url,heading,content https://www.bbc.com/urdu/articles/c0j41lp3lleo,پاکستان میں عام انتخابات کے لیے آٹھ فروری 2024 کی تاریخ کا اعلان,"الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدرِ پاکستان سے مشاورت کے بعد ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آٹھ فروری 2024 کو منعقد کروانے کا اعلان کیا ہے اور ادارے کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں عام انتخابات منعقد کرانے کے لیے تمام ضروری تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے دو نومبر کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ 'چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سرابرہی میں کمیشن کے ارکان نے صدر پاکستان سے الیکشن کی تاریخ کے سلسلے میں ملاقات کی جس میں متفقہ طور عام انتخابات کے لیے آٹھ فروری کی تاریخ طے کی گئی۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن کے وکیل نے سپریم کورٹ میں عام انتخابات کے لیے 11 فروری کی تاریخ دی تھی جس پر عدالت نے انتخابات کی مجوزہ تاریخ پر صدر عارف علوی سے فوری مشاورت کر کے حتمی تاریخ طے کرنے کا حکم دیا تھا۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اس معاملے کی سماعت کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ جس تاریخ کا اعلان کیا جائے گا، عدالت اس میں توسیع کی کوئی درخواست قبول نہیں کرے گی۔ پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ تو بالاخر سامنے آ گئی ہے لیکن الیکشن کی تاریخ سے جڑے آئینی سوالات کے جواب ملنا اب تک باقی ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں سنہ 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور اس کی پانچ سال کی مقررہ مدت 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے مکمل ہونا تھی۔ تاہم اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے مقررہ مدت سے قبل ہی نو اگست کو اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔ آئین کے تحت عام انتخابات اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن بعد ہونا تھے تاہم سابقہ حکومت کی جانب سے مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کا انعقاد التوا کا شکار ہوا۔ ایسے میں ’الیکشن کب ہوں گے‘ کا سوال پاکستان میں اہم ہوتا چلا گیا۔ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر 2023 کو شائع کر دی جائے گی اور ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات و تجاویز کی سماعت کے بعد حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع کی جائے گی۔‘ واضح رہے کہ رواں سال تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اب تک ان دونوں صوبوں میں بھی انتخابات نہیں ہو سکے اور اب یہ انتخابات بھی دیگر صوبوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ ہی منعقد ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 52 میں قومی اسمبلی کی مدت کے حوالے سے بتایا گیا ہے۔ اس میں درج ہے کے قومی اسمبلی کی مدت پانچ برس ہے۔ یہ مدت کسی حکومت کی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی ہے جس کا آغاز ہر پانچ سال بعد الیکشن کے باعث ہوتا ہے اور اگر اسے مدت سے پہلے تحلیل نہ کر دیا جائے تو یہ مدت پوری ہونے پر خودبخود تحلیل ہو جاتی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل (1) 224 کے تحت اگر اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں تو اس کے بعد 90 دن میں الیکشن کروانے لازم ہیں۔ آئینی ماہر اور پاکستان میں الیکشن کی نگرانی کرنے والے غیرسرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ترجمان مدثر رضوی نے اسمبلیاں تحلیل ہونے سے قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’اگر اسمبلیاں آئین کی بتائی گئی مدت پوری کر رہی ہیں تو اس دن کے بعد 60 دن کے اندر اندر الیکشن ہو جانے چاہییں اور اگر اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کر دیا جاتا ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن ہوں گے۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’مثال کے طور پر اگر یکم جولائی کو اسمبلی کی مدت ختم ہو رہی ہے اور وہ 29 جون کو تحلیل ہو جاتی ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن کروانا ہوں گے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’پرانی انتخابات کمیٹیوں میں بھی یہ بات زیر بحث آئی تھی کہ 60 دن اور 90 دن شاید انتخابات کی تیاری کے لیے ناکافی ہیں ایک یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ 120 دن کی مدت رکھنی چاہیے لیکن اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔‘ مدثر رضوی کہتے ہیں کہ ’شاید اس پر دوبارہ غور کرنا چاہیے کہ الیکشن کروانے میں کتنا وقت چاہیے ہوتا ہے کیونکہ جتنا بڑا ہمارا ملک ہے یہاں ایک الیکشن نہیں ہوتا ایک دن میں ’قومی اور صوبائی حلقے ملا کر 800 یا 850 الیکشن ہوتے ہیں جس کے لیے تقریباً 10 لاکھ کے قریب عملہ چاہیے ہوتا ہے۔‘ اس التوا کی سرکاری وجہ سابقہ حکومت کی جانب سے نئی مردم شماری کی منظوری بتائی گئی تھی جو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں دی گئی۔ اس منظوری کے بعد سابقہ حکومت کا مؤقف تھا کہ الیکشن کمیشن کو ملکی آبادی کے تازہ تخمینے کی بنیاد پر انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی کرنی ہوگی۔ اس وقت وزیراعظم شہباز شریف نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے حکومتی مؤقف کو غلط قرار دیا۔ اس وقت تحریک انصاف رہنما حماد اظہر نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’میں بھی سی سی آئی کا رکن رہا ہوں اور یہ معاملہ پہلے بھی اس کونسل کے سامنے آیا جس میں وزیر قانون نے بتایا تھا کہ مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن میں التوا نہیں ہو سکتا۔‘ حماد اظہر کا موقف تھا کہ ’جس طرح نگران وزرائے اعلی کو بٹھا کر مردم شماری کی منظوری دی گئی، اس طرح تو کوئی بھی حکومت آخری چار پانچ دنوں میں سی سی آئی کا اجلاس بلائے گی اور کہے گی کہ نئی مردم شماری ہو گی اور الیکشن آگے کروا دے گی۔‘ اگست میں صدر پاکستان عارف علوی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو ایک خط بھی لکھا گیا۔ اس خط میں کہا گیا کہ صدر مملکت نے 9 اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی کو تحلیل کیا، صدر آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے تحت اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کیلئے اسمبلی تحلیل کی تاریخ کے 90 دن میں تاریخ مقرر کرنے کے پابند ہیں۔ صدر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ملاقات کے لیے مدعو کیا تاہم ان کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جوابی خط میں مطلع کیا گیا کہ ترمیم شدہ قانون کے تحت انتخابات کی تاریخ دینا صرف الیکشن کمیشن کا استحقاق ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے پیشرو جسٹس عمر عطا بندیال کے برعکس الیکشن کمیشن اور صدر مملکت کے درمیان ایک متفقہ تاریخ طے کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ الیکشن کمیشن نے پہلے عدالت کو بتایا کہ ملک میں عام انتخابات 11 فروری کو ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے صدر مملکت سے ملاقات کی اور پھر یہ اعلان کیا کہ اتفاق رائے سے ملک میں عام انتخابات 8 فروری کو ہو گا۔ تاہم سپریم کورٹ نے 90 دن میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق آئینی بحث کو نہ چھیڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمے کو نمٹا دیا۔ واضح رہے کہ ماضی میں بھی 90 دن کی آئینی مدت سے زیادہ انتخابات میں التوا کی نظیریں ملتی ہیں۔ خیال رہے کہ ماضی میں غیرمعمولی حالات کو وجہ بتا کر انتخابات ملتوی کیے گئے ہیں۔ وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک بار سنہ 1988 میں جب ملک میں سیلاب آیا تھا جبکہ دوسری بار 2007 میں جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا۔ واضح رہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد الیکشن کمیشن نے خود انتخابات میں التوا کا اعلان کیا تھا کیونکہ ملک میں کمیشن کی عمارات جلا دی گئی تھیں اور حالات الیکشن کے لیے سازگار نہیں تھے۔‘ تاہم الیکشن کمیشن کی دستاویزات کے مطابق سنہ 1988 میں فوجی صدر ضیاالحق نے اپنے قوم سے خطاب میں ملک میں عام انتخابات کے لیے 16 نومبر 1988 کی تاریخ دی تھی۔ یہ تاریخ 90 دن کی مدت سے زائد ضرور تھی مگر سیلاب یا ضیاالحق کے طیارہ حادثے کی وجہ سے الیکشن ملتوی نہیں ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے 16 نومبر کو قومی اسمبلی اور اس کے تین روز بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروائے تھے۔ تاہم یہ التوا کس صورت میں کیا جا سکتا ہے اس بارے میں قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس حوالے سے آئین میں واضح طور پر نہیں بتایا گیا ہے اور اس حوالے اوپر دی گئی ماضی کی مثالوں کے مطابق کسی غیر معمولی صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کر چکا ہے۔ ماہر قانون بیرسٹر ظفر اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس میں ’مینڈیٹری ان نیچر‘ اور ’ڈائریکٹری ان نیچر‘ قوانین میں فرق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے آئین کی دفعہ 254 یہ کہتی ہے کہ آئین میں اگر کسی کام کا وقت مقرر ہو اور وہ اس وقت پر نہ ہو سکے تو وہ کام خراب نہیں ہوتا۔ اس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔‘ ’اگر قانون کے تحت کسی بھی کام کا وقت مقرر ہو اگر آپ وہ کام اتنے دنوں میں نہیں کریں تو وہ غیر قانونی ہو گا، غلط ہو گا اور اسے اگر نہ کیا تو اس میں سزا ملے گی تو اس کام کو اتنے دنوں میں کرنا ضروری ہوتا ہے تو وہ مینڈیٹری ان نیچر ہوتا ہے۔‘ ’رولز کے مطابق اگر کسی کام میں یہ بتایا جائے کہ آپ کو اتنے دنوں میں یہ کام کرنا ہے لیکن اس کی تاخیر میں سزا یا جرمانے کا ذکر نہ ہو تو وہ ڈائریکٹری ان نیچر ہوتا ہے تو 90 روز میں انتخابات ڈائریکٹری اِن نیچر ہے جس میں وہ کام ضرورتاً آگے پیچھے کر دیا جاتا ہے اور اس میں قباحت نہیں۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’جب سپریم کورٹ میں بتایا گیا کہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو فیصلے میں عدالت نے لکھا کہ اس کام میں تاخیر ہو سکتی ہے لیکن کوشش کریں کہ کم سے کم وقت آگے جائے۔۔۔ گویا انھوں نے بات طے کر دی۔‘ بیرسٹر ظفر اللہ کے مطابق ’پاکستان کے آئین کی دفعہ 254 کے مطابق الیکشن لیٹ بھی ہوئے تو بھی یہ درست عمل ہو گا خلاف قانون نہیں۔‘" https://www.bbc.com/urdu/articles/c729ldry6w5o,گلگت میں ’خالصہ سرکار‘ کا قانون: ’سرکار کے پاس ہماری زمین پر قبضے کا کیا جواز ہے‘,"گلگت میں اس وقت حکومت اور مقامی افراد کے درمیان زمینوں کی ملکیت پر ایک تنازع چل رہا ہے۔ مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ انھیں ان کی آبائی زمینوں سے بغیر معاوضہ دیے ہٹایا جا رہا ہے۔ نتیجتاً ہر چند ماہ بعد بات مظاہروں تک پہنچ جاتی ہے اور اب تو چند افراد حکومت کو ملکیت کے معاملے پر عدالت میں لے گئے ہیں۔ بی بی سی کی نامہ نگار سحر بلوچ نے گلگت کے ایک گاؤں کا دورہ کیا اور متاثرہ لوگوں سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی۔" https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g2vjddje1o,سندھ کا سوشل میڈیا ’سٹار‘ ڈاکو جس نے اپنے اکاؤنٹ کو پولیس پر تنقید اور لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال کیا,"پاکستان کے صوبہ سندھ کی پولیس نے سوشل میڈیا ’سٹار‘ ڈاکو ثنا اللہ عرف ثنو شر کو ایک مقابلے میں گرفتار کرنے کے بعد عدالت میں پیش کیا، جہاں عدالت نے ملزم کو تین روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ گھوٹکی پولیس نے ثنا اللہ شر کو پیر کی صبح اوباوڑو میں مقامی عدالت میں ریمانڈ کے لیے پیش کیا، پولیس نے ان پر غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ایس ایس پی انور کھیتران نے اتوار کو پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ گھوٹکی ضلع میں کچے کے علاقے رانوتی سے ثنا اللہ شر کو پولیس مقابلے کے بعد گرفتار کیا گیا جبکہ اس کے دو ساتھی فرار ہو گئے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق ثنا اللہ شر کے خلاف اغوا، قتل اور تاوان کے 20 سے زائد سنگین نوعیت کے مقدمات دائر ہیں جن میں رانوتی میں ہی گذشتہ سال پولیس پر حملے کا مقدمہ بھی شامل ہے جس میں ایک ڈی ایس پی، دو ایس یچ او اور دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ واضح رہے کہ سندھ کے محکمہ داخلہ نے ثنا اللہ شر کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کرنے کی سفارش کر رکھی ہے۔ وسطی جیون شاہ تھانے میں ایس ایچ او غلام مصطفیٰ میرانی نے سرکار کی مدعیت میں ثنا اللہ شر کے خلاف دائر مقدمے میں بتایا کہ پولیس گشت پر تھی کہ انھیں اطلاع ملی کہ ڈاکو راہب شر اپنے ساتھیوں سمیت واردات کے لیے پکے ایریا کی طرف جا رہا ہے، اس اطلاع پر انھوں نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ ڈاکوں کا پیچھا کیا اور نور شاہ دم دموں کے مقام پر مقابلہ کیا۔ ایف آئی آر کے مطابق گولیاں ختم ہونے پر دو ڈاکو فرار ہو گئے جبکہ ایک کو پولیس نے گرفتار کر لیا جس نے اپنا نام ثنا اللہ شر بتایا۔ ثنا اللہ شر کے والد محکمہ آبپاشی سندھ میں ملازم تھے۔ ان کی گڈو بیراج پر ڈیوٹی تھی جہاں سرکاری کواٹرز میں ان کی رہائش بھی تھی۔ ثنا اللہ شر نے میٹرک تک تعلیم گڈو سے ہی حاصل کی جس کے بعد وہ رانوتی کے مدرسے میں زیر تعلیم رہا۔ ثنا اللہ شر کے بڑے بھائی نے چند سال قبل ایک نوجوان درزی کو قتل کیا جس کے بعد انھیں فرار ہونا پڑا۔ کشمور کے صحافی ممتاز سولنگی کے مطابق ثنا اللہ شر کا تعلق کچے کے علاقے گھیل پور سے ہے جو دریا کے اندر ہے۔ اگر دریا میں پانچ لاکھ کیوسک بھی پانی آجائے تو یہ علاقہ زیر آب آ جاتا ہے اور لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔ گھوٹکی کے سابق ایس ایس پی تنویر تنیو کے مطابق گھیل پور میں ڈاکو سلطو شر، راہب شر و دیگر سرگرم تھے اور ثنا اللہ شر ان کے گینگ میں شامل ہو گیا۔ اس گینگ میں شمولیت کے بعد ابتدائی طور پر وہ باورچی کا کام کرتا تھا۔ ثنا اللہ شر نے فیس بک اور ٹک ٹاک پر اپنا اکاؤنٹ بنایا جس پر وہ باقاعدگی سے اپنا پیغام شیئر کرتا جبکہ بعض اوقات لائیو سٹریمنگ بھی کرتا۔ ان ویڈیوز میں وہ پولیس افسران کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا بھی تھا جبکہ پولیس پر حملے کے بعد کی بھی ویڈیوز شیئر کی جاتی تھیں۔ ثنا اللہ شر کی ویڈیو کی ابتدا مظلوم عوام کے ترجمان کے نام سے ہوتی تھی۔ ان ویڈیوز میں اپنے سردار کے لیے تعریف ہوتی تھی جبکہ وہ جے یو آئی کی قیادت پر تنقید کرتا اور ساتھ میں صحافیوں کو بھی درس دیتا۔ ایس ایس پی تنویر تنیو کے مطابق ان ویڈیوز میں وہ شر گینگ کے علاوہ جاگیرانی اور بھیا گینگز کی بھی پیغام رسانی کا کام کرتا تھا۔ وہ مقامی طور پر ڈاکوؤں کا ترجمان بن گیا تھا۔ ثنا اللہ شر کو شاعری اور گلوکاری سے لگاؤ ہے۔ وہ پولیس کے خلاف شاعری کرتا جبکہ اس کے جواب میں پولیس اہلکار جوابی شاعری بھیجتے تھے اور یہ ویڈیوز بھی مقامی طور پر مقبول رہیں۔ ثنا اللہ شر کی شاعری مقامی گلوکاروں نے گائی بھی ہے۔ انڈیا میں جب پاکستانی خاتون سیما رند کا معاملہ سامنے آیا تو ثنا اللہ شر کی دھمکی آمیز ویڈیوز بھی سامنے آئیں تھیں۔ واضح رہے کہ پب جی گیم کھیلتے ہوئے سیما کو انڈیا میں گریٹر نوئیڈا کے رہنے والے سچن مینا سے محبت ہو گئی تھی لیکن اس محبت کے درمیان نہ صرف دونوں خاندان بلکہ دو ملکوں کی سرحد بھی موجود تھی۔ پھر سیما اپنے شوہرغلام حیدر کو چھوڑ کر انڈیا چلی گئیں۔ گرفتاری کے بعد ثنا اللہ شر کو پولیس نے صحافیوں کے سامنے بھی پیش کیا جس میں انھوں نے بتایا کہ انھیں مقابلے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ ثنا اللہ شر نے کہا کہ وہ پر امن اور عزت والی زندگی گزارنا چاہتا ہے اور دیگر ڈاکوؤں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ گرفتاری پیش کریں۔ ثنا اللہ شر نے کہا کہ ’میں پڑھا لکھا عالم تھا، مجھے گمراہ کر کے کچے میں لایا گیا۔‘ شمالی سندھ کے اضلاع شکارپور، کشمور، گھوٹکی اور جیکب آباد میں گذشتہ کئی سال سے ڈاکوں سرگرم رہے ہیں۔ ثنا اللہ شر کا گروپ کشمور میں رہتا ہے تاہم اس کی سرگرمیاں گھوٹکی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ ڈاکو زنانہ آواز میں لوگوں کو گمراہ کر کے کچے میں بلانے کے علاوہ کاروبار اور تجارت کے بہانے بھی عام لوگوں کو بلا کر اغوا کی وارداتیں کرتے ہیں۔ بی بی سی کی تحقیقات کے مطابق جدید اسلحے اور موزوں مقام کی وجہ سے ڈاکوؤں کو برتری حاصل رہی ہے جبکہ پولیس کو ہر آپریشن میں جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ موجودہ نگران حکومت نے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت پولیس اور رینجرز کی جانب سے گرفتاریاں جاری ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں ثنا اللہ شر کی گرفتاری قابل ذکر ہے۔" https://www.bbc.com/urdu/articles/c90xqq75n14o,آج کا مکتوب۔۔۔ کل کا منظر نامہ! عاصمہ شیرازی کا کالم,"بہار رخصت ہوئی اور پھر خزاں ہے۔ موسموں کے اثرات بھی کیا رنگ دکھاتے ہیں۔ بے مہر شامیں، بے نور صبحیں اور بے رنگ موسم، عجب سا ماحول بنا رہے ہیں۔ باہر کی دنیا سے دل کے موسم تک سب لہو لہو ہے۔ دُنیا تیسری جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، آگ اور بارود کا کھیل جاری ہے، جس کی لاٹھی ہے وہ بھینس ہانک رہا ہے۔ اسرائیل تسلط کا خواب لیے کئی تعبیریں اُجاڑ رہا ہے۔ بس نوحہ کُناں لب فقط التجا کر رہے اور امن کہیں روٹھ چکا ہے۔ یہ مکتوب آج کا ہے اور کل کے لیے تاریخ کا حصہ ہو گا، آج کا نوحہ ہے کل کا پچھتاوا کہلائے گا، آج کا غم ہے اور کل کی ٹیس بن جائے گی۔ ہم ارض پاکستان کے باسی ایک اور ہجرت دیکھ رہے ہیں۔ سرد علاقوں سے اُڑ کر ہم گرم ریگزاروں میں بسنے والوں کے پاس پرندے ٹھہرنے کو آ چکے ہیں مگر یہ کیا کہ یہاں دہائیوں سے بسنے والے پنچھی اب سرد علاقوں میں واپس جانے پر مجبور ہیں۔ افغان بھائیو اور بہنو! ہم نے تم سے مہر و وفا کچھ لینے کے عوض نہ کی تھی مگر تمہیں جانا ہی تھا۔ غم صرف یہ ہے کہ ہم بھیجتے ہوئے تمہارے ہاتھوں میں کچھ وفا اور سامان میں اشک نہ رکھ سکے۔ تمہارے چند ناعاقبت اندیشوں نے میزبانی کی کئی دہائیاں چھلنی جھولی میں ڈال دی ہیں۔ بس اب جا ہی رہے ہیں تو ماضی کی محبتوں کو دل کے قریب رکھنا اور نفرتوں کو کم کرنے کی کوشش کرنا۔ وطن عزیز میں انتخابات کا موسم بھی آ پہنچا ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے درست تنبیہ کی کہ خبردار کوئی شک شُبے کا اظہار نہ کرے، انتخابات میں بے یقینی محسوس ہو تو بیوی سے چپکے سے کہہ دینا ٹی وی پر اظہار نہ کرنا مگر کیا کروں کہ جب سے تاریخ آئی ہے یہاں وہاں بدامنی کا ماحول ہے اور انتخابات کا ماحول ہی نہیں بن پا رہا۔ گوادر میں چودہ سکیورٹی اہلکار ہلاک، میانوالی بیس پر غیر معمولی حملہ آور ڈی آئی خان میں پولیس چوکیوں پر حملہ۔۔۔ ایسے میں انتخابات کیسے ہوں گے؟ لیول پلیئنگ فیلڈ کس کو ملے گی؟ کسی کو سیاسی طور پر جلسہ کرنے کی آزادی نہیں تو کوئی ان دہشت گردوں کی کارروائیوں کے ہاتھوں انتخابی مہم روکنے پر مجبور۔ تحریک انصاف کے ’محفوظ‘ سیاسی رہنماؤں کو پھر شاید کسی عدالت سے انتخابات اور مہم کا پروانہ مل جائے مگر دہشت گرد کسی پروانے کے تابع ہیں اور نہ اجازت درکار ہے۔ جمیعت علمائے اسلام جیسی مذہبی جماعت بھی اگر دہشت گردوں کے ہاتھوں فیلڈ میں نکلنے سے معذوری کا اظہار کرے اور پے در پے اُن کے رہنما حافظ حمداللہ اور باجوڑ میں کارنر میٹنگز نشانہ بنیں تو انتخابات کے لیے لیول پلینگ فیلڈ کسے دستیاب ہو گی۔ ان دہشت گردی کی کاروائیوں کا نشانہ کون کون ہے اور کس کس کو ’ہدف‘ بنایا جا سکتا ہے اس پر خدشہ بھی خوف کا شکار ہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسے سیاست دان جانتے ہیں کہ لفظی گولہ باری اور سیاسی محاذ آرائی کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی ان دو کے ساتھ ایک صفحے پر آ رہے ہیں۔ تینوں رہنماؤں کو حالات کی اصل سنگینی کا اندازہ ہے، امن و امان اور سلامتی کی صورتحال سنگین ہے اور ضرورت ہے کہ مملکت کو کسی خوف سے بچانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھا جائے۔ عمران خان بات چیت کے لیے تیار ہوں تو اُنھیں جیل میں آمادہ کیا جائے اور اگر وہ تیار نہ ہوں تو صدر علوی کا ’گُڈ آفس‘ سیاسی ماحول کے لیے آزمایا جائے۔ بہتر ہو کہ سیاستدان بڑے پن کا مظاہرہ کریں اور اب کی بار معاملہ سپریم کورٹ نہ جائے۔ انتخابات سے قبل ڈائیلاگ اور مکالمے کی راہ ہموار کی جائے، آئین موجود ہے اُس کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ اپنا کام کرے لیکن اگر شفاف انتخابات کے لیے سیاسی ماحول نہ ہوا تو انتخابات کہیں موت کے کنویں میں محض سیاسی کرتب بازی نہ بن جائیں۔ عام انتخابات کی راہ میں بظاہر کچھ رکاوٹ نہیں تاہم امن و امان ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔ انتخابات کے آئینی عمل کو ہر صورت مکمل ہونا چاہیے اور اس کے لیے سیاسی مذاکروں اور عوامی رابطوں کو تیز کیا جانا ضروری ہے۔ امکان ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں واحد کامیاب سیاسی جماعت ہو جبکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی غیرموجودگی میں بھی مقابلہ سخت ہو گا۔ پی ٹی آئی کے مایوس ووٹر کا بھی سیاسی مشق کا حصہ بننا ضروری ہے تو پنجاب میں ن لیگ کے سپورٹر کو باہر نکالنے کی کوشش بھی ایک اہم مرحلہ ہو گا۔ اصل کھیل تاثر کا ہو گا جو بہرحال حقیقت پر حاوی ہو سکتا ہے۔" https://www.bbc.com/urdu/articles/cyx2y75lv91o,’تربت یونیورسٹی میں منشیات پہنچ جاتی ہیں مگر کتابیں لے جانے کی اجازت نہیں‘,"’جن کتابوں پر دکانوں اور لائبریوں میں پابندی نہیں ہے اُن کو یونیورسٹی میں لے جانے کی کیوں اجازت نہیں؟‘ یہ کہنا ہے کہ بلوچستان کی تربت یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے طالبعلم باہوٹ چنگیز کا جن کے مطابق تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے گذشتہ دنوں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو یونیورسٹی میں کتابوں کا سٹال لگانے سے روکا گیا۔ اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہے جس میں یونیورسٹی کے سکیورٹی اہلکار ہاتھوں میں کتابیں اٹھائے بعض طلبا کو یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں۔ بی بی سی نے اس ویڈیو کے حوالے یونیورسٹی کے طلبا اور انتظامیہ سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس واقعے کی حقیقت کیا ہے۔ باہوٹ چنگیز کا کہنا ہے کہ ’ایک طرف یونیورسٹی میں غیر نصابی کتابیں لے جانے کی اجازت نہیں اور دوسری طرف ہوسٹل میں اگر چار طالبعلم اکھٹے بیٹھ جائیں تو بھی سکیورٹی اہلکار انھیں یہ کہہ کر اٹھا دیتے ہیں کہ یہاں اکھٹے ہونے کی اجازت نہیں۔‘ تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبا کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ تعلیمی سرگرمیوں میں اچھی کارکردگی نہ دکھانے والے بعض طلبا ’یونیورسٹی کو بدنام‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’ایک سیاسی پارٹی کی طلبا تنظیم نے یونیورسٹی سے باہر کے طلبا کی مدد سے ایک بُک سٹال لگانے کی کوشش کی جس کے مقاصد صرف اور صرف سیاسی تھے۔‘ سوشل میڈیا پر تربت یونیورسٹی کی اس ویڈیو میں چھ سے سات نوجوان نظر آتے ہیں جن کے ہاتھوں میں بہت ساری کتابیں ہیں۔ ان نوجوانوں کو سکیورٹی گارڈ یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طالب علم بلوچی زبان میں کہتا ہے کہ ’یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی آفیسر اور یونیورسٹی کی انتظامیہ میں بیٹھے لوگ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی کے اندر کتاب نہ جائے۔‘ طالب علم کہتا ہے کہ ’ہمارے پاس اور کچھ نہیں بلکہ صرف یہ کتابیں ہیں لیکن وہ ان کو اندر نہیں جانے دے رہے ہیں۔‘ ایک اور طالب علم کہتا ہے کہ ’یونیورسٹی میں منشیات تو پہنچ جاتی ہے لیکن باہر سے کتاب لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔‘ اسی ویڈیو میں موجود باقی طلبا سکیورٹی گارڈ سے یہ کہتے ہیں کہ ’آپ لوگ کس طرح کتابوں کو لے جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں، اگر یونیورسٹی میں ہم کتاب نہیں لے جائیں تو پھر یونیورسٹی کا کیا فائدہ ہے۔‘ ویڈیو میں جن طلبا کو روکا جا رہا تھا ان میں یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے آٹھویں سمسٹر کے طالب علم اور بی ایس او (پچار) کی مرکزی کمیٹی کے رکن باہوٹ چنگیز بھی شامل تھے۔ فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ یونیورسٹی میں ایک بُک سٹال لگانا چاہتے تھے اور اسی کے لیے کتابیں لے جا رہے تھے لیکن ان کو یونیورسٹی کے گیٹ پر روکنے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ یونیورسٹی میں باہر سے غیرنصابی کتابیں لے جانے کی اجازت نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں طلبا کی جانب سے بُک سٹال لگتے ہیں جن میں زیادہ تر غیرنصابی کتابیں ہی ہوتی ہیں لیکن وہاں کوئی پابندی نہیں۔ معلوم نہیں تربت یونیورسٹی میں کتابوں کے سٹال لگانے پر پابندی کیوں ہے؟‘ بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی تربت زون کے صدر اور یونیورسٹی میں قانون کے دسویں سمسٹر کے طالب علم حبیب بلوچ نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے بھی کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی میں بُک سٹال لگایا تو ’انتظامیہ کی جانب سے رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور ہمیں ہراساں کیا جاتا رہا۔‘ حبیب بلوچ نے بتایا کہ ’جن کتابوں کا سٹال وہ یونیورسٹی میں لگانا چاہتے ہیں وہ لٹریچر، فلسفہ، سیاست، تاریخ ، بلوچی ادب اور نیشنلزم کے نظریات سے متعلق ہوتی ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا ’طلبا کو سٹڈی سرکلز منعقد کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔‘ ’بک سٹال سے قبل ہم نے ایک سٹڈی سرکل کا اعلان کیا تو یونیورسٹی کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن نکالا گیا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا تو آپ لوگوں کی ہاسٹل الاٹمنٹ کو منسوخ کیا جائے گا۔‘ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس میں بی ایس فورتھ سمسٹر کی طالبہ اور بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی انفارمیشن سیکریٹری نگرہ بلوچ نے بھی شکایت کی کہ یونیورسٹی میں نصابی کتب کے علاوہ دیگر کتابیں پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ’ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ سے بار بار پوچھا ہے کہ عام کتابیں یونیورسٹی میں لے جانے کی کیوں اجازت نہیں تو وہ کوئی جائز جواز پیش کرنے کے بجائے کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں کتاب لے جانا منع ہے۔‘ ’جو کتابیں یہ ہمیں یونیورسٹی میں نہیں لے جانے دیتے، وہ پاکستان میں ہر جگہ دستیاب ہیں۔‘ بی بی سی نے طلبا کے الزامات کے حوالے سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جان محمد سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ سفرکے باعث وہ اس حوالے سے بات نہیں کر سکتے تاہم انھوں نے اس سلسلے میں یونیورسٹی کی جانب سے جاری ایک بیان بھیج دیا۔ اس بیان کے مطابق سوشل میڈیا پر کتابوں کے حوالے سے پابندی کا معاملہ حقائق پر مبنی نہیں۔ بیان کے مطابق تربت یونیورسٹی بلوچستان کی دوسری بڑی یونیورسٹی ہے جہاں 5000 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کے لیے یونیورسٹی میں دو بڑی لائبریریاں قائم کی گئی ہیں جہاں پڑھنے کے لیے ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں۔ تاہم یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن، مرکزی اور صوبائی حکومت کی پالیسی کے مطابق تربت یونیورسٹی کی ایک واضح پالیسی ہے کہ کیمپس کے اندر کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایک سیاسی پارٹی کی طلبہ تنظیم نے یونیورسٹی کے اندر باہر کے طلبا کی مدد سے ایک بُک سٹال لگانے کی کوشش کی جس کے مقاصد صرف اور صرف سیاسی تھے جبکہ اصل معاملہ اسی طلبا تنظیم کے دو کارکنان کا امتحانات میں مسلسل فیل ہونے سے متعلق ہے۔‘ بیان کے مطابق ’گذشتہ سمسٹر کے امتحانات میں فیل ہونے کی وجہ سے اس طلبا تنظیم سے جڑے دو طالب علموں سمیت 40 طلبہ و طالبات یونیورسٹی اکیڈمک قواعد و ضوابط کے مطابق ڈراپ آوٹ ہو چکے ہیں جو مختلف ذرائع سے یونیورسٹی پر پریشر ڈال کر دوبارہ اسی سمسٹر میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں جس میں وہ کئی بار فیل ہو چکے ہیں۔‘ بیان کے مطابق فیل ہونے کے باوجود یونیورسٹی نے ان کو پہلے سے دو مواقع دیے ہیں لیکن وہ پڑھائی میں بہتری نہیں لا سکے۔ ’یہی فیل اور ڈراپ آؤٹ ہونے والے سٹوڈنٹ اب مختلف ہتھکنڈوں سے یونیورسٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یونیورسٹی آف تربت ایک ذمہ دار تعلیمی ادارہ ہے جس کا مقصد مکران ڈویژن سمیت بلوچستان بھر میں تمام شعبوں میں تعلیم پھیلانا اور ریسرچ کرنا ہے، اس لیے یونیورسٹی سے متعلق اس طرح کے منفی پروپیگنڈہ سے گزیر کیا جائے۔‘ تاہم طلبا کے نمائندوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ معاملہ چند انفرادی طلبا کو نہیں بلکہ کتابوں کا ہے جو یونیورسٹی انتظامیہ نہیں چاہتی کہ یونیورسٹی میں لائی جائیں۔ بی ایس او پجار کے رہنما باہوٹ چنگیز نے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ فیل ہونے والے طلبا یونیورسٹی انتظامیہ کو بلیک میل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاس اور فیل ہونا تعلیم کا حصہ ہے۔ ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ سے پوچھا ہے کہ کس فیل ہونے والے طالب علم یا ان کے والدین نے آپ لوگوں پر دباؤ ڈالا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس بعض پابندیوں کے حوالے سے کوئی جواز نہیں ہے تو وہ بے بنیاد الزام عائد کر رہے ہیں۔‘ باہوٹ چنگیز نے بتایا کہ یونیورسٹی میں کتابوں کا سٹال لگانے کی کوشش سے قبل انھوں نے عطا شاد ڈگری کالج میں کتابوں کا ایک سٹال لگایا تھا تو ’وہاں ریاستی اداروں کے چند اہلکار آئے اور یہ کہا تھا کہ آپ لوگ جو کتابیں یہاں فروخت کر رہے ہیں، ان میں سے بعض پر پاکستان میں پابندی ہے۔‘ ’جن کتابوں پر انھوں نے پابندی کی بات کی ان میں ایک سندھی ادیب کی مسخ شدہ لاشیں نامی کتاب کے علاوہ کارل مارکس، لینن اور چی گویرا سے متعلق کتابیں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کتابوں کو آپ لوگ فروخت نہ کریں۔‘ ’ہم نے کہا یہ کتب پاکستان کے دیگر حصوں میں فروخت ہوتی ہیں تو آپ لوگ ان کو یہاں کیوں فروخت نہیں ہونے دیتے؟‘ ’ہمارے سوال پر ان کا جواب تھا کہ پاکستان کے دوسرے حصوں کے لوگوں کے مائنڈ سیٹ سے آپ لوگوں کا مائنڈ سیٹ مختلف ہے۔ آپ لوگ یہ کتابیں پڑھ کر پھر پہاڑوں کا رخ اختیار کرتے ہیں۔‘ واضح رہے کہ بلوچستان میں جاری شورش کے آغاز کے ساتھ ناصرف نیشنلزم سے متعلق لٹریچر اور قوم پرست تنظیموں کے جرائد بلکہ سخت گیر موقف کے حامل قوم پرست رہنماؤں کی تصاویر کی فروخت میں اضافہ ہوا۔ قوم پرست رہنماؤں کی تصاویر کے علاوہ یہ لٹریچر اور جرائد عام دکانوں اور کتابوں کے سٹالز پر بھی دستیاب ہوتے تھے۔ تاہم 2010 کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بک سٹالوں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوا 2013 میں تربت میں عطا شاد ڈگری کالج پر سکیورٹی فورسز نے چھاپہ مارا اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مصنفین کی کتابوں کے علاوہ قوم پرست طلبا تنظیموں کے جرائد اور رسالوں کو اٹھوایا گیا تھا۔ ان چھاپوں کے باعث سٹالوں پر قوم پرست رہنمائوں کی تصاویر اور قوم پرست تنظیموں کے جرائد کی فروخت کا سلسلہ بند ہو گیا تھا اور ان کی اعلانیہ فروخت اب کہیں نہیں ہو رہی۔ بلوچستان کے معروف دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا انتظامیہ یونیورسٹی میں کتابوں کے سٹال کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ مائنڈ سیٹ ہے جو یہ چاہتا ہے کہ لوگ جماعت اسلامی کے لٹریچر یا اس طرح کی دوسری کتابیں پڑھیں اور صرف تبلیغی بن جائیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’لوگوں کو لٹریچر پڑھنے سے روکنے کی کوشش مکران ڈویژن میں ہو رہی ہیں جو کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا علاقہ ہے اور مکران کی یہ دوسری نسل ہے جو کہ کتابیں پڑھ کر جوان ہوئی ہے۔‘ ’وہاں کے لوگوں کو کتابیں پڑھنے کا نشہ ہے۔ جن لوگوں کو کتابیں پڑھنے کا نشہ ہو آپ ان کو کتابیں پڑھنے سے نہیں روک سکتے۔ ایسے علاقے میں لوگوں کو کتابیں پڑھنے سے روکنے کی کوشش کرنے والے میرے خیال میں ذہنی طور پر اپاہج ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہاں کے جو حاکم ہیں ان کو حکمرانی کرنی نہیں آتی جس کی وجہ سے یہ لوگ اس طرح کے کام کرتے رہتے ہیں۔‘ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ ’جن کتابوں کو پڑھنے سے آپ لوگوں کو روکنے کی کوشش کریں گے وہ مزید پاپولر ہوں گی اور ان کے بارے میں لوگوں کی جستجو مزید بڑھے گی۔‘ بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے بلوچستان میں عام کتابوں کی خریدوفروخت پر پابندی کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے عام کتابوں کی خرید وفروخت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے علاوہ مختلف علاقوں میں کتب میلوں کا انعقاد تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے جن کی باقاعدہ حکومت کی جانب سے سرپرستی بھی کی جاتی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے لٹریچر اور کتابوں پر ضرور پابندی ہے جو کہ ریاست کے خلاف ہیں یا جو کہ معاشرے میں نفرتوں کا باعث بنتے ہیں۔ ایسی پابندی صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ دنیا کی کوئی بھی ریاست شرانگیزی پھیلانے والے یا معاشرے میں نفرت کا باعث بننے والے لٹریچر یا مواد کی اجازت نہیں دیتی۔‘" https://www.bbc.com/urdu/articles/cljp8z2n459o,جہاد سے امجد صابری قتل کیس تک۔۔۔ حافظ قاسم رشید جو قتل کی 34 وارداتوں میں ملوث رہے,"(یہ تحریر 6 نومبر 2023 کو شائع ہوئی تھی جسے آج قوال امجد صابری کی برسی کے موقع پر دوبارہ شیئر کیا گیا ہے۔) ’ہتھیار، ٹوٹے ہوئے شیشے کا وہ تیز دھار کنارا تھا جو اُس نے اپنے ہتھکڑی لگے ہوئے ہاتھوں سے اپنے ہی گلے پر رکھا ہوا تھا اور مجھے دھمکی دے رہا تھا کہ اگر اُسے رہا نہ کیا گیا تو وہ اپنا گلا کاٹ لے گا۔‘ سندھ پولیس کے سابق سپرنٹینڈینٹ فیاض خان نے شدت پسند حافظ قاسم رشید کی گرفتاری کا کئی سال پرانا واقعہ یاد کرتے ہوئے کہا۔ یہ اُسی حافظ قاسم رشید کا تذکرہ ہے جنھیں کراچی پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی نے 24 اکتوبر 2023 کو ایک بار پھر گرفتار کیا۔ کئی بار گرفتار اور ہر بار رہا ہو جانے والے حافظ قاسم رشید کو پولیس نے معروف قوال امجد صابری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ 40 سالہ امجد صابری کا تعلق پاکستان میں قوالوں کے بین الاقوامی شہرت یافتہ صابری گھرانے سے تھا اور وہ خود بھی عالمی سطح پر معروف و مشہور قوّال تھے۔ امجد صابری بدھ 22 جون 2016 کو اُس وقت قتل کر دیے گئے جب وہ سما ٹی وی کی رمضان نشریات کی ریکارڈنگ کے لیے کراچی کے وسطی علاقے لیاقت آباد (لالو کھیت) میں واقع گھر سے گاڑی میں جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے گاڑی کا پیچھا کرنے کے بعد اُسے روکا اور بڑے اطمینان سے گاڑی کے دونوں جانب سے گولیاں برسائیں۔ امجد صابری کو دو گولیاں سر پر اور ایک ران کے قریب لگی مگر اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے اُن کے ساتھی محفوظ رہے۔ واردات کے بعد حملہ آور موٹر سائیکل پر حسن سکوائر کی جانب فرار ہو گئے۔ حملے کے فوراً بعد تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی حکیم اللّہ محسود گروپ) کے ترجمان قاری سیف اللّہ محسود نے حملے کی ذمہ داری یہ کہتے ہوئے قبول کی کہ امجد صابری مذہبی توہین کے مرتکب ہو رہے تھے۔ اس قتل کی واردات کے ساڑھے چار ماہ بعد، 7 نومبر 2016 کو سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اعلان کیا کہ پولیس نے امجد صابری کے دو مبینہ قاتلوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ قومی و عالمی ذرائع ابلاغ اور پولیس و سرکاری حکام کے مطابق سی ٹی ڈی کے افسر ایس ایس پی راجہ عمر خطاب نے تفتیش کے بعد ملزمان عاصم عرف کیپری اور اسحٰاق عرف بوبی کو گرفتار کر کے انھیں امجد صابری کے قتل کا ملزم قرار دیا جنھیں بعد ازاں عدالت میں چالان کیا گیا۔ دونوں ملزمان کو نچلی عدالت سے ملنے والی سزا ہائیکورٹ میں چیلنج کی گئی ہے اور اب امجد صابری قتل کیس میں حافظ قاسم رشید کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ کراچی پولیس کی اعلیٰ قیادت سے تعلق رکھنے والے ذرائع سے بی بی سی کو حاصل ہونے والی ایک ’انٹیروگیشن رپورٹ‘ اور پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ ترین افسران کی مدد سے کی جانے والی بی بی سی کی تحقیق کے مطابق حافظ قاسم رشید کراچی کے علاقے تین تلوار (کلفٹن) میں کراچی میٹرو پولیٹن کے سرونٹ کوارٹرز میں 17 اپریل 1979 کو ام تمیم اور عبدالرشید کے گھر پیدا ہوئے۔ ملزم حافظ رشید کے خاندان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن کے ضلع ایبٹ آباد کے گاؤں سیّال میں آباد تنولی حسنال برادری سے ہے۔ انٹیروگیشن رپورٹ کے مطابق ملزم حافظ قاسم رشید کے تین بھائی ہیں۔ حافظ قاسم رشید کی شادی بھی ہوئی مگر کوئی اولاد نہیں۔ رپورٹ کے مطابق اندرون و بیرون ملک (افغانستان اور کشمیر) میں قائم دہشت گردی کے کئی تربیتی مراکز سے تربیت یافتہ ملزم حافظ قاسم رشید کی مادری زبان ہندکو ہے مگر وہ اردو بھی روانی سے بول سکتا ہے۔ ’لشکرِ جھنگوی‘ سے وابستگی رکھنے والے ملزم حافظ قاسم رشید کی آمدنی یا ذریعۂ معاش (کئی برس قبل) دہشت گردی کے واقعات میں بطور ’ٹارگٹ کلر‘ ملنے والی ماہانہ رقم 40 ہزار روپے بتائی گئی ہے۔ کئی بار گرفتاری کے بعد دوران حراست کی جانے والی تفتیش میں ملزم نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ کے ایم سی سرونٹ کوارٹرز میں اُس کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد اُس کا خاندان کراچی (جنوبی) کے علاقے ہجرت کالونی منتقل ہوا جہاں قریباً دس برس کے بعد یہ کنبہ جونیجو ٹاؤن میں مستقلاً رہائش پذیر ہوگیا۔ اُس نے کچھ عرصے تک تو تعلیم گورنمنٹ بوائز سکول عبداللّہ شاہ غازی (واقع) کلفٹن کراچی سے حاصل کی اور پھر 1991 میں وہ دنیاوی تعلیم ترک کر کے دینی تعلیم کے لیے لاہور کے ’مدرسۂ منظور السلام‘ پہنچا جہاں اس نے 1992 سے محض تین برس کے دوران 1995 میں قرآن حفظ کر لیا۔ 1997 میں حافظ قاسم رشید کی ملاقات کراچی کے علاقے سلطان آباد کی ایک مسجد میں قاری سے ہوئی جنھوں نے اُسے جہاد کی دعوت دی۔ قاری نے حافظ قاسم رشید کو سلطان آباد ہی کی ایک بڑی مسجد میں امام صاحب سے ملوایا اور امام نے بھی دعوت جہاد دی۔ وہ ایک ہفتے تک مستقل امام صاحب سے ملتا رہا اور بالآخر امام نے اُسے چھ سات ساتھیوں کے ہمراہ ایک روز کراچی کے کینٹ سٹیشن سے ریل میں لاہور روانہ کر دیا جہاں وہ ضلع مرید کے میں واقع لشکرِ طیبہ کے دفتر پہنچے۔ رپورٹ کے مطاق یہاں تین روز تک تبلیغ کی دعوت دی جاتی رہی اور پھر حافظ قاسم کو ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفر آباد پہنچا دیا گیا۔ مظفر آباد میں لشکرِ طیبہ کے امیر مسعود صاحب سے ملاقات کروائی گئی اور ایک روز آرام کے بعد انھیں مضافاتی گاؤں میں واقع تربیتی مرکز پہنچایا گیا۔ یہاں 21 دن کے دوران انھیں 30 بور (ٹی ٹی) پستول، 9mm پستول، ایس ایم جی، میگاروف، اور جی تھری رائفل جیسے ہتھیار چلانے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی رہی جس کے بعد وہ واپس کراچی پہنچا۔ اب تربیت یافتہ حافظ قاسم تین چار ماہ بعد ایک جمعرات کو لائنز ایریا میں واقع مکّی مسجد میں بیان سننے جا پہنچا اور یہ بیان سننا آئندہ کئی ہفتوں تک اس کا معمول بن گیا۔ بالآخر جذبہ جہاد سے سرشار حافظ قاسم نے مکّی مسجد کے امیر سے فرمائش کی کہ مجھے جہاد پر جانا ہے براہِ مہربانی آپ کچھ انتظام کردیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق ایک روز امیر نے اُسے پھر تین چار ساتھیوں کے ساتھ کینٹ سٹیشن سے روانہ کر دیا مگر اس بار منزل اسلام آباد تھی۔ یہ سب لوگ اسلام آباد میں ’حرکت الجہاد اسلامی‘ کے دفتر پہنچے جہاں اُن کی ملاقات دفتر کے امیر ابراہیم سے ہوئی۔ ایک بار پھر انھیں ایک روز آرام کروا کر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے کوٹلی بھجوا دیا گیا۔ کوٹلی میں ایک روز قیام کے بعد انھیں پھر ایک نواحی علاقے میں قائم تربیتی مرکز پہنچایا گیا جسے تفتیشی رپورٹ میں ’معاسکر‘ لکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس مرکز میں تربیت کے بعد حافظ قاسم اور دیگر کو کوٹلی کے علاقے سینسا میں قائم پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجینس (آئی ایس آئی) کے ٹریننگ سینٹر بھیج دیا گیا۔ وہاں بھی تربیت مکمل کر کے انھیں واپس معاسکر پہنچایا گیا اور ایک ماہ وہاں گزارنے کے بعد ان سب کو کشمیر پہنچایا گیا جہاں وہ چھ مہینے تک انڈین فوج کے خلاف جہاد کرتا رہا۔ کشمیر سے حافظ اپنے گاؤں قلندر آباد ڈسٹرکٹ مانسہرہ پہنچا اور ایک ماہ قیام کے بعد کراچی آ کر پھر پڑھائی کرنے لگا اور 2001 میں میٹرک کے امتحان میں کامیاب ہو گیا۔ میٹرک کے بعد حافظ قاسم ’جہاد‘ کی غرض سے پھر روانہ ہوا اور اس دفعہ اس کا رخ افغانستان کے علاقے قندھار کی جانب تھا۔ قندھار پہنچ کر پہلے تو وہیں طالبان کے ساتھ جہادی سرگرمیوں میں مصروف رہا مگر پھر کابل پہنچ کر ایک اور جہادی گروہ جیشِ محمد سے جا ملا اور چھ مہینے تک امریکی فوج کے خلاف جہادی کارروائیوں میں شریک رہا۔ جب امریکی فوج کی جوابی کارروائی میں تیزی آئی تو حافظ قاسم واپس اپنے گاؤں قلندر آباد مانسہرہ چلا گیا اور دو تین ہفتے گزار کر پھر کراچی پہنچا۔ کراچی آ کر حافظ قاسم رشید نے نیو کراچی ناگن چورنگی پر واقع سپاہ صحابہ کے دفتر آنا جانا شروع کر دیا۔ اس دوران پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ہی بدل گیا۔ نائن الیون کے بعد جب امریکی فوج نے نیٹو کے ساتھ مل کر افغانستان پر لشکر کشی کی تو وہاں موجود شدت پسندوں یعنی طالبان، القاعدہ، اور دیگر جنگجوؤں نے پاکستانی سرحدی علاقوں سے شہروں تک اپنی نئی پناہ گاہیں بنالیں۔ تب تک پاکستان میں فعال مخلتف مسالک اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے شدّت پسند گروہ ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد کا ماحول گرم کر چکے تھے۔ یہ شدّت پسند گروہ افغانستان سے پناہ کی تلاش میں آنے والے جنگجو حلقوں کے قریب ترین نظریاتی حلیف ثابت ہوئے جنھوں نے افغانستان سے آنے والے جنگجوؤں کو محفوظ ٹھکانے اور تحفظ فراہم کرنے میں زبردست کردار ادا کیا۔ نتیجتاً اُن محفوظ پناہ گاہوں اور افغانستان سے وہاں جا چھپنے والے شدّت پسندوں کی سرکوبی کے لیے عالمی اداروں اور امریکی و نیٹو افواج کا زبردست دباؤ پاکستانی فوج پر آیا جو پہلے ہی فرقہ وارانہ تشدد سے نبرد آزما تھی۔ بالآخر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ملک بھر میں اُن شدّت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ 2002 کے اس کریک ڈاؤن کے دوران حافظ جیسے بہت سے جنگجو قانون نافذ کرنے والے پاکستانی اداروں کی نظروں میں آئے اور اسی برس کراچی پولیس کے کرائم انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ نے حافظ کو گرفتار کرلیا۔ کراچی پولیس میں ایس پی کے عہدے پر تعینات رہنے والے افسر فیاض خان سنہ 2002 میں حافظ قاسم رشید کو گرفتار کرنے والے پولیس دستے کے افسر تھے۔ فیاض خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دوران حراست جب ہم نے اُس سے تفصیلی تفتیش کرنی چاہی اور اُسے لاک اپ سے نکال کر تفتیشی کمرے میں لایا گیا تو ہتھکڑی لگے ہونے کے باوجود اُس نے اچانک میرے سپاہیوں پر حملہ کر دیا۔‘ ’کمرے میں ایک میز ایسی تھی جس کے اوپر والا حصّہ شیشہ کا تھا۔ موقع پاتے ہی اُس نے میز کا شیشہ توڑ کر اُسے ہتھیار بنا لیا۔ ٹوٹے ہوئے شیشے کی خنجر جیسی تیز دھار نوک سے پہلے اس نے میرے ایک سپاہی کو زخمی کیا اور جب تک شور سن کر ہم بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے تو باقی سپاہی اُسے قابو کرنا چاہ رہے تھے۔‘ ’جب میں کمرے میں داخل ہوا تو وہ خود اپنی ہی جان لینے کی دھمکی دے رہا تھا۔ ہتھیار ٹوٹے ہوئے شیشے کا وہ ہی تیز دھار کنارا تھا جو اُس نے اپنے ہتھکڑی لگے ہوئے ہاتھوں سے اپنے ہی گلے پر رکھا ہوا تھا اور مجھے دھمکی دے رہا تھا کہ اگر اُسے رہا نہیں کیا گیا تو وہ اپنا گلا کاٹ لے گا۔ بڑی مشکل سے ہم نے اُس پر دوبارہ قابو پایا اور پھر لاک اپ کر دیا۔‘ فیاض خان نے بتایا کہ ’اس وقت تک چونکہ پاکستان کے اندر یہ کسی قسم کی پرتشدد کارروائی میں ملوث نہیں رہا تھا مگر شدت پسند ساتھیوں سے مل کر کام کرتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے ریکی (نگرانی) شروع کر چکا تھا۔ یہاں تک کے اس وقت کے آئی جی سندھ سید کمال شاہ کی نگرانی کے لیے اُن کے ساتھ بھی ڈیفینس کی ایک مسجد میں نماز ادا کر چکا تھا۔‘ بی بی سی کو دستیاب تفتیشی رپورٹ کے مطابق پہلی بار گرفتار ہونے پر بارود اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں جیل جانے والے حافظ قاسم کو محض چھ ماہ بعد ہی عدم ثبوت کی بنا پر صمانت پر رہائی تو مل گئی مگر 2003 میں ایک تاریخ پر پیشی کے لیے عدالت سے واپسی پر سی آئی ڈی پولیس نے اسے دوبارہ گرفتار کر لیا۔ حافظ قاسم نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ تین چار ماہ بعد پھر جیل میں گزار کر جب وہ باہر نکلا تو ایک بار پھر نیو کراچی ناگن چورنگی پر واقع سپاہ صحابہ کے دفتر آنا جانا شروع کر دیا جہاں اُس کی ملاقات عبداللّہ الیاس عرف تیمور سے ہوئی۔ اسی دوران سپاہِ صحابہ کراچی ڈویژن کے ذمہ دار قاری شفیق الرحمٰن ٹارگٹ کلنگ کی ایک واردات کا نشانہ بن گئے۔ قاری شفیق کی تدفین کے موقع پر تیمور نے اُس سے کہا کہ ہمارے لوگ مررہے ہیں بدلہ لینے کے لیے ہمیں بھی کام کرنا چاہیے۔ تیمور کی یہی گفتگو فرقہ وارانہ تشدد کی جانب اس کے رجحان کی ابتدا ثابت ہوئی اور اب وہ ایک ایسے گروہ سے جُڑ گیا جو فرقہ وارانہ تشدد پر آمادہ تھے۔ فیاض خان کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پولیس پر حملہ کرنا چاہا۔ ’اس مقصد کے لیے سول لائنز میں واقع سی آئی ڈی کے مرکزی دفتر کو راکٹ سے نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ راکٹ سی آئی ڈی کے دفتر کے عقب سے گزرنے والے ریلوے لائن پر نصب کیا گیا مگر شاید ہدف کے غلط تعین کی وجہ سے یہ راکٹ سی آئی ڈی کے دفتر کو نشانہ بنانے کی بجائے شہر کے وسط میں گُرو مندر کے علاقے میں جا گرا لیکن ذرائع سے ہمیں پتا چل گیا کہ اس حملے کے پیچھے کون ہے۔ حافظ قاسم اتنا خطرناک ہے کہ اسی کے گروہ نے جنرل مشرف پر بھی راکٹ حملہ کرنے کی کوشش کی تھی اور اس غرض سے کراچی ائیرپورٹ پر اسی قسم کے راکٹ نصب کیے گئے تھے۔‘ مسلسل تعاقب میں لگے پولیس کے مختلف محکموں میں اس کی گرفتاری کے سرگرم بہت سے افسران اس کی تلاش میں تھے کہ سنہ 2005 میں ایک بار پھر کراچی پولیس کے شعبۂ انسداد تشدد نے اُسے حراست میں لے لیا۔ سی آئی ڈی کے دفتر پر راکٹ یا میزائل حملے کے مقدمے میں اس دفعہ حافظ قاسم کو چار برس کراچی کی سینٹرل جیل میں گزارنے پڑے۔ جیل میں اس کی ملاقات فرقہ وارانہ شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے وسیم عرف بارودی سے ہوئی۔ جیل اور جیل کے باہر حافظ کے رابطے اُن شدّت پسندوں سے بڑھتے چلے گئے جو جہادی سوچ کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ تشدد پر بھی مائل تھے۔ آہستہ آہستہ وہ لشکر جھنگوی میں اعلیٰ سطح کے شدّت پسندوں عطا الرحمٰن عرف نعیم بخاری، صالح پٹھان اور دیگر سے متعارف ہوتا چلا گیا اور یہ پورا گروہ ایک ایسا نیٹ ورک بن گیا جو بلا اشتعال بھی محض مسلک کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تشدد میں ملوّث رہا۔ کراچی پولیس، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے بہت سے حُکام سے ہونے والی پس پردہ گفتگو، بی بی سی کو حاصل ہونے والی تفتیشی رپورٹس اور مختلف اداروں کی جانب سے جمع شدہ سرکاری معلومات اور اب حافظ قاسم کو گرفتار کرنے والے سی ٹی ڈی حکام کے دعووں کے مطابق حافظ قتل کی کم از کم 34 وارداتوں میں ملوث رہا۔ تفتیشی رپورٹ کے مطابق حافظ قاسم نے خود تفتیش کاروں کو بتایا کہ لشکر جھنگوی کے ساتھی صالح پٹھان کی ایما پر اُس (حافظ قاسم) نے سی آئی ڈی کے ڈی ایس پی محمد اَسرار اعوان کی ریکی کی اور یہ معلومات صالح پٹھان کو فراہم کیں جو عطا اللّہ عرف نعیم بخاری اور حافظ کے درمیان رابطہ کار تھا۔ ان ہی معلومات پر 21 جولائی 2012 میں صالح پٹھان کے شوٹرز نے تھانہ جمشید کوارٹرز کی حدود میں ڈی ایس پی اعوان پر حملہ کیا۔ ڈی ایس پی اعوان اور اُن کا گن مین شدید زخمی ہوئے مگر گن مین کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور فرار ہوگئے۔ یہ حملہ خود دیکھنے یا حملہ آوروں کی مدد اور تحفظ کے لیے حافظ قاسم سڑک کے دوسری جانب خود موجود رہا۔ اپنے بیان کے مطابق 19 جنوری 2012 کو حافظ قاسم نے خود ریکی کر کے سب انسپیکٹر اصغر تارڑ کو شیعہ ہونے کی بنیاد پر گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ حافظ قاسم نے پولیس اور دیگر اداروں کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ 29 ستمبر 2012 کو قتل ہونے والے دو پولیس افسران، کراچی سینٹرل جیل کے افسران اے ایس پیر مسعود احمد اور ڈی ایس پی عبدالرزاق عباسی کو بھی اُس ہی نے نیپا چورنگی کے قریب گولیاں مار کر قتل کیا۔ حافظ قاسم کے اعتراف کے مطابق 2 اگست 2012 کو لشکر جھنگوی سے وابستہ اخلاق پرویز نے وسیم بارودی کو اطلاع دی کہ اُس کی نانی کا انتقال ہو گیا ہے جن کی نمازِ جنازہ جامع مسجد انکوائری آفس ناظم آباد میں ادا کی جائے گی اور وہاں ایم کیو ایم کے رکنِ سندھ اسمبلی حیدر بھی تعزیت و نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے آئیں گے کیونکہ وہ میرے خالو کے دوست ہیں۔ اس اطلاع پر حافظ قاسم اپنے ساتھیوں وسیم بارودی اور عبداللّہ عرف تیمور کے ہمراہ وہاں پہنچا۔ رضا حیدر مسجد کے باہر جنازے کے انتظار میں (وضو خانے میں) کھڑے تھے۔ عبداللّہ تیمور نے پہلے پستول سے رضا حیدر کے گن مین محمد خالد خان کو گولی ماری پھر سرکاری ایس ایم جی رائفل چھین لی۔ جب رضا حیدر بچنے کے لیے مسجد کی طرف بھاگے تو حافظ قاسم نے تین چار گولیاں چلائیں مگر کوئی گولی رضا حیدر کو نہ لگ سکی۔ جس پر عبداللّہ تیمور نے تعاقب کر کے وضو خانے تک پہنچ کر چھینی ہوئی ایس ایم جی سے انھیں آٹھ گولیاں مار کر قتل کر دیا اور فرار ہوگئے۔ حافظ قاسم کا کہنا ہے کہ رضا حیدر کو شیعہ ہونے کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔ اگرچہ بی بی سی کو حاصل ہونے والی تفتیشی دستاویزات میں حافظ قاسم نے تفتیش کاروں کو تمام 34 وارداتوں کی بھیانک تفصیلات بتائی ہیں مگر اُن سب کا تذکرہ یہاں جگہ کی قلت اور طوالت کے پیشِ نظر ممکن نہیں۔ یہ تمام وارداتیں 2010 سے 2012 کے درمیان کی گئیں۔ یہاں تک کی کہانی سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ محض فرقے یا مسلک کے مختلف ہونے پر درجنوں قیمتی انسانی جانیں لینے والے حافظ قاسم جیسے ٹارگٹ کلرز گرفتاری کے باوجود ہر بار اتنی آسانی سے رہا کیسے ہو جاتے ہیں اور یہ بھی کہ کیا حافظ قاسم ہی امجد صابری کے قتل میں بھی ملوث تھا؟ پاکستان کے اخبار جنگ کی بدھ 25 اکتوبر کی اشاعت میں پولیس اعلامیے کے حوالے سے بتایا گیا کہ ’فرقہ وارانہ شدّت پسند گُروہ لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے قاسم رشید عرف بلال عرف گنجا ولد عبدالرشید کو کراچی کی علاقے پٹیل پاڑہ سے گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق ملزم کچھ ہی عرصے قبل جیل سے رہا ہوا اور دوران حراست جیل سے بھی اپنا نیٹ ورک چلاتا رہا اور اپنے ساتھیوں عاصم عرف کیپری اور اسحٰق عرف بوبی کے ذریعے بین الاقوامی شہرت یافتہ قوّال امجد صابری کے قتل سمیت کئی وارداتوں میں ملوث رہا۔‘ حیرت انگیز طور پر روزنامہ جنگ سمیت پاکستانی اخبارات و دیگر ذرائع ابلاغ میں حافظ کی گرفتاری کی تفصیلات کے ساتھ سی ٹی ڈی کے بعض دیگر پولیس افسران کا یہ موقف بھی شائع و نشر ہوا کہ ملزم کو سی ٹی ڈی افسران جن بعض مقدمات میں ملوث قرار دے رہے ہیں ’اُن میں سے کئی واقعات میں اس کو ملوث کیا جانا غلطی ہے۔‘ انگریزی اخبار ڈان کی بدھ 25 اکتوبر کی اشاعت کے مطابق ’سی ٹی ڈی ہی کے سینیئر افسر ایس ایس پی راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ حافظ انتہائی خطرناک (ہائی پروفائل) دہشت گرد تو ضرور ہے اور کراچی میں شدّت پسند گروہ لشکر جھنگوی کا نائب امیر بھی رہا ہے مگر یہ امجد صابری یا فوجی جوانوں کے قتل میں ملوّث نہیں رہا اور اسے اُن مقدمات میں ملوّث کر کے سی ٹی ڈی غلطی کر رہی ہے۔‘ تو پھر پولیس حافظ کو امجد صابری کیس میں کیوں ملوث کر رہی ہے؟ اس سوال کا جواب پسِ پردہ گفتگو میں سندھ اور کراچی پولیس پولیس کی اعلیٰ ترین قیادت میں شامل رہنے والے اور اب بھی ایک اہم ذمہ داری پر تعینات افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’اس ملک میں صرف پولیس ہی سب کچھ نہیں۔ امجد صابری قتل کیس میں وہی لوگ (عاصم کیپری اور اسحٰق بوبی) ہی ہیں جو پہلے پکڑے گئے۔ وہ بہت پروفیشنل انٹیروگیشن اور انویسٹیگیشن کے بعد پکڑے گئے تھے اور جس ٹیم نے ان دونوں کو پکڑا وہ سب اپنے کام میں بہت ماہر اور بہت باخبر پولیس افسر ہیں۔ ہم جانتے کہ پولیس افسر عام جرائم پیشہ افراد سے ساز باز بھی کرتے ہیں، کرپشن بھی ہوتی ہے مگر یہ ایسا کام ہے کہ کوئی پولیس افسر جھوٹ بول کر اپنی جان اور ملازمت دونوں خطرے میں نہیں ڈالے گا۔‘ ’اگر اس نے ایک دہشتگرد کی کارروائی دوسرے پر ڈالی تو دہشتگرد مار دیں گے اور اگر جھوٹ پکڑا گیا تو ملازمت ختم اوراگر دہشت گردی کے معاملات سے کھلواڑ کیا تو ریاست بھی کارروائی کرے گی۔ اس لیے میں بڑی ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں پولیس نہیں کرتی یہ کہ اِس دہشتگرد کو اُس کیس میں بھی ڈال دو جو اس نے نہیں کیا ہو۔۔۔ یہ کوئی اور کرتا ہے۔۔۔ پولیس میں اتنا بڑا رسک نہ تو کوئی افسر لیتا ہے نہ لے سکتا ہے۔‘ جب پولیس کو سب پتا ہے تو پھر بعض پولیس افسر حافظ کو صابری قتل کیس میں ملوث کرنے کو غلطی کیوں قرار دے رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انگریزی اخبار ڈان کے سٹی ایڈیٹر اظفر الاشفاق نے مجھے کہا کہ ’خود سی ٹی ڈی کے افسر راجہ عمر خطاب کہہ رہے ہیں کہ اُن کی تفتیش کے مطابق امجد صابری کو تو ملزمان عاصم عرف کیپری اور اسحٰق عرف بوبی نے قتل کیا اور اُن کو سزا بھی ہوئی اور سزا کے خلاف اپیل بھی چل رہی ہے۔ اگر حافظ پر آپ امجد صابری کیس ڈال دیں گے تو دونوں کیس کمزور ہو جائیں گے اور دونوں کو شک کا فائدہ ہو گا اور یہی وجہ ہے کہ راجہ عمر خطاب اس کو غلط قرار دے رہے ہیں۔‘ ایس پی فیاض خان نے بھی کہا کہ امجد صابری کا کیس بہت عمدگی سے ہینڈل کیا گیا تھا اور مجھے بھی نہیں لگتا کہ حافظ قاسم امجد صابری کے قتل میں ملوّث ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر وہ ملوث ہوتا تو جہاں دوران تفتیش پولیس افسران کو اور کیسز بتائے وہاں یہ بھی بتا دیتا۔ ہمارے مخبر بھی ہوتے ہیں اُن میں سے بھی کبھی کسی نے اس کے ملوث ہونے کی نشاندہی نہیں کی۔‘ لیکن جب پولیس کی ہر سطح کے افسران یہ بھی جانتے ہیں کہ حافظ قاسم کتنا خطرناک ہے اور کن کن وارداتوں میں ملوّث رہا تو ہر بار گرفتار کر لینے کے باوجود پولیس اُسے عدالت سے سزا دلوانے میں ناکام کیوں رہی؟ صحافی اظفر الاشفاق کا کہنا ہے کہ ’اگر استغاثہ ہی کمزور ہو تو عدالت سزا کیسے دے سکتی ہے؟ دوسری وجہ وٹنس پروٹیکشن (گواہوں کے تحفظ کا) پروگرام ہے۔ اس پرعمل نہیں ہوتا۔ گواہان ملزمان کے سامنے عدالت میں پیش ہوتے ہیں ملزمان انھیں باآسانی ڈرا دھمکا لیتے ہیں۔ گواہان کا تحفظ تو ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ریاست اس میں ناکام ہو رہی ہے۔‘ دہشتگردی کا نشانہ بننے والے افراد کے اہلِ خانہ اور خاندان بھی نظام عدل کی کمزوری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مقتول ایم پی اے رضا حیدر کے صاحبزادے خرم علی بھی اپنے والد کے قتل 13 سال بعد بھی مجرموں کو سزا نہ دیے جانے پر نظامِ عدل سے مایوس ہیں۔ ایس پی فیاض خان بھی عدالتی نظام میں کمزوریوں کو حافظ قاسم رشید جیسے ملزمان کی طاقت قرار دینے کے خیال سے متفق ہیں۔ فیاض خان کا کہنا ہے کہ ’جن تنظیموں سے حافظ جیسے ملزمان کا تعلق ہوتا ہے وہ بہت طاقتور ہوتی ہیں وہ اتنے بڑے نیٹ ورک ہیں کہ اگر اُن کا کوئی ساتھی گرفتار ہو جائے تو باہر یہ گواہوں کو پولیس افسروں کو قتل کر دیتے ہیں۔ گزشتہ بار گرفتار ہونے پر حافظ کا کیس جیل میں چلتا تھا۔ ہمارے افسر جیل میں سماعت پر جاتے تھے تو یہ اُن کو دھمکی دیتے تھے۔ جج کے سامنے دھمکی دیتے تھے حتیٰ کے جج تک کو دھمکی دیتے تھے۔‘ ایس پی فیاض نے مزید کہا کہ ’جب ملزم جج اور تفتیشی پولیس افسروں، جیل حکام کو دھمکی دیتے تھے تو عام گواہ تو خوف میں عدالت ہی نہیں آتے تھے۔ کچھ عرصے تک تو متاثرین کی فیملی آتی ہے مگر کچھ مقدمات میں وہ بھی گواہی نہیں دے پاتے۔‘ ’پھر جو عدالتوں میں اُن کے ساتھ ہوتا ہے 20-20 پیشیاں 25-25 بار عدالت کی سماعت، تو وہ مایوس ہوجاتے ہیں۔‘ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ استغاثہ کی جانب سے صرف گواہان کی بنیاد پر یا پولیس کی تفتیش میں اعترافی بیان پر ہی کیوں عدالتی کارروائی ہوتی ہے اور سائنسی شواہد (ڈی این اے ٹیسٹ وغیرہ یا فنگر پرنٹ جیسے ثبوت) کیوں عدالت میں پیش نہیں کیے جاتے؟ اس پر صحافی اظفر الاشفاق کا کہنا ہے کہ ’پراسیکیوٹر (افسر استغاثہ) ملزم کا بیان دیکھتا ہے اور گواہ کا بیان مل جاتا ہے اور بس۔۔۔ اتنی آسانی سے مقدمہ عدالت میں چلا جاتا ہے جہاں ملزم یہ کہہ دیتا ہے کہ اُس سے زبردستی اعترافی بیان لیا گیا اور گواہ اپنی گواہی سے مکر جاتے ہیں۔ اب ڈی این اے ٹیسٹ بلڈ سیمپل اور فنگر پرنٹ جیسے کام میں تو محنت لگتی ہے پیسے بھی خرچ ہوتے ہیں تو اتنا کام کون کرے؟ وہ سب سہولتیں موجود ہیں کافی مقدمات میں پیش بھی کی جاتی ہیں سزا بھی ہوتی ہے مگر ہر مقدمے میں اتنی محنت نہیں کی جاتی اور بہت کم گواہ ایسے ہوتے ہیں جو واقعی موقعِ واردات پر موجود ہوں۔ تو کہیں نہ کہیں جھول آ جاتا ہے استغاثہ کی کہانی میں اور عدالت سے شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔‘ ایس پی فیاض نے کہا کہ سائنسی بنیادوں پر پولیس کی تفتیش میں بڑا کام ہوا ہے اور گزشتہ 8 یا 10 سال میں پولیس کی تفتیش کا معیار بہت بہتر ہوا ہے لیکن ان چیزوں کے ساتھ بھی گواہان کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ ’فرض کریں کہ واقعاتی شہادت یا سائنسی ثبوت و شواہد ڈی این اے یا بلڈ سیمپل موجود بھی ہوں اور پھر ایک بھی گواہ اپنے بیان سے مکر جائے تو پھر عدالت میں تو سارا مقدمہ خراب ہو جاتا ہے۔‘" https://www.bbc.com/urdu/articles/c14v4qjddyko,سینکڑوں سال پرانا ’خالصہ سرکار‘ کا قانون جو گلگت بلتستان کے عوام کے زمینی حقوق کی راہ میں حائل ہے,"’سرکار کے پاس جواز کیا ہے کہ وہ شمالی علاقہ جات میں آ کر لوگوں کی بیابان زمینوں پر قبضہ کرے؟ یہاں پر فصل اگانے کی جگہ نہیں۔ گھر کی جگہ نہیں۔ تو ہم اور کیا بات کریں۔‘ یہ کہنا ہے گلگت کے علاقے ہراموش کے رہائشی کا۔ ان سے میری ملاقات ہراموش کے گاؤں شوتہ میں ہوئی جہاں پر زمین کی ملکیت کو لے کر سرکار اور مقامی افراد کے درمیان تنازعہ پنپ رہا ہے۔ یوں تو گلگت بلتستان کے علاقے سیر و تفریح کے لیے مشہور ہیں لیکن سیاحت سے ہٹ کر یہ علاقہ بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے جن میں سرِ فہرست زمین کی ملکیت کا معاملہ ہے۔ مقامی افراد سے بات کرنے پر پتا چلا کہ یہ تنازعہ ایک یا دو گاؤں کا نہیں بلکہ کئی علاقوں کا ہے جو چاہتے ہیں کہ ’خالصہ سرکار‘ کے نام پر لی گئی زمینوں کے قانون کو ہی ختم کر دیا جائے۔ خالصہ سرکار کیا ہے اس پر بعد میں بات کرتے ہیں لیکن پہلے اگر گلگت کے رہائشیوں کو درپیش مسائل پر بات کریں تو گلگت کے یہ گاؤں یہاں پر دہائیوں سے آباد ہیں تاہم پچھلے چند سال میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے نتیجے میں اب لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کو ان کی آبائی زمینوں سے بغیر معاوضہ دیے ہٹایا جا رہا ہے۔ چاہے یہاں کا ڈگری کالج ہو یا پھر کینسر ہسپتال، مقامی افراد دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ لوگوں سے لی گئیں زمینیں ہیں جن پر اب یہ تعمیرات بنا دی گئی ہیں اور نتیجتاً ہر چند ماہ بعد بات مظاہروں تک پہنچ جاتی ہے۔ گلگت میں سب سے بڑا احتجاج رواں سال جنوری میں ہوا تھا لیکن اس کے بعد بھی احتجاجی مظاہروں کے ذریعے عوام اپنے مطالبات سامنے رکھتی رہتی ہے۔ زمین کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے میں نے سب سے پہلے ہراموش کے گاؤں شوتہ کا رُخ کیا۔ شوتہ گاؤں کے رہائشی اس وقت سرکار کے ساتھ قانونی جنگ میں ملوث ہیں۔ شوتہ تک پہنچنے کا راستہ خاصا مشکل اور تنگ ہے اور اسی پہاڑ کے بیچ لوگ آباد ہیں۔ اِن ہی تنگ گلیوں میں لوگوں کی رہائش اور کاشت کرنے کے لیے محدود جگہ میسر ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ زیادہ تر مکانات کے بالکل نیچے گہری کھائی ہے اور مقامی افراد بتاتے ہیں کہ یہ ہر روز تھوڑی تھوڑی سِرک رہی ہے جس کے نتیجے میں کچھ عرصے بعد یہ مکان زمین بوس ہو سکتے ہیں۔ لوگ بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے وہ جہاں آباد تھے انھیں ان مقامات سے سرکار نے یہ کہہ کر بے دخل کر دیا تھا کہ ان کے پاس ان جگہوں کے کاغذات نہیں۔ ’پہلے زمانے میں دستاویزات نہیں ہوا کرتے تھے۔ ہمارے باپ دادا یہیں آباد تھے اور یہیں ان کے جانوروں کی چراگاہیں تھیں۔ پھر سرکار نے کہا کہ ’خالصہ سرکار‘ کے قانون کے تحت یہ تمام زمینیں سرکار کی ہیں۔ ’سرکار کے پاس جواز کیا ہے کہ وہ لوگوں کی آباد کی گئی زمینوں پر قبضہ کرے؟ حال یہ ہو چکا ہے کہ اب ہمارے رہنے کی جگہ تنگ ہو چکی ہے کیونکہ ہمیں ہماری زمینوں سے پیچھے کر کر کے یہاں پہاڑوں میں لاکر بٹھا دیا ہے۔‘ اب ان افراد کا مطالبہ صرف یہی ہے کہ انھیں ان کی زمینوں کی ملکیت دی جائے اور جب تک ایسا نہیں ہو گا تب تک یہ عدالتوں کے ذریعے لڑتے رہیں گے۔ لیکن یہ کہانی صرف اس علاقے تک محدود نہیں بلکہ ہنزہ اور سکردو میں بھی زمین کی ملکیت کا تنازعہ بڑھ چکا ہے۔ خالصہ سرکار کا لفظ گلگت بلتستان میں سِکھوں کی حکومت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو 1799 سے لے کر 1849 تک قائم رہی۔ گلگت کے اندر اور باہر سِکھ سلطنت کی قبضہ کی گئی زمینوں کو ’خالصہ سرکار زمین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خالصہ سرکار کے قانون کے تحت گنجان آباد (یا خالی) زمین پر سرکار کا قبضہ تھا جبکہ برصغیر کی تقسیم کے بعد سے پاکستان میں یہ قانون آج بھی رائج ہے۔ اس وقت زمین کی ملکیت کا تنازعہ چلمس، مقپون داس، داس، کونو داس اور دونگ داس میں ہے جبکہ لوگ اپنے گاؤں کے بیچ زمین کے تنازعات کو بھلا کر ایک ہو چکے ہیں اور اس وقت ان کا مقصد سرکار سے اپنی زمین کی ملکیت حاصل کرنا ہے۔ اب کئی دہائیوں بعد یہاں کے مقامی اس قانون کو ہی ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ زمین کا یہ تنازعہ اس قدر طول پکڑ چکا ہے کہ ہراموش نے ایک اور گاؤں چھموگڑھ سے اپنی دشمنی بھلا کر اسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے۔ چھموگڑھ گاؤں کے احتشام الحق کہتے ہیں کہ ان کی آبائی زمینوں پر ترقیاتی کاموں کے نتیجے میں ان پر زمین تنگ کر دی گئی۔ ’ہماری بنجر زمینیں بہت زیادہ ہیں۔ اس پر ہم پانی لا کر آباد کاری بھی کر سکتے ہیں لیکن ایک طرف سے سرکار ہمیں نہیں چھوڑ رہی کیونکہ خالصہ سرکار زمینوں پر دفعہ 144 لگی ہوئی ہے۔‘ ’اس وجہ سے ہم جن زمینوں پر بیٹھیں ہیں اب ہماری یہی محدود زمینیں ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد 200 سال پہلے یہاں آئے تھے تب سے لے کر اب تک ہم صرف ایک ہزار گھرانے یہاں رہ گئے ہیں۔‘ احتشام نے کہا کہ سرکار کو جو زمین چاہیے اس پر انھیں اعتراض نہیں لیکن اس کے بدلے انھیں معاوضہ دیا جائے۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت کی جانب سے سی پیک سے متعلق منصوبوں کی مد میں زمینیں لی گئی ہیں جس کے لیے ہم نے گذشتہ حکومت میں وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال سے مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تاہم تاحال ان کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔ احتشام نے کہا کہ سرکار انھیں معاوضہ نہیں دے رہی ’اور اب ہونا تو یہی چاہیے کہ اس قانون کو ہی ختم کر دیا جائے۔‘ یہی سوال جب میں نے گلگت کے وزیرِ قانون سہیل عباس سے پوچھا کہ کیا خالصہ سرکار کا قانون ختم کر دینا چاہیے؟ تو انھوں نے اس کی مخالفت کرنے کی برعکس کہا کہ ’جی، انشا اللہ کیونکہ ابھی جو ہمارا لینڈ رفارمز کا ڈرافٹ بنا ہوا ہے اس میں باقاعدہ دو قسم کی زمینوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کے مطابق اگر لوگوں کی زمین غیر قانونی طریقے سے بھی حاصل کی گئی ہے تو اسے خالی کروا کر ہم لوگوں میں تقسیم کریں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’خالصہ سرکار کے قانون کو غلط طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں زمین کی ملکیت کے جتنے بھی معاملات ہیں وہ جا جا کر خالصہ سرکار پر ہی آ کر رکتا ہے۔‘ حال ہی میں مقامی افراد نے سیاستدانوں کو گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی سے ایک قرارداد پیش کرنے پر بھی مجبور کیا۔ اس قرارداد کے تحت مقامی افراد نے نو آبادیاتی قوانین کو ختم کرنے، لوگوں کو ان کی زمینوں کی ملکیت کا حق دینے اور گلگت کے لیے سی پیک منصوبوں میں حصہ مانگا ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے کیا ان کی زمینیں بچ سکیں گی یا ان کو اس کے بدلے میں معاوضہ مل سکے گا، اس بات کی اس وقت کوئی گارنٹی نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک جمیل احمد علاقے کے لوگوں کی حقِ ملکیت کے تحت ڈاکیومنٹس جمع کروانے میں مدد کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اس خطے کو ہم انتظامی صوبہ کہہ سکتے ہیں یہ آئینی صوبہ نہیں۔ یہ انتظامی صوبہ ہے جس میں جو صوبہ کا انتظامی سیٹ اپ ہوتا ہے وہ مکمل ہے۔ ایک اسمبلی ہے۔ پہلے معاملات بگڑتے رہے کیونکہ قانون سازی کا اختیار یہاں نہیں تھا، کشمیر افئیرز کے پاس تھا۔ وزیرِ اعظم کے پاس تھا۔‘ ’سنہ 2009 میں پہلی دفعہ اس اسمبلی کے پاس یہ اختیار آیا لیکن میں پوری کوشش کروں گا کہ اسمبلی کے ذریعہ لوگوں کے مسائل اجاگر کروں۔‘ احتشام الحق نے کہا کہ ’اس وقت اس بگڑتی صورتحال کے ذمہ دار یہ سیاستدان بھی ہیں۔ جو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ایک بات کرتے ہیں اور حکومت میں آ کر دوسری بات کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ساتھ ہوں یا نہ ہوں، ہم اپنی زمینیں ان سے لے کر رہیں گے۔‘ ویسے تو پاکستان کے لیے گلگت بلتستان کا یہ خطہ خاصی اہمیت رکھتا ہے لیکن مقامی افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی زمینوں پر ترقیاتی کاموں کو روکنے کی ہر ممکن پلیٹ فارم سے مخالفت کریں گے اور اب یہ واضح ہے کہ جب تک زمین کی ملکیت کا کوئی پائیدار حل نہیں نکالا جاتا، یہ تنازعہ اس خطے میں پنپتا رہے گا۔" https://www.bbc.com/urdu/articles/c843wnkql7yo,میانوالی ایئربیس پر حملہ، نو دہشتگرد ہلاک: ’اللہ خیر کرے، ایئرفورس بیس محفوظ رہے‘,"’اللہ خیر کرے، ایئرفورس بیس محفوظ رہے۔‘ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی ایئربیس سے ملحقہ علاقے میں رہنے والے محمد خالد کی آنکھ سنیچر کو رات گئے دھماکوں اور فائرنگ کی آواز سے کھلی تو ان کے ذہن میں پہلا خیال ایئربیس کا آیا اور انھوں نے دل ہی دل میں اس کی حفاظت کی دعا کی۔ صبح ہوتے ہی یہ خبر پھیل چکی تھی کہ میانوالی شہر میں پاکستان ایئرفورس کی مشہور بیس پر حملہ ہو گیا ہے۔ خالد سمیت میانوالی کے جن رہائشیوں سے بی بی سی نے بات کی ہے ان کا کہنا ہے کہ فائرنگ کا سلسلہ صبح سے شروع ہوا وقفے وقفے دن تک جاری رہا۔ جس کے بعد پاکستانی فوج اور پاکستانی ایئرفورس نے اس دہشتگرد حملے کے خلاف جوابی کارروائی میں نو عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا اور کلیئرنس آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے۔ اعلامیوں کے مطابق حملے کے نتیجے میں ’پاکستان ایئرفورس فنکشنل اور آپریشنل اثاثوں میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا البتہ حملے کے دوران صرف تین غیر آپریشنل طیاروں کو معمولی نقصان پہنچا ہے۔‘ اس سے قبل ایک اعلامیے میں آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ ’اس دوران پہلے سے گراؤنڈ کیے گئے تین طیاروں اور ایک فیول باؤزر کو بھی کچھ نقصان پہنچا۔‘ میانوالی ایئربیس میانوالی شہر میں ہی موجود ہے اور اس کے اردگرد وقت کے ساتھ نئی ہاؤسنگ سکیمیں بھی بنائی گئی ہیں جس کے باعث اب اس کے اردگرد رہائشی علاقے وسیع ہوا ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آس پاس کے علاقوں میں کومبنگ آپریشن بھی کیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ یہ گذشتہ دو ماہ کے دوران میانوالی میں ہونے والا دوسرا حملہ ہے۔ اس سے قبل یکم اکتوبر کو ضلع میانوالی میں عیسیٰ خیل کنڈل میں ایک پولیس چوکی پر 12 سے 15 شدت پسندوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ایک پولیس کانسٹیبل ہلاک ہوا تھا جبکہ پنجاب پولیس کے مطابق جوابی کارروائی میں دو شدت پسند ہلاک اور ایک زخمی ہوا تھا۔ اس سے پہلے رواں سال فروری میں پنجاب پولیس کے مطابق میانوالی کے تھانہ مکڑ وال پر عسکریت پسندوں کی جانب سے کیا گیا حملہ پسپا کیا گیا تھا جس کے بعد عسکریت پسند بھاگنے پر مجور ہو گئے تھے۔ واضح رہے کہ اس حملے کی زمہ داری تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی ہے جو نسبتاً ایک غیر معروف جماعت ہے۔ اس تنظیم نے اس حملے سمیت اب تک چھ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام اکستان میں شدت پسندی سے جڑے حالیہ چند حملے ایسے ہوئے ہیں جن کی ذمہ داری ایک ایسی غیر معروف تنظیم نے قبول کی ہے جس کے بارے میں حکام اوریہاں تک کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے عہدیدار بھی کچھ نہیں جانتے یا شاید بتانے سے گریزاں ہیں۔ اکثر تجزیہ کار اسے ایک پراسرار تنظیم قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس تنظیم کے ترجمان ان حملوں کی ذمہ داریاں تو قبول کرتے ہیں لیکن وہ اپنی تنظیم کے خدوخال کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔ اس تنظیم کا نام ’تحریک جہاد پاکستان‘ بتایا جا رہا ہے اور اس سے پہلے مئ میں بھی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے مسلم باغ میں ایف سی کیمپ پر حملے کی ذمہ داری اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔ اس تنظیم کا نام چند ماہ پہلے ہی سامنے آیا جب اس تنظیم نے صوبہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں سکیورٹی فورسز پر حملے کی ذمہ داری پہلی بار قبول کی تھی۔ سینیئر صحافی اور خراسان ڈائری کے ڈائریکٹر نیوز احسان اللہ ٹیپو نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سال فروری میں انھیں ٹیلی فون پر پیغام موصول ہوا تھا جو بظاہر کسی یورپی ملک کے نمبر سے تھا۔ ’کال کرنے والے شخص نے اپنا نام ملا محمد قاسم بتایا اور کہا کہ انھوں نے ’تحریک جہاد پاکستان‘ کے نام سے تنظیم کی بنیاد رکھی ہے لیکن اس تنظیم کے بارے میں مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس کے دو دن بعد موبائل فون پر ایک میسج آیا جس میں کہا گیا کہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملے کی ذمہ داری وہ اپنی تنظیم کی جانب سے قبول کرتے ہیں۔ اس حملے میں دو سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا میں شدت پسندی اور اس سے جڑے مسائل پر گہری تحقیق کرنے والے تجزیہ کار عبدالسید نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تحریک جہاد پاکستان‘ اب تک ایک پراسرار تنظیم ہے جس کی قیادت، ارکان اور وجود کے کوئی شواہد نہیں۔ بعض صحافیوں کو بھیجے گئے مختصر تحریری پیغامات کے ذریعے اس تنظیم کے قیام کا اعلان کیا گیا اور ایک سوشل میڈیا اکاونٹ یا کچھ صحافیوں کو تحریری پیغامات بھیج کر شدت پسند حملوں کی ذمہ داریاں قبول کی گئی ہیں۔ اب تک اس تنظیم کے سربراہ و ترجمان کے نام متعارف کیے گئے ہیں لیکن ان کے ماضی یا حقیقی کردار ہونے سے متعلق کوئی شواہد نہیں۔ اس تنظیم کے ترجمان اپنا نام ملا محمد قاسم لکھتے ہیں، جنھوں نے صحافیوں کی درخواست اور کوشش کے باوجود اب تک کسی سے بات نہیں کی اور فقط تحریری پیغامات بجھوائے ہیں۔" https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n8xlvzg2lo,عمران خان پر حملے کا ایک برس: مقدمے کی تفتیش میں اب تک کیا پیشرفت ہوئی؟,"پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان پر وسطی پنجاب کے علاقے وزیر آباد میں ہونے والے حملے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے لیکن ابھی تک اس مقدمے کی نہ تو حتمی تفتیش مکمل ہوئی ہے اور نہ ہی اس مقدمے کا مکمل چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس مقدمے میں محض ایک پیشرفت ہوئی اور وہ یہ کہ اس کیس میں گرفتار ہونے والے پانچ ملزمان میں سے تین ضمانتوں پر رہا ہو چکے ہیں اور باقی دو ملزم ٹرائل نہ ہونے کے باوجود ابھی تک جیل میں ہیں۔ جن ملزمان کو ضمانتوں پر رہا کیا گیا، ان میں احسن، طیب اور مدثر شامل ہیں۔ احسن اور مدثر کی ضمانت متعلقہ انسداد دہشتگردی کی عدالت نے منظور کی تھی جبکہ اس مقدمے میں گرفتار تیسرے ملزم طیب کی ضمانت لاہور ہائی کورٹ نے منظور کی تھی۔ اس مقدمے کے دو مرکزی ملزمان جن میں نوید اور وقاص شامل ہیں، ابھی تک جیل میں ہیں اور گوجرانوالہ کی سینٹرل جیل میں سخت سکیورٹی زون میں قید ہیں۔ ملزمان کے وکیل میاں داؤد کے مطابق اس مقدمے کے چوتھے ملزم وقاص کی ضمانت کی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے۔ واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان ایک سال قبل یعنی تین نومبر کو اس وقت گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے جب وہ ایک احتجاجی مارچ کو لے کر لاہور سے اسلام آباد کی طرف جا رہے تھے کہ وزیر آباد کے قریب واقع اللہ والہ چوک پر ان پر حملہ ہوا تھا۔ ملزمان کے وکیل میاں داؤد کا کہنا ہے کہ عمران خان پر حملے کے مقدمے کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی نے ابھی تک تفتیش مکمل نہیں کی جس کی وجہ سے اس مقدمے کا ٹرائل شروع نہیں ہو سکا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے مؤکل بے گناہ ہیں اور پولیس نے محض رسمی کارروائی کرتے ہوئے ان کے مؤکلین کو گرفتار کیا۔ یاد رہے کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم نوید احمد کا ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا گیا تھا جو انھوں نے پولیس کی تحویل میں دیا تھا۔ اس ویڈیو پیغام میں ملزم نوید احمد نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر حملہ کیا کیونکہ وہ (عمران خان) اپنے خطاب کے دوران ’ایسی باتیں کر جاتے تھے جو ان کے مطابق دین کے خلاف تھیں۔‘ اس مقدمے کے پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کی گذشتہ دو درجن سے زائد سماعتوں کے دوران تھانہ سٹی وزیر آباد کے تفتیشی افسر کی طرف سے ایک صفحے کی رپورٹ متعقلہ عدالت میں جمع کروائی جاتی ہے جس پر لکھا ہوتا ہے ’عبوری چالان رپورٹ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 173 کے تحت جمع ہے۔ حسب ضابطہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔‘ انھوں نے کہا کہ لیکن ہر تین ماہ کے بعد نئی عبوری رپورٹ متعلقہ عدالت میں جمع کروانا لازمی ہے۔ واضح رہے کہ اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے پانچ ملزمان کو لاہور کے سابق پولیس چیف غلام محمود ڈوگر کی سربراہی میں قائم ہونے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تحقیقات کی روشنی میں گرفتار کیا گیا تھا اور پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کے زیر استعمال موبائل فون کے ڈیٹا سے ان کا آپس میں رابطہ ثابت ہوتا ہے اور جے آئی ٹی کے بقول ملزمان کافی عرصے سے اس حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری کا بھی اس بارے میں کہنا تھا کہ ان کے پاس اس حملے کی معلومات پہلے سے تھیں کہ عمران خان پر گوجرانوالہ اور گجرات کے درمیان حملہ ہو سکتا ہے۔ غلام محمود ڈوگر کی سربراہی میں قائم جے آئی ٹی میں شامل ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس ٹیم نے اس وقوعہ کے شواہد جمع کیے تھے اور تفتیش کو آگے لے کر چلے تھے تاہم تفتیش کو حتمی نتیجے پر پہنچانے سے پہلے ہی پنجاب حکومت ختم کر دی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ عبوری چالان اس لیے بھی مکمل نہیں ہو سکا تھا کیونکہ سابق وزیر اعظم پر جب حملہ ہوا تھا تو انھیں سرکاری ہسپتال میں لے کر جانے کی بجائے شوکت خانم ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے ان کی میڈیکل رپورٹ بنوائی گئی اور مقدمے کے چالان میں اگر کسی نجی ہسپتال کی رپورٹ لگائی جائے تو عدالتیں اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتیں۔ جے آئی ٹی کے اس رکن کا کہنا تھا کہ ابھی تک اس مقدمے کے چالان میں عمران خان کا بیان نہیں لگایا گیا جو مقدمے کے چالان کا ایک اہم حصہ ہے۔ جے آئی ٹی کے رکن کے مطابق عمران خان پر حملے میں ملوث نوید احمد کا ویڈیو بیان جس پولیس افسر نے اپنے موبائل پر ریکارڈ کیا تھا وہ پولیس افسر نہ تو جے آئی ٹی میں پیش ہوا اور نہ ہی اس نے وہ موبائل پیش کیا۔ یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد غلام محمود ڈوگر کی سربراہی میں قائم ہونے والی جے آئی ٹی ختم کر دی گئی تھی جس کے بعد پنجاب کی نگراں حکومت اور پھر پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت نے عمران خان پر حملے کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔ اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اہلکار بھی شامل تھے تاہم پی ٹی آئی نے ان دونوں جے آئی ٹیز کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا اور یہ معاملہ ابھی تک لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے تاہم لاہور ہائی ورٹ نے ان جے آئی ٹیز کو ابھی تک نہ تو کام کرنے سے روکا ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی حکم امتناعی جاری کیا۔ پنجاب پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق جب سے یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں گیا، اس کے بعد سے جے آئی ٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا اور نہ ہی عمران خان پر ہونے والے حملے کی تفتیش میں کوئی پیشرفت ہوئی۔ پنجاب کے سابق ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی امید نہیں کہ عمران خان پر ہونے والے حملے کا مقدمہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔ انھوں نے کہا کہ اگر جے آئی ٹیز اپنے کام میں سنجیدہ ہوتیں تو وہ ان افراد سے تو ضرور پوچھ گچھ کرتیں جن پر عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان پر حملے میں ملوث ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ پی ٹی آئی نئی بننے والی دونوں جے آئی ٹیز کے خلاف عدالتوں میں گئی لیکن ان عدالتوں نے انھیں کام کرنے سے تو نہیں روکا۔ احمد اویس کا کہنا تھا کہ ان جے آئی ٹیز کا نہ تو کوئی اجلاس ہوا اور نہ ہی پی ٹی آئی کے کسی رہنما کو اس ضمن میں پیش ہونے کا کوئی نوٹس جاری ہوا۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ نو سال بعد ہوا تھا اسی طرح اس عمران خان پر حملے کے مقدمے کا فیصلہ بھی جلد ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ انھوں نے کہا کہ وہاں پر بھی نامکمل چالان جمع تھا اور اس مقدمے میں بھی ویسی ہی صورتحال ہے۔ واضح رہے کہ نو مئی کو جب عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو اس وقت کی حکومت کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے عمران خان کا سرکاری ہسپتال سے اس ٹانگ کا معائنہ بھی کروایا تھا جس پر عمران خان کے بقول انھیں گولی لگی تھی۔ اس وقت کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سابق وزیراعظم کو مبینہ طور پر ٹانگ پر لگنے والی گولی سے آنے والے زخم سے متعلق شوکت خانم اور سرکاری ہسپتال کی رپورٹ میں بہت زیادہ فرق ہے تاہم حکومت نے عمران خان کی وہ رپورٹ پبلک نہیں کی۔" https://www.bbc.com/urdu/articles/cjkp50lyy55o,افغان پناہ گزینوں کی واپسی: ’حکومت پاکستان کے اعلان کے بعد میرا کاروبار آسمان سے زمین پر آ گیا‘,"پاکستان میں اس وقت غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈائوں کا آغازہو گیا ہے لیکن اس سے بلوچستان میں وہ افغان پناہ گزین بھی پریشان ہیں جن کے پاس اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یواین ایچ سی آر) کے پروف آف رجسٹریشن کارڈ اور افغان سیٹیزن شب کارڈ موجود ہیں۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایسے متعدد افغان پناہ گزین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم بہت زیادہ پریشان ہیں کیونکہ آج جن لوگوں کے خلاف غیر قانونی طور پر مقیم ہونے کی بنیاد پر کارروائی ہو رہی ہے، کل ہمارے ساتھ بھی یہی ہو گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم حکومت پاکستان کے ہر فیصلے کا احترام کریں گے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں مناسب وقت دیا جائے تاکہ اگر یہاں ہمارا کوئی کاروبار یا گھربار ہے تو ہم اسے سمیٹ سکیں اورافغانستان میں اپنے لیے کسی ٹھکانے کا انتظام کر سکیں۔‘ کوئٹہ میں جن لوگوں سے ہماری بات ہوئی ان میں سے بعض کا تعلق افغانستان کے انتہائی سرد علاقوں سے تھا۔ انھوں نے حکومت پاکستان سے یہ درخواست کی وہ ان کو سردیوں تک یہاں رہنے دے تاکہ وہ گرمیوں میں جا کراپنے لیے گھر بنا سکیں کیونکہ شدید سردی میں خواتین، بچوں اور بزرگ افراد کا وہاں گزارا ممکن نہیں۔ کوئٹہ میں پی او آر (پروف آف رجسٹریشن) کارڈ رکھنے والے جن افغان پناہ گزین سے ہماری بات ہوئی ان میں افغانستان کے علاقے بغلان سے تعلق رکھنے والے حاجی حمیداللہ بھی شامل تھے۔ انھیں یہ بات تویاد نہیں تھی کہ وہ کب پاکستان آئے لیکن ان کو یہ یاد ہے کہ وہ جب اپنے والدین کے ساتھ پاکستان آئے تو ان کی عمرانتہائی کم تھی اوراس وقت پاکستان میں سابق فوجی آمر ضیا الحق کی حکومت تھی۔ ’اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ میں کب سے پاکستان میں ہوں۔ میری شادی پاکستان میں ہوئی میرے اس وقت 15 چھوٹے اور بڑے بچے ہیں جو سب پاکستان میں پیدا ہوئے اور وہ یہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔‘ حاجی حمیداللہ کا کوئٹہ میں پرانی اشیا کی خرید و فروخت کا کاروبار ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جب سے حکومت پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو نکالنے کا اعلان کیا ہے، اس وقت سے ان کا کاروبار بہت بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میرا کاروبار تو زمین سے آسمان پرآ گیا۔ پہلے میں روزانہ لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا کاروبار کرتا تھا لیکن یہ اب روزانہ دس سے پندرہ ہزار تک محدود ہو گیا۔‘ حاجی حمیداللہ کا یہ کہنا ہے کہ افغان پناہ گزین پاکستان پربوجھ نہیں بلکہ انھوں نے محنت مشقت کر کے پاکستانیوں کی خدمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان پناہ گزین نہ صرف پاکستان میں سستی لیبرکا ذریعے بنے بلکہ وہ پاکستانی شہریوں کے لیے معاشی لحاظ سے فائدہ مند رہے۔ انھوں نے اپنے کاروبار کی جگہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس جگہ کا ایک لاکھ 25 ہزار روپے کرایہ دیتے ہیں۔ ’کیا کوئی پاکستانی اس جگہ کے لیے اتنا کرایہ دے گا؟ کوئی پاکستانی اس جگہ کے لیے اتنا کرایہ نہیں دے گا بلکہ وہ بمشکل اس کے لیے پندرہ سے بیس ہزارروپے تک بھی نہیں دیں گے۔‘ انھوں نے بتایا کہ جو پاکستان شہری افغان پناہ گزینوں کے ساتھ روزانہ اجرت یا ماہانہ تنخواہ پر کام کرتے ہیں افغان پناہ گزینوں کے جانے سے وہ بھی متاثرہوں گے۔ ’میں نے دو تین دن پہلے اپنے ایک پاکستانی ملازم کو کہا کہ آپ کل سے نہیں آئیں توان کی والدہ میرے پاس آئیں اور مجھے کہا کہ میرے بچے کو نہیں نکالیں کیونکہ ہمارے گھرمیں کمانے والا یہی ہے۔‘ حاجی حمیداللہ کی طرح چنگجی رکشہ چلانے والے گل محمد بھی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ ہولڈر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بچپن میں ہی پاکستان آَئے تھے اور گزشتہ چالیس سال سے پاکستان میں مقیم ہیں اور وہ کوئٹہ میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے 11 بچے ہیں اور اسی چنگجی رکشہ کو چلا کران کے لیے روزی روٹی کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہمارا روزگار بہت اچھا تھا لیکن جب سے مہاجرین کو نکالنے کی باتیں شروع ہوئی ہیں تو اس کے بعد سے ان کا کام بھی متاثر ہوا ہے۔‘ ’ہم سب پریشان ہیں کیونکہ افغانستان میں ہمارا اس وقت کچھ بھی نہیں۔ ہم حیران ہیں کہ وہاں جا کرکہاں رہیں گے اور سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ وہاں جا کرکریں گے کیا اور کھائیں گے کہاں سے۔‘ پی او آر کارڈ کھنے والے محمد رحیم کوئٹہ میں ایک سیمنٹ کی دکان پر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میری نہ یہاں ایک فٹ زمین ہے اور نہ ہی کوئی زمین افغانستان میں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کے والدین دونوں کوئٹہ میں دفن ہیں اور اب ہم حیران ہیں کہ کہاں جائیں کیونکہ یہ کہا جارہا ہے کہ غیر قانونی پناہ گزینوں کے بعد قانونی پناہ گزینوں کو نکالا جائے گا۔ بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے ایسے تمام افغان پناہ گزینوں کو تشویش میں مبتلا نہ ہونے کی ہدایت کی ہے جن کے پاس پی او آر کارڈ یا پاکستان میں قیام کے لیے درکار دوسری قانونی دستاویز ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جان محمد اچکزئی کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی ان لوگوں کے خلاف ہے جو غیر قانونی طورپرپاکستان میں مقیم ہیں جبکہ قانونی طورپرپاکستان میں رہائش پزیر افراد کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ جان محمد اچکزئی کے مطابق انھوں نے گزشتہ روزافغان ناظم الامورکو بھی ملاقات میں یہ بات بتائی تھی کہ جوبھی پی او آر کارڈ ہولڈرز ہیں ان کو خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی بلکہ ریاست پاکستان نے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جن پناہ گزینوں کے پی او آر کارڈ جعلی نہ ہوں اور وہ زائد المعیاد بھی ہوئے ہوں تو ان کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہوں گی تاہم جنھوں نے جعلی پی اوآر کارڈ بنائے ہیں ان کے خلاف آپریشن کیا جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ قانونی طورپرمقیم لوگوں کو اگرکسی نے بھی تنگ یا ہراساں کرنے کی کوشش کی توان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی اورایسے کسی بھی شخص کے خلاف ہیلپ لائن پر شکایت کی جا سکتی ہے۔ ہم کوئٹہ کے جس علاقے میں افغان پناہ گزینوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے گئے وہاں متعدد دکانیں بند تھیں۔ ہمارے پوچھنے پر وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ یہ افغان پناہ گزینوں کی دکانیں ہیں جن کے مالکان نے ان کو گرفتاریوں کے خوف کی وجہ سے بند کیا۔ اسی طرح ایک محلے میں افغان پناہ گزینوں نے بتایا کہ کریک ڈاؤن کے بعد متعدد ایسے لوگوں نے بھی اپنی دکانیں بند کی ہیں جن کے پاس پاکستان میں رہنے کا قانونی جواز ہے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ بعض لوگ ان اطلاعات کے بعد بھی بہت زیادہ خوفزدہ ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پی او آر کارڈز توڑ رہے ہیں۔ تاہم بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے غیر ملکی تارکین وطن کو ہراساں کرنے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگرکوئی بھی کسی غیر ملکی تارک وطن کو تنگ کرے تو وہ حکومت کی جانب سے دیے گئے ہیلپ لائن پرشکایت کرسکتا ہے۔ حاجی حمیداللہ نے کہا کہ ہمیں حکومت پاکستان اور پاکستان کے لوگوں سے کوئی شکایت نہیں لیکن جب حکومت نے فیصلہ کیا ہے تو ہم جائیں گے لیکن حکومت سے درخواست ہے کہ ہمیں کچھ مہلت دے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے لاکھوں روپے لوگوں پر ادھارہیں جبکہ انھوں نے بھی کئی لوگوں کے پیسے دینے ہیں۔ ’آپ کو معلوم ہے کہ لوگ پیسے آسانی سے نہیں دیتے۔ جب لوگ میرے پیسے دیں گے تو میں ان لوگوں کا پیسے دے سکوں گا جن کو میں نے ادائیگی کرنی ہے۔‘ حاجی حمیداللہ سمیت قانونی طور پر مقیم تمام افغان پناہ گزینوں کا یہ کہنا تھا حکومت پاکستان کومناسب مہلت دینی چاہیے تاکہ وہ افغانستان جا کرکسی مشکل صورتحال سے دوچار نہ ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مہلت اس لیے بھی ضروری ہے کہ افغانستان کے بعض علاقوں میں سردیوں میں شدید سردی پڑتی ہے۔ گرمیوں میں لوگ کسی طرح کھلے میدانوں میں یا کسی خیمے میں گزارا کر سکتے ہیں لیکن سردیوں میں مناسب گھر کے بغِیر گزارا مشکل ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ بہتر ہے کہ حکومت ہمیں کم از کم ایک سال کی مہلت دے اوراگراتنی مہلت نہیں دے سکتی تو کم ازکم ہمیں سردیاں گزارنے دے تاکہ ہم گرمیوں میں جا کراپنے لیے کوئی گھر وغیرہ بنا سکیں۔" https://www.bbc.com/urdu/articles/c1v9d091k7qo,کیا غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا نقصان واقعی اسرائیل کو ہو گا؟,"غزہ پر اسرائیل کے حملے کے بعد دنیا بھر میں مختلف ممالک خصوصاً مسلم ممالک میں عوامی سطح پر شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلسل بمباری اور جنگ بندی نہ کرنے کے فیصلے اور ایسے میں دنیا کے طاقتور ممالک کی جانب سے اسرائیل کی حمایت نے اس غم و غصے کو مزید ہوا دی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی نہ کرنے کے بعد پاکستان میں ایسی غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے جن کے مالکان یہودی ہیں اور یہ مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی اس بائیکاٹ مہم سے متعلق مختلف مواد شئیر کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ درجنوں مصنوعات جن سے متعلق صارفین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیلی کمپنیاں بناتی ہیں یا پھر ان کی پیرنٹ کمپنی کے مالکان یہودی ہیں۔ اس میں روزمرہ کے استعمال کی چیزوں سمیت کئی بیشتر ملٹی نیشنل فوڈ چینز کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔ ’بائیکاٹ کام کر رہا ہے۔۔۔ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کام کر رہا ہے۔‘ یہ وہ لائن ہے جو آج کل سوشل میڈیا پر کئی جگہ نظر آرہی ہے۔ پاکستان میں جاری اس بائیکاٹ مہم میں کئی لوگ اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ جس میں وہ سوشل میڈیا پر پوسٹس کرنے کے علاوہ مختلف مارکیٹوں اور دکانوں سے مخصوص برانڈز کے بورڈ بھی ہٹا رہے ہیں۔ بہت سوں نے اس مہم کے بارے میں سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر ہم اسرائیلی ظلم کو روک نہیں سکتے تو کم از کم ان کو معاشی طور پر نقصان تو پہنچا سکتے ہیں۔‘ اس مہم کا حصہ بننے والے پاکستانی محمد علی خان کا بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی یہ مہم نئی نہیں۔ ’یہ مہم 2005 میں بائیکاٹ ڈی انویسٹمینٹ اینڈ سینکشنز (بی ڈی ایس) کے نام سے شروع ہوئی تھی جو ایک غیر متشدد مہم ہے۔ میں بطور پاکستانی اس مہم کا حصہ اس لیے ہوں کیونکہ اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم کر رہا ہے اور دنیا میں پاکستان سمیت کوئی بھی حکومت اسرائیلی جارحیت کو روک نہیں رہے۔ اس لیے ہم بطور عام انسان معاشی طور پر اس کی مزاحمت کر رہے ہیں۔‘ دوسری جانب سوشل میڈیا صارفين بھی اسی مقصد کے تحت اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس بائیکاٹ کا حصہ بن رہے ہیں۔ کئی صارفین نے ایسی غیر ملکی مصنوعات کی تصاویر بھی لگائیں جس میں خریدار کو ایک چیز کے ساتھ دوسری چیز مفت دی جا رہی ہے لیکن وہ ان اشیا کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ زیادہ تر صارفین مختلف کیپشن لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ بائیکاٹ مہم اثر انداز ہو رہی ہے۔ دوسری جانب بہت سے لوگ اس بائیکاٹ مہم سے متعلق یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا اس مہم سے واقعی ہی اسرائیل کو نقصان ہو گا یا پھر اس سے پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچے گا؟ اس سوال پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک یہ خیال ہے کہ اس سے پاکستانی معیشت پر بہت فرق پڑے گا تو یہ درست نہیں کیونکہ یہ معاملہ غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات یا برانڈز کا ہے اور انھوں نے پہلے ہی اپنے منافع کی شرح بہت زیادہ رکھی ہوتی ہے۔‘ ’ہاں اگر یہ مہم آنے والے دنوں میں زیادہ زور پکڑتی ہے تو یہ ممکن ہے کہ ان مخصوص کمپنیوں کی سیل اور شئیرز کی مالیت گر جائے۔‘ نور فاطمہ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک پاکستان میں برانڈز یا مصنوعات کے بائیکاٹ سے اسرائیل کو نقصان پہنچنے کی بات ہے تو مفروضہ بھی درست نہیں۔ ’کیونکہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ نہ ہی کوئی تجارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی پاکستان وہاں کسی قسم کی برآمدات کر رہا۔ بائیکاٹ مہم ایک سوشل اور جذباتی مہم ہے۔ اس سے لوگ اپنے احساسات کا اظہار کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے مزيد کہا کہ اس مہم میں کئی ایسی کمپنیوں کے نام بھی سامنے آرہے ہیں جن کا تعلق اسرائیل سے نہیں لیکن انھیں اس لیے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کیونکہ انھوں نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ کیا اس مہم سے پاکستان میں ان لوگوں کی نوکریوں کو خطرہ ہو سکتا ہے جو ایسے اداروں میں کام کر رہے ہیں جن کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا تھا کہ اگر ایسی کمپنیوں کو زیادہ نقصان پہنچنے کے نتیجے میں وہ کمپنی بند ہو جاتی ہے تو پھر ایسا ہو سکتا ہے۔ اس مہم میں متحرک انداز میں حصہ لینے والے محمد علی خان کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا تو ان کا کہنا تھا ’میرا نہیں خیال کہ پاکستان کو اس کا نقصان ہو گا۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم جن برانڈز کا بائیکاٹ کر رہے ہیں وہ روز مرہ زندگی کے لیے ضروری نہیں۔‘ محمد علی خان کا کہنا ہے کہ ’بے شک اس مہم میں کچھ ایسے برانڈز بھی شامل ہیں جن کا تعلق اسرائیل سے نہیں لیکن وہ اسرائیلی جارحیت کی حمایت کر رہے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس وقت اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم بطور مسلمان اور انسان اس وقت اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں۔‘ اس بائیکاٹ مہم کے زد میں آنے والے چند برانڈ ایسے ہیں جن کی سیل میں پچھلے چند ہفتوں میں فرق آیا ہے۔ عام طور پر ایسے برانڈز پر کافی زیادہ رش دیکھنے کو ملتا ہے جو اب نظر نہیں آرہا۔ ایسے ہی برانڈز کو خام مال پہنچانے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس مہم کے بعد سے ہماری سیل میں بھی کمی آئی ہے جبکہ متعدد کمپنوں کی جانب سے آڈرز بھی منسوخ کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں آپریٹ کرنے والی ایک اور بین الاقوامی کمپنی میں کام کرنے والے ملازم نے بتایا کہ ہماری سیل میں ستر فیصد تک کمی آئی ہے جبکہ ہمیں باقائدہ طور پر کمپنی کی جانب سے ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں کہ لوگوں میں پائے جانے والے غصے کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ نوکری کے دوران خاص خیال رکھیں۔ ایک اور ملٹی نیشل کمپنی کے مالک نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس بائیکاٹ کا اثر ہر کمپنی پر مختلف انداز میں پڑ رہا ہے تاہم ابھی تک ہماری کمپنی کا کوئی تقصان رپورٹ نہیں ہوا۔ ’ہم نے پہلے دن ہی یہ پریس ریلیز جاری کر دی تھی کہ ہماری کمپنی کا اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس کے علاوہ یہ وضاحت بھی جاری کی کہ ہماری کمپنی کی پیرنٹ کمپنی امریکی کمپنی ہے۔ ہم نے فلسطين سے اظہار یکجہتی کے طور پر اپنی مارکیٹنگ سٹریٹجی بھی تبدیل کی۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم لوگ پاکستان میں پچھلے ساٹھ سال سے کام کر رہے ہیں اور اس سارے عرصے میں ہمیں کئی مواقع پر بائیکاٹ مہم کا سامنا کرنا پڑا۔ ’یہ سچ ہے کہ اس سے فرق پڑتا ہے لیکن وہ نقصان اتنا زیادہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ہم اپنے ملازمین کو نوکری سے نکالتے ہیں۔‘ اس سوال کے جواب میں پاکستان میں ایک ملٹی نیشل کمپنی کے مالک کا کہنا تھا کہ ہر برانڈ ایک مخصوص قیمت لیتا ہے اور عموماً یہ سالانہ بنیادوں پر ہوتی ہے۔ اس بارے میں ماہر معیشت ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا تھا کہ تمام کمپنیاں مختلف شکلوں میں یہ ادائیگیاں کرتی ہیں۔ جیسا کہ کوئی کمپنی فرنچائز فیس ادا کرتی ہے، کوئی کمپنی رائلٹی ادا کرتی ہے جو پانچ یا سات فیصد یا پھر اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے اور کچھ کمپنیاں منافع کو شئیر کرتی ہیں اور کچھ ایک ہی مرتبہ رقم کی ادائیگی کر کے فرنچائز خرید لیتے ہیں۔ ’لیکن یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ فائدہ اصل کمپنی کو کم اور اس کمپنی کو زیادہ ہوتا ہے جو کسی ملک میں آپریٹ کر رہی ہوتی ہے۔‘" https://www.bbc.com/urdu/articles/c97m77z81nvo,افغان باشندوں کی واپسی: ’پاکستان نے کئی سال آغوش میں رکھا، برفباری کا موسم ختم ہونے کا انتظار کر لیتے‘,"’اگلے 12 گھنٹوں میں علاقے میں موجود غیر قانونی افغان شہری اپنے وطن جانے کے لیے تیار ہو جائیں، کوئی بھی پاکستانی شہری انھیں کرائے پر گھر یا ملازمت نہ دے۔‘ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں واقع افغان بستی کے لوگوں کی صبح کا آغاز پولیس کی جانب سے کیے گئے ایسے اعلانات سے ہوا۔ حکومت پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو 31 اکتوبر کی ڈیڈلائن دے رکھی تھی جو گذشتہ رات پوری ہوئی جس کے بعد انھیں وطن واپس بھیجنے کے حوالے سے اعلانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ اور آس پاس کی افغان بستیوں میں پولیس نے کوئی ایکشن تو نہیں لیا تاہم مقامی عمائدین اور افغان شہریوں کو متنبہ ضرور کیا۔ جب ہم آلاصف سکوائر کے عقب میں پہنچے تو جمال الدین افغانی سکول کے باہر کئی درجن لوگ ہاتھوں میں حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے ایلین کارڈ لیے موجود تھے۔ ایک افغان شہری محمود اللہ ایک ڈیسک پر یہ فارم پُر کرنے میں مصروف تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ صبح اپنے گھر بیٹھے ہوئے تھے تو انھیں معلوم ہوا کہ پولیس مزدروں کو تنگ کر رہی ہے اور انھیں فارم بھرنے کے لیے کہا گیا ہے لہٰذا وہ ان کے فارم بھر رہے ہیں جو متعلقہ تھانے میں جمع کروائے جائیں گے۔ ’اس فارم میں نام، فیملی کی تفصیلات، ایڈریس اور فون نمبر جیسی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔ پولیس نے کہا ہے کہ جس کے پاس کارڈ نہیں ہو گا اس کو اٹھا لیں گے جس کے پاس کارڈ ہے وہ تھانے میں بھی رجسٹر ہو۔‘ حاجی عبداللہ شاہ بخاری افغان پناہ گزین کمیٹی کے صدر ہیں وہ صبح سے پولیس افسران اور ضلعی انتظامیہ سے رابطوں اور تعاون کی یقین دہانیوں میں مصروف رہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ایس ایس پی نے انھیں یقین دہانی کروائی ہے کہ جو لوگ رجسٹرڈ ہیں وہ اپنے فارم بھر کے متعلقہ تھانے میں جمع کروائیں گے تو ان کے گھروں پر چھاپے مارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی لہٰذا یہ فارم بھر کر تھانے میں جمع کروا کے وصولی کی کاپی لی جائے گی۔‘ حاجی عبداللہ شاہ نے بتایا کہ سہراب گوٹھ، سچل، مبینہ ٹاؤن اور سائیٹ ایریا کے تھانوں میں انھیں یہ فارم جمع کروانے کے لیے کہا گیا ہے۔ آلاصف کے علاقے میں شناختی کارڈ فوٹو سٹیٹ کروانے والوں کی قطاریں لگی ہوئی نظر آئیں جس کے بعد یہ رضاکاروں کے پاس آ کر فارم پُر کرواتے نظر آئے۔ محمد حسن گل بھی اپنی فیملی کا فارم پر کروا رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ پانچ ان کی فیملی کے لوگ ہیں اور چھ ان کی والد کے کنبے کے لوگ ہیں۔ ’میں دکانوں سے گتے جمع کرتا ہوں۔ صبح کام پر گیا تو پولیس اہلکار نے تھپڑ مارا اور پانچ سو روپے لے کر چھوڑا۔ کسی نے بتایا کہ یہاں فارم پر کیے جا رہے ہیں، وہ اسلام آباد بھیجیں گے اس لیے یہاں آئے ہیں۔‘ پاکستان میں جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں افغانستان میں روس نواز حکومت کے خلاف جہاد کی ابتدا کے بعد افغان پناہ گزین پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح کراچی بھی آئے تھے۔ اس وقت سہراب گوٹھ کے باہر افغان پناہ گزینوں کی بستی قائم کی گئی تھی جس کی دیکھ بال اقوام متحدہ کا ادارہ یو این ایچ سی آر کرتا تھا۔ بعد میں ان کیمپوں کی نگرانی صوبائی حکومتوں کے حوالے کی گئی تاہم سندھ حکومت نے یہ ذمہ داری نہیں لی جس کے بعد پناہ گزین کراچی شہر کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی پھیل گئے جہاں وہ روزگار سے وابستہ ہو گئے۔ سپر ہائی وے کے آغاز پر موجود افغان آبادی میں کراچی آپریشن سے قبل پولیس اور رینجرز کی رسائی نہیں تھی جبکہ پولیو مہم کے دوران رضاکاروں کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ صوبائی وزیر داخلہ برگیڈیئر حارث نواز کا کہنا ہے کہ کراچی میں ایک لاکھ 75 ہزار کے قریب افغان شہری مقیم ہیں۔ کمشنر کراچی کے مطابق کراچی میں مقیم غیر قانونی افراد کی اکژیت نان بائی، کھانے پینے کی اشیا کی فروخت مقامی ہوٹلز، ماربل فیکٹریز میں ورکر، مخلتف مارکیٹوں میں دکاندار، موچی اور گھریلو ملازمین یا چوکیدار ہیں۔ کراچی میں سابق افغان حکومت میں سرکاری ملازمتوں سے وابستہ لوگ بھی موجود ہیں جنھوں نے کراچی میں پناہ اختیار کی ہے۔ محمد آصف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سنہ 2015 میں افغانستان کی پولیس میں بھرتی ہوئے اور اس کے بعد فوج میں چلے گئے۔ انھوں نے بتایا کہ ’جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہو گئی اور طالبان نے کنٹرول سنبھالا تو وہ پاکستان آ گئے جہاں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔‘ ’اب اس وقت نہ میرے پاس شناختی کارڈ ہے نہ رجسٹریشن کی کوئی دستاویزات، پریشان ہوں کہاں جائیں کس کا دروازہ کھٹکٹائیں جو ہماری آواز سنے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم وہاں سے بھاگ کر آئے ہوئے ہیں اگر دوبارہ جائیں گے تو وہ (طالبان) ہمیں چھوڑیں گے نہیں مار دیں گے، حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ جو افغان پولیس یا فوج میں رہا انھیں سپورٹ کرے تاکہ وہ مرنے سے بچ جائیں یا تو ہمیں کسی اور ملک بھیج دیں یا پھر ہمیں یہاں رہنے دیا جائے۔‘ افغان پناہ گزین کمیٹی کے صدر حاجی عبداللہ شاہ بخاری کہتے ہیں کہ ’افغان مہاجرین نے رواں سال جولائی سے وطن واپس جانا شروع کر دیا تھا کیونکہ یہاں ان پر چھاپے پڑ رہے تھے، گرفتاریاں ہو رہی تھیں جس سے وہ تنگ تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہماری حکومت پاکستان کو درخواست ہے کہ کئی سال اپنی آغوش میں رکھا، اب وہاں افغانستان میں لوگوں کا کوئی سائبان نہیں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، خواتین ہیں، معذور ہیں اس وقت وہاں برفباری کا موسم ہے۔‘ ’انھیں دو تین ماہ کا وقت دے دیتے تاکہ موسم سرما ختم ہو جاتا، لوگ کچھ سائبان بنا لیتے، افغان پناہ گزین جانے کے لیے تیار ہیں انھوں نے عزت کے لیے ہجرت کی، بے عزتی برداشت نہیں کر سکتے۔‘ آلاصف سکوائر کے پیچھے افغانستان جانے والی بسوں کا اڈہ موجود ہے جہاں موجود ایک درجن کے قریب بسوں کی چھتیں سامان سے لدی ہوئی تھیں جبکہ اس سے بھی کئی گنا سامان نیچے موجود تھا جو گھٹڑیوں کی صورت میں تھا۔ لوگوں کے ساتھ یہ سامان سوزوکی پک اپ اور چنگچی رکشہ میں لایا جارہا تھا۔ خواتین بچے اور بزرگ ان بسوں میں سوار ہو رہے تھے جبکہ کئی رشتے دار انھیں چھوڑنے کے لیے آئے ہوئے تھے، ان کا رویہ کافی سخت تھا اور کوئی تبصرہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایک ٹرانسپورٹر ولی خان نے بتایا کہ کل سے 20 کے قریب بسیں نکل چکی ہیں جن میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جا رہی ہے لیکن مزید بسیں دستیاب نہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم مسافروں کو قندھار تک لے جاتے ہیں اور فی مسافر چھ ہزار روپے کرایہ لیتے ہیں۔ ہر بس میں 35 سے 40 مسافروں کی گنجائش ہے، اس وقت پیچھے سے گاڑیاں نہیں آ رہیں کیونکہ جب چمن سے گاڑی آتی ہے تو اس میں کوئی مسافر نہیں ہوتا، نہ مال ہوتا ہے خالی آتی ہے، اس وجہ سے بسوں کی قلت ہے۔‘ یاد رہے کہ حکومت پاکستان کے فیصلے کے مطابق افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے لاجسٹکس کی مد میں آنے والے اخراجات صوبائی حکومتیں ادا کریں گی اور سندھ حکومت نے اس مد میں ساڑھے چار ارب روپے مختص کیے ہیں۔ رضاکارانہ طور پر جانے والوں کی معاونت اور مدد کے لیے حکومتی سطح پر کوئی انتظامات نظر نہیں آئے تاہم افغان پناہ گزین کمیٹی کے صدر حاجی عبداللہ شاہ بخاری نے بتایا کہ ’انھیں ایس ایس پی نے کہا تھا کہ اگر کسی کے پاس کرایہ نہیں تو اس کے کرائے اور کھانے پینے کا بندوبست حکومت کی طرف سے کیا جائے گا۔‘ حکومت کی جانب سے کراچی میں حاجی کیمپ سلطان آباد اور امین ہاؤس، بوائے سکاوٹس ہاسٹلز کی صورت میں افغان پناہ گزینوں کے لیے ہولڈنگ پوائنٹس بنائے گئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ڈپٹی کمشنرز اپنے اپنے ضلع سے غیر قانونی افراد کو ہولڈنگ پوائنٹس منتقل کریں گے دوسرے مرحلہ میں انھیں چمن بارڈر پہنچایا جائے گا۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کا معاشی گھیراؤ بھی کیا جا رہا ہے۔ کمشنر آفس کا کہنا ہے کہ تمام فیکٹری مالکان، مارکیٹ تنظیموں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کو ملازمت نہ دی جائے اور لوگوں کو بھی کہا گیا ہے کہ انھیں کرائے پر مکان نہ دیا جائے بصورت دیگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘ واضح رہے کہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق کراچی میں برمی، بنگالی اور انڈین شہری بھی غیر قانونی طور پر مقیم ہیں تاہم اس وقت تک صرف افغان شہریوں کے خلاف ہی کارروائی ہوتی نظر آ رہی ہے تاہم صوبائی وزیر داخلہ حارث نواز کہتے ہیں کہ ’غیر قانونی طور پر مقیم ہر غیر ملکی کے خلاف کارروائی ہو گی۔‘" https://www.bbc.com/urdu/articles/c1r4ry0zx2ro,ڈھائی سالہ ’جبری گمشدگی‘ کے بعد گھر لوٹنے والے عبد الحمید زہری: ’میں اپنے والد کو پہچان نہیں پائی‘,"’شام کو ایک رشتے دار نے فون کیا کہ جلدی آؤ، تمہارے لیے خوشخبری ہے۔ ہم جیسے ہی وہاں پہنچے تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے والد تھے لیکن ان کی حالت اور حلیہ دیکھ کر ہم ان کو پہچان ہی نہیں پائے تھے۔ 31 ماہ کے بعد ہماری اذیت اور انتظار ختم ہوا۔‘ یہ کہنا ہے عبدالحمید زہری کی بیٹی سعیدہ حمید کا جن کے والد تقریبا ڈھائی سال کی مبینہ جبری گشمدگی کے بعد واپس لوٹے ہیں۔ سعیدہ حمید نے اپنے والد کی واپسی کی اطلاع سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر دیتے ہوئے ساتھ میں عبدالحمید زہری کی ایک تصویر بھی شیئر کی جس میں ان کے چہرے کی داڑھی بڑھی ہوئی ہے اور وہ کمزور نظر آتے ہیں۔ سعیدہ کا کہنا ہے کہ ان کے والد کا کسی مذہبی یا سیاسی جماعت سے تعلق نہیں اور انھیں ’آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ انھیں آخر کیوں اٹھایا گیا تھا۔‘ عبدالحمید زہری کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے خضدار سے ہے اور وہ گزشتہ 10 سال سے کراچی میں مقیم ہیں۔ ان کی بیٹی سعیدہ کے مطابق عبد الحمید زہری بچوں کی تعلیم کے لیے کراچی منتقل ہوئے تھے۔ خود عبدالحمید زہری نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور ان کی بیٹی سعیدہ کے مطابق وہ ریئل اسٹیٹ اور گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے تھے۔ تاہم ان کی زندگی 10 اپریل 2021 کو اس وقت بدل گئی جب کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے ان کو مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ان کے اہلخانہ کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں جبری گمشدگی کے خلاف آئنی درخواست دائر کی گئی جس میں دعوی کیا گیا کہ ’سادہ کپڑوں میں ملبوس چند لوگ عبدالحمید زہری کو زبردستی اپنے ساتھ ایک گاڑی میں لے گئے۔‘ اہلخانہ کے مطابق ان افراد کے ساتھ دو پولیس موبائلیں بھی موجود تھیں۔ سعیدہ زہری اور ان کے چھوٹے بھائی گزشتہ کئی ماہ سے کراچی پریس کلب کے باہر اپنے والد کی بازیابی کے لیے احتجاج بھی کرتے رہے اور سوشل میڈیا پر بھی ان کے حق میں آواز اٹھائی گئی۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ میں بھی عبد الحمید زہری کی جبری گمشدگی پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ واضح رہے کہ ماضی میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر پاکستانی حکومت اور فوج کا ردِعمل اظہار لاتعلقی اور اظہار لاعلمی تک محدود رہا ہے۔ سعیدہ زہری نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں اپنے فلیٹ پر ہی موجود تھیں جب ان کے کزن کے گھر سے شام پانچ بجے کال آئی کہ ’خوشخبری ہے، جلدی آ جاؤ۔‘ سعیدہ بتاتی ہیں کہ ’ہم ایک ہی عمارت میں رہتے ہیں۔ ہم ساتویں جبکہ کزن پانچویں منزل پر رہائش پذیر ہیں۔ میں نے بچوں کو اٹھایا، امی کو ساتھ لیا اور دوڑتے ہوئے نیچے فلور پر پہنچے۔‘ کزن کے گھر پہنچ کر سعیدہ نے ایک باریش شخص کو دیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سامنے والد بیٹھے ہوئے تھے لیکن بلکل پہچانے نہیں جارہے تھے۔ ہم نے انھیں گلے لگایا اور بہت دیر تک آنسو بہاتے رہے۔‘ ’وہ ایک ایک کرکے سب سے ملتے رہے اور خدا کا شکر ادا کرتے رہے کہ اپنے بچوں سے مل رہے ہیں۔ انھیں لگا تھا کہ ہمیں کچھ ہو گیا ہوگا۔ وہ ہمارے لیے بہت پریشان تھے۔‘ سعیدہ کے مطابق ان کے والد کو لے جانے والے افراد نے ان کا بٹوہ، جس میں تین ہزار روپے تھے، اور شناختی کارڈ واپس کیا اور ’گھر سے دور یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ آپ اپنے گھر چلے جائیں۔‘ ’اس کے بعد والد آٹو رکشہ میں ہماری بلڈنگ پہنچے اور اپنا گھر ڈھونڈتے رہے لیکن نہیں ملا جس کے بعد رشتے داروں کے گھر چلے گئے۔‘ لیکن اس دوران عبدالحمید پر کیا بیتی؟ سعیدہ نے بتایا کہ ان کے والد کے مطابق انھیں سادہ کپڑوں میں لوگ سرف گاڑی میں لے گئے اور انھیں ایک کمرے میں بند رکھا گیا۔ ’ان کی آنکھیں بند رہتی تھیں، انھوں نے 31 مہینوں کے بعد آسمان کو دیکھا ہے اور اذان سنی ہے۔‘ سعیدہ نے کہا کہ ’انھیں بغیر کسی جرم کے قید میں رکھا گیا لیکن اب ہماری خوشیاں لوٹ آئیں ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ والد اور ہمیں مزید پریشان نہ کیا جائے۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سعیدہ نے بتایا کہ ان کے والد ذیابیطس کے مریض ہیں لیکن انھیں دوائی بھی نہیں دی جاتی تھی۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ نگران حکومت میں عبدالحمید زہری پہلے شخص ہیں جو واپس لوٹے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان کے موجودہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ، جن کا ماضی میں بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق تھا، بلوچستان حکومت کے ترجمان بھی رہے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رواں سال تقریبا 20 کے قریب لاپتہ افراد کی بازیابی ہوئی ہے جبکہ جبری گشمدگیوں کی تعداد 300 سے زائد ہے۔ ’یہ پڑھے لکھے نوجوان تھے جن کو مکران ، تربت، آواراں، گوادر، کے علاوہ خضدار، مستونگ سے لاپتہ کیا گیا ہے۔‘" https://www.bbc.com/urdu/articles/ced50x0xyyqo,کرم میں کشیدگی: ’سکیورٹی فورسز نے جرگہ کی مدد سے امن قائم کروا دیا، سفید جھنڈے لہرا دیے گئے‘,"صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے ہیڈ کوارٹر پاڑہ چنار اور اردگرد کے علاقوں میں ایک ہفتہ قبل زمین کے تنازعے پر شروع ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں منگل کی شام فوج تعینات کیے جانے کے بعد امن قائم ہو گیا ہے۔ سیکریٹری اطلاعات انجمن فاروقیہ ملک عطااللہ خلجی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے جرگہ کی مدد کے ساتھ مختلف متحارب گروپوں کے قائم کردہ مورچوں کا انتظام سنبھال لیا اور وہاں پر سفید جھنڈے لہرا دیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت، انتظامیہ، سکیورٹی فورسز آج صبح ہی سے فعال تھے جنھوں نے ایک ایک کر کے دونوں گروپوں سے تمام مورچے خالی کروائے ہیں اور دونون گروپ اب بات چیت کے ذریعے سے اپنے مسائل حل کرنے پر تیار ہو چکے ہیں۔‘ ’امن قائم ہونے کے بعد اب دونوں گروپوں کے درمیاں ایک بڑا جرگہ کسی بھی وقت منعقد ہو سکتا ہے۔‘ ملک عطا اللہ خلجی کا کہنا تھا کہ ’اس وقت دونوں اطراف کو پہنچنے والے جانی و مالی نقصانات کی تصدیق شدہ اطلاعات تو دستیاب نہیں۔ ’مگر دونوں اطراف کی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور مالی نقصان بھی پہنچا ہے۔ جس کی تصدیق دن ہی میں ہو سکتی ہے اور اس کے علاوہ سے اعداد و شمار اکھٹے کیے جا رہے ہیں۔‘ خیال رہے کہ طبی ذرائع کے مطابق چند روز سے جاری ان جھڑپوں میں اب تک 20 کے قریب افراد ہلاک جبکہ 50 زخمی ہوئے ہیں اور پاڑہ چنار ہسپتال میں اس وقت بھی 25 زخمی موجود ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی نگران حکومت کے وزیرِ اطلاعات فیروز جمال کاکا خیل نے اتوار کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ زمین کے تنازع پر تصادم کے بعد جرگے کے ذریعے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور جلد صورتحال پر قابو پا لیا جائے گا۔ ڈی پی او کرم نے بی بی سی پشتو کے افتخار خان سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’جرگے کی سفارشات پر عمل درآمد نہ ہونے کے بعد علاقے میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور آج 80 فیصد جگہ پر فوج کو تعینات کیا جائے گا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا ’موبائل اور پی ٹی سی ایل نیٹ ورک کی بحالی میں ابھی کچھ وقت لگ سکتا ہے۔‘ پاڑہ چنار کے مقامی افراد نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’یوں تو کچھ مرکزی علاقوں میں سفید جھنڈے لہرا کر سیز فائر کا اعلان کیا گیا لیکن دور دراز پہاڑی علاقوں میں اب بھی فائرنگ کی آواز وقتاً فوقتاً آ رہی ہے۔‘ ضلع کرم میں تین مہینے پہلے بھی مختلف قبائل کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس میں جانی نقصانات ہوئے تھے اور ہھر امن کمیٹیوں کے ذریعے امن قائم کر دیا گیا تھا۔ حالیہ جھڑپوں کے بعد ضلع کرم کے داخلی اور خارجی راستے بند ہیں۔ علاقے میں نیم فوجی دستوں کے اہلکار فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی گزشتہ تین روز سے بند ہے۔ علاقے میں شدید تصادم کے باعث عام لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ پاڑہ چنار میں موجود ایک متاثرہ شخص نے صحافی زبیر خان کو بتایا تھا کہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ سارے علاقے میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ بچے اور خواتین خوف کے عالم میں ہیں۔‘ ’میرے بزرگ والد کی ادوایات ختم ہو چکی ہیں اور ہم باہر جا کر وہ بھی نہیں لاسکتے ہیں۔ کرفیو کا اعلان تو نہیں ہوا ہے مگر ہم باہر نہیں نکل سکتے ہیں۔ تمام مارکیٹیں اور دکانیں بند ہیں۔‘ پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والے پشاور میں مقیم ایک سرکاری ملازم کے مطابق لوئر کرم کا تقریباً سارا علاقہ ہی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ ’دونوں گروپ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو چکے ہیں۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے گاؤں اور علاقوں پر بھاری اسلحے سے فائرنگ کی جا رہی ہے۔ جس سے عام لوگ بہت متاثر ہو رہے ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس ساری صورتحال میں ہمارے اہل خانہ گھروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ اپنے کمروں سے بر آمدوں تک بھی نہیں آسکتے ہیں کہ فائر کی ہوئی گولیاں ہماری آبادی اور گھروں سے گزر رہی ہیں۔‘ ’علاقے کے سارے بازار بند ہیں۔ اکثر گھروں میں ضروری اشیاء خوردونوش بھی ختم ہو چکی ہیں۔ علاقے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ بند ہونے سے بھی لوگ انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’میرے اہلخانہ سمیت کئی لوگ علاقہ چھوڑنا چاہتے ہیں مگر خارجی راستے بند ہونے اور ٹرانسپورٹ کے علاوہ پیٹرول، ڈیزل دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ علاقہ بھی نہیں چھوڑ پا رہے ہیں۔ انتظامیہ اور حکومت کو چاہیے کم از کم وہ اتنا تو کرے کہ لوگ اگر علاقہ چھوڑنا چاہتے ہیں تو بحاظت چھوڑ سکیں۔‘ مقامی افراد سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ضلع کرم میں چند ماہ سے کشیدگی جاری ہے۔ اس تصادم کا آغاز زمین کے ایک ٹکڑے کی ملکیت پر تنازعے سے ہوا تھا۔ اس حالیہ تصادم سے پہلے بھی کئی لوگ مارے جا چکے ہیں۔ زمین کی ملکیت پر تنازعے سے متعلق اس وقت ایک جرگہ بھی ہوا اور دونوں گروپوں کے درمیان فائر بندی ہوئی مگر بعدازاں یہ تنازع فرقہ واریت کی طرف بڑھتا گیا۔ جرگے میں ہونے والے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ امن وامان کی صورتحال خراب کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی اور لوگ حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں 12 کروڑ روپے جرمانے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔ حالیہ تصادم کا آغاز ایک گروہ کی جانب سے دوسرے گروہ کے خلاف دھرنوں اور مظاہروں کے بعد ہوا ہے جس میں پہلے ایک مزدور کی ہلاکت ہوئی اور اس کے بعد ایک اور شخص اور پھر گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کا الزام دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر عائد کیا۔ ضلع کرم میں فرقہ ورانہ فسادات اور لڑائیوں کی تاریخ طویل ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد اس خطے میں تقریباً ہر 10 سال کے بعد بڑے فسادات رونما ہوئے جس میں 1961، 1971، 1987، 1996 اور 2007 شامل ہے۔ سنہ 2007 میں شروع ہونے والے فسادات اپنی تاریخ کے بدترین فسادات کہے جاتے ہیں جو کہ 2010 اور 2011 میں بھی جاری رہے تھے۔ عمومی طور پر ان فسادات کا اختتام بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کے بعد قبائل کے مابین جرگوں کے ذریعے ہی سے ہوا تھا۔"