجہ دیکھا تو چیخ کر بولا- ""میں سمجھ گیا ہوں یہ پری تمہاری مدد کو آئ ہے- اگر تم مجھے بھی اس جادوئی قالین پر بیٹھا کر آسمان کی سیر کرا دو تو میں تمہیں کچھ نہیں کہونگا اور زندگی بھر تمہارا احسان مند رہونگا-""اصغر نے بھی چلا کر جواب دیا- ""ہم تمہارے بھّرے میں نہیں آئیں گے- بے وقوف آدمی زمین پر رہ کر آسمان کی سیر کے خواب دیکھتے ہو، گر پڑے تو ہڈی پسلی ایک ہوجائیگی-""اس کی بات پر شہزادہ اکبر اور زریں پری دونوں ہنس پڑے- پھر زریں پری نے کہا- ""اصغر بھائی- میں چاہتی ہوں کہ ملکہ عالیہ کے قتل کا الزام آپ کے سر سے جلد ہی اتر جائے- میں نے آپ کو قسمت کی مہربانی سے پا تو لیا ہے مگر یہ کیسی مشکل ہے کہ ہم دونوں اطمینان سے گفتگو بھی نہیں کر سکتے- ساری زندگی تو ہم اس قالین پر ٹنگے نہیں رہ سکتے- بہتر یہ ہو گا کہ ہم بادشاہ سلامت سے ملیں اور انھیں تمام کہانی سے آگاہ کردیں-""""پھر وہ ہی مرغے کی ایک ٹانگ-"" اصغر برا سا منہ بنا کر بولا- ""ارے بادشاہ سلامت کبھی بھی میری یا تمہاری بات پر یقین نہیں کریں گے-""""یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں- بادشاہ سلامت کو یقین دلانا میرا کام ہے-"" زریں پری نے مسکراتے ہوۓ کہا- کچھ دیر بعد اس نے منہ نیچے کر کے کوتوال سے کہا-""میاں کوتوال- میں اصغر کی بہن زریں پری ہوں- میں جانتی ہوں کہ اصغر بھائی ملکہ عالیہ کے قاتل نہیں ہیں-""""یہ بات اس کی بہن نہیں کہے گی تو اور کون کہے گا-"" کوتوال نے دانت پیس کر کہا- ""تم نے میرے کام میں مداخلت کر کے اپنی موت کو دعوت دی ہے- اگر میں نے تمہیں عبرتناک سزا نہ دی تو میرا نام بدل دینا-""زریں پری اس کی بات سنکر کر اڑ کر زمین پر آ گئی اور کوتوال سے بولی- ""اگر تم میں ہمت ہے تو مجھے ہاتھ لگا کر دکھاؤ- مان جاؤں گی تمہیں-"" یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ میں موجود جادو کی چھڑی کو ان لوگوں کی طرف کر کے ہلا یا- اس چھڑی میں سے روشنی سی نکلی اور کوتوال سمیت تمام سپاہی کمر تک پتھر کے ہو گئے- کوتوال کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں- اس کی ساری اکڑ فوں رخصت ہو گئی تھی، وہ رونی صورت بنا کر بولا- ""ہم تو پہلے ہی مٹی کے بنے ہوۓ تھے، اب تم نے ہمیں پتھر کا بنا دیا ہے، آخر تم چاہتی کیا ہو؟""""میں چاہتی ہوں کہ بادشاہ سلامت سمیت تمام لوگوں کی یہ غلط فہمی ختم ہوجائے کہ میرے بھائی نے ملکہ کو زہر دیا ہے-"" زریں پری بولی-""کیا تم یہ غلط فہمی ہمیں پتھر کا بنا کر دور کرنا چاہتی ہو؟"" کوتوال نے گھبراۓ ہوۓ لہجے میں کہا-""نہیں- میں تم سب کو ابھی ٹھیک کر دوں گی، مگر اس سے پہلے تم میرا ایک پیغام سن لو جو کہ تمہیں بادشا تک پہنچانا ہے- اپنے بادشاہ سے کہنا کہ میں ایک انصاف پسند پری ہوں اور یہ جانتی ہوں کہ ملکہ کو زہر میرے بھائی نے نہیں دیا ہے- وہ بالکل بے گناہ ہے- اصلی قاتل وزیر ہے اور سزا اسی کو ملنی چاہیے-""""مگر اس کا ٹھوس ثبوت بھی تو ہونا چاہیے-"" کوتوال نے اصرار کر تے ہوۓ کہا-""ثبوت بھی میں دوں گی، مگر پہلے تم اپنے سپاہیوں کو یہاں سے چلتا کر دو-"" یہ کہہ کر زریں پری نے دوبارہ اپنی جادو کی چھڑی کو حرکت دی- تمام سپاہی دوبارہ اپنی اصلی حالت میں آ گئے اور پھر کوتوال کا اشارہ پاتے ہی وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے-زریں پری نے اسے اپنی انگلی سے اتار کر ایک چمکدار رنگوں والی انگوٹھی دی اور کہا- ""یہ انگوٹھی سچ اور جھوٹ کا پتہ چلاتی ہے- اگر اس انگوٹھی کو وزیر کے جسم سے رگڑا جائے تو اگر وہ سچا ہے تو اسے کچھ نہیں ہوگا- لیکن اگر وہ میرے بھائی کو پھنسانے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کا چہرہ خرگوش کے چہرے میں تبدیل ہو جائے گا- تم یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو، میرے خیال میں یہ ثبوت کافی ہوگا-""کوتوال نے زریں پری سے وہ انگوٹھی لے لی اور پھر اس سے جانے کی اجازت چاہی- جب زریں کوتوال کو رخصت کر کے واپس قالین پر آئ تو اصغر نے اس سے پوچھا کہ وہ کوتوال سے کیا باتیں کر رہی تھی- زریں پری نے مختصراً اسے سب کچھ بتا دیا- ان دونوں کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا- وہ سوچنے لگے کہ زریں پری نہ جانے کیا کرنا چاہتی ہے- زریں پری نے قالین کو محل کی طرف جانے کا حکم دیا اور خاموش ہو کر اندھرے میں گھورنے لگی-____________بادشاہ گہری نیند سو رہا تھا- وہ تینوں اس کی خواب گاہ میں کھڑے تھے- انھیں محل میں آ ے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی- قالین نے انھیں محل کی چھت پر اتارا تھا اور وہ سیڑھیوں کی مدد سے نیچے آئے تھے- پہرے داروں نے انھیں حیرت بھری نگاہوں سے دیکھا تھا، مگر شہزادہ اکبر چونکہ ان کے ساتھ تھا اس لیے وہ کچھ بولے نہیں تھے-زریں پری نے شہزادہ اکبر کو اشارہ کیا کہ وہ بادشاہ کو اٹھا دے- شہزادہ اکبر بادشاہ کو اٹھانے لگا- اصغر ایک طرف مجرموں کی طرح سر جھکاے کھڑا تھا- تھوڑی سی کوشش کے بعد بادشاہ بیدار ہو گیا- اس نے حیرت بھری نظروں سے ان تینوں کو دیکھا، اصغر پر نظر پڑتے ہی وہ جھٹکے سے بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا- پھر لال پیلی آنکھیں کر کے دھاڑا- ""نمک حرام-""زریں پری تڑپ کر آگے بڑھی اور تلخی سے بولی- ""میرے بھائی کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئی ہیں، اس کے دکھ سن سن کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے- آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ اس سے ایسے لہجے میں گفتگو کریں-""بادشاہ نے اپنی خشمگیں نگاہیں زریں پری کی طرف پھیر یں اور بولا- ""بھائی؟- تم اس کو بھائی کہہ رہی ہو، شائد تم پوری کہانی سے واقف نہیں ہو، ارے اس نے اس عورت کو زہر دے دیا ہے جس نے ماں بن کر اسے پالا تھا-""""یہ سب جھوٹ ہے، فریب ہے، میرا بھائی وزیر کی سازش کا شکار ہوا ہے-"" زریں پری نے پر زور الفاظ میں کہا- ""آپ نے وزیر کی باتوں میں آ کر اصغر بھائی کی ایک نہ سنی اور انھیں قید خانے میں ڈلوا دیا- میں چاہتی تو اصغر بھائی کو لے کر پرستان بھی جا سکتی تھی مگر میں نہیں چاہتی تھی کہ انھیں بعد میں ایک قاتل کی حثیت سے یاد کیا جائے- میں یہ ثابت کر کے رہوں گی کہ یہ تمام سازش وزیر کی ہے، پھر میں اور اصغر بھائی ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلے جائیں گے- اگر آپ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو میرے ساتھ وزیر کے گھر چلنا پڑے گا-""""یہ تم نے کیا بے سروپا باتیں شروع کردیں""- بادشاہ منہ بگاڑ کر بولا- "" اس وقت وزیر کے گھر جانے سے کیا ہوگا-""""ابّا حضور آپ کبھی تو کسی کی بات مان لیا کریں-"" شہزادہ اکبر نے تیزی سے کہا- ""وزیر کے گھر جانے میں حرج ہی کیا ہے- وہاں جا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا-""بادشاہ مجبوراً ان کے ساتھ وزیر کے گھر جانے پر رضا مند ہوگیا-اتنی رات گئے وہ لوگ باہر جا رہے تھے، اس لیے پہرے داروں میں ہلچل سی مچ گئی، پھر ایک پری کی موجودگی انھیں مزید حیرت زدہ کر رہی تھی، مگر کسی میں بھی یہ ہمت نہ تھی کہ وہ کچھ پوچھنے کی جرات کرتا-زریں پری کا خیال تھا کہ کوتوال بادشاہ کے پاس جانے سے پہلے وزیر کے پاس جائے گا، کیوں کہ اس نے کوتوال کی باتوں سے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ بھی ایک چالاک اور لالچی انسان ہے- اور یہ تھی بھی حقیقت- کوتوال پری سے مرعوب ہو گیا تھا- وہ ایک لالچی قسم کا انسان تھا اس لیے یہ بات قرین قیاس تھی کہ وہ وزیر سے کچھ مال حاصل کرنے اور اس کی خوشنودی کی خاطر اسے تمام باتوں سے آگاہ کرے گا- زریں پری ان کے درمیان ہونے والی گفتگو بادشاہ کو سنانا چاہتی تھی-اس نے راستے میں بادشا کو اصغر سے سنی ہوئی تمام کہانی تفصیل سے سنا دی تھی- یہ کہانی سن کر بادشاہ کی آنکھیں سوچ میں ڈوب گئی تھیں- پھر زریں پری نے اسے بتایا کہ اس نے کوتوال کے ساتھ کیا چال چلی ہے-تھوڑی دیر بعد وہ لوگ وزیر کے مکان پر پہنچ گئے- وہ چاروں اس کے باغ میں داخل ہوے اور ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئے-زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہاں پر ایک گھڑ سوار آیا- وہ کوتوال تھا- اس نے وزیر کو آواز دے کر باہر بلایا- وزیر اس کی دوسری آواز پر ہی باہر نکل آیا تھا- وہ کوتوال کو دیکھ کر بےصبری سے بولا- ""کیا اصغر گرفتار ہوگیا؟""کوتوال نے نفی میں گردن ہلاتے ہوۓ کہا- ""اصغر کو ایک پری مل گئی ہے، وہ پری جادو بھی جانتی ہے- اس نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو آدھا پتھر کا بھی بنا دیا تھا- اس کے پاس جادوئی قالین بھی ہے اور وہ خود کو اصغر کی بہن بتاتی ہے-""""جب سے اصغر قید خانے سے بھاگا ہے، مجھے پل بھر کو بھی سکون نہیں ملا ہے، کیونکہ میں نے ہی اس کا راز افشا کیا تھا کہ اس نے ہی ملکہ کو زہر دیا ہے- اب مجھے خدشہ ہے کہ وہ مجھ سے انتقام لینے کے لیے نہ آجائے- وہ پری اسے کہاں لے گئی ہے؟"" وزیر نے پوچھا-کوتوال نے جواب دیا- ""یہ تو میں بھی نہیں جانتا، مگر اس کو اس بارے میں پورا یقین تھا کہ اصغر نے ملکہ عالیہ کو قتل نہیں کیا ہے- وہ اس کا ذمہ دار تمہیں ٹھہراتی ہے- اس نے میرے ہاتھ ایک پیغام بادشاہ سلامت کے لیے بھجوایا ہے اور ایک انگوٹھی دی ہے- وہ انگوٹھی جادو کی ہے- وہ سمجھتی ہے کہ ملکہ عالیہ کو تم نے ہی زہر دیا ہے-""یہ کیا بکواس ہے، بھلا ملکہ سے میری کیا دشمنی تھی جو میں انھیں زہر دیتا؟"" وزیر بھڑک کر بولا-""یہ چیز دیکھنے کے لیے اس نے میرے ہاتھ بادشاہ سلامت کے لیے ایک انگوٹھی بھی بھیجی ہے- اگر یہ انگوٹھی تمہارے جسم سے چھو دی جائے تو تمہارا چہرہ خرگوش کے چہرے میں تبدیل ہو جائے گا، صرف اس صورت میں کہ اگر تم نے جھوٹ بول کر اصغر کو پھنسانے کی کوشش کی ہو اور اگر تم سچے ہو تو پھر تمہیں کچھ نہ ہوگا- میں تمہارے پاس اس لیے چلا آیا تھا کہ اگر تم واقعی جھوٹ بول کر اصغر کو پھنسا رہے ہو تو مجھ سے سودا کر لو- میں بادشاہ کو ہرگز نہیں بتاؤں گا کہ پری نے مجھ سے کیا کہا تھا- اور اگر اصغر واقعی ملکہ کا قاتل ہے تو پھر تمہیں ڈرنے یا خوف زدہ ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے- پھر بھی یہ ضرور ہے کہ غلطی انسانوں سے ہی ہوتی ہے- بولو کیا تم اس جادو کی انگوٹھی کا سودا کرنے پر تیار ہو؟""وزیر کا چہرہ پسینے میں بھیگ گیا تھا، وہ لوگ حالانکہ باغ کے نزدیک کھڑے تھے جہاں پر ہر وقت ٹھنڈی ہوا کا گزر رہتا ہے- اس سے کچھ ہی فاصلے پر بادشاہ، شہزادہ اکبر، اصغر اور زریں پری پھولوں کی کیاری میں دبکے ان دونوں کی گفتگو بڑے غور سے سن رہے تھے- آخر وزیر نے پھنسی پھنسی آواز میں کہا- ""خدا اس پری کی بچی کو غارت کرے- ہاں کوتوال بھائی مجھ سے غلطی ہو گئی تھی، میں نے ہی ملکہ کو زہر دیا تھا اور میں اصغر کو بھی اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا تھا- اسی لیے میں نے اس قتل کا الزام اصغر کے سر منڈھ دیا تھا- خدا کے لیے بادشاہ کو پری کی انگوٹھی کے بارے میں کچھ نہیں بتانا- میں تمہیں اس کے لیے بڑی سے بڑی قیمت دینے پر تیار ہوں-""اس کی بات ابھی ختم ہوئی ہی تھی کہ بادشاہ پودوں کی آڑ سے نکل کر گرجا- ""نمک حرام وزیر- اب ہمیں تیری حقیقت معلوم ہو گئی ہے- تو ہی ہماری ملکہ کا قاتل ہے- اب ہم تجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے-""یہ کہہ کر بادشاہ نے تلوار نکالی اور وزیر کی گردن اڑا دی- کوتوال اس قدر خوفزدہ ہوا کہ گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں سے بھاگ گیا-شہزادہ اکبر، اصغر اور زریں پری پودوں سے نکل آے تھے- زریں پری نے کہا- ""خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اصغر بھائی کے سر سے قتل کا الزام اتر گیا-"" بادشاہ نے اصغر کو سینے سے لگاتے ہوۓ کہا- ""اصغر بیٹا- ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں- امید ہے کہ تم ہمیں معاف کردو گے-"" اصغر کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے-پھر وہ لوگ محل واپس چلے آئے- اگلے دن تمام رعایا کو پتا چل گیا کہ ملکہ کا قاتل کون تھا- زریں پری کی ذہانت کے چرچے گھر گھر ہو رہے تھے، جس نے اپنے بھائی کو ایک جھوٹے الزام سے بچا لیا تھا- بادشاہ بھی زریں پری کی عقلمندی سے بہت خوش تھا-چند روز وہاں رہنے کے بعد زریں پری اپنے بھائی اصغر کو لے کر پرستان چلی گئی- وہاں پر اصغر نے نارّنگیوں اور سیبوں کا ایک باغ خرید لیا اور پھلوں کی تجارت کر نے لگا-ایک روز وہ اپنے باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ زریں پری نے اسے اطلا ع دو کہ بادشاہ اس سے ملنے آیا ہے- اصغر نے بادشاہ کی بہت خاطر مدارات کی اور اسے سات روز تک اپنا مہمان رکھا اور پرستان کی سیر کرائی- بادشاہ دراصل زریں پری کا رشتہ اپنے بیٹے شہزادہ اکبر کے لیے مانگنے آیا تھا- اصغر نے بھی رضامندی ظاہر کر دی اور یوں چند روز کے بعد زریں پری اور شہزادہ اکبر کی شادی ہوگئی- (ختم شد) ____________ ____________ " طالب علمی کے آداب - تحریر نمبر 1588,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/talib-ilmi-k-adaab-1588.html," " بیٹی کا ٹفن - تحریر نمبر 1587,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/beti-ka-tiffin-1587.html," " عظیم ایثار - تحریر نمبر 1584,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azeem-esar-1584.html," " "پری کا بھائی (دوسری قسط) - تحریر نمبر 1583",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pari-ka-bhai-2nd-qist-1583.html,"اصغر نے نفی میں گردن ہلاتے ہوۓ کہا- ""میں بھی نہیں جانتا کہ یہ لڑکی کہاں سے ٹپکی ہے- تمہارے ابا حضور نے میرے پیچھے اتنے سپاہی لگا دئیے تھے کہ مجبوراً ان لوگوں کی گرفت سے بچنے کے لیے مجھے اس خستہ حال مکان میں پناہ لینا پڑ گئی- میں وہاں چھپا سونے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ لڑکی وہاں آ گئی اور مجھے دیکھ کر چیختی چلاتی وہاں سے بھاگی، میں اس کے پیچھے دوڑا تاکہ اسے بتا سکوں کہ میں انسان کا بچہ ہی ہوں، بھوت پریت نہیں ہوں- اب یہ لڑکی ہی بتاے گی کہ کون ہے-"" پھر اصغر نے زریں پری سے پوچھا- ""لڑکی تم کون ہو؟""زریں پری نے کہا- ""میں تمہارے اس سوال کا جواب تمہارے ہاتھ کی ہتھیلی دیکھ کر بتاؤں گی-"" یہ کہہ کر اس نے اصغر کے دونوں ہاتھ اپنے سامنے پھیلاے اور پھر یہ دیکھ کر اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اصغر کے سیدھے باتھ کی ہتھیلی پر ایک ننھا سا ستارہ چمک رہا تھا- وہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر اس سے لپٹ گئی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی-اصغر اور شہزادہ اکبر حیرت سے زریں پری کو دیکھ رہے تھے- کچھ دیر کے بعد اصغر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا- ""ننھی لڑکی- مجھے وجہ تو بتاؤ کہ اس ستارے کو دیکھ کر تمہیں رونا کیوں آگیا ہے- اچھا اب تم رونا بند کرو-""""پہلے اپنی گردن بچانے کی کوشش کرو-"" شہزادہ اکبر نے کہا- ""اگر سپاہیوں کی نظر وں میں آ گئے تو پھر جان بچانا بھی مشکل ہو جائے گی- ابّا حضور تم سے سخت ناراض ہیں اور تمہیں دیکھتے ہی قتل کروا دیں گے-""اصغر کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی تھی- اس نے آہستگی سے زریں پری کو خود سے علیحدہ کیا اور پھر اسی مکان کی طرف بڑھ گیا جہاں پر اس نے پہلے پناہ لے رکھی تھی- شہزادہ اکبر اور زریں پری بھی اس کے پیچھے روانہ ہو گئے- شہزادہ اکبر نے اپنا گھوڑا مکان کے دروازے کی کنڈی سے باندھ دیا تھا- زریں پری نے اپنا قالین نیچے بچھایا اور پھر وہ تینوں اس پر بیٹھ گئے- جب وہ اطمینان سے بیٹھ گئے تو اصغر نے بڑی سنجیدگی سے کہا- ""ہاں تو لڑکی اب بتاؤ کہ تم کون ہو؟""""میں تمہاری بہن ہوں اور میرا نام زریں پری ہے-"" زریں پری نے بڑی محبّت سے کہا-""غالباً تم شاعرہ ہو پری تمہارا تخلص ہوگا-"" اصغر نے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا- ""مگر میری شاعرہ بہن مجھے کوئی شعر سنانے کی کوشش مت کرنا کیونکہ اگر کوئی شعر مجھے پسند نہ آ ئے تو میں سنانے والے کو کاٹ کھاتا ہوں-""اس کی بات سن کر شہزادہ اکبر ہنس پڑا اور زریں پری روہانسی ہو گئی- بولی- ""انور بھائی آپ میری بات پر یقین کیوں نہیں کرتے؟""اس کی بات میں جانے کیسا جادو تھا کہ اصغر اپنی جگہ سے اچھل پڑا اور پھر بڑی بے صبری سے بولا-""میں نے – میں نے آج تک کسی کو اپنا اصلی نام نہیں بتایا تھا- تم میرا نام کس طرح جانتی ہو؟""""کیا یہ چیز اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ میں آپ کی بہن ہوں؟-"" زریں پری نے اٹھلا کر پوچھا-""مگر میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میری کوئی بہن نہیں تھی-"" اصغر نے خشک لہجے میں کہا-زریں پری نے ایک لمحہ کچھ سوچا اور پھر اسے اپنی کہانی سنانے لگی- پھر اس نے اصغر کو وہ خط بھی دکھایا جو اس کے باپ نے مرتے ہوۓ لکھا تھا- اس کی تمام کہانی سنکر اصغر نے زریں پری کو محبّت سے لپٹا لیا اور بولا- ""میری پیاری بہن، تم بہت باہمت لڑکی ہو- تم نے آخر مجھے ڈھونڈ ہی نکالا- اگر تم مجھے نہ ملتیں تو میں ہمیشہ اس بات سے بےخبر رہتا کہ میری اس دنیا یں اتنی پیاری سی بہن بھی ہے- لیکن افسوس اس بات کا ہے میں ابّا سے کبھی نہ مل سکوں گا-""""مگر انور بھائی آپ کے پیچھے سپاہی کیوں لگے ہوۓ ہیں؟"" زریں پری نے پوچھا-""یہ ایک دردناک کہانی ہے-"" اصغر ایک آہ بھر کر بولا- ""میں تمہیں شروع سے تمام واقعات سناتا ہوں- یہ اس روز کا واقعہ ہے جب شہر میں زلزلہ آیا تھا- میں تقریباً چار سال کا تھا- اس روز میں اپنے ابّا کا بہت بے چینی سے انتظار کر رہا تھا- کیونکہ انہوں نے میرے لیے بہت سارے کھلونے اور مٹھایاں لانے کا وعدہ کیا تھا- وہ پرستان میں رہتے تھے اور اس لیے وہ بہت دنوں بعد گھر پر آتے تھے- امی شام کے کھانے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئیں اور میں گلی کے بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا کہ ایک دم سے ایسا محسوس ہوا جیسے ہمیں پکڑ کر کسی نے جھنجھوڑ دیا ہو، پھر دھماکے سے ہوۓ، مکانات کی چھتیں گرنے لگیں اور ہر طرف گردو غبار چھا گیا- اچانک ہی میرے سر پر کوئی چیز لگی اور پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا-جب میری آنکھ کھلی تو میں شاہی محل میں تھا- میرا سر زخمی ہو گیا تھا- ملکہ اور بادشاہ سلامت میرے پلنگ کے قریب کھڑے مجھے محبّت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے- میں نے وہاں پر ایک اپنا ہم عمر لڑکا بھی دیکھا تھا، وہ بادشاہ اور ملکہ کا بیٹا تھا اور اب تم اسے شہزادہ اکبر کے روپ میں دیکھ رہی ہو-""زریں پری نے شہزادہ اکبر کو دیکھا وہ سرجھکاے اصغر کی باتیں سن رہا تھا- اصغر نے پھر کہا-""میری امی الله کو پیاری ہو گئی تھیں- میں نے بادشاہ سلامت کو بتا دیا تھا کہ میرے ابّا پرستان میں رہتے ہیں- بادشاہ سلامت نے بہت کوشش کی کہ میرے ابّا مل جائیں مگر بہت ڈھوندنے کے بعد بھی کامیابی نہ ہوئی- میں صرف چار سال کا تھا اور ہر وقت امی اور ابّا کو یاد کر کے روتا رہتا تھا- ملکہ صاحبہ مجھ سے بہت محبّت کرتی تھیں اور پھر آخر انہوں نے مجھے اپنا بیٹا بنانے کا فیصلہ کر لیا-بادشاہ سلامت بھی ان کے اس فیصلے سے بہت خوش ہوۓ اور مجھے بھی اکبر کی طرح اپنا ہی بیٹا سمجھنے لگے- آہستہ آہستہ میں اپنی امی اور ابّا کو بھولتا گیا اور پھر میں جواں ہوگیا- میری پرورش شہزادوں کی طرح ہی ہوئی تھی اور میں اور شہزادہ اکبر ایک دوسرے سے بالکل سگے بھائیوں کی طرح محبّت کرتے تھے- میرا اصلی نام تو انور ہی تھا مگر ملکہ صاحبہ نے مجھے اصغر کہنا شروع کردیا کیونکہ اکبر اور اصغر بہت ملتے جلتے نام میں-""زریں پری نے اس کی بات بیچ میں سے کاٹتے ہوۓ کہا- ""مگر اصغر بھائی جب ملکہ اور بادشاہ آپ کو اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے تو پھر اب بادشاہ سلامت آپ کے خلاف کیوں ہوگے ہیں؟""""میں تمہیں اسی کے متعلق بتانے جا رہا ہوں-"" اصغر نے ایک گہری سانس لیکر کہا- ""ہوا یوں کے بادشاہ سلامت کا وزیر ایک نہایت خراب شخص ہے- وہ ویسے تو بادشا سلامت کا خیر خواہ ہے مگر اس کی حقیقت کیا ہے، یہ مجھے اس روز پتہ چلا جب وہ میرے پاس آیا- پہلے تو مجھ سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا پھر بولا-""اصغر – میں جانتا ہوں کہ بادشاہ تم سے اپنی اولاد جیسی محبّت کرتا ہے اور تم بھی اسے اپنے باپ کی جگہ سمجھتے ہو مگر اس بات کو یاد رکھنا کہ منہ بولے بیٹے کبھی اصلی اولاد کی جگہ نہیں لے سکتے- بادشاہ کی کافی عمر ہوگئی ہے- وہ چند سال کے بعد اپنا تخت و تاج اپنے سگے بیٹے شہزادہ اکبر کو سونپ دیگا اور پھر اس کے بعد تمہاری حثیت کیا رہ جائے گی- شہزادہ اکبر تمہیں ذرا سی بھی گھاس نہیں ڈالے گا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ تم اس کے حقیقی بھائی نہیں ہو- وہ یقیناً تمہیں محل سے نکال دیگا- اور پھر تم در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرو گے- لہٰذا تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم میرا ساتھ دو- اگر تم نے میرے کہنے پر عمل کیا تو تمہاری زندگی نہایت عیش و آرام سے گزرے گی-""""اس وزیر کی بات سنکر میں کھٹک گیا کہ یہ عیار شخص ضرور کوئی چال چل رہا ہے جو یقیناً بادشاہ سلامت کے خلاف ہوگی، اس لیے میں نے کہا- ""محترم وزیر آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے- شہزادہ اکبر کے تخت و تاج سنبھالنے کے بعد میری موجودہ حثیت بالکل ختم ہو جائے گی- مجھے اپنا مستقبل عزیز ہے، آپ مجھے جو رائے دیں گے میں اس پر عمل کروں گا-""وزیر میری بات سن کر بہت خوش ہوا اور بڑی محبّت سے بولا- ""میں نے بادشاہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے- تم اسے ختم کر دو- شہزادہ اکبر ابھی صرف بیس سال کا ہے- وہ پچیس سال کی عمر میں ہی حکومت کی باگ ڈور سنبھال سکتا ہے- دستور کے مطابق وزیر کو بادشاہ بنا دیا جائےگا، پھر شہزادہ اکبر کو بھی راستے سے ہٹا دیا جائے گا- میں بادشاہ بن گیا تو تمہیں بے اندازہ مال و دولت انعام میں دونگا- بولو کیا تم میری مدد پر آمادہ ہو؟""میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وزیر اتنا نمک حرام ہو جائے گا- میرا جی تو چاہ رہا تھا کہ اس مکّار کی بھٹہ سی گردن اڑا دوں مگر میں نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوۓ کہا- ""یہ کام بہت مشکل ہے اور میں کچھ وقت چاہتا ہوں تاکہ اطمینان سے اس پر کچھ سوچ سکوں-""وزیر نے کہا- ""میں تمہیں کل تک کی مہلت دیتا ہوں- کل شام کو تم مجھے اپنے فیصلے سے آگاہ کر سکتے ہو-""یہ کہہ کر وزیر تو چلا گیا اور میں سوچ میں ڈوب گیا- بادشاہ سلامت اور شہزادہ اکبر تین روز کے لیے شہر سے باہر کسی کام سے گئے ہوۓ تھے- محل میں صرف ملکہ عالیہ تھیں-""ابھی اصغر کی بات جاری تھی کہ شہزادہ اکبر نے اچانک کہا- ""اصغر تم نے یہ بادشاہ سلامت اور ملکہ عالیہ کی کیا رٹ لگا رکھی ہے- تم ان کا تذکرہ امی حضور اور ابّا حضور کہہ کر کیوں نہیں کر رہے ہو؟""""اب مجھ میں اتنی ہمت نہیں رہی کہ میں تمہارے امی ابّا سے اپنا رشتہ جوڑوں- مجھے اپنی حثیت کا علم ہو گیا ہے- ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ بادشاہ سلامت اور شہزادہ اکبر محل سے غیر حاضر تھے- مجھے کچھ اور تو سوجھا نہیں میں نے سوچا کہ یہ بات ملکہ عالیہ کو بتانا چاہیے- میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں وزیر کی حرکت سے آگاہ کیا-""ملکہ عالیہ بہت ناراض ہوئیں اور فوراً وزیر کو طلب کیا- ملکہ عالیہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا- میں ایک طرف سر جھکائے کھڑا تھا-وزیر نے فوراً ہی بھانپ لیا کہ میں نے اسکی شکایت کر دی ہے مگر وہ اتنا عیار شخص ہے کہ اس نے اپنے چہرے سے کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں ہونے دیا- ملکہ عالیہ نے اسے پوری بات بتا کر پوچھا- ""کیا یہ سچ ہے کہ تم نے اصغر سے بادشاہ سلامت کو قتل کرنے کا کہا تھا؟""وزیر نے ہاتھ باندھ کر کہا- ""جی ہاں ملکہ عالیہ یہ بات بالکل درست ہے-""وزیر کی بات سن کری میرے علاوہ ملکہ عالیہ بھی چونک پڑیں- وزیر نے کہا- ""میں بادشاہ سلامت کا وفادار ہوں- مجھے اصغر کی طرف سے شبہ تھا کہ اس کے دل میں دولت حاصل کرنے کی ہوس ہے- میں اپنا یہ شبہ دور کرنا چاہتا تھا- اسی لیے میں نے اس کا امتحان لینے کے لیے یہ سب چکّر چلا یا تھا- مجھے خوشی ہے کہ اصغر ایک نیک دل آدمی ہے- اگر وہ لالچی ہوتا تو میرے منصوبے کو بخوشی عملی جامہ پہنانے پر تیار ہو جاتا- آپ سے اس کی شکایت نہ کرتا-""ملکہ عالیہ کا منہ حیرت سے کھل گیا- پھر وہ مسکرا کر بولیں- ""واقعی تم بادشاہ سلامت کے خیر خواہ ہو، مگر اب آئندہ کبھی اصغر کا امتحان لینے کی کوشش مت کرنا- یہ ہمیں اتنا ہی عزیز ہے جتنا کہ اکبر-""خیر بات آئ گئی ہو گئی- اس واقعہ کے تیسرے روز کا قصہ ہے- ملکہ عالیہ کی طبیعت کچھ خراب ہوگئی تھی- شاہی طبیب انھیں دوا دے گیا تھا اور سواے دودھ کے ہر چیز سے پرہیز کرنے کو کہا تھا- دوپہر کے وقت میں اپنے کمرے میں جا رہا تھا کہ راہداری میں مجھے وزیر مل گیا- اس کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا- مجھے دیکھ کر وہ بولا- ""اصغر تمام غلام اور کنیزیں پتا نہیں کہاں مر گئے ہیں- تم یہ دودھ کا گلاس ملکہ عالیہ کو دے آؤ- انہوں نے ابھی ابھی دودھ منگوا یا تھا- شائد بادشاہ سلامت اور شہزادہ اکبر واپس آ گئے ہیں- میں ان کا استقبال کرنے جا رہا ہوں-""میں نے وزیر کے ہاتھ سے گلاس لے لیا اور ملکہ عالیہ کے کمرے کی طرف بڑھ گیا- انھیں بھوک لگی تھی مگر کھانے پر تو پاپندی لگی ہوئی تھی، اس لیے دودھ ہی انھیں غنیمت معلوم دیا- انہوں نے فوراً ہی گلاس خالی کر دیا مگر دودھ پیتے ہی ان کی حالت غیر ہوگئی- انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے گلا پکڑ لیا اور تڑپنے لگیں- میں یہ تمام ماجرہ بڑی حیرت اور پریشانی سے دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں بادشاہ سلامت، شہزادہ اکبر اور وزیر کمرے میں داخل ہوۓ-ملکہ کی حالت دیکھ کر بادشاہ سلامت کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے- انہوں نے جلدی سے شاہی طبیب کو بلایا مگر ملکہ کو دیکھ کر اس نے مایوسی سے کہا- ""اب کچھ نہیں ہو سکتا- ملکہ عالیہ کو دودھ میں زہر دیا گیا ہے-""شاہی طبیب کی بات سنتے ہی وزیر نے اچھل کر میرا گریبان پکڑ لیا اور چیخ کر بولا- ""سچ بتا تو باہر راہداری میں ملکہ عالیہ کے دودھ میں کیا ملا رہا تھا؟""ادھر وزیر کی بات ختم ہوئی اور ادھر ملکہ عالیہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی- وزیر کی اس حرکت پر میں حیرت سے گنگ ہو کر رہ گیا تھا- وزیر نے بادشاہ سلامت کو قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کہ اس نے مجھے دودھ کے گلاس میں زہر ملاتے دیکھا تھا- انھیں اس کی بات پر یقین آگیا اور انہوں نے مجھے قید خانے میں ڈلوا دیا- وہ حالانکہ مجھے ایک باپ کی طرح چاہتے تھے مگر اب ان کی محبّت نفرت میں بدل گئی تھی- پھر انہوں نے میرے قتل کا حکم دیدیا- آج سے ٹھیک تین دن بعد مجھے پھانسی دیدی جاتی، مگر میں اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہتا تھا- میری خواہش تھی کہ بادشاہ سلامت کو پتہ چل جائے کہ ملکہ عالیہ کا قاتل میں نہیں بلکہ وزیر ہے- اسی لیے میں قید خانے سے فرار ہو گیا-""اصغر خاموش ہوا تو زریں پری نے حیرت بھرے لہجے میں کہا- ""افوہ- وہ وزیر کا بچہ کتنا چالاک تھا- وہ واقعی بادشاہ سلامت کو قتل کرنا چاہتا تھا- اسی لیے اس نے دودھ میں زہر ملا کر آپ کے ذریعے وہ دودھ ملکہ کو پلوادیا- اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے تھے، ملکہ عالیہ بھی ختم ہوگئیں اور آپکو بھی ان کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا-""""اور ہم دونوں کا راستے سے ہٹنا ضروری تھا-"" اصغر نے سوچ میں ڈوبے ہوۓ لہجے میں کہا- ""وزیر کو شبہ تھا کہ جب یہ قصّہ بادشاہ سلامت تک پہنچے گا کہ وزیر نے میرا امتحان لینے کے لیے انھیں قتل کرنے کی پیشکش کی تھی تو انھیں اس میں وزیر کی مکاری کی جھلک نظر آئیگی اور وہ اس کی طرف سے چوکنا ہو جائیں گے، اسی لیے وہ ہم دونوں کو اپنے راستے سے ہٹا دینا چاہتا تھا-""شہزادہ اکبر جو ان کی باتیں بڑی خاموشی سے سن رہا تھا، بڑے غصے سے بولا- ""مجھے یہ سب باتیں پہلے معلوم نہیں تھیں- میں ابھی جا کر ابّا حضور کو تمام حالات سے باخبر کرتا ہوں، وہ اس کمینے وزیر کو عبرتناک سزا دیں گے-""اصغر نے اس کا شانہ تھپکتے ہے کہا- ""میرے بھائی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا- بادشاہ سلامت تمہاری ایک نہیں سنیں گے- میں ہی اس کے لیے کوشش کروں گا کہ انھیں میری بے گناہی کے یقین ہو جائے-""زریں پری بولی- ""نہیں اصغر بھائی- اب آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں ہی کوئی ترکیب کروں گی کہ وزیر کی چالاکی بادشاہ سلامت کو معلوم ہو جائے-""شہزادہ اکبر اور اصغر اس کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگے، پھر اصغر نے کہا- ""میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ اگر تم پری ہو تو تمہارے پر کیوں نہیں ہیں، یہ ہی ایک بات ہے جس کی وجہ سے مجھے یقین نہیں آ رہا کے تم میری بہن ہو، حالانکہ ابھی کچھ دیر قبل ابّا جان کا خط دیکھ کر مجھے یقین تھا کہ تم میری بہن ہو، مگر اب میرے دماغ میں یہ خیال آ یا ہے کہ تم پری ہو تو تمھارے پر کیا ہوۓ؟""زریں پری نے مسکرا کر دو دفعہ تالی بجائی، اس کے دونوں پر جو جادو کی چھڑی لگانے سے غائب ہو گئے تھے، تالیاں بجانے سے پھر ظاہر ہو گئے اور چاند کی روشنی میں جھلمل جھلمل کرنے لگے- اصغر کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی اور اس نے ""میری بہن"" کہہ کر زریں پری کو گلے سے لگا لیا- زریں پری نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کے بھائی نے اسے اپنی بہن تسلیم کر لیا ہے- اس نے اصغر کو بتایا- ""کیونکہ میں یہاں آپ کو تلاش کرنے آئ تھی اس لیے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اپنے پروں کو چھپا دوں کیونکہ ایک پری کو دیکھ کر لوگوں کی اتنی بھیڑ لگ جاتی کہ میں اپنا کام آسانی سے انجام نہیں دے سکتی تھی-""ابھی ان میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اچانک وہاں پر ایک تیز آواز گونجی- ""اصغر تم اس وقت چوالیس سپاہیوں کے نرغے میں ہو، تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ تم چپ چاپ خود کو ہمارے حوالے کر دو ورنہ چوالیس تلواریں تمہیں لمحہ بھر میں کاٹ کر رکھ دیں گی-""یہ آواز سن کر تینوں اچھل پڑے، ٹوٹی ہوئی دیوار کے پاس شہر کا کوتوال کھڑا تھا، اس کے پیچھے بہت سارے سپاہی ہاتھوں میں ننگی تلواریں لیے اصغر کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے- (جاری ہے) " ہماری قومی پہچان - تحریر نمبر 1582,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hamari-qoumi-pehchaan-1582.html," " خود اعتماد - تحریر نمبر 1579,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khud-aitmad-1579.html," " پری کا بھائی - (پہلی قسط) - تحریر نمبر 1578,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pari-ka-bhai-1st-qist-1578.html,"زریں پری اپنے باپ کی موت کےبعد اس دنیا میں بالکل تنہا رہ گئی تھی- اس کے باپ کو مرے ہوئے پورا ایک ہفتہ ہو گیاتھا-اسے رہ رہ کر اپنا باپ یاد آتا تھا جو اس سے بے حد محبّت کرتا تھا اور اس کی ذرا سی تکلیف پر خود بھی تڑپ اٹھتا تھا- زریں پری کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ایک روز اتنی محبّت کرنے والا باپ اسے چھوڑ کر چلا جائے گا- اس کا دل غم سے لبریز تھا اور آنکھوں میں بار بار آنسو بھر آ رہے تھے-اس کی یہ حالت دیکھ کر اس کے گھر کی بوڑھی خادمہ بہت کڑھ رہی تھی، اگر اس کے بس میں ہوتا تو وہ زریں پری کی جھولی میں ڈھیر ساری خوشیاں لا کر ڈال دیتی- مگر وہ بھی مجبور تھی اور سواے زریں پری کو دلاسہ دینے کے کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی-زریں پری کی حالت کافی خراب ہوگئی تھی- اس کا رنگ بالکل زرد پڑ گیا تھا اور وہ کافی کمزور سی نظر آنے لگی تھی- اس کی بھوک پیاس بالکل ختم ہوگئی تھی- وہ ہر وقت اپنے باپ کے خیال میں ڈوبی خاموش بیٹھی رہتی- دل زیادہ بے چین ہو جاتا تو وہ سسکیاں بھر بھر کر رونے لگتی- ایسے وقت میں اس کی بوڑھی خادمہ اس کو بڑے پیار سے کہتی کہ اس کے رونے دھونے سے اس کے باپ کی روح کو تکلیف پہنچے گی لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے- زریں پری ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ اس کی وجہ سے اس کے باپ کی روح بے چین ہو اس لیے اب اس نے آنسو بہانا چھوڑ دیا تھا مگر اس کا دل اب بھی اداس رہتا تھا-ایک روز جب وہ اپنے کمرے میں اپنی مسہری پر یونہی آنکھیں موندے لیٹی تھی تو بوڑھی خادمہ اس کے پاس آئ، اس کے قدموں کی آواز سنکر زریں پری نے آنکھیں کھول دیں- خادمہ کے ہاتھ میں ایک تہہ کیا ہوا کاغذ تھا- اس نے وہ کاغذ زریں پری کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا- ""زریں بیٹی، تمہارے باپ نے مرنے سے پہلے مجھے یہ خط دیا تھا اور تاکید کی تھی کہ میں اس خط کو ان کی موت کے دس روز بعد تمہیں دے دوں- آج تمہارے باپ کو اس دنیا سے گئے ہوۓ پورے دس روز ہوگئے ہیں، لہٰذا اب میں تمہیں ان کا یہ آخری خط دے رہی ہوں-""زریں پری نے بے تابی سے وہ خط خادمہ کے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور اسے کھولنے لگی- خادمہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی- زریں پری سمجھ گئی تھی کہ اس کے باپ نے اس خط میں ضرور کوئی اہم بات لکھی ہوگی- خط کی تہیں کھولتے ہوۓ اس کے ہاتھ دھیرےدھیرے کانپنے لگے تھے- پھر وہ جلدی جلدی پڑھنے لگی- اس کے باپ نے اس خط میں لکھا تھا-""میری پیاری بیٹی،جس وقت تم میرا یہ خط پڑھ رہی ہوگی مجھے اس دنیا سے گئے ہوۓ دس دن ہوگئے ہونگے- میری موت نے تمہیں بہت رنجیدہ اور اداس کر دیا ہوگا- اگر تم میری روح کو سکون پہنچانا چاہتی ہو تو خوش و خرّم رہنے کی کوشش کرو-تم یہ ضرور سوچتی ہوگی کہ میرے مرنے کے بعد تم اس دنیا میں تنہا رہ گئی ہو- مگر میری بیٹی یہ بات درست نہیں ہے- ابھی اس دنیا میں تمہارا ایک بھائی بھی ہے- آج میں ایک راز سے پردہ اٹھا رہا ہوں- یہ راز گزشتہ بائیس سال سے میرے سینے میں دفن تھا- میں نے بائیس سال قبل انسانوں کی دنیا میں ایک لڑکی سے شادی کر لی تھی- میں اپنے ایک دوست سے ملنے کے لیے آدم زادوں کی دنیا میں گیا تھا اور میری ملاقات وہیں اس لڑکی سے ہوئی تھی- ایک آدم زاد لڑکی سے شادی کرنا پرستان میں اچھا نہیں سمجھا جاتا اسی لئے میں نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی- اس لڑکی سے شادی کے بعد میں اکثر اس کی دنیا میں جاتا رہتا تھا- پھر شادی کے ایک سال بعد خدا نے ہمیں ایک چاند سا بچہ عطا فرمایا- میں نے اس بچے کا نام انور رکھا تھا- مگر وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا- جس جگہ میری بیوی رخسانہ اور بچہ رہتے تھے وہاں پر ایک شدید قسم کا زلزلہ آیا اور وہاں کی تمام آبادی اس خوفناک زلزلے کی بھینٹ چڑھ گئی-مگر پھر بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو زندہ بچ گئے اور انھیں بادشاہ کے سپاہی اپنے ساتھ لے گئے تھے تاکہ ان کی دیکھ بھال اور علاج وغیرہ کیا جائے- کیونکہ وہ بے چارے زخمی ہو گئے تھے- اس دوران میں پرستان میں تھا- مگر مجھے جیسے ہی اس زلزلے کی خبر ملی، میں بھاگا بھاگا وہاں گیا مگر وہاں پہنچتے ہی مجھ پر جیسے بجلی سی گر پڑی- جس مکان میں میری بیوی رخسانہ مقیم تھی وہ زمین بوس ہو چکا تھا- ایک دیوار کے نیچے میری بیوی کی لاش پڑی تھی مگر میرے بیٹے انور کا کہیں پتہ نہیں تھا- اس کو یقیناً بادشاہ کے سپاہی اپنے ساتھ لے گئے تھے- میں نے انور کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلا-ادھر پرستان میں میری بوڑھی ماں اس بات سے سخت پریشان تھیں کہ میں آدم زادوں کی دنیا میں اتنا وقت کیوں گزارتا ہوں-اس بات کا انہوں نے یہ حل نکالا کہ میری شادی کردی- شادی کے بعد میری ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں اس لئے اب میں اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کے لیے آدم زادوں کی دنیا میں نہیں جا سکتا تھا- پھر شادی کے کچھ عرصہ بعد تم پیدا ہوئیں- تمہاری پیدائش کے ایک ہفتہ بعد تمہاری امی بخار میں مبتلا ہو کر خالق حقیقی سے جا ملیں- اب تمہاری پرورش کا بار میرے کندھوں پر آن پڑا تھا- میں تمہاری پرورش میں لگ گیا- وقت گزرتا رہا اور تم بڑی ہوگئیں مگر میں اپنے بیٹے انور کو اب تک نہیں بھول سکا ہوں-میں اب زندگی سے بالکل مایوس ہو گیا ہوں- میں یہ خط اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میرے بعد تم خود کو بالکل تنہا مت سمجھنا- اگر ہوسکے تو اپنے بھائی انور کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنا مجھے امید ہے کہ خدا کی مہربانی سے تم اسے پالوگی- ظاہر ہے تم انور کی شکل سے ناواقف ہوگی- اس لیے یہ ضروری ہے کہ میں تمہیں اس کی پہچان کے لیے ایک نشانی بتا دوں- تمہارے بھائی انور کی پیدائش کے وقت اس کی ہتھیلی پر ایک چمکدار ستارہ بنا ہوا تھا جو رات کو اندھیرے میں جھلمل جھلمل کرتا نظر آتا تھا-میری دعا ہے کہ تم اپنے بھائی کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاؤ- جب تم اسے اپنی کہانی سناؤ گی تو وہ تمہیں ضرور اپنی بہن تسلیم کر لے گا، کیونکہ جب زلزلے نے تباہی مچائی تھی تو اس وقت وہ چار سال کا تھا اور خوب باتیں کرتا تھا- اسے اب بھی سب کچھ یاد ہوگا-اچھا بیٹی اب مجھے اجازت دو- میرا سانس اب سینے میں گھٹنے لگا ہے اور اب مجھ میں اتنی ہمت نہیں رہ گئی کہ مزید کچھ اور لکھ سکوں- خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے-خط پڑھ کر زریں پری کی آنکھوں میں ایک غم آلود خوشی جھلکنے لگی تھی- اپنے بھائی انور کے متعلق پڑھ کر اسے شدید حیرت ہوئی تھی- اس نے فیصلہ کر لیا کہ انور کو تلاش کرنے کے لیے آج ہی روانہ ہو جائے گی-____________زریں پری کے بھائی انور کے متعلق سنکر بوڑھی خادمہ بھی بے حد خوش ہوئی تھی- اس نے زریں پری کو مشوره دیا کہ وہ اپنے بھائی کو تلاش کر کے پرستان ہی لے آئے-دوپہر کے وقت زریں پری نے ایک کمرے کا دروازہ کھولا- اس کمرے کے دروازے پر ایک موٹا سا قفل لگا ہوا تھا- زریں پری اس کمرے میں داخل ہوگئی اور پھر اس نے وہاں سے ایک جادو کا قالین اٹھایا اور ایک جادو کی چھڑی لی اور پھر شام ہونے کا انتظار کرنے لگی-شام کو اس نے اپنےسفر کا آغاز کیا اور جادو کے قالین پر بیٹھ کر انسانوں کی دنیا کے اس شہر کی جانب روانہ ہوگئی جہاں پر اس کا بھائی تھا- اس نے یہ قالین اس لیے لیا تھا تاکہ وہ اپنے بھائی انور کو اس پر بٹھا کر اپنے ساتھ پرستان لا سکے- انور بے چارہ اڑ تو سکتا نہیں تھا اور پھر اگر وہ گھوڑے پر سفر کرتا تو پرستان پہنچتے پہنچتے کئی ہفتے لگ جاتے-زریں پری اڑتے ہوۓ قالین پر بیٹھی ہوئی جانے کیا سوچ رہی تھی- قالین کی رفتار بہت تیز تھی اور زریں پری کے سنہری پر ہوا کے زور سے پھڑ پھڑا رہے تھے- سورج کو غروب ہوۓ کافی دیر ہوگئی تھی اور آہستہ آہستہ رات کی تاریکی نے اپنے پر پھیلانا شروع کر دیے تھے- زریں پری نے کچھ دیر بعد نیچے جھانک کر دیکھا- وہ کسی شہر پر سے گزر رہی تھی، ایک گہری سانس لے کر وہ پھر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی-قالین کو اڑتے ہوۓ کافی دیر ہوگئی تھی- آسمان پر چاند پوری آب و تاب سے چمکنے لگا تھا اور ستارے جھلمللانے لگے تھے- زریں پری نے اندازہ لگایا کہ آدھی رات گزر چکی ہے- اسے اب نیند آ رہی تھی مگر وہ منزل کے قریب آ کر سونا نہیں چاہتی تھی- نیند سے بچنے کے لیے وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں گھورنے لگی-تھوڑی دیر بعد قالین نیچے اترنے لگا- زریں پری سنبھل کر بیٹھ گئی- قالین زمین پر اتر چکا تھا- زریں پری نے قالین کو لپیٹ کر اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور اپنے ارد گرد دیکھنے لگی- وہ ایک گلی میں کھڑی تھی- گلی میں بالکل خاموشی چھائی ہوئی تھی اور وہاں پر مکمل تاریکی کا راج تھا- فی الحال زریں پری کے سامنے صرف یہ مسئلہ تھا کہ وہ یہ رات کہاں گزارے- اس نے سوچا کہ اس مقصد کے لیے سراے سب سے زیادہ بہتر جگہ ہوگی- مگر اسے یہ بھی خطرہ تھا کہ ایک پری کو دیکھ کر وہاں کے لوگ چونک جائیں گے اور وہ اچھا خاصہ تماشہ بن جائے گی- اس لیے اس نے اپنی جادو کی چھڑی نکالی اور اسے باری باری اپنے دونوں پروں سے لگایا- ایسا کرتے ہی اس کے دونوں پر غائب ہوگئے-پھر وہ وہاں سے چل دی- ابھی وہ کچھ ہی دور گئی تھی کہ اسے ایک سپاہی نظر آیا- وہ سپاہی ایک دیوار سے پشت لگاۓ اونگھ رہا تھا مگر زریں پری کے قدموں کی آواز سن کر وہ چونک پڑا اور آنکھیں ملتے ہوۓ سیدھا ہوگیا- زریں پری کو دیکھ کر اس نے کڑک کر پوچھا- ""اوے – کون ہو تم؟-""اتنی کڑک دار آواز سن کر زریں پری کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا- وہ خوفزدہ ہو کر وہیں کھڑی ہوگئی-""ادھر میرے قریب آؤ-"" سپاہی نے سخت لہجے میں کہا-زریں پری دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھی- اتنی دیر میں سپاہی نے تلوار نکال لی تھی مگر زریں پر کو دیکھ کر اس نے تلوار میان میں رکھ لی اور بولا- ""لڑکی تم کون ہو اور اتنی رات گئے کہاں جا رہی ہو، یہ علاقہ بہت خطرناک ہے- آئے دن چوریاں ہوتی ہیں، دن دہاڑے قتل ہوتے ہیں، مجھے حیرت کہ تم ایک لڑکی ہو کر اس خطرناک علاقے میں اکیلی گھوم رہی ہو-""زریں پری نے کہا- ""جناب میں اس شہر میں اجنبی ہوں- اپنے بھائی سے ملنے کے لیے بہت دور سے آئ ہوں، اگر آپ محھے کسی سرائے کا پتہ بتا دیں تو میں بہت شکرگزار ہونگی-""سپاہی زریں پری کے اخلاق سے بہت متاثر ہو، کہنے لگا- ""اے اجنبی لڑکی اس بات پر شکر کرو کہ تم مجھ جیسے شریف سپاہی سے آن ملی ہو، اس علاقے میں دوسرے سپاہی بھی گشت کر رہے ہیں، کیونکہ آج شاہی قید خانے سے ایک نوجوان قیدی بھاگ گیا ہے- بادشاہ کو اطلا ع ملی ہے کہ وہ نوجوان اس علاقے میں روپوش ہو گیا ہے- اس لیے بادشاہ نے پورے ڈیڑھ سو سپاہیوں کو اس علاقے کی نگرانی پر مامور کر دیا ہے تاکہ اس قیدی کو پھر سے گرفتار کیا جاسکے- اگر تم کسی دوسرے سپاہی کے ہتھے چڑھ جاتیں تو وہ تمہیں سیدھا جیل خانے لے جاتا-""بغیر کسی جرم کے؟"" زریں پری حیرت سے بولی-""رات آرام کرنے کے لیے بنائی گئی ہے- اگر کوئی شخص رات کو آوارہ گردی کرے تو یہ بھی جرم بن جاتا ہے-"" سپاہی بولا-زریں پری سر ہلا کر رہ گئی تھی- پھر وہ سپاہی اسے ایک سراۓ کے دروازے پر چھوڑ کر چلا گیا- زریں پری نے سرائے کے دروازے پر دستک دی- سرائے کی عمارت بہت بڑی اور مضبوط تھی- اس کا دروازہ بہت بڑا تھا اور اتنی موٹی لکڑی کا تھا کہ زریں پری کی دستک کچھ زیادہ آواز پیدا نہ کرسکی- اس نے مجبوراً کنڈی کو زنجیر کو زور زور سے ہلایا- تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دروازے کے پیچھے سے ایک خوفزدہ مردانہ آواز ابھری- ""کون ہے؟""""میں ایک مسافر ہوں- تمھاری سرائے میں ٹھہرنا چاہتی ہوں- زریں پری نے آواز میں بے چارگی پیدا کرتے ہوۓ کہا-""دروازہ نہیں کھلے گا- میں سمجھ گیا ہوں کہ تم شاہی قید خانے سے بھاگے ہوۓ قیدی ہو اور آواز بدل کر بول رہے ہو- مگر میں اتنا بیوقوف نہیں ہوں کہ تمہاری چال میں آ جاؤں- سیدھی طرح چلے جاؤ ورنہ میں شور مچا کر سپاہیوں کو بلا لوں گا-"" دوسری طرف سے دھمکی آمیز لہجے میں کہا گیا-زریں پری بہت جھنجھلائ- مگر وہ سمجھ گئی تھی کہ سرائے کا مالک کسی بھی قیمت پر دروازہ نہیں کھولے گا، اس لئے وہ واپس مڑ گئی- وہ اس قیدی کو برا بھلا کہہ رہی تھی جس نے قید خانے سے فرار ہو کر اس کیلئے دشواریاں پید کردی تھیں- نیند کی زیادتی کے سبب اس کی آنکھوں میں مرچیں سی لگ رہی تھیں اور اس کی یہ شدید خواہش تھی کہ وہ کسی جگہ آرام سے سو جائے-وو وہاں سے کچھ ہی دور آئی تھی کہ اس کی نظر ایک ٹوٹے پھوٹے مکان پر پڑی- مکان کا دروازہ بند تھا مگر اس کے بند ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ دروازے کے برابر والی پوری دیوار ٹوٹی ہوئی تھی- مکان کے آس پاس لمبی لمبی گھاس تھی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ مدتوں سے کسی نے اس جگہ کا رخ نہیں کیا ہے- زریں پری نے فیصلہ کر لیا کہ وہ رات اس مکان میں بسر کریگی- اسے بستر وغیرہ کی پرواہ نہیں تھی- وہ اپنا قالین بچھا کر سو سکتی تھی-وہ مکان کی طرف بڑھی- لمبی لمبی گھاس کو عبور کر کے وہ دیوار کے ٹوٹے ہوۓ حصے سے اندر داخل ہوئی اور ابھی اس نے پہلا ہی قدم اٹھایا تھا کہ چاند کی دودھیا روشنی میں ایک الجھے ہوۓ بالوں والے نوجوان کو اپنی طرف گھورتے ہوۓ دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی- وہ نوجوان کچی زمین پر پاؤں پھیلاے بیٹھا تھا-____________زرین پری کمزور دل کی مالک نہیں تھی، مگر اس نوجوان کو یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر وہ ڈر گئی تھی- قالین اور جادو کی چھڑی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرپڑی اور وہ چلاتے ہوۓ واپس بھاگی-وہ نوجوان غرّا کر اٹھا اور زریں پری کے پیچھے دوڑا- زریں پری کی چیخیں رات کے سناٹے میں دور تک پہنچ رہی تھیں- مگر وہ تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ اس نوجوان نے اسے پکڑ لیا- زریں پری سمجھ گئی کہ اب اس کی خیر نہیں- یہ نوجوان یقیناً شاہی قید خانے سے بھاگا ہوا مجرم ہے اور اب اسے قتل کردے گا- موت کا خیال آتے ہی اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور بڑے دکھ کے ساتھ سوچنے لگی کہ اب وہ اپنے بھائی انور کو کبھی نہ دیکھ سکے گی- اچانک اس کے کانوں سے اس نوجوان کی آواز ٹکرائی-""بے وقوف لڑکی، کیا میں شکل سے بھوت نظر آتا ہوں- تم مجھے دیکھ کر بلی کی طرح چلانے کیوں لگی تھیں؟-زریں پری کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے- اسے آج تک کسی نے بھی بلی نہیں کہا تھا- اسے روتا دیکھ کر اس نوجوان نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور پھر اس سے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا- وہ چونک کر گھوما اور پھر حیرت سے اچھل پڑا- گھوڑے پر ایک خوبصورت نوجوان بیٹھا ہوا تھا- شکل و صورت سے وہ شہزادہ معلوم دیتا تھا- وہ اپنے گھوڑے سے نیچے اتر آیا ادر ان دونوں کے قریب آکر بولا- ""اصغر میں تمہیں تلاش کرتے کرتے تھک گیا تھا- مایوس ہو کر میں محل کا رخ کرنے ہی والا تھا کہ میری سماعت سے اس لڑکی کی آوازیں ٹکرائیں- میں ان چیخوں کا سبب معلوم کرنے ادھر چلا آیا اور اب خدا کا شکر ہے کہ تم مجھے مل گئے ہو-""وہ نوجوان جس کا نام اصغر تھا، بڑی اداسی سے بولا- ""شہزادے اکبر- میں بے گناہ ہوں- میں نے ہرگز تمہاری امی کو زہر نہیں دیا تھا- یہ سب سازش اس مکّار وزیر کی ہے مگر تمہارے ابّا نے میری ایک نہ سنی اور مجھے قید خانے میں ڈال کر میری موت کا حکم دیدیا- یقین کرو میں جیل سے اس لیے نہیں بھاگا ہوں کہ مجھے زندگی عزیز ہے یا میں موت سے ڈرتا ہوں، میں تو صرف اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہتا ہوں- بادشاہ سلامت نے مجھے اپنے بیٹوں کی طرح پالا ہے- انہوں نے مجھے اس وقت سہارا دیا تھا جب میں صرف چار سال کا تھا اور میری امی ایک خوفناک زلزلے کی نذر ہوگئی تھیں- میں بادشاہ سلامت کو اپنا باپ اور ملکہ صاحبہ کو اپنی ماں سمجھتا تھا- تم ہی بتاؤ بھلا کوئی اپنی ماں کو بھی قتل کر سکتا ہے؟-""اصغر کی باتیں سنکر زریں پری کے ذہن میں آندھیاں سی چلنے لگیں- اس نے اصغر کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا اور پھر سوچنے لگی کہ کیا یہ ہی اس کا بھائی ہے؟شہزادہ اکبر نے افسردہ ہو کر کہا- ""اصغر مجھے تمہاری بے گناہی پر پورا یقین ہے- مگر وہ وزیر بہت چالاک اور عیّار ہے- ہم دونوں مل کر اس کی عیّاری کا پردہ چاک کریں گے- پھر ابا جان کو یقیناً پتہ چل جاۓ گا کہ مجرم تم نہیں وہ وزیر ہے-""(اس کہانی کا بقیہ حصہ دوسری قسط میں پڑھیے) ____________ ____________ " عظیم معلّم - تحریر نمبر 1576,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azeem-mualam-1576.html," " پاکستانی کرنسی کا سفر - تحریر نمبر 1575,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pakistani-currency-ka-safar-1575.html," " چالاک مجرم - تحریر نمبر 1574,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chalak-mujrim-1574.html,"خالد اور ساجد دو بھائی تھے- خالد کی عمر سولہ سال اور ساجد کی عمر چودہ سال تھی- وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک گاؤں میں رہا کرتے تھے- اگرچہ ان کا باپ خود تو پڑھا لکھا نہیں تھا مگر زمانے کو دیکھتے ہوۓ پڑھائی لکھائی کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوگیا تھا- اس کی بیوی بھی نہایت سمجھدار عورت تھی- وہ بھی تعلیم کو بہت ضروری سمجھتی تھی- اسے بچپن میں خود بھی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا مگر حالات کی وجہ سے وہ پرائمری پاس کرکے گھر میں بیٹھ گئی تھی-دونوں نے صلاح مشورے کے بعد اپنے دونوں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کی خالہ کے پاس بھیج دیا تھا جو اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ ایک قریبی شہر میں رہتی تھی- خالد اور ساجد اپنی خالہ کے بچوں عارف اور طارق سے گھل مل گئے تھے- یہ چاروں بچے دل لگا کر پڑھتے تھے اور فارغ اوقات میں کھیل کود کے ساتھ ساتھ اچھی اچھی کتابیں بھی پڑھا کرتے تھے- کتابیں پڑھنے کی وجہ سے ان کی معلومات میں بہت اضافہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت سمجھدار ہوگئے تھے-ان کے سالانہ امتحانات ختم ہوگئے تھے اور نتیجہ آنے تک سب بچوں کو چھٹی دے دی گئی تھی- خالد نویں اور ساجد آٹھویں جماعت میں تھا- اسکول بند ہوۓ تو دونوں بھائی اپنے خالو اور خالہ سے اجازت لے کر بس میں بیٹھ کر اپنے گاؤں آگئے- ان کے جانے کا سن کر عارف اور طارق اداس ہوگئے تھے- انہوں نے تاکید کی کہ وہ جلد سے جلد واپس آنے کی کوشش کریں-دونوں بھائی گھر پہنچے تو انھیں دیکھ کر ان کے ماں باپ بہت خوش ہوئے- رات کو باتوں ہی باتوں میں ان کی ماں نے انھیں بتایا کہ گاؤں میں سخت خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے- کوئی رات ایسی نہیں گزرتی جب گاؤں کے کسی رہائشی کا ایک آدھ مویشی غائب نہ ہوجاتا ہو- جس جگہ سے جانور غائب ہوتا ہے وہاں زمین پر بڑے بڑے پنجوں کے نشانات ہوتے ہیں- ان نشانات کو دیکھ کر ایک کھوجی نے بتا یا تھا کہ یہ شیر کے پنجوں کے نشانات ہیں- اس اطلاع نے گاؤں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے- گاؤں سے کچھ دور ایک جنگل ہے- اس میں چھوٹے بڑے بہت سے جانور رہتے ہیں مگر کسی نے یہ نہیں سنا تھا کہ ان میں شیر بھی ہے- گاؤں کے لکڑ ہاروں نے بھی شیر کے خوف سے جنگل جانا چھوڑ دیا ہے اور اب دوسرے کام کرکے بیوی بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں-ماں سے یہ ساری باتیں سن کر دونوں بھائیوں کو افسوس ہوا- گاؤں کے لوگ بے حد غریب تھے، اور اکثر کا تو گزر بسر ہی مویشیوں پر تھا- وہ دونوں بچے نہایت ذہین اور بہادر تھے- انہوں نے سوچا کہ وہ گاؤں والوں کی مدد کریں گے اور کسی ترکیب سے شیر سے ان کو نجات دلائیں گے-گاؤں آنے کے اگلے روز وہ صبح کے وقت اپنے گھر کی چھت پر چڑھے ہوۓ تھے کہ ان کے کانوں میں محلے کے ایک گھر سے شور کی آوازیں آنے لگیں- یہ آوازیں خالہ جنت کے گھر سے آ رہی تھیں- ان کی ماں جلدی سے گھر سے نکل کر خالہ جنت کے گھر کی طرف چلی- خالد اور ساجد بھی ماں کے پیچھے لپکے-خالہ جنت کے گھر پہنچ کر پتہ چلا کہ رات اس کے گھر بھی شیر آگیا تھا اور اس کی دو بکریوں میں سے ایک بکری کو لے کر چلتا بنا- دونوں بھائیوں نے اس جگہ کا معائینہ کیا- خالہ جنت اپنی بکریوں کو صحن میں بنے ایک چھپر کے نیچے باندھتی تھی- صحن کی دیواریں بہت نیچی تھیں- اس کا شوہر تو تھا نہیں اس لیے اس کا گزارہ بکریوں کا دودھ اور مرغیوں کے انڈے بیچ کر ہوتا تھا- صحن میں چھوٹے بڑے کئی دڑبے دونوں بھائیوں کو نظر آئے جن میں بند مرغیاں کڑکڑا رہی تھیں-زمین میں ایک جگہ لوہے کا کھونٹا تھا جس سے بندھی ایک ٹوٹی ہوئی پتلی سی رسی زمین پر پڑی تھی- وہیں ایک دوسری بکری کھڑی جگالی کر رہی تھی- آس پاس کی زمین کچی اور گیلی تھی اور اس پر جگہ جگہ شیر کے پنجوں کے نشانات نظر آ رہے تھے جو لمبائی میں آٹھ نو انچ کے تھے- پھر دونوں بھائیوں نے وہاں سے ہٹ کر صحن میں دیکھا- باہر کے دروازے والی دیوار کے قریب انھیں شیر کے پنجوں کے نشانات نظر آئے- دونوں بھائی غور سے ان پنجوں کا جائزہ لینے لگے-ان کی ماں نے انھیں دیکھ لیا تھا- وہ جلدی سے ان کے قریب آئ اور گھبرائے ہوۓ لہجے میں بولی- ""تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو؟ چلو گھر چلو- ایسا نہ ہو کہ شیر پھر سے آجائے-""اپنی ماں کی سادہ لوحی پر دونوں بھائی مسکرانے لگے اور ماں کے پیچھے پیچھے گھر آگئے- محلے والے خالہ جنت کو تسلیاں دے رہے تھے-دونوں بھائی گھر آکر پھر چھت پر چڑھ گئے- وہ اسی واقعہ کے متعلق باتیں کر رہے تھے کہ اچانک انہوں نے گلی میں ایک ٹیکسی داخل ہوتے دیکھی- ٹیکسی ایک گھر کے سامنے رکی- یہ شیر جان کا گھر تھا- شیر جان کو دونوں بھائی بچپن سے جانتے تھے- وہ اسی گاؤں میں پیدا ہوا تھا- وہ بہت غریب تھا اور ان بھائیوں کی معلومات کے مطابق دو تین سال سے گاؤں کے لوہار کے پاس کام کرتا تھا- شروع شروع میں تو اس کے مالک نے اسے لوہے کو ٹھونکنے پیٹنے کے کام پر لگایا- جب اس کا ہاتھ کچھ چل نکلا تو اسے دستی دھونکنی پر بیٹھا دیا اور وہ لوہا، پیتل اور دوسری دھاتوں کو پگھلا کر انھیں پکی مٹی سے بنے سانچوں میں ڈال کر مختلف چیزیں بنانے لگا- بہت جلد وہ اپنے اس کام میں ماہر ہوگیا تھا-ٹیکسی کا دروازہ کھلا اور اس میں سے شیر جان اترا- اب جو اچانک انہوں نے شیر جان کے یہ ٹھاٹ بات دیکھے کہ جسم پر قیمتی کپڑے ہیں، پاؤں میں نفیس جوتے ہیں اور وہ ٹیکسی سے اترا ہے تو انھیں بہت حیرت ہوئی- ٹیکسی سے اتر کر وہ اپنے گھر کی جانب بڑھا-خالد نے دیکھا کہ خالہ جنت کے گھر سے شور شرابہ سن کر اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آگئی تھی- اس بات نے اسے چونکا دیا- تھوڑی دیر بعد اس نے ساجد سے کہا- ""ساجد یہ جو اچانک جنگل سے نکل کر شیر آگیا ہے اور گاؤں کے لوگوں کے مویشی لے جاتا ہے اس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟""""یہ ایک ٹانگ کا شیر ہے-"" ساجد نے مسکرا کر کہا- ""میں نے شیر کے پنجوں کو غور سے دیکھا تھا- سارے نشانات ایک ہی پنجے کے ہیں، چار پنجوں کے نہیں- حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ خون کا ایک قطرہ بھی وہاں پر نظر نہیں آرہا تھا- ایسا معلوم دیتا ہے جیسے شیر بکری کو منہ میں دبا کر نہیں گود میں اٹھا کر لے گیا ہے-""خالد اپنے بھائی کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا- ""لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ تم ذہانت میں اپنے بھائی پر گئے ہو-""""لوگ کہتے ہیں تو کہنے دو-"" ساجد نے ہنس کر کہا- ""ضروری تو نہیں کہ ان کی ہر بات ہی ٹھیک ہو-""خالد اس کی بات سن کر جھینپ گیا تھا اس لیے اس کی بات سنی ان سنی کر کے بولا- ""ان وارداتوں سے گاؤں کے غریب لوگ کافی پریشان ہیں- ہمیں اس ایک ٹانگ کے شیر کو پکڑنا ہوگا-""""میرا تو خیال ہے کہ ان وارداتوں کے پیچھے جس کا بھی ہاتھ ہے وہ جلد ہی پکڑا جائے گا- یا یوں کہہ لو کہ ہم اسے جلد ہی پکڑ لیں گے- تم نے یہ بات نوٹ کی تھی کہ خالہ جنت کے گھر سے شور کی آواز سن کر شیر جان مسکرا رہا تھا؟""""اس بات پر تو میں نے غور نہیں کیا تھا- ویسے کسی کی مصیبت پر خوش ہونا اچھی بات نہیں ہے-"" ساجد بولا- خالد خاموشی سے کچھ سوچنے لگا-ان دونوں کو شیر جان پر شبہ ہو چلا تھا- اس لیے انہوں نے اس کی نگرانی کا فیصلہ کرلیا- ان کی چھت پر سے محلے کے تمام گھر بہ آسانی نظر آتے تھے- دونوں بھائی وقفے وقفے سے چھت پر چڑھ کر محلے کا جائزہ لینے لگے- ایک بات انہوں نے نوٹ کی تھی کہ دوپہر کو شیر جان سے ملنے کے لیے ایک ایسا شخص بھی آیا جو چال ڈھال اور حلیے سے کوئی شریف آدمی نہیں لگ رہا تھا- اس کی بڑی بڑی مونچھیں، لال لال آنکھیں اور موٹا سا پیٹ تھا-خالد اور ساجد کو چونکہ شیر جان پر شبہ ہوگیا تھا اس لیے انہوں نے اس سلسلے میں تفتیش کرنے کا فیصلہ کرلیا- شام کو وہ گاؤں کے اس لوہار کے پاس پہنچے جس کے پاس شیر جان کام کرتا تھا- ایک ہی گاؤں میں رہنے کی وجہ سے لوہار دونوں بھائیوں سے اچھی طرح واقف تھا- وہ ان سے بڑے اچھے طریقے سے ملا- وہ اس بات پر خوش تھا کہ وہ لوگ شہر میں رہ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں- جب انہوں نے شیر جان کے بارے میں پوچھ گچھ کی تو اس نے بتایا کہ کئی دن ہوۓ شیر جان وہاں سے نوکری چھوڑ کر جا چکا ہے اور اب اسے کچھ پتہ نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے- کچھ دیر مزید بیٹھ کر وہ وہاں سے اٹھ کر گھر چلے آئے-گھر پہنچ کر ساجد نے کہا- ""اگر وہ نوکری چھوڑ چکا ہے تو پھر اس کا گزارہ کیسے ہوتا ہے- ہمیں اس بات کا بھی کھوج لگانا ہوگا-""رات ہوئی تو دونوں بھائی پھر چھت پر چڑھ گئے- ان کی ماں پریشان ہوگئی تھی- وہ ڈر رہی تھی کہ کہیں وہ شیر چھت پر چڑھ کر اس کے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے- دونوں بھائیوں نے اسے اطمینان دلا دیا کہ چھت بہت اونچی ہے اور اس تک جانے والا دروازہ بھی بند رہتا ہے، اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں-آدھی رات کا وقت تھا- خالد اور ساجد کی نظریں شیر جان کے گھر پر لگی ہوئی تھیں- اچانک دونوں سنبھل کر بیٹھ گئے- اس کے گھر کا دروازہ دھیرے سے کھلا- چاندنی چٹکی ہوئی تھی اس لیے ہر چیز صاف نظر آرہی تھی- شیر جان نے تھوڑا سا سر نکال کر باہر گلی میں جھانکا- گلی سنسان پڑی ہوئی تھی- وہ باہر نکلا- باہر نکل کر اس نے دروازہ بند کردیا مگر اس کی کنڈی نہیں لگائی- اس کے ہاتھ میں کپڑے کا ایک تھیلا بھی نظر آرہا تھا- ابھی وہ چند قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ ایک دیوار کی اوٹ سے وہ ہی شخص نکلا جو آج دوپہر اس سے ملنے آیا تھا-خالد اور ساجد جلدی سے نیچے اترے- انہوں نے نہایت خاموشی سے باہر کے دروازے کی کنڈی کھولی اور دیواروں سے لگے لگے ان دونوں کے پیچھے چل پڑے- چاند کی روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اس لیے ان دونوں کا تعاقب کرنے میں انھیں بہت احتیاط سے کام لینا پڑ رہا تھا-گلی سے نکل کر وہ ایک میدان میں آگئے- اس میدان میں بہت سی جھاڑیاں تھیں جن کی وجہ سے خالد اور ساجد کو کافی آسانی ہوگئی کیوں کہ اگر شیر جان اور اس کا ساتھی گھوم کر پیچھے دیکھ بھی لیتے تو وہ زمین پر بیٹھ کر خود کو ان کی نظروں سے بچا سکتے تھے-میدان ختم ہوا تو اس کے بعد کچے پکے گھروں کا سلسلہ شروع ہوگیا- کچھ آگے جانے کے بعد وہ دونوں ایک گھر کے سامنے رکے جس کی صحن کی دیواریں کافی چھوٹی چھوٹی تھیں- وہ دونوں اس دیوار کو عبور کرکے اندر داخل ہوگئے- تھوڑی دیر بعد اس گھر کا دروازہ کھلا اور اس میں سے شیر جان کا ساتھی ایک بکری کے ساتھ باہر نکلا اور ایک طرف کو چل پڑا-شیر جان اپنے ساتھی کو رخصت کرنے کے بعد اندر سے دروازے کی کنڈی لگا کر دیوار پھلانگ کر باہر آنے ہی والا تھا کہ دیوار پر رکھی ایک اینٹ اس کا ہاتھ لگنے سے زمین پر گر پڑی اور دھب کی ایک تیز آواز گونجی- اس آواز کو سنتے ہی گھر میں سے کسی نے چلا کر پوچھا- ""کون ہے؟"" اس کے ساتھ ہی گھر کا دروازہ کھلا اور ایک شخص باہر نکلا- چاندنی رات میں شیر جان کا ہیولا اسے نظر آگیا تھا اس لیے وہ چور چور کا شور مچا کر اس کی طرف لپکا-اس صورت حال سے شیر جان گھبرا گیا- وہ جلدی سے دیوار پر چڑھا اور باہر کود گیا- اسی دوران اس کے ہاتھ میں موجود تھیلا چھوٹ کر زمین پر گر پڑا تھا- اسے اس بات کا موقع ہی نہ ملا کہ وہ اسے اٹھاتا- وہ بگٹٹ ایک جانب بھاگتا چلا گیا- گھر سے نکلنے والا آدمی بھی شور مچاتا اس کے پیچھے بھاگا-خالد اور ساجد نے بھی تھیلا زمین پر گرتے دیکھ لیا تھا- اس سے پہلے کہ شور شرابہ سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکلتے، ساجد بجلی کی سی تیزی سے بھاگتا ہوا گیا اور تھیلا اٹھا کر دوبارہ خالد کے پاس آیا اور بولا- ""بھاگو- ایسا نہ ہو کہ ہم ہی دھر لیے جائیں-""اتنی دیر میں شور شرابہ سن کر آس پاس کے لوگ بھی باہر نکل آئے تھے- وہ دونوں جھاڑیوں کی آڑ لیتے ہوۓ بھاگنے لگے اور تھوڑی ہی دیر میں بہت دور نکل آئے- ان کا رخ گاؤں کے پولیس اسٹیشن کی جانب تھا- پولیس اسٹیشن کی عمارت تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی مگر ایک کمرہ روشن نظر آ رہا تھا- اس کمرے میں ایک سب انسپکٹر اونگھتا ہوا نظر آیا- اس کے سامنے بنچ پر ایک سپاہی پڑا خراٹے لے رہا تھا-ان کے قدموں کی آہٹ سن کر سب انسپکٹر نے آنکھیں کھول دیں اور حیرت سے انھیں دیکھنے لگا- وہ انھیں پہچانتا تھا- خالد نے کہا- ""جناب انسپکٹر صاحب- ہم آپ کو زحمت دینے آئے ہیں- ہم نے اس شیر کا پتہ چلا لیا ہے جو گاؤں والوں کے مویشی لے جاتا ہے- آپ ہمارے ساتھ چلیں اور اسے پکڑ لیں-""شیر کا نام سن کر سب انسپکٹر کی سٹی گم ہوگئی- وہ کرسی پر سنبھل کر بیٹھتے ہوۓ بولا- ""میں شیر کو کیسے پکڑوں گا- میں نے اپنے افسروں سے کہہ دیا ہے کہ وہ کسی تجربہ کار شکاری کو بھیجیں تاکہ وہ شیر کو مار سکے- میں نے آج ہی چٹھی لکھی ہے- اس چٹھی میں میں نے یہ بھی لکھا ہے کہ گاؤں والے بے چارے بہت پریشان اور خوفزدہ ہیں- اور شیر کے ڈر سے شام ہوتے ہی گھروں میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں-""اس کی بات سن کر خالد مسکرانے لگا- اس نے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر کوئی چیز نکالی اور اسے سب انسپکٹر کے سامنے میز پر رکھ دیا- سب انسپکٹر نے اس پر ایک حیرت زدہ نگاہ ڈالی اور بولا- ""شکل سے تو یہ کسی جانور کا پنجہ لگ رہا ہے مگر بنایا گیا ہے کسی دھات سے-""""بس اب آپ زحمت کیجیے اور ہمارے ساتھ چلیے- گاؤں کے مویشی چرانے والے مجرموں کا سراغ ہم نے لگا لیا ہے- مویشیوں کو شیر نہیں یہ لوگ چرا کر لے جاتے ہیں اور زمین پر اس دھاتی پنجے سے نشانات لگا دیتے ہیں تاکہ لوگ سمجھیں کہ انھیں شیر اٹھا کر لے گیا ہے-"" ساجد نے کہا- پھر اس نے مختصر الفاظ میں شیر جان اور اس کےساتھی کے بارے میں اسے بتایا-اس کی بات سن کر سب انسپکٹر جلدی سے کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا- ""ان لوگوں کا تو بڑا انوکھا منصوبہ تھا جس سے ان لوگوں نے گاؤں والوں کو بیوقوف بنایا تھا- اگر یہ مجرم پکڑے گئے تو بہت اچھا ہو گا- اس کارنامے کی بدولت میری رکی ہوئی ترقی بھی ہوجائے گی- میں تم دونوں کا احسان کبھی نہیں بھولوں گا-"" اس نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا-پھر اس نے سوئے ہوۓ سپاہی کو اٹھایا اور اسی عمارت میں موجود تین دوسرے سپاہیوں کو لے کر خالد اور ساجد کے ساتھ چل پڑا- خالد اور ساجد کو یقین تھا کہ شیر جان اب تک اپنے گھر پہنچ گیا ہوگا- وہ سب تیز تیز قدموں سے اس کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے-سب انسپکٹر کو خدشہ تھا کہ ان کی آمد کا سن کر شیر جان فرار ہونے کی کوشش کرے گا- اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ خاموشی سے دو سپاہی دیوار پر چڑھ کر اس کے گھر میں داخل ہونگے اور اسے قابو کرلیں گے-شیر جان بڑی آسانی سے قابو میں آگیا تھا- سب انسپکٹر نے شیر کے پنجے کا دھاتی سانچہ اسے دکھایا تو اس کا رنگ پیلا پڑ گیا اور اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ گئے- اسے ہتھکڑی لگا کر پولیس اسٹیشن کے لاک اپ میں بند کردیا گیا- اس نے اپنے ساتھی کا پتہ بھی بتا دیا تھا- وہ برابر والے گاؤں کا رہائشی تھا–شیر جان جس مویشی کو چراتا تھا وہ اسے بیچ آتا تھا اور دونوں آدھے آدھے پیسے بانٹ لیتے تھے- اسی رات اسے بھی گرفتار کرلیا گیا-بعد میں تفتیش کے دوران شیر جان نے اپنے جرم کی تفصیل بتائی- اس نے بتایا کہ ایک دفعہ اسے جنگل سے کسی شیر کا پنجہ ملا تھا- اسے دیکھ کر اس کے ذہن میں ایک خیال آیا- اس نے سوچا کہ وہ ہو بہو اسی طرح کا ایک دھاتی پنجہ بنائے گا پھر گاؤں کے لوگوں کے مویشی چرا کر اس جگہ پر اس پنجے سے نشانات بنادیا کرے گا- شیر کے پنجوں کے نشانات زمین پر دیکھ کر سب یہ ہی سمجھیں گے کہ ان کے جانور کو شیر لے گیا ہے- لوہار کا کام کرتے کرتے وہ اس فن میں کافی ماہر ہوگیا تھا- اس نے بڑی آسانی سے شیر کے پنجے کی دھاتی نقل بنا لی اور پھر گاؤں کے لوگوں کے مویشی چرانا شروع کردئیے- اس کا ساتھی جس کا نام سہراب تھا ان جانوروں کو منڈی میں لے جا کر فروخت کردیا کرتا تھا-اگلے روز خالد اور ساجد کے اس کارنامے کی دھوم پورے گاؤں میں مچ گئی تھی- سب انسپکٹر بہت اچھا آدمی تھا- اس نے پورے واقعہ کی ایک رپورٹ بنا کر اپنے افسران بالا کو بھیج دی- اس کے افسر بہت خوش ہوۓ کیوں کہ شیر کی ان وارداتوں کی شکایتیں ان تک بھی پہنچ رہی تھیں اور وہ بھی پریشان تھے- انہوں نے یہ مسلہ حل ہوجانے کے بعد سب انسپکٹر کے ترقی کے آرڈر بھی جاری کردیے اور خالد اور ساجد کی عقلمندی اور بہادری کے صلے میں انھیں دس دس ہزار روپے دینے کا بھی اعلان کیا- اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ جن لوگوں کے مویشی شیر جان اور سہراب نے چرائے تھے، ان کی قیمت بھی ان کے مالکوں کو ادا کردی جائے گی- جن سپاہیوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا تھا انھیں بھی ایک ایک ہزار روپے اور تعارفی اسناد دینے کا اعلان کیا گیا-دونوں لڑکے پورے گاؤں میں مشہور ہوگئے تھے- سارے گاؤں والے ان کے ماں باپ کو مبارک باد دینے ان کے گھر آرہے تھے- بات تو حالانکہ بہت خوشی کی تھی مگر ان کی ماں فکرمند نظر آ رہی تھی- خالد کے پوچھنے پر وہ بولی- ""میرا دل ڈر رہا ہے- جیل سے چھوٹ کر آنے کے بعد شیر جان اور اس کا ساتھی سہراب تمہارے دشمن نہ بن جائیں-""خالد نے سر جھٹک کر کہا- ""دشمن بنتے ہیں تو بن جائیں- جو شخص بھی کوئی جرم کرتا ہے، ہم سب کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس کو کیفر کردار تک پہنچانے میں قانون کی مدد کریں- اگر ہم ڈر ڈر کر رہے تو جرائم پیشہ لوگ زیادہ دیدہ دلیری سے اپنا کام کریں گے اور معصوم لوگوں کا جینا دوبھر کردیں گے- ویسے بھی ہم اکیلے تھوڑی ہیں، ہمارے ساتھ ہماری پولیس ہے، قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے ہیں- اس کے علاوہ ہمارا میڈیا ہے جو ایسے لوگوں کو بے نقاب کرنے میں پیچھے نہیں رہتا-""خالد اپنی بات ختم کر کے خاموش ہوا تو ساجد بولا- ""اور امی- اپنے ملک کو ایسے عناصر سے پاک کرنا ایک بہت اچھا کام ہے- وہ دونوں چالاک مجرم پکڑے جا چکے ہیں اور اب اپنے کیے کی سزا بھگتیں گے- ایک اچھی بات یہ بھی ہوئی ہے کہ جن لوگوں کے مویشی چوری ہوگئے تھے، ان سب کو ان کے مویشیوں کے پیسے بھی مل جائیں گے- ہمارے گاؤں کے لوگ بہت خوش ہیں- آپ فکر نہیں فخر کریں کہ آپ کے دونوں بچے کتنے بہادر ہیں- اچھا اب یہ بتائیں کہ آپ ان روپوں کا کیا کریں گی جو ہمیں انعام میں ملے ہیں؟""ان کی بات سن کر ان کی ماں کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور وہ بولی- ""ان روپوں کو میں تم دونوں کے نام سے بینک میں جمع کروا دوں گی تاکہ وہ تمہاری آگے کی پڑھائی لکھائی میں کام آئیں- یہ کارنامہ تم نے اپنی ذہانت سے انجام دیا ہے اور پتہ ہے ذہانت تعلیم سے ہی آتی ہے- یہ کارنامہ انجام دے کر تم نے اپنے ماں باپ کا سر فخر سے بلند کردیا ہے-""ماں کی بات سن کر خالد اور ساجد کے چہرے خوشی سے تمتمانے لگے تھے- ""بس امی- آپ دعا کرتی رہیں کہ ہم ہمیشہ اپنے ملک کے لیے اور اس میں رہنے والوں کے لیے ایسے ہی اچھے اچھے کام انجام دیتے رہیں-"" ساجد نے کہا اور دونوں بھائی محبّت سے اپنی ماں سے لپٹ گئے- " محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے بڑی شان والے - تحریر نمبر 1572,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mohammad-saw-hamare-bari-shaan-wale-1572.html," " تربیت - تحریر نمبر 1571,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tarbiyat-1571.html," " صدقے کی اہمیت - تحریر نمبر 1570,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sadqe-ki-ehmiyat-1570.html," " زخمی دشمن - تحریر نمبر 1569,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zakhmi-dushman-1569.html," " ا نسان اور مشین - تحریر نمبر 1568,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/insaan-or-machine-1568.html," " صحرائے تھر - تحریر نمبر 1566,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sehrai-thar-1566.html," " شہزادے کی بہن (آخری قسط) - تحریر نمبر 1565,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shehzade-ki-behen-last-episode-1565.html,"جادوگرنی کمرے سے باہر نکلی تو وہاں چودہ پندرہ سال کی ایک خوبصورت پری اس کی منتظر تھی- اس پری کا نام حسینہ پری تھا اور وہ حسن آرا جادوگرنی کی بڑی بہن کے چھوٹے بچے کی خادمہ تھی- جادوگرنی نے فرید کو اس کے حوالے کر تے ہوۓ کہا- ""اس حیرت انگیز اور انوکھے خرگوش کو میری طرف سے سالگرہ کے موقعے پر میرے بھانجے کو دے دینا اور میری بہن سے کہہ دینا کہ میں بہت جلد اس سے ملنے کے لیے اس کے پاس آوں گی- سالگرہ کے موقعہ پر یوں نہیں آسکتی کہ فی الحال میں بہت مصروف ہوں- سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی-""""آپ تو بہت امیر معلوم دیتی ہیں- سر کھجانے کے لیے کوئی ملازمہ کیوں نہیں رکھ لیتیں؟"" حسینہ پری نے کہا-""میری بہن بھی بہت بے وقوف ہے- اس نے کیسی کوڑھ مغز خادمہ کا انتخاب کیا ہے جو محاوروں تک کے مفہوم سے نا واقف ہے-"" حسن آرا نے منہ بنا کر کہا-حسینہ پری کچھ شرمندہ سی ہوگئی تھی- اس نے مزید کچھ اور نہیں کہا اور چپ چاپ مڑ کر باہر کی جانب چل دی- جادوگرنی کے محل سے باہر نکلتے ہی اس کے خوبصورت پروں نے حرکت کی اور پھر وہ فضا میں بلند ہوتی چلی گئی- اس نے فرید کو دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور اس کا رخ پرستان کی طرف تھا-حسینہ پری تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ اچانک اس کے سر میں شدید درد ہونے لگا- وہ دو بارہ زمین پر اتر آئ اور دونوں ہاتھوں سے سر کو دبا کر کرا ہنے لگی-""اچھی پری کیا بات ہے؟"" فرید نے ہمددری سے پوچھا-اس کو بولتا دیکھ کر حسینہ پری اپنا درد بھول گئی اور حیرت بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی- اس کو حیرت زدہ پا کر فرید نے اس کو اپنی کہانی سنائی-حسینہ پری بولی- ""یہ حسن آرا جادوگرنی تو بہت خراب عورت ہے- بے گناہ لوگوں کو خواہ مخواہ تنگ کرتی ہے- اس کی بڑی بہن جس کے چھوٹے بچے کی میں خادمہ ہوں بے حد مہربان اور خوش اخلاق عورت ہے- یہ ہی وجہ ہے کہ وہ آج پرستان میں مزے سے رہ رہی ہے اور اس کی شادی وہاں کے ایک مشہور تاجر سے ہوگئی ہے اور وہ اپنے بچے اور شوہر کے ساتھ نہایت خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے-""باتوں کے دوران حسینہ پری کو سر کا درد کچھ زیادہ محسوس نہیں ہو رہا تھا مگر جب وہ دونوں خاموش ہوۓ تو وہ دوبارہ سر میں تکلیف محسوس کرنے لگی- اس نے فرید سے کہا- ""میں تو اس سر درد کی وجہ سے عاجز آ گئی ہوں- میں نے اس کے لیے ہزارہا علاج کر ڈالے ہیں مگر اس مرض سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکی ہوں- یہ یکا یک اٹھتا ہے اور گھنٹوں رہتا ہے-""فرید اس پر بولا- ""میرے ابّا طبیب ہیں- پورے شہر میں ان جیسا کوئی دوسرا طبیب نہیں ملے گا- ان کے پاس اس مرض کی دوا ہے- اگر میں اپنی اصلی شکل میں ہوتا تو ضرور آپ کی مدد کرتا-""حسینہ پری مایوسی سے بولی- ""تمہیں تو حسن آرا جادوگرنی ہی اپنی اصلی شکل میں لا سکتی ہے-""فرید نے کہا- ""میرے خیال میں آپ یہیں کچھ دیر تک بیٹھ کر آرام کریں- میں شہزادہ عثمان کی چھوٹی بہن ثریا کو سب کچھ بتا کر آ جاتا ہوں- وہ یہ سب باتیں شہزادے عثمان کے دوست احسن کو بتا دے گی اور شہزادہ عثمان کا یہ دوست چونکہ بہت بہادر ہے اس لیے وہ ضرور اس جادوگرنی کو ٹھکانے لگا دے گا- جب جادوگرنی مر جائے گی تو پھر شہزادہ عثمان اور میں دونوں ٹھیک ہو جائیں گے- پھر میں اپنے گھر جا کر آپ کو وہ دوائی جو پانچ سو تین قیمتی جڑی بوٹیوں سے تیار ہوئی ہے اور جس کا نام گل گورو سیاہ ہے لا کر دے دونگا- اس کی ایک ہی خوراک آپ کے سر درد کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گی-""حسینہ پری اس تجویز پر کھل اٹھی- وہ اپنے اس اچانک رونما ہونے والے مرض کے ہاتھوں سخت پریشان تھی اور ہر قیمت پر اس کا علاج چاہتی تھی- فرید کی باتیں سن کر اسے یقین ہو چلا تھا کہ گل گورو سیاہ سے اسے ضرور افاقہ ہوگا- اس نے فرید کو شہزادی سے ملنے کے لیے جانے کی اجازت دے دی اور خود درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی- اس کے سر درد میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا-فرید پھدکتا ہوا اور دوڑتا ہوا محل کی جانب چل دیا- ہر طرف تاریکی پھیل چکی تھی مگر فرید کو جنگل کے راستوں سے کافی واقفیت ہو گئی تھی- اس لیے اسے راستہ طے کرنے میں کوئی دشواری محسوں نہیں ہورہی تھی- اپنی تیز رفتاری کی بنا پر وہ جلد ہی شہزادہ عثمان کے محل میں پہنچ گیا-وہاں پر شہزادے کی گمشدگی کی وجہ سے سب پریشان تھے- فرید سب کی نظروں سے بچتا بچاتا شہزادی ثریا کے کمرے میں گھس گیا- شہزادی ثریا اپنے بھائی کی جدائی کی وجہ سے اپنی مسہری پر پڑی آنسو بہا رہی تھی- فرید اچک کر مسہری پر چڑھ گیا- شہزادی ثریا کی نظر جب اس پر پڑی تو وہ چونک کر سیدھی بیٹھ گئی اور رونا دھونا بھول کر حیرت سے فرید کو گھورنے لگی- اسے اپنے کمرے میں ایک خرگوش کی موجودگی پر سخت حیرانی تھی- اور پھر خرگوش بھی ایسا کہ جس کے جسم پر رنگین دھاریاں تھیں اور اس کی آنکھیں سبز تھیں اور گھپے دار دم بہت خوبصورت تھی-فرید نے زیادہ وقت برباد کرنا مناسب نہ سمجھا اور مختصرا ً اپنا تعارف کرانے کے بعد شہزادہ عثمان پر جو کچھ بیت رہی تھی اس کے گوش گزار کر دیا- تمام داستان سن لینے کے بعد شہزادی ثریا پریشانی سے بولی- ""مگر عثمان بھیا نے اپنے جس دوست سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے وہ تو دوسرے شہر گئے ہوۓ ہیں، ان کی واپسی پتہ نہیں کب ہوگی-""""پھر اب کیا کیا جائے؟"" فرید نے بے چینی سے پوچھا-""میں تمہارے ساتھ چلتی ہوں- میں ضرور اپنے بھیا کو اس جادوگرنی سے چھڑا کر لاؤں گی-"" شہزادی ثریا نے پر یقین لہجے میں کہا-فرید کو امید تو نہیں تھی کہ دس بارہ سال کی یہ شہزادی حسن آرا جادوگرنی کو ٹھکانے لگا سکتی ہے- اس نے شہزادی ثریا کو اس امر سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی، عجیب عجیب شکلیں بنا کر شہزادی ثریا کو بتانے کی کوشش بھی کی کہ حسن آرا کتنی خوفناک ہے مگر شہزادی اپنی ضد پر اڑی رہی- لہٰذا مجبور ہو کر فرید بھی چپ ہوگیا-وہ دونوں چھپ کر محل سے نکلے- شہزادی ثریا نے اصطبل سے ایک گھوڑا بھی کھول لیا تھا- چونکہ تمام غلام اور دوسرے لوگ شہزادہ عثمان کی گمشدگی سے پریشان تھے اور ادھر ادھر پھر رہے تھے، اسلئے ان میں سے کوئی بھی شہزادی ثریا کو نہ دیکھ سکا- فرید کو پری کا سر درد یاد آگیا- اس نے سوچا کہ بہتر یہ ہوگا کہ شہزادی کو اپنے باپ کے پاس بھیج کر یہ دوائی منگوا لے- یہ سوچ کر اس نے شہزادی کو اپنے گھر بھیج دیا تاکہ وہ وہاں سے گل گورو سیاہ کی چند خوراکیں اس کے باپ سے لے آئے- جب شہزادی ثریا دوائی لے آئ تو فرید اسے ساتھ لے کر جنگل کے اس حصے میں آیا جہاں پر حسینہ پری بیٹھی تھی- اس کے سر کے درد نے شدّت اختیار کر لی تھی اور حسینہ پری کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے تھے-شہزادی ثریا نے اسے جلدی سے گل گورو سیاہ کی ایک خوراک دی جس کو کھاتے ہی حسینہ پری کا سر درد کافور ہوگیا اور وہ مسکرانے لگی- پھر اس نے فرید اور شہزادی ثریا کا باری باری شکریہ ادا کیا اور بولی- ""فرید تم نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے لہٰذا اب میرا بھی فرض ہے کہ میں تمھاری مدد کروں- میں ایک ایسی بات جانتی ہوں کہ جس سے تمھاری اور شہزادہ عثمان کی مشکل حل ہو سکتی ہے-""""جلدی سے بتائیے وہ بات-"" فرید نے بے تابی سے کہا-""میں عرصے سے حسن آرا جادوگرنی کی بہن کے گھر ملازمہ ہوں- ایک روز میں دسترخوان چن رہی تھی- حسن آرا جادوگرنی اور اس کی بڑی بہن یعنی میری مالکن بھی وہیں موجود تھی- حسن آرا جادوگرنی کو ڈینگیں مارنے اور اپنی بڑائی جتانے کا بہت شوق ہے- وہ اپنی بہن سے کہنے لگی کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں گی- کیوں کہ میں نے اپنی جان اپنے گلے کے ہار میں پروئے ہوۓ ایک موتی میں بند کر دی ہے- اس نے یہ بات بہت آہستگی سے کہی تھی مگر میں نے اس کو سن لیا تھا- اب تم کسی طرح اس ہار کو حاصل کرنے کی کوشش کرو- وہ ہار اگر تمہارے ہاتھ لگ گیا تو تمام پریشانیاں ختم ہوسکتی ہیں-"" پھر اس نے شہزادی ثریا کو ایک آئینہ دیا اور بولی- ""شہزادی- یہ جادو کا آئینہ ہے- اس کی یہ خاصیت ہے کہ اس میں بدصورت سے بدصورت شکل بھی بے حد حسین اور خوبصورت نظر آنے لگتی ہے- اس کو اپنے پاس رکھ لو- شائد تمہارے کسی کام آجائے-""یہ کہہ کر حسینہ پری نے شہزادی ثریا اور فرید سے اجازت لی اور وہاں سے پرواز کرتے ہوۓ پرستان کی جانب روانہ ہو گئی- شہزادی ثریا حسینہ پری کے دیے جادو کے آئینے کو ہاتھ میں پکڑے کچھ سوچ رہی تھی- سوچتے سوچتے اچانک اس کے لبوں مسکراہٹ آ گئی اور پھر وہ مطمئن انداز میں سر ہلانے لگی-____________شہزادی ثریا نے فرید کو وہیں رکنے کی تاکید کی اور خود حسن آرا جادوگرنی کے محل کی طرف چل دی جہاں پر اس کا بھائی آدھا پتھر کا بنا ہوا تھا اور جس سے شادی کرنے کی خواہش حسن آرا جادوگرنی کے دل میں تھی- فرید کو وہ اپنے ساتھ اس لیے نہیں لے گئی تھی کہ کہیں حسن آرا کی اس پر نظر نہ پڑ جائے، اس سے سارا کھیل بگڑ جاتا-محل میں گھستے ہی شہزادی کی مڈھ بھیڑ حسن آرا جادوگرنی سے ہوگئی- پہلے تو جادوگرنی نے شہزادی ثریا کو حیرت بھری نظروں سے دیکھا اور پھر غصے میں بھر کر بولی- ""تجھے میرے گھر میں بغیر اجازت گھسنے کی جرات کیسے ہوئی- کیا تو یہ نہیں جانتی کہ یہ میرا محل ہے؟""""میں سب کچھ جانتی ہوں""- شہزادی ثریا نے بڑے اطمینان سے جواب دیا- ""تم نے ایک شہزادے کو پکڑ کر اسے آدھا پتھر کا بنا دیا ہے- تم اس سے شادی کرنا چاہتی ہو، مگر اس نے تمھاری بطخ جیسی شکل دیکھ کر صاف انکار کر دیا ہے- مگر حسن آرا جادوگرنی تمہیں گھبرانے، پریشان ہونے اور فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے- تم دنیا کے سب سے خوبصورت شہزادے سے شادی صرف اس لیے کرنا چاہتی ہو نا کہ اپنی بہن کو نیچا دکھا سکو- میں اس نیک کام میں تمھاری مدد کرنے کے لیے ہی حاضر ہوئی ہوں اور مجھے جادوگروں کے سردار سامری جادوگر نے بھیجا ہے-""حسن آرا جادوگرنی جو شہزادی ثریا کی باتیں بڑی حیرت سے سن رہی تھی، سامری جادوگر کے نام پر اچھل پڑی-""اگر سامری جادوگر میری مدد پر آمادہ ہو گیا ہے تو میں ضرور اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں گی-"" اس نے خوشی سے کہا- ""سامری جادوگر نے میرے لیے کیا پیغام بھیجا ہے-؟""""بات دراصل یہ ہے کہ سامری جادوگر بلا ضرورت کسی کی مدد نہیں کرتا- اس کے پاس ایک بہت ہی خوبصورت لوٹن کبوتر ہے- اس نے چند دنوں سے دانہ کھانا اور پانی پینا چھوڑ دیا ہے- بس ہر وقت کسی سوچ میں گم رہتا ہے- سامری جادوگر کو اپنے اس کبوتر سے بہت پیار ہے- اس نے اپنے جادو سے پتہ لگایا ہے کہ اگر کبوتر کی چونچ کو تمہارے گلے میں پڑے ہوۓ ہار سے لگا دیا جائے تو کبوتر کی تمام اداسی لمحہ بھر میں ختم ہو جائے گی اور وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا- سامری جادوگر کو یہ بھی معلوم ہے کہ تم شہزادہ عثمان سے شادی کی خواہش مند ہو- لہٰذا اگر تم سامری جادوگر کی مدد پر آمادہ ہو جاؤ تو وہ بھی تمھاری مدد کر سکتا ہے-""""نہیں بھئی میں اس سودے پر تیار نہیں ہوں-"" جادوگرنی بولی- ""اس ہار کو میں اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتی ہوں-""""تم شائد اس بات سے خوف زادہ ہو کہ سامری جادوگر کہیں اس ہار کو تباہ کر کے تمہیں موت کے گھاٹ نہ اتار دے- کیونکہ اس ہار کے ایک موتی میں تمھاری جان ہے-""""ارے تم سب باتوں کو جانتی ہو""- حسن آرا جادوگرنی تعجب سے بولی- ""اس بات کو تو میں نے راز میں رکھا تھا- اور سوائے میری بہن کے کوئی بھی اس راز سے واقف نہیں تھا-""""سامری جادوگر اپنے جادو سے تمام باتیں معلوم کر لیتا ہے- پھر تمہیں مار کر اسے دھیلے بھر کا بھی فائدہ نہیں ہوگا اور تم تو یہ جانتی ہوگی کہ بغیر فائدے کے تو وہ اپنے گھر سے بھی نکلنا پسند نہیں کرتا تم جیسی عورت کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے-""یہ بات جادوگرنی کی سمجھ میں آگئی- وہ بولی- ""ٹھیک ہے میں تمہیں اپنا یہ ہار دینے کو تیار ہوں مگر سامری جادوگر سے کہنا کہ وہ اسے جلد ہی واپس کردے- لیکن سامری جادوگر میری شادی شہزادہ عثمان سے کس طرح کراے گا؟""""اس نے مجھے ایک جادو بتایا ہے جس سے تمھاری شکل و صورت انتہائی حسین و جمیل ہو جائے گی- تم مجھے ہار دو- میں تمھاری شکل تبدیل کر دوں گی- تمہارے خوبصورت چہرے کو دیکھ کر شہزادہ عثمان تم سے فوراً شادی کرنے پر رضا مند ہو جائے گا-""حسن آرا جادوگرنی نے جھٹ اپنے گلے سے وہ ہار اتار کر شہزادی ثریا کے حوالے کردیا جس کے ایک موتی میں اس نے اپنی جان بند کر رکھی تھی- شہزادی ثریا نے حسینہ پری کا دیا ہوا جادو کا آئینہ نکالا جس میں بدصورت سے بدصورت شکلیں بھی انتہائی حسین نظر آنے لگتی تھیں- پھر اس نے یونہی منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا کر حسن آرا جادوگرنی کے چہرے پر دو چار پھونکیں ماریں اور آئینہ اس کے چہرے کے آگے کر کے بولی- ""لو خود ہی دیکھ لو کیسی شہزادیوں کی طرح شکل ہوگئی ہے تمھاری-""جادوگرنی نے آئینے میں جھانکا اور پھر خوشی و مسرّت سے اس کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی- آئینے میں ایک بد صورت جادوگرنی کی بجاے ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی کی صورت نظر آ رہی تھی-جادوگرنی بے حد خوش تھی- اس نے جلدی سے ثریا کو رخصت کردیا اور شہزادے عثمان کے کمرے کی طرف دوڑی وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ کس قدر حسین ہو گئی ہے- اسے کیا پتہ تحت کہ وہ پہلے ہی جیسی ہے- جب وہ شہزادہ عثمان کے کمرے میں پہنچی تو وہ کھڑے کھڑے ہی سو گیا تھا- جب وہ حسن آرا جادوگرنی کی کی کی آوازوں پر بھی نہیں اٹھا تو وہ وہاں سے چلی آئ- رات زیادہ ہو گئی تھی- وہ بھی اپنے بستر پر لیٹ گئی مگر مارے خوشی کے نیند اس کی آنکھوں سے دور تھی- جب باوجود کوشش کے بھی وہ نہ سو سکی تو بستر سے اٹھ کر محل سے باہر نکل آئ تاکہ چاندنی رات میں جنگل کی سیر کرے-ادھر شہزادی ثریا بھاگم بھاگ فرید کے پاس پہنچی جو ایک درخت کے نیچے بیٹھا اونگھ رہا تھا- اس نے فرید کو جلدی جلدی جادوگرنی سے ہونے والی ملاقات کا حال بتایا- فرید شہزادی ثریا کی ذہانت سے بے حد خوش ہوا جس نے ایک جھوٹی کہانی سنا کر اس چالاک جادوگرنی کو بڑی آسانی سے بے وقوف بنا دیا تھا-شہزادی دو پتھر ڈھونڈ لائی تھی- اس کا ارادہ تھا کہ وہ ہار کے تمام موتیوں کو پتھروں کی مدد سے کچل دے گی- اس نے ہار کے تمام موتیوں کو علیحدہ کر لیا اور انھیں ایک ایک کر کے توڑنے لگی- فرید اسے بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا- اچانک شہزادی ثریا فرید کی آواز سن کر چونک گئی- وہ شہزادی کو پیچھے کی طرف متوجہ کر رہا تھا- شہزادی نے گھوم کر دیکھا- چاند کی ہلکی روشنی میں ایک سایہ ان کی طرف بڑھ رہا تھا- شہزادی ثریا پہلی ہی نظر میں تاڑ گئی کہ یہ وہ ہی جادوگرنی ہے جس نے اس کے بھائی کو پتھر کا بنا دیا ہے-وہ فرید کو لے کر جھاڑیوں میں گھس گئی اور سرگوشی کے انداز میں فرید سے بولی- ""یہ جادوگرنی رات کو جنگل میں کیا لینے آئ ہے؟""""شائد اسے خوشی کے مارے نیند نہیں آ رہی ہوگی-"" فرید نے ہلکے سے جواب دیا- شہزادی کچھ نہ بولی- تھوڑی دیر بعد جادوگرنی ان کے سامنے سے گزری- دونوں نے اپنے سانس تک روک لیے تھے تاکہ جادوگرنی ان کی موجودگی سے باخبر نہ ہو جائے- جب جادوگرنی ان سے کچھ دور پہنچ گئی تو شہزادی ثریا نے کہا- ""یہ جانے کب تک جنگل میں چکراتی پھرے گی- ہم اس کے محل میں ہی چلتے ہیں- وہاں پر اطمینان سے تمام موتیوں کو توڑیں گے- کیونکہ ہمیں یہ تو پتہ ہی نہیں کہ اس کی جان کونسے موتی میں ہے-""پھر وہ اور فرید تیزی سے جادوگرنی کے محل کی طرف چل دئیے- فرید شہزادی کو اس کمرے میں لایا جہاں پر شہزادہ موجود تھا- اپنے بھائی کو آدھا پتھر کا بنا دیکھ کر شہزادی ثریا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے- وہ اس سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگی- شہزادہ عثمان کی آنکھ کھل گئی- اس نے جو اپنی بہن کو وہاں پر دیکھا تو اسے بے حد حیرت ہوئی- شہزادی نے مختصراً اسے تمام بتایں- اس عرصے میں فرید دروازے میں کھڑا ہو گیا تھا تاکہ اگر حسن آرا جادوگرنی وہاں پر آ بھی جائے تو وہ جلدی سے اس کی اطلاع شہزادی ثریا کو دے دے-شہزادی ثریا خاموش ہوئی ہی تھی کہ فرید جلدی سے اس کے پاس آ یا اور بولا- ""شہزادی- آپ نے باتوں میں بہت سا وقت ضائع کر دیا ہے- وہ جادوگرنی محل میں داخل ہو چکی ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ اب یہاں پر ہی آئے گی-""یہ سن کر شہزادی کچھ پریشان سی ہوگئی- اس نے جلدی جلدی موتیوں کو دیوار پر مارنا شروع کر دیا- موتی دیوار سے ٹکراتے ہی ننھی منی کرچیوں میں تبدیل ہوجاتے- پھر شہزادی کے ہاتھ میں صرف ایک ہی موتی رہ گیا تھا جو یقیناً وہ ہی موتی تھا جس میں حسن آرا جادوگرنی کی جان بند تھی- ابھی شہزادی ثریا نے ہاتھ بلند کیا ہی تھا کہ جادوگرنی کمرے کے دروازے پر آن پہنچی- وہ شہزادی ثریا کو وہاں دیکھ کر بہت حیران ہو گئی تھی- اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ شہزادی ثریا نے اس آخری موتی کو بھی دیوار پر دے مارا- دیوار سے ٹکراتے ہی موتی سینکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا- اس کے ٹوٹتے ہی حسن آرا جادوگرنی کے منہ سے ایک نہایت ہی بھیانک چیخ نکلی اور وہ زمین پر گر کر اسی وقت مر گئی-اس کے مرتے ہی فضا میں چیخوں اور کراہوں کی آوازیں گونجنے لگیں- دور کہیں زور سے بادل کڑ کڑ ا یا اور پھر لمحہ بھر میں وہ محل بھک ے اڑ گیا-شہزادہ عثمان اور فرید اپنی اصلی حالت میں آ گئے تھے- شہزادی انھیں مسکراتے ہوۓ دیکھنے لگی- محل تو چونکہ غائب ہو گیا تھا اس لیے اب وہ لوگ جنگل میں کھڑے تھے- ان کے قریب ہی جادوگرنی کی لاش پڑی تھی-شہزادہ عثمان بولا- ""ثریا بہن- میں تو تمہیں نہایت ڈرپوک سمجھتا تھا مگر تم تو بہت باہمت نکلیں- صبح تو میں تمہیں اپنے ساتھ شکار پر نہیں لایا تھا، مگر اب تم جی بھر کر شکار کھیل سکتی ہو-""""اور اس بات کا خیال رکھئے گا کہ اندھیرے میں شکار صرف بلی ہی کرتی ہے-"" فرید ہنس کر بولا- اس کی اس بات پر شہزادہ عثمان اور شہزادی ثریا بھی ہنس پڑے-شہزادی نے درخت سے اپنا گھوڑا کھولا اور وہ تینوں محل کی طرف چل دیے- محل پہنچے تو تمام لوگ شہزادہ عثمان کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے- شہزادہ عثمان نے بادشاہ اور ملکہ کو تمام کہانی سنا دی- شہزادی ثریا اور فرید کو بہت شاباش ملی- بادشاہ نے فرید کو بہت سا انعام و اکرام دے کر رخصت کیا-اس روز کے بعد سے شہزادہ عثمان کا دل شکار سے اچاٹ ہوگیا- وہ حکومت کے کاموں میں بادشاہ کا ہاتھ بٹانے لگا- کچھ عرصہ بعد ملکہ نے ایک خوبصورت شہزادی سے شہزادہ عثمان کی شادی کردی اور بادشاہ اسے تخت و تاج سونپ کر خود یاد الہی میں مصروف ہوگیا- " بادشاہ کی پُر اسرار بیماری - تحریر نمبر 1564,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-ki-purisrar-bimari-1564.html," " شہزادے کی بہن ۔پہلی قسط - تحریر نمبر 1562,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shehzade-ki-behen-1st-episode-1562.html,"شہزادی ثریا ٹھنک کر بولی- ""بھیا آج تو میں بھی آپ کے ساتھ شکار پر چلوں گی- آپ تو ً ہر روز شکار کرنے جنگل جاتے ہیں-""شہزادہ ہنس پڑا ، ہنستے ہوۓ بولا- ""تم کہاں جنگلوں میں بھاگ دوڑ کرتی پھرو گی، بے کار میں ہلکان ہوجاؤ گی- امی حضور کے پاس جاؤ- ان کے پاس بیٹھ کر ان سے کوئی اچھی سی کہانی سن لو-""شہزادی ثریا نے مایوسی سے سے گردن ہلاتے ہوۓ کہا- ""امی حضور دن میں کہانی نہیں سناتیں، کہتی ہیں کہ دن میں کہانی سنانے سے ماموں جان راستہ بھول جاتے ہیں- میں تو آپ کے ساتھ ہی چلوں گی اور آپ کو ہرن مار کر دکھاؤں گی-""""جیسے میں تمہیں ساتھ لے ہی جاؤں گا- کبھی لڑکیاں بھی شکار کھیلنے گئی ہیں جو میں تمہیں ساتھ لے جاؤں اور پھر میرے ساتھ میرے دوست بھی تو ہوں گے، وہ دل میں کیا کہیں گے کہ شہزادہ عثمان کی چھوٹی بہن گڑیوں سے کھیلنے کی بجاے شکار کھیلتی ہے-"" شہزادہ عثمان نے قدرے جھنجلاتے ہوۓ کہا-""میں تو آپ کے ساتھ ضرور جاؤں گی-"" شہزادی ثریا نے سر ہلا کر کہا- شہزادہ عثمان اسے گھورنے لگا- یکایک شہزادی ثریا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی-شہزادہ عثمان گھبرا گیا- وہ اسے چپ کرانا ہی چاہتا تھا کہ بادشاہ ملکہ کے ساتھ اندر داخل ہوا- شہزادی ثریا کو روتے دیکھا تو ملکہ نے آگے بڑھ کر پوچھا- ""ثریا بیٹی- کیا بات ہے؟ تم رو کیوں رہی ہو؟""شہزادی ثریا نے کوئی جواب نہیں دیا- بادشاہ شہزادہ عثمان کو دیکھتے ہوۓ بولا- ""اس نالائق نے کچھ کہا ہوگا ہماری بیٹی کو، کیوں بھئی ثریا کیا بات ہے؟""""بات مجھ سے سنئے""- نالایق کا خطاب پا کر شہزادہ عثمان کچھ جھینپ کر بولا- ""فرماتی ہیں میں بھی شکار پر چلوں گی- بہت شوق ہے نا جنگل گھومنے کا جیسے وہاں لڈو ملتے ہیں- اگر شیر کو دور ہی سے دیکھ لیا تو گھگی بندھ جائے گی-""""جی ہاں- اور جیسے آپ تو شیر کو دیکھ کر مارے خوشی کے بغلیں بجانے لگیں گے-"" بادشاہ نے اسے گھورتے ہوۓ کہا- ""ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم سیر سپاٹے اور شکار میں اپنا وقت کیوں برباد کرتے پھرتے ہو- ہم بوڑھے ہونے لگے ہیں- سر کے بال تیزی سے سفید ہو رہے ہیں، اوپر کا ایک اور نیچے کے دو دانت ہلنے لگے ہیں، آخر ہم کب تک اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے رکھیں گے- ہم نے تمہیں اس لیے تو پال پوس کر جواں نہیں کیا تھا کہ تم حکومت کے کاموں میں ہمارا بٹانے کی بجائے جنگلوں میں ڈنڈے بجاتے پھرو -""بادشاہ کی ڈانت ڈپٹ سن کر شہزادہ عثمان نے سر جھکالیا، اس کی بے چارگی کو محسوس کر کے ملکہ بولی- ""اس بالشت بھر کی لڑکی کی وجہ سے آپ میرے بیٹے کے پیچھے پڑ گئے ہیں-"" پھر اس نے شہزادہ عثمان سے کہا- ""بیٹے تم جاؤ، مہمان خانے میں تمھارے دوست تمہارا انتظار کر رہے ہیں، شہزادوں کا تو یہی کام ہے کہ گھومیں پھریں اور شکار کھیلیں-""شہزادہ عثمان سر جھکا کر تیزی سے باہر نکل گیا- بادشاہ نے کہا- ""اس لڑکے کو بگاڑنے میں سب سے زیادہ تمہارا ہاتھ ہے، ہمارا کیا ہے، اتنی عمر کٹ گئی ہے، بقیہ بھی گزر جائے گی- وہ خود ہی پچھتائے گا اور تم بھی سر پکڑ کر رو گی-""پھر بھی آپ کو ڈانت ڈپٹ میں کچھ تو خیال رکھنا ہی چاہئیے- جوان لڑکا ہے اس کا ذہن باغی بھی ہوسکتا ہے اور پھر یہ عمر تو ایسی ہی ہوتی ہے کہ انسان ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے گھبراتا ہے- اس کی شادی ہوجائے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا-"" ملکہ نے بادشاہ کو سمجھاتے ہوۓ کہا-""تم ایک ماں ہو کر سوچتی ہو اور ہم باپ بن کر- ہم سچ کہتے ہیں کہ اگر ہمیں شاہی دستور کا پاس نہ ہوتا تو ہم عثمان کی حرکتوں پر اسے روزانہ صبح بستر سے اٹھ کر اور رات کو سونے سے پہلے بلا ناغہ مار لگاتے، مگر ہماری بدقسمتی اور عثمان کی خوش قسمتی ہے کہ دستور میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ شہزادوں کی پٹائی نہیں لگائی جا سکتی چاہے مارنے والا ان کا باپ ہی کیوں نہ ہو-""""اگر آپ کی سختیوں کا یہ ہی عالم رہا تو مجھے یقین ہے کہ عثمان محل چھوڑ کر کہیں چلا جائے گا- اس دن مجھ سے کہہ رہا تھا جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ابّا حضور نے کبھی مجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کی-"" ملکہ نے خشک لہجے میں کہا-""اچھا تو اس نالائق کو ہمارا منہ بھی ٹیڑھا لگتا ہے- آ لینے دو آج اسے-"" بادشاہ گرم ہو کر بولا- ""ہم اچھی طرح اس کی خبر لیں گے- سمجھ کیا رکھا ہے اس نے ہمیں-""شہزادی ثریا نے اب رونا بند کر دیا تھا اور خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہی تھی- بادشاہ کی بات سنکر ملکہ نے بڑے غصے سے کہا- ""اگر آپ کو عثمان سے اتنی ہی نفرت ہے تو میں آج ہی اس سے کہہ دوں گی کہ وہ یہاں سے چلا جائے- اس روز کی دانتا کل کل سے تو نجات مل جائے گی-"" یہ کہتے ہوۓ ملکہ کی آواز بھرا گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے- بادشاہ چند لمحے تک تو ملکہ کو دیکھتا رہا پھر نرمی سے بولا- ""پیاری ملکہ ہم اس گدھے کے دشمن تو نہیں ہیں- وہ لاپرواہ طبیعت کا لڑکا ہے- ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہماری ڈانٹ ڈپٹ سے سبق حاصل کرے، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے، ہم اتنی بڑی حکومت اسے سونپنا چاہتے ہیں، تلوار اور خنجر چلانا مشکل بات نہیں مگر حکومت چلانا یقیناً مشکل بات ہے- اب تم ہی بتاؤ ہم یہ سب کچھ اس کے حق میں برا کر رہے ہیں یا بھلا؟""ملکہ نے جھٹ آنسو پونچھ لیے اور مسکراتے ہوۓ بولی- ""یہ سب کچھ آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا- عثمان شکار سے لوٹ کر آے گا تو میں بھی اسے سمجھاؤں گی- میری بات وہ ہمیشہ مان جاتا ہے-""ملکہ کی بات سن کر بادشاہ بھی مسکرانے لگا- اسے یقین تھا کہ اب شہزادہ عثمان ضرور حکومت کے کاموں میں دلچسپی لینے لگے گا- ملکہ بھی مسکرا رہی تھی اور بادشاہ بھی- مگر شہزادی ثریا منہ بناے کھڑی تھی- اسے اس بات کا بے حد ملال تھا کہ شہزادہ عثمان اسے اپنے ساتھ جنگل شکار کھیلنے کے لیے نہیں لے گیا تھا-____________جنگل میں شہزادہ عثمان کے دوستوں کے قہقہے گونج رہے تھے- وہ لوگ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر اب دریا کے شفاف پانی میں نہا رہے تھے- وہ ایک دوسرے پر پانی کے چھینٹے اڑاتے اور پھر زور زور سے قہقہے لگانے لگتے-شہزادہ عثمان کنارے پر بیٹھا ان کی حرکتوں سے لطف اندوز ہور رہا تھا- جی تو اس کا بھی چاہ رہا تھا کہ خود بھی دریا میں کود کر خوب مزے سے نہاے مگر ملکہ نے اسے تنبیہہ کر رکھی تھی کہ وہ دریا وغیرہ میں کبھی بھی نہانے کی کوشش نہ کرے کیوں کیونکہ ایسے مواقع پر دوستوں کی شرارتوں کے سبب جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں-وہ لوگ شکار سے اکتا گئے تھے- دوپہر کے کھانے کے بعد وہ لوگ دریا کے کنارے آن بیٹھے تھے- پھر تجویز یہ ٹھہری کہ نہایا جائے- شہزادہ عثمان نے اس تجویز کی مخالفت کی اور اپنے دوستوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ حمام سے بہتر نہانے کی کوئی اور جگہ نہیں ہوتی کیونکہ وہاں ڈوبنے کا کوئی خطرہ بھی نہیں ہوتا ہے- خدانخواستہ وہاں پر پاؤں بھی پھسل جائے تو انسان کہیں جاتا نہیں ہے، وہیں فرش پر پڑا رہتا ہے، مگر دریا میں پاؤں پھسل جائے تو پھر انسان اس کی تہہ میں ہی جا کر رکتا ہے- مگر شہزادہ عثمان کی باتوں کو اس کے دوستوں نے ہنسی میں اڑا دیا اور پھر وہ سب کے سب دریا میں کود گئے- شہزادہ عثمان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ کنارے پر بیٹھ کر انھیں تکتا رہے-تھوڑی دیر بعد اس کے دوست تیرتے ہوۓ دور نکل گئے اور شہزادہ عثمان وہاں پر تنہا رہ گیا- اس کی سوچ کا دھارا یکایک اپنے محل کی طرف مڑ گیا- اسے اپنے باپ کی باتیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگیں- اس نے جب ان باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کیا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ غلطی پر تھا- ماں باپ اپنے بچوں کی پرورش اس لیے کرتے ہیں کہ جب وہ بوڑھے ہو جائیں تو ان کی اولاد ان کا سہارا بنے- شہزادہ عثمان کو خود سے شرم آنے لگی- وہ بائیس سال کا ہوچکا تھا- اگر وہ چاہتا تو حکومت کے انتظامی معاملات میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹا سکتا تھا- اس کے باپ نے صحیح معنوں میں اپنی رعایا کی خدمت کی تھی- رعایا کی بھلائی اور بہتری کی خاطر نہ اس نے دن دیکھا تھا نہ رات، مسلسل کام کی زیادتی یقیناً صحت پر برا اثر ڈالتی ہے- اس کا باپ وقت سے پہلے ہی بوڑھا ہونے لگا تھا- شہزادہ عثمان نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اب یہاں سے سیدھا گھر جائے گا- سب سے پہلے اپنے باپ سے اپنے گزشتہ رویے اور لا پرواہیوں کی معافی مانگے گا اور پھر دل و جان سے حکومت کے کاموں میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹائے گا- ابھی وہ اپنی انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک اس کی نظر سامنے والی جھاڑیوں پر پڑی- وہ چونک پڑا- جھاڑیوں میں سے ایک خرگوش نکلا تھا- وہ جسامت میں تو عام خرگوشوں ہی جتنا تھا مگر اس کے جسم پر سات رنگ کی دھاریاں پڑی تھیں اور گھپے دار دم بے حد خوبصورت تھی- اس خرگوش کی آنکھیں سبز تھیں اور وہ بے حد خوبصورت دکھائی دے رہا تھا-شہزادہ عثمان کی نظروں میں اس کی چھوٹی بہن شہزادی ثریا کا چہرہ گھوم گیا- اسے احساس تھا کی وہ اس سے بے حد ناراض ہوگی کیونکہ وہ اسے اپنے ساتھ جنگل نہیں لایا تھا- شہزادہ عثمان نے سوچا کہ اگر وہ اس عجیب و غریب خرگوش کو پکڑ کر محل لے جائے اور اسے ثریا کو دے دے تو اس کی ناراضگی ختم ہو سکتی ہے- یہ سوچ کر وہ اٹھا اور بڑی احتیاط سے خرگوش کی طرف بڑھنے لگا- خرگوش نے اسے اپنی طرف آتے دیکھ لیا تھا- اس لیے وہ شہزادہ عثمان کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی بھاگ گیا اور کچھ دور جا کر پھر رک گیا- شہزادہ عثمان چاہتا تو تیر کی مدد سے اسے زخمی کر کے بھی پکڑ سکتا تھا- مگر وہ اتنے خوبصورت خرگوش کو صیحح سلامت ہی پکڑنا چاہتا تھا-وہ خرگوش بے حد چالاک تھا- جب وہ یہ دیکھتا کہ شہزادہ اس کے قریب آن پہنچا ہے تو زقند بھر کر اپنے اور شہزادہ عثمان کے درمیان پھر فاصلہ پیدا کرلیتا- آخر یہ بھاگ دوڑ کافی دیر تک جاری رہی- خرگوش تو ہاتھ آیا نہیں مگر شام ضرور سر پر آگئی- اس عجیب و غریب خرگوش کے پیچھے بھاگتے ہوۓ شہزادہ عثمان کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا تھا- اب جو اس نے دیکھا کہ رات ہونے والی ہے تو وہ بے حد گھبرایا- خرگوش کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ کافی دور نکل آیا تھا اور چونکہ اس کا دھیان خرگوش پکڑنے میں ہی لگا ہوا تھا، اسلئے وہ راستے کا بھی خیال نہیں رکھ سکا تھا- وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہونے لگا کہ اب وہ محل کس طرح پہنچے گا- اس کی گمشدگی سے اس کے دوست یقیناً گھبرا گئے ہونگے- غرض کہ یہ ہی کچھ سوچتے سوچتے وہ آگے بڑھا- رنگین دھاریدار خرگوش جانے کہاں جھاڑیوں میں روپوش ہوگیا تھا اور شہزادہ عثمان اس گھڑی کو کوس رہا تھا جب اس کی نظر اس منحوس خرگوش پر پڑی تھی اور اسے پکڑنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی تھی-بھاگ دوڑ کرنے کی وجہ سے اب اسے بھوک کا بھی احساس ہونے لگا تھا- وہ بے بسی سے اپنے چاروں طرف دیکھنے لگا- اور پھر اچانک ہی اس کی نظریں ایک جگہ پر ٹہر گئیں- درختوں کے جھنڈ میں اسے ایک نہایت عالیشان محل کی جھلک نظر آئ تھی- وہ محل کی طرف جانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اچانک ایک درخت کے پیچھے سے وہ ہی دھاری دار خرگوش برامد ہوا اور شہزادہ عثمان کے پاس آکر بولا- ""جناب شہزادے صاحب میری مالکن حسن آرا آپ کو یاد فرما رہی ہیں-""شہزادہ عثمان خرگوش کو دیکھتے ہی آگ بگولا ہوگیا تھا مگر اسے انسانوں کی طرح گفتگو کرتا دیکھ کر اس کا غصّہ حیرت میں تبدیل ہوگیا- اس نے حیرانی سے پوچھا- ""میں تو تمہیں ایک بدمعاش خرگوش سمجھ رہا تھا کیونکہ تم ہی مجھے اس مصبیت میں پھنسانے کے ذمہ دار ہو مگر اب تمہیں انسانوں کی طرح بولتا دیکھ کر بے حد حیران ہوں- یہ کیا ماجرا ہے، میں تمہیں کیا سمجھوں؟""""آپ مجھے کچھ بھی سمجھیں میری صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا- میں اپنی بات پھر دوہراتا ہوں کہ آپ کو حسن آرا یاد فرما رہی ہیں- میرے پیچھے پیچھے چلے آئیے-""شہزادہ سمجھ گیا کہ یہ سب جادو کا چکّر ہے- یہ خرگوش ضرور کوئی انسان ہے اور کسی جادوگر نے اسے خرگوش بنا دیا ہے اور حسن آرا یقیناً کوئی حسین سی شہزادی ہوگی جو جادوگر کی قید میں ہوگی- اس نے کسی سے سن رکھا تھا کہ جادوگر انسانوں کے سر میں جادو کی کیل گاڑ کر انھیں جانور اور پرندے بنا دیتے ہیں- اس نے آگے بڑھ کر جھپٹ کر خرگوش کو پکڑ لیا اور اس کے سر کو ٹٹول کر جادو کی کیل ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا- خرگوش پہلے تو شہزادہ عثمان کی اس حرکت پر سٹپٹایا پھر برا مان کر بولا- ""آپ ہزار کوشش کرلیں میرے سر میں آپ کو ایک جوں بھی نہیں ملے گی""- اس کی بات سن کر شہزادہ عثمان جھلا گیا- غصے میں بھر کر بولا- ""تم سخت نامعقول خرگوش ہو-""پھر اس نے خرگوش کو چھوڑ دیا اور بڑبڑاتے ہوۓ اس کے پیچھے چل دیا- محل کے نزدیک پہنچا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں- محل بہت خوبصورت تھا- اس کی دیواروں سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں- وہ دونوں جیسے ہی صدر دوازے سے گزرے، شہزادہ عثمان پر پھولوں کی بارش ہونے لگی- شہزادہ عثمان بے حد حیران تھا- تھوڑی دیر بعد خرگوش اسے ایک کمرے میں لے آیا- کمرہ قیمتی سامان سے آراستہ تھا اور وہاں پر ایک بہت ہی موٹی اور بد صورت عورت بیٹھی ہوئی تھی- شہزادہ عثمان کو دیکھ کر وہ خوشی سے کِھل اْٹھی-""آؤ شہزادے عثمان- خوش آمدید-"" اس موٹی اور بد صورت عورت نے کہا-""ارے تم تو میرا نام بھی جانتی ہو شہزادی حسن آرا کی خادمہ-"" شہزادہ عثمان نے حیرت سے کہا- اس کی بات سن کر وہ عورت ناگواری سے بولی- ""کیسی شہزادی اور کہاں کی خادمہ- حسن آرا تو میرا ہی نام ہے- میں نے ہی یہ عجیب و غریب خرگوش تمہارے پاس بھیجا تھا تاکہ تم اس کے پیچھے پیچھے میرے محل تک آجاؤ-""شہزادہ عثمان شرمسار سا ہو کر بولا- ""معاف کرنا خالہ مجھے غلط فہمی ہو گئی تھی-""حسن آرا بھنا کر بولی- ""یہ تم نے خالہ والا کی کیا رٹ لگا رکھی ہے- میں نے تمہیں اس لیے یہاں بلایا ہے تاکہ تم سے شادی کر سکوں-""""شادی؟"" شہزادہ عثمان نے چلّا کر کہا- "" بھلا تم نے یہ کیسے سمجھ لیا تھا کہ میں تم جیسی منحوس شکل کی جادوگرنی سے شادی کرنے پر راضی ہو جاؤں گا؟""""تمہارا تو باپ بھی راضی ہوگا-"" موٹی اور بدصورت جادوگرنی حسن آرا غصے سے دھاڑ کر بولی- اس کی آنکھیں شعلے برسانے لگی تھیں- کیونکہ شہزادہ عثمان کی باتوں نے اسے سخت ناراض کر دیا تھا-""ہاں یہ ٹھیک ہے، ابّا حضور شائد راضی ہو جائیں جا کر انھیں یہاں بھیج دیتا ہوں-"" شہزادہ عثمان نے بڑے اطمینان سے کہا اور دروازے کی طرف بڑھا- جادوگرنی نے جلدی سے کوئی جادو پڑھ کر اس کی طرف پھونک ماری اور شہزادہ عثمان آدھا پتھر کا بن گیا-حسن آرا جادوگرنی قہقہہ لگا کر بولی- ""تم اس وقت تک پتھر کے بنے رہو گے جب تک مجھ سے شادی پر رضامند نہ ہو جاؤ- میں نے اپنی بڑی بہن سے کہا تھا کہ میں دنیا کے سب سے زیادہ خوبصورت شہزادے سے شادی کر کے دکھاؤں گی، میری بہن شکل و صورت میں میں مجھ سے کچھ بہتر ہے اور وہ ہر وقت میرا مذاق اڑاتی رہتی ہے- میں تم سے شادی کرکے اسے نیچا دکھانے کی کوشش کروں گی- میں نے بڑی مشکلوں سے تمہارا پتہ لگایا تھا مگر اب تم ہی کہتے ہو کہ تم مجھ سے شادی نہیں کرسکتے-""شہزادہ عثمان نفرت بھرے لہجے میں بولا- ""دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے مگر میں اپنی بات پر اڑا رہونگا-""""میں بھی دیکھوں گی کہ تم میں یہ دم خم کب تک باقی رہے گا- دو ہی دن بعد تم میرے سامنے گڑگڑانے لگو گے-"" حسن آرا جادوگرنی ہنس کر بولی اور کمرے سے چلی گئی-خرگوش ابھی تک کمرے میں موجود تھا- اسے دیکھ کر شہزادہ عثمان نے غصے سے کہا- ""تم سے بڑا گدھا آج تک میری نظروں سے نہیں گزرا ہے- تم نے ہی مجھے اس مصیبت میں پھنسایا ہے-""خرگوش کی آنکھوں میں آنسو آگئے- اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا- ""شہزادہ عثمان تم نے مجھے گدھا کہہ کر مجھے میرا ماضی یاد دلا دیا ہے-""""اچھا تو کیا تم پہلے گدھے تھے؟"" شہزادہ عثمان نے حیرت سے پلکیں جھپکا کر کہا-""خیر یہ بات تو نہیں ہے، سچ مچ کا گدھا تو الله کسی دشمن کو بھی نہ بنا ے- بات دراصل یہ ہے کہ آج سے دو ماہ پہلے میں ایک لڑکا ہی تھا- میری ماں کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا- میرے ابّا کی شہر میں دوائیوں کی دوکان تھی- روزانہ سینکڑوں مریض ان کے پاس دوائی لینے کی غرض سے آتے تھے- میں اپنے ابّا کا ہاتھ بٹانے کے لیے دکان پر ہی بیٹھتا تھا- میں نسخہ دیکھ کر دوائیاں بنانا بھی سیکھ گیا تھا- ایک روز میرے ہاتھوں سے ایک شیشے کا مرتبان جس میں غالباً سیب کا مربہ تھا، چھوٹ کر زمین پر گر پڑا اور ٹوٹ گیا- والد صاحب قریب ہی بیٹھے تھے- پہلے تو مجھے خشمگیں نظروں سے دیکھا اور پھر نہایت سخت لہجے میں بولے- ""گدھا کہیں کا-""گدھے کے بارے میں میری رائے شروع ہی سے اچھی نہیں ہے- لہٰذا ابّا جان کے منہ سے اپنے لیے گدھے کا لفظ سن کر میرا دل غم سے اور آنکھیں آنسووں سے بھر گئیں- میں اسی وقت دکان سےاٹھا اور سسکیاں بھرتے ہوۓ ایک طرف کو چل دیا- چلتے چلتے اس جنگل میں پہنچ گیا- بھوک کے مارے میرا دم نکلا جا رہا تھا- قریب تھا کہ میں چکرا کر گر پڑتا کہ میری نظر اس محل پر پڑی- میرے بے جان قدموں میں جانے کہاں سے اتنی طاقت آ گئی کہ میں اس محل کی طرف تیزی سے بھاگنے لگا- وہیں میری ملاقات اس جادوگرنی سے ہوگئی- قصہ مختصر یہ کہ مجھے حسن آرا جادوگرنی نے کھانا دیا- مگر یہ بہت مکّار عورت ہے- کھانے کے بعد اس نے مجھے سلا دیا- صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں خرگوش بنا بستر پر انگڑائیاں لے رہا تھا- وہ دن اور آج کا دن میں اب اسی جادوگرنی کے پاس رہ رہا ہوں- میں ہر وقت اس کی خدمت میں لگا رہتا ہوں تاکہ وہ خوش ہو کر مجھے پھر سے لڑکا بنا دے-""اپنی کہانی سنا کر خرگوش خاموش ہوگیا- شہزادہ عثمان کچھ سوچنے لگا- پھر اس نے کہا- ""اب کوئی ایسی تجویز نکالو کہ اس جادوگرنی کے چنگل سے نجات ملے-""""میں تو اس حرافہ پر بہت سارے حربے آزما چکا ہوں- چونکہ مجھے تمام جڑی بوٹیوں سے واقفیت ہے، میں نے جنگل سے زہریلی سے زہریلی جڑی بوٹیاں مختلف کھانوں میں ملا کر اسے کھلا دی ہیں مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا-""""یہ تو خیر میں نے بھی بچپن میں کہانیوں میں سنا تھا کہ جادوگر اور جادوگرنیاں اپنی جان کسی چیز میں بند کر کے رکھتی ہیں، تاکہ انھیں کوئی مار نہ سکے- تم ہی اس کا پتہ چلاؤ کہ اس کی جان کس چیز میں بند ہے-"" شہزادہ عثمان خرگوش سے بولا-""میں نے تو بہت کوشش کر ڈالی ہیں مگر سواے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں لگا-"" خرگوش نے بڑی اداسی سے کہا- شہزادہ عثمان کا چہرہ بجھ سا گیا- ""تو کیا پھر ہم ساری زندگی اس منحوس جادوگرنی کے پاس گزار دیں گے؟"" اس نے کہا-""میں تو خود تمھاری طرح بے بس ہوں-"" خرگوش نے بے چارگی سے جواب دیا-""میرے اچانک غائب ہوجانے سے محل میں کہرام مچ گیا ہوگا- میری امی حضور اور ابّا حضور کو کیا پتہ کہ میں یہاں کس مصیبت میں گرفتار ہوں- ابّا حضور تو خیر یہ ہی سمجھ رہے ہوں گے کہ میں کہیں گھومنے پھرنے نکل گیا ہوں اس لیے وہ پریشان کم اور ناراض زیادہ ہو رہے ہونگے مگر میری امی حضور کا دل بہت چھوٹا ہے- انھیں تو ہول پر ہول آ رہے ہوں گے- اور میری چھوٹی بہن ثریا نے تو رو رو کر آنکھیں سجا لی ہونگی- حالانکہ وہ مجھ سے روٹھ گئی تھی مگر میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے کس قدر محبّت کرتی ہے-""""میں تمھاری اتنی مدد تو کرسکتا ہوں کہ محل جا کر اس حادثے کی خبر تمھارے گھر والوں کو دے دوں-"" خرگوش جو کہ اصل میں ایک لڑکا تھا اور جس کا نام فرید تھا، شہزادہ عثمان سے بولا-شہزادہ عثمان کے چہرے پر سوچ کی لکیریں ابھر آئیں- اس نے تھوڑی دیر بعد کہا- ""نہیں بھئی یہ مناسب نہیں ہوگا کہ میری اس مصیبت کا حال میری امی حضور اور ابّا حضور کو پتہ چلے- تم اتنی مہربانی کرو کہ یہ سب واقعات میری بہن ثریا کو بتا دو- اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ وہ میرے دوست احسن کے پاس جائے اور اسے میری مدد کے لیے آمادہ کرے-""فرید نے اپنا ننھا منا سر ہلا کر اس بات پر رضامندی کا اظہار کر دیا- تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ان کے کانوں میں جادوگرنی کے قدموں کی چاپ سنائ دی- خرگوش فرید بھاگ کر مسہری کے نیچے گھس کر سوتا بن گیا تاکہ حسن آرا جادوگرنی ان پر شک نہ کر سکے کہ وہ اس کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں-حسن آرا جادوگرنی کمرے میں داخل ہوئی، اس نے کمرے میں ادھر ادھر نظر دوڑائی- خرگوش فرید کی تھوڑی سی دم نظر آ رہی تھی- جادوگرنی نے اس کی دم پکڑ کر اسے باہر گھسیٹ لیا اور اس سے بولی- ""بس- تم نے بہت عیش کر لیے- میری بڑی بہن جو کہ پرستان میں رہائش پذیر ہے- کل اس کے چھوٹے بچے کی سالگرہ منائی جا رہی ہے- میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم جیسا عجیب و غریب خرگوش اپنے بھانجے کو تحفے میں دوں- میری بہن کی خادمہ مجھے سالگرہ کی دعوت دینے آئ ہے""-یہ کہہ کر حسن آرا جادوگرنی نے فرید کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور کمرے سے باہر نکل گئی- فرید کے یوں یکا یک جانے سے شہزادہ عثمان پریشان ہو گیا- اب ساری زندگی کسی کو پتا نہیں چل سکتا تھا کہ وہ کہاں ہے-(اس کہانی کا بقیہ حصہ دوسری قسط میں پڑھیے) ____________ " جنگل والا جن - تحریر نمبر 1561,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jangal-wala-jin-1561.html," " بڑا بیوقوف کون؟آخری قسط - تحریر نمبر 1560,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bara-bewaqoof-kon-akhri-qist-1560.html," " ہاتھی کی سائیکل - تحریر نمبر 1559,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hathi-ki-cycle-1559.html," " مقدس پیشہ - تحریر نمبر 1557,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/muqaddas-pesha-1557.html,"ریاض صاحب اپنی والدہ اور بیوی کے ساتھ مری میں رہتے تھے- ان کے تین بیٹے تھے جو پڑھ لکھ کر پہلے تو اسلام آباد میں کاروبار کرنے لگے تھے اور مختلف سیکٹروں میں گھر بنا کر وہاں رہائش پذیر ہوگئے تھے - مگر پھر بعد میں وہ لوگ ملک سے باہر چلے گئے اور وہاں نوکریاں کرنے لگے-ان کے جانے کے بعد تینوں گھر خالی پڑے تھے- ریاض صاحب نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ ان گھروں کو فروخت کردیا جائے- انھیں پتہ تھا کہ چند سالوں کے بعد ان کے بیٹوں کو آنا پاکستان ہی تھا- اپنے وطن کی محبّت انسان کو واپسی پر مجبور کر دیتی ہے- کبھی جلدی اور کبھی دیر میں-انہوں نے وہ تینوں گھر کرائے پر دے دیے- ان کا کرایہ وصول کرنے کے لیے وہ ہر ماہ کی دس تاریخ کو اسلام آباد کا چکر لگاتے تھے- کبھی کبھار ان کے ساتھ ان کی بیوی بھی ہوتی تھی- بیوی کو ساتھ لانے کا مقصد اسے گھمانا پھرانا اور ضروری چیزوں کی خریداری ہوتا تھا- لیکن عام طور پر وہ اکیلے ہی آتے تھے-ان تین گھروں میں سے ایک گھر انہوں نے یعقوب صاحب کو بھی دے رکھا تھا- یعقوب صاحب کسی کورئیر کمپنی میں کام کرتے تھے اور اپنی بیوی اور عمر نامی بیٹے کے ساتھ اس گھر میں رہتے تھے- ریاض صاحب کو یہ لوگ اچھی عادتوں اور خوش اخلاقی کی وجہ سے بہت پسند تھے - ان کی یعقوب صاحب سے کافی دوستی ہوگئی تھی-جب یہ دوستی کچھ پرانی ہوئی تو ریاض صاحب کو پتہ چلا کہ یعقوب صاحب کا بیٹا عمر میڈیکل کا طالب علم ہے اور اس کا پہلا سال شروع ہو چکا ہے- عمر ایک ذہین طالب علم تھا- وہ بہت دل لگا کر پڑھتا تھا اور اس کے دل میں سچی لگن تھی کہ وہ ایک ڈاکٹر بن کر ملک و قوم کی خدمت کرے-یعقوب صاحب کی تنخواہ بہت تھوڑی تھی اور گھر کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہوتے تھے- میڈیکل کی تعلیم معمولی نہیں ہوتی- اس کی چار ساڑھے چار سال کی پڑھائی میں تقریباً دس لاکھ روپے تو لگ ہی جاتے ہیں- ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عمر کے پہلے سمسٹر کی فیس بھرنے کے لیے یعقوب صاحب کو بیوی کے زیورات تک بیچنا پڑ گئے تھے-اپنے تعلیمی اخراجات سے نمٹنے کے لیے اور باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے عمر نے شام کو کسی جگہ ایک پارٹ ٹائم جاب کرلی- وہاں سے جو پیسے ملا کرتے تھے ان میں کچھ اور پیسے باپ سے لے کر اس نے دوسرے سمسٹر کی فیس ادا کی-ریاض صاحب کو جب یہ بات پتہ چلی کہ اتنی مشکل پڑھائی کے ساتھ ساتھ عمر نے جز وقتی ملازمت بھی شروع کردی ہے تو انھیں بہت افسوس ہوا- انھیں اس بات کا احساس تھا کہ اس پارٹ ٹائم جاب کی وجہ سے اس کی توجہ پڑھائی کی طرف سے کم ہوجائے گی-انسان کی زندگی میں اچھا برا وقت آتا جاتا رہتا ہے- با ہمت لوگ برے وقت کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہیں اور اچھے وقت میں لوگوں کی مدد کرکے ان کو بھی برے وقت سے نکلنے میں مدد دیتے ہیں- دنیا میں سکون، محبّت اور بھائی چارہ ایسے ہی لوگوں کے دم قدم سے ہے- آج ریاض صاحب پیسے والے تھے تو یہ پیسہ انہوں نے بہت جدو جہد اور مشکلات کے بعد کمایا تھا- جب وہ طالب علم تھے تو ان کے حالات بھی بہت بدتر تھے- وہ اپنا برا وقت اب تک نہیں بھولے تھے-ایک روز انہوں نے یعقوب صاحب سے کہا- ""یعقوب بھائی- مجھے احساس ہے کہ عمر کی پڑھائی کی وجہ سے آپ پر مالی دباؤ بہت بڑھ گیا ہے- میں نے سوچا ہے کہ جب تک اسے ڈاکٹر کی ڈگری نہیں مل جاتی میں آپ سے اس گھر کا کرایہ نہیں لوں گا- اس کرائے کو آپ میرے حساب میں جمع کرتے رہیے گا- پڑھنے لکھنے والے بچے حساس ہوتے ہیں- انھیں اپنے ماں باپ کی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے- ماں باپ کی یہ مشکلات انھیں ذہنی طور پر بہت پریشان کرتی ہیں جس سے ان کی پڑھائی کا حرج بھی ہونے لگتا ہے- انشا الله جب وہ کامیاب ہو جائے گا اور کمانے لگے گا تو مجھے یہ رقم لوٹا دیجیے گا-""یعقوب صاحب نے پہلے تو منع کیا مگر جب ریاض صاحب نے ان کے انکار کا برا مانا اور سختی سے اپنی بات دوہرائی تو تو وہ مان گئے- حقیقت میں ان کی پیشکش سے ان کے لیے بہت آسانی ہوجاتی- عمر بھی شام کی نوکری چھوڑ کر پوری توجہ اپنی پڑھائی پر دینے لگتا-ریاض صاحب کے اس احسان کی وجہ سے عمر کے دل میں ان کی عزت مزید بڑھ گئی تھی- پیسوں کا مسلہ حل ہوا تو عمر یکسوئی سے اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوگیا- اس کی محنت رنگ لائی اور وہ کامیاب ہوگیا- اسے ڈاکٹری کی ڈگری مل چکی تھی اور اب ایک مستند ڈاکٹر بننے کے لیے اسے ایک سال تک ہاؤس جاب کرنا تھی- یہ ایک سال بھی پلک جھپکتے گزر گیا-اس نے اپنا ایک چھوٹا سا کلینک کھول لیا تھا جو تھوڑے ہی عرصے میں خوب چل نکلا- چند سال بعد اس نے شہر کے ایک بارونق حصے میں ایک عمارت کرائے پر لے کر اس میں بڑا سا کلینک کھول لیا جس میں ایمبولنس کی سہولت بھی میسر تھی- ایک اچھے اور نیک ڈاکٹر کی تمام خصوصیات اس میں موجود تھیں- وہ خوش اخلاق تھا، اس کی طبیعت میں ذرا سا بھی لالچ نہیں تھا، وہ مریضوں سے انتہائی شفقت سے پیش آتا تھا اور اس کے محبّت بھرے رویے کی وجہ سے اس کے مریضوں کا آدھا مرض تو اسی وقت رفو چکر ہوجاتا تھا جب وہ ان کا معائینہ شروع کرتا- وہ کمیشن کے لالچ میں مریضوں کو خواہ مخواہ کی دوائیاں بھی لکھ کر نہیں دیتا تھا- ان ہی وجوہات کی بنا پر لوگ اسے بہت پسند کرتے تھے-اس کی فیس انتہائی مناسب تھی جس کی وجہ سے مریضوں کا ہر وقت تانتا بندھا رہتا تھا- اپنا کلینک کھولنے کے کچھ عرصے بعد اس نے ریاض صاحب کا کرایہ جو تقریباً چھ لاکھ روپے ہوگیا تھا، اپنے ابا اور امی کے ساتھ مری جا کر ان کے حوالے کیا- وہ اپنے ڈاکٹر بننے کی خوشی میں مٹھائی بھی ساتھ لے گیا تھا- یہ خبر سن کر کہ وہ ڈاکٹر بن گیا ہے ریاض صاحب ، ان کی ماں اور بیوی سب بہت خوش ہوۓ-ان کے گھر سے واپسی پر عمر نے ایک مرتبہ پھر ریاض صاحب کا شکریہ ادا کیا اور کہا- ""اگر آپ ہمارے ساتھ وہ نیکی نہ کرتے تو بہت مشکل ہوجاتی- میں کبھی بھی ڈاکٹر نہیں بن سکتا تھا- حالات ہی کچھ اس قسم کے ہوگئے تھے- آپ کا یہ احسان ہم کبھی فراموش نہیں کریں گے-""""میں نے کوئی احسان نہیں کیا تھا- یہ تو ہمارے اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے حسن سلوک کریں- ایک دوسرے کی مدد کریں- تم تو مسیحا ہو، بیمار لوگوں کا علاج کرتے ہو- الله کے بندوں کو الله کے حکم سے تمہارے وسیلے سے آرام پہنچتا ہے- یہ تو بہت ثواب کا کام ہے- بس میری تو یہ ہی دعا ہے تمھارے اس نیک کام سے خوش ہو کر الله مجھ پر اور میرے گھر والوں پر بھی مزید رحم و کرم فرمائے-"" ریاض صاحب نے بڑے خلوص سے کہا- اس کے بعد وہ لوگ واپس چلے آئے-سردیاں شروع ہوۓ کافی دن ہوگئے تھے اور اب یہ اپنے شباب پر تھیں- اسلام آباد میں ہلکی بارش کئی روز سے جاری تھی اور مری میں برفباری شروع ہوگئی تھی- ایسے میں رات نو بجے ریاض صاحب کی کال عمر کے موبائل پر آئی- اس نے کال رسیو کی-دوسری طرف سے ریاض صاحب کی گھبرائی ہوئی آواز آئی- ""بیٹا عمر- ماں جی کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ہے- انھیں چند دنوں سے بخار تھا اور اب یہ بخار بہت شدت اختیار کرگیا ہے- ان کی کھانسی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور انھیں سانس لینے میں انتہائی دشواری ہو رہی ہے- شائد زیادہ ٹھنڈ کی وجہ سے انھیں نمونہ ہوگیا ہے- ان کے سینے میں شام کو درد اٹھا تھا اور اس وقت وہ نیم بیہوشی کی حالت میں ہیں- ان کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی- مری میں اس وقت کوئی ڈاکٹر نہیں ہے- سردیاں شروع ہوتے ہی یہاں رہنے والے اکثر لوگ اپنے اپنے آبائی گاؤں اور شہروں کو روانہ ہوجاتے ہیں- پوری مری میں سناٹا ہے- امی کی کیفیت میں نے تمہیں بتا دی ہے- تم دوائیاں تجویز کردو- ہوسکتا ہے کوئی میڈیکل اسٹور کھلا ہو جہاں سے وہ دوائیاں مل جائیں-""عمر نے ان کی ماں کی علالت پر تشویش کا اظہار کیا اور بیماری کے متعلق مزید تفصیلات معلوم کیں- پھر ان سے کہا کہ وہ انھیں تھوڑی دیر بعد کال کرے گا-ادھر ریاض صاحب بے چینی سے عمر کی کال کا انتظار کررہے تھے- اس سے بات کیے ہوۓ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا تھا مگر اس کا فون اب تک نہیں آیا تھا- اتنا وقت گزر جانے کے بعد ان کے دل میں خیال آیا کہ رات زیادہ ہوگئی ہے.شائد عمر سوگیا ہوگا اور صبح فون کرے گا-ان کی ماں کی حالت دم بہ دم خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی تھی- ریاض صاحب اور ان کی بیوی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں- ریاض صاحب نے باہر نکل کر بھی دیکھ لیا تھا مگر تمام میڈیکل اسٹور بند پڑے تھے-اچانک ان کے موبائل کی بیل بجی- یہ عمر کا فون تھا- موبائل کے اسکرین پر اس کا نام دیکھ کر ان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں- انہوں نے جلدی سے کال رسیو کی- ان کے کانوں میں عمر کی آواز آئ- ""ریاض انکل- دروازہ کھولیے- میں باہر کھڑا ہوں-""ریاض صاحب کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا- وہ جلدی سے دروازے کی جانب بھاگے- دروازے پر عمر کھڑا تھا- گھر کے سامنے اس کی گاڑی نظر آ رہی تھی اور گاڑی کے پیچھے اس کے کلینک کی ایمبولینس تھی- یہ سارے انتظامات دیکھ کر ریاض صاحب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں-""اتنے خراب موسم میں بیٹا تم نے بہت تکلیف کی-"" ان کے منہ سے نکلا-""جو کیفیت آپ نے بتائی تھی اس سے مجھے اندازہ ہوا تھا کہ آپ کی والدہ کی حالت ٹھیک نہیں ہے- انھیں مناسب علاج کی ضرورت ہے- ویسے بھی انھیں اتنی ٹھنڈ میں یہاں رکھنا مناسب نہ ہوگا- آپ کا فون ملتے ہی میں نے سارے انتظامات کرلیے تھے اور فوراً ہی نکل کھڑا ہوا تھا- اب جب تک موسم ٹھیک نہیں ہوجاتا انہیں اسلام آباد میں ہی رکھنا ہو گا-""حیرت کے مارے ریاض صاحب سے کچھ بولا بھی نہیں جا رہا تھا- وہ اس بات پر حیران تھے کہ خراب موسم اور برفباری کے باوجود عمر اتنی رات کو ان کی والدہ کی بیماری کا سن کر وہاں آگیا تھا- بہرحال انہوں نے ماں کو جلدی جلدی گرم کمبل میں لپیٹ کر ایمبولینس میں لٹایا، گھر کو تالا لگایا اور بیوی کو ساتھ لے کر عمر کے ساتھ روانہ ہوگئے-بہترین علاج اور مناسب دیکھ بھال کی وجہ سے ریاض صاحب کی والدہ جلد ہی صحت یاب ہوگئی تھیں- ان سب کا قیام یعقوب صاحب کے گھر پر ہی تھا- ایک روز ریاض صاحب نے عمر سے کہا- ""عمر بیٹا- میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا-""""انکل- ایسا نہ کہیے-"" عمر نے نہایت ادب سے کہا- ""اگر آپ کی جگہ کوئی دوسرا شخص بھی مجھے فون کرکے کسی مریض کے بارے میں بتاتا تو تب بھی میں ایسا ہی کرتا- ڈاکٹر کا پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے- چاہے کتنی بھی دشواریاں ہوں، ایک ڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ بیمار لوگوں کا علاج کرنے کے لیے ان تک پہنچے چاہے حالات کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں- اس میں احسان کی کوئی بات نہیں- یہ تو ہر ڈاکٹر کا فرض ہوتا ہے-""یعقوب صاحب نے بھی عمر کی یہ بات سن لی تھی- انہوں نے فخریہ انداز میں قریب بیٹھی ہوئی اپنی بیوی کو دیکھا- وہ بھی عمر کی بات سن کر خوشی سے مسکرا رہی تھیں- وہ دونوں دل ہی دل میں اس بات پر الله تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے کہ اس نے انھیں اتنا فرض شناس بیٹا عنایت فرمایا ہے- احب نے بھی عمر کی یہ بات سن لی تھی- انہوں نے فخریہ انداز میں قریب بیٹھی ہوئی اپنی بیوی کو دیکھا- وہ بھی عمر کی بات سن کر خوشی سے مسکرا رہی تھیں- وہ دونوں دل ہی دل میں اس بات پر الله تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے کہ اس نے انھیں اتنا فرض شناس بیٹا عنایت فرمایا ہے- " بڑا بیوقوف کون؟ - تحریر نمبر 1555,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bara-bewaqoof-kon-1555.html," " شرارت کی سزا - تحریر نمبر 1554,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shararat-ki-saza-1554.html," " باجرے کی میٹھی ٹکیہ - تحریر نمبر 1550,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bajre-ki-meethi-tikya-1550.html,"بعض مسافر دوسرے ملکوں سے آتے ہوۓ بہت زیادہ سامان اپنے ساتھ لے آتے تھے- اس سامان میں زیادہ تر سونے کے زیورات، الیکٹرانکس کا سامان اور قیمتی کپڑے ہوتے تھے- اسلم اس زیادہ سامان کے حساب سے انھیں کسٹم ڈیوٹی کے تحت چالان بنا کر دے دیتا- بہت سے مسافر یہ چاہتے کہ کچھ رقم بطور رشوت دے کر اپنا سامان کلیر کروا لیں تاکہ انھیں زیادہ پیسے نہ دینے پڑیں مگر اسلم ایک ایماندار افسر تھا- اس کا دل تو چاہتا تھا کہ ایسے مسافروں کو جھڑک دے مگر وہ اخلاق کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتا تھا- وہ انھیں نرمی سے سمجھا دیتا تھا کہ رشوت لینا بھی حرام ہے اور دینا بھی حرام- اس لیے وہ سیدھی طرح سے کسٹم ڈیوٹی ادا کردیں تاکہ وہ قومی خزانے میں جمع ہو-ایک روز وہ سعودی عرب سے آئے ہوئے ایک مسافر کا سامان چیک کر رہا تھا کہ سامان میں موجود ایک چیز دیکھ کر وہ چونک پڑا- اس نے اس سامان والے شخص کو دیکھا- وہ اٹھائیس تیس سال کا تھا اور شکل و صورت سے کوئی مزدور لگتا تھا – اس کے سامان پر لگی چٹوں پر اس کا نام مالک شاہ درج تھا- وہ سعودی عرب سے پاکستان آیا تھا- اس کے ساتھ زیادہ سامان نہیں تھا بس یہ ہی دو سوٹ کیس اور ایک چھوٹا سا بیگ- سوٹ کیسوں میں ان سلے کپڑوں کے جوڑے، بچوں کے کھلونے جن میں طرح طرح کی گڑیوں کی تعداد زیادہ تھی اور ایسی ہی دوسری چیزیں تھیں- مگر اسلم جس چیز کو دیکھ کر چونکا تھا وہ اس کے بیگ میں رکھی ہوئی ایک گول چاندی کی خوب صورت ڈبیہ تھی جس میں باجرے کی ایک ٹکیہ رکھی ہوتی تھی- وہ ٹکیہ بہت پرانی لگ رہی تھی کیوں کہ اس کا رنگ بھی سیاہی مائل ہوگیا تھا- اس نے اسے چھو کر دیکھا تو وہ پتھر کی طرح سخت تھی-""یہ کیا ہے؟""- اس نے قدرے حیرانی سے پوچھا-""باجرے کی میٹھی ٹکیہ-"" مالک شاہ نے مسکرا کر جواب دیا اور اپنے کھلے ہوۓ سوٹ کیسوں کو بند کرنے لگا جن میں رکھا سامان چیک ہوگیا تھا-""یہ تو کافی پرانی لگتی ہے-"" اسلم نے کہا- ""تم نے اسے اتنی احتیاط سے کیوں رکھا ہوا؟""""یہ میرے لیے دنیا کے بڑے سے بڑے خزانے سے بھی زیادہ قیمتی ہے- میں اسے ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا ہوں- کوئی اگر مجھ سے کہے کہ اس کے بدلے لاکھوں روپے لے لو تو میں تب بھی اسے نہ دوں-"" مالک شاہ نے مسکرا کر کہا-اس کی بات سن کر اسلم الجھن میں پڑ گیا- ایک معمولی سی باجرے کی ٹکیہ اور اتنی قیمتی- اتنی دیر میں مالک شاہ اپنا سامان ٹرالی میں رکھ کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا- اتفاق کی بات تھی کہ اسلم کی چھٹی کا وقت ہوگیا تھا- دوسری شفٹ کا اسٹاف آگیا تھا اور اس نے ڈیوٹی سنبھال لی تھی- اسلم کا تجسس بڑھا ہوا تھا اور وہ باجرے کی ٹکیہ کا راز جانے کے لیے بے چین تھا- اسے حیرت تھی کی آخر اس باجرے کی ٹکیہ میں کیا خاص بات تھی جس نے اسے اس قدر قیمتی بنا دیا تھا- اس نے فیصلہ کرلیا کہ اس بارے میں مالک شاہ سے پوچھے گا- وہ جلدی سے اس کے پیچھے لپکا-اس نے دیکھا مالک شاہ ایئر پورٹ کی عمارت سے باہر کھڑا کسی ٹیکسی کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں دوڑا رہا ہے- وہ اس کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا اور اسے مخاطب کر کے بولا- ""بھائی مالک شاہ- اگر کچھ ٹائم مجھے دے سکو تو میں مشکور ہوں گا- تمہاری باجرے کی ٹکیہ نے تو مجھے الجھن میں مبتلا کردیا ہے- کیا تم میرے ساتھ ایک کپ چائے پینا پسند کرو گے؟""یہ کہہ کر اس نے ایئر پورٹ کے ایک لوڈر ملازم کو مالک شاہ کے سامان کی ٹرالی کی نگرانی کے لیے کہا اور اسے ساتھ لے کر سڑک پار ایک چائے خانے میں آگیا-وہاں بیٹھ کر اس نے دو چائے کا آرڈر دیا اور مالک شاہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولا- ""یہ زحمت دینے کی میں معافی چاہتا ہوں- بس میری یہ الجھن دور کر دو کہ باجرے کی ٹکیہ کا کیا راز ہے-""مالک شاہ کو بھی چائے کی طلب ہو رہی تھی اس لیے وہ چائے کا سن کر خوش ہوگیا تھا- اس نے مسکراتے ہوۓ کہا- ""میں آپ کو ضرور اس راز سے آگاہ کروں گا- ""اتنی دیر میں بیرا چائے لے آیا- مالک شاہ نے چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور بولا- ""تو سنیے- یہ آج سے دس سال پہلے کی بات ہے- میں نور پور گاؤں میں اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہا کرتا تھا- اب بھی میری رہائش وہیں ہے- اس وقت میرے گھر کے حالات ایسے نہ تھے جیسا کہ اب ہیں- خدا بھلا کرے سعودی عرب والوں کا کہ ان کی وجہ سے لاتعداد لوگ ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں- محنت تو بہت ہے مگر پیسے بھی اچھے مل جاتے ہیں- سعودی عرب آنے سے پہلے میں کوڑی کوڑی کو محتاج تھا- میں راج مزدوری کا کام کرتا تھا مگر گاؤں میں مزدوری کا کام بہت کم ملتا تھا اس لیے ہاتھ بھی تنگ تھا- گھر میں کبھی کبھار فاقوں کی بھی نوبت آجاتی تھی- اس وقت میں اس قابل بھی نہیں تھا کہ اپنی بیٹی نایاب کو پڑھا لکھا سکوں- اس وقت وہ چھ سال کی تھی- وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں رہتی تھی اور شدید سردیوں میں بھی اسے گرم کپڑے میسر نہیں تھے- ہمارا مکان بھی خستہ حال ہوگیا تھا کیوں کہ مدتوں سے اس کی مرمت نہیں ہوئی تھی- ان حالات سے میں سخت مایوس اور پریشان تھا- وہ بنیادی ضروریات جو بیوی بچوں کے لیے ضروری ہوتی ہیں میں انھیں نہیں دے سکتا تھا- اس کے باوجود میری بیٹی مجھ سے بہت محبّت کرتی تھی- اتنی سی عمر میں ہی اسے میری مجبوری کا اندازہ ہوگیا تھا اس لیے وہ مجھ سے کوئی فرمائش بھی نہیں کرتی تھی- میں ہر وقت اس بات پر کڑھتا رہتا تھا-حالات سے مایوس ہو کر میں نے باہر جانے کے لیے کوششیں شروع کردیں- میری بیوی ایک نیک صفت عورت ہے- اس نے ہمیشہ میری ہمت بندھائی اور میری غربت کے باوجود اس نے میرا ساتھ دیا- وہ میرے لیے بہت دعائیں بھی کرتی تھی- خوش قسمتی سے باہر بھجوانے والی ایک کمپنی کے ذریعے مجھے سعودی عرب میں ایک تعمیراتی ادارے میں نوکری مل گئی- اب ہمارے دن بدلنے لگے- میں ہر ماہ اچھے خاصے پیسے گھر بھجوانے لگا- میری بیٹی پڑھنے بھی لگی اور گھر میں خوش حالی آگئی- بیوی نے مکان کی مرمت بھی کروا لی تھی- میں سعودی عرب میں نہایت محنت سے کام کرتا تھا تاکہ اپنی کمپنی میں ایک مقام بنا لوں- کمپنی کی طرف سے ہر ملازم کو سال میں ایک ماہ کی چھٹی ملا کرتی تھی مگر میں نے دو سال تک پاکستان کا رخ نہیں کیا- ان چھٹیوں کے بدلے جو پیسے ملتے تھے میں وہ لے لیا کرتا تھا اور انھیں بھی گھر بھیج دیتا تھا- تیسرے سال مجھے بیوی اور بچی کی بہت یاد آئ اور میں ایک مہینے کی چھٹی پر یہاں چلا آیا-میں ان کے لیے بہت سی چیزیں اپنے ساتھ لے کر گے تھا- مجھے دیکھ کر دونوں بہت خوش ہوۓ- میری بیٹی نایاب تو یہ چاہتی تھی کہ اب میں واپس نہ جاؤں مگر بیوی نے اسے سمجھادیا- بہرحال نایاب تو میری آمد سے خوشی سے کھلی جا رہی تھی اور میرے پاس سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی- میں اس کے لیے بہت سارے کپڑے اور کھلونے بھی لایا تھا- وہ انہیں دیکھ دیکھ کر بہت خوش ہو رہی تھی- اس روز رات کے کھانے کے بعد جب میں انھیں اپنی سعودی عرب کی کہانی سنا رہا تھا تو وہ خاموشی سے اٹھی اور صندوق کھول کر اس میں سے کوئی چیز نکالنے لگی-تھوڑی دیر بعد وہ میرے قریب آئ تو اس کے ہاتھ میں اس کی ایک پرانی اوڑھنی تھی- تین چار سال پہلے یہ اوڑھنی اس کی ماں نے اسے عید کے موقع پر دلائی تھی- اس نے اوڑھنی کی تہہ کھولی اور اس میں سے یہ باجرے کی ٹکیہ نکال کر مجھے دی اور بولی- ""ابّا- جس روز آپ پردیس جا رہے تھے، اس روز بہت تیز بارش ہوئی- شام کو امی نے میرے لیے باجرے کی یہ ٹکیہ بنائی- گھر میں زیادہ شکر بھی نہیں تھی اور باجرے کا آٹا بھی کم تھا اس لیے صرف ایک ہی ٹکیہ بنی تھی- مجھے پتہ تھا کہ آپ کو باجرے کی میٹھی ٹکیہ بہت پسند ہیں- یہ بات آپ ہی اکثر مجھے بتاتے تھے کہ جب آپ چھوٹے تھے تو دادی اماں باجرے کی ٹکیاں بنا کر آپ کو دیتی تھیں اور آپ انھیں بہت شوق سے کھاتے تھے- اس لیے اس روز میں نے اسے نہیں کھایا بلکہ آپ کے لیے سنبھال کر صندوق میں چھپا کر رکھ دیا- میں نے دل میں سوچ لیا تھا کہ آپ جب بھی گھر آئیں گے، یہ آپ کو دوں گی کیوں کہ یہ آپ کو اچھی لگتی ہے-""یہ کہتے کہتے مالک شاہ کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے- اسلم کی بھی آنکھیں یہ کہانی سن کر بھیگ گئی تھیں- اس کے بعد دونوں خاموشی سے چائے پینے لگے- چائے ختم ہوئی تو وہ دونوں وہاں سے اٹھ کر باہر آئے- اسلم نے ایک ٹیکسی والے کو روک کر مالک شاہ کا سامان اس میں رکھوایا- جب مالک شاہ ٹیکسی میں بیٹھ گیا تو اسلم نے کہا- ""مالک شاہ- تمہاری کہانی بہت پر اثر تھی- بیٹیاں ہوتی ہی ایسی ہیں- بے پناہ محبّت کرنے والی- خیال رکھنے والی!""""جی صاحب- اسی لیے تو کہتے ہیں کہ بیٹیاں نصیب والوں کو ملتی ہیں-"" مالک شاہ نے مسکرا کر کہا- ٹیکسی چل پڑی اور اسلم اسے جاتا دیکھتا رہا- تھوڑی دیر بعد وہ دور سڑک پر نظروں سے اوجھل ہوگئی- اسلم تیز تیز قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا- وہ جلد سے جلد اپنے گھر پہنچ کر اپنی بیٹی کو گود میں لے کر پیار کرنا چاہتا تھا- مالک شاہ کی بیٹی کی کہانی سن کر اسے اپنی بیٹی شدت سے یاد آنے لگی تھی- " ظالم بادشاہ کا انجام - تحریر نمبر 1549,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zalim-badshah-ka-injaam-1549.html," " ہمارا کارنامہ - تحریر نمبر 1545,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hamara-karnama-1545.html," " کچی بستی - تحریر نمبر 1544,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kachi-basti-1544.html," " سام ہاؤس آخری قسط - تحریر نمبر 1542,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sam-house-aakhri-qist-1542.html," " غلط فہمی - تحریر نمبر 1541,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghalat-fehmi-1541.html," " پرانے کھنڈر کا بھوت - تحریر نمبر 1540,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/purane-khandar-ka-bhoot-1540.html," " آنے والا دور - تحریر نمبر 1539,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aane-wala-dorr-1539.html," " سعودی عرب کے پرچم کی کہانی کیا ہے؟ - تحریر نمبر 1538,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/saudi-arab-k-parcham-ki-kahani-kiya-hai-1538.html," " اردو اخبارات کی تاریخ - تحریر نمبر 1537,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/urdu-akhabarat-ki-tareekh-1537.html," " گھوڑے کا سودا - تحریر نمبر 1535,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghore-ka-sooda-1535.html," " اناج اور دولت - تحریر نمبر 1534,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/anaaj-or-dolaat-1534.html," " عنایہ کی گڑیا۔۔۔تحریر: مبشرہ خالد - تحریر نمبر 1533,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/anaya-ke-gurya-1533.html," " ایک وفادار نیولا - تحریر نمبر 1532,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ek-wafadar-nevla-1532.html,"رخسانہ حنیفایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک کسان کھیتوں میں کام کررہا تھا اسے پاس سے ایک نیولے کا بچہ ملا جو بالکل چھوٹا سا تھا۔اس کی ماں مردہ حالت میں اس کے پاس ہی پڑی تھی ۔کسان کو نیولے کے بچے پر بہت ترس آیا اور وہ اسے اپنے ساتھ گھر لے آیا، اپنی بیوی کو بلایا اور سارا قصہ سنایا۔کسان کی بیوی کہنے لگی ہم اسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ہماراایک بچہ ہے جو بہت چھوٹا ہے اوریہ جنگلی جانور ہے کل کو یہ بڑا ہو گا اور ہمارے بچے کو نقصان پہنچائے گا کسان نے کہا ابھی یہ چھوٹا سا بچہ ہے جیسے جیسے یہ بڑا ہو گا اسے ہماری اور ہمارے بچے کی پہچان ہو جائے گی اور وہ اسے اپنا بھائی سمجھے گا اور اپنے بھائی کا کوئی نقصان نہیں کرتا تم اسے اپنے بچے کی طرح پالنا یہ ہمیں کوئی نقصان نہیں دے گا بس تم یہ سمجھو آج سے تمہارے دو بیٹے ہیں ۔(جاری ہے)کسان کی بیوی راضی ہو گئی اور نیولے کے بچے کو بھی اپنے بیٹے کی طرح پالنے لگی۔وقت گزرتا گیا نیولا بڑا ہو گیا اس کے دانت بھی بڑے ہو گئے۔ایک دن کسان کی بیوی نے کسان سے کہا”میں پانی بھرنے جارہی ہوں منا گھر پر اکیلا ہے اس کا خیال رکھنا”کسان ہنس پڑا اور بولا اس کا بھائی اس کے ساتھ ہے اسے کچھ نہیں ہو گا تم فکر مت کرومگرکسان کی بیوی نے وہی رٹ لگائے رکھی ۔کسان نے کہا تم جاؤ اس کی بیوی باہر چلی گئی تھوڑی دیر بعدکسان بھی باہر چلا گیا کسان کا بیٹا اور نیولا آپس میں کھیلنے لگ گئے کچھ دیر بعد ایک سانپ گھرمیں گھس گیا اور بچے کی طرف بڑھنے لگا نیولے نے جب دیکھا تو اس نے فوراً سانپ پر حملہ کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اور خود گھر کے باہر جا کر پہرہ دینے لگا اتنی دیرمیں کسان کی بیوی واپس گھر آئی تو اس نے نیولے کے منہ پر خون لگا دیکھا تو وہ چلانے لگی ہائے میرے بیٹے کونیولے نے کاٹ کھایا اس نے بغیر سوچے سمجھے پانی کا مٹکا نیولے کے سر پر دے مارا نیولا موقعے پر ہی ہلاک ہو گیا جب وہ گھر کے اندر داخل ہوئی تو اس کا بیٹا کھیل رہا تھا اور پاس ہی ایک سانپ مردہ حالت میں پڑا ملا تب اسے ساری بات سمجھ آگئی اتنی دیرمیں کسان بھی گھر آگیا جب اس نے سارا قصہ سنا تو اس نے اپنی بیوی کو بہت بُرا بھلا کہا اور پچھتا نے لگا کسان نے بیوی سے کہا تم نے جلد بازی میں ایک وفادار بیٹا (نیولا)کھودیا۔کسان کی بیوی بھی رونے لگ گئی اور اس کسان سے معافی مانگنے لگی ۔مگر نتیجہ یہ ہے کہ جلد بازی ہمیشہ نقصان کا باعث بنتی ہے۔ " داؤد صاحب کی کرسی۔۔۔۔تحریر:مبشرہ خالد - تحریر نمبر 1531,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dawood-sahib-ki-kursi-1531.html," " بادشاہ اور نیک وزیر - تحریر نمبر 1529,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-or-naik-wazir-1529.html," " ایک چیل کی کہانی - تحریر نمبر 1528,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-cheel-ki-kahani-jo-kabootar-ki-taak-me-thi-1528.html," " آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔۔۔تحریر:مختار احمد - تحریر نمبر 1525,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aam-k-aam-1525.html,"چند روز بعد حسن کی پھپھو کی شادی ہونے والی تھی- وہ اس کے دادا دادی کے ساتھ بہاولپور میں رہتی تھیں- اس شادی میں شرکت کے لیے آج وہ اپنی امی اور ابّا کے ساتھ بسوں کے اڈے پر آیا تھا- اس کے ابّا نے بس میں تین سیٹیں پہلے ہی سے بک کروا لی تھیں- راولپنڈی سے بہاولپور کا سفر آٹھ دس گھنٹوں کا تھا- لمبے سفر کا اپنی ہی ایک مزہ ہوتا ہے- حسن نے سوچ رکھا تھا کہ وہ کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھے گا تاکہ سارے راستے باہر کے منظر سے لطف اندوز ہو- اسے سفر کے دوران کھیت، دریا، پل اور چھوٹے بڑے گھروں کو دیکھنے میں بڑا مزہ آتا تھا-ان کی بس آنے میں ابھی کچھ دیر تھی- اس کے ابّا انھیں ویٹنگ روم میں لے آئے اور انھیں وہاں بٹھا دیا- سامان سے بھرے بیگ انہوں نے اپنی کرسی کے پاس رکھ لیے تھے- اپنی بہن کی شادی پر وہ بھی بڑے خوش تھے- انہوں نے بینک سے ایک لاکھ روپے نکلوا کر قمیض کے اندر اپنے بنیان کی زپ والی جیب میں رکھے ہوۓ تھے- یہ پیسے انہوں نے اس لیے نکلوائے تھے تاکہ بہن کی شادی میں کام آسکیں-حسن کی امی نے بھی اس شادی کی تیاری پہلے سے ہی شروع کر رکھی تھی- جس زمانے میں سونا سستا تھا، انہوں نے زیوروں کا پورا سیٹ حسن کی پھپھو کو شادی میں دینے کے لیے بنوا کر رکھ لیا تھا اور وہ اس وقت ان کے بڑے سے پرس میں رکھا ہوا تھا جسے انہوں نے بڑی احتیاط سے گلے میں لٹکا کر دونوں ہاتھوں سے پکڑ رکھا تھا- یہ دیکھ کر حسن کو بڑی ہنسی آئی- اس نے کہا- ""امی آپ نے جس انداز سے اپنا پرس پکڑا ہوا ہے کوئی بچہ بھی دیکھے تو سمجھ جائے کہ اس میں کوئی قیمتی چیز رکھی ہوئی ہے-"" اس کی امی نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پرس سے ہاتھ ہٹا لیے- حسن نے ٹھیک بات کی تھی-حسن ان کے پاس نہیں بیٹھا- وہ ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگا- اس کے ابّا اس پر مسلسل نظریں رکھے ہوۓ تھے کہ وہ کہیں دور نہ نکل جائے- وہاں پر لوگوں کا کافی رش تھا جو دور دراز کے سفر پر جانے کے لیے یہاں آئے تھے- حسن دس سال کا تھا اور کافی سمجھدار اور ہوشیار تھا- وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتا تھا جس سے اس کے امی ابّا کو کوئی پریشانی ہو، اس لیے وہ خود بھی وہاں سے زیادہ دور نہیں جا رہا تھا-اس انتظار گاہ کے سامنے لوہے کی ایک ریلنگ بنی ہوئی تھی- حسن ریلنگ کے پاس آکر کھڑا ہوگیا- سامنے سڑک کے پار ایک بازار تھا جس میں بہت ساری چھوٹی بڑی دکانیں تھیں- اس بازار کا وہاں سے فاصلہ زیادہ نہیں تھا اس لیے حسن کو دکانوں میں رکھی ہوئی چیزیں بالکل صاف نظر آ رہی تھیں- ان دکانوں پر بچوں کے کھلونوں سے لے کر کھانے پینے کی ہر چیز موجود تھی- اسے کتابوں اور اخبارات کی بھی ایک دکان نظر آئی-اچانک اس کی نظر پھلوں کی ایک بہت بڑی سی دکان پر پڑی- اس میں زمین سے لے کر چھت تک پھلوں کی پیٹیاں تھیں اور ان پیٹیوں میں قسم قسم کے پھل نہایت قرینے سے سجا کر رکھے گئے تھے- ایک نوجوان لڑکا سفید شرٹ اور جینز کی پینٹ پہنے گلّے پر بیٹھا تھا اور کچھ ملازم پیٹیوں سے پھل نکال نکال کر تول رہے تھے اور کاغذ کے تھیلوں میں بھر بھر کر گاہکوں کے حوالے کر رہے تھے- اس پھل والے کی دکان پر بہت رش تھا- گاہک جلدی کرنے کا تقاضہ کر رہے تھے اور بار بار گردن گھما کر بسوں کی طرف بھی دیکھ رہے تھے– کسی کی بس ابھی اڈے پر لگی نہیں تھی اور جس کی بس اڈے پر لگ گئی تھی وہ کچھ دیر میں چلنے والی تھی- اسی لیے وہ سب بڑی جلدی میں تھے-حسن کو یہ منظر بہت اچھا لگا اور وہ دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا- اچانک اس کی نظر اسی دکان کے باہر لٹکے ایک بورڈ پر پڑی- اس پر لکھا ہوا تھا:گل زمان پھل فروشخوشخبریپھل کھا کر ان کی گٹھلیاں کوڑے دانوں میں نہ ڈالیں بلکہ تھوڑی سی زحمت کرکے انہیں سنبھال کر رکھیں- یہاں پر گٹھلیاں تول کر خریدی جاتی ہیں- اس لیے جب بھی فرصت ملے انھیں یہاں دے کر مقررہ قیمت وصول کر لیں-بورڈ پر لکھی تحریر پڑھ کر حسن کو بہت حیرت ہوئی- وہ اپنے ابّا کے پاس آیا- وہ کسی سوچ میں گم بیٹھے تھے- ""ابّا جان- وہ دیکھیے- پھلوں والے کی دکان پر کیا لکھا ہے-"" اس نے کہا- اس کے ابّا نے ایک نظر بورڈ پر ڈالی اور مسکرا کر بولے- ""اس بارے میں تو ایک کہاوت بھی بہت مشہور ہے کہ ""آم کے آم گٹھلیوں کے دام""-""لیکن ابّا جان- یہ دکاندار ان گٹھلیوں کا کیا کرتے ہونگے؟"" حسن نے پوچھا- اگر اس کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی تھی تو وہ اپنے ابّا سے اس کے بارے پوچھتا ضرور تھا- یہ ایک اچھی بات تھی کیونکہ اس سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے-""اس کے بہت سے جوابات ہوسکتے ہیں- یا تو وہ ان گٹھلیوں کو اپنے باغ میں بو دیتا ہوگا اور ان سے پھلوں کے پودے اگ آتے ہوں گے- اور یا پھر انھیں مہنگے داموں کسی حکیم کو بیچ دیتا ہوگا- وہ حکیم ان گٹھلیوں سے دوائیاں بنا لیتا ہوگا- بہرحال وہ کچھ نہ کچھ تو ان سے کرتا ہی ہوگا- اصل بات تو وہ دکان دار ہی بتا سکے گا-""ابّا جان کی یہ بات سن کر حسن کا تجسس اور بھی بڑھ گیا- وہ یہ جاننے کے لیے بے چین تھا کہ پھل والا یہ گٹھلیاں کیوں خریدتا ہے، جب کہ لوگ تو انہیں کوڑے میں پھینک دیتے ہیں- تھوڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعد اس نے اپنے ابّا سے کہا- ""ابّا جان- بس تو جانے کب آئے گی- کیا آپ میرے ساتھ اس پھل والے کی دکان پر چلیں گے- میں اس سے اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہوں-""""حسن تم تو ایک بات کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہو-"" اس کی امی نے اسے سرزنش کی- ""خاموشی سے بیٹھو اور اپنے ابّا جان کو تنگ مت کرو- ہماری بس آنے ہی والی ہے-""اس کے ابّا نے دھیمے لہجے میں کہا- ""دیکھو حسن- اس وقت ہمارے پاس بہت سا روپیہ پیسہ اور زیور ہے- یہ بات مناسب نہیں ہوگی کہ ہم لوگ بے مقصد ادھر ادھر گھومیں- یہاں پر بہت سارے نو سر باز اور جیب کترے گھوم رہے ہوتے ہیں- چپ چاپ بیٹھ کر دعا کرو کہ ہم ساتھ خیریت کے اپنی منزل پر پہنچ جائیں- تمہاری پھپھو کی شادی ہوجائے گی تو ہم واپسی پر اس دکاندار سے معلوم کرلیں گے کہ وہ گٹھلیاں کیوں خریدتا ہے اور ان کا کیا کرتا ہے-""ان کی بات سن کر حسن خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا اور جھک کر اپنی امی کی گود میں سر رکھ کر آتے جاتے مسافروں کو دیکھنے لگا مگر اس کا ذہن اسی سوال کی طرف لگا ہوا تھا کہ دکان والا ان گٹھلیوں کا کیا کرتا ہوگا-تھوڑی دیر بعد ان کی بس اڈے پر لگ گئی- وہ لوگ جن کے پاس اس بس کے ٹکٹ تھے اپنا اپنا سامان لے کر اس کی طرف بھاگے- سیٹیں تو سب کی ہی بک تھیں، حسن کے ابّا نے جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ان مسافروں کو دیکھتے رہے- بس کے عملے کا ایک آدمی میٹل ڈٹیکٹر سے مسافروں کا سامان چیک کر رہا تھا، دوسرا اس کا ٹیگ بنا کر سامان پر لگا رہا تھا اور اس ٹیگ کا ایک حصہ مسافروں کو دے رہا تھا تاکہ سفر کے اختتام پر اسے دکھا کر وہ اپنا سامان لے سکیں- ایک تیسرا ملازم اس سامان کو بس کے باہر والے حصے میں بنے ہوۓ کمپارٹمنٹ میں رکھتا جا رہا تھا-جب سب مسافر بس میں بیٹھ گئے تو حسن کے ابّا بھی اپنا سامان لے کر وہاں پہنچ گئے- حسن کو سیٹوں کے نمبر یاد تھے وہ بھاگ کر بس میں چڑھا اور اپنی کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ گیا- زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس کی امی اور ابّا بھی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے-اس وقت شام کے سوا چار بجے تھے- بس نے ساڑھے چار بجے چلنا تھا- حسن کی نظر پھر اس پھل فروش کی دکان پر پڑی- اس نے دکان کے ایک کونے میں دیکھا، لوگ لائن لگا کر اپنے ساتھ لائے ہوۓ بیج اور گٹھلیاں اس دکان والے کو دے رہے تھے- یہ لوگ مسافر نہیں لگ رہے تھے، قریبی بستیوں میں رہنے والے لوگ تھے- وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر انھیں دیکھنے لگا-اسی لمحے دو کم عمر لڑکے بس میں چڑھے- وہ شکل و صورت اور کپڑوں سے طالب علم لگ رہے تھے- ان کے ہاتھوں میں چمڑے کے بیگ تھے- ان میں سے ایک لڑکے نے اونچی آواز میں کہا- "" معزز خواتین و حضرات- ہماری دعا ہے کہ آپ کا سفر ساتھ خیریت کے ساتھ اختتام پذیر ہو- سڑک کے پار ہماری پھلوں کی دکان ہے- ہمارے بھائی صاحب لوگوں سے پھلوں کے بیج خرید کر انھیں پیکٹوں میں رکھ کر آپ جیسے دور دراز کے سفر پر جانے والوں کے حوالے کروا دیتے ہیں اور وہ بھی بالکل مفت میں- اس پیکٹ میں مختلف پودوں کے بیج ہیں- آپ سے درخواست ہے کہ منزل مقصود پر پہنچتے ہی پہلی فرصت میں ان بیجوں کو کسی مناسب اور نرم زمین دیکھ کر اس میں بو دیجیے گا- تھوڑے عرصے بعد ان میں سے پودے نکل آئیں گے- اس کام کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر کریں- پودے نہ صرف ہمارے ماحول اور ہوا کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، بلکہ یہ موسم کی تبدیلیوں کو روکنے کا سبب بھی بنتے ہیں- جتنے زیادہ درخت ہمارے ملک میں ہونگے، ہماری آب و ہوا بھی صاف ستھری رہے گی اور گرمی بھی کم پڑے گی- ان کی وجہ سے بارشوں میں بھی اضافہ ہوگا- ذمہ دار اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے ہم سب کی یہ کوشش ہونا چاہئیے کے ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تاکہ ہمارا پاکستان سرسبز اور شاداب رہے- ویسے بھی درخت لگانا ثواب کا کام ہے- جب تک لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے، انہیں لگانے والے کو اس کا اجروثواب ملتا رہے گا-""لڑکے کی بات ختم ہوئی تو اس نے اور اس کے ساتھ آئے ہوۓ دوسرے لڑکے نے اپنے بیگوں میں سے چھوٹے چھوٹے خوبصورت پیکٹ نکال نکال کر سیٹوں پر بیٹھے ہوۓ لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیے- ان پیکٹوں میں مختلف قسم کی گٹھلیاں اور بیج موجود تھے-وہ لڑکے جلد ہی ان کی سیٹ تک بھی آگئے اور ان میں سے ایک لڑکے نے تین پیکٹ حسن کو پکڑا دئیے- حسن نے ان کا شکریہ ادا کیا اور بولا- ""آپ لوگ تو یہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں""-""یہ تو ہے-"" اس لڑکے نے جواب دیا- ""لوگ ہماری باتیں غور سے سنتے ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ انھیں درختوں کی اہمیت کا احساس ہونے لگا ہے کیوں کہ ہمارے اس کام کے بارے میں وہ دوسروں کو بھی بتاتے ہیں- ان باتوں کو سن کر دوسرے لوگوں میں بھی درختوں کی اہمیت کا شعور پیدا ہوتا ہے- ہم انہیں بسوں میں اس لیے تقسیم کرتے ہیں کہ اس طرح پودوں کے بیج اور گٹھلیاں بغیر کسی خرچ کے ملک کے دور دراز شہروں میں بہ آسانی پہنچ جاتی ہیں-""تھوڑی دیر بعد لڑکے اپنا کام ختم کرکے چلے گئے- حسن انھیں تعریفی نظروں سے جاتا دیکھ رہا تھا- اس کے ابّا مسکرا کر بولے- ""لو میاں حسن- شکر ہے تمہیں اپنے سوال کا جواب مل گیا اور امید ہے تمہاری الجھن دور ہوگئی ہوگی- یہ بچے اور ان کا بھائی کہنے کو تو پھل فروش ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ذمہ داری کا کام بھی کر رہے ہیں- انہوں نے کتنی اچھی ترکیب نکالی ہے- اب لوگ پھل کھا کر ان کی گٹھلیاں کوڑے میں نہیں پھینکتے بلکہ جمع کرکے انہیں فروخت کردیتے ہیں اور یہ پھل فروش ان گھٹلیوں کو دھو کر صاف ستھرا کرکے اور خوبصورت پیکٹوں میں رکھ کر دور دراز علاقوں میں جانے والے مسافروں کے حوالے کردیتے ہیں- سب تو نہیں مگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان بیجوں کو زمین میں بو دیتی ہوگی اور اس طرح ہمارے پیارے پاکستان میں درختوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہوگا-""حسن اس بات سے بہت متاثر نظر آ رہا تھا- اس نے کہا- ""ایسے لوگ کتنے اچھے ہوتے ہیں جو خاموشی سے اپنے ملک کی بہتری کے کاموں میں لگے رہتے ہیں- جیسے یہ نیک دل پھل فروش-"" ""اب میں بھی پھلوں کی گٹھلیاں اور سبزیوں کے بیج پھینکا نہیں کروں گا- انھیں جمع کرتا رہوں گا- گھر اور اسکول کی کیاریوں میں، کھیل کے میدان کے کنارے پر اور پارکوں کے اندر، اس کے علاوہ پکنک پر کہیں گھومنے پھرنے گیا تو انھیں وہاں زمین میں لگا دیا کروں گا- بارش کے پانی اور دھوپ سے پودے نکل آیا کریں گے اور خود بخود ہی بڑے ہوتے رہیں گے- ان بیجوں کو میں پھپھو کے گھر کے صحن میں بھی لگاؤں گا- شادی کے بعد وہ جب دادی دادا سے ملنے آیا کریں گی تو میں موبائل پر ان سے ان پودوں کے متعلق پوچھا بھی کروں گا کہ وہ کتنے بڑے ہوگئے ہیں-""""اس نیک دل دکان دار کی کہانی اپنے دوستوں کو بھی سنانا تاکہ وہ بھی اس بات پر عمل کرسکیں اور پھلوں اور سبزیوں سے نکلی ہوئی گٹھلیاں اور بیج ضائع نہ کریں بلکہ تھوڑی سی محنت کر کے انھیں زمین میں بو دیں تاکہ ان سے درخت اور پودے نکل آئیں- اور اسی سلسلے میں ایک اور بات بھی تمہیں پتہ ہوگی- جتنی توجہ ہم نئے درختوں کے لگانے پر دیتے ہیں، اتنی ہی توجہ ہمیں ان درختوں پر بھی دینی چاہیے جو پہلے ہی سے ہمارے ارد گرد موجود ہیں- ہمیں انھیں کاٹنا بھی نہیں چاہیے اور ان کی ہر طرح حفاظت بھی کرنا چاہئیے اور ان کی کھاد اور پانی کا خاص دھیان رکھنا چاہیے-""""جی ابّا جان- میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کروں گا-""حسن نے کہا- بس کے چلنے کا وقت ہوگیا تھا – تھوڑی دیر بعد وہ چل پڑی- حسن کی نظر ان دونوں لڑکوں پر پڑی- وہ اب ایک دوسری بس میں چڑھ رہے تھے- حسن انھیں دیکھ کر مسکرانے لگا- " چچا شیخی باز - تحریر نمبر 1519,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chacha-sheikhi-baaz-1519.html," " عظیم قائد کی اصول پسندی - تحریر نمبر 1518,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azeem-quaid-ki-asool-pasandi-1518.html," " پریشان چڑیا - تحریر نمبر 1515,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pareshan-chirya-1515.html," " سام ہاؤس - تحریر نمبر 1514,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/saam-house-1514.html," " دودوست - تحریر نمبر 1513,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/doo-dost-1513.html,"کسی زمانے میں ایک ٹھنگنا آدمی جس کا نام اکبر تھا،گاؤں سے دور ایک پہاڑی پر رہا کرتا تھا۔اس کا قد تو چھوٹا تھا مگر اخلاق اور کر دار بہت بلند تھا ۔وہ گاؤں والوں میں اپنی سچائی،نرم دلی اور اپنے انوکھے گول چہرے کی وجہ سے بہت مقبول تھا،ہر شخص اُسے چاہتا تھا۔وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں اکیلا رہتا تھا اور ہر روز اپنے باغیچے میں کام کرتا تھا۔گاؤں میں کسی کا بھی باغیچہ اس جیسا نہ تھا ۔اس میں گلاب،چنبیلی،موتیا،گیندا،سورج مکھی غرض قسم قسم کے پھول لگتے تھے ،جن کی خوشبو سے اُس کا باغیچہ مہکتا رہتا تھا۔دوست تو اس کے بہت تھے مگر اس کا سب سے عزیز دوست قاسم تھا۔اس کی آٹے کی چکی تھی۔وہ اکبر کا اتنا گہرا دوست تھا کہ جب وہ اس کے گھر آتا اس کے باغیچے میں سے بہت سے پھول توڑ لیتا ۔(جاری ہے)وہ کہا کرتا تھا۔”سچے دوستوں کی ہر چیز مشترک ہوتی ہے۔“قاسم جب بھی یہ کہتا اکبر خوشی سے سر ہلاتا اور ایسے دوست پر فکر کرتا جس کے خیالات ایسے اعلیٰ تھے۔کبھی کبھی گاؤں والے سوچا کرتے تھے کہ جواب میں قاسم اکبر کو کچھ نہیں دیتا جب کہ اچھے لوگ اگر کوئی تحفہ وصول کرتے ہیں تو بدلے میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ہیں ،جبکہ قاسم کے گودام میں آٹے کی سینکڑوں بوریاں پڑی رہتی تھیں اور چھ گائیں اور سینکڑوں بھیڑیں تھیں مگر وہ ایک آٹے کی بوری تک اکبر کو نہ دیتا۔اس کے لیے تو قاسم کی وہ باتیں ہی سب کچھ تھیں جو وہ دوستی اور بے غرضی کے بارے میں اکثر کرتا تھا۔اکبر دن رات اپنے باغ میں کام کرتا رہتا۔گرمی اور بہار میں وہ بہت خوش ہوتا ،مگر جب سردی آتی تو وہ پریشان ہو جاتا،کیونکہ اس کے پاس کوئی پھل یا پھول نہ ہوتا تھا کہ جسے وہ بازار میں بیچ کر اپنے لیے کچھ خرید سکے۔یہاں تک کہ کبھی کبھی تو اس کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا۔چند بادام یا آلو چے کھا کر وہ بھوک مٹاتا تھا۔اکبر سردیوں میں خود کو بے حد تنہا محسوس کرتا تھا ،کیونکہ قاسم بھی اس موسم میں اس سے ملنے نہیں آتا تھا۔جب کوئی قاسم سے کہتا کہ اکبر سے مل آؤ ،وہ بہت بیمار ہے تو وہ ناراض ہو کر کہتا:”اس برف باری کے موسم میں اس سے ملنے کیسے جاؤں․․․؟میرے خیال میں انسان مصیبت میں ہوتو تنہا اس کا مقابلہ کرے۔اُسے اکیلا چھوڑ دینا چاہیے۔یہی بہترین دوستی ہے۔میں انتظار کروں گا اور جب بہار آئے گی تو ایک ٹوکری لے کر اکبر سے ملنے جاؤں گا اور اس کے خوبصورت باغ میں سے پھل اور پھول لے کر آؤں گا۔“اس بار جب بہار نے اپنی آمد کی خبر دی اور پھول کھلنے لگے،کلیاں چٹخنے لگیں تو قاسم نے بڑی سی ٹوکری اُٹھائی اور اکبر سے ملنے روانہ ہوا۔اکبر کو دور ہی سے دیکھ کر قاسم نے آواز لگائی ،”کیا حال ہے پیارے دوست․․․․؟“”سچی بات تو یہ ہے کہ سردی بہت مشکل سے گزر ی مگر اب جب پھول کھل چکے ہیں تو بہت خوش ہوں۔“اکبرنے جواب دیا۔”میں تم سے سردی میں ملنے ضرور آتا مگرمیں نے یہ مناسب نہ سمجھا،کیوں نہ سمجھا۔تم اس بات کو نہ سمجھ سکو گے۔خیر چھوڑو،تمہارے یہ پھول کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں۔“”ہاں یہ بہت خوبصورت ہیں اور میں انہیں بازار میں بیچ کر اتنے پیسے تو کما ہی لوں گا کہ اپنی پہیوں والی ہاتھ گاڑی دوبارہ خرید سکوں۔“قاسم نے کہا،”میں تمہیں اپنی ہاتھ گاڑی دے دوں گا۔اُسے کچھ زیادہ مرمت کی بھی ضرورت نہیں۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ وہ ایک طرف سے ذراسی ٹوٹ گئی ہے۔لیکن میں دوستی کی خاطر اپنی ہاتھ گاڑی تمہیں دے دوں گا۔“”اوہ!یہ تمہاری مہربانی ہے!“اکبر نے کہا۔اس کا چہرہ خوشی سے چمک اُٹھا،”میں اس کی آسانی سے مرمت کر لوں گا،کیونکہ میرے پاس پیڑ کا ایک تنا بھی ہے۔“قاسم بولا”ویسے تو میں تمہارے پاس ایسے ہی آیا تھا مگر اب سوچتا ہوں کہ کچھ پھل اور پھول ساتھ لیتا چلوں ۔اور ہاں کل صبح تنالے کر آجانا اور میری چھت بنانے میں مدد کر دینا۔دوست ہی تو دوست کے کام آتا ہے نا۔“اکبر صبح ہی صبح پیڑ کا تنا لے کر قاسم کے گودام پہنچ گیا اور صبح سے شام تک اس کی چھت مرمت کرتا رہا۔قاسم نیچے کھڑا اسے ہدایات دیتا رہا۔شام تک اکبر تھک کر چور ہو چکا تھامگر اسے یہ اطمینان تھا کہ قاسم اسے اپنی ہاتھ گاڑی دے دے گا۔مگر قاسم نے تو اس سے بات تک نہ کی۔چنانچہ وہ گھر آکر بھوکا ہی سو گیا۔سخت برف باری کے عالم میں آدھی رات کے وقت اچانک کسی نے دروازہ کھٹ کھٹایا۔اکبر نے دروازہ کھولاتو قاسم ہاتھ میں لالٹین لیے کھڑا تھا۔”دوست ،میرا بیٹا سخت بیمار ہے۔تمہاری بڑی مہربانی ہو گی اگر تم اگلے گاؤں سے ڈاکٹر کو بلا لاؤ۔“”اس سخت برف باری میں؟“اکبر نے حیرت سے پوچھا۔”ہاں ،تو کیا ہوا․․․․؟ویسے بھی میں تمہیں اپنی ہاتھ گاڑی دوں گا۔تمہیں میرا یہ کام ضرور کرنا چاہیے۔“قاسم نے خود غرضی سے کہا۔”اچھا ،تو ٹھیک ہے مگر میری لالٹین خراب ہے ۔اگر تم اپنی لالٹین دے دو تو میں آسانی سے ڈاکٹر کو بلالاؤں گا۔“”نہیں دوست!میری لالٹین نئی ہے۔یہ میں کسی کو نہیں دے سکتا۔تم اندھیرے ہی میں اندازے سے چلے جاؤ۔یہ کون سی بڑی بات ہے۔“قاسم نے مکاری سے جواب دیا۔نا چار اکبر ڈاکٹر کو بلانے چل پڑا۔اندھیرا تو تھا ہی وہ غریب ایک گہری کھائی میں جا گرا اور قاسم گھر بیٹھا اُس کا انتظار کرتا رہا۔صبح پتہ چلا کہ اکبر کھائی میں گر کر مر گیا ہے ۔مگر قاسم نے پرواہ نہیں کی۔اللہ کا کرنا یہ ہواکہ اسی رات قاسم کی چکی اور گودام پر بجلی گری اور اس کا سب کچھ جل کر تباہ ہو گیا۔اس کے بیوی بچے بھی مر گئے ۔اب وہ دنیامیں اکیلا تھا۔نہ مال و دولت اُس کے پاس تھی نہ کوئی دوست اور رشتہ دار۔قاسم اس صدمے کو برداشت نہ کر سکا اور پاگل ہو گیا۔کافی عرصے تک وہ گاؤں کی گلیوں میں اکبرکو آوازیں دیتا نظر آتا۔وہ اس کی تلاش میں تھا ،اکبر جیسے سچے دوست کی تلاش میں․․․․اچھے دوست سے بڑی نعمت کوئی نہیںاور لالچی دوست سے بڑی چیز دنیا میں نہیں " اناج - تحریر نمبر 1512,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/anaaj-1512.html,"مریم جہانگیرنینا اور ٹینا دونوں چڑیا بہت شرارتی تھیں۔اُن کی امی نے اناج لایا اور گھونسلے کی ہری اور بھوری تہوں میں چھپا دیا۔بعد میں ان دونوں کو پاس بلا کر اناج کی جگہ دکھائی اورکہا کہ جب تک میں نہ آؤں،اس کو نہ چھیڑ نا۔لیکن اگر رات ہو جائے اور میں واپس نہ آسکوں تو اسی میں سے دو دانے نکال کر کھا لینا۔ نینا اور ٹینا نے سراثبات میں ہلایا تو ان کی امی نیلگوں فلک پر اپنے پر پھڑ پھڑاتی دور تک جاتی نظر آئی۔امی کے جانے کے بعد نینا اور ٹینا سورج کو دیکھنے لگیں۔کتنا وقت ہوا ہو گا،نینا نے ٹینا سے پوچھا۔ہو سکتا ہے گھنٹہ ہو گیا ہو۔“ٹینا نے آنکھیں آگ کے گولے پر ٹکا کر جواب دیا۔“میں سوچ رہی تھی کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ امی ہمارے لیے اناج چھپا کر گئی ہیں اور اُس پر کسی نے حملہ کر دیا تو وہ ہمارا اناج لے جائے گا۔(جاری ہے)“نینا نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ہر گھونسلے میں اناج چھپایا جاتا ہو گا۔صرف ہماری امی ہی تو ہمارے لیے اناج چھوڑ کر نہیں گئی ۔ہو سکتا ہے باقی بھی کسی کو امی چھوڑ جاتی ہو ۔جب کبھی کسی اور کے گھر حملہ نہیں ہوا تو ہمارے گھر کیوں ہو گا؟اور حملہ کرنے والے کو کیا پتہ کہ اناج کدھر پڑا ہے؟“ٹینا نے نینا کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔”لیکن سب گھونسلے تو ایک جیسے ہوتے ہیں،اس لیے اناج چھپانے کی جگہ بھی سب کے دماغ میں ایک ہی آتی ہو گی۔کیوں نہ ہم اناج کی جگہ بدل دیں۔اس طرح جو حملہ کرنے آئے گا،اُسے اندازہ ہی نہیں ہو سکے گا کہ ہم نے اناج کہاں رکھا۔“نینا چونکہ مطمئن ہونے کے مزاج میں ہی نہیں تھی ،اس لیے ایک اور دور کی کوڑی لائی۔اس بات پر ٹینا بھی اس کے ساتھ متفق ہو گئی ۔دونوں بہنیں اناج نکال کر گھونسلے کے درمیان میں لے آئی۔”اتنا سامنے رکھو گی تو حملہ آور کے لیے بہت آسانی ہو جائے گی۔اسے تھوڑا سا کسی ایک کونے میں رکھ دو۔“ٹینا نے نینا کو سمجھانے کی کوشش کی۔”لیکن وہ تو پہلے کونوں میں ہی ڈھونڈے گا،سامنے تو اُس کی نظر ہی نہیں جا ئے گی ۔“نینا کی اپنی ہی سائنس تھی۔وہ دونوں اپنی چونچ میں اناج لے کر اپنی اپنی طرف کھینچنے لگی۔اتنی میں اُن کا دشمن طوطا آیا اور اُن دونوں کی چونچ کے درمیان سے انجاج دبا کر ایک ہی اڑان میں اڑ گیا۔ " ایک پلیٹ - تحریر نمبر 1511,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-plate-1511.html,"مریم جہانگیرحماد ایک مرتبہ پھر امتحانات میں حسب توقع رزلٹ حاصل نہ کر سکا تھا اور نتیجتاً بھوک ہڑتال کرکے بیٹھا تھا۔امی کچن میں بریانی بنا رہی تھیں جو کہ حماد کو بہت پسند تھی اور اس کو بنانے کا مقصد اُس کے بگڑے ہوئے مزاج کو سنوارنا ہی تھا۔حماد نہایت لائق ،محنتی اور ذہین طالب علم تھا۔وہ آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا۔اُس کے اساتذہ بھی اُس کی قابلیت کی تعریف کرنے سے نہ چونکتے تھے۔مگر پچھلے دوسہ ماہی امتحانات سے وہ اچھے نمبر لینے میں کامیاب نہیں ہورہا تھا۔نمبر تو اُس کے اچھے ہوتے ،مگر وہ اول نہ آتا۔حالانکہ وہ ساتویں جماعت تک اول پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا اور تو اور ساتویں جماعت کے سالانہ امتحانات میں اُس نے اسکول کا پرانا ریکارڈ توڑ دیا تھا اور اتنے اچھے نمبروں کے سبب اسکول کا ”بیسٹ اینڈ آؤٹ سٹینڈنگ “طالب علم بنا تھا۔(جاری ہے)مگر جانے کیوں آٹھویں جماعت میں آتے ہی وہ اپنی پرانی پوزیشن بر قرار نہ رکھ سکا تھا۔ویسے ایک سچ یہ بھی ہے کہ کوئی مقام حاصل کر لینا آسان ہے مگر اس کو قائم رکھنا بہت مشکل ۔لہٰذا محنت کو اپنا شیوہ بنانا چاہیے تاکہ کوئی بھی مقام ہاتھ میں آنے کے بعد صرف آپ ہی کی شخصیت کا طرئہ امتیاز بنا رہے۔دادا جان ظہر کی نماز پڑھ کر گھر میں داخل ہوئے تو بریانی کی خوشبو کے سبب کچن میں ہی آگئے اور حماد کی امی سے کہنے لگے۔”ارے بہو!لگتا ہے آج حماد نے میدان مار ہی لیا۔تب ہی تم اس خوشی کو دوبالا کرنے کیلئے بریانی بنا رہی ہو۔“”نہیں ابو جان!دراصل اس مرتبہ پھر 92فیصد نمبر لینے کے باوجود اول پوزیشن حاصل نہیں کر سکا۔لہٰذا خاموشی سے اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا ہے“حمادکی امی نے تفصیل سے اُس کے دادا جان کو بتایا۔دادا جان نے حماد کے بارے میں سن کر پُر سوچ انداز میں حماد کو اپنے کمرے میں بلایا۔”جی دادا جان“حماد نے اُن کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔”ہاں بر خور دار!کیا ہورہا ہے؟آج تمہارا رزلت تھانا ،کیا بنا؟“دادا جان نے حماد سے پوچھا۔”92فیصد نمبر آئے ہیں ،لیکن دوم پوزیشن حاصل کر سکا ہو“حماد نے لٹکے ہوئے منہ سے آہستگی سےجو اب دیا۔”کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ پچھلی دوسہہ ماہی سے تم اول پوزیشن حاصل کیوں نہیں کررہے ہو۔حالانکہ تم ساتویں جماعت تک بہتر نہیں بہترین طالب علم تھے۔کیا تم نے برے دوستوں کی صحبت اختیار کرلی ہے یا پھر یکسوئی سے پڑھنے میں کامیابی پوشیدہ ہے کہ اصول سے انحراف کرنا شروع کر دیا ہے ؟دادا جان نے دلار سے حماد سے پوچھا۔#”نہیں دادا جان ،بات یہ نہیں ۔دراصل آٹھویں جماعت کے شروع میں ہی ہمارے اسکول میں نئے طالب علموں کا داخلہ شروع ہو گیا تھا۔ہماری کلاس میں بھی چند نئے لڑکے داخل ہوئے ہیں ۔زوہیب بھی انہی میں سے ایک ہے ۔اُس نے پہلے دن سے ہی اساتذہ کی نظروں میں اہمیت حاصل کرنا شروع کر دی ہے اور تمام اساتذہ بھی شاید اسے مجھ سے زیادہ قابل سمجھتے ہیں۔وہ ہر بات پر اُسے مجھ پر فوقیت دیتے ہیں۔اسی سبب میں پچھلے دو امتحانات میں اول پوزیشن حاصل نہیں کر سکا ہوں۔ایسا نہیں کہ میں محنت نہیں کرتا۔میں محنت بھی کرتا ہوں ۔بالکل اسی طرح جس طرح پہلے کیا کرتا تھا۔ اور رہی بات برے دوستوں کی صحبت کی ،تو داداجی آپ مجھے جانتے ہی ہیں،میں جانتا ہوں کہ دوست شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں ۔تو میں کیوں کر برے لڑکوں سے رسم وراہ بڑھا سکتا ہوں۔مگر میری اس احتیاط اور محنت کے باوجود میں اول پوزیشن حاصل کرنے میں ناکام ہورہا ہوں“حماد نے دادا جان کو تفصیلاً مطلع کرتے ہوئے سر کو جھکا لیا۔اچھا تو یہ بات ہے۔میں تو سمجھانہ جانے کیامسئلہ ہوا ہے کہ میرا چہیتا کامیاب شاہین آج کل ڈانواں ڈول ہورہا ہے۔بیٹا دیکھو!پچھلے سات سال سے آپ اس اسکول میں پڑھ رہے ہو اور مسلسل اول پوزیشن حاصل کررہے ہو۔مگر زوہیب کے آنے بعد سے تمہیں مشکلات کا سامنا ہے تو میرے بچے یہ بات ذہن میں رکھو کہ اگر اُس نے آتے ہی اساتذہ کی نظر میں اہمیت حاصل کرلی ہے تو ضرور اس میں کچھ صلاحیتیں ہوں گی تب ہی تو وہ اس قدر اہمیت کا حصول اپنے لیے ممکن کر پایا ہے ۔دیکھو،تم پہلے بھی محنت کرتے تھے اور میرے بچے یقیناابھی بھی محنت کرتے ہو گے ،لیکن اب تمہیں زیادہ محنت کرنی چاہیے۔کیوں کہ پہلے کوئی تمہارے مقابلے میں نہیں تھا۔اب زوہیب ایک ذہین اور قابل طالب علم کی صورت میں تمہارے مد مقابل ہے ۔تمہیں اس سے حسد نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اُس کی صلاحیتوں کا ادراک کرکے خود کو احساس کمتری کا شکاربننا چاہیے ۔اورنہ ہی گھبرانا چاہیے ۔بلکہ اس کے مقابل اپنی صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔اگر پہلے تم پڑھائی کو دو گھنٹے دیتے تھے تو اب کم از کم چار گھنٹے دو۔زوہیب کی صلاحیتوں کو دیکھ کر اُس کے اچھے کام کی پیروی کرو۔ناممکن چیز دنیا میں کوئی نہیں۔ہر درد کی دعا ہے۔ہر غم کا علاج ہے اور ہر مسئلے کی طرح اس مسئلے کا بھی حل یہی ہے کہ محنت کر و۔دل چھوڑ کر مت بیٹھو۔قوت ارادی اور قوت فیصلہ مضبوط رکھو۔امید ہے تم میری باتوں کے سبب کسی الجھن میں مبتلا نہ ہوئے ہو گے،بلکہ شاید کچھ سمجھ ہی پائے ہو گے کہ محنت میں ہی عظمت ہے۔“دادا جان نے سر جھکائے حماد کے سر پر ہاتھ پھیرا۔”جی دادا جان!میں سمجھ گیا۔آپ جو کہنا چاہتے ہیں ،میں سمجھ گیا کہ کامیابی محنت میں مضمر ہے۔میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے راستہ دکھایا۔یقین کریں آپ کی باتیں میری دماغ کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر امید کی وادیوں میں لے آئی ہیں۔میں آئندہ مایوسی جیساگناہ نہیں کروں گا۔”حماد نے نئے عزم اورحوصلے سے کہا۔چار ماہ بعد پھر حماد کے گھرمیں بریانی بنی تھی،مگر اس بار حماد نے 98فیصد نمبر حاصل کیے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اول پوزیشن بھی ۔اس کی کلاس میں اُس کے ساتھ ساتھ زوہیب نے بھی اول پوزیشن حاصل کی تھی۔آج بنائی گئی بریانی حماد کو خوش کرنے کے لیے نہیں تھی ،بلکہ اُس کی خوشی کو دوبالاکرنے کے لیے تھی۔تب ہی تو حماد چلا رہا تھا”امی ایک پلیٹ بریانی اور پلیز ۔“ " ٹیں ٹیں - تحریر نمبر 1510,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tain-tain-1510.html,"مریم جہانگیرقونا،فونا اور سونا تینوں دوستیں تھیں۔یہ ایک کم گہرے تالاب میں رہنے والی چھوٹی چھوٹی بطخیں تھیں۔قونا سفید رنگ کی بطخ تھی اور اس کی پیلی سنہری چونچ اور ویسے ہی پاؤں بہت خوبصورت لگتے تھے۔اسے اپنی خوبصورتی کا ادراک تھا۔ہمیشہ تھوڑا سا تیرا کرتی اور اس کے بعد اپنی پونچھ پیچھے سے جھٹکتی ۔پانی پینے کے لئے چونچ پانی میں ڈال کر پانی منہ میں بھرتی اور جب چونچ اوپر آسمان کو کرتی تو پانی اُس کی سفید گردن سے اترتا نظر آتا۔سارے تالاب میں رہنے والوں کو قونا بہت خوبصورت لگتی۔بلبل کے غول اور کبوتروں کے غول دور دور سے آتے اور جاتے وقت قونا کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اپنا دانہ دنکا بھی اُسے بھیج دیتے اور وہ فخر سے اناج لے لیتی۔(جاری ہے)فونا بھی اسی جیسی تھی،پیاری اور چھوٹی سی۔اس کے نچلے پروں پر سر مئی رنگ کے دھبے تھے،ویسے ہی دھبے اُس کے سر پر بھی تھے،لیکن ان دھبوں کی وجہ سے وہ اور بھی زیادہ پر کشش لگتی تھی۔سونا کی چونچ پیلی سنہری تھی۔سر اور گردن کا کچھ حصہ بھورے رنگ کا تھا۔نیچے کا سارادھڑ گہرے سبز رنگ کا تھا۔سونا بھی دیکھنے والوں کو بری نہیں لگتی تھی۔لیکن قونا اور فونا کی موجودگی میں سونا اتنی بھی پیاری نہیں لگتی تھی۔قونا اور فونا اپنے ساتھ سونا کو ہمیشہ لے کر گھومتی تھی۔اس سے انہیں اپنی خوبصورتی کا مزید احساس ہوتا تھا۔وہاں جاتے آتے وقت وہ دونوں راستہ بھر سونا کو تنگ کرتی رہتی تھی”دیکھو وہ دور بیٹھا طوطا بھی ہمیں دیکھ رہا ہے۔دیکھنا وہ امرودکتر کر ہماری طرف ضرور پھینکے گا۔“فونا نے دور بیٹھے طوطے کو دیکھ پر پیشین گوئی کی۔سونا نے حسرت بھری آنکھوں سے طوطے کی طرف دیکھا ۔طوطا درخت کے شاخ سے اڑا۔اُس کی چونچ میں کترا ہوا امرود تھا۔اُس نے وہ امرود سونا کی طرف پھینکا اور بولا”یہ لو تم کھاؤ،میری اچھے دل والی چھوٹی سے بطخ۔“پانی میں کنکر گرا اور سونا کی سوچ کا تسلسل ٹوٹا۔طوطا ابھی بھی سامنے درخت کی شاخ پر بیٹھا ہوا تھا،یعنی یہ صرف اور صرف سونا کی خیالی بریانی تھی۔سونا خود پر ہنس دی۔طوطا حقیقتاً اڑا اور تالاب کے اس حصے میں جس پر سونا،قونا اور فونا تیر رہی تھیں،کترا ہوا امرود پھینکا۔“یہ ہلکی سر مئی اور بہت سفید والی بطخ کے لئے۔“اس کا اشارہ فونا کی طرف تھا۔گوقونا کو مایوسی ہوئی ،مگر وہ روزانہ کی ستائش کی عادی تھی ،لیکن سونا کو بہت ہی برا لگا۔اُسے عجیب طرح کی احساس کمتری نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔اُس نے اپنا منہ پانی کی سطح کے اور قریب کر لیا۔فونا موج میں آچکی تھی۔اس نے امرود چونچ میں دبایا اور تھوڑے سے سبزے کے گردگول گول چکر لگانے لگ گئی۔ساتھ ساتھ وہ اپنی پونچھ بھی ہلا رہی تھی۔بطخ میں بطخ ٹیں ٹیںپیاری سی بطخ ٹیں ٹیںبلبل کو جو پیاری لگیبطخ وہ بطخ ٹیں ٹیںبہت سفید کہیں مجھےبطخ میں بطخ ٹیں ٹیںامی ابو کو پیاری لگوںبطخ وہ بطخ ٹیں ٹیںتیروں تو دُم بھی ہلاؤںبطخ میں بطخ ٹیں ٹیںقونا پیاری کی دوست ہوںبطخ وہ بطخ ٹیں ٹیںفونا لہراتی لہراتی مزید بھی گانا گاتی لیکن سبزے کے ساتھ لگی ڈور اُس کے پاؤں میں الجھ چکی تھی ۔پاؤں سے ڈور نکالنے کے لئے اُس نے جھٹکے دئیے۔ایک ٹانگ کو جھٹکنے کی وجہ سے سارا وزن دوسرے پاؤں پر آگیا تھا۔اور دوسرا پاؤں کہاں اتنا سارا وزن برداشت کر سکتا تھا۔پھر شش شڑاپ ۔فونا کا سارا منہ پانی میں گرا ہوا تھا۔اُس چھوٹی سی بطخ سے یہ بے وقت کی غوطہ خوری ہضم نہیں ہورہی تھی۔فوراً سے قونا اور سونا آگے بڑھی۔دونوں طرف سے ڈور دونوں نے کھینچی اور ڈور الگ ہو گئی۔فونا نے چہرہ اوپر کیا۔کافی دیر تک پانی میں منہ رکھنے کی وجہ سے اُس کا چہرہ ہلکا سرخ ہو چکا تھا۔قونا ایک دم ہنسنے لگ گئی۔ اس کی دیکھا دیکھی سونا بھی ہنس پڑی۔فونا کو اُن کے ہنسنے پر غصہ آگیا۔پانی ہمیشہ نچلی طرف بہتا ہے ،وہ قونا کو تو کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔کیونکہ قونا بہت منہ پھٹ تھی ۔اس نے سونا کو کہا:۔”تم نے خود کو دیکھا ہے ۔تمہارا پانی میں اتنی دیر تک منہ رہتا تو عجیب سی شکل ہوجاتی۔اتنی بدرنگ سی جلد ہے تمہاری۔سمجھ ہی نہیں آتی کہاں سے کہاں تک کون سا رنگ ہے۔“وہ دونوں ہی سونا پر ہنسنے لگی۔سونا کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو آگئے۔”ایسے تو نہیں کہا کروبے شک میرا رنگ سفید نہیں ،لیکن میں بھی تمہاری طرح کی ہوں۔میری چونچ بھی تمہاری جیسی ہے اور میں چلتے ہوئے تمہاری طرح پونچھ بھی ہلا سکتی ہوں۔“سونا نے مٹک مٹک کر انہیں چل کر دکھایا۔فونا اور قونا پھر ہنسنے لگ گئی۔”تم ہمارے ساتھ ہوتی ہو اس لئے تمہیں کچھ نہ کچھ کھانے پینے کو مل ہی جاتا ہے ۔تم اگر اکیلی ہوتو کوئی بھی تمہیں نہ پوچھے۔کالی بطخیں کس کو اچھی لگتی ہیں؟“اب کے قونا نے طنز کیا۔”میں بہت پیاری نہیں ہوں ،لیکن دیکھو کوے بھی تو کالے ہوتے ہیں ،انہیں بھی تو اس دنیا میں رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا سبز طوطوں کو ہوتا ہے۔وہ بھی کھاتے پیتے ہیں ،اُن کے غول بھی اسی طرح گزرتے ہیں۔“سونا نے پھر دلیل دی۔قونا اور فونا ایک دوسرے کی پونچھ کے ساتھ پونچھ ملائی اور پھر مٹک مٹک کر گانے لگ گئیں۔بطخ ہم بطخ ٹیں ٹیںپیاری ہیں بطخ ٹیں ٹیںگھومتی ہیں پورے تالاببطخ ہم بطخ ٹیں ٹیںپرندے ہمیں دیکھنے آئےبطخ ہم بطخ ٹیں ٹیںاپنا دانہ سب ہی دے جائیںبطخ ہم بطخ ٹیں ٹیںپیاری پیاری چھوٹی چھوٹیبطخ ہم بطخ ٹیں ٹیںگاتے گاتے پھر دونوں سبزے کے پاس پھیلی ڈور میں پاؤں الجھا بیٹھی۔دونوں کا منہ اب پانی کے اندر تھا۔اُن سے باہر منہ نکالنا دو بھر ہوا تھا۔پھر شش شڑاپ ۔پانی اچھلتا دور دور پھر رہا تھا۔سونا نے اپنا منہ ڈور کے پاس کیا۔چونچ میں ڈور دبائی اور پیچھے کی طرف کھینچنے لگ گئی۔ڈور میں تنا ؤ آیا۔ساتھ ہی ڈور چونچ سے نکل گئی ۔قونا اور فونا کا براحال تھا۔اُن کی ہانپی ہوئی سانسیں محسوس ہورہی تھی۔اب سونا نے اپنا پیر لکڑی میں پھنسایا جو کہ لکڑی تالاب کے نچلے پتھروں میں مضبوطی سے پھنسی ہوئی تھی۔اب سونا نے چونچ میں ڈور لے کر ڈور کو کھینچنا شروع کیا۔ڈور میں تناؤ آیا۔ڈور ایک دفعہ پھر چونچ سے نکل ہی جاتی،مگر سونا نے لکڑی کے سہارے پر ڈور کو اور بھی زیادہ زور سے کھینچا۔نتیجتاً ڈور ٹوٹ گئی۔سونا کی چونچ پر ڈور سے پڑنے والے نشانات تھے۔جن سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا۔قونا اور فونا کا منہ پانی سے باہر آگیا تھا۔بے وقت کی غوطہ خوری سے دونوں کے منہ اچھے خاصے سرخ ہو چکے تھے۔اور کافی دیر تک کی اس غوطہ خوری نے دونوں کے ہوش بھی ٹھکانے لگا دئیے تھے۔قونا اور فونا سونا کے پاس گئیں اور چونچ اُس کی گردن کے ساتھ پیار سے لگا کر بولی:بطخ تم بطخ ٹیں ٹیںبڑی پیاری بطخ ٹیں ٹیںسوہنے کاموں کی سونابطخ تم بطخ ٹیں ٹیںاس کے بعد دونوں بطخوں نے سونا سے معافی مانگی۔اب وہ تینوں ساتھ ساتھ گھومتی ہیں ۔مٹک مٹک کر چلتی ہیں۔اور کوئی سونا کے رنگ کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔اچھے موسم میں پورا تالاب سنتا ہے:بطخ ہم بطخ ٹیں ٹیںبڑی پیاری بطخ ٹیں ٹیں " بھالو کی اشرفیاں - تحریر نمبر 1509,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhalu-ki-ashrafiyaan-1509.html," " گلہری اور درخت - تحریر نمبر 1508,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gulehri-or-darakhat-1508.html,"”بڑی خوش نظر آرہی ہو اور پھد کتی پھر رہی ہو۔“درخت نے گلہری کو روک کر پوچھا۔ایسا کیا ہو گیا ہے؟“”ارے میاں درخت!مجھ سے پنگانہ لینا ۔ابھی ابھی پہاڑ کو آرام کرواکرآرہی ہوں ۔وہ بھی بہت بول رہا تھا،اُسے میں نے بتادیا ہے کہ میں چیز بہت کام کی ہوں ۔اب تم کیا چاہتے ہو ؟تمہارے سامنے بھی تقریرکروں ؟گلہری نے درخت پر چڑھتے چڑھتے ہی درخت کو جواب دیا۔“ہلکا بھو را درخت کچھ اور گہرے رنگ والا ہو گیا۔اُسے شاید غصہ آگیا تھا۔”ارے بی بی گلہری !غرور کا ہے کو کررہی ہو؟میں نے تو تم سے یونہی خوشی کا سبب پوچھ لیا اور تم تو سر پر ہی چڑھی جارہی ہو۔اگر تم کوئی کام کی شے ہوتو میں بھی کسی سے کم نہیں۔“میاں درخت کو شاخیں لہراتے جھومتے دیکھ کر بی گلہری غصے میں آگئی۔(جاری ہے)”ہاں ہاں!تم کام کے ہو ۔کام کے ہو گے لیکن ہل تو نہیں سکتے ناں؟بڑھتے ضرور ہو لیکن اسی ایک جگہ پر کھڑے رہتے ہو ۔اس دن وہ بچہ تمہاری جڑوں میں بیٹھ کر سائنس کا سبق یاد کر رہا تھا ،وہیں سے میں نے جانا کہ تم Locomotionنہیں کر سکتے۔یعنی حرکت کرتے ہو ،لیکن اپنی جگہ تبدل نہیں کر سکتے ۔بے چارے چچ چچ!”اچھا میں حرکت نہیں کر سکتا؟تم نے سنا نہیں تھا وہ بچہ مجھے دیکھ کر سبق یاد کررہا تھا کہ جڑیں زمین کی طرف بڑھتی ہیں اور زمین سے اپنی بڑھوتری کے لیے پانی لیتی ہیں۔اسے ہائیڈروٹراپیزم(Hydrotropism)کہتے ہیں۔اور شاخیں سورج کی روشنی سے نشوونما پا کر سورج کی طرف (یعنی آسمان کی طرف)بڑھتی ہیں ۔اور روشنی کے پیچھے اُن کی یہ متحرک کا وش(Phototropism)فوٹو ٹراپیزم کہلاتی ہے۔“درخت کو تو غصہ ہی آگیا۔اُس نے اپنی سب سے بلند شاخ کو لہرا کر جرح کی۔”پاگل ہو گئے ہو ؟بڑھتے تو ہو تم۔یہ تو میں بھی کہہ رہی ہوں ،لیکن اپنی جگہ نہیں بدلتے ۔سائنسی وضاحتیں نہ دو۔جواب دو۔کیا تمہارا جی نہیں چاہتاکہ اپنی مٹی بدل کر دیکھو۔اپنی جگہ تبدیل کرو،لیکن بے چارے ایک ہی جگہ پر پھنس کررہ گئے ہو ۔مجھے تمہاری بے چارگی پر افسوس ہوتا ہے۔بہت افسوس !چچ چچ۔“گلہری نے درخت کو باقاعدہ چڑایا۔درخت کچھ دیر کے لیے بالکل خاموش ہو گیا ۔اس کا ہر پتہ ساکن تھا۔ جیسے اُس نے سانس روک لیا ہو۔گلہری اپنی فتح کا جشن منانے ہی لگی تھی کہ ایک دفعہ درخت پھر جھوما ۔جیسے گہرا سانس لیا ہو۔”بی بی گلہری!میں تمہاری طرح بہت زیادہ بحث کرنا تو نہیں چاہتا تھا لیکن سنو!میں بہت کام کاہوں ۔مجھ سے فرنیچر بنتا ہے اور میں مختلف گھروں میں جاتا ہوں ۔میری لکڑی سے بنی کرسیوں پر استاد بیٹھتے ہیں اورعلم کے پیا سے اپنی پیاس بھی مجھ پر ہی بیٹھ کر بجھاتے ہیں ۔مسافر میری گھنی چھاؤں تلے آتے ہیں اور ان کی تھکان دور ہو جاتی ہے۔گاؤں کے بوڑھے میرے سائے میں پنچایت لگاتے ہیں ۔اور لڑکیاں بالیاں میری مضبوط شاخوں میں جھولا جھولتی ہیں ۔جہاں تک بات رہی مٹی بدلنے کی۔میں کیوں اپنی مٹی بدلوں؟مجھے تو اپنی مٹی سے اپنی خوشبو آتی ہے۔روح میں اترنے والی مسحور کن خوشبو ۔یہ میری مٹی کی خوشبو ہی ہے جو میرے پھول سے بھی آتی ہے۔اور سب سے بڑی بات یہ کہ اگر ہم جگہ بدل لیں تو بتاؤ پھر تم کہا ہو گے؟پرندے اپنا بسیرا کہاں کریں گے ؟اور تم جیسی پھدک پھدک کرتی گلہریاں ٹرٹر تو بہت کریں گی ۔اوپر نیچے بھی ہونگی لیکن بے چاریوں کو مسکن نہیں ملے گا ۔اب بتاؤ تمہارا گھر ایک جگہ پڑا ہوا اچھا ہے یا تم روز اسے تلاشنا چاہتی ہو؟“گلہری جواباً شرمندہ ہو گئی اور درخت کے تنے میں بنے اپنے گھرمیں داخل ہو گئی۔اُسے اب درخت کو گلے بھی لگانا تھا کیونکہ روٹھے ہوئے کو جتنی جلدی منالیا جائے ،اتناہی اچھا ہوتا ہے۔ " پنکھو اور منکھو - تحریر نمبر 1507,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pankhu-or-minku-1507.html,"پنکھو اور منکھو دونوں طوطے باغ میں امرود کے پیڑ پر رہتے۔ سارا دن یہاں وہاں گھومتے اور شام میں آکر پیڑ کی شاخوں میں ٹیں ٹیں کرنے لگ جاتے۔صرف ایک امرود ہی کھاکھا کر اُن کے منہ کا ذائقہ یکساں ہو گیا تو انہوں نے ذائقہ بدلنے کی خاطر دور تک اڑان بھرنے کی سوچی۔یہ پھل کے ختم ہونے کا موسم تھا۔وہ بے چارے اپنے پروں کو تھکا کر واپس آگئے ،لیکن انہیں خاطر خواہ خوراک نہ مل سکی۔امرود کے پیڑ پر آکر پنکھو نے منکھو سے کہا”ارے بھیا اب تو ہمیں کچھ نہیں ملا۔کیوں نہ یہ امرودکھا کرہی اپنے پیٹ کا دوزخ بھر لیں؟“”منکھو اگر امرود ہی کھانا تھا تو ہم اتنی دور تک کیوں گئے۔میرے تو سارے پنکھ بھی درد کررہے ہیں۔مجھے کچھ مختلف سا کھانا ہے۔“پنکھو کے دل میں کچھ مختلف کھانے کی خواہش شدید تھی۔(جاری ہے)اُس نے منکھو کو روہا نسے لہجے میں جواب دیا۔جب اُس نے یہ کہہ کر گردن مٹکائی تو اُس کی نظر نسبتاً نچلی شاخ پر اٹکی ہوئی ہرہ مرچ پر پڑی ۔اُس کے منہ میں پانی آگیا۔ وہ اپنے پنکھ لہراتا فوراً مرچ کے پاس پہنچ گیا۔منکھو کو بھی لگا کہ اس لہراتی اڑان کے پیچھے ضرور کوئی وجہ ہے۔اب دونوں مرچ کے دائیں بائیں بیٹھ گئے۔”یہ مرچ میں کھاؤں گا کیونکہ میں نے اس کو پہلے دیکھا ہے۔“پنکھو نے منکھو کی بھوکی نظروں کو غصیلی نظروں سے جواب دیا۔”ہم اسے آدھا آدھا بھی تو کر سکتے ہیں ناں“پنکھو نے منہ میں آتے پانی کو زبردستی روکا۔”تم تو امرود بھی کھا سکتے تھے۔پھر اب کیوں تمہاری رال ٹپکنے لگی ہے۔“پنکھو نے اس کو پرانی بات یاد دلائی۔منکھو سر جھکا کر بیٹھ گیا،اُس کی نظر نیچے زمین پر پڑی ہوئی تین مرچوں پہ گئی تو اُس کی آنکھیں خوشی سے باہر نکل آئی۔منکھو نے اُس کی اڑان دیکھی تو اکلوتی ہری مرچ کو دابے وہ بھی زمین پر اتر آیا۔ابھی پنکھو اور منکھو پھر سے لڑنے کا سوچ رہے تھے کہ وہ جال میں لپیٹ لیے گئے۔چھوٹے سے لڑکے نے جس کا نام ثاقب تھا،اُس جال کو احتیاط سے تھام رکھا تھا۔”میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ تم ہمیشہ مجھے پھنسا دیتے ہو۔تمہاری کم عقلی کی وجہ سے میں ہمیشہ پھنس جاتا ہوں۔“پنکھو نے منکھو کو چونچ مارتے ہوئے کہا۔جواباً منکھو کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا ۔اُس نے صرف ٹیں ٹیں ٹیں کرکے شور ڈالا۔ثاقب نے مضبوطی سے جال کو تھامے رکھا اور اپنے گھر جا کر اُن دونوں طوطوں کو اپنے پنجرے میں قید کردیا۔پنکھو بھیا ہمیشہ مجھے بے وقوف ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔میں ہمیشہ اُن کی سنتار ہتا ہوں،لیکن اس دفعہ اس پنجرے سے میں خود نکلوں گا۔منکھو من ہی من میں سوچ رہا تھا۔پنکھو نے اس کے قریب آکر اُس کے پاؤں پر چونچ ماری ”ہاں بھئی کیا سوچ رہے ہو۔اپنے ناکارہ دماغ کو مت تھکاؤ۔تم چھوٹے ہو ،وقت کے ساتھ ساتھ چیزوں کو سمجھنے کی اہلیت تم میں بڑھتی چلی جائے گی، لیکن ابھی تم اکثر ہی بے وقوفی کر جاتے ہو ۔اس لیے میں نے تمہیں ڈپٹ دیا۔بھیاتم اس بات کو دل پر نہ لے لینا۔“پنکھو نے منکھو کو منانے کی کوشش کی۔”اچھا“منکھو نے یک لفظی جواب دے کر نیم رضا مندی ظاہر کر دی۔”دیکھو بھیا!اس پنجرے سے زیادہ بڑی مصیبت ہم نے آج تک نہیں دیکھی۔اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم نے کیسے اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے ۔تم وہی کرنا جو میں کہوں گا۔اس طرح پہلے تم آزاد ہو جاؤ گے اور بعد میں مجھے بھی آزادی مل جائے گی۔“پنکھو نے منکھو کے کان میں سر گوشی کی۔”سچی ؟“خوشی سے منکھو کی آنکھیں پھر بڑی ہو گئی۔”مچی “پنکھو نے جواب دیا۔اب دونوں پنجرے کی جالی کو دیکھنے لگے۔”ہم کیا کریں گے؟“منکھو نے پوچھا۔جواباً پنکھو نے سارا منصوبہ گوش گزار کر دیا۔دونوں بھائیوں نے مل کر پنجرے کی جالی کوچونچ سے ہلا جلا کر دیکھنا شروع کر دیا۔ایک جگہ سے انہیں اُن کی مطلب کی جالی مل گئی۔وہ ہلکی ہلکی ہل رہی تھی۔اب پنکھو نے اپنی چونچ سے پورا زور لگا کر جالی کو اوپر کی طر ف اٹھایا ۔منکھو نے اپنی چونچ اس راستے سے نکالی ۔پنکھو نے مزید زور لگا یا ،جالی کو مزید اوپر کیا۔منکھو کا سراب پنجرے سے باہر تھا۔پنکھو اپنا زور لگا رہا تھا کہ یکا یک منکھو نے ٹیں ٹیں ٹیں کا شور برپا کر دیا۔”ہائے میں مر گیا․․․․․․ہائے میری گردن ․․․․․“شور سن کر پنکھو کی جان تو جو نکلنی تھی وہ نکل گئی ،لیکن ساتھ ہی ساتھ ثاقب بھی دوڑتا ہوا کمرے سے نکلا ۔اُس نے پنجرے کے پاس آکر منکھو کی گردن کو واپس اندرکیا اور ”بہت شرارتی ہو۔“کا تبصرہ کرکے پنجرے کی جالی پر لوہے کی تارلپیٹ دی ۔پنکھو نے ایک خفانظر ثاقب پر ڈالی اور ایک غصے کی نگاہ منکھو پر ڈالی۔پھر سر جھکا دیا۔ثاقب نے دونوں کو باجرہ ڈالا اور پنجرے کی مضبوطی کو جانچ کر چل دیا۔”دیکھا ؟․․․․․․․․تم نے کیاکیا؟․․․․․․تمہاری وجہ سے یہ لو ے کی تار پنجرے کے گرد لپیٹ دی گئی ہے۔تمہیں میں نے کہا تھا کہ پورا زور لگا کر باہر نکل جانا ،لیکن تم نے اپنی ہی کی ۔ٹیں ٹیں ٹیں مچادی۔“ثاقب کے اندر جاتے ہی پنکھو منکھو پے برس پڑا۔”مجھے لگا کہ جب وہ بچہ ہمیں اتنی تکلیف میں دیکھے گا تو پھر خود ہی آزادی کردے گا۔“منکھو نے اپنی ہانکی۔”پاگل ہو تم؟اگر اُس نے ہمیں آزاد ہی کرنا ہوتا تو وہ ہمیں پکڑتا ہی کیوں؟“پنکھو کا دل چاہا کہ وہ اپنا سر پیٹ لے۔“ارے اچھے بھیا اب تم نہ روٹھو۔میں تمہیں ترکیب بتاتا ہوں ۔اس پر عمل کرکے ہم ضرور نجات حاصل کرلیں گے ۔“منکھو نے شرمندہ لہجے میں اپنے کیے پریشمانی ظاہر کی۔”اب تم کیا ترکیب ذہن میں سوچ کر بیٹھ گئے ہو۔“پنکھو نے غضبناک ہو کر پوچھا۔منکھو اپنی چونچ پنکھو کے کان کے پاس لے گیا اور اپنی ترکیب نجات با نتی۔پنکھو نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا،لیکن منکھو بضدر ہا کہ اس طرح ہمیں رہائی مل جائے گی۔بالآخر پنکھو کو مانتے ہی بنی۔تھوڑی ہی دیر بعد دونوں بھائی اپنے پنکھ پھڑ پھڑانے لگے اور وقت کے ساتھ اس پھڑ پھڑانے میں تیزی آگئی ۔یوں لگتا تھا جیسے چھوٹے سے پنجرے میں بھو نچال آگیا ہو۔ثاقب دوڑ ادوڑا کمرے سے آیا۔اُس نے جب یہ افتاددیکھی تو اپنے بڑے بھائی ناظم کو بھی بلا لیا۔ناظم نے فوراً قینچی مانگی اور پنکھو اور منکھو کے چیخنے چلانے کی پرواہ کیے بغیر اُن کے پنکھ کاٹ دئیے۔”اب یہ اگرپنجرے سے نکل بھی گئے تو اڑ نہیں سکیں گے۔“ناظم نے ثاقب کو حوصلہ دیا تو دونوں بھائی کمرے میں چلے گئے۔پنکھو کو اپنے پنکھ بہت عزیز تھے۔اب وہ ہچکیوں سے رورہا تھا جبکہ منکھو ابھی بھی ڈھیٹ ہی تھا ۔وہ خاموشی سے شر مندہ شرمندہ سا بیٹھا تھا۔اس کے اندر ہمت ہی نہ پڑی کہ وہ بھائی سے معافی بھی مانگ سکے۔بہت دن بیت گئے ۔کٹے پروں کیساتھ ایک بے نام سی ناراضگی نے دونوں بھائیوں کے درمیان پردہ حائل کر دیا تھا۔ثاقب باجرہ پانی ڈالنے آتا تو منکھو مانوس سی حرکتیں کرتا پیار سے ثاقب کی انگلی پر کاٹ لیتا۔جبکہ پنکھو منہ بنا کر دوسری طرف کھڑا رہتا۔منکھو صبح سویرے اٹھ کر پانی کو چونچ میں بھرتا ،پھر اپنے اوپر پھینکتا۔اس کے بعد اپنے پروں کو چھٹک کر تازہ دم ہو جاتا۔جبکہ پنکھو ایک طرف کھڑا رہتا۔اتنے دنوں میں دونوں پرندوں کے پر بھی نئے آگئے۔منکھو سوچتاتھاکہ وہ ثاقب کو خوش کرکے رہائی حاصل کرلے گا۔پنکھو سمجھتا تھاکہ ایسا نہیں ہو سکتا۔خیر دونوں اپنی اپنی کرتے رہے۔ایک دن شام میں ثاقب کے گھروالے قریبی عزیز کے گھر گئے۔ثاقب گھر میں اکیلا تھا۔نجانے اُس کے من میں کیا سمائی ۔اُس نے پنجرے میں باجرہ ڈالا۔منکھو نے ہمیشہ کی طرح اس کی انگلی پر پیار سے کاٹا تو ثاقب نے بھی اُس کے سر کو سہلا دیا۔پھر ثاقب نے پنکھو کو پکڑ کر باہر نکال دیا۔ اور جاکر منڈیر پر بٹھادیا۔”نہ تم ہنستے ہو ،نہ بولتے ہو۔تم خوش نہیں لگتے ۔یوں کرواُڑ جاؤ“ثاقب نے پنکھو کو کہا۔پنکھو کو بہت خوشی ہوئی ۔منکھو بالکل سہم گیا۔اگر پنکھواڑ جاتا تو ساری زندگی وہ اس پنجرے سے نہ نکل سکتا تھا۔پنکھو منکھو سے بڑا تھا۔پنکھو اسے صحیح سمجھاتا تھا۔جہاں منہ بنانا ہو وہاں میں ہنسنے لگ جاتا ہوں ۔جہاں بولنا ہووہاں چپ کرجاتا ہوں ۔مجھے پنکھوبھیا کی باتوں اور نصیحتوں پر عمل کرنا چاہیے۔میں غلط کرتا ہوں۔ میں چھوٹا ہوں اور وہ ہمیشہ میری غلطیاں نظر انداز کر دیتے ہیں۔میں ناجائز فائدہ اٹھاتاہوں۔منکھو بس رونے ہی لگا تھا کہ اُوسے پنکھو کے پھڑ پھڑانے کی آواز آئی۔اس نے دیکھا تو پنکھو ثاقب کے سر پر منڈلا رہا تھا،پھڑ پھڑا رہا تھا اور ثاقب اگرہاتھ سے خود کو بچانے کی کوشش کرتا تو پنکھو زور سے اس کے ہاتھ پر کاٹ دیتا۔منکھو کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟اتنے میں پنکھو نے لڑتے لڑتے آواز لگائی”آؤ منکھو آرجائیں“ثاقب نے پنکھو کو نکالتے وقت پنجرے کا دروازہ بند نہیں کیا تھا۔منکھو کو اب کہانی سمجھ آئی ۔وہ تیزی سے ثاقب کے سر پر آن پہنچا۔اُس کے سر پر چونچ ماری اور دونوں ثاقب سے دور اڑنے لگے۔”یہ چونچوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔“منکھو نے پنکھوکو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا اورلمبی اڑان بھری ۔ " مرا ہوا سانپ - تحریر نمبر 1506,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maara-hua-sanp-1506.html,"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چینو ،منٹو ،نینو ،پینو اور شینو چیونٹیوں کے گروہ کے سب سے ہو شیار اور عقلمند چیونٹیاں تھیں۔یہ پانچوں اکٹھے ہی کھیل کھیل کر بڑی ہوئیں ،لیکن ایک مصیبت سے یہ سب کے سب تنگ تھے ۔انہیں لگتا تھا کہ بار بار ٹیلا بدلنے سے انہیں مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کبھی غلہ،یہاں سے وہاں ڈھونا ،کبھی بیمار چیونٹیوں کو اٹھا کر جگہ بدلنا اور اس روز روز کے سفر سے اکثر بہت بوڑھی آنٹی چیونٹیاں فوت بھی ہو جاتی تھیں۔ٹیلا تبدیل کرنا بھی مجبوری تھی اور اس مجبوری کا نام تھا”گھومبا“۔”گھومبا“بہت ضدی اور اڑیل سانپ تھا۔اُس کا جب اور جہاں دل چاہتا ،حملہ کر دیتا۔اُسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اُس کے اس حملے کی وجہ کتنے حشرات کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔(جاری ہے)سب سے زیادہ اس حملے کا خمیاز ہ چیونٹیوں کو بھرنا پڑتا تھا۔حشرات الارض میں اپنا کھانا ذخیرہ کرکے رکھنے میں چیونٹیوں کا کوئی بھی ثانی نہیں۔چیونٹیوں کا یہ پورا گروہ خاندان کی شکل میں ٹیلے میں رہتا۔نظم و نسق میں بھی یہ بہت اعلیٰ ضبط کا مظاہرہ کرتی تھیں۔اگر کبھی کسی اور کیڑے مکوڑے کو بھی اناج کی ضرورت پڑتی ،وہ ”بی چیونٹی“سے آکر مانگتے۔”بی چیونٹی“گروہ کی سب سے بزرگ چیونٹی کو کہا جاتا تھا۔چیونٹیاں بہت حساس تھیں۔اگر کہیں غلے کی خبر ملتی تو فوراً آکر ایک دوسرے کو اطلاع کر تیں ۔اُن کا غلہ کیا تھا؟ایک بڑا ساخراب امرود بھی بہت ہوتا۔وہ سب جاتی اور مل کر بڑا سا خراب امرود لے آتی۔وہ امرود اور تو کسی کے کام نہیں آسکتا تھا،لیکن چیونٹیاں اس امرود کے ساتھ پوری سردیاں گزار سکتی تھیں۔سردیوں میں ویسے بھی یہ ننھی منھی جانیں باہر تو نکلتی نہیں،لیکن خوراک تو ہر موسم کی ضرورت ہے۔”گھومبا“کی سب سے خراب عادت یہ تھی کہ جب چیونٹیوں کا یہ گروہ سردیوں میں ٹیلے (بل)میں دبک کر بیٹھ جاتا تو وہ کنڈلی مار کر ٹیلے کے پاس بیٹھتا ۔پہلے اپنی لمبی سانس لے کر پھنکا رتا اور پھر زبان باہر نکال کر لہراتا۔چھوٹی چھوٹی چیونٹیاں ڈرجاتی تو وہ ننھے سے ٹیلے پر حملہ کرکے ساری اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی مٹی اوپر کر دیتا۔چیونٹیوں کا سارا انتظام وانصرام تباہ ہوجاتا۔بسا اوقات چھوٹے نوکیلے پتھر بزرگ چیونٹیوں پر آکر گرتے اور وہ ہلاک ہو جاتیں۔چیونٹیاں فطرت کے قانون سے واقف تھیں۔انہیں سانپ کی خوراک بننے پر کوئی اعتراض نہیں تھا مگر وہ خوراک بنانے سے زیادہ پریشان کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا ۔وہ بھلا ذرہ برابر بھی چیونٹیوں کی پرواہ کرتا تھا؟وہ کھانے سے زیادہ ستانے پر یقین رکھتا تھا۔چینو،منٹو،پینو ،شینو اور نینو گھومبا کی ان حرکات سے سخت نالاں تھیں۔اور ایک دن وہ اس معاملے کے حل کے لئے بی چیونٹی کے پاس جا پہنچیں۔”بی چیونٹی!ہم روز روز اپنی ہی چیونٹی بہنوں کی لاشیں اٹھا کر تھک گئے ہیں۔“چینو نے بات شروع کی۔”پہلے اتنی دور سے غلہ لے کر آتے ہیں ،پھر غلہ کے ساتھ ساتھ بوڑھی آنٹیوں کو بھی ڈھونا پڑتا ہے۔“منٹو نے پچھلی دو ٹانگوں پر کھڑے ہو کر سامنے کی ٹانگیں ہوا میں اٹھا لی جیسے اپنی تھکاوٹ ورزش سے دور کر رہا ہو۔”جب ایک جگہ سے دوسری جگہ جاؤ،ساری مٹی دوبارہ کھودنا پڑتی ہے۔ورنہ آرام دہ نیند بھی نہیں آتی۔“پینو نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔”اور اس آرام دہ نیند کے چکر میں ہماری ٹانگیں کتنی دفعہ زخمی ہو چکی ہیں۔“پچھلی کھدائی میں شینو کی ٹانگ پر زخم آئے تھے۔اس لئے اُس نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔نینو اس سب کی باتیں سن کر تنگ آگئی اور دونوں ٹانگیں پھیلا کر اُن سب کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔”تمہیں پتہ بھی ہے”بی چیونٹی“کے سر میں کتنا درد رہتاہے۔پھر بھی تم لوگ وہ مسئلے بیان کررہے ہو جو کہ ان کو پہلے سے معلوم ہیں۔سیدھا سیدھا مدعا بیان کرو۔وہ تدبیر بتاؤ جو ہم لوگوں نے سوچی ہے ۔بلکہ تم لوگ رہنے دو،میں خود بتاتی ہوں۔“نینو اب تقریباً بی چیونٹی کے سر پر چڑھتی ہوئی تھی اور اُن کے کان میں گھس کی ساری تدبیر بتارہی تھی۔پہلے پہل بی چیونٹی نے اُن سب کو منع کیا،لیکن اُن کے ازحد اصرار پر آخر کار مان ہی گئی۔اگلی صبح گرمیوں کے آخری دنوں کی وجہ سے ہلکی ہلکی دھوپ تھی۔گھومبا پھن لہراتا ہوا آیا اور ٹیلے کے پاس کنڈلی مار کر بیٹھ گیا۔ٹیلے کے اندر چیونٹیوں کی شور کی آوازیں پہلے زیادہ تھی ،پھر کم ہو گئی۔حسب معمول گھومبانے ٹیلے پر حملہ کیا۔ٹیلا ٹوٹ کر رہ گیا۔اُس نے زبان پر ذخیرہ غلے کا ذائقہ لیا۔چار دس چیونٹیوں کو زخمی کیا اور چل دیا۔گھومبا اس دفعہ بہت حیران ہوا کیونکہ اس بار اُسے حملہ کرنے میں کوئی تکلیف برداشت نہ کرنی پڑی،ورنہ ہر دفعہ پانچ شیطان چیونٹیوں کا ٹولہ اس کی دم پر آکر کاٹتا تھا۔اور جب بھی وہ پیچھے پڑتا،وہ بھاگ کر پتوں کے نیچے چھپ جاتے تھے۔اُسے لگا کہ شاید اب اُن چیونٹیوں کو بھی حملے کی عادت ہو گئی ہے۔اس لئے اس دفعہ خاموشی سے حملہ سہہ گئی ہیں۔وہ خراماں خراماں اپنے بل میں واپس چلا گیا۔کیونکہ سردیوں کے شروع ہوتے ہی اُس نے ایک حملہ مزید کرنا تھا نئے ٹیلے پر۔چیونٹیوں نے نئے ٹیلے پر سب سے پہلے اپنا اناج پہنچایا۔منٹو نے اناج کی ذمہ داری اٹھا رکھی تھی۔وہ باقی چیونٹیوں کو بتاتا جارہا تھا کہ سب سے نیچے والی تہہ میں اناج رکھنا ہے ۔چینو اور پینو کے ذمہ مٹی کی کھدائی تھی۔وہ تیس سیکنڈ اپنی اگلی دوٹانگیں رگڑتے اور اگلے تیس سیکنڈ پچھلے دو ٹانگیں رگڑتے۔نتیجتاً مٹی کھوددی جاتی۔اُن کے ساتھ اور بھی بہت سے چیونٹے اور چیونٹیاں مدد کروا رہی تھی۔نینو نے اپنے ذمہ بوڑھی چیونٹیوں کو نئے ٹیلے پر پہنچانے کا ذ مہ لے رکھا تھا۔وہ اس نئے ٹیلے پر اناج کے ارد گرد بوڑھی چیونٹیوں کا رہنے کا انتظام کررہا تھا۔شینو کے ساتھ سب طاقتور چیونٹیاں لگی ہوئی تھی۔کیونکہ اُس کا کام یہ تھاکہ ٹیلے کے ارد گرد مٹی کے اندر پتھر رکھے جائیں ۔ایک پتھر پندرہ چیونٹے مل کر اٹھاتے اور پھر آرام کرتے۔ان نازک جانوں کی کمر اتنا بوجھ کیسے اٹھا سکتی تھی۔اب دو ٹیلے تھے۔ایک نیا ٹیلہ جہاں ابھی گھومبا نے تباہی مچائی اور اس کو ازسر نو آباد کیا گیا ۔اور ایک بالکل ہی نیا ٹیلہ اس ٹیلے سے تھوڑا فاصلے پر جھاڑیوں میں چھپا ہوا․․․․․․․رات ہوئی تو باقی تھکے مانے چیونٹے سو گئے۔چینو ،منٹو ،نینو ،پینو اور شینو سب کے سونے کے بعد خاموشی سے ٹیلے سے باہر نکلے اور برگد کے درخت کی جڑ سے بارود نکالنے لگے۔انسان کے بچے بعض اوقات پٹاخوں سے کھیلتے وقت باقی ماندہ پٹاخے یہیں چھوڑ جاتے تھے اور انہی سے چیونٹیوں کو طریقہ نجات سوجھا تھا۔ان پانچوں نے مل کر پتھروں کے باہر بارود کی سرحد بنائی۔پھر اس بار ودی سرحد کے بعد دوبارہ پتھر رکھے ۔اب کی بار رکھے جانے والے پتھر تعداد میں دو دو تھے۔یعنی ایک کے اوپر دوسرا پتھر اور یکے بعد دیگرے ان پتھروں کی جوڑیاں۔اس سارے کام میں صبح کی ہلکی سی روشنی بھی ہونے لگ گئی۔انہوں نے فوراً اپنی واردات پر مٹی ڈالی اور پتھروں کی پہلی باڑ کے پیچھے جا کر چھپ گئے اور سوگئے۔سورج پورے جوبن پر تھا۔اور سردی کے موسم میں یہ جو بن بھی کیا خاک جو بن۔خشک سردی کی وجہ سے چیونٹیاں بھی دبکی بیٹھی تھی۔اتنے میں گھومبا کے رینگنے کی آواز آئی۔بوڑھی چیونٹیاں لرز گئیں۔اس بڑھاپے میں اس پھر یہاں سے وہاں کا سفر ۔اُف کیسا عذاب ہے۔رینگنے کی آوا ز قریب آئی۔ٹیلے کے اندر تمام حرکات ساکن ہو گئی اور سارا شور خاموشی میں بدل گیا۔حملہ ہونے والا تھا۔چینو ،منٹو ،نینو ،پینو اور شینو پتھروں کی قریبی سرحد سے منہ لگائے باہر کا نظارہ کر رہے تھے۔گھومبا اپنی عادت کے مطابق ٹیلے کے پاس کنڈلی مار کر بیٹھ گیا۔زبان باہر نکال کر پھنکارا۔وہ دل میں سوچ رہا تھایہ چیونٹیاں بے چاری ٹیلا بناتی ہی کیوں ہیں۔انہیں پتہ بھی ہے میں نے یہ مٹی کا گھروندہ مٹی میں ہی ملا دینا ہے۔غرور اس کی تنی ہوئی گردن میں واضح تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے حملہ کیا ۔اُس کی زبان جا کر پتھر سے ٹکرائی اور بیرونی پتھروں کی سرحد دراصل پتھروں کی جوڑیوں سے مل کر بنی تھی۔لہٰذا ان پتھروں نے آپس میں رگڑ کھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے بارودنے آگ پکڑ لی۔گھومبا آگ کے لئے تیار ہی کب تھا۔وہ اس افتاد پر منہ بھی پیچھے نہ کر سکا ۔اور اُس کی لمبی زبان وہیں جل گئی۔منہ پر آگ لگنے کی وجہ سے گھومبا درد سے دہرا ہوا اور اس کی دم سیدھا آگ میں جا پڑی ۔اردگرد گھاس پھونس نے بھی آگ پکڑ لی تھی۔باہر کے شور سے ساری چیونٹیاں ٹیلے کے اندر شدید خوف میں مبتلا تھیں۔صرف چینو ،منٹو ،پینو ،نینو اور شینو کی آنکھوں میں اشتیاق تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ رعب دار اورمغرور گھومبا جل کر مر گیا۔چینو ،منٹو ،پینو ،نینو اور شینو ناچتے ہوئے مر ے ہوئے گھومبا کے اوپر آکر بیٹھ گئے۔انہوں نے ابھی اس کو ٹیلے کے اندر لے کر جانا تھاجو پتھروں کی چار دیواری کی وجہ سے محفوظ تھا۔بی چیونٹی کی آنکھ میں اپنے ننھے سپاہیوں کے لئے فخر تھا۔درخت پر بیٹھے الّونے سوچا”سچ ہی کہا جاتا ہے ۔زندہ سانپ چیونٹیوں کو کھاتا ہے اور مرے ہوئے سانپ کو چیونٹیاں کھا جاتی ہیں ۔“ " سچا خزانہ - تحریر نمبر 1505,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sacha-khazana-1505.html,"مریم جہانگیرسالہا سال پرانی بات ہے۔مصر کے ایک کم آبادی والے علاقے میں ایک کم عمر لڑکا ہارون اپنے دادا شفیع الدین کے ساتھ رہتا تھا۔چھوٹی سی جھونپڑی جس کے باہر ایک طرف گدھا باندھا ہوتا تھا اور دوسری طرف سبزیاں کاشت کی جاتی تھی۔ہارون کے دادا کافی ضعیف انسان تھے۔ایک رات نیند میں انہیں شدید کھانسی کا دورہ پڑا۔ہارون حساس طبیعت کا مالک تھا۔نیند سے جاگ گیا اور اپنے دادا کا سینہ ملنے لگا۔شفیع الدین نے اُس کے چھوٹے ہاتھوں کا سہارالیا اور بیٹھ گیا۔ہارون کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کھانستے ہوئے رک رک کر بولے”میں نے جو کیا ہے تمہارے اچھے کے لئے کیا ہے ۔سفر کے اختتام پر تمہیں سفر طویل نہیں لگے گا۔میری وصیت کالے بستے میں پڑی ہے۔(جاری ہے)اس کا سہرا لینا ۔منزل مل جائے گی۔“انہوں نے کھونٹی پر لگے بستے کی طر ف اشارہ کیا اور اس کے بعد مسلسل کھانسی نے انہیں جینے نہ دیا۔اپنے دادا کی تدفین کے بعد ہارون کو کالے بستے کا خیال آیا۔اس نے کا لابستہ کھولا۔اُس میں ایک چھتری ،بہت سے پتھر اور لکڑی کے مختلف سائز کے ٹکڑے پڑے تھے۔وہ حیران ہوا یہ کسی وصیت ہے۔پھر اُس نے الٹ پلٹ کربیگ کا جائزہ لیا۔بیگ کے ایک طرف ایک چھوٹی سی زپ تھی۔اُس نے اُسے کھولا تو صفحے پر بہت خوبصورت لکھائی میں درج تھا کہ :”سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”اے لڑکے!اللہ کا دھیان رکھ!وہ تیرادھیان رکھے گا۔اللہ کا دھیان رکھ!تو اُسے اپنے سامنے پائے گا۔اور جب سوال کرے تو فقط اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگوتو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ اور جان لے کہ ساری دنیا اس بات پر جمع ہو جائے کہ تجھے کوئی فائدہ پہنچائیں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔مگر جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر وہ جمع ہو جائیں کے تجھے کوئی نقصان پہنچائیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔مگر جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے،قلم خشک ہو گئے اور صحیفے لپیٹ دئیے گئے۔“(ترمذی کتاب صفت القیامة2516،مسنداحمد:2673)ہارون نے سب چیزیں واپس بستے میں ڈالی اور جھونپڑی سے باہر نکل کر چل پڑا۔کچھ خشک میوہ جات اُس نے اپنی جیب میں بھر لیئے تھے۔انہیں کھاتا رہا اور چلتا رہا۔چلتے چلتے رات پڑ گئی اور اندھیرا گہرا ہو گیا۔بارش شدید طوفان کے ساتھ یکایک آئی اور سارے منظر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ہارون ایک بڑے سے درخت کی جڑوں میں بیٹھ گیا لیکن بارش اپنی سمتیں بدل رہی تھی۔اُس نے چٹکی بجائی اور بستے میں سے چھتری نکالی۔لیکن یہ کیا․․․․․طوفان نے شدت اختیار کرلی اور اُس کی چھتری اُس سے کہیں دور جاپڑی۔اُس لڑکے کے دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگیں۔وہ خود سے مخاطب ہوا”ہارون تم نے کیا غلطی کی ہے جو پھنس گئے ہو؟“مگر جواب نہ ملا۔بادلوں کی گڑ گڑاہٹ اور بجلی کی چمک نے اُس کے اوسان خطا کر دئیے۔”دادا کے زندہ ہوتے میں اُن سے مشورہ لیتا تھا۔اب کیا کروں اور کس سے پوچھوں؟“وہ خود سوال کر رہا تھا”ہاں!دادا جان نے جو وصیت کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ لکھ کر دی ہے،اُس سے ضرور کوئی نہ کوئی راستہ نکلے گا۔اب کے جب بجلی کڑکی تو ہارون نے دوبارہ حدیث مبارکہ کو پڑھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو آنے لگے”اے لڑکے!اللہ کا دھیان رکھ!وہ تیرا دھیان رکھے گا۔اللہ کا دھیان رکھ“یہ دادا ابو نے سمجھا یا تھا کہ اللہ کا دھیان کیسے رکھا جاتا ہے۔بہترین طریقہ ہے کہ نماز پڑھ کر ۔نماز اللہ کی یاد ہے۔اللہ سے ملاقات ہے اور وہ صبح سے اس وقت تک نماز کو بالکل بھلائے ہوئے تھا۔اس نے اللہ تعالیٰ کا دھیان نہیں رکھا تھا۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُس کا دھیان نہیں رکھا۔اُس نے تھوڑی دیر سوچا ۔پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور چھتری اٹھا کر لایا۔زمین پر تھوڑی سی جگہ چھتری کے لوہے والے سرے سے کھودی اور اردگرد پتھر رکھ دئیے۔دیکھتے ہی دیکھتے پانی جمع ہو گیا۔ہارون نے وضو کیا اور صبح سے ابھی تک کی ساری نمازوں کی قضا پڑھنے لگا۔نماز پڑھ کر جب سلام پھیرا تو طوفان تھم چکا تھا۔اُس نے شکرانے کیلئے ہاتھ اٹھائے اور وہیں میٹھی نیند نے اُسے آلیا اور وہ سو گیا۔اگلی صبح کسی نے زور سے ہارون کا کندھا ہلایا اور آنکھیں ملتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔یہ چھوٹا سا قافلہ تھا۔ایک درمیانی عمر کے انکل،اُن کے ساتھ اُن کی بیوی اور دو بیٹیاں۔بڑی لڑکی ہارون سے تین چار سال چھوٹی تھی اور چھوٹی بیٹی کو اُن انکل کی زوجہ نے اٹھا رکھا تھا۔”یہاں کیوں پڑے ہوئے ہو؟“انکل نے پوچھا۔“وہ میں شہر کی طرف جانا چاہتا ہوں۔اپنے دادا کے ساتھ رہتا تھا،اُن کا انتقال ہو گیا ہے۔وہ شہر کا بہت تذکرہ کرتے تھے۔“ہارون نے جواب دیا۔دادا کو یاد کرتے ہی اُس کی آنکھوں میں نمی سی آگئی تھی۔”آؤ ہمارے ساتھ چلو۔“اُس آدمی نے ہارون کے کندھے کو سختی سے دباتے ہوئے کہا۔ان کے انداز میں عجیب سی حاکمیت تھی۔اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔لہٰذا ہارون اُن کے پیچھے پیچھے چل دیا۔گھر سے لائے ہوئے خشک میوہ جات کہیں راستے میں ہی گر گئے تھے۔یا شاید کل رات کی بارش نے انہیں بہادیا تھا۔بھوک سے پیٹ میں مروڑ پڑ رہے تھے۔ایک کنوئیں کے پاس آکر وہ آدمی رُکا۔”اس جگہ ہم آدھا گھنٹہ قیام کریں گے ۔تمہارا کھانا پینا ہمارے ذمہ نہیں ہے۔جہاں سے جو دل کرتا ہے ،کھالو۔آدھے گھنٹے بعد یہیں آنا ۔پھر ہم آگے چلیں گے۔ہارون اس بات کو سن کر رونا چا ہتا تھا،مگر اُسے حدیث یاد آگئی۔”اور جب سوال کرے تو فقط اللہ سے سوال کر۔اور جب مدد مانگے تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ“۔اُس نے روتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ”تو نے حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں ،کیڑے کو پتھر میں رزق سے نوازا ہے۔یا اللہ مجھے بھوکا مت رکھ!مجھے بھی کچھ کھانے کو دے ۔یا ارحم الراحمین یا ارحم الراحمین مجھ پر رحم فرما اور میری دعا کو قبول فرما۔“درود شریف پڑھ کر جب اُس نے آنکھ کھولی تو دور ایک سیب کا درخت نظر آیا۔جس کے ساتھ انگور کی بیل بھی لگی ہوئی تھی۔اُس نے دیکھا کہ آس پاس کے سارے درخت ہی پھلوں سے بھرے ہوئے تھے۔وہ چلتا چلتا آگے آیا اور درختوں پر ہی نظر رکھی ہوئی تھی کہ پاؤں دفعتاً گیلا ہو گیا۔اُس نے دیکھا تو نیچے پانی تھا۔پانی کا بہاؤ تیز تھا ،وہ فوراً پیچھے ہوا۔یہ کسی نہر کی شاخ تھی یا کوئی چشمہ ۔اُس نے ترکیب آزمائی ۔اپنے بیگ سے لکڑی کے سارے ٹکڑے نکالے۔سب سے بڑا ٹکڑا ہاتھ میں رکھا۔پانی بس ایک فٹ گہرا تھا ،لیکن اُس پر گہرے سبز رنگ کی کائی جمی ہوئی تھی۔ اور جامنی رنگ کا ایک پودا تھا۔جس کے بارے میں عموماً گاؤں میں کہا جاتا تھا کہ زہر یلا پودا ہے۔جس کے جسم کو چھوجائے، وہ فوت ہو جاتا ہے۔ہارون نے سب سے بڑا لکڑی کا ٹکڑا ہاتھ میں رکھا اور چھوٹے ٹکڑوں کو پانی میں عموداً گاڑ دیا۔اس طرح جامنی پودا چھپ سا گیا۔اب وہ پنجوں کے بل ان لکڑیوں پر چلتا ہوا پانی کے دوسری طرف گیا۔لکڑی کا بڑا ٹکڑا ایک طرف رکھا۔یہ واپسی میں بھی پانی کے تیز بہاؤ سے بچنے کے کام آنا تھا۔دوسری طرف آکر جب درختوں کو دیکھا تو سب پھل اونچے تھے ۔اور درختوں پر چڑھنا وہ نہیں جانتا تھا۔اُس نے بستے میں ہاتھ مارا تو نوکیلے پتھر ہاتھ میں آئے۔دماغ نے پھر ساتھ دیا۔اُس نے پتھروں کے ذریعے نشانے لگا لگا کر پھل نیچے گرائے اور انہیں بستے میں بھر تا گیا۔پھل کو دیکھ کر بھوک احساس ختم ہو چکا تھا۔اُسے یاد آیا کہ جن لوگوں کے ساتھ وہ چل رہا تھا،اُن کے پاس بھی کھانے کو خاص سامان نہ تھا۔وہ واپس اُسی کنوئیں پر پہنچا ۔اُن انکل اور اُن کے خاندان کو پھل کا بڑا حصہ دیا اور خود بھی کھایا۔تین دن کے سفر کے بعد وہ لوگ شہر پہنچ گئے ۔شہر پہنچ کر ہارون اُن انکل جن کا نام سمیع الدین تھا۔اُن سے الگ ہونے لگا تو وہ زبردستی اُسے اپنے گھر لے گئے۔وہاں ایک کمرے میں ہارون کو بند کر دیا۔ہارون حیران ہوا اور وہ باہر سے بولے:”میں تمہارا حقیقی چچا ہوں۔مجھے حیرت ہے کہ تمہیں نام سے شک نہیں ہوا۔یہ گھر اور بہت سا کاروبار تمہارے والد کا ہے۔جسے میں حاصل کرنا چاہتا تھا۔کیونکہ تمہارے والدین فوت ہو گئے تھے۔میرے ارادے کو دیکھتے ہوئے میرے ابا جان یعنی تمہارے دادا جان تمہیں یہاں سے دور لے گئے۔میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔لیکن میرے اس ظلم کے بعد میرے تینوں بیٹے وبائی بیماری سے اللہ پاک کو پیارے ہو گئے۔میں انہیں دفنا نے گیا تو ابا جان کا خیال آیا۔کیونکہ وہ یہاں سے جانے سے پہلے تمہارے والد کی کمائی کے تمام جواہرات اور کاغذات اس کمرے میں موجود صندوقوں میں بند کر گئے تھے۔گاؤں پہنچنے سے پہلے جنگل میں ہی تم مل گئے۔ان صندوقوں کے تالوں میں چار ہندسوں والا نظام ہے۔میں نے بہت کوشش کی ،لیکن صندوق کھولنے میں ناکام رہا۔اب تم مجھے یہ کھول کردو گے ورنہ یہیں مرجاؤ گے۔اپنے تینوں بیٹوں کی زندگی گنوانے کے بعد مجھے یہ جواہرات ملنے چاہئے۔اندر ہارون انکشاف پر انکشاف سن کر حیران تھا۔اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔اُسے یاد آیا۔حدیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔”اور جان لے کہ ساری دنیا اس بات پر جمع ہو جائے کہ تجھے کوئی فائدہ پہنچائیں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکیں گے۔مگر جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ،اور اگر وہ جمع ہو جائیں کہ تجھے کوئی نقصان پہنچائیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے۔مگر جو اللہ تعالیٰ نے تمہار ے لئے لکھ دیا ہے،قلم خشک ہو گئے اور صحیفے لپیٹ دئیے گئے۔“ہارون بولا”چچا جان!آپ نے جو کیا ہے،میں اُس کے لئے آپ کو معاف کرتا ہوں۔آپ بھی انسان ہیں اور انسان خطا کا پتلا ہے۔آپ دروازہ کھولیں۔میں آپ کو وہ 4ہندسے بتاتا ہوں جو ان دونوں صندوقوں کو کھول دیں گے۔“سمیع الدین حیران ہو گئے اور دروازہ کھول دیا۔اندر داخل ہوئے۔دونوں چچا بھتیجا صندوق کے سامنے جا بیٹھے۔ہارون بولا”پہلے صندوق کا خفیہ تالا کھلنے کے ہند سے ہیں”2516“یہ لگانے کی دیر تھی،صندوق کھل گیا اور جواہرات کی چمک سے ہارون کو اپنی آنکھوں پر باز ورکھنا پڑا۔سمیع الدین حیرانگی سے دوسرے صندوق کی طرف بڑھے اور سوالیہ انداز میں ہارون کو دیکھا۔وہ بولا”2673“۔صندوق کھل چکا تھا اور جائیداد کے تمام کاغذات سامنے تھے۔سمیع الدین اب ہارون کی طرف مڑے۔”تمہیں کیسے پتہ چلا یہ سب؟“ہارون نے ہاتھ میں دبا کاغذ اُن کی طرف بڑھایا(ترمذی کتاب صفت القیامة:2516،مسند احمد2673)۔آخر میں یہ لکھا دیکھ کر سمیع الدین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اور انہوں نے اللہ سے سچی تو بہ کی۔ہارون کو گلے سے لگاتے ہوئے بولے”بے شک میں غلطی پر تھا اور حدیث کی راہ پر چلنے والوں کو شکست نہیں ہوتی۔“ساری دنیا نے دیکھا کہ اس کے بعد سمیع الدین چچا ہونے کے باوجود ہارون کے لئے کبھی مشکل کھڑی نہ کر سکا۔(ایک پیسے کا بھی غبن نہ کیا)اور ہارون کی جوانی تک اُس کے کاروبار کو ایماندار ی سے دیکھتا رہا۔کیونکہ”لاحول ولاقوة الاباللہ العلی العظیم“ " بیو قوف ڈاکو اور عقلمند موچی - تحریر نمبر 1504,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bewaqoof-daku-or-aqalmand-mochi-1504.html," " شہزادی کی تین شرطیں۔۔۔تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1503,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shehzadi-ki-teen-shartain-1503.html," " بھالو - تحریر نمبر 1502,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhalu-1502.html,"پیارے بچو!پچھلے شمارے میں ہم نے آپ کو مگرمچھ کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں لیکن اس بار ہم آپ کو بھالو کے بارے میں بتاتے ہیں چونکہ گرمی کا موسم ہے اس موسم میں بھالو زیادہ گرمی برداشت کرکے خطرناک ہو جاتے ہیں لہٰذا بچوں کو اس کے بارے میں بتانا ضروری ہے برفانی ریچھ انسانوں کے لیے کسی حد تک خطر ناک جانور ہیں اور یہ اس وقت جان لیوا حملہ کر سکتے ہیں جب کوئی انسان ان کے ماحول میں مداخلت کرے ،تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمیٹ چینج ان بھالوؤں کی جارحیت میں مزید اضافہ کر سکتا ہے ۔عام طور پر برفانی بھالو اس وقت انسانوں پر حملہ کرتے ہیں جب کوئی انسان ان کی رہائش گاہوں میں مداخلت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ایسی صورت میں یہ نہایت خطر ناک اور جارح ہو جاتے ہیں ۔(جاری ہے)تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث بھالوؤں کی رہائش کے علاقوں اور خوراک میں کمی آرہی ہے جس سے یہ بھالو دباؤ کا شکار ہو کر انسانوں کے لیے مزید خطر ناک بنتے جارہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمیٹ چینج کے باعث برف پگھلنے کی وجہ سے یہ انسانوں کی آبادیوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہو جائیں گے اور اصل خطرہ اس وقت سامنے آئے گا۔یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ ہر وقت کسی خطر ناک دشمن کے نشانے پرموجود ہیں۔ان بھالوؤں کے غصے میں اضافے کی ایک اور وجہ ان کی خوراک میں کمی آنا ہے۔سمندری آلودگی کے باعث دنیا بھر کے سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے جوان بھالوؤں کی اہم خوراک ہے۔غذائی قلت اور بھوک ان بھالوؤں کو انسانوں پر حملہ کرنے پر مجبور کرے گی اور ماہرین کے مطابق ایک بھوکے بھالو کے حملے سے بچنا نہایت ہی مشکل عمل ہو گا۔امریکا کے چیو لو جیکل سروے کے ماہر جنگلی حیات ٹوڈایٹوڈ کا کہنا ہے کہ سنہ 2000کے بعد بھالوؤں کے انسانوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ ایک جا مع تحقیق کے مطاق منہ 1870سے لے کر 2014تک اس نوعیت کے 73واقعات سامنے آئے ہیں جن میں بھالوؤں نے برفانی علاقوں میں آنے والے اکیلے سیاحوں یا سیاحتی گروہوں پر حملہ کیا۔ان حملوں میں 20افراد بلاک جبکہ63زخمی ہوئے۔مئی 2008میں جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے برفانی بھالوؤں کو خطرے کا شکار جانور قرار دیا تھا۔ان کے مطابق اگر موسموں میں تبدیلی اور تیزی سے برف پگھلنے کی رفتار جاری رہی تو ہم بہت جلد برفانی بھالوؤں سے محروم ہوجائیں گے۔ " ہمارے قائد - تحریر نمبر 1501,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hamare-quaid-1501.html,"شاہ بہرام انصاریبانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح تاریخ کا ایک ایسا سنہری نام ہے جس کی کرنیں آج بھی لوگوں کے دل ودماغ منور کررہی ہیں۔مسلمانوں کے اندر آزادی اور حریت کا بے پناہ جوش وجذبہ پیدا کرنے کے لیے وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور محنت ولگن کا دامن پکڑ کر ایک روشن مثال قائم کی۔بلاشبہ پاکستان معرض وجود آنے میں سب سے زیادہ جدوجہد قائداعظم نے کی اور اپنے مخلص ساتھیوں کی مدد سے اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر دیا۔برصغیر کے بے بس ولا چار مسلمانوں کو ہاہائے قوم کی قابل تعریف کوشش سے جو سوچ اور آگاہی ملی،اس نے انہیں ہندوؤں اور انگریزوں کی غلامانہ زندگی کی زنجیروں اور ذہنی قید سے نجات دلاتے ہوئے ایک اسلامی مملکت کا حصول ممکن بنا دیا۔(جاری ہے)نظریہ پاکستان کے بعد انہوں نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگایا اور پاکستان کا مطالبہ کرتے وقت یہ نہیں سوچا کہ وہ ان کا ساتھ دیں گے یا نہیں۔بس ان کے دل میں مسلمانوں کے لئے ایک تڑپ موجود تھی جو بعد میں قیام پاکستان بن کر ایک لازوال حقیقت کی شکل اختیار کرگئی۔قائداعظم کی سوچ اور خیالات مسلمانوں کی خواہشات کے عین عکاس تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو دین اسلام کا قلعہ دنیا کے نقشے پر کبھی نہ ابھرتا ۔عرصہ دراز سے جو مسلم قوت دبکی ہوئی تھی ،ان کی ایک آواز اٹھانے کے بعد غفلت دلا پروائی کی نیند سے بیدار ہو کر شعور کے زینے پررواں ہو گئی۔پاکستان قائم ہوتے وقت لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔یہ ہمارے قائد کی انتھک محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھی ہر محب وطن پاکستانی اس سوہنی دھرتی کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتاہے۔کتنے تھے پیارے قائد ،میرے قائد ،تمہارے قائد دشمن بھی لر زاٹھے ،ایسے تھے ہمارے قائد قائداعظم نے تصور پاکستان کے ذریعے مسلم دنیا میں آزادی کا ایسا جنون اور ولولہ پیدا کیا کہ ایک دن پاکستان کا پرچم دنیا میں لہرادیا گیا ۔ان کے اس اقدام نے مسلمانوں کو ظالموں سے لڑنے اور ان سے اپنے حقوق لینے پرا کسایا۔مسلمانوں پر حکومت کرنے والے انگریزی اور ہندو ہمارے قائد کے سپاہیوں کے بلند حوصلے کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے الگ وطن حاصل کر لیا۔بانی پاکستان کی عظمت کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے کہ آج دنیا کی ہر قوم ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔قائد نے دنیا بھر کے انسانوں اور خصوصاً مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ مسلسل جہد ادرپختہ عزائم سے منزل حاصل کی جاسکتی ہے،خالص نیتوں اور مضبوط ارادوں کی بدولت دنیا کو فتح کیا جا سکتا ہے آج قائد اعظم کے بہادر ،نڈر اور بے باک سپاہی شاہین کی طرح اپنے ملک کی حفاظت پر محو پر واز ہیں اور اس کی خاطر دنیا کی ہر قوت سے جان لڑانے کو تیار ہیں ۔ان کو قابل ستائش محنت کا ثمر ہم اس پیارے وطن کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ان گنت اور بے شمار آزمائشوں اور مصیبتوں سے گزرنے کے باوجود قائد کا پاکستان پوری شان و شوکت سے قائم ہے خدا نے چاہا توقیامت تک قائم ودائم رہے گا۔ " بادل کی نصیحت - تحریر نمبر 1500,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badil-ki-naseehat-1500.html,"فائقہ اجملآسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے بادل اتنے گہرے تھے کہ دن میں بھی رات کا گمان ہورہا تھا۔عمر تیزے سے اپنے کھیتوں کی طرف جارہا تھا تاکہ اگر بارش آجائے تو وہ گندم کے گھٹوں کو پلاسٹک کی چادر سے ڈھانپ دے ۔کچی سڑک پر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا چلا جارہا تھا گھنگور گھٹاؤں سے ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی تیز موسلاد ھار بارش شروع ہو جائے گی پھر چند ہلکی ہلکی بوندیں برسیں تو عمرنے بھا گنا شروع کر دیا اچانک اس نے ایک آواز سنی ایسی آواز تھی جیسے کوئی کسی ویران کنویں کے اندر سے بولا ہوتوعمر کے قدم رک گئے اس نے ادھر ادھر دیکھا کوئی بھی نظر نہ آیا،یہاں توکوئی بھی نہیں ہے۔پھر یہ آواز کہاں سے آئی اس نے زیر لب کہا یہ میں ہوں۔سراٹھا کراوپر آسمان پردیکھا وہی آواز پھر آئی عمر نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا آسمان پر اسے بادل کا بڑا سا ٹکڑا نظر آیا پھر اسے بادل کی آنکھیں اور ہونٹ بھی نظر آئے تم کون ہوں ذیشان نے ڈرتے ڈرتے پوچھا آواز آئی میں بادل ہوں۔(جاری ہے)عمر نے کہا میں نے اس شکل میں تمہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔بادل نے کہا میں قطب شمالی کے برف پوش پہاڑوں کے اوپر رہتا ہوں میں دنیا دیکھنے نکلا ہوں ہوائیں مجھے ملک ملک لیے پھر رہی ہیں اب آدھی دنیا دیکھ چکا ہوں یہ کونسا ملک ہے؟عمر نے فخر سے کہا یہ میرا وطن پاکستان ہے۔بادل نے کہا مجھے اپنے پیارے وطن کے بارے میں بتاؤ!عمر نے کہا کیوں نہیں ۔عمر بولا میرا ملک ہرے بھرے میدانوں گھنے جنگلوں میٹھے پانی کے چشموں بل کھاتی ندی نالوں شورمچاتے آبشاروں اور ملک بوس پہاڑوں کا دیس ہے ۔اس کے چار موسم ہیں گرمی ،سردی،بہار ،خزاں ہر موسم کا الگ مزہ ہے۔یہاں مٹی کو سونا بنانے والے مزدور اور کسان ہیں۔سمندروں کا سینہ چیرتے ملاح فضا میں اڑنے والے شاہین صفت ہواباز ہیں۔ہمارے ملک میں درس گا ہیں ہیں۔تخلیق وجستجو کے سمندر سے آگاہی کے موتی چننے والے سائنس داں ہیں ۔ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہیں۔ہمارا ملک اقوام عالم میں بھائی چارے اور امن کے فروغ کا خواہش مند ہے ۔ہم نے یہ پیارا وطن قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے اور اس کی حفاظت اور حرمت کی خاطر سر پر کفن باندھے ہر وقت کٹ مرنے کے لیے تیار ہیں۔عمر بڑے جذبے سے یہ سب کہہ رہا تھا اور بادل کے ہونٹوں پرمسکراہٹ تھی ۔بادل نے کہا اپنے وطن کے بارے میں تمہارے جذبات کی میں بے حد قدر کرتا ہوں مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ یہاں کے اکثر لوگ وطن کی بہتری پر توجہ نہیں دے رہے ہیں سر سبز درختوں کو بے دردی سے کاٹ رہے ہیں یہ درخت فضا کو آلودگی سے پاک رکھتے ہیں لوگوں میں سجر کاری کا رجحان نہیں ہے کارخانوں اور گاڑیوں کے دھویں سے بھی فضائی آلودگی پیدا ہورہی ہے اس زہریلے دھویں میں سیسہ ہوتاہے جو انسان کی ذہنی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے شور بھی انسان کے مزاج پر اثر ڈالتا ہے شور یعنی(وائس پلوشن )کا شمار بھی آلودگی میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ مختلف ذہنی امراض میں تیزی سے مبتلا ہورہے ہیں۔ان سب خرابیوں کی وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے تم لوگوں کو چاہئے کہ جگہ جگہ درخت لگاؤ تاکہ ماحول بہتر ہو اور ذہنی اور جسمانی صحت اچھی رہے میری نصیحت یاد رکھنا اور یہ بھی نہ بھولنا کہ آج جو مفت کی نصیحت قبول نہیں کرے گا کل وہ مہنگے داموں افسوس خریدے گا۔اس وقت تیز ہوائیں چلنے لگیں درختوں کی شاخیں شائیں شائیں کرتی ہلنے لگیں بادل نے کہا اچھا دوست خدا حافظ پھر ہوائیں اسے اپنے جوش پر لئے دورافق کی طرف بڑھ گئیں۔اچانک بارش کی بوچھاڑ سے عمر کو ہوش آگیا اس نے چونک کر اپنے آس پاس دیکھا اسے ایسا لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا تھا پھر وہ اپنی گندم کو بارش سے بچانے کے لئے تیزی سے کھیتوں کی جانب دوڑا۔ " دوست وہ جو ہمیشہ کام آئے - تحریر نمبر 1499,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dost-wo-ju-hamesha-kaam-aye-1499.html,"نایاب اظہرایک دفعہ کا ذکر ہے ایک مینڈک اور ایک چوہا بہت اچھے دوست تھے۔چوہا جنگل کے درمیان میں ایک درخت کے سوراخ میں رہتا اور مینڈک کا بسیرا جنگل کی اگلی طرف پائے جانے والے تالاب میں تھا۔گھر دور ہونے کے باوجود بھی دونوں ہمیشہ ایک ساتھ پائے جاتے تھے۔دونوں کی دوستی اتنی گہری تھی کہ پورے جنگل میں ایسا کوئی نہ تھا جس نے انہیں کبھی ایک دوسرے کے بغیر دیکھا ہو۔دونوں جہاں جاتے ،ساتھ جاتے۔جو بھی کھاتے،ساتھ کھاتے۔اپنی ہر چیز ،ہر خوشی ساتھ بانٹتے اور صرف یہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مصیبت کے وقت کام آتے۔ہر کوئی اُن کی اس بے مثال دوستی سے متاثر تھا۔پورے جنگل میں اخوت وبھائی چارے کی مثال مینڈک اور چوہے کی دوستی کی دی جانے لگی۔دونوں کی دوستی کے قصے رات کو سنائے جانے لگے۔(جاری ہے)مینڈک اور چوہا اپنی دوستی کی اس مقبولیت کو سن کر نہایت خوش ہوئے، کچھ وقت سوچنے کے بعد اس نتیجے پہ پہنچے کہ اُنہیں اتنی شہرت اپنی دوستی کی بنا پہ ملی ہے لہٰذا ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے۔وقت گزرتا گیا لیکن مینڈک اور چوہے کی دوستی میں کمی نہ آئی۔مینڈک معمول کے مطابق ،صبح سویرے اپنے تالاب سے نکل کر چوہے کے گھر کی جانب سفر کا آغاز کرتا،کوئی آدھ گھنٹے بعد چوہے کے بل تک پہنچتا اور چوہے کو پہلے ہی اپنا انتظار کرتے پاتا۔اس کے بعد دونوں پورا دن جنگل میں گھومتے پھرتے رہتے اور شام کو اپنے اپنے گھروں کی جانب نکل پڑتے۔ایک شام ،تالاب کے قریب مینڈک کو ایک اُلّو کی آواز آئی ۔مینڈک نے اوپر دیکھا تو اُلّو کو درخت کی ٹہنی پہ بیٹھے پایا۔”مینڈک میاں کیوں اپنی جان کے دشمن بنے ہو؟“مینڈک نے اُلّو کے اس سوال پہ حیرانی ظاہر کی تو اُلّو ایک بار پھر بولا:”کتنے بھولے ہو تم میاں۔تمہارا دوست چوہا اتنا چالاک ہے تمہیں معلوم ہی نہیں۔کافی عرصے سے دیکھ رہا ہوں،تم روز صبح سے لے کر شام گئے تک چوہے کی دُم لئے پھرتے ہو اور مجال ہے جو میں نے کبھی اُسے تمہارے تالاب آتے دیکھا ہو۔“پہلے تو مینڈک یہ بات سن کر بوکھلا سا گیا۔کچھ دیر بعد جب بات کا معنی سمجھ میں آیا تو ہچکچاتے ہوئے اُلّو سے کہا،’یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں،اور نہ کبھی سوچنے کا موقع ملا ۔چوہا پورے جنگل میں سے سب سے وفادار دوست ہے میرا ،یہ بات معنی نہیں رکھتی۔“”جو مرضی کہو میاں،میں نے جو دیکھا سوبول دیا۔اب آگے اس بات کو سمجھنا نہ سمجھنا تمہارا کام ہے۔“اُلّو یہ کہہ کے درخت کی ٹہنی سے اُڑ گیا۔اُس رات مینڈک کو اُلّو کی بات سن کہ نیند ہی نہ آئی۔حقیقت کو جانچنے کے بعد نیند کا تو جیسے نام ونشان مٹ گیا ہو۔”جو بھی ہو،اُلّو کی بات میں دم تو ہے،اُس نے سچ ہی کہاہے۔ہمیشہ سے میں ہی چوہے کے پاس جاتا ہوں اُس کو بل سے لینے ۔وہ میرے تالاب تک کبھی نہیں آیا۔پتہ نہیں کیسا دوست ہے جس نے آج تک میرا گھر ہی نہیں دیکھا۔دن گزرتے گئے اور مینڈک کے دل میں اس کا احساس بڑھتا گیا۔اُس نے بہانے بہانے سے کافی مرتبہ چوہے کو اپنے تالاب کی طرف لانا چاہا مگر چوہا نہیں مانا۔وقت کے ساتھ صورتحال نہ بدلی لیکن مینڈک کا دل بدل چکا تھا۔اب مینڈک اُس کا دوست نہیں بلکہ دل میں اس کے بغض رکھ کر سوچتا تھا۔ایک دن مینڈک کو اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے ایک ترغیب سوجھی ۔اگلے دن مینڈک چوہے کو لے کر جنگل کی سیر کو نکل پڑا۔انجان چوہے کو معلوم ہی نہ تھا کہ مینڈک نے تار کا ایک سرا اپنی ٹانگ پہ باندھا اور دوسرے سرے کو چوہے کی دُم کے ساتھ باندھا ہوا تھا۔جب علیحدہ ہونے کا وقت آیا تو مینڈک تالاب کی جانب پھلانگا اور چوہے کو بھی تار کی وجہ سے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے لے گیا۔پہلے توچوہے کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ اُس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے ،جب اُس کے پوچھنے اور اس رویے کے اعتراز پہ مینڈک نے کوئی جواب نہ دیا تو چوہے نے اپنے تیزدانتوں کی مدد سے تار کاٹنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کہ سوا کچھ ہاتھ نہ آیا ۔آدھے گھنٹے تک مینڈک چوہے کو یونہی گھسیٹتا رہا اور بلا آخر تالاب پہنچنے پہ بولا،’ہماری دوستی کو اتنا عرصہ گزر چکا ہے لیکن تم میرے تالاب میں ایک بھی مرتبہ نہیں آئے۔آج میں تمہیں اپنے تالاب میں لے کے ہی جاؤں گا۔“چوہے کے جواب کا انتظار کیے بغیر مینڈک نے یہ کہہ کے تالاب میں چھالانگ لگا دی ۔چوہے نے خود کو آزاد کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نہیں کر سکا اور جلد ہی ڈوب گیا۔چوہے کی باڈی دوبنے کے بعد تالاب کی سطح پہ تیرنے لگی جبکہ مینڈک نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر اس کی طرف نہ دیکھا۔اس حادثے کے چند سیکنڈ بعد ہی آسمان پہ اُڑتے ایک باز کی نظر چوہے پہ پڑی اور وہ چوہے کی جانب تیزی سے نیچے آیا،بے جان چوہے کو اپنے پنجوں میں دبایا اور اپنے گھونسلے کی طرف اُڑ پڑا۔چوہے کی پونچھ پہ بندھی تار کے باعث مینڈک بھی نہ بچ سکا اور تالاب سے آسمان کی سمت تار سے لٹکتا ہوا باز کے گھونسلے میں جا گرا۔گھونسلے میں پہنچ کر جب باز نے چوہے کے ساتھ مینڈک کو دیکھا تو نہایت خوش ہوا اور بولا،واہ ،واہ۔آج تو میں پیٹ بھر کر کھاؤں گا۔مینڈک نے باز سے اپنی جان کی بھیک مانگی لیکن باز نہ مانا اور اس طرح مینڈک میاں اپنے مردہ دوست کیساتھ باز کی خوراک بن کہ رہ گیا۔اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے:”اپنے دشمن کے لیے اتنا گہرا کھڈامت کھود وکہ اُس میں خود ہی گرجاؤ۔“ " مزار اقبال - تحریر نمبر 1498,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mazar-e-iqbal-1498.html,"نسرین شاہینمفکرپاکستان شاعر مشرق علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے معروف شاعر،قانون داں،سیاست داں اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے۔اسلام سے خصوصی لگاؤ رکھتے تھے۔جنوری 1923ء میں علامہ اقبال کو ”سر “کا خطاب ملا۔انھوں نے خطبہ الہٰ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ اور آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا،جو بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا،مگر افسوس کہ جب یہ اسلامی ریاست 14اگست1947ء کو وجود میں آئی تو علامہ اقبال اسے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے،کیوں کہ قیام پاکستان سے پہلے ہی21اپریل1938ء (9صفر المظر 1356ھ)کو جمعرات کے دن انتقال کر گئے تھے۔(جاری ہے)علامہ اقبال کی وفات جاوید منزل میں ہوئی تھی۔جاوید منزل کا موجودہ نام علامہ اقبال میوزیم ہے۔علامہ محمد اقبال کے انتقال کی خبر سن کر متحدہ ہندوستان کی طرف سے گہرے غم ودکھ کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔علامہ اقبال کی وفات پر لاہور کے ایک انگریز افسر نے علامہ اقبال کے ایک عقیدت مند دوست سے کہا:”تم نے ہندوستان کے آخری مسلمان کو سپرد خاک کر دیا ہے۔“ان کا مزار حضوری باغ میں بادشاہی مسجد لاہور کے صدر دروازے کے قریب ہے۔علامہ اقبال کی حضوری باغ میں تدفین ہوئی،لیکن مزار کی تعمیر بعد میں کی گئی تھی۔مزار اقبال کی تعمیر کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی ،جس کے سر براہ چودھری محمد حسین تھے۔اسی کمیٹی نے مزار اقبال کوتعمیر کرنے کی غرض سے متعدد فیصلے کیے،جس کی روشنی میں حیدر آباد کن کے ماہر تعمیرات نواب زین یارجنگ نے مغلیہ اور افغان طرز کی عمارت کی منظوری کے بعد تعمیر کا آغاز کیا۔مزار اقبال کی عمارت 13برس میں ایک لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوئی۔قیام پاکستان 1947ء کے بعد تعمیر کا یہ کام قدرے سست روی کا شکار ہو گیا تھا،کیوں کہ تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر جس علاقے سے آتا تھا وہ بھارتی حصے میں چلا گیا تھا۔اس کے علاوہ تعمیر میں سرخ رنگ کا جو پتھر استعمال ہوا ہے ،وہ افغانستان کے لوگوں نے تحفتاً دیا تھا۔مزار اقبال کی سادہ سی عمارت مستطیل شکل کی ہے،جس کا ایک دروازہ مشرقی اور دوسرا جنوبی سمت میں ہے۔مزار اقبال پہ سفید ماربل بھی لگا ہے۔مزار کی دیواروں پہ اقبال کی کتاب”زبور عجم“سے لیے گئے اشعار کندہ ہیں اور اس کے علاوہ قرآنی آیات کی کیلی گرافی بھی کی گئی ہے۔مزار اقبال کے باہر سر سبز ٹکڑیوں میں منقسم باغ بھی ہے،جو بہت دل کش اور خوبصورت ہے۔مزار اقبال کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر اسی نوعیت کا ہے جو مغل بادشاہ شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے مقبرے کی تعمیر میں استعمال ہوا ہے ۔یوں تو سال بھر ہی ہزاروں افراد مزار اقبال پر فاتحہ پڑھنے آتے ہیں،لیکن ہر سال 9نومبر (یوم اقبال)اور 21اپریل(وفات اقبال)کے موقع پر خاص طور پر لوگ مزار پر فاتحہ خوانی کرنے آتے ہیں۔ہر سال نہ صرف اہل لاہور ،بلکہ دوسرے شہروں سے آنے والے لاہور کی تفریح گاہوں کے ساتھ ساتھ تاریخی عمارتوں کو دیکھنے بھی جاتے ہیں تو لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد میں بھی ضرور حاضری دیتے ہیں اور ساتھ ہی مزار اقبال بھی دیکھنے جاتے ہیں،کیوں کہ ملک بھر کے علاوہ دنیا بھر میں اقبال کے مداحوں اور عقیدت مندوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔لاہور آنے والے مزار اقبال پر بھی ضرورحاضری دیتے ہیں۔وفات کے بعد علامہ اقبال کا پہلا”یوم اقبال“ان کے خاص ملازم علی بخش کی صدارت میں ہوا،حالانکہ وہ بالکل ان پڑھ تھے۔علامہ اقبال اپنی زندگی میں بھی لوگوں کے دلوں میں بستے تھے ،لوگ ان سے عقیدت رکھتے تھے۔وفات کے بعد بھی لوگ علامہ اقبال سے محبت وعقیدت رکھتے ہیں۔خاص طور پر اقبال کی شاعری نے لوگوں کو بے حد متاثر کیا تھا۔بلاشبہ علامہ محمد اقبال ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔اسی لیے کہ مزار اقبال پر آنے والوں کو تانتا بندھا رہتا ہے۔ " غار والے - تحریر نمبر 1497,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gaar-wale-1497.html," " محب وطن - تحریر نمبر 1495,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/muhib-e-wattan-1495.html,"زینب رشید احمد خاںمشرق سے اُبھرتا ہوا سورج ایک نئے دن کا آغاز کررہا تھا۔ اُفق پر نمودار ہونے والے سر مئی بادل کالی گھٹا کی آمد کا اعلان کررہے تھے ۔ہوا میں کچھ خنکی اور مٹی کی سوندھی خوشبو نے صبح کے اُجالے میں چار چاند لگادیے تھے ۔قریب ہی سے گزرتے ہوئے پرندے قدرت الٰہی کی حمد وثناء میں مشغول اپنی دھن میں چہچہارہے تھے کہ اچانک شمال سے اُٹھتی ہوئی کالی گھٹاؤں نے سورج کی کرنوں کو ڈھانک دیا اور اتنی زور کی بارش برسائی کہ کھیت کھلیان جل تھل ہو گئے۔گاؤں کے سبھی لوگ اس اچانک ہونے والی بارش سے محظوظ ہورہے تھے ،لیکن احمد اس ان ہونی بارش سے ناخوش تھا،کیوں کہ اس کی ساری فصل تباہ ہو چکی تھی۔یہ اس کی وہ فصل تھی جسے وہ کاٹ کر اپنی روزی کماتا تھا۔(جاری ہے)احمد اپنے گاؤں کے ایک زمیندار کی زمین پر کاشت کاری کرتا تھا۔جس کے معاوضے سے اس کے گھر کا چولھا جلتا تھا ۔لیکن اس باروہ بہت پریشان تھا۔گاؤں کے قریب ہی مکان میں وہ اپنی بیمارماں اور بیمار بیٹے کے ساتھ رہتا تھا ۔اس کے بیٹے کو شدید بخار تھا۔ اسی کشمکش میں وہ اپنا اُداس دل لیے کھیت سے گھر کی جانب روانہ ہورہا تھا۔راستے میں بارش کی بوندیں اس کے شانوں سے ٹکڑارہی تھیں۔اس کے ذہن میں ماں اور بیٹے کی تکالیف کا منظر تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اپنے گھر کا خرچہ کیسے پورا کرے گا اور بیٹے اور ماں کے علاج کے لیے رقم کا بندوبست کس طرح کر سکے گا۔یہ سوچتا ہوا جارہا تھا کہ اچانک سامنے سے آتی ہوئی کار سے اس کی ٹکر ہو گئی۔کار سے اُتر نے والے شخص نے اسے اُٹھا کر شہر کے اسپتال منتقل کیا اور اس کے لیے علاج کا انتظام بھی کیا۔یہ شخص ڈاکٹر احمد کے نام سے اس اسپتال کے سرجن تھے۔یہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ قریب ہی شہر میں مقیم تھے اور موسم خوشگوار دیکھ کر گاؤں کا رخ کررہے تھے کہ ان کی کار سے اچانک یہ حادثہ پیش آگیا۔احمد کو پرائیوٹ وارڈ میں منتقل کیا جاچکا تھا۔وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں اپنے گھر والوں کے نام پکار رہا تھا۔ہوش میں آنے کے بعد ڈاکٹر احمد نے اسے تسلی دیتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔پھر ڈاکٹر احمد نے کسان احمد سے کار کے آگے آنے کی وجہ پوچھی تو اس کے آنسو چھلک پڑے اور وہ بے اختیار اپنے گھر کے حالات بیان کرنے لگا۔یہاں تک کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ڈاکٹر احمد ایک درد مند دل رکھنے والے انسان تھے۔وہ مریضوں کا مفت علاج بھی کرتے تھے ۔انھوں نے احمد کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کے گھر کے لیے راشن بھجوادیا اور گھر والوں کا علاج بھی اپنے ذمے لے لیا۔احمد کو ڈاکٹر احمد نے گھر چھوڑ دیا تھا اور اس کی زمین کے نقصان کا ازالہ بھی کر ڈالا۔ایک طرف ڈاکٹر صاحب اپنا کام کررہے تھے تو دوسری طرف قدرت اپنے کارنامے دکھا رہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کو توجہ سے علاج کرنے پر ان کی ترقی ہو گئی۔باہر سے آنے والے ایک ڈاکٹر نے دادد یتے ہوئے انھیں اپنے ملک میں بحیثیت سرجن کی نوکری کی پیشکش کی ،لیکن ڈاکٹر احمد کو اپنے وطن سے بہت محبت تھی ۔انھیں ان کھیت و کھلیانوں سے بھی بے حد محبت تھی جس کی مٹی میں سونا بننے کی بھر پور طاقت ہے ۔انھوں نے دوسرے ڈاکٹر کی طرح بیرون ملک جانے کے بجائے اپنے ہی ملک میں رہ کر ترقی کرنے کا فیصلہ کیا اور تہ دل سے اس ذات واحد کا شکر ادا کیا جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔ " صلہ رحمی - تحریر نمبر 1494,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/silla-rehmi-1494.html,"سردیوں کی ایک صبح تھی چاروں طرف برف بکھری ہوئی تھی،مسلسل برف باری کا سلسلہ کئی روز سے جاری تھا۔ننھا خرگوش اپنے بل میں بیٹھا شدید بھوک محسوس کر رہا تھا۔آج اس کے پیٹ میں شدید درد شروع ہو گیا تھا۔آخر وہ ہمت کر کے بل سے باہر نکلا۔بہت تلاش کے بعد اسے ایک جگہ دوشلغم پڑے ہوئے ملے وہ بہت خوش ہوا اور گھر آکر اس نے وہ شلغم جلدی جلدی کھانا شروع کیا ایک شلغم کھانے کے بعد اسے اپنی پڑوسن بھیڑ کا خیال آیا کہ وہ بھی تو برف باری کی وجہ سے اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکی ہو گی۔یہ خیال آتے ہی وہ بھیڑ کے گھر پہنچا اس وقت وہ گھر میں موجود نہ تھی ننھے خرگوش نے شلغم وہیں رکھ دیا اور واپس ہو لیا یہ سوچ کر کہ بھیڑ واپس آئے گی تو شلغم دیکھ کر بہت خوش ہو گی کہ اس کا کوئی ہمدرد دوست بھی ہے۔(جاری ہے)اب بھیڑ کی سنیے۔جب وہ خوراک کی تلاش میں نکلی تو اتفاق سے اسے ایک گو بھی پڑی ہوئی مل گئی اس نے سوچا کہ کیوں نہ گھر جا کر آرام سے لحاف میں بیٹھ کر کھاؤں۔گھر پہنچنے کے بعد اس نے دیکھا کہ اس کے گھر میں ایک شلغم رکھا ہے لیکن اس نے پہلے گو بھی پر ہاتھ صاف کیے گوبھی کھانے کے بعد اس کا پیٹ بھر گیا اب اس نے سوچا کہ کیا کرے اچانک اسے خیال آیا کہ کہیں سنہرا ہرن بھوک سے نڈھال نہ ہو۔ہو سکتا ہے برف باری کی وجہ سے وہ بھی گھر سے باہر نہ نکل سکا ہو۔یہ سوچ کر وہ سنہرے ہرن کے گھر پہنچی لیکن وہ بھی اپنے گھر میں موجود نہیں تھا۔بھیڑ نے شلغم وہاں رکھا اور واپس اپنے گھر آگئی بھوک سے سنہرے ہرن کی جان نکلی جارہی تھی مجبور ہو کر وہ گھر سے نکل کھڑا ہوا تھاتاکہ خوراک تلاش کی جاسکے کافی دیر کی کوشش کے بعد وہ پالک کے اچھے خاصے پتے ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا جیسے ہی وہ گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ کوئی ہمدرد اس کے لیے شلغم چھوڑ گیا ہے اسے فوراً بھو کے خرگوش کا خیال آیا تو وہ خرگوش کے گھر گیا اس نے دیکھا کہ خرگوش بھو کا سویا ہوا ہے اس نے شلغم خرگوش کے سرہانے رکھ دیا جب خرگوش اٹھا تو اس نے اپنے سر ہانے شلغم پایا اسے بھوک بھی شدید لگی ہوئی تھی پھر خرگوش نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور سوچا کہ نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی اللہ تعالیٰ نیکی کا صلہ ضرور دیتاہے۔ " جشن آزادی مبارک ہو۔۔۔تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1493,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jashn-e-azadi-mubarak-ho-1493.html," " ایک چڑیا - تحریر نمبر 1492,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-chirya-1492.html,"وہ کافی دیر سے کسی تلاش میں پر واز کررہی تھی۔مسلسل پر واز کرنے سے اس کے پَر بُر ی طرح تھک چکے تھے،بھوک بھی ستانے لگی تھی۔اب وہ کوئی محفوظ ٹھکانہ تلاش کررہی تھی۔کافی دیر کے بعد اسے ایک گھر نظر آیا ،جہاں صحن میں ایک چھوٹی بچی ادھر ادھر پھدکتے چھوٹے چھوٹے چوزوں کو دانہ ڈالنے میں مصروف تھی ،یہ دیکھ کر ننھی چڑیا فوراً صحن میں اتر گئی اور زمین پر بکھرے دانے چگنے لگی۔مرغی نے جب اپنے بچوں کے درمیان کو ئی نئی مخلوق دیکھی تو و ہ ننھی چڑیا کے قریب آگئی ،چڑیا اس کی آنکھوں میں چھپے غصے کو بھانپ گئی۔اسی لمحے وہاں ایک بلی نمودار ہوئی،مرغی اور بلی دونوں چڑیا کو ایسے دیکھ رے تھے ،جیسے کوئی فتح حاصل کرلی ہو ،ننھی چڑیا دونوں کے ارادوں کو بھانپ چکی تھی۔(جاری ہے)چڑیا ابھی ان دونوں کے جارحانہ ارادوں کے خوف میں مبتلا تھی کہ اچانک وہاں ایک اور شکاری آدھمکا۔وہ کتا چڑیا کو دیکھ کر اس انداز میں بھونکنے لگا ،جیسے مرغی اور بلی کو بتارہا ہو کہ یہ نیا مہمان صرف میرا ہے ۔چڑیا اس نئے شکاری کی آمد پر بری طرح بوکھلا گئی۔کتا اب چڑیا کے بہت قریب آچکا تھا۔چڑیا کو فوراً کوئی محفوظ جگہ تلاش کرنی تھی،وقت بہت کم رہ گیا تھا،وہ خونخوار آنکھوں والا کتا،چڑیا پر جھپٹنے ہی والاتھا کہ چڑیا پھرتی سے پھدک کر صحن میں موجود کھڑ کی پر آبیٹھی ،یہ ٹوٹی ہوئی کھڑ کی اس ننھی جان کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب رہی ،چڑیا دبک کر کھڑکی کے ایک کونے میں بیٹھ گئی،اُس کا چہرہ خوف کی شدت سے زرد ہو گیا تھا ،اس نے سوچا اگر یہ کھڑکی اسے نظر نہ آتی تو شاید اب تک وہ خونخوار آنکھوں والے کتے کے معدے میں ہوتی ۔وقت کے ساتھ ساتھ خوف بھی بڑھتا جارہا تھا،چڑیا دل سے اللہ سے دعا مانگ رہی تھی کہ اسے اس مصیبت سے چھٹکارا مل جائے ۔بھوکی چڑیا اپنی کمزوری کے بارے میں سوچنے لگی۔کاش !وہ چڑیا نہ ہوتی ،بلکہ انسان ہوتی ،کوئی اسے اپنا نوالہ نہ بناتا۔اسے ہر وقت اپنی جان بچانے کے لیے دوسرے خونخوار جانوروں سے اپنی حفاظت نہ کرنی پڑتی ۔آرام سے چین کی زندگی بسر کرتی ،کوئی کتا یا بلی اسے کھانے نہ آتا اور نہ وہ آج اس طرح خوف میں رات کاٹ رہی ہوتی۔وہ رات واقعی بہت دہشت ناک تھی۔بھوکی پیاسی چڑیا اب تک دبکی بیٹھی اپنی قسمت کو کوس رہی تھی،اس نے اپنا سر باہر نکال کر نیچے کا جائزہ لیا ،وہ خونخوار آنکھوں والا کتاابھی تک اپنے شکار کی تاک میں بیٹھا تھا۔پوری رات چڑیا بھوکی پیاسی خوف میں مبتلا ،اپنی قسمت کو کوستی رہی،پوری رات آنکھوں آنکھوں میں کٹ گئی۔اگلی صبح بھوکی چڑیا نے ایک نظر نیچے ڈالی ،وہاں اب کوئی شکاری نہ تھا،اچانک وہ چھوٹی بچی کھڑکی کے قریب آئی ،اس نے چڑیا کو دیکھا، اسے وہ چڑیا قریباً ادھ مری ایک کونے میں پڑی بے جان سی نظر آئی۔بچی نے اپنے ہاتھ کی انگلی سے چڑیا کو چھواتو اسے احساس ہوا کہ چڑیا زند ہ ہے۔اب چڑیا کادل خوف سے ڈوب رہا تھا کہ نہ جانے وہ بچی اس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والی تھی۔اچانک اس بچی کی آواز آئی۔”اوہو!لگتا ہے اس ننھی چڑیا کے پر نہیں ہیں۔“اس پورے جملے کا صرف ایک لفظ چڑیا کے ذہن میں جیسے اٹخ کررہ گیا،چڑیا نے لمبی سانس لی،جلدی سے اپنے ”پر“پھڑ پھڑائے اور تھوڑی ہی دیر میں وہ نیلے آسمان میں گم ہو گئی۔وہ نادان چڑیا اب تک بھولی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ”پر“کی نعمت سے نوازا ہے ،جو انسان کے پاس نہیں۔ہر جاندار کو اللہ تعالیٰ نے مکمل پیدا کیا ہے۔بس تھوڑے غوروفکر سے اپنے اندر موجود صلاحیتوں کوخود تلاشکرنا اس جاندار کا کام ہے۔ " سچی خبر - تحریر نمبر 1491,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sachi-khabar-1491.html,"فیاض صاحب کا مکان محلے میں بنے مکانات کے مقابلے میں ذرا بڑا تھا۔یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔ان کے گھر والے کہاں تھے؟یہ کسی کو پتا نہ تھا۔ان کے گھر میں ایک ملازم بشیر صبح میں دو گھنٹے کے لیے آتا تھا،اسی سے محلے والوں کو کچھ باتیں معلوم ہو گئی تھیں۔بشیر میں ایک بہت بڑی خرابی تھی۔اسے ہر وقت ٹوہ میں رہنے کا شوق تھا ۔اسے لوگوں کی بُرائیاں اور کمزوریاں تلاش کرنے میں لطف آتا تھا۔محلے کے تقریباً تمام مردوں ہی کی نہیں ان کی بیگمات کی عادتوں کے بارے میں بھی اس کی معلومات بڑی وسیع تھیں!وہ جو کچھ دیکھتا یا سنتا، اس میں حسب ضرورت ،نمک،مرچ اور دیگر مسالوں کا بگھار لگا کر دوسروں کوپیش کرتا،لیکن ایک فیاض صاحب کا ذکر آتے ہی اس کی ”معلومات“بارہ مسالے ڈالنے کے باوجود چند لمحوں میں چٹ ہو جاتی تھیں۔(جاری ہے)فیاض صاحب کے متعلق وہ صرف یہ کہہ کر رہ جاتا،”صاحب خشک آدمی ہیں ۔کام سے کام رکھتے ہیں ۔اصول کے پکے ہیں۔بیوی بہت پہلے کسی حادثے میں مر گئی ۔صاحب نے اس کے غم میں دوسری شادی نہیں کی۔ایک بیٹا ہے ،جو ان ۔شہر میں پتا نہیں پڑھ رہا ہے یا کوئی بزنس کر رہا ہے ۔ویسے صاحب دل کے اچھے ہیں ۔ہر مہینے کی اٹھائیس کو ہی تنخواہ کے پیسے پکڑادیتے ہیں۔مجھے ضرورت ہوتی ہے تو میں مانگ بھی لیتا ہوں۔“پھر وہ ذرا سوچ کر بڑے یقین سے دعویٰ کرتا،”میں تو جانوں، صاحب کا نشہ بیچنے والوں کے ساتھ بزنس ہے!پوچھو ،کیسے!“”کیسے ؟“مجمع ایک آواز ہو کر پوچھتا۔بشیر کہتا:”صاحب مجھے ایک بڑے کمرے میں جانے نہیں دیتے۔اُدھر الماریاں ہی الماریاہیں ۔الماریوں میں خبر نہیں کیا ہے ۔ایک بڑی میز ہے۔اس پہ موٹی موٹی کتابیں ہیں۔کاغذ ہی کاغذ ہیں اور دوکرسیاں ۔صاحب کہتے ہیں ،تم جاکر میری چیزیں خراب کردوگے۔میں خود ہی صفائی کرلوں گا۔“بس اتنا کہنا کافی تھا۔سب لوگ اپنے اپنے گمان کے گھوڑے دوڑانے لگتے۔بہت سے افراد اپنی اپنی بدگمانیوں کی بنیادوں پر افسانے تراشتے۔پھر یہی افسانے ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کو سناتے پھرتے۔یہ افسانے جب محلے کی خواتین تک سینہ بہ سینہ پہنچتے تو ان میں مزید رنگ بھر دیے جاتے ۔سنانے والے یاوالی کے”یقین“میں پختگی پیدا ہو جاتی!اس قسم کا سلوک عام طور پر محلے کے ہر مرد اور ہر خاتون کے ساتھ ہوتا تھا،لیکن فیاض صاحب چوں کہ کسی سے ملتے جلتے نہ تھے،ملازم تک کو صرف دو گھنٹے کے لیے گھر میں آنے کی اجازت دیتے ،شاید اسی لیے ان کے افسانے زیادہ پرکشش ہو جاتے تھے۔ایک دن بشیر حسب معمول صبح آٹھ بجے فیاض صاحب کے گھر پہنچا۔اس نے صدر دروازے پر لگا گھنٹی کا بٹن دبایا۔پہلے تو احتیاط سے ایک باردبایا کہ صاحب کی ہدایت یہی تھی کہ گھنٹی ایک بار ہلکے سے بجانا کافی ہوتا ہے ،میں جاگ رہا ہوتا ہوں!ایک بار گھنٹی بجانے پر دروازہ نہ کھلا ۔فیاض صاحب دروازے پر لگے کیمرے کے ذریعے،اندر اسکرین پر دیکھ لیتے تھے کہ باہر کون آیا ہے۔اطمینان ہونے پر وہیں سے بٹن دبا کر دروازہ اب بھی نہ کھلا تو اس نے سوچا ،ہو سکتا ہے ،صاحب واش روم میں ہوں۔ ذرا انتظار کے بعد تیسری بار بٹن دبایا اور کچھ دیر تک پر سے اُنگلی نہ ہٹائی،مگر دروازہ اسی طرح بند رہا۔بہت سارے خیالات بشیر کے دل میں ایک ساتھ گھس آئے۔صاحب بیمار ہیں ۔صاحب رات دیر سے سوئے ہوں گے،صاحب کہیں گئے ہوتے ہیں،اچانک اس کے خیالات نے نئی کروٹ لی کہیں ․․․․․مگر کہاں ․․․․اچھا․․․․․․ضرور اپنے بزنس پہ گئے ہوں گے۔کیا پتا مارا ماری ہو گئی ہو۔کچھ بھی ہو سکتاہے۔بس اتنا ہی کافی تھا۔انسان کے کھلے دشمن یعنی شیطان نے اس ذرا سے”کچھ بھی“کو ”بہت کچھ“بنانے پر اُکسادیا۔ذراسی دیر میں محلے کے بچے بچے کی زبان پر یہی تھا:”سنا تم نے فیاض صاحب کی اپنے گینگ کے لوگوں سے لڑائی ہو گئی۔شایدکئی آدمی زخمی ہوئے ہیں۔دوتومرگئے۔“دوسراکہتا:”اپنے گینگ سے نہیں دوسرے گینگ کے لوگوں سے لڑائی ہوئی ہے۔سناہے فیاض صاحب کو بہت چوٹیں آئی ہیں ۔بچنے کی اُمید کم ہے۔“محلے کی عورتیں آپس میں راز دارانہ انداز میں باتیں کرنے لگیں ۔کواڑوں کی آڑ سے ،کھڑکیوں یا گیلریوں میں کھڑے ہو کر ۔سستے پیکج والی لمبی لمبی موبائل کالز کے ذریعے۔ایک کہتی :”اے بہن!سنا تم نے ،فیاض صاحب کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔“دوسری پوچھتی :”ہائے اللہ!وہ کیوں؟“پہلی کا جواب ہوتا:”اللہ جانے کیا کرتوت تھے بڑے میاں کے ،اسی لیے چھپ کے رہتے تھے۔بشیر کو بس دوگھنٹوں کے لیے بلاتے تھے۔ایک کمرے میں تو جانے ہی نہیں دیتے تھے۔وہیں رکھا ہو گا سارا ناجائز مال۔“”کیا خبر ،وہیں سے کوئی تہ خانہ بھی نکلتا ہو۔“دوسری کہہ اُٹھتی ۔”ہائے ،اس طرف تو میرا دھنیان بھی نہیں گیا تھا۔ایسا ہی ہو گابہن!اللہ بچائے۔اچھا خاصا شریفوں کا محلہ تھا،اب دیکھو، کون کون آکر آباد ہورہے ہیں۔“اس قسم کی کاناپھوسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورتوں نے اپنے اپنے مردوں کے کان بھرنے شروع کر دیے۔”ارے سنتے ہیں!محلے میں یہ کیا ہونے لگا ہے۔اچھا بھلا برسوں سے امن وامان تھا۔نہ کبھی چوری ہوئی نہ موئے ڈاکو آئے،مگر جب سے یہ فیاض صاحب جیسے لوگ آکر آباد ہورہے ہیں،یہاں پولیس بھی آرہی ہے۔آج پولیس آئی ہے ،کل کو گولیاں چل گئیں تو کیا ہو گا؟اے ہمارے بچے تو روز گلیوںمیں کرکٹ کھیلتے ہیں․․․․اے سن رہے ہیں!آپ تو بس اپنے موبائل ہی میں لگے رہیے۔“اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے سارے ہی مردگھروں پر تھے اور فرصت سے ناشتا کرتے تھے ،مگر بشیر نے صبح صبح خبر پھیلا کر سنسنی دوڑا دی تھی۔عورتوں نے اپنے اپنے مردوں کو ناشتا تو کروا دیا،مگر مسلسل طعنے دے دے کر ان کا ناک میں دم کر دیا۔نتیجہ یہ کہ محلے کے بہت سے مرد چوک میں جمع ہو کر صلاح مشورے کرنے لگے۔بھانت بھانت کے تبصرے شروع ہوگئے۔”فیاض صاحب کے گھر کا تالا توڑ و اور اندرجا کر دیکھو تو سہی کہ ہوتا کیا رہا ہے اب تک۔“”ارے!ہم بھی بہو بیٹیوں والے ہیں۔ہماری بھی کوئی عزت ہے۔اگر محلے کی یہ شہرت ہو گئی کہ یہاں جرائم پیشہ گروہوں کے اڈے ہیں،گینگ وارچل رہی ہے تو کون شریف آدمی ادھر کارُخ کرے گا؟بتاؤ بھلا!“بہت سے لوگ ہاں میں ہاں ملاتے۔کچھ دیر بحث مباحثہ کے بعد طے ہوا کہ فیاض صاحب جوں ہی نظر آئیں ،ان سے مکان خالی کروا کر محلے سے نکال باہر کریں۔”ہاں ،بالکل ،ذرا بھی ترس کھانے کی ضرورت نہیں،اچھی طرح جھاڑوبڑے میاں کو!“اسی بحث ومباحثہ میں دن کے تقریباً دو بج گئے۔ابھی لوگ منتشر ہورہے تھے کہ شیخ صاحب کا چھوٹا لڑکا ہانپتا ہو ا آیا۔چلا کر بولا:”فیاض صاحب کا بیٹا کیپٹن اعجاز شہید ہو گیاہے۔“”کیا ہانک رہا ہے؟“شیخ صاحب بھنا کر بولے۔”ابا ،بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ٹی وی میں آرہا ہے ۔ہماری محلے کا نام بھی لیا گیا ہے خبروں میں۔“لڑکا سانس درست کرنے کی کوشش کرتا ہوا بولا۔ارے تو وہ بھی کر منلز کے ساتھ ہو گا نا۔شہید کا ہے کو کہہ رہا ہے باؤلے!“میر صاحب سر ہلا کر بولے۔”‘نہیں انکل ،شہید ہی کہاٹی وی والوں نے۔ بارڈر پہ شہید ہوا ہے ۔فوجی تھا۔دشمن کی فائرنگ سے زخمی ہوا ،ڈھائی گھنٹے بعد شہید ہو گیا ۔“لڑکا اَڑا ہوا تھا۔”اور کیا بتایا ٹی وی والوں نے؟“”انکل ! ٹی وی والے کہہ رہے تھے،ڈاکٹر فیاض ہمارے ملک کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔علمی تحقیقی کام کررہے ہیں۔اسی لیے شہر کے دور دراز محلے اتحاد کالونی میں اکیلے رہتے ہیں۔کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے۔ہر وقت لکھنے پڑھنے میں لگے رہتے ہیں۔“ایک بچے نے تفصیل سے بتایا۔کیپٹن اعجاز کی تصویر ٹی وی پر بار بار دکھائی جارہی تھی۔شہید کیپٹن کا ذکر ،اینکر بہت احترام سے کررہے تھے۔یہ اعلانات بھی کیے جارہے تھے کہ شہید کے والد ڈاکٹر فیاض احمد خان سے بات چیت رات آٹھ بجے براہ راست نشر کی جائے گی۔روز ہی شام میں شیخ صاحب کے گھر کے باہر چبوترے پر محفل جم جاتی۔آج بھی بہت سے لوگ جمع تھے،لیکن سب پر چپ طاری تھی۔آخر سناٹے کو شیخ صاحب کی آواز نے توڑا:”بھئی ،میں نے تو بیگم کو بہت ڈانٹا ،یہ عورتیں ہی جھوٹی سچی خبریں پھیلاتی ہیں۔ ان کی اطلاع پر ہی ہم ڈاکٹر صاحب کو گھر سے نکالے پر تیار تھے۔اب پتا چلا کہ پروفیسر صاحب تو بہت عظیم انسان ہیں۔“سب نے ہاں میں ہاں ملائی۔سوزلکھنوی بولے:”بھئی صرف خواتین ہی نہیں ہم مرد بھی برابر کے ذمے دار ہیں۔”ویسے یہ بات سب سے پہلے بتائی کس نے ؟“میر صاحب سوچتے ہوئے بولے۔”ارے بھئی ،بیگم تو کہتی ہے کہ سب سے پہلے یہ اطلاع بشیر نے دی تھی۔“”خیر ،اللہ نے کرم کیا،ہم لوگوں نے ڈاکٹر صاحب کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔“میر صاحب سوچتےہوئے بولے۔”ہمیں خود اپنے گریبان میں منھ ڈال کر دیکھناچاہیے۔ہم جب چاہتے ہیں کسی پر الزام لگا دیتے ہیں۔خود کوبھول جاتے ہیں کہ ہم کتنے گناہ کررہے ہیں۔“مسجد کے امام صاحب نے کہا۔وہ کہیں جاتے ہوئے ،شیخ صاحب کی محفل میں پانچ منٹ کے لیے رک گئے تھے۔رات آٹھ بجے تمام ٹی وی چینلوں پر خصوصی پروگرام کا آغاز ہو گیا۔شہید کیپٹن اعجاز کے قابل احترام والد ،جناب ڈاکٹر فیاض احمدخان نے اپنے انٹرویو کے دوران بتایا کہ”وہ ․․․وہ بہت بہادر لڑکا تھا۔اس کی ماں اسے شہیدوں کے واقعات سناتی رہتی تھی۔وہ اسکول جانے لگا تو اکثر کہتا،میں فوجی بنوں گا۔اللہ کی راہ میں دشمن سے لڑوں گا۔اس نے پرندوں یا جانوروں کو کبھی نشانہ نہیں بنایا۔وہ بہت سعادت مندبچہ تھا․․․․‘ڈاکٹر صاحب کی آواز بھرا گئی۔کیپٹن اعجاز کا پھولوں میں لپٹا ہوا چہرہ اسکرینوں پر نمودار ہو گیا۔لوگ اپنے آنسو پونچھ رہے تھے۔اس کے بعد کسی نے ڈاکٹر فیاض کے خلاف کوئی بات نہ کی۔محلے کی خواتین بھی اب کم ہی کسی کی بُرائی کرتی تھیں۔اس دوران بشیر کہیں غائب ہو گیا تھا۔شاید شرم کے مارے۔ " پریوں کی ملکہ کا دربار - تحریر نمبر 1490,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pariyon-ki-malka-ka-darbaar-1490.html," " مگر مچھ - تحریر نمبر 1489,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/magar-mach-1489.html," " یادگار سفر - تحریر نمبر 1488,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/yadgar-safar-1488.html," " تتلی ہوں میں تتلی ہوں - تحریر نمبر 1487,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/titli-hoon-main-titli-hoon-1487.html,"ثروت یعقوبتتلی قدرت کی خوبصورت ترین چیزوں میں سے ایک ہے ۔انسان شروع ہی سے اس دلکش جاندار سے محنت کرتا آیا ہے ۔مصر کے ہزاروں سال قدیم غاروں کی دیواروں پر بھی تتلیوں کی تصاویر بنائی گئی ہیں ۔تتلیوں کے پر اصل میں شفاف ہوتے ہیں ان کے پروں پر موجود دیدہ زیب رنگ دراصل ایک دوسرے پر بنے ہوئے سکیل ہیں۔ جو سورج کی روشنی منعکس ہونے پر رنگین دکھائی دیتے ہیں ۔تتلیوں کے خوبصورت رنگ انہیں دشمن سے بچانے سے بھی مدد دیتے ہیں ۔کیونکہ پھولوں پر بیٹھی ہوئی رنگ برنگی تتلیاں پرندوں کو مشکل سے دکھائی دیتی ہیں۔دوستوں !سائنس دان اب تک تتلیوں کی 28,000 اقسام ودریافت کر چکے ہیں۔ویسے تو تتلیاں دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں لیکن جنوبی امریکہ میں یہ دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں ۔(جاری ہے)صرف کاٹنکادیکا میں ان کی 1300سے زائد اقسام موجود ہیں۔تتلی کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں ان ٹانگوں کے سروں سے وہ کسی بھی چیز کے ذائقے کو محسوس کر سکتی ہے ۔انڈے دینے سے پہلے وہ پودے کے پتوں کو چکھتی ہیں تاکہ انڈوں سے نکلنے والے بچے ان پتوں کو شوق سے کھاسکیں۔تتلیاں اپنے انڈے پتوں کی نچلی سمت دیتی ہیں ۔انڈے سائز میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان سے لاروانتبا ہے۔لاروابالکل سنڈی کی طرح دکھائی دیتا ہے ۔لارواجلد ہی کوکون(Cocoon) پیوپا(Pupa) میں بدل جاتا ہے۔ساتھیوں!دنیا میں پائی جانے والی چھوٹی سے چھوٹی تتلی1/8انچ جبکہ بڑی سے بڑی تتلی12انچ تک ہو سکتی ہے ۔ایک عام تتلی کا وزن صرف دوگلاب کی پتیوں کے برابر ہوتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تتلیاں زیادہ تر سرخ ،سبز اور پیلا رنگ دیکھ سکتی ہیں ۔سب سے تیز اڑنے والی تتلی کی رفتار 12میل فی گھنٹہ ہے ۔مونارک (Monarach)تتلیاں اپنے سالانہ سفر میں تقریباً 2000میل کا سفر طے کرتی ہیں۔اگر تتلیاں کے جسم کا درجہ حرارت 86ڈگری سے نیچے ہوتو وہ اڑنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہیں ۔کچھ تتلیاں محض چند ہفتے جبکہ تتلیوں کی بعض اقسام ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ تک زندہ رہتی ہیں۔ " آزادی ایک انمول نعمت - تحریر نمبر 1486,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azaadi-aik-anmool-naimat-1486.html,"بہت عرصے پہلے کی بات ہے کہ ملک ایران میں ایک سوداگر رہتا تھا جس کے پاس ایک بہت ہی خوبصورت طوطا تھا۔سوداگر یہ طوطا ہندوستان کے جنگل سے پکڑ کر لایا تھا۔طوطا بہت پیاری پیاری باتیں کرتا تھا اور سودا گر کوبہت عزیز تھا۔ایک مرتبہ سودا گر کو تجارت کے سلسلے میں ہندوستان جانا پڑا۔سفر پر جانے سے قبل وہ پنجرے کے پاس گیا اور طوطے سے کہنے لگا پیارے طوطے! میں تمہارے وطن ہندوستان جارہاہوں،وہاں میراگزراسی جنگل سے ہو گا جہاں تمہارے ساتھی رہتے ہیں اگر تم انہیں کوئی پیغام دینا چاہتے ہوتو بتادو۔طوطے نے جواب دیا کہ مالک!آپ میرے دوستوں کو صرف اتنا کہہ دو کہ وہ تو بڑے مزے سے وطن کے جنگل میں رہتے ہیں آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں مگر میں بدنصیب وطن سے دور اس پنجرے میں بند ان سے ملنے کیلئے تڑپ رہا ہوں۔(جاری ہے)جب سوداگر ہندوستان پہنچا تو اپنے قافلے کے ہمراہ اس کا گزر اسی جنگل سے ہوا جہاں طوطے کے دوست رہتے تھے۔وہاں بہت سے خوبصورت طوطے درختوں پر بیٹھے تھے انہیں دیکھ کر سوداگر کو اپنے طوطے کا پیغام یاد آگیا اور اس نے بلند آواز میں انہیں وہ پیغام سنا دیا۔جیسے ہی سوداگرنے اپنی بات ختم کی تو ایک طوطے کی حالت خراب ہو گئی وہ بری طرح تھر تھرانے لگا اور درخت کی شاخ سے گرکردم توڑدیا۔یہ دیکھ کر سوداگر کو بہت افسوس ہوا،اس نے سوچا کہ شاید یہ میرے طوطے کا قریبی رشتہ دار تھاجو اس کا درد ناک پیغام سنتے ہی چل بسا۔جب سوداگر اپنے وطن پہنچا تو اس نے اپنے طوطے کو اس کے رشتہ دار کی موت کا حال بیان کیا۔سوداگر کی بات سنتے ہی طوطے نے جھر جھری لی اور پنجر ے کے فرش پر گرکر تڑپنے لگا تھوڑی ہی دیر میں اس کی آنکھیں پتھر اگئیں اور جسم بے جان ہو گیا۔اپنے پیارے طوطے کی موت پر سوداگر بہت غم زدہ ہوا اور اس نے خوب آنسو بہائے پھر اس نے پنجرہ کھول کر طوطے کو باہر نکال کر پھینک دیا۔جیسے ہی سوداگر نے طوطے کو پھینکا طوطے نے پر پھڑ پھڑائے اور قریبی درخت کی شاخ پر جا بیٹھا۔یہ دیکھ کر سوداگر بہت حیران ہوا اور طوطے سے کہنے لگا کہ اے بے وفاطوطے!میں تجھے اتنا عزیز رکھتا تھامگر تو نے مجھے خوب دھو کہ دیا۔طوطا یہ سن کر بولا تم مجھے اس لئے عزیز رکھتے تھے کیونکہ میں اچھی اچھی باتیں کرکے تمھاراجی بہلاتا تھا،مگر اے بیوقوف انسان!تم نے خود مجھے وہ ترکیب بتائی جو میرے دوست نے کہلابھیجی تھی،میں نے اس پر عمل کیا اور اس کی طرح مردہ بن گیا تو تم نے خود مجھے اپنے ہاتھوں سے آزاد کردیا اب تم خود بتاؤکہ جب سب کچھ تم نے اپنے ہاتھوں سے کیا ہے تو پھر مجھے براکیوں کہتے ہو۔یہ کہتے ہوئے طوطے نے اپنے مالک کو الودع کہا اور گنگنا تا ہوا اپنے وطن روانہ ہو گیا۔پیارے بچوں آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اللہ پاک کا خاص فضل وکرم ہے کہ ہم ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھیں۔ " محنت میں عظمت کی کہانی - تحریر نمبر 1484,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-main-azmat-ki-kahani-1484.html," " بے تکلف رشتہ - تحریر نمبر 1483,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/betakaluf-rishta-1483.html," " میں ہوں مریخ - تحریر نمبر 1477,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/main-hoon-mars-1477.html,"علیم احمدمیں مریخ ہوں۔آپ لوگ،انسان ،اُردو میں مجھے مریخ،انگریزی میںMars (مارس)اور ہندی میں”منگل “کہتے ہیں ۔یقینا،دوسری زبانوں میں بھی میرے کئی نام ہیں۔آپ مجھے دن کے وقت، سورج کی روشنی میں نہیں دیکھ سکتے۔البتہ رات کے وقت میں آسمان پر ایک سرخ ستارے کی طرح دکھائی دیتا ہوں،مگر میں کوئی ستارہ ہر گز نہیں ہوں۔میں تو ایک سیارہ ہوں:بالکل اسی طرح جیسے میری بہن ،یعنی”زمین“ایک سیارہ ہے ،جس پر آپ لوگ رہتے ہیں۔میں ہر وقت سورج کے گرد بہت تیزی سے چکر لگاتا رہتا ہوں اور ہر سیکنڈ میں24 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر لیتا ہوں ۔ایسے میں میرے لئے کسی ایک جگہ ٹھہر کر بات کرنا ممکن ہی نہ تھا۔میں ایک سیارہ ہوں ،مگر آپ انسان مجھے نہ جانے کیا کیا سمجھتے رہے ہیں ۔(جاری ہے)مثلاً آج سے ہزاروں سال پہلے کے انسان نے جب میری سرخ روشنی دیکھی تو مجھے”گرم مزاج“سمجھا۔وہ اس لیے کہ آگ بھی میرے ہی جیسی سرخ ہوتی ہے اور اس میں گرمی بھی ہوتی ہے ۔حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ میں بہت زیادہ ٹھنڈا ہوں۔میرا اوسطہ درجہ حرارت ،منفی23 درجے ڈگری سینٹی گریڈ ہے ،جبکہ میری سطح کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت بھی صفر(0) ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔اتنے کم درجہ حرارت پرتو زمین پر پانی جم کربرف بن جاتاہے۔ہزاروں سال پہلے کے انسانوں نے مجھے گرم مزاج اور”آگ کا نمائندہ “سمجھنے کے بعد ایک حرکت اور کر ڈالی:انہوں نے مجھے جنگ کا دیوتا”مارس“بنا دیا۔جبکہ میں کوئی دیوتانہیں،بلکہ قدرت کا بنا یا ہوا ایک معمولی ساوجود ہوں،لیکن تب کسی نے میری ایک نہ سنی۔مجھ پر دوسرا ظلم نجومیوں نے کیا۔انہوں نے آسمان پر میرے چمک میں تبدیلی اور ستاروں کے درمیان میری بدلتی جگہوں کو لوگوں کی قسمتوں سے وابستہ کردیا۔میں اس وقت بھی اس ظلم کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا تھا،لیکن ایسا کرنے سے معذور رہا۔وہ تو شکر ہے کہ فلکیات میں ترقی کی وجہ سے اب میری حقیقت کھل کر آپ سب لوگوں کے سامنے آچکی ہے۔نجومی آج بھی اپنی جہالت پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔وہ نہ صرف مجھے ،بلکہ دوسرے ستاروں اور سیاروں کو بنیاد بنا کر لوگوں کی قسمتوں کا حال بتاتے رہتے ہیں۔آج موقع ملا ہے تو میں آپ سب کو خبر دار کر دینا چاہتا ہوں کہ نجومیوں کی باتوں میں ہر گزنہ آئیے گا۔ایسا کریں گے تو دنیا اور آخرت ،دونوں ہی خراب کریں گے۔آج سے چار سو سال پہلے جب دور بین ایجاد ہوئی ،تو اٹلی کے سائنسداں”گیلیلیو گیلیلی“نے پہلی بار اپنی دور بین کی مدد سے میرا جائزہ لیا۔اس کے بعد جیسے جیسے دور بینیں طاقتور ہوتی گئیں،ویسے ویسے فلکیات کے ماہرین مجھے اور بھی زیادہ تفصیل سے ،اور بھی زیادہ بڑا کرکے دیکھنے کے قابل ہونے لگے۔دور بینوں سے میری رنگت گہری سرخ نظر آتی تھی،اس لئے مجھے”سرخ سیارہ“ (Red Planet)بھی کہا جانے لگا۔اور پھر ،آج سے تقریباً ڈیڑھ سوسال پہلے ،اٹلی کے ایک سائنسداں” گیووانی شیاپاریلی“نے اپنی دوربین سے تقریباً دس سال تک میرا مشاہدہ کرنے کے بعد میری سطح کا ایک تفصیلی نقشہ تیار کیا۔اس نقشے میں میری سطح پر چھوٹی بڑی نالیاں بھی دکھائی گئی تھیں جنہیں شیاپاریلی نے ”کینا لیز“(Canalis)کا نام دیا۔ویسے تو اٹلی کی زبان میں کینا لیز کا مطلب صرف”نالیاں“ہوتا ہے لیکن جب یہ نام انگریزی جاننے والے ماہرین کے پاس پہنچا تو وہ اسے ”کینال سمجھے۔ اب چونکہ انگریزی میں کینال سے مراد ”نہر“ ہوتی ہے تو یہ شور مچنے لگا کہ مجھ پر (یعنی مریخ پر) بھی زمین جیسی نہریں موجود ہیں․․․․گویا مجھ پر بھی انسانوں جیسی ہی کوئی اور مخلوق آباد ہے جس نے یہ ”نہریں“تعمیر کی ہیں۔کچھ عرصے بعد ،آج سے کوئی سوسال پہلے ،ایک شوقیہ امریکی ماہر فلکیات”پر سیول لوول“نے بھی میری سطح پر سینکڑوں نئی ”نہریں“دریافت کرنے کا اعلان کر دیا۔مگر لوول صاحب صرف یہیں پر نہیں رُکے بلکہ انہوں نے یہ یقین بھی ظاہر کر دیا کہ مجھ پر اسی طرح کے شہر آباد ہیں جیسے زمین پر ہوتے ہیں۔ اس اعلان پر کسی نے یقین کر لیا اورکسی نے شک کا اظہارکیا ۔اگلے70 سال تک یہ بحث جاری رہی کہ مجھ پر واقعی کوئی ایسی مخلوق آبادہے جس نے ”نہریں“تعمیر کی ہیں یاپھر کچھ اور معاملہ ہے ۔بھولے لوگوں نے مجھ سے طرح طرح کی کہانیاں وابستہ کردیں۔1976ء میں زمین سے بھیجے گئے دو خود کا رخلائی جہاز”وائکنگ اول“اور ”وائکنگ دوم“میری سطح پر اترے۔ان دونوں خلائی جہازوں نے میری سطح کی ہزاروں تصویریں کھینچنے کے علاوہ میری فضا(یعنی ہوا)اور مٹی کا بھی خاصا تفصیلی جائزہ لیا۔تب سے لے کر آج تک انسانوں کے بنائے ہوئے درجنوں خود کارخلائی جہاز مجھ پر اُتر چکے ہیں ۔اس وقت جبکہ میں یہ آپ بیتی لکھ رہا ہوں،انسان خود مجھ تک نہیں پہنچ سکا ہے۔لیکن سنا ہے کہ زمین پر موجود کچھ ادارے آئندہ دس سے بیس سال کے دوران انسانوں کو مجھ تک پہنچانے کے منصوبے بنارہے ہیں اور کچھ اداروں نے تو مالدار لوگوں سے اس مقصد کے لیے رقم بھی جمع کرنا شروع کر دی ہے ۔بہ خدا اس سارے کھیل میں میراکوئی قصور نہیں ۔میں تو وہی کا وہی ہوں،لیکن پیسہ کمانے کا یہ طریقہ غلط ہے۔اب میں جلدی جلدی اپنے بارے میں کچھ اورمعلومات بھی دیتا چلوں۔میرا شمار”پتھریلے بونے“(Rocky Dwarfs)کہلانے والے سیاروں میں ہوتا ہے ۔ان میں سب سے پہلے ہمارا سب سے ننھا منا بھائی ”عطارد“ ہے جو سورج سے نزدیک ترین بھی ہے ۔پھر بہن ”زہرہ“ آتی ہے ۔اس کے بعدمیری بڑی بہن ”زمین“ کا نمبر ہے جبکہ چوتھا مریخ یعنی کہ مابد ولت!اپنے اور اپنے خاندان (یعنی نظام شمسی)کے بارے میں بتادوں کہ ہمارے گھرانے کے سر براہ ،یعنی قبلہ سورج صاحب عمر میں سب سے بڑے ہیں جو آج سے تقریباً پانچ ار ب سال پہلے وجود میں آئے تھے جن کے بنتے ہی خاندان کے باقی تمام ارکان بھی وجود میں آنے کے لئے تیار ہو چکے تھے۔البتہ ہم تمام بہن بھائی( یعنی نظام شمسی کے تمام سیارے)حضور قبلہ ”سورج “صاحب کے تقریباً پچاس کروڑ سال بعد ،گیس کے انتہائی گرم گولوں کی شکل میں آئے۔یہ باتیں خود مجھے بھی ان انسانوں سے معلوم ہوئی ہیں جنہیں آپ ”ماہرین فلکیات “(Astronomers)کہتے ہیں۔ہاں !تو میں یہ بتارہا تھا کہ میں آج سے تقریباً ساڑھے چار ارب سال پہلے وجود میں آیا اور یہ کہ اس وقت میں گیس کا انتہائی گرم گولا تھا ۔لیکن تقریباً ایک ارب سال گزرنے کے بعد میں اچھا خاصا ٹھنڈا ہو گیا،اتنا ٹھنڈا کہ میری سطح جم کر ٹھوس چٹانوں کی شکل میں آگئی۔ تب سے لے کر آج تک میرے ساتھ مزید کیا ہوا اور مجھ پرکیا گزری ،اس بارے میں جاننے کے لئے ماہرین فلکیات اب تک کوششوں میں مصروف ہیں ۔جب وہ کچھ بتائیں تو میں بھی اس قابل ہو سکوں گاکہ آپ کو مزیدبتاسکوں ۔اس وقت سورج سے میرا اوسط فاصلہ 22کروڑ 80لاکھ کلو میٹرہے :یعنی زمین کے مقابلے میں تقریباً آٹھ کروڑ کلو میٹر زیادہ۔دوربین سے دیکھنے پر میں بہت بڑا ضرورنظر آتا ہوں لیکن میں میری جسامت زمین سے تقریباً آدھی ہے ۔اسی طرح مجھ میں کشش کی قوت بھی زمین کے مقابلے میں آدھی ہے۔یعنی اگر زمین پر آپ کو وزن100 پونڈ ہے ،تو میری سطح پر آپ کو وزن صرف50 پونڈرہ جائے گا۔کشش کم ہونے کی وجہ سے مجھ پر ہوا کا دباؤ بھی بہت کم ہے ،جو زمین کے مقابلے میں صرف 0.6فیصد ہے ۔اور تو اور، زمین کی فضا( یعنی ہوا) میں سب سے زیادہ نائٹروجن گیس(78 فیصد) ،پھر آکسیجن گیس (21فیصد) اور پھر بہت ہی معمولی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت دوسری کئی گیسیں ہیں ۔میرا معاملہ بالکل الُٹ ہے ۔ایک تو میری فضا ویسے ہی بہت ہلکی ہے ۔اوپر سے اس میں بھی95 فیصد کاربن ڈائی آکسائیدہے۔نائٹروجن اور آکسیجن تو بہت ہی معمولی مقدار میں ہیں ۔لہٰذا میرا مشورہ یہ ہے کہ اگرکبھی آپ مجھ سے ملنے تشریف لائیں تو اپنے ساتھ ڈھیر ساری آکسیجن کا بندوبست کرکے لائیے گا ورنہ میرے پاس آتے ہی آپ کا دم گھٹ جائے گا۔میرا اور زمین کا ایک دن تقریباً یکساں ہے ۔مطلب یہ کہ زمین پر ایک دن کی لمبائی 24گھنٹے ہوتی ہے جبکہ میرا ایک دن گھنٹے40 منٹ میں پورا ہوتاہے۔ اس کے باوجود، میرے اور زمین کے ”ایک سال“ میں بہت فرق ہے ۔زمین کا ایک سال365 دنوں کا ہوتاہے جبکہ مجھے ایک سال پورا کرنے میں687 دن لگ جاتے ہیں ۔مگر دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ آپ لوگوں نے میرے ایک دن کوSol (سول) کا نام دیا ہواہے۔مجھے نہیں پتہ کہ ایسا کیوں ہے ،لیکن سننے میں مجھے یہ ”سال“ جیسا ہی لگتاہے۔لکھنے کو تو میں اپنے بارے میں اور بھی بہت کچھ بہت ساری تفصیل کے ساتھ لکھ سکتاہوں۔ لیکن بھئی دوسروں کو بھی تو کچھ کہنے کا حق پہنچتا ہے ناں !اس لئے میں اپنی یہ آپ بیتی یہیں پر ختم کرتاہوں۔ " سردجہنم - تحریر نمبر 1476,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sard-jahanum-1476.html,"شیخ عبدالحمید عابدہر شخص ڈاکٹر والٹن کی گفتگو نہایت خاموشی اور توجہ سے سن رہا تھا۔یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ آئینے کے سامنے کسی ڈرامے کی مشق کررہے ہوں اور باقی لوگ ان کی حرکات اور مکالموں پر نظر رکھے ہوئے ہوں۔”آپ میں سے کون جائے گااس مشن پر؟“انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:”میر ے خیال میں وہی لوگ ملکی مسائل کو حل کرنے کے اہل ہیں ،جن میں اپنے مسائل کو حل کرنے کی اُمنگ ہوتی ہے ۔اپنے قومی وقار کو بڑھانے کا جذبہ ہوتا ہے اور ایسے ہی لوگ خطرات سے نمٹنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔“انھوں نے ایک اُچٹتی ہوئی نظر ہال کے اطراف میں دوڑائی ۔جین ،ولےئم اور رابرٹ نے ہاتھ اُٹھا دیے۔وہاں بیٹھے تمام افراد نے ٹھنڈی آہ بھر کر ان کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں، کیوں اپنی موت کو دعوت دے رہے ہو۔(جاری ہے)ان تینوں نے والٹن کی طرف سے بنائی گئی فائل پر دستخط کیے اورمحفل برخاست کر دی گئی۔والٹن گروپ بارہ افراد پر مشتمل تھا،جو بہادری اور مہم جوئی میں اعلا مقام رکھتا تھا۔اس گروپ کا سر براہ والٹن تھا ،جو ملک کا نام ورسائنس داں تھا۔مہم جوئی کی دنیا میں اس گروپ نے کئی کارنامے سر انجام دیے تھے۔اس دفعہ گروپ کے ممبران کو تحقیق کے لیے جہاں بھیجا جارہا تھا،وہ ایک ایسا علاقہ تھا جو مسلسل برف باری کی وجہ سے قرب وجوار کی آبادی سے بالکل کٹ گیا تھا۔اس گروپ کے ذمے ایسا کام لگا یا گیا تھا جو کسی بھی انسان کے لیے مشکل اور کٹھن کام تھا۔یعنی اس ویران ،خوف ناک اور حد درجے مشکلات سے گھرے علاقے کے بارے میں کوئی حل ڈھونڈنا اور پھر تمام معلومات کی مکمل تفصیلات کتاب کی صورت میں عوام کی آگہی کے لیے شائع کرنا تھا۔دوسرے دن وہ تینوں اپنے مشن پر روانہ ہو گئے۔نقشے میں راستے انھیں جتنے دشوار دکھائی دیتے تھے،اس سے کہیں زیادہ خطر ناک اور دشوار گزار تھے۔وہاں پہنچ کر تینوں الگ الگ سمتوں میں روانہ ہو گئے۔رابرٹ جس سمت روانہ ہوا،وہ انتہائی برفانی علاقہ تھا۔پہاڑ ،برف کے تودوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔آسمان پر سر مئی بادلوں کا راج تھا۔ہر طرف برف ہی برف تھی۔زمین کی سطح برف کی موٹی یہ میں ایسے ڈھک کر روئی کے گالوں کی طرح محسوس ہورہی تھی۔رابرٹ احتیاط سے قدم بڑھا رہا تھا۔ہر طرف مکمل سکوت تھا۔برف باری بھی مسلسل ہورہی تھی۔اس نے ایک بارولیم سے وائر لیس پر رابطہ کیا۔تیز برف باری کی وجہ سے اس کا رابطہ ٹھیک طور پر نہیں ہو پارہا تھا۔اس نے ولےئم کو ایک بار ضروری پیغام سمجھاکرپھر سے چلنا شروع کر دیا۔گمبیھر سناٹا،سائیں سائیں کرتی ہوا ان تینوں کو سخت نا گوار محسوس ہورہی تھیں۔برف باری نے ایک بار پھر تیزی پکڑ لی تھی ۔رابرٹ برف پر چلے چلتے تھک سا گیا تھا،لیکن یہاں سے واپس جانے کے بعد اس کے ملک کو اتنے بڑے اور مشکل کام کے کامیاب ہونے پر جو شہرت ملے گی وہ اس کا اندازہ بہ خوبی کر سکتا تھا ۔اپنا ملک جو اس کی شناخت ،اس کی پہچان تھا ۔جہاں بسنے والے اس کے اپنے جیسے آدمی تھے۔وہ اپنے ملک اور اپنے لوگوں کے لیے زیادہ بہتر کام کرنے کی جستجو میں تھا۔”رات اسی جگہ بسر کر لینی چاہیے۔“اس نے سوچا اور خیمہ نصب کرکے والٹن کے دیے گئے نقشے کو بہ غور دیکھتے ہوئے آیندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں سوچنے لگا۔برف باری میں رات کے تیسرے پہر کمی آگئی تھی ۔مسلسل برف گرنے کی وجہ سے زمین کی سطح چھپ گئی تھی۔رابرٹ نے جس جگہ خیمہ لگا یا وہ ایک اونچا پہاڑ نما تو دہ تھا ،جو آس پاس کے چھوٹے بڑے پہاڑ نماٹیلوں کے بیچ میں چھپ سا گیا تھا۔جس کی وجہ سے برف مکمل طور پر اس تودے تک نہیں پہنچ رہی تھی اور وہ تو دہ اس وقت اس کے لیے کسی محفوظ مقامسے کم نہیں تھا۔رابرٹ کسی سہمے ہوئے مسافر کی طرح دُبکا بیٹھا تھا۔وائرلیس کی ٹونٹ ٹونٹ کرتی آواز اسے اس وقت کسی دھماکے سے کم نہ لگی۔دوسری طرف ولئیم تھا۔”میں رابرٹ بول رہا ہوں۔“رابرٹ گھگیائے ہوئے لہجے میں بولا۔”رابرٹ سنو !جین کا مجھ سے رابط نہیں ہو رہا ہے ۔“ولئیم نے بتایا۔“تم نے اس سے رابطہ کیا؟“رابرٹ خاصا پریشان تھا۔ولئیم نے جواب دیا:”تمھارا اور جین کا رابطہ مجھ سے تقریباً آٹھ گھنٹے پہلے ہوا تھا۔اس کے بعد میں نے نہ تم سے رابطہ کیا اور نہ جین سے ۔“اس نے کئی بارجین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ،لیکن جواب نہیں ملا۔ولئیم کے ساتھ ساتھ رابرٹ بھی جین کی طرف سے پریشان ہو گیا۔”تو کیا جین ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔“اس خیال کے ساتھ ہی اُسے اپنے اندر ایک سرد لہر سرایت کرتی ہوئی محسوس کی۔رابرٹ نے فوراً اس بُرے خیال کو جھٹک دیا اور پھر نقشے کی طرف متوجہ ہو گیا۔رات جو بے حد تاریک تھی ۔آہستہ آہستہ گزر ہی تھی۔ایک زور دار دھماکے کے ساتھ برف کے ٹکڑے ہوئے اور پھر مکمل خاموشی چھا گئی۔پھر چٹخنے کی عجیب وغریب آواز کے ساتھ برف علاحدہ ہو گئی۔ساری رات برف کے تو دے گر کر پاش پاش ہوتے رہے۔رابرٹ ساری رات جا گتا رہا تھا۔اپنے آپ کو خاصا اکیلا محسوس کر رہا تھا۔صبح کی روشنی پھیلتے ہی وہ خود کو تازہ دم محسوس کرنے لگا۔شاید زندہ بچ جانے کی خوشی چہرے اور دل ودماغ پر مسرت بن کر چھا گئی تھی ۔رابرٹ نے آہستہ آہستہ تو دے سے اُتر کر چلنا شروع کر دیا۔سردہوائیں چلنے لگیں۔بادل اِدھر اُدھر بھٹک گئے تھے۔اس لیے سورج بھی ان کے پیچھے سے باہر آکر اپنی پوری تمازت دکھا رہا تھا۔بہت عرصے بعد سورج کی رو پہلی کرنیں اسے اور بھی خوش گوار لگ رہی تھیں۔وہ متعین کردہ سمت کیطرف چلنے لگا۔جہاں اس نے ولئیم کو پہنچنے کے لیے کہا تھا۔شمال کی طرف جانے والے راستے پر وہ چلتا رہا۔سورج کی تپش سے برف کے ٹکڑے پگھل کر پانی بن رہے تھے۔جس کی وجہ سے چلنا اور بھی دشوار ہو گیا تھا۔برف باری کے رک جانے پر البتہ وہ خوش تھے۔وہ جلد از جلد ولیم کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔وہ جتنا سنبھل سنبھل کر آہستگی سے جارہا تھا۔اس سے کہیں زیادہ تیز سے موسم نے رُخ بدلا اور بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں نے سورج کو نگل لیا۔ایک بار پھر اندھیرا چھا گیا تھا۔اس اچانک تبدیلی نے رابرٹ کو مایوس کر دیا۔ایک دفعہ پھررابرٹ کے بدن میں سر سراہٹ سی ہونے لگی۔اس ہول ناک سناٹے میں اس کا دم گھبرانے لگا۔وہ خیالوں میں گم آگے بڑھتا ہی جارہا تھا کہ اچانک کوئی سخت چیز اس کے لونگ اسٹرانگ شوز سے ٹکرائی تو وہ ٹھٹک گیا۔اس نے جھک کر دیکھا تو برف کے گرنے کی وجہ سے وہ سخت چیز چھپ گئی تھی،لیکن گرین ہیٹ کو اس نے پہچان لینے میں دیرنہ کی تھی:”اوہ!یہ تو جین کا ہیٹ ہے۔“وہ اپنے آپ میں بڑبڑایا۔اس نے جلدی جلدی اپنے دستانوں والے ہاتھ سے برف اِدھر اُدھر ہٹانی شروع کردی کوئی برف پراوندھا پڑ ا تھا۔اس نے جیسے ہی منھ سیدھا کیا۔اس کی ایک دلخراش چیخ سردہواؤں میں گم ہو گئی ۔وہ یقینا جین ہی تھا۔ہونٹ گہرے نیلے اور چہرے کی تمام نسیں اُبھر کرنیلی ہو گئی تھی۔وہ اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔اب اسے مکمل یقین تھا کہ ولئیم اور خودان کا بھی شاید یہی حال ہو گا ۔وہ سوچتا ہوا جس راستے پر آنکلا تھا۔ و انتہائی پتھر یلااور غیر ہموار تھا۔اندھیرا بڑھتاجارہا تھا۔وہ مسلسل تیز چل رہا تھا۔کافی آگے جانے پر اسے شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے تھورے فاصلے پر عجیب وغریب درخت تھے،جن کی لمبائی کسی عام آدمی کے قد کے برابر ہو گی،لیکن وہ جسامت کے لحاظ سے قدرے پتلے اور کمزور سے درخت تھے۔اتنی برف باری اور شدید سردی میں وہ کیسے ہرے بھرے تھے،اس کی سمجھ میں نہ آسکا۔اس کی شاخیں سوسن یا پھر برگد کے درختوں کی طرح ہوا میں جھول کر ایک بے ہنگم شور پیدا کر رہی تھیں۔وہ ان کے بارے میں جاننے کے لیے آگے بڑھا۔اس نے ایک جھولتی ہوئی شاخ کو چھوا تو تمام شاخیں جیسے حرکت میں آگئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اردگرد لپٹنے لگیں ۔رابرٹ اس نئی افتاد سے گھبرانے کے بجائے بڑی تیزی اور مہارت سے جیب سے چاقو نکال کر شاخیں کاٹنے لگا۔دوتین منٹ کی اس جان لیوا کوشش کے بعدد رخت کی گرفت ڈھیلی محسوس ہوتے ہی اس نے ایک لمبی چھلانگ لگادی۔اس وقت وہ خاصہ حواس باختہ تھا۔اس کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے مزید پھیل گئیں،جب اس نے دیکھا کہ کاٹی گئی شاخیں ایسے تڑپ رہی ہیں جیسے کیس چھپکلی کی دُم کو اس کے جسم سے الگ کردیا گیا ہو۔تمام شاخیں جھول کر واپس درخت کے تنے سے لپٹ گئیں۔اب اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔کوئی بھی ذی روح ان آدم خوردرختوں کے ہوتے ہوئے کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔وہ شدید تکلیف کے باوجود تیزی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ہواؤں کے تیز جھکڑپھر سے چلنا شروع ہو گئے اور ساتھ ہی برف باری نے بھی زور پکڑلیا تھا۔وہ اپنے متعین کردہ مقام پر پہنچا تو وہاں ولیم بھی موجود نہ تھا۔اس کا رقعہ چاقو سے اڑ سا ہوا اسے ملا تھا ،جس میں اس کی روانگی کی اطلاع تھی۔رابرٹ نے رات وہیں گزارنے کا فیصلہ کیا اور خیمہ نصب کرنے لگا۔جین کی ہولناک موت نے اسے خوف زدہ کر دیا تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مزید اس علاقے کے بارے میں تحقیق کرے یا واپس کا سامان کرلے۔موسم کی خرابی کی وجہ سے ڈاکٹر والٹن سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہو پارہا تھا۔”ولئیم سے مل کر ہی کوئی فیصلہ کروں گا۔“اس نے اپنے آپ کو تسلی دی جو اسے خود ہی جھوٹی لگی کیوں کہ ہر رات اسے آخری رات سے کسی طرح کم نہ لگتی تھی۔کمر ٹیک کروہ خیالوں کو پرونے لگا۔ صبح کی آمد روزانہ کی طرح ہی تھی۔تیز سرد ہوائیں زور شور سے جاری تھیں۔اس نے سامان پیک کیا اور ولئیم کے تحریر کیے گئے راستے پر چل پڑا۔برف پر یوں آہستہ چلنا اسے سخت نا گوار لگ رہا تھا،وہ بڑی احتیاط سے چل رہاتھا۔اس کے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔رابرٹ نے صاف محسوس کیاکہ وہ اب آگے مزید آگے نہیں چل سکتا۔جین کی موت کا سوچتے ہی وہ پھر سے آگے بڑھنے کے لیے تیار ہو گیا ۔اسے معلوم تھا کہ ایک بار بھی برف میں گرجانے کے بعد وہ بھی اس میں ہمیشہ کے لیے کھو جائے گااور وہ ایسی ہو لناک موت نہیں مرنا چاہتا تھا۔دن کی روشنی کی شام کے سائے نگل رہے تھے۔ہر طرف دھند پھلنے لگی تھی۔اس کے جسم میں سنسناہٹ دوڑنے لگی۔ شام کے سائے پھیلتے ہی اس کی رفتار میں تیزی آگئی تھی۔دورہی سے اس نے کچھ سامان دیکھ لیا تھا۔وہ تیز تیز قدم بڑھا کروہاں پہنچا تو بے اختیار رودیا۔وہ بالکل اکیلا رہ گیا تھا۔ولئیم کا سامان برف میں دھنسا ہوا تھا اور لمبی چھڑی جس سے راستے کی نشاندہی کرنی تھی،وہ برف میں اڑسی ہوئی تھی۔ولئیم برف کی قبر میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا تھا۔رابرٹ اس ماحول سے اُکتا گیا تھا۔اس نے فوری فیصلہ کر دیا تھا۔مزید رکنا اس کے لیے محال تھا۔اسے اپنی موت بھی یقینی معلوم ہورہی تھی۔رابرٹ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھ رہا تھا۔ہولناک سناٹے اور رات کی تاریکی نے اسے اور بھی ڈرادیا تھا۔ابھی وہ ایک قدم اور بڑھا ہو گاکہ اپنا توازن بر قرار نہ رکھ سکا اور وہیں گر گیا۔رات کی تاریکی میں ایسا کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔وہ بالکل بے بس ہو چکا تھا۔ایک بار پھر اسے اپنی قسمت پر رونا آگیا ۔اسے یقین ہو گیاکہ اب وہ دوبارہ انسانوں کی بستی میں کبھی بھی نہ جاسکے گا۔اس نے افسردگی اور نا اُمیدی کے ملے جلے احساسات کے ساتھ اپنے اطراف نظر دوڑائی تو اس کے بدن میں خوشی کی لہر دوڑگئی ۔تاحد نظر پہاڑوں کے اس پار مدھم سی روشنی اسے چاروں طرف پھیلی ہوئی محسوس ہوئی۔اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ انسانی آبادی کے قریب ہے ۔اس کی مایوسی نے اُمید کا دامن پھر سے تھام لیا۔وہ ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔اس کے پاؤں بے جان سے ہورہے تھے ۔وہ قدرے سرک سرک کر چلتا رہا ،وہ خطر ناک علاقے کی بلند وبالا چوٹیوں کو سر کر کے اس خطے کے بارے میں تمام معلوم سمیٹ کر زندہ سلامت واپس جارہا تھا۔یہی جذبہ اسے تیز چلنے پرمجبور کر رہا تھا۔وہ اب بے حد خوش تھا، کیوں کہ اس نے موت کو شکست دے دی تھی۔رابرٹ ساری رات طویل راستہ طے کرنے کے بعد پہاڑ کے اس پار انسانوں کی بستی میں اُتر گیا ،جہاں سے اس کا رابطہ ڈاکٹر والٹن سے ہو گیا ۔وہ بہت اطمینان محسوس کررہا تھا،لیکن اپنے دو ساتھیوں کے بچھڑنے کا احساس اسے مغموم کیے ہوئے تھا۔ " ہنر مند لڑکی۔۔۔تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1475,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hunar-mand-larki-1475.html," " چڑیا کا بدلہ - تحریر نمبر 1474,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chirya-ka-badla-1474.html,"محمد حارث عمران ،لاہورایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں ایک چڑیا اور لومڑی رہتے تھے۔دونوں کی اکثر جنگل میں ملاقات ہوتی مگر آج تک دونوں ایک دوسرے کے گھر نہ گئے تھے۔ایک دن لومڑی نے چڑیا سے کہا کہ کبھی تم میرے گھر دعوت کھانے آؤ میں تمہارے لیے کچھڑی بناؤں گی۔کیونکہ کھچڑی چڑیا کو بہت پسند تھی ،اس لیے چڑیا نے لومڑی کی دعوت قبول کر لی ۔اگلے روز چڑیا دعوت کھانے لومڑی کے گھر گئی اور دونوں باتیں کرتے رہے ۔جب باتوں سے فارغ ہو ئے تو لومڑی تین پلیٹوں میں کھچڑی لے آئی اور اپنی پڑوسن بلی کو بھی کھا نا کھانے وہاں بلا لیا۔چڑیا ،بلی کو دیکھ کر پریشان ہو گئی ،اس نے سوچا کہ لومڑی کو بتادے کہ وہ بلی کے آجانے سے خوفزدہ ہو گئی ہے۔مگر خوف کے مارے نہ تو اس سے کچھ کہا گیا اور نہ ہی کچھ کھا یا گیا ۔(جاری ہے)وہ دل ہی دل میں افسردہ ہورہی تھی کہ آخر لومڑی نے آج ہی اپنی خونخوار پڑوسن کو یہاں کیوں بلا لیا ہے مگر کچھ کہہ بھی نہ سکتی تھی کہ بلی کے تیز پنجے اس کے سامنے ہی تھے وہ چپ چاپ ایک کونے میں دبک کر بیٹھی رہی۔دوسری طرف میزبان لومڑی کھانے میں مگن تھی اور اسے اس بات کی کوئی پروانہ تھی کہ اس کی مہمان بلی سے شدید خوفزدہ ہو گئی ہے ۔بلکہ وہ تو چڑیا کی یہ حالت دیکھ کر دل ہی دل میں ہنس رہی تھی ۔وہ بار بار چڑیا سے پوچھ رہی تھی کہ اور کھچڑی لاؤں ؟مگر چڑیا نے تو پہلے ہی کچھ نہ کھایا تھا اور مزید کھچڑی کیوں مانگتی سو اس نے منع کردیا۔کچھ دیر بعد لومڑی کو ہنستے ہوئے دیکھ کر چڑیا کی سمجھ میں بات آگئی کہ لومڑی نے جان بوجھ کر اس سے مذاق کیا ہے چنانچہ چڑیا نے اس سے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔کئی دن بیت گئے۔ایک دن چڑیا نے لومڑی سے کہا کہ تم نے مجھے دعوت دی کیوں نہ میں بھی تمہیں دعوت دوں تو پرسوں میرے گھر دعوت کھانے آنا میں تمہارے لیے مچھلی کا سوپ بناؤں گی۔یہ سنتے ہی لومڑی کے منہ میں پانی آگیا۔لومڑی مقررہ دن اس کے گھر پہنچ گئی۔سوپ کی خوشبو سونگھ کر اس کے منہ میں بار بار پانی آرہا تھا۔کچھ دیر بعد چڑیا اس کے لیے سوپ لائی ۔آج وہ خود تو مزے سے کھچڑی کھا رہی تھی لیکن مہمان لومڑی صراحی میں سوپ نہیں پی سکتی تھی کیونکہ صراحی کا منہ لمبا تھا اور لومڑی کا منہ صراحی میں جا نہیں پا رہا تھا ۔لومڑی ،دعوت اڑانے کے لیے بے تاب تھی ،مگر چڑیا کی ہو شیاری کی وجہ سے آج وہ صرف صراحی کو چاٹنے پر مجبور تھی۔لومڑی ،چڑیا کو کہنا چاہتی تھی کہ وہ اسے صراحی کے بجائے کسی برتن میں سوپ پلادے مگر اپنی حرکت بھی اسے یاد تھی۔اسے یاد تھا کہ اس دن چڑیا کو اپنے گھر دعوت پر بلاکر اس نے چڑیا کو بھو کارکھا تھا اور اسے تنگ بھی کیا تھا۔لومڑی سمجھ چکی تھی کہ اس نے دوست کو دعوت پر بلا کر جیسا سکول کیا تھا آج ایسا ہی بدلہ اسے بھی مل رہا ہے ۔اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے چڑیا سے اپنی غلطی کی معافی مانگی اور پھر چڑیا تو دل کی اچھی تھی ہی اس نے بھی فوراً لومڑی کو معاف کر دیا اور بولی،”بی لومڑی !جو ہوا اسے بھول جاؤ۔آج سے ہماری دوستی کا نیا آغاز ہو گا اور اس دوستی میں ہم کبھی ایک دوسرے کوتنگ نہیں کریں گے۔“لومڑی نے ننھی سہیلی سے وعدہ کرلیا۔پھر چڑیا نے اچھی طرح لومڑی کی خاطر تواضع کی اور اسے خوشی خوشی اپنے گھر روانہ کیا۔بچو!اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم بھی کسی کے ساتھ برا سلوک نہ کریں کیونکہ یہ بری بات ہے ۔دوست کا دل دکھانے سے کسی کو خوشی نہیں مل سکتی۔ویسے بھی سچی دوستی یہ ہے کہ دوست کا ہمیشہ ساتھ دیا جائے ۔اس کا خیال رکھا جائے اور اسے کبھی جان بوجھ کر کوئی تکلیف نہ دی جائے۔ " سونے کا دیوانہ بادشاہ - تحریر نمبر 1473,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/soone-ka-dewana-badshah-1473.html,"زینب مغلکافی عرصے پہلے ایک ملک پر بہت خوبصورت بادشاہ کی حکومت تھی ۔اس بادشاہ کا نام ”مائیڈس“تھا۔اس بادشاہ کے پاس بے حساب سونا تھا جس سے وہ شہروں کے شہر خرید سکتا تھا۔وہ اپنے سونے کو جان سے بھی زیادہ چاہتا تھا۔کسی کو بھی نہیں پتا تھا کہ اس کے پاس اتنا سونا کہاں سے آتا ہے۔بادشاہ اپنا سارا سونا محل کے تہہ خانے میں رکھا کرتا تھا۔وہ ہر روز وہاں جاتا تھا اور سونے کی اشرفیاں اور سونے کی اینٹوں کو گنتا تھا۔رانی بادشاہ کی اس حرکت کو دیکھتی اور اس کا مذاق اڑاتی تھی اور کہتی بادشاہ سلامت!روز روز اپنا سونا مت گنےئے کیا ہوا اگر یہ کچھ گھٹ بھی گئے تو۔بادشاہ کہتا آپ اس طرح مذاق کیسے اڑاسکتی ہیں آپ کو اندازہ بھی ہے کہ یہ سونا کتنا بیش قیمتی ہے ذرا غور سے دیکھئے اس ہار کو جو آپ نے پہنا ہے کیا یہ خوبصورت نہیں ہے دیکھئے کتنا چمک رہا ہے یہ۔(جاری ہے)رانی بولی جی ہاں یہ واقعی بہت خوبصورت ہے بھلے ہی یہ بیش قیمتی ہوں مگر ہمارے لےئے خوشیاں تو نہیں خرید سکتے۔بادشاہ بولا یہ میرے لےئے خوشیوں کا باعث ہے تم کبھی نہیں سمجھو گی ،بھلا اس سے بھی خوبصورت کوئی چیز ہو سکتی ہے دنیا میں۔رانی بادشاہ کی بات سے اتفاق نہیں کرتی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ بادشاہ سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔بادشاہ کی سونے کی چاہ دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔اس کو سونے سے اتنی محبت تھی کہ اس نے اپنی بیٹی کا نام”میری گولڈ“رکھ دیا۔میری گولڈ بہت ہی زندہ دل تھی۔ہر چھوٹی چیز میں خوبصورتی دیکھ لیتی تھی۔وہ ہمیشہ اپنے ابا سے کہتی ،اباجان!یہ دیکھئے کتنے خوبصورت پھول ہیں،دیکھئے شبنم کیسے گھاس پر چمک رہی ہے ۔بادشاہ کہتا پھر بھی یہ سونے جیسا چمک دار نہیں ہے بیٹا! آپ نہیں سمجھو گی۔اپنی ماں کی طرح میری گولڈ بھی نہیں سمجھ پائی کہ سونا پھول سے زیادہ حسین کیسے ہو سکتاہے۔یوں ہی وقت گزر تا گیا۔اب بادشاہ اپنا زیادہ تر وقت اکیلے تہہ خانے میں گزارنے لگا۔وہ اپنے سونے کو بار بار گنتا اور گنتا رہتا۔ایک دن سپاہی بادشاہ کی ملاقات کرانے کیلئے ایک اجنبی شخص کو لے کر دربار میں حاضر ہوا۔وہ شخص بہت ہی سادا سا لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔بادشاہ نے یہ بھی دیکھا کہ اس کے پیروں میں کوئی بھی چپل نہیں تھی ۔بادشانے پوچھا کون ہے یہ شخص؟عالی جاہ!یہ شخص ہمیں سڑک پر بھٹکتا ملا اس نے کہا میں بھٹک گیا ہوں میرے پاس رہائش کی کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ یہ آدمی ہمارے شہر کانہ ہو تم نے کہا یہ بھٹک گیا ہے اس کے رہنے کا انتظام کرو اور جب تک اس کا گھر نہ مل جائے یہ ہمارا مہمان رہے گا۔دن گزرتے گئے بادشاہ صرف اتنا جانتا تھا کہ خاموش بوڑھا شخص ایک اجنبی ہے بادشاہ کو اس بات کا بالکل بھی علم نہیں تھا کہ یہ جنگل کے جن کا دوست ہے ۔بہر حال اس شخص کا شاہی طریقے سے خیال رکھا گیا اسے سب کچھ مہیا ہو جاتا جس کی وہ مانگ کرتا ۔کچھ ہفتوں کے بعد سپاہیوں نے اس کے گھر کا پتہ لگا لیا۔اس مہمان کا اپنے گھر رخصت ہونے کا وقت آگیا۔اسی رات بادشاہ تہہ خانے میں سونا گننے میں مصروف تھا۔تبھی اچانک وہاں جنگل کاجن نمودار ہوا۔بادشاہ اسے دیکھ کر بہت حیران ہوا اور بولا کہ تم کون ہو اور یہاں کس لیے آئے ہو۔جن بولا میں جنگل کا جن ہوں مائیڈس۔آپ میرے نام سے کیسے واقف ہیں؟بادشاہ اور زیادہ حیران ہو کر بولا،کیا آپ میرا سونا چرانے آئے ہیں۔جنگل کا جن ہنسا اور بولا میں سونے کا کیا کروں گا یہ میرے کسی کام کا نہیں میں تمہیں شکریہ کہنے آیا ہوں۔کس بات کا شکریہ۔وہ بوڑھا شخص میرا دوست ہے جس کا تم نے بہترین خیال رکھا ہے میں تمھاری میز بانی سے بہت خوش ہوں،میں تمھاری کوئی ایک خواہش پوری کرنے آیا ہوں ،بتاؤ تمہیں کیا چاہئے؟بادشاہ کو اپنے کانوں پر بھروسہ نہیں ہوا کہ وہ کچھ بھی مانگ سکتا ہے اور وہ جانتا تھا کہ اسے کیا چاہئے وہ بولا مجھے سونے سے بھرا ایک جہاز چاہئے نہیں سونے سے بھرا ہوا پورا گھر چاہئے نہیں یہ بھی کافی نہیں ،مجھے پتا ہے مجھے کیا چیز خوش رکھ سکتی ہے ۔مجھے سونے کی چھوون دے دو میں چاہتا ہو کہ میں جس چیز کو ہاتھ لگاؤں وہ خالص سونا بن جائے۔جن بولا میں تمھاری خواہش پوری کرنے کا وعدہ کرتا ہوں ،کل جیسے ہی سورج طلوع ہو گا جس چیز کو بھی تم ہاتھ لگاؤ گے وہ خالص سونے میں تبدیل ہو جائے گی پر یاد رکھنا بادشاہ تمہاری یہ خواہش تمھیں خوش نہیں رکھ پائے گی سونا ساری خوشیاں نہیں خرید سکتا۔بادشاہ ہنسا اور دل ہی دل میں بولا اس جنگل کے فرشتے کو سونے کی قیمت کیسے پتا چلے گی،میں اب ساری دنیا کا سب سے امیر اور خوش حال شخص بن جاؤں گا۔بادشاہ خوشی کے مارے ساری رات سو نہیں پایا وہ شدت سے صبح ہونے کا انتظار کررہا تھا۔صبح ہوئی بادشا ہ بہت بیتاب تھا یہ جاننے کیلئے کہ اس کے چھونے سے چیزیں سونے میں تبدیل ہوتی ہیں یا نہیں اس نے اپنے بستر کو ہاتھ لگایا تو وہ سونے میں تبدیل ہو گیا۔پھر بادشاہ ہر اس چیز کو چھونے لگا جہاںتک اس کا ہاتھ جا سکتا تھا۔اب مجھے اپنا سونا چھپانے کی ضرورت ہی نہیں،بادشاہ بڑ بڑاتے ہوئے بولا۔چلو باہر چلتے ہیں پوری جگہ کو سونے میں تبدیل کرتے ہیں بادشاہ بڑ بڑاتے ہوئے باہر نکل گیا اور وہ ہر چیز کو چھوتا جاتا اور وہ سونے میں تبدیل ہوتی جاتی،پھر وہ باغ میں جا پہنچا اور ہر ایک درخت اور پودے کو چھو کر سونے کا بنادیا۔میں جگہ جگہ بھاگ کر تھک گیا ہوں میرے پاس پوری سلطنت باقی ہے سونے میں بدلنے کیلئے ،مجھے اپنی سلطنت کو دکھانا ہو گا کہ میں کس طرح ہر چیز کو سونے میں تبدیل کردیتا ہوں لیکن ابھی مجھے بھوک لگی ہے پہلے کچھ کھا لیتا ہوں، بادشاہ یہ کہتا وہاں واپس محل چلا آیا۔دستر خوان پر بہت سے کھانے سجے ہوئے تھے صرف بادشاہ کیلئے اور جیسے ہی اس نے پانی پینے کیلئے گلاس کوہاتھ لگایا تو وہ سونے میں تبدیل ہو گیا ۔بادشاہ یہ دیکھ کر بہت پریشان ہو گیا۔اس کے اندر کا پانی کہاں گیا مجھے بہت پیاس لگی ہے ،اس نے جیسے ہی کھانے کیلئے کسی چیز کو ہاتھ لگایا تو وہ بھی سونے میں تبدیل ہو گئی ،اب بادشاہ بہت ہی خوفزدہ ہو گیا۔اوہ اب میں کیا کھاؤں گا مجھے سخت بھوک لگی ہے،میں سونا کھا اور پی تو نہیں سکتا ،کیا دنیا کا سب سے امیر بادشاہ بھوک سے مر جائے گا۔بادشاہ بہت غمگین ہو گیا وہ وہاں رکھی ساری غذا کو دیکھتا رہا جو سونے کی بن چکی تھی اور اب اس کے کسی کام کی نہیں تھی تبھی اس کی بیٹی باہر سے دوڑتی ہوئی اندر آئی اور اس سے پہلے کی بادشاہ کچھ سوچ پاتا اس کی بیٹی دوڑتی ہوئی اس کے گلے لگ گئی اور جیسے ہی بادشاہ نے اسے دور کرنے کیلئے ہاتھ لگایا تو وہ بھی سونے میں بدل گئی۔نہیں‘میری گولڈ میری بیٹی یہ کہتے ہوئے بادشاہ زور زور سے رونے لگا۔میری گولڈ اب ایک چمکدار خوبصورت مجسمے میں تبدیل ہو چکی تھی جو خوبصورت تھا مگر بے جان تھا وہ ہل جل نہیں سکتی تھی بادشاہ یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا اس کی عزیز بیٹی اس کے پاس ہو کر بھی اس کے ساتھ نہیں تھی۔اوہ‘نہیں ،یہ میں نے کیا کردیا میری گولڈ ،مجھے اس طرح کی خوشی نہیں چاہئے ،بادشا ہ زاروقطار رونے لگاوہ شہر جانے کی طرف دوڑا تاکہ وہ جنگل کے جن سے مدد لے سکے ،اس نے تہہ خانے میں پہنچ کر زور زور سے جن کو پکارنا شروع کر دیا چند ہی لمحوں بعد وہاں جنگل کا جن نمودار ہوا اور بادشاہ کو مخاطب ہو کر بولا،کیا مسئلہ ہے ؟تم نہایت ہی غمگین نظر آرہے ہو ابھی تو کچھ ہی وقت گزرا ہے تمھاری خواہش کو پورا ہوئے کیا تمھاری کوئی دوسری خواہش ہے ؟اوہ خدایا ! میں آ پ کے سامنے معافی کی بھیگ مانگتا ہوں ایسی خوشی کس کام کی جو مجھے میری بیٹی سے جدا کردے میں ان چیزوں کا کیا کروں گا جو خالص سونے کی بنی ہیں ،میں انہیں کھا بھی نہیں سکتا میں سونے کے پانی کا کیا کروں جو میری پیاس نہیں بجھا سکتا ،میری اصلی خوشی تو میری بیٹی ہے پر اب وہ کچھ بول نہیں سکتی میں ایسے خالص سونے کا کیا کروں جس نے میری بچی کی مسکان چھین لی،مہربانی کر کے میرا سارا سونا لے لیجئے میرا سب کچھ لے لیجئے بس میری بیٹی میری گولڈ مجھے لوٹا دیجئے میں اب سمجھ گیا ہو سونا ساری خوشیو ں کو خرید نہیں سکتا۔جن بادشاہ کی بات سن کر بولا اے بادشاہ تم نے آج ایک اصل حقیقت سمجھ لی سونا ایک دن چلا جائے گا انسان کیلئے ضروری ہے وہ ہے سچا پیار اور اپنوں کا اپنا پن جو کبھی نہیں مرتا یہ کہہ کر جن نے بادشاہ کو پانی سے بھری ایک بوتل دی اور کہا یہ بوتل جادوئی پانی سے لبریز ہے اس کے کچھ قطرے ان چیزوں پر چھڑ ک دو جو سونا بن چکی ہیں جا دوئی پانی سے وہ چیزیں پہلے جیسی ہو جائیں گی۔بادشاہ نے جن سے وہ بوتل لی اور بولا شکریہ بہت بہت شکریہ۔پھر بادشاہ جادوئی پانی کو لے کر اپنی بیٹی کے پاس بھاگا اور جلد ی سے کچھ قطرے اپنی بیٹی پر چھڑ ک دےئے ،قطرے پڑتے ہی میری گولڈ میں جان آگئی ،بادشاہ نے اپنی بیٹی کو بانہوں میں بھر لیا۔اباجان !یہاں کیا ہوا تھا کچھ نہیں میری بچی میں اب سب کچھ ٹھیک کردوں گا،پھر بادشاہ نے کچھ قطرے کھانے کی ان اشیاء پر ڈال دیے جو سونے کی بن چکی تھیں،پھر وہ اپنی بیٹی کولے کر باغ میں گیا اور اس جادوئی پانی کے قطرے درختوں اور پودوں پر ڈالنے لگا،بادشاہ نے پہلی بار قدرتی مناظر کو دل سے محسوس کیا۔ساری چیزوں کو اپنی اصلی قدرتی شکل میں تبدیل کرنے کے بعد بادشاہ اپنی بیٹی اور بیوی کے ساتھ ناشتے کی میز پر رکھی وہ اشیاء کھانے لگا جو وہاں موجود تھیں۔اس سے پہلے بادشاہ کو ناشتہ اتنا لذیذ پہلے کبھی نہیں لگا تھا اس نے بہت سا پانی پیا اور اپنی پیاس کو بجھایا ۔بادشاہ کی بیٹی اور اس کی بیوی دونوں اس نظارے کو دیکھ کر حیران ہورہی تھیں۔اب بادشاہ نے سونا گننا بند کر دیا تھا جو اس نے تہہ خانے میں محفوظ کررکھا تھا وہ اب اپنا وقت اپنی بیٹی اور بیوی کے ساتھ گزارنے لگا۔اب وہ اپنے اطراف موجود چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کا لطف اٹھانے لگا۔اب وہ دنیا کا سب سے امیر ترین انسان بن چکا تھا۔ " اچھا لڑکا پکا دوست۔۔تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1472,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/acha-larka-pakka-dost-1472.html," " طلسمی جھیل کا راز - تحریر نمبر 1470,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/taleesmi-jheel-ka-raz-1470.html,"مختار احمد ۔ اسلام آبادکسی گاؤں میں ایک کسان اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ رہتا تھا- اس کے بیٹے کا نام انور تھا- اس کے باپ نے اسے بچپن ہی سے ایک مدرسے میں پڑھنے کے لیے بٹھا دیا تھا- وہ ذہین تھا اس لیے استاد جو بھی سبق دیتے تھے، اس کو دوسرے بچوں کی بہ نسبت جلدی یاد کر لیا کرتا تھا- اس کے یہ استاد بہت شفیق تھے اور بچوں کو بہت پیار سے پڑھاتے تھے- ان کو دیکھ کر انور نے دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بھی بڑا ہو کر ان ہی جیسا ایک استاد بنے گا اور ان ہی کی طرح پیار محبّت اور نرمی سے بچوں کو تعلیم دیا کرے گا- یہ ہی وجہ تھی کہ وہ بہت دل لگا کر پڑھتا تھا تاکہ ایک روز وہ بھی اس قابل ہوجائے کہ دوسروں کو تعلیم دے سکے-وہ پندرہ سولہ سال کا ہوا تو اس نے مدرسے سے اپنی تعلیم مکمل کرلی- اس کا باپ اسے کھیتوں پر اپنے ساتھ کام کے لیے نہیں لے جاتا تھا- اس کی نظروں میں وہ ابھی تک بچہ تھا اور وہ سوچتا تھا کہ یہ انور کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں- اس کے باپ کا یہ بھی خیال تھا کہ جب اس کی شادی ہوجائے گی تو وہ خود گھر کی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگے گا اور بیوی بچوں کا خرچ اٹھانے کے لیے کوئی نہ کوئی کام شروع کردے گا-دو تین سال بعد اس کے ماں باپ نے انور کی شادی ایک اچھی اور خوبصورت لڑکی سے کر دی- اس کی بیوی کا نام سونا تھا اور وہ بہت سمجھدار بھی تھی- شادی کے بعد کچھ دنوں تک تو دونوں میاں بیوی نے رشتے داروں کی دی ہوئی خوب دعوتیں اڑائیں- جب شادی کو چند ہفتے گزر گئے تو سونا نے انور سے کہا- ""انور- اب کل سے تمہیں بھی کام پر جانا چاہیے- یہ اچھا معلوم نہیں دیتا کہ تمہارے ابّا اتنی عمر میں کام کریں اور ہم سب مل کر کھائیں- شادی سے پہلے کی بات اور تھی- اب لوگ سنیں گے تو باتیں بنائیں گے کہ انور اتنا بڑا ہوگیا ہے مگر کماتا نہیں ہے- بوڑھے باپ کو گھر کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے-""اس کی بات انور کی سمجھ میں آگئی اور اس نے کہا- ""ٹھیک ہے پیاری سونا میں کل سے کام کی تلاش میں جاؤں گا- مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے- مجھے پہلے ہی سے کوئی کام کرکے اپنے ابّا کا ہاتھ بٹانا چاہیے تھا- مگر میں کام کیا کروں گا؟ کھیتوں پر کام کرنا تو مجھے بالکل بھی پسند نہیں ہے- میں تو چاہتا ہوں کہ میرا ایک مدرسہ ہو اور میں بچوں کو اچھی اچھی باتوں کی تعلیم دوں- تعلیم حاصل کرنے ہی سے ایک انسان اچھا انسان بنتا ہے-""سونا نے کہا- ""تم فکر مت کرو- شہر میں میرے ماموں رہتے ہیں- وہ بادشاہ سلامت کے محل میں مالی ہیں- تم ان سے ملنا ہوسکتا ہے وہ بادشاہ سلامت سے کہہ کر تمہیں کسی مدرسے میں ہی لگوا دیں-اگلے روز سونا نے اسے صبح سویرے بستر سے اٹھا کر بٹھا دیا اور خود جلدی جلدی سب کے لیے ناشتہ تیار کرنے لگی- پھر انور کو ساتھ لے جانے کےلیے کھانا بنا کر دیا- انور کی ماں اور اس کے باپ کو جب پتہ چلا کہ آج وہ سونا کے ماموں کے پاس کام کے سلسلے میں شہر جائے گا تو وہ دونوں بھی بہت خوش ہوۓ- سونا کے پاس کچھ رقم موجود تھی جو اسے شادی کے موقع پر ملی تھی- وہ اس نے انور کے حوالے کی تاکہ وقت پڑنے پر وہ اسے خرچ کر سکے اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے-شہر کے راستے میں ایک جنگل پڑتا تھا- ابھی وہ جنگل سے کچھ فاصلے پر تھا کہ اس نے ایک جھونپڑی دیکھی جس کے باہر ایک بوڑھی عورت اور اس کا شوہر بیٹھے باتیں کر رہے تھے- بوڑھی عورت کہہ رہی تھی کہ آج ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے- بھوک سے برا حال ہے-""انور یہ سن کر بہت افسردہ ہوا- اس نے اپنا کھانا نکال کر ان کے سامنے رکھا اور قریبی کنویں سے صراحی میں ٹھنڈا ٹھنڈا پانی لا کر انھیں دیا- دونوں میاں بیوی خوش ہوگئے اور اسے دعائیں دے کر مزے سے کھانے میں مشغول ہوگئے- چلتے ہوۓ انور نے سونا کی دی ہوئی رقم میں سے آدھے پیسے بوڑھے کو دے دیے- بوڑھا وہ رقم دیکھ کر بہت خوش ہوا اور بولا- ""اس رقم سے میں ایک کلہاڑی خریدوں گا اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر بیچا کروں گا- اس طرح جو پیسے ملیں گے وہ میری بیوی اور میرے گزارے کے لیے کافی ہوں گے-""اس کی بات سن کر انور مسکراتے ہوۓ وہاں سے چل پڑا اور تھوڑی دیر بعد جنگل میں پہنچ گیا- جنگل میں پہنچا تو اسے بھوک ستانے لگی- کھانا تو وہ اس بوڑھی عورت اور اس کے شوہر کو دے چکا تھا، اب اس کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا- اس نے سوچا کہ اتنا بڑا جنگل ہے کسی درخت سے پھل توڑ کر کھالے گا-اس کی نظر ایک بڑے سے درخت پر پڑی جس پر سیب کی طرح کے پھل لگے ہوۓ تھے- انھیں دیکھ کر وہ خوش ہوگیا- وہ پھل کافی اونچائی پر تھے اور انور انھیں زمین پر کھڑے کھڑے نہیں توڑ سکتا تھا اس لیے اس نے درخت پر چڑھنے کا ارادہ کرلیا-وہ درخت پر چڑھا تو اسے اوپر کی ایک شاخ پر چڑیا سے تھوڑا بڑا کئی رنگوں والا ایک پرندہ دکھائی دیا- وہ چاروں طرف سے بے خبر ایک پھل پر چونچ مار مار کر اسے کھا رہا تھا- انور کو وہ پرندہ بہت اچھا لگا- اس نے سوچا کہ اس خوبصورت پرندے کو میں گھر لے جا کر سونا کو دے دیدوں گا- وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوگی- یہ سوچ کر وہ بغیر کوئی آواز نکالے اس کے نزدیک آیا اور پھر جھپٹ کر اسے اپنی گرفت میں لے لیا-اس اچانک آفت سے پرندہ گھبرا گیا اور زور زور سے اپنی سریلی آواز میں چلانے لگا- پھر اس نے سہمی ہوئی نظروں سے انور کو دیکھتے ہوۓ کہا- ""اگر تم مجھے چھوڑنے کا وعدہ کرو تو میں تمہیں طلسمی جھیل کا راز بتاؤں گا- ممکن ہے وہ تمھارے کسی کام آجائے-""اسے انسانوں کی طرح باتیں کرتا دیکھ کر انور حیران رہ گیا- وہ سنبھل کر ایک موٹی سی شاخ پر بیٹھتے ہوۓ بولا- ""ٹھیک ہے- تم مجھے طلسمی جھیل کا راز بتاؤ- میں تمہیں چھوڑ دوں گا-""پرندے نے کہا- ""تم اس جنگل میں کسی بھی جگہ کھڑے ہو کر پورے سو قدم گن کر سامنے کی جانب چلو- سو قدم پورے ہوجائیں تو رک جاؤ اور پھر پورے سو قدم گن کر دوبارہ پیچھے کی جانب آؤ- اگر قدموں کی گنتی بالکل ٹھیک ہوئی تو تمہارے سامنے ایک جھیل نمودار ہوجائے گی- یہ ہی طلسمی جھیل ہے- اگر اس جھیل کا پانی کسی ایسے شخص پر ڈال دیا جائے جو جادو جانتا ہو، تو اس عمل سے وہ اپنا سارا جادو ہمیشہ کے لیے بھول جائے گا اور پھر کبھی بھی کسی پر جادو نہیں کرسکے گا- اس کے علاوہ اس نے جس جس پر بھی اپنا جادو کیا ہوگا ان لوگوں پر سے بھی اس کے جادو کا اثر ختم ہوجائے گا- یہ ہے طلسمی جھیل کا راز!""انور کو یہ بات بہت عجیب سی لگی- اس نے پرندے کو چھوڑ دیا – اس کے بعد اس نے کچھ پھل کھا کر اپنی بھوک مٹای- پھر درخت سے نیچے اتر کر وہ ایک جگہ کھڑا ہوگیا- وہاں سے وہ سو قدم آگے کی طرف گیا پھر جب سو قدم پورے ہوگئے تو وہ گن گن کر سو قدم پیچھے کی جانب آیا- جب یہ گنتی پوری ہوگئی تو اچانک اس کے سامنے ایک ہلکے سے دھماکے کے ساتھ ایک جھیل نمودار ہوگئی جس میں سبزی مائل پانی بھرا ہوا تھا اور اس میں جگہ جگہ کنول کے پھول نظر آ رہے تھے-انور نے جلدی سے اپنی چھاگل میں اس جھیل کا پانی بھرا اور جیسے ہی واپسی کے لیے مڑا تو اس کے کانوں میں پھر ہلکے سے دھماکے کی آواز آئ- اس نے گھوم کر دیکھا تو وہ طلسمی جھیل نظروں سے غائب ہوگئی تھی اور اب وہاں پر بڑی بڑی جھاڑیاں نظر آ رہی تھیں جن میں خرگوش کے چند بچے چھپے ہوۓ تھے اور اپنی چھوٹی چھوٹی لال لال آنکھوں سے انور کو دیکھ رہے تھے-اس کے بعد انور دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوگیا- شام ہوتے ہوتے وہ شہر پہنچ گیا- اسے سونا کے ماموں کا گھر ڈھونڈنے میں کوئی دقت نہ ہوئی- وہ چونکہ بادشاہ کے محل میں کام کرتا تھا اس لیے بہت سے لوگ اسے جانتے تھے جنہوں نے انور کو اس کے گھر پہنچا دیا تھا- وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس کی خوب خاطر مدارت کی- انور نے جب اس کو بتایا کہ وہ کام کے سلسلے میں شہر آیا ہے تو اس نے انور سے کہا کہ وہ کوشش کرے گا کہ اس کی نوکری محل میں ہی لگ جائے- مگر اس میں کچھ وقت لگے گا کیونکہ بادشاہ سلامت ایک مسلے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں-انور کے پوچھنے پر اس نے بتایا- "" دو تین روز پہلے ایک نہایت بدصورت جادوگر بادشاہ سلامت کے پاس آیا تھا- اس نے بادشاہ سے کہا کہ وہ شہزادی کی شادی اس کے ساتھ کردے- اس کی بات سن کر بادشاہ کو بہت غصہ آیا اور اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کو گرفتار کر لیں- مگر وہ جادوگر بہت مکار تھا- اس سے پہلے کہ سپاہی اسے پکڑتے، وہ چھلانگ لگا کر چھت سے لٹکے فانوس پر چڑھ گیا اور جانے کیا پڑھ کر شہزادی پر پھونکا کہ سترہ اٹھارہ سال کی شہزادی کا قد دو تین سال کے بچے جتنا ہوگیا- جادوگر یہ کہتے ہوۓ چلا گیا کہ اگر بادشاہ نے اس کی شادی اپنی بیٹی کے ساتھ نہیں کی تو شہزادی ہمیشہ اتنے ہی قد کی رہے گی- اس نے بادشاہ سلامت کو سوچنے کے لیے تین روز دیے ہیں- کل اس مہلت کا آخری دن ہے- کل وہ جادوگر پھر آئے گا- دیکھو کیا ہوتا ہے-""یہ کہانی سن کر انور سوچ میں پڑ گیا- اس نے سونا کے ماموں سے کوئی بات نہیں کی- اگلے روز سونا کا ماموں اس کو لے کر محل گیا اور خود باغیچے میں کام کرنے لگا- محل آتے ہوۓ انور چھاگل اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا جس میں طلسمی جھیل کا پانی تھا-محل میں موجود سارے لوگ خاموش تھے اور سہمے سہمے اپنے کام کرتے پھر رہے تھے- وہ سب اپنے بادشاہ سے بہت محبّت کرتے تھے کیوں کہ وہ اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتا تھا- انھیں یہ فکر ہوگئی تھی کہ جانے آج وہ جادوگر آکر کیا گل کھلائے گا-بادشاہ اپنے دربار میں بیٹھا تھا- اسے اس ظالم جادوگر کا انتظار تھا- بادشاہ نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے بہت سی دولت دے کر اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ شہزادی پر سے جادو کا اثر ختم کردے اور اس سے شادی کا خیال بھی چھوڑ دے-اچانک محل میں کھلبلی سی مچ گئی- چاروں طرف شور مچ گیا ""جادوگر آگیا- جادوگر آگیا""- یہ آوازیں سن کر انور بھی دربار کی جانب لپکا- پہرے دار تو اپنے ہوش و حواس میں ہی نہیں تھے، سب کی نظریں اس اڑتے ہوۓ جادوگر پر لگی ہوئی تھیں جو اب محل میں داخل ہو کر بھرے دربار میں داخل ہوگیا تھا- انور کو دربار کے دروازے پر کسی نے بھی نہیں روکا کیونکہ سب کی نظریں جادوگر پر لگی ہوئی تھیں- وہ بڑی آسانی سے دربار میں پہنچ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا-وہاں اس نے ایک عجیب و غریب شکل والے شخص کو دیکھا جس کی ایک آنکھ چھوٹی اور دوسری آنکھ بہت بڑی تھی- اس کی ناک بہت لمبی تھی اور آگے سے مڑی ہوئی تھی- وہ بادشاہ کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ تھی- انور سمجھ گیا کہ یہ ہی وہ ظالم جادوگر ہے جس کی وجہ سے بادشاہ پریشان ہے-انور جادوگر کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا- اسے اپنے سامنے دیکھ کر جادوگر کے چہرے پر غصے کے اثرات نمودار ہوگئے- ""لڑکے تو کون ہے- میرے سامنے یوں کھڑے ہونے کا تیرا مقصد کیا ہے؟ کیا تو مجھے نہیں جانتا کہ میں کتنا بڑا جادوگر ہوں؟""میرا نام انور ہے- تم بھی مجھے نہیں جانتے ہو ورنہ اس انداز میں مجھ سے باتیں نہ کرتے- تمھاری بھلائی اسی میں ہے کہ شہزادی صاحبہ پر سے جادو کا اثر ختم کردو اور اپنی منحوس شکل لے کر یہاں سے چلے جاؤ اور دوبارہ کبھی اس جگہ کا رخ نہ کرو-""بادشاہ اور تمام درباری بھی حیرت سے انور کو دیکھ رہے تھے- شہزادی جو جادو کی وجہ سے بالکل ننھی منی ہوگئی تھی اس کو انور کی بہادری بہت اچھی لگی اور وہ اس بات سے اتنی خوش ہوئی کہ زور زور سے تالیاں بجانے لگی-جادوگر کو یہ دیکھ کر مزید غصہ آگیا- اس نے شہزادی سے کہا- ""بونی شہزادی تم سے تو میں بعد میں نمٹوں گا- پہلے اس لڑکے کو اس کی گستاخی کا مزہ چکھا دوں-"" وہ آنکھیں بند کر کے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا- اتنی دیر میں انور نے اپنی چھاگل میں سے تھوڑا سا پانی نکال کر جادوگر کے چہرے پر پھینک دیا- اس کے منہ پر پانی پڑا تو سب کے کانوں میں بادلوں کے گرجنے اور بجلی کے کڑکنے کی تیز آوازیں آنے لگیں- اس کے ساتھ ہی جادوگر کے منہ سے کالے سیاہ رنگ کا دھواں نکلا اور ایک گولے کی شکل میں کچھ اوپر جمع ہونے لگا- اس گولے میں عجیب عجیب خوفناک شکلیں نظر آ رہی تھیں- پھر اس دھویں کے گولے میں سے نہایت خوفناک چیخوں کی آوازیں آئیں اور کچھ دیر بعد وہ گولہ بڑی تیزی سے ایک کھڑکی میں سے ہوتا ہوا باہر نکل گیا-جادوگر سخت گھبرا گیا تھا - وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے انور کو دیکھنے لگا- عین اسی وقت فضا میں جلترنگ سے بجنے لگے- سب لوگوں نے چونک کر دیکھا- دربار کی چھت سے چھوٹے چھوٹے سنہری اور بے حد چمکدار ستارے گرنا شروع ہوگئے- ان ستاروں نے شہزادی کے گرد حصار بنایا اور اس کے چاروں طرف گھومنے لگے اور پھر اگلے ہی لمحے شہزادی کا قد پہلے ہی جیسا ہوگیا- جادو کا اثر ختم ہوگیا تھا-انور نے جادوگر سے کہا- بد بخت جادوگر میں نے تم پر طلسمی جھیل کا پانی پھینک دیا ہے- اب تم زندگی بھر کسی پر جادو نہیں کر سکو گے-""اس کی بات سن کر جادوگر کا منہ خوف سے پیلا پڑ گیا- سارے دربار میں شور مچ گیا- بادشاہ خود حیرت کے مارے اپنے تخت سے اٹھ کھڑا ہوگیا تھا-انور نے نہایت ادب سے کہا- ""بادشاہ سلامت- اپنے سپاہیوں کو حکم دیجیے کہ وہ اس نامراد جادوگر کو گرفتار کرلیں- اب یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا-""بادشاہ کے حکم پر جادوگر کو سپاہیوں نے گرفتار کرلیا اور اسے لوہے کی بیڑیاں پہنا کر جیل میں ڈالنے کے لیے اپنے ساتھ لے گئے-شہزادی نے جب دیکھا کہ اس پر سے جادو کا اثر ختم ہوگیا ہے اور اس کا قد پھر پہلے جیسا ہی ہوگیا تو وہ خوش ہو کر ملکہ کے گلے سے لگ گئی- سارا دربار مبارک، سلامت اور مرحبا کے نعروں سے گونجنے لگا- بادشاہ نے آگے بڑھ کر انور کو اپنے گلے سے لگا لیا-ملکہ نے انور سے کہا- ""تمہاری وجہ سے ہمیں یہ خوشی دیکھنے کو ملی ہے- ہماری شہزادی پھر پہلے جیسی ہوگئی ہے- نوجوان تمہارا بہت بہت شکریہ-""انور نے ملکہ کی بات سن کر سر جھکا کر اسے تعظیم دی- بادشاہ کے پوچھنے پر انور نے اپنی پوری کہانی اسے سنا دی- بادشاہ اس کا بہت احسان مند تھا- اس نے کہا- ""نوجوان تم نے ہمیں ایک بہت بڑی مصیبت سے نجات دلائی ہے- ہم زندگی بھر تمہارے احسانمند رہیں گے-""انور نے دونوں ہاتھ باندھ کر کہا- ""جہاں پناہ- آپ ہمارے بادشاہ سلامت ہیں- آپ ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں- ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ وقت پڑنے پر ہم آپ کے کام آئیں اور آپ کی مدد کریں-""اس کی بات سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا- اس نے کہا- ""تم نے ایک بہت بڑا کام کیا ہے- ہم تمہیں انعام دینا چاہتے ہیں- مانگو کیا مانگتے ہو-""انور بولا- ""بادشاہ سلامت- میں تو اپنی بیوی سونا کے کہنے پر گاؤں سے چل کر شہر نوکری کرنے آیا ہوں- اگر مجھے کوئی نوکری مل جائے تو میں سمجھوں گا کہ یہ ہی میرا انعام ہے- میری نوکری لگ جائے گی تو سونا بہت خوش ہوگی- وہ چاہتی ہے کہ میں کچھ کماؤں تاکہ میرا بوڑھا باپ آرام سے گھر میں بیٹھے-""اس کی معصومانہ باتیں سن کر بادشاہ بہت ہنسا – ملکہ اور شہزادی بھی مسکرانے لگی تھیں- بادشاہ نے کہا- ""ٹھیک ہے ہمیں تمھاری خواہش منظور ہے- مگر اب ہم تمہیں کہیں اور نہیں جانے دیں گے- کہو تم کون سا کام کرنا پسند کروگے؟ ہم تو چاہتے ہیں تم ہمارے وزیر خاص بن جاؤ-""""میں بچوں کو پڑھانا چاہتا ہوں- اگر مجھے یہ ذمہ داری دے دی جائے تو میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا-"" انور نے کہا- ""میرا دل چاہتا ہے کہ ہمارے ملک کا ایک ایک بچہ اور ایک ایک بچی تعلیم حاصل کرے اور ایک مفید شہری بنے جس سے ہمارا ملک بھی ترقی کرے گا اور لوگ بھی خوش حال ہوجائیں گے-""بادشاہ اس کی بات سن کر بہت خوش ہوا- اس نے کہا ""تمھاری بات سے ہم بہت خوش ہوۓ ہیں- تم اگر چاہتے تو ہم سے بھاری انعام و اکرام لے کر اپنی زندگی آرام سے گزار سکتے تھے مگر تمھارے دل میں ذرا سا بھی لالچ نہیں ہے- اس کے علاوہ تم نیک دل اور سمجھدار بھی ہو- یہ ہی تو وہ باتیں ہیں جو تعلیم دینے والوں میں ہوتی ہیں- ہماری طرف سے تمہیں اجازت ہے کہ تم ہماری سلطنت کے بچوں کو تعلیم دو- اس سلسلے میں ہم تمہیں تمام سہولتیں مہیا کریں گے-""چونکہ بادشاہ سلامت کا حکم تھا اس لیے چند ہی دنوں میں ایک بہت بڑا مدرسہ بن کر تیار ہوگیا- اس مدرسے کا سارا انتظام انور کے ہاتھوں میں تھا- اس نے مدرسے میں بہت سارے دوسرے اتالیق بھی مقرر کر دیے تھے اور تھوڑے ہی عرصے میں دور دور سے بچے یہاں پڑھنے کے لیے آنے لگے جنہیں انور اور دوسرے استاد نہایت پیار محبّت سے تعلیم دیتے تھے- وہ نہ تو بچوں کو مارتے پیٹتے تھے اور نہ ہی ان سے سخت لہجے میں بات کرتے تھے- سارے بچے اس اچھے ماحول کی وجہ سے خوب دل لگا کر اور شوق سے پڑھتے تھے- بادشاہ نے یہاں پر تعلیم دینے والوں کی معقول تنخواہ بھی مقرر کردی تھی جو سرکاری خزانے سے دی جاتی تھی-بادشاہ نے اپنی طرف سے انور کو رہنے کے لیے ایک بڑا سے گھر بھی دے دیا تھا اور ایک شاہی بگھی بھی دی تھی جس میں چار گھوڑے جتے تھے- اس کے علاوہ اس نے پانچ ہزار اشرفیاں بھی اسے دی تھیں اور کہا تھا کہ یہ اس کا انعام ہے-سونا کا ماموں بھی بہت خوش تھا- انور کی وجہ سے بادشاہ سلامت کی نظروں میں اس کی بھی بہت عزت بڑھ گئی تھی- جب انور ان تمام کاموں سے فارغ ہوگیا تو ایک روز وہ اپنی بگھی میں بیٹھ کر اپنے گھر آیا- وہ شہر سے اپنے ساتھ بہت سے کپڑے اور دوسرے تحفے تحائف بھی لایا تھا جو اس نے گاؤں کے تمام لوگوں میں تقسیم کیے- اس کے علاوہ اس نے ان لوگوں کو نقد رقم بھی دی- اس کے ماں باپ اور اس کی بیوی سونا سب بے حد خوش تھے- اگلے روز انور اپنے گھر والوں کو اپنے ساتھ شہر لے آیا اور پھر سب لوگ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے- " خرگوش کے کارنامے - تحریر نمبر 1469,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khargosh-k-karname-1469.html," " عقلمند گدھا - تحریر نمبر 1468,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aqalmand-gadha-1468.html," " ایک پولیس والا اور ایک چور - تحریر نمبر 1466,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-police-wala-or-aik-chor-1466.html,"مختار احمد ۔ اسلام آبادعارف اور طارق دو نوں بھائی تھے- ایک روز جب ان کے ماموں سعودی عرب سے پاکستان آئےتو ان کے ہی گھر ٹہرے- وہ اپنے دونوں بھانجوں کے لیے جہاں کپڑے اور جوتے وغیرہ لائے، وہیں ان کے لیے بہت سے کھلونے بھی لے کر آئے تھے- ان کھلونوں میں ایک پولیس ٹوائے سیٹ بھی تھا جس میں سائرن والی پولیس کی گاڑی، ایک لکڑی کی بندوق، ایک میگا فون، پلاسٹک کی ہتھکڑیوں کا ایک جوڑا اور پیتل کی ایک سیٹی شامل تھی-دونوں بھائیوں کو اور تو کوئی کھلونا اتنا پسند آیا نہیں تھا جتنی یہ چیزیں پسند آئیں اور دونوں بھائی مل کرچور سپاہی کا کھیل کھیلنے لگے-سیٹی کی آواز بہت تیز تھی اور زیادہ زور سے بجاؤ تو کان سن ہوجاتے تھے- ان کی امی اس سیٹی کی وجہ سے بہت تنگ آگئی تھیں- ایک بار تو ان کے بار بار سیٹی بجانے سے وہ جھنجھلا بھی گئی تھیں اور انہوں نے عارف اور طارق کو منع بھی کیا تھا کہ وہ اسے اتنی زور سے نہ بجائیں- ان کے کان سائیں سائیں کرنے لگتے ہیں- کچھ دیر کے لیے تو دونوں بھائی محتاط ہوگئے اور سیٹی کی آواز ہلکی ہوگئی مگر تھوڑی دیر بعد ہی وہ سیٹی کو پھر زور زور سے بجانے لگے-جب عارف پورے زور سے سیٹی کو لگا تار تین دفعہ بجاتا تو اس کی آواز سنتے ہی طارق میگا فون پر زور سے چلاتا- ""پولیس- پولیس- بھاگو- بھاگو!"" پھر پورے گھر میں ان کی بھاگ دوڑ شروع ہوجاتی-دوپہر کے کھانے پر جب وہ سب جمع ہوۓ تو ان کی امی نے شکایتی لہجے میں اپنے بھائی سے کہا-""عامر- یہ تم نے بچوں کو کیا لا کر دے دیا ہے- میری ناک میں دم کر کے رکھ دیا ہے دونوں نے-""ان کے عامر ماموں مسکرا کر بولے- ""آپی اپنا بچپن بھول گئیں- کوڑا جمال شاہی اور پہل دوج کھیلتےہوۓ کیسا اودھم مچاتی تھیں- مجال ہے جو امی کو دوپہر کو سکون سے سونے دیں- یہ بچے ہیں- کھیلیں گے تو ضرور-""""کھیلیں مگر کھیل بھی تو کوئی ڈھنگ کا ہو- یہ کیا کہ ایک پولیس والا بنا ہوا ہے اور دوسرا چور بن کرپورے گھر میں بھاگا بھاگا پھر رہا ہے-"" ان کی امی کو اپنے بچپن کے ساتھ ساتھ اپنی امی بھی یاد آگئیں اس لیے وہ مسکرانے لگیں-عارف نے کہا- ""امی بڑا ہو کر میں پولیس والا بنوں گا- سارے چوروں کو پکڑ پکڑ کر جیل میں بندکردوں گا-""""اور تم کیا بنو گے؟"" امی نے طارق سے پوچھا- ""عارف سیٹی بجاتا ہے تو تم چیخ چیخ کر پولیس پولیسبھاگو بھاگو کہہ کر پورا گھر سر پر اٹھا لیتے ہو- ایسا تو چور ڈاکو کرتے ہیں-""طارق جلدی سے بولا- ""میں بھی پولیس والا ہی بنوں گا- چور بننا اچھی بات نہیں ہے- وہ تو میں عارف کے ساتھ کھیلنے کے لیے جھوٹ موٹ کا چور بن جاتا ہوں-""""ٹھیک ہے- اب خاموشی سے کھانا کھا کر اسکول کا کام کرنے بیٹھ جاؤ- اگلے ہفتے سے تم لوگوں کے ماہانہ ٹیسٹ ہونگے- ان کی تیاری بھی کرنا ہے-""امی کی بات سن کر دونوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے- شام ہوئی تو دونوں بھائی لان میں پھر اسی کھیل میں مصروف ہوگئے- ان کی امی کچن میں کھانا بنا رہی تھیں- وہ اپنے بھائی عامر کی شادی کے متعلق بھی سوچ رہی تھیں جو ایک ہفتے بعد ہونا تھی- ان کا بھائی اپنی شادی کے سلسلے میں ہی یہاں آیا تھا- کل انھیں اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ دلہن کے زیورات خریدنے کے لیے بازار بھی جانا تھا- وہ ان ہی خیالوں میں گم تھیں کہ اچانک ان کے کانوں میں پھر سیٹی کی تیز آواز آئ- ہانڈی میں چلانے والا چمچہ ان کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا تھا- انہوں نے گھوم کر دیکھا- پولیس والا ہاتھ میں لکڑی کی گن تھامے اور منہ میں سیٹی لیے کھڑا تھا اور چور کچن کے دروازے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہا تھا-""ٹہرو تو ذرا ابھی مزہ بتاتی ہوں-"" یہ کہہ کر وہ ہاتھ میں پکڑا ہوا چمچہ لے کر ان کی طرف بڑھیں،انھیں اس حالت میں اپنی طرف آتا دیکھ کر دونوں ہنستے ہوۓ وہاں سے بھاگ گئے-یہ اسی رات کا ذکر ہے- عارف اور طارق سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے- وہ لوگ رات نو بجے تک سوجایا کرتے تھے- اس وقت گیارہ بج رہے تھے- ان کی امی نے یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ جاگ رہے ہیں یا سو رہے ہیں، ان کے کمرے میں جھانکا- کمرے میں زیرو کی مدھم روشنی کا بلب جل رہا تھا اور دونوں بھائی اپنے بستر پر وہ ہی پولیس اور چور والے کھلونے لے کر بیٹھے ہوۓ تھے- ان کی امی نے تیز آواز میں کہا- ""گیارہ بج رہے ہیں- تم لوگ سوئے نہیں ابھی تک؟""""امی نیند نہیں آرہی- بس ابھی تھوڑی دیر میں سوجائیں گے-"" طارق نے خوشامد بھرے لہجے میںکہا- وہ غصے سے بڑبڑاتے ہوۓ واپس چلی گئیں-عامر ماموں ڈرائنگ روم میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ انھیں عارف کے ابو نے اپنے کمرے میں بلا لیا- وہ اٹھ کر گئے تو انہوں نے ان سے بیٹھنے کا کہا پھر بولے- ""کل یہ لوگ تمھاری ہونے والی بیوی کا زیور لینے صرافہ بازار جائیں گے- میں تو آفس میں ہونگا- جلدی آنا مشکل ہوگا- تم ان کے ساتھ چلے جانا- حالات ٹھیک نہیں ہیں- بدقماش لوگ ایسی جگہوں پر گھومتے رہتے ہیں- تم ساتھ ہوگے تو ذرا اطمینان رہے گا-""ابھی ان کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ ان کی بیوی کے منہ سے ایک خوف بھری چیخ نکل گئی- ان کا منہ دروازے کی طرف ہی تھا- دونوں نے جلدی سے پلٹ کر دیکھا- کیا دیکھتے ہیں ایک لمبا تڑنگا شخص ہاتھ میں پستول لیے دروازے میں کھڑا ہے- اس نے آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگا رکھا تھا، سر پر کیپ تھی اور منہ پر وہ ماسک لگایا ہوا تھا جو لوگ الرجی کی وجہ سے لگا لیتے ہیں- شائد ڈرائنگ روم کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی تھی جس میں سے گزر کر وہ گھر کے اندر داخل ہوا تھا-""کون ہو تم- کیا چاہتے ہو؟"" ان کے ابّو نے کڑک کر پوچھا-""پستول دیکھ کر بھی نہیں سمجھ سکتے کہ میں کون ہوں اور کیا چاہتا ہوں-"" اس نے عجیب سی بھاری آواز میں کہا- پھر وہ عامر ماموں سے مخاطب ہوا- ""سعودی عرب سے بہت پیسہ کما کر لائے ہو- جلدی سے سارا مال نکال دو ورنہ ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا- میں بڑی مشکلوں سے یہاں تک پہنچا ہوں- جگہ جگہ پولیس لگی ہوئی ہے- پولیس کی ایک گاڑی میں نے اس گلی کے نکڑ پر بھی دیکھی تھی مگر میں انھیں بھی جل دے کر آگیا ہوں- بس یہ سمجھ لو کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر آیا ہوں- ذرا سی بھی مزاحمت کی تو گولی مار دوں گا-""ان کی امی کا منہ خوف سے پیلا پڑ گیا تھا- ان کے ابّو نے سوچا کہ اگر انہوں نے مزاحمت کی تو یہ ڈاکو کچھ بھی کرسکتا ہے- وہ کچھ کہنے ہی والے تھے کہ عامر ماموں ان کی امی سے بولے- ""آپی میری لائی ہوئی تمام رقم میرے سوٹ کیس میں موجود ہے- وہ اس کے حوالے کردیں-"" پھر انہوں نے ڈاکو سے کہا- "" تم ساری رقم لے جاؤ- مگر جلدی یہاں سے چلے جاؤ-""کمرے کی تینوں بڑی کھڑکیاں اگرچہ کھلی ہوئی تھیں اور ان سے ہوا کے ٹھنڈے جھونکے اندر آ رہے تھے، اس کے باوجود ان کی امی اور ابّو کے چہرے پسینے میں ڈوب گئے تھے- ان کی امی لڑکھڑاتے ہوۓ اٹھیں اور کپکپاتے ہوۓ ہاتھوں سے بیڈ کے نیچے رکھا ہوا عامر ماموں کا سوٹ کیس گھیسٹ کر باہر نکالنے لگیں-""ساری رقم اور دوسری قیمتی چیزیں نکال کر اس تھیلے میں بھر دو- اگر کوئی چالاکی کی تو یاد رکھنا بہتبرا ہوگا-"" اس ڈاکو نے بڑے ہی خوفناک لہجے میں کہا اور ایک تھیلا جیب سے نکال کر ان کی طرف پھینک دیا-ادھر اس کی بات ختم ہوئی اور ادھر اچانک فضا میں پولیس کی گاڑی کا تیز سائرن گونجنے لگا-تھوڑی دیر بعد زوردار سیٹیوں کی آوازیں آنے لگیں- اس کے بعد میگا فون سے آواز ابھری- ""پولیس- پولیس- بھاگو- بھاگو""-یہ آوازیں بالکل قریب سے ہی آرہی تھیں اور ایسا معلوم دیتا تھا جیسے پولیس ان کی کوٹھی میں گھس آئی ہے-ان آوازوں کو سن کر ڈاکو کے اوسان خطا ہوگئے- اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، پستول جیب میں رکھ کر وہ کمرے کی کھڑکی کی طرف بھاگا اور باہر کود گیا- اس کے کودتے ہی اس کی ایک دلدوز چیخ بھی فضا میں گونجی تھی-یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ ان تینوں کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا- وہ یہ تو سمجھ گئے تھے کہ سیٹیعارف نے بجائی تھی اور میگا فون پر پولیس پولیس طارق چلایا تھا مگر کیوں؟ کیا انھیں پتہ چل گیا تھا کہ ان کے گھر ڈاکو گھس آیا ہے- وہ تینوں جلدی سے ان کے کمرے کی طرف گئے-ان کے ابّو نے کمرے کا بند دروازہ کھولا- اندر بہت کم روشنی تھی- انہوں نے دیکھا دونوں بھائی بسترپر اپنے کھلونے بکھرائے بیٹھے ہیں- گاڑی کی لال نیلی روشنیاں جل بھج رہی تھیں اور پولیس کا سائرن مسلسل بج رہا تھا- عارف کے ہاتھ میں سیٹی تھی- اپنے ابّو کو دیکھ کر دونوں گھبرا گئے اور جلدی سے لیٹتے ہوۓ بولے- ابّو- ہم لوگ بس سونے ہی والے تھے-""""گھبراؤ نہیں-"" ان کے ابّو بڑے پیار سے بولے- ""تمہیں پتہ نہیں ہے کہ تم نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے-""پھر انہوں نے اپنے موبائل پر پولیس اسٹیشن کے نمبر ملائے اور اس واردات کے متعلق بتایا اوردرخواست کی کہ ان کے ایڈریس پر پولیس بھیج دی جائے تک ڈاکو کو گرفتار کیا جاسکے-""انہوں نے فون بند کر کے جیب میں رکھا تو عامر ماموں انھیں حیرت سے دیکھ رہے تھے- ""دولہابھائی- ڈاکو تو فرار ہو چکا ہے- آپ نے بھی دیکھا تھا کہ وہ کھڑکی سے باہر کود گیا تھا"" انہوں نے حیرت بھری آواز میں کہا-""وہ فرار نہیں ہو سکا ہے-"" ان کے ابّو نے مسکرا کر کہا- ""یہاں پانی کی بہت پریشانی رہتی ہے- ہمنے اس کھڑکی کے نیچے ایک بڑا پانی کا ٹینک بنوانے کے لیے پندرہ سولہ فٹ گہری زمین کھدوا رکھی ہے اور اس کی تعمیر کا کام جاری ہے- ڈاکو کو یہ بات پتہ نہیں تھی، وہ کھڑکی سے کودا تو سیدھا اسی گڑھے میں جا گرا تھا جس کی وجہ سے اس کے منہ سے چیخ بھی نکلی تھی- ٹینک اتنا گہرا ہے کہ وہ کسی مدد کے بغیر باہر نہیں آسکتا-""سب لوگ جلدی سے ان کے کمرے میں آئے اور نیچے جھانک کر دیکھا- یہ گھر کا پچھلا حصہ تھا-باہر ایک ٹیوب لائٹ لگی تھی- اس کی روشنی میں انہوں نے دیکھا وہ ڈاکو اچھل اچھل کر اس گڑھے میں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا-امی نے عارف اور طارق کو بہت شاباش دی اور بولیں- ""اب تو میں تمہیں چور سپاہی کا کھیل کھیلنےسے کبھی منع نہیں کرونگی- چاہے تم لوگ کتنی ہی زور سے سیٹی کیوں نہ بجاؤ-""دونوں بھائی خوش ہوگئے- انھیں اس بات کی بے حد خوشی تھی کہ ان کی وجہ سے ڈاکو پکڑا گیا تھا-تھوڑی دیر گزری تھی کہ علاقے کا انسپکٹر جیپ میں سوار اپنے سپاہیوں کے ساتھ آ موجود ہوا- ڈاکو بھی سمجھ گیا تھا کہ اب اس کا بچنا محال ہے- سپاہیوں کے کہنے پر اس نے اپنا پستول باہر پھینک دیا- سپاہیوں نے اسے رسیوں کی مدد سے باہر نکالا اور ہتھکڑیاں پہنا دیں-انسپکٹر کو جب پتہ چلا کہ اس کارنامے کے ہیرو عارف اور طارق ہیں تو اس نے بھی انھیں بہتشاباش دی – عامر ماموں بھی بہت خوش تھے کہ ان کا ایک بڑا نقصان ہوتے ہوتے بچ گیا- اس طرح کھیل ہی کھیل میں دونوں بھائیوں نے ایک خطرناک ڈاکو کو گرفتار کروا دیا تھا- " بچوں میں کارٹون کا کریز - تحریر نمبر 1465,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bachoon-main-cartoon-ka-craze-1465.html,"رابعہ عظمتایک دور تھا جب بچے چاند پر رہنے والی پریوں کی کہانیاں سناکرتے تھے ۔چرخہ کاٹنے والی بوڑھی عورت کا تصور ان کے ذہن میں تھا۔نانیاں، دادیاں بچوں کو جادونگری ،جن پری اور شہزادوں اور شہزادیوں کے قصے سناتی تھیں۔وقت کے ساتھ ساتھ گھر کے بڑے بزرگوں کی جگہ ٹی وی نے لے لی۔اب بچوں کو اپنی نانی یا دادی کسی کیس کی شہزادی کی کہانی سننے کا اشتیاق نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ دوپہر ،شام ہی ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے اور کارٹون دیکھتے۔ٹیلی ویژن کے ابتدائی دور میں ٹام اینڈ جیری ،مکی ماؤس سب سے مشہور کارٹون تھے۔جو پاکستان کے واحد ٹی وی چینل پی ٹی وی پر دکھائے جاتے جن کا دورانیہ بھی دس سے پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا۔وقت نے انگڑائی لی اور جدت آگئی تو ٹی وی چینلز کی تعداد بھی بڑھ گئی۔(جاری ہے)پی ٹی وی کے ساتھ دو چینلز اور وجود میں آئے تو بچوں کو مزید کارٹون پروگرام دیکھنے کو ملیں۔ڈش اینٹینا دور آیا۔کیبل آئی تو کارٹون نیٹ ورک بھی گھر گھر پہنچ گیا۔ڈورے مون،شین شن،ڈورا،پاورپف گرلز اور پوہphooکے کارٹون کریکٹرز بھی بچوں کو اپنا دیوانہ بنا دیا۔وائی فائی ،کیبل نیٹ ورک کے دور میں 24گھنٹے کارٹون نشر ہوتے ہیں۔ڈورے مون سے بچوں کے بڑھتا ہوا کریز تو حکومتی ایوانوں تک جا پہنچاتھا کہ اس کارٹون پر پابندی عائدکرنا پڑی۔ڈور ے مون میں ڈورے مون نامی بلی کاکریکٹر بچوں کو خوب پسند ہے ۔جس کے پاس ہر مشکل کا حل موجود ہوتا ہے اس کی پاکٹ میں موجود گیجیٹ سے ہر مسئلہ منٹوں میں Solveہوجاتا ہے ۔نوبیتا جس کا کردار ایک سست،نالائق اور لاپرواہ بچے کا ہے۔ڈورے مون اس کی مدد کرتا ہے ۔سوزوکا بچیوں کا پسندیدہ کردار ہے ۔جو ایک سلجھی ہوئی لڑکی ہے ۔سنیو اور جیان ہر وقت نوبیتا کو تنگ کرتے رہتے ہیں جبکہ ڈورے مون اس کو دونوں کی شرارتوں سے بچاتا رہتا ہے۔آج کل چھٹیاں ہیں تو بچوں کو ٹی وی دیکھنے کا وقت بھی زیادہ ملتا ہے ۔ہمارے بچے بچیوں میں کارٹونز کا اس قدر کریز ہے کہ وہ کھانا بھی اپنے پسندیدہ کارٹون پروگرام کو دیکھتے ہوئے کھاتے ہیں۔کئی بچے ایسے ہیں جب تک ان کا پروگرام نہیں چلتا وہ کھانا کھانے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ دراصل الیکٹرانک ایجادات موبائل،ٹیب نے بچوں کو اتنی آسانیاں پیدا کردی ہیں کہ اب انہیں اپنے سے پہلے بچوں کی طرح اپنے کارٹون دیکھنے کے لیے گھنٹوں انتظار نہیں کرنا پڑتا بلکہ گھرمیں ٹی وی یا LEDآن کی اور کیبل پر کارٹون چینل سٹارٹ ہو گیا۔اگر کیبل نہیں آرہی تو تشویش کی کوئی بات نہیں وائی فائی لگا ہوتو موجیں ہی موجیں،موبائل کی سکرین یا ٹیب پر کارٹون دیکھ لیے۔اگر وائی فائی نہیں تو تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ۔سستے ترین نیٹ پیکجز کی بدولت کہیں بھی کسی بھی وقت موبائل ڈیٹا نیٹ ورک آن کیا اور بچوں کے فیورٹ کارٹونز ان کے سامنے حاضر ہو گئے۔ڈورے مون کے علاوہ پو کیمون ،ڈورا بھی اس فہرست میں شامل ہیں ۔بالخصوص سنڈریلاسیریز کے فیملی کریکٹرز فروزن اور اس کی بہن کو بچیاں شوق سے دیکھتی ہیں۔ ان کے سکول بیگز،پنسل بکس،واٹر بوتل ،پنسل بھی باقاعدہ فرمائش کرکے انہی کریکٹرز کی تصوریوں والے لیے جاتے ہیں اور پھر سکول میں ان چیزوں کا مقابلہ ہوتا ہے ۔اپنی دوستوں کو فخر سے یہ سب کچھ دکھایا جاتاہے ۔لڑکوں میں تو ڈورے مون ہی زیادہ مشہور ہے۔موٹو پتلو بھی آج کل famousہورہے ہیں۔لیکن سپائیڈرمینbentenلڑکوں کے فیورٹ ترین ہیں ۔بین ٹن کی شرٹس،پنسل سکول بیگز، جاگرز بھی بین ٹن کی تصویر والے چاہیے۔مگر ٹام اینڈ جیری ،مکی ماؤس کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے بلی اور چوہے کاکھیل آج ڈیجیٹل بچوں کی پسندیدہ پروگرامز کی لسٹ میں نمایاں ہے اور پنک پینتھر بھی شوق سے دیکھا جاتاہے۔ " نرالے چور - تحریر نمبر 1464,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nirale-chor-1464.html,"سیدہ عطرت بتول نقویزرمینہ ایک بہت خوبصورت گاؤں میں رہتی تھی اس گاؤں میں ہر طرف ہریالی تھی خوبصورت پھول اور ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے بہتے تھے اس گاؤں کے لوگ بہت اچھے تھے مل جل کر رہتے تھے ہر تہوار پر یہاں بہت رونق ہوتی تھی پکوان پکتے تھے،زرمینہ اور اس کی سہیلیاں ملکر گاؤں کی سیر کو نکلتیں تھیں درختوں پر لگے ہوئے امرود اور بیر توڑ توڑ کر کھاتی تھیں کسی بھی چھوٹی بچی یا بچے کو درخت پر چڑھا دیتی تھیں اور وہ بیر اور امرود توڑ توڑ کر نیچے پھینکتا تھا وہ جھولیاں بھر لیتی تھیں اور پھر سب آپس میں تقسیم کر لیتی تھیں گاؤں میں ایک سکول تھا جہاں صبح سویرے سب بچے ملکر سکول جاتے تھے ان کی تمام ٹیچرز انہیں بہت محنت سے پڑھاتی تھیں عرض کہ اس گاؤں میں ہر طرف امن اور سکون تھا چاندنی راتوں میں لڑکیاں اپنی ماؤں کے ساتھ گاؤں کی سیر کو جاتیں اور چوپال میں بڑے بوڑھے یعنی بزرگ پرانے زمانے کے قصے اور کہانیاں سناتے تھے جسے لڑکے بالے بڑے شوق سے سنتے تھے لیکن کچھ عرصے سے گاؤں میں ایک پریشانی کی لہردوڑ گئی تھی کیونکہ گاؤں میں چوریاں ہونے لگی تھیں زیادہ پریشانی اس بات کی تھی کہ گاؤں میں کوئی بھی اجنبی شخص نہیں آیا تھا کہ جس پر شک کیا جا سکتا ہو گاؤں والے تو سب ایک دوسرے کو عرصہ دراز سے جانتے تھے انہیں پتہ تھا کہ گاؤں کا کوئی بھی بچہ یا بڑا چوری نہیں کر سکتا تھا تو پھر یہ کس کا کام تھا؟سب اپنے اپنے طریقے سے کھوج لگانے کی کوشش کررہے تھے ۔(جاری ہے)لیکن ناکام ہورہے تھے چاچا راجو کی قیمتی کپڑے کی پگڑی جو وہ صرف شادیوں پر یا پھر کسی خاص تہوار پر پہنتے تھے،زرمینہ کی امی کے چاندی کے جھمکے،تازہ گل کا پانچ ہزار کانیانوٹ ،اور گل لالہ کا سونے کا ہار ،آخر اتنی چیزیں کون لے گیا،سب پریشان تھے ،چوریاں دن بدن بڑھتی جارہی تھیں ایک دن شام کو زرمینہ اور اس کی دوسہیلیاں پری گل اور مریم چشمے کے کنارے اس کے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ہلیاں پری گل اور مریم چشمے کے کنارے اس کے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈالے بیٹھی باتیں کررہی تھیں کہ اچانک چھن چھن کی آواز آئی تینوں لڑکیوں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو کوئی نہیں تھا وہ خوفزدہ ہو گئیں ۔امی نے کہا تھا کہ اندھیرا ہونے سے پہلے ہی واپس آجایا کرو،مریم بولی۔ہاں ،آج باتوں میں پتہ ہی نہیں چلا کہ اب ہلکا سا اندھیرا ہو گیا ہے ۔پری گل نے کہا۔چلو واپس چلیں ،زرمینہ بولی ،وہ تیزی سے چلتی ہوئے واپس جا رہی تھیں کہ اچانک مریم بولی وہ دیکھو اُدھر دیکھو درختوں کے جھنڈکی طرف کیا وہ چاچا راجو بیٹھے ہیں؟تینوں نے اُدھر دیکھا انہیں چاچا راجو کی خوبصورت پگڑی صاف نظر آرہی تھی وہ حیرت سے اُدھر دیکھے جارہی تھیں کہ انہیں پھر چھن چھن کی آواز آئی یہ آواز بہت قریب سے آئی تھی اس سے پہلے کہ وہ ڈر کر بھاگتیں چھن چھن کی آواز ان کے بالکل سامنے آگئی یعنی ایک بندر یا زرمینہ نے امی کے چاندی کے جھمکے اور گلے میں سونے کا ہارپہنے کھڑی انہیں شرارت آمیز نظروں سے دیکھ رہی تھی اتنے میں چھلانگ لگا کر وہ بندر بھی سامنے آگیا جورا جو چاچا کی پگڑی پہنے کھڑا تھا پھر کیا تھا کئی اور بندر بھی آ گئے جوان بچیوں کو دیکھ کر اچھل کود کر رہے تھے اور ہر کسی کے پاس کوئی نہ کوئی چوری کی چیز تھی پہلے تو وہ تینوں حیرت سے گنگ کھڑی رہیں پھر ایک دم انہیں بہت زور سے ہنسی آگئی کہ یہ بندر تھے جو اتنے دنوں سے گاؤں والوں کی پریشانی کا باعث بنے ہوئے تھے چونکہ اندھیرا ہو گیا تھا اس لئے زرمینہ اور مریم وغیرہ کے امی ابو بھی انہیں ڈھونڈتے اُدھر آنکلے انہیں بھی معلوم ہو گیا کہ یہ بندروں کی کار ستانی تھی گاؤں والوں نے بندروں سے مال مسروقہ یعنی چوری شدہ چیزیں جو بہت قیمتی تھیں وہ تو نکلوالی تھیں جو انہوں نے اِدھراُدھر چھپائی ہوئی تھیں سونے کاہار بھی بندر یا صاحبہ سے لے لیا تھا لیکن پری گل کی امی کی کانچ کی چوریاں جن سے چھن چھن کی آواز آتی تھی وہ بندریا کے پاس ہی رہنے دی تھیں کیونکہ پری گل کی امی نے کہا ایسے بندریا جب چھن چھن کرتے آئے گی تو معلوم ہو جائے گا اور ہم اپنی چیزیں سنبھال لیں گے۔اب گاؤں والے بندروں سے ہو شیار ہو گئے تھے اور گاؤں میں پھر سکون ہو گیا تھا جو شاید کسی دوسرے گاؤں سے نکالے گئے بندروں کے ہاتھوں ختم ہورہا تھا۔ " رشتوں کا بوجھ - تحریر نمبر 1462,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rishtoon-ka-boojh-1462.html," " انوکھا بندر - تحریر نمبر 1461,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/anokha-bandar-1461.html,"مختار احمد۔ (اسلام آباد)اقرا آٹھ نو سال کی ایک بہت اچھی، خوبصورت اور تمیز دار لڑکی تھی- اس کی ایک بڑی بہن بھی تھی جس کی چند سال پہلے شادی ہوگئی تھی اور اس سے بڑا ایک بھائی بھی تھا- شادی کے بعد اس کی آپی اپنے شوہر کے ساتھ دبئی چلی گئی تھیں- اس کا بھائی ظفر اس سے تین چار سال بڑا تھا اور وہ لوگ اپنی امی ابو کے ساتھ روشن آباد میں رہتے تھے- ان کے ابو یہاں کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی میں انجنیئر تھے-اس کی آپی سالوں بعد دبئی سے اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ پندرہ دنوں کے لیے پاکستان آئ تھیں اور یہ پندرہ دن پلک جھپکتے ہی گزر گئے تھے اور اب وہ پرسوں واپس جا رہی تھیں- ان کی واپسی کا سن کر اقرا بہت اداس ہوگئی تھی-ان پندرہ دنوں میں آپی کا دو سالہ بیٹا گلّو اقرا سے کافی مانوس ہوگیا تھا اور اس کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہتا تھا- وہ ایک ہنس مکھ اور شرارتی بچہ تھا- اقرا کو بھی وہ بہت اچھا لگتا تھا- جب وہ ٹھمک ٹھمک چلتا تو اقرا کا ہنس ہنس کر برا حال ہوجاتا - وہ پیار سے اس کو گود میں اٹھا لیتی- اپنے سارے کھلونے نکال کر اس کے سامنے ڈال دیتی- اس کے پاس بہت سی گڑیاں بھی تھیں جن کو وہ بہت سنبھال کر رکھتی تھی، مگر جب گلّو اس کے ساتھ ہوتا تو وہ ان گڑیاؤں کو بھی اپنی الماری سے نکال کر اسے دے دیا کرتی- جب وہ ان کے بال کھینچتا تو اقرا کو افسوس تو ہوتا تھا مگر وہ اس کو ڈانتی نہیں تھی، پیار سے اس کی خوشامد کرتی اور اسے سمجھاتی کہ وہ ایسا نہ کرے- وہ تھا ہی اتنا اچھا کہ اقرا کو اسے ڈانٹنا پسند نہیں تھا-ان کی روانگی والے روز اقرا بہت اداس نظر آ رہی تھی- جب وہ لوگ ایئر پورٹ جانے کے لیے نکلے تو بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے- اقرا کی حالت دیکھ کر آپی خود آبدیدہ ہوگئی تھیں- انہوں نے اقرا کو تسلی دیتے ہوۓ کہا کہ بہت جلد وہ دوبارہ زیادہ دنوں کے لیے پاکستان آئینگی- ان کی بات سن کر اسے تھوڑا سا اطمینان ہوا اور اس کے آنسو تھم گئے-روانگی کے وقت جب گلّو نے دیکھا کہ اقرا اس کے ساتھ نہیں جا رہی ہے تو وہ رونے لگا اور ضد کرنے لگا کہ اقرا کو بھی ساتھ لے کر چلو- اسے بہت مشکل سے سمجھا بجھا کر چپ کروایا گیا تھا-ان لوگوں کے چلے جانے سے گھر کافی سونا سونا لگ رہا تھا- ویسے تو اقرا کی عادت تھی کہ وہ رات دیر سے سوتی تھی، مگر آج اسے جلدی نیند آگئی- صبح اٹھی تو اس کے بھائی ظفر نے اسے خوش خبری سنائی کہ ابو نے پہاڑوں پر پکنک منانے کا پروگرام بنایا ہے اور دس گیارہ بجے تک انھیں روانہ ہونا ہے-اقرا کے ابو کو کل ہی احساس ہوگیا تھا کہ اقرا کو گلّو کے چلے جانے کا بہت افسوس ہے- انہوں نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ کل وہ بچوں کو لے کر پکنک منانے جائیں گے تاکہ اقرا کا دل بہل جائے- پکنک کا سن کر اقرا بہت خوش ہوئی- اس نے جلدی سے ہاتھ منہ دھویا، ابو، امی اور ظفر کے ساتھ ناشتہ کیا اور پھر پکنک پر جانے کی تیاری کرنے لگی-وہ اپنے کمرے میں آئ تو بستر پر تکیے کے قریب اس کا بھالو پڑا تھا- یہ اس کی آپی نے لا کر دیا تھا- اسے دیکھ کر ایک مرتبہ پھر اس کا دل بھر آیا اور آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے کیونکہ آپی کا خیال آتے ہی اسے گلّو یاد آگیا تھا- اس نے بھالو کو اٹھا لیا اور اپنے آنسو پونچھنے لگی- اس نے سوچا کہ وہ بھالو کو بھی اپنے ساتھ پکنک پر لے جائے گی-اقرا کی امی نے بہت سی کھانے پینے کی چیزیں تیار کر لی تھیں- جب سب تیاریاں مکمل ہوگئیں تو وہ گھر سے نکل پڑے-ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ لوگ پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے- ایک مناسب سی جگہ دیکھ کر اس کے ابو نے گاڑی روک لی اور وہ لوگ باہر نکلے-اس پورے علاقے کو بڑے بڑے درختوں نے گھیر رکھا تھا- زمین پر گھاس اگی ہوئی تھی اور سبزے کی مخصوص خوشگوار مہک چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی- اقرا سوچ رہی تھی کہ اگر اس پکنک میں گلّو بھی ہوتا تو کتنا مزہ آتا- اتنا بڑا پہاڑ، اس پر لگے درخت اور جھاڑیاں، چشموں سے بہتا پانی اور بڑی سی جھیل دیکھ کر اس کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ ہوتا- یہ سوچ کر اس نے اداسی سے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور آس پاس دیکھنے لگی-اقرا اس جگہ پہلی مرتبہ آئ تھی- پہاڑوں کے اوپر اسے دور دور کچھ گھر بھی نظر آئے- اسے بڑی حیرانی ہوئی کہ اس ویران جگہ پر بھی لوگ رہتے ہیں- اس کے ابو نے بتایا کہ پہاڑوں پر چھوٹے چھوٹے گاؤں ہوتے ہیں جن میں لوگ صدیوں سے رہتے چلے آرہے ہیں- ان کا ذریعہ معاش جانور، تھوڑی بہت کاشتکاری ، مٹی کے برتن اور دوسری دستکاریاں ہوتی ہیں- انہیں یہاں رہنے میں بہت مزہ آتا ہے اور وہ اس جگہ کے اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ کسی دوسری جگہ کا رخ کرنے کا سوچتے بھی نہیں ہیں-ظفر اپنے موبائل پر آس پاس کی تصویریں بنانے لگا- اقرا نے اپنے بھالو کو گود میں اٹھایا ہوا تھا- وہ اور گلّو دونوں مل کر اس بھالو کے ساتھ کھیلتے تھے-اس نے ظفر سے کہا- ""ظفر بھالو کے ساتھ میری تصویریں بنا دو- ان تصویروں کو میں گلّو کو بھیجوں گی- وہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوگا""-ظفر نے اس کی بھالو کے ساتھ کئی تصویریں بنالیں- قریب ہی ایک بہت بڑی جھیل تھی، جھیل کے سبزی مائل پانی میں بہت سے کنول کے پھول نظر آئے جن پر شہد کی مکھیاں، بھونرے اور تتلیاں منڈلا رہی تھیں - جھیل کے کنارے پر کہیں کہیں مینڈک بھی پھدک رہے تھے- اقرا وہاں گھومنے پھرنے لگی- اس کے ابو نے اسے زیادہ دور تک جانے سے منع کر دیا تھا- آس پاس درختوں کے جھنڈ تھے اور انھیں ڈر تھا کوئی جنگلی جانور ان میں سے نہ نکل آئے-ظفر نے زمین پر ایک صاف شفاف چادر بچھا دی تھی- امی اور ابو اس پر آرام سے بیٹھ گئے- اقرا اور ظفر آس پاس کا جائزہ لینے میں مگن تھے- کھانے کے وقت میں ابھی کچھ دیر تھی- امی نے کریٹ میں سے ٹھنڈے مشروبات کے ٹن نکالے اور سب کو دیے- اس کریٹ میں برف بھری ہوئی تھی جس کی وجہ سے ٹن کافی ٹھنڈے ہو رہے تھے-اقرا اپنا ٹن لے کر جھیل کی جانب بڑھ گئی- اسے کنول کے پھولوں پر منڈلاتی تتلیاں اچھی لگ رہی تھیں- انھیں دیکھتے دیکھتے وہ کچھ آگے نکل گئی- وہاں اس کی نظر درختوں پر اچھلتے کودتے بہت سے بندروں پر پڑی- وہ آپس میں کھیل رہے تھے اور شرارتیں کر رہے تھے اور درختوں کی شاخوں پر جھول رہے تھے-اچانک اقرا نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بندر کا بچہ درخت کی شاخوں پر سے پھسلتا ہوا تیزی سے زمین پر اترا اور اقرا کی طرف لپکا- یہ دیکھ کر اقرا کی تو جان ہی نکل گئی- اس کے منہ سے بے اختیار ایک چیخ نکلی- وہ جلدی سے مڑی اور اپنی امی ابو کی طرف بھاگنے لگی- اس کی چیخ کی آواز سن کر وہ لوگ بھی چونک گئے- انہوں نے اس کی طرف دیکھا تو اتنی دیر میں وہ وہاں پہنچ چکی تھی-""امی- وہ بندر کا بچہ میرے پیچھے بھاگ رہا تھا-"" اس نے روہانسی آواز میں کہا-ظفر ہنس رہا تھا - جب وہ بھاگ کر ان کی طرف آرہی تھی اور بندر کا بچہ اس کے پیچھے پیچھے تھا تو اس نے اقرا کی مووی بھی بنا لی تھی -""اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے- وہ بھوکا ہوگا- اسے کھانے کو کچھ دے دو""- اس کی امی نے کہا-ظفر جلدی سے گاڑی میں سے چپس اور پاپ کارن کے پیکٹ نکال لایا- امی کی بات سن کر اقرا کا خوف دور ہوگیا تھا اور اب وہ اس بندر کے بچے کو غور سے دیکھ رہی تھی جو ان سے کچھ دور بیٹھا اسے اپنی چھوٹی چھوٹی چمکیلی آنکھوں سے دیکھے جا رہا تھا اور نہایت معصومانہ انداز میں پلکیں جھپکا رہا تھا-وہ اپنی امی کے پاس کھسک آئ- ""امی یہ بندر تو مجھے ہی دیکھے جا رہا ہے""- اس نے سہمی ہوئی آواز میں کہا اور اپنے بھالو کو خود سے چمٹا لیا-اس کی بات ظفر نے بھی سن لی تھی، وہ ہنس کر بولا- ""بچپن میں اس کی بہن کہیں کھو گئی تھی جو بالکل تمہارے جیسی تھی- وہ تمہیں ہی اپنی بہن سمجھ رہا ہے اور اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے""-اقرا نے اسے ٹھینگا دکھا کر زبان دکھائی اور دوبارہ بندر کو دیکھنے لگی-ظفر نے چپس اور پاپ کارن ایک کاغذ کی پلیٹ میں ڈال کر بندر سے کچھ فاصلے پر رکھے مگر وہ ان کی طرف نہیں آیا- وہ تو بس ٹکٹکی باندھے اقرا کو ہی دیکھے جا رہا تھا-ظفر نے کہا- ""بندر کا بچہ کہہ رہا ہے کہ میں تو اپنی بہن کے ہاتھوں سے کھاؤں گا-""""ظفر تم باز نہیں آؤ گے- اس بے چاری کو مسلسل تنگ کیے جا رہے ہو-"" امی کے سرزنش کرنے پر ظفر شرمندہ ہو گیا- اس نے جھینپ مٹانے کو کہا- ""اقرا- تم کوشش کرو- شائد بندر کا بچہ تم سے یہ چیزیں لے کر کھا لے""-اقرا کو وہ چنا منا بندر بہت اچھا لگ رہا تھا- اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس کو اپنے ساتھ گھر لے جائے- اس سے دوستی کرنے کی خاطر اس نے چپس اور پاپ کارن کی پلیٹ اٹھائی اور اس کی طرف بڑھی- اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر بندر کا بچہ ذرا بھی نہیں ڈرا، اپنی جگہ پر ہی بیٹھ کر ٹکر ٹکر اقرا کو دیکھتا رہا-اقرا نے وہ پلیٹ بالکل اس کے نزدیک رکھ دی تو اس نے چھوٹے بچوں کی طرح گردن گھما کر منہ دوسری طرف کرلیا جیسے کہہ رہا ہو کہ میں نہیں کھاؤں گا-اس کی یہ حرکت دیکھ کر اقرا کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا- ظفر یہ سب منظر اپنے موبائل میں محفوظ کرتا جا رہا تھا- بندر کے بچے کی معصومانہ حرکتیں دیکھ کر اقرا کا ڈر ختم ہوگیا تھا- وہ اس کے قریب ہی بیٹھ گئی اور گلے میں لٹکے اپنے چھوٹے سے پرس میں سے ایک چاکلیٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائی- بندر کے بچے نے دھیرے سے خوخیا کر دوبارہ گردن پیچھے کرلی- اسے چاکلیٹ بھی پسند نہیں آئ تھی-""تو بھئی پھر کیا چاہیے تمہیں""- اقرا نے ہنس کر پوچھا- پھر سب لوگ حیران رہ گئے- ایسا معلوم دیتا تھا جیسے بندر اس کی بات سمجھ گیا ہو- اس نے اپنا ننھا سا ہاتھ آگے کر کے اقرا کے بھالو کی طرف اشارہ کیا اور دانت نکال کر زمین پر گول گول گھوم کر زور زور سے اچھلنے لگا-""اچھا تو تمہیں یہ بھالو چاہیے- یہ لو""- اقرا نے بھالو اس کی طرف بڑھا دیا- بندر کے بچے نے لپک کر اسے اپنے ہاتھوں میں پکڑا، دانت نکال کر اقرا کو دیکھا اور پلٹ کر تیزی سے درختوں کے جھنڈ کی طرف بھاگ گیا-اقرا اسے جاتا دیکھتی رہی- جب وہ ایک بڑے سے درخت پر چڑھ کر نظروں سے غائب ہوگیا تو وہ اپنی امی کے پاس آئ-""امی- اس چھوٹے بندر کو میرا بھالو پسند آگیا تھا""- اس نے خوش ہو کر کہا-""یہ میری زندگی کا انوکھا واقعہ ہے-"" اس کی امی نے کہا- ""مجھے نہیں پتہ تھا کہ جانوروں کے بچوں کو بھی کھلونوں سے کھیلنے کا شوق ہوتا ہے""-""ابو اگر مجھے پتہ ہوتا کہ یہ لوگ بھی کھلونوں سے کھیلنے کے شوقین ہیں تو میں ڈھیر سارے کھلونے لا کر انہیں دیتی""- اقرا نے کہا-""کوئی بات نہیں- ہم اگلی بار جب یہاں آئیں گے تو اپنے ساتھ بہت سے کھلونے بھی لے آئیں گے- یہ واقعہ مجھے بھی بہت دلچسپ لگا ہے-"" اس کے ابّو نے کہا-""ظفر بھائی نے اس کی ویڈیو بھی بنائی ہے- ہم گھر جا کر اسے آپی کو بھیج دیں گے- وہ بھی اسے دیکھ کر بہت خوش ہونگی- گلّو تو اسے بہت ہی پسند کرے گا-""وہ لوگ جب اس پکنک سے واپس گھر آئے تو بہت خوش تھے- ظفر نے اسکی ویڈیو نیٹ کے ذریعے آپی کو بھی بھیج دی تھی- دو ایک روز بعد ان کا جوابی پیغام بھی موصول ہوگیا تھا- انہوں نے کہا تھا کہ گلّو اقرا کا نام لے لے کر اسے بہت یاد کرتا تھا اور جب وہ نظر نہیں آتی تھی تو جھنجلا کر چیزیں زمین پر پھینکنے لگتا تھا- میں نے جب اس کو اقرا کی اور اس بندر کے بچے کی ویڈیو دکھائی تو وہ بہت خوش ہوا اور جب بھی اقرا اسے یاد آتی ہے وہ یہ ہی ویڈیو دیکھنے کی فرمائش کرتا ہے-اقرا جب بھی سونے کے لیے بستر پر لیٹتی تو اس کے تصور میں وہ ہی چھوٹا سا انوکھا بندر ہوتا تھا جس کو اس کا بھالو پسند آگیا تھا- اس کے متعلق سوچتے سوچتے وہ سوجاتی- " کر بھلا۔۔۔ہو بھلا - تحریر نمبر 1460,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kar-bhala-ho-bhala-1460.html," " کالے ہاتھ - تحریر نمبر 1459,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kaale-hath-1459.html," " بھولابھالااونٹ - تحریر نمبر 1458,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhola-bhala-ont-1458.html,"ایک کالا کّوا،ایک فریبی بھیڑیا ،ایک مکار گیدڑتینوں ایک جنگل کے باسی تھی۔اس جنگل کا راجا ایک شیر تھا۔وہ اس کی خدمت میں رہتے تھے ۔اتفاق کی بات کہ ادھر سے ایک قافلہ گزرا۔قافلے کا ایک اونٹ یہاں آکر بیمار پڑگیا۔قافلے والوں نے بیمار اونٹ کو وہیں چھوڑ دیا اور آگے چلے گئے۔اونٹ لوٹ پیٹ کر اچھا ہو گیا،بلکہ ہری ہری گھاس کھا کر خوب موٹا تازہ ہو گیا۔ایک دن جنگل کے راجا کی سواری اس طرف سے گزری۔اونٹ بہت گھبرایا۔اس نے خیر اسی میں دیکھی کہ شیر کے سامنے جا کر سرجھکا دیا۔شیرنے گرج کر کہا:”تمھاری یہ ہمت کیسے ہوئی کہ اونٹ کی طرح منھ اُٹھائے میرے ملک میں آگئے۔“اونٹ نے اپنی کہانی سنائی اور سرجھکا کر کہا:”حضور !میں آپ کے رحم وکرم پر ہوں۔چاہوتو ماروچاہو جلاؤ۔(جاری ہے)“شیر نے اونٹ کو تا بعداری پر آمادہ دیکھا تو اسے معاف کر دیا۔پھر اسے اپنے خدمت گاروں میں شامل کرلیا۔کوے،بھیڑے اور گیدڑ کے ساتھ ساتھ اونٹ بھی شیر کی خدمت کرنے لگا۔اس نے شیر کی ایسی خدمت کی کہ شیر نے اس کے عہدے میں ترقی کردی۔اس پر کّوا،بھیڑیا اور گیدڑ تینوں بہت جلے۔انھیں ڈر ہو گیا کہ کہیں یہ اونٹ ترقی کرتے کرتے ان سے آگے نہ بڑھ جائے۔بس اس کی جان کے بیری ہو گئے۔ایک دفعہ کیا ہوا کہ شیر کی ایک ہاتھی سے لڑائی ہو گئی۔شیر زخمی ہو گیا۔اس قابل نہ رہا کہ شکار پر جائے۔وہ شکار مار کرلاتا تھا تو اس میں سے بھیڑیے ،گیدڑ ،کوے اور اونٹ کو بھی حصہ ملتا تھا۔اس طرح ان کا پیٹ پلتا تھا۔اب وہ بھوکوں مرنے لگے۔شیر نے کہا:”میرے پیارو!میں خود تو بھوکارہ سکتا ہوں۔تمھیں بھوکا نہیں دیکھ سکتا،مگر کیا کروں آج کل طبیعت اچھی نہیں۔لمبی مار پر نہیں جا سکتا۔ہاں اگر آس پاس کوئی شکار ہوتو مجھے بتاؤ۔“کوا،بھیڑیا اور گیدڑ تینوں ہی اپنی اپنی جگہ فتنہ تھے۔انھوں نے آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو دیکھا اور اشاروں اشاروں میں طے کر لیا۔کوابولا:”حضور!یہ جو اونٹ ہے کہیں باہر سے آگیا ہے اور مفت کی روٹیاں توڑرہا ہے۔آپ کا نمک کھا کھاکے موٹا ہو گیا ہے ۔یہ کس دن کام آئے گا۔“شیر نے اس بات پر کوے کو بہت ڈانٹا ڈپٹا کہا:”کیا تو نہیں جانتا کہ اونٹ ہمارے وفاداروں میں سے ہے۔شیر اگر اپنے وفاداروں کا شکار کرنے لگے تو وہ شیر نہیں رہتا۔“کواچپ ہو گیا۔پھر تینوں نے الگ جاکر مسکوٹ کی۔ایک ترکیب سوچ کر شیر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اونٹ کو بھی یہ کہہ کر ساتھ لائے کہ چلو حضور کی طبیعت آج زیادہ خراب ہے ۔ان کی مزاج پر سی کر آئیں۔کوا ہاتھ جور کر بولا:”حضور !میں نے عمر بھر آپ کا نمک کھایا ہے۔آج کل آپ کی صحت یہ اجازت نہیں دیتی کہ شکار کے لیے نکلیں۔میں چاہتا ہوں کہ کچھ حق نمک اداکروں۔میری جان حاضر ہے ۔مجھے کھائیے اور پیٹ کی آگ بجھائیے۔“گیدڑ فوراً آگے بڑھا:”اے کوے!تیرا حبثہ ہی کتنا ہے۔حضور کا ایک لقمہ بھی نہیں بنے گا۔تیرے بجائے میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں چاہتا ہوں کہ حضور کے دستر خوان کی زینت بنوں۔“اب بھڑیا آگے بڑھا :”اے گیدڑ!تُو اپنے آپ کو بہت تن وتوش والا سمجھتا ہے چہ پدی چہ بدی کا شوربا ۔تجھے کھاکر حضور کاکون سا پیٹ بھر جائے گا۔البتہ مجھ میں اتنا گوشت ہے کہ حضور کے ساتھ ساتھ حضور کے نمک خواروں کی بھی پیٹ کی آگ بجھ سکتی ہے۔“کوابولا:”یہ تو ٹھیک ہے کہ تجھ میں گوشت اچھا خاصا ہے ،مگر تیرا گوشت صحت کے لیے مضر ہے۔حضور کی طبیعت آج کل اچھی نہیں۔تیرا گوشت کھائیں گے تو طبیعت اور خراب ہو جائے گی۔“جب تینوں اپنی اپنی جگہ کہہ چکے تو اونٹ نے دل میں کہا کہ آخر میں بھی تو شیر کا نمک خوار ہوں۔مجھے بھی اپنی وفاداری ثابت کرنی چاہیے۔بڑھ کر کہا:”حضور !میں حاضر ہوں۔میں بڑاجانور ہوں اور میرا گوشت بھی ایسا ہے کہ بیمار بھی کھائے تو اسے گرانی نہ ہو۔“شیر کے بولنے سے پہلے ہی کوا،گیدڑ اور بھیڑ یابول پڑے اونٹ کو شاباش دی۔کہا:”وفادار ہوتو ایسا ہو اور تیرا گوشت تو اس بیماری میں بہت ہی مفید ہے۔“اونٹ بے چارہ منھ دیکھتا رہ گیا۔کّوا،گیدڑ اور بھیڑ یا اس پہ پل پڑے۔دم کے دم میں اس کی تکہ بوٹی کردی۔اور اونٹ کو کچھ ہی پل میں چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ " گمنام ہمدرد - تحریر نمبر 1457,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gumnaam-hamdard-1457.html," " دس روپے کا جھوٹ - تحریر نمبر 1456,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ten-rupees-ka-jhoot-1456.html," " جھگڑالو میاں بیوی - تحریر نمبر 1455,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhagralu-mian-biwi-1455.html," " شربت کی بوتل - تحریر نمبر 1454,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sharbat-ki-bottle-1454.html,"مختار احمد ۔ اسلام آباداحتشام کے ابو کو آفس کے لیے گھر سے نکلے کچھ ہی دیر ہوئی تھی- اس کی امی کچن میں برتن دھو رہی تھیں- کچن کی ایک کھڑکی لان کے پچھلی طرف بھی کھلتی تھی- وہاں ان کی پانی کی زیر زمین ٹنکی بھی تھی اور جہاں جہاں کچی زمین تھی وہاں پودے لگے ہوۓ تھے-انہوں نے دیکھا کہ احتشام اپنے دادا ابو کے ساتھ کپڑے کا ایک سائبان بنانے میں مصروف ہے- انہوں نے دو دیواروں کے بیچ رسیاں باندھ کر اس پر چادر تان دی تھی جس کی وجہ سے زمین کے ایک بڑے حصے پر سایہ ہوگیا تھا- اس سائے میں احتشام نے پرندوں کے دانے اور پانی کے مٹی کے کونڈے رکھے- کونڈے رکھ کر وہ کھڑا ہوا تو اس کی نظر اپنی امی پر پڑی-""امی گرمیاں بہت ہیں- چڑیاؤں بے چاریوں کا پانی گرم ہوجاتا تھا- ہم نے سایہ کر دیا ہے، اب پانی گرم نہیں ہوا کرے گا-""""یہ تو بہت اچھی بات ہوگئی ہے-"" اس کی امی نے مسکرا کر کہا- ""چڑیوں کو اب ٹھنڈا پانی ملا کرے گا اور وہ مزے سے اس کو پیا کریں گی- گرمی تو بڑھتی ہی جا رہی ہے- کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی-""""یہ ترکیب دادا ابو نے بتائی تھی-"" احتشام نے کہا اور کونڈوں میں پانی ڈالنے لگا-""اگر کام ختم ہو گیا ہو تو دادا ابو کو لے کر اندر آجاؤ- میں نے ناشتہ بنا لیا ہے""- انہوں نے کہا-کام ختم ہوگیا تھا- دونوں دادا پوتے گھر میں آگئے- حالانکہ صبح صبح کا وقت تھا مگر اس کے باوجود گرمی نے زور پکڑ لیا تھا- دونوں پسینے پسینے ہو رہے تھے- انہوں نے ہاتھ منہ دھوئے اور ناشتے کی ٹیبل پر آکر بیٹھ گئے-گرمی شدید سے شدید ہوتی جا رہی تھی- آسمان پر بادلوں کا نام و نشان تک نہ تھا- گرمی کی وجہ سے بازاروں میں سنّاٹا رہتا تھا- لوگ اشد ضرورت میں ہی باہر نکلتے تھے- ادھر پرندوں اور جانوروں کی بھی بری حالت ہوگئی تھی- پرندے اپنی چونچ کھولے پانی کی تلاش میں رہتے- جانور کسی سایہ دار جگہ کو ڈھونڈتے نظر آتے-احتشام کے اسکولوں میں چھٹیاں ہوگئی تھیں- گرمی کی وجہ سے امی اسے باہر دوستوں کے پاس بھی نہیں جانے دیتی تھیں- ٹی وی پر چلنے والی تیز گرمیوں کی خبروں سے وہ بھی گھبرا گئی تھیں- احتشام زیادہ تر گھر میں ہی رہتا تھا-گھر میں اس کے دادا ابو اس کے دوست تھے- انھیں کتابوں سے بہت دلچسپی تھی اور وہ اپنا بہت سا وقت مطالعہ میں مصروف رہ کر گزارتے تھے- جب وہ فارغ ہوتے تھے تو احتشام ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتا-دادا ابو اس کو اپنے ساتھ مختلف کاموں میں لگائے رکھتے تھے- ان کاموں کے کرنے میں احتشام کو بہت مزہ آتا تھا- دادا ابو سے اس نے دیواروں اور دروازوں پر رنگ کرنا بھی سیکھ لیا تھا- گھر کے کسی دروازے کی چٹخنی یا کنڈی خراب ہوجاتی تو وہ دونوں بازار سے لاکر انہیں خود ہی تبدیل کردیتے- کپڑے سکھانے کی رسی گل سڑ جاتی تو نئی رسی لا کر لگا دیتے- پانی کا کوئی نل ٹپکنے لگتا تو دونوں مل کر یا تو اس کا واشر تبدیل کر دیتے نہیں تو نئی ٹونٹی لا کر لگا دیتے-دادا ابو نے بہرحال اس کو ایک ہدایت کررکھی تھی کہ بجلی کے چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی الیکٹریشن کو بلا کر لانا چاہیے، اس کام کو خود کبھی کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ اس میں بہت خطرہ ہوتا ہے-دادا ابو کے ساتھ اس طرح کے کام کرتے ہوۓ احتشام نے بہت ساری چیزیں سیکھ لی تھیں- وہ سوچتا تھا کہ گھر کے ان کاموں کو کرنے سے گھر والوں کو کتنی آسانی ہوجاتی ہے- اس کی امی بھی اس کی ان مصروفیات سے بہت خوش ہوتی تھیں کیوں کہ اس طرح احتشام نئی نئی چیزیں سیکھتا تھا- انھیں یہ بھی اطمینان ہوجاتا تھا کہ اپنے دادا ابو کے ساتھ ساتھ رہنے سے ان کا بھی دل لگا رہتا تھا- دادا ابو اس کے ساتھ بیٹھ کر کارٹون بھی دیکھتے تھے اور خبریں بھی-دادا ابو چند سال پہلے تک تو کام پر جاتے تھے- مگر پھر ان کی عمر زیادہ ہوگئی اور چند ایک بیماریاں بھی لاحق ہوگئیں تو وہ گھر بیٹھ گئے- احتشام کے ابو ان کی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے اور وقفے وقفے سے اپنے ایک خاندانی معالج سے ان کا چیک اپ کرواتے رہتے تھے-ان کی جان شوگر کے مرض سے نہیں چھوٹ رہی تھی- کسی زمانے میں انھیں میٹھی چیزیں کھانے کا بہت شوق تھا اور وہ دل بھر کر اپنا یہ شوق پورا کرتے تھے- ہر چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے، یہ بات اس وقت ثابت ہوگئی جب ڈاکٹر نے ان کے شوگر کے مرض کی تشخیص کردی- ان کا شوگر لیول کافی ہائی ہوگیا تھا جو کہ بہت خطرناک بات تھی-دوائیوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب نے انھیں میٹھی چیزوں سے پرہیز کی سختی سے تاکید کی تھی- احتشام کی امی اس بات کا خاص خیال رکھتی تھیں کہ وہ میٹھی چیزیں نہ کھائیں-ناشتے کے بعد دادا ابو اپنے کمرے میں چلے گئے- احتشام کی امی ناشتے کی ٹیبل صاف کرنے لگیں- انھیں گھر کے کچھ اور کام بھی نمٹانے تھے اس لیے انہوں نے سوچا کہ ناشتے کے برتن دھو کر وہ ان کاموں میں لگیں گی-اچانک ان کی نظر احتشام پر پڑی- وہ پنجوں کے بل اچک کر ڈائننگ روم میں رکھے ہوۓ فرج کااوپری ڈور کھول کر فریزر میں سے کچھ نکال رہا تھا- اس کا ہاتھ باہر آیا تو اس میں لال رنگ کے شربت سے بھری ایک بڑی پلاسٹک کی بوتل تھی- اس کی یہ حرکت اس کی امی کو کچھ پراسرار سی لگی- ان کے گھر میں تو روح افزا اور جام شیریں کب کی ختم ہوگئی تھیں، پھر یہ شربت کیسے بنا؟ اپنے تجسس کو رفع کرنے کے لیے وہ احتشام کو جھانک کر دیکھنے لگیں- وہ اپنے دادا ابو کے کمرے کی طرف گیا تھا- ان کے کمرے کے دروازے پر اس نے دستک دی، دروازہ کھلا اور دادا ابو نے جھانک کر دیکھا- احتشام نے بوتل انھیں تھما دی اور خود واپس آکر ڈرائنگ روم میں ٹی وی کھول کر بیٹھ گیا-یہ منظر دیکھ کر اس کی امی بہت پریشان ہوگئی تھیں- انہوں نے حالانکہ احتشام کو بتا رکھا تھا کہ اس کے دادا ابو کو شوگر کی شکایت ہے اور میٹھی چیزیں ان کے لیے زہر ہیں- پھر بھی اس نے ان کی بات پر کان نہیں دھرے اور شربت کی بوتل انھیں دے کر آگیا- دادا پوتے نے یہ شربت چپکے چپکے خود ہی بنایا ہوگا-ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سسر سے کیسے کہیں کہ انھیں یہ بات پتہ چل گئی ہے کہ احتشام نے انھیں شربت کی بوتل دی تھی- وہ اپنے سسر کا بہت احترام کرتی تھیں- انھیں بہت سوچ سمجھ کر اس مسلے کو حل کرنا تھا اور اس بات کی بھی کوشش کرنا تھی کہ ان کی کسی بات سے احتشام کے دادا ابو کی دل آزاری نہ ہو-وہ ان ہی سوچوں میں گم، پھر اپنے کاموں میں لگ گئیں- احتشام کے کمرے میں جب وہ صفائی کرنے گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ اس کے کپڑے بستر پر پڑے ہوۓ ہیں- انہوں نے وہ کپڑے اٹھا کر الماری میں رکھنے چاہے- اس کی الماری کھولی تو کیا دیکھتی ہیں کہ اس میں بہت ساری پیپسی، کوک، فانٹا، سیون اپ اور اسپرائٹ کی خالی بوتلیں نیچے والے خانے میں ایک ترتیب سے رکھی ہوئی ہیں- ان کے برابر میں ہی انھیں روح افزا اور جام شیریں کی چار بھری ہوئی بوتلیں بھی نظر آئیں- ان کا دل دھک سے رہ گیا-""احتشام- یہ تم اپنے دادا ابو سے محبت نہیں ان کے ساتھ دشمنی کر رہے ہو- تم نہیں جانتے کہ میٹھا کھانا یا پینا ان کے لیے کتنا خطرناک ہے-"" انہوں نے بڑے دکھ سے سوچا اور الماری کا دروازہ بند کردیا- وہ کمرے سے باہر آئیں تو احتشام پر نظر پڑی- ان کا قطعی دل نہیں چاہا کہ اس سے کوئی بات کریں- وہ اگرچہ پورے دس سال کا ہوگیا تھا مگر انھیں محسوس ہوا کہ اس میں سمجھداری نام کو بھی نہیں ہے- اگر دادا ابو نے اس سے کہا بھی تھا کہ وہ ان کے لیے شربت بنا بنا کر رکھے تو اسے یہ بات مجھے ضرور بتانا چاہیے تھی-دس بج گئے تھے- احتشام کی امی کا کسی کام میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا- انہوں نے سوچ لیا تھا کہ اس کے ابو آئیں گے تو وہ یہ بات ان کے سامنے رکھیں گی اور وہ ہی احتشام کے دادا ابو کو سمجھائیں گے کہ میٹھا شربت پینا ان کے لیے کتنا خطر ناک ہے-پھر بیٹھے بیٹھے انھیں احتشام پر ایک دم سے بہت غصہ آگیا- انہوں نے تیز آواز میں اسے بلایا- ان کے لہجے کی سختی محسوس کر کے وہ کچھ حیران سا ان کے پاس پہنچا- اس کا معصوم حیرت زدہ چہرہ دیکھ کر امی کو افسوس سا ہوا- انھیں احساس ہوا کہ انھیں اس لہجے میں اسے نہیں بلانا چاہیے تھا-""امی کیا مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے؟"" اس نے آہستگی سے پوچھا-""بیٹا غلطی نہیں بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے؟"" اس کی امی نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا- ""تم جانتے ہو تمھارے دادا ابو کو شوگر کی بیماری ہے؟""""یہ بات مجھے پتہ ہے-"" احتشام نے سر جھکا کر کہا-""تمہارے کمرے کی الماری میں شربت کی بوتلیں کہاں سے آئ ہیں؟""- انہوں نے یکلخت پوچھا-لمحہ بھر کو تو احتشام حیران رہ گیا- تھوڑی دیر بعد بولا ""میں اور دادا ابو بازار سے لائے تھے-""""اور وہ خالی مشروبات کی بوتلیں؟""- امی نے پھر جراح کی-""وہ بوتلیں آپ خالی ہونے کے بعد پھینک دیتی تھیں- میں انھیں اچھی طرح دھو کر اپنی الماری میں رکھ دیتا تھا""- احتشام نے بتایا-""تاکہ ان میں شربت بنا بنا کر دادا ابو کو دو-"" امی نے تلخ لہجے میں کہا-""جی- آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں- میں روز رات کو ایک بوتل شربت بنا کر فریزر میں رکھی چیزوں کے پیچھے رکھ دیا کرتا ہوں- صبح اسے دادا ابو کو دے دیتا ہوں-"" احتشام نے خوش ہو کر بتایا-""یہ پتہ ہونے کے باوجود کہ انھیں میٹھی چیزوں سے ڈاکٹر نے منع کیا ہوا ہے؟"" امی کا لہجہ شکایتی تھا-ان کی بات سن کر احتشام ہنس پڑا- ""امی آپ کی ساری جاسوسی بے کار گئی-"" یہ کہتے ہوۓ اس نے اپنی بانہیں ان کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی-احتشام کی ڈھٹائی پر انھیں ایک دم سے غصہ آگیا اور انہوں نے اسے ایک طرف ہٹاتے ہوۓ کہا-""میں تم سے پیار کرتی ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم میرے سر پر چڑھ جاؤ""-عین اسی وقت گلی میں سے خاکروب کی تیز آواز ان کے کانوں میں آئ- ""باجی- کوڑا دیدیں""- یہ خاکروب روز آکر گھر گھر سے کوڑا لے جاتا تھا- مہینہ ختم ہوتا تھا تو اسے ہر گھر سے دو دو سو روپے ملا کرتے تھے-""اب آپ خود اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیجیے گا""- وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر ڈرائنگ روم کی اس کھڑکی تک لایا جہاں سے گھر کا مین گیٹ نظر آرہا تھا- خاکروب کی آواز سن کر دادا ابو گیٹ کھولنے گئے تھے- امی یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ ان کے ہاتھ میں وہ ہی شربت کی بوتل تھی جو احتشام نے کچھ دیر پہلے ان کے حوالے کی تھی-دادا ابو نے گیٹ کی ذیلی کھڑکی کھولی- پسینے میں شرابور اور تیز دھوپ کی وجہ سے لال بھبوکا چہرہ لیے خاکروب اندر داخل ہوا- اس نے کونے میں رکھی کچرے کی بالٹی اپنی ہتھ گاڑی میں خالی کی، پھر ٹوکری کو دوبارہ اس کی جگہ رکھ دیا-""بھئی برکت مسیح- آج تو گرمی نے کمال ہی کردیا ہے-"" یہ کہتے ہوۓ انہوں نے شربت کی بوتل اس کے حوالے کر دی-برکت مسیح کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں- ""صاحب- آپ روز میرے لیے اتنی تکلیف کرتے ہیں- خدا آپ کو خوش رکھے""- اس نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا-""گرمی بھی تو بہت ہے- اور یہ میں تھوڑا ہی کرتا ہوں، یہ تو احتشام کرتا ہے- ویسے بھی ہم تو آرام سے گھر میں بیٹھے رہتے ہیں- تم تو محلے محلے اس چلچلاتی دھوپ میں پھرتے رہتے ہو- تمہیں پیاس تو لگتی ہی ہوگی-""وہ ان کو دعائیں دیتا ہوا چلا گیا- امی نے یہ منظر دیکھا تو ان کا دل بھر آیا- انہوں نے احتشام کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور بولیں ""تم اور دادا ابو تو یہ بہت اچھا کام کرتے ہو- اس تیز گرمی میں اگر کوئی مجھے اتنی بڑی بوتل ٹھنڈے شربت کی دے تو میں تو ایک ہی سانس میں غٹ غٹ پی جاؤں- مگر احتشام یہ بات تم نے مجھے پہلے ہی کیوں نہیں بتا دی تھی؟""""جب ہم یہ کام شروع کرنے والے تھے تو دادا ابو نے کہا تھا کہ احتشام بیٹے یہ ایک نیکی کا کام ہے-""""تو پھر؟""- اس کی بات امی کی بالکل بھی سمجھ میں نہیں آئ تھی-""میں نے کسی جگہ پڑھا تھا کہ نیکی کے کام خاموشی سے اور چھپا کر کرنے چاہییں ورنہ نیکی ضائع ہوجاتی ہے- اس وجہ سے میں نے یہ بات آپ کو نہیں بتائی تھی- ہم تو کب سے یہ بوتلیں خاکروب انکل کو دے رہے ہیں"" احتشام نے کہا-""میرے اپنے خیال میں تو اس طرح کی نیکیوں کو چھپانا نہیں چاہیے-دوسرے لوگوں کو اس طرح کی باتوں کے بارے میں پتہ چلے گا تو وہ خود بھی انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں اور جانوروں کی بھوک پیاس کا خیال بھی رکھنے کی کوشش کریں گے- آج سے میں بھی تمہارے اس کام میں ہاتھ بٹایا کروں گی""-ان کی بات سن کر احتشام خوش ہوگیا اور اس خوشی میں اس نے دونوں ہاتھوں کی ایک ایک انگلی ملا کر منہ میں ڈال کر سیٹی بجانے کی کوشش کی مگر اسے ابھی تک اس طرح سیٹی بجانا نہیں آئ تھی اس لیے سیٹی بج نہ سکی- وہ تھوڑا جھینپ سا گیا - اس کی حالت دیکھ کر امی زور سے ہنس پڑیں اور اسے گلے سے لگا لیا- " یوٹرن - تحریر نمبر 1453,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/u-turn-1453.html," " "آمِش سادگی سچائی اور قدیم روایتوں سے جڑا ہوا حسین قبیلہ - تحریر نمبر 1452",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/amish-saadgi-sachai-or-qadeem-rewayatoon-se-jura-hua-haseen-qabila-1452.html," " غلطی ہماری ہے۔۔۔تحریر:مختار احمد - تحریر نمبر 1451,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/galti-hamari-hai-1451.html,"ثاقب صاحب آفس سے گھر آئے تو انھیں محسوس ہوا کہ ان کی بیوی کا موڈ کچھ خراب ہے- انھیں دیکھ کر نہ تو وہ مسکرائیں اور نہ ہی اس خوشی کا اظہار کیا جو روز ان کے آفس سے آنے پر کرتی تھیں- وہ کپڑے تبدیل کر کے آئے تو بیوی نے خاموشی سے چائے کا کپ ان کے سامنے رکھ دیا اور سامنے صوفے پر بیٹھ کر دوپٹے سے منہ کا پسینہ خشک کرنے لگیں-""بیگم- آج تو تم غصے میں دکھائی دے رہی ہو- اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ میں کچھ جلدی گھر آگیا ہوں-"" ثاقب صاحب نے چائے کا گھونٹ بھر کر مزاحیہ انداز میں کہا-ان کی بات سن کر ان کی بیوی بولیں- ""آپ کو تو ہر وقت مذاق سوجھتا ہے- آپ نے تین مصیبتیں میرے پیچھے لگا دی ہیں- ان میں سے کوئی ایک بھی میری بات نہیں سنتا- میں کہتی رہ جاتی ہوں کہ یہ کردو، وہ کردو- مجال ہے جو کانوں پر جوں رینگ جائے- ہر وقت موبائل لیے کونے کھدروں میں دبکے رہتے ہیں- میں عدنان سے کہہ کہہ کر تھک گئی کہ وہ مجھے مارکیٹ سے کچھ سودا لادے، ہر مرتبہ وہ یہ ہی کہہ دیتا ہے کہ ابھی لاتا ہوں- مگر جب سے موبائل پر گیم ہی کھیلے جا رہا ہے""""شکر ہے تم بچوں کی وجہ سے ناراض ہو- میں تو ڈر گیا تھا کہ تمہاری ناراضگی مجھ سے ہے-"" ثاقب صاحب نے خوش دلی سے مسکرا کر کہا- ان کی اس بات پر ان کی بیوی بھی مسکرا دیں اور شکایتی لہجے میں بولیں- ""آپ انھیں کچھ سمجھاتے کیوں نہیں ہیں- ہر چیز کی زیادتی بھی بری ہوتی ہے-""ثاقب صاحب ایک دم سے سنجیدہ ہوگئے اور خاموشی سے کچھ سوچتے ہوۓ چائے پینے لگے- تھوڑی دیر بعد بولے- ""معاملہ واقعی بہت اہم ہے- اس کا حل نکالنا ہی پڑے گا""-ان کی آمد کی خبر تینوں بچوں عدنان، کامران اور گڑیا کو ہو گئی تھی- وہ تینوں اپنے پاپا کے پاس آئے اور انھیں سلام کرکے ان کے پاس بیٹھ گئے –ثاقب صاحب نے عدنان سے کہا- ""بیٹا- کتنی بری بات ہے- تم اپنی امی کی بات نہیں سنتے ہو- انھیں کچھ چیزیں منگوانا تھیں- وہ تم نے اب تک لاکر نہیں دیں-""عدنان نے شکایتی نگاہوں سے امی کو دیکھا اور بولا- ""سوری- امی بتائیے آپ کو کیا منگوانا ہے-""امی نے بھی بات بڑھانا مناسب نہیں سمجھا اور اسے ایک پرچہ تھما کر بولیں- ""یہ چیزیں لے لینا اور جلدی آجانا- مجھے کھانا پکانے کو دیر ہو رہی ہے""-عدنان کے جانے کے بعد، کامران اور گڑیا تھوڑی دیر تک پاپا کے پاس بیٹھے رہے- اس دوران ثاقب صاحب نے ان سے کچھ باتیں کیں، یہ بھی پوچھا کہ آج انہوں نے اسکول میں کیا کیا- اس مختصر سی گفتگو کے بعد دونوں بچے اٹھ کر پھر اپنے کمرے میں چلے گئے-انھیں جاتا دیکھا تو ان کی امی سمجھ گئیں کہ اب یہ پھر موبائل لے کر بیٹھ جائیں گے مگر کچھ سوچ کر خاموش رہیں اور کچھ نہ بولیں-ان کے تینوں بچے بارہ سالہ عدنان، دس سالہ کامران اور آٹھ سالہ گڑیا نہایت تمیز دار تھے- وہ پڑھنے لکھنے میں بھی تیز تھے اور ادب آداب میں بھی اچھے تھے- مگر ان میں یہ بری بات پیدا ہوگئی تھی کہ اپنے اسکول وغیرہ کا کام ختم کرکے وہ موبائل لے کر بیٹھ جاتے تھے-اس عادت نے انھیں ان کھیلوں سے دور کردیا تھا جو جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں بڑھاتے ہیں- عدنان اور کامران نہ تو کرکٹ، ہاکی، بیڈ منٹن اور فٹ بال کھیلنے باہر میدان میں جاتے تھے اور نہ ہی گھر میں گڑیا کے ساتھ لوڈو، کیرم اور اسی طرح کے دوسرے گیم کھیلتے تھے- اور تو اور ان کی کہانیوں کی کتابیں پڑھنے کی عادت بھی نہیں رہی تھی- ان سب خرابیوں کی وجہ موبائلوں میں ان کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی تھی-امی کو ان کے پاپا سے شکایت کیے چند روز ہوگئے تھے کہ ایک روز رات کے کھانے پر ثاقب صاحب نے بچوں سے کہا- ""تین روز بعد اتوار کی چھٹی آنے والی ہے- ہم لوگ شاداب نگر کے جنگل چلیں گے اور وہاں پر پکنک منائیں گے- یہ جنگل ہمارے گھر سے تقریباً دس بارہ کلو میٹر کی دوری پر پہاڑوں کے نزدیک ایک بہت ہی خوبصورت جگہ پر ہے- وہاں ایک دریا بھی بہتا ہے جس کا پانی بہت ہی ٹھنڈا ہوتا ہے- وہاں ہم ایک بہت ہی مزے کا کھیل بھی کھیلیں گے-""""پاپا وہ کھیل کون سا ہوگا؟"" گڑیا نے دلچسپی سے پوچھا-میں جنگل میں کسی جگہ ایک بڑا سا بیگ چھپا دوں گا- اس بیگ میں بہت اچھی اچھی چیزیں ہوں گی- تمہیں اس بیگ کو ڈھونڈنا ہوگا- مجھے یقین ہے کہ تم اس کھیل سے بہت لطف اندوز ہوگے-""تینوں بچوں کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں- گڑیا بولی- ""لیکن پاپا جنگل تو بہت بڑا ہوتا ہے کیا اس بیگ کے لیے ہمیں پورے جنگل کی تلاشی لینا پڑے گی؟""اس کا سوال سن کر ثاقب صاحب مسکرائے اور بولے- ""شاباش تم نے ایک بہت اچھا سوال کیا ہے- پورے جنگل کی تلاشی لینے کی ضرورت نہیں ہوگی، جہاں ہم بیٹھیں گے اس کے ایک چھوٹے سے علاقے میں وہ بیگ موجود ہوگا-""ان کی بیوی بھی یہ بات سن کر خوش ہوگئیں- کہنے لگیں- ""میں بھی گھر میں بند رہ رہ کر تنگ آگئی ہوں- اچھا ہے میری بھی سیر و تفریح ہوجائے گی""-عدنان نے کہا- ""اور پاپا کیا امی بھی اس کھیل میں حصہ لیں گی؟""""میں تو اس کھیل سے باز آئ- ہوسکتا ہے تمہارے پاپا وہ بیگ کسی پرندے کے گھونسلے میں رکھیں، درختوں پر چڑھ کر پرندوں کے گھونسلوں میں جھانکتی کیا میں اچھی لگوں گی؟""ان کی بات سن کر تینوں بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے- کامران نے کہا- ""تو کیا پاپا آپ اس بیگ کو کسی گھونسلے میں چھپائیں گے؟ گڑیا درختوں پر تو چڑھ نہیں سکتی- وہ اسے کیسے ڈھونڈے گی-""""اس بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا- ہوسکتا ہے میں اسے گھونسلے میں نہ چھپاؤں""- ثاقب صاحب نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا- بچے ان کے پاس سے اٹھ کر چلے آئے اور اسی بارے میں اظہار خیال کرنے لگے- انھیں اس بات کا تجسس ہوگیا تھا کہ پاپا اس بیگ کو کہاں چھپائیں گے- انہوں نے مختلف جگہوں کے بارے میں سوچا مگر کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکے-وہ اسی ادھیڑ بن میں لگے رہے اور اس دوران ان کا دھیان اپنے موبائلوں کی طرف بھی نہیں گیا- ان کا ذہن اس بات میں الجھا ہوا تھا کہ بیگ کہاں رکھا ہوگا- جب وہ سونے کے لیے بستروں پر گئے اور ان کی امی انھیں دیکھنے کے لیے ان کے کمرے میں آئیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ کسی بچے کے پاس بھی موبائل نہیں تھا- وہ اپنے اپنے بستروں میں لیٹے پکنک اور اس بیگ کے بارے میں ہی باتیں کررہے تھے-انہوں نے مسکرا کر انھیں شب خیر کہا اور واپس جا کر ثاقب صاحب کو یہ خبر سنائی کہ آج پہلی دفعہ انھیں بچوں سے یہ نہیں کہنا پڑا کہ بچو- اپنے اپنے موبائل رکھ کر اب سوجاؤ-ثاقب صاحب یہ سن کر مسکرانے لگے-اتوار والے دن تینوں بچے خلاف توقع جلد سو کر اٹھ گئے- ورنہ عموماً چھٹی والے دن وہ دیر تک سوتے تھے- سب نے نہا دھو کر کپڑے پہنے- جلدی جلدی ناشتہ کیا اور ثاقب صاحب کا انتظار کرنے لگے کہ وہ کب انھیں گاڑی میں بیٹھنے کا کہتے ہیں- ثاقب صاحب ان کی امی کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں پیک کروا رہے تھے- ان کی امی نے بریانی، کباب اور فروٹ کسٹرڈ بنایا تھا- کھانے کے ساتھ پھل تھے اور مشروبات کے ٹن تھے- پھل اور مشروبات کے ٹن پلاسٹک کے تھیلوں میں رکھے ہوۓ تھے-زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ساری تیاریاں مکمل ہوگئیں اور وہ گھر کو لاک کر کے اپنے سفر پر روانہ ہوگئے- تینوں بچوں کے چہروں پر جوش کے اثرات نمایاں تھے- وہ جلد سے جلد وہاں پہنچ کر اس بیگ کو ڈھونڈنے کے لیے بے چین تھے- ان کی بے چینی کو محسوس کرکے ثاقب صاحب مسکرا رہے تھے-حالانکہ گرمی کا موسم تھا اور سورج پوری آب و تاب سے آسمان پر چمک رہا تھا- مگر جب وہ جنگل کے قریب پہنچے تو انھیں ٹھنڈک کا احساس ہوا- چاروں طرف ایک پرسکون سناٹا طاری تھا، ایسے میں کبھی کبھار کسی پرندے کی تیز آواز فضا میں گونجتی اور کانوں کو بڑی بھلی محسوس ہوتی تھی-ایک صاف ستھری جگہ منتخب کر کے انہوں نے وہاں گاڑی روکی اور گاڑی سے کچھ دور پڑاؤ ڈال دیا- قریب ہی دریا تھا اور اس کا صاف ستھرا پانی سورج کی روشنی میں چاندی کی طرح چمک رہا تھا- بچوں نے پلاسٹک کی چٹائی بچھا کر ساتھ لایا ہوا کھانے پینے کا سامان گاڑی میں سے نکال کر اس پر رکھ دیا-ثاقب صاحب نے پھلوں اور مشروبات کے تھیلوں میں لمبی ڈوریاں باندھ کر انھیں دریا کے ٹھنڈے پانی میں ڈالا اور ڈوریوں کے سرے کو ایک درخت سے باندھ دیا اور بچوں سے بولے- ""اب تھیلوں میں موجود چیزیں دریا کے پانی کی وجہ سے ٹھنڈی رہیں گی-"" یہ ترکیب بچوں کے لیے نئی تھی، گڑیا نے فخر سے دونوں بھائیوں کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ اس کے پاپا کو کیسی کیسی باتیں پتہ ہیں-ثاقب صاحب اور ان کی بیوی چٹائی پر آرام سے بیٹھ گئے- عدنان نے کہا- ""لو بھئی- میں تو چلا اس بیگ کو تلاش کرنے کے لیے- اگر میں نے اسے ڈھونڈ لیا تو تم دونوں کو بھی اس میں سے چیزیں دوں گا-""وہ دریا کی جانب چل پڑا- اس کے ذہن میں ایک بات آئ تھی- اس نے سوچا کہ کہیں اس کے پاپا نے رسی باندھ کر اس بیگ کو بھی دریا میں نہ ڈال دیا ہو، جیسے پھل اور مشروبات کے تھیلوں کو ڈالا تھا- وہ دریا کے کنارے کنارے چلتا رہا- اسے کسی رسی کی تلاش تھی جس کا ایک سرا درخت سے بندھا ہو اور اس کے دوسرے سرے پر بندھا چیزوں کا بیگ دریا میں پڑا ہو- وہ ڈھونڈتا ڈھونڈتا کافی آگے نکل آیا مگر بیگ نہ ملا-اس کے چھوٹے بھائی کامران کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ وہ بیگ کسی درخت پر ٹنگا ہوگا- وہ سر اٹھائے اونچے اونچے درختوں کا جائزہ لیتے ہوۓ آگے بڑھنے لگا- اس نے بہت سارے درخت دیکھ لیے مگر وہ بیگ اسے بھی نہ مل سکا-ثاقب صاحب اور ان کی بیوی بڑی دلچسپی سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے- ان کی بیوی نے پوچھا- ""آپ کا کیا خیال ہے- یہ لوگ اس بیگ کو ڈھونڈ بھی لیں گے یا نہیں؟""ثاقب صاحب ہنسے اور بولے- ""مجھے تو مشکل ہی نظر آتا ہے- وہ بیگ میں نے چھپایا ہے- اتنی آسانی سے تو ملنے سے رہا""- گڑیا ان کے نزدیک ہی بیٹھی ہوئی تھی اور اپنے بھائیوں کو دیکھ رہی تھی جو اب کافی دور نکل گئے تھے-""تم اسے کیوں نہیں ڈھونڈ رہیں؟""- اس کی امی نے سوال کیا-""میں بھی ڈھونڈنے جاؤں گی- ابھی میں ذرا سوچ رہی ہوں کہ وہ کہاں ہوگا""- گڑیا نے جواب دیا- اس کی امی پھر ثاقب صاحب کی طرف متوجہ ہوگئیں- وہ بولیں- ""آپ نے پکنک کے لیے جگہ کا انتخاب خوب کیا ہے- یہاں بہت سکون اور خنکی ہے- بڑا مزہ آرہا ہے- آپ پہلے بھی کبھی یہاں آئے تھے؟""""نہیں- اس جگہ کے بارے میں میرے دوستوں نے مجھے بتایا تھا- میں بھی یہاں پہلی مرتبہ آیا ہوں""- یہ کہہ کر ثاقب صاحب نے بچوں کی طرف دیکھا اور بولے- ""دونوں بڑی احتیاط سے ہر جگہ کا جائزہ لے رہے ہیں- تم تو ان بے چاروں سے خواہ مخواہ شاکی رہتی تھیں- بھلا دیکھو تو سہی، کل رات سے اب تک انہوں نے موبائلوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا ہے- اس مہم کو سر کرنے کے شوق میں وہ انھیں اپنے ساتھ بھی لے کر نہیں آئے، گھر ہی چھوڑ آئے ہیں-""""یہ تو ہے-"" ان کی بیوی نے حیرت سے کہا- ""اس طرف تو میرا دھیان ہی نہیں گیا تھا- یہ لوگ تو اپنے موبائلوں کو بالکل بھول ہی گئے ہیں-""""بس تمہیں اس بات کا احساس دلانے کے لیے ہی میں نے یہ منصوبہ بنایا تھا-"" ثاقب صاحب نے کہا- ""ہمارے بچے اور دوسرے تمام بچے بہت اچھے ہیں- یہ ہماری ہی غلطی ہے کہ اپنی آسانی کے لیے ہم بچوں کو ٹی وی کے کارٹون اور موبائلوں میں لگا دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ ان چیزوں میں مصروف رہیں گے تو ہمیں ڈسٹرب نہیں کریں گے-""ان کی بیوی شرمندگی سے بولیں- ""یہ بات تو آپ نے ٹھیک کہی ہے- جب ہمارے تینوں بچے ایک ایک سال کے تھے تو آپ کے آفس جانے کے بعد مجھے بہت تنگ کرتے تھے- میں ڈھنگ سے گھر کا کوئی کام بھی نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی کوئی ٹی وی ڈرامہ دیکھ سکتی تھی- پھر میرے ذہن میں ایک ترکیب آئ- میں چھوٹے ٹی وی پر کارٹون لگا کر انھیں ان کی ڈائننگ چیئر پر بیٹھا دیتی تھی، وہیں انہیں دودھ کی بوتل بھی دے دی، یہ گھنٹوں مجھے تنگ نہیں کرتے تھے- کارٹونوں میں ہی لگے رہتے تھے- مجھے بڑا آرام ہوگیا تھا""""اور پھر جب یہ بڑے ہوۓ تو تم نے اور میں نے ان کی سالگراہوں اور امتحانوں میں پاس ہونے کی خوشی میں بڑے بڑے موبائل دلا دیے- میں بھی اس کا قصور وار ہوں- آفس سے آنے کے بعد یہ مجھے نہ تو خبریں دیکھنے دیتے تھے اور نہ ہی اخبار پڑھنے دیتے تھے- یہ مجھ سے باتیں کرنا چاہتے تھے، میرے ساتھ باہر گھومنے پھرنے کے لیے جانا چاہتے تھے، یہ چاہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ کھیلوں- مگر میں نے بھی یہ کوشش کی کہ یہ کسی مشغلے میں لگ جائیں اور میں آرام اور سکون سے ٹی وی دیکھوں اور اخبار پڑھوں- ان کے پاس موبائل آئے تو یہ ان میں مگن رہنے لگے اور یہ میری کم عقلی کہ میں خوش ہوگیا کہ اب یہ لوگ مجھے تنگ نہیں کرتے- اس طرح خود ہم نے اپنے بچوں کو اپنے سے دور کردیا تھا- موبائلوں میں لگ کر انہوں نے اپنے کھیل کود اور میدانوں اور پارکوں میں جانا بند کردیا- اسکول میں کورس کی کتابیں تو پڑھتے تھے مگر وہ غیر درسی کتابیں جن سے دنیا بھر کی معلومات حاصل ہوتی ہیں، ان سے ان کی دلچسپی ختم ہوگئی- تم خود دیکھو- جب ہم نے ان کے ساتھ اس کھیل میں حصہ لیا ہے تو یہ کتنا خوش ہیں اور کتنا مگن ہیں- انہیں اپنے موبائل بھی یاد نہیں رہے-""ان کی بیوی ان کی باتیں سن کر شرمندہ نظر آنے لگیں- انہوں نے تاسف بھرے لہجے میں کہا- ""مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے- میں نے اپنی آسانی اور آرام کے لیے اپنے بچوں کو خود سے دور کردیا تھا جس کی وجہ سے وہ موبائلوں میں گم رہنے لگے تھے- اب تو میں نے سوچ لیا ہے کہ ان کو بہت سارا وقت دیا کروں گی- گھر کا کام ہوتا ہے تو ہو، نہیں ہوتا ہے تو نہ ہو- میں ٹی وی ڈرامے دیکھنا بھی بند کردوں گی- میں ان سے باتیں کیا کروں گی، ان کے ساتھ ان ڈور گیمز کھیلا کروں گی اور ان کو ساتھ بٹھا کر خود بھی کہانیوں کی کتابیں پڑھا کروں گی اور انہیں بھی پڑھایا کرونگی- میں انہیں بہت سا وقت دیا کروں گی""-""میں بھی عدنان اور کامران سے کہوں گا کہ اب وہ روز شام کو میدان میں کھیلنے جایا کریں- رات کو میں ان تینوں کے ساتھ کیرم، لوڈو اور تعلیمی تاش بھی کھیلا کروں گا-"" ثاقب صاحب نے کہا-عدنان اور کامران کو گئے ہوۓ کافی دیر ہوگئی تھی- گڑیا کچھ دور ایک جھاڑیوں میں سے بیر توڑ رہی تھی اور ان کو ایک مخملی تھیلی میں رکھتی جا رہی تھی- ثاقب صاحب نے بچوں کو آواز دی کیوں کہ کھانے کا وقت ہوگیا تھا- وہ تینوں آگئے- عدنان اور کامران کے چہروں پر مایوسی کے آثار تھے-کامران بولا- ""پاپا ہم نے تو چپہ چپہ چھان مارا ہے- سارے درخت اور جھاڑیاں دیکھ لیں، دریا کے کنارے کنارے دور تک دیکھ لیا- وہ بیگ تو ہمیں نہیں ملا-""""وہ بیگ اسی جنگل میں ہے- کھانے کے بعد پھر ڈھونڈنے کی کوشش کرنا- اور گڑیا لگتا ہے تم نے ہمت ہار دی ہے- تم وہ بیگ نہیں ڈھونڈ رہی ہو""- ثاقب صاحب نے گڑیا کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا-""پاپا- وہ بیگ میں اس لیے نہیں ڈھونڈ رہی کہ مجھے پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے-"" گڑیا نے اٹھلا کر کہا- اس کی بات سن کر سب چونک گئے- اس کی امی جو پلیٹوں میں کھانا نکال رہی تھیں بے یقینی سے اسے دیکھنے لگیں-""بھلا بتاؤ تو سہی کہاں ہے وہ بیگ؟"" ثاقب صاحب کو بھی اس کی بات کا یقین نہیں آیا تھا-""وہ بیگ گاڑی کی ڈگی میں رکھا ہوا ہے- آپ ٹھیک کہہ رہے تھے کہ بیگ جنگل میں ہے- گاڑی بھی تو جنگل میں ہی ہے""- گڑیا نے بڑے مزے سے کہا-اس کی بات سن کر ثاقب صاحب کی حیرت کی انتہا نہیں رہی- انہوں نے گڑیا کو گلے سے لگا لیا- اس کے دونوں بھائی بھاگتے ہوۓ گاڑی تک گئے- اس کی ڈگی کھولی اس میں ایک بہت بڑا بیگ رکھا ہوا تھا- وہ اسے اٹھا کر لائے- ثاقب صاحب نے اس کی زپ کھولی، اس بیگ میں ایک کرکٹ کا بلا، وکٹیں، ربڑ کی گیندیں، چار بیڈ منٹن، ان کی شٹل کاکس کا ڈبہ، ایک لوڈو، اردو اور انگریزی کے تعلیمی تاش اور بہت سی کہانیوں کی کتابیں موجود تھیں-""گڑیا-تم واقعی ایک عقلمند لڑکی ہو- مگر تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ بیگ ڈگی میں رکھا ہوا ہے""- ثاقب صاحب نے پوچھا-""میں کبھی کبھی بچوں کی جاسوسی کہانیاں بھی پڑھتی رہتی ہوں- مجھے بھی تھوڑی بہت جاسوسی آگئی ہے- جب آپ امی سے کہہ رہ تھے کہ آپ یہاں پہلی مرتبہ آئے ہیں تو میں چپکے چپکے یہ بات سن رہی تھی- مجھے پتہ چل گیا کہ جب آپ پہلے کبھی اس جگہ آئے ہی نہیں تھے تو یقیناً آپ نے بیگ جنگل میں نہیں گاڑی میں ہی چھپایا ہوگا-"" گڑیا نے ہنستے ہوۓ بتایا-اس کی اس جاسوسی پر سب نے اسے خوب شاباش دی- کامران بولا- ""پاپا آپ کا بہت بہت شکریہ- آپ نے ہمیں اتنی بہت سی چیزیں لاکر دیں- اب ہم لوگ روز اپنے دوستوں کے ساتھ ان سے کھیلا کریں گے- مجھے یہ احساس بھی ہوگیا ہے کسی بھی چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے- یہ ہماری غلطی تھی کہ اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ ہم موبائلوں پر صرف کرنے لگے تھے- اس وجہ سے ہمیں کھیلنے کودنے اور گھر کے دوسرے کام کرنے کا ہوش ہی نہیں رہتا تھا- ہم موبائل بھی استعمال کیا کریں گے مگر ایک حد میں رہ کر اور اس کا بھی ایک وقت مخصوص کرلیں گے-""""تمہارا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے-"" اس کی امی نے خوش ہو کر کہا پھر وہ گڑیا سے مخاطب ہوئیں- ""گڑیا- تم نے تو بھئی کمال کر دکھایا ہے- واقعی میری بیٹی بہت ذہین ہے-"" گڑیا نے اس تعریف پر خوش ہو کر ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں- " ایک طوفانی رات - تحریر نمبر 1450,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-tofani-raat-1450.html," " ضر ورت بُری بلا ہے - تحریر نمبر 1449,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zarorat-buri-bala-hai-1449.html," " تین تحفے - تحریر نمبر 1447,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/teeen-tohfay-1447.html," " پردہ اُٹھتا ہے - تحریر نمبر 1446,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/parda-uth-ta-hai-1446.html," " وزیر شہزادہ - تحریر نمبر 1445,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/wazir-badshah-1445.html,"مختار احمد۔اسلام آبادایک بادشاہ کے دو بیٹے تھے- بڑے بیٹے کا نام شعیب اور چھوٹے کانام زوہیب تھا- اگرچہ شعیب تھا تو بڑا مگر وہ بہت سیدھا سادہ تھا اور اس میں زیادہ عقل و شعور بھی نہ تھا جب کہ چھوٹا بیٹا زوہیب اس سے زیادہ عقلمند اور سمجھدار تھا-بادشاہ اس بات پر کڑھا کرتا تھا کہ اس کے بڑے بیٹے میں وہ صلاحیتیں نہیں ہیں جو کہ ایک ولی عہد میں ہونا چاہئیں- گرمیوں کی ایک دوپہر کا ذکر ہے- بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ کمرے میں بیٹھا تھا- ملکہ اس سے بہت محبّت کرتی تھی- وہ کوشش کرتی تھی کہ بادشاہ کے سارے کام وہ خود کرے- اس وقت بھی وہ بیٹھی بادشاہ کو پنکھا جھل رہی تھی- ملکہ نے محسوس کیا کہ بادشاہ کچھ فکرمند ہے- اس نے کہا ""ہم آپکے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ رہے ہیں- نصیب دشمناں طبیعت تو ٹھیک ہے؟""-بادشاہ نے کہا ""ملکہ ہماری طبیعت تو ٹھیک ہے مگر ہم ایک بات کی طرف سے بہت فکرمند ہیں اور ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہم کیا کریں""-ملکہ بولی ""مناسب سمجھیں تو ہمیں بتائیے کہ آپ کو کس بات کی فکر ہے- ہو سکتا ہے ہم ناچیز کوئی مشوره دے سکیں""-بادشاہ نے کہا ""ہم نے سوچا ہے کہ ہم تخت و تاج اپنے کسی بیٹے کو سونپ کر خود یاد الہیٰ میں مصروف ہوجائیں- شہزادہ شعیب اگرچہ ہمارا بڑا بیٹا ہے مگر ہمیں امید نہیں کہ وہ کاروبار مملکت کو ٹھیک طرح سے چلا پائے گا- ہم یہ تاج چھوٹے شہزادہ زوہیب کو دینا چاہتے ہیں- وہ نہایت سمجھدار اور عقلمند ہے- ہمیں امید ہے کہ وہ بادشاہ بن گیا تو ہمارے ملک کے لیے بہت اچھا ثابت ہوگا""-ملکہ نے کہا ""جہاں پناہ- شعیب اور زوہیب دونوں میرے بیٹے ہیں، مجھے ان دونوں میں کوئی خامی نظر نہیں آتی کیونکہ میں ان کو ایک ماں کی نظر سے دیکھتی ہوں، اس نظر سے نہیں دیکھتی جس سے آپ دیکھتے ہیں- پھر بھی مجھے امید ہے کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ اچھا ہوگا""-""تو پھر ٹھیک ہے- اس ملک کا اگلا بادشاہ ہمارا چھوٹا شہزادہ زوہیب ہی ہوگا""- بادشاہ نے کہا اور پھر خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا-بادشاہ کا ایک وزیر شہباز تھا- وہ نہایت خوشامدی، چاپلوس اور بادشاہ کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانے والا شخص تھا- اس کی ان حرکتوں سے بادشا یہ سمجھتا تھا کہ وہ اس کا جان نثار اور وفادار ہے مگر وہ ایسا ہرگز نہیں تھا- خوشامدی اور چاپلوس لوگ لالچی بھی ہوتے ہیں، اور ایسے لوگوں سے بچ کر رہنے میں ہی عافیت ہے- مگر بادشاہ اپنے سیدھے پن کی وجہ سے اس کی چالاکیوں سے بے خبر تھا- وزیر شہباز کے دل میں لالچ اور ہوس اتنی بڑھ گئی تھی کہ وہ تخت پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے لگا- اپنے اس خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وہ سائے کی طرح بادشاہ کے پیچھے لگا رہتا تھا- اس وقت بھی وہ بادشاہ کے کمرے کے باہر ایک کھڑکی کے قریب کھڑا بادشاہ اور ملکہ کی گفتگو سن رہا تھا- اسے جب بادشاہ کے فیصلے کا علم ہوا تو وہ خوش ہو گیا اور اسے ایسا لگا جیسے اس کی منزل قریب آگئی ہے- بادشاہ کے اس فیصلے سے دونوں بھائیوں میں چقپلش شروع ہوجاتی اور مکار وزیر ان دونوں کو آپس میں لڑوا کر اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا-وہ یہ تمام باتیں سن کر اسی وقت کوتوال کے پاس پہنچا- کوتوال اس کا دوست تھا اور اس کا دوست ہونے کی وجہ سے وہ بھی اسی کی طرح چالاک اور عیار شخص تھا-اس نے کوتوال سے کہا ""ہماری کامیابی قریب ہے- تم تیار رہنا- دونوں شہزادوں میں جھگڑا شروع ہونے والا ہے- بادشاہ چھوٹے شہزادے کو تخت و تاج دینا چاہتا ہے- ہم بڑے شہزادے کو اپنے ساتھ ملا لیں گے اور بغاوت کرکے اسے تخت پر بیٹھا دیں گے- اس کے بعد اس کو بھی راستے سے ہٹانا کوئی مشکل بات نہ ہوگی- اس کو راستے سے ہٹا کر میں تخت پر قبضہ کر کے بادشاہ بن جاؤں گا اور پھر تمہیں اپنا وزیر بنا لوں گا- تمہیں اس معاملے میں میرا ساتھ دینا ہوگا""-اس کی باتیں سن کر کوتوال مسکرانے لگا اور بولا- ""حضور- جو آپ کا حکم- میں تیار ہوں""-رات کو بادشاہ نے دونوں شہزادوں کو اپنے کمرے میں طلب کیا- وہاں ملکہ بھی موجود تھی- بادشاہ نے ملکہ کو مخاطب کر کے کہا ""ملکہ- عقلمندی اور سمجھداری بہت بڑی نعمت ہیں- الله نے ہمیں دو بیٹے دئیے ہیں- ان بیٹوں میں شہزادہ شعیب نہایت نیک، شریف، سعادتمند اور سیدھا سادہ ہے- شہزادہ زوہیب میں بھی یہ تمام خوبیاں موجود ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اسے دنیا داری اور دنیا کے لوگوں کو چلانا بھی آتا ہے- بادشاہ کی بہت ذمہ داریاں ہوتی ہیں اگر وہ ان کو درست طریقے سے انجام نہیں دے گا تو آخرت میں پکڑ ہوگی- ہم اب بوڑھے ہو چلے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تخت و تاج سے دستبردار ہوجائیں- ہماری خواہش ہے کہ ہمارے بعد شہزادہ زوہیب اس تخت پر بیٹھے""-بڑا بھائی شہزادہ شعیب یہ سن کر بہت خوش ہوا اور چھوٹے بھائی شہزادہ زوہیب سے بولا ""میں بہت خوش ہوں کہ ابّا حضور کی جگہ تم بادشاہ بن جاؤ گے- ایک وعدہ کرو کہ اپنے بادشاہ والے تخت پر تم مجھے بھی بیٹھنے دیا کرو گے""-شہزادہ زوہیب نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے اٹھ کر باہر چلا گیا- بادشاہ کو اس کے روئیے پر بڑی حیرت ہوئی- اسے تو یہ توقع تھی کہ وہ اپنے بادشاہ بنائے جانے کا سن کر خوشی سے اچھل پڑے گا مگر وہ تو خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا- بادشاہ نے بڑے شہزادے شعیب کو بھی جانے کی اجازت دے دی-شہزادہ شعیب باہر نکلا تو وزیر پہلے کی طرح چھپ کر ان کی باتیں سن رہا تھا- وہ جلدی سے اس کے قریب آیا اور بولا ""شہزادے میرے ساتھ آؤ- میں نے چھپ کر بادشاہ سلامت کی ساری باتیں سن لی ہیں""-""چھپ کر سننے کی کیا ضرورت تھی- آپ اندر چلے آتے""- شہزادے شعیب نے بڑے بھولپن سے کہا- اس کی بات سن کر وزیر کو سخت غصہ آیا- اس کا دل چاہا کا جوتا اتار کر اس غبی اور بے وقوف شہزادے پر برسا دے مگر وہ ضبط کر کے بولا ""شہزادے صاحب میرے ساتھ آئیے، میں آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے""-وزیر کی باتیں شہزادے کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں مگر اس کے کہنے پر وہ اس کے ساتھ چل پڑا- وزیر شہزادے کو لے کر پائیں باغ میں آیا اور دونوں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے-""آپ کو پتہ ہے، بادشاہ سلامت اپنا تاج شہزادہ زوہیب کے سر پر رکھنا چاہتے ہیں""- وزیر نے بڑے پراسرار لہجے میں کہا-""تو اس سے ہمیں کیا- ہمارے پاس اتنی رقم موجود ہے کہ ہم جب چاہئیں ایک تاج بنوا کر اپنے سر پر رکھ لیں- ہمیں جو جیب خرچ ملتا ہے ہم اسے ایک جگہ جمع کرتے جا رہے ہیں- ہمارے پاس بہت ساری اشرفیاں جمع ہوگئی ہیں""- شہزادے شعیب نے لاپرواہی سے کہا-اس کی بات سن کر وزیر جھنجلا گیا اور تیز آواز میں بولا ""شہزادے صاحب آپ سمجھ کیوں نہیں رہے- بادشاہ سلامت آپ کو نظر انداز کر کے آپ کے چھوٹے بھائی کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ یہ حق آپ کا ہے""-""یہ تو ہمیں پہلے ہی سے پتہ ہے کہ اگلا بادشاہ زوہیب ہوگا- ابّا حضور نے خود بتایا تھا- بس ہمیں یہ سوچ سوچ کر ہنسی آرہی ہے کہ اسے بادشاہ بنا کر وہ خود کیا کریں گے؟""- شہزادہ شعیب نے مسکراتے ہوۓ کہا-وزیر کو غصہ تو بہت آرہا تھا مگر اس نے نرمی سے کہا ""مجھے تو نہیں پتہ کہ وہ کیا کریں گے، مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بادشاہت کا حق بڑے بھائی کا ہوتا ہے- میرا مشوره ہے کہ جب بادشاہ سلامت یہ بات کریں تو تم ان سے یہ ہی کہنا کہ وہ بادشاہ تمہیں ہی بنائیں ورنہ بہت برا ہوگا""-شہزادہ شعیب سوچ میں پڑ گیا اور تھوڑی دیر بعد بولا ""اب ہماری سمجھ میں بھی ساری باتیں آنے لگی ہیں- بادشاہ بننا ہمارا حق ہے کیونکہ ہم بڑے ہیں، ہم اس حق کے لیے ضرور آواز بلند کریں گے""-وزیر اس کی بات سن کر خوش ہو گیا- وہ سوچ رہا تھا کہ تیر نشانے پر لگا ہے- اس نے شہزادے کو شاباش دی اور خود رخصت ہوگیا-وزیر کے جانے کے بعد شہزادہ شعیب اس انتظار میں تھا کہ اسے موقع ملے تو وہ بادشاہ سے کہے کہ وہ چونکہ اس کا بڑا بیٹا ہے اس لیے تخت و تاج اس کے سپرد کیا جائے- شام کو وہ بادشاہ سے ملنے کے لیے اس کے کمرے میں گیا مگر وہ وہاں نہیں تھا- اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ باغ کی طرف نکل گیا- اس نے دیکھا کہ بادشاہ، ملکہ اور شہزادہ زوہیب ایک درخت کے نیچے کھڑے باتوں میں مصروف ہیں- اس کے دل میں تجسّس پیدا ہوا اور وہ ایک درخت کی اوٹ میں ہو کر ان لوگوں کی باتیں سننے لگا-شہزادہ زوہیب بادشاہ سے کہہ رہا تھا ""ابّا حضور یہ ایک اصول ہے کہ ہر بادشاہ کا بڑا بیٹا تخت کا وارث ہوتا ہے- بادشاہ بننے کا حق شعیب بھائی کا ہے- میں ان کی حق تلفی نہیں کروں گا- میں نہایت ادب سے عرض کر رہا ہوں کے مجھے آپ کے فیصلے سے اختلاف ہے""-شہزادہ زوہیب کی بات سن کر بادشاہ نے آگے بڑھ کراسے گلے سے لگا لیا اور بولا- ""بیٹا- اس تخت و تاج کے لیے تو اپنے اپنوں کا گلا کاٹ دیتے ہیں- ہماری تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے- ہمیں حیرت ہے کہ تم اس کو ٹھکرا رہے ہو""-""ابّا حضور یہ ہی تو میں چاہتا ہوں کہ میری یہ بات بھی تاریخ میں آجائے اور پڑھنے والوں کو پتہ چلے کہ کسی زمانے میں ایک شہزادہ ایسا بھی تھا جس نے تخت و تاج کو ٹھوکر مار دی تھی""- شہزادہ زوہیب نے مسکرا کر کہا-بادشاہ ابھی بھی کچھ الجھا ہوا تھا- وہ کچھ سوچتے ہوۓ بولا ""لیکن ہمارا شعیب ایک سیدھا سادہ نوجوان ہے- اسے مملکت کے امور چلاتے ہوۓ بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا""-""پہلی اولاد ہونے کی وجہ سے ان کی پرورش بہت لاڈ پیار سے ہوئی تھی- لاڈ پیار سے پرورش پانے والے بچوں میں خود اعتمادی کی بہت کمی ہوتی ہے مگر آپ فکر نہ کریں میں سب ٹھیک کرلوں گا- ان کو بادشاہ بن جانے دیجیے پھر میں ان کو ایسے ایسے مشورے دوں گا کہ ان پر عمل کرکے ہمارا ملک دن رات ترقی کرے گا""- شہزادہ زوہیب نے کہا-ملکہ بڑے غور سے اس کی باتیں سن رہی تھی- شہزادہ خاموش ہوا تو وہ بادشاہ سے بولی ""میں نے دیکھا ہے ہمارے زوہیب میں بس دو چیزیں نہیں ہیں""-بادشاہ نے حیرت سے پوچھا ""ملکہ وہ کونسی دو چیزیں ہیں جو ہمارے شہزادے میں نہیں ہیں""- اپنی ماں کی اس بات پر شہزادہ بھی حیرانی سے اس کا منہ تکنے لگا تھا- ملکہ پیار سے بولی ""ہمارے شہزادے میں لالچ اور حرص نہیں ہے""- اس کی بات سن کر بادشاہ اور شہزادہ زوہیب مسکرانے لگے-جب بادشاہ اور ملکہ وہاں سے چلے گئے تو شہزادہ شعیب درخت کے پیچھے سے نکل کر اس کے سامنے آگیا-""بھائی جان آپ یہاں کہاں؟"" شہزادہ زوہیب نے پوچھا-""ہم درختوں کے پیچھے کھڑے تم لوگوں کی ساری باتیں سن رہے تھے- تم نے بہت اچھا کیا کہ ابّا حضور کی بات ماننے سے انکار کردیا ورنہ ہم تو اس نا انصافی پر ان سے لڑ پڑتے- یہ آج ہم نے سوچ لیا تھا""-""لیکن یوں چھپ چھپ کر کسی کی باتیں سننا تو بہت بری بات ہے- اخلاق بھی اس کی اجازت نہیں دیتا""- شہزادہ زوہیب نے کہا-""کوئی بری بات نہیں ہے""- شہزادہ شعیب نے نفی میں سر ہلا کر کہا- ""ہمارے وزیر محترم بھی چھپ کر ابّا حضور کی باتیں سنتے ہیں- انہوں نے ہی تو ہمیں یہ بتایا تھا کہ چونکہ ہم بڑے بیٹے ہیں لہٰذا بادشاہ بننے کا حق ہمارا ہے- اسی لیے تو ہم ابّا حضور سے بات کرنا چاہ رہے تھے""-شہزادہ زوہیب کی سمجھ میں چالاک وزیر کی تمام عیاریاں آ گئی تھیں- وہ اپنے گھناونے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھائیوں میں دشمنی پیدا کرنا چاہتا تھا- اس نے فیصلہ کر لیا کہ اس عیار وزیر کا بھی بندوبست کرے گا- اس کے بعد دونوں بھائی محل میں آگئے-اگلے روز شہزادہ زوہیب نے جب وزیر کے بارے میں چھان بین کی تو دوسری باتوں کے علاوہ اس کے علم میں یہ بات بھی آئ کہ اس کے ساتھ شہر کا کوتوال بھی ملا ہوا ہے اور دونوں تخت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں- یہ تمام معلومات حاصل کر کے شہزادہ زوہیب نے سوچ لیا تھا کہ اس کو کیا کرنا ہے-کچھ دنوں بعد بادشاہ نے اپنا تخت و تاج شہزادہ شعیب کے سپرد کردیا-اسی شام شہزادہ زوہیب نے اس سے کہا ""بھائی جان اب تو آپ بادشاہ بن گئے ہیں- میری آپ سے ایک درخواست ہے کہ مجھے اپنا وزیر مقرر کر لیجئے- اگر میں وزیر بن گیا تو یہ دنیا کی پہلی مثال ہوگی کہ ایک شہزادہ وزیر بنا ہے- یہ درخواست میں اس لیے بھی کر رہا ہوں کہ آخر کبھی میری بھی تو شادی ہوگی، اپنا گھر بار چلانے کے لیے میری بھی تو کوئی نوکری ہو- نوکری نہ ہوئی تو میں اپنے بیوی بچوں کو کیا کھلاؤں گا""-""تم اس کی فکر مت کرو- ہمارے سات خزانے ہیں- ایک خزانہ ہم تمہیں بخش دیں گے""- شعیب جو اب بادشاہ بن گیا تھا شاہانہ انداز سے بولا-شہزادہ زوہیب نے کہا ""اس خیال کو دل سے نکال دیجیے کہ وہ خزانے آپ کے ہیں- وہ رعایا کی امانت ہیں- ویسے بھی میں اپنی محنت کی کمائی پر یقین رکھتا ہوں- اگر وزیر بن گیا تو آپ کو بھی یہ ہی مشوره دوں گا کہ انعامات بانٹنے کا سلسلہ ختم کردیں- اور بھائی جان ایک بات اور بھی یاد رکھیے گا کہ اگر میرے وزیر بن جانے کا بعد آپ نے میری کوئی بات یا مشوره نہیں مانا تو میں اسی وقت وزارت پر لات مار دوں گا""-شہزادہ شعیب کی سمجھ میں شائد اس کی بات نہیں آئ تھی، اس نے حیرت سے پوچھا ""وزارت پر کیا مار دو گے؟""- شہزادہ زوہیب نے ایک پاؤں آگے کر کے کہا ""یہ""-شہزادہ زوہیب وزیر بن گیا- وزیر اور کوتوال یہ صورت حال دیکھ کر جل بھن کر رہ گئے تھے- ان کا تو منصوبہ یہ تھا کہ شاہی خاندان میں بھائی بھائی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں، کشت و خون ہو اور وہ ان کی اس دشمنی کا فائدہ اٹھا کر تخت پر قبضہ کر کے مزے کرے-اگلے روز بادشاہ بن جانے کے بعد شعیب نے پہلی دفعہ دربار لگایا- رات شہزادہ زوہیب نے اسے خوب سمجھا دیا تھا کہ دربار میں کیا کرنا ہے- بادشاہ نے دربار شروع ہوتے ہی اشارے سے ایک لمبے تڑنگے اور خوبصورت نوجوان کو اشارے سے اپنی طرف بلایا- اس کا نام بہرام تھا اور وہ شہزادہ زوہیب کا بچپن کا دوست تھا- وہ بہت بہادر اور نڈر تھا- وہ درباریوں کی نشست سے اٹھا اور قریب آ کر بادشاہ کو جھک کر فرشی سلام کیا اور پھر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا-بادشاہ نے کہا ""آج سے ہم اس نوجوان بہرام کو شہر کا کوتوال مقرر کرتے ہیں اور پرانے کوتوال کو نوکری سے برخواست کرتے ہیں""-بادشاہ کا حکم سن کر وزیر کا مکار اور سازشی دوست کوتوال گھبرا کر کھڑا ہو گیا اور چلا کر بولا- ""بادشاہ سلامت- رحم کیجیے- میرا قصور کیا ہے جو مجھے اتنی بڑی سزا مل رہی ہے؟ ""-بادشاہ نے کہا ""قصور بھی بتا دیں گے مگر اس سے پہلے تمہاری گرفتاری ہوگی پھر تمہارے جرائم کا پردہ چاک کیا جائے گا""-کوتوال سمجھ گیا تھا کہ اس کی اور وزیر کی سازش پکڑی گئی ہے- وہ ہاتھ جوڑ کر بولا ""حضور میں بے قصور ہوں- یہ وزیر ہی تھا جو مجھے بہکاتا تھا""-وزیر نے جو یہ سنا تو وہ طیش میں آ کر کھڑا ہوگیا ""کیا بہکایا تھا میں نے تمہیں- جھوٹ بولتے ہو؟""کوتوال نے بھی تڑخ کر جواب دیا ""تم ہی نے تو کہا تھا کہ بادشاہ سلامت چھوٹے شہزادے کو تخت و تاج سونپ رہے ہیں، ہم بڑے شہزادے کو اپنے ساتھ ملالیں گے اور اسے بہکائیں گے کہ تخت پر بیٹھنے کا حق اس کا ہے- اس طرح دونوں بھائیوں میں دشمنی ہوجائے گی اور دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجائیں گے- اس دشمنی سے فائدہ اٹھا کر ہم تخت پر قبضہ کرلیں گے- میں بادشاہ بن جاؤں گا اور تم وزیر""-بہرام جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی کوتوال بنا تھا اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وزیر اور معزول کوتوال کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جائے، ان پر بغاوت کا مقدمہ چلے گا- حکم کی تعمیل اسی وقت ہوگئی- سپاہی انھیں زنجیروں میں جکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے-اس کے بعد بادشاہ شعیب نے دربار میں آئے ہوۓ لوگوں کی فریادیں سنیں، اور انھیں شہزادہ زوہیب کے مشوروں سے نمٹا دیا- تھوڑی دیر بعد دربار کا وقت ختم ہوگیا اور سب اٹھ کر چلے گئے-شہزادہ زوہیب وزیر بن جانے کے بعد اپنے بھائی کو اچھے اچھے مشورے دینے لگا تھا جس کی وجہ سے چند روز بعد ہی ملک میں ایک خوشگوار تبدیلی نظر آنے لگی تھی- بادشاہ اور ملکہ یہ دیکھ دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے اور خدا کا شکر ادا کرتے تھے کہ شہزادہ زوہیب کی عقلمندی کی وجہ سے سارے معاملات ٹھیک ٹھیک چلنے لگے ہیں-بچو اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کوئی بھائیوں میں نفاق ڈالنے اور ان میں جھگڑا کروانے کی کوشش کرے تو اس کی ان کوششوں کو اپنی حکمت عملی اور عقلمندی سے ناکام بنادینا چاہئے جیسا کہ شہزادہ زوہیب نے بنا یا تھا- دنیا کی ساری دولت بھی مل جائے تو وہ بھائی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں- " سستا سودا - تحریر نمبر 1444,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/saasta-sooda-1444.html," " "ڈاکٹرکمال کا ٹیلی فون - تحریر نمبر 1442",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dr-kamal-ka-telephone-1442.html,"تاجورنجیب آبادیڈاکٹر کمال الدین نے خدا خدا کرکے نوسال میں ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا۔یوں تو میڈیکل کالج کا کورس پانچ سال کا ہے،مگر ہے بڑا سخت کورس،اس لیے کمال الدین دماغ کے کچھ گٹھل تھے۔انھوں نے نوسال لگا کر یہ آخری امتحان پاس کرکے اس مصیبت سے پیچھاچھڑایا۔اب فکر پڑی کمانے کی ،چوں کہ چلتا پر زہ قسم کے آدمی تھے،اس لیے سوچا کہ تاجروں کے محلے میں بڑا سا مکان کرائے پر لے کر کام شروع کیا جائے،تاکہ امیر بیماریوں کی آمد ورفت ہونے لگے۔چناں چہ ایک بہت شان دار مکان کرائے پر لیا گیا،اسے خوب سجایا گیا،رنگ برنگی شیشیوں میں الابلا بھر کے الماری سجادی گئی اور نام چارے کو اپنے چھوٹے بھائی کو کمپاؤنڈر کے طور پر رکھ لیا گیا۔(جاری ہے)یہ مکان امیر لوگوں کے محلے میں تھا،اسی لیے نمائش کے انداز میں جی لگا کر سجایا گیا تھا،مگر ایک کسررہ گئی تھی،اس میں ٹیلی فون نہیں تھا۔آپ جانتے ہیں کہ ان دنوں بڑے بڑے ڈاکٹروں کاکام اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔چناں چہ کمال الدین نے دوڑدھوپ کرکے فون کی بھی منظوری لے لی۔ٹیلی فون آگیا،مگر ابھی کنکشن نہیں ملا تھا۔کنکشن لگانے کے لیے ٹیلی فون کے محکمے کا مستری آیا۔ڈاکٹر صاحب اس وقت اندر بیٹھے تھے۔انھوں نے مستری کو اندر آتا دیکھ کر ،یہ گمان کر لیا کہ کوئی مریض پھنسا ہے ۔اس پر اپنا رعب جمانا ضروری ہے ۔مستری کو کرسی پر بیٹھ جانے کااشارہ کرکے آپ نے ریسیور اُٹھایا اور بے کنکشن کے فون پر باتیں شروع کردیں اور آپ ہی آپ فرضی سوالوں کے جواب دینے لگے۔”جی ہاں میں ڈاکٹر کمال الدین ہوں․․․․․اوہ،سر ابراہیم!السلام علیکم ۔نواب صاحب میں اپنے مطب میں تھا،نہیں۔کرنل ہاکسر بیمار ہیں۔انھوں نے طلب کیا تھا۔ابھی ابھی وہاں سے آرہا ہوں․․․․اچھا!اچھا آپ کی طبیعت ابھی خراب ہے․․․․․․؟لیکن چھے بجے سے پہلے تو میں حاضر نہ ہو سکوں گا۔ابھی تو میں کرنل باٹ کو دیکھنے چھاؤنی جارہاہوں․․․․ہاں ہاں انھیں جگر کی کچھ شکایت ہے۔کرنل باٹ کو دیکھ کر پھر سر برہان کے ہاں جاؤں گا․․․․․․جی؟جی ہاں،جی ہاں ان کی طبیعت کچھ نا ساز ہے ۔ان کی کوٹھی سے فون پر فون آرہے ہیں ،مگر کیا کروں مجبور ہوں،وعدہ خلافی بھی تو نہیں کر سکتا․․․․․کیا فرمایا؟․․․․․وہاں سے پھر کہاں جاناہے؟․․․․․؟یہ نہ پوچھیے۔ڈاکٹروں کی زندگی بھی بڑی مصروف زندگی ہوتی ہے۔ہاں عرض تو کر رہاہوں۔سر برہان کو دیکھ کر پھر وزیر اعظم صاحب کی کوٹھی جاؤں گا۔اُن کا کوئی دوست مجھ سے علاج کرانے کی خاطر کئی دن سے اُن کے گاؤں سے آیا ہوا ہے ۔قبلہ یہ سب کچھ صحیح !مگر یہ ہمارا پیشہ ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی کو انکار نہیں کر سکتے۔کوئی بلاتا ہے تو جانا ہی پڑتا ہے ۔جی؟․․․․․․کیا فرمایا؟نو بجے رات؟بالکل ٹھیک مجھے بھی یہ ہی ٹائم سوٹ کرے گا،کیوں کہ پونے دس بجے رات کا وقت علاؤ الدین صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس کے لیے مقرر ہے ۔اُن کی ناک میں پھر غدود اُبھر آئے ہیں۔“ڈاکٹر کمال یہ فرضی باتیں اس لیے کررہے تھے کہ آنے والا نوواردبیمار رعب میں آجائے گا اور انھیں معقول فیس اس سے وصول ہوجائے گی۔چناں چہ بے کرنٹ کے فون پر گپیں ہانک کر آپ نووارد سے بولے۔”جناب معاف کیجیے گا،آپ کو بڑی دیر ہوگئی،کیا کروں یہ اونچے طبقے کے بیمار سانس ہی نہیں لینے دیتے ،بڑے ہیں،ان سے بے پروائی بھی تو نہیں برتی جاسکتی۔اچھا اب فرمائیں آپ کو کیا شکایت ہے ۔“نو واردنے جواب دیا:”جناب میں اللہ کے کرم سے بیمار نہیں۔نہ علاج کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ٹیلی فون کے محکمے کا مستری ہوں۔آپ نے سپر نٹنڈنٹ سے کنکشن کی درخواست کی تھی،میں اسی لیے حاضر ہوا ہوں ،تاکہ آپ کے فون کو چالو کردوں۔“ " لڑکا اور سیب کا درخت - تحریر نمبر 1441,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/larka-or-apple-ka-darakhat-1441.html,"پرانے وقتوں کی بات ہے ،کسی جگہ ایک بہت بڑا سیب کا درخت تھا۔ایک چھوٹا سا لڑکا ہر روز وہاں آکر درخت کے ساتھ کھیلا کرتا،درخت پر چڑھ جاتا،بہترین سیب توڑ کر کھاتا اور درخت کی گھنی چھاؤں میں سوبھی جاتا۔وہ درخت سے محبت کرتا اور درخت کو بھی اس سے محبت تھی۔لڑکا بڑا ہو گیا،اب وہ ہر روز درخت کے پاس کھیلنے نہیں آتا،مگر کبھی کبھی ملنے ضرور آتا۔نیچے بیٹھ کر خوب باتیں کرتا اور تھوڑا بہت کھیل بھی لیتا۔ایک مرتبہ لڑکا کافی عرصہ بعد درخت کے پاس آیا،اداس لگ رہا تھا۔درخت نے کہا،”آؤ کھیلتے ہیں․․․․․“لڑکے نے بے رخی سے جواب دیا،”میں بچہ نہیں رہا۔اب میں تمہارے ساتھ مزید نہیں کھیل سکتا!مجھے کھلونے چاہئیں جس کے لئے مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔(جاری ہے)“”مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہے ۔لیکن ایک کام کرو،میرے سارے سیب لے کر بیچ آؤ،اچھے خاصے پیسے مل جائیں گے۔“لڑکا جذباتی ہو گیا۔سارے سیب توڑے اور خوشی خوشی چلا گیا۔اس کے بعد وہ کافی عرصہ تک دوبارہ نہیں آیا ۔درخت اداس ہو گیا۔وقت گزرتا گیا․․․․اس بار لڑکا ایک جوان آدمی کے روپ میں لوٹا۔درخت اسے دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھا۔”آؤ،میرے ساتھ کھیلو!“درخت بہت مسرور تھا۔”میرے پاس کھیلنے کے لئے وقت نہیں ہے۔مجھے اپنے خاندان کے لئے کام کرنا ہے ،ان کے لئے گھر بنانا ہے ۔کیا تم میری مدد کرسکتے ہو؟“”میرے پاس گھر تو نہیں ہے ،مگر ہاں ،تم ایسا کر و ،میری ساری شاخیں کاٹ لو اور اپنا گھر بنالو۔“نوجوان نے ساری شاخیں کاٹیں اور خوشی خوشی چلا گیا۔آج درخت بہت خوش تھا کہ اس نے اپنے دوست کی مدد کی تھی۔لیکن شاخیں کاٹنے کے بعد طویل عرصہ تک وہ دوبارہ ملنے نہیں آیا ۔درخت ایک مرتبہ پھر اداس ہو گیا۔گرمیوں کی ایک دوپہر تھی،اچانک وہ لڑکا پھر درخت سے ملنے آیا۔درخت خوشی سے جھوم اٹھا،اس کا دیرینہ دوست سامنے کھڑا تھا۔”آؤ میرے ساتھ کھیلو۔“درخت نے کہا۔”میں بوڑھا ہو رہا ہوں،ذہنی طور پر تھک گیا ہوں۔اب میں سمندری سفر پر جانا چاہتا ہوں ۔یہ میرے بچپن کا خواب ہے ۔کیا تم میری کچھ مدد کر سکتے ہو؟“درخت نے خلوص سے کہا،”تم میرا تنا استعمال کرلو۔اس سے بہت اچھی کشتی بن جائے گی۔پھر تم جہاں چاہو چلے جانا۔“اس نے تناکاٹا اور عرصہ دراز کے لئے لاپتہ ہو گیا۔برسوں بعد آج وہ درخت سے ملنے آخری بار آیا تھا۔درخت نے اداسی مگر شفقت سے کہا:”مجھے بہت افسوس ہے کہ میں سیبوں سے تمہاری خاطر مدارت نہیں کر سکتا۔میرے پاس ایک بھی سیب نہیں ہے۔“”کوئی بات نہیں ۔ویسے بھی اب میرے منہ میں دانت نہیں رہے کہ میں سیب کھا سکوں۔“”میرے پاس تنا بھی نہیں رہا جس پر تم اوپر چڑھ جایا کرتے تھے۔“”اس کام کے لئے بھی میں کافی بوڑھا ہو چکا ہو۔“اس نے اداسی سے مسکراتے ہوئے کہا۔”میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیں ہے سوائے مردہ جڑوں کی ڈنڈیوں کے۔“درخت نے اداسی سے کہا۔”مجھے اب کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ،آرام کے لئے ایسی ہی جگہ کی ضرورت ہے ۔بھاگتے بھاگتے تھک گیا ہوں میں۔“آدمی وہیں ڈھیر ہو گیا۔درخت نے خوش دلی سے کہا،”شاباش! آجاؤ میری آغوش میں ۔آرام کرنے کے لئے اس سے اچھی جگہ اور کون سی ہو سکتی ہے ۔“آج درخت بہت خوش تھا۔یہ ہم سب کی کہانی ہے ۔والدین درخت کی طرح ہیں ۔جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ خوب کھیلتے ہیں مگر وہ جب بڑے ہوجاتے ہیں تو بس اس وقت ان کے پاس آتے ہیں جب اولاد کو ان کی کوئی ضرورت ہوتی ہے یا وہ کسی مصیبت میں ہوتے ہیں ۔اس کے باوجود چاہے کچھ بھی ہوجائے ،والدین ہر وقت کچھ نہ کچھ دینے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔اس لئے کہ ان کی اولاد خوش رہے۔والدین․․․․ہم والدین․․․․․ " تصویر کے پیچھے - تحریر نمبر 1440,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tasweer-ke-peechay-1440.html," " آئیں گرمیوں کی چھٹیاں ٹھنڈی اور پر فضا مقامات پر گزاریں - تحریر نمبر 1439,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aayeen-garmiyon-ki-chuttiyaan-thandi-or-purfiza-maqamat-per-guzarain-1439.html,"جویریہ بنت ربانیموسم سرما کی شدت جیسے ہی ختم ہوئی ،موسم پھر بدل گیا ہے کل تک موسم سرما کی شدت نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا پھر آہستہ آہستہ موسم بدلنے لگا اور گرمیوں نے انگڑائیاں لینی شروع کر دیں ،یہ بھی اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے اس خطہ پاک کو ہر قسم کا موسم عطا کیا ہے کبھی سردی ہے تو کبھی گرمی ،اسی طرح خزاں ہے تو بہار بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔اس پر شاعر نے کیا خوب کہا۔موسم نے لی پھر انگڑائیسردی بھاگی گرمی آئیپیارے بچو،اب موسم گرما کی سکولوں میں چھٹیاں ہوچکی ہیں،ایک طرف سورج آگ برسا رہا ہے دوسری طرف بچے صبح سویرے ناشتہ کرتے ہی گرمی کی چھٹیوں کا کام کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں ،بہن بھائیوں ،کزنوں اور دوستوں جلدی کام ختم کرنے کی ایک ریس لگ گئی ہے ،ہر ایک چاہتا ہے وہ یہ میچ جیت لے ،کام کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ کام ٹھیک ہونا چاہیے اور اساتذہ کو غلطیوں کی شکایات نہیں ہونی چاہیے،چھٹیوں کا کام دراصل پہلے سے پڑھے ہوئے کورس کا اعادہ اور نئے اسباق پر از خود مطالعے کی ترغیب ہے ،موسم گرمامیں دوپہر میں آگ برس رہی ہوتی ہے ،اس لئے پھول سے بچوں کی صحت کا خیال کرتے ہوئے محکمہ تعلیم ہر سال موسم گرما کے دنوں میں دوماہ کی چھٹیاں اس لئے دے دیتے ہیں ،تاکہ بچوں کو اس دوران آرام اور کھیل کود کے ساتھ اپنی تعلیم پر توجہ کا بھی موقع ملے،یہی وجہ ہے بچے چھٹیوں کا کام بھی بڑی توجہ سے کرتے ہیں ،کیونکہ جو بچے اپنا کام دلجمعی سے کرتے ہیں وہ آگے چل کرترقی بھی کرتے ہیں ،بچوں کو چاہیے گرمی کے موسم میں ایک ایسا روزنامہ ترتیب دے لیں،جس میں سارے دن کا شیڈول لکھ لیا جائے،کہ کس وقت لکھنا پڑھنا ہے اور کب غیر نصابی سرگرمیاں انجام دینی ہے۔(جاری ہے)جو بچے صبح سویرے اٹھ کر سیر کرتے ہیں اور پھر ناشتہ سے فارغ ہو کر سکول کے کام کو مکمل کرتے ہیں وہ زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوتے،اس لئے ان چھٹیوں میں اپنا معمول طے کرلیں گے تو یہ آپ کے لئے بہتر ہو گا اور جب سکول کھلیں گے تو آپ کو اچھے کام کی وجہ سے شاباش بھی ملے گی ،اس سے بڑھ کر انعام اور کیا ہو گا۔اس لئے بچو،ان چھٹیوں میں آرام بھی کریں اگر ہو سکے تو والدین کے ساتھ کسی پر فضا مقام کی سیرکو بھی جائیں کہ ہمارے وطن کے شمالی علاقہ جات اپنے دلفریب مناظر کی وجہ سے ہمیشہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں ،ہمارے ملک میں بے شمار سیاحتی مقام ہیں ،ان جنت نظیر خطوں میں چھٹیاں گزارنے کا اپنا مزہ ہے،بچے اکثر اپنے سفر کی روداد بھی مضامین کی صورت میں لکھتے ہیں ،لیکن سب سے ضروری کام پڑھائی ہے اس کی طرف توجہ دیگر کاموں سے زیادہ دینے کی ضرورت ہے ،کیونکہ بچے ہی قوم کا مستقبل ہیں ۔اگر سارا وقت کھیل کود میں ضائع ہو گیا تو پھر آگے چل کر پچھتاناپڑے گا،اور وہی ترقی کرتے ہیں جو وقت کی قدرکرتے ہیں،آپ کو سکول میں جو کام ملا اس کو توجہ سے بروقت ختم کرنے سے آپ بھی خوشی محسوس کریں گے،اس لئے جب سب بچوں کے سامنے آپ کو شاباش ملے گی تو آپ فخر محسوس کریں گے اور آپ کے والدین اور اساتذہ بھی خوش ہوں گے۔ " پری کی بیٹی۔۔۔تحریر:مختاراحمد - تحریر نمبر 1438,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pari-ki-beti-1438.html," " "غرورکی سزا․․․․․․ملا کی ذہانت - تحریر نمبر 1437",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/garoor-ki-saza-mulla-ki-zehanat-1437.html,"ساجدکمبوہ․․․․․․پھول نگرپیارے بچو آپ نے ملا نصیر الدین کا نام ضرور سنا ہو گا اور اُن کے کارنامے بھی پڑھے ہونگے آئیے آپ کو ان کی ذہانت کے دو کارنامے اور پڑھائیں۔ایک بار بادشاہ نے جنگ جیتی اس خوشی میں انہوں نے مال غنیمت تقسیم کیا۔ملا کے حصے میں بھی ہزاروں دینار آئے پس انہوں نے تجارت کے ساتھ ساتھ سیر کاپروگرام بنایا۔ایک بار وہ دوسرے ملک گئے اور اپنا سامان سرائے میں رکھ کر شہر کی سیر کررہے تھے ایک جگہ بہت سے افراد جمع تھے وہ ان میں گھس گئے کہ دیکھیں کیا ہورہا ہے ۔انہوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان جس نے اعلیٰ قسم کی پوشاک پہنی ہوئی تھی وہ ایک بڑھیا پر برس رہا تھا کہ اس نے اس کے قیمتی کپڑوں پر گھی گرادیا تھا۔وہ بوڑھی عورت کہہ رہی تھی بیٹا میں نے جان بوجھ کر گھی تھوڑا گرایا وہ برتن اتارتے ہوئے گر گیا تھا۔(جاری ہے)مگر نوجوان چیخ وپکار کررہا تھا کہ میرا لباس خراب ہو گیا میں نے ایک وزیر کی دعوت پر جانا تھا اب کیسے جاؤں گا۔ملا آگے بڑھے اور اس جوان سے کہا ”بھئی ضعیف عورت ہے اسے معاف کردو۔تم لباس بدل․․․․․․میں نے یہ پوشاک اصفہان سے منگوائی ہے اس کی قیمت سودینار ہے یہ بیکار ہوگئی ہے مجھے سودینار چاہئے۔بیٹا میں غریب عورت ہوں اگر میرے پاس اتنے پیسے ہوتے تو میں گھی نہ بیچ رہی ہوتی۔اس کا فیصلہ قاضی سے کرواتے ہیں۔ملانے اچانک کہا اس نے کہا چلوقاضی کے پاس چلتے ہیں جو فیصلہ ہو گا منظور ہے مجبوراً ضعیف عورت کو بھی قاضی صاحب کے پاس جانا پڑا۔قاضی صاحب نے ساری بات سنی اور کہا غلطی تو ضعیف عورت کی ہے اب تم کیا کہتے ہوقاضی کا اشارہ ملانصیر الدین کی طرف تھا۔قاضی صاحب اس ضعیف عورت کی غلطی سے اس کی پوشاک خراب ہوگئی اس کا ہرجانہ میں دیتا ہوں یہ لیں 100دینار۔اس نوجوان نے جلدی سے دینار اٹھالیے۔اس پر ملانے کہا قاضی صاحب میں نے اس پوشاک کی قیمت ادا کردی اب نوجوان پوشاک میرے حوالے کردے۔نوجوان نے کہا کیوں حوالے کروں؟اس پر قاضی صاحب نے کہا اس شخص کی بات ٹھیک ہے۔اب یہ پوشاک اس کے حوالے کردو۔وہ نوجوان کہنے لگا میں ایسے میں گھر کیسے جاؤں گا؟ملا نے کہا یہ میرامسئلہ نہیں۔قاضی نے کہا اگر تم یہی پوشاک خریدنا چاہتے ہودوسودینار اس (ملا )کو دو۔وہ فوراً راضی ہو گیا اس نے اپنے خادم سے سودینار لے کر ملا کے حوالے کیے۔ملا نے پچاس دینار اس عورت کو دےئے اور پچاس اپنی عباء کی جیب میں ڈالے اور کہا غرور کی یہی سزا ہے ورنہ یہ معاملہ راضی خوشی بھی حل ہو سکتا تھا۔اس مقدمے کا شہرہ بادشاہ کے دربار میں پہنچا اُس نے فوراً ملا کو اپنے دربار میں طلب کیا۔جب ملا بادشاہ کے محل کے سامنے پہنچا اس نے دیکھا کہ ہزاروں لوگ دائرے میں کھڑے تھے جو نہی ملا آگے بڑھے ایک ضعیف بوڑھا شخص دھکالگنے سے گرگیا اور ہاتھوں،گھٹنوں کے بل اپنے لاٹھی ڈھونڈنے لگا۔ملانے اسے سہارا دیا اس نے دیکھا کہ ایک نوجوان بلند آواز میں کہہ رہا تھا بادشاہ سلامت! آپ کو دی ہوئی مہلت ختم ہوگئی ہے میری پہیلی کا جواب نہیں ملا۔بادشاہ نے کہا سچی بات ہے ہم نے بہت کوشش کی مگر جواب تلاش نہ کرسکے تم ایسا کرو کہ اپنی پہلی دوبارہ دھراؤ اگر کسی سے جواب نہ بن پڑا ہم تمہیں انعام و اکرام سے نوازیں گے اور دربار میں جگہ دیں گے۔اس نے مجمع کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میری پہلی بہت سادی سی ہے وہ کیا ہے جس کی صبح چار ٹانگیں ہوتی ہیں،دوپہر کو دو اور شام کو تین ٹانگیں ہوتی ہیں سبھی سوچ میں پڑگئے۔ملا کے ذہن میں جھما کا ہوا اس نے جلدی سے بوڑھے کو پکڑا اور میدان میں لے آیا۔بادشاہ سلامت اجازت ہو اس پہلی کا جواب دوں۔ہاں ہاں کیوں نہیں!یہ بڑا امتحان ہے ۔بادشاہ سلامت اس کا جواب میں آپ بھی ہو سکتے ہیں مگر اس وقت اس کا جواب یہ بوڑھا ہے ۔کیا مطلب ہم سمجھے نہیں ۔بادشاہ نے حیرانگی سے کہا۔وہ ایسے بادشاہ سلامت!جب انسان بچہ ہوتا ہے تو وہ چار ٹانگوں پر چلتا ہے اور جب جوان ہوتا ہے دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور بڑھاپے میں تین ٹانگوں پر چلتا ہے ۔پہیلی میں صبح دوپہر اور شام کہا گیا۔بادشاہ سلامت نے اس نوجوان سے پوچھا اس نے ہاں میں جواب دیا۔ہزاروں لوگوں نے تالیاں بجا کر ملا کو خراج عقیدت پیش کیا۔بادشاہ نے بہت انعام واکرام سے نوازا جب اسے پتہ چلا کہ یہ پھولنگر سے آیا تو بادشاہ نے پھولنگرکے بادشاہ کے لئے بھی ایک تلوار بھیجی جس کا دستہ یا قوت کا تھا۔یہ اب بھی پھولنگرکے بادشاہ کے پاس ہے ۔بادشاہ نے ملا کو انعام واکرام سے نوازا جس نے دوسرے ملک میں اپنے ملک کی عزت بڑھائی۔ " حقیقی خوشی - تحریر نمبر 1435,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/haqeeqi-khushi-1435.html," " عجیب عجیب درخت - تحریر نمبر 1434,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ajeeb-ajeeb-darakht-1434.html,"رانا محمد شاہددرختوں کی افادیت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔خصوصاً اس جدید دور میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں میں ان کی ضرورت واہمیت بڑھ گئی ہے ۔یہاں چند عجیب وغریب درختوں کے بارے میں دل چسپ معلومات سے آگاہ کیا جارہا ہے۔روٹی کا درخت:یہ دنیا کی حیرت انگیز نعمتوں میں سے ایک ہے۔یہ بحرا لکاہل کے جزیروں پر پایا جاتا ہے ۔ان درختوں پر گول گول پھل لگتے ہیں،جوروٹی کی طرح کے ہوتے ہیں ۔اس پھل کا وزن تقریباً ڈیڑھ کلو ہوتا ہے ۔ہر سال آٹھ ماہ تک برابر اس سے یہ پھل توڑے جا سکتے ہیں ۔ان جزائرکے لوگ اسی قدرتی روٹی پر گزربسر کرتے ہیں ۔ہم لوگ پہلے آٹا گوندھتے ہیں،پھر آگ پر روٹی پکاتے ہیں ،جب کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس درخت کے ذریعے پکی پکائی روٹی عطا کی ہے ،جو انھیں بغیر کسی محنت کے مل جاتی ہے ۔(جاری ہے)اس درخت سے ان لوگوں کو اور بھی بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ان کے تھال اس درخت کی لکڑی کے بنے ہوتے ہیں۔اس کی چھال سے یہ لوگ اپنے کپڑے بناتے ہیں۔اس درخت کے تنے سے یہ اپنے ڈونگے بناتے ہیں۔پانی برسانے والا درخت:انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے،جو پانی برساتا ہے ۔دراصل یہ آبی بخارات کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اس درخت کے نیچے کوئی بالٹی وغیرہ رکھ دی جائے تو تھوڑی دیر میں پانی بھر جاتا ہے ۔لوگ اس پانی کو شوق سے پیتے ہیں،کیوں کہ یہ عام پانی سے میٹھا ہوتا ہے۔جڑواں درخت:آپ کو یہ سن کر یقینا حیرت ہوگی کہ کیلی فورنیا میں آسٹرچ کا ایک عجیب عجیب جڑواں درخت موجود ہے،جودیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے ۔اس درخت کے تنے قدرے فاصلے پر ہیں،جب کہ باقی شاخیں آپس میں جُڑی ہوئی ہیں۔گھومنے والا درخت:وسطی افریقا کے”باسطی“نامی گاؤں میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے ۔جوگھوم سکتا ہے۔تندوتیز طوفان اور بارش کے دوران دوسرے درختوں کی جڑیں اُکھڑ جاتی ہیں،لیکن اس درخت کی جڑیں چاروں طرف گھومتی ہیں ۔یوں یہ درخت ہوا کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔مقامی لوگ درخت کی اس صورت حال کو دیکھ کر اسے ایک”مقدس درخت“قرار دیتے ہیں۔روشنی والا درخت:جاوا،انڈونیشیا میں ایک درخت موجود ہے ،جس کی اونچائی تقریباً سات فیٹ ہے۔یہ درخت رات کے وقت چمکنے لگتا ہے اور کافی دور سے اس کی روشنی نظر آتی ہے۔سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کے نیچے بیٹھ کرکوئی رسالہ یا کتا ب آسانی سے پڑھی جاسکتی ہے۔بالوں والادرخت:آسٹریلیا میں ایک ایسا درخت پایاجاتا ہے،جس کے پتے ریشے دار ہوتے ہیں،جو بالکل انسانی بال جیسے ہوتے ہیں۔انسانی بالوں جیسے پتے ہونے کی وجہ سے وہاں کے لوگ اسے”ہےئر ٹری“یعنی بالوں والا درخت کہتے ہیں۔لچک دار درخت:بنگال کے اطراف میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے ،جو طلوع آفتاب کے ساتھ بیدار ہوتا ہے اور سورج کے ساتھ ساتھ زمین سے اُٹھ کر سیدھا کھڑا ہوجاتا ہے ،لیکن جیسے جیسے سورج ڈھلتا جاتا ہے،یہ درخت بھی جھکنے لگتا ہے اور غروب آفتاب کے ساتھ ہی پوری طرح جھک جاتاہے۔مسافر دوست درخت:یہ درخت مشرقی افریقا کے قریب جزائرمڈغاسکر میں پایا جاتا ہے ۔یہ درخت ایک بلند وبالاستون کی شکل کا ہوتا ہے ،جس میں24عدد پنکھا نما پتے ہوتے ہیں۔یہ درخت مسافروں کے لیے کار آمد اور مفید ہونے کی وجہ سے TRAVELLER TREEکہلاتا ہے ۔ہر پتے کے نیچے ایک پیالہ نما حصہ ہوتا ہے ،جس پر وہ پتا ہر وقت سایہ کیے رہتا ہے ۔اس میں گلاس بھر نہایت میٹھاپانی ہوتا ہے ۔مسافر اس پیالے میں چھوٹا ساسوراخ کرکے پانی حاصل کرتے اور اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ڈبل روٹی کے ذائقے والا درخت:بریڈ فورڈجزائر غریب الہند میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے ،جس کی شاخوں کو چھلکا اُتار کر ڈبل روٹی کی طرح کاٹ کر کھایا جاتا ہے ۔اس کی شاخوں کا مزہ بھی ڈبل روٹی جیسا ہی ہوتا ہے۔موم بتی کی شکل کا درخت:پانامہ کے علاقے میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے ،جس کی شکل موم بتی سے ملتی جلتی ہے ۔یہ چار فیٹ کے قریب اونچا ہوتا ہے اور اس کے رس سے موم بتی بنائی جاتی ہے۔ " "عید کے جوڑے - تحریر نمبر 1432",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/eid-k-jore-1432.html,"صوفیہ یزدانیعیدالفطر میں چند روز باقی رہ گئے تھے۔عاتکہ‘حمیدہ‘ثریا اور بھائی جان سلیم کے کپڑے سل کر آچکے تھے۔امی اور ابو نے نئے جوڑے نہیں سلوائے تھے ۔کچھ عرصہ قبل خانہ زاد بہن کی شادی ہوئی تھی جس میں انہوں نے دونئے جوڑے سلوائے تھے۔”عاتکہ بیٹا!یہ میرے دونوں جوڑے استری کرکے رکھ دیں ۔نیلا جوڑا عید کی نماز اور بادامی دوسرے دن پہن لوں گی۔“امی نے عاتکہ سے کہا۔ابونے اپنے دونوں سوٹ ڈرائی کلینز سے استری کروالئے تھے۔امی عید کے لئے ایک نیاسوٹ تو سلوالیں ۔ثریا نے امی سے کہا۔بیٹا!عید کے لئے جوڑے میرے پاس ہیں تیسرا کوئی جوڑا سلواکرمیں پیسے ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ہمیں عید میں فضول خرچی والا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے ۔(جاری ہے)آپ بہن بھائیوں کے پاس عید میں پہننے والے کپڑے نہیں تھے۔اس لئے آپ کو بنوادےئے ہیں۔“امی نے بات مکمل کی تو ثریا کہنے لگی۔” ہمیں ہر موقع فضول خرچی سے بچنا چاہئے ورنہ کئی لوگ توجمعة الوداع اور چاند رات کے لئے بھی الگ جوڑے بناتے ہیں اور صرف نئے کپڑے ہی نہیں بلکہ چاند رات کو تو ہمارے ہاں بازاروں اور میڈیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے۔“ثریا کی باتیں سن کر عاتکہ نے بھی اپنی کہی ہاں”ثریا!مجھے یاد آیا کہ میری دوست نیہانے گزشتہ سال چاند رات کے لئے بھی قیمتی جوڑے بنوائے تھے۔اس میں تو کسی غریب بچے کے عید کے جوڑے بنائے جاسکتے تھے۔“گفتگو جاری تھی کہ بھائی جان عصر کی نماز پڑھ کر ہاتھ میں اخبار لئے گھر میں داخل ہوئے۔”السلام وعلیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بھائی جان“۔تینوں بہنوں نے انہیں ایک ساتھ سلام کیا۔بھائی جان نے بھی مسنون طریقے سے جواب دیا۔ان کے ہاتھ میں اخبار کا رنگین صفحہ تھا۔بہنوں کو عید کی باتیں کرتا دیکھ کر انہوں نے با آواز بلند ایک مضمون کی سرخی پڑھی۔”کراچی میں مخیرحضرات کی جانب سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر افطاری کا اہتمام ‘ضرورت مندوں میں عید کے کپڑے بھی تقسیم کئے گئے“۔یہ نیکی تشہیر کے لئے نہیں کی گئی تھی اس لئے اس مضمون میں کہیں کسی کانام نہیں تھا ۔بھائی جان نے بلند آواز سے کہا”رمضان المبارک کا موسم بہار ہے۔روزہ داروں کو روزہ کھلوانا اور غریبوں کو رمضان میں راشن اور عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کے لئے عید کے جوڑے سلوا کر دینا بہت بڑی نیکی ہے ۔ہمیں بھی اس میں حصہ لینا چاہئے“۔بہنوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی ۔فرزانہ آپی ہاتھ میں چاول کا ٹرے لئے ان کے پاس آگئیں۔”آج آپ سب کے لئے مٹر والے چاول پکائے جائیں گے“۔ان کے گھر میں افطاری کھجور اور پانی سے کرکے مغرب کی نماز کے بعد کھانا کھایا جاتا تھا۔اس طرح انہیں رمضان المبارک کے لئے الگ سے راشن خریدنے یا افطاری کا اہتمام کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی اور ساتھ ہی قرآن پاک پڑھنے کا وقت بھی مل جاتا تھا۔امی نے اس سال گھر میں خواتین کے لئے تروایح پڑھنے کا اہتمام بھی کیا تھا ۔امی ان کی باتیں سن کر کچن سے باہر آئیں اور کہنے لگیں”نیکی میں دیر کیسی․․․․․․؟آپ سب اپنے عید کے جوڑوں میں سے ایک ایک جوڑا کسی ضرورت مند کو دے دیں۔اللہ تعالیٰ رمضان میں نیکی کا اجر بڑھا کر دیتے ہیں “۔تھوڑی ہی دیر میں سب نے اپنا عید کا ایک ایک سوٹ لا کر امی کے سامنے رکھ دیا۔ " روزہ رکھنے سے پہلے - تحریر نمبر 1431,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/roza-rakhne-se-pehle-1431.html," " "لالچی سوداگر - تحریر نمبر 1429",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lalchi-sodagar-1429.html," " "گھریلو لائبریری - تحریر نمبر 1428",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gharelo-library-1428.html,"محمد نبی پشینییہ زیادہ پرانی بات نہیں،اس زمانے میں بیشتر گھرانوں میں قصے،کہانیاں اور نظمیں سنائی جاتیں تھیں اور پہیلیاں بوجھنے کا رواج تھا۔مذہبی اور تاریخی قصے،بادشاہوں ،جنوں اور پریوں کی کہانیاں عام تھیں،جن سے بچوں میں دین اور ادب کا ذوق وشوق پیدا ہو جاتا تھا۔آج ہم مہنگا اور مضرِ صحت کھانا خرید لیتے ہیں ،نمودونمایش میں رقم لٹا دیتے ہیں ،لیکن ہم اپنے گھر میں ایک چھوٹا ساکتب خانہ(لائبریری )نہیں قائم کرتے۔ایک وقت وہ تھا،جب اکثر گھروں میں بھی تھوڑی بہت کتابیں ضرور ہوتی تھیں۔صرف حیدر آباد دکن میں چار ہزار کتب خانے تھے۔ڈاکٹر سلیم اختر کہتے ہیں:”گھر کے لوگ پانچ ہزار کا کھانا شوق سے کھالیں گے،مگرپانچ سو کی کتاب نہیں خریدیں گے۔(جاری ہے)“محترم رضا علی عابدی لکھتے ہیں:”ایک زمانے میں گھر گھر کتب خانے ہوا کرتے تھے ۔گھر کے ایک طاق میں کچھ کتابیں ضرور موجود ہوا کرتی تھیں۔خوش نویس راتوں کو چراغ کی روشنی میں کتابیں نقل کرکرکے بیچا کرتے تھے۔“خلافت اُمیہ ،عباسیہ اور اسپین(اندلس)میں کوئی ایسا گھر اور کوئی ایسی مسجد نہیں تھی،جہاں کتب خانہ نہ ہو،یہاں تک کہ جس شخص کے گھر میں کتب خانہ نہ ہو ،لوگ ایسے گھرانے کو پسند نہیں کرتے تھے۔نوابین اور بادشاہ بھی اپنے ذاتی کتب خانے رکھتے تھے۔باپ اپنی بیٹی کا رشتہ ،دامادکے گھر کی لائبریری دیکھنے کے بعد کیا کرتا تھا،تاکہ پتاچلے کہ میرا ہونے والا داماد کس ذہن،سوچ وفکر کا مالک ہے اور گھر کاماحول کتنا علمی وروحانی ہے ،مگر اب ہم پانچ ہزار کا جوتا خریدکراسے سستاسمجھتے ہیں،لیکن تین سوروپے کی کتاب کو ہم مہنگا کہتے ہیں ۔یعنی قوم کو جوتے زیاد ہ پسند ہیں۔اپنے خاندان اور آنے والی نسلوں کو پڑھا لکھا،تعلیم یافتہ،انسان بننا اور باشعور دیکھنا چاہیں تو گھر میں لائبریری ضرور قائم کریں ۔اس سے گھر کا ماحول علمی بن جاتا ہے ۔ہم جس ماحول میں آنکھ کھولتے وہاں کا اثر ہماری شخصیت کی تعمیر میں نمایاں ہوتاہے۔ہم جس طرح گھر کا سودا خریدنے بازار جاتے ہیں،اسی طرح کتابوں کی دکانوں پر بھی جانا چاہیے۔گھر کے تمام افراد کے لیے مفید کتابوں کی خریداری کرنی چاہیے۔گھرمیں لائبریری کی ابتداکس طرح کریں؟اپنے گھر کے کسی گوشے میں دس بارہ کتابوں سے لائبریری کی ابتدا کریں اور اس لائبریری کو ایک خوب صورت سانام دے رہیں۔ہر مہینے اپنے ذوق کے مطابق دو تین معلوماتی کتابوں کا اضافہ کرتے رہیں ۔اس طرح آپ کے پاس ہر موضوع پر کتاب موجود ہوگی۔ہر مہینے کتابوں کی خریداری کے لیے کچھ رقم مختص کیا کریں۔کتب خانے کا ماحول پر سکون ہوتو بہت ہے۔گھر میں قرآن کی تفاسیر کے ساتھ دیگر اسلامی ،تاریخی ،ادبی اور سائنسی کتابیں ہوں۔بچوں کی تربیت کے لیے اسلامی واصلاحی کہانیاں ،واقعات ،سائنسی ،معلوماتی کتابیں بھی ہوں۔ہوسکے تو گھر کی لائبریری کے لیے روزانہ ایک اخبار لیا کریں۔اخبار میں کالم نگاروں کے خیالات سے آگاہ ہوں اور دیگر تحریرں بھی پڑھیں۔ترقی یافتہ ممالک میں لائبریریوں کا استعمال اس قدرعام ہے کہ چھوٹے بچوں کے لیے بھی پبلک لائبریریاں موجود ہیں ۔اگر ہم مطالعے کے عادی ہوجائیں تو ہم دوسروں سے بہت اعتماد کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں اور دلائل اور حوالے بھی دے سکتے ہیں ۔اس طرح دوسروں کو اپنی بات آسانی سے سمجھا سکتے ہیں۔ " تین لاکھ کی چوری - تحریر نمبر 1427,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/3-lakh-ki-chori-1427.html,"مختار احمد (اسلام آباد)منصور اور منیر شامی کی بہنیں بانو اور شہلا ٹاور ہاؤس گرائمر اسکول میں پڑھتی تھیں- یہ ایک پرائیویٹ اسکول تھا اور اس کو بیگم نایاب نامی ایک خاتون چلاتی تھیں- وہ اس کی مالک بھی تھیں اور پرنسپل بھی-وہ ایک بہت اچھی اور نیک دل خاتون تھیں- ان کا یہ اسکول پلے گراؤنڈ سے میٹرک تک تھا- اس کا نظم و نسق اور پڑھائی اتنی اچھی تھی کہ لوگ دور دور سے اپنے بچوں کو اس اسکول میں پڑھنے کے لیے بھیجتے تھے-میڈم نایاب ایک سمجھدار خاتون تھیں اور یہ جانتی تھیں کہ اگر ان کے اسکول کا اسٹاف خوشحال ہوگا تو وہ اپنی ذمہ داریوں کی طرف زیادہ دھیان دے گا- اس لیے انہوں نے اسکول میں کام کرنے والی ٹیچروں اور دوسرے اسٹاف کی بہترین تنخواہیں مقرر کی تھیں جس کی وجہ سے وہ لوگ بہت خوش تھے اور دل لگا کر اپنے فرائض انجام دیتے تھے- یہ ہی وجہ تھی کہ اس اسکول میں پڑھنے والے بچے بہت زیادہ قابل اور ذمہ دار تھے-ایک روز بانو اسکول سے گھر آئی تو وہ گھبرائی ہوئی سی لگ رہی تھی- اس نے خاموشی سے کتابوں کا بیگ ایک طرف رکھا، یونیفارم بھی تبدیل نہیں کیا اور ڈرائنگ روم کی کھڑکی کے پاس کھڑی ہو کر کچھ سوچتے ہوئے باہر پودوں کو دیکھنے لگی-منصور ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھا ہوا تھا- اس نے بانو کو اداس دیکھا تو بولا- ""بانو بیگم- کیا ٹیسٹ میں مارکس کم آئے ہیں جو اتنا اداس نظر آ رہی ہو- ہر وقت کھیل کود میں لگی رہو گی تو یہ ہی ہوگا- خیر اب تم فکر مت کرو- میں آج سے روز شام کو تمہیں پڑھایا کروں گا""-""منصور بھائی یہ بات نہیں ہے""- بانو اس کے قریب آ کر بیٹھ گئی- ""ہماے اسکول میں ڈاکہ پڑ گیا ہے- ڈاکو میڈم نایاب کے آفس کے سیف میں سے تین لاکھ روپے لے گئے ہیں- وہ بہت پریشان ہیں- مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے- ڈاکوؤں کے پاس پستولیں بھی تو ہوتی ہیں نا؟""-منصور نے دلچسپی سے پوچھا- ""یہ کیسے ہوا؟ میڈم نے اتنی بڑی رقم اپنے آفس کے سیف میں کیوں رکھی تھی؟""-""یہ تو مجھے نہیں پتہ- انکل رشید کے سب انسپکٹر عارف اس کیس کی تفتیش کر رہے ہیں وہ میڈم کے ڈرائیور کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں مگر ڈرائیور انکل تو بہت شریف آدمی ہیں، وہ یہ کام نہیں کرسکتے- آپ اور منیر بھائی تو اتنے بہت سے مجرموں کو پکڑوا چکے ہیں- ان ڈاکوؤں کو بھی پکڑوادیں نا""- بانو نے امید بھری نظروں سے اسے دیکھا-""تم فکر مت کرو- ہم ان مجرموں کو ضرور پکڑ وائیں گے- تم جا کر کپڑے تبدیل کرو- کھانا کھاؤ اور تھوڑی دیر کے لیے سو جاؤ- اور دیکھو- ہمیں ان چوروں ڈاکوؤں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے- یہ لوگ بزدل ہوتے ہیں- جب انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ لوگ ان سے ڈرتے ہیں تو یہ شیر ہوجاتے ہیں- یہ اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں""-""میں جب ان کی بڑی بڑی مونچھیں اور ہاتھ میں پستول یا کوئی دوسری گن دیکھتی ہوں تو مجھے تو منصور بھائی ان لوگوں سے بہت ڈر لگتا ہے""- بانو سہمے ہوئے لہجے میں بولی-""تم ایک با ہمت لڑکی ہو-ویسے بھی آج کل کی لڑکیاں کیسے کیسے بہادری کے کام کرتی ہیں، تمہیں تو پتہ ہی ہوگا- پھر ہم ان جرائم پیشہ لوگوں سے کیوں ڈریں؟- ہماری مدد کے لیے ہمارے ملک میں بہت سے ادارے ہیں جن میں پولیس بھی شامل ہے- ہم لوگ بہادر بنیں گے تو اپنی پولیس کی مدد سے ان جرائم پیشہ لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں آسانی ہوگی""- منصور نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا-بانو کچھ سوچتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی- اسے گئے ہوئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ منیر شامی آگیا- منصور اسے دیکھ کر بولا-""چلو اوپر ہی بیٹھیں گے- تم بھی بانو اور شہلا کے اسکول میں ہونے والی ڈکیتی کی خبر لائے ہوگے""-""یہ ڈکیتی کی نہیں چوری کی واردات ہے- کوئی چور خاموشی سے پرنسپل کے آفس میں داخل ہو کر سیف کا لاک کھول کر اس میں سے تین لاکھ روپے چوری کر کے چلا گیا""- منیر شامی نے کہا- ""میڈم نایاب کا بیٹا یاسر میرا دوست ہے- ویسے تو اس کیس کی تفتیش انکل رشید کے پولیس اسٹیشن میں تعینات ان کا ایک سب انسپکٹر عارف کر رہا ہے مگر یاسر نے اس سلسلے میں ہمیں بلایا ہے اور درخواست کی ہے کہ ہم بھی اس معاملے کو دیکھیں- تم کہو تو ایک چکر لگا آئیں""- منیر شامی نے کہا-""یاسر نے اس واقعہ کی کیا تفصیلات بتائی ہیں؟""- منصور نے پوچھا-""تفصیلات تو کچھ نہیں بتائیں- اس سے مل کر ہی پتہ چلیں گی""- منیر شامی بولا-""چلو چلتے ہیں- وہاں جانے میں کوئی حرج نہیں- مگر اس وقت تو اسکول بند ہوگیا ہوگا""- منصور نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا-""اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا- یہ اسکول ایک بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے- میڈم نایاب کا بنگلہ اور ملازمین کے کوارٹر بھی اس میں ہیں- انہوں نے ایک بورڈنگ ہاؤس بھی اسی میں بنا رکھا ہے- اس بورڈنگ ہاؤس میں وہ ٹیچرز لڑکیاں رہتی ہیں جن کی اس شہر میں اپنی رہائش کا کوئی انتظام نہیں ہے""- منیر شامی نے بتایا-کچھ دیر بعد وہ تیار ہو کر گھر سے نکلے- ان کا ڈرائیور دلاور ان کو لے کر ٹاور ہاؤس گرائمر اسکول پہنچا- منیر شامی نے یاسر کو موبائل پر اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی- وہ اسکول کے گیٹ پر ان کے استقبال کے لیے موجود تھا-ڈرائیور دلاور کو باہر ہی انتظار کرنے کا کہہ کر وہ دونوں یاسر کے ساتھ اس کے گھر میں آئے- میڈم نایاب انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں- ان سے کھانے کا پوچھا- ان کے انکار پر انہوں نے گھر میں کام کرنے والی خادمہ سے ٹھنڈا مشروب لانے کا کہا اور پوری طرح لڑکوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئیں- منصور کو یہ دیکھ کر کچھ حیرت ہوئی تھی کہ میڈم نے ہاتھوں پر باریک کالے دستانے پہن رکھے تھے- اسے داستانوں کی طرف متوجہ دیکھا تو میڈم مسکرا کر بولیں- ""گرمی میں دستانے بہت تکلیف دیتے ہیں مگر مجھے بہت ساری چیزوں سے الرجی ہے- انھیں چھو لوں تو ہاتھوں پر خارش شروع ہوجاتی ہے- اس لیے انہیں ڈاکٹر کے مشورے پر ہر وقت پہننا پڑتا ہے""- منصور نے مسکرا کر سر ہلا دیا-""میڈم پہلے تو یہ بتائیے کہ اتنی بڑی رقم اپنے آفس میں رکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تھی""-منیر شامی کے اس سوال پر میڈم نایاب کے چہرے پر حیرت کے آثار نمودار ہوئے- وہ تحسین آمیز انداز میں بولیں- ""بھئی اتنا اہم سوال تو ابھی تک مجھ سے اس سب انسپکٹر نے بھی نہیں پوچھا تھا جو اس معاملے کی تفتیش کرنے آیا تھا- یہ رقم میں نے بینک سے اپنے اسٹاف کو تنخواہیں دینے کے لیے منگوائی تھی- یہ کل کی بات ہے- ہمارا کیشئر ڈرائیور کے ساتھ بینک گیا تھا- یہ لوگ یہاں سے ایک بجے نکلے تھے- دو بجے ہمارا اسکول بند ہوجاتا ہے- انہیں آنے میں دیر ہوئی تو میں نے سب لوگوں سے کہہ دیا کہ اب وہ لوگ چھٹی کریں، ان کی تنخواہ کل ملے گی- کیشئر اور ڈرائیور چار بجے اسکول پہنچے- میں آفس میں ہی تھی اور کچھ کام دیکھ رہی تھی- ویسے بھی میں دیر تک کام کرنے کی عادی ہوں- کیشئر پیسے لے کر آیا ور بتایا کہ بینک میں بہت بھیڑ تھی اس لیے اسے دیر ہوگئی ہے- میں نے کیشئر سے پیسے لیے، انھیں گنا اور یہ سوچ کر آفس کے سیف میں رکھ دیا کہ کل نکال لوں گی- مگر آج صبح جب میں نے سیف کھولی تو وہ خالی پڑا تھا- روپے اس میں نہیں تھے""-دونوں لڑکے خاموشی سے ان کی بتائی ہوئی تفصیل سن رہے تھے- وہ خاموش ہوئیں تو منصور نے پوچھا- ""سیف کی چابیاں کہاں ہوتی ہیں؟""-""وہ میری گاڑی کی چابیوں کے ساتھ ہوتی ہیں اور میں ان کو اپنے پاس ہی رکھتی ہوں- اس آفس کی چابی بھی ان ہی چابیوں میں موجود رہتی ہے""- میڈم نایاب نے بتایا-""گاڑی آپ ہی چلاتی ہیں؟""- منیر شامی نے پوچھا-""زیادہ تر میں ہی چلاتی ہوں- مگر میرا ڈرائیور بھی چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اسے لے جاتا ہے جب کوئی دوسری گاڑی موجود نہیں ہوتی- کل وہ دونوں بینک میری ہی گاڑی میں گئے تھے- ہمارے پاس دوسری گاڑیاں بھی ہیں مگر چونکہ چھٹی کا وقت ہو رہا تھا اور ان گاڑیوں میں بچوں کو گھر چھوڑا جاتا ہے اس لیے میں نے بینک جانے کے لیے انھیں اپنی گاڑی دے دی تھی""-""سب انسپکٹر عارف صاحب نے ڈرائیور کو کیوں گرفتار کیا ہے؟""- منیر شامی نے پوچھا-""اسے گرفتار نہیں کیا ہے- پوچھ گچھ کے لیے تحویل میں لیا ہے- سب انسپکٹر کو جب یہ پتہ چلا کہ سیف اور آفس کی چابیاں گاڑی کی چابیوں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اور گاڑی وہ ڈرائیور بھی استعمال کرتا ہے تو وہ پوچھ گچھ کے لیے اسے اپنے ساتھ لے گئے ہیں- اس کی بیوی بے چاری بڑی پریشان ہے""-""ڈرائیور کیسا آدمی ہے؟""- منیر شامی نے پوچھا-""بہت ہی ایماندار اور نیک- مگر اس کی ایک حرکت نے اسے مشکوک بنا دیا ہے- کل شام کو وہ مجھ سے گاڑی مانگ کر لے گیا تھا- کہہ رہا تھا کہ بیوی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے- اس کی واپسی رات کو ہوئی تھی- جب میں نے یہ بات سب انسپکٹر کو بتائی تو اس نے کہا تھا کہ یہ بات ممکن ہے کہ اس دوران اس نے خاموشی سے آفس کھول کر سیف میں سے رقم نکال لی ہو کیوں کہ چابیاں تو اس کے پاس ہی تھیں- مجھے تو یقین نہیں مگر سب انسپکٹر نہیں مان رہا تھا""-""ہم آپ کا آفس دیکھنا چاہتے ہیں""- منصور نے کہا- ""اور ہاں- آپ کی چابیاں کہاں ہیں؟""-میڈم نایاب نے اپنے پرس میں سے چابیوں کا گچھہ نکالا اور منصور کے حوالے کردیا-""یہ بھی بتا دیجیے کہ ان میں سے سیف کی چابی کون سی ہے اور آفس کی کونسی ہے""- منیر شامی نے کہا- انہوں نے ان دونوں چابیوں کی نشاندہی کی- منیر شامی نے ان چابیوں کو کی رنگ سے نکال لیا اور باقی چابیاں میڈم کے حوالے کردیں- میڈم کسی کام سے اٹھ کر وہاں سے چلی گئیں-منصور ان چابیوں کا جائزہ لے رہا تھا- اس نے چابیوں پر پر انگلیاں پھیریں تو اسے ان پر کچھ چکناہٹ سی محسوس ہوئی- اس نے انھیں سونگھا اور بولا- ""اچھی خوشبو ہے""-منیر شامی نے جلدی سے اس کے ہاتھ سے دونوں چابیاں لیں اور انھیں سونگھ کر بولا- ""یہ تو صابن کی خوشبو لگتی ہے- اس کا مطلب ہے کہ ان چابیوں کو کسی صابن پر رکھ کر ان کی نقل اتاری گئی ہے اور پھر اس کی مدد سے نقلی چابیاں تیار کی گئیں""-""بالکل یہ ہی بات ہوگی""- منصور نے مسکرا کر کہا-دونوں لڑکے یاسر کو ساتھ لے کر میڈم کے آفس پہنچے-آفس پہنچ کر منصور اور منیر شامی نے وہاں کا سرسری نظر وں سے ایک جائزہ لیا- پھر انہوں نے بڑی باریک بینی سے ہر چیز دیکھی-منصور نے کہا- ""چور نے نقلی چابیوں کی وجہ سے اپنا کام بڑی آسانی سے انجام دے دیا تھا- یہاں ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ سیف کو کھولنے کے لیے زور آزمائی کی گئی ہو""-اس کے بعد منیر شامی نے اپنی جیب سے ایک اسپرے پاؤڈر کا ٹن نکالا- اس کی شکل میٹل کے پرفیوم اسپرے کی سی تھی- اس نے سیف کے ہینڈل پر پاؤڈر چھڑک کر اس پر لگے انگلیوں کے نشانات ابھارے- منصور اپنے موبائل سے ان نشانات کی تصویریں بنانے لگا-یاسر ان دونوں کی حرکتوں کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا اور نہ صرف وہ حیران تھا بلکہ متاثر بھی نظر آتا تھا-""یہ تمام چیزیں تم لوگوں نے کہاں سے سیکھی ہیں؟""- آخر اس نے پوچھ ہی لیا-""ہمیں بہت سی چیزیں رشید انکل نے سکھائی ہیں- انھیں میرے اور منیر شامی کے شوق کا پتہ ہے اس لیے وہ جرائم کے کیسز کے بارے میں ہم سے بات چیت کرتے رہتے ہیں اور سراغرسانی کے متعلق مفید باتیں بھی بتاتے رہتے ہیں- اس کے علاوہ ہم کتابیں پڑھ کر اور نیٹ سے بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں""-""تمہیں ان کاموں کو کرتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتا- جرائم کرنے والے تو بہت خوفناک قسم کے لوگ ہوتے ہیں""- یاسر نے ایک جھر جھری لیتے ہوئے کہا-""یہ کام خطرناک سہی مگر جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ کام ہم اپنے ملک کو جرائم سے پاک کرنے کے لیے کر رہے ہیں تو ہمیں کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا- اپنے ملک کے لیے اگر ہماری جان بھی چلی جائے تو برا نہیں""- منصور نے مسکرا کر کہا-تھوڑی دیر میں میڈم بھی وہاں پہنچ گئیں- لڑکوں کا کام ختم ہوگیا تھا- منیر شامی نے کہا- ""میڈم اگر اجازت دیں تو یہ چابیاں ہم اپنے پاس رکھ لیں- یہ ہمیں مجرموں تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوں گی""- میڈم نے اجازت دے دی-انہوں نے میڈم اور یاسر کو خدا حافظ کہا- پھر وہ لوگ پولیس اسٹیشن آئے- انسپکٹر رشید کہیں گیا ہوا تھا- ان کی ملاقات سب انسپکٹر عارف سے ہوگئی- انھیں دیکھ کر وہ بہت تپاک سے ملا اور ہنس کر بولا- ""بہت خوب- لگتا ہے آپ بھی اس کیس کی تفتیش کر رہے ہیں- مگر برا مت مانیے گا- اس دفعہ آپ کی کامیابی کی امید کم ہی نظر آتی ہے- میں اس کیس کے مجرم تک پہنچ گیا ہوں""-""آپ کو کامیابی مبارک ہو""- منیر شامی نے ہنس کر کہا- ""کیا آپ اجازت دیں گے کہ ہم میڈم کے ڈرائیور سے مل سکیں""-سب انسپکٹر عارف کے چہرے پر عجیب سے تاثرات نظر آئے- اسے سو فیصد یقین تھا کہ ڈرائیور ہی اس چوری میں ملوث ہے- چابیاں اسی کی تحویل میں تھیں- اسی نے رات کو میڈم کے کمرے میں جا کر یہ چوری کی ہوگی- وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کیس کا کریڈٹ ان لڑکوں کے سر جائے- وہ سوچ میں پڑ گیا کہ انھیں حوالات میں بند ڈرائیور سے ملوائے یا نہیں- پھر اسے خیال آیا کہ اگر اس نے انکار کیا تو لڑکے اس کی شکایت انسپکٹر رشید سے کریں گے- اس لیے اس نے بادل نخواستہ انھیں اس سے ملوانے کے لیے ایک سپاہی کے ساتھ بھیج دیا-ڈرائیور حوالات میں گھٹنوں میں سر دیے بیٹھا تھا- انھیں دیکھا تو سیدھا ہو کر بیٹھ گیا- منصور نے کہا- ""بابا آپ بالکل پریشان نہ ہوں- ہمیں آپ سے کچھ سوالات کرنا ہیں""- ڈرائیور خاموشی سے اس کی شکل دیکھے جا رہا تھا- منصور نے پھر کہا- ""ہمیں یہ بات معلوم کرنا ہے کہ کل آپ کو بینک میں دیر کیوں ہوئی تھی؟""-""ہمیں بینک میں تو دیر نہیں ہوئی تھی- چیک دے کر اظہار الدین کو فوراً ہی پیسے مل گئے تھے""- اس کا سوال سن کر ڈرائیور نے بتایا- اظہار الدین اس کیشئر کا نام تھا-""تو پھر تم لوگ دیر سے اسکول کیوں پہنچے تھے؟""- منیر شامی نے حیرت سے کہا-""اظہار الدین کی وجہ سے- وہ کہہ رہا تھا کہ پھر گاڑی ملے نہ ملے- مجھے کچھ ضروری کام بھی ہیں ان کو نمٹا لوں- اس نے ایک بازار میں گاڑی رکوا کر مجھ سے کھانا بھی منگوایا تھا- مجھے بوتل بھی پلائی تھی- پھر وہاں سے وہ مجھے لے کر ٹرنک بازار آیا- اسے شاید کوئی صندوق خریدنا تھا مگر اس نے خریدا نہیں، کیوں نہیں خریدا، مجھے نہیں پتہ کیوں کہ وہ مجھے گاڑی میں ہی بیٹھے رہنے کو کہہ گیا تھا- وہاں اس نے کافی دیر لگا دی تھی- اسکول پہنچ کر اس نے مجھے پانچ سو روپے بھی دیے تھے اور کہا تھا کہ میڈم پوچھیں تو یہ کہہ دینا کہ بینک میں دیر ہوگئی تھی- لیکن میڈم نے مجھ سے کچھ پوچھا ہی نہیں تھا- اگر پوچھتیں تو میں تو انھیں صاف صاف بتا دیتا کہ ہمیں بینک میں دیر نہیں ہوئی تھی، اظہار الدین ہی مجھے اپنے ساتھ ساتھ لیے پھر رہا تھا""-منصور اور منیر شامی خاموشی سے اس کو دیکھنے لگے- تھوڑی دیر بعد وہ لوگ پولیس اسٹیشن سے باہر آگئے-وہاں سے نکل کر منصور نے ایک جنرل اسٹور سے ایک صابن لیا- اس نے اس صابن کا ریپر اتارا اور سیف کی چابی کو اس پر رکھ کر اس کو پوری قوّت سے دبایا- صابن کی ٹکیہ نرم و نازک تھی، چابی اس میں دھنستی چلی گئی- جب چابی صابن کی سطح کے برابر اس کے اندر چلی گئی تو منصور نے آہستگی سے اسے ناخن کی مدد سے باہر نکال لیا- اس کی شبہیہ صابن کی سطح پر ظاہر ہو گئی تھی- اس نے دلاور سے کہا- ""اب ہمیں ٹرنک بازار چلنا ہے""-ٹرنک بازار زیادہ دور نہیں تھا- وہ ایک بہت بڑے علاقے پر محیط تھا- یہاں پر ٹین کی چادروں سے چھوٹے بڑے صندوق بنائے جاتے تھے- اس وقت بھی کاریگر اپنے کاموں میں مصروف تھے اور ان کی ٹھونکا پیٹی سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی- بازار کے اندر جانے کے لیے ایک بہت بڑے دروازے سے گزرنا پڑتا تھا- اس دروازے کے دائیں اور بائیں جانب انھیں دو چابیاں بنانے والے نظر آئے-منصور دائیں جانب والے چابی میکر کے پاس آیا- جیب سے صابن نکال کر اسے دیا اور بولا- ""بھائی صاحب- ہمیں اس طرح کی چابی بنا دو""-اس چابی بنانے والے نے صابن ہاتھ میں لیا اور پھر اسے گھورتے ہوۓ بے رخی سے بولا- ""چلو چلو- میں یہ کام نہیں کرتا ہوں- تم شکل سے کسی اچھے گھر کے لگتے ہو، ورنہ میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دیتا""-""پولیس کے حوالے کیوں کردیتے- ہم نے کیا جرم کیا ہے""- منصور نے مسکرا کر پوچھا-""کچھ بھی ہو- اس طریقے سے چابیاں یہاں نہیں بنتیں- ایسے کام کرنے والا وہ بیٹھا ہے""- اس نے دوسرے چابی والے کی طرف اشارہ کر کے کہا اور اپنی گود میں رکھے ہوئے دوپہر کے اخبار کو اٹھا کر چہرے کے سامنے کر لیا-وہ لوگ اس دوسرے چابی بنانے والے کے پاس آئے- اس کی دوکان پر ایک بورڈ آویزاں تھا جس پر لکھا تھا ""کی اینڈ لاک میکر""- منصور نے اسے صابن دکھایا تو وہ بولا- ""ارے بھائی کیا یہ کسی خزانے کی چابی ہے- کل بھی مجھ سے ایک آدمی دو چابیاں بنوا کر لے گیا تھا- شکل سے تو وہ پڑھا لکھا لگ رہا تھا مگر تھا بھلکڑ- جاتے ہوئے اپنی نظر کی عینک یہیں چھوڑ گیا تھا اور بعد میں واپس بھی نہیں آیا ""-یہ سن کر منصور اور منیر شامی کے دل زور سے دھڑکے- منصور نے کہا- ""تو پھر اس کی بھی ایک نقل بنا دیں""-""ایک چابی بنانے کے پانچ ہزار روپے لگتے ہیں- دو گے؟""- چابی بنانے والے نے انھیں اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا- منصور نے صابن اس کے ہاتھ سے لے لیا اور مایوسی سے بولا- ""اتنے پیسے تو نہیں ہیں ہمارے پاس""-ان کا کام ہوگیا تھا- وہ واپس گھر آگئے-رات کے کھانے کے بعد منیر شامی بھی منصور کے پاس آگیا- ان کی ملاقات انسپکٹر رشید سے ہوئی- وہ مسکرا کر بولا- ""پتہ چلا ہے کہ تم لوگ بانو کے اسکول میں ہونے والی تین لاکھ کی چوری والے کیس پر کام کر رہے ہو- یہ کیس میرے ہی پاس ہے اور اسے میں نے عارف کے سپرد کردیا ہے- وہ پر امید ہے کہ مجرم جلد ہی اقبال جرم کر لے گا""-""میڈم نایاب کا بیٹا یاسر منیر شامی کا دوست ہے- اس نے اسے فون کر کے اس معاملے کو دیکھنے کا کہا تھا""-""میں تو کسی دوسرے کیس میں مصروف ہوں""- انسپکٹر رشید نے بتایا- "" تم لوگوں نے اس سلسلے میں کیا کیا ہے؟""-""زیادہ تو کچھ نہیں مگر اندازہ ہے کہ ہم لوگوں نے اس چوری کے مجرم کا پتہ چلا لیا ہے""- منصور مسکرا کر بولا- ""ہمیں آپ سے بھی مدد درکار ہے- ٹرنک بازار میں ایک چابی بنانے والا بیٹھتا ہے- اس کی دکان کا نام ""کی اینڈ لاک میکر"" ہے- صبح اس کو میڈم کے آفس میں بلانا ہے- دوسرا کام یہ ہے کہ ہمارے پاس چند انگلیوں کے نشانات ہیں- شناختی کارڈ کے محکمے سے پتہ کروانا ہے کہ وہ کس شخص کے ہیں""-انسپکٹر رشید نے دونوں کام کروانے کی حامی بھر لی- منیر شامی نے کمپیوٹر سے پرنٹ کیا ہوا ایک کاغذ اس کے حوالے کر دیا جس پر ان انگلیوں کے نشانات تھے جو انہوں نے میڈم نایاب کے سیف کے ہنڈل پر سے حاصل کیے تھے-اگلے روز کا ذکر ہے- منصور اور منیر شامی کے اسکول کے لڑکے کسی جگہ پکنک منانے جا رہے تھے- انہوں نے سر سے کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ وہ لوگ نہیں جاسکتے انھیں ایک ضروری کام ہے- وہ وہاں سے سیدھے ٹاور ہاؤس گرائمر اسکول پہنچے- اسکول میں انسپکٹر رشید اپنے اسسٹنٹ سب انسپکٹر عارف کے ساتھ پہلے ہی سے موجود تھا- باہر چند پولیس والے بھی موجود تھے- پولیس کی موجودگی نے اسکول کے ملازمین اور بچوں پر اچھا اثر ڈالا تھا- ملازمین ادب اور خوش اخلاقی کی تصویر بنے پھر رہے تھے اور بچے دوسرے دنوں کی طرح کلاسوں میں شور نہیں مچا رہے تھے- ان کا دھیان پڑھائی سے زیادہ پولیس کے سپاہیوں کی طرف لگا ہوا تھا-یہ دونوں بھی سیدھے میڈم نایاب کے آفس میں پہنچے- منیر شامی نے اندر پہنچتے ہی کہا- ""میڈم اپنے کیشئر کو بھی یہیں بلوا لیجیے""-میڈم نایاب نے اسکول کی بوا کو کہا کہ وہ اظہار الدین کو بلا لائے- تھوڑی دیر میں اظہار الدین وہاں پہنچ گیا اور کمرے میں ایک طرف کھڑا ہوگیا- وہ چالیس بیالیس سال کا ایک تنومند شخص تھا- اس کی شکل سے بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کسی قسم کی گبھراہٹ محسوس کر رہا ہے-""کیشئر کو کیوں بلایا ہے؟""- سب انسپکٹر عارف نے منصور سے سوال کیا-"" گرفتاری کے لیے""- منصور نے بڑے مزے سے کہا-یہ سننا تھا کہ اظہار الدین چراغ پا ہو گیا- نہایت غصے سے چلایا- ""میری گرفتاری کیوں؟ کیا کیا ہے میں نے؟""-منصور نے فوراً جیب سے چابی کے نشان والا صابن نکال کر اس کو دکھایا- اس کے چہرے پر شدید حیرت کے آثار نظر آئے- اسی لمحے دروازہ کھلا اور دو سپاہی اس جعلساز چابی بنانے والے کو لے کر اندر داخل ہوئے- اظہار الدین کو دیکھ کر وہ چلایا- ""میں بے قصور ہوں- یہ ہی وہ شخص ہے جس نے مجھے زیادہ پیسوں کا لالچ دے کر دو چابیوں کی نقل بنوائی تھیں""-""اس کے علاوہ اظہار الدین صاحب- آپ کے انگلیوں کے نشانات سیف کے ہنڈل پر سے بھی مل گئے ہیں- اس پر صرف آپ کی ہی انگلیوں کے نشانات ملے تھے- میڈم تو ہر وقت دستانے پہنے رکھتی ہیں اس لیے ہنڈل پر ان کی انگلیوں کے نشانات نہیں تھے- پھر آپ کی عینک جو آپ اس چابی میکر کی دکان پر چھوڑ آئے تھے وہ بھی پولیس کے قبضے میں ہے""-یہ سننا تھا کہ اظہار الدین کے اوسان خطا ہوگئے- اس کی ٹانگوں میں جیسے جان ہی نہیں رہی- وہ زمین پر بیٹھتا گیا اور پھر بے ہوش ہو کر گر پڑا- سب انسپکٹر عارف نے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنا دی-انسپکٹر رشید نے اٹھ کر دونوں لڑکوں کا شانہ تھپتھپایا اور بولا- ""ویری گڈ- تم نے کمال کر دکھایا ہے- مگر اتنی جلدی تم مجرم تک پہنچے کیسے؟""-سب انسپکٹر عارف اس صورتحال سے بوکھلا گیا تھا- وہ تو یہ ہی سمجھ رہا تھا کہ مجرم میڈم کا ڈرائیور ہے- منصور نے کہا- ""ہم نے آفس اور تجوریوں کی چابیوں کا جائزہ لیا تو ان پر کچھ چکناہٹ سی محسوس ہوئی، انھیں سونگھ کر دیکھا تو ان میں سے صابن کی خوشبو آرہی تھی لہٰذا ہم سمجھ گئے ان چابیوں کو کسی صابن پر رکھ کر ان کا فرمہ بنایا گیا اور پھر اس کی مدد سے نقلی چابیاں- جب ہم نے میڈم نایاب کے ڈرائیور سے سوال جواب کیے تو بڑی آسانی سے پتہ چل گیا کہ اس سارے معاملے کے پیچھے اظہار الدین کیشئر کا ہاتھ ہے- شائد وہ بہت دنوں سے اس چوری کی منصوبہ بندی کر رہا تھا- کل جب میڈم نے اس سے اسٹاف کی تنخواہ نکلوائی تو وہ جان بوجھ کر رقم لے کر دیر سے آیا- تاکہ سارا اسٹاف چھٹی کر جائے اور میڈم اس رقم کو آفس میں موجود سیف میں رکھنے پر مجبور ہوجائیں- بینک سے واپسی پر اس نے بہانہ بنا کر ڈرائیور کو کھانا لینے بھیجا- اس کے جانے کے بعد اس نے گاڑی کے ڈیش بورڈ سے لٹکی چابیاں نکال کر ان کی شبہہ صابن پر اتاریں- پھر وہ ٹرنک بازار جا کر ان کی نقل بنوا کر لایا- سارے کام اس کی توقع کے مطابق ہو رہے تھے- وہ رات کو چھپتا چھپاتا آیا، نقلی چابی سے آفس کھولا اور پھر دوسری چابی سے تجوری اور یوں ساری رقم لے کر چلتا بنا""-وہاں پر موجود سب لوگ منصور اور منیر شامی کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے- میڈم نایاب تو بہت ہی خوش تھیں- تھوڑی سی کوششوں کے بعد سپاہی کیشئر اظہار الدین کو ہوش میں لے آئے- وہ کسی سے نظریں نہیں ملا رہا تھا- اس نے وہ جگہ بھی بتا دی جہاں پر اس نے چرائی ہوئی رقم چھپا کر رکھی تھی-تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر پورے اسکول میں پھیل گئی- ساری ٹیچرز منصور اور منیر شامی کو دیکھنے کے لیے آگئی تھیں- اپنی مس کے ساتھ بانو اور شہلا بھی وہاں موجود تھیں- - دونوں اپنے اپنے بھائیوں کے پاس آ کر کھڑی ہوگئیں- اپنے بھائیوں کے پاس کھڑے ہو کر انھیں ایک فخر کا احساس ہو رہا تھا-یاسر دور کھڑا سوچ رہا تھا کہ اگر سب بہنوں کے بھائی بھی اسی طرح کے اور اس طرح کے دوسرے اچھے اچھے کام کریں تو نہ صرف ان کی بہنیں بلکہ ان کے ماں باپ بھی ان پر فخر کریں اور خوشی سے پھولے نہ سمائیں-یاسر نے فون کر کے میڈیا اور اخبار والوں کو بھی بلا لیا تھا اور انھیں تین لاکھ روپوں کی چوری کے متعلق بتایا- یہ تفصیل سن کر انہوں نے نے منصور اور منیر شامی کو گھیر لیا اور ان سے مختلف سوالات کرنے لگے- دونوں نے ان سب کو کیس کی تفصیلات بتائیں- سب لوگ ان کے اس کارنامے پر حیران بھی تھے اور خوش بھی- اگلے روز کے اخبارات ایک مرتبہ پھر ان کی ذہانت کے اس کارنامے سے بھرے ہوئے تھے۔ " ہاتھی ایک جہان حیرت - تحریر نمبر 1425,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hathi-aik-jahan-hairat-1425.html,"راحیلہ مغلاردو کا ایک محاورہ ہے”ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں“اس کا مطلب ہر گزہاتھی کی جسامت بیان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ اس وقت بولاجاتا ہے ،جب کسی شخص کی قوت واختیار کا اظہار مقصود ہو۔لیکن اس سے قطع نظریہ ایک حقیقت ہے کہ ہاتھی کرہ ارض کا دوسرا اور خشکی کا سب سے بڑا جاندار ہے۔بظاہر ہاتھی کو دیکھنے سے اس کی جسامت کی وجہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ بہت خونخوار جبلت کا مالک ہوگا،لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اصل میں ایسا نہیں ہے۔افریقہ اور جنوبی ایشیاء کے علاوہ کچھ دیگر سردائی مقامات پر پایاجانے والا یہ جاندار زمانہ قدیم سے انسان کے کام آرہا ہے ۔بار برداری سے لے کر پرانے زمانے میں جنگوں کے دوران استعمال تک اور بادشاہوں کی شاہی سواری سے لے کر موجودہ دور میں بچوں کے سواری کے طور پر استعمال ہونے تک ہاتھی ہماری زندگیوں میں ایک اہم کردار کے طور پر دخیل رہا ہے ۔(جاری ہے)یہاں ہم آپ کو قوی الجثہ مگر معصوم طبیعت کے حامل جانور کی ان چند خصوصیات سے روشناس کروائیں گے،جو شائد عام طور پر لوگوں کے علم میں نہیں۔فٹ پاتھ اور پانی ذخیرہ کرنے کیلئے گڑھے بناناکرہ ارض پر خشکی کے سب سے بڑے جانور ہونے کی حیثیت سے ہاتھی اپنی جسامت اور وزن کا بہترین استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔دنیا بھر میں ہاتھیوں کے تحفظ کے حوالے سے معروف ادارے دی ایلی فینٹ سنیچری(The Sanctuary Elephant) کے آؤٹ ریچ منیجر ٹوڈمنٹگمری (Todd Montgomery)کا کہنا ہے کہ”ہاتھی اپنے بھاری بھر کم پاؤں ،سونڈ اور بڑے بڑے دانتوں کے ذریعے ایسے گڑھے بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،جن میں زیر زمین یابارش کا پانی جمع ہو سکے ،جو بعدازاں نہ صرف ہاتھیوں بلکہ دیگر مقامی جانوروں کی ضروریات بھی پورے کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ ہاتھی ایک ترتیب سے سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسے میں ان کے بھاری بھرکم پاؤں جس جس زمین پر پڑتے ہیں وہاں ایک فٹ پاتھ بن جاتا ہے ،جو انہیں واپس اپنے مسکن کی طرف لوٹنے میں معاون ثابت ہوتاہے۔نمک تلاش کرنے کی صلاحیتہاتھی صرف جسمانی اعتبار سے ہی ایک طاقتور جانور نہیں بلکہ وہ ذہنی توانائی سے بھی مالا مال ہے۔اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہاتھیوں میں یہاں تک صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ضرورت پڑھنے پر زمین سے نمک تک تلاش کر سکتے ہیں۔ٹوڈ مینٹگمری کہتے ہیں کہ”ہاتھیوں کو ابیدگی کیلئے نمکیات کی بہت ضرورت ہوتی ہے ،جسے وہ پودوں سے پورا کرتے ہیں تاہم اگر یہ پودے ان کی نمکیات کی ضرورت کو پورانہ کر سکیں تو وہ زمین میں ایسی جگہوں پر گڑھا کھود لیتے ہیں،جہاں نمک پایاجاتا ہے “ہاتھیوں کی جانب سے نمک کی تلاش میں زیر زمین غار بنانے کی ایک بڑی مثال کینیا کاموٴنٹ ایلگون نیشنل پارک ہے ،جہاں ہاتھیوں کا بنائی کیتم غارہے۔ایک دن میں 12سے18گھنٹے تک کھاناہاتھیوں کے جسمانی وزن کی بات کی جائے تو ایک افریقی ہاتھی کا وزن 6ٹن جبکہ ایشیائی کا تقریباً 4ٹن ہوتا ہے ۔اپنے اس بھاری بھر کم جسم کو بر قرار رکھنے کے لئے ہاتھی کو بہت زیادہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ،اسی لئے وہ ہر قسم کے پودے گھاس ،پتے ،پھول کھالیتے ہیں۔نیشنل جیوگرافک کے مطابق ایک ہاتھی کو روزانہ تقریباً ساڑھے3من خوراک کی ضرورت ہے ،جس کو پورا کرنے کے لئے وہ 12سے 18گھنٹے تک کھاتے رہتے ہیں۔یوں ایک سال میں ایک ہاتھی 50ٹن سے زیادہ خوراک استعمال کرتاہے۔بہترین خاندانی نظام اور اس پر مادہ کی حکمرانیہاتھی ایک سماجی مخلوق ہے ،جن میں خاندانی نظام کی بہت زیادہ اہمیت پائی جاتی ہے اور اس خاندانی نظام میں مادہ کو امیتازی حیثیت حاصل ہے۔ٹوڈمینٹگمری کے مطابق”ہر جھنڈ میں مختلف مزاج کے ہاتھی ہوتے ہیں ،جس کی سر براہی عمومی طور پر ان کی ماں،دادی یا پھرکسی انٹی کے پاس ہوتی ہے ۔اور اس مادہ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جھنڈہر لمحہ پر ہدایات دیتی ہے۔“ہم دردہاتھیوں کی ذہانت اور ان میں سماجی تعلقات کے حوالے سے پائی جانے والی صفت کے باعث ان میں ہمدردی کا عنصر بہت زیادہ پایاجاتا ہے۔ہاتھیوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے ایک اور ادارے سیودی ایلیفینٹ کے چیف ایگز یکٹوآفیسر فرینک پوپ(Pope Frank)کہتے ہیں کہ”اپنے مزاج کے مطابق ہاتھی ہر کسی کے لئے بہت زیادہ ہمدری کا اظہار کرتے ہیں ۔و ہ اپنے خاندان کے ہررکن کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتے ہیں،حتی کہ وہ اپنے مرنے والوں پر ماتم بھی کرتے ہیں۔“بہترین یاداشتٹوڈمینٹگمری کا کہنا ہے کہ”قدرت نے ہاتھیوں کو حیران کن ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے ،ان کی یاداشت بہت شاندار ہوتی ہے اور یہی وہ وجہ ہے،جس سے وہ ہر ماحول کو جان کر اس کی اسانیوں اور خطروں کا پتہ چلالیتے ہیں ۔ماحول کے علاوہ ہاتھی ایک بار جب کسی دوسرے ہاتھی سے مل لیتے ہیں تو زندگی بھر پھر اسے بولتے نہیں اور یہی ان کی وہ خصوصیت ہے،جس کی وجہ سے انہیں اپنے جھنڈ میں شامل ہونے والے کسی بھی نئے ہاتھی کا فوراًپتہ چل جاتاہے۔“نوکیلے دانت بہترین اوزارہاتھی کو نوکیلے دانت اس کا موثر ترین اوزار ہے،جن کے ذریعے وہ بہت سارے کام سر انجام دیتے ہیں ۔ٹوڈمینٹگمری کے مطابق”ہاتھی اپنے دانتوں کے ذریعے نہ صرف درختوں کی چھال کھینچ کر انہیں کھاتے ہیں ،جھاڑیوں کو دوڑ سکتے ہیں،زمین میں گڑھے بناتے ہیں بلکہ خطرے کی صورت میں اپنا دفاع بھی کرتے ہیں۔“دھوپ کی شدت سے بچاؤبلاشبہ سورج کی تپش سے جانور بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن ہاتھیوں کے پاس اس مشکل کابہت آسان حل موجود ہے۔اس ضمن میں ٹوڈمینٹگمر ی بتاتے ہیں کہ ”ہاتھی خود کو دھوپ کی شدت اور مضر حشرات الارض سے بچانے کے لئے دھول،گرد اور کیچڑ کا استعمال کرتا ہیں ۔سب سے پہلے وہ اپنی سونڈ میں پانی بھر کر سے اپنے جسم کے ہر حصے پر بہاتے ہیں ،پھر دھول ،گر اور کیچڑ کو خود پر گراکر سورج کی تمازل کا مقابلہ کرلیتے ہیں“ایک نئی تحقیق کے مطابق ہاتھی کے جسم پر قدرتی طور پر پائے جانے والی جھریاں پانی اور کیچڑ کو زیادہ دیر تک بر قرار رکھتی ہیں ،جس سے ہاتھیوں کو سکون ملتا ہے اور وہ سورج کی تپش سے پیدا ہونے والے مسائل سے خود کو محفوظ بنالیتے ہیں۔شیشے میں خودکی پہچانہاتھی وہ جانور ہے ،جو اگر شیشے میں خود کو دیکھے تو اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ شیشے میں دکھائی دینے والاہاتھی وہ خود ہی ہے،حالانکہ بہت سارے جانور شیشہ دیکھ کر ڈر جاتے ہیں کہ وہاں کوئی اور جانور ہے ۔حتی کہ ہم اگر انسان کی بات کریں تو 18ماہ تک کابچہ بھی شیشے میں خود کو نہیں پہچان سکتا۔اس حوالے سے فرینک پوپ کہتے ہیں کہ”ہاتھی کا شیشہ میں خود کو پہچاننا کوئی بڑی بات نہیں،کیوں کہ متعدد ٹیسٹوں میں وہ یہ ثابت کرچکا ہے ۔البتہ ان کی یہ ذہانت دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ بھی ان کی حقیقی پہچان کرکے ان کو تحفظ فراہم کریں“فاصلاتی ابلاغفرینک پوپ کا کہنا ہے کہ”ہاتھیوں میں فاصلاتی ابلاغ کی وہ صفت ہے ،جس کے ذریعے وہ اپنے منہ سے کوئی آواز نکالے بغیر اپنے ساتھیوں کو بہت دور سے خطرہ سے خبر دار کر دیتے ہیں اور وہ دیگر ہاتھی پیغام بھیجے والے کے قدموں سے اندازہ لگا لیتے ہیں ۔اسی وجہ سے انسان کے لئے یہ ابلاغ قابل سماعت نہیں ہوتا۔آکسفورڈیونیورسٹی میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایک ہاتھی کا پاؤں کے ذریعے مخصوص رویہ اس کے ساتھیوں کو صورت حال کا اندازہ کرواتا ہے ۔اس تحقیق نے سائنسدانوں کے لئے تھرتھراہٹ کے ذریعے ابلاغ کرنے کے حوالے سے نئے راستے بھی نکالے ہیں۔ علاوہ ازیں مذکورہ تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا کہ ہاتھیوں میں بصارت سے زیادہ سماعت کی طاقت ہوتی ہے۔“شکاریوں سے بچنے کی تربیتہاتھی اپنے ماحول کو ہی یاد رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ وہ اس ماحول کی اسانیوں اور خطروں سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔تحقیق کے مطابق ہاتھیوں کا جھنڈ ہمیشہ ایسے راستوں سے سفر کرتا ہے ،جہاں ان کا شکاریوں سے سامنا ہونے کا امکان نہ ہو،خصوصاً جب ان کے جھنڈ کا سربراہ کسی شکاری کے ہتھے چڑھ جائے۔اس سلسلے میں فرینک پوپ بتاتے ہیں کہ”ہماری تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطاق ہاتھی ایسے علاقوں میں رات کو سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ،جہاں انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں وہ اس سمت میں تیزی سے دوڑتے ہیں ،جو ان کو شکاری سے محفوظ رکھ سکتی ہے ۔اس کے علاوہ پر خطر علاقہ میں ہاتھی ہمیشہ ایک سیدھی لائن بنا کر سفر کرتے ہیں اورمنزل تک پہنچے سے قبل وہ اس دوران چارے کے لئے بھی زیادہ دیر تک توقف نہیں کرتے۔یہ سب چیزیں بلاشبہ ان کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔“کینسر کامقابلہہاتھی کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ عمر پانے والے جانورں میں ہوتا ہے اور سائنسدان اس بات پر حیران ہیں کہ بھاری بھر کم جسم کے ساتھ لمبی عمر پانے والا جانور کینسر کو مات دے دیتا ہے ۔تحقیق کے مطابق ہاتھیو ں میں ایک ایسا جین پایاجاتا ہے ،جو کینسرکوجسم میں پھیلنے سے روک دیتا ہے۔یوں ہاتھیوں کے اندر کینسر سے لڑنے کا ایک خود کا ر نظام موجود ہوتا ہے ،جو انسان کے بھی کام آسکتا ہے ۔ " جذبہ - تحریر نمبر 1424,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jazba-1424.html,"ایمن․․․․منصور،اب اٹھ بھی جاؤ۔بارہ بج چکے ہیں ۔امی زور زور سے آوازیں دے رہی تھیں۔دونوں بہن بھائی گہری نیند سورہے تھے ۔کیا کروں گا اٹھ کر․․․․کوئی کام ہی نہیں ہے ۔منصور انگڑائی لیتے ہوئے اٹھا۔تم لوگوں کی گرمیوں کی چھٹیاں میرے لئے درد سربن جاتی ہیں․․․اُٹھو ورنہ اب ناشتا نہیں بناؤں گی۔امی نے جب یہ کہا تو ایمن جلدی سے اٹھ بیٹھی۔امی․․․․آپ جلدی اٹھنے کو کہتی ہیں،لیکن یہ نہیں بتاتیں کہ سارا دن ہم کریں کیا․․․؟کمپیوٹر اور دوستوں کے ساتھ کتنا کھیلیں ۔ایمن بولی۔ہر سال چھٹیوں پر یہی مسئلہ سامنے آتا تھا ،دونوں بہن بھائی دن بھر کمپیوٹر گیم کھیلتے یا محلے میں دوستوں کے ساتھ کھیل لیتے،پھر گھر آکر امی کو تنگ کرتے۔آج شام جب ایمن اور منصور نے ایک بار پھر امی کو تنگ کرنا شروع کیا تو امی کو غصہ آگیا۔(جاری ہے)دونوں پارک جاؤ․․․․وہاں جا کر کھیلو۔دوسرے بچے بھی توکھیلے ہیں۔کوئی آپ کی طرح اپنی امی کو تنگ نہیں کرتا۔امی کو غصہ ہوتا دیکھ کر دونوں بہن بھائی آہستہ آہستہ باہر کھسک لیے۔دونوں سڑک کے کنارے ٹہلتے ہوئے چلے جارہے تھے۔ایمن بولی:ایسا کرتے ہیں کل ہم دونوں کلفٹن گھومنے چلتے ہیں۔ایمن بولی۔تمہارا دماغ تو صحیح ہے ۔کلفٹن بہت دورہے۔وہاں صرف امی ابو کے ساتھ ہی جانا چاہیے۔منصور بولا۔توٹھیک ہے پھر ایسے بور ہوتے رہیں گے۔ایمن اپنے بھائی سے ناراض ہو کر بولی۔ایسا کرتے ہیں․․․منصور بولتے بولتے رک گیا۔بولتے بولتے رک کیوں گئے․․․․․؟ایمن نے منصور کی طرف دیکھا کر پوچھا تو وہ کسی اور جہاں میں گم تھا۔کیا فٹ پاتھ کو دیکھ رہے ہوبھائی․․․․؟ایمن نے اپنے بھائی سے پوچھا جوفٹ پاتھ کے رُخ پر اپنا چہرہ کئے ہوئے تھا۔میں فٹ پاتھ کو نہیں دیکھ رہا ہوں بلکہ اس پر رکے بچے کو دیکھ رہا ہوں۔منصور رُکا اور پھر بولا۔ایمن ․․․․! اس بچے کے پاس چلیں۔اچھا․․․․․میں تو نہیں جاؤں گی۔ایمن نے ناک پر ہاتھ رکھ کر کہا۔پلیز میری پیاری سی بہن چلونا۔منصور اس کاہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگا،تو وہ اس طرف چل پڑی۔آپ کا نام کیا ہے․․․․؟منصور نے فٹ پاتھ پر سوچوں میں گم اپنے ہم عمر لڑکے سے پوچھا تو وہ چونک گیا۔کیوں ․․․․؟آپ کو کس سے ملنا ہے ․․․․؟لڑکے نے اکھڑے اکھڑے سے لہجے میں پوچھا۔ہمیں آپ سے ہی ملنا تھا۔ایمن بولیمجھ سے !کیا کام ہے آپ کو ․․․․؟وہ لڑکا بولا۔میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں ۔منصور بولا تو وہ لڑکا ہی نہیں بلکہ ایمن بھی چونک گئی۔”مگر میں تو آپ کو جانتا بھی نہیں ہوں“۔اس لڑکے نے حیرت زدہ ہوتے ہوئے کہا۔”یہ کون سی مشکل کی بات ہے ۔میں سڑک پار کرکے دو گلیوں بعد والے محلے میں رہتا ہوں۔میرا نام منصور ہے اور یہ میری چھوٹی بہن ایمن ہے۔میں چھٹی جماعت میں ہے ۔اب آپ اپنا نام بتائیں۔منصور سب کچھ ایک سانس میں بول گیا۔”میرانام جمال ہے اور ․․․․”اتنا کہہ کر جمال رُک گیا۔”آپ کس کلاس میں پڑھتے ہیں ․․․؟“ایمن نے پوچھا۔”میں بتاتا ہوں ․․․جمال ساتویں جماعت میں پڑھتا ہو گا ۔صحیح کہا یا غلط ؟“منصور نے پوچھا۔”غلط کہا․․․․میں نے تو آج تک اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھی۔“جمال نے جواب دیا۔جمال کی بات سن کر دونوں بھائیوں کو سکتہ ساہو گیا۔”میرے ماں گھروں میں کام کرتی ہیں۔ابا پہلے کام کرتے تھے مگر فیکٹری میں ان کے ساتھ حادثہ پیش آگیا اور وہ دونوں ٹانگوں سے معذور ہوگئے اس لئے میں پڑھ ہی نہیں پایا۔میرے بڑے بھائی نے پہلی جماعت ہی پڑھی تھی،لیکن پھرابا کے حادثے کے بعد انہیں میکنک کی دکان پر لگوایا دیا تھا اس لئے وہ بھی آگے نہیں پڑھ سکے۔”جمال نے اپنی بات مکمل کی تو منصور اور ایمن تھوڑی دیرکے لئے خاموش ہوگئے۔”پھر تو دوستی پکی سمجھیں!“منصور مسکراتے ہوئے بولا۔”وہ کیوں ؟“جمال نے پوچھا۔”کیوں کہ اب ہم آپ کوپڑھائیں گے ۔منصور بولا:”آپ کی کوئی بہن ہے۔“ایمن نے پوچھا۔”ہاں ایک چھوٹی بہن ہے ۔“وہ سات سال کی ہے۔“جمال بولا”مگر میرے اماں ابا اجازت نہیں دیں گے۔“”ہم ابھی چل کر ان سے بات کر لیتے ہیں۔“ایمن بولی۔ایمن اور منصور ،جمال کے گھر میں داخل ہوئے تو اس کے ابو بستر پر لیٹے تھے اور اس کی اماں روٹیاں پکارہی تھیں۔”ارے ․․․ارے انکل،آپ آرام کریں ۔“ایمن اور منصور کو دیکھ کر جمال کے والد بستر پر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگے۔”ابا،یہ منصور اور ایمن ہیں۔میرے نئے دوست۔“جمال نے دونوں بہن بھائیوں کا تعارف کروایا اور پھر پڑھائی والی ساری کہانی سنادی۔”مگر بیٹا،آپ لوگ کہاں اس چکر میں پڑگئے۔“جمال کے ابابولے۔”انکل ،جمال ہمارا دوست ہے تو یہ غلط بات ہو گی ناکہ ہم خود تو پڑھیں مگر ہمارا دوست نہ پڑھ سکے۔“منصور بولا۔”اس لیے ہم دونوں روزانہ دوپہر سے شام تک جمال اور ننھی کو پڑھایا کریں گے۔“ایمن بولی”بہت شکر یہ بیٹا․․․․آپ دونوں کو دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے میری مدد کے لیے دو فرشتے بھیجے ہیں کیوں کہ ہر نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتی تھی کہ کسی طرح میرے بچے پڑھ لکھ جائیں۔”جمال کی امی کہے جارہی تھیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے۔اگلے دن سے دونوں بہن بھائی صبح سویرے اٹھتے ،چھٹیوں کاہوم ورک کرتے ،تھوڑا ساٹی وی دیکھتے،کمپیوٹر پرگیم کھیلتے اور دوپہر کو جمال کے گھر چلے جاتے اور مغرب کے وقت واپس اپنے گھر میں داخل ہوتے ۔پہلے تو ان کی امی نے سکون کا سانس لیا کہ دونوں بچے کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں مگر جب وہ دونوں روزانہ اتنے طویل وقت کے لئے جانے لگے تو ان کی امی کو تشویش ہوئی۔ایک دن دونوں بہن بھائی حسب معمول جمال کے گھر کے لئے نکلے تو ان کی امی نے پوچھا۔”تم لوگ اتنی دیر تک پارک میں کیا کرتے رہتے ہو؟“”ہم ․․․․ہم نے پارک میں اسکول کھول لیا ہے۔“یہ کہہ کر دونوں ہنستے ہوئے نکل گئے۔”ارے․․․․ارے سنوتو سہی۔“ان کی امی دونوں کو آواز ہی دیتی رہ گئیں۔شام کے وقت جب منصور اور ایمن کے ابو آفس سے آئے تو ان کی امی نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ”پتا نہیں کہاں چلے جاتے ہیں؟میں نے پوچھا تو بات گھما کر نکل گئے۔“”اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ؟کل آفس سے جلدی آجاؤں گا پھر دیکھ لیں گے کہ یہ دونوں کہاں جاتے ہیں۔”ان کے ابوبولے۔“اگلے روز منصور اور ایمن اپنے مخصوص وقت پر گھر سے نکلے۔تھوڑی ہی دیر بعد ان کی امی اور ابو گاڑی میں نکلے تاکہ معلوم کرسکیں کہ دونوں بہن بھائی جاتے کہاں ہیں۔”یہ اُس کی طرف کہاں جارہے ہیں․․․؟“امی نے پریشان ہو کر پوچھا۔”میرے خدا․․․․یہ تو کسی کچے سے مکان میں گئے ہیں ۔وہاں کیا کرنے گئے ہیں؟چلو چل کر دیکھتے ہیں۔”ان کے ابو بھی پریشان ہو گئے۔منصور اور ایمن کی امی ابوتیزی سے جمال کے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ فرش پر چٹائی بچھی ہوئی ہے اور منصور ،جمال کو جب کہ ایمن ،جمال کی بہن کو پڑھا رہی ہے ۔ان کے امی ابو نے دیکھ کر سکون کا سانس لیا اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔”امی،ابو․․․․․آپ!“ایمن کی توجہ اپنے والدین کی طرف مبذول ہوئی تو دونوں بھائی بھائی بہن اپنے امی ابو کے سینے سے لگ گئے۔آئیے ․․․بیٹھے نا! آپ کے بچے تو فرشتے ہیں فرشتے۔“جمال کے ابو بستر پر بیٹھتے ہوئے بولے تو ایمن اور منصور کے والدین نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔”آپ نے یہ سب کچھ ہم سے چھپایا کیوں؟“نے منصور سے پوچھا۔”ابو ہم نے اسکول میں پڑھا تھا کہ نیکی اس طرح کرو کہ دائیں ہاتھ سے کسی کی مدد کروتوبائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے ۔“منصور نے کہا۔”لیکن اگر آپ کو برالگا ہوتو معاف کر دیں۔“ایمن بولی۔ہاں بھئی․․․براتولگا ہے ،کیوں کہ آپ نے ہمیں اپنے نئے دوستوں سے ملوایا ہی نہیں۔’امی نے ہنستے ہوئے کہا تو ایمن نے جمال کی پوری فیملی کاتعارف کروایا۔”جمال بیٹا․․․․اب ہم آپ سے فیس بھی لیں گے۔”منصور کے ابوبولے۔”مگر انکل منصور اور ایمن نے تو․․․․”جمال کچھ بولنا چاہ رہا تھا مگر منصور کے ابو نے اس کی بات کاٹ دی۔”اگر مگر کچھ نہیں․․․․آپ کو فیس تو لازمی دینی ہو گئی۔“یہ بات سن کر جمال کے والدین بھی پریشان ہو گئے۔”اور آپ کی فیس یہ ہوگی کہ آپ دونوں جوکچھ منصور اور ایمن سے پڑھیں گے ،وہ اپنے محلے کے کم از کم دولڑکوں اور دولڑکیوں کو ضرور پڑھائیں گے۔“منصور کی امی نے جب فیس کی تفصیل بتائی تو جمال کی امی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلملانے لگے۔”ارے آپ روکیوں رہی ہو؟“منصور اور ایمن کی امی نے جمال کی امی کو گلے سے لگالیا۔”جمال بیٹا․․․تم اور تمھاری بہن جس بچے کو بھی پڑھائیں ،ان سے وعدہ لیں کہ وہ بھی ایسی فیس ضرور لیں گے۔“جمال کی امی بولیں۔”بالکل ایسا جزبہ ہر کسی کے دل میں ہو اور ایسی فیس ہر کوئی وصول کرے تو وہ دن دور نہیں جب ہماری قوم کا ہر ایک بچہ پڑھ لکھ کر اپنے والدین اور ملک کا نام روشن کرے گا۔“جمال کے ابو نے کہا تو سب زور سے بولے“ان شاء اللہ ۔ " "میں کاغذ کا رجسٹر ہوں - تحریر نمبر 1423",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/main-kaghaz-ka-register-hoon-1423.html,"محمد ابوبکر ،پھولنگرمیں کاغذ کا رجسٹر ہوں،جس کی قیمت 100روپے ہے ۔میرا رنگ سفید ہے جس پر سبز اور سرخ لائنیں لگی ہوئی ہیں ۔اس سے میری شان وشوکت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ۔میں بڑے شوق سے”بک ڈپو “پر رہتا تھا کہ فاطمہ کے پاپا مجھے خرید کر لے گئے ۔میرا خیال تھا کہ فاطمہ مجھے سنبھال کر رکھے گی مگر اس نے مجھ پر کارٹون بنائے اور کچھ ورق پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دئیے تو میرے آنسو نکل آئے ۔فاطمہ کو کیا پتہ کہ مجھے بنانے کیلئے کن کن مراحل سے گزارا گیا تاکہ اس قابل ہو جاؤں کہ بچے مجھ پر ہوم ورک کرکے بڑے آدمی بنیں۔آئیے آج میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مجھے یعنی”کاغذ“کو کیسے بنایا جاتا ہے ۔میرے آباؤ اجداد کا تعلق چین سے ہے۔پہلے پہل انہوں نے مجھے درختوں کی چھال باریک پیس کرپانی کی مدد سے بنایا پھر دھوپ میں خشک کیا۔(جاری ہے)یوں میری ابتدائی شکل بنی اور مجھ پر انسان نے لکھنا شروع کیا۔زمانہ ترقی کرتا گیا نت نئے نئے تجربے ہوئے‘مجھے بنانے کے جدید طریقے اپنائے گئے۔یقینا آپ نے گندم کا پودا دیکھا ہو گا‘جب گندم پک جاتی ہے تو اس کے دانے لئے اور بھوسہ علیحدہ علیحدہ کر لئے جاتے ہیں ،اس بھوسے کو توڑی کہتے ہیں ۔اس سے کاغذ بنایاجاتا ہے ۔اس کے علاوہ سفید ے کی لڑی کو باریک پیس کر اور گنے کے بھوسے کو بھی کاغذ بنانے کیلئے استعمال کیاجاتا ہے ۔توڑی اور بگاس کو پانی سے دھویا جاتا ہے ۔اس کے بعد بڑے بڑے ٹینکوں میں ڈال کر بھاپ اور کیمیکل کی مدد سے نرم کیا جاتا ہے اور واشنگ فلٹروں سے گزار کر صاف کیا جاتاہے۔اس کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مجھے سفید کاغذ بنایا ہے یا براؤن اس مرحلے میں کلورین گیس یا ہائپو کا استعمال کیا جاتا ہے ۔اس کے بعد اگلا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے اور مجھے بڑے بڑے حوضوں میں ڈالا جاتا ہے ۔اسی مرحلہ میں وہاں مجھے مکس کیا جاتاہے۔میری اس شکل کو پلپ کہتے ہیں ۔اسی مرحلے میں میرے رنگ وروپ کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق کیمیکل اور رنگ ڈالے جاتے ہیں ۔اس کے بعد رولز کی مدد سے مجھے کا غذ کی شکل میں بنا کر مرحلہ شروع ہوا ۔میری پلیٹ کو رولز کاغذ بناکروہیں خشک کرکے لپیٹ دیا جاتا ہے جسے ریل کہتے ہیں ۔اس سارے عمل میں میرا سائز اور کوالٹی پر بھر پور توجہ دی جاتی ہے ۔پھر ان ریلز کوری وائینڈر پر مختلف سائز میں کاٹا جاتا ہے ۔اس کے بعد مجھے فنشنگ ہاؤس منتقل کردیا جاتا ہے ۔جہاں کٹرز کی مدد سے ٹکڑے کئے جاتے ہیں۔پھر میرے بنڈل بنا کر ان پر کوالٹی‘وزن اور سائز کے سٹیکرزلگادےئے جاتے ہیں۔اس کے بعد ٹرکوں پر لوڈ کر کے بڑے شہروں میں بھیجا جاتا ہے جہاں چھوٹی مشینوں اور کٹرز کی مدد سے کاپیوں رجسٹروں اور شیٹوں کے حساب سے کاٹا ہے۔اس کے بعد لائنیں لگا کر میری خوبصورتی میں اضافہ کیا جاتا ہے اور مختلف سائز کی کاپیاں‘رجسٹر اور ڈائریاں بنائی جاتی ہیں ۔آپ نے دیکھا مجھے بنانے میں کتنی محنت لگتی ہے اور خود مجھے کتنی تکلیف ہوتی ہے ۔مجھے بار بار پیسا اور کاٹا جاتا ہے ۔بھاپ گرم رولروں پر خشک کیا جاتا ہے ‘میرے ذریعے آپ علم حاصل کرکے آپ بڑے آدمی بن سکتے ہیں ۔مجھے افسوس اس وقت ہوتا ہے جب آپ مجھ پر کارٹون بناتے ہیں ۔بے رابطہ لکیریں لگاتے ہیں اور پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہیں۔اس وقت میرے آنسو نکل آتے ہیں۔آج مجھ سے وعدہ کریں مجھ پر ہوم ورک کریں گے اور سنبھال کررکھیں گے۔ " ایمانداری کا انعام - تحریر نمبر 1422,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/imaandari-ka-anjam-1422.html,"مختار احمد (اسلام آباد)ایک زمانہ گزرا کسی شہر میں ایک قاضی تھا جو بے حد انصاف پسند تھا-ایک دفعہ ایک آدمی روتا پیٹتا اس کے پاس آیا اور بولا-""قاضی صاحب! میرے پڑوس میں ایک انعام نامی نوجوان رہتا ہے- دو ماہ گزرے اس نے مجھ سے پانچ سو روپے ادھار لیے تھے- مگر اب وہ انہیں واپس کرنے کا نام ہی نہیں لیتا- میں غریب آدمی ہوں- میں نے پائی پائی جوڑ کر وہ روپے جمع کیے تھے- خدا کے لیے میرے ساتھ انصاف کیجیے""-قاضی نے اسے تسلی دی اور اس کے پڑوسی انعام کو عدالت میں بلوایا اور کہا-""نوجوان تم نے اس شخص سے جو پانچ سو روپے ادھار لیے تھے- تم اسے واپس کیوں نہیں دیتے؟""-انعام کے چہرے پر حیرت کے آثار پیدا ہوگئے- اس نے کہا-""جناب! وہ پانچ سو روپے تو میں نے ہی اسے ادھار دیے تھے- فرید نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ یہ روپے اپنے کاروبار میں لگانا چاہتا ہے اور مجھے بہت جلد واپس کردے گا""-فرید نے چلا کر کہا-""دیکھا حضور قاضی صاحب! اب یہ آپ کے سامنے صاف جھوٹ بول کر مجھ سے مزید پانچ سو روپے وصول کرنا چاہتا ہے- ہائے میں کیا کروں- میں تو برباد ہوگیا- ""قاضی صاحب! اس جھوٹے شخص کو فوراً سزا دیجیے""-قاضی نے ڈانٹ کر اسے خاموش کرایا- وہ بے حد حیران تھا کہ ان میں کون جھوٹا ہے اور کون سچا ہے-فرید کہتا تھا کہ انعام نے اس سے پانچ سو روپے ادھار لیے تھے اور انعام کہتا تھا اس نے پانچ سو روپے فرید کو دیے تھے-قاضی نے عدالت برخواست کی اور دو دن کے بعد ان دونوں کو عدالت میں آنے کا حکم دیا-جب قاضی گھر پہنچا تو اسے پریشانی ہوئی- دو دن کے بعد اسے فیصلہ سنانا تھا- وہ اسی کے متعلق سوچ رہا تھا-جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو ان دونوں نوجوانوں کی ایمانداری کا اندازہ لگانے کے لیے اس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی-اگلے دن شام کو اس نے ایک بوڑھے سوداگر کا بھیس بدلا اور انعام کے دروازے پر اشرفیوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی گرا دی- تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ انعام اپنے گھر سے نکلا- باہر نکلتے ہی اس کی نظر اشرفیوں کی تھیلی پر پڑی- اس نے وہ تھیلی اٹھا لی اور دوبارہ گھر کے اندر چلا گیا-قاضی ایک جگہ چھپا ہوا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا-تھوڑی دیر بعد اس نے اشرفیوں سے بھری دوسری تھیلی فرید کے دروازے پر پھینک دی اور دوبارہ اس جگہ چھپ کر کھڑا ہوگیا- اسے وہاں کھڑے ہوۓ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ فرید بازار کی طرف سے آتا دکھائی دیا- وہ جیسے ہی اپنے دروازے پر پہنچا اس کی نظر تھیلی پر پڑی- اس نے جھک کر تھیلی اٹھا لی اور گھر میں داخل ہوگیا-چاروں طرف گہری تاریکی چھانے لگی تھی- قاضی پہلے انعام کے مکان پر پہنچا- اس نے دروازے پر دستک دی- دروازہ پہلی دستک پر ہی کھل گیا-دروازہ کھولنے والا انعام ہی تھا-قاضی نے ایک بوڑھے سوداگر کا بھیس بدل رکھا تھا- اس لیے انعام اسے نہیں پہچان سکا-""فرمائیے جناب! آپ کو کس سے ملنا ہے؟""- انعام نے بڑے اخلاق سے پوچھا-""بیٹا میں پردیسی ہوں- پیاس لگی تو دروازہ کھٹکھٹا دیا- کیا تھوڑا سا پانی مل جائے گا؟""- قاضی نے پوچھا-""اندر آجائیے بابا""- انعام ایک طرف کو ہٹتے ہوۓ بولا-قاضی گھر میں داخل ہوگیا- انعام اسے لے کر ایک کمرے میں آیا جہاں پر دسترخوان بچھا ہوا تھا- دسترخوان پر دو بچے بھی بیٹھے ہوۓ تھے-""بابا آپ دور سے آرہے ہیں- بھوک بھی لگ رہی ہوگی- پہلے کھانا کھا لیں"" انعام نے کہا- ""یہ دونوں میرے چھوٹے بھائی ہیں""-قاضی نے بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ہاتھ دھو کر دسترخوان پر بیٹھ گیا- کھانے کے بعد ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں- انعام کی ماں نے قہوہ بھی تیار کرلیا تھا اور اب وہ لوگ گرما گرم قہوہ کی چسکیاں لے رہے تھے-انعام نے بتایا-""شہر میں میری شکر کی ایک دکان ہے- الله کا کرم ہے کہ اس سے اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے- ہمارے ابا سات سال پہلے انتقال کر گئے تھے- اس لیے اب گھر کو سنبھالنے کی ذمہ داری میری ہی ہے""-قاضی اس کی باتیں بڑی دلچسپی کے ساتھ سن رہا تھا-تھوڑی دیر بعد اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پھر اس کا چہرہ فق ہوگیا- اس کی بدلتی ہوئی حالت کو انعام نے بھی محسوس کر لیا تھا-""کیا ہوا- بابا- کیا آپ کی کوئی چیز کھو گئی ہے""- اس نے پوچھا-""میری اشرفیوں کی تھیلی پتہ نہیں کیا ہوئی""-قاضی اپنی جیبیں ٹٹولتے ہوۓ بولا-اشرفیوں کی تھیلی کا سن کر انعام چونکا-""ایک اشرفی کی تھیلی تو مجھے بھی اپنے دروازے پر سے پڑی ہوئی ملی تھی""- اس نے اٹھتے ہوۓ کہا-پھر وہ اشرفیوں کی تھیلی لے کر آگیا-تھیلی دیکھ کر قاضی کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں-""ارے ہاں بھئی! یہ تو میری ہی تھیلی ہے اور اس میں پوری ستانوے اشرفیاں ہیں""- قاضی نے کہا-""شکر ہے آپ کی امانت آپ کو مل گئی""- انعام نے کہا-قاضی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بولا-""بیٹا تم نے اپنی ایمانداری سے میرا دل خوش کردیا ہے- خدا تم جیسی نیک اور فرمابردار اولاد ہر کسی کو دے""-پھر وہ انعام کے گھر سے نکل کر فرید کے مکان پر آیا- اس نے دروازہ پر دستک دی-اندر سے فرید کی دھاڑ سنائی دی-""کون ہے بے- کیا دروازہ توڑ دے گا""-اس کے ساتھ ہی ایک بچے نے دروازہ کھولا اور قاضی کو دیکھ کر اندر کی طرف منہ کر کے بڑی زور سے چلایا-""ابا جان! دروازے پر ایک بوڑھا بابا کھڑا ہے""-تھوڑی دیر بعد وہاں پر فرید آگیا- وہ بھی قاضی کو نہیں پہچان سکا تھا-بوڑھے کو گھورتے ہوۓ بولا-""کون ہو تم- کیا کام ہے؟""-""بھائی صاحب! میں ایک پردیسی ہوں- میری ایک اشرفیوں کی تھیلی یہیں کہیں گر گئی ہے- اگر تمہیں ملی ہو تو دیدو بڑی مہربانی ہوگی""- قاضی نے بہت ہی نرم لہجے میں کہا-""کیوں! کیا تم نے ہم لوگوں کو چور اچکا سمجھ رکھا ہے جو اشرفیوں کی تھیلی کا ہم سے پوچھنے آئے ہو- تھیلی جہاں گرائی ہے وہیں دیکھو- اونٹ کی طرح منہ اٹھا کر یہاں چلے آنا ضروری تھا""-فرید نے قاضی کو خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا-""ناراض کیوں ہوتے ہو بھائی- اگر میری اشرفیوں کی تھیلی تمہیں نہیں ملی ہے تو کوئی بات نہیں- خدانخواستہ میں تم پر الزام تو نہیں لگا رہا ہوں""- قاضی نے کہا-""الزام لگا کر دیکھو- ہاتھ پاؤں ایک کردیتا ہوں میں""- فرید نے نتھنے پھڑ پھڑاتے ہوۓ کہا-""بیٹا میں تیرے باپ کی عمر کا ہوں- تمہیں مجھ سے ایسے انداز میں بات کرنا زیب نہیں دیتی""- قاضی اسے سمجھانے لگا-فرید نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور ایک دھڑاکے سے دروازہ بند کردیا-قاضی اپنے گھر واپس لوٹ آیا-اگلے دن انعام اور فرید دونوں پھر قاضی کے سامنے حاضر ہوۓ- وہاں پر اور بہت سارے لوگ بھی بیٹھے ہوۓ تھے- قاضی نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ فرید کو گرفتار کرلیں-قاضی کے اس اچانک فیصلے پر تمام لوگ ہکا بکا رہ گئے-قاضی ان کی حیرت سے لطف اندوز ہوتے ہوۓ بولا-""میں نے یہ فیصلہ بالکل صحیح کیا ہے- کل میں ایک بوڑھے سوداگر کا بھیس بدل کر انعام اور فرید کے گھر گیا تھا- میں نے ان دونوں کے دروازوں پر ایک ایک اشرفیوں کی تھیلی پھینکی پھر میں چھپ کر ان کی نگرانی کرتا رہا-آخر کار ان دونوں نے اشرفیوں کی تھیلیاں اٹھا لیں- کچھ دیر کے بعد میں پہلے انعام کے گھر گیا- انعام نے میری خوب خاطر مدارات کی- پھر میں نے اس سے اپنی گمشدہ اشرفیوں کی تھیلی کا تذکرہ کیا تو اس نے میری اشرفیوں کی تھیلی جوں کی توں لادی-مگر جب میں فرید کے گھر پہنچا تو اس نے مجھ سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کی بلکہ مجھے بری طرح ذلیل کر کے دھتکار دیا- اور اس نے اس بات سے بھی انکار کیا تھا کہ اسے اشرفیوں کی کوئی تھیلی ملی ہے-اس لیے میں نے اندازہ لگایا ہے کہ انعام ایک بااخلاق، باکردار اور ایماندار نوجوان ہے- جب کہ فرید جھوٹا، فریبی اور مکار شخص ہے-فرید کو انعام نے جو پانچ سو روپے ادھار دیے تھے ان کو لوٹانا پڑے گا اور اس کو عدالت سے جھوٹ بولنے، امانت میں خیانت اور ایک اچھے نوجوان پر جھوٹا الزام لگانے کے جرم میں پچاس کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے""-انعام کے روپے اسے واپس مل گئے- انعام اپنی ایمانداری کی وجہ سے پورے شہر میں مشہور ہوگیا- قاضی بھی انعام کی ایمانداری سے بہت خوش تھا-جب کہ فرید جیسے مکار شخص سے لوگ بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے- وہ پورے شہر میں بدنام ہوگیا تھا- آخر ایک روز تنگ آ کر اس نے وہ شہر ہی چھوڑ دیا اور دوسرے گاؤں روانہ ہوگیا- " بلاعنوان انعامی کہانی - تحریر نمبر 1420,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bilaunwan-inaami-kahani-1420.html," " بحری جہاز - تحریر نمبر 1418,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bahri-jahaz-1418.html,"محمد جاوید بروہیہوائی جہاز ،ریل گاڑی اور موٹر گاڑی کی ایجاد سے پہلے لوگ پیدل ،گھوڑوں اور کشتیوں میں سفر کیا کرتے تھے ان کشتیوں میں جدت لائی گئی بڑی بڑی کشتیاں اور بحری جہاز بنائے گئے۔بحری سفر کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔بری جہاز نہ صرف مسافروں اور سامان کی بار برداری اور نقل وحمل کے لئے بلکہ جنگی مقاصد کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔بحری جہازراں بھی فن جہاز رانی میں کافی مہارت وشہرت رکھتے تھے۔مشہور جہاز راں ابن ماجد نے سمندروں کے بارے میں مفید معلومات بڑے سائنسی انداز میں اور بحری سفر میں جہاز رانوں کو پیش آنے والی مشکلات وپریشانیوں کے حل کے لئے ایک اہم کتاب”الفوائد فی اصول علم البحرالقواعد“لکھی تھی۔ابن ماجد کے باپ دادا بھی اپنے اپنے وقت کے مشہور جہاز راں تھے ان کا تعلق عمان سے تھا ۔(جاری ہے)ایک امریکی موجود جان سٹیونز نے انیسویں صدی کے آغاز میں بھاپ سے چلنے والے جہاز کا خاکہ تیار کیا سب سے پہلا بھاپ چلنے والا بحری جہاز کلر مونٹ رابرٹ فلٹن نے 1807ء میں بنایا تھا۔قدیم زمانے میں جہاز لکڑی کے بنتے تھے ان کی رفتار بھی بہت سست تھی۔اٹھارویں صدی میں لوہے کے جہاز بننے لگے بھاپ سے چلنے والے جس بحری جہا ز نے 1838ء میں سب سے پہلے بحراوقیانوس کو عبور کیا اس کا نام سریس تھا۔1844ء میں پرسٹل میں گریٹ بریٹن نامی لوہے کا پہلا جہاز سمندر میں اتارا گیا۔اس زمانے میں دنیا میں سب سے بڑا بحری جہاز تھا اس کے انجن بہت طاقتور تھے۔دنیا میں 80فیصد تجارت بحری جہازوں کے ذریعے کی جاتی ہے ۔دنیا کے گردسب سے پہلے بحری جہاز میں چکر ڈیل کانونے1522ء میں لگایا تھا ۔فن جہاز رانی اور جہاز سازی نے بیسویں صدی میں حیرت انگیز ترقی کی دنیا میں سب سے زیادہ بحری جہاز یونان کے پاس ہیں سب سے بڑا شپ یارڈ جنوبی کوریا میں hundai heavy industriesہے۔دنیا کی سب سے بڑی مصنوعی بندرگاہ ہالینڈ کی روٹریڈیم یوروپورٹ ہے ۔یہ بندرگاہ38مربع میل کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے ۔دنیا کی سب سے مصروف ترین بندرگاہ شنگھائی (چین )ہے۔رقبے کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہ نیویارک میں ہے۔دنیا کی دوسری سب سے بڑی بندرگاہ سنگاپور کی بندرگاہ ہے۔امریکہ کی سب سے مصروف ترین بندرگاہ لاس اینجلس کی نیو آرلینز ہے ۔ہر سال پچاس ہزار سے زائد بحری جہاز بنتے ہیں سب سے بڑا اور مہنگا کروزشپ کمپنی آف دی سیز ہے سب سے بڑا کار گوشپ ہانگ کانگ کااور ینٹ اوورسیز کنٹینرلائن ہے ایٹمی طاقت سے چلنے والا پہلا بحری جہاز روس کا آئس بریکر شپ لینن ہے سب سے زیادہ بحری جہاز جنوبی کو ریا برآمد کرتا ہے فرانس کی سب سے بڑی بندرگاہ مارسیلز جاپان کی سب سے بڑی بندرگاہ یوکوہاما اور جرمنی کی ہمبرگ ہے جہاز دانوں کا بادشاہ کو لمبس کو کہا جاتا ہے۔گلاسگو(اسکاٹ لینڈ)بحری جہاز کوئین ایلز بتھ اور کوئین میری تعمیر کرنے کی وجہ سے مشہور ہے پاکستان کی پہلی بندرگاہ (KPT) 1860ء میں تعمیر کی گئی۔گوادربندرگاہ میں سے گہرے پانی کی پہلی بڑی بندرگاہ ہے ۔کراچی شپ یارڈ میں کام کی ابتدا 1957ء میں ہوئی ۔یہاں 1964ء میں پہلے جہاز کی تعمیر کا کام شروع ہوا یہاں سب سے پہلے محمدی اسٹیم شپ کمیٹی کے 12ہزار860ٹی ڈبلیووزنی ایم وی”العباس “نامی جہاز تعمیر ہوا۔پاکستان کا دوسرا بحری جہاز”شالیمار“تھا۔یورپ کی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ بحری سفر ہے ایسٹ گاڈون وائنا شپ نامی جہاز میں سب سے پہلے ریڈیو نصب کیا گیا جنوب کی ملکہ سڈنی کی بندرگاہ کو کہتے ہیں ۔عدن کی بندرگاہ کو بحیرہ عرب کی کنجی کہا جاتا ہے سب سے لگژری بحری جہاز سیون سیزایکسپلولر ہے ۔1970ء میں دنیا کے مشہور بحری جہاز کوئین ایلز بتھ کو ہانگ کانگ میں تیرتی ہوئی میرین یونیورسٹی بنا دیا گیا تھا اس یونیورسٹی کا نام سی وائز یونیورسٹی تھا روس کے جو ہری صلاحیت کے حامل آئس بریکنگ 23,000ٹن وزنی بحری جہاز ہے سب سے بڑی قدرتی بندرگاہ Poole harbourہے دنیا کی سب سے بڑی جہازی نہر ،نہر سوئیز ہے نت نئے نہایت پر تعیش بحری جہاز بنائے جارہے ہیں ۔بحری جہاز کی رفتار ناپنے کے لیے Notsکا پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے ایک ناٹ(بحری میل)6080فٹ کا ہوتا ہے ۔سب سے بڑی شپنگ کمپنی سنگھائی وائیگایا د چین میں ہے۔ " جھوٹی عزت - تحریر نمبر 1416,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhooti-izzat-1416.html,"انوار آس محمدکامران کے والد ناصر صاحب ایک سرکاری محکمے میں درمیانے درجے کے ملازم تھے۔ان کا اکلوتا بیٹا کامران زیادہ لاڈپیار کی وجہ سے بہت ضدی ہو گیا تھا۔میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اب وہ ضد کررہا تھا کہ اسے کار چاہیے۔”بیٹا!ابھی تم چھوٹے ہو،جب بڑے ہو جاؤ گے تو کاردلادوں گا۔“ناصر صاحب نے اسے سمجھایا۔کامران ضد کرنے لگا:”ابو! آپ کی نظر میں بچہ ہوں۔ویسے میں کافی بڑا ہو گیا ہوں اور اب مجھے کار چاہیے،ورنہ میں کالج نہیں جاؤں گا۔میرے بہت سے دوست اپنی گاڑی میں آتے ہیں۔“ناصر صاحب نے سمجھایا:”لیکن ابھی تو تمھارا شناختی کارڈ بھی نہیں بنا ہے ،اس لیے ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں بن سکتا۔“امی نے کہا:”تمھارے دوست تو ڈرائیور کے ساتھ آتے ہیں ،دیکھا ہے میں نے۔(جاری ہے)“”افوہ․․․․․․․امی!کون ساکالج دور ہے ،جو ٹریفک پولیس پکڑے گی۔ویسے بھی کاروالوں کی اتنی عزت ہوتی ہے کہ انھیں کوئی نہیں روکتا۔“کامران نے اونچی آواز سے کہا۔”بیٹا!دولت سے جو عزت ملتی ہے،وہ جھوٹی ہوتی ہے ۔اصل عزت حسن اخلاق ،دوسروں کی خدمت اور تعلیم کی وجہ سے ملتی ہے ۔“ناصر صاحب نے دھیمے لہجے میں سمجھایا۔لیکن بہت سمجھانے کے بعد بھی کامران نہیں مانا۔امی اور ابو دونوں خاموش ہو گئے ۔کامران اپنے کمرے میں چلا گیا۔بس پھر کیا تھا،اس نے کھانا پینا چھوڑ کر اپنے والدین کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔کالج بھی نہیں جارہا تھا۔اس کو بس ایک ہی دُھن سوارتھی کہ کار خریدلے۔آخر مجبور ہو کر ناصر صاحب نے ایک چھوٹی سی پرانے ماڈل کی کارلے لی،لیکن طے یہ پایا کہ کامران خود کار نہیں چلائے گا،بلکہ ناصر صاحب اس کو کالج چھوڑتے ہوئے اپنے دفتر جایا کریں گے اور واپس وہ اپنے کسی دوست کے ساتھ آجایا کرے گا،کیوں کہ دفتر دور ہونے کی وجہ سے ناصر صاحب اسے دوپہر میں گھر نہیں پہنچا سکتے تھے۔کا مران تو خوشی سے پاگل ہوا جارہا تھا۔کار آنے کے بعد سے وہ خود کو بہت ہی عزت والا،امیر انسان سمجھ رہا تھا۔جب گھر سے نکلتا تو گردن اونچی کرکے چلتا تھا۔کچھ دن اسی طرح گزرے ،پھر کا مران کا دل چاہا کہ وہ خود بھی ڈرائیونگ سیکھے۔”ابو!مجھے بھی ڈرائیونگ سیکھنی ہے۔“ایک دن کا مران نے خواہش کا اظہار کیا۔ناصر صاحب نے کہا:”ٹھیک ہے ،میں تم کو ڈرائیونگ سکھادوں گا ،لیکن تم گاڑی اس وقت چلاؤ گے،جب تمھارا شناختی کارڈ اور لائسنس بن جائے گا۔“”جی ٹھیک ہے ۔“کامران نے مسکراتے ہوئے ہامی بھرلی۔اب کامران نے ڈرائیونگ سیکھنی شروع کر دی ۔ایک دن ناصر صاحب اپنے دوست کے ساتھ ان کی گاڑی میں دفتر چلے گئے تھے اور کار گھر پر ہی تھی ۔کامران کار کی چابی لے کر گھر سے نکل گیا۔امی نے بہت روکا ،مگر وہ نہ مانا اور کاراسٹارٹ کرکے چلانے لگا۔اسے تھوڑی بہت ڈرائیونگ آگئی تھی،مگر ابھی کچھ کسر باقی تھی۔اناڑیوں کی طرح وہ کار چلاتاہوا گلی سے باہر نکلا۔وہ بہت خوش تھا۔ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اسے ٹریفک پولیس کا ایک افسر موٹر سائیکل پر آتا دکھائی دیا۔افسرنے کامران کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔اب تو کامران ڈر گیا ۔بجائے کا ر روکنے کے اس نے کار کی رفتار مزید بڑھا دی۔اناڑی ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ کاربُری طرح بے قابو ہو کر نزدیکی درخت سے ٹکڑا گئی۔کار آگے سے پچک گئی۔کامران کا سراسٹیرنگ سے ٹکرایا اورخون بہ نکلا۔اتنی دیر میں پولیس افسر بھی وہاں پہنچ گیا۔اس نے ڈانٹ کر کامران کو کار سے باہر نکالا۔لوگ بھی جمع ہونا شروع ہوگئے۔”گاڑی کے کاغذات اور اپنا لائسنس دکھاؤ۔“پولیس افسر نے کہا۔”آپ مجھ سے کس طرح بات کررہے ہیں؟میں کار کامالک ہوں،کوئی گیا گزرا غریب نہیں۔“کامران نے رومال سے خون صاف کرتے ہوئے کہا۔”ہم سے بد تمیزی ،ابھی نکالتا ہوں تمھاری اَکڑ۔پُرانی کا ر چلانے والا،خود کو امیر سمجھتا ہے ،قانون بھی توڑتا ہے اور بد تمیزی بھی کرتا ہے ۔“پولیس افسر طیش میں آگیا۔کامران اور پولیس افسر کی بات سن کر لوگ ہنس پڑے۔کا مران کو اپنی بے عزتی محسوس ہوئی۔اس کی خوش فہمی دور ہوگئی کہ کار والوں کی عزت ہوتی ہے ۔شرمندگی سے اس کا سرجھک گیا۔”ارے ،بہت بد تمیز لڑکا ہے ۔“ لوگوں میں سے کسی نے کہا۔”خود کو پتا نہیں کیا سمجھ رہا ہے۔“دوسری آواز آئی۔”اگر کسی کو ٹکر ماردیتا تو کیا ہوتا ،وہ اچھا ہوا کہ درخت ہی سے ٹکرایا۔“غرض جتنے منھ اتنی باتیں ۔کسی کو بھی اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ اس کے سر سے خون بہ رہا ہے۔کا مران کو اپنے امی ابویاد آگئے ،جو اس کی معمولی چوٹ سے بھی پریشان ہو جاتے تھے ۔ا ب اسے اپنی غلط سوچ پر افسوس ہوا۔اتنی دیر میں ناصر صاحب بھی وہاں پہنچ گئے۔کا مران کی امی انھیں فون کر چکی تھیں کہ کا مران کار لے کر جا چکا ہے ۔وہ پریشانی میں دفتر سے چھٹی لے کر آئے تھے ۔پولیس افسر نے ناصر صاحب کو جرمانہ بینک میں جمع کروانے کو کہا۔پھر وہ لوگ گھر آگئے۔کار ایک مکینک کو دے دی گئی۔کامران کی امی بہت پریشان ہوگئی تھیں۔ناصر صاحب غصے میں تھے۔انھوں نے کامران کو ڈانٹا بھی اور سمجھایا بھی۔آج کا مران کو رونا آگیا اوراس نے اپنے والدین سے معافی مانگی اور تہیہ کیا کہ اب جیسا والدین کہیں گے،ویسا ہی کرے گا۔ " نیک اور عقل مند کی تلاش - تحریر نمبر 1415,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naik-aur-aqalmand-ki-talash-1415.html," " بھاری تحفہ - تحریر نمبر 1414,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhari-tohfa-1414.html,"حفصہ فیصلاجمل ایک غریب لکڑ ہارا تھا ،جس کی زندگی انتہائی غربت میں گزر رہی تھی ۔کل سے اجمل کی ماں بہت بیمار تھی ،اسی وجہ سے اجمل آج ساری رات بے چین رہا اور سورج نکلنے سے پہلے ہی لکڑیاں کاٹنے جنگل کی طرف نکل کھڑا ہوا ،تاکہ زیادہ لکڑیاں کاٹ سکے۔اس نے فجر کی نماز بھی جنگل ہی میں ادا کی اور اللہ کا نام لے کر لکڑیاں کا ٹنا شروع کر دیں ۔دوپہر ہو چکی تھی ۔سورج سر پر آپہنچا تھا۔اجمل پسینے میں شرابور تھا ،مگر اس کا دل لکڑیوں کے ڈھیر کو دیکھ کر مطمئن تھا۔اجمل کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا ،مگر ماں کا بیمار چہرہ اور بچوں کی بھوک کے خیال سے اپنی تھکن بھول کر محنت کرتا رہا۔لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر جب اس نے کمر پر لادا تو وہ کافی وزنی تھی ،اس لیے اجمل آہستہ آہستہ قدم اُٹھاکر چلنے لگا۔(جاری ہے)ابھی تھوڑی دور ہی چلا تھا کہ اس کا پاؤں پتھر کی ٹھوکر سے مڑ گیا اور پاؤں میں شدید تکلیف ہونے لگی۔اجمل کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔اس نے التجا بھری نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔شہزادی ماہ رخ کو شکار کابے حد شوق تھا۔آج وہ شکار کے لیے جنگل کی طرف آنکلی۔گھوڑے پر سوار شہزادی نے جب اجمل کو اس طرح زمین پر بیٹھے ،روتے ہوئے دیکھا تو اس کا دل پسیج گیا اور اس نے پوچھے بنا ہی اجمل کی ساری کیفیت کو بھانپ لیا۔”میاں خان!اپنا گھوڑا اس غریب لکڑ ہارے کو دے دو۔“شہزادی نے حکم دیا۔”جی جی حضور !کہتا ہوا سپاہی اپنے گھوڑے سے اُتر ا اور گھوڑا اجمل کی طرف بڑھا دیا۔اعلانسل کا گھوڑا اس پر قیمتی زین اور لگام دیکھ کر اجمل کی آنکھیں ایک بار پھر چھلک پڑیں۔وہ ہڑ بڑا کر اُٹھا اور شہزادی کے حضور آداب بجالایا،پھر اپنی لکڑیوں کا گٹھا گھوڑے کی پیٹھ پر لاد کر سوار ہو گیا۔بازار میں اجمل جب آن بان سے داخل ہو ا تو وہاں پر موجود لوگ کبھی اجمل کو اور کبھی گھوڑے کو حیرت سے دیکھنے لگے۔اجمل نے جب شہزادی کی نوازش کا واقعہ بتایا تو اکثر کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔پھر اس نے لکڑیاں بیچیں ۔آج معمول سے زیادہ رقم ہاتھ آئی۔اجمل دل ہی دل میں خدا کا شکر گزار تھا۔اجمل نے ماں کے لیے دوا اور گھر والوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں خریدیں اور بڑی شان سے گھوڑے پر سوار ہو کر گھر پہنچا۔ماں اور بیوی بچے اجمل کو حیرت سے دیکھنے لگے۔اجمل نے تمام واقعہ بیان کیا،جسے سن کر سب بہت خوش ہوئے۔اب گھوڑے کے رکھنے کا مسئلہ در پیش تھا۔اس کے چارے پانی کی بھی فکر تھی۔بے چارے اجمل کے پاس نہ تو بادشاہوں کی طرح اصطبل تھا اور نہ بہترین قسم کا چارا تھا،جو اس گھوڑے کی خوراک تھی۔اجمل کو یہ خیال بھی پریشان کر رہا تھا کہ کہیں رات کے اندھیرے میں کوئی چوراُچکا گھوڑے کو نہ لے اُڑے۔چند گھنٹوں پہلے جو گھوڑا اجمل کے لیے باعث فخر بنا ہوا تھا ،اب وہ اس کو زحمت لگ رہا تھا۔اجمل ساری رات جاگتا رہا اور گھوڑے کی نگرانی کرتا رہا۔صبح اجمل ایک فیصلہ کر چکا تھا وہ اس بھاری تحفے کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا تھا،اس لیے وہ اسے شہزادی کولوٹانے نکل کھڑا ہوا۔شاہی دربانوں نے جب ایک غریب آدمی کو شاہی اور اعلانسل کے گھوڑے پر سوار دیکھا تو حیران رہ گئے۔شہزادی اپنے کمرے کی کھڑکی سے موسم کا لطف لے رہی تھی ۔لکڑ ہارے کو گھوڑے پر سوار دیکھا تو پہچان گئی۔اس نے دربان کو اشارہ کیا کہ اسے اندر آنے دیا جائے۔دربان لکڑ ہارے کو اندر لے گئے۔اجمل ڈرا ڈرا سا اندر داخل ہوا۔”ہاں بھئی لکڑ ہارے !کہو کیسے آئے؟“شہزادی نے اجمل سے سوال کیا۔”حضور !میں آپ کا تحفہ لوٹا نے آیا ہوں۔آپ اس کو واپس لے لیجیے۔آپ کی مہربانی ہوگی اور میں اس کا اہل نہیں ہوں۔“”مگر کیوں؟“شہزادی نے سوالیہ نگاہوں سے اجمل کی طرف دیکھا۔”دراصل اس کی حفاظت ،دیکھ بھال اور کھانا پینا میرے لیے بہت مشکل ہے۔“اجمل نے نپا تلا جواب دیا۔یہ سن کر شہزادی کو احساس ہو گیا کہ غریب آدمی کے لیے یہ تحفہ واقعی بھاری ہے ۔اس کے بدلے شہزادی نے اشرفیوں کی ایک تھیلی اجمل کو دی تو اسے خوشی ہوئی کہ یہی میرے لیے مناسب ہے،جس کو استعمال میں لا کر اپنے گھر بار اور کاروبار کو بہتر بنا سکتا ہوں اور شہزادی ماہ رخ اس کے چہرے پر خوشی دیکھ کر مسکرانے لگیں۔ " شہزادے کا اغوا - تحریر نمبر 1413,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shehzade-ka-agwa-1413.html,"تحریر: مختار احمد (اسلام آباد)بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا- اس بادشاہ کے نظم و نسق اور نیک دلی کی وجہ سے اس کی رعایا بہت چین اور سکون سے اپنی زندگی بسر کر رہی تھی- اس ملک کے لوگوں کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر وقت اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے تھے جس سے ملک بھی خوب ترقی کر رہا تھا اور لوگ بھی آسودہ حال تھے- ان کا بادشاہ نہ صرف یہ کہ بہت سمجھدار اور بہادر تھا بلکہ وہ ایک امن پسند حکمران بھی تھا اور اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ مل جل کر رہتا تھا-بادشاہ کا ایک ایک چھوٹا سا شہزادہ بھی تھا جس کی عمر یہ ہی کوئی دو ڈھائی سال کی تھی- شہزادہ بہت ہنس مکھ اور کھلنڈرا تھا اور دن بھر محل میں گھٹنوں گھٹنوں چل کر خوش ہوتا تھا- بادشاہ نے اس کے لیے پورے محل میں دبیز اور قیمتی قالین بچھوا دئیے تھے تاکہ وہ آرام سے ان پر چلے پھرے اور مٹی وغیرہ سے محفوظ رہ سکے-بادشاہ کے پڑوس میں ایک اور ملک بھی تھا- اس کا موجودہ بادشاہ کسی زمانے میں اسی ملک کا وزیر تھا، مگر پھر اس نے سازش کرکے اس ملک کے بادشاہ کو قید کر دیا اور خود تخت پر قبضہ کر کے بادشاہ بن گیا- وہ تو اس کو قتل کردینا چاہتا تھا مگر ایک بات کی وجہ سے مجبور ہوگیا تھا- اس بادشاہ کے پاس ملک کے خزانوں کی چابیاں تھیں- ان چابیوں کو وہ ایک خفیہ جگہ چھپا کر رکھتا- وزیر نے بادشاہ پر بہت سختیاں کیں تاکہ وہ خزانوں کی چابیاں اس کے حوالے کردے مگر بادشاہ سمجھ گیا تھا کہ اگر اس نے چابیاں اس نمک حرام وزیر کے حوالے کردیں تو وہ اسے مروا دے گا اس لیے وہ چپ چاپ ہر اذیت سہہ لیتا تھا-وزیر ایک لالچی آدمی تھا اور اسے دولت جمع کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا- اسی لالچ کی وجہ سے اس نے اپنی آس پاس کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر فوج کی مدد سے چڑھائی کردی اور ان پر قبضہ کر کے ان کی ساری دولت ہتھیالی-ان کامیابیوں کی وجہ سے اسے یہ غرور ہوگیا تھا کہ وہ جس ملک پر بھی چاہے حملہ کر کے اس پر قبضہ کرسکتا ہے- ایک دن اس کے ذہن میں خیال آیا کہ اس کا پڑوسی ملک بہت خوشحال ہے، نہ صرف اس کے خزانوں میں بہت مال و دولت ہے، بلکہ رعایا بھی بہت امیر ہے- یہ سوچ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا اور ایک روز اس نے اچانک رات کی تاریکی میں اپنے پڑوسی ملک پر حملہ کردیا-یہ اس کی غلط فہمی ہی تھی کہ وہ آسانی سے پڑوسی ملک پر قبضہ کرلے گا- اس کا بادشاہ نہایت زیرک اور سمجھدار تھا- اس کی نظر حکومت کے ہر شعبے پر ہوتی تھی- اس نے فوج کو بھی پوری طرح تیار کر کے رکھا ہوا تھا- اس حملے کے جواب میں اس کی فوج نے بڑی جوانمردی سے اس مکار بادشاہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور نہ صرف اسے شکست دی بلکہ اس کے ملک کے ایک بہت بڑے حصے پر قبضہ بھی کرلیا-اس جیت کی خوشی میں ہر طرف جشن کا سا ایک سماں تھا- بادشاہ نے جنگ کے نتیجے میں جیتے ہوۓ علاقوں میں اپنے گورنر مقرر کیے اور محل واپسی کی تیاریاں شروع کردیں- اسے اپنے ننھا شہزادہ بہت یاد آ رہا تھا جس کو دیکھے ہوئے بہت دن ہو گئے تھے-اس شکست نے اس مکار بادشاہ کو بوکھلا کر رکھ دیا تھا- بجائے اس کے کہ وہ پڑوسی ملک پر قبضہ کرتا، اس نے اپنے ملک کا بھی ایک بڑا حصہ گنوا دیا تھا- وہ اپنی اس عبرتناک شکست کا بدلہ لینے کے لیے بے تاب تھا اور پھر اس کے ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ آگیا-اس نے دیکھا کہ پڑوسی ملک کے لوگ فتح کا جشن منانے میں مصروف ہیں- اس نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے چند خاص آدمی بھیج کر بادشاہ کے ننھے شہزادے کو محل سے اغوا کروا لیا- اس کا ارادہ تھا کہ شہزادے کے بدلے وہ اس بادشاہ سے اپنا علاقہ بھی واپس لے لے گا اور اس کے ساتھ بے شمار دولت بھی-ادھر جب بادشاہ میدان جنگ سے واپس اپنے محل میں آیا تو وہاں پر ایک کہرام بپا تھا- شہزادے کی گمشدگی نے سب کو پریشان کردیا تھا- شہزادے کی کنیزیں چیخ و پکار کررہی تھیں- ملکہ نے رو رو کر برا حال کرلیا تھا- محل کے محافظ الگ پریشان تھے- ان کے ہوتے ہوۓ کسی نے شہزادے کو اغوا کرلیا تھا اور اب انھیں بادشاہ کے عتاب کا ڈر تھا-بادشاہ کو جب شہزادے کی گمشدگی کے متعلق پتہ چلا تو خود اس کا غم سے برا حال ہوگیا- فتح کی ساری خوشی ہوا ہوگئی اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا- تھوڑی دیر بعد جب اس کے کچھ ہوش ٹھکانے آئے تو اس نے اپنے وزیروں اور شہر کوتوال کو طلب کیا اور انھیں اپنے محل کے پائیں باغ میں لا کر ان سے واقعہ کی تفصیل پوچھی-سب نے ہی یہ کہا کہ فتح کا جشن مناتے ہوئے ان کی توجہ کچھ دیر کے لیے شہزادے کی جانب سے ہٹی تھی کہ وہ غائب ہوگیا- سب کا ہی یہ خیال تھا کہ اس کی گمشدگی میں محل کے کسی ملازم کا ہاتھ ہے-بادشاہ نے کہا- ""اس نمک حرام کا تو ہم پتہ چلا ہی لیں گے لیکن اس سے پہلے شہزادے کے بارے میں معلوم کرنا زیادہ ضروری ہے""-ابھی بادشاہ کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ ایک سنسناتا ہوا تیر سامنے کے درخت میں آ کر گڑ گیا-کوتوال نے جلدی سے آگے بڑھ کر تیر کو درخت سے نکالا- تیر میں ایک ریشمی تھیلی بندھی تھی اور اس میں ایک خط رکھا ہوا تھا- بادشاہ نے کوتوال کے ہاتھ سے خط لے کر اسے اونچی آواز میں پڑھا-""تمہارا شہزادہ ہمارے قبضے میں ہے- اس کی زندگی عزیز ہے تو فوراً جنگ کے دوران ہمارے جتنے علاقے پر بھی قبضہ کیا ہے اسے واپس کردو- اس کے ساتھ پانچ لاکھ خالص سونے کی اشرفیاں بھی تاوان کے طور پر دو- ان دونوں شرائط کو پورا کرنے کی صورت میں شہزادے کی واپسی ممکن ہو سکتی ہے- اگر ہماری یہ شرائط منظور ہیں تو اپنے کسی آدمی کے ذریعے خط بھیج کر ہمیں فوراً مطلع کرو""- اس خط پر اسی مکار بادشاہ کی مہر لگی ہوئی تھی-خط پڑھ کر بادشاہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا- ""ہم اس مکار بادشاہ کو ضرور مزہ چکھائیں گے- فوج کو تیاری کا حکم دیا جائے""-اس کا وزیر خاص اس کی یہ بات سن کر آگے بڑھا اور بولا-""حضور بادشاہ سلامت! یہ وقت جوش کا نہیں ہوش کا ہے- ہمیں عقلمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ شہزادے کو گزند پہنچنے کا کوئی خدشہ باقی نہ رہے""-بادشاہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا- ""تم ٹھیک کہتے ہو- اب مشوره دو کہ ہم کیا کریں""-وزیر نے دھیرے سے کہا- ""ہمیں بہت محتاط رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے- مجھے یقین ہے کہ اس مکار بادشاہ نے اس محل کے کسی ملازم کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے- ہمیں پہلے تو اس کا پتہ لگانا چاہیے- اس سے جو معلومات ہمیں ملیں گی، ان کی روشنی میں ہم اپنا اگلا قدم اٹھائیں گے""-بادشاہ کو وزیر کی یہ تدبیر پسند آگئی- وہ واپس محل آیا- ملکہ کو تسلی دی اور سوچنے لگا کہ اب کیا کرے- محل کے اس بد طینت ملازم کا پتہ لگانے کے لیے اس نے کوتوال کو ہدایات دے دی تھیں اور اس نے محل میں اپنے جاسوس پھیلا دئیے تھے-کوتوال کا ایک اٹھارہ سال کا بیٹا بھی تھا- اس کا نام دلاور تھا- اسے بھی اس واقعہ کی سن گن مل گئی تھی- اس کو احساس تھا کہ شہزادے کی گمشدگی سے بادشاہ اور ملکہ سخت پریشان ہیں- اس نے دل میں ٹھانی کہ وہ ان کی مدد کرے گا- اس سلسلے میں اس نے اپنے باپ کوتوال سے بات کی اور اس سے اجازت طلب کی کہ وہ محل کی ان کنیزوں اور غلاموں سے ملنا چاہتا ہے جو شہزادے کی نگہداشت پر مقرر تھے-کوتوال کو اپنے بیٹے سے بہت سی امیدیں تھیں کیوں کہ وہ پہلے بھی اس طرح کے کاموں میں اس کی مدد کر چکا تھا- اس نے اس کو بخوشی اجازت دے دی-دلاور محل آیا اور کنیزوں اور غلاموں کے نگران سے کہا کہ وہ ان تمام لوگوں کو پیش کرے جن کے ذمے شہزادے کی دیکھ بھال کرنا تھی- یہ کل چھ لوگ تھے- چار کنیزیں اور دو غلام- پانچ تو ان میں سے دلاور کے سامنے پیش کردئیے گئے مگر ایک کنیز جس کا نام گل آرا تھا وہ غائب تھی-ایک کنیز نے دلاور کو بتایا کہ شہزادہ دل آرا ہی سے سب سے زیادہ مانوس تھا- وہ ہی اس کا خیال رکھتی تھی اور شہزادہ کھانا بھی اسی کے ہاتھوں سے کھاتا تھا-کنیزوں اور غلاموں کے نگران نے دلاور سے کہا- ""میں ابھی اپنے آدمی دل آرا کے گھر بھیجتا ہوں- وہ اسے ساتھ لے کر آجائیں گے""-مگر دل آرا گھر پر نہیں ملی- اس کے شوہر نے بتایا کہ وہ صبح گھر سے محل جانے کے لیے نکلی تھی اور اب تک واپس گھر نہیں آئی ہے-اس کی گمشدگی نے سب کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ شہزادے کی گمشدگی میں اسی کا ہاتھ ہے- دلاور سوچ میں گم تھا- اب اسے اس بات کا پتہ چلانا تھا کہ دل آرا کہاں چلی گئی ہے- اس نے شام تک اس سلسلے میں بہت بھاگ دوڑ کی مگر کوئی نتیجہ نہ نکل سکا- وہ سخت مایوس ہوگیا تھا- کچھ دیر بعد شاہی محل سے ایک ہرکارہ آیا اور کوتوال سے کہا کہ اسے بادشاہ سلامت نے طلب فرمایا ہے-کوتوال نے دلاور کو بھی ساتھ لیا اور بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضر ہو گیا- دلاور نے سب سے پہلے آج پورے دن کو روداد بادشاہ کے گوش گزار کی- بادشاہ نے کہا-""ملکہ کی حالت ہم سے دیکھی نہیں جاتی- ننھے شہزادے کی جدائی میں انہوں نے رو رو کر برا حال کرلیا ہے- ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم تمام علاقہ واپس کرکے اور پانچ لاکھ اشرفیاں ادا کر کے اپنے شہزادے کو اس مکار بادشاہ سے آزاد کروا لیں- اس سلسلے میں ہم نے ایک خط بھی لکھ کر اس پر اپنی شاہی مہر ثبت کردی ہے- اب تم کسی ایسے با اعتماد آدمی کا بندوبست کرو جو اسے وہاں تک پہنچا کر ہمارا شہزادہ ہمیں واپس لادے""-کوتوال نے کہا- ""بادشاہ سلامت- یہ کام بہت اہم ہے- اجازت ہو تو میں دلاور کو یہ کام سونپ دوں- مجھے امید ہے کہ وہ اس کو بہتر طریقے سر انجام دے گا""-""ہمیں کوئی اعتراض نہیں- اگر اس کام کے پیچھے دل آرا کا ہاتھ ہوا تو ہم اسے سخت سزا دیں گے- غداروں کے لیے ہمارے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے""- بادشاہ نے غصے سے کہا اور اٹھ گیا-رات ہونے والی تھی- مگر چونکہ معاملہ بہت اہم تھا اس لیے دلاور بادشاہ کا خط لے کر سفر پر نکل کھڑا ہوا- وہ اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا تیزی سے فاصلہ طے کر رہا تھا- ندی نالے اور پہاڑوں کو عبور کرتا ہوا وہ آدھی رات کے وقت پڑوسی ملک کی حدود میں داخل ہوگیا-مسلسل سفر کی وجہ سے اس کا گھوڑا تھکا تھکا سا نظر آنے لگا تھا- ایک جگہ اسے جنگل نظر آیا، وہاں پر ایک ندی بھی تھی- اس نے مناسب سمجھا کہ یہاں بیٹھ کر کچھ دیر خود بھی سستا لے اور گھوڑے کو بھی آرام کرنے دے- یہ سوچ کر وہ گھوڑا روک کر اس پر سے اتر گیا اور اسے پانی پینے اور گھاس چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا- دلاور کو بھوک بھی لگ رہی تھی- اس نے تھیلے میں سے کچھ پھل نکالے اور انھیں کھاتے ہوئے جنگل میں آگے کی طرف نکل گیا-ابھی وہ کچھ دور ہی چلا تھا کہ اسے آگے روشنی سی نظر آئی- اس کے ذہن میں فوراً خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ لوگ ڈاکو ہیں- وہ جھاڑیوں کی اوٹ لے کر کچھ اور آگے بڑھا- اس نے دیکھا وہاں آگ کے الاؤ روشن ہیں اور اس ملک کے مکار بادشاہ کے کچھ سپاہی آپس میں باتوں میں مصروف ہیں-ایک سپاہی کہہ رہا تھا ""جلدی کرو- ہمارے پہرے دینے کا وقت شروع ہو گیا ہے- ہم نے اگر مزید دیر کی تو وہاں پر پہرا دینے والے ساتھی ناراض ہونگے""-اس کی بات سن کر سب جلدی جلدی اٹھنے کی تیاری کرنے لگے اور تھوڑی دیر بعد وہ سب وہاں سے روانہ ہوگئے- دلاور حیران تھا کہ وہ شاہی سپاہی کس جگہ پہرے دینے کی بات کر رہے تھے- اسے معاملہ کچھ پراسرار لگا- وہ جلدی سے اپنے گھوڑے کے پاس آیا اور پھر ایک مناسب فاصلہ دے کر خود بھی ان کے پیچھے چل پڑا-قریب ہی ایک دیہات تھا- آبادی سے ذرا ہٹ کر وہاں ایک بڑی سی حویلی تھی- اس حویلی کے چاروں طرف تلواروں سے لیس شاہی سپاہی پہرا دے رہے تھے- دلاور نے خود کو اور گھوڑے کو قد آدم جھاڑیوں کے درمیان چھپا لیا تھا اور کان لگا کر ان کی گفتگو سننے لگا-""تم لوگوں نے آنے میں بہت دیر کردی ہے""- پہرہ دینے والے ایک سپاہی نے منہ بگاڑ کر کہا-""ہم لوگ کھانا کھانے لگے تھے- اس لیے دیر ہوگئی- جانے ہماری یہاں سے کب جان چھوٹے گی""- نئے آنے والے سپاہیوں میں سے ایک نے کہا-""ہمارے جاسوس نے بتایا ہے کہ پڑوسی ملک کا بادشاہ ہمارے بادشاہ کی شرائط ماننے پر راضی ہوگیا ہے- شہزادے کو جلد ہی واپس کردیا جائے گا- شہزادہ روتا بہت ہے- اگر وہ کنیز ساتھ نہ آتی تو سمجھو مصیبت ہی آجاتی- چھوٹے بچے اگر رونے لگیں تو انھیں چپ کروانا بڑا مشکل کام ہوتا ہے""-دلاور نے جو ان کی یہ گفتگو سنی تو اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا- اسے پتہ چل گیا تھا کہ شہزادے کو اس حویلی میں قید کیا گیا ہے- وہ خاموشی سے اپنی جگہ سے نکلا- اس نے دور ایک پہاڑی کے ٹیلے پر ایک بڑے پتھر سے گھوڑے کی راس باندھی اور دوبارہ حویلی کی طرف چل دیا-حویلی کے آس پاس بہت ساری جھاڑیاں تھیں- رات ہونے کی وجہ سے تاریکی بھی بہت تھی اوپر سے آسمان کو بھی کالے کالے بادلوں نے گھیر رکھا تھا جس سے تاریکی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا، اس لیے اسے دیکھ لیے جانے کا خدشہ بھی نہیں تھا- وہ ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے بیٹھ کر حویلی کا جائزہ لینے لگا- اسے کسی ایسے راستے کی تلاش تھی جس کے ذریعے وہ اندر داخل ہو سکے- اسے کوئی ایسا راستہ تو نظر نہیں آیا مگر حویلی میں داخل ہونے والے بڑے دروازے کے نیچے اتنی خلا ضرور نظر آئی کہ ایک آدمی زمین پر لیٹ کر اور لڑھک کر اندر داخل ہو سکتا تھا- مگر مشکل یہ تھی کہ اس دروازے پر ایک سپاہی ہاتھ میں چمکدار تلوار لیے پہرا دے رہا تھا- دلاور سوچ میں پڑ گیا-پھر اس کی یہ مشکل بھی حل ہوگئی- یکا یک بادل زور سے گڑگڑائے اور موٹی موٹی بوندیں گرنے لگیں- تھوڑی ہی دیر میں بارش تیز ہوگئی- بارش کے پانی سے بچنے کے لیے تمام سپاہی حویلی کے برابر میں ایک گھنے درخت کے نیچے جا کھڑے ہوئے- دلاور کے لیے اب راستہ صاف تھا- وہ تیزی سے زمین پر رینگتا ہوا آگے بڑھا- اس کے سارے کپڑے کیچڑ میں لت پت ہوگئے تھے- بڑے دروازے کے قریب پہنچ کر وہ اس کی نچلی خلا میں سے لڑھک کر اندر داخل ہوا اور پھر کھڑا ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا-اسے وہاں پر کوئی سپاہی نظر نہیں آیا- وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور دبے قدموں بھاگتا ہوا حویلی کے اندر جانے والے دروازے پر پہنچ گیا- اس کی کنڈی باہر سے لگی ہوئی تھی اور اس میں کوئی تالا نہیں تھا- اس نے آہستگی سے کنڈی کھولی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا-اندر دیواروں پر مشعلیں روشن تھیں- اسے کئی کمرے نظر آئے- ایک کمرے سے اسے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی- وہ لپک کر اس کمرے کے نزدیک گیا- اس کی کنڈی باہر سے لگی ہوئی تھی- بارش کی مسلسل موٹی بوندیں گرنے کے شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی مگر اس کے باوجود اس نے بڑی آہستگی اور احتیاط سے کنڈی کھولی اور اندر داخل ہوگیا-اندر دل آرا اور شہزادہ دونوں موجود تھے- دل آرا اسے دیکھ کر جلدی سے اس کے پاس آئی- دلاور نے فوراً اپنا خنجر نکال کر اسے اپنی گرفت میں لیا اور کمرے سے باہر لا کر بڑے غصے سے بولا ""نمک حرام- میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا""-دل آرا اسے پہچانتی تھی کہ وہ کوتوال کا بیٹا ہے- وہ ہاتھ جوڑ کر بولی ""میں بے قصور ہوں- اس غدار غلام جعفر نے اس مکار بادشاہ کے آدمیوں کو بتا دیا تھا کہ شہزادہ مجھ سے بہت مانوس ہے- اس لیے وہ مجھے بھی پکڑ کر لے آئے تاکہ شہزادہ زیادہ روے دھوئے نہ اور میری موجودگی میں بہلا رہے""-اب دلاور کی سمجھ میں سب باتیں آگئیں- اس نے دھیمی آواز میں کہا-"" ہمیں یہاں سے نکلنا ہے- باہر بہت تیز بارش ہو رہی ہے- شہزادہ بھیگے گا تو رونے لگے گا اور سپاہی ہوشیار ہو جائیں گے""-دل آرا اداسی سے بولی ""شہزادے کو ہوش ہی کہاں ہے- اسے تیز بخار چڑھ گیا ہے اور وہ بے ہوشی کے عالم میں ہے""-""لیکن یہاں سے نکلنا بھی ایک مسئلہ ہے- تمہیں حویلی کے بڑے دروازے کے نیچے سے نکلنا پڑے گا- ہمیں بہت احتیاط کی ضرورت ہے- بارش کی وجہ سے تمام سپاہی ایک درخت کے نیچے کھڑے ہیں- اگر بارش رک گئی تو ہمارے لیے ایک اور پریشانی پیدا ہوجائے گی- سپاہی درخت کے نیچے سے ہٹ کر پھر پہرا دینے لگیں گے""-دل آرا کچھ سوچ کر بولی ""آج شام کو شہزادہ اپنی امی کو یاد کر کے بہت رو رہا تھا تو سپاہیوں نے مجھے اجازت دے دی تھی کہ میں اسے باہر ٹہلا لوں- میں اسے لے کر باہر نکلی تو میں نے حویلی کے عقب میں ایک چھوٹا سا دروازہ دیکھا تھا- اس میں تالا نہیں لگا تھا- میں تو چاہ رہی تھی کہ شہزادے کے ساتھ اس دروازے سے نکل کر بھاگ جاؤں مگر باہر پہرا دیتے ہوئے سپاہیوں کے خوف سے رک گئی""-یہ سن کر دلاور نے جلدی سے شہزادے کو اپنی گود میں اٹھایا- بخار کی وجہ سے اس کا جسم بے حد گرم ہورہا تھا- دل آرا اسے اپنے ساتھ اس چھوٹے دروازے تک لائی اور پھر وہ تینوں بڑی آسانی سے حویلی سے باہر آگئے-دلاور نے شہزادے کو دل آرا کے حوالے کیا اور دوڑ کر اپنا گھوڑا وہاں لے آیا- بارش میں شدت پیدا ہو گئی تھی- دل آرا نے شہزادے کو اپنی اوڑھنی سے ڈھانپ لیا تھا جس سے وہ بھیگنے سے محفوظ ہوگیا تھا-وہ تینوں گھوڑے پر سوار ہوئے اور پھر دلاور نے اسے تیز رفتاری سے بھگانا شروع کر دیا- اس کا وفادار گھوڑا بھی سمجھ گیا تھا کہ اس کا مالک کسی مصیبت میں گرفتار ہے اس لیے وہ سرپٹ دوڑ رہا تھا-صبح سے پہلے پہلے دلاور اپنے گھر پہنچ گیا - کوتوال نے انھیں اور شہزادے کو دیکھا تو حیران رہ گیا- اس نے دلاور کو اپنے گلے سے لگا لیا-دلاور نے کہا- ""ابا جان- اس بات کو ابھی ہمیں بہت خفیہ رکھنا ہے کہ شہزادے صاحب مل گئے ہیں- سب سے پہلے آپ اس نمک حرام غلام جعفر کو گرفتار کروائیں- اس کے بعد ہم شہزادے کو لے کر بادشاہ سلامت کے پاس چلیں گے""-کوتوال نے اسی وقت غلام جعفر کو گرفتار کروادیا اور اسے زنجیروں میں جکڑ کر جیل میں بند کردیا- پھر وہ دلاور اور دل آرا کے ساتھ شہزادے کو لے کر محل پہنچا- بادشاہ اور ملکہ رات بھر بالکل نہیں سوئے تھے- انھیں رہ رہ کر اپنا ننھا شہزادہ یاد آرہا تھا-شہزادے کو دیکھ کر دونوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا- ملکہ نے تو شہزادے کو سینے سے لگا کر جو رونا شروع کیا تو شہزادے کی بھی آنکھیں کھل گئیں- ماں کو دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی- اس نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈالیں اور بخار کی شدت سے دوبارہ بے ہوش ہوگیا-بادشاہ نے فوراً شاہی طبیبوں کو بلایا اور انھیں شہزادے کی دیکھ بھال کی ہدایت کی- پھر وہ کوتوال کو لے کر اپنے دربار میں آیا- وہاں پہنچ کر اس نے سپاہی بھیج کر فوج کے سپہ سالار کو طلب کیا - سپہ سالار آگیا تو بادشاہ نے اسے حکم دیا کہ وہ اسی وقت اپنی فوج لے کر اس مکار بادشاہ کے ملک کی طرف پیش قدمی کرے اور اسے ہر حال میں گرفتار کر کے اس کے سامنے پیش کرے-سپہ سالار اسی وقت اپنی فوج کو لے کر اس مہم پر روانہ ہوگیا-اب بادشاہ دلاور کی طرف متوجہ ہوا- اس کو گلے سے لگایا اور رندھی ہوئی آواز میں بولا ""تمہارا یہ احسان ہم پر ایک قرضہ ہے- ہم ہمیشہ تمھارے مقروض رہیں گے""- ملکہ بھی دلاور کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہی تھی-دلاور نے ہاتھ باندھ کر بادشاہ سے کہا ""جہاں پناہ- یہ سن کر مجھے بے حد شرمندگی ہو رہی ہے- یہ میرا فرض تھا- میں بھی اس ملک کا ایک ادنی' سا سپاہی ہوں- خدا کا شکر ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوا""-پھر اس نے اس واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوۓ کہا- ""ان لوگوں نے محل کے ایک غلام جعفر کو دولت کے بل پر خرید لیا تھا- اب وہ غلام جیل میں ہے- اس نے شہزادے کے اغوا میں ان کی مدد کی تھی- دل آرا کو وہ اپنے ساتھ اس لیے لے گئے تھے کہ اس غدار غلام نے انھیں یہ بتا دیا تھا کہ شہزادے صاحب اس کنیز سے بہت مانوس ہیں اور اس کے ساتھ بہت خوش رہتے ہیں- اس لیے وہ دل آرا کو بھی زبردستی اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے تاکہ شہزادے صاحب انھیں زیادہ تنگ نہ کریں""-""ایک بات سمجھ میں نہیں آئی- مکار بادشاہ نے شہزادے کو اپنے محل میں کیوں نہیں رکھا- اتنی دور ایک دیہات کی حویلی میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟""- بادشاہ نے الجھ کر پوچھا-""اس بادشاہ کو یہ ڈر تھا کہ اگر شہزادے کو اپنے محل میں رکھا تو آپ فوج کشی کرکے اسے آزاد کروا لیں گے- شہزادے صاحب کو حویلی میں رکھنے کی وجہ اس کا یہ ہی خوف تھا""- دلاور نے کہا-دو روز بعد بادشاہ کا بہادر سپہ سالار اس مکار بادشاہ کو گرفتار کر کے لے آیا- اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے-اس کی حالت دیکھ کر بادشاہ نے کہا- ""بہت شرم کی بات ہے کہ جنگ جیتنے کے لیے بچوں کو ڈھال بنایا جائے- تم ایک وزیر تھے- تم نے اپنے بادشاہ سے غداری کر کے اسے قید کردیا- ہم اس بے قصور بادشاہ کو دوبارہ سے بادشاہ بنائیں گے اور جنگ میں حاصل کیا ہوا سارا علاقہ بھی اسے واپس کردیں گے- ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ تمہیں اس کے حوالے کردیں گے- وہ تمہارے ساتھ جو سلوک بھی کرے اس کی مرضی""-اس بے ایمان اور مکار وزیر نے جب بادشاہ کی یہ بات سنی تو غش کھا کر گرپڑا اور سپاہی اسے اٹھا کر لے گئے-بادشاہ نے دلاور کو بہت سا انعام و اکرام دیا اور آئندہ محل کی حفاظت کے لیے اس کو نگران مقرر کردیا- دلاور کے ماں باپ اس کی عقلمندی اور بہادری سے بہت خوش تھے جس کے نتیجے میں وہ ایک بڑے منصب پر فائز ہوگیا تھا- " آؤبچو!رمضان کریم کودوست بنائیں - تحریر نمبر 1412,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aao-bachoon-ramzan-kareem-ko-dost-banain-1412.html,"رمضان المبارک ایک ایسا مقدس مہینہ ہے جس کا انتظار مسلمان سارا سال کرتے ہیں۔ اس مہینے میں دن رات اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں ۔اس ماہ مبارک میں جتنی بھی عبادت اور نیک کام کئے جائیں کم ہیں۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ روزہ داروں کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے۔بد نصیب ہیں وہ لوگ جو اس مقدس مہینے کی رحمتوں اور برکتوں سے محروم رہتے ہیں۔روزہ نہیں رکھتے،نماز نہیں پڑھتے،بُرے کاموں سے باز نہیں رہتے۔۔۔بڑوں ،بزرگوں کی ذمہ داریاں اپنی جگہ مگر بچوں کی بے چینی اور انتظار قابل دیدہوتاہے۔بچو ،ہم آپ کورمضان کے معنی بھی بتاتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس ماہ کو رمضان کیوں کہا گیا۔رمضان لفظ ”رمض“سے ہے اور رمض کے معنی ہیں”جلانا“چونکہ اس ماہ میں گناہ جلادےئے جاتے ہیں یا رمضان گناہوں کی جلا دیتا ہے اس لئے اسے رمضان کہا گیا۔(جاری ہے)بعض اصحاب کا خیال ہے کہ چونکہ اس ماہ میں گرمی کی وجہ سے پتھر تپنے لگتے ہیں اور”رمض“گرم پتھر کو کہتے ہیں اس لئے اس کو رمضان کہنے لگے۔بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ رمضان اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔اسے ”شہر رمضان“(یعنی اللہ کا مہینہ)کہا جاتا ہے ۔شہر کے معنی”مہینہ“کے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”رمضان اللہ کا مہینہ ہے“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”رمضان کی پہلی رات کو آسمان اور جنت کے دروازے کھول دےئے جاتے ہیں اور آخر ماہ مبارک تک بند نہیں کئے جاتے اور جو بندہ مومن خواہ مرد ہویا عورت ،اس ماہ کی راتوں میں نمازیں پڑھتا ہے،اللہ تعالیٰ ہر سجدے کے بدلے ایک ہزار سات سونیکیاں اس کے حساب میں لکھ دیتا ہے۔اس کے لئے جنت میں سرخ یا قوت کا ایسا مکان تعمیر فرماتا ہے جس کے ہزار دروازے ہیں اور دروازوں کے پٹ(کواڑ)سرخ یا قوت سے مرصع ہیں اور جس شخص نے اول سے آخر تک اس ماہ میں روزے رکھے اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے اور ان روزوں کو دوسرے ماہ رمضان کا کفار ہ بنا دیتا ہے ۔اس کے لئے ہر روز جنت میں محل تعمیر کراتا ہے جس کے ایک ہزار سونے کے دروازے ہوتے ہیں اور اس کے لئے 70ہزار فرشتے صبح و شام انتظار کرتے رہتے ہیں اور ہر سجدے کے بدلے اس کو اتنا تنا ورسایہ دار درخت عطا ہوتا ہے کہ گھڑ سوار اس کے نیچے سوسال تک چل کر بھی فاصلہ کو طے نہ کر سکے گا“۔جب رمضان آتا تو امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اے لوگو!تمہیں یہ مہینہ مبارک ہوکیونکہ یہ مہینہ سراپا خیرو برکت ہے ۔اس کے دن روزے کے اور راتیں عبادت کی ہیں ،اس ماہ میں خرچ کرنا راہ خدا میں خرچ کرنا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے ،یقین اور حصول ثواب کی خاطر رات میں قیام کیا(یعنی عبادت کی)تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمادے گا۔رمضان کے پانچ حروف ہیں۔ر،م ،ض،ااورن ،ر،سے”رضوان اللہ“ہے یعنی اللہ کی خوشنودی ۔م،سے ”محابتہ اللہ“ہے یعنی اللہ کی محبت،ض،سے”ضمان اللہ“ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری۔ا،سے ”الفت “ہے یعنی پیار یا لگا۔اور ن،سے”نور اور نوال “ہے یعنی مہر بانی اور بخشش ۔ماہ رمضان میں سر کش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ۔انبیاس گنہگاروں کی سفارش کرتے ہیں،ماہ رمضان خود بھی گنہگاروں کی سفارش (شفاعت)کرے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!کہ”جب تک میری اُمت ماہ رمضان کی حرمت باقی رکھے گی وہ رسوا نہیں ہوگی۔ایک شخص نے عرض کیا،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،رسوائی کیسی؟حضور نے ارشاد فرمایا!کہ رمضان میں جس نے حرام عمل کا ارتکاب کیا یا کوئی گناہ کیا،شراب پی یا بدکاری کی اس کا کوئی روزہ قبول نہیں کیا جائے گا اور آئندہ سال تک اس پر اللہ کی اور اس کے فرشتوں کی اور آسمان والوں کی لعنت ہو گی اور اگر اس عرصہ میں(یعنی اگلے رمضان تک)مرجائے تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس کی کوئی نیکی بھی نیکی کی صورت میں قبول نہ ہوگی“۔آئیے!اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ خدائے بزرگ وبرترہمیں رمضان المبارک میں نیک اعمال کرنے اور بُرے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ " مریخ کے مسافر - تحریر نمبر 1410,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mars-k-musafir-1410.html,"حسام عباسیہ راکٹ زمین سے بھیجا گیا آخری راکٹ تھا ،جو مریخ پر پہنچ گیا تھا۔ایٹمی جنگ کے خوف سے انسانوں کو مریخ پر بسانے کا منصوبہ بنایاگیا تھا۔اس مقصد کے لیے یہاں محفوظ مکانات ،باغات اور دوسری ضروری تعمیرات پہلے ہی مکمل کرلی گئی تھیں ۔بہت سے افراد مریخ پر پہنچائے جا چکے تھے ۔راکٹ سبزہ زار میں محفوظ طریقے سے اُترا اور چند لمحوں بعد اس کی تھرتھراہٹ ختم ہوگئی۔راکٹ کا دروازہ ہلکی سی آواز کے ساتھ کھلا اور اس میں سے بہت سے افراد سبزہ زار پر چھلانگیں لگا کر اُترے ۔ان کی تعداد چھبیس تھی ۔ان میں جوزف ،اس کی بیوی ڈیلا اور دو بچے جارج اور میلن بھی شامل تھے،جو اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے،جب کہ ان کے ساتھ آئے ہوئے باقی افراد چہل قدمی کرتے ہوئے پہلے سے بنائی ہوئی محفوظ بستی کا رُخ کررہے تھے ۔(جاری ہے)جوزف کو یوں محسوس ہوا جیسے مریخ کی تندوتیزہواؤں اور سردموسم سے ان کی صحت خراب ہو جائے گی۔ہوا کے تھپیڑے ان کے چہرے پر جیسے چبھ رہے تھے۔اچانک جوزف نے کہا:”مجھے لگتا ہے کہ ہمیں واپس زمین پر جانا ہو گا۔یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے۔“”واپس ؟تم ہوش میں تو ہو جوزف!“ڈیلانے اسے گھورتے ہوئے جواب دیا۔”ہاں،تم نہیں سمجھ پاؤگی۔ہمیں فوراً زمین پر لوٹ جانے کی تیاری کرنی چاہیے۔“جوزف نے کہا۔”سنو!ہم لوگ زمین سے کروڑوں میل دور آچکے ہیں ۔سنا تم نے ،میں نے کیا کہا؟کروڑوں میل․․․․․“ڈیلانے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے ادا کیا۔”مگر میں ․․․․․․“”میرا خیال ہے ،ہمیں بستی کی جانب چلنا چاہیے۔جارج ،ایلن!تم دونوں جلدی میرے پاس آؤ۔“ڈیلا ،جوزف کی بات کاٹتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔بستی میں بہت سے لوگ آس پاس کی دکانوں میں بیٹھے ،خوش گپیوں میں مشغول تھے۔جوزف شش وپنج میں مبتلا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔وہ ڈیلا کو کیسے یقین دلائے کہ یہاں کا ماحول انسانوں کے لیے سازگار نہیں ہے ۔یہی سوچتے سوچتے وہ اس گھر کے سامنے پہنچ چکا تھا،جو انھوں نے دس لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔” سنو جارج!تم ان کھنڈرات میں بالکل نہیں جاؤ گے۔ایلن کو بھی بتا دینا ۔وہاں خطرہ ہے۔“جوزف نے تھکے ہوئے سے انداز میں جارج کو ہدایت کی۔جارج نے سر ہلادینے پر ہی اکتفاکیا۔وہ لوگ نئے گھر میں داخل ہو چکے تھے۔”چھے مہینے گزرگئے ہیں ۔ہمارے باغیچے میں اُگی ہوئی سبزیوں کا ذائقہ کافی عجیب ساہے اور گھاس کا رنگ بھی بدل چکا ہے ۔“جوزف نے افسردگی سے کہا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا،جہاں کچھ لڑکے بے فکر ہو کر فٹ بال کھیل رہے تھے۔”میں جانتی ہوں۔“ڈیلانے بے پرواہوکر جوزف کو جواب دیا۔جوزف نے کہا:”میں تو اب بھی کہوں گا کہ ہمیں واپس ہو جانا چاہیے،یہاں کا ماحول اچھا نہیں ہے ۔یہ موسم ہمارے جسم کا حلیہ بگاڑدے گا۔“”میں ایسا بالکل نہیں سمجھتی“ڈیلانے ایک نظر جوزف کو دیکھا اور دوبارہ کتاب پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔”پاپا!پاپا!وہ ہو گیا․․․․․․جیسا سوچا․․․․․․تھا․․․․․“ایلن لڑکھڑاتی ہوئی آئی اور جوزف کے قریب گرکرپھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔”ہم کبھی واپس گھر نہیں جاسکیں گے۔کبھی نہیں․․․․“”ایلن میری بیٹی !کیا ہوا ہے ؟پلیز ،مجھے بتاؤ!“جوزف نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔”ریڈیوپر․․․․․ریڈیو پر بتایا جارہا تھا کہ ․․․․․․ایٹمی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ایک بم ہمارے شہر پربھی گراہے۔شہر مکمل تباہ ہو چکا ہے۔اگر یہ جنگ جاری رہی تو دنیا سے ہر قسم کے جانداروں کا خاتمہ ہو جائے گا۔اب شاید زمین سے ہمارا رابطہ منقطع ہو جائے گا۔“ایلن نے روتے ہوئے ساری بات جوزف کو بتائی۔جوزف کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے ،خوب چیخے اور چلائے اور ایسی مایوس کن خبر سنانے کے ”جرم“میں بیٹی کو خوب ڈانٹے ،مگر اس نے گہری سانس لے کر ایلن کا سراپنے سینے سے لگالیا۔چند ہفتوں بعد جوزف مرکزی مارکیٹ سے گزرا۔لوگ بے فکر بیٹھے تھے اور ہنسی مذاق جاری تھا۔جوزف کو بہت جھنجلاہٹ محسوس ہوئی۔اس نے چلا کر کہا:”بس کرو․․․․․!بس کرواب!بہت ہو چکا۔میں تم لوگوں کو آخری بار خبر دار کررہاہوں کہ واپس چلو،یہاں سے !یہ جگہ انسانوں کے لیے نہیں ہے۔“لوگ حیرت زدہ ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور پھر یکا یک ایک زبردست قہقہہ اُمڈ پڑا ۔تمام لوگ ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔”ارے جیمز!میرے دوست!تم تو میری بات کا یقین کرو۔تم نے کبھی سوچا بھی ہے کہ․․․․․“”ہاں!میں نے سوچا ہے جوزف! کہ میں یہاں ․․․․․․بہت خوش ہوں۔“”بکواس بند کرو۔دیکھو اپنی آنکھیں․․․․․“”کیا ہوا میری آنکھوں کو ؟“”یہ سر مئی رنگ کی تھیں نا؟“”یقینا ،تھیں۔“”تواب دیکھو جیمز!ان میں سنہری نقطے نمودار ہو چکے ہیں۔“جیمز ایک لمحے کے لیے چونک اُٹھا۔پھر اس نے ہیری سے آئینہ مانگا اور جوزف کودیتے ہوئے کہا:”لو،دیکھو ،تمھاری آنکھیں تو سنہری ہو بھی چکی ہیں اور․․․․․․اور اپنی جلد کارنگ دیکھو،کیسا سیاہ رنگ ہے۔پہلے تم بھی تو ایسے نہیں تھے نا؟“لوگ ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر ہنسنے لگے۔جوزف خون کے گھونٹ پی کررہ گیا۔”دیکھوجیمز!تمھیں میرے ساتھ چلنا چاہیے۔ہم مل کر راکٹ ٹھیک کریں گے۔پلیز ․․․․․“‘”نہیں،بالکل نہیں،میں نہیں جانا چاہتا زمین پر۔اس جہنم میں جہاں انسان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔قیمت ہے تو صرف بادشاہت کی ،حکومت کی ،خزانے کی۔ہر کوئی یہ چاہتا ہے ،پوری دنیا اس کے قبضے میں آجائے ۔نہیں ،کبھی نہیں۔“جوزف لوٹ آیا۔اس نے جارج کو ساتھ لیا اور راکٹ کی خرابی دور کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ایلن اور اس کی ماں ڈیلا ،ان کے ساتھ بیٹی نہر کے پار ،سیاہ پہاڑوں کو دیکھ رہی تھیں۔چھے سال بعد ایک اور راکٹ مریخ کی سطح پر اُترا اور کچھ لوگ یہ چلاتے ہوئے کودے:”جنگ ختم ہو چکی ہے ۔ہم نے جنگ جیت لی ہے ۔ہمارا ملک فتح یاب ہوا ہے ۔اب تمھیں لوٹ آنا چاہیے۔اے عظیم ملک کے عظیم باشندو!ہم تمھیں لینے آئے ہیں۔“کچھ دیر بعد کچھ سپاہی،کرنل رابرٹ ڈوسن کے پاس آئے اور کہا:”جناب!قصبہ ویران ہو چکا ہے ۔ہماری کھودی ہوئی نہر خشک اور تعمیر شدہ عمارتیں سیاہ ہو چکی ہیں ۔گھر ،باغیچے ،سیب اور آڑو کے فارم ،مارکیٹ اور زمینی رابطہ سینٹر جو ہم نے روبوٹس کے ذریعے سے قائم کیے تھے،سب سیاہ ہو چکے ہیں۔“کرنل نے پوچھا :”کسی سے بات ہوئی تم لوگوں کی؟“سپاہی نے بتایا:”نہیں جناب !بستی ویران ہے۔البتہ ایک جگہ سے ایک تباہ حال راکٹ ملا ہے۔“”اور کچھ ․․․․․․․“ کرنل نے حیرت سے پوچھا۔”جناب!سیاہ پہاڑوں کے پار کچھ لوگ ملے ہیں ۔وہ کالی رنگت اور سنہری آنکھوں والے ہیں۔وہ ذہنی طور پر کمزور ہیں،لیکن ہماری زبان آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہم زمین پر رہنا چاہتے ہیں۔“”مجھے لگتا ہے کہ ہمارے بھیجے ہوئے امریکیوں کو ان ہی لوگوں نے مار دیا ہے ۔“مگر جناب!یہ مریخی لوگ بڑے امن پسند ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ کسی وبا کی وجہ سے ہمارے لوگوں کا خاتمہ ہوا ہوگا۔“”فوراً واپس چلنے کی تیاری کرو،یہ جگہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔“کاش!انھیں کوئی یہ بتادیتا کہ جنھیں تم مریخ کی مخلوق سمجھ رہے ہو،وہ تمھارے ہی ہم وطن ہیں۔“ " مشینی خواب - تحریر نمبر 1409,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/masheeni-khawab-1409.html," " جادو کا تماشہ - تحریر نمبر 1408,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jadu-ka-tamasha-1408.html,"مختار احمد۔اسلام آباد:ایک دن بیٹھے بٹھائے گلو میاں کو جانے کیا سوجھی کہ وہ ضد کرنے لگے کہ ان کی سالگرہ منائی جائے- انہوں نے یا تو کسی ٹی وی کے ڈرامے میں کسی بچے کی سالگرہ ہوتے دیکھ لی تھی اور یا پھر رات خواب ہی میں کسی کی سالگرہ میں شرکت کرلی تھی-بہرحال وجہ خواہ کچھ بھی رہی ہو انہوں نے تو بس اپنی امی کا پیچھا ہی لے لیا تھا- صبح سے ریں ریں کرتے ان کے پیچھے پھر رہے تھے- رٹ بس یہ ہی تھی کہ بہت سارے مہمانوں کو بلوا کر اور گھر کو رنگ برنگے غباروں سے سجا کر ان سے کیک کٹوایا جائے-ان کی امی ان کے اس مستقل تقاضے سے بری طرح تنگ آگئی تھیں- انہوں نے گلو میاں کو پیار سے سمجھایا، آنکھیں بھی دکھائیں- ان کو بہلانے کے لیے ٹافیوں کا بھی لالچ دیا مگر نتیجہ وہ ہی کہ ان کی سالگرہ منائی جائے-ان کی سالگرہ تو خیر ہر سال ہی منائی جاتی تھی اور وہ بھی بڑی دھوم دھام سے- مگر قصہ یہ تھا کہ وہ مئی میں پیدا ہوئے تھے اور سالگرہ منانے کی ضد کر رہے تھے مارچ میں- ان کی امی نے انھیں بہت سمجھایا کہ جو بچہ مئی میں پیدا ہوتا ہے اس کی سالگرہ مارچ میں نہیں منا سکتے-مگر گلو میاں صرف تین سال اور دس ماہ کے تھے- ان کی سمجھ میں مارچ اور مئی کا مسلہ آ ہی نہیں سکا- وہ یہ سمجھے کہ یہ امی کا کوئی بہانہ ہے، اس لیے انہوں نے باقائدہ رونا دھونا شروع کردیا- امی نے بڑی مشکلوں سے انھیں چپ کرایا اور پھر کسی نہ کسی طرح سلا دیا-دوپہر کو گلو میاں کا بارہ سالہ بھائی انور اسکول سے آیا تو امی نے ان کی ضد کے بارے میں انور کو بتایا- ساتھ ہی ساتھ وہ گلو میاں کی معصومانہ حماقت پر ہنستی بھی جا رہی تھیں- انور خود ایسی تقریبات کو بہت پسند کرتا تھا- اس نے اپنی امی سے کہا-""تو امی اس میں حرج ہی کیا ہے- گلو میاں کی سالگرہ دو ماہ بعد نہ سہی، دو ماہ پہلے ہی سہی""-مگر امی انور کی بات سے متفق نہ ہوسکیں- گلو میاں جب سو کر اٹھے تو امی کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا کہ سلسلہ پھر وہیں سے جڑا ہوا تھا جہاں سے ٹوٹا تھا ""میری سالگرہ- میری سالگرہ""-ابا جان کے دفتر سے آنے تک یہ ضد وقفے وقفے سے برابر جاری رہی- ابا جان کو جب سارا ماجرہ سنایا گیا تو انہوں نے سارے دن کا جھگڑا ایک لمحے میں نمٹا دیا- انہوں نے کہا-""پرسوں جمعہ کا دن ہے- کل ہم کارڈوں کا اور دوسری اشیا کا انتظام کرلیتے ہیں- پرسوں بعد نماز جمعہ گلو میاں کی سالگرہ منائی جائے گی""-گلو میاں تو اس فیصلے سے بہت خوش ہوگئے تھے- انہوں نے اپنے ابا جان کے گلے میں بانہیں ڈالدیں- ان کی امی کو تھوڑا سا غصہ آگیا تھا- انہوں گلو میاں کی ضد اور ہٹ دھرمی کا سارا الزام ان کے ابا جان کے سر پر ڈالا اور کمرے سے چلی گئیں-بہرحال جمعہ کے روز بڑی دھوم دھام سے گلو میاں کی سالگرہ منائی گئی- مہمانوں کو کارڈ ان کے ابا اور انور گھر گھر دے کر آئے تھے- بڑی تعداد میں مہمانوں نے شرکت کی جو ان کے لیے تحفے تحائف بھی ساتھ لے کر آئے تھے- یہ بڑا سا کیک کاٹا گیا- اس زبردستی کی سالگرہ میں بہت ہلہ گلہ ہوا اور سب نے خوب لطف اٹھایا-تقریب کے اختتام پر دور رہنے والے مہمان تو اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے- چند رشتے دار جن کے گھر قریب میں ہی وہ موجود رہے-گلو میاں کافی مگن تھے اور گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے پورے گھر میں گھومتے پھر رہے تھے- مہمان ڈرائنگ روم میں ابا جان کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے-سردی کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا، اس لیے سب لوگ گرم گرم چائے کا انتظار کر رہے تھے-چائے آئ، سب لوگ باتوں کے دوران چائے سے لطف اندوز ہونے لگے- اچانک گلو میاں کی امی کی نظریں ٹی وی کے پیچھے پڑے گلدان کے ٹکڑوں پر پڑیں- یہ گلدان بے حد قیمتی تھا اور اس کو ان کے بھائی جاپان سے لے کر آئے تھے- وہ لپک کر اٹھیں، ان ٹکڑوں کو سمیٹا اور اپنے شوہر سے اس کے ٹوٹنے کی شکا یت کی-ان کے شوہر جانتے تھے کہ ان کو یہ گلدان بے حد عزیز تھا- انہوں نے بھی اس پر اظہار افسوس کیا- گلو میاں کی امی کے چہرے پر ملال کے آثار تھے-اتنی دیر میں انور بھی وہاں پر آگیا- اس نے بھی ٹوٹے ہوۓ گلدان کے ٹکڑے دیکھ لیے تھے- وہ بولا-""یہ کیسے ٹوٹا امی جان؟""-امی جان کو تو خود پتہ نہیں تھا کہ یہ کیسے ٹوٹا تھا، اس لیے وہ خاموش رہیں-انور نے کہا- ""امی جان ایسا معلوم دیتا ہے کہ آپ کو اس کے ٹوٹ جانے کا بہت رنج ہے""-""میں رنج کیوں نہ کروں؟ یہ تمہارے ماموں جان نے لا کر دیا تھا- میں تو اس کو بہت سنبھال کر رکھتی تھی""- اس کی امی نے اداسی سے کہا-""اگر آپ اسے سنبھال کر رکھتیں تو اس کی یہ حالت نہ ہوتی""- انور نے مسکرا کر کہا-دوسروں کے ساتھ اس کی امی بھی ہنسنے لگیں- انور پھر بولا-""خیر آپ فکر نہ کریں- میں نے ایک ایسی ترکیب سیکھ لی ہے جس سے یہ گلدان بالکل پہلے والے گلدان جیسا ہو جائے گا""-""اب تم مجھ سے مذاق کرنے کی کوشش مت کرو انور""- اس کی امی نے کہا- دوسرے لوگ بھی پھر سے باتوں میں مشغول ہوجانے کی کوشش کر رہے تھے کہ انور نے پھر کہا-""امی جان میں مذاق نہیں کر رہا ہوں- میں سچ کہہ رہا ہوں""-یہ کہہ کر اس نے گلدان کے ٹکڑے اپنی امی کے ہاتھوں سے لے لیے-""آپ انور کو سمجھاتے کیوں نہیں ہیں""- انور کی امی نے اس کے ابا سے کہا-""اگر انور گلدان کو توڑنے کے بارے میں کہتا تو میں اسے ضرور سمجھاتا مگر اس وقت تو یہ گلدان کو جوڑنے کی بات کر رہا ہے- میں اسے کیوں سمجھاؤں؟""- انور کے ابا نے مسکرا کر کہا-""آپ بھی میرا مذاق اڑا لیجیے""- انور کی امی نے انھیں شکایتی نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ کہا-انور نے اتنی دیر میں گلدان کے ٹکڑوں کو کمرے میں پڑی کوڑے کی ٹوکری میں ڈالدیا- پھر اس نے ایک کپڑا ٹوکری پر ڈالا اور کہا-""آپ سب کو شائد میری بات جھوٹ لگ رہی ہو گی- مگر تھوڑی دیر بعد جب آپ ایک ثابت گلدان دیکھیں گے تو عش عش کر اٹھیں گے""-انور کے ماموں بھی اس محفل میں بیٹھے ہوۓ تھے- یہ وہ ہی والے ماموں تھے جو اس گلدان کو جاپان سے لے کر آئے تھے- انہوں نے بڑے غور سے انور کی بات سن تھی اور سر کو نفی میں ہلاتے ہوۓ انہوں نے کہا-""انور بیٹے- یہ ناممکن بات ہے- سائنس بھی اس بات کی نفی کرتی ہے- ایک دفعہ اس طرح کی کسی چیز کے اجزا بکھر جائیں، دوبارہ اپنی اصلی حالت میں نہیں آسکتے""-انور یہ سن کر بھی اپنی بات پر اڑا رہا- بولا-""ماموں جان- ابھی میں جادو کے الفاظ پڑھوں گا اور گلدان اس ٹوکری میں سے بالکل صحیح سالم اور ثابت شکل میں نکل آئے گا""-انور کے لہجے میں کچھ ایسی بات تھی کہ وہاں پر موجود تمام لوگ دلچسپی سے اسے دیکھنے لگے-""اگر تم جادوگری کا دعویٰ کر رہے ہو تو اس ٹوکری میں سے ثابت گلدان نکالنے کی صورت میں میں تم کو پانچ سو روپے انعام میں دوں گا""- انور کے ماموں نے مسکرا کر کہا-""ماموں جان میں جادوگری کا دعویٰ نہیں کر رہا ہوں- اسے آپ میرے ہاتھ کی صفائی کہہ سکتے ہیں""- انور نے کہا-پھر وہ آنکھیں بند کر کے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا- تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھول کر ٹوکری پر پڑے کپڑے میں ہاتھ ڈالا- پھر یہ دیکھ کر وہاں پر موجود سب لوگ دنگ رہ گئے کہ اس کے ہاتھ میں ثابت و سالم گلدان موجود تھا-اس کی امی جھپٹ کر آگے بڑھیں- انور کے ہاتھ سے گلدان لیا اور اسے چاروں طرف سے گھما کر دیکھنے لگیں پھر ان کے منہ سے نکلا-""کمال ہے- یہ تو وہ ہی گلدان ہے!""-انور فخریہ نگاہوں سے سب کو دیکھ رہا تھا- اس کے ماموں خود بے حد حیرت زدہ رہ گئے تھے- انہوں نے تھوک نگل کر جیب سے پانچ سو روپے کا نوٹ نکال کر انور کو دیا اور خود انور کی امی سے وہ گلدان لے کر اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے-انور کے ابا جان کو خود بڑی حیرت تھی کہ انور نے وہ ٹوٹا ہوا گلدان کیسے جوڑ دیا تھا- ابھی وہ انور سے اس سلسلے میں کچھ پوچھنا ہی چاہ رہے تھے کہ انور کی ممانی کمرے میں داخل ہوئیں-انور کے ماموں بیوی کو دیکھ کر بڑے جوش سے انھیں انور کے جادو کے تماشے کے بارے میں بتانے لگے- ان کی بات سن کر انور کی ممانی کو ذرا سا بھی یقین نہیں آیا- وہ بولیں-""اگر ایسا ہونے لگا تو کانچ کے برتنوں کی انڈسٹری ٹھپ ہو کر رہ جائے گی- ادھر برتن ٹوٹیں گے ادھر جادو سے جڑ جائیں گے""-ان کی اس بات پر انور کی امی نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ انور کے ماموں غصے میں آگئے- انہوں نے ناراضگی سے کہا-""بیگم تمہیں میری بات پر یقین نہیں آیا ہے نا- لو تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو""-یہ کہہ کر انہوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوۓ گلدان کو زمین پر دے مارا- گلدان ٹوٹ گیا اور اس کے ٹکڑے قالین پر پھیل گئے-""لو میاں انور- اب تم اپنی ممانی کو دکھا دو کہ تم ٹوٹا ہوا گلدان جوڑ سکتے ہو""-انور بوکھلا کر کھڑا ہوگیا- ماموں کے دیے ہوۓ روپے اس نے جیب میں رکھے اور بولا-""ماموں جان اب یہ گلدان دوبارہ نہیں جڑ سکتا""-""کیوں؟ کیا اس سے پہلے تم ایسا نہیں کر چکے ہو؟""- ماموں جان حیرت سے بولے-""وہ تو میں ہاتھ کی صفائی دکھا رہا تھا""- انور نے بے بسی سے کہا-""تو اب بھی ہاتھ کی صفائی دکھا دو- اس میں حرج ہی کیا ہے؟""- ماموں جان نے کہا-انور خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا پھر بولا-""ماموں جان- آج دوپہر کو جب میں گھر آرہا تھا تو میں نے راستے میں ایک گلدان کے ٹکڑے پڑے دیکھے- اس گلدان کے ٹکڑے بالکل اس گلدان جیسے تھے جیسا کہ آپ امی کے لیے لے کر آئے تھے- اس ٹوٹے ہوۓ گلدان کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک ترکیب آئ- میں نے سوچا کہ گلو میاں کی سالگرہ پر سب کو ایک تماشہ دکھاؤں گا- میں نے وہ ٹکڑے اٹھا لیے- ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے ان ٹکڑوں کو ٹی وی کے پیچھے ڈالدیا اور اصلی والے گلدان کو کوڑے کی باسکٹ میں چھپا کر رکھ دیا- اس کے بعد کیا ہوا- یہ سب کچھ آپ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی چکے ہیں""-انور کی بات ختم ہوئی تو سب نے ایک قہقہہ لگایا- اس کے ماموں شرمندہ شرمندہ سے نظر آرہے تھے جبکہ انور کی امی کچھ غصے میں نظر آ رہی تھیں- انہوں نے انور سے مخاطب ہو کر کہا-""انور ٹھیک ہے- تم سب کو جادو کا تماشہ دکھا چکے تھے- مگر جس وقت بھائی جان گلدان توڑ رہے تھے تو تم نے انھیں روکا کیوں نہیں ؟- میرا پیارا گلدان تو ضائع ہوگیا نا""-""امی""- انور نے منہ بسورنے کی اداکاری کی- ""آپ انھیں تو کچھ نہیں کہہ رہی ہیں جنہوں نے گلدان توڑا ہے- مجھ پر ہی غصہ کر رہی ہیں- اس میں میرا کیا قصور ہے؟""-انور نے یہ بات کچھ ایسے انداز میں کی تھی کہ دوسروں کے ساتھ ساتھ اس کی امی کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آگئی- " تاشقند کا لکڑ ہارا - تحریر نمبر 1407,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tashkent-ka-lakarhara-1407.html,"معراجبہت دن گزرے ،تاشقند میں ایک غریب لکڑ ہارا رہتا تھا۔اس کا نام شیرازی تھا۔وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں فروخت کرتا تھا۔اسے اتنا تھوڑا معاوضہ ملتا کہ اس کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا۔شہر سے بہت دور ایک درویش کی جھونپڑی تھی ۔وہ ہر وقت اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔شیرازی ان درویش کی خدمت میں حاضر ہوا اور جھونپڑی کے باہر سے آواز لگائی :”’اے محترم بزرگ !کیا میں اندر آسکتا ہوں؟“درویش نے کہا:”دروازہ کھلا ہے ،تم اندر چلے آؤ۔“شیرازی جھونپڑی میں داخل ہوا۔اس نے ادب سے درویش بابا کو سلام کیا اور بولا:”باباجی!میں ایک غریب آدمی ہوں ۔اللہ کے واسطے !میری کچھ مدد کیجیے۔“درویش نے کہا:”کل ہی شہر کے قاضی نے مجھے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھیجی ہے ۔(جاری ہے)“یہ سن کر شیرازی کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔درویش نے کہا:”بیٹا!میں مفت میں اشرفیاں نہیں بانٹا کرتا۔تم مجھے اپنی کوئی چیز دے دو اور اشرفیوں کی تھیلی لے لو۔“شیرازی بولا:”میرے پاس آپ کو دینے کے لیے ہے ہی کیا؟ایک کلہاڑی اور ایک جھونپڑی ۔“درویش نے کہا:”یہ دنیاوی مال واسباب میرے لیے بے کار ہے ۔تم کوئی ایسی چیز دو ،جو تمھاری اپنی ہو۔مثلاً تمھاری دیکھنے کی قوت (قوت باصرہ)۔”یہ کہہ کر درویش نے اپنا ہاتھ شیرازی کی آنکھوں پر رکھ کر ہٹایا ۔اس کے ساتھ ہی شیزاری کی بینائی (نظر )جاتی رہی ۔شیرازی گھبرا کر بولا:”باباجی! آپ نے تو میری دنیا ہی اندھیری کردی ۔اب میں قدم قدم پرٹھوکریں کھاؤں گا۔راستے میں کسی گڑھے میں گرجاؤں گا یاکسی چیز سے ٹکرا کر زخمی ہو جاؤں گا۔اللہ کے واسطے!میری بینائی واپس کر دیجیے۔“درویش نے اپنا ہاتھ شیرازی کی آنکھوں پر رکھا اور اس کی بینائی واپس آگئی۔شیرازی نے کہا:”آپ میری کوئی اور چیز لے لیں۔“درویش بابا نے کہا:”رنگوں کی شناخت لے لوں؟“شیرازی خوش ہو کر بولا:”جی ہاں،آپ مجھ سے رنگوں کی شناخت لے لیجیے۔“درویش نے اس کی آنکھوں سے ایک رنگین جھلی نکال کر شیشی میں بند کر دی ۔ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ شیرازی پھر درویش کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔درویش نے کہا:”دروازہ کھلا ہے ۔میرے بچے!تم اندر چلے آؤ۔“شیرازی نے کہا:”میں اپنی زندگی سے بیزار ہو گیا ہوں ۔رنگوں کی شناخت ختم ہونے سے سب رنگ سفید یا سیاہ نظر آتے ہیں۔آسمان کی نیلا ہٹ ،زمین کا مٹیا لارنگ ،درختوں کی ہریالی،گھاس کی سبزہ ،پھولوں کی رنگینی ،سب ہی جاتی رہیں ۔کالے رنگ کا شوربا اور دودھیا سفید روٹیاں دیکھ کر مجھے کراہیت محسوس ہوتی ہے ۔کالے سیاہ رنگ کے تربوز کی کالی قاش کھاتے وقت دل متلانے لگتا ہے ۔اللہ کے واسطے!میری رنگوں کی شناخت مجھے واپس کر دیجیے۔“درویش نے شیشی سے رنگین جھلی نکال کر شیرازی کی آنکھوں پر دوبارہ لگادی۔شیرازی فوراً جھونپڑی سے باہر کی طرف دوڑا۔وہ بہت دیر تک نیلے آسمان ،سر سبز گھاس،سرخ اور گلابی پھولوں ،طرح طرح کے رنگین پرندوں کو دیکھتا رہا اور آخر میں بولا:”اللہ!تیرا شکر ہے ۔مجھے تو اب معلوم ہوا کہ رنگوں کے بغیر زندگی کتنی بے مزہ ہے ۔“درویش نے کہا:”ہاں بھئی!اب بتاؤ ،تم اپنی کون سی صلاحیت مجھے فروخت کروگے؟تمھاری قوت سماعت یعنی سننے کی طاقت لے لوں؟“شیرازی بولا:”ہاں ،بھوکوں مرنے سے بہتر ہے کہ انسان بہراہو کر زندگی گزارے”درویش نے شیرازی کے کانوں سے کچھ نکال کر ایک ڈبیا میں بند کر دیا۔ابھی تھوڑے دن ہی گزرے تھے کہ شیرازی پھر درویش کی جھونپڑی کے باہر کھڑا تھا اور کہہ رہا تھا:”میرے بابا!میری مدد فرمائیے۔“درویش نے کہا:”کیا بات ہے ،تم بہت پریشان دکھائی دیتے ہو؟“شیرازی بولا:”اے بزرگ !اب میں چڑیوں کے چہچہانے ،کویل کی کوکو،بلبل کی سریلی آواز سے محروم ہو گیا ہوں ۔بازار جاتا ہوں تو ہر وقت حادثے کا دھڑ کا لگا رہتا ہے ۔کل شام میرے پیچھے سے آنے والا گھوڑا بدک گیا۔لوگوں نے مجھے متوجہ کرنے کے لیے زور زور سے آوازیں دیں،لیکن مجھے کچھ سنائی نہ دیا۔ایک شخص نے مجھے بازو سے پکڑ کر ایک طرف کھینچ لیا اور گھوڑا میرے پاس سے گزر گیا۔اللہ کا شکر ہے کہ میں حادثے کا شکار ہونے سے بچ گیا۔آپ میری سننے کی طاقت واپس کردیجیے۔“درویش نے شیرازی کو سننے کی طاقت واپس کر دی اور کہا:”ہاں بھئی!اب تمھاری کون سی صلاحیت حاصل کروں؟حسِ ذائقہ اور حسِ شامہ لے لوں ۔پھر نہ تمھیں کسی چیز کا ذائقہ محسوس ہو گا اور نہ خوش بویا بدبو۔“شیرازی نے کہا:”جی ہاں!ذائقے اور سونگھنے کی حس میرے لیے کسی کام کی نہیں ہے ۔یہ آپ لے لیجیے۔“درویش نے اپنی دو اُنگلیاں شیرازی کے حلق میں ڈال کر کوئی شے نکالی اور شیشی میں بند کرکے ڈاٹ لگادی ۔شیرازی خوشی خوشی اپنے گھر لوٹا۔ابھی کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ وہ پھر بزرگ درویش کی جھونپڑی کے باہر کھڑا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔درویش نے کہا:”میرے بچے!دروازہ کھلا ہی ہے ۔تم اندر چلے آؤ۔“شیرازی بولا:”میرے محترم بزرگ!میں عجیب مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔“درویش نے کہا:”اللہ تمھارے حال پر رحم فرمائے۔“شیرازی نے کہا:”میری قوت ذائقہ کیا گئی،زندگی بے مزہ ہوکررہ گئی۔دال روٹی ہو یا پراٹھا کباب،حلواپوری ہو یا بریانی ،ہر چیز کا لطف جاتا رہا۔پتا ہی نہیں چلتا کہ میں زردہ پلاؤ کھا رہا ہوں یا بھو سا چبا رہاہوں ۔پچھلے دنوں تو مرتے مرتے بچا۔“درویش نے پریشانی سے پوچھا:”کیوں؟کیا ہوا؟“شیرازی بولا:”میں نے سڑا ہوا کھانا کھالیا۔ذائقہ محسوس نہ کرنے اور سونگھنے کی صلاحیت ختم ہونے کی وجہ سے میں یہ محسوس نہ کر سکا کہ یہ کھانا خراب اور بدبو دار ہو گیا ہے ۔میں شدید بیمار ہو گیا۔بہت دن تک اسی حال میں پڑا رہا۔تب کہیں اس قابل ہو سکا کہ آپ کے آستانے پر حاضر ہو سکوں۔“درویش نے پھر کہا:”اللہ تمھارے حال پر رحم فرمائے۔“پھر بزرگ اس شیشی کو اُٹھالائے اورا س میں سے کوئی شربت شیرازی کے حل میں اُنڈیل دیا۔اس کے ساتھ ہی شیرازی کی قوت ذائقہ بھی صحیح ہو گئی۔درویش نے کہا:”ہاں،اب بتاؤ کہ میں تمھاری کون سی چیز ضبط کروں؟حس لامسہ یعنی چھو کر کسی چیز کو معلوم کرنے کی صلاحیت لے لوں؟“شیرازی بولا:”’ہاں ،یہ بے کارہے ۔میں خوشی سے چھونے کی حس دینے کو تیار ہوں۔“درویش نے شیرازی کے جسم پر ہاتھ پھیرا اور بولے:”جب تم اپنے گھر پہنچو گے تو تمھاری چھونے کی قوت ختم ہو جائے گی۔“ابھی تھوڑے ہی دن گزرے ہوں گے کہ وہ پھر درویش کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔وہ سر سے پاؤں تک پٹیوں میں جکڑ ا ہوا تھا۔درویش نے حیرانی سے اسے دیکھا اور پوچھا :”یہ کیا ہوا تمھیں؟“شیرازی بولا:”حضور! اس بار زبردست مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں ۔۔جب سے میں چھونے کی قوت سے محروم ہوا ہوں مجھے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ پاؤں زمین پر رکھ دیا ہے کہ نہیں۔اس طرح میں کئی دفعہ گرا۔ایک بار تو زینہ اُترتے وقت میں سمجھا کہ میں نے قدمچے پر اپنا پاؤں رکھ دیا ہے ،حالانکہ میرا پاؤں ابھی قدمچے سے کچھ اُوپر ہی تھا۔جونہی میں نے دوسرا پاؤں اُٹھایا،میں زینے سے لڑھکتا ہوا نیچے آگرا۔بہت دن بیمار اور زخمی پڑا رہا۔اب کہیں اس قابل ہو سکا کہ آپ کے آستانے پر حاضر ی دے سکوں۔“درویش کو شیرازی کا یہ حال دیکھ کر افسوس ہوا۔انھوں نے کہا:”اللہ تمھارے حال پر رحم فرمائے۔“شیرازی پھربولا:”حضور!آپ قوت لامسہ مجھے واپس کر دیجیے اور اس کے بدلے میں کوئی اورچیز لے لیجیے۔“بزرگ اور درویش نے شیرازی کے جسم پر ہاتھ پھیرا اور اس کے ساتھ ہی شیرازی کی چھونے کی حس بیدار ہو گئی۔سیڑھیوں سے گرنے کے بعد اسے جوچوٹیں آئی تھیں ،اب ان میں درد اور تکلیف ہونے لگی اور چیخ کر بولا:”اے بابا!مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے ،لیکن اس درد میں بھی راحت ہے۔“بزرگ درویش نے کہا:”اب بتاؤ کہ تم مجھے کیا چیز دینا پسند کرو گے ؟تم اپنا سایہ مجھے دے ڈالو،ویسے بھی یہ فضول ہے اور تمھارے کسی کام کا نہیں ہے۔“شیرازی خوش ہو کر بولا:”جی ہاں،آپ نے درست فرمایا۔یہ سایہ واقعی میرے لیے بے کار اور بے مصرف چیز ہے ۔آپ شوق سے میرا سایہ لے سکتے ہیں۔“درویش نے کہا:”تم سورج کی طرف منھ کرکے کھڑے ہو جاؤ۔“شیرازی نے حکم کی تعمیل کی ۔درویش نے ایک تیز دھار والا خنجر نکالا اور ایڑی کے پاس سے سایہ کاٹ کر جسم سے علیحدہ کر دیا۔پھر انھوں نے سائے کو کپڑے کی طرح لپیٹ کر الماری میں رکھ دیا۔شیرازی خوشی خوشی اپنے گھر روانہ ہوا۔راستے میں کچھ لڑکے ملے۔اتفاق سے ایک لڑکے کی نظر اس پر پڑی تو و ہ چیخ کر بولا:” ارے دیکھو!اس آدمی کا تو سایہ ہی نہیں ہے۔“ایک بچہ سہم کر بولا:”میں نے سنا ہے کہ جن بھوتوں کا سایہ نہیں ہوتا ۔ضرور یہ شخص کوئی جن ،بھوت ہے یا کوئی خبیث روح ہے۔“سب بچے ڈر کر چلاتے ہوئے بھاگے۔محلے کے کتے بھی شیرازی کو دیکھ کر بھونکنے لگے۔وہ بھی اسے کوئی جن بھوت سمجھے ہوں گے۔اب شیرازی دن بھر اپنے کمرے میں بیٹھا رہتا۔رات کے وقت گھر سے نکلتا اور گھپ اندھیری گلیوں میں پھرا کرتا۔اس کے دوست ،رشتے دار بھی اس کی اس حرکت پر حیران تھے۔ وہ اسے بلاتے ،لیکن شیرازی کسی سے ملنے کے لیے نہ جاتا۔آخر وہ اس قید تنہائی سے گھبرا گیا اور ایک دن پھر بابا کے آستانے پر حاضر ہو گیا اور لگا چیخ چیخ کر پکارنے:”یا مرشد!پیر صاحب!“درویش نے دروازہ کھولا اور شیرازی کو دیکھ کر کہا:”کہو،کیسے آنا ہوا؟“شیرازی رونے لگا اور بولا:”حضور!میں بہت تکلیف میں ہوں ۔اللہ کے واسطے!میری مدد کیجیے اور مجھے اس مصیبت اور قید سے نجات دلائیے۔“درویش نے پوچھا“اب کیا ہوا؟“شیرازی نے جواب میں اپنی کہانی سناڈالی اور کہا:”حضور !مجھے تو اب معلوم ہوا کہ انسان کا سایہ بھی بہت کام کی چیز ہے ۔یہ وہ ساتھی ہے جو ہمیشہ ساتھ رہتا ہے ۔کبھی آگے آگے چلتا ہے اور کبھی پیچھے پیچھے ۔اس سے محروم ہو کر محسوس ہوا کہ جیسے ایک سچا دوست اور دکھ سکھ کا ساتھی ساتھ چھوڑ گیا ہو۔سائے کے بغیر میں اپنے آپ کو اکیلا اکیلا محسوس کرتا ہوں۔“بزرگ درویش نے کہا:”دیکھو بھئی،تمھاری روز روز کی دخل اندازی سے میری عبادت میں خلل پڑتا ہے ۔اب آخری موقع تمھیں دے رہا ہوں ۔اس کے بعد میں تمھاری کوئی بات نہیں سنوں گا۔“یہ کہہ کر درویش بہت دیر خاموش بیٹھے کچھ سوچتے رہے ،پھر بولے:”تم مجھے اپنا مسام دے ڈالو۔“شیرازی خوش ہو کر بولا:”جی ہاں،آپ میرے مسام لے لیجیے۔ویسے بھی یہ میرے کسی کام کے نہیں ہیں۔“درویش نے ایک صراحی سے شیرازی کے جسم پر پانی اُندیلا اور اس کے ساتھ ہی بہت باریک باریک ذرات شیرازی کے جسم سے علیحدہ ہو کر فرش پر گر پڑے۔درویش نے ان ذرات کو جمع کیا اور ایک بوتل میں دال کر الماری میں رکھ دیا۔شیرازی خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف چلا۔ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھاکہ اس کا جسم گرمی سے تپنے لگا ۔گھر پہنچے پہنچتے اس کی کھال گرمی سے جھلس گئی۔کھال میں بے شمار باریک باریک مسام یعنی سوراخ ہوتے ہیں ،جن کے راستے پسینا خارج ہوتا رہتا ہے ۔پسینا آنے سے جسم کی جلد گیلی ہوجاتی ہے اور اس کا درجہ حرارت بڑھنے نہیں پاتا۔مسام ختم ہونے کے بعد شیرازی کا جسم تانبے کے برتن جیسا ہو گیا۔گرمی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ جسم بھی گرم ہوتا چلا جاتا۔اپنے جسم کو ٹھندا رکھنے کے لیے شیرازی کودن میں دس پندرہ بار نہاناپڑتا۔وہ گیلے کپڑے پہنتا۔جسم پر پانی ڈالتا رہتا ،پھر بھی جسم کو سکون نہیں ملتا۔وہ دن بھر کمرے میں لیٹا رہتا ،شام کے وقت گھر سے نکلتا۔شیرازی جلد ہی اپنی اس حالت سے عاجز آگیا ۔ایک بار پھر وہ درویش کی جھونپڑی کے باہر کھڑا ہو کر آوازیں لگا رہا تھا:”اللہ کے واسطے!آپ میرے مسام واپس کر دیجیے۔“درویش نے الماری سے وہ بوتل نکالی ،جس میں مسام تھے۔بوتل میں پانی ڈال کر اچھی طرح ہلایا اور شیراز ی کے اوپر اُنڈیل دی۔شیرازی بولا:”حضور!اب میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ اللہ نے مجھے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ہر نعمت ہزاروں اشرفیوں سے زیادہ قیمت رکھتی ہے ۔یہ رہی آپ کی ہزار اشرفیوں والی تھیلی ۔میں اب محنت اور ہمت سے اپنی روزی کماؤں گا۔“وہ جانے کے لیے مڑا ،تب درویش نے اسے آواز لگائی:”ٹھیرو!“شیرازی رک گیا۔درویش نے کہا:”میں جو کچھ تمھیں دے چکا ہوں ،واپس نہیں لوں گا ،اسے اپنے استعمال میں لاؤ۔محنت اور ایمان داری سے روزی کماؤ۔اللہ تمھیں برکت دے گا۔“ " بادشاہ کا دشمن - تحریر نمبر 1406,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-ka-dushman-1406.html,"مختار احمدبہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا- اس کی ایک بیٹی بھی تھی جس نام شہزادی نورین تھا-شہزادی نورین بے حد حسین اور خوبصورت تھی- وہ سولہ سترہ سال کی ہوگئی تھی اور بادشاہ کسی اچھے سے شہزادے کی تلاش میں تھا تاکہ شہزادی نورین کی اس سے شادی کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے-اس بادشاہ کا ایک وزیر بھی تھا جو بے حد لالچی، خود غرض اور مکار تھا- شہزادی نورین کی خوبصورتی نے اسے بھی متاثر کیا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ بادشاہ اس سے اپنی بیٹی کی شادی کردے تاکہ اسے شہزادی کے ساتھ ساتھ تخت و تاج بھی مل جائے- اس کی عمر کافی ہوگئی تھی مگر اس نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی-اس نے ابھی تک کسی سے بھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا تھا کہ وہ شہزادی نورین سے شادی کرنا چاہتا ہے- ایک روز جب خوب تیز بارش ہو رہی تھی تو وزیر نے سوچا کہ یہ بارش تھم جائے تو وہ بادشاہ سے ملنے کے لیے اس کے محل میں جائے گا اور اس سے درخواست کرے گا کہ وہ اپنی شہزادی کے ساتھ اس کی شادی کردے-شام کو بارش رک گئی- وزیر خوب بن ٹھن کر اپنے مکان سے نکلا اور بادشاہ کے محل کی طرف چل دیا- بادشاہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں سے باغ کا نظارہ کر رہا تھا- بارش نے تمام پودوں کو نیا نکھار اور حسن بخشا تھا اور وہ بے حد دلفریب منظر پیش کر رہے تھے-جب وزیر بادشاہ کے کمرے میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر بادشاہ خوش ہوگیا اور اس سے بولا-""آؤ- بیٹھو- ہم تمہیں ابھی یاد ہی کر رہے تھے""-وزیر اس کا خوش گوار موڈ دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہونے لگا- اسے یہ امید ہو چلی تھی کہ بادشاہ چونکہ اس سے بہت خوش ہے اس لیے وہ اپنی شہزادی کی شادی اس سے کرنے پر آمادہ ہوجائے گا- وہ ایک مخمل کی آرام دہ کرسی پر بڑے ادب سے سر جھکا کر بیٹھ گیا-بادشاہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا-""اے وزیر با تدبیر- ہماری شہزادی اب بڑی ہو گئی ہے- ہم نے اس کی شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے""-وزیر اپنی مسرت چھپاتے ہوۓ بولا ""عالی جاہ! آپ نے بالکل درست فیصلہ کیا ہے- لڑکی ذات تو ویسے ہی ایک بوجھ ہوتی ہے- یہ بوجھ جتنی جلدی ہو سکے سر سے اتر جانا چاہیے- آج کل کے زمانے میں اچھے لڑکوں کی کتنی کمی ہے، آپ اچھی طرح جانتے ہیں- مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ........""-بادشاہ نے وزیر کی بات پوری طرح بھی نہ سنی اور اس کا شانہ تھپتھپا کر بولا-""شائد تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تم شہزادی کے لیے کوئی اچھا سا شہزادہ تلاش کرو گے- ہم تمہاری وفاداری سے بہت خوش ہوۓ ہیں- اسی خوشی میں یہ ہار اور تین دن کی چھٹی انعام میں دیتے ہیں""-یہ کہہ کر بادشاہ نے اپنے گلے سے سچے موتیوں کا ہار اتار کر وزیر کو دیا اور پھر بولا-""ہم نے خود بھی شہزادی کے لیے ایک رشتہ ڈھونڈ لیا ہے- وہ ہمارے شمالی ملک کے بادشاہ کا بیٹا ہے- وہ آج کل یہاں آیا ہوا ہے اور ہمارا مہمان ہے- شہزادہ اور شہزادی ایک دوسرے سے بہت جلد گھل مل گئے ہیں- ہم بہت جلد دونوں کی شادی کردیں گے- وہ دیکھو دونوں باغ میں ٹہل رہے ہیں""-وزیر کے تمام سپنے ٹوٹ گئے- بادشاہ کی بات سن کر اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور چہرے پر پسینہ پھوٹ پڑا- وہ آنکھیں پھاڑے اور منہ کھولے بادشاہ کو گھورنے لگا-""ہمیں معلوم ہے اے ہمارے پیارے وزیر- تم شہزادی نورین کو بالکل اپنی بیٹی کی طرح چاہتے ہو- تمہاری یہ حالت بتاتی ہے کہ تمہیں اس کی جدائی کا کس قدر افسوس ہے- ہم بھی جب یہ سوچتے ہیں کہ شہزادی ہم سے بچھڑ کر اپنے گھر چلی جائے گی تو ہماری بھی بالکل ایسی ہی حالت ہو جاتی ہے- صبر کرو! بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں""-یہ کہتے کہتے بادشاہ کی آواز رندھ گئی-تھوڑی دیر بعد وزیر اس سے اجازت لے کر اپنے گھر آگیا- اسے اس بات کا بے حد ملال تھا کہ شہزادی کی شادی اس کے بجائے ایک شہزادے سے ہو رہی ہے-چونکہ وزیر بے حد مکار تھا اس لیے اس نے سوچا کہ اگر وہ اپنی چالاکی سے بادشاہ کو قتل کردے تو اسے یہ تخت و تاج بھی مل سکتا ہے اور شہزادی سے اس کی شادی بھی ہو سکتی ہے-وزیر کو ساری رات نیند نہیں آئی- وہ بادشاہ کو قتل کرنے کے مختلف طریقوں پر غور کرتا رہا- آخر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آ ہی گئی-اس نے سوچا کہ وہ بادشاہ کے باورچی کو اپنے ساتھ ملا کر بادشاہ کے کھانے میں کوئی زہریلی چیز ملا دے گا اور بادشاہ کے مرتے ہی وہ عارضی طور پر تخت و تاج سنبھال لے گا- اس کے بعد جب پوری طرح ملک کی باگ ڈور سنبھال لے گا تو شہزادی نورین سے شادی کرنا کوئی مشکل کام نہ ہوگا- یہ تمام باتیں سوچ کر وہ مطمئن ہو کر سو گیا-اگلے روز صبح محل میں بادشاہ، ملکہ، شہزادی نورین اور شہزادہ شکیل ناشتے کے لیے بیٹھے ہوئے تھا- بادشاہ کے چہرے پر فکر مندی اور پریشانی کے آثار تھے- ملکہ اس کی شکل دیکھ کر بھانپ گئی کہ ضرور کوئی خاص بات ہے- اس نے جب بادشاہ سے اس بارے میں پوچھا تو بادشاہ نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا –""میں نے رات ایک بھیانک خواب دیکھا تھا- میں نے دیکھا کہ میں جنگل میں شکار کھیلنے گیا ہوں- وہاں مجھے تھکن سی محسوس ہوئی تو میں ایک درخت کے نیچے سستانے کے لیے بیٹھ گیا- وہاں بیٹھے ہوئے مجھے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ میرے پیچھے سے ایک سیاہ رنگ کا سانپ بڑی تیزی سے میری طرف بڑھا اور میرے پاؤں کو ڈس کر اپنے بل میں جا گھسا- میرا خوف و دہشت کے مارے برا حال ہوگیا تھا اور پھر اسی عالم میں میری آنکھ کھل گئی""-بادشاہ کا خواب سن کر ملکہ بھی فکر مند ہو گئی- ناشتے کے فوراً بعد اس نے شاہی نجومی کو طلب کر کے اسے بادشاہ کا خواب سنایا اور اس خواب کی تعبیر پوچھی- اس نجومی کی عمر ایک سو اسی برس کی تھی- اس کے سر اور داڑھی کے بال روئی کے گالوں کی طرح ملائم اور برف کی طرح سفید تھے-اس نے بڑے غور سے بادشاہ کا خواب سنا اور پھر اپنے ساتھ لائی ہوئی موٹی موٹی کتابوں کی ورق گردانی کرنے کے بعد وہ کچھ حساب کتاب کرنے لگا-بادشاہ، ملکہ، شہزادی نورین اور شہزادہ شکیل جو کہ شہزادی نورین کا ہونے والا شوہر تھا، سب کے سب بوڑھے نجومی کو دم سادھے دیکھ رہے تھے-تھوڑی دیر بعد نجومی نے حساب لگانے کے بعد ملکہ سے مخاطب ہو کر کہا-""ملکہ صاحبہ! خدا بادشاہ سلامت کی عمر دراز کرے، ان کا ایک دشمن پیدا ہوگیا ہے- وہ موذی ہر قیمت پر جہاں پناہ کی جان لینا چاہتا ہے- بادشاہ سلامت نے جو سانپ دیکھا تھا وہ اسی دشمن کی طرف اشارہ ہے- میں اپنے علم سے صرف اتنا ہی پتہ چلا سکا ہوں- اس دشمن کا نام نہیں بتا سکتا- پھر بھی میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر اس دشمن کو نہ پکڑا گیا تو وہ اپنی عیاری اور مکاری سے عالی مرتبہ بادشاہ سلامت کو ضرور نقصان پہنچا دے گا""-نجومی کی بات سن کر ملکہ کے ہوش اڑ گئے- بادشاہ بھی بے حد غمزدہ ہوگیا اور شہزادی نورین کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے-شہزادہ شکیل شہزادی نورین کو روتا دیکھ کر بے چین ہو گیا- اس نے بڑے پر عزم لہجے میں کہا-""پیاری شہزادی! تم رنجیدہ مت ہو- میں جب تک زندہ ہوں- انشا الله بادشاہ سلامت کو کوئی بھی شخص نقصان نہیں پہنچا سکتا- میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے پیارے ابّا حضور کے دشمن کو بہت جلد ان کی خدمت میں پیش کردوں گا""-شہزادے شکیل کی بات سن کر شہزادی نورین کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی- بادشاہ اور ملکہ نے بھی اطمینان کا سانس لیا- انھیں امید تھی کہ شہزادہ شکیل اس دشمن کو پکڑنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا-بادشاہ وہاں سے اٹھ کر دربار میں چلا گیا کیونکہ دربار کا وقت ہوگیا تھا-ملکہ اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئی اور شہزادی نورین کی چند سہلیاں آگئی تھیں وہ ان کے ساتھ باتیں کرنے لگی-شہزادہ شکیل کچھ سوچنے میں مصروف تھا- اچانک اس کے ذہن میں ایک بڑی اچھی ترکیب آگئی- وہ کمرے سے نکل کر باغ میں آیا- اس نے دیکھا کہ بادام کے درخت پر ایک طوطا بیٹھا ایک پکے ہوئے بادام پر اپنی چونچ مار رہا ہے-شہزادہ شکیل بہت ہی آہستگی سے درخت پر چڑھا اور طوطے کو پکڑ لیا- پھر اس نے طوطے کو ایک بہت ہی خوبصورت پنجرے میں بند کیا- پنجرہ سونے کی تیلیوں کا بنا ہوا تھا-شہزادہ شکیل طوطے کا پنجرہ لے کر دربار میں پہنچا- بادشاہ اپنے تخت پر بڑے بارعب طریقے سے بیٹھا ہوا تھا- تمام درباری فرش پر بچھے قیمتی قالین پر بیٹھے ہوئے تھے-شہزادہ شکیل نے بادشاہ سے کہا –""جہاں پناہ! میرے ابّا حضور نے یہ جادو کا طوطا آپ کے لیے بھیجا تھا- اسے قبول فرما کر شکریہ کا موقع دیں- یہ طوطا آپ کو ہر جمعرات کی صبح آپ کے دشمنوں کے ناموں سے آگاہ کیا کرے گا- کل جمعرات ہے، یہ جس شخص کا بھی نام لے، سمجھ لیجیے گا وہ آپ کی جان کا دشمن ہے""-بادشاہ سمجھ گیا کہ شہزادہ شکیل اس کے دشمن کو پکڑنے کی فکر میں ہے- اس نے پنجرہ لے کر اپنے پاس رکھ لیا- تمام درباری اتنا بہترین اور عجیب و غریب طوطا دیکھ کر واہ واہ کرنے لگے مگر وزیر کی حالت غیر ہوگئی- اسے اپنی جان خطرے میں نظر آنے لگی چونکہ وہ ہی بادشاہ کا دشمن تھا اس لیے وہ اس جھوٹ موٹ کے جادو کے طوطے سے خوفزدہ ہوگیا تھا-دربار سے فارغ ہو کر بادشاہ نے طوطے کا پنجرہ باغ میں سیب کے درخت پر لٹکا دیا- رات ہوئی تو وہ سب لوگ سونے کے بجائے ایک کمرے میں چھپ کر باغ کی نگرانی کرنے لگے- آدھی رات گزرنے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ وزیر باغ کی دیوار پھاند کر اندر کودا اور طوطے کے پنجرے کو درخت سے اتارنے لگا- اس کے ہاتھ میں ایک چمکتا ہوا خنجر تھا- وزیر نے سوچا تھا کہ وہ طوطے کا خاتمہ کر دے گا تاکہ طوطا بادشاہ کے سامنے اس کا نام ہی نہ لے سکے مگر اس نے جیسے ہی پنجرے کا دروازہ کھولا، ویسے ہی بادشاہ، ملکہ، شہزادی نورین اور شہزادہ شکیل کمرے سے نکل کر اس کے سامنے پہنچ گئے-شہزادہ شکیل نے کہا ""بادشاہ سلامت! آپ کا دشمن پکڑا گیا- یہ ہی وہ شخص تھا جو آپ کو موت کے گھاٹ اتارنے کے منصوبے بنا رہا تھا""-بادشاہ کی آنکھیں غصے سے انگارہ ہوگئیں- وزیر کی گھگھی بندھ گئی- وہ خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا-بادشاہ نے اسی وقت چند سپاہیوں کو بلوا کر وزیر کو گرفتار کرلیا- وزیر نے اپنا جرم مان لیا تھا اور اس جرم کی وجہ سے اس کی ساری دولت ضبط کر کے اسے ملک بدر کردیا گیا-ملکہ اور بادشاہ شہزادہ شکیل کی ذہانت سے بہت خوش تھے-چند دنوں بعد شہزادی نورین اور شہزادہ شکیل کی شادی ہوگئی اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے�(جاری ہے)� " گھر کا بھوت - تحریر نمبر 1405,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gher-ka-bhoot-1405.html," " انسان دوست - تحریر نمبر 1404,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/insaan-dost-1404.html," " بدشکل شہزادے کی سمجھ داری - تحریر نمبر 1401,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshakal-shehzadi-ki-samjhdari-1401.html,"ایک شہزادہ بد صورت تھا اور اس کا قد بھی چھوٹا تھا۔اس کے دوسرے بھائی نہایت خوبصورت اور اچھے ڈیل ڈول کے تھے ۔ایک بار بادشاہ نے بدصورت شہزادے کی طرف ذلت اور نفرت کی نظر سے دیکھا۔شہزادہ نے اپنی ذہانت سے باپ کی نگاہ کاتاڑلیا اور باپ سے کہا”اے ابا جان ! سمجھ دار ٹھگنا لمبے بیوقوف سے اچھا ہے ۔ضروری نہیں ہے کہ جو چیز دیکھنے میں بڑی ہے وہ قیمت میں بھی زیادہ ہو۔دیکھیے ہاتھی کتنا بڑا ہوتا ہے ،مگر حرام سمجھا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں بکری کتنی چھوٹی ہے مگر اس کا گوشت حلال ہوتا ہے ۔ساری دنیا کے پہاڑوں کے مقابلہ میں طور بہت چھوٹا پہاڑ ہے لیکن خدا کے نزدیک اس کی عزت اور مرتبہ بہت زیادہ ہے ۔کیا آپ نے سنا ہے کہ ایک دبلے پتلے عقلمند نے ایک بار ایک موٹے بیوقوف سے کہا تھا کہ اگر عربی گھوڑا کمزور ہو جائے تب بھی وہ گدھوں سے بھرے ہوئے پورے اصطبل سے اچھا اور طاقتور ہوتا ہے ! بادشاہ شہزادے کی بات سن کر مسکرایا ،تمام امیر اور وزیر خوش ہوئے اور اس کی بات سب کو پسند آئی۔(جاری ہے)لیکن شہزادے کے دوسرے بھائی اس سے جل گئے اور رنجیدہ ہوئے ۔جب تک انسان اپنی زبان سے بات نہیں کرتا ہے اس وقت تک اس کی اچھائیاں اور بُرائیاں ڈھکی چھپی رہتی ہیں ۔اسی زمانے میں بادشاہ کو ایک زبردست دشمن کا سامنا کرنا پڑا۔جب دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے آئیں اور لڑائی شروع کرنے کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے جو شخص لڑنے کے لیے میدان میں نکلا وہی بدصورت شہزادہ تھا۔اور اس نے پکار کر کہا :میں وہ آدمی نہیں ہوں کہ تم لڑائی کے دن میری پیٹھ دیکھ سکو۔میں ایسا بہادر ہوں کہ تم میرا سر خاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھو گے،یعنی میں دشمن سے لڑتے لڑتے جان دے دوں گا مگر ہمت نہ ہاروں گا! جو لوگ خواہ مخواہ لڑائی پرآمادہ ہوتے ہیں وہ خود اپنے خون سے کھیلتے ہیں یعنی مفت جان گنواتے ہیں اور جو لڑائی کے میدان سے بھاگ جاتے ہیں وہ پوری فوج کے خون سے کھیلتے ہیں ! یہ کہہ کر شہزادے نے دشمن کی فوج پر بہت سخت حملہ کیا اور کئی بڑے بڑے بہادروں کو قتل کر دیا۔جب باپ کے سامنے آیا تو آداب سے بجالایا اور کہا:ابا جان ! آپ نے میرے دبلے پتلے کمزور جسم کو ذلت کی نگاہ سے دیکھا اور ہر گز میرے ہنر کی قیمت کو نہ سمجھا ۔آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پتلی کمر والا گھوڑا ہی لڑائی کے میدان میں کام آتا ہے آرام اور آسائش میں پلا ہوا موٹا تازہ بیل کام نہیں آسکتا !کہتے ہیں دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی اور شہزادے کی طرف سپاہیوں کی تعداد کم تھی کچھ نے بھاگنے کا ارادہ کیا ،شہزادے نے ان کو للکار ا اور کہا،اے بہادرو!کوشش کرو اور دشمن کا مقابلہ کرو،یا پھر عورتوں کا لباس پہن لو۔اس کی بات سن کر سپاہیوں کی ہمت بڑھ گئی اور سب دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور اس کو مار بھگایا اور دشمن پر اسی دن فتح حاصل کی ۔بادشاہ نے شہزادے کو پیار کیا اور اپنی گود میں بٹھایا ۔اور روز بروز اس سے محبت بڑھنے لگی اور اس کو اپنا ولی عہد بنادیا۔دوسرے بھائیوں نے یہ حال دیکھا تو حسد کی آگ میں جلنے لگے اور ایک دن بد شکل شہزادے کے کھانے میں زہر ملا دیا۔اس کی بہن نے کھڑ کی سے دیکھ لیا اور شہزادے کو خبر دار کرنے کے لیے کھڑ کی کے دروازے زور سے بند کیے ۔شہزادہ اس کی آواز سے چونک پڑا اور اپنی ذہانت سے سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے ،کھانا چھور دیا اور کہنے لگا،یہ تو نہیں ہو سکتا ہے کہ بے ہنر لوگ زندہ رہیں اور ہنر مند مر جائیں۔اگر ہم دنیا سے ختم ہو جائے ،تب بھی کوئی شخص الّو کے سایہ میں آنا پسند نہ کرے گا ! باپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو اس نے شہزادے کے سب بھائیوں کو بلایا ان کو مناسب سزادی ۔اس کے بعد ہر ایک کو اپنے ملک کا ایک ایک حصہ دے دیا۔تاکہ آپس میں جھگڑا فسادنہ کریں۔ اس طرح یہ فتنہ اور فساد ختم ہوا۔ " ایک نیک دل پری - تحریر نمبر 1400,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ek-naik-dil-pari-1400.html,"ایک مرتبہ کاذکر ہے کہ ایک ملاح تھا ،دریا کے کنارے اس کا خوبصورت سا مکان تھا۔اس کے پاس ایک نہایت ذہین طوطا تھا،وہ نہ صرف خوبصورت تھا بلکہ لوگوں کو ان کی پریشانیوں کا حل بھی بتاتا تھا۔اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی۔ایک دن ملاح مچھلیاں پکڑ رہا تھا کہ اچانک اس کے جال میں ایک نہایت خوبصورت سنہری مچھلی آگئی،جب ملاح اسے کاٹنے لگا تو اچانک مچھلی بولنے لگی مجھے چھوڑدو ،مجھے چھوڑ دو۔یوں عام انسان کی طرح مچھلی کو بات کرتے دیکھ کر ملاح حیران رہ گیا۔ملاح چونکہ بنیادی طور پر رحم دل انسان تھا ،اس لیے اسے سنہری مچھلی پر بہت رحم آیا اور اس نے پانی میں چھوڑدیا،دیکھتے ہی دیکھتے مچھلی اچانک پری کی شکل میں تبدیل ہو گئی اور اس نے ملاح کا شکریہ ادا کیا اور اسے بتایا کہ مجھے ایک جن نے اپنے جادو کے زور سے سنہری مچھلی بنادیا تھا اور کہا تھا کہ تیری قسمت ہے اگر کسی نے تجھے پکڑلیا اور کاٹ کر کھا جائے یا چھوڑ دے ،اچھا ہوا کہ میں ایک نیک انسان کے ہاتھ لگی۔(جاری ہے)شاید کوئی اور ہوتا تو وہ مجھے کاٹ کر کھا جاتا،اگر میں زندگی میں تمھارے کسی کام آسکوں تو مجھے یاد کر لینا۔میں تمھاری مدد کروں گی ۔یہ کہہ کر وہ اڑگئی۔ایک دن اسی ملک کا بادشاہ شکار پر نکلا۔وہ سارا دن شکار کی تلاش میں رہا کہ وہ جنگل میں ہوتا ہوا ملاح کے مکان کے قریب آگیا۔جب اس کے سپاہیوں نے اس نایاب طوطے کے بارے میں بتایا تو وہ حیران رہ گیا اور اسے دیکھنا چاہا۔بادشاہ کو یہ طوطا بہت پسند آیا۔اس نے ملاح کو دربار میں بلوایا اور کہا کہ مجھے یہ نایاب طوطا دے دو۔ملاح بہت پریشان ہوا اس نے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت میں اس طوطے کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہوں ،میں یہ آپ کو کیسے دے سکتا ہوں۔پھر بادشاہ نے کہا میں تمھیں ایک محل بنا کر دوں گا،لیکن پھر بھی ملاح نہ مانا تو بادشاہ نے کہا پھر میری یہ شرط کہے کہ تم میرے دو سوالوں کے جواب دو،اگر تم میرے سوالوں کے جوابات نہ دے سکے تو پھر یہ طوطا میرا ہوا اور اگر تم نے جواب دے دےئے تو پھر نہ صرف میں طوطا تمھارے ہی پاس رہنے دوں گا بلکہ اتنی مال ودولت بھی دوں گا کہ تمھاری سات نسلیں بہت عیش سے زندگی گزاریں گی۔ملاح نے پوچھا وہ دوسوال کیا ہیں؟۔بادشاہ نے کہا میرا پہلا سوال یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جو ایک دوسرے کے پیچھے لگی ہوئی ہے؟میرا دوسرا سوال یہ ہے وہ کون سی دو چیزیں ہیں جو پہلے 4پھر 2اور پھر 3ہو جاتی ہیں ؟۔بادشاہ نے اسے ایک ہفتے کا وقت دیا۔ملا ح،بادشاہ کے یہ سوالات سن کر گھر آگیا اور پریشان رہنے لگا۔ہر وقت وہ انھی دو سوالوں کے بارے میں سوچتا رہتا ۔اس کی راتوں کی نیندیں بھی اڑگئیں ،لیکن اسے ان سوالات کے جوابات نہ ملے۔بالآخر طوطا بھی اپنی مالک کو پریشان دیکھتا رہتا۔ایک دن اس نے پوچھا آخر کیا ماجرا ہے ،مجھے بتائیں میں آپ کی پریشانی کا حل بتاؤں ۔ملاح نے اس کو اپنی پریشانی بتاہی دی اور کہا کہ کل آخری دن ہے اور اگر کل صبح تک میں نے بادشاہ کو ان سوالات کے جوابات نہیں بتائے ،تو وہ تمھیں ہمیشہ کے لیے لے جائے گا۔طوطا سوچتارہا۔اچانک اسے خیال آیا کہ کچھ دن پہلے ملاح نے اسے سنہری مچھلی والا واقعہ سنایا تھا ۔اس نے کہا کہ وہ اس نیک دل پری سے مدد لے ۔پری کا خیال آتے ہی اس نے سوچا اور اسے یاد کیا۔تھوڑی دیر میں پری حاضر ہو گئی ۔ملاح نے پری کو بادشاہ والا سارا واقعہ سنا دیا۔پری نے ایک منٹ میں دونوں سوالوں کے جوابات ملاح کو بتادےئے،اس نے پری کا شکریہ ادا کیا اور بہت آرام سے رات کو سو گیا ،صبح سویرے جب بادشاہ کے ہر کارے بلانے ملاح کو پہنچے تو وہ ان کے ساتھ ہو کر دربار میں آیا۔بادشاہ سوچ رہا تھا کہ ملاح کو ان سوالات کے جوابات نہیں آتے۔اب وہ اپنا نایاب طوطا میرے حوالے کرہی دے گا ۔اس نے پوچھا تم لے کر آئے میرے دونوں سوالات کے جواب ؟ملاح نے جواب دیا کہ آپ نے پہلا سوال پوچھا کہ وہ کون سی چیز ہے جو ایک دوسرے کے پیچھے لگی ہوئی ہیں؟ اس کا جواب ہے کہ وہ دن اور رات ہیں جوایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔آپ نے دوسرا سوال یہ پوچھا تھا کہ وہ کیا چیز ہے جو پہلے 4پھر 2اور پھر 3ہو جاتی ہے تو اس کا جواب ہے ،وہ چیز انسانی ٹانگیں ہیں ۔پہلے انسان جب چھوٹا سا بچہ ہوتا ہے تو دو ہاتھ اور دو پاؤں کے ساتھ چلتا ہے یعنی چار چیزوں سے چلتا ہے پھر جب بڑا ہوتا ہے تو وہ ٹانگوں سے چلتا ہے اور جب بوڑھا ہو جاتا ہے تو دو ٹانگوں اور ایک بیسا کھی یعنی تین چیزوں سے چلتا ہے ۔بادشاہ ،ملاح کا یہ جواب سن کر حیران رہ گیا۔جب اس نے پوچھا کہ تمھیں ان سوالوں کے جواب کس نے بتائے تو اس نے نیک دل پری کا واقعہ سنایا۔چنانچہ بادشاہ نے طوطے کو حاصل کرنے کا فیصلہ ترک کر دیا اور ملاح کو بہت مال ودولت دی ۔ " بھائی کا ایثار - تحریر نمبر 1399,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhai-ka-esaar-1399.html,"جویریہ ظفروہ تیز تیز قدموں سے جیل کے دروازے سے باہر نکلا۔اس کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔لمبے قد کا وہ شخص جب سڑک پر آیا تو اس کے انتظار میں ایک سرخ رنگ کی کار کھڑی تھی۔”مبارک ہو،نور محمد!“کار میں سے ایک نوجوان نے اسے مبارک باد دی۔نور محمد مسکرا کر اس کے گلے ملا۔”کہاں چلیں؟“کار میں بیٹھے نوجوان نے پوچھا۔’تم چلے جاؤ،میں باجی کے پاس جاؤں گا۔“نور محمد بولا۔”کیا․․․․؟“وہ چلایا :”کیوں جاؤ گے اس سے ملنے،جس نے تمھیں دس سال جیل میں بند کروایا۔“وہ آدمی حیرت سے چلایا۔”ہاں ،جاؤں گا ،تم جاؤ،میں تم سے بعد میں ملوں گا۔“نور محمد غصے سے بولا۔نور محمد کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔(جاری ہے)سارہ اس کی بہن تھی ۔وہ سارہ سے پانچ سال بڑا تھا۔نور نے سارہ کو بے انتہامحبت سے پالا تھا۔والدہ کے بعد جب والد کا انتقال ہوا تو سارہ بہت چھوٹی تھی۔نور،سارہ کا واحد سہارا تھا۔سارہ بڑی ہوئی تو نور نے اس کی شادی ایک کار وباری شخص مختار سے کردی ،مگر بد قسمتی سے وہ ایک لالچی شخص ثابت ہوا۔اس نے سارہ کو بڑے بھائی سے بدظن کرنا شروع کر دیا۔آخر سارہ نے نور سے کہہ ڈالا کہ ابا کا گھر میرے نام کردو۔نور محمد جانتا تھا،مختار نے گھر پر قبضہ کرنے کے لیے اس پر زور ڈالا ہے ۔نور نے سارہ کو سمجھاناچاہا،مگر وہ نہ مانی۔کچھ دن بعد مختار اور سارہ نے مل کر اسے ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا۔نور محمد دس سال کے لیے جیل چلا گیا تو وہ لوگ نور محمد کے بنگلے میں منتقل ہو گئے۔نور محمد نے کاغذات کہیں چھپا دیے تھے،اس لیے گھر بدستور اسی کے نام تھا۔جیل میں بھی مختار اسے آکر دھمکاتا رہا کہ گھر اس کے نام کر دے ۔نور محمد گھر پہنچا تو دروازہ کھلا ہوا ملا۔وہ بے دھڑک اندر چلا گیا۔لان میں نت نئے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے ۔وہ لان سے ہوتا ہوا گھر میں داخل ہو گیا۔ڈائیننگ روم میں اس کی بھانجی اَمل کھیل رہی تھی۔”اَمل بیٹھے!“اس نے پکارا۔نور محمد جب جیل گیا تھا تو اس کی عمر دو سال تھی ۔اَمل نے اسے دیکھا:”بیٹا! امی کو بلاؤ۔“نور محمد نے کہا۔کچھ دیر بعد سارہ داخل ہوئی ۔نور محمد کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔نور محمد مسکرا کررہ گیا:”سارہ! مجھے مبارک باد نہیں دوگی؟“نور محمد نے کہا۔اس کی آواز سپاٹ تھی۔سارہ شرمندہ سی لگ رہی تھی۔اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔”میں یہ گھر تمھارے نام کرنے آیا ہوں۔“نور محمد نے کہا۔سارہ ہکا بکارہ گئی ۔نور محمد نے کاغذات پر جلدی جلدی دستخط کیے اور کاغذات میز پر پھینک دیے۔”یہ لو،یہ ہیں وہ کاغذات ،جس کے لیے تم نے مجھے جیل میں پھینکو ادیا۔“نور محمد نے جذبات سے عاری لہجے میں کہا اور جانے کے لیے مڑا۔”بھائی!“سارہ کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی:”بھائی! پلیز مجھے معاف کردیں!“”یہ گھر تمھارا ہے سارہ! مگر آیندہ مجھے بھائی مت کہنا۔میں اپنی محنت سے اپنا گھر خود بناؤں گا۔“نور محمد تیز تیز قدموں سے باہر نکل گیا۔”پھر کیا ہوا نانی!“منزہ نے پوچھا۔وہ اس وقت نانی سے ان کی کہانی سن رہی تھی۔”بس بیٹا! اس کے بعد مختار کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہو گیا ۔وہ گھر ان کے علاج میں پہلے ہی بک چکا تھا۔جیسے تیسے گزار ا ہوا ۔اللہ بھلا کرے ،وہ ایک نیک آدمی تھا ،جس نے تمھاری ماں اَمل کی شادی کا تمام خرچ برداشت کیا۔بڑانیک آدمی تھا۔اس نے میرے نام سے پیسے بینک میں رکھوائے تھے ،جس سے خرچ چلتا رہا۔“سارہ نے سرد آہ بھری۔”نانی! کہیں وہ آدمی نانا نور محمد ہی نہ ہوں،جن کا آپ اکثر ذکر کرتی ہیں ۔“منزہ نے جوش سے کہا:”میرا خیال ہے ،اسی لیے وہ سامنے آنے کے بجائے کسی اور کے ذریعے سے مدد کررہے ہیں۔“”تم ٹھیک کہتی ہو۔مجھے پہلے کیوں نہ خیال آیا!“سارہ کہتے کہتے چونک اُٹھی ،پھر یہ کہتے ہوئے خوشی سے اُٹھی کاغذات میں کسی کا نمبر تلاش کرنے لگی۔کچھ دیر کی محنت کے بعد وہ لوگ آخر نور محمد کا گھر ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے ۔سارہ ،نور محمدکو دیکھ کر روپڑی :”بھائی! آپ مجھ سے ملنے کیوں نہیں آتے تھے؟“نور محمد بھی آب دیدہ ہو گیا:”سارہ! میں تمھیں شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔“”مگر نانا! آپ نے تونانی کو منع کیا تھا کہ ان سے تعلق نہ رکھیں؟“منزہ نے شرارت سے کہا۔”ارے ،یہ میری لاڈلی بہن ہے ۔تھوڑا ناراض ضرور تھا ،مگر تعلق تھوڑا ہی ختم کیا تھا۔مجھے یقین تھا،ایک دن ہم ضرور ملیں گے۔“”بھائی! کیا آپ مجھے معاف کر سکتے ہیں؟“سارہ نے گلوگیر لہجے میں کہا۔”میں تمھیں معاف کر چکا ہوں ۔بھول جاؤ گزرے ہوئے کل کو ،تمھیں بہت غم مل چکے ہیں۔“نور محمد نے اس کے سر پردستِ شفقت رکھا۔سارہ کو لگا جیسے اس کے سر سے بہت بڑا بوجھ اُتر گیا ہو۔ " "بھول بھلکڑ - تحریر نمبر 1398",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhool-bhulakar-1398.html,"کسی جنگل میں ایک ننھا منا ہاتھی رہا کرتا تھا۔نام تھاجگنو۔میاں جگنو ویسے تو بڑے اچھے تھے۔ننھی سی سونڈ ،ننھی سی دم اور بوٹا ساقد،بڑے ہنس مکھ اور یاروں کے یار ،مگر خرابی یہ تھی کہ ذرادماغ کے کمزور تھے۔بس کوئی بات ہی نہیں رہتی تھی۔امی جان کسی بات کو منع کرتیں توڈر کے مارے ہاں تو کر لیتے مگر پھر تھوڑی ہی دیر بعد بالکل بھول جاتے اور اس بات کو پھر کرنے لگتے۔اباجان پریشان تھے تو امی جان عاجز ،تمام ساتھی میاں جگنو کامذاق اڑاتے اور انہیں بھول بھلکڑ کہا کرتے۔اباجان میاں جگنو کاکان زور سے اینٹھ کر کہتے۔دیکھو بھئی جگنو۔تم نے تو بالکل ہی حد کر دی۔بھلا ایسا بھی دماغ کیا کہ کوئی بات یادہی نہ رہے۔تم باتوں کو یاد رکھنے کی کوشش کیا کرو۔ہاتھی کی قوم تو بڑے تیز دماغ ہوتی ہے ۔(جاری ہے)برس ہا برس کی باتیں نہیں بھولتی ۔مگر خدا جانے تم کس طرح کے ہاتھی ہو ۔ اگر تمہاری یہی حالت رہی تو تم سارے خاندان کی ناک کٹوادوگے۔جگنو میاں جلدی سے اپنی ننھی سی سونڈ پر ہاتھ پھیرتے اور سرہلا کر کہتے۔اباجان اب کے تو معاف کر دیجئے۔آئندہ میں ضرور باتیں یاد رکھنے کی کوشش کروں گا۔مگر یہ ہمیشہ کی طرح بھول جاتے اور اپنی کرنی سے باز نہ آتے اور بھئی بات یہ ہے کہ دنیا میں اتنی بہت سی تو باتیں ہیں ۔بھلاکوئی کہاں تک یاد رکھے۔اونھ۔اب مثلاً تمام ہاتھی بن مانسوں سے نفرت کرتے تھے۔کیوں کہ آج سے سوبرس پہلے کسی بن مانس نے ایک بڑاساناریل کسی ہاتھی کے منہ پر دے مارا تھا۔اس دن سے تمام ہاتھی بن مانسوں کے دشمن ہوگئے۔یہ بات جگنو کو بہت سے ہاتھیوں نے سمجھائی تھی مگر میاں جگنو تو تھے ہی بھول بھلکڑ ،کئی بار کان پکڑ کر تو بہ کی کہ اب بن مانسوں کے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلوں گا۔کھیلنا کیسا ان کی صورت بھی نہیں دیکھوں گا۔مگر دوسرے ہی دن ساری توبہ بھول جاتے اور پھر ان کے ساتھ کبڈی کھیلنا شروع کر دیتے ۔ہاتھیوں کے دوسرے دشمن طوطے تھے۔ہاتھی ان سے بھی بڑی نفرت کرتے تھے۔بات یہ تھی کہ ایک دفعہ کوئی ہاتھی بیمار ہو گیا۔اس لیے ہاتھوں نے طوطوں سے کہا کہ شورمت مچایا کرو۔اس سے مریض کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے ،مگر توبہ،وہ طوطے ہی کیا جوٹیں ٹیں کرکے آسمان سر پر نہ اٹھالیں۔اس دن سے ہاتھی طوطوں سے بھی بیررکھنے لگے ۔وہ تو کہو ان کے بس کی بات نہیں تھی ورنہ انہوں نے تو کبھی کی ان کی چٹنی بنا کر رکھ دی ہوتی ،جگنو کے ماں باپ اور یار دوستوں نے اسے یہ بات بھی کئی مرتبہ بتائی تھی اور کہا تھا کہ طوطوں سے ہماری لڑائی ہے ۔تم بھی ان سے بات مت کیا کرو۔مگر میاں جگنو بن مانس والی بات کی طرح یہ بات بھی بھول جاتے اور طوطوں کو اپنی پیٹھ پر چڑھا کر سارے جنگل میں کودے کودے پھرتے۔میاں جگنو کی یہ حرکتیں دیکھ کر ہاتھیوں نے اس سے بول چال بند کر دی ۔بڑے بڑے ہاتھیوں نے کہا۔جگنو کا حافظہ اتنا خراب ہے کہ کسی کی دوستی اور دشمنی کو نہیں سمجھتا بھلا یہ کسی سے دشمنی کیا کر سکے گا۔تمام ہاتھی اس کو بے وقوف کہہ کہہ کر چڑاتے اور اس پر پھبتیاں کستے۔مگر جگنو کو کسی کی پروا نہیں تھی۔وہ اتنا سیدھا سادا اور نیک دل تھا کہ وہ ان کے مذاق کا بالکل برانہ مانتا تھا اور پھر اس کا حافظ بھی تو کمزور تھا۔اسے یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ کون دوست ہے کون دشمن ،کون سی بات اچھی ہے ،کون سی بری۔ایک دن ایک بڑا ہی خوفناک واقعہ پیش آیا۔جنگو جنگل میں ٹہلتا پھررہا تھا کہ ایسا معلوم ہوا جیسے ایک دم زمین پھٹ گئی اور وہ اس میں سما گیا۔اصل میں شکاریوں نے یہ گڑھا کھودکر اس کے اوپر گھاس پھونس ڈھانپ دیا تھا تاکہ ہاتھی اس کے اوپر سے گزریں تو نیچے گر پڑیں اور پھر وہ انہیں پکڑ لیں ۔قسمت کی بات ،میاں جگنو ہی کی شامت آگئی۔ایک دم اوپر سے گرنے سے میاں جگنو کے بہت چوٹ آئی تھی ۔تھوڑی دیر تک تو اس کی سمجھ میں یہی نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا۔آخر جب اس نے آنکھیں ملیں اور ادھر ادھر دیکھا تو پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک گہرے گڑھے میں گر پڑا ہے ۔اب تو اس کی جان نکل گئی ۔اس نے پیر پٹک پٹک کر اور ادھر ادھر ٹکریں مار مار کر لاکھ کوشش کی کہ کسی طرح گڑھے سے نکل جائے مگر کچھ بن نہ پڑی ۔بے چارے نے ہر طرف سے مایوس ہو کر زور سے چنگھاڑنا شروع کر دیا۔ابا،ابا،اماں،اماں ! دوڑ ودوڑو۔جگنو کی چیخیں سن کر جنگل کے تمام ہاتھی دوڑ پڑے اور گڑھے کے پاس کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے لگے۔جگنو نے چیخ کر کہا۔میں ہوں جگنو،،اس گڑھے میں پڑا ہوں ۔خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو۔اس کے ماں باپ نے نیچے جھک کر اسے دیکھا۔چند بڑے بوڑھے ہاتھی بھی اس کے پاس آگئے۔سب کے سب پریشان تھے ۔امی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ جگنو کو اس مصیبت سے کس طرح نجات دلائیں۔ انہیں خاموش دیکھ کر جگنو کا دل بیٹھ گیا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولا۔تم مجھے یہاں سے نہیں نکال سکتے،میری مدد کوئی نہیں کر سکتا ،اف میں کیا کروں۔سب ہاتھیوں نے مایوسی سے سر ہلایا اور آہستہ آہستہ چلے گئے۔چلتے وقت اس کی ماں نے کہا۔جگنو!گھبرانا مت،ہم تمہارے لیے کھانا لے کر آتے ہیں ۔مگر جگنو کو کھانے کی ضرورت نہ تھی۔وہ اس گڑھے سے نکلنا چاہتاتھا۔ہاتھی چلے گئے تو اس نے ایک گہری سانس لی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اچانک اسے سر پر بہت سے پروں کے پھڑ پھڑانے کی آواز آئی۔اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو رنگ برنگے طوطے نظر آئے۔یہ سب اس کے دوست تھے جنہیں وہ اپنی پیٹھ پر چڑھا کر جنگل کی سیرکراتا تھا۔کچھ طوطے گڑے پر آکر بولے۔جگنو گھبراؤ نہیں ۔ہم ابھی تمہیں اس مصیبت سے چھٹکارا دلاتے ہیں ۔خاطر جمع رکھو۔یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور پھر جگنو نے سنا کہ طوطے بن مانسوں کو آوازیں دے رہے ہیں ۔تھوڑی دیر بعد طوطے بہت سے بن مانسوں کو لے کر آگئے۔ان کے ہاتھوں میں انگوروں کی لمبی لمبی رسیوں جیسی بیلیں تھیں ۔انہوں نے بیلوں کے سرے گڑھے میں لٹکا دیے اور کچھ بن مانس ان کے ذریعے گڑے میں اتر گئے ۔جگنو انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔اب اسے باہر نکلنے کی کچھ امید ہو گئی تھی۔ہنس کر بولا۔میرے دوستو! کیا تم مجھے باہرنکالنے میں کامیاب ہو جاؤ گے۔بن مانس بولے۔کیوں نہیں ضرور! خدا نے چاہا تو ابھی ابھی ہم تمہیں اوپر کھینچ لیں گے اگر کوئی اور ہاتھی ہوتا تو ہم ذرا بھی پروانہ کرتے یوں کہ وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں ۔مگر تماری بات دوسری ہے ،تم ہمارے دوست ہو اور دوست کی مدد کرنا دوست کا فرض ہے ۔لواب ذراتم سیدھے کھڑے ہو جاؤ تا کہ ہم تمہیں ان رسیوں سے باندھ دیں۔جگنو کھڑا ہو گیا اور بن مانسوں نے اسے رسیوں سے خوب جکڑ دیا پھر وہ ان تمام رسیوں کو لے کر گڑھے سے باہر چلے گئے اور انہیں سب کوبٹ کر ایک موٹی سی رسی بنالی۔پھر ایک بن مانسوزور سے بولا۔ہوشیار،خبردار۔سب کے سب بن مانسوں نے رسی کو مضبوطی سے تھام لیا اور تن کر کھڑے ہو گئے اسی بن مانس نے پھر کہا۔کھینچو،ایک ساتھ۔اب سارے بن مانس رسی کو پوری طاقت سے کھینچنے لگے۔ایک زور کے جھٹکے کے ساتھ جگنو کے پیر ایک دم زمین سے اٹھ گئے اور پھر وہ آہستہ آہستہ اوپر اٹھتا گیا۔اس کا دل دھک دھک کررہاتھا،بدن پرپسینے چھوٹ رہے تھے ،اگر رسی ٹوٹ گئی تو ،تو وہ پھر دھڑام سے نیچے گرپڑے گا۔بن مانس برابررسی کھینچ رہے تھے اور ساتھ ساتھ شور بھی مچاتے جاتے۔ہاں شاباش،کیا کہنے بہادرو،بس تھوڑا سا فاصلہ اوررہ گیا ہے ۔ہاں لگے زور۔تھوڑی دیر میں میاں جگنو زمین کے اوپر تھے۔انہوں نے حیرت سے آنکھیں ملیں ۔چروں طرف دیکھا اور جب سب دوستوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں ۔تب وہ سمجھے کہ میں سچ مچ اوپر آگیا ہوں ۔نئی زندگی پا کر جگنو کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔کھلکھلائے پڑتے تھے ۔یار دوستوں سے خوب خوب گلے ملے اور بولے۔تم سچ مچ میرے دوست ہو ۔دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے۔چلو سب میری پیٹھ پر چڑھ جاؤ۔جگنو میاں گھر پہنچے تو ماں باپ رورہے تھے ۔ان کے لیے تو میاں جگنو ختم ہو چکے تھے لیکن انہیں ایکا ایکی آتا ہوا دیکھ کر دن رہ گئے۔امی جان ،میرے لال کہہ کر چمٹ گئیں۔اباجان نے بھی پیار کیا۔جب دلوں کی بھڑ اس نکل چکی تو میاں جگنو نے بتایا کہ جن جانوروں کو آپ دشمن سمجھتے اور انہیں ہمیشہ نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے ،انہوں نے ہی میری جان بچائی تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے میاں جگنو کو اجازت دے دی کہ تم خوشی سے طوطوں اور بن مانسوں کے ساتھ کھیلا کرو،تمہیں کوئی نہیں روکے ٹوکے گا۔اس دن سے تمام ہاتھیوں نے انہیں بے وقوف بھی کہنا چھوڑ دیا اور ان سے ہنسی خوشی ملنے جلنے لگے۔جگنو کے ماں باپ کو آج پہلی بار معلوم ہوا کہ دوسروں کے خلاف دل میں خواہ مخواہ حسد اور دشمنی رکھنے سے یہ بہتر ہے کہ انہیں دوست بنایا جائے تاکہ وہ وقت پر کام آسکیں ۔ " بے بہرہ - تحریر نمبر 1397,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/be-behra-1397.html,"تفسیر حیدر”ماضی کی دھند سے ،حال کے اُجالے میں ،مستقبل کا سفر تو ہمیشہ جاری رہتا ہے ،مگر بعض دفعہ انسان اپنا مستقبل اپنے حال میں گنوا بیٹھتا ہے اور جب اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے تو اس کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔“سرآمش اپنے شاگردوں کو سبق پڑھارہے تھے۔”سر!اس بات کا کیا مطلب ہے ؟“اشعر نے سوال کیا،کیوں کہ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔”اس کا مطلب․․․․“سرآمش کہتے کہتے رکے ،پھر بولے:”چلو،اس کا مطلب سمجھانے کے لیے میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔“سر نے کتاب بند کی اور کہانی شروع کی۔یہ کہانی آج سے بیس سال پہلے کی ہے۔میں نے میٹرک کا امتحان اپنے شہر سے پاس کیا۔میرے والد محکمہ ریلوے میں ملازم تھے ۔(جاری ہے)انھوں نے مجھے مزید پڑھنے کے لیے لاہور بھیج دیا۔لاہور میں میری ملاقات عارف سے ہوئی۔وہ ایک غریب کسان کا بیٹا تھا۔اس کے والد گاؤں چودھری کی زمینوں پر کام کرتے تھے۔انھوں نے چودھری سے قرض لے کر عارف کو لا ہور پڑھنے کے لیے بھیجا تھا۔کالج میں عارف کی دوستی چند خراب لڑکوں سے ہوگئی۔ہرمہینے اس کے والدین اسے باقاعدگی سے خرچہ بھیجتے تھے،لیکن رفتہ رفتہ اس کے اخراجات بڑھنے لگے۔اخراجات بڑھے تو وہ اپنے گھر سے اضافی پیسے منگوانے لگا۔ایک دفعہ اپنے دوستوں کی دعوت کے لیے اسے پیسوں کی ضرورت تھی۔اس نے اپنے گھر خط لکھا:”پیارے ابا! میں پڑھائی میں خوب محنت کررہا ہوں۔اس شب وروز کی محنت کی وجہ سے میری صحت بہت خراب ہو گئی ہے ۔ڈاکٹر کو چیک اپ کروایا تو معلوم ہوا،دماغی کم زوری ہے۔ڈاکٹر نے دماغ کو تقویت دینے کے لیے اخروٹ اور بادام کھانے کے ساتھ طاقت کا ایک شربت پینے کا مشورہ دیا ہے ،جو ذرامہنگا ہے ،لیکن خرچہ پہلے ہی کم ہے ،اس لیے چپ ہوں ۔والسلام۔آپ کا بیٹا،عارف حسین۔“عارف کی ماں نے بیٹے کاخط سنا تو پھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔بے چارہ غریب باپ بھاگا بھاگا چودھری کے پاس گیا اور قرض لے کر پیسے عارف کو بھیجے۔پیسے مل جانے کے بعد عارف نے دوستوں کے ساتھ مل کر خوب گُل چھرے اُڑائے۔اب وہ اسی طرح کے بہانوں سے اضافی رقم منگواتا۔جب چھٹیوں میں گھر جاتا تو بیگ میں جاسوسی ناول بھر کر لے جاتا۔دن بھرناول پڑھتا رہتا۔اَن پڑھ ماں باپ سمجھتے بیٹا خوب محنت کررہا ہے ۔باپ بے چارہ سینہ پھلا کر گاؤں والوں کو بتاتا کہ میرا بیٹا کتنا پڑھا کو ہے۔اسی طرح سال گزر گیا ۔امتحان ہو ئے۔جب امتحان کا نتیجہ آیا تو عارف میاں تمام مضامین میں بُری طرح فیل تھے ،لیکن وہ ذرا بھی نہیں گھبرائے۔فوراً گھر خط لکھا:”میرے پیارے اماں ،ابا!نتیجہ آگیا ہے ۔میں پورے کالج میں اول آیا ہوں ،مگر حکومت نے اعلان کیا ہے کہ تمام طلبہ ایک اضافہ معلوماتی کورس کریں ۔اس کے لیے اضافی پیسوں کی ضرورت ہے ،مگر گھر کے حالات کا سوچتا ہوں تو دل چاہتا ہے ،واپس آجاؤں۔والسلام ۔آپ کا بیٹا ،عارف حسین۔“بے چارے ماں باپ مرتے کیا نہ کرتے،عارف کی دلہن کے لیے جو زیور بنا رکھا تھا،بیچ دیا اور پیسے عارف کو بھیج دیے۔پیسے ملنے پر عارف اور اس کے دوستوں نے اَن پڑھ ماں باپ کے خلوص کا خوب مذاق بنایا۔قصہ مختصر کہ دوسرا سال بھی گزرگیا۔اس سال پھر عارف فیل ہو گیا،مگر اسے ذرا پروانہ تھی۔دوبارہ گھر خط لکھا:”اباجی!میں اضافی کورس میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہو گیا ہوں۔ایک بڑی کمپنی سے نوکری کی پوش کش آئی ہے ،مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ میں ان کی کمپنی کا ایک اور کورس پاس کروں۔ابا! پیسے بھیج دیں۔پھر ہزاروں کماؤں گا۔آپ کا چاند ،عارف حسین۔“والدین پھر پریشان ہو گئے۔اگر چہ جن کو رسز کا ذکر عارف کرتا تھا،ان کا نام ونشان تک نہیں تھا،مگر اَن پڑھ ماں باپ کو کیا خبر تھی۔انھوں نے اب کی بار گھر کی چھت کی مرمت کے لیے جو پیسے رکھے تھے،وہ عارف کو بھیج دیے۔عارف پیسے پا کر اپنی دنیا میں کھو گیا۔اسے ہوش تب آیا،جب گاؤں سے اطلاع ملی کہ بارش کی وجہ سے ان کے مکان کی چھت گر گئی ہے اور اس حادثے میں اس کے والدین چل بسے ہیں۔عارف تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا،مگر اب پچھتانے سے کیا فائدہ ؟گاؤں آیا تو چودھری نے قرض کا مطالبہ شروع کر دیا،جو اس کے باپ نے اس کی پڑھائی کے لیے اتنے سالوں میں لیا تھا ،مگر عارف کے پاس نہ گھر تھا،نہ علم ،نہ ہنر۔وہ ایک بے کار نوجوان تھا۔گاؤں کے چودھری نے اسے زبردستی اپنی زمینوں کے کام پر لگا لیا۔میں تعلیم مکمل کرکے واپس آگیا۔دوبارہ مجھے عارف کی کوئی خبر نہیں ملی۔سر آمش دکھی ہوگئے تھے۔گھنٹی کی آواز انھیں واپس حال میں کھینچ لائی۔سرآمش نے چشمہ اُٹھایا اور جماعت سے باہر نکل گئے۔ " لاٹری کا ٹکٹ - تحریر نمبر 1396,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lottary-ka-ticket-1396.html,"مختار احمد۔اسلام آبادشیدے نے زندگی میں دو عورتوں سے دل سے محبّت کی تھی- ایک تو اس کی ماں جو اب اس دنیا میں نہیں رہی تھی اور دوسری اس کی بیوی ریشماں، جس سے وہ بے حد محبت کرتا تھا-اس کی شادی ریشماں سے گزشتہ برس ہی ہوئی تھی- وہ بائیس تئیس سال کی لڑکی تھی اور شیدے کے گاؤں میں ہی رہتی تھی- اس کا تعلق ایک نہایت غریب گھرانے سے تھا- اس کا باپ دریا کے کنارے سے چکنی مٹی گدھے پر لاد کر کمہاروں کو بیچتا تھا مگر اس کام میں زیادہ آمدنی نہیں ہوتی تھی بس گزارہ ہو جاتا تھا-ریشماں سے شیدے کی شادی کی داستان بھی عجیب تھی- ریشماں کی شادی کسی اور سے ہو رہی تھی مگر عین نکاح کے وقت لڑکے والوں نے جہیز میں ٹریکٹر دینے کا مطالبہ کردیا-ریشماں کے گھر والے بہت غریب تھے اور یہ مطالبہ پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے- ریشماں کے بوڑھے باپ نے اس ڈر سے کہ کہیں بارات واپس نہ چلی جائے، اپنی پگڑی تک دولہا کے باپ کے قدموں میں رکھ دی- مگر حرص و ہوس میں مبتلا لوگ ایسی باتوں کی کب پرواہ کرتے ہیں- وہ بھی اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئے-شیدا پنڈال میں بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں غصے سے کھول رہا تھا- جب اس نے ریشماں کے باپ کو روتا دیکھا تو اس سے ضبط نہ ہوا- وہ اٹھ کر ان لوگوں کے قریب آیا- اس کا ڈیل ڈول اچھا تھا اور کسی زمانے میں وہ پہلوانی بھی کرتا تھا- اس نے لڑکی کے باپ سے کہا ""بابا کیوں کسی کی عزت خراب کرتے ہو- یہ غریب لوگ ہیں- تمہیں ٹریکٹر کہاں سے دیں گے؟""-اس کی یہ مداخلت دولہا کو بری لگی وہ سہرے کے پیچھے سے بولا ""دور ہٹو- یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے""-اس کے باپ نے اس ڈر سے کہ بات بڑھ نہ جائے، لڑکی کے باپ سے کہا ""زیادہ تماشہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے- اگر تم ہمارا مطالبہ پورا نہیں کر سکتے تو بات ختم- ہم واپس جا رہے ہیں- ہمیں شادی نہیں کرنی""-مطالبہ تو تھا ہی ایسا کہ جو کسی حال میں بھی پورا نہیں کیا جاسکتا تھا- لڑکے والے واپس چلے گئے- پل بھر میں شادی والا گھر غم میں ڈوب گیا- لڑکی کی ماں کو غشی کے دورے پڑنے لگے- اس کا باپ ایک کونے میں بیٹھ کر رونے لگا-لڑکے والوں کے ساتھ آئے ہوئے مہمان تو چلے گئے تھے مگر وہ مہمان جو لڑکی والوں کی طرف سے تھے ابھی وہیں موجود تھے اور افسوس کر رہے تھے-یہ منظر دیکھ کر شیدے کے خون نے جوش مارا اور وہ بلند آواز میں ریشماں کے باپ سے بولا ""بابا تم فکر نہ کرو- میں تمھاری بیٹی سے شادی کروں گا- ابھی- اسی وقت""-اس کے اس اعلان نے وہاں موجود تمام لوگوں کو حیران کردیا- ان کی حیرانی ختم ہوئی تو اس کی جگہ خوشی نے لے لی- شیدا گاؤں کا ایک بہت ہی محنتی اور شریف نوجوان تھا- نہ کسی سے لڑائی جھگڑا، نہ کسی برے فعل میں- وہ اسی گاؤں میں پیدا ہوا تھا- یہیں بڑا ہوا تھا اور سب جانتے تھے کہ وہ ایک نیک اور دوسروں کے کام آنے والا نوجوان ہے- اس کے پاس ذاتی گھر تھا اور زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا جس پر وہ کاشتکاری کر کے اپنا خرچہ چلایا کرتا تھا-اس کی بات سن کر چند بزرگ جمع ہوئے- انہوں نے آپس میں کچھ صلاح مشورے کیے- تھوڑی دیر میں نکاح ہوگیا- شیدا دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ اس کے بروقت فیصلے نے لڑکی والوں کی پریشانی کو ختم کردیا تھا-شیدے کے بچپن کے دوستوں کو اس کی شادی کی اطلاع ملی تو وہ بھی بھاگے بھاگے نکاح کی تقریب میں شامل ہوگئے- کسی بھی لڑکی کا اس طرح کا معاملہ ہوجائے تو اس کے حل ہوجانے پر سب خوش ہو جاتے ہیں- گاؤں کے بھی سب لوگ خوش ہو گئے تھے- بوڑھے اور بوڑھیاں تو شیدے کو دعائیں دے رہی تھیں- باقی دوسرے لوگ اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے اور اس کے اس فیصلے کی دل کھول کر تعریف کررہے تھے-نکاح کے بعد وہاں پر موجود مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا- کھانے سے فارغ ہو کر ریشماں کی رخصتی ہوگئی- ایک سجے سجائے تانگے میں شیدا دلہن کو گھر لے آیا-اس کا گھر پھیلا پڑا تھا اور کوئی چیز قرینے سے رکھی نظر نہ آتی تھی- وہ ریشماں کو لے کر اندر آیا تو بولا ""ریشماں تو بھی سوچے گی کہ شیدا کیسا ہے- گھر کا کیا حال کر رکھا ہے""-ریشماں نے گھونگٹ اٹھا دیا- اس نے گھر کی حالت کی طرف ایک نظر بھی نہیں ڈالی- اس نے شیدے کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگائے اور روتے ہوئے بولی ""شیدے میں تو بس ایک ہی بات سوچ رہی ہوں- میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ مجھے اتنا اچھا مرد مل گیا ہے- تو جانتا ہے ہم کتنے غریب لوگ ہیں- ان کا مطالبہ مر کر بھی پورا نہیں کر سکتے تھے- تو کتنا اچھا ہے- تیرے دل میں ذرا سا بھی لالچ نہیں ہے- اگر تو اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرتا تو میری ماں صدمے سے آج ہی مرجاتی- شیدے میں تیرا یہ احسان زندگی بھر نہیں اتار سکوں گی""-ریشماں کی باتیں سن کر شیدے کا دل خوش ہوگیا- اس سے آج تک کسی نے ایسی باتیں نہیں کی تھیں- اس نے ریشماں کو غور سے دیکھا تو وہ اس کو بہت اچھی لگی- اس نے اس کی آنکھوں سے آنسو پونچھے اور بولا ""رو مت- یہ تو خوشی کا موقعہ ہے""-یہ باتیں ختم ہوئیں تو ریشماں نے گھر کا جائزہ لیا- اس نے فوراً ہی صفائی ستھرائی کا کام شروع کر دیا اور گھنٹہ بھر میں ہی گھر کی شکل بدل کر رکھ دی- تھوڑی دیر بعد ریشماں کے گھر سے ایک بیل گاڑی میں اس کے جہیز کا سامان آگیا- یہ سامان اس کی چند رشتے دار عورتیں لے کر آئ تھیں- وہ اس کو قرینے سے لگوانے میں ریشماں کی مدد کرنے لگیں-شیدے کے یار دوست بھی آگئے تھے اور سب ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے- مدتوں بعد شیدے کے گھر میں چہل پہل نظر آئ تھی- شیدے نے سوچا اگر ماں زندہ ہوتی تو یہ سب کچھ دیکھ کر کتنا خوش ہوتی- ماں کا خیال آیا تو اس کی آنکھیں بھیگ گئیں- ریشماں کام کرتے کرتے اس پر بھی نظر ڈال لیتی تھی- اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو جلدی سے اس کے پاس آئی-'کیا بات ہے شیدے- تو رو کیوں رہا ہے؟""- اس نے گھبرا کر پوچھا-""ریشماں- مجھے........مجھے اپنی ماں یاد آ رہی ہے""- شیدے کا دکھ محسوس کر کے ریشماں کی بھی آنکھوں میں آنسو آگئے- وہ اس کو تسلی دینے لگی-ریشماں بہت ہی اچھی بیوی ثابت ہوئی تھی- وہ شیدے کی ایک ایک چیز کا دھیان رکھتی تھی اور ہر وقت اسی کے کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتی-ایک ہفتے بعد ہی شیدے کو اندازہ ہو گیا کہ وہ ریشماں کے بغیر نہیں رہ سکتا- وہ ریشماں کے سامنے ہوتا تو وہ اس کے سامنے بچھی بچھی جاتی- اس کی اتنی خدمت کرتی کہ شیدا شرمندگی محسوس کرنے لگتا- ریشماں کی اس محبّت کا جواب وہ محبّت سے دیا کرتا تھا- ایک روز جب اس نے جذبات میں آکر ریشماں سے کہا کہ وہ اس کے بغیر مر جائے گا تو وہ بہت ہنسی تھی- بولی ""موت تو بیماری ویماری سے سے آتی ہے""-ایک روز اچانک ریشماں کی ماں بہت بیمار پڑ گئی- ریشماں کے علاوہ اس کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی جو اس موقعہ پر اس کی خدمت کرتی- اس لیے اس کی دیکھ بھال کے لیے ریشماں کو اپنے گھر جانا پر گیا-ریشماں گھر سے کیا گئی شیدے کا سکون ہی غارت ہوگیا- اس کا دل نہ کام پر لگتا اور نہ گھر میں- اس کی نیند بھی غائب ہو گئی تھی- وہ دل سے دعا کرتا کہ ریشماں کی ماں جلد اچھی ہوجائے تاکہ ریشماں واپس آجائے-وہ ساس کی تیمار داری کے بہانے دن میں دس پندرہ منٹ کے لیے ریشماں سے مل تو آتا تھا مگر اس مختصر سی ملاقات میں اسے بالکل مزہ نہیں آتا تھا- اسے ریشماں سے باتیں کرنے کی عادت پڑ گئی تھی-ایک روز جب اسے ریشماں بہت ہی یاد آ رہی تھی تو اس نے سوچا کہ دل بہلانے کے لیے شہر کی سیر کو نکل جائے- اس نے کلف لگے کپرنے پہنے، کچھ پیسے جیب میں ڈالے اور شہر جانے والے تانگے میں آ کر بیٹھ گیا-شہر پہنچ کر تانگے والے نے جہاں اسے اتارا، سامنے میدان میں ایک نمائش لگی ہوئی تھی- میلے ٹھیلے دیکھنے کا تو اسے بچپن ہی سے شوق تھا- وہ خوش ہوگیا اور جلدی جلدی سڑک پار کر کے نمائش والے میدان میں داخل ہوگیا-اندر گیا تو وہاں اسے ایک نئی دنیا نظر آئی- ہر طرف ایک عجیب ہنگامہ تھا- چاروں طرف لوگ ہی لوگ نظر آرہے تھے- مختلف چیزوں کے اسٹال تھے، ایک طرف سرکس تھا تو دوسری طرف موت کا کنواں- جگہ جگہ بڑے بڑے لاوڈ اسپیکروں پر فلمی گانے بج رہے تھے- سرکس اور موت کے کنویں کے باہر بارہ چودہ فٹ کی اونچائی پر اسٹیجوں پر عورتیں ناچ رہی تھیں-یہ رونق دیکھ کر شیدے کو بہت مزہ آیا- وہ انہیں دیکھتے ہوئے گھومتا پھرتا رہا- بھوک لگی تو ایک ٹھیلے سے اس نے انڈہ چھولے اور نان کھائے- وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ اگر اس کے ساتھ ریشماں بھی ہوتی تو اور مزہ آتا-ایک جگہ اس نے ایک خوبصورت سا اسٹال دیکھا- اس پر لاٹری کے ٹکٹ فروخت کئے جا رہے تھے- ٹکٹ بیچنے والا شخص ہاتھ میں مائیک پکڑے چیخ چیخ کر اعلان کر رہا تھا ""پچاس روپے کے ٹکٹ میں ایک لاکھ روپے کا انعام- قسمت آزمالو- پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی""-پچاس روپے کے ٹکٹ پر ایک لاکھ روپے ملیں گے- شیدے کی سمجھ میں یہ بات بالکل نہ آسکی- وہ وہیں کھڑا ہوگیا اور غور سے دوبارہ اعلان سننے لگا- جب مزید تین چار مرتبہ تک سننے کے باوجود اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو وہ ٹکٹ بیچنے والے کے پاس پہنچ گیا-اسے دیکھ کر اس شخص نے اعلان کرنا بند کردیا اور اس سے بولا ""ہاں پہلوان- پچاس روپے ڈھیلے کرو اور ایک لاکھ کا انعام پالو""-""مجھے ایک لاکھ روپے انعام میں مل جائیں گے؟""- شیدے نے بے یقینی سے پوچھا-صبح سے اب تک ٹکٹوں کی کم بکری ہوئی تھی- ٹکٹ نہیں بکتے تھے تو کمیشن بھی نہیں ملتا تھا- شیدے کو ٹکٹ میں دلچسپی لیتے دیکھا تو اس نے اسے متاثر کرنے کے لیے کہا ""پہلوان جی دیر کیوں کرتے ہو- میں تو کہتا ہوں اپنی ماں کے نام سے ایک ٹکٹ لے لو- فائدے میں رہو گے""-ماں تو اس کی تھی نہیں- اس نے سوچا کہ ریشماں کے نام سے ایک ٹکٹ لے لے- پچاس روپے دے کر ایک لاکھ روپے مل جائیں گے، سودا برا نہیں ہے-اس نے انٹی سے پچاس روپے کا نوٹ نکالا اور ٹکٹ بیچنے والے کے حوالے کرتے ہوۓ بولا ""ایک ٹکٹ ریشماں کے نام کا دے دو""- اس نے گڈی میں سے ایک ٹکٹ پھاڑ کر اس کے حوالے کردیا-""انعام کب اور کہاں سے ملے گا؟""- شیدے نے ٹکٹ کو احتیاط سے کرتے کی جیب میں رکھتے ہوئے پوچھا- اس آدمی نے ایک لمحے کے لیے شیدے کو غور سے دیکھا اور بولا ""اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو انعامات کا اعلان ہوگا- اور انعام کہاں سے ملے گا، وہ جگہ ٹکٹ پر لکھی ہے""-ان تمام باتوں میں شیدے کی سمجھ میں جو باتیں آئی تھیں وہ یہ تھیں کہ پہلی تاریخ کو ٹکٹ پر دئیے گئے پتے سے ایک لاکھ روپے کا انعام مل جائے گا-وہ خوش خوش وہاں سے لوٹا- تھوڑی دیر میں شام ہونے والی تھی- اس نے واپسی کا ارادہ کیا- جب سے اس نے ٹکٹ خریدا تھا، اس کا نمائش کی چہل پہل اور کھیل تماشوں سے دل اچاٹ ہوگیا تھا- وہ سوچ رہا تھا کہ کسی طرح جلد سے جلد یہ خوش خبری ریشماں کو سنا دے- ریشماں کا خیال آیا تو وہ اداس ہوگیا- وہ تو گھر پر ہی نہیں تھی- اس نے دل سے دعا کی کہ اس کی ماں جلد صحت یاب ہو جائے، تاکہ ریشماں واپس آ کر اپنا گھر بار سنبھالے-گھر پہنچتے پہنچتے اندھیرا ہوگیا تھا- اسے دور سے اپنی گھر کی کھڑکی میں روشنی نظر آئی- اس کا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا- ""شائد ریشماں واپس آگئی ہے""- اس نے جلدی جلدی قدم اٹھاتے ہوےٴ سوچا-گھر پہنچا تو ریشماں اس کا انتظار کر رہی تھی- اسے دیکھا تو حیرانی سے بولی ""شیدے تو کہاں چلا گیا تھا- میں کب سے تیرا انتظار کر رہی ہوں""-""تو کب آئی؟ تیری ماں کی طبیعت اب کیسی ہے؟""- شیدے نے اس کی بات نظر انداز کر کے پوچھا-""وہ اب ٹھیک ہے- میرا تو دل تجھ میں ہی پڑا ہوا تھا- تیرے کھانے پینے کی مجھے بہت فکر رہتی تھی- تو وہاں چکر کیوں نہیں لگاتا تھا- میں تو ہر وقت تیری راہ دیکھتی رہتی تھی""- ریشماں نے شکایتی انداز میں کہا-""سسرال میں زیادہ آنا جانا مجھے اچھا نہیں لگتا- بس یہ ٹھیک ہے کہ تجھے وہاں چھوڑنے چلا جایا کروں اور واپس لے آیا کروں- سسرال میں زیادہ آنے جانے سے عزت کم ہوجاتی ہے""- شیدے نے کہا پھر کچھ یاد کر کے بولا ""تو نے تو پوچھا ہی نہیں کہ میں کہاں سے آرہا ہوں""-""یہ تو میں بھول ہی گئی تھی"" ریشماں نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا- ""چل اب بتا دے تو کہاں گیا تھا؟""-شیدے نے اسے پورے دن کی روداد سنا دی اور آخر میں کہا ""ہم گاؤں والے تو شہر والوں کو بہت برا سمجھتے ہیں- مگر دیکھ تو سہی وہ ہیں کیسے- نمائش میں ایک جگہ لاٹری کے ٹکٹ مل رہے تھے- بیچنے والے آدمی نے مجھے بتایا تھا کہ پچاس روپے کا ٹکٹ لے لو، پہلی تاریخ کو ایک لاکھ روپے ٹکٹ پر لکھے ہوئے پتے پر آ کر لے جانا- میں نے ٹکٹ تیرے نام سے خرید لیا""-ریشماں تو شیدے کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتی تھی- انعام کی بات سن کر نہ صرف اسے یقین آگیا بلکہ وہ خوش بھی ہوگئی اور بولی ""چل اسی بہانے ہمارے پاس کچھ پیسے ہوجائیں گے- ان پیسوں سے ہم اچھی کھاد اور بیج بھی خرید لیں گے""-شیدے نے کرتے کی جیب سے لاٹری کا ٹکٹ نکال کر ریشماں کے حوالے کیا اور بولا ""اسے سنبھال کر رکھ- پہلی تاریخ کو لے کر جاؤں گا""-اگلے روز شیدا اپنے کھیتوں پر گیا- وہ مختلف سبزیوں کی کاشت کرتا تھا اور یہ سبزیاں گلی محلوں میں پھیری لگانے والے خرید کر لے جایا کرتے تھے-دس بجے کے قریب چچا خیرو اپنا ٹھیلا لے کر وہاں پہنچا- شیدے نے سبزیاں نکال کر اس کو دیں- وہ شیدے کا پرانا گاہک تھا- باتوں کے دوران اس نے بتایا کہ بارشوں کی وجہ سے اس کے گھر کی چھت گر پڑی تھی- شکر یہ ہوا کہ اس کے بیوی بچے باہر تھے اس لیے محفوظ رہے مگر اب انھیں کھلے آسمان کے نیچے گزارہ کرنا پڑ رہا ہے- اس کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہیں کہ دوبارہ چھت تعمیر کروا سکے-اس کی بپتا سن کر شیدے کو بہت افسوس ہوا- اس نے سوچا کہ پہلی تاریخ کو جب ایک لاکھ روپے مل جائیں گے تو وہ چچا خیرو کی چھت بنوا دے گا-ایک روز وہ دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے گھر آیا تو اس کی ماں کی ایک سہیلی خالہ رحمتے ریشماں کے پاس بیٹھی ہوئی تھی- شیدا بچپن میں اس کے گھر بہت آتا جاتا تھا- اس کے کئی بچے تھے اور ان سب سے شیدے کی دوستی تھی- شیدے کو دیکھ کر خالہ رحمتے نے اسے بہت سی دعائیں دیں اور تھوڑی دیر بعد چلی گئی-اس کے جانے کے بعد ریشماں نے بتایا کہ خالہ رحمتے بہت پریشان ہے کیونکہ اس کی سب سے چھوٹی بیٹی کے رشتے کی بات پکی ہوگئی ہے- جہیز وغیرہ تو سب پہلے سے ہی تیار تھا، شادی کے کھانے اور دوسرے اخراجات کے پیسوں کا انتظام نہیں ہوا ہے-رات کو جب شیدا سونے کے لیا بستر پر گیا تو اس کو خالہ رحمتے کی پریشانی کا خیال آیا- بہت سوچ سمجھ کر اس نے فیصلہ کر لیا کہ لاٹری کے پیسے ملتے ہی وہ اس کی لڑکی کی شادی کے کھانے پر ہونے والے اخراجات خود برداشت کرے گا-اگلے روز جب وہ کھیتوں پر جانے کے لیے گھر سے نکلا تو اسے محلے کے ایک گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں آئیں- وہ ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا- ""خدا خیر کرے"" اس کے منہ سے نکلا- معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ چاچی خیراں کی بھینس اچانک مر گئی ہے- چاچی خیراں ایک نہایت غریب عورت تھی- اس کا دنیا میں کوئی نہ تھا- اس کی گزر بسر اسی بھینس کے دودھ کو بیچ کر ہوتی تھی-شیدا افسوس کرتا ہوا اپنے راستے روانہ ہوا- اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ لاٹری سے ملنے والی رقم ملتے ہی وہ بیس بائیس ہزار کی ایک بھینس خرید کر چاچی خیراں کے حوالے کردے گا- اس کی دال روٹی تو چلتی رہے گی-چلتے چلتے اس نے گھڑی پر نظر ڈالی- یہ گھڑی تاریخ بھی بتاتی تھی- آج اٹھائیس فروری تھی- کل پہلی تاریخ تھی- اس کو خالہ رحمتے، چا چا خیرو اور چا چی خیراں کی مدد کرنا تھی- اسے بےچینی ہو رہی تھی کہ پہلی تاریخ جلدی سے آجائے تو وہ انعام لے کر اپنے ان کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے-رات کو دونوں میاں بیوی جب سونے کے لیے بستر پر لیٹے تو شیدے نے کہا ""ریشماں ان کاموں پر کتنے پیسے لگ جائیں گے؟""-ریشماں کے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کا شیدا کون سے کاموں کے بارے میں کہہ رہا ہے- اس نے تو اس سے کوئی تذکرہ ہی نہیں کیا تھا- جب اس نے ان کاموں کے متعلق پوچھا تو شیدے کو یاد آیا کہ اس بارے میں اس نے تو ریشماں کو کچھ بتایا ہی نہیں تھا- اسے نیند آرہی تھی، بولا ""ریشماں ابھی تو سونے دے- صبح ویسے بھی جلدی اٹھ کر شہر جانا ہے- پہلی تاریخ ہے- ان کاموں کا بعد میں بتاؤں گا""-اگلے روز وہ صبح سویرے ہی اٹھ گیا- ریشماں اس سے بھی پہلے کی اٹھی ہوئی تھی اور ناشتہ بنا رہی تھی- ناشتے کے بعد شیدا گھر سے نکلا اور گاؤں کے اسکول کے ماسٹر صاحب کے پاس پہنچا- کسی زمانے میں ان کی پوسٹنگ شہر کے ایک اسکول میں ہوگئی تھی اور انھیں وہاں کے بارے میں کافی معلومات تھیں-شیدے کو صبح ہی صبح اپنے دروازے پر دیکھ کر ماسٹر صاحب کچھ حیران ھوے- ""شیدے خیریت؟""- انہوں نے پوچھا-""بس جناب خیریت ہی ہے- پھر اس نے لاٹری کا ٹکٹ نکال کر ان کو دیا اور بولا ""ان لاٹری والوں کے دفتر کا راستہ معلوم کرنا تھا""-ماسٹر صاحب نے غور سے ٹکٹ دیکھا اور پھر مسکراتے ہوۓ بولے ""شیدے کیا انعام ونام نکل آیا ہے؟""-""ہاں انہوں نے آج کی تاریخ بتائی تھی- اسی لیے میں ان کے دفتر جا رہا ہوں""-""بھئی یہ لاٹری کمپنی بہت اچھی ساکھ والی ہے- یہ برسوں سے اپنا کاروبار کر رہے ہیں اور اپنی ایمانداری کی وجہ سے بہت مشہور ہیں- سینکڑوں لوگوں کو ان کی لاٹری اسکیم سے فائدہ پہنچا ہے- میرا ایک شاگرد بھی اسی کمپنی کے دفتر میں کام کرتا ہے- اس کا نام عثمان ہے- اس کمپنی کا پتہ میں بتا دیتا ہوں- اگر وہاں عثمان سے ملاقات ہو جائے تو میری طرف سے اسے پوچھ لینا- اور ہاں اپنا شناختی کارڈ ضرور لے کر جانا- اسکی کاپی انھیں درکار ہوتی ہے""-لاٹری کی کمپنی کا پتہ اچھی طرح ذہن نشین کر کے شیدا وہاں سے چل دیا- اس نے گاؤں کے ایک تانگہ بان کو رات سے ہی کہہ دیا تھا کہ اسے شہر جانا ہے اور واپس بھی آنا ہے- تھوڑی دیر میں تانگہ آگیا- شیدا تانگے میں بیٹھا اور تانگہ چل پڑا-ماسٹر صاحب نے اس دفتر کے پتے سے متعلق جو جو بتایا تھا وہ سب اس نے تانگہ بان کو بتا دیا- وہ تو روز شہر آتا جاتا تھا، اس نے سیدھا لاٹری کے دفتر پر جا کر تانگہ کھڑا کردیا-شیدا تانگے سے اترا اور آفس میں داخل ہوگیا- آفس ایک بہت ہی خوبصورت عمارت میں تھا- دروازے سے داخل ہوتے ہے اسے ایک نوجوان لڑکی ایک کھڑکی میں بیٹھی نظر آئی- شیدا اس کے پاس چلا گیا- ٹکٹ اس کی مٹھی میں دبا ہوا تھا- اس نے یہ مناسب سمجھا کہ پہلے ماسٹر صاحب کے شاگرد عثمان سے مل لے-""یہاں پر ایک لڑکا عثمان کام کرتا ہے""- اس نے سوچتے سوچتے کہا-""جی ہاں- وہ اس آفس میں ہی ہے مگر آج چھٹی پر ہے- میرے لائق اگر کوئی کام ہو تو بتائیے میں کوشش کروں گی کہ آپ کی مدد کر سکوں ""-""وہ جی- یہ میرا لاٹری کا ٹکٹ ہے""- یہ کہتے ہوئے شیدے نے ٹکٹ اس لڑکی کو تھما دیا-اس لڑکی نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ٹکٹ کے نمبر اپنے کمپیوٹر میں فیڈ کر کے بٹن دبایا اور خوشی بھری آواز میں بولی ""مبارک ہو جناب- آپ کا ایک لاکھ روپے کا انعام نکل آیا ہے ""-شیدے نے اس اطلاع پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا- یہ بات تو اسے پہلے سے ہی پتہ تھی " گہرے سمندر کے حیران کن حقائق - تحریر نمبر 1395,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gehre-samundar-k-heeran-kun-haqaiq-1395.html,"سمندر کی گہرائی اپنے اندر کئی پر اسرار اور خوفناک راز چھپائے ہوئے ہیں جبکہ زمین پر موجود سائنسدان صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ان سے پردہ اٹھا نہیں پائے۔تاہم ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ زمین کا تو ایک بہت بڑا حصہ دریافت کیا جا چکا ہے جبکہ اب تک سمندر کا جتنا بھی حصہ دریافت کیا گیا ہے وہ 5فیصد سے بھی کم ہے ۔مشہور مصنفLovecrafth.Pنے ایک بار کہا تھا کہ “سمندر پہاڑوں سے بھی زیادہ قدیم ہیں اور یاد داشتوں اور وقت کے خوابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں“۔آج ہم اپنے ننھے دوستوں کو سمندر کے حوالے سے چند ایسے حقائق بتائیں گے جن میں سے کچھ دلچسپ بھی ہیں اور کچھ خوفناک بھی۔1۔دنیا کے زیادہ تر سمندر سمندری حیاتیات سے بھر پور ہیں جن میں سمندری جانور،پودے اور مرجان شامل ہیں۔(جاری ہے)2۔سمندر ہزاروں جراثیموں اور وائرس کا گھر بھی ہوتے ہیں ۔اس میں سے زیادہ تر نقصان نہیں پہنچاتے لیکن اس کا انحصاراس بات پر بھی ہوتا ہے کہ آپ کونسے سمندر میں ہیں یا کس شہر کے سمندر میں ہیں۔3۔سمندروں میں پائے جانے والے جراثیموں کی بنیادی وجہ خود انسان ہے ۔جی ہاں سال 2010میں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق سمندروں میں 8ملین ٹن کچراپایاجاتا ہے جو کہ انسانوں نے پھینکا ہے ۔4۔سمندر کا زیادہ تر حصہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے کیونکہ روشنی سمندر میں صرف200میٹر کی گہرائی تک پہنچ سکتی ہے ۔اس کے بعد کا تمام سمندری حصہ تاریک ہوتا ہے جسے ZoneAphoticکہاجاتاہے۔5۔بلاشبہ زمین کے ایک بہت بڑے حصے پر سمندر پھیلے ہوئے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے انہیں اب تک صرف5فیصدہی دریافت کیا جا سکا ہے جبکہ 95فیصد سمندری دنیا دریافت ہونا ابھی باقی ہے۔6۔گہرے سمندر میں پانی کا دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کے اندرونی اعضاء کو با آسانی توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔یہ دباؤ انسانی پھیپھڑوں کا اپنا شکار بناتا ہے ۔7سمندری پانی کے دباؤ کی وجہ سے ہی سمندر کی بہت زیادہ گہرائی میں ڈوب جانے والی چیزوں جیسے جہاز وغیرہ کو نکالنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے ۔جیسے ٹائی ٹینک جہاز کو سوسال بعد بھی نکالا نہیں جا سکتا۔کیونکہ وہ سمندر میں تقریباً چار کلو میٹر نیچے پڑا ہے جہاں تک کسی غوطہ خور انسان کی رسائی بھی ممکن نہیں۔ صرف سمندری سنار گاڑی ہی وہاں تک پہنچ پائی ہے۔8۔اگر سمندری لہروں سے پیدا ہونے والی تو ا نائی کا صرف 0.1فیصد استعمال کریں تو ہم اتنی بجلی پیدا کر سکتے ہیں جو کہ پوری دنیا کی بجلی کی طلب سے بھی 5گنازائد ہو گی۔9۔آپ کو یہ جان کر ضرورحیرت ہوگی کہ دنیا بھر کے سمندری پانی میں تقریباً 20ملین ٹن سونا پایاجاتا ہے لیکن اب تک ایسا کم لاگت کا حامل طریقہ کا ردریافت نہیں کیا جا سکا جس کی مدد سے یہ سونا حاصل کیا جاسکے۔10۔ہر سال شارک سمندری ساحلوں کے قریب آرہی ہے بالخصوص وائٹ شارک۔یہ اپنی غذا کی تلاش میں آتی ہے لیکن انسان اس کی مرغوب غذا نہیں ہے ۔تاہم غلطی سے وہ بھی اس کا شکار بن جاتاہے۔11۔لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ لوگ زیادہ تر شارک کے بجائے جیلی فش کے ہاتھوں اپنی جان گنواتے ہیں ۔دراصل شارک کو خطرناک تو سمجھاجاتا ہے لیکن جیلی فش کا ڈنک انتہائی زہریلا ہوتاہے ۔ " قیمتی موتی کی تلاش - تحریر نمبر 1394,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qeemti-moti-ki-talash-1394.html,"عبدالرحمنبہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی ملک کا ایک تاجر تجارت کی غرض سے بغداد پہنچا ان دنوں تجارت کا یہ قانون تھا کہ تاجر جس ملک میں تجارت کرنے جاتا سب سے پہلے وہاں کے بادشاہ سے ملاقات کرتا۔اپنا ساراسامان تجارت دکھاتا اور اس کی خوبیوں اور انفرادیت سے آگاہ کرتا چنانچہ اس تاجر کو بھی بغداد پہنچنے کے بعد بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔تاجر نے بادشاہ کے حضور تحائف پیش کئے اور پھر مال تجارت نکالا اور ایک ایک چیز کی خوبی بیان کرتے ہوئے دکھانے لگا حضور یہ پانی سے چلنے والی گھڑی ہے جو میں نے یونان سے خریدی ہے ۔یہ قالین ہے جو ایران سے خریدا ہے اور یہ خالص ریشم کے تار سے بناہے ۔یہ قلم ملاحظہ فرمائیے جو میں نے جاپان سے بہت مہنگے داموں خریدا ہے ۔(جاری ہے)تاجر نے ایک ایک مال کی اہمیت بیان کی بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا :بہت خوب ،تمام چیزیں بہت عمدہ نایاب ہیں جو تم نے ایران ،یونان اور جاپان سے خریدی ہیں لیکن یہ تو بتاؤ کہ تمہیں ہندوستان میں ہمارے شایان شان کوئی چیز نظر آئی تاجر نے بادشاہ کو متاثر کرنے کیلئے کہا بادشاہ سلامت یوں تو وہاں پر آپ کے شایان شان بہت سی چیزیں تھیں لیکن جو چیز مجھے پسند آئی ،اس کو حاصل کرنے کیلئے مجھے کچھ عرصہ وہاں قیام کرنا پڑتا جبکہ میرے پاس صرف دودن کا وقت تھا اس لیے میں وہ نہیں لا سکابادشاہ نے کہا بھلا وہ کیا چیز تھی؟تاجر بولا جناب وہ ایک موتی ہے اور اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بانٹنے سے بڑھتا ہے اس کو کوئی چُرا بھی نہیں سکتا اور اس موتی سے بہت سے زیور بھی بنا کر پہنے جا سکتے ہیں بادشاہ تاجر کی اِس بات سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا میں اسے ضرور حاصل کرنا چاہتا ہوں۔اس نے فوراً اپنے ایک خاص وزیر کومع سامان و سواری اس ہدایت کے ساتھ رخصت کیا کہ اب وہ موتی لے کر ہی لوٹے وزیر اپنے مقصد کیلئے نکل پڑا جنگلوں سمندروں پہاڑوں اور صحراوں غرض کہ ہر جگہ کی خاک چھان ماری وادی وادی گھوماہر شخص سے اس نادرونایاب موتی کے بارے میں پوچھا مگر سب نے یہی کہا کہ ایسا کوئی موتی نہیں جو چوری نہ ہو سکے اور اس سے بہت سے زیور بھی بن جائیں ۔لوگ اس کی بات سن کر ہنستے اور کہتے مسافر پاگل ہو گیا ہے ۔یوں مہینوں بیت گئے ،ناامیدی کے سائے گہرے ہونے لگے مگر بادشاہ کے سامنے ناکام لوٹنے کا خوف اس کو چین نہیں لینے دے رہا تھاوزیر نے ہر ممکن کوشش کرلی کہ اسے کوئی ایسا موتی مل جائے لیکن نہ ملا آخر کار اُس نے واپسی کاارادہ کر لیا وزیر اپنی ناکامی پر زاروقطار روتا جنگل سے گزررہا تھا رات خاصی بیت چکی تھی اور وہ تھک بھی گیا تھا ایک درخت کے پاس آرام کے ارادے سے لیٹا ہی تھا کہ اسی لمحے ایک روشنی اپنی جانب بڑھتی نظر آئی۔پہلے تو وہ ڈر گیا مگر پھر ایک آواز نے اس کو حوصلہ دیا ارے نوجوان ڈرومت میں اچھی پری ہوں بتاؤتمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے مدتوں کا تھکامسافر معلوم ہوتا ہے بتامیں تیری کیا مدد کروں ؟وزیرنے اپنی داستان کہہ سنائی کہ اسے جس موتی کی تلاش تھی ،وہ اس کو کہیں سے بھی نہیں ملا اب اچھی پری وزیر کے سامنے آچکی تھی اور وہ وزیر کی بات سن کر بے ساختہ ہنسنے لگی اور بولی افسوس کہ تو نے عقل سے کام نہ لیا اور محض ایک موتی کی تلاش میں مہینوں مارا مارا پھر تار ہاوزیر بولا اچھی پری میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا پری بولی بھلے آدمی وہ موتی دراصل علم کا موتی ہے لیکن تو اس کی ظاہری شکل کو تلاش کرتا رہا علم تو ایک ایسی شے ہے جسے ہزاروں نام دےئے جا سکتے ہیں کہیں اسے پھل دار درخت کہتے ہیں تو کبھی سورج سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس سمندر بھی کہا جاتا ہے لیکن اسے کوئی چُرا نہیں سکتا لیکن اس سے زیور بنانے والای صفت؟وزیر نے حیرت سے پوچھا پری نے مسکراتے ہوئے کہا :علم کی بہت سی صفات ہیں تم اس موتی کی صورت کو کیوں تلاش کرتے ہویا در کھوہر شے کی تاثیر کا تعلق اس کے نام سے نہیں بلکہ اس کی اندرونی خوبیوں سے ہوتا ہے اسی طرح علم بھی ایک نایاب موتی ہے کہ جس سے یہ حاصل ہو جائے وہ اس سے ایسے ہی سج جاتا ہے جیسے انسان زیور پہن کر سجتا ہے اور اسے کوئی چرا نہیں سکتا بلکہ یہ تو بانٹنے سے بڑھتا ہے گھٹتا نہیں ہے ۔وزیر بڑے غور سے پری کی بات سُن رہا تھا اور بالآخر قائل ہو گیا کہ واقعی علم ایک ایسا موتی ہے کہ جس کے پاس ہو وہ دراصل دنیا کے سب سے قیمتی زیور کا مالک بن جاتا ہے وزیر نے پری کا شکریہ ادا کیا جس کے بعد اچھی پری وہاں سے غائب ہو گئی ۔اب وزیر بہت خوش تھا اور اپنی کامیابی کے گیت گاتا اپنے ملک کو روانہ ہو گیا۔وہاں پہنچ کر اس نے بادشاہ کو علم کے موتی کے بارے میں بتایا اور سمجھایا تو بادشاہ بھی پری کی بات کا قائل ہو گیا کہ صرف علم ہی وہ موتی ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتا۔ننھے ساتھیو! علم ایک ایسا موتی ہے جس کی چمک دمک زمین سے آسمان فرش سے عرش تک ہے اور علم کے اس موتی کی روشنی میں ہی انسان اس کائنات کے خلق ومالک تک رسائی حاصل کرتا ہے ۔ " لالچی دھوبی - تحریر نمبر 1393,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/laalchi-dhobi-1393.html," " چڑیا کا انتقام - تحریر نمبر 1392,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chirya-ka-intiqam-1392.html,"زاراآسیبعض اوقات انسان جانے انجانے میں ایسے افعال کر گزرتا ہے جن کے نتائج بہت بھیا نک اور ہو لناک ہوتے ہیں ۔جب نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انسان کو عقل آتی ہے چڑیا ایک چھوٹا سا پرندہ ہے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ کسی سے اپنا انتقام لے گی لیکن یہ لگ بھگ 1960-65کی بات ہے ۔اس زمانہ میں پاکستان کے اکثر علاقے بجلی کی سہولت سے محروم تھے ۔بالخصوص دیہی اور نواحی علاقے بہت زیادہ پس ماندہ تھے اس لئے رات ہوتے ہی تاریکی کا راج ہوتا یعنی راتیں روشن تونہ تھیں لیکن لوگوں کے دل محبت وہمدردی کے نور سے منور تھے لوگ بہت ملنسار تھے ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنے مین دلی اطمینان وسکون محسوس کرتے تھے ایک شخص کراچی کے نواحی علاقے میمن گوٹھ میں امامت کے فرائض ادا کرتا تھاو ہ اس علاقے میں بہت خوش تھا وہاں کے لوگ بہت ملنسار ،غم گسار ،ہنس مکھ تھے وہاں آب وہوا بہت تازہ تھی اردگرد سبزہ ہی سبزہ تھا اس پر مستز ا دوہاں خالص دودھ دہی مکھن دیسی انڈے دیسی گھی تازہ سبزیاں اور گوشت الغرض خوش خوراکی کے لئے بہت ہی ارزاں قیمت پر بہترین غذا ہر وقت میسر تھی وہاں کی ایک اور خاص بات پرندوں کا گوشت تھا جو ذرا سی محنت سے بالکل مفت حاصل ہوجاتا ان صاحب کو بھی چڑوں کی یخنی محبوب تھی کبھی کبھی وہ چڑے پکڑتے اور ان کی یخنی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔(جاری ہے)چڑے پکڑنے کے لئے اسے کوئی خاص محنت نہ کرنی پڑتی کیونکہ اس شخص کا کمرہ چڑیاں پکڑنے کے لئے نہایت موزوں تھا وہ اپنی دہلیز پر بہت سے دانے گرادیتا جب چڑیاں دانے چگنے میں مصروف ہوتیں تو یہ اچانک دروازہ بند کر دیتا اور اندر جا کر انہیں پکڑ لیتا ایک دن اس نے اسی ترکیب پر عمل کرتے ہوئے بہت ساری چڑیوں کو کمرے کے اندردھکیل کر کمرابند کر دیا ارادہ تھا کہ تھوڑی دیر بعد انہیں ذبح کرکے شام کا بہترین سالن پکایا جائے گا وہ دن اس شخص کا کچھ اتنا مصروف گزرا کہ دن بھر اسے چڑیوں کا خیال تک نہ آیا دو پہر کو قیلولہ کرنے کے بعد جب وہ اٹھا تو عصر کا وقت ہو چکا تھا عصر کی نماز پڑھا کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ اس علاقے کا ایک بااثر آدمی ملنے کے لئے آگیا اس سے گفتگو کے دوران مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا مغرب کے بعد کسی اور شخص سے ملاقات کرنا پڑی جس نے کھانے کی دعوت بھی دی وہاں کھانا کھانے کے بعد جب آئے تو عشاء کا وقت ہو چکا تھا اس زمانے میں لائٹ تو تھی نہیں اس لئے لوگ عشا کے فوراً بعد سو جاتے تھے یہ شخص بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہی مسجد کے باہر کھاٹ لگا کر سو گیا۔اب آتے ہیں انتقام کی جانب۔عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد وہ شخص سو گیا آدھی رات کو اٹھا انتہائی گھبراہٹ ووحشت کا عالم ہر سوسناٹا چاند کی کوئی روشنی نہیں اندھیرا ہی اندھیرا وہ شخص باربار تھوک رہا تھا ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ خون تھوک رہا ہے جب خوف اور وحشت پر قابو نہ پا سکا تو اس نے فوری ایک فیصلہ کیا اور وہی سے اونچی اونچی آوازیں دے کر بستی کے لوگوں کو بلانے لگا بستی کے چند افراد آئے وہ حیران وپریشان تھے آخر معاملہ کیا ہے آدھی رات کو ہمیں کیوں بلایا گیاہے؟امام صاحب نے ان سے کہا میری طبیعت بہت خراب ہورہی ہے مجھے بہت گھبراہٹ ہورہی ہے میرے منہ سے خون نکل رہا ہے میں اس امامت کو جاری نہ رکھ سکوں گا انہوں نے چراغ کی روشنی میں دیکھ کر بتایا کہ وہاں تو خون کا ایک دھبہ بھی نہیں ہے لیکن اس شخص کا مسلسل اصرار تھا کہ یہ خون ہے اور چراغ کی روشنی میں بھی اسے لگا کہ وہ خون تھوک رہا ہے بستی کے لوگ ایسا قطعا نہ چاہتے تھے کہ وہ اس شخص سے بہت مطمئن تھے وہ ایک متقی اور پر ہیز گار شخص تھا دن کے اوقات میں بستی والوں کے بچوں کو ناظرہ اور دوسری تعلیم دیتا تھا جب گاؤں والے کسی طرح نہ مانیں تو اس نے کہا مجھے لگتا ہے کہ مجھ پر ٹی بی کا حملہ ہوا ہے اور پھر اسی وقت گاؤں والوں سے کچھ اور انتظام کرنے کا کہا گاؤں والوں کے باربار اصرار کے باجود اس نے وہاں امامت جاری رکھنے سے منع کر دیا آخر گاؤں والوں کو اس کی بات ماننی پڑی ۔اس شخص کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ معاملہ کیا ہے وہ جب سونے لگا تھا اس وقت توبالکل ٹھیک تھا اس کی طبی معلومات کے مطابق اسے لگا کہ وہ ٹی بی کا شکار ہو چکا ہے اس وقت ٹی بی ایک خوفناک اور لاعلاج مرض تھا اگر کسی کو علم ہو جائے کہ اسے ٹی بی ہے تو گویا اسے موت کا پروانہ مل گیا خاص کر کمزور مالی حالت والوں کے لئے یہ واقعی موت کا پروانہ ہی تھا اس شخص کی آواز قبر سے آتی معلوم ہوتی تھی بہر حال جیسے تیسے کرکے صبح ہوئی اسی بے چینی میں صبح ہوتے ہی اس نے اپنا کمرہ کھولا اپنا سامان لیا تو وہاں پورے دن کی بھوکی پیاسی بے چین چڑیاں باہر نکلیں لیکن گردووپیش سے مکمل بے خبریہ بے چین شخص سب سے پہلے اسپتال گیا اپنا چیک اپ کروایا ڈاکٹر نے رپورٹ کے لئے اگلے دن آنے کا کہا لیکن اس شخص کی بے چینی دورنہ ہوتی تھی۔اس نے ملتان واپس جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں اپنے ایک دوست کو ذمہ داری سونپ کر ملتان چلا گیا وہ شخص اتنا بے چین تھا کہ کراچی سے رپورٹ کا انتظار بھی نہ کر سکا اس نے ملتان پہنچتے ہی سب سے پہلے نشتر اسپتال سے اپنا دوبارہ چیک اپ کروایایہاں بھی رپورٹ کے لئے تین دن کا انتظار کرنا پڑاتین دن بعد رپورٹ ملی اسے ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ سو فیصد صحیح ہے ٹی بی کے کوئی آثار نہ تھے ایک دو دن بعد کراچی سے بھی رپورٹ آگئی کہ وہ بالکل صحیح ہے ۔لیکن یہ پھر ایسا کیا ہواکہ وہ گھبراہٹ پریشانی آخر اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ چڑیوں کا انتقام ہے ۔وہ خیال ذہن میں چپک گیا کہ تم نے شدید گرمی میں چڑیوں کو پورا دن بھوکا پیا سارکھا جس کی بنا پر تمہارے حواس پر بھی ٹی بی کا بھوت سوار کر دیا گیایہ بات ذہن میں آتے ہی اس شخص نے توبہ کی اور اس واقعہ کے بعد وہ حتی المقدور پرندوں اور دیگر حشرات الارض کے دانہ پانی کا انتظام کرنے والا بن گیا۔یوں کافی عرصہ گزرنے کے بعد اس کے دل کوٹھنڈک ملی اور اسے سکون قلب میسر آیا ۔ " شیر اور چوہا۔۔تحریر:ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ - تحریر نمبر 1391,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sher-aur-chooha-1391.html," " انجان چوہا - تحریر نمبر 1389,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/anjan-chuha-1389.html," " "حسابِ دوستاں - تحریر نمبر 1388",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hisab-e-dostaan-1388.html,"عشرت جہاں”اُف‘اتنا بڑا مذاق ! ایسا کیوں کیا تم لوگوں نے ؟“بلال منھ کھولے کھڑا تھا۔”بھئی ،مذاق ہی تو ہے ،کوئی بڑا مسئلہ تو نہیں ہے۔“زمان ہنستے ہوئے بولا۔”یہ مذاق ہے ؟“بلال نے دانت پیسے۔”ارے بھئی،پریشان مت ہو،اپنی باری پر تم بدلہ لے لینا۔“حسن نے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔”زندگی تمھارے لیے مذاق ہے ،میرے لیے نہیں ۔میں نے پہلے بھی بتایا تھا،ابو اسپتال میں داخل ہیں ۔“بلال روہا نسا ہو گیا۔پیر یڈ کی گھنٹی بجی اور وہ آنسو پیتا ہوا اپنی نشست کی طرف بڑھ گیا۔زمان،حسن اور نوید نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ان کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔تینوں شرمندہ شرمندہ سے اپنی نشستوں پر جا بیٹھے ۔(جاری ہے)بلال روٹھا روٹھا سارُخ موڑے بیٹھا رہا۔اگر پاپا ٹھیک ہوتے تو میری خواہش پوری کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ،چاہے اس کے لیے انھیںاو ورٹائم ہی کیوں نہ لگانا پڑتا ،لیکن اب میں ان سے کیسے کہوں․․․․․بلال اپنی سوچوں میں غرق تھا۔مس انیقہ کے آنے کی آواز دور سے آتی محسوس ہورہی تھی ۔کچھ عرصے پہلے ہی اس اسکول میں اس کا داخلہ ہوا تھا۔زمان،حسن اور نوید کھاتے پیتے گھرانوں کے لڑکے تھے۔اگر چہ ذہین بھی تھے ،لیکن زندگی کی اونچ نیچ سے واسطہ نہ پڑا تھا،اس لیے بے فکر تھے ۔جب کہ بلال درمیانے درجے کے گھرانے کا ہونہار بچہ تھا۔اسکا لرشپ کے باعث شہر کے بہترین اسکول میں اسے داخلہ ملا تھا۔فضول خرچیوں کی اس کے پاس گنجایش نہیں تھی ۔تینوں نے شرارت ہی شرارت میں مس انیقہ سے کہا تھا کہ کل بلال کی سال گرہ ہے اور وہ پوری کلاس کو اسی خوشی میں دعوت دے رہا ہے ۔اُدھر بلال اپنی پریشانی میں مبتلا تھا۔اس کے ابو پر ہلکا سا فالج کا حملہ ہوا تھا۔وہ اسپتال میں داخل تھے ،جہاں ان کا علاج چل رہا تھا۔اگر کل چھٹی کرلوں تو پھر ․․․․بلال سوچ رہا تھا ،لیکن ٹیسٹ بھی تو اہم ہے ۔اس نے اپنے خیال کی نفی کی ۔اب کیا ہوا ،اگر مس انیقہ کو ساری بات بتادوں تو شاید وہ میری بات پر اعتبار ہی نہ کریں ۔حسن ،زمان اور نوید اپنی بات سے مکر بھی سکتے ہیں ۔وہ تین ہیں اور میں اکیلا ،مس میری بات پر اعتبار نہیں کریں گی ۔چھٹی کی گھنٹی بجنے کے ساتھ ہی بلال بیگ اُٹھائے باہر نکل گیا ۔وہ اسکول سے دور جانا چاہتا تھا۔تینوں ایک دوسرے کا منھ تکتے رہ گئے۔اپنی بہترین پوزیشن بحال رکھنے کے لیے اگلے دن کا ٹیسٹ بلال کے لیے بہت ضروری تھا ،ورنہ اسکا شپ میں کٹوتی ہو سکتی تھی ۔اسی لیے بلال اپنی کلاس میں موجود تھا ،جب کہ حسن،نوید اور زمان ابھی تک اسکول نہیں آئے تھے۔بلال سوچ رہا تھا میں اسکول کے وقفے میں مس کو ساری بات سچ سچ بتا دوں گا چاہے،وہ یقین کریں یا نہ کریں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اس نے فیصلہ کر لیا۔وقفے سے پہلے ہی مس انیقہ نے بچوں کو کلاس سے باہر نکلنے سے روک دیاتھا۔بلال بے بسی سی محسوس کررہا تھا۔وقفے کی گھنٹی بجتے ہی زمان ،حسن اور نوید پلاسٹک کے بڑے بڑے تھیلے اُٹھائے کلاس میں داخل ہوئے۔مس انیقہ نے ہلکی سی مسکراہٹ سے ان کا استقبال کیا۔ان کے اشارے پر تینوں دوست تھیلے رکھ کر کلاس سجانے لگے ۔مس انیقہ کی حوصلہ افزائی پا کر دیگر بچے بھی بڑھ چڑھ کر کام کرنے لگے ۔بلال حیرت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ذرا دیر بعد ہی میز کئی قسم کی چیزوں سے بھر چکی تھی۔جن میں سب سے نمایاں بڑا سا کیک تھا۔بلال کو یوں لگا ،جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھما کر میز کو کھانے پینے کی چیزوں سے بھر دیا ہو۔حسن،زمان اور نوید بلال کی طرف بڑھے ۔وہ بُت بنا بیٹھا تھا۔نوید نے بلال سے کہا:”پہلے ہم اسپتال گئے تھے ۔تمھارے ابو بالکل ٹھیک ہیں اور اسپتال سے گھر جانے کی تیاری کررہے تھے ۔ہم نے انھیں بتا دیا ہے کہ ہم اسکول میں بلال کی سالگرہ منارہے ہیں۔یہ سن کروہ بہت خوش ہوئے۔“زمان بولا:”زندگی کا نیا سال مبارک ہو دوست!“”ہم تمھیں کھونا نہیں چاہتے۔“حسن نے کہا اور حسن بلال کا ہاتھ پکڑے میز کی جانب بڑھ گیا،جہاں مس انیقہ اور بچے کیک کٹنے کے منتظر تھے۔ " نیک دل پڑوسن - تحریر نمبر 1385,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naik-dil-parosan-1385.html,"مختار احمدجمیلہ بھی بستی کے دوسرے غریب لوگوں کی طرح ایک تین کمرے والے کوارٹر میں رہتی تھی- جب اس کا شوہر زندہ تھا تو اس نے یہ کوارٹر خریدا تھا- مدت ہوئی اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا اور اب ایک بیٹی کے سوا اس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا-جب اس کا شوہر زندہ تھا تو ان کے حالات بہت اچھے تھے- وہ راج گیری کا کام کرتا تھا اور بعد میں اس نے ٹھیکوں پر گھروں کی تعمیر شروع کر دی تھی- اس کام سے اسے اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ جمیلہ اور اس کی بیٹی پروین کی زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی- مگر شوہر کی بے وقت موت نے اس کے لیے مشکلات پیدا کردیں- کچھ عرصہ تو جمع شدہ پونجی سے کام چلتا رہا مگر جب سب ختم ہوگیا تو اس نے سوچا کہ اسے اب کوئی کام کرنا چاہیے-ان کی بستی سے آگے ایک آبادی تھی- اس آبادی میں بڑی بڑی کوٹھیاں اور بنگلے بنے ہوۓ تھے- یہاں پر کھاتے پیتے افراد رہتے تھے- ان میں سے اکثر کے گھروں میں اس بستی کی عورتیں اور لڑکیاں کام کرنے جاتی تھیں- ان کی خدمات کے عیوض انہیں تھوڑی بہت تنخوا، بچا ہوا کھانا اور پرانے کپڑے وغیرہ مل جاتے تھے جس سے ان کی بری بھلی گزر بسر ہوجاتی تھی- کافی ڈھونڈنے کے بعد اس کو بھی ایک کوٹھی میں صبح سے شام تک کام کرنے کی نوکری مل گئی-اس کی مالکن ایک ہمدرد اور نیک دل خاتون تھی- اس کا سلوک جمیلہ سے بہت اچھا تھا اور وہ اس کا بہت خیال رکھتی تھی- اس نے جمیلہ کو کبھی باسی کھانا نہیں دیا تھا- جمیلہ اس کے گھر میں دل لگا کر کام کرتی تھی- مالکن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی- وہ تینوں بچے جمیلہ سے بہت محبّت کرتے تھے اور اس سے بہت عزت سے پیش آتے تھے- جمیلہ بھی بچوں کے تمام کاموں کا دھیان رکھتی تھی اور ان کو نہایت اچھے طریقے انجام دیتی- جمیلہ یہاں پر برسوں سے کام کررہی تھی اور اس کی مالکن کو اس کے گھر کے تمام حالات پتہ تھے-جمیلہ کی بیٹی بڑی ہوئی تو اس نے اس کی شادی کردی- چند گاؤں چھوڑ کر بیٹی کا سسرال تھا- اس کے سسرال والے اچھے لوگ تھے اور انہوں نے جمیلہ کی بیٹی کو عزت اور محبّت سے رکھا ہوا تھا- جمیلہ کی بیٹی بھی سمجھدار تھی- اس نے اپنی دن رات کی خدمت سے سسرال والوں کو خوش رکھا ہوا تھا- ایک تو وہ تھی بھی بہت خوبصورت اور پھر وہ ہر وقت گھر کے کاموں میں لگی رہتی تھی اس لیے اس کا شوہر بھی ہر دم اس کے گن گاتا تھا-بیٹی کی شادی کے بعد اگرچہ جمیلہ بالکل ہی اکیلی ہوگئی تھی مگر وہ پھر بھی خوش تھی اور خدا کا شکر ادا کرتی تھی کہ اسے اچھا سسرال ملا ہے اور وہ وہاں بہت خوش ہے-اس کی بیٹی کی شادی میں اس کی مالکن نے بھی بہت مدد کی تھی جس کی وجہ سے اس کا جہیز بھی اچھا بن گیا تھا- جمیلہ اپنی مالکن کو جھولی پھیلا پھیلا کر دعائیں دیتی تھی- غریبوں کے پاس دعائیں ہی ہوتی ہیں- نصیب والے ہوتے ہیں جو غریبوں کی دعائیں لیتے ہیں-جمیلہ کی مالکن دوسرے غریبوں کی مدد بھی کرتی تھی- ان کو کھانا کھلاتی تھی- پرانے کپڑے اور جوتے دے کر پلاسٹک کے برتن نہیں لیتی تھی بلکہ ان چیزوں کو ضرورت مندوں میں بانٹ دیتی تھی- سردیاں شروع ہونے سے پہلے وہ پرانے کمبل اور سویٹر وغیرہ بھی بستی کے غریب لوگوں میں تقسیم کر دیتی تھی- اسے جانے کس کی دعا لگی کہ اس کا حج کا بلاوہ آگیا اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ اس مبارک سفر کی تیاریوں میں مصروف ہوگئی-مالکن کے شوہر کی ایک بہن جس کا نام خالدہ تھا کسی قریبی شہر میں رہتی تھی- حج پر جانے سے پہلے گھر کی دیکھ بھال کے لیے اس کے شوہر نے اپنی بہن کو اپنے پاس بلالیا اور اس سے کہا کہ جب تک وہ حج کرکے واپس نہ آجائیں وہ گھر میں رہے تک چوری چکاری کا ڈر نہ رہے-خالدہ ایک عجیب مزاج کی اور سخت طبیعت کی مالک تھی- ادھر جمیلہ کی مالکن گھر سے گئی، ادھر اس نے جمیلہ کو نوکری سے نکال دیا- اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی خادمہ کو اپنے ساتھ لائی تھی- جمیلہ نے جب اس پر احتجاج کیا تو خالدہ نے چیخ چیخ کر محلے والوں کو اکٹھا کر لیا اور اس کی بہت بے عزتی کی- اس نے کہا میری مرضی جس کو چاہوں رکھوں اور جس کو چاہوں نکالوں-جمیلہ نے آخری کوشش کے طور پر اس سے درخواست کی کہ وہ اس کی مالکن کو فون کر کے اس بات کی اطلاع کردے تو وہ مزید غصے میں آگئی اور اپنے ساتھ آئ ہوئی خادمہ سے کہہ کر اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا- جمیلہ نے جب یہ کہا کہ مہینہ پورا ہونے والا ہے وہ اس کو تنخواہ تو دے دے- اس پر اس نے کہا کہ جب اس کی مالکن حج سے واپس آئے گی، وہ ہی تنخواہ بھی دے گی-یہ منظر اور تماشہ دیکھ کر تمام محلے والے توبہ توبہ کر رہے تھے- خالدہ کی غرور بھری باتیں اور جمیلہ جیسی غریب نوکرانی سے اس کا ہتک آمیز رویہ کسی کو پسند نہیں آیا تھا- مالکن کے تینوں بچوں نے بھی اس بات پر احتجاج کیا مگر خالدہ نے انھیں ڈانٹ کر گھر میں بھیج دیا- انھیں جمیلہ بوا کے اس طرح نکالے جانے پر بہت رنج تھا، مگر وہ بچے تھے کیا کرسکتے تھے، روتے دھوتے اندر چلے گئے- اس بے عزتی اور نوکری سے جواب مل جانے کی وجہ سے جمیلہ بہت پریشان ہوگئی تھی-وہ گھر پہنچی تو اس کی پڑوسن اس کے پاس آگئی- جمیلہ نے جو کچھ اس پر بیتی تھی اس کو سنا دی- پڑوسن ایک نیک دل عورت تھی- کچھ عرصہ پہلے اس کے بھی بہت برے حالات تھے- اس کا میاں محنت مزدوری کر کے گھر چلاتا تھا- اسے کبھی مزدوری مل جاتی اور کبھی نہ ملتی- بڑی پریشانی میں زندگی بسر ہو رہی تھی کہ اچانک ایک تیل کی کمپنی والے اسے اپنے ساتھ باہر لے گئے- وہ ایک محنتی اور ایماندار شخص تھا- اس نے وہاں اپنے کام کی وجہ سے اپنے سپر وائزروں کی نظروں میں ایک مقام بنا لیا تھا- اس کی تنخواہ اچھی تھی جس کی وجہ سے ان کے دن پھر گئے- اس کے دو بچے تھے جو اسکول پڑھنے جاتے تھے-جملہ کی کہانی سن کر پڑوسن کو بہت افسوس ہوا- تھوڑی دیر بعد وہ بولی ""میں تمہیں یہ بتانے کے لیے آئ تھی کہ تمہاری بیٹی کے گاؤں سے ایک آدمی آیا تھا اور یہ پیغام دے کر گیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ جمعے کو تمہارے گھر تم سے ملنے آئے گی-ان برے حالات میں یہ خوشی کی خبر جمیلہ پر بجلی بن کر گری تھی- اس کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ بیٹی اور داماد کی ٹھیک طرح سے مہمان داری کرسکتی- اگر خالدہ اس کو تنخواہ کے پیسے دے دیتی تو پھر فکر کی کوئی بات نہیں تھی، وہ بیٹی اور داماد کی اچھی طرح مہمان داری کرسکتی تھی- مگر اب تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا-اس کی پریشانی بھانپ کر اس کی پڑوسن نے کہا ""بہن فکر مت کرو- تمہاری بیٹی اور داماد کا معاملہ ہے- مجھ سے کچھ پیسے لے کر کام چلاؤ- جب سہولت ہو واپس کردینا- جمیلہ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر ضرورت ہوگی تو وہ ضرور اس سے کہہ دے گی-اس کی پڑوسن سمجھ گئی کہ وہ ادھار لیتے ہوۓ جھجک رہی ہے- وہ ہنس کر بولی ""ٹھیک ہے- اب کل سے تو تم کام پر جاؤ گی نہیں تو کیوں نہ تم میرا ایک کام کردو- میرا شوہر عید کی چھٹیوں پر گھر آنے والا ہے- میں چاہتی ہوں کہ گھر میں رنگ روغن کروالوں- یہ ہی کام میں کسی دوسرے سے کرواؤں گی تو کیوں نہ تم ہی کردو، تمہیں بھی کچھ پیسے مل جائیں گے اور میرا کام بھی اچھا ہوجائے گا""-یہ تجویز اچھی تھی اس لیے جمیلہ راضی ہوگئی- وہ اس بات پر بھی خوش تھی کہ بیٹی کے آنے پر وہ اس مزدوری سے ملنے والوں پیسوں سے اس کی ٹھیک ٹھاک خاطر مدارات کر سکے گی اور کچھ نقد پیسے بھی اسے دے دے گی-اگلے روز سے کام شروع ہوگیا- پڑوسن کے دونوں بچے اسکول چلے گئے تھے اس لیے وہ گھر کو تالا لگا کر جمیلہ کے ساتھ بازار گئی- وہاں سے رنگ، برش اور دوسری ضروری چیزیں خریدیں اور سامان سے لدی پھندی دونوں گھر واپس آگئیں-کام تو بہت محنت کا تھا مگر جمیلہ کو تو محنت کی برسوں سے عادت تھی- پھر سال میں ایک مرتبہ وہ اپنے پورے گھر میں خود ہی رنگ کرتی تھی- اس نے بہت دل لگا کر کام کیا اور چار دنوں میں پڑوسن کا گھر جگ مگ کرنے لگا- وہ بہت خوش ہوئی، اس نے جمیلہ کو پانچ ہزار روپے اور ایک قیمتی کپڑے کا جوڑا دیا اور بولی ""بہن تم نے بہت اچھا کام کیا ہے- یہ پیسے تمہاری مزدوری کے اور یہ جوڑا تم اپنے داماد کو تحفے میں دینا- اسے میرے میاں نے باہر سے بھیجا تھا""-جمیلہ نے کہا ""بہن مزدوری کے پیسے بہت زیادہ دئیے ہیں کچھ کم کرلو""-اس کی پڑوسن مسکرا کر بولی ""کام بہت زیادہ تھا، تین کمرے تھے، ان کی چھتیں تھیں، پھر صحن تھا اور باہر کی دیواریں تھیں- تم نے اتنے اچھے طریقے سے کام کیا ہے کہ جو بھی دیکھ رہا ہے تعریف کر رہا ہے- اگر پیسے کچھ زیادہ بھی ہیں تو کوئی بات نہیں- جب تک تمہارا کام نہیں لگ جاتا اس وقت تک ان پیسوں سے کام چلاؤ- تمہارے کام کرنے کا مجھے یہ بھی فائدہ ہوا ہے کہ مزدور اگر کام کرتے تو میں گھر کے دوسرے کام نہیں کر سکتی تھی- گھر میں کوئی مرد بھی نہیں ہے، ان مزدوروں کا کیا بھروسہ، دن میں مزدوروں کے بھیس میں گھر کا جائزہ لے جائیں اور رات کو چوری کرنے آجائیں- اس کے علاوہ ان کی موجودگی میں مجھے گھر کے ایک کونے میں ہی بیٹھا رہنا پڑتا- پھر وہ لوگ تنگ بھی بہت کرتے ہیں- جو کام تم نے چار دن میں کیا ہے، وہ اس میں آٹھ دن لگاتے""-اتنے سارے پیسے اور کپڑوں کا جوڑا پا کر جمیلہ بہت خوش تھی- اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کی ایک بہت بڑی پریشانی حل ہوگئی تھی-اس کے بیٹی اور داماد آکر چلے بھی گئے- جمیلہ نے ان کی شاندار دعوت کی تھی اس سے وہ بہت خوش تھے- جب جمیلہ نے قیمتی کپڑوں کا جوڑا داماد کو دیا تو اس کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا- بیٹی کو اس نے پانچ سو روپے بھی دئیے تھے-بقرعید میں چند روز باقی تھے- جمیلہ نے سوچا کہ وہ عید کے بعد کام ڈھونڈنے نکلے گی- گزر بسر کے لیے ابھی اس کے پاس کافی پیسے بچے ہوےٴ تھے-یہ عید کے چند روز بعد کا ذکر ہے کہ اس کے دروازے پر ایک گاڑی آکر رکی- دروازے پر دستک کی آواز سن کر اس نے دروازہ کھولا تو باہر اس کی پرانی مالکن کھڑی تھی- جمیلہ کو دیکھ کر اس نے اسے گلے سے لگالیا اور بولی ""جمیلہ بہن- میں اس برے سلوک کی معافی مانگنے آئ ہوں جو میرے شوہر کی بہن خالدہ نے تمہارے ساتھ کیا تھا- محلے والوں اور بچوں نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے""-جمیلہ کو ایک دم سے تمام باتیں یاد آگئیں- اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ بولی ""بیگم صاحبہ- آپ کو حج کرنا مبارک ہو- آئیں اندر آجائیں""-اس کی مالکن اندر آکر چارپائی پر بیٹھ گئی اور بولی ""ایک بات کا تمہیں شاید علم نہیں- خالدہ نے جس نوکرانی کی وجہ سے تمہیں نکالا تھا، اس کا میاں چوروں کے ایک گروہ سے ملا ہوا تھا- ایک رات ان لوگوں نے خالدہ کو زخمی اور بے بس کرکے ہمارا سارا سامان لوٹ لیا- میرے شوہر تو بہت ہی پچھتا رہے ہیں کہ انہوں نے خالدہ کو کیوں گھر کی دیکھ بھال کے لیے بلایا تھا- ہم نے اس چوری کی رپورٹ تھانے میں کروا دی ہے- دیکھو کیا ہوتا ہے""-یہ خبر سن کر جمیلہ کو بہت دکھ ہوا- اس کی مالکن پھر بولی ""جمیلہ- میں چاہتی ہوں کہ تم پھر سے ہمارے گھر کام کرنے آجاؤ- مجھے امید ہے کہ تم مجھے مایوس نہیں کرو گی- بچے بھی تمہیں بہت یاد کرتے ہیں- میں تمہارے پاس آ رہی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ جمیلہ بوا کو اپنے ساتھ ضرور لے کر آئیے گا""-جمیلہ خود بھی بچوں سے بہت مانوس تھی اور ان کو یاد کرتی تھی- مالکن کے تینوں بچے اس سے بہت محبّت کرتے تھے اور اس کے بغیر نہیں رہتے تھے- وہ بولی ""مالکن- آپ کی ہر بات میرے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے- میں ضرور دوبارہ آپ کے گھر کام کروں گی- میں بھی بچوں کو بہت یاد کرتی ہوں""-مالکن بولی ""خالدہ بھی اپنے رویے پر بہت شرمندہ ہے- وہ ابھی ہسپتال میں زیر علاج ہے- اس کی نوکرانی نے ڈکیتی کے دوران لوہے کا پائپ اس کے سر پر مار کر اسے بے ہوش کردیا تھا- وہ کہہ رہی تھی کہ اسے تم سے برا سلوک کرنے کی سزا ملی ہے- وہ یہ بھی کہہ رہی تھی تم سے معافی مانگے گی""-جمیلہ دل کی ایک اچھی عورت تھی- اس نے خالدہ کے زخمی ہونے کا سنا تو اسے بہت افسوس ہوا- تھوڑی دیر مزید بیٹھنے کے بعد اس کی مالکن واپس چلی گئی- جاتے جاتے وہ تاکید کر گئی تھی کہ جمیلہ کل سے کام پر ضرور آجائے-اس کے جانے کے بعد جمیلہ کافی دیر تک ان تمام حالات پر غور کرتی رہی- خالدہ نے اس کے ساتھ جو برا سلوک کیا تھا، وہ بہت ہی قابل افسوس تھا مگر اس کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوےٴ وہ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک تھے- جمیلہ اس بات پر بے حد خوش تھی کہ اس کو باعزت طریقے سے اس کی مالکن نے دوبارہ کام پر رکھ لیا ہے- یہ خوش خبری وہ اپنی پڑوسن کو سنانے کے لیے بے چین تھی-جب وہ پڑوسن کے پاس گئی اور تمام باتیں اسے بتائیں تو وہ بھی انہیں سن کر بہت خوش ہوئی-جمیلہ نے کہا ""بہن- تم نے مشکل وقت میں جو میرا ساتھ دیا تھا، اسے میں کبھی بھی نہیں بھولوں گی- اگر میں داماد کی خاطر داری نہ کرتی تو میری بہت بے عزتی ہو جاتی""-پڑوسن ہنس کر بولی ""میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا، وہ تو تمہاری محنت کا ثمر تھا- میرے میاں نے تمہارے کئے ہوےٴ رنگ کی بہت تعریف کی تھی- اب تو تم پھر کام سے لگ گئی ہو، میں سوچ رہی ہوں کہ اگلے سال کس سے رنگ کرواؤں گی؟""-""اگلے سال بھی میں ہی رنگ کروں گی- مالکن سے چار پانچ روز کی چھٹی لے آؤں گی- لیکن یہ میں ابھی سے بتا دیتی ہوں کہ اب اس کام کی مزدوری زیادہ نہیں لوں گی""- جمیلہ نے بڑے خلوص سے کہا- یہ سن کر پڑوسن مسکرانے لگی- " بیل اور گدھے کی کہانی - تحریر نمبر 1384,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bail-or-gadhy-ki-kahani-1384.html," " مستقبل کا قیدی - تحریر نمبر 1383,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mustaqbil-ka-qaidi-1383.html,"عائشہ الیاسوہ سڑک پر تیزی سے بھاگ رہا تھا۔بھاگتے ہوئے وہ اپنے پیچھے مڑ مڑکر دیکھتا جارہا تھا۔اس کا تعاقب کرنے والے اس سے کافی دور تھے ،لیکن وہ جانتا تھا کہ اگر وہ ایک بار ان کی گرفت میں آگیا تو موت اس کا مقدر بنے گی ۔یہی سوچ اس کے دوڑتے قدموں کو مزید تیزکررہی تھی ۔اس کی سانس پھول رہی تھی ۔وہ کافی تھک چکا تھا ،لیکن زندگی بچانے کی خواہش تمام تکالیف پر حاوی تھی۔دوڑتے دوڑتے وہ ایک تنگ گلی میں مڑ گیا۔یہاں اس کی بدقسمتی اس کا انتظار کررہی تھی۔یہ بندگلی تھی ۔وہ پیچھے مڑا تو تعاقب کرنے والے گلی میں پہنچ چکے تھے ۔ اسے اپنی موت یقینی نظر آنے لگی ۔اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور دل میں خدا کو یاد کرنے لگا۔وہ ایک وسیع رقبے پر پھیلی تجربہ گاہ تھی،جس کے ایک کونے میں ایک عجیب وغریب مشین لگی تھی۔(جاری ہے)اس مشین میں ایک بندر موجود تھا۔دوسری طرف اس مشین کو چلانے کے لیے ایک مستعدمعاون کھڑا تھا ،جس کا نام زید تھا۔اس کے ساتھ ہی اس مشین کا موجد سائنس داں بھی موجود تھا،جس کے اشارہ کرتے ہی زید نے ایک بٹن دبایا ۔بٹن کے دبانے کی دیر تھی کہ مشین میں سے بندرغائب ہو گیا۔تقریباً ایک گھنٹے بعد سائنس داں نے پھر ایک بٹن دبایا ،جس کے دبتے ہی بندر دوبارہ مشین میں واپس آگیا۔سائنس داں کے حکم پر زید نے بندر کو مشین سے نکالا اور ایک دوسری مشین میں لٹا دیا ۔سائنس داں اس مشین کے ذریعے سے بندر کی یادداشت کا جائزہ لینے لگا۔بندر آج سے کئی ہزار سال پرانے زمانے میں پہنچ چکا تھا۔اس نے اس لمبے عرصے میں بے تحاشا نشیب وفراز دیکھے تھے ۔یہ تمام عرصہ انتہائی خوب صورت سے بھر پور تھا ۔اس میں ہر جانب ہرے بھرے پیڑ پودے اپنی بہار دکھارہے تھے ۔خوب صورت پھول اور کلیاں ہر سُورونق بڑھا رہی تھیں ۔رنگ برنگے پرندے سر سبز درختوں پر بیٹھے چہچہارہے تھے اور اپنی سُریلی آوازوں میں گانا گارہے تھے ۔بندران درختوں پر اُچھل کو د کر رہا تھا اور بڑے مزے میں تھا،لیکن آخر میں اچانک ہی موسم تبدیل ہونا شروع ہو گیا اور ہر جانب برف کی چادر پھیلتی چلی گئی۔ساری زمین نے سفید چادر اوڑھ لی ۔ہر ذی روح سردی سے تھر تھر کا نپنے لگا۔دنیا میں برفانی دور شروع ہو چکا تھا،جو اگلے ایک ہزار سال تک جاری رہنا تھا۔عین اسی لمحے سائنس داں نے بندر کو واپس بلالیا تھا اور بندر اس برفانی دور سے نکل کر واپس اپنے زمانے میں آگیا۔”بہت خوب!“سائنس داں کے منھ سے نکلا:”اب مجھے اس سفر پر کسی انسان کو بھیجنا چاہیے،تاکہ وہ اپنے سفر کی داستان کے ساتھ ساتھ اپنے محسوسات بھی بیان کر سکے۔“وہ بڑ بڑایا اور پھر زید کی طرف مڑ کر کہا:”تم کسی ایسے شخص کو تلاش کرو،جو اس سفر پر جا سکے ۔“زید نے کہا:”جو آپ کا حکم ۔“زید نے ایسے آدمی کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی جو اس سفر پر جا سکے ،مگر اسے کوئی کامیابی نہ ملی۔تھک ہار کروہ سائنس داں کے پاس آیا اور اس کو اپنی ناکامی کی خبر سنائی۔سائنس داں بولا:”کوئی بات نہیں۔میری نظر میں ایک آدمی اس کام کے لیے بہترین ہے۔“یہ کہہ کروہ زید کی طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرایا۔اس کی بات کی تہ تک پہنچتے ہی زید کے چہرے پر خوف کی لہردوڑ گئی۔اس کا سر انکار میں ہلا اور وہ نہیں ،نہیں کرتے ہوئے پیچھے ہٹنے لگا۔سائنس داں نے اپنے دوسرے ملازمین سے کہا کہ اسے پکڑیں ۔وہ اسے پکڑ نے لگے تو وہ ان سے اپنا آپ چھڑا کر باہر کی طرف بھاگا اور بھاگتے بھاگتے ایک بند گلی میں ان کے ہتھے چڑھ گیا۔وہ لوگ اسے پکڑ کر تجربہ گاہ میں لے آئے،جہاں اسے اس ٹائم مشین کے ذریعے سے ماضی کے سفر پر روانہ کر دیا گیا۔اب برفانی دور اس کے سامنے تھا۔یہاں پہنچتے ہی اسے سخت سردی لگنے لگی ۔ہر طرف پھیلی ویرانی اسے خوف زدہ کررہی تھی ۔وہاں کوئی ذی روح موجود نہ تھی ۔بس ہر سُو برف کی چادر ہی پھیلی نظر آرہی تھی ۔اس سرد ماحول کی دہشت اور ہولنا کی نے اسے خوف ذدہ کردیا اور وہ زور زور سے چیخنے لگا،لیکن وہاں اس کی چیخیں سننے والا کوئی نہ تھا۔برفانی دور کی رات بھی لرز ادینے والی ہولناکی سموئے ہوئے تھی۔وہ ساری رات سردی اور خوف سے لرزتا رہا۔یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔اسے اس برفانی دور میں پہنچے ہوئے تین دن ہو چکے تھے ۔اسے ایسا محسوس ہورہا تھاکہ اب وہ کبھی اس سرد جہنم سے نکل نہیں سکے گا۔ہمیشہ یہیں رہ جائے گا۔اس سرد جہنم میں اسے یوں لگ رہا تھا کہ وقت تھم گیا ہے اور اب کبھی نہیں گزر ے گا۔پانچویں دن اسے یوں لگا کہ کوئی اس کی طرف آرہا ہے ۔وہ ایک انسان تھا۔اپنے جیسے ایک انسان کو اس ویرانے میں دیکھ کر اسے ناقابل بیان خوشی ہوئی۔وہ اجنبی اسے اپنے ساتھ ایک جگہ لے گیا ،جہاں ایک چھوٹا سا خیمہ بنا ہوا تھا۔وہاں جا کر اسے حرارت کا احساس ہوا تو اس کی جان میں جان آئی۔زید نے اس آدمی کو اپنے بارے میں بس کچھ اسے بتا دیاکہ و ہ کیسے یہاں تک پہنچا۔جو اباًاس آدمی نے بتایا کہ وہ اس سے تین صدیاں آگے کے زمانے کا ہے اور اس کے زمانے میں ہر کسی کے پاس ٹائم مشین موجود ہوتی ہے ،جس کے ذریعے سے وہ جب چاہیں اورجس زمانے میں چاہیں پہنچ سکتے ہیں۔اس نے یہ بھی بتایا کہ برفانی دور چوں کہ سب سے زیادہ سخت ترین دورہے ،اس لیے کوئی بھی اس دور میں آنا پسند نہیں کرتا ،لیکن میں چوں کہ مہم جو طبیعت کا مالک ہوں ،اس لیے اس دور میں آیا ہوں۔میں چند روز بعد یہاں سے روانہ ہو جاؤں گا۔ اگر تم پسند کروتو میرے ساتھ میرے زمانے میں چل سکتے ہو۔زید فوراً راضی ہو گیا ،کیوں کہ اسے اس سرد جہنم سے نکلنا تھا۔وہ اپنے میزبان کی مدد سے اس کے زمانے میں آگیا ،یعنی اس وقت اپنے دور سے تین سوسال آگے مستقبل میں موجود تھا۔وہ زمانہ اس کے لیے نہایت انوکھا تھا۔ہر شے اس کی آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہی تھی ۔وہ حیرت سے ایک ایک چیز کو دیکھ رہا تھا۔وہ آدمی اسے لے کر ایک جگہ آگیا۔ وہاں اسے مختلف حلیوں کے آدمی نظر آئے۔اس آدمی نے بتایا کہ یہ تمام وہ لوگ ہیں جن کا تعلق تاریخ کے مختلف ادوار سے ہے اور ہمارے زمانے کے لوگ انھیں لے کر آئے ہیں ۔ان تمام لوگوں کو ایسی جگہوں پرر کھا جاتا ہے ۔اب تم بھی یہاں رہو گے ۔یہ کہہ کر وہ اسے چھوڑ کر چلا گیا۔چند دن گزرے تو زید کے لیے یہاں رہنا مشکل ہو گیا۔اسے اپنے گھر والے شدت سے یاد آنے لگے۔وہ اپنے زمانے میں واپس جانے کے لیے تڑپنے لگا ،مگر اب وہ کسی بھی طرح اپنے زمانے میں واپس نہیں جا سکتا تھا ،کیوں کہ جس سائنس داں نے اسے ٹائم مشین کے ذریعے سے برفانی دور میں بھیجاتھا،اس نے جب اسے واپس اپنے دور میں بلانے کے لیے بٹن دبایا تو وہ واپس نہ آیا،کیوں کہ وہ تو مستقبل میں پہنچ چکا تھا اور وہ ٹائم مشین صرف ماضی کے سفر پرلے جاسکتی تھی اور وہاں سے واپس لا سکتی تھی ۔وہ ابھی مستقبل کا سفر اختیار کرنے کے قابل ہو سکی تھی ۔سو اس کے زمانے والوں کو کبھی یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں گیا اور اس کے ساتھ کیا گزری۔ " آخری قیمت - تحریر نمبر 1382,https://www.urdupoint.com/kids/detail/true-stories/akhari-keemat-1382.html," " "پہاڑی کے دوسری طرف - تحریر نمبر 1381",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pahari-k-dosri-taraf-1381.html,"محمد سلیم ۔اسلام آبادشہر سے دور ایک پہاڑی تھی ۔یہ جنگلی پھولوں ،پھل دار درختوں سے اس طرح ڈھکی تھی کہ ہوائی جہاز میں بیٹھ کے اوپر سے کوئی دیکھتا تو مٹی پتھر کچھ نظر نہیں آتا۔سب کچھ ہر اہرایا پھولوں کا نیلا،پیلا ،نارجنی ،سرخ رنگ ہی دکھائی دیتا۔پہاڑی کے برابر سے ایک سڑک گزرتی تھی جو شہر تک جاتی تھی ۔سڑک پکی نہیں تھی ۔پکی بنانے کی ضرورت بھی کیا تھی ،ادھر لوگوں کا آنا جانا کم ہی تھا۔دن میں دو بار دودھ لے جانے والے گوالے اپنی سائیکلیں کھڑ کھڑاتے گزرتے تھے یا پھر اپنے ریوڑ سنبھالتے ہوئے اِکا دُکا چروا ہے تھے۔ہفتے میں ایک دومرتبہ گھوڑوں پر سوار سر کاری کا ر ندوں کا گزر ہوتا تھا ۔کسی کا خط یا تار پہنچانا ہوتا تو ڈاکیا اپنی پرانی سائیکل سنبھالے ادھر نکل آتے۔(جاری ہے)وہ آدھا دن گزارکے پہاڑی کی دوسری طرف بستیوں میں گنتی کے چند خط پہنچاتے اور واپس شہر لوٹ جاتے۔خود بستیوں کے لوگ کبھی کبھار ہی شہر جاتے تھے ۔وہ اپنی ضرورت کا سامان وہیں کے ایک دکاندار سے خریدلیتے تھے ۔دکان دار دکان ہی میں رہتا تھا۔اکیلا آدمی تھا،کہیں آتا جاتا نہیں تھا۔دس بارہ دن بعد وہ اپنی گھوڑا گاڑی تیار کرتا اور سویرے سویرے شہر چل دیتا۔سامان خرید کروہ شام ہوتے ہوتے لوٹتا۔سورج ڈوبنے تک سب کچھ سنبھال کے فارغ ہو جاتا۔ندھیرا ہونے پروہ دکان کے دروازے بند کر لیتا تھا پھر صبح سے پہلے نہیں کھولتا تھا۔چاہے کچھ ہو جائے ۔کوئی بھی آجائے مگر کوئی کیوں آنے لگا․․․․؟بستی کے لوگ مغرب ہوتے ہی گھروں میں بند ہو جاتے تھے۔پھر دوسرے دن سورج کے ساتھ ہی نکلتے تھے۔اس کی ایک وجہ تھی ۔سب نے سن رکھا تھا کہ پہاڑی پر بہت سے خطر ناک جانوروں کا بسیرا ہے ۔ایک تو وہاں چیتے کا جوڑارہتا ہے ۔بہت ہی ڈراؤ نے دو خاندان ریچھ کے ہیں۔ ایک بوڑھا شیر کہیں سے آگیا ہے۔سنا ہے اور بھی بھیانک جانور پہاڑی پر بسے ہوئے ہیں ۔ان خطر ناک جانوروں کو بہت کم لوگوں نے دیکھا تھا۔اب جو وہاں رہتے تھے ان میں سے تو کسی نے بھی نہیں دیکھا ہو گا۔دیکھنے والے پہلے کبھی وہاں رہتے ہوں گے ۔ہاں خطر ناک جانوروں کی آوازیں بہت لوگوں نے سن رکھی تھیں ۔کسی کسی نے سایوں کی طرح انہیں گزرتے بھی دیکھا تھا۔ وہ لوگ پریشان رہتے تھے اور خطر ناک جانوروں کی آوازیں اور سایوں کے بارے میں اپنے بچوں کو بتایا کرتے تھے۔برسوں سے سب اسی طرح تھا۔گلیوں محلوں میں دن کے وقت تو خوب چہل پہل رہتی ،رات ہوتے ہی سناٹا ہو جاتا تھا۔گھروں میں بند اپنے بستروں پر لیٹے بیٹھے لوگ بس نیند کا انتظار کرتے تھے۔ایک دن شہر سے شکیل نام کا ایک لڑکا پہاڑی کے دوسری طرف جانے کے لیے روانہ ہوا۔وہ دکاندار کا بھتیجا تھا اور چچا کے بلانے پر چھٹیاں گزارنے جارہا تھا۔دکان دار چچانے اپنے خط میں اسے اچھی طرح سمجھا کر لکھ دیا تھا کہ وہ دن ہی دن میں پہاڑی کے ادھر پہنچ جائے۔رات کے وقت آنا ٹھیک نہیں ہے۔شکیل شہر سے چلا تو خوب دھوپ نکلی ہوئی تھی۔کچھ دور اس نے ایک بڑے میاں کو خاکی وردی پہنے چمڑے کا جھولا لٹکائے سائیکل پر آہستہ آہستہ جاتے دیکھا۔اس نے دوڑ لگا کر انہیں جالیا۔وہ چچا کی دکان کا پتہ سمجھنا چاہتا تھا۔یہ ڈاک منشی تھے ۔ہمدردآدمی تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہیں جارہے ہیں اگر شکیل بیٹھنا چاہے تو سائیکل پر ان کے ساتھ بیٹھ سکتاہے ۔واہ واہ ․․․․اس سے اچھی کیا بات ہو گی ۔وہ خود بھی سائیکل چلانا جانتا تھا۔انہوں نے طے کیا کہ دونوں باری باری چلائیں گے۔خیر․․․․پہاڑی کے برابر سے جاتی اس سڑک پر یہ دونوں چلے جارہے تھے کہ اتفاق سے ایک جیپ گاڑی پہاڑی ڈھلان پر سے اترنے لگی ۔سائیکل اس وقت بڑے میاں چلا رہے تھے ،ان کا دھیان اس طرف نہیں تھا،جیپ کو اچانک سامنے پا کروہ گڑ بڑا گئے اور سائیکل کا پچھلا پہیہ گزرتی جیپ سے ٹکراگیا۔دونوں دورجا گرے۔شکیل تو سڑک کے کنارے اُگی گھاس پر گراتھا۔معمولی خراشوں کے سوا اسے چوٹ نہ آئی۔ڈاکیے بابا بے چارے بے ہوش ہو گئے ۔سائیکل بھی ٹوٹ پھوٹ گئی ۔جیپ والوں نے اتر کر دیکھا۔غلطی ان کی نہیں تھی مگر وہ ذمہ دار لوگ تھے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ڈاکیے کو شہر کے اسپتال لے جاتے ہیں تم بھی آنا چاہوتو آسکتے ہو۔شکیل نے سوچا کہ چچا کی دکان دور کتنی ہو گی ،وہ چلتا رہے تو اچھا ہے ۔اس نے جیپ پر ڈاکیے کو سوارکر ایا،ان کی سائیکل چڑھا دی ،جھولا بھی رکھ دیا۔جیپ شہر کی طرف چلی گئی۔ان باتوں میں کافی وقت لگ گیا تھا اور سورج جھک آیا تھا۔شکیل نے سوچا وہ سڑک چھوڑ کر کسی چھوٹے راستے سے پہاڑی پر چڑھتا ہواروشنی روشنی میں دکان تک پہنچ سکتا ہے ۔بس وہ جنگلی پھولوں پھلوں سے لدے ٹیڑے میڑھے درختوں کے درمیان راستہ بناتا پہاڑی پر چڑھنے لگا۔طرح طرح کی چڑیاں اور تتلیاں اڑتی پھرتی تھیں۔ خرگوش اور گرگٹ تھے اور درختوں کے تنوں پر چلتے شوخ رنگوں والے کیڑے مکوڑے تھے۔درختوں پر پھل پک رہے تھے ۔ان سب خوبصورت چیزوں کو دیکھتا پھلوں کے مزے لیتا شکیل چلتارہا۔وہ اپنے خیال سے ٹھیک چل رہا تھا۔سمجھ رہا تھا کہ گھنٹے بھر میں پہاڑی کے ادھر اتر جائے گا مگر وہ راستہ بھٹک گیا تھا۔شام گہر ہوگئی اور پرندے شور کرتے درختوں پر واپس آنے لگے ،دیکھتے دیکھتے سورج ڈوب گیا۔گھنے جنگل کے اندھیرے نے اسے اور بھٹکا دیا مگر وہ باہمت لڑکا تھا،چلتا رہا۔کچھ دیر میں چاند نکل آیا جس کے دھیمے اجالے میں وہ راستہ ڈھونڈتا رہا۔رات آدمی سے زیادہ گزر گئی۔شکیل تھک گیا تھا،اسے بھوک بھی لگ رہی تھی مگر چاندنی رات میں پہاڑی کے ہرے بھرے درختوں اور اڑنے پھرنے والے پرندوں اور جانوروں کی آوازوں سے ایسا کچھ سماں بندھاتھااور رات کو کھلنے والے پھولوں کی خوشبو نے ایسا جادو چلایا تھا کہ شکیل کو بھوک اور تھکن کا زیادہ خیال نہیں آیا۔آخر اُجالا ہوتے ہوتے وہ دوسری طرف جا اترا۔اس کا چچا دکان کھولنے کی تیاری کر رہا تھا۔شکیل کو پہچان کر وہ خوش ہوا اور پریشان بھی ہو گیا۔بھلا اس طرف سے ،اس وقت کوئی یہاں کیسے پہنچ سکتاہے․․․․؟رات میں تو پہاڑی پر خطر ناک جانوروں کا راج ہوتا ہے ۔شکیل کے لے یہ خطر ناک جانوروں والی بات نئی تھی ۔اسے گرگٹ ،چڑیاں ،جگنو ،خرگوش اور دوسرے دلچسپ جانور بے شک ملے تھے اور جنگل کے رسیلے پھل اور رات میں کھلنے والے پھول بھی پہاڑی پر تو کوئی ایک بھی خطر ناک جانور نہیں ہے ۔چچا سوچ میں پر گئے ۔یہاں ایسے خطر ناک جانور ہوں گے ہی نہیں ۔جس نے بھی پہلے پہل ان جانوروں کی بات پھیلائی تھی اس نے انہیں خود تو دیکھا نہیں ہو گا،بس اپنا وہم اور اپنا خوف دوسروں سے بیان کر دیا ہو گا یا بہت سے بہت اس نے ڈراؤنی آوازیں سنی اور سائے دیکھے ہوں گے ،جنہیں وہ سمجھ نہیں پایا ہو گا۔درختوں کے ہلتے سائے اسے چیتے،شیر اور ریچھ نظر آئے ہوں گے ۔رات میں جنگل کی دلچسپ آوازیں اس کے خوف کے ساتھ بدل گئی ہو ں گی ۔چچا نے کہا”دیکھو سب نے وہم کی اور ڈر کی سنی سنائی باتوں کو سچ سمجھ لیا اور ڈر گئے مگر تم نے ایسانہ کیا ہو ۔تم نے رات کا یہ سفربے خوفی سے کیا ہے اور ہر طرح کے وہم سے آزاد رہ کر کیاہے ۔یہ بات بہت اچھی ہے ۔“اس کا مطلب یہ ہوا کہ محض سنی سنائی باتوں سے متاثر ہو کر ،چیزوں کو حقیقت نہیں سمجھ لینا چاہیے۔کہیں بہادری اور کہیں عقل سے کام لے کر تحقیق کرلینا چاہیے۔ " "شہزادوں کا امتحان - تحریر نمبر 1379",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shehzadoon-ka-imtehaan-1379.html,"مختار احمدبہت پرانے زمانے کا ذکر ہے، سمندر پار ایک چھوٹے سے ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا- اس بادشاہ کی ایک پندرہ سولہ سال کی بیٹی بھی تھی، جس کا نام شہزادی امبر تھا- شہزادی امبر بے حد حسین اور خوبصورت تھی، یہ ہی وجہ تھی کہ بہت سارے شہزادے شہزادی امبر سے شادی کرنے کے خواہش مند تھے- ہر روز کسی نہ کسی ملک کے شہزادے کا رشتہ آیا کرتا تھا-چونکہ شہزادی امبر بادشاہ کی اکلوتی اولاد تھی، اس لیے بادشاہ اس سے بیحد محبّت کرتا تھا- اس کی خواہش تھی کہ شہزادی کو ایک ایسا شوہر ملے جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ رحمدل اور بہادر بھی ہو- آخر بہت سوچ بچار کے بعد اس نے اپنے قاصد تمام ملکوں کے شہزادوں کے پاس یہ پیغام لیکر بھجوادئیے کہ شہزادی امبر سے شادی کے لیے بادشاہ ان کا ایک امتحان لینا چاہتا ہے، جو شہزادہ بھی اس امتحان میں پورا اترے گا، شہزادی امبر کو اس کی دلہن بنا دیا جائے گا-اس پیغام کو پاتے ہی بہت سارے شہزادے شہزادی امبر کے ملک جانے کی تیاری کرنے لگے- ان میں سے ہر ایک شہزادے کو امید تھی کہ وہ بادشاہ کے امتحان میں ضرور کامیاب ہو جائے گا- تمام شہزادے اپنے اپنے ملکوں سے نکل کر بندر گاہ پر جمع ہوگئے- وہاں پر بادشاہ کا ایک خوبصورت جہاز کھڑا تھا- یہ جہاز اسی مقصد کے لیے تھا کہ جو شہزادے شہزادے امبر سے شادی کے خواہش مند ہوں اس میں بیٹھ کر بادشاہ کے پاس پہنچ جائیں-جب شہزادے جہاز میں سوار ہوگئے تو جہاز کے بادبان کھول دئیے گئے اور جہاز تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگا- شہزادے جہاز پر ادھر ادھر گھومتے ہوۓ باتیں کرنے لگے- وہ سب کے سب بے حد خوبصورت اور ذہین نظر آتے تھے- وہ باتوں کے دوران زور زور سے قہقہے بھی لگا رہے تھے اور ان کے چہروں سے پتہ چلتا تھا کہ وہ بے حد مسرور ہیں-ان ہی شہزادوں میں ملک خراسان کا شہزادہ بابر بھی تھا- وہ ان شہزادوں سے الگ تھلگ عرشے پر بیٹھا ہوا سمندر کی اونچی نیچی لہروں کو دیکھتے ہوے کچھ سوچ رہا تھا- دوسرے شہزادے اس کی طرف دیکھتے ہوئے زیر لب مسکرا رہے تھے- ان کی آنکھوں میں شہزادے بابر کے لیے حقارت تھی، وہ اسے مغرور اور بد مزاج سمجھ رہے تھے، کیونکہ وہ ان کے ساتھ گھل مل کر بیٹھنے کے بجائے احمقوں کی طرح منہ لٹکا کر ایک طرف بیٹھ گیا تھا- اس پر ایک شہزادے نے دوسرے شہزادے سے دھیمے لہجے میں کہا ""اگر شہزادی امبر کی اس احمق شہزادے سے شادی ہو گئی تو میں اپنا نام بدل دوں گا- دیکھو تو کیسے بت کی طرح بیٹھا ہے، حا لا نکہ یہ بات آہستگی سے کہی گئی تھی مگر شہزادہ بابر نے اسے سن لیا اور دھیرے سے مسکرا دیا-لگاتار تین دن کے طویل سفر کے بعد جہاز امبر شہزادی کے ملک میں پہنچ گیا- تمام شہزادے جہاز سے اترے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہوۓ شاہی محل کی طرف چل دئیے- شہزادہ بابر ان کے پیچھے سر جھکاے چلا آ رہا تھا-ابھی وہ لوگ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ انھیں ایک امرودوں کا باغ نظر آیا- وہاں پر ایک بہت ہی بوڑھا شخص بیٹھا ہوا تھا- اس نے آواز دے کر شہزادوں کو اپنی طرف متوجہ کیا- شہزادے اس کے پاس گئے- بوڑھے نے اپنی لرزتی ہوئ کمزور سی آواز میں کہا- ""اے نوجوانوں میں ایک بہت بوڑھا شخص ہوں کیا مہربانی کر کے تم میرا ایک کام کرو گے؟""-""بڑے میاں، یہ تمھاری خوش قسمتی ہے کہ تم میرے ملک میں نہ ہوۓ""- ایک شہزادے نے آگے بڑھ کر کہا- ""اگر ایسی بات تم میرے ملک میں میرے ساتھ کرتے تو میں تمہاری زبان گدّی سے کھنچوا دیتا- تم شہزادوں سے اپنا کام کروانا چاہتے ہو، کیا یہ تمہارے نوکر ہیں؟""- بوڑھے نے گڑ گڑ ا کر کہا - ""میں بہت غریب آدمی ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، اپنے باغ سے امرود توڑ کر میں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہوں، مگر تم میری حالت دیکھ رہے ہو، میں امرودوں کے درختوں پر چڑھ کر امرود توڑنے سے قاصر ہوں، شہزادے بھی انسان ہوا کرتے ہیں اور انسان ہی انسان کے کام آتا ہے- کیا تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو میری مدد کرسکے؟""-""اپنی زبان بند کرو""- ایک شہزادے نے آگے بڑھ کر کہا- ""یہ بوڑھا تو سر پر ہی چڑھا جا رہا ہے""- یہ کہہ کر اسی نوجوان نے بوڑھے کو ایک ایسا دھکا دیا کہ وہ دور زمین پر جا گرا- تمام شہزادوں نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا، مگر اسی وقت شہزادہ بابر تیزی سے آگے بڑھا اور بوڑھے کو سہارا دیکر اٹھایا- تمام شہزادوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا- پھر ان میں سے ایک شہزادہ بولا- ""اس بوڑھے کو سہارا دینے والا یہ نوجوان مجھے شہزادہ تو نہیں بڑ ھئ کی اولاد معلوم دیتا ہے""-شہزادہ بابر نے کہا - ""تم لوگوں کو ایک بوڑھے آدمی کو ستاتے ہوے شرم آنا چاہیے- کیا تم لوگوں کے دلوں میں اپنے سے بڑوں کے لیے کوئی عزت نہیں؟""-ایک لمبے تڑ نگے شہزادے نے اس کے پاس آ کر کہا - ""اپنی یہ نصیحتیں اپنے پاس رکھو، اس بوڑھے کو کیا حق پہنچتا ہے کہ یہ ہم سے امرود تڑوانے کا بیہودہ مطالبہ کرے""-""اس میں اس بے چارے بوڑھے کا بھی کوئی قصور نہیں ہے، وہ تمہاری شکلیں دیکھ کر یہ سمجھا تھا کہ تم لوگ شریف نظر آتے ہو، اس کی بات مان لوگے، اس کو کیا پتا تھا کہ تم اتنے مغرور اور بدتمیز ہوگے""- شہزادہ بابر نے جواب دیا اور بوڑھے کے کپڑوں سے گرد جھاڑنے لگا، جو زمین پر گرنے کی وجہ سے اس کے کپڑوں پر لگ گئی تھی-اس کی باتیں سن کر تمام شہزادوں کے چہرے غم و غصّے کی شدت سے سرخ ہو گئے- اسی لمبے تڑ نگے شہزادے نے اپنے ساتھیوں سے کہا ""اس بیوقوف شہزادے نے ایک غریب بوڑھے کی حمایت میں ہماری سخت بے عزتی اور توہین کی ہے، اب ہم اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے""-اس کی بات سن کر تمام شہزادوں نے اس کی تائید کی- ایک شہزادہ جو کہ اپنے اپنے آپ کو تلوار کا دھنی سمجھتا تھا، اپنی میان سے تلوار نکال کر بولا- ""میں اس احمق سے تم سب کی بے عزتی کا بدلہ لونگا""-شہزادہ بابر نے بوڑھے کو ایک طرف ہٹا دیا اور اپنی تلوار نکال کر اس نوجوان شہزادے کے مقابلے میں ڈٹ گیا، مگر وہ نوجوان شہزادہ، شہزادہ بابر کے سامنے زیادہ دیر تک نہیں جم سکا- شہزادہ بابر نے پینترے بدل بدل کر تلوار کے ایسے ایسے ہاتھ دکھاے کہ مد مقابل جلد ہی بے بس ہوگیا- شہزادہ بابر نے تلوار کا ایک ایسا باتھ مارا کہ اس شہزادے کی تلوار اس کے ہاتھ سے نکل کر فضا میں بلند ہوئی اور اس کی نوک امرود کے درخت میں لٹکے ہوۓ ایک بڑے سے امرود میں پیوست ہو گئی، اور پھر تلوار اس امرود میں لٹکی ادھر ادھر جھولنے لگی- تمام شہزادے حیرت سے یہ ماجرا دیکھ رہے تھے- شہزادہ بابر نے آگے بڑھ کر تلوار کی نوک اس شہزادے کی سینے پر رکھ دی، اگر وہ چاہتا تو اس کو ہلاک بھی کر سکتا تھا- ہارنے والا شہزادہ شرمندہ ہو کر ایک طرف کو سر جھکا کر کھڑا ہو گیا- اپنے ساتھی شہزادے کی شکست نے دوسرے شہزادوں کو مزید ناراض کر دیا، ایک شہزادہ پھر تلوار سونت کر آگے بڑھا مگر چند ہی لمحوں بعد اسے بھی شکست کہ سامنا کرنا پڑا- اسی طرح ایک کے بعد ایک شہزادہ بابر نے تمام شہزادوں کو شکست دے دی- وہ تمام کے تمام باغ کی گھاس پر بیٹھ کر ہانپنے لگے- شہزادہ بابر پھرتیلا ثابت ہوا اور اس نے تمام شہزادوں کو جلد ہی تھکا مارا تھا- سب شہزادے اس سے سخت نفرت محسوس کرنے لگے تھے مگر وہ اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے-ان سے نمٹ کر شہزادہ بابر امرودوں کے درخت پر چڑھ کر بوڑھے کے لیے امرود توڑنے لگا- جب بوڑھے کا ٹوکرا بھر گیا تو شہزادہ نیچے اتر آیا- اور پھر وہ اچانک حیرت زدہ رہ گیا- باغ میں ایک کٹیا بنی ہوئی تھی، اس کٹیا کا دروازہ کھلا اور اس میں سے بادشاہ، ملکہ اور شہزادی باہر نکلے- تمام شہزادے گھبرا کر کھڑے ہوگئے-بادشاہ نے بابر کا شانہ تھپتھپاتے ہوۓ کہا- ""شہزادے ہم تم سے بہت خوش ہیں- تم اب یہ بات اچھی طرح سمجھ گئے ہوگے ہم نے یہ سب چکّر تم لوگوں کا امتحان لینے کے لیے چلایا تھا- ہمیں اپنی شہزادی کے لیے ایک رحم دل اور بہادر شوہر کی تلاش تھی، خدا کا شکر ہے کہ تم ہمارے معیار پر پورے اترے ہو- تم نہ ہی ان دوسرے شہزادوں کی طرح مغرور ہو اور نہ ہی ان کی طرح بدتمیز ہو- ہم اس کٹیا میں بیٹھے سارا تماشا دیکھ رہے تھے- تم نے جس دلیری اور جرات مندی سے ان تمام نکمے شہزادوں کا مقابلہ کیا تھا، اس نے ہمیں تو بہت متاثر کیا ہے""-تمام شہزادوں نے شرمندہ ہو کر گردنیں جھکا لیں- بادشاہ شہزادہ بابر کو اپنے ساتھ محل میں لے گیا- تمام شہزادے اپنے کیے پر شرمسار تھے اس لیے وہ واپس اپنے اپنے ملکوں کو چلے گئے-چند ہی دنوں بعد شہزادہ بابر اور شہزادی امبر کی بڑی دھوم دھام سے شادی ہوگئی اور اس طرح شہزادہ بابر اپنی رحمدلی اور جرات مندی کی بنا پر دنیا کی خوبصورت ترین شہزادی سے شادی کرنے میں کامیاب ہو گیا- " ایک تھی شہزادی - تحریر نمبر 1378,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-the-shehzadi-1378.html," " تیسرا کمرہ ۔ تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1377,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/teesra-kamra-1377.html,"حامد صاحب کو گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا- وہ اپنی بیوی، بیٹے شہزاد، بہو گلبدن اور دو پوتوں حسن اور محمود کے ساتھ ایک شہر میں رہتے تھے- ان کی کپڑا بنانے کی ایک چھوٹی سی فیکٹری تھی جس سے انھیں اتنی آمدنی ہوجاتی تھی جو ان کی اچھے طریقے سے گزر بسر کے لیے کافی تھی-وہ سال کے دس مہینے تو فیکٹری کے کاموں میں مصروف رہتے تھے مگر بقیہ دو ماہ اپنے گھر والوں کے ساتھ کسی پرفضا مقام پر گھومنے پھرنے کے لیے چلے جاتے تھے- اکثر اوقات ان کا بیٹا شہزاد ان کے ساتھ نہیں ہوتا تھا کیوں کہ حامد صاحب کی غیر موجودگی میں وہ ہی فیکٹری کے کاموں کی دیکھ بھال کرتا تھا-ایک روز شہزاد صاحب کے ذہن میں آیا کہ جب وہ ہر سال سیر سپاٹے کے لیے جاتے ہیں تو کیوں نہ کسی پرفضا پہاڑی مقام پر اپنا کاٹیج بنوا لیں کیوں کہ گھومنے پھرنے کے دوران ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں کمرے بڑی دشواری کے بعد ملتے تھے اور ان پر اخراجات بھی بہت ہوتے تھے-کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نے اپنے شہر سے تقریباً تین سو کلو میٹر دور کالی پہاڑی نامی ایک پر فضا جگہ پر پلاٹ لے کر ایک کاٹیج کی تعمیر شروع کروادی- یہ پلاٹ کالی پہاڑی کے اوپر اس کے درمیان میں تھا- وہاں کچھ دوسرے بھی کاٹیجز بنے ہوۓ تھے مگر ہر ایک کے درمیان کافی فاصلہ تھا- ان کاٹیجز کو بھی ان لوگوں نے بنوایا تھا جو یہاں گرمیوں کے موسم میں آتے تھے- باقی پورا سال یہ بند ہی پڑے رہتے تھے- کالی پہاڑیوں کے نیچے چند گاؤں بھی تھے اور پندرہ بیس منٹ کی مسافت کے بعد وہاں تک پہنچا جاسکتا تھا-حامد صاحب کا یہ کاٹیج چھ ماہ میں بن کر تیار ہوگیا تھا- اس کی تعمیر کے دوران انہوں نے کام کی رفتار کا جائزہ لینے کے لیے یہاں کے کافی چکر بھی لگائے تھے اور وہ بہت خوش تھے- ایک تو آس پاس کے نظارے بڑے دلفریب تھے، دوسرے وہاں سکون بہت تھا- شہر کے ہنگاموں سے دور اتنے پرسکون ماحول میں کچھ وقت گزارنا واقعی خوشی کی بات تھی-خوش قسمتی سے وہاں گیس، بجلی اور پانی کی سہولتیں بھی میسر تھیں- انہوں نے احتیاطاً ایک بڑے سے جنریٹر کا بھی انتظام کر لیا تھا- تین کمروں کا یہ کا ٹیج مکمل ہوا تو وہ خاص طور سے اس کا جائزہ لینے کے لیے کالی پہاڑی پہنچے- اسے پوری طرح مکمل دیکھ کر انھیں بہت خوشی ہوئی- شہزاد بھی ان کے ساتھ تھا، اس نے بھی اس کی بہت تعریف کی اور فوراً ہی تیسرے کمرے پر قبضہ جما کر اسے لاک کیا اور چابی جیب میں ڈال کر بولا ""پا پا- مجھے امید نہیں تھی کہ اس قدر خوبصورت جگہ پر ہمارا ایسا ٹھکانہ ہوگا- اب تو میں بھی کبھی کبھی یہاں آ کر رہ لیا کروں گا- تیسرا کمرہ میرا ہے""- اس کے منہ سے کاٹیج کی تعریف سن کر حامد صاحب خوش ہوگئے- گھر پہنچ کر انہوں نے سب کو بتایا کہ کاٹیج شہزاد کو بہت پسند آیا ہے اور تیسرے کمرے پر اس نے قبضہ بھی کر لیا ہے-سردیوں کی آمد آمد تھی- آسمان پر بادل نظر آنے لگے تھے- ان کے دونوں پوتوں حسن اور محمود کی سردیوں کی چھٹیاں بھی شروع ہونے والی تھیں- ایک روز انہوں نے شہزاد سے کہا ""تم نے تو کاٹیج دیکھ لیا ہے- میں سوچ رہا ہوں کہ بچوں کو بھی دکھا لاؤں- وہ کاٹیج بھی دیکھ لیں گے اور ان کی سیر بھی ہوجائے گی""-شہزاد نے کہا ""میں تو فی الحال اس کا مشوره نہیں دوں گا- کل رات میں نے ٹی وی پر محکمہ موسمیات کی رپورٹ دیکھی تھی- ان کا کہنا ہے کہ اس دفعہ وقت سے پہلے ہی برفباری شروع ہوجائے گی اور دوسرے سالوں کی نسبت زیادہ شدت سے ہوگی""-حامد صاحب ہنسنے لگے ""ٹی وی والے تو سنسنی پھیلانے میں ماہر ہیں- مجھے پتہ ہے جب آدھی سردیاں گزر جائیں گی، تب برف باری شروع ہوگی- اور ویسے بھی ہم کون سا لمبے عرصے کے لیے جائیں گے- بچوں کو کاٹیج دکھا کر اگلے روز واپس آجائیں گے- اگلے ہفتے سے ان کے اسکول بھی پندرہ دن کے لیے بند ہو رہے ہیں""-ان کی بات سن کر شہزاد خاموش ہوگیا- بچوں کو جب اس پروگرام کے بارے میں پتہ چلا تو وہ بھی خوشی سے اچھل پڑے- اس سلسلے میں تیاریاں بھی شروع ہوگئیں- حامد صاحب کا خیال تھا کہ وہ اتوار کو نکلیں گے اور پیر کو واپسی پر نکل کھڑے ہونگے-اسی دوران شہزاد نے گھر والوں کو بتایا کہ وہ ایک دو روز کے لیے شہر سے باہر جا رہا ہے- حامد صاحب نے یہ سنا تو گھبرا کر بولے ""ہم اگلے اتوار کو کالی پہاڑی جائیں گے- اتوار سے پہلے ہی واپس آجانا ورنہ ہمارا پروگرام رہ جائے گا- بچوں کو بہت مایوسی ہوگی- وہ تو دن گن گن کر کاٹ رہے ہیں""- شہزاد نے انھیں اطمینان دلادیا کہ وہ ان کے جانے سے پہلے ہی آجائے گا- وعدے کے مطابق وہ اتوار سے پہلے ہی واپس آگیا تھا-اتوار کی صبح دس بجے کے قریب وہ لوگ گھر سے نکلے- شہزاد ان کے ساتھ نہیں تھا- حامد صاحب کی غیر موجودگی میں اسے فیکٹری کے معاملات دیکھنا تھے- شہزاد کی بیوی گلبدن نے بہت سارا کھانا پکا کر ساتھ رکھ لیا تھا- کاٹیج میں فرج کا بھی انتظام تھا اس لیے کھانوں کے خراب ہونے کا اندیشہ بھی نہیں تھا- شہزاد بچوں کے لیے ڈھیر ساری چیزیں لے آیا تھا اور ان کو گاڑی میں رکھ دیا گیا تھا-موسم انتہائی خوشگوار تھا - آسمان پر ہلکے ہلکے بادل تھے- چار ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ کالی پہاڑی پہنچ چکے تھے- ایک صاف شفاف سڑک پہاڑوں کے اوپر تک جاتی تھی- سڑک کے دونوں اطراف میں گہری کھائیاں تھیں، اس لیے اس کے دونوں اطراف میں لوہے کے پائپوں کی ریلنگ لگی ہوئی تھی- یہاں پر بادل گہرے ہوگئے تھے اور بارش کے آثار نظر آ رہے تھے-ان کی گاڑی سے آگے بھی ایک گاڑی جا رہی تھی- اس میں ایک میاں بیوی اور تین بچے سوار تھے- گلبدن سوچنے لگی کہ شاید یہ لوگ ان کے قریبی پڑوسی ہونگے کیونکہ یہ گاڑی بھی اسی راستے پر جا رہی تھی جس پر وہ جا رہے تھے- اس کا خیال درست ہی تھا- وہ گاڑی سیدھے ہاتھ مڑ کر تھوڑی دور ایک عمارت کے احاطے میں داخل ہوگئی-کاٹیج پہنچ کر حسن اور محمود بہت خوش تھے- سب نے مل کر گاڑی سے سامان اتارا- سامان بہت زیادہ تھا اور اس میں زیادہ تر چیزیں کھانے پینے کی تھیں- برتن انہوں نے ساتھ نہیں لیے تھے کیوں کہ ضروریات زندگی کی تمام چیزیں اس کاٹیج میں پہلے ہی سے موجود تھیں- حامد صاحب نے تالا کھولا اور وہ اندر داخل ہوگئے- کاٹیج کو اندر سے دیکھ کر سب خوش ہوگئے- بڑے بڑے بستر، آرام دہ کرسیاں، کرسیوں کے ساتھ میزیں- گھر کے کمروں میں خوبصورت قالین بچھے ہوۓ تھے-حامد صاحب کی بیوی اور گلبدن پکے ہوۓ کھانوں کو فرج میں رکھنے لگیں- حامد صاحب نے کچن میں جا کر چائے کی کیتلی میں پانی بھر کر اسے گیس کے چوہلے پر رکھ دیا- دونوں بچے کھڑکی میں سے باہر دیکھنے لگے-حامد صاحب نے ان سے کہا ""تم دونوں گھر سے نکل کر باہر نہیں جاؤ گے- اس پہاڑ پر جنگلوں میں مختلف قسم کے جانور بھی رہتے ہیں""-محمود نے کہا ""میں تو دادا ابّو ان سے نہیں ڈرتا- آپ کے پاس بندوق جو ہے""- حامد صاحب جب بھی ایسی جگہوں پر جاتے تھے تو اپنی بندوق کو ساتھ لے جانا نہیں بھولتے تھے- انہوں نے ہنس کر کہا ""ہاں بندوق تو ہے میرے پاس مگر تم دونوں کے پاس تو نہیں ہے نا- ہم اکھٹے ہی باہر جایا کریں گے تاکہ ایک ہی بندوق سے تینوں کا کام نکل جائے""-اتنی دیر میں گلبدن کام ختم کر کے آگئی اور چائے بنانے لگی- تھوڑی دیر بعد وہ سب لوگ چائے پی رہے تھے- سردی بڑھ گئی تھی اور اس سردی میں چائے نے بہت مزہ دیا- کچھ ہی دیر گزری تھی کہ بجلی چمکنے لگی اور بادلوں کی گھن گرج دلوں کو دہلانے لگی- تیز ہوائیں چلنے لگی تھیں اور درختوں سے ٹکرا کر عجیب طرح کا شور پیدا کررہی تھیں- یکلخت اتنی ساری تبدیلیاں دیکھ کر حامد صاحب کو کچھ فکر سی ہوئی- وہ کھڑکی کے نزدیک کرسی پر بیٹھ گئے اور باہر دیکھنے لگے- طوفانی ہواؤں اور بارش میں شدت آتی جا رہی تھی- تھوڑی دیر بعد تیز ہوائیں چلنا بند ہوئیں اور بارش تھمی تو روئی کے سفید سفید گالے آسمان سے گرنا شروع ہوگئے- ان کی وجہ سے آس پاس کا منظر تو دلکش نظر آنے لگا تھا مگر حامد صاحب کو بہت سی فکروں نے گھیر لیا- موسم کی اس اچانک تبدیلی نے انھیں پریشان کر دیا تھا- وہ سوچنے لگے اگر یہ بے وقت کی برف باری نہ رکی تو واپسی کے راستے بند ہوجائیں گے-ان کی بیوی نے کھڑکی دروازے بند کیے اور بولیں ""بچو سردی بڑھ گئی ہے- تم لوگ کمبلوں میں بیٹھ جاؤ- تھوڑی دیر بعد کھانا لگ جائے گا""-حامد صاحب نے دیوار پر لگے اسمارٹ ٹی وی پر بچوں کو کارٹون لگا دئیے اور خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے- بچے بہت خوش اور مگن تھے اور بڑے مزے سے کارٹون دیکھ رہے تھے-تھوڑی دیر میں کھانا لگ گیا- انھیں سفر کی بھی تھکن تھی- کھانا کھا کر جو انھیں نیند آئ ہے تو سب نے رات ہی کی خبر لی تھی- حامد صاحب کی آنکھ موبائل کی بیل کی آواز سے کھلی تھی- شہزاد کا فون تھا- حامد صاحب اٹھ کر برآمدے میں آگئے تاکہ ان کے باتیں کرنے کی وجہ سے کسی کی نیند خراب نہ ہو- باہر نکلے تو حیران رہ گئے- ہر چیز نے برف کی سفید چادر اوڑھ رکھی تھی- اس وقت بھی روئی کے گالے تیزی سے زمین پر گر رہے تھے-شہزاد نے جب پوچھا کہ کیا حال ہیں تو حامد صاحب گھبرا کر بولے ""یہاں تو تیز برف باری شروع ہوگئی ہے- تم ٹھیک کہہ رہے تھے- موسم ایک دم سے تبدیل ہوگیا ہے- ہم نے یہاں آکر غلطی کی ہے""-شہزاد نے ہنس کر کہا ""میری مجبوری تھی ورنہ میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ آتا""-""لیکن شہزاد میں ایک اور بات سوچ رہا ہوں- برف باری بہت تیزی سے ہو رہی ہے- اگر راستے بند ہوگئے تو پھر ہم کیا کریں گے- ہمارے پاس تو کھانے پینے کا سامان بھی نہیں ہے- بچوں کا کیا ہوگا؟""-شہزاد بولا ""الله مالک ہے- آپ بالکل پریشان مت ہوئیے""- چند دوسری باتیں کرنے کے بعد شہزاد نے انھیں خدا حافظ کہہ دیا-ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ بجلی اور گیس بدستور آ رہی تھیں- ان لوگوں نے رات کا کھانا دس بجے کھایا- باہر بہت برف پڑی ہوئی تھی- ان کے کاٹیج کے برآمدے اور دوسرے کھلے حصوں پر تو موٹی لکڑی کی چھت پڑی ہوئی تھی مگر داخلی دروازے پر اتنی برف موجود تھی کہ باہر کی جانب دروازہ کھول کر نکلنا محال تھا- خوش قسمتی سے دروازہ دونوں جانب کھلنے والا تھا اس لیے انھیں فکر نہیں تھی-بچے تو برف دیکھ کر بہت خوش تھے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بیلچے لا کر برف ہٹانے لگے- حامد صاحب کی بیوی بھی آکر ان کے قریب کھڑی ہوگئی تھیں- انہوں نے تشویش بھرے لہجے میں کہا ""ہمارا کل یہاں سے نکلنا تو ناممکن لگ رہا ہے- سڑک پر نظر ڈالیں ایک فٹ سے تو کیا کم ہوگی برف- رات تک اگر برف باری نہ تھمی تو صبح تک تو اور بھی برا حال ہوجائے گا- اگر ہمیں یہاں زیادہ دنوں تک رہنا پڑ گیا تو کھانے پینے کا کیا ہوگا- دور دور تک یہاں کوئ دکان نظر نہیں آ رہی- راستے میں میں نے اکثر بنگلے بند دیکھے تھے- ہمیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا""-""غلطی میری ہے- حالانکہ شہزاد نے مجھے منع بھی کیا تھا مگر میں نے ہنس کر ٹال دیا تھا- بہرحال تم فکر مت کرو- اگر ہمیں زیادہ دنوں تک یہاں رکنا بھی پڑ گیا تو پہاڑ کے نیچے کچھ فاصلے پر بہت سے گاؤں ہیں- میں کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ کر کھانے پینے کی اشیا لے آؤں گا""- حامد صاحب نے ان کی ہمت بڑھانے کی خاطر کہا-اس صورتحال سے گلبدن بالکل بھی پریشان نہیں تھی- بہرحال حامد صاحب اور ان کی بیوی کی طرح اسے بھی تھوڑی سی یہ فکر لاحق ہوگئی تھی کہ زیادہ دنوں تک رکنے کی صورت میں کھانے پینے کا کیا ہوگا""-رات کو ان تینوں نے بڑے حساب سے کھانا کھایا تاکہ وہ مزید ایک دو دن تک چل جائے- یہ تو اچھا ہوا تھا کہ گلبدن نے چلتے ہوۓ زیادہ کھانا بنا لیا تھا- اس کے علاوہ شہزاد نے بچوں کے لیے بہت سارے بسکٹ، چپس اور ان کی پسند کی ڈھیر ساری چیزیں لا کر اس کے حوالے کردی تھیں- وہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ ان چیزوں کو احتیاط سے چلائے تو دو تین روز تک کام چل جائے گا-رات گیارہ بجے ٹی وی میں اس علاقے کے بارے میں خبر دی گئی- شدید برف باری کی وجہ سے بے شمار لوگ راستے میں پھنس گئے تھے- خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ راستے صاف ہونے میں کم از کم ایک ہفتہ لگے گا- یہ خبر دیکھ کر حامد صاحب کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا- وہ خود کو پریشان ظاہر کرکے دوسروں کو پریشان نہیں کرنا چاہ رہے تھے- اس سے ان لوگوں کی ہمتیں بھی جواب دے جاتیں مگر وہ گم سم سے ضرور ہوگئے تھے- ایسے میں ان کی بہو نے ان کی ہمت بندھائی ""ابّا- آپ پریشان نہ ہوں- ہمارے پاس وافر مقدار میں کھانے کی چیزیں ہیں- بسکٹوں کے تو ڈبے کے ڈبے شہزاد لے آئے تھے- چائے کا بھی ڈھیر سارا سامان ہے""-""مجھے تو بچوں کی زیادہ فکر ہے- ایک بات کا دھیان رہے- ہماری اس پریشانی کا علم بچوں کو نہیں ہونا چاہیے- وہ پریشان ہوجائیں گے""- حامد صاحب نے اپنی بیوی اور گلبدن سے کہا-ابھی وہ تینوں اپنی اپنی سوچوں میں ہی گم تھے کہ حامد صاحب کے موبائل پر کسی کی کال آئ- انہوں نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو شہزاد کا نمبر تھا- انہوں نے بٹن دبا کر موبائل کان سے لگایا- شہزاد کہہ رہا تھا ""میں نے ابھی ابھی ٹی وی پر دیکھا ہے- کالی پہاڑی کے راستے بند ہوگئے ہیں""-""ہاں بیٹا- ہم نے بھی یہ خبر دیکھ لی ہے""- حامد صاحب نے اداسی سے کہا ""میں نے تمہاری بات نہ مان کر سخت غلطی کی ہے""-""پاپا ایسا نہ کہیں- آپ نے جو بھی کیا ٹھیک کیا""- شہزاد نے کہا-""ہم بہت فکر مند ہیں شہزاد- ہمیں اندازہ ہوگیا ہے کہ ہم کئی روز کے لیے اس کاٹیج میں قید ہوگئے ہیں- بچوں کا ساتھ ہے- کھانے پینے کا کیا ہوگا""- حامد صاحب نے بڑی فکر مندی سے کہا- ان کی بیوی اور گلبدن ان کی باتیں غور سے سن رہی تھیں- ان کی بیوی تو دور کھڑی سر ہلا ہلا کر ان کی باتوں کی تائید بھی کر رہی تھیں-""پاپا آپ کو زحمت ہوگی- ذرا میری گلبدن سے بات کروا دیجئے""- شہزاد کی اس بات پر حامد صاحب نے موبائل بہو کو دے دیا-دوسری طرف سے شہزاد کی شوخ آواز آئ ""برف باری ہو رہی ہے- مزہ تو خوب آرہا ہوگا؟""-گلبدن ہنس کر بولی ""اگر آپ ساتھ ہوتے تو اور مزہ آتا- کہیے- کھانا کھا لیا- میں سب چیزیں پکا کر فرج میں رکھ آئ تھی""-""میں ابھی تو فیکٹری سے آیا ہوں- میں نے بوا سے کھانا نکالنے کا کہہ دیا ہے- تھوڑی دیر میں کھالوں گا- اور ہاں سنا ہے کہ تم لوگ وہاں برف باری کی وجہ سے پھنس گئے ہو- حسن اور محمود گھبرا تو نہیں رہے؟""-""بچے تو ٹھیک ہیں- انھیں ہم نے احساس ہی نہیں ہونے دیا ہے- ابّا اور امی البتہ پریشان ہیں""- گلبدن نے بتایا-""اور تم؟""- شہزاد نے پوچھا-""الله کے فضل سے جب تک آپ ہیں میں کیوں پریشان ہوں گی- آپ سے تو مجھے یہ امید بھی ہے کہ اگر حالات مزید خراب ہوےٴ تو آپ ہمیں ہیلی کاپٹر میں بھی لے کر چلے جائیں گے""- گلبدن نے بڑے خلوص سے کہا-""جیتی رہو""- شہزاد نے ہنس کر کہا- ""اچھا اب اپنا پرس اٹھاؤ اور اس کے چھوٹے خانے کی زپ کھولو- اس میں تمہیں ایک چابی ملے گی- یہ چابی اس تیسرے کمرے کی ہے جو کونے میں ہے- کمرہ کھول کر دیکھو پھر اس کے بعد مجھے فون کرنا""-فون بند ہوگیا تھا- گلبدن شہزاد کی باتیں سن کر سخت حیران تھی- اس نے جلدی سے اپنا پرس اٹھا کر اس کی چھوٹی جیب سے چابی نکالی- حامد صاحب اور ان کی بیوی اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے- انھیں لے کر وہ تیسرے کمرے کی طرف آئ- چابی سے دروازے کا قفل کھولا- دروازہ کھلتے ہی ان سب کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں- کمرہ کمرہ نہیں کسی جنرل اسٹور کا منظر پیش کر رہا تھا- آٹے ، چاول اور چینی کے تھیلے، دودھ کے ڈبے، دالوں کے بہت سے پیکٹ، چائے کی پتی، خشک گوشت کے ٹن، بچوں کے کھانے پینے کی اشیا غرض کونسی شے تھی جو وہاں نہیں تھی-گلبدن نے جلدی سے اپنا موبائل نکالا اور شہزاد کے نمبر ملائے- ""شہزاد- آپ نے تو دل خوش کردیا- شکریہ- مگر یہ سب آپ نے کب کیا تھا؟""-دوسری طرف سے شہزاد بولا ""یاد ہے میں گزشتہ ہفتے ایک دو دن کے لیے گھر سے غائب ہوگیا تھا- میں یہ ہی انتظام کرنے کے لیے یہاں آیا ہوا تھا- میرا ایک دوست محکمہ موسمیات میں بھی ہے- اس نے بھی مجھے بتایا تھا کہ اگلے ہفتے سے اچانک شدید برفباری شروع ہوجائے گی- مجھے پتہ تھا کہ تم لوگوں کا پکا پروگرام بن گیا ہے- اس لیے میں نے احتیاطاً چپکے سے یہ انتظام کر دیا تھا- یہ سب سامان اتنا ہے کا دو ماہ سے بھی زیادہ چلے گا- اس تیاری کا میں نے پہلے اس لیے نہیں بتایا تھا کہ اچانک پتہ چلنے پر سب لوگوں کو حیرانی کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوگی""-حامد صاحب بھی بہت خوش تھے- انہوں نے گلبدن کے ہاتھ سے فون لے کر شہزاد کو خوب شاباش دی- گلبدن اور حامد صاحب کی بیوی خوشی خوشی سامان کو قرینے سے لگانے لگیں- حامد صاحب بڑے اطمینان سے بچوں کے ساتھ باتیں کرنے لگے-صبح وہ لوگ ناشتے سے فارغ ہو کر کھڑکیوں سے باہر جھانکنے لگے- حسن نے اپنی ماں گلبدن سے کہا ""امی پتہ نہیں ہمارے پڑوسیوں کے پاس کھانے پینے کی چیزیں ہونگی بھی یا نہیں- وہ ہی جو کل ہمارے ساتھ ساتھ آرہے تھے؟""-گلبدن نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور میز کی طرف اشارہ کر کے بولی ""وہ دیکھو""- حسن نے مڑ کر دیکھا- میز پر دو بڑے بڑے پلاسٹک کے تھیلے رکھے ہوۓ تھے- گلبدن نے کہا ""میں نے اس تھیلے میں بہت ساری کھانے پینے کی چیزیں رکھ دی ہیں- تھوڑی دیر بعد ہم ان کے گھر جائیں گے اور انھیں یہ چیزیں دے دیں گے""-حامد صاحب حسن کی بات سن کر بہت خوش ہوےٴ اور بولے ""شاباش حسن- تم نے بہت اچھی بات کی ہے- ہمیں اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھنا چاہئے- تمہاری امی کی بھی یہ بہت اچھی بات ہے کہ انہوں نے خود احساس کرکے پڑوسیوں کے بارے میں سوچا اور ان کو دینے کے لیے پہلے ہی سے یہ چیزیں نکال کر رکھ لیں""-ان کے منہ سے تعریفی کلمات سن کر گلبدن اور حسن مسرور نظر آنے لگے تھے- تھوڑی دیر بعد وہ سب گھر سے نکلے اور برف پر سنبھل سنبھل کر آہستہ آہستہ چلتے ہوۓ پڑوسیوں کے گھر پہنچ گئے- ان کا گھر تقریباً ایک فرلانگ دور تھا-وہ لوگ اپنے گھر میں حیران پریشان بیٹھے تھے- گلبدن نے جب وہ چیزیں ان کے حوالے کیں تو وہ سب خوش ہوگئے- انہوں نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا- اس آدمی کی بیوی بولی ""بہن- ہم تو بالکل ناامید ہوگئے تھے، بچوں کا ساتھ ہے اس لیے زیادہ پریشانی ہوگئی تھی- آپ سے ہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ ہمیں اپنے آس پاس کے ان لوگوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے جو کسی بھی لحاظ سے ہماری مدد کے مستحق ہیں""- حامد صاحب کی بیوی اور گلبدن یہ سن کر مسکرانے لگیں-حسن اور محمود ان کے بچوں میں گھل مل گئے اور ان کے ساتھ کھیلنے لگے- " سیانا گدھا - تحریر نمبر 1376,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/atana-gadha-1376.html," " ایک شکل کے دو شہزادے۔ تحریر:مختار احمد - تحریر نمبر 1374,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-shakal-k-2-shehzade-1374.html,"شہزادہ ارجمند اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوۓ اپنی بہن شہزادی انجمن کے بارے میں سوچ رہا تھا- چند ہفتے پہلے اس کی شادی پڑوسی ملک کے ایک شہزادے سے ہوگئی تھی- شادی کے بعد وہ ایک مرتبہ بھی اپنے گھر نہیں آئ تھی- ملکہ نے قاصدوں کے ذریعے اسے پیغام بھی بھیجا کہ وہ زیادہ دنوں کے لیے نہیں تو ایک آدھ دن کے لیے ہی ملنے کے لیے آجائے تو اس نے جواب میں کہلوایا کہ وہ ابھی تک شادی کی ضیافتوں میں مصروف ہے، جیسے ہی فرصت ملے گی ضرور ملنے آئے گی-بادشاہ اس طرح کے معاملوں میں دخل نہیں دیتا تھا- مگر شہزادی کا جواب سن کر اس نے ہنس کر کہا ""جو لڑکیاں سسرال میں خوش رہتی ہیں، اپنی ماں کے گھر کم ہی آتی ہیں- ملکہ آپ بھی تو ایسی ہی تھیں- اپنی امی حضور سے ملنے کم کم ہی جاتی تھیں""-""میں تو یہ سوچ کر گھر نہیں جاتی تھی کہ میرے بعد آپ کا خیال کون رکھے گا""- ملکہ نے شرما کر کہا-بادشاہ ہنس پڑا ""بس اسی وجہ سے ہماری بیٹی بھی نہیں آرہی- وہ بھی یہ ہی سوچ رہی ہوگی کہ اگر یہاں آگئی تو اس کے شوہر کی دیکھ بھال کون کرے گا""-شہزادی انجمن شہزادہ ارجمند کی چھوٹی بہن تھی- دونوں بہن بھائیوں میں مثالی محبت تھی- وہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہتے تھے- مگر لڑکیاں تو ہوتی ہی پرائی ہیں، ایک دن تو سب کو اپنے گھر جانا پڑتا ہے اور ایک روز شہزادے کی بہن بھی بیاہ کر پردیس چلی گئی- بہن کی شادی ہوئی تو شہزادہ ارجمند کو کئی دنوں تک کوئی چیز اچھی نہیں لگی- مگر مجبوری تھی- وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا- اس وقت بھی وہ بہن کی یادوں میں کھویا ہوا تھا کہ ملکہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی- اسے دیکھ کر شہزادہ ارجمند کھڑا ہوگیا اور ادب سے بولا""امی حضور- آپ نے تکلیف کیوں کی، مجھے طلب کر لیا ہوتا""-""کوئی بات نہیں شہزادے- ہم اس لیے آئے تھے کہ آپ سے ایک کام پڑ گیا ہے- آپ کے ابّا حضور شہزادی انجمن کے لیے دوسرے ملکوں سے جو تحفے تحائف لے کر آئے ہیں وہ ویسے ہی رکھے ہوۓ ہیں- ہمارا خیال ہے کہ تم اس کے پاس ایک چکر لگا لو، اس سے مل بھی لینا اور وہ چیزیں بھی اس کو دے دینا""-""جی اچھا امی حضور""- شہزادہ ارجمند نے کہا-اگلے روز شہزادہ ارجمند ملکہ کا دیا ہوا سارا سامان لے کر اپنے محافظ سپاہیوں اور خادموں کے ساتھ سفر پر روانہ ہو گیا- دو دن کے بعد وہ لوگ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے- شہزادی انجمن اپنے بھائی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اس کی اور اس کے ساتھ آئے ہوۓ تمام لوگوں کی بہت خاطر مدارات کی- شہزادے نے بہن کو بتایا کہ ملکہ اس کو ہر وقت یاد کرتی رہتی ہے- شہزادی نے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی اس سے ملنے آئے گی- ایک دو روز تک بہن کی مہمان نوازی کا لطف اٹھا کر شہزادہ ارجمند واپسی کے سفر پر روانہ ہوا- جب انہوں نے رخت سفر باندھ لیا تو شہزادی نے بھائی کے ساتھ آئے ہوۓ تمام خدمات گاروں اور سپاہیوں کو بیش قیمت تحفے بھی دیے-وہ لوگ صبح ہی صبح سفر پر روانہ ہو گئے تھے- سہہ پہر تک انہوں نے کافی راستہ طے کرلیا تھا- مسلسل سفر کرنے کی وجہ سے سب لوگوں کو بہت تھکن ہوگئی تھی اور بھوک بھی ستانے لگی تھی- اس لیے انہوں نے راستے میں ایک جنگل کے قریب پڑاؤ ڈال لیا- خادموں نے وہاں خیمے گاڑے اور کھانا پکانے کی تیاری شروع ہوگئی- ارادہ یہ ہی تھا کہ رات بھی اسی جگہ بسر کی جائے گی- ادھر تو سب لوگ کاموں میں مصروف تھے، ادھر شہزادے ارجمند کی دل میں آئ کہ ذرا آس پاس کا علاقہ تو گهوم پھر کر دیکھے، پتہ نہیں پھر دوبارہ نہیں آنا ہو کہ نہیں-وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور ساتھیوں سے بولا کہ وہ آس پاس کا ایک چکر لگا کر آرہا ہے- اس کے سپاہیوں نے بھی ساتھ جانا چاہا مگر اس نے منع کر دیا اور اکیلا ہی وہاں سے روانہ ہوگیا-جنگل بہت سرسبز اور گھنا تھا- شہزادہ ارجمند ایک بہادر لڑکا تھا- اس کو یہ خوف نہیں تھا کہ کوئی جنگلی جانور اس پر حملہ کردے گا- اسے معلوم تھا کہ وہ اپنے خنجر اور تلوار سے اس کا مقابلہ کر سکتا ہے-ویسے تو شہزادہ اپنی سلطنت میں ہر جگہ خوب گھوما پھرا تھا مگر اس جگہ پہلی مرتبہ آیا تھا- یہاں کی خوبصورتی دیکھ کر وہ حیران رہ گیا- ان نظاروں میں گم رہنے کی وجہ سے اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کہاں کا کہاں پہنچ گیا ہے-اس نے واپسی کا سوچا مگر وہ راستہ بھول گیا تھا- ابھی وہ اسی شش و پنچ میں تھا کہ کس راستے پر جائے کہ اچانک اس کے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں آئیں- وہ چوکنا ہو گیا اور اس نے اپنی تلوار میان سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی- لیکن اس کی یہ کوشش بے سود ثابت ہوئی- بہت سارے ڈاکوؤں نے یکلخت اسے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا، ان کے ہاتھوں میں کمانیں تھیں جن پر تیر چڑھے ہوۓ تھے اور ان کا رخ شہزادے کی جانب تھا- سب سے آگے ڈاکوؤں کا سردار تھا- اس نے پہلے تو ایک گھن گرج قہقہہ لگایا پھر بولا ""شکل سے تو کسی اچھے گھرانے کے لگ رہے ہو، مال تو بہت ہوگا- لاؤ نکالو""-شہزادے نے بےرخی سے کہا ""مال تو بہت ہے مگر میں اسے ساتھ لیے لیے نہیں پھرتا""-ڈاکوؤں کے سردار نے اپنے ساتھیوں سے کہا ""اس نوجوان کے کپڑے، تلوار، خنجر اور گھوڑا بہت قیمتی ہیں- خنجر اور تلوار پر ہیرے جڑے ہوۓ ہیں، گھوڑا عربی نسل کا ہے- لباس بھی شاہانہ ہے- ان سب کو لے لو- اور اسے معمولی کپڑے پہنا کر رخصت کرو""-شہزادہ ارجمند سمجھ گیا تھا کہ اس کا مزاحمت کرنا بے کار ثابت ہوگا اور مفت میں جان خطرے میں ڈالنے والی بات ہوگی- ڈاکوؤں نے اس سے تمام چیزیں چھین لیں- شہزادے نے دل میں تہیہ کر لیا کہ محل پہنچتے ہی ان ڈاکوؤں کے ٹھکانے پر یلغار کرے گا اور انہیں قید کروائے گا، ان لوگوں نے جانے کتنے لوگوں کو لوٹا ہوگا-اس کی تمام چیزیں لینے کے بعد ڈاکوؤں نے شہزادے کو پرانے سے کپڑے پہننے کے لیے دیے اور پھر اسے جنگل سے باہر چھوڑ آئے- شہزادہ ارجمند کو بالکل پتہ نہیں تھا کہ وہ جگہ جہاں اس کے ساتھیوں نے پڑاؤ ڈال رکھا ہے کدھر ہے-شام ہوگئی تھی اور کچھ دیر میں رات ہونے والی تھی- اس نے سوچا کہ پہلے سر چھپانے کا کوئ ٹھکانہ ڈھونڈے دوسری باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی- اس کو بھوک بھی لگنے لگی تھی-جنگل سے نکل کر وہ کچھ دور ہی گیا تھا کہ اسے ایک بستی کے آثار نظر آئے- وہ اسی طرف چل پڑا- کچھ دیر کی مسافت کے بعد وہ بستی میں داخل ہوگیا- چونکہ ابھی تک پوری طرح رات نہیں ہوئی تھی اس لیے بستی میں کافی چہل پہل نظر آرہی تھی-چلتے چلتے وہ ایک گلی میں داخل ہوا جہاں آمنے سامنے قطار در قطار مٹی کے کچے گھر بنے ہوۓ تھے- وہ ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ ایک چھوٹا سا لڑکا سامنے سے بھاگتا ہوا آیا، شہزادے پر نظر پڑی تو حیرت سے بولا ""انور بھائی- آپ شہر سے کب آئے؟""- پھر اس نے شہزادے کے جواب کا انتظار بھی نہیں کیا اور قریبی ایک گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر چلانے لگا ""خالہ- خالہ- جلدی آؤ- انور بھائی شہر سے واپس آگئے ہیں""- چھوٹا لڑکا یہ اطلاع دے کر بھاگ گیا- وہ شائد جلدی میں تھا-اس کی آواز سن کر ایک ادھیڑ عمر کی خوش شکل عورت جلدی سے دروازے پر آئ- شہزادے پر نظر پڑی تو حیرت سے بولی ""انور تو کب آیا؟- بھوک لگ رہی ہوگی، چل پہلے جلدی سے کھانا کھالے- تیری کہانی میں بعد میں سن لوں گی- تیرا باپ صبح سے دریا پر مچھلیاں پکڑنے کے لیے گیا ہوا ہے- ابھی تک نہیں آیا ہے""-یہ کہہ کر اس عورت نے اس کا باتھ پکڑا اور زبردستی گھر میں لے آئ- شہزادہ ارجمند شش و پنچ میں پڑ گیا- وہ عورت اسے اپنا بیٹا سمجھ رہی تھی- اس نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے کہا ""مگر میں آپ کا بیٹا نہیں ہوں""-اس کی بات سنی تو اس عورت کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے- ""انور میں نے تجھے دریا والی بات اس لیے تو نہیں بتائی تھی کہ تو ایسی باتیں کرنے لگے- یہ ٹھیک ہے کہ تجھے بچپن میں ڈوبتے ہوۓ میرے شوہر نے دریا میں سے نکالا تھا- مگر تجھے پالا تو ہم نے ہی ہے- اب ہم ہی تیرے ماں باپ ہوۓ کہ نہیں؟""-اس کی بات سن کر شہزادہ ارجمند حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا- اسے ملکہ نے بتا رکھا تھا کہ اس کا ایک اور جڑواں بھائی بھی تھا- ایک روز جب وہ بہت چھوٹے تھے تو بادشاہ کے ساتھ دریا کی سیر کو گئے- دریا کا بہاؤ تیز تھا جس کی وجہ سے کشتی الٹ گئی- بادشاہ کو تیرنا آتا تھا، اس نے ارجمند کو تو ڈوبنے سے بچا لیا مگر دوسرا بھائی بہتا بہتا جانے کہاں نکل گیا- بعد میں اسے بہت ڈھونڈا گیا مگر وہ نہیں ملا- ملکہ اپنے اس بیٹے کو یاد کر کے اب بھی روتی رہتی تھی-اب شہزادے نے جو اس عورت کی باتیں سنیں تو اسے یقین ہوگیا کہ انور ہی اس کا بچھڑا ہوا بھائی ہے جسے اس عورت نے ماں بن کر پالا ہے- اس نے اس عورت کا محبّت سے ہاتھ پکڑا اور بولا ""نیک خاتون- رنجیدہ مت ہوئیے- میرے کہنے کا مطلب تھا کہ میں انور نہیں ہوں- میرا نام تو ارجمند ہے- میں اس ملک کا شہزادہ ہوں- پھر اس نے اپنی پوری داستان اس عورت کو سنا ڈالی- اس نے اسے اپنے کھوئے ہوۓ بھائی کے متعلق بھی وہ سب کچھ بتا دیا جو اس نے ملکہ کے منہ سے سن رکھا تھا-اس عورت کو جب پتا چلا کہ وہ ایک شہزادہ ہے اور وہ لڑکا جسے انہوں نے دریا میں سے نکال کر پالا تھا شہزادے کا جڑواں بھائی ہے تو وہ گھبرا گئی-شہزادے نے اسے تسلی دی اور کہا ""اماں- آپ نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے- ہم ساری زندگی بھی اس احسان کا بدلہ نہیں اتار سکیں گے- آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ کہ آپ کے شوہر نے میرے بھائی کو ڈوبنے سے بچایا اور آپ دونوں نے اس کی پرورش کی- ابّا حضور اور امی حضور تو بہت ہی خوش ہونگے اور آپ کے احسان مند ہونگے- آپ لوگ بہت اچھے ہیں""-پھر اس عورت نے اسے عزت سے بٹھا کر اس کے سامنے کھانا رکھا- شہزادے کو تو بھوک بھی بہت لگ رہی تھی- اس نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا-ابھی وہ کھانے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ مچھیرا اپنا جال اور چند بڑی بڑی مچھلیاں لے کر گھر میں داخل ہوا- اس نے شہزادے کو دیکھا تو خوشی سے بولا ""انور تو کب آیا؟- بس اب بستی چھوڑ کر کہیں مت جانا- شہر میں دولت کی بارش تھوڑا ہوتی ہے- شہر والے بڑے سیانے ہوتے ہیں، دس آدمیوں کا کام ایک آدمی سے لیتے ہیں اور پیسے بھی رلا رلا کر دیتے ہیں- گاؤں میں ہی رہ کر محنت کرے گا تو الله بہت دے گا- کل سے میرے ساتھ تو بھی مچھلیاں پکڑنے چلا کر- اور انور کی ماں- تو بھی اس کو کہیں مت جانے دینا- اب اس کی شادی کی تیاری کر تاکہ اس کے پاؤں میں بھی ذمہ داریوں کی بیڑی پڑ جائے""-مچھیرا تو اپنی دھن میں یہ سب باتیں کیے جا رہا تھا اور اس کی باتیں سن کر شہزادہ مسکرا رہا تھا مگر مچھیرے کی بیوی گھبرا کر اس کے پاس آئ اور دھیرے سے بولی ""بس بھی کرو- جو منہ میں آ رہا ہے کہے جا رہے ہو- یہ ہمارا انور نہیں بلکہ اس کا جڑواں بھائی ہے- یہ بادشاہ کا بیٹا ہے- ہمار انور بھی معمولی لڑکا نہیں ہے - اس ملک کا شہزادہ ہے""-اس کے بعد اس نے مچھیرے کو پوری داستان سنا دی- مچھیرے نے یہ باتیں سنیں تو حیران رہ گیا- شہزادہ ارجمند نے کہا ""آپ دونوں نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ہمارے بھائی کو اپنا بیٹا سمجھ کر پالا- آپ کا یہ احسان ہم زندگی بھر نہیں بھول سکتے- امی حضور تو بہت ہی خوش ہوں گی- انھیں امید تھی کہ ایک روز ان کا گمشدہ بیٹا ضرور مل جائے گا""-مچھیرے نے سر کھجا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور بولا ""مجھے یاد ہے میں نے انور کی حرکتوں پر دو ایک دفعہ اس کو سزا بھی دی تھی- مجھے ڈر ہے وہ محل جا کر ملکہ سے میری شکایت نہ کردے""-اس کی بات سن کر شہزادہ ارجمند کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی- ""آپ نے بہت اچھا کیا جو اس کو سزا دی- آپ نے اسے باپ بن کر پالا تھا- اگر آپ نے اسے سزا دی بھی ہوگی تو اس کے ہی بھلے کے لیے دی ہوگی- ماں باپ اپنے بچوں پر سختی کرتے ہیں تو اس میں بچوں کی ہی بہتری ہوتی ہے""- اس کی بات سن کر مچھیرا خوش ہوگیا-شہزادے کے پوچھنے پر مچھیرے نے بتایا کہ انور کو دریا پر جا کر مچھلیاں پکڑنے کا کام پسند نہیں تھا- وہ کچھ اور کرنا چاہتا تھا اس لیے کام کی تلاش میں شہر کی جانب نکل گیا- اس کو گئے ہوۓ دو ڈھائی ماہ ہوگئے تھے- جب بستی کا خلیل نامی ہرکارہ شہر جاتا تھا تو وہ واپسی پر اس کے ہاتھ اپنی ماں باپ کو پیسے بھی بھجوادیا کرتا تھا-یہ ہی باتیں کرتے کرتے کافی رات بیت گئی- سب کو نیند آنے لگی تھی اس لیے وہ سو گئے-صبح شور شرابے سے شہزادے کی آنکھ کھل گئی- مچھیرے کی بیوی بھی جاگ گئی تھی اور ناشتہ بنا رہی تھی- یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ شور کیسا ہے، شہزادہ بستر سے اٹھ کر کھڑکی کے نزدیک آیا اور گلی میں دیکھا- اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ دوڑ گئی- اس نے گھوڑوں پر سوار اپنے سپاہیوں کو دیکھا، وہ اس کی تلاش میں اس بستی تک پہنچ گئے تھے-شہزادہ باہر نکلا اور انھیں اپنی موجودگی سے آگاہ کیا- شہزادے کو پاکر وہ لوگ بہت خوش ہوےٴ ورنہ وہ اس بات سے پریشان تھے کہ اگر شہزادہ نہ ملا تو بادشاہ کو کیا جواب دیں گے- شہزادے نے ان سے کہا کہ فی الحال وہ اسی گھر میں ٹہرے گا- اس کی واپسی ایک دو روز میں ہوگی-پھر اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ جنگل میں چاروں طرف پھیل جائیں اور ان ڈاکوؤں کو تلاش کرکے گرفتار کریں جنہوں نے کل اسے لوٹا تھا- اس کے علاوہ بھی وہ نہ جانے کتنے معصوموں کو لوٹ چکے ہونگے- سپاہی چلے گئے تو شہزادہ ارجمند نے مچھیرے سے کہا کہ اب کسی طریقے سے انور کو جلد سے جلد بلوایا جائے- مچھیرا فوراً خلیل ہرکارے کے پاس پہنچا- پچاس دمڑیاں اس کے ہاتھ پر رکھیں اور بولا ""خلیل بھائی- تم ابھی شہر روانہ ہوجاؤ اور اپنے ساتھ انور کو لے آؤ""-خلیل کے لیے یہ بہت بڑی رقم تھی- اس نے خوشی خوشی اپنے گھوڑے کو تیار کیا اور شہر روانہ ہوگیا- سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے وہ انور کے ساتھ واپس آگیا-انور حیران تھا کہ مچھیرے نے اسے اتنی جلدی میں کیوں بلایا ہے- جب یہ ہی بات اس نے خلیل ہرکارے سے کی تو وہ بولا ""میں کیا بتا سکتا ہوں- ہوسکتا ہے تمھاری شادی وادی کی بات چل رہی ہو""-جب انور گھر پہنچا تو وہ شہزادہ جنید کو دیکھ کر حیران رہ گیا- وہ شکل و صورت میں بالکل اس جیسا ہی تھا- وہ سوالیہ نظروں سے مچھیرے کو دیکھنے لگا- پھر اس کی نظر مچھیرے کی بیوی پر پڑی اس کی آنکھوں میں آنسو تھے- وہ جلدی سے اس کے پاس گیا ""ماں آپ کیوں رو رہی ہیں- یہ میرا ہمشکل کون ہے؟""- اس نے پوچھا-مچھیرن بولی ""بیٹا تو اب ہمیں چھوڑ کر چلا جائے گا- تو ایک شہزادہ ہے- تیرا بھائی تجھے لینے آیا ہے""- مچھیرن یہ بات تو اس کو پہلے ہی بتا چکی تھی کہ وہ انھیں دریا میں سے ملا تھا مگر یہ بات انور کو ابھی پتہ چلی تھی کہ وہ ایک شہزادہ ہے-وہ اپنے بھائی سے گلے ملا اور مچھیرن سے بولا ""آپ اداس کیوں ہوتی ہیں- اگر میں گیا تو اکیلا تھوڑی جاؤں گا- آپ دونوں بھی میرے ساتھ چلیں گے""-اگلے روز شاہی سپاہی پورے جنگل میں پھیل گئے- انہوں نے جنگل کا چپہ چپہ چھان مارا اور آخر کار ڈاکوؤں کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوگئے- پھر ایک مقابلے کے بعد وہ تمام ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے- زنجیروں میں جکڑے تمام ڈاکو ان کے ہمراہ تھے- اس کامیابی کے بعد وہ شہزادہ ارجمند کے پاس آئے- ڈاکوؤں کو دیکھ کر شہزادہ ارجمند بہت خوش ہوا اور بولا ""تم لوگوں نے مخلوق خدا پر بہت ظلم ڈھائے ہیں- اب قاضی تمہارا فیصلہ کرے گا""- پھر اس نے روانگی کا حکم دیا اور سب محل کی طرف روانہ ہو گئے- مچھیرا اور مچھیرن بھی ان کے ساتھ تھے-وہ لوگ محل پہنچے تو شہزادہ ارجمند پیچھے رہ گیا تھا اور انور آگے تھا- اتفاق کی بعد کہ کچھ دیر پہلے اس کی بہن شہزادی ارجمند بھی اپنے شوہر کے ساتھ محل پہنچی تھی- وہ اپنی ماں سے ملنے آئ تھی کیوں کہ جب شہزادہ ارجمند اس سے ملنے گیا تھا تو اس نے بتایا تھا کہ ملکہ اس کو بہت یاد کرتی ہے- اس نے جو انور کو دیکھا تو دوڑ کر اس کے سینے سے لگ گئی-انور گھبرا گیا- اس نے کہا ""شہزادی دور ہٹو- میں تو انور ہوں- شہزادہ ارجمند پیچھے آرہا ہے""- اس کی بات سن کر شہزادی ابھی حیران ہونے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ اتنی دیر میں شہزادہ ارجمند بھی وہاں پہنچ گیا- اسے دیکھا تو شہزادی نے حیرت سے ایک چیخ ماری- وہ کبھی انور کو دیکھتی اور کبھی شہزادہ ارجمند کو- اس کی چیخ کی آواز سن کر بادشاہ، ملکہ اور اس کا شوہر سب دوڑے آئے-انہوں نے جو ان دونوں کو دیکھا تو حیران رہ گئے- ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا- شہزادہ ارجمند نے ان لوگوں کو جلدی جلدی سارا قصہ سنا دیا- اس کی بات ختم ہوئی تو ملکہ نے آگے بڑھ کر اپنے بچھڑے ہوۓ بیٹے کو گلے سے لگا لیا اور روتے ہوۓ بولی ""مجھے یقین تھا کہ ایک روز میرا بیٹا ضرور مجھے مل جائے گا""- یہ جذباتی منظر دیکھ کر وہاں کھڑے سب لوگوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے- بادشاہ نے بھی آگے بڑھ کر انور کو گلے سے لگایا-بادشاہ اور ملکہ نے مچھیرے اور مچھیرن کا بہت شکریہ ادا کیا اور انھیں بہت سارے انعامات سے نوازا- تھوڑی دیر بعد مچھیرن نے مچھیرے کا ہاتھ پکڑا اور دروازے کی جانب جانے لگی- یہ دیکھ کر انور نے کہا ""اماں- ابّا کو لے کر کہاں چلیں""-""بیٹے- اب ہم چلتے ہیں- گھر اکیلا پڑا ہے- صبح تیرے باپ کو ........میرا مطلب ہے ان کو دریا پر بھی جانا ہے مچھلی پکڑنے""- مچھیرن نے کہا-"" اب آپ ہمارے ساتھ ہی محل میں رہیں گی- آپ یہاں نہیں رہیں گی تو میں بھی نہیں رہوں گا- آپ کے ساتھ ہی چلا جاؤں گا""- انور نے مچھیرن کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوۓ کہا- اس کو تو انہوں نے ماں باپ بن کر پالا تھا اور وہ ان کو اپنی ماں اور باپ ہی سمجھتا تھا-اس کی بات سن کر مچھیرے نے بہانہ بنایا ""بیٹا اگر ہم یہاں رہ گئے تو پھر مچھلیاں کون پکڑے گا؟""-اس پر بادشاہ نے بیچ میں مداخلت کی ""مچھلیاں کوئی اور پکڑ لے گا آپ اس کی فکر مت کریں- انور ٹھیک کہتا ہے- آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے- آپ نے اسے دریا سے نکال کر اس کی جان بچائی تھی اور ماں باپ بن کر پالا پوسا- ہم آپ کو کہیں نہیں جانے دیں گے- آپ کے جانے سے ہمارا بیٹا اداس ہوجائے گا- یہ بات ہمیں منظور نہیں""-بادشاہ کی بات سن کر دونوں میاں بیوی مجبور ہوگئے- ان کی رضامندی دیکھ کر انور نے خوشی سے مچھیرن کو گود میں اٹھا لیا اور بولا ""میری اماں کتنی اچھی ہیں""- اس کی محبّت دیکھ کر سب مسکرانے لگے-انور کے اچانک مل جانے سے ہر جگہ خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے تھے- خاص طور سے ملکہ تو بہت خوش تھی- اس کا برسوں کا بچھڑا ہوا بیٹا جو مل گیا تھا- خوش تو شہزادی انجمن بھی بہت تھی تھی، جس کے اب دو بھائی ہوگئے تھے اور وہ بھی ایک ہی شکل کے-جب ان تمام باتوں سے فرصت ملی تو جنگل کے ڈاکوؤں کا مقدمہ قاضی کی عدالت میں پیش کیا گیا- قاضی نے اعلان کروایا کہ جن جن لوگوں کو بھی ان ڈاکوؤں نے لوٹا تھا وہ آ کر عدالت میں گواہی دیں- یہ ڈاکو نہات ظالم تھے، انہوں نے برسوں سے ان جنگلوں کو اپنی آماجگاہ بنا رکھا تھا اور سیدھے سادھے مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے- قاضی کے اعلان کے نتیجے میں سینکڑوں لوگوں نے گواہی دی- گواہی دینے والوں میں شہزادہ ارجمند بھی شامل تھا- قاضی نے تمام ڈاکوؤں کو قید کی سزا سنا دی- ان کے قبضے سے جو لوٹ کا مال ملا تھا وہ ان کے مالکوں کو واپس کردیا گیا- شہزادہ ارجمند کو بھی اس کا خنجر، تلوار، پوشاک اور گھوڑا واپس مل گیا- " جھوٹ کی سزا - تحریر نمبر 1373,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhot-ki-saza-1373.html," " لڑائی کا بدلہ - تحریر نمبر 1372,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/larai-ka-badla-1372.html," " بھیڑیے کا بچّہ بھیڑ یا ہی ہوتا ہے - تحریر نمبر 1371,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhairiye-ka-bacha-bheeria-hi-hota-hai-1371.html," " بالے کا گھوڑا۔ تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1369,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bale-ka-ghora-1369.html,"ایک گاؤں میں دو کمہار رہا کرتے تھے- ایک کا نام بالا تھا اور دوسرے کاگامو- دونوں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایک دوسرے کے پڑوس میں رہتے تھے- وہ مہینے کے شروع کے پندرہ دنوں میں تو چکنی مٹی اور ریت سے برتن بنا بنا کر انھیں ایک جگہ جمع کرتے رہتے پھر مہینے کے باقی پندرہ دنوں میں انہیں فروخت کرنے کے لیے نکل جاتے-بالے کے پاس بھی ایک گھوڑا تھا اور گامو کے پاس بھی- وہ دونوں اپنے اپنے گھوڑوں پر برتن لاد کر گلی گلی محلے محلے بیچا کرتے تھے- کسی روز گاؤں میں ان کے برتنوں کی بکری نہیں ہوتی تھی تو اگلے روز وہ شہر کا رخ کرتے-شہر اگرچہ دور پڑتا تھا مگر وہاں ان کے برتن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتے تھے اور انھیں اچھے پیسے بھی مل جاتے تھے- بالا سوچتا تھا کہ شہر والے برتنوں کو زیادہ جلدی توڑتے ہیں، اس لیے انھیں ہمیشہ نئے برتنوں کی ضرورت رہتی ہے- وہ اس بات پر بہت حیرت کرتا تھا کہ شہر میں رہنے والے ان کی حفاظت پر زیادہ توجہ کیوں نہیں دیتے جس کی وجہ سے وہ جلد ہی ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں- وہ فخر سے سوچتا کہ اس کے گھر میں تو ابھی تک مٹی کا وہ پیالہ موجود ہے جس میں اس کی دادی پانی پیا کرتی تھی-بالے اور گامو کے گھوڑے شکل و صورت میں بالکل ایک جیسے تھے، قد کاٹھ بھی ایک سا اور رنگ بھی ایک سا- ان کی شکل و صورت تو ایک ہی جیسی تھی مگر ان کے مزاجوں میں زمین آسمان کا فرق تھا-بالے کا گھوڑا نہایت اچھا تھا- وہ بالے کا تو دوست تھا ہی مگر اس کے گھر والوں سے بھی بڑا مانوس تھا- جب بالا اس پر مٹی کے برتن لادتا تو وہ خاموشی سے کھڑا دم ہلاتا رہتا اور ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوتا- اسے پتہ تھا کہ اس کے حرکت کرنے سے اس کے مالک کے مٹی کے برتن نیچے گر کر ٹوٹ جائیں گے اور اس کا نقصان ہوگا- بالے کو اپنے گھوڑے سے بہت محبّت تھی- وہ اس کا بہت خیال رکھتا تھا- وقت پر چارہ اور پانی دیتا- شام کو میدان سے اس کے لیےہری ہری اور نرم نرم گھاس درانتی سے کاٹ کر لاتا اور اس کے سامنے ڈالتا- اس کے گھوڑے کو جو اور باجرہ بہت پسند تھا- جو اور باجرہ اگرچہ خریدنے میں مہنگے تھے مگر بالا ہفتے میں دو تین دفعہ اس کے لیے جو کے دانے اور باجرہ بھی لے آتا- بالے نے آج تک اپنے گھوڑے کو نہیں مارا تھا- وہ کہتا تھا کہ یہ میرا دوست ہے- میں اپنے دوست کو کبھی نہیں ماروں گا- بالے کا گھوڑا اس لیے اچھا تھا کہ اس کے مالک کا سلوک اس کے ساتھ اچھا تھا-اس کے برعکس گامو کا گھوڑا بڑا اڑیل تھا- کسی اور کو تو کیا گامو کو بھی اپنے قریب نہیں آنے دیتا تھا- ایک روز تو اس نے گامو کے ہی دولتیاں جھاڑ دی تھیں اور وہ دور زمین پر جا گرا تھا- اس کے بعد غصے میں آ کر اس نے ایک موٹے ڈنڈے سے اپنے گھوڑے کی بہت پٹائی کی تھی- جس جگہ گھوڑے کی دولتیاں پڑی تھیں اس جگہ گامو کو کئی روز تک شدید درد ہوتا رہا تھا- اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس بدتمیز گھوڑے کا کیا علاج کرے- گامو کا گھوڑا اس لیے ایسا بن گیا تھا کہ گامو کا رویہ اس کے ساتھ نہایت ظالمانہ تھا-ایک روز صبح صبح کا وقت تھا- گامو اپنی چھت پر چڑھا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اسے بالا نظر آیا- بالا اپنے گھوڑے کے نزدیک گیا تو گھوڑا اسے دیکھ کر زمین پر سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور خوشی سے دم ہلاتے ہوےٴ ہنہنانے لگا- بالے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا- اس کے چارے کی بالٹی کا جائزہ لیا اور جب اسے اطمینان ہوگیا کہ اس کے گھوڑے نے پیٹ بھر لیا ہے تو وہ مٹی کے برتنوں سے بھری دو ٹوکریاں لے آیا اور انھیں احتیاط سے گھوڑے کی پشت سے لگی کاٹھی میں لٹکا دیں اور برتنوں کو بیچنے کے لیے گھر سے نکل گیا-یہ منظر دیکھ کر گامو نے بڑی حسرت سے سوچا کہ ایک گھوڑا بالے کا ہے کتنا اچھا، سیدھا سادھا اور شریف- میرے گھوڑے کو دیکھو تو زمانے بھر کا بدمعاش ہے- یہ بات سوچ کر ہی اسے غصہ آگیا، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ڈنڈا اٹھا کر دے دھنا دھن اپنے گھوڑے پر برسا دیے-اس اچانک افتاد پر پہلے تو گھوڑا حیران ہوا، پھر کھڑے ہو کر اس نے جو دولتی جھاڑی تو اس روز کی طرح گامو پھر دور جاگرا اور جس جگہ گھوڑے کی لاتیں پڑی تھیں، زور کا درد شروع ہوگیا- اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے-شور شرابا سن کر اس کی بیوی جو اپنے کام میں مصروف تھی، دوڑ کر آئ- اسے دیکھ کر گامو ہائے ہائے کرتے ہوےٴ اٹھ کھڑا ہوا اور آنکھیں نکال کر بولا ""سارا قصور تیرا ہے- نہ جہیز میں ایسا گھوڑا لاتی، نہ میں روز روز پٹتا- دور ہو جا میری نظروں سے""- اس کی بیوی اس کی عادتوں سے اچھی طرح واقف تھی، اس نے سوچا کہ اگر کچھ کہے گی تو اور بات بڑھے گی- وہ خاموشی سے چلی گئی-گامو کا درد اتنا بڑھا کہ اس روز وہ کام پر بھی نہ جا سکا- دن بھر چارپائی پر پڑا ہائے ہائے کرتا رہا- شام کو اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی- اس نے سوچا کہ میرا گھوڑا اور بالے کا گھوڑا دونوں ایک جیسے ہیں، تو کیوں نہ میں چپکے سے اپنے گھوڑے سے بالے کے گھوڑے کو بدل لوں- یہ سوچ کر اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آگئی- وہ رات ہونے کا انتظار کرنے لگا-جب آدھی رات ہوگئی تو وہ دھیرے سے اٹھا- دیوار پھاند کر بالے کے گھر میں داخل ہوا پھر باہر کا دروازہ کھولا اور اپنا گھوڑا اندر صحن میں لے آیا- اپنے گھوڑے کی رسی اس نے منہ میں دبائی اور زمین پر بیٹھ کر بالے کے گھوڑے کی رسی کھونٹے سے کھولنے لگا-وہ سارا کام نہایت خاموشی سے کر رہا تھا کہ اچانک اس کے گھوڑے نے اچھل کود شروع کردی- وہ گھبرا گیا- اس کو ڈر تھا کہ اس شور سے بالے کی آنکھ نہ کھل جائے- پھر وہ ہی ہوا- اس کے گھوڑے نے اچھل کود بند نہیں کی تھی جس کی وجہ سے بہت شور ہورہا تھا- اس شور سے بالے اور اس کی بیوی کی آنکھ کھل گئی- اس کی بیوی خوفزدہ ہو گئی کہ گھر میں چور گھس آئے ہیں- بالا باہر نکلنے کے لیے چارپائی سے اٹھا تو اس کی بیوی گھبرا کر بولی ""بالے- باہر مت جا- آج کل چور اپنے ساتھ پستول لیے پھرتے ہیں""-مگر بالا ڈرپوک نہیں تھا، ایک بہادر آدمی تھا- اس نے لالٹین اٹھائی اور لاٹھی لے کر باہر نکلا- اس کی بیوی اس کے پیچھے پیچھے تھی-بالا باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ گامو اپنے گھوڑے کے ساتھ وہاں موجود ہے- اس کا گھوڑا بگڑ گیا تھا اور بہت اچھل کود کر رہا تھا-""گامو تم اتنی رات گئے میرے گھر میں کیا کر رہے ہو؟ تم اندر کیسے آئے، میں نے تو دروازے کی کنڈی اندر سے خود لگائی تھی""- بالے نے حیران ہوتے ہوےٴ کہا-اس کی بیوی بہت سیدھی تھی، بالے سے بولی ""بالے تو دیکھ نہیں رہا ہے- گامو بھائی کا گھوڑا بدک کر ہمارے گھر میں گھس آیا ہے- وہ اسے لینے آئے ہیں- کیوں گامو بھائی؟""-ان کی باتیں سن کر اور شرمندگی کے احساس سے گامو کی آنکھوں میں آنسو آگئے- اس نے گلوگیر آواز میں کہا ""بالے بھائی- مجھے معاف کردو- مجھ سے بھول ہوگئی ہے- میں اپنا اڑیل گھوڑا تمہارے سیدھے سادھے گھوڑے سے بدلنے کے لیے آیا تھا- میرے گھوڑے نے مجھے بہت تنگ کر کے رکھا ہوا ہے""-گامو کو روتے ہوےٴ دیکھا تو بالے کو اس پر بہت ترس آیا- اس کی بیوی بھی افسردہ ہو گئی اور بولی ""کتنا خراب گھوڑا ہے جس کی وجہ سے ہمارے گامو بھائی کو چور بننا پڑ گیا ہے""-بالے نے گامو کو تسلی دی، اس کے گھوڑے کو چمکارا، اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو گھوڑا حیرانی سے بالے کو دیکھنے لگا- وہ اس بات پر حیران ہو رہا تھا کہ اس کی حرکتوں پر پٹائی نہیں لگی- وہ خوشی سے ہنہنانے لگا- گامو بھی اپنے گھوڑے کی اس کی تبدیلی پر حیران نظر آ رہا تھا-بالے نے گامو سے کہا ""گامو اپنے گھوڑے کو گھر میں باندھ آؤ- پھر ہم آرام سے بیٹھیں گے- مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنا ہے""- پھر وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا ""شاداں- تو اتنی دیر میں چائے بنالے""-گامو شرمندہ شرمندہ سا اپنا گھوڑا لے کر چلا گیا- تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا- اس کے چہرے پر ابھی تک ندامت کے آثار تھے- بالے نے اسے ایک مرتبہ پھر تسلی دی اور بولا ""تم فکر مت کرو- میں نے تمہاری اس حرکت کو معاف کردیا ہے- میں اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کروں گا- شاداں کو بھی منع کردوں گا کہ وہ کسی سے کچھ نہ کہے- بس اب تم مطمئن ہوجاؤ""-اس کی باتیں سن کر گامو کا دل پھر بھر آیا- اس نے کہا ""میرے ساتھ کسی کا بھی سلوک اچھا نہیں ہے، بیوی بچے بھی میری بات نہیں سنتے- میرا گھوڑا بھی میرے بس میں نہیں ہے، مجھے دیکھتے ہی بدکنے لگتا ہے- اسی بات پر غصے میں آکر میں اس کی پٹائی بھی لگاتا ہوں اور کئی کئی دن تک بھوکا بھی رکھتا ہوں مگر یہ بد ذات پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا- بالے بھائی میں کیا کروں- میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا""- اتنا کہہ کر گامو پھر سسکیاں بھر بھر کر رونے لگا-اس کے رونے کی آواز سنی تو شاداں ایک پیالے میں پانی بھر کر لے آئ- اس نے کسی سے سن رکھا تھا کہ روتے ہوےٴ کو پانی پلادو تو اس کا رونا تھم جاتا ہے-گامو نے پانی نہیں پیا، بولا ""میں گھوڑا باندھنے گھر گیا تھا تو وہاں سے پانی بھی پی لیا تھا- اب نہیں پیوں گا""- پھر اس کا رونا بغیر پانی پئے ہی تھم گیا- اس نے بالے سے بڑے حسرت بھرے انداز میں کہا ""میں کیا کروں بالے بھائی- میرے ساتھ میرے گھر والوں کا اور اس گھوڑے کا سلوک کیسے ٹھیک ہوگا؟""-بالے نے کہا ""گامو میں تمہیں اپنے بھائیوں جیسا سمجھتا ہوں- میری بات کا برا نہیں ماننا- ہم دونوں شروع ہی سے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں- پڑوسیوں کا رشتہ سگے رشتے داروں سے بڑھ کر ہوتا ہے- تمہارے گھر سے ہمیں روز لڑائی جھگڑوں کی آوازیں آتی ہیں تو ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے- تم اپنے بیوی بچوں پر چیختے چلاتے رہتے ہو- بچوں کو ذرا ذرا سی بات پر مارتے ہو- یہ نہیں سوچتے کہ تمہاری بیوی دن بھر تمہاری خدمت کے لیے گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہے- بچے پڑھنے مدرسے بھی جاتے ہیں اور گھر کے کاموں میں اپنی ماں کا ہاتھ بھی بٹاتے ہیں- تم پھر بھی ان کی تعریف کے دو بول نہیں بولتے، الٹا انھیں مارتے پیٹتے رہتے ہو- میرا تو کوئی بچہ مجھے پانی پلاتا ہے تو پانی پی کر میں کہتا ہوں ""واہ بھئی- تمہارے ہاتھ کا کتنا میٹھا پانی ہوتا ہے"" میری اس بات سے ہی وہ بہت خوش ہوجاتا ہے""-""بالے بھائی- تمہاری ساری باتیں ٹھیک ہیں- میں اپنے غصے، بدمزاجی اور سختیوں سے اپنے گھر والوں پر رعب جما کر رکھتا ہوں- مگر ان باتوں سے میرے گھوڑے کے اڑیل پن کا کیا تعلق ہے- وہ تو جانور ہے اس میں عقل کہاں؟""-""یہ ہی ہماری بھول ہے کہ ہم جانوروں کو بے عقل سمجھتے ہیں- ان میں بہت عقل ہوتی ہے اور ہمارا سلوک دیکھ کر وہ ہم سے یا تو محبّت کرتے ہیں یا نفرت- میں ایک بار پھر کہوں گا کہ برا نہیں ماننا، اگر گامو بھائی تم اپنے سلوک میں تبدیلی لے آؤ تو کیا تمہارے گھر والے اور کیا تمہارا گھوڑا، سب ہی تمہارے قریب آجائیں گے- میں نے آج تک اپنے گھوڑے کو نہیں مارا ہے- وہ میرے اور میرے گھر والوں کے رزق کا ذریعہ ہے- میں ہمیشہ اس سے پیار محبّت کا سلوک کرتا ہوں، خود کھانا بعد میں کھاتا ہوں، اس کا چارہ پہلے ڈالتا ہوں- ایسا ہی اچھا سلوک میں اپنے گھر والوں سے بھی کرتا ہوں- شاداں کوئی سا بھی کھانا پکائے میں خوش ہو کر کھاتا ہوں اور کھانے کی تعریف کرتا ہوں- اس سے میرا تو کچھ نہیں جاتا مگر اس کا دل بڑھ جاتا ہے- اپنے بچوں کو بھی میں ڈانٹتا ڈپٹتا نہیں ہوں- میں ان کے کاموں پر بھی ان کو شاباش دیتا ہوں- ان شاباشیوں کی وجہ سے وہ مزید اچھے اچھے کام کرتے ہیں""-بالے کی بات سن کر گامو سوچ میں پڑ گیا- تھوڑی دیر بعد اس نے کہا ""بالے بھائی میں نے کبھی تم لوگوں کے گھر سے لڑائی جھگڑوں کی آواز نہیں سنی""-""اور خدا نے چاہا تو کبھی سنو گے بھی نہیں- میں اپنے گھر کا سربراہ ہوں، گھر کے سربراہ کا سلوک گھر میں رہنے والوں کے ساتھ اچھا ہو تو پھر نہ لڑائیاں ہوتی ہیں اور نہ جھگڑے""- بالے کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ شاداں ان کے لیے چائے لے آئ- وہ سب چائے پینے لگے-چائے ختم ہوئی تو گامو اٹھتے ہوےٴ بولا ""بالے بھائی- میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں- تمہاری باتیں سن کر مجھے اپنی ساری غلطیاں ایک ایک کر کے یاد آگئی ہیں- میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کا اب نہ تو ہر وقت جلتا کڑھتا رہوں گا، نہ کسی بات پر غصہ کروں گا اور نہ ہی کسی سے برا سلوک کروں گا- نہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اور نہ ہی اپنے گھوڑے کے ساتھ ""-یہ کہہ کر گامو اپنے گھر چلا گیا - وہ صبح اٹھا تو اس کی ناک میں پراٹھوں کی خوشبو آئ- وہ اٹھ کر باہر نکلا، اس کی بیوی باہر صحن میں مٹی کے چولہے پر توا رکھ کر پراٹھے بنا رہی تھی- وہ ایک پیڑھی گھسیٹ کر اس کے پاس بیٹھ گیا اور بڑے پیار سے بولا ""نوراں- توکتنے اچھے پراٹھے بنا رہی ہے، خوشبو سے میری تو آنکھ ہی کھل گئی- آج میرے لیے تین پراٹھے بنانا""-اس کی بات سن کر نوراں حیران رہ گئی- اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ اس طرح کے الفاظ اپنے شوہر کے منہ سے سنے تھے- مارے خوشی کے اس کی تو بانچھیں کھل گئیں- ""میں تین نہیں تیرے لیے چار پراٹھے پکاؤں گی- تو سارا سارا دن محنت بھی تو بہت کرتا ہے- بھوک تو لگتی ہی ہوگی""-نوراں کی یہ پیار بھری باتیں گامو نے آج پہلی مرتبہ غور سے سنی تھیں- اسے یہ سوچ کر بہت اچھا لگا کہ نورا کو اس کی بھوک پیاس کی اتنی فکر ہے-ناشتے میں دیر تھی اس لیے گامو اٹھ کر اپنے گھوڑے کے پاس آیا- گھوڑا اس کو دیکھ کر بدکا مگر گامو نے اس کی پیٹھ پر محبت سے ہاتھ پھیرا، پھر اس کا سر پکڑ کر اپنے سینے سے لگایا اور بولا ""اب گامو سے بدکنے کی ضرورت نہیں، گامو بدل گیا ہے میرے دوست""- پھر اس نے گھوڑے کی ناند میں تازہ چارہ ڈالا، ایک بالٹی میں جو کے دانے بھر کر اس کے سامنے رکھے، اس کو ایک مرتبہ پھر پیار سے چمکارا تو گھوڑا بھی ہنہنانے لگا اور اپنا چارہ کھانے میں مشغول ہو گیا-اچانک گامو کی نظر لکڑی کے موٹے سے ڈنڈے پر پڑی تو اسے دل ہی دل میں بہت ندامت محسوس ہوئی- اس ڈنڈے ہی سے وہ اس بے زبان جانور کو بری طرح پیٹا کرتا تھا- اس نے وہ ڈنڈا اٹھایا اور لے جا کر نوراں کو دے دیا- ""لے نوراں اس کو چولہے میں ڈال دے- اس سے میں نے اپنے گھوڑے پر بڑے ظلم کیے ہیں""-نوراں نے اس کام میں دیر نہیں لگائی- اس کا دل خود اس وقت بہت دکھتا تھا جب گامو اس بے زبان پر ظلم کرتا تھا- تھوڑی دیر بعد ان کے دونوں بچے بھی مدرسے جانے کے لیے اٹھ گئے- انہوں نے جب دیکھا کہ ان کا باپ ناشتے کے لیے بیٹھا ہے تو وہ اس ڈر سے دوبارہ کمرے میں چلے گئے کہ گامو کسی بات پر انھیں ڈانٹنے نہ لگ جائے-گامو خود اٹھ کر ان کے پاس گیا- دونوں کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور انھیں ناشتے کا کہا- اس کے بدلے ہوےٴ رویے نے بچوں کو بھی حیران کر دیا تھا مگر وہ خوش بھی بہت تھے َاور خوش خوش مدرسے چلے گئے-جب بچے مدرسے چلے گئے اور گامو بھی کام پر جانے کے لیے تیار ہوگیا تو نوراں اس کے جوتے اٹھا کر لائی، انھیں جھاڑ پونچھ کر اسے دیے اور بولی ""نظر نہ لگے- گامو تو تو بالکل ہی بدلا بدلا لگ رہا ہے- رات کوئی خواب تو نہیں دیکھ لیا؟""-گامو ہنس کر بولا ""ہاں نوراں- رات میں نے ایک خواب ہی دیکھا تھا- اس خواب میں بالا بھائی، شاداں بہن اور ہم دونوں کے گھوڑے بھی تھے""- یہ کہہ کر گامو خاموش ہوگیا- نوراں کی سمجھ میں اس کی بات تو نہیں آئ مگر وہ اس بات پر بہت خوش تھی کہ گامو ایک نیا انسان بن گیا ہے- " انوکھی شرط - تحریر نمبر 1368,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/anokhi-shart-1368.html," " جادو کی گیند۔ تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1367,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jadu-ki-geend-1367.html,"شہزادی نازیہ نے ایک روز بادشاہ سے کہا کہ وہ کہیں سیر کرنے جانا چاہتی ہے- بادشاہ کو امور مملکت سے فرصت نہیں مل رہی تھی- وہ بہت مصروف رہتا تھا- اس نے شہزادی نازیہ سے کہا ""شہزادی- آج کل تو ہم بہت مصروف ہیں، جیسے ہی موقع ملے گا ہم آپ کو پہاڑوں، دریا اور جنگل کی سیر کے لیے لے جائیں گے""-شہزادی نازیہ ابھی صرف آٹھ برس ہی کی تھی مگر تھی بہت سمجھدار- بادشاہ کی بات سن کر اس نے ذرا سی بھی ضد نہیں کی بلکہ بولی ""کوئی بات نہیں ابّا حضور- جب آپ کو فرصت ملے اور جب آپ مناسب سمجھیں ہمیں لے جائیے گا- ہم دریا کے کنارے سے چھوٹے چھوٹے گول گول پتھر بھی جمع کریں گے، وہ ہمیں بہت اچھے لگتے ہیں""-اسے پتہ تھا کہ اس کے ابّا جان اپنے کاموں میں بہت مصروف رہتے ہیں اور ان کو ذرا سی بھی فرصت نہیں ملتی- اسی لیے اس نے اچھے بچوں کی طرح بالکل بھی ضد نہیں کی اور اپنے دوسرے مشاغل میں لگ گئی-اسے پڑھنے لکھنے کا بھی بہت شوق تھا- اس کے اتالیق اس کو جو سبق بھی پڑھاتے تھے، وہ دھیان سے سمجھ کر پڑھتی تھی اور اسے خوب اچھی طرح یاد کر کے ان کو سناتی تھی- اس کے اتالیق اس سے بہت خوش تھے اور اس کو خوب شاباش دیا کرتے تھے-اس کو ایک اور بھی شوق تھا اور وہ شوق تھا کہانی سننے کا- وہ روز رات کو سوتے وقت ملکہ سے کہانی سنتی تھی- ملکہ نے اسے وہ تمام کہانیاں سنا دی تھیں جو اس نے بچپن میں اپنی ماں سے سنی تھیں- شہزادی کہانیاں سنتے ہوۓ مختلف سوالات بھی کرتی رہتی تھی جس کی وجہ سے اس کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا رہتا تھا- اسے پودنے اور پودنی کی کہانی بہت اچھی لگتی تھی-کچھ ہی دن گزرے تھے کہ وہ وقت آ ہی گیا جب بادشاہ کے پاس فرصت ہی فرصت تھی- بہت سارے درباریوں کو ضروری کام پڑ گئے تھے، انہوں نے چھٹی کی درخواستیں جمع کروا دیں- وزیر کی بیٹے کی شادی تھی، وہ وہاں مصروف ہوگیا تھا- بادشاہ نے سوچا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور شہزادی نازیہ کو اپنے ساتھ گھمانے پھرانے لے جائے- بادشاہ تو چاہتا تھا کہ ملکہ بھی ان کے ساتھ چلے، مگر اس دوران اس کی ماں اپنے ملک سے اس سے ملنے کے لیے آگئی تھی اس سبب وہ ملکہ ان کے ساتھ نہیں جاستی تھی-جب یہ طے ہوگیا کہ گھومنے پھرنے کب جانا ہے تو بادشاہ نے تیاری کا حکم دے دیا- ساری تیاریاں جلد ہی مکمل ہوگئیں- اگلے روز انھیں سفر پر نکلنا تھا- شہزادی نازیہ بہت خوش خوش پھر رہی تھی اور ہر ایک کو بتا رہی تھی کہ کل وہ دریا، پہاڑ اور جنگل تفریح کرنے جائے گی- جب اسے ملکہ نظر آئ تو وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچی ""امی حضور- آپ وہ بات بھولیں تو نہیں؟""- اس نے پوچھا-ملکہ نے حیرانی سے کہا ""کونسی بات؟""-""یہ ہی کہ کل ہم ابّا حضور کے ساتھ گھومنے پھرنے جائیں گے""-ملکہ کو ہنسی آگئی بولی ""ہم کیسے بھول سکتے ہیں- شہزادی صبح سے اب تک یہ بات آپ ہمیں دس مرتبہ سے زیادہ بتا چکی ہیں""-""ہم یہ بات بار بار آپ کو اس لیے بتا رہے ہیں کہ کہیں آپ بھول نہ جائیں""- شہزادی نے اٹھلا کر کہا- ملکہ اس کی خوشی محسوس کرکے مسکرانے لگی-اگلے روز وہ لوگ دریا پر پہنچے- دریا کے نزدیک پہاڑ بھی تھے اور جنگل بھی- شہزادی نازیہ ادھر سے ادھر بھاگتی دوڑتی پھر رہی تھی- اس کی دیکھ بھال کرنے والی کنیزیں اس کے ساتھ ساتھ تھیں- بادشاہ اپنے خیمے کے باہر بیٹھا اپنی شہزادی کو دیکھ رہا تھا- اس نے سوچا بچے کسی کے بھی ہوں، بادشاہ کے ہوں یا عام آدمی کے، سب ایک جیسے ہوتے ہیں- چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی دل سے خوش ہوتے ہیں- وہ اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں، نہ کسی کے متعلق برا سوچتے ہیں، نہ کسی کا برا چاہتے ہیں- لیکن بڑے ہو کر ان ہی بچوں میں سے اکثر کی یہ سوچ بدل جاتی ہے، جس سے معاشرے میں برائیاں جنم لیتی ہیں- ایسا کیوں ہوتا ہے- وہ ہی بچے جو بچپن میں اتنے نیک دل اور معصوم ہوتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر بڑے ہو کر برائیوں کی طرف کیوں مائل ہوجاتے ہیں- اس سوال کا بادشاہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا- اس نے سوچا کہ اس کا جواب وہ اپنے وزیر سے اس وقت معلوم کرے گا جب وہ اپنے بیٹے کی شادی سے فارغ ہو کر دربار میں حاضر ہوگا-بادشاہ کے ساتھ آئے ہوۓ خادم دوپہر کے کھانے کی تیاری میں لگے ہوۓ تھے- انہوں نے گیلی مٹی اور پتھروں کی مدد سے بڑے چولہے بنا لیے تھے اور ان پر دیگچیاں چڑھا کر مزے مزے کے کھانے پکا رہے تھے- فضا میں کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی- تھوڑی دیر بعد شاہی باورچی نے اعلان کیا کہ کھانا تیار ہے- سب لوگ آجائیں-بادشاہ میں ایک بڑی اچھی بات تھی- جب وہ اپنے ساتھیوں اور خادموں کے ساتھ کہیں باہر نکلتا تھا تو دسترخوان پر ان سب کے ساتھ ہی کھانا کھاتا تھا- اس وقت بھی ایک بہت بڑا سا کپڑا بچھا کر کھانا اس پر چن دیا گیا تھا تاکہ سب لوگ بیٹھ کر ایک ساتھ کھانا کھا سکیں-شہزادی نازیہ کھانے سے پہلے ہاتھ ضرور دھوتی تھی- اس کی امی نے اسے بتا رکھا تھا کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے سے ہاتھوں پر لگے گندگی کے جراثیم صاف ہوجاتے ہیں اور کھانے کے ساتھ پیٹ میں پہنچ کر انسان کو بیمار نہیں کرتے-جب کھانا لگ جانے کا اعلان ہوا تو شہزادی بھاگ کر دریا کے کنارے ہاتھ دھونے گئی- کنیزیں اس کے پیچھے پیچھے تھیں- ہاتھ دھو کر جب وہ مڑی تو اس نے کچھ دور ایک بوڑھے شخص کو درخت سی ٹیک لگاے بیٹھے دیکھا- وہ بہت اداس نظر آرہا تھا- شہزادی نے سوچا کہ یہ کھانے کا وقت ہے مگر اس بوڑھے کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے- وہ دوڑ کر اس کے پاس گئی- کنیزیں بھی اس کے پیچھے لپکیں- اس بوڑھے کے قریب پہنچ کر پہلے تو شہزادی نے اسے سلام کیا پھر بولی ""محترم جناب- ہم سب کھانا کھانے جا رہے ہیں- اگر آپ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھائیں تو ہمیں خوشی ہوگی""-بوڑھے کو بہت بھوک لگ رہی تھی- شہزادی کی بات سن کر وہ خوش ہوگیا اور اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا- بادشاہ کے نزدیک پہنچ کر شہزادی نے کہا ""ابّا حضور- یہ محترم بزرگ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے""-بادشاہ نے خوشدلی سے کہا ""ضرور- ضرور""- پھر اس نے اس بوڑھے شخص کو اپنی برابر میں بٹھایا- وہ شہزادی کی اس بات سے بہت خوش تھا کہ اس نے بغیر کسی کے کہے ایک بھوکے انسان کا خیال رکھا- بادشاہ نے دل ہی دل خدا کا بہت شکر ادا کیا کہ اس نے دوسروں کا خیال رکھنے والی بیٹی عطا کی ہے-کھانے کے بعد سب کو نہایت خوشبودار اور خوش ذائقہ شربت پیش کیا گیا- جب سب لوگ کھانے پینے سے فارغ ہوگئے تو وہ بوڑھا شخص اٹھا- اس نے شہزادی سے کہا ""جیتی رہو شہزادی- تم ایک بہت ہی نیک اور اچھے دل کی لڑکی ہو- تم نے شہزادی ہونے کے باوجود ایک غریب آدمی کو کھانے کی دعوت دی- خدا تمہیں خوش رکھے""-شہزادی نازیہ نے کہا ""محترم بزرگ- ہماری امی حضور نے ہمیں بتایا تھا کہ کسی کو کھانا کھلانا بہت ثواب کی بات ہوتی ہے- جیسی بھوک ہمیں لگتی ہے، ایسے ہی دوسروں کو بھی لگتی ہے- ہم نے دیکھا کہ کھانے کا وقت ہوگیا ہے مگر آپ کے پاس کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے تو ہم آپ کے پاس گئے ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے ہماری دعوت قبول کر لی تھی""-وہ بوڑھا شخص بہت خوش ہوا- اس نے شہزادی نازیہ کو بہت سی دعائیں دیں پھر اپنے لباس کی جیب سے اس نے ایک بڑی سی سنہری گیند نکالی اور شہزادی سے بولا ""یہ تمہاری نیک دلی کا انعام ہے- اسے پا کر تم بہت خوش ہوجاؤ گی""- یہ کہہ کر اس نے وہ گیند شہزادی نازیہ کی طرف بڑھا دی-شہزادی نازیہ نے بادشاہ سے کہا ""ابّا حضور- اگر اجازت ہو تو ہم یہ گیند لے لیں""-بادشاہ نے اپنے گلے سے قیمتی موتیوں کا ہار نکال کر اس بوڑھے شخص کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا- ""جی شہزادی- آپ یہ گیند بخوشی لے سکتی ہیں""-شہزادی نازیہ نے گیند لے لی، مگر بوڑھے شخص نے ہار نہیں لیا اور بادشاہ سے بولا ""شکریہ بادشاہ سلامت- مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے- آپ خوش قسمت ہیں کہ اتنی اچھی اور نیک بیٹی کے باپ ہیں""- یہ کہہ کر اس نے ایک تالی بجائی دوسرے ہی لمحے وہاں اس بوڑھے کی جگہ ایک حسین و جمیل پری کھڑی مسکرا رہی تھی- سب لوگ ہکا بکا رہ گئے-پری نے کہا ""میں پرستان سے گھومنے پھرنے نکلی تھی- یہاں آپ لوگوں کو دیکھا تو میں نے سوچا کہ آپ لوگوں کا امتحان لوں- ہم پریاں اکثر انسانوں کا امتحان لیتی رہتی ہیں پھر وہ جو کچھ ہمارے ساتھ کرتے ہیں، ہم پرستان جا کر اپنی ساتھی پریوں کو مزے لے لے کر سناتی ہیں- مجھے خوشی ہے کہ آپ ایک بادشاہ ہونے کے باوجود غریب پرور ہیں- آپ کی شہزادی تو بہت ہی اچھی ہے""-شہزادی نازیہ پری کے منہ سے اپنی تعریف سن کر بادشاہ کے پیچھے چھپ گئی اور چپکے چپکے مسکرانے لگی- اس کے بعد پری نے سب کو سلام کیا اور وہاں سے ایک سمت کو اڑ گئی-شہزادی وہ گیند پا کر بہت خوش تھی- اس نے اس کو احتیاط سے اپنے پاس رکھ لیا- وہ لوگ مزید کچھ دیر وہاں ٹہرے اس کے بعد بادشاہ نے واپس چلنے کا قصد کیا- ساتھ آئے ہوۓ خادموں نے سارا سامان لپیٹا اور انھیں گھوڑا گاڑیوں میں لادا اور پھر سب روانہ ہوگئے-شہزادی نازیہ جلد سے جلد محل پہنچ کر وہ خوبصورت گیند ملکہ اور اپنی نانی ماں کو دکھانا چاہتی تھی- محل پہنچے تو وہ دوڑتی ہوئی ان دونوں کے پاس پہنچی- اس نے انھیں گیند دکھائی تو وہ سمجھیں کے بادشاہ نے اسے گیند دلائی ہے مگر جب شہزادی نے انھیں پری والا قصہ سنایا تو ملکہ اور اس کی ماں حیران رہ گئیں-رات ہوئی تو شہزادی نازیہ نے اس گیند کو احتیاط سے اپنے کمرے میں ایک میز پر رکھ دیا- بادشاہ دن بھر گھومنے پھرنے کی وجہ سے تھک گیا تھا اس لیے جلدی سو گیا- ملکہ اور اس کی ماں ایک دوسرے کمرے میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں- تھوڑی دیر بعد ملکہ کو کچھ یاد آیا وہ اپنی ماں سے بولی ""امی جان- تھوڑی دیر کے لیے مجھے اجازت دیجیے- میں شہزادی کو کہانی سنا کر ابھی واپس آتی ہوں- وہ اس وقت تک نہیں سوتی جب تک کہانی نہ سن لے""-جب ملکہ شہزادی کے کمرے میں آئ تو وہ بستر پر لیٹی میز پر رکھی گیند کو تک رہی تھی- ملکہ کو دیکھا تو بولی ""امی حضور- دیکھیے کتنی پیاری گیند ہے- وہ پری کتنی اچھی تھی جس نے ہمیں انعام میں اتنی اچھی گیند دی""-ملکہ نے محبّت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی ""یہ تمہاری نیکی اور بادشاہ سلامت کے اچھے سلوک کا انعام ہے- مگر بیٹی ایک بات یاد رکھنا کہ ہمیں انعام ملے نہ ملے، کوئی صلہ دے یا نہ دے، ہمیں اچھے اچھے کام ضرور کرتے رہنا چاہیں- ہم انسان ہیں اور خدا نے انسانوں کو عقل عطا فرمائی ہے- اس عقل کو ہمیں اچھے اچھے کاموں میں استعمال کرنا چاہیے- یہ ہی نہیں کہ ہم انسانوں سے ہی اچھا سلوک کریں، انسانوں کے ساتھ ساتھ ہمیں پرندوں اور جانوروں سے بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے""-ملکہ اتنا کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوئی تھی کہ اچانک کمرے میں جلترنگ سے بجنے لگے- دونوں نے چونک کر اس طرف دیکھا جہاں سے آواز آرہی تھی- آواز گیند میں سے آرہی تھی، اور نہ صرف آواز آ رہی تھی بلکہ اس میں سے رنگ برنگی روشنی کی کرنیں بھی پھوٹ رہی تھیں- ملکہ تو کچھ خوفزدہ سی ہوگئی مگر شہزادی بستر سے اتر کر گیند کے قریب گئی اور اسے دلچسپی سے دیکھنے لگی- اچانک گیند کا ایک چھوٹا سے حصہ کسی دروازے کی طرح کھلا اور اس میں سے ایک ایک کرکے ننھے ننھے سات بونے باہر نکلے- انہوں نے خوبصورت ریشمی لباس پہنے ہوۓ تھے اور چھوٹی چھوٹی لمبوتری ٹوپیاں ان کے سر پر منڈھی ہوئی تھیں- انہوں نے میز پر کھڑے کھڑے شہزادی کو جھک کر سلام کیا پھر ایک بولا ""شہزادی- ہفتے میں کتنے دن ہوتے ہیں؟""-شہزادی نے فوراً جواب دیا ""سات""-""بالکل ٹھیک""- بونے نے خوش ہو کر کہا- ""ہم سات بونے ہیں- ہر روز رات کو سات بجے اس جادو کی گیند سے نکلا کریں گے- ہم میں سے ہر ایک بونا روز ایک نئی کہانی سنایا کرے گا- ساتویں روز ہمیں دو کہانیاں سننے کو ملیں گی""-""وہ کیسے؟""- شہزادی نے دلچسپی سے پوچھا-""ہر سات دن بعد آپ بھی ہمیں ایک کہانی سنایا کریں گی- ہم سب کو کہانیاں سننے کا بہت شوق ہے- کہانی ختم ہوجاتی ہے تو ہم پھر اپنی گیند میں واپس چلے جاتے ہیں اور اگلے روز کے سات بجنے کا انتظار کرنے لگتے ہیں""-ان کی باتیں سن کر ملکہ کے دل سے بونوں کا خوف ختم ہوگیا تھا- وہ شہزادی سے بولی ""تم تو بیٹھ کر کہانی سنو شہزادی- میں امی حضور کے پاس جاتی ہوں- وہ انتظار کر رہی ہونگی""-ملکہ کے جانے کے بعد سارے بونے چھلانگ مار کر شہزادی کے بستر پر پہنچ گئے- شہزادی بھی بیٹھ گئی اور سارے بونے اس کے ارد گرد بیٹھ گئے- تھوڑی دیر بعد ایک بونے نے کھنکھار کر اپنے گلے کو صاف کیا اور پھر کہانی سنانا شروع کی- کہانی شروع ہوتے ہی شہزادی نازیہ خوش ہوگئی کیونکہ بونا اس کی پسند کی پودنے اور پودنی کی کہانی سنا رہا تھا-جب کہانی ختم ہو گئی تو بونوں نے جمائیاں لیتے ہوۓ شہزادی کو شب بخیر کہا اور دوبارہ اپنی گیند میں چلے گئے- ان کے گیند میں جاتے ہی اس کا دروازہ خود بخود بند ہوگیا-شہزادی نازیہ بہت خوش تھی اور دل ہی دل میں اس مہربان پری کا شکریہ ادا کر رہی تھی جس نے اسے اتنی خوبصورت گیند دی تھی جس میں سات بونے رہتے تھے اور اچھی اچھی کہانیاں سناتے تھے- اس گیند کو دیکھتے دیکھتے شہزادی بھی نیند کی وادیوں میں کھو گئی- " سفید کبوتری - تحریر نمبر 1366,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/safaid-kabutri-1366.html," " شہزادے کی ضد۔تحریر:مختار احمد - تحریر نمبر 1365,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shehzade-ki-zid-1365.html,"یہ بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا- اس کا ایک بیٹا بھی تھا جس کی عمر چھ سال تھی اور نام تھا شہزادہ شامی- شہزادہ شامی اپنے باپ سے بہت محبّت کرتا تھا، مگر دوسرے بچوں کی طرح اس کی بھی باپ سے محبّت صرف دن دن کی ہوا کرتی تھی- رات کو وہ اپنی ماں ملکہ حسن بانو کے پیچھے لگ جاتا- وہ اسے کھانا کھلاتی، شب خوابی کا لباس پہناتی، پھر اپنے پاس لٹا کر چڑیا چڑے کی کہانی سناتی- کہانی سنتے سنتے ہی وہ سوجایا کرتا تھا-ایک روز بادشاہ کو کسی کام سے دوسرے ملک جانا پڑ گیا- جب وہ سفر پر روانہ ہونے لگا تو شہزادہ شامی ضد کرنے لگا کہ وہ بھی اس کے ساتھ جائے گا- بادشاہ کو اپنے شہزادے سے بہت محبّت تھی- اس کی ضد دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا-بادشاہ کی پریشانی دیکھ کر ملکہ حسن بانو نے ہنس کر کہا ""آپ پریشان نہ ہوں- میں شہزادے کو بہلا لوں گی- ہمارا شہزادہ ضد تھوڑا ہی کرتا ہے- ضد تو گندے بچے کرتے ہیں""-""امی حضور- ہم ضد نہیں کررہے- ہم تو صرف ابّا حضور کے ساتھ جانے کو کہہ رہے ہیں""- شہزادہ شامی نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوۓ کہا-""ٹھیک ہے- لیکن شہزادے اگر آپ چلے گئے تو پھر آپ کی پڑھائی لکھائی کا کیا ہوگا- آپ کے اتالیق پوچھیں گے نہیں کہ شہزادے صاحب کہاں چلے گئے؟""- ملکہ نے کہا-""تو پھر آپ ایسا کریں کہ ہمارے اتالیق کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں- ہم وہاں پڑھ لکھ بھی لیا کریں گے، اس طرح ہماری تعلیم کا بھی نقصان نہیں ہوگا""- شہزادے نے خوش ہو کر کہا-""لیکن شہزادے یہ بھی تو دیکھیے، آپ کے ابّا حضور بھی چلے جائیں گے، آپ بھی ان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں- میں یہاں اکیلی رہ کر کیا کروں گی- پھر جشن بہاراں کا میلہ بھی شروع ہوگیا ہے- اس دفعہ ہمارے ملک میں خدا کے فضل سے فصلیں بہت اچھی ہوئی ہیں- اس خوشی میں پورے ملک کے کسان اس میلے میں شرکت کے لیے آئیں گے، طرح طرح کے کھیل تماشے ہونگے، جانوروں کی نمائش ہوگی، بڑے بڑے جھولے لگے ہونگے، نٹ مزے مزے کا کرتب دکھا رہے ہونگے، گھوڑوں اور اونٹوں کا ناچ ہوگا جو ڈھول تاشوں کی آواز پر رقص کررہے ہونگے- یہ سب چیزیں دیکھنے میں کتنا مزہ آئے گا""-شہزادہ شامی کی آنکھوں میں دلچسپی کی چمک پیدا ہوئی- اس نے پہلی دفعہ سنا تھا کہ گھوڑے اور اونٹ بھی رقص کرتے ہیں- اس نے بادشاہ سے کہا ""ابّا حضور- آپ سفر پر روانہ ہوں- ہم آپ کے ساتھ نہیں جائیں گے- امی حضور محل میں اکیلی ہونگی، رات کو اگر کوئی بھوت یا چڑیل آگئی تو کیا ہوگا- ہم ان کے پاس ہی رہیں گے""-شہزادے شامی کا یہ معصوم سا بہانہ سن کر بادشاہ کو ہنسی آگئی- وہ سمجھ گیا تھا کہ میلے کے متعلق باتیں سن کر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے- اس نے کہا ""بیٹے- جب تم میلہ دیکھنے جاؤ تو اپنی امی حضور کے ساتھ ساتھ ہی رہنا- وہاں بہت زیادہ بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے، کہیں کھو مت جانا""- یہ کہہ کر بادشاہ اپنے وزیر اور سپاہیوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہوگیا-چند روز بعد ملکہ شہزادے کو اپنے ساتھ میلہ دکھانے لے گئی- یہ میلہ مسلسل ایک ماہ تک لگتا تھا- وہ اور شہزادہ ایک بگھی میں سوار تھے اور بہت سے سپاہی ان کے ہمراہ تھے- میلہ ایک بہت بڑے میدان میں لگا تھا- بھانت بھانت کے لوگ ادھر ادھر گھوم رہے تھے- جگہ جگہ کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے کے لیے خوانچہ فروش ادھر سے ادھر گھومتے پھر رہے تھے- رنگ برنگے گھاگرے پہنی عورتیں لکڑی اور مٹی کے کھلونے بیچ رہی تھیں- میلے میں یہ چہل پہل دیکھ کر شہزادہ شامی کو بہت مزہ آرہا تھا- اس نے چپکے سے ملکہ کے کان میں کہا ""اچھا ہوا ہم ابّا حضور کے ساتھ نہیں گئے""- اس کی بات سن کر ملکہ مسکرانے لگی-ایک جگہ شہزادے نے بہت سے لوگوں کو بڑے بڑے ڈھول بجاتے دیکھا- یہ منظر اس کو اتنا پسند آیا کہ اس نے کھڑکی میں سے سر نکال کر بگھی بان سے کہا کہ وہ بگھی روک دے- پھر وہ دلچسپی سے ڈھول بجانے والوں کو دیکھنے لگا- ان ڈھولوں کو انہوں نے گلے سے لٹکا رکھا تھا اور لکڑی کی موٹی موٹی چھڑیوں سے زور زور سے بجا رہے تھے- ڈھول بجانے والوں نے زرد رنگ کے لباس پہن رکھے تھا اور سر پر سرخ رنگ کے صافے باندھے ہوۓ تھے-شہزادے نے اپنی زندگی میں ڈھول پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا- اس نے بگھی چلانے والے سے پوچھا ""یہ کیا چیز ہے اور اس میں سے اتنی تیز آواز کیوں آ رہی ہے""- شہزادے کی بات سن کر وہ مسکرانے لگا اور بولا ""شہزادے صاحب اس کا نام ڈھول ہے اور لوگ اسے خوشیوں کے موقعوں پر بجاتے ہیں- انہیں شیشم کی لکڑی اور بھینس کی کھال سے بنایا جاتا ہے اور انہیں بانس کی چھڑی سے بجایا جاتا ہے""-یہ تمام معلومات شہزادہ شامی کے لیے بالکل نئی تھیں، اس نے انہیں بڑی حیرت اور دلچسپی سے سنا- کافی دیر گھومنے پھرنے کے بعد وہ لوگ محل لوٹے- شہزادہ شامی کی آنکھیں کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں- رات کو جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو اس نے ملکہ سے کہا ""امی حضور- ہمیں ایک بڑا سا ڈھول چاہیے- ہم اسے بجائیں گے ویسے ہی جیسے وہ لوگ بجا رہے تھے""-ملکہ نے کہا ""شہزادے جانی- ہم آپ کو ڈھول نہیں دلائیں گے- آپ ایک شہزادے ہیں- شہزادے ڈھول نہیں بجا تے- یہ بھی تو سوچیئے کہ لوگ کیا کہیں گے، ایک شہزادہ ڈھول بجا رہا ہے""-""ہم لوگوں کو منع کردیں گے کہ وہ ایسا نہ سوچیں- بس صبح آپ ہمیں ایک ڈھول منگوا کر دے دیجیے گا""- شہزادے نے فیصلہ کن لہجے میں کہا اور تھوڑی دیر بعد سو گیا-صبح ملکہ تو اس بات کو بھول بھی چکی تھی مگر شہزادے نے اٹھتے کے ساتھ ہی اس کے بارے میں پوچھا- ملکہ اس کی ضد سے تنگ آگئی تھی، اس نے اسے ڈانٹ دیا- ڈانٹ سن کر شہزادہ رونے لگا- ملکہ نے کہا ""کل آپ کےابّا حضور تشریف لے آئیں گے- ہم ان سے آپ کی شکایت کریں گے- آپ کیسے بچے ہیں کہ اپنے شوق کی خاطر ماں باپ کی عزت کا ذرا سا بھی خیال نہیں ہے""-ملکہ کے سخت جملے سن کر شہزادہ خاموش تو ہوگیا مگر دوپہر تک اسے تیز بخار نے آ لیا- اس پر نیم بیہوشی طاری ہو گئی تھی، ادر وہ غنودگی میں بھی بڑبڑا رہا تھا ""مجھے ڈھول چاہیے- میں ڈھول بجاؤں گا""-اس کی حالت دیکھ کر ملکہ گھبرا گئی اور محل کے طبیبوں کو طلب کر لیا- انہوں نے شہزادے کا معائینہ کیا- اس کو دوائیں دیں- ان میں سے ایک طبیب نے ملکہ سے کہا کہ شہزادے صاحب ضد میں آئے ہوۓ ہیں اور کسی بات کو ذہن پر سوار کر لیا ہے، ایسے حالات میں دوائیں اثر نہیں کرتیں- شہزادے کا بخار اسی وقت اترے گا جب ان کی ضد پوری کردی جائے گی""-یہ کہہ کر طبیب تو چلے گئے مگر ملکہ پریشان ہوگئی- ساری رات اس پریشانی میں گزر گئی- شہزادے کا بخار اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا- صبح ہی صبح کنیزوں اور غلاموں کا شور و غوغا مچا ""بادشاہ سلامت تشریف لے آئے ہیں- مبارک ہو- سلامت ہو""-ملکہ دوڑ کر کھڑکی کے نزدیک گئی- بادشاہ محل کے صدر دروازے سے اندر داخل ہو رہا تھا- وہ سیدھا ملکہ کے پاس آیا- اس نے ملکہ کا پریشان چہرہ دیکھا تو خود بھی پریشان ہوگیا- ""ملکہ عالیہ- کیا بات ہے آپ کچھ پریشان سی نظر آتی ہیں؟""-ملکہ نے جلدی جلدی اسے شہزادے کی ضد کے بارے میں بتایا اور بولی ""ہماری تو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہم کیا کریں- نہ کبھی سنا نہ کبھی دیکھا کہ ایک شہزادہ ڈھول بجا رہا ہے- شہزادے نے تو عجیب ضد لگا لی ہے""-بادشاہ اس کی بات سن کر مسکرایا اور شہزادے کے پاس بیٹھتے ہوۓ بولا ""اب ہم آگئے ہیں- سب ٹھیک ہوجائے گا- تعجب ہے ملکہ آپ اتنی سی بات سے پریشان ہوگئی ہیں- شہزادہ بچہ ہے، بچے تو ضد کرتے ہی ہیں- آپ نے کبھی ہمیں ضد کرتے ہوۓ دیکھا ہے- ہم بھی بچپن میں بہت ضدی تھے مگر بڑے ہو کر ٹھیک ہوگئے ہیں- بڑے ہو کر سب ٹھیک ہوجاتے ہیں""-شہزادے کو تیز بخار تھا اور وہ نیم بے ہوش سا تھا- بادشاہ نے اسے گود میں اٹھایا اور آواز دی- بادشاہ کی آواز سن کر شہزادے نے آنکھیں کھول دیں- باپ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی- اس نے بادشاہ کے گلے میں بانہیں ڈال دیں- بادشاہ نے اسے بستر پر بٹھایا اور پھر تالی بجائی-کمرے کے دروازے پر موجود دربان اندر آیا- ""ہمارے سامان میں ایک خوبصورت چمڑے کا صندوق ہے، اسے پیش کیا جائے""- بادشاہ نے دربان سے کہا-دربان نے جھک کر کہا ""ابھی حاضر کیا جاتا ہے حضور بادشاہ سلامت""- یہ کہہ کر وہ چلا گیا- تھوڑی دیر میں ایک غلام وہ ہی صندوق لے کر حاضر ہوگیا اور دیوار کے ساتھ رکھی لکڑی کی میز پر رکھ کر رخصت ہوگیا-""شہزادے- ہمیں افسوس ہے کہ آپ بیمار ہوگئے ہیں- مگر ہم آپ کے لیے جو چیزیں لے کر آئے ہیں، انھیں دیکھ کر آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے""-بادشاہ کی بات سن کر شہزادہ جھٹ سے اٹھ کر بیٹھ گیا- اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگی تھیں- ملکہ اسے خوش دیکھ کر خود بھی خوش ہوگئی اور کہنے لگی ""دیکھیے شہزادے- آپ کے ابّا حضور آپ کے لیے اچھی اچھی چیزیں لائے ہیں- چلیے اب ہم سے وعدہ کریں کہ اس کے بعد ڈھول کی ضد نہیں کریں گے""-ڈھول کا نام سن کر شہزادے کو پھر سب کچھ یاد آگیا- وعدہ تو وہ کیا کرتا، اس نے کُٹّی والی انگلی ملکہ کو دکھائی اور دوسری طرف گھوم کر گھٹنوں میں منہ دے کر بیٹھ گیا- اس کی اس حرکت پر ملکہ چڑ گئی، جل کر بولی ""ٹھیک ہے- "" آپ کے ابّا حضور تشریف لے آئے ہیں- خود ہی نمٹ لیں گے""-بادشاہ مسکراتے ہوۓ اٹھا- شہزادے کو احساس ہوگیا کا بادشاہ بستر سے اٹھ گیا ہے- اس نے گھٹنوں میں سر دیے دیے ایک بازو تھوڑا سا اٹھا کر اسے دیکھنے کی کوشش کی- بادشاہ میز پر رکھے صندوق کی جانب جا رہا تھا- شہزادہ دل میں سوچنے لگا جانے ابّا حضور میرے لیے کیا لائے ہیں-اچانک تھوڑی دیر بعد اس کے کانوں میں آواز گونجی ""ڈھم ڈھما ڈھم ڈھم""- اس نے چونک کر پیچھے گھوم کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہے بادشاہ کے ہاتھوں میں ایک بڑا سا ڈھول ہے اور اس میں ایک پٹی بھی موجود ہے تاکہ اسے گلے میں لٹکا لیا جائے-شہزادہ جلدی سے بستر سے چھلانگ مار کر نیچے اترا اور بادشاہ کے پاس پہنچ گیا- مارے خوشی کے اس کا برا حال تھا- ملکہ حیرت کے مارے گنگ ہو کر رہ گئی تھی- بادشاہ اس کی حیرانی سے لطف اندوز ہو رہا تھا- ""پیاری ملکہ- ابھی تو آپ مزید حیران ہونگی- اس صندوق میں ایسی ایسی چیزیں موجود ہیں""-شہزادے نے خوشی سے تالیاں بجاتے ہوۓ کہا ""ابا حضور آپ کتنے اچھے ہیں""- شہزادے کو جتنی جلدی بخار چڑھا تھا، ڈھول کو دیکھ کر اتنی ہی جلدی اتر بھی گیا تھا-بادشاہ نے ملکہ سے کہا ""ہم جب اپنے دوست کے ملک میں پہنچے تو وہاں بھی جشن بہاراں منایا جا رہا تھا- ان کا بھی بیٹا ہمارے شہزادے جتنا ہے- اپنے بیٹے کو انہوں نے ایک کسان کا سوانگ بھروا یا جس کی فصل بہت اچھی ہوتی ہے اور وہ اس خوشی کا اظہار ڈھول بجا کر کرتا ہے- یہ تماشا ہم نے اپنے دوست بادشاہ اور ان کی ملکہ کے ساتھ دیکھا تھا اور ہمیں اتنا پسند آیا کہ ہم نے بھی فیصلہ کرلیا کہ اپنے شہزادے کو کسان بنا کر اس میلے میں خود بھی شرکت کریں گے- ہمارے اس فیصلے سے ہمارے دوست بادشاہ بھی بہت خوش تھے- انہوں نے یہ ڈھول اور شہزادے کے رنگ برنگے کپڑے ہمیں تحفے میں دیے ہیں- انہوں نے ہمیں ایک بڑے کام کی بات بھی بتائی- انہوں نے کہا کہ ہم ہر سال جشن بہاراں کے موقع پر اپنی رعایا میں ان ہی کی طرح کا کوئی بھیس بدل کر ان کی خوشیوں میں شرکت کرتے ہیں، کبھی مزدور بن گئے، کبھی تاجر، کبھی پھل بیچنے والا، کبھی دھوبی، کبھی حجام اور کبھی گلی محلوں میں جھاڑو لگانے والا خاکروب- ہماری ان باتوں سے وہ لوگ بہت خوش ہوتے ہیں کہ ان کا بادشاہ ان کی خوشیوں میں بھرپور طریقے سے شرکت کرتا ہے اور کوئی سا بھی روپ دھار کر اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا""-ملکہ حیرانی سے بادشاہ کی باتیں سن رہی تھی- بادشاہ خاموش ہوا تو وہ بولی ""ہم تو ناحق شہزادے کی فرمائش سن کر پریشان ہو گئے تھے کہ جب وہ ڈھول بجائے گا تو لوگ کیا کہیں گے- ہمیں افسوس ہے کہ ہماری وجہ سے ہمارا شہزادہ بیمار پڑ گیا تھا- واقعی اپنی رعایا کے ساتھ گھل مل جانا کوئی بری بات نہیں ہے""-پھر بادشاہ نے شہزادے کو وہ کپڑے دکھائے جو اس کے دوست بادشاہ نے اس کے لیے دئیے تھے- ان کپڑوں میں سفید پاجامہ، پیلے رنگ کا کرتا، گلابی رنگ کی واسکٹ اور ہلکے نیلے رنگ کا صافہ تھا- پاؤں میں پہننے کے لیے سنہری کامداری کھّسے تھے- ان چیزوں کو دیکھ کر شہزادہ تو بہت ہی خوش ہوا- بادشاہ نے اسی وقت اپنے وزیر کو بلا کر اسے ہدایت کی کہ وہ کل میلے میں ایک پنڈال کا انتظام کروادے کیوں کہ وہ ملکہ اور شہزادے کے ساتھ میلے میں شرکت کرے گا-اگلے روز سب میلے میں پہنچے- شہزادہ کسان کے روپ میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا- بادشاہ نے اسے بگھی کے اندر ہی چھپایا ہوا تھا- میلے میں پہنچ کر جب سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے تو وزیر نے اعلان کیا کہ اب ان کے سامنے ایک ایسے کسان کو پیش کیا جائے گا جس کی فصلیں بہت اچھی ہوئی ہیں اور وہ خوشی سے نہال ہے- اس اعلان کا بعد شہزادہ شامی بگھی میں سے نکلا- لوگوں نے جب اپنے شہزادے کو کسان کے روپ میں دیکھا تو وہ خوشی سے بے حال ہوگئے- لوگوں نے شہزادے کو خوش آمدید کہنے کے لیے تالیاں بجائیں- جن کو سیٹی بجانا آتی تھی انہوں سیٹیاں بجائیں- باقی لوگ مختلف نعرے لگا رہے تھے- اسی دوران وہاں سے کچھ لوگ ڈھول بجاتے ہوۓ نکل رہے تھے، انہوں نے جب شہزادے کو کسان بنا دیکھا تو وہ وہیں رک گئے- وہ زور زور سے ڈھول بجا رہے تھے- شہزادہ بھی ان کے پاس پہنچ گیا اور خود بھی ڈھول بجانے لگا-یہ تماشہ کافی دیر تک چلتا رہا- شہزادے کو خوش دیکھ کر بادشاہ اور ملکہ بھی بہت خوش تھے- میلے میں شرکت کرنے والوں کی بھی خوشیاں دوبالا ہوگئی تھیں- دوپہر ہوئی تو بادشاہ نے واپسی کی ٹھانی- ابھی وہ لوگ وہاں سے روانہ نہیں ہوۓ تھے کہ شہزادے نے ایک نوجوان کو دیکھا، اس کے پاس گھوڑے کا ایک بہت چھوٹا سے خوبصورت بچہ تھا- شہزادہ اس گھوڑے کے بچے کو دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا- وہ تھا ہی اتنا خوبصورت-وہ نوجوان شہزادے کے پاس آیا اور بولا ""شہزادے صاحب- میرے پاس کتنا خوبصورت گھوڑے کا بچہ ہے- اگر آپ اپنا ڈھول مجھے دے دیں تو میں اس کے بدلے میں یہ گھوڑے کا بچہ آپ کو دے دوں گا""-سچی بات یہ تھی کہ شہزادہ ڈھول بجا بجا کر تھک گیا تھا، اس کو گلے میں لٹکائے لٹکائے اس کی گردن میں بھی درد ہوگیا تھا- اس کی آواز اتنی تیز تھی کہ اس کے کان ابھی تک سائیں سائیں کر رہے تھے- اسے ڈھول میں یکدم کئی برائیاں نظر آنے لگیں اور چمکدار آنکھوں والا گھوڑے کا بچہ اچھا لگنے لگا-اس نے ملکہ سے کہا ""امی حضور- اگر اجازت ہو تو میں اپنا ڈھول دے کر گھوڑے کا یہ پیارا سا بچہ لے لوں؟""- ملکہ نے فوراً اجازت دے دی- شہزادے نے ڈھول دے کر گھوڑے کا بچہ لیا اور خوشی خوشی محل آگیا- محل پہنچ کر وہ اس کو لے کر باغ میں پہنچا اور اس کے ساتھ کھیلنے لگا- گھوڑے کا بچہ بھی اتنی سی دیر میں اس سے مانوس ہوگیا تھا- شہزادہ شامی دوڑ کر اس سے دور جاتا اور اشارے سے اسے بلاتا تو وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچ جاتا-بادشاہ اور ملکہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے- بادشاہ نے ملکہ سے کہا ""دیکھا ہم نے تھوڑی سمجھداری سے کام لیا تو شہزادے کی توجہ اس ڈھول کی طرف سے ہٹ گئی- اس نوجوان کو ہم نے ہی گھوڑے کا بچہ لے کر بھیجا تھا""-ملکہ مسکراتے ہوۓ بولی ""شہزادے کے اس شوق سے میں تو پریشان ہو گئی تھی - خدا کا شکر ہے کہ آپ کی عقلمندی کام آگئی""-بادشاہ نے کہا ""ملکہ- اتنی عمر کے بچے عجیب عجیب ضدیں کرتے ہیں- ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں صبر و تحمل اور دانشمندی کا مظاہرہ کریں- ایسے معاملات میں غصہ کرنا اور بچوں پر سختی کرنا مناسب نہیں- دیکھا نہیں اس ذرا سی بات کی وجہ سے شہزادے نے اپنے ذہن پر کتنا اثر لے لیا تھا اور بیمار پڑ گیا تھے- بات حالانکہ معمولی تھی""-ملکہ شرمساری سے بولی ""غلطی میری تھی- اگر میں نرمی سے کام لیتی تو شہزادہ ضد میں آ کر بیمار بھی نہیں ہوتا- بچوں کی ضدیں اگر بے ضرر ہوں تو انھیں ماننے میں کوئی حرج نہیں""-اسی وقت ان کے کانوں میں شہزادے کے ہنسنے کی آواز آئ- انہوں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا، شہزادہ اس کونے سے اس کونے تک گھوڑے کے بچے سے دوڑ کا مقابلہ کر رہا تھا - گھوڑے کا بچہ حالانکہ تیز بھاگ رہا تھا مگر شہزادہ شامی کے بھاگنے کی رفتار زیادہ تھی اور وہ جیت گیا تھا- یہ منظر دیکھ کر بادشاہ اور ملکہ بھی مسکرانے لگے- " ذہین بادشاہ - تحریر نمبر 1364,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zaheen-badsha-1364.html," " منفرد شرط - تحریر نمبر 1363,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/munfarid-shart-1363.html," " حویلی کے چور۔۔تحریر:مختار احمد - تحریر نمبر 1361,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/haveli-ke-chor-1361.html," " خوشامد پسند بادشاہ۔تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1360,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khushamad-pasand-badshah-1360.html,"یوں تو بادشاہ سلامت بہت اچھے اور نیک تھے مگر ان کا وزیر ان کی ایک بات سے بہت پریشان تھا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا- بادشاہ سلامت اپنی رعایا سے بہت محبّت کرتے تھے اور انہوں نے ان کی خدمات کے لیے اپنے خزانوں کا منہ کھول رکھے تھے- ملک میں چاروں طرف سکون اور اطمینان نظر آتا تھا- سب لوگ انتہائی خوش و خرم زندگی بسر کررہے تھے- شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے- مگر وزیر کو جس بات کی پریشانی تھی وہ یہ تھی کہ بادشاہ سلامت دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوتے تھے اور تعریف کرنے والے پر انعامات کی بارش کردیتے- ان کے دربار کے چند چرب زبان اور خوشامدی لوگوں نے بادشاہ سلامت کی یہ کمزوری بھانپ لی تھی، اور اس کمزوری کا اکثر و بیشتر فائدہ اٹھاتے رہتے تھے، ان کی جھوٹی جھوٹی تعریفیں کرتے اور انعامات لے کر گھر کو چلتے بنتے-بادشاہ سلامت جب دربار میں تشریف لاتے اور لوگوں کے مسلے مسائل سنتے تو ان کی کوشش یہ ہی ہوتی تھی کہ جلد سے جلد ان معاملات کو نمٹا دیں، تاکہ اس کے بعد شعر و شاعری اور قصیدہ گوئی کا دور چلے اور درباری ان کی تعریفوں کا پل باندھیں، ان تعریفوں سے بادشاہ سلامت کو ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا تھا- بادشاہ سلامت کی شان میں قصیدے پڑھنے والے نیک نیتی سے بادشاہ سلامت کی تعریف نہیں کرتے تھے، ان کا مقصد تو محض قیمتی انعاموں کا حصول ہی ہوتا تھا-وفادار وزیر نے ایک روز اپنی یہ پریشانی ملکہ کے سامنے رکھی- ملکہ خود بادشاہ سلامت کی اس بات سے تنگ تھی- وہ سوچتی تھی کہ جھوٹی تعریفوں پر اگر وہ اسی طرح ہیرے جواہرات اور اشرفیاں لٹاتے رہے تو ایک روز سارا خزانہ خالی ہو جائے گا- اس نے وزیر سے کہا ""اس سلسلے میں تو مجھے آپ پر ہی بھروسہ ہے- آپ بادشاہ سلامت کے وفادار ساتھیوں میں سے ہیں- آپ کی عقلمندی کا کوئی ثانی نہیں ہے- مجھے امید ہے آپ ضرور کوئی نہ کوئی حل نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے""-""ملکہ عالیہ- میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ اس مسلے کا کوئی حل نکل آئے- اس کے لیے مجھے سب سے پہلے یہ پتہ چلانا ہوگا کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر بادشاہ سلامت خوشامد پسند ہوگئے ہیں- انھیں کیوں اپنی تعریف سننا اچھا لگتا ہے""-""جب میری ان سے شادی ہوئی تھی تو وہ تب بھی ایسے ہی تھے- بات بات پر اپنے گلے سے قیمتی موتیوں کے ہار اتار کر لوگوں کو انعام میں دے دیا کرتے تھے- ایک وقت تو ایسا بھی آگیا تھا کہ ہاروں کو بنوانے کے لیے بہت سارے کاریگروں کو بھرتی کرنا پڑ گیا تھے- مجھے تو اس بات سے بہت ڈر لگتا ہے کہ ہم الله کو کیا منہ دکھائیں گے- خزانے کا پیسہ عوام کی امانت ہوتا ہے- اس طرح تو ہم امانت میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں""-""میں نے سوچا ہے کہ میں بادشاہ سلامت کی والدہ صاحبہ سے ملوں اور ان کو کریدوں کہ بادشاہ سلامت کی شخصیت کی اس خامی کا سبب کیا ہے""- وزیر نے کہا اور عین اسی وقت بادشاہ سلامت کی ماں کمرے میں داخل ہوئی- وہ کافی بوڑھی ہو گئی تھی اور لاٹھی ٹیک ٹیک کر چلتی تھی- اس نے ملکہ اور وزیر کو دیکھا تو بولی ""بیٹی میں یہ پوچھنے آئ ہوں کہ رات کے کھانے میں کیا پکے گا، تاکہ شاہی باورچی کو آگاہ کردوں مگر ایسا معلوم دیتا ہے کہ تم دونوں مملکت کے کسی اہم مسلے پر گفتگو کر رہے ہو- میں چلتی ہوں- بعد میں آجاؤں گی""-""امی حضور ہم آپ کا ہی تذکرہ کررہے تھے- ایک بہت اہم مسلہ درپیش آ گیا ہے- آپ سے کچھ معلومات لینا تھیں""- ملکہ نے کہا-""پہلے مسلہ تو پتہ چلے- اس کے بعد ہی میں معلومات دے سکوں گی""- بادشاہ سلامت کی والدہ نے کہا-""پہلے آپ آرام سے بیٹھ جائیں- پھر ہم آپ کو تفصیل بتائیں گے""- ملکہ نے اسے کمرے میں رکھی کرسی پیش کرتے ہوۓ کہا- جب بادشاہ سلامت کی ماں آرام سے بیٹھ گئی تو وزیر نے بڑی تفصیل سے اس کو بادشاہ سلامت کی اس خوشامد پسندی کی عادت کے بارے میں بتایا-جب اس کی بات ختم ہوئی تو بادشاہ سلامت کی ماں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بڑے تاسف سے بولیں ""اپنے بیٹے کی اس عادت کے ذمہ دار میں اور اس کے ابا حضور تھے""- یہ بات سن کر ملکہ اور وزیر دونوں چونک پڑے-""امی حضور- یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں""- ملکہ نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر کہا- ابھی بادشاہ سلامت کی ماں نے کوئی جواب بھی نہیں دیا تھا کہ بادشاہ سلامت کا بوڑھا باپ کھانستا ہوا اندرداخل ہوا- اس نے کہا ""اس بڑھاپے نے ہمیں طرح طرح کی بیماریاں لگا دی ہیں مگر حیرت انگیز طور پر ہماری سماعت بہت بہتر ہوگئی ہے، دور ہی سے ہم سب باتیں سن لیتے ہیں، ہم نے تم سب کی باتیں بھی سن لی ہیں- ہماری بیگم بالکل ٹھیک فرما رہی ہیں- اپنے بیٹے کو خوشامد پسند بنانے میں ہم دونوں کا ہی ہاتھ ہے""-بادشاہ سلامت کی ماں کو ملکہ نے کرسی پیش کی تھی- اب بادشاہ سلامت کا باپ آیا تو اسے کرسی پیش کرنے کی باری وزیر کی تھی- وہ ایک کرسی اٹھا کر اس کے قریب لایا اور بولا ""تشریف رکھیے""-وہ بیٹھ گیا تو ملکہ بڑی فکرمندی سے بولی ""جس انداز میں وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی دولت لٹا رہے ہیں- ہمیں تو لگتا ہے کہ بہت جلد خزانہ خالی ہو جائے گا- ہمیں وزیر صاحب سے بہت امیدیں وابستہ ہیں- ہمیں یقین ہے کہ وہ بہت جلد اس کا حل ڈھونڈ لیں گے""-وزیر آگے بڑھا، کھنکھار کر گلا صاف کیا پھر ہاتھ باندھ کر بولا ""آپ بادشاہ سلامت کے والدین ہیں- دونوں کا یہ ہی کہنا ہے کہ ان کی اس خامی کے پیچھے آپ کا ہی ہاتھ ہے- پتا تو چلے کہ کیسے؟ اگر یہ بات پتہ چل گئی تو بادشاہ سلامت کا علاج کرنا مشکل بات نہ ہوگی""-بادشاہ سلامت کے باپ نے کہا ""لمبی کہانی ہے- تم دونوں بھی بیٹھ جاؤ- کھڑے کھڑے تھک جاؤ گے""- جب ملکہ اور وزیر بیٹھ گئے تو اس نے کہنا شروع کیا ""یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم نوجوان تھے اور ہماری نئی نئی تاجپوشی ہوئی تھی اور ہم نئے نئے بادشاہ بنے تھے- ہمارے ابا حضور بوڑھے ہوگئے تھے اس وجہ سے انہوں نے بادشاہت کا تاج ہمارے سر پر سجا دیا تھا- تھوڑے عرصے بعد ہماری شادی ایک انتہائی حسین و جمیل شہزادی سے ہو گئی- ان کا رنگ اتنا صاف تھا کہ جب پانی پیٹی تھیں تو گردن سے جاتا ہوا نظر آتا تھا""- اتنا کہہ کر بادشاہ سلامت کے باپ نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا- اس نے شرما کر سر جھکا لیا- ""ان کے حسن و جمال کا تفصیلی تذکرہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ہر وقت اپنے بناؤ سنگھار میں لگی رہا کرتی تھیں- ہم بھی کچھ کم نہیں تھے- ہمیں سیر سپاٹے اور شکار کا شوق تھا، ہم اپنے مشغلوں میں گم رہا کرتے تھے- تھوڑے عرصے بعد الله نے ہمیں اولاد کی نعمت سے بھی نواز دیا- ہمارا شہزادہ نہایت خوبصورت تھا- اس کی پیدائش پر ہم دونوں ہی بہت خوش تھے، مگر نہ انہوں نے ہر وقت بننے سنورنے والی عادت چھوڑی اور نہ ہم نے اپنی سیر سپاٹے اور شکار کی- ہمارا شہزادہ کنیزوں اور غلاموں کے ہاتھوں میں پرورش پاتا رہا- وہ تھوڑا بڑا ہوا تو اس کا دل چاہتا تھا کہ ہمارے ساتھ بیٹھے، اپنی اچھی اچھی باتیں ہمیں بتائے اور ہم اس کو شاباش دیں اور اس کی تعریف کریں- مگر ہم دونوں نادان بنے اپنی اپنی پسند کی مصروفیات میں گم تھے- ہمیں اپنی بے بیوقوفی کی وجہ سے اپنے چھوٹے سے شہزادے کے احساسات کا خیال ہی نہیں رہا- اس محرومی کا فائدہ ان کنیزوں نے اور غلاموں نے اٹھایا جن کے ذمے اس کی دیکھ بھال کرنا تھی- وہ اس کی ہر بات کی بہت تعریف کرتے تھے، اس سے وہ خوش ہو کر اپنے کھلونے، مٹھایاں اور بسکٹ وغیرہ اور دوسری چیزیں انھیں دے دیتا- وہ اس کی کمزوری بھانپ گئے- وہ اس کی جھوٹی تعریفیں کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے- رفتہ رفتہ ہمارے شہزادے کی یہ عادت پختہ ہوتی چلی گئی اور اس کا نتیجہ ہم سب خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں- اس کہانی میں ان ماں باپ کے لیے ایک سبق چھپا ہے جو اپنے بچوں سے دور دور رہتے ہیں اور ان کی کسی بات کی تعریف کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں""- یہ کہہ کر بادشاہ سلامت کا بوڑھا باپ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہوگیا-وزیر کچھ دیر خاموشی سے سوچتا رہا پھر بولا ""میں پوری کوشش کروں گا کہ ان کی اس عادت کو ختم کروادوں- یہاں پر میں یہ بات بھی کہوں گا کہ جو ماں باپ اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے، ان کی باتیں نہیں سنتے، ان کی اچھی باتوں پر انھیں شاباش نہیں دیتے، وہ اپنے بچوں کو احساس محرومی کا شکار بنا دیتے ہیں- دنیا میں اچھے برے دونوں طرح کے لوگ پڑے ہیں- برے لوگ اس چیز کا فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے- وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اس طرح کے بچوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں""-بادشاہ سلامت کی ماں اور باپ نے سر جھکالئیے- اسی وقت ملکہ کا ننھا شہزادہ باغ میں سے کھیل کر واپس آیا- اس کے ہاتھ میں کسی جھاڑی کا ایک تنکا تھا اور اس نے امرود کے ایک پتے کو درمیان سے اس تنکے میں پرو رکھا تھا-شہزادے نے کمرے میں داخل ہو کر پہلے تو سب کو ادب سے سلام کیا پھر بولا ""امی حضور- دیکھیے ہم نے امرود کے پتے کا پنکھا بنایا ہے- یہ گھومتا بھی ہے""- یہ کہہ کر اس نے پتے پر پھونک ماری تو پتا تیزی سے گھومنے لگا- ملکہ یہ دیکھ کر نہال ہوگئی، آگے بڑھ کر شہزادے کو پیار کیا اور بولی ""ہمارے شہزادے نے کتنا اچھا پنکھا بنایا ہے- ہمیں بھی اس سے کھیلنے دیجیے""- شہزادے نے پتے پر ایک اور پھونک ماری اور بولا ""آپ تو بڑی ہیں امی حضور- یہ تو بچوں کے کھیلنے کے لیے ہے""- یہ کہہ کر شہزادہ وہاں سے بھاگ گیا-بادشاہ سلامت کی ماں نے کہا ""اگر یہ ہی سلوک ہم اپنے بیٹے سے بھی کرتے، اس کی باتیں سنا کرتے، اس کی تعریف کرتے تو وہ ایسا نہ بنتا جیسا بن گیا ہے""-تھوڑی دیر بعد جب وزیر وہاں سے رخصت ہونے لگا تو اس نے ملکہ کو چند باتیں بتائیں اور درخواست کی وہ ان پر عمل کرے- ملکہ نے اس کی باتوں کو گرہ میں باندھ لیا- رات کو جب بادشاہ سلامت اس کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھے تھے اور ننھا شہزادہ ان کے سامنے کھیل رہا تھا تو ملکہ نے بڑے پیار سے کہا ""الله کا شکر ہے- میں بھی کس قدر خوش قسمت ہوں کا مجھے آپ جیسا شریف اور نیک شوہر نصیب ہوا ہے- جو شکل و صورت میں بھی یکتا ہے اور اپنے کردار میں بھی- اپنی رعایا کی محبّت اس کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے""-بادشاہ سلامت نے یہ سنا تو خوشی سے ان کی آنکھیں چمکنے لگیں- انہوں نے اپنے گلے سے قیمتی موتیوں کا ہار اتار کر ملکہ کو پیش کیا ""اس بات کا اظہار کرنے پر ہم اسے آپ کی نذر کرتے ہیں""-ملکہ مسکرا کر بولی ""جہاں پناہ ہم اس انعام کو لینے سے انکار کرتے ہیں- ہم نے آپ کی تعریف اپنے دل کی گہرائیوں سے کی ہے- ہمارے خلوص اور محبّت کی قیمت اس معمولی سے ہار سے ادا نہیں ہوسکتی""-بادشاہ سلامت یہ بات سن کر حیران ہوگئے اور بولے ""جب دوسرے لوگ ہماری تعریف کے گن گاتے ہیں اور ہم انھیں انعام دیتے ہیں تو وہ فوراً لے لیتے ہیں- ملکہ آپ تو عجیب ہیں""-""اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دوسروں کی تعریف دکھاوے کی ہے- وہ یہ باتیں صرف آپ کو خوش کرکے انعام کے لالچ میں کرتے ہیں- ان کے دلوں میں خلوص نہیں، لالچ بھرا ہوتا ہے- آپ تو میرے سر تاج ہیں، آپ کے بارے میں میں جو بھی کہوں گی وہ سچ ہوگا""- ملکہ کی بات سن کر بادشاہ سلامت کچھ سوچنے لگے -ملکہ نے جب لوہا گرم دیکھا تو ایک اور چوٹ ماری- ""ہمارے دادا حضور ہمارے سب بہن بھائیوں کو ایک نصیحت کیا کرتے تھے- وہ کہتے تھے کہ اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے علاوہ اگر تمہارے منہ پر کوئی تمہاری تعریف کرے تو سمجھ لینا اس میں اس کی کوئی غرض پوشیدہ ہے""-بادشاہ سلامت کی آنکھیں کسی سوچ میں ڈوب گئیں- انھیں کچھ کچھ سمجھ آنے لگی تھی- اگلے روز دربار شروع ہونے سے پہلے وزیر بادشاہ سلامت سے ملنے آیا- وہ انھیں ایک کونے میں لے گیا اور ان کے کان میں چپکے چپکے کچھ کہنے لگا-اس کی باتیں سن کر بادشاہ سلامت کی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی تھی- وزیر خاموش ہوا تو انہوں نے کہا ""عقلمند وزیر- تمہاری بات میں وزن معلوم دیتا ہے- ہمیں تمہاری تجویز سے اتفاق ہے""-دربار شروع ہوا- سامنے تمام امرا، رؤسا اور دوسرے بڑے بڑے لوگ کرسیوں پر براجمان تھے- ان میں سے ہر کوئی اپنے ذہن میں وہ باتیں دوہرا رہا تھا، جو اسے بادشاہ سلامت کی شان میں کہنا تھیں- انہوں نے اپنے لباسوں میں کپڑے کے تھیلے چھپا رکھے تھے جن میں وہ انعام بھر بھر کر لے جاتے تھے- یہ انعام وہ بادشاہ سلامت کی جھوٹی تعریف کرکے بٹورتے تھے- دربار کی کاروائی دیکھنے کے لیے آج ملکہ بھی بادشاہ سلامت کے برابر میں بیٹھی تھی- وزیر نے اس سے خاص طور سے درخواست کی تھی کہ وہ آج دربار میں ضرور آکر بیٹھے، بڑا مزہ آئے گا-دربار کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے وزیر اپنی جگہ سے کھڑا ہوا- اس نے سب لوگوں کو مخاطب کر کے کہا ""معزز اراکین دربار- آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ہمارے بادشاہ سلامت کس قدر رعایا پرور ہیں- سونے کے وقت کو نکال کر وہ ہر وقت ان کی فلاح و بہبود کے لیے سوچتے رہتے ہیں- وہ اس بات سے بھی پریشان رہتے ہیں کہ مزید کون کون سے کام کریں جس سے ان کی رعایا کو فائدہ پہنچے""-وزیر کی اتنی بات ہی سن کر دربار میں واہ واہ کا شور مچ گیا- دو تین پرجوش درباری تو کرسیوں سے بھی اٹھ گئے ""ہمارے ہر دل عزیز بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو- یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ الله نے ہمیں ان کے زیر سایہ رہنے کی سعادت بخشی ہے""- کھڑے ہونے والے اشخاص میں سے ایک نے کہا- اس کی اس بات پر دربار میں ایک شور سا مچ گیا- کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی- ملکہ یہ منظر بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی- اتنے بہت سے خوشامدی اس نے ایک جگہ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے-وزیر نے کہا ""اب آگے سنیے- یہ بات بہت خوشی کی ہے کہ دربار میں موجود سب لوگ دولت مند اور خوشحال ہیں- بادشاہ سلامت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ جو بھی ان کی شان میں قصیدہ پڑھے گا، نظم یا غزل سنائے گا، یا نثر میں ان کی تعریف کرے گا، اس کے ساتھ اسے سو اشرفیاں بھی دینا پڑیں گی - ان اشرفیوں کو شاہی خزانے میں شامل کر کے ان سے غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی مدد کی جائے گی- غریب اور بے سہارا لڑکیوں کی شادیاں کروائی جائیں گی، بے گھر لوگوں کو سر چھپانے کا ٹھکانا دیا جائے گا- اس طریقے سے جہاں ہم اپنے ہر دل عزیز بادشاہ سلامت کو خراج تحسین پیش کر سکیں گے، وہیں ڈھیر ساری نیکیاں بھی کما لیں گے- یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام""-وزیر کی بات ختم ہوئی تو شاہی دربار میں سناٹا چھا گیا- اتنی خاموشی تھی کہ اگر وہاں ایک سوئی بھی گر جاتی تو سب اس کی آواز سن لیتے-وزیر نے کہا- ""ہاں تو آج پہلے اپنا کلام کون سنائے گا""-دربار میں بیٹھے ہوۓ لوگوں میں سے کسی نے جنبش تک نہ کی- تھوڑی دیر بعد ایک درباری اٹھا اور بولا ""میں نے بادشاہ سلامت کی شان میں بہت اچھا ترانہ لکھا تھا، بدقسمتی سے گھر بھول آیا ہوں""-دوسرے نے کہا ""رات بچوں نے ہی پیچھا نہیں چھوڑا- قصیدہ لکھنے کا وقت ہی نہیں ملا""- غرض سب لوگوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کر سنا دیا- جب سب اپنی اپنی کہہ کر خاموش ہوگئے تو بادشاہ سلامت نے گرج کر کہا ""ہم تم سب کی چالاکیاں سمجھ گئے ہیں- تم سب لوگ ہمارے دربار سے نکل جاؤ- ہمیں ایسے مطلبی اور خود غرض درباریوں کی ضرورت نہیں ہے-""- بادشاہ سلامت کو بے وقوف بنا کر فائدہ اٹھانے والے تمام درباری بہت شرمندہ ہوۓ اور دربار سے اٹھ کر چلے گئے-اس روز کے بعد سے بادشاہ سلامت نے اپنی اس عادت سے چھٹکارہ پا لیا اور حکومت کے دوسرے کاموں میں مشغول ہوگئے- وہ روز دربار لگاتے تھے اور لوگوں کی شکایتیں سن کر ان کا ازالہ کرتے تھے- ان کی اس تبدیلی سے ملکہ اور وزیر بہت خوش تھے اس لیے کہ بادشاہ سلامت کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ان کو مطلب پرست خوشامدیوں سے بھی نجات مل گئی تھی- ملکہ کے دل میں وزیر کی عزت بھی بڑھ گئی تھی- وہ اس کی احسان مند تھی کیوں کہ اس کی عقلمندی کی وجہ سے بادشاہ سلامت راہ راست پر آگئے تھے- " درویش اور اس کا چیلا - تحریر نمبر 1359,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/darwaish-aur-is-ka-chaila-1359.html," " اللہ پر بھروسہ - تحریر نمبر 1357,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/allah-par-bharosa-1357.html," " ظالم بادشاہ - تحریر نمبر 1355,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zalim-badsha-1355.html," " اجازت۔۔تحریر:طیبہ ثناء - تحریر نمبر 1354,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ijazat-1354.html," " بادشاہ کا فرمان - تحریر نمبر 1353,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-ka-farmaan-1353.html," " مجرم پکڑے گئے۔۔تحریر:مختار احمد - تحریر نمبر 1351,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mujrim-pakde-gaye-1351.html," " گمشدہ انگوٹھی۔۔تحریر:مختار احمد - تحریر نمبر 1350,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gumshuda-anguthi-1350.html," " شاہی چور - تحریر نمبر 1346,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sahhi-chor-1346.html," " خزانے کی چوری۔۔تحریر:مختار احمد - تحریر نمبر 1345,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khazanay-ki-chori-1345.html," " خواہش بادشاہ بننے کی - تحریر نمبر 1344,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khwahish-badshah-ban-nay-ki-1344.html," " ایڈونچر۔۔تحریر:ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ - تحریر نمبر 1341,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/adventure-1341.html," " ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ - تحریر نمبر 1336,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sultan-mehmmod-ghaznawi-1336.html," " نیکی کا بدلہ - تحریر نمبر 1333,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naiki-ka-badla-1333.html," " خواہش - تحریر نمبر 1331,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khwahish-1331.html," " اچھا سلوک۔۔تحریر:مختار احمد - تحریر نمبر 1329,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/acha-sulook-1329.html," " نقل سے توبہ۔۔تحریر:ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ - تحریر نمبر 1328,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naqal-se-toba-1328.html," " حیرت انگیز مخلوق - تحریر نمبر 1323,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hairat-angaiz-makhlooq-1323.html," " کر درگزر۔۔تحریر:طیبہ ثناء - تحریر نمبر 1321,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kar-darguzar-1321.html," " خوب کھیلو، خوب دوڑو - تحریر نمبر 1319,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khoob-khailo-khoob-doro-1319.html," " تبدیلی آگئی - تحریر نمبر 1318,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tabdele-agaia-1318.html," " ماں کی دعا - تحریر نمبر 1317,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maa-ki-dua-1317.html," " ایک نسخہ - تحریر نمبر 1316,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-nuskha-1316.html," " میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔۔تحریر:مختار احمد - تحریر نمبر 1315,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mein-jhoot-nahi-bolunga-1315.html," " چڑیا کا انتقام۔۔۔تحریر:ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ - تحریر نمبر 1314,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chirya-ka-inteqam-1314.html," " اچھا پاکستان - تحریر نمبر 1313,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/acha-pakistan-1313.html," " ایک کھانی بڑی پُرانی - تحریر نمبر 1312,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-kahni-bari-puarani-1312.html," " خرگوش لومڑی اور لکڑ بھگا - تحریر نمبر 1311,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khargosh-lomri-aur-lakar-bhaga-1311.html," " تبد یلی - تحریر نمبر 1310,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tabdeeli-1310.html," " بادشاہ اور انجینئر کا دلچسپ قصہ - تحریر نمبر 1309,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-aur-engineer-ka-dilchasp-qissa-1309.html," " پردہ پوشی - تحریر نمبر 1308,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/parda-poshi-1308.html," " جناح کیپ کہاں سے آئی؟ - تحریر نمبر 1306,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jinah-cap-kahan-se-aayi-1306.html," " سمجھ آگئی - تحریر نمبر 1304,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/samajh-agai-1304.html," " اتفاق میں برکت ہے - تحریر نمبر 1302,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ittafaq-mein-barket-hai-1302.html," " اصل وجہ - تحریر نمبر 1301,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/asal-waja-1301.html," " علیک سلیک - تحریر نمبر 1300,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/alik-slack-1300.html," " نیک نابینا - تحریر نمبر 1299,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naik-nabina-1299.html," " پانی زندگی ہے - تحریر نمبر 1298,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pani-zindagi-hai-1298.html," " اضافی پیسے - تحریر نمبر 1297,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/izafi-paisay-1297.html," " خواب بدل گئے - تحریر نمبر 1291,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khawab-badal-gaye-1291.html," " ابھی تو عمر باقی ہے۔۔تحریر:رحمت اللہ شیخ - تحریر نمبر 1290,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/abhi-to-umar-baki-hai-1290.html," " حسین شہزادی۔۔تحریر:طیبہ گل - تحریر نمبر 1289,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/haseen-shahzadi-1289.html," " بطخ اور مرغی کا چوزا - تحریر نمبر 1287,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/batakh-aur-murghi-ka-choza-1287.html," " عقل مند بکری - تحریر نمبر 1286,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/akalmand-bakri-1286.html," " کہانی قائداعظم رحمتہ اللہ کی - تحریر نمبر 1285,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kahani-quaid-e-azam-ki-1285.html," " دولت اور زندگی - تحریر نمبر 1284,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/doulat-aur-zindagi-1284.html," " بے چارہ لکڑ ہارا - تحریر نمبر 1283,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bay-charah-lakar-hara-1283.html," " میٹھے بول میں جادو - تحریر نمبر 1282,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/meethay-bol-main-jadu-1282.html," " واپسی - تحریر نمبر 1281,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/wapsi-1281.html," " چنبیلی بیگم - تحریر نمبر 1280,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chanbeli-begum-1280.html," " چڑیا کے بچّے - تحریر نمبر 1279,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chidiya-ke-bachche-1279.html," " مقدر کا لکھا - تحریر نمبر 1277,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/muqadar-ka-likha-1277.html," " فریبیا - تحریر نمبر 1276,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/faraibiya-1276.html," " شریک حیات - تحریر نمبر 1275,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shareek-hayaat-1275.html," " بہن کی محنت - تحریر نمبر 1274,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/behan-ki-mehnat-1274.html," " قیمتی موتی کی تلاش - تحریر نمبر 1273,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qeemti-motti-ki-talash-1273.html," " حوصلہ مند حامد - تحریر نمبر 1269,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hosla-mand-hamid-1269.html," " ننھی چڑیا - تحریر نمبر 1267,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanhi-chirya-1267.html," " نیک اندیش - تحریر نمبر 1266,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naik-andesh-1266.html," " عقل والوں کی باتیں - تحریر نمبر 1265,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aqal-walon-ki-batein-1265.html," " گاؤں کا خواب - تحریر نمبر 1263,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gaon-ka-khawab-1263.html,"پرویز شہریار۔نئی دہلی16-(انڈیا)”پیارے بچو!”آج میں تمہیں اپنے بچپن کی کہانی سناتا ہوں ۔“دادا نے کھنکارتے ہوئے اپنا گلا صاف کیا ور کہا۔”تم میں سے کس کس نے دھان کا پودا دیکھا ہے“۔یہ سوال میرے سماجی سائنس کے استاد نے کیا تھا ۔اُس وقت ہماری جغرافیہ کی کلاس تھی۔تب میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔کلاس کے زیادہ تر بچوں نے اپنے اپنے ہاتھ اُٹھا کر بیک آواز کہا تھا۔”سر!ہم نے دیکھا ہے ۔سر میں نے دیکھا ہے ۔سر میں نے بھی دیکھا ہے۔“لیکن میں اپنے ہاتھ اُوپر نہ کرپایا۔مجھے بڑا افسوس ہوا۔میں اپنی کلاس کا مانیٹر تھا ۔ہر سال امتیازی نمبروں سے پاس ہوتاتھا۔مجھے بہت خجالت محسوس ہوئی۔میں کبھی گاؤں نہیں گیا تھا ۔(جاری ہے)بچپن سے ہی ہم نے کل کار خانوں سے بھرے صنعتی شہر جمشیدپور میں پرورش پائی تھی۔کبھی کھیت کھلیان دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا ۔اُس وقت تک میں خود کو کافی بڑا سمجھنے لگا تھا جب کہ میری عمر صرف بارہ سال تھی۔میرے استاد ہمیں بتارہے تھے کہ دھان کی کھیتی کب اور کیسے کی جاتی ہے۔آشاڑھ کے مہینے میں جب بارش کی ہلکی ہلکی پھوار مسلسل پڑرہی ہوتی ہے تب دھان کے بیج بوئے جاتے ہیں ۔ساون کے مہینے میں جب ننھے ننھے پودے نکل آتے ہیں ۔تب انھیں اُکھاڑ کر اصل کھیت میں بویا جاتا ہے ۔دھان کے ایسے چھوٹے چھوٹے پودوں کو چارا کہا جاتاہے۔دھان بونے سے پہلے کھیت کو خوب اچھی طرح سے تیار کیا جاتا ہے ۔اس پر ہل چلایا جاتا ہے ۔کھیت کی مٹی ہموار کی جاتی ہے ۔اس کے بعد کھیت میں پانی کھڑا کیا جاتا ہے ۔جب مٹی پانی سے مرطوب ہوکر کیچڑ جیسی ہوجاتی ہے ،تب اس میں بالشت بھر کے دھان کے ننھے ننھے پودے بودےئے جاتے ہیں ۔یہ کام جتنی جلدی مکمل ہو سکے اتنا اچھا ہوتا ہے ۔لہٰذا ،گاؤں کے سبھی عورت مرد کاشتکاری مزدور اس کام کو مل جل کر انجام دیتے ہیں ۔دھان کے پودے لگاتے وقت ان کے پاؤں کیچڑ جیسی مٹی میں ٹخنوں تک ڈوبے رہتے ہیں ۔اس لیے وہ اپنی دھوتی یا ساڑی گھٹنے تک موڑ کے اُوپر کمر میں کھونس لیتے ہیں ۔ایک ایک پودے کو اپنے ہاتھ سے گیلی مٹی کے اندر پیوست کرکے اس کی جڑ کو مٹ میں دبا دیا جاتا ہے ۔یہ عمل ایک یاڈیڑھ فٹ کی یکساں دوری پروہ اتنے جیو میٹر یائی انداز سے انجام دیتے ہیں کہ دور سے دیکھو تو یہ نظارہ بڑا دلفریب معلوم ہوتا ہے ۔ان میں ایک خاص ترتیب نظرآتی ہے ۔حالاں کہ یہ لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے بلکہ کچھ تو اِن میں اَن پڑھ ہی ہوتے ہیں ۔لیکن ان کے اندر چیزوں کو سمجھنے کی خداداد صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔”ہاں ! ایک بات تو بتانا ہی بھول گیا۔“دادا جان نے اپنی ٹوپی اُتاری اور سرکھجاتے ہوئے کہا۔”دھان کے پودے لگاتے وقت ان میں خدمتِ خلق کا جذبہ ہوتا ہے ۔وہ کوئی نہ کوئی مقامی گیت گاتے رہتے ہیں ،جس سے ان کے اندر کام کرنے کا نیا جوش اور توانائی پیدا ہو جاتی ہے ۔وہ دھان کی بوائی کے دوران چائے نہیں پیتے ،پان اور تمبا کو بھی نہیں کھا سکتے ۔چنانچہ ،اپنے ساتھیوں میں جوش پیدا کرنے کے لیے وہ کوئی لوک گیت گاتے رہتے ہیں ۔گیت بھی اکثر وبیشتر اپنے کسی بزرگ ،صوفی سنت یا انّا داتا کو منسوب کرکے گاتے رہتے ہیں “۔دادا کے گردوپیش بیٹھے ان کے پوتے پوتیاں سبھی بڑے دھیان سے ان کے بچپن کی کہانی سن رہے تھے ۔ان میں سے کوئی بھی چوں وچرا تک نہیں کررہا تھا ۔دادا بچوں کی ایسی دلچسپی دیکھ کر اپنی کہانی سنانے میں مگن تھے ۔انھوں نے ہلکی سی کھنکار کے ساتھ اپنا گلا صاف کیا اور رقصے سنانے کے عمل کو جاری رکھا۔”بچو! ساون بھادو کے مہینوں میں دھان کی فصل لہلہا نے لگتی ہے ۔دھان موسم باراں کی فصل ہے ۔اسے خریف کی فصل بھی کہتے ہیں ۔یہ آشوین کے مہینے میں دیوالی کے فوراً بعد کاٹنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے ۔اسے چھٹ پوجا کے بعد کاٹ کرکھلیان پہنچا دیا جاتا ہے ۔دھان کی کھیتی ایک اجتماعی عمل ہے ۔اس کا م میں گاؤں کے سبھی لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ " بیٹی اللہ کی رحمت ہے․․․․․! - تحریر نمبر 1261,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baite-b-allah-ki-remat-hai-1261.html," " متوازن خوراک - تحریر نمبر 1260,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mutwazan-khurak-1260.html," " بطخ کے انڈے - تحریر نمبر 1259,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/batakh-k-anday-1259.html," " آزاد پنچھی - تحریر نمبر 1255,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azad-panchi-1255.html," " بیمار شہزادی - تحریر نمبر 1254,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bemaar-shehzadi-1254.html," " خفیہ نیکی - تحریر نمبر 1251,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khufia-naike-1251.html," " بطخ اورمرغی کے چوزے - تحریر نمبر 1250,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/batakh-aur-murghi-ke-choze-1250.html," " قصور وار کون؟ - تحریر نمبر 1249,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qasoor-waar-kon-1249.html," " سات لڑکیاں اور جادو گر ریچھ - تحریر نمبر 1248,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/saat-larkiyan-aur-jadu-gar-reech-1248.html," " بچوں کی ہر فرمائش پوری نہ کی جائے! - تحریر نمبر 1247,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bachon-ki-har-farmaaish-poori-nah-ki-jaye-1247.html," " سات کا پہاڑا - تحریر نمبر 1246,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/satt-ka-pahara-1246.html," " جادُو کا بٹن - تحریر نمبر 1245,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jaddu-ka-button-1245.html," " ایک امانت - تحریر نمبر 1244,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-amanat-1244.html," " چمکتے ستارے - تحریر نمبر 1241,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chamaktay-sitary-1241.html," " بُوڑھے کا سبق - تحریر نمبر 1237,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/boorhay-ka-sabaq-1237.html," " طہارت نصف ایمان - تحریر نمبر 1236,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/taharat-nisf-imaan-1236.html," " قدرت کا نظام - تحریر نمبر 1234,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qudrat-ka-nizam-1234.html," " پہلی بزم ادب - تحریر نمبر 1231,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pehli-bazm-adab-1231.html," " قابلِ معافی - تحریر نمبر 1230,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qabil-e-maffi-1230.html," " سالگرہ - تحریر نمبر 1229,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/salgrah-1229.html," " جس کا کام اُسی کو ساجھے - تحریر نمبر 1228,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jis-ka-kaam-usi-ko-sajahy-1228.html," " دوستی یا احسان - تحریر نمبر 1227,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dosti-ya-ihsan-1227.html," " دستک - تحریر نمبر 1225,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dastak-1225.html," " پہیلی - تحریر نمبر 1223,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pahaile-1223.html," " میری کتاب - تحریر نمبر 1221,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/meri-kitab-1221.html," " پرائز بانڈ - تحریر نمبر 1220,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/prize-bond-1220.html," " نیکی والا ڈبا - تحریر نمبر 1218,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/neki-wala-daba-1218.html," " خاص کا م - تحریر نمبر 1215,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khas-kam-1215.html," " فہد کا بلا - تحریر نمبر 1214,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/fahad-ka-balla-1214.html," " اچھا دوست - تحریر نمبر 1213,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/acha-dost-1213.html," " لالچ کی سزا - تحریر نمبر 1212,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lalach-ki-saza-1212.html," " دولت اور زندگی - تحریر نمبر 1210,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dolat-aur-zindagi-1210.html," " ”نعم“ - تحریر نمبر 1209,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/num-1209.html," " مطلب پرست - تحریر نمبر 1206,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/matlab-parast-1206.html," " اچھی سوچ - تحریر نمبر 1205,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/achi-soch-1205.html," " ہمت والا - تحریر نمبر 1203,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/himmat-wala-1203.html," " قیمتی تحفہ - تحریر نمبر 1202,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/qeemti-tohfa-1202.html," " بہن جیسی پڑوسن - تحریر نمبر 1201,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/behan-jaisi-padosan-1201.html," " خواب اور نصیحت - تحریر نمبر 1200,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khawab-aur-naseehat-1200.html," " شیر یا بھیڑ - تحریر نمبر 1199,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shair-ya-bhair-1199.html," " بڑا نقصان - تحریر نمبر 1198,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bara-nuqsan-1198.html," " آگ اور پانی کا کھیل - تحریر نمبر 1197,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aag-aur-pani-ka-khail-1197.html," " دو پیسے کی برکت - تحریر نمبر 1196,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/do-paisay-ki-barket-1196.html," " یادش بخیر - تحریر نمبر 1194,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/yadish-bakhair-1194.html," " بد گمانی - تحریر نمبر 1193,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bad-gumani-1193.html," " امید کی کرن - تحریر نمبر 1192,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/umeed-ki-kiran-1192.html," " محنت کریں کامیابی پائیں - تحریر نمبر 1191,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-karen-kamyabi-payen-1191.html," " احساس - تحریر نمبر 1190,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehsas-1190.html," " کسان کی دانائی - تحریر نمبر 1189,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kisaan-ki-danai-1189.html," " فطرت نہیں بدلتی… - تحریر نمبر 1188,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/fitrat-nahi-badalti-1188.html," " دادا کے کھیت میں - تحریر نمبر 1187,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dada-ke-khait-mein-1187.html," " ضمیر کی عدالت - تحریر نمبر 1185,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zameer-ki-adalat-1185.html," " سویا ہوا گھر - تحریر نمبر 1182,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/soya-huwa-ghar-1182.html," " ایک چور ،ایک مالی - تحریر نمبر 1181,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-chor-aik-maali-1181.html," " باپ کی شفقت - تحریر نمبر 1179,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baap-ki-shafqat-1179.html," " نونی کا کارنامہ - تحریر نمبر 1176,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/noni-ka-karnama-1176.html," " ننھا مجاہد - تحریر نمبر 1175,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanna-mujahid-1175.html," " چھوٹی سی قیمت - تحریر نمبر 1174,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/choti-si-qeemat-1174.html," " پری کی چھڑی - تحریر نمبر 1173,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/parri-ki-charri-1173.html," " عقلمند استانی - تحریر نمبر 1172,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/akalmand-ustani-1172.html," " غرور کا سر نیچا - تحریر نمبر 1171,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghuroor-ka-sir-neecha-1171.html," " نجومی وزیر اعظم - تحریر نمبر 1169,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/najumi-wazeer-1169.html," " بھولی ہوئی نیکی - تحریر نمبر 1168,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bholi-hoi-naiki-1168.html," " ’’ہوشیار بادشاہ‘‘ - تحریر نمبر 1167,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hoshiyar-badshah-1167.html," " فضول خرچ کا حشر - تحریر نمبر 1166,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/fuzool-kharch-ka-hashar-1166.html," " تین دوست - تحریر نمبر 1165,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/teen-dost-1165.html," " آزمائیش - تحریر نمبر 1163,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azmaish-1163.html," " ایک حیرت انگیز مخلوق - تحریر نمبر 1160,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-herat-angaiz-makhlooq-1160.html," " ظالم بادشاہ اور نماز کی طاقت - تحریر نمبر 1158,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zalim-badshah-aur-namaz-ki-taaqat-1158.html," " محنت میں عظمت ہے - تحریر نمبر 1156,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-mein-azmat-hai-1156.html," " لالچی اژدھا - تحریر نمبر 1155,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/laalchi-azdaha-1155.html," " ضد کا نتیجہ - تحریر نمبر 1154,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zid-ka-nateeja-1154.html," " ننھے میاں کی توبہ - تحریر نمبر 1153,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanhay-miyan-ki-tauba-1153.html," " ضدی مچھلی کا انجام - تحریر نمبر 1151,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ziddi-machli-ka-injaam-1151.html," " بات منوانے کا گُر - تحریر نمبر 1150,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baat-manwane-ka-gur-1150.html," " حسد کا برا انجام - تحریر نمبر 1149,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hasad-ka-bura-injaam-1149.html," " بلی شیر کی خالہ - تحریر نمبر 1147,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/billi-sher-ki-khala-1147.html,"عافیہ اسدایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دریا کے کنارے ایک سرسبز و شاداب جنگل آباد تھا ، جہاں ایک شیر حکمرانی کرتا تھا ۔ جنگل کا بادشاہ ہونے کے ناطے وہ بہت مغرور تھا اوراُس علاقے میں کسی دوسرے شیر کوحملہ کرنے کی ہمت نہ تھی ۔ایک دن شیر اپنے وزیر وں کے ساتھ جنگل کی سیر کو نکلا تو اُسکی ملاقات خالہ ”بلی “ سے ہوئی ۔شیرنے خالہ ”بلی “ سے پوچھا ، ”خالہ بلی ! کیا ہوا ؟تمہاری یہ حالت کس نے کی ہے ؟“ بلی نے بتایا کہ میری اِس حالت کے ذمہ دار انسان ہیں ۔“ شیر کو بہت غصہ آیا اور بلی سے کہاکہ مجھے اُس انسان کا پتہ بتاؤ جس نے تمہارا یہ حال کیا ہے ، میں اُس سے تمہارا بد لہ لیتا ہوں ۔یہ سُن کر خالہ بلی بولی تم نہیں جانتے انسان بہت خطر ناک ہو تے ہیں اور شیر کو لے کر انسانوں کی بستی کی طرف روانہ ہو گئی ۔(جاری ہے)راستے میں اُسے لکڑہارہ نظر آیا جو لکڑیاں کاٹ رہاتھا ۔لکڑ ہارے کو دیکھتے ہی بلی بولی،” یہ انسان ہے ۔“ شیر لکڑ ہارے سے بولا میں اپنی خالہ کا بد لہ لینے آیا ہوں ۔انسان نے کہا کہ کیا تمہاری خالہ نے تمہیں یہ نہیں بتا یا کہ انسان بہت خطر ناک ہے؟ شیر نے کہا:” کچھ بھی ہو میں تمہیں مزہ چکھا کر رہوں گا “۔ لکڑ ہارہ وقت کی نزاکت کو بھانپ گیا ،اُس نے کہا :” ٹھیک ہے تم یہیں رُکو میں یہ لکڑیاں جھو نپڑی میں چھوڑ کر آتا ہیں “ ۔اے انسا ن رُک مجھے کیا پتہ تو واپس آئے گا یا بھاگ جائے گا “ شیر بولا ۔لکڑہاراواپس جانے کیلئے پلٹا ہی تھا کہ لکڑہارے نے کہامجھے لگتا ہے میرے آنے تک تم یہاں سے بھا گ جاؤ گے ۔یہ سُن کر شیر ہنسنے لگا اور بولا کہ میں نے خود تمہیں مقابلہ کرنے کیلئے کہا ہے تو بھلا میں کیوں بھاگ جاؤں گا؟“ لکڑ ہارے نے کہامجھے تمہاری بات پر یقین نہیں ہے ۔اسی اثنا ء میں خالہ بلی کو تر کیب سو جھی اور کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ شیر کو اس درخت سے باندھ دیتے ہیں ،شیر یہ ترکیب مان گیا ۔جوں ہی شیر کو درخت سے باندھ ،لکڑہارے نے موٹی لکڑی سے اُسکی ڈھلائی شروع کر دی اور پورے جنگل میں شیر کی چینخ وپکار گونج رہی تھی ۔شیر کو مارنے کے بعد لکڑ ہارے نے بلی سے کہاکہ خالہ اپنے بھانجے کا خیال رکھو۔میں ابھی آتا ہوں ۔یہ سن کر بلی شیر کے پاس آئی اور کہا کہ بھانجے میں نے تم سے کہاتھا کہ انسان بہت خطر ناک ہوتا ہے ،اب سزا بھگتواپنے غرور کی ۔ " کربھلا سوہو بھلا - تحریر نمبر 1143,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kar-bhala-ho-bhala-1143.html," " اسکول میں پہلا دن - تحریر نمبر 1142,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/school-ka-pehla-din-1142.html," " سات دموں والا چوہا - تحریر نمبر 1140,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/saat-dumon-wala-choha-1140.html," " بادشاہ کا جانشین - تحریر نمبر 1139,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-ka-janasheen-1139.html," " تحفے - تحریر نمبر 1138,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tohfy-1138.html," " "بولا اور مارا گیا - تحریر نمبر 1137",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bola-our-mara-gaya-1137.html," " "جدید دور کا شیخ چلی - تحریر نمبر 1136",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jadeed-door-ka-shaikh-chili-1136.html," " عید کے موقع پر - تحریر نمبر 1135,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/eid-ke-moqa-par-1135.html," " ننھے میاں کی توبہ - تحریر نمبر 1133,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanhay-mian-ki-tobah-1133.html," " پوریاں - تحریر نمبر 1131,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/puriyan-1131.html," " "ریچھ کا شکار - تحریر نمبر 1128",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rechh-ka-shikar-1128.html," " "یا اللہ تیرا شکر ہے - تحریر نمبر 1127",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ya-allah-tera-shukar-hai-1127.html," " کالا میمنا - تحریر نمبر 1126,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bachy-kala-memna-1126.html," " عزم اور حوصلہ - تحریر نمبر 1124,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aazm-our-hosla-1124.html," " آخری دروازہ - تحریر نمبر 1123,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/akhri-darwaza-1123.html," " "ایک سوال - تحریر نمبر 1122",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-sawal-1122.html," " نماز کی برکت - تحریر نمبر 1121,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/namaz-ki-barkat-1121.html," " روزے کا مقصد - تحریر نمبر 1120,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/rozay-ka-maqsad-1120.html," " بھالو کی اشرفیاں - تحریر نمبر 1119,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhalo-ki-asharfiyan-1119.html," " ٹوٹی ہوئی چپل - تحریر نمبر 1117,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tooti-howi-chapal-1117.html," " صادق کا روزہ - تحریر نمبر 1116,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sadiq-ka-roza-1116.html," " محنت کا ثمر - تحریر نمبر 1115,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-ka-samar-1115.html," " جھوٹی بڑائی - تحریر نمبر 1114,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhuti-barai-1114.html," " انٹرویو - تحریر نمبر 1113,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/interview-1113.html," " درد سمجھیں - تحریر نمبر 1112,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dard-samjhain-1112.html," " صورت نہیں سیرت - تحریر نمبر 1110,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/soorat-nahi-seerat-1110.html,"دانیہ بٹسحراپنے کمرے میں گھس گئی، بستہ میز پر رکھا اور آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ اسے اپنا عکس نظر آنے لگا۔ وہی چوٹ کا نشان، موٹی سی ناک کالا رنگ ، بڑے سے کان۔۔ اف اللہ! میں اتنی بد صورت کیوں ہوں؟اس نے دو بارہ آئینے میں دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ آج سکول میں اس کی سہیلیوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا تھا مس نرجس کے کہنے پر سبق سنانے کے لئے کھڑی ہوئی لیکن ابھی تھوڑا ساہی پڑھا تھاکہ مس نر جس میڈم کے بلانے پر باہر چلی گئی مس کے جاتے ہیں سب نے مذاق اڑانا شروع کر دیا۔سحر سوچنے لگی اور پھر یہی سوچتے ہوئے سوگئی۔ اب اٹھ بھی جاوٴ اس کی بڑی بہن امبر نے اسے جھنجھوڑا اور وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔ تم نے یونیفارم بھی نہیں بدلا، کھانا بھی نہیں کھا یا، اب تمہیں بڑے ابا جان بلا رہے ہیں۔(جاری ہے)امبرکہتی ہوئی باہر نکل گئی۔ السلام علیکم بڑے ابا جان ! ان کو سلام کر تی ہوئی ان کے بستر پر بیٹھ گئی۔ وعلیکم السلام بیٹی کیسی ہو؟ ٹھیک ہوں بڑے ابا جان! آپ کو کوئی کام تھا، مجھے آ پ نے بلا یا؟نہیں کوئی کام نہیں ہے مگر یہ بتاوٴ اتنی اداس کیوں نظر آ رہی ہو اور تم آج میرے پاس کیوں نہیں آئیں ؟ انہوں نے پوچھا۔بڑے ابا جان ! در اصل وہ میں۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سکول میں کوئی بات ہوئی ہے، کیا ہوا بھئی پھر کسی سے جھگڑا ہو گیا؟ انہوں نے پیار سے پوچھا۔ بس اب میں سکول نہیں جاوٴں گی ، سب میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس نے رونا شروع کردیا۔ ارے بھئی اس میں رونے کی کیا بات ہے ، بڑے ابا نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ میں بد صورت ہوں؟ کا لی ہوں اسب مجھ سے نفرت کرتے ہیں بڑے ابا جان! کیا میں بہت بُری ہوں؟ روتے ہوئے آخر میں اس نے سر اٹھا کر معصومانہ انداز میں پوچھا۔بیٹی! تم بہت پیاری اور اچھی بچی ہو۔ بڑے ابا جان نے اس کے ماتھے پر بکھرے ہوئے بال سمیٹ کر اوپر کئے۔ پھر میری شکل اتنی بری ہے؟ اس نے ادا سی سے پوچھا۔ نہیں بیٹی! اللہ تعالی نے ہر انسان کو بہت محبت کے ساتھ بنایا ہے، انسان اچھا برا نہیں ہوتا بلکہ اس کے کام اچھے اور بُرے ہوتے ہیں ، جن کی شکلیں اچھی اور رنگ بھی گورا ہوتا ہے مگر ان کے کام اچھے نہیں ہوتے مگر دل اندر سے سیاہ ہوتا ہے۔ایک اور بات بتا ؤں؟ انہوں نے اس کے گالوں پر پھیلے آنسو صا ف کئے اوردوبارہ کہنے لگے۔ جب اللہ کسی انسان میں کوئی خامی پیدا کرتا ہے تو بہت سی خوبیوں سے بھی نوازتا ہے۔ اب تم اپنے آپ کو دیکھو تمہاری آواز بہت خوبصورت ہے ،تمہیں چاہئے کہ قرات اور نعت وغیرہ کے مقابلوں میں حصہ لو تم نے مجھے اپنی لکھی ہوئی کچھ کہانیاں دکھائی تھیں، و ہ دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ تم میں کہانیاں لکھنے کی صلاحیت بھی ہے تمہیں گھر کے کام سیکھنے کا بہت شوق ہے تم ہمیشہ صاف ستھری رہتی ہو تم ذہین ہو اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں تم سانولی رنگت پہ نہ جاؤ۔بڑے ابا نے اس کی صلاحیتوں کے بارے میں اسے تفصیل سے بتایا۔ وہ تو ٹھیک ہے بڑے ابا جان ! مگر جب میں کلاس میں کچھ پڑھنے کے لئے کھڑی ہوتی ہوں تو سب میرامذاق اُڑانے لگتے ہیں، میں قرات اور نعت کیسے پڑھ سکتی ہوں؟وہ الجھتے ہوئے بولی۔ دیکھوسحر اب یہ کام تو تمہیں خود کرنا ہے کہ اپنے اند رخود اعتمادی پیدا کرو، تمہا را مذاق اُڑاتا ہے تو اڑانے دو، جو کسی دوسرے کا مذاق اڑاتے ہیں انہیں خود اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ یہ سب چیز یں اللہ کی بنائی ہوئی ہیں ، تم ایسے بچوں سے خوف نہ کھایا کرو ، بلکہ انہیں بھی سمجھایا کرو،ایک بات اور وہ یہ کہ شکر کیا کرو اللہ نے تم میں کوئی معزوری پیدانہیں کی ، تمہیں کسی کامحتاج نہیں کیا۔بڑے ابا جان ! میں آپ کی باتوں پرعمل کرنے کی کوشش کروں گی۔ وہ اٹھنے لگی۔ بڑے ابا جان تصورات ہی میں اپنی پیاری بھتیجی کو اعلی مقام پر دیکھ رہے تھے اور اس خواب کے پوراہونے کی دعا ما نگ رہے تھے۔ " آخری ادھار - تحریر نمبر 1109,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/akhri-udhaar-1109.html," " لکڑی کے سپاہی - تحریر نمبر 1108,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lakri-ke-sipahi-1108.html," " بھولا ہوا سبق - تحریر نمبر 1107,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhola-huwa-sabaq-1107.html," " مکارمکڑا - تحریر نمبر 1105,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/makar-makkri-1105.html," " سفید بکری - تحریر نمبر 1104,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/safaid-bakri-1104.html,"وہ گرمیوں کی ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی۔ سب سڑکیں، گلیاں سنسان ہوگئی تھیں۔ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے لوگ اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے۔ ایسے میں عزیز کی منزل میں چندبچے سیڑھیوں کے نیچے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ سب کی نظر میں کھلے دروازے پرلگی تھیں۔ کچھ دیر بعد ایک بکری دروازے سے اندر داخل ہوئی اوراِدھر اُدھرد دیکھتی ہوئی صحن کی طرف چلی گئی۔سیڑھیوں کے نیچے چھپے بچے ایک دم باہر نکل کر دروازے کی طرف بھاگے اوردروازے کو اندر سے بند کر دیا۔ بکری گھبرا کر ادھراُدھر بھاگی ایک بچہ چھلانگ لگا کر بکری پر سوار ہو گیا۔ ایک بچے نے چھڑی سے بکری کو مارا۔ بکری بھاگی تو سب بچے شور مچاتے اس کے پیچھے بھاگے۔عزیز کی منزل میں ہر روز یہ تماشا ہوتا تھا۔ گرمی کی ستائی کوئی بکری وہاں پناہ لینے آجاتی تو شریر بچوں کے ہتھے چڑھ جاتی۔(جاری ہے)بچے جی بھر کے بکری پر سواری کرتے ،کبھی وہ اس کا دودھ بھی نکال لیتے۔عزیزی منزل کے سامنے بڑا سا پلاٹ برسوں سے خالی پڑا تھا۔ اب یہاں ایک پلازہ بن رہا تھا۔ بہت سے خانہ بدوش یہاں مزدوری کرتے تھے۔ انھوں نے کھلے میدان میں اپنی جھونپڑیاں بنالی تھیں۔ ان خانہ بدوشوں کی عورتیں بھی مزدوری کرتیں،ننگ دھڑ نگ بچے سارادن میدان میں کھیلتے رہتے۔انہی خانہ بدوشوں کی بکریاں گرمی سے گھبرا کر عزیز کی منزل میں آ جاتیں اور پھر بچے ان کابرا حشر کردیتے۔ایک دوپہر بچے حسب عادت گھات لگائے بیٹھے تھے کہ ایک بکری اندر آئی۔ بکری کے سارے جسم پر چاندی جیسے سفید بال تھے۔ بچوں نے نعرہ لگایا اور دو بچے اِکٹھا بکری پر سوار ہو گئے۔ ایک بچے نے جیسے ہی بکری کی دُم پکڑ کے زور سے کھینچی ، بکری ایک دَم اچھلی۔بکری کے اوپر بیٹھے دونوں کے بچے گر پڑے۔ اچانک بکری کا قد بڑھنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بکری کا قد ایک گائے کے برابر ہو گیا۔ یہ دیکھ کربچے خوف زدہ ہو گئے اور گھبرا کر وہاں سے بھاگنا چاہا مگر بکری نے کسی بچے کو بھاگنے کا موقع نہیں دیا۔ اس نے سر جھکایا اور ایک بچے کو زور سے ٹکر مار دی۔ بچے اُچھل کر دور جا گرا۔ بکری نے اپنی اگلی ٹانگوں سے دو بچوں کو دھکیل دیا۔جیسے ہی کوئی بچہ بھاگنے کی کوشش کرتا، بکری اسے ٹکر مار کر گرادیتی اورپھر اپنے کھروں سے کچل دیتی۔ بکری نے مار مار کر ان شریر بچوں کا برا حال کر دیا۔ جب بچے پے در پے لگنے والی چوٹوں سے نڈھال ہو کر گر پڑے تو بکری کا قد چھوٹا ہونے لگا۔ جب اس کا قد عام بکری جتنا ہو گیا تو وہ چپکے سے باہر نکل گئی۔بچوں کی چیخیں سن کر گھر کے بڑے جاگ اٹھے۔ جب وہ وہاں پہنچے بچے درد سے کراہ رہے تھے۔بڑوں کے پوچھنے پر بچے خوف کے مارے کچھ نہ بتا سکے۔جس وقت عزیزی منزل میں یہ تماشا ہوا، کچھ راہ گیر محلے داروں نے ایک سفید داڑھی والے بزرگ کو عزیزی منزل سے نکلتے دیکھا۔ ان بزرگ کے بال چاندی کی طرت سفید تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ بزرگ کون تھے مگر وہ عزیز ی منزل کے بچوں کو ایسا سبق دے گئے تھے کہ آئیندہ وہاں پناہ لینے والی کسی بکری کو کسی بچے نے تنگ نہیں کیا۔ " زندہ مشینیں - تحریر نمبر 1103,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zindah-mashinain-1103.html,"تزئین کے نزدیک یہ ایک عجیب واقعہ تھا، جو اس نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا۔ تاریخ سترہ مئی 2454ء تھی۔ اس نے لکھا: ”آج معاذ کو ایک ایسی چیز ملی ہے، جسے کسی زمانے میں کتاب کہتے تھے۔ وہ ایک بہت ہی پرانی کتاب تھی۔تزئین کے دادا نے ایک دفعہ اپنے چین کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کے دادا کے زمانے میں تمام تحریریں کاغذ پر چھپا کرتی تھیں۔تزئین اور معاذ نے کتاب کے اوراق کئی دفعہ اُلٹ پلٹ کر دیکھے۔ تمام اوراق پیلے اور بوسیدہ ہو چکے تھے۔ وہ حیرانی سے ورق پلٹ رہے تھے، کیوں کہ ان کے لیے یہ بہت حیران کن تھا۔معاذ بولا:” اس زمانے میں کاغذ کی کتاب بنانا تونری پیسوں کو ضائع کرنے والی بات ہوگی۔ مجھے لگتا ہے، جب کوئی ایک دفعہ اس طرح کی کتاب والی تحریر کو پڑھ لیتا ہوگا تو وہ کتا ب پھینک دیتا ہو گا۔(جاری ہے)ہمارے کمپیوٹر کی اسکرین میں تو ایسی لاکھوں تحریریں محفوظ ہیں اور کمپیوٹر کی یادداشت اتنی ہی اور کتابی تحریروں کو بھی محفوظ کرسکتی ہے۔تزئین گیارہ سال کی تھی۔ وہ ابھی کمپیوٹر اسکرین پراتنی کتابی تحریریں نہیں پڑھ سکتی تھی جتنی معاذ پڑھ چکا تھا، کیوں کہ وہ تیرہ سال کا تھا۔ تو میں نے پوچھا: معاذ تمھیں یہ کتاب کہاں سے ملی ہے؟ معاذ نے دیکھے بغیر اشارہ کرتے ہوئے کہا:کباڑیے سے ، شایدعجائب گھر والوں میں سے کسی نے بیچ دی ہو۔“وہ بدستور کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔ تزئین نے پوچھا: کس موضوع پر ہے؟“ معاذ بولا:” یہ اسکول کے متعلق ہے۔“تزئین تعجب سے بولی: اسکول ؟ وہ اسکول جو دادا کے بچپن میں کسی عمارت میں ہوا کرتے تھے۔ اس کے بارے میں لکھنے والی کیا بات ہوسکتی ہے؟ ہمار امشینی استادتو ہمارے گھر کے اندر ہی ہوتا ہے۔“ پچھلے چند دنوں سے اس کا مشینی استاد جغرافیہ کا مضمون پڑھاتے ہوئے اس کے امتحان پر امتحان لے رہا تھا اور ہر امتحان کے بعد اس کا نتیجہ خراب سے خراب تر ہوتا جارہا تھا۔۔ حتیٰ کہ امی نے ایک دن اسے پکڑ کر جھنجوڑا اور پھر اسے قصبے کے انسپکٹر کے پاس لے گئیں۔ وہ ایک سرخ چہرے والا گول مٹول شخص تھا، جس کا کمرا چھوٹے چھوٹے اوزاروں ، برقی تاروں اور مختلف جسامت کے ڈبوں سے بھرا پڑا تھا۔ وہ تزئین کو دیکھ مسکرایا اور کھانے کے لیے ایک سیب د یا۔ پھر انسپکٹر نے تزئین کے مشینی استاد کو،جس کے چہرے کی جگہ ایک بڑی سی کالے رنگ کی اسکر ین لگی ہوئی تھی ، منٹوں میں اُدھیڑ کررکھ دیا۔انسپکٹر نے ایک گھنٹے میں ہی روبوٹ استاد کو دو با رہ جوڑ دیا۔ حالانکے تزئیں خواہش تھی کہ کاش ، انسپکٹرکو بھی اسے جوڑ نا نہ آ تا ہوتا۔ لیکن مشینی استاد کے چہرے پرلگی ہوئی اسکرین پر فورا ہی اس کے سبق کے لکھے ے ہوئے آنے لگے اور ساتھ سبق کے متعلقہ ہدایت بھی۔اس سارے سبق سے تزئین کو اتنی چِڑنہیں جتنی گھر میں بیٹھ کر گھریلو کا م سے، جو اسے استاد کے سبق دینے کے بعد کرنا ہوتا تھا۔اسے یہ سارا ہوم ورک اسکرین کے نیچے لگی ہوئی ایک سلیٹ پرمشینی قلم سے لکھنا پڑتا تھا۔ روبوٹ استادا سے فورا نتیجہ بتا دیتا تھا۔ جواب غلط ہوتا تو اتنی زور سے گھنٹی بجتی کہ امی اپنے کمرے سے باہر نکل کر پوچھتیں، کون سا جواب غلط ہے۔ انسپکٹر اپنا کام مکمل کر کے دو بار مسکرایا اور پیار سے تزئین کے سر کو تھپتھپایا، پھر اس نے تزئین کی امی سے کہا: تزئین کا قصور نہیں تھا، بلکہ اس مضمون کے اگلی جماعتوں کے اسباق اسکرین پر سے گزرنے لگے تھے۔کئی دفعہ کمپیوٹر میں اس طرح کی فنی خرابی ہو جاتی ہے۔ میں نے اسباق کو تزئین کی ذہنی سطح کے مطابق کر دیا ہے۔ اب تزئین کو جغرافیہ کے مضمون سے کو ئی مشکل نہیں ہو گی ،، ایک دن معاذ نے تزئین کو پھر اس کتاب کے بارے میں بتایا : جس اسکول کا ذکر اس کتاب میں ہے، وہ کئی صدیوں پہلے ہوا کرتے تھے۔ صدیاں پہلے کیاسمجھیں؟ تزئین نے کہا: ’واقعی مجھے صدیوں پہلے کے اسکولوں کے بارے میں مکمل پتا نہیں،لیکن یہ بات تو میں بھی سنی تھی کہ تب اسکولوں میں استاد ہوا کرتے تھے، جو پڑھاتے تھے۔‘ معاذ نے بتایا:” وہ آج کل کی طرح مشینی استاد نہیں ہوتے تھے، بلکہ انسان ہوا کرتے تھے۔“ تزئین حیران ہوتے ہوئے بولی :’انسان؟ انسان استاد کیسے ہو سکتے ہیں؟ ان کی یادداشت کمپیو ٹر جتنی کیسے ہوسکتی ہے؟ معاذ بولا:” وہ بچوں کو سبق پڑھایا کرتے تھے۔ انھیں گھر میں کرنے کو کام دیتے تھے اور سوالوں کے جواب پوچھتے تھے۔“ تزئین نے پوچھا: ” لیکن انسان تو ذہانت میں مشین کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔میں یہ ہرگز نہیں کروں گی کہ کوئی اجنبی شخص میر سے گھر آ کر بیٹھ جائے۔ یہ سن کر معاذ ہنسنے لگا ، پھر بولا : ارے ، وہ استاد گھروں میں ہمارے مشینی انسانوں کی طرح رہتے نہیں تھے۔ اسکولوں کے لیے علیحدہ عمارتیں ہوتی تھیں۔ جہاں طالب علم بچے پڑھنے جایا کرتے تھے۔ تزئین نے حیرت سے پوچھا : کیا سبھی بچے ایک طرح کے سبق پڑھتے تھے؟ معاذ نے بتایا:'ہاں، ایک جماعت کے بچے ایک طرح کا سبق پڑھتے تھے۔تزئین بولی:” لیکن امی تو کہتی ہیں کہ ہمیں استادوں کو ایک مخصوص طرح سے سیٹ کرنا پڑتا ہے تا کہ وہ بچوں کو سبق پڑھا سکیں اور ہر بچہ مختلف سبق پڑھتا ہے بچوں کا جو پڑھنے کو دل چاہتا ہے،مشینی استاد کوو یسی ہدایت کر دی جاتی ہے۔ معاذ بولا:'' تم چاہو تو بے شک ان پرانے اسکولوں کے بارے میں بھی نہ پڑھوتزئین جلدی سے بولی:” میں نے کب کہا کہ مجھے پرانے اسکولوں کے بارے میں پڑھناپسند نہیں۔میں ان پرانے عجیب و غریب اسکولوں کے بارے میں ضرور پڑھوں گی۔ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ان کی امی کی آواز گونجی تزئین اسکول کاوقت ہو گیا۔تزئین کا اسکول اس کے سونے والے کمرے کے برابر تھا۔تزئین کے اسکول کا روز انہ یہی وقت تھا ماسوائے ہفتہ اور اتوار کے۔ وہ بیٹھی تو اسکر ین روشن ہوگئی اور اس سے آواز آئی:آج ہم حساب میں کسروں کا سبق پڑھیں گے۔مہربانی فرماکراپناکل کا کام مجھے دکھاؤ! تزئین کے منہ سے بے اختیار ایک ٹھنڈی سانس نکلی۔ وہ انہی پرانے اسکولوں کے بارے میں سوچ رہی تھی ، جن کے بارے میں اس کے دادا کے دادا با تیں کرتے تھے۔ پاس پڑوس کے سارے بچے جہاں پڑھنے جایا کرتے تھے۔ وہ اسکول کے صحن میں اونچا ہنستے تھے ، شور مچاتے تھے۔ اپنی اپنی جماعتوں میں اکٹھا بیٹھتے تھے اور پھر چھٹی کے وقت اکٹھا گھروں کو جاتے تھے۔وہ سب ایک جیسا سبق روز پڑھتے تھے۔ اس لیے اسکول کا کام کرتے ہوئے گھروں پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے اور آپس میں باتیں بھی اور ہمدردی جیسی خوب صورت صفت لکھنے والے اساتذہ بھی انسان تھے۔ اُدھر روبوٹ استاد کی اسکرین پر لکھا جار ہا تھا:'' جب ہم دوکسروں کو جمع کرتے ہیں …… تزئین سوچ رہی تھی کہ پہلے سب لوگ ایک دوسرے سے کتنی محبت کرتے ہوں گے۔ بچوں کو اسکول جانے میں انھیں کتنی خوشی ملتی ہوگی۔ انسان ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں ، ایک دوسرے کی مدد کر تے ہیں اور زندگی کا مزہ لیتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ مصنوئی مشینی زندگی گزار رہے ہیں۔ لگتا ہے، جیسے ہم خود بھی زندہ مشینیں ہیں کاش! میں اسی دور میں پیدا ہوئی ہوتی ، کاش! " دوستی کا پھل - تحریر نمبر 1097,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dosti-ka-phul-1097.html," " جیسا کرو گے - تحریر نمبر 1096,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jaisa-kro-gay-1096.html," " منحوس کون - تحریر نمبر 1093,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/manhoos-kon-1093.html," " خوددار - تحریر نمبر 1091,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khodar-1091.html," " نمکین لیموں - تحریر نمبر 1090,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/namkin-lemo-1090.html," " "سلطان کا عدل - تحریر نمبر 1088",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sultan-ka-adal-1088.html," " حقیقت - تحریر نمبر 1081,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/haqiqat-1081.html," " برکت - تحریر نمبر 1079,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/barkat-1079.html," " ننھا بہادر - تحریر نمبر 1075,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanna-bahadur-1075.html,"محمد فاروق دانش:جنگ جاری تھی فوج میں میری ڈیوٹی کرنل صاحب کے ساتھ تھی انہوں نے اگلے مورچوں کے لیے ایک انفنٹری (فوج کا پیادہ دستہ)کے ساتھ بارڈر پر جانے کا حکم دیا جونہر سے زیادہ دور نہیں تھا اس وقت تیز بارش اور موسم کی خرابی کے سبب وہاں نظام زندگی مفلوج ہوچکا تھا نہر کے مضافات کے تمام دیہات خالی کرالیے گئے تھے لیکن سرحد کے قریب ایک گوالا اپنے مال مویشیوں کی نگرانی کے سبب اپنے خاندان والوں کے ساتھ نہ جاسکا اور وہیں رک گیا تھا اس کا تیرہ سالہ بیٹا بھی اپنے باپ کی مدد کرنے کے ارادے سے یہاں رُک گیا دونوں باپ بیٹا دن بھر مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے اور دودھ نکال کر شام کو شہر روانہ کیا کرتے تھے بیٹا تمام کاموں میں والد کی مدد کرتا اوردن بھر باپ کے ساتھ مصروف رہتا۔(جاری ہے)پہلے روز جب ہم لوگ نہر کے کنارے مورچے بناکر تھک گئے تواس گوالے اور اس کے بیٹے نے ہمیں دودھ پلا کر تازہ دم کردیا ان کے گاؤں واپس لوٹنے کے کچھ ہی دیر بعد دشمن کے توپ خانے سے نہر پار گولے آکر گرنے لگے ہمارا توپ خانہ یہاں سے دور تھا اسے جلد آگے لے جانے کے لیے ایک جیپ موجود تھی جس میں‘میں بھی سوار تھاہم توپ خانہ لے کر نہر کی سمت روانہ ہوئے لیکن راستہ ہمارے لیے نیا تھا اس لیے ہماری جیپ کاایک پہیا گڑھے میں پھنس گیا بارش کے سبب ہونے والی پھسلن کی وجہ سے گاڑی کو گڑھے سے نکالنا مشکل ہورہا تھا وائر لیس پر خبر ملی کہ دشمن کے ایک دستے نے نہر پار کرلی ہے اور ان کے ٹینک نہر کے پشتوں کو توڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں دشمن اچانک اور ہماری توقع سے کہیں زیادہ شدت والا تھا اس لیے جب کیپٹین نے تمام تر صورتحال سے کرنل صاحب کو آگاہ کیا تو وہاں سے فوری طور پر ایک اور انفنٹری اور توپ خانہ روانہ کردیا لیکن طویل مسافت اور موسم کی خرابی کی وجہ سے ان کے نہر پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ سکتے تھے۔اس پریشانی کے عالم میں ہم نے دیکھا کہ گوالے کا بیٹا لکڑی کا ایک مضبوط تختہ رسے سے باندھے چلا آرہا ہے یہ تختہ کافی مضبوط تھا ہم ساتھیوں نے مل کر اس تختے کو جیپ کے نیچے دبا دیا اور جیپ کی رفتار بڑھائی جیپ ایک جھٹکے سے باہر نکل آئی ہم نے اس دانش مندی کا مظاہرہ کرنے اورمشکل میں ہماری مدد کرنے پر بچے کو شاباش دی اور مورچے کی طرف روانہ ہوگئے پیچھے سے بچے کی آوازآئی ایک اور چیز ہے جو میں آپ کو دکھانا اس نے ہمیں روک کر یہ بات کہنے کی کوشش کی لیکن جلد سے جلد پہنچنے کی وجہ سے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا اور تیزی سے نہر کی جانب روانہ ہوگئے نہر کے قریب ہمارے ساتھی منتظر تھے انہوں نے چند لمحوں میں دشمن پر گولے برسانا شروع کردیے جس کی وجہ سے دشمن کے درجنوں ٹینک آگ کی لپیٹ میںآ گئے اور آگے نہ بڑھ سکے دشمن کے کچھ فوجی اب بھی ہمارے مورچوں پر قابض تھے جہاں سے وہ ہمارے فوجیوں پر مسلسل فائرنگ کرر ہے تھے ۔جیسے جیسے رات گہری ہوتی جارہی تھی ہمارے لیے دشمن کے زیر قبضہ مورچے ایک چیلنج بنتے جارہے تھے کیپٹین نے پیدل دستے کو چند ٹولیوں میں بانٹ دیا اور الگ الگ سمتوں سے دشمن پر حملے کرنے کا حکم دیا اور خو دایک دستے کے ساتھ مورچے کی پشت پر پوزیشن سنبھال لیں اسی دوران دشمن کو مخالف سمت سے تازہ کمک مل گئی جس کے سبب اگلے مورچے میں ہمارے ساتھیوں کو زیادہ دیر ٹھہرنا مشکل دکھائی دے رہا تھا دشمن سے اپنے مورچے خالی کرانے کی کوشش میں ہمارے کئی ساتھی مارے گئے صورتحال کی نزاکت کو دیکھ کر کیپٹین نے ہمیں پیچھے جانے کی ہدایت کردی لیکن ہمارے حوصلے بلند تھے اور ہم نے دشمن کو آگے نہ بڑھنے دینے کا عزم کر رکھا تھا اپنے ساتھیوں کی جدائی نے ہمیں دیوانہ بنادیا تھا دستے میں شامل تمام فوجی دشمن پر تابڑ توڑ حملے کررہے تھے لیکن کیپٹین کا حکم ماننا ضروری تھااس لیے ہم ایک ایک کرکے اپنی پوزیشن خالی کرتے ہوئے پچھلے مورچو ں میں آگئے اسی دوران میری نظر دائیں جانب نہر کے آخری پشتے پر پڑی جہاں ایک بچہ ایک بڑا سا توپ کا گولا تھامے کھڑا تھا میں نے پہچاننے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ وہ گوالے کا لڑکا تھا لڑکے نے اس بڑے سے گولے کو ایک رسے سے باندھا اور گھسیٹتا ہوا دشمن کے مورچوں کی طرف لے جانے لگا مجھے اس کی بہادی اور جرأت پر حیرت اور تشویش ہورہی تھی میں اسے آواز دے کر اسے اس گولے سے دور رہنے کا کہنا چاہتا تھا لیکن گولیوں کی گھن گرج کے سبب میری آواز اس تک پہنچنا ممکن نہ تھی میں دل ہی دل میں اس کی سلامتی کی دعا کرنے لگا اور بار ہاتھ ہلا کر اسے واپسی چلے جانے کا اشارہ بھی کیا لیکن اس سے قبل کہ میں اس کی مدد کے لیے اس کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتا لڑکے نے گولے پر بندھا رسا کھول دیا اور اسے دشمن کے مورچوں کی طرف لڑھکا دیا ڈھلان کی وجہ سے یہ گولا تیزی سے دشمن کے مورچوں کی طرف بڑھنے لگا جب کہ لڑکا لپک کر نہر کے پشتے کی دوسری سمت غائب ہوگیا۔یہ گولا غالباً دشمن کے ٹینک سے پھینکا گیا تھا جو گوالے کے گاؤں کے باہر جاگرا اور پھٹ نہ سکا اور اسی گولے کی جانب لڑکے نے ہماری توجہ دلانا چاہی تھی لیکن جانے کی جلدی میں ہم نے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا خیر یہ اچھا ہوا کہ یہ گولا پھٹا نہیں ورنہ گوالے کے گاؤں میں ہر طرف آگ بھڑک اُٹھتی۔گولا تیز رفتاری سے ڈھلان پرلڑھکتا ہوا دشمن کے مورچوں میں جاگرا اور اس زور سے پھٹا کہ دشمن فوجیوں کے پرخچے اُڑگئے اور دیگر مورچوں سے بھی دشمن فوجی نکل نکل کر فرار ہونے لگے پھر کیا تھا وہ سارے کے سارے ہمارے نشانے پر آچکے تھے اور ایک ایک کرکے ہماری گولیوں کی زد میں آکر میدان میں گرتے گئے ہمارے ساتھیوں نے مورچوں سے نکل کر ایک بھرپور حملہ کیا دشمن کی فوج گھبرا کر نہر سے قبضہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور ٹینک بھاری تعداد میں اسلحہ گولہ بارود وغیرہ چھوڑ کر فرار ہوگئے۔گوالے کے لڑکے کی اس بہادری نے تو ہم سب کو حیرت میں مبتلا کردیا تھا اس کے اس بروقت اور جرات پر مبنی کارنامے کو ہر ایک نے ہی سراہا ہمارے کمانڈر نے اسے فتح و کامرانی کا جھنڈا دیا اور جنگ بند ہونے کے بعد ہونے والی ایک شان دار تقریب میں اس کے والد کو بھی تمغے سے نوازا لڑکے کے شوق کو دیکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے اسے فوج میں داخلہ دے دیا گیا اس نے وہاں محنت سے تعلیم حاصل کی اس کے بعد گریجویشن کرکے فوج میں چلا گیا اور کرنل کے عہدے تک جا پہنچا۔ " پانچ ہم شکل بھائی - تحریر نمبر 1073,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/panch-humshakal-bhai-1073.html,"احمد عدنان طارق:پرانے وقتوں میں سمندر کے کنارے ایک گاؤں تھا جس میں ایک بوڑھی عورت اپنے پانچ جوان بیٹوں کے ساتھ رہا کرتی تھی اس کے پانچوں بیٹوں کی شکلیں ایک جیسی تھیں جیسے مٹر کے دانوں میں پہچان نہیں ہوسکتی اس طرح ان کو بھی کوئی پہچان نہیں کرسکتا تھاکون سا بھائی ہے قدرت نے انہیں مختلف خوبیوں سے نوازرکھا تھا سب سے بڑا بھائی اپنے منہ میں پورے دریا کا پانی بھر سکتا تھا دوسرے بھائی کی گردن فولاد جیسی تھی تیسرا بھائی اپنی ٹانگیں جتنی لمبی کرنی چاہے کرسکتا تھا چوتھا بھائی آگ کی بے پنا تپش برداشت کرسکتا تھا پانچویں بھائی میں صلاحیت تھی کہ وہ سانس لیے بغیر کئی گھنٹے تک زندہ رہ سکتا تھا۔بڑا بھائی اکیلا دریا کے کنارے جاتا اور بے شمار مچھلیاں پکڑ کر گھر لاتا مچھلیاں فروخت کرکے دوسرا سامان لے آتا اس طرح سارے خاندان کا وہی پیٹ پالتا تھا یہ سارے بھائی اپنی یہ خوبیاں کسی کو نہیں بتاتے تھے تاکہ لوگ انہیں عجیب نہ سمجھے سارے گاؤں کے لوگ بڑے بھائی کی خوشامد کرتے کہ وہ ان کے بچوں کو بھی وہ طریقہ بتادے جس سے وہ اتنی زیادہ مچھلیاں پکڑلیتا ہے وہ ہمیشہ انہیں یہ راز بتانے سے انکار کردیتا ایک دن گاؤں والوں کو ضد کے آگے اسے ہتھیار ڈالنا پڑے اس نے گاؤں کے کئی لڑکوں کو ساتھ لیا اور دریا کی طرف چل دیا تاکہ وہ انہیں ڈھیر ساری مچھلیاں پکڑنے کا طریقہ سمجھائے جب وہ سب دریا کے کنارے پہنچے تو بڑے بھائی نے دریا کا پانی اپنے منہ میں بھر لیا صرف اتنا پانی رہ گیا کہ مچھلیاں تیر کر دور نہ جاسکیں پھر اس نے لڑکوں کو اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ جتنی چاہیں مچھلیاں پکڑ لیں لڑکے بھاگ کے دریا میں اُتر گئے لڑکوں کو دریا کی تہہ میں بہت خوب صورت رنگوں والے گھونگھے بھی دکھائی دیے وہاں بہت سے خوب صورت سیپیاں اور قیمتی پتھر بھی پڑے ہوئے ملے وہ مچھلیوں کی بجائے انہیں اکٹھا کرنے لگے انہوں نے پتھروں سے اپنی جھولیاں بھرلیں جب کچھ دیر ہوگئی تو بڑ ابھائی پانی کومنہ میں بھرے ہوئے بہت تھک گیا اس نے وہ لڑکوں کو اشارے کرنے لگاکہ وہ جلدی دریا کے کنارے واپس آجائیں لیکن وہ تو دریا کے اس خزانے کو جمع کرنے میں اتنے مصروف تھے کہ انہوں نے بڑے بھائی کے اشاروں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور دریا کی سطح پر آگے ہی آگے بڑھتے رہے بڑا بھائی تنگ آکر زور زور سے ہاتھ ہلانے لگا لیکن پھر بھی گاؤں کے لڑکوں نے جان بوجھ کر اس کی طرف نہ دیکھا آخر جب بڑے بھائی کو محسوس ہوا کہ وہ اب دریا کا پانی منہ میں نہیں سنبھال سکتا تو اس نے سارا پانی واپس دریا میں انڈیل دیاگاؤں کے سارے لڑکے اپنی لالچ کی وجہ سے دریا میں ڈوب گئے جب بڑا بھائی گھر پہنچا اوران لڑکوں کے ماں باپ نے اس سے پوچھا کہ ان کے بچوں نے کتنی مچھلیاں پکڑی ہیں اوروہ کب گھر آئیں گے بڑا بھائی بہت افسردہ تھا اس نے پڑوسیوں کو سارا واقعہ سنایا اور انہیں یقین دلانے کی کوشش کی ۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷۷کہ اس افسوس ناک واقعے میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے اس نے سب کو بتایا کہ کس طرح نے لڑکوں کی منت کی کہ وہ واپس آجائیں لیکن انہوں نے اس کا کہنا نہیں مانا اسے مجبوراً پانی دریا میں دوبارہ ڈالنا پڑا ویسے بھی وہ اتنا پانی کہیں اور نہیں پھینک سکتا تھا لیکن گاؤں والے بہت غصے میں تھے انہوں نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا۔(جاری ہے)گاؤں والے نے اسے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے گاؤں کے مکھیا کے پاس لے گئے مکھیا کو ساری بات بتائی تو اس نے فیصلہ کرتے ہوئے بڑئے بھائی سے کہا تم اپنی ذمہ داری پر لڑکوں کو ساتھ لے کر گئے تھے تو یہ تمہاری ہی ذمے داری تھی کہ انہیں واپس بھی لاتے اس لیے سزا کے طور پر کل تمہاری گردن کاٹی جائے گے یہ سن کر بڑے بھائی نے مکھیا سے درخواست کی کہ مرنے سے پہلے وہ ایک دفعہ اپنی بوڑھی ماں سے ملنا چاہتا ہے تواس نے اجازت دے دی بڑا بھائی گھر آیا اور آکر سارا معاملہ بھائیوں کو سنایا اس کے چھوٹے بھائی جس کی گردن فولاد کی بنی ہوئی تھی اس نے کہا تم اپنی جگہ مجھے جانے دو کسی کو پتا نہیں چلے گا تم ہو یا تمہاری جگہ میں ہوں کیوں کہ ہماری شکلیں اتنی ملتی جلتی ہے اور کسی بھی صورت وہ میری گردن نہیں کاٹ سکیں گے اگلے دن چھوٹا بھائی مکھیا کی عدالت میں گیا اور کہنے لگا جناب بہت شکریہ آپ نے مجھے میری ماں سے ملنے کی اجازت دی بس اب مرنے کے لیے تیار ہوں پھر چھوٹا بھائی اس لکڑی کے ٹکڑئے کے پاس بیٹھ گیا اور اپنی گردن اس لکڑی کے ٹکڑئے پر رکھ لی تب جلاد نے اپنی تیز دھار تلوار سے اس کی گردن پر وار کیا لیکن تلوار اس کی گردن پر لگ کر اُچٹ ہوگئی گردن پر کوئی اثر نہ ہوا یہ دیکھ کر فوراً ایک اور تلوار منگوائی گئی جو زیادہ تیز تھی اور پھر ایک اور تلوار لیکن ہر دفعہ پھروہی ہوا جو پہلے ہوچکا تھا کوئی تیز دھار تلوار اس کی فولادی گردن کو نقصان نہ پہنچا سکی بلکہ اس کی دھار کندہوگئی آخر جھنجھلایا ہوا جلاد اسے واپس مکھیا کے پاس لے گیا اور کہنے لگا محترم اس کی گردن کاٹنا ناممکن ہے کیوں کہ اس کی گردن فولاد کی طرح مضبوط ہے۔منصف نے نیا حکم سنایا کل اس شخص کو سمندر میں پھینک دیا جائے یہ فیصلہ چھوٹے بھائی نے سنا اس نے کہا جناب میں آج ماں کو الوداع کرآیا تھا لیکن کیوں کہ مجھے کل سمندر میں ڈبویا جائے گا تو مجھے دوبارہ ماں کو ملنے کی اجازت دی جائے ۔مکھیا نے پھر اسے اجازت دے دی بھائی گھر واپس آیا اورانہوں نے دوبارہ مشورہ کیا یہ سن کر وہ بھائی جو اپنی مرضی سے اپنی ٹانگیں لمبی کرسکتا تھا اس نے کہا صبح میں جاؤں گا لہٰذا اگلے دن تیسرا بھائی عدالت پہنچا کسی کو بھائیوں کی تبدیلی کا علم نہ ہوسکا مکھیا کے حکم پر کچھ لوگ اسے کشتی میں بٹھا کر سمندر کے بیچ لے گئے اور اسے سمندر میں پھینک دیا لیکن ڈوبنے کی بجائے تیسرے بھائی نے اپنی ٹانگیں اتنی لمبی کرلیں کہ وہ سمندر کی تہ کو چھونے لگیں اب اس کا سر پانی سے باہر تھا اس نکال کر پھر کشتی میں بٹھایا اور مزید گہرے سمندر میں لے جایا گیا لیکن اس کی ٹانگیں سمندر کی گہرائی جتنی لمبی ہوتی گئیں اس طرح وہ ڈوب نہیں پایا اسے ایک دفعہ پھر مکھیا کے سامنے پیش کیا گیا اس دفعہ مکھیا نے حکم دیا کہ اسے اُبلتے ہوئے تیل میں پھینک دیا جائے ایک بڑی دیگ میں تیل ڈال کر اسے گرم کیا جانے لگا تو اس نے ایک دفعہ پھر مکھیا سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی ماں کو مل کر بتا سکتا ہے کہ وہ ابھی زندہ ہے مکھیا مان گیا جب اس کے بھائیوں نے مصنف کا یہ فیصلہ سنا تو چوتھے بھائی جسے آگ نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی اس نے کہا کہ سزا وہ جھیلے گا پھر جب تیل کڑکنے لگا تو چوتھے بھائی کو تیل میں پھینک دیا گیا وہ اس بڑی دیگ میں یوں تیرنے لگا جیسے کسی ٹھنڈے پانی کی جھیل میں وہ کہنے لگا آگ اور تیز کرو یہ تیل تو گرم ہی نہیں ہوا جب جلاد کو یقین ہوگیا کہ آگ اس کا کچھ نہیں بگاڑ تی تو وہ اسے دوبارہ مکھیا کے پاس لے گئے مکھیا نے سارا معاملہ سن کر سارے گاؤں کی پنچائت بلالی کہ اب کیا کیا جائے؟تب سے نے فیصلہ کیا کہ اس مجرم کو مارنے کا ایک ہی طریقہ بچا ہے کہ اسے زمین میں زندہ گاڑ دیا جائے ،گاؤں سے باہر ایک جگہ بڑا گڑھا کھودا گیا ایک دفعہ قیدی کو پھر سے ماں سے ملنے کی اجازت دے دی گئی تو اس بھائی کی جگہ پانچویں بھائی نے لی جو سانس لئے بغیر زندہ رہ سکتا تھا پھر زمین میں پانچویں بھائی کو گاڑ دیا گیا مگر اسے کوئی فرق نہیں پڑا کیوں کہ وہ سانس لئے بغیر زندہ رہ سکتا تھا جب رات کو سارے مطمن ہوکر اپنے گھر واپس چلے گئے کہ انصاف ہوچکا ہے تو چاروں بھائیوں نے اسے گڑھے سے نکال لیا پھر سب بھائی اپنی ماں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر گزارنے لگے " نیکی کا راستہ! - تحریر نمبر 1071,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/neki-ka-rasta-1071.html,"جدون ادیب:جب میں دفتر سے گھر لوٹتا تو اسٹاپ پر کئی لوگوں کو لفٹ کا انتظار کرتے پاتا۔جب سے آبادی کے درمیان سے ایک نیا راستہ بنایا گیا تھا،لوگوں کو آنے جانے میں بڑی سہولت ہوگئی تھی مگر یہ راستہ زیادہ ہمنوار نہیں کیا جاسکا اس سڑک پر چڑھائی زیادہ تھی خاص طور پر چھوٹی گاڑیوں کو سڑک عبور کرنا مشکل ہوجاتا تھا اس لیے رکشے ابھی اس سڑک پر نہیں چل سکتے تھے اس لیے اس اسٹاپ پر اکثر لفٹ لینے والے کھڑے نظر آتے تھے میرے پاس موٹر سائیکل تھی چوں کہ شہر میں اکثر لوٹ مار کے واقعات ہوتے رہتے تھے اس لیے میں ڈر کے مارے کسی کو اپنے ساتھ نہیں بٹھاتا تھا اکثر لوگ لفٹ مانگتے تو میں نظر انداز کرکے آگے بڑھ جاتا،وہ سردیوں کی ایک رات تھی میں خلاف معمول دیر سے آیا تھا جب اسٹاپ پر پہنچا تو دیکھا کہ صرف ایک نوجوان لڑکا کھڑا ہے اس نے مجھ سے لفٹ مانگی پہلے تو میں نے سوچا کہ اسے اپنے ساتھ بٹھالوں مگر میں نے سر جھٹک کر نفی میں گردن ہلائی اور آگے بڑھ گیا تھوڑا سا آگے گیا تھا کہ جمپ پر میری گاڑی قابو سے باہر ہوگئی موٹر سائیکل مجھ سمیت رگڑتی ہوئی دور تک گئی اور الٹ گئی میری ٹانگ نیچے دب گئی زخم کئی جگہ لگے میں ہوش میں تھا اور آس پاس کا جائزہ لے رہا تھا اس دوران پاس سے اِکا دُکا گاڑیاں گزریں مگر کسی نے رکنے کی زحمت نہ کی شاید اس لیے کہ رات کے وقت وہاں رکنا خطرناک تھا کچھ دن بعد وہاں نامعلوم افراد رکنے والوں کو لوٹ رہے تھے چوں کہ سردی بھی بہت تھی اس لیے راہگیر بھی نہ تھے جب کوئی میری مدد کو نہ آیا تو میں نے خوداٹھنے کی کوشش کی اس لمحے مجھے کسی نے سہار ا دیا میری موٹر سائیکل کو ایک طرف کیا میں نے کھڑے ہونے کی کوشش کی مگر ٹانگوں نے میرا وزن نہ اُٹھایا میں گرنے لگا تھا کہ اس مہربان انسان نے مجھے تھام لیا۔(جاری ہے)اب میں نے دیکھا کہ یہ وہی نوجوان تھا جس نے مجھ سے لفٹ مانگی تھی میں نے اسے لفٹ نہیں دی مگر وہ میری مدد کو آگیا۔پھر اس نے فون کرکے ایمبولینس منگوائی تب تک کچھ اور لوگ بھی وہاں آگئے ایمبولینس آئی تو مستعدد ڈرائیور نے اسی نوجوان کی مدد سے مجھے اسٹریچر پر لٹایا پھر اس نوجوان نے وہاں جمع افراد میں سے ایک کے ساتھ کوئی بات کی موبائل نمبر نوٹ کیا اور ایمبولینس میں بیٹھ گیا وہ مجھے لے کر اسپتال پہنچا راستے میں بتایا کہ اس نے میری موٹر سائیکل اس جگہ پر ہوٹل کے چوکیدار کے حوالے کردی ہے اور اس کا نمبر احتیاطاً لے لیا ہے الغرض اس نوجوان نے میری بھرپور مدد کی اور مجھے اسپتال پہنچا کر رخصت ہوگیا مجھے بہت شرمندگی محسوس ہورہی تھی کہ میں کسی نے کام آنے یا دوسروں کی خدمت کے جذبے سے محروم تھا اور وہ نوجوان اس قطع نظر کہ میں نے اسے لفٹ تک دینے سے انکار کیا تھا اس نے میری مدد کی تھی بس اس وقت میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو میں بھی لوگوں کے کام آیا کروں گا خاص طور پر موقع ملا تو اس نوجوان کے احسان کا بدلہ ضرور چکاؤں گا،میں صحت یابی کے بعد دفتر جا نے لگا ایک دن واپسی پر اسٹاپ پر اس نوجوان کو کھڑے دیکھا تو اس کے قریب موٹر سائیکل لا کر روک دی اس نے مجھے پہچان لیا میری صحت پوچھی میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اسے بیٹھنے کو کہا اس نے اپنی دائیں جانب دیکھا تو ایک ادھیڑ عمر شخص کھڑ ا تھا جو لفٹ لینا چاہتا تھا اس نے مجھے کہا کہ میں اسے لے جاؤں وہ کسی اور سے لفٹ لے لے گا میں نے ایسا ہی کیا پھر وہ کئی دن تک نہ ملاآخر ایک دن وہ میرے ساتھ بیٹھ گیا راستے میں نے اس نے مجھ سے کہا یہ زندگی بے مقصد اور بے کار ہے اگر کسی کے کام نہ آئے اس نے مجھے تاکید کی کہ میں روزانہ جاتے ہوئے کسی نہ کسی کو بٹھالیا کروں یہ نیکی ضائع نہ ہونے دوں اس دن کے بعد سے میں جب بھی کہیں سے گزرتا ہوں تو کسی کو بھی اپنے ساتھ بٹھالیتا ہوں اور اس راستے کو نیکی کا راستہ سمجھتا ہوں۔ " بادل کی نصیحت! - تحریر نمبر 1070,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badal-ki-nasehat-1070.html,"جاوید اقبال:آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے بادل اتنے گہرے تھے کہ دن میں بھی رات کا گماں ہورہا تھا ذیشان تیزی سے اپنے کھیتوں کی طرف جارہا تھا تاکہ اگر بارش آجائے تو وہ گندم کے گٹھوں کو پلاسٹک کی چادر سے ڈھانپ دے کچی سڑک پر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا چلا جارہا تھا گھنگور گھٹاؤں سے ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی موسلا دھار بارش شروع ہوجائے گی پھر چند ہلکی ہلکی بوندیں برسیں تو ذیشان نے بھاگنا شروع کردیا اچانک اس نے ایک آواز سنی آواز ایسی تھی جیسے کوئی کسی ویران کنویں کے اندر سے بولا ہو ذیشان کے قدم رک گئے اس نے ادھر اُدھر دیکھا کوئی بھی نظر نہ آیا،یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے پھر یہ آواز کہاں سے آئی اس نے زیرِلب کہا یہ میں ہوں سر اُٹھا کر اوپر آسمان پر دیکھو وہی آواز پھر آئی۔(جاری ہے)ذیشان نے آسمان کی طرف دیکھا آسمان پہ اسے بادل کا بڑا سا ٹکڑا نظر آیا پھر اسے بادل کی آنکھیں اور ہونٹ بھی نظر آئے۔تم کون ہوں ذیشان نے ڈرتے ڈرتے پوچھا میں بادل ہوں آواز آئی ۔لیکن میں نے اس شکل میں تمہیں پہلے کبھی نہیں دیکھاذیشان نے کہا ۔میں قطب شمالی کے برف پوش پہاڑوں کے اوپر رہتا ہوں اب دنیا دیکھنے نکلا ہوں ہوائیں مجھے ملک ملک لیے پھر رہی ہیں اب تک آدھی دنیا دیکھ چکا ہوں یہ ملک کون سا ہے؟یہ میرا پیارا وطن پاکستان ہے ذیشان نے فخر سے کہا۔باد ل نے کہا مجھے اپنے وطن کے بارے میں کچھ بتاؤ!“کیوں نہیں۔ذیشان بولا میرا ملک ہرے بھرے میدانوں گھنے جنگلوں میٹھے پانی کے چشموں بل کھاتی ندی نالوں شور مچاتے آبشاروں اور ملک بوس پہاڑوں کا دیس ہے اس کے چار موسم ہیں گرمی سردی،بہاڑ اور خزاں،ہر موسم کا الگ مزہ ہے یہاں مٹی کو سونا بنانے والے مزدور اور کسان ہیں سمندروں کا سینہ چیرتے ملاح فضا میں اُڑنے والے شاہین صفت ہوا باز ہیں ہمارے ملک میں درس گاہیں ہیں تخلیق و جستجو کے سمندر سے آگہی کے موتی چننے والے سائنس داں ہیں ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہیں ہمارا ملک اقوامِ عالم میں بھائی چارے اور امن کے فروغ کاخواہش مند ہے ہم یہ پیار ا وطن بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے اور اس کی حفاظت اور حرمت کی خاطر سر پر کفن باندھے ہر وقت کٹ مرنے کے لیے تیار ہیں ذیشان بڑے جذبے سے یہ سب کہہ رہا تھا اور بادل کے ہونٹوں ہر مسکراہٹ تھی ۔بادل نے کہا اپنے وطن کے بارے میں تمہارے جذبات کی میں بے حد قدر کرتا ہوں مگر یہ دیکھ رہا ہوں کہ یہاں کے اکثر لوگ وطن کی بہتری پر توجہ نہیں د ے رہے ہیں سر سبز درختوں کو بے دردی سے کاٹ رہے ہیں یہ درخت فضا کو آلودگیوں سے پاک رکھتے ہیں لوگوں میں شجر کاری کا رجحان نہیں ہے کارخانوں اور گاڑیوں ک دھویں سے بھی فضائی آلودگی پیدا ہورہی ہے اس زہریلے دھویں میں سیسہ ہوتا ہے جو انسان کی ذہنی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے شور بھی انسان کے مزاج پر اثر ڈالتا ہے شور کا شمار بھی آلودگی میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ مختلف ذہنی امراض میں تیزی سے مبتلا ہورہے ہیں ان سب خرابیوں کی وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے تم لوگوں کو چاہیے کہ جگہ جگہ درخت لگاؤ تاکہ ماحول بہتر ہوں اور ذہنی اور جسمانی صحت اچھی رہے میری نصیحت یاد رکھنا اور یہ بھی نہ بولنا کہ آج جو مفت کی نصیحت قبول نہیں کریں گا کل وہ مہنگے داموں افسوس خریدئے گا ۔اس وقت تیز ہوائیں چلنے لگیں درختوں کی شاخیں شائیں شائیں کرتی ہلنے لگیں بادل نے کہااچھا دوست خدا حافظ پھر ہوائیں اسے اپنے دوش پر لئے دور اُفق کی طرف بڑھ گئیں اچانک بارش کی بوچھار سے جیسے ذیشان کو ہوش آگیا اس نے چونک کراپنے آس پاس دیکھا اسے ایسا لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا تھا پھر وہ اپنی گندم کو بارش سے بچانے کے لیے تیزی سے کھیتوں کی جانب دوڑا۔ " سپر مین کی وادی! - تحریر نمبر 1069,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/supermen-ke-dadi-1069.html,"مریم شہزاد:سب بچوں کی ایک دادی اماں ہوتی ہیں کچھ دادی بہت بوڑھی ہوتی ہیں کچھ کی اتنی بوڑھی نہیں ہوتیں مگر چوں کہ وہ ہمارے ابو کی بھی امی ہوتی ہے اس لیے وہ ہمیں بہت بڑی لگتی ہیں مگر کچھ دادیاں تو بہت صحت مند اور توانا ہوتی ہے جیسے صائم کی دادی تھی جوں جوں صائم بڑا ہورہا تھا اسے لگتا تھا کہ دادی کمزور ہوتی جارہی ہے پہلے تو دادی کار بھی چلاتی تھیں وہ ہر جگہ صائم کو بھی ساتھ لے کر جایا کرتی تھیں مگر اب تو صائم خود بھی کار چلانے کے قابل ہوگیا تھا دادی کی خراب ہو تی صحت کو دیکھ کر اب ان پر کچھ پابندیاں لگادی گئی تھیں بالکل بچوں کی طرح یہاں نہ جائیں وہاں نہ جائیں بتا کرجائیں ان کے گاڑی چلانے پر پابندی لگادی گئی تھیں صائم کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے دادی کو سب نے پریشان کردیا تھا۔(جاری ہے)ایک دن دادی نے صائم سے کہا سپرمین!میرا ایک کام تو کردو؟“دادی صائم کو بچپن ہی سے پیار میں سپر مین کہتی تھیں پہلے تو وہ سپر مین کہنے سے بہت خوش ہوتا مگر اب چڑنے لگا تھا اس نے کہا دادی اب سپر مین نہ کہا کریں میں بڑا ہوگیا ہوں،ارے!تم تو میرے لیے اب بھی ننھے سپر مین ہو دادی نے لاڈ سے کہا اچھا بتائیں کیا کام ہے؟اس نے بیزاری سے پوچھا اور گھڑی کی طرف نظر دوڑائی چلو رہنے دو ابھی تم جلدی میں ہو کل بتادوں گی انہوں نے آہستہ سے کہا دوسرے دن بازار جارہا تھا تو دادی نے کہا مجھے بھی لے چلو مجھے اپنا چشمہ بنوانا ہے صائم نے ایک نظر دادی کو دیکھا اور پھر لاڈ سے بولا دادی! آج تو میں ایک بہت ضروری کام جارہا ہوں کل آپ کو ضرور لے چلوں گا۔کل آئی پھر پرسوں اور پھر پورا ہفتہ گزر گیا اس دوران دادی نے دو ایک مرتبہ کہابھی کہ تمہارے ابو اور چاچا کے پاس ٹائم نہیں ہے اورکوئی مجھے اکیلے جانے بھی نہیں دے رہا تم ساتھ چلو مگر روز ہی صائم کوئی نہ کوئی بہانہ کردیتا۔صائم ایک دکان پر اپنے لیے کچھ پسند کررہا تھا کہ اسے قریب سے ایک بچی کی آواز سنائی دی شکریہ دادی اماں!آپ بہت اچھی ہے آپ میرے کام فوراً کردیتی ہے ابو کے پاس تو ٹائم ہی نہیں ہوتااور صائم کو اچانک پرانی باتیں یاد آگئیں ایک بار وہ گرم دوپہر میں جب وہ روتا ہوا دادی کے پاس آیا تھا کہ ابو کب سے وعدہ کررہے ہیں او ر مجھے نیا بیگ لاکر نہیں دے رہے آپ ابھی چلیں اس وقت دادی بہت تھکی ہوئی تھیں اور آرام کررہی تھی مگر اس کی خاطر وہ فوراً اٹھ گئیں اور بیگ دلا کر لائی تھیں اور وہ ایسا خوش ہوا تھا جیسے یہ بچی ہورہی تھی اسے خیال آیا کہ دادی کتنے دن سے کہہ رہی ہیں چشمہ بنوانے کو اور میں بھی کتنا بے حس ہوگیا سوچتا ہوں کہ دو چار دن چشمے کے بغیر نہیں رہ سکتیں وہ میرا کتنا خیال رکھتی ہیں اور میں صائم نے اپنا کام فوراً چھوڑا اور گھر آیا دروازہ دادی نے ہی کھولا وہ شاید کہیں جارہی تھیں اس نے پوچھا آپ کہیں جارہی ہیں؟بیٹا تمہارے ابو نے کہہ دیا ہے کہ قریب قریب کے کام خود خود کرلیا کریں سوچا قریبی چشمے کی دکان ہے وہاں سے بنوالوں کام تو چل ہی جائے گا صائم تو شرم سے جیسے زمین میں گڑگیا اور سر جھکا کر کہا نہیں دادی میںآ پ کو لیے چلتا ہوں آپ کو سب سے اچھا چشمہ بنواکردوں گا وہ دادی کا ہاتھ پکڑ کر کار تک لایا دادی خوش ہوگئیں اوران کے منہ سے بے اختیار نکلا میرا سپر مین آج صائم کو یہ سن کر بہت اچھا لگا اسے محسوس ہوا کہ بوڑھے بھی توبچوں کی طرح ہوتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونے والے ان کو بھی ہر دم کسی کا ساتھ چاہیے ہمیں ان کا بھی ایسے ہی خیال رکھنا چاہیے جیسے بزرگ بچوں کا خیال رکھتے ہیں اس نے دل میں عہد کیا کہ اب وہ ہمیشہ اپنی دادی کا خیال رکھے گا۔ " کسان اور گھوڑا - تحریر نمبر 1068,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kissan-or-ghora-1068.html,"حاجی محمد لطیف کھوکھر:ایک کسان کے پاس ایک نہایت شاندار اور خوبصورت گھوڑا تھا جس پر وہ اپنے جانوروں کے لیے چارہ وغیرہ لایا کرتا تھا جب کبھی کہیں جانا ہوتا تو وہ اسی پر سواری کرلیتا تھا اس گھوڑے کا یہ بھی فائدہ تھا کہ جب کبھی کسان کو اپنے گھر والوں کو کہیں لے کر جانا ہوتا وہ اس کے پیچھے تانگہ لگالیتا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ گھوڑا بوڑھا ہوگیا اب وہ کسی کام کا نہیں رہا تھاکسان کو اپنے گھوڑے سے بہت پیار تھا جب اس کے دوستوں نے دیکھا کہ کسان کا گھوڑا بوڑھا ہوچکا ہے اور کسان کے کسی کام کا نہیں رہا توانہوں نے مشورہ دیا کہ اس کو شہر میں جاکر فروخت کرکے نیا گھوڑا خریدلے کسان کا دل بھی یہی چاہتا تھا لیکن اس گھوڑے کو خریدتا کون؟بوڑھا گھوڑا تو کسی کام کا نہیں تھا پھر کسان کو اپنے اس گھوڑے سے پیار بھی بہت تھا۔(جاری ہے)آخر ایک دن کسان ایک دوست آیا اور اُس نے مشورہ دیا کہ قریبی شہر میں ایک نہایت چالاک بروکر رہتا ہے وہ یہ گھوڑا ضرور فروخت کردے گا بس اس کو تھوڑا بہت معاوضہ دینا پڑے گا کسان نے کہا کہ اگر یہ گھوڑا فروخت ہوگیا تو بروکر کو معاوضہ دینے میں کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔اگلے دن کسان نے گھوڑے کو نہلا دھلا کر تیار کیا اور اسے لے کر شہر کی جانب چل پڑا شہر پہنچ کر اس نے بروکر کا پتہ معلوم کیا اور تھوڑی تگ و دو کے بعد اسے ڈھونڈ ہی لیا کسان نے بروکر سے کہا تم میرا یہ گھوڑا بیچ دو تو میں تمہیں اس کام معقول معاوضہ دوں گا۔بروکر نے کسان کی ساری بات سن کر کہا کہ لو بھئی یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں یہ گھوڑا فروخت کرنا میرے لیے معمولی کام ہے تم نے کچھ نہیں بولنا گاہکوں کو متوجہ کرنا میرا کا م ہوگا تم بس ایک طرف جاکر بیٹھ جانا تمہارا گھوڑا صبح فروخت کرادوں گا بروکر یہ کہہ کر کسان کو مہمان خانہ میں لے گیا اور وہاں جاکر اسے آرام کرنے کیلئے کہا اس دوران بروکر کا ملازم کھانا بھی لے آیا کسان نے کھانا کھایا اور آرام سے سو گیا۔صبح فجر کی نماز پڑھ کر بروکر نے کسان کو ساتھ لیا اور گھوڑے کو لے کر مویشی منڈی پہنچ گیا جہاں پر مختلف قسم کے جانور فروخت ہونے کے لیے لائے گئے تھے کسان خوش تھا کہ اس کا گھوڑا بک گیا تو وہ یہیں سے ہی نیا گھوڑا خرید لے گا۔بروکر نے کسان کے گھوڑے کو پکڑا اور آواز لگائی۔”لو جی۔آج ایک شاہکار اور لاجواب گھوڑا لایا ہوں اس گھوڑے کو خریدنے کے لیے کئی وزرا اور امرا کے دل مچلتے تھے یہ کوئی عام گھوڑا نہیں ہے بلکہ نہایت قیمتی گھوڑا ہے اس پر تاریخ کی کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں مشہور سوانح عمری میں اس گھوڑے کا ذکر موجود ہے اسی گھوڑے پر بیٹھ کر ہمایوں بادشاہ نے جنگ لڑی تھی اور فاتح بنا۔اس گھوڑے پر ظہیر الدین بابر نے کئی جنگیں لڑیں اور کئی علاقے فتح کئے اور تو اور ہلاکو خان نے بھی اسی گھوڑے پر بیٹھ کر دنیا کو فتح کیا تھا۔سکندر اعظم تو اس گھوڑے کا شیدا تھا اسی گھوڑے پر بیٹھ کر سکندر اعظم دنیا کو فتح کرنے نکلا تھا یہ گھوڑا کوئی عام گھوڑا نہیں ہے اس کو خریدنے کے لئے کئی بادشاہوں نے کئی چالیں چلیں کئی بار لڑائیاں ہوئیں اس گھوڑے پر کئی مقابلے کیے لیکن یہ گھوڑا قسمت والوں کے پاس ہی رہتا ہے،اس گھوڑے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس پر نا صرف بادشاہوں بلکہ گلی محلے میں بھی کئی جھگڑے ہوئے کئی الیکشن اس گھوڑے کی وجہ سے جیتے گئے ہیں اس کی خوبیوں کی لمبی فہرست میرے پاس موجود ہے جوکہ میں بیان کرنے لگوں تو کئی دن لگ جائیں مختصر یہ کہوں گا کہ گھوڑا نایاب ہونے کے ساتھ ساتھ قسمت والا بھی ہے۔جس مالک کے پاس بھی گیا اُس کو امیر بنادیا آرے یاد آیا کہ اس کی تاریخی اہمیت پر ایک بندے نے تو پورا کالم لکھ ڈالا تھا وہ کالم میں اپنے ساتھ لایا ہوں کہاں گیا وہ کالم؟بروکر نے کمال کی اداکاری کرتے ہوئے اپنی جیبوں کو ٹٹولا اور ایک چُر مُڑ سا کاغذ نکالا اور دیکھ کر پڑھنے لگا۔اسی دوران کسان بھاگتا ہوا اُس کے پاس آیا اور لوگوں کے مجمے کو بھگاتے ہوئے بولا ارے ارے رکو مجھے یہ گھوڑا نہیں بیچنا مجھے اس کی تاریخی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا مجھے اتنا قیمتی گھوڑا بالکل نہیں بیچنا لاؤ اس کی باگ مجھے پکڑاؤ میں اتنا قیمتی گھوڑا کیوں فروخت کروں،،،،،ہٹو،،،،یہ میرا قیمتی گھوڑا مجھے دے دو۔بروکر حیرانی سے کسان کو دیکھ رہا تھا اور کسان نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑی اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ " الفاظ کا مرہم - تحریر نمبر 1067,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/alffaz-ka-marham-1067.html,"ڈاکٹر فضیلت بانو:امی صبح سے کتنی بار سلیم کو جگانے آچکی تھیں وہ آکے بار بار اسے ہلاتیں پیار سے پچکارتیں اور سکول سے لیٹ ہونے کے خدشے کا بھی اظہار کرتیں مگر سلیم پر کسی بات کا اثر نہ ہوتا وہ غصے سے کروٹ بدلتا اور کہتا مجھے جلدی اٹھنے سے نفرت ہیں اس لئے مجھے سکول جانے سے بھی نفرت ہیں کیونکہ اس کے لیے صبح جلدی اٹھنا پڑتا ہے جس چیزسے بھی سلیم کو دلچسپی نہ ہوتی یا اسے پسند نہیں ہوتی وہ بے دھڑک اس کے بارے میں کہہ دیتا کہ مجھے اس سے نفرت ہے یہ ایک طرح سے اس کا تکیہ کلام بن چکا تھا۔ایک دن کلاس میں بھی ایسا ہی ہوا کہ بابر کے ابو نے اسے نیا جیومیٹری بکس لے کردیا اس نے سکول آکے بڑے شوق سے سلیم کو دکھایا مگر سلیم کو اس جیومیٹری بکس کا رنگ پسند نہ آیا اور اس نے اسے پوری طرح دیکھے بغیر فوراً کہہ دیا مجھے تو تمہارے جیومیٹری بکس کا رنگ ہی پسند نہیں مجھے تو اس رنگ ہی سے نفرت ہے بابر جو رات بھر سے اس قدر خوش تھا کہ صبح سکول جاکر سلیم کو اپنا جیومیٹری بکس دکھائے گا وہ سلیم کی بات سن کر ایک دم بجھ کر رہ گیا اور خاموش ہوگیا ناقی سارا دن بھی اس کا سلیم سے کوئی بات کرنے کو دل نہ چاہا لیکن سلیم عموماً ایسی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا تھا کہ اس کے نفرت کے اظہار کے بعد دوسروں کے دل پر کیا گزرتی ہے۔(جاری ہے)ایک دن کھیل کے میدان میں بھی ایسا ہی ہوا ثاقب کے چچا باہر کے ملک سے اس کے لیے کالے رنگ کے نئے جوگر بوٹ لے کر آئے وہ اگلے دن سکول پہن کر آیا سب دوستوں کو اس کے بوٹ بہت پسند آئے سب اس کی تعریف کرنے لگے مگر جیسے ہی سلیم نے دیکھے تو جھٹ سے کہہ دیا کہ مجھے اس طرح کے بوٹ بالکل پسند نہیں مجھے نفرت ہے ایسے جوتوں سے ثاقب جو صبح سے ہر ایک سے اپنے جوتوں کی تعریف سن چکا تھا سلیم کی بات سن کر ایک دم اس کا دل ٹوٹ گیا اس نے سلیم کو تو کچھ نہ کہا مگر اسے سلیم کی یہ بات بہت بری لگی۔سلیم کی آمی نے آج سب گھروالوں کی پسند سے تڑکے والی دال پکائی تھی سن نے بہت شوق اور محبت سے کھانا کھایا مگر جب سلیم سکول سے گھر آیااور امی نے اس کے لئے کھانا نکال کر اس کے سامنے رکھا تو سلیم نے نفرت سے منہ بسورتے ہوئے کہا امی آپ کو پتا ہے کہ مجھے دال سے نفرت ہیں آپ دال کیوں پکالیتی ہیں اٹھالیں کھانا میں نہیں کھاؤں گا سلیم گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لئے اس کی بات کا کوئی برا نہیں مانتا تھااس کی امی نے دال اس کے سامنے سے اٹھالی اور اسے کھانے کے لئے آملیٹ بنادیا سلیم نے کھانا کھایا اور سو گیا شام کو سلیم اپنا ہوم ورک کرنے کے بعد اپنی خالہ کے گھر چلا گیا اس کی خالہ کا گھر ان کی گلی میں ہی تھا وہ اکثر فرصت کے اوقات میں اپنے خالہ زاد بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنے چلا جاتا تھا آج جب خالہ کے گھر گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے خالو کافی سارا پھل لے کر آئے ہوئے ہیں اور خالہ باورچی خانے میں بیسن پر کھڑی پھلوں کو دھو دھو کر ٹوکری میں رکھ رہی ہیں انہوں نے جب سلیم کو دیکھا تو اسے بھی ایک پلیٹ میں رکھ کر کچھ پیش کیے مگر سلیم نے تکبر سے منہ سکیڑ لیا اور کہنے لگا کہ خالہ جی میں پھل پسند نہیں کرتا مجھے پھلوں سے نفرت ہے خالہ کو سلیم کی بات سخت ناگوار گزری مگر انہوں نے اسے پیار سے کہا کوئی بات نہیں بیٹا آپ کوئی چیز کھالیں زندگی کے ماہ سال گزرتے گئے سلیم اور اس کا دوست بابر اور خالہ زاد عمران تینوں اب سکول اور کالج کی تعلیم سے فارغ ہوکر نوکریاں کی تلاش میں تھے عمران کے والد نے تو تجارت کو مقدم سمجھتے ہوئے نوکری کی بجائے عمران کو ایک دکان کھول دی اللہ نے برکت بھی خوب دی اس کی دکان چل نکلی اور وہ اطمنیان سے دکانداری کرنے لگا۔اللہ کی مہربانی اور حسن اتفاق کہ بابر اور سلیم کو ایک ہی ادارے میں ایک ساتھ ملازمت مل گئی یہ ایک بہت بڑی کمپنی تھی جو ملک کے مختلف قسم کی ترسیل کا کام کرتی تھی سلیم اور بابر کو اچھی تنخواہ پر اس کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی دونوں کا ایک ہی ڈیپارٹمنٹ تھا اس لئے وہ دونوں بہت خوش تھے وہ بچپن سکول اور کالج سے اب تک ساتھ ساتھ رہتے آئے تھے اب ان کی خوش قسمتی کہ کام بھی ایک ساتھ مل گیا تھا دونوں کے گھر والے بھی بہت خوش تھے مگر سب لوگ محسوس کررہے تھے کہ جتنا بابر اس کام سے خوش تھا سلیم اتنا خوش دکھائی نہیں دیتا تھاگھر آگے بھی وہ سب سے الجھا الجھا رہتا اس کے بابا نے بھی یہ بات محسوس کی تو اہل دن اس سے پوچھنے لگے کہ بیٹا سلیم کی بات ہے؟بہت اچھی ملازمت ملنے کے باوجود آپ مجھے خوش دکھائی نہیں دیتے بلکہ پہلے کی نسبت چپ چپ رہنے لگے ہو۔“سلیم نے پہلے تو بڑی بے چارگی سے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر کہنے لگا ابا جان میں یہ نوکری نہیں کرنا چاہتا مجھے اس نوکری سے نفرت ہے اس کے ابا کے لئے یہ ایک غیر متوقع سی صورتحال تھی کیونکہ سب جانتے تھے یہ ملازمت بہت اچھی ہیں اور اس میں تنخواہ کے علاوہ دیگر امارات بھی تھیں پھرسلیم کو یہاں کیا مسئلہ تھا اس کے ابا نے نہایت شفقت اور پیار سے پہلے تو اسے سمجھانے کی کوشش کی پھر اس سے نوکری سے بددل ہونے کی وجہ پوچھی تو سلیم کہنے لگا کہ میں انتہائی محنت اور خوش اسلوبی سے کام کرتا ہوں کوشش کرتا ہوں کہ کہیں بھی کسی قسم کی کوئی بھی کوتاہی نہ ہوں مگر میرے ڈیپارٹمنٹ میں جو میرے سینئر آفیسرز ہیں انہیں میرا کام پسند نہیں آتا وہ میرے ہر کام میں کیڑے نکالتے ہیں دن میں مجھے کئی بار ان کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے میں جب بھی کوئی کام کرتا ہوں اس کی فائل اپنے آفیسر کو دکھاتا ہوں تو وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ کیا کام اس طرح کرتے ہیں مجھے اس طرح کام کرنے والوں سے نفرت ہیں حالانکہ میرے اور سلیم کے کام کرنے کے طریقہ کار میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا مگر سلیم کے ساتھ کسی کا رویہ اس طرح کا نہیں ہے میں اپنے آپ کو آہستہ آہستہ نااہل تصور کرنے لگا ہوں مجھے اب اپنی قابلیت پر بھی بھروسہ نہیں رہا اب میں نے سوچ لیا ہے کہ میں یہ ملازمت چھوڑدوں گا سلیم کے ابا اس کی بات بڑے غور سے سن رہے تھے انہوں نے سلیم کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ ملازت کی بجائے کچھ اور چھوڑدو تو آپ کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں سلیم نے ایک دم چونک کر باپ کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا کہ ایسا کیا ہے اس کے پاس جو وہ چھوڑ ے دے اس کے ابا جواب تک اس سے دور بیٹھے اس سے بات کررہے تھے اٹھ کر اس کے پاس آگئے اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہنے لگے دیکھو بیٹا آپ بچپن سے ہماری محبت اور شفقت کے باعث اپنی مرضی کی زندگی گزارتے آئے ہو آپ چیزوں کا پسند اور ناپسند کے بارے میں اپنی مرضی کارویہ رکھتے تھے کن چیزوں سے آپ کو محبت ہے اور کن چیزوں سے نفرت ہے آپ بلا ججھک ان کا اظہار کرتے آئے ہیں ہمارے الفاظ زخم بھی ہوتے ہیں اور مرہم بھی ہماری کہی ہوئی بات سے دوسروں پر کیا گزرتی ہے ہمیں اس کا احساس ہونا چاہیے نفرت کا لفظ کسی تلوار سے کم نہیں ہوتا یہ جس کے لئے بھی بولا جائے توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے اس کی ہمت اور طاقت کو ختم کردیتا ہے بلکہ دوسروں کے دلوں میں آپ کے لیے محبت ختم ہونے لگتی ہے جیسے اب آپ کے دل میں اپنے سینئرز کے لئے احترام ختم ہوتا جارہا ہے پہلے یہ ادب و احترام ختم ہوتا ہے اور پھر اس کی جگہ نفرت لے لیتی ہے اور رشتوں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں اور پھر وہ ٹوٹنے لگتے ہیں جب تعلق میں مضبوطی نہ رہے تو زیادہ دیر تک ساتھ چلنا مشکل ہوجاتا ہے ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے کہیں ایسا تو نہیں کہ دوسروں کی بجائے غلطی ہماری ہوں۔سلم اپنے ابا کی باتیں بڑی غور سے سن رہا تھا وہ ایک ایک بات اپنے دل میں اتاررہا تھااسے یاد آیا کہ کل جب وہ فائل لے کر اپنے صاحب کے کمرے میں گیا اور انہیں اپنے کئے کام کی تفصیل بتانے لگا تو انہوں نے ایک سرخ رنگ کی پنسل سے فائل پر جگہ جگہ بڑے بڑے دائرے کھینچ دئیے یہ ایسے نہیں ایسے ہونا چاہئے تھا اوہ ایسے نہیں ایسے ہونا چاہئے تھا اور آخر میں انہوں نے جو کچھ کہا کہ انہیں اس طرح کا کام پسند نہیں بلکہ ایسے لوگوں سے نفرت ہے جو اپنا کام ڈھنگ سے نہیں کرتے اب سلیم کو حساس ہونے لگا کہ وہ بھی تو بچپن سے دوسروں کے دل ایسے ہی توڑتا آیا ہے اس نے تو کبھی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا تھا کہ دوسروں کے دل پر اس کی بات کا کیا اثر ہوتا ہے حالانکہ وہ کبھی کسی کا افیسر نہ تھا پتہ نہیں اس کی وجہ سے کتنے لوگ بددل ہوئے ہوں گے کتنے آصل ٹارگٹ تک نہ پہنچے ہوں گئے کتنوں نے اپنے راستے بدل لئے ہوں گے اب سلیم کو لگ رہا تھا کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس سب کا ذمہ دار وہ خود ہے آفیسرز کے رویے کا باعث اس کی جرأت وہمت اور اس کی شوخی و شرارت سب ختم ہوکر وہ گئی تھی اس کے ذہن میں یہ خیال گردش کرنے لگا کہ کیا میرے الفاظ بھی دوسروں کے لئے ایسے ہوتے تھے کیا میں بھی قصورواروں میں سے ہوں؟وہ اپنے ابا کی طرف دیکھنے لگا جیسے پوچھ رہا ہو کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے اس کے ابا اس کی نگاہوں کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے اسے کہنے لگے کہ گناہ اور غلطی کا احساس ہونے پر اسے چھوڑنے کی کوشش کرنی چاہئے واپسی کا راستہ موجود ہوتو پلٹنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے سلیم کے اندر کچھ دنوں سے جو دھواں بھرگیا تھا اور اس کی تلخی اسے اپنی نس نس میں محسوس ہورہی تھی وہ دھواں اب آہستہ آہستہ اس کے وجود سے الگ ہورہا تھا نفرت کا لفظ اسے دور جاتا محسوس ہورہا تھا سلیم کے اندر کا احساس کیا بدلا ہر چیز ہی بدل گئی۔ " وطن کی مٹی! - تحریر نمبر 1066,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/watan-ki-matti-1066.html,"مسرت کلانچومی:”یار عمر!تم ایف۔ایس۔سی کرنے کے بعد کس کالج میں داخلہ لوں گے،،،،،،؟کالج کے لان میں ٹہلتے ہوئے اسد نے اپنے ہم جماعت عمر سے پوچھا،،،،،اسد ،،،،،عمر سنجیدگی سے بولا میرے ابو تو مجھے پڑھنے کے لیے امریکہ بھیجنا چاہتے ہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے میں نے بھی یہی سوچا ہے ہمارے ملک کی پڑھائی کا کوئی معیار نہیں اور پھر یہاں رکھا ہی کیا ہے،نہیں عمر ایسا مت کہو یہاں بھی اچھے تعلیمی ادارے ہیں،اعلیٰ پڑھائی ہے اسدنے جواب دیا نہیں بابا،،،تم ہی یہاں پڑھو مجھے توباپر ہی جانا ہے عمر کندھے اچکا کر بولا اور ایک جانب بڑھ گیا اسد کو عمر کے ساتھ پڑھتے دو سال ہوگئے تھے اسے عمر بڑی عجیب طبیعت کا اور پراسرار سا نظر آیا تھا کسی ہم جماعت کے ساتھ کھل مل کر نہ رہنا کالج سے باہر تو وہ اپنے ان ساتھیوں کو بالکل نظر انداز کردیتا تھا وہ ایک دوسرے کے گھر جانے کا یا کہیں پکنک منانے کا پروگرام بناتے تو عمر کنی کتراتا دوسرے ساتھی اسے خود سر اور مغرور سمجھتے تھے لیکن اسد کو لگتا تھا کہ کوئی اور ہی بات ہے جس بنا پر عمر الگ تھلگ رہنا پسند کرتا ہے وہ خاموش اورکھویا کھویا سا رہتا ہے اس کی آنکھوں میں کسی محرومی کے سائے لہراتے رہتے ہیں کوئی عجب سا احساس ہے جس نے اسے حصار میں لے رکھا ہے اسد کے دل میں اس کے لیے ہمدردی اور خلوص کا جذبہ اُمڈ آتا آج اسد اور عمر کا کالج میں آخری دن تھا اس کے بعد نجانے کون کہاں ہوگا کچھ معلوم نہ تھا نجانے کیوں اسد کا جی چاہتا تھا کہ اس کا عمر کے ساتھ دوستی کا ایسا خوبصورت رشتہ بن جائے جو کبھی نہ ٹوٹے اس نے عمر کا ہاتھ تھاما،عمر آج کے بعد نجانے کب ملنا ہو میرا جی چاہ رہا ہے چھٹی کے بعد آج تم میرے گھر چلو یا میں تمہارے گھر چلتا ہوں آج کا دن ہم اکٹھے گزارتے ہیں مل کر کچھ کھاتے ہیں کوئی کھیل کھیلتے ہیں نہیں عمر نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا مجھے یہ باتیں بالکل پسند نہیں بس آج کے بعد میرا تم سے تعلق ختم ہوا،،،،،ویسے بھی میں نے جلد امریکہ چلے جانا ہے،اسد اس کے رویے سے دلبرداشتہ ہوا لیکن عمر سے تعلق ختم کرنے کا جی نہیں چاہا اس کا دل کہہ رہا تھا کہ عمر ہر گزبدمزاج نہیں لڑکا نہیں ہے اس کے رویے کے پیچھے کوئی اور ہی بات ہے کالج سے چھٹی ہوئی تو عمر اپنے گھر واپس چلا گیااسد کے تجسس نے اسے عمر کا پیچھا کرنے پر مجبور کردیا عمر غریب لوگوں کے ایک معمولی سے محلے میں داخل ہوا اور دو گلیاں مڑ کر چھوٹے سے گھر کے اندر چلا گیا مکان کے باہر اس کے والد کا نام لکھا ہوا تھا اچھا تو یہ ہے عمر کا گھر اسد نے خودکلامی کی وہ تو خود کو امیر لڑکا ظاہر کرتا ہے دراصل اس میں حساس کمتری ہے جس نے کبھی اسے کلاس کے لڑکوں میں گھلنے ملنے نہیں دیا اسد کے تایا اور دادا گاؤں میں رہتے تھے ویسے تو وہ انہیں سال میں کئی بار ملنے جایا کرتا تھا لیکن اگست یا ستمبر میں وہ انہیں ضرور ملنے جاتا تھا اب وہ چاہتا تھا کہ عمر کو بھی اپنے ساتھ لے جائے اس نے عمر کے موبائل فون پر اس سے رابطہ کیا۔(جاری ہے)یار عمر،،،کہاں ہو تم،،،،،،؟اسد نے پوچھامیں گھر سے دور ہوں تم کیوں مجھے فون کررہے ہوں پیچھا چھوڑ دو میرا،،،،،“یہ کہہ کر عمر نے فون بند کردیا اسد بھی یہی چاہتا تھا کہ وہ اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر جائے اس نے موقع غنیمت جانا اور اس کے گھر چلا گیا اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک ادھیڑ عمر آدمی باہر نکلا اسد بولا۔میں عمر کا ہم جماعت ہوں وہ تو گھر پر نہیں ہیں ،میں اس کا باپ ہوں میں نے آپ سے بات کرنی ہے آؤ اندر آؤ“اسد اندر گیا تو عمر والد اسے چھوٹے سے کمرے میں لے گئے ایک چارپائی دو کرسیاں اور ایک میز رکھی تھی،بیٹھو بیٹا،وہ بولے،،،،اچھا ہوا تم اس وقت آئے ہو ورنہ میں بھی تمہیں گھر نہ ملتا میں کچھ دیر بعد اپنی سبزیوں کا ٹھیلا لے کر باہر نکلنے ہی والا تھا میں گلیوں میں سبزیاں بیچتا ہوں بیٹا۔محنت میں عظمت ہے بابا جی لیکن آپ عمر کو کیسے پڑھنے کے لیے غیر ملک بھیج رہے ہیں آپ کے اتنے وسائل،،،،؟نہیں بیٹا وہ پڑھنے نہیں جارہا بلکہ محنت مزدوری کرنے جا رہا ہے میں نے تو اسے بہت روکا ہے میں جیسے تیسے محنت کرکے اسے پڑھا لوں گا لیکن وہ ضد کررہا ہے کمانے باہر جائے گا وہاں اس کے ماموں رہتے ہیں وہ بھی وہاں مزدوری کرتے ہیں وہ اسے بلا رہے ہیں لیکن بیٹا میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا میں آپ کے خیال کی قدر کرتا ہوں بابا جی مجھے یقین ہے کہ عمر اپنا ارادہ بدل دے گالیکن اسے میرے تایا اور دادا سے ملنا ہوگا میرے ساتھ ان کے گاؤں جانا ہوگا لیکن اگر وہ آپ اسے سمجھائیں گے اور آپ ہی منائیں گے لیکن کیسے،،،،،؟مسلمان سب بھائی بھائی ہوتے ہیں نا،،،،،،،“۔ہاں بیٹا ،تو پھر میرے تایا جان آپ کے بھائی ہوئے کیوں نہیں بیٹا دو دن بعد میں گاؤں جارہا ہوں آپ عمر کو یہ بتائیں گے کہ آپ اسے اس گاؤں میں اپنے رشتے کے ایک بھائی سے ملوانے جارہے ہیں جو اسے غیر ملک میں مزدوری کے حوالے سے کچھ مشورہ دیں گے،،،،،اور بس پھر دو دن بعد عمر کو لے کر گاؤں آجائیں یہ لیں ایڈریس۔اسد نے کاغذ کا ٹکڑا ان کی طرف بڑھایا بیٹا مجھے تو تمہاری باتوں کی زیادہ سمجھ نہیں آرہی گوکہ عمر جب اپنے ہم جماعت لڑکوں کا ذکر کرتا ہے تو تمہاری ہی تعریف کرتا ہے،تو مجھ پر بھروسہ رکھیں آپ بھی وہاں بہت اچھا تحفہ پائیں گے اور براہ مہربانی عمر کو بالکل مت بتائیے گا کہ میں یہاں آیا تھا عمر کے والد نے اسکو میٹھی لسی پلائی جو اس نے بہت شوق سے پی اور چلا گیا عمر اپنے والد کے اسرار پر ان کے ساتھ گاؤں آگیا تھا وہ بس سے اترے تھے اور گاؤں جانے والی کچی سڑک پر آگے بڑھ رہے تھے درختوں اور کھیتوں کو چھوتی ہوئی ہوا سرسراتی ہوئی گدگداتی ہوئی آگے بڑھتی تو عمر کو یوں لگتا جیسے وہ سرگوشی کررہی ہوکچھ پیغام دے رہی ہوں نیلا آسمان بھی اسے مسکراتا ہوا محسوس ہورہا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیسا رشتہ دار ہے جسے وہ زندگی میں پہلی بار ملنے جارہا ہے عمر کے والد نے ایک دو لوگوں سے راستہ پوچھا اور اس مکان پر آگئے جہاں انہیں پہنچنا تھا یہ چھوٹا اور سادہ سا گھر تھاجس کی دیواروں پر بوگن ویلیا کی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں ان بیلوں پر سرخ گلابی رنگ کے پھول سورج کی روشنی میں جھلملارہے تھے گھر کے سامنے کیاریاں بنی تھیں جن میں دھنیا پودینا ہری مرچیں اور لہسن پیاز کے پودے لہرارہے تھے یہ درمیانے درجے کے باذوق لوگوں کا گھر معلوم ہوتا تھا عمر کے والد نے دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے اسد نکلا اُسے دیکھ کر عمر ہکا بکا رہ گیا تم یہاں تم جانتے تھے کہ میں یہاں آؤں گا،تم کیوں میرے پیچھے پڑے ہو،،،،؟تم جاننا چاہتے تھے نہ کہ میں کون ہوں دیکھ لو میرے ابو کو یہ سبزی فروش ہے تم جیسے امیر زادے کو سبزی فرو ش کے بیٹے سے کیا سروکار بس اب ختم کرو میرے ساتھ تعلق،،،،“عمر کی آنکھیں جذبات سے بھر آئیں اسد نے اس کا ہاتھ پکڑلیا اور بولا میں امیر زادہ ضرور ہوں لیکن ویسا نہیں جیسا تم سمجھ رہے ہوں لیکن تم ہمارے رشتہ دار بھی تو نہیں عمر نے پہلے اسد اور پھر اپنے والد کو شکوہ بھری نظروں سے دیکھا اسد بولا رشتے صرف خونی ہی تو نہیں ہوتے اس کے علاوہ بھی ہوتے ہیں جنہیں تم صرف اُسی وقت سمجھ پاؤں گے جب تم میرے تایا اور دادا جی سے ملو گے اندر آؤ،،،،،اسد انہیں ایک کمرے میں لے گیا جہاں ہر طرف لکڑیاں کے تختے ترتیب سے رکھے تھے ایک کونے میں ادھیڑ عمر آدمی مشین پر لکڑیوں کے ٹکڑے کررہا تھا انہیں دیکھ کر وہ اپنا کام چھوڑ کر ان کی طرف آیا عمر یہ میرے تایا جان ہے یہ ترکھان ہے تقریباً ہماراسارا خاندا ن ہی ترکھان ہے محنت مزدوری کے حوالے سے ہم ایک ہی رشتہ سے بندھے ہوئے ہیں چلوں اب تمیں اپنے دادا جی سے ملواؤں اور اب وہ دوسری طرف چل پڑے عمر کو اپنے سبزی فروش ہونے پر جو خفت ہوتی تھی وہ اسد کے تایا جان کے مل کر اک دم ختم ہوگئی اب وہ ایک چھوٹے اور صاف ستھرے کمرے میں داخل ہوئے اندر داخل ہوتے ہی عمر کی نظر سامنے دیوار پر پڑی وہاں فریم میں ایک نوجوان فوجی کی تصویر لگی ہوئی تھی عمر کی نظریں اس تصویر پر ٹک گئیں تم میری تصویر دیکھ رہے ہو یہ میں ہوں اسد کا دادا کمرے کے دوسری جانب سے آواز آئی اور ایک بزرگ مسکراتے ہوئے اپنی وہیل چئیر کو دھکیلتے آگے بڑھے انہوں نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھایا !”السلام علیکم۔میں کھڑا ہو کر انہیں مل سکوں گا کیونکہ میری ایک ٹانگ نہیں ہے وہ مسکراتے ہوئے بڑی گرمجوشی سے انہیں ملے لیکن عمر کی نظریں دوبارہ اس تصویر پر ٹک گئیں۔میری یہ تصویر 1965 ء کے زمانے کی ہے جب میں فوج میں تھا کوئی بڑا فوجی افسر نہیں۔بلکہ فوج کا عام سپاہی تھا ستمبر65 کی جنگ میں ،میں اپنے ملک کے تحفظ کے لیے بھارتی دشمنوں سے لڑ ا اور بہادری سے ان کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ ٹانگ کھودی آپ نے ٹانگ کھوئی نہیں بلکہ یہ شہید ہوئی یہ کہتے ہوئے عمر کہ والد کی آنکھیں بھرآئیں وہ آگے بھرے ان کا ہاتھ چوم لیا اور پھر بولے میرے لئے یہ بڑی عزت کی بات ہے کہ مجھے آپ سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔“عمر نے بھی دادا کا ہاتھ چوما اور انہوں نے عمر کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا کچھ دیر بعد تایا جان لسی اور مٹھائی لے آئے،لسی پی کر عمر کے والد دادا جی کے ساتھ مخاطب ہوئے کیا آپ ہمیں اپنی کہانی سنائیں گے ہاں ضرور،،،،داد جی بولے ،اسد بھی انہی دنوں یہی کہانی اور 65 کی جنگ کی باتیں سننے میرے پاس آتا ہے اسد ہنس پڑا،، وہی باتیں جو میں بچپن سے سن رہا ہوں لیکن دل بھرتا ہی نہیں ،دادا جی کچھ توقف کے بعد بولے جب پاکستان بنا میں سات سال کا تھا میرے والد ترکھان تھے وہ امرتسر بھارت کی ایک چھوٹی سی دکان میں لکڑی کا کام کرتے تھے انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے وطن کی آزادی کے لئے جدوجہد کرتے سنااور دیکھا بھی ایک بار میرے والد کو قائد اعظم کی ایک تقریر سننے کا موقع ملا اس تقریر میں قائداعظم نے نوجوانوں کا حوصلہ بڑھایا اور فرمایا کہ نوجوان آزادی کے حصول اور پھر اپنے وطن کی تعمیروترقی میں بھرپور حصہ لیں،ہم غیور اور خودار قوم ہیں ہم اپنی منزل پاکستان حاصل کررہے ہیں اور پھر14 اگست 1947 ء کو پاکستان بن گیا ہمارا خاندان بہت تکلیفوں اور قربانیوں کے بعد ہجرت کرکے اس گاؤں میں آیا جہاں ہمارے چند رشتے دار رہتے تھے تاہم اپنا خاندانی کام یعنی لکڑی کی چیزیں بنانے لگے۔‘واقعی آپ کو اپنے پیارے وطن پاکستان میں آکر بہت ملا ہوگا عمر کے ابو نے کہا۔ہاں بیٹاآزادی بہت بڑی محنت ہے اگر ہم الگ وطن حاصل نہ کرتے تو انگریزوں کے بعد ہندوؤں کے غلام بن جاتے میرے والد مجھے سمجھایا کرتے تھے کہ ہم نے اللہ کی اس نعمت کی قدر کرنی ہے اپنی ترقی کی حفاظت کے لیے دل و جان سے کام کرنا ہے اپنے ابا کی باتیں سن کر مجھے فوجی بنے کا شوق ہوا اور جوان ہوکر میں پاک فوج میں بھرتی ہوگیا اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی عمر کے والد بولے،جی بیٹا میرے والد بتاتے تھے پاکستان بن گیا لیکن ہندوستان سمجھتا تھا وہ اپنی جارحانہ طاقت سے دوبارہ پاکستان کو اپنا حصہ بنالئے گا وہ پاکستان پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا جبکہ ہماری بہادر فوج مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے مقبوضہ کشمیر کو آواز کروانے کی کوشش کررہی تھیی بھارت پاکستان کے مقابلے میں بہت بڑا ملک ہے وہاں کے لوگ سمجھتے تھے کہ پاکستان ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا بھارتی فوج نے 6 ستمبر 1965 میں رات کے اندھیرے میں ہمارے ملک پر حملہ کردیا تھا وہ لاہود پر قبضہ کرنے کے لئے بی آر بی نہر تک پہنچ چکے تھے لیکن میجر راجہ عزیز بھٹی ان کی فوج پر پسپا ہونے پر مجبور کردیا اور خود وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شیہد ہوگئے داد جی کیا آپ ہمیں میجر عزیز بھٹی شہید کی کہانی تفصیل سے سنائیں گے؟ہاں دادا جی بولے کچھ دیر بعد ہم نے کھانا کھائیں گے اس کے بعد سناؤں گا اور اگر تم مجھے اسد کی طرح ملنے کے لئے آتے رہو گے تو ان کے علاوہ دوسرے عظیم شہید فوج کی باتیں بھی بتاؤں گا میں ضرور آتا رہوں گا دادا جی عمر خوش ہوکر بولا ہاں تو پاک فوج نے اپنے ملک کی حفاظت کے لیے تن من وارنے کی تھان لی تھی سترہ دن تک جنگ جاری رہی اور آخر تک پاکستان کا پلڑا بھاری رہا میں بہت بہادری سے لڑرہا تھا میرے قریب بم پھٹا اور میری ٹانگ مجھ سے جدا ہوگئی ۔”اوہ افسوس،عمر افسردہ ہوگیا افسوس اس بات کا ضرور تھا کہ میں مزید ملک کی خاطر نہ لڑسکا لیکن میں اللہ کا شکر گزاربھی ہوا کہ اس نے وطن کی راہ میں قربانی قبول کرلی مجھے محاذ سے واپس آنا پڑا اور میں گھر میں وہیل چئیر پر بیٹھ گیا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری میں گاؤں میں بچوں کو پڑھانے لگا آج وہ بچے بڑھے ہوکر مختلف شعبوں میں وطن کی خدمت کررہے ہیں کئی بچے فوجی بھی بنے ہیں اور آپ کے بچے عمر کے ابو نے پوچھا میرے دو بیٹے ہیں اسد کے یہ یایا جان اور اس کے ابو جان اس کے تایا جان نے خاندانی پیشہ اپنانے کا فیصلہ کیا اور اس کے ابو جان نے پڑھائی میں سخت محنت کی انہوں نے ٹیوشن بھی پڑھائیں اور ایک دن تعلیم مکمل کرکے اعلیٰ افسر بن گئے دیانت داری اور لگن سے اپنا کام کرنے لگے عمر بڑی عقیدت سے دادا جی کو دیکھ رہا تھا وہ اس کا کندھا تھپتھپا کر بولے،وطن کے محنت اور سرفروشی کی یہ داستان ختم نہیں ہوئی یہ سفر جاری رہے گا کیونکہ۔۔۔۔دادا جی نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر اسدکو پیار بھری نظروں سے دیکھا ،اسد فخر سے بولا کیونکہ اب میں فوجی بنوں گا عمر سینہ تان کر کہنے لگا تم نے تو مجھے ایک نیا روشن راستہ دکھایاہے دادا جی کی باتیں سن کر میرے اندر بھی وطن کی مٹی سے محبت کرنے کا جذبہ بھرگیا ہے مجھے غیر ملکوں میں مزدوری کرنے کی کیا ضرورت ہیں میں بھی فوجی بنوں گا اپنے وطن کی خدمت کروں گا اور اس کی حفاظت کروں گا اور اس کی حفاظت کو اپنی زندگی سمجھوں گا عمر کے ابو نے مسکراکر اپنے بیٹے کو دیکھا اور ان کی آنکھیں جگمگانے لگیں اسد نے عمر کو اپنے گلے سے لگا لیا۔ " ہم ایک ہیں! - تحریر نمبر 1065,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hum-aik-hy-1065.html,"مسرت کلانچومی:دریا کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا سارا سال خشک رہتا تھا جب بارشیں ہوتی تو اس میں پانی بہتا نظر آتا لیکن وہ پانی گہرا نہ ہوتا اس لئے اس میں بچے بڑے نہاتے نظر آتے گاؤں میں چند چھوٹے گھر تھے کچھ کچی مٹی سے بنے ہوئے اور کچھ پکی اینٹوں سے لیکن وہ سب گھر ایک جیسے ہی لگتے تھے اب چند دنوں سے شہر کی جانب سے پکی اینٹوں سیمنٹ،گارڈر سریوں اور لکڑی کے دروازوں کھڑکیوں سے بھری ٹرالیاں آرہی تھی جلال الدین نے اپنا تین کمروں کا کچا گھر مسمار کردیا تھا اور اب وہاں پکا مکان بن رہا تھا تھوڑے ہی عرصے میں یہاں شہروں میں دکھائی دینے والے گھروں جیسا گھر بن گیا صحن کے آگے بڑا سا دروازہ،،،،،اونچا برآمدہ،،،،،خوبصورت بل کھاتی سیڑھیاں،،،،چھت کے احاطے پر جالی دار چبوترہ،،،گاؤں کے لوگ اس گھر کو حیرت اور رشک سے دیکھتے۔(جاری ہے)سب جانتے تھے جلال الدین کا بیٹا غیر ملک کمانے گیا ہے وہاں سے خاصی رقم اس کے پاس آرہی ہیں وہ عام آدمی سے بڑا آدمی بن گیا تھا اس کا سب سے یارانہ تھا لیکن اب وہ بات کرتا تو اس کے لہجے میں رعونیت بھری ہوتی کوئی پوچھتا”کیا حال ہے جلال؟“”کیا بتاؤں یار،،،،،وہ جواب دیتا آج تمہاری بھابھی نے مرغ پلاؤ کے ساتھ قورمہ بھی بنالیا ساتھ کھیر تیار کر لی پیٹ بھر کر کھالیا اب طبعیت کچھ بھاری سی ہے،کوئی پوچھتا آج کل کیا ہورہا ہے جلال الدین،بڑے دنوں سے ہمیں ملے نہیں،بس یار وہ جواب دیتا ہر تیسرے دن شہر جانا پڑتا ہے شاپنگ کرنے کبھی گھر کا فرنیچر لینے کبھی کپڑے خریدنے اور کبھی گھر کی آرائش کی چیزیں خریدنے ذرا فرصت نہیں تم لوگوں کو ملنے کی۔“سوال کرنے والا عجب حسرت آنکھوں میں لئے وہاں سے چلا جاتا۔جلال کے اس بدلتے رویے کا سب سے زیادہ دکھ اس کے بڑے بھائی جمال کو ہوا جلال نے اپنی بیٹی کی منگنی بچپن میں ہی جمال کے بیٹے سے کردی تھی جمال کے بیٹے نے اب چھوٹی سی دکان کھول لی تھی جمال نے جب جلال الدین سے اس کی بیٹی کی رخصتی کی بات کی تو وہ عجب بے رخی سے بولا دیکھو بھائی میری بیٹی اب بڑے گھر میں رہتی ہیں وہ تمہارے دو کمروں کے کچے مکان میں نہیں رہ سکتی اپنے بیٹے سے کہو وہ ایسا ہی دو منزلہ گھر بنوائے۔“لیکن لالہ۔اس نے نئی دکان کھولی ہے ہماری ایسی حیثیت نہیں کہ تمہارے جیسا گھر بنواسکیں اصل میں آپ کے پاس پیسہ آگیا ہے اور آپ ہمیں اپنے قابل نہیں سمجھتے۔“جمال کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے۔ہاں یہی سمجھ لو جلال نے منہ موڑلیا۔جمال نے منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانا اور جمال دل برداشتہ ہوکر وہاں سے چلا آیا۔اس گاؤں میں ایک اور گھر تھا جو باقی گھروں سے بہتر تھا اس میں رہنے والا ممتاز گاؤں کے دوسروں لوگوں سے مالی لحاظ سے بہتر سمجھا جاتا تھا وہ غریب لوگوں کو قرض دیتا لیکن وصولی کے لیے انہیں بہت تنگ کرتا اور ان کی قیمتی چیزیں ہتھیا لیتا تھا۔جامو دودھ والے کی ماں کا آپریشن ہوا تو اس نے ممتاز سے بیس ہزار روپے ادھار مانگ لیے ممتاز نے اسے ادھار تو دے دیا لیکن جلد ہی واپسی کے لیے تنگ کرنے لگا جامو کبھی اپنی محنت کی کمائی سے ہزار دو ہزار روپے ادھار کی واپسی کی صورت میں بناتا تو ممتاز غصے سے کہتا قسطوں میں ذرا ذرا سی رقم نہیں لوں گاپوری رقم دے۔اور جب جامو پوری رقم کا بندوبست نہ کرسکا تو وہ اس کی بھینس کھول کر چل پڑا جامو منتیں کرنے لگا بھائی دیکھ ہمارا گزارا ہی اس بھینس کے دودھ پر ہے دودھ بیچ کر ہی کچھ کماتا ہو بھینس تم لے گے تو ہم کیا کریں گے بھوکے مرجائیں گے۔مرجا بھوکا میں کیا کروں،،،جس دن بیس ہزار روپے لاکر دوں گے بھینس لے جانا جامو آنسو بہانے کے علاوہ کچھ نہ کرسکااسی گاؤں میں ایک گھر نور محمد کمہار کا تھا وہ مٹی کے برتن بناتا تھا اور شہر جاکر بیچتا تھا اس کا چھ سالہ بیٹا ایک ٹانگ سے معذور تھا نور محمد بہت محنت سے برتن بنا کرایک کمرے میں جمع کررہا تھا اس کا بیٹا پوچھتا؟۔ابا جی اتنے سارے برتن ہم کیا کریں گے،،،،،،،؟۔نور محمد پیار سے جواب دیتا بیٹا جب بہت سے برتن بکے گئے تو ہمارے پاس زیادہ پیسے جمع ہوجائے گے پھر ہم ان پیسوں سے تمہاری ٹانگ کا علاج کرائیں گے پھر میں چلنے لگوں گا؟ابا جی کیا دوسرے بچوں کی طرح دوڑیں لگاؤں گا؟ہاں میرے بچے نور محمد اسے سینے سے لگالیتا،نور محدمحمد کے گھر کے ساتھ ہی مائی رحمت کا گھر تھااس کا بیٹا وسیم شہر میں ملازمت کرتا تھا وہ اکیلی رہتی تھی اور سارا مہینہ اس کا انتظار کرتی ،وہ یکم تاریخ کو تنخواہ لے کر آتا اپنی ماں کے حوالے کرتا دو دن رہتا اور واپس شہر چلا جاتا اس طرح ہر گھر کی ایک کہانی تھی،چند دنوں سے شدید بارشیں ہوگئی تھیں اتنی بارش پہلے کبھی نہ ہوئی تھی گلیوں میں کافی پانی جمع ہوچکا تھاسارے گاؤں والے پریشان تھے اور اللہ سے بارش رک جانے کی دعائیں مانگ رہے تھے اس بار بھی یکم تاریخ آگئی مائی رحمت نے وسیم کی پسند کا ساگ اور گڑوالے چاول بنائے تھے وہ بڑی بے چینی سے بیٹے کا انتطار کر رہی تھی اچانک مسجد میں اعلان ہوا۔بھائیوں اور بہنوں دریا میں سیلاب آگیا ہے گاؤں کو سخت خطرہ ہے جتنی جلدی ہوسکے اپنے گھر چھوڑدو پرانے کنویں کے پاس جو مٹی کے اونچے ٹیلے ہیں ان پر جمع ہوجاؤ۔مائی رحمت نے صحن کا دروازہ کھولا اور اپنے بیٹے کی راہ تکنے لگی لوگ گھروں سے نکل کر ٹیلے کی طرف بڑھ رہے تھے وہ سخت پریشان تھے نہ صرف ان کے گھر اور گھر کا سازو سامان بہہ جانے کا خدشہ تھا بلکہ ٹیلے دور ہونے کی وجہ سے ان کی جانیں چلے جانے کا خوف بھی تھا جن کے پاس کوئی بیل گاڑی یا کوئی تانگہ تھا اس نے نہ صرف اپنا کنبہ اس پر بٹھا لیا تھا بلکہ سمٹ سمٹا کر دوسروں کو بھی بیٹھنے کی جگہ دے دی تھی،جلال بھی پریشان ہوگیا اپنی بیٹی اوربیوی کے ساتھ باہر نکل آیا تھا اس کے قریب سے کوئی بیل گاڑی یا تانگہ گزرتا وہ ساتھ لے جانے کی التجا کرتا لیکن کوئی اس کے لئے جگہ نہ بنا سکاجلال کو محسوس ہورہا تھا لوگ نکل جائے گے اور وہ وہی رہ جائے گا سیلاب کا ریلا آئے گا اسے اس کے گھر والوں سمیت بہا کر لے جائے گا اچانک اس کے قرین گدھا گاڑی رکی اس میں جمال اور اس کے بیوی بچے بیٹھے ہوئے تھے ساتھ ضروری سامان تھا آجاؤ لالہ جمال نے پکارا۔اس نے اپنا سامان نیچے پھینک دیا اور جگہ بنادی جلال نے احسان مند نظروں سے بھائی کو دیکھا اپنی بیٹی اور بیوی کے ساتھ گدھا گاڑی میں بیٹھ گیا نور محمد کمہار نے اپنے بیٹے کو کندھوں پر بٹھالیا تھا اس نے دیکھا مائی رحمت دروازے میں کھڑی ادھر اُدھر دیکھ رہی ہے اور سخت پریشان ہے نور محمد نے آواز دی ماسی۔آجاؤ،، دیر کیوں کررہی ہوں ابھی سیلاب آئے گا اور تمہیں بہا کر لے جائے گا مجھے اپنے بیٹے کا انتظار ہے میں اگر یہاں سے چلے گی تو وہ مجھے کہا ڈھونڈے گا۔“پہلے اپنی جان بچاؤنور محمد زور سے بولا۔زندگی ہوتو بچھڑے مل ہی جاتے ہیں رحمت مائی بنے کھانا رومال میں باندھ لیا تھا وہ نور محمد کے ساتھ چل پڑی ۔جامو نے اپنی ماں کو ایک تانگے میں سوار کردیا تھا اور خود پیدل جارہا تھا،بچاؤ۔بچاؤ جامو کو پیچھے سے آواز سنائی دی اس نے مڑکر دیکھا ممتازلڑ کھڑاکر چل رہا تھا اور پھر وہ بارش کے پانی میں گر گیا جامو نے بھاگ کر اسے پانی میں کھڑاکیا اور بولا میرا کندھا پکڑلو اور میرے سہارے چلو ممتاز کچھ دیر اس کے سہارے چلا لیکن پھر گرنے لگا مجھے بخار ہے مجھ سے چلا نہیں جارہا وہ ہانپتے ہوئے بولا۔ممتاز دبلا پتلا چھوٹے قد کا آدمی تھا زیادہ بھاری نہ تھا جامو نے اسے کندھوں پر اٹھالیا گوکہ اسے اٹھا کر پانی میں چلنا آسان نہ تھا لیکن جامو نے ہمت نہ ہاری۔گاؤں کے سب لوگ ٹیلے پر بیٹھے تھے اب کوئی چھوٹا بڑا امیر غریب نہ تھاسب کا ایک ہی جیسا حال تھا بھوکے پیاسے بے بس اور مجبور سب روٹی کے چند ٹکڑوں کے لئے محتاج تھے نہ سونے کے لیے بستر تھا نہ سر پر کوئی چھت،،،اللہ کے سوا ان کا کوئی آسرا نہ تھا سب کی زبان اور دل پر اللہ کا نام تھا ایک سرکاری گاڑی آئی انہیں کھانا اور پانی کی بوتلیں دے کر چلی گئی سب مل بانٹ کر کھارہے تھے رحمت مائی بڑی دیر سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ شاید اس کا بیٹا آجائے اس نے بھی رومال کھول کر کھانا نکالا اور سب کے آگے رکھ دیا ممتاز کا جسم بخار کی وجہ سے ٹوٹ رہا تھا وہ نیچے پڑا ہائے ہائے کررہا تھا جامو آگے بڑھا اس نے پانی میں رومال بگھویا نچوڑا اور ممتاز کے ماتھے پر لگاتا رہا۔بخار کچھ کم ہورہا تھا جامو اس کی ٹانگیں دبانے لگا اسے محسوس ہوا ممتاز اسے تشکر بڑی نظروں سے دیکھ رہا ہے گاؤں میں سیلاب آچکا تھا حد نظر تک پانی ہی پانی تھا گھر اور فصلیں ڈوب چکی تھیں امدادی ٹیمیں اپنا کام کررہی تھی خدا خدا کرکے پانی اترا لوگ گاؤں میں واپس لوٹے تو گھروں کے کافی حصے ٹوٹ چکے تھے،جلال الدین کے مکان کے کچھ حصوں میں دراڑیں پڑچکی تھیں اور صحن کی دیواریں گر گئی تھیں مائی رحمت کا بیٹا وسیم بھی شہر سے آچکا تھا وہ سب کو جمع کرکے بولا ہماری اکیلے کوئی زندگی نہیں ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے تو اللہ بھی ہمارے ساتھ دے گا پہلے بھی اپنے گھر خود بنائے تھے اور اب بھی مل کر اپنے گھر دوبارہ بنالیں گے اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کریں گے ہماری بستی پھر سے آباد ہوگی سب لوگوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور اپنے گھر تعمیر کرنے لگے جمال بھی کچی مٹی سے اپنا گھر بنانے لگا تو اس کا بھائی جلال آیا اور بولا جمال میرے صحن کی پکی اینٹے لے جاؤ اوراس سے اپنا گھر بناؤ اور،،،،وہ آپ کا صحن؟جما ل حیرت سے بولا فی الحال مٹی کے گارے سے بنالوں گا پھر کبھی پکا بھی کرلوں گاپہلے تمہارا گھر بننا چاہیے آخر میری بیٹی نے اسی گھر میں تمہاری بہو بن کر آنا ہے جمال نے جلال کو گلے لگالیا،جامو بھی اپنے گھر میں اینٹے لگا رہا تھا تو ممتاز آگیا اس کے ساتھ جامو کی بھینس بھی تھی وہ بولا یہ رسہ تڑا کر جانے کہاں بھاگ گئی تھی بڑی مشکل سے ڈھونڈ کر لایا ہوں یہ لو اپنی بھینس مگر وہ تمہارا قرض؟جامو حیران رہ گیا تھوڑا تھوڑا کر کے اتر ہی جائے گا اکٹھے پیسے دینے کی ضرورت نہیں ممتاز پیار سے جامو کا کندھا تھپتھپا کر بولا خوشی سے جامو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے نور محمد بہت دکھی تھا وہ بولا گھر تو میں بنا ہی لوں گا مگر میرے سارے برتن ٹوٹ گئے اور بہہ گئے ہیں اب میں کیا بیچ کر بیٹے کا علاج کراؤں گا وسیم بولا تمہارا بیٹا ہم سب کا بیٹا ہے ہم سب مل کر پیسے جمع کریں گے اور اس کا علاج کرائیں گے نور محمد نے خوش ہوکر وسیم سے ہاتھ ملایا وسیم نے اپنے دوسرے ہاتھوں سے جامو کا ہاتھ پکڑ لیا اور جامو نے جمال کا،،،،،اور یوں سب ایک دوسرے سے جڑتے گئے سب ایک ہوگئے۔ " بھُورا اور چتکبرا - تحریر نمبر 1064,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhora-or-chtakbra-1064.html,"احمد عدنان طارق:کہیں پردو مرغے رہا کرتے تھے۔ ایک مرغا بھورا تھا اور دوسرا چتکبرہ ۔ وہ گہرے دوست تھے۔ ایک صبح وہ سیر کرنے کیلئے نکلے تو بھورے نے چتکبرے سے کہا:“ اگر مجھے مونگ پھلی کا دانہ ملا تو میں آدھا تمہیں دوں گا۔“ تھوڑی دیر بعد بھوڑے کو ایک مونگ پھلی کا دانہ مل گیا اُسے بہت بھوک لگ رہی تھی۔ اُس نے سوچا یہ دانا وہ کھا لیتا ہے، جب اُسے دوبارہ دانا ملے گا تو وہ چتکبرے کو دے دے گا۔پھر اُس نے جلدی جلدی دانا منہ میں ڈالا اُسے نگل گیا۔ لیکن جلدی میں دانے کا خول اُس کے حلق میں پھنس گیااور اُسے سانس لیتے ہوئے ہچکولے آنے لگے۔ وہ ہچکی لیتا ہوا بولا”چتکبرے! مجھے سانس نہیں آرہا، جلدی سے نلکے پر جاؤ اور میرے لئے پانی لیکر آؤ۔(جاری ہے)ورنہ میں مرجاؤں گا۔“چتکبرا پورے زور سے بھاگا اورنلکے پر پہنچا اور درخواست کرتے ہوئے بولا:” اے نلکے! مجھے بھورے کیلئے جلدی سے تھوڑا سا پانی دے دو ورنہ وہ مرجائے گا۔“ نلکے نے کہا؛” پہلے وہ دور گھر دکھائی دے رہا وہاں جاؤ اورمیرے لئے وہاں بیٹھی ہوئی دلہن کے بالوں میں لگے کچھ پھول لاکردو“ چتکبرا بھاگا اور دلہن کے پاس پہنچا اور اُسے کہنے لگا؛ اے دلہن! مجھے اپنے بالوں میں سجے کچھ پھول دے دو۔ تب نلکا مجھے پانی دے گا اور بھورا جو مررہا ہے وہ بچ جائے گا۔دلہن کہنے لگی؛ پہلے موچی کے پاس جاؤ اور میرے لئے نئے جوتے لیکر آؤپھر تمہیں پھول دوں گی۔چتکبرا پھر بھاگا اور موچی کے پاس پہنچا اور اُسے کہنے لگا؛ بھائی مجھے دلہن کیلئے نئے جوتے دے دو، وہ اسکو بدلے مجھے پھول دے گی جو میں نلکے کو دوں گا، وہ مجھے پانی دے گا جسے پی کر بھورا مرنے سے بچ جائے گا۔“ موچی مولا؛ پہلے غلے والے گودام میں جاؤ اور وہاں کھڑی بھینس سے میرے لئے دودھ لیکر آؤ پھر میں دلہن کے جوتے دوں گا۔“چتکبرا پھر بھاگم بھاگ بھینس کے پاس پہنچا اور اُسے کہنے لگا۔پیاری بھینس مجھے موچی کیلئے دودھ دے دو تاکہ وہ مجھے دولہن کے جوتے دے دے وہ مجھے پھول دے گی جو میں نلکے کو دوں گا۔ نلکا مجھے پانی دے گا جسے پلا کر میں بھورے کو بچاؤں گا۔ بھینس بھوکی تھی وہ کہنے لگی ،پہلے مجھے چراگاہ سے تازہ گھاس لاکردو پھر میں تمہیں دودھ دوں گی۔“ چتکبرا بے چارہ یہ سُن کر چراگاہ کی طرف بھاگا اور چراگاہ سے کہنے لگا۔اے چراگاہ! مجھے تھوڑا گھاس دے دو ۔ میں اُسے بھینس کو کھلاؤں گا پھر دودھ لیکر موچی کو دوں گا، جوتے لیکر دلہن کو دوں گا ۔ پھول لیکر نلکے کو دوں گا ، نلکے سے میں اپنے دوست کیلئے پانی لو گا اور اپنے دوست کا بچاؤں گا۔ چراگاہ نے کہا؛ چتکبرے جتنا مرضی گھاس لے لو اور اپنے دوست کو بچاؤ اور کچھ پھول بھی لے جاؤ۔ یہ سن کر چتکبرے نے اتنی گھاس کاٹ لی جتنی وہ اُٹھا سکتا تھا اور گھاس اٹھا کر اتنی تیز دوڑا جتنی تیز وہ دوڑ سکتا تھا۔پھر بھینس نے موچی کیلئے دودھ دیا ۔موچی نے دلہن کیلئے جوتے دیئے۔ دلہن نے نلکے کیلئے پھول دیئے اور نلکے نے چتکبرے کو پانی دیا۔چتکبرا دوڑ کر اُس جگہ پہنچا جہاں وہ اپنے دوست کو چھوڑ گیاتھا۔ بھورا بالکل ساکت پڑا تھا ، ایسا لگتا تھا جیسے وہ مرچکا ہو۔ چتکبرا بے اختیار رونے لگا۔ اُسکے رونے کی آوازیں سن کر چھ چوہے وہاں آگئے اور چتکبرے کو تسلی دینے لگے۔وہ بولے؛ ہم تمہارے دوست کی قبر بنانے میں تمہاری مدد کریں گے، ہم اسے خوبصورت گاڑی میں رکھ کر لائیں گے اور تم اُس کے جنازے کے پیچھے پیچھے چلنا۔“پھر جب وہ سب بھورے کو اُٹھا کر گاڑی میں ڈالنے لگے تو اُسکے حلق میں پھنسا ہوا ، مونگ پھلی کا خول ہلا جس سے بھورے کے حلق سے آوازیں نکلنے لگیں۔ وہ زندہ تھا۔ چتکبرے نے اُسے پینے کو پانی دیا جس سے بھورے کی طبیعت ٹھیک ہوگئی ۔ اُس نے سر اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔ چوہوں نے قبر میں مٹی ڈال کر اُسے ہموار کردیا اور دونوں دوست گپیں ہانکتے گھر کو چل دیئے۔ لیکن بچو آپ نے دیکھا دوست کو دھوکا دینے کا بھورے کا کیا انجام ہوا۔ " دُعا کام آگئی - تحریر نمبر 1063,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dua-kam-aa-gai-1063.html,"ثروت یعقوب:رات کے 9 بجے تھے۔ روبی گھر کے سارے کام کرکے فارغ ہوچکی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کچھ دیر کے لئے پڑھ بھی لیا جائے کیونکہ کچھ دنوں کے بعد اُسکے امتحانات شروع ہورہے تھے ۔ سب بچے پڑھائی میں مشغول تھے اور وہ تمام مصروفیات کی وجہ سے پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دے رہی تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ پڑھائی کاکام بہت بہتر ہے ۔اگر آج اُسے کام کرنا پڑتا ہے تو اگلے گھر میں تو ایسا نہ اور اُسکی اولاد کو بھی انہی مشکلات کا سامنا ہو۔ وہ اپنی طرف سے پوری محنت کرتی اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کے کام کاج میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتی۔ اُسکے والد کا ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا تھا۔ اُسکی ماں گھر کے گزر بسر کیلئے سلائی کاکام کرتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اُسکی بیٹی کو پڑھائی کا شوق ہے۔(جاری ہے)روبی کو ایک ایسی بیماری تھی جو اُسے روز بروز موت کے منہ میں لے جارہی تھی مگر وہ اپنی ماں کو بتانے سے ڈرتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر اُسکی ماں کو پتہ چلا تو وہ بہت پریشان ہوگی۔ اُسکی ایک دوست ننھی تھی۔ وہ اُس سے ہر بات شیئر کرتی تھی۔ ا ُسنے ننھی کو بتارکھا، روبی اُسکی بہترین دوست تھی۔ روبی نے اُس سے پوچھنے کی کوشش کی تھی تو ننھی بولی کہ میری مددکرو، میری امی کی طبیعت بہت خراب ہے۔روبی جلدی سے گھر گئی اور ماں کو بتا کر ننھی کے گھر چلی گئی۔ اُس نے دیکھا کہ اُسکی والدہ چارپائی پر لیٹی تڑپ رہی ہیں۔ کچھ دیر بعد ہی اُن کی روح پرواز کرگئی، ننھی رونے لگی، روبی اُسکو دلا دینے لگی۔ ابھی چند دن گزرے تھے کہ ننھی روبی کے گھر آئی اور بولی کہ تم اپنا علاج کراؤ گی کہ نہیں، ورنہ مجھے تم سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں۔ روبی بولی نہیں، میں اتنی امیر کہاں کہ بڑے بڑے ہسپتالوں میں علاج کروا سکوں۔تو کیا ہوا۔ میں ہوں نا، اُس نے بتایا کہ وہ سکول نہ آرہی تھی تو ماں سے ضد کررہی تھی کہ روبی کے علاج کیلئے کچھ کریں جب ماں فوت ہوئی تو روبی کے علاج کیلئے پیسے اور خط چھوڑگئی تھی اور یوں اُس کا علاج شروع ہوگیا۔ اُسکی والدہ اُس کیلئے دعا کرنے کیلئے مصلے پر بیٹھ گئی اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا کی اے اللہ میں نے ہمیشہ اپنی بیٹی کی سلامتی تجھ سے مانگی ہے۔ اِسکی حفاظت فرما اور پھر آہستہ آہستہ روبی صحت یاب ہوگئی۔ ننھی کیلئے یہ ایک بہت بڑی خوشخبری تھی۔ وہ دونوں پکی سہیلیاں بن گئیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے کام آتی رہیں ہمیشہ۔ سچ ہے ہمیں دوسروں کے کام آنے سے سچی خوشی ملتی ہے۔ " پرایا کندھا - تحریر نمبر 1061,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/paraya-kandha-1061.html,"ساجد کمبوہ :سر منور کلاس میں حاضری لگا رہے تھے جب موسیٰ کا نام آیا تو اس نے کہا۔“یس سر“سر منور نے عینک اتارتے ہوئے کہا کل کیوں نہیں آئے۔“سر میری داڑہ میں درد تھا جسکی وجہ سے نہ آسکا آج بھی درد لگ رہا ہے تمہارا گال پھولا ہوا ہے،سرمنور نے کہا،جی سر آج کچھ آفاقہ ہے“کیا تم مسواک یا برش نہیں کرتے؟سر روزانہ دو مرتبہ برش کرتا ہوں ہمارے پیارے آقا نے مسواک کے بارے میں کیا فرمایا ہے،جی سر مگر شہر میں مسواک کا ڈھونڈنا مشکل ہے مل بھی جائے تو دوسرے دن خشک ہوجاتی ہیں اور پھر مسواک کو ڈسٹ بن میں نہیں پھینکنا چاہئے جبکہ برش اور ٹوتھ پیسٹ تو ہر دکان سے مل جاتی ہیں۔“ روزانہ بازار میں تازہ مسواک والا آتا ہے اس سے لیا کرو سر منور نے مشورہ دیا جی سر سنا تو ہے مگر اسکا ٹائم مقرر نہیں جبکہ میرا اکیڈمی کا ٹائم فکس ہے جسکی وجہ سے مسواک کا،،،،،“کسی واقف دکاندار سے کہہ دو وہ لے لیا کرے اور تم اکیڈمی کے بعد اس سے لے لیا کرو ،اوکے سر ٹرائی کروں گا موسیٰ نے کہا سر منور نے شیڈول کے مطابق حاضری لگائی اور پڑھانے لگے،ہاں بھئی کسی کو مسواک کے لیے کہا اگلے دن حاضری لگاتے ہوئے سر منور نے پوچھانہیں سر مجھے یاد نہیں کیا آپ کے گھر میں آس پڑوس میں ”نیم “کا درخت ہے؟سر نے پوچھا،جی سر میرے ماموں کے گھر میں نیم کا درخت ہے نیم کی ایک مسواک لو وہ کرو پھر دیکھنا اس کا رزلٹ مگر سر وہ توبہت کڑوی ہوتی ہے موسیٰ نے منہ بنا کر کہا بھئی کڑوی ہوتی ہے مگر یہ تو سوچ فائدہ کتنا ہے سر کیا فائدے ہیں اسکے؟موسیٰ نے پوچھا میں پڑھ کر حیران رہ گیا امریکہ میں ایک خاتون پاکستانی نژاد ڈاکٹر کے پاس آئی اسکے مسوڑھوں میں کینسر تھا بہت علاج کرواچکی تھی مگر افاقہ نہ ہوا ڈاکٹر صاحب نے پاکستانی نسخہ آزمانے کا فیصلہ کیا انہوں نے نیم کے درخت کی مسواک کرنے کا مشورہ دیا اور ساتھ نیم کے پتے پانی میں اُبال کر کلی اور غرارے کرنے کو کہا کچھ مدت بعد دوبارہ چیک اپ کروانے آئی اُسکی بائیوپسی کی گئی تو پتا چلا اس کا مرض 20 فیصد ٹھیک ہوچکا ہے اس طرح وہ مکمل طور پر صحت مند ہوگئی۔(جاری ہے)“پھر کیا ہوا سر قاسم ضیاء نے پوچھا،جب امریکی میڈیا کے ذریعے امریکی حکومت کو پتہ چلا تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو پاکستان بھیجا اورکئی کنٹینر نیم کی مسواکیں منگوائیں اور ہسپتال میں شعبہ طب شروع کردیا نیم سے مسوڑھوں کے کینسر کا علاج شروع کیا گیا پھر ڈاکٹر صاحب کے ذریعے نیم کے پودے منگوائے گئے امریکی حکومت نے ایک چھوٹا جہاز ڈاکٹر صاحب کے حوالے کیا اور کہا کہ امریکی ریاستوں میں جاکر دیکھیں کہ کونسی ریاست کی آب و ہوا پاکستان جیسی ہے وہاں پودے لگائے جائیں اسکے عوض کڑوروں کی رائیلٹی بھی دی گئی،سر! اسکے اورکیا فائدے ہیں؟آصف نے پوچھا اسکے بہت فائدے ہیں اسکے پتوں کو پانی میں اُبال کر نہانے سے جسم میں خارش ختم ہوجاتی ہیں بعض لوگ اسے پی لیتے ہیں جس سے پھوڑا پھنسی ختم ہوجاتی ہیں،موسم برسات میں اس کا کٹا ہوا پھل جسے”ممولی“ کہتے ہیں کھانے سے خون صاف ہوجاتا ہے اسکے درخت کے قریب مچھر نہیں پھٹکتا اسکے خشک پتے جلانے سے مکھی مچھر اور لال بیگ بھاگ جاتے ہیں اس سے ٹکرانے والی ہوا فلٹر شدہ لگتی ہیں،سر!کوئی اور فائدہ ؟“نعیم نے شرارتی لہجے میں پوچھا اِسکی مسواک سے منہ صاف ہوتا ہے اسکی شاخیں خشک کرکے گندم والے بھڑولے میں رکھنے سے سسری سنڈی وغیرہ نہیں لگتی اسکی خشک شاخیں کتابوں الماریوں میں رکھنے سے ”دیمک“ نہیں لگتی،واہ جی واہ اتنے فائدے مگر ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا جی بالکل اللہ تعالیٰ نے ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے ہی بنائی ہے۔“اس کے بعد پڑھائی میں مصروف ہوگئے،اتوار کو چھٹی سوموار کو سر منور نے پوچھا تو موسیٰ کہنے لگا وہ سر!کرن سے کہا تھا دراصل میرا میچ تھا دو چار دن پھر سر نے پوچھا تو بولا سر میں چائینہ ڈینٹل کلینک پر گیا تھاوہاں ڈاکٹر صاحب سے میڈیسن لی پھر کزن سے کہوں گا پھر کچھ دن بعد پوچھا تو بولا سر!وہ چچا کے پاس گیا ہے ،ویسے بھی میرے مسوڑھے بہت بہتر ہیں ،لازمی نہیں کے تکلیف کے وقت ہی مسواک استعمال کی جائے اسے استعمال کرتے رہنا چاہیے اچھا سر!انشاء اللہ میں کل خود جاکر مسواک لاؤں گا اور ساتھ پتے بھی لاؤں گا سر!میں کلی کراؤں جاؤ کر آؤ،موسیٰ کلی کرنے گیا تو سر نے کہا لوجی بات پکی کل یہ ضرور مسواک کرکے آئے گا سر آپکو کیسے پتا چلا؟یا سر نے پوچھا یہ کل بتاؤں گا جلدی سے کتابیں نکالو اور پڑھو،اگلے دن حاضری کے فوراً بعد سر منور نے پوچھا کیا نیم کی مسواک کرکے آئے ہو۔“جی سر کرکے آیا ہوں موسیٰ نے خوشی سے کہا سر کل کہہ رہے تھے کہ تم لازمی کرکے آؤ گے ارحم نے کہا،سر نے کسی بات سے اندازہ لگایا ہوگا تبھی کہہ رہے تھے سر منور نے گلا صاف کیا اور کہا پیارے بچو!مجھے یقین ہوگیا تھا آج وہ مسواک کرکے آئے گا وہ اسلئے کہ میں نے پڑھا تھا کہ چڑیا چڑے نے کسی گھر میں کھونسلہ بنالیا روز چھوٹے چھوٹے تنکے گرتے اس آدمی کی بیوی اس گھونسلے سے بہت تنگ تھی صفائی کرکے فارغ ہوتی تو پھر دو چار تنکے پڑے ہوتے گھونسلہ چھت کے نیچے تھا آخر کار اس نے ایک دن اپنے شوہر سے شکایت کی شوہر نے کہا گھبراؤ نہیں میں بھائی سے کہوں گا وہ آکر گھونسلہ گرادئے گا شام کو جب چڑا آیا تو چڑی نے گھبراتے ہوئے میاں بیوی کی بات بتادی،چڑا بڑئے سکون سے بولا گھبراؤ نہیں کچھ نہیں ہوگا مگر چڑیا نے اگلا پورا دن پریشانی میں گزارا واقعی کچھ نہیں ہوا ایک دو دن بعد بیوی نے پھر میاں سے شکایت کی تو اس نے کہا کوئی بات نہیں آج تمہارے بھائی سے کہوں گا وہ گھونسلہ ہٹادے گا چڑیا نے چڑے کو بتایا تو اس نے کہا فکر نہ کرو کچھ نہیں ہوگا،واقعی کچھ نہیں ہوگا اس طرح بھانجے بھتیجے سے کہا کچھ نہ ہوا فارغ ہونے کے باوجود کوئی علاج کے لیے نہیں آیا بیوی نے تنگ آکر شوہر سے پھر کہا تو اس نے کہا فکر نہ کرو کل میں خود یہ کام کروں گا شام کو یہی بات چڑیا نے چڑے کو بتائی کہ آج یہ بات ہوئی ہے تو یہ چڑا بولا اب نیا گھونسلہ ڈھونڈو چڑیا نے کہا آج کیا خاص بات ہیں جو تم بھی پریشان ہوگئے،چڑے نے کہا آج تک وہ اپنا کام دوسروں پر چھوڑتا آیا تھا تو فکر کی کوئی بات نہیں تھی مگر آج اس نے طے کرلیا تو ہمارا گھونسلہ ختم،آج موسیٰ کی طرح سبھی اپنا کام دوسروں پر ڈالتے ہیں ہمیں چڑیا اور چڑے کی طرح سبق لینا چاہیے ہمیں کبوتر کی طرح آنکھیں نہیں بند کرنا چاہیے کئی طالبعلم یہ سوچ کر نہیں پڑھتے کہ جب امتحان ہوگا پھر پڑھ لیں گے وہ نقصان میں رہتے ہیں سر منور کی بات میں وزن تھا اور بچوں کے لئے سبق۔پیارے بچوں آپ بھی وعدہ کریں کہ وقت پر پڑھیں گے اور امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کریں گے۔ " گلہری کی چھلانگ - تحریر نمبر 1060,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gulehri-ki-challlang-1060.html,"احمد عدنان طارق:وہ سخت گرمیوں کی ایک شام تھی بی گلہری کا گھر بوڑھے برگد میں تھا اور اس کے تمام ننھے منے بچے اپنے سونے والے کمرے میں موجود تھے، اگرچہ اُن کے سونے کا وقت کب کا ہوچکا تھا لیکن وہ ابھی تک جاگ رہے تھے۔ نمو بی گلہری کا سب سے چھوٹا بچہ تھا وہ اپنے بستر پر اچھل کود رہا تھا۔ وہ کہنے لگا” مجھے نیند بالکل نہیںآ رہی ہے۔ابھی باہر تھوڑی روشنی دکھائی دے رہی ہے۔ میں تو ابھی کھیلنا چاہتا ہوں“ دوسروں نے منہ پر انگلی رکھ کر اُسے چپ رہنے کو کہا اور سرگوشی سے اُسے کہنے لگے”اتنا اونچا نہ بولو ورنہ اماں سن لیں گی تو ہم سب مشکل میں پڑجائیں گے“ لیکن نمونے اُن کی نصیحت پر کان دھرنے کی بجائے ہنسنا شروع کردیا اور زور سے بستر پر اُچھلنا کودنا شروع کردیا ۔(جاری ہے)جب گلہری کے دوسرے بچوں نے دیکھا کہ نمو تو بہت مزا کررہا ہے تو اُنہوں نے نمو کے ساتھ کھیلنے کا فیصلہ کیااور اُسکے ساتھ شور مچانے لگے۔ نمو بولا؛”میری طرف دیکھو میں تم سب سے بڑی چھلانگ لگاتا ہو، میں لگا سکتا ہوں“ پھر اچانک ہی اُس نے کھلی کھڑکی کے باہر ہوا میں چھلانگ لگائی اور اُس جنگل کے سب سے اونچے درخت کی سب سے اونچی شاخ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر لٹک گیا۔اُس کے تمام بہن بھائی کھڑکی سے باہر جھانک کر اُسے دیکھنے لگے۔نمو چلانے لگا” مدد، مدد کوئی مجھے نیچے اُتارے“ یہ کہتے ہوئے وہ شاخ سے لٹکا ہوا جھول رہا تھا، تبھی اماں گلہری دروازہ کھول کر اُن کے سونے والے کمرے میں داخل ہوئیں اُنہوں نے بچوں کا شور سنا تھا اور وہ یہی دیکھنے آئیں تھیں کہ آکر ہو کیا رہا ہے۔ جب اُنہوں نے کھڑکی سے جھانکا تو اُنہیں نمو جنگل کے سب سے اونچے درخت کی سب سے اونچی شاخ پر لٹکا ہوا نظر آیا بی گلہری کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔وہ حیرت سے چلاتی ہوئی پوچھنے لگیں”تم یہاں تک پہنچے کیسے؟ فوراََ واپس نیچے اتر و“ لیکن وہ تو اتنا ڈرا ہوا تھا کہ اُسکے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ خود اماں گلہری بھی اتنی بلند اور نازک شاخوں تک نہیں پہنچ سکتی تھیں وہ بولیں؛ ”میں آنہیں سکتی میں جنگل کے فائر بریگیڈ کو بلاتی ہوں“ جب فائر بریگیڈ وہاں پہنچے اور اتنے اونچے درخت کو دیکھا تو مایوسی سے سرہلائے اورکہنے لگے؛” ہماری سیڑھیاں اتنی اونچائی تک نہیں پہنچ سکتیں۔بیٹا! تمہیں نیچے کودنا ہوگا“۔ بی گلہری ڈر کر بولیں؛ کودنا ہوگا؟ اُن کے بچوں نے انہیں ڈرے ہوئے دیکھا تو رونے لگے۔ فائر بریگیڈ والے کہنے لگے؛ ڈرنے کی بات نہیں درخت کے نیچے گدم بچھا دیئے گئے ہیں سکون سے چھلانگ لگادو“۔ نمونے جب نیچے نرم گدھا دیکھا تو اس کا خو ف ختم ہوگیا اُس نے پکا ر کر فائر بریگیڈ والوں سے کہا؛ میں سمجھوں گا کہ میں اپنے بستر پر کود رہا ہوں اور دیکھنا میں آرہا ہوں۔پھر نمو نے ہوا میں چھلانگ لگائی اور باحفاظت گدوں پر آگرا۔ اُسے ذراچوٹ نہ آئی ۔ وہ خوشی سے اپنی باریک آواز میں سب کو بتا رہاتھا؛ مجھے تو چھلانگ لگانے میں بہت مزا آیا، کیا میں دوبارہ چھلانگ لگا سکتا ہوں؟“ اُسکی اَمی سختی سے بولیں؛ ہرگز نہیں ، فوراََ اپنے بستر پر جا کر لیٹ جاؤ اور بالکل اُچھلنا کودنا نہیں “ اُس رات گلہری کے سارے بچوں کو فائربرگیڈ والوں کے خواب آتے رہے۔ جبکہ نمو کو لگا کہ وہ ابھی بھی شاخ سے لٹکا ہوا ہے اُسے پتا تھا کہ اُسے یہ سزا امی کا کہا نہ ماننے پر ملی ہے۔ " موچی - تحریر نمبر 1059,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mochi-1059.html,"ڈاکٹر شیما ربانی:یہ میرا معمول ہے کہ میں شام سیر کرنے کے لئے اپنے گھر کے نزدیک باغ میں جایا کرتا ہوں۔ میرے گھر سے کچھ فاصلے پر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر وہ روزانہ موجود ہوتا ہے، میں اُسے حد تک جانتا ہوں کہ روز اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کو سلام کرلیتا ہوں، اور یہ سلسلہ بھی اس کا ہی شروع کردہ ہے۔ ایک دن جب میں جاگنگ کرتا ہوا اس کے قریب سے گزرا تو اس نے اپنے مصروف ہاتھوں کو روک کر سر اُٹھایا اور اچانک مجھے سلام کیا ۔جس کا جو اب میں نے چونکتے ہوئے دیا۔ اس کے بعد سے یہ سلام میرا اور اُس کا معمول بن گیا تھا۔ میں اس شہر کے اہم لوگوں میں شمار کیا جاتا ہوں اور سرکاری نظام میں نہایت اہم پُرزے کی حیثیت رکھتا ہوں یعنی میں وزارتِ داخلہ میں ایک اہم عہدے پر مقرر ہوں۔(جاری ہے)آج بھی میں معمول کے مطابق جاگنگ کے لئے نکلا اور گلی عبور کرکے اُس کے نزدیک پہنچا، وہ آج اپنے کام میں بہت مصروف تھا یہاں تک کہ اُس نے آج تو سلام کے لئے بھی اپنا سر نہ اٹھایا تھا لہٰذا آج میں نے پہلے اُس کو سلام کیا۔اسلام علیکم! کیا حال ہے بھائی“۔ وعلیکم السلام صاحب ٹھیک ہوں اللہ کا کرم ہے۔ آپ کیسے ہیں جی؟“ ٹھیک ہوں“ ۔ آج نہ جانے کیوں میں اس کے پاس رک گیا تھا اور باتیں کرنے لگا تھا۔ تم کب سے یہاں ہو؟“۔ صاحب جی تقریباََ تیس بتیس سال ہوگئے ہیں۔“ اس علاقے میں تو تمھارا کام زیادہ نہیں چلتا ہوگا ،نہیں جی ٹھیک ہی چل جاتاہے بس روز کا خرچا نکل آتا ہے بس اتنا ہی کافی ہے جی۔تمھارا گھر بار بچے وغیرہ کہاں رہتے ہیں؟“۔ یہاں سے آدھا گھنٹہ چلنے کے بعد ایک کچی آبادی ہے جمن آباد وہاں رہتا ہوں میں۔ بچے کیا کرتے ہیں تمھارے ، اُن کو کیوں نہیں ساتھ کام پر لگاتے؟“ صاحب میرے دو بچے ہیں دونوں لڑکے ہیں بڑی مشکل سے پانچویں تک پڑھ سکے ہیں اور اب وہ یہ کام نہیں کرنا چاہتے ہیں ، ۔ وہ اپنے یار دوستوں کے ساتھ دوکان کرنا چاہتے ہیں۔مگر کیا کریں صاحب اتنا تو نہیں ہے ہمارے پاس۔ بس جی کو شش کررہے ہیں۔ تم یہاں کب تک بیٹھتے ہو؟“ بس جی اندھیرا ہونے لگے تو چلا جاتا ہوں۔میرا کام روشنی کا ہی ہے جی، ویسے بھی اب نظر بھی کم آنے لگا ہے“ اس نے یہ تمام باتیں سرجھکائے ہوئے ہی کیں اور اپنے کام میں لگا رہا ، میں نے اُس سے ہاتھ ملایااور دعا سلام کے بعدوہاں سے چل پڑا۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ میں اس کا اور اپنا مقابلہ کررہا ہوں۔مجھے خیال آیا کہ میں اس اعلیٰ سرکاری عہدے پر ہوتے ہوئے ایک دن میں اس معاشرے کو کیا دے پاتا ہوں اور وہ اپنے ایک دن میں اس معاشرے کو کیا دے رہا ہے۔ میں اپنے پورے دن میں صبح سے شام تک دو تین بے مقصد میٹنگ نمٹانا ہوں پھر کئی گھنٹے دوپہر کے کھانے کے نام پر صرف کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ آفس میں کئی فائلیں اپنے دستخط سے یا تو آگے بھیج دیتا ہوں یا پھر واپس بھیجوا دیتا ہوں، اس طرح ایک دن ختم ہو جاتا ہے۔جبکہ یہ شخص جو کہ ایک موچی ہے اور معاشرے میں ایک معمولی سا مقام رکھتا ہے ایک پورے دن میں کم ازکم بھی دس جوتے گانٹھ کر کچھ رقم حاصل کرلیتا ہے جو اس کے بچوں کے لئے بے حد اہم ہے او ر ساتھ ساتھ معاشرے اور عوام کی بھلائی اور خدمت میں براہ راست حصہ لیتا ہے۔ اچانک مجھے محسوس ہواکہ جیسے میں بہت تھک گیا ہوں اور پھر میں نے باغ میں پہنچنے سے پہلے ہی واپسی کے لئے رُخ موڑلیا ، واپس آتے ہوئے جب میں اُس کے پاس سے گزرا تو میں نے اپنے دل میں اعتراف کیا کہ: یہ موچی معاشرے کی بھلائی کرنے میں مجھ سے کہیں آگے ہے اور زیادہ ضروری ہے۔“ " خوداری - تحریر نمبر 1058,https://www.urdupoint.com/kids/detail/true-stories/khoodari-1058.html,"تنزیلہ یوسف:صاحب کھولنے لے لو“۔ بچوں کے لئے پیزا لے کر جیسے ہی عمر پارکنگ میں کھڑی گاڑی کی جانب بڑھا کھولنے بیچنے والا بارہ سے تیرہ سال کی عمر کا لڑکا تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔ مگر میرے بچے تو بڑے ہیں وہ ایسے کھلونوں سے نہیں کھیلتے۔ عمر نے معذرت خواہانہ لہجے میں اس لڑکے کو انکار کیا۔ اچھا․․․․ ٹھیک ہے ، آپ نہیں لیں گے تو کوئی اور صاحب اپنے بچوں کے لئے لے جائیں گے۔“ اس کی آنکھوں کی چمک یکدم ماند ہوئی مگر ساتھ ہی خود کو تسلی بھی دی۔ تم پڑھتے نہیں؟“ یکدم عمر کو اس میں دلچسپی محسوس ہوئی۔ صاحب میں پڑھوں گا تو میرے گھر میں چھوٹا بھائی اور بہن جو ہیں ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کون پوری کرے گا؟“ وہ افسر دگی سے گویا ہوا۔(جاری ہے)میں اور اماں کام کرتے ہیں۔ اماں گھروں میں کام کرتی ہیں ۔ میں دن میں ورکشاپ پر کام کرتا ہوں اور رات کو ادھر کھولنے بیچتا ہوں۔میرا چھوٹا بھائی اور بہن سکول جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ میری طرح نہ ہوں پڑھ لکھ کر بہت آگے جائیں ، اسی لیے میں اور اماں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ابا کو پچھلے سال فالج کا اٹیک ہوا تھا تب سے وہ بستر پر ہیں۔“”اچھا یہ رکھ لو“ عمر نے بٹوے سے کچھ روپے نکال کر اسے دینا چاہے۔ بھکاری نہیں ہوں محنت کرتا ہوں۔ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔اماں کہتی ہیں جو سوال کرتا ہے۔ قیامت کے روز اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاؤں اور قیامت کے دن میرے چہرے پر گوشت نہ ہو“ عمر کی بات سے جیسے اس کی خوداری کو تازیانہ لگا تھا۔ ارے یا تم تو برا مان گئے۔ اچھا یہ بتاؤ ایک کھلونا کتنے کا ہے؟۔سو روپے کا ۔ مگر ابھی تو آپ لینے سے انکار کررہے تھے۔ عمر کو اس کا یہ انداز اچھا لگا۔یا تمہارے کھلونے بک جائیں اور تمہیں کیا چاہیے؟ یہ سارے دس ہیں صاحب“۔ یہ لو ان سب کے پیسے ۔ ایک کھلوانا مجھ دو میرے گھر کام والی آتی ہے اس کے بیٹے کو دوں گا۔ باقی تم اپنے گھر کے آس پاس کے بچوں میں بانٹ دینا۔ عمر نے اسے اپنا اردہ بتایا۔ وہ لڑکا چلا گیا مگر عمر کو گاڑی میں بیٹھتے ہی اپنا ماضی یاد آگیا۔ سوچ کے دریچے کھلتے گئے اُس کے ابو ایک فیکٹری میں ملازم تھے۔عمر اس وقت آٹھویں جماعت میں تھا جب اس کے ابو کی دونوں ٹانگیں ایک حادثے میں ضائع ہوگئیں۔ اپاہج ہونے کے باوجود اس کے ابو نے کبھی اس بات کو کمزوری بنا کرکسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے ۔ گھر کے دروازے پر بچوں کے کھانے پینے کا سامان رکھ کر بیچنا شروع کردیا۔ امی لوگوں کے کپڑے سینے لگیں۔عمر سکول جانے سے پہلے سائیکل پرلوگوں کے گھروں میں اخبار دیتا ۔سکول سے واپس آتا تو ٹیوشن پڑھنے والے بچے آجاتے۔ شام کو اپنی پڑھائی کرتا۔ یوں تینوں نے مل کر زندگی کی گاڑی چلانا شروع کردی۔ عمر نے ایم بے اے کرلیا تو اس کو ایک فرم میں نوکری مل گئی۔ امی نے اپنی بھانجی سے اس کی شادی کردی۔ آج اس کے دو بیٹے ہیں۔ جنہیں وہ محنت کرنے کی تلقین کرتا ہے اس کے امی ابو دونوں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں مگر ان کا صبر ، لگن اور خودداری آج بھی عمر کے ہم قدم ہے جبھی آج اس لڑکے کو دیکھ کر اسے اچھالگا کہ آج بھی ایسے خوددار لوگ موجود ہیں۔ موبائل پر کال آرہی تھی جو اسے ماضی سے حال میں لے آئی۔ جی میرے بچو! بس آیا ہوں کچھ دیر میں ۔ عمر نے مسکراتے ہوئے بچوں کو کہا اور گاڑی پارکنگ سے نکال لی۔ " بھوری کی کہانی - تحریر نمبر 1057,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhoori-ki-kahani-1057.html,"عشرت جہاں:ماں نے ان کا نام بھوری گوری اور کلورکھا تھا،بھوری اور گوری تو تھی ہی خوبصورت مگر کلو بھی اپنی رنگت کے برعکس بہت پیاری سی تھی،نیلی سبز آنکھیں،سیاہ چمکدار بال چہرہ پر دنیا جہاں کی معصومیت اور بڑی بڑی مونچھیں،ہر چیز کو بڑی غور سے دیکھنے والے کو بھی اس کے بھولپن پر پیار آجاتا،لیکن اس کی زندگی نے وفا نہ کہ،ایک دن بھوری اور گوری کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ سڑک پار کرتے ہوئے وہ ایک گاڑی کے نیچے آگئی۔دونوں بہنیں کلو کے غم میں کئی دن بے حال رہیں ان کے دکھ اورآنسو کلو کی زندگی نہ دے سکے۔ماں نے انہیں زندہ رہنے کے کئی گر سکھا دئیے تھے بلندی پر چڑھنا دیواروں کو پھلانگنا اور خطرے کے وقت بھاگنا کلو کے بعد دونوں بہنیں ایک دوسرے کا زیادہ خیال رکھنے لگی تھیں جہاں گوری جاتی بھوری بھی پیچھے پیچھے پہنچ جاتی۔(جاری ہے)شروع شروع میں محلے والوں نے ان کا بہت خیال رکھا بچے ان کو گود میں لئے پھرتے لوگ دودھ کے پیالے بھر کر رکھ دیتے اور کبھی ہڈیاں اور گوشت بھی ڈال دیتے مگر بھوری اب اس یکسانیت سے اکتانے لگی تھی۔موقع دیکھ کر وہ دبے پیروں گھروں میں پہنچ جاتی،جس چیز پر نظر پڑنی اس میں منہ ماردیتی آہستہ آہستہ دم ہلائے دالا نوں اورکمروں میں گھومتی پھرتی۔مرزا صاحب کے کمرے میں بچھا نرم ملائم قالین اسے بہت پسند تھا اور شہروز کے کمرے میں گدے دار صوفہ بھی اسے اچھا لگتا تھا جب کبھی موقع ملتا نظر بچا کر ایک کونے میں بیٹھ جاتی،دم اپنے گرد لپیٹ کر آنکھیں بند کرلیتی ،اسے یوں محسوس ہوتا کہ دنیا میں سکون ہی سکون پھیلا ہوا ہے،نرم صوفہ اس کے بالوں کے ہم رنگ تھا اس لئے جب ہر چیز سے بے نیاز آنکھیں مونڈے صوفے پر برا جمان ہوئی تو کسی کو پتہ بھی نہ چلتا وہ تو جب کوئی اس پر بیٹھنے ایک کوشش کرتا تو معلوم ہوتا کہ بھوری اس پر آرام فرماہے،پھر تو اس کی خیر نہ ہوتی ہر طرف سے لعن طعن ہوتی اور بھوری کو دم دبائے بھاگنے میں ہی عافیت نظر آتی۔گوری نے اسے بہت سمجھایا کہ خطروں سے کھیلنے والی یہ عادت چھوڑ دے کسی دن نقصان اٹھائے گی مگربھوری جواب میں اسے بزدل کہا کرتی،تم ہو ہی ڈرپوک خطروں کا سامن کرنے میں ہی تو زندگی کا اصل مزہ ہے ایک دن بھوری نے جھنجھلا کر جواب دیا۔میں ایک بہن کھوچکی ہوں اب تمہیں کھونا نہیں چاہتی تمہیں سمجھاتی ہوں اور تم ناراض ہوجاتی ہو“گوری دکھی لہجے میں بولی۔اچھا بھئی اب رونہ دینا،بہت چھوٹا سا دل ہے تمہارا آئندہو کوشش کروں گی۔“بھوری جلدی سے بولی مبادا گوری رو پڑے،لیکن اگلے دن گوری سے مخاطب تھی،گوری بنٹی کے گھر سے بڑے مزے کی خوشبو آئیں آرہی ہیں چل کر دیکھنا چاہے کیا کچھ پک رہا ہے۔“جواباً گوری نے اسے گھور کر دیکھا اور بھوری کو خاموش ہونا پڑا۔بنٹی کی دادی نے دونوں بہنوں کے لئے دودھ کا پیالہ بھر کر رکھوا دیا۔دودھ پی کر گوری نے شکر ادا خدا کا شکر ادا کیا جسم پھیلا کر انگڑیائی لی،نیچے سے مونچھیں صاف کیں اور بدر صاحب کی گاڑی کے نیچے سستانے کو چل دی،بھوری نے بھی تقلید کی تھوڑی دیر بعد گوری تو نیند کی وادیوں میں اُتر گئی مگر بھوری جاگتی رہی۔موقع غنیمت جان کر وہ خراماں خرماں بنٹی کے گھر کی جانب چل دی،دروازہ ذرا سا کھلا تھا دبے پاؤں صحن عبور کرتے ہوئے اس کی نگاہ بنٹی کی دادی پر پڑی جو نماز پڑھ رہی تھیں،اب اس کا رخ باورچی خانے کی جانب تھا باورچی خانے کے باہر برآمدے میں پڑی کھانے کی میز پر رکھے ڈونگوں سے آشتہا آمیز خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں بھوری زقند بھر کر کھانے کی میز پر چڑھ گئی۔آہا رس ملائی ا س کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس نے کھلے ڈونگے میں منہ ڈال دیا،روٹی بیلتے ہوئے بنٹی کی امی کی نگاہ جو باہر اٹھی تو بھوری کی حرکت پر وہ چلا اٹھیں اس وقت ان کے ہاتھ میں بیلن تھا غصے میں وہی مارا مگر بھوری بھی ایک کائیاں تھی جھکائی دے کر بھاگی،شور سن کر بنٹی اور بچے کمرے سے نکل آئے اور بھوری کے پیچھے دوڑے،دروازہ پار کرنے سے پہلے دادی جان کی چھڑی بھوری کو لگ چکی تھی وہ ذرا سا لنگڑاتی ہوئی اپنی پناہ گاہ تک پہنچی۔بچوں کا شور سن کرگوری جاگ چکی تھی،بھوری کو لنگڑاتے اور ہانپتے ہوئے دیکھ کر وہ ساری بات سمجھ چکی تھی،بن بلائے مہمان کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوتا ہے میری بہن گوری کی بات سن کر بھوری صرف کراہ کر رہ گئی۔ " بڑوں کا ادب - تحریر نمبر 1056,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baroo-ka-adab-1056.html,"سارہ شاہد:نینی ایک خوبصورت اور ذہین بچی تھی مگر غصے کی بڑی تیز تھی ۔ بات بات پر لڑتی اورغصہ کرتی تھی اسکی بڑی بہن سوزی اُسے بہت پیار سے سمجھاتی تھی کہ تم بڑوں کا ادب کیا کرو غصہ نہیں کی کیاکرو کیونکہ ایسا کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ مگر نینی ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے نکال دیتی۔ کل نینی کے سکول کا رزلٹ تھا۔چونکہ وہ ہونہار طالبہ تھی، اُسے پورا یقین تھا کہ وہ ضرور فرسٹ پوزیشن لے گی اور ایسا ہی ہوا۔ رزلٹ سنایا گیا تو فرسٹ پوزیشن اُسی کی تھی سکول کی پرنسپل صاحبہ نے اُسے انعام میں شیلڈ دی۔ نینی خوشی خوشی گھر آئی اور زور زور سے آپی کو آوازیں دینے لگی؛”سوزی آپی کہاں ہیں آپ؟؟؟“ آج نینی تم بہت خوش ہو خیریت ہے کیا ہوا؟“ سوزے آپی نے پوچھا۔(جاری ہے)ہے ہی خوشی کی بات میں اپنی کلاس میں فرسٹ آئی ہوں“ نینی نے کہا۔ آپی یہ سن کر بہت خوش ہوئیں نینی نے شیلڈ آپی کی طرف بڑھادی مگر یہ کیا شیلڈ آپی کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گئی۔ جس پر نینی کو بہت غصہ آیا وہ غصے میں آگ بگولا ہو کر آپی پر برس پڑی۔ نینی نے اپنی بڑی آپی سے بہت زیادہ بدتمیزی کی اتنی بدتمیزی پرآپی کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور وہ رونے لگی۔نینی ، آپی کو روتاچھوڑ کر اپنے کمرے میں چلی گئی بیڈ پر لیٹتے ہی اسکو نیند آگئی اور وہ گہری نیند میں سو گئی۔ نینی نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک باغ میں اپنی آپی سوزی کیساتھ کھیل رہی ہے اور اچانک اسکی نظر جھولے پر پڑی ، اس نے ضد کرنا شروع کردی کہ اُسے جھولا جھولنا ہے لیکن آپی سوزی نے اُسے سمجھایا کہ ایسے جھولے جھولنا ٹھیک نہیں مگر نینی ضد کررہی تھی کہ وہ جھولا ضرور جھولے گی۔یہ کہہ کر وہ بھاگ کر جھولے پر بیٹھ گئی۔ نینی جھولے پر بیٹھی ہی تھی کہ اسکا ہاتھ جھولے سے چھوٹ گیا او ر وہ خودپر قابو نہ رکھ سکی اور جھولے سے نیچے گر پڑی جس کی وجہ سے اسکو شدید چوٹ آئی۔ نینی نے آپی سوزی کو اونچی اونچی آوازیں دینا شروع کردی۔ آپی سوزی بھاگ کر نینی کو اٹھانے اسکی طرف لپکی۔ آپی نے جیسے ہی نینی کا ہاتھ پکڑا اسکی آنکھ کھل گئی ۔وہ بے حد گھبرائی ہوئی اور اسکی پیشانی پسینے سے تر تھی۔ بیڈ پر بیٹھ کر نینی اِدھر اُدھر دیکھنے لگی ، وہ آپی سوزی کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ کس طرح وہ اُن سے لڑتی اورغصہ کرتی ہے۔ برا رویہ اختیا ررکھتی ہے، اُن کا کہنا بھی نہیں مانتی حالانکہ وہ تو ہمیشہ میری بھلائی ہی سوچتی ہیں اور ہر مشکل میں مدد کرتی ہیں۔ وہ اپنے رویے پر سخت نادم تھی اور عزم کرچکی تھی کہ وہ آپی سوزی سے معافی مانگے گی اور آئندہ اُن سے کبھی بدتمیزی نہیں کرے گی نہ اُن سے چلا چلا کر غصے سے بات کرے گی۔آپی سوزی کو ڈھونڈتے ہوئے وہ اُن کے کمرے تک پہنچ گئی اور آپی کو آوازیں دینے لگی اور معذرت کرنے لگی کیونکہ وہ اپنے کئے پر شرمندہ تھی۔ آپی سوزی نینی کے اِس رویے پر حیران تھی، آپی کی حیرت کو بھانپتے ہوئے اُس نے انہیں اپنا خواب سنایا اور کہا میرے ساتھ ایسا بڑوں کا کہنا نہ ماننے اور بڑوں کا ادب نہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ آپی سوزی نینی کی باتیں سن کر مسکرا دی اور اُسکو معاف کردیا اور سوچنے لگی خواب کے ذریعے ہی سہی نینی کا اصلاح تو ہوئی " کوشش - تحریر نمبر 1053,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/koshish-1053.html,"ماسٹر محمد اسحاق:میں نے جب اسے پہلی بار ا اپنے گھر دیکھا تو اس کی عمر تقریباً آٹھ یا نو سال کے درمیان تھی وہ گہرے سانولے رنگ کی تھی۔مجھے اس کے چہرے میں کسی قسم کی کشش اور خوبصورتی کی رمق ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آئی اس کی بیوہ ماں ہمارے گھر کی صفائی ستھرائی کے لیے کام پر رکھی گئی تھی وہ اس کے پیچھے پیچھے ہمارے گھر آتی اور اپنی نچلانہ بیٹھنے والی طبیعت کی وجہ سے گھر کے ہر فرد سے جھڑکیاں کھاتی،آمنہ یہ نہ کرو آمنہ وہ نہ کرو،گھر کے بچوں کو پہلے چھیڑتی جب وہ مارتے تو آگے لگ کے پورے گھر میں دوڑتی کہ فلاں بچہ مجھے مارتا ہے۔میں یہ سمجھتی کہ یتیم سمجھ کر ہر کوئی اس سے زیادتی کرتا ہے،میں نے اس کی والدہ سے کہا کہ آپ اس کو گورنمنٹ اسکول میں داخل کراؤ اور اس کو قرآن پاک پڑھنے میرے پاس بھیجا کرو۔(جاری ہے)بہر حال کافی دفعہ کہنے کی وجہ سے ا س کی ماں نے اسے اسکول داخل کروادیا اور میرے پاس قرآن پڑھنے کے لیے بھی بھیجنے لگی وہ نورانی قاعدے کا ایک ایک لفظ بڑی مشکل سے یاد کرتی اور میری برداشت کا امتحان لیتی۔جتنا وہ تنگ کرتی گھر کے سب افراد کا خیال تھا کہ میں بہت جلد اس کو پڑھانا چھوڑ دوں گی۔شروع شروع میں وہ چھٹیاں بھی بہت کرتی ۔اس طرح کرتے کرتے وہ عمّ پارے پر آگئی۔قرأت کے اصول و ضوابط کو بہت الٹ پلٹ کرنے اور نہایت کند ذہن ہونے کے باوجود بھی میں اس کو ایک آیت یاد کرواتی،ان دنوں مجھے حقیقتاً یہ بات سمجھ آئی کہ جاہلوں کی جہالت کے برداشت کرنے کو عقل کی زکوٰة کیوں کہا گیا ہے بہر حال میں اس کو برداشت کرتے ہوئے عقل کی زکوٰة دیتی چلی گئی اور وہ عمّ پارے کے تین سے چار آیات سے ہوتے ہوئے آدھا صفحہ یاد کرنے لگی اب جب وہ اونچی آواز میں تجوید و قرأت کے اصولوں کے مطابق اپنا سبق دہراتی تو اس کی آواز میں ایسی لے ہوتی کہ گھر کاہر فرد حیران رہ گیا کہ یہ کتنی روانی کے ساتھ قرآن پڑھتی ہے۔یہ میری ساس سسر اور شوہر کا قرآن سے پہلی دفعہ تعارف ہوا کہ صحیح قرآ ن پڑھنے کا طریقہ یہی ہے اور وہ بہت متاثر بھی نظر آئے اب چوں کہ اس کی زبان لفظوں کو جوڑ کر پڑھنے میں رواں ہوگئی تھی تو میں نے آمنہ کی والدہ سلمٰی سے کہا کہ اب اس کو شام کو بستہ دے کر میرے پاس بھیجا کرو تاکہ میں اس کو اردو میں چلادوں اور یہ اپنی زبان سمجھ سکے اورخط وغیرہ اور حساب کتاب سیکھ لے ان سب چیزوں کے لیے سلمٰی کو قائل کرنا یہ ایک علیحدہ داستان ہے کیوں کہ یہ لوگ نسل در نسل لوگوں کی غلامی کی زندگی گزارتے آرہے تھے وہ وقت کی روٹی کا حصول بھی ان کے لیے بہت مشکل تھا۔جہالت اور اجڈ پن میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا،میں نے سلمٰی کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا اور کہا کہ کیا تم نسل درنسل لوگوں کے گھروں میں کام او ر غلامی ہی کرتے رہو گے تم پڑھی نہیں تو اس لیے شوہر کی وفات کے بعد ان مسائل کا سامنا کررہی ہو اور تمہاری بڑی کنواری بیٹی بھی غلامی کرنے پر مجبور ہے اور دس اور بارہ سال کے بیٹے بھی غلامی کرنے پر مجبورہیں اور یہ آمنہ تو جسمانی طورپر بھی بہت کمزور ہے یہ تولوگوں کے گھر میں کام بھی نہیں کرسکتی لہٰذا اس کو کچھ نہ کچھ پڑھاؤ تاکہ یہ بڑی ہوکر اپنا بوجھ اٹھاسکے بہر حال اب بات سلمٰی کی سمجھ میں آچکی تھی،تب تک آمنہ برائے نام اوّل جماعت میں پہنچ چکی تھی لیکن ابھی تک اس کو الف ب نہیں آتی تھی شام وہ بستہ لے کر آجاتی اور دو تین گھنٹوں میں کچھ نہ کچھ الف ب لکھتی اور ابتدائی قاعدے پڑھتی اور پھر اوّل جماعت کی اردو کی کتاب میں پہنچ گئی ٹوٹی پھوٹی اردو پڑھنا کوئی مسئلہ نہ تھا اصل مسئلہ لکھائی اور زبانی لکھنے کا تھا اس کا مسئلہ یہی تھا کہ کندذہن ہونے کی وجہ سے وہ وقت زیادہ لیتی اور کام تھوڑا سیکھتی تھی۔میرا ایک گھنٹہ صبح اور دو تین گھنٹے عصر کے وقت اس پر صرف ہوتے۔میری اپنی ذمہ داریاں بھی تھیں۔میرے چاربچے انگلش ٹو انگلش اسکول میں پڑھتے تھے ان کو ٹیوٹر اور قرآن پاک پڑھانے کا فریضہ بھی میں خود ہی انجام دیتی تھی لہٰذا میں نے آمنہ سے کہا کہ آپ کو میرے ساتھ کچھ نہ کچھ صبح اور شام پڑھائی کے ساتھ کچھ کام بھی کروانا پڑے گا۔اس طرح ریں ریں کرتے اس کی زندگی کی گاڑی آگے بڑھنے لگی اور وہ سوم جماعت میں پہنچ چکی تھی اردو لکھنے اور پڑھنے پر عبور حاصل کرچکی تھی اس کی زندگی میں بہت مشکلات تھیں صبح بہت دور سے وہ پانچ بجے اٹھ کر قرآن پڑھنے اور میرے ساتھ کام کروا کر پیدل واپس جاتی اور پھر تیار ہوکر اسکول کی تیاری پکڑتی اور اسکول بھی گھر سے بہت دور تھا اور اسکول سے آتے ہی کھانا کھائے بغیر وہ میرے گھر میرے ٹیوشن کے لیے آجاتی اور مغرب وقت چھٹی کرکے گھر واپس جاتی اور جاکر سوجاتی ۔آمنہ کی زندگی آہستہ آہستہ ڈھب پر آتی جارہی تھی سوم جماعت میں اس کا قرآن پاک مکمل ہوگیا اور ساتھ ہی اس نے انگریزی شروع کرلی اب انگریزی میں بھی اس کو چلانا ایک مشکل مرحلہ تھا،نرسری سے لے کر تمام انگریزی کی کتابیں اس کو ایک ایک کرکے پڑھائیں اور انگریزی میں بھی وہ آخر کار چل پڑی وہ علیحدہ بات ہے کہ اس کی رفتار آج بھی وہی ہے آہستہ آہستہ وہ صبح کے وقت قرآن پاک کی دہرائی کرتی رہی،اب آمنہ پانچویں جماعت کی گورنمنٹ اسکول کی طالبہ ہے لیکن ابھی تک اس کو ریاضی میں کوئی شدبد نہیں اب میں اس کو گنتی پہاڑے اور دوسری جماعت کا ریاضی کروارہی ہوں ،اب آمنہ صاف ستھری بھی رہتی ہیں اور اس کی زندگی مکمل حرکت میں ہے اور حرکت میں ہی برکت ہیں ۔جہالت سے روشنی اور پانچویں تک کا سفر طے کرنے میں آمنہ کو بہت کٹھن مراحل طے کرنے پڑے۔کم اور غیر متوازن خوراک اور کام کی زیادتی او ر پیدل چلنے کی مشقت کی وجہ سے وہ مسلسل بیماررہنے کے باوجود اس کو پڑھنا پڑتا،اس لئے نہیں کہ اس کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا بلکہ اس کی والدہ کو یہ بات سمجھ آگئی تھی یہ اتنی کمزور ہونے کی وجہ سے لوگوں کے گھروں میں کام نہیں کرسکتی اس لیے اس کو پڑھائی میں مصروف رکھا جائے بس شروع میں میری بھرپور توجہ،شفقت اور مناسب سختی نے اس کو پڑھنے پر مجبور کردیا لیکن جیسے جیسے اس کو خاندان میں لوگوں سے اسکول کے استادوں سے عزت ملنی شروع ہوئی تو اسے بھی علم کی روشمی حقیقی معنوں میں نظر آنا شروع ہوئی کیوں کہ وہ اپنے اَن پڑھ خاندان میں ایسے نظر آتی جیسے کوئلوں میں چمکتا ہوا ہیرا،اب وہ بڑے شوق اور لگن سے پڑھتی ہے،ورنہ شروع میں اس نے بہت رسّے تڑوانے کی کوشش کی،یہ صرف ایک فرد کو مفید شہری بنانے کی کوشش کی تھی جس کے لیے مجھے کئی سال لگانے پڑے اور اپنے بچوں کی تربیت سے کچھ وقت نکال کردینا پڑا لیکن درحقیقت یہ ایک پورے خاندان کی تعلیم ہے اب سب لوگ اور اس کے خاندان والے کہتے ہیں کہ آمنہ بہت سمجھدار ہوگئی ہے یہی سب لوگ پہلے اسے نفرت سے دیکھتے تھے کہ اس کی حرکتیں ہمیں پسند نہیں یہ سچ ہے کہ تنقید کرنا بہت آسان ہے لیکن اس کو صحیح کرنا اس سے بھی مشکل ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے :”ان کی (یتیموں کی)اصلاح بہتر ہے،یتیموں کی آزمائش کرتے رہو۔ " نصیحت کا اثر - تحریر نمبر 1052,https://www.urdupoint.com/kids/detail/true-stories/naseehat-ka-assar-1052.html,"عظمی گل:پیارے بچو! پہلے وقتوں میں کسی کو کوئی بھی حاجت درپیش ہوتی یا کوئی مشکل ہوتی تو وہ حاجب مند کوئی کام کرنے سے پہلے مشورہ لینے کیلئے کسی بزرگ کے پاس ضرور جاتا تھا۔ اِسی طرح ایک غریب اپنی غربت کی شکایت لے کر حضرت شیخ سعدی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میرے بچے زیادہ ہیں اور میری آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔اب مجھ میں فاقہ کی ہمت نہیں رہی، کئی مرتبہ خیال کرتا ہوں کہ یہاں سے کہیں اور چلا جاؤں مگر یہاں سے چلا گیا تو میرے بعد یہ لوگ مجھ پرطعنہ زنی کریں گے کہ اپنی اولاد کے متعلق یہ کتنا بے مروت نکلا کہ اپنی سہولت اور آرام کیلئے اپنے بیوی بچوں کو تنگدستی میں چھوڑ کر چلا گیاہے۔ آپ ہی کوئی مشورہ دیں آپ تو علمِ حساب کے ماہر ہیں ، مجھے کسی بادشاہ کی نوکری میں دے دیں آپکا احسان ہوگا۔(جاری ہے)حضرت شیخ سعدی نے اُس سے کہا کہ بادشاہ کی نوکری کے دورخ ہوتے ہیں اول رزق کی امید اور دوم جان کا خطرہ عقل مندوں کی رائے کے مطابق رزق کی اُمید پر جان کو خطرے میں نہ ڈالو۔ اُس شخص نے کہا: اے شیخ! یہ میرے سوال کا جواب نہیں ، آپکو میرے دکھوں کا اندازہ نہیں ہے جب میں خیانت نہیں کروں گا تو بادشاہ کیوں مجھ پر غصہ ہوگا تو حضرت شیخ سعدی نے اُسے ایک لومڑی کا قصہ بیان کیا کہ ایک لومڑی کو بھاگتے دیکھ کر لوگوں نے پوچھا کے تجھے کیا مصیبت آن پڑی کہ تو اتنا دوڑ رہی ہے تو اُس نے کہامیں نے سنا ہے کہ شیر گو بیگار میں پکڑ رہے ہیں ، لوگوں نے کہا کہ تیری شیر سے کیا نسبت؟ لومڑی نے کہا کہ چپ رہو اگر حاسدوں نے دشمنی میں کہہ دیا کہ یہ شیر کا بچہ ہے تو پھر میرا کیا بنے گا اور مجھے کون چھڑائے گا۔اے دوست بے شک تو دیانتداری کے ساتھ کام کرے مگر اُن حاسدوں کا کیا جو بادشاہ کے سامنے تیری جھوٹی شکایت کریں گے۔ تیرے حق میں کوئی بولنے والا نہ ہوگا لہذا تیرے لئے بہتر ہے کہ تو روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر، بادشاہ کی ملازمت کا خیال دل نکال سے۔ شیخ سعدی کی باتیں سن کر وہ شخص غصے میں آگیا، چنانچہ شیخ سعدی نے اُسکو بادشاہ کی نوکری میں دے دیا وہ غریب کچھ عرصہ میں اپنی محنت اور قابلیت کی بدولت ترقی کرتا ہوا ایک بڑا افسر بن گیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ بادشاہ کے خاص مقرب بندوں میں شامل ہوگیا۔پھر کچھ عرصہ بعد شیخ سعدی کچھ دوستوں کے ہمراہ حج کیلئے چلے گئے ، جب حج کی سعادت سے واپس لوٹے تو وہی شخص پھر پھٹے پرانے کپڑوں میں تھا، اُسکی یہ حالت دیکھی تو شیخ نے حیرت کا اظہار کیا اور پوچھا کہ تیرے ساتھ یہ کیا ہوا ہے تو اُس نے کہا کہ آپ کا کہا سچ ثابت ہوا، میرے حاسدوں نے مجھ پر خیانت کا الزام لگایا اور بادشاہ نے صحیح معنوں میں تفتیش نہیں کروائی۔میرے تمام رفقاء اور دیرینہ ساتھی سب سچ بولنے سے ڈرتے تھے۔لہٰذا خاموش رہے تمام پرانے تعلقات کو نظر انداز کردیا۔ لوگ بڑے آدمی کی تعریف کیلئے سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں۔ اگر زمانہ اُس بڑے آدمی کو گرادے تو یہی لوگ اُسے پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔ حضرت شیخ سعدی نے اُسے کہا کہ تو نے میرا مشورہ نہ مانا اور میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ بادشاہوں کی نوکری دریا میں رہنے کے مترادف ہے۔جس میں بڑا خطرہ ہے اور میرے کان میں نصیحت کی بات نہیں پہنچتی تو کیا تو جانتا نہیں کہ میرے پاؤں میں بیڑیاں پڑسکتی ہیں۔ اگر تجھ میں دوسری مرتبہ ڈنگ کھانے کی سکت نہیں ہے تو بچھو کے بل میں کیوں انگلی ڈالتا ہے۔ نصیحت ضرور نفع دیتی ہے، دانا شخص اپنے تجربے اور علم کی بدولت تمہیں کوئی نصیحت کرتا ہے جبکہ بے وقوف شخص اپنی ناتجربہ کاری اور کم علمی کے باعث سراسر نقصان اٹھاتا ہے۔ " آزادی مل گئی - تحریر نمبر 1051,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azadi-mil-gai-1051.html,"فصیح اللہ حسینی:گھنے جنگل کے پار اُفق پر سورج آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے جنگل کی ناہموار زمین پر بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ گویا جنگل کی زندگی میں ہر سواُجالا پھیل چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی تمام چرند پرند بھی اپنی اپنی نگاہوں میں میٹھی اور معصوم سی انگڑائی لے کر بیدار ہوچکے تھے، وہ سب اپنی سریلی اور خوب صورت آواز میں خدائے واحد کی حمدوثناء میں مصروف تھے۔درختوں پر بسیرا کئے پرندے بھی اپنے اپنے بچوں کو بیدار کرکے گزشتہ رات کے جمع کئے دانوں سے اُن کو ناشتہ کرارہے تھے۔ ننھے ننھے پرندوں کے بابا جان آج کے دن کیلئے راشن تلاش کرنے نکل پڑے تھے۔ جبکہ ماما جان اپنے اپنے گھونسلوں کی صفائی ستھرائی کررہی تھیں۔(جاری ہے)اِنہی درختوں میں سے ایک درخت پر چڑیا بی اپنے دو ننھے ننھے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں۔بچوں کے ابا یعنی چڑے میاں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دانہ کی تلاش میں نکل پڑے تھے۔ معمول کے مطابق چڑیا بھی نے اپنے بچوں کو نہلایا دھلایا اور دیگر کام کاج سے فارغ ہوکر اب وہ پڑوس کے درخت پر بی فاختہ کے بچوں کی طبیعت دریافت کرنے گئی ہوئی تھیں۔ بی فاختہ کے بچے کئی روز سے سرد موسم کے باعث بیمار ہوگئے تھے۔ جاتے جاتے چڑیا بی اپنے بچوں سے کہہ کر گئی تھیں کہ دیکھو شرارتیں نہ کرنا ورنہ شیطان کے چیلے کوے آکر تمہیں کچا کھا جائیں گے۔اُدھر چڑیا بی کے جاتے ہی بچوں پر کووں کا خوف طاری تھا مگریہ ڈر اُن کی شرارتی اور بے چین طبیعت پر زیادہ دیرحاوی نہ رہ سکا اور دونوں بچوں نے کھیل کود شروع کردیا۔ کھیل یہ تھا کہ دونوں بچے بیک وقت اپنے گھونسلے سے اُڑان بھرتے اور زمین پر آکر ایک تنکا اُٹھا کر واپس گھونسلے میں لے جاتے۔ جو پہلے واپس آتا وہ جیت جاتا۔دو مرتبہ تنکے اٹھا کر لانے کے بعد تیسری مرتبہ آخری مرتبہ مقابلہ کیلئے دونوں نے اپنے پر تولے اور زمین پر آنے لگے، ابھی وہ زمین سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ یکایک کسی چیز نے انہیں آگھیرا اور وہ دونوں ایک مضبوط شکنجے میں پھنس گئے۔ننھے ننھے بچوں کے جب حواس بحال ہوئے تو اُنہوں نے دیکھا کے دونوں کسی قافلے کے ہاتھوں جکڑ لئے گئے ہیں۔ اُنہوں نے سوچا کے یہ شکاری اُنہیں پکڑ کر لے جائیں گے، یہ جاننا تھاکہ دونوں اپنے بچاؤ کیلئے چیخ وپکار کرنے لگے۔ اُدھر چڑیا بی کو جب کسی کی چیخ وپکار سنائی دی تو وہ پریشان ہوگئیں کہ اللہ خیر کرے کہیں یہ میرے بچے تو نہیں رور ہے۔ جب چڑیا نے اپنے درخت کے قریب آکر یہ منظر دیکھا کہ اُن کے دونوں ننھے ننھے معصوم سے روئی کے گالے بچے انسانی شکار بننے جارہے ہیں تو اُن سے رہا نہ گیا۔حلیے سے یہ انسا ن تو بہت اچھے معصوم ہوتے تھے مگر چڑیا بی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر اُنہوں نے بچوں کو کیوں پکڑا ہے ۔ اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہ اُن چند آدمیوں کے گرد منڈلانے لگیں اور ساتھ ساتھ اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو اِن سے نجات دلادے، یہ تو بے قصور ہیں ۔ ابھی چڑیا اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہی تھیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک اور شخص اُس انسانی قافلہ کے ساتھ آملے۔یہ شخص اُن سب میں بہت بااخلاق، شریف اور بھلے معلوم ہوتے تھے اور اُس پورے گروہ کے سردار بھی شاید یہی تھے۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ چڑیا بی کے دو ننھے ننھے معصوم بچے ان کے ساتھیوں کے قبضے میں ہیں اور اُن بچوں کی ماں پریشان اُن کے گرد منڈلا رہی ہے تو وہ فکر مند ہوگئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کے کس نے ان معصوم بچوں کو پکڑ کر بے زبان چڑیا کو تکلیف پہنچائی ہے ۔قافلہ کے لوگوں نے اپنے سردار کو سارا ماجرا کہہ سنایا کہ جب آپ اپنی ضرورت کیلئے گئے تو ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، جب سے یہ چڑیا اپنے بچوں کے پیچھے ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ قافلہ کے سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ ان معصوم بچوں کو چھوڑ دیا، چنانچہ ساتھیوں نے حکم کی تعمیل کی اور یوں چڑیا بی نے اُن کے سردار کو تشکر آمیز نظروں سے دیکھا اور خوشی خوش اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھونسلے کی جانب اڑ گئیں۔بچو! کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ نیک لوگ کون تھے؟ یہ نیک لوگ ہمارے پیارے نبیﷺ کے پیارے ساتھی، صحابہ کرام تھے اور اس قافلہ کے سردار خود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ تھے جو تمام جہانوں کیلئے رحمت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے۔ " گلابی فراک - تحریر نمبر 1049,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gulabi-farak-1049.html,"محمد ابو بکر ساجد :ستارا شیشے کے ڈسپلے میں سجی گلابی فراک کو دیکھنے میں اس قدر محو تھی کہ اُسے احساس تک نہیں ہوا کہ اُسکے پاپا کب سے ہاتھ میں آئسکریم پکڑے اُسکی محویت ٹوٹنے کے منتظر ہیں مگر ستارا ادرگرد سے بے خبر فراک دیکھے جارہی تھی۔ مجبوراََ احسان صاحب کو اُس کی آنکھوں کے سامنے اپنا ہاتھ لہرانا پڑا، تب کہیں جاکر اُنہوں نے فراک سے نظریں ہٹا کر آئسکریم کو دیکھا جو تقریباََ پگھلنے کے قریب تھی۔پاپا کے ہاتھ سے آئسکریم لے کر وہ گاڑی میں جا بیٹھی، گھر جانے کے بعد بھی وہ فراک اُسکے ذہن میں رہی۔ اُسے بھولنے کی ہر ممکن کوشش کی ،بالآخر مجبوراََ پاپا سے فرمائش کردی کہ وہ اُسے فرمائش کردی کہ وہ اُسے گلابی فراک خرید دیں جسے وہ پارٹی میں پہن کر جائے گی۔(جاری ہے)صبح احسان صاحب آفس چلے گئے اور ننھی ستاراشام تک اپنی نئی فراک کا انتظار کرتی رہی۔خدا خدا کرکے پاپا کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا اور وہ پلک جھپکتے گاڑی کے پاس جا پہنچی مگر یہ کیا؟ پاپا کے ہاتھ میں فراک کے بجائے MONEY BOX تھا جو پاپا نے اُسکے ہاتھ میں تھمایا اور کہا ؛ میری گڑیا روزانہ اپنی پاکٹ منی سے کچھ رویے اِس منی بکس میں ڈالے گی اور جس دن مطلوبہ رقم جمع جائے گی اُسی شام ہم بازار جا کر فراک لے آئیں گے۔ “ اُس نے سوچا اُسکا انتظار طویل ہوجائے گا مگر وہ پُر امید تھی کہ جلد ہی وہ رقم جمع کرلے گی اور پھر وہ فراک اُسکی ہوگی۔بالآخر تین مہینے میں اُسکے پاس اتنی رقم اکھٹی ہو گئی تھی کہ وہ بازار جا کر خوبصورت فراک خرید سکتی تھی۔ MONEY BOX اُٹھا کر وہ لاؤنج میں آگئی جہاں پاپا ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھ رہے تھے ۔ اس سے پہلے کہ وہ پاپا سے بازار چلنے کو کہتی پروگرام کے اینکر نے ایک بچے سے بات چیت شروع کردی، وہ ایک کمزور بچہ تھا جسکے پر قمیض بھی موجود نہ تھی وہ سیلاب سے متاثرہ کیمپ میں رہائش پذیر تھا اُسکے ماں باپ اور بہن بھائی کے متعلق کچھ پتہ نہ چل سکا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔پاپا بازا چلیں ؟ ستارا نے پاپا کو متوجہ کیا، ستارا احسان صاحب اور امینہ بیگم بازار پہنچ گئے۔ بجائے وہ گلابی فراک خریدنے کیلئے گارمنٹس کی دکان پر جاتی وہ گارمنٹس کے ساتھ والی جنرل اسٹور پر چلی گئی۔ وہاں سے کھانے پینے کی ڈھیروں اشیا پیک کروا کر جب وہ گاڑی تک پہنچی تو امینہ بیگم نے حیران کُن نظروں سے اُسکو دیکھا، اُس پرستارا فوراََ بول پڑی ؛ پاپا آپ ہمیں سیلاب سے متاثرہ کیمپ لے جائیں میں وہاں پر یہ چیزیں اُن بچوں کو دینا چاہتی ہوں“ کیا ہوا اگر میں پارٹی میں گلابی فراک نہ پہنوں ، میرے پاس اور بہت سے کپڑے ہیں ، میں اُن میں سے کوئی بھی پہن لون گی، مگر میں اپنے جسے بچوں کو اس مصیبت میں تنہا نہیں چھور سکتی۔یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔سیلاب سے متاثر کیمپ میں ستارا نے بچوں میں وہ پیکٹ تقسیم کئے جو وہ اپنے ساتھ لائی تھی۔ احسان صاحب نے بھی وہاں موجود بچوں میں رقم تقسیم کی۔ رات میں اُن کی واپسی خاصی دیر سے ہوئی۔ ستارا آتے ہی سو گئی کیونکہ صبح اُسے سکول میں ہونے والی پارٹی میں شرکت کرنا تھی۔ صبح میں امینہ بیگم اُسے اُٹھا کر جاچکیں تھیں۔وہ سُستی سے آنکھیں ملتی ہوئی اُٹھ بیٹھی۔ اُسے لگا وہ خواب دیکھ رہی ہے بیڈ کے ایک طرف وہی گلابی فراک رکھی تھی، اُس نے ہاتھ لگا کر یقین کرنا چاہا کہ آیا یہ واقعی فراک ہی رکھی ہے یا کچھ اور ہے؟ یقین آنے پر وہ جلدی سے بیڈ سے اتر کر کچن کی طرف بھاگی جہاں ماما پاپا ناشتے پر اُس کا انتظار کررہے تھے اور اُسے وہاں اُن کا شکریہ بھی تو ادا کرنا تھا کیونکہ پاپا جان ستارا کیلئے رات کو بالکل ویسی ہی فراک لیکر آئے تھے کیونکہ گلابی فراک اُن کی لاڈلی بیٹی کو بہت پسند تھی۔ اس لئے اسے سرپرائز دیا تھا۔ پیارے بچو! ہم سب کو ایسی نیکیاں کرتے رہنا چاہیے اور اجر اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ " پھول کا جواب - تحریر نمبر 1048,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/phool-ka-jawab-1048.html,"احمد عدنان طارقایک دن ایک شہزادہ اپنے باغ کی سیر کو آیا۔ اُس باغ میں ایک ندی بھی بہتی تھی۔ جسکی لہروں کی آواز سے یوں لگتا تھا جیسے وہ گانا گارہی ہو۔ باغ میں بڑے بڑے درخت تھے جن کے سائے کی وجہ سے ہمیشہ وہاں سے ہمیشہ وہاں ٹھنڈک رہتی تھی۔بہت ہی نرم ملائم گھاس تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے پورے باغ میں سبز قالین بچھا ہو۔اس گھاس میں انتہائی خوبصورت پھول بھی اْگے ہوئے تھے۔ شہزادہ ندی کے قریب دم بخود کھڑا ہوگیا اور پھر اونچی آواز میں کہنے لگا”اے پیارے درختو۔پھولو اور بہتے ہوئے پانی؛ تم سب میرے لئے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہو۔ لیکن آج میری درخواست مانو اور مجھے بتاوٴ کہ تم میرے لئے کیا کرتے ہو؟ اے بوڑھے برگدا! پہلے تم بتاوٴ میرے لئے کیا کرتے ہو؟“ شہزادے کی درخواست سن کر بوڑھے برگد سے ایک خوشی سے بھر پور آواز آئی۔(جاری ہے)” شہزادہ عالم! میں سارا دن دھوپ اور گرمی میں یہاں کھڑا رہتا ہوں اور اپنی شاخیں بچھائے رکھتا ہوں۔ سہ پہر کے بعد گھوڑے اور بھیڑ بکریاں آتی ہیں اور میرے سائے میں آرام کرتے ہیں۔ یہ میرا کام ہے جو میں سارا دن آپ کے لئے کرتا ہوں۔شہزادے نے بوڑھے برگد کا جواب سنا اور اْسے شاباز دی۔ شہزادہ پھر ندی کی طرف مڑا جو اْس کے پیچھے بہہ رہی تھی اور اْس سے پوچھنے لگا۔اے پیاری ندی ! تم میرے لئے سارا دن کیا کرتی ہو۔ ندی نے گنگناتے ہوئے جواب دیا، پیارے شہزادے ! میں سارا دن گنگناتے ہوئے اس باغ سے گزرتی ہوں۔پیاسے جانور میرے پانی سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور میری وجہ سے باغ ہرا بھرارہتا ہے۔ شہزادے نے مسکر اکر گنگناتی ندی کو بھی شاباش دی۔ اسی گنگناتی ندی کے کنارے ہر ایک سفید گل بہاری کا پھول اْگا ہوا تھا۔گل بہاری نے جب شہزادے کے سوال اور بوڑھے برگد اور گنگناتی ندی کے جواب سنے تو آپ سے کہنے لگی۔کاش شہزادہ مجھ سے یہ سوال نہ ہی کرے کہ میں اْس کے لئے کیا کرتا ہوں؟ میں تو کچھ بھی نہیں کرتا۔ “ لیکن اْسی وقت شہزادے کی نظر گل بہادی کے پھول پر پڑی۔ اْس نے پھول سے پوچھا؛” اے پیارے گل بہاری ! تم میرے لئے کیاکرتے ہو؟“ گبھرائے ہوئے پھول نے سرجھکا لیااور سوچنے لگا کہ شہزادے کو کیا جواب دے؟ وہ بہت چھوٹا سا پھول تھا۔پھر شرماتے ہوئے اْس نے اپنا چہرہ اٹھایا اور اپنی پیاری آواز میں کہنے لگا؛“ شہزادہ عالم ! میں کوشش کرتا ہوں کہ آپ مجھے دیکھ کر خوش ہوتے رہیں۔ میں بہت ننھا ساپھول ہوں۔ اسلئے کوشش کرتا ہوں کہ میں سب سے بہترین پھول بنوں۔“ شہزادہ مسکرایا اور کہنے لگا بہت اچھے ننھے گل بہاری میں یہاں سے جاوٴں گا تو تمام ننھے بچوں کو تمہارا جواب بتاوٴں گا اور آج سے میں تمام دنیا کو بھی درخواست کروں گا کہ تمہیں ننھے بچوں کا پھول کہا جائے۔ننھے گل بہاری کا رنگ شرمانے سے گلابی ہوگیا اْس نے اپنا چہرہ پنکھڑیوں میں چھپا لیا اور آج تک وی اکثر اپنا چہرہ چھپائے رکھتا ہے۔بچو! آپ بھی اپنے ماں باپ کے ننھے پھول ہو۔ صاف ستھرے ہو کر ماں بابا کے سامنے آیا کرو تاکہ گل بہاری کے پھول کی طرح وہ بھی تمہیں زیادہ پیار کریں۔ اتنا تو تم کر ہی سکتے ہونا! " فوری خبر - تحریر نمبر 1046,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/foori-khbar-1046.html,"عشرت جہاں:تو بھائی ! اب کیا کریں اس تھیلے کا؟“ بڑے بھائی کے انداز نے ہمیں گڑبڑا دیا۔ اس سوال کا مقصد ہم سے مشورہ لینا نہیں تھا، بلکہ کرنا وہی تھا جو وہ ٹھان چکے تھے۔ ”ب․․․․․بھ․․․․ بھائی! ہم کیا بتائیں! “ ہم گڑبڑا کر بولے: اگر ایسا ویسا کچھ ہواتو ماں کی جوتی ہوگی اور ․․․․․اور․․․ ہماری کمریں۔“ اماں کو بتائے گا کون؟ ان کا انداز حسب معمول طنز سے بھر پور تھا۔ ” ہم تو بتانے والے نہیں لیکن․․․․․․ اگر سامان کا یہ تھیلا خالہ محمودہ تک نہ پہنچا تو پھر خیز نہیں۔ “ ہم نے اندیشہ ظاہر کردیا۔اماں نے پہلے کبھی پوچھا ہے جو اب پوچھیں گی۔ پچھلی بار پھوپھی حمیدہ کو جو سامان دیا تھا،اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا تھا۔(جاری ہے)ان کا فلسفہ ہی یہی ہے، دوسرے کی مدد اس طرح کرو کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو“ بھائی کا انداز فلسفیانہ تھا۔میں تو اسے پھینکنے والا ہوں، اب کون اتنی دور خالہ کو یہ تھیلا پہنچانے جائے۔“ انہوں نے حتمی انداز سے کہا۔ کوئی غریب مستحق خود ہی تھیلے میں سے سامان نکال کر لے جائے گا۔“ ”بھائی! اگر آپ نے تھیلا یہاں پھینک دیا تو اماں کا زنانہ ہتھیار ہوگا اور آپ کی کمر۔ وہ ذرا دیر کورکے پھر ایک طرف سرخ اینٹوں کی بنی قدآدم دیوار کے ساتھ تھیلا رکھ کر اُلٹے قدموں لوٹ آئے اور اِدھر اُدھر دیکھے بغیر تھوڑی دیر مٹرگشت کرنے کے بعد ہم واپس گھر پہنچے ۔گھر میں داخل ہوکر حسبِ معمول ہم نے سلام کیا۔ آگئے میرے بیٹے! اماں ہمیں دیکھ کر کھل اٹھیں۔ محمودہ باجی کیسی تھی؟ پہلا رسمی سوال ہماری طرف آیا۔ بالکل ٹھیک تھی۔ بڑے بھائی نے بھی رسمی جواب دیا۔ آپ کو سلام کہہ رہی تھیں۔ وعلیکم السلام۔ کہتے ہوئے انہوں نے ہمیں ہاتھ منھ دھونے کا کہا۔ ہم بھی تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہاتھ منھ دھو کر دسترخوان پر آبیٹھے۔اگلے دن چوں کہ چھٹی تھی ، اس لیے خوب مزہ کیا۔ صبح دیر سے آنکھ کھلی ۔ پچھلی رات کی جاسوسی فلم اب بھی ذہن میں سمائی ہوئی تھی۔بڑے بھائی ہم سے پہلے ہی سوفے پر موجود تھے۔ کوئی تفریحی پروگرام شدوسد سے جاری تھا کہ اچانک بریکنگ نیوز نے پروگرام بریک کردیا۔ دھماکے دار آواز کے ساتھ ہی براڈ کاسٹر کے ہیجانی انداز نے سب کو سانس روکنے پر مجبور کردیا۔ناظرین! اب سے کچھ ہی دیر پہلے ایک لاوارث تھیلا اہم سرکاری عمارت کی دیوار کے ساتھ نظر آیا ہے۔ سرکاری عمارت خالی کرائی گئی ہے۔ یہ سن کر ہمارے کان کھڑے ہوگئے، جب کہ بڑے بھائی بھی سیدھے ہوکر بیٹھ چکے تھے۔ براڈ کاسٹر کا ہیجانی انداز لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔ ایک لاوارث مشکوک تھیلے کی اطلاع ملی ہے۔ ناظرین! جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں ایک نامعلوم مشکوک تھیلا نظر آرہا ہے۔اس کے ساتھ ہی ٹی وی اسکرین پر اس تھیلے کی تصویر دکھا دی ۔اماں جتنا نمودو نمایش سے دور رہنا چاہتی تھیں، ٹی وی چینل نے اتنی ہی مشہوری کردی تھی۔ تھیلے کے اردگرد پولیس اور دیگر عملہ موجود تھا۔ ٹی وی پر بتایا جارہا ہے کہ سرکاری عمارت خالی کرالی گئی ہے ۔ اسکے ساتھ والا علاقہ بھی خالی کرایا جارہا ہے اور ناظرین! بم اسکواڈ کا عملہ بھی موقع پر پہنچ چکا ہے۔نیوز کاسٹر کی آواز بازگشت کی صورت میں ہمارے کانوں میں گونج رہی تھی:” ایک لاوارث تھیلا سرکاری عمارت کے ساتھ پایا گیا ہے۔ ایک تھیلا لاوارث ، نامعلوم ہے۔“ ناظرین! ہمارے نمائندے ندیم سرخی آپ کو مزید معلوم دیں گے، جی ندیم ! کیا دیکھ رہے ہیں آپ وہاں؟“ ندیم جو عبارت پڑھ رہے تھے تو سو پڑھ، لیکن اماں اسکرین کے قریب آکر تھیلا ضرور دیکھ چکی تھیں، بلکہ پہچان چکی تھیں۔یہ تھیلا اماں نے خود اپنے ہاتھوں سے سیا تھا اور ایسے کئی تھیلے وہ گھر میں سی چکی تھیں، جن میں عید ،بقر عید کے موقعوں پر غریب اماں اور اماں کا زنانہ ہتھیار یعنی چمٹا ہم سے دورنہ تھا۔ ہم نے بڑے بھائی کی طرف دیکھا، جن کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور وہ اُڑنے کے لئے پَر تول رہے تھے۔ بڑا ہونے کے باعث اس تواضع کے پہلے حق دار تو وہ خود تھے۔ ہم نے زور سے آنکھیں میچ لیں، کیوں کہ بڑے بھائی کی درگت بنتے دیکھنا حدِ ادب کے خلاف جو تھا۔ " شرارتی پنگو۔۔۔۔۔۔چھوٹا پنگوئن - تحریر نمبر 1044,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shararti-pingoo-chota-penguen-1044.html,"وہ کھلے سمندر کی طرف بہتا جا رہا تھا اور مدد کے لیے پکار رہا تھا․․․․․چھوٹا پنگوئین، پنگو بہت ہی چیخل اور شرارتی تھا۔ اسے کسی جگہ ٹک کر بیٹھنا آتا ہی نہ تھا۔ ایک دفعہ اس کے والدین پنگوئین نے فیصلہ کیا کہ وہ تینوں پکنک پر جائیں۔ ساحل سمندر پر پہنچ کر وہ تینوں کھیلتے رہے اور پھر کھانا کھا کر پنگو کے والدین تھوڑا آرام کرنے لگے۔اس دوران ان دونوں کی آنکھ لگ گئی۔ جبکہ پنگو ابھی بالکل بھی نہ تھکا تھا۔ وہ بہت خوش تھااور اس کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ آرام کرے۔اس نے سوچا کہ کیوں نہ میں آس پاس کے ساحل کی سیر کروں اور اچھل کود میں وقت گزاروں ۔ اس نے اپنے چھوٹے ٹیڈی بیئر کو ساتھ لیا اور آس پاس کے علاقوں کے دیکھنے نکل کھڑا ہوا۔(جاری ہے)پہلے تو وہ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گیا اور اونچے ٹیلے سے نیچے کی طرف بیٹھ کر لڑھکنے لگا۔اور اس طرح اسے بہت مزہ آیا۔ کچھ دیر بعد اس نے سوچا کہ کیوں نہ وہ سمندر کے کنارے چلتا جائے۔ سمندر کا ساحل برف سے بھرا تھا۔ اونچے نیچے برف کے ٹکڑے اور چٹانیں پھیلی ہوئیں تھیں۔ وہ قلانچیں بھرتا ایک سے دوسری برف کی سلوں پر آگے بڑھتا رہا۔ ایک دفعہ اس نے برف کی ایک بڑی سی سل پر چھلانگ لگائی تو اسے زور دار چٹاخ کی آواز آئی۔ پنگو ایک دم سناٹے میں آگیا۔مگروہ سمجھ نہ سکا کہ کیا ہوا۔ اب جو اس نے اردگرد نظر دوڑائی تو اسے سمجھ آئی کہ ہوا کیا تھا۔ دراصل برف کی یہ چٹان عین اس جگہ سے چٹک کر دو حصوں میں بٹ گئی تھی، جہاں پر پنگو چھلانگ لگا کر اترا تھا۔ آدھے حصے پر پنگو تھا اور آدھی دوسری جانب۔ اس اچانک پیدا ہونے والی صورتحال سے پنگوا یکدم خوفزدہ ہوگیا۔ اس کی بدقسمتی یوں شروع ہوئی درمیان سے ٹوٹی برف کی چٹان کے جس حصے پر وہ کھڑا تھا وہ کھلے سمندر کی طرف بہنا شروع ہوگیا ۔اس بات پر وہ بہت پریشان ہوگیا۔ اس نے شور مچانا شروع کیا۔ مگر کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔ لیکن پھر جب اس نے بہت مدد۔۔۔ مدد۔۔ مدد۔ کی آواز لگائی تو سمندر سے تیرتے ہوئے دو دریائی گھوڑے اس کے قریب آئے اور پنگو سے پوچھنے لگے کہ کیا ہوا؟ تم ۔۔۔ کیوں شور مچا رہے ہو؟ اس پر پنگو کی ڈھارس بندھی اور اس نے ان دریائی گھوڑوں کو بتایا کہ معاملہ کیا ہے۔اس نے بتایا کہ ” مجھے تیرنا نہیں آتا۔۔۔ اب میں کس طرح اپنے ابو امی کے پاس پہنچوں گا۔“ کہتے ہوئے پنگو رونے لگا۔ دریائی گھوڑوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ پنگو کی کیسے مدد کریں۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد میں ان میں سے ایک بولا۔۔۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس برف کی چٹان کو دھکیلتے ہوئے واپس ساحل کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور پھر ساحل کے قریب پہنچ کر پنگو چھلانگ مارکر اتر جائے گا۔“ جتنی آسانی سے اس نے یہ مشورہ دیا تھا اتنا آسان یہ تھا نہیں۔ لیکن اُن دونوں دریائے گھوڑوں نے کافی مشکل تک پہنچا ہی دیا۔ اور پنگو نے ایک چھلانگ ماری اور وہ ساحل پر دھب سے گرا اس نے اٹھ کر خوشی سے دریائی گھوڑوں کا شکریہ ادا کیا اور جلدی جلدی والدین کے پاس لوٹ گیا۔ اور اس نے توبہ کرلی کہ وہ امی ابو کو بتائے بغیر کہیں نہیں جائے گا۔ " احساس ہوگیا - تحریر نمبر 1043,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ehssas-hu-gya-1043.html,"احمد عدنان طارق:سکول سے چھٹی ہوتے ہی معاذ گھر جانے والے راستے پر دوڑ نے لگا۔ اُسکا گھر سکول سے تقریباََ ایک میل دور تھا۔ موسم بہار میں اُسے یہ فاصلہ طے کرتے ذرابھی مسئلہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ فصلوں کے بیچ سے گزرتا اور راستے میں پرندوں کے گھونسلے بھی ڈھونڈتا رہتا۔ وہ سکول سے باہر نکلا تو اُسے یاد تھا کہ اُس نے ایک جھاڑی کے پیچھے سے ایک پرندہ اُڑتے ہوئے دیکھا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ ہوسکتا ہے وہاں پرندے کا گھونسلہ موجود ہو اور اُس میں شاید انڈوں سے نکلے ہوئے ننھے بچے بھی مل جائیں۔ اُس نے پودوں کی شاخیں اِدھر اُدھر کیں اور پھر پتوں میں چھپے ایک گھونسلے پر اُسکی نظر پڑگئی جس میں چار ننھے ننھے بچے چونچیں بلند کرکے شور مچا رہے تھے۔(جاری ہے)معاذ بولا” میں اِن کو اپنے گھر لے جاؤں گا اور اُنہیں کھانا کھلاؤں گا“ وہ خود کو خوش قسمت کہہ رہا تھا کیو نکہ نہ صرف اُسے گھونسلہ مل گیا تھا بلکہ اُس گھونسلے کو نکالنے میں معاذ کی قمیض کی آستین اور کئی جگہ سے پتلون بھی پھٹ گئی تھی لیکن اُسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔اُس نے احتیاط سے گھونسلہ نکال لیا تھا، وہ اُسے اُٹھا کر گھر لے آیا اور لاکر گودام میں رکھ دیا۔ اُس کا خیال تھا کہ وہ چائے پی کراُن بچوں کو کچھ کھانے کو دے گا لیکن چائے کے بعد اُسکی خالہ گھر آگئیں۔ وہ اُسکے لئے کھلونے لائیں تھیں جن سے کھیلنے میں وہ اتنا مگن ہوا کہ وہ گھونسلے کے بچوں کو یکسر بھول گیا۔ معاذ اپنے بستر میں لیٹا میٹھی نیند سورہا تھا کہ اچانک اُسکے کانوں میں دروازہ زور سے کھلنے کی آواز آئی وہ بستر سے اُٹھ کر بیٹھ گیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔پھر کوئی اُسکے بستر کے نزدیک آیا۔ وہ ایک دیو تھا، اُسکا سر چھت سے چھور رہا تھا اور اُسکے دونوں ہاتھ معاذ کے بستر جتنے بڑے تھے۔ دیواونچی آواز میں بولا” بڑا پیار ننھا سا بچہ ہے“ میں اسے بستر سمیت ساتھ لے جاؤں گا“ پھر معاذ کو محسوس ہوگیا کہ کسی نے اُسے بستر سمیت اُٹھالیا ہے۔۔ اِس سے پہلے کہ اُسے معلوم ہوکہ کیا ہوا ہے، دیواسے لیکر فصلوں میں دوڑا جارہا تھا۔پھر وہ دیو ایک اونچی پہاڑی پر بنے ہوئے ایک سرخ رنگ کے قلعے کے پاس رکا۔ اس سے پہلے کہ وہ قلعہ کا مرکزی دروازہ کھولے وہ ایک کمرے میں گیا جو کوئلوں سے بھراہوا تھا۔ اُس نے کمرے میں معاذ کا بستر رکھ دیا اور کہنے لگا کہ تم ساری رات اِدھر ہی رہو گے“ بیچارہ معاذ بے اختیار چیخنے لگا کہ شاید کوئی اُسکی آواز سن کر اُسے بچانے آجائے۔ تبھی اُسکو ایک طرف سے آواز سنائی دی کوئی کہہ رہا تھا کیا مسئلہ ہے تم چلا کیوں رہے ہو معاذ؟“ معاذ نے اُدھر دیکھا تو اُسے امی جان نظر آئیں وہ اپنے کمرے میں ہی تھا اور اپنے بستر میں لیٹا ہوا تھا اور وہاں کوئی دیو نہیں تھا وہ شرمندہ ہوکر بولا” امی جان میں خواب دیکھ رہا تھا“ پھر معاذ کے ذہن میں گھونسلے اور چار ننھے بچوں کا خیال آیا اُس نے اپنی امی سے پوچھا؛” امی ! کیا ننھے پرندے بھی ہمیں دیو سمجھتے ہیں؟“ امی ہنس کر بولیں” کیا مزے کا سوال ہے؟“ واقعی ننھے بچوں کیلئے تو تم دیو ہی ہوا اِسی لئے سب تمہیں سمجھاتے ہیں کہ اِن کمزور اور ننھے منے جانداروں پر رحم کھانا چاہیے۔یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی دیو تمہیں قیدی بنا کر ظلم کرے“ معاذ نے شرمندہ ہوکر بستر کی چادر میں منہ چھپا لیا وہ بولا کاش میں وہ گھونسلہ اُٹھا کر نہ لاتا۔ پھر اگلے دن سکول جاتے ہوئے وہ گھونسلے کو ساتھ لے گیا اور اُس کی جگہ پر رکھ دیا۔ ننھے بچے بڑے اور مضبوط ہوگئے اور کچھ ہی دنوں میں اُڑ گئے ۔ معاذ بولا” میں خوش ہوں کہ تم آزاد ہو“ میں واقعی اُس دن دیو ہی بن گیا تھا جب تمہیں اُٹھا کر لے گیا تھا“ " حقیقی اڑان - تحریر نمبر 1040,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/haqeeqi-uraan-1040.html,"عاطف حسین شاہ:آج اسکول سے چھٹی تھی۔ شایان حیدر اپنے گھر کے صحن میں کھیل رہا تھا۔ ایسے میں اس نے ایک آواز سنی۔ ”کائیں․․․․․ کائیں․․․․․ ۔“ شایان حیدر نے سر اٹھا کردیکھا۔ وہ ایک کوا تھا۔ جو منڈیر پر بیٹھا پھدک رہا تھا۔ پھر اس نے پرواز بھری․․․․ اور یہ جا ․․․․وہ جا۔ شایان کھیلنا بھول گیا۔ ایک وہ کوے اور اس کی پرواز پر غور کررہا تھا۔شایان عمر کے اس دور میں تھا، جہاں نظر آنے والی چیزیں سمجھ میں نہیں آتی۔ کوا اڑ سکتا ہے، میں کیوں نہیں اڑ سکتا؟“ شایان نے سوچا پھر اس نے اپنے بازوؤں کی طرف دیکھا۔ کوے کے پاس پرتھے، اس کے پاس تو پھر بھی نہیں تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ اڑ نہیں سکتا۔ مگر اب وہ اڑنا چاہتا تھا۔ یہ ننھی سی خواہش اس کے دل میں مچلنے لگی۔(جاری ہے)وہ فوراََ ابوجی کے پاس چلا آیا۔اس کی سوچ کے مطابق ابو اس کی مناسب رہنمائی کرسکتے تھے۔”ابو جی! مجھے اس کوے کی طرح اڑنا ہے۔“ شایان نے اڑتے ہوئے کوے کی طرف اشارہ کیا۔ اس کی بات سن کر ابو ہنس پڑے۔ بیٹا!ابھی تم چھوٹے ہومگر پھر بھی میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔” ہمارا خالق اللہ ہے۔ مخلوقات کی جسمانی ساخت کے مطابق اللہ نے انہیں صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ پرندوں کے اڑنے کی ایک وجہ تو ان کے پر ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ پرندوں کی ہڈیاں اندر سے خالی ہوتی ہیں۔ ان خالی ہڈیوں میں ہوا بھری ہوتی ہے، جس سے ان کا وزن ہلکا ہوتا ہے․․․․ یہ سارے عوامل پرندوں کو پرواز کرنے میں مدددیتے ہیں۔“ شایان کو کسی اور بات کی سمجھ تو نہ آئی مگر خالی ہڈیوں میں ہوا بھرنے والی بات اچھی طرح سمجھ آگئی۔ اب وہ نظر بچا کر گھر سے نکلا۔ کھوکھلی ہڈیاں․․․ ان کے اندر ہوا․․․․وہ انہی نکات پر غور کررہا تھا۔اب اسے اپنی کامیابی کے امکان نظر آنے لگے تھے۔ وہ اڑ سکتا تھا۔ وہ سیدھا ٹائرسروس کی دکان پر پہنچ گیا۔”انکل جی․․․․ انکل جی․․․ میری نا․․․․ ہڈیوں میں نا․․․․ دس روپے کی ہوا بھر دیں۔“ شایان نے دکان دار سے کہا۔”ہوش میں تو ہو بچے۔“دکان دار حیران رہ گیا۔ ”میں اڑنا چاہتا ہوں۔ “ شایان کی بات سن کر دکان دار ہنس پڑا”جاؤ بچے․․․․ مجھے میرا کام کرنے دو۔“ وہ ہنستے ہنستے بولا۔ یہاں سے مایوس ہوکر شایان گھر لوٹ رہا تھا کہ راستے میں اس نے غبارے والا دیکھا۔ غبارے والا اپنے ٹھیلے پر کھڑا غبارے بیچ رہاتھا۔ دھاگے سے بندھے غبارے ہوا میں پرواز کررہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر شایان بہت خوش ہوگیا۔ اسے اپنی مشکل کا حل نظر آگیا تھا مگر اسے ایک الجھن نے گھیر لیا۔ اس الجھن کو دور کرنے کے لئے وہ غبارے والے کے پاس جا پہنچا۔” انکل! ان غباروں میں ایسا کون سا جادو ہے جس سے یہ اوپر اڑ رہے ہیں؟“ غبارے والے نے جب شایان کا معصومانہ سوال سنا تو ہنستے ہوئے بولا۔ ” بیٹا! میں ان غباروں کے اندر ہیلیم گیس بھر رہا ہوں۔ ہیلیم گیس چوں کہ ہوا سے ہلکی ہوتی ہے اس لیے ہوا ان ہیلیم گیس سے بھرے غباروں کو اوپر کو پرواز کررہے ہیں۔“ شایان کا چہرہ کھل اٹھا کیوں کہ اس کی الجھن دور ہوچکی تھی۔شایان نے دس روپے کا ایک غبارہ خریدا اور پھر ایک پارک میں آگیا۔ اب اس غبارے کا سہارا لے کر وہ لگا اچھلنے کودنے․․․․ مگر شایان کو متوقع کامیابی نہیں مل رہی تھی۔پارک میں ایک بزرگ آدمی کافی دیر سے شایان کی حرکتوں پر غور کررہے تھے۔ جب الجھن حد سے بڑھی تو وہ شایان کے پاس چلے آئے۔ ” کیا بات ہے بیٹا؟“انہوں نے پیار سے پوچھا۔ ”میں اڑنا چاہتا ہوں۔“ شایان نے الجھن کے عالم میں بھی ہنس پڑے۔ ”کیا آپ میرا مذاق تو نہیں اڑا رہے؟“ شایان نے الجھن کے عالم میں پوچھا۔”نہیں تو․․․․․ مگر میں تمہاری اس پریشانی کو ضرور دور کرسکتا ہوں۔ “ یہ سن کر شایان بہت خوش ہوگیا۔”کیسے․․․․․؟ اس نے پوچھا۔ ”کیا تم علامہ اقبال کو جانتے ہو؟“بزرگ آدمی نے پوچھا۔ جی ہاں․․․․روز ہم اسکول میں ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری․․․“پڑھتے ہیں۔“ شایان جوش سے بولا۔ ”شاباش․․․․ انہوں نے کہا ہے کہ ”تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے فشاں ہوجا“’کیا مطلب․․․․! شایان حیرت سے بولا۔ ’مرغ ِحرم سے مراد مردِ مومن ہے ۔ علامہ اقبال مومنوں سے کہناچاہتے ہیں کہ اگر تم حقیقی اڑان بھرنا چاہتے ہوتو پہلے اپنے دل کو ہرقسم کی برائی سے آزاد کردو۔کیا سمجھے․․․․․“ میں سمجھ گیا بابا جی․․․․․ میں اڑ نہیں سکتا مگر مردِ مومن بن کر حقیقی اڑان ضرور بھر سکتا ہوں۔ “ جوش سے شایان کا چہرہ تمتمانے لگا۔ پھر وہ غبارے کی مدد سے اڑنے کی بجائے، اس سے کھیلنے لگا۔ اسے کھیلتا دیکھ کر وہ بزرگ خوشی سے مسکرارہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ کسی بھی قوم کا مستقبل بچے ہوتے ہیں ۔ اس قوم کا مستقبل روشن اور تاب ناک ہے․․․․! " خود پے بھروسہ - تحریر نمبر 1038,https://www.urdupoint.com/kids/detail/true-stories/khud-pe-bhrosaa-1038.html,"روبینہ ناز:کسی باغ کے ایک گھنے درخت پر ایک فاختہ نے اپنا گھونسلہ بنایا ہوا تھا جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کے ساتھ رہتی تھی اور اُن کو دانہ دنکا بھی چگاتی تھی ۔ وہ بہت خوش تھی کیونکہ اب اُن بچوں کے بال وپر بھی نکلنے لگے تھے۔ ایک روز فاختہ کو اُسکے بچوں نے بڑی پریشانی کے عالم میں یہ بتایا؛ ” ماں ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارا گھونسلہ برباد ہونے والا ہے ، آج اس باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ یہاں آیا تھا او ر اُس سے کہہ رہا تھا کہ اب پھل توڑنے کا زمانہ آگیا ہے ، کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور اُن کی مدد سے اِس درخت کے پھل توڑوں گا۔میرے بازو میں تکلیف ہے اسلئے یہ کام تنہا نہیں کرسکتا، مجھے اپنے دوستوں کی مدد کی ضرورت ہوگی“ یہ سُن کو فاختہ نے بچوں کو تسلی دیت ہوئے کہا؛ ”فکر مت کرو وہ کل اپنے دوست کے ساتھ نہ یہاں آئے گا اور نہ ہی پھل توڑے گا۔(جاری ہے)“ اور پھر واقعی ایسا ہی ہوا باغ کا مالک نہ خود آیا اور نہ اُسکا دوست وہاں پہنچا۔ اسی طرح کئی روز گزر گئے تو ایک روزوہ پھر باغ میں آیا۔اُس وقت بھی فاختہ اپنے بچوں کے پاس نہیں تھی۔ اُس نے درخت کے نیچے کھڑے ہوکر کہا”میرے دوستوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ، اسلئے میں یہاں سے پھل نہیں توڑسکا مگر کل میں یہ کام ضرور کرڈالوں گا کیونکہ اس بارانہوں نے آنے کا پکا وعدہ کیا ہے“ جب فاختہ واپس لوٹی تو اُسکے بچوں نے یہ بات فاختہ کو بتائی تو اس نے بے پرواہی سے کہا” بچو تم پریشان نہ ہو کیونکہ اس بات بھی نہ وہ خود آئے گا اور نہ اُسکے دوست آئیں گے“غرض اِسی طرح یہ دن بھی گزر گیا اور فاختہ کے کہنے کے مطابق نہ باغ کا مالک وہاں آیا اور نہ ہی اُسکا کوئی دوست۔فاختہ کے بچے اب کچھ زیادہ ہی مطمئن ہوگئے تھے۔ چند روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور درخت کے نیچے کھڑے ہوکر بال ؛ ”میرے دوست صرف نام کے دوست ہیں ، انہیں مجھ سے کوئی ہمدردی نہیں۔ ابھی تک کئی بار وعدے کرکے ٹال گئے لیکن اب مجھے اُن کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ میں خود ہی کل تم سب کے ساتھ مل کر اس درخت کے پھل توڑوں گا۔ویسے بھی مجھے دوسروں پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے آپ پر بھروسہ کرنا چاہیے، اسی میں بہتری ہے“ جب فاختہ نے یہ بات سنی تو وہ پریشانی کے عالم میں بولی” بچواب ہمیں فوری طور پر یہاں سے جانا ہوگا۔ جب تک باغ کا مالک دوسروں پر بھروسہ کر رہا تھا ،اُسکا کام نہیں ہورہا تھا مگر آج اُس نے خود پر بھروسہ کرتے ہوئے خود ہی پھل توڑنے کا ارادہ کیا ہے تو وہ ضرور کامیاب ہوجائے گا، اسلئے اب ہمیں یہاں سے جانا ہی ہوگا، پھر وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر وہاں سے پرواز کرگئی۔ " اچھی لومڑی - تحریر نمبر 1037,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/achhi-lomrii-1037.html,"احمد عدنان طارق:کہیں دور ایک ننھی سی لومڑی رہتی تھی ، وہ اپنا گھر صاف ستھرا کرنے میں ہمیشہ اپنی امی کا ساتھ دیا کرتی تھی۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے بھی وہ بہت پیار کرتی تھی اورکبھی اُن سے غصہ نہیں ہوتی تھی۔ اُسکے ابا اُسے کہتے بھی نہیں تھے پھر بھی وہ اُن کے کام بھی دوڑ دوڑ کر کردیتی تھی۔ اُسکے روئیے سے شاید پہلی باریوں لگنے لگا تھا کہ لومڑیاں بھی اچھی ہوسکتی ہیں۔لیکن پھر بھی مسئلہ یہ تھا کہ لومڑیوں کو کوئی اچھا نہیں سمجھتا تھا۔ جس سے اِس ننھی لومڑی جسکا نام نیلو تھا کوبہت صدمہ ہوتا تھا۔ اُسکی خواہش تھی کہ ہر کوئی لومڑیوں سے پیار کرے ۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس صورتحال کو درست کرکے ہی رہے گی۔ یہ کام اُس نے مرغیوں سے شروع کیا۔(جاری ہے)جیسے ہی شام ہوئی وہ مرغیوں کے ڈربے کے قریب چلی گئی اور اُنہیں لوری سنانا شروع کردی۔مرغیوں نے نیلو لومڑی کی آواز سنی تو گھبراگئیں او ر زور زور سے اپنے پر پھڑ پھڑانے لگیں اور غصے سے نیلو سے کہنے لگیں؛” ظالم لومڑی چلی جاؤ یہاں سے ہم تمہیں پسند نہیں کرتیں“۔ نیلو کچھ دیر اُن کے غصے کو برداشت کرتی رہی پھر مایوس ہو کر لوٹ آئی ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جب میں اُن سے بات ہی نہیں کرسکتی تو یہ میری دوست کیسے بنیں گی؟وہ پہاڑی سے نیچے اُتری تو چند میمنوں کا اچھلتا کودتا دیکھا ۔وہ سونے سے پہلے کا کھیل کھیل رہے تھے۔ وہ بولی ” میمنو․․․․میمنو آؤ میں تمہیں نرم گرم بستر میں سلادوں“ لیکن اُسکی آواز سُن کر میمنے بدک گئے اور زور زور سے اچھلنے کودنے لگے۔ اُن کے زور سے میما نے کی آواز سن کر ایک بوڑھا میڈھا گھر سے نکلا۔نیلو کو وہاں دیکھ کر اُس نے کہا؛”یہاں سے چلی جاؤ ورنہ میں تمہیں اپنے سینگ ماردوں گا“ نیلو بولی؛” میں اِنہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتی، میں تو اِنہیں اپنا دوست بنانا چاہتی ہوں “ مینڈھے نے غصے سے جواب دیا” لیکن وہ تو تمہیں اپنا دوست نہیں بنانا چاہتے ، تم تو پہلے ہی اِن میں سے کئی ایک کو ہڑپ کر چکی ہو“نیلو یہ بات سن کر سخت شرمندہ ہوئی وہ دل میں خود کو کہنے لگی کہ وہ تو سبزی خور ہے، وہ میمنے کیسے کھا سکتی ہے ۔نیلو کو معلوم ہو رہا تھا کہ وہ بہت مشکل کام کرنے گھر سے نکلی ہے۔وہ تھوڑا اور آگے گئی تو کچھ دور میدان میں اُس نے خرگوش کے بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو وہ دوڑ کر اُن کے پاس پہنچ گئی اور اُن سے کہنے لگی” بچو آؤ میں تمہیں پیار سے سلادوں“ چھوٹے بچے اُسے دیکھ کر اتنا ڈرے کہ دوڑنے کی بجائے وہ وہیں پھدکنے لگے اور چیخنے چلانے لگے۔ اُن کی مائیں بھی بہت خوفزدہ تھیں۔وہ چلائیں ”کم بخت لومڑی ! دیکھو کیسے اسکے منہ میں پانی آرہا ہے ۔ ہمارے بچوں کو چھوڑ دو“ اُن بیچاری ماؤں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بیچاری نیلو پیچھے ہوگئی اور کہنے لگی” میں انہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتی لیکن کوئی اس بات کو نہیں سمجھتا“ ۔ جب کچھ بن نہ پڑا تو بیچاری نیلوگاؤں کی طرف چل دی۔ راستے میں اُسکے ہم عمر لومڑی کے بچے ملے۔اُنہوں نے نیلو کو آواز دی اور کہنے لگے”نیلو ہمارے ساتھ چلو، ہم گاؤں میں چھایا مارنے جارہے ہیں“ نیلو نہ انہیں ہنستا مسکراتا دیکھا تو وہ بھی اُن کے ساتھ ہولی۔ سب نے ملکر گاؤں میں گھروں میں گھس کر کوڑے والی کئی ٹوکریاں اُلٹا دیں اور خوب گندڈالا وہ بہت دلبرداشتہ تھی۔ اُس نے سوچا وہ شرارت کیوں نہ کرے۔ ویسے بھی کوئی لومڑیوں کو پسند نہیں کرتا۔لہذا اُس نے سب سے ملکر چیزیں بھی چرائیں۔ لیکن جب وہ لوٹے تو وہ دل ہی دل میں شرمندہ تھی۔ وہ اس طرح کبھی بھی لومڑیوں سے نفرت کر کم نہیں کرسکتی تھی۔ اُسکے ساتھی اپنے اپنے بھٹوں میں لوٹ گئے اور وہ تنہا سڑک پر بیٹھ کر سوچنے لگی۔ تبھی اُس نے چچا عقلمند کو آتے ہوئے دیکھا جو وہاں کے ویرانے کے تنہا الو تھے۔ سب اُنہیں اُن کی بزرگی کی وجہ سے پسند کرتے تھے۔اب اُنہیں اُن کی بزرگی کی وجہ سے پسند کرتے تھے۔ چچا عقلمند اپنی گردن کو چاروں طرف گھماتے ہوئے بولے؛ ”سب لوگ لومڑیوں کو بُرا سمجھتے ہیں، تمہیں اُن کو سمجھانا ہوگا کہ سب لومڑیاں خراب نہیں ہوتی ہیں اور کچھ نہیں تو گاؤں صاف کرنے میں میری مدد کرو“ اُن کے کہنے گاؤں جو خود لومڑیوں نے ہی گندہ کیا تھا، بیچاری نیلو نے بابا عقل مند کے ساتھ دوڑ دوڑ کر صاف کیا۔کہیں جھاڑ و پھیرا ، کہیں پوچہ لگایا پھراگلے دن نیلو نے سوچا کہ کیوں نہ وہ سب جانوروں کو دعوت پر بلائے۔ اُس نے سب کو دعوت نامے بھجوائے۔ جلد ہی ایک ایک کرکے جانور آنے لگے۔ نیلو نے اُنہیں خوش آمدید کہا پھر اُن کے ساتھ مختلف کھیل کھیلے پھر سب نے اکھٹے چائے پی۔ واپس جاتے وقت سب کو تحفے دیئے گئے ۔ چچا عقلمند ، مرغیاں بطخیں، خرگوش، میمنے سب دل سے کہہ رہے تھے کہ انہیں بہت مزاآیا۔ ابھی تک یہ بات تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ جانور سب لومڑیوں کو پسند کرنے لگے ہیں لیکن سب کا خیال ہے کہ نیلو بہت اچھی ہے او ر نیلو بھی سمجھتی ہے کہ اچھائی سے دل جیتے جاسکتے ہیں تو چلیں یہ بارش کا پہلاقطرہ ہی سہی۔ " اذان کا احترام - تحریر نمبر 1036,https://www.urdupoint.com/kids/detail/true-stories/azzan-ka-ehtrram-1036.html,"اذان کا احتراممحمد ابو بکر ساجد:”بیٹی مریم ! ٹی وی بند کرو اذان ہورہی ہے“۔ ”اچھا ماما جان ! بند کرتی ہوں“ مریم نے جواب دیا ، مگر ٹی وی چلتا رہا ۔ ”سنا نہیں؟ ٹی وی بند کرو“ اب ماما نے تیز آواز میں کہا۔ ابھی کرتی ہوں ”ریموٹ نہیں مل رہا“ مریم نے کہا۔ اتنے میں فاطمہ کی آواز آئی مجھے ثمرن نے چٹکی کاٹی ہے جبکہ ثمرن چلانے لگی پہلے مجھے فاطمہ نے دھکا دیا۔(ٹی وی چل رہا ہے)آکر تنگ آکر ماما کچن سے باہر آئیں دیکھا کہ بچے آپس میں دھینگا مشتی کررہے ہیں۔ریموٹ موسیٰ نے پکڑا ہے جو کارٹون دیکھنے کی ضد کررہا ہے۔ اتنی دیر میں اذان بھی ختم ہوگئی۔ ماما اپنا ماتھا پیٹ کر رہ گئیں کہ ان بچوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اذان کا جواب دیناواجب ہے، یہ تو اللہ کی طرف سے پکار ہے ۔(جاری ہے)جب والدین کی آواز پر نہ آنا گناہ ہے تو اللہ کے حکم کو نظر انداز کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ہمارا فرض ہے کہ تمام دنیاوی کام کاج چھوڑ کر پہلے اذان کا جواب دیا جائے پھر نماز کا اہتمام کریں، اِسکے بعد دنیاوی کاموں میں دلچسپی لیں۔ میں تمہارے پاپا کو بتاؤں گی کہ تم نے آج کیا کیا؟ رات کو جب اُن کے پاپا آئے تو ماما نے سارا قصہ کہہ سنایا۔ پایا نے بچوں کو اپنے ساتھ بیٹھا کر بتایا؛”پیارے بچو! دنیا میں سب سے زیادہ بلند ہونے والی آواز اذان کی ہی ہے۔یہ واحد آواز ہے جو ہر لمحہ دنیا میں گونجتی رہتی ہے۔ اِسکا جواب دینے والے پر فرشتے رحمت برساتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جتنا ثواب اذان دینے والے جو ملتا ہے ، اتنا ہی ثواب گھر ، دفتر یا باہر کہیں بھی بیٹھے فرد کو اِس کا جواب دینے سے ہوتا ہے۔ پاپا نے اُنہیں ایک تاریخی واقعہ بھی سنایا”خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی ملکہ زبیدہ نے مکہ شریف اور مدینہ شریف کے درمیان حاجیوں کی سہولت کیلئے ایک نہر کھدوائی تھی۔خلیفہ وقت نے اُسکا نام ”نہرزبیدہ‘ رکھ دیا تھا ۔ جب ملکہ زبیدہ کا وصال ہو ا تو ایک معزز عورت نے ملکہ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا؛”تیرے ساتھ خد ا نے کیا معاملہ کیا؟“ ملکہ نے کہا؛ ”اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا “ ”اس عورت نے پوچھا؛ کیا نہرو زبیدہ کی وجہ سے؟“ ملکہ نے کہا؛ نہیں اذان کے احترام کی وجہ سے ۔ مجھے ایک مرتبہ سخت پیاس لگی تھی، میں نے خادمہ کو پانی لانے کیلئے کہا۔جونہی خادمہ پانی لائی، اذان شروع ہوگئی۔ میں نے پانی نہیں پیا بلکہ اذان کا جواب دینے لگی۔ بس یہی نیکی میرے اللہ نے قبول فرمالی اور مجھے بخش دیا“ دیکھا بچو! اذان کا احترام اور جواب دینے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کتنا بڑا انعام دیتا ہے۔ سب بچوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ اذان کا احترام کیا کریں گے۔ میری بھی تمام بچوں سے گزارش ہے کہ اذان کا احترام کیا کریں اور نماز بھی پابندی سے پڑھیں۔ " اور نجات مل گئی - تحریر نمبر 1035,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/orr-nijaat-mil-gai-1035.html,"اور نجات مل گئیآمنہ بتول:کیا آپ جانتے ہیں کہ چوہا بلی کے آتے ہی کیوں بھاگ جاتا ہے․․․ ؟؟؟ بلی کتنے ہی دبے پاؤں کیوں نہ آئے، چوہے کو اس کی آمد کی خبر ہوہی جا تی ہے․․․․ کیا آپ جانتے ہیں بلی کی گردن اندر کو کیوں دھنسی ہوئی ہوتی ہے؟؟ کیا کہا․․․․؟ نہیں جانتے․․․․؟؟ چلیں میں آپ کو بتاتی ہوں!! آج سے کئی سو سال پہلے چوہوں کا ایک خاندان چھوٹے سے بل میں رہائش پذیر تھا۔دن کی روشنی میں چوہے اپنے بل سے نہ نکل سکتے تھے اور نہ ہی خوراک تلاش کرسکتے تھے، سو سارادن انہیں بھوکا رہنا پڑتا ۔وجہ یہ تھی کہ بلی نہایت آسانی سے انہیں دیکھ لیتی تھی اور شکار بنالیتی تھی ۔ سو چوہے جب رات کو بھی نکلتے تو بھی چھپ چھپا کر نکلتے ۔(جاری ہے)بلی کا خوف ان کے سرپر تلوار کی طرح لٹکتا رہتا۔ لیکن وہ کتنی ہی احتیاط کیوں نہ برتتے، بلی ایسے دبے پاؤں آتی کہ انہیں خبر تک نہ ہوتی اور ان کا ایک ساتھی بلی کے لنچ یا ڈنر کی نذر ہوجاتا۔ایک لمبے عرصے تک وہ خوف کے عالم میں جیتے رہے، ہرروز ان کے ساتھی بلی کی بھینٹ چڑھتے رہے۔ آخر ایک رات بوڑھے چوہے نے اجلاس بلوایا، جس میں چوہا خاندان کا ہر چھوٹا بڑا چوہا شریک ہوا۔ اجلاس ہوا تو بوڑھے چوہے نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔ ”میرے ساتھیو! یہ ڈر ڈر کر جینا بھی کوئی جینا ہے؟ یہ کیسی زندگی ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے پیارے دشمن کے پیٹ کا ایندھن بنتے رہیں اور ہم چپ چاپ سہتے جائیں؟؟“ بوڑھے چوہے کی آواز بلند ہوتی گئی۔اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ دیگر چوہوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے مکاّ ہو ا میں لہرایا اور کہا۔ ”آخر کوئی حد ہوتی ہے ظلم سہنے کی بھی۔ سوچو، میرے ساتھیو، سوچو، کوئی ترکیب سوچو اس عذاب سے نجات پانے کی ، آزاد زندگی گزارنے کی․․․․! “ بوڑھا چوہا خاموش ہوا تو سب سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔ آخر ایک چوہا زور سے اچھلا اور بولا۔ ” وہ مارا․․․․!!! ایسی ترکیب سوچی ہے کہ بس․․․“ سارے چوہے یک زبان ہوکر بولے۔”وہ کیا ؟“ چوہا کھنکارا، دوبارہ کھنکارام پھر کھنکارا، پھر اپنی گردن سہلاتے ہوئے گویا ہوا۔” ہم ایک گھنٹی بلی کی گردن میں باندھ دیں گے، تو جب وہ آئے گی تو گھنٹی بجے گی اور ہمیں پتا چل جایا کرے گا اور بھاگ جائیں گے!“ سب چوہے خوش سے تالیاں پیٹنے لگے۔ ”واہ بھئی واہ! کیا عمدہ ترکیب ہے!! آپ بڑے ہیں ، آپ ہی بلی کی گردن میں گھنٹی باندھیے۔“ چوہا تیار ہوگیا۔ جب بلی کے آنے کا وقت ہوا تو گھنٹی لے کر بل کے باہر کھڑا ہوگیا۔ باقی چوہے بلی قریب آئی، چوہے کے تو چھکے چھوٹ گئے․․․․ پاؤں کپکپائے، ہاتھ تھرتھرائے،گھنٹی ہاتھ سے چھوٹ گئی، سانسوں دوڑتا بل میں داخل ہوگیا بلی تو شکار کو بچتا دیکھ کر واپس ہولی، مگر چوہے بہادر کا بُرا حال ہوا۔ سب چوہے اس کے اردگرد کھڑے ہوکر قہقہے لگا رہے تھے کوئی تالیاں پیٹ رہا تھا، کوئی سیٹیاں بجارہا تھا، ایک نے تو یہ بھی کہہ دیا۔بڑا آیا گھنٹی باندھنے والا۔ اگلی رات تمام چوہے پھر سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔ اس بار ایک بوڑھے چوہے نے ترکیب بتائی۔ میرے دوستو ، اتفاق میں برکت ہے ناں، اس لیے جیسے ہی بلی آئے گی ، ہم سب اس پر اکھٹے حملہ کردیں گے، اپنے سارے مُردوں کے بدلے چکائیں گے، خوب خوب ماریں گے، ایسا کرنے سے بلی پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی اور دوبارہ ہمیں شکار کرنے کی جرأت نہ کرسکے گی۔“ سارے چوہے خوش ہوگئے اور بلی کاانتظار کرنے لگے۔ جوں ہی بلی آئی سب نے یک بارگی حملہ کردیا کوئی ٹانگ سے چمٹ کر کاٹنے لگا کوئی دُم سے، کوئی پیٹھ سے․․․ بلی نے جو زور لگایا دم جھاڑی پیر جو پٹخا تو ایک چوہا دور جاگرا، دوسرے کا کچومر نکل گیا۔باقی چوہوں نے جو حال دیکھا تو بھگدڑ مچ گئی، سب بل کی طرف بھاگے۔ بلی نے اطمینان سے ایک تگڑاچوہا دبوچا اور چلتی بنی۔سب چوہے ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے، بزدل اور ڈرپوک کے القابات سے نوازتے پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ سوچنے لگے اور سوچتے ہی چلے گئے یہاں تک کہ ایک ننھا سا چوہا بول اٹھا۔ مجھے ایک بڑھیا ترکیب سوجھی ہے، وہ یہ کہ زمین پر گوند پھیلا دی جائے، اور اس میں گوشت کا ایک ٹکڑا رکھ دیا جائے۔ بلی جب گوشت کا ٹکڑا لینے آئے گی تو اس کے پاؤں گوندکی وجہ سے چپک جائیں گے، پھر وہ ہلنے جلنے سے قاصر ہوجائے گی، اور یوں ہم گھنٹی اس کی گردن میں باندھ دیں گے۔“ اب چوہے خوشی خوشی گوند زمین پر پھیلائے ، گھنٹی ہاتھ میں پکڑے بلی کا انتظار کرنے لگے۔ بلی آئی ، سرخ گوشت کا بڑا سا ٹکڑا دیکھ کر اس کی باچھیں کانوں تک چر گئیں، جھٹ سے اس پر لپکی لیکن یہ کیا․․․؟؟ اس کے پاؤں تو گوندل کی دلدل میں دھنستے پھسلتے چلے گئے ۔ جیسے جیسے نکلنے کی کوشش کرتی، ویسے ویسے اس کا جسم مزید گوند میں لتھڑتا جاتا۔ چوہوں نے جو یہ ماجرا دیکھا تو نعرہٴ مستانہ بلند کیا۔ننھا چوہا لپک کر بلی کی پیٹھ پر چڑھ گیا اور اس کی گردن میں گھنٹی باندھ دی۔ دیر تک چوہے ننھے کے حق میں نعرے لگاتے رہے اور نجات کا جشن مناتے رہے اور بلی کا مذاق اڑاتے رہے․․․․ اور اسی وقت سے چوہے بلی سے نہیں ڈرتے۔ انہیں بلی کے آنے کا دور سے پتا چل جاتا ہے کیوں کہ اس کی گردن میں بندھی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور وہ فوراََ ہی اپنے بل میں چھپ جاتے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ گھنٹی کہاں ہوتی ہے؟ نظر تو نہیں آتی۔ تو جناب آپ بلی کی گردن کو ہاتھ لگائیں، آپ کو وہ اندر کی طرف دھنسی ہوئی محسوس ہوگی۔ یہ اسی پٹے کی علامت ہے جس کے ذریعے سے گھنٹی بلی کے آباء واجداد میں سے ایک کی گردن میں باندھی گئی تھی۔ " غربت کا شکار - تحریر نمبر 1034,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghurbt-ka-shikkar-1034.html,"غربت کا شکارجاوید اقبال:ایک دن ہمیں پڑوسی ملک سے ایک شکاری دوست کا خط ملا۔ خط میں اس نے شیروں کے ایک آدم خور جوڑے کے بارے میں لکھا تھا۔ اس جوڑے نے وہاں وہشت پھیلائی ہوئی تھی۔ اب تک چھے دیہاتی مرد او ر عورتیں اس کا نشانہ بن چکے تھے۔ ہمارے دوست نے ہمیں جلد از جلد وہاں پہنچنے کی تاکیدکی تھی۔ہمارا یہ دوست کئی شکاری مہمات میں ہمارے ساتھ رہا تھا۔ پھر ایک ٹریفک حادثے میں وہ اپناایک بازو اور ٹانگ گنوا بیٹھا۔ چوں کہ اب وہ خود تو اپنی معذوری کی وجہ سے شکارنہیں کرسکتا، اس لیے اس نے ان آدم خودرندوں کو مارنے کے لیے ہمیں بلایا تھا ۔ یہ خط پڑھ کر ہم اپنے دوست سے ملنے کو بے چین ہوگئے، ہمیں شکار کیے ہوئے بھی بہت دن ہوگئے تھے۔(جاری ہے)اس لیے ہم نے جلدی سے تیاری کرلی اور تیسرے دن ہی ٹرین میں سوار ہوکر ایک لمبے سفر کے بعد شام کو اپنے دوست کے گاؤں پہنچے۔ہمارا دوست ہمارے استقبال کے لیے موجود تھا۔ وہ دلیر شکاری جس نے درجنوں خونخوار درندوں کا مارا تھا۔ کئی بار شیروں سے دو بدو لڑائی کی تھی ، اب بیسا کھیوں کے سہارے چلنے پرمجبور تھا۔ اپنے دوست کو اس حال میں دیکھ کر ہمارا دل بھر آیا۔ ایک رات اور آدھا دن تو پرانی یادوں کو تازہ کرنے میں گزر گیا۔سہ پہر ہوئی ہم نے اپنے دوست سے کہا کہ وہ ہمیں درندوں کا ٹھکانہ دکھادے ایسا نہ ہویہ درندے کوئی اور جانی نقصان کردیں۔ہمارا دوست ہمیں ایک قریبی گاؤں لے گیا۔ یہ جنگل کے کنارے ایک چھوٹا کام کررہے تھے۔ہمارے دوست نے بتایا کہ یہاں پر سرکاری کارندے بھی ان درندوں کا شکار کرنے آئے تھے، مگر نہ جانے وہ اب تک کیوں نہیں مارے گئے۔ ہمارے ہاتھوں میں بندوقیں دیکھ کر لوگ ہمارے گرد اِکھٹے ہوگئے۔ ہم نے انہیں تسلی دی کہ وہ بے فکر ہوجائیں یہ درندے اب ہم سے بچ نہیں سکتے۔ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم اس جگہ پہنچے، جہاں ان درندوں کا ٹھکانا تھا۔ گھنے درختوں کے بیچ ایک کھوہ نما جگہ تھی۔ میں نے اپنے تجربے کی بنا پر اندازہ لگا لیا کہ شیروں کا ٹھکانہ اسی جگہ ہوسکتا ہے۔ میرا خیال درست نکلا۔ خونخوار درندوں نے یہیں اپنا مسکین بنارکھا تھا۔ انسان یا جانور کو مارکروہ اسے اس کھوہ میں گھسیٹ لاتے اور پھر اطمینان سے اسے کھاتے ۔ہم نے مچان بنانے کے لیے درخت کا انتخاب کیا، جہاں سے ہمیں کھوہ اور ندی کو جانے والی پگڈنڈی نظر آرہی تھی۔ یوں درندے پینے نکلتے یا ہمارے باندھے ہوئے جانور کو کھانے آتے وہ ہمارے نشانے پر ہوتے۔ اپنے دوست کوہم نے ایک بچھڑے کا انتظام کرنے کو کہا اور جنگل کے باہر اپنا کیمپ لگا لیا۔ مچان بنانے کا مرحلہ آیا مقامی مزدورں نے جنگل میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔چناں چہ ہمیں خود ہی مچان بنانی پڑی۔ مچان اتنی بڑی تھی کہ ہم تینوں دوست آسانی سے اس پر بیٹھ سکتے تھے۔ دن ڈھلتے ہی بچھڑے کو ایک درخت سے باندھ دیا گیا۔ ہم مچان پر بیٹھ کر شام کا انتظار کرنے لگے۔ شام ہوتے ہی جنگل میں خاموشی چھا گئی۔ اس کے ساتھ ہی مچھروں نے ہم پر ہلہ بول دیا۔ ہم نے اپنے ہاتھوں اور چہرے پر مچھر بھگانے والا لوشن مَل لیا۔پھر تھرموس سے گرم گرم چائے نکال کر پی اور چست ہوکر بیٹھ گئے۔ چاند کبھی بادلوں کی اوٹ میں چھپ جاتا، کبھی اس کی چاندنی میں پتے چمکنے لگتے ۔ اچانک چارے کے لیے باندھا ہوا بچھڑا اُٹھ کھڑا ہوا اور رسی تڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ ہم ایک دم چوکنے ہوگئے۔ شیرتو ابھی اپنی کھچارسے نکلنے نہیں تھے یہ یقینا کوئی دوسرا جانور تھا جو بچھڑے کی بُو پاکر اِدھر اآنکلا تھا۔پھر جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی اور ہم نے کسی کو جھاڑیوں سے نکلتے دیکھا۔”ارے یہ توکوئی انسان ہے۔“ ایک کے منھ سے نکلا ۔ واقعی یہ ایک بوڑھا آدمی تھا۔ اس نے دھوتی اور بنیان پہنی ہوئی تھی اور وہ اس طرح اردگرد دیکھ رہا تھا، جیسے کسی کا انتظار کررہا ہو۔ ہمارا ایک دوست کسی احتیاط کا خیال کیے بغیر بندوق لے کر درخت سے اُترا اور بجلی کی طرح اس پر جھپٹا۔اس نے ایک ہاتھ آدمی کے منھ پر رکھا اور اسے پیٹھ پر اُٹھا لایا۔ شکار کا پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ہم نے اس بوڑھے کو اپنے کیمپ میں لے آئے ۔ حلیے سے وہ بہت غریب معلوم ہوتا تھا وہ خود کو چھڑانے کے لیے جدوجہد کررہا تھا ۔ جیسے ہی ہمارے دوست نے اس کے منھ سے ہاٹھ ہٹایا وہ غصے سے بولا:” تم نے مجھے کیوں پکڑا ہے؟“ ”میرے بزرگ ! شایدآپ کو معلوم نہیں خودکشی کرنا جرم ہے۔“ ہم نے کہا۔”غربت خودکشی سے بھی بڑا جرم ہے۔“ یہ کہہ کر وہ ایک دم روپڑا، پھر اس نے جو کہانی سنائی اسے سن کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس نے بتایا وہ اپنے بیٹے اور بہو کی خاطر اپنی مرضی سے شیروں کا لقمہ بننے آیا تھا،کیوں کہ اگر کوئی درندہ کسی انسان کو مارڈالے تو حکومت اس کے گھر والوں کو دولاکھ روپے دیتی ہے۔ پہلے بھی جولوگ مرے ہیں، ان کے گھر والوں کو حکومت نے امدادی رقم دی تھی۔میں نے سوچا کچھ دن بعد ویسے ہی مرجاؤں گا ، کیوں نہ اپنے بیٹے کی غربت دور کرنے کا انتظام کرجاؤں۔ ہم پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اس بوڑھے کو دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ غربت کے ہاتھوں انسان اس حد تک مجبور ہوسکتا ہے ہم بوڑھے کو اس کے بیٹے کے گھر لے گئے۔ اسے سمجھایا کہ بزرگ اولاد کا سرمایہ ہوتے ہیں ان کی قدر کرو، ان کی دیکھ بھال اور خدمت کرو۔ محنت کرکے اپنے حالات بدلو، اوپر والے کی ذات پر بھروسا کرو، وہ کارساز ہے۔ بعد میں ہم نے دونوں آدم خور شیروں کو مارڈالا، جب وہ بچھڑے کے بچے ہوئے گوشت پر دعوت اُڑانے آئے تھے۔ دونوں شیروں کی قیمتی کھالیں ہم نے اس غریب بوڑھے کو تحفے کے طور پر دے دیں اور اپنے دوست سے پھر ملنے کا وعدہ کرکے رخصت لی اور واپس گھر لوٹ آئے۔ " جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے - تحریر نمبر 1033,https://www.urdupoint.com/kids/detail/true-stories/jhoot-kay-pawo-nh-hoty-1033.html,"جھوٹ:سلمان یوسف سمیجہ:وہاب صاحب ! اپنے بیٹے ابوذر کو لینے کیلئے میدان میں پہنچے تو دیکھا کہ وہ اپنے کلاس فیلو اور دوست توصیف سے گپ شپ میں مصروف ہے۔ ”ارے ابوذر ! تم کل سکول کیوں نہیں آئے؟“ توصیف نے باتوں باتوں میں پوچھ لیا۔ ”وہ ․․․․․ وہ دراصل !“ ابوذر سے کوئی جواب نہ بن پارہا تھا۔” ہاں وہ بات یہ ہے کہ کل مجھے سردرد تھا اور معمولی بخار بھی، جس کی وجہ سے میں سکول حاضر نہ ہوسکا‘ آج کچھ صحت بہتر ہے“ ابوذر نے جھوٹ بول دیا۔وہاب صاحب کو دکھ ہوا وہ افسوس کرنے لگے کہ اُن کا بیٹا جھوٹ بولتا ہے ۔ ابوذر اور توصیف باتوں میں مشغول تھے ، انہیں یہ خبر نہ تھی کہ وہاب صاحب اُن دونوں کی گفتگو سن رہے ہیں۔(جاری ہے)” ابو ذر ! تمہارے ابو آئے ہیں۔“توصیف نے وہاب صاحب کو دیکھ لیا تھا۔ ابوذر کوسامنے پاکر بوکھلا گیا۔ ”چلو بیٹابیٹے! شام ہوگئی گھر چلو“ وہاب صاحب بظاہر تو مسکرا کر بولے لیکن اندر ہی اندر وہ افسوس کررہے تھے اور بہت دکھی بھی تھے۔”جی ابو! یہ کہہ کر ابوذر انکے ساتھ چل دیا۔ ”تم نے توصیف سے جھوٹ کیوں کہا کہ تمہیں بخار تھا جبکہ تم نے تو ایسے ہی چھٹی کرلی تھی۔“ راستے میں وہاب صاحب نے اُس سے پوچھا”وہ وہ ابو!چھوٹے موٹے جھوٹ تو آجکل کے زمانے میں چلتے ہیں۔“ ابوذرنے کہا ”لیکن تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، جھوٹ بولنا برے بچوں کا کام ہے، آپ تو اچھے بچے ہونا!“ ابو نے مسکرا کر کہا تو وہ بولا:”جی ابو میں آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولو گا۔“ ”بہت خوب!“ ابو نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے کہا۔”ٹھک ․․․․ٹھک․․․․ٹھک“ دروازے پر کسی نے دستک دی۔ ”ابو ذر بیٹا! جاکر دیکھو کون آیا ہے!“ابونے ابوذر کو آواز دے کرکہا”جی ابو!“ابوذر سعادت مندی سے دروازہ کھولنے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو بولا: ”ابو ! آپکا دوست شوکت آیا ہے۔“ ”اوہو!جب دیکھو پریشان کرنے چلا آتا ہے‘پتہ نہیں اور کام نہیں ہوتے اِسے‘ بدتمیز کہیں گا۔ابو غصے سے بول رہے تھے۔ ”ابو ذر! اِسے کہو ابو دفتر سے ابھی نہیں لوٹے۔“ وہاب صاحب نے کہا۔ وہ دروازے کی طرف گیا اور کہنے لگا؛انکل ابو جان نے آپکو بہت برا بھلا کہا اور یہ بھی کہا ہے کہ اُسے جاکر کہہ دو کہ دفتر سے نہیں لوٹا‘ معلوم نہیں اُنہوں نے جھوٹ کیوں بولا‘ ویسے وہ مجھے جھوٹ سے بچنے کا کہتے ہیں۔“ ابوذر نے اداس نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔شوکت کو جھٹکا لگا اور وہ حیران ہوکر بالا:“کیا؟ وہاب مجھے برا بھلا کہتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے‘مجھے اُس سے یہ اُمیدہرگز نہیں تھی۔ شوکت چلا گیا اور ابوذر بھی اپنے دماغ میں کئی سوال لئے گھر میں آگیا۔ شام کاکھانا کھانے کے بعد وہاب صاحب کے موبائل پر گھنٹی بجی۔ اُنہوں نے سکرین پر دیکھا تو شوکت لکھا تھا ۔اُنہوں نے کال ریسونہ کی مگر گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔آخر تنگ آکر انہوں نے کال ریسوکی اور فون کان سے لگا کر ”ہیلو“ کہا۔ دوسری جانب شوکت کی افسوس اور دکھ بھری آواز آئی:“ وہاب ! تم سے یہ امیدنہیں تھی تم نے مجھے برا بھلا کہا‘تمہارے بیٹے نے مجھے سب بتا دیا اصل بات تو یہ ہے کہ تم دوستی کے لائق نہیں ہو،تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہوآج کے بعد تیری میری دوستی ختم!”اتنا کہہ کر شوکت نے فون بند کردیا۔وہاب صاحب کوابوذر پر غصہ آیا‘انہوں نے اُسے بلایا اور ڈانٹتے؛ ”تم نے شوکت کو ہر وہ بات بتادی جو میں نے اسکے بارے میں کہی تھی۔“”ابو!آپ بھول گئے؟“جواب دینے کی بجائے ابوذر نے سوال داغ دیا”کیا؟“ ابو! آپ پرسوں والی بات بھول گئے جب میں نے اپنے دوست سے جھوٹ بولا تو آپ نے مجھے نصیحت کی کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے لیکن آپ وہ نصیحت بھول فراموش کرگئے‘ آپ نے مجھے تو جھوٹ بولنے سے روکا تھا مگر خود آپ نے اپنے دوست سے جھوٹ بولا اور مجھ سے بھی کہاکہ اُسے جھوٹ بول دوں کہ آپ ابھی دفتر سے نہیں لوٹے‘ آپ نے مجھے تو نصیحت کی لیکن خود عمل نہیں کیا۔پھر فائدہ کیا مجھے نصیحتیں کرنے کا؟ میں جھوٹ نہیں بول سکتا تھا کیونکہ جس دن آپ نے مجھے جھوٹ بولنے سے روکا تھا، اسی دن سے میں جھوٹ سے نفرت کرتا ہوں اور سچ کا ساتھ دیتا ہوں‘ اِسلئے میں نے شوکت انکل سے سب کچھ سچ کہہ ڈالا۔ “ ابوذر نے اس قدر معصومیت سے کہا کہ وہاب صاحب کو اُس پر بے ساختہ پیار آگیا۔”بیٹے!تم سچ کہتے ہو‘ میں جھوٹ بولتا ہوں‘ اب میں بھی تمہاری طرح اچھا بچہ اور سچ بولنے والا بچہ بن گیا ہوں۔“”کیا ابو آپ بچے ہیں؟“ ابوذر نے حیرانگی سے کے عالم میں پوچھا۔ ”ارے نہیں! سچ بولنے والا آدمی بن گیا ہوں۔”وہاب صاحب کو اپنی بات پر ہنسی آگئی تھی۔ ”ابوہم کل جا کر شوکت انکل کو منائیں!“ ٹھیک ہے۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ابوذر کو گلے سے لگا لیا۔ " بادشاہ کا چور - تحریر نمبر 1032,https://www.urdupoint.com/kids/detail/true-stories/badshah-ka-choor-1032.html,"بادشاہ کا چورشیخ معظم الہی:بہت پہلے جب ہر جگہ بادشاہ ہی حکومت کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک بادشاہ اپنے ایک ملازم سردار سے ناراض ہوگیا اور اُسے دربار سے نکال دیا اور حکم دیا گیاکہ تم دن رات اپنے گھر میں پڑے رہو نہ کہیں باہر جاسکتے ہو اور نہ ہی کہیں کام کرسکتے ہو۔ یہ بظاہر معمولی حکم تھا کیونکہ دن رات گھر میں پڑے رہنا کچھ کام کاج نہ کرنا اور فارغ وقت گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ویسے بھی ایک آدمی ایک ہی جگہ اور ایک قسم کے لوگوں میں رہتے رہتے گھبرا جاتا ہے اور تو اور بہت وحشت ہوتی ہے۔ وقت کاٹنا دوبھر ہوجاتا ہے چنانچہ اُسکے ساتھ بھی ایسی ہی ہوا۔ وہ سارا دن پڑا رہتا اور کوئی کام نہیں کرسکتا تھا۔ سردار بہت پریشان تھا کیونکہ اسکے بچوں کے پیٹ بھرنے کا سوال تھا۔(جاری ہے)جب وہ گھر سے باہر قدم نہیں نکالے گا تو بیوی بچوں کو کھلائے گا کہاں سے؟“ اتفاق سے کچھ دنوں کے بعد بادشاہ وزیر اور شہزادے بلائے گئے۔سردار کو ایک ترکیب سوجھی تو اسکی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اُس نے اپنی بیوی کو پڑوس میں ایک قیمتی جوڑا لانے کیلئے بھیجا۔ وہ پڑوس سے قیمتی جوڑا لے آئی۔ سردار نے مانگے کا قیمتی جوڑا جلدی سے زیب تن کیا اور گھر سے نکل پڑا اور شان سے چلتا ہوا شاہی دربار میں جا پہنچا۔ درباری سمجھے کہ کوئی معزز مہمان ہے اُسے لے جا کر بڑے ادب سے دوسرے بڑے لوگوں کے ساتھ کرسی پر بیٹھا دیا۔سردار گردن اکرا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ دربار شروع ہوا ۔ جشن کی تمام رسمیں ادا کی گئیں اور اسکے بعد دسترخوان پر اعلیٰ قسم کے کھانے رکھے گئے۔ سردار نے بھی ہاتھ بڑھا کر خوب ڈٹ کر کھانا کھایا اور پھر نظر بچا کر بڑی چالاکی سے سونے کی ایک رکابی اپنے لباس میں چھپالی اور دربار ختم ہوتے ہی وہاں سے نو دو گیارہ ہوگیا اور گھر آکر بڑے مزے سے سارا واقعہ اپنی بیوی کو سنایا۔اِسکے بعد اُسکی بیوی بازار جاتی اور سونے کی رکابی کا ایک ٹکڑا کاٹ کر فروخت کرکے کچھ رقم لے آتی۔ یوں سردار کی زندگی آرام سے گزرنے لگی اور پریشانی دور ہوگئی۔ ادھر دربار کے ملازموں نے دیکھا کے سونے کی ایک رکابی کم نکلی ہے تو بیچارے بہت گھبرائے اور رکابی ڈھونڈنے کیلئے ادھر اُدھر دوڑنے لگے۔ بادشا نے انکی حالت دیکھ کر کہا کہ تم سب کیوں پریشان ہو؟ مجھے معلوم ہے کہ سونے کی رکابی غائب ہوگئی اور اب وہ تمہیں نہیں ملے گی۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رکابی کس نے چرائی ہے۔ اگلے سال پھر جشن ہوا اور دربار مہمانوں سے بھرگیا ۔ جشن کے اختتام پر مہمانوں کو کھانا دیا گیا۔ سردار اس موقع پر بھی موجود تھا۔ کھاناکھانے کے بعد پھر اُس نے نظر بچا کر بڑے اطمینان سے ایک سونے کی رکابی اپنے لباس میں چھپا لی۔ دربار ختم ہو تو مہمان جانے لگے تو سردار بھی محل کے دروازے سے باہر نکلنے لگا کہ اچانک بادشاہ سامنے آگیا۔بادشاہ کو دیکھ کر وہ بہت سٹ پٹایا اور گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ بادشاہ نے ہاتھ بڑھا کر اُسکا ہاتھ پکڑ اور کہا کہ پچھلے سال کی رکابی ختم ہوگئی جو پھر ایک اور رکابی لے جانا چاہتے ہو؟یہ سنتے ہی سردار کے ہوش اُڑ گئے اور خوف کے مارے کانپنے لگا۔ آخر کار بادشاہ کے قدموں پر گر پڑا اور کہنے لگا؛”حضور کے حکم کی تعمیل میں مجھے میرے گھر میں بند کردیا گیا تھا۔کئی مہینوں تک پریشان اور تنگدست رہا۔ آخر مجبور ہو کر یہ نازیبا حرکت کی۔ حضور مجھے معاف کردیں۔ بادشاہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر کہنے لگا کہ اچھا ہم نے تمہیں معاف کیا اور تمہاری ملازمت بھی بحال کردی ۔ غلطی ہماری ہی تھی ہم نے حکم ہی ایسا دیا تھا کہ آدمی بھوک اور تنگدستی سے مجبورہوکر چوری کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، اگر ہم تمہیں گھر میں قید نہ کرواتے تو شاید تم ایسی حرکت کبھی نہ کرتے۔ جاؤ! اب ایسی حرکت نہ کرنا، چوری بہر حال بری حرکت ہے۔ بادشاہ اور سردار دونوں نے غلطی کی تھی۔ دونوں نے اپنی اپنی غلطی تسلیم کرلی اور ایک دوسرے کا آئندہ کیلئے عبرت حاصل ہوگئی۔ کہتے ہیں کہ پھر سردار نے کبھی چوری نہ کی اور نہ بادشاہ نے کبھی کسی کو ایسی سزادی۔ " مہمان اللہ کی رحمت - تحریر نمبر 1031,https://www.urdupoint.com/kids/detail/true-stories/mehmaan-allah-ki-rehmat-1031.html,"ساجدکمبوہ:اشرف صاحب تھکے ماندے گھر لوٹے تو دیکھا کہ اُن کابارہ سالہ بیٹا کاشف اپنی ماں سے اُلجھ رہا ہے۔ کیا ہوابھئی؟ آج موڈ خراب کیوں ہے؟ اُنہوں نے بیٹے سے پوچا۔ ہونا کیا ہے ، پاپا ! ابھی کچھ دن پہلے بڑی آنٹی اپنے بچوں کیساتھ دس بارہ دن ہمارے گھر پر رہ کر گئی ہیں۔ آج ماما جان چھوٹی آنٹی کو فون پر کہہ رہی تھیں کہ ہمارے پاس کب آرہی ہو؟ پھر کیا ہوا کاشف کے پاپا نے کہا۔ہونا کیا ہے ، ہم ماما سے پاکٹ منی مانگیں تو دس روپے پکڑا دیتی ہیں۔ اگر کہیں کہ دس روپے سے کیا آتا ہے تو کہتی ہیں تمہارے پاپا پرائیوٹ کمپنی میں ملازم ہیں کوئی بنک کے مالک نہیں۔ بھئی مہنگائی کے اِس دور میں دس روپے بھی غنیمت ہے۔ وہ تو ٹھیک ہے آنٹی کے بچوں کو تو بیس بیس روپے دیتی ہیں۔(جاری ہے)اور نان چنے ، دہی بھلے اور بریڈ بھی کھلاتی ہیں۔ کاشف نے جواب دیا۔بھئی مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں انکی خدمت کرنا پیارے آقاﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔ بات تو آپکی ٹھیک ہے مگر اپنی پاکٹ بھی دیکھنی چاہئے آپ کی سیلر ی میں بیس ہزار روپے ہے اگر ان پر دوہزار خرچ کریں تو ظاہر ہے بجٹ خراب ہوگا اور مہینہ کے آخر پر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں گے۔ ”نوٹینشن! ادھار کا سلسلہ چلتا رہتا ہے جب سیلری آئیگی انہیں دے دیں گے․․․“ جو مہمان آتا ہے وہ اپنی قسمت اپنے حصے کا رزق ساتھ لیکر آتا ہے اور تمہیں پتہ ہے بظاہر مہمان کے آنے سے بجٹ خراب ہوتا ہے مگر اسکے عوض اللہ تعالیٰ اُس گھر پررحمتوں کی بارش کردیتا ہے ، وہ بظاہر نظر نہیں آتیں مگر وہ گھرانہ خوش رہتا ہے، ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبی حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا! اے میرے رب جب تو خوش ہوتا ہے تو کیا کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مہمان بھیجتا ہوں۔دوسری بار پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا بیٹیاں دیتا ہوں تیسری بار پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ بارش دیتا ہو․․․ آپ خود اندازہ لگاؤ جس گھرانے پر اللہ مہربان ہوتا ہے وہاں مہمان بھیجتا ہے، وہاں کا رزق پہلے بھیج دیتا ہے۔ وہ کیسے؟ پاپا میں سمجھا نہیں ۔ اچھا سنو۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ گھروں میں مہمان آنے پر خوشیاں منایا کرتے تھے اور یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ اگر مہمان کسی ایک گھر میں آتا تو پورے محلے کے گھرانے ایک ایک کرکے مہمان کی تواضع کے متمنی ہوتے۔مہمان دوسرے گھرانے کی دعوت قبول کر لیتا تو اُس گھر میں خوشی کی لہڑ دوڑ جاتی۔ کسی مجبوری کی وجہ سے وہ دعوت قبول نہ کرتا تو اچھے اچھے پکوان پکا خود اُس کے گھر میں پہنچائے جاتے تھے۔ کیا اچھا زمانہ تھا اور کیا اچھے لوگ تھے۔ زمین پر بچھی چٹائی پر دسترخوان لگتا تھا۔ جس پر مکئی یا جوار کی روٹی، لسی کا گلاس اور مکھن رکھ دیا جاتا تھا اور اگر․․․پاپا جان آج کونسا دودھ لسی مکھن کا دورہے ،پیزا برگر کا دور ہے۔بھئی وقت وقت کی بات ہے اچھا ایک اور واقعہ سنو:پیارے آقاﷺ کے دور میں ایک خاتون نے آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوکر عرض کی کہ اسکا شوہر روزکئی مہمانوں کو لیکر آتا ہے۔ اُس نے انکی خدمت نہیں ہوسکتی۔ آپ ﷺ نے اُس خاتون کی بات سن لی ۔ اُسے کچھ نہ کہا۔ کچھ دنوں بعد آپ ﷺ نے اسکے شوہر سے کہا وہ اُن کے گھر مہمان بن کر آنا چاہتے ہیں کیونکہ اس شخص نے جب اپنی بیوی کو بتایا تو اُس خاتون خانہ کوبے حد خوشی ہوئی۔اُس نے سوچا کہ میں نے جو پیارے آقاﷺ سے شکایت کی تھی شاید میرے شوہر کو سمجھانے آرہے ہیں کہ مہمان نہ لایا کرو۔ تاہم پیارے نبی ﷺ نے کھانا تناول فرمایا اور صحابی سے کہا کہ میں جب گھر سے جاؤں گا تو تمہاری بیوی مجھے جاتا ہوئے دیکھے۔ جب آپ ﷺ تشریف لے گئے تو اُس خاتون خانہ نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے پیچھے حشرات اور بلائیں بھی گھر سے باہر جارہی ہیں۔آپ ﷺ نے اُس گھرانے کو درس عظیم دیتے ہوئے کہا کہ جب مہمان گھر سے روازنہ ہوتے ہیں تو اُن کی برکت سے گھر میں موجود بلائیں بھی گھر سے چلی جاتے ہیں۔ اسلئے۔ مہمان کی قدر و منزلت کرنے چاہیے ۔ سبحان اللہ ! کاشف کے منہ سے نکلا۔سوری پاپا جان اب میری سمجھ میں آگیا کہ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔اب میں خود چھوٹی آنٹی کو فون کرکے کہتا ہوں کہ وہ ہمارے گھر․․․․․مہینہ بھر رہیں․․․․․․ننھی سحرش نے کہا سبھی مسکرانے لگے․․․․․․․ " نا شُکری - تحریر نمبر 1030,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/na-shukrii-1030.html,"نا شُکریثروت یعقوباُف امی کتنی گرمی ہے ،نماز پڑھنی مشکل ہوگئی ہے ۔ اوپر سے یہ لوڈ شیڈنگ کا سانپ ڈسنے سے باز ہی نہیں آرہا۔ شازیہ نے اپنا پسنہ صاف کرتے ہوئے کہا۔ ہاں شازیہ! تم ٹھیک کہتی ہو ،دیکھو تو سہی یہ لمبے لمبے درخت کیسے خاموش کھڑے ہیں۔ ذرایہ اپنے پرہلائیں تو ہوا چلے او ر سکون ملے امی جان نے شازیہ کی تائید کی۔اور امی یہ گرمیوں کا موسم گزارنا کتنا مشکل ہے اس گرمی میں انسان ڈھنگ سے کوئی کام ہی نہیں کرسکتا۔ کھانا پکانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ میں نے تو سوچا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں کوئی کورس وغیرہ کروں گی مگر ہائے رے گرمی! یہ تو گھر سے باہر ہی نہیں نکلنے دیتی۔ شازیہ اپنا غصہ نکال رہی تھی۔ ہاں شازیہ اس آگ برساتے سورج نے ہر ایک کو تنگ کررکھا ہے ۔(جاری ہے)نہ جانے کتنے کام ہیں جو اس گرمی کی وجہ سے رہ جاتے ہیں، امی جان نے کہا۔ سردی کا موسم کتنا اچھا ہوتا ہے، آرام سے رضائی اوڑھ کر میٹھی نیند کے مزے لو اور دوپہر کو نرم نرم سی دھوپ سے اپنے جسم کو گرم کرو۔ جہاں چاہے چلے جاؤ کوئی مشکل نہیں اور جو چاہو نی نئی نئی ڈش بنا کر مزے مزے سے کھاؤ،سچ امی مجھے تو سردیوں کے دن یاد آرہے ہیں۔ اللہ کرے جلدی سے سردیاں آجائیں۔شازیہ نے ہاتھ پھیلا کر دعا کی۔ شازیہ! یہ لکھ رہی ہو؟ تھوڑی دیر بعد جب امی کمرے میں آئیں تو شازیہ ادریس احمد کو کچھ لکھتے پایا امی! میں گرمی کی تباہ کاریوں اور سردی کی خوشگواریوں پر ایک مضمون لکھ رہی ہوں۔ شازیہ جلدی سے جاکر وضو کر آؤ اور میرے ساتھ نماز پڑھو امی جان نے جائے نماز پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ امی تنی سردی ہے اس سردی کے موسم میں باہر نکلنا کتنا مشکل ہے۔باہر تو بڑی سردی ہے اور پانی بھی بہت ٹھنڈا ہے، اگر میں باہر نکلی تو میری قلفی جم جائے گی۔ پلیز امی! پانی گرم کرکے دے دیں شازیہ نے منہ بسورتے ہوئے التجا ئیہ لہجے میں امی سے کہا۔ شازیہ !ہمت کرکے وضو کرآؤ۔ گیس بھی نہیں آرہی کہ میں تمہیں پانی گرم کرکے دوں۔ جاؤ شاباش! امی نے اُ سے زبردستی وضو کرنے بھیجا۔ شازیہ کمرے سے باہر نکلی تو یخ بستہ ٹھنڈی ہوا نے اُسکا زبردست استقبال کیا۔اُسے لگا کہ اِس سرد موسم میں اُسکا خون منجمد ہو جائے گا، وضو کرکے وہ کمرے میں آئی تو امی تسبیح پڑھ رہی تھی۔ امی ! کتنی ٹھنڈ ہے باہر ، اس سردی نے تو سارے کام ہی روکے ہوئے ہیں۔ میں نے تو سوچا تھا کہ آج کپڑے دھوؤں گی مگر سورج ہے کہ اُس نے اپنا چہرہ ہی چھپا رکھا ہے اور ایک ہفتے سے بادلوں کا نقاب اوڑھ رکھا ہے ۔ شازیہ بولی۔ ہاں، شازیہ! مجھے بھی چادر دھونی ہے لیکن دھوپ ہی نہیں نکل رہی ،امی نے شازیہ کی تائیدکی۔امی! مجھے تو گرمیوں کے خوبصورت دن یاد آ رہے ہیں، لمبے لمبے دنوں میں جو چاہے کرو سردیوں میں تو دن ہی اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ بہت سے کام رہ جاتے ہیں۔ شازیہ نے کہا اور نماز پڑھنے کیلئے جائے نماز بچھانے لگی۔ شازیہ ! کیا لکھ رہی ہو، امی نے شازیہ کو کچھ لکھتے دیکھا تو پوچھا ، امی! میں ایک مضمون لکھ رہی ہوں موسم سرماکے بارے میں شازیہ نے کہا۔اچھا اچھا تم ضرور سردیوں کی تباہ کاریوں اور گرمی کی خوشگواریوں پر کچھ لکھ رہی ہوگی۔ پچھلے سال بھی تم نے کچھ ایسا ہی مضمون لکھا تھا۔ امی جان نے کہا تو شازیہ نے نفی میں سرہلایا۔ نہیں امی۔ مضمون ضرور موسم سے متعلق ہے لیکن عنوان یہ نہیں ہے” انسان کی ناشکریاں“ امی !ہم بہت ناشکرے ہیں ، ایک چیز ملتی ہے تو بجائے شکر کرنے کے اُس میں خامیاں ڈھونڈنے لگتے ہیں، مگر بھول جاتے ہیں کہ ہر چیز کا اپنا مزہ،اپنا رنگ اور اپنے ہی جلوے ہیں۔گرمیاں آتے ہی تو گرمی کارونالے کر بیٹھ جاتے ہیں، مگر بھول جاتے ہیں کہ اناج کو پکنے کے لئے گرمی کی ضرورت ہوتی ہے سردیاں آتی ہیں تو سردی کو کوسنے لگ جاتے ہیں مگر اس بات کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ سارا سال ایک ہی موسم ایک ہی رنگ ہو تو منظر کتنا خوفناک ہوگا؟ امی ! چاروں موسم بہت اچھے ہیں، مگر ہم لوگ ہی ناشکرے ہیں۔ ہاں امی بہت ناشکرے ہیں۔ " پری کا تحفہ - تحریر نمبر 1029,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pari-ka-tufa-1029.html,"پری کا تحفہزینب بنت عمران:وہ ایک سنہری شام تھی،جب شہزادی عنایہ شہزادی سونیہ اور انکی پکی سہیلی شمائلہ سب محل کے باغیچے میں خوشگوار موسم کا مزہ لے رہی تھیں۔ شہزادی عنایہ اور سونیہ دونوں جڑواں بہنیں تھیں۔ بچپن سے ہی انکی دوستی ایک اچھے گھرانے کی لڑکی شمائلہ سے تھی ۔ یہ تینوں ایک دوسرے سے بے حد پیار کرتیں اور ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتی تھیں۔اُس شام وہ سب باغیچے میں بیٹھی مختلف موضوعات پر باتیں کررہی تھیں کہ اچانک ایک خوبصورت پرندہ اُن سے کچھ فاصلے پر آکر گرا۔ اُن تینوں نے جب اُسکے پاس جا کر دیکھاتو معلوم ہوا کہ وہ زخمی ہے۔انہوں نے پرندے کی مرہم پٹی کی اور اُس کیلئے چھوٹا سا گھونسلا بنا دیا تاکہ وہ اُس میں آرام سے رہ سکے ۔(جاری ہے)پرندہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوگیا۔ وہ سب بہت خوش تھیں۔اُنہوں نے پرندے کے سر پر نرمی سے باری باری ہاتھ پھیرا تو وہ اچانک ایک خوبصورت پری کی شکل میں بدل گیا۔ وہ تینوں بہت حیران ہوئیں مگر پری نے انہیں کہا کہ اُنہوں نے اُس کی دیکھ بھال کی جس کے بدلے وہ اُن کو تحفہ دینا چاہتی ہے۔ پھر اُس نے اپنی چھڑی گھمائی تو اُسکے ہاتھ میں ایک لال پوٹلی نمودار ہوگئی ۔ جب اُس نے اُسے کھولاتو اُس میں سے تین خوبصورت سی چمکتی دھمکتی ہیرے کی انگوٹھیاں نکلیں جو اُس نے اُن تینوں میں تقسیم کردیں اور کہا کہ جب کبھی مدد کی ضرورت ہو تو انگوٹھی کو اپنی مٹھی میں کس کر بند کرلیں تو وہ فوراََ وہاں مدد کے لئے حاضر ہوجائے گی۔وہ تینوں یہ بات سن کر تھوڑی حیران ہوئیں مگر پھر انہوں نے سوچا کہ اس طرح تو اُسکی ہر مشکل آسان ہوجائے گی تو انہوں نے پری کا شکریہ ادا کیا اور محل میں چلی گئیں۔ دن یوں ہی گزرتے گئے اور تینوں پکی سہیلیاں 21 سال کی ہوگئیں تو انکے والدین کو انکو فکر ستانے لگی۔ فکر کیوں نہ ہوتی کیونکہ اُن کے ملک کا رواج کچھ یوں تھا کہ اگر کسی بھی لڑکی کی عمر 21 سال کی عمر تک شادی نہیں ہوئی تو اُسے ایک سال تک ملک کے سب سے پرانے جنگل میں جہاں ہر طرح کا جانور اور ہر طرح کے کیڑے مکوڑے پائے جاتے تھے،چھوڑ دیا جاتا۔وہاں اپنے گھر کا کوئی سامان بھی نہیں لے جایا جاسکتاتھا۔ سب اسی فکر میں مبتلا تھے کہ اچانک چند آدمی آئے جو زبردستی شہزادی سونیہ اور عنایہ کو انکی سہیلی شمائلہ کے ساتھ جنگل تک لے گئے۔ وہ تینوں تین الگ الگ سمتوں میں جائیں گی اور کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈیں تاکہ اِس جنگل سے باہر نکل سکیں۔ آخر تینوں کے راستے جدا جدا ہوگئے۔ پھر ایک گھنٹہ چلنے کے بعد شہزادی عنایہ کو شدت سے پیاس لگی۔اُس نے سوچا کہ اب میں پانی کہاں ڈھونڈوں گی۔ اچانک ہی اُسے یاد آیا کہ وہ تو جب چاہے پری کو بلاسکتی ہے تو اُس نے فوراََ اپنی انگوٹھی اُتار کر اپنی مٹھی میں کس کر پکڑی تو ایک زور دار جھٹکا ہوا اور پری وہاں آگئی اور اُس نے شہزادی عنایہ سو پوچھا کیا کام ہے تو عنایہ نے اُسے کچھ بتایا ۔ پھر پری نے مسکرا کر عنایہ کی طرف دیکھا اور وہاں سے غائب ہوگئی۔شہزادی سونیا ایک پیڑ کے پاس آکر رکی ہی تھی کہ اچانک کسی نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ ایسا ہی کچھ شمائلہ کے ساتھ ہوا پھر اچانک شمائلہ اور سونیہ کی آنکھ کھلی تو اُنہوں نے دیکھا کہ شہزادی عنایہ کھڑی مسکرارہی تھی اور وہ لوگ جنگل کی بجائے اپنے محل کے ایک کمرے میں تھیں۔ اُن دونوں نے حیرت سے عنایہ کی طرف دیکھا تو اُس نے بتایا کہ اُس نے پری سے کہاتھا کہ وہ اِن دونوں کو اُسکے پاس لے کر آئے اور پھر اُنہیں چپکے سے محل کے کسی کونے کے کمرے میں چھوڑ دے جہاں لوگوں کا گزرنہ ہواور ان دونوں (سونیا اور شمائلہ) کو بھی اس بات کا علم نا ہو ورنہ وہ ڈرجائیں گی کیونکہ سونیہ اور شمائلہ جادو اور پریوں سے ڈرتی تھیں۔پھر پری مزے مزے کے کھانے لے کر حاضر ہوئی۔ اُس وقت سونیا اور شمائلہ کاڈر ختم ہوچکا تھا۔ پھر عنایہ نے پری سے کہہ کر ملک کے اس رواج کو ختم کروادیا اور پھر سب لوگ خوشی خوشی رہنے لگے۔ " "بابا بیرو: - تحریر نمبر 1028",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/baba-berro-1028.html," " اچھی مچھلی - تحریر نمبر 1027,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/achi-machlli-1027.html,"اچھی مچھلی:بیگ صاحب محلے کی ایک مقبول شخصیت تھے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع اور لوگوں سے ان کے تعلقات بھی بہت اچھے تھے۔ اکثر لوگ اپنے مسائل حل کرانے کے لیے ان سے رجوع کرتے تھے اور وہ اپنی بساط کے مطابق لوگوں کی مدد کرتے۔ ان کے لئے درخواستیں لکھتے یا ان کو سمجھاتے کہ کیسے وہ اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ ان کی نیک نامی اور شہرت اپنی جگہ، مگر خود ان کے گھر پر ایک مسئلہ بن گیا، جسے بقول ان کی بیگم ، اس کا حل کرنا شاید ان کے بس میں نہیں تھا۔بیگ صاحب کے اکلوتے ہونہار اور ذہین بیٹے فرمان کا اسنوکر کھیلنے کا شوق ہوا اور وہ محلے کے بدنام جیکو اسنوکر کلب میں جانے لگا، جہاں آوارہ لڑکوں کی بہتات تھی اور شاید اس جیسا پڑھا لکھا اور مہذب لڑکا اور کوئی وہاں نہیں جاتا تھا۔(جاری ہے)فرمان میاں کا خیال تھا کہ جس طرح ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندہ کرسکتی ہے تو اسی طرح ایک مچھلی سارے تالاب کو اچھا بنا سکتی ہے۔اچھی مچھلی سے مراد وہ خود تھے۔ اور ہربات کی دلیل اس طرح دیتے کہ امی نے تو ان سے ہار مان لی تھی اور مقدمہ بیگ صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ جب فرمان نے والد صاحب کے سامنے دلائل دیے تو وہ بھی چکراگئے۔ ”ارے بھئی ،یہ سنوکر کھلینے کا خیال کیوں پیدا ہوگیا کوئی اور کھیل چُن لیتے۔!“”اسنوکر کیوں نہیں․․․․ قائداعظم نے بھی اسنوکر کھیلا ہے، اس لیے میں اسنوکر پسند کرتا ہوں”مگر جیکو کلب کوئی اچھی جگہ نہیں ہے۔“ ” تو آپ کوئی اچھی جگہ بتا دیجئے، میں وہاں چلا جایا کروں گا۔“”وہاں کا ماحول اچھا نہیں، آپ کا ذہن خراب ہوجائے گا۔“ ممکن ہے ،میری وجہ سے وہاں کا ماحول اچھا ہوجائے اور ضروری تو نہیں کہ میں بگڑ جاؤں ، ہوسکتا ہے ، سب میری وجہ سے ٹھیک ہوجائیں۔“ بیگ صاحب نے مزید بحث کرنا مناسب نہ سمجھا اور سوچنے لگے کہ کیسے اپنے بیٹے کو سمجھائیں کہ وہ ان کی بات کو سمجھ لے۔ایک دن بیگ صاحب نے سوچا کہ انھیں خود جا کر جیکو کلب کے ماحول کا جائزہ لینا چاہیے۔ وہ کلب میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک کھلاڑی نے اپنی باری لینے کے لیے جلتی ہوئی سگرٹ فرمان کو پکڑا دی ہے ۔ وہ دھک سے رہ گئے اور فوراََ ایک ستون کے پیچھے ہولیے۔ کھلاڑی نے جما کر شاٹ کھیلا اور فرمان سے سگرٹ واپس لیتے ہوئے اسے پیش کش کی کہ وہ دو چار کش لگا لے۔فرمان نے انکار کیا تو سب لڑکے اسے سگرٹ پینے پر مجبور کرنے لگے۔ فرمان نے سختی سے انکار کیا اور آہستہ سے بولا:” دوستو! سگرٹ پینا کوئی بڑا ئی نہیں ہے۔ ہاں اس سے صحت خراب اور عمر ضرور کم ہوجاتی ہے اور دنیا میں لوگوں کی اکثریت سگرٹ نہیں پیتی۔ بڑا بننے کے لئے بڑے کام کرنا پڑتے ہیں، سگرٹ پی کر تو انسان چھوٹا ہوجاتا ہے، اپنا اور اپنے گھر والوں کا مجرم بن جاتا ہے۔“بیگ صاحب کو اس لمحے اپنے بیٹے پر بہت فخر محسوس ہوا اور وہ خاموشی سے باہر آگئے۔ انھوں نے سوچا کہ بچپن میں وہ اسے کہانیاں سنا کر سیدھی راہ پر لاتے تھے، اب بھی ایسا کرنا چاہیے ، مگر کہانی کہاں سے ملے گی۔ وہ سوچ میں پڑگئے۔ اسی شام بیگ صاحب بہت اچھے موڈ میں تھے۔ فرمان نے ان سے خوشی کو سبب پوچھا تو وہ مسکرا کربولے:” ایک کہانے پڑھی ہے، اس نے کیا لطف دیا ہے، اب بھی اس کے سحر سے نہیں نکل سکا۔“”ارے تو وہ کہانی مجھے بھی سنادیں۔!“ فرمان نے دل چسپی لیتے ہوئے کہا۔ ”لوسنو! انھوں نے کہنا شروع کیا: ایک حجام کی بیٹی کی شادی ایک موچی سے ہوگئی۔ موچی اپنے گھر پر چمڑا سکھایا کرتا تھا، جس سے اس کے گھر میں ایک عجیب سے بساند پیدا ہوجاتی تھی۔ موچی کی بیوی نے موچی سے گلہ کیا کہ اس گھر سے بدبو آتی ہے، جب کہ اس کا اپنا گھر ہر وقت خوش بوؤں سے معطر رہتا تھا۔اس کا باپ جب دکان سے واپس گھر آتا تھا تو اس کریموں اور پاؤڈر کی خوش بو آتی تھی اور یہاں چمڑے کو ناگوار بُو کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ موچی نے اسے سمجھایا کہ یہ اس کا کاروبار ہے اور اس سے چھٹکارہ ممکن نہیں۔ وہ کچھ عرصے صبر سے کام لے تو خود بخود اس ماحول کی عادی ہوجائے گی، مگر بیوی نہ مانی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس گھر سے بدبو ختم کرکے ہی دم لے گی۔اب اس نے اپنے طور پر کوششیں شروع کردیں۔ وہ روزانہ صبح شام اگربتی جلانے لگی۔ شوہر کو عطر لگا کر کام پر بھیجتی او ر خود بھی سینٹ لگاتی۔ کبھی عطر کپڑے پر لگا کر کپڑے کو ہوا میں لہراتی۔ اس نے کچھ گملے بھی منگوا کر گھر میں رکھ دیے ، جن میں خوش بودار پھول لگے تھے۔ اور وہ ہروقت گھر کو دھوتی رہتی۔ پھر بھی چمڑے کی بو اپنی جگہ قائم تھی۔ کچھ دن گزرے تو وہ بھی اس ناگوار بو کی عادی ہوگئی، مگر اسے لگا کہ اس نے چمڑے کی بدبو گھر میں ختم کردی ہے اورجب اس نے اپنے شوہر سے فخریہ انداز میں کہا کہ دیکھا، میں نے آکر تمھارے گھر سے بدبو کا خاتمہ کردیا تو وہ بہت ہنسا اور اس نے اپنی بیوی کو بتایا کہ بدبو اپنی جگہ پر موجود ہے ، مگر وہ کود اس بدبو کی عادی ہوگئی ہے۔لہٰذا اسے لگ رہا ہے کہ اس نے بدبو کا خاتمہ کردیا۔ بیگ صاحب نے اچانک کہانی ختم کردی اور ایک فون سننے اندر چلے گئے ۔ فرمان وہیں بیٹھا اس کہانی پر غور کرنے لگا،سوچتے سوچتے اچانک اس کے دماغ میں جیسے بجلی سی کوندی۔ وہ سرہلانے لگا۔ جیسے کوئی بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔ " خزانے کی تلاش - تحریر نمبر 1026,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khzany-ki-talash-1026.html,"خزانے کی تلاشجاوید اقبال:ایک دن میں ایک کباڑیے کے پاس کچھ پرانی کتابوں کی ورق گردانی کررہا تھا کہ ایک کتاب میں مجھے بوسیدہ سا ایک کاغذ ملا۔ پر آڑی ترچھی لکیروں کا ایک جال سا بنا ہوا تھا۔ ساتھ ہی کسی نامعلوم زبان میں جگہ جگہ کچھ الفاظ بھی لکھے تھے۔ وہ کتاب خرید کر میں گھر آگیا، لیکن جب ان الفاظ اور لکیروں کا مطلب میری سمجھ میں نہ آیا تو یہ کاغذ اپنے دوستوں کو دکھایا۔خالد نے کاغذ کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور بولا:” یہ تو کوئی نقشہ معلوم ہوتا ہے۔“ خالد میز پر وہ نقشہ پھیلا کر بیٹھ گیا اور ان لفظوں اور لکیروں کو غور سے دیکھنے لگا۔ بیس منٹ بعد اس نے سر اٹھایا اور بولا:”یہ تو کسی دفن شدہ خزانے کا نقشہ ہے۔(جاری ہے)“اسد نے پوچھا:”مسٹر ماہر نقشہ جات! یہ تو بتایئے کہ یہ خزاں کہاں دفن ہے؟“ خالد نے کہا:”یہاں سے شمال کی جانب ایک گھنا جنگل ہے۔جنگل میں ایک پہاڑی ہے اور اس پہاڑی کے دامن میں ایک غار ہے۔ یہ خزانہ اسی غار میں ہے اگر تم خزانہ حاصل کرنا چاہو تو میں وہاں تک تمھیں لے جاسکتا ہوں۔“ ہم فوراََ تیار ہوگئے۔ جلدی جلدی کچھ کھانے کی چیزیں ، کچھ اوزار وغیرہ کا انتظام کیا اور گاڑی میں بیٹھ خزانے کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ خالد کو ہم نے اس مہم کے دوران اپنا لیڈر چُن لیا۔ وہ اسد کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھا نقشے کو دیکھ دیکھ کر راستے بتاتا جارہا تھا۔ایک لمبا سفر طے کرکے ہم اس جنگل کے قریب جا پہنچے۔ خالد نے کہا:” یہی ہے وہ جنگل ، گاڑی روک دو ، آگے پیدل جانا ہے“ ہم نے کھانے کا سامان اور اپنے اوزار اُٹھالیے اور پیدل جنگل میں چل پڑے۔ چلتے چلتے ہمارے پاؤں تھک گئے۔ ایک جگہ ندی دیکھ کر خالد نے رکنے کا اشارہ کیا اور کہا:” لوبھئی ، کچھ کھا پی لو اور آرام کرلو پھر آگے بڑھتے ہیں۔“ہم وہاں بیٹھ گئے ،ٹفن کھل گئے، دسترخوان بچھ گئے۔ خوب پیٹ بھر کر کھانے کے بعد پھل اور مٹھائیاں بھی کھائیں اور گھاس پر لیٹ گئے، مگر تھوڑی دیر بعد ہی خالد نے اُٹھادیا، بولا:”ہم یہاں آرام کرنے نہیں آئے ، ہمیں اپنا مشن مکمل کرنا ہے۔“ہم خالد کو کوستے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور پھر سفر شروع ہوا۔ درختوں کے ایک جھنڈ سے جیسے ہی باہر نکلے، سامنے پہاڑی نظر آگئی، جس میں غار تھا۔غار کا دہانہ جھاڑ جھنکار اور درختوں میں چھپا ہوا تھا، مگر خالد کی تیز نظروں نے ڈھونڈ لیا۔ ہم ٹارچ جلا کر اور راستہ بنا کر اندھیرے غار میں داخل ہوگئے۔ جگہ جگہ جانوروں کی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ چھت پر چمکادڑیں اُلٹی لٹکی ہوئی تھی۔ ہمیں دیکھ کر ان میں ہلچل پیدا ہوئی۔ وہ ادھر سے اُدھر اُڑنے لگیں۔ ہم ان سے بچتے ہوئے آگے بڑھے۔ ”یہاں تو کوئی خزانہ نہیں ہے۔“ احمد نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔ ”خزانہ یہیں دفن ہے ہمیں کھدائی کرکے اسے نکالنا ہے۔ “ خالد بولا۔ یہ سنتے ہی ہمارے ہاتھوں کے توتے اُڑگئے کہ ہمیں اس قدر پتھریلی زمین کھودنی پڑے گی، مگرخزانے کی لالچ میں ہم یہ بھی کرنے کو تیار تھے۔ سب سے پہلے اسد ہتھوڑا لے کر آگے بڑھا اور پتھریلی زمین کھودنے لگا۔پورا غار اس کی آواز سے گونج اُٹھا۔ابھی چند پتھر ہی ٹوٹے تھے کہ ہمیں غار کے منھ پر ایک سیاہ ہیولا سانظر آیا۔ ہم چونک اُٹھے۔ دیکھا تو ایک سیاہ ریچھ شاید ہماری بوسونگھ کر غار میں داخل ہورہا تھا۔ ہم بری طرح پھنس گئے تھے۔ پیچھے غار بند تھا اور آگے ریچھ کھڑا تھا۔ روشنی سے آنے کی وجہ سے ریچھ کی آنکھیں ابھی اندھیرے میں صحیح طرح دیکھنے کے قابل نہیں ہوئی تھیں۔ خالد نے کڑک کر کہا:”ریچھ پر حملہ کردو۔“میں بیلچہ اُٹھائے آگے بڑھا اور ریچھ کے سر پر وار کیا۔ چوٹ کھا کر ریچھ غضب ناک ہوگیا۔ اس نے اپنے بازؤں کو زور سے ادھر اُدھر گھمایا۔ خالد اس اندھے وار کی زدمیں آگیا اور دور جا گرا۔ اسد نے چھلانگ لگائی اور ہتھوڑا اُٹھائے ریچھ کی طرف بھاگا مگر اسے پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ ریچھ کے قریب جا گرا۔ ریچھ نے اسے اپنے بازؤں میں جکڑ لیا۔اسد کے منھ سے گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں۔میں نے بیلچہ سر سے اوپر اٹھایا اور ریچھ کی پشت پر وار کیا۔ ریچھ نے اسد کو چھوڑ دیا اور میری طرف مڑا۔ میں نے اسے مارنے کے لیے پھر بیلچہ اُٹھایا مگر اس نے مجھے زور سے دھکا دے دیا۔ میں اُلٹ کر ایک گڑھے میں جاگرا۔ میرے پاؤں نرم نرم ریت میں دھنس گئے۔ گڑھے کے باہر ریچھ کے غرانے اور دوستوں کے للکارنے کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں ۔ پھر کچھ دیر بعد خاموشی چھا گئی۔میں نے گڑھے سے سرنکال کر دیکھا۔ میرے دوست غائب تھے اور ریچھ غضب ناک ہوکر ہمیں ڈھونڈ رہا تھا۔ جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی ، وہ میری طرف بڑھا۔ جب وہ گڑھے کے قریب آیا تو میں دونوں ہاتھوں سے ریت بھر کر اس کے منھ پر پھینکی۔ ریچھ کی آنکھوں ،منھ اورناک میں ریت بھرگئی۔ وہ زمین پر بیٹھ کر اپنی آنکھیں ملنے اور کھانسنے لگا۔ موقع غنیمت جان کر میں نے باہر کی طرف دوڑ لگادی۔“ٹھہرو ہم بھی آرہے ہیں۔“ پیچھے سے دوستوں کی آواز آئی ۔ وہ بھی وہیں چھپے ہوئے تھے۔ غار سے نکل کر ہم ایسے بھاگے کہ دوسرا سانس پھر گاڑی میں بیٹھ کر ہی لیا۔ ”نقشے میں تو ریچھ کا ذکر نہیں تھا، پھر کہاں سے آن ٹپکا؟“خالد نے حیرت سے کہا ”یہ خزانے کا محافظ ریچھ ہے۔“ احمدنے کہا اور ہم کھِل کھِلا کر ہنس پڑے۔ خزانے کی لالچ میں ہم اپنے اوزار اور دوسرا سامان گنوا بیٹھے تھے اور راتوں رات امیر بننے کا خواب دھرے کا دھرارہ گیا تھا۔ " بدشکل شہزادے کی سمجھ داری - تحریر نمبر 1024,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bad-shakl-shezady-ki-samjhdari-1024.html,"بدشکل شہزادے کی سمجھ داریایک شہزادہ بدصورت تھا اور اس کا قد بھی چھوٹا تھا۔ اس کے دوسرے بھائی نہایت خوبصورت اور اچھے ڈیل ڈول کے تھے۔ ایک بار بادشاہ نے بدصورت شاہزادے کی طرف ذلّت اور نفرت کی نظر سے دیکھا۔ شہزادہ نے اپنی ذہانت سے باپ کی نگاہ کا تاڑ لیا اور باپ سے کہا”اے ابّا جان! سمجھ دار ٹھگنا لمبے بیوقوف سے اچھا ہے۔ضروری نہیں ہے کہ جو چیز دیکھنے میں بڑی ہے وہ قیمت میں بھی زیادہ ہو۔ دیکھیے ہاتھی کتنا بڑا ہوتا ہے ،مگر حرام سمجھا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں بکری کتنی چھوٹی ہے مگر اس کا گوشت حلال ہوتا ہے۔ ساری دنیا کے پہاڑوں کے مقابلہ میں طوربہت چھوٹا پہاڑ ہے لیکن خدا کے نزدیک اس کی عزت اور مرتبہ بہت زیادہ ہے۔ کیا آپ نے سنا ہے کہ ایک دبلے پتلے عقلمند نے ایک بارایک موٹے بیوقوف سے کہا تھا کہ اگر عربی گھوڑا کمزور ہوجائے تب بھی وہ گدھوں سے بھرے ہوئے پورے اصطبل سے اچھا اور طاقتور ہوتا ہے!بادشاہ شہزادے کی بات سن کر مسکرایا،تمام امیر اور وزیر خوش ہوئے اور اس کی بات سب کو پسند آئی۔(جاری ہے)کیکن شہزادے کے دوسرے بھائی اس سے جل گئے اور رنجیدہ ہوئے۔ جب تک انسان اپنی زبان سے بات نہیں کرتا ہے اس وقت تک اس کی اچھائیاں اور بُرائیاں ڈھکی چھپی رہتی ہیں۔ اسی زمانے میں بادشاہ کو ایک زبردست دشمن کا سامنا کرنا پڑا۔ جب دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے آئیں اور لڑائی شروع کرنے کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے جو شخص لڑنے کے لیے میدان میں نکلا وہی بدصورت شہزادہ تھا۔اور اس نے پکار کر کہا: میں وہ آدمی نہیں ہوں کہ تم لڑائی کے دن میری پیٹھ دیکھ سکو۔ میں ایسا بہادر ہوں کہ تم میرا سرخاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھو گے، یعنی میں دشمن سے لڑتے لڑتے جان دے دُوں گا مگر ہمت نہ ہاروں گا! جو لوگ خواہ مخواہ لڑائی پر آمادہ ہوتے ہیں وہ خود اپنے خون سے کھیلتے ہیں یعنی مفت جان گنواتے ہیں اورجولڑائی کے میدان سے بھاگ جاتے ہیں وہ پوری فوج کے خون سے کھیلتے ہیں! یہ کہہ کر شہزادے نے دشمن کی فوج پر بہت سخت حملہ کیا اور کئی بڑے بڑے بہادروں کو قتل کردیا۔جب باپ کے سامنے آیا تو آداب سے بجا لایا اور کہا:اے ابّا جان! آپ نے میرے دبلے پتلے کمزور جسم کو ذلت کی نگاہ سے دیکھا اور ہرگز میرے ہنر کی قیمت کو نہ سمجھا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پتلی کمر والا گھوڑا ہی لڑائی کے میدان میں کام آتا ہے آرام اور آسائش میں پلا ہوا موٹا تازہ بیل کام نہیں آسکتا! کہتے ہیں دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی اور شہزادے کی طرف سپاہیوں کی تعداد کم تھی کچھ نے بھاگنے کا ارادہ کیا، شہزادے نے ان کو للکارا اور کہا،اے بہادرو! کوشش کرو اور دشمن کا مقابلہ کرو،یا پھر عورتوں کا لباس پہن لو۔اس کی بات سن کر سپاہیوں کی ہمت بڑھ گئی اور سب دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور اس کو مار بھگایا اور دشمن پر اسی دن فتح حاصل کی۔ بادشاہ نے شہزادے کو پیار کیا اور اپنی گود میں بٹھایا۔ اور روز بروز اس سے محبت بڑھنے لگی اور اس کو اپنا ولی عہد بنادیا ۔ دوسرے بھائیوں نے یہ حال دیکھا تو حسد کی آگ میں جلنے لگے اور ایک دن بدشکل شہزادے کے کھانے میں زہر ملا دیا۔اس کی بہن نے کھڑکی سے دیکھ لیا اور شہزادے کو خبردار کرنے کے لیے کھڑکی کے دروازے زورسے بندکیے۔ شہزادہ اس کی آواز سے چونک پڑا اور اپنی ذہانت سے سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، کھانا چھوڑدیا اورکہنے لگا، یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ بے ہنر لوگ زندہ رہیں اور ہنر مند مرجائیں۔ اگر ہم دنیا سے ختم ہوجائے ،تب بھی کوئی شخص الّو کے سایہ میں آناپسند نہ کرے گا! باپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو اس نے شہزادے کے سب بھائیوں کو بلایا ان کو مناسب سزا دی ۔اس کے بعد ہر ایک کو اپنے ملک کا ایک ایک حصہ دے دیا۔ تاکہ آپس میں جھگڑا فساد نہ کریں۔ اس طرح یہ فتنہ اور فساد ختم ہوا۔ " حاسد وزیر - تحریر نمبر 1023,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hasid-wazeer-1023.html,"محمد ابوبکر ساجد۔پیارے بچو،آپ نے ملانصیر الدین کا نام یقناََ سنا ہوگا۔ بہت ہنس مکھ اور نت نئے الطائف ان سے منسوب ہیں ۔ اُن کی ساری عمر بادشاہوں کے دربار میں گزری۔ ہر بات پر مزاح کرنا اُن کی عادت تھی۔ بادشاہ بھی اُن سے بہت خوش تھے ۔ جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اُن سے جلتے تھے۔ ایک مرتبہ ملا کو پیسوں کی ضرورت پڑگئی۔بادشاہ نے وزیر خزانہ کو حکم جاری کیا کہ ملا کو اتنے دینار دیئے جائیں۔ ملا نے واپسی کا وعدہ کیا فلاں تاریخ کو واپس کردیں گے مگر بدقستی سے وہ اپنے وعدہ پر پورا نہ اتر سکے جس کی وجہ سے وہ دربار سے غائب ہوگئے۔ بادشاہ کو ان کی غیر حاضری ناگوارگزری تھی۔ کیونکہ ان کی موجوگی میں بادشاہ ہشاش بشاش رہتا تھا ۔ اکثر وزراء امراء اور تاجر ملا سے حسد کرتے تھے۔(جاری ہے)بادشاہ نے ہرکارے بھیجے کے پتہ کریں ۔ ملا دربار میں کیوں نہیں آرہا ۔ ہر بار ان کا بیٹا مختلف بہانے کرکے ٹرخادیتا ۔ دربار کے امراء وزراء نے بادشاہ کو اکسایا ۔ بادشاہ کو ملا پر بہت غصہ آیا ۔ اُس نے کوتوال کو حکم دیا جیسے بھی ہوں ملا کو دربار میں حاضر کیا جائے۔ کوتوال نے سر جھکایا اور ملا کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ ملا نے کھڑکی سے کوتوال کو دیکھ لیا تو اپنے بیٹے سے کہاکہ جب کوتوال پوچھے تو بتانا کہ ملا مر گیاہے اور خود چارہائی کے نیچے چھپ گیا ۔جونہی کوتوال نے دروازہ کھٹکھٹایا ملا کا بیٹا روہانسی آواز میں بولا ملا تو وفات پاگئے ہیں۔ کوتوال کو شک گزرا کیونکہ یہ بھی تو ملا کا بیٹا ہے کوئی چکمہ دے رہا ہے۔ اُس نے گھر کی تلاشی کا بہانہ سوچتے ہوئے کہا چلو اندر بیٹھ کرتعزیت کرتے ہیں ۔ مجبور ا۔ ملاکا بیٹا اُسے گھر لے آیا۔ اُسی چارپائی پر َََََََََ بیٹھے ملا کی باتیں کرتے رہیں ۔نیچے ملا کو چونٹیاں کاٹ رہی تھی۔ کوتوال گہری نظروں سے دوسرے کمروں کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اُس نے ہلنے جلنے کی آواز سنی تو اُس نے چارپائی کے نیچے جھانکا جہاں ملا چھپے ہوئے تھے ۔ کوتوال نے ٹانگ سے پکڑ کر اُنہیں کھینچ لیا اور کہا “ واہ جی آپ کا بیٹا تو کہہ رہا تھا آپ مر گئے ہیںْ ملا نے مسکین سی صورت بناکر کہا“ یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے چارپائی کے نیچے سے نکلنا شرمندگی ہے ۔اِس پرکوتوال کو ہنسی نکل گئی وہ اُسے پکڑے میلے کچیلے کپڑوں سمیت بادشاہ کے دربار لے کیا ، بادشاہ نے اُس کی یہ حالت دیکھی تو تعجب سے پوچھا یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟ اس پر کوتوال نے سب ماجرا کہہ سنایا جسے سن کر بادشاہ اور درباریوں کی ہنسی نکل گئی۔ بادشاہ نے اُسے معاف کردیا۔ایک بار ملا سخت بیمار ہوگئے۔ دوست احباب ایادت کو آنے لگے۔ ملا کے گھر سے کچھ نہ کچھ کھاکر جاتے ۔ملا نے اپنے بیٹے کے کان میں کچھ کہا جب عزیز رشتے دار عیادت کو آئے تو ملا کے بیٹے نے کہا : ملا صحت یاب کیسے ہوں آپ خالی ہاتھ آرہے ہوں کوئی سیب انار کیلے ہوں تو ملا صحت مند ہوں ۔ آپ کو خالی ہاتھ دیکھ کر ملا کو دورہ پڑ سکتا ہے ۔ کچھ دوست رشتے دار پھل وغیرہ لائے ۔ فارغ وقت میں ملا اور اس کے گھر والے مزے مزے سے پھل کھاتے ۔ جب بادشاہ کو یہ پتہ چلا ملا سخت بیمار ہیں وہ اپنے وزراء درباریوں کے ساتھ عیادت کو آیا ۔ملا کو علم تھا ان میں سے ایک وزیر ملا سے حسد کرتا تھا۔ ہر موقع پر بادشاہ کو ملا کے خلاف اُکساتاتھا۔ ملا نے سب سے پہلے اُسے اپنے پاس بلایا وہ خوشی خوشی عیادت کرکے گیا۔ اُسے فخر محسوس ہوا ملا نے بادشاہ سے پہلے اُسے بلایا ہے۔ جب بادشاہ کو پتا چلا تو وہ ملا سے ناراض ہوا کہ اُس نے وزیر کو مجھ پر فوقیت کیوں دی۔ اُس پر ملا نے کہا حضور گستاخی معاف مجھے پتا ہے وہ حاسد شخص ہے ۔مجھے ڈر تھا اگر میں مرگیا تو آپ سے پھر جنت میں ملاقات ہوسکتی ہیں مگر چونکہ وہ حاسد شخص ہے۔وہ دوزخی ہونے کی وجہ سے مجھ سے کبھی نہیں مل سکتا ۔ اس پر بادشاہ اور درباری مسکرانے لگے ۔ بادشاہ نے کہا بے شک تم نے ٹھیک کہا ۔ حاسد کا ٹھکانا دوزخ ہے۔جب اُس وزیر کو پتا چلا کہ ملا نے اُس کی توہین کی ہے تو اُس نے یہ بات دل میں رکھ لیوقت گزرتا گیا ۔کسی بات پر ملا بادشاہ سے ناراض ہوگیا ۔اُس حاسد شخص نے ملا کو بھڑکایا کے ملا کو قتل کروا دیں۔ جب ملا کو پتا چلا فلاں وزیر نے بادشاہ کو بھڑکایا ہے ۔ وہ چھپتا چھپاتا بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا ۔ اور سر جھکا کر بولا۔بادشاہ معظم مجھے پتا چلا ہے آپ نے میرا سر قلم کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا۔تم نے ٹھیک سنا ہم نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ بادشاہ نے کہا، اُس پر ملا ہاتھ باندھ کر بولا۔آپ کا حکم سر آنکھوں پر غلام خود حاضر ہوگیا ہے حضور کے حکم کے سامنے میرا سر خم ہے مگر ایک گزارش ہے۔ ”وہ کیاہے؟“ بادشاہ نے پوچھا۔گزارش ہے میں آپ کا نمک کھاکر پلا ہوں اِسلئے میں نہیں چاہتا کہ روز قیامت آپ پر میرے ناحق قتل کا الزام آئے۔ آپ اجازت دیں تو وزیر کو مار ڈالوں ۔ پھر آپ مجھے اس کے قصاص میں قتل کردیں ۔ اِس صورت میں میرا قتل جائز ہوگا۔بادشاہ ہنس پڑا اُس نے وزیر پوچھا اب بتا تیری کیا رائے ہے؟ وزیر نے کہا “ جہاں پناہ میری رائے یہ ہے خدا کیلئے اپنے پدربزرگوار کی قبر کے صدقے میں ملا کو آزاد کردیجئے تاکہ میں بھی اس کی تجویز پر بچ سکوں ۔ اِس پر بادشاہ اور درباری ملا کی ذہانت کے معترف ہوگئے اور حاسد وزیر نے حسد سے توبہ کرلی۔دیکھا پیارے بچو،کسی سء حسد نہیں کرنا چاہیے ورنہ اپنا نقصان ہوگا ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب تو کسی دشمن پر تیر چلائے تو یہ جان لے کہ تو بھی اُس کو نشانہ پر ہے۔اللہ تعالی ہمیں اچھا مسلمان بننے کی توفیق دے امین۔ " بڑا مجرم - تحریر نمبر 1022,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bara-mujrim-1022.html,"غلام رسول زاہد:آپ میرے دفتر میں کیا کررہے ہیں ؟ انسپکٹر کاشان نے ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوئے سب انسپکٹر ظفر دلاوری سے پوچھا ۔ وہ ایک ضروری میٹنگ سے فارغ ہوکر پولیس اسٹیشن پہچے تھے ۔ سب انسپکٹر ظفر دلاوری کو اپنے دفتر میں دیکھ کر انھیں غصہ اگیا۔ یہ شخص انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔میں ۔۔۔۔۔ دراصل وہ مجھے اپنی ایک فائل نہیں مل رہی تھی ، میں نے سوچا کہیں آپ کے کمرے میں نہ بھول آیا ہوں۔سر میں معافی چاہتا ہوں ۔ انسپکٹر دلاوری اپنے مخصوص انداز میں دانت نکالتے ہوے بولا۔انسپکٹر کی شان میں لمبی سانس لی اور اس طرف قہر الود نگاہوں سے دیکھا ۔“ آپ فوراََ اپنے کمرے کا رخ کریں ۔۔۔۔۔ اور ہاں شاداب نگر کے کیس کا کیا بنا َ میں نے آپ کو گواہوں سے دوبارہ ملنا کا کہا تھا ۔(جاری ہے)“انسپکٹر کاشان نے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا: مجھے کل دس بجے اس کیس بارے میں تفصیلی رپورٹ چاہیے۔“انسپکٹر کاشان ابھی ٹھیک طرح سے کرسی پر نہیں بیٹھے تھے کہ برآمدے میں ایک شور سا ہوا ۔ انھوں نے اردلی کو بلایا اور اس شور کی وجہ پوچھی ۔جوان وہ سپاہی ایک جوان آدمی کو پکڑ لائے ہیں ۔ یہ شور اس نے مچا رکھا ہے ۔ ڈیوٹی آفیسر اسے اپنے کمرے کی طرف لے جارہے ہیں ۔ اردلی نے اطلاع دینے والے انداز میں بتایا ۔#ڈیوٹی افیسر سے کہیں اس آدمی کو میرے پاس لئے ائیں ۔انسپکٹر کاشان نے ہدایت دیں ۔تھوڑی دیر بعد سپاہی ایک شخص کو ہتھکڑیاں لگے ایک شخص کو سامنے لے آیا ۔ انسپکٹر کاشان نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے کہا ،“جناب یہ آدمی بہت بدبخت ہے ، نشے کا عادی ہے ۔ اس کی عمر اور اس کا قد کاٹھ دیکھیں ۔۔۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی اور صحت سے کھیل رہا ہے ماں باپ اور محلے داروں کا ناک میں دم کر رکھا ہے اس نے ۔اس کا بدنصیب بھی باہر کھڑا ہے۔انسپکٹر کاشان نے ملزم کے باپ کو فوراََ اند ابلایا ۔ وہ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا ۔ سر پڑ ٹوپی سر اور داڑھی کے ادھے زیادہ بال سفید چہرے پر مایوسی آنکھوں میں درد اور بے چارگی ۔ وہ ایک ہارے ہوئے جوارئی کی طرح نظر آرہا تھا ۔ اس کی آنکھیں انسوؤں سے چھلک رہی تھیں ۔ جناب میں اس بدنصیب کا باپ ہوں ۔ میرا نام بشیر انصاری ہے ۔میری کپڑے کی چھوٹی سی دوکان ہے ۔گھر کا خرچ بڑی مشکل سے چلتا ہے میری تین بیٹیاں بھی گھر پڑ بیٹھی ہیں ۔ یہ کم بخت میرا اکلوتا بیٹا ہے ۔ اس کا نام کبیر ہے۔ انسپکٹر کاشان قدرے مصروف تھے لیکن اس کیس میں انہیں دلچسپی محسوس ہورہی تھی ۔ انھوں ایک نظر کبیر کی طرف دیکھا جو نظریں جھکا ئے کھڑا تھا ۔ وہ ایک دراز قد جوان تھا عمر تیس بتیس سال کے لگ بھگ ۔سر کے بال گھنے لیکن الجھے ہوئے ۔ چہرئے پر نشے کے عادی افراد کی مخصوص نحوست ۔ داڑھی کے بال بڑھے ہوئے اور کپڑے میلے کچیلے ۔ انسپکٹر کاشان نے اس کے والد سے پوچھا یہ نشے کا عادی کب سے ہوا اور آج اس نے کیا حرکت کی کہ خود آپ نے پولیس کے ہاتھوں اسے گرفتار کروایا ؟جناب میں وہی عرض کررہا تھا ۔ اس نے اپنی تعلیم ادھوڑی چھوڑ دی کیونکہمیں دلچسپی نہیں لیتا تھا ۔میں نے اسے دوکان پر بٹھایا تو دوکان بند ہونے کے بعد برے لوگوں کی صحبت مین رہنے لگا ۔ اسی دوران اسے نشے کی لت پڑ گئی ۔ میرا قصور یہ ہے کہ ایک اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے اس کے لاڈ اٹھاتا رہا اور اس کی بڑی حرکتوں کو نظر انداز کرتا رہا ۔ اب تو اس کی حالت یہ ہے کہ جب نشہ پرا کرنے کے لیے پیسے نہیں ملتے تو مار پیٹ پر اتر آتا ہے۔ آج شام سے اس نے گھر میں ادھم مچھا رکھا تھا ۔نشے کے لیے پیسے مانگ رہا تھا ۔ گھر میں پھوٹی کوڑی نہیں تھی ۔ برتن تک توڑ ڈالے کہ کسی گلاس یا پیالی میں چھپاکے نہ رکھے ہوں ۔جب ہر طرف سے مایوس ہوگیا تو ماں کے پاس آیا ۔ماں سمجھانے لگی اسے بری طرح دھکا دیا فرش پرگ گرادیا ۔ بہنوں کو الگ مارتا ہے ۔ بشیر انصاری کی آواز بر اگئی ۔ محلے والوں کی مدد سے اسے بڑی مشکل سے قابو میں کرکے اب تھانے میں خود لے کر آیا ہوں ۔میری طرف سے اسے پھانسی میں لٹکا دیں یاں ہڈی پسلی ایک کردیں ، ہمارے لیے یہ مرچکا ہے۔“بوڑھا باپ سسکیاں بھر رہا تھا،انسپکٹر کاشان کی انکھوں میں اچانک ایک چمک پیدا ہوئی ، انہوں نے ڈیوٹی افیسر کو اشارے سے بلایا اور اس کے کان میں چپکے سے کوئی بات کہی ۔ وہ اقرار میں سر ہلا کر سیلوٹ کرکے کمرے سے باہر نکل گیا۔اسے لے کر حوالات میں بند کردو۔“ آپ اپنی شکایات درج کروائیں ۔ میں اس کا مزاج ابھی درست کرتا ہوں ۔انسپکٹر کاشان اپنے کام میں ایسے مصروف ہوئے کہ انہیں پتا ہی نہیں چلا اور ادھی رات کا وقت ہوگیا ۔ اردلی نے اندر اکر اطلاع دی کہ ملزم کبیر کی والدہ آئی ہیں ۔بشیر انصاری بھی اس کے ساتھ ہے اور وہ ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔بشیر انصاری نے بے چارگی سے انسپکٹر کاشان کی طرف دیکھا اور کہا :“ جناب یہ بے چاری آخر ماں ہے ۔رو رو کر کہہ رہی تھی کہ کبہر بھوکا پیاسا ہے اس کے لئے کھانا لے کر جاؤ ۔ پھر کہنے لگی نہ جانے حوالات میں ننگے پر اسے سردی میں کیسے سوئے گا ، اس کے لیے بستر لے جاؤ ۔ اگر اجازت دیں تو یہ دونوں چیزیں حوالات مین پہچا دوں ؟انسپکٹر کاشان نے کہا یہ دونوں چیزیں میرے دفتر میں لے آئیں ،میں اپنے عملے کے ذریعے پہنچادوں گا آپ گھر تشریف لے جائیں ۔دونوں سلام کرکے باہر چلے گئے انسپکٹر کو یقین تھا کہ بشیر انصاری ساری رات تھانے کے احاطے میں گزارے گا اور کبیر انصاری کی ماں بھی ساری رات انگاروں پر لوٹتی رہے گی۔ انسپکٹر کاشان نے بستر اور کھانے کے برتنوں کو ایک نظر دیکھا ۔ پھر کھانے کے برتنوں کو کھول کر گہری نظر سے جائزہ لیا ْ جس چیز کی انہیں تلاش تھی وہ جلد ہی مل مل گئی ۔ انھوں نے اسے مٹھی میں دبایا اور اردلی کو اندر طلب کیا ۔یہ بستر اور کھانے کے برتن حوالات میں کبیر کو دے دو اور دیکھو ڈیوٹی افیسر واپس اگئے کے نہیں؟جناب اردلی نے ادب سے جواب دیا جب میں اندر ارہا تھا تو ڈیوٹی افیسر اندر داخل ہورہے تھے۔“ٹھیک ہے انہیں میرے پاس بھیجو ۔“تھوڑی دیر بعد ڈیوٹی افیسر ایک خوف ناک چہرے والے شخص کو ہتھکڑیوں میں لے کر آخر دلدار پوڈری پکڑا گیا ۔آنے والے شخص کو دیکھتے ہی انسپکٹر کاشان جوش میں اکر کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔اس شہر کا نامی گرامی منشیات فروش اور اس علاقے کا سب سے گھٹیا مجرم ۔ انھوں نے نفرت سے کہا۔دلدار اپنے انجام سوچ کر لرز رہا تھا اور اس کے چہرے پر موت کی زردی چھائی ہوئی تھی ۔ انسپکٹر کاشان نے اپنی بند مٹھی کھولی اور اس میں دبی ہوئی نشہ آور پاوڈر کی پڑیا دلدار کے سامنے لہراتے ہوئے کہا مجھے یقینی تھا کبیر کی ماں ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر تم سے نشہ خریدے گی اور کھانے کے برتن میں چھپا کر اس تک پہچانے کی کوشش کرئے گی ، اس لیے میں نے ڈیوٹی افیسر کی فوری طور پر بشیر انصاری کے گھر روانہ کیا تھا چھپ کر ممتا کی ماری ماں کے تعاقب میں جائے اور اصل مجرم تک پہچے ۔۔۔۔۔ تم نے کتنے گھر اجاڑے ہوں گے کتنی ماؤں کو تڑپایا ہوگا ۔ اب تم سے تمہارے ایک ایک جرم کا حساب ہوگا۔سرکار سرکار رحم دلدار نے معافی مانگنے کے انداز میں ہاتھ جوڑے ہوئے تھے اور گھٹنوں کے بل گر کے منت کررہا تھا ۔تم کسی رحم کے قابل نہیں ہوں اور تم سے زیادہ بڑا مجرم وہ ہے جس کی تم کارندے ہوں۔ اس کا نام سیدھی طرح بتاؤں گے یا تمہیں لٹکانا پڑئے گا ؟ڈیوٹکی افیسر نے دلدار ہر چھڑیوں کی برسات کردی ۔وہ ہر وار ہائے ہائے کرتا رہا۔ میں کچھ نہیں جانتا سرکار وہ مسلسل کہے جارہا تھا ۔جناب اگر اجازت دیں تو کچھ عرض کروں ؟ ڈیوٹی انسپکٹر نے معنی خیز انداز میں انسپکٹر کاشان سے پوچھا ۔ ضرور ضرور انہوں نے سر ہلایا ۔جناب میں جب خفیہ طریقے سے دلدار کے ٹھکانے پر پہنچا تو یہ موبائل پر اپنے بوس سے بات کر رہا تھا ۔ میں نے چپکے سے اس کی ساری گفتگو اپنے حساس وائس رکارڈ پر محفوظ کرلی ہے۔“ڈیوٹی افیسر نے ٹھوس لہجے میں کہا ساتھ ہی اس نے وائس رکارڈ کا بٹن دبا دیا ۔دلاورصاحب ۔ دلدارد کی آواز ابھری آپ فکر نہ کریں کسی کو شک نہیں گزرے گا ۔۔۔ بس آپ سپلائی میں کمی نہ آنے دیں ۔۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔۔ میں سب کو سنبھال لوں گا ، جی ظفر صاحب آپ کے ہوتہ ہوئے ہمیں فکر کرنے کی کیا ضرورت کرنے کی کیا ضرورت ہے جناب آپ کی جلد ترقی ہوجائے تو کاروبار کا مزہ آجائے۔انسپکٹر کاشان نجے چیتے کی طرح اپنی کرسی سے چھلانگ لگائی اور دفتر کے دروازے کی طرف لپکے ۔ڈیوٹی افیسر چلایا سر بے فکر رہے میں ظفر دلاوری پر پہلے ہی قابو پاچکا ہوں ۔انسپکٹر کاشان فوراََ مڑے ان کی آنکھوں میں حیرت ور تحسین کے ملے جلے تاثرات جھلک ر ہے تھے۔معاف کیجیے گا سر یہ سب کاروائی میں نہ آپ کی اجازت کے بغیر ہی کرلی مگر ظفر دلاوری صاحب ہمارے سب انسپکٹر ہے۔بالکل غلط انسپکٹر کاشان غلط لہجے میں بولے نہ وہ صاحب ہے نہ انسپکٹر ،وہ ایک مجرم ہے قابل نفرت مجرم ۔ اس کا جرم دہرا ہے کیوں کہ اس نے قانون کی آڑلے کر قانون شکنی کی ہے اور ہمیں دھوکا بھی دیا ۔ وہ آستین کا سانپ ہے اور اس سانپ کا سر جتنی جلدی کچل دیا جائے اتنا ہی بہتر ہے ۔ ملزم کبیر کا علاج میں اپنی نگرانی میں کراؤں گا ۔ " بُری عادت کی سزا - تحریر نمبر 1021,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/buri-aadat-ki-saza-1021.html,"ثروت یعقوب:کسی شہر میں ایک بچہ محمد ادریس احمد رہتا تھا۔ وہ بہت نیک اور فرماں بردار بچہ تھا۔ سکول میں اُسکا ایک ہی دوست تھا جس کا نام سمیع تھا۔وہ بہت ذہین تھا مگر اُس میں ایک بُری عادت تھی کہ وہ چوری کرتا تھا۔ اِس بات کا علم صرف محمدادریس احمد کو تھا۔ وہ سمیع کو بہت سمجھاتا تھا کہ چوری کرنا بری عادت ہے لیکن وہ ہمیشہ ہی سنی اَن سنی کردیتا۔سمیع کو چوری کی عادت اس طرح پڑی کہ ایک مرتبہ محمد ادریس احمد نے سکول سے چھٹی کی،سمیع نے اپنے کلاس فیلو جس کا نام حنیف تھا کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ سمیع کو حنیف کا پنسل باکس بہت پسند آیا تو اُس نے چپکے سے حنیف کا پنسل باکس اپنے بیگ میں ڈال لیا۔ جب حنیف کو پتا چلا کہ اُس کا پنسل باکس گم ہوگیا ہے تو اُس نے سمیع سے اُسکے بارے میں میں پوچھا۔(جاری ہے)سمیع نے کہا؛”اُسے علم نہیں ہے کہ اُسکا پنسل باکس کہا ں ہے“۔اِس کے بعد سمیع نے سوچا کہ اگر وہ چپکے سے کسی کی چیز کو اپنے پاس رکھ لے گا اور بعد میں تھوڑا ساجھوٹ بول لے گا تو اُسکے پاس بہت سی چیزیں جمع ہو جائیں گی۔ پھر اس نے باقاعدہ چوری کرنا شروع کردی۔ سمیع اب اکثر اپنے دوستوں کی چھوٹی موٹی چیزیں چُرا لیتا تھا۔ محمد ادریس احمد نے اُس کو بہت سمجھایا مگر اُس نے محمد ادریس سے بھی دوستی ختم کردی۔اب اُس نے خراب لڑکوں میں بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ یہ لڑکے بڑی چوریاں کرنے لگے تھے ۔ اب انہوں نے ایک منصوبہ بنا یا کہ وہ بینک لوٹیں گے۔ یہ اُن کی بدقسمتی تھی کہ جیسے ہی وہ بنک لوٹنے پہنچے تو پولیس کی موبائل بھی وہاں آگئی۔ سمیع اور اُسکے ساتھیوں نے پولیس کو دیکھ کر اُن پر فائرنگ شروع کردی۔ اِس فائرنگ سے سمیع کا ایک ساتھی اور ایک پولیس کانسٹیبل بھی مارا گیا۔آخر کار پولیس نے سمیع اور اُسکے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ جب پولیس نے سمیع سے تفتیش کی تو اُس نے بتایا کہ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے۔ زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے بگڑ گیا اور آہستہ آہستہ عادی مجرم بن گیا۔ سمیع کا مقدمہ عدالت میں چلا تو عدالت نے اُس کو پھانسی کی سزا سنائی۔ محمد ادریس احمد نے جب یہ سارا واقعہ سناتو وہ سمیع سے ملنے جیل گیا اوراُس سے کہا کہ دیکھو میں تمہیں کتنا سمجھاتا تھا مگر تم نے میری بات نہیں سنی اور آج اِس کا انجام دیکھ لیا۔ اب سمیع اپنے کئے پر شرمندہ تھا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ " پرندوں کا بادشاہ - تحریر نمبر 1020,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/parindon-ka-badshah-1020.html,"احمد عدنان طارق:کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں پرندے انسانوں سے زیادہ عقل مند ہواکرتے تھے۔ اُنہیں کسی بادشاہ کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی وزیروں کی جو بادشاہ کو مشورے دیتے ،نہ ہی انہیں پرندوں کے کسی ایسے جرگے کی ضرورت تھی ،جو مل بیٹھ کر اُن کیلئے قانون بناتے۔ اُن دنوں میں جب بھی پرندے اکٹھے ہوتے تو وہ ایک دوسرے سے خوشی خوشی گپیں ہانکتے اور بتاتے کہ کون پیدا ہوا ہے اور کون مرگیا ہے؟ کون سے پرندے کے بچے یتیم ہوگئے ہیں اور وہ قوانین بنانے کی بجائے اہم مسائل ایک دوسرے کو بتا دیتے تھے۔اُن کا قانون ایک ہی تھا، محبت اور دوستی کا قانون۔ نہ انہیں نفرت کا علم تھا اور نہ غصے کا لیکن پھر ایک مکار اُن کے علاقے میں داخل ہوگیا۔ اُس نے اردگرد جائزہ لیا پرندوں کی خوشیوں کا دشمن تھا۔(جاری ہے)اس نے مور سے کہا؛ تم اپنے آپ کو عام سا پرندہ کیوں سمجھتے ہو حالانکہ تم باقی سب پرندوں سے زیادہ خوبصورت ہو۔ “ موڑ اسکی لچھے دار باتوں میں آگیا اور بڑے فخر سے خود کو تالاب کے پانی میں دیکھنے لگا۔پھر وہی شخص عقاب کے پاس گیااور اُسے کہنے لگا“ تم یہ مریل سے پرندے کوئل کو اپنا دوست کیوں سمجھتے ہو، کیا تم باقی سب پرندوں سے زیادہ طاقتور نہیں ہو؟ تم بادلوں سے بھی اوپر اُڑنے والے ہو تم آسانی سے اپنی چونچ سے اسکے ٹکڑے کر سکتے ہو۔ “ عقاب اُسکی باتوں میں آگیا وہ اُڑکر گیا اور اپنی چونچ اور پنجوں سے کوئل کو گھونسلہ تہس نہس کرآیا۔اِس طرح آہستہ آہستہ وہ مکار پرندوں کے بیچ دشمنی کے بیج بونے میں کامیاب ہوگیا۔ پرندوں کی پُر امن سلطنت جنگ کا میدان بن گئی۔ پرندے ایک دوسرے سے لڑنے اور گالیاں دینے لگے۔ آخر کار طاقتور پرندے کمزور پرندوں کو شکار کرنے لگے۔ ہر کوئی اپنی طاقت پر ناز کرنے لگا اور کمزوروں کو برا بھلا کہنے لگا۔ ایک دن ایک ننھے سے پرندے نے سب چھوٹے پرندوں سے کہا؛ ”ہم اس طرح زندگی نہیں گزار سکتے۔“ وہ سبھی عقاب کے پاس چلے گئے اور اُسے کہا؛ ”ہمیں انصاف چاہیے، آپ سب سے طاقتور پرندے ہو بہتر ہو سب پر حکومت کریں تاکہ کوئی کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرسکے۔ “عقاب خوشامد پسند تھا، فوراََ مان گیا لیکن پرندوں کے جانے کے بعد وہی مکا ر عقاب کے پاس آیا اور اُسے کہا؛ ” بادشاہ تو ہوتے ہی عوام سے خدمت کرانے کیلئے ہیں، تمہارے پاس وقت کہا ں کہ تم اُن احمقانہ لڑائیوں میں صلح کرواتے پھرو بہترہے تم اُلو کو انکا بادشاہ بنادو۔اُس کی آنکھیں قیمتی پتھروں جیسی ہوتی ہیں، وہ صرف رات کو دیکھ سکتا ہے اور جب روشنی میں دوسرے پرندے ہواؤں میں پرواز کرتے ہیں تو وہ کچھ نہیں دیکھا سکتا۔ اسلئے وہ کسی کے معاملے میں دخل نہیں دے گا اور ہر کوئی وہی کرے جو اُس کا دل چاہے گا۔“ عقاب کر یہ ترکیب بہت اچھی لگی، اُس نے اُلو کو پرندوں کا بادشاہ بنا دیا۔ اُلو دن کو سویا رہتا ہے اور رات کو جاگتا ہے جب باقی پرندے مزے سے اپنے گھونسلوں میں سوئے ہوتے ہیں تبھی تو آج تک وہ پرانے امن والے دن پرندوں کی سلطنت میں نہیں لوٹے اور وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ " تنہا بندر - تحریر نمبر 1017,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tanha-bandar-1017.html,"احمد عدنان طارق:بہت دور عین ایک سبز اورنیلے پانیوں والے سمندر کے بیچوں بیچ ایک جزیرہ تھا۔ سورج ہر صبح چمکتا اور اُس جزیرے پر سفید ریت کو چمکاتااور جزیرے کے ارد گرد سمندر کے پانی کو بھی گرم کرتا۔ اِس جزیرے پر ناریل کے درخت لگے ہوئے تھے ،اسکے علاوہ کیلے کے بھی درخت تھے جو کیلوں کے گچھوں سے لدے ہوئے تھے اور س جزیرے پر پتہ ہے کون رہتا تھا؟ صرف ایک چھوٹا سا بھورے رنگ کا بندر جس کی دم بہت لمبی تھی اور اُس میں بل بھی پڑے رہتے تھے۔وہ چھوٹا بندر اکثر ساحل سمندرپر بیٹھ جاتا اور مایوسی میں اونچی آواز میں کہتا؛ ”میں کتنا اکیلا ہوں، کاش میرا بھی کوئی دوست ہوتا ،لیکن وہ جانتا تھا کہ اُسکی آواز سننے والا دور دور تک کوئی نہیں،ایک دن وہ یونہی بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بڑی ہی رنگ برنگی مچھلی نے پانی سے اپنا سر باہر نکالا اور اُس سے کہنے لگی، آؤ میرے پیچھے تیر کر آؤ میں تمہیں ایک ایسے جزیرے میں لے چلتی ہوں جہاں تمہاری طرح کے بہت سے بندر موجود ہیں،اُن کی دُمیں بھی تمہاری طرح کی ہی ہیں“۔(جاری ہے)بندر افسردگی سے بولا“لیکن مجھے تو تیرنا نہیں آتا ،پیاری مچھلی کیا تم مجھے تیرنا سکھادوگی؟ “ مچھلی بولی”کیوں نہیں تم پانی میں چلنا شروع کرو اور جیسا میں کہتی ہوں، ویسا ہی کرو“ بندر نے اُسکا کہا مانا اور پانی میں اُتر گیا جب پانی گہرا ہوا تو مچھلی کہنے لگی ”اب پانی زمین سے اٹھاؤ اور بازو ہلاؤ“بندرکی چیخ نکل گئی وہ بولا؛”مجھے یہ کام بالکل پسند نہیں ہے،میں سارا گیلا ہو گیا ہوں“ رنگ برنگی مچھلی کی ہنسی نکل گئی اور وہ تیرتی ہوئی دور نکل گئی جبکہ بندر خشکی پر بیٹھ کر بڑی دیر تک خود کو سُکھاتا رہا۔قریب ہی ایک سفید بگلا کھڑا تھا،بولا ”آؤ میں تمہیں اُڑنا سکھاتا ہوں ،جلدی کرو میں اُڑنے لگا ہوں“بندر پھر بے چار گی سے بولا”لیکن میں تو اُڑ نہیں سکتا“بگلے نے اسے کہا؛”سب سے اونچے ناریل کے درخت پر چڑھ جاؤ اور اپنے بازو پھیلا کر چھلانگ لگادو تم اُڑنے لگو گے“بندر نے بگلے کا کہا مانا لینک وہ پورے زور سے سیدھا ریت پر آگرا کچھ ناریل بھی ٹوٹ کر اُس کے سر پر آن گرے۔بندر نے اِدھر اُدھر بگلے کو دیکھا مگر وہ تو اُڑکر جا چکا تھا۔تبھی بندر کے ذہن میں ایک ترکیب آئی وہ چھلانگ لگا کر خوشی سے اٹھا اور کہنے لگا؛ میں ناریل اور کیلے کے درخت کاٹوں گا اور اُن سے کشتی بناؤں گا، اُس کشتی میں بیٹھ کر دوسرے جزیرے تک جاؤں گا، جہاں مجھے بہت سے دوست مل جائیں گے، تبھی سمندر سے ایک آواز آئی؛ ”یہ بہت ہی احمقانہ ترکیب ہے“ بندر نے دیکھا تو وہ ایک سبز رنگ کا چھوٹا سا کچھوا تھا جو آہستہ آہستہ خشکی سے سمندر کی طرف جا رہا تھا وہ کہنے لگا”اگر تم جزیرے کے درخت کاٹ لو گے تو کھاؤ گے کہا سے؟ اور دوسرے پرندے بھی بھوکے مرجائیں گے۔بندر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کچھوا بولا”میں تمہیں اپنی پیٹھ پر سوار کرکے وہاں لے جاتا لیکن تم بہت بڑے اور بھاری ہو“ یہ کہہ کر کچھوا سمندر کے پانی میں تیرتا ہوا گم ہوگیا۔ بندر اُس کے جانے کے بعد پھر اکیلارہ گیا۔ وہ اتنا اداس تھا کے رونے لگا۔پھر اچانک سمندر سے ایک بہت بڑا کچھوا نکلا،اُسکا رنگ بھی سبز تھا وہ آہستہ آہستہ چھوٹے بندر کے پاس آیا اور اُسے کہنے لگا؛ آنسو پونچھ لو اور میری پیٹھ پر بیٹھ کر مضبوطی سے مجھے پکڑ لو، اب تم کبھی اکیلے نہیں رہوگے۔میں تمہیں دوسرے جزیرے تک لے چلتا ہوں“کچھوے کا خول اِتنا بڑا اور سخت تھا کہ بندر کو اندازاہ ہو گیا تھا کہ وہ محفوظ رہے گا۔ پھر اُس نے کچھوے کی کمر پر بیٹھ کر سمندر میں جھانکا تو اُس نے دیکھا کہ چھوٹا سبز کچھوابھی اُسکے ساتھ تیر رہا ہے۔ننھا کچھوا بولا” مجھے علم تھا کہ میں تمہارا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا ، اِسلئے میں نے دادا جان سے کہا کہ وہ تمہاری مدد کریں وہ بہت عقل مند اور نیک دل ہیں“چھوٹے بندر نے مسکرا کرکہا؛ تم بھی بہت اچھے ہو ،تمہاری مہربانی کا شکریہ اب میں کبھی اکیلا نہیں رہوں گا“ " میمنے کا بھائی - تحریر نمبر 1016,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maimnay-ka-bhai-1016.html,"جاوید اقبال:اس میمنے کی کہانی تو آپ نے سنی ہوگی جوندی پہ پانی پینے آیا تھا ۔وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک بھیڑیا بھی پانی پی رہا تھا۔ابھی میمے نے چند گھونٹ ہی پیے تھے کہ بھیڑیا اس کی طرف آیا اور بولا”تم پانی گنداکیوں کر رہے ہو دیکھتے نہیں میں پانی پی رہا ہوں۔“میمنے نے ڈرتے کہا”جناب پانی تو آپ کی طرف سے میری طرف آرہا ہے۔“بھیڑیا گرج کر بولا”تم نے پچھلے سال مجھے گالیاں کیوں د ی تھیں؟“جناب پچھلے سال تو میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔میری عمر تو ابھی صرف چھ مہینے ہے۔“”پھر وہ تمہارا بھائی یا باپ ہوگا۔“بھیڑیے نے کہا اور مہنے پر حملہ کرکے اسے چیڑ پھاڑ ڈالا۔”لیکن دوستو! یہ کہانی اس میمنے کی نہیں اس کے چھوٹے بھائی کی ہے۔(جاری ہے)وہ اکثر اپنی ماں سے اپنے بڑے بھائی کی بابت پوچھتا تو اس کی ماں اسے یہ کہانی سناتی اور ساتھ ہی تاکید کرتی کہ ندی پہ پانی پینے نہ جانا۔“”تو پھر میں کہاں پانی پیئوں؟“وہ پوچھتا ”یہاں تو صرف ایک ہی ندی ہے۔“”تم اس وقت پانی پی لیا کرو جب بھیڑیا اور دوسرے بڑے جانور وہاں نہ آتے ہوں۔“اس کی ماں کہتی ندی پہ پانی پینے جانور عموماََ صبح اور شام کے وقت آتے تھے اس لیے میمنا دوپہر کے وقت پانی پی آتا ۔لیکن دوستو !کہتے ہیں ہونی ہوکے رہتی ہے۔میمنے کا سامنا بھیڑیے سے ہونا تھا سوہوکررہا۔ہوا اس طرح کہ ایک دوپہر میمنا ندی پہ پانی پی رہا تھا کہ اسے دوسری طرف سے بھیڑیا اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔میمنا سنبھل کر کھڑا ہوگیا۔”تم پانی کیوں گندا کررہے ہو؟دیکھتے نہیں میں پانی پی رہا ہوں۔“بھیڑیے نے حسب روایت چالاکی سے کہا۔”لیکن جناب پانی تو آپ کی طرف سے میری طرف آرہا ہے“۔میمنے نے کہا۔تم نے پچھلے سال مجھے گالیاں کیوں دی تھیں؟“۔بھیڑیے نے پرانی چال چلی”جناب وہ میں نہیں میرا بڑا بھائی تھا اور آپ نے اس بے چارے کو ناکردہ گناہ میں پھاڑ کھایا تھا۔“میمنے نے ندی کے کنارے کی طرف کھسکتے ہوئے کہا۔”میں تمہارے ساتھ بھی وہی سلوک کرنے لگا ہوں“۔بھیڑیے نے دانت نکوس کر کہا اور میمنے پر چھلانگ لگادی۔میمنا پھرتی سے جھکائی دے کر ایک طرف ہٹ گیا۔بھیڑیا اپنی ہی جھونک میں اڑتا ہوا ندی میں جاگرا۔برسات کے دن تھے ندی میں ظغیانی آئی ہوئی تھی۔بھیڑیے نے تیر کر کنارے پہ آنے کی بہت کوشش کی مگر پانی کا تیز بہاؤ اسے دور بہالے گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑیا پانی میں ڈوب گیا۔چھوٹا میمنا آرام سے چلتا اپنے گھر پہنچ گیا۔”ماں میں نے بھیڑیے کو پانی“۔میں گرادیا ہے اس نے اپنی ماں سے کہا اور پھر ساری روداد سنادی۔ماں نے حیرت اور خوشی سے اسکی طرف دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر اپنے بہادر بیٹے کا منہ چوم لیا۔ " خوشامد بُری بلا ہے - تحریر نمبر 1012,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khushamad-buri-bala-hai-1012.html,"ساجد کمبوہ:ایک ہرے بھرے جنگل میں بہت سے جانور رہتے تھے۔جنگل کا شیر بوڑھا اور عقلمند تھا جسکی وجہ سے سبھی جانور پُرسکون زندگی بسر کررہے تھے۔جانوروں کی آپس میں علیک سلیک اور دوستی بھی تھی جب فارغ ہوتے تو خوب گپ شپ ہوتی۔لومڑی اور بھڑیا بچپن سے دوست تھے،جب ملتے خوب باتیں ہوتیں۔ایک دن سرراہ اُن کی ملاقات ہوئی تو بھیڑیے نے کہا ۔بی لومڑی اب جنگل کا شکار کم ہورہا ہے،حضرت انسان نے شکار کر کر کے ہم جانوروں پر بڑا ظلم کیا ہے،اب مجھے دیکھو بھوکا ہوں بھیڑ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی ۔اب تو جنگل کے اردگرد بھی بھیڑیں کم ہوگئی ہیں،کھانے کو ترس گیا ہوں کہیں بھی شکار․․․․․․کیا مطلب؟شکار نہیں ملتا․․․․․․اگر عقل ہوتو شکار بہت ہے․․․․․بی لومڑی․․․․․اب جانور بہت ہوشیار ہوگئے ہیں،اتنا ڈرتے ہیں کہ انسان کو دیکھ کر چھپتے پھرتے ہیں،ہمیں دیکھ کر ادھر اُدھر ہوجاتے ہیں۔(جاری ہے)اب توٹی وی کیبل نے اتنا ہوشیار کردیا ہے کہ فوراََ ہی مس کال کرکے ہوشیار کردیتے ہیں ،اب تو ٹویٹر اور وائی فائی اور فیس بک بھی جانوروں کی دسترس میں ہیں۔اچھا آؤ ٹرائی کرتی ہوں،لومڑی نے بھیریے کو ساتھ لیا اور ندی کی طرف چل پڑی وہاں دیکھا کہ مرغابیاں اور دوسرے جانور پانی میں تیر رہے تھے،اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔لومڑی نے بھیڑیے کو جھاڑیوں میں چھپا دیا اور مرغابیوں کی طرف بڑھ گئی۔لومڑی نے مسکراتے ہوئے مرغابی سے کہا․․․․․کیسی ہو میری دوست؟اچھی ہوں بی لومڑی آج خیر ہے۔تمہاری چالاکی کے بڑے قصے سن رکھے ہیں آج تمہارا دوست بھیڑیا نظر نہیں آرہا؟وہ جھاڑی میں بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مان نہیں سکتا․․․․․لومڑی نے مکاری سے کہا۔وہ کہہ رہا ہے میں مان نہیں سکتا․․․․․وہ کیا کہہ رہا ہے؟مرغابی نے حیرانی سے پوچھا،چھوڑو میری فرینڈ مرغابی․․․․وہ بھیڑیا ہے،اُسکا کیا کہنا․․․․․بی لومڑی نے کہا پھر بھی وہ کیوں جھاڑی میں چھپا بیٹھا ہے؟مرغابی نے حیرت سے پوچھا۔اصل میں وہ کہہ رہا ہے کہ مرغابی کے پر بڑے سخت ہوتے ہیں،اگر اس کا تکیہ بنایا جائے تو کوئی اُس پر سو نہیں سکتا مگر میں کہتی ہوں تمہارے پر نرم ہوتے ہیں،خوبصورت ہوتے ہیں ان کا تکیہ بڑا نرم ہوتا ہے۔تمہارا دوست بھیڑیا غلط کہتا ہے میرے پر واقعی نرم و نازک ہوتے ہیں۔مرغابی نے گردن پانی میں ڈال کر نکالی۔ہاں یہی بات میں نے بھیڑیے سے کہی تھی مگر وہ مانتا نہیں،کہتا ہے مرغابی کے پر اتنے نرم نہیں ہوتے جتنا کہ سمجھ لیا گیا ہے یہ کہہ کر لومڑی واپسی کو مڑی۔اُسے بتاؤ کہ میرے پر سب سے نرم ہوتے ہیں مرغابی نے اونچی آواز سے کہا اور پانی میں غوطہ لگایااور دو چار گز دور جا نکلی اپنے پڑوں کو جھاڑا۔میں اُسے بتا دیتی ہوں کہ تمہارے پر․․․․لومڑی واپس مڑی تم ایسا کر و کہ ایک پر مجھے دیدو تاکہ اُسے چھو کر اُسے یقین ہوجائے۔ٹھیک ہے میں تمہیں اپنی دم کے چند پر دیتی ہوں یہ کہہ کر مرغابی اپنے نرم پر دینے کیلئے جونہی لومڑی کی طرف بڑھی لومڑی نے اُسے دبوچ لیا اور دو چار نوالوں میں ہڑپ کرگئی اور اُسکے نرم ونازک پروں کا تکیہ بنا کر بیٹھ گئی۔بھیڑیا یہ سب حیرت سے دیکھ رہا تھا،لومڑی بولی دیکھا تمہیں یہاں ہر وقت شکار مل سکتا ہے،بس عقل استعمال کرنے کی ضرورت ہے․․․کیا سمجھے․․․․․؟یہ سن کر بھیڑیا جھاڑی کی اوٹ سے نکلا اپنے جسم پر مٹی اور کیچڑ لگا کر ندی کی طرف بڑھ گیا۔اپنے جسم کو پانی سے صاف کرتے ہوئے ایک مرغابی سے باتیں کر رہا تھا کہ میری فرینڈ لومڑی کا کہنا ہے․․․․وہ کیا کہتی ہے؟مرغابی نے حیرت سے پوچھا۔”میری دوست لومڑی کہتی ہے کہ مرغابی کے پر بہت سخت ہوتے ہیں کچھ دیر بعد لومڑی کو پھڑ پھڑاہٹ کی آواز آئی اور لومڑی سمجھ گئی کہ اس کے دوست نے بھی وہی حربہ استعمال کیا ہے”سچ ہے کہ خوشامد بُری بلا ہے“۔ " دوست بنے دشمن - تحریر نمبر 1011,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dost-banay-dushman-1011.html,"ڈاکٹر عمران مشتاق:جب یہ دنیا آباد ہوئی تھی تو جانور ایک دوسرے کی بولی نہ صرف سمجھ سکتے تھے،بلکہ بول بھی سکتے تھے۔وہ دوستوں کی طرح بڑی محبت سے رہتے تھے۔دنیا امن کی جگہ تھی۔اور سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔کتا،بلی اور چوہا بڑی محبت سے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔وہ اکٹھا کھاتے،پیتے،ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کی خوشیوں اور تکلیف میں شامل ہوتے،پھر ایک دن ایک غیر متوقع واقعہ کیا پیش آیا کہ سب کچھ ہی بدل گیا۔ایک دن کتا گھر آیا تو اُس کے پاس ایک ہڈی تھی۔بلی اور چوہا دونوں اس وقت گھر پر نہیں تھے،کیوں کے دونوں ہی کچھ کھانے پینے کی چیز ڈھونڈنے گئے تھے۔کتے نے ابھی ہڈی زمین پر رکھی ہی تھی کہ اُسے ایک آواز سنائی دی۔وہ تیزی سے باہر کی طرف لپکا۔(جاری ہے)اُسے شک ہوا تھا کہ اس کا مالک کہیں تکلیف میں نہ ہو یا پھر اُسے اس کی ضرورت نہ ہو۔ابھی کتے کو گئے چند لمحے بھی نہ ہوئے تھے کہ بلی تھکی ہاری خالی ہاتھ کمرے میں داخل ہوئی۔اُس نے نے ہڈی فوراََ اپنے قبضے میں کی اور کوئی جگہ ڈھونے لگی تاکہ ہڈی کو چھپا سکے۔ڈھونے کے دوران اُسے زمین میں ایک سوراخ نظر آیا۔وہ کچھ دیر تک سوچتی رہی،پھر اُس نے سوراخ میں ہڈی چھپانے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے مکان کی چھت کی طرف دیکھا اور پھر تیزی سے وہ مکان کی چھت پر پہنچ گئی۔بلی دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی کہ جب رات آئے گی تو تینوں دوست مل کر مزے اُڑائیں گے اور خوب ہلا کریں گے۔کتا جب واپس آیا تو اُسے ہڈی کہیں بھی نظر نہیں آئی۔اُس نے سارے ہی کمروں میں ہڈی کو ڈھونڈا،مگر اُس کی تلاش بے فائدہ رہی،اسی دوران چوہا بھی خالی ہاتھ گھر واپس آگیا۔دونوں نے مل کر گھر کا کونا کونا چھان مارا،مگرہڈی کو نہ ملنا تھا نہ ملی۔دونوں نے ہار نہیں مانی اور اپنی تلاش جاری رکھی۔چوہے اور کتے کو اچانک چھت پر بلی کی جھلک نظر آئی تو دونوں کا ماتھا ٹھنکا۔ضرور کوئی گڑبڑ تھی۔ہڈی کی جھلک نظر آئی تو دونوں کو شک ہوا کہ بلی نے ہڈی کو اکیلے ہی اکیلے ہڑپ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔چوہا جسامت میں بڑا اور طاقت ور تھا۔اس نے دور لگائی اور تھوڑی ہی دیر میں وہ بلی کے پاس پہنچ چکا تھا۔اُس نے بے چاری بلی کو صفائی کا موقع دیے بغیر ہی اُس کی دُم پر حملہ کر دیا۔چوہے کے پے در پے حملوں سے بچتے ہوئے بمشکل بلی کہہ سکی:”میرے دوست!میری بات تو سنو میں ایک اچھے مقصد کے تحت یہ ہڈی اوپر چھت پر لائی تھی۔“چوہا سخت غصے میں تھا۔بلی کی ٹانگ کو منھ میں دباتے ہوئے بولا:”مجھے تمھاری کوئی بھی دلیل متاثر کرنے والی نہیں۔تم نے خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہڈی چرانے کی کوشش کی ہے۔“بلی اورچوہے کے بیچ یہ لڑائی جاری تھی کہ اس دوران ہڈی پھسل کر چھت سے نیچے گر گئی۔ہڈی دیکھتے ہی کتا تیزی سے اس کی طرف لپکا۔ہڈی منھ میں دباتے ہی وہ مکان کے پائیں باغ کی جانب دوڑ پڑا۔کتا پائیں باغ میں بیٹھا ان دونوں کا انتطار کرنے لگا۔اُسے یقین تھا کہ جلد ہی وہ تینوں کسی فیصلے پر ضرور پہنچ جائیں گے کہ ہڈی کی تقسیم تینوں دوستوں میں کسے ہو۔وہ دونوں کتے کو ڈھونڈتے رہے۔جب کچھ دیر ہو گئی تو کتے کو بھوک ستانے لگی،اُس نے یہ سوچا کہ وہ اپنا حصہ کھا کر،بلی اور چوہے کو حصہ چھوڑ دے گا۔بلی جب مکان کے پائیں باغ میں پہنچتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ کتا مزے سے ہڈی چبا رہا ہے۔وہ ایسے ہی سخت غصے میں تھی،بلا سوچے سمجھے کتے پر جھپٹ پڑی۔دونوں میں زور سے لڑائی ہونے لگی۔دونوں ایک دوسرے کو کاٹنے اور بھنبھوڑنے لگے۔چوہا الگ تاک میں تھا کہ ہڈی نیچے گرے اور میں لے بھاگوں۔وہ کبھی بلی کی ٹانگ دبوچتا تو کبھی کتے کی دُم منھ میں دبا لیتا۔اُن کی لڑائی کا شور سُن کو اُن کا مالک وہا ں آیا۔اُس نے دونوں کو ڈانٹا اور الگ الگ کیا۔چوہا،کتا اور بلی مالک کے بیچ بچاؤ کرنے سے الگ الگ ہوگئے مگر اُن کے دلوں میں پڑی گرہ نہ نکل سکی۔وہ دن اُن کی دوستی کا آخری دن تھا۔اُس دن کے بعد سے جب بھی ان کا ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوتا ہے تو کتا فوراََ ہی بلی پر حملہ کردیتا ہے اور وہ بھی جوابی وار کرنے سے باز نہیں آتی۔بلی کو جب بھی کہیں چوہا نظر آتا تو وہ اُسے پکڑنے کے لیے دوڑ پڑتی ہے۔بلی کر ڈر سے چوہے نے بل بنا کر رہنا شروع کردیا اور وہ اپنے بل سے اُسی وقت نکلتا ہے ،جب بلی آس پاس نہ ہو۔ہڈی کے ایک ٹکڑے اور تین دوستوں کے بیچ ہونے والی غلط فہمیوں نے دوستی کے خوب صورت رشتے کو ختم کر ڈالا۔فلپائن کی مائیں اپنے بچوں کو آج بھی جب یہ کہانی سناتی ہیں تو انہیں یہ بتانا نہیں بھولتیں کہ دوستی کے رشتے میں خود غرضی ،بے ایمانی اور غلط فہمی کو کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔آپ کا کیا خیال ہے؟ " کیسا دوست - تحریر نمبر 1010,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kaisa-dost-1010.html,"اشتیاق احمد:دروازے پر آہستہ انداز میں دستک ہوئی․․․زکریا نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا․․․وہ اس وقت اپنے گھر کے صحن میں تھا۔گھر کے باقی افراد اندرونی حصے میں تھے․․․․آہستہ دستک دینے کا مطلب تھا،آنے والا نہیں چاہتا کہ اس کے آنے کی کسی کو خبر ہو۔وہ دبے پاؤں اٹھا اور کچھ بولے بغیر دروازہ کھول دیا․․․باہر زابل کے والد کھڑے تھے․․․اس نے انہیں وہیں ٹھہرنے کا اشارہ کیا اور اندر آکر ڈرائینگ روم کا دروازہ کھول دیا․․․دوسرے ہی لمحے زابل کے والد توقیر اندر آگئے․․․انہوں نے دبی آواز میں کہا:”السلام علیکم بیٹا زکریا۔“وعلیکم السلام رحمتہ اللہ وبرکاتہُ․․․ چچا جان!میں آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا۔مجھے آپ کا موبائل پر پیغام مل گیا تھا۔(جاری ہے)“”شکریہ!اصل میں تمہیں تو پتا ہے․․بیٹا․․․زابل کا تمہارے بڑے دونوں بھائیوں سے کس قدر گہرانہ دوستانہ ہے․․․ہے نا۔“”اس لیے میں بہت زیادہ خاموشی سے آیا ہوں․․․․اگر زابل کو پتا چل گیا کہ میں یہاں آیا تھا تو سارا کھیل خراب ہوجائے گا۔“”آپ فکر نہ کریں چچا جان․․․اس کمرے میں کوئی نہیں آئے گا․․․میں رات جو یہی بیٹھ کر مطالعہ کرتا ہوں․․․وہ سب اس وقت ٹی وی کے سامنے ہوتے ہیں․․․یہاں آنے کا تو کسی کوخیال تک نہیں آئے گا۔“”بس ٹھیک ہے․․․پھر بھی تم اندر سے احتیاطََ دروازہ بند کرلو․․․اور بیرونی دروازہ بھی بند کرلو․․․․پھر میں اپنی بات کرکے جس طرح آیا ہوں چلا جاؤں گا۔“”جی اچھا۔“زکریا نے کہا اور اٹھ کو دونوں دروازے اند ر سے بند کرلیے۔”اب فرمائیے․․․کیامسئلہ ہے۔“”مسئلہ ہے زابل کا․․․نہ جانے اسے کیا ہوگیا ہے․․․پہلے تو ایسا نہیں تھا․․وہ روز بروز بگڑرہا ہے․․․ہم اسے جتنا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں․․․وہ اتنا ہی سرکش ہورہا ہے․․․․خاص طور پر ۔“وہ کہتے کہتے رک گئے۔”جی چچا جان خاص طور پرکیا۔“”خاص طور پر اس کا سلوک اپنی والدہ سے تو بہت زیادہ برا ہوتا جارہا ہے․․․ماں جونہی اسے سمجھانے کی کوشش کرتی ہے ․․․وہ کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے․․․یوں لگتا ہے اپنی ماں پر ہاتھ اٹھالے گا․․․ان حالات میں میں تمہارے پاس آیا ہوں․․تم اس کے دوست ہو․․․کیا تم نے اس میں تبدیلیاں محسوس نہیں کیں؟“زکریا نے ان کی بات کا کوئی جواب نہ دیا․․․وہ گہری سوچ میں ڈوب چکا تھا․․․”بیٹے!تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا؟“”جی چچا جان !اصل میں ہمیں تو یہ بات آپ سے پہلے معلوم ہے․․․لیکن آپ پریشان نہ ہوجائیں اس لیے ہم خاموش تھے․․․میرے بڑے بیٹے نے تو مجھے باقاعدہ منع کردیا تھا کہ آپ کو کچھ نہ بتاؤں۔“”لیکن یہ بات تو ٹھیک نہیں۔“انہوں نے شکایت کے انداز میں کہا۔”آپ یہ بات کہہ سکتے ہیں چچا جان!لیکن ہمارے حساب سے یہ بات بالکل ٹھیک تھی․․ہم نے سوچاتھا․․․زابل کی اصلاح کرنے کی اپنی کوشش کریں گے․․تاکہ آپ تک بات نہ پہنچے اور زابل ٹھیک ہوجائے․․․․ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کا سلوک اپنے گھر والوں سے ایسا ہوجائے گا․․․اور چچا جان! اپنے طور پر کام کرنے سے یہ پتا چلالیا ہے․․․اسے بگاڑنے میں کس کا ہاتھ ہے․․․لیکن افسوس!ہم اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے․․ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا․․․ورنہ کا او ر بگڑ سکتا ہے۔“”کیا مطلب․․تم کیا کہنا چاہتے ہو۔“”معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے چچا جان․․اب وہ ہماری بھی نہیں سنتا․․ہمیں جاننا یہ ہے کہ اسے آخر بگاڑ کون رہا ہے۔“”اوہ! میں تو اس خیال میں تھا کے تم لوگوں کی مدد سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہے․․․لیکن معاملہ تو اس سے کہیں زیادہ بگڑ چکا ہے․․․اب کیا ہوگا۔“”ہم تینوں اس معاملے پر غور کر رہے ہیں․․․آپ میرے بڑے بھائیوں کی طرف سے پریشان نہ ہوں․․․یہ معاملہ اب راز نہیں رہ گیا،انہیں بھی سب کچھ معلوم ہوچکا ہے․․ہم انشاء اللہ ایک دو روز تک آپ کو یہ بتانے کے قابل ہوجائیں گے کہ اسے کون خراب کررہا ہے۔“”اوہ ․․․اچھا۔“اور پھر وہ چلے گئے․․زکریا اپنے بھائیوں کے پاس آیا․․․اس نے انہیں زابل کے والد کے بارے میں بتایا:”ہاں! میںآ ج تم سے بات کرنے ہی والا تھا․․․میں نے اس نوجوان کا پتا چلا لیا ہے جو اسے خراب کر رہا ہے․․․وہ ایک بہت ہی آوارہ لڑکا ہے،نشہ بھی کرتا ہے․․․بس ہمارا زابل اس کے جال میں آگیا․․ہم زابل کو اس کے چنگل سے تو نکال نہیں سکتے تھے․․․کیوں کہ اس آوارہ لڑکے کے تعلقات اور بڑے بڑے آوارہ لوگوں سے ہیں اور اس طرح معاملہ ضرور بگڑ سکتا تھا․․․اسی لیے۔“زکریا کے بھائی کہتے کہتے رک گئے۔”اسی لیے کیا بھائی جان؟“”اسی لیے میں ایک ایسا کام کر رہا ہوں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔”جی․․کیا مطلب؟“زکریاچونکا۔”میں چند دن بعد بتاؤں گا۔“چنددن گزرنے پر زکریا کے بڑے بھائی نے انہیں بتایا:”زابل والا معاملہ سلجھ گیا ہے۔اب تم زابل کے والد کو جاکر خبر سنا سکتے ہو کہ اب انشاء اللہ بہت جلد زابل معمول پر آجائے گا۔“”آخر کیسے بھائی جان! آپ نے کیا کیا ہی؟”میرا ایک دوست سی آئی ڈی میں ہے․․․بس میں نے ان سے یہ کام لیا،لیکن یہ بات کسی کو بھی بتانے کی ضرورت نہیں․․․وہ آوارہ لڑکا اور نہ جانے کتنے لڑکوں کو خراب کر رہا تھا․․․میرے ان دوست نے اس کا بہت ہی اچھا انتظام کر دیا ہے۔“”لیکن کیا؟“”یہ انہوں نے نہیں بتایا․․ ان کا اپنا کام ہے․․․ہمیں جاننے کی ضرورت نہیں․․تم چند دن زابل کے ابا جان سے ملنا․․دیکھیں وہ کیا بتاتے ہیں۔“چند دن بعد زکریا کے والد سے بات کی تو وہ اس قدر خوش تھے کہ انہوں نے گرم جوشی سے زکریا کو گلے سے لگا لیا․․․اور لگے بار بار اس کا شکریہ ادا کرنے․․․․ " خود غرض لومڑی - تحریر نمبر 1009,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khudgharz-loomri-1009.html,"جاوید اقبال:مرغی،لومڑی کو جھاڑیوں کے پاس بیٹھی دیکھ کر ٹھٹک گئی۔وہ محتاط قدموں سے یہ دیکھنے کے لئے آگے بڑھی کہ لومڑی یہاں کیا کررہی ہے۔اس نے دیکھا،لومڑی کی دُم ایک لوہے کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے،جسے وہ چھرانے کی کوشش کر رہی ہے۔اتنے میں لومڑی کی نظر مرغی پر پڑگئی۔”آؤ آؤ بہن!کیا حال ہے؟لومڑی نے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔”یہ کیا ہوا؟“ مرغی نے لومڑی کی شکنجے میں پھنسی ہوئی دم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔لومڑی نے کہا:”بہن! اس نامراد شکنجے کے ساتھ گوشت کا ٹکڑا لگا ہوا تھا۔میں نے اسے کھانا چاہا تو ایک زور کی آواز آئی اور میری دُم اس میں پھنس گئی۔“مرغی نے کہا:”لیکن تم تو بہت چالاک اور ذہین ہو،تم اس میں کیسے پھنس گئیں؟“مرغی سوچ رہی تھی کہ کہیں لومڑی کوئی چال نہ چل رہی ہوں۔(جاری ہے)“لومڑی بولی:”بہن!لالچ بُری بلا ہے۔گوشت کا ٹکڑا دیکھ کر میرا دل للچا گیا۔اگرتم میری مدد کروتومیں شکنجے سے آزاد ہوسکتی ہوں۔“مرغی نے کہا:”ابھی دو دن پہلے تم نے میرے ننھے منھے بچے کو پھاڑ کھایا تھا،پھر بھی مجھ سے مدد کی توقع رکھتی ہوں۔“لومڑی نے کہا :”بہن مجھ سے غلطی ہوگئی۔میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔دیکھو میرا تم پر ایک احسان بھی تو ہے!“”کیسا احسان؟“مرغی نے حیرت سے کہا۔”دیکھو میری وجہ سے تم اور تمہارے بچے محفوظ ہیں۔میں تمھاری ہمسائی نہ ہوتی تو لوگ تمھیں اورتمھارے بچوں کو پکڑ کرلے گئے ہوتے۔“لومڑی کی بات سن کر مرغی سوچ میں پڑگئی کہ لومڑی کی مدد کرے کہ نہ کرے۔مرغی کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر لومڑی چالاکی سے بولی:بہن! کیا سوچ رہی ہوں،دیر نہ کرو رنہ شکاری آجائے گا۔میری توجان جائے گی،میرے ساتھ تم اور تمھارے بچے بھی نہ بچ سکیں گے۔“مرغی،لومڑی کی چال میں آگئی۔وہ اس کے پاس چلی آئی اور غور سے اس کی پھنسی دُم کو دیکھنے لگی۔اس نے لوہے کے شکنجے کا اپنی چونچ سے ٹھونگیں ماریں،پنجے سے کریدا،پھر بولی:”یہ تو بہت مظبوط ہے،میں اسے نہیں کھول سکتی۔“لومڑی سر گھما کر بولی:”لو،میں بھی اپنے پنجے سے زور لگاتی ہوں۔“دونوں نے مل کر زور لگایا تو شکنجے کا اوپری حصہ کچھ اوپر اُٹھا۔لومری نے اپنی دُم کو باہر کھینچ لیا اور جلدی سے شکنجے کو چھوڑدیا،جس سے شکنجے کی نوک ٹھک سے مرغی کے پنجے پر گری اور اس کا پنجہ شکنجے میں پھنس گیا۔لومڑی نے اپنی دُم کو جھاڑا،سہلایا۔اس کی دُم کے بہت سارے بال اُکھر گئے تھے ۔وہ اپنی زخمی دُم اُٹھائے جنگل کی طرف چل پڑی۔لومڑی کو جاتے دیکھ کر مرغی نے کہا:”بہن کہاں چلیں،میرا پنجہ تو چھڑاتی جاؤ؟“لومڑی بولی:”بہن میری دُم پر زخم ہو گیا ہے۔میں ذرا گھر جا کر مرہم پٹی کرلوں،پھر آکر تمہیں آزاد کرتی ہوں۔“یہ کہہ کر لومڑی جنگل کی طرف بڑھ گئی۔اس کا رُخ مرغی کے گھر کی طرف تھا،جہاں مرغی کے بچے اکیلے تھے۔وہ خیالوں میں ہی ان کے مزے دار گوشت کے چٹخارے لیتی تالاب کے کنارے پہنچی اور پھر جیسے ہی اس نے مرغی کے گھر میں داخل ہونا چاہا۔ایک کالی بلاسی اس پرجھپٹی،اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتی،اسے زور کا ایک دھکا لگا۔وہ اُڑکر دور جا گری۔اسی وقت اس نے بھیا ریچھ کو مرغی کے گھر سے نکل کر اپنی طرف آتے دیکھا تو دُم دبا کر وہاں سے بھاگی۔مرغی،بھیاریچھ کو اپنے گھر اور بچوں کی حفاظت کا کہہ کر گئی تھی۔بھیاریچھ مرغی کو ڈھونڈنے نکلے۔جھاڑیوں کے پاس انہیں مرغی مل گئی۔انہوں نے اس کا پنجہ شکنجے سے نکالا اور اسے اس کے گھر تک چھوڑنے آئے۔لومڑی ریچھ کے ڈر سے یہ جنگل ہی چھوڑ گئی اور کسی دوسری جگی جا بسی۔ " آستین کا سانپ بننا - تحریر نمبر 1005,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aasteen-ka-saanp-banna-1005.html,"اطہر اقبال:بہت دن پہلے کی بات ہے ملک یونان پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔بادشاہ اپنے سب ہی وزیروں پر بھروسہ کرتا لیکن ان میں ایک وزیر جس کا نام فیصل تھا اسے بادشاہ بہت پسند کرتا اور حکومتی معاملے میں فیصل سے اکثر مشورے لیا کرتا۔فیصل کی نیت کا بادشاہ کو ہرگز علم نہیں تھا۔وہ اس پر بہت اعتماد کرتا جبکہ فیصل کسی نہ کسی طرح بادشاہ کی حکومت کا تختہ گر ا کر خود بادشاہ بننا چاہتا تھا۔دن یوں ہی گزرتے گئے۔وزیر فیصل نے اپنے ساتھ کچھ اور وزیروں کو بھی ملا لیا اور انہیں ساتھ دینے پر انعام کا لالچ بھی دیا۔بہت سے وزیر انعام و اکرام کے لالچ میں فیصل سے مل گئے اور پھر ایک دن فیصل نے بادشاہ کوختم کرنے کا ایک منصوبہ بھی بنا لیا۔ہوایوں کہ بادشاہ اپنی رعایا کا حال معلوم کرنے کے لئے اپنے وزیروں کے ساتھ ایک قافلے کی صورت میں باہر نکلا تووزیر فیصل نے بادشاہ سے کہا۔(جاری ہے)”قریب ہی جنگل میں بہت نایاب تیتر آئے ہوئے ہیں،کیوں نہ ان کا شکار کیا جائے۔“بادشاہ تیتروں کا بہت شوقین تھا لہذااس نے حامی بھر لی اور پھر یہ سب جنگل میں تیتروں کا شکار کھیلنے نکل پڑے۔جنگل بڑا خطرناک تھا۔یہاں جنگلی جانور گھومتے رہتے تھے۔فیصل وزیر نے انتہائی چلاکی سے بادشاہ کو جنگل میں اکیلا چھوڑ دیا اور خود باقی وزیروں کے ساتھ محل واپس آگیا۔اور یہ اعلان کرایا کہ۔”بادشاہ سلامت کو جنگل میں شیر نے کھا لیا ہے،بادشاہ سلامت سے چونکہ میں زیادہ قریب تھا لہذا آج سے میں بادشاہ ہوں“کچھ دوسرے وزیر جو بادشاہ کے وفادار تھے افسوس کرنے لگے اور مجبوراََ انہوں نے فیصل کو ہی اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا۔کچھ دن یوں ہی گزر گئے ایک دن اصل بادشاہ انتہائی خستہ حالت میں اپنے محل تک آپہنچا اب جو وزیروں نے دیکھا کہ بادشاہ تو زندہ ہے۔تو ان کی گھِگی بندھ گئی جبکہ بادشاہ کے وفادار وزیر خوش ہوئے۔بادشاہ نے کہا کہ”مجھے فیصل اور اس کے ساتھی وزیر مرنے کے لئے مجھے جنگل میں چھوڑ آئے تھے اور انہیں یقین تھا کہ مجھے کوئی جانور وغیرہ کھا گیاہوگا لیکن جب تک میری زندگی اللہ نہ لکھی ہے مجھے کچھ نہیں ہوسکتا۔میں نے فیصل پر سب سے زیادہ اعتماد کیا یہی”آستین کا سانپ نکلا۔“یہ کہہ کر بادشاہ نے فیصل وزیر کو اس کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ قید کروا دیا۔ " آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا - تحریر نمبر 1004,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aasman-se-gira-khajoor-main-atka-1004.html,"اطہر اقبال:راشد کو کسی کام کے سلسلے میں لاہور جانا تھا۔لاہور کے لئے گاڑی کو ٹھیک چھ بجے روانہ ہونا تھا۔اور ابھی صرف چار ہی بجے تھے۔راشد ایک بیگ میں اپنا سامان رکھ رہا تھا جب سامان پیک ہو گیا تو راشد نے اپنے ایک دوست کمال کو فون کیا اور اسے اپنے گھر آنے کے لئے کہا۔”ڈنگ․․․․ڈونگ․․․․“دروازے پر بیل کی آواز سن کر راشد نے دروازہ کھولا تو کمال کھڑا مسکرا رہا تھا۔“کیا پروگرام ہے جناب کا؟“کمال نے پوچھا۔”یار کمال تمہیں تو پتا ہی ہے کہ آج میں شام چھ بجے والی گاڑی سے لاہور جارہا ہوں۔تم ایسا کرو کے اپنی موٹر سائیکل پر مجھے اسٹیشن تک چھوڑدو،ذرا کمپنی رہے گی۔“راشد نے کہا اور پھر ساڑھے چار بجے کے قریب راشد،کمال کے ساتھ اسٹیشن کے لئے روانہ ہوگیا۔(جاری ہے)ابھی موٹر سائیکل نے تھوڑا فاصلہ ہی طے کی تھا کے اچانک جھٹکے لیتی ہوئی بند ہو گئی۔کمال موٹر سائیکل کو ایک طرف کھڑی کر کے اسے دیکھنے لگا۔”ذراجلدی کرو،وقت پر اسٹیشن پہنچنا ہے“۔راشد نے بے قراری سے کہا۔تقریبا بیس منٹ کے بعد موٹر سائیکل دوبارہ اسٹارٹ ہو گئی۔اور دونوں اسٹیشن کی طرف روانہ ہوگئے۔ابھی یہ دونوں صدر کے علاقے تک ہی پہنچے تھے کہ معلوم ہوا کے یہاں ٹریفک جام ہے۔کمال نے کوشش کی کہ اپنی موٹر سائیکل کسی اور راستے سے نکال لے مگر اب اس کے پیچھے بھی کئی گاڑیاں قطار میں لگ چکی تھیں۔لہذا کمال کے لئے ا ب یہ ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ اپنی موٹر سائیکل اس رش میں سے نکال سکے۔گاڑیاں آہستہ آہستہ چلتیں اور پھر رک جاتیں۔ٹریفک بہت بری طرح سے جام تھا۔کافی دیر ٹریفک میں پھنے رہنے کے بعد یہ دونوں اسٹیشن پہنچے تو معلوم ہوا کہ ٹرین ابھی ایک منٹ پہلے ہی نکلی ہے۔”یار یہ تو بہت برا ہوا“راشد نے کہا”کیا کریں،پہلے اپنی گاڑی خراب ہوگئی اس میں وقت لگ گیا اور پھر جب موٹر سائیکل اسٹارٹ ہوئی تو ٹریفک میں پھنس گئے“۔”یعنی آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔“راشد نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ " ٓآیا رمضان آیا - تحریر نمبر 1003,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aaya-ramzan-aaya-1003.html,"خلد نجیب خان:سکول میں سب بچے ہی گرمیوں کی چھٹیوں کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔اخبارات میں تو پہلے ہی خبر آچکی تھی کہ مئی کے آخری ہفتے میں موسم گرما کی چھٹیاں ہو جائیں گی۔مس سروش سکول کی پرنسپل سے کہہ رہی تھیں؛”میڈم ابھی ایسی تو کوئی گرمی بھی نہیں پڑی کے سکولوں میں چھٹیاں کردی جائیں۔اگر ایسا ہوا تو بچوں کا بڑا تعلیمی نقصان ہو جائے گا۔“”آپ درست کہہ رہی ہیں مس سروش مگر ہم کیا کریں ،ہمیں تو سرکاری احکامات ماننا ہی پڑتے ہیں ۔نہ مانیں تو سکول زبر دستی بند کرنے کے ساتھ ساتھ بھاری جرمانہ بھی عائد کردیا جاتا ہے۔“میڈم نے جواب دیا۔”تا ہم یہ بھی درست ہے کہ تمام سکول پرائیویٹ او ر اس طرح کے مراعات یافتہ نہیں ہیں جیسا کہ ہمارا سکول ہے۔(جاری ہے)ہمارے ملک میں تو بہت سے سکول ایسے بھی ہیں جہاں بجلی کے پنکھے بھی میسر نہیں۔کئی سکولوں میں تو بچے گرمی کی شدت سے بیہوش بھی ہو جاتے ہیں۔جو حکومت کی ذمہ داری بن جاتے ہیں۔ان حالات میں انتظامیہ کے لئے سب سے آسان کام یہی ہے کہ وہ سکول بند کردے۔اس مرتبہ تو رمضان کا مبارک مہینہ بھی شروع ہو رہا ہے۔اس میں بچوں کا سکول آنا جانا خاصا مشکل ہو سکتا ہے۔ لہٰذا سکولوں میں چھٹیاں کردینا ہی درست فیصلہ ہوگا۔میرا خیال ہے کہ کل اسمبلی میں استقبال رمضان کے حوالے سے لیکچر بھی دے دیا جائے۔“”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں میڈم،میں خود یہ لیکچر دوں گی“۔مس سروش نے اپنے شوق کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔”ٹھیک ہے مجھے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے،آپ یہ کام کرلیں“ ۔اس دوران ٹیلی فون کی بیل بجی تو میڈم فون سننے میں مصروف ہو گئیں اور مس سروش سٹاف روم کی طرف بڑھ گئیں۔اگلے روز مس سروش نے بچوں سے کہا؛پیارے بچوں! آپ کو معلوم ہے کہ اگلے چند دنوں میں ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت رمضان کے بابرکت مہینے کی صورت میں آرہی ہے۔ہمیں اس نعمت کو سمیٹنے کا بھرپور اہتمام کرنا ہوگا۔اس مبارک مہینے میں قرآن کریم نازل ہو اجو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دیگر الہامی کتابیں یعنی زبور،توراة اور انجیل بھی اِسی مقدس مہینے میں نازل ہوئیں۔اس مہینے میں نیکیوں کی قیمت بڑھ جاتی،گناہ بخشوانا آسان ہو جاتا ہے،معصیت کی نکیل کھینچ لی جاتی ہے،جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور شیاطین بند کر لئے جاتے ہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا؛ جس شخص نے ثواب کی اُمید کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا،اُسکے تمام گزرے گناہ معاف کردئیے گئے(بخاری)اور جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان میں قیام کیا،اسکے تمام گزرے گناہ مٹ گئے(بخاری و مسلم)ہر مسلمان کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رمضان کا مہینہ گراں قدر تحفہ اور عظیم نعمت ہے،زندگی کے نشیب وفراز سے گزرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان تک پہنچایا ہے،اس لئے ہمیں سب سے پہلے اُس رب کا شکر ادا کرنا چاہیے اور محض زبانی شکر کافی نہیں ہے بلکہ اپنے اعمال و کردار سے بھی اس کا اظہار کرنا چاہیے۔اور آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ناشکری زوال نعمت کے ساتھ ساتھ عذاب الہی کو للکارتا ہے۔مثل مشہور ہے،صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو وہ بھولا نہیں۔پچھلے گیارہ مہینوں میں ہم نے جو کچھ کیا،رب کی اس شفقت کو دیکھ کر اگر ہم اسکی طرف رجوع کرلیں تو رب کا دروازہ ہمیں کھلا ملے گا۔آئیے توبہ تائب ہوکر شریعت کو اپنا شعار بنا لیں۔خود کو مسنون ذکرواذکار کا عادی بنائیں اور زیادہ سے زیادہ مسنون و ماثور دعاؤں کا اہتمام کریں۔کوئی نہیں جانتا کے اگلے برس رمضان ہمارے نصیب میں ہے یا نہیں۔بخاری شریف کی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ابنِ آدم کا ہر عمل اُسکے اپنے لئے ہوتا ہے،سوائے روزہ کے۔روزہ محض اللہ کیلئے ہوتا ہے اور اس کا بدلہ وہی دے گا اور روزہ وہ عمل ہے،جس میں یا کاری نہیں آتی۔ایک اور حدیث میں ہے کہ روزہ کا بدلہ سوائے جنت کے کوئی چیز ادا نہیں کرسکتی۔عام دنوں میں بھی لغویات سے بچنا چاہیے مگر رمضان میں تو ہر ممکن طور پر لغویات سے گریز کرنا چاہیے۔یوں تو اس مبارک مہینے میں ہر قسم کے نیک اعمال کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔مگرچند امور ایسے ہیں،جن کا اہتمام خود رسول اللہﷺ فرمایا کرتے تھے۔اس مبارک مہینے میں اللہ کے رسولﷺ کثرت سے قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کبھی اُن سے سنتے اور کبھی اُن کو سناتے ۔جس سال آپﷺ نے وصال فرمایا،اس سال کے رمضان میں آپﷺ نے حضرت جبرئیل دو بار دور فرمایا۔رسول اللہﷺ یوں تو ہمیشہ صدقہ وخیرات کیا کرتے تھے،خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلاتے تھے۔رمضان مبارک کے مہینے میں آپﷺ کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں رُکتی تھی،ہاتھ آتے ہی فوراََ صدقہ کردیتے۔رسول اللہﷺ کا حال یہ تھا کہ جب رمضان آجاتاتو کمر بستہ ہوجاتے خود بھی جاگتے اور اہل واعیال کو بھی جگاتے۔رمضان کے آخری عشرے میں آپﷺ اعتکاف کیا کرتے تھے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کا قیام کیا،اس کے تمام گزرے گناہ معاف کردئیے گئے۔آپ میں سے کئی بچے تو اس وقت یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اُن پر تو رمضان کے روزے ابھی فرض نہیں ہوئے تو پھر اتنی گرمی کے روزے کیوں رکھیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس مہینے میں جس قدر بھی عبادت اور ریاضت کی جائے اس کا پورا پورا اجر ملے گا۔زیادہ اجر کیلئے ظاہر ہے کہ آپ کو زیادہ کوشش کرنا ہوگی۔اہم بات یہ ہے کہ رمضان المبارک کا یہ بابرکت مہینہ عبادات اور ریاضت کیلئے ہی ہے محض کھانے پینے سونے اور آرام کرنے کیلئے نہیں ہے،جو لوگ اس مہینے کو دعوتوں اور آرام کا مہینہ سمجھ کرگزارتے ہیں،اُنہیں اس مہینے میں دعوتیں اور آرام تو مل جائے گا مگر شاید آخرت میں اس کا کوئی اجر نہ پاسکیں۔رمضان المبارک ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ اسلامی تعلیمات پر پہلے خود کاربند ہوجاؤ پھر اسے دنیا میں عام کرو۔رمضان کے مبارک موقع پر اپنے بھائیوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔رسول کریمﷺ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ بد نصیب ہے وہ شخص جو رمضان کو پائے اور جنت نہ کماسکے۔آپ لوگ اگر ان باتوں پر عمل کریں گے تو یقیناآپ کا رمضان کا مہینہ تو اچھا گزرے گا ہی اس کے ساتھ ساتھ موسم گرما بھی سکون سے گزر جائے گا۔ " واپسی - تحریر نمبر 1002,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/waapsi-1002.html,"مریم جہانگیر:آج یکم اپریل کی چمکتی صبح تھی۔شہریار اور زوہیب ہمدانی خاندان کے چشم وچراغ تھے اور نہم جماعت کے طالب علم۔آج کلاس میں سب بتا رہے تھے کہ وہ کس طرح اپریل فول منائیں گے۔شہریار اور زوہیب نے بھی اپریل فول منانے کا ارادہ کیا۔”لیکن کیا کیا جائے۔“شہریار نے کہا”ہاں یہ تو بہت سوچنے کی بات ہے“۔زوہیب نے پرسوچ لہجے میں جواب دیا۔”میرے پاس ایک ترکیب ہے“ان کے دوست آریز نے اُن کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔”وہ کیا “دونوں ایک ساتھ بولے۔”چلو بتاؤں“ آریز نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔ہمدانی ہاؤس میں کہرام مچا ہوا تھا۔کیونکہ دن کو دوبجے فاروق ہمدانی کے دونوں بچوں کے دوست آریز کا فون آیا تھا کہ اُن کو دونوں بیٹے بائی سائیکل پر آرہے تھے کہ ٹرک سے ٹکرا گئے اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔(جاری ہے)امینہ فاروق تو دل دہلا دینے والی خبر سن کے با ر بار بے ہوش ہورہی تھیں۔فاروق صاحب سنبھلنے میں نہیں آرہے تھے۔کیوں کہ ایک طرف تو اُن کے دونوں بچوں کی موت واقع ہو گئی تھی۔دوسری طرف یہ خبر سن کر اُن کی ماں بیا ہمدانی کو دل کا دورہ پڑ گیاتھا۔اور ڈاکٹر ابھی اُن کے کمرے میں تھا۔فاروق صاحب کو کچھ سمجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اچانک ․․․․․اُن کے دونوں سپوت شہریار اور زوہیب سامنے سے مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔”پاپا،پاپا“ وہ دونوں بولے۔”کیا تم دونوں ٹھیک ہو۔“فاروق ہمدانی بے یقینی سے بولے۔”جی پاپا۔جی ماماجانی، ہم دونوں کو کچھ نہیں ہوا۔“”تو پھر وہ کیا تھا۔“امینہ بیگم نے ان دونوں کو چومتے ہوئے پوچھا۔”ارے ماما،کچھ نہیں دراصل آج فرسٹ اپریل تھی تو۔۔۔۔“شہریار کی بات ادھوری رہ گئی کہ اس نے دادی کے کمرے سے ڈاکٹر کو نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔”ڈاکٹر“ شہریار اور زوہیب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہا۔”اب آپ کی اماں خطرے سے باہر ہیں۔آپ نے اچھا کیا جو مجھے فوراََ بلوا لیا۔اب میں چلتا ہوں۔انہیں باقاعدگی سے دوائی دیتے رہنا ۔اللہ حافظ“ ڈاکٹر نے فاروق صاحب سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔”کیا ہو ا کیا ہوا دادی اماں کو“زوہیب اور شہریار نے بے قراری سے پوچھا۔دادی کے کمرے سے نکلتے ڈاکٹر نے اُن کی جان نکال دی۔”تم لوگوں کی جھوٹی موت کی خبر سن کر اُن کو دل کا دورہ پڑگیا تھا۔“ فاروق صاحب نے اُن کی طرف دیکھ کر کہا اور توقف کے بعد پھر گویا ہوئے”اسی لیے میں کہتا ہوں کہ مغرب کی دیکھا دیکھی تم لوگ بھی وہی کچھ نہ کیا کرو جو ہماری روایات وا قدار کا حصہ نہیں ہیں۔مانا کہ ان تمام چیزوں سے خوشی حاصل ہوتی ہے،لیکن اس وقتی خوشی اور مذاق سے کسی کی جان بھی جاسکتی ہے۔اگر آج خدا نخواستہ تم لوگوں کے دادی کو کچھ ہو جاتا تو․․․․․“یہ کہہ کر فاروق ہمدانی رونا شروع ہو گئے۔آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو اُن کے دونوں بیٹوں کے چہرے پر شرمندگی اور ندامت کے آنسو موجود تھے۔”پاپا ہمیں معاف کردیں۔آئندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔“زوہیب نے کہا۔”جی پاپا! ہم بھول گئے تھے کہ ہمارے ایسا کرنے سے آپ کے دل کو کتنی ٹھیس پہنچے گی۔پاپا آئندہ ہم وہی کریں گے جو اسلام کی رو سے ٹھیک ہوگا۔“شہریار نے بھی بھائی کا ساتھ دیا۔”وعدہ․․․․؟“فاروق صاحب نے پوچھا۔”جی نہیں“”پکا وعدہ“ان کے بیٹوں نے کہا۔اور وہ دادی کے کمرے کی طرف چل پڑے۔یہ بتانے کے لئے کہ ان کے دونوں پوتے خیروعافیت سے ہیں اور بھٹکا دینے والی راہوں سے واپس آگئے ہیں۔ " کوااور سمیع اللہ - تحریر نمبر 998,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kawwa-aur-sami-ullah-998.html,"” امی جانی میں کیوں اسے چپس دوں یہ چپس میرے ہیں اور میں اکیلے ہی کھاؤں گا۔اسے نہیں دوگا“۔ امی جانی کے بولنے سے پہلے ہی سمیع نے اپنا مئوقف واضح کردیا۔ بیگم جاوید کافی دیر سے ان دونوں کے درمیان ہونے والی تُوں تکرار سُن رہی تھیں لیکن نظر اندازکررہی تھیں۔اُن کا خیال تھا کہ شاید خود ہی دونوں چپ ہوجائیں مگر یہاں پر تو معاملہ تول پکڑتا جارہا تھا۔آخرکار وہ ان دونوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے آئیں تو سمیع اللہ بھاگ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور چپس کے پیکٹ کو اپنے بستر کے سرھانے کے نیچے چھپا دیا۔بیگم جاویدمومنہ کولے کرباورچی خانے میں چلی گئیں اور اسے نوڈلز بناکردینے لگیں تب کہیں جاکران دونوں کی لڑائی ختم ہوئی۔سمیع اللہ واپس آکر برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا،جیسے ہی اسنے دیکھاکہ لان میں کواکچھ چُگ رہاہے توفوراََمومنہ کوبلانے دوڑ گیا ۔(جاری ہے)مومنہ نے بھی کوے کو سُنا تووہ بھی تھوڑی دیر پہلے والی لڑائی بھول کر اس کے ساتھ ہولی اور دونوں آکر سیڑھیوں پر بیٹھ کر کوے کو دیکھنے لگ گئے۔مومنہ بار بار کوے کو پکڑنے کے لیے اس کے پاس جانے کی کوشش کرتی تو سمیع اللہ اُسے منع کردیتااور زبردستی اسے اپنے پاس بٹھا دیتا تاکہ کوا کہیں ان کے ارادے بھانپ کر اڑ نہ جائے۔تھوڑی دیر تک وہ دونوں بیٹھے تماشا دیکھتے رہے اور پھر سمیع اللہ بھاگ کر گیا اور روٹی کا ٹکرالے آیا۔اس نے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے اور انہیں لان میں بکھیر دیا، کواان ٹکڑوں کے گرنے سے ڈر کر اڑا اور سیب کے درخت کے اوپر جا کر بیٹھ گیا۔وہاں سے اس نے اپنی تیز نظر سے دیکھا کہ سمیع اللہ نے مزے دار روٹی کے ٹکڑے پھینکے ہیں تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا لیکن جلد ہی اسے خیال آیا کے سمیع اللہ اور چھوٹی مومنہ نے اسے پکڑنے کے لیے یہ روٹی کے ٹکڑے نہ پھینکے ہوں۔وہ دونوں پھر چھپ کر خاموشی سے بیٹھ گئے۔کوا پہلے تو دیکھتا رہا لیکن جب وہ دونوں اسے نظر نہ آئے تو وہ خاموشی سے لان میں اُترااور ہوشیاری سے دیکھاکہ کہیں دونوں نے جال تو نہیں بچھایاہوا۔جب وہ مطمئن ہو گیا تو اپنی چونچ میں ایک ٹکڑا دبا کر پھر سے سیب کے درخت کے اوپر جا کر بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ ہی ”کائیں کائیں “ کا بے تحاشا شور مچانا شروع کر دیا۔مومنہ نے کوے کو”کائیں کائیں“ کرتا دیکھا تو سمیع اللہ سے کہنے لگی! بھیا لگتا ہے کوے کو کھانے کے لیے بلی آگئی ہے۔جس کو دیکھ کرکوا شور مچارہا ہے۔سمیع اللہ مومنہ کووہیں بٹھاکر جھٹ سے اپنے کھیلنے والے پستول میں پانی بھر کر لے آیا کہ وہ بلی پرٹھنڈا یخ پانی فائر کرے گا، بلی کو سردی لگے گی تو بھاگ جائے گی۔لیکن جوں ہی وہ واپس آیا اور دیکھا کہ بلی تو کہیں بھی نہیں ہے لیکن کوؤں سے لان بھرا ہوا ہے،تمام کوے روٹی کے مزیدار ٹکڑے کھانے میں مگن ہیں۔وہ اپنی اپنی چونچ میں روٹی کا ٹکڑا دباتے اور سیب اور آڑو کے درخت پر جا کر بیٹھ جاتے اور جب ٹکڑا ختم ہو تا تو وہ دوبارہ سے آکر لے جاتے۔دراصل کوے نے بلی کو دیکھ کر”کائیں کائیں “ کا شور نہیں مچایاتھا بلکہ بہت ساری خوراک دیکھ کر اپنے ساتھی کوؤں کو بھی کھانے کے لیے بلایا تھا اور اب مزے سے سب مل کھارہے تھے۔سمیع نے سوچا کہ وہ مزیدار آلو کے چپس اور دوسری ڈھیر ساری چیزیں مومنہ سے چھپ کر اکیلے بیٹھ کر کھا لیتا ہے تاکہ اسے نہ دینی پڑیں اور ایک کوا ہے کہ جو اس جیسا انسان بھی نہیں ہے اور اس سے بہت چھوٹا بھی ہے،اپنے جیسے کوؤں کا برابر خیال رکھتا ہے۔اس نے توان کوؤں کو بھی روٹی کو ٹکڑے کھانے کے لیے بلایا جو اس کے بہن بھائی بھی نہیں ہوں گے اور ایک وہ ہے جو اپنی چھوٹی بہن کو بھی کچھ نہیں دیتا۔”کوا کتنا اچھا ہے جو سب کو اپنے ساتھ کھا نے میں شامل کرتا ہے“ اس نے سوچا اور پھر بھاگ کراندر چلا گیا کیونکہ اب اُسے بھی اچھا بننا تھا۔وہ اپنے کمرے میں گیا اور چھپایا ہوا چپس کا پیکٹ لے کر دوبارہ سے مومنہ کے پاس آکر بیٹھ گیا اور مومنہ کو بھی کھانے کے لیے کہا۔”بھیا اب آپ مجھے کھانے کے لیے چیزیں دیا کرو گے نا،میں بھی آپ کو نوڈلزدوں گی جو امی جانی نے میرے لیے بنائے ہیں۔”مومنہ نے چپس کھاتے ہوئے اس سے پوچھا۔“ہاں بہنا ! اب ہم ہر چیز دونوں مل کر کھایا کریں گے۔تم دیکھ رہی ہو،نا!کوے کس طرح مل جل کے کھارہے ہیں؟اور وہاں!اب ہم روزانہ ان کوؤں کے لیے لان میں روٹی کے ٹکڑے ڈالا کریں گے۔“اس نے لاڈ سے مومنہ کو کہا تو وہ بھی خوشی سے چہکنے لگی۔”ٹھیک ہے بھیا“بیگم جاوید ان سے کچھ ہی فاصلے پر باورچی خانے کے دروازے میں کھڑی انہیں ہی دیکھ رہی تھیں۔سمیع اللہ اور مومنہ کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی وہ سن چکی تھیں اور ساری گفتگو سننے کے بعد انہوں نے سکون کا سانس لیاکیونکہ وہ دونوں بہن بھائی کی وقت بے وقت کی لڑائی اور بے جا ضد سے بہت نالاں تھیں۔انہوں نے دل ہی دل میں کوؤں کو ڈھیر ساری دُعائیں دیں اور مسکراتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئیں۔انہوں نے دونوں کے لیے پیالوں میں گرما گرم نوڈلز ڈالے اور چمچ اور پیالے لے کر برآمدے کی سیڑھیوں پر ان کے پاس آبیٹھیں۔”امی جانی!سمیع بھائی نے مجھے چپس دیئے اب میں بھی سمیع بھیاکو نوڈلز دوں گی۔“مومنہ نے امی جانی کو دیکھا توفوراََکہا۔” جواچھے بچے اپنی ساری چیزوں میں دوسروں کو بھی شامل کرتے ہیں اللہ پاک ان سے خوش ہوجاتے ہیں اور انہیں زیادہ ڈھیرساری چیزیں دیتے ہیں“۔بیگم جاوید نے دونوں بچوں کے ہاتھوں میں پیالے پکڑاتے ہوئے کہا۔” امی جانی!میں تو اب اچھا بچہ بن گیا ہوں اب اللہ پاک مجھ سے خوش ہوجائیں گے نا۔”سمیع اللہ نے کہا تو مومنہ بھی کہنے لگی”امی جانی!میں بھی اچھابچہ ہوں نا۔”ہاں، ہاں آپ دونوں بہت اچھے بچے ہو“وہ کہہ کر مسکراتے ہوئے ان کے پاس سے اٹھ کو واپس باورچی خانے میں آگئیں۔ " چالاک ہرن اور چیتا - تحریر نمبر 997,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chalak-hiran-aur-cheetah-997.html,"چالاک ہرن نہ صرف اپنی پھرتی اورتیزی کی وجہ سے جنگل میں مشہور تھا بلکہ اپنے نام کی طرح بے حد چالاک بھی تھا۔ ایک دن وہ جنگل میں مزیدار پھلوں اور دوسری کھانے پینے کی چیزوں کے لے ے گھوم رہا تھا۔ اگر چہ وہ بہت چھوٹا تھا مگر وہ بالکل بھی خوفزدہ نہیں تھا۔ اسے پتہ تھا کہ بہت سے بڑے بڑے جانور اسے اپنی خوراک بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لے ے انہیں چالاک ہرن کو پکڑنا ہوگا جو قطعی نا ممکن تھا۔اچانک چالاک ہرن کو کسی کے دہاڑنے کی آواز آئی۔ وہ یقینا ایک چیتا تھا۔چالاک ہرن کیسے ہو تم؟ میں بہت بھوکا ہوں۔ میرے لے ے کچھ کرو۔ دیکھو اگر تم چاہو تو میرے دو پہر کا کھانا بن سکتے ہو۔ لیکن چالاک ہرن بالکل چیتے کا کھانا نہیں بننا چاہتا تھا۔ آخر اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اور اپنے ذہن سے کوئی ترکیب سوچنے لگا۔(جاری ہے)اس نے ایک کیچڑ کا ڈھیر پڑا دیکھا لیکن چیتے میں تمہارے لے ے کچھ نہیں کرسکتا۔کیوں کہ یہ آج بادشاہ کا کھاناہے اور اس کی حفاظت کررہا ہوں۔یہ کیچڑ۔“ چیتے نے حیرانی سے کہا۔ہاں یہ ہی ہے بادشاہ کا کھانا۔ “ چالاک ہرن نے کیچڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اور تمہیں کیا پتہ کہ اس کا ذائقہ دنیا بھر میں سب سے اچھا ہوتا ہے ۔ بادشاہ ہر گز نہیں چاہتا کہ کوئی اور اسے کھائے ۔“چالاک ہرن کی یہ باتیں سن کر پہلے تو چیتا دیر تک اس کیچڑ کو تکتا رہا۔پھر بولا۔ ”میں بادشاہ کے اس کھانے کو چکھنا چاہتا ہوں۔”نہیں نہیں چیتے ۔ بادشاہ سلامت بہت غصہ ہوں گے ۔”لیکن صرف تھوڑا سا چکھوں گا۔ بادشاہ کو اس کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔”اچھا تو پھر ایسا کرو کہ مجھے یہاں سے بہت دور جانے دو تاکہ کوئی مجھ پر الزام نہ لگا سکےvٹھیک ہے چالاک ہرن تم یہاں سے جاسکتے ہو۔“چیتے کا اتنا کہنا تھا کہ چالاک ہرن نے وہاں سے دوڑ لگا دی اور یہ جا وہ جا۔اس کے بعد جب چیتے نے وہ مٹی سے بھرا کیچڑ چکھا تو آخ تھو کرتا رہ گیا۔ اسے چالاک ہرن کی یہ حرکت بہت بری لگی۔ اس نے اسے سزا دینے کافیصلہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر چہ چالاک ہرن بہت تیز دوڑتا ہے مگر اس کی رفتار اس سے زیادہ ہے ۔ یہ سوچ کر اس نے پھر چالاک ہرن کا پیچھا کیا۔ بالآخر اس نے چالاک ہرن کو جالیا۔چالاک ہرن تم نے ایک بار پھر مجھے دھوکہ دیا ہے ۔اب تمہیں میرا کھانا بننا پڑے گا۔“اب چالاک ہرن نے دوبارہ ادھر ادھر دیکھا۔ اسے ایک شہد کاچھتہ نظر آیا۔ اس نے کہا۔ مگر چیتے میں آج تمہارا کھانا نہیں بن سکتا کیوں بادشاہ نے مجھے اس ڈھول کی حفاظت کرنے کا کہا ہے ۔“”بادشاہ کا ڈھول ؟ مگر کہاں ہے ؟ چیتے نے حیرانی سے پوچھا۔”یہ رہا۔ چالاک ہرن نے شہد کے چھتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔اس ڈھول کی آواز پوری دنیا میں سب سے اچھی ہے ۔ بادشاہ ہرگز نہیں چاہتا کہ کوئی اس کی آواز سنے ۔پھر چیتے نے کہا۔ لیکن میں اس بادشاہ کے ڈھول کو بجا کر دیکھنا چاہتا ہوں۔نہیں نہیں چیتے ۔ بادشاہ بہت غصہ ہوں گے ۔صرف ایک چھوٹی سی ضرب۔ صرف ایک مرتبہ جس کا بادشاہ کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔اچھا تو پھر مجھے یہاں سے بھاگنے دو تاکہ مجھے پر الزام نہ آسکے۔“ٹھیک ہے چالاک ہرن تم بھاگ سکتے ہو۔اب تو چالاک ہرن فوراً رفو چکر ہوگیا۔واہ بھئی ۔ بادشاہ کا ڈھول کتنا اچھا ہے ۔ چیتے نے اتنا کہا اور درخت پر چڑھ کر اسے ہاتھ سے ایک ضرب لگائی۔بز زززز۔ اب کیا تھا۔ ساری شہد کی مکھیاں باہر نکل آئیں اور چیتے کو کاٹنا شروع کردیا۔ اس نے درد سے چیخنا شروع کردیا۔ کسی طرح جلدی سے درخت سے نیچے اترا اور ایک تالاب میں کود کر جان بچائی۔اب تو چیتا غصہ میں بھرا ہوا تھا۔ وہ ہر قیمت پر چالاک ہرن کو سبق سکھانا چاہتا تھا۔ اس نے پھردوڑ لگائی اورتیزیسے چالاک ہرن کا پیچھا کرتے ہوئے اس جالیا۔چالاک ہرن تم نے دو مرتبہ مجھے دھوکہ دیا۔ لیکن اب تمہیں میرا کھانا بننا پڑے گا۔ چیتے نے غصے میں کہا۔چالاک ہرن نے پھر ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ اسے ایک بڑا سا اژدھا نظر آیا۔وہ اپنا جسم لپیٹ کر مزے سے سورہا تھا۔”نہیں نہیں چیتے ۔ میں تمہارا کھانا نہیں بن سکتا کیوں کہ بادشاہ نے مجھے اپنے بیلٹ کی حفاظت کرنے کو کہا ہے ۔یلٹ! کہاں ہے بادشاہ کی بیلٹ؟ چیتے نے حیران ہو کر سر گھمایا۔” وہ رہی۔ چالاک ہرن نے اژدھے کی جانب اشارہ کیا۔ اس کا رنگ برنگا جسم دیکھ کر چیتا بہت متاثر ہوا۔”دیکھو چالاک ہرن کیا میں یہ بیلٹ پہن کر دیکھ سکتا ہوں؟“”نہیں نہیں۔اگربادشاہ سلامت کو پتہ چل گیا کہ ان کی بیلٹ کسی اور نے پہنی ہے تو وہ بہت غصہ ہوں گے ۔“”صرف ایک بار۔“”اچھا تو پھر مجھے بھاگنے دو تاکہ مجھ پر الزام نہ آسکے ۔“چیتے نے پھر ہر مرتبہ کی طرح اسے بھاگنے کی اجازت دے دی۔ارے واہ بادشاہ کی بیلٹ۔چیتے نے یہ کہا اور لپک کر اژدھے کو اٹھالیا۔ ابھی اس نے کھڑے ہو کر بڑے فخر سے وہ بیلٹ اپنی کمر میں لپیٹی۔ اژدھا پہلے تو سمجھ نہ سکا کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔ پھر اچانک اس نے بڑا سا منہ کھولا۔ چیتا اتنے بڑے اژدھے کودیکھ کر ڈر گیا اور وہاں سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد کبھی چیتے نے ہرن کی طرف بھوکی نظروں سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ " درزی اور سپاہی - تحریر نمبر 995,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/darzi-aur-sipahi-995.html,"ایک درزی اپنی چالاکی اور ہوشیاری میں مشہور تھا۔ کچھ لوگ ایک جگہ پر بیٹھے اس درزی کی چالاکی کے قصے ایک دوسرے کو بڑھا چڑھا کر سنا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہ درزی تو بڑے کمال کا آدمی ہے ۔ ہم نے اس قدر عیار اور چالاک درزی نہیں دیکھا ، کوئی کتنا ہی ہوشیار کیوں نہ ہو اور درزی کے سامنے بیٹھ کر اپنا کپڑا کٹوائے پھر بھی اپنی چالاکی سے کام لے کر تھوڑا بہت کپڑا چوری کر ہی لیتا ہے اور کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا۔ہر کوئی ا اپنے تجربے کے مطابق درزی کی چالاکی کے قصے سنا رہا تھا۔ انہی لوگوں میں ایک سپاہی بھی بیٹھا ہوا تھا جو اپنے آپ کو عقلمند سمجھتا تھا۔ وہ درزی کی چالاکی کی باتوں کو سن کر چڑتے ہوئے بولا۔ لو بھئی میں اس بات پر شرط لگاتا ہوں کہ کل میں کوٹ کا کپڑا اس کے پاس لے جاؤ ں گا اور اپنے سامنے کٹواؤں گا اور اس سے کہوں گا کہ میرا کوٹ سی دے ، میں دیکھوں گا کہ وہ کس طرح میرے کپڑے سے کپڑا چراتا ہے ، اگر اس نے مجھے اس معاملے میں دھوکا دیا اور اپنا ہنر دکھا دیا اور واقعی میرے کپڑے میں سے تھوڑا سا کپڑا چوری کر لیا تو میں تم لوگوں کو منہ مانگا انعام دوں گا۔(جاری ہے)چنانچہ سپاہی خود ہی اس طرح کی شرط لگا کر اگلے دن کوٹ کا کپڑا لے کر درزی کی دکان پر پہنچا اور کہنے لگا۔ یہ میرا کوٹ کا کپڑا ہے ، اس کا کوٹ تیار کرنا ہے مگر بات یہ ہے کہ کپڑے کی کٹائی اسی وقت میرے سامنے کرو کیونکہ میں نے تمہاری چالاکی اور ہوشیاری کی بڑی کہانیاں سنی ہیں لیکن میں بھی کچھ کم نہیں ہوں۔ تمہارے دھوکے میں آنے والا نہیں ہوں، میں دیکھتا ہوں کہ تم کتنے ہوشیار اور چالاک ہو۔درزی نے سر اٹھا کر سپاہی کی طرف دیکھا اور دل میں ہنسا بھی، کہنے لگا۔ حضور! تشریف رکھیں، میں تو بڑا ایماندار آدمی ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں میرے بارے میں کسی نے غلط فہمی پیدا کر دی ہے ، میری تو یہی کام کرتے ہوئے ساری عمر گزر گئی ہے لیکن حرام ہے کہ جو آج تک کسی کا ایک گرہ کپڑا چوری کیا ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ معاملہ فہم سپاہی ہیں، ہر بات کی تہہ کو سمجھتے ہیں یقینی بات ہے کہ عقلمندی میں آپ سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے ، آپ کے سامنے بھلا کس کی مجال ہے کہ جو چالاکی و عیاری دکھانے کی جرات کرے ۔سپاہی درزی کی بات سن کر پھولے نہ سمایا اور دل میں بڑا خوش ہوا درزی مجھ سے مات کھا گیا ہے ۔سپاہی نے اپنا کپڑا درزی کی طرف بڑھا دیا۔ درزی نے قینچی سے کپڑے کو کاٹنا شروع کیا۔ اب سپاہی چاکس ہو کر بیٹھ گیا اور اس نے نظریں قینچی اور درزی کے ہاتھوں پر گاڑ دیں۔ درزی جہاں چالاکی و عیاری میں ماہر تھا۔ وہاں وہ لطیفہ گوئی اور مسخرہ پن میں بھی اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔بے شمار لطیفے اس کو زبانی یاد تھے ۔ اس نے جب سپاہی کو اس قدر چوکنا ہو کر بیٹھے دیکھا تو کپڑا کاٹتے کاٹتے اچانک ایسا زبردست لطیفہ سنایا کہ جسے سن کر سپاہی ہنستے ہنستے دہرا ہو گیا۔ اسی ہنسی کے عالم میں اس کا سر کافی آگے کی طرف جھک گیا۔ درزی اسی موقع کی تلاش میں تھا، اس نے جلدی سے تھوڑا سا کپڑا کاٹ کر چھپا لیا۔ اب سپاہی کی ہنسی رکی اور وہ دوبارہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، اسے لطیفہ سن کر مزا آیا اور کہنے لگا۔ہنستے ہنستے جب اس کی حالت ذراسی سنبھلی تو سر اٹھاتے ہوئے بولا۔یار ماسٹر! ایک لطیفہ اور سنا دو۔ درزی نے مسکراتے ہوئے کہا۔سپاہی جی لطیفہ تو ضرور ایک سنا دوں گا مگر پھر تمہارا کوٹ زیادہ ہی تنگ ہو جائے گا۔ " دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے - تحریر نمبر 994,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dost-wo-jo-museebat-main-kaam-aye-994.html,"روبینہ ناز :کسی جنگل میں ایک ہاتھی رہتا تھا ۔ اس کا دوست کوئی نہیں تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی جانور کو اپنا دوست بنائے جس کے ساتھ وقت گزار سکے ۔ یہ سوچ کرہاتھی کسی جانور کی تلاش میں نکلا ۔ اسے ایک درخت پر بندر نظر آیا۔ ہاتھی نے بندر سے پوچھا ” بندر بھیا ! کی اتم میرے دوست بنوگے ۔بندر بولا : میاں ہاتھی ! تم اتنے بڑے ہواور میں ایک چھوٹا سا جانور ہوں ۔میں درخت پر رہتا ہوں اور رم زمین پر ۔ تم میری طرح درخت پر نہیں چڑھ سکتے ۔ میری اور تمہاری دوستی کس طرح ہوسکتی ہے ۔ بندر کی بات سن کا ہاتھی اداس دل کے ساتھ وہاں سے چل دیا ۔ وہ تھوڑی دیر ہ پہنچا تھا کہ اسے ایک خرگوش نظرآیا ہاتھی نے خرگوش سے کہا ، بھیا میں چاہتا ہوں کہ تم میرے اچھے دوست بن جاؤ ۔(جاری ہے)خرگوش نے ہنس کر کہا” ہاتھی صاحب ! ذرا اپنا جسم دیکھو اور مجھے دیکھو میں ایک چھوٹے سے بل میں رہتا ہوں تم میرے گھر نہیں آسکتے میری اور تمہاری دوستی نہیں ہوسکتی ۔یہ کہہ کر خرگوش جلدی سے اپنے بل میں گھس گیا ۔اداس ہاتھی ایک درخت کے ساتھ کھڑا تھا کہ اسے جنگل کے سب جانور بھاگتے نظرآئے ۔ ہاتھی نے بھاگنے والے جانوروں سے پوچھا ․․․․․ آپ سب کہاں بھاگے جارہے ہیں ۔ جانوروں نے کہا جنگل کا بادشاہ شیرآگیا ہے ۔ تم بھی جلدی بھاگوورنہ وہ تمہیں بھی چیرپھاڑڈالے گا۔ہاتھی نے جب شیر کو دیکھا کہ وہ ہرن پر حملہ کررہا ہے تو اس نے شیر سے کہا ․․․․․ جنگل کے بادشاہ کیوں اس معصوم جانور پر حملہ کررہے ہو ۔شیر نے غصے سے ہاتھی کی جانب دیکھا اور بولا ․․․․․تم کون ہوتے ہو میرے کام میں مداخلت کرنے والے ۔ تمہاری اتنی جرات ، ٹھہرو میں ابھی تمہیں مزہ چکھاتا ہوں ۔شیر یہ کہتے ہی ہرن کو چھوڑ کر دھاڑتے ہوئے ہاتھی کی طرف لپکا ۔ ہاتھی نے شیر کو اپنی سونڈ مار کر نیچے گرایا اور اپنی بھاری ٹانگ اس پر رکھ دی ۔ ہاتھی کے وزن سے تو شیر کی جان ہی نکل گئی ۔شیر نے دل ہی دل میں سوچا ․․․․ ہاتھی مجھ سے زیادہ طاقتور ہے اس سے لڑنا جان گنوانے کے مترادف ہے ۔ وہ منمنانے کے انداز میں بولا : ہاتھی بھائی ! میں تو مذاق کررہا تھا۔ آپ تو مجھے مارہی ڈالیں گے کیا ۔ میں وعدہ کرتا ہوں اب کسی کو نہیں ستاؤں گا ۔ ہاتھی نے اپنی ٹانگ اس پر سے اٹھالی۔ وہ ڈر کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ سب جانوروں نے ہاتھی کا شکریہ ادا کیا اور کہا ․․․․․ آج سے ہم سب آپ کے دوست ہیں کیونکہ آپ مصیبت میں ہمارے کام آئے اور دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے ۔ " کچھوے کا غصہ - تحریر نمبر 993,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kachway-ka-ghussa-993.html,"سیدہ ملائکہ سرور :یہ بہت پرانے زمانے کا قصہ ہے ۔ کہتے ہیں کہ کسی گاؤں سے کچھ فاصلے پر ایک خوب صورت تالاب تھے جس کے کنارے تین دوست رہا کرتے تھے ۔ ان میں ایک راج ہنس تھا ، ایک پیلی کن (حواصل جس کی لمبی سی چونچ کے نیچے تھیلی سی ہوتی ہے ) اور ایک کچھوا ۔ یہ تینوں یہاں کے اصل باشندے نہیں تھے ۔ ایک زبردست سیلاب کے نتیجے میں بہتے بہتے اس تالاب تک پہنچ گئے تھے ، پھر اس کی خوب صورتی دیکھ کر کریمیں بس گئے تھے ۔تینوں دوستوں کی زندگی بڑے آرام سے گزررہی تھی ۔ کسی قسم کی کوئی الجھن یا پریشانی نہیں تھی ۔ تالاب میں مچھلیاں اور آبی کیڑے مکوڑے بھرے پڑے تھے ، اس لیے خوراک کا کوئی مسلہ نہیں تھا۔ تینوں دوست دن بھر کھیلتے کودتے ، کھاتے پیتے اور شام کو تھک کر ایک دوسرے کے قریب سنہری ریت پر سو جاتے ہیں۔(جاری ہے)البتہ گرمی کے موسم میں ان کو کچھ پریشانی ہوجاتی ۔تالاب کا پانی سوکھ کر ایک چوتھائی رہ جاتا اور اسی لحاظ سے مچھلیاں اور آبی کیڑے مکوڑے بھی تھوڑے رہ جاتے ۔ اکثر انھیں خالی پیٹ ہی سونا پڑتا ۔ آخر مصیبت کے یہ دن ختم ہوجاتے ہیں ۔ برسات کا موسم آجاتا اور ہر طرف جل تھل ہوجاتا ۔ کھانے پینے کی بہتاب ہوجاتی اور ان کے عیش کے دن شروع ہوجاتے ۔ایک سال کچھ ایسا ہوا کہ برسات کا موسم آیا تو ضرور، لیکن بن برسے گزرگیا ۔دو ایک مرتبہ ہلکی پھلکی پھوار سی پڑی اور بس ! نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ تالاب سوکھ کر دلدلی کیچڑ میں تبدیل ہوگیا ۔ مچھلیوں اور آبی کیڑے مکوڑوں کو شکاری پرندے اُچک لے گئے اور یوں تینوں دوست کھانے کے عذاب میں مبتلا ہوگئے ۔ اب اس تالاب سے ہجرت کرنا لازمی ہوگیا تھا ، کیوں کہ موت دبے پاؤں ان کی طرف بڑھتی چلی آرہی تھی ۔ اب جائیں تو کہاں ! تب راج ہنس نے کہا : میں نے یہاں سے دس بارہ میل دور ایک بہت بڑا تالاب دیکھا ہے ،جوآج بھی پانی سے لبا لب بھرا ہوا ہے ۔چلو، وہیں چلتے ہیں اور ایک نئی زندگی شروع کرتے ہیں ۔اچھی تجویز ہے ۔ پیلی کن بولا : لیکن اس میں ایک مشکل ہے ۔ ہم دونوں کے لیے وہاں پہنچنا کوئی بڑی بات نہیں ، لیکن ہمارا دوست کچھوا ․․․․․کیا ہم اسے یہاں فاقہ کشتی سے مرجانے کے لیے چھوڑدیں ؟ یہ تو انتہائی خود غرضی والی بات ہوگی ۔ہاں ! یہ توہے ۔ راج ہنس نے آہستہ سے شکست خوردہ لہجے میں کہا ؛ مسلسل فاقے کی وجہ سے ذہن نے بھی کام چھوڑ دیا ہے ۔کوئی ڈھنگ کی تجویز سمجھ میں نہیں آرہی ۔ دونوں دوست اپنی اپنی جگہ سوچوں میں گم ہوگئے ۔تھوڑی دیر بعد راج ہنس اپنے خیالات سے چونکا اور بولا : سنو دوست ! ایک تجویز سمجھ میں آئی ہے ۔ ہم کسی درخت کی ایک لمبی سی خشک شاخ لیتے ہیں ۔ اپنی اپنی چونچوں میں دونوں طرف سے پکڑتے ہیں اور ہمارا دوست کچھوا اس شاخ کو درمیان سے پکڑ کر لٹک جائے ۔بس دس پندرہ منٹ کی توبات ہے ۔ہم تینوں اطمینان سے اس بڑے تالاب تک پہنچ جائیں گے ۔بے وقوفی کی بات مت کرو۔ پیلی کن خوف زدہ ہوگیا : اگر اس دوران کچھوے نے منھ کھول دیا تو جانتے ہوکیا ہوگا ؟میں ہرگز منھ نہیں کھولوں گا ۔ کچھوا جلدی سے بول پڑا : کیا میں بے وقوف ہوں کہ منھ کھول کر اپنی موت کو آوازدوں گا ۔ چلو ، سفر کاآغاز کرتے ہیں ۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو ۔ایک بار پھر سوچ لومیرے دوست ! تم ایک انتہائی خطرناک کام کرنے جارہے ہو ۔اگر کسی وجہ سے تمھارا منھ کھل گیا تو پرھ کوئی معجزہ ہی تمھیں بچا سکتا ہے ۔ پیلی کن ابھی تک اس تجویز سے متفق نہیں تھا ۔ پتا نہیں کیوں اس کا دل دھڑک رہا تھا ۔کچھ نہیں ہوگا۔ اطمینان رکھو ، میں کسی قسمت پر منھ نہیں کھولوں گا ۔ کچھوے کے لہجے میں خود اعتمادی تھی ۔آخر سفر شروع ہوا تو جلد ہی وہ علاقہ شروع ہوگیا ، جس کے قریب یہ تالاب واقع تھا ۔بہت سارے بچے میدان میں کھیل رہے تھے ۔ تینوں کو اڑتے دیکھ کر شور مچانے لگے : واہ وا، کیا منظر ہے ، دوپرندے ایک کچھوے کو اُڑائے لیے چلے جارہے ہیں ، خوب ․․․․․ خوب ، یہ ہے سچی دوستی ۔جلد ہی منظر غائب ہوگیا ۔ پانچ چھے منٹ کی اڑان کے بعد ایک میدان آگیا ۔ میدان میں فٹ بال کا میچ ہورہا تھا ۔ کھیل دیکھنے کے لیے سارا گاؤں جمع تھا ۔ اچانک کسی آدمی کو نظر ان پر پڑی تو وہ چیخنے لگا : اوپر دیکھو ․․․․․․ اوپردیکھو واہ کیا خوبصورت منظر ہے ۔خوب ․․․․․ خوب ․․․․․ دو دوست اپنے تیسرے دوست کو ساتھ لے کر اُرتے چلے جارہے ہیں ۔ دوستی ہوتو ایسی ․․․․․ اور دوسرا آدمی بولا : کچھوے بھائی ! لکڑی کو خوب مضبوطی سے پکڑے رہنا ۔ اللہ تینون کی حفاظت کرے ۔جلدہی یہ منظر بھی غائب ہوگیا ۔ میدان سے ذرا دور راج ہنس اورپیلی کن تھوڑی دیر سستانے کے لیے زمین پر اُتر آئے ۔ اتنا بھاری بوجھ لے کر اڑنے کاان دونوں کے لیے یہ پہلا موقع تھا ، اس لیے دونون ہی بری طرح تھک گئے تھے ۔تھوڑی دیر سستانے کے بعد سفر پھر شروع ہوگیا ۔ اب پہاڑی علاقہ شروع ہوگیا تھا ۔ اب پہاڑی علاقہ شروع ہوگیا تھا ۔ خوفناک نوکیلی چٹانیں چاروں طرف بکھری ہوئی تھیں ۔بس چھے سات منٹ کا سفر اور رہ گیا ہے ۔ راج ہنس نے کہا : پھر عیش ہی عیش ہے ۔ لکڑی کو کسی قیمت پر نہ چھوڑنا ۔ خواہ کچھ بھی ہوجائے ۔تھوڑی دیر بعد وہ گاؤں آگیا ، جس سے تھوڑے فاصلے پر وہ بڑا ساتالاب تھا ، جہاں انھیں پہنچنا تھا ۔گاؤں کے باہر ایک خالی جگہ پر ایک میلہ سالگا ہوا تھا ۔ بے شمار لوگ خرید وفروخت میں لگے ہوئے تھے ۔ اچانک ایک بچے کی نظر ان تینون پر پڑی تو وہ تالیاں بجانے لگا : وہ ․․․․․ وا․․․․․ کیا مزے کا منظر ہے دیکھو دیکھو ، کس طرح دو دوست اپنے تیسرے دوست کی مدد کررہے ہیں ۔ زندہ باد دوستو ! زندہ باد ․․․․ “ارے او، بے وقوف کچھوے ! اچانک ایک آدمی چیخا : کیوں اپنی شامت کو آواز دے رہا ہے ۔جانتا ہے اگر گرگیا تو تیرا قیمہ بن جائے گا ۔ اُلو گدھا کہیں کا ۔کچھوا اب تک بڑی ثابت قدمی کے ساتھ لکڑی کو منھ سے پکڑے ہوئے تھا ، لیکن اس آدمی کے الفاظ سن کر کچھوے کو سخت غصہ آیا۔ غصے میں اس نے ساری احتیاط بالاے طاق رکھ دی اور طیش کے عالم میں چیخا تم خود ہوگے اُلو بے وقوف گدھے ، احمق ۔ بس یہی چند الفاظ تھے جو کچھوے کے منھ سے نکل سکے اور پھر وہ نیچے کی طرف چلا اور نیچے اور نیچے اور پھر پیارے بچو ! کچھوے کے ساتھ کہانی بھی ختم ہوگئی ۔ " کسان اور پری - تحریر نمبر 992,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kisan-aur-pari-992.html,"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا، وہ بہت مہربان تھا۔ ایک دن وہ اپنے کھیتوں میں کام کرنے جا رہا تھا۔ کھیتوں کے راستے میں ایک کنواں پڑتا تھا، وہ بہت پرانا کنواں تھا۔ ایک دن اس نے کنویں سے کسی کی آواز سنی، کوئی مدد کے لئے پکار رہا تھا۔ یہ آواز کسی عورت کی تھی یہ کنواں ایک جادوگر کے قبضے میں تھا۔ کسان نے سوچا کہ شاید جادوگر عورت کا روپ بدل کر مجھے پھنسانے کی کو شش کر رہا ہے ۔جب یہ آواز مسلسل تین دن تک آتی رہی تو کسان نے ایک دن کنویں میں جھانک کر دیکھا تو یہ ایک خوبصورت پری تھی جو زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ اس پری نے کسان سے کہا کہ تم میری مدد کرو اور جب تک میں ان زنجیروں میں جکڑی رہوں گی تب تک میرا کوئی جادو نہیں چل سکتا۔ کسان اسی وقت گھر سے رسی لے آیا اور پری کو کنویں سے نکا لا جب پری کنویں سے نکلی تو اس نے اپنی جادو کی چھڑی سے کنویں کو آگ لگا دی اور کنویں کے ساتھ جادوگر بھی مر گیا۔(جاری ہے)پری نے کسان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جب کبھی میری مدد کی ضرورت پڑے تو مجھے بلا لینا۔ پری نے کسان کو ایک انگوٹھی دی اور کہا کہ جب تم مجھے بلانا چاہو تو یہ انگوٹھی اپنے ہاتھ میں پہن لینا، میں فوراً وہاں آ جاؤں گی،اس کے بعد پری وہاں سے چلی گئی اور کسان اپنے گھر چلا گیا۔ ایک دن کسان کے کھیتوں میں ایک خوفناک بھیڑیا آ گیا، وہ کسان کو کھانے کے لئے اس کے پاس آنے لگا، کسان بہت گھبرایا ہوا تھا، اچانک اسے پری کی بات یاد آ گئی اور اس نے وہی انگوٹھی نکالی اور اسے اپنے ہاتھ میں پہن لیا، پری وہاں آگئی اور اپنی جادو کی چھڑی سے اس بھیڑئیے کو مار دیا، اس طرح کسان کی جان بچ گئی۔کسان نے پری کا شکر یہ ادا کیاپری وہاں سے چلی گئی۔پیارے بچو ہمیں بھی ایسے ہی ہر کسی کی بہادری اور دلیری کے ساتھ مدد کرنی چاہئیے۔ " انوکھا انعام - تحریر نمبر 991,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/anokha-enaam-991.html,"کسی گاؤں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔کسان سارا دن اپنے کھیت میں محنت کرتا۔ کسان کے پڑوس میں ایک سنار کا گھر تھا۔ یہ سنار امیر ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد لالچی بھی تھا۔ ایک مرتبہ کسان نے اپنے کھیت میں کدوؤں کی فصل اگائی ۔ فصل بہت اچھی ہوئی اور کھیت بڑے بڑے کدوؤں سے بھر گیا۔ ایک کددو تو اتنا بڑا ہو گیا کہ اس جیسا کدو پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔کسان بہت خوش ہوا اور اس نے سوچا کہ کیوں نہ یہ غیر معمولی کدو بادشاہ سلامت کو پیش کر دوں۔ وہ اسے ایک گاڑی میں رکھ کر بادشاہ کے دربار میں لے گیا اور بادشاہ سے عرض کیا۔حضور! میرے خیال میں یہ دنیا کا سب سے بڑا کدو ہے ۔ اسے آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔بادشاہ اس نایاب کدو کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور وزیر کو حکم دیا کہ اس کدو کے برابر جواہرات تول کرکسان کو دے دیئے جائیں ۔(جاری ہے)کسان نے ہیرے جواہرات بیچ کر نیا مکان اور سازو سامان خرید لیا۔سنار کو جب کسان کے دولتمند ہونے کا راز معلوم ہوا تو وہ حسد کی آگ میں جلنے لگا۔ آخر اسے ایک ترکیب سوجھی ، اس نے سوچا کہ اگر میں اپنے بنائے ہوئے خاص زیور بادشاہ کی خدمت میں پیش کروں گا تو بادشاہ مجھے بہت دولت دے گا۔اس نے اپنے بنائے ہوئے خاص زیور پوٹلی میں باندھے ۔ پوٹلی لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا۔بادشاہ سلامت ! میں یہ خاص زیور آپ کے حضور میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔بادشاہ نے اس کا تحفہ قبول کرتے ہوئے سوچا کہ اس کے بدلے میں اسے کیا انعام دیا جائے ؟ اچانک اس کی نظر غیر معمولی کدو پر پڑی ۔ بادشاہ نے اسے کدو دیتے ہوئے کہا۔ میرے دربار کی سب سے نایاب چیز یہ کدو ہے جو ایک کسان لایا تھا میں تمہیں یہ ہی کدو عطا کرتا ہوں۔سنار یہ سن کر بہت سٹپٹایا ، اس نے لرزتی ہوئی آواز میں بادشاہ کا شکر یہ ادا کیا اور گھر کی طرف چل دیا۔ اس کے ذہن میں یہ جملہ گونج رہا تھا۔ لالچ بری بلا ہے ۔ " موتی کی عقل مندی - تحریر نمبر 990,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/moti-ki-aqalmandi-990.html,"احمد عدنان طارق :موتی بہت شور مچانے والا چھوٹا سا کتے کا پلّا تھا ۔ وہ ویسے تو زیادہ وقت خاموش رہتا لیکن بعض اوقات اُسے بہت بھونکنے کی عادت تھی ۔ وہ بلی کو دیکھ کر بھونکتا تو وہ بھی غصے سے ایک آدھ بار اُس پر غزاتی مگر پھر ڈر کر بھاگ جاتی ۔ وہ پرندوں پر بھونکتا تو انہیں فوراََ ہوا میں اڑنا پڑتا ۔ ڈاکیے پر تو اُس کی خاص نوازش ہوتی اور وہ جلدی جلدی خط مکان کے باغیچے میں پھینک کر رفو چکر ہوجاتا ۔معاذ کئی دفعہ اُسے چپ کرنے کیلئے کہتا لیکن وہ اپنی عادت سے مجبور سارا دن بھونکتا رہتا ۔ایک دن توموتی بہت ہی شور مچا رہا تھا اور ہر کوئی اس کے بھونکنے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کر کررہا تھا ۔ خاموش رہو موتی ۔ دیکھتے نہیں میں کتاب پڑھ رہا ہوں اور تمہارے بھونکنے کی وجہ سے میں اپنی توجہ کتاب پر نہیں رکھ سکتا ۔(جاری ہے)معاذنے سختی سے موتی کو کہا ۔موتی نے پوری کوشش شروع کردی کہ اس ڈانٹ کے بعد وہ نہ بھونکے ۔ اُس نے تتلوں سے نگاہ ہٹالی ۔ باغیچے میں اڑنے والی مکھیوں کو دیکھنا بند کردیا ۔ باغیچے میں پڑے خوبصورت زردرنگ کی گیندے کے متعلق سوچنا بند کردیا ۔ اُس نے سب سے زیادہ کوشش کی کہ تب بھی نہ بھونکے اگر کوئی پرندہ باغیچے کی گھاس پر آکر بیٹھ بھی جائے لیکن وہ جدھر بھی دیکھتا ہر طرف اُسے وہ چیزیں بکھری دکھائی دیتیں جن پر وہ بھونکنا چاہتا تھا ۔آخر اس سے رہانہ گیا تو اُس نے مجبور ہو کر گھاس کو گھورنا شروع کردیا ۔لیکن موتی کو احساس ہوا کہ گھاس میں کوئی حرکت ہورہی ہے ۔ لہٰذا اُس نے گھاس کو گھورنا جاری رکھا ۔ مگر اب اُسے یقین ہوگیا تھا کہ اس کے اندر کوئی چیزرینگ رہی ہے ۔ وہ بھونکنا چاہتا تھا لیکن اُسے معاذ کی ڈانٹ یاد آگئی ۔ لیکن پھر بھی وہ گھاس کو مسلسل گھورتا رہا ۔اب وہ کسی چیز کی سسکی جیسی آواز صاف سن سکتا تھا ۔اُس نے ساری توجہ گھاس پر مرکوز کردی لیکن پھر اچاانک اُس نے بے اختیار بھونکنا شروع کردیا ۔شش شش ! معاذنے اُسے منع کرتے ہوئے کتاب کا صفحہ تبدیل کیا لیکن موتی باز نہ آیا۔ اُس نے ایک لمبی اور رینگتی ہوئی چیز باغیچے میں دیکھ لی تھی جس کی زبان بار بار منہ سے باہر نکل کرسسکی جیسی آواز بار بار نکال رہی تھی ۔موتی کو قطعی معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا چیز ہے ؟ لیکن اُسے یہ معلوم تھا کہ یہ چیز نقصان پہنچا سکتی ہے اور وہ چیز سیدھی معاذ کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ووف ․․․․․․ ووف․․․․․ ووف جوتی پاگلوں کی طرح بھونکتا رہا لیکن اُس کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہورہا تھا ۔البتہ گھر کے اندرسے معاذ کے ابو عدنان صاحب نے بھی اسے ڈانٹا لیکن موتی بھونکنے سے باز نہ آیا ۔ وہ مزید اونچی آواز اور جوش سے بھونکنے لگا ۔ آخر معاذ اٹھ کر بیٹھ گیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا اُسے قلعی پسند نہیں تھا کہ موتی اتنازیادہ بھونکے ۔پھر اچانک معاذ چلایا “ ․․․․․ سانپ ․․․․․․ سانپ اُس نے دیکھا کہ ایک لمبا سانپ رینگتا ہو اُس کی طرف آرہا ہے ۔ موتی بھانکتا رہااور پھر عدنان صاحب بھاگ کر باغیچے میں پہنچے اور انہوں نے معاذ کو گود میں اٹھا لیا۔موتی کے مسلسل بھونکنے سے سب لوگ اکٹھے ہوئے تھے ۔ انہوں نے سانپ کو پکڑ لیا اور باغیچے سے باہر لے گئے ۔ اُن کے جانے کے بعد معاذ نے موتی کی پیٹھ تھپتھپائی اور اُسے کھانے کیلئے اُس کے من پسند بسکٹ بھی دیئے ۔معاذ ہنس رہاتھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اُس کی جان موتی کے بھونکنے سے بچی ہے ۔ اُ س رات انعام میں موتی کو معاذ کے کمرے میں سونے کی اجازت ملی ۔ لیکن اُس دن کے بعد موتی نے بھی فیصلہ کر لیا کہ اب وہ صرف اُس وقت بھونکے گا جب اُس کو ایسا کرنے کی خاص ضرورت ہوگی ۔ " دوستی اور ایثار - تحریر نمبر 988,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dosti-aur-aisar-988.html,"اُم عادل :کسی بادشاہ کے دربار میں بہت سے خدمت گاروں میں دو گہرے دوست بھی تھے ۔ باقر دریا سے پانی بھر کر لاتا تھااور عاقل سوداسلف لانے اور کھانے پکانے پر مامور تھا۔ عاقل نہایت لاپروا اور فضول خرچ تھا ، مگر اس کے ساتھ نہایت ذہین بھی تھا۔ سلطنت کے بعض ایسے کام جن کو حل کرنے میں بادشاہ اور اس کے وزیر کو وقت پیش آتی ، اور وہ مسئلہ جب عاقل کے علم میں آتا تو وہ اسے نہایت آسانی سے حل کردیتا ۔اپنی اسی خوبی کی وجہ سے عاقل بادشاہ کی نظر میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ بادشاہ اکثر اسے بہت سے انعامات سے نوازتا رہتا ۔باقر عام سی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص ، مگر وہ کسی بھی قسم کی فضول خرچی واسراف کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ عاقل باورچی کانے میں کام کے دوران کھانے پینے کا بہت سا سامان اپنی لاپروائی سے ضائع کردیتا ، بلکہ پانی بھی بے تحاشا ضائع کرتا ۔(جاری ہے)باقرء عاقل کو ہمیشہ ٹوکٹا رہتا ۔ جواب میں عاقل کہتا : تم مجھے پانی کے استعمال پر اس لیے ٹوکتے ہو کہ تمھیں زیادہ پانی نہ لانہ پڑے اور تم مشقت سے بچ جاؤ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ تم نہایت کنجوس بھی ہو ۔باقر کہتا : نہیں ، تمہارا خیال غلط ہے ۔ ایسا میں صرف اس لیے کرتا ہوں کہ اللہ میاں کو کسی بھی طرح کی فضول خرچی پسند نہیں ۔ خواہ وہ اپنی کااستعمال ہی کیوں نہ ہو ۔عال جواباََ کہتا : کچھ بھی کہو ، مگر یہ تو طوطے ہے کہ میں ایک سخی مزاج جب کہ تم کنجوس انسان ہو ۔باقر نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا : شاید زندگی میں کبھی کوئی ایسا موڑ آجائے ، جہاں پر ثابت ہوجائے کہ سخی کون ہے ؟ اگر ہماری زندگیوں میں کوئی ایسا موقع آیا تو میں ثابت کروں گا کہ میں کنجوس یالالچی ہرگز نہیں ، بلکہ تم سے زیادہ سخی ہوں ۔عاقل چوں کہ اپنی ذہانت کی وجہ سے بادشاہ کی نظروں میں ایک اہم مقام رکھتا تھا ، جو وزیراعظم کو سخت ناگوار گزرتا ۔ وہ ہمیشہ معمولی معمولی بات پر عاقل کے خلاف بادشاہ کے کان بھرتا رہتا ۔ رفتہ رفتہ بادشاہ عاقل سے خفارہنے لگا ۔ جب عاقل کو بادشاہ کے بدلتے رویے کا اندازہ ہوا تو اس نے سوچا ، اس سے پہلے کہ کسی روز بادشاہ بھرے دربار میں ذلیل ورسوا کرکے دربار سے نکل جانے کا حکم دے ، مجھے خود ہی کہیں چلے جانا چاہیے ۔عاقل کے چپکے سے چلے جانے پر وزیر نے بادشاہ کو یہ کہہ کر بھڑ کادیا کہ عاقل شاہی خزانے سے زور جواہرات چوری کرکے کہیں چھپ گیا ہے ۔بادشاہ نے وزیر کی بات پر یقین کرتے ہوئے عاقل کی گرفتاری کا اعلان کیا اور باقر کو بطور خاص حکم دے کر اس کی تلاش میں روانہ کردیا، کیوں کہ وہ اس کے زیادہ قریب تھا ۔اُدھر عاقل بھی اپنی گرفتاری کے اعلان سے آگاہ ہوچکا تھا۔اس نے ایک حمام میں جا کر اپنا حلیہ اس حد تک تبدیل کر لیا کہ بادشاہ کا کوئی بھی آدمی اسے عاقل کی حیثیت سے شناخت نہیں کرسکتا تھا ، پھر وہ اطمینان سے اونٹ پرسوار کرایک دور دراز بستی کی طرف چل پڑا ۔اچانک راستے میں ایک نقاب پوش شخص نے تیزی سے آگے بڑھ کر عاقل اونٹ کی نکیل پکڑی اور اسے زمین پر بٹھا دیا۔ ساتھ ہی عاقل کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا ۔اس نے نقاب پوش سے پوچھا : تم کون ہواور کیا چاہتے ہو ؟عاقل سمجھا کہ کوئی ڈاکو اس سے اس کا مال لوٹنا چاہتا ہے ۔ نقاب پوش نے کوئی جواب دینے کے بجائے اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔ عاقل نے فوراََ باقر کو پہنچان لیا ۔باقر بولا : میں تمھارا پرانادوست باقر ہوں ۔ تم کیسا ہی بھیس بدل لومیں تمھیں پہنچاننے میں غلطی نہیں کر سکتا ، کیوں کہ جتنا تم خود کو جانتے ہو میں دعوے سے کہ سکتا ہوں اتنا ہی میں تمھیں جانتا ہوں۔چلو میں اقرار کرتا ہوں کہ میں عاقل ہوں ، مگر تم میرے تعاقب میں کیوں ہو؟عاقل نے اعتراف کرتے ہوئے پوچھا ۔تمھیں نہیں معلوم ، بادشاہ کو تمھاری تلاش ہے ۔کیوں میرا جرم کیا ہے ؟ یہی ناکہ بادزاہ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے میں چپ چاپ دربار چھوڑدیا ۔ عاقل نے آزردگی سے کہا ۔نہیں میرے دوست ! تمھارے اچانک بغیر بتائے دربار چھوڑدینے کی وجہ سے وزیر نے تم پر شاہی خزانے سے زور جواہر چوری کرکے فرار ہونے کا الزام لگایا ہے ۔میرے علاوہ بھی بادشاہ کے کئی کارندے تمھیں تلاش کررہے ہیں ۔ مجھے تو خاص طور پر بادشاہ سلامت نے حکم دیا ہے ، جب کہ میں تمھاری تلاش میں آنا نہیں چاہتا تھا ، کیوں کہ میں تمھیں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم سدا کے فضول خرچ ہومگر چور ہرگز نہیں ہو۔ وزیر تم پر چوری کا الزام لگا کر تمھیں بادشاہ کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتار کر ہمیشہ کے لیے تم سے نجات چاہتا ہے ۔باقر نے اس کے تعاقب میں آنے کی اپنی مجبوری بیان کی ۔عاقل نے جب یہ دیکھا کہ بادشاہ کے حکم کی وجہ سے باقر کسی صورت میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا تو اس نے باقر کو ایک قیمتی ہار دیتے ہوئے کہا : دیکھو ، یہ بادشاہ کی طرف سے ملنے والے انعام سے کہیں زیادہ قیمتی ہے ۔ یہ لے لواور مفت میں میرا خون اپنے سر نہ لو ۔باقر نے ہار واپس کرتے ہوئے کہا : عاقل تم میرے ایک سوال کا جواب دو۔میں نے ہمیشہ تمھیں فضول خرچیوں سے روکا،جب کہ تم نے ہمیشہ مجھے کنجوس ، تنگ دل اور لالچی سمجھا ۔ یہ بتاؤ تم مجھے اس ہار کی صورت کیا اپنی تمام جمع پونجی بخش رہے ہو ؟نہیں ، ایک ہار اور بھی میرے پاس ہے ۔ عاقل یہ بتاتے ہوئے سوچ رہاتھا کہ اب باقر دوسرے ہار کا بھی مطالبہ کرے گا۔باقر نے کہا : تم جانتے ہو کہ بادشاہ کی طرف سے مجھے ہرماہ بیس درہم اُجرت ملتی ہے اور اس ہار کی قیمت لاکھوں میں ہے ۔اب تم اپنے مقابلے میں میری سخاوت دیکھو ۔ میں یہ ہار اور تمھاری جان تمھیں بخش کر واپس جارہاہوں ۔ میری دعا ہے ، جہاں رہو ، خوش رہو۔ اب تم خود فیصلہ کر لو کہ زیادہ سخی کون ہے ؟ اور کیا میں کنجوس ، بخیل اور لالچی ہوں ۔اتنا کہہ کر باقر نے گھوڑے کا رخ موڑا اور جدھر سے آیا تھا ، اسی طرف چلا گیا ۔ " مچھلی کا پیغام - تحریر نمبر 987,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/machli-ka-paigham-987.html,"ردا انور شہزاد :کسی بستی میں ایک ایمان دار مچھیرا علی رضا رہتا تھا ۔ اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا۔ وہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہاتھا۔ دونوں میاں بیوی کی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنائیں ۔مچھیر ایک دن اپنی بیوی سے کہنے لگا : آج کل نہ جانے کیوں کم مچھلیاں جال میں پھنستی ہیں اور بعض مچھیروں کے پاس توایک بھی نہیں آپاتی ، جس کی وجہ سے ہم لوگ کافی پریشان ہیں ۔بیوی بہت غور سے اس کی باتیں سن رہی تھی ، کہنے لگی : کوئی بات نہیں آپ پریشان نہ ہوں اس میں بھی اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوگی ۔ ویسے بھی جس کے نصیب میں جتنا رزق لکھا ہوتا ہے ، وہ اسے مل کر ہی رہتا ہے ۔ مچھیرا سوچنے لگا کہ میری بیوی کتنی صابر وشاکر ہے ۔(جاری ہے)دوسرے دن علی رضا گھر لوٹا تو بیوی سے کہنے لگا : ہم سب دوستوں نے دریا کے دوسرے کنارے جانے کا فیصلہ کیا ہے ۔سنا ہے وہاں پر کافی تعداد میں مچھلیاں ہوتی ہیں ۔ سب مچھیرے کل صبح پانچ بجے شکار کے لیے نکلیں گے ۔ تم دعا کرنا کہ ہم کامیاب لوٹیں ۔سب مچھیرے صبح ہی صبح روانہ ہوگئے ۔ آہستہ آہستہ روشنی پھیلنے لگی اور دن نکل آیا ۔ دن بڑا پر لطف تھا اور بادل کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا ۔ فضا بالکل صاف ستھری اور انتہائی خوش گوار تھی ۔ دریا بالکل پرسکون تھا۔کئی مچھیرے جھوم جھوم کر گانے گارہے تھے ۔ کشتی بڑے سکون سے بہت دور تک جاپہنچی تھی ۔ کشتی میں سوار اکثر لوگوں کو ہلکی ہلکی نیند آنے لگی ، لیکن علی رضا دریا کے دونوں جانب حسین وجمیل ساحل کے مناظر سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ اچانک اس کی نظر پانی میں ایک بڑی مچھلی پرپڑی جواُچھل کر کشتی کے اندرآگری تھی ۔ اس نے جلدی سے مچھلی کو پکڑ لیا کہ کہیں وہ اُچھل کر دوبارہ دریا میں نہ جاگرے ۔مچھلی کو پکڑنے کے لیے علی رضا دوڑا تو کشتی ہچکولے کھانے لگی ، جس کی وجہ سے باقی سب کی نیند اڑگئی اور وہ غور سے مچھلی کودیکھنے لگے ۔ان میں سے ایک آدمی بولا : یہ مچھلی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے بھیجی ہے تو کیوں نہ ہم آگے کنارے پر اُتریں اور اسے بھون کر کھائیں ۔ یہ اتنی بڑی ہے کہ ہم سب کا پیٹ بھر جائے گا۔ سب کو اس کی بات پسند آئی۔ کشتی کا رخ کنارے کی طرف موڑ دیا۔سب لوگ کنارے پر اُتر کر گھنے درختوں کے جھنڈ میں داخل ہوئے ،تاکہ لکڑیاں اکھٹی کرکے مچھلی بھونیں ۔وہ لوگ گھنے درختوں کے جھنڈ میں پہنچے تو ایک خوفناک منظر نے ان سب کے رونگٹے کھڑے کردیے ۔ ایک آدمی زمین پر بے جان پڑاتھا ۔ اس کے قریب ایک تیز دھار چاقو بھی پڑا ہو اتھا ۔ پاس ہی ایک دوسرا جوان آدمی بھی تھا، جس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اور منھ میں کپڑا ٹھونسا ہو اتھا، جس کی وجہ سے وہ بولنے اور چیخنے چلانے سے قاصر تھا۔یہ خوفناک منظر دیکھ کر سب کے اوپر دہشت طاری ہوگئی ۔ علی رضا جلدی سے آگے بڑھا اور اس آدمی کی رسی کھول اور اس کے منھ سے کپڑا نکالا۔ وہ بہت ڈرا ہوا لگ رہا تھا اور نااُمیدی کی کیفیت میں تھا۔ اس پھندے سے آزادی کے بعد وہ بولا ؛ مہربانی کرکے مجھے تھوڑا پانی پلادو ۔علی رضا نے اسے جلدی سے پانی پلایا۔ جب وہ پانی پی چکا تو مرے ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کرکے خود ہی کہنے لگا : میں اور یہ آدمی دونوں ایک قافلے میں تھے جو کہ تجارت کے لیے ایک دور درازعلاقے کی طرف جارہے تھے ۔یہ آدمی میرے ہی شہر کا تھا، وہ سمجھ گیا کہ میرے پاس کافی مال ہے ۔ اس نے مجھ سے دوستی کرلی اور پیار محبت سے میرے آس پاس رہنے لگا۔ بہت ہی کم میرا ساتھ چھوڑتا ۔ میرا بھی اس پر کافی اعتماد قائم ہوگیا تھا۔ قافلے نے سستانے کی غرض سے ساحل پر پڑاؤڈالا، رات کے آخری پہر قافلہ روانہ ہوگیا ، لیکن میں اور یہ آدمی یہیں رہ گئے ، کیوں کہ اس نے قافلے سے دور لے جا رک کوئی شربت پلا دیا تھا جس سے مجھے نیند آگئی ۔قافلے کی روانگی کے بعد اس نے میری نیند کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مجھے رسی سے باندھ دیااور اس نے میرے منھ میں کپڑا ٹھونس دیا کہ میں چیخ وپکار نہ کرسکوں۔ اس نے میرے پاس جوکچھ مال تھا وہ چھین لیا اور مجھے زمین پر ٹپخ دیا۔ پھرمجھے قتل کرنے کے لیے میرے سینے پر بیٹھ کر کہنے لگا : اگر میں تجھے زندہ چھوڑدوں اور کسی طرح توآزاد ہوجائے تو مجھے بدنام کرسکتا ہے ، اس لیے تجھے قتل کرنا ضروری ہے ۔یہ کہہ کر اس نے اپنی کمر بند سے بندھی ہوئی یہ تیز دھار چھری کھینچنی چاہی ، لیکن چھری کسی وجہ سے اٹک گئی تھی۔ اس نے بڑی کوشش کی جب ناکام ہوگیا تو اس نے پوری طاقت لگا کر چھری کمر بندے سے کھینچی اس کی دھاراوپر کی برف تھی ، چھری اچانک زور سے نکلی اور کھال کے ساتھ شہ رگ کو کاٹتی ہوئی گردن میں پیوست ہوگئی ۔ شہ رگ کے کٹتے ہی خون کافوارہ جاری ہوگیا اور جب طاقت نے جواب دیا تو یہ مردہ حالت میں زمین پر ڈھیر ہوگیا۔یہ بدبخت میری آنکھوں کے سامنے اپنے انجام تک پہنچ گیا ، لیکن اس کے باوجود مجھے اپنی موت کایقین ہوچلا تھا، کیوں کہ ہم جس جگہ ہیں ، بہت ہی کم لوگ یہاں سے گزرتے ہیں ۔ میں سوچ رہاتھا کہ کون میرے ہاتھ پاؤں کھولے گا؟ کون مجھے اس آفت سے نجات دلائے گا؟ پھر میں نے اللہ کوپکارنا شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو میری طرف بھیج دیا اور میری جان بچ گئی۔تم لوگوں کا اس طرف کیسے آنا ہوا ؟علی رضا نے اسے بتانا شروع کیا : ایک مچھلی ہماری کشتی میں سمندر سے اُچھل کر آگری تھی ۔ ہم لوگ اس مچھلی کو بھوننے کی غرض سے اس جگہ پہنچے تھے ۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا ۔تم لوگوں کا بہت شکریہ ، لیکن میں اپنی خوشی سے آپ لوگوں کو کچھ دینا چاہتا ہوں ۔ براہ مہربانی انکار نہ کیجیے گا۔ پھر وہ شخص اُٹھا اور اپنے سامان سے اشرفیوں کی تھیلیاں نکالنے لگا۔ اس نے ان سب دوستوں کو ایک ایک تھیلی بطور انعام دی ۔ اس شخص نے خاص طور پر علی رضا کا شکریہ ادا کیا ۔وہ لوگ جب اس شخص کو ساتھ لے کر کشتی کے پاس واپس آئے تو دیکھا کہ مچھلی کشتی سے کود کر سمندر میں جاچکی تھی ۔ " پرانا سکہ - تحریر نمبر 986,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/purana-sikkah-986.html,"شاہین طارق:جب میں مدرسے سے واپس آیا تو حکیم صاحب کو دادا کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا ۔دیکھیں برخوردار ! میاں صاحب کو چینی اور میٹھے سے پرہیز کرانا ہوگا۔ حکیم صاحب نے والد صاحب سے کہا ۔والد صاحب نے حکیم صاحب کو دروازے تک رخصت کیا ، میں بہت حیرت سے ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہا تھا اور ان کو دیکھ رہا تھا۔حکیم صاحب کے جاتے ہی میں نے ابا سے پوچھا : حکیم صاحب کیوں آئے تھے ۔تمھارے دادا کی طبیعت خراب ہے ۔ انھوں نے بتایااور جلدی سے دادا کے کمرے میں چلے گئے ، میں بھی ان کے پیچھے دادا کے کمرے میں چلاگیا ۔ دادا جان بستر پر مزے سے لیٹے ہوئے گوکھارہے تھے۔ والد کو آتا دیکھ کرگڑتکیے کے نیچے چھپادیا ، مگر میں نے اور والد صاحب نے دیکھ لیا ۔(جاری ہے)دیکھیں اباجی ! اب آپ کومیٹھا نہیں کھاناچاہیے ، حکیم صاحب نے سختی سے منع کیا ہے ۔والد نے دادا کے تکیے کے نیچے سے گڑ کی بڑی سی ڈلی نکال کر مجھے دی اور دادا سے درخواست کی کہ وہ میٹھا نہ کھائیں ۔جاؤ یہ اپنی ماں کو دے دو۔ ابا نے مجھ سے کہا اور میں نے دیکھا کہ دادا کی نظریں بدستور میرے ہاتھ میں موجود گڑ کی ڈلی پر جمی ہوئی تھیں ۔ میرے جانے سے پہلے ہی ابا کمرے سے چلے گئے ۔ اس سے پہلے کہ میں کمرے سے نکلتا ، دادا نے مجھے آواز دی : ارے میاں ! یہ میری چیز ہے واپس دو۔نہیں دادا ! حکیم صاحب نے منع کیا ہے ، آپ کی طبیعت خراب ہے ۔ میں یہ ماں کو دے دو گا۔ وہ کوئی میٹھی چیز ہمارے لیے بنادیں گی ۔دیتے ہویا ․․․․․ دادا غصے میں ہلکی آواز میں کہا ۔نہیں ۔ میں بھی ڈھیٹ بن گیا ۔ارے میاں ! تم یہ ایک رپے کاسکہ لواور میری چیز مجھے دے دو ۔ٹھیک ہے سودا منظور ہے ۔ میں راضی ہوگیااور میں نے دادا کوگڑ کی ڈلی دی اور دادا نے مجھے ایک رپے کا سکہ دے دیا۔ابھی ہمارا سودا تکمیل کے مراحل میں تھا کہ والد صاحب دوبارہ کمرے میںآ ئے اور دوائیں میز پر رکھ چلے گئے ، مگر پکڑے جانے کے خوف سے دادا نے گڑفوراََ تکیے کے نیچے رکھ دیا اور ہم رقم والا ہاتھ کمر کے پیچھے رکھ کر کھڑے ہوگئے ۔ اچانک سکہ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیااور لڑھک کردادا کے بستر کے نیچے چلا گیا ۔ والد صاحب کے چلے جانے کا اطمینان کرکے ہم جھک کر سکہ تلاش کیا، مگر نہ ملا کیوں کہ دادا کے بستر کے نیچے ہی ان کے بچپن سے جوانی تک کا نہ جانے کیا کیا سامان محفوظ تھا ۔کچھ سامان گتے کے ڈبوں میں تھا ۔کیا ہوا ؟ دادا نے پوچھا ۔میں نے جھکے جھکے ہی جواب دیا: یہاں اندھیرابہت ہے ،سکہ نظرنہیں آرہا ہے ۔کوئی لکڑی لاؤاور ٹارچ جلا کردیکھو ، سکہ مل جائے گا۔ دادا نے کہا ۔میں چپکے سے ایک لکڑی تلاش کرکے لایا، دادا کے کمرے میں ٹارچ رکھی تھی ، اس کی مدد سے بستر کے نیچے پیٹ کے بل گھس گیا کہ باہر صرف چلیں نظرآرہی تھیں ۔جلدی تلاش کرو ، ورنہ کوئی آجائے گا۔ دادا نے خدشہ ظاہر کیا۔دیکھ تو رہا ہوں مل ہی نہیں رہا۔ میں اپنے کپڑے خراب ہونے کی پروا کیے بغیر تلاشی لے رہا تھا کہ کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی اور دادا نے جلدی سے میری نظر آنے والی چپلوں پر اپنا لحاف گرادیا۔ابا جی ! آپ نے منصور کو کہیں باہر بھیجا ہے ؟ امی نے ہمارے متعلق پوچھا ۔نہیں تو، شاید کسی دوست کے ساتھ باہر ہی ہو۔دادا نے صاف جھوٹ بولا ۔امی چلی گئیں ۔ امی کے جاتے ہی دادا نے غصے سے کہا : منصور میاں ! چھوڑو بھی سکہ ، باہر آؤ۔ دادا کے کہنے پر میں نہ چاہتے ہوئے بھی باہر آگیا ۔ کپڑے جھاڑے اور آنکھ بچا کر گھر سے باہر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آگیا ۔منصور ! کہاں تھے تم ؟ امی نے پوچھا ۔میں زاہد کے ساتھ باہر گیا تھا ۔ میں نے بھی دادا کی طرح جھوٹ بولا ۔اور یہ تمھارے کپڑے کیوں گندے ہورہے ہیں ؟ امی نے پوچھا ۔امی کے کہنے پر ہم نے اپنے کپڑے دیکھے جو دادا کے بستر کے نیچے گھسنے کی وجہ سے گندے ہوگئے تھے ۔میں گرگیا تھا۔ میں نے پھر جھوٹ بولا ۔امی نے میرے لیے صاف کپڑے نکالے مجھے نہلایا اور کپڑے تبدیل کروادیے ۔ میں وقتاََ وقتاََ دادا کے بستر کے نیچے اپنا سکہ تلاش کرتا رہتا ، مگر نہ جانے وہ کہاں چلا گیا تھا ۔میں مدرسے سے اسکول اور اسکول سے کالج چلاگیا ، مگر وہ سکہ نہیں بھولا۔ پھرایک دن دادا کاانتقال ہوگیا اور ان کے انتقال کے بعد والد صاحب نے وہ کمرا مجھے دے دیا ، تاکہ میں پڑھائی پر پوری توجہ دے سکوں ۔ کمرے کی صفائی ہوئی ، بستر کی جگہ تبدیل کرنے کی غرض سے بستر ہٹایا گیا، بستر کے نیچے کی تمام چیزیں بھی ہٹالی گئیں ۔ اسی صفائی کے دوران 14 سال پہلے گم ہوجانے والا پرانہ سکہ بھی مل گیا ۔ سکے کے ملتے ہی 14سال پہلے والا منصور بن کرخوش ہوا اور سکہ جیب میں رکھ کر خوشی سے اُچھلنے لگا۔ یہ دیکھ کر والد صاحب بہت حیران ہوئے ۔ ان کے پوچھنے پر میں نے سکہ گم ہونے کاقصہ سنایا۔ والد صاحب مسکرانے لگے ، والدہ بھی ہنس پڑیں اور میری نظروں میں دادا کامسکراتا ہوا چہرہ لہراگیا ۔ " رقم کہاں سے آئی - تحریر نمبر 985,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/raqam-kahn-se-aayi-985.html,"حبیب اشرف صبوحی :میری والدہ صاحبہ بڑی عبادت گزار اور اللہ پر توکل کرنے والی ، بڑی شعار اور باہمت خاتون تھیں ۔ والد صاحب کی تنخواہ بہت کم تھی ، لیکن والدہ صاحبہ نے اس مختصر تنخواہ میں بھی ہم بہن بھائیوں کی عمدہ تعلیم اور اچھی تربیت کی۔ کبھی اللہ تعالیٰ کی ناشکری نہیں کی ۔ یہاں میں اپنی والدہ صاحبہ کے دو واقعات لکھ رہا ہوں ، جن سے ان کی عظیم شخصیت کااندازہ لگایاجاسکتا ہے ۔میرے والد صاحب ڈاک خانے میں ملازم تھے ۔ تنخواہ بہت کم تھی ، بس گزر بسر کسی نہ کسی طریقے سے ہورہی تھی ۔ والدہ صاحبہ اکثر والد صاحب سے کہتی تھی کہ اگر کسی مہینے کے اخراجات سے کچھ پیسے بچ جائیں تو گھر کا فلاں فلاں کام ہوجائے ، لیکن اخراجات ہر مہینے کسی نہ کسی وجہ سے بڑھ جاتے تھے ۔(جاری ہے)ایک روز والد صاحب شام کو دفتر سے گھر آئے اور والدہ صاحبہ کو خاموشی سے ایک بڑی رقم دی اور کہا : یہ رقم اپنے استعمال میں لاؤ اور جتنے بھی کام رکے ہوئے ہیں ، کرلو۔یہ سب رقم تمھاری ہے ۔ ماضی کے جتنے بھی گلے شکوے اور خواہشات ہیں اس سے پوری کرلو۔والدہ صاحب نے خوشی سے پوچھا : اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی ہے ۔والد صاحب نے بتایا : آج ایک صاحب آئے تھے ، کافی دیر میرے پاس بیٹھے رہے ، جب جانے لگے تو یہ رقم میرے پاس بھول کرچلے گئے ۔ میں نے یہ رقم چھپالی ۔ کچھ دیر بعد وہ صاحب گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور پوچھا کہ میں اپنا ایک تھیلا، جس میں کچھ رقم تھی ، یہاں تو نہیں بھول گیا ؟ میں نے کہا کہ آپ کہیں بھول آئے ہوں گے۔تو وہ صاحب چلے گئے ۔والدہ صاحبہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ رقم اس طریقے سے آئی ہے تو ایک دم ان کا رنگ غم اور پریشانی سے سفید ہوگیا۔ وہ والد صاحب سے کہنے لگیں : تم نے اتنی بڑی بے ایمانی کیسے کی ؟ یہ بات تمھیں زیب نہیں دیتی ۔ میں یہ رقم نہیں لوں گی ، اس رقم کو واپس کرکے آؤ ۔والد صاحب نے کہا : اس عمل کا گناہ اور ثواب میرے ذمے ہے ، بس تم اس رقم کو استعمال کرو۔والدہ صاحب نے سختی سے انکار کیا اور کہا : میں یہ رقم استعمال کروں گی ۔ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا ۔جب والد نے دیکھا کہ وہ بہت زیادہ پریشان ہوگئی ہیں توکہا : میں مذاق کررہا تھا اور تمھیں آزمانا چاہتا تھا۔ دراصل آج ڈاک خانے کی گاڑی نقدرقم لینے نہیں آئی ۔ اس وجہ سے میں یہ رقم گھر لے آیا کہ کہیں ڈاک خانے سے چوری نہ ہوجائے ۔ یہ سرکاری امانت ہے ۔ صبح واپس لے جاؤں گا۔ والدہ صاحب نے سنا تو سکھ کا سانس لیااور رقم حفاظت سے رکھ لی ۔ " میلا اور بیل - تحریر نمبر 984,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/maila-aur-bail-984.html,"جاوید اقبال :ایک دن دوست سہراب بابومجھ سے کہنے لگے کہ ان کے ساتھ نواب صاحب کی ریاست چلوں ۔ ریاست میں ہرسال بسنت بہارکامیلا لگتا ہے ۔ میں نے مصروفیت کا بہانا کیا، توخفاہو کربولے : میاں ! تم جوجنگلوں میں جانوروں کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہو، کبھی انسانوں کے ساتھ بھی وقت گزارلیا کرو۔پھر میلے کی دل چسپیوں اور رنگینیوں کی ایسی تصویر کھینچی کہ مجھے ہاں کرتے ہی بنی ۔ہم ان کی موٹر گاڑی میں بیٹھ کر نواب صاحب کی ریاست جاپہنچے ۔نواب صاحب کی حویلی میں زور وشور سے میلے کی تیاری ہورہی تھی ۔ پکوان بن رہے تھے ۔ مٹھائیاں تیار ہورہی تھیں ۔ کپڑے سل رہے تھے ۔ ایک دن اور رات ان تیاریوں میں ہی گزرگئے ۔ دوسری صبح سب لوگ سج دھج کرمیلے کے میدان کی طرف روانہ ہوئے ۔(جاری ہے)نواب صاحب اور ان کے مصاحب موٹر گاڑیوں اور ملازمین وغیرہ بیل گاڑیوں اور یکوں پرسوار تھے ۔دوپہر کو یہ قافلہ ایک بڑے میدان میں جاپہنچا، جہاں خوب چہل پہل اور رونق تھی ۔ رنگ برنگے کپڑے پہنے بچے چہکتے پھر رہے تھے ، کہیں ڈھول کی تھاپ پر گھوڑے ناچ رہے تھے ۔ جوان اوربوڑھے ان تماشوں سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔ ادھر اُدھر حلوائی مٹھائیاں کی دکانیں سجائے بیٹھے تھے ، گرم گرم جلیبیاں کڑھائی سے نکلتے ہی بک جاتیں۔ پکوڑے اور نمکو بھی ہاتھوں ہاتھ خریدے جارہے تھے ۔ایک طرف کھلونے والے کھلونوں کی دکانیں سجائے بیٹھے تھے ۔ بچے شوق سے کھلونے خریدرہے تھے ۔ ایک پنڈال میں سرکس لگاتھا، جہاں باز گراپنے کرتب دکھارہے تھے ۔ایک بڑے میدان کے درمیان میں ایک اونچے چبوترے پر نشستیں لگی تھیں ۔ جہاں نواب صاحب اپنے مصاحبین کے ساتھ بیٹھ گئے۔ یہاں بیلوں کی دوڑشروع نہ ہوئی تو سہراب بابو بولے : دوڑ نہ جانے کب شروع ہو، آؤ اتنی دیر میں سرکس دیکھ لیتے ہیں ۔ہم چبوترے سے اُتر کر سرکس والے میدان میں پہنچ گئے ۔ یہاں لوگ ایک بڑے سے دائرے کی صورت میں کھڑے تھے ۔ دائرے کے اندر بازی گراپنے کرتب دکھارہے تھے ۔ کچھ بازی گرلوہے کے ایک گول کڑے سے ، جس سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے ۔ دوسری طرف کودرہے تھے ۔ ایک طرف ایک طرف ایک گول مٹول مسخرہ مختلف کرتب دکھاکر لوگوں کو ہنسارہا تھا۔ ایک پہیے والی سائیکل پہ سوار بازی گرکود دیکھ کرلوگ تیالیاں بجا کرداد دے رہے تھے ۔ہم سرکس کے تماشوں میں گم تھے کہ ایک دم شور مچ گیا ۔ لوگ افرتفری میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے ۔ ہم پنڈال سے نکلے تو پتا چلا کہ دوڑ کے میدان سے ایک بیل بھاگ نکلا ہے ۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ بپھرا ہوا بیل ادھر ہی بھاگا چلاآرہا ہے ۔ بھگدر کی وجہ سے کئی لوگ اس کے کھروں تلے کچلے گئے ۔ پلک جھپکتے ہی بیل ہمارے قریب آپہنچا۔ ہم نے اس سے بچنے کے لیے ادھر اُدھر چھلانگیں لگادیں۔بیل کے گلے میں بندھی رسی اُڑتی ہوئی میرے ہاتھ سے لپیٹ گئی اور گرہ سی پڑگئی ۔ مجھے زور کا جھٹکا لگااور میں بیل کے ساتھ کھنچتا چلا گیا۔ بیل مجھے کھینچے لیے جارہا تھا اور میں زور لگا کر اسے روک رہا تھا۔ اتنے میں سامنے ایک درخت آگیا ۔ میں بھاگتے بھاگتے تھوڑا بائیں طرف ہوا تودرخت ہم دونوں کے درمیان آگیا اور رسہ درخت کے تنے سے لپٹ گیا۔یوں بیل رک گیا ۔ پیچھے بیل کامالک بھی بھاگاآرہا تھا۔ اس نے بیل پر قابو پالیا۔ لوگوں کو جھمگٹا وہاں لگ گیا ۔ اتنے میں نواب صاحب بھی اپنے مصاحبوں کے ساتھ وہاں آگئے۔ بیل کو قابو میں کرنے کاسن کر بہت خوش ہوئے ۔ گلے میں قیمتی ہار اور ہاتھوں سے ہیرے کی انگوٹھیاں اُتار کر بطور انعام مجھے دنیا چاہیں ، میں شرمندہ ساہوگیا۔ سچ تو یہ ہے کہ رسی اتفاقاََ میرے ہاتھ سے لپٹ گئی تھی ۔اس میں میری کوئی بہادری نہ تھی ۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا، مگر سہراب بابو نے میرا ہاتھ دبا کرمجھے چپ کرادیا۔ بولے : انعام لینے سے انکار نہیں کرتے ، ورنہ نواب صاحب ناراض ہوجائیں گے ۔ پھرخود ہی آگے بڑھ کر ہار اور انگوٹھیاں نواب صاحب سے لیں ۔ ہار تو میرے گلے میں ڈال دیااور انگوٹھیاں اپنی جیب میں رکھ لیں۔ ہم میل سے واپس آگئے ۔ دو دن بعد ہماری واپسی ہوئی ۔ انگوٹھیوں کے بارے میں نہ میں نے کچھ پوچھا، نہ سہراب بابو نے کچھ کہا ۔سنا ہے وہ انگوٹھیاں بیچ کر انھوں نے نئی موٹر کار خریدلی ہے ۔ واللہ علم ! میری تو اس واقعے کے بعد ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ " بادشاہ کاانوکھالباس - تحریر نمبر 983,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-ka-anokha-libas-983.html,"فاطمہ ساجد :بادشاہ کی ساٹھویں سالگرہ کی آمد تھی ۔ پورے ملک میں اعلان کردیاگیا کہ بادشاہ کی سالگرہ پر عوام بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔ بادشاہ نے اپنی سالگرہ پر یہ اعلان کرایا کہ ان کیلئے ایسی شاندار پوشاک تیار ہوجیسی کسی نے آج تک استعمال نہ کی ہو۔ جوبھی بادشاہ کیلئے ایسی انوکھی پوشاک تیارکرے گا اسے انعام واکرام سے نوازا جائے گا۔چندوجولا ہے کے تین ذہین لڑکے تھے جو بادشاہ کے مظالم سے تنگ تھے ، یہ تینوں بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور بادشاہ سے کہنے لگے ہم آپ کیلئے ایسا لباس تیار کریں گے جو آج تک بڑے بڑے بادشاہوں کو نصیب نہ ہوا ہوگا لیکن ہماری ایک عرض سن لیں کہ یہ انوکھا لباس دیکھ کر ہر کوئی عش عش کراٹھے گا لیکن جھوٹے ، بے ایمان اور فریبی شخص کو یہ لباس نظر نہیں آئے گاالبتہ اخراجات بہت زیادہ ہونگے کیونکہ کپڑا سونے کی تاروں سے تیار ہوگا اور لباس پر ہیرے جواہرات سے کام ہوگا۔(جاری ہے)بادشاہ نے لڑکوں کومطلوبہ رقم فراہم کردی ۔دس پندرہ دن کے بعد بادشاہ نے اپنے سپہ سالار سے کہا وہ جا کردیکھے کہ ان لڑکوں کا کام کہاں تک پہنچا ہے ۔ سپہ سالار نے دیکھا کہ لڑکے کپڑے بننے کے انداز میں خالی ہاتھ ہلارہے ہیں ۔ سپہ سالار چونک ایک قریبی اور بے ایمان شخص تھا اس لئے اس نے اپنا بھرم رکھنے کیلئے بادشاہ کو اطلاع دی کہ حضور لڑکوں نے آپ کیلئے لاجواب پوشاک تیار کی ہے ۔تین چار دن بعد جھوٹے اور بے ایمان وزیرنے بھی بادشاہ کو یہی رپورٹ دی۔ بادشاہ بہت خوش تھا کہ کل شام جب وہ پوشاک پہن کردرباریوں کے ساتھ گشت کرے گا تو لوگ اسے مبارکباد دیں گے ۔ اگلی صبح لڑکے بڑے بڑے خالی تھان لیکر محل میں آئے ۔ بادشاہ خالی تھان دیکھ کر حیران ہوا۔ پھر اس کو اپنے جھوٹے اور بے ایمان وزیرکی داستانیں یاد آئیں اور لباس نہ نظر آنے کی وجہ بھی سمجھ میں آگئی ۔اس لئے اس نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے ہوئے کہا یہ لاجواب لباس ہے ۔ سب لوگ بادشاہ کو فقط ایک سرخ کی نیکر میں دیکھ کر قہقہے لگارہے تھے اور بادشاہ سمجھ رہاتھا کہ اس کی پوشاک کی تعریف ہورہی ہے ۔ اچانک بادشاہ کو ایک بچے کی آواز آئی جو اپنے باپ سے پوچھ رہا تھا ابو ! بادشاہ سلامت صرف ایک نیکر پہنے کیوں کھڑے ہیں ؟ خاموش بے ادب اگر بادشاہ نے سن لیا توسزا ہوجائے گی ۔ دیکھا بچو!تین ذہین لڑکوں نے بادشاہ کو کیسے بے وقوف بنایا۔ " نافرمان چُن مُن - تحریر نمبر 982,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nafarman-chun-mun-982.html,"سگوپال کے کھیت میں ایک مرغی تھی جس کا نام مْن مْن مرغی تھا۔ اس کا ایک چوزہ تھا۔ جسے گوپال کے گھر والے چُن مُن کے نام سے پکارتے تھے۔ چْن مْن تھا بڑا شرارتی اور نافرمان۔ جب دیکھو تب کسی نہ کسی کو ستاتا اور پریشان کرتا۔ اس کی ماں چُن مُن مرغی ہمیشہ اسے نصیحت کرتی لیکن وہ ایک کان سے سنتا دوسرے کان سے اڑا دیتا۔چُن مُن کو کھانے پینے کا بہت شوق تھا۔ہمیشہ پیٹ سے زیادہ کھاتا اور پھر تکلیف میں مبتلا ہوجاتا۔ ماں اسے سمجھاتی کہ زیادہ کھانا نقصان دہ ہے۔ وہ اپنے چھوٹے منہ کا بھی خیال نہیں کرتا اور کبھی کبھی اپنے منہ سے بڑی چیزوں پر بھی بری طرح جھپٹ پڑتا۔ایک مرتبہ گوپال کے کھیت میں مٹر اور چنے کی فصل جب پک کر تیار ہوئی تو اس کے پاپا نے دانوں کو الگ کرنے کے لیے مشین منگوائی۔(جاری ہے)دانے نکلنا شروع ہوئے تو چُن مُن کے منہ سے رال ٹپکنے لگی اور اس نے مٹر کا ایک دانا چگنے کی کوشش کی دانا چکنا ہونے کی وجہ سے چونچ میں تو چلا گیا لیکن منہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ اندر جانے کی بجاے پھنس گیا۔اب تو بے چاری بڑی پریشان ہوگئی اسے بہت زور کی بھوک اور پیاس لگی تھی۔ اس کی ماں اپنی سہیلی کے یہاں گئی ہوئی تھی وہ رونے لگی مگر آواز نہیں نکل پارہی تھی اس لیے کسی کو سمجھ میں نہ آیا۔اب وہ اپنے کیے پر پچھتا رہی تھی۔ اسے ماں کی نافرمانی کی سزا مل رہی تھی۔ یکایک اس کی ماں کی آواز آئی۔ وہ ماں کو منہ سے کچھ بول نہ سکی۔ ماں نے اپنے شرارتی چُن مُن کو اس طرح خاموش بیٹھے دیکھا تو تعجب میں پڑ گئی۔جب قریب آئی تو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسو دیکھ کرماں کو اس پر بہت پیار آیا۔ماں نے اس سے پوچھا :” چُن مُن بیٹے! تمہیں کیا ہوا ہے؟“چُن مُن کے منہ میں تو مٹر کا دانا پھنسا ہوا تھا وہ کیا بول پاتا ؟ بس بغیر آواز کے روتا رہا۔ ماں کو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ چُن مُن اشارے سے بکھری ہوئی مٹر کی طرف اشارا کرکے ماں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے مسلسل بے آواز روئے جارہا تھا۔کافی دیر بعد ماں کو سمجھ میں آیا کہ چْن مْن نے مٹر کا دانا کھانے کی کوشش کی ہو گی اور وہ اس کے منہ میں پھنس گیا ہوگا اسی لیے وہ بول نہیں پا رہا ہے۔ ماں سوچنے لگی کہ اب کیا کِیا جائے۔ کیوں کہ اس کی چونچ اتنی لمبی نہیں ہے کہ وہ اپنے چُن مُن کے منہ سے مٹر کا دانا کھینچ کر نکال سکے۔آخراُس کو اپنے دوست بگلے کی یاد آئی۔ چُن مُن مرغی اسے ڈھونڈنے نکلی۔بگلا اسے کھیت میں نظر آگیا۔ وہ تیزی سے بگلے کی طرف بھاگتے ہوئے گئی اس سے پہلے کہ بگلا کہیں اڑ کر نہ چلا جائے۔ بگلے کے پاس پہنچ کر اس نے چُن مُن کی حرکت بتائی اور اس سے مدد کے لیے کہا۔بگلے نے کہا:” مُن مُن بہن! مجھے خوشی ہوگی کہ میں تمہاری مدد کروں گی۔“دونوں اڑتے دوڑتے چُن مُن کے پاس پہنچے۔ بگلے نے اپنی لمبی چونچ کی مدد سے چُن مُن کے منہ میں پھنسے ہوئے مٹر کے دانے کوکھینچ کر نکال لیا۔ اس طرح کافی دیر تک ماں کی نافرمانی اور لالچ کی سزا جھیلنے کے بعد چُن مُن کو چین کا سانس لینا نصیب ہوا۔اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ چُن مُن نے نافرمانی ، بدمعاشی ، شرارت اور دوسری بری عادتوں سے توبہ کرلی۔ " جن کا بھائی - تحریر نمبر 981,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jin-ka-bhai-981.html,"محمد اقبال شمس :رات کے ڈھائی بج رہے تھے ۔ کمرے میں مدھم روشنی تھی ۔ عزیز آلتی آلتی مار کر آنکھیں بند کرکے اونچی اونچی آواز میں کچھ پڑھ رہا تھا۔ اچانک اس کمرے کادروازہ کھلا۔ اس کے والد غصے میں بھرے کمرے میں داخل ہوئے اورلائٹ جلاتے ہوئے غصے سے بولے : نہ تم خود سوتے ہو، نہ دوسروں کو سونے دیتے ہو۔ محلے والے الگ شکایت کرتے ہیں کہ یہ کون ہے جورات کو اجنبی زبان میں بولتا رہتا ہے ۔آخر عامل بننے کا بھوت تمھارے سرسے کب اُترے گا۔اباجی ! لوگوں کی یہ مجال کہ میرے متعلق باتیں کریں۔ میں ان کے منھ بند کردوں گا۔ عزیز آنکھیں نکالتے ہوئے بولا۔اس کے ابا بولے : بیٹا دیکھ دیکھ یہ عامل بننے کے خواب دیکھنا چھوڑو اور سیدھی سادی آسان زندگی گزارووہ بولا: اباجی ! ان تو منزل میرے سامنے کھڑی ہے ۔(جاری ہے)بس آخری چلّہ باقی ہے ۔اس میں کامیاب ہونے کے بعد جن میرے قبضے میں آجائے گا اور میں بہت بڑا عامل بن جاؤں گا۔آج چلّے کی آخری رات تھی ۔ آدھی رات کو قبرستان میں ایک حصار کے اندر عزیزآنکھیں بندکیے، عملیات میں مشغول تھا کہ اچانک کچھ خوف ناک آوازیں اُبھریں ۔ ان آوازوں میں رفتہ رفتہ تیزی آئی گئی ۔ جس سے ماحول مزیدخوفناک ہوگیا۔ ان آوازوں سے اس کے بدن میں کچھ جھرجھری سی ہوئی، مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔آوازیں کچھ مدہم سی ہونے لگیں تو اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں اچانک درجنوں کی تعداد میں خوفناک شکلیں نمودار ہوئیں۔ اس نے فورََ اپنے خوف پر قابو پایا۔ ان شیطانی طاقتوں کی بھرپور کوششیں تھیں کہ وہ یہ عمل مکمل نہ کرپائے اور ڈر کے بھاگ جائے ، مگرعزیز اپنے ادارے کاپکا ثابت ہوا۔ اسے اپنے خوف پر مکمل کنٹرول ہوچکا تھا۔ اس کے عملیات میں تیزی آنے لگی ۔تھوڑی دیر تک یہ جنگ جاری رہی اور پھر جیتاآخر عزیر کی ہوئی ۔ خوفناک آوازیں اور شکلیں غائب ہوچکی تھیں ۔اچانک اس نے دیکھا کہ ایک مخلوق ہاتھ باندھے، اس کے سامنے کھڑی تھی ۔ اب دو مخلوق اس کی غلام تھی ۔ یہ دیکھ کر اس کی باچھیں کھل اٹھیں ۔ اس نے اپنے عمل کی وجہ سے دراصل ایک جن کو اپنے بس میں کر لیاتھا۔ ان وہ اس کی مدد سے لوگوں کے الٹے سیدھے کام آسانی سے کرسکتا تھا۔وہ خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ جن اس کے پیچھے پیچھے ہاتھ باندھے ہوا میں معلق تیرتارہا۔ اچانک اسی جن کاایک ہم شکل وہاں نمودار ہوا۔ وہ اس کا ہم شکل بھائی تھا۔ وہ اپنی تھوڑی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا: او ، انسان کے بچے اتونے اپنے عمل سے میرے بھائی کی توقابو میں کرلیا۔ اب دیکھنا میں اپنے بھائی کوتیرے چنگل سے کیسے آزاد کراتا ہوں۔یہ کہہ کر وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔عزیرنے اپنے گھر کے ایک حصے میں اپنا آستانہ بنالیا تھا۔ مختلف اخباروں میں اپنا اشتہاردے دیا تھا۔ اب اسے اُمید تھی کہ اس کے آستانے پر لوگوں کا ہجوم امڈآئے گا۔ایک دن دو بھائی اس کے آستانے میں داخل ہوئے اور اپنامسئلہ بیان کیا۔ ان میں سے ایک بولا: بابا امیر قد دیکھیں اتنا لمبا ہے کہ اس پر بانس کاگمان ہوتا ہے اور یہ میرا بھائی اتنادبلا ہے کہ جیسے کئی دنوں سے فاقوں سے ہو۔اب تم کیاچاہتے ہو ؟ عزیر بولا ۔وہ بولا: آپ تو عامل ہیں کچھ اس طرح کریں کہ میرا قدمناسب ہوجائے اور میرا بھائی موٹا ہوجائے ۔عزیر نے کہا : ٹھیک ہے تمہارے مسئلے کا حل ابھی بتاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ آنکھیں بند کرکے بیٹھ گیا اور جن کو حاضر کیا۔ جن کی صرف وہی دیکھ اور سن سکتا تھا۔ حاضر ہونے والا جن اس جن کاہم شکل بھائی تھا، جسے عزیر نے قابو میں کیاتھا۔ہم شکل ہونے کی وجہ سے عزیر اسے پہچان نہ سکا اور اسے ان دونوں کا مسئلہ بتا کر اس کوحل کرنے کا عمل پوچھا۔ پھر جو عمل جن نے بتایا، وہ ہی عزیر نے ان دونوں کو بتاکر ایک ہفتے کے بعد آنے کاوقت دے دیا۔ وہ دونوں خوشی خوشی چلے گئے ۔جن نے اپنے بھائی سے پوچھا: بھائی تم نے میری جگہ کیوں لی ؟وہ بولا۔ دیکھو تم اس شخص کے غلام ہو، وہ جوکہے گاتمہیں ماننا پڑے گا، مگر میں اس کاغلام نہیں ہوں۔میں نے اسے اُلٹا عمل بتادیا ہے ۔ اب دیکھو اس کاکیا حشر ہوتا ہے ۔ یہ کہہ کر وہ مسکرانے لگا۔عزیر کے پڑوس میں ایک غریب مزدور رہتا تھا۔ وہ اس کے پاس آیا اور کہا ۔ بیٹا عزیر بولا: جی بولیے ، آخر پڑوسیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں ۔مزدور نے کہا: مہنگائی نے کمرتوڑدی ہے ۔ میں امیر بننا چاہتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس بہت سے پیسے آجائیں اور میں دولت مند ہوجاؤں۔عزیر بولا: ارے بس اتنی سی بات، میں آپ کو ابھی عمل بتاتا ہوں۔ جن بلانے پر پھر اسی کاہم شکل بھائی حاضر ہوااور اسے اُلٹا عمل بتادیا،جواس نے پڑوسی مزدور کو بتادیا۔ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ وہ دونوں بھائی اس کے آستانے پر آکر شور مچانے لگے ۔ شور کی آواز شن کر اس کے والد جمال صاحب بھی آگئے ۔ شور کی وجہ پوچھی تو وہ بولے: دیکھیں جناب ! میں نے بابا سے کہا تھا کہ میرا قد بہت لمبا ہے ، اسے مناسب اور میرا بھائی بہت دبلا ہے ، اسے موٹا کردیں، مگر نہ جانے انھوں نے کیسا عمل بتایا کہ میرا قد چھوٹا ہو کر تین فیٹ کا ہوگیا اور میرا بھائی موٹاہونے کے بجائے بے تحاشا لمبا ہوگیااور اب تو کمرے میں میں کھڑا بھی نہیں ہوپاتا۔ہم توپہلے والی حالت میں ٹھیک تھے ۔جمال صاحب بولے، جو اللہ کی رضا پرراضی نہیں رہتے ان کاایسا ہی حشر ہوتا ہے ۔ اسی دوران ایک نقاب پوش بھاگتا ہواآتا ہے اوراپنے منھ سے کپڑا ہٹا کر بولا ” ارے بابا! میں نے کہا تھا کہ مجھے امیر بنا دو، تم نے مجھے ڈاکو بنادیا۔جمال صاحب غصے بولے ، ارے تم اس غریب کو ڈاکو بنادیا ۔عزیر بولا: انھوں نے کہا تھا کہ مجھے امیر بنادو۔اب یہ ڈاکو بن کرڈاکا ڈالیں گے ،خوب دولت کمائیں گے ، جبھی تویہ ! امیر بنیں گے ۔جمال صاحب بولے۔ ہاں بات توٹھیک کہی ہے ۔ڈاکو نے کہا: کیا خاک ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ ہر وقت جان خطرے میں رہتی ہے ۔ پولیس سے منھ چھپاتا پھرتا ہوں ، میری زندگی اجیرن ہوگئی ہے ۔ اب بھی پولیس میرے پیچھے لگی ہوئی ہے ۔وہ دونوں جنات ایک طرف کھڑے یہ تماشا دیکھ کر خوب ہنسے جارہے تھے ۔عزیر کاسرندامت سے جھکا ہوا تھا۔ اسی دوران جمال صاحب نے آنے والے لوگوں سے کہا: جو صحیح راستہ چھوڑ کر غلط راستوں پر چلتے ہیں، ان کا حشر ایسا ہی ہوتا ہے ۔ میں تو پہلے ہی ان سب باتوں کا مخالف تھا۔ میں نے عزیر کو بھی سمجھایا تھا کہ ان چکروں میں مت پڑو، مگر اس نے میری ایک نہ سنی ۔اسی دوران پولیس ڈاکو کو ڈھونڈتی ہوئی ان کے گھر داخل ہوگئی، ڈاکو وہاں سے بھاگنے لگا تو اسی مخلوق نے ٹانگ اڑا کراسے گرادیا۔پولیس نے اسے پکڑ لیا۔ جب پولیس کو ساری صورت حال کا علم ہوا تو پولیس نے عزیر کو بھی گرفتار کرلیا ۔جن کے بھائی نے عزیرکے پاس آکرکہا: اب تمھیں پتاچلے گا کہ قید کی حالت میں زندگی کیسی گزرتی ہے ہمیں توتم نے قید کرلیا تھا، اب اس کی سزابھگتو۔ تمھارے لیے یہ بہتریہ ہے کہ تم میرے بھائی کو آزاد کردو ورنہ میں تمھیں برباد کردوں گا۔عزیر نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جن کو آزاد کردیا۔ جن اپنے بھائی کو آزاد کرالیا، پھر دونوں اپنی دنیا میں واپس جانے کے لیے خوشی خوشی روانہ ہوگئے ۔ عزیر انھیں جاتا ہوا حسرت بھری نگاہوں دسے دیکھنے لگا۔ " غریب سیٹھ - تحریر نمبر 980,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghareeb-saith-980.html,"معاذبن مستقیم :سیٹھ باقر کواپنی دولت پر بڑا فخر تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بہت مغرور تھے ۔ وہ فطرتاََ اچھے آدمی تھے اور لوگوں سے ہمیشہ اچھے طریقے سے پیش آتے تھے ۔ ان کی مل میں بناہوا کپڑا دنیا بھر میں سپلائی ہوتا تھا۔ مل کے ملازمین کے ساتھ بھی ان کاسلوک اچھاتھا۔ اپنے ملازمین کی بہت سی غلطیوں کو وہ اکثر نظرانداز کرجاتے تھے۔ملازمین کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کی کوشش کرتے اور تنخواہ بھی اچھی دیتے تھے ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے ملازمین نے بہت کم ریٹائرمنٹ پہلے اس مل کو چھوڑا۔چنددنوں پہلے ہی مالی نے اپنی دو بیٹیوں کی شادی کے لیے پیسے مانگے۔ انھوں نے صرف اسے قرضہ فراہم کیا، بلکہ شادی کی دعوت بھی مِل کے پرائیویٹ لان میں کرائی ۔(جاری ہے)ان کی مِل کے ایک ملازم ، جسے ابھی کام کرتے ہوئے چار پانچ دن ہی ہوئے تھے ، سڑک پر ایک حادثہ پیش آگیا تھا، جس کی وجہ سے وہ دو مہینے کے لیے کام کے قابل نہیں رہا۔سیٹھ باقر نے اس کا پورا علاج کروایا، بلکہ جب تک وہ دوبارہ کام کے قابل نہیں ہوگیااسے تنخواہ بھی برابر ملتی رہی ۔ غرض یہ کہ وہ بڑی حدتک ایک فرشتہ صف انسان تھے ۔ وہ لوگوں کی مدد کرکے خوش ہوتے تھے ۔ ان کاخیال تھا کہ ان کی ترقی کارازانہی غریبوں کی دعائیں ہیں اس کے باوجود ان کے دل میں ایک خیال تھا کہ وہ امیرآدمی ہیں۔ یہ احساس انھوں نے آج تک کسی پر ظاہر نہیں کیا تھا۔یہ تو بس اس خیال سے ہی سرشار رہتے تھے ۔وہ شہر میں موجود غریبوں کی ضروریات کاخیال رکھنے والے ایک ادارے کو ہر ماہ ایک بڑی رقم بھی دیتے تھے ۔ ویسے تو ہر ماہ کی چار پانچ تاریخ کو پیسے باقاعدگی سے اس ادارے کو مل جاتے تھے، مگر پھر بھی وہ ہر مہینے ایک دوبارہ دوپہر کے کھانے سے پہلے وہاں کا چکر ضرور لگاتے اور ادارے کے پاس موجود ضرورت مندوں کے کھانے پینے اور راشن وغیرہ کی صورت حال کاجائزہ لیتے ۔پچھلے دو مہینوں سے جب بھی وہ ادھر صورت حال کا جائزہ لینے جاتے تو ایک تیرہ چودہ سال کے بچے کواسکول یونی فارم میں سائیکل پر بہت سے اخبارلیے ادارے سے نکلتے دیکھ کر وہ افسوس کرتے کہ بے چارے کو اس عمر میں کام کرنا پڑرہا ہے ․․․․․ اور اسی لمحے اپنی امیری کاخیال آتااوران کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ۔ایک دن اس اخبار والے بچے کی مدد کی نیت سے اپنے معمول سے ایک گھنٹہ پہلے وہی وہاں پہنچ گئے اور انتظار کرنے لگے ۔آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد وہ بچہ آتا دکھائی دیا۔ وہ گیٹ سے اپنی سائیکل سمیت ہی اندر آگیاتھا۔ انھوں نے بچے کو ہاتھ کے اشارے سے قریب بلاا اور اس کی جیب میں ہزار کا نوٹ ڈالنے لگے تو انھیں حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا۔ بچے نے ان سے وہ نوٹ لینے سے انکار کردیا۔نہیں انکل ! میرے والدین کہتے ہیں کہ اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔اللہ میاں کا شکر ہے ۔ ہم مل کرکام کرتے ہیں اور ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ اس بچے نے معصومیت سے کہا اور انھیں حیران وپریشان چھوڑ کر ایک جانب چل دیا۔ان کے قدم غیر ارداری طور پر اس بچے کے پیچھے اٹھ گئے ۔ اب جو منظر انھوں نے دیکھا تو ان پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ وہ بچہ اپنی جیب سے دس رپے کانوٹ نکال کر ادارے کے خیراتی بکس میں ڈال رہاتھا۔پیسے ڈال کر اس نے سائیکل گھمائی اور گیٹ سے باہر نکل گیا۔ انھوں نے ادارے کے منتظمین سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ غریب بچہ یہاں روزانہ اپنی معمولی آمدنی کے باوجود دس رپے ضرور ڈال کر جاتا ہے اور کبھی یہاں کاپانی تک نہیں پیتا۔ سیٹھ باقر کے دل پراک چوٹ سی لگی۔ آج انھیں معلوم ہوا کہ حقیقت میں امیر کون ہے ۔ وہ محنت کرنے والا بچہ جس کادل اس دنیا کے سب امیروں سے زیادہ امیر تھا۔اب جب بھی ان کے دل میں کبھی امیری کا خیال آتا تو ان کی آنکھوں کے سامنے وہ بچہ آجاتا تھا، جس کے سامنے وہ اپنے آپ کو بہت غریب محسوس کرتے ہیں، انتہائی غریب۔ " چھوٹے مگر مچھ کی مسکراہٹ - تحریر نمبر 979,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chotay-magarmach-ki-muskarahat-979.html,"احمد عدنان طارق :جینو اردگر پھیلے ہوئے پانیوں میں پائے جانے والے مگر مچھوں میں سب سے بھولا بھالا تھا۔ جب دوسرے مگر مچھ اوروں پر غرارتے اور دانت پیس پیس کر غصہ دکھاتے تو جینو ہر کسی کو مسکراکرملتا اُس کی ہنسی اُس کے بڑے منہ پر بڑی پھلی لگتی ۔ ایک دن دوسرے مگرمچھوں نے اُسے روکا کہ اُسے اتنا مسکرانا نہیں چاہئے بلکہ دوسرے مگرمچھوں کی طرح چہرے پر ناراضگی کاتاثر رکھناچاہئے ۔جینو بچارے نے سب سے وعدہ کیا کہ وہ کوشش کرے گا اور پھرایک ناراض ساچہرہ بنالیا۔ لیکن اُس کے چہرے کے تاثرات صرف دو سکینڈ برقرار رہے اور اُس کے چہرے کی مسکراہٹ واپس آگئی ۔ اُس نے سب سے پوچھا کہ وہ ناراض چہرے سے کیسا لگ رہا تھا دوسروں نے براسامنہ بناکر اُسے بتایا کہ ” بہت ہی بھونڈا “ اُن کا خیال تھا کہ جینو کبھی دوسرے مگر مچھوں کی طرح ظالم نہیں ہوسکتا ۔(جاری ہے)ایک دن کچھ دریائی گھوڑے دریا میں آئے وہ بہت بڑے بڑے اور تعداد میں بھی زیادہ تھے ۔ انہوں نے دریا میں مگر مچھوں کی من پسند جگہ پر قبضہ جمالیا اور ہلاگلاشروع کردیا۔ وہ منہ میں پانی بھر بھر کر ایک دوسرے پر پھینک رہے تھے کچھ غوطے لگا کر پائی میں چھین چھپائی کھیل رہے تھے ۔ اُن کی اُچھل کود سے پانی میں بڑی بڑی لہریں پیدا ہورہی تھیں ۔اُن سب کو بڑا مزا آرہا تھا۔ جینو کوان کاہنسی مذاق اور ہلاگا بہت پسند آرہا تھا۔ جینو کو سب سے مزے والی بات یہ لگ رہی تھی کہ دریائی گھوڑے پانی میں ڈوب جاتے اور پھر وہ آہستہ آہستہ پانی کی سطح پر نمودار ہوتے توبے شمار پانی کے بلبلے بنتے ۔ اُسے اُن کا یہ مقابلہ بہت پسند تھا کہ سب سے بڑی لہر کون بناتا ہے ، پھر پانی کو ہوا میں پھینک کرفوارے بنانے والا انداز بھی بیحد پسند آرہا تھا۔لیکن دوسرے نک چڑھے مگر مچھوں کو یہ سب بالکل پسند نہیں آرہا تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ان سے چھٹکارہ کیسے حاصل کیا جاسکتا ۔جینو نے دریائی گھوڑے کے ایک بچے کو دیکھا جو بڑا گول منول تھا۔ اُس کانام جگنو تھا۔ جگنو نے جینو سے کہا کہ وہ یہ شرط لھا سکتا ہے کہ وہ اتنے بلبلے نہیں بناسکتا اور پھر اُس نے پانی کے بلبلوں کاایک بادل بنا دیا۔ لیکن جینو نے یہی کام اُسے اپنے نتھنوں سے کردکھایا۔پھرجگنو نے دریامیں غوطہ لگا لیا۔ لیکن جینو بھی یہ کام کرسکتاتھا وہ بھی آسانی سے پانی کے نیچے چلا گیااور پھر وہ تیرتے ہوئے دریاکنارے چلے گئے ۔ اس طرح وہ دونوں دوست سارادن کھیلتے رہے ۔ جینو نے زندگی میں اتنا مزاکبھی نہیں کیا تھا۔وہ سب اکٹھے ہوکر سوچ رہے تھے کہ ان دریائی گھوڑوں سے چھٹکارہ کیسے حاصل کیاجاسکتا ہے ۔ پہلے انہوں نے دانت نکوس کرانہیں ڈراتا چاہا۔لیکن دریائی گھوڑے مسکرائے تو مگرمچھوں نے دیکھا کہ اُن کے دانت زیادہ بڑے تھے ۔ پھر وہ دریائی گھوڑوں سے بدتمیزی پر اُترآئے اور انہیں بدبودار جانور کہا لیکن دریائی گھوڑوں نے بُرا نہیں منایا وہ اسے مگرمچھوں کا مذاق سمجھ رہے تھے جب دریائی گھوڑے تیرنے لگے تو مگر مچھوں نے اُن پر حملوں کردیا لیکن بڑے سکون سے گھوڑے دریاکی گہرائی میں چلے گئے جہاں مگر مچھوں کا جانا مشکل تھا۔اب مگرمچھوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کریں لیکن جینو کے پاس ایک ترکیب تھی اُس نے نک چڑھوں سے پوچھا کہ وہ مسکرا کردریائی گھوڑوں کو پیارے سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ یہاں سے چلے جائیں تو نک چڑھ مگر مچھوں کی ہنسی نکل گئی کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟ لیکن جینو نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا تب نک چڑھوں نے اُسے یہ بھی کرنے کی اجازت دے دی۔نک چڑھوں کاخیال تھاایسا ہو نہیں سکتا لیکن پھر ایسا ہوگیا۔ دریائی گھوڑے جینو کو پسند کرتے تھے انہیں ان کے چہرے کی مسکراہٹ بہت پسند تھی انہوں نے اس کی بات غور سے سنی جب جینو نے انہیں بتایا کہ نک چڑھے مگر مچھ ہلاگلا پسند نہیں کرتے ۔ اسی لئے وہ ہر وقت جلے بھنے رہتے ہیں تو انہوں نے جینو کو کہا کہ وہ ایک شرط پر یہ جگہ چھوڑ کردریا میں آگے چلے جاتے ہیں۔ اگروہ جگنو کے ساتھ روز کھیلنے وہاں آیا کرے گا اُس نے دریائی گھوڑوں کی یہ شرط مان لی ۔مگرمچھ دریائی گھوڑوں کو جاتے دیکھ کربہت حیران تھے ۔ انہوں نے جینو سے کوئی بات نہیں کی لیکن وہ اب دل سے اس بات کو مان گئے تھے کہ ” لڑنے بھڑنے سے کہیں بہتر مسکراکربات کرنا ہے ۔ " بونوں کا تحفہ - تحریر نمبر 978,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bonon-ka-tohfa-978.html,"احمد عدنان طارق:معاذ کودوسال پہلے اس کی سلگرہ کے موقع پر چچانے تحفے میں سائیکل خرید کر دی تھی ۔ جب تک وہ نئی تھی بہت ہی خوب صورت دکھائی دیتی تھی ۔ وہ اپنے رنگ کی وجہ سے چاندی کی طرح چمکتی تھی ۔ اس کے ہینڈل پر ایک بہت ہی خوب صورت آواز والی گھنٹی لگی ہوئی تھی ۔ جب اسے ڈھلوان پر سائیکل چلانی ہوتی توسائیکل روکنے کے لیے بڑاجان دار بریک بھی موجود تھا۔ہینڈل کے درمیان اندھیرے میں دیکھنے کے لئے لائٹ بھی لگی ہوئی تھی، لیکن دوسال گزرنے کی وجہ سے وہ بوسیدہ ہوچکی تھی ۔ اب نہ اس کی لائٹ جلتی تھی اور نہ اس کی گھنٹی بجتی تھی ۔ایک دن معاذنے سائیکل کودیکھا تو فیصلہ کیا کہ آج وہ اسے اچھی طرح صاف کرکے رہے گا۔ اس کی بہت خواہش تھی کہ کاش وہ سائیکل پر نئی گھنٹی خرید کرلگاسکے تاکہ جب وہ گھنٹی بجائے تو دور سے لوگوں کو پتا چل جائے کہ اس کی سائیکل آرہی ہے ۔(جاری ہے)اس نے بڑی محنت سے کام کیااور شام کے کھانے تک اس کی سائیکل نئی جیسی لگ رہی تھی ۔ اس کی امی بازار سے خریداری کے بعد واپس آئیں اور سائیکل کودیکھا ۔ وہ بولیں : معاذ ! میرے پاس تمھاری سائیکل پر لگانے کے لیے ایک تحفہ ہے ۔ذرا دیکھو۔وہ سائیکل کے آگے لگانے والی ٹوکری تھی ، جس میں چھوٹی موٹی چیزیں رکھی جاسکتی تھیں۔ معاذ کو سخت مایوسی ہوئی، پھر بھی اس نے بڑی خوش دلی سے امی کاشکریہ ادا کیا۔پھر اس نے اپنی سائیکل پر ہینڈل کے آگے ٹوکری لگائی ، لیکن اب بھی اس کے دماغ میں سائیکل کی نئی گھنٹی ہی گھوم رہی تھی ۔شام کے وقت معاذ اپنی چمکتی سائیکل پر سوار ہو کرسیرے کے لیے نکل پڑا ۔ قصبے کے قریب کی ایک جنگل تھا۔ جنگل میں اسٹرابیریوں کی بھرمار تھی ۔ بڑی بڑی، رس سے بھری اور سرخ اسٹرابیریاں ۔ معاذ جلدی جلدی انھیں توڑنے لگا۔ اچانک اس نے اسٹرابیری کی جھاڑیوں کے قریب بہت سے ننھے منے بونے دیکھے ، جوسبز رنگ کی پتلونیں اور سرخ رنگ کی قمیصیں پہنے ہوئے تھے ۔وہ تعداد میں ساتھ تھے اور بہت جلدی میں لگ رہے تھے ۔ معاذ ان کی آواز سننے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک بولا: ہمیں بہت دیر ہوگئی ہے ، مجھے یقین ہے ہم وقت پر نہیں پہنچ سکتے ۔دوسرا بولا: میں ہرگزوہ تقریب نہیں چھوڑسکتا ۔ایک اور بونے نے کہا: ہم صبح ہی وقت کاخیال کرتے تو دیر نہ ہوتی ۔ مجھے راستہ اچھی طرح یاد ہے ، لیکن پھر بھی ہمیں دیر ہوجائے گی ۔اچانک ان ننھے بونوں کی نظر معاذ کی قریب کھڑی ہوئی سائیکل پر پڑی ۔ انھوں نے خوش ہو کر سائیکل کی طرف اشارہ کیا۔ ایک بونے نے کہا : دیکھو یہاں ایک سائیکل موجود ہے ، جس کی اس وقت ہمیں شدت سے ضرورت ہے ۔ آؤ اسے جادو سے چھوٹا کرلیتے ہیں۔ تم سب کو بٹھا کر میں اسے تیزی سے چلاتا ہوں تاکہ ہم وقت پر تقریب میں پہنچ جائیں۔ مجھے پتا ہے کہ اسے چھوٹا کیسے کرنا ہے ۔تمام بونے سائیکل کے نزدیک اکھٹے ہوگئے ۔ابھی معاذ حیران ہورہا تھا کہ ایک بونے نے ہاتھ میں جادو کی چھڑی سنبھالی اور جادو کرنے لگا۔ معاذ فوراََ چلایا: ارے ! ارے یہ کیا کررہے ہو؟ یہ میری سائیکل ہے۔ اگر تم نے اسے چھوٹا کردیا تو اسے کیسے چلاؤں گا۔بونے خوف زدہ ہوکراس کی طرف دیکھنے لگے ۔ انھوں نے بھاگنے یاچھپنے کی کوشش نہیں کی ، لیکن ان کی آنکھوں سے افسوس صاف جھلک رہاتھا کہ وہ سائیکل استعمال نہیں کرسکتے ۔ایک بونے نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا: بڑی مشکل سے تقریب میں وقت پر پہنچنے کاایک حل نکلا تھا۔ مایوس ہوکر بونے مڑنے اور جانے لگے ۔اسی وقت معاذ کے ذہن میں ایک عمدہ ترکیب آئی ۔ وہ چلایا : ‘رُکو ، رُکو۔ میں تمھیں تقریب میں لے جاسکتا ہوں ۔ میں تمھیں بڑے آرام سے اپنی سائیکل کی ٹوکری میں سوار کرلیتا ہوں ۔ تم بڑے آرام سے ٹوکری میں بیٹھ جاؤ گے۔تم میں سے ایک مجھے راستہ بتائے گا اور ہم جلدی سے تقریب میں پہنچ جائیں گے ۔بونے آپس میں باتیں کرنے لگے ۔ ان کی آوازیں بہت دھیمی تھیں۔ وہ بولے : یہ ٹھیک ہے پیارے لڑکے ! ہمیں لے چلو۔ ہم بڑے آرام سے ٹوکری میں بیٹھ سکتے ہیں ۔معاذنے بڑے پیارا اور احتیاط سے ایک ایک بونے کو ہاتھوں میں اُٹھا کرٹوکری میں بٹھایا۔ اب اسے بڑی خوشی ہورہی تھی کہ امی نے اسے ٹوکری تحفے میں دی تھی ۔جب سب بونے ٹوکری میں سکون سے بیٹھ گئے تو معاذ نے گدی پر بیٹھ کر پاؤں سائیکل کے پیڈل پررکھ لیااور کہا: اب آپ میں سے کوئی ایک مجھے راستہ بتایا جائے ۔بونوں میں سے ایک کھڑا ہوگیا اور راستہ بتانے لگا۔ معاذ تیری سے سائیکل چلانے لگا۔ راستہ اگرچہ تنگ ہوتا جارہا تھا ، لیکن پھر بھی سائیکل کی رفتار میں کمی نہیں آئی۔ بونوں کو راستہ معلوم تھا۔آخر وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے ۔ وہ درختوں کے درمیان ایک سرسبز چھوٹاسا میدان تھا۔ وہاں بہت سے بونے ، پریاں ، پری زاد جمع تھے ۔ معاذ حیرت سے انھیں دیکھتا ہی رہ گیا۔ بونوں نے کہا : شکریہ بچے ! ہم تمھیں اس نیکی پر انعام بھی دیں گے ۔ اب مہربانی کرکے گھر روانہ ہوجاؤ، کہیں تھیں دیکھ کر ہمارے دوست نہ ڈر جائیں ۔معاذبولا: لیکن راستہ اتنا لمبا اور اس میں اتنے موڑ تھے کہ میں بھول گیا ہوں۔سارے بونے ٹوکری سے اُتر آئے تھے ۔ ان میں سے ایک بولا: لیکن تمھاری سائیکل راستہ جانتی ہے ۔ اس نے پہیے پرہاتھ پھیرا اور کہنے لگا: گھر ․․․․․ سائیکل ․․․․․․․ گھر ۔معاذ نے حیرت سے دیکھاکہ سائیکل نے اپنا رخ خود بخود تبدیل کرلیا۔ معاذ گدی پر بیٹھا تو سائیکل خود بخود راستے پر رواں دواں ہوگئی اور جلد ہی وہ اس مقام پر پہنچ گیا ۔جہاں کچھ دیر پہلے وہ اسٹرابیریاں جمع کررہاتھا۔ سائیکل وہاں پہنچ کررگئی ۔ معاذ نے سوچا کہ کتنا حیرت انگیز واقعہ تھا ۔ مجھے معلوم ہے کہ میری اس کہانی پرکوئی یقین نہیں کرے گا، اس لیے بہتر ہے کہ میں کسی کو بھی نہ بتاؤں ۔گھر آکر اس نے سائیکل ایک جگہ کھڑی کردی۔ صبح جب وہ سائیکل لینے گیا تو اس کی سائیکل کے ہینڈل پر ایک انتہائی خوبصورت اور بڑی گھنٹی لگی ہوئی تھی۔جو کبھی معاذ نے تصور میں بھی نہیں سوچی تھی۔ اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ ایک میل دور تک سنائی دیتی تھی ۔ اس پر ایک رقعہ بندھا ہوا تھا، جس پر لکھا ہواتھا : سات بونوں کی طرف سے ۔سب جاننا چاہتے تھے کہ اتنی خوبصورت گھنٹی معاذ نے کہاں سے لی ہے ، لہٰذا معاذ کو سارا واقعہ بتانا ہی پڑا اور سب کو ماننا ہی پڑا ، کیوں کہ ایسی عجیب وغریب گھنٹی انھوں نے آج تک نہیں دیکھی تھی ۔ " نیکی کا سفر - تحریر نمبر 977,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/neki-ka-safar-977.html,"محمد حمزہ اشرفی : امی ! میں نے سلمان صاحب سے بات کرلی ہے ۔ وہ مجھے ملازم رکھنے پر راضی ہوگئے ہیں۔ پندرہ سالہ حسام خوشی خوشی اپنی امی کو بتارہا تھا ۔حسام کی والدہ اس سے کام کروانا نہیں چاہتیں تھیں، مگر مجبوری ہی کچھ ایسی تھی ، وہ بے دلی سے مسکرادیں والد کے انتقال کے بعد حالات نے وقت سے پہلے ہی حسام کو سمجھ دار بنادیا تھا۔وہ میٹرک کاامتحان پاس کرچکا تھا ۔سلمان صاحب کی موٹر مکینک ورکشاپ تھی ۔ چند مہینے میں ہی حسام نے اپنے کام پر اتنا عبور حاصل کرلیا تھا، جس کے لیے کئی سال درکار تھے ۔ سلمان صاحب نے اس کی تنخواہ بڑھا دی تھی ۔ایک بار سلمان صاحب کے دوست ڈاکٹر صلاح الدین صاحب اپنی گاڑی ٹھیک کرانے ورکشاپ آئے ڈاکٹر صاحب سے یہ اس کی پہلی ملاقات تھی۔(جاری ہے)سلمان صاحب کہیں گئیے ہوئے تھے ۔ وہ حسب عادت پوری توجہ سے ڈاکٹر صاحب کی کار پرکام کررہا تھا۔ کچھ دیراسے توجہ کام کرتے دیکھتے رہے ، پھر انھوں نے اس کانام پوچھا : تمھارا کیانام ہے بیٹے ! لہجہ شائستہ تھا ۔حسام الدین ۔ مختصر جواب دے کروہ پھر کام میں لگ گیا تھا ۔تمھارے والد کیا کرتے ہیں ؟ چند لمحے رک کرانھوں نے دوسرا سوال کیا۔جی وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں ۔تم پڑھتے نہیں ہو ؟ انھوں نے ہمدردی سے پوچھا ۔نہیں مجھے پڑھنے کا شوق تو بہت ہے، لیکن حالات کی وجہ سے مجبور رہوں۔ڈاکٹر صاحب کچھ دیراور اس سے باتیں کرتے رہے ۔ اس دوران گاڑی کاکام مکمل ہوگیا تو اس نے کہا : لیجیے آپ کاکام ہوگیا ۔حسام بیٹا! کیا تم مجھ سے میرے کلینک میں مل سکتے ہیں ہو، کسی وقت ؟ کارڈ بڑھاتے ہوئے اس کی طرف انھوں نے کہا۔ان کے لہجے میں کچھ ایسا تاثر تھا کہ حسام نے وہ کارڈ لے لیا۔ اتنے میں سلمان بیگ آگئے اور ڈاکٹر صاحب ان کی طرف بڑھ گئے ۔” السلام وعلیکم “ اگلے ہفتے وہ ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں تھا ۔“ وعلیکم السلام “ ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کرجواب دیا۔مجھے تمھارے آنے سے بہت خوشی ہوئی حسام میاں ! جانتے ہو جب میں نے تمھیں پہلی دفعہ دیکھا ، مجھے اسی وقت اندازہ ہوا کہ تمھارا کسی مہذب گھرانے سے تعلق ہے ۔پھر جب تم نے بتایا کہ تمھارے والد کا انتقام ہوگیا تو مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں تمھاری مدد کرنا چاہتا ہوں ۔ حسام میاں ! کیا تم تعلیم پھر سے شروع کرناچاہتے ہو ؟” جی انکل ۔ “ حسام کا جھکا ہوا چہرہ ذرا اٹھا تو اس میں اُمید کی کرن تھی ۔اچھی بات ہے ، میں تمھاری تعلیم کا پورا خرچ اُٹھاؤں گا، بس تم دل لگاکرتعلیم حاصل کرنا ۔ڈاکٹر صاحب ! میں کس طرح آپ کے اس احسان کا بوجھ اُٹھاؤں گا، جسے میں اُتار بھی نہیں سکتا ۔حسام واقعی بہت خود دار تھا ۔یہ میں تم پراحسان نہیں کررہا ہوں حسام میاں ! ایک فرض ادا کررہا ہوں ۔ سنو، میرے والدین بہت غریب تھے ۔ میرے پاس اعلاتعلیم حاصل کرنے کے لیے وسائل نہیں تھے ۔ ان حالات میں میرے ایک استاد نے ہی مجھے تعلیم دلوائی ، مجھے ڈاکٹر بنایا۔ ایک دن میں اس قابل ہوگیا کہ ان کا کچھ احسان اُتار سکوں۔ میں ان کے پاس گیا۔ان کا احسان یاد دلایا تو انھوں نے جوکہا، ان کے الفاظ مجھے آج تک یاد ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ برخوردار ! میں نے تمھیں ا س لیے تعلیم نہیں دلوائی کہ تم مجھے پر مہربانی کرکے میری نیکی برباد کردو، اسے ختم کردو۔ نیکی سفر کرتی ہے ۔ ہاں اگر تم واقعی کچھ کرنا چاہتے ہو تو کسی ایسے بچے کو جو تعلیم کا شوقین ہو، مگر اس کے پاس وسائل نہ ہوں، اسے تعلیم دلوادینا ، تو حسام میاں ! میں صرف اپنے استاد کا قرض اُتار رہا ہوں۔حسام اب مطمئن ہوچکا تھا، مگر چہرے پر پھر ایک اُلجھن آئی : انکل ! میں صبح ورکشاپ جاتاہوں اور رات دیں بجے واپس آتا ہوں۔ تعلیم کے لیے وقت کیسے نکال پاؤں گا ؟اگلے دن حسام ورکشاپ پہنچا تو دیکھا کہ باہر ہی ڈاکٹر صلاح الدین اور سلمان بیگ کھڑے مسکراتے ہوئے باتیں کررہے تھے ۔ وہ سلام کرکے ورکشاپ کے اندر چلاگیا۔ تھوڑی دیر بعد سلمان صاحب اندر آئے اور کہنے لگے: حسام ! مجھے بہت خوشی ہوئی تم نے پھر سے پڑھائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس سلسلے میں ، میں تمھاری ہر ممکن مدد کروں گا اور ہاں، اب تم شام چھے چھے بجے ہی چھٹی کرلیا کرو ۔حسام کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ حسام نے شام کے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ وہ انتہائی ذہین تھا۔ اس نے اپنے لیے تجارت کے شعبے کا انتخاب کیاتھا۔ ٹیوشن کی ضرورت اس کو پہلے بھی کبھی نہیں پڑی تھی ۔ کبھی کبھار کوئی بہت مشکل سوال ہوتا تو وہ ڈاکٹر صلاح الدین کے بیٹے خرم سے مدد لیتا تھا۔خرم ایک بینک میں منیجر تھا ۔حسام نے بی کام کے بعدایم کام بھی اچھے نمبروں سے پاس کرلیا۔ خرم نے سفارش کرکے اپنے بینک میں اچھی ملازمت بھی دلادی تھی ۔ حسام کی تعلیم اب بھی جاری تھی ۔بہت سارا وقت گزرگیا۔ حسام الدین نے تعلیم مکمل کرلی تھی ۔ اب وہ بینک میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا پورا سٹاف ان سے خوش تھا۔ انھوں نے ماں کی پسند سے شادی کرلی تھی ۔ڈاکٹر صاحب کا خاندان اس کی شادی کی تیاریوں میں پیش پیش تھا۔ایک دن وہ پھل خریدنے ایک بڑی دکان پر پہنچے ۔ خریداری کے بعد دکان دار نے ایک لڑکے کو اشارے سے بلایا اور کہا کہ یہ سارے پھل صاحب کی گاڑی میں رکھ دو۔ حسام الدین صاحب کو یہ لڑکا بہت شائستہ لگا۔ انھوں نے لڑکے سے پوچھا: ” تم صرف کام کرتے ہو یا پڑھتے بھی ہو “لڑکے نے جواب دیا: میرے والدین نہیں ہیں۔میں اپنے غریب چچا کے ساتھ رہتا ہوں۔ وہ بھی یہاں سے تھوڑی دورکام کرتے ہیں۔ میں نے نویں جماعت پاس کرلی ہے ۔ آگے پڑھنے کاشوق تو ہے ، مگر گھر کے حالات خراب ہیں۔”ٹھیک ہے ۔ حسام نے اپنا کارڈ اسے دیتے ہوئے کہا: تم اپنے چچا کے ساتھ اس پتے پر آجانا، اللہ بہتر کرے گا۔ یہ سفر کرتی نیکی کاایک اور پڑاؤ تھا۔ " اژد ہے کا شکار - تحریر نمبر 976,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azdahay-ka-shikar-976.html,"جاوید اقبال :مچھلی کے شکار کے لیے ہم دریا کہ کنارے کانٹے ، ڈوریاں پانی میں ڈالے اور بنسیاں تھا مے بیٹھے تھے۔ یہاں ساتھ ساتھ تین درخت تھے جن سے ٹیک لگائے ہم تین دوست بیٹھے تھے ۔ ہمیں ادھر آتے دیکھ کر کئی لوگوں نے منع کیا کہ اُدھر نہ جاؤ، وہاں ایک اژدہا دیکھا گیا ہے ۔ہم نے سنی اَن سنی کردی اور یہاں آبیٹھے ۔خالد نے کہا : ہم اسی لیے تو یہاں آئے ہیں۔ اژد ہے کہ خوف سے مچھلیوں کے شکاری اس طرف نہیں آتے اور یہاں خوب مچھلیاں ملتی ہیں اور پھر ہمارے پاس یہ بندوق بھی تو ہے ۔ اس نے تھیلے میں پڑی بندوق کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔اس وقت شامل ڈھل چکی تھی اور چاند نکل آیا تھا۔ آسمان پہ چاند ستاروں کا کارواں رواں دواں تھا۔ دریا کے پانی میں چاند ستارے یوں جھلملارہے تھے جیسے جگنوؤں لہروں اور دائروں میں تحلیل ہوگئے ۔(جاری ہے)ہم کھلکھلا کر ہنس پڑے ۔ہش ۔ خالد نے ہمیں خبردار کیا : کیا اژد ہے کو یہاں بلانے کا ارادہ ہے ۔ ہم ایک دم محتام ہوگئے ۔ احمد نے بندوق میں گولیاں بھر لیں اور ہم لہروں پہ نظریں جمائے مچھلیوں کا انتظار کرنے لگے ۔ کافی دیر بعد میری ڈوری میں ہلچل ہوئی۔ میں نے مضبوطی سے اسٹک پکڑ کر ڈوری کھینچی تو دیکھا کہ وہ تقریباََ ایک کلووزنی مچھلی تھی ۔اس کے بعد ہم نے چارمچھلیوں اور پکڑلیں، آج ہمارا ارادہ تھیلا بھر کے مچھلیاں لے جانے کا تھا اس لیے ہم مزید مچھلیوں کاانتظار کرنے لگے ۔چاندنی رات اور ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے ہم پرسستی سی چھاگئی تھی ، لیکن اژد ہے کہ خوف سے ہم بار بار سنبھل جاتے، مگر آخر نیند ہم پرحاوی ہوگئی اور ہم اسٹک تھامے اونگنے لگے ۔جانے رات کا کون ساپہر تھا کہ میری آنکھ کھل گئی ۔سینے پہ سخت دباؤ محسوس ہورہا تھا۔ میں ذرا بھی حرکت نہیں کرسکتا تھا۔ پہلے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا پھر اچانک مجھ پر یہ خوفناک انکشاف ہوا کہ اژد ہے نے میرے جسم کے گردبل ڈال کر مجھے اپنی گرفت میں جکڑرکھا ہے ۔ اب میری آنکھیں پوری طرح کھل گئی تھیں۔ میں ا ژد ہے کاحرکت کرتا ہوا سردیکھ سکتا تھا۔ اژد ہے کا خوف ناک چہرہ اپنے اتنے قریب دیکھ کر میرے اوسان خطا ہوگئے ۔ہاتھ پاؤں کو حرکت دینا تواک طرف ، مجھ میں پلک جھپکنے کی سکت نہ تھی ۔ اژدہا آہستہ آہستہ اپنی گرفت مضبوط کررہاتھا۔ شاید وہ مجھے بے دم کرکے سالم ہی نکلناچاہتا تھا۔میں نے نظر ترچھی کرکے اپنے دوستوں کی طرف دیکھا ۔ وہ میری حالت سے بے خبراونگھ رہے تھے ۔ میں سوچنے لگا کہ دوستوں کو کیسے اپنی طرف متوجہ کروں، کیوں کہ ذرآواز نکلی تو اژدہا مشتعل ہوکر مجھے نکل جائے گا۔لمحے گھنٹوں کی طرح گزررہے تھے ۔ اژد ہے سے بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آرہی تھی ۔ اچانک میں نے احمد کی اسٹک کو ہلتے دیکھا ۔ شاید کوئی مچھلی کانٹے میں پھنس گئی تھی ۔ احمد نے چونک کر آنکھیں کھول دیں اور ڈوری اسٹک کی چرخی پرلپیٹنے لگا۔ پھر ایک بڑی مچھلی کانٹے میں پھنسی نظرآئی۔ اتنی بڑی مچھلی دیکھ کر خوشی سے بے قابو ہوکر اس نے مجھے بتانے کے لیے میری طرف دیکھا اور پھر خوف سے اس کی آنکھیں پتھراگئیں۔اس نے خالد کو جھنجوڑ کر میری طرف متوجہ کیا۔ خالد بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھنے لگا پھر وہ دونوں آہستہ آہستہ اس جگہ سے دور کھسکنے لگے ۔مجھیموت کے منھ میں چھوڑ کر میرے دوست مجھ سے دورجارہے تھے ۔ ان کے اس طرز عمل پر میں حیران رہ گیا۔ اب میری پوری توجہ اژد ہے کہ طرف ہوگئی ۔ وہ کچھ بے چین نظر آرہا تھا۔ اچانک اس نے اپنا سر گھمایا اور اس کا چہرہ بالکل میرے سامنے آگیا۔اس کی شعلے برساتی آنکھیں مجھ پر جم گئیں ۔ مجھے ایسا لگا جیسے میری رگوں میں خون کی گردش رک گئی ہو۔ اژد ہے کا گھیراتنگ ہونے لگا۔ مجھے محسوس ہوا کہ ابھی میرا دم گھٹ جائے گا۔ پھراژد ہے نے مجھے نگلنے کے لیے اپنا بڑا سامنھ کھولااس کے خوف ناک دانت چاندنی میں چمکے میں نے دہشت سے آنکھیں بندکرلیں۔ اسی وقت کا دن پھاڑدینے والا ایک دھماکا ہوا، پھر مجھے اپنا کچھ ہوش نہ رہا۔جب مجھے ہوش آیا تو میرے دوست میرے منھ پر پانی کے چھینٹے ماررہے تھے ۔ میں نے اُٹھ کر اس طرف دیکھا ، جہاں کچھ دیر پہلے میں بیٹھا تھا۔ اب وہاں اژد ہے کہ لاش پڑی تھی ۔ اس کی کھوپڑی کے پرخچے اڑگئے تھے۔ دوستوں نے بتایا کہ وہ دانستہ پیچھے ہٹے تھے، تاکہ اژدہامشتعل ہوکر مجھے نقصان نہ پہنچادے ، پھر جیسے ہی اس کا سر ان کے نشانے پرآیا ، انھوں نے اس کاکام تمام کردیا۔ " جھوٹ سچ آدھا آدھا - تحریر نمبر 975,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhoot-sach-adha-adha-975.html,"سید فتح علی انوری :بہادر گڑھ نامی ایک شہر میں شیروپہلوان نے اپنی جھوٹی دھاک بٹھارکھی تھی ۔ شیرو لمباچوڑا ، بھاری بھر کم آدمی تھا اور وہ اپنی ظاہری حالت کا فائدہ اٹھا رہاتھا ۔ شہرمیں اس نے پہلوانی کے لیے بڑا عالی شان اکھاڑابنایا، جہاں بہت سے لڑکے ورزش کیا کرتے تھے ۔ شیروپہلوان تھوڑی دیر کے لیے آتا تھا ۔اس کا چوڑاچکلا جسم ، ریشمی لنگی، زریں دوشالہ اورایک ہاتھ میں سونے کی زنجیر دیکھ کر لوگ اس کے رعب میں آجاتے اور اس کاادب لحاظ کرتے ۔ دکان دار بھی اسے بخوشی اُدھاردیتے اور اس کی آؤ بھگت کرتے۔ اس کے اکھاڑے میں ورزش کرنے والے اس کا پرچارکیا کرتے کہ ایسا پہلوان ہے جو صبح وشام ایک پورے بکرے کی یخنی پیتا ہے ،ناشتے میں پچاس انڈے اورایک سیر مکھن کھاتا ہے ، جس نے ایک شیر کا جبڑا ہاتھوں سے مروڑکراس کی مونچھیں اُکھاڑ پھینکی تھیں وغیرہ وغیرہ ۔(جاری ہے)بڑے بڑے نامی گرامی پہلوان اس کاادب کرتے اور اس سے ملاقات کے خواہش مند رہتے ۔ اتنا بڑا پہلوان کسی نے دیکھا تھا نہ سنا۔ایک دوسرا پہلوان بھی اسی شہر میں آبسا ، مگراس بچارے کو کسی نے گھاس ہی نہیں ڈالی۔ اس نے سوچا کہ اگر بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ اس نے بڑا ادب اور احترام واہتمام کے ساتھ شیروپہلوان کو مقابلے کی دعوت بھیجی ۔شہر کے چوک میں اس مقابلے کااعلان ہوا، جہاں نئے پہلوان نے کہا : بھائیو! آپ کے شہر کا شیروپہلوان تو دوردور مشہور ہے ۔ میں تو ایک گمنام پہلوان ہوں اور شیروپہلوان کاشاگرد بننا چاہتا ہوں۔ شیرو پہلوان سے ہارنا بھی میرے لیے بڑی عزت کی بات ہے ۔تمام شہریوں نے اتفاق کیاکہ ملاقات کے بعد مقابلے ضرور ہوناچاہتے ہیں۔ ویسے بھی یہ دُبلا پتلا پہلوان ہمارے شیرو کاکیا بگاڑ سکتا ہے ۔شیروپہلوان کو بھی یہ دعوت قبول کرنی پڑی ۔نئے پہلوان پرزبردست رُعب ڈالنے کے لیے شیرپہلوان کے شاگردوں نے زبردست جلوس نکالا ۔ شیروکو زرق برق لباس پہناکر ہاتھی پر بٹھایا۔ بینڈ باجے کے ساتھ جلوس گشت پر نکلا۔ دس پندرہ شاگرد آگے آگے بھنگڑا ڈال رہے تھے اور باقی پندرہ بیس شاگرد لہک لہک کرگانا گارہے تھے ۔ہمارا شیرو جیتے گا، جیتے گابھئی جیتے گاسامنے جو بھی آئے گا، اپنے منھ کی کھائے گاہمارا شیرو جیتے گا، جیتے گا بھئی جیتے گابازاروں اور گلیوں کو سجایا گیا۔یہ سب باتیں نئے پہلوان کی ہمت پست کرنے کے لیے کافی تھیں ۔ نئے پہلوان نے اکھاڑے میں اُتر کر بڑے ادب سے شیرو کوسلام کیا۔ جھک کر ہاتھ ملایا۔ دونوں پہلوان ایک دوسرے کے گرد چکر کاٹنے لگے اور مناسب داؤپیچ تلاش کرتے رہے ۔ یکایک نئے پہلوان نے شیرو کو اپنے کندھے پراُٹھایا اور بوری کی طرح دھڑام سے فرش پر پھینک دیا۔ شیرو ک ساری شیخی دھری رہ گئی ۔تماشائیوں نے نعرہ لگایا: غرور کاسر نیچا ۔شیرو دیر تک زمین پر پڑا رہا۔ اس کے شاگردوں نے اس کازریں دوشالہ اُوپر ڈال دیا۔ اگلے دن سے شیرو شہر میں کہیں نظر نہیں آیا۔ بے چارہ کس منھ سے نظرآیا۔ یہ ہوتاہے جھوٹ ، شیخی اور بڑے بول کا انجام۔اسی شہر میں ایک اور آدمی سکندرکاں نام کا رہتا تھا ۔ جس کی بزدلی سارے شہر میں مشہورتھی ۔ شہر میں اس کی عمارتی لکڑی کی دکان تھی اور جلانے والی لکڑی کی ٹال بھی تھی مگرتھا وہ بڑا ڈرپوک ، اس لیے لوگ اس کے ڈرپوک ہونے کا فائدہ اٹھاتے تھے ۔اس کے اپنے بیوی بچے بھی اس کی عزت نہیں کرتے تھے ۔ وہ بے چارہ اپنی فطرت سے مجبور تھا ۔ایک دن قریب ہی جنگل میں پرانے درختوں اور گھاس پھوس کا نیلام تھا۔ دوسرے ٹھیکے داروں کے ساتھ وہ بھی جنگل گیا۔ دوسرے ٹھیکے داروں نے بڑھ چڑھ کر بولیاں لگائیں اورجنگل کے کئی حصے اپنے نام چھڑالیے ۔ ایک چھوٹا ساحصہ سکندرخاں کو بھی مل گیا جو اس نے غنیمت جانا۔جنگل کے اگلے سرے پر ایک گاؤں تھا، جہاں سکندرخاں کی بہن رہتی تھی۔ اس نے سوچارات بہن کے گھر گزاری جائے ۔ تھوڑا ساآرام مل جائے گا۔ چنانچہ رات گزار کروہ اگلے دن پوپھٹتے ہی بہادر گڑھ کی طرف روانہ ہوگیا۔آدھ گھنٹے کے بعد وہ ندی کے کنارے پہنچا تو گھاس پر ایک شیر کو لیٹادیکھ کر اس کے اوسطان خطا ہوگئے ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ ایک جھاڑی کے پیچھے دبک کر بیٹھ گیا۔دیر تک دم سادھے بیٹھا رہا ، مگر شیر کے جسم میں کوئی جنبش نہیں ہوئی، بلکہ دن نکلتے ہی دو چار گدھا اس پر آن بیٹھے۔ سکندرخاں کو جب پکایقین ہوگیا کہ شیر مرچکا ہے تو وہ اٹھا۔ قریب جاکر دیکھا تو شیر کے گلے کے پاس دوگولیوں کے نشان تھے ۔ اس نے سوچا ضرور کسی شکاری نے رات کو اسے نشانہ بنایا ہے ۔ شیر جہاں تک بھاگ سکتا تھا، بھاگا ہوگا اور ندی کے قریب آکر دم توڑدیا۔سکندر کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے جیب سے چاقو نکالا اور شیر کی کھال اُتاری ، کھال کوندی کے پانی سے دھو کر صاف کیا اور اسے کندھے پرڈال کرشہر کی طرف چل دیا۔شہر پہنچتے پہنچتے دن پوری طرح نکل چکا تھا۔ بازاروں میں چہل پہل شرور ہوگئی تھی ۔ لوگوں نے سکندر خاں کو کندھے پر شیر کی تازہ کھال ڈالے آتے دیکھا توحیران رہ گئے ۔ لوگ یہی سمجھے کہ انھوں نے سکندر خاں کو غلط سمجھا۔بزدل لگتاتھا، مگر نکلا بہت بہادر۔ اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس نے رات بھرشیر کامقابلہ کیا اور خالی ہاتھوں شیر کو مارڈالا۔ لوگوں نے سکندر خاں کو گود میں اٹھالیا۔ پھولوں کے ہار پہنائے اور جلوس کی شکل میں اس کے گھر لے گئے ۔اس دن سے سارے شہر میں سکندرخاں کی بہادری کے چرچے ہونے لگے ۔ سکندر خاں کو کسی پر چار کی ضرورت ہی نہیں تھی ، مگر اس بہادری کی حقیقت صرف اس ہی کو معلوم تھی ۔ اگر وہ گولیوں کے نشان دکھا کر سچ سچ بتاتا کہ بجائیو! یہ شیر تو مرا پڑا تھا۔ میں نے مردہ شیر کی کھال اُتارلی ، تواس کی بنی ہوئی عزت مٹی میں مل جاتی ۔ " وزیریااُستاد - تحریر نمبر 974,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/wazir-ya-ustad-974.html,"شیخ معظم الٰہی :ایک بادشاہ کے دو بیٹے تھے اوردونوں ہی بیوقوف تھے۔ بادشاہ کاوزیر بہت سمجھدار اور نہایت ایماندار تھا۔ اس لئے بادشاہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اپنے وزیر سے مشورہ لیتا تھا۔ دونوں شہزادے دل دہی دل میں وزیر سے حسد کرتے تھے ۔ ایک دن دونوں شہزادے اپنی ماں کے پاس گئے اور اس بھی وزیر کے خلاف بھڑکایا تو ملکہ نے بادشاہ سے کہا کہ آپ ہمیشہ اپنے وزیر کے اشاروں پر چلتے ہیں ، ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑجائیں ، کبھی شہزادوں سے بھی مشورہ کرلیا کریں، وہ اتنے بیوقوف نہیں جتنا آپ انہیں سمجھتے ہیں۔آپ ان دونوں سے ضرور مشورہ کیا کریں ورنہ ان بیچاروں کا دل ٹوٹ جائے گا ۔بادشاہ نے اسی وقت اپنے دونوں شہزادوں کو بلایا اور کہا کہ میں کل تم دونوں کا امتحان لوں گا۔(جاری ہے)اس پر بڑے شہزادے نے کہا کہ اباجان ! آپ ہمیشہ ہمارا امتحان ہی لیتے رہتے ہیں، کبھی اپنے وزیر کا بھی امتحان لیجئے۔ بادشاہ نے کہا دیکھو ! تم دونوں اپنی عقل ، علم اور تجربے میں وزیر کی برابری نہیں کرسکتے ۔خیر اگر تمہاری یہی ضد ہے تو کل تمہارے ساتھ وزیر کا بھی امتحان لیاجائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ اگر تم دونوں امتحان میں ناکام ہوگئے تو تمہیں نہ صرف وزیر سے معافی مانگنا ہوگی بلکہ اسے اپنا اُستاد بھی مانناپڑے گا۔ دونوں شہزادے اس پر راضی ہوگئے ۔ا گلے دن بادشاہ دونوں شہزادوں اور وزیر کو لیکر دور جنگل میں ایک ایسی جگہ چلا گیا جہاں مٹی کاایک بہت بڑا ڈھیر پڑاہوا تھا۔بادشاہ نے دونوں شہزادوں سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم اس مٹی کو سونے میں بدل ڈالو یعنی کوئی ایسی تدبیر کرو جس سے ڈھیر ساری دولت بناسکو۔ شہزادے حیران ہوکر بادشاہ کی طرف دیکھنے لگے ۔ بادشاہ نے اُونچی آواز میں کہا کہ حیران ہو کر میرا منہ کیادیکھ رہے ہو، میں تمہیں ایک مہینے کا وقت دیتا ہوں تم دونوں ایک مہینے میں اس مٹی سے دولت کمانے کی ترکیب سوچو۔اس کے بعد بادشاہ نے وزیر کو لیکر تھوڑے فاصلے پر ایسی ہی دوسری جگہ پہنچ گیا۔ بادشاہ نے وزیر سے بھی یہی بات کہی جو شہزادوں سے کہی تھی ۔ وزیر نے بڑے ادب سے کہا کہ جیساآپ کا حکم ہو حضور ! شہزادے کافی دیر تک سوچتے رہے لیکن دولت کمانے کی کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آئی ۔ دن پردن گزرگئے۔ دو ہفتے گزرجانے کے بعدوہ دونوں گھبرانے لگے ۔ پھر انہوں نے سوچا کہ ضرور اس مٹی کے اندر کوئی خزانہ وغیرہ دفن ہوگا۔یہ سوچ کر انہوں نے زمین کھودنا شروع کردیا لیکن پچاس ساٹھ فٹ گہرائی کے بعد بھی ان کو خزانہ نہیں ملا۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ آخرکار ہمت ہار کرہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے ۔ایک مہینے کے بعد بادشاہ پہنچا تو اس نے دیکھا کہ دونوں شہزادے سرجھکائے بیٹھے ہیں۔ بادشاہ کو دیکھتے ہی وہ کھڑے ہوئے اور اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا۔اس کے بعد بادشاہ اپنے دونوں شہزادوں کولے کر اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں وہ وزیر کو چھوڑ گیا تھا۔ وہاں جا کر اس نے دیکھا کہ بہت سارے کمہار مٹی کے برتن بنارہے تھے اور ہزاروں خوبصورت برتن بن کر تیارہوچکے تھے ۔ برتنوں کاڈھیر دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔ جب برتن مارکیٹ میں لے جاکر فروخت کئے گئے توان سے ہزاروں روپے حاصل ہوئے ۔ شہزادے اپنی بیوقوفی پر بڑے شرمسار تھے ۔ انہوں نے پہلے وزیرسے معافی مانگی پھر اسے اپنا اُستاد مان لیا۔ " عقلمند وزیر کے حاسد دشمن - تحریر نمبر 973,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aqalmand-wazir-k-hasid-dushman-973.html,"فاطمہ :صدیوں پہلے کی بات ہے کہ ملک یمن پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ملک میں امن وامان تھا ، رعایا پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں تھا، ہر طرف خوشحالی تھی ، جس کی وجہ سے درباری اور مشیر بادشاہ کو الٹی سیدھی باتیں بتاتے رہتے تھے ، ان سب کا ٹارگٹ اکثر وزیر ہوتا، اس طرح کئی وزیر سوا ہوئے اور کئی ایک کوبادشاہ نے مروادیا ، جس کی وجہ سے درباری اور مشیر خود کو طاقتور سمجھنے لگے تھے ۔ایک دن بادشاہ نے ایک نیاوزیر مقرر کیا ، اس وزیر کو چند دنوں میں پتہ چل گیا کہ دربار میں حاسدی ٹولہ بہت خطرناک ہے وزیر ان کی طرف سے محتاط ہو گیا، وہ انہیں اہمیت نہ دیتا جس کی وجہ سے وہ اس کے خلاف ہوگئے ۔ ایک دن ایک درباری نے بادشاہ کے کان میں کچھ کہابادشاہ نے ایک بکری منگوائی اور وزیر سے کہا ۔(جاری ہے)کہ یہ بکری لے جاؤ ایک ماہ بعد اس کا وزن اتناہی ہوناچاہئے اسے خوراک ہماری طرف سے دی جائے گی یہ سن کر وزیر پریشان ہوگیااور حاسدی ٹولہ بغلیں بجانے لگا ۔وزیر بکری لے کر اپنے گھر گیااور سوچ بچار کرنے لگاآخر ایک ترکیب اس کے ذہن میں آگئی اس پر عمل کرنے لگا، ایک ماہ بعد بادشاہ نے بکری منگوائی اس کا وزن کیاتقریباََ اتنا ہی تھا جتنا پہلے تھا ۔ بادشاہ اور حاسدی ٹولہ حیران رہ گیا کہ وزیر ان کے کاری وار سے بچ گیا ہے ۔ بادشاہ نے حیرانگی سے پوچھا ۔ کہ اس نے کیاترکیب کی کہ بکری کاوزن نہ بڑھااور نہ کم ہوا ۔وزیر نے عرض کیا : عالی جاہ ! اچھی خوراک کی وجہ سے اس کاموٹا ہونا فطری تھا، میں خوراک کے بعد اسے شیر کے سامنے باندھ دیتا تھا جس کے خوف سے اس کا خون خشک رہتا اور موٹی نہ ہوتی اور اچھی خوراک کی وجہ سے کمزور بھی نہ ہوتی ، بادشاہ یہ ترکیب سن کر بہت خوش ہوا سے انعام وکرام سے نوازا اور حاسدوں کوڈانٹ پلائی اب حاسد اور بھی دشمن ہوگئے وہ کسی موقع کی تاک میں تھے تاکہ وزیر سے بدلہ لیا جاسکے اور یہ موقع نہیں جلد ہی مل گیا ۔بدقسمتی سے کچھ عرصہ بعد ملک میں سیلاب آگیا ہزاروں مکانات اور فصلیں تباہ ہوگئیں ، بادشاہ نے وزیر کی ڈیوٹی لگائی کہ عوام کی داد رسی کی جائے ، وزیر نے فی کس دیناروں کے علاوہ قرضے بھی دیئے ، قرضہ دیتے وقت وہ ان کے کان میں کچھ کہتا تھا، حاسدوں نے پتہ لگوایا کہ وزیر کیا کہہ رہا تھا ، کچھ سادہ لوح افراد نے بتایا کہ وزیر کہہ رہا تھا کہ قرض بادشاہ کی وفات کے بعد وصول کرلے گا ۔بس اتنا سننا تھا کہ حاسد بادشاہ کے پاس جاپہنچے اور بڑھا چڑھا کہ بیان کیا یہ سن کر بادشاہ کو سخت غصہ آیا اس نے فوراََ وزیر کو حاضر ہونے کا حکم دیااور کہا میں نے ایسے سنا ہے تم میرے مرنے کاانتظار کررہے ہواور اس کے بعد دولت اکٹھی کرو ؟اس پر وزیر نے سرجھکاتے ہوئے کہا: عالیجاہ ! آپ نے ٹھیک سنا ہے میں نے یہی کہا ہے مگر میری نیت یہ نہ تھی ۔پھر تمہاری نیت کیا تھی ؟ ایک حاسد جلدی سے بولا۔ میری نیت یہ تھی کہ جن غریب لوگوں کے مکانات اور فصلیں تباہ ہوئی ہیں وہ عرصہ دراز تک قرض واپس کرسکت وہ لمحہ بادشاہ سلامت کی زندگی کیلئے دعائیں مانگتے رہیں گے کہ خدانخواستہ اگر بادشاہ سلامت وفات پاگئے تو انہیں قرضہ واپس کرنا پڑے گا۔ اتنا سننا تھا کہ بادشاہ بہت خوش ہو اس نے فوراََ حاسدوں کو دربار سے نکل جانے کا حکم دے دیااور وزیر کو انعام واکرام سے نوازا۔پھر درباریوں کی طرف دیکھتے ہوئے بادشاہ نے کہا۔ ان حاسدوں کے کہنے پر اگر وزیر کو سزادے دیتا تو زندگی بھرافسوس رہتا ۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنا اچھا وزیر دیا ہے مجھے اس کا شکر گزار رہناچاہئے ۔دیکھا بچو ! حسد کتنا برا ہے ۔ اگر وہ حسد نہ کرتے بادشاہ کے دربار میں اعلیٰ عہدوں پر رہتے اور زندگی بھر عیش کرتے ۔ حسد ایک بیماری ہے جو انسان کو جلادیتی ہے اور حاصل بھی کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ حاسد اپنی ہی آگ میں جل کر راکھ ہوجاتا ہے ۔ اس لئے ہمیں کسی سے حسد نہیں کرنا چاہئے ۔ " زیرہ سے ہیرو تک - تحریر نمبر 972,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zero-se-hero-tak-972.html,"طاہرہ لیلیٰ :آیان اٹھو بیٹا ! سکول کے لئے تیار ہو جاؤ۔ آیان نہ چاہتے ہوئے بھی دادا جان کی ایک آواز پر اٹھ گیا۔ تائی جان نے مزیدار پراٹھے اور چنے کے ساتھ ناشتہ کرایا اور وہ سکول کے لئے تیار ہونے لگا۔ آیان نے یونیفارم پہنا اور پھر سکول کے لئے روزانہ ہوگیا ۔ آیان اپنے دادا جان کے ساتھ رہتا تھا۔ بے حد شرارتی تھا دراصل اپنی امی اورابو کی محبت نہ ملنے کی وجہ سے اس کے اندر بغاوت پیدا ہوگئی تھی ۔سکول جاتے ہی شرارتی بچوں کے ساتھ شرارتیں کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ بچوں کے لنچ بکس چھپا دینا، کبھی کسی کی کتاب ڈس بن میں ڈال دینا، کبھی کسی کا بستہ سڑھیوں کے نیچے چھپا دینا اور امتحان میں نقل کرنا اس کی عادت میں شامل ہوگیا تھااور یہ سب حرکتیں وہ اپنے آپ کو سب کے سامنے ظاہر کرنے کے لئے کرتا تھا۔(جاری ہے)ایک دن اس نے سنا کہ کوئی نئے استاد رضوان آئے ہیں اور وہ بڑے سخت ہیں ۔جب اس نے امتحان میں نقل کرنے کی کوشش کی تو سررضوان نے اسے چھڑی سے پٹائی کی۔ آیان روتے روتے گھر گیا اور کہا میں نہیں پڑھوں گا۔ دادا جان اسے سمجھانے لگے اور خود سرپکڑ کر بیٹھ گئے کہ اب میں کیا کروں؟ اسی دوران ایک نئی استانی ماریہ سکول میںآ ئیں ۔ بے حد نرم اور سب سے محبت کرنے والی خاتون تھیں ۔ اپنے شوہر کی وفات کے بعد وہ اس شعبے میں آئیں اور بڑا نام کمایا تھا۔آتے ہی انہوں نے کلاس کا جائزہ لیااورکہا کہ لائق بچوں کو تو ہر کوئی پڑھ سکتا ہے ، مزہ تو نالائق بچوں کو پڑھانے میںآ تا ہے اور آتے ہی مضمون ” قائداعظم “ لکھنے کو دے دیا۔ آیان نے صرف دو نمبر لئے ۔ انہوں نے آیان کو پیار سے اپنے پاس بلایااور کہا کہ آپ چھٹی کے بعد میرے گھر آنا، میں آپ پر توجہ دوں گی اور آپ زیادہ نمبر لیں گے ۔ آیان دادا جی سے اجازت لے کر ان کے گھر گیا ۔ماریہ نے واقعی اس کو تھوڑا تھوڑا کرکے سب یاد کروادیا اور محبت اورتوجہ ملنے سے آیان میں تبدیلی آنے لگی اور اگلے ٹیسٹ میں آیان نے بہت اچھے نمبر لئے اور پھر ماریہ نے ایک ماں کی طرح اس کوتوجہ دی اورآیان کو بدل کے رکھ دیا۔ جب آیان اپنا ” رزلٹ کارڈ“ گھر لے کرگیا تو دادا جان کوسچی خوشی ملی اور انہیں محسوس ہوا کہ انہوں نے آیان کو اپنے ساتھ رکھ کر غلطی نہیں بلکہ ٹھیک کیا ہے ۔ ساتھیو! اگر ماریہ محبت اور توجہ سے نالائق بچے کو لائق بناسکتی ہے توآپ بھی اپنے اردگرد محبت کا بھوکا بچہ دیکھیں تو اسے محبت اور توجہ دیں اور وہ آسمان کا تارہ بن کر چمکے گا۔ انشاء اللہ " بھوکا مسافر - تحریر نمبر 970,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhooka-musafir-970.html,"جدون ادیب :میں پڑھنے کی غرض سے شہر میں رہتا تھااور میرے امی ابو گاؤں میں تھے ۔ ابو ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے ۔ کچھ آمدنی کھیتوں اور ایک چھوٹے سے باغ سے حاصل ہوتی تھی ۔ میں اپنے گاؤں ایبٹ آباد سے کراچی آکر بڑے بھائی منیر کے پاس رہتا تھا، جو عمارتوں کی ٹھیکے داری کاکام کررہے تھے ۔ مجھے گاؤں سے ابو پیسے بھجواتے تھے ، جو میں بھائی کے منع کرنے کے باوجود گھر کے سودے سلف پر خرچ کردیتا تھا۔بھابھی ہماری رشتے دار نہیں تھیں، اس لیے ان کے رویے میں ایک اجنبیت ہوتی تھی۔ وہ میرا اس گھر میں رہنا دل سے پسند نہیں کرتی تھیں، مگر بظاہروہ کچھ نہیں کہتی تھیں۔ میں میٹرک کا امتحان پاس کرکے یہاں آیاتھا اور اب فرسٹ ائر میں حال ہی میں داخلہ لیا تھا ۔(جاری ہے)اس دن بھائی اور بھابھی آہستہ آواز میں باتیں کررہے تھے کہ میں اپنا نام سن کر خود پر قابونہ رکھ سکااور چھپ کر ان کی باتیں سننے لگا۔بھابھی میرے یہاں رہنے پر خوش نہیں تھیں۔ وہ بھائی پر زور دے رہی تھیں کہ اپنے بھائی سے کہو کہ کالج ہوسٹل میں رہے ۔ یہ سن کر مجھے بہت شرمندگی ہوئی ۔اسی وقت میں نے فیصلہ کیاکہ مجھے اپنے ایک دوست عامر کے ساتھ اس کے کمرے میں منتقل ہوجانا چاہیے۔ عامر بھی کسی گاؤں سے آیاتھا۔ وہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ ایک ہوٹل میں کام بھی کرتا تھا۔ میں نے سوچا کہ میں بھی کوئی کام کرلوں گا۔اس طرح میرا گزارہ ہوجائے گا اور مجھے کسی سے پیسے لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ۔ دونوں مل کر کمرے کا کرایہ آدھا آدھا دے دیں گے ۔اپنے بھائی کو مشکل سے راضی کرکے آخر میں عامر کے پاس چلاگیا۔ ایک ہفتہ گزرا تو امی ابو نے فون کرکے اپنی تشویش کااظہار کیا۔ وہ میرے اس طرح الگ رہنے پر خوش نہ تھے ۔ کچھ دن بعد ابو کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔میں پھر پریشان ہوگیا۔ میں پیسے خرچ کرچکا تھااور کوشش کے باجود کوئی کام بھی نہیں ڈھونڈسکا تھا۔میں بے چین ہوگیااور جلدی جلدی تیاری کی، مگر اصل پریشانی توپیسے کی تھی۔ بس کاٹکٹ ڈھائی ہزار کاتھا اورمیرے پاس صرف پانچ سوروپے تھے ۔ میری مدد بھای کرسکتے تھے، مگر میرا دل نہیں مان رہاتھا کہ ان سے مددلوں۔عامر کا تعلق بھی ایک غریب گھر سے تھا۔پھر بھی اس نے کہیں نہ کہیں سے بندوبست کرکے دہ ہزار رپے مجھے دے دیے ۔ جب میں بس میں سوار ہوا تو میری جیب بالکل خالی تھی اور چوبیس گھنٹے سے زیادہ کاسفر تھا۔فجر کے بعد طویل سفر شروع ہواتھا۔ ظہر کے وقت بس ایک ہوٹل کے سامنے رکھی تو میں نے مسجد میں جا کر نماز پڑھی اور وہیں بیٹھ کر وقت گزارا اورپانی پی کر بس میں آکر بیٹھ گیا۔ مغرب تک میری حالت خراب ہوچکی تھیں۔بس نماز کے لیے رکی تو کچھ مسافر ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پینے لگے ۔ میں نے سوچا کہ کاش کوئی مسافر ایک پیالی چائے مجھے پلادے ۔بس ایک مرتبہ پھر روانہ ہوگئی۔ ساڑھے نوبجے بس ایک ہوٹل میں رکی۔ اب مجھ پر کمزوری طاری ہونے لگی۔ ایک طرف گہری نیند آرہی تھی اور دوسری طرف پیٹ میں درد ہورہا تھا۔ فجر کی نماز تک میری یہی حالت رہی۔ فجر کی نماز سڑک کے کنارے بنی مسجد میں پڑھی ، پھر بس روانہ ہوگئی۔اکثر مسافر سورہے تھے ۔اچانک ایک ناکے پربس کو روک دیاگیا۔ دواہلکار اوپر چڑھے۔ تیسرے نے درائیور کو بس ایک طرف روکنے کو کہا۔ ڈرائیور نے بس سڑک کے کنارے لگائی اور نیچے اُتر کر پولیس موبائل کے پاس کھڑے افسر کے پاس جاکربات کرنے لگا۔جو دو اہلکار اوپر چڑھے تھے، وہ سب مسافروں کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ وہ میرے پاس بھی آئے۔ مجھے غور سے دیکھا ، پھراپنی جیب سے موبائل فون نکال کر اس میں چیک کیا، میرا نام پوچھا اور نیچے اُتر گئے ۔بس کافی دیر رکی رہی ۔ مسافروں بے چینی پیداہونے لگی۔ آخر کچھ لوگ ڈرائیور کے پاس گئے ۔ ڈرائیور نے بتایا کہ پولیس کاکوئی بڑا افسر آرہاہے ، تب تک بس رکی رہے گی ۔تھوڑی دیر اور گزری تو ڈرائیور نے افسر سے جاکر کوئی بات کی۔ افسر نے ان پر کسی سے بات کی ، پھر مسافروں کے پاس آکر انھیں خوش خبری سنائی کہ ہم تھوڑی دور واقع ایک ہوٹل میں جاکر کچھ دیر رکیں گے۔سب کا کھانا پینا پولیس کی طرف سے مفت ہوگا۔سب کے ساتھ ساتھ مجھے بھی خوشی ہوئی۔ بس روانہ ہوئی، پولیس کی موبائل، بس کے آگے آگے چل رہی تھی۔ تھوڑی دورایک ہوٹل پر جاکر بس اور موبائل دونوں رک گئیں۔ سارے مسافر خوشی خوشی نیچے اُترنے لگے ۔ میں قدرت کی اس مدد پر بہت خوش تھا۔ شدید بھوک میں بغیر مانگے مجھے کھانا مل رہا تھا۔ میں جیسے ہی بس سے نیچے اُترا ۔ایک اہلکار نے میرا بازو پکڑ لیا اور بولا: آپ اس طرف آجائیں۔سارے مسافر مجھے عجیب عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے ہوٹل میں مفت ناشتے کے لیے چلے گئے اور میں بے بسی کے عالم میں پولیس کی حراست میں وہیں کھڑارہا۔مجھے اب تک پولیس نے کچھ نہیں بتایا تھا کہ مجھ سے کیاجرم سرزد ہوا ہے ؟اچانک ایک بڑی وین آکر ہوٹل پہ رُکی ۔ چارگن مین اُترے ۔اگلا دروازہ کھلاتو دوافراد نیچے اُترے۔ ایک تو میری عمر کالڑکا تھا اور دوسرا دھیڑعمر شخص کوئی بڑا افسر معلوم ہورہا تھا۔ پولیس اہلکار تیزی سے ان کی طرف بڑھے اور قریب جا کر سیلوٹ کرنے لگے ۔پھر میں نے اس لڑکے کو پہچان لیا۔ وہ میرا ہم جماعت اظفر تھا، جس کے والد کسی اہم محکمے میں بڑے عہدے پر فائز تھے ۔اب ایک پل میں سب کچھ بدل گیا۔دراصل یہ بزم جوسجی تھی، وہ میرے لیے تھی۔ بس کے مسافر جو دعوت اڑارہے تھے، وہ دراصل میری وجہ سے تھی ۔اظفر ایبٹ آباد میں آرمی کے بڑے کالج میں پڑھنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے والدین سے یہ اجازت اس شرط پر لی تھی کہ میں ا س کے ساتھ پڑھوں گا، کیوں کہ میرا گھر بھی وہیں تھا اور چھٹی کے دن اظفر کو یہ سہولت میسر ہوتی کہ وہ میرے گھر میں ر ہ سکتا تھا۔اس کے گھر والے اسی طرح مطمئن ہوسکتے تھے۔اظفر نے مجھے کراچی میں تلاش کیاتو پتاچلا کہ میں آج صبح ہی ایبٹ آباد روانہ ہوگیا ہوں۔ اس نے اپنے والد کی مدد سے مجھے میرے گھر پہنچنے سے پہلے پکڑ لیا۔ اس نے کچھ ہی دیر میں مجھے راضی کرلیا کہ ہم دونوں ایبٹ آباد میں ایک ہی کالج میں پڑھیں گے۔ تب میرا سفر دوبارہ شروع ہوا، مگر اب میں ایک سرکاری جیپ میں سفر کررہا تھا۔ اب میرا پیٹ بھرا ہواتھا اور دل باغ باغ تھا۔ " سینکڑوں سال بعد - تحریر نمبر 969,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sainkaron-saal-baad-969.html,"جاوید اقبال :ایک دن بہت پرانے قبرستان میں دو روحیں آپس میں باتیں کررہی تھی ۔ ایک روح نے حیرت سے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے دوسری سے پوچھا: ہم کتنے عرصے پہلے مرے تھے ؟دوسری روح نے کافی دیر سے سوچنے کے بعد کہا ل سینکڑوں سال پہلے، لیکن ابھی قیادت نہیں آئی ہے ۔دونوں روحیں علاقے کا جائزہ لینے قبرستان سے نکل پڑیں۔بدلی ہوئی دنیا دیکھ کر دنگ رہ گئیں ۔ پہاڑوں جتنی اونچی عمارتیں سراٹھائے کھڑی تھیں۔ ان بلند عمارتوں کو دیکھ کر انھیں ڈرلگاکہ کہیں یہ ان کے اوپر ہی نہ آگریں۔ صاف شفاف سڑکوں کو دیکھ کرانھیں بہت حیرت ہوئی۔ یہ صبح کا وقت تھا۔ اکاد کا لوگ ہی سڑکوں پر تھے ۔ انھیں ایک انسان اپنی طرف آتا ہو نظرآیا۔ اس نے جولباس پہن رکھاتھا، وہ اتنا تنگ تھا کہ خود انھیں گھٹن محسوس ہونے لگی ۔(جاری ہے)انھوں نے تو اپنی زندگی میں سرسے پاؤں تک کالباس پہنے ہی انسانوں کو دیکھاتھا۔دونوں قدیم روحیں بڑے مزے سے سڑک کے درمیان چل رہی تھیں کہ اچانک انھیں اپنے پیچھے شور سنائی دیا۔ دونوں نے پلٹ کر دیکھا تو ایک خوف ناک بلاشورمچاتی ادھر آتی نظرآئی ۔ دونوں روحیں گھبرا کر چیخنے لگیں ۔ وہ بلا دھواں چھوڑتی ، تیزآواز کے ساتھ ان کے بیچ میں سے گزرگئی ۔دونوں روحیں ڈر کر بھاگیں ۔ بھاگتے بھاگتے وہ ریل گاڑی کی پٹری تک پہنچ گئیں ۔ دور تک جاتی ہوئی لوہے کی دولمبی اور چپٹی سلاخوں کو دیکھ کر وہ ششدر رہ گئیں۔ اتنے میں چھک چھک کرتی ریل گاڑی آگئی ۔ ریل گاڑی کو دیکھ کروہ اتنی خوف زدہ ہوئیں کہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکیں اور ریل گاڑی انھیں روندنی ہوئی گزرنے لگی۔ جانے اس بَلا کے جسم کے کتنے حصے ہیں جو ختم ہی نہیں ہورہے ۔دونوں روحیں سہی ہوئی سوچ رہی تھیں۔ اللہ اللہ کرکے ریل گاڑی گزری تو وہ اچھل کر کھڑی ہوگئیں ۔ انھیں ڈر تھا کہ یہ خوف ناک عفریت پھر واپس نہ آجائے ۔ وہ سرپرپاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگیں ۔اب دونوں روحیں پھر ایک صاف ستھری سڑک پر پہنچ گئیں ۔ انھیں ایک فیشن زدہ عورت ادھر آتی نظرآئی اس کے سر کے بال کسی پرندے کے گھونسلے کی طرح بکھرے ہوئے تھے ۔دونوں روحیں اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگیں۔ اچانک اس عورت کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے بیگ سے ایک پراسرار گھنٹی جیسی آواز گونجی ۔ اس اچانک آواز سے ڈر کردونوں روحیں اس بری طرح اچھلیں کہ ایک دوسرے سے ٹکرا گئیں ، مگر ان کے ٹکرانے سے ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، کیوں کہ دونوں روحیں تھیں ۔ عورت نے اپنے تھیلے میں سے ایک چھوٹی سی ڈبیانکالی اور کان سے لگا کر باتیں کرنے لگی ۔دونوں روحیں حیران تھیں کہ عورت اکیلے ہی بولے چلے جارہی ہے۔ کبھی کبھی تھک کر چپ بھی ہوجاتی ۔ کچھ سستا کردوبارہ بولنے لگتی ۔دونوں قدیم روحین اب ایک پل کی دیوار پر بیٹھ گئیں ۔ یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ وہ دنیا کے کس حصے میں پھنس گئیں ہیں۔ اتنے میں آسمان پر ایک چیختا چنگاڑتا پرندہ نمودار ہوا۔ وہ کان پھاڑ دینے والے شور کے ساتھ عین ان کے سرپر آپہنچا۔ایسا خوفناک پرندہ انھیں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ڈر کے مارے ایک نالے میں چھپ گئیں۔ بَلا کے گزرنے کے بعد وہ ادھر اُدھر دیکھ کر ڈرتے ڈرتے باہر آئیں۔ اسی وقت دوپہیوں والی ایک چھوٹی سی بَلا جس پر لوہئے کا کنٹوپ پہنے ایک آدمی بیٹھا تھا، چیختی چنگاڑتی ، پھسلتی ہوئی ان کی طرف بڑھی۔ آسمان پر وہ خوفناک پرندہ اور زمین پر پیچھا کرتی اس مصیبت سے ڈر کر دونوں روحیں قبرستان کی طرف بھاگیں ۔ بھاگتے بھاگتے وہ قبرستان پہنچیں اور چھلانگ مار کر اپنی قبروں میں کود کرپناہ لی ۔ " عقل مند کی تلاش - تحریر نمبر 968,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aqalmand-ki-talash-968.html,"ندیم علیگ :بہت دنوں کی بات ہے کہ کسی ملک کے ایک انصاف پسند بادشاہ کا وزیر مرگیا۔ وہ وزیر بہت عقل مند اور نیک انسان تھا، جو بادشا کو رعایا کی بھلائی کے لیے اچھی مشورے دیتا تھا۔ بادشاہ اس کو بہت عزیز رکھتا تھا اور اس پر مکمل بھروسا کرتا تھا۔ بادشاہ کو اس کی موت کا بہت افسوس تھا۔ بادشاہ کو ہی نہیں اس ملک کے عوام کو بھی وزیر کی موت کا غم تھا۔بادشاہ اپنے درباریوں میں سے کسی کوبھی اپنا وزیر بناسکتا تھا ، لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ملک کے ہی کسی عقل مند آدمی کو وزیر بنائے گا۔ بادشاہ اپنے ایک وفادار ملازم کے ساتھ رات کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کے حالات جاننے کے لیے نکلتا تھا۔ اس طرح وہ خود ملک کے حالات سے واقفیت حاصل کرتا تھا کہ اس کی رعایا اپنے ملک اوربادشاہ کے بارے میں کیا سوچتی ہے ۔(جاری ہے)ایک بارآدھی رات کے وقت وہ شہر کی ایک گلی سے گزررہا تھاکہ اندھیرے کی وجہ سے ایک آدمی سے ٹکڑا گیا۔بادشاہ نے پوچھا: تم کون ہو اور رات کے وقت یہاں کیا کررہے ہو؟اس شخص نے جواب دیا: میں اس شہر کاایک شریف انسان ہوں اور بے وقوفوں کو عقل مند بنانے کے گر سکھلاتا ہوں ۔ مجھے چوروں کا خوف نہیں ہے، کیوں کہ میرے پاس چوروں کے لیے کوئی چیز نہیں ہے ۔بادشاہ گھوم پھر کر اپنے محل پہنچا اور دوسرے دن اس نے حکم جاری کیا کہ شہر میں رات کے وقت ہر شخص ہاتھ میں چراغ لے کر نکلاکرے۔ جو شخص ایسا نہیں کرے گا، اس سخت سزادی جائے گی۔کچھ دنوں بعد بادشاہ رات کے وقت شہر کی ایک گلی سے گزررہاتھاکہ وہ ایک آدمی سے ٹکرا گیا۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیااور اس نے پوچھاتم کون ہواور اس وقت یہاں کیاکررہے ہو ؟جناب ! میں اس شہر کاایک معززآدمی ہوں اوربے وقوفوں کو عقل سکھلاتا ہوں۔بادشاہ نے پہچان لیا کہ یہ وہی شخص ہے، جو چنددن قبل اس سے ٹکرایا تھا۔کیا تم نے بادشاہ سلامت کا حکم نہیں سنا کہ رات کے وقت ہرآدمی ہاتھ میں چراغ لے کرنکلاکرے۔ تم نے بادشاہ کے حکم کی تعمیل نہیں کی، اس لیے تم کو سخت سزا ملے گی ۔ بادشاہ نے غصے میں کہا۔جناب والا ! میرے ہاتھ میں چرغ ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں ۔ اس آدمی نے جواب دیا ۔مگر یہ روشن کیوں نہیں ہے ؟جناب والا ! بادشاہ سلامت کے حکم میں صرف اتنا ہے کہ ہر آدمی ہاتھ میں چراغ لے کر چلے ۔ یہ حکم نہیں دیا کہ اس میں تیل بھی ہواور وہ روشن بھی ہو۔بادشاہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس آدمی نے پھر کہا: میرا خیال ہے کہ بادشاہ کے دربار میں عقل مند وزیروں کا قحط ہے ،ورنہ ایسا حکم صادرکرنے سے پہلے وہ بادشاہ سلامت کی توجہ دلاتے ۔میری دعا ہے کہ خدا ہمارے بادشاہ سلامت کو ایک عقل مند وزیرباتدبیرعطا فرمائے ۔بادشاہ یہ بات سن کر دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوا۔ وہ اس آدمی کے ساتھ ساتھ چلنے لگااور باتوں میں اس کے بارے میں ذاتی معلومات اس سے حاصل کرلیں۔بادشاہ نے پوچھا: تمھارا پیشہ کیا ہے ۔اس نے جواب دیا: جناب والا ! میں ایک مدرسے میں استاد ہوں اور عقل مند بنانے والی دو عظیم کتابوں کا حافظ ہوں۔اس کے علاوہ بہت ساری ایسی کتابیں پڑھ کا ہوں جو انسان کو عقل مند بنا کر ان کوکامیاب انسان بناسکتی ہیں۔ میرے استاد نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر کوئی آدمی گلستان اور بوستان کی حکاتیوں کو سمجھ کر پڑھے اور غور کرے تو ایک دن وہ عقل مند ترین انسان بن کر کسی بادشاہ کے دربار میں جگہ پاسکتا ہے۔باتیں کرتے کرتے اس عقل مند انسان کا گھرآگیا اور وہ رخصت ہوگیا۔بادشاہ نے اس کے مکان اور محلے کو ذہن نشین کرلیااور اپنے محل میں واپس چلاگیا۔دوسرے دن بادشاہ نے اپنے شاہیوں کو حکم دیا کہ اس عقل مند انسان کو عزت کے ساتھ ہمارے حضور پیش کیا جائے ۔بادشاہ اس کی گفتگواور عالمانہ باتیں سن کر بہت خوش ہوا اور اس کو اپنا وزیر بنالیا۔ اس وزیر نے بادشاہ کو بہت اچھے اور مفید مشورے دیے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ شہر کے سارے باشندوں کو مفت چراغ اور تیل فراہم کیاجائے اور گلی کو چوں میں رات کو روشنی کرنے کے لیے چراغ تھامے نوکر رکھے جائیں۔بادشاہ نے حکم دیا کہ استادوں کے علاوہ بھی شہر کے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ شیخ سعدی شیرازی کی کتابیں گلستان وبوستان ضرور پڑھے ۔یہ تو ایک حکایت تھی، لیکن سچ ہے کہ دنیا کہ عقل مند بنانے والی کتابوں میں گلستان بوستان بہت مشہور کتابیں ہیں اور ان کا ترجمہ دنیا کی تقریباََ تمام زبانوں میں ہوچکا ہے۔ ان کو پڑھ کر آپ اپنی عقل ودانش میں اضافہ ضرور کرسکتے ہیں۔ " جھوٹی خبر - تحریر نمبر 965,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhooti-khabar-965.html,"عبداللہ بن مستقیم :شرپسندوں کے ایک گروہ نے شہر میں بدامنی پھیلارکھی تھی ۔ امن وامان کی بحالی کے لیے آئی جی صاحب نے یہ معاملہ خفیہ پولیس کے انسپکٹرراشد کو سونپا۔ شہر کے حالات پر ان کی پہلے ہی بہت گہری نظر تھی، اس لیے انھوں نے فوراََ کام کرنا شروع کردیا۔ سب سے پہلے تووہ شہر کے جدید ترین اسپتال گئے۔ وہاں ایک ضروی کام سے فارغ ہوکر سیدھے ایک بڑے اخبار کے دفتر گئے۔ایک خبر لگانے کے لیے ایڈیٹر کو آئی جی صاحب کا حکم نامپ دکھایا اور معاملے کو راز میں رکھنے کا کہا ۔اگلے دن صبح اخبار نے سرخیوں میں یہ خبرچھاپی : ” کل رات ایک اہم اجلاس میں شرپسندوں کو ختم کرنے کا پلان ترتیب دے دیا گیا۔ نیچے انسپکٹرراشد کا بیان لگایا گیا، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اس پلان کے ذریعے ہم ایک ہفتے کے اندراندر گروہ کا صفایا کردیں گے ۔(جاری ہے)اسی دن شام کو انسپکٹر راشد معمول کے مطابق دفتر سے گھر کی طرف آرہے تھے کہ انھیں پیچھے تعاقب کا احساس ہوا۔ ایک کالے رنگ کی کاران کا تعاقب کررہی تھی یہ دیکھ کر انھوں نے اپنی گاڑی کی رفتار کم کر دی۔ جلد ہی وہ گاڑی ان سے آگے نکل گئی اور تھوڑی دورجاکرسڑک پر ترچھی ہو کر اس طرح رک گئی کہ آگے جانے کا راستہ بند ہوگیا۔ فوراََ ہی چار لمبے تڑنگے نقاب پوش کار سے اُترے اور ان کی گاڑی کی طرف بڑھے ۔انسپکٹر راشد چاہتے تو انھیں نشانہ بناسکتے تھے ، مگر کچھ سوچ کر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ جب وہ نزدیک آئے توانھوں نے سرباہر نکلا کر پوچھا : کون ہوتم لوگ ؟جواب میں ا نھوں نے کوئی چیزان کے ناک پر رکھی اور اس کے بعد انھیں کچھ ہوش نہ رہا۔ ہوش آیاتو انھوں نے اپنے آپ کو ایک کرسی سے بندھا پایا۔ ہوش میں آکر دیکھا توسامنے ایک شخص ٹانگ پر ٹانگ رکھے کرسی پر بیٹھا تھا۔پھر انھوں نے ادھراُدھر نظریں گھمائیں توکمرے کے چاروں طرف نقاب پوش ہاتھوں میں گنیں لیے کھڑے تھے۔ آخر انھوں نے سامنے بیٹھے شخص سے پوچھا: کون ہوتم ؟تمھاری موت !لیکن شکل سے توتم چاے والے لگتے ہو۔چٹاخ ! ایک زور دار طمانچہ انسپکٹر راشد کے منھ پر لگا۔ بندھے ہونے کی وجہ سے وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے، لہٰذا خون کے گھونٹ پی کررہ گئے ۔میں اس گینگ کا باس ہوں، باس۔ اس نے باس ‘ پرزور دیتے ہوئے کہا ، پھر بولا: بتاؤ تم نے کیا پلان بنایا ہے ہمارے گروہ کو ختم کرنے کے لیے ؟بتادوں گاتو تم لوگ مجھے ماردو گے ۔وہ تو ویسے بھی ماردیں گے ، پھر تمھارے آئی جی کو یہاں لاکر اس کی بھی خبر لیں گے ۔ پولیس کو ایسا دھچکا دیں گے کہ آیندہ کوئی ہمیں ختم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکے گا ۔توسنو! ایسا کوئی پلان ہم نے ترتیب دیاہی نہیں ۔ انسپکٹر راشد نے عجیب سے لہجے میں کہا ۔کیا !! بکواس ، میں نہیں مانتا ۔ہاں ، میں نے خود پریس والوں سے جاکریہ خبر چھاپنے کے لیے کہا تھا، تاکہ تم مجھے اغوا کرکے پلان کے بارے میں پوچھو اور میں تم تک پہنچ جاؤں اور دیکھ لو، میں تم تک پہنچ چکا ہوں۔ انسپکٹر راشد نے مسکراتے ہوئے کہا ۔یہ جملہ سن کر باس چونکا، مگر پھر سنبھل کربولا: یہاں سے تواب صرف تمھاری لاش ہی جائے گی۔ اس وقت ہم نے تمھیں جہاں رکھا ہوا ہے، وہاں تو پولیس پر بھی نہیں مارسکتی ۔پرنہیں مارسکتی مگر چھاپہ تو مارسکتی ہے نا۔میرے بالوں میں ایک عدد مائیکروچپ چھپی ہوئی ہے، جو میرے ساتھیوں کو یہ بتارہی کہ میں اس وقت کہاں ہو۔ بس وہ یہاں پہنچے والے ہی ہوں گے ۔یہ سن کرباس زور سے دہاڑا ” ماردو اسے ! اور نکلو یہاں سے !فوراََ ہی کمرے میں کھڑے نقاب پوشوں کی بندوقیں انسپکٹر راشد کی طرف تن گئیں ۔ اچانک کمرے کی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ کراندر کی طرف گرا۔ کلاشنکوف والے انسپکٹر راشد کوبھول گئے اور انھوں نے کھڑکی کی طرف فائرکھول دیا، مگر وہاں کوئی نہیں تھا ۔ اچانک دوسری طرف کی کھڑکیاں ٹوٹیں اور پولیس کے کمانڈوز چھلانگیں لگاتے ہوئے اندرداخل ہوئے ۔نقاب پوش سمجھ رہے تھے کہ پولیس والے پچھلی طرف سے نہیں آپائیں گے، اس لیے وہ اس اچانک حملے سے گھبراگئے ۔ اسی گھبراہٹ میں جب وہ کھڑکیوں سے کودنے والے کمانڈوز کی طرف متوجہ ہوئے توموقع کا فائدہ اٹھا کر چند سپاہی بھی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئے ۔ اب نقاب پوش اور ان کاباس دونوں طرف سے گھر گئے تھے ۔ نتیجتاََ یہ کہ انھوں نے ہتھیار ڈال دیے اور شہر میں امن قائم ہوگیا۔ " کنجوس کی بلی - تحریر نمبر 964,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kanjoos-ki-billi-964.html,"ندیم علیگ :بلی کے دونوں بچے بھوکے تھے اور میاؤں ، میاؤں کرکے ماں کو بہت پریشان کر رہے تھے ۔ بلی خود بھی بہت بھوکی تھی ۔ وہ جس گھر میں رہتی تھی، اس گھر کی مالکن اور مالک بہت کفایت شعار تھے ۔ حد سے زیادہ کفایت شعار یعنی کنجوس ، مکھی چوس تھے۔ وہ بلی کو کھانے کو کچھ بھی نہیں دیتے تھے ۔ بلی بے چاری پڑوس کے گھروں میں جاکر چوری کرکے لاتی یاکوڑے دان سے بچا کھچا پھینکاہواکھانا لاکر پیٹ بھرتی اور بچوں کو کھلاتی تھی ۔بلی کے بچے ابھی بہت چھوٹے تھے ۔ وہ بچوں کے بڑے ہونے کاانتظار کررہی تھی، تاکہ وہ ان کولے کر کہیں دوسری جگہ چلی جائے، جہاں اس کو کھانے کے لیے مل جایاکرے۔بلی جس گھر میں رہتی تھی اس گھروالوں کے بارے میں مشہورتھا کہ وہ مثالی کنجوس ہیں۔(جاری ہے)ان کے گھر کوئی مہمان بھی نہیں آتا تھا۔ شیخ سعدی نے کسی حکایت میں لکھا ہے کہ بعض لوگ ایسے کنجوس ہوتے ہیں کہ وہ بھوکے کوکھانا کھلانا تو درکنارپانی بھی نہیں پلاتے۔اگر ان کے گھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بھوکی بلی آجائے تو وہ اس کو دوبونددودھ بھی نہ دیں اور اگر اصحاب کہف کابھوکا کتا بھی ان کے دروازے پر بھوکا آجائے تو وہ اس کو روٹی کا یک نوالہ بھی نہ ڈالیں۔ اسی لیے قارون دولت مند ہونے کے باوجود اپنی کنجوس کے لیے قیامت تک بدنامی کے ساتھ یاکیاجائے گا، جب کہ حاتم طائی اپنی سخاوت کے لیے یاد کیاجائے گا۔علامہ اقبال کا یہ شعر اس قسم کے لوگوں پرصادق آتا ہے کہگوپروازہے دونوں کی ایک فضا پرکرگس کاجہاں اور ہے، شاہین کاجہاں اوربھوکی بلی نے بھوکے بچوں کو تسلی دی اور کہا کہ ذرا صبر کروصبح ہوگئی ہے۔ اللہ میاں سب کو رزق دیتا ہے، ہم کو بھی ضرور دے گا۔ایک بچے نے کہا: اماں ، اماں ! میں گوشت کھاؤں گا ۔دوسرے نے بھی کہاں: ہاں میں بھی آج گوشت کھاؤں گا ۔بلی نے کہا: میں جاتی ہوں دیکھتی ہوں کہ گھر میں کیاپک رہاہے ۔ بلی مکان کی چھت پر بنی کوٹھری سے نکلی اور بچوں کو ہدایت کی کہ وہ باہر نہ نکلیں اور نہ شور مچائیں۔ اگر مالکن کو پتاچل گیا تو وہ تم کو پکڑ کردور پھنکوا دیں گے ۔ بچے سہم گئے اور چپ چاپ کونے میں دُبک گئے ۔صبح کے نوبجے تھے، سردی کازمانہ تھا۔ سورج نکل آیاتھا ، لیکن مالکن لحاف اوڑھے بستر میں پڑی تھی ۔اس کا شوہر گوشت اور ترکاری لے کر واپس آگیا تھا۔ اس کاخیال تھا کہ اس کی بیوی نے اٹھ کر اب تک ناشتہ تیارکرلیا ہوگا۔ بیوی کو بستر میں پڑا دیکھ کر وہ آگ بگولہ ہوگیا ۔ اس نے غصے سے کہا: تم اب تک بستر پر پڑی ہو، مجھے لگ لگی ہے، ناشتہ کون بنائے گا۔میرے سر میں بہت درد ہورہا ہے، میں روز ناشتہ بناتی ہوں، آج تم خود بنالو۔بیوی نے لحاف میں سے جواب دیا۔اور میں یہ گوشت اور لوکی لایاہوں ، یہ بھی پکالوں گا ۔میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے، میں اٹھ نہیں سکتی اور تم کو گوشت لوکی کی فکر ہے۔ پھینک دو گوشت کو۔ ہوٹل سے کھانالے کا کھالینا۔ میری فکر مت کرنا۔ بیوی نے چِلا کر کہا۔شوہر کاپیٹ خالی تھا، وہ بھوکا تھا۔ بھوک میں انسان کادماغ گرم ہوجاتا ہے۔ شوہر نے تھیلے سے گوشت کی تھیلی نکال کرغصے میں آنگن میں پھینک دی اور گھر سے باہر نکل گیا۔بلی یہ سب دیکھ اور سن رہی تھی ، وہ گوشت کی تھیلی منھ میں دباکر بھاگ نکلی۔ ماں اور بچوں نے بہت دن بعد گوشت کھایا اور اللہ میاں کاشکر ادا کیااور دعا کی کہ مالکن اور مالک یونہی لڑتے رہیں ۔ " اشرفیوں کی تھیلی - تحریر نمبر 963,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ashrafion-ki-thaili-963.html,"سبط حسن :محمود غزنوی کے زمانے میں غزنی کے ایک قاضی کے پاس اس کے ایک دوست تاجر نے اشرفیوں کی ایک تھیلی بطور امانت رکھوائی اور خود کاروبار کیلئے دوسرے ملک چلا گیا ۔ واپسی پر اس نے قاضی سے اپنی تھیلی واپس مانگی جو اس نے واپس کردی ۔ تاجر تسلی کرکے تھیلی لے گیا۔ گھر جا کر اس نے تھیلی کھولی تو اشرفیوں کی بجائے اس میں تانبے کے سکے تھے۔اس نے قاضی کے پاس آکر کہا اس میں جواشرفیاں تھیں وہ کہاں گئیں ؟ قاضی نے جواب دیا ” بھئی جس طرح تم بند تھیلی دے گئے تھے میں نے اسی طرح تمہارے حوالے کردی ۔ اب مجھے کیا معلوم کہ اس میں اشرفیاں تھیں یاتانبے کے سکے ۔ “ تاجر فریاد لے کرسلطان محمود غزنوی کے پاس گیا اور سارا واقعہ سلطان کو سنادیا ۔سلطان سمجھ گیا کہ تاجر سچ کہتا ہے لین اس کاکوئی جواب نہ تھا کہ بند تھیلی میں اشرفیوں کے بجائے تانبے کے سکے کیسے چلے گئے ؟ سلطان نے کہا کہ تم یہ تھیلی میرے پاس رہنے دواور انصاف کرنے کا کوئی طریقہ سوچنے کیلئے مجھے کچھ دن کا وقت دو۔(جاری ہے)تاجر نے وہ تھیلی سلطان کے حوالے کی اور خود چلاگیا ۔ سلطان نے کچھ دیر اور پھر اپنے خنجر سے اُس قالین کوایک طرف سے کاٹ دیا جو تخت پر بچھا ہوا تھا اور اس کے فوراََ بعد حکم دیا کہ ہم شکار کوجائیں گے ۔ چنانچہ سلطان پر روانہ ہوگیا ۔ بادشاہ کی روانگی کے بعد جب وزیر وغیرہ واپس لوٹے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ تخت شاہی کاقالین ایک طرف سے کٹا ہواہے ۔سب سوچنے لگے کہ اب کیاکیا جائے ۔ شکار سے واپسی پر تین دن کے بعد جب سلطان کو یہ پتہ چلے گا کہ قالین کٹ گیا ہے تو خداجانے کس کس کی شامت آئے ۔ وہ یہ بات سوچ ہی رہے تھے کہ ان میں سے ایک بول اٹھا۔ ارے یار ! کیوں فکر کرتے ہو، احمد فوگرکو بلالووہ اس کو ایسا بنادے گا کہ بادشاہ کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو گی کہ کبھی قالین کٹاتھا ۔ چنانچہ احمد رفوگرکوبلا کر اس سے کہا گیا کہ جس قدر جلد ہوسکے قالین کی اس طرح مرمت کردو کہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ اسے رفو کیاگیا ہے ۔احمد رفوگر نے یہ کام دودن میں مکمل کردیا۔ تیسرے دن سلطان شکار سے واپس آیا تو اس نے قالین کی صحیح سالامت پایا۔ بادشاہ خود یہ نہ جان سکا کہ اسے کہاں سے رفو کیاگیا ہے ۔ سلطان نے اپنے وزیروں سے کہا کہ یہ قالین کاٹ کر مرمت کرایا گیا ہے ۔ وزیروں نے قسمیں کھائیں کہ عالیجاہ ایسا نہیں ہوا۔ اس پر سلطان نے کہا کہ میں نے خود اس قالین کو کاٹا تھا ۔بتایا جائے کہ کس نے اسے رفو کیاہے ؟ بادشاہ کو بتایا گیا کہ یہ کام احمد رفو گر نے کیا ہے ۔ سلطان نے احمد کو بلایا اور وہ تھیلی دکھا کر کہا ۔ دیکھو ! کہیں یہ تھیلی تو تمہارے پاس رفو کیلئے نہیں آئی تھی ؟ پہلے تو احمد نے انکار کیا مگر جب سلطان نے سختی سے پوچھا تو اس نے کہا “ جی ہاں ! یہ تھیلی فلاں قاضی صاحب میرے پاس لائے تھے جس میں نے رفو کردیا تھا۔ بادشاہ نے اسی وقت قاضی کو بلایااور کہا کہ تاجر کی اشرفیاں فوراََ واپس کردو ورنہ تمہیں سخت سزادی جائے گی، آخر قاضی نے وہ اشرفیاں لاکر بادشاہ کے سامنے پیش کردیں جو بادشاہ نے تاجر کے حوالے کردیں۔ قاضی کے خلاف مقدمہ چلایا اور اسے سزادلائی ۔ " جنگلی لڑکا - تحریر نمبر 962,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jangli-larka-962.html,"جاوید اقبال :بندروں کا پیچھا کرتے کرتے ہم گھنے جنگل میں داخل ہوگئے ۔ بندردرختوں کی شاخوں سے لٹکتے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے بھاگ رہے تھے اور ہم ان کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ بندروں کی شرارتوں کے بارے میں سناتھا۔ واقعی آج بندروں نے ہمارے ساتھ شرارت کردی تھی ۔میں نے چڑیا گھر کے لیے وہاں کے افسران سے بندر پکڑنے کا معاہدہ کیا تھا۔میں نے اس مہم میں اپنے دوستوں کو بھی شامل کرلیا، تاکہ دوستوں کے ساتھ پکنک بھی ہوجائے اور بندرپکڑ کرکچھ رقم بھی کما لیں گے۔جنگل میں ہم نے بندروں کاٹھکانا ڈھونڈا اور وہاں بندروں کی پسند کی کھانے کی چیزیں پھیلادیں، پھر جال اور پھندے لگاکر جھاڑیوں سے چھپادیے ۔ ہمیں وہاں دیکھ کر بندربھاگ گئے۔(جاری ہے)ہم جھاڑیوں میں چھپ کر ان کی واپسی کاانتظار کرنے لگے ۔کافی انتظار کے بعد بندروں کا ایک جتھا اس طرف آیااور کھانے کی چیزوں پر ٹوٹ پڑا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب کچھ کھا گئے اور جب ہم نے انھیں ہانک کرجال کی طرف لے جانا چاہا تو وہ جال اور پھندے ہی اٹھاکر بھاگ نکلے۔بندروں کا پیچھا کرتے ہوئے ہم جنگل کے اس حصے میں داخل ہوگئے ، جہاں اندھیر اچھایا ہوا تھا۔ گھنے درختوں کی شاخوں سے چھت سی بن گئی تھی ۔جس سے سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ رہی تھی اور دن میں بھی رات کاگماں ہورہا تھا۔ یہاں گہری خاموش چھائی تھی ، یعنی مکمل سناٹا تھا۔بندر نہ جانے کہاں چھپ گئے تھے ۔ ہم اپنے ہتھیار اٹھائے متحاط قدموں سے آگے بڑھ رہے تھے ۔ پتا بھی گرتا توہم چونک اٹھتے۔ اندھیرے کی وجہ سے میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑکردور نکل گیا۔ جب مجھے ساتھیوں کے بچھڑنے کااحساس ہوا تو میں نے پلٹنا چاہا۔اچانک کسی نے مجھے پیچھے سے دبوچ لیااور اپنے دانت میرے کندھے میں گاڑدیے میرے منھ سے چیخ نکل گئی۔ میں نے اپنے کندھے کو زور سے جھٹکا دیا۔ میرا کاندھا تو اس کی گرفت سے آزاد ہوگیا، مگر اس کانوکیلا ناخن میرے ایک بازو کے گوشت میں اُترتا چلاگیا۔ پھر وہ ایک دم میرے سامنے آگیا۔وہ ایک جنگلی تھا۔ بڑھے ہوئے بال، نوکیلے ناخن ، آنکھوں میں وحشت ، جسم پر صرف ایک لنگوٹی پہنے ہوئے تھا۔وہ پھر مجھ پر جھپٹا ، مگر میں پھرتی سے جھکائی دے کر بچ گیا اور دو قدم پیچھے ہٹ کر تیز سیٹی بجائی جواب میرے ساتھیوں نے بھی سیٹی بجائی ، جس کامطلب تھا، گھبراؤ نہیں ہم آرہے ہیں۔ یہ ہمارا آپس کا خفیہ اشارہ تھا ۔اس دوران موقع پاکر اس جنگلی نے پھر مجھے دبوچ لیا۔ کم عمر ہونے کے باوجود وہ پھرتیلا اور طاقت ور تھا۔ اتنے میں میرے ساتھی بھی وہاں آپہنچے۔مجھے ایک جنگلی سے گتھم گتھا دیکھ رک انہوں نے بندوقیں تان لیں۔گولی مت چلانا۔ میں نے چلِا کرکہا۔میرے ساتھیوں نے اپنے ہتھیار زمین پر دکھ ریے اور جنگلی پر جھپٹ پڑے ۔ تھوڑی سی جدوجہد کے بعد انھوں نے جنگلی پر قابو پالیا۔ ایک ساتھی نے کمرکے گرد بندھے تھیلے سے رسا نکالا اور جنگلی کو باندھ کربے بس کردیا۔ پھر دوساتھیوں نے اسے اُٹھالیا اور ہم جنگل سے واپس چل پڑے ۔جنگلی انسان کو پکڑنے کی خبر نے مہذب دنیا میں ہلچل مچادی۔ یہ ایک چونکا دینے والی خبر تھی کہ ایک بچہ انسان سے بچھڑکر جانوروں میں پلابڑھا اور جانوروں جیسی ہی عادتیں اپنالیں۔ لوگ جوق درجوق جنگلی لڑکے کو دیکھنے آنے لگے۔ کئی دنوں تک اخباری نمائندوں نے ہمیں گھیرے رکھا۔ یہ سلسلہ تھما تو جنگلی کی تربیت شروع کردی۔ اس سلسلے میں ایک ڈاکٹر اور ایک ماہرنفسیات کی مدد بھی مل گئی ۔اس جنگلی کو مہذب بنانے کے لیے بڑی محنت کرناپڑی ۔ آخرہماری کوششیں رنگ لائیں اور اس میں تبدیلی کے آثارنظر آنے لگے ۔ وہ کچھ کچھ ہماری بات سمجھنے لگااور گھر کے کام بھی کرنے لگا۔جلدہی اس نے نشانہ بازی بھی سیکھ لی اورہمارے مدد گارکی حیثیت سے ہمارے ساتھ شکاری مہمات پرجانے لگا۔ ایک اچھا نشانہ باز ہونے کے باوجود شکاری مہموں کے دوران اس نے کبھی کسی جانور پہ گولی نہ چلائی ۔وہ اپنے پاس ایک تھیلا رکھتا ، جس میں جانوروں کے کھانے کی چیزیں ہوتیں، جنھیں وہ جانوروں کے آگے ڈال دیتا اور خود دور کھڑا ہوکر انھیں کھاتے دیکھتا اور خوش ہوتا ۔اس دوران ہم نے اس کے والدین کی تلاش جاری رکھی ۔ ایک دن کچھ لوگ اسے دیکھنے آئے ۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا بچہ بھی جنگل میں کھوگیا تھا۔ اس کے جسم پر ایک مخصوص پیدائشی نشان دیکھ کرانھوں نے اپنے لخت جگر کو پہچان لیا ۔اپنے بچھڑے ہوؤں سے ملنے کے بعد اس ہم سے اپنے والدین کے ساتھ جانے کی اجازت چاہی اور ہم نے دکھی دل سے اسے جانے کی اجازت د ے دی۔ " بکری کی کوے کو نصیحت - تحریر نمبر 961,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bakri-ki-kawway-ko-naseehat-961.html,"عمر فاروق : ایک دفعہ کا ذکرہے کہ جنگل میں طوفانی بارش ہو رہی تھی ۔ بکری کی نظر ایک شیر کے بچے پر پڑی جو بہت بیمار تھا اور سردی سے کانپ رہا تھا ۔ شیر کے بچے نے کافی دنوں سے کچھ کھایا نہیں تھا۔ بکری کو شیر کے بچے پر بہت ترس آیا ، بکری نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔ بھوکے شیر نے حسرت سے بکری کی طرف دیکھا، بکری سمجھ گئی کہ یہ بہت بھوکا ہے، اس نے شیر کے بچہ کو کھانا دیا، دودھ پلایا ، اتنی دیر میں بارش رک گئی ۔بکری نے وہاں سے جانے کاارادہ کیا لیکن پھر اسے خیال آیا کہ کہیں شیر کا بچہ اکیلے مر نہ جائے ۔ لہٰذا بکری اس کے پاس رک گئی ، دو تین دن اپنے گھر نہیں گئی بلکہ شیر کے بچے کی دیکھ بھال کرتی رہی ۔ بکری کی دیکھ بھال کی بدولت شیر کابچہ تندرست ہو گیا۔(جاری ہے)بکری نے سوچا اب شیر کا بچہ تندرست ہوگیا ہے، اب میں چلی جاتی ہوں۔ مگر پھر اسے بچے پر رحم آیا کہ اس کے ماں باپ تو نہ جانے کہاں ہیں، یہ بے چارہ اکیلے میں گھبرائے گا۔کہیں شکاری کانشانہ ہی نہ بن جائے ۔ چنانچہ وہ اسے اپنے گھر لے آئی ۔ یہاں شیر کا بچہ بکری کے بچوں کے ساتھ ہی رہنے لگا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد شیر کا بچہ جوان ہوگیا۔ ایک دن بکری گھاس کھارہی تھی اور شیر کا بچہ بکری کی رکھوالی کررہا تھا ۔ اوپر سے ایک کوا گزرا اس نے دیکھا کہ بکری گھاس کھارہی ہے اور شیر اس کے پاس بیٹھا ہے ۔ جبکہ شیر تو بکری کو کھاجاتا ہے، مگرایسا کچھ نہیں ہوا کوایہ ماجرا پوچھنے بکری کے پاس آیا تو شیر، کوے کی طرف لپکا اور اسے اُڑادیا ۔ایک دن کو اموقع پاکر بکری کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیاماجرا ہے ؟ بکری نے اسے سب کچھ بتایا اور کوے کو نصیحت کی کہ اگر ہوسکے تو تم بھی کسی کے ساتھ نیکی کرنا۔ کوا اپنے اندر نیکی کا جذبے لے کر چلا گیا۔ ایک دن کوے نے دیکھا ، ایک چوہا ٹھنڈے پانی کے تالاب میں گرا ہوا تھا ، چوہا باہر نکلنے کی کوشش کررہا تھا مگر ڈوب رہا تھا ۔ کوے کو بکری کی نصیحت یاد آئی ۔وہ اڑا اور اس نے اپنے پنجوں سے چوہے کو پکڑا اور پانی سے باہر نکال کر زمین پر چھوڑ دیا ۔ چوہا ٹھنڈے پانی میں رہنے کی وجہ سے کانپ رہا تھا ۔ کوے نے اس اپنے پروں میں لے لیا ۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد کوے نے چوہے کو پروں سے باہر نکالا تو دیکھا چوہا ٹھیک ہوگیاہے۔ مگر چوہے نے اس کے پرکاٹ دئیے ۔ اب کوا اڑنے کی کوشش کرتا اور زمین پر گر پڑتا ۔ کوا اپنے آپ کوکوسنے لگا کہ اس نے چوہے کی مدد ہی کیوں کی ؟ اسے بکری پر بھی غصہ تھا ۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کوے کے نئے پر اگ آئے اور وہ پھر اڑنے لگا ۔ وہ سیدھا بکری کے پاس گیا اور بکری کو اپنے ساتھ ہوا سارا واقعہ سنایا ۔ بکری نے کہا ” نیکی کرو ضرور۔ مگر فطرت دیکھ کر ۔ " ناشکری کی سزا - تحریر نمبر 959,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/na-shukri-ki-saza-959.html,"امیرہ سلیم :ایک دن بارہ سنگھا جنگل میں ہری گھاس چررہا تھا، پیٹ بھرجانے پر اسے پیاس محسوس ہوئی۔ اس جنگل میں شفاف پانی کی ایک ندی بہتی تھی۔ بارہ سنگھا پیاس بجھانے کے لئے اس ندی کے کنارے پر جاپہنچا جب اس نے پانی پینے کے لئے منہ نیچے جھکایا تو شفاف پانی میں اپنا عکس نظرآیا۔ عکس دیکھ کر بارہ سنگھا بہت خوش ہوااس نے اپنے سر پر مضبوط اور لمبے سنگ دیکھ کر سوچا کہ ان سینگوں کی وجہ سے میری خوبصورتی کو چاہ چاند لگ گئے ہیں۔اس کے ذہن میں خیال آیا کہ میں جنگل کا سب سے حسین جانور ہوں اور سر پر سینگوں کا تاج بھی ہے۔ اس لئے جنگل کا بادشاہ شیرکو نہیں مجھے ہونا چاہیے ۔بارہ سنگھا ابھی اپنے سینگوں کو دیکھ کر خوش ہورہا تھا کہ اس کی نظر اپنی پتلی اور کمزور ٹانگوں پر پڑیں ، ٹانگوں کو دیکھ کر بارہ سنگھا ایک وم افسردہ ہوگیا اور سوچنے لگا کاش میری ٹانگیں بھی سینگوں کی طرح خوبصورت ہوتیں کچھ دیر اپنی ٹانگوں کو دیکھنے کے بعد بارہ سنگھا اپنے گھر کی طرف چل پڑا وہ اپنی پتلی ٹانگوں کو کوستا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک شیر نے اس پر حملہ کردیا ،شیر کو اپنے تعاقب میں دیکھ کر بارہ سنگھا جان بچانے کے لئے گھنے جنگل کی طرف بھاگنے لگا بارہ سنگھا انہیں دہلی ٹانگوں کے ساتھ اتنی تیزرفتاری سے بھاگا کہ شیر بہت پیچھے رہ گیا۔(جاری ہے)بھاگتے بھاگتے بارہ سنگھے نے مڑکر اپنے تعاقب میںآ نے والے شیر کو دیکھنے کی کوشش کی توا س کے لمبے اور خوبصورت سینگ ایک درخت کے جھکی ہوئی ٹہنیوں میں الجھ گئے اچانک سینگ پھنس جانے پر بارہ سنگھا بہت پریشان ہواوہ اپنے سینگ چھڑانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کرنے لگالیکن اس کوشش میں اس کے سینگ ٹہنیوں میں مزیدالجھ کررہ گئے ، اب اسے احساس ہوا کہ ان لمبے اور خوبصورت سینگوں سے اس کی دہلی پتلی ٹانگیں جن کو وہ کچھ دیر پہلے بدصورت کہہ رہا تھا زیادہ بہتر ہیں ان ہی ٹانگوں کے سہارے اپنی جان بچانے کے لئے وہ اب تک بھاگتا رہا۔بارہ سنگھا خود کو آزاد کو کرانے کی کوشش کررہا تھا کہ شیر اس کے قریب آن پہنچا اور چھلانگ لگا کر اس کی گردن اپنے نوکیلے دانتوں میں دبوچ کر کھانے لگا ۔ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکرادا کرنا چاہیے۔ " نیلی پری - تحریر نمبر 958,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/neeli-pari-958.html,"محمد ابوبکر ساجد :ایک باغ میں بہت سے جانور رہتے تھے۔ ہر طرف رنگ برنگے پھول کھلے تھے۔ مزیدار میٹھے رس بھرے پھلوں سے یہ باغ لداہوا تھا۔ ہر منگل کو پرستان کی پریاں جانوروں کے ساتھ مزا اور موج مستی کرنے آتیں۔ خوشی سے جب پرندے چہچہاتے تو انھیں بہت اچھا لگتا۔پریوں میں ایک پری ” نیلم پری “ تھی جس کے پرسات رنگ کے تھے ، اس پری کی خاصیت یہ تھی کہ یہ فضاؤں میں جب اڑتی تو اس کے سات رنگوں کا عکس آسمان پرجاتا جودیکھنے میں بہت پیارا لگتا ۔آج بھی منگل کا دن تھا۔ صبح سے ہی باغ میں میلہ لگاتھا۔ سب تیار ہوکر پریوں کا انتظار کررہے تھے کہ اچانک بارش برسنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے تالاب سابن گیا، میلے کیلئے کی گئی سجاوٹ سب بارش کی نذر ہوگئی۔(جاری ہے)سب جانور حیران وپریشان تھے کہ یہ بن موسم بارش کیسے ہوگئی۔ننھے جانور بہت غصے میں آگئے ، کیونکہ ان کی تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں ۔اس وقت پریوں کی ٹولی باغ میں اتری۔ جانورں نے غصے میں ان کااستقبال بھی نہ کیا۔ پریاں حیران ہوگئیں کہ آخر آج کیا ماجرا ہوگیا جو ان کے شایان شان کسی نے بھی ان کااستقبال نہ کیا۔اُن کی ملکہ نے بی لومڑی سے پوچھا کہ یہاں سب غصے میں کیوں ہیں؟ لومڑی نے افسردہ ہوکر بارش کی وجہ سے میلہ خراب ہونے کے تمام رودادسنادی۔ یہ سن کرملکہ مسکرائی اور کہا۔دستو ! بارش ایک نعمت ہے۔ اس بارش کی وجہ سے ہمیں کتنا فائدہ ہوتا ہے ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوجاتی ہے۔ نئے پھل اگتے ہیں۔ باغ کی خوبصورتی میں اضافہ بھی ہوگیا ہے۔ سارے جانور بڑے غور سے ملکہ کی باتیں سن رہے تھے۔یہ سب سن کر سفید خرگوش ایک دم بولا وہ تو ٹھیک ہے مگر اب ہم نیلم پری کے سات رنگ کیسے دیکھیں گے ؟ سورج تو نکلا نہیں۔ اس کی بات سن کر پریاں ہنسنے لگیں، ملکہ نے کہا ہم بھلا اپنے دوستوں کو افسردہ کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ملکہ نے نیلم پری کو بلایا تو نیل پری فوراََ حاضر ہوگئی اور اس نے آتے ہی کہا ! چلو سب خوش ہوجاؤ میں اپنے ساتوں رنگوں کا مظاہرہ کرنے لگی ہوں یہ کہہ کر نیلم پری نے پرواز بھری اور فضاء میں پہلے لال رنگ سے عجیب وغریب خاکے بنائے پھر ہرا، نیلا اور پیلا۔ اسی طرح سے باغ ان رنگوں سے خوبصورت لگنے لگا۔سب جانور خوشی سے تالیاں بجانے لگے، بادل چھٹے اور سورج نمودار ہوا۔ یہ رنگ آسمان سے اترتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ پھریوں ہوا کہ نیلم پری نے ساتگوں رنگ ہمیشہ کیلئے آسمان پر چھوڑ دئیے اور خود پرستان چلی گئی۔ اب ہر بارش کے بعد اکثر یہ رنگ نمودار ہوتے ہیں جنہیں ہم ” قوح قزح “ کہتے ہیں۔ " مسٹر بکرے آپ کیسے ہیں - تحریر نمبر 957,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mr-bakray-aap-kaisay-hain-957.html,"زمردسلطان :میں ایک دن بکرمنڈی کے پاس سے گزررہی تھی میں نے سوچا چلو جانوروں کا آج انٹرویو ہی کر لیتے ہیں سب سے پہلے ہم بکروں کے غول کی طرف گئے جہاں بکرے چار پائی پر پڑی گھاس سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ایک بکرے کی نظر ہم پر پڑی ۔ ہم نے غنیمت جانتے ہوئے بکرے کی توجہ اپنی طرف کی اور ان سے پوچھا۔ مسٹر بکرے آپ کیسے ہیں؟بے ، بے۔پہلے تو مسٹر بکرے نے بولنے سے انکار کردیااور اپنی مخصوص بولی میں بولے جانے لگے۔ پھر اچانک کہنے لگے، کیا پوچھتے ہو ہم سے ہمارا حال؟ پھر بھی ہم اللہ کاشکرادا کرتے ہیں۔ ہمارا مالک ہمارا بہت خیال رکھتا ہے۔ کھلی تازہ ہوا میں گھمانے لے جاتا ہے۔ یاں بعض اوقات اگر مالک غصے میں ہویا ان کے پاس چارے کیلئے پیسے نہ ہوں تو رونے لگتے ہیں کہ قربانی کا جانور اب پالنا کتنا مشکل ہوتا جارہا ہے کہ انہیں بھی کھلانے کیلئے پیسے نہیں رہے، پھر بھی کہیں سے پکڑ دھکڑ کر ہماری ضرورت پوری کرتے ہیں۔(جاری ہے)یہ کہہ کر مسٹر بکرے پھر سے چارہ کھانے میں مصروف ہوگئے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ مزید بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔پھر ہم گائے اور بیلوں کے غول کی طرف بڑھے۔ جہاں پر گائیں اور بیل واک کررہے تھے۔ کوئی چنبیلی ہے تو کوئی چلبلی ، کوئی شہنشاہ تو کوئی بادشاہ اور جتنی موٹی اور خوبصورتی سے سجی ہوئی گائے اتنے ہی زیادہ اس کے دام۔ زیادہ تر لوگ وہاں ان کی واک ہی دیکھنے آتے تھے۔پیسے تو ہیں نہیں چلو ونڈوشاپنگ ہی سہی۔ اتنے میں ایک گائے ہماری طرف بڑھیں ہم ڈر گئے۔ اچانک سے وہ کھڑی ہوگئی اور بولی ۔ ہم سے سوال نہیں کریں گی۔ ایسے میں ہم نے ان سے جھٹ سے سوال پوچھ ڈالا۔ آپ کے ماتھے پہ سجاوٹ ، سینگوں لپٹے ہوئے پھول، پیروں میں چھن چھن کرتی جانجھریں، یہ آپ کی خوبصورتی میں اضافہ کا ذریعہ ہیں یامن مانی قیمتوں کا حصول ؟یہ سب ہمیں بیچنے کے طریقے ہیں۔گائے تھوڑا اتراتے ہوئے بولی۔ بعض خریدار نہیں جانوروں کو سجابنا کر اس میں انفرادیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ سچ پوچھو تو ہمیں ان چیزوں سے بڑی اکتاہٹ ہوتی ہے۔ ہمارے پیروں میں جانجھریں پہناکر ہمیں چلنے پر مجبور کیاجاتا ہے۔ دیکھئے اب کہاں منزل لے جاتی ہے کون بنتا ہے خریدار؟ یہ کہہ کر گائے اپنے غول میں گھل مل گئی۔پھر ہم اونٹوں کے غول کی جانب بڑھے جہاں اونٹ جگالی کررہے تھے۔ہم نے سوال کردیا۔ آپ کو منڈی تک آنے میں کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ (سوچتے ہوئے ) سفر کاکوئی خاص اہتمام نہیں کیا جاتا۔ ہمیں منڈی تک بڑے بڑے ٹرکوں کے ذریعے لایاجاتا ہے ان لڑکوں میں ضرورت سے زیادہ جانور ہونے کی وجہ سے زخموں کی اذیتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔منڈی میں پہنچنے کے بعد کیا مالکان آپ کی طرف توکہ دیتے ہیں؟ منڈی پہنچنے کا مرحلہ توسفر سے زیادہ تکلیف دہ اورتھکانے والا ہوتا ہے۔مالکان کی کوشش ہوتی ہے کہ جانوروں کو زیادہ سے زیادہ کھڑا رکھا جائے تاکہ خریدار ہمیں چاق وچوبند اور توانا سمجھے جبکہ بیٹھا ہوا جانور ان کی نظر میں لاغیریاسست کہلاتا ہے۔اس سوال کے جواب میں قریب ہی سے گزرتے ہوئے ایک بکرا بولا۔ یہ بات تو ہمارے لئے سب سے اہم ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ جب بھی کوئی قصائی خریدار آتا ہے تو ہمارے جسم کو ٹٹول ٹٹول کردیکھتا ہے تو کوئی ہمارے دانتوں کا معائنہ کرتا ہے پھر ہم ان سے پریشان ہو کراپنا بکرا ہونے کا دوچار سینگ جڑکر ثبوت دیتے ہیں تاکہ یہ ہجوم ہم سے دور ہوں۔ یہ کہہ کربکرے میاں آگے آگے چل دیئے۔ " تین منٹ - تحریر نمبر 956,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/3-minute-956.html,"جاوید اقبال :وہ محلے کا سب سے پرانا مکان تھا۔ ٹوٹی پھوٹی دیواریں، جگہ جگہ سے چٹخی اینٹیں ، اُدھرتا پلستر، اکھڑتی چھتیں ، جیسے ابھی گرجائیں گی۔ اندر ہروقت اندھیر اچھایا رہتا۔ پرانے طرز کے اس مکان میں ایک کنواں بھی تھا۔ ٹوٹے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہوں تو ایک جھولا لٹکا نظر آتا۔ محلے کے بچے جھولے کے لالچ میں وہاں پہنچ جاتے۔اگر کوئی بچہ جھولا زور سے جھلاتا توجھولا کنویں کے اوپر پہنچ جاتا اور جھولے پہ بیٹھ بچہ خوف سے چلانے لگتا۔میں ایک دن جھولے پر بیٹھا تھا کہ کسی نے پیچھے سے جھولے کو زور سے دھکادے دیا۔ میرے منھ سے چیخ نکلی ۔ جھولے کی رسی ہاتھوں سے چھوٹ گئی اور اس میں قلابازیاں کھاتا ہوا کنویں میں جاگرا۔ جیسے ہی میرے پاؤں کنویں کی تہ میں لگے، مجھے وہاں ایک دروازہ نظرآیا۔(جاری ہے)کسی نے مجھے اس دروازے سے اندر کھینچ لیا اور پھر وہ دروازہ غائب ہوگیا۔میں نے خود کوایک نئی اور انوکھی دنیا میں کھڑے پایا، جہاں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ رنگ رنگ کے پھول کھلے تھے۔ فضاؤں میں بادل تیررہے تھے، جو مجھے چھوتے ہوئے گزررہے تھے اور اپنی نمی سے مجھے شرابور کررہے تھے۔ دورسرمئی پہاڑوں کے دامن میں مجھے ایک سفید محل نظرآیا۔میں اس طرف چل پڑا۔ پہاڑوں کے دامن میں سبزے میں گھرامحل سفید چمکتے موتی کی طرح نظرآرہاتھا۔ میں جیسے ہی محل کے قریب پہنچا محل کا دروازہ خود بخود کھلتا چلا گیا۔ میں ڈرتے ڈرتے اندرداخل ہوگیا۔ محل اندر سے بھی انتہائی خوبصورت تھا۔ ہرطرف پھول کھلے ہوئے تھے۔ پھولوں سے لدے درخت، ٹھنڈے پانی کی پھواریں اُڑاتے فوارے، سرسبز باغیچے میں چوکڑیاں بھرتے ہرن تھے تو کہیں مورنا چتے نظرآرہے تھے۔میں حیرت کے سمندر میں ڈوبا یہ سب دیکھ رہاتھا کہ اچانک میری نظر اوپر بالکونی پر پڑی۔ بالکونی میں بہت سے بچے کھڑے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ پھر وہ بھاگتے ہوئے نیچے آگئے۔تم کون ہو، یہاں کیسے آئے؟ انھوں نے پوچھا۔میں نے انھیں یہاں تک پہنچنے کی رودادسنادی تو وہ بولے : اب تم بھی ہماری طرح جادو گربونے کے قیدی ہو۔جادو گربونا․․․․․․ وہ کون ہے؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔جا دوگر بونا بہت بڑا جادو گر ہے۔ انھوں نے بتایا۔مگر جادو گربونا بچوں کو کیوں قید کرتا ہے؟ میں نے پوچھا۔بہت دن پہلے جادوگر بونے کا اکلوتا بیٹا ہماری دنیا کی سیر کرنے آیاتوشکاری نے اسے مارڈالا۔ اپنے اکلوتے بیٹے کی موت سے جادوگر بونا انسانوں کا دشمن بن گیا۔ اس نے یہ جادونگری بسائی اور پانے جادوئی عمل سے بچوں کو یہاں قید کرنے لگا جو بچہ ایک بار یہاں قید ہوجائے تو پھر جادوگربونے کے جادوئی حصار سے نکل نہیں سکتا۔یہ سن کر کہ میں ایک خطرناک جادوگر کی قید میں ہوں، گھبرا گیا۔ ابھی میں پریشان کے عالم میں کھڑا تھا کہ زور کی آندھی چلنے لگی۔جادوگر بونا آگیا “ کہتے ہوئے بچے اوپر بھاگے۔ بلاسوچے سمجھے میں بھی ان کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا۔ اوپر ایک بہت بڑا کمرے میں کہانیوں کی کتابیں، کھلونے رنگوں کے ڈبے بکھرے پڑے تھے۔ بچے ان چیزوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہوگئے میں وہاں ایک بڑی الماری میں چھپ گیا۔کچھ ہی دیر بعد وہان ایک بونا آگیا۔ اس نے چست لباس پہنا ہوا تھا، چہرے پر لمبی داڑھی تھی، جوسینے تک لٹک رہی تھی پاؤں میں نوک دار جوتے تھے، جوگھٹنوں کو چھورہے تھے۔ سرپر پھندے والی ٹوپی تھی ۔ الماری کی درز سے مجھے بونا نظرآرہا تھا۔ اس نے کھیل میں مصروف بچوں پر ایک نگاہ ڈالی اور بولا: سب ٹھیک ہے بچو !ہاں جی۔ سب بچوں نے ہم آواز ہوکرکہا۔یہاں کوئی نیا بچہ تو نہیں آیا ؟ جادو گر بونے نے پوچھا۔جی نہیں۔ بچوں نے پھر ایک ساتھ کہا۔اچھا تم کہتے ہو تو مان لیتا ہوں۔ جادوگر بونے نے المارکی طرف دیکھتے ہوئے معنی خیزانداز میں کہا۔جادوگر بونے کو الماری کی طرف توکہ دیتے دیکھ کر میں ڈر گیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے جادو گر بونے کو معلوم ہے کہ میں یہاں چھپا ہوا ہوں، لیکن جادو گر بونے بچوں کو خدا حافظ کہااور جس طرح آندھی طوفان کی طرح آیا تھا، ویسے ہی واپس چلا گیا۔جادوگر بونے کے جانے بعد میں الماری سے نکل آیا اور بچوں میں گھل مل گیا۔ایک ہفتے میں ایک بڑا ساکمرا تھا، جس کے دروازے پر ہر وقت تالا لگارہتا تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس کمرے میں کیاہے۔ ایک دن میں بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھا اورایک تاریک گوشے میں چھپا ہوا تھا۔ اچانک میرا ہاتھ کسی چیز سے ٹکڑایا۔ چھن کی آواز آئی ۔ ٹٹول کے دیکھا تو چابیوں کا گچھا ہاتھ میں آگیا: چابیاں مل گئیں۔چابیاں مل گئیں۔ میں نے شور مچادیا۔ سب بچے میرے پاس آگئے اور حیرت سے چابیوں کو دیکھنے لگے۔ایک بچے نے کہا: آؤدیکھتے ہیں اس کمرے میں کیا ہے۔میں تالے میں چابی گھماکے تالا کھولنے لگا۔ تیسری چابی گھمانے سے تالا کھل گیا۔ ہم اندر داخل ہوئے تو بری طرح ڈرگئے۔ کمرے میں انسانی کھوپڑیاں ، جانوروں کی ہڈیاں، پرندوں کے پر چمگادڑوں کی لاشیں اور نہ جانے کیا کیا پڑا تھا۔ایک کونے میں ایک الماری میں بہت سی انگوٹھیاں ، ہار ایک قالین اور شیشے کا ایک گول ساپیالہ پڑا تھا۔ طلسم ہوشرباکی کہانیاں پڑھنے کی وجہ سے ہم فوراََ پہچان گئے کہایہ انگوٹھیاں اور ہار جادو توڑنے والی ہیں۔ قالین، اڑنے والا جادوئی قالین ہے اور دنیا بھر کے حالات جاننے والا جادوئی پیالہ ہے۔ایک بچے نے کہا: جلدی سے اس اڑن قالین پر بیٹھو اورا س جادونگری سے نکل چلو۔جادوگر بونا آگیا تو غصے میں ناجانے کیا کر بیٹھے ۔ہم نے جادو کا اثر ختم کرنے والی انگوٹھیاں پہن لیں اور اڑن قالین کھلی جگہ لے آئے پھر سب قالین پر بیٹھ گئے اور اسے حکم دیا کہ ہمیں ہماری دنیا میں لے چلو۔جب قالین ہوا میں اڑا ، اس وقت میری انگلی سے جادو توڑانگوٹھی گرگئی۔اوہ میری انگوٹھی گرگئی۔ میں نے کہا اور قالین سے چھلانگ لگادی۔اسی وقت زورکی آندھی آگئی۔ میں نے جادو گربونے کو آندھی کے بگولوں میں ادھر آتے دیکھا۔ میں اپنی جان بچانے کے لیے بھاگا۔ جادو گر بوناآندھی طوفان کی طرح میرا پیچھا کررہا تھا۔ بھاگتے بھاگتے مجھے وہی دروازہ نظرآگیا، جس سے میں اس جادونگری میں آیاتھا۔ میں دروازے کے اندر داخل ہوگیا اور پھر پانی میں غوطے کھانے لگا۔جب مجھے ہوش آیا تو میں ہسپتال میں بستر پر پڑا تھا۔میرے گھرو الے میرے سرہانے کھڑے تھے ۔ مجھے ہوش میں آتے دیکھ کر ان کے چہرے کھل اٹھے۔شکر ہے خدا کا تمھیں ہوش آگیا۔ تم پورے تین منٹ پانی میں رہے ہو۔ امی جان نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔تین منٹ، لیکن میں تو․․․․․ میں نے کہنا چاہا کہ میں توکئی دن جادونگری میں رہاہوں، مگرڈاکٹر صاحب نے مجھے چپ کرادیا۔ بولے: تم چپ رہو ، ابھی آرام کرو۔تین منٹ “ میں نے زیرلب دہرایا۔ تو کیا وہ جادونگری ، جادوگر بونا ، بچے وہ سب نیم بے ہوشی میں دیکھا ہوا کوئی خواب تھا۔ " علم کی لگن - تحریر نمبر 955,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ilm-ki-lagan-955.html,"سمیا اختر :اسکول بس کے تیز ہارن کی آواز سنی بلال نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ وہ ننگے پاؤں میلے کپڑے پہنے، آس پاس بکھری ہوئی گندگی میں کھڑا، کچرے کا تھیلا اپنے کندھے پر ڈالے ہوئے صرف یہ سوچ رہا تھا کہ میں بھی ان بچوں کی طرح صاف ستھرایونی فارم پہن کر اسکول جاتا۔ اس کے باپ نے کچراچن کر ہی سہی، مگر اپنے اور اپنی اولاد کو حرام کی کمائی کبھی نہ کھلائی۔باپ کے لیے دو وقت کی روٹی کھلانا ہی مشکل تھا۔ تعلیم کے اخراجات پورے کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔سب بچے اپنااپنا بیگ سنبھالتے ہوئے اسکول کے اندر داخل ہوئے۔ کام سے فارغ ہوکر بلال نے باپ سے پوچھا: بابا! کیا میں کبھی نہیں پڑھ سکوں گا؟روزانہ ایک ہی سوال ، تیرادل نہیں بھرتا؟ جب توجانتا ہے کہ میں تیری یہ خواہش نہیں پوری کرسکتا توکیوں مجھے تنگ کرتا ہے۔(جاری ہے)بیٹا ! اب روٹی کھالے اورسوجا جتنی جلدی صبح اٹھے گا اتنا اچھا کچرا ملے گا۔کچرا توکچرا ہوتا ہے بابا! اچھابرا کچرا کیاہوتا ہے!آخر وہ سوچتے سوگیا ۔ اگلے روز کچرے کے ڈھیر کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کے باپ کو عربی زبان میں لکھاہوا ایک کاغذ ملاتو اس نے اسے چوم کر آنکھوں سے لگالیا۔ اب اسے رکھتا کہاں! ہاتھ میں جوتھیلا تھا، وہ گندی چیزوں سے بھرا ہوا تھا۔اس نے قریبی ایک بڑی جامع مسجد کارخ کیا۔ یہاں دینی تعلیم کے ساتھ دوسرے تمام علوم کی تعلیم مفت دی جاتی تھی۔ دروازے کے اندقدم رکھتے ہوئے اس کادل ہچکچایا۔ سامنے لکھا تھا: صفائی نصف ایمان ہے۔ اسے مسجد کے احاطے کے اندر صاف ستھرے لباس پہنے، سلیقے سے ٹوپی لگائے ہوئے ایک بچہ نظر آیا۔ اس نے بچے کو اشارے سے بلایا: بیٹا! یہ اس ڈبے میں ڈال دو۔قریب آنے پر اسے اپنا بیٹا یاد آگیا۔تم یہاں کیا کررہے ہو؟ اس نے یونہی پوچھ لیا۔بچے نے بڑی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ میں یہاں پڑھتاہوں۔یہاں کیا پڑھتے ہو؟قرآن وحدیث اور دوسری علمی کتابیں۔اتنے میں مسجد کے امام صاحب آگئے تو اس نے پوچھا: امام صاحب یہاں پر بچوں کی تعلیم پر کتنا خرچا آتا ہے۔کچھ بھی نہیں، ہم یہ کام اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضاکے لیے کرتے ہیں، مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟میرے بیٹے کوپڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے․․․․․ مگر کہا کروں کچرے کے ڈھیر سے پیٹ کی آگ تو بجھ جاتی ہے، مگر علم حاصل کرنے کے لیے تو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہاں سے لاؤں․․․․․ “تم اس کوکل ہمارے پاس لے آنا۔مگر․․․․․․“مگر کیا؟جناب ! اس کے پاس صاف ستھرے کپڑے اور جوتے نہیں ہیں۔مولوی صاحب نے اس کے بیٹے کی عمر معلوم کی اور پھر ایک شاگرد کواشارے سے بلایا۔ اس کے کان میں کچھ کہا۔ شیرخان نے مایوس ہوکرواپسی کاارادہ کیااور کچرے کا تھیلا کندھے ڈال کر ابھی چندقدم آگے بڑھا ہی تھا کہ مولوی صاحب کی آواز آئی: یہ لوکپڑے اور جوتے ، کل اسے نہلا دھلا کر ہمارے پاس لے آنا۔کل سے تمھارا بیٹا ہمارا شاگرد ہے۔شیرخان نے گھر پہنچ کر دیکھا کہ آج بلال چپ چاپ کمرے کے ایک کونے میں لیٹا ہوا ہے۔ نہ کوئی فرمائش اور نہ کچرے کے تھیلے میں سے کچھ ڈھونڈنے کی لگن۔ شیرخان نے وہیں زمین پر بیٹھتے ہوئے اس کے سر کواپنی گود میں رکھ لیا اور بے ساختہ اور اس کے ماتھے کوچومنے لگا۔وہ باپ کی گود میں چھپ گیا: بابا ! مجھے پڑھنا ہے، اچھا انسان بننا ہے۔ضروربیٹا ضرور۔غیر متوقع جواب سن کر بلال اٹھ کر بیٹھ گیا۔ہاں بیٹا! یہ کہہ کر شیرخام نے اسے نئے کپڑے اور جوتے دیے اورکہا: کل سویرے ہی ہم چلیں گے۔اب تجھے رونے اورکچرااُٹھانے کی ضرورت نہیں۔بلال کی آنکھوں میں چمکتی خوشی دیکھ کر شیر خان کا چہرے بھی خوشی سے کھل اٹھا۔ " ممانی کا حج - تحریر نمبر 954,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mumani-ka-hajj-954.html,"انوار آس محمد :یہ ایک گورنمنٹ اسکول تھا، جس میں جماعت اول سے پنجم تک تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ اسکول کل سات کمروں اور ایک چھوٹے سے میدان پر مشتمل تھا ۔ پانچ کمرے بطورجماعت اور ایک ہیڈماسٹر کا کمرا تھاجہاں تمام اساتذہ کرام بیٹھا کرتے تھے۔ ساتواں کمراممانی کا تھا۔ ان کااصلی نام تونہ جانے کیاتھا، مگر ہم بچے انھیں ممانی کہا کرتے تھے۔ممانی کادنیا میں کوئی نہیں تھا۔ یہ اسکول کبھی ممانی کی ملکیت تھا۔ انھوں نے یہ اسکول حکومت پاکستان کو وقف کردیا تھا۔ ممانی جس کمرے میں رہتی تھیں، وہیں انھوں نے ایک کینٹین کھولی ہوئی تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی صاف ستھری چیزیں مثلاََ سموسے، سینڈوچ، نمک پارے فروخت کیاکرتی تھیں۔ بس اسی میں ان کی گزربسر ہوجاتی تھی۔(جاری ہے)ان دنوں میں جماعت چہارم میں تھا۔وہ بچوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔ مگر جب بچے انھیں تنگ کرتے تھے وہ غصہ بھی دکھایا کرتی تھیں ، لیکن ان کے غصے میں بھی شفقت ہوتی تھی۔ میں ممانی کے ہاتھ کے بنے ہوئے سموسے بہت شوق سے کھایا کرتا تھا۔ وہ ہمیں بھی پاکستان سے محبت کا درس دیا کرتی تھیں۔ ہمیں لڑائی جھگڑے سے روکا کرتی تھیں وہ تو ہمیں پودوں اور جانوروں سے بھی محبت کا درس دیا کرتی تھیں۔کہتی تھی کہ پودے بھی جان دار ہوتے ہیں، انھیں نہ توڑا کرو۔ جانوربے زبان ہوتے ہیں، انھیں تنگ نہ کیا کرو۔ ممانی بھی ایک طرح سے ہماری استاد ہی تھیں۔ ان کی بس ایک ہی خواہش تھی کہ کسی طرح وہ حج کرلیں۔ انھوں نے گھی کے ایک خالی ڈبے میں پیسے بھی جمع کررکھے تھے۔ میں نے رپوں سے بھراوہ ڈبا دیکھا تھا۔پھر ایک دن ہم اسکول آئے تو پتا چلا کہ ممانی حج کرنے جارہی ہیں اور سارا بندوبست بھی ہوچکا ہے۔ہمارے اساتذہ بھی ممانی کی عزت کرتے تھے۔ وہ بھی بہت خوش تھے کہ ممانی کی دلی خواہش پوری ہورہی ہے۔ ہم سب نے ممانی کو بہت مبارک باد دی۔ مجھے آج بھی وہ دن بہت اچھی طرح یاد ہے۔ ممانی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور وہ ہم سب کو بہت پیار کررہی تھیں۔ہم بچوں کے ششماہی امتحان ختم ہوچکے تھے اور سردیوں اور عید کی چھٹیاں ملا کر پندرہ دن کی چھٹیاں شروع ہونے والے تھیں، نتیجہ بھی آچکا تھا۔میں پاس ہوگیا تھا اور بہت خوش تھا۔ وہ ہمارا اسکول میں آخری دن تھا اور اسی دن ممانی کو بھی حج کے لیے روانہ ہونا تھا۔ ہم سب چھٹی ہوتے ہی ممانی کے پاس گئے۔ انھیں پھر سے مبارک باددی اور اپنے اپنے گھر کی طرف چل دیے۔ ممانی بھی ایک ماہ کے لیے جارہی تھیں۔چھٹیاں کتنی بھی مل جائیں کم ہی لگتی ہیں۔ پندرہ دن جلد ہی ختم ہوگئے۔ عید کے بعد جب میں اسکول گیا تو ممانی کو اسکول ہی میں پایا۔میں حیران رہ گیا کہ ممانی کو تو ایک مہینے کے بعد آنا تھا ، وہ اتنی جلد کیسے آگئیں میں نے ممانی کو سلام کی اور حج کی مبارک باددی۔انھوں نے مسکرا کرمیرے سلام کا جواب دیا۔ پھر میں اپنی جماعت میں آگیا۔ اس دن آدھی چھٹی میں جب میں ممانی کے پاس سموسے لینے گیا تو پتا چلا کہ ممانی تو حج کے لیے جاہی نہیں سکیں۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ممانی حج پر جاتے جاتے آخر رک کیوں گئیں۔شاید ان کی طبیعت خراب ہوگئی ہو، میں نے سوچا ، لیکن میں نے ممانی سے پوچھا نہیں کہ وہ حج پر کیوں نہیں گئیں۔دودن بعد جب ہم جماعت میں نیکی کے موضوع پر مضمون لکھ رہے تھے تو ہمارے استادنے ممانی کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ وہ حج پر کیوں نہ جاسکیں۔دراصل ہمارے اسکول کے چوکیدار کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی۔ چوکیدار کے گھر چوری ہوگئی۔اس نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے جو پیسے جمع کیے تھے وہ نہ رہے تو چوکیدار بہت پریشان رہنے لگا تھا۔ پریشانی کی وجہ سے اسے دل کا دورہ بھی پڑگیا تھا۔ پھر کیا تھا ممانی نے اپنا نوٹوں سے بھرا ہوا ڈبا چوکیدار کو دے دیاتھا، تاکہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کرسکے۔ یہ سن کر ہم سب کا منھ کھلاکا کھلارہ گیا، کیوں کہ سب ہی جانتے تھے کہ حج کرنا ممانی کی سب سے بڑی خواہش تھی۔مجھے یاد ہے، ممانی ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی تلقین کرتی تھیں۔ چوکیدار کی مدد کرکے انھوں نے عملی طور پر ثابت کردیاتھا کہ نیکی کیاہوتی ہے۔ ممانی کاکہنا تھا کہ زندگی رہی تو وہ حج بعد میں بھی کرسکتی ہیں۔ اللہ تو حج کرنے کا موقع ہر سال دیتا ہے۔ میں ایک سال بعد اسکول سے پانچویں جماعت پاس کرکے سیکنڈری اسکول میںآ گیا۔ بعد میں ایک دوست سے پتا چلا کہ ہیڈماسٹر نے اپنی کوششوں سے اتنے پیسوں کا بندوبست کردیا، جس سے ممانی حج کر لیا تھا۔ ہم کبھی کبھی ممانی سے ملنے ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ آج ممانی دنیا میں نہیں رہیں ، لیکن ان کی نیکی کی تعلیم آج بھی ہمارے دلوں میں ہے۔ " جاسوس مسافر - تحریر نمبر 953,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jasoos-musafir-953.html,"ماہ نور فاطمہ :چولہا جل رہا تھا اوپر بڑی دیگچی چڑھی ہوئی تھی۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ حنا نے دروازہ کھولا سامنے اس کی ہمسائی نادیہ کھڑی تھی۔ نادیہ نے اندر آکر حناسے کہا۔ آج کل ہمارے ملکی حالات بڑے خراب ہوگئے ہیں۔ حنا چونک کربولی کیا مطلب ؟ نادیہ: تجھے پتہ نہیں کشمیر میں جوجنگ شروع ہوچکی ہے ہندو بھارتیوں نے کشمیریوں کا بلاجوازبے دریغ قتل کرنا شروع کررکھا ہے، یہ سب سوچ کر بڑا دکھ ہوتا ہے ہم اپنے ملک کیلئے کچھ نہیں کرسکتے ۔ہم ہیں ہی پرائمری تک پڑھی اور دوسری بات، ہم وہاں سے بہت دور ہیں جہاں ہمارے مجاہدین کافروں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ حنا: ہاں ! مجھے بھی بہت افسوس ہوتا ہے ہم کچھ نہیں کر سکتیں۔ یہ سن کرچلی گئی۔ حنا اپنی ماں کے ساتھ گھر کا کام کرنے لگی ۔(جاری ہے)اتنے میں اس کے ابوکرم دین بھی آگئے۔ سب نے رات کاکھاناکھایا اور سوگئے۔ صبح حسب معمول حنا اور کرم دین لکڑیاں لینے جنگل کی طرف چلے گئے، کرم دین ایک درخت پرچڑھا اور لکڑیاں کاٹنے لگا جبکہ حنا گھر میں جلانے کیلئے لکڑیاں اکٹھی کرنے لگی، لکڑیاں چنتے جب کافی ساری لکڑیاں جمع ہوگئیں تو حنا خشک پتوں پر درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کاش وہ مزید پڑھ لکھ سکتی، اپنے ملک کانام روشن کر سکتی۔اتنے میں کرم دین لکڑیاں چھکڑے پر لاد کر منڈی بیچنے چلاگیا، حناوہیں بیٹھی رہی۔ اچانک اسے پتوں کی سرسراہٹ کی آواز اپنے عقب سے آئی اس نے غور نہ کیا لیکن تھوڑی دیر بعد اسے اپنے پیچھے سے کسی کی آواز آئی۔ میں مسافر ہوں میرے پیچھے ڈاکو لگے ہیں میری مددکرو۔حنا نے پیچھے مڑکردیکھا تو ایک صحتمند نوجوان کھڑا تھا۔ حنا نے سوچا مسافر ہے چلومدد کردیتے ہیں۔اسے کہا میرے پیچھے آؤ اور وہ شخص اس کے پیچھے چل دیاحنا اس کوگھرلے گئی کرم دین گھر آچکا تھا ، حنا نے کرم دین کو صورتحال سے آگاہ کردیااور اس شخص کو اپنے کچے مکان کا پچھلا کمرہ دے دیا۔ کرم دین نے اس کا نام پوچھا تو اس نے سلطان احمد بتایا اور کہنے لگا دراصل میں لاہور سے آیاہوں میں بس سے اتر کر ایک سڑک سے گزررہاتھا توڈاکوؤں نے مجھے لوٹ لیا اور میرے پیسے وغیرہ بھی لے لئے اب وہ مجھے مارنا چاہتے تھے ۔اب اگر کوئی شخص ادھر آیا تو مہربانی کرکے اسے میرا مت بتانا وہ ڈاکوؤں کاس مخبر بھی ہوسکتا ہے۔ حنا نے اپنی ماں سے کہا کہ راشن کا سامان ختم ہوگیا ہے ابا کو گھر چھوڑتے ہیں ابھی زیادہ رات نہیں ہوئی اور خود سودالے آتے ہیں کیونکہ اباہی اس آدمی کے پاس رک سکتے ہیں؟ چنانچہ دونوں ماں بیٹی گاؤں کے چھوٹے سے بازار میں آگئیں سودا خریدا، حنا کونجانے کیا سوجھی اس نے اماں سے کہا کہ ان کے علاقے قریب فوجیوں کی چوکی ہے ادھر چل کر پولیس کو اطلاع دیتے ہیں کہ ڈاکو ایک آدمی کے پیچھے لگے ہوئے تھے کہیں وہ گاؤں میں آکر لوٹ مارنا شروع کردیں سودونوں وہاں پہنچ گئیں۔بلقیس نے ایک فوجی کو قریب بلایااور اسے بتایا کہ ان کے گاؤں میں ڈاکوآسکتے ہیں اور حنا نے سلطان کے بارے میں سب کچھ بتادیا۔ خیرہ دونوں واپس آئیں اور سودارسوئی میں رکھا۔ تب کرم دین نے حنا سے راز دارانہ انداز میں کہا۔ مجھے یہ سلطان کوئی ڈاکولگتا ہے۔ میں جب چائے دینے کیلئے اس کے کمرے میں گیا توچارپائی پر بیٹھا ہوا تھا۔ دروازے کی طرف اس کی کمر تھی اس کے ہاتھ میں بہت بڑا چاقو تھا۔حنا بھی کچھ پریشان ہوگئی۔ اگلی صبح حنا کو اپنے گھر کے باہر کسی کے بولنے کی آوازیں سنائی دیں۔ دروازے پر دستک ہوئی حنانے دروازے کھولا تین چار فوجی اندرداخل ہوئے ان میں سے ایک نے پوچھا کہ جو مسافر ان کے گھر آیاوہ کدھر ہے حنا نے بتایا کہ پچھلے کمرے میں ہے۔ سب وہاں پہنچ گئے فوجی نے کمرے میں داخل ہوتے ہی سلطان کے ماتھے پر گن رکھتے ہوئے کہا۔تم زیرحراست ہوافرار ہونے کی کوشش مت کرنا اورساتھ ہی سلطان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگادیں۔ فوجی کرم دین کو بھی ساتھ لے گئے۔ حنا اور بلقیس بہت پریشان ہوئیں۔ خیررات کے وقت کرم دین واپس آگیا۔ اس کے ہاتھ میں مٹھائی کاڈبہ تھا اور کرم دین نے بڑی شفقت سے حنا کے سر پرہاتھ پھیر اور بولا” پترتیرا جذبہ نیک تھا، تو اللہ نے تجھ سے دوکام کرایاہے۔ پتر! وہ بندہ جو مسافر بن کرہمارے گھر ٹھہرا تھا۔ حقیقت میں پاکستان کا بہت بڑادشمن تھا، وہ ہندو اور بھارتی جاسوس تھا جس کی تلاش میں ہماری انٹیلیجنس اور فورس کب سے بھٹک رہی تھی۔ آخرتم نے وہ جاسوس وہ غداران کے ہتھے چڑھا ہی دیا۔ یہ سن کر حنا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ اللہ کا شکرادا کرنے لگی۔ " تین بہرے اور ایک گونگا - تحریر نمبر 951,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/teen-behray-aur-aik-goonga-951.html,"سید اللہ داد شاہ نوشکی :کسی گاؤں میں ایک غریب چرواہارہتا تھا وہ روزانہ چندبکریوں کو لے کر قریب پہاڑی پر چلا جاتا جہاں بکریاں چرتی رہتی تھیں۔ چرواہا بہرا تھا مگر اس سے اس کے کام میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ایک دن ایسا ہوا کہ اس کی بیوی اسے کھانادینا بھول گئی اور پھر بچے کے ہاتھ بھی نہیں بھجوایا ہے۔ چرواہے نے سوچا میں گھر جا کر کھانا لے آؤں دن بھر بھوکے رہنا میرے لیے دشوار ہوگا۔اتنے میں اس نے دیکھا کہ ایک گھسیارا ( گھاس کاٹنے والا) پہاڑ کے کنارے گھاس کاٹ رہا ہے۔ چرواہا اس کے پاس گیا اور کہا بھائی تم ذرا میری بکریوں کا خیال رکھنا میں گاؤں جاکر کھانا لے آؤں۔ میری بیوی آج کھانا دینا بھول گئی ہے اتفاق سے گھسیارا ببی بہراتھاو ہ ایک لفظ بھی نہ سن سکا بلکہ اور الٹا غلط سمجھا۔(جاری ہے)وہ بولا میں تم کو اپنی گھاس کیوں دوں ، یہ تو میں اپنے جانوروں کے لیے کاٹ رہاہوں میرے پاس ایک گائے اور دو بھیڑیں ہیں جن کے لیے مجھے دور دور سے گھاس لانا پڑتی ہے۔نہیں نہیں میرا پیچھا چھوڑو، میں تمہاری طرح کے لوگوں سے دور ہی رہنا چاہتا ہوں، جو دوسروں کی چیزیں ہتھیالیتے ہیں۔ اتنا کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ ہلایا اور زور زور سے ہنسنے لگا۔ چرواہا اس کی بات نہ سن سکا وہ بولا شکریہ میرے دوست تم نے راضی ہوکر مجھ پر بڑا احسان کیا میں بہت جلد آجاؤں گا یہ کہہ کر وہ تیزی سے گاؤں کی طرف چل دیا۔اپنی جھونپڑی میں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ بیوی بخار میں مبتلا ہے اور پڑوس کی ایک عورت اس کی دیکھ بھال کررہی ہے چرواہے نے کھانا کھایااور پھر سیدھا پہاڑی کی طرف روازنہ ہوگیا اس نے اپنی بکریوں کو گنا سب بکریاں موجود تھیں گھسیارا اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔چرواہے نے اپنے دل میں کہا یہ گھسیارا کتنا ایمان دار ہے میری بکریوں کی نگرانی کرتا رہا مگر شکریہ کا بھی خواہش مند نہیں ہے لنگڑی بکری اسے دے دینی چاہیے، یوں بھی مجھے اس کو ذبح تو کرنا ہی پڑے گا۔یہ سوچ کر اس نے لنگڑی بکری کو اپنے کندے پر اٹھایا اور کھسیارے کے پاس پہنچ کر بولا بھائی میری بکریوں کی نگرانی کرنے کے صلہ میں یہ تحفہ قبول کرو اس بکری کو ذبح کرکے اس کاگوشت استعمال کرلینا۔مگر گھسیارا ایک لفظ بھی نہ سن سکا وہ غصے سے چلایا کرکہا، چرواہے مجھے نہیں معلوم کہ تمہاری غیر حاضری میں کیا ہوا تمہاری بکری کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو میں اس کا ذمہ دار نہیں میں تو گھاس کاٹ رہاتھا چلے جاؤ ورنہ نہ ماردوں گا۔ چرواہا سمجھ نہیں سکا کہ گھسیارا ناراض کیوں ہورہا ہے اس نے ایک آدمی کو آواز دی جو گھوڑے پر سوار تھا۔ اور کہنے لگا جناب عالمی مہربانی کرکے مجھے یہ بتائیے کہ یہ گھسیارا کیا کہہ رہا ہے۔میں بہرا ہوں میری سمجھ نہیں آتا کہ یہ میرا تحفہ قبول کیوں نہیں کررہا اس کے بعد چرواھا اور گھسیارا دونوں چلا چلا کر اس مسافر سے باتیں کرنے لگے وہ سوار گھوڑے سے اترکراُن کے قریب آگیا۔یہ سوار گھوڑے چرایا کرتا تھا اور یہ بھی بہراتھا لہٰذا وہ بھی نہیں سمجھ سکا کہ یہ دونوں کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ ان دونوں سے اس جگہ کا نام پوچھنا چاہتا تھا لیکن جب اس نے ان دونوں کو ناراض ہوکر چلاتے دیکھا تو گھبرا کربولا ہاں بھائی میں اقرار کرتا ہوں کہ یہ گھوڑا میں نے چرایا ہے مگر مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ تمہارا ہے، مجھے معاف کردو۔اتنے میں گھسیارا چلایا، بکری کے لنگڑے ہونے میں میرا کوئی قصور نہیں۔چرواہا چلایا اس سے پوچھو کہ یہ میری تحفہ قبول کیوں نہیں کرتا، میں تو شکریہ کے طور پر اس کو یہ دے رہا ہوں۔ اس پر جور بولا۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ یہ گھوڑا میں نے چرایا ہے مگر میں بہرا ہوں اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ تم دونوں میں سے یہ گھوڑا کس کا ہے۔اسی اثناء میں ایک بوڑھا وہاں آگیا۔گھسیارا دوڑ کر اس کے پاس پہنچا اور بولا محترم بزرگ میں بہرا ہوں اس لیے میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ دونوں کیا کہہ رہے ہیں۔ مہربانی کرکے آپ بتائیے کہ یہ کیوں چلارہے ہیں۔دل چسپ بات یہ ہوئی کہ بوڑھا گونگا تھا لہٰذا وہ انہیں کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا ، بہرحال وہ ان سب کے قریب آیااور ان تینوں کے چہرے غور سے دیکھنے لگا اس وقت تک تینوں بہرے خاموش ہوچکے تھے بوڑھا اتنی دیر تک ان کے چہروں کو گھورتا رہا کہ وہ گھبراگئے اس کی چمکدار سیاہ آنکھیں تھیں۔وہ دراصل گھور کر اصل حقیقت کا پتا چلانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ تینوں ڈرنے لگے کہ یہ بوڑھا ان پر کہیں جادو نہ کردے، چنانچہ چور فوراََ گھوڑے پر سوار ہوکر تیزی سے بھاگ گیا چرواہا نے جلدی جلدی اپنی بکریوں کو جمع کیا اور انہیں بھگا کر ااپنے گھر کی طرف تیزی سے روانہ ہوگیا۔ گھسیارے نے اپنی نظریں نیچی کرلیں اورگھاس کا گھٹرا اپنے کندھے پر اٹھا کر تیزی سے اپنے گھر کی طرف چلا دیا․․․․․․․․ بوڑھا انہیں جاتے دیکھتا رہا، چند منٹ بعد وہ بھی چلا گیا۔ " پکڑ - تحریر نمبر 948,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pakar-948.html,"نذیر انبالوی :موبائل فون کی گھنٹی بجنے پردلاور نے سکرین پرنام دیکھا۔ چند ساعتوں بعد وہ فون کان سے لگا کر بغیر کسی تمہید کے بولا :سکندر بتاؤ کیا کام ہوگیا ہے؟ دام بنانے کام جہاں پیسہ لگ جائے پھر ہر کام ہوجاتا ہے آڈٹ ہوگیا ہے سب اچھا ہے۔ سکندری کی بات سن کردلاور نے کہا۔تمہارے جیسا تجربہ کارآدمی میرے ساتھ ہوا اور میرا کام رک جائے ایسا بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔شام کو آجانا اور اپنا حصہ لے جانا‘ کام ایسا ہوناچاہئے کہ پکڑنہ ہوسکے‘ آج کل سبھی ہمارے محکمے پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔پکڑ بھلا کون ہے جو ہمیں پکڑ سکے، سب کو حصہ ملتا ہے‘ میں شام کو نہیں کل آؤں گا‘ اب اجازت چاہتا ہوں۔ٹھیک ہے کل آجانا۔(جاری ہے)یہ کہہ کردلاور نے فون بند کردیا۔ دلاور کے والد ہدایت اللہ ایک طرف بیٹھے بظاہر تو کتاب پڑھ رہے تھے مگر اپنے بیٹے کی سکندر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے مفہوم کو بھی اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔دلاور اب وہاں زیادہ دیا ٹھہرنا نہیں چاہتا تھا وہ کمرے سے نکلنا ہی چاہتا تھا کہ اس کے والد اسے گھوڑا ۔آپ مجھے اس طرح کیوں گھور رہے ہیں۔تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں ایسا کیوں کررہا ہوں سکندر کے ساتھ مل کرکیا حرکت کی ہے؟ ہدایت اللہ کا لہجہ تلخ تھا۔اباجی ! میں نے کچھ نہیں کیا․․․․․ “تم نے کچھ تو کیا ہے جبھی تو سکندر کو کہہ رہے تھے کہ شام کو آجانا اور اپنا حصہ لے جانا‘ کام ایسا ہونا چاہئے کہ پکڑ نہ ہو سکے‘ کیا مطلب ہے ان باتوں کا ۔بولو جواب دو۔میں اس بارے میں کچھ نہیں بتاسکتا‘ آپ اپنے کام سے کام رکھا کریں‘ کھائیں پئیں اور اللہ اللہ کیا کریں میرے معاملات میں آپ کو دخل اندازی کی کوئی ضرورت نہیں۔یہ تم کہہ رہے ہو دلاور حسین تم غلط راستے پر چلو اور میں تمہیں روکوں بھی نہ یہ نہیں ہوسکتا‘ تم پکڑ کے راستے پر چل رہے ہو‘ پکڑے جاؤ گے۔ابا جی! بس کریں، میںآ پ کی روز روز کی نصیحتوں سے تنگ آگیا ہوں۔دلاور کی آواز اتنی بلند تھی کہ کمرے کے دروازے کے پاس کھڑا دانیال چونک کررہ گیا تھا۔اس کے کمرے کی طرف بڑھتے قدم رک گئے تھے۔ دانیال کو دیکھ کر دلاور چونکا۔تم یہاں کھڑے کیا کررہے ہو‘ یہ تو تمہارے ٹیوشن جانے کا وقت ہے ٹیوسن کیوں نہیں گئے۔ابھی تک رکشے والے کی خبر لیتا ہوں۔ پھر دلاور نے اپنا غصہ رکشے والے پر اتار دیا۔دانیال خاموشی سے کھڑا ساری باتیں سن رہا تھا۔تم اور حریم تیار ہو جاؤ رکشے والا تھوڑی دیر میں آجائے گا۔ دانیال کااب وہاں ٹھہرنا ممکن نہ تھا۔ وہ دادا جان سے ملے بغیر حریم کے ساتھ ٹیوشن جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ ٹیوشن جاتے ہوئے دانیال نے حریم کو بتایا کہ ابوکس لہجے میں دادا جان سے بات کررہے تھے۔ حریم کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ابو ایسا کر سکتے ہیں۔اگست کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی ہدایت اللہ کو چھوٹا بیٹا خاور انہیں لینے آگیا تھا۔ ہدایت اللہ اگست کا پورا مہینہ اپنے آبائی گھر میں گزارتے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت وہ اپنے دادا اور والد کے ساتھ جب پاکستان ہجرت کرکے آئے تو انہیں یہ مکان الاٹ ہوا تھا۔ چند سال قبل دلاور نے ایک نئی ہاؤسنگ سوسائٹی میں نیا گھر بنایا تو وہ اس کے اصرار پر وہاں چلے گئے تھے۔وہ اکثر قیام پاکستان کے واقعات بچوں کو سناتے۔ پرانے محلے کی باتیں سن کر بچے حیرت کااظہار کرتے کہ ایسا بھی ہوتا تھا۔ خاص طور پر خوشی اور غم کے موقع پر محلے دار جس طرح مل کر کام کرتے تھے۔ اس کی مثال اب نہیں ملتی۔ شادی کے موقع پر محلے کے نوجوان مہمانوں کے قیام کا بندبست کرتے۔ رمضان المبارک اورعیدین کے موقعوں پر سب ایک ہوجاتے تھے۔ دانیال اور حریم دلچسپی سے ان کی باتیں سنتے۔ہدایت اللہ جب دلاور کے ساتھ نئے گھر میں آئے تو انہوں نے کہاتھا کہ وہ اگست کا مہینہ آبائی گھر میں گزاریں گے ۔ دلاور کوبھلا اس پر کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔دادا جان نے جب بچوں کو اگست میں آبائی گھر کے قریب ایک میدان میں آزادی میلے کے لگائے جانے کے بارے میں پہلی بار بتایا تو دانیال نے پوچھا تھا۔دادا جان ! وہاں کیا ہوتا ہے۔وہاں بچوں کی دلچسپی کی ہر چیز ہوتی ہے۔جھولے اونٹ کی سواری‘ کھانے پینے کی اشیاء کے سٹالز رنگ برنگے غبارے آئس کریم کتابوں کے سٹالز اور لہو گرمادینے والے ملی نغمے وہاں بچوں کے درمیان مصوری تقاریراور ملی نغموں کا بھی مقابلہ کروایا جاتا ہے۔دادا جان بولتے جارہے تھے اور بچے دلچسپی سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ہم اس مرتبہ ضرور آزادی میلے میں جائیں گے۔ دانیال اور حریم نے ایک زبا ہوکر کہا۔سکندر نے ایک لفافہ میز پر رکھتے ہوئے دلاور کو مخاطب کیا۔ گن لو۔ ستم اعتبار والے آدمی ہو رقم پوری ہوگی۔ سکندر سب کچھ ٹھیک ہے نا۔تم فکر کیوں کرتے ہو، یہ کام ہمارے لئے نیا تو نہیں ہے کوئی نہیں ہے جو ہمیں پکڑ سکے، ہر ایک کو برابر حصہ مل رہا ہے۔ سکندر مسکراکر بولا۔اس مرتبہ گاڑی بدلنے کا ارادہ ہے دو سال سے ایک ہی گاڑی چلا رہاہوں۔دلاور نے رقم اپنے قبضے میں کرتے ہوئے کہا۔چند دنوں بعد ایک نئی گاڑی گھر میں موجود تھی۔ وہ اس گاڑی میں سواربچوں کو لے کر آبائی گھر گیا تو بچوں نے میدان کودیکھ کر شور مچایا۔ابو ․․․․․․ابو․․․․․․ اس میدان میںآ زادی کا میلہ لگتا ہے‘ ہم اس سال آزادی میلے میں آئیں گے۔دانیال پر جوش انداز میں بولا۔آپ بھی دادا جان کے ساتھ اس میلے میں آتے تھے اور مزے دار برفی کھاتے تھے۔حریم کی بات سن کردلاور نے مسکراکرکہا۔آپ کو سب کچھ پتا ہے۔ یہاں کی برفی پہلے تو بہت مزے دار ہوتی تھے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ یہاں برفی ہوتی بھی ہے یانہیں۔ اس سال میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ اس میلے میں آؤں گا۔اور مزے دار برفی کھاؤں گا۔ دانیال درمیان میں بولا تھا۔ نئی گاڑی دیکھ کر ہدایت اللہ کو خوشی نہیں ہوئی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے بیٹے کی کتنی تنخواہ ہے۔وہ اتنی مہنگی گاڑی خرید ہی نہیں سکتا۔مت کرو ایسا ‘ ڈرواللہ تعالیٰ کی پکڑسے“ ہدایت اللہ نے دلاور کوایک طرف لے جاکر اتنا کہا تو وہ ہمیشہ کی طرح تلخ لہجے میں بولا۔میری ترقی آپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ مجھے کوئی نہیں پکڑسکتا‘ ہر کوئی ایسے ہی پیسے کمارہا ہے‘ میں اب دوبارہ یہاں نہیں آؤں گا۔اور میں تمہارے گھر واپس نہیں جاؤں گا۔ہدایت اللہ نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔محکمہ موسمیات نے موسم گرما کے آغاز ہی میں شدید بارشوں کی پیش گوئی کی تھی۔ مون سون کی بارشوں کے بارے میں بھی قبل ازوقت شروع ہونے کے بارے میں بتایا گیاتھا۔ جون کے آخری ہفتے سے بارشوں کا آغاز ہوا جو وقفے وقفے سے جاری رہیں۔ جب بھی بارش ہوتی دلاور اپنے دوست سکندر کو لے کر پرانی بستی میں چلاجاتا۔وہ پانی دیکھتا اور گھبرا جاتا۔ نکاس آپ کے لئے نئے سیوریج اور نالے کی صفائی کے لئے جو رقم انہیں ملی تھی وہ ان کی جیب میں چلی گئی تھی۔ دلاور کے حالت دیکھ کر سکندر مسکرا کر کہتا۔آگھبرا تویوں رہے ہوجیسے پہلی بار یہ کام کیا ہو حوصلہ رکھو کچھ نہیں ہوگا‘ چند دنوں کی بات ہے بارشوں کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا۔پکڑ کاخوف ہر وقت دلاور کا تعاقب کرتا۔وہ جہاں بھی جاتا اسے دھڑکالگارہتا کہ کہیں پکڑا نہ جاؤں۔ دانیال اور حریم کی طرح بستی کے بچوں کو آزادی میلے کا شدت سے انتظار تھا۔ اس سال ملکی حالات امن وامان کے حوالے سے بہتر تھے۔ اس لئے قومی امکان تھا کہ اگست میں یہاں آزادی کا میلہ ضرور لگے گا بستی کے کئی مکین دوسرے علاقوں اور شہروں میں منتقل ہوگئے تھے۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ اس آزادی میلے میں شرکت کرنے کے لئے خصوصی طور پر آرہے تھے۔10اگست کو دوپہر کے وقت سیاہ بادل آسمان پر چھا گئے۔ شام تک ہلکی ہلکی بونداباندی ہوئی پھر رات کو طوفانی بارش کاآغاز ہوا۔ چوبیس گھنٹے جاری رہنے والی اس بارش نے نشیبی علاقوں میں تباہی مچادی۔ پرانی بستی میں نالوں کی صفائی نہ ہونے اور پرانے سیوریج کے باعث پانی گلیوں گھروں اور اس میدان میں کھڑا ہوگیا جہاں آزادی کا میلہ لگتا تھا۔ میدان میں چارفٹ تک پانی جمع تھا۔علاقے میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کردیا گیا۔ علاقہ مکین محفوظ مقامات کی طرف چلے گئے تھے۔ دلاور کو لگ رہا تھا کہ وہ پکڑا جائے گا۔ اسے اپنے والد کی باتیں یادآرہی تھیں۔ میڈیا میں بارش سے ہونے والی تباہی کا خوف چرچارہا۔ تجزئیے کئے گئے۔ لوگوں کی مالی امداد کی گئی۔ پھر بارش رکتے ہی سب خاموش ہوگئے۔ پکڑ کا عمل شروع نہ ہوسکا۔ دلاور کا خوف بھی کسی قدرجاتا رہاتھا۔میدان سے اگرچہ پانی نکال دیا گیا تھا مگر وہ اس قابل نہیں تھا کہ وہاں آزادی کا میلہ لگایاجاتا۔14اگست کو دلاور اپنی نئی گاڑی میں بچوں کولے کر سفاری پارک گیا۔ بچوں کو وہاں بالکل بھی مزا نہیں آیا تھا۔ وہ راستے بھر دادا جان ‘ دادا جان کاشور مچاتے رہے۔ آزادی میلے کے میدان کو یکھناچاہتے تھے۔ بچوں کی پردلاور نے گاڑی کا رخ پرانی بستی کی طرف کردیا۔اب بھی بارش سے ہونے والی تباہی وہاں دیکھی جاسکتی تھی۔ جب وہ میدان کی طرف بڑھے تووہاں بہت سے بچے آزادی کا میلہ نہ لگنے کے باعث اداس کھڑے تھے۔ ان ادابچوں میں اب دانیال اور حریم بھی شا مل تھے۔ دلاور میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان بچوں سے آنکھ ملاسکتا۔ اسے یوں لگ رہاتھا جیسے یہ بچے ابھی اس کاگربیان پکڑ لیں گے۔ اس سال میدان میں آزادی کا میلہ اس کے باعث نہیں لگ سکا تھا۔کیچڑسے اٹا ہوا میدان بھی اداس تھا اسے بچوں کے دلوں سے اٹھنے والی بدعائیں سنائی دینے لگی تھیں۔ اب اس کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر تھا جب وہ اپنے والد کی انگلی پکڑ کرآزادی میلے میں آتا تھا اور مزے دار برفی کھاتا تھا۔ انگلی کی پکڑ سے لے کر اپنی پکڑ کے خوف تک ایک ایک بات اسے یاد آنے لگی۔گاڑی کی آرام دہ سیٹ کانٹوں سے بھر گئی اور اے سی کی ٹھنڈی ہوا گرم جھلسا دینے والی ہوا میں بدل گئی۔وہ اب اس منظر کا حصہ نہیں رہاتھا۔ آبائی گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد وہ اس گھر کے سامنے کھڑا تھا جہاں نہ آنے کے بارے میں کہہ کر گیا تھا۔ دستک دینے پر ہدایت اللہ نے درواہ کھولا تو دلاور نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر ان کے ہاتھ چوم لئے۔میں آپ کی انگلی پکڑ نے آیا ہوں۔ شاید اس طرح میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور بچوں کی بددعاؤں کی پکڑ سے بچ جاؤں مجھے اپنی انگلی پکڑنے کی اجازت دے دیں‘ میں اب ویسا ہی کروں گا جیسے آپ چاہتے ہیں۔دلاور اپنے بچوں کے سامنے بچوں کے طرح رونے لگا۔پھر ہدایت اللہ اپنے بیٹے کی انگلی پکڑ کر پولیس اسٹیشن کی طرف چل پڑاتا کہ اس کابیٹا اپنے جرم کی سزا کاٹ کر وطن کابیٹا بن جائے ۔ اگلے دن دلاور کو پولیس وین میں جیل لے جایا جانے لگا تو یہ وہی راستہ تھا جہاں وہ میدان واقع تھا جہاں آزادی کا میلہ لگتا تھا۔ میدان کیچڑ کے باعث بدصورت دکھائی دے رہا تھا۔ دلاور کو یقین تھا کہ جب وہ اپنی سزا کاٹ کر باہر آئے گا تو یہاں آزادی کا میلہ لگا ہوگا۔ جس میں وہ اپنے باپ کی انگلی پکڑ کراور اس کے بچے اس کی انگلی پکڑ کر خوشیوں بھرے آزادی کے میلے میں آئیں گے۔ خوشیاں منائیں گے اور مزے مزے کی برفی کھائیں گے۔ " معصوم مجرم - تحریر نمبر 945,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/masoom-mujrim-945.html,"جاوید اقبال:مجھے جنگل میں چھپے آج پانچواں دن تھا۔ پانچ دن سے میں جنگلی پھلوں اور درختوں کے پتے کھا کرزندہ تھا۔ ویسے میری جیب میں نوٹوں کی ایک گڈی بھی تھی ، مگر اس جنگل بیاباں میں وہ رپے میرے لیے ردی کاغذوں کاس ایک ڈھیر کی طرح تھے۔ خودروجھاڑیوں میں چھپے ایک بڑے درخت کے کھوکھلے تنے کو میں نے اپنا ٹھکانا بنالیا تھا۔سخت زمین پر نرم شاکوں اور پتوں کو بچھا کر بستر سابنالیا تھا، جہاں میں چھپا رہتا۔ جب بھوک لگتی تو باہر نکلتا، ذرا کھٹکاہوتا تو بھاگ کر اپنی پناہ گاہ میں چھپ جاتا۔پانچ دن پہلے رونما ہونے والا وہ خوفناک واقعہ بار بار میری آنکھوں کے سامنے اُبھرتا، جب میرے ہاتھوں ایک انسان کا قتل ہوگیا تھا۔وہ ایک روشن صبح تھی جب جان پہچان کاایک شخص میرے پاس آیا اور درخواست کی کہ میں اس کے ساتھ چلوں۔(جاری ہے)اس نے بتایا کہ ایک لفنگا اسے تنگ کرتا ہے اور اس رقم مانگتا ہے۔ میں چوں کہ اچھے قد کاٹھ تھا اور تن سازی بھی کرتا تھا۔ علاقے میں میرادبدبا بھی تھا، اس لیے وہ چاہتا تھا کہ میں اس کے ساتھ جاکر اس لفنگے کو ذرا ڈرا دھمکادوں۔ مجھے چوں کہ اپنی دھاک بٹھانے کاایک موقع مل رہاتھا، اس لیے میں اس کے ساتھ چل پڑا۔اس نے مجھے ایک پستول بھی دیااور کہا: یہ صرف اسے ڈرانے کے لیے ہے۔ہم اسی وقت وہاں پہنچ گئے۔ وہ شخص ایک زیرزمین تہ خانے میں بیٹھاتھا۔ میں نے اس سے بات کی تو اس نے ذرا کٹر دکھائی۔ چنانچہ میں نے اسے ڈرانے کے لیے پستول نکال لیا۔ ہم میں ہاتھا پائی ہوئی۔ اسی دوران اچانک گولی چل گئی۔ وہ شخص خون میں لت پت گرپڑا، جو شخص مجھے لے کر آیاتھا، بولا: یہ کیاکردیاتم نے میں نے توصرف ڈرانے کے لیے کہاتھا، تم نے اسے جان سے مارڈالا۔اس نے مجھے سے پستول لے لیا اور کہا: جلدی یہاں سے بھاگ جاؤ پکڑے گئے تو پھانسی چڑھ جاؤ گے۔میں وہاں سے بھاگنے لگاتواس نے نوٹوں کی ایک گڈی مجھے تھمادی، ساتھ ہی پستول دے کرکہا: اسے کسی ویران جگہ پھینک دینا۔میں وہاں سے نکلا تو سخت گھبرایا ہوا تھا۔ سوچ رہاتھا کہ کہاں جاؤں ۔ گھر گیا تو پولیس پکڑلے گی۔ رشتے داروں کے ہاں سے بھی ڈھونڈنکالے گی۔پھر میں نے جنگل میں چھپنے کافیصلہ کرلیا۔ پستول کو میں نے جھاڑیوں میں پھینک دیا۔ جنگل میں تھوڑی سی تلاش کے بعد مجھے درختوں اور جھاڑیوں میں چھپی یہ کھوہ مل گئی اور میں یہاں چھپ گیا۔ بھوک لگتی تو جنگلی پھل یاپتے کھالیتا۔ قریب ہی ندی بہ رہی تھی، وہاں پیاس بجھا لیتا۔پانچ دن اور گزرگئے۔ ان دس دنوں میں مجھے کوی انسانی شکل نظر نہ آئی تھی۔تنہائی کاٹنے کو دوڑتی۔ جرم کا احساس الگ جان کھاتا۔ ہر وقت پکڑنے جانے کا ڈرسا لگارہتا۔ اتفاق سے ابھی کسی بڑے درندے سے میرا سامنا نہیں ہواتھا۔ یہ خدشہ بھی ایک دن سامنے آہی گیا۔ میں اپنی پناہ گاہ میں بیٹھا تھا کہ ایک سیاہ چیز کو ادھر آتے دیکھا۔ یہ ایک بڑا کالا ریچھ تھا، جو میری بوسونگتا ادھیر چلاآرہاتھا۔ میں نے اپنی حفاظت کے لیے کچھ پتھر ریچھ کی تھوتھنی پردے مارا۔تھوتھنی پر لگی ہوئی چوٹ اور میری خوفناک چیخ سے گھبرا کرریچھ غراتا ہوا واپس بھاگ گیا۔ریچھ تو بھاگ گیا، مگر مجھے ڈرکالگ گیا کہ ریچھ کو میری موجودگی کا پتا چل گیا ہے۔ وہ اپنی چوٹ کا بدلہ لینے ضرورآئے گا۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ کوئی اور ٹھکانا ڈھونڈا جائے۔ میں کھوہ سے نکلا اور کوئی دوسرا ٹھکانا ڈھونڈنے لگا۔ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ کچھ آہٹیں سنائی دیں۔کچھ لوگ ادر آرہے تھے۔ مجھے لگا جیسے وہ میری تلاش میں ہی آرہے ہیں۔ میں بھاگا اور اپنی پناہ گاہ میں آکر چھپ گیا۔ پھر آہٹیں اور آوازیں واضح ہونے لگیں۔ ایک کتے کے بھونکنے کی آواز بھی آئی۔ وہ سدھائے ہوئے کتے کولے کر میری تلاش میں آئے تھے۔ پھرکسی نے کہا: وہ یہیں ہے۔ اس کے قدموں کے نشان ہیں یہاں۔ کھوجی کتا بھی جھنڈے کے پاس آکے بھونکنے لگا۔تم پولیس کے گھیرے میں آچکے ہو، بالکل نکل آؤ۔ ایک آواز آئی۔اب چھپے رہنا بے کار تھا۔ میں نہتا تھا اور ان کے گھیرے میں آچکا تھا۔ میں زینگتا ہوا کھوہ سے باہر نکل آیا۔آؤآؤ۔ پولیس کی وردی پہنے ایک افسر نے نرمی سے کہا۔ کتے کے علاوہ وہ چارآدمی تھے۔ مجھے گھیرے میں لے کر وہ چل پڑے۔میرا اسے جان سے مارنے کاارادہ نہیں تھا۔گولی اتفاقاََ چل گئی۔ میں نے اپنی صفائی میں کہا۔پولیس انسپکٹر نے میری طرف دیکھااور کہا: کچھ فکرنہ کرو، اصل مجرم گرفتار ہوچکا ہے اور اس نے اقرار جرم کرلیا ہے۔لیکن پستول تو میرے ہاتھ میں تھا۔ میں نے حیرت سے کہا۔ایک پستول مجرم کے پاس بھی تھا۔ جب تمھاری مقتول سے ہاتھا پائی ہوئی تو اس نے پیچھے سے اسے گولی ماردی۔ اس کی مقتول سے دشمنی تھی۔اس نے سازش کی اور تمھیں ساتھ ملایا تھا، تاکہ اپنا جرم تمھارے سرتھوپ دے۔مگر آپ اس تک کیسے پہنچے؟ میں نے الجھ کرکہا۔مقتول کے موبائل ڈیٹا سے مجرم کامقتول سے موبائل پررابطہ ہواتھا۔ مجرم کا کہنا تھا کہ وہ بیچ بچاؤ کرارہا تھا مگر تمھارے پھینکے ہوئے پستول نے اس کابھانڈا پھوڑدیا، کیوں کہ جب جھاڑیوں سے ہمیں وہ پستول ملاتو اس پردومختلف ہاتھوں کی انگلیوں کے نشان مٹانا بھول گیا۔جب ہم نے سختی کی تو اس نے بیچ اگل دیا۔شکر ہے خدایا۔ میں نے ایک لمبی سانس لے کرکہا۔اس آزمائش سے تم نے کیاسیکھا؟ انسپکٹر نے پوچھا۔یہ کہ اپنی طاقت پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے، عاجزی اختیار کرنی چاہیے اور․․․․․․ اور سوچ سمجھ کر کسی پر اعتبار کرنا چاہیے۔ انسپکٹر نے بات مکمل کردی۔ " میرا بہترین دوست - تحریر نمبر 944,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mera-behtreen-dost-944.html,"تحریم خان:ہمارے ٹیچر ، مشتاق نامی لڑکے سے بے حدبیزار تھے۔ مشتاق کاکمال یہ تھا کہ ٹیچر اسے جو بھی مضمون لکھنے کوکہتے وہ کسی نہ کسی طرح اس مضمون میں ” میرا بہترین دوست“ ضرور فٹ کردیتا، کیوں کہ یہ وہ واحد مضمون تھا جو اسے فرفریاد تھا۔ مثلاََ اس سے اگر کہا جاتا کہ ’ ریلوے اسٹیشن“ پر مضمون لکھو تو وہ کچھ اس طرح سے شروع ہوتا: میں اور میرا باپ” چیچوں کی ملیاں“ جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن گئے۔وہاں گاڑی کھڑی تھی اور گاڑی میں میرا بہترین دوست غلام رسول بیٹھا ہوا تھا۔ غلام رسول بہت اچھا لڑکا ہے، غلام رسول․․․․․․“اگر اسے” میرا پسندیدہ استاد‘ ‘ پر مضمون لکھنے کو کہا جاتا تو وہ کچھ یوں شروع ہوتا: ماسٹر افتخار میرے پسندیدہ استاد ہیں۔(جاری ہے)ایک روز میں ان کے گھر گیا۔ وہاں میرا بہترین دوست غلام رسول بیٹھا ہوا تھا۔غلام رسول میراکلاس فیلو ہے۔ اس کے تین بہن بھائی ہیں۔ اس کا باپ محکمہ پولیس میں․․․․․․ اور غلام رسول․․․ وغیرہ وغیرہ۔ظاہر ہے ب کبھی” ایک کرکٹ میچ“ یا” ایک پکنک“ کی باری آتی تو غلام رسول وہاں بھی موجود ہوتا۔ ایک روز ماسٹر صاحب نے تنگ آکر کہا۔دیکھو مشتاق! یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ ہر جگہ تمھارا بہترین دوست غلام رسول موجود ہو۔آج تم ہوائی جہاز پر مضمون لکھواور یاد رکھنا کہ غلام رسول ہوائی جہاز میں دوسرے روز مشتاق ”ہوائی جہاز کا سفر“ پر جو مضمون لکھ کر لایاوہ کچھ اس طرح کا میں اپنے ماں باپ کے ساتھ ائیرپورٹ گیا۔ وہاں جہاز کھڑا تھا۔ جہاز کے پر تھے۔ ہم اس میں بیٹھ گئے۔ جہاز میں غلام رسول نہیں تھا۔ پھر جہاز اڑنے لگا۔میں نے کھڑکی سے نیچے جھانکا تو میں نے دیکھا کہ زمین پرمیرا بہترین دوست غلام رسول جارہاہے۔ غلام رسول میرا کلاس فیلو ہے۔ اس کے تین بھائی ہیں۔ اس کاباپ محکمہ پولیس․․․․․․․ اور غلام رسول․․․․․․ غلام رسول․․․․ ماسٹر صاحب نے یہ مضمون پڑھ کر مولا بخش پکڑلیا اور مشتاق غریب کا بُرا حال کردیا۔ " ہاتھی اور بندر میں ہوگئی لڑائی - تحریر نمبر 943,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hathi-aur-bandar-main-ho-gayi-larai-943.html,"سمیراانور:ارے ، ارے اب کیا ہوگا؟ سب کی زبان سے یہی الفاظ نکل رہے تھے۔ صورتحال کچھ یوں تھی کہ بندر صبح درخت پہ بیٹھا مزے سے کیلا نوش کررہا تھا کہ اچانک اس نے سست طریقے سے چلتے ہاتھی کو دیکھا تو اس کو شرارت سوجھی اور جب ہاتھی اس درخت کے نیچے سے گزررہاتھا تو اس نے کیلے کا چھلکا اس کے پاؤں کے قریب پھینک دیا۔جس سے ہاتھی پھسلتے پھسلتے بچ گیا اور جب اُوپر بندر کو دیکھا تو غصے سے سونڈ لہرائی اور زور سے درخت پر ماری۔ بندر کی جرأت نہ پڑی کہ دوسرے درخت پہ چھلانگ لگاسکے اور دوسری مسئلہ یہ کہ درخت بھی کچھ فاصلے پر تھا اور جب ہاتھی نے اپنے پاؤں سے درخت کو جھٹکا دیا تو شرارتی بندر کوجان کے لالے پڑ گئے اس کو لگ رہا تھا ہاتھی درخت اکھاڑ کر اپنے پاؤں سے تلے مسل دے گا۔(جاری ہے)اب اس نے چیخ وپکار شروع کردی کیونکہ ہاتھی کسی طرح وہاں سے جانے کو تیار نہ تھا۔ اس نے اپنے تمام دوستوں کو آوازیں دیں وہ سب اکٹھے ہوگئے وہ خود بھی ہاتھی کے قریب جانے سے ڈر رہے تھے کیونکہ ہاتھی کا غصہ عروج پر تھا۔ درخت کی شاخیں ٹوٹ چکی تھیں۔ بندر خوفزدہ چلاتا اُوپر والی ٹہنی سے چمٹا ہوا تھا اور بچاؤ، بچاؤ کی آواز لگا رہا تھا۔ آج تو جنگل کا بادشاہ شیر بھی دوسرے جنگل کی سیر کیلئے گیا ہوا تھا۔اب شدید کوئی بھی اس کو ہاتھی کے خطرناک تیورسے بچا نہیں سکتا تھا۔ہاتھی دراصل بندر کو اس کی شرارتوں اور فضول حرکتوں کا آج مزہ سکھانا چاہتا تھا۔ لومڑی کے ذہن میں اچانک اس مسئلے کا حل آیا وہ فوراََ سب جانوروں کے پاس گئی اور بتایا کہ اس صورتحال پرکیسے قابو پایا جا سکتا ہے اور بندر کی جان خلاصی کروائی جاسکتی ہے۔ اگر بھالو جا کر اس سے بات کرے تو وہ ضرور اس کو بات مان جائے گا کیونکہ وہ اچھے دوست ہیں اور امید ہے کہ ہاتھی اس کی بات نہیں ٹالے گا۔سب اس کی بات پر متفق ہوئے اور بھالو سے کہا کہ اس موقع پر بندر کی مدد کرے اور اس کو ہاتھی سے معافی دلوادے۔ بھالوسرہلاتا درخت کی طرف بڑھا جس کی صرف ایک دو شاخیں ہی رہ گئی تھی اور بندر کو اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی۔ بھالو ہاتھی کے قریب آیا اور اس کی منت سماجت کی اور یقین دلایا کہ آئندہ بندر ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا۔ اب تم غصہ ختم کردو اور اس کو وہاں سے ہٹاکردوسری طرف لے گیا اور بندرسے کہا نیچے اترو اور اپنی شرارت کی معافی مانگو اور وعدہ کرو کہ آج کے بعد کسی کو تنگ نہیں کرو گے۔ وہ ڈرتے ڈرتے پھولی سانس کے ساتھ نیچے اتر اور بھالو کے پیچھے جاچھپا اور ہاتھی سے کپکپاتی آواز سے معافی مانگی توہاتھ دینے فوراََ ہی اسے معاف کردیا۔ " غریب ہونا جرم نہیں - تحریر نمبر 939,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghareeb-hona-jurm-nehin-939.html,"ساجد کمبوہ:برسوں پہلے کی بات ہے کہ ایک شہزادے کی لکڑہارے سے دوستی ہوگئی۔ ہوایوں کہ شہزادہ شکار کیلئے جنگل میں گیا کہ اچانک سامنے سے شیر آگیا اس کی دھاڑ سے گھوڑا بد ک گیا جس کی وجہ سے شہزادہ توازن برقرار نہ رکھ سکااور گرگیا۔ شیر کو بالکل سامنے دیکھتے ہوئے شہزادے فوراََ تلوار نکالی اور مقابلے کیلئے تیار ہوگیا۔شیراس کی جانب لپکا شہزادے نے تلوار گھمائی جو شیر کی پسلیوں میں لگی اب زخمی شیر اور بھی خطرناک ہوگیا تھا۔ اس نے شہزادے پر چھلانگ لگائی تو شہزادے کے ہاتھ سے تلوار گرپڑی۔ شیرنے شہزادے کو زخمی کردیا۔ شہرادے نے خوب مقابلہ کیا مگر پھرے درندے سے مقابلہ آسان نہ تھا۔ آخر کار شیر نے اسے گرا دیا۔قریب تھا کہ شہزادے کی گردن دبوچتا اچانک شیردھاڑ کر پیچھے کو مڑا کسی نے اس کی کمر میں بڑی زور سے کلہاڑا ماراتھا۔(جاری ہے)شیر دھاڑ اور جنگل کی طرف بھاگ نکلا۔ شہزادے نے دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان نے فوراََ شہزادے کو اٹھایاایک محفوظ جگہ پر لے جا کر اس کی مرہم پٹی کی۔ کچھ دیر بعد شہزادے کے محافظ سے ڈھونڈتے ہوئے پہنچ گئے۔ انہوں نے شہزادے کو دوسرے گھوڑے پر بٹھایا اور محل کی طرف روانہ ہوگئے۔یوں لکڑہارے کی شہزادے سے دوستی ہوگئی وہ اس کی تیمارداری کیلئے محل آنے لگا تھا۔شہزادہ اسے پسند کرنے لگا تھا کیونکہ وہ ذہین ، عقلمند اور بہادر تھا۔ لیکن بادشاہ کو اس کی دوستی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اس نے شہزادے نے احتجاج کیا کہ وہ میرا محسن ہے اور بہت اچھے اخلاق کامالک اور ذہین انسان ہے۔ غریب ہونا کوئی جرم نہیں۔ ایسے سمجھدار سے دوستی کاہاتھ بڑھایا ہے اب مجھیت زیب نہیں دیتا کہ اس سے تعلق توڑوں۔بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے اور اس کے خاندان کو ملک بدرکردیاجائے۔یوں ایک فوجی دستہ لکڑہارے کو بے یاد مددد گار سرحد سے باہر چھوڑ آیا۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ بھوکا پیاسا ایک بڑے شہر پہنچا جہاں کھلے میدان میں بڑے چبوترے پر بڑی پگڑیوں والے بہت سے سردار، امراء اور تاجر بیٹھے تھے جن کے سامنے میزپر پنجرے میں ایک پرندہ قید تھا۔ لکڑہارے نے اس بڑے اور عالیشان مجمع کا سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ کل ان کا بادشاہ فوت ہوگیا۔آج یہاں نئے بادشاہ کا انتخاب ہوگا۔ کچھ لمحوں میں چبوترے پر رکھا پنجرہ کھولا جائے گا اس میں بیٹھا پرندہ جس کے کندھے پر بیٹھے گا وہی ہمارا بادشاہ ہوگا۔ لکڑہارا ارسلان یہ دلچسپ منظر دیکھنے لگا۔ قسمت کی خوبی جب پنجرہ کھولا تو پرندہ اڑ کر ارسلان کے کندھے پر آن بیٹھا۔ لوگوں نے تالیاں بجائیں اور اپنے نئے بادشاہ کو محل لے آئے اور رسومات کی ادائیگی کے بعد بادشاہت کاتاج ارسلان کے سرپرسجادیاگیا۔یوں محنت ومشقت کرنے والا نیک دل اور بہادر لکڑہارا بادشاہ بن گیا۔ چندروز آرام وسکون سے حالات کاجائزہ لینے کے بعد اس نے مملکت کے معمالات دیکھنے شروع کیے تو معلوم ہوا کہ ملک میں لاقانونیت، لوٹ مار، غنڈہ گردی، چوری چکاری عام ہے۔ بے تحاشہ کرپشن اور رشوت ستانی کابازار گرم ہے۔ بااثر ظالموں سے کسی کی جان ومال محفوظ نہیں۔بادشاہ کے دربار میں روزانہ ہزاروں درخواستیں دیتے ہیں مگر راشی داروغہ بادشاہ نہیں پہنچے دیتا۔رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس نے اعلان کروادیا کہ آج کے بعد کوئی رشوت نہیں لے گا۔ اگر معلوم ہوگیا تو اس کی سزا پھانسی ہوگی۔ ہر طرف سناٹاچھاگیا مگرلوگ کب بازآنے والے تھے۔ انہوں نے رشوت لینی نہ چھوڑی جس جس کاپتہ چلتا اسے پھانسی چڑھا دیاجاتا۔ کچھ ہی دنوں میں رشوت لینے اور دینے والوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ رشوت کے خاتمے کے ساتھ ہی غنڈہ گردی اور لاقانونیت کابھی خاتمہ ہوگیا۔ہر شخص اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کاخیال کرنے لگا۔ یوں ملک میں اصلاح احوال کی صورت بنی اور تعمیروترقی کانیا دور شروع ہوگیا۔ریاست کی تعمیرکی شہرت چار سوپھیلی تو ارسلان کو ملک بدر کرنے والے بادشاہ اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ارسلان نے اپنا دلی عہدلانے کی شرط رکھی۔ بادشاہ اپنے والی عہد یعنی شہزادے کو لیکر بادشاہ کے دربار میں پہنچا تو اپنے دوست کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ادھر بادشاہ بھی اسے دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ ارسلان کا حسن سلوک دیکھ کر اسے شرمندی ہورہی تھی مگر ارسلان نے کہا کہ بے شک آدمی کی حیثیت واختیار کامالک وخالق وہی ہے جو دن رات کو آپس میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں اگر مجھے ملک بدرنہ کرتے تو آج بھی لکڑیاں بچ کرگزارہ کررہاہوتا لیکن اللہ تعالیٰ بہترین کار ساز ہے۔ پیار بچوآپ بھی محنت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اس لئے آپ کو بھی محنت کرنی چاہئے تاکہ آپ بھی کامیاب زندگی بسر کرسکیں۔ " آخری دعوت - تحریر نمبر 935,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aakhri-dawat-935.html,"جاوید اقبال:وہ بھوکا تھااور کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں بھی تھا۔ مارے جانے کاخطرہ ہرطرف سے اسے اپنی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہورہاتھا۔ وہ کونوں کھدروں میں چھپتا چھپا تا کوئی محفوظ ٹھکانا ڈھونڈ رہاتھا۔ جیسے ہی وہ ایک گلی کاموڑمڑ کے ایک کھلی سڑک پر آیا، اسے ایک دیوار میں سوراخ نظر آگیا۔ وہ سمٹ سمٹا کراس سوراخ سے اندر داخل ہوگیا۔جونہی اس کی آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں۔ حیرت اور خوشی سے وہ اچھل پڑا۔ یہ رنگوں اور خوشبوؤں کی ایک انوکھی دنیا تھی، جہاں ہر طرف کھانے کی مزے مزے کی چیزیں سجی ہوئی تھیں۔ ایک طرف کیک، پیسٹریاں ، بسکٹ اور کریم رول اپنی بہاردکھا رہے تھے دوسری طرف لذیذمٹھائیاں اسے للچارہی تھیں۔ ایک طرف کاغذ والے دودھ کے ڈبے رکھے تھے تو کہیں پھلوں کے رس کے ڈبے اسے لبھارہے تھے۔(جاری ہے)ایک کونے میں ٹافیوں اور چاکلیٹوں کی رنگ بھری دنیا است کھانے کی دعوت دے رہی تھی۔پہلے تو اسے اپنی آنکھوں پہ یقین ہی نہیں آیا۔ اس نے پلکیں جھپک جھپک کے دیکھا کہ کہیں یہ خواب تو نہیں ۔ وہ بے تابی سے آگے بڑھا۔ چیزیں اتنی تھیں کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ پہلے کیا چیز کھائے۔ چیزوں کاایک جہاں تھا اور بس وہ تھا۔ وہ ایک چیز تھوڑی سی چکھتا اور پھردوسری کی طرف لپکتا۔ابھی اسے کھارہاہوتا کہ تیسری کی کشش اسے اپنی طرف کھینچ لیتی۔ کھاتے کھاتے اسے پیاس لگی تو دودھ کے ڈبوں کی طرف لپکا۔ ایک ڈبے میں سوراخ کرکے جی بھر کر دودھ، پیا، پھرمٹھائیاں پر ہلہ بول دیا۔ گلاب جامن، برفی، بالوشاہی، قلاقند،لڈو، چم چم، رس گلے ڈھیر سارے موجود تھے۔ وہ کھا رہاتھا اور ناچ رہاتھا۔ اس نے اتنا کھایا کہ پیٹ بھرگیا۔ اب وہ اپنے بوجھل پیٹ کے ساتھ آہستہ آہستہ چیزوں کی طرف بڑھتا تھوڑاسا چکھتا اور دوسری طرف بڑھ جاتا۔نہ جانے کتنا وقت گزرگیا۔ اس پہ سستی طاری ہونے لگی۔ اس نے سوچا اب یہاں سے چلاجائے، مگر اس مزے دار میٹھی دنیاکے آخری کونے سے ایک مسحور کن مہک نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ یہ سوندھی سوندھی خوشبوسب خوشبوؤں سے انوکھی سب سے الگ تھی۔ اس کی تیز نظروں نے اس جگہ کو دیکھ لیا، جہاں سے یہ خوشبو آرہی تھی۔ یہ گھی میں تلی سرخ سرخ روٹی کابڑا ساٹکڑا تھا، جولوہے کی ایک عجیب سی چیز کے ساتھ پڑا تھا۔اگرچہ اس کامعدہ گلے تک بھر چکاتھا، ،مگر ڈھیر ساری میٹھی چیزیں کھانے کے بعد مزے دار روٹی کاذائقہ چکھنے سے وہ خود کو نہ روک سکا۔ وہ بے تابی سے وہاں جاپہنچا اور جیسے ہی روٹی کے ٹکڑے کوکھانا، چاہا، ایک پُراسرار سی چیز تیزی سے اس کے سر کی طرف آئی۔ اس نے خود کو اس کی زد سے بچانا چاہا، مگر بھرے سے پیٹ اور غنودگی کی وجہ سے وہ پیچھے نہ ہٹ سکا اور ایک خوف ناک آواز کے ساتھ پلک جھپکتے ہی اس کی گردن ایک آہنی شکنجے میں جکڑ گئی۔اس کی آنکھیں حیرت کا گہرا تاثر لیے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس حیرت میں ایک رنگ پچھتاوے کا بھی تھا کہ اے کاش میں اتنالالچ نہ کرتا۔ پھر اس کا دم گھٹتا چلا گیا۔دوسری صبح بیکری کے مالک نے اپنی دکان کاشٹر اٹھایا تو ایک کونے میں لوہے کے شکنجے میں پھنسے چوہے کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے آگے بڑھ کر مردہ چوہے کو اٹھاکر کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیااور دکان میں گھوم کراس نقصان کاجائزہ لینے لگا، جو اس بن بلائے مہمان کی وجہ سے ہوا تھا۔ " بوجھ اتر گیا - تحریر نمبر 934,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bojh-utar-gaya-934.html,"معاذبن مستقیم:صاحب میری ماں کو بچالیجیے۔ ڈاکٹر چارلاکھ رپے کا خرچ بتارہے ہیں۔ صاحب ! ماں کو بچالیں۔ میں پیسے اپنی تنخواہ میں سے تھوڑے تھوڑے کرکے واپس کردوں گا۔ میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔یہ الفاظ سن کر احمد سلیم کو حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔ وہ ایک دولت مند آدمی تھے اور لوگوں کی مدد کرنا انھیں اچھا لگتا تھا۔چار لاکھ رپے ان کے لیے معمولی رقم تھی۔ اس شخص کودیکھ کر وہ ماضی کی یادوں میں کھوتے چلے گئے۔استاد، استاد! میری ماں کی طبیعت بہت خراب ہے۔ کچھ پیسے دے دو۔ میں تمھارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ یہ پیسے میری تنخواہ سے کاٹ لینا استاد․․․․․․․․“بارہ سالہ سلیم اپنے استاد کے سامنے گڑگڑا رہاتھا۔(جاری ہے)وہ ایک دکان میں مکینک کاکام کرتا تھا۔حالات نے اس وقت سے پہلے ہی بڑا کردیا تھا۔ اسکول، پڑھائی، کھیل کود، یہ الفاظ اس کی زندگی میں نہیں تھے۔ اس کی زندگی کامقصد تو بس ایک ہی تھا، بیمارماں کی زندگی کی ڈور کوکٹنے نہ دینا اور اپنے سے چھوٹے پانچ بہن بھائیوں کا پیٹ پالنا۔جس دکان پر سلیم کام کرتا تھا ،ا س کامالک ایک رحم دل آدمی تھا۔ وہ سلیم کی اکثر مددکردیا کرتا تھا۔ تقریباََ ہر مہینے ہی اس کایہ معمول تھا۔کبھی تو مانگے ہوئے پیسے اس کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہوتے تھے۔ استاد بھی جانتے تھے کہ بچہ حقیقت میں ضرورت مند ہے، اس لیے وہ کبھی انکار نہ کرتے۔ سلیم بھی استاد کوبابا کی طرح سمجھتا تھا۔ استاد کو یہ بات معلوم تھی کہ وہ شروع سے ایسی پریشانیوں کاشکار نہیں تھا۔ جب تک سلیم کے والد زندہ تھے، اسے کبھی پانی پینے کے لیے بھی خود اٹھنے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی تھی۔سلیم کے چاچا اور ابا کی کپڑے کی مل تھی۔ وہ ایک اچھے اسکول میں پڑھتا تھا۔ اچانک ایک حادثے نے اس کی زندگی کو پلٹ کررکھ دیا۔ اس کے والد کار حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ والد کے بعد چچانے ساری جائدادا پنے قبضے میں لے کر انھیں ہر طرح سے محتاج کردیا۔ اس کی والدہ یہ صدمہ برداشت نہ کرسکیں اور فالج کاشکار ہوگئیں۔ چچانے اتنی مہربای کی کہ انھیں رہنے کو ایک کمرے کامکان دے دیا۔اب ماں پی اس کاسب کچھ تھی۔سلیم نے ایک مکینک کی دکان پر کام شروع کردیا۔ ایک دن اس کی اندھیری دنیامزید تاریک ہوگئی۔ اس کی ماں راتوں رات چپ چاپ دوسری دنیا سدھا رگئی۔ استاد ہی نے اس کی ماں کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ سلیم خود کو اپنی ماں کی موت کاذمے دار سمجھ رہاتھا۔اگلے دن وہ استاد کے پاس گیا، مگرآج وہ ایک فیصلہ کرچکاتھا۔ اس نے استاد سے کچھ پیسے اُدھار لیے اور کچھ سلے سلائے کپڑے خرید کر بیچنے نکلا پڑا۔کم منافع رکھ کر اس نے سارے کپڑے بیچ دیے۔ آہستہ آہستہ وہ اپنا نام مارکیٹ میں بناتا چلاگیا۔ لوگ آنکھیں بندکرکے اس پر بھروسا کرتے تھے۔ آخر وہ وقت بھی آیاجب اس نے ایک دکان مارکیٹ میں خریدلی۔ اب وہ بایس سال کاہوگیا تھا۔ اس کاشماربڑے کارباری لوگوں میں ہونے لگا۔چندبرسوں میں اس کاکاروبار پورے شہرمیں پھیل گیا۔ کپڑے کی مل لگانا اس کا خواب تھا، وہ بھی پورا ہوچکاتھا۔شہر بھر میں اس کی شہرت تھی۔ اس کے بہن بھائی بھی اب پڑھ لکھ گئے تھے، مگر احمد سلیم خود نہیں پڑھ سکے۔ اب وہ سیٹھ سلیم کہلاتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی کے بنائے ہوئے کپڑوں کے ڈیزائنوں نے بھی ان کی شہرت کوچارچاند لگادیے۔ اس عرصے میں وہ استاد کونہیں بھولے تھے اور ان کاہر ممکن خیال رکھتے تھے۔صاحب اپلیز صاحب! بچالو․․․․․․․ یہ ان کاچچازاد بھائی تھا، جو انھیں پہچان نہیں پایاتھا، مگر سیٹھ سلیم اسے پہچانتے تھے۔وقت نے اس کے پورے خاندان کو تباہ کردیا تھا۔ ایک لمحے کو انھوں نے سوچا کہ وہ اسے دھکے دے کر باہر نکلوادیں اور اپنی ماں کی موت کابدلہ لے لیں، لیکن وہ ایک اور ماں کو نہیں کھونا چاہتے تھے۔ اس درد کوان سے بہتر بھلا کون جانتا تھا۔کوئی بات نہیں، تمھاری ماں میری ماں ہے۔ اس کے علاج کے ذمے داری میری ہے۔ وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔ان کے دل سے ایک بوجھ اُترچکا تھا۔ اپنی ماں کی موت کا بوجھ، جو وہ ایک ماں کو بچاکر ہی اُتار سکتے تھے۔ " معصوم فرشتے کا دکھ - تحریر نمبر 933,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/masoom-farishtay-ka-dukh-933.html,"عثمان غنی:بازار میں موجود لوگوں کے رنگین ملبوسات قوس قزح کا رنگ بکھیررہے تھے۔ دوکانوں اور گاہکوں کی آمدرفت نے ان رنگوں میں مزید اضافہ کردیا۔ آدم کے ہجوم کی سرگوشیاں‘ ریڑھی والوں کی آوازیں‘ گاہکوں اور دکانداروں کی بحث ٹولیوں کی صورت میں مٹر گشتی کرتے ہوئے نوجوانوں کے قہقہوں کی گونج اور شور پیدا کرنے والے بے تگے ہارن کی آوازیں غربت زدہ آواز کوروندتی ہوئیں بازار کی آب وہوا میں گھل کر آسمان میں گم ہوگئیں۔لکڑی کے بانس پر مختلف رنگوں کے کئی غباری کھلونے دھاگے سے پیوندتھے جس دس سالہ بچہ ہاتھ میں پکڑے پانچ پانچ روپے کی آواز لگاکر غبارے بیچ رہاہے۔ گول سانولے چہرے میں دھنسی ہوئیں موٹی موٹی سفید آنکھیں، بال قدرے چھوٹے اور کلیجی رنگ کی بوسیدہ قمیض جو شلوار سے بھی کئی درجے بھدی معلوم ہوتی تھی۔(جاری ہے)پیروں میں پرانی جوتی جو مختلف جگہوں سے آدھی گھس چکی تھی۔گویا غربت پورے وجود سے سورج کی روشنی کی طرح نمایاں تھی۔ صبح سے شام تک پانچ پانچ روپے کی غباری کھلونے بیچ کروہ معصوم فرشتہ اپنے گھر لوٹ جاتا۔پچھلے ہفتے جب تمام غباری کھلونے بک چکے تو بازار کی ایک دکان کے شوکیس میں لگے مختلف قسم کے کھلونوں نے اسے اپنی طرف مکمل طور پر مائل کرلیا۔ کچھ دیر وہ چمکتی نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔ شوکیس میں ترتیب لگے ہوئے مختلف کھلونوں کے ساتھ پڑی ہوئی چوٹی سی گاڑی اس کی آنکھوں میں رقص کر رہی تھی۔گاڑی کے ساتھ لگے ہوئے ٹیگ پر لکھی ہوئی قیمت پڑھ کر وہ گھر کو روانہ ہوگیا۔ ایک ہفتہ پیسے جمع ہوتے رہے اور اس دوران وہ تمام غباری کھلونے بیچ کر اس دکان کا چکر ضرور لگاتا اور کھلونے شوکیس میں دیکھ کر دل میں خوشی کی کئی لہریں رقص کرتیں۔ کھلونے بج جانے کا خوف تسکین میں بدل جاتا اور گول سانولے چہرے میں دھنسی ہوئیں سفید آنکھیں خوشی سے چمکنے لگتیں۔ایک ہفتے کے بعد گلوتوڑا اور تمام سکوں کو اکٹھا کرکے گنا۔آج خواہشوں کی تکمیل کادن تھا سب سے بڑی فتح کادن۔ معمول کے مطابق غبارے اور کھلونے بیچنے کے بعدوہ بازار کو ہولیا۔ شام تک پھر پھر ا کر آخری دو کھلونے بچ گئے جن کا کوئی گاہک نہ لگا۔ سوچ بچار کے بعد وہ کھلونوں کی دکان میں داخل ہوا قمیض کی دائیں جیب سے تمام سکے نکال کر کاؤنٹر پر رکھے اور اس گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔دکاندار کے مطابق پانچ روپے کم تھے۔ معصوم فرشتے نے ایک غباری کھلونا دھاگے سے توڑ کر دکاندار کے آگے رکھ دیا۔ دکاندار نے نفی میں سر ہلایا” یہ نہیں ․․․․․․․ پانچ روپے لاؤ گے تو کھلونا ملے گا“ باہر نکلتے ہی اسکی نظر چوک میں چھوٹی سی بچی پرپڑی جو دائیں ہاتھ سے اپنی ماں کی قمیض کھینچتے ہوئے بائیں ہاتھ سے غباری کھلنے کی طرف اشارہ کررہی تھی۔معصوم فرشتے کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ ان کی طرف لپکابچی کو غباری کھلونا تھما کر پانچ روپے کا سکہ وصول کیا اور کھلونوں کی دکان کا رخ کیا۔ دکان کے قریب پہنچتے ہی وہ ہڑ بڑاہٹ میں بھاگتا ہوا شوروم کی طرف بڑھا۔ ایک بچہ بھاگتا ہوا اس سے ٹکرایا اورہاتھ میں وہ گاڑی لئے گھوں گھوں کرتا ہواا پنی ماں سمیت اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ بانس زمین پر گرگیا اور آخری غبارہ زمین سے ٹکراتے ہی پھٹ گیا۔ بڑی دیر تک وہ شوروم کو تکتا رہا۔ اسکا وجود لکڑی کی طرح بے جان ہوچکا تھا۔ سانولے چہرے میں دھنسی ہوئیں سفید آنکھوں سے مسلسل بہتے ہوئے اشک دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھے ہوئے پانچ روپے کے سکے کو گیلا کررہے تھے۔ " برائی کا جواب - تحریر نمبر 932,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/burai-ka-jawab-932.html,"شیخ عبدالحمید عابد:ایک چونٹا بڑا محبتی اور شریف تھا۔ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتا۔ کبھی اپنے بل کی مرمت کررہا ہے تو کبھی مند میں اناج کادانہ اٹھائے چلاآرہا ہے۔ کاہلی کو گناہ سمجھتا اور ہرکام بڑی محبت سے کرتا تھا۔وہ وقت کی بھی بڑی قدرکرتا تھا۔ کسی کام سے باہر نکلتا تو کسی سے بے مقصد بات نہ کرتا وہ جانتا تھا کہ عقل مند زیادہ نہیں بولتے۔راستے میں اگر کوئی جان پہچان والا چونٹا مل گیا تو دور ہی سے سلام دعا کرلی اور اپنی راہ پکڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دردمنددل کا مالک بھی تھا۔ اگر راہ میں کوئی مصیبت زدہ مل جاتا تو اپنا کام چھوڑ کر اس کی مدد کرتا تھا۔ وہ اپنے بڑوں کی عزت کرتا اور چھوٹوں سے بھی شفقت سے پیش آتا تھا۔(جاری ہے)اس چیونٹے کے بل کے قریب ہی گندے پانی کاایک جوہڑتھا۔شریر اور گندے بچے گھنٹوں اس میلے کیچلے پانی میں نہاتے رہتے تھے۔ گندے پانی میں بہت سے جراثیم ہوتے ہیں جو ان کی کھال میں چپک کر پھوڑے پھنسی پیداکردیتے ہیں۔ ان بچوں کے علاوہ بہت سی بھینسیں بھی سارا دن پانی میں بیٹھی رہتی تھی۔چیونٹا بڑا پریشان تھا۔ بھینسیں سارا دن پھرتی رہتی تھی۔ چیونٹے کو خطرہ تھا کہ کہیں وہ یا اس کا کوئی بچہ بھینسوں کے پاؤں تلے نہ کچل جائے۔اب وہ زیادہ تر گھر میں ہی رہتا تھا۔ اگر کبھی کسی ضروری کام سے باہر جاتا بھی تھا تو اپنے بیوی بچوں کو سختی سے کہہ جاتا تھا کہ وہ باہر نہ نکلیں۔ایک دن چیونٹا بہت تھکاہوا تھا، اس لیے دوپہرکاکھانا کھا کر کچھ دیر لیٹ گیا۔ چارے کوسوئے سوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اچانک کسی نے اسے جھنجوڑدیا۔ وہ چونک کر اٹھا تو دیکھا کہ اس کی بیوی چیونٹی کھڑی ہے۔وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ چیونٹے نے جب اس کی طرف دیکھا تو بولی: آپ مزے سے سو رہے ہیں اور گھر میں پانی بھرا جارہاہے۔ہیں ․․․․․․․ کیا کہاپانی․․․․․ پانی کہاں سے آرہا ہے؟ چیونٹا بولا۔میں کیا جانوں کہاں سے آرہاہے۔ آپ باہر جاکر دیکھیں اوراس پانی کو کسی طرح بند کریں، ورنہ ہمارا محنت سے جمع کیا ہوا غلہ ضائع ہوجائے گا۔ چیونٹی نے کہا۔چیونٹا فوراََ باہر کی طرف بھاگا۔ باہر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کے بِل کے بالکل قریب جوہڑ میں ایک بھینس بیٹھی بار بار اپنی دم کو پانی مار رہی ہے۔ جس سے پانی کے چھینٹے اڑ اڑ کر چیونٹے کے بل میں داخل ہورہے ہیں۔ چیونٹے نے یہ منظردیکھا تو پریشان ہوگیا۔اس طرح تو ہمارا خوراک کا ذخیرہ خراب ہوجائے گا۔ جاڑوں کے موسم میں بھوکے مرجائیں گے۔چیونٹے نے یہ سوچا، پھر دوڑ کر بھینس کے قریب ایک پتھ پر چڑھ کر بولا: بی بھینس ! میری ایک بات سنو!کیا ہے؟ وہ اکڑکر بولی۔دیکھو بہن!میں ایک غریب اور کمزور ساچیونٹا ہوں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ تم جانتی ہوہم زیادہ گرمی برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے مناسب موسموں میں برے وقت کے لیے اپنی خوراک ذخیرہ کرلیتے ہیں۔تو پھر میں کیا کروں؟ بھینس روکھے پن سے بولی۔اچھی بہن ! تم بار بار اپنی دم پانی میں مارہی ہو۔ اس سے میرے گھر میں پانی داخل ہورہاہے اور ہماری خوراک کاذخیرہ تباہ ہورہا ہے۔ خدا کے لیے مجھ پر اور میرے بچوں پر ترس کھاؤ اور اپنی دم پانی پر نہ مارو۔ میں تمام زندگی تمھارا احسان مندرہوں گا۔وہ بہت بداخلاق بھینس تھی۔ اس پران باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ بڑے زور سے ذکرائی اور آنکھیں نکال کر بولی: جاجا حقیرچیونٹے میں اپنی مرضی کی مالک ہوں، جب تک چاہوں دم ہلاتی رہوں۔تو مجھ پر حکم چلانے والا کون ہوتا ہے؟ دفع ہوجاؤ، ورنہ کچل کررکھ دوں گی۔چیونٹے نے یہ سنا تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے۔ وہ سمجھ گیا۔ اس ظالم بھینس سے مزید کچھ کہنا بے کار ہوگا۔ چنانچہ وہ سرجھکا کرلوٹ آیا۔ گھر میں بہت زیادہ پانی بھر چکا تھا۔ خوراک کا سارا ذخیرہ تباہ ہوچکا تھا اور چیونٹے کے بچے خوف سے چیخیں ماررہے تھے۔ اس نے بڑی مشکل سے انھیں پانی سے نکالا اور باہر لے آیا۔پھر ایک حسرت بھری نظر اپنے گھر پر ڈالی اور کسی انجانی منزل کی طرف چل دیا۔ اب اس کے پاس نہ کھانے کو خوراک تھی اور نہ سرچھپانے کا ٹھکانا۔ وہ سخت پریشان تھا کہ کیا کرے کیا نہ کرے۔ چلتے چلتے وہ ایک ٹیلے کے پیچھے جانکلا۔ اس جگہ چیونٹے کے بہت سے دوست رہتے تھے۔ انھیں جب سارا حال معلوم ہوا تو سب نے چیونٹے سے کہا: پیارے بھائی! آپ ہمارے محسن ہیں۔آپ نے ہر برے وقت پر ہماری مدد کی ہے۔ اب قدرت نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم ان احسانوں کا بدلہ اتار سکیں۔یہ کہہ کر بہت سے چیونٹے مل کر ایک مکان کی تعمیر میں لگ گئے۔ وہی کام جو چیونٹا کیلا کئی دنوں میں مکمل کرتا، اب گھنٹے بھر میں ہوگیا تھا۔ ان سب نے چیونٹے کے لیے بڑاسا مکان بنادیا۔ مکان کے بعد غذا کامسئلہ حل کرنے کے لیے سب چیونٹے اپنے اپنے گھر سے تھوڑاتھوڑا اناج لے آئے وہ غلے کاایک بڑا ڈھیربن گیا۔اس طرح چیونٹے کے پاس اب ایک آرام دہ گھر اور ڈھیر ساغلہ تھا۔ اس نے سب کا شکریہ ادا کیا۔ایک دن چیونٹا کسی کام سے جوہڑ کی طرف جارہا تھا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ وہی بھینس پانی سے الگ کھڑی رورہی تھی اور بار بار اپنے سرکو جھٹک رہی تھی، جیسے وہ سخت تکلیف میں ہو۔ چیونٹے نے اس تکلیف میں دیکھا تو بڑا ترس آیا۔ وہ آگے بڑھا اور بھینس سے خیریت دریافت کی۔بھینس سخت شرمندہ تھی۔ وہ روتے ہوئے بولی: بھائی چیونٹے مجھے معاف کردو۔ میں نے تم پر ظلم کیا تھا۔ اب اس کی سز ا بھگت رہی ہوں۔مگر تمہیں کیا تکلیف ہے؟ چیونٹا بے چینی سے بولا۔بھینس نے بتایا: میں صبح بھوسا کھارہی تھی کہ ایک چھوٹا سا تنکا اڑ کر میری آنکھ میں چلاگیا۔ تب سے میری آنکھ میں تکلیف ہے۔ مجھے کسی پل چین نہیں آرہاہے۔ اور تنکا کسی طرح نکل بھی نہیں رہاہے۔میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں۔ چیونٹا بولا: تم اپنا سرزمین پر رکھو۔بھینس نے جھٹ اپنا سرزمین پر رکھ دیا۔ اب چیونٹا اس پر چڑھ گیااور آنکھ کے قریب جاکر تھوڑی دیر میں وہ تنکا باہر نکال پھینکا ۔ تنکا نکلنے سے بھینس کو بے حد سکون ملا اور وہ احسان کے بوجھ تلے دب گئی۔اس نے شکریہ ادا کیااوربولی: میں نے تم پر ظلم کیا، لیکن بھر بھی تم نے مجھ پر احسان کیا۔آخر کیوں۔چیونٹا بولا: سنو بہن! تمھاری بدی کے جواب میں اگر میں بھی بدی کرتا تو میرے اور تمہارے درمیان کیا فرق رہ جاتا۔ اگر تمام لوگ بدی کا جواب بدی سے ہی دینے لگیں تو دنیا سے نیکی بالکل ہی مٹ جائے گی۔ پھر اگر تمہیں اس خوشی کااحساس ہوجائے جوکسی کے ساتھ بھلائی کرنے سے ملتی ہے تو تم کو تمھارے سوال کا جواب خود ہی مل جائے گا۔یہ سن کر بھینس نے وعدہ کیا کہ اب میں کسی کو نہیں ستاؤں گی اور سب کے ساتھ نیکی سے پیش آؤں گی۔ " کھودا پہاڑ نکلا چوہا - تحریر نمبر 931,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khoda-pahar-nikla-chooha-931.html,"عفیفہ عمران:فاران کو جاسوسی کرنے کا بے حد شوق تھا وہ اپنے آپ کو جاسوسی فلموں کا ہیرو سمجھتا تھا۔اس کے گھر والے اس عادت سے بہت تنگ تھے۔ فاران پر اگر اسی طرح جاسوسی کابھوت سواررہا تو کسی دن یہ ہم سب کے لیے کوئی بڑی مصیبت نہ کھڑی کردے۔ انہی باتوں کی وجہ سے اس کاپڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا۔ آخر اس کا ہوگا کیا“ امی نے متفکر ہوکر ابو سے کہا: اسے سمجھا سمجھا کرتھک گئے ہیں لیکن اس کے کانوں پر جیسے جوں ہی نہیں رینگتی۔آئے دن محلے سے شکایتیں آتی رہتی ہیں۔ بس اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اسے بورڈنگ میں داخل کرا دوں گا، وہاں پابندرہے گا تو جاسوسی کاشوق ختم ہوجائے گا۔ ابو غصے سے بولتے چلے گئے۔ بالآخر فاران کو بورڈنگ ہاؤس میں داخل کروایا گیا۔(جاری ہے)یہاں صبح کے ناشتے کے لیے رات میں ہی ہر بچے کا بن ڈبل روٹی منگوالیا جاتا تھا کیونکہ بیکری صبح جلدی نہیں کھلتی تھی۔دو چار دن سے بورڈنگ ہاؤس میں عجیب بات محسوس کی گئی کہ روزانہ ایک بچے کا بن غائب ہوجاتا۔فاران کی جس جاسوسی اس موقع پر بھڑک اٹھی۔ رات کو جب سب سوگئے تو وہ اپنے بستر پر بیٹھے کمرے میں چاروں طرف نظریں دواڑنے لگا۔ اچانک اس نے ایسی عجیب بات دیکھی کہ بے اختیار لیٹ کر چادر سر تک تان لی اور کانپنے لگا۔ رات بھر وہ خوف سے کپکپاتا رہا۔ صبح پھر اسکول سراسیمگی کاعالم میں تھا کیونکہ ایک اور بن غائب تھا۔کسی کو معلوم ہویا نہ ہو مگر فاران کو معلوم تھا کہ چور کون ہے؟ اس نے ایک بچے سے کہا مجھے معلوم ہے کہ چور کون ہے؟ کون اور تمہیں کیسے معلوم“ بچے نے پوچھا “ جن ․․․․․․․نن! اس نے نون پر زور دے کر کہا:جن․․․․․․؟ کیا مطلب․․․․․․․ وہ بچہ اور حیران ہوگیا۔ فاران نے چہر خوفناک بناتے ہوئے کہا ” ہاں حسن،مگر وہ بجائے فاران سے متاثر ہوتا، اس کامذاق اڑانے لگا۔اگلی رات جب سب سوگئے تو وہ پھر جاسوسی میں لگ گیا۔ ابھی وہ سوچ رہا تھا کہ اچانک اسے اپنے قریب کچھ آہٹ سنائی دی۔ اس نے ایک جھٹکے سے آہٹ کی جانب دیکھا تو اسے اپنے نیچے سے بستر نکلتا محسوس ہوا۔ ایک اور بچے کابن خود بخود کھسک رہاتھا۔ وہ آنکھیں پھاڑے اسے کھسکتا دیکھ رہاتھا۔اتنا بڑا گول بن زمین پر کھسک نہیں رہاتھا۔ بلکہ تھوڑا سا اوپر کو اٹھ کرفضا میں اڑرہا تھا۔وہ تھر تھر کانپنے لگے اور پھر اس نے ذرا غور سے دیکھا تو اسے بن کے نیچے ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی۔اس نے کاپنتے ہوئے تھوڑا جھک کر غورسے دیکھا تو اس کی بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔ اس کی ہنسی سن کر باقی بچے بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔ کیا ہوا؟ ایک نے پوچھا، ارے کیوں ہنس رہے ہو اتنی رات کو ؟ ایک اور بولا۔ فاران سب باتوں سے بے نیاز، بس اس بن کو دیکھے جا رہاتھا جواب کافی دور نکل چکا تھا۔پھر باقی بچوں کی نگاہیں بھی اس کی نگاہوں کی سیدھ میں گئیں۔سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ اتنے بڑے بن کے نیچے چھوٹی سے چوہیا ایسی لگ رہی تھی جیسے کوئی پستہ قدمزدور فوم کا گدا اٹھائے چلاجارہا ہو۔ اچھا تو یہ ہے بن چور، دھت تیرے کی۔ کئی بچوں کے منہ سے نکلا اور کمرا قہقہوں سے گونج اٹھا ۔ چوہیا ان کے قہقہوں سے خوفزدہ ہوکربن چھوڑ کر سرپٹ بھاگ گئی۔ فاران نے بے اختیار کہا” یہ وہی مثال ہوگئی، کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ " کبوتر کا تحفہ - تحریر نمبر 930,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kabootar-ka-tohfa-930.html,"عبدالرؤف تاجور:معلوم نہیں وہ سچ مچ کبوتر ہی تھا یاکبوتر کے بھیس میں کوئی اور مخلوق تھی۔ وہ کبوتربہت خوب صورت اور معصوم تھا۔ جو بھی دیکھتا، بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔ برف کی طرح سفید رنگ تھا۔ چونچ، آنکھیں اور نیچے یا قوت کی طرح سرخ، دونوں پیروں میں پنجوں تک چھوٹے چھوٹے پربھرے ہوئے تھے، جس کی وجہ سے وہ اور بھی خوب صورت لگتا تھا۔گھر میں اس کا آنا ایک اہم واقعہ تھا اور اس کا جانا ایک حادثے کی طرح تھا بلکہ جانا زیادہ پراسرار تھا، گھر کے لوگ کبوتر کے چلے جانے کے بعد بھی اُلجھن کا شکار رہے۔ایک اتوار کی صبح کاذکر ہے۔ حمزہ اپنا بلا تلاش کرتا ہوا بالکونی میں آیا تو یہاں کا منظردیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک سفید کبوتر اپنے خون میں لت پت بیٹھا اونگھ رہا تھا۔(جاری ہے)اور اس سے تھوڑے فاصلے پر لوہے کی گرل پر اپنے دونوں نیچے جمائے ایک چیل، کبوتر کو کونی نگاہوں سے گھوررہی تھی، لیکن اندر آنے سے قاصر تھی، کیوں کہ گرل کی جالی ایسی تھی کہ بڑا پرندہ مثلاََ کوا، کبوتر، چیل یابازاندر نہیں آسکتا تھا۔لیکن یہ زخمی کبوتر کسی نہ کسی طرح اندرآگیاتھا۔ آہٹ پاکر کبوتر نے لمحے بھر کے لیے حمزہ کو دیکھا اور پھر آنکھیں موندلیں۔حمزہ کو صورت حال بھانپنے میں چند سکینڈ لگے۔ وہ اُلٹے پاؤں بھاگا۔ اپنے کمرے میں جاکر میز کی دراز سے غلیل نکالی، مٹھی بھر شیشے کی گولیاں، جیب میں ڈالیں اور چھپ کر ایک غلہ اس چیل کو مار دیا جو اگر نشانے پر لگ جاتا تو چیل اس مار کو ہمیشہ یادرکھتی، لیکن حمزہ کانشانہ خطاہوگیا۔غلہ گرل سے ٹکرا گیا، ایک زبرداست آواز پیداہوئی۔ اور وہ خونی پرندہ چیخ دار آوازیں نکالتا ہوا اُڑ گیا۔ حمزہ نے جلدی سے دوسرا غلہ چلادیا، لیکن یہ بھی خطا ہوگیا۔ ادھر سے فارغ ہو کر اس نے ساری بات اپنی دادی جان کو بتادی اور اپنا بلالے کر بھاگتا ہوا اپنے اسکول کی طرف چل پڑا کیوں کہ میچ شروع ہونے میں صرف بیس منٹ رہ گئے تھے۔اس دن میچ میں حمزہ کا دل بالکل نہیں لگا۔اس کے باوجود وہ دو وکٹیں اور ساتھ رن لے کر مین آف دی میچ قرار پایا۔ کھیل کے دوران اس کادھیان کبوتر کی طرف لگارہا۔ پتا نہیں بے چارہ زندہ بھی ہے یااللہ کو پیارا ہوگیا۔ گھر واپس پہنچا تو دادی جان نے اسے فوراََ خوش خبری سنادی کہ زخمی کبوتر نہ صرف زندہ ہے، بلکہ خطرے کی زد سے نکل آیا ہے۔ حمزہ نے بلاایک طرف پھینکا اور بالکونی کی طرف بھاگا۔کبوتر گتے کے ڈبے میں پرانے کپڑوں کے ڈھیر پر سورہاتھا۔ آہٹ پاکر اس نے آنکھیں کھول دیں اور معصوما نہ نگاہوں سے حمزہ کو دیکھنے لگا، جیسے کہہ رہاہو، بہت بہت شکریہ میرے دوست آپ نے میری جان بچائی، میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔دادی جان نے ٹوٹکوں اور دیکھ بھال کی وجہ سے وہ ہفتہ دس دن کے اندر پوری طرح صحت یاب ہوگیا۔ اب وہ گھر کا ایک فروبن چکا تھااور اپنی پیاری حرکتوں سے سب کادل بہلاتار ہتا تھا۔گھر کے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیلنا اسے بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ اسے پکڑنے کے لیے دوڑتے اور وہ انھیں جھکائیاں دے کر پورے گھر میں دوڑتا رہتا۔ کبوتر کی ایک عجیب خوبی جس پر سب لوگ حیران تھے وہ یہ تھی کہ صبح کے وقت جب دادی جان نماز سے فارغ ہوکر تلاوت شروع کرتیں تو وہ اُڑتا ہوا آتا اور آکر ان کے شانے پر ساکت بیٹھ جاتا اور جب تک تلاوت جاری رہتی، اسی طرح ادب سے بیٹھا رہتا۔یہ سب کچھ تھا لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس نے کبھی گھر سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ شاید اس خونی چیل کا خوف ابھی تک اس کے ذہن میں بیٹھا ہواتھا۔اور پھر ایک دن یہ کبوتر جس طرح خاموشی سے ہمارے گھر آیاتھا، اسی طرح چپ چاپ ہمیشہ کے لیے ہمیں اُداس چھوڑ کر چلاگیا۔وہ بھی اتوار ہی کادن تھا اور صبح کے ساتھ بج رہے تھے۔ گھر کے سب لوگ بے خبر سو رہے تھے۔صرف حمزہ اٹھ گیا تھا اور دادی جان اپنے کمرے میں تخت پر بیٹھی تلاوت کررہی تھیں۔حمزہ بلا لے کر باہرنکلنے ہی والا تھا کہ اطلاعی گھنٹی بجی۔ اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو سفید کپڑے پہنے ایک لمباتڑلگا شخص کھڑا نظر آیا۔ اتنے لمبے قد کاآدمی حمزہ نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا، اس لیے قدرے حیران سا ہوگیا۔جی فرمایئے؟ حمزہ نے بوکھلاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔آپ ہی حمزہ ہیں؟ اس آدمی نے مسکرکرنرم لہجے میں پوچھا: میرا مطلب ہے حمزہ خاور مسعود۔جی ہاں ، میرا نام ہی حمزہ ہے، لیکن آپ کون؟مجھے چھوڑیے۔ صرف یہ بتائیے کہ کیا آپ میری امانت مجھے واپس کرنا پسند کریں گے۔ حمزہ الجھن میں پڑگیا: امانت کیسی امانت؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔ایک سفید رنگ کا کبوتر جو تقریباََ دو مہینے سے آپ کے گھر میں پرورش پارہا ہے اور آپ نے ایک خونی چیل کے پنجے سے چھڑا کر ایک نئی زندگی بخشی ہے۔حمزہ بوکھلا کردو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ کبوتر سے جدائی کے بارے میں تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔اچھا تو وہ آپ کا کبوتر ہے۔جسے آپ لینے آئے ہیں، لیکن وہ تو ہمارے گھر کا ایک فروبن چکا ہے اور ہم اس سے جدا ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ اس سے کتنا پیارکرتے ہیں، لیکن کچھ مجبوریاں ہیں کہ میں اسے آپ کے پاس نہیں چھوڑ سکتا۔حمزہ میاں ! میں نہیں بتاسکتا کہ وہ کبوتر ہمارے لیے کتنا قیمتی ہے۔ آپ نے اس کی جان بچا کر مجھ پر جو احسان کیا ہے، میں اسے تاحیات نہیں بھولوں گا۔ کاش میں اس قابل ہوتا کہ آپ کے اس عظیم احسان کابدلہ چکا سکتا۔عین اسی لمحے تلاوت سے فارغ ہوکر دادی جان بھی دروازے پر آگئیں۔ انھیں دیکھ کر اس آدمی نے بڑے ادب سے سلام کیا: اماں جی! میں اپنی امانت واپس لینے آیا ہوں، یعنی وہ سفید کبوتر جو دو مہینے سے آپ کے گھر میں رہ رہا ہے ۔ٹھیک ہے آپ اپنی امانت واپس لے سکتے ہیں، لیکن اس کا ثبوت کیا ہے کہ یہ آپ ہی کا کبوتر ہے۔ دادی جان نے دل گرفتہ لہجے میں کہا۔ کبوتر سے جدائی کا تصور ان کے لیے بھی تکلیف دہ تھا۔اسے میرے سامنے لائیے۔ آپ کو ثبوت مل جائے گا۔ اس آدمی نے کہا۔لیکن کبوتر کو پکڑ کر سامنے لانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ وہ دادی جان کے کمرے سے اُڑتا ہوا آیا اور آکر ان کے شانے پر بیٹھ گیا اور پھر لمبے آدمی پر نظر پڑتے ہی اُچھل کر اس کے کاندھے پر جا بیٹھا اور جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔حمزہ کو ایسا لگا جیسے وہ کبوتر نہ ہو، ایک چھوٹا سا بچہ ہو جو بچھڑے ہوئے باپ کو پاکر خوشی سے نہال ہوگیا ہو۔ اس کی آنکھوں سے روشنی سی پھوٹ رہی تھی۔آپ کی امانت آپ کو مبارک ۔ دادی جان نے گلوکیر آواز میں کہا اور لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف چل دیں۔ اس آسمی نے کبوتر کو پکڑ کر اپنی قمیص کی بائیں جیب میں رکھا لیا اور حمزہ سے ہاتھ ملا کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا، جلدی نظروں غائب ہوگیا۔حمزہ گیٹ سے باہر نکل کر اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور پھر اپنا بلا لینے گھر کے اندر آیا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ سامنے ہی دیوار کے سہارے نیلے رنگ کی ایک بالکل نئی چمچماتی ہوئی ایسی سائیکل کھڑی تھی، جس کی تمنا برسوں سے اس کے دل میں تھی۔ کبور جاتے جاتے حمزہ کو اس کی پسندکا تحفہ دے گیا تھا۔ " جب ننھا سا تھا - تحریر نمبر 929,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jab-main-nannha-sa-tha-929.html,"شوکت تھانوی:بالکل پھول پڑھنے والے ننھوں کی طرح اُ سی زمانے کاذکر ہے۔ کہ ایک مرتبہ میری امی جان نے مجھ کو ایک مرغے کی کہانی سنائی تھی۔ وہ مرغا ایک بادشاہ کا تھا بادشاہ اُس کو باسی روٹی کے ٹکڑے توڑتوڑ کر نہیں کھلاتا تھا۔ یہ چیزیں تو غریب آدمی اپنے مرغوں کو دیا کرتے ہیں۔ بادشاہ اپنے اس مرغے کو انار کے دانے کھلایا کرتا تھا۔اور کبھی کبھی موتی بھی اس کے سامنے ڈالے جاتے تھے کہ وہ ان کو چُگ لے۔اس مرغے کو حلوہ سوہن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر کھلائے جاتے تھے۔ اور اس کے لئے طرح طرح کی مٹھائیاں بنائی جاتی تھیں۔ شکر پارے اور بوندیاں۔اس کہانی کو سن کر میرا کئی مرتبہ یہ جی چاہا کہ میں مرغان جاوں اور کوئی بادشاہ مجھ کوپال لے مگر میں نے یہ سن رکھا تھا کہ بادشاہ مرغ کھانے کے بھی بڑے شوقین ہوتے ہیں۔(جاری ہے)اگر میں مرغابن بھی گیا۔ اور بادشاہ نے مجھ کو نہ پالا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کھالیا جاؤں بھون بھون کر۔دوتین دن تک میں اسی بات پرسوچتا رہا۔ کہ مرغابن جانے میں فائدہ ہے یا نقصان۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک مرغے کو بوانصیبن کی بلی نے دبوچ لیا۔ میں نے اُس دن سے توبہ کرلی۔ کہ اب میں کبھی مرغا بننا نہ چاہوں گا۔مگر اس توبہ کے بعد ہی میں ایک دم مرغا بن گیا۔آپ اسے جھوٹ نہ سمجھے میں جھوٹ نہیں بولتا۔ میں سچ مچ مرغابن گیا تھا۔سن تو لیجئے کہ میں کیسے مرغا بنا۔میں نے دیکھا کہ میری بڑی نے بہن سرخ سرخ دہکتا ہوا قندھاری انارخریدا۔ میں اپنے پیسوں کی ٹافی خرید کرپہلے ہی چٹ کرچکا تھا۔ اب میں انار کیسے کھاتا؟ میری سمجھ میں ایک ترکیب آگئی ۔ میں اپنی بہن سے کہا۔باجی آج تو تم بادشاہ نظر آرہی ہو۔باجی نے کہا۔ بادشاہ! وہ کیسے؟ میں نے کہا۔ انار ہے ناتمہارے ہاتھ میں۔ جو بادشاہ اپنے مرغوں کو کھلاتے ہیں۔باجی نے ہنس کرکہا۔ اچھا وہ کہانی والی بات۔ مگر میرے پاس تو صرف انار ہے، مرغا کہاں ہے ؟میں نے کہا۔ دیکھو باجی تم بادشاہ ویسے ہی میں مرغا، تم انار ڈالو میں مرغے کی طرح اس کو چگوں ۔یہ کہہ کر میں نے ہاتھ سے چونچ بند کی اور اپنے منہ کے سامنے وہ ہاتھ لگالیا۔اور کہنیوں اور گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔باجی نے انار کے دانے فرش پر ڈالنا شروع کردئیے اور میں اپنے ہاتھ کی چونچ سے وہ دانے کھاتا رہا۔ تھوڑی ہی دیر میں سارا انار میں کھا چکا تھا۔ اورا ب جو باجی نے دیکھا ۔ تو نہ وہ بادشاہ تھیں نہ میں مرغا تھا۔ البتہ انارکاخالی چھلکا اُن کے ہاتھ میں تھا۔ " ڈاکٹر سیب - تحریر نمبر 928,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/doctor-saib-928.html,"فرزانہ روحی، اسلم سعودی عربیہ:ارے سنتی ہو، رفی کی ماں، آج مزہ آگیا۔ ایک پختون نوجوان نے اپنے دوست سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا: یہ ڈاکٹر سیب کا والد ہے۔ یعنی یہ ڈاکٹر صاحب کے والد ہیں۔سردار صاحب ہنستے ہوئے سوفے پر لوٹ پوٹ ہورہے تھے اور ان کی بیگم ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی بیٹی ڈاکٹر رافیہ کو دیکھ رہی تھی، جو اپنے والد کو یوں ہنستا دیکھ کر منھ بناکر کمرے میں جاگھسی تھی۔ڈاکٹر رافیہ بچوں کے امراض کی ماہر تھیں۔ وہ ایک انسان دوست، خوش اخلاق اور اپنے کام سے لگاؤ رکھنے والی ڈاکٹر تھیں۔ وہ سرکاری اسپتال میں ڈیوٹی دیاکرتی تھیں جہاں دور دور سے لوگ اپنے بچوں کا معائنہ کرانے آیاکرتے۔ڈاکٹررافیہ غریب والدین کے بچوں کا علاج کرکے نہایت خوش ہوا کرتی تھیں۔(جاری ہے)یہی وجہ تھی کہ ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے تھے، مگرا ن کی ڈیوٹی ایک ایسے علاقے میں تھی، جہاں لوگوں کی زبان پر ڈاکٹر سیب ، ڈاکٹر سیب ہی ہوتا۔پہلے تو وہ چڑجاتیں۔ پھر اپنے کام میں مگن ہوجاتیں۔ وہاں زیادہ ترپختون برادری آباد تھی ، جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی وہ ایک غریب بستی لگنے والے طبی کیمپ میں بچوں کا چیک اپ کررہی تھی ۔ ایک ایک بچے کا تفصیلی معائنہ کرنے، ان کے وزن کرنے، ان کے والدین کو مشورہ دینے اور دوا سے لے کر اسپتال بھیجنے میں انھیں خبر ہی نہ ہوئی کہ دوپہر کے کھانے کا وقت گزر چکا ہے۔یکا یک ان کے پا س ایک حادثاتی مریض لایا گیا یہ ایک آٹھ سالہ بچہ تھا ، جوبے ہوشی کے عالم میں لایا گیا تھا۔ اس کی روتی ہوئی ماں نے بتایا کہ وہ درخت پر سے گرا ہے۔ کافی دیر کے بعد آخر اسے ہوش آہی گیا۔ تب کہیں جاکر اس کی ماں کے آنسو تھمے۔ وہ ڈھیروں دعائیں دینے لگی، جس سے ڈاکٹر رافیہ کو بہت سکون مل رہا تھا۔ وہ ان دعاؤں سے اپنے اندر طاقت محسوس کررہی تھیں کہ اچانک ان کا منھ لٹک گیا۔بچے کا باپ کہہ رہاتھا : اللہ آپ کو خوش رکھے ڈاکٹر سیب!وہ چڑگئیں، مگر انھیں اس بات کااحساس تھا کہ وہ ایک مسیحا ہیں۔ لہٰذا اپنے غصے کو چھپانے کے لیے انھوں نے اپنا رخ دوسری جانب کرلیا۔شام کو جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوئیں تو تھکن کے باوجود انجانی خوشی سی محسوس ہورہی تھیں۔ گھر جا کر اپنے والد سردار صاحب کو انھوں نے پورے دن کی روداد سنائی، مگر وہ بات چھپا گئیں، جس میں مریض بچے کے باپ نے آخر میں انھیں وہی کہہ دیا تھا، جس پر ان کے والد خوب ہنستے تھے۔اس دن سردار صاحب مغرب کی نماز پڑھ کر گھر لوٹے ہی تھے کہ کسی نے بیل بجائی۔ چوکیدار نے بتایا کہ کوئی غریب آدمی ہے، جوڈاکٹر رافیہ کا پوچھ رہاہے۔ سردار صاحب نے اسے اندر بلالیا اور بتایا کہ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اسپتال سے آئی ہیں اور اس وقت سورہی ہیں۔ وہ غریب آدمی ان کی بیٹی کے لیے ایک تھیلے میں تحفہ لے کر آیا تھا۔ سردارصاحب نے اسے چاے پلوائی اور عزت سے رخصت کیا۔وہ بھی دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔ابھی وہ آدمی گیٹ سے باہر نکلا ہی تھا کہ سردار صاحب کی بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ وہیں لوٹ پوٹ ہوگئے۔ان کی بیگم دوڑتی ہوئی لان میں آئیں تو وہ تھیلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کچھ بولنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہنسی کا فوارا تھا جو بندہوتا کوئی لفظ ان کے منھ سے نکلتا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس آدمی کی موجودگی میں وہ اپنی ہنسی دبائے بیٹھے رہے، جو اُس کے جاتے ہی اُبل پڑے ہیں۔ارے کچھ بتائیے بھی تو․․․․․ ہوا کیا؟ بیگم نے پوچھا: اور اس تھیلے میں کیا ہے؟ ڈاکٹر سیب کے لیے سیب لے کر آیا تھا ان کا مریض۔ یہ الفاظ بڑی مشکل سے ان کی زبان سے ادا ہوئے۔توبہ ہے، آپ بھی حد کرتے ہیں ۔ بیگم بولیں: اور اسے سیب ہی لے کرآنا تھا۔ اس بات سے سردار جی پر دوبارہ ہنسی کا دورہ پڑگیا۔ان کی بیگم نے تھیلااُٹھایا اور کچن کی طرف یہ کہتی ہوئی چل دیں: اسے میں کہیں اندر رکھے دیتی ہوں، کہیں سیب کو دیکھ کر رافیہ چڑ ہی نہ جائے۔اگلے ہفتے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر رافیہ کو اپنے شعبے میں مزید مہارت حاصل کرنے بیرون ملک جانا تھا۔ دراصل ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا تھا۔ جس میں بڑی تعداد میں بچے بھی زخمی ہوجاتے تھے۔ ان کی سرجری کی اعلاتربیت کے لیے انھیں بیرون ملک بھیجا جارہاتھا۔ ڈاکٹر رافیہ خوش تھیں کہ اسی بہانے انھین مزید کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔جلدی وہ ڈاکٹروں کے ایک گروپ کے ساتھ روانہ ہوگئیں۔وہاں سب کچھ بہت اچھا تھا۔ تندہی سے کام کرنے والے، ڈاکٹروں کے ساتھ ان کی بھی اچھی تربیت ہوئی، مگر انھیں کچھ بے چینی سی محسوس ہوتی تھی۔ جسے دور کرنے کے لیے وہ اپنے والدین کو فون کرتیں، بہنوں سے بھی بات ہوئی، مگر پھر بھی کچھ کمی تھی جو بہت محسوس ہورہی تھی۔ سردار صاحب ان کا حوصلہ بڑھاتے کہ چنددنوں کی بات ہے کچھ سیکھ کر ہی واپس آؤ گئی تو پرسکون ہوجاؤ گی۔سردار صاحب اصل بات سمجھ رہے تھے، مگر کچھ نہ بولے کہ کہیں ان کی بیٹی کو برانہ لگ جائے یا اس کا تربیت سے دھیان نہ بٹ جائے، مگر پھر بھی ان سے چپ نہ رہاگیا۔ بیگم سے بولے: اسے وہاں کوئی ڈاکٹر سیب کہنے والا جو نہیں ہے، اس لیے وہ بے چین ہے۔ پھر وہ ہنسنے لگے۔اللہ اللہ کرکے چھے ماہ گزرہی گئے۔ ڈاکٹر رافیہ واپس آگئیں۔ ابھی انھیں آئے ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کا ایک بڑا واقعہ ہوگیا ۔جس میں زخمی ہونے والوں میں بچے بھی تھے۔ ڈاکٹر رافیہ ایمرجنسی فلائٹ سے پشاور گئیں۔ انھوں نے فوری طور پر بچوں کے وار ڈکادورہ کیا۔ انھیں دیکھتے ہی بچوں کے والدین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ آوازیں دے رہے تھے۔ ڈاکٹر سیب، ڈاکٹر سیب۔وہ ایک بچے کا بغور معائنہ کررہی تھی، جس کی کل ہی سرجری ہوئی تھی۔ زخمی بچے کاباپ اس کی ماں کو تسلی دیتے ہوئے کہہ رہاتھا: خانم مارہ (ہمارا) پرانا والا ڈاکٹرسیب آگیا ہے۔اب امارہ (ہمارا) بچہ ٹھیک ہوجائے گا۔ اسی لمحے بچے نے آنھیں کھول دیں۔ بچے کی ماں خوش ہوتی ہوئی بچے سے مخاطب ہوئی، گل خاناں، وہ دیکھو ، ڈاکٹر سیب آگئی۔بچے نے ڈاکٹر رافیہ کی طرف دیکھا اس کی ہلکی سی آواز آئی: ڈاکٹر سیب۔ڈاکٹر رافیہ پہلی بار: ڈاکٹر سیب کا لفظ سن کر مسکرائیں اور بولیں: ہاں میں ہوں تمھاری ڈاکٹر سیب۔قریب کھڑے دوسرے ڈاکٹر حیران ہورہے تھے کہ ایک خان صاحب نے ڈاکٹرز سے کہا: ہمارا تلفظ ہی ایسا ہے کہ ہم سب کی زبان سے صاحب کی بجائے لفظ ” سیب “ نکلتا ہے۔ " جادو کا پانی - تحریر نمبر 927,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jadoo-ka-pani-927.html,"شیخ محمد اسماعیل:بہت دنوں کی بات ہے کہ جنگل میں ایک لکڑہاراور اس کی بیوی رہا کرتے تھے۔ دونوں بہت بوڑھے اور غریب تھے۔ لکڑہار ادن بھرکلہاڑی سے لکڑیاں کاٹتا اور شام کو انہیں شہر میں بچ آتا تھا۔ لکڑہار کی بیوی گھر کا کام کاج کرتی تھی۔ایک دن لکڑہارے جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہاتھا۔ کہ اسے بہت زور کی پیاس لگی۔ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ کہ کوئی کنواں یا تالاب نظرآئے تووہاں جا کر پانی پی لوں مگر جب کوئی کنواں یا تالاب نظر نہ آیا تو اس نے کلہاڑی ہاتھ سے رکھ دی۔ اور پانی کی تلاش میں ادھر اُدھر پھرنے لگا۔تھوڑی دیر میں اُسے ایک تالاب مل گیا۔ جسے اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ یہ تالاب صاف اور ٹھنڈے پانی سے بھرا ہواتھا۔ پانی کودیکھ کر بوڑھے لکڑہارے کی جان میں جان آئی۔(جاری ہے)اس نے تالاب کے کنارے بیٹھ کر دو تین چلو پانی کے پئے۔خدا کی قدرت! پانی پیتے ہی بوڑھے لکڑہارے کے بدن کی ساری جھریاں جاتی رہیں۔ سر کے سفیدبال سیاہ ہوگئے۔ پہلے منہ میں ایک بھی دانت نہ تھا۔ اب سب دانت پیدا ہوگئے۔ اور بوڑھا لکڑہارا آن کی آن میں جوان ہٹاکٹاآدمی بن گیا۔لکڑہارا بڑا حیران ہوا کہ ایکاایکی یہ کیا ہوگیا۔ اُس نے جھک کرتالاب کے صاف پانی میں اپنی شکل دیکھی تو وہ بالکل جوانوں کی سی نظر آئی اب تو لکڑہارے کی خوشی کاٹھکانہ رہا۔اس نے لکڑیاں تو وہیں جنگل میں پھینکیں۔ اور خوشی سے اچھلتا کودتا گھر کی طرف چلا لکڑہارے کی بیوی نے جو ایک جوان آدمی کو گھر میں آتے دیکھا۔ تو پہلے توڈری مگر جب لکڑہارے نے کہا۔ کہ میں جادو کا پانی پی کر جوان ہوگیا ہوں۔ تو بہت خوش ہوئی۔ اور کہنے لگی مجھے بھی جلد اس تالاب کا پتہ بتاؤ۔ میں ابھی وہاں جاتی ہوں۔ اور جوان ہو کر واپس آتی ہوں۔پھر ہم دونوں بڑے مزے میں رہا کریں گے۔لکڑہارے نے بہتر کہا۔ کہ ٹھہرو میں تمہیں اپنے ساتھ لے چلتا ہوں مگر اس کی بیوی نے ایک نہ سنی۔ اور کہا نہیں تم تھک گئے ہوگے۔ تم گھر میں بیٹھو۔ اور مجھے اس کا پتہ بتادو۔ میں اکیلی جا کر پانی پی آؤں گی۔اُس پر لکڑہارے نے اس تالاب کا پتہ بتادیا۔ وہ اسی وقت جنگل کی طرف چلی گئی۔ اور تھوڑی دیر میں تالاب کے پاس پہنچ گئی۔تالاب اسی طرح پانی سے بھرا ہوا تھا۔ وہ خوشی خوشی تالاب کے کنارے بیٹھ گئی۔ اس نے سوچا میں جتنا زیادہ پانی پیوں گی۔ اُتنی ہی زیادہ جوان ہوجاؤں گی۔ یہ سوچتے ہی اس نے جلد جلد پانی پینا شروع کیا۔ اور پیٹ بھر کر پانی پیا۔ کہ منہ تک آگیا۔بہت دیر ہوگئی۔ مگر لکڑہارے کی بیوی گھر نہ پہنچی ۔ آخرلکڑہارا بے چارا اسے ڈھونڈنے نکلا۔ اور اس کی بیوی اسے کہیں نہ ملی۔وہ تالاب کی طرف گیا۔ اورچاروں طرف دیکھنے لگا۔ تالاب کے پاس ایک درخت کے نیچے اُسے اپنی بیوی کے کپڑے پڑے ہوئے نظر آئے دوڑ کروہاں گیا۔ دیکھتا کیا ہے۔ کہ ایک چھوٹی سی لڑکی جو کوئی دوڈھائی برس کی معلوم ہوتی تھی۔ کپڑوں میں لپٹی ہوئی پڑی ہے۔قصہ یہ ہوا ۔ کہ لکڑہارے کی بوڑھی بیوی نے لالچ میں آکر جادوکا پانی بہت سا پیا لیا۔ کہ وہ جوانی کی عمر سے گزرکر بچپن کے زمانے میں پہنچ گئی ۔اور جوان ہونے کی بجائے چھوٹی سی لڑکی بن گئی۔ اگر وہ پیٹ بھر کر پانی نہ پیتی۔ اور دوتین گھونٹ پی کر گھر چلی آتی۔ تو جوان بن جاتی۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ چھوٹی لڑکی نے بہت رنج کے ساتھ لکڑہارے کی طرف دیکھا۔ اور بلک بلک کر رونے لگی۔لکڑہارا اس کی صورت دیکھتے ہی بات کو سمجھ گیا۔ اس نے لڑکی کو گود میں اُٹھالیا۔ اور غمگین صورت بنائے گھر کی طرف چلاآیا۔ " شیرآیا شیر آیا دوڑنا - تحریر نمبر 926,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sher-aya-sher-aya-dorrna-926.html,"سعادت حسن منٹو:ایک اونچے ٹیلے پرگڈریے کا لڑکا دور گھنے جنگلوں کی طرف منہ کئے چلارہا تھا۔ شیر آیا شیر آیادوڑنا۔بہت دیر تک وہ اپنا گلا پھاڑتا رہا۔ اُ س کی بلندآواز بستی میں بہت دیرتک گوجنتی رہی جب چلاچلا کر حلق سوکھ گیا تو بستی سے دوتین بوڑھے لاٹھیاں ٹیکتے ہوئے آئے اور گڈریے کے لڑکے کوکان سے پکڑ کر لے گئے۔پنچایت بلائی گئی۔ بستی کے سارے عقل مند جمع ہوئے۔ اور گڈریے کے لڑکے کامقدمہ شروع ہوا۔ اُس کا جرم یہ تھا کہ اُس نے غلط خبر دی۔ اور بستی کے لوگوں کو خواہ مخواہ پریشان کیا۔لڑکے نے کہا۔ میرے بزرگو تم غلط سمجھتے ہو․․․․․ شیر واقعی نہیں آیاتھا پراس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ آہی نہیں سکتا۔بزرگوں نے کہا۔(جاری ہے)وہ نہیں آسکتا۔لڑکے نے باادب پوچھا۔کیوں؟جواب ملا۔ جنگلوں کے محکمے کے بڑے افسرنے ہمیں لکھا تھا کہ شیر بوڑھا ہوچکا ہے۔لڑکے نے کہا۔ لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ وہ جوان ہونے کے لئے بہت سی جڑی بوٹیاں کھارہاہے۔جواب ملا۔ یہ افواہ تھی․․․․․․جنگلوں کے محکمے کے بڑے افسرسے ہم نے اس بارے میں پوچھا تو اس نے ہمیں یہ لکھا تھا کہ شیر نے تو اپنے رہے سہے دانت بھی نکلوادئے ہیں، کیونکہ وہ اپنی زندگی کے باقی دن خدا کی یاد میں گزارنا چاہتا ہے۔لڑکے نے بڑے جوش کے ساتھ کہا۔ میرے بزرگو ہوسکتا ہے ایسا نہ ہو۔بزرگوں نے کہا۔ ہرگزنہیں․․․․․․․ ہمیں جنگلوں کے محکمے کے بڑے افسر پر پورا بھراسہ ہے۔ اس لئے کہ وہ سچ بولنے کی قسم کھا چکا ہے۔لڑکے نے پوچھا ۔ کیا یہ قسم جھوٹی نہیں ہوسکتی۔بزرگ غصے میں چلائے۔ ہر چیز جھوٹی کیسے ہوسکتی ہے․․․․․․ تم خود جھوٹے ہو․․․․․․․․ مکارہو․․․․چال باز ہولڑکا مسکرایا۔میں سب کچھ ہوں، لیکن اللہ کاشکر ہے کہ میں وہ شیر نہیں جو کسی وقت بھی یہاں آسکتا ہے جنگلوں کے محکمے کابڑا افسربھی نہیں جو سچ بولنے کی قسم کھا چکا ہے․․․․․میں․․․․․․․پنچایت کے ایک سفید بالوں والے بوڑھے آدمی نے لڑکے کی بات کاٹ کر کہا۔ تم اسی گڈریے کی اولاد ہو، جس کی کہانی سالہاسال سے اسکولوں میں پڑھا ئی جاتی رہی ہے۔ کان کھول کے سن لو کہ تمہارا حشر بھی وہی ہوگا جو اس کا ہوا تھا۔شیرآئے گا تو تمہاری تکہ بوٹی اڑا دیگا۔گڈریے کا لڑکا پھر مسکرایا۔ بزرگو، میں تو اسے سے لڑوں گا، مجھے تو گھڑی اُس کے آئے کا کھٹکالگا رہتا ہے۔ تم کیوں نہیں سمجھتے کہ شیرآیا شیرآیا دوڑنا، والی کہانی جواپنے چوں کو پڑھاتے ہو، آج کی کہانی نہیں آج کی کہانی میں تو شیرآیا شیرآیا دوڑنا، کامطلب یہ ہے کہ خبردار ہو، ہوشیار ہو․․․․․․․ شیر آئے نہ آئے، ہوسکتا ہے۔کوئی گیدڑہی منہ اٹھا کرادھر چلاآئے، مگر اس حیوان کو بھی تو ہمیں اپنی بستی میں گھسنے سے روکنا چاہئیے۔بزرگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ کتنے ڈرپوک ہوتم․․․․․ گیڈریے ڈرتے ہو۔گڈریے کے لڑکے نے کہا۔ میں شیر سے ڈرتا ہوں نہ گیدڑسے مگر ڈرتاہوں اس لئے کہ یہ حیوان ہیں اور ان کی حیوانیت کا مقابلہ کرنے کے لئے میں اپنے آپ کو ہمیشہ تیار رکھتا ہوں․․․․․․ میرے بزرگو، زمانہ بدل چکا ہے، اپنے اسکولوں سے خدا کے لئے وہ کتاب اٹھا لو، جس میں شیرآیا شیرآیادوڑنا، والی پرانی کہانی چھپی ہے․․․․․․ اُس کی جگہ یہ نئی کہانی پڑھاؤ۔ایک بڈھے نے کھانستے کھٹکارتے ہوئے کہا۔ بھائیو، یہ لڑکا ہمیں غلط راستے پر لے جانا چاہتا ہے۔ اس کا سر پھر گیا ہے۔دوسرے بڈھے نے غصے سے کانپتے ہوئے کہا۔ اس کا فوراََ قید کرو۔گڈریے کے لڑکے کو فوراََ جیل میں قید کردیا گیا۔اتفاق کی بات ہے اُسی شیر بستی میں داخل ہوا۔ بھگدڑمچ گئی۔ چھ لوگ بستی چھوڑ کے بھاگ گئے۔ باقی شیرنے شکار کرلئے مونچھوں کے ساتھ لگا ہوا،خون چوستاجب شیر جیل کے پاس سے گزرا۔تو اس نے لوہے کی مضبوط سلاخوں کے پیچھے گڈریے کے لڑکے کو دیکھا۔ شیر نے اُس سے کہا۔ کون ہوتم؟لڑکے نے جواب دیا۔ میں گڈریے کا لڑکا ہوں۔شیر کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ افود․․․․․․ تم ہو گڈریے کے لڑکے․․․․․․․ وہی جو میرے آنے کی اطلاع دیا کرتے تھے․․․․․․․ باہر آؤ، میں تمہیں اس کی سزا دینا چاہتا ہوں۔لڑکا مسکرایا۔ جنگلوں کے بادشاہ․․․․․․ مجھے افسواس ہے۔ کہ میں باہر نہیں آسکتا․․․․․․․ میرے بزرگوں نے جو مجھے سزادی ہے، اس نے مجھے تمہاری سزا سے محفوظ کردیا ہے․․․․․․․ اور شیر دانت پیس کررہ گیا۔ " برے اعما ل کی سزا - تحریر نمبر 925,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/buray-amaal-ki-saza-925.html,"عثمان علی بھٹی:لقمان ویسے تو بہت ذہن اور لائق بچہ تھا وہ ساتویں جماعت کا طالبعلم تھا ہر جماعت میں اول آتا تھا لیکن اس میں چوری کرنے کی ایک بری عادت تھی۔ وہ چھوٹے ہوتے ہوئے بھی اپنی امی جان کے پرس سے پیسے چوری کرتا تھا۔ اس کی یہ عادت اس کے بڑے بھائی نے کافی دفعہ سب کے سامنے بے نقاب بھی کی تھی۔ جس کی وجہ سے اس کو کافی دفعہ اس کی امی سے مار بھی پڑچکی تھی۔لیکن وہ چوری کرنے سے باز نہ آتا تھا۔ وہ چوری کرکے پیسے لاٹری میں خرچ کرتا تھا۔ وہ سارا دن لاٹری کی دکان میں رہتا ۔ اس کی امی اس کی اس عادت سے سخت پریشان رہتی تھیں۔ وہ کئی دفعہ پیارے سے بھی سمجھاچکی تھیں کہ وہ اس عادت کو چھوڑدے۔ لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگتی تھی۔ اس کے گھر کے دوسرے افراد بھی اس کی اس عادت سے واقف تھے۔(جاری ہے)ایک دفعہ کچھ یوں ہوا کہ وہ گھر سے سودا لینے کیلئے نکلا تو وہ گھنٹے ہونے کو تھے کہ اس کا کچھ اتاپتا نہ تھا۔گھر کے سب افراد بہت پریشان ہو رہے تھے۔ وہ دراصل اپنی موج مستی میں گھوم رہاتھا۔ اچانک ایک نقاب پوش نے اس کو قابو میں کیا او ر اس کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ لقمان روتا رہا لیکن اس نقاب پوش نے لقمان کی ایک نہ سنی وہ اس وقت اپنے آپ کو برا بھلا کہہ رہاتھا کہ اگر وہ اپنے والدین اور گھر والوں کی بات مان لیتا تو اس کو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔لیکن اب پچھتائے کیا ہوتا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔لقمان اسی عالم میں روتا روتا اٹھ بیٹھا اس کو اپنے اوپر یقین نہیں آرہاتھا کہ وہ اپنے بستر پر تھا اور وہ ایک خواب تھا۔دراصل وہ خوب دیکھ رہا تھا۔ وہ جب روتا روتا اٹھا تو اس کی امی جان جو اس کے پاس سوئی ہوئی تھیں۔ وہ اس کے رونے سے اٹھ بیٹھیں جب امی جان کو سنایا وہ اس وقت بہت زیادہ ڈرا اور خوفزدہ ہوا تھا۔اس کی امی جان نے اس کو تسلی دی اور سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کو وارننگ دی گئی ہے کہ تم اب بھی ٹھیک ہوجاؤ۔اور تمام بُرے اعمال ترک کرکے اللہ کے نیک بندہ بن جاؤ۔وہ اب بھی لگاتار روتا جارہا تھا۔ امی نے اُسے تسلی دی اور سمجھایا کہ تم اب بھی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو۔ بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر یہ آیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے۔چنانچہ لقمان نے اپنی امی سے وعدہ کرلیا کہ وہ آئندہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولے گا اور خاص طور پر چوری سے پرہیز کرے گا۔ لقمان کی والدہ اس کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوئیں اور اس کو انعام کے طور پر چاکلیٹ انعام کے طور پر پر دی تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہوجائے۔پیارے بچوں! اس کہانے سے یہ سبق ہے کہا ٓپ بھی لقمان کی طرح اپنے خداس ے توبہ کرلیں۔ کیونکہ یہ وقت ہے اگر دنیا میں توبہ نصیب نہ ہوئی تو آخرت میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) " دھوکہ - تحریر نمبر 924,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dhoka-924.html,"ایک عقاب اور ایک الو میں دوستی ہو گئی۔ عقاب بولا ”بھائی الو اب تمہارے بچوں کو کبھی نہیں کھاوٴں گا۔ مگر یہ تو بتاوٴ کہ ان کی پہچان کیا ہے۔؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی دوسرے پرندے کے بچوں کے دھوکے میں ہی کھا جاوٴں۔“ الو نے جواب دیا۔ ”بھلا یہ بھی کوئی مشکل بات ہے۔ میرے بچے سب پرندوں کے بچوں سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ ان کے چمکیلے پر دیکھ کر تم ایک ہی نظر میں پہچان جاوٴ گے اور۔“ عقاب نے الو کی بات کاٹ کر کہا ”بس بس میں سمجھ گیا۔ اب، اب میں کبھی دھوکا نہیں کھا سکتا۔ مگر بھائی ہر بات کو پہلے ہی پوچھ لینا اچھا ہے۔ پھر پچھتانے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اچھا پھر ملیں گے۔ اللہ حافظ۔“ یہ کہہ کر عقاب اڑ گیا۔ دوسرے دن عقاب شکار کی تلاش میں ادھر ادھر اڑ رہا تھا کہ اسے ایک اونچے درخت کی شاخ پر کسی پرندے کا گھونسلا نظر آیا۔(جاری ہے)گھونسلے کے اندر چار پانچ کالے کلوٹے بد شکل بچے موٹی اور بھدی آواز میں چوں چوں کر رہے تھے۔ عقاب نے سوچا یہ بچے میرے دوست الو کے ہرگز نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ نہ تو یہ خوبصورت ہیں اور نہ ان کی آواز میٹھی اور سریلی ہے۔ یہ سوچ کر عقاب نے ان بچوں کو کھانا شروع کر دیا۔ وہ سب بچوں کو کھا چکا تو الو اڑتا ہوا آیا اور شور مچا کر کہا۔ ”ارے تم نے یہ کیا کیا؟ یہ تو میرے بچے تھے۔“ عقاب گھبرا کر اڑ گیا۔ ایک چمگاڈر نے جو پاس ہی اڑ رہی تھی الو سے کہا ”اس میں عقاب کا کوئی قصور نہیں۔ ساری غلطی تمہاری ہے جو کوئی کسی کو دھوکا دے کر اپنی اصلیت چھپانے کی کوشش کرتا ہے اس کا یہی انجام ہوتا ہے۔“ " سیدھا راستہ - تحریر نمبر 923,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/seedha-raasta-923.html,"شیریں حیدر:آپ بہزاد صاحب بول رہے ہیں؟ایک انجان نمبر سے آنے والی فون کال کرنے والے نے مجھ سے پوچھا میں نے ہاں میں جواب دیا اور پوچھا کہ آپ کو بول رہے ہیں؟میں اسلم صاحب کا بیٹا بول رہاہوں۔اچھا اچھا وہ اسلیم صاحب! میں نے اس کے تعارف سے پہچان لیا: کیسے ہو تم بیٹا! کیسے فون کیا اور اسلم صاحب خود کیسے ہیں۔میرے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ اسے کوئی کام ہوگا تو اسلم صاحب نے کہا ہوگا کہ ان کانام لے کر وہ خود ہی مجھ سے بات کرلے۔ اسلم صاحب سے رابطہ نہ تھا۔ اب یقینا ان کے بیٹھے کوکوئی ملازمت وغیرہ چاہیے ہوگی، آج کل کے نوجوانوں کا اور مسئلہ ہے بھی کیا۔ابا کے انتقال کو تولگ بھگ چھے ماہ ہوگئے ہیں انکل․․․․․ اس نے کہا تو مجھ پر گھڑوں پانی پڑگیا۔(جاری ہے)انا اللہ وانا الیہ راجعون․․․․ میں نے کہا اور اگلا سوال کیا: کیسے؟بس انکل ! اچانک ہی․․․․․․ا س کی آواز بھرانے لگی۔بتائیں بیٹا! میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟ میں نے خلوص سے اس سے سوال کیا، اب تو اس کی ہر طرح سے مدد کرنا میرا اخلاقی فرض تھا۔میرے لیے دعا کیا کریں انکل! آپ ابا کے اچھے دوستوں میں تھے․․․․ میں نے سادگی سے کہا یاشاید طنز کیا تھا۔اچھے دوست ہیں کہ ان کی وفات کاہی علم نہیں ہوا․․․․․ میں نے اپنی خفت مٹاتے ہوئے کہا۔کوئی بات نہیں انکل! آج کل ہرکوئی اپنی زندگی میں اسی طرح مصروف ہے۔ اس نے میر تسلی کو ہی کہا ہوگا۔انکل! آپ سے پوچھنا تھا کہا ٓپ نے ابا کے ساتھ کوئی رقم کاربار میں لگائی تھی؟ کچھ یاد تو پڑتا ہے․․․․․․ میں نے ذہن پرزور دے کرکہا۔کتنی رقم تھی وہ؟ اس نے سوال کیا۔غالباََ ایک لاکھ رپے تھے۔ میں نے یاد کرکے کہا، حقیقت تو یہ ہے کہ میں ان پیسوں کے بارے میں بھول ہی چکا تھا، لگ بھگ ایک سال پرانی بات تھی۔شاید یہ لڑکا سمجھ رہاہے کہ میں کوئی بہت امیر آدمی ہوں اور اس کی کوئی مدد کرسکوں گا، ایک بدگمانی سی دل میں آئی۔ مجھے یادآگیا تھا کہ اسلم صاحب نے فون کرکے کہا تھا کہ وہ لاہور میں ایک رہایشی اسکیم میں کچھ پلاٹ خرید رہے ہیں اور اگر آپ اس کاروبار میں دل چسپی رکھتے ہیں تو آپ بھی شریک ہوسکتے ہیں۔آپ جتنی رقم لگائیں گے، اس پر اسی حساب سے منافع مل جائے گا۔ اب مجھے ایک لاکھ رپے کی یاد آئی ، جو میں قطعی بھول چکا تھا۔ افسوس ہوا کہ اسلم صاحب کی وفات کے ساتھ ہی میری وہ پونجی بھی لٹ گئی۔ اگر یہ رقم انھیں نہ دی ہوتی تو اس کاکوئی اور مصرف تو ہوتا۔بس میری تووہی پونجی تھی بیٹا! میں نے معذرت کے انداز میں کہا: اس کے علاوہ تو میرے پاس کوئی اور بچت نہیں۔میں نے اس کے ممکنہ سوال سے پہلے ہی معذرت کرلی۔انکل ! ابا کی وفات کے بعد کافی وقت تو ہمیں سنبھلنے میں لگ گیا۔ آہستہ آہستہ اس قابل ہوئے ہیں کہ اپنے آپ کو سنبھال سکیں۔توگویا اب وہ اپنے سوال کو گھما پھرا کر پیش کرے گا۔ میں نے دل میں سوچا۔میرے چچا امریکا سے لوٹے ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ مل کر ابا کے سارے کاغذات نکالے اور ان ہی کاغذات سے ہمیں آپ کے بارے میں علم ہوا اور شکر ہے کہ آپ کا فون نمبر ابھی تک تبدیل نہیں ہوا، وہ ورنہ بہت سے لوگ جنھوں نے ابا کے ساتھ کاربار میں شراکت کی تھی ، ان کے نمبر بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔اب ان کے پتوں پر میں نے انھیں خط لکھے ہیں۔ اس کاروبار کے رکارڈ کے مطابق جب ابا نے ان پلاٹوں کو بیچا تو آپ کی ایک لاکھ کی رقم پر 36ہزار رپے کا منافع ہوا ۔ اب آپ بتائیں کہ آپ کی اصل رقم اور منافع ، میں کس اکاؤنٹ میں آپ کو بھجواؤں؟ اس کا یہ کہنا تھا کہ میرا منھ کھلا رہ گیا اور مارے حیرت کے ایک لفظ نہ بول سکا۔اس نے پھر کہا: انکل! پلیزبرا نہ مانیے گا، اصل میں جب انھوں نے پلاٹ بیچے تو ان ہی دنو ں ان کا انتقال ہوگیا، مگرہر چیز انھوں نے تفصیل سے لکھ کر رکھی تھی، بس چچا کا انتظار تھا کہ وہ آئیں تو ہم دونوں مل کر سارے حسابات چیک کریں اورپھر آپ سب لوگوں کو مطلع کریں۔میں نے اس سے کہا کہ اپنے اکاؤنٹ کی تفصیلات میں بھجواتا ہوں اور فون بند کر کے میں نے اپنا اکاؤنٹ نمبر وغیرہ موبائل فون کے ذریعے سے بھیج دیا۔ایک گھنٹے کے اندر اندر ا س جواب آگیا کہ اس نے وہ رقم میرے اکاؤنٹ میں منتقل کردی ہے۔ میں نے اس لڑکے کی ایمان داری کا یہ واقعہ کل سے آج تک دسیوں لوگوں کو سنایا اور میں اس قدر متاثر تھا کہ ماں باپ نے اس کی تربیت کتنے اچھے انداز میں کی ہے۔ابھی جب میں گھر کی طرف آرہاتھا تو اس کا فون دوبارہ آیا، میں اس کال کو سننے سے کترارہاتھا کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دے کہ اس نے 36ہزار رپے مجھے غلطی سے ادا کردیے ہیں۔میں نے فون سناتو اس نے کہا: انکل! وہ میں نے معذرت کے لیے کال کی ہے، آپ کے حساب میں تھوڑی گڑبڑ ہوگئی ہے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ میرے دل میں وسوسہ پیدا ہوگیا۔ میں تو اس رقم سے جانے کتنے منصوبے بناچکا تھا۔جی بیٹا میں نے حساب نہیں کیا، آپ نے ہی کیا ہے، اب آپ بتادیں کہ کیا گڑبڑ ہے؟ میں نے اس سے دل تھام کرسوال کیا۔انکل! دراصل ہمارے حساب سے آپ کو چودہ ہزار رپے․․․․․․ میری سانس رکنے لگی چودہ ہزار اگر اسے واپس کرنا پڑے تو گویا صرف بائیس ہزار رپے مجھے ملیں گے؟ اس کے سانس لینے کے وقفے میں، میں اتنا ہی کچھ سوچ سکا۔ اس نے جملہ مکمل کیا، مزید دینا ہوں گے، کیوں کہ آپ کا منافع پچاس ہزار بنتا ہے۔میں نے سکون کا سانس لیاا ور اس کا شکریہ ادا کیا۔آپ کے اکاؤنٹ میں رقم بھجوادوں انکل؟ اس نے سوال کیا۔نہیں بیٹا! میں خود تمھارے پاس آکر رقم لوں گا۔ میں نے اس سے کہا اور اس کاپتا پوچھ کر اس کے پاس آگیا۔اس لیے نہیں کہ مجھے تسلی نہ تھی، بلکہ اس لیے کہ اس نایاب کردار کے بچے سے ملوں، کہاں آج کے دور میں ایسے انسان ملتے ہیں؟ میں تو اس رقم کو بھلا بیٹھا تھا۔آفرین ہے اسلم صاحب پراور ان کی بیوہ پر کہ انھوں نے اپنی اولاد کی اتنی اچھی تربیت کے ساتھ پرورش کی۔میں جاکر اس بچے سے ملا وہ ابھی تک ایک طالب علم ہے اور باپ کی وفات کے صدمے سے سنبھلنے کی کوشش کررہاہے۔ وہ گھر کے مستقبل کا سرپرست اور اپنی بیوہ ماں اور بہن بھائیوں کا سہارا بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ اسے لمبی عمردے کہ اس طرح کے نوجوان ہی ہمارے مستقبل کی اُمید ہیں۔ اللہ اسے صحت اور خوشیوں کے ساتھ اپنے سارے فرائض نبھانے کی ہمت دے․․․․․ آمین۔ " جھوٹ نہ بولنا کبھی - تحریر نمبر 921,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jhoot-na-bolna-kabhi-921.html,"عظمیٰ گل جھنگ:قمر صاحب کا آج آفس جانے کا بالکل موڈنہیں تھا اور اگر ان کی بیوی بچوں کو ان کی چھٹی کاعلم ہوجاتا تو بیوی شاپنگ پرجانے کا اصرار کرتیں اور بچے سکول نہ جاتے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے۔ ابھی اس سوچ میں ہی تھے کہ ریحانہ بیگم اندر داخل ہوئی اورکہنے لگی کہ آپ ابھی تک نہیں سواسات ہوگئے ہن جلدی سے آئیں ناشتہ ٹھنڈا ہورہاہے۔رہنے دو بیگم میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے قمرصاحب نڈھال سی آواز میں بولے ہائے ہائے کیا ہوا آپ کی طبعیت کو خرم مانیہ ادھر توآئیں ریحانہ بیگم گھبرا کراپنے دونوں بچوں کو پکارنے لگی تو وہ دونوں یونیفارم سکول کا پہنے ہوئے تھے۔ بھاگے بھاگے آئے کیاہوا ہے ممااور پاپا آ پ کیوں نہیں اٹھ رہے۔ خرم نے پوچھا بیٹا آپ کے پاپا کی طبعیت ٹھیک نہیں تو پھر ہم سکول نہیں جائیں گے مانیہ بولی قمر صاحب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے نہیں نہیں بیٹا آپ سکول جاؤ میں نے ابھی دوائی لی ہے اور پہلے سے بہترہوں مگر آپ نے تو ابھی ناشتہ بھی نہیں کیا۔(جاری ہے)ریحانہ بیگم نے کہا کہیں آپ نے ناشتہ کیے بغیر تو دوائی نہیں لے لی۔ خرم نے پوچھا۔نہیں بیٹا صبح جب واک کیلئے گیا تھا تو میں نے وہیں ریڑھی سے نان چنے کھالئے تھے۔ اومیرے خدایا آپ لوگوں کوباہر کی چیزیں کھانے منع کرتے ہیں اور آج آپ نے خود باہرسے کھایا ہے اس لئے آپ کی طبعیت خراب ہوئی ہے۔ہمارے ساتھ والے ہمسائے نذیر صاحب نے بھی پرسوں ریڑھی سے ناشتہ کیا تھا جس کی وجہ سے ان کو ہیضہ ہوگیا ہے اور وہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے ۔ہائے ہائے میں کیا کروں ریحانہ بیگم دونوں ہاتھ ملتے ہوئے کہنے لگیں۔خرم اوخرم جلدی سے اپنی خالہ رافعہ کو فون کرکے بلاؤ۔ میں اکیلی جان کیسے ان کو ڈاکٹروں کے پاس لے کر جاؤں گی۔ قمر صاحب جو نڈھال سے بیڈپر لیٹے ہوئے تھے یہ سنتے ہی ہشاش بشاش ہوکر اٹھ بیٹھے کیونکہ ریحانہ بیگم کی یہ بڑی بہن جب بھی اپنے چھ سات بچوں کے ساتھ تشریف لاتی تو ان کا جینا حرام ہوجاتا۔بچے تو آفت تھے ناہی فریح میں کوئی پھل چھوڑتے اور لگاتار گھر میں کئی دن گوشت پکتا اور ان کے پورے مہینے کا بجٹ خراب ہوجاتا۔ ریحانہ بیگم نے قمر صاحب کو ایک دم بیڈ سے اٹھ کریوں ٹھیک ٹھاک دیکھا تو بولیں۔ ارے آپ کھڑے کیوں ہوگئے ہیں؟ آپ آرام سے لیٹ جائیں۔میںآ پ کیلئے سوپ بناکرلاتی ہوں سوپ نہیں میرے لئے ناشتہ لاؤ اور بچو اپنے بیگزمیں کاپیاں اور کتاب چیک کرلیں میںآ پ کی میڈم سے معذرت کرلوں گا آج ہم تھوڑا لیٹ ہوگئے ہیں اور بیگم آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ کوکسی کوبلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔پہلے قمر صاحب کاجی چاہا کہ بیگم اور بچوں کو سچ بتادوں لیکن اس سچ کا بچوں پر اثر نہ پڑجائے کہیں بچے ایسا کرنا شروع نہ کردے یہی سوچ کروہ چپ ہوگئے اور سارا راستہ ندامت کے مارے سوچتے رہے کہ واقعی بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کی خاطر انسان کو سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اور سچ بولنا چاہا تو وہ میرے گلے میں ہی اٹک گیا۔ یااللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمااور سچ بولنے کی توفیق عطا فرما۔آمین۔ادھر ریحانہ بیگم ناشتے کے برتن سمیٹتے ہوئے مسلسل بڑ بڑا رہی تھیں یااللہ ! کیسازمانہ آگیا ہے۔ لوگ مہمانوں کی آمد کاسنتے ہی گھروں سے باہر نکل جاتے ہیں۔ بیچاری میری آپا کانام سنتے ہی ایسے بیماری رفوچکر ہوئی۔ خود بھی فٹ سے تیار ہوکربچوں کو بائیک پربٹھا کر ایسے ہواؤں میں اڑا کر لے گئے گویا میری آپانہ ہوئیں کوئی اور ہی دنیا کی مخلوق ہوئیں جو سب کے سب آنا فانا غائب ہوگئے۔نتیجہ بچو! یہ بات سچ ہے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے۔ آپ کاکتنا بڑا نقصان ہی کیوں نہ ہوجائے لیکن ہمیشہ سچ بولو۔ " لالچی کب آئے گا - تحریر نمبر 917,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/laalchi-kab-aye-ga-917.html,"مرزا ظفربیگ:کسی گاؤں میں چار دوست انور، جمال، فرید اور کامران رہتے تھے۔ جو بہت غریب تھے۔ دن رات محنت کرتے ، مگر پھر بھی ان کی غربت دور نہ ہوتی تھی۔ایک روز ان کے گاؤں میں ایک بزرگ آئے۔ انہوں نے چاروں دوستوں کی حالت دیکھی توا نھیں ترقی کی دعا دی اور ان سے کہا: اپنی قسمت آزمانے ” گل پور“ نامی قصبے جاؤ، وہاں سے تمھیں اتنا کچھ ل جائے گا کہ تمھارے حالابدل جائیں گے، مگر خبردار زیادہ لالچ نہ کرنا، بلکہ جو کچھ ملے، اس پر صبر وشکر کرکے گھر واپس آجانا، کیوں کہ لالچ بری بلا ہے۔چاروں دوستوں نے بزرگ کی بات سنی اور سفر پر روانہ وگئے۔ سفر خاصالمبا تھا۔ وہ آپ میں باتیں کرتے اور ایک دوسرے کو قصے کہانیاں سناتے چلتے رہے اور ایک ماہ میں گل پور پہنچ گئے، جہاں تانبے کی کان تھی۔(جاری ہے)وہاں ایک جگہ لکھاتھا: تانبے کے جتنے سکوں کی تمھیں ضرورت ہے، لے لو اور چلے جاؤ۔انورنے اپنے دوستوں جمال ، فرید اور کامران سے کہا: میں تو یہاں سے تانبے کے سکے لے کر واپس جا رہا ہوں۔جمال، فرید اور کامران نے ہنستے ہوئے کہا: یہ تانبے کی کان والی جگہ ہے، آگے یقینا چاندی کی کان آئے گی۔ تم صبرتوکرو۔مگرانورنے کہا: میرے لیے یہی کافی ہے۔ یہ کہہ کر وہ تانبے کے ڈھیروں سکے لے کروپاس چلاگیا اور باقی تینوں دوست آگے بڑھ گئے۔انھیں چاندی کی کان کی تلاش تھی۔ اب سفر مشکل ہوگیا تھا۔ کھانا بھی ختم ہورہاتھا۔ ان کی ٹانگیں دکھنے لگیں تھی۔آخر کئی دنوں کے سفر کے بعد وہ چاندی کی کان ولے علاقے میں پہنچ گئے ۔وہاں بھی ایک بورڈ پروہی عبارتے لکھی تھی: چاندی کے جتنے سکوں کی تمھیں ضرورت ہے، لے لو اور چلے جاؤ۔اب جمال نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا: میں تھک چکاہوں، یہا ں سے چاندی کے سکے لے کر واپس جارہاہوں۔یہ سن کر فرید اور کامران نے کہا: تھوڑا صبرکرلو۔ ہوسکتا ہے آگے سونے کی کان ہماری منتظر ہو ۔اُدھر فرید اور کامران سونے کی کان کی تلاش میں آگے سفر کرتے رہے۔ وہ دونوں راستے میں خیالی پلاؤ بھی پکارہے تھے کہ جب سونے کی کان پر پہنچیں گے تو وہاں سے کتنی دولت حاصل کریں گے اور کس طرح پورے علاقے کے بادشاہ بن جائیں گے، مگر سفر بہت لمبا اور کٹھن تھا۔ جلد ہی وہ ہمت ہارنے لگے۔ کھانا پہلے ہی ختم ہوچکا تھا، مگر کسی نہ کسی طرح وہ چلتے رہے اور آخر سونے کی کان پر پہنچ گئے، جہاں فرید نے کامران کو اپنا فیصلہ سنادیا: میں اپنی ضرور کاسونا لے کرواپس جارہاہوں۔کامران نے کہا: میں توہیروں کی تلاش میں آگے جاؤں گا، میرے لیے یہ سوناکافی نہیں ہوگا۔یہ سن کر فرید نے کامران سے کہا: بے وقوفی مت کرو، یہاں سے یاآگے کے قصبے سے چاہے جتنی دولت لے لو، مگر گھر پہنچتے پہنچتے وہ بہت کم رہ جائے گی، راستے میں بھی توخرچ کرنی پڑے گی۔مگرکامران نہ رکا، وہ آگے چلا گیا اور فرید اپنی ضرورت کاسونا لے کر واپس لوٹ گیا۔کافی طویل سفر کے بعد کامران ہیروں کی کان پرپہنچا، جہاں اس نے ایک ایسا آدمی دیکھا، جس کے گلے میں لوہے کی زنجیر پڑی ہوئی تھی اور وہ بری طرح چیخ رہاتھا۔کامران کودیکھ کر اس نے ہنستے ہوئے کہا: آگیا، آگیا ، ایک بے وقوف اور آگیا۔ اب یہ زنجیر اس لالچی کے گلے میں پڑے گی۔ابھی اس نے اتنا ہی کہاتھا کہ اس کے گلے میں سے زنجیر نکل کر کامران کے گلے میں پڑگئی۔کامران نے ہڑبڑاکراس کی طرف دیکھا تو وہ آدمی بولا: میں بھی تمھاری طرح ہیروں کے لالچ میں یہاں آیاتھا۔ میرے پاس بہت کچھ تھا، مگر مجھے زیادہ کی ہوس تھی، اسی لیے میں یہاں آگیا اور پھنس گیا، اب میں آزاد ہوں اورتم قیدی، ہیرں کا کوئی اور لالچی یہاں آئے گا تو تمھیں نجات ملے گی۔یہ کہہ کروہ آدمی وہاں سے چلاگیا تو کامران نے زنجیر سمیت وہاں سے دوڑ لگادی۔ وہ پاگلوں کی طرح چلتا رہا، لیکن راستہ بھٹک گیا۔ اس کے کپڑے پھٹ گئے، پوراجسم زخموں سے بھر گیا ۔ برسوں سے وہ کسی لالچی کاانتظار کررہاہے۔ جب کوئی لالچی آئے گا تب ہی اسے اس عذاب سے نجات ملے گی۔ " شکریہ - تحریر نمبر 916,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shurkiya-916.html,"مصعب، مصعب کہاں ہو تم۔عمیر نے گھر میں داخل ہوتے ہی اونچی اونچی آوازیں دینا شروع کردیں۔کیا ہے بھائی، یہاں ہوں۔ مصعب نے کھڑکی سے جھانک کر نیچے صحن میں کھڑے عمیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، اور یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے۔ اس نے اوپر سے ہی سوال داغا نیچے آوٴ گے تو بتاوٴں گا۔ عمیر نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اشتہار کو پیٹھ پیچھے چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔نہیں، میں اور اسامہ بھائی چھٹیوں کا ہوم ورک کررہے ہیں تم بھی اوپر ہی آجاوٴ۔ مصعب نے فیصلہ کن لہجے میں کہا اور کھڑکی بند کردی عمیر نے سیڑھیاں چڑھ کر کمرے میں پہنچتے ہی ہاتھ میں پکڑا اشتہار مصعب کی آنکھوں کے سامنے کھول کر لہرادیا۔جیسے جیسے وہ اشتہار پڑھتا گیا اس کے چہرے کے رنگ میں تبدیل آتی گئی یا ہو، اشتہار پڑھتے ہی اس نے لوفرانہ قسم کا نعرہ لگایا اور بڑی خوشی سے کہا۔(جاری ہے)چلنا کب ہے۔کل شام چھ بجے۔نہیں پیسے میں نے ابو سے لے لیے ہیں لیکن ٹکٹ لینے اکٹھے چلیں گے بلکہ اب تو اسامہ بھائی کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے عمیر نے صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا۔ان کا نیا دوست اسامہ جو پہلی دفعہ ان کے گھر آکر ان کے ساتھ ہوم ورک میں شریک تھا مگر اب تک خاموش بیٹھا تھا بولا، کیسے ٹکٹ! خیر تو ہے کہاں جانا ہے۔وہ اسامہ بھائی ایک بہت بڑی خوشخبری کی بات ہے آپ بھی سنیں گے تو خوش ہوجائیں گے بس یوں سمجھیں کہ ہمارے تو وارے نیارے ہوگئے ۔سچ پوچھو تو اسے ٹی وی پر دیکھ دیکھ کر تھک چکا تھاکتنا مزہ ہوگا جب حقیقت میں اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پرفارم کرتے دیکھوں گا۔مصعب نے بڑی خوشی خوشی تفصیل بتائی اس کا اندازہ تھا کہ وہ واقعی کسی کو بڑی توجہ اور حیرت سے دیکھ رہا ہو۔میں سمجھا نہیںآ خر آپ دونوں کھل کر مجھے بات کیوں نہیں بتا رہے کیسی خوشخبری۔ کسے ٹی وی پر دیکھ دیکھ کر تھک گئے۔اس نے دونوں کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔ ارے اسامہ بھائی آپ کو نہیں پتا کل جیفکو گراوٴنڈ میں میلہ شروع ہورہا ہے اور اس میں کل شام موسیقی کا بڑا شو ہوگا ۔ جس میں مختلف ملکوں کے طائفے روشن خیالی کا پرچار کرنے کے لیے آرہے ہیں اور آپ کو تو پتا ہی ہے جب سے ہمارے ملک کی بھارت سے دوستی کی پلنگیں بڑھی ہیں تب سے فنکاروں۔گلوکاروں اور کھلاڑیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔اسی سلسلے میں مصعب کی پسندیدہ بھارتی گلوکارہ پہلی مرتبہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس شو میں شرکت کے لیے آرہی ہیں پہلے تو مجھے خود یقین نہ آیا کہ اتنی بڑی گلوکارہ ہمارے سا شہر میں آرہی ہیں مگر اس کی تصویر دیکھ کر میں مطمئن ہوگیا۔ ویسے کتنا مزہ آئے گا جب کل آپ بھی ہمارے ساتھ پہلی نشستوں پر بیٹھ کر رنگا رنگ تقریب کا لطف اٹھا رہے ہوں گے۔عمیر نے مکمل تفصیلات چٹخارے لے لے کر بتاتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی ایک دفعہ پھر اشتہار کھول کر اسامہ کے سامنے کردیا۔بے ہنگم قسم کے پوسٹر پر ایک عورت کو بے ہودہ قسم کا ڈانس کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا ساتھ ہی بہت سے لوگوں کے نام لکھے گئے تھے جو روشن خیالی کا پرچار کرنے پاکستان آرہے تھے۔اف میرے خدا، کہتے ہوئے اسامہ نے سر پکڑ لیا اور نہایت ہی افسردہ ہو کر آہستہ سے زمین پر بیٹھ گیا۔کیوں اسامہ بھائی کیا ہوا۔ وہ دونوں اسامہ کو ایسے بیٹھتے ہوئے دیکھ کر ایک ساتھ چیخے۔بیٹھو، اس نے ہاتھ کے اشارے سے دونوں کو اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا۔دیکھو چونکہ میں آپ لوگوں کا نیا دوست بنا ہوں اس لیے پہلے تو میں آپ کے مزاج سے لاعلم تھا جبکہ میں جان چکا ہوں تو میں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں امید ہے آپ لوگ ناراض نہیں ہوں گے۔اسامہ نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ نہیں بالکل نہیں۔ آپ تو ہمارے اتنے اچھے دوست ہیں بھلا آپ کی باتوں کا ہم برا کیوں مانیں گے مصعب نے کہا اور عمیر نے اس کی تائید میں سر ہلایا۔اگر آپ ناراض نہیں ہوتے تو پھر سنومیں آپ کے ساتھ نہیں چل سکتا دونوں اپنی جگہ سے اس طرح اچھلے جیسے اسپرنگ لگ گئے ہوں۔لیکن کیا بات ہے کہ آپ ہمارے ساتھ شو میں شریک نہیں ہوسکتے ۔اس لیے کہ رقص و سرور کی محفلیں، راگ رنگ،ناچ گانے، کھیل تماشے، ورائٹی شو وغیرہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کھلی بغاوت ہے اور ایسی محفلوں میں شرکت حرام اور عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔کیا، وہ دونوں بری طرح بوکھلا گئے۔ کیا واقعی۔ہاں!کیا تمہیں معلوم نہیں کہ گانے بجانے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا۔نہیں۔ مہربانی فرما کر اسامہ بھائی بتادیں کہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے کیوں کہ مجھے تو جنون کی حد تک گانے سننے کا شوق ہے۔ہاں، ہاں ضرور سنو۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت میں بعض لوگ غرق ہوں گے اور ان کی صورتیں بھی مسخ ہوں گیجب گانے والی عورتیں اور آلات لہو لعب (ٹی وی، وی سی آر، باجہ وغیرہ ) ظاہر ہوں گے۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ گانے اور باجوں سے بچو، میرے رب نے مجھے منہ اور ہاتھ سے (ہر قسم کے باجوں) کو مٹادینے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اللہ لعنت فرماتا ہے اس شخص پر جو گانے بجانے کا کام کرے یا گھر میں اس کا اہتمام کرے۔وہ دونوں جیسے بھی تھے آخر تھے مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سنتے ہی ان دونوں کے سر ندامت سے جھکتے چلے گئے کچھ دیر خاموشی کے بعد مصعب نے سر اٹھایا تو دو موٹے موٹے آنسو اس کے رخساروں پر لڑھک گئے اور وہ روہانسی آواز میں بولا۔اسامہ بھائی میں کس منہ سے آپ کا شکریہ ادا کروں کہ آپ نے احادیث کی روشنی میں ہمیں موسیقی کی مذمت کے بارے میں بتایا۔واقعی، آج سے پہلے میں نے جو کچھ بھی کیا لاعلمی میں کیا اب میں آئندہ سے کسی قسم کی موسیقی کی محفل میں شرکت نہیں کروں گا اور نہ ہی گانے سنوں گا اس نے دونوں ہاتھ کانوں کو لگاتے ہوئے کہا۔ اور میں بھی عمیر نے سر اٹھاتے ہوئے پرعزم لہجے میں کہا اور نفرت سے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پوسٹر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔شاباش میرے دوستو، تم سے یہی امید تھی کیوں کہ کوئی بھی مسلمان جان بوجھ کر کسی برائی کا کام نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ شیطان کے بہکانے پر اس کے جال میں آجاتا ہے ہمیں چاہیے اللہ رب العزت سے اپنے گزرے ہوئے گناہوں کی معافی مانگیں اور آئندہ بھی گناہ نہ کرنے کا عزم کریں۔اس کے بعد اسامہ نے اپنی خوش آواز قرات میں سورہ آل عمران کی چند آیات کی تلاوت کرکے اس کا ترجمہ پڑھا تو بے اختیار دونوں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ترجمہ: اور اہل ایمان لوگوں میں سے جب کوئی کھلی بے حیائی یا اپنے حق میں کوئی ظلم کر بیٹھتے ہیں تو وہ اللہ کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہ کون بخش سکتا ہے اور وہ جان بوجھ کر اپنے (برے) کاموں پر اڑے نہیں رہتے۔اس پر دونوں کی دھاڑیں بندھ گئیں اور عمیر نے آگے بڑھ کر کہا۔ اسامہ بھائی ہم دونوں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں دوزخ کا ایندھن بننے سے بچالیا۔نہیں نہیں اس میں شکریہ کی کیا بات ہے یہ تو میرا دینی و اخلاقی فرض تھا کہ آپ کو برائی سے نکال کر نیکی کی طرف لاوٴں بلکہ شکریہ تو مجھے آپ دونوں کا ادا کرنا چاہیے کہ آپ دونوں نے گناہوں والی زندگی سے نکل کر رب کی رضا والی زندگی کا آغاز کیا۔اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبرابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ آذان کی آواز گونجنے لگی موذن صاحب نے سب کو کامیابی کی دعوت دی اور نماز کی طرف بلایا تو تینوں دوست ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گناہ کی دعوت والے پوسٹر کے پرزوں کو پاوٴں تلے روندتے ہوئے رحمن سے صلح کرنے مسجد کی طرف چل پڑے۔ " سادھو اور راجا - تحریر نمبر 913,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sadhu-or-raja-913.html,"کسی ملک میں ایک راجا رہتا تھا۔ اس کے دربارمیں ایک مرتبہ ایک سادھو آیا۔ راجا نے اس سے پوچھا:” سادھو مہاراج! دنیا میں رہ کر جو اپنی زندگی صحیح طریقے سے خدا کی عبادت اور لوگوں کی خدمت کرکے گذارتے ہیں وہ بڑے ہیں یا وہ جو دنیا سے دور رہ کر جنگل بیابان میں جابستے ہیں اور خدا کی عبادت کرتے ہیں وہ بڑے ہیں؟“سادھونے جواب دیا :” اے راجا! دونو ں ہی اپنی اپنی جگہ بڑاکہلانے کاحق رکھتے ہیں۔“راجا نے اس کی کوئی مثال پوچھی۔ تو سادھو نے کہا :” ٹھیک ہے لیکن اس کے لیے آپ کو کچھ دن میرے ساتھ سفر کرنا پڑے گا۔“راجا نے سادھو کی بات مان لی اور وہ دونوں گھومتے گھومتے ایک دن ایک ملک میں پہنچے۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک میدان میں کافی مجمع لگا ہو ا ہے۔(جاری ہے)پوچھنے پر پتا چلا کہ آج اس ملک کی شہزادی کا سوئمبر ہے۔ وہاں کے راجا نے یہ منادی کروادی تھی کہ:” جس کے ساتھ شہزادی کی شادی ہوگی اسے میری موت کے بعد پوری سلطنت سونپ دی جائے گی اور وہ اس ملک کا راجا کہلائے گا۔“شہزادی بہت زیادہ خوب صورت تھی اور وہ اپنے ہی جیسے کسی خوب صورت شہزادے سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ یوں تو سوئمبر میں حصہ لینے کے لیے ایک سے ایک شہزادے آئے لیکن کوئی بھی شہزادی کو پسند نہ آیا۔ تب ہی وہاں ایک نوجوان سادھو آیا۔ راج کماری نے جیسے ہی اس جوان سادھو کو دیکھا اسے پسند کر بیٹھی اور اس کے گلے میں مالا ڈالنے چل پڑی لیکن وہ سادھو وہاں سے جانے لگا۔تب راجا نے نوجوان سادھو سے کہا :” اگر تم میری بیٹی سے شادی کرلو گے تو میں اسی وقت میری آدھی سلطنت تمہیں دے دوں گا اور میری موت کے بعد تم پورے ملک کے راجا کہلاوگے۔ “” میں نے تو دنیا کو خیر باد کہہ دیا ہے اب مجھے شادی بیاہ اور دنیا سے کوئی مطلب نہیں۔“ اتنا کہہ کر سادھو وہاں سے چل پڑا۔نوجوان سادھو کو جاتے ہوئے دیکھ کر شہزادی بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔یہ سب منظر راجا اور سادھو دونوں غور سے دیکھ رہے تھے۔ اچانک جنگل میں جاکر وہ نوجوان سادھو کہیں غائب ہوگیا ۔ شہزادی ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئی۔اسی درخت پر ایک چڑیا اور چڑا اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ سردی کا موسم تھا۔ چڑا نے چڑیا سے کہا:” یہ ہمارے مہمان ہیں ، ہمیں ان کی خاطر مدارات کرنی چاہیے۔ انھیں ٹھنڈ لگ رہی ہے۔ مَیں ایک جلتی ہوئی لکڑی لے کر آتی ہوں۔“ یہ کہہ کر چڑا وہاں سے اڑ گیا اور کچھ دیر بعد کہیں سے ایک جلتی ہوئی لکڑی لے کر آیا۔ چڑے نے اْس لکڑی کو نیچے گرا دیا اس کے بعد دونوں نے اس میں اور لکڑیاں ڈال کر اسے جلا دیا۔اس کے بعد چڑیا نے چڑے سے کہا :” انھیں بھوک لگی ہوگی ، لیکن ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ جب کہ یہ ہمارے مہمان ہیں اب ہم کیا کریں؟“ یہ سن کر چڑا اسی آگ میں کود پڑا اور بھون گیا۔چڑیا نے سوچاکہ میں اپنے خاوند کی محنت کو ضائع نہیں جانے دوں گی۔ یہ لوگ تین افراد ہیں۔ جب کہ پرندہ ایک ہی۔ چڑیا بھی آگ میں کودپڑی۔سادھو نے راجا سے کہا :” دیکھا آپ نے ۔اگر آپ کو دنیا ترک کرنا ہے تو اس نوجوان سادھو کی طرح بنو جس کے لیے اس شہزادی نے محل اور سلطنت چھوڑدی ہے اور اگر دنیا میں رہ کر کچھ اچھا کام بھی کرنا ہے تو چڑیا اور چڑے کی طرح بنو کہ ان لوگوں نے دوسروں کے لیے اپنی جان قربان کردی ۔ " آم کا پیڑ کیسے گرا؟ - تحریر نمبر 911,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aam-ka-peer-kaise-girra-911.html,"”ماں! آج تو اتوار ہے۔ ہمیں پڑھنے نہیں جانا ہے۔ کیا ہم باغ میں جاکر کھیلیں؟“ سنجو نے اپنی ماں سے پوچھا۔” کیا تم نے اور انجو نے دانت صاف کرکے منہ ہاتھ دھولیے ؟“”جی ہاں! ماں ہم دونوں دانت صاف کرکے منہ ہاتھ دھو چکے ہیں۔“آج صبح تو اپنے گاوٴں کا موسم بڑا سہانا لگ رہا ہے۔ رات تو بڑی بھیانک تھی کیوں کہ زلزلے کے ہلکے ہلکے جھٹکے لگ رہے تھے۔گھر کے دروازے کھڑکیاں ہِل اٹھی تھیں۔ مکان کے اس طرح ہلنے سے چھوٹی انجو تو بری طرح ڈر گئی تھی۔” جاوٴ بچو! جاکر باغ میں کھیلو ، آدھے گھنٹے بعد میں آواز لگادوں گی تم دونوں ناشتہ کرنے آجانا۔“ ماں نے ان دونوں سے کہا۔’‘ماں آج ناشتے میں کیا بناوٴگی؟“’ ’ بیٹی! آج ناشتے میں ابلے چنے ہیں ساتھ میں گائے کا دودھ بھی ہے۔(جاری ہے)“”ماں اپنی گوری گائے کا دودھ پینے میں بڑا مزہ آتا ہے اور گوری نے اس سال جو بچہ دیا ہے وہ کتھئی رنگ کا کتنا خوب صورت لگتا ہے۔ اس کے ماتھے پر سفید رنگ کا چاند جیسا نشان اور اس کا کودنا پھاندنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ “سنجو کی بات کی تائید کرتے ہوئے انجو نے اپنی پوپلی زبان میں کہا:” ماں! مدے بی دود اچھا لدتا ہے۔“” تم دونوں باغ میں جاکردھوم مستی مت کرناسب بچوں کے ساتھ مل جل کر کھیلنا۔“ ماں نے تنبیہ کی۔”ٹھیک ہے ماں ! ہم دونوں جارہے ہیں باے باے۔“ سنجو نے کہا۔باغ میں کئی بچے پہلے ہی سے موجود تھے۔ جو رات کے زلزلے کے جھٹکوں میں گرے ہوئے آم کے درخت سے بات چیت کررہے تھے۔ ان بچوں کو کھیلنے سے زیادہ اس گرے ہوئے آم کے درخت سے بات چیت کرنا اچھا لگ رہا تھا۔رمیش نے کہا:” آم دادا! تمہیں زمین پر گرنے سے چوٹ توبہت آئی ہوگی۔“آم روہانسا ہوکر بولا:” ہاں بچو! مجھے چوٹ تو بہت آئی ہے۔میری کئی شاخیں توٹ گئی ہیں ، لیکن میں ہمت نہیں ہار رہا ہوں۔“”آم دادا ! تم تو بہت بہادر تھے۔ تم زلزلے کے جھٹکوں سے لڑ کیوں نہیں پائے؟“ سنجو نے پوچھا۔”پیارے بچے! میں لڑتا کیسے ؟میرے ارد گرد کارخانے اور فیکٹریاں کھول کر ان کے زہریلے دھوئیں سے میری ہریا لی کو ختم کردیا گیا ہے اورساتھ ہی میری جڑ کے آس پاس گاوٴں والوں نے پیلی مٹی کھود کھود کر کھوکھلا جو کردیا ہے ۔اس وجہ سے میری طاقت کم ہوگئی ہے۔ اگر کسی کے پیروں کو کم زور کردیا جائے تو وہ کیسے چلے گا اور کھڑا ہو پائے گا؟ میرے گرنے سے کئی پرندوں کے گھونسلے بھی گر گئے۔ بے چاروں کے انڈے اور کچھ کے بّے بھی دب کر مر گئے۔ یہ سب انسانوں کی وجہ سے ہوا۔“ آم دادانے سنجوسے کہا۔سب بچے ٹوٹے ہوئے گھونسلوں کو دیکھنے لگتے ہیں۔ گھونسلوں اورمرے ہوئے بچوں کو دیکھ کر بچے افسوس کرتے ہیں۔ان بچوں میں سریش نام کا لڑکا عمر میں سب بڑا اور ہوشیار تھا۔ جو کہ پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ بولا:” آم دادا! میرے ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ اگر کسی مکان کی بنیاد کم زور کر دی جائے تو وہ جلد ہی گر جاتی ہے، اب اس بات کا مطلب سمجھ میں آیا۔“” ہاں ہاں! صحیح کہا ہے تمہارے ماسٹر صاحب نے کسی کی بنیاد کو کم زور کرنا اچھی بات نہیں جیسا کہ گاوٴں والوں نے میرے ساتھ کیا۔“سنجو نے دکھ کا ظاہر کرتے ہوئے کہا :” یہ تو ہمارے گاوٴں والوں نے بہت برا کیا۔ ایسا ہم سب کو نہیں کرنا چاہیے تھا۔“”ہاں بچو! تم سب سمجھ گئے ہوکہ میں کس طرح اور کس وجہ سے گرا ہوں۔ اب کوشش کرنا کہ میرے کسی بھائی کی ہریالی ختم نہ ہونے پائے اور نہ ہی میری جڑوں کے آس پاس جس طرح مٹی کھودی گئی ہے ۔میرے دوسرے درخت بھائیوں کی بنیادوں کو کم زور مت ہونے دینا اگر ایسا ہوا تو دنیا میں درخت ختم ہونے لگیں گے جس سے تازہ اور صاف ہوا ملنی مشکل ہوجا ئے گی۔“ آم دادانے بچوں کو نصیحت کی۔” کیا ہم سب مل کر تمہاری کوئی مدد کرسکتے ہیں کیا تم کو ہی دوبارہ کھڑا کرسکتے ہیں ؟“ سب بچوں نے ایک ساتھ کہا۔” اب تو بڑا مشکل ہے لیکن میں نے تم کو جو نصیحت کی ہے اس پر عمل کرنا یہی میری اصل مدد ہے۔ آج کے بعد سے تم عہد کرو کہ تم کسی بھی درخت کی جڑوں کو کم زور نہیں ہونے دو گے۔“آم دادا کی بات سن کر سب بچوں نے وعدہ کیا کہ آج سے ہم ہر درخت کی حفاظت کریں گے۔ اسی دوران سنجو اور انجو کی ماں نے ان کو ناشتے کے لیے پکارا اور وہ دونوں بھائی بہن ناشتہ کرنے کے لیے گھر کی طرف چل دیے۔ " نیلم چڑیا اور آگ - تحریر نمبر 909,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/neelam-chirya-or-aag-909.html,"سندر بن واقعی بہت ہی زیادہ سندر اور خوب صورت تھا۔چاروں طرف قدرت نے اپنی خوب صورتی بکھیردی تھی۔ کل کل کرتے جھرنے اور خوب صورت چمکیلی ہری بھری گھاس ۔ایسے لگتی تھی جیسے جنگل میں کسی نے قالین بچھادی ہو۔ان مناظر کودیکھ کر جانوروں اور پرندوں کے دل باغ باغ ہوجاتے تھے۔ ہر طرف رنگ برنگے پھول تھے۔ جن پر تتلیاں اور بھونرے منڈلاتے رہتے۔یہ کہانی اس زمانے کی ہے جب لوگوں کو آگ کا پتا نہ تھا۔ جیسے ہی شام ہوتی لوگ گپھاوں میں چلے جاتے۔اس وقت لوگ پوری طرح ماحول پر منحصر رہتے تھے۔ کچی جڑیں ، قند پھل فروٹ ، پتے ، سبزیاں اور بغیر پکے ہوئے گوشت لوگوں کی غذا تھی۔لاتعداد درختوں کی وجہ سے شام سے پہلے ہی جنگل میں اندھیرا چھاجاتاتھا۔ سندر بن میں ایک گہرا تالاب تھا۔(جاری ہے)جس کا پانی جانوروں اور پرندوں کے پینے کے کام آتاتھا۔اسی تالاب کے کنارے ایک پیپل کا درخت تھا جس پر نیلم چڑیا اپنا گھونسلہ بناکر رہتی تھی۔ سبھی جانور اسی تالاب پر پانی پینے آتے تھے۔ اس لیے نیلم چڑیا سے سبھی جانوروں کی دوستی ہوگئی۔نیلم چڑیا کی ایک عادت سبھی جانوروں کو بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ تھی اس کی دوسروں کی مدد کرنے کی عادت۔ کوئی پریشانی میں ہو وہ فوراً وہاں پہنچ جاتی تھی۔ کوئی شکاری جنگل میں آجاتا تو وہ اڑتے ہوئے زور زور سے چیں چیں کی آوازیں بلند کرتی کہ سبھی جانور سمجھ جاتے کے کوئی خطرہ ہے۔اور وہ اپنی حفاظت کرنے لگتے۔نیلم چڑیا کے گھونسلے میں بہت اندھیرا تھا اور اس کے بچے باہر جانے کی ضد کیا کرتے تھے۔ ایسے میں اس کی ایک خواہش ہوتی تھی کہ کاش! کہیں سے روشی کی ایک کرن آجائے۔اسی تالاب کے کنارے ایک بہت موٹا درخت تھا جس کی بڑی سی کھوہ میں ایک بھالو رہتا تھا۔ وہ دن بھر سوتااور جب بھوک لگتی تو تالاب سے مچھلیاں پکڑتا۔بھالو بہت ہی مطلبی اور خود غرض تھا۔جنگل کے سبھی جانور اسے مطلبی بھالو کہتے تھے۔ایک دن خوب ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی جاری تھی۔ گھونسلے میں نیلم چڑیا کے دونوں بچے سہمے ہوئے اپنی ماں کے انتظار میں دبک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ دونوں سخت بھوکے تھے۔ بے چینی سے ماں کو یاد کرتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلی دے رہے تھے۔ ادھر بونداباندی کی وجہ سے نیلم چڑیا کے پر بھیگ گئے تھے۔وہ بہت مشکل سے گھونسلے تک پہنچی ، بچوں کو پیار کیا انھیں کھانا دانا کھلایا ۔ بچے ماں سے لپٹ کر روتے ہوئے سو گئے۔ابھی رات کا پہلا ہی پہر گذرا تھا کہ نیلم چڑیا کو پکے ہوئے کھانے کی خوشبو آنے لگی اس نے اپنی گردن گھونسلے سے باہر نکال کر اِدھراُدھر کا جائزہ لیا تو وہ حیران رہ گئی کہ بھالو کی کھوہ میں ڈھیر ساری لکڑیاں رکھی ہوئی ہیں اور آگ جل رہی ہے اور وہ مزے لے لے کر مچھلیاں بھون کر کھا رہا ہے۔نیلم چڑیا کو روشنی دیکھ کربڑی خوشی ہوئی ۔ وہ بھالو کے پاس آئی اور اس کو روشنی اور آگ کی مبارکباد دی اور بولی :” بھیا بھالو! تمہارے پاس تو ڈھیر ساری لکڑیاں ہیں ایک مجھے بھی دے دو میں بھی اپنے گھر میں روشنی کرلوں گی اور کھانا بھی پکا لوں گی۔“مطلبی بھالونے نیلم چڑیا کو ڈانٹ کروہاں سے بھگا دیا رات بھر نیلم سو نہ سکی۔ وہ سوچتی رہی کہ ساری دنیا اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے اگر بھالو تھوڑی سے آگ دیدے تو لوگوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسے ایسا لگا جیسے سوکھے پتوں پر کوئی چل رہا ہے۔ اس نے گردن گھونسلے سے باہر نکال کر دیکھا تو کیا دیکھتی ہے کہ شیر بھالو کی گپھا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سخت سردی کا موسم تھا درخت کی کھوہ میں آگ کی گرمی کی وجہ سے بھالو بہت گہری نیند سویا ہوا تھا۔تب ہی نیلم چڑیا نے چیں چیں کا شور مچادیا ۔نیلم چڑیا کی چیخ سن کر بھالو نیند سے جاگ گیا اس کے شور سے بھالو ہی نہیں بل کہ دوسرے جانور بھی جاگ اٹھے اور نیلم کے گھونسلے کی طرف بڑھنے لگے۔اتنے سارے جانوروں کو دیکھ کر شیر فوراً ڈر کر وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔ سبھی جانوروں نے نیلم کی خوب تعریف کی۔مطلبی بھالو کو جب حقیقت سمجھ میں آئی تو شرمندگی سے اس کا سر جھک گیا۔ اس نے دوسرے دن نیلم چڑیا کو کئی لکڑیاں دیں اورکہا کہ :” بہن ! مجھے معاف کردو اگر تم نہ ہوتیں تو شیر تو مجھے کب کا کھا چکا ہوتا ۔اگر آج میں زندہ بچا ہوں تو وہ تمہاری ہوشیاری کی وجہ سے۔لو یہ لکڑیاں آگ جلا کر اپنے گھر میں روشنی بھی کرلو اور کھانا بھی پکالو۔ اور ہاں ! نیلم بہن ! تمہارا بہت بہت شکریہ۔“نیلم چڑیا نے کہا کہ ” بھائی بھالو! شکریے کی کوئی بات نہیں۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے ہی میں سچی خوشی کا راز پوشیدہ ہے یہ تو میرا فرض تھا کہ میں تمہیں باخبر کروں۔ میں تمہارے کسی کام آسکی یہی میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔“بھالو بہت روہانسا ہوا اور اس دن کے بعد سے جنگل کے سبھی جانوروں کے ساتھ مل جل کررہنے لگا۔ اور اپنی گپھا میں سے اس نے چند جلتی ہوئی لکڑیاں نیلم چڑیا کو دے دیں۔ نیلم نے اس لکڑی سے پہلے تواپنے گھونسلے میں روشنی کی، کھانا پکایا اور پورے جنگل اور آس پاس کے جنگلوں میں حتیٰ کہ جہاں جہاں روشنی نہیں تھی وہاں وہاں پہنچ کر اس نے روشنی پھیلائی۔ پیار کی روشنی، ایک دوسرے کی مدد کرنے کی روشنی اور مل جل کرر ہنے کی روشنی۔ " پاکستان ہمارا ہے - تحریر نمبر 908,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pakistan-hamara-hai-908.html,"ادیب سمیع چمن:رات کے آٹھ بجے کا وقت تھا۔ خلیل اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا ہوا اپنے دوست آفتاب کابے چینی سے انتظار کررہا تھا۔ تقریباََ دو مرتبہ اس کے گھر جاکر آفتاب کی امی سے بھی آفتاب کے بارے میں معلوم کرچکا تھا۔اس کی امی نے بتایا: آفتاب اپنی خالہ کے گھر ایک ضروری کام سے گیا ہوا ہے، بس وہ آنے ہی والا ہے۔کہاں چلاگیا، کمبخت! کہیں سارا منصوبہ ہی بربادنہ کرادے۔خلیل بڑبڑایا۔ اس وقت آفتاب، اسے گلی کے اندر داخل ہوتا ہوا نظر آگیا۔ وہ آفتاب کو دیکھ کر چیخا” کہاں چلے گئے تھے۔ میں کب سے یہاں کھڑا ہوا تمھارا انتظار کررہا ہوں۔افوہ بھئی، کیا قیامت آگئی؟اسی وقت میرے ساتھ چلو۔ خلیل نے آفتاب کو بازو سے پکڑ کرچلنے کو کہا۔(جاری ہے)پہے مجھے امی کو توبتاکرآنے دو۔امی کے کام سے گیا تھا۔ اب اگر بغیر بتائے جاؤں گا تو امی خفاہوں گی اور اب توشاید میرے ابو بھی آگئے ہوں گے۔ آفتاب نے کہا، مگر خلیل کہاں ماننے والا تھا۔بھائی! زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے کے بعد واپس آجائیں گے۔ یقین مانو بڑے مزے کاکام ہے۔ دونوں دوست چل پڑے۔ سردی بھی زیادہ ہورہی تھی۔ ان کی بستی سے کچھ دور ایک بہت بڑا اور ویران میدان تھا اور میدان سے آگے ایک چوڑی سڑک تھی۔جس پر ٹریفک برائے نام ہی ہوتا تھا۔ آفتاب سردی برداشت کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ بے چینی سے بوالا: بھائی ! کیا کام ہے کچھ بتابھی دو۔ میرے امی اور ابوسخت پریشان ہوں گے۔وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے میدان پارکرکے بڑی سڑک تک آگئے۔ خلیل نے ایک جگہ رک کرکہا: اچھا لو یہ پکڑو۔آفتاب چونکتے ہوئے بولا: مگر یہ تو غلیل ہے۔ہاں ، غلیل ہے۔میں نے کب کہاکہ یہ کلاشنکوف ہے۔ خلیل نے کھڑے کھڑے اسٹریٹ لائٹوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔آفتاب جھنجلا گیا، مگر اس وقت یہاں کیاکام آپڑا ہے۔ چڑیاں، چڑے، کوے کوئی بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ ویسے بھی کان کھول کرسن لومجھے ہرگزہرگزمعصوم پرندوں کا شکار کرنا پسند نہیں ہے۔ امی نے سختی سے مجھے منع کیا ہوا ہے سمجھے نا۔اچھا چلویہ لوکنکریاں اور جو میں کہوں وہ کرو۔یہ کہتے ہوئے خلیل نے چھوٹی چھوٹی کنکریاں ، جو پلاسٹک کی تھیلی میں تھیں۔ آفتاب کو تھماتے ہوئے کہا: یہ تم مجھے کیوں دے رہے ہو۔ ان کا کیا کروں؟سنو! غور سے سنو۔ آج صبح کلاس میں فاروق اور حنیف نے مجھ سے شرط لگائی تھی کہ سڑک کی دونوں جانب واپڈا کے کھمبوں پر، جو مرکری کے بلب لگے ہوئے ہیں، تمام کے تمام بلبوں کو نشانہ لے کر توڑنا ہے۔ پورے 500روپے کی شرط لگی ہے۔آدھے فاروق اور آدھے حنیف سے مجھے ملیں گے۔ خلیل نے آفتاب کو للچاتے ہوئے بتایا: سڑک بالکل سنسان ہے بس اب جلدی شروع ہوجاؤ۔ اکادُکا کوئی گاڑی یا موٹرسائیکل آتی نظر آئے گی تو میں تمھیں ہوشیار کردوں گا۔ تھوڑی دیر کو سائڈ میں ہو کر چھپ جائیں گے، چلو وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ ادھر تو حملہ کرو گے یہاں میں کروں گا۔ یہ تم مجھے اتنے غصے والی نظروں سے کیوں گھور کردیکھے جارہے ہو۔تمھارا دماغ تو نہیں چل گیا ہے۔ جاتنے ہو یہ تم کیا ور کس سے کہہ رہے ہو؟ مجھ سے جو اپنے وطن کی ہر چیز اور مٹی کے ذرے سے پیار کرتا ہے۔ خلیل بھائی! میں تمھیں مشورہ دیتا ہوں کہ ایسا گندہ خیال ذہن سے نکال دو اور اللہ سے معافی مانگو اور توبہ کرو۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم چند رپوں کی خاطر اپنے ضمیر کاسودا کر لو گے۔ بھلا اپنے وطم کی چیزوں کو نقصان پہنچانا بھی کوئی شرط ہے۔آخر کہنا کیا چاہتے ہو آفتاب ! خلیل نے زچ ہوتے ہوئے پوچھا۔میں چاہتا ہوں کہ دونوں غلیلیں میرے سامنے اسی وقت توڑ کر پھینک دو۔مگر مجھے تمھارا یہ فیصلہ منظور نہیں ہے۔ خلیل نے اکڑتے ہوئے جواب دیا۔منظور نہیں ہے توآج سے تمھارا میرا راستہ جدا ہے۔یہ دہشت گرد جو دشمن ملکوں سے مل کر چند ٹکوں کے لالچ میں آج ہمارے پیارے وطن اور یہاں کے لوگوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ہماری فوج جو قربانیوں دے رہی ہے، تمھیں احساس ہے۔تم میں اور دہشت گردوں میں کیا فرق رہ گیا ہے۔آفتاب نے غصہ دکھایا: میں تمھارا اس وقت تک بھائی تھا، دوست تھا جب تک مجھے تمھارے یہ غلیظ اور وطن شمن عزائم معلوم نہیں تھے، لیکن اب تم صرف میں ہی نہیں ، میرے وطن کے لیے اور اس کی عزت آبرو کے لیے ایک صرف میں ہی نہیں میرے وطن کا بچہ بچہ اپنی جان قربان کرسکتا ہے۔یادرکھو خلیل! میری نظر میں وطن کا غدار․․․․․ ماں باپ کا بھی غدار ہوتا ہے۔ آفتاب نے منھ موڑتے ہوئے کہا۔مجھے معاف کردو آفتاب! واقعی میں بھٹک رہا تھا۔آج کے بعد کبھی ایسا نہ ہوگا۔ خلیل نے آفتاب سے معافی مانگتے ہوئے کہا۔سچ․․․․؟ اور پھر آفتاب نے خلیل کے آنسو پونچھتے ہوئے اسے گلے لگا لیا۔ دونوں نے نعرہ لگایا: پاکستان ہمارا ہے۔ ہم کو جان سے پیارا ہے۔ " زندگی کا سبق - تحریر نمبر 907,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/zindagi-ka-sabaq-907.html,"ایک مرتبہ کی بات ہے جب کہ میں بہت چھوٹا تھا۔ میرے چاچا اور چاچی بس کے ذریعے اورنگ آباد آرہے تھے۔ اسی دن کنڑ گھاٹ پر ایک بس کھائی میں گر گئی تھی او ر ایک بہت بڑا حادثہ ہوا تھا کئی لوگوں کی جانیں چلی گئی تھیں اور گئی لوگ بہت زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔ چاچا اور چاچی سے ہمارا رابطہ نہیں ہوپارہا تھا بار بار ان کو موبائل کرنے پر وہ سوئچ آف ہی بتا رہا تھا۔میرے ابوامی اور پورے گھر والے بہت پریشان ہوگئے تھے۔ اسی پریشانی میں پوری رات گذرگئی ہم صبح کے اخبار کا بڑی بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ تاکہ حادثے کی صحیح خبر سے واقف ہوسکیں۔صبح جیسے ہی اخبار آیا میرے ابو نے مرنے والوں کے ناموں کی فہرست کو بہ غور پڑھنا شروع کیا۔ اچانک میرے منھ سے یہ نکلا کہ ”کاش! ان کا نام بھی فہرست میں ہو۔(جاری ہے)“یہ سن کر گھر کے سبھی لوگ حیران رہ گئے اور مجھے دیکھنے لگے ، تھوڑی دیر بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ دراصل میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ”کاش ! ان کا نام اس فہرست میں نہ ہو۔“اخبار میں مرنے والوں کی جو فہرست چھپی تھی اس میں چاچا اور چاچی کا نام نہیں تھا۔ گھر کے سبھی لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔چاچا اور چاچی دوپہر کے بعد اورنگ آباد پہنچے اور یہ سب ماجرا سن کر وہ ہنسنے لگے۔اس واقعہ کے بعد مجھے یہ احساس ہوگیا کہ کبھی بھی کچھ بولنے سے پہلے سوچنا بے حد ضروری ہے کہ بغیر سوچے سمجھے بس اوٹ پٹانگ باتیں بگھارنے سے نقصان تو الگ ہوتا ہی ہے اور لوگوں کے نزدیک عزت اور قدر بھی گھٹ جاتی ہے۔ " نانی ماں نے جان بچائی - تحریر نمبر 906,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nani-maan-ne-jaan-bachai-906.html,"بہت پہلے کی بات ہے کہ ایک گاوٴں میں ایک بوڑھی عورت اور اس کی عقل مند ، شوخ اور چنچل نواسی ایک ساتھ رہتے تھے۔بوڑھی عورت کو سب گاوٴں والے نانی ماں کہتے تھے اور اس کی نواسی کو شیتل کہہ کر پکارتے تھے۔ نانی ماں کی بیٹی اور داماد ایک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھے تھے ۔تب ہی سے ان کی نواسی شیتل ان کے پاس رہ رہی تھی۔ وہ دونوں اپنا پیٹ پالنے اور گھر چلانے کے لیے دن بھر سخت محنت مزدوری کرتے اور شام کو روکھا سوکھا کھا پی کر سوجاتے تھے۔سب ہی گاوٴں والے ان کی محنت ، خوش مزاجی او ر عقل مندی کی تعریف کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر شیتل کی باتوں اور اس کی عادتوں کا تو سبھی گن گاتے تھے۔نانی ماں کے بیٹے ، بہوئیں ، پوتے اور پوتیاں قریب کے ایک بڑے شہر میں رہتے تھے۔(جاری ہے)انھیں ماں کا کوئی بھی خیال نہ تھا۔ لیکن ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔ اس سال گرمیوں کے دن تھے نانی ماں کو اپنے بیٹوں ، بہووں اور پوتے پوتیوں کی یاد ستانے لگی۔اس نے اپنی نواسی شیتل کو جب یہ بات بتائی تو اس نے کہا :” نانی ماں! چلو میں تیاری کروادیتی ہوں کل ہی یہاں سے روانہ ہوجانا اور تمہارا جتنا دن چاہے ماموں ممانی کے گھر رہ کر واپس آجانا۔“نانی ماں نے یہ سن کر کہا :” بیٹی! تم نہیں چلو گی؟“ عقل مند اور خوش مزاج شیتل نے کہا :” نانی ماں جن بیٹوں کو ماں کاخیال نہیں ان کے پاس جاکر میں کیاکروں گی میں تو ان کی بھانجی ہوں۔کہیں میری ممانیوں کو میرا جانا پسند نہ آئے۔ نانی ماں تم چلی جانا۔“نانی ماں نے اپنی پیاری نواسی کی اس عقل مندی والی باتوں پر بیٹوں سے ملنے کااردہ ترک کرنا چاہا لیکن شیتل نے انھیں منع کردیا۔اس طرح دوسرے روز صبح نانی ماں جب روانہ ہونے لگی تو شیتل نے کہا:” جنگل میں بھیڑیا ہے ذرا سنبھل کر جانا۔“ نانی ماں نے ہاں ہاں ! کہتے ہوئے سامان کی پوٹلی سر پر رکھی اور وہاں سے روانہ ہوگئی۔جب نانی ماں جانے لگی تو شیتل انھیں دور تک چھوڑنے آئی۔ابھی وہ جنگل میں تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ ایک خوف ناک بھیڑیا اس کے سامنے آگیااور بولا:” بڑھیا بڑھیا ! میں تجھے کھاجاوٴں گا۔“ نانی ماں ڈر گئی اور روتے ہوئے بولی:” بیٹا!میں اپنے بیٹے سے ملنے شہر جارہی ہوں ، مجھے جانے دے جب میں واپس آوٴں گی تو مجھے کھالینا۔ “نانی ماں کے رونے پر بھیڑیا مان گیا۔اور کہا:” تو جب واپس آئے گی تو میں تجھے ضرور کھاوٴں گا۔“ ” ٹھیک ہے۔“ کہہ کر نانی ماں وہاں سے چل پڑی شہر کی طرف۔بیٹے کے گھر پہنچ کر وہ بہت خوش ہوئی۔ بیٹوں اور بہووں نے جب ماں کو دیکھا تو پوچھا ماں کب تم آئے اور کب جاوٴگی؟“نانی ماں نے کہا:” بیٹا ! ابھی تو آئی ہوں اور جانے کے بارے میں پوچھنے لگے۔“نانی ماں کو دکھ ہوا اس نے کہا :” آج رہ کر کل ہی چلی جاوٴں گی۔“پوتے پوتیوں نے جب یہ سنا تو کہا کہ :” ہم اس طرح دادی ماں کو جانے نہیں دیں گے بل کہ دادی ماں اب ہمارے ہی یہاں رہیں گی۔ “ نانی ماں کو پوتے پوتیوں کایہ رویہ بہت پسند آیااس نے ان کو دل سے دعائیں دیں۔ وہ جب تک وہاں رہیں ان کو کہانیاں سناتیں اور وہ اپنی دادی کی خوب آو بھگت کرتے۔اس طرح ایک ہفتہ گذر گیا۔نانی ماں کو ایسا لگا کہ اس کا یہاں رہنا اپنے بیٹوں اور بہووں کو ناگوار گذررہا ہے تو اس نے دوسرے ہی روز اپنے گاوٴں جانے کا فیصلہ کرلیا۔نانی ماں اپنے گاوٴں جانے کے لیے جب تیار ہوئیں تو انھوں نے اپنے پوتوں اور پوتیوں سے جنگل میں بھیڑیے کے ملنے کی بات کہی تو ان بچّوں نے کہا: ” دادی ماں ! پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔تم اپنے پیٹ پر راکھ اور کانچ کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی ایک بوری باندھ لینا اور جب بھیڑیے سے سامنا ہوتو اپنا پیٹ سامنے کردینا۔“نانی ماں نے اپنے پوتوں اور پوتیوں کا کہنا مانااور اپنے پیٹ پر راکھ اور کانچ کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی بوری باندھ لی اور جنگل کے راستے اپنے گاوٴں کو روانہ ہوگئی۔نانی ماں کے پوتے اور پوتی اپنی دادی کو دور تک چھوڑنے کے لیے آئے۔ ان کے آنسو نکل رہے تھے۔جب تک نانی ماں ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی تب تک وہ سب شہر کی سڑک کے کنارے ہاتھ ہلاتے کھڑے رہے۔جب نانی ماں جنگل میں پہنچی تو پہلے بھیڑیے ہی سے سامنا ہوگیا جیسے بھیڑیا نانی ماں کا انتظار ہی کررہا تھا۔ بھیڑیا سامنے آیا اور بولا:” بڑھیا ! اب تو ہی بتا میں تجھے پہلے کہاں سے کھاوٴں؟“نانی ماں بولی:” بیٹے! منہ تو میرا پتلا ہے ہاتھ میرے ہڈی ہیں پاوٴں میرے گلے ہوئے ہیں موٹا اور تگڑا صرف میرا پیٹ ہی ہے ۔اس لیے توپہلے اسی کو کھا۔“ بھیڑیے نے دیکھا سچ مچ نانی ماں کی توند بہت موٹی ، تگڑی اور تازی لگ رہی تھی۔ فوراً وہ لپکا اور نانی ماں کے پیٹ پر اپنے نوکیلے دانت گاڑ دیے۔ لیکن یہ کیا ؟ جیسے ہی اس نے دانت گاڑے نانی ماں کے پیٹ پر بندی ہوئی راکھ اور کانچ کے ٹکڑوں سے بھری بوری پھٹ گئی اور اس کی راکھ اور کانچ اڑ کر بھیڑیے کی آنکھوں میں گھس گئی۔اس طرح بھیڑیے کی آنکھ میں خوب زور کا درد ہونے لگا۔ وہ کراہتے ہوئے ادھر ادھر بھاگنے لگا۔ بھیڑیے کی اس حالت کودیکھ کرنانی ماں نے اپنے پوتے پوتیوں کی ذہانت کی داد دی اور ان کو دعائیں دیتے تو ہوئے جلدی جلدی جان بچا کرجنگل پار کرنے لگی۔ اور شام تک اپنے گھر پہنچ گئی۔ جہاں شیتل اس کے لیے بے تاب دوازے پر ہی بیٹھی تھی۔وہ اٹھی اور نانی ماں کی بانہوں میں جھولنے لگی۔ " حق بات کا انعام - تحریر نمبر 904,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/haq-baat-ka-inaam-904.html,"دولت آبادملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ بڑا رحم دل اوررعایا پرور تھا۔ جو بھی اس کی پاس آتا وہ اسے ضرور کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرتا۔ اگر کسی کو کوئی پریشانی ہوتی تو راجا خود اس کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ غریبوں اور مجبوروں کا بہت خیال رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ دولت آبادملک کے لوگ اپنے بادشاہ سے بہت خوش تھے اور اس سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہ کے سر میں غرورسمانے لگا۔ اور وہ اپنی جھوٹی تعریف سن کر خوش ہونے لگا۔جب یہ خبر عام ہوئی تو ایک دن بادشاہ کے محل میں ایک لالچی اور خوشا مدی فقیر آیا۔ اس فقیر نے بادشاہ کے محل میں جاکربادشاہ کی جھوٹی تعریفیں کرتے ہوئے صدا لگانا شروع کی کہ: ” ہمارا بادشاہ بڑا سخی ہے جو کوئی نہ دے پائے وہ راجا دے۔(جاری ہے)“ بادشاہ کو یہ بات سن کر بڑی خوشی ہوئی۔اس نے فقیر کو ایک پپیتا انعام میں دے کر اسے رخصت کیا۔ فقیر نے پپیتا لیا اور منہ لٹکائے واپس ہوگیا اسے اس انعام سے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی۔پہلے فقیر کے جاتے ہی دوسرا فقیر محل میں داخل ہوا اور اس نے حق بات کی صدا لگانا شروع کی کہ :” جو اللہ دے وہ کوئی نہ دے پائے نہ ہی ہمارے بادشاہ۔“ فقیر کی یہ بات بادشاہ کو ناگوار گذری۔ لیکن چوں کہ وہ عام رعایا میں سخی اور رحم دل مشہور تھا اس لیے محل میں آئے ہوئے فقیر کو خالی ہاتھ واپس لوٹانا اس نے مناسب نہ جاناسواس نے اس فقیر کو دو سونے کے سکے دیے اور محل سے رخصت کردیا۔دوسرا فقیر دو سونے کے سکے پاکر بہت خوش ہوا۔اتفاق سے دونوں فقیر وں کی بازار میں ملاقات ہوگئی۔ پہلا فقیر بہت زیادہ دکھی نظر آرہا تھا۔ دوسرے فقیر نے اس سے پوچھا : ”دوست! تم اتنے دکھی کیوں دکھائی دے رہے ہو۔ “پہلے فقیر نے جواب دیا :” مَیں بادشاہ کے محل میں گیا تھا اور اس کی تعریف بھی کی اور اس نے انعام میں مجھے صرف ایک پپیتا دیا ہے جو میرے کسی کام کا نہیں۔“دوسرے فقیر نے کہا:” میں بھی بادشاہ کے محل میں گیا تھا اور مَیں نے ایک صحیح اور سچی بات کہی تھی ، وہ سن کر بادشاہ نے مجھے دو سونے کے سکّے ا نعام دیے جنہیں پاکر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ “پہلے فقیر نے دوسرے فقیر سے کہا :” کیا تمہیں پپیتا پسند ہے؟ “ دوسرا فقیر جسے دولت سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی وہ لالچی تھا کہنے لگا کہ :” ہاں! مجھے پپیتا پسند ہے۔“ پہلا فقیر یہ سن کر کہتا ہے :” تو تم یہ پپیتا خرید لو۔“ دوسر افقیر دونوں سونے کے سکوں کے بدلے میں وہ پپیتا خرید لیتا ہے۔ پہلا فقیر سونے کا سکہ پاکر بہت خوش ہوتا ہے اور وہاں سے چلا جاتا ہے۔پہلا فقیر جب اپنے گھر لوٹتا ہے اور پپیتا کاٹتا ہے تو اس میں سے ہیرے جواہرات نکلتے ہیں وہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھے بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے کا انعام ملا ہے۔جب کہ دوسرالالچی اور خوشامدی فقیر چند ہی دن میں پورے پیسے اڑا کر دوبارہ بادشاہ کے محل میں بھیک مانگنے جاتا ہے۔ جیسے ہی بادشاہ اس کو دیکھتا ہے تو پوچھتا ہے کہ :” اے فقیر میں نے تو تیری بات سن کر خوشی میں تجھے ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا پپیتا انعام میں دیا تھا ، کیا ہوا کہ تو پھر سے بھیک مانگنے لگا؟“پہلے فقیر نے دوسرے فقیر سے ملنے اور دوسکوں کے بدلے میں پپیتا بیچنے کی بات بتائی۔یہ سن کربادشاہ کو بڑا تعجب ہوا اس نے دوسرے فقیر کو محل میں طلب کیا اور پوچھا کہ :” پپیتا کاٹنے پر اس میں سے کیا نکلا؟“ دوسرے فقیر نے سب کچھ سچ سچ بتلا دیا اور یہ بھی کہا کہ :” میں نے یہ پپیتا اس لیے پہلے فقیر کو واپس نہیں کیا کہ میں نے سن رکھا تھا بادشاہوں کے سامنے حق بات کہنے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو انعام سے نوازتا ہے۔ اس لیے میں سمجھ گیا کہ پپیتے کے ذریعے مجھ کو اللہ تعالیٰ نے انعام عطا کیا ہے۔ “ یہ سن کربادشاہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ دوبارہ پہلے جیسا نرم دل اور تواضع والا بادشاہ بن گیا اور لالچی فقیر کو اس نے جلا وطن کردیا۔ " خوشی - تحریر نمبر 903,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khushi-903.html,"بھارت کے شمالی علاقے میں ایک خوب صورت اور صاف ستھرا گاوٴں تھا۔ جس کا نام تارا پور تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اس گاوٴں میں سورج نکلنے اور ڈوبنے کا منظر، کویل کی میٹھی آواز، پپیہے کی کوک، چڑیوں کی چہچہاہٹ، عورتوں کا مٹکا لے کر کنویں پر پانی بھرنے جانا، کسانوں کا کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنااور چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی یہ سب چیزیں لوگوں کا دل کا لبھاتی تھیں ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے دور دور تک ہری چادر بچھادی ہو۔اس گاوٴں میں ایک لڑکی رہتی تھی جس کا نام تھا خوشی ۔ جیسا نام ویسا ہی اس کا برتاو تھا۔ وہ بہت نیک ، اچھی اور سیدھی سادی لڑکی تھی ہر ایک سے محبت اور نرمی سے پیش آتی ، بڑوں کا کہنا مانتی ، بزرگوں کا ادب اور احترام کرتی۔گھر کے کام کاج کے علاوہ پاس پڑوس کے لوگوں کا بھی کام کرواتی۔(جاری ہے)سب ہی اس کا نام لیتے اور اس کی مثال دیتے کہ دیکھو خوشی کتنی اچھی لڑکی ہے۔وہ اس وقت پانچویں جماعت میں پڑھ رہی تھی۔ وہ روزآنہ سات بجے اسکول جاتی اور بارہ بجے گھر واپس آتی۔ لیکن آج اسے اسکول سے آنے میں دیر ہوگئی تھی اس لیے اس کے ماں باپ اور گھر کے لوگ بہت پریشان ہوگئے تھے۔خوشی جب اسکول سے گھر واپس آرہی تھی اس نے دیکھا کہ کچھ بد معاش آدمی ایک بوڑھے اور کم زور شخص کو بری طرح مار پیٹ کر زخمی کرکے اس کے روپیوں اور پیسوں کی تھیلی چھین کر بھاگ رہے ہیں ۔سڑک سنسان نہیں تھی لوگ آجارہے تھے اور خاموش تماشائی بن کر یہ ظلم دیکھ رہے تھے کسی میں ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ ان بدمعاشوں سے اس بوڑھے اور کم زور آدمی کو بچاتے۔ خوشی کو یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ بدمعاش تو پیسوں کی تھیلی لے کر وہاں سے فرار ہوگئے اور وہ آدمی زخمی حالت میں وہاں تڑپ رہا تھا کوئی بھی اس کی مدد کو آگے نہیں بڑھا۔ خوشی نے اس آدمی کو اسپتال پہنچایا اور پولیس اسٹیشن فون کرکے اِس حادثے کے بارے میں اطلاع دی۔حال آں کہ ان بدمعاشوں نے جاتے وقت یہ دھمکی دی تھی کہ اگر کسی نے اس واقعہ کی خبر پولیس کو دی تو اسے جان سے ماردیا جائے گا۔ لیکن خوشی نے اس بات کی ذرّہ بھر بھی پروا نہ کرتے ہوئے ہمت سے کام لے کر پولیس کو بتادیا۔پولیس نے اسپتال پہنچ کر زخمی کا بیان لیا اور ان بدمعاشوں کا حلیہ پوچھا۔ اور اسپتال سے روانہ ہوئے تھوڑی ہی دیر بعد پولیس نے ان بدمعاشوں کو گرفتار کرلیا۔خوشی ابھی تک اسپتال ہی میں تھی۔ اس کے ماں باپ کو جب اس بارے میں پتا چلا تو انھیں بہت خوشی ہوئی کہ چلو ہماری خوشی کی وجہ سے کسی کی جان بچی ہے۔پولیس انسپکٹرنے خوشی کا شکریہ ادا کیا اور اس کے ماں باپ کی خوب تعریف کی اور اسے لے کر کلکٹر صاحب کے پاس گئے جہاں خوشی کو بہادر بچّی کاخطاب اور سونے کا تمغا انعام میں دیا گیا اس طرح خوشی نے بہادری اور ہمت سے ایک کم زور اور بوڑھے آدمی کی مدد بھی کی، لوگوں کا دل بھی جیتا اور اپنے ماں باپ کا نام بھی روشن کیا۔ " فرض اور عادت - تحریر نمبر 902,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/farz-or-adat-902.html,"ایک بار ایک سنت ندی میں نہارہے تھے۔ تب ہی اچانک انھیں ایک بچھوکک پانی میں بہتا ہوا دکھائی دیا۔ انھوں نے جھٹ سے اسے اپنی ہتھیلی پر اٹھایا اور کنارے پر رکھ دیا۔ لیکن جیسا کہ بچھووں کی عادت ہوتی ہے۔ اس بچھو نے سنت کو ڈنک ماردیا۔ سنت نے اس کی پروا نہیں کی۔ اور وہ پھر سے نہانے میں مصروف ہوگئے۔ دوبارہ بچھو کو پانی کی لہریں بہاکر ندی میں لے آئیں۔یہ دیکھ کر سنت نے اسے ہتھیلی پر اٹھا کر کنارے رکھ دیا۔ اس بار بھی بچھو نے اس کی جان بچانے والے سنت کو ڈنک مار دیا۔ بار بار یہی ہوتا رہا۔ بچھو بار بار پانی کے ساتھ بہہ کر آتا اور سادھو بار بار اس کی حفاظت کرتے اور اس کی جان بچاتے۔ لیکن بچھو کے ڈنک مارنے پر انھیں افسوس ہوتا۔اسی ندی میں ایک نوجوان بھی نہا رہا تھا جو کہ یہ منظر بڑی حیرت سے دیکھ رہا تھا۔(جاری ہے)اس سے نا رہ گیا تو اس نے پوچھا :” مہاراج! آپ بار بار اس بچھو کی جان بچانے کی کوشش کررہے ہیں اور بچھو اتنا بے وفا ہے کہ وہ بار بار آپ کو ڈنک ماررہا ہے۔ یہ کیسی تعجب کی بات ہے؟“اس پر سنت نے کہا :” میں ایک سنت اور عالم ہوں میر افرض ہے کہ میں ہر ایک کے ساتھ نیکی کا برتاو کروں چاہے وہ انسان ہو یا حیوان۔سو میں اپنا فرض ادا کررہا ہوں۔بچھو کی عادت ہے ڈنک مارنا سو وہ اپنی عادت پر عمل کررہا ہے۔اسے یہ نہیں سمجھتا کہ کون اس کی جان بچا رہا ہے اور کون اس کو نقصان پہنچا رہا ہے وہ تو ہر ایک کو ہی ڈنک مارتا ہے، ہم دونوں ہی اپنا اپنا کام برابر کررہے ہیں اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ “ یہ سن کر وہ نوجوان بہت خوش ہوا اسے سنت کی باتیں اچھی لگیں وہ ان کا شاگرد بن گیا ۔ " اجنبی کا تحفہ - تحریر نمبر 901,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ajnabi-ka-tohfa-901.html,"گلاب خان سولنگی:مزمل جب آٹھ سال کاتھا تو اس کے ابوکا انتقال ہوگیا۔ بوڑھی ماں اور ایک چھوٹی بہن کی ذمے داری اس کے کندھوں پر آگئی، ان کا کوئی قریبی رشتے دار بھی نہیں تھا، جو ان کی کفالت کرسکے۔ اسی وجہ سے مزمل نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑدی اور چھوٹی سی عمر میں محنت مزدوری کرکے اپنے گھر کا خرچ چلانے لگا۔مزمل ایک نہایت شریف اور نیک لڑکا تھا۔ وہ ہرمشکل وقت میں اپنے پڑوسیوں کے کام آتا ۔ گھر میں اپنی بوڑھی ماں کی خدمت کرتا رہتا تھا۔ دوسری طرف وہ اپنی تعلیم چھوٹ جانے کی وجہ سے بہت افسردہ اور حالات کے آگے مجبور تھا، پھر بھی وہ ہروقت صبروشکر سے کام لیتا تھا۔ ایسے سخت اور کٹھن حالات میں بھی وہ خدا کی رحمت سے مایوس نہیں تھا۔(جاری ہے)اسے اُمید تھی کہ ایک دن خدا کے فضل وکرم سے ان کے حالات ضرور بدلیں گے۔مزمل نے محنت میں کبھی عار محسوس نہیں کی۔یہی وجہ تھی کہ وہ چھوٹا بڑا کام نہایت خوشی سے کرلیتا تھا۔ وہ صبح سویرے پالش کاچھوٹا سابکس اٹھائے شہر کے مشہور چوک پرجاتا اور پورا دن لوگوں کے بوٹ پالش کرتا۔ اس طرح وہ اتنے پیسے کمالیتا تھا، جس سے اس کے گھر کاخرچ پورا ہوجاتا تھا۔ شام کو جب تھکا ہارا واپس آتا تھا، تب وہ اپنی ماں کی دعائیں لیتا، جس سے اس کی پورے دن کی تھکن دور ہوجاتی تھی اور روکھی سوکھی کھاکر خدا کاشکر ادا کرتا تھا۔غربت کے باوجود مزمل اپنی حیثیت کے مطابق غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرتا رہتا تھا۔آج مزمل کے پاس گاہکوں کا بڑا رش تھا کہ اچانک ایک کار اس کے پاس آکر رکی۔ ایک سیٹھ کار میں سے اُترا اور سیدھا مزمل کے پاس آیا: لڑکے! جلدی سے میرے بوٹ پالش کردو۔مزمل نے بھی جلدی جلدی اس کے بوٹ چمکادیے تو سیٹھ نے بٹوے میں سے رقم نکال کرمزل کو ہاتھ میں دینے کے بجائے نیچے زمین پر پھینک دی اور بڑے غرور سے بولا: لڑکے ! اُٹھاؤ، اپنی مزدوری۔مزمل نے بڑے اعتماد سے کہا: سیٹھ صاحب! میں نیچے پھینکی ہوئی چیزیں نہیں اُٹھاتا۔ اگر مزدوری دینی ہے تو وعزت سے ہاتھ میں کیوں نہیں دیتے؟ شاید آپ نے یہ حدیث نہیں سنی کہ مزدور خدا کادوست ہوتا ہے۔ سیٹھ صاحب! ہماری بھی عزت ہے۔ کیا ہوا، جو ہم غریب ہیں، کل اگر وقت اور حالات نے آپ کو بھی غریب بنادیا تو سوچیں آپ یہ رویہ برداشت کرسکیں گے!مزمل کہتا گیا اور وہ سیٹھ خاموشی سے سنتا گیا۔سیٹھ کو اپنی غلطی کااحساس ہوگیا تھا اس نے وہ رقم زمین سے اُٹھائی اور مزمل کو دیتے ہوئے کہا: بیٹا تم نے مجھے غلطی کا احساس دلایا، اس لیے میں تمھارا شکر گزار ہوں اور اپنے اس رویے کی معافی مانگتا ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ خدا بھی مجھے معاف کردے گا۔ میں اب کبھی غرور اور تکبر نہیں کروں گا۔سیٹھ صاحب! غلطی کااحساس ہی اس کی سزا ہوتی ہے۔اللہ آپ کو معاف فرمائے۔ یہ کہہ کر مزمل نے اس سے پیسے لیے اور اپنے کام میں لگ گیا۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مزمل کو اپنی بہن گڑیا کی تعلیم اور والدہ کی گرتی ہوئی صحت کے بارے میں کافی فکر ہونے لگی تھی۔ اب تو اس نے رات کو بھی کام پرجانا شروع کردیا تھا، لیکن ان کے حالات نہیں بدلے۔ایک دن مزمل کے پاس ایک اجنبی شخص آیا۔ وہ کافی جلدی میں دکھائی دے رہا تھا، اس نے مزمل سے کہا: بیٹا جلدی سے میرے بوٹ پالش کردو۔مزمل نے بھی دیر نہیں لگائی اور جلد سے بوٹ پالش کرکے اس کو دیے۔اس اجنبی نے جب اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو صرف کریڈٹ کارڈ نکلا۔ نوٹ بھی ہزار، پانچ سورپے کے تھے۔بیٹا! اس وقت تو میرے پاس چھوٹے نوٹ نہیں ہیں اور میں جلدی میں ہوں۔ تم ایسا کرو، یہ پرانا پرائز بانڈ رکھ لو، میری تو قسمت میں شاید انعام نہیں ہے، البتہ اگر تمھارا نصیب اچھا ہوا تو یہ ضرور نکلے گا۔اس اجنبی شخص نے جب وہ انعامی بانڈ مزمل کے حوالے کرنا چاہا تومزمل نے وہ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا: کوئی بات نہیں صاحب جی! آپ اگلی مرتبہ پیسے دے دیجیے گا۔و ہ اجنبی بولا: بیٹا میں اس شہر میں اجنبی ہوں اور اپنا ضروری کام نمٹاکے واپس اپنے شہر چلا جاؤں گا، اس لیے یہ انعامی بانڈ میں اپنی رضا مندی سے آپ کو دے رہا ہوں۔ آپ اسے میری طرف سے تحفہ سمجھ کر رکھ لو۔اس اجنبی کے بے حداصرار مزمل نے وہ پرائز بانڈ اپنے پاس رکھ لیا اور تھوڑی دیر بعد وہ اجنبی بھیڑ میں کہیں غائب ہوگیا۔وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ ایک دن مزمل حسب معمول اپنے کام میں مصروف تھا کہ ایک اخبار فروش کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی: انعامی بانڈ کارزلٹ آگیا۔تب مزمل کو خیال آیا کہ اس کے پاس بھی تو ایک انعامی بانڈ پڑا ہے۔اس نے وہ انعامی بانڈ اپنے پالش والے بکس سے نکالا اور اخبار فروش سے کہا: بھائی! مہربانی کرکے یہ میرا نمبر چیک کرکے دو۔اخبار فروش نے اس سے انعامی بانڈلیا اور اس کا نمبر اخبار میں تلاش کرنے لگا اور پھر وہ زور سے چلایا: مبارک ہو، مبارک ہو، تمھارا پچاس لاکھ روپے کا انعام نکلا ہے۔یہ سنتے ہی مزمل کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ اس نے خدا کا شکرادا کیا۔وہ سیدھا اپنے گھر آگیا۔ جب اپنی امی اور بہن کو یہ خوش خبری سنائی تو وہ بھی بہت خوش ہوئیں۔آج مزمل کا شمار شہر کے چند مال دار لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس نے جوتے بنانے کی فیکٹری قائم کرلی تھی، جہاں سے پورے ملک میں مال بھیجا جاتا تھا۔ اس کی والدہ کاعلاج شہر کے ایک اچھے اہسپتال میں ہورہا تھا۔ اس کی بہن گڑیا اعلا تعلیم حاصل کرکے ایک فلاحی اسپتال میں بطور ڈاکٹر کام کررہی تھی۔مزمل نے بھی گریجویشن کرلیا تھا۔ گاڑی، بنگلا، نوکر چاکر غرض خدانے اسے ہر نعمت سے نوازا تھا۔ مزمل نے شادی بھی کرلی اور اب اپنی زندگی فلاحی کاموں کے لیے وقف کررکھی تھی۔ اس نے یتیم اور غریب بچوں کے لیے اسکول اور ہاسٹل بھی کھول رکھے تھے، جہاں انھیں مفت تعلیم وتربیت کے ساتھ رہنے کی جگہ بھی دی جاتی تھی۔اتنی ساری دولت کے باوجود بھی مزمل اپنا پرانا وقت کبھی نہیں بھولا تھا۔وہ رات کو روزانہ اپنا پرانا پالش والا بکس کھول کے دیکھتا تھا، جوا بھی تک اس نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا، پھر کسی سوچ میں ڈوب جاتا تھا اور آبدیدہ ہو کر خدا کاشکر ادا کرتا تھا۔ایک دن اس کی بیوی نے پوچھ ہی لیا تو اس نے جواب دیا: بیگم انسان کو اپنی حیثیت کبھی نہیں بھولنی چاہیے میں اس پالش کے بکس میں اپنی غربت یاد کرتا ہوں، تاکہ دولت کے نشے میں کہیں مغرورنہ ہوجاؤں۔ اس طرح مجھے سکون ملتا ہے اور میں اپنے خدا کاشکرا دا کرتا ہوں۔ " دوست ہو تو ایسا ہو - تحریر نمبر 899,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dost-ho-tu-aaisa-899.html,"ایک جنگل میں بندروں کی ایک ٹولی رہتی تھی۔ اس ٹولی میں دو بچے بھی تھے ، جو اتنے شرارتی تھے کہ ان کے ماں باپ بھی ان سے بہت زیادہ تنگ آگئے تھے۔اسی جنگل میں ایک ننھا ڑراف بھی رہتا تھا۔ وہ بہت ہی سیدھا سادا اوربھولا بھالا تھا۔ ایک مرتبہ چرتے چرتے وہ جنگل کے اس حصے میں آگیا جہاں بندروں کی یہ ٹولی درختوں سے پتے اور پھل فروٹ توڑ توڑ کر کھانے میں مگن تھی۔دونوں چھوٹے شرارتی بندروں نے ڑراف کو دیکھا تو انھیں حیرت ہونے لگی۔ کیوں کہ ان بندروں نے کبھی ایسا کوئی بھی جانور نہیں دیکھا تھا۔بندر کے ایک بچّے نے کہا:” ارے! دیکھو تو کتنا عجیب و غریب جانور ہے ، آو اسے چھیڑتے اور ستاتے ہیں۔“دونوں بندر کودتے پھلانگتے اس درخت پر پہنچ گئے جس کے نیچے کھڑے ہوکر ڑراف گھاس کھارہا تھا ۔(جاری ہے)اس درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر دونوں نے ڑراف سے کہا:” اے لمبو! تیرا کیانام ہے؟“ڑراف نے بڑی نرمی سے کہا:” میں ڑراف ہوں ،کیا مجھ سے دوستی کروگے ؟ تم لوگوں کے نام کیا ہیں ؟“دونوں بندر شرارت سے کھلکھلا کر ہنس پڑے او رکہنے لگے کہ :” تجھ سے ہم کیوں دوستی کرنے لگے؟ کتنا بد صورت ہے تو، مینا رکے جیسی گردن اور سیڑھی کے جیسے پیر۔ہمیں نہیں کرنا ایسے بے ڈھنگے جانور سے کوئی دوستی! “ اتناکہہ کر دونوں بندر ڑراف کو چڑانے لگے۔ اتناہی نہیں ایک بندر نے درخت سے ایک پکا ہوا پھل توڑ کر ڑراف پر پھینک مارا۔ پھل ڑراف کے منہ پر لگ کر پھوٹ گیا اور اس کا رس اور گودا ڑراف کے چہرے پر پھیل گیا۔ یہ دیکھ کر دونوں بندر قہقہہ مار کر ہنسنے لگے اور کود تے پھلانگتے جنگل میں دور بھاگ گئے۔ڑراف بے چارہ روہانسا ہوکر رہ گیا اور منہ لٹکائے وہاں سے چلا گیا۔ایک دن دونوں شرارتی بندر وں نے یہ طے کیا کہ وہ جنگل میں خوب دور تک اکیلے گھومنے اور سیر سپاٹا کرنے کے لیے چلیں گے۔ کیوں کہ وہ لوگ اپنی ماں باپ کی ڈانٹ پھٹکار سے بے حد تنگ آچکے تھے اور ان سے آزادی چاہتے تھے۔صبح صبح جب باقی بندر سورہے تھے ، یہ دونوں شرارتی بندرچپکے سے نکل پڑے۔کچھ ہی وقت میں وہ بندروں کی ٹولی سے بہت دور نکل گئے۔ جب انھیں زوروں کی بھوک لگی تو ان دونوں نے پیڑوں کی پتیاں اور پھل فروٹ کھاکر اپنی پیٹ کی آگ بجھائی۔ انھیں اس طرح گھومنے پھرنے اور موج مستی کرنے میں بڑا مزہ آرہا تھا۔دوپہر ہوچلی تھی وہ دونوں گرمی سے بچنے کے لیے ایک درخت کی ہری بھری شاخوں پر جاکر بیٹھ گئے ، اس درخت کے نیچے ایک شیر آرام کررہا تھا۔اور پیڑ کے آس پاس ایک بڑا ہرا بھرا میدان تھا اور میدان کے کنارے ایک ندی بہہ رہی تھی۔ بندراس سہانے منظر میں ایسا کھوئے کہ انھیں اس بات کا احساس ہی نہ ہوا کہ یہاں ایک شیر بھی موجود ہے۔ لیکن جب شیر نے اس کے چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھیوں کو اڑانے کے لیے غرایا تو بندروں نے شیر کو دیکھ لیا۔ شیر کو دیکھتے ہی وہ بری طرح ڈر گئے ۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد انھیں یہ محسوس ہوا کہ ہم درخت کے اوپر محفوظ ہیں۔چوں کہ ان کے اندر شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لیے یہاں بھی انھیں شرارت سوجھنے لگی اور ان دونوں شرارتی بندروں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارا کیا اور درخت کا ایک پھل توڑ کر نیچے گرادیا۔ پھل سیدھا شیر کی ناک پر گرا ، شیر کو بہت درد ہوا۔اس نے غصے سے دہاڑتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا جب اس نے اوپر کی طرف دیکھا تو اس کی نظر بندروں پر پڑی۔بندر کھی کھی کر کے ہنس رہے تھے ، لیکن وہ زیادہ دیر تک نہ ہنس سکے ، کیوں کہ شیر آپے سے باہر ہورہا تھا۔ اس نے گرج دار آواز میں دہاڑتے ہوئے کہا :”کیا تمہیں معلوم نہیں میں اس جنگل کا راجا ہوں اسی وقت فوراً اس درخت سے نیچے اترومیں تم دونوں کو کھا کر اس گستاخی کی سزا دوں گا۔“بندروں کو پھر ہنسی آگئی۔ انھیں یقین تھا کہ ہم درخت پر محفوظ ہیں۔شیر ان کو اس طرح دوبارہ ہنستے ہوئے دیکھ کر مزید غصے سے آگ بگولہ ہوگیا اور اپنے پیروں کو سمیٹ کر اسپرنگ کی طرح تیزی سے اچھلا۔ ان دونوں شرارتی بندروں نے دیکھا کہ شیر کا جبڑا کھلا ہوا ہے اور اس کے تیز نوکیلے دانت ان کی طرف ہیں اور وہ بڑی تیزی سے اچھلتے ہوئے بالکل ان کے قریب آگیا ہے۔ دونوں بندروں کے تو ہوش ہی اڑ گئے اور ان کی ساری شرارت دھری کی دھری رہ گئی اور وہ دونوں ڈر کے مارے ایک دوسرے سے بری طرح لپٹ گئے۔شیر نے چھلانگ تو بہت اچھی لگائی تھی لیکن وہ وہاں تک نہیں پہنچ سکا جس شاخ پر وہ دونوں بندر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیر نے دوبارہ زبردست چھلانگ لگائی۔ بندروں کی حالت بڑی پتلی ہوگئی تھی وہ ڈر کے مارے چیخنے چلانے لگے لیکن وہاں ان کی پکار سننے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ تو اپنی ٹولی اور اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر بھاگ کر آئے تھے۔ اس درخت کے آس پاس کوئی دوسرا درخت بھی نہ تھا کہ وہ چھلانگ لگا کر اس پر چلے جاتے اور نہ ہی اس درخت پر کہ جس پر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے اونچائی کی طرف کوئی مضبوط شاخ تھی جس پر جاکر وہ بیٹھ سکتے یوں سمجھ لیں کہ شرارتی اور نافرمان بندر آج بری طرح پھنس گئے تھے۔شیر کی تیز دہاڑ اور غراہٹ سے ان کے کانوں کے پردے پھٹ رہے تھے۔ ان کا کلیجا بھی کانپ رہا تھا اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے۔وہ اس حالت میں تھے کہ انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھاکہ یکایک ان کے کانوں میں دھیمے سے آواز آئی کہ :” گھبراوٴ مت ! میں تم دونوں کو یہاں سے نکال لے جاوٴں گا۔ چپکے سے میری گردن کے سہارے میری پیٹھ پر اترآوٴ۔“وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ٹھیک اوپردرخت کے پتوں کے درمیان سے اسی ڑراف کا سر نکلا ہواتھا جس کی ان لوگوں نے ابھی کچھ دن پہلے خوب مذاق اڑائی تھی۔ بندروں نے ایک دوسرے کو شرمندگی سے دیکھا کہ آج وہی ڑراف ہماری جان بچانے کے لیے تیار ہے۔اس ڑراف کو اس دن کی شرارتوں اور مذاق وغیر ہ کا ذرابھی خیال نہیں ہے۔ دونوں بندروں نے اپنی نگاہیں نیچی کرلیں۔ڑراف نے کہا:” میرے دوستو! جلدی کرو اگر شیر نے مجھے دیکھ لیا تو وہ ہم تینوں کو کھاجائے گا۔“بندروں نے اب بلاجھجک اس کی گردن پر پھسلتے ہوئے ڑراف کی پیٹھ پر سوار ہوگئے اور ڑراف انھیں لیے ہوئے تیز رفتاری سے وہاں سے کھسک گیا۔شیر کو پہلے تو پتا نہیں چل سکا کہ کیا ماجرا ہے۔لیکن جب اس نے ڑراف کی پیٹھ پر سوار ہوکر دونوں بندروں کو بھاگ نکلتے ہوئے دیکھا تو اس نے دہاڑتے ہوئے ان کا پیچھا کیا۔بندر وں نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے شیر کو دیکھا تو ان کی جان نکلنے لگی اور وہ بری طرح چیخنے چلانے لگے۔ شیر پوری قوت کے ساتھ بندروں کو پکڑنے کے لیے دوڑ لگارہا تھا اور غراتے جارہا تھا۔ ڑراف نے بندروں کو سمجھایا کہ :” ڈرنے کی کوئی بات نہیں اب تم دونوں بالکل محفوظ ہو۔ شیر مجھے کبھی نہیں پکڑ سکتا۔“اور سچ مچ ہوا بھی ایسا ہی کہ ڑراف نے شیر کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔ایک محفوظ جگہ پر پہنچ کر ڑراف رک گیا بندر چھلانگ لگا کر اس کی پیٹھ سے نیچے اتر گئے۔تب ڑراف نے ان دونوں سے کہا :” اس دن تم دونوں نے میری لمبی گردن اور میری ٹانگوں کی بہت مذاق اڑائی تھی نا ، آج دیکھ لیا نا کہ انھیں کی وجہ سے تم لوگوں کی جان بچ سکی ہے۔ لمبی گردن کی وجہ سے ہی میں تم دونوں کو دور سے دیکھ سکااور درخت سے تم کو اتار سکا۔اور لمبی ٹانگوں کی وجہ سے تیز دوڑ سکا۔ “بندر اس پر کیا کہہ سکتے تھے ، دونوں نے شرم کے مارے اپنی اپنی گردنیں جھکالیں اور خاموش رہے۔ان کی یہ حالت، خاموشی اور شرمندگی کو دیکھ کر ڑراف نے ہنستے ہوئے خود کہا کہ :”چلو! چھوڑو ان باتوں کو ، بھول جاو پچھلے قصے کو ، اب آج سے تو تم میرے دوست بن کر میرے ساتھ روزانہ کھیلو گے نا۔“ڑراف کی یہ بھلائی دیکھ کردونوں شرارتی بندروں کی تو بولتی ہی بند ہوگئی۔انھیں خود کی حرکتوں پر سخت غصہ آنے لگا کہ ان لوگوں نے اتنے اچھے اور پیارے ڑراف کو کیوں ستایاتھا اور اس کی مذاق کیوں اڑائی تھی؟ ان دونوں نے اسی وقت ڑراف سے معافی مانگی۔ ڑراف نے کہا:” دوستو! معافی کی کوئی ضرورت نہیں۔“اتنے بڑے دل والے ڑراف کی یہ باتیں سن کر ان لوگوں نے فیصلہ کرلیا کہ آج کے بعد سے وہ شرارت نہیں کریں گے۔ اور بڑی نرمی اور پیار سے ان دونوں نے ڑراف سے کہا کہ : ” ہم نے تمہیں جان بوجھ کر بہت ستایا تھا ، آج سے ہم کسی کو بھی نہیں ستائیں گے ، نہ کسی کو برا بھلا کہیں گے اور رہی تمہاری بات تو آج سے تم ہمارے سب سے اچھے دوست ہو۔کیوں کہ دوست وہی سچا ہے جو سکھ سے زیادہ دکھ میں کام آئے اور آج تم نے دکھ میں ہمارا ساتھ دے کر یہ ثابت کردیا کہ تم ہمارے سچے دوست ہو۔ دونوں بندروں کی یہ بات سن کر ڑراف کو بڑی خوشی ہوئی اور وہ خوشی سے ناچنے لگا۔ " شکار تماشا - تحریر نمبر 898,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/shikar-tamasha-898.html,"جاوید اقبال:جانے وہ کیسی گھڑی تھی کہ میں نے سہراب بابوکے ساتھ شکار کا پروگرام بنا لیا ۔ ان کے ایک دوست مرزا حشمت بیگ ایک ریاست کے نواب ہیں۔سہراب بابو بولے: میاں ریاست کے ساتھ گھان جنگل ہے۔ شیر، ہاتھی ، ہرن، نیل گائے، بارہ سنگھاجو چاہے شاکر ونہ پر مٹ کا چکر، نہ پولیس کاکھٹکا۔ ابھی ہم نواب حشمت بیگ کی حویلی جارہے ہیں۔تم دیکھنا وہ خود شکار کے لیے تیار ہوجائیں گے۔لالچ میں میری بھی عقل ماری گئی۔ سوچا چلو نواب صاحب کی مہمان داری کالطف بھی اُٹھائیں گے اور شکار کا شوق بھی پورا ہوجائے گا۔ جھٹ پٹ تیاری کرلی، چادریں، بستر، ہتھیار سب سہراب بابو کی موٹر گاڑی میں ٹھونس دیا اور پھر گاڑی میں بیٹھ کرروانہ ہوئے۔کہتے ہیں کہ چلتی کانام گاڑی، مگر سہراب بابوکی گاڑی بھی انہی کی طرح تاریخ نوادر میں سے ایک تھی۔(جاری ہے)قدم قدم پہ اڑیل ٹٹوکی طرح رک جاتی۔ سہراب بابوکبھی انجن کا ڈھکنا اٹھا کر پانی ڈالتے، کبھی مجھ سے کہتے نیچے اُتر کر دھکالگاؤ۔ یوں گاڑی چند کلو میٹر چل جاتی۔ خدا خدا کرکے یہ سفر ختم ہوااور ہم نواب صاحب کی ریاست جاپہنچے۔سہراب بابو نے گاڑی حویلی کے بڑے سے دروازے کے آگے جاروکی۔ملازموں کے ایک ہجوم نے ہمارا استقبال کیا۔ وہ سب سہراب بابو کو جانتے تھے۔ہماری خوب آؤ بھگت ہوئی۔ رات کو نواب صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ خوب موٹے تازے، لمبے قد کے نواب صاح بڑی خوشی دلی سے ملے۔ رات کے کھانے کے بعد گپ شپ بھی ہوئی۔ نواب صاحب کہنے لگے: سہراب بابو! اپنے دوست سے کہیے ہمیں بھی شکار پر ساتھ لے چلیں۔ضرور لے چلیں گے نواب صاحب! سہراب بابو فوراََ بولے۔لیکن ہمیں بندوق چلانی نہیں آتی۔ نواب صاحب نے کہا۔آپ کی بندوق چلانی نہیں آتی؟ حیرات کے مارے میرے منھ سے نکل گیا۔بھئی ہمارے بزرگ توتیروتلوار کے ماہرتھے، مگر ہمیں ان آتشی گولوں سے کبھی دل چسپی نہیں رہی۔ ہمیں تو کنکوا (پینگ) اُڑانے کاشوق ہے۔ بڑے بڑے پتنگ بازوں کے پیچ کاٹے ہیں ہم نے۔ نواب صاحب نے بڑے فخر سے بتایا۔میں نے سہراب بابو کی طرف دیکھا۔ انھوں نے اشارہ کیا کہ بس سنتے جاؤ، پھرنواب صاحب بولے: نواب صاحب آپ فکر نہ کریں۔ہم آپ کوبندوق چلانا سیکھا دیں گے۔نواب صاحب یہ سن کر خوش ہوگئے۔ رات کوجب ہم سونے کے کمرے میں تھے تو میں نے پوچھا: سہراب بابو! کیا ہوگا۔بولے: میاں! تم فکر کیوں کرتے ہو۔ میں سب سنبھال لوں گا۔مگر آپ کیا سنبھالیں گے۔ نواب صاحب کو توبندوق چلانا بھی نہیں آتی ۔ شکار کیسے ہوگا؟ میں نے خدشہ ظاہر کیا۔وہ بولے: میاں! صبح تم نواب صاحب کانشانہ بازی میں ذرا ہاتھ سیدھا کردو، پھر دیکھتے جاؤ کیا ہوتا ہے۔دوسرے دن سہراب بابو تو بہانہ کرکے کہیں غائب ہوگئے اور میں اکیلا پھنس گیا۔ حویلی میں زوروشور سے شکار کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں۔ دوپہر تک نواب صاحب مجھ سے نشانہ لگانا سیکھتے رہے، مگر ان سے ایک نشانہ بھی ہدف پر نہ لگا۔ سہ پہر کے وقت سہراب بابو بھی آپہنچے۔ ادھر سب تیاریاں مکمل ہوگئی تھیں۔ ہم بہت سارے ملازموں کے جھرمٹ میں جنگل کی طرف چل پڑے۔جنگل کے کنارے پر سہراب بابو نے دودرختوں پر مچانیں بندھوادی تھیں۔ بھاری بھر کم نواب صاحب کو بڑی مشکل سے مچان پر پہنچایا گیا۔ میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ دوسرے مچان پر سہراب بابو بیٹھ گئے۔ سب ملازم ادھر اُدھر چھپ گئے۔ہم شیر کا انتظار کرنے لگے۔انتظار کرتے کرتے رات ہوگئی اور چاند نکل آیا۔ نواب صاحب بولے: بھئی شیر کب آئے گا۔مگر میں حیران کہ شیر جنگل کے اس کنارے پہ آئے گاکیسے۔اتنے میں جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی اور پیلے رنگ کی کھال پر سیاہ ڈھاریوں والا جھاڑیوں سے نکل کر سامنے آگیا۔سہراب بابو نے کہا: نواب صاحب گولی چلائیں۔ نواب صاحب نے بندوق سیدھی کی اور گولی چلادی، مگر گولی شیر کولگنے کی بجائے آسمان کی طرف نکل گئی۔اور گولی چلائیں۔ سہراب بابو کی آواز آئی۔نواب صاحب نے پھر گولی چلائی۔ اس دفعہ گولی حیرت انگیزطور پر شیر کو جالگی۔سارا جنگل نعروں سے گونج اٹھا، مگر میں حیران تھا کہ پہلی گولی چلنے کے بعد شیر بھاگا کیوں نہیں۔ نیچے اتر کے دیکھا سچ مچ کا شیر مرا پرا تھا۔اس کامیابی پر حویلی میں خوب جشن منایا گیا۔ دوست احباب کی خوب دعوتیں ہوئیں کافی دنوں بعد ہمیں واپس جانے کی اجازت ملی۔ راستے میں، میں نے پوچھا سہراب بابو! یہ سب کیا ڈراما تھا۔ہنس کربولے: میں نے سارا منصوبہ رات کو ہی بنالیا تھا۔قریبی شہرکے چڑیا گھر کاانچارج میرا دوست ہے۔ اس سے ایک بھس بھرا شیر اور ایک بوڑھا شیر سستے داموں خریدلیے۔ نواب صاحب کے سب ملازم میرے اعتماد والے ہیں۔ جھاڑیوں کے پیچھے چھپے ملازموں نے بُھس بھرا شیر جھاڑیوں سے آگے سرکایا اور خود پیچھے ہٹ گئے۔ پھرنواب صاحب کے درخت سے نیچے اُترتے اترتے بھس بھُس بھرا شیر ہٹاکر پہلے سے مارا ہوشیر وہاں رکھ دیا گیا۔ میاں تھوڑے پیسے خرچ ہوگئے، مگر نواب صاحب کو خوش کرنا تھا، وہ خوش ہوگئے۔ اب ایسا چکر چلاؤں گاکہ دُگنے پیسے وصول ہوجائیں گے۔ " درختوں کی بددعا - تحریر نمبر 897,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/darakhton-ki-bad-duaa-897.html,"سمعیہ غفار:دانش میٹرک کاطالب علم تھا۔ بڑا ہونہار بچہ تھا دردمنددل رکھنے وال۔ کسی کو مصیبت میں دیکھتا تو فوراََ اس کی مدد کو پہنچ جاتا اور اس کی مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ اس سے کسی کوکوئی شکایت نہیں تھی۔ایک روز دانش اسکول سے گھر جارہا تھا تو اسے کسی کی آواز سنائی دی۔ اسے ایسا لگاجیسے کوئی بھکاری صدا دے رہاہو۔دانش اِدھر اُدھر دیکھا تو اسے درخت کے سائے میں ایک بوڑھا شخص نظر آیا، جو سر جھکائے دونوں ہاتھ مٹی میں ڈالے مسلسل صدا لگائے جارہا تھا: درخت لگاؤ ثواب کماؤ، درخت لگاؤ ثواب کماؤ۔دانش اس بوڑھے کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ پودے لگارہاتھا۔ دانش نے قریب پہنچ کر اسلام کیا اور اجازت لے کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔(جاری ہے)بابا! آپ کا نام کیا ہے؟ دانش نے پوچھا۔عرفان! بابا نے کہا۔بابا! آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں اور اس طرح صدائیں کیوں لگارہے ہیں۔ دانش نے سوال کیا۔دانش کی بات سن کربابا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ دانش نے انھیں تسلی دی تو وہ آنسو صاد کرتے ہوئے بولے: ارے بیٹھا یہ بہت لمبی کہانی ہے، تم جاؤ تمھیں دیر ہوجائے گی۔نہیں بابا! آپ بتائیں مجھے دیر نہیں ہوگی۔بابا نے کہنا شروع کیا: یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں انٹرپاس کرکے ایک لکڑی کے کارخانے میں ملازم ہوا۔ اللہ کے فضل سے میں ایک ذہین نوجوان تھا۔ تمام کام جلدی سیکھ گیا اور مہارت بھی حاصل کرلی۔میں اپنے کام میں اتنا ماہر ہوگیا تھا کہ مجھے کسی کی رہنمائی کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ میری ذہانت اور جلد سیکھنے کی صلاحیت نے میرے اندر غرور پیدا کردیا۔میں نے اپنی اس تبدیلی کو محسوس بھی کیا، لیکن نظر انداز کردیا۔ ایک روز میں کام پر دیر سے پہنچا تو کارخانے کے مالک نے مجھے بہت ڈانٹا اور سب لوگوں کے سامنے میری بے عزتی کی۔ اصل میں وہ پہلے سے ہی کسی بات پر غصے میں بھرے بیٹھے تھے مجھے دیکھتے ہی انہوں نے سارا غصہ مجھ پر اتار دیا۔ میں نے ہمیشہ اپنا کام ایمان داری سے کیا تھا اور وقت کابھی ہمیشہ خیال رکھا تھا، اس لئے مجھے اپنے مالک کی بات بہت بری لگی اور میں نے غصے میں آکر ملازمت چھوڑدی۔گھر آکر میں نے اپنی ماں کا سارا قصہ سنایا، ماں نے مجھے بہت سمجھایا کہ بیٹا وہ تمھارے مالک ہیں اور عمر میں بھی تم سے بڑے ہیں، اگر انھوں نے تمھیں کچھ کہہ بھی دیا تو اس میں برائی کیا ہے۔ بڑے جو کہتے ہیں اس میں بچوں کی بھلائی ہی ہوتی ہے۔آج کل کے نوجوانوں میں تو برداشت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ تم کل کارخانے جاکر اپنا کام دوبارہ شروع کرنا۔میں نے ماں کی بات سنی ان سنی کردی اور ضد میں آکر فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے میں اس سیٹھ کے ہاتھوں اپنی مزید بے عزتی نہیں کرواؤں گا اور وہاں کبھی کام کرنے نہیں جاؤں گا۔ مجھے سارا کام آتا ہے، اب میں اپنا کام شروع کروں گا اور اس سیٹھ سے بھی بڑا آدمی بن کردکھاؤں گا۔ آخر یہ سیٹھ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے۔ بس اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرنا شروع کیا اور کچھ رقم قرض لے کر کچھ ضروری مشینیں خرید لیں۔اب مجھے لکڑی کی ضرورت محسوس ہوئی، لہٰذا میں اپنے آس پاس کے علاقے کے درخت کاٹنے شروع کردئے تاکہ اپنا کام شروع کرسکوں۔میری ماں نے مجھے درخت کاٹنے سے بہت منع کیا کہ بیٹا درخت لگانا اور ان کی حفاظت کرنا بہت ثواب کا کام ہے۔ درخت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ درخت ہمارے ملک کوخوب صورت اور ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں۔ درخت ہمیں سبزیاں، پھل، جڑی بوٹیاں اور سیایا فراہم کرتے ہیں۔درختوں کو دیکھ کرہماری آنکھوں کو ٹھنڈک اور سکون ملتا ہے۔ ہمارے بینائی تیز ہوتی ہے۔ درخت ہمیں آکسیجن دیتے ہیں جو ہماری زندگی کے لئے بہت ضرور ہے۔ اس کے علاوہ درخت ہمارے ماحول کو آلودگی سے بھی بچاتے ہیں۔غرض میری ماں نے مجھے درختوں کے بہت فائدے بتائے اور مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ میں درخت کاٹنے جیسے گھناؤنے جرم سے باز رہوں۔لیکن میں اپنی ضد پر اڑا رہا اور اپنی ماں کی نصیحت کو نظر انداز کردیا۔ایک روز میں درخت کاٹنے میں مصروف تھا کہ مجھے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی میں نے ادھر اُدھر دیکھا تو کوئی نظر نہ آیا، آواز بڑھتے بڑھتے سسکیوں میں تبدیل ہوگئی، لیکن میں نے آواز کی طرف توجہ نہ دی اور اپنے کام میں مصروف رہا۔ اتنے میں ایک ننھی چڑیا اڑتی ہوئی اائی اور میرے سامنے پھڑپھڑانے لگی، شاید وہ کچھ کہنا چاہتی تھی، لیکن میں اس کی بات نہ سمجھ سکا۔گھرآکر میں نے ماں سے اس بات کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ سسکیاں ان درختوں کی تھیں جنھیں تم کاٹ رہے تھے اور وہ فریاد کررہے تھے کہ ہمیں مت مارو ہمیں جینے دو۔ اور وہ ننھی چڑیا اپنے گھر کی بربادی پر تڑپ رہی تھی اور تم سے التجائیں کر رہی تھی کہ خدا کے لئے مجھے بے گھر مت کرو۔میں نے ماں کی بات کوہنس کرٹال دیا کہ درخت بھلا کیسے روسکتے ہیں وہ توبول بھی نہیں سکتے۔ماں نے کہا بیٹا درخت جان دار ہیں وہ سب کچھ محسوس کرسکتے ہیں۔وقت گرتا گیا میں نے خوب دل لگا کر محنت کی، اپنا کارخانہ لگالیا، درخت کی ریل پیل ہوگئی اور آخر کار میں سیٹھ سے بھی زیادہ دولت مند ہوگیا۔ اس دوران میری عمر بھی کافی زیادہ ہوگئی اور میری ماں بھی اللہ کو پیاری ہوگئی میں اکیلا رہ گیا۔ مرتے دم تک ماں یہی کوشش کرنا اور میں ہمیشہ یہی سوچتا کہ بھلا درخت کیسے بددعا دے سکتے ہیں۔ایک روز میں اپنے کارخانے میں کام کررہا کہ اچانک کارخانے میں آگ لگ گئی۔ دھوئیں سے میرا دم گھٹنے لگا اور میں بے ہوش گیا جب ہوش میں آیا تو میں اسپتال میں تھا مجھے سانس کی بیماری لاحق ہوگئی اور میرا سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا۔ اس وقت مجھے اپنی ماں کی بہت یاد آرہی تھی، لیکن افسوس اس بات کا تھا کہ وہ اس مشکل گھڑی میں میرے ساتھ نہیں تھی۔ایک رات ماں میرے خواب میں آئی اور مجھے پیار کرکے کہنے لگی : دیکھو بیٹا تم نے میری بات نہیں مانی اور درختوں اور ننھی چڑیا کی بددعا تمھیں لگ گئی۔ دیکھو بیٹا! پرندے، جانور اور درخت سب جان دار ہیں یہ کچھ بولتے نہیں، لیکن محسوس سب کرتے ہیں۔ ان کی اندر بھی زندگی ہوتی ہے۔ اتنا کہہ کر وہ چلی گئیں۔جب میں صبح بیدار ہوا تو میری زندگی ہی بدل چکی تھی۔مجھے اپنی ماں کی تمام باتیں اچھی طرح سمجھ میں آچکی تھیں۔ میں نے اٹھ کر نماز ادا کی، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور فیصلہ کیا کہ میں اب کبھی درخت نہیں کاٹوں گا، بلکہ مزید پودے اور درخت لگاؤں گا، تاکہ میرے گناہوں کی تلافی ہوسکے اورمرنے کے بعد مجھے سکون مل سکے، اسی لیے میں اور لوگوں کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ درخت لگاؤ ثواب کماؤ، درخت لگاؤ ثواب کماؤ۔بابا اپنی داستان سناتے سناتے رو پڑے اور دانش سے بولے بیٹا‘ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے تم مجھ سے وعدہ کرو تم گھر جا کر ایک پودا، ضرور لگاؤ گے اور ہمیشہ اس کا خیال رکھو گے اور اس کی بددعا سے بھی بچو گے۔دانش نے بابا سے وعدہ کیا اور گھر پہنچ کر اس نے گھر کے باہر ایک ننھا پودا لگایا اور اس پودے کے ساتھ ایک چھوٹا سابورڈ بھی آویزاں کردیا، جس پر لکھا تھا: درخت اور پودے ہمارے بیش بہا سرمایہ ہیں‘ آؤ آگے بڑھو اور شجرکاری مہم میں اپنا حصہ ڈالو۔ آؤ زیادہ سے زیادہ درخت لگاؤ ثواب کماؤ۔ " ہمدردی - تحریر نمبر 896,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hamdardi-896.html,"سمیراانور:ثناء اُداسی سے اپنے کمرے میں بیٹھی تھی وہ آج کے واقعہ سے بہت پریشان تھی ہمدردی اور رحمدلی کا جذبہ اس میں کوٹ کوٹ کربھراہوتھا۔ وہ کسی کو تکلیف اور اذیت میں نہیں دیکھ سکتی تھی اتنے میں اس کی امی کمرے میں داخل ہوئی وہ بولیں۔ بیٹھا․․․ تم نے سکول سے آکر کھانا بھی نہیں کھایا اور ہوم ورک بھی نہیں کیا۔تمہارطبیعت ٹھیک ہے۔ جی امی لیکن آج جو میں نے دیکھا اس سے مجھے بہت دکھ ہوا ہے کہ ہمارے اردگرد کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ زبان سے کچھ نہیں کہتے۔ یہ کہہ کرثنا بے اختیار روپڑی۔ اس کی امی پریشان ہوکر کہنے لگی۔بیٹا․․․ کیا بات ہے مجھے بتاؤ۔ امی ہمارے دوسرے سیکشن کی ایک لڑکی جس کانام فضیلہ ہے اس کو آج ٹیچر نے کلاس سے نکال دیا کیونکہ اس کے پاس مطلوبہ کتاب نہیں تھی وہ روزانہ یہی کہتی تھی کہ میری کتاب گھر رہ گئی ہے۔(جاری ہے)ٹیچر کل لے کر آؤں گی لیکن در حقیقت اس کے پاس کتابیں نہیں ہیں ایک دو ہیں جو پرانی حالت کی ہیں وہ روزانہ لڑکیوں سے کتاب مانگ کر سارا کام رجسٹر پراتارتی اور گھرجا کت یاد کر لیتی لیکن آج جب کتابیں چیک کی گئیں تو اس کے پاس ایک بھی نہیں تھی جس پر اس کوکلاس سے نکال دیا۔ اس کے ساتھ بیٹھنے ولی لڑکی نے بتایاکہ وہ بہت غریب ہے شام کوبچوں کوٹیوشن پڑھاتی ہے تاکہ گھر کا گزارہ ہوسکے اس کے والد کابھی انتقال ہوگیا ہے۔مجھے یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا کہ ہم اپنی زندگی میں کتنے مگن ہوتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے حالات کاپتہ تک نہیں ہوتا۔اس کی امی نے کہا۔ بیٹا! ہم سے جتنا ہوسکا ہم اس کی مدد کریں گے۔ اس کوکتابیں بھی لے کردیں گے آپ پریشان نہ ہوبلکہ تمام دوستیں مل کر اپنی پرنسپل صاحبہ کے پاس جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ وہ مستقل اس کے وظیفے کاانتظام کریں۔ ثنانے پر سوچ نگاہوں سے اپنی امی جان کودیکھا اور مسکرادی۔اگلے دن اس نے تمام دوستوں کا اٹھاکیا اور انہیں ترغیب دی کہ وہ مل کر ایسی بہت سے لڑکیوں کی مدد کریں گی جوپڑھنا چاہتی ہے لیکن حالات ان کا ساتھ نہیں دیتے سب اس کی بات سے متفق ہوگئیں اور اپنے اپنے حصے کی چیزیں بانٹ لیں جو وہ اپنی جیب خرچ سے لے کر دیا کریں گی۔ اس کے بعد وہ پرنسپل صاحبہ کے پاس گئیں۔ پرنسپل یہ سب سن کر بہت خوش ہوئیں انہوں نے باقاعدہ ایک فلاحی تنظیم بنادی اور ثنا کو اس کاصدر منتخب کردیا۔اس نے بہت خوشی سے ذمہ داری اور پوری ایمانداری سے ہر ہفتے تمام ممبران کی موجودگی میں ایک مستحق لڑکی کووظیفہ دیاکرتی۔ ایسا کرکے وہ نہ صرف اپنے ضمیر کے سامنے مطمئن ہوئی بلکہ اسے ذہنی سکون بھی مل گیا۔بچو آپ بھی اپنے اردگرد ایسے لوگ دیکھیں جو پڑھ لکھ کر کچھ بننا چاہتے ہیں لیکن غربت ان کے آڑے آ جاتی ہو۔ ہوسکتا ہے آپ کی وجہ سے کسی کی زندگی بدل جائے کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ آپ بھی ایک بار کوشش ضرور کریں۔ " آٹو گراف - تحریر نمبر 895,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/autograph-895.html,"سمعیہ غفار میمن:آپی !ہفتے کوہماری یونیورسٹی میں الوداعی پارٹی ہے۔ شازیہ نے خوشی سے نازو کو بتایا۔اچھا تو میں کیا کروں؟ نازو نے میگزین منھ کے سامنے سے ہٹاتے ہوئے کہا۔آپی! تمھیں پتا ہے پارٹی میں کون آرہاہے؟ شازیہ جستجوپیداکرنے کی کوشش کی۔شازیہ بتانا ہے تو جلدی بتاؤ اور مجھے تنگ مت کرو۔دیکھ رہی ہونا کہ میں کہانی پڑھ رہوں، جاؤ یہاں سے نازوہ کوکہانی کے دوران مداخلت برداشت نہیں تھی۔وہی آپی! جس کی تم کہانی پڑھ رہی ہو۔ میرامطلب ہے تمھاراپسندیدہ ادیب اور شاعر۔ نازو اٹھتے ہوئے بولی۔فاروقی صاحب آرہے ہیں! نازو خوشی سے اچھل پڑی، پھر شازیہ کوپکڑتے ہوئے بولی: میری پیاری بہن! تم مجھے پارٹی میں لے چلو گی نا؟جی نہیں، یہ ہماری یونیورسٹی کی پارٹی ہے۔(جاری ہے)وہاں صرف طالب علم ہی آسکتے ہیں۔ شازیہ نے بہن کوستانا شروع کیا۔شازیہ ! تم توانتطامیہ میں ہو، پلیز کسی طرح مجھے وہاں لے چلو۔ میں ان سے صرف آٹوگراف لوں گی۔ نازو نے التجا کی۔ٹھیک ہے آپی! میں کوشش کرتی ہوں۔ شازیہ نے تسلی دیہفتے کے روز دونوں بہنیں تیار ہوکر پارٹی میں پہنچیں۔ شازیہ نے نازو کوہال میں بٹھایا اور بولی: آپی! تم یہاں بیٹھنا، مجھے کچھ کام ہے، میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔لیکن میں فاروقی صاحب کو پہچانوں گی کیسے؟ میں نے توانھیں کبھی دیکھا ہی نہیں ہے۔ نازو نے کہا۔آپی! میں آکر تمھیں بتادوں گی۔ شازیہ اپنے کاموں میں لگ گئی اور نازو فاروقی صاحب کا انتطار کرنے لگی۔ تمام مہمان آگئے اور تقریب کاآغاز بھی ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد شازیہ آئی اور ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔ آپی! وہ رہے فاروقی صاحب۔عام سی شلوار قمیص پہنے ادھیڑ عمرکے ایک آدمی کے ساتھ فاروقی صاحب تشریف فرماتھے۔نازو انھیں دیکھ کر بہت خوش تھی اور حیران بھی، کیوں کہ فاروقی صاحب کے متعلق نازو نے جیسا سوچا تھا وہ اس کے بالکل برعکس تھے۔ یہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک خوب روا ور کم عمرنوجوان تھے۔ اتنی کم عمری میں اتنی زیادہ ترقی بس یہی بات نازو کو حیران کررہی تھی۔ نازو اوران کی تحریریں کافی عرصے سے پڑھ رہی تھی، اس لیے اس کے ذہن میں فاروقی صاحب کا کچھ اور خاکہ تھا۔نازو بے چینی سے تقریب ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی، تاکہ فاروقی صاحب سے آٹو گراف لے سکے۔ تقریب ختم ہوئی تولوگوں نے فاروقی صاحب کو گھیرلیا لوگوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے وہ یہ دیکھ سکی کہ آٹو گراف کون دے رہاہے۔ اب نازو ہجوم کم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ جوں ہی لوگ کم ہوئے، نازو بھاگ کر فاروقی صاحب کے پاس پہنچی اور بولی: سر! میرانام نازیہ ہے اور میں آپ کی بہت بڑی مداح ہوں۔بہت شکریہ“ وہ حیرانی سے بولے۔سر! آپ کی شخصیت ماشاء اللہ بہت پراثر ہے“ نازو نے کہا۔جی بہت شکریہ۔ انھوں نے کہا۔سر! آپ کا طرز تحریر بہت عمدہ اور اسلوب بیان اعلا ہے۔ میں نے آپ کی ہر نظم اور ہر کہانی پڑھی ہے۔ جس طرح آپ کی تحریریں رسالے میں باقاعدگی سے شائع ہوتی ہیں بالکل اسی طرح میں بھی باقعدگی سے آپ کو پڑھتی ہوں۔آپ میرے پسندیدہ ادیب ہیں۔ آپ کی اکثر شاعری مجھے زبانی یاد ہے۔ نازو نے تعریف کے پل باندھے۔لیکن میں تو․․․․ انھوں نے کچھ کہنا چاہا۔مجھے آپ سے ملنے کا بہت شوق تھا۔ شکرہے آج آپ سے ملاقات ہوگئی۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ نازو پُرجوش ہوکر بولی۔بہت شکریہ۔ وہ بولے۔سر! آٹوگراف پلیز۔ نازو نے آٹوگراف بک دیتے ہوئے کہا۔ضرور۔انھوں نے کچھ لکھ کر بک نازو کو واپس کردی۔آپ کی لکھائی بہت صاف ہے۔ نازو نے آٹو گراف پڑھتے ہوئے کہا۔شکریہ۔ انھوں نے عاجزع برقرار رکھی۔یہ کیا! نازو کی نظر آٹو گراف کے آکری میں لکھے نام پرپڑی” آپ سلیم فاروقی نہیں ہیں۔جی نہیں۔ انھوں نے انکار میں سرہلایا۔پھر؟ نازو نے پوچھا۔حامد انصاری ! میں بھی سلیم فاروقی صاحب کا بہت بڑا مداح ہوں اور ان سے آٹو گراف لینے آیاتھا۔حامد نے کہا۔تو پھر سلیم فاروقی کون ہیں؟ نازو نے پوچھا۔وہ جومیرے ساتھ تشریف فرماتھے شلوار قمیص پہنے ہوئے۔ حامد بولا۔شلوار قمیص والے! نازو حیران ہوئی۔میں اسی بات پر توحیران تھا کہ میں نے اب تک صرف ایک ہی کہانی لکھی ہے، جو ابھی شائع نہیں ہوئی ہے توآپ میری مداح کیسے بن گئی ہیں۔ دراصل میں نے فاروقی صاحب سے متاثر ہوکر یہ کہانی لکھی ہے، لیکن میں شاعر نہیں ہو۔کہانی کی اصلاح اورآٹوگراف لینے فاروقی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ حامد نے پوری بات تفصیل سے بتائی۔آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ نازو کو غصہ آگیا۔آپ نے پہلے پوچھا ہی نہیں۔ حامد نے کہا: ویسے میں نے آپ کو بتانے کی کوشش کی تھی، لیکن آپ نے موقع ہی نہیں دیا۔اب فاروقی صاحب کہا ہیں؟ نازو نے پوچھا۔وہ توچلے گئے۔حامد بولا۔نازو نے پوچھا: چلے گئے؟ لیکن کہاں؟ ابھی تو مجھے ان سے آٹو گراف بھی لینا ہے۔وہ باہر کی طرف گئے ہیں۔ حامد نے باہر کی طرف اشارہ کیا۔نازوکو اپنے آپ پر اور حامد انصاری پر بہت غصہ آرہا تھا۔ وہ باہر کی طرف لپکی، تاکہ سلیم فاروقی کوروک کر آٹو گراف لے سکے۔ جب وہ باہر پہنچی تواس نے دیکھا کہ فاروقی صاحب رکشے کود ور جاتا دیکھتی رہی، پھر وہ بوجھل قدموں سے ہال میں واپس آئی اور شازیہ کا انتظار کرنے لگی۔ " دادا اور سلام - تحریر نمبر 893,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/daad-aur-salam-893.html,"صدف عنبرین:ہمارے دادا جان کی عادت تھی کہ وہ ملنے والے ہر آدمی کوسلام کیاکرتے تھے، چاہے جان پہچان ہویا نہ ہو ہمیں بعض اوقات ان کی اس عادت کی وجہ سے شرمندگی کا احساس ہوتا تھا، مگر بعد میں پتا چلا کہ مذہبی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ہم ایسا محسوس کرتے تھے۔ دادا جان تو چلتے پھرتے نیکیاں کما رہے تھے۔ وہ لوگوں کوسلام کی صورت میں دعا دیتے اور لوگ بھی جواب میں ان کو دعا دیتے تھے۔یہ دسمبر کا واقعہ ہے۔ کالے کوٹ اور ہیٹ میں ایک آدمی اپنی لمبی کارسے اُتر کر سامنے اسٹور میں جارہا تھا، جس کے لیے اُسے ہمارے پاس سے گزرنا تھا۔ جب وہ قریب آیاتو دادا ابانے بلند آواز سے السلام وعلیکم“ کہا۔ دادا اباسلام کرکے آگے بڑھ چکے تھے اور میں کن انکھیوں سے اُس آدمی کودیکھ رہاتھا، جو حیران پریشان پیچھے مڑکر دیکھ رہا تھا، پھر اُس کے لب معمولی سے ہلے، شاید اُس نے ” وعلیکم السلام“ کہا تھا۔(جاری ہے)میری ہنی اور شرمندگی دونوں ہی دادا ابا کی تیز نگلاہوں سے چھپی نہ رہ سکیں۔ انھوں نے پوچھ ہی لیا: کیوں برخودار! مسلمان گھر کے بچے ہو، پھر یوں سلام پر ہونقوں کی طرح سرکیوں گھماتے چلے آرہے ہو؟ تم بھی کچھ زبان کو تکلیف دے لو۔ دادا بانے نصیحت کرتے ہوئے کہا۔میں اپنی اُلجھن دور کرنے کے لیے کہا: دادا با! لوگ ہنستے ہوں گے، جان نہ پہچان، سلام بھائی جان!ہنستے ہوں گے؟ کیایہ لوگ تمھیں غیر مسلیم دکھائی دے رہے ہیں؟ ہمارے رسول اللہ ﷺ کاحکم بھی ہے اور سنت بھی کہ سلام کوعام کرو۔خدا اور رسولﷺ کاکوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا، بچے یہ سن کر میں نے سرجھکا دیا۔ہمیں نئی نویلی سائیکل خرید کردی گئی تھی اور پھر اسکول کی چھٹیاں بھی تھیں۔ ہماری تو عید ہی تھی۔ نئی سائیکل کا جوش ہمیں اپنے محلے سے کچھ آگے لے آیا تھا، مگر کوئی بات نہیں کتنی دور چلے جائیں، چند منٹ میں واپس آسکتے ہیں۔ ہم نے پیار سے اپنی سائیکل تھپ تھپائی۔سامنے ہی خوب صورت باغ تھا، جس میں طرح طرح کے پھول لگے ہوئے تھے اور خوب صورت جاگنگ ٹریک ( دوڑ لگانے والا راستہ) گویا ہمیں سائیکل چلانے کی دعوت دے رہاتھا۔ ابھی ہم اندر داخل ہوئے ہی تھے کہ کسی نے ہمارے گردن دبوچ لی، اب جو مڑکردیکھا تو وہاں کاچوکیدار خونخوار نظروں سے گھور رہاتھا اور قریب ہی رہنے والے کچھ لوگ بھی کھڑے تھے۔کیا ہوا بھئی! ہم سائیکل چلانے آئے ہیں۔ہم نے بھی زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر گردن چھڑاتے ہوئے کہا۔مجھے لگتا ہے، یہی لڑکا ہے جو روز باغ سے پھول توڑ کرلے جاتاہے! چوکیدار نے کسی سے کہا۔ اس کے الفاظ نے گویا ہماری روح ہی فنا کردی۔کہاں رہتے ہوتم؟ اس محلے میں؟ ایک قدرے معقول آدمی نے آگے بڑھ کر ہم سے سوال کیا۔نہیں نہیں، ہم تووہاں سے ، اُدھر سے، گھر قریب ہے ہمارا۔اب مکمل طور سے گڑبڑا کر اُلٹا سیدھا بھول رہے تھے۔ وین سے اسکول اور اسکول سے گھر آتے جاتے راستوں سے زیادہ مانوس نہیں تھے۔کیا ہوا بھئی؟ ایک اور شخص کابھیڑ میں اضافہ ہوا: کون ہے یہ؟ آنے والے بغور ہمارا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا۔فراست صاحب! یہ چور ہے، پھول چراتاہے۔ چوکیدار کے ان الفاظ پرہمارا دل تڑپ اُٹھا۔ذرا آرام سے خاں صاحب! یہ بچہ تو کل عشا کی نماز پڑھ کر کسی بزرگ کے ساتھ برابر والی کالونی کی مسجد سے نکل رہاتھا۔کسی معززگھرانے کابچہ لگتا ہے۔ اجنبی نے چوکیدار کوٹوکا توہم نے بھی نظر اُٹھائی۔ یہ تو کالے کوٹ اور ہیٹ والا وہی اجنبی تھا، جسے کل دادا ابانے نے سلام کیا تھا۔آپ جانتے ہیں اس کے گھر والوں کو؟ لوگوں نے مطمئن انداز میں سر ہلاتے ہوئے وہاں سے قدم بڑھائے۔جانتا ہوں، سلام کلام ہوجاتاہے․․․․ کوٹ والاا جنبی مجھے لے کر میرے محلے کی جانب بڑھا۔بیٹھا! گھر تو پہچان جاؤ گے نااپنا؟ اجنبی نے پیارسے پوچھا۔جی ․․․ وہ․․․ارے تم کہاں سے چلے آرہے ہو، تمھارے دادا مسجد میں کھڑے تمھیں ڈھونڈ رہے ہیں؟ سامنے ہی پھل والا ریڑھی گھسیٹتا ہمارے قریب آیا اور انکل کومشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگا۔میں راستہ بھول گیاتھا۔ انھوں نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے۔ سامنے مسجد سے حی الفلاح کی صدائیں آرہی تھیں اور گیٹ پر ہی مجھے دادا ابا نظر آرہے تھے۔میں انکل کا شکریہ ادا کرکے تیزی سے مسجد کی طرف دوڑا۔ سائیکل باہر کھڑی کرکے میں اندر داخل ہوا۔السلام وعلیکم بابا ! میں جیب سے ایک رپے کاسکہ نکال کر سیڑھی پہ بیٹھے فقیر کے ہاتھ میں تھمایا۔السلام وعلیکم انکل! السلام وعلیکم انکل! میں نے وضو کے لیے بیٹھے ہوئے دائیں بائیں دونوں طرف سلام کیا اور وضو کے لیے آستین کے بٹن کھولنے لگا۔ دادا ابا مجھے دیکھ کر مطمئن انداز میں اگلی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔اور میری سمجھ میں بھی اچھی طرح آگیا کہ اللہ اور رسول ﷺ کاکوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا، مگر ہم نادان تجربہ کیے بغیر سمجھ نہیں پاتے۔ " اخلاق کے کرشمے - تحریر نمبر 891,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/akhlaq-kay-karishmay-891.html,"حبیب اشرف صبوحی:خوش اخلاقی اور حکمت عملی سے انسان کئی مشکل کام کروا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ واقعات میں سے دو پیش ہیں:میرے ایک عزیز کراچی سے لاہور آئے اور کچھ عرصے یہاں قیام کیا۔ وہ روالپنڈی جانا چاہتے تھے۔ ان کی نشست میں نے کراچی سے آنے والی ریل میں مخصوص کرادی۔ جب ہم مقررہ وقت راولپنڈی جانے کے لیے اپنی نشستوں پر پہنچے تودیکھا کہ وہاں ایک بزرگ خاتون بچوں سمیت بیٹھی ہیں۔جب ہم نے بتایاکہ یہ نشستیں ہماری ہیں تووہ لڑنے پہ اتر آئیں اور کہنے لگیں: ہم توکراچی سے راولپنڈی تک کے لیے بک کروا آئے ہیں۔ ہم خالی نہیں کریں گے۔میرے عزیز بزرگ خاتون کی باتیں بڑے تحمل اور صبر سے سنیں اور کہنے لگے: اماں جان! آپ بیٹھی رہیں آپ کے بچے بھی یہیں بیٹھیں۔(جاری ہے)ان اتناوقت نہیں کہ ٹکٹ چیکرسے یہ فیصلہ کروائیں کہ یہ نشستیں کس کی ہیں؟ ہم فرش پربیٹھ کرگزارا کرلیں گے۔پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوکرکہنے لگے: دیکھو، ان کی شکل ہماری والدہ سے کتنی ملتی ہے۔ میرا سفر اچھا گزرے گا۔انھوں نے اپنے بچوں کے لیے جوبسکٹ اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں خریدی تھیں، فوراََ ہی بزرگ خاتون اور ان کے بچوں کوپیش کردیں۔ کچھ دیر بعد بزرگ خاتون نے خود ہی ان کی نشستیں خالی کردیں اور کہا: تم نے چھوٹے ہوتے ہوئے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا۔میں تمھاری تعلیم وتربیت کی قائل ہوگئی ہوں۔راولپنڈی پہنچ کرمیرے عزیز بتایاکہ وہ میرے رویے سے اتنی متاثر ہوئیں کہ جب ہم جداہونے لگے تو کہنے لگیں: راولپنڈی میرے گھر ضرور آنا۔ میں تم سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ہوں۔یہ سب اچھے اخلاق اور اچھی حکمت عملی کانتیجہ تھا۔ ورنہ کوئی اور ہوتا توشاید وہ سارے راستے لڑتے ہوئے جاتے۔اسی طرح میں بذریعہ ریل ایک روز راولپنڈی سے لاہور آرہاتھا۔ریل میں بہت ہجوم تھا۔ کافی لوگ کھڑے تھے۔ میرے سامنے کی بڑی نشست پردو اشخاص بیٹھے تھے۔ ریل چلے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ایک ضعیف آدمی بڑی مشکل سے چلتا وہاںآ یاں اور سامنے بیٹھے دونوں اشخاص سے درخواست کی: مجھے بیٹھنے کی تھوڑی سی جگہ دے دیں۔انھوں نے ادھراُدھر کھسک کراسے تھوڑی سی جگہ دے دی۔ وہ ضعیف آدمی شکریہ ادا کرتے ہوئے بیٹھ گیا۔کچھ دیر بعد ان دو میں سے ایک شخص کسی کام سے گیا۔ راستے میں اسے کھڑے مسافروں میں کوئی رشتے دارمل گیا۔ وہ اسے ساتھ لے آیا اور ضعیف آدمی سے کہنے لگا: اب نشست چھوڑدو۔ میرے یہ عزیز کافی دیر سے کھڑے ہیں۔ضعیف آدمی نے نشست خالی کردی اور رنجیدہ شکل بناتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔ چند لمحے بعد ٹکٹ چیکرآیا۔ اس نے سب کے ٹکٹ دیکھے بھالے۔ جب وہ ضعیف آدمی کے پاس پہنچا اور اس کاٹکٹ دیکھا، توحیرانی سے بولا: باباجی! آپ کی نشست ہے جس پر دو لوگ بیٹھے ہیں اور آپ کھڑے ہیں؟ٹکٹ چیکرنے ان دونوں آدمیوں کواٹھا دیاجو بابا جی کی نشست پر ” قبضہ گروپ“ بنے براجمان تھے اور وہ مستحق شخص جس کی نشست تھی، کھڑا تھا۔یہ ضعیف آدمی کی اعلا ظرفی تھی کہ اس نے ان لوگوں کونہیں بتایا کہ نشست اس کی ہے اور وہ پریشانی اور تکلیف میں کھڑا ہے۔ میں نے ایسا اعلا ظرف شخص کبھی نہیں دیکھا۔ یہ کردار بھی میں نہیں بھول سکتا۔ " سیانا بھلکّڑ - تحریر نمبر 890,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/siana-bhulakkar-890.html,"زینب تاجور:حیدرآباد سے بیس بائیس کلومیٹر دورایک چھوٹے سے خوب صورت گوٹھ میں ایک لڑکا منورعلی سومرد رہتا تھا۔ وہ بے انتہافرماں بردار، اخلاق، پڑھاکو، لیکن اول درجے کابھلکڑ تھا۔ مہینے بھر پہلے کی بات کاکیا ذکر، وہ توگزشتہ کل کی بات بھی بھول جاتاتھا، اسے خودبھی اپنی اس کمزوری کااحساس تھا، لیکن بے چارہ کیاکرتا۔ہزار کوشش کے باوجود منوراپنی اس کم زوری پر قابو پانے میں ناکام رہا۔ اس کے علاج معالجے میں کوئی کسرنہ چھوڑی گئی، لیکن سب بے فائدہ، بھلکڑپن جوں کاتوں برقرار رہا۔ بس ایک خوبی تھی کہ منور ہرسال امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوجاتا تھا۔ اس پر اس کے ابوبھی حیرت زدہ رہتے تھے۔ایک اتوار کوصبح ناشتے سے فارغ ہوکرمنور اپنا ہوم ورک مکمل کررہاتھا کہ اس کے ابوکمرے میں آئے اور بولے: منور بیٹے! میں ایک ضروری کام سے جارہاہوں، شام تک آؤں گا۔(جاری ہے)تم ایسا کرو کہ حیدرآباد چلے جاؤ اور بازار سے گھر کاسودا سلف خرید کرلے آؤ۔ فہرست اپنی امی سے بنوالینا۔ ایک ہزار کانوٹ میں نے تمھاری ڈکشنری کے نیچے دباکررکھ دیاہے۔ بس کے کراے کے لیے کچھ پیسے امی سے لے لینا۔ ہوشیار رہنا کہ کوئی جیب کتراتمھیں اس نوٹ سے محروم نہ کردے۔ٹھیک ہے بابا سائیں! جیسا آپ کاحکم۔ میں پوری احتیاط کروں گا۔اور ہاں، ایک ضروری بات اور۔اس کے ابو کمرے سے باہر جاتے جاتے رک کر بولے: اب تم خاصے بڑے ہوگئے ہو، اس لیے تمھیں میرا سہارا بننا چاہیے۔ آیندہ گھرکے چھوٹے موٹے کام تم خود ہی کرلیا کرو۔جی بابا سائیں! میں پوری پوری کوشش کروں گا۔منور بس اڈے پر پہنچا ہی تھا کہ بس آگئی۔ بس بھری ہوئی تھی۔ کنڈکٹرنے اس ایک موٹی عورت کے ساتھ بٹھادیا۔ پتانہیں وہ سورہی تھی یااونگھ رہی تھی۔منور کے ساتھ بیٹھنے پراس نے لمحہ بھرکے لیے آنکھیں کھول کراسے دیکھاا ور پھر اونگھنے لگی۔ عورت حلیے سے غریب لگ رہی تھی۔ اس کے کپڑے معمولی اور میلے تھے۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ اس کی گود میں ایک پرانا اور بدرنگ بٹوارکھا ہوا تھا، جس کافیتہ اس نے اپنی انگلیوں میں لپیٹ رکھا تھا۔ منور کواس غریب عورت سے خاصی ہمدردی محسوس ہوئی، لیکن وہ کیا کرسکتا تھا۔بس چلی تو صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں نے منور کوبھی اونگھنے پر مجبور کردیا، لیکن پھر وہ چونک کرسیدھا ہوگیا مجھے جاگتے رہنا چاہیے۔ اس نے کود سے کہا: اگر میں سوگیااور کسی نے میری جیب سے ہزار کانوٹ نکال لیا توقیامت ہی آجائے گی۔منور نے اپنی ران میں زور سے ایک چٹکی بھری۔ نیند تھوڑی دیر کے لیے ضرور غائب ہوگئی، لیکن کب تک صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی فرحت بخش ہواؤں نے اسے پھر تھپک کر سلادیا۔پتانہیں کیاہوا تھا، شاید نیند کازور دار جھونکا تھا کہ منوراپنی طرف دیکھا سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا بچا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر بس کے اندر چاروں طرف دیکھا سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا کچھ مسافر اونگھ رہے تھے اور کچھ باہر دیکھ رہے تھے۔ منور کو اچانک نوٹ کاخیال آیا اور اس نے فوراََ اپنی اوپری جیب میں ہاتھ ڈال دیا۔ ہزار کانوٹ غائب ہوچکا تھا۔ وہ بدحواس ہوگیا۔جلدی جلدی ساری جیبیں دیکھ ڈالیں، لیکن نوٹ کاکہیں پتانہیں تھا۔ اس نے سیٹ کے نیچے بھی جُھک جُھک کر کئی بار دیکھا، لیکن نوٹ کونہ ملنا تھانہ ملا۔ اب میں کیا کروں، اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا۔ کیامیں اس موٹی عورت سے پوچھوں یابس کنڈکٹر سے کہوں کہ کسی نے میری جیب سے ہزار کانوٹ نکال لیا ہے، لیکن اس سے کیا ہوگا۔ جیب کترا تونوٹ چُرا کر پچھلے کسی اسٹاپ پر اُتر گیاہوگا۔منور دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگاکہ اگروہ اتنی غفلت کاثبوت نہ دیتا اور خود کونیند دے محفوظ رکھتا تویہ نوبت نہ آتی۔ اب میں اپنے بابا سائیں کوکیامنھ دکھاؤں گا۔اچانک منور کے ذہن میں ایک کونداسالپکا کہ کہیں وہ نوٹ اس موٹی عورت نے تومیری جیب سے نہیں نکال لیا۔ ضرور یہی بات ہے۔ اسے کسی طرح پتا چل گیا ہوگا کہ میری اوپری جیب میں ہزار کاایک نوٹ پڑا ہے۔بس اس نے مجھے سوتا دیکھ کر چپکے سے نوٹ نکال لیا۔ اب میں کیا کروں۔ کیامیں کنڈکٹر سے کہوں کہ اس عورت نے میرا نوٹ چُرایا ہے، لیکن اگر تلاشی لینے پرنوٹ اس کے پاس سے نہ نکلا تومیری کتنی سبکی ہوگی۔ بہتر ہے کہ چوری کاالزام لگانے سے پہلے اس کے بٹوے کی تلاشی لے لوں۔منور نے چور نظروں سے چاروں طرف دیکھا اور عورت کی گود سے پرس اُٹھالیا۔اسے بالکل خبر نہ ہوئی اور وہ اسی طرح سوتی رہی۔ منور نے زپ کھول کردیکھا توسامنے ایک سرخ رنگ کے روما پر ہزار کانوٹ رکھا ہوا تھا۔ اسے حیرت کاایک شدید جھٹکا سا لگا: تومیرا شبہ درست نکلا۔ اس نے خودسے کہا، یہ عورت جیب کتری ہے۔ اسی نے میری جیب سے ہزار کانوٹ نکالا ہے۔خیر بات بڑھانے کاکوئی فائدہ نہیں۔ مجھے میرا نوٹ واپس مل گیا، اب اور کیا چاہیے۔اس نے پرس سے نوٹ نکال کراپنی جیب میں رکھا اور زپ بند کرکے احتیاط سے دوبارہ عورت کی گود میں رکھ دیا۔ عورت ابھی تک سورہی تھی۔شام کوچار بجے منور گھر میں داخل ہوا تواسے سامان سے لدا پھندا دیکھ کراس کے ابوہکابکارہ گئے۔” ہائیں یہ کیا؟ منور! بغیر پیسوں کے اتنی ساری خریداری تم نے کیسے کرلی؟ اس کے ابو نے تعجب سے پوچھا۔یہ آپ کیاکہہ رہے ہیں باباسائیں! کیا آپ نے مجھے ہزار روپے کانوٹ خریداری کے لیے نہیں دیا تھا۔ منور حیرت سے بولا۔ضرور دیاتھا، لیکن وہ نوٹ تو تم گھرہی پر چھوڑ کرحیدرآباد چلے گئے تھے۔ اپنے کمرے میں جاکر دیکھو۔ ہزار کانوٹ ابھی تک ڈکشنری کے نیچے دبا ہوا رکھا ہے۔ " غرورکی سزا - تحریر نمبر 889,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gharoor-ki-saza-889.html,"روبینہ ناز:ایک جنگل میں منٹواور پنٹونامی دو بندرہتے تھے۔ دونوں دن بھرخوب اچھلتے اور شرارتیں کرتے۔ منٹو عادت کا اچھا اور رحمددل تھاجبکہ پنٹو غصیلا اور مغرور طبیعت کامالک تھا۔ کبھی کبھی منٹواسے سمجھاتاتو منٹو کہتا۔ میں پھر تیلابندرہوں۔ میری پھرتی اور اونچی چھلانگ کاکوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ منٹوایک دن جنگل میں پھل تلاش کررہاتھا کافی تلاش کے باوجود جب اسے اپنی پسند کاپھل نہیں ملا تو وہ درخت کے پتے اور بیرکھاکرپیٹ بھرنے لگا۔اچانک پنٹو آگیا منٹوکوبیرکھاتادیکھ کرکہنے لگا‘ تم بیرکیوں کھارہے ہو؟ کیا تمہیں اچھے پھل نہیں ملے؟ منٹونے نفی میں سرہلایاتو پنٹو بولا“ چلوہم جنگل کی دوسری جانب چلتے ہیں اور وہاں ہمیں اپنی پسند کے پھل ضرور ملیں گے۔(جاری ہے)منٹونے کہا ہمارے بڑوں نے اس حصے میں جانے سے منع کیاہے وہاں اکثر شکاری گھومتے ہیں۔ پنٹو نے کہا‘ تم میرے ساتھ چلومیں دیکھتاہوں کیسے شکاری پکڑتے ہیں۔منٹومجبور ہوکرپنٹو کے ساتھ چل پڑا۔ جنگل کے اس حصے میں انہیں پھلوں سے لدے ہوئے درخت ملے منٹونے کچھ پھل کھائے اورپنٹو سے کہا۔ چلواب ہم واپس چلتے ہیں۔ پنٹونے کہا۔ میں توایسی یہاں گھوموں گااور سیر کروں گا۔ یہ کہتے ہی پنٹونے چھلانگ لگائی اور درخت کے اوپر چڑھ کرایک شاخ پکڑ کے جھوٹنے لگا۔ کچھ دیر بعد انہیں درختوں کے بیج میں ایک تھام میں پھل دیکھ کرپنٹو کی رال ٹکپنے لگی۔وہ جیسے ہی ان پھلوں کی طرف لپک تومنٹو بولاپنٹو مجھے خطرے کی بوآرہی ہے۔ تم وہاں نہ جاؤ۔ پنٹونے اس کی بات نہ سنی اور نیچے چھلانگ لگادی اور جیسے ہی پنٹو نے تھال میں سے پھل اٹھایا ایک جال کہیں سے آگرا جس میں وہ پھنس گیا۔ کچھ ہی دیرمیں ایک شکاری آیااور پنٹو کو جال سے نکال کراس کے گلے میں رسہ باندھ کراپنے ساتھ لیاگیا۔ منٹو بے چارہ درخت پربیٹھایہ سب دیکھ رہاتھا۔ وہ اپنے دوست کوبچانے کیلئے کچھ نہیں کرسکا۔ اسے خیال آیاکہ ان کے بزرگ کہتے ہیں۔ کہ بیٹا” بڑا بول آگے آتا ہے۔ پنٹو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ اپنی پھرتی اور چالاکی پرغرور کرتاتھا لیکن وہ آک اس کے کچھ کام نہ آئی۔ " اورچڑیاں اڑ گئیں - تحریر نمبر 888,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aur-chiriyan-urr-gayin-888.html,"بچوں نے دیکھا کہ کمرے کے روشن دان سے ایک چڑیا آئی اور ٹیوب لائٹ پر بیٹھ گئی۔ پھراڑ کر چلی گئی۔دوپہر تک چار چڑیاں پھر آئیں ، آکر ٹیوب لائٹ پر بیٹھ گئیں۔ پھر باہر سے چاروں تنکا چونچ میں رکھ کر لاتیں اور باہر جاتیں۔ تین دنوں تک چڑیا ں اپنا گھونسلہ بناتی رہیں۔ اور بچے ان کو توڑتے رہے۔ چڑیوں کے ذریعے لائے گئے گھاس پھوس اور تنکے بچے اٹھا اٹھا کر گھر کے باہر مسلسل پھینکتے رہے۔کئی دنوں تک بچوں اور چڑیوں کی یہ جنگ جاری رہی۔ چڑیاں گھاس پھوس، تنکے، ڈوری، روئی ، جو بھی ملتا لا لا کر اپنا گھونسلہ بناتی رہیں۔ بچے صبح اس کو دیکھتے ہی توڑتاڑ کر پھینک دیتے۔بچوں نے کچھ دن بعد دیکھا کہ چڑیے کا ایک بچہ ٹیوب لائٹ پر بیٹھنے کی کوشش کررہا ہے۔ انھوں نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ ہم اسٹول پر کھڑے ہوکر ٹیوب لائٹ کے اوپری حصے کی طرف بنے ہوئے اس گھونسلے کو بھی توڑ کر باہر پھینک دیں۔(جاری ہے)بچے گھونسلہ توڑ کر پھینکنے کی بات چیت کرہی رہے تھے کہ ان کی ماں جو ادھر سے گذررہی تھیں اس نے سن لیا اور کہنے لگی:” بچو ! کیا کررہے ہو؟“ بچے بولے:” ماں ماں ! دیکھو نا ایک تو چڑیوں نے ہمارے کمرے میں اپنا گھونسلہ بھی بنا لیا ہے اور اوپر سے ایک بچہ بھی ہے جو گندگی پھیلا رہا ہے ہم اس گھونسلے کو توڑنے کی بات کررہے ہیں۔“ماں بولی:” نہیں نہیں ، بچو! گھونسلہ مت توڑنا ، اگر چڑیا تمہار ا گھر توڑ دے تو تمہیں کیسا لگے گا؟“بچوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر بولے:” ماں ماں! دیکھو نا انھوں نے ہمارا کمرہ کتنا گندہ کردیا ہے ہمارے بستر اور بیڈ پر بھی گندگی پھیلا دی ہے۔“ماں نے پیار سے بچوں کو دیکھا اور انھیں نرمی سے سمجھایا کہ :” دیکھو بچو! جیسے میں تمہاری ماں ہوں ، ویسے ہی چڑیاں بھی اپنے بچوں کی ماں ہیں ، اگر کوئی تمہیں پریشان کرے گا تو مجھے دکھ ہوگا اور اگر کوئی تمہاری ماں کو پریشان کرے گا تو کیا تمہیں اچھا لگے گا؟“بچے بولے:” نہیں نہیں ماں! آپ کو اگر کوئی تکلیف دے گا تو ہم اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔“ماں بولی :”بچو! اسی طرح تم بھی چڑیوں کو مت مارو، ان کا گھونسلہ مت توڑو، وہ تو اپنے بچوں کے بڑا ہونے کا انتظار کررہی ہیں۔ جب ان کے بچے اپنے پروں سے خود اڑنے کے لائق ہوجائیں گے تو وہ یہاں سے خود بہ خود اڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔ پھر وہ آسمان کی طرف اڑتے ہوئے تمہیں بہت بھلے لگیں گے۔ “بچے بولے:” جی امی جان! اب ہمیں سمجھ میں آگیا ، ہم اب کبھی بھی گھونسلوں کو نہیں توڑیں گے۔“ ماں نے خوش ہوکر بچّوں کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا:’ ’ شاباش! میرے لاڈلو! تم اسی طرح اچھی عادتیں اپنے اندر پیدا کرو۔چند دنوں بعد چڑیا کے بچے بڑے ہوگئے اور پھر کچھ دن اور گھونسلے میں رہنے کے بعدوہاں سے اڑگئے۔ ماں نے یہ دیکھ کر کہا کہ :” دیکھو بچو! چڑیا ں اڑ گئیں۔“ " ریچھ کا شکار - تحریر نمبر 887,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/reech-ka-shikar-887.html,"کاغان کی خوب صورت وادی مغربی پاکستان کے شمال میں واقع ہے۔ اس کا موسم کشمیر کی طرح نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ یہ علاقے چاروں طرف سے بلند پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، جن میں صاف شفاف پانی کی ندیاں بہتی ہیں۔ اس وادی میں بالاکوٹ کے مقام پر ایک خوبصورت کوٹھی میں احسن کی والد جو محکمہ جنگلات کے افسر تھے، رہا کرتے تھے۔احسن اور اس کا چھوٹا بھائی ضیا دونوں گرمیوں کا موسم اپنے والد کے پاس ہی گزارا کرتے۔ایک روز دونوں بھائی سیر کو نکلے۔ چوں کہ اس علاقے میں جنگلی جانوروں کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے، اس لیے باہر جاتے وقت احسن اپنی شکاری بندوق ہمیشہ ساتھ لے جاتا اور آج بھی بندوق اس کے پاس ہی تھی۔دونوں بھائی اطمینان سے باتیں کرتے چلے جارہے تھے کہ احسن نے ضیا کا بازو پکڑ کر اسے ایک دم ٹھہرادیا۔(جاری ہے)کیا ہے؟ ضیا نے گھبرا کر پوچھا اور پھر احسن کے منہ کی طرف دیکھنے لگا۔اس نے اسے خاموش کرنے کے لیے اس کے منہ پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ دیا اور پھر فوراً ہی بندوق تان کر سامنے فائر کردیا، فائر کے ساتھ ہی وہ سڑک کے پار جھاڑیوں کی طرف بھاگا اور ضیا کو بھی اپنے پیچھے پیچھے بھاگنے کو کہا۔ اب ضیا سمجھا۔ اس نے دیکھا کہ سامنے سے ایک ریچھ کا بچہ لنگڑاتا ہوا بڑے عجیب انداز سے ان کی طرف چلا آرہا ہے۔ وہ گولی کھا کر زخمی ہوچکا تھا۔جونہی وہ ان کے قریب آیا، اس نے اپنا منہ اور دونوں پنجے ان پر حملہ کرنے کے لیے اوپر اٹھائے، اس نے بڑھ کر بندوق کا دستہ ان کے منہ پر زور سے دے مارا جس سے اس کے منہ سے خون فوارے کی طرح بہنے لگا۔ زخمی تو وہ ہی چکا تھا۔ دوسری ضرب کھا کر اور کچھ دیر زمین پر تڑپنے اور شور مچانے کے بعد وہیں ختم ہوگیا۔ احسن نے خوشی کا ایک نعرہ لگایا اور ضیا کو ایسی نظروں سے دیکھنے لگا، گویا اس کی زبان سے اپنی بہادری کی تعریف سننا چاہتا ہے۔اب اسے گھر لے چلیں؟ ضیا نے کہا۔ ہاں ابا جان کو دکھائیں گے۔ اس نے جواب دیا۔لیکن مجھے تو اس پر رحم آتا ہے تم نے اس بے چارے کو مارا کیوں۔ ضیا نے کہا۔”کیوں مارا؟ یہ موذی جانور ہے۔ نہ مارتے تو یہ ہمیں مار ڈالتا، احسن نے مردہ ریچھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر ضیا کی طرف دیکھنے لگا لیکن ضیا نے اس کی بات نہ سنی کیوں کہ اس کی توجہ کسی اور طرف چلی گئی تھی۔وہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس کے کانوں میں کچھ فاصلے پر سے خوفناک قسم کی آواز آرہی تھی اور اب اس آواز کو دونوں بھائی سن رہے تھے۔ یہ آواز لمحہ بہ لمحہ نزدیک آنے لگی، اچانک احسن نے گھبرا کر ضیا کو دونوں کندھوں سے پکڑ لیا۔ریچھ! ریچھ آگیا۔گھبراہٹ میں یہ الفاظ اس کے منہ سے نکلے اور سامنے ایک بہت بڑا سیاہ ریچھ نمودار ہوا۔وہ اپنے خوفناک سر کو زمین کی طرف جھکائے بڑے خطرناک انداز سے آرہا تھا۔دونوں بھائیوں پر اس قدر دہشت چھاگئی کہ انہیں کچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔ بندوق احسن کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن اسے اندازہ تھا کہ گولی بھرنے اور نشانہ باندھنے سے پہلے ہی ریچھ اسے آلے گا۔ وہ بندوق زمین پر پھینک قریب کے ایک درخت پرچڑھ گیا اور ضیا کو بھی فوراً دوسرے درخت پر چڑھنے کی ہدایت کی۔ریچھ نہایت تیزی سے ادھر ادھر زمین کو سونگھتا ہوا اپنے بچے کے قریب آیا اور اسے چاروں طرف سے ہلا جلا کر سونگھنے لگا۔ ریچھ سونگھ کر معلوم کرلیتا ہے کہ لاش میں جان ہے یا نہیں جب اسے تسلی ہوگئی کہ بچہ مرچکا ہے تو اس نے ایک دردناک چیخ ماری جس سے سارا جنگل ہل گیا اور دونوں بھائیوں کے دل بھی دہل گئے۔ اب وہ لاش کو چھوڑ کر ان دونوں کی طرف لپکا۔غصے کے مارے اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔پہلے وہ اس درخت کے قریب آیا جس پر خوفزدہ احسن بیٹھا ہوا تھا۔ ریچھ نے اپنا بھاری سر اوپر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اپنے پنجے درخت پر جما کر اس پر چڑھنا شروع کردیا۔ ضیا دور ایک درخت پر بیٹھا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اور خوف سے لرز رہا تھا۔ابھی ریچھ احسن تک پہنچا نہ تھا کہ احسن چھلانگ لگا کر اسی درخت کے ساتھ والی شاخ پر کود گیا۔ریچھ دوسری شاخ تک نہ جاسکتا تھا۔ اس لیے وہ اب نیچے اتر آیا تاکہ نیچے سے دوسری شاخ کی طرف جاسکے۔اسی دوران میں ضیا نے اپنے بھائی کی جان بچانے کے لیے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیا۔ اس نے درخت سے نیچے اتر کر زمین پر پڑی ہوئی بندوق اٹھائی اور گولی بھر کر ریچھ پر نشانہ لگایا۔ ریچھ جو ابھی درخت کے تنے پر ہی چڑھنے کی کوشش کررہا تھا زخمی ہو کر ایک دم مڑا اور احسن کو چھوڑ کر ضیا کی طرف دوڑا جو اب بندوق پھینک کر دوبارہ در خت پر چڑھ رہا تھا۔دونوں کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا تھا۔ ریچھ نے اپنا اگلا پنجہ اسے مارا جس سے وہ زخمی ہونے سے تو بچ گیا لیکن اس کی لٹکتی ہوئی قمیض کے ٹکڑے علیحدہ ہو کر ریچھ کے پنجے میں رہ گئے اور ریچھ پھسلتا ہوا زمین پر آگیا۔ احسن نے دوسرے درخت پر سے بھائی کو آواز دی کہ اور اوپر چڑھ جائے کیوں کہ ریچھ دوبارہ درخت پر چڑھ رہا تھا۔اب جب احسن کو ضیا کی جان خطرے میں نظر آئی تو وہ درخت پر سے اترا اور ایک گولی ریچھ پر چلادی۔ریچھ جو ضیا سے اب چند فٹ کے فاصلے پر تھا، گولی کھاتے ہی دھڑام سے زمین پر آگرا۔ اس دوسری گولی کا زخم اتنا کاری ثابت ہوا کہ وہ گرتے ہی ٹھنڈا ہوگیا۔ضیا نے جو درخت کی بہت اونچی شاخ پر بیٹھا تھا، جب ریچھ کو اس طرح زمین پر گرتے دیکھا تو اس نے خیال کیا کہ شاید ریچھ کو گولی نہیں لگی بلکہ اس نے درخت پر سے احسن پر چھلانگ لگا دی ہے اور اب وہ احسن کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔یہ خیال آتے ہی وہ بھائی کے غم میں اپنے حواس کھو بیٹھا اور غش کھا کر درخت سے نیچے گر پڑا لیکن خوش قسمتی سے وہ مردہ ریچھ کے اوپر گرا جس کے بدن کی کھال اور بڑے بڑے بالوں نے اس کے لے گدیلے کا کام دیا، جب اسے ہوش آیا تو ریچھ کو مردہ اور بھائی کو زندہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی اور پھر دونوں بھائی ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔اب ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ دونوں ریچھ اور اس کے بچے کو گھسیٹتے ہوئے گھر لے گئے اور جب دونوں بھائیوں نے سب واقعات گھر والوں کو سنائے تو وہاں ان کی بہادری پرحیران رہ گئے اور دونوں بھائیوں کی اس محبت کی یادگار کے طور پر ریچھ اور اس کے بچے کی کھال اتروا کر انہوں نے اپنے کمرے کی دیوار پر لٹکادی۔ " اب بلا نہیں آئے گا - تحریر نمبر 886,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ab-bala-nehin-aye-gi-886.html,"عارف شین روہیلہ:میں سبزی لے کرجیسے ہی گھرمیں داخل ہوا، ننھا فہد میری طرف دوڑتا ہوا آیا۔اس نے آتے ہی میرامنھ اپنی طرف کرتے ہوئے خوشی سے کہا: بابا․․․․ آپ پہلے میری بات سنیں۔اس کے کے ساتھ ہی محمد علی نے میرامنھ اپنی طرف کرتے ہوئے بے پناہ خوشی سی کہا“ بابا، بابا! بھئی ہمارے کمرے میں بلی پانچ بچے لائی ہے۔ننھے فہدنے وضاحت کرتے ہوئے کہا: بابا! اتنے اتنے سے پانچ بچے ہیں ایک کالا، ایک سفید، دو بھوزے اور ایک بلی کے رنگ کے جیساہے۔محمدعلی نے کہا: بابا! وہ بلی ثاقب کے گھرسے اپنے بچے لائی ہے، بہت پیارے اور معصوم ہیں۔ وہ چوزے جتنے بڑے ہیں۔بابا! وہ دودھ پیتے اورمعصوم سی آواز میں میاؤں، میاؤں کرتے ہیں۔ نسخے فہد نے کہا۔(جاری ہے)میں اس وقت بہت تھکاہواتھا، اس کے باوجود میں نے ان کی بات غور سے سنی ۔میرے بچے اسکول سے چھٹی کے بعد اپنی ماں کے پاس ہی گھرمیں پڑھتے ہیں۔بھئی! یہ توتم نے بہت اچھی بات بتائی، مگرتم لوگ ان بچوں کوہاتھ نہیں لگانا، ورنہ بلی پنجہ مارکرتمھیں زخمی کردے گی۔ پھربہت تکلیف ہوگی۔ میں نے انھیں سمجھاتے ہوئے کہا۔بابا! فہدنے کالے والے بچے کوہاتھ میں اُٹھالیاتھا، مگربلی نے اسے کچھ بھی نہیں کہا۔ہیں بھئی؟ میں نے ننھے فہدسے مصنوعی حیرت سے پوچھا تووہ سہم کربولا: میں نے تواسے یونہی پیارکرنے کے لیے ہاتھ لگایاتھا، علی بھائی نے بھی تواسے اُٹھایاتھا۔دیکھوبھئی! بلی کے چھوٹ بچوں کوہاتھ نہیں لگاتے۔ خارش اورکھانسی ہوجاتی ہے اور اگربلی کوغصہ آجائے توپنجہ بھی ماردیتی ہے۔ میں نے انھیں ڈراتے ہوئے سمجھایاتووہ اپنی ماں کے پاس جاکر پھرسے پڑھنے بیٹھ گئے۔اسی شام کوجب میں تھکاہاراگھرپہنچا تووہاں اپنے بچوں کے بہت سے ہم عمر دوسروں کودیکھا۔ ننھا فہد اور محمدعلی خوشی خوشی اپنے دوستوں کوبلی کے بچے دکھانے کے لیے لائے تھے۔اتنے سارے بچوں کودیکھ کر بلی پریشان ہوگئی تھی۔ مگر وہ خاموشی سے اپنے بچوں کودودھ پلاتی رہی، جب کہ تمام بچے حیرت سے بلی اور اس کے بچوں کوتکتے رہے۔جب کافی رات ہوگئی تومیں نے سب بچوں کوان کے گھربھیج دیااور اپنے بچوں کواندرلے آیااور پھر ہم سب سوگئے۔ رات کوتقریباََ دوبجے بلیوں کے چیخنے کی آواز پرمیں اُٹھ بیٹھا۔ اس وقت میراتھکن سے برا حال تھا، مگراس شور کی وجہ سے نیند ٹوٹ گئی تھی۔بلیوں کی آوازیں سن کردونوں بچے اوربیگم بھی جاگ گئی تھیں۔ جب کسی طور بھی آوازیں کم نہ ہوئیں تومیں فہدکاپلاسٹک ولابیٹ لے کرباہرآگیا۔ روشنی ہوتے ہی میں نے دیکھاکہ بلی ایک بلے کے سامنے کھڑی ہے اور اسے بچو ں کے قریب آنے سے روک رہی ہے۔ بلے کودیکھتے ہی میں نے غصے سے بیٹ بلّے پرپھینک مارا، جواس کی کمرپرلگا اور وہ فوراََ ہی دیوار پھلانگ کرغائب ہوگیا۔بلّے کے جاتے ہی بلی خاموش ہوکراپنے بچوں سے جالپٹی اور میں بھی اپنے کمرے میں آگیا۔ننھے فہد نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا: بابا! بلی کیوں چیخ رہی تھی؟ میں نے اسے بتایا: بلا اس کے بچوں کوکھانے کے لیے آگیاتھا، اس لیے۔کیوں بابا؟ اس نے رٹارٹایاسوال کیا۔ اس وقت میں آرام کے موذمیں تھا، اس لیے میں نے چڑتے ہوئے کہا: سوجاؤمنے! میں بہت تھک گیاہوں۔میری خفگی دیکھ کروہ سہم گیااور میرے گلے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہوگیا۔ تھوڑی دیربعد مجھے بھی نیند آگئی۔ رات کوتقریباََ ساڑھے تین بجے پھر بلیوں کے چیخنے پرمیں غصے سے اٹھ بیٹھا۔ اس کم بخت بلی اور اس کے بچوں کی وجہ سے میرا آرام وسکون برباد ہوگیا تھا۔ اس وقت بھی بلیوں کی آوازیں اتنی تیزتھیں کہ بیگم اور بچے بھی جاگ گئے۔ ابھی میں نے اٹھ کرباہرجانا ہی چاہاتھا کہ بیگم بولیں: ٹھیریں ، میں دیکھتی ہوں۔یہ کہتے ہوے وہ اٹھ کرباہرگئیں۔ ابھی انھوں نے باہرکابلب روشن ہی کیاتھا کہ بلادیوارپھلانگ کرواپس بھاگ گیا۔ اس کے جاتے ہی بلی خاموش ہوگئی اور بیگم بھی کمرے میں آگئیں۔صبح ہوتے ہی اس بلی اور اس کے بچوں کوسامنے والے کارخانے میں بھجوادینا، کم بختوں نے میراسونا عذاب کردیاہے۔میں نے یہ بات غصے سے کہی تھی، جوفہد کوبری لگی، اسی لیے وہ اٹھ کراپنی ماں کے بستر پرچلاگیا اور جاتے ہی ان سے بولا: کیوں امی؟ منے کے سوال کواس کی ماں سمجھ گئی تھیں۔انھوں نے شفقت سے ننھے کے سر پرہاتھ پھیرا اور اسے سونے کی تلقین کرنے لگیں۔ ہم پھرسوگئے ، مگرذراہی دیرمیں بیگم کی آنکھ کھل گئی۔ ابھی انھوں نے کروٹ ہی لی تھی کہ بدحواسی سے فہد کوادھراُدھر تلاش کرنے لگیں۔ انھوں نے اٹھتے ہی پہلے لائٹ روشن کی، فہد کومیرے پاس، پھرمحمدعلی کے پاس پلنگ کے نیچے بھی دیکھا، مگروہ انھیں کہیں نظر نہ آیا، پھروہ پریشانی کی حالت میں مجھے اٹھاتے ہوئے بولیں: فہد کہاں ہے؟فہد؟ مجھے کیامعلوم، وہ آپ کے ساتھ ہی توسورہاتھا۔میں نے چونک کرآنکھیں ملیں اور بدحواس ہوگیا۔ رات کے اس پہر فہد کے غائب ہونے پرہم گھبراگئے۔ کمرے سے نکلتے ہی میں نے برآمدے کی لائٹ روشن کی اور فہد کوآوازیں دیناشروع کردیں، مگرحیرت یہ تھی کہ وہ یہاں بھی نہیں تھا، اس وقت ہم دونوں پر انجاناخوف سوار تھا، بیگم جلدی جلدی باتھ روم کی طرف گئیں، مگراسے وہاں بھی نہ پاکرپریشان ہوگئیں۔کہاں چلاگیا؟ وہ خود سے بڑبڑائیں، پھرفوراََ ہی گیلری کی طرف دوڑیں تو یہ دیکھ کرحیرت زدہ رہ گئیں کہ فہد اپنا پلاسٹک کابیٹ لیے دیواردے ٹیک لگاکر بلی اور اس کے بچوں کے قریب سورہاہے۔بیگم نے مجھے بلایاتومیں بھی حیرت کامجسمہ بنااسے تکتارہا، پھربیگم نے جیسے ہی اسے اٹھایا تووہ چونک کربیدارہوگیا۔ رات کے اس پہروہ ہمیں اپنے سامنے دیکھتے ہی بولا: آپ جائیں، سوجائیں، بلااب نہیں آئے گا۔ میں ہوں نا! میں اس بلّے سے اسے ماروں گا۔ اپنے معصوم بچے کی اتنی ہمت اور جانورسے ہمدردی کاجذبہ دیکھ کرمیری آنکھیں کھل گئیں۔ میں نے اسے پیارکرتے ہوئے کہا: فکرنہ کروفہد! صبح ہوتے ہی ہم اس بلی اور اس کے بچوں کے لیے ایک لکڑی کاگھرتیارکریں گے، جس میں وہ محفوظ طریقے سے رہ سکیں گے۔اس طرح پھر بِلا انھیں تنگ نہیں کرے گا۔ کیوں ٹھک ہے نا اور وہاں، ہم اس کے لیے دودھ ملائی کابھی انتظام کریں گے۔ میں نے سنجیدگی سے کہا۔وہ خوشی سے کھل اٹھا: ٹھیک ہے بابا! یہ کہتے ہی وہ فرط جذبات سے میرے سینے سے آلگا۔ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ اس ننھے بچے میں ہمدردی کاواہ جذبہ موجود تھا جومیرے دل ودماغ سے نکل گیاتھا۔ " چڑیاکی تین نصیحتیں (حکایت رومی) - تحریر نمبر 885,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chirya-ki-3-naseehatain-885.html,"عبیرہ خان:ایک شخص نے چڑیاپکڑنے کے لئے جال بچھایا۔ اتفاق سے ایک چڑیااس میں پھنس گئی اور شکاری نے اسے پکڑلیا۔ چڑیانے اس سے کہا۔ اسے انسان! تم نے کئی ہرن‘ بکرے اورمرغ وغیرہ کھاتے ہیں ، ان چیزوں کے مقابلے میں میری کیاحقیقت ۔ ذراسا گوشت میرے جسم میں ہے اس تمہارا کیابنے گا؟ تمہارا تو پیٹ بھی نہیں بھرے گا۔لیکن اگرتم مجھے آزادکودوتو میں تمہیں تین نصیحتیں کروں گی جن پرعمل کرنا تمہارے لئے بہت مفید ہوگا۔ ان میں سے ایک نصیحت تومیں ابھی کروں گی۔ جبکہ دوسری اس وقت جب تم مجھے چھوڑدو گے اور میں دیوار پرجابیٹھوں گی۔ اس کے بعد تیسری اور آخری نصیحت اس وقت کروں گی جب دیوارسے اڑکرسامنے درخت کی شاخ پرجابیٹھوں گی۔ اس شخص کے دل میں تجس پیدا ھوا کہ نہ جانے چڑیاکیافائدہ مند نصیحتیں کرے۔(جاری ہے)اس نے چڑیاکی بات مانتے ہوئے اس سے پوچھا۔ تم مجھے پہلی نصیحت کرو‘ پھر میں تمہیں چھوڑدوں گا۔ چنانچہ چڑیانے کہا۔ میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ” جوبات کبھی نہیں ہوسکتی اس کایقین مت کرنا۔ یہ سن کراس آدمی نے چڑیاکوچھوڑدیااور وہ سامنے دیوار پرجابیٹھی پھربولی۔ میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ جوبا ہوجائے اس کاغم نہ کرنا“ اور پھر کہنے لگی۔اے بھلے مانس تم نے مجھے چھوڑ کربہت بڑی غلطی کی۔ کیونکہ میرے پیٹ میں پاؤ بھرکاانتہائی نایاب پتھرہے۔ اگرتم مجھے ذبح کرتے اور میرے پیٹ سے اس موتی کانکال لیتے تواس کے فروخت کرنے سے تمہیں اس قدر دولت حاصل ہوتی کہ تم بہت بڑے رئیس بن جاتے ۔ اس شخص نے جویہ بات سنی تولگاافسوس کرنے۔ اور پچھتایاکہ اس نے چڑیاکوچھوڑ کراپنی زندگی کی بہت بڑی غلطی کی۔اگر اسے نہ چھوڑتاتومیری زندگی سنورجاتی۔ چڑیانے اسے اس طرح سوچ میں پڑے دیکھاتواڑکردرخت کی شاخ پرجابیٹھی اور بولی۔ اے بھلے مانس! ابھی میں نے تمہیں پہلی نصیحت کی جسے توبھول گئے کہ جوبات نہ ہوسکنے والی ہواس کا ہرگزیقین نہ کرنا۔ لیکن تم نے میری اس بات کااعتبار کرلیاکہ میں چھٹانک بھروزن رکھنے والی چڑیا اپنے پیٹ میں پاؤوزن کاموتی رکھتی ہوں۔کیایہ ممکن ہے؟ میں نے تمہیں دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ جوبات ہوجائے اس کاغم نہ کرنا۔ مگرتم نے دوسری نصیحت کابھی کوئی اثر نہ لیااور غم وافسوس میں مبتلا ہوگئے کہ خواہ مخواہ مجھے جانے دیا۔ تمہیں کوئی بھی نصیحت کرنابالکل بے کارہے۔ تم نے میری پہلی دونصیحتوں پرکب عمل کیا جوتیسری پرکرو گے۔ تم نصیحت کے قابل نہیں۔ یہ کہتے ہوئے چڑیاپھرسے اڑی اور ہوامیں پرواز کرگئی۔وہ شخص وہیں کھڑا چڑیاکی باتوں پرغور وفکر کرتے ہوئے سوچوں میں کھوگیا۔وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں کوئی نصیحت کرنے والاہو۔ ہم اکثر اپنے مخلص ساتھیوں اور بزرگوں کی نصیحتوں پرکان نہیں دھرتے اور اس میں نقصان ہماراہی ہوتاہے۔ یہ نصیحتیں صرف کہنے کی باتیں نہیں ہوتی بلکہ دانائی اور دوسروں کے تجربات سے حاصل ہونے والے انمول اثاثے ہیں۔ جو یقینا ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں اگرہم ان پرعمل کریں۔ " نیک دل پری - تحریر نمبر 884,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naik-dil-pari-884.html,"ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک ملاح تھا، دریا کے کنارے اس کا خوبصورت سا مکان تھا۔ اس کے پاس ایک نہایت ذہین طوطا تھا ،وہ نہ صرف خوبصورت تھا بلکہ لوگوں کو ان کی پریشانیوں کا حل بھی بتاتا تھا۔ اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی۔ایک دل ملاح مچھلیاں پکڑ رہا تھا کہ اچانک اس کے جال میں ایک نہایت خوبصورت سنہری مچھلی آگئی، جب ملاح اسے کاٹنے لگا تو اچانک مچھلی بولنے لگی مجھے چھوڑ دو، مجھے چھوڑ دو۔یوں عام انسان کی طرح مچھلی کو بات کرتے دیکھ کر ملاح حیران رہ گیا۔ ملاح چونکہ بنیادی طور پر رحم دل انسان تھا، اِس لیے اسے سنہری مچھلی پربہت رحم آیا اور اس نے پانی میں چھوڑ دیا، دیکھتے ہی دیکھتے مچھلی اچانک پری کی شکل میں تبدیل ہوگئی اور اس نے ملاح کاشکریہ ادا کیا اور اسے بتایا کہ مجھے ایک جن نے اپنے جادو کے زور سے سنہری مچھلی بنا دیا تھا اور کہا تھا کہ تیری قسمت ہے اگر کسی نے تجھے پکڑ لیا اور کاٹ کر کھا جائے یا چھوڑ دے، اچھا ہوا کہ میں ایک نیک انسان کے ہاتھ لگی۔(جاری ہے)شاید کوئی اور ہوتا تو وہ مجھے کاٹ کر کھا جاتا، اگر میں زندگی میں تمھارے کسی کام آسکوں تو مجھے یاد کرلینا۔ میں تمھاری مدد کروں گی۔ یہ کہہ کر وہ اڑ گئی۔ایک دن اسی ملک کا بادشاہ شکار پر نکلا۔ وہ سارا دن شکار کی تلاش میں رہا کہ وہ جنگل میں ہوتا ہوا ملاح کے مکان کے قریب آگیا۔ جب اس کے سپاہیوں نے اس نایاب طوطے کے بارے میں بتایا تو وہ حیران رہ گیا اور اسے دیکھنا چاہا۔بادشاہ کو یہ طوطا بہت پسند آیا۔ اس نے ملاح کو دربار میں بلوایا اور کہا کہ مجھے یہ نایاب طوطا دے دو۔ ملاح بہت پریشان ہوا اس نے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت میں اِس طوطے کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہوں، میں یہ آپ کو کیسے دے سکتا ہوں ۔ پھر بادشاہ نے کہا میں تمھیں ایک محل بنا کر دوں گا، لیکن پھر بھی ملاح نہ مانا تو بادشاہ نے کہاپھر میری یہ شرط ہے کہ تم میرے دو سوالوں کے جواب دو، اگر تم میرے سوالوں کے جوابات نہ دے سکے تو پھر یہ طوطا میرا ہوا اور اگر تم نے جواب دے دئیے تو پھر نہ صرف میں طوطا تمھارے ہی پاس رہنے دوں گا بلکہ اتنی مال ودولت بھی دوں گا کہ تمھاری سات نسلیں بہت عیش سے زندگی گزاریں گی۔ملاح نے پوچھا وہ دو سوال کیا ہیں؟۔بادشاہ نے کہا میرا پہلا سوال یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جو ایک دوسرے کے پیچھے لگی ہوئی ہے ؟ میرا دوسرا سوال یہ ہے وہ کون سی دو چیزیں ہیں جو پہلے4پھر2اور پھر3ہوجاتی ہیں؟۔ بادشاہ نے اسے ایک ہفتے کا وقت دیا۔ملاح، بادشاہ کے یہ سوالات سن کر گھر آگیا اور پریشان رہنے لگا۔ ہر وقت وہ اِنھی دو سوالوں کے بارے میں سوچتا رہتا۔اس کی راتوں کی نیندیں بھی اڑ گئیں، لیکن اسے ان سوالات کے جوابات نہ ملے۔ بالآخر طوطا بھی اپنی مالک کو پریشان دیکھتا رہتا۔ ایک دن اس نے پوچھاآخر کیا ماجرا ہے، مجھے بتائیں میں آپ کی پریشانی کا حل بتاؤں۔ ملاح نے اس کو اپنی پریشانی بتا ہی دی اور کہا کہ کل آخری دن ہے اور اگر کل صبح تک میں نے بادشاہ کو اِن سوالات کے جوابات نہیں بتائے، تو وہ تمھیں ہمیشہ کے لیے لے جائے گا۔طوطا سوچتا رہا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ کچھ دن پہلے ملاح نے اسے سنہری مچھلی والا واقعہ سنایا تھا۔ اس نے کہا کہ وہ اس نیک دل پری سے مدد لے۔ پری کا خیال آتے ہی اس نے سوچا اور اسے یاد کیا۔ تھوڑی دیر میں پری حاضر ہوگئی۔ ملاح نے پری کو بادشاہ والا سارا واقعہ سنادیا۔ پری نے ایک منٹ میں دونوں سوالوں کے جوابات ملاح کو بتادئیے، اس نے پری کا شکریہ اد ا کیا اور بہت آرام سے رات کو سوگیا، صبح سویرے جب بادشاہ کے ہر کارے بلانے کے ملاح کو پہنچے تو وہ ان کے ساتھ ہوکر دربار میں آیا۔بادشاہ سوچ رہا تھا کہ ملاح کو ان سوالات کے جوابات نہیں آتے۔ اب وہ اپنا نایاب طوطا میرے حوالے کر ہی دے گا۔ اس نے پوچھا تم لے کر آئے میرے دونوں سوالات کے جواب؟ ملا نے جواب دیا کہ آپ نے پہلا سوال پوچھا کہ وہ کون سی چیز ہے جو ایک دوسرے کے پیچھے لگی ہوگئی ہیں؟ اس کا جواب ہے کہ وہ دن اور رات ہیں جو ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ آپ نے دوسرا سوال یہ پوچھا تھا کہ وہ کیا چیز ہے جو پہلے 4 پھر 2اور پھر3ہوجاتی ہے تو اِس کا جواب ہے، وہ چیز انسانی ٹانگیں ہیں۔پہلے انسان جب چھوٹا سا بچہ ہوتا ہے تو دو ہاتھ اور دو پاؤں کے ساتھ چلتا ہے یعنی چار چیزوں سے چلتا ہے پھر جب بڑا ہوتا ہے تو دو ٹانگوں سے چلتا ہے اور جب بوڑھا ہوجاتا ہے تو دو ٹانگوں اور ایک بیساکھی یعنی تین چیزوں سے چلتا ہے۔ بادشاہ، ملاح کا یہ جواب سن کر حیران رہ گیا۔ جب اس نے پوچھا کہ تمھیں اِن سوالوں کے جواب کس نے بتائے تو اس نے نیک دل پری کا واقعہ سنایا۔ چنانچہ بادشاہ نے طوطے کو حاصل کرنے کا فیصلہ ترک کردیا اور ملاح کو بہت مال ودولت دی۔ " جن دوست - تحریر نمبر 883,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jinn-dost-883.html,"عبدالرؤف تاجور:انور دوپہرے کے کھانے کے بعد” پکی تالاب“ کی سیڑھیوں پر بیٹھا بڑے انہماک سے اپنا سبق یاد کر رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے آکر بڑے زور سے ہاؤ کہہ کراسے ڈرادیا۔ انوربوکھلاکرکھڑاہوگیا۔ اگرفوری طور پرخود کو سنبھال نہ لیتا تو لڑھکتا ہواتالاب کے پانی میں جاگرتا۔ گھر میں چھوٹے بچوں کے شوزوگل سے تنگ آکروہ اکثر یہیں آکراپنا سبق یادکرلیا کرتاتھا۔آج تک کبھی ایسا نہیں ہواکہ کسی نے اسے اس طرح ڈرادیا ہو۔ انورنے ڈرتے ڈرتے گردن گھما کردیکھا توپشت پراس کابہترین دوست اور کلاس فیلو صفدر کھڑا مسکرارہاتھا۔ دونوں میں بڑی گہری اور پکی دوستی تھی۔ لڑنا جھگڑنا تودور کی بات ان میں کبھی معمولی اختلاف تک پیدانہیں ہوتاتھا۔(جاری ہے)گاؤں بھرمیں ان کی دوستی ایک مثال بن گئی تھی اور لوگ انھیں ایک جان دو قالب کہتے تھے۔اوہو․․․․ تویہ تم ہوصفو! میں توسچ مچ ڈرہی گیاتھا۔ آؤ بیٹھو کہاں سے آرہے ہو۔ انورنے اسے دیکھ کر اطمینان کی سانس لیتے ہوئے پوچھا۔میں پورے گاؤں میں تمھیں ڈھونڈتاپھررہاتھا، لیکن کچھ پتاہی نہیں چل رہاتھا کہ کہاں چھپے بیٹھے ہو، پھر اچانک خیال آیاکہ کہیں تم اپنا سبق یاد کرنے پکی تالاب کی طرف نہ آگئے ہو۔ بس میں ادھر آگیا۔ امرود کھاؤگے؟انورنے سوالیہ نگاہوں سے صفدر کودیکھا۔لو، کھاؤ۔ تم بھی کیایادکروگے کہ کسی رئیس دوست سے پالاپڑاتھا۔ اتنا کہہ کر صفدر نے قمیص کی تینوں جیبوں سے درجن بھر چھوٹے بڑے امرود نکال کرانور کے سامنے ڈھیرکردیے۔ پکے ہوئے امرودوں کی تیز خوشبو میں پھیل گئی۔کہاں سے توڑ کرلارہے ہو۔ تمھارے گھر میں توامرود کاکوئی درخت نہیں ہے۔ صفدر نے کہا: کھاکر تو دیکھو، خودہی پتاچل جائے گا۔انور نے ایک چھوٹا ساامرود اٹھایا۔ قمیص کے دامن سے رگڑکراسے صاف کیااور دانتوں سے آدھا کاٹ لیا۔ اندرگہرے گلابی رنگ کاگودادیکھ کرانور بوکھلاگیا۔ پورے گاؤں میں ا یسا ایک ہی درخت تھا، جو پرانی حویلی کے اندر تھا۔ حویلی کے مالک بڑے زمیندار صاحب نے شہرمیں کاربارجمالیا اور خود بھی شہر چلے گئے توحویلی پرجنوں کے پورے قبیلے نے قبضہ کرلیا۔یہ گاؤں والوں کاخیال تھا، ورنہ حقیقت کیاتھی یہ تواللہ ہی کوبہترمعلوم ہوگا۔ یوں پرانی حویلی خوف ودہشت کی علامت بن چکی تھی اور لوگ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ حالانکہ حویلی کاکوئی جن آج تک کسی گاؤں والے کو نظر نہیں آیا تھا۔انور نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔ یہ توپرانی حویلی کے درخت کے امرود ہیں۔ تمھیں کہاں سے مل گئے؟میں خود توڑکرلارہاہوں۔صفدر ہنسنے لگا۔تم․․․․ تم․․․․ حویلی کے اندر گئے تھے؟ انورنے بوکھلاکرپوچھا۔ہاں بالکل گیا تھا، ورنہ یہ امرودکہاں سے لاتا۔اور حویلی کے جنوں نے تمھیں کچھ نہیں کہا۔کیا کہتے؟ میں کوئی ان سے کشتی لڑنے تونہیں گیاتھا۔ یوں بھی حویلی کے اندر میں نے کسی جن کونہیں دیکھا۔ ممکن ہے میری بہادری اور دلیری دیکھ کرسب چھپ گئے ہوں۔صفدر پھر ہنسنے لگا۔بڑے نڈرہویار! مگر تما ندر گئے کیسے؟ صدردروازے پر توبڑا ساتالا پڑا رہتا ہے۔ دیکھو میں پوری بات تمھیں بتاتاں ہوں۔ میں جب تمھیں تلاش کرتاہواپرانی حویلی کی طرف سے گزرا تودیکھا کہ صدر دروازہ چوپٹ کھلاہوا ہے۔بس میرے دل میں امرودوں کالالچ پیداہوگیا اور موقع غنیمت جان کرمیں چپکے سے حویلی کے اندرداخلی ہوگیا۔پورادرخت کچے پکے امرودوں سے لداپڑا تھا۔ پہلے تودل بھر کر خود کھایااور پھر کچھ تمھارے لیے لیتا ہوادبے پاؤں باہرآگیا۔ صدردروازہ کس نے کھولا، کیسے کھولا، کون اندرگیاتھا، مجھے کچھ نہیں معلوم۔ اندرگاؤں کاکوئی آدمی مجھے نظر نہیں آیا۔صفدر! تم اتنے بہادرکب سے ہوگئے۔ میں جانتاہوں کہ رات کے وقت تم اپنے ہی گھر کے کسی اندھیرے کمرے میں جانے سے ڈرتے ہو۔اب میں وہ ڈرپوک صفدر نہیں رہا۔ صفدر ہنسنے لگا: ویسے انور! ایک بار میری سمجھ میں نہیں آئی کہ جب میں حویلی سے نکل کرکچھ دورآگیا اور مڑکرپیچھے دیکھاتو صدردروازہ بدستوربند تھا اور وہ بڑاساتالا پہلے کی طرح لٹک رہاتھا۔یہ کیسے ممکن ہے۔ انورنے بے اعتباری سے کہا: کہیں تم مجھے بے وقوف تو نہیں بنارہے؟اچھا بتاؤ، پھریہ امرود کہاں سے آئے؟ صفدر نے شوخی سے ہنستے ہوئے کہا: کیا گاؤں میں گلابی گودے والا کوئی دوسرا درخت بھی ہے۔انور کے پاس اس کاکوئی جواب نہیں تھا۔کیاتم ابھی بیٹھو گے۔ تھوڑی دیربعد صفدر نے پوچھا۔ ہاں تھوڑا سا سبق رہ گیا ہے۔ اسے بھی یاد کرلوں پھر گھرجاؤں گا۔اچھا تومیں چلتاہوں۔ کل رات سے بابا کی طبیعت سخت خراب ہے۔ ممکن ہے مجھے قصبے جاکرحکیم صاحب کوگھرلانا پڑے۔ صفدر مغموم لہجے میں کہا۔اگر ایسی بات ہے توپھرچلو میں بھی قصبے تک تمھارے ساتھ چلتاہوں۔انور کتابیں سمیٹنے لگا۔نہیں تم اپناسبق یادکرو۔ میں گھر جاکردیکھتا ہوں۔ ممکن ہے بابانے بڑے بھائی کوقصبے دور ہے، واپسی میں رات ہوجائے گی۔رات کاکھانا کاکرانورنے میزکی درازسے اپنی چھوٹی سے ٹارچ نکالی اور اسے جلاتابجھاتا اپنے دوست کے گھر پہنچ گیا۔ دروازہ صفدر کی امی نے کھولا اور اسے پہچان کربولیں : کون انورمیاں! خیرتوہے بیٹے! اپنی رات گئے آؤ اندرآجاؤ۔صفدر کہاں ہے؟ انورنے بے تابی سے پوچھا: کیااکیلے قصبے چلاگیا۔وہ قصبے کیوں جائے گا۔ البتہ وہ صبح کی گاڑی سے اپنے بابا کے ساتھ شہر جاچکا ہے اور تین چار دن کے بعد واپس آئے گا۔ اس کے بابا کے بچپن کے کوئی دوست دس سال بعد بیرون ملک سے لوٹے ہیں۔ وہ ان سے ملنے گئے ہیں۔ صفدر بھی ضد کرکے ان کے ساتھ ہی چلاگیا۔انورکے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکنے لگی۔ اس نے گھبرا کراپنی قمیص کی بائیں جیب کوٹٹولا، جہاں دو چھوٹے چھوٹے امرود اب بھی موجود تھے۔ اچھا تویہ جن بھائی کا تحفہ ہیں۔ " ویران کنویں کا راز - تحریر نمبر 882,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/veran-kunway-ka-raaz-882.html,"جاوید اقبال:ایک دن میں اپنی ڈاک میں آنے والا ایک خط دیکھ کرچونک پڑا۔ خط پرسندھ کے ایک دوردراز گاؤں کی مہرلگی تھی۔ خط کھول کردیکھا لکھا تھا:محترم السلام وعلیکم!میرا نام اللہ بخش چانڈیوہے۔ ہوسکتاہے، آپ مجھے بھول گئے ہوں۔ چلیے یاد دلائے دیتاہوں۔ چند سال پہلے حیدرآباد سے لاہورجاتے ہوئے ریل کے سفر میں آپ میرے ساتھ تھے۔آپ سے خوب باتیں ہوئی تھیں۔ باتوں باتوں میں پتا چلاکہ آپ شکاری ہیں۔ رخصت ہوتے وقت میں نے آپ کاپتا لے لیاتھا۔ آج برسوں بعدایک ایسی مصیبت آپڑی ہے کہ آپ کوآوازدینے پرمجبور ہوگیا ہوں۔ تفصیل آپ تشریف لائیں گے توملاقات ہونے پرعرض کروں گا۔ اُمید ہے آپ اس ناچیز کی درخواست پر ضرور تشریف لائیں گے اور مجھے اس مصیبت سے نجات دلائیں گے۔(جاری ہے)آگے اللہ بخش چانڈیوکاپوراپتالکھاتھا۔خط پڑھ کرمجھے ٹرین کاوہ سفر یادآگیا اور ساتھ ہی اللہ بخش کامحبت بھراچہرہ نگاہوں کے سامنے گھوم گیا، مگر یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ اللہ بخش کوہم شکاریوں سے کیاکام پڑگیا ہے، کیوں کہ خط میں کسی جانور یاجنگل کا ذکرنہیں تھا۔خیر، میں نے وہ خط اپنے دوستوں کودکھایا تووہ کہنے لگے: سندھ سے ہمارے ایک بھائی نے ہمیں اپنی مدد کے لیے بلایا ہے۔کچھ بھی ہوہمیں وہاں ضرور جاناچاہیے۔ چناں چہ سندھ جانے کے لیے تیاری میں مصروف ہوگئے۔کچھ ضروری کام نبٹانے میں ہمیں دودن لگ گئے۔ تیسرے دن اہم اپنے مختصر سامان کے ساتھ روانگی کے لیے گاڑی میں سوار ہوئے۔ اللہ بخش کوہم اپنے آنے کی اطلاع پہلے ہی دے چکے تھے، اس لیے جیسے ہی ہم اسٹیشن پہ پہنچ کرگاڑی سے اُترے، اللہ بخش ایک بیل گاڑی اور گاڑی بان کے ساتھ اسٹیشن سے باہر ہمارامنتظرتھا۔اللہ بخش بڑی محبت سے ہم سے گلے ملا۔ گاڑی بان نے ہمارا سامان بیل گاڑی پررکھا اور ہم بیل گاڑی پہ سوار ہوکراللہ بخش کے گاؤں کی طرف چل پڑے۔راستے میں ہم نے اللہ بخش سے پوچھاکہ وہ کیامسئلہ ہے، جس کی وجہ سے وہ پریشان ہے۔ اللہ بخش کہنے لگا: کچھ عرصے پہلے میں نے اپنے گھرکے پچھواڑے ایک کنواں کھدوایا، لیکن چند فیٹ گہری کھدائی کے بعد نیچے سے سخت پتھریلی زمین نکل آئی اور کوشش کے باوجود مزید کھدائی نہ ہوسکی تومیں نے اس گڑھے کوویسے ہی چھوڑ دیااور ایک دوسری جگہ کنوں کھدوالیا۔بعدمیں پہلے والا گڑھا جھاڑجھنکارسے بھرگیا۔ اب کچھ دنوں سے اس گڑھے سے عجیب سی آوازیں آنے لگی ہیں۔ خوف کی وجہ سے اُدھر سے کوئی نہیں سے گزرتا۔ میرے کھیت کے مزدوربھی کام چھوڑ کرچلے گئے ہیں۔ لوگ ان آوازوں کوبھوت پریت کی آوازیں سمجھتے ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے جانے سے میں بہت پریشان ہوں، اسی لیے آپ بھائیوں کوزحمت دی ہے۔بھائی اللہ بخش! آپ نے جھاڑجھنکارہٹاکردیکھانہیں کہ وہاں کیاہے؟ میں نے پوچھا۔سائیں! ہم توڈرکے مارے اُدھرجاتے ہی نہیں۔ اللہ بخش نے کہا۔یونہی باتیں کرتے کرتے ہم اللہ بخش کے گھرپہنچ گئے۔ یہ ایک سادہ سا دیہاتی طرزکامکان تھا۔ اس وقت شام ہوچکی تھی۔ ہم نے اللہ بخش سے کہاکہ ہمیں وہ گڑھادکھائے۔اللہ بخش بولا: سائیں آپ سفرسے تھکے ہوئے ہیں نہا کرتازہ دم ہوجائیں۔کھانا کھائیں اور آج رات آرام کریں، صبح گڑھا دیکھ لیں گے۔گھر کے صحن میں چاپائیاں بچھادی گئیں۔کھاناکھانے کے بعد ہم چارپائیوں پربیٹھ گئے۔ دیر تک اللہ بخش سے ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔پھراللہ بخش ہمیں آرام کرنے کاکہہ کرگھرکے اندرونی حصے کی طرف چلاگیا۔ ہم چارپائیوں پرلیٹ گئے اور سوچنے لگے کہ جانے یہ کیسی مہم ہے، نہ جانے اس گڑھے سے کیانکلے۔یونہی سوچتے سوچتے ہم نیندکی وادی میں پہنچ گئے۔صبح اُٹھے، ناشتا کیااور پھراللہ بخش کے ساتھ ہم گڑھے کی طرف چلل پڑے۔ گھر کے پیچھے ہی اللہ بخش کاکھجوروں کاباغ اور کھیت تھے۔ وہیں وہ گڑھا بھی تھا۔ گڑھے کوجھاڑم جھنکارنے یوں ڈھانپ رکھاتھا کہ گڑھے کے اوپرچھت سی بن گئی تھی۔ اللہ بخش نے ہماری مددکے لیے گاؤں سے کچھ لوگوں کو بلا لیاتھا۔جولاٹھیاں اور کلہاڑیاں لیے ایک طرف کھڑے تھے۔ ہمارے کہنے پرکچھ جوان گڑھے کے اوپر سے جھاڑیاں ہٹانے لگے۔ ہم اپنے ہتھیارلیے کسی بھی صورت حال سے نبٹنے کے لیے تیارکھڑے تھے۔ جیسے ہی جھاڑ جھنکارگڑھے کے اوپرسے ہٹا، ہٹانے والے نوجوان بری طرح ڈرکرپیچھے ہٹے۔ ہم نے آگے بڑھ کرگڑھے میں جھانکا۔ وہاں جومنظر آیا، اس سے ہمارے بھی رونگٹے کھڑے ہوگئے۔گڑھے میں سیکڑوں زہریلے سانپ ادھراُدھر رینگ رہے تھے ۔ ان کی پھنکاروں سے عجیب ساشور گونج رہاتھا۔ یہی وہ آوازیں تھیں، جنھیں سن کرلوگ خوف زدہ ہوجاتے تھے۔دراصل اس گڑھے کواردھرگرد کے علاقے کے سانپوں نے اپنا مسکن بنالیاتھا۔ دن کو وہ گڑھے میں چھپے رہتے تھے، رات کو اندھیرا ہونے پراپنے شکارکونکلتے تھے۔ ہم نے فوراََ سانپوں پرفائرکھول دیا۔گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور سانپوں کی پھنکاروں سے کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی۔ ہم سانپوں کی کھوپڑیوں کونشانہ بنارہے تھے، جس سانپ کوگولی لگتی اس کی کھوپڑی کے پرخچے اڑجاتے۔ کچھ سانپوں نے گڑھے سے نکل کربھاگنے کی کوشش کی، مگرپیچھے کھڑے لٹھ برداروں نے اپنی لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے انھیں کچل ڈلا۔ آدھے گھنٹے کی اس جنگ میں سیکڑوں سانپ مارے گئے، ہم نے آخری سانپ کے مرنے تک فائرنگ جاری رکھی۔جب تمام سانپوں کاخاتمہ ہوگیا تومزدوروں نے گڑھے کومٹی سے بھردیا یوں مردہ سانپ گڑھے میں ہی دفن ہوگئے۔اس مصیبت کے خاتمے پراللہ بخش بے حدخوش ہوا۔ چاردن تک ہم وہاں مہمان رہے۔ اللہ بخش نے ہماری خوب خاطر مدارت کی۔ رخصت ہونے لگے تواللہ بخش نے کھجوروں کے تین تھیلے بھی ہمیں دیے کہ یہ سوغات اپنے ساتھ لے جائیں، پھرہمیں بیل گاڑی میں اسٹیشن چھوڑنے آیا۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور لاہور کی طرف روانہ ہوگئے۔ " آزمائش - تحریر نمبر 881,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aazmaish-881.html,"کسی گاوٴں میں رحیم نامی کسان رہتا تھا۔ وہ بہت نیک دل اور ایماندار تھا۔ اپنی ہی خوبیوں کی وجہ سے گاوٴں بھر میں مشہور تھا۔ لوگ اپنی چیزیں امانت کے طور پر اس کے پاس رکھواتے تھے۔ ایک دن معمول کے مطابق صبح سویرے کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے جا رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک تھیلی نظر آئی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر تھیلی اٹھالی۔ اس نے تھیلی کھول کر دیکھی تو وہ اشرفیوں سے بھری ہوئی تھی۔کسان تھیلی لے کر کھیتوں میں جانے کے بجائے گھر واپس آگیا اور اپنی بیوی کو بتادیا ۔ جب اس کی بیوی کو یہ معلوم ہوا کہ اس میں اشرفیاں ہیں تو اس کے دل میں لالچ آگیا۔ اس نے اپنے شوہر سے کہا۔"" ہم یہ تھیلی رکھ لیتے ہیں اور فوراً یہاں سے چلے جاتے ہیں ، شہر جاکر ہم بڑا سا گھر بنائیں گے اور اس میں آرام سے رہیں گے۔(جاری ہے)"" بیوی کے کہنے کے باوجود کسان لالچ میں نہ آیا اور کہنے لگا۔""نہیں ! میں ایسا نہیں کرسکتا ، میں اس تھیلی کے مالک کو ڈھونڈ کر اشرفیاں اس تک پہنچاوٴں گا۔""""یہ تھیلی تمہیں راستہ میں ملی ہے ، تم نے کوئی چوری تو نہیں کی؟"" اس کی بیوی اسے تھیلی رکھنے کے لیے جواز پیش کررہی تھی۔ مگر کسان نے بیوی کی بات نہ مانی اور تھیلی لے کر باہر کی طرف چل پڑا ۔ راستے میں اسے گاوٴں کا چودھری ملا۔ وہ کسان کے پاس آیا اور پوچھنے لگا۔""تم اس وقت کھیتوں میں کام کرنے کے بجائے یہاں نظر آ رہے ہو ، خیریت تو ہے؟""کسان نے تمام واقعہ چودھری کو بتایا اور کہا "" میں اس تھیلی کے مالک کو ڈھونڈ رہا ہوں تاکہ اس کی امانت اس تک پہنچا دوں۔""اس کی بات سن کر چودھری مسکرایا اور بولا۔ ""یہ تھیلی تمہارا انعام ہے۔""یہ سن کر کسان حیران ہوا اور حیرت زدہ ہوکر بولا۔""انعام ! مگر کیوں۔۔؟""چودھری نے جواب دیا۔""میں نیگاوٴں بھر میں تمہاری ایمانداری کے چرچے سنے تھے ، اس لئے میں نے یہ تھیلی تمہارے راستے میں رکھ دی تھی کیونکہ صبح سویرے اتنی جلدی تمہارے یہاں سے کوئی نہیں گزرتا،""""مگر کیوں۔۔؟"" کسان نے پوچھا۔تمہاری ایمانداری کو آزمانے کے لیے اب یہ تھیلی تمہارا انعام ہے۔ ""چودھری نے کہا: کسان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود چودھری نے وی تھیلی اس سے نہ لی۔کسان خوشی خوشی گھر آیا۔ اس نے اشرفیوں کی تھیلی اپنی بیوی کو دی اور کہا۔""اگر میں تمہارے کہنے پر لالچ کرتا تو ہرگز ہزگز انعام میں یہ تھیلی نہ ملتی۔"" پھر اس نے چودھری سے ہونے والی گفتگو اپنی بیوی کو بتادی۔کسان نے کچھ اشرفیاں غریبوں کو دیں اور بیوی کو لے کر شہر چلا گیا۔ وہاں اس نے ایک گھر خریدا اور کاروبار کرکے خوش وخرم زندگی گزارنے لگا۔ " انسانوں کاچڑیاگھر - تحریر نمبر 880,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/insanon-ka-chirya-ghar-880.html,"وقار محسن:بندوپہلوان شہر آتوگئے لیکن ان کادل گاؤں کے آبشاروں اور قل قل کرتے چشموں میں ہی اٹکا رہا۔آبشاروں سے ان کی مرادوہ پرنالے تھے جن کے نیچے کھڑے ہوکروہ برسات میں نہایاکرتے تھے اور چشموں سے مراد کمہاروں کے جھونپڑوں کے پیچھے واقع اس جوہڑے سے تھی جس میں بھینسیں اور گاؤں کے بچے دن بھرکیچڑمیں نہایاکرتے تھے۔بندواپنے دوست چندوکے پرزوراصرارپرشہرآئے تھے لیکن ابھی تک چندوکاپتانہ مل سکاتھا۔چندہ جب پچھلی بارگاؤں آیااور سرخ پھولوں والی شرٹ اور چست جینزپہن کرگاؤں کی گلیوں میں اکڑتاہوانکلاتوگاؤں کے لڑکے اس کوحسرت اور شک کی نظروں سے دیکھتے رہے۔اس نے بندوکویقین دلایاتھاکہ وہ اگرچہرآجائے تووہ اس مناسب نوکری کابندوبست کردے گا۔(جاری ہے)بندوتین دن سے لوگوں اور ٹریفک کے اژدہام میں حواس پاختہ گھوم رہے تھے۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ ہرشخص کہاں اور کیوں بھاگ رہاہے۔شور‘ہنگامہ اورگردوغبارسے تنگ آکرانہوں ے نے سوچا کہ وہ گاؤں لوٹ جائیں اور اسی روکھی سوکھی پرگزاراکریں۔اتفاق سے ان کی ملاقات اپنے گاؤں کے ایک لڑکے امین سے ہوگئی۔جوکچی آبادی کے ایک کوارٹر میں رہتا تھا اور وہیں اس نے بال کاٹنے کی دکان کھول رکھی تھی۔تین چاردن سے وہ امین کے ساتھ ہی رہ رہے تھے۔ایک دن امین کی دکان پرایک شخص نے بندوکواطلاع دی کہ چڑیاگھرمیں چوکیدارکی آسامی خالی ہے۔دوہزارتنخواہ رکھانے اور رہنے کی سہولت بھی ہے۔اگلے دن بندوچڑیاگھرکاپتاتلاش کرتے ہوئے صبح آٹھ بجے ہی وہاں پہنچ گئے۔دفتر کے کھلنے میں ابھی دیرتھی اس لئے وہ ادھرادھرگھومتے رہے۔جب بھی وہ کسی جانورکے پنجرے کے سامنے سے گزرتے تووہ جانوروں کواور جانوراس کوحیرت سے دیکھتے۔دس بچے کے قریب جب دفتر کھلاتوانہوں نے منیجرکے سامنے حاضری دی۔ منیجرنے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ چوکیدار کی آسامی توایک دن پہلے پُرہوگئی ہے۔بندوبڑی امیدلے کر آئے تھے اس لئے ان کوبہت مایوسی ہوئی۔انہوں نے گڑگڑاکراپنی مجبوری اور بے سروسامانی کی رودادسنائی لیکن نتیجہ نہ نکلا۔ جب بہت خوشامد کے بعدبھی بات نہ بنی توبندگلے میں جھولتی پگڑی کے پلوسے آنسوپونچھتے ہوئے واپسی کیلئے مڑے۔منیجرکوان کی حالت زاردیکھ کررحم آگیااور ان کوواپس بلاکرادھرادھر دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔دیکھوں میاں بندوایک صورت ہوسکتی ہے تنخواہ بھی تین ہزارہوگی اور کام بھی آسان ہے۔بندو کے چہرے پرخوشی کی لہردوڑگئی اور انہوں نے بغیر تفصیل سنے رضامندی کااظہارکردیا۔منیجرنے گلا صاف کرتے ہوئے تفصیل بتائی۔دیکھوں میاں بندوایسا ہے کہ ہمارے چڑیاگھرکاسب سے ہردل عزیز جانورریچھ تھاجس کا اچانک انتقال ہوگیا ہے۔جب وہ قلابازیاں کھاکربچوں کورجھاتاتھاتوبچے اس کوبہت پسندکرتے تھے۔ چڑیاگھردس بجے کھلتاہے لیکن رش شام چاربجے کے بعد ہی ہوتاتھا۔تمہیں یہ کرناہوگاکہ چارگھنٹے کیلئے ریچھ کی کھال پہن کرپنجرے میں بیٹھناہوگااور بچوں کو خوش کرنا ہوگا۔ پہلے تو بندو یہ سن کر پریشان ہوگئے لیکن وہ بیکاررہ کراتنااکتاگئے تھے کہ کچھ پس وپیش کے بعدہامی بھرلی۔دوپہر کوجب چڑیاگھرکامحافظ جانوروں کوکھانا دینے آیاتووہ شیراور ریچھ کے پنجروں کے درمیان واقع گرل کادروازہ بند کرنا بھول گیا۔ بندونے بھی اپنی پریشانی میں اس طرف دھیان نہیں دیا۔شام کوجب چاروں طرف بچوں کاہجوم تھا تو شیر خراماں خراماں ٹہلتاہوابندوکے پنجرے میں آگیا۔بندونے جوپلٹ کرشیرکواپنے اتنے قریب دیکھاتواس کے ہوش ٹھکانے آگئے،وہ خوف سے تھرتھرکانپنے لگے۔پنجرے کی جالیوں کے باہرکھڑے بچے یہ منظر دیکھ کربہت لطف اندوزہورہے تھے۔ ریچھ کے پنجرے کے گردلوگوں کاہجوم بڑھتاجارہاتھا۔جب بندونے شیرکی سانسیں اپنے کندھے پرمحسوس کیں توموت کو اپنے اتنے نزدیک دیکھ کرانہوں نے خوف سے آنکھیں بندکرلیں۔بندوسرجھکاتے آہستی سے گڑ گڑائے۔جنگل کے بادشاہ میری زندگی بخش دے۔میں ایک غریب پردیسی ہوں مجھے چڑیاگھروالوں نے تین ہزارماہانہ پر ریچھ کی کھال پہن کربیٹھنے کیلئے رکھاہے۔شیرنے ان کے قریب آکرکان میں کہا۔ بھائی میں بھی پردیسی ہوں مجھے بھی چڑیا گھر والوں نے چارہزارماہانہ پررکھاہواہے۔پہلے بندوکواپنے کونوں پریقین نہیں آیا۔پھرآوازکچھ جانی پہچانی سی لگی اور آہستہ سے بولایار چندو تم یہ سن کرشیرخوشی سے بولا ”اوئے بندوتم۔ " ہوشیار بلی اور دشمن کی مثال - تحریر نمبر 879,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hoshayar-billi-aur-dushman-ki-misaal-879.html,"ایک چڑا درخت پر گھونسلا بنا کر مزے سے رہتا تھا۔ ایک دن وہ دانا پانی کے چکر میں اچھی فصل والے کھیت میں پہنچ گیا۔ وہاں کھانے پینے کی موج سے بڑا ہی خوش ہوا۔ اس خوشی میں رات کو وہ گھر آنا بھی بھول گیا اور اس دن مزے میں وہی گزرنے لگے۔ ادھر شام کو ایک خرگوش اس درخت کے پاس آیا جہاں چڑے کا گھونسلا تھا۔ درخت ذرا بھی اونچا نہیں تھا۔ اس لئے خرگوش نے اس گھوسلے میں جھانک کر دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ گھونسلا خالی پڑا ہے۔گھونسلا اچھا خاصا بڑا تھا اتنا کہ وہ اس میں خرگوش آرام سے رہ سکتا تھا۔ اسے یہ بنا بنایا گھونسلا پسند آ گیا اور اس نے یہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا ۔ کچھ دنوں بعد وہ چڑا کھا کھا کر موٹا تازہ بن کر اپنے گھوسلے کی یاد آنے پر واپس لوٹا۔ اس نے دیکھا کہ گھوسلے میں خرگوش آرام سے بیٹھا ہوا ہے۔(جاری ہے)اسے بڑا غصہ آیا، اس نے خرگوش سے کہا، ""چور کہیں کا، میں نہیں تھا تو میرے گھر میں گھس گئے ہو؟ چلو نکلو میرے گھر سے ذرا بھی شرم نہیں آئی میرے گھر میں رہتے ہوئے؟"" خرگوش امن سے جواب دینے لگا ، ""کہاں کا تمہارا گھر؟ کون سا تمہارا گھر؟ یہ تو میرا گھر ہے۔پاگل ہو گئے ہو تم۔ ارے! کنواں، تالاب یا درخت ایک بار چھوڑ کر کوئی جاتا ہے تو اپنا حق بھی گوا دیتا ہیں۔ یہاں تو جب تک ہم ہیں، وہ اپنا گھر ہے۔بعد میں تو اس میں کوئی بھی رہ سکتا ہے۔ اب یہ گھر میرا ہے۔ بیکار میں مجھے تنگ مت کرو۔ "" یہ بات سن کر چڑا کہنے لگا، ""ایسے بحث کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ کسی ثالث کے پاس چلتے ہیں۔ وہ جس کے حق میں فیصلہ سنائے گا اسے گھر مل جائے گا۔اس درخت کے پاس سے ایک دریا بہتا تھا۔ وہاں پر ایک بڑی سی بلی بیٹھی تھی۔ویسے تو یہ بلی ان دونوں کی پیدائشی دشمن ہے لیکن وہاں اور کوئی بھی نہیں تھا اس لئے ان د ونوں نے اس کے پاس جانا اور اس سے انصاف لینا ہی مناسب سمجھا۔ احتیاط برتتے ہوئے بلی کے پاس جا کر انھوں نے اپنے مسائل بتائے۔ انہوں نے کہا، ""ہم نے اپنی الجھن تو بتا دی، اب اس کا حل کیا ہے؟ اس کا جواب آپ سے سننا چاہتے ہیں۔جو بھی صحیح ہوگا اسے وہ گھونسلا مل جائے گا اور جو جھوٹا ہوگا اسے آپ کھا لیں۔ "" ""ارے ارے!! یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو، تشدد جیسا گناہ نہیں اس دنیا میں۔ دوسروں کو مارنے والا خود جہنم میں جاتا ہے۔ میں تمہیں انصاف دینے میں تو مدد کروں گی لیکن جھوٹے کو کھانے کی بات ہے تو وہ مجھ سے نہیں ہو پائے گا۔میں ایک بات آپ لوگوں کو کانوں میں کہنا چاہتی ہوں، ذرا میرے قریب آوٴ تو!! "" خرگوش اور چڑا خوش ہو گئے کہ اب فیصلہ ہو کر رہے گا۔اور اس کے بالکل قریب گئے۔ پھر کیا؟ قریب آئے خرگوش کو پنجے میں پکڑ کر منہ سے چڑے کو نوچ لیا۔ دونوں کا کام تمام کر دیا۔ اپنے دشمن کو پہچانتے ہوئے بھی اس پر یقین کرنے سے خرگوش اور چڑے کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں۔ سچ ہے، دشمن سے سنبھل کر اور ہو سکے تو چار ہاتھ دور ہی رہنے میں بھلائی ہوتی ہے۔ " پُراسرار جزیرہ - تحریر نمبر 876,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/pur-israar-jazeera-876.html,"جاوید اقبال:ہم ایک ساحلی قہوہ خانے میں بیٹھے تھے۔ شدید سردیوں کی کُہروالی رات تھی۔ آتش دان میں آگ دہک رہی تھی۔ جلتی ہوئی لکڑیوں سے نیلانیلا دھواں اُٹھ رہاتھا۔ آگ سے اٹھنے والے آتشی رنگ ہمارے چہروں پربھی رقصاں تھے۔ہم سب ملاح تھے۔ کوئی جوان، کوئی بوڑھا، کوئی ادھیڑعمرکاتھا۔ ساحل پت تین بحری جہازلنگر انداز تھے، جنھیں اب تک اگلی منزل کی طرف چل دینا چاہیے تھا۔ساحلی مزدوروں کی ہڑتال کی وجہ سے ہم یہاں پھنس گئے تھے،کیوں ں کہ جب تک مزدور جہازوں پہ لدا سامان اُتاریں، ہماراآگے جاناممکن نہیں تھا۔یوں ہمارازیادہ وقت قہوہ خانوں میں داستانیں سنتے سناتے گزررہاتھا۔آج سب کی نگاہیں ایک بوڑھے ملاح پرجمی تھیں،جس کے خشک ہونٹ کوئی عجیب وغریب داستان کہنے کومچل رہے تھے۔(جاری ہے)ہم یہ داستان سننے کوبے تاب بیٹھے تھے۔آخر بوڑھے ملاح نے ایک گہری نگاہ ہم سب پر ڈالی،قہوے کاآخری گھونٹ بھرا اور یادوں کی کڑیاں جوڑتے ہوئے بولا:وہ ایسی ہی تاریک،سرداور کُہرآلود رات تھی۔ہماراجہازسمندری طوفان میں گھِرگیاتھا۔طوفانی لہروں کے تھپیڑوں میں جہازکسی کاغذکی کشتی کی طرح ڈگمگارہاتھا۔جہازکوبچانے کی ہماری سب تدبیریں ناکام ہوگئی تھیں۔ہم جہازکوچھوڑنے کاارادہ کرہی رہے تھے کہ زور کاکڑاکاہوا اور جہازدرمیان سے دوٹکڑے ہوگیا۔بہت سے لوگ سمندرمیں جاگرے۔میں ڈوبتے جہازکے ایک ستون کاسہارا لیے کھڑاتھا،جوتیزی سے پانی کی تہ میں غرق ہورہاتھا۔میں نے قریب ہی پانی میں تیرتی اپنی بندوق جھپٹی،اتفاق سے ایک چپوبھی مل گیا۔میں نے فوراََ سمندرمیں ایک کشتی پر چھلانگ لگادی۔ عملے چند اورلوگ بھی ڈوبتے اُبھرتے کشتی پرپہنچے کشتی طوفانی لہروں کے رحم وکرم پرنامعلوم منزل کی طرف چل پڑی۔زندگی اور موت کے اس سفرمیں ایک رات اورایک دن گزرگیا۔ بھوک سے ہمارا بُراحال تھا۔ سمندرکانمکین پانی پی پی کرہمارے حلق میں کانٹے سے نکل آئے تھے۔دوسری رات کاآخری پہرتھا۔ہم زندگی سے مایوس ہوچکے تھے کہ ہمیں دھندلی سی درختوں کی پرچھائیں نظرآئی۔ہماری اُمیدوں کے دیے ایک دم سے جگمگااُٹھے۔قریب پہنچے تودیکھا سمندرکے بیچوں بیچ ایک جزیرہ تھا۔جیسے ہی کشتی کنارے لگی ہم چھلانگیں مارکراُترے اور کشتی کوگھسیٹ کرخشکی پرلے گئے۔ابھی ہم اندھیرے میں آس پاس کاجائزہ ہی لے رہے تھے کہ کچھ آہٹیں سنائی دیں،پھرکوئی چیزتیزی سے ہمارے سروں کے اوپرسے گزرگئی۔یہ ایک نیزہ تھا،جوہم سے کچھ دورزمین میں پیوست ہوگیا۔اس کے ساتھ ہی کسی نامعلوم زبان میں ایک نعرہ گونجا۔ہم جلدی سے زمین پرلیٹ گئے۔میں نے لیٹے لیٹے ہی آواز کی مست گولی چلادی۔ایک چیخ فضامیں گونجی میں نے دوسری گولی چلائی، پھر تیسری ایک اور چیخ بلند ہوئی۔کچھ بھاگتے قدموں کی آوازیں آئیں۔پھرسناٹاچھاگیا۔اسی وقت چاند بادلوں کی اوٹ سے نکل آیاہم محتاط قدموں سے اس طرف بڑھے،جس طرف سے ہم پہ حملہ ہوا تھا۔ دیکھا تووہاں چندقدموں کے نشاں اور خون کے دھبوں کے سواکچھ نہیں تھا۔حملہ آوراپنے زخمی ساتھیوں کولے کربھاگ گئے تھے۔ہم آنے والے خطرے سے نپٹنے کے لیے اِدھر اُدھر کوئی محفوظ گوشہ تلاش کرنے لگے۔اتنے میں اچانک نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہمیں چاروں طرف سے وحشی جنگلیوں نے گھیرلیا۔وہ سب نیزوں سے مسلح تھے اور وحشیانہ انداز میں نعرے لگارہے تھے۔ہمارے پاس سوائے پیچھے ہٹنے کے کوئی چارہ نہ تھا۔ایک وحشی نے نیزے کی انی سے ہمیں اپنے ساتھ چلنے کااشارہ کیا۔ہم سرجھکائے ان کے ساتھ چل پڑے۔بندوق انھوں نے میرے ہاتھوں سے چھین لی تھی۔کافی دورتک چلنے کے بعد ہم ایک کھلے میدان میں جاپہنچے، جہاں چھوٹی بڑی بہت سی جھونپڑیاں تھیں۔ایک بڑی جھونپڑی کے سامنے ایک لمبے قد اور بھاری جسم کاآدمی کھڑاتھا۔ ہمیں لانے والوں نے اسے کچھ بتایا۔اس نے غضب ناک نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور اپنی زبان میں اپنے ساتھیوں سے کچھ کہتارہا، جس کاخلاصہ ہمارے ایک ساتھی نے ،جویہ زبان تھوڑی بہت سمجھتا تھا، بتایاکہ وہ دونوں جنگلی جومیری بندوق سے زخمی ہوئے تھے مرچکے ہیں۔اب ہمارے مستقبل کافیصلہ سردارصبح کرے گا۔ہمارے ہاتھ جنگلی بیلوں سے باندھ کرہمیں ایک جھونپڑی میں دھکیل دیا گیا۔باہرنیزہ اُٹھائے پہرے دارموجودتھے۔ صبح ہوئی توہمیں کھانے کوکچھ پھل دیے گئے۔تھوری دیربعد ہمیں لے جاکرایک کھلے میدان میں درختوں سے باندھ دیاگیا۔ایک طرف آگ کاالاؤروشن تھا۔آگ کے گرد کچھ لوگ عجیب سے گیت گارہے تھے۔سمجھے یہ الاؤ ہمیں جلانے کے لیے دہکایاگیاہے، مگرپھر پتاچلایہ ان مرنے والے جنگلیوں کی آخری رسوم اداکی جارہی ہے۔یہ رسوم اداکرنے کے بعدچندجنگلی ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ایک جنگلی ہم سے مخاطب ہوااور کچھ کہاجس کامطلب یہ تھاکہ چوں کہ ہم نے ان کے دوساتھیوں کومارڈالا ہے، اس لیے اب ہم بھی مرنے کے تیارہوجائیں۔سردار کے حکم سے کل دیوتاؤں کے حضورہمارے بھینٹ دی جائے گی۔یہ سنتے ہی ہمارے قدموں تلے سے زمین نکل گئی اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے بیوی، بچوں،ماں باپ اور بہن بھائیوں کی تصویریں گھومنے لگیں۔پھرہمیں جھونپڑی میں بندکردیاگیا۔رات کوہم نے فیصلہ کیاکہ مرناتوایک دن ضرورہے۔اپنے گلے کٹوانے اور شعلوں میں جل کرکوئلا بننے سے بہتر ہے کہ یہاں سے بھاگ نکلیں۔ہم رات گہری ہونے کاانتظار کرنے لگے،تاکہ پہرے دار جنگلی تھک کرسوجائیں یااونگھنے لگیں توہم ان پی قابوپاکرنکل بھاگیں۔جانے رات کاکون ساپہرتھاکہ ہمیں اونگھ آنے لگی۔ہم نے جاگنے کی بڑی کوشش کی ،مگر سب ایک ایک کرکے سوتے چلے گئے پھرزور دار آندھی کے جھکڑوں سے ہماری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تونہ وہ جھونپڑیاں تھیں نہ وہ جنگلی ،نہ درخت نہ جھاڑیاں۔ریت کاکھلامیدان تھا،جہاں ہم پڑے تھے ہم نے پوراجزیرہ چھان مارا، مگرکوئی ایک جنگلی بھی کہیں چھپاہوانظرنہ آیا۔جانے وہ سب کہاں غائب ہوگئے تھے۔ جانے ان کاکوئی وجود تھا بھی کہ نہیں یاوہ سب بھوت تھے۔یہ خیال آتے ہی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ہم اپنی کشتی کی طرف بھاگے۔خداکاشکر ہے کشتی وہاں موجود تھی۔ ہم کشتی میں سوار ہوگئے اور کئی تک سمندر میں بھٹکتے رہے پھرایک بحری جہاز والوں نے ہمیں دیکھ لیاور یوں ہم مہذب دنیا میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ " گاوٴں کا ڈاکٹر - تحریر نمبر 874,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gaoon-ka-doctor-874.html,"”آج کی یہ اہم میٹنگ کچھ دن بعد جنت پورہ گاوٴں میں لگائے جانے والے میڈیکل کیمپ کے بارے میں ہے۔ ہم وہاں پھیلی ہوئی وبائی بیماریوں کے خاتمے کے لیے کوشش کریں گے۔“ ڈاکٹر خالد نے میٹنگ کا آغاز کرتے ہوئے کہا اور پھر انہیں تفصیل سے کیمپ کے بارے میں بتانے لگے۔آخر میں انھوں نے ڈاکٹروں کو سوالات کی اجازت دی تو سب سے پہلے عبدالعزیز نے کہا : ”سر ! جنت پورہ سے کچھ دور ایک اور گاوٴں علی پور بھٹیاں واقع ہے۔وہاں بھی کچھ بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہمیں وہاں بھی میڈیکل کیمپ لگانا چاہیے۔“ڈاکٹر خالد نے دوسرے ساتھی ڈاکٹروں سے مشورہ کیااور جواب ہاں میں پا کر وہاں بھی میڈیکل کیمپ لگانے کا اعلان کر دیا۔ جنت پورہ میں ڈاکٹر خالد، ڈاکٹر وقار اور ڈاکٹر سمیع کی ڈیوٹی لگی تھی۔(جاری ہے)جب کہ علی پور بھٹیاں کے لیے ڈاکٹر عبدالعزیز اور ڈاکٹر عبدالمجید مقرر کیے گئے تھے۔سلیم کے گاوٴں کا نام علی پور بھٹیاں تھا۔ وہاں گزشتہ دنوں کچھ وبائیں پھوٹ پڑی تھیں اور گاوٴں کے بہت سے لوگ ان کی لپیٹ میں آگے تھے،جن میں سلیم کے والدین بھی شامل تھے ۔ یہاں وبائی امراض پر قابو تو پایا جا سکتا تھا، مگر علاج میسر نہیں تھا، انھی بیماریوں نے گاوٴں کے لوگوں کو افلاس اور غربت کا شکار بھی کر دیا تھا۔سلیم اپنے گھر کے صحت میں نیم کے درخت تلے بیٹھا تھا جب دروازہ کھلا اور اماں بشیراں اندر داخل ہوئیں۔تیز چلنے کی وجہ سے ان کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ سلیم نے پوچھا:” اماں! خیر تو ہے؟“اماں نے کہا ! : ” ہاں بیٹا! اندر سے اپنے اماں ،ابا کو بلا لاوٴ۔ اسپتال والے (ڈاکٹر) آئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کیمپ لگایاہے جلدی چلو، نہیں تو پھر بھیڑ ہو جائے گی۔“سلیم یہ سنتے ہی بھاگ کر اپنی امی اور ابا کو بلا لایا۔ کچھ دیر میں وہ سب بڑے میدان کی طرف روانہ ہو چکے تھے کہاں ڈاکٹروں نے کیمپ لگایا تھا۔سلیم کے والدین کیمپ پہنچ کر معانئے کے لیے لائن میں لگ گئے تھے اور سلیم ان سے کچھ دور کھڑا سوچوں میں گُم ہو گیا تھا۔ شاید وہ اپنے گاوٴں کی خوش حالی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ تبھی مریضوں کا معائنہ کرتے ڈاکٹر عبدالعزیز نے ایک لمحے کے لئے سر اُٹھایا تو ان کی نظر سلیم پر پڑی، ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، نہ جانے کیوں انہیں اس لڑکے کے معصوم چہرے میں اپنے بیٹے کا عکس محسوس ہوا۔انھوں نے سر جھٹکا اور دوبارہ مریضوں کا معائنہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا۔ جو ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا تھا۔سلیم اپنی سوچوں میں گُم کھڑا تھا کہ اسے اپنی امی کی آواز سنائی دی: ”سلیم بیٹا ! کہاں گُم ہو؟ گھر نہیں جانا کیا؟“ وہ چونکا اور ان کے ساتھ چل پڑا۔سلیم اپنی ماں کے ساتھ صحت میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ اس کے ابا کے کراہنے کی آواز آئی۔وہ اندر بھاگا، امی پیچھے آرہی تھیں۔ اس کے ابا کی حالت بہت خراب تھی۔ سلیم کے ذہن میں ایک خیال آیا، اس نے امی کو ابا کی دیکھ بھال کرنے کا کہا اور خود میڈیکل کیمپ کی طرف دوڑ لگا دی۔ ڈاکٹر عبدالعزیز سامنے ہی کھڑے تھے۔ اس نے انھیں ساری بات بتائی تو وہ فوراََ اپنی بریف کیس اُٹھا کر اس کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ گھر پہنچتے ہی انھوں نے مختلف آلات سے اس کے ابا کا معائنہ کیا اور انہیں کچھ دائیں کھلائیں۔پھر امی کو وہیں چھوڑ کر وہ سلیم کے ساتھ باہر صحن میں آبیٹھے۔ انھوں نے سلیم سے پوچھا:”تمہارا نام کیا ہے؟“سلیم نے جواب دیا:”میرا نام سلیم ہے۔“انھوں نے پوچھا:” تم کس جماعت میں پڑھتے ہو؟“سلیم نے کہا:”میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہوں:“ڈاکٹر عبدالعزیز نے دوبارہ سوال کیا:”تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟“سلیم بولا:” میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں لیکن ابا کہتے ہیں کہ ڈاکٹر بننے کے لیے بہت پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں۔“ڈاکٹر عبدالعزیز نے ایک پل کو سوچا پھر کہا:” میں تمہیں ڈاکٹربناوٴں گا“سلیم حیرت سے بے ہوش ہوتے ہوتے بچا:”آپ؟“”ہاں ! میں۔ تم آج سے میرے بیٹے ہو۔ ہمارا کیمپ ایک ہفتے بعد ختم ہو جائے گا۔ پھر میں تمہیں تمہارے والدین کے ساتھ شہرلے جاوٴں گا۔ “ ڈاکٹر عبدالعزیز اسے خوش خبری سنا کر چلے گئے تھے اور وہ وہیں ساکت بیٹھا رہ گیا تھا۔ڈاکٹر عبدالعزیز نے سلیم کو شہر میں ایک اچھ اسکول میں داخل کرادیا تھا۔ سلیم محنت کر کے ہر مرتبہ جماعت میں اول آتا تھا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب اس کے اچھے نمبروں کی بدولت اس کا داخلہ ایک میڈیکل کالج میں ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالعزیز اس کی قدم قدم پر رہ نمائی کرتے تھے اور اسے گھر پر پڑھاتے بھی تھے۔ دن گزرتے گئے۔ سلیم ڈاکٹر بن گیا اور شہر کے ایک بڑے سرکاری اسپتال سے منسلک ہو گیا۔انھی دنوں اسے گاوٴں میں وبا پھوٹنے کی اطلاع ملی تو اس نے فوراََ اسپتال میں اپنے انچارج سے بات کی اور کچھ ہی دنوں میں اپنے ساتھی طبی عملے کولے کر گاوٴں روانہ ہو گیا۔ ڈاکٹر سلیم کے والدین بھی ساتھ تھے مگر ڈاکٹر عبدالعزیز مصروفیت کی وجہ سے ان سب کے ساتھ نہ جا سکے۔وہ اپنے گھر پہنچا تو اس کا پرجوش استقبال کیا گیا۔ آض وہ اپنے خواب کی تعبیر اور خدمت کے جذبے کے ساتھ ایک بار پھر اپنے پیاروں کے درمیان موجود تھا اب وہ ہفتے میں دو دن گاوٴں کے لوگوں کا مفت علاج کیا کرتا تھا۔ " سفید پری - تحریر نمبر 873,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sfaid-pari-873.html,"انعم انصاری، جھول:ارے بیٹا بس بھی کرو۔ کیاتم جب سے سکول سے آئی ہو کہانیوں کی کتابیں لے کربیٹھ گئی ہو۔ آئے دن تم کہانی کی کتاب اپنی دوستوں سے لے کرآجاتی ہو، اس کے بعدنہ تو پھر تمھیں کھانے کوئی ہوش رہتا ہے، نہ پینے کا۔ بس تمام تو جہ اسی کتاب پر ہوتی ہے ۔ چلو رکھو! اسے اور چپ چاپ سوجاؤ۔ کل صبح سکول بھی جانا ہے۔امی بس پانچ منٹ میں کہانی ختم ہونے والی ہے۔ ثناء نے جواب دیا۔ثناء سونے کیلئے بسترپر لینے یہ سوچ رہی تھی کہ کیا سچ میں پریاں ہوتی ہے یاصرف کہانیوں میں ہی ایسا ہوتا ہے۔ کاش اس کے پاس بھی کوئی پیاری سی پری ہوتی جس کے ساتھ وہ کھیلتی باتیں کرتی۔ یہ سب سوچتے سوچتے اسے نیند آگئی۔اس نے دیکھا کہ اس کے کمرے میں اچانک ایک سفید روشنی ہوئی ۔(جاری ہے)جس سے اس کی آنکھیں چندھیاگئی۔ اُس نے دیکھا کہ ایک بہت ہی پیاری سفید رنگ کی پری کی آنکھوں کے سامنے کھڑی ہے۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہاتھا۔ اُس نے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہاتھا۔ اس نے اپنی آنکھوں کودوبار مسل کردیکھا توپری نے کہا ثناء میں سچ میں پری ہوں تم ہمیں اتنا پسندکرتی ہو توکیا ہم تم سے ملنے بھی نہیں آسکتے۔ ثناء نے کہا سفیدپری آپ بہت پیاری ہیں کیاآپ مجھے اپنے ملک کی سیرکروائیں گی۔سفید پری نے کہا ٹھیک ہے چلوؤ چلیں۔ پھر وہ دونوں اڑنے لگیں اور تھوڑی دیر میں پرستان پہنچ گئیں جہاں تم پریاں ان کاانتظار کررہی تھی۔ ثناء تمام پریوں کودیکھ کر بہت خوش ہوئی اسے ہری ،پیلی، نیلی ، کالی، لال غرض تمام رنگ کی پریوں سے مل کر بہت مزہ آیا۔اتنے میں ان کی ملکہ پری بھی آگئی جوست رنگی رنگ کی پری تھی۔س اُس نے ثناء کودیکھ کرکہا آؤ ہم تمھاراہی انتظار کررہے تھے تم ہماری کہانیاں بہت ہی شوق سے پڑھتی ہو۔اسی لئے میں نے آج سفید پری کوتمھیں لانے کیلئے بھیجا تھا۔ اب سفید پری تمھیں ہمارے پرستان کی سیرکروائے گی۔ ثناء نے کہا مجھے آپ سب سے مل کربہت اچھا لگا میں اس دن کوکبھی نہیں بھولوں گی۔اتنے میں سفید پری نے کہاچلوؤ سیرکوچلتے ہیں پھر تمھیں گھر بھی چوڑنا ہے کہیں صبح نہ ہوجائے۔ پھر وہ اور سفید پری کونکلے ۔ سفید پری نے ثناء کوتمام پرستان کی سیرکروائی اُسے وہاں کے پھل کھلائے اور ٹھنڈا ٹھنڈاپانی پلایا۔پھر وہ اور سفید پری ایک گرتے جھرنے کے پاس بیٹھ کرباتیں کررہی تھیں کہ اتنے میں ایک جن آنکلا۔ جوبہت ہی خونخواراور طاقتور تھا۔ ثناء اور سفید پری سے کہاکہ ثناء اس کے حوالے کردو۔ سفید پری نے کہانہیں یہ میری مہمان ہے اور میری دوست ہے۔ جن ہنسنے لگااور کہنے لگا کہ کیاپریوں کی بھی کبھی انسانوں سے دوستی ہوسکتی ہے اور آگے بڑھ کرثناء کوکھینچنے لگا۔ثناء نے کہا کچھ نہیں اُس نے ایک براخواب دیکھا لیا تھا۔ توامی نے کہا ہوگا کوئی پریوں کاخواب سارادن بس وہی اور اب خواب میں بھی چلواب جلدی سے ناشتہ کرنے آؤ۔ ثناء نے کہاجی اور پھرخواب کے بارے میں سوچنے لگی کہ کتنا اچھا خواب تھا۔ اتناکہہ کراُس نے جیسے ہی دوسری طرف نظر گھمائی وہاں اُسے اپنی کہانی کی کتاب سفید پری نظر آئی جسے دیکھ کروہ مسکرائی اور پھر چل دی۔ " بھیا کا روزہ - تحریر نمبر 871,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhayya-ka-roza-871.html,"ڈز کی آواز سے سلیم بھیا چونک پڑے۔ کم بخت اتنے پٹاخے چلا رہے ہیں جیسے ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کل پہلا روزہ ہے۔ اچھا تو بھائی جان! آپ کو معلوم ہے کہ کل پہلا روزہ ہے۔ باجی ثریا نے شرارت کے لہجے میں کہا۔ لو! یہ بھی کوئی بھولنے کی بات ہے۔ بھیا بولے۔ لیکن بھیا! آپ تو ہر سال بھول جاتے ہیں۔ طاہر بولا۔ کیسے ؟ پورے تیس کے تیس روزے رکھ کر۔ نجمہ مسکراتے ہوئے بولی۔اوں ! یہ بات ہے تم سب بہن بھائی مل کر میرا مذاق اڑا رہے ہولیکن میں تم کو بتائے دیتا ہوں کہ اب کی دفعہ میں تیس کے اکتیس روزے نہ رکھوں تو میرا نام سلیم نہیں۔ بھائی جان! نجمہ بولی۔ تو اب کی دفعہ آپ عید کے دن بھی روزہ رکھیں گے ؟ اس پر ہم سب مسکرا پڑے اور بھیا کھسیانے ہو کر باہر نکل گئے۔ سحری کے وقت ہم سب بھیا کو جگانے گئے تو معلوم ہوا کہ بھیا نے سحری کھا لی ہے امی سے پوچھا تو وہ بولیں۔(جاری ہے)سلیم کو جگایا تو تھا۔ سحری بھی کھا چکا ہے۔ لیکن کہتا تھا کہ پرویز، طاہر، نجمہ اور ثریا کو صرف یہی ہی بتایا کہ سلیم نے سحری نہیں کھائی۔ وہ آٹھ پہر کا روزہ رکھے گا۔ صبح سات بجے کے قریب ہم مولوی صاحب سے قرآن مجید کا سبق پڑھ رہے تھے کہ بھیا سلیم بھی منہ لٹکائے اندر داخل ہوئے۔ سلیم میاں روزہ رکھا ہے ؟ مولوی صاحب نے بھیا سے پوچھا۔ ہاں ! رکھا تو ہے لیکن آٹھ پہر کا طاہر نے مولوی صا حب کی بات کا جواب دیا۔کیوں ؟ تاکہ تیس روزے پندرہ دنوں میں پورے ہو جائیں۔ نجمہ مسکراتے ہوئے بولی۔ مولوی صاحب نے قہقہہ لگایا اور بھیا چیخ کر بولے۔ مولوی صاحب آپ بھی ان کے ساتھ مل کر میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ میں روزے سے ہوں۔ نہیں تو ان کو بتا دیتا۔ اتنا کہہ کر بھیا باہر نکل گئے۔ مولوی صاحب کے جانے کے بعد نجمہ بولی۔ مجھے تو بھیا کے روزے پر کچھ شک معلوم ہوتا ہے۔ہم نے اس کی تائید کی۔ لیکن یہ کیسے معلوم ہو کر بھیا روزے سے ہیں۔ میں بولا۔ وہ ترکیب نہ کریں ؟ طاہر بولا۔ کونسی؟ باجی بولیں۔ وہی جو پچھلے سال آپ سے کی تھی۔ ٹھیک ہے۔ نجمہ بولی اور ہم بازار کی طرف چل دیے۔ یہ پھل اور مٹھائی کہاں سے آئے ہیں میرے کمرے میں ؟ بھیا کمرے میں داخل ہو کر بولے۔ آپ کے دوست حمید دے گئے ہیں اور کہہ گئے ہیں کہ ہم ابھی آتے ہیں۔میں بولا۔ بہتر اب تم جاوٴ۔ حمید آئیں تو انہیں اندر بھیج دینا۔ دروازہ کھولو سلیم! طاہر اپنی آواز بدلتے ہوئے بولا۔ کون ہے ؟ بھیا اندر سے بولے۔ میں ہوں حمید۔ اچھا حمید! تم آ گئے ؟ ذرا آہستہ بولو بھائی! میں دروازہ کھولے دیتا ہوں۔ ادھر ادھر دیکھو کہیں کوئی چھپا تو نہیں ! کوئی نہیں۔ دروازہ کھولو۔ دروازہ کھلتے ہی ہم سب اندر گھس گئے۔ بھیا کی طرف دیکھا تو وہ منہ میں لڈو رکھے منہ بند کیے کھڑے تھے۔ کیا ہو رہا تھا بھائی جان! طاہر بولا۔ کچھ نہیں ! لڈو کھا رہے تھے۔ باجی بولیں۔ نہیں ! نجمہ بولی۔ میں بتاتی ہوں۔ بھیا روزے کو دو حصوں میں تقسیم کر رہے تھے۔ وہ کیوں ؟ میں بولا۔ تاکہ تیس روزے پندرہ دنوں میں پورے ہو جائیں۔ " اللہ کادوست - تحریر نمبر 870,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/allah-ka-dost-870.html,"محمد شاہد حفیظ:میں ایک استادہوں اور میرا مضمون اسلامیات ہے۔ نئے اسکول میں آج میراپہلا دن تھا۔ اسی وجہ سے خوشی بھی تھی اور ڈر بھی۔ اس خوشی میں ، میں نے ناشتا بھی برائے نام کیااور وقت سے کچھ دیرپہلے ہی اسکول پہنچ گیا۔ پرنسپل صاحب سے ملنے کے بعد مجھے ایک کلاس میں بھیج دیاگیا۔ کلاس روم میں خوب شور ہورہاتھا۔تمام بچے اپنی عادت وفطرت کے مطابق زور زور سے باتیں کررہے تھے۔ میں نے کمرے میں قدم رکھاتوسب کاسانپ سونگھ گیا۔ سب کے سب خاموشی سے سیدھے بیٹھ گئے۔ پھر اچانک کلاس کی دائیں جانب سے” کلاس اسٹینڈ“ کی آواز گونجی۔ یہ یقینا کلاس مانیٹر تھا۔ اس کی آواز سن کرسب بچے باادب کھڑے ہوگے۔سِٹ ڈاؤن پلیز۔ میں نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔(جاری ہے)سب بیٹھ گئے۔شاید آپ جانتے ہوں کہ اب ، میں آپ کواسلامیات پڑھایاکروں گا۔یس سر! چند بچوں کی آواز آئی۔آج پہلی بار آپ کی کلاس لے رہاہوں ، اسی لیے آج کچھ نہیں پڑھاؤں گا۔ پہلے میں اپنا تعارف کراؤں گا، پھر ایک ایک کر کے آپ سب کے بارے میں جاننا چاہوں گا۔استاد کاشاگردوں سے بڑا گہرا تعلق ہوتاہے۔ استادمعلم ہے اور اس کاکام علم وآگہی دینا ہے۔یہی کام گھرمیں ماں باپ بھی کرتے ہیں۔ اسی لحاظ سے کہاجاتا ہے کہ استاد باپ کی جگہ ہوتا ہے، لیکن میرے نزدیک استاد ہی بہترین دوست ہے۔ شاگردوں کااستاد کا احترام کرتے ہوئے اس سے بے تکلف بھی ہوناچاہیے، تاکہ وہ اپنے مسائل پر استاد سے بات کرسکیں۔ اس سے مشورہ کرسکیں اور استاد ان کی راہنمائی کرسکے۔چند لمحے کلاس میں خاموشی چھائی رہی پھر کچھ ملی جلی آوازیں اُبھریں۔تھینک یوسر!اب میں اپنا تعارف کرادوں ۔ میرا نام شہاب حیدرہے۔ صحافت میں ایم ۔ اے کیاہے، مگر عملی طور پرتدریسی میدان میں ا ٓگیا۔ پڑھانا میراشوق ہی نہیں، بلکہ اس سے مجھے دلی اطمینان ہوتا ہے۔ میں نے اسلامیات کامضمون اس لیے منتخب کیاہے کہ آپ کوحقیقی اسلام سے آگاہ کروں اور آپ کومحب وطن شہری بناؤں۔ اب آپ لوگ باری باری اپنا تعارف کرادیں۔میں نے پہلی قطار میں داہنی جانب بیٹھے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔سر! میرانام عمراحمد ہے۔ میرے ابوکانام حیات احمد ہے۔ وہ ایک بینک منیجر ہیں۔اس کے والدکاسن کرساری کلاس پر رعب طاری ہوگیا۔ اتنے میں دوسرا لڑکاکھڑا ہوگیا۔سر! میرانام حمزہ ہے۔ میرے ابوایک پرائیوٹ فرم میں جنرل منیجر ہیں۔” اوہ․․․ یہ بھی منیجر․․․ میرے منھ سے نکلا۔اس کے بعدد تیسرا لڑکا کھڑاہوا۔ وہ بھی پہلے دونوں سے کم نظر نہیں آرہاتھا۔مجھے ذیشان کہتے ہیں۔ میرے ابو ایک تاجرہیں ان کاکپڑے کاکاروبار ہے۔ان سب کے تعارف میں حیران کن بات ان کاخاندانی پس منظر تھا، جسے وہ فخریہ انداز میں بیان کررہے تھے۔ یہ بات مجھے اچھی نہ لگی۔ آگے بھی تعارف ہوا تو تمام لڑکے اعلااور کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم وچراغ ثابت ہوئے ، کیوں کہ یہ ایک منہگا اورمعیاری اسکول تھا۔غریب لوگوں کے بچے تو اس کاصرف سوچ سکتے تھے۔ابھی انھی خیالوں میں مگن تھا کہ ایک لڑکا جولائن کے آخری ڈیسک پر بیٹھا تھا، اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس کاچہرہ اعتماد سے خالی نظر آرہاتھا۔ میں نے اس سے تعارف کے لیے کہا تو وہ قدرے ہچکچاتے ہوئے بولا سر! میرانام محمد علی ہے۔ میرا تعلق ایک عام سے گھرانے سے ہے۔ کلاس کے تمام لڑکے اسکی طرف دیکھنے لگے تو وہ شرمندہ ساہوگیا۔آپ کے ابوکیا کام کرتے ہیں؟ میں نے تجس سے پوچھا۔جی․․․ جی․․․ وہ ․․․ اللہ کے دوست ہیں۔اس کاجواب سن کرکلاس میں قہقہے گونجنے لگے، مگر میری سنجیدگی دیکھ کر خاموش ہوگئے۔اللہ کے دوست․․․ وہ کیسے کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے۔جی وہ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے کہ ہاتھ سے کمانے والا اللہ کادوست ہے تومیرے ابو بھی اللہ کے دوست ہوئے، کیوں کہ وہ اپنے ہاتھ سے کماتے ہیں۔وہ سارا دن محنت مزدوری کرتے ہیں، تاکہ میری فیس ادا کر سکیں اور مجھے بہتر سے بہترتعلیم دلوا سکیں۔ وہ کہتے ہیں تم خوب محنت کرو اور بڑے آدمی بننا۔اس کاجواب سن کرمی حیران رہ گیا۔ اس قدر پختہ یقین کابچہ دیکھ کردل کوسکون ملا۔ میں نے اسے شاباش دی اورپوری کلاس سے مخاطب ہوا: واقعی ہاتھ سے کمانے والا اللہ کادوست ہوتا ہے۔ محنت کی عظمت اوربرکت سے کون واقف نہیں ہے۔ آپ کے ابو کامقام بہت بلند ہے۔ آپ کواس پر فخر ہونا چاہیے۔ کئی انبیائے کرام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے۔میں نے محسوس کیاکہ میری بات کوپوری کلاس پر اثر ہورہاہے اور مجھے خوشی تھی کہ میں پوری کلاس کومحنت کی عظمت سمجھانے میں کام یاب ہوا۔ " گم شدہ شیروانی - تحریر نمبر 868,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/gumshuda-sherwani-868.html,"انوار آس محمد:نام تو ان کامشتاق تھا، مگر خاندان بھر میں مُشی بھائی کے نام سے مشہور تھے۔ وہ ایک مہربان اور ہمدرد انسان تھے، سب کے کام آنے والے انھوں نی ہرایک کادل جیت رکھاتھا۔ یہ اس دن کی بات ہے جب مُشی بھائی کی شادی تھی۔ وہ اپنی پسند سے سنہری شیروانی سلواکرلائے تھے۔ اس وقت پریشانی یہ تھی کہ مُشی بھائی کی شیروانی گم ہوگئی تھی دورکہیں بھی نہ مل رہی تھی۔مغرب کا وقت ہوچکاتھا۔ مُشی بھائی چاہتے تھے کہ برات وقت پر روانہ ہوجائے لیکن یہاں تو یہ مشکل آن پڑی تھی۔سب میرے کمرے میں آجاتے ہیں اور ہر چیز بکھیر دیتے ہیں، اسی لیے شیروانی گم گئی۔ مُشی بھائی نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔ارے سنبھال کررکھنی چاہیے تھی۔ اُدھر سے دادا جی بولے۔(جاری ہے)داداجی!شیروانی تومُشی چاچا کے کمرے میں ہی تھی۔مُشی بھائی کے بھتیجے بُرہان نے گواہی دی۔ہاں ہاں ، میں نے بھی دیکھی تھی۔ بھتیجی ربیعہ نے بھی تصدیق کی۔میں کب کہہ رہاہوں کہ کمرے میں نہیں تھی۔ مُشی بھائی نے کہا، سوال یہ ہے کہ اب شیروانی کہاں ہے۔سب کے چہروں سے پریشانی عیاں تھی۔ اسی دوران داداجی کے موبائل پر گھنٹی بجی۔داداجی نے فون کان سے لگاتے ہوئے”ہیلو“ کہا تو سب خاموش ہوگئے ۔جی جی ․․․ہاں ہاں․․ ضرور․․․ضرور ان شاء اللہ جی۔ دادا جی نے بس اتنی بات کرنے کے بعد کال کاٹ دی۔ سب دادا جی کی طرف دیکھ رہے تھے۔مشتاق کے سسرال سے کال آئی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وقت پر برات لائیے گا۔ داداجی نے بتایا اور ان کے الفاظ نے جیسے بم پھاڑدیاہو۔ بس پھر کیاتھا، ایک بار پھر سب شیروانی کی تلاش میں مصروف ہوگئے۔ اِدھر اُدھر چیخ پکار، سب اپنی تیاری بھول کرمُشی بھائی کی شیروانی ڈھونڈنے لگے۔اوپری حصے سے لے کر نچلی منزل تک سب کچھ کھنگال کردیکھ لیاگیا، مگر شیروانی کوتونہ ملنا تھانہ ملی۔اب تونئی شیروانی لے لیں چاچا“ برہان نے کہا۔نہیں ملی تویہیں کرنا پڑے گا۔ داداجی نے کہا۔میں توبارات لے کرہی بہیں کاؤں گا۔ میں سب کے کام کرتا ہوں، پر سب سے بُرا میرے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ مُشی بھائی غصے میں آچکے تھے۔وقت تیزی سے گزرہاتھا۔اب سب یہی چاہ رہے تھے کہ مُشی بھائی نزدیکی بازار سے کوئی دوسری شیروانی خرید کرلے آئیں، کیوں کہ سب کوتیار ہونا تھا اور اب کوئی بھی شیروانی کی تلاش میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مُشی بھائی بھانپ چکے تھے کہ سب کیا چاہتے ہیں۔ وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولے، اب میں شیروانی نہیں لوں گا۔ بس کوئی اچھا ساکرتا شلوار لے آتا ہوں۔ارے یہ کیابات ہوئی! آپ شیروانی ہی لے کرآئیں، ورنہ مزہ نہیں آئے گا۔مُشی بھائی کی بھابی عمارہ نے کہا۔بس اب دل نہیں چاہ رہا شیروانی پہننے کا۔ مُشی بھائی نے کہا۔ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اب جوکرنا ہے جلدی کرو، وقت ضائع ہورہاہے۔ داداجی نے حکم دیا۔شیروانی آخر گئی کہاں! یہ تو اب شادی کے بعد ہی پتاچلے گا۔ ٹھیک ہے لے آتا ہوں قمیض شلوار۔ مُشی بھائی نے کہا۔جنید گاڑی سجانے لے کرگیا ہوا ہے ، وہ آجائے تو اس کے ساتھ چلے جائیے گا۔عمارہ بھابی نے جیسے ہی جملہ مکمل کیا، گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔لوجنید آگیا۔ ایک ساتھ سب کے منھ سے نکلا۔ بس پھر اگلے ہی لمحے مُشی بھائی کی منھ بولی بہن ماہ نور مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی۔ سب کوسلام کرنے کے بعد ماہ نور نے کہا۔ مُشی بھائی ماشاء اللہ سے آپ کی شیروانی بہت خوب صورت ہے۔ہائیں !تم نے کہا دیکھ لی شیروانی؟ وہ توگم گئی ہے۔ماہ نور نے بتایا ۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا کہ یہ سب کیاہورہا ہے کیسے ہورہاہے۔ اسی وقت جنید اندر گھرمیں داخل ہوا اور بولا: آپ کی شیروانی میں غلطی سے اپنی سمجھ کرلے گیا تھا۔ اصل میں مجھے اپنی شیروانی پراستری کروانی تھی۔اسی لیے کہا تھا کہ ملتی جُلتی شیروانی مت لواور مجھے بتاتو دیتے۔ مُشی بھائی نے کہا۔ ان کے چہرے پر غصے کے ساتھ اطمینان بھی تھا۔مجھے وقت ہی نہیں ملا، گاڑی سجانے والے نے اچانک بلالیا تھا۔ جنید نے صفائی پیش کی۔چلو بھائی شیروانی تو مل گئی نا، اللہ کاشکراداکرو۔ داداجی نے کہا۔سب لوگوں نے سکون کاسانس لیا، سب کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور برات لے کرجانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ " اچھی سہیلی - تحریر نمبر 863,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/achi-saheli-863.html,"فریحہ بتول:آج میں کافی بور ہورہی تھی کیوں کہ آج میری اچھی سہیلی سکول نہیں آئی تھی۔میں اپنی سیٹ پر خاموش بیٹھی تھی کہ ٹیچر کی آواز پر میں نے سامنے دیکھا۔مس کسی لڑکی کاتعارف پوری کلاس سے کرارہی تھی۔اس کانام مس نے صائمہ بتایا۔ذہانت صائمہ کی آنکھوں سے جھلک رہی تھی لیکن جیسے ہی میں نے اُس کواُوپر سے نیچے تک دیکھا۔وہ دوبیساکھیوں کے سہارے کھڑی تھی۔ پہلے تو مجھے بہت افسوس ہوا۔ لیکن جن مس نے اس کومیرے ساتھ بیٹھنے کوکہا تو یہ افسوس غصہ میں بدل گیا کیونکہ یہ میری سہیلی کی جگی تھی اور صائمہ کے یہاں بیٹھنے سے میری سہیلی کومجھ سے دور بیٹھنا پڑتا۔اُس نے مجھے مسکرا کردیکھا تو میں کوشش کے باوجود مسکرانہ سکی۔اس سے دوستی بھی نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ نہ وہ میرے ساتھ کھیل سکتی تھی۔(جاری ہے)نہ بھاگ دوڑ کرسکتی تھی اور میں توبہت متحرک قسم کی لڑکی تھی۔میں اسے دوستی کرکے بورنہیں ہونا چاہتی تھی۔دوسرے دن میری سہیلی سکول آئی تو اس کو پیچھے بیٹھنا پڑا۔ میری سہیلی اور باقی کلاس فیلوز نے یہ منصوبہ بنایاکہ اس کوتنگ کریں گے کہ یہ خود سکول چھوڑ کرچلی جائے۔اس منصوبے کوعملی جامہ پہنانے کیلئے لڑکیوں نے اس کوتنگ کرنا شروع کردیا۔چلتے چلتے دھکا دے دیتیں۔صائمہ گرپڑتی،کبھی برابر سے گزرتے اس پر سیاہی گرادیتیں۔مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا لیکن میں اپنے اس خیال کوجھٹک دیتی یہ سوچ کرکہ اگر میں نے اس کوقبول کرکے اس سے دوستی کرلی تو مجھے بھی اس کے ساتھ ایک جگی بیٹھنا پڑے گا اور میری زندگی کتنی بور ہوجائے گی۔صائمہ لنچ بریک میں اکیلی بیٹھی ہوتی کوئی اس کہ پاس نہ جاتا۔ایک روز صائمہ کوریڈورمیں آرام آرام سے بیساکھی کے سہارے جارہی تھی کہ دولڑکیاں بھاگتی ہوئی اس کے برابر سے گزریں اور دھکا دے دیا۔میں پیچھے ہی آرہی تھی ،صائمہ ایک دم لڑکھڑا گئی اور گرنے ہی والی تھی۔میں نے جلدی سے اسے تھام لیا۔اس کی آنکھوں میں آنسو صاف نظر آرہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تو وہ صاف ان لڑکیوں کوبچا گئی اور کہا میں لڑکھڑا کرگرگئی تھی۔مجھے پتہ نہیں کیوں اس وقت ان لڑکیوں پر بہت غصہ آیا میں اس دن صائمہ کے ساتھ ہی رہی۔دوسرے دن تو حدہی ہوگئی۔لنچ بریک میں جب سب گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے میرا گزرکلاس کے باہر سے ہوا تو میں نے دیکھا صائمہ کلاس میں بیٹھی رورہی ہے۔میں اس کے پاس گئی تو اس نے کہا لڑکیوں نے اس کی بیساکھیوں چھپادی ہیں۔میں بیساکھیوں کے بغیرکہیں نہیں جاسکتی ۔یہ کہہ کروہ رونے لگی۔میں اسی وقت ان لڑکیوں کے پاس گئی جنہوں نے صائمہ کوتنگ کرنے کاپروگرام بنایا تھا۔ ان لڑکیوں سے کہا اگر تم نے صائمہ کی بیساکھیوں واپس نہ کیں اور اس سے معافی نہ مانگی تو میں سچ سچ ہر بات پرنسپل کوبتادوں گی۔میری یہ دھمیکی کام کرگئی اور ان لڑکیوں نے خودبیساکھیوں صائمہ کوواپس کیں اور اس سے معافی بھی مانگی اور آئندہ تنگ نہ کرنے کابھی وعدہ کیا۔آج میری سب سے بہترین دوست صائمہ ہے وہ پڑھنے میں بہت اچھی ہے۔ وہ پڑھائی میں میری مدد کرتی ہے اور میں عام معاملات میں اس کاساتھ دیتی ہوں۔ " آزمائش - تحریر نمبر 862,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/azmaish-862.html,"روبینہ ناز :کسی گاوٴں میں رحیم نامی کسان رہتا تھا۔ وہ بہت نیک دل اور ایماندار تھا۔ اپنی ہی خوبیوں کی وجہ سے گاوٴں بھر میں مشہور تھا۔ لوگ اپنی چیزیں امانت کے طور پر اس کے پاس رکھواتے تھے۔ ایک دن معمول کے مطابق صبح سویرے کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے جا رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک تھیلی نظر آئی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر تھیلی اٹھا لی۔اس نے تھیلی کھول کر دیکھی تو وہ اشرفیوں سے بھری ہوئی تھی۔ کسان تھیلی لے کر کھیتوں میں جانے کے بجائے گھر واپس آگیا اور اپنی بیوی کو بتا دیا۔ جب اس کی بیوی کو یہ معلوم ہوا کہ اس میں اشرفیاں ہیں تو اس کے دل میں لالچ آ گیا۔ اس نے اپنے شوہر سے کہا۔” ہم یہ تھیلی رکھ لیتے ہیں اور فوراً یہاں سے چلے جاتے ہیں ، شہر جا کر ہم بڑا سا گھر بنائیں گے اور اس میں آرام سے رہیں گے۔(جاری ہے)” بیوی کے کہنے کے باوجود کسان لالچ میں نہ آیا اور کہنے لگا۔ “نہیں ! میں ایسا نہیں کرسکتا ، میں اس تھیلی کے مالک کو ڈھونڈ کر اشرفیاں اس تک پہنچاوٴں گا۔یہ تھیلی تمہیں راستہ میں ملی ہے ، تم نے کوئی چوری تو نہیں کی؟” اس کی بیوی اسے تھیلی رکھنے کے لیے جواز پیش کر رہی تھی۔ مگر کسان نے بیوی کی بات نہ مانی اور تھیلی لے کر باہر کی طرف چل پڑا۔راستے میں اسے گاوٴں کا چودھری ملا۔ وہ کسان کے پاس آیا اور پوچھنے لگا۔ “تم اس وقت کھیتوں میں کام کرنے کے بجائے یہاں نظر آ رہے ہو ، خیریت تو ہے؟” کسان نے تمام واقعہ چودھری کو بتایا اور کہا ” میں اس تھیلی کے مالک کو ڈھونڈ رہا ہوں تاکہ اس کی امانت اس تک پہنچا دوں۔”اس کی بات سن کر چودھری مسکرایا اور بولا۔ “یہ تھیلی تمہارا انعام ہے۔”یہ سن کر کسان حیران ہوا اور حیرت زدہ ہو کر بولا۔ “انعام ! مگر کیوں۔۔؟”چودھری نے جواب دیا۔”میں نے گاوٴں بھر میں تمہاری ایمانداری کے چرچے سنے تھے ، اس لئے میں نے یہ تھیلی تمہارے راستے میں رکھ دی تھی کیونکہ صبح سویرے اتنی جلدی تمہارے یہاں سے کوئی نہیں گزرتا،مگر کیوں۔؟” کسان نے پوچھا۔ تمہاری ایمانداری کو آزمانے کے لیے اب یہ تھیلی تمہارا انعام ہے۔“چودھری نے کہا: کسان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود چودھری نے وی تھیلی اس سے نہ لی۔ کسان خوشی خوشی گھر آیا۔ اس نے اشرفیوں کی تھیلی اپنی بیوی کو دی اور کہا۔ “اگر میں تمہارے کہنے پر لالچ کرتا تو ہرگز ہرگز انعام میں یہ تھیلی نہ ملتی۔” پھر اس نے چودھری سے ہونے والی گفتگو اپنی بیوی کو بتا دی۔ کسان نے کچھ اشرفیاں غریبوں کو دیں اور بیوی کو لے کر شہر چلا گیا۔ وہاں اس نے ایک گھر خریدا اور کاروبار کر کے خوش و خرم زندگی گزارنے لگا۔ " بیربل کی دانشمندی - تحریر نمبر 861,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/birbal-ki-danishmandi-861.html,"خان مظفر علی:علی اکبر بادشاہ کے نورتنوں میں سے ایک راجہ بیربل کی ذہانت ، حاضر جوابی ، کی کہانیاں اور لطیفے بہت مشہور ہیں۔ بیربل کی دانشمندی نے بیربل کے کردار کو افسانوی بنا دیا۔ اکبر اور بیربل سے متعلق ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ روایت کے مطابق ایک رات کو جب بادشاہ اور بیربل بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہے تھے۔ دونوں کا گزر ایک حجام کی جھونپڑی کے پاس سے ہوا۔حجام جھونپڑی کے باہر چار پائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ اکبر نے اس سے پوچھا۔ بھائی یہ بتاوٴ کہ آج کل اکبر بادشاہ کے راج میں لوگوں کا کیا حال ہے۔ حجام نے فوراً جواب دیا۔ اجی کیا بات ہے۔ ہمارے اکبر بادشاہ کی اس کے راج میں ہر طرف امن چین اور خوشحالی ہے۔ لوگ عیش کر رہے ہیں۔ ہر دن عید ہے ہر رات دیوالی ہے۔(جاری ہے)اکبر اور بیربل حجام کی باتیں سن کر آگے بڑھ گئے۔اکبر نے بیربل سے فخریہ لہجے میں کہا۔ بیربل دیکھا تم نے ہماری سلطنت میں رعایا کتنی خوش ہے؟ بیربل نے عرض کیا بیشک جہاں پناہ آپ کا اقبال بلند ہے۔ چند روز بعد پھر ایک رات دونوں کا گزر اسی مقام سے ہوا۔ اکبر نے حجام سے پوچھ لیا۔ کیسے ہو بھائی؟ حجام نے چھوٹتے ہی کہا۔ اجی حال کیا پوچھتے ہو ، ہر طرف تباہی بربادی ہے۔ اس اکبر بادشاہ کی حکومت میں ہر آدمی دکھی ہے۔ستیاناس ہو ، اس منحوس بادشاہ کا۔ اکبر حیران رہ گیا۔ کہ یہی آدمی کچھ دن پہلے بادشاہ کی اتنی تعریف کر رہا تھا۔ اور اب ایسا کیا ہو گیا ؟۔ جہاں تک اس کی معلومات کا سوال تھا۔ عوام کی بد حالی اور پریشانی کی اطلاع اسے نہیں تھی۔ اکبر نے حجام سے پوچھنا چاہا۔ لوگوں کی تباہی اور بربادی۔ کی وجی کیا ہوئی۔ حجام کوئی وجہ بتائے بغیر حکومت کو برا بھلا کہتا رہا۔اکبر اس کی بات سے پریشان ہو گیا۔ الگ جا کر بادشاہ بے بیربل سے پوچھا “آخر اس شخص نے یہ سب کیوں کہا”۔ بیربل نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور بادشاہ سے کہا۔ اس میں 10 اشرفیاں ہیں دراصل میں نے 2 دن پہلے اس کی جھونپڑی سے چوری کروا لی تھی۔ جب تک اس کی جھونپڑی میں مال تھا۔ اسے بادشاہ حکومت سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔ اور اپنی طرح وہ سب کو خوش اور سکھی سمجھ رہا تھا۔اب وہ اپنی دولت لٹ جانے سے غمگین ہے ساری دنیا اسے تباہی اور بربادی میں مبتلا نظر آتی ہے۔ جہاں پناہ ، اس واقعے سے آپ کو یہ گوش گزار کرنا چاہ رہا تھا کہ ایک فرد اپنی خوشحالی کے تناظر میں دوسروں کو خوش دیکھتا ہے۔ لیکن بادشاہوں اور حکمرانوں کو رعایا کا دکھ درد سمجھنے کے لئے اپنی ذات سے باہر نکل کر دور تک دیکھنا اور صورتحال کو سمجھنا چاہئے۔ " خطا کا پُتلا - تحریر نمبر 859,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khata-ka-putla-859.html,"شاہ بہرام انصاری:پروفیسر فہیم ریاضی کاپیریڈلے رہے تھے اور طلباء کوجیومیٹری کی کچھ اشکال اور سوالات سمجھارہے تھے جب وہ کام کرواچکے تو اس پوچھنے لگے”بچو بتاؤ یہ سوال سمجھ میں آگئے یانہیں؟کچھ یوں نے ہاں میں جواب دیا،کچھ گردن ہلا کر انہیں رام کرنے لگے۔ اتنے میں سرفہیم کی نظر آخری ڈیسک پر براجمان ثاقب پرپڑی وہ اپنی عینک اتارکررومال سے اسے صاف کر رہا تھا۔ہاں بھئی ثاقب بیٹاتم بتاؤ،میں نے ابھی جو سوال سمجھائے ہیں کیا ن کا طریقہ سمجھ میں آگیا ہے؟توثاقب کے بولنے سے قبل ہی نعمان کہنے لگا۔ سر اس عینکو کوکیا سمجھ آئے گی۔نعمان یہ کیا بدتمیزی ہے۔کیا تمہیں کمرہٴ جماعت میں بیٹھنے کے آداب نہیں؟ سرفہیم کی آواز پر جماعت میں سکوت چھاگیا۔(جاری ہے)نعمان کاتعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے جبکہ ثاقب متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔اس کے والد کی ماہانہ قلیل آمدن سے بمشکل گھرکاخرچہ چل رہاتھا۔ثاقب صبح سکول جاتا اور چھٹی کے بعد دوپہر سے شام تک ایک درزی کی دکان پرکام کرتا تھا۔ اتنی مشقت کے بعد اس کے ہاتھ پچاس روپے والا نوٹ تھمادیا جاتا۔گھر آکر وہ رات گئے کسی سکول کاکام مکمل کرتا اور سبق یادکرتا۔سارا دن نظر کاکام کرنے کی وجہ سے اسے موٹے شیشوں والی عینک لگ گئی۔اس دن کے بعد ثاقب جب بھی سکول جاتا تمام کلاس فیلو اور سکول کے لڑکے اس کامذاق اُڑاتے۔ثاقب ایک دُبلا پتلا اور شریف بچہ تھا اس لئے وہ انہیں کچھ کہنے کی بجائے خاموش رہتا۔نعمان کی ثاقب سے نہ جانے کیا مخالفت تھی کہ وہ ہمیشہ اتس نقصان پہنچانے کی ناک میں رہتا۔نعمان نے ثاقب کے بہت رعجیب نام رکھے ہوئے تھے اور وہی اسے سب سے زیادہ تنگ کرتا تھا۔سرفہیم کاپیریڈختم ہوتے ہی نعمان پھر شروع ہوگیا اور آج اور توثاقب بھی اپنی توہین برداشت نہ کرسکا اس کے منہ سے بے اختیار نعمان کیلئے بددعا نکلی۔شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی کیونکہ اسی رات جب نعمان معمول کے مطابق کمپیوٹر سے اٹھاتو اسے اپنے اردگرد دھندلا سادکھائی دیا پھر اس کی نگاہ سے اپنے کمرے کے سامنے کی سیڑھیاں بھی اوجھل ہونے لگیں اس نے صورتحال کوقابو میں نہ دیکھتے ہوئے چیخنا شروع کردیا۔اس کی امی اور ابو دوڑتے ہوئے اس کے کمرے میں آئے۔ان کے پڑوسی ندیم آنکھوں کے ڈاکٹر تھے۔ڈاکٹر ندیم آنکھوں کامعائنہ کرکے بتایاکہ اس کی نظر کمزورہوگئی ہے اور اسے عینک کی ضرورت ہے۔ نعمان کے یہ سن کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔دوتین دن بعد وہ سکول جانے کے قابل ہوا تو اس کے سارے فرینڈز نے حسب عادت اس کابھی مذاق اُڑایا۔ تھوڑی دور جاکر اسے ثاقب اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔وہ فوراََ پیچھے مڑنے لگا تھا کہ ثاقب لے اسے آواز دے کر روک دیا پنی بے عزتی کے ڈر سے نعمان کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ثاقب نے اس کے قریب آکر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو نعمان کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا ہو۔ثاقب نے اس نے اس سے کچھ کہنے کیلئے لب ہلائے ہی تھے کہ اس سے بیشتر نعمان بول اٹھا ثاقب پلیز مجھے معاف کردومیں غلطی پرتھا تمہارا مذاق اُڑاتا تھا اللہ نے مجھے تمہیں ستانے کی سزادے دی ہے۔اب میں عمر بھر اس کو بھگتوں گا۔ نعمان کے آنسو دیکھ کرثاقب کادل پسیج گیااور وہ اسے درد مندانہ لہجے میں حوصلہ دینے لگا۔نہیں میرے دوست انسان توخطا کاپتلا ہے جانے انجانے میں اس غلطی ہوہی جاتی ہے۔میرے لئے یہی کافی ہے کہ تم راہ راست پر آگئے ہو۔ " کر بھلاہو بھلا - تحریر نمبر 858,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kar-bhala-ho-bhala-858.html,"حماد سلطان :ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی کیونکہ اس کا نر مر چکا تھا۔ وہ بیچاری ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ ایک دن اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ تمہاری بیماری ایسی ہے کہ تم جلد مر جاوٴ گی۔ اسے یہ سن کر صدمہ ہوا کیونکہ اس کے پاس ایک انڈا تھا۔ اسے ڈر لگا کہ اگر میں مر گئی تو اس انڈے کا کیا ہو گا جس کے خول سے جلد ہی بچہ نکلنے والا تھا اور پھر اس بچے کو کون سنبھالے گا۔لہذا وہ اپنے سب دوستوں کے پاس گئی جو جنگل میں رہتے تھے۔ اس نے اپنے دوستوں کو اپنی ساری کہانی سنائی لیکن انہوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ بیچاری بطخ نے ان کی کافی منتیں کیں کہ خدا کے لیے تم لوگ مرنے کے بعد میرے بچے کو اپنا سایہ دینا لیکن کسی نے اس کی بات نہ مانی۔(جاری ہے)بیچاری بطخ بھی کیا کرتی۔ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنے بھائی مرغے کے پاس جاوٴں ، وہ ضرور میری مدد کرے گا لہذا وہ مرغے کے پاس گئی اور اسے سارا قصہ سنایا۔مرغ بھائی ! آپ میرے بچے کے ماموں جیسے ہو پلیز آپ ہی میرے بچے کو اپنا سایہ دینا۔ مرغا بولا ! میں تمہارے بچے کو رکھ لیتا لیکن میری بیگم مرغی یہ بات نہیں مانے گی لہذا مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا لہذا تم مجھے معاف کر دینا۔ بطخ ادھر سے مایوس ہو کر اپنے گھر واپس آ گئی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کیا جائے۔اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس نے موقع ڈھونڈ کر یہ کام انجام دے دیا اور خود جا کر ایک درخت کے کنارے بیٹھ گئی۔ اس کے بعد بطخ کی طبیعت اور بگڑ گئی اور ایسی بگڑی کہ اس کی موت ہو گئی۔ جب مرغی کے بچے انڈوں سے باہر نکلے تو ان میں ایک بطخ کا بچہ بھی تھا۔ مرغ تو سب جا ن گیا تھا لیکن اس نے مرغی کو بتانا مناسب نہ سمجھا۔ مرغی نے کافی شور شرابہ کیا اور بولی : میرے بچوں کے ساتھ بطخ کا بچہ نہیں رہے گا۔مرغ نے اسے کافی سمجھایا لیکن مرغی نے اس کا کہنا نہیں مانا۔ مرغی نے اپنے بچوں کو منع کر دیا کہ بطخ کے بچے سے کسی کو بات نہیں کرنی ہے۔ سب نے مرغی کی بات مان لی لیکن دو چوزوں نے اپنی ماں کی بات نہ مانی اور وہ جو خود کھاتے تھے۔ اپنے ساتھ اس بطخ کے بچے کو بھی کھلاتے تھے۔ مرغی کو بطخ کے بطے سے سخت نفرت تھی ، وہ اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔ایک دن مرغی کے ذہن میں خیال آیا کہ ہم سب مل کر دریا کے کنارے سیر کو جائیں گے۔ ہم سب واپس آ جائیں گے اور بطخ کے بچے کو وہیں چھوڑ آئیں گے۔ اس طرح سے جان چھوٹ جائے گی۔ وہ لوگ سیر کو نکلے۔ وہاں پہنچتے ہی ایک چوزہ دریا کے کنارے چلا گیا اور ڈوبنے لگا۔ یہ دیکھ کر مرغی زور زور سے چیخنے چلانے لگی چونکہ بطخ کے بچے کو تیرنا آتا تھا لہذا اس نے فوراً دریا میں تیرنا شروع کر دیا اور اس چوزے کو نکال کر باہر لے آیا۔ مرغی نے جب یہ دیکھا تو اسے اپنے کئے پر کافی شرمندہ ہوئی اور اس نے بطخ کے بچے سے معافی مانگ کر اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔ اس طرح وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ دیکھا بچو! کیسے بطخ کے بچے نے مرغی کو بچایا اور کیسے اس کا بھلا ہوا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ کر بھلا تو ہو بھلا۔ " بادشاہ اور نیک وزیر - تحریر نمبر 856,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/badshah-or-neek-wazir-856.html,"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک کا باشاہ بہت ظالم تھا۔ہر وقت عجیب و غریب فرمائشیں کرتا رہتا تھا۔اس کی عوام اور خاص طور پر اسکا وزیر اس سے بہت تنگ تھا۔وزیر ایک نیک دل اور عقلمند انسان تھا جس کی وجہ سے ملک کے حالات کافی بہتر تھے۔ایک دن باشاہ کو ایک عجیب و غریب خواہش سوجھی۔اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ مجھے ایک ایسا محل بنا کر دو جس کی تعمیر اوپر سے نیچے کی طرف کی جائے اور اگر وزیر دس دن کے اندر یہ کام شروع نہ کر سکے تو اس کا سر قلم کر دیا جائے۔وزیر بیچارا بہت پریشان ہوا کہ اب کیا کرے۔بہر حال جب وہ اپنے گھر پہنچا تو اس نے اپنی بیوی کو سارا قصہ سنایا۔بیوی نے مشورہ دیا کہ تم اللہ کے حضور مدد طلب کرو۔وزیر کو مشورہ بہت پسند آیا اس نے فوراوضو کیا اور دو نفل پڑھے اور اللہ تعالی سے دعا کی۔(جاری ہے)دعا کرتے کرتے اس کو نیند آگئی خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ وہ جنگل میں جا رہا ہے کہ اس کو کوئی چمکتی ہوئی چیز ملتی ہے جسے لے کر وہ بادشاہ کو دے دیتا ہے اور بادشاہ بہت خوش ہوتا ہے۔وزیر کو جب جاگ آئی تو اس نے اپنی بیوی کو سارا خواب سنایا تو بیوی نے فورا کہا کہ جنگل کی طرف جاوٴ وہاں سے تمہیں مدد ملے گی۔وزیر نے اگلے دن اپنا رخت سفر باندھا اور سفر کو نکل پڑا۔وہ تھوڑا بہت آرام کرتا اور پھر چل پڑتا۔چلتے چلتے اس کو پانچ دن ہو گئے تو اس نے سوچا کہ چلو اب واپس چلتے ہیں اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔جب وہ واپس مڑنے لگا تو اچانک اس کی نظر ایک خرگوش پر پڑی جو بیچارا شکنجے میں پھنسا ہوا تھا۔نیک دل وزیر نے فورا شکنجہ سے خرگوش کو آزاد کرایا۔اور پھر واپس مڑنے ہی لگا تھا کہ اس کو ایک آواز آئی اے نیک دل انسان تمہارا بہت شکریہ۔وزیر حیرت سے مڑا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک چھوٹا سا بونا کھڑا ہے جو بول رہا ہے۔وزیر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کو ایک جادو گر نے خرگوش بنایا ہوا تھا۔اور شکنجہ کھولتے ہی جادو گر کا اثر زائل ہو گیا۔وزیر نے اسے اپنی مشکل بتائی تو بونے نے اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔چلتے چلتے وہ وزیر کو ایک غار کے پاس لے آیا اور اسے اندر جانے کو بولا۔وزیر اندر گیا تو دیکھا کہ اندر ایک بزرگ عبادت کر رہے ہیں۔اس نے انہیں سلام کیا اور اپنی مشکل بتائی۔بزرگ مسکرائے اور کہا بیٹا کوئی مسئلہ نہیں۔ اور ساتھ ہی وزیر کو ایک طوطا دیا کہ اس کو اپنے ساتھ لے جاوٴ یہ تمہاری مدد کرے گا۔وزیر نے ان کا شکریہ ادا کیا اور واپس اپنے گھر چل دیا۔اپنے گھر جا کر اس نے اپنی بیوی کو سارا ماجرا سنایا تو وہ بھی بہت خوش ہوئی۔اگلے دن وہ بادشاہ کے محل گیا اور بادشاہ کو کہا آپ میرے ساتھ چلیں اور دیکھیں میں کیسے اوپر سے نیچے کی طرف محل تعمیر کرتا ہوں۔وزیر بادشاہ کو ایک کھلی جگہ لے آیا جہاں بادشاہ نے نیا محل بنانے کو کہا تھا۔اس جگہ مزدور اور مستری اور تعمیراتی سامان پڑا ہوا تھا۔وزیر نے طوطے کو ہوا میں چھوڑا اور کہا چلو میاں مٹھو اب اپنا کام دکھاوٴ۔طوطا اڑتا ہوا کافی اونچائی پر چلا گیا اور آوازیں لگانی شروع کر دیں کہ اینٹیں پکڑاوٴ اینٹیں پکڑاوٴ ۔بادشاہ یہ سن کر غصہ میں آگیا اور وزیر کو کہا بھلا اتنی زیادہ اونچائی پر کوئی اینٹ کیسے پہنچائے گا۔وزیر یہ سن کر بولا حضور والا اگر اتنی اونچائی پر اینٹیں نہیں پہنچائی جا سکتی تو اوپر سے نیچے تعمیر کیسے کی جا سکتی ہے۔بادشاہ وزیر کی عقلمندی دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس نے اپنی غلط کاموں کی معافی مانگی اور وہ بھی ایک نیک دل اور اچھا انسان بن گیا۔ " جو ہوا اچھا ہوا - تحریر نمبر 855,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ju-hua-acha-hua-855.html,"اٹلی کا ایک بادشاہ حکومت اور دولت کے گھمنڈ میں غریبوں سے بات کرنا بھی بْرا جانتا تھا اس لئے اکثر لوگ اسے ناپسند کرتے تھے۔ ایک دن یہ شکار میں کسی جانور کے پیچھے گھوڑا ڈالے اتنی دور نکل گیا کہ نوکر چاکر سب بچھڑ گئے اور بادشاہ اکیلا رہ گیا۔ اتنے میں ایک کسان نے بادشاہ کے گھوڑے کی رکاب پکڑ لی۔ اس کی شکل ہو بہو بادشاہ سے ملتی تھی۔فرق یہ تھا کہ اس کی پوشاک اور حالت غریب جیسی تھی۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں تین دن سے حضور کی ڈیوڑھی پر بھوکا پیاسا چلا آ رہا ہوں مگر کوئی میری فریاد نہیں سنتا۔ بادشاہ نے غریب کو میلے کچیلے کپڑوں میں دیکھ کر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا کہ میں ذلیل آدمیوں سے بات نہیں کرتا۔ غریب کسان پھر بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ یہاں تک کہ بادشاہ ایک تالاب پر پہنچ کر گھوڑا سے اترا۔(جاری ہے)باگ ڈور ایک درخت سے اٹکائی۔ تاج اور کپڑے اتار کر ایک طرف رکھے اور نہانے کو تالاب میں اتر گیا۔ یہ تالاب ایسے نشیب میں تھا کہ نہانے والے کو اوپر کا آدمی نظر نہ آتا تھا۔ جب بادشاہ تالاب میں اتر چکا تو غریب کسان نے اپنے کپڑے اتار دیئے۔ بادشاہ کے کپڑے پہن کر تاج سر پر رکھ لیا اور بادشاہ ہی کے گھوڑے پر سوار ہو کر رفو چکر ہو گیا۔ کسان بادشاہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اسے بادشاہی نوکر چاکر مل گئے جنہوں نے اسے بادشاہ سمجھ کر ادب سے سلام کیا اور یہ بھی بے جھجھک شاہی محل میں جا پہنچا۔اصلی بادشاہ تالاب سے نہا کر باہر نکلا تو کپڑے، تاج اور گھوڑا کچھ بھی موجود نہ تھا۔ بہت گھبرایا مگر اب کیا ہوسکتا تھا؟ ناچار غریب کسان کے میلے کپڑے پہنے اور کئی دن تک فاقے کرنے اور بھٹکنے کے بعد شہر پہنچا۔ مگر اب اس کی یہ حالت ہوئی کہ جس سے بات کرتا کوئی منہ نہ لگایا اور جب یہ کہتا کہ میں تمہارا بادشاہ ہوں تو لوگ اسے پاگل سمجھ کر ہنس دیتے۔دو تین ہفتے اسی طرح گزر گئے۔ جب اس پاگل کا قصہ بادشاہ کی ماں نے سنا تو اسے بلوا کر اس کے سینے پر تل کا نشان دیکھا پھر اس کی سچائی کی تصدیق کی۔ کسان نے اصلی بادشاہ کی یہ حالت دیکھ کر کہا کیا تم وہی شخص ہو جو دولت اور حکومت کے گھمنڈ میں غریبوں کی فریاد نہ سنتے تھے؟ اسی کی سزا دینے کو میں نے یہ سوانگ بھرا تھا۔ اگر تم وہ گھمنڈ چھوڑ کر رحم و انصاف کا اقرار کرو تو میں تمہارا تاج و تخت واپس کرنے کو تیار ہوں ورنہ ابھی قتل کا حکم بھی دے سکتا ہوں۔ یہ سن کر بادشاہ نے عاجزی اور ندامت کے ساتھ اپنی غلطی تسلیم کی اور کسان اسے تاج و تخت دے کر گھر چلا گیا۔ جس کے بعد بادشاہ نے اپنی عادتوں کی اصلاح کر لی اور چند ہی دنوں میں نیک نام مشہور ہو گیا۔ " شرفو کی کہانی - تحریر نمبر 854,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sharfoo-ki-kahani-854.html,"وہ ایک لکڑہارا تھا۔ ساری عمر اس نے جنگلوں میں جا کر لکڑیاں کاٹ کر انھیں بیچا تھا اور اپنی اس محنت سے جنگل سے کچھ دور ایک چھوٹا سا مکان بنوایا تھا، جس میں وہ، اس کی بیوی اور جوان بیٹا رہتا تھا۔ بیوی کا نام نادی تھا اور بیٹے کا شرفو۔ تینوں آرام اور سکون سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ کام صرف لکڑہارا کرتا تھا۔ بیوی اور بیٹا کوئی ایسا کام نہیں کرتے تھے جس میں آمدنی میں اضافہ ہو۔بیوی ہانڈی روٹی پکاتی تھی اور بیٹا گھر ہی میں رہ کر چھوٹے چھوٹے کام کرتا تھا۔لکڑہارا بوڑھا ہو گیا تھا۔ بڑھاپے کی وجہ سے اس میں پہلے سی ہمت نہیں رہی تھی۔ وہ آئے دن بیمار ہی رہتا تھا، مگر اسے کوئی ایسی پریشانی نہیں تھی۔ سمجھتا تھا کہ میرا شرفو اب بچہ نہیں رہا۔ آسانی سے گھر کی ذمہ داریاں سنبھال سکتا ہے۔(جاری ہے)شرفو کی ماں کا بھی یہی خیال تھا، اس لیے اسے بھی کسی قسم کی فکر نہیں تھی۔ایک صبح لکڑہارا جاگا تو اس نے محسوس کیا کہ بڑا کم زور ہو گیا ہے۔ جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹنا اس کے لیے مشکل ہے۔ اس کا بیٹا صبح ناشتے سے فارغ ہو چکا تھا اور اس بات پر حیران ہو رہا تھا کہ اس کا باپ معمول کے مطابق صبح سویرے گھر سے نکلا کیوں نہیں۔ چارپائی پر لیٹا کیوں ہے؟لکڑہارا سمجھ گیا کہ اس کا بیٹا کیا سوچ رہا ہے۔ اس نے شرفو کو اشارے سے اپنے پاس بلایا اور پیار سے بولا: ""شرفو بیٹا!""""جی، اباجی!""""دیکھو بیٹا! اب اپنے گھر کی ذمہ داری تمھیں سنبھالنا ہو گی۔میں بوڑھا ہو گیا ہوں، بیمار بھی ہوں۔""""تو فرمائیے اباجی!"" شرفو نے پوچھا۔""بیٹا! جو کام میں نے ساری عمر کیا ہے، وہ اب تم کرو۔ لکڑیاں کاٹنا آسان کام نہیں ہے، مگر تم ہمت والے اور طاقت ور ہو۔ شروع شروع میں یہ کام ذرا مشکل لگے گا۔ پھر رفتہ رفتہ آسان ہو جائے گا۔ میں تمھیں برابر مشورے دیتا رہوں گا، جو تمھارے لیے مفید ہوں گے۔سمجھ گئے بیٹا!""شرفو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔""شاباش بیٹا! مجھے تم سے یہی امید تھی۔ شوق سے کام کرو گے تو ڈھیر سارے پیسے کما لو گے۔""شرفو کی ماں پاس ہی کھڑی یہ گفتگو سن رہی تھی۔ شرفو کے باپ نے اس کی طرف دیکھ کر کہا: ""نادی! میرا کلہاڑا لے آوٴ۔""نادی اندر سے کلہاڑا لے آئی۔""بیٹا! یہ ہمارا ورثہ ہے۔ اس کی حفاظت کرتے رہنا، کیوں کہ اس کے ذریعے سے ہی تو ایک لکڑہارا پیڑ سے لکڑیاں کاٹتا ہے۔""یہ کہتے ہی لکڑہارا چارپائی سے اٹھ بیٹھا۔ اس نے کلہاڑا اٹھا کر شرفو کے کندھے پر رکھ دیا اور اسے بتانے لگا کہ اچھے پیڑ کہاں کہاں ہیں۔ کتنی لکڑیاں ہر روز کاٹنی ہوں گی اور انھیں کس طرح گٹھا بنا کر سر پر اٹھا کر شہر میں وہاں لے جانا ہو گا، جس جگہ لکڑیاں بیچی جاتی ہیں، لکڑہارے نے اسے اس جگہ کا نام بھی بتا دیا۔شرفو بڑے شوق سے باپ کی باتیں سن رہا تھا۔اس کا یہ شوق دیکھ کر اس کے ماں باپ دونوں بہت خوش تھے۔جب لکڑہارے نے وہ سب کچھ بتا دیا، جو وہ اپنے بیٹے کو بتانا چاہتا تھا تو کہنے لگا: ""لو شرفو! آج سے کام شروع کر دو۔""شرفو کی ماں نے بیٹے کو ڈھیروں دعائیں دیں اور شرفو کلہاڑا کندھے سے لگائے اپنے گھر سے نکل گیا۔ جنگل کا راستہ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ وہ باپ کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گیا۔بیسیوں پیڑ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک قطار میں کھڑے تھے۔ اس کے باپ نے بتایا تھا کہ پہلے پیڑ کی شاخیں جھکی ہوئی ہیں، ان شاخوں کو کاٹنا آسان ہے، پہلے یہی شاخیں کاٹنا۔وہ ایک لمبی جھکی ہوئی شاخ کو کاٹنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر شاخ کے اس مقام پر پڑی، جہاں سے یہ پیڑ سے پھوٹی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ وہاں چڑیوں نے ایک گھونسلا بنا رکھا ہے۔اس نے دو تین بچے بھی اس گھونسلے میں دیکھ لیے تھے۔ یہ گھونسلا دیکھ کر فوراً اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھا: میں نے یہ شاخ کاٹی تو کیا گھونسلا تباہ نہیں ہو جائے گا؟اس نے اپنے سوال کا خود جواب دیا: "" بالکل تباہ ہو جائے گا اور وہ بچے جو اس گھونسلے میں پرورش پا رہے ہیں، نیچے گر کر مر جائیں گے اور ان کے ماں باپ کو بڑا دکھ ہو گا۔""اس نے کلہاڑا اس شاخ کو کاٹنے کے لیے اٹھایا ہی تھا کہ یکایک اس کا ہاتھ رک گیا۔وہ آہستہ سے بولا: ""نہیں، میں یہ ظلم نہیں کر سکتا۔""اور وہ اس پیڑ کے سائے میں بیٹھ گیا۔کئی باتیں اس کے ذہن میں آ گئیں۔ میرے باپ نے لکڑیاں کاٹنے کے لیے بھیجا ہے۔ اس کا حکم مانتا ہوں تو وہ خوش ہو گا۔ میں لکڑیاں بیچ کر پیسے کما لوں گا، لیکن یہ ان چڑیوں پر ظلم ہو گا، جنھوں نے یہاں گھونسلا بنا رکھا ہے۔ وہ سوچتا رہا کہ ماں باپ کا حکم مانے یا ان بیچاری چڑیوں کے گھونسلے کو سلامت رکھے۔اس کی نظر بار بار گھونسلے پر جم جاتی تھی۔ آخر وہ اٹھ بیٹھا اور پکے ارادے کے ساتھ واپس گھر روانہ ہو گیا۔ اس کا باپ گھر کے باہر چارپائی پر لیٹا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ شرفو کو دیکھا تو بولا: ""شرفو بیٹا! جلدی آ گئے ہو۔ بڑی جلدی لکڑیاں بک گئی ہیں۔""""نہیں ابا جان!""""کیا بات ہے؟""""ابا جان! میں پیڑ پر کلہاڑا نہیں چلا سکا۔""""کیوں؟"" لکڑہارا حیران ہو کر بولا۔شرفو نے جو کچھ دیکھا تھا، وہ باپ کو بتا دیااور اس سے پہلے کہ اس کا باپ کچھ کہے، اس کی ماں نے کہا: ""بیٹا! اس پیڑ پر چڑیوں نے گھونسلا بنا رکھا تھا تو اسے چھوڑ کر دوسرے پیڑ کی شاخیں کاٹ لیتے۔""شرفو نے جواب دیا: ""اماں! وہاں بھی پرندوں نے گھونسلا بنا رکھا تھا۔ کیسے کاٹتا اسے۔""لکڑہارا اپنے بیٹے کی بات سن کر بہت خفا ہوا اور غصے سے کہنے لگا: ""او احمق! لکڑہارا یہ نہیں دیکھتا کہ پیڑ پر پرندوں کا گھونسلا ہے یا نہیں۔اسے لکڑیاں کاٹ کر بیچنی ہوتی ہیں۔ تم نے بڑی احمقانہ حرکت کی ہے۔ میں نہیں سمجھتا، تم اتنے پاگل ہو گے۔""لکڑہارا غصے میں جانے اور کیا کہہ دیتا کہ اس کی بیوی نے سرگوشی میں سمجھایا: ""آخر بچہ ہے اور کچھ نہ کہو۔ دو تین دن ٹھہر جاوٴ۔ اپنی ذمے داری سنبھال لے گا۔""دو دن بیت گئے تو پھر باپ نے بیٹے کو ایک اور مقام کا پتا بتایا اور تاکید کی خبردار! پیڑ پر ضرب لگانے سے پہلے اوپر نہیں دیکھنا۔""شرفو نے عہد کر لیا کہ وہ پہلے کی طرح اوپر نہیں دیکھے گا اور باپ کے بتائے ہوئے مقام پر چلا گیا۔ اسے اپنا وعدہ یاد تھا۔ چناں چہ پہلے پیڑ کے پاس پہنچ کر اس نے اوپر نہ دیکھا۔ وہ نیچے دیکھتے ہوئے کلہاڑا مارنے لگا کہ اس کی نظر پیڑ کے نیچے اس جنگلی پھل پر پڑی، جسے بعض لوگ ہانڈی میں پکا کر کھاتے ہیں۔ایک سوال ذہن میں ابھر آیا: اس پیڑ پر یہ پھل لگتا ہے۔میں اسے کیوں نقصان پہنچاوٴں؟ِ کیا اس کی شاخیں کاٹنے سے اس پھل کا کچھ حصہ ضائع نہیں ہو جائے گا؟ کیا یہ ان لوگوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی جو اسے ہانڈی میں پکا کر کھاتے ہیں؟وہ دیر تک اس پیڑ کے نیچے بیٹھا رہا اور سوچتا رہا۔اس روز جب لکڑہارے نے اپنے بیٹے کو دیر سے آتے دیکھا تو اسے یقین ہو گیا کہ اب یہ ضرور لکڑیاں بیچ کر پیسے لایا ہے۔وہ خوش ہو کر بولا: ""آج میرا بیٹا کافی پیسے لے کر آیا ہے۔ ہے نا، کیوں شرفو؟""نہیں ابا جان! میں کوئی پیسہ نہیں لایا۔"" پھر اس نے باپ کو پیڑ نہ کاٹنے کی وجہ بتا دی۔ بیٹے کی بات سنتے ہی لکڑہارے کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔""تو کچھ نہیں کر سکے گا۔ تجھے لکڑیاں کاٹ کر بیچنے کے لیے بھیجا تھا، پیڑ کا پھل دیکھنے کے لیے نہیں۔""""میں کیا کرتا ابا جان! آپ جانتے نہیں، لوگ اس پھل کو پکا کر کھاتے ہیں۔""باپ گرجا: ""تو تمھیں کیا؟ لوگ پھل پکا کر کھاتے ہیں، تم تو نہیں۔""""اباجی! وہ لوگ بھی تو ہمارے جیسے ہیں نا۔""لکڑہارے کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا کہ اس کی بیوی نے پھر اسے سمجھایا: "" بس اب اور کچھ نہ کہو۔ مجھے امید ہے، شرفو سیدھے راستے پر آ جائے گا۔""لکڑہارا بولا: ""اب کے میں برداشت کر لیتا ہوں۔ آئندہ اس نے ایسی بیہودہ حرکت کی تو میں اسے گھر سے نکال دوں گا۔""چند دن گزر گئے۔ لکڑہارے نے اس مرتبہ پرانے درختوں کا پتا بتا کر کہا: ""خبردار! اب کے کوئی بہانہ نہ بنانا، پیسے لے کر گھر آنا۔""شرفو جنگل میں گیا۔ اس نے پرانے پیڑ دیکھے۔ بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ انھیں دیکھ کر وہ سوچنے لگا: انھوں نے برسوں تک مسافروں کے لیے ٹھنڈے سائے مہیا کیے ہیں۔ تھکے ہوئے لوگ ان کے نیچے بیٹھ کر سکون حاصل کرتے رہے ہیں۔انھیں کاٹنا انسان کے ان محسنوں کا احسان ماننے کے بجائے ان پر الٹا ظلم نہیں ہو گا؟اور وہ واپس آنے لگا۔ راستے میں ایک نہر پڑتی تھی۔ اس کے پل پر سے گزرتے ہوئے اس نے کلہاڑا نیچے پانی میں پھینک دیا کہ نہ یہ ہو گا اور نہ مجھے لکڑیاں کاٹنے کے لیے کہا جائے گا۔ شہر میں ایک بازار سے گزرتے ہوئے اس نے کئی دکانوں کو دیکھ کر سوچا: یہ اچھا کام ہے۔میں بھی ابا جان سے کہہ کر بازار میں ایک دکان کھول لوں گا۔اس روز وہ شام کے قریب اپنے گھر پہنچا۔ لکڑہارے کو پورا یقین تھا کہ اس کا بیٹا ضرور لکڑیاں بیچ کر آیا ہے۔""تو آج تم نے کیا کام کیا ہے؟""باپ کا یہ سوال سن کر شرفو بولا: ""ابا جان! پیڑ تو میں نہیں کاٹ سکا۔ وہ ساری عمر مسافروں کو ٹھنڈے سائے دیتے رہے ہیں۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ بازار میں دکان پر بیٹھا کروں گا۔""بیٹے کے منہ سے جیسے ہی یہ لفظ نکلے لکڑہارا اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا اور اسے اسی وقت گھر سے نکال دیا۔ ماں نے دخل دینا چاہا تو لکڑہارے نے اسے بھی جھڑک دیا: ""بس، بس اب تم ایک لفظ نہیں کہو گی۔""شرفو گھر سے نکل کر چلنے لگا۔ اس کا کوئی ٹھکانا تو تھا نہیں۔ کہاں جا سکتا تھا؟ چلتا گیا، چلتا گیا، یہاں تک کہ اس قدر تھک گیا کہ اس کے لیے ایک قدم اٹھانا بھی دو بھر ہو گیا تھا۔قریب ہی ایک بڑی شان دار حویلی تھی۔ وہ اس کے دروازے پر گر پڑا اور بیہوش ہو گیا۔ادھر لکڑہارا اور اس کی بیوی اپنے بیٹے کی جدائی میں تڑپ رہے تھے۔ لکڑہارا بری طرح پچھتا رہا تھا کہ اس نے بیٹے کو گھر سے کیوں نکال دیا تھا۔ ایک دن دونوں بیٹے کی باتیں یاد کر کے رو رہے تھے کہ ان کے مکان کے آگے ایک بگھی رکی۔ اس میں سے ایک شخص اترا اور لکڑہارے کے دروازے پر دستک دینے لگا۔""کیوں جناب! کیا بات ہے؟"" لکڑہارے نے دروازہ کھول کر اس آدمی سے پوچھا۔""آپ کو، آپ کی بیوی کو نادر خاں نے بلایا ہے۔""""نادر خاں کون؟"" لکڑہارے نے یہ نام پہلی بار سنا تھا۔""آپ نے نادر خاں کا نام نہیں سنا؟""""جی نہیں۔""""وہ بڑے آدمی ہیں، سب ان کی عزت کرتے ہیں۔ مہربانی کر کے بگھی میں بیٹھ جائیں۔""لکڑہارا اور اس کی بیوی بگھی میں بیٹھ گئے۔ بگھی انھیں ایک بڑے خوب صورت اور شاندار باغ میں لے آئی۔وہ باغ کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ ایک طرف سے آواز آئی: ""ابا جان! اماں!""""ارے شرفو!"" لکڑہارا اور اس کی بیوی اپنے بیٹے کو دیکھ کر حیران ہو گئے۔ شرفو نے اعلٰی قسم کا لباس پہن رکھا تھا اور بہت خوش لگتا تھا۔""تم یہاں کہاں؟"" شرفو کی ماں نے پوچھا۔شرفو کہنے لگا: ""اماں! اس شام جب ابا جان نے مجھے گھر سے نکالا تھا تو میں تھک کر ایک حویلی کے دروازے پر گر پڑا۔ اس حویلی کے مالک نادر خاں ہیں، جنھوں نے یہ دیکھ کر کہ مجھے پیڑوں اور پرندوں سے بڑی محبت ہے، اپنے اس باغ کا مالی بنا دیا ہے۔ وہ ہیں میرے محسن۔""نادر خاں قریب آ گئے اور کہنے لگے: "" واقعی شرفو کی اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا تھا کہ اسے پیڑوں کا بڑا خیال ہے۔پیڑوں سے محبت کرتا ہے۔ میں نے اسے اپنے باغ کے پیڑوں کی رکھوالی کا کام سپرد کر دیا ہے۔ وہ یہاں نئے نئے پیڑ لگائے گا اور ان کی حفاظت کرے گا، اس نے پیڑوں سے محبت کی ہے اور پیڑوں نے اس محبت کا یہ بدلہ دیا ہے۔""شرفو کے اصرار پر اس کے ماں باپ بھی وہیں رہنے لگے اور خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔ " لوہار کابیٹا - تحریر نمبر 853,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/lohaar-ka-beta-853.html,"خدیجہ مغل:ایک لوہار کاایک ہی بیٹاتھا وہ بہت ہی سست اور کاہل ۔سارا دن آوارہ گردی کرتا رہتا۔وقت گزرتا رہا لیکن لوہار کے بیٹے کی طبیعت میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔پھر وقت نے اسے بوڑھا کردیا تو اسے بڑی مشکل پیش آئی۔ایک دن لوہار نے پریشانی کے عالم میں اپنی بیوی سے کہا۔کیا فائدہ ہماری زندگی کاجس میں ہماری اولاد ہی نکمی اور کاہل ہو۔سوچواگراب بھی اس نے کام نہ کیا تو ہم کھائیں گے کہاں سے؟ اب بھی وقت ہے اسے کہو کہ کوئی کام سیکھے اور پیسہ کمائے۔آج ہی سے کوئی نہ کوئی کام شروع کردے ورنہ زندگی بہت مشکل ہوجائے گی۔لوہار نے اپنی بات ختم کی تو اس کی بیوی پریشان ہوگئی۔سوچ بچار کے بعد اس نے تنہائی میں بیٹے کوایک سکہ دیا اور کہا کہ دن کازیادہ ترحصہ باہر گزاردو، شام کواپنے باپ کویہ سکہ لاکردے دینا۔(جاری ہے)شام کو جب وہ سکہ لے کرگھرآیا تو اس نے اپنے باپ کو سکہ دے دیا کہ یہ میں نے محنت سے کمایاہے اس کے باپ نے سکہ لے کر چولہے میں پھینک دیاکہ یہ سکہ تم نے اپنی محنت سے نہیں کمایا۔بیٹایہ سن کر خاموش ہوگیا وہ سمجھا شایدباپ کو حقیقت کاعلم ہوگیا ہے۔دوسرے دن ماں نے بیٹے کوپھرسکہ دیاکہ سارادن بھاگ دوڑ میں گزاردو،شام کوتمہارے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار دیکھ کر تمہارے باپ کویقین آجائے گا کہ یہ سکہ تم نے کمایا ہے۔بیٹے نے شام کو پھر ویسا ہی کیا۔لوہارنے چند لمحے سکہ ہاتھ میں گھمایا اور اسے بھی چولہے سکہ ہاتھ میں گھمایا اور اسے بھی چولہے میں جھونک دیا اور غصے سے بولا۔تم نے پھر مجھے دھوکہ دیا ہے۔ماں نے محسوس کرلیا کہ بیٹے کوواقعی کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا کیونکہ جب باپ نے سکہ آگ میں پھینکا تو بیٹے چہرے پرپریشانی کے کوئی آثار نہ تھے،ماں نے بیٹے کوسمجھایا اب تم جان چکے ہو،کہ تم اپنے باپ کوبیوقوف نہیں بناسکتے ۔اسے مزید تکلیف نہ دو کوئی کام ڈھونڈواس بات کی فکر نہ کرو کہ کتنے پیسے کماکرلائے ہو،باپ کودوا اور اسے بتاؤ کہ تم اپنے پاؤں پرکھڑے ہو؟بیٹا خاموشی سے چلا گیا اور ہفتہ بھرمختلف جگہوں پرکام کیا۔جب اپنی محنت سے کچھ پیسے اکٹھے کرلیے تو اس نے اپنے باپ کو لاکردیئے،باپ نے پہلے کی طرح پیسے مٹھی میں گھمائے،پھر انہیں آگ میں جھونک دیا اور بولا۔مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ تمہاری کمائی ہے۔بیٹے نے جب یہ سنا تو آگ کی طرف بڑھا اور غصے کی عالم میں بولا۔میں نے صبح وشام محنت مزدوری کی،یہ پیسے اکٹھے کیے اور آپ نے آگ میں پھینک دیئے۔باپ نے مسکرا کربیٹے کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔اب مجھے یقین آگیا ہے کہ تم نے اپنی کمائی کی ہے۔اور اس کی خاطر آگ میں ہاتھ ڈالنے سے گریز نہیں کیا۔اب مجھے تم پر فخر ہے۔ " ایک تھی شہزادی - تحریر نمبر 849,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-thi-shehzadi-849.html,"مریم فاطمہ:مصر کے جنگل میں ایک شہزادہ چندبکریاں چراتا اور ان سے حاصل ہونے والے دودھ اور جنگل کے پھلوں پہ گزارہ کرتا۔وہ تھا شہزادہ مگر نہ تو اس میں شاہوں والاغرور تھا اور نہ ہی وہ جاہ وجلال۔ وہ عام انسانوں کی طرح زندگی بسرکرتا۔روکھی سوکھی کھاتا بیشتر وقت اپنی رعایا کی خدمت اور خدا کی یاد میں بسرکرتا ۔اس کی نیک چلنی کاپوری ریاست میں چرچا تھا۔اسے یہ خصوصیات اپنے رحمدل باپ سے وراثت میں ملی تھیں۔ایک دن شہزادہ معمول کے مطابق رعایا کے مسائل سننے کے بعد جنگل میں ،دنیا سے بے نیاز،خداکی یادمیں محوتھا،کہ اس نے دیکھا کہ ایک غریب لکڑہارا اپنے گدھے کوساتھ لئے ہوئے لکڑیاں کاٹ رہاہے اور اور اس سے باتیں بھی کیے جارہا ہے حالانکہ اسے معلوم تھا کہ نہ تو گدھا اس کی بات سن رہاہے نہ ہی سمجھ رہا ہے اور پھروہ زاروقطار رونے لگا۔(جاری ہے)شہزادہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ لکڑہارا روزانہ لکڑیاں کاٹتا،گدھے سے چند باتیں کرتا اور پھر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگتا۔چندروز یہی معاملہ رہا،جب رحمدل شہزادے سے اس کارونا دیکھا نہ گیا اور وہ یہ گتھی سلجھانے میں ناکام رہاتو بلاخردرخت کی اوٹ سے باہر آگیا اور لکڑہار سے پوچھا:اے لکڑہارے تیرے اس طرح بلک بلک کررونے کی وجہ کیا ہے؟ غریب بوڑھا ،ہمدرد انسان سامنے پاکر اورشدت سے رونے لگا اور سسکیوں کے ساتھ اپنی بدبختی کی کہانی سنانے لگا۔میرایک بیٹاتھا،جسے خدانے بے تحاشہ دولت سے نوازاتھا ہر طرح کاعیش اسے میسر تھا ،مگر اس دولت کاغرور اس کے تن بدن پر اس قدرحاوی ہوچکا تھا کہ اسے اپنی دولت کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ اپنے غریب رشتہ داروں کودھکے دیتا،انہیں ذلیل ورسواکرتا۔پھر اس کی بربادی کادن آگیا اور میری دور کی ایک رشتہ دار دوسری ریاست سے میرے گھرسوالی بن کر آئی یہ سوچ کرکہ مشکل میں اپنے ہی کام آتے ہیں،وہ بہت غریب تھی اس کی بیٹی کی شادی قریب تھی مگر کوئی انتظام نہ ہوپایا تھا،اسے کچھ رقم کی ضرورت تھی،وہ اللہ کی نیک بندی تھی بیشتر وقت عبادت میں گزارتی تھی،مگر میرا بیٹا دولت کے نشے میں اندھا ہوچکا تھا،اس عورت کودھکے مارکر گھر سے نکال دیا۔یہی وہ وقت تھا جب ہماری بربادی شروع ہوئی۔اسی رات سرخ آندھی چلی بجلی کڑکی اور تیز بارش ہوئی۔میں اور میرابیٹا اپنے نرم بستر پر میٹھی نیند سورہے تھے،اور وہ عورت پوری رات ہمارے دروازے سے لگی روتی رہی ،شدید طوفان اور رات کے گھنے اندھیرے میں دوسری ریاست واپس جانا اس کیلئے ممکن نہ تھا،اور وہ ضعیف عورت پوری رات اس طوفان مقابلہ کرتی رہی اور میرے بیٹے کورحم نہ آیا صبح جب میری آنکھ کھلی تو مجھ پہ قیامت ٹوٹ پڑی۔میرابیٹا گدھے کی صورت اختیار کرچکاتھا۔گھر کاساراسامان آسمانی بجلی گرنے سے جل کرخاک ہوچکاتھا سب کچھ برباد ہوگیا تھا،اس سب میں میراقصور یہ ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کوغرور وتکبر کرنے سے نہ روکا،برائی کی طرف بڑھتا ہواا کاکوئی قدم نہ روکا۔اور اب یہ عالم ہے کہ میں جنگل سے لکڑیاں کاٹتا ہوں اور اپنے ہی بیٹے پہ لاد کربیچنے لے جاتا ہوں ،اور اسی سے ہم باپ بیٹے کاگزرا چلتا ہے۔یہ سن کر شہزادے کی آنکھیں نم ہوگئیں اور وہ لکڑہارے سے مخاطب ہوا:اے ضعیف انسان!تونے بہت ظلم کیا۔بے شک برائی پر خاموش رہنااور اسے نہ روکنا،اس کا ساتھ دینے کے متراوف ہے تونے اپنے بیٹے کوبرائی سے نہ روکا،مجھے تیری حالت پر افسوس ہے۔اب میں اپنی اس غریب رشتہ دارکی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں۔اس کی تلاش مجھے رلاتی ہے شاید وہ میری امدد کرسکے وہ مجھے مل جائے میں اس سے معافی مانگوں گا۔شاید میرے گناہوں کاازالہ ہوسکے مگر افسوس وہ مجھے کہیں نہیں ملتی۔یہ کہہ کرلکڑہارا رونے لگا۔شہزادے نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔تو اپنے گناہوں کی معافی اللہ سے مانگ۔وہ بہت رحیم ہے،اگر اس نے تجھے معاف کردیا تو وہ تجھے اس عورت تک پہنچانے کاکوئی نہ کوئی سبب ضرور بنادے گا،وہ بہت مہربان ہے۔اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔بوڑھا لکڑہارا اسی وقت سجدے میں گرکر بلک بلک کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگا۔اچانک دورسے کسی گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ایک خوبصورت شہزادی سفید رنگ کے حسین گھوڑے پر سوار تھی۔قریب آکرشہزادے سے مخاطب ہوئی:اے شہزادے آخر یہ کیا ماجرا ہے؟ شہزادے نے بوڑھے کی رام کہانی شہادی کوسنادی۔شہزادی کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے اور وہ گھوڑے سے اتری اور لکڑہارے سے کہنے لگی:میں ہی وہ لڑکی ہوں جس کی ماں تیرے در پر سوالی بن کر آتی تھی۔مگر اے بدبخت تیرے مغرور بیٹے نے اس نیک عورت کی زندگی ہی چھین لی۔ساری رات تیرے دروازے پر تیز بارش میں طوفان کامقابلہ کرتی رہی،کہ شاید تجھے رحم آجائے۔بالآخر تیزبارش کی ٹھنڈی بوندوں کووہ بوڑھی جان برداشت نہ کرسکی اور دنیا سے چلی گئی۔جب صبح ہوئی۔تورحمدل بادشاہ معمول کے گشت پر تھا اس کاوہاں سے گزرہوا،وہ میری ماں کوجب گھرلایا توماں کی لاش دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی،اب میراسہارا کوئی نہ تھا۔بادشاہ یہ سب دیکھ کر بہت پریشان ہوابالآخر اس نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کافیصلہ کیا کچھ عرصہ میں اس کے محل میں رہی اور سے نے مجھے نیک لڑکی پا کراپنے بیٹے سے میری شادی کرادی۔شاید یہ میری ماں کی دعاؤں کانتیجہ تھا۔جس نے میری خاطر اپنی جان قربان کردی اور اس رب نے مجھ غریب کوفرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھا دیا اور اس نیک شہزادے سے میری شادی کرادی جواس وقت تیرے سامنے کھڑا ہے اور تجھے تیرے مغرور بیٹے کے کرموں نے عرش سے فرش پر گرادیا۔خدا کی قدرت دیکھ کر لکڑہارا شرمندگی سے زمین میں گڑھتا جارہا تھا اور رورو کر شہزادی سے معافی مانگی۔شہزادی بہت رحمدل تھی ۔لکڑہارے کے آنسوؤں سے اس کا دل بھر آیا اور اس نے اس کومعاف کردیا،خدا کی قدرت ،لڑکا اس لمحے اپنے اصل روپ میں واپس آگیا اور خدا کے حضور سجدے میں گرگیا اور شہزادی سے بھی معافی مانگنے لگا۔ شہزادی نے اسے بھی معاف کردیا۔بلآخر دونوں باپ بیٹا اپنی جھونپڑی کی طرف روانہ ہوگئے۔ " فرض ناشناس - تحریر نمبر 847,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/farz-na-shanas-847.html," " غلطی - تحریر نمبر 843,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ghalti-843.html,"” میں آج اسکول نہیں جاوٴں گا۔ “ عارف نے اپنے دوست مبین سے کہا۔”کیا مطلب؟۔ “ مبین نے حیران ہو کر پوچھا۔ ہم تو اسکول جا رہے ہیں۔“” میں تو ہاشمی انکل کے گارڈن میں مزے کرنے کی سوچ رہا ہوں ، تمہیں پتا ہے کہ وہاں کتنے آم کے درخت ہیں۔ “ عارف نے جواب دیا۔” جب وہاں کا مالی حقہ پی رہا ہوتا ہے میں وہاں سے میٹھے میٹھے آم توڑ کر کھاتا ہوں ، اس وقت اس کا سارا دھیان حقے کی طرف ہوتا ہے اور وہ مجھے نہیں دیکھ پاتا۔“” کیا تم یہ غلط نہیں کرتے ہو۔“ مبین نے کہا۔”تم چپ رہو اور میری بات غور سے سنو“۔ عارف نے اس کے کندھے پکڑتے ہوئے کہا۔” جب ٹیچر میرا نام لیں تو تم منھ ہی منھ میں Presnt Teacher کہہ دینا مگر یاد رہے کہ منھ ہی منھ میں بولنا ہے کیوں کہ آج ان کو مجھے سے یہی اُمید ہو گئی کل ہی مجھے چیخ کر بولنے پر ڈانٹ پڑی ہے وہ ہر وقت میرے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔(جاری ہے)“صحیح کہہ رہے ہو میں کہہ دوں گا آخر تم میرے بہت اچھے دوست ہو۔“مبین نے کہا مگر کچھ سوچنے کے بعد وہ پھر بولا” کیا یہ جھوٹ نہیں ہو گا کہ تم وہاں موجود نہیں ہو، مگر پھر بھی تمہاری حاضری لگ جائے ؟”بالکل نہیں بے وقوف۔ It's Fun ۔اب تم جاوٴ۔ اور یاد رکھنا کہ منھ ہی منھ میں بولنا ہے۔ یہ کہہ کر وہ ہاشمی صاحب کے گارڈن کی طرف بڑھ گیا۔مبین نے عارف کی بات یا د رکھی اور اسی طرح منھ ہی منھ میں Present (حاضر) کہا اور ٹیچر کو شک بھی نہیں ہوا۔اُدھر جب عارف گارڈن پہنچا تو اس وقت مالی پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ عارف ایک بینچ پر بیٹھ کر مالی کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ عارف اپنا بیگ اپنے سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا اور اس کو پتا بھی نہیں چلا کہ کب اس کی آنکھ لگ گئی۔تھوڑی ہی دیر میں وہ گہری نیند میں چلا گیا۔ مالی اسے نظر انداز کر کے پودوں کو پانی دیتا رہا۔ کچھ گھنٹے بعد جب عارف کی آنکھ کھلی تو اسے مالی کہیں نظر نہ آیا۔ وہ گارڈن میں ٹہلنے لگا۔پرندوں اور درختوں کو دیکھتے دیکھتے اس کی نظر مالی پر پڑی جو حقہ پینے میں مصروف تھا۔ عارف نے سوچا یہ بہت اچھا موقع ہے کیوں نہ آم توڑے جائیں۔ اس نے ایک بڑا سا درخت منتخب کیا۔جس پر بہت سے آم لگے تھے۔ و اس پر چڑھنے لگا۔ چڑھتے چڑھتے اس کی بھوک بھی جاگ اُٹھی۔ وہ سوچنے لگا کہ میں جلدی سے اوپر جاوٴں اور میٹھے میٹھے آم کھاوں۔جیسے ہی وہ پہلا آم توڑنے لگا زور سے کسی نے اس کے پاوٴں پر چھڑی ماری۔ اس نے گھبرا کر نیچے دیکھا تو وہاں مالی کھڑا تھا۔ مالی زور سے چلایا۔ اے لڑکے! چوری کرتے ہو؟ جلد ی نیچے آوٴ ورنہ تمہاری ہڈیاں توڑ دوں گا۔عارف تیزی سے نیچے اُترا اور گارڈن کے دروازے کی طرف بھاگنے لگا۔مالی پھر چلایا۔ اگر اب میں نے تمہیں یہاں دیکھا تو تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ جب وہ گیٹ سے باہر آیا اور اسکول کی طرف جانے لگا تو اسے اپنی تکلیف کا شدت سے احساس ہونے لگا۔ وہ ایک آئس کریم کی دکان کے سامنے رکا، مگر اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ اپنی پسندیدہ چاکلیٹ آئس کریم خرید سکتا ۔پھر اس کی نظر دکان میں لگی ہوئی گھڑی پر پڑی تو اسے اندازہ ہوا کہ کچھ ہی دیر میں چھٹی ہونے والی ہے۔ وہ اسکول کے قریب ایک درخت سے نیچے بیٹھ کر اپنے دوست مبین کا انتظار کرنے لگا۔تھوڑی ہی دیر میں اسے مبین آتا دکھائی دیا۔ وہ بہت خوش نظر آرہا تھا۔ عارف نے اس سے پوچھا۔کیا ٹیچر کو پتاچلا کہ میں آج اسکول نہیں آیا تھا۔؟نہیں مگر آج اسکول نہ جا کر تم چاند کی سیر سے محروم رہے۔چاند کی سیر ! کای مطلب ؟ عارف نے حیرانی سے پوچھا۔ہماری کلاس آج خلائی میوزیم گئی تھی۔ مبین نے اسے بتایا۔وہ اتنی زبردست جگہ تھی کہ ہمیں لگ رہاتھا کہ جیسے ہم سچ مچ خلا سے گزر کر چاند پر پہنچ گئے اور وہاں کی سیر کر رہے ہیں اور پتا ہے وہاں میوزیم والوں نے چاکلیٹ آئس کریم بھی دی اور وہ بھی ایک نہیں جتنا ہمارا دل چاہیے۔ ہمیں آج بہت مزہ آیا۔تم نے یہ موقع ضائع کر دیا۔تم صحیح کہہ رہے ہو اور میرا آج بہت بُرا وقت گزرا۔ اور پھر عارف نے مبین کو اپنی آپ بیتی سنائی اور کہا۔” آج میں نے سبق سیکھا ہے میں اب آئندہ کبھی غلط کام نہیں کروں گا۔“پھر وہ سر جھکائے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ " جو پاوٴں پھیلاتا ہے وہ ہاتھ نہیں پھیلاتا - تحریر نمبر 842,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/ju-paoon-phelata-hai-842.html,"ابھی سو برس پہلے کا قصہ ہوگا کہ ایک بزرگ دمشق کی جامع مسجد(جامع اموی) میں بیٹھے ہوئے درس دے رہے تھے۔ اتفاق سے اس دن ان کے گُھٹنے میں تکلیف تھی اور وہ پاوٴں پھیلائے ہوئے بیٹھے تھے اور جیسا کہ قاعدہ ہے کہ استاد کی پیٹھ قبلے کی طرف ہوتی اور اس کے شاگرد سامنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ شاگرد دروازے سے داخل ہوتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ اس وقت استاد کا چہرہ دروازے کی طرف تھا پُشت قبلہ کی طرف تھی اور پاوٴں دروازے کی طرف پھیلائے ہوئے تھے۔ابراہیم پاشا اس زمانے کا شام کا گورنر تھا اس کی سفاکی اور بے رحمی کے قصے لوگوں کی زبانوں پر تھے۔ اس کوخیال آیا کہ میں حضرت کا درس جا کر سنوں اور ملاقات کروں۔ راستہ ہی وہ تھا اس لیے وہ پہلے دروازے سی طرف سے آیا۔سب کا خیال تھا کہ استاد کو ہزار تکلیف ہو اس موقع پر اپنا پاوٴں سمیٹ لیں گے، لیکن انھوں نے بالکل جنبش نہیں کی نہ ردس دینا بند کیا ، نہ پاوٴں سمیٹا، اسی طرح پاوٴں پھیلائے رہے۔(جاری ہے)ابراہیم پاشا پاوٴں ہی کی طرف آکر کھڑا ہو گیا۔ان کے شاگرد خوف سے لرز اُٹھے کہ دیکھیے کیا ہوتا ہے کیا ہمارے شیخ کی شہادت ہماری آنکھوں کے سامنے ہو گئی یا تذلیل ہو گی کہ مشکیں باندھ لی جائیں گی اور کہا جائے گا کہ لے چلو۔ابراہیم پاشا کھڑا رہا اور وہ دیر تک درس دیتے رہے۔ نگاہ اُٹھا کر دیکھا تک نہیں۔ پاوٴں بھی نہیں سمیٹا، مگر خدا جانے اس پر کیا اثر ہوا کہ اس نے کچھ کہا نہیں، کوئی غصہ نہیں کیا، کوئی شکایت نہیں کی اور چلا گیا۔وہ کچھ ایسا معتقد ہوا کہ اس نے جاکر اشرفیوں کا ایک تھیلا غلام کے ہاتھ بھیجا اور کہا:” شیخ کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ یہ حقیر نذرانہ قبول فرمائیں“۔انھوں نے جواب میں کہا وہ آبِ زر سے لکھنے والا جملہ تھا جو علم کی تاریخ میں ہمیشہ روشن رہے گا۔ انھوں نے کہا تھا۔” گورنر کو سلام کہنا اور کہنا جو پاوٴں پھیلاتا ہے وہ ہاتھ نہیں پھیلاتا ، یا پاوٴں ہی پھیلا لے یا ہاتھ ہی پھیلا لے، ایک ہی کام ہو سکتا ہے دنیا میں، جب میں نے پاوٴں پھیلائے تھے میں اسی وقت سمجھا تھا کہ اب میں ہاتھ نہیں پھیلا سکتا۔“ " دھوبی کی نادانی - تحریر نمبر 841,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/dhobi-ki-nadani-841.html,"اقصیٰ لیاقت:ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں بہت ہی غیریب دھوبی رہتا تھا۔کپڑوں کی دھلائی کے ساتھ ساتھ اس کو آسمان کو قریب سے دیکھنے کا بہت شوق تھا وہ اور اس کی بیوی روز دھوپی گھاٹ پر کپڑے دھونے جاتے تھے۔ایک روزجب اس کی بیوی کپڑوں کو سوکھا رہی تھی اُس کی نظر آسمان پرپڑی اور کیا دیکھتی ہے کہ آسمان سے ایک ہاتھی اڑتا ہوا زمین پراُتررہاہے اور جیسے ہی وہ زمین پر اُتراتو وہ غائب ہوگیا۔دوتین روز تک وہ یونہی ہاتھی کو زمین پر اترتادیکھتی رہی۔ایک رات اس نے یہ سارا ماجرہ دھوبی کوبتایا۔دھوبی پہلے تو بہت حیران ہوا مگر پھر فیصلہ کیاکہ کل وہ اس ہاتھی پرنظر رکھیں گے کہ آیا یہ ہاتھی زمین پر کیوں اُترتا ہے اور پھر غائب ہوجاتا ہے آخر ایسا کیاہے۔(جاری ہے)اگلے دن دونوں شدت سے اُس کا انتظار کرنے لگے۔آسمان پر بار بار نظر دوڑانے لگے۔آخر انتظار کا وقت ختم ہوا اور ان کو آسمان سے ہاتھی زمین پر اُترتا نظر آہی گیا۔دونوں اس کے پیچھے چل پڑے ہاتھی گنے کے کھیتوں میں گھس گیا اور خوب پیٹ بھر کر گنے کھانے لگا۔ہاتھی کا پیٹ بھر ااور اُڑنے کی تیاری کرنے لگا جیسے ہی اس نے اُڑان بھری دونوں میاں بیوی نے بھی ہاتھی کی دم پکڑلی اور ہاتھی کے ساتھ اُڑنے لگے۔ہاتھی آسمان کی بلندیوں کو پہنچا تو دھوبی کیا دیکھتا ہے کہ ایک پہاڑ ہیرے سونے کے جواہرات سے چمک رہا ہے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اپنا خزانہ یہاں چھوڑ کر بھولے بیٹھا ہے۔دونوں میاں بیوی کی آنکھیں دنگ رہ گئی ۔آخر ہاتھی پہاڑ پر اتر گیا۔دونوں میاں بیوی بھاگ کر سونے پر ٹوٹ پڑے اور زیادہ سے زیادہ سونا اکٹھا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔رات کے بڑھتے اندھیرے سے پریشان ہونے لگے اچانک ان کو خیال آیا کہ صبح ہوتے ہی وہ ہاتھی کی دم پکڑکرزمین پراُتر جائیں گے۔ آخرصبح ہوئی اور ویسا ہی کیا جو انہوں نے سار رات سوچتے گزاردی۔خیرزمین پراُترے اور اپنے گھر کی طرف رواں دواں ہوگئے۔ایک غریب دھوبی جودن بہ دن امیر ہوتا جارہا تھا اس کو دیکھ کر سارا گاؤں حیران وپریشان ہوگیا کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ دھوبی اتنا امیر ہوگیا ہے۔گاؤں کے لوگ دھوبی کے پاس آئے اور اس کے یوں اچانک امیر ہونے کا راز پوچھنے لگے۔دھوبی اُن کو کچھ نہ بتاتا۔ایک دن دھوبی کسی کام سے شہر سے باہر نکل گیا ۔اس بات کافائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ہمسائی دھوبن کے پاس آئی اور باتوں باتوں میں خزانے کاراز اگلوالیا۔رات کو جب دھوبی واپس آیا دھوبن نے سارا ماجرابتایا۔دھوبی کو اس حرکت پر بہت غصہ آیا مگر اب بات ہاتھ سے نکل چکی تھی۔صبح سارا گاؤں دھوبی سے مدد مانگنے آگیا کہ وہ ان کے ساتھ کھیتوں میں چلے اور ہاتھی کے ساتھ خزانے تک پہنچانے میں ان کی مدد کرے۔یہ سب سننے کے بعد دھوبی کے دل میں لالچ پیدا ہوگئی کہ وہ ان کے ساتھ جا کے اور خزانہ اکٹھا کرکے لائے گا۔یہ سوچ کر وہ ان کے ساتھ جانے کیلئے راضی ہوگیا۔ اگلی صبح سارے گاؤں والے کھیتوں کو نکل گئے اور آنکھیں آسمان پرجمائے بیٹھے تھے۔ہاتھی زمین پراترا اور گنے کھانے لگا۔سب گاؤں والے اس طاق میں بیٹھے تھے کہ جیسے ہاتھی گنے کھاکے فارغ ہوگا وہ سب اس کی دم پکڑکر اس خزانے تک پہنچ جائیں گے۔جیسے ہی ہاتھی اُڑنے لگا سب نے اس کی دم پکڑلی۔ دھوبی سب سے آگے اس کی دم پکڑے تھا اور یوں اس کے پیچھے ایک لمبی قطار میں پورا گاؤں ایک دوسرے کو پکڑے ہاتھی کے ساتھ اُڑے چلے جارہے تھے۔سب گاؤں والے آپس میں باتیں کرنے لگے کہ وہاں اتنا خزانہ ہوگا کہ ہم سب لے کر آسکیں گے کسی نے کہا خود سے سوچنے سے اچھا ہے کہ ہم کیوں نہ دھوبی سے پوچھ لیں۔ایک گاؤں والے نے پوچھا دھوبی وہاں کتنا سونا ہے؟ دھوبی خزانے کی لالچ میں گاؤں والوں کے ساتھ چل دیا تھا۔دم کو چھوڑتے ہوئے ہاتھوں کے زاویے سے کہنے لگا“ اتنا زیادہ “ یہ کہنے کی دیر تھی کہ سب زمین پر سرکے بل گرپڑے اورہاتھی مزے سے آسمان میں اپنی اُڑان بھرنے لگا اور گاؤں والوں کو ان کی لالچ کی سزا مل گئی۔ " جوہوا اچھا ہوا - تحریر نمبر 834,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/jo-huwa-acha-huwa-834.html,"اٹلی کا ایک بادشاہ حکومت اور دولت کے گھمنڈ میں غریبوں سے بات کرنا بھی براجانتا تھا اس لئے اکثر لوگ اسے ناپسند کرتے تھے۔ایک دن یہ شکاری میں کسی جانور کے پیچھے گھوڑا ڈالے انی دور نکل گیا کہ نوکر چاکر سب بچھڑ گئے اور بادشادہ تنہا رہ گیا۔اتنے میں ایک کسان نے بادشاہ کے گھوڑے کی رکاب پکڑلی۔اس کی شکل ہوبہوبادشاہ سے ملتی تھی۔فرق یہ تھا کہ اس کی پوشاک اور حالت غریب جیسی تھی۔اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں تین دن سے حضور کی ڈیوٹی پر بھوکا پیاسا چلاآرہا ہوں مگر کوئی میری فریاد نہیں سنتا۔بادشاہ غریب کو میلے کچیلے کپڑوں میں دیکھ کر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا کہ میں ذلیل آدمیوں سے بات نہیں کرتا۔غریب کسان پھر بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔یہاں تک کہ بادشاہ ایک تالاب پر پہنچ کر گھوڑے سے اترا۔(جاری ہے)اس نے باگ ڈور ایک درخت سے انکائی تاج اور کپڑے اتار کر ایک طرف رکھے اورنہانے کو تالاب میں اترگیا۔یہ تالاب ایسے نشیب میں تھا کہ نہانے والے کو اوپر کا آدمی نظر نہ آتا تھا جب بادشاہ تالاب میں اُتر چکا تو غریب کسان نے اپنے کپڑے اُتار دیئے۔بادشاہ کے کپڑے پہن کرتاج سر پر رکھ لیا اور بادشاہ کے گھوڑے پر سوار ہوکر رفوچکر ہوگیا۔کسان بادشاہ تھوڑی ہی دور گیا تھاکہ اسے شاہی نوکر چاکر مل گئے جنہوں نے اسے بادشاہ سمجھ کر ادب سے سلام کیا اور یہ بھی بے جھجھک شاہی محل میں جاپہنچا۔اصل بادشاہ تالاب سے نہا کر باہر نکلاتو کپڑے تاج اور گھوڑا کچھ بھی موجود نہ تھا۔ بہت گھبرایا مگر اب کیا ہوسکتاتھا؟نا چار غریب کسان کے میلے کپڑے پہنے اور کئی دن تک فاقے کرنے اور بھٹکنے کے بعد شہر پہنچا۔مگر اب اس کی یہ حالت ہوئی کہ جس سے بات کرتا کوئی منہ نہ لگاتا اور جب یہ کہتا کہ میں تمہارا بادشاہ ہوں تو لوگ اسے پاگل سمجھ کر ہنس دیتے۔دوتین ہفتے اسی طرح گزرگئے۔ جب اس پاگل کا قصہ بادشاہ کی ماں نے سنا تو اسے بلوا کر اس کے سینے پر تل کا نشان دیکھا پھر اس کی سچائی کی تصدیق کی۔کسان نے اصلی بادشاہ کی یہ حالت دیکھ کر کہاکیا تم وہی شخص ہوجودولت اور حکومت کے گھمنڈ میں غریبوں کی فریادنہ سنتے تھے؟اسی کی سزادینے کو میں نے یہ سب کیا۔اگر تم وہ گھمنڈ چھوڑ کر رحم وانصاف کا اقرار کرو تو میں تمہارا تاج وتخت واپس کرنے کو تیار ہوں ورنہ ابھی قتل کا حکم بھی دے سکتا ہوں۔یہ سن کر بادشاہ نے عاجزی اور ندامت کے ساتھ اپنی غلطی تسلیم کی اور کسان اسے تاج وتخت واپس دے کر گھر چلاگیا۔جس کے بعد بادشاہ نے اپنی اصلاح کی اور چند دنوں میں اس کی نیک نامی کا ڈنکا دور دور تک بجنے لگا۔ " دُعاوٴں کا تحفہ - تحریر نمبر 831,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/duaoon-ka-tohfa-831.html,"جنید،علی رضا اور فاروق تینوں گہرے دوست بھی تھے، پڑوسی بھی اور کلاس فیلوز بھی۔ تینوں بہت اچھی عادات کے مالک تھے۔ پابندی سے نماز پڑھنا، سکول اور مدرسے کی پابندی کرنا، صاف ستھرا رہنا اور ضرورت پڑنے پر دوسروں کے کام آنا ان کی اچھی عادتیں تھیں۔ان کی ایک اور اچھی عادت یہ تھی کہ وہ اپنا جیب خرچ جمع کرتے تھے پھر ان کے مابین مقابلہ ہوتا کہ کس مہینے کس نے زیادہ پیسے جمع کیے ہیں۔پھر وہ اس رقم سے اچھی کتابیں اور سکول ومددسے کی ضرورت کی چیزیں خریدتے تھے۔ ان کے علاقے کی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں بابا کریم رہتے تھے جو پھلوں کا ٹھیلا لگاتے تھے۔ تینوں دوستوں کیانسے بھی سلام دعا تھی۔ ایک روز بابا کریم ایک روز بابا کریم نے ان سے کہا :” بیماری اور کمزوری کی وجہ سے میں اپنا ٹھیلا بیج دیا ہے اور اب اپنا علاج کروا رہا ہوں۔(جاری ہے)“ پھر ایک روزبابا کریم نے ان سے کہا”بچھو میری طبیعت تو ٹھیک ہو گئی ہے لیکن اب میرے پاس پیسے ختم ہو گے ہیں اور کوئی کام بھی نہیں ہے ۔ بڑھاپے کی وجہ سے محنت مزدوری بھی نہیں کر سکتا۔“تینوں دوستوں نے باباکریم کے مسئلے کا یہ حل نکالا کہ باباکریم کیلئے صبح کا ناشتہ جنید لائے گا دوپہر کے کھانے کی ذمہ داری علی رضا نے قبول کی اور رات کا کھانا فاروق نے لانے کی ہامی بھرلی۔تینوں کریم بابا کو پابندی سے تینوں وقت کھانا پہنچانے لگے۔ بابا کریم کی دیگر ضرورتات کیلئے جب اپنے جیب کا حساب لگایا و یہ رقم 3600 روپے بنتی تھی۔اتوار کو چھٹی تھی۔ اس دن تینوں دوست مارکیٹ گئے اور بچوں کی ٹافیاں بسکٹ ربڑ پنسل ماچس اور موم بتیاں خریدیں اور بابا کریم کو لا کر دیتے ہوے کہا” آپ اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھے بیٹھے یہ چیزیں بیچ لیا کریں“۔یہ دیکھ کر بابا کریم بہت خوش ہوئے اور انہوں نے وہ چیزیں بیچنا شروع کر دیں۔ علاقے کی سڑک پر ہونے کی وجہ سے تقریباََ محلے کے سبھی بچے ان کے پاس ہی آتے اور ان سے ٹافی چاکلیٹ ، بسکٹ پنسل ،شاپنر ،اسکیل ماچس موم بتی وغیرہ خریدتے۔ بابا کریم کو پہلے ہفتے میں 1800 روپے کا فائدہ ہوا۔ تینوں دوستوں نے منافع کی رقم الگ کر کے باقی رقم اپنے پاس رکھ لی اور اتوار کو دوبارہ باباکریم کو وہی سامان لا کر دے دیا۔بابا کریم نے وہ سامان بیچ کر ایک مہینے میں 7000 روپے جمع کر لیے۔اس موقع پر بابا کریم نے ان سے کہا” اب میرے پاس یہ رقم جمع ہو گئی ہے تم لوگ اپنی اپنی رقم واپس لے لو،“ یہ سنتے ہی تینوں دوستوں نے کہا” بابا وہ رقم تو ہم نے اللہ کی راہ میں لگائی تھی اب واپس نہیں لیں گے“ یہ سنتے ہی بابا کریم کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے۔ انہوں نے ان تینوں بچوں کو بہت دعائیں دیں اور وہ دعاوٴں کا یہ تحفہ ساتھ لیکر خوشی خوشی گھر آگئے۔ " سنہری چڑیا - تحریر نمبر 830,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sunehri-chiriya-830.html,"خدیجہ مغلبشیر ،نذیر ،فاضل اور محسن چار ہت گہرے دوست تھے۔ایک روز وہ باغ کی سیر کوگئے۔قریب ہی ایک نہر تھی جس کے دونوں کناروں پر آرم کے پیڑ تھے۔ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ کر وہ باتیں کرنے لگے۔محسن نے کہا،دوستو میری رائے یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی کہانی سنائے۔سب دوستوں نے اس سے اتفاق کیا۔سب سے پہلے محسن نے کہانی سنائی،پھر بشیر اور نذیر نے سنائیں لیکن جب فاضل کی باری آئی تو وہ خاموش ہو گیا ۔دوستوں نے کہا ۔تم چپ کیوں ہو؟کہانی کیوں نہیں سناتے؟کہانی کیا سناؤں دل خوش نہیں ہے۔فاضل نے جواب دیاتمھارا دل خوش کیوں نہیں ہے۔تم جانتے ہو کہ میری ماں انتقال کر چکی ہیں۔مجھے ان سے بے حد پیار تھا ان کے بغیر میرا دل کہیں نہیں لگتا۔(جاری ہے)پڑھائی کرنے میں بھی جی نہیں لگتا اور نہ کوئی کام کرنے میں۔میں صرف تمھاری خاطر یہاں آگیا ہوں۔غم کا مارا ہوں ۔کیا کہانی سناؤں؟ابھی تو میں نے پڑھنا لکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔کہتے تو تم سچ ہی ہو لیکن پڑھو گے نہیں تو فیل ہو جاؤ گئے۔محسن نے کہااچانک ایک بولنے چالنے والی سنہری چڑیا جو ان کے پیڑ پر بیٹھی تھی ،بولی۔لڑکو!میں تمھیں ایک دلچسپ کہانی سناتی ہوں فاضل!تم خاص طور پر اسے غور سے سننا۔عرب ایک ریگستانی ملک ہے،وہاں پانی کی قلت ہے،وہاں پہلے رہٹ نہ تھا اور عربوں نے اسے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔عربوں کا سب سے پیارا پالتو جانور اونٹ ہے۔اسکے ذریعے وہ صحراؤں میں سفر کرتے ہیں اور اسی لیے اسے ریگستان کا جہاز کہا جاتا ہے۔اونٹ نے کبھی رہٹ نہیں دیکھا تھا۔اہلِ عرب جب مسلمان ہوئے اور انہوں نے ایران فتح کیا تووہاں رہٹ دیکھا۔ایران بہت زرخیز اور امیر ملک تھا۔عرب تجارت اور روزگارکی غرض سے وہاں جاتے تھے۔ایک دفعہ ایک بدو یعنی عرب دیہاتی بھی روزگار کی تلاش میں ایران کے سفر پر روانہ ہوا۔اس کے پاس ایک تیز رفتار اونٹ،کھجوروں کا ایک تھیلا اور پانی کی چھاگل تھی۔راستہ لمبا اور دشوار اور ریگستانی تھا۔وہ آٹھ دس روز سفر کرتا رہا۔آخر اس کا پانی ختم ہو گیا۔اب وہ بھی پیاسا تھا اور اس کا اونٹ بھی ۔خدا خدا کرکے وہ ایران پہنچ گیا۔وہاں اس نے ایک کھیت میں رہٹ چلتے دیکھا۔اسے دیکھ کر وہ حیران بھی ہوا اور خوش بھی۔وہ اونٹ سے اترا اور لپک کر رہٹ کے پاس پہنچا۔منہ ہاتھ دھویا اور جی بھر کر پانی پیا۔پھر اونٹ کو بھی پانی پلانے کے لیے رہٹ کے قریب لے گیا۔اونٹ نے کبھی رہٹ نہ دیکھا تھا لہذا اس کے شور سے بدک کر پیچھے ہٹ گیا۔بدو نے اسے بہت چمکارا۔لیکن اسے رہٹ کے قریب نہ جانا تھا نہ گیا۔بدو نے رہٹ والے سے کہا ،بابا جی!رہٹ بہت شور کرتا ہے اسے ذرا بند کر دو تاکہ میرا اونٹ پانی پی لے۔بوڑھے شخص نے بیلوں کو روک لیا اور رہٹ بند ہو گیا۔بدو ن ے اونٹ کو آگے دھکیلا لیکن اس دوران رہٹ بند ہونے سے اسکے ڈول پانی سے خالی ہو گئے۔یہ دیکھ کر ساربان نے رہٹ چلانے والے سے کہا ،بابا جی رہٹ چلایئے کہ پانی آجائے۔بابا نے بیلوں کو ہانکا شور سن کر اونٹ پھر ڈر کے پیچھے بھاگا۔بدو نے پھر بابا جی کو رہٹ بند کرنے کو کہا۔اونٹ آگے بڑھا لیکن پانی ختم ہو گیا تھا۔بدو نے پھر بابا جی سے کہا رہٹ چلائیں ۔بابا نے رہٹ چلایا اور اونٹ پھر ڈر گیا۔تین چار بار ایسا ہو اتو بابا جی نے کہا میاں ! رہٹ چلے گا تو پانی آئے گا او شور غوغا بھی ہو گا جس نے پانی پینا ہے،وہ اسی طرح پیئے۔لڑکو!غور سے سنو!جہاں زندگی ہے وہاں شور ہو گا،چاہے خوشیوں کا ہو یا غم کا جس نے کچھ کرنا ہے اسی شور وغل میں رہ کر کرنا ہے انسان کو ہر حال میں صبرو ہمت تھامے رہنا چاہیے۔خدا ان کی مدد کرتا ہے جو ہمت وصبر سے کام لیتے ہیں ۔سنہری چڑیا کی کہانی سنا نے سے فاضل کی کایا پلٹ گئی ۔وہ پہلے سے زیادہ پڑھتا تھا اور خوب محنت کرتا اور ہر جماعت میں اول آتا۔اور اسے وظیفہ بھی ملنے لگا۔اس کے والد غریب تھے اس لئے چاہتے تھے کہ وہ ملازمت کر لے اور گھر کے حالات بہتر ہو سکیں لیکن فاضل کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا تھی ۔نیت سچی ہو تو خدا ہر آرزو پوری کرتا ہے۔وہ اس مسلئے کا حل سوچنے لگا چانک اس کے دل میں خیال آیا ۔رات ہو چکی تھی سب سو رہے تھے وہ اٹھا اور وضو کیا اور نفل ادا کیے،اور سجدے میں گر کر اپنے خد اسے دعا مانگنے لگا۔یا خدایا ! میری مشکل حل کردے مجھے بتا کہ میں والد کو ناراض کیے بغیر کیسے اعلیٰ تعلیم حاصل کروں؟تو اپنے بندوں کی فریاد سننے والا دعائیں قبول کرنے والا ہے۔اس نے رو رو کر دعا مانگی،وہ قبول ہو گئی ،صبح سویرے وہ اپنے گھر کی چھت پر گیا تو وہاں سنہری چڑیا موجود تھی،وہ کہنے لگی،فاضل! حرکت میں برکت ہے۔تم کالج میں داخلہ لے لو اور اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کی خاطر بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردو۔اس سے تم اچھا کمانے لگو گئے۔اور تم اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر لو گئے اور تمھارا باپ بھی خوش ہو جائے گا۔فاضل نے اسیا ہی کیا ۔اس کی محنت رنگ لائی ۔اس کے پاس بہت سے بچے ٹیوشن کے لیے آتے اسطرح اسکے ابو اس سے خوش ہونے لگے اور وہ دن بھی آگیا جب فاضل نے اپنی ڈگری مکمل کی۔اس کی زندگی میں اونچ نیچ آتی رہی لیکن وہ کبھی گھبرایا نہیں تھا اپنے باپ کا ساتھ دیتا رہا اور آج وہ ایک کامیاب افسر بن چکا تھا۔اس کے ابو اسے اس مقام پہ دیکھ کر بہت خوش تھے۔ختم شد! " کنجوسی کی سزا - تحریر نمبر 829,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kanjoosi-ki-saza-829.html,"خدیجہ مغلبہت دنوں کی بات ہے ۔بغداد میں ایک سوداگر رہتا تھا جس کا نام ابو قاسم تھا۔وہ بہت کنجوس تھا۔ایک ایک پیسے پر جان دیتا تھا۔ابو قاسم کے پس روپوں کے ڈھیر لگے تھے وہ انہیں روز گنتا اور بہت خوش ہوتا۔دن رات اسی فکر میں رہتا کہ کسی طرح اسکی دولت بڑھتی رہے مگر گھٹے نہیں سارے بغداد کو معلوم تھا کہ ابو قاسم بہت امیر آدمی ہے۔مگر ابو قاسم سب کو یہی کہتا کہ وہ بہت غریب آدمی ہے۔وہ روکھی سوکھی کھاتا تھا۔اسکے کپڑوں پر جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے اور اتنے گندھے ہوتے کہہ دیکھنے سے ہی گھن آتی تھی اور اسکے جوتے؟توبہ توبہ جوتے تو ایسے تھے کہ دیکھنے سے بھی گھن آتی بھکاریوں کے پاس بھی اچھے جوتے تھے ان جوتوں کی اتنی دفعہ مرمت ہوئی کہ اصل چمڑا غائب ہو گیا تھا اور پیوند ہی پیوند دکھائی دیتے تھے۔(جاری ہے)ابو قاسم کے دوست اسے کہتے تھے۔میاں تم نے تو بھکاریوں کو بھی مات دے ڈالی ۔ارے بھئی اب تو نئے جوتے خرید لو۔ان کی جان چھوڑ دو۔ابو قاسم کہتاتھا۔ابھی تو یہ بہت چلیں گئے۔پھینک کیسے دوں؟تو ابو قاسم یہی جوتے پہن کر روازنہ بازار جاتا تھا پرانامال بیچتا اور نئا خریدتا اور خوب نفع کماتا تھا۔اسکی دولت بڑھتی جارہی تھی ایک دن ابو قاسم نے بہت سی شیشاں خوبصورت سی نازک سی خریدیں۔پھر اس نے بڑھیا عطر خریدا۔ابو قاسم شیشاں گھر لے آیا اور عطر بھی۔اس نے شیشوں میں عطر بھرا اور خوش ہو کر بولا۔آہا! یہ عطربیچ کر خوب منافع کماؤں گا۔اسی خوشی میں اس نے سوچا کہ آج کسی شاندار حمام میں غسل کرنا چاہیئے۔قاسم حمام میں گیا تو وہاں کچھ دوست مل گئے ۔انہوں نے اسکے پھٹے پرانے جوتے دیکھے تو بولے بھئی اگر پیسے نہیں خرچ کرنا چاہتے تو ہم سے لو مگر خدارا یہ جوتے تبدیل کر لو۔قاسم نے ہنس کر بات ٹال دی۔پھر اس نے جوتے اور کپڑے اتارکر ایک طرف رکھ دیے اور غسل خانے میں گھس گیا۔اتنے میں شہر کا کوتوال حمام میں نہانے کے لیے آگیا۔اس نے بھی کپڑے اور جوتے اتارے اور دوسرے غسل خانے میں چلا گیا۔ابو قاسم غسل کر چکا تو باہر نکلا اور کپڑے پہننے لگا۔اب جو اس کی نظر جوتوں پر پڑی تو ہکا بکا رہ گیا ۔اسکے پھٹے پرانے جوتوں کے بجائے با لکل نئے جوتے رکھے ہوئے تھے۔ابوقاسم کچھ دیر تو سر کھجاتا رہا پھر اس نے سوچا۔شایدمیرے دوستوں نے میرے لیے نئے جوتے خریدے ہوں۔چلو مفت میں جوتے مل گئے۔میرے پیسے بچ گئے۔یہ سوچ کر اس نے جوتے پہن لیے اور خوشی خوشی گھر کی طرف چل دیا۔اب مزے کی بات یہ کہ مسخرے نے ابوقاسم کے جوتے اٹھا کر کوتوال کے کے کپڑوں کے پاس رکھ دیے اور کوتوال کے جوتے ابوقاسم کے کپڑوں کے پاس رکھ دیے۔کوتوال باہر نکلا تو اپنے جوتوں کی جگہ ابوقاسم کے جوتے دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔اس کے سپاہیوں نے حمام کا چپا چپا چھان مارا مگر جوتے نہ ملے۔ملتے کیسے وہ تو ابوقاسم پہن کر چل دیاتھا۔ابوقاسم کے جوتے سارے شہر میں مشہور تھے۔لوگوں نے دیکھتے ہی پہچان لیاکہ یہ اسکے جوتے ہیں۔کوتوال نے حکم دیا کہ ابوقاسم کو اسکے سامنے پیش کیا جائے۔اس نے نئے جوتے خریدنے کی بجائے ہمارے جوتے چرالیے ہیں۔سپاہیوں نے جاتے ہی ابوقاسم کی مشکیں کس لیں اور اسے گھسیٹتے ہوئے کوتوال کے پاس لے آئے۔کوتوال نے اسے ایک ہزار روپے جرمانہ کیا اور اپنے جوتے واپس لے لیے اور اس کے واپس کر دیے۔ان جوتوں کی وجہ سے سارے بغداد میں ابوقاسم کی بدنامی ہوئی اور اسے ایک ہزار روپے سے ہاتھ دھونے پڑے۔اس نے سوچا یہ جوتے مصیبت ہیں انہیں کہیں دور پھینک دینا چاہیے۔اس نے گھر آکر کھڑکی کھولی اور جوتوں کو باہر پھینک دیا۔کھڑکی کے نیچے دریا بہتا تھا۔جوتے دریا میں جا گرے۔دوسرے دن مچھیرے نے دریا میں جال ڈالا جال میں مچھلیوں کی بجائے ابوقاسم کے جوتے پھنس گئے جس سے مچھیرے کا جال جگہ جگہ سے کٹ گیا۔وہ اس لیے کہ جوتوں میں جگہ جگہ کیلیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔مچھیرا غصے میں آگیا ۔اس نے جوتے اٹھائے اور ابوقاسم کی کھڑکی کے اندر پھینک دیے۔کھڑکی کے پاس عطر کی شیشیاں پڑی تھیں۔جوتے پٹاخ سے شیشیوں پہ گر ے۔شیشیاں فرش پر گر کر چور چور ہوگئیں اور سارا عطر بھی بہہ گیا۔بے چارہ ابوقاسم سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔اس کا سینکڑوں کا نقصان ہو گیا تھا۔اب تو ان جوتوں کی شکل سے نفرت ہوگئی تھی۔اس نے سوچا اسے ایسی جگہ پھینکنا چاہیے جہاں سے کسی کو بھی نہ ملیں۔اسکے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔وہ خوش ہو کر بولا۔بس یہ ٹھیک رہے گا زمین میں دبا دوں ،ابوقاسم اپنے باغ میں گیا اور گڑھا کھودنے لگا۔ایک پڑوسی ادھر نکل آیا ۔اس نے ابوقاسم کو گڑھا کھودتے ہوئے دیکھا تو دل میں کہنے لگا۔ضرور اسے کوئی خزانہ ملا ہیتو جب ہی یہ گڑھا کھود رہا ہے۔میں ابھی جاکر وزیر کوبتاتا ہوں۔بادشاہ کا حکم تھا جب کسی کو خزانہ ملے تو فورا حکومت کو خبر کردے ورنہ سخت سزا ملے گی۔وزیر نے ابوقاسم سے پوچھا ۔بتاؤ خزانہ کدھر ہے؟ابوقاسم نے کہا حضور خزانہ کیسا؟میں تو اپنے جوتے زمین میں گاڑ رہا تھا۔وزیر بولا۔کوئی جوتے بھی زمین میں گاڑھتا ہے؟ضرور تمھیں کوئی خزانہ ملا ہے۔سچ سچ بتاؤ ورنہ ایسی سزا دوں گا عمر بھر یاد رکھو گئے۔ابوقاسم بہتیرا چینخا چلایا،قسمیں کھائیں مگر وزیر نے ایک نہ مانی اور اس پر اسے دس ہزار روپے جرمانہ کردیا۔ابوقاسم روتا پیٹتا گھر آیا۔یہ جوتے اس کے لیے عذاب بن گئے تھے۔ان کی وجہ سے اسے ہزاروں روپے کا نقصان ہو گیا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اسے ایسی جگہ پھینک دے کہاں سے کبھی بھی نہ مل سکیں۔دوسرے دن ابوقاسم صبح سویرے نکلا اور دوسرے شہر چلا گیا یہاں ایک تالاب تھا۔ابوقاسم جوتے تالاب میں ڈال دیے ۔اور اسوقت تک انہیں دیکھتا رہا جب تک وہ مکمل ڈوب نہ گئے۔تب اس نے سکون کا سانس لیا اور گھر کی راہ لی۔لیکن وہ تا لاب کوئی معمولی تا لاب نہیں تھا۔اس تا لاب سے پائپ کے ذریعے بغداد کو پانی جایا کرتا تھا۔اور یہی پانی سارا شہر استعمال کرتا تھا۔ابو قاسم کے جوتے بہتے بہتے پائپ تک پہنچ گئے اور اسمیں ایسے پھنسے کہ پائپ کا منہ بند ہو گیا۔اس دب بغداد والوں کو پانی کی ایک بوند نصیب نہ ہوئی۔سارے شہر میں شور مچ گیا ۔لوگ جلوس نکالنے لگے۔بادشاہ کے سپاہی دوڑے دوڑے تالاب پر گئے۔دو آدمی کشتی میں بیٹھے اور تالاب کھنگالا تو ان کے ہاتھ ابوقاسم کے جوتے آئے۔سپاہی دیکھتے ہی پہچان گئے کہ یہ ابوقاسم کے جوتے ہیں۔اس دفعہ ابوقاسم کو ایک مہینہ جیل میں رہنا پڑا اور دس ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑا۔اس کے بعد اس نے سوچا جوتے جلا دیے جائیں لیکن جوتے گیلے تھے تو وہ انہیں سکھانے کے لیے چھت پہ لے جا رہا تھا اسکے ساتھ اسکا کتا بھی تھا۔نیچے بادشاہ سلامت کی سواری گزررہی تو کتے نے جوتے کو ٹھوکر مار کر نیچے گرادی ۔جوتا بادشاہ سلامت کے سر پر جا لگاتوسپاہیوں نے اسے گرفتار کرلیا۔اس کو دو سال کی قید کی سزا ہوئی۔اور ساٹھ ہزار روپے جرمانہ۔اب ابوقاسم نے بادشاہ سلامت کو ساری کہانی سنا ڈالی اور سزاکم کرنے کی درخواست کی۔بادشاہ نے اسکی سزا معاف کردی ۔اب ابوقاسم با لکل کنگال ہو چکا تھا۔اس نے سوچا کہ پہلی فرصت میں ہی اسے نئے جوتے خریدنے ہیں۔کیونکہ اب وہ سمجھ دار ہو گیا تھا ۔ختم شد " محنت کی کمائی - تحریر نمبر 828,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/mehnat-ki-kamai-828.html,"خدیجہ مغلاس لوہار کا ایک ہی بیٹا تھا ،مگر بہت سست اور کاہل۔سارا دن آواراہ گردی میں ضائع کردیتا۔وقت گزرتا رہا لیکن لوہار کے بیٹے میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔جب تک باپ کام کرتا رہا آرام سے گزر بسر ہو تی رہی۔پھر وقت نے اسے بوڑھا کردیا تو زندگی مشکل سے دوچار ہوئی۔ایک دن لوہار پریشانی کے عالم میں بیوی سے مخاطب ہوا ۔ہم پر لعنت ہے کہ ہم نے ایک ایسا بیٹا جوان کیا جو کسی کام کا نہیں اور کاہل اور نکھٹو ہے۔سوچو ذرا!اب بھی اگر اس ن ے کام نہ کیا تو ہم کھائیں گئے کہاں سے؟میں بوڑھا اور لاچار ہو گیا ہوں مجھ سے کچھ نہیں ہوتا لیکن اب بھی وقت ہے،اسے کہو کوئی کام سیکھے اور پیسہ کمائے۔آج ہی سے کام شروع کردے ورنہ زندگی بڑی مشکل ہو جائے گئی۔(جاری ہے)لوہار نے اپنی بات ختم کی تو اسکی بیوی پریشان ہو گئی۔وہ جانتی تھی کہ اس کا بیٹا اس قابل ہے ہی نہیں کہ کچھ کر سکے۔پیسہ کمانا تو بہت دور کی بات ہے۔سوچ بچار کے بعد اس نے تنہائی میں بیٹے کو ایک سکہ دیا اور کہا کہ دن کا زیادہ تر حصہ باہر گزار دو شام کو گھر آکر اپنے باپ کوسکہ دینا اور کہنا کہ تم نے یہ کمایا ہے کاہل بیٹے نے ویسے ہی کیا جیسا ماں نے بتایا تھا۔شام کو جب وہ گھر لوٹا تو اس نے سکہ باپ کو دیا تو باپ نے سکہ لے کر انگلیوں میں گھمایا اور چولھے میں جھونک دیا اور غصے سے بولا۔یہ سکہ تم نے اپنی محنت سے نہیں کمایا۔بیٹا خاموش ہو گیا کیونکہ وہ سمجھا کہ باپ کو حقیقت کا علم ہو گیا ہے۔دوسرے دن ماں نے بیٹے کو ایک سکہ دیا اور کہا کہ گھر سے نکل جاؤ اور سارا دن بھاگ دوڑ میں گزاردو شام کو تمھارے چہرے پہ تھکاوٹ ہو گی تو تمھارے باپ کو یقین آجائے گاکہ یہ سکہ تم نے اپنی محنت سے کمایا ہے۔بیٹے نے ویسا ہی کیا اور شام کو سکہ باپ کے ہاتھ میں تھما دیا ۔اس نے چند لمحے سکہ انگلیوں میں گھمایا۔اور اسے بھی چولھے میں جھونک دیا اور سختی سے بولا۔تم نے پھر مجھے دھوکہ دینے کی کوشش کی،یہ سکہ تمھاری محنت کی کمائی کا نہیں ہے۔ماں نے محسوس کر لیا کہ اسکے بیٹے کو کچھ کرنا ہی پڑے گا۔چونکہ جب باپ نے سکہ آگ میں پھینکا تو بیٹے کے چہرے پہ پریشانی کے کوئی آثار نہ تھے۔اگر یہ سکہ اس نے اپنی محنت کی کمائی سے کمایا ہوتا تو وہ پریشان ہو جاتا،ماں نے بیٹے کو سمجھایا۔اب تم جان چکے ہو کہ اپنے باپ کو بے وقوف نہیں بنا سکتے اسے مزید تکلیف مت دو۔جاؤ کوئی کام ڈھونڈو،یہ پروا نہیں کہ تم کتنے پیسے کماتے ہو،جو بھی کما کر لاؤ باپ کو دو اور اسے بتاؤ کہ تم اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو گئے ہو۔بیٹا خاموشی سے چلا گیا اور ہفتہ بھر مختلف جگہوں پر کام کیا ۔جب اپنی محنت سے کچھ پیسہ اکٹھا کر لیا تو اس نے باپ کو لا کر دیے۔باپ نے سکے مٹھی میں لیے اور گھمائے اور پھر انہیں آگ میں جھونک دیا اور بولا۔مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ تمھاری ہی کمائی کے ہیں۔بیٹے نے جب یہ سنا تو آگی کی طر ف بڑھا اور غصے کے عالم میں بولا۔یہ آپ نے کیا کیا۔۔۔؟میں نے۔۔۔میں نے ہفتہ بھر صبح سے شام تک محنت مزدوری کی،یہ پیسے اکٹھے کیے اور آپ نے آگ میں پھینک دیئے۔باپ نے بیٹے کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہنے لگا۔اب مجھے یقین آگیا ہے کہ سکے تم نے اپنی محنت سے ہی کمائے ہیں ،جو سکے تمھیں بغیر محنت کے ملے،انہیں آگ میں پھینکنے سے تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی ،مگر اپنی محنت سے کمائے گئے سکوں کی خاطر تم نے آگ میں ہاتھ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا۔اب میں اپنے بیٹے سے شرمندہ نہیں بلکہ مجھے اس پر فخر ہے کیونکہ وہ محنت کرنے لگا ہے۔۔۔ختم شد! " آدم خور - تحریر نمبر 824,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/adam-khor-824.html,"ستار طاہر:اس سنسان جزیرے پر آئے مجھے پندرہ برس ہوگئے ۔ایک دن جب میں صبح کے وقت کیبن سے کشتی کی طرف حسب معمول اس طرح جارہا تھا کہ بندوق میری بغل میں تھی طوطا کندھے پر بیٹھا تھا کھلی چھتری میرے سر پر تھی دوربین گلے میں لٹکی تھی داڑھی اور سر سیاہ سفید بال ہوا میں لہرارہے تھے کہ اچانک میں حیران ہوگیا ۔ریت پر کسی انسان کے ننگے پاؤں کے نشان پڑے تھے ۔ میں غور سے انہیں دیکھنے لگا سب سے پہلے مجھے ایک ہی انسان کے پیروں کے نشان دکھائی دیئے ۔اس کے بعد آگے پڑھا تو کم ازکم تین چار انسانوں کے پیروں کے نشان موجود تھے۔ میں پیروں کے ان نشانوں کو دیکھ کر خوش بھی تھا اور حیران بھی میری حیرانی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ پیروں کے یہ نشان تازہ تھے ۔(جاری ہے)جیسے وہ لوگ جن کے پیروں کے یہ نشان تھے تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں سے گزرے تھے ۔ میں ان نشانوں کو غور سے دیکھتا ہو اان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگا ․․لگ بھگ ایک فرلانگ فاصلہ طے کرنے کے بعد پیروں کے یہ نشان ایک چھوٹے ٹیلے سے ہوتے ہوئے اس کے پیچھے نیچے کی طرف جارہے تھے ․․ میں ٹیلے کے اوپر جھاڑیوں میں چھپ گیا ۔سمندر کے ساحل کے نزدیک مجھے کچھ لوگ دکھائی دیئے ۔میرا دل تیزی ست دھڑکنے لگا ۔ میں سوچنے لگا یہ لوگ کون ہوسکتے ہیں ۔ اور پھر ساحل سمندر کے قریب کھڑی مجھے ایک کشتی بھی دکھائی دی ۔ میں نے دوربین لگائی اور دیکھنے لگا ۔ جو منظر مجھے نظر آیا وہ بہت خوفناک تھا ۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر ۔وہ چھ سات نیم عریاں وحشی آدم خور تھے ۔ انہوں نے چودہ پندرہ برس کے ایک لڑکے کو پکڑرکھا تھا وہ اس لڑکے کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔دو وحشی آدم خور وہاں آگ جلا رہے تھے ۔ میں سمجھ گیا کہ وہ اس لڑکے کو پکڑ کر اسے کھانا چاہتے ہیں ایک آدم خور ایک چھرالیے قریب کھڑا تھا ۔ میری حیرت کم ہونے لگی تھی ۔ اتنی مدت کے بعد ان انسانوں کو دیکھ کر جو اگرچہ آدم خور تھے مجھے ایک عجیب طرح کی خوشی ہوئی تھی لیکن میں یہ بھی سوچنے لگا کہ وہ تو اس لڑکے کو کھا جائیں گے ۔ کیا مجھے انہیں روکنا نہیں چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ میں ایک لمبے عرصے کے بعد انسانوں کودیکھ کر بھونچکا ہوگیا تھا ۔ ایسی لیے میرے لیے فوری طور پر فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا ۔میں دیکھ رہا تھا کہ وہ لڑکا ان آدم خوروں کی گرفت سے نکلنے کے لیے پوری کوشش کررہا ہے ۔ لیکن وہ اکیلا تھا اور مقابلہ چھ سات آدم خوروں سے تھا ۔ یہ آدم خور وحشی جن کی شکلیں انسانوں جیسی تھیں مجھے انسانیت کے دشمن محسوس ہونے لگے ۔اس سے پہلے کہ میں کوئی فیصلہ کرتا میں نے دوربین سے دیکھا ۔ وہ لڑکا ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ ان آدم خوروں کے شکنجے سے آزاد ہوا اور جس ٹیلے کے پاس میں کھڑا تھا اس طرف تیزی سے بھاگنے لگا ۔ وہ میرے قریب آرہا تھا اور آدم خور پاگلوں کی طرح اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے ۔وہ لڑکا دبلا پتلا تھا ۔ وہ بھاگ رہا تھا ۔ بہت تیزی سے اور آدم خور اس کے پیچھے آرہے تھے ۔وہ اسے کسی قیمت پر ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے تھے ۔ تیز رفتار لڑکا ایک بار ٹھوکر کھا کر گراتو میرے دل کو دھچکا لگا لیکن اس سے پہلے کہ وہ آدم خور اسے پکڑتے ، وہ تیزی سے بھاگنے لگا ۔ اب وہ میرے بہت قریب آرہا تھا ۔ دوربین سے میں دیکھ رہا تھا کہ اس کا چہرہ پسینے میں شرابور ہے اور وہ بری طرح ہانپ رہا تھا ۔ اس کا سارا جسم ننگا تھا ۔ اس نے ایک لنگوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں پہنا ہوا تھا ۔آدم خور وحشی موت کی طرح اس کا تعاقب کررہے تھے اور وہ لڑکا موت سے بچنے کے لیے دوڑرہا تھا ۔اور پھر میں اسی لمحے ہوش میں آگیا ۔ میں نے فیصلہ کرنے میں دیرنہ کی ۔ میں نے بندوق اٹھائی اور لڑکے کے تعاقب میں آنے والے آدم خوروں کے سینے کا نشانہ باندھ کر گولی چلا دی ۔ گولی چلنے سے دھائیں کی زبردست آواز سے جزیرہ گونج اٹھا ۔ پرندے شور مچاتے اڑگئے اور میں نے ایک آدم خور کی خون میں لت پت لاش کو دیکھا ۔اپنے ایک ساتھی کو زمین پر مردہ دیکھ کر آدم خوررک گئے ۔اس دوران میں لڑکا بھاگ کر مجھ سے ذراہٹ کر کھڑا ہو گیا ۔ وہ ہانپ رہا تھا ۔ کبھی تو وہ مجھے حیرانی سے دیکھتا کبھی لاش کو ۔ اتنے میں ایک دوسرا آدم خور لڑکے کی طرف بڑھنے لگا ۔ میں نے پستول نکالا اور اس پر فائر کردیا ۔ میں خود بھی خاصا حیران ہوا کہ اتنے برسوں کے بعد بھی مشق کے بغیر میر انشانہ اتنا اچھا تھا کہ اس آدم خور کے ماتھے پر پستول کی گولی لگی اور وہ بھی اپنے خون میں لت پت ہو کر ریت پر گرگیا ۔اپنے دوسرے ساتھی کویوں مرتے دیکھ کرباقی آدم خور اتنے خوفزدہ ہوئے کہ وہ مڑکر پیچھے کی طرف بھاگنے لگے ۔ اب وہ موت سے بچنے کے لیے بھاگتے چلے جارہے تھے ۔ وہ مڑ کے پیچھے دیکھے بغیر کشتی تک پہنچے ۔ اس میں سوار ہوئے اور کھلے سمند میں چلے گئے۔ " نیکی کا اثر - تحریر نمبر 822,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/naiki-ka-asar-822.html,"روبنسن سیموئیل گل:صبح صبح بیکری میں داخل ہوتے ہوئے ’ ابیشے ‘ کی نظر فٹ پاتھ پر بیٹھے کم زور اور عمر رسیدہ شخص پر پڑی تو اسے بہت ترس آیا ۔ وہ اپنے والد کے ہمراہ بیکری سے ڈبل روٹی اور انڈے خریدنے آیا ہوا تھا اور اسکول لے جانے کے لیے بھی کچھ کھانے پینے کی چیزیں خریدنی تھیں ۔ ابیشے نے اپنے ابو سے کہا پاپا وہ دیکھیں بے چارے بوڑھے بابا جی جو باہر بیٹھے ہوئے ہیں ، کتنے کم زور اور بھوکے ہیں ۔اٌن کے کھانے کے لیے بھی کچھ خریدلیں ۔ابیشے کی بات سن کر اس کے پاپا بہت خوش ہوئے ۔ رات کی باتیں ابیشے کے ذہن میں گردش کر رہی تھیں ۔ جو امی جان سے اسے اور اُس کی چھوٹی بہن ’ جوآنہ ‘ کو بتائی تھیں ”بچو جب بھی ہم کوئی اچھا کام کرسکتے ہوں اور ہمارے پاس موقع بھی ہو مگر ہم پھر بھی نہ کریں تو یہ خدا کی نافرمانی اور گناہ ہے ۔(جاری ہے)جب کوئی نیکی کرتے ہیں تو خدا کبھی بھی ہمارا مقروض نہیں رہتا وہ ضرور اس کا اجر دیتا ہے ۔کسی کے ساتھ بھلائی کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہم خدا کو قرض دیتے ہیں “ اس لیے وہ فوراََ ہی اس کا بدلہ دیتا ہے ․․․ اور ہاں بچو یہ بھی یاد رکھو کہ جب ہم کوئی نیکی کرتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے کسی ایک کی مددکی ہے مگر خدا تعالیٰ اٌسے بہتوں کی بھلائی اور فائدے کے لیے استعمال کر لیتا ہے۔اُس بوڑھے کو دیکھ کر جہاں ابیشے کو اُس پر ترس آیا ، وہاں یہ خیال بھی آیا کہ اگر ہم نے اس کی مدد نہ کی تو خدا ناراض ہوجائے گا ۔تمام سوداسلف خریدنے کے بعدابیشے کے والد نے دکاندار کو ایک شیِر مال بھی دینے کو کہا ۔ تازہ شِیر مال کی مہک بڑی بھلی معلوم ہورہی تھی ۔ ابیشے کو شِیر مال تھماتے ہوئے اُس کے پاپا بولے ”لوبیٹا اب اٌن بابا جی کو آپ اپنے ہاتھ سے دے دو۔ابیشے نے بڑی خوشی اور جوش کے ساتھ وہ شِیرمال باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے اُس لاغر سے بوڑھے کو دیا جس کے کپڑے میلے کچیلے تھے ، بال بے تربیت انداز میں بڑھے ہوئے تھے ۔سفید داڑھی بھی اُسی طرح سے بڑھی ہوئی تھی اور اُس کے جھریوں والے چہرے کو چھپارکھا تھا ۔ نہ جانے اس اُداس چہرے کے پیچھے اُس بوڑھے شخص نے کتنے غم ، کتنے دُکھ چھپارکھے تھے ۔ نوسالہ ابیشے نے اُسے بڑی محبت کے ساتھ شیِر مال پکڑایا ۔ اُسی دوران ساتھ والے کھوکھے سے ایک عدد چائے کا کپ بھی کوئی اُس بوڑھے بابا کو دے گیا تھا ۔ شیِرمال پکڑتے ہوئے بوڑھے کی آنکھیں خوشی اور شکرگزاری کے ساتھ جھلملانے لگیں ۔اپنے میلے کچیلے ہاتھوں سے اُس نے ابیشے کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دیتے ہوئے کہا ” اللہ خوش رکھے بچے“ابیشے ایک عجیب سی خوشی اور احساس لیے ہوئے اپنے والد کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوگیا ۔ سچ ہے کہ دوسروں کی مدد کر کے اور ان کی ضرورت پوری کر کے انسان کوہمیشہ ایک عجیب خوشی اور طمانیت حاصل ہوتی ہے ۔باباجی نے شِیرمال کا لفافہ کھولا اور پھر چاے میں بھگو بھگو کر کھانے لگا ۔اسی دوران ایک کتا بھی کھوکھے کے پاس ایک تختے کے نیچے سے آنکلا ۔ باباجی نے شیِرمال کا ایک ٹکڑا اُس کی طرف اُچھال دیا وہ بھی خوشی خوشی کھانے لگا ۔باباجی نے بھی پیٹ بھر کر کھایا ۔چاے کی پیالی ختم ہوئی تو انھوں نے بچا ہوا شِیرمال کاٹکڑا ایک طرف رکھ دیا ۔ بالکل اٌوپر ہی بجلی کی تاروں پر ایک کوا بیٹھا موقع کا انتظار کر رہا تھا ۔جونہی اس نے دیکھا کہ باباجی کا دھیان دوسری طرف گیا اور شِیرمال کا ٹکڑا ایک جانب پڑا ہوا ہے تو اس نے جھپٹ کروہ ٹکڑا اُٹھالیا اور یہ جاوہ جا ، نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔باباجی کوے کی اس شرارت اور چالاکی پر مسکراکررہ گئے ۔کوا وہ ٹکڑا چونچ میں لیے ہوئے قریب ہی ایک گھنے درخت پر جا بیٹھا اور مزے سے تازہ شِیرمال سے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے لگا ۔وہ اپنی چونچ کی مدد سے اپنے پنجوں میں پکڑے شِیرمال کو توڑتوڑ کر کھانے میں مصروف تھا ۔وہ جس درخت پر بیٹھا تھا وہ ایک بڑے احاطے میں واقع تھا ، جودراصل ایک بڑی ورکشاپ کا حصہ تھا ۔اُسی درخت کے نیچے پرانی کار کاڈھانچا گزشتہ کئی سالوں سے پڑا تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کار کے ڈھانچے میں بھی زندگی کے آثار موجود تھے۔اچانک کوے کے پنجوں سے شِیرمال کا باقی ماندہ ٹکڑا چھوٹ گیا اور اُسی کار کے ڈھانچے کے قریب جاگرا ۔ کوا تیزی سے اس شاخ سے اُڑا، تاکہ اُس ٹکڑے کو واپس لے سکے ، مگر اُسی دوران کار کے اُس ڈھانچے کے نیچے سے ایک سلیٹی رنگ کی میلی کچیلی سی لاغربِلی خود کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکلی اُس کی پچھلی دو ٹانگیں کسی حادثے کی وجہ سے بیکار ہوچکی تھیں ۔وہ اگلی دوٹانگوں کی مدد سے ہی اپنے پچھلے حصے کو گھسیٹ گھسیٹ کر چلتی تھی اور زیادہ دور تک جانے یا اپنے لیے چوہوں کا شکار کرنے سے قاصر تھی۔ اس حالت کے باوجود اب تک زندہ تھی ، یعنی کائنات کا خالق اور مالک اسے بھی روزانہ رزق مہیا کرتا تھا ۔ بِلی کو دیکھ کر کوا گھبرا گیا اور اُس نے شِیر مال دوبارہ اٹھانے کا ارادہ ترک کرکے واپسی کی راہ لی ۔بِلی اُس ٹکڑے کو رغبت کے ساتھ کھانے لگی اور پھر اُسی طرح اپنے پچھلے دھڑکو گھسیٹتی ہوئی واپس اُسی کار کے ڈھانچے کے نیچے جاگھسی ۔ چندہی لمحوں میں چیونیٹوں کی ایک قطار شِیر مال کے بچے ہوئے چھوٹے چھوٹے ذرات کولے کر اسی درخت کی جڑ میں اپنے بل میں داخل ہونے لگیں ۔ وہ خوش تھیں کہ صبح صبح ہی اتنی لذیذ خوراک انھیں اتنی آسانی سے مل گئی ۔ابیشے گھر پر ناشتا کرنے کے بعد اپنے ابو کے ساتھ اسکول کی جانب رواں دواں تھا ۔ اُس ناناشتے کی میز پر ہی امی کو بتایا کہ ان کی نصیحت کے مطابق اُس نے ایک بوڑھے شخص کی مدد کی اور ایسا کرکے اسے بہت خوشی حاصل ہوئی ۔اُس کی امی نے مسکراتے ہوئے کہا ” شاباش بیٹا یہی خوشی ہے خدا ہمیں نیکی کرنے کے بعد عطا کرتا ہے ۔ یہ خوشی پیسوں سے نہیں خریدی جاسکتی ۔“ابیشے کو تو خوشی اس بات کی تھی کہ اٌس نے ایک بھوکے باباجی کو کھانے کے لیے کچھ دیا ، مگر اُسے اندازہ نہیں تھا کہ خدا نے نہ صرف باباجی کو ، بلکہ ایک کتے ، ایک کوے ایک معذور بِلی اور کئی چیونٹیوں کو بھی ابیشے کی اُس نیکی کی وجہ سے رزق مہیا کیا ہے ۔سچ ہے کہ خدا ہماری کسی بھی نیکی کو ضائع نہیں جانے دیتا ۔ اس نیکی کا اثر بہت دور تک جاتا ہے ۔ ہمیں بھی اُس کا اَجر ملتا ہے اور دوسرے بھی بہت سے لوگ اور جان دار اُس سے فائدہ اُٹھالیتے ہیں۔ " عید کی حقیقی خوشی - تحریر نمبر 817,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/eid-ki-haqeeqi-khushi-817.html,"شاہ بہر ام انصاری :زینب ایک بڑے سے بنگلے کے مالک وقاص کی چہیتی بیٹی تھی سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے اسے ماں باپ سے زیادہ پیار ملا وہ ضدکی پکی اور اپنی بات منوانے کی عادی ہوگئی تھی ۔ عید کی آمد میں صرف چند روز باقی تھے اسی وجہ سے زینب نے خرایدی شروع کردی ۔ زینب نے اپنی سہیلیوں سے ایک شرط لگارکھی تھی وہ یہ کہ اس عید پر کون سب سے زیادہ خوبصورت اور اچھی نظرآئے گی ۔زینب اپنی پھپھو کے ساتھ بازار گئی اور یاک مہنگی فراک خرید لائی ۔ دوسرے دن پھر بازار گئی اور بچوں والی جاذب نظر ساڑھی لے لی ۔اسی طرح یہ سلسلہ ایک ہفتہ تک جاری رہا اور زینب نے اپنی پوری الماری نئے کپڑوں سے بھر لی ۔ اس کے ابوکاروباری معاملات میں الجھے رہتے جبکہ امی آرام طلب خاتون تھیں ۔(جاری ہے)اس سے بازپرس کرنے والا کوئی تھا نہیں اسی لیے زینب نے حد سے زیادہ شاپنگ کر لی اس کی پوری کوشش تھی کہ شرط صرف وہی جیتے اور اپنی سہیلیوں پر رعب جمائے ۔عید آنے میں تین چار دن رہ گئے اور اس کی بھی بس ہوگئی ۔زینب کے بنگلے میں ایک پرانی ملازمہ کام کرتی تھی ۔ اس کی ایک بیٹی تھی جو زینب کی عمر کی تھی ۔ اس کا نام اقصیٰ تھا ۔ اس کی ماں نے اسے ایک سرکاری سکول میں داخل کروایا ہوا تھا کہ وہ کچھ پڑھ لکھ جائے ۔ دونوں ماں بیٹی کا اس بھری دنیا میں کوئی نہیں تھا اور وہ زینب کے بنگلے کے پچھلے حصے میں تعمیر کردہ چھوٹے سے کوارٹر میں رہتی تھیں ۔اس کی ماں کسمپرسی کی حالت میں زینب کے گھر کی جھاڑپونچھ کیا کرتی تھی ۔ سکول سے واپسی کے بعد اقصیٰ بھی صفائی میں اس کی مدد کر دیتیروزہ افطار ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا اور زینب کو روزہ لگ رہا تھا ۔ وہ ٹہلتے ہوئے اپنی ملازمہ کے کوارٹر کے پاس سے گزری کوارٹر میں اقصیٰ اپنی ماں سے نئے جوتوں اور کپڑوں کی فرمائش کر رہی تھی اس کی ماں اسے سمجھا رہی تھی کہ ہم غریب لوگ ہیں ہماری قسمت میں نئے کپڑے اور جوتے کہاں ؟ دو وقت کی روٹی نصیب ہوجائے تو ہمارے لئے یہی عید ہے ۔اقصیٰ یہ سن کر رونے لگی توماں نے اسے جھوٹی تسلی دلادی کہ وہ کچھ کرے گی ۔ زینب کو یہ سب دیکھ کر بہت دکھ ہوا افطاری کے بعد زینب نے اپنے لئے خریدے گئے کپڑوں اور جوتوں میں سے ایک ایک جوڑا نکالا اور اقصیٰ کی ماں کو بلا کر بولی ‘ماں جی یہ رکھ لیں میری طرف سے آپ کی بیٹی کے لئے عید کا تحفہ ہے اور اقصیٰ کو مت بتایئے گا میں نے دیا ہے ۔ اس کی ماں تشکر بھرے انداز میں اس کا ماتھا چوم لیا ۔عید والے دن زینب کی سہیلیاں اسے ملنے آئیں تو اسے دیکھ کر بہت حیران ہوئیں کیونکہ وہ ایک سادہ سا لباس زینب تن کیے ہوئے تھی سہیلیوں کے پوچھنے پر اس نے انہیں سارا واقعہ سنا دیا ۔ اس کی تمام سہیلیوں نے اس کے جذبے کو سراہا اور اسے شرط کی فاتح قرار دے دیا ۔ ساتھیو ہمارے آس پاس یقینا کئی ایسے بچے ہوں گے جو ہماری امداد کے منتظر ہیں ہمیں چاہئے کہ ان سب کو اپنی خوشیوں میں شریک کر لیں تاکہ عید کی حقیقی خوشیوں سے لطف اندوز ہوسکیں ۔ " بھینسا اور میں - تحریر نمبر 811,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/bhensa-or-main-811.html,"مجھے درخت پر بیٹھے شام ہو گئی تھی مگر یہ بَلا کسی طرح بھی ٹلتی نظر نہیں آرہی تھی۔ جنگلی بھینسا مسلسل درخت کے چکر کاٹ رہا تھا۔ میں اس انتظار میں تھا کہ بھینسا تھک کر یہاں سے چلا جائے گا تو میں نیچے اُتروں اور اس منحوس جنگل سے نکلوں۔ اُدھر بھینسا اس انتظار میں تھا کہ نیچے اُتروں تو وہ اپنے نوکیلے سینگوں اور کُھروں سے میرا بُھر تا بنا دے۔میرا پیشہ چڑیا گھروں کوجانور مہیا کرنا ہے۔ میرے ایک دوست نے مجھے خرگوشوں کے ایک نایاب جوڑے کے بارے میں اطلاع دی، جنھیں اس نے اس جنگل میں دیکھا تھا۔ کافی دنوں سے میرے ہاتھ کوئی بڑا شکار نہیں لگاتھا اور میری جیب بالکل خالی ہو چکی تھی۔ میں نے سوچا کہ چلو خرگوش پکڑ کر میں کچھ رقم کمالوں۔چناں چہ میں آج صبح ان خرگوشوں کی سُن گُن لینے جنگل میں آیا تھا۔(جاری ہے)اپنا کھانے پینے کا سامان اور خرگوش پکڑنے کے پھندے وغیرہ میں ایک بڑے درخت کی کھوہ میں چھپا دیے تھے اور خود خرگوش کی کھوج میں نکل پڑا۔ مگر ایک تنگ سی پگڈنڈی پہ میرا سامنا خرگوش کے بجائے اس جنگلی بھینسے سے ہو گیا۔ یہ اس طرح اچانک میرے سامنے آیا کہ میرے لئے چھپنا ممکن نہ رہا۔ اگر میں بھاگ کر فوراََ ایک قریبی درخت پر نہ چڑھ جاتا تو یہ بھینسا یقینا مجھے گرا کر اپنے کُھروں سے کچل دیتا ۔مجھے درخت پر چڑھے دیکھ کر اس نے اتنے زور سے درخت کو ٹکر ماری کہ اس زور دار جھٹکے سے درخت کی شاخ میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور میں نیچے گرتے گرتے بچا۔ اب سورج مغرب کی طرف ڈھل رہا تھا، مگر یہ بھینسا یہاں سے ہلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ میرا کھانے کا جو تھوڑا بہت سامان تھا میرے پہنچ سے دور درخت کی کھوہ میں رکھا تھا۔ جیب میں چند بسکٹ اور چاکلیٹ تھی۔جو میں وقفے وقفے سے کھا کر اپنی بھوک کو بہلا تا رہا۔ بھینسے کے لیے بھوک کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ نرم نرم گھاس سے اپنا پیٹ بھر لیتا، مگر بڑے چوکنے انداز میں کھاتے ہوئے بھی اس کی ایک نظر اوپر میری طرف ہی رہتی۔شام کا اندھیرا پھیلا تو مجھے اُمید بندھی کہ شاید اب یہ بَلا ٹَل جائے۔ مگر اس وقت میری اُمیدوں پہ اوس پڑگئی جب بھینسا وہیں درخت کے نیچے پاوٴں پسار کر لیٹ گیا۔ساری رات درخت پہ بیٹھے بیٹے میرے بازو ، ٹانگیں اور کمر اَکڑ گئی۔ مچھروں نے کاٹ کاٹ کر بُرا حال کر دیا۔ ای بار میں نے اندھیرے کا فائدہ اُٹھا کر درخت سے اُتر کر بھاگنے کا ارادہ کیا، مگر پٹوں کی ذراسی کھڑ کھڑاہٹ ہوئی تو بھینسا چوکنا ہو گیا اس لیے میں نے درخت پر بیٹھے رہنے میں ہی عافیت جانی۔صبح کا اُجالا ہوا تو میں نے سکون کا سانس لیا۔پیاس سے حلق خشک ہو گیا تھا۔ بھوک کے مارے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ پھر ہلکی ہلکی دھوپ نکلی تو مجھے اونگھ آگئی اور میں درخت کی شاخوں سے لپٹ کر سو گیا۔ آنکھ کھلی تو دیکھا بھینسا نیچے موجود نہیں تھا۔ مارے خوشی کے میرے منھ سے چیخ نکل گئی۔ میں نے اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں ۔ اردگرد بھینسے کا کوئی نشان نہ پاکر میں جلدی سے نیچے اُترا اور جنگل سے باہر جانے والے راستے کی طرف دوڑ لگا دی۔میں جلد سے جلد سے دور جانا چاہتا تھا۔ بھاگتے ہوئے میں پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھ رہا تھا کہ کہیں بھینسا پیچھے تو نہیں آرہا ہے۔ اسی گھبراہٹ میں ، میں ایک گہرے گڑھے میں گرتے گرتے بچا۔ یہ گڑھا میرے جیسے ہی کسی شکاری نے کسی جانور کو پھانسنے کے لئے کھود رکھا تھا۔ گڑھا اوپر سے بڑی مہارت سے جھاڑ جھنکار سے ڈھکا ہوا تھا۔ جیسے ہی میرا پاوٴں گڑھے میں پڑا، میں نے قریب ہی آُگی ہوئی ایک مضبوط جھاڑی کو پکڑ لیا اور میں گڑھے میں گرنے سے بچ گیا۔ابھی میں اس حادثے سے سنبھلا ہی تھا کہ مجھے اپنے پیچھے کسی کے بھاگنے کی آوازیں سنائیں دیں۔ پلٹ کر دیکھا تو بھینسا گردوغبار کا طوفان اُڑاتا اس طرف آتا نظر آیا۔ مکار بھینسا یقینا کہیں چھپ گیا تھا مجھے درخت سے اُترتے دیکھ کر اس نے خاموشی سے میرا پیچھا کیا اور اب موقع دیکھ کر مجھ پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔جیسے ہی بھینسا بھاگتا ہوا میرے قریب پہنچا اور ایک زور دار ٹکر مار کر مجھے گرانا چاہا میں پھرتی سے ایک طرف ہٹ گیا۔بھینسا اپنی ہی جھونک میں آگے نکل گیا اور پھر زور دار آواز سے گڑھے میں جا گڑا۔ اس کے گرنے سے جو دھماکا ہوا، اس سے آس پاس کی زمین ہل گئی۔ گڑھے سے مٹی کا ایک طوفان سا اُٹھا۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا اور اس درخت کی طرف چل پڑا، جہاں میری چیزیں رکھی ہوئی تھی۔ بھینسے سے مجھے کوئی غرض نہیں تھی، کیوں کہ کوئی بھی چڑیا گھر بھینسے کا خریدار نہیں تھا۔ میرا کام بس اتنا تھا کہ گڑھا کھود نے والے شکاری کو بھینسے کے گڑھے میں گرنے کی خبر دے دوں، تاکہ وہ اس کے ساتھی آکر اس خونخوار بھینسے کو سبق سکھائیں کہ کسی کو بلاوجہ تنگ کرنے کاکیا انجام ہوتا ہے۔ " تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو - تحریر نمبر 806,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tail-dekho-tail-ki-dhaar-dekhoo-806.html,"یہ کہاوت ایسے موقعوں پر استعمال کی جاتی ہے جب ہم کسی سے یہ کہنا چاہیں کہ ابھی جلدی مت کرو، پورا نتیجہ یا انجام دیکھ کر لو لیکن یہ کہاوت بنی کیسے، یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔!ایک تھا شہزادہ اس کے چارد دوست تھے ۔ ان سب کا ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔وہ کسی وقت ایک دوسرے سے جدا نہ ہوتے تھے۔ کھانے پینے ،سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، میں سب ہی ایک دوسرے کے شریک تھے۔ان دوستوں میں ایک تو سپاہی تھا ایک مولوی، ایک اونٹ اولا اور ایک تیلی تھا۔ایک دن اچانک بادشاہ کا انتقال ہو گیا اور اس کی جگہ شہزادہ تخت نشین ہوا۔ شہزادے نے اپنی دوستی کا حق اس طرح ادا کیا کہ اپنے چاروں دوستوں کو اپنا وزیر بنا لیا اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔(جاری ہے)آس پاس کے ملکوں کے بادشاہوں نے مل کر اس ملک پر حملہ کر دیا ۔اب تو شہزادے جو اب بادشاہ حضور بن چکے تھے بہت گھبرائے اور اپنے چاروں وزیر دوستوں سے صلاح مشورہ کرنے بیٹھے۔سپاہی نے کہا”اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے بس ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیجئے فتح انشاء اللہ ہماری ہی ہوگی۔“مولوی صاحب بولے۔” جناب! مجھے تو اس رائے سے اتفاق نہیں جنگ ہوئی تو ہزاروں لوگ مرجائیں گئے اور ان سب کا خون آپ کی گردن پر ہوگا۔اس لئے آپ ناحق جھگڑے میں نہ پڑئیے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا نا کہ ملک چھن جائے گا۔چھن جانے دیجئے اللہ اور دیدے گا۔“اونٹ والے نے ان دونوں کی باتیں سنیں تو کہنے لگا ” حضور! آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ ہر بات کی مہار اللہ میاں کے ہاتھ میں ہے ۔آپ تو یہ دیکھئے اونت کس کل(کروٹ) بیٹھتا ہے۔ “ یعنی معاملہ کا فیصلہ کیسے ہوتا ہے۔اب تیلی کی باری آئی۔اونٹ والے دوست کی بات سن کر وہ کہنے لگا” جہاں پناہ! میرے خیال میں ہمارے اس دوست ساربان(اونٹ والا) کی بات لاکھ روپے کی ہے۔ کسی کام میں جلدی نہیں کرنی چاہیے ۔ ابھی تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔“معلوم نہیں بادشاہ نے کسی کی بات مانی یا نہیں مانی اور ہمیں تمہیں اس سے غرض بھی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں تو بس یہ یاد رکھنا ہے کہ سارا بان اور تیلی نے ہمارے کہاوتوں والے قیمتی اور بیش بہا خزانے میں دو اور کہاوتوں کا اضافہ کر دیا ہے یعنی!”تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو“” دیکھیے اونٹ کس کل بیٹھتا ہے۔“ایسی سینکڑوں کہاوتیں ہیں اور ہر کہاوت کا رشتہ ایک دل چسپ کہانی سے جڑتا ہے۔ یہ کہانی تاریخ کا کوئی واقع بھی ہو سکتی ہے یا گزرئے ہوئے زمانے کی داستان یا محض خیالی بات یا اس لئے کہ کبھی کبھی کہاوتیں اس طرح بنتی ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی اور لاکھ کھوجئے پر بھی آدمی اس بات کا پتہ نہیں لگا پاتا کہ اس کہاوت کے بننے کے پیچھے کیا کہانی پوشیدہ ہے۔ " ہمدردی اور رحم دلی - تحریر نمبر 802,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/humdardi-aur-rehamdili-802.html,"انور فرہاد:ایک عورت نے ایک نہر کے کنارے جاکر اپنی گود میں چھپائی ہوئی کوئی چیز زمین پر رکھ دی۔ زمین پر اس چیز کے رکھتے ہی ایک باریک سی آواز اُبھری۔ جیسے کوئی بچہ رو رہا ہو۔ عورت نہر میں پانی پینے جھکی تو توازن قائم نہ رہ سکا اور وہ گر کر بہتی ہوئی دور چلی گئی۔یہ سارا تماشا قریب ہی ایک درخت پر موجود ایک بندر اور بندریا دیکھ رہے تھے۔عورت کے ڈوبتے ہی دونوں چھلانگ لگاتے ہوئے نیچے پہنچے اور بندریا نے جھپٹ کر کپڑے میں لپٹے بچے کو اُٹھالیا۔ بچہ مسلسل روئے جا رہا تھا۔بندر بولا:” لگتا ہے بھوکا ہے۔“بندریا نے جھٹ اسے اپنے سینے سے لگالیا۔ بچہ چپ ہو گیا۔بندریا بچے کو دیکھتے ہوئے بولی:” کتنا پیارا ہے۔(جاری ہے)لگتا ہے ایک دود ن سے زیادہ اس کی عمر نہیں۔یہ اب میرا بچہ ہے ۔ اب میں ہی اسے ماں بن کر پالوں گی۔ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟“” نہیں ،کسی بے سہارا کو سہارا دینا تو بڑی اچھی بات ہے۔“چند دنوں کے بعد پورے جنگل میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ ایک بندر اور بندریا نے ایک انسانی بچے کو گود لے لیا ہے۔ جنگل کے جانور بندریا اور بندر کی گود میں انسانی بچے کو دیکھتے تو حیران بھی ہوتے اور خوش بھی۔ایک دن ایک کوے نے آکر بندر اور بندریا کو جنگل کے بادشاہ کا پیغام دیا:” تم دونوں کو بادشاہ سلامت نے دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے اور اس انسانی بچے کو بھی ساتھ لے کر آنے کی تاکید کی ہے۔“ دونوں فکر مند ہو گے۔”بادشاہ سلامت نے کیوں بلایا ہے؟“ بندریا بولی:” مجھے تو ڈرلگ رہا ہے میں نہیں جاوٴں گی۔“اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے بندر بولا۔” ڈرنے کی کیا بات ہے۔ ہم نے کوئی جرم تو نہیں کیا ہے۔“بندریا بولی:” میرے اس بچے کا تعلق انسانوں سے جوہے۔ شیر، چیتے اور بھیڑیے انسانی خون اور گوشت کے شوقین ہوتے ہیں۔ میں تو صدمے سے مرجاوں گی اگر اس بچے کو کچھ ہوا تو ۔ “ یہ کہتے کہتے وہ رو پڑی۔بندر نے بندریا کو تسلی دی۔”ہم نے اس انسانی بچے کی جان بچا کر ایک نیک کام کیا ہے۔اللہ نیک کام کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ وہی ہماری اور ہمارے اس بچے کی نگہبانی کرے گا۔“اگلے روز دنوں سہمے سہمے جنگل کے بادشاہ کے دربار میں جا پہنچے۔ سارے جانور بادشاہ سلامت کے دربار میں موجود تھے۔ وہاں پہنچ کر دونوں نے نہایت ادب سے شیر بادشاہ کو سلام کیا۔” آوٴ،آوٴ۔ ہم سب تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔ “ شیر بولا۔” یہ بتاوٴ تم نے یہ انسانی بچہ کسی انسانی بستی سے اُٹھایا ہے؟“”حضورِ والا! یہ بچہ ہم نے کسی انسانی بستی سے نہیں اُٹھایا۔ یہ ہمیں یہیں جنگل کے کنارے والی نہر سے ملا تھا۔“” اچھا۔۔ ! کیا انسانی بچے بھی ہمارے بچوں کی طرح پیدائش کے چند گھنٹوں کے بعد چلنے پھرنے لگتے ہیں کہ آدمی کا یہ بچہ اپنی بستی سے بھاگتا ہوا ہمارے جنگل میں چلا آیا؟کئی درباری جانور ہنس پڑے۔شیر نے خونخوار نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا تو سب سہم کر چپ ہو گئے۔اب شیر نے بندر کو مخاطب کیا:” سچ سچ بتاوٴ اس آدمی کے بچے کو تم کہاں سے لائے ہو؟بادشاہ سلامت! ہم سچ کہہ رہے ہیں۔ ہمیں یہ بچہ وہیں سے ملاہے۔ “ اس کے بعد اس نے وہ سارا واقعہ کہہ سنایا جو انھوں نے دیکھا تھا۔ پھر بولا” ہم سے اس ننھے بچے کا رونا نہ دیکھا گیا اور ہم نے فوراََ درخت سے نیچے آکر اسے اپنی گود میں اُٹھا لیا۔“شیر نے سب جانورں کی طرف دیکھ کر کہا:” اس بندر اور بندریا نے اس ننھی سی جان کو بچا کر یہ ثابت کر دیا کہ ہم جانور، انسانو ں کی طرح بے درد نہیں ہوتے۔ ہمارے سینوں میں انسانوں سے کہیں محبت بھرا دل ہوتا ہے “۔ اتنا کہہ کرشیر ذرا رُکا پھر اپنی بات آگے بڑھائی:” جو بچوں سے محبت نہیں کرتا وہ حیوان ہے شیطان ہے قابل نفرت ہے اوریہ انسان۔۔۔ اشرف المخلوقات کہلوانے والے یہ لوگ اپنے بچوں پر بھی رحم نہیں کرتے۔ کیوں میاں مٹھو! میں غلط تو نہیں کہہ رہا ہوں؟“ اس نے طوطے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”تم لوگوں نے تو انسانوں کے بہت قریب سے دیکھا ہے اور تمھارایہ نام بھی انہی لوگوں نے دیا ہے۔“” جی ہاں عالم پناہ ! آپ درست فرما رہے ہیں ۔ انسان اپنی انسانیت کا بڑا ڈھنڈوراپیٹتے ہیں مگر ذرا ذرا سی بات پر آپس میں بری طرح لڑتے ہیں۔انسانی درندگی کا یہ عالم ہے کہ اپنے مخالف کے بچوں تک کو معاف نہیں کرتے۔ ہمیں میاں مٹھو کہنے والے یہ لوگ ہمیں تو تاچشم بھی کہتے ہیں۔جب ہم کسی طرح ان کے پنجرے سے فرار ہو جاتے ہیں تو و ہ ہمیں تو چشم ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ گویا انھوں نے ہمیں قید کر کے ہم پر بڑا احسان کیا تھا۔“”جان کی امان پاوٴں تو میں بھی کچھ عرض کروں۔“ ایک کوّا بولا۔”بولو ،کیا کہنا چاہتے ہو۔“ شیر نے کہا۔”انسانوں نے نہایت خطر ناک قسم کے ہتھیار بنائے ہیں۔ جو پلک جھپکتے میں ہزاروں کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ وہ بے دھڑک ان کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے جیسے ہزاروں انسانوں کو مار ڈالتے ہیں۔کوا رُکا تو شیر بولا:” یہ ہے ان کی درندگی کا حال۔ جو وہ ہم کو درندہ اور خونخوار کہتے ہیں مگر ہم تو اپنے جیسے کسی جانور کا شکار کبھی نہیں کرتے۔کوئی شیر کسی شیر کو ، کوئی بھیڑ یا کسی بھیڑیے کو نہیں مارتا، مگریہ انسان ایسی درندگی کے بعد بھی اشرف المخلوقات کہلاتا ہے۔“”میں کچھ عرض کروں اجازت ہے؟ ایک اُلو نے پوچھا۔”اجازت ہے۔”بادشاہ سلامت! انسانوں کے بارے میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ غلط نہیں ہیں مگر سب انسان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ان میں بڑی تعداد میں بہت اچھے انسان بھی ہوتے ہیں جو تمام انسانوں کی بھلائی اوربہتری کے لئے اچھے اچھے کام کرتے ہیں۔اور بُرے انسانوں کو بُری باتوں سے روکنے کے لئے بڑی جدوجہد کرتے ہیں۔ ان کی بے شمار اچھی باتیں ہیں جن کی وجہ سے اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں۔ “دربار ختم ہونے کے بعد بند ر اور بندریا بہت خوش خوش اپنے گھر لوٹے۔ بندر بولا:” دیکھو ہماری نیکی کی بادشاہ نے بھی تعریف کی۔ تم خواہ مخواہ ڈر ہی تھیں۔“” ہاں، اللہ کی مہربانی سے ہمارے بچے پر کوئی آنچ نہیں آئی۔“دونوں اپنے بچوں کی طرح اس انسانی بچے کو بھی پالنے لگے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بچہ بڑا ہونے لگا اور بندر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے لگا۔ اب وہ اسے مختلف قسم کے پھل لا کر کھلانے لگے یہ بچہ بھی بندر کے بچوں کی طرح پیروں اور ہاتھوں کے سہارے بھاگنے دوڑنے اور درختوں کی شاخوں پر اُچھلنے کودنے لگا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب وہ اپنی خوراک کا بندوبست خود کرنے لگا اورجہاں اس کا جی چاہتا اکیلے آنے جانے لگا۔جنگل کے جانور بھی اسے اپنے جیسا جانور سمجھنے لگے تھے ۔ایک دن ایک شکاری کا گزر اس جنگل کی طرف ہوا تو اچانک اس ک نظر اس انسان نما جانور پر پڑی:” ارے ! یہ کیسا بندر ہے۔ اس کی شکل وصورت تو بالکل انسانوں جیسی ہے ۔“ اس نے دل ہی دل میں کہا۔ وہ ایک جگہ چھپ کر اسے دیکھنے لگا۔یہ یقینا انسان ہے لیکن اس کی پرورش جنگلی جانوروں کے درمیان ہوئی ہے اس نے سوچا کہ اسے پکڑ کر انسانوں کی آبادی میں لے جانا چاہیے تاکہ وہ دوبارہ انسان بن سکے مگر اسے پکڑنا بڑا مشکل کام تھا۔وہ انسانی بندر اسے دیکھتے ہی بھاگ جاتا تھا۔شکاری نے یہ ترکیب نکالی کہ پھل اور کھانے کی مختلف چیزیں لاکر زمین پر ڈال دیتا اور چھپ کر اس پر نظر رکھتا ۔ اس کے ساتھ دوسرے بندر بھی وہاں آنے لگے۔ کئی دنوں کے بعد شکاری کھانے کی کچھ ایسی چیزیں لایا جن میں اس نے بے ہوشی کی دوا ملا دی تھی۔ انھیں کھا کر جب سارے بندر بے ہوش ہو گئے تو شکاری نے اس انسان نمابندر کو اُٹھا کر اپنی جیپ میں ڈالا اور اپنے شہر لے آیا۔اب اس نے اسے دوبارہ انسان بنانے کے تمام جتن کر ڈالے۔ اسے نہلایا اور انسانوں جیسے کپڑے پہنائے۔ اسے کھانے پینے کی اچھی اچھی چیزیں دینے لگا۔ اس کے سونے کے لئے آرام دہ بستر کا بندوبست کیا مگر یہ سب اس کو اچھا نہیں لگتا تھا وہ اور خوں خاں کر کے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کرتا۔شکاری نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح وہ اس کی بات سمجھنے لگے اور اپنی بات سمجھانے لگے مگر اس کی ساری کوشش بے کار ثابت ہوئی۔ ایسا لگتا تھا جیسا اسے انسانوں کی کوئی بات پسند ہی نہیں اور نہ وہ انسانوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ شکاری نے اسے اپنی نگرانی میں رکھا تھا۔ اس کے باوجود ایک دن موقع ملتے ہی وہ انسانوں کی بستی سے جنگل کی طرف بھاگ گیا جہاں اس کے ماں باپ اس کے بغیر اداس تھے۔ " تیرھویں کرسی - تحریر نمبر 800,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tairhvin-kursi-800.html,"وقار محسن :بیگم اسرار کے وہمی مزاج کی وجہ سے پورا خاندان پریشان تھا۔ کوا دیوار پر کائیں کائیں کرے ، کالی بلی راستہ کارٹ جائے۔ منگل کو کسی کام کا آغاز کرنا ہو ، کسی ایسے ہند سے کا انتخاب جو دوسے تقسیم نہ ہوتا ہو۔ یہ سب توہمات ان کے ذہن پر اس طرح سوار رہتے جیسے زندگی اور موت کا مسئلہ ہو۔اسراس صاحب کی ترقی کے سلسلے میں آج دعوت کا انتظام ہو رہاتھا۔اس دوران ان کی اسی کمزروی کی وجہ سے مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا۔ جب بیگم اسرار مختلف انتظامات کا معائنہ کرنے ڈرائنگ روم میں آئیں اور کھانے کی میز کے گرد تیرہ کرسیوں کی ترتیب دیکھی تو بھڑک اُٹھیں :”ائے ہے توبہ توبہ‘ یہ تین تیرہ کا ہندسہ بڑا منحوس ہوتا ہے۔ کس نے تیرہ کریساں لگوائی ہیں۔(جاری ہے)“اسرار صاحب نے کہا:ارے بیگم! آپ بھی کیسی احمقانہ باتیں کرتی ہیں۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے اب لوگوں کو مدعو کیا جا چکا ہے۔“بیگم زور دے کر بولیں:”یہ نہیں ہو سکتا۔ بد شگونی ہے۔ آپ ایسا کریں کہ مسٹر اور مسزاحمد حسین اور ان کی بیٹی کو بھی مدعو کر لیں، اس طرح تعداد سولہ ہو جائے گی، حالانکہ وقت کے وقت دعوت دینا بد اخلاقی ہے۔“پھر بیگم اسرار نے فون نمبر ملایا۔ رابطہ ہونے پر وہ بولیں:” مسز حسین! کیا حال ہیں آپ کے ؟ آپ کو کئی بار فون ملانے کی کوشش کی لیکن بات نہ ہو سکی۔دراصل آج اسرار صاحب کی ترقی کے سلسلے میں رات کے کھانے کا انتظام کیا ہے۔پلیز آپ اور احمد بھائی ضرور آئیں اور روشن بیٹی کو بھی لائیں۔“ادھر سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے بابا رحیم کو ہدایت کی کہ کھانے کی میز پر تین کرسیوں کا اضافہ کردیں ابھی کرسیاں نہیں لگائی گئی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ بیگم اسرار نے ہونٹ سکوڑتے ہوئے ریسیور اُٹھایا:کون؟ رشیدہ آپا۔خیریت؟ کیا کہا؟ نفیس بھائی کو بخار ہے اور سہیل کا میچ ہے تو پھر آپ تینوں نہیں آسکیں گئے؟“فون رکھ کر وہ سر پکڑ کر کرسی پر بیٹھ گئیں۔ پھر وہی کمبخت 13منحوس ہندسہ ۔ وہ بڑبڑا رہی تھیں۔ لوگ بھی کس قدر غیر ذمہ دار ہیں۔ وقت کے وقت معذرت کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے میں سسرالی خاندان والوں کو بلانے سے گھبراتی ہوں۔اسی دوران ان کا بڑا بیٹا ہاتھ میں ریکٹ گھماتا ہوا آیا اور کہا:” ارے امی ! مجھے شام کو کلب جانا ہے۔میں شاید ڈنر میں شریک نہ ہو پاوٴں ۔ آپ ایک کرسی کم کروا دیں۔ بارہ کا ہندسہ تو منحوس نہیں ہے نا؟“کھانے کی میز سے ایک کرسی ہٹواتے ہوئے انھوں نے اطمینان کا سانس لیا ۔ اسی دوران پڑوس سے بیگم رفیق پرس گھماتی ہوئی تشریف لائیں اور کھانے کی میز کو آراستہ دیکھ کر انھوں نے تقریب کے بارے میں معلوم کیا تو بیگم اسرار نے تکلفاََ کہا ” ارے کیا آپ کا فون خراب ہے؟ میں صبح سے فون کر رہی ہوں آپ کو دعوت دینے کے لئے ۔بھلایہ کیسے ممکن ہے کہ کسی تقریب میں آپ کو مدعونہ کیا جائے۔“بیگم رفیق بے تکلفی سے بولیں” ارے کوئی بات نہیں۔ اتنے قریبی تعلقات میں رسمی دعوت نامے کی کیا اہمیت ہے ۔رفیق تو آج لاہور گئے ہیں لیکن میں ضرور آوٴں گی۔“بیگم رفیق کے جانے کے بعد بیگم اسرار غصے سے بال نوچنے لگیں۔ یعنی پھر کمبخت یہ 13کا ہندسہ۔ وہ جھنجلا کر اسرار صاحب سے مخاطب ہوئیں جو اطمینان سے اخبار پڑھ رہے تھے اور بیگم صاحب کی حالت پر مسکرا رہے تھے۔”ارے آپ آرام سے اخبار پڑھ رہے ہیں۔ اب کیا حل ہو گا اس مسئل کا۔“”بھئی میرا خیال ہے کہ علی اکبر ڈرائیور سے کہہ دینا کے شام کو وہ ذرا ڈھنگ کے کپڑے پہن کر آجائے۔ اس طرح چودہ لوگ ہو جائیں گے۔“بیگم کویہ مشورہ پسند نہیں آیا کہ ایک ملازم کو اپنے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھا یا جائے۔ پھر بھی، کیوں کہ مجبوری تھی۔اکبر علی کو کھانے کے آداب سمجھائے گئے اور تاکید کر دی کہ شام کو معقول کپڑے پہن کر آجائے۔ رحیم چاچانے تھکے تھکے قدموں سے چل کر ایک کرسی کا اضافہ کر دیا۔رات کو آٹھ بجے لوگ آنا شروع ہو گئے۔ کچھ ہی دیر بعد علی اکبر سرخ پھولوں والی چمک دار شیروانی پہنے آنکھوں میں کاجل لگائے تیل میں بھیگے بالوں کا چاند ماتھے پر بنائے تشریف لائے۔لان میں بیٹھے لوگوں کو جھک کر فرشی سلام کیا ۔ ان کو دیکھ کر بیگم اسرار کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ اس سے پہلے وہ لوگوں کے درمیان رونق افروز ہوتے اسرار صاحب نے ان کو خونخوار نظروں سے گھورا اور آنکھ کے اشارہ سے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ اب پھر 13 لوگ رہ گئے تھے۔ اب وقت نہیں تھا اس لئے مجبوراََ کھانا لگا دیا گیا۔کھانے کی میز کے اس چکر میں رحمت بابا اتنا اُلجھ گئے تھے کہ ان کو یاد ہی نہیں رہا اور انھوں نے بریانی میں نمک دو بارہ ڈال دیا۔کھانا شروع ہوا۔ بیگم اسرار نے شیخی بگھارتے ہوئے بریانی کی قاب مزارئیس بیگ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:”بھائی جان ! یہ نوش فرمائیں۔ فیصل آباد سے بطور خاص چاول منگوائے ہیں۔بکرا بھی گھر پر کٹوایا۔ صرف بریانی پر پانچ ہزار خرچ آیا ہے۔“امجد بھائی نے ابھی بریانی چکھی ہی تھی۔ بیگم اسرار کی بات سن کر مسکرا کر بولے :” بھابھی! درست فرما رہی ہیں۔ یقینا پانچ ہزار خرچ ہوئے ہوں گئے۔ دو ہزار کا تو نمک ہی پڑگیا ہو گا۔“یہ سن کر اسرار صاحب نے بریانی چکھی اور ان کا سرندامت سے جھک گیا۔ مہمانوں کے جانے کے بعد اسرار رحیم بابا پر برس پڑے جن کی وجہ سے سب کے سامنے ان کی سبکی ہوئی لیکن بیگم اسرار کو اب بھی یقین تھا کہ یہ سب 13 کے منحوس ہندسے کی وجہ سے ہوا۔ " سبق - تحریر نمبر 795,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sabaq-795.html,"جاوید اقبال:جنگل کے باہر تالاب کے کنارے سوکھی جھاڑیوں میں دو بطخیں نِر اور پمپل رہتی تھی۔ نِر کے پنکھ سفید تھے۔ جبکہ پمپل کے خاکستری ۔ نِر بہت سمجھ دار، عقل مند اور ذمے دار بطخ تھی جب کہ پمپل ایک بے پروا اور بے وقوف بطخ تھی۔ایک دن نِر نے سوچا ہمارا بھی ایک گھر ہونا چاہیے گھر کے نہ ہونے سے ہمیں کتنی مصیبتیں اُٹھانی پڑتی ہیں۔جب برسات ہوتی ہے تو ہم بارش میں بھیگ جاتی ہیں۔ جاڑوں میں سردی سے ٹھٹھرتی ہیں۔ گرمیوں میں ہمیں دھوپ جَلاتی ہے۔ ہر وقت بڑے جانوروں کے حملے کا خطرہ رہتا ہے۔ ہمارا گھر بن جائے گا تو ہم موسموں کی سختیوں اور جانوروں کے خطرے سے محفوظ ہو جائیں گے۔اس نے اپنا یہ خیال پمپل کو بتایا اور اس سے کہا: ”آپمپل ! گھر بنانے میں میرا ساتھ دو۔(جاری ہے)تم تنکے اور سوکھی جھاڑیاں مجھے پکڑاتی جانا میں انھیں جوڑتی جاوں گی۔یوں ہمارا خوب صورت سا گھر بن جائے گا۔“پمپل بولی:” نا بابا نا ، مجھ سے یہ کام نہیں ہوتا۔ تم گھر بنانے کا خیال چھوڑو، یہ بڑا مشکل کا م ہے۔ اس سے اچھا ہے ہم کسی بنے بنائے گھر پر قبضہ کرلیں۔ یوں ہینگ لگے گی نہ پھٹکری اور ہمیں گھر بھی مل جائے گا۔“نرِ نے کہا:” لویوں بھی کبھی ہوا ہے ۔کسی کا گھر بھلا ہمیں کیسے مل جائے گا۔“”ملے گا کیوں نہیں۔“ پمپل نے چہک کر کہا۔ ”کیتھی مرغی نے جنگل کی ڈھلان پر اتنا خوب صورت گھر بنایا ہے ہم اسے وہاں سے نکال کے اس کے گھر پر قبضہ کر لیں گے۔ نہیں تو ببلو خرگوش نے جو برگدکی کھو میں گھر بنایا ہوا ہے اس سے چھین لیں گے۔“نرِ نے کہا :” نہیں پمپل ! یہ اچھی بات نہیں کسی کی محنت سے بنائی ہوئی چیز پہ ہم قبضہ کیوں کریں۔اپنا گھر ہماری ضرورت ہے ہم خود اپنی محنت سے بنائیں گے۔“پمپل بولی:” تو پھر تم اکیلی گھر بنا لو، مجھے تو سخت بھوک لگی ہوئی ہے میں کچھ کھانے کے لئے جنگل جا رہی ہوں۔“وہ نر کو وہیں چھوڑ کے جنگل کی طرف چل پڑی۔ نِر حیرانی سے اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔ پمپل کے رویے سے اسے بہت دکھ ہوا تھا۔ پھر اس نے فیصلہ کیا کہ میں خود ہی ہمت کرتی ہوں۔ہو سوکھی جھاڑیوں اور تنکے اکھٹے کرنے لگی۔ وہ ایک تنکا اُٹھا کے لاتی اسے سلیقے سے جوڑتی پرھ ایک خشک جھاڑی لا کے اس سے تنکے کے ساتھ جوڑ دیتی۔ یوں ایک ایک تنکے سے گھر بننا شروع ہو گیا۔ نر شام تک اپنے کام میں لگی رہی۔ شام تک ایک خوب صورت گھر تو بن گیا مگر نر تھک کر چُور چُور ہو گئی۔ شام کو پمپل جنگ سے واپس آئی تو گھر تیار دیکھ کر حیران رہ گی۔وہ اس بنے بنائے گے میں حصے دار بن گئی ۔ نر نے اسے کچھ نہ کہا۔ وہ تھکی ہوئی تھی چپکے سے سو گی۔نِر کے اس اچھے رویے پر بھی پمپل نے اپنے طور طریقے نہ بدلے۔ وہ ویسے ہی بے پروااور بد سلیقہ رہی ۔ سارا دن وہ ادھر اُدھر پھرتی رہتی۔ شام کو تالاب کے کیچڑ میں لت پت گھر لوٹ آتی۔ کبھی جانوروں سے لڑ پڑتی۔ اپنے انڈے بھی سنبھال کے نہ رکھتی ۔ جنگل جاتی تو وہیں انڈا چھوڑ آتی۔کبھی تالاب کے کنارے انڈا دے دیتی اور کوے اس کے انڈے توڑ کے کھا جاتے۔ کبھی قصبے سے آنے والے لڑکے انڈے اُٹھا کر لے جاتے۔ نِر اگر اسے سمجھاتی تو وہ اس کی بات ایک کان سے سنتی دوسرے کان سے نکال دیتی۔دن یونہی گزرتے گے۔ ایک شام نِر اور پمپل تالاب کے کنارے اپنے پر سکھا رہی تھیں کہ اُوپر سے انھیں ایک چمکتی ہوئی چیز اپنی طرف آتی نظر آئی۔پمپل نے اسے دیکھ کر نِر سے کہا:” نِر ! وہ دیکھو ایک ستارہ زمین پر اتر رہا ہے۔ میں اسے پکڑ کر لاتی ہوں پھر ہم اسے اپنے گھر لے جائیں گئے۔ اس چمکتے ستارے سے ہمارا گھر رات کو بھی روشن رہا کرے گا۔“یہ کہہ کر اس چمکتی ہوئی چیز کے پیچھے بھاگی۔ نِر نے چِلا کر کہا:” رک جاوٴ پمپل ! یہ ستارا نہیں ہے بھلا کبھی ستارے بھی زمین پر اترے ہیں۔یہ توکوئی جگنو ہے۔“مگرپمپل نے اس کی بات نہ سنی اور نِر پکارتی رہ گئی۔یہ چمکتی ہوئی چیز جس کے پیچھے پمپل بھاگی تھی واقعی جگنو تھا۔ جگنو روشنی بکھیرتا جنگل کی طرف جا رہا تھا۔ پمپل چونچ کھولے اس کے پیچھے بھاگی چلی جا رہی تھی۔ جنگل میں پہنچ کر جگنو تو جھاڑیوں اور درختوں کی اوٹ میں نظروں سے اوجھل ہو گیا اور پمپل اندھیرے سے بھٹکتی رہ گئی۔کچھ دیر تو وہ جگنو کو ڈھونڈتی رہی پھر مایوس ہو کر واپس لوٹنے لگی تو راستہ بھول گئی۔ اتنے میں آسمان پر بادل گر جنے لگے اور پھر ٹپ ٹپ بوندیں گرنے لگیں۔ اب تو پمپل بہت گھبرائی۔ وہ پاگلوں کی طرح ادھر اُدھر بھاگنے لگی۔ بارش تیز ہو گئی۔ بارش کے پانی سے جگہ جگہ کیچڑ ہو گیا تھا۔ پمپل کے پاوٴں کیچڑ میں دھنسنے لگے ۔ اچانک بارش کی بوچھاڑ تیز ہوگی اور ہوا بھی تیزی سے چلنے گی۔اس قدر تیز طوفان نے سب کچھ اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ درختوں کی شاخیں ٹو ٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں۔ پمپل ہوا کے تیز جھونکوں سے کبھی ادھر گرتی کبھی اُدھر ۔ وہ اندھیرے میں بھٹکتی ہوئی دلدل میں جا پھنسی۔اِدھر نِر ساری رات ڈرتی رہی کہ کہیں پمپل بارش کے پانی میں بہہ کر جھیل میں نہ جا گرے یا دلدل میں نہ جا پھنسے۔ وہ دعائیں مانگتی رہی کہ خدا یا پمپل خیریت سے لوٹ آئے۔دعائیں مانگتے مانگتے اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح وہ اٹھی تو ہر طرف روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ بارش رک گئی تھی۔ وہ گھر سے نکلی اور پمپل کی تلاش میں چل پڑی۔ جگہ جگہ بارش کا پانی کھڑا تھا۔ وہ کیچڑ اور پانی میں چلتی ہوئی جھیل کی طرف جا نکلی ۔ نِر نے ہر طرف اسے ڈھونڈا مگر پمپل کا کچھ پتا نہ چلا۔ اس نے جھیل کے کنارے بڑے پتھروں کے پیچھے جھانکا جنگل کی ساری جھاڑیاں چھان ماریں مگر پمپل اسے کہیں نظر نہ آئی۔وہ ڈھونڈتی ڈھونڈتی دلدل کی طرف آنکلی۔ اچانک اس کی نظر کیچڑ میں کسی چمکتی ہوئی چیز پر پڑی جب وہ قریب گئی تو دیکھا پمپل کیچڑ میں گری پڑی تھی۔ اسے بے حِس و حرکت دیکھ کر پہلے تو نِر سمجھی کہ شاید پمپل مر گئی ہے مگر پھر سانس لینے سے اس کا پر ہلا تو نِر کی جان میں جان ائی ۔ اس نے اگے بڑھ کر پمپل کو سیدھا کیا اس کے پَروں سے کیچڑ صاف کی پھر کہیں پمپل نے آنکھ کھولی۔نِر کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگے۔ نِ اسے سہارا دے کر گھر لے آئی۔ گھر آکر پمپل بیمار ہو گئی۔ نِر اس کی تیمارداری کرتی رہی۔ ایک ہفتے بعد پمپل ٹھیک ہو گئی۔پمپل اب بہت بدل گئی ہے۔ نِر کی بات نہ مان کر اس نے جو تکلیف اُٹھائی تھی اس سے پمپل نے کافی سبق حاصل کیا۔ اب وہ نِر کی ہر بات مانتی ہے۔ جنگل میں اسے کوئی جانور ملتا ہے تو وہ اس سے کہتی ہے :”پیارے دوست ! ستارے زمین پر نہیں اترتے اور ستاروں سے قیمتی وہ دوست ہوتاہے جو مشکل وقت میں آپ کے کام آتا ہے۔“ " میری آپ بیتی - تحریر نمبر 793,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/meri-aapbeeti-793.html,"پیارے دوستو! میرا نام ہینی ہے۔ جب میں چھوٹی سی تھی تو ایک گاوٴں میں اپن ماما، پاپا اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ ہم وہاں بہت خوش تھے۔ ماما مرغی کے ساتھ ہم کھیتوں میں، گلیوں میں، آنگن میں بھاگتے دوڑتے رہتے۔ زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔لیکن دوستو؟ وقت سداکب ایک سا رہتا ہے۔ خوشی اور غم کا ساتھ ہمیشہ سے رہا ہے۔ جب میں اور میرے بہن بھائی بڑے ہوئے تو ہماری غریب مالکن نے ہمیں ایک شخص کے ہاتھ فروخت کر دیا۔اس شخص نے ہمیں شہر لے جاکر مرغی کا گوشت بیچنے والے کی دکان پر بیچ ڈالا۔ یہاں ہمیں ایک گندے سے دڑبے میں جہاں پہلے ہی بہت ساری مرغیاں قید تھیں بند کر دیا گیا۔ اس تنگ سے گندے دڑبے میں نہ ڈھنگ کے کھانے کو ملتا نہ پینے کو۔ وہاں ہمارا دم گھٹ رہا تھا۔(جاری ہے)سانس لینے تک کی جگہ نہ تھی وہاں جو طاقت ور تھے کم زوروں کو مار رہے تھے۔ کم زور کو نے کھدروں میں چھپ رہے تھے۔دکان پرکوئی گاہک آتا تو دکان کا مالک ہم میں سے کسی ایک کو پکڑ لیتا۔ پکڑا جانے والا چیختا چلاتا مگر دکان دار اسے ہماری نظروں کے سامنے بے دردی سے ذبخ کر ڈالتا۔ ہم بے بسی سے یہ سب دیکھتے رہتے۔ اس کا تڑپنا دیکھتے مگر کچھ نہ کر سکتے۔ آہستہ آہستہ میرے سارے ساتھی ذبخ ہو گئے۔ آخر میں اکیلی وہ گئی۔ میں ڈر رہی تھی۔ کیوں کہ اب میری باری تھی۔مجھے اپنی ماما، اپنے بہن بھائی اور سہیلیاں یاد آرہی تھیں۔ وہ کھیت کھلیان وہ آنگن جہاں میں ہنستی کھیلتی رہتی تھی۔ یاد آرہے تھے مگر میں بے بس تھی۔ پھر دکان میں ایک گاہک داخل ہوا۔ وہ نظروں ہی نظروں میں مجھے تول رہا تھا۔ اس نے دکان دار سے کچھ کہا۔ دکان دار اُٹھ کر میری طرف بڑھا میں ڈر کر ایک کونے میں دبک گئی ۔ دکان دار نے وَڑبے کا دروازہ کھول کر ہاتھ آگے بڑھایا۔میں چیخی چلائی مگر اس نے مجھے دبوچ لیا۔ پھر اس نے میرے پروں کو بے دردی سے موڑ کر اپنے پاوٴں کے نیچے رکھا۔ ایک ہاتھ سے میرا سر پکڑا اور ایک لمبی سی چھری میری گردن کاٹنے کی تیاری کرنے لگا۔ اُسی وقت ایک اور گاہک آن پہنچا۔ دکان دار اس سے باتوں میں مصروف ہوگیا۔ اس کی گرفت میرے پروں پر ڈھیلی پڑگئی۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور ایک جھٹکے سے خود کو اس کی گرفت سے آزاد کرالیااور چیختی چلاتی ایک طرف کو بھاگ نکلی۔دکان دار میرے پیچھے بھاگا، لیکن میں اُڑتی بھاگتی دکان دار کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ بھاگتے بھاگتے میں ایک پارک میں جا پہنچی اور جھاڑیوں میں خود کو چھپالیا ۔ میں کتنی ہی دیر وہاں چھپی رہی۔ پھر ایک بلی نے مجھے وہاں چھپے دیکھ لیا۔ وہ مجھے پکڑنے کیلئے لپکی میں اس سے اپنی جان بچانے کے لئے بھاگی۔ پارک میں بہت سے بچے کھیل رہے تھے۔ ان کی مجھ پر نظر پڑگئی۔انھوں نے بلی کو بھگا دیا اور ایک بچہ مجھے پکڑ کر اپنے گھر لے گیا۔دستو! وہ بچہ اور اس کے گھر والے بہت اچھے تھے۔ انھوں نے مجھے دانا کھلایا میرے لیے لکڑی کا چھوٹا سا گھر بنا دیا۔ میں بھی انھیں روزانہ ایک انڈا دیتی۔ پھر انھوں نے میرے بہت سارے انڈے اکھٹے کر لیے اور میں ان انڈوں پر بیٹھ گئی۔ اکیس بائیس دن بعد انڈوں سے چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے چوزے نکل آئے۔میں ان چوزوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ وہ لڑکا اور سب گھر والے بھی میرے ننھے منے بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔دوستو! اب میرے بچے گھر میں بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں۔ میں ان کی پیاری پیاری شرارتوں سے خوش ہوتی ہوں اور ان کا بہت خیال رکھتی ہوں کیوں کہ بلیاں اور چیل کوّے میرے ننھے بچو ں کے دشمن ہیں۔ اس وقت بھی ایک چیل اُڑتی ہوئی اس طرف آرہی ہے۔ مجے اس سے اپنے بچوں کی حفاظت کرنی ہے۔ اس لئے دوستو! خدا حافظ۔ " کتابیں ہماری دوست - تحریر نمبر 791,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/kitabain-hamari-dost-791.html,"کتابیں انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں۔ کتابیں ادبی ہوں یا علمی، تاریخی ہو ں یا سیاسی، اخلاقی ہوں یا معلوماتی وہ ہر وقت ہماری غم خوار اور زندہ دل ساتھی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ ہر وقت ہمارا خیر مقدم کرنے کے لئے تیار رہتی ہیں۔وہ ہماری وفادار دوست ہوتی ہیں جن پر ہم اعتماد اور بھروسا کرسکتے ہیں۔دنیا میں اس وقت بڑے بڑے کتاب خانے موجود ہیں جن میں لا تعداد علمی ، ادبی، تاریخی اور سائنسی کتابیں محفوظ ہیں۔ان کتابوں میں بھی بہت سی قدیم ہیں اور اب دوبارہ چھپ رہی ہیں۔ میں اپنے کتاب خانے میں بیٹھا ہوا کتابوں سے ہم کلام رہتا ہوں اور میرے پاس ان ہی مخلص دوستوں کا ہجوم رہتا ہے۔ بڑے بڑے مصنف اور بڑے بڑے عالم اور محقق اپنی شب وروز کی کاوشوں سے ان کتابوں کو ترتیب دیتے ہیں۔(جاری ہے)ہمیں ان لاثانی کتابوں سے ہم کلامی کا ہر وقت موقع مل سکتا ہے ۔ دنیا کی ترقی نے ہمیں ہر قسم کی کتابیں مہیا کر دی ہیں۔ہم جس زمانے کی سیر کرنا چاہیں اسی عہد کی کتابیوں کی ورق گردانی کرنے بیٹھ جائیں ہماری طبیعت سیر ہو جائے گی اور یہ معلوم ہوگا کہ واقعی ہم اسی زمانے کی سیر کر رہے ہیں۔ان کتابوں سے لطف اندوز ہونا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ جب ہم کسی مصنف کی محنتوں کا مطالعہ کر لیتے ہیں تو اس کے شریکِ حال ہو جاتے ہیں۔ ہمارے مستقبل کی تمام اُمیدیں ان ہی علمی ادبی شہ پاروں سے وابستہ ہو جاتی ہیں ان سے ہمیں ہر موضوع پر معلومات حاصل ہوتی ہیں اور ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ہم بھی ان مصنفین کی طرح عزت اور نام وری حاصل کریں۔عام طور سے کتابیں مذہبی ، تمدنی ،تاریخی ، نفسیاتی ، سائنسی اور عام معلوماتی موضوعات پر لکھی ہوتی ہیں۔ ان کے پڑھنے سے ہم زندگی کے مختلف عنوانات سے واقف ہوتے ہیں اور زندگی کے مسائل حل کرنے کی فکر ہمارے دل کو گدگدانا شروع کر دیتی ہے۔ ہم میں زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا ذہنی اُفق وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اور ہم رفتہ رفتہ ملک و قوم کی شیرازہ بندی میں مصروفِ دکھائی دیتے ہیں۔کتابیں کردار اور اخلاق کی اصلاح میں بھی اہم حصہ لیتی ہیں اور علمی نقطئہ نظر پیدا کرتی ہیں۔ ہماری علمی، مذہبی اور ادبی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہم ادبی مشاغل میں مصروف ہو کر اپنی ذہنی، جسمانی صلاحیتوں کا بہترین مصرف سیکھ جاتے ہیں۔ ہم اپنے تہذیبی ورثے کو سمجھ کر اس میں اور زیادہ اضافے پر مائل ہوتے ہیں۔ وقت کے تقاضوں کا احساس جاگ اُٹھتا ہے اور ہم ان کی تکمیل کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ کتاب ہماری زندگی کی ایک ایسی وفادار ساتھی ہے جوکسی حالت میں بھی دھوکا فریب نہیں دیتی بلکہ ہماری مونس اور غم خوار بن کر ہماری راہبری کرتی ہے۔ " ایک کہانی بڑی پُرانی - تحریر نمبر 783,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-kahani-bari-purani-783.html," " چوتھا سیب - تحریر نمبر 781,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/chottha-saib-781.html,"قائد اعظم ،گورنر جنرل ہاوٴس کے اخراجات کے متعلق بہت محتاط تھے۔ وہ کم سے کم خرچ کرنے پرزور دیتے تھے۔ ذاتی خرچ پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے۔ ان کا حکم تھا کہ کہ کھانے پرجتنے مہمان آئیں، پھل اسی تعداد میں پیش کئے جائیں۔ مثلاًاگر تین مہمان ہیں تو صرف تین ناشپاتیاں ہوں۔کشمیری رہنماوں میں غلام عباس صاحب قائداعظم کے بہت نزدیک تھے۔ایک دن وہ قائداعظم سے ملنے تشریف لائے۔ دوپہر کے کھانے پر قائداعظم ،محترمہ فاظمہ جناح اور غلام عباس تین لوگ موجود تھے ۔ کھانے کے بعد جب پھل لائے گئے تو وہ چار سیب تھے۔ غلام عباس صاحب چلے گئے تو قائداعظم نے اپنے ADC (ماتحت افسر) کو بلوایا اور پوچھا کہ کھانے پر صرف تین لوگ تھے تو چوتھا سیب کس کے لئے تھا؟نوجوان افسر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیوں کہ قائداعظم کا حکم تھا کہ جتنے لوگ کھانے پر ہوں ، اتنی ہی تعداد میں پھل ہونے چاہییں۔(جاری ہے)چوتھا سیب قائداعظم کے حکم کے خلاف تھا۔ افسرنے صرف اتنا ہی کہا:” سر! غلطی ہو گی۔“قائداعظم نے انتہائی نرمی سے کہا:” ایسی غلطی آئندہ نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ پاکستان جیسا غیرب ملک سرکاری اخراجات میں فضول خرچی برداشت نہیں کر سکتا۔“قائداعظم نے افسرکو معاف کر دیا۔ حکم یہی تھا کہ سرکاری خرچ کو کم سے کم رکھا جائے۔ قائداعظم کی زندگی میں کسی نے ایسی غلطی دوبارہ نہیں کی۔ قائداعظم جیسی خوبیوں والی شخصات ہی پاکستان جیسا ملک بنا سکتی ہیں۔ " ننھا سہارا - تحریر نمبر 780,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/nanha-sahara-780.html,"جدون ادیب:اس دن میں نے خود وک بہت کم زور محسوس کیا جب تنگ دستی کے باوجود میرے بیٹے نے مجھ سے اپنے ہفتہ وار جیب خرچ کا تقاضا کیا۔ پچھلا ہفتہ بہت خراب گزرا تھا۔ کارخانوں میں گیس کی بندش کی وجہ سے کام بندتھا۔ میرا کام بھی ٹھیکے کا تھا یعنی جتنا کام کرلیتا اتنی اُجرت مل جاتی۔ کوئی تنخواہ یا لگی بندھی آمدنی نہ تھی۔ اگر کام مستقل چل رہا ہو تو خرچ کے علاوہ بچت بھی ہو جاتی تھی۔میرا چھوٹا بیٹا تین سال کا تھا۔ ظاہر ہے وہ ان معاملات کو نہیں سمجھ سکتا مگر بڑا بیٹا پارس چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا اور دوسرے بچوں کے مقابلے میں ذہین اور سمجھ دار تھا۔ گھر کے حالات اس کے سامنے تھے۔ اس دن جب اس نے معمول کے مطابق اپنا ہفتہ وار خرچ مانگا تو مجھے حیرت ہوئی بلکہ دکھ ہوا کہ میرا سمجھ دار بیٹا گھر کے خراب حالات کو محسوس نہیں کر رہا۔(جاری ہے)میں جو یہ سوچا کرتا تھا کہ پارس بڑا ہو کر میرا دست وبازو بنے گا مگر سچی بات ہے اس دن مجھے لگا کہ میں اکیلا ہوں اور مرتے دم تک مجھے روزگار کے لئے جدوجہد کرنا پڑے گی۔ میں نے ٹھیکیدار سے دو دن پہلے ہزار روپے ایڈوانس لیے تھے۔ میں نے جیب سے سو کا نوٹ نکال کر پارس کی طرف بڑھایا تو اس نے ایک دم سے نوٹ لے لیا۔ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں اوروہ بولا:” پپا! زندہ باد۔مجھے پتا ہے آپ کے پاس پیسے کم ہیں لیکن جب بالکل نہیں ہوں گے تو میں آپ سے پیسے کبھی نہیں مانگوں گا۔“”جب تک ہیں لے لیا کرو۔“ میں نے بے دلی سے کہا۔اگلے دن اور مشکل میں گزرے ۔ٹھیکیدار خود مالی مشکلات کا شکار تھا اس لئے ایک دن وہ چپکے سے غائب ہو گیا۔ اس نے اپنا موبائل فون بھی بند کر دیا۔ میرے گھر میں نوبت فاقوں تک آن پہنچی۔میں اکیلا اس مشکل میں نہیں گھرا ہوتا تھا۔ مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کے چولہے ٹھنڈے ہو چکے تھے جو فیکٹریوں میں کام کر رہے تھے۔ سردیوں کا موسم تھا۔ گیس کا پریشر ہو چکا تھا۔ مزدور طبقہ سڑکوں پرنکل آیا۔ میں بھی اس احتجاج کا حصہ تھا۔ ہم اپنے حق کے لئے مظاہرے کرنے لگے۔ پھر ان مظاہروں میں تشدد ہوا پولیس نے جلوس کو روکنے کی کوشش کی۔ مظاہرین مشتعل ہوئے تو پولیس ان پر ٹوٹ پڑی۔مجھے اس کے بعد صرف اتنا یاد ہے کہ میرے سر پر ایک ڈنڈا پڑا ہے اور میں بے ہوش ہو کرسٹرک پر گر پڑا۔جب مجھے ہوش آیا تو میں اسپتال میں تھا۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں ایک مزدور اتحاد وجود میں آیا تھا۔ وہی لوگ میرا علاج کرو ا رہے تھے۔ میرے سر کا زخم بہت گہرا تھا۔ مجھے ہفتوں اسپتال میں رہنا تھا۔میں سوچتا تھا کہ گھر کے اخراجات کس طرح پورے ہو رہے ہوں گے۔ڈاکٹروں نے زیادہ ملاقاتوں اور با چیت پر پابندی لگا رکھی تھی اور گھر والوں کو منع کیا تھا کہ مجھے پریشان نہ کریں۔ شاید اسی لئے میری بیوی اپنی پریشانیوں کا ذکر مجھ سے نہیں کرتی تھی۔ جب تین مہینے بعد مجھے اسپتال سے فارغ کیا گیا تو میں ایک دوست کے ساتھ گھر آگیا۔ اپنے بیوی بچوں کو میں حیران کرنا چاہتا تھا۔جب میں گھر میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ میری بیوی گھر کے صحن میں سلائی مشین پر کام کر رہی ہے۔مجھے بہت حیرت ہوئی ۔ وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ مجھے ایک سلائی مشین دلوادیں میں بچوں کے کپڑے سی کر کچھ پسے کمالوں گی۔ مگر میں ہمیشہ منع کر دیتا تھا۔ کہ ایک تو اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ مشین خرید سکیں اور دوسرے یہ کہ مجھے یہ بات پسند نہ تھی۔ اب جب کہ ایک بات ہو چکی تھی تو مجھے اتنی محسوس نہ ہوئی مگر یہ ہوا کیسے ؟ یہ جانا ضروری تھا۔ میر اچانک آمد اور مکمل صحت یابی میرے گھر والوں کے لیے بہت خوشی کی خبر تھی۔باتیں اتنی تھیں کہ ختم ہی نہیں ہو پارہی تھیں۔ ایک دفعہ میں بیوی سے پوچھا بھی کہ یہ سلائی مشین کب اور کیسے لی مگر وہ ٹال گئی۔ را ت کو کھانے کے بعد میرا بیٹا پار س بے فکر نیند میں سو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی تھی۔ میں نے سوالیہ انداز میں بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ بولی:” آپ دیکھ رہے ہیں میرے بچے کو۔۔۔“”ہاں۔۔۔“ میں نے آہستگی سے کہا:” مجھے افسوس ہے کہ میں اپنی اولاد کی توقعات پوری نہ کر سکا۔یہ اپنے ہفتہ وار خرچے کے لئے تو تمہیں بہت تنگ کرتا ہوگا !“”نہیں!“ میری بیوی نے فخریہ لہجے میں کہا:”آپ کے زخمی ہو جانے کے بعد اس نے مجھے بالکل تنگ نہیں کیا بلکہ یہ اپنی عمر سے بڑا اور سمجھ دار نظر آنے لگا۔ آپ پوچھ رہے تھے نا کہ میں نے سلائی مشین کیسے لی! پیسے پارس نے دیے تھے۔“”پارس نے ؟“ میرے لہجے میں حیرت تھی۔”ہاں۔۔ آپ اسے جو جیب خرچ دیتے تھے وہ بالکل خرچ نہیں کرتا تھا اس نے دوسال تک ایک رپیہ خرچ نہیں کیا۔ عیدی کے پیسے بھی جمع کرتا رہا۔ آخر ایک دن اس نے جمع پونجی میرے سامنے ڈھیر کر دی۔ تب مجھے پتا چلا کہ ہمارا بچہ کتنا سمجھ دار ہے۔ وہ گھر کے حالات سے باخبر تھا اور چپکے چپکے کسی بُرے وقت کے لئے پیسے جمع کر رہا تھا۔“میر بیوی تفصیل سے بتائے جا رہی تھی اور میں ایک عجیب سی کیفیت کا شکار تھا۔میں سمجھتا تھا کہ پارس کو میرے حالات کا اندازہ نہیں ہے جب کہ درحقیقت وہ میرا دست وبازو بننا چاہتا تھا اور آخر اس نے اپنی عمر سے بڑھ کر اس بات کو ثابت کر دیا تھا۔بیوی نے مزید بتایا:” اس نے پارس کی جمع پونجی سے مشین لے لی۔ بازار سے کپڑوں کے ٹکڑے مل گئے جن سے اس نے بچوں کے کپڑے تیار کر کے فروخت کرنے شروع کر دیے اور اس سے گھر کی گزربسر بھی ہونے لگی ہے ۔ اب میں چاہتی ہوں کہ آپ میرے تیار کپڑوں کو ہفتہ وار بازار میں فروخت کیا کریں۔ مجھے اُمید ہے اللہ ہمیں اس کام میں بہت برکت دے گا۔“ میری بیوی نے فیصلہ سنا دیا۔میری آنکھوں میں آنسو جمع ہونے لگے۔ میں نے آہستگی سے اپنے بیٹے کے ماتھے پر پیار کیا۔ واقعی میرا بیٹا میرا سہارا بن چکا تھا۔ " علامہ اقبال‌سے وعدہ - تحریر نمبر 777,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/allama-se-wadda-777.html,"عبداللہ ادیب:اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ سر سلیم اسے ڈانٹ رہے تھے۔”آخر کب سمجھو گئے تم؟ اب تم کوئی بچے نہیں رہے آٹھویں جماعت میں پڑھ رہے ہو۔ میں تو تنگ آگیا ہوں تم سے۔ پڑھتے نہیں تو اسکول کس لئے آتے ہو؟“اس کا سرشرم سے جھکا ہوا تھا۔ سر سلیم نے پھر کہا:”چلو جاو یہاں سے۔ اگر آئندہ ٹیسٹ میں تمھارے نمبرکم آئے تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔سمجھے؟“پھر وہ تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہوا اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔”امجد! میں نے تمھیں کل ہی سمجھایا تھا کہ سبق یاد کرکے آنا، لیکن تم سنتے ہی نہیں۔ ڈانٹ پڑگئی نہ بھری کلاس میں !”خاور کی آواز اس کے دماغ پر ہتھوڑے بر سا رہی تھی۔اس نے غصے سے سر اُٹھا کر خاور کو دیکھا اور کہا:” یہ کوئی نئی بات نہیں۔(جاری ہے)ہر روز ڈانٹ کھانا میرے نصیب میں ہے۔“” اس میں غلطی تمھاری ہے ۔کیوں سبق یاد نہیں کرتے؟“” میں کوشش تو کرتا ہوں لیکن۔۔۔۔؟خاور نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا:” اگر تم کوشش اور محنت کرو تو ضرور کامیاب ہو گے۔“” میں اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کروں گا۔“ اس نے آہستہ سے کہا۔چھٹی کی گھنٹی کی آواز سنتے ہی وہ اُٹھا اپنا بیگ اُٹھایا اور چل پڑا۔گھر پہنچتے ہی اس نے بیگ سوفے پر رکھا اور پلنگ پر لیٹ گیا۔اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور امی کمرے میں داخل ہوئیں۔ انھوں نے پوچھا:” کیا بات ہے بیٹا! تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟“”امی ! سر میں درد ہو رہا ہے۔ آرام کرنا چاہتا ہوں۔ “ اس نے آہستہ سے کہا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ سو گیا۔اسے سوئے ہوئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔اس نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تویہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے سامنے علامہ اقبال کھڑے تھے ہمارے قومی شاعر!”ہاں میں !“ علامہ اقبال نے جواب دیا اور کہا:” میں ایک خاص مقصد کے لئے یہاں آیا ہوں۔ مجھے تم سے شکایت ہے۔ “ حکیم الامت کے منہ سے یہ الفاظ سن کر اس کا سر شرم سے جھکتا چلا گیا۔”مجھ سے آپ کو شکایت ہے؟“ اس نے سوالیہ نظروں سے علامہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔”ہاں مجھے تم سے شکایت ہے اور میں تمھیں سمجھانے کے لئے یہاں آیا ہوں۔“قومی شاعر نے کہا۔پھر مفکرِ پاکستان نے کہنا شروع کیا:” آج تک تم نے تعلیم کی قدر نہیں کی اور اس بات کا تم کو احساس بھی نہیں کہ تم کس مقصد کے لئے اسکول جاتے ہو۔ تم تو میرے شاہین ہو۔ میں نے تو تم سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں لیکن تو اپنی تعلیم پر توجہ نہیں کرتے۔ہمیشہ نقل کر کے پاس ہوتے ہو۔ تعلیم کی قدر ان سے پوچھو جو سارا سارا دن گاڑیوں کے نیچھے گُھسے رہتے ہیں جن کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے اوزار ہیں اور جو اسکول جانا چاہتے ہیں مگر نہیں جا سکتے۔ وہ مجبور ہو کر محنت مزدوری کرتے ہیں اور ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں۔تم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کتنی مشکل اور محنت کے بعد تمھارے والدین پیسے کماتے ہیں مگر تم نہ صرف ان کے محنت سے کمائے روپے ضائع کر رہے ہو بلکہ اپنا قیمتی وقت مزید ضائع کر کے اندھروں میں گُم ہو رہے ہو۔“”میں شرمندہ ہوں۔“ اس نے آہستہ سے کہا۔” میرے شاہین! تمہیں اپنا مقصد خود بنانا ہے۔ اونچا مقام حاصل کرنے کے لئے تمہیں کوشش اور محنت کرنی چاہیے۔“”میں اب محنت اور کوشش کروں گا۔ آپ نے میرے دل میں علم کی شمع روشن کی ہے میں اسے بجھنے نہیں دوں گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔“ اس کی آواز کمرے میں گونجی۔اچانک وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔” اوہ ! تو یہ سب خواب تھا۔“ اس نے خود سے کہا۔پھر اس نے نظر اُٹھا کر سامنے دیوار پر لگی ہوئی علامہ اقبال کی تصویر کو دیکھا اور ایک عزم سے کہا:” اے عظیم شاعر! آج سے میں اپنی پوری توجہ علم حاصل کرنے پر دوں گا اور ااونچا مقام حاصل کرنے کے لئے دن رات محنت کروں گا۔ آپ کو ہرگز مایوس نہ کروں گا بلکہ اقبال کا حقیقی شاہین بن کر دکھاوٴں گا۔“ " اپنی کلہاڑی، اپنا پاوٴں - تحریر نمبر 776,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/apni-kulhari-apna-paoon-776.html,"محمد طارق:حامد کے چلتے قدم رک گئے۔اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ اس نے چاروں طرف نظریں گھما کر دیکھا ۔ یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ اس کو کوئی دیکھ تو نہیں رہا جلدی سے ماسٹر حنیف کے گھر کے سامنے پڑے ہوئے ہزار روپے کے نوٹ کواُٹھا کر اپنی جیب میں ٹھونس لیا۔ ایک لمحے کے لئے اس کے ضمیر نے اسے جھنجوڑا:” بری بات ہے،یوں راستے میں پڑی ہوئی چیز کے مالک نہیں بن جاتے ، بلکہ مالک تک تو چیز پہنچا دیتے ہیں۔یقینا یہ ماسٹر حنیف کا نوٹ ہوگا۔ ان سے پوچھ لو اور ساتھ ہی آس پاس کے دو چار گھروں سے بھی معلوم کر لو جس کا ہو اس تک پہنچا دو ، بڑا ثواب ملے گا۔“گردن جھٹخ کر وہ اپنے آپ سے بولا:”واپس کیسے کردوں میں تو مزے اُڑاوٴں گا برگر، سموسے ، چاٹ، دہی بھلے اور بہت سی مزے مزے کی چیزیں کھاوں گا ۔(جاری ہے)آہا کتنا مزہ آئے گا۔ میں ان پیسوں سے اپنے دوستوں عابد، شاہد اور قاسم کی دعوت کروں گا۔ہم تینوں مرغی فرائی اور بریانی کے مزے اُڑائیں گے۔ آخر شاہد نے بھی تو دو مہینے پہلے ہماری دعوت کی تھی۔ کئی دنوں تک ہم تینوں اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے اور وہ تھا کہ خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔کتنا مزہ آئے گا جب تینوں دوست میرے بھی گُن گائیں گے ۔“ اس نے اپنے ذہن میں ایک منصوبہ بنا ڈالا۔اب اس کا رُخ اپنے دوستوں کے گھروں کی طرف تھا۔اس نے تینوں کو گھروں سے بُلا کر اِکھٹا کیا اور دعوت کی خو ش خبری سنا ڈالی۔”ارے چھوڑو، یہ منھ اور مسور کی دال“۔ عابد نے حامد کی بات پر یقین نہ کرتے ہوئے فقرہ کسا کیوں کہ اسے حام کی مالی حالت کا بخوبی علم تھا۔”ہاں۔یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا، کیوں کہ کیکر کے درخت پر بیر نہیں اُگا کرتے۔“ شاہد نے بھی عابد کی ہاں میں ہاں ملائی۔”یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا ۔ حامد اور دعوت وہ بھی مہنگے ہوٹل میں نہ بھئی نہ۔“ بھلا قاسم کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔”اچھا تمھیں میری بات پر یقین نہیں آرہا ، لویہ دیکھو،“ حامد نے جذباتی انداز میں جیب میں ہاتھ ڈالا اور ہزار روپے کا نوٹ نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ وہ وتینوں اُچھل پڑے اور ان کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ارے ، تم تو چھپے رستم نکلے، مارے خوشی کے قاسم چہک اُٹھا، پھر پوچھا یہ تو بتاکہ کہ ہزار روپے آئے کہاں سے؟“عید قریب ہے یقینا کسی رشتے دار نے عید سے پہلے عیدی دی ہوگی۔ حامد کے جواب دینے سے پہلے ہی عابد بول پڑا۔”ہمیں اس سے کیا کہ ہزار روپے کہاں سے آئے کیوں کہ ہمیں آم کھانے سے مطلب ہونا چاہیے پیڑ گننے سے نہیں۔ “ شاہدنے جواب دیتے ہوئے آنکھوں سے اشارہ کیا۔اس کے ساتھ ہی وہ تینوں اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اب ان کا رُخ شہر کے مشہور ہوٹل کی طرف تھاحامد نے کھانے کا آرڈر دیا۔ عابد شاہد اور قاسم نے اپنی آستینیں چڑھا لیں جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آج کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گئے۔ تھوڑی دیر بعد کھانا آگیا۔ مرغی فرائی اور بریانی سے خوب انصاف کرنے کے بعد وہ آئس کریم پر ٹوٹ پڑے۔ کھانے سے فارغ ہو کر جب حامد نے بِل بنوایا تو پورے نو سو روپے کا بل بنا ۔دوستوں کی فرمایش پر چار ٹھنڈی بوتلیں منگوا کر حساب کتاب برابر کر دیا۔حامد شام کو جب ڈکاریں لیتا ہوا گھر میں داخل ہوا تو اماں کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ چار پائی سر ہانے اماں غم سے نڈھال بیٹھی تھیں اور ان کی انکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔” خیر تو ہے اماں! کیا ہوا؟ وہ سچ مچ روہا نسا ہو گیا۔پہلے تو اماں اس کی اچانک امد سے حیران ہوئیں پھر خود کو سنبھال کر آنسو پونچھتے ہوئے بولیں:” بس بیٹا! کیا بتاوٴں، تجھے تو پتا ہی ہے گھر کے حالات کا عید بالکل قریب ہے بس چار ہی د ن باقی رہ گئے ہیں اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کہ تیرے لئے عید کے نئے کپڑے اور جوتے خریدلیں۔آج ہی میں نے تیرے ابا سے کہا کہ ہمارا ایک ہی بیٹا ہے۔ اس کے لئے تو نئے کپڑوں اور جوتوں کا بندوبست ضرور کریں۔ مہینے دو مہینے کیلئے کسی سے ادھار ہی لے لیں۔ تجھے تو پتا ہی ہے بیٹا تیرے ابا کو ادھار سے کتنی نفرت ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ آدمی اس سے دوسروں کی نظروں میں گر جاتا ہے او ساتھ ہی یہ بھی کہ اُدھار چکانے کے لئے پیسے کہاں سے لائیں گے جب کہ یہاں گھر کا خرچ ہی پورا نہیں ہوتا۔میرے بار بار کہنے پر وہ بڑی مشکل سے ماسٹر حنیف سے ہزار روپے ادھار لینے پر راضی ہوگئے۔ یہاں تک کہہ کر اماں تھوڑی دیر کے لئے رکیں اور ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے دوبارہ بولی : ”بیٹا! تیر ے ابانے ماسٹر حنیف سے ہزار روپے ادھار لیے تھے وہیں کہیں گر گئے کیوں کہ ان کی جیب پھٹی ہوئی تھی اور ان کو معلوم نہیں تھا۔ کہہ رہے تھے کہ ہزار کا بندھا ہوا نوٹ دیا تھاماسٹر حنیف نے ۔بعد میں وہاں جا کر بہت ڈھونڈا مگر روپے نہ ملے۔ بس بیٹے۔ اب ہم تیرے لئے عید کے نئے کپڑوں اور جوتوں کا بندوبست نہیں کر سکتے۔“اماں نے آخری جملہ بڑے دود بھرے لہجے میں کہا تھا جو حامد پر بجلی بن کر گرا ۔ اب اسے پتاچلا کہ جو ہزار روپے اس نے دوستوں کے ساتھ مل کر خرچ کیے تھے وہ اس کے اپنے ہی تھے یعنی اپنی کلہاڑی خود اپنے پاوٴں پر مارلی تھی یہ جان کر وہ پچھتانے لگا اور تصور ہی تصور میں اپنے آپ کو پرانے کپڑوں اور جوتوں میں عید کی نماز پڑھنے کے لئے جاتا ہوا دیکھنے لگا۔ " حَواری - تحریر نمبر 775,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/hawari-malomaat-hi-maloomaat-775.html,"حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان بارہ ساتھیوں کو حَواری کہا جاتا ہے جنھوں نے حضرت عیسٰی کی مدد کی وعدہ کیا تھا۔ اس کا ذکر قرآن مجید کی سورة النساء میں بھی ملتا ہے۔ حواری کے معنی ساتھی یا خالص سفید ی کے ہیں۔حضرت زبیر بن العوام کو حواری رسول کہا جاتا ہے۔ یہ نبی کریم کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت ابوبکر کے داماد تھے۔ انھوں نے جب اسلام قبول کیا تو ان کی عمر صرف سولہ سال تھی۔آپ عشرہ مشرہ بھی شامل ہیں۔ وہ کئی احادیث کے راوی ہیں۔پانی پت کے ہیرےقاضی ثناء اللہ پانی پتی بلندپایہ عالم دین تھے جنھوں نے عربی زبان میں سات جلدوں پر مشتمل تفسیرِ مظہری لکھی۔ ان کے استاد مرزا مظہر جان نے ایک مرتبہ ان کے بارے میں کہا تھا:” اگر اللہ تعالیٰ نے روزِ محشر پوچھا کہ ہماری بارگاہ میں کیا تحفہ لائے ہو تو میں عرض کرو ں گا کہ ثناء اللہ پانی پتی کو لایا ہوں۔(جاری ہے)اسی طرح کا ایک اور تاریخی جملہ سرسید احمد خاں کا ملتا ہے۔ انھوں نے بڑے اصرار اور محبت سے مولانا الطاف حسین حالی سے” مسدسِ مدو جزرِ اسلام“ لکھوائی ،جسے مسدسِ حالی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ایک بار سر سید احمد خاں نے کہا تھا کہ روزِ محشر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے سوال کیا کہ میرے لئے کیا لائے ہو تو میں کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا کر لایا ہوں۔اتفاق سے مولانا الطاف حسین حالی کا بھی تعلق ہندوستان سے مشہور علاقے پانی پت سے تھا جہاں ماضی میں کئی جنگیں برپا ہو چکی ہیں۔تختِ سلیمان اور تختِ طاوٴسیہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا وہ تخت ہے جسے ہوا اُڑا کر لے جاتی تھی۔ اسی نام سے ایک پہاڑ سری نگر میں ہے جسے تخت سلیمان کہا جاتا ہے۔ سری نگر مقبوضہ کشمیر کا علاقہ ہے۔اسی طرح تخت طاوٴس بھی مشہور ہے جسے مغل بادشاہ شاہجہاں نے خطیر رقم خرچ کر کے بنوایا تھا۔ بعد میں اسے نادر شاہ ہندستان سے ایران لے گیا۔اَحد، اُحدعربی زبان کا لفظ ” اَحد“ ہے (زبر کے ساتھ) جس کے معنی ایک کے ہیں۔ یہ اللہ تعالی کی صفت ہے کہ وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اگر اس کو پیش کے ساتھ ”اُحد“ پڑھا جائے تو یہ مدینے میں مشہور پہاڑ کا نام ہے جہاں نبی کریم نے کفار کے ساتھ جنگ کی تھی۔ اسی پہاڑ کے بالکل سامنے ایک چھوٹی پہاڑی ہے جسے جبل رماة کہتے ہیں۔ اسی کے قریب نبی کریم کے چہیتے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور جنگِ اُحد کے دوسرے شہدا دفن ہیں۔ " کھڑکی کے پار - تحریر نمبر 774,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/khirki-k-paar-774.html,"بینش جمیل:دو بہت ہی بیمار آدمی اسپتال کے ایک ہی کمرے میں زیر علاج تھے۔ وہ دونوں اس قدر علیل تھے کہ بستر سے اٹھ کر بیٹھ بھی نہیں سکتے ہیں۔ صرف ایک شخص کو ایک گھنٹے کے لئے اپنے بستر سے اٹھ کر بیٹھنے کی اجازت تھی اور اس شخص کا بستر ان کے کمرے کی واحد کھڑکی عین سامنے تھا جبکہ دوسرا شخص اپنے بستر سے بالکل بھی اٹھ نہیں سکتا تھا وہ چوبیس گھنٹے اسی بستر پر لیٹا رہتا۔وہ دنوں ایک دوسرے سے زندگی کے گزرے لمحات اپنے خاندان اور ملازمت کی باتیں کرتے رہتے اور اپنے احساسات ایک دوسرے سے بانٹتے رہتے ۔ روزانہ جب وہ پہر کے بعد کھڑکی کے سامنے والے آدمی کے اٹھ کر بیٹھنے کا وقت ہوتا تو وہ اس ایک گھنٹے میں اپنے ساتھی کو کھڑکی کے باہر کے تمام مناظر بتایا کرتا تھا ۔(جاری ہے)دوسرا آدمی اپنی اس دن کی زندگی اسی ایک گھنٹے میں جی لیتا تھا جب ا س کی بے رنگ زندگی میں باہر کی دنیا کے رنگ شامل ہو جاتے تھے۔جب اس کا ساتھی اسے بتاتا کہ باہر بہت خوب صورت جھیل ہے۔ راج ہنس اور بطخیں اس جھیل میں کھیل رہے ہیں۔ بچے پانی میں اپنی اپنی کشتیاں چلا رہے ہیں ۔فضا خوشیاں بکھیرتی نظر آ رہی ہے۔ جھیل کے چاروں طرف محبتیں ہی محبتیں ہیں ۔ پھولوں کے رنگ بالکل قوسِ قزح کی طرح زمین پر بکھرے ہوئے ہیں۔ہر ے بھرے درخت ان کو دیکھ کر خوشی سے جھوم رہے ہیں اور اس طرح وہ اپنے ساتھ کو تمام مناظر تفصیلاََ بتاتا جاتا اور دوسرا شخص آنکھیں بندکئے ہر چیز کا تصور کرتا جاتا۔اسی طرح ایک شام کھڑکی جانب والا شخص اپنے ساتھی کو کھڑکی کے باہر کے مناظر تفصیلاََ بیان کر رہا تھا کہ دوسرا شخص اپنی آنکھیں بند کیے ہر چیز کا تصور کر رہا تھا ۔ بند آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک شیطانی خیال نے اسے بھڑکایا۔ اس کے اندر حسد نے سر اٹھایا اور اس نے سوچا کہ صرف یہی شخص تمام مناظر کیوں دیکھے اور ان سے لطف اندوز ہو؟ ان مناظر پر میرا بھی حق ہے اگر میں کھڑکی کی جانب ہوتا تو خود ان تمام مناظر سے براہِ راست لطف اندوز ہو سکتا تھا۔یہ ٹھیک نہیں کہ تمام خوشی اسی کو ملے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا حسد رفتہ رفتہ غصے میں بدلنے لگا۔ اس کا دل اپنے ساتھی سے متنفر ہونے لگا اور وہ سوچنے لگا کہ کھڑکی والی جانب اُسے ہونا چاہیے۔ ان خیالات نے اس کے اندر بے چینی کی ایک لہر پیدا کر دی اس کی نیند اُڑ گئی اور وہ سوچنے لگا کہ کس طرح کھڑکی والی جگہ حاصل کر سکتا ہے۔انھی خیالات میں گم ایک رات وہ چھت کو گھور رہا تھا کہ کھڑکی کی جانب والے شخص کو اچانک کھانسی شروع ہوگئی۔کھانسی کی دورہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی سانس اکھڑنے لگی۔ اس میں اتنی ہمت نہیں ہو پار ہی تھی کہ وہ ایمرجنسی کا بٹن دبا دیتا ۔ حسد اور غصے سے بھرا شخص اپنے ساتھی کی موت کے منھ میں جاتا دیکھتا رہا اور اس کی کوئی مدد نہ کی یہاں تک کہ اس کی کھانسی رک گئی اور پورے کمرے میں گہرے خاموشی چھاگئی موت کی خاموشی۔اگلی صبح جب نرس کمرے میں آئی تو کھڑکی والے شخص کو مردہ پایا۔جب اگلے روز اس شخص کی میت کو کمرے سے لے جایا جا چکا تو کمرے میں رہ جانے والے اکیلے آدمی نے نرس سے اپنا پلنگ کھڑکی کی جانب گانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ نر س نے اس کی اس خواہش کو بخوشی قبول کر لیا اور اس کا بستر کھڑکی کی جانب منتقل کروا دیا گیا۔جب کمرا صاف ستھرا کر دیا گیا تو وہ اکیلا شخص بہت خوش ہوا کہ اب میں خود تمام مناظر سے لطف اٹھا سکوں گا۔تھوڑی دیر بعد اس نے بہت ہمت کر کے اپنی کہنی کا سہارا لے کر تھوڑا سا سر اٹھا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے کی کوشش کی کہ اب خود ان تمام مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے گا۔ باہر کی دنیا کے رنگ دیکھ سکے گا۔ جھیل اور بچے دیکھ سکے گا اور خوشیاں اور محبتیں سب کچھ خود محسوس کر سکے گا۔لیکن جب اس نے انتہائی تکلیف سے سر اٹھاکر کھڑکی سے باہر دیکھا تو وہاں اسے ایک بڑی سی دیوار کے سواکچھ نظر نہیں آیا۔اُس دیوار کو دیکھ کر وہ حیرت اور غم سے ساکن ہو گیالیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔یہی حال ہماری زندگی کا ہے۔ دیکھنے میں سامنے والا بہت خوش اور مطمئن نظر آرہا ہوتا ہے۔ مگر خوشیاں صرف آپ کے اپنے انتخاب کا نتیجہ ہوتی ہیں۔حالات کیسے بھی ہوں ،اگر آپ چاہیں گے تو خوشی آپ کی ہوگی، اگر آپ خود ہی خوش اور مطمئن رہنا نہیں چاہتے تو آپ کبھی زندگی میں اسے پا نہیں سکتے۔خوشی اور اطماینت آپ کے دروازے پر دستک دے کر نہیں آتی بلکہ یہ صرف ہمارا اپنا رویہ ہوتاہے۔ جو لوگ انتظار کرتے ہیں کہ ان کو خوشی ملے گی تو وہ ان کی زندگی میں کبھی نہیں آئے گی۔ خوشی اور اطمینان آپکے اندر ہوتا ہے اور اگر آپ کا رویہ مثبت ہے تو آپ کے ہر جانب سکون اور اطمینان ہوگا۔ اور خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔ " سو برس کی نانی - تحریر نمبر 771,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/100-bars-ki-naani-771.html,"اُمِ عادل:”اللہ میاں بارش دے بارش دے۔ بارش نہیں تو سو برس کی نانی دے۔“بچپن، نا سمجھی اور نادانی کادور ہوتاہے ۔ نہایت کم سنی میں لہک لہک کر گایا گیا یہ شعر یقینا سننے والوں کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ بارش کے ساتھ سو برس کی نانی کا کیا جوڑ بنتا ہے، مگر آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ کیسے بنتا ہے۔ ہمارے بچپن میں معمولی سی پھوار بھی پڑتی یا کالی گھٹائیں چھاتیں تو ہم نادان بچے جھوم جھوم کر یہ بے ربط شعر گا گا کر نہ صرف گھر، بلکہ پورا محلہ سر پر اٹھالیتے۔ایک ایسے ہی حسین موسم میں جب بادل گھٹا بن کر برسنے کو تیار تھے۔ مین اپنی امی جان کے ساتھ خالہ جان کے گھر سے واپس آرہی تھی کہ اچانک بارش شروع ہوگئی۔ جیسے ہی ہم بس سے اُترے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔(جاری ہے)بارش اتنی زور دار تھی کہ راستہ چلنا مشکل ہوگیا۔ابھی ہم اپنے گھر سے دو گلیاں دور تھے کہ ایک گھر کی کھڑکی میں کھڑی ایک خاتون نے ہمیں آواز دے کر کہا: ”بارش بہت تیز ہے۔بارش کے تھمنے تک آپ اندر آجائیے۔“ خاتون نے ہمارا جواب سنے بغیر جھٹ دروازہ کھول دیا۔امی جان نے بھی یہی مناساب سمجھا اور خاتون خانہ کی دعوت قبول کرتے ہوئے گھر کے اندر چلی گئیں۔ خاتون ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھانا چاہتی تھیں، مگر گیلے کپڑوں کی وجہ سے امی جان نے انکار کرتے ہوئے برآمدے میں بچھی چارپائی پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ ہماری آوازیں سن کر اندر سے ایک نہایت عمر رسیدہ، مگر چاق چوبند بوڑھی خاتون بھی برآمدے میں آگئیں۔دروازہ کھولنے والی خاتون نے اپنا نام خالدہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ میری والدہ ہیں۔ میں ان کی واحد اولاد ہوں، یہ میرے ساتھ، بلکہ میں انکے ساتھ رہتی ہوں۔ یہ انہی کا گھر ہے، میرے تین بچوں کی نانی ہیں، جن کی وجہ سے علاقے کی نانی کہلاتی ہیں۔ پچھلے برس میں شوہر کا انتقال ہوگیا۔ میں ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر ہوں۔ ہم تو اس علاقے میں عرصہ دراز سے رہتے ہیں اور میری والدہ علاقے کے بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتی ہیں۔اپنی خوشی سے کوئی جتنا دے دے، وہ قبول کرلیتی ہیں۔ انہوں نے کوئی فیس مقرر نہیں کررکھی۔ انہی کی وجہ سے کافی دور دور تک ہماری جان پہچان ہے۔ اپنا او راپنی والدہ کا تعارف کر کے انہوں نے امی سے پوچھا: ”آپ کو اس علاقے میں پہلی بار دیکھا ہے۔ کیا آپ کسی کے گھر مہمان آئی ہیں؟“”نہیں ہم دراصل پچھلے ہی مہینے دو گلیاں آگے کرائے کے گھر میں شفٹ ہوئے ہیں، اس لیے زیادہ لوگوں سے جان پہچان نہیں، مگر آپ سے اور نانی اماں سے ملک کر بہت خوشی ہورہی ہے۔میری دو بچیاں ہیں۔ اس نئے علاقے میں آنے اور اسکول میں داخلے کے بعد میں ان کی قرآنی تعلیم کی طرف سے فکر مند تھی، مگر آپ سے اور نانی سے ملک کر لگتا ہے کہ اللہ کے فضل سے یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا ہے۔ نانی اماں کس وقت بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ اگر ان کی اجازت ہو تو کل سے میری دونوں بچیاں نانی اماں سے قرآن پاک پڑھنے آجایا کریں؟“ امی جان نے تفصیل سے جواب دے کر پوچھا۔”ہاں ہاں، کیوں نہیں، ہمارے دروازے تو پورے اہل محلہ کیلئے کھلے ہیں۔ آپ کل دوپہر کے بعد تین بچے تک بچیوں کو بھیج دیں۔“ آنٹی خالدہ چائے بھی بنا لائیں اور نہایت آرار اور اخلاص سے ہمیں چائے پلائی۔بادل جم کر برسنے کے بعد تھم چکے تھے۔ امی نے رخصت کی اجازت چاہی۔ دوسرے دن تین بجے امی جان مجھے اور باجی آمنہ کو لے کر کانی کے گھر آئیں، جہاں پہلے ہی بہت سارے بچوں کو نانی اماں پڑھانے میں مصروف تھیں۔امی نے کچھ رقم نانی اماں کی مٹھی میں دبائی اور ہمیں نانی اماں کے پاس چھوڑ کر خدا حافظ کہہ کر گھر چلی گئیں۔نانی اماں کے پاس پڑھائی کے دوران ہمیں اندازہ ہوا کہ نانی اماں نہایت شفیق، محبت کرنے والی خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اصول پرست، وقت کی پابند اور پڑھائی کے معاملے میں ایک سخت گیر استاد ہیں۔ پڑھائی اور پابندی وقت کے معاملے میں وہ ذراسی بھی چھوٹ نہیں دیتی تھیں۔یہ سچ ہے کہ وقت کی پابندی میں نے نانی اماں ہی سے سیکھی ہے۔ نانی اماں برآمدے میں بیٹھ کر بچوں کو پڑھاتیں۔ برآمدے میں کچھ کیاریاں تھیں، جن میں نانی امان نے خوبصورت پھول دار پودے اور سبزیاں اُگارکھی تھیں، جن کے قریب جانے اور چھونے کی ہم بچوں کو بالکل اجازت نہیں تھی۔نانی کو اپنے پھولوں اور پودوں سے اتنی محبت تھی کہ ان کا ایک پتا بھی ٹوٹنے پر وہ تڑپ اُٹھتی تھیں۔ایسے میں گلی میں ہر وقت کرکٹ کھیلنے والے لڑکوں کی گیند جب ہم بچوں پر یا پودوں میں آکر گرتی تو نانی سخت جلال میں آجاتیں۔ ان کا اصول تھا کہ آنے اولی گیند ہر گز واپس نہ کرتیں، بلکہ اسے اٹھا کر ایک پرانے بکس میں ڈال دیتیں اور دروازے پر جا کر ان لڑکوں کو اپنی کڑک دار آواز میں ڈانٹتے ہوئے کھیل کو د اور آوارہ گردی چھوڑ کر پڑھائی میں دل لگانے کی نصیحت کرتیں، مگر ان لڑکوں پر کچھ اثر نہ ہوتا۔وہ اپنی نہ ملنے والی گیند کو روپیٹ کر نئی گیند لینے چل دیتے، پھی اگرلی بار وہ گیند بھی نانی کے گھر آنے کے جرم میں بکس میں ہمیشہ کیلئے قید کردی جاتی۔نانی اماں اس بڑھاپے میں بھی اپنے کام خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتیں۔ وہ اپنے کپڑوں کی دھلائی اور مرمت بھی خود ہی کرتیں، سوئی میں دھاگا ہم بچیوں سے ڈلواتیں۔ ایک مرتبہ ہم نے آنتی خالدہ سے پوچھا کہ نانی اماں کی عمر کتنی ہے؟ اس دن نانی اماں کی طبیعت خراب تھی، اس لئے وہ اپنے کمرے میں سو رہی تھیں۔آنٹی خالدہ نے بتایا خیر سے اماں کی عمر ایک کم سو سال یعنی ننانوے برس ہوگئی ہے۔ اگلے برس ان شاء اللہ پورے سو برس کی ہوجائیں گی۔ ہمیں اپنا پھر وہی شعر یاد آنے لگا: ”اللہ میاں بارش دے، بارش دے۔ بارش نہیں تو سو برس کی نانی دے۔“آنٹی نے بتایا سب محلے والوں نے نانی کی عمر سو سال پورے ہونے پر ایک جشن کا پروگرام بنایا ہے، تم سب بھی آنا، بہت مزا آئے گا۔وقت اپنی رفتار سے گزرا اور نانی اماں سے صحت مندی کے ساتھ اپنی عمر کی سنچری مکمل کرلی۔ محلے والوں نے محلے کے بیچوں بیچ بڑا سا اسٹیج بنایا اور پروگرام میں محلے کے ہر گھر نے مالی تعاون کیا۔ اسٹیج کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا۔ بہت بڑا کیک بنوایا گیا۔ پورے محلے کے مردوں، عورتوں اور بچوں ن ے بھرپور شرکت کی۔ نانی اماں اور ان کے گھر والوں دے صد سالہ جشن کے موقع پر سب نے مبارک باد دی۔ہر کوئی اپنے ساتھ نانی اماں کیلئے مختلف تحفے لایا۔ پورا اسٹیج تحفوں سے بھر گیا۔سب نے مل کر نانی اماں کی درازی عمر اور صحت کے گیت گائے۔ نانی اماں سب محلے والوں کو جھولی بھر بھر کر دعائیں دے رہی تھی۔ پورا محلہ امن، محبت، یکجہتی کا دل کش منظر پیش کررہا تھا۔ سب خوش تھے۔ کوئی کسی سے ناراض نہ تھا۔ سب کے کھانے کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔جیسے ہی سب کھانے سے فارغ ہوئے، اچانک بادل جھوم کے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چھم چھم برسنا شروع کردیا۔ ایسے میں بے اختیار میرے لبوں پر وہی شعر ”اللہ میں بارش دے، بارش دے۔ سو برس کی نانی دے، نای دے“ آگیا بس پھر کیا تھا، ادھر بادل جھوم رہے تھے۔ ادھر تمام محلے کے چھوٹے بڑے ہمارے ساتھ جھوم جھوم کرگارہے تھے ”اللہ میاں بارش دے بارش دے۔سو برس کی نانی دے ، نانی دے۔“آج ہمارا بچپن کا بے ربط شعر حقیقت بن گیا۔ بارانِ رحمت بھی تھی اور ہم سے کے پاس سو برس کی نانی بھی تھیں۔ ہم سب بچے لہک لہک کر گانے کے ساتھ بھاگ بھاگ کر نانی اماں کو ملنے والے تحائف ان کے گھر پہنچارہے تھے۔ موجودہ دور کی کشیدہ صورت حال میں اب بچپن کی یادوں ک ے خوب صورت اور قیمتی لمحات انمول خزانے سے کم نہیں۔ " آخرت کی تکلیف - تحریر نمبر 767,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/akhirat-ki-takleef-767.html,"فرخ شہباز وڑائچعید کی آمد آمد تھی۔دونوں صاجزادیاں اپنے شفیق باپ کے پاس آئیں اور بولیں”ابا حضور عید کا دن قریب آرہا ہے ہمارے پاس پہننے کے لیے کوئی نیا جوڑا نہیں ہے۔ہمارے پاس جتنے کپڑے ہیں وہ سب خراب اور پیوند زدہ ہیں۔اس عید پر ہمیں بھی نئے کپڑے بنوادیں۔تاکہ ہم بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ عید خوشی سے منا سکیں“ باپ نے بیٹیوں کی بات سنی ایک لمحے کے لیے سر جھکا لیا۔چاروں طرف خاموشی پھیل گئی تھی۔مہربان باپ دیر تک سرجھکائے کچھ سوچتا رہا پھر اپنی بچیوں سے مخاطب ہوا”میری بچیو! جو کپڑے تم نے پہن رکھے ہیں ۔انھیں دھو لو اور عید کے روز یہی کپڑے پہن لینا۔”نہیں ،بابا جان ہمیں نئے کپڑے بنوا کر دیں۔عید پر سب نئے کپڑے پہنتے ہیں“ ۔دونوں صاجزادیوں کا اصرار بڑھ گیا تھا۔(جاری ہے)وہ باپ جس نے کبھی اپنی پیاری اولاد کی کوئی بات رد نہ کی تھی،شفقت بھرے لہجے میں بولا”میری شہزادیو! عید کا دن اللہ کی عبادت کرنے اور اس کی دی گئی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا دن ہے۔اس دن نئے کپڑے پہننا فرض تو نہیں“۔لیکن صاجزادیاں تھیں کہ ضد کیے جا رہی تھیں۔جب دونوں کی ضد اور اصرار حد سے بڑ ھ گیااور باپ نے کوئی جواب نہ دیا تو،صاجزادیوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔صاجزادیاں روتے ہوئے باپ سے لپٹ گئیں۔باپ تو پھر باپ تھا آخر کہاں تک برداشت کرتا۔۔۔باپ بھی کون وقت کا خلیفہ جی ہاں امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزجن کی امارت کی گواہی مدینے کی گلیاں دیا کرتی تھیں۔جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے گورنر بنائے گئے، تو اس وقت ان کا ذاتی سازوسامان اس قدر وسیع اور عظیم تھا کہ صرف اسی سے پورے تیس اونٹ لادکر مدینہ منورہ بھیجے گئے، جسم اس قدر تروتازہ تھا کہ ازار بند پیٹ کے پٹوں میں غائب ہوجاتا تھا، خوبصورت لباسِ وعطریات کے بے حد شوقین تھے، نفاست پسندی کا یہ عالم تھا کہ جس کپڑے کو دوسرے لوگ آپ کے جسم پر ایک دفعہ دیکھ لیتے تھے دوبارہ نہیں دیکھتے تھے، خوشبو کے لیے مشک اور عنبر استعمال کرتے تھے، کہنے والوں نے کہا”کہ ہماری سلطنت میں سب سے زیادہ خوش لباس، معطر اور خوش خرام شخص عمر بن عبدالعزیز تھے “آپ جس طرف سے گزرتے تھے گلیاں اور بازار خوشبو میں نہاجاتے؛ لیکن جس دن خلیفہ اسلام بنائے گئے، آپ نے ساری جاگیریں اصل مالکوں کو واپس کردیں اور فرش، لباس، عطریات، سازوسامان، محلات، لونڈی وغلام اور سواریاں سب بیچ دیے،اور قیمت بیت المال میں داخل کردی، آپ کے پاس صرف ایک جوڑا رہتاتھا جب وہ میلا ہوتا، اسی کو دھوکرپہن لیتے تھے۔خلیفہ وقت اپنی صاجزادیوں کے آنسو برداشت نہ کر پائے،دل بھر آیا۔بیت المال کے نگران کو بلاوا بھیجا گیا۔خلیفہ کہنے لگے”مجھے ایک ماہ کی پیشگی تنخواہ چاہیے“نگران نے عرض کیا ”کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ پیشگی تنخواہ وصول کر لینے کے بعد ایک ماہ تک زندہ رہیں گے“۔نگران کی بات سن کر خاموش ہوگئے اور پھر اپنی پیاری بیٹیوں سے مخاطب ہوئے”اللہ اور اس کے رسول ﷺکی خاطر اپنی خواہشات کو قربان کر دو۔کیونکہ ایسے لوگوں سے اللہ راضی ہوتا ہے۔بے شک ایسے لوگ ہی جنت کے مستحق ہیں“۔اس طرح یہ بات ختم ہوگئی اور آپ ریاست کے امور دیکھنے چلے گئے۔حکومتی معاملات سے فارغ ہو کرواپس تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ کی دونوں شہزادیوں نے منہ پر سختی سے ہاتھ جما رکھے ہیں۔آپ کے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آج گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔اس لیے دونوں نے کچے پیاز کھاکر اپنی پیاز مٹائی ہے۔پیاز کی بو چھپانے کے لیے ہاتھ منہ پر رکھے ہوئے ہیں۔شفیق باپ کو بچیوں کا ایثار تڑپائے بغیر نہ رہ سکا۔آنکھیں تم آلود ہو گئیں،فرمایا”میں خلیفہ وقت ہوں میرے لئے یہ کام مشکل نہیں کہ تمہارا دسترخوان لذیذ کھانوں سے بھر دوں۔مگر کیا تم پسند کرو گی کہ ان دنیاوی نعمتوں کے بدلے میں تمہاراباپ دوزخ میں ڈال دیا جائے“۔یہ الفاظ سن کر شہزادیوں کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔لیکن ! ان کا ایک ایک آنسو پکار رہا تھاکہ نہیں۔۔۔نہیں۔۔ہمیں وہ راحتیں نہیں چاہئیں جن کے بدلے ہمارا باپ آخرت کی تکلیف میں مبتلا ہو“۔تو کہیںآ پ بھی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے والدین کو آخرت کی تکلیف کی طرف تو نہیں لے کر جارہے۔۔۔۔؟ " "تبدیلی ۔۔۔۔ ایک خوشگوار تبدیلی جسے سب نے محسوس کیا تھا۔۔۔۔ - تحریر نمبر 766",https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/tabdeeli-766.html,"یہ جون کی تپتی دوپہر تھی ۔ سورج اپنے جوبن پر تھا۔ حمزہ کا حلق جیسے سوکھ گیاتھا۔ بھوک سے اس کی ہمت جواب دے رہی تھی ۔ ایسے میں حمزہ کو یاد آیا کہ فریج میں کولڈ ڈرنک اور کچھ کھانے کی چیزیں موجود ہیں۔ آج تو میرا روزہ ہے وہ بھی پہلا۔نہیں میں ایسانہیں کرسکتا۔ ہاں توکیا ہوا ویسے بھی یہاں کون دیکھ رہاہے ؟ لفظ گڈ مڈ ہونے لگے تھے …ہاں …ہاں …نہیں …اللّٰہ جی تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔دادی اماں اپنے کمرے میں عبادت کررہی ہیں۔ امی اور ابو ویسے گھر پر نہیں ہیں۔ فاریہ ابھی بہت چھوٹی ہے اس کو کیا پتا …اپنی چھوٹی بہن کا خیال آتے ہی حمزہ سوچ میں پڑ گیا ۔ فاریہ کو کیا پتا روزہ کیاہوتاہے ۔ اب حمزہ کے دل ودماغ ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ رہے تھے ۔ فریج کا دروازہ آدھا کھلا ہواتھا۔(جاری ہے)فریج میں جو قسم قسم کے مشروبات اور لذیذ آم صاف نظر آ رہے تھے ۔یہ ٹھنڈے مشروب سوکھے حلق کو سیراب کرسکتے تھے۔ اللّٰہ جی ناراض ہوں گے ۔ آخر اللّٰہ جی کی ناراضگی کے خوف کا خیال غالب آنے لگاتھا۔حمزہ نے فریج کا دروازہ بند کیا۔ اب حمزہ اپنے کمرے میں آگیاتھا۔ ابھی تک حمزہ بھوک اور پیاس کی وجہ سے شدید تکلیف میں تھا۔ اپنی توجہ ہٹانے کے لیے اس نے ٹی وی ریموٹ پکڑا اور چینل تبدیل کرنے لگا ۔ ایک چینل پر جیسے اس کی انگلیاں ریموٹ پر جم گئی تھیں۔یہ چینل صومالیہ پر رپورٹ دکھا رہاتھا۔ جس میں صومالیہ کے بچوں کو جب اناج کاایک پیکٹ دیا جاتا تو سب اس پر جھپٹ پڑتے ۔ یہ پیکٹ ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے پھینکے جارہے تھے۔ حمزہ کو یاد آگیاکہ ایک دن جب اس نے پیزا آرڈر کیاتھاتو پیزا لے کر آنے والا لڑکا غلطی سے دوسرا پیزا لے آیا تھا۔ حمزہ نے اس لڑکے کو برا بھلا کہاتھا ، پیزا لے کر اس لڑکے کے سامنے پھینک دیاتھا۔حمزہ کی آنکھوں کے سامنے ایک منظر گھومنے لگا۔ جس میں اس نے کیفے ٹیریا سے فروٹ چاٹ لی۔ اسے جب یہ پسند نہ آئی تو اس نے اپنی امارت کا رعب جھاڑتے ہوئے کیفے کے چھوٹے کوبلا کر ساری فروٹ چاٹ اس کے سامنے ضائع کردی تھی ۔ حمزہ کے ماتھے پر نمی آگئی تھی ۔ جیسے کسی برے خواب نے اس کی آنکھیں کھول دی ہوں ۔ حمزہ نے گاڑی کی چابی پکڑی اور رضوان کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔رضوان اور حمزہ کلاس فیلو بھی تھے ۔ رضوان کا گھر کچھ زیادہ دور نہیں تھا۔وہ جب بھی فارغ ہوتا رضوان کے گھر چلا جاتا تھا۔ حمزہ جب رضوان کے گھر پہنچا ۔ گھر کے لان میں سفید داڑھی والے باباجی کام کررہے تھے۔ بابا جی رضوان گھر پر ہے ؟ ”نہیں صاحب جی گھر پر تو کوئی نہیں۔ “ چلیں ٹھیک ہے۔ حمزہ واپسی کے لیے مڑا ہی تھاکہ کیا دیکھتاہے کہ بابا جی کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔یہ بابا جی عرصہ دراز سے رضوان کے گھر مالی تھے۔ رضوان کے گھر کے پودوں کی دیکھ بھال کرتے تھے ۔ حمزہ نے کبھی بھی کام کرنے والوں میں کوئی دلچسپی نہ لی تھی ۔ با با جی کیا آپ نے روزہ رکھاہے ؟ حمزہ نے کانپتے ہاتھوں سے پودوں کو درست کرتے بابا جی سے سوال کیا “ جی بیٹا جی الحمدللّٰہ روزہ سے ہوں۔ بابا جی آپ روزہ کے ساتھ سخت محنت کرتے ہیں ۔ آپ کو بھوک اور پیاس نہیں لگتی؟ بیٹا لگتی توہے لیکن جس اللّٰہ کے لیے میں یہ تکلیف برداشت کرتاہوں۔وہ اب پروردگار صبر بھی دیتاہے۔ بیٹا اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”روزہ خاص میرے لیے ہے اس کا اجر بھی میں دوں گا۔ “ میرا رب جس کام کا اجر دینے کا خود کہہ رہاتو بیٹا میں دنیا کے کاموں کے لیے وہ کیوں چھوڑ دوں ۔ “ اچھا باباجی اب میں چلتاہوں ۔ حمزہ گھر پہنچا اس کے امی اور ابو بھی آچکے تھے۔ ابو جی میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتاہوں۔جی میرے لال ، حمزہ کے ابو نے پیار بھرے لہجے میں بیٹے کو جواب دیا ۔ ابو اگر ہمارا پیٹ تھوڑے سے کھانے سے بھر سکتا، تو ہم کیوں مختلف قسم کے کھانے بناتے ہیں۔ کیا مطلب ؟ میں کچھ سمجھا نہیں بیٹا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ … ابو جی میرا مطلب ہے ہمارے گھر میں روز وافر مقدار میں کئی قسم کے کھانے پکتے ہیں جبکہ ہم سب تو اس سب میں تھوڑا سا کھاتے ہیں باقی ضائع ہوجاتاہے ۔کیا ایسا نہیں ہوسکتاکہ ہم اپنی خوشیوں میں لوگوں کو شامل کرلیں۔ اس طرح سے کھانا بھی ضائع نہیں ہوگا ۔ اللّٰہ جی ثواب بھی دیں گے ۔ باورچی ٹیبل پر افطاری کا سامان لگانا شروع کر چکا تھا۔ آج سیٹھ خاور اپنے بیٹے حمزہ کی باتیں سن کر خوش ہو رہے تھے ۔ہاں کیوں نہیں بیٹا !اچھا مسلمان تو وہی ہے جو اپنے دوسرے بھائیوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرے۔آج ایک معصوم بچے نے پھر سے سیٹھ خاور کو بیدار کر دیا تھا۔سیٹھ خاور اور ان کابیٹا ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑے ہوئے ۔ نہر کناے اس وسیع کوٹھی کے لان میں چٹائیاں بچھائی جانے لگیں ۔ کوٹھی کے تمام نوکر اور سیٹھ خاور اکٹھے بیٹھ کر روزہ کے ہونے کے لیے انتظار کرنے لگے ۔کچھ لمحوں بعد قریبی مسجد سے روزہ افطارکی دعا کی آواز آنے لگی ۔ ہاتھ دعا کے لیے آسمان کی طرف بلند ہونے لگے۔ آج حمزہ کی آنکھوں میں نمی بھی تھی ۔ مگر یہ تبدیلی کی نمی تھی ۔ جو سیٹھ خاور نے بھی محسوس کی تھی ۔ " ایک چیل کی کہانی - تحریر نمبر 765,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/aik-cheel-ki-kahani-765.html,"ڈاکٹر جمیل جالبی:بچو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلا رہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔ جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔ چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک، پھرتیلے اور تیز اڑان ہیں۔ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہوسکیں۔چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔ آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی:”بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پروں والا پرندہ ہوں۔(جاری ہے)تم بھی آسمان پر اڑسکتے ہو۔ میں بھی آسمان پر اڑ سکتی ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔ میں طاقت ور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔ میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں، تم نہیں کرسکتے۔میں بلی کو حملہ کر کے زخمی کرسکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کرسکتے۔ تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں، تاکہ تم ہنسی خوشی، آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔ آازدی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔ میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔بھائیو! اور بہنو! میں طلم کے خلاف ہوں۔انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔ دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کرسکو۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لو گے اور مجھے ہی حقوق اور پور ااختیار دے دو گے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذے داری ہوگی۔ تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرم رہو گے۔ اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہوگی۔چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیار محبت سے ان باتوں کوطرح طرح سے دہرانی۔رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کر کے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔ چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی، حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔ جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔بچو! پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلا ڈر کر بھاگ گیا۔ چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔اسی طرح کچھ وقت اور گزرگیا۔کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔ وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔ایک صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔ وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی: ”بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری حکمران ہوں۔ تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔ یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔ میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟ میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کرسکتی ہوں؟ یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھاجاؤں، بلکہ یہ میرے ساے شاہی خاندان کا حق ہے۔آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس دن اگر اس بڑے سے بلے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کردیتا۔یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔ سارے کبوتر منھ دیکھتے رہ گئے۔اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دوچ کر لے جاتے۔اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ ان کی آزادی ختم ہوگئی۔ وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے: ”ہماری بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔ آخر ہم نے چل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایاتھا؟ اب کیا ہوسکتا ہے؟ " شیر کا احسان - تحریر نمبر 763,https://www.urdupoint.com/kids/detail/moral-stories/sheer-ka-ehsaan-763.html,"شیر کا احسانابن سراج:پرانے زمانے میں شہر سو کوسوں دور ایک گاؤں میں سیلاب آگیا۔ ہزاروں لوگ پانی میں بہہ گئے۔ لاتعداد گھر تباہ و برباد ہوگئے اور سینکڑوں لوگ پانی میں ڈوبنے سے بچ تو گئے مگر اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ بچاتھا۔گاؤں میں ایک غریب کسان تھا۔ ایک سنار سے اس اچھی کی دوستی تھی۔ اس نے سنار کو تلاش کیا تو اتفاق سے اس کا گھر اور سب گھر والے سلامت تھے۔کسان اپنی بیوہ کے ساتھ جب اپنے دوست سنار کے پاس پہنچا تو وہ بھی اپنی پرویشانی بیان کرنے لگا: ”بھائی! میرا گھر تو چلو سیلاب سے بچ گیا، مگر دکان سیلاب سے برباد ہوگئی اور تمام مال اور زیورات بھی سیلاب کی نظر ہوگئے۔“”پھر کیا کریں؟“ کسان نے سنار سے سوال کیا۔”میرا خیال ہے کہ شہر چلتے ہیں۔(جاری ہے)وہاں جاکر ضرور کہیں نہ کہیں نوکری یا مزدوری مل جائے گی۔راستہ بہت طویل ہے او ہمارے پاس کوئی سواری بھی نہیں ہے۔“”راستے میں جنگل بھی آتے ہیں۔“ کسان نے خیال پیش کرتے ہوئے کہا۔”تو کیا ہو ہمت کرو، اللہ مالک ہیہ۔ یہاں تو کوئی ہماری مدد کیلئے بھی نہیں آئے گا۔ بادشاہ کو کیا پتا کہ ہم پر کیا مصیبت آکر گزر گئی ہے۔“سنار کے خیالات سے کسان کو بہت حوصلہ ملا۔ اس کی بیوی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا: ”بھائی سنار! ٹھیک ہی تو کہتے ہیں۔بادشاہ تک اپنے حالات اور مصیبت کی خبر دینی چاہیے۔“”ٹھیک ہے تو کل صبح یہاں سے روانہ ہوں گے۔ “ سنار نے مشورہ دیتے وہئے کہا: ”ہم دونوں کے بیوی بچے گاؤں میں ہی رہیں گے۔ دوسرے گاؤں سے میرا بھائی کھانے پینے کا سامان لے کر آنے والا ہے، تم اس کی فکر نہ کرو۔“”ہاں ہاں سنار بھائی! مشورہ تو تم نے ٹھیک ہی دیا ہے۔“آخر دونوں نے ضرورت کا کچھ سامان ساتھ لیا اور شہر کی طرف چل پڑے۔چلتے چلتے شام ہوجاتی تو کسی محفوظ درخت پر چڑھ جر آرام کرلیتے، پھر جب دن نکل آتا تو سفر شروع کردیتے۔ چلتے چلتے آخر کھانے پینے کا سامان بھی ختم ہوگیا۔ سنار کو بخار نے آگھیرا اور وہ بے چارہ چلنے سے بھی معذور ہوگیا۔ آخر کسان نے اسے درختوں کی آڑ میں محفوظ جگہ پر لٹا دیا۔ چاروں طرف آگ روشن کردی ، تاکہ کوئی موذی جانور یا درندہ قریب نہ آسکے اور خود گرتا پڑتا جنگلی پھل وغیرہ تلاش کرنے چل دیا۔کچھ دور چلا تھا کہ راستے میں اسے ایک شیر ملا، جو درد کی تکلیف سے بے حال ہوئے جارہا تھا۔ شیر کو دیکھ کر کسان کو تھرتھری سی لگ گئی، مگر شیر پھر بھی نہ اٹھ سکا، بلکہ کسان سے کہنے لگا: ”اے بھائی! میں تجھے کچھ نہ کہوں گا، تو میری مدد کردے، اللہ تیرا بھلا کرے گا۔“کسان نے شیر کو انسان کی زبان میں بات کرتے دیکھا تو اور بھی ڈرگیا۔شیر نے کہا: ” اے بھائی! مجھ دے نہ ڈر۔ میں نے اللہ سے دعا مانگی ہے کہ مجھے بات کرنے کیلئے کچھ دیر کیلئے زبان دے دے۔“کسان کے اندر ہمت پیدا ہوئی۔ اس نے قریب جا کر پوچھا: ”اب بتا تیری کیا مدد کروں؟“”بھائی! میرے پچھلے پاؤں میں بہت بڑا کانٹا گھس گیا ہے۔ اس کی تکلیف سے مرا جاتا ہوں، تجھے خدا کا واسطہ یہ کانٹا نکال کر میری جان بچالے، ورنہ کوئی شکاری ادھر آگیا تو میر کمزوری سے فائدہ اٹھا کر مجھے قید کرلے گا۔“کسان نے خدشہ ظاہر کیا: ”کانٹا تو نکال دوں گا مگر کیا بھروسہ کہ تو مجھے کھانہ جائے؟“شیر نے عاجزی سے کہا: ”وعدہ کرتا ہوں کہ میں تجھے ہر گز کوئی نقصان نہ پہنچاؤں گا، بھلا کوئی اپنے محسن کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ ایسا تو تم انسانوں میں ہوتا ہے۔“کسان نے ہمت کی اور آگے بڑھ کر شیر کے پاؤں کے اندر تک گھسا ہوا کانٹا نکال دیا۔زخم کو صاف کرکے اوپر رومال پھاڑ کر پٹی باندھ دی۔شیر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ” اے نیک انسان! تیری اس نیکی کا میں کیا بدلہ دوں گا۔ آچل میرے ساتھ چل۔“کسان شیر کے ساتھ چل پڑا کسان نے شیر سے کہا: ”اے شیر بھائی! میرا ایک اور ساتھی بھی کچھ دور جنگل میں بیمار پڑا ہوا ہے اور کمزوری کی وجہ سے اس سے چلا بھی نہیں جارہا ہے۔ پہلے مجھے کچھ کھانے کیلئے جنگلی پھل وغیرہ کا درخت بتادے تو مہربانی ہوگی۔شیر نے کہا: ”اے نیک انسان! تیرا دوست بھی میرا دوست ہے۔ سن ابھی کچھ دنوں پہلے دو شکاری اس جنگل میں مجھے شکار کرنے آئے تھے۔ میں نے اور میری شیرنی نے موقع پا کر ان دونوں پر حملہ کر انہیں ہلاک کردیا تھا۔ ان کے ساتھ کھانے پینے کا سامان تھا۔ وہ محفوظ ہے۔ آپہلے ادھر چل اور وہ سامان تو اٹھا کر لے جا اور پھر میں تجھے ایک ایسی نایاب بوٹی کا پودا دکھاؤں گا چاہے کیسا ہی بیمار ہو ا سکی پتیاں پیس کر مریض کو پلادیں۔ان شاء اللہ ایک دو دن میں بالکل تندرست اور توانا ہوجائے گا۔ ہم جانور بھی بیمار ہوجاتے ہیں تو اکثر یہی بوٹی تلاش کر کے کھالیتے ہیں۔ پھر شیر نے ایک درخت کے نیچے کھانے پینے کے سامان کی طرف لے جا کر کہا: ”اے نیک آدمی! یہ سامان اٹھالے۔“کسان کھانے پینے کا سامان کپڑے میں باندھ کر کاندھے پر اٹھا کر شیر کے ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دور جا کر شیر نے چھوٹے چھوٹے پودوں کی طرف پنجے سے اشارے کرتے ہوئے کسان سے کہا: ”یہ ہے وہ پودا جو ہر بیماری میں اللہ کے کم سے شفا دیتا ہے۔غریب آدمی نے جلدی جلدی کچھ پودے تو ڑ کر سامان میں رکھ لیے۔شیر نے مشورہ دیا: ”یہ بوٹی تم اپنے دوست کو کسی پتھر سے کچل کر پانی سے کھلا دینا، انشاء اللہ کچھ ہی دیر میں تندرست ہوجائے گا۔“کسان نے شیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ”اے اچھے شیر! تیرا بہت بہت شکریہ۔ اب مجھے اجازت چاہیے۔ میرا دوست میرا انتظار کررہا ہوگا۔“شیر نے کہا: ”اے بھائی! اتنی جلدی نہ کر مجھے کچھ اور بھی خدمت کرنے دے۔کافی دنوں پہلے ایک شہزادہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں شکار کھیلنے آیا تھا۔ مگر چیتے اور ریچھ نے ان پر اچانک حملہ کردیا تھا۔ کچھ جان بچا کر بھاگ نکلے، مگر شہزادہ اور اس کا ایک ساتھی مارے گئے تھے۔ شہزادے کے گلے میں موتیوں کے ہار تھے۔ چیتا اور ریچھ ان کی لاشوں کو کھارہے تھے کہ اچانک میرا ادھر سے گزر ہوگیا۔ میں جو زور سے دہاڑا تو وہ ڈر کر بھاگ گئے۔یہ ہیرے موتیوں کے ہار میں لے آیا اور اپنے غار می ایک جگہ چھپا دیے تھے۔ یہ تم لے جاؤ اور بادشاہ کو دے دینا۔ شاید بادشاہ اور ملکی شہزادے کے غم میں روتے ہوں گے۔ شیر کسان کو غار کے اندر لے گیا اور پنجے مار کر ایک جگہ گھاس میں چھپے ہوئے ہار کسان کو دکھاتے ہوئے کہا: ” اسے تم لے جاؤ، جو چاہو کرلینا، مگر اچھا ہو کہ بادشاہ کو پنا دو تاکہ تمہیں اس سے زیادہ انعام ملے۔“کسان نے شیر کا شکریہ ادا کیا۔ شیر نے کہا: ” جاؤ خدا حافظ ہمیشہ نیک رہنا اور نیکی کرتے رہنا۔ “ کسان شیر سے رخصت ہو کر اپنے ٹھکانے پر آگیا۔ سنار کو اٹھا کر اسے بوٹی کچل کرپلادی۔ کچھ دیر میں سنار کا بخار ختم ہوگیا اور وہ بھلا چنگا نظر آنے لگا۔ کسان نے اسے جب تمام حالات بتائے اور شہزادے کے قیمتی جواہر کے ہار دکھائے تو سنار کے دل میں لالچ پیدا ہوگیا او جواہرات چرانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔کھانے پینے کا ذخیرہ مل چکا تھا۔ لہٰذا دونوں پھر شہر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں آتا ہوا قافلہ مل گیا او وہ بھی قافلے میں شامل ہوکر چل پڑے۔شہر کے پاس ایک مسافر خانے میں یہ دونوں ٹھہر گئے۔ سنار کے دل میں لالچ تھا۔ جیسے ہی موقع ملا وہ جواہرات چرا کر بھاگ نکلا اور گھر کی راہ لی۔ادھر ملکہ بیٹے کے غم میں بیمار ہو کر موت او زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھی۔بادشاہ کا اعلان تھا کہ جو کوئی ملکہ کا علاج کر کے اسے اچھا کرے گا، اسے آدھی سلطنت انعام دی جائے گی۔ ملکہ روز بروزموت کی طرف جارہی تھی۔ بڑے بڑے مشہور طبیب آرہے تھے، مگر کسی سے شفا نہیں ہورہی تھی۔ کسان بادشاہ کے محل پہنچ گیا اور سپاہیوں سے آنے کا مقصد بیان کیا تو وہ اسے بادشاہ کے پاس لے گئے۔بادشاہ نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا: ”اے شخص! یہاں کئی ملکوں کے معالج آئے ہیں تم تو طبیب بھی نہیں لگتے، کہو پھر کیسے علاج کروگے؟ ہم پہلے ہی شہزادے کی جدائی کے غم میں مبتلا ہیں۔کسان نے کہا: ”اللہ آپ کو اور ملکہ کو سلامت رکھے۔ بادشاہ سلامت! مایوس کویں ہوتے ہیں۔ آپ مجھے ملکہ عالیہ کے پاس لے چلیں۔ ان شاء اللہ پہلی ہی خوراک سے ملکہ عالیہ تندرست ہونے لگیں گی۔“”اچھا یہ بات ہے تو آؤ میرے ساتھ۔“بادشاہ ملکہ کے پاس کسان کو لے کر آگیا۔ کسان نے جیب سے بوٹی نکال کر اسے پانی میں گھول کر جیسے ہی پلایا، ملکہ کے ہاتھ پاؤں میں جنبش ہونا شو ہوگئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔دوسرے دن وہ بات چیت کرنے کے قابل ہوگئی۔ تما کادم، کنیزیں اور خودبادشاہ بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ شام تک ملکہ جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہوگئی۔بادشاہ نے غریب اور نادار عوام کیلئے خزانے کے منھ کھول دیے۔ کسان کو آدھی سلطنت دینے کا بھی اعلان کردیا گیا۔کسان نے بادشاہ سے کہا: ”عالی جاہ! شہزادہ شکار کے دوران مارا گیا تھا۔پھر اس نے شروع سے لے کر آخر تک سارے حالات کا بادشاہ سے خر کرتے ہوئے سنار ک بدعہدی اور دھوکے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سنار شہزادے کے قیمتی ہار چرا کر فرار ہوگیا ہے۔ گاؤں میں سیلا ب اور اس سے ہونے الی تباہیوں سے ابدشاہ کو آگاہ کرتے ہوئے اس سے مدد کرنے کی اپیل بھی کی۔بادشاہ کو سنار کی دھوکے بازی پر سخت غصہ آیا۔ اس نے فوراََ سپاہیوں کا ایک دستہ روانہ کرتے ہوئے سنار کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کردیا اور گاؤں والوں کیلئے امدادی سامان اور مدد کیلئے کارندے علاحدہ روانہ کردیے۔سنار کو اس کے گھر سے گرفتار کر کے سرقلم کردیا گیا۔بادشاہ نے اعلان کرتے ہوئے غصے سے کہا: ”چوروں، لٹیروں کیلئے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔“بادشاہ نے کسان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے آدھی سلطنت دینے کی خواہش کی تو کسان نے کہا: ”بادشاہ سلامت! آپ اور آپ کی حکومت کو اللہ سلامت رکھے، آپ کی ضرورت آپ کے ملک کو ہے۔“بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہا اور اسے اپنا بیٹا بناکر بعد میں وزیراعظم بنادیا۔ "