Title,URL,Content شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی,https://ncpulblog.blogspot.com/2024/,"ماہنامہ اردو دنیا، اگست2024شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ سال کی عمر سے لے کر تقریباً 27 سال تک حیدرآباد میں مقیم رہے، کیونکہ ان کے والد محترم بینکٹھ ناتھ بھٹاچاریہ حیدرآباد میں ریلوے کے ملازم تھے یعنی ان کا بچپن حیدرآباد میں ہی گزرا اور تعلیم و تربیت یہیں ہوئی۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے محض اٹھارہ سال کی عمر میں افسانہ نگاری شروع کی۔ ان کے افسانوں میں افسانوی رنگ کے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز غزل گوئی سے کیا، پھر افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے مگر اس میدان میں بھی بہت دیر تک قائم نہ رہ سکے۔ آخر میں وہ اپنے بیدار ذہن کی وجہ سے تحقیق و تنقید کی طرف مائل ہوئے۔ وہ ایک محنتی اور ذہین ادیب کے ساتھ ساتھ بہت ہی بہترین محقق بھی ہیں، جس موضوع پر کام کرنے کی کوشش کی اسے کر دکھایا۔شانتی رنجن بھٹاچاریہ اردو کے مخلص اور سنجیدہ قلم کار تھے۔ اردو، بنگلہ دونوں ادبیات سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ ان کی مادری زبان بنگلہ تھی، لیکن خود کو اردو کا ادیب کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے 1948 سے لکھنا شروع کیا۔ اپنی ادبی زندگی کی شروعات عام شاعروں اور نوجوانوں کی طرح غزلوں سے کی کیونکہ ان کے ابتدائی دور میں شاعری کا بول بالا تھا۔ اس لیے بھٹاچاریہ بھی غزلوں کی وادیوں میں سیر کرنے لگے۔ شاید بھٹاچاریہ کے دماغ میں یہ بات آئی کہ وہ اپنے ہدف کو غزل سے پورا نہیں کرسکتے ، لہٰذا انھوں نے اس راستے سے خود کو الگ کرلیا۔شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے جہاں افسانے لکھے، ناول تحریر کیے، تراجم کیے وہیں تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا۔ ویسے تو ان کی تمام تحقیقی کتابوں میں تنقیدی عنصر نمایاں ہے۔ تنقیدی شعور کا اندازہ ان کی کتاب ’اقبال، ٹیگور اور نذرل، تین شاعر ایک مطالعہ‘ سے ہوتا ہے اس کے علاوہ ’رابندر ناتھ ٹیگور حیات و خدمات‘ سے بھی ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ’اقبال، ٹیگور اور نذرل۔ تین شاعر ایک مطالعہ‘ میں تینوں قد آور شاعروں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ابتدا میں تینوں شاعروں کے حالات زندگی اور تعلیم کو پیش کیا گیا ہے اس کے بعد ان تینوں کی شاعری سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے نذرل کی انقلابی شاعری کی ستائش کی ہے وہیں اقبال کے بعض انقلابی اشعار پر اعتراض بھی کیا ہے۔ انھوں نے ’رابندر ناتھ ٹیگور حیات و خدمات‘ میں ٹیگور کی شاعری سے جو بحث کی ہے اس سے ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ زود نویس تھے، انھوں نے متعدد کتابوں کے علاوہ مضامین بھی بہت لکھے جو ملک کے مختلف اخبار و رسائل میں شائع ہوتے رہے، اس سے ان کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ان کی زود نویسی سے جہاں ان کو عزت و شہرت ملی وہیں اپنی بعض کمیوں اور خامیوں کی وجہ سے نظرانداز بھی کیے گئے۔ وہ اپنے تحقیقی کاموں مثلاً بنگالی ہندوئوں کی اردو خدمات، مختصر تاریخ بنگلہ ادب، بنگال میں اردو زبان و ادب، آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو اور ’بنگال میں اردو کے مسائل‘ کی وجہ سے ہمیشہ ہمیش زندہ رہیں گے۔بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں جب شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے ہوش سنبھالا تو انگریزوں کا ظلم و ستم چہار سو پھیلا ہوا تھا۔ انگریزوں کے مظالم سے پورا ہندوستان متاثر تھا۔ غریب مزدور اور کسان کی حالت خستہ سے خستہ تھی۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی دہشت اور ہولناکیوں سے یہ طبقہ بہت حد تک متاثر تھا۔ بھٹاچاریہ نے اپنی زندگی میں کسانوں اور غریبوں پر ہونے والے مظالم کو بہت ہی قریب سے دیکھا، جس کا اثر ان کی ادبی زندگی پر پڑا اور ان ہی سب وجوہات کی بنا پر وہ غزل گوئی کو چھوڑ کر افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوگئے۔ کوئی بھی حساس اور بیدار ذہن انسان کسانوں، غریبوں اور مظلوموں کی چیخ و پکار اور خون خرابہ دیکھ کر خاموش کیسے رہ سکتا ہے، لہٰذا انھوں نے تلنگانہ تحریک میں حصہ لے کر غریب کسانوں کی مدد اور انسانیت کی خدمت کی اور افسانہ نگاری کے ذریعے انسانیت کو جگانے کی حتی المقدور کوشش کی۔مغربی بنگال کی قدآور شخصیتوں میں شانتی رنجن بھٹاچاریہ کا نام اہم ہے۔ انھوں نے بنگالی ہونے کے باوجود اردو زبان وادب کی جس قدر خدمت کی اس کی مثال مغربی بنگال میں نہیں ملتی ہے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی کسی ایک یا دو میدان میں طبع آزمائی کرتا ہے۔ بہت کم ہی ایسے ملتے ہیں جنھوں نے کئی میدان میں طبع آزمائی کی ہو۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی مادری زبان اردو نہیں بنگلہ تھی۔ اس کے باوجود ان کی اردو فہمی قابل داد ہے۔ ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع ہے۔ اردو زبان و ادب کی ابتدا و ارتقا سے بھی وہ کما حقہ واقفیت رکھتے تھے۔ انھوں نے سماج اور کلچر کا مطالعہ بھی بڑی گہرائی سے کیا تھا۔ سیاست سے بھی جڑے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر بھی تھے۔ اس پارٹی سے ان کی وابستگی کی وجہ ملک وقوم کی خدمت تھی۔ ظلم و استحصال پر وہ خاموش نہیں رہتے تھے، تلنگانہ تحریک اس کی ایک مثال ہے جس کے لیے انھیں بڑی مشقت اٹھانی پڑی۔شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی زندگی مختلف ادبی و علمی منزلوں سے گزر کر تحقیق کی منزل تک پہنچی جہاں وہ اس دشت کے میر کارواں ثابت ہوئے۔ انھوں نے بنگلہ اور اردو کے درمیان ایک معتبر رابطے کی حیثیت حاصل کی۔ اس طرح انھیں مغربی بنگال کے تحقیقی میدان میں ایک اہم مقام حاصل ہوا۔شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے مغربی بنگال کے اردو حلقوں، اسلام پور، آسنسول، بارکپور، ہگلی، گارڈن رچ، ہاوڑہ اور شہر کلکتہ کے اردو مسائل کا تذکرہ تحقیق کی روشنی میں کیا ہے۔ مثلاً وہاں اردو آبادی، بنگلہ بولنے والوں کی آبادی، پرائمری اسکولوں اورسکنڈری اسکولوں کی تعداد، وہاں کا تعلیمی معیار اور وجوہات، اساتذہ، طلبہ و طالبات کی مشکلات، گھر سے کالج تک کی آمد و رفت کے ذرائع، انجمن ترقی اردو ہند شاخ مغربی بنگال کی کارکردگی، ادبی اداروں کی سرگرمیاں، ڈرامہ گروپ کا تعارف، دفتروں میں اردو کا استعمال، اسکولوں اور کالجوں میں داخلے کا مسئلہ، کتب خانوں کی تعداد، کتب خانوں میں کتابوں کی تعداد، اردو اکادمی کی جانب سے کتابوں کی فراہمی، اردو مشاعرے، اردو شعراوا دبا کی خدمات، اردو اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری، غیر منظور شدہ اسکولوں کے مسائل، اردو اخبارات اور رسائل کی فہرست وغیرہ کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔ وہ مغربی بنگال میں اردو کے مسائل پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ درحقیقت مغربی بنگال میں اردو کا صرف ایک ہی اہم اور بنیادی مسئلہ ہے اور یہ اہم مسئلہ ہے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مسئلہ اور اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو دیگر مسائل سب یکے بعد دیگرے آسانی سے حل ہوجائیں گے۔اردو کے مسائل کو حل کرنے کی شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے ہرممکن کوشش کی، وہ لکھتے ہیں:’’اگر یہ بنیادی مسئلہ حل ہوجائے تو اردو کو اپنا قانونی حق مل جائے گا۔ اس کے بعد اردو تعلیم وغیرہ کے سلسلے میں جو دیگر دشواریاں ہیں وہ راستے میں حائل نہیں ہوسکیں گی اور اردو والے قانونی حق پانے پر ایسی تمام دشواریوں کامقابلہ کرلیں گے۔ اردو کی بقا اور فروغ کے لیے نہ صرف مغربی بنگال بلکہ ہندوستان کے وہ تمام علاقے جہاں جہاں اردو بولنے والوں کی دس فیصد آبادی ہے وہاں اردو کو ریاستی زبان کا قانونی حق ملنا چاہیے اور یہی مختلف ریاستوں میں اردو والوں کا اہم ترین مسئلہ ہے جس کے لیے اردو والے برسوں سے کوشاں ہیں۔‘‘شانتی رنجن نے اردو زبان کے تعلق سے جو ٹھوس دلائل پیش کیے ہیں اس سے نہ صرف دشمنان اردو بلکہ عام افراد یا لسانی تعصب رکھنے والے انسان کے ذہن شیشے کی طرح صاف ہونا چاہیے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ مختلف قوموں کی آمیزش سے بنی زبان ہے اس کاکوئی مخصوص علاقہ یا مخصوص یوم ولادت نہیں ہے اور نہ ہی یہ اچانک ایک دن عالم وجود میں آئی۔ اس کا خمیر تیار ہونے میں ایک طویل عرصہ لگا۔ یہ ایک جدید ہندوستانی زبان ہے جو مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی ہندی، ہندوی، ریختہ، دکنی، گجری اور آخر میں اردو کے نام سے روشناس ہوئی جو رفتہ رفتہ بین الاقوامی شکل اختیار کر گئی۔ آج اس کے بولنے والے نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک میں بھی موجود ہیں۔شانتی رنجن کی محققانہ نگاہ نے نہ صرف مغربی بنگال میں اردو زبان کے مسائل اور حل پر روشنی ڈالی ہے بلکہ آزادی کے بعد پورے ملک میں اردو زبان کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں،سیاسی کھیل، تقسیم ہند، قیام بنگلہ دیش، اردو اور مسلمان، اردو کی ابتدا کے تعلق سے مختلف نظریات و حقائق پر روشنی ڈالی ہے۔نامور ادیب اور محقق ڈاکٹر خلیق انجم نے شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی تصنیف ’مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل ‘کے دیباچے میں ان کی ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:’’شانتی رنجن بھٹاچاریہ اردو کے مشہور اور ممتاز ادیب ہیں تقریباً چالیس برسوں سے اردو زبان و ادب کی خدمت کررہے ہیں چونکہ بھٹاچاریہ صاحب کی مادری زبان بنگالی ہے اس لیے انھوں نے اردو میں ایسا کام خاصے پیمانے پر کیا ہے جس میں بنگالی اور اردو دونوں زبانوں کا علم آیا ہے۔ انھوں نے بنگال میں اردو ادب اوراردو زبان کے موضوعات پر بھی کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ بھٹاچاریہ صاحب نے کچھ بنگالی کتابوں کے اردو میں او ر کچھ اردو کتابوں کے بنگالی میں ترجمے کیے ہیں۔ بھٹاچاریہ صاحب کی تحریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ، ذہین، اور محنتی ادیب اور محقق ہیں جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ متعلقہ موضوع پر دستیاب تمام مواد سے استفادہ کریں۔‘‘(متنی تنقید: خلیق انجم، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2006، ص 31)شانتی رنجن کی کتاب ’مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل‘ کے مطالعے سے مغربی بنگال میں اردو زبان کے مسائل کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں مغربی بنگال کے مختلف اضلاع میں اردو بولنے والوں کے اعدادوشمار، اسکولوں کی مجموعی تعداد، اساتذہ، طلبہ و طالبات کے مسائل، اردو اساتذہ کے ٹریننگ سینٹر کا قیام اور یونیورسٹی کا جائزہ لیتے ہوئے مغربی بنگال میں اردو کے بے شمار مسائل کو پیش کیا ہے، جس کا سامنا آج بھی اہل اردو کررہے ہیں۔اردو زبان کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں کا ذکر شانتی رنجن نے اپنی کتاب ’مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل‘ میں مغربی بنگال کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موصوف نہایت ہی بے باک، غیرجانب دار اور اردو کے سچے بہی خواہ اور بے خوف سپاہی ہیں۔Mohd Naushad Alam NadwiE-167, 4th Floor, Shaheen BaghJamia Nagar, OkhlaNew Delhi, 110025Mob.: 8826096452, 9015763829mohdnaushad14@gmail.com" شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی,https://ncpulblog.blogspot.com/2024/09/,"ماہنامہ اردو دنیا، اگست2024شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ سال کی عمر سے لے کر تقریباً 27 سال تک حیدرآباد میں مقیم رہے، کیونکہ ان کے والد محترم بینکٹھ ناتھ بھٹاچاریہ حیدرآباد میں ریلوے کے ملازم تھے یعنی ان کا بچپن حیدرآباد میں ہی گزرا اور تعلیم و تربیت یہیں ہوئی۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے محض اٹھارہ سال کی عمر میں افسانہ نگاری شروع کی۔ ان کے افسانوں میں افسانوی رنگ کے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز غزل گوئی سے کیا، پھر افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے مگر اس میدان میں بھی بہت دیر تک قائم نہ رہ سکے۔ آخر میں وہ اپنے بیدار ذہن کی وجہ سے تحقیق و تنقید کی طرف مائل ہوئے۔ وہ ایک محنتی اور ذہین ادیب کے ساتھ ساتھ بہت ہی بہترین محقق بھی ہیں، جس موضوع پر کام کرنے کی کوشش کی اسے کر دکھایا۔شانتی رنجن بھٹاچاریہ اردو کے مخلص اور سنجیدہ قلم کار تھے۔ اردو، بنگلہ دونوں ادبیات سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ ان کی مادری زبان بنگلہ تھی، لیکن خود کو اردو کا ادیب کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے 1948 سے لکھنا شروع کیا۔ اپنی ادبی زندگی کی شروعات عام شاعروں اور نوجوانوں کی طرح غزلوں سے کی کیونکہ ان کے ابتدائی دور میں شاعری کا بول بالا تھا۔ اس لیے بھٹاچاریہ بھی غزلوں کی وادیوں میں سیر کرنے لگے۔ شاید بھٹاچاریہ کے دماغ میں یہ بات آئی کہ وہ اپنے ہدف کو غزل سے پورا نہیں کرسکتے ، لہٰذا انھوں نے اس راستے سے خود کو الگ کرلیا۔شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے جہاں افسانے لکھے، ناول تحریر کیے، تراجم کیے وہیں تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا۔ ویسے تو ان کی تمام تحقیقی کتابوں میں تنقیدی عنصر نمایاں ہے۔ تنقیدی شعور کا اندازہ ان کی کتاب ’اقبال، ٹیگور اور نذرل، تین شاعر ایک مطالعہ‘ سے ہوتا ہے اس کے علاوہ ’رابندر ناتھ ٹیگور حیات و خدمات‘ سے بھی ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ’اقبال، ٹیگور اور نذرل۔ تین شاعر ایک مطالعہ‘ میں تینوں قد آور شاعروں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ابتدا میں تینوں شاعروں کے حالات زندگی اور تعلیم کو پیش کیا گیا ہے اس کے بعد ان تینوں کی شاعری سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے نذرل کی انقلابی شاعری کی ستائش کی ہے وہیں اقبال کے بعض انقلابی اشعار پر اعتراض بھی کیا ہے۔ انھوں نے ’رابندر ناتھ ٹیگور حیات و خدمات‘ میں ٹیگور کی شاعری سے جو بحث کی ہے اس سے ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ زود نویس تھے، انھوں نے متعدد کتابوں کے علاوہ مضامین بھی بہت لکھے جو ملک کے مختلف اخبار و رسائل میں شائع ہوتے رہے، اس سے ان کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ان کی زود نویسی سے جہاں ان کو عزت و شہرت ملی وہیں اپنی بعض کمیوں اور خامیوں کی وجہ سے نظرانداز بھی کیے گئے۔ وہ اپنے تحقیقی کاموں مثلاً بنگالی ہندوئوں کی اردو خدمات، مختصر تاریخ بنگلہ ادب، بنگال میں اردو زبان و ادب، آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو اور ’بنگال میں اردو کے مسائل‘ کی وجہ سے ہمیشہ ہمیش زندہ رہیں گے۔بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں جب شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے ہوش سنبھالا تو انگریزوں کا ظلم و ستم چہار سو پھیلا ہوا تھا۔ انگریزوں کے مظالم سے پورا ہندوستان متاثر تھا۔ غریب مزدور اور کسان کی حالت خستہ سے خستہ تھی۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی دہشت اور ہولناکیوں سے یہ طبقہ بہت حد تک متاثر تھا۔ بھٹاچاریہ نے اپنی زندگی میں کسانوں اور غریبوں پر ہونے والے مظالم کو بہت ہی قریب سے دیکھا، جس کا اثر ان کی ادبی زندگی پر پڑا اور ان ہی سب وجوہات کی بنا پر وہ غزل گوئی کو چھوڑ کر افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوگئے۔ کوئی بھی حساس اور بیدار ذہن انسان کسانوں، غریبوں اور مظلوموں کی چیخ و پکار اور خون خرابہ دیکھ کر خاموش کیسے رہ سکتا ہے، لہٰذا انھوں نے تلنگانہ تحریک میں حصہ لے کر غریب کسانوں کی مدد اور انسانیت کی خدمت کی اور افسانہ نگاری کے ذریعے انسانیت کو جگانے کی حتی المقدور کوشش کی۔مغربی بنگال کی قدآور شخصیتوں میں شانتی رنجن بھٹاچاریہ کا نام اہم ہے۔ انھوں نے بنگالی ہونے کے باوجود اردو زبان وادب کی جس قدر خدمت کی اس کی مثال مغربی بنگال میں نہیں ملتی ہے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی کسی ایک یا دو میدان میں طبع آزمائی کرتا ہے۔ بہت کم ہی ایسے ملتے ہیں جنھوں نے کئی میدان میں طبع آزمائی کی ہو۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی مادری زبان اردو نہیں بنگلہ تھی۔ اس کے باوجود ان کی اردو فہمی قابل داد ہے۔ ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع ہے۔ اردو زبان و ادب کی ابتدا و ارتقا سے بھی وہ کما حقہ واقفیت رکھتے تھے۔ انھوں نے سماج اور کلچر کا مطالعہ بھی بڑی گہرائی سے کیا تھا۔ سیاست سے بھی جڑے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر بھی تھے۔ اس پارٹی سے ان کی وابستگی کی وجہ ملک وقوم کی خدمت تھی۔ ظلم و استحصال پر وہ خاموش نہیں رہتے تھے، تلنگانہ تحریک اس کی ایک مثال ہے جس کے لیے انھیں بڑی مشقت اٹھانی پڑی۔شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی زندگی مختلف ادبی و علمی منزلوں سے گزر کر تحقیق کی منزل تک پہنچی جہاں وہ اس دشت کے میر کارواں ثابت ہوئے۔ انھوں نے بنگلہ اور اردو کے درمیان ایک معتبر رابطے کی حیثیت حاصل کی۔ اس طرح انھیں مغربی بنگال کے تحقیقی میدان میں ایک اہم مقام حاصل ہوا۔شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے مغربی بنگال کے اردو حلقوں، اسلام پور، آسنسول، بارکپور، ہگلی، گارڈن رچ، ہاوڑہ اور شہر کلکتہ کے اردو مسائل کا تذکرہ تحقیق کی روشنی میں کیا ہے۔ مثلاً وہاں اردو آبادی، بنگلہ بولنے والوں کی آبادی، پرائمری اسکولوں اورسکنڈری اسکولوں کی تعداد، وہاں کا تعلیمی معیار اور وجوہات، اساتذہ، طلبہ و طالبات کی مشکلات، گھر سے کالج تک کی آمد و رفت کے ذرائع، انجمن ترقی اردو ہند شاخ مغربی بنگال کی کارکردگی، ادبی اداروں کی سرگرمیاں، ڈرامہ گروپ کا تعارف، دفتروں میں اردو کا استعمال، اسکولوں اور کالجوں میں داخلے کا مسئلہ، کتب خانوں کی تعداد، کتب خانوں میں کتابوں کی تعداد، اردو اکادمی کی جانب سے کتابوں کی فراہمی، اردو مشاعرے، اردو شعراوا دبا کی خدمات، اردو اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری، غیر منظور شدہ اسکولوں کے مسائل، اردو اخبارات اور رسائل کی فہرست وغیرہ کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔ وہ مغربی بنگال میں اردو کے مسائل پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ درحقیقت مغربی بنگال میں اردو کا صرف ایک ہی اہم اور بنیادی مسئلہ ہے اور یہ اہم مسئلہ ہے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مسئلہ اور اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو دیگر مسائل سب یکے بعد دیگرے آسانی سے حل ہوجائیں گے۔اردو کے مسائل کو حل کرنے کی شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے ہرممکن کوشش کی، وہ لکھتے ہیں:’’اگر یہ بنیادی مسئلہ حل ہوجائے تو اردو کو اپنا قانونی حق مل جائے گا۔ اس کے بعد اردو تعلیم وغیرہ کے سلسلے میں جو دیگر دشواریاں ہیں وہ راستے میں حائل نہیں ہوسکیں گی اور اردو والے قانونی حق پانے پر ایسی تمام دشواریوں کامقابلہ کرلیں گے۔ اردو کی بقا اور فروغ کے لیے نہ صرف مغربی بنگال بلکہ ہندوستان کے وہ تمام علاقے جہاں جہاں اردو بولنے والوں کی دس فیصد آبادی ہے وہاں اردو کو ریاستی زبان کا قانونی حق ملنا چاہیے اور یہی مختلف ریاستوں میں اردو والوں کا اہم ترین مسئلہ ہے جس کے لیے اردو والے برسوں سے کوشاں ہیں۔‘‘شانتی رنجن نے اردو زبان کے تعلق سے جو ٹھوس دلائل پیش کیے ہیں اس سے نہ صرف دشمنان اردو بلکہ عام افراد یا لسانی تعصب رکھنے والے انسان کے ذہن شیشے کی طرح صاف ہونا چاہیے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ مختلف قوموں کی آمیزش سے بنی زبان ہے اس کاکوئی مخصوص علاقہ یا مخصوص یوم ولادت نہیں ہے اور نہ ہی یہ اچانک ایک دن عالم وجود میں آئی۔ اس کا خمیر تیار ہونے میں ایک طویل عرصہ لگا۔ یہ ایک جدید ہندوستانی زبان ہے جو مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی ہندی، ہندوی، ریختہ، دکنی، گجری اور آخر میں اردو کے نام سے روشناس ہوئی جو رفتہ رفتہ بین الاقوامی شکل اختیار کر گئی۔ آج اس کے بولنے والے نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک میں بھی موجود ہیں۔شانتی رنجن کی محققانہ نگاہ نے نہ صرف مغربی بنگال میں اردو زبان کے مسائل اور حل پر روشنی ڈالی ہے بلکہ آزادی کے بعد پورے ملک میں اردو زبان کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں،سیاسی کھیل، تقسیم ہند، قیام بنگلہ دیش، اردو اور مسلمان، اردو کی ابتدا کے تعلق سے مختلف نظریات و حقائق پر روشنی ڈالی ہے۔نامور ادیب اور محقق ڈاکٹر خلیق انجم نے شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی تصنیف ’مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل ‘کے دیباچے میں ان کی ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:’’شانتی رنجن بھٹاچاریہ اردو کے مشہور اور ممتاز ادیب ہیں تقریباً چالیس برسوں سے اردو زبان و ادب کی خدمت کررہے ہیں چونکہ بھٹاچاریہ صاحب کی مادری زبان بنگالی ہے اس لیے انھوں نے اردو میں ایسا کام خاصے پیمانے پر کیا ہے جس میں بنگالی اور اردو دونوں زبانوں کا علم آیا ہے۔ انھوں نے بنگال میں اردو ادب اوراردو زبان کے موضوعات پر بھی کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ بھٹاچاریہ صاحب نے کچھ بنگالی کتابوں کے اردو میں او ر کچھ اردو کتابوں کے بنگالی میں ترجمے کیے ہیں۔ بھٹاچاریہ صاحب کی تحریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ، ذہین، اور محنتی ادیب اور محقق ہیں جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ متعلقہ موضوع پر دستیاب تمام مواد سے استفادہ کریں۔‘‘(متنی تنقید: خلیق انجم، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2006، ص 31)شانتی رنجن کی کتاب ’مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل‘ کے مطالعے سے مغربی بنگال میں اردو زبان کے مسائل کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں مغربی بنگال کے مختلف اضلاع میں اردو بولنے والوں کے اعدادوشمار، اسکولوں کی مجموعی تعداد، اساتذہ، طلبہ و طالبات کے مسائل، اردو اساتذہ کے ٹریننگ سینٹر کا قیام اور یونیورسٹی کا جائزہ لیتے ہوئے مغربی بنگال میں اردو کے بے شمار مسائل کو پیش کیا ہے، جس کا سامنا آج بھی اہل اردو کررہے ہیں۔اردو زبان کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں کا ذکر شانتی رنجن نے اپنی کتاب ’مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل‘ میں مغربی بنگال کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موصوف نہایت ہی بے باک، غیرجانب دار اور اردو کے سچے بہی خواہ اور بے خوف سپاہی ہیں۔Mohd Naushad Alam NadwiE-167, 4th Floor, Shaheen BaghJamia Nagar, OkhlaNew Delhi, 110025Mob.: 8826096452, 9015763829mohdnaushad14@gmail.com" ہندوستانی مشترکہ تہذیب کا شاعر نظیر اکبر آبادی، مضمون نگار: جاں نثار عالم,https://ncpulblog.blogspot.com/2024/08/,"ماہنامہ اردودنیا، جولائی2024امیر خسرو کے بعد ہندوستانی مشترکہ تہذیب کے سب سے اہم شاعر نظیر اکبر آبادی ہیں۔ ان کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کے بارے میں بھی محققین میں اختلاف ہے تاہم زیادہ تر محققین کا ماننا ہے کہ نظیر جن کا اصل نام ولی محمد تھا1735میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد فاروق تھا۔ ان کی والدہ آگرہ کے قلعہ دار نواب سلطان خان کی بیٹی تھیں۔ نظیر کی پیدائش کے بعد ہی دہلی کو مسلسل پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا نادر شاہ نے 1739 میں حملہ کرکے دہلی کو بڑے پیمانے پر لوٹا اور قتل عام کیا۔ دہلی کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں اور دہلی میں بہت دنوں تک بد امنی پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے بعد احمد شاہ ابدالی نے بھی مسلسل تین بار دہلی پر حملہ کیا۔ اس سے پریشان ہو کر نظیر اپنی والدہ اور دادی کے ساتھ دہلی سے اکبر آباد یعنی آگرہ آگئے اور وہاں تاج گنج کے نوری دروازہ کے مکان میں رہنے لگے۔ نظیر آگرہ میں آباد ہوئے اور 1830میں یہیں دفن ہوئے۔وہ آٹھ زبانوں پر دسترس رکھتے تھے جن میں اردو، فارسی، برج بھا شا، مارواڑی،پنجابی، پوربی اور ہندیہے۔نظیر نے طویل عمر پائی۔ ان کا عہد میر، سودااور درد کا عہد تھا۔ وہ مطمئن طبیعت کے خوش مزاج انسان تھے۔ ان کی اقتصادی حیثیت بہت ہی معمولی تھی پھر بھی مال و دولت انھیںکبھی اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے۔ نواب سعادت علی خان نے انھیںلکھنؤ بلایا لیکن انھوں نے جانے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح بھرت پور کے نواب نے انھیںبلایا لیکن وہ وہاں بھی نہیں گئے اور اپنے تدریسی کام کے سلسلے میں کچھ دن متھرا میں رہے پھر آگرہ واپس آگئے اور لالہ بلاس رائے کے بیٹوں کو محض 71 روپے ماہانہ تنخواہ پر پڑھانے لگے۔ اس معمولی تنخواہ پر ساری زندگی ہنستے ہنستے گزار دی۔ وہ جانتے تھے کہ کس طرح اطمینان کے ساتھ زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہونا ہے۔وہ کسی قیمت پرآگرہ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے وہ کہتے تھے کہ؎عاشق کہو اسیر کہو آگرے کا ہےملا کہو دبیر کہو آگرے کا ہےمفلس کہو فقیر کہو آگرے کا ہےشاعرکہونظیر کہوآگرےکا ہےنظیراکبرآبادی کی شخصیت اور ان کی شاعری دونوں ابتدا ہی سے متنازع فیہ مسئلہ رہی ہے۔ جہاں بعض تذکرہ نگاروں اور نقادوں نے ان کو شعری روایت سے بغاوت کے سبب اپنے تذکروںمیں شامل کرنے اور شاعر تسلیم کرنے سے گریزکیا وہیںگزرتے وقت کے ساتھ تذکرہ نگاروں اور نقادوں نے نہ صرف نظیرکے کلام کی اہمیت و معنویت کوپہچانابلکہ ادب کے آسمان پر درخشند ہ ستارے کی طرحبتایااور انھیںاہم شعرامیںشمار کیا جانے لگا۔نظیراکبرآبادی ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو رئوسا اور نوابوں کا تھا لیکن انھوں نے اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق اپنی شاعری میں جن موضوعات کو منتخب کیا وہ ایک عام آدمی کے حالات ہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے انھوں نے اپنے عہد کی شاعری میںخواص کو شامل کرنے کی روایت کے بر عکس عوام کو شامل کیا۔ وہ ایک عوامی شاعر تھے اور ہر طرح کے لوگوں سے ملتے جلتے تھے۔ نظیر کی شاعری میں زندگی کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ اس دور کے تہذیبی و تمدنی مشاغل کے خوبصورت رنگ بھی نظر آتے ہیں۔ زندگی کی رنگا رنگی، مختلف تہوار مثلاًعید، بقرہ عید، ہولی، دیوالی، بسنت سے لے کر چرند پرند میلے ٹھیلے رنگین اور زرق و برق ملبوسات، ترکاریاں و مٹی کے برتن تک ان کی شاعری کے موضوعات میں شامل ہیں۔ ان کی عوامی شاعری کے متعلق کئی بڑے نقّادوں نے اظہارِ خیال کیا ہے جن میں مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین، آل احمد سرور سے لے کر اختر اورینوی، ڈاکٹر سید اعجاز حسین اور محمد حسن تک ہیں۔ محمد حسن اپنی کتاب ’نظیر اکبرآبادی میں اظہارِ خیال کرتے ہیں کہ :’’نظیرعوامی شاعر ہیں اس نے عوام کی باتیں عوام سے کہیں۔ اس نے نہ تو مذہب کا پرچار کیا اور نہ رہبانیت کا۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں عوام کو سمجھنا ہوگا۔(ہندستانی ادب کے معمار: نظیر اکبرآبادی، محمد حسن، ص9، ساہتیہ اکادمی،دہلی،1994)نظیرایک کھلے ذہن اور بڑے دل کے شاعر تھے ہر مذہب کےلوگوں سے ان کا تعلق گہرا تھا اور ہر مذہب کا وہ بہت احترام کرتے تھے اسی لیے انھوںنے ہولی، دیوالی، شبِ برات، عیدوغیرہ پر خوبصورت نظمیں لکھی ہیںحضرت امیر خسرو کے بعد نظیر اکبرآبادی قومی یکجہتی اور بھائی چارا کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ آدمی نامہ اسی سلسلے کی ایک مشہور نظم ہے جس میں آدمی کے دکھ درد و دیگر پریشانیوں کے علاوہ اس کی مختلف قسمیں اور صفات کا بیان بڑے ہی دلچسپ انداز میں کیا گیاہے؎دنیا میں پادشہ ہے سو ہے وہ بھی آدمیاور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمیزردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمینعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمیٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمینظیر کی نظموں میں تنوع ہے اس میں ہر قسم کے مضامین پائے جاتے ہیں۔ ان کی نظموں کی حسین رنگا رنگی اور تنوع کے متعلق رشید حسن خاں رقمطراز ہیں:’’تنوع اور رنگارنگی کے لحاظ سے، نظیر کا کلام آج بھی بے مثال ہے۔ کوئی شاعر اس باب میں ان کا حریف نہیں۔ زندگی اپنی پوری تفصیل کے ساتھ ان کے کلیات میں جلوہ گر ہے۔ انھوں نے زندگی کے ان خالص مادی پہلوؤں کو اور ان کے اثرات کو بے حد سادگی و صفائی کے ساتھ پیش کیا، جن کے کرشمے ہر طرف نظر آتے تھے، لیکن جن کو شاعر کی نظر اور مصور کی آنکھ نے اپنے مرقعوں میں جگہ نہیں دی تھی۔ تو اچولھا، دال روٹی اور راکھ، منقا، موٹھ، مٹر کو بھلا شاعری سے کیا تعلق تھا اور اس زمانے میں یہ کس نے کہا تھا کہ جہاں چولھے کی آنچ ہے، وہیں خالق کی نعمتوں کا ظہور ہے بلکہ اصل میں یہی نور ہے۔ اور اگر پیٹ بھرا ہوا نہ ہو تو چودہ طبق کیا، ایک طبق بھی روشن نظر نہیں آسکتا۔(انتخاب نظیراکبرآبادی، تصحیح وترتیب رشید حسن خاں، ص7، لبرٹی آرٹ پریس،دہلی،1970)نظیراکبرآبادی نے دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ اس نظم میںبہت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیاہے؎ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے ماراقزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقّاراکیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گو میں پلاسر بھاراکیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگاراسب ٹھاٹھ پڑا رہ جاویگا جب لاد چلے گا بنجارانظیراکبر آبادی، میر و سودا کے ہم عصر تھے اور جن معاشی و سماجی مسائل سے میر و سودا دوچار رہے، ان سے ملتے جلتے حالات میںنظیراکبر آبادی بھی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ میرو سودا نے دہلی کی غارت گری سے اثر لیا جب کہ نظیر آگرہ میں موجود ہونے کی وجہ سے براہ ِ راست غارت گری سے محفوظ رہے، البتہ دہلی کے حملوں کے سیاسی و سماجی اور معاشی اثرات سے بالواسطہ متاثر ہوتے رہے۔ شہر آشوب کے شاعر جعفر زٹلی سے سودا تک کے معاصر شعرا نے معاشی بدحالی کا ذکر اپنی شاعری کے ذریعے کیا ہے۔نظیرا کبر آبادی نے عام نظموں میں بھی روپئے،پیسے اور مادّی وسائل کے انسانی زندگی اور سماج میں انسانی مقام و مرتبے پر اثرات کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نظیرا کبر آبادی کی مختلف نظمیں مثلاً کوڑی نامہ، پیسہ، مفلسی، آٹے دال، روٹی نامہ براہِ راست معاشی نظمیں ہیںروٹی نامہ کاایک بند ملاحظہ ہو؎پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سےیہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کس لیےوہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دےہم تو نہ چاند سمجھے نہ سورج ہی جانتےبابا ہمیں تو سب نظر آتی ہیں روٹیاںانھوںنے اپنی مشہور نظم ’ مفلسی‘ اور ’ آٹے دال ‘ میں انسان کی بے بسی کو ظاہر کیا ہے۔ نظم مفلسی میں وہ لکھتے ہیں؎جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسیکس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسیپیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسیبھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسییہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مفلسینظیر نے اپنے عہد کے پر آشوب ماحول کی عکاسی ان پر درد الفاظ کے ذریعے کی ہے؎مارے ہیں ہاتھ ہاتھ پہ سب یاں کے دستکاراور جتنے پیشہ ور ہیں سو روتے ہیں زار زارکچھ ایک دو کے کام کو رونا نہیں ہے یارچھتیس پیشے والوں کے ہیں کاروبار بندنظیر اکبر آبادی ایک عوامی شاعر تھے۔ ان کی نظموں میں ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی رو ح اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے جس کا لب و لہجہ اور مزاج عوامی ہے۔ ان کے یہاں مختلف موضوعات پر نظمیں ملتی ہیں۔ کچھ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا ذکر ہے بعض میں اخلاق و تصوف کا۔ ان کے جمہوری مزاج کے متعلق پرو فیسر ا حتشام حسین لکھتے ہیں:’’ انھیں ہندوستانی ادبیات میں جو عظمت حاصل ہے وہ نظموں ہی کی وجہ سے ہے، کیونکہ اس میں ہندوستانی زندگی اپنی تمام اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ جی اٹھی ہے۔ اس کلیات کا ایک حصہ کرشن جی، مہادیو جی، بھیروں جی وغیرہ پرلکھی ہوئی نظموں سے بھرا ہوا ہے۔ نظیر سے پہلے زیادہ تر شعراعام موضوعات پر لکھنے اور عوام کی زندگی کی تصویر کشی کرنے میں بچتے تھے مگر نظیر نے اونچے طبقے کے خیالات میں ایک ایسا چور دروازہ بنا دیا جس میں سے ہو کر عوام کا جلوس قصر ادب میں گھس آیا۔ شاعری کی اس عظیم روایت کے ساتھ نظیر اکبرآبادی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘(اردو ادب کی تنقیدی تاریخ،سید احتشام حسین،ص117،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی،1999)نظیر اکبر آبادی کا تجربہ ومطالعہ بہت وسیع اور ہمہ گیرہے انھوں نے مختلف اہم شخصیات پر بھی نظمیں لکھی ہیں۔ مثلاً شری کرشن، گرو نانک وغیرہ۔کہتے ہیں نانک شاہ جنھیں وہ پورے ہیں آگاہ گرووہ کامل رہبر جگ میں ہیں یوں روشن جیسے ماہ گرومقصود مراد امّید سبھی بر لاتے ہیں دکھواہ گرونت لطف کرم سے کرتے ہیں ہم لوگوں کا نرواہ گرواس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گروسب سیس جھکا ارداس کرو اور ہر دم بولو واہ گروان کی شاعری کا جادوئی آہنگ آگرہ کے گلی کوچوںاور بازاروںمیں گونجتا تھا۔تہواروں اور میلوں میں ان کے گیت لوک گیتوں کی طرح گائے جاتے تھے۔ شری کرشن کی زندگی پر ان کے لکھے گیت کو فقیر مست ہو کر گاتے تھے؎کیا کیا کہوں میں کرشن کنہیا کا بالپنایسا تھا بانسوری کے بجیّا کا بالپنیاروں سنو وہ دہی کے لٹیّا کا بالپناور مدھوپوری نگر کے بسیّا کا بالپننظیراکبر آبادی ایک ایسے حقیقت پسند شاعر ہیں جن کی نظموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کی بقا کے لیے انسان کو جینے کے یکساںوسائل ملنے چاہیے۔ انھوں نے بعض نظمیں بچّوں کے لیے بھی لکھی ہیں جیسے ریچھ کا بچہ،بلی کا بچہوغیرہ۔ ان کے بعض موضوعات تو اتنے دلچسپ اور انوکھے ہیں کہ ان پر آج تک کسی شاعر نے قلم تک نہیں اٹھایا۔ان کی اس قوت مشاہدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خورشید الاسلام لکھتے ہیں:’’ دنیا کو کتاب سے پڑھا اور استاد سے سیکھا بھی جاتا ہے مگر دل زندہ ہو تو اسے آنکھوں سے اور کانوں سے پیا بھی جاسکتا ہے۔ ‘‘انھوں نے عام زندگی کے ہر چھوٹے بڑے موضوعات پر نظمیںلکھیں۔ مثلاً کورابرتن، لکڑی، تل کے لڈو وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی نظموں میں قدرت کے حسین مناظرکوبہت ہی خوبصورتی سے قید کیا ہے ان کی مشہور نظم’برسات کی بہاریں ‘ قدرتی مناظر کی بھر پور عکاسی کر تی ہیں؎ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریںسبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریںبوندوں کی جھمجھماوٹ قطرات کی بہاریںہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریںکیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریںنظیرکی شاعری میں جہاں قدرتی مناظر کا عکس دکھائی دیتا ہے وہیں عرس،میلوں اور تہواروں کے مناظر بھی پیش کیے گئے ہیں۔ انھوں نے نظم ہولی کے ذریعے ایک ہندوستانی تہوار میں منائی جانے والی خوشیوں کو بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔آجھمکے عیش و طرب کیا کیا،جب حسن دکھایا ہولی نےہر آن خوشی کی دھوم ہوئی، یوں لطف جتایا ہولی نےہر خاطر کو خورسند کیا، ہر دل کو لبھایا ہولی نےدفِ رنگین نقش سنہری کا، جس وقت بجایا ہولی نےبازار، گلی اور کوچوں میں، غل شور مچایا ہولی کانظیر اکبر آبادی اردو نظم کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے عربی، فارسی، پنجابی، اودھی، برج، کھڑی بولی اور سنسکرت کے الفاظ کو بہت خوبصورتی کے ساتھ اپنی شاعری میں شامل کیا۔ ان کی شاعری میں فارسی الفاظ اور تراکیب کی کمی نہیں۔ وہ کفر و ایمان، دیر و حرم، سبحہ وز ناّر کی تراکیب کے علاوہ عاشق،دلبر، دشت اور آہنگ کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ کھڑی بولی برج اور پنجابی سے آنند، بھیڑ، جنم، تت بھو، سنسار، لچھن، اوتار، سروپ، پر تپال، مدھ مست کے الفاظ ان کی شاعری میں جگہجگہ پائے جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف چولھا، ہانڈی اور تنور کو اپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں بلکہ ایسے اودھی کے الفاظ بھی ان کی شاعری میں جگہ بناتے ہیں جنھیں صرف انھوں نے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ مخاطبت کے لیے ’بابا کے لفظ کا استعمال بھی خالص ہندوستانی مزاج کی نمائندگی کرتا ہے۔غرض نظیر اکبر آبادی نے اپنی شاعری میں بے شمار ہندوستانی الفاظ استعمال کیے ہیں جنھیں ان سے پہلے کسی شاعر نے استعما ل نہیں کیا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں زبان پر غیرمعمولی قدرت حاصل تھی۔اس طو پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظیرہندوستانی مشترکہ تہذیب و ثقافت کا بے نظیر شاعر تھا۔Dr. Jan Nisar AlamAsst Professor, Dept of UrduUniversity of LucknowLucknow- (UP)Cell.: 9792453618jannisaralamlko@gmail.com" کلیاتِ سودا اور کلیات قائم کی مشترک مثنویاں، مضمون نگار: فردوس جہاں,https://ncpulblog.blogspot.com/2024/07/,"سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل-جون2024تلخیصمرزا محمد رفیع سودا اپنے عہد کے ایسے باکمال شاعر ہیں جن کی شاعری کی شہرت اورمقبولیت نیز افادیت آج بھی مسلم ہے۔ 18ویں صدی دراصل ریختہ کے عروج کا زمانہ تھا۔یہ صدی اردو شاعری کی تاریخ میں ’عہد زریں‘کے نام سے جانی جاتی ہے۔اس دور کے جن شاعروں نے ریختہ کی شاعری کو وقار بخشا اس میں درد،سودااورمیرسب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔سودا نے اپنے شعری سفرکاآغاز فارسی شاعری سے کیا اورسراج الدین علی خاں آرزو کو اپنا کلام دکھاتے رہے لیکن باضابطہ طورپرانھیں اپنا استاد نہیں بنایا۔کیونکہ چند روز میں ہی سودا خانِ آرزو کے مشورے پر فارسی چھوڑ کرریختہ میں شعر کہنے لگے اورشاہ حاتم کو اپنا استاد تسلیم کیا۔جو شہرت ومقبولیت سودا کو ان کی زندگی میں حاصل ہوئی وہ کسی اورشاعر کے حصے میں نہیں آئی۔ان کی ہر دل عزیزی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ انھیں کسی حکومت کے ذریعے ملک الشعرا کا خطاب نہیں ملا تھا اس کے باوجودوہ اپنے عہد میں ’ملک الشعرا‘ ہی کہے جاتے تھے۔ان کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوںنے اردو کی تمام شعری اصناف میں نظمیں کہی ہیں۔مثلا غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، رباعی، قطعہ، مثمن، مسدس،مخمس،مثلث اورشہر آشوب وغیرہ نیز ایک عدد واسوخت ان کے کلیات کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں ’عبرۃ الغافلین‘ اور’سبیل ہدایت‘ بھی انھوںنے اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔سودا کے کلام کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خوبصورت تشبیہات اورطرفہ تراکیب کے استعمال پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی۔مگر افسوس کہ قدیم شعرا کے ساتھ ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کا کلام مطبوعہ ہویا غیر مطبوعہ، الحاقات وتصرفات اورتحریفات سے یکسر پاک نہیں کہا جاسکتا ہے۔کلیات سودا کے جتنے نسخے غیر مطبوعہ یا مطبوعہ شکل میں ملک یا بیرون ملک کے کتب خانوں میں ملتے ہیں اتنے اس عہد کے کسی دوسرے شاعرکے نہیں ملتے۔سوداکے کلیات میں جتنی بڑی تعداد میں ان کے معاصرین شعرا اورشاگردوں کے کلام شامل ہیں اوراصل متن میں جس کثرت سے تصرفات وتحریفات کی غلطیاں واقع ہوئی ہیں اس کی مثال بھی کہیں اورنہیں ملتی۔سودا ایک مسلم الثبوت استاد شاعر ہیں۔ان کے شاگردوں کی فہرست بہت طویل ہے۔عہد سودا کے ایک شاعر قیام الدین قائم چاند پوری ہیں جن کو سودا کا شاگردہونے کا شرف حاصل ہے۔قائم کی سات مثنویاں جن کا عنوان ہے: درہجو سرما، درہجو طفل پتنگ باز، قصہ شاہ لدھا مسمیٰ بہ عشق درویش، حکایت، حکایت، حکایت، حکایت دانستہ یا نادانستہ طورپر کلیات سودا میں شامل ہوگئی ہیں۔زیر تصنیف مضمون میں ان سات مثنویوں کے حوالے سے داخلی اورخارجی شواہد کی روشنی میں مدلل بحث کی گئی ہے۔کلیدی الفاظمرزا محمد رفیع سودا، کلیاتِ سودا، غلام حیدر، گارساں دتاسی، میر شیر علی افسوس، نسخہ مصطفائی، نسخۂ آسی، ڈاکٹر خورشیدالاسلام، پروفیسر نسیم احمد، قائم چاند پوری، مثنوی، کلیاتِ قائم۔—————سودا کا پورانام مرزا محمد رفیع اورتخلص سودا ہے۔ ان کے آباواجداد کہاں سے آئے تھے یا کہاںکے رہنے والے تھے اس بارے میں تذکرہ نگاروں کی دو رائے ملتی ہیں۔حکیم قدرت اللہ قاسم، نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ،مولوی کریم الدین،عبدالغفور نساخ،لالہ سری رام،شیخ چاند، مفتی صدرالدین وغیرہ نے لکھا ہے کہ سودا کے آباواجدادکابل سے ہندوستان آئے تھے۔اوربعض تذکرہ نگاروں اورمورخین کی رائے یہ ہے کہ وہ لوگ بخاراسے ہندوستان آئے تھے،یہی درست معلوم ہوتا ہے کیوں کہ نقش علی سے سودا کے ذاتی مراسم تھے۔انھوںنے سودا کے بزرگوں کا وطن بخارابتایا ہے۔1؎نیز بھگوان داس ہندی رقم طراز ہیں:’’ان(سودا) کے اجداد بخارا سے ہندوستان آئے اوردہلی میں مستقل سکونت اختیار کی۔‘‘2؎اس بات کا اعتراف خلیق انجم نے بھی کیا ہے، جو سودا کے ایک بڑے سوانح نگار ہیں۔وہ لکھتے ہیں:’’ان کے آباواجداد بخارا سے ہی آئے تھے۔‘‘3؎سوداکا خاندانی پیشہ کیا تھایہ تو کسی کتاب سے معلوم نہ ہوسکا۔لیکن ان کے والد مرزا شفیع دہلی میں ایک تاجر تھے۔ سوداکی ولادت کے متعلق بیشتر تذکرہ نگاروں اورمحققین نے قیاس آرائی سے کام لیا ہے۔ محمد حسین آزاد نے ان کی یو م پیدائش 1125ھ بتایا ہے۔لیکن کوئی دلیل پیش نہیں کی اورتحقیق میں بغیر دلیل کے کوئی دعویٰ قابل قبول نہیں سمجھاجاتا۔ناصر لکھنوی نے مرزا کا سال ولادت 1124ھ بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’ایک فقیر نے پیشین گوئی کی تھی کہ انشاء اللہ تعالیٰ شہرت تیری چہاردانگ ہندوستان میں بے حد وحساب اورعمر تخلص کے ہم عدد ہوگی۔‘‘4؎ناصر لکھنوی کے اس قول کے مطابق مرزا کے تخلص سودا سے 71برآمد ہوتے ہیں چونکہ سودا کی وفات 1195ھ میں ہوئی ہے اس میں 71سال کم کرنے سے 1124ھ برآمد ہوتا ہے۔سودا پر تحقیقی مقالہ لکھنے والے پہلے محقق شیخ چاند نے سودا کاسال ولادت1106ھ بتایا ہے۔5؎قاضی عبدالودودسودا کا سال ولادت1128ھ بتاتے ہیں۔6؎ڈاکٹر خلیق انجم نے سودا کا سال ولادت 1118ھ مقرر کیا ہے۔7؎ علاوہ ازیں جمیل جالبی نے بھی خلیق انجم کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے سودا کا سال ولادت 1118ھ ہی بتایا ہے۔8؎سید حنیف احمد نقوی نے سودا کا سال ولادت 1125ھ ٹھہرایا ہے اوراس کے پیچھے ایک دلیل پیش کی ہے وہ لکھتے ہیں:’’سودا اورمیرکی عمر میں تقریباً دس سال کا فرق تھایعنی سودا میر سے دس سال بڑے ہیں۔ میر کے متعلق یہ بات طے ہوچکی ہے کہ وہ 1135ھ میں پیدا ہوئے تھے..... اس بنیاد پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ سودا ان سے دس سال پہلے 1125ھ میں پیداہوئے ہوںگے۔‘‘9؎سودا کے سنہ ولادت کے متعلق متذکرہ بالا محققین کی جتنی آراہیں ان میں سید حنیف احمد نقوی کی رائے سب سے زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔سودا نے اپنے شعری سفرکا آغاز فارسی شاعری سے کیا اوراولاً خانِ آرزو سے اصلاح لی۔ انھوں نے فارسی میں ایک مختصر دیوان بھی چھوڑا ہے۔لیکن تھوڑے ہی دنوں میں وہ خان آرزوکے مشورے پر ریختہ کی طرف مائل ہوگئے۔عاشقی عظیم آبادی اپنے تذکرے میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ابتدا میں موزونیت طبع کی وجہ سے فارسی گوئی شروع کی اورسراج الدین علی خاں آرزوسے اصلاح لی۔خان آرزونے کہا کہ کلام فارسی کا درجہ بہت بلند ہے اورہماری تمھاری زبان ہندی ہے۔ہر چند اہل ہند نے فارسی دانی کو مدارج ارتفاع تک پہنچا دیا، لیکن استاد ان سلف وایران کے سامنے وہی حیثیت ہے جو چراغ کی آفتاب کے سامنے ہوتی ہے۔ابھی تک ریختہ گوئی میں کسی نے شہرت نہیں پائی۔لہٰذا اگر تم زمانے میں مشق سخن کرو تو فیض طباعت سے شاید اس فن کا امام ہوجائو۔‘‘10؎سودا کو خانِ آرزو کا مشورہ پسند آیا۔ انھوںنے فارسی چھوڑکر ریختہ میں مشق سخن جاری کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ریختہ گو شعرا کے استاد ہوگئے اورہندوستان کے تمام ریختہ کے شعرا انھیں اس فن کا امام سمجھنے لگے۔تذکرہ نگاروں اورمحققین کے اقوال کے مطابق سودا کے چاراستادوں کا نام نمایاں ہوتا ہے۔پہلے خان آرزوہیں۔جن سے سودا فارسی کلام پر اصلاح لیا کرتے تھے۔دوسرے استاد سلمان قلی خاں وداد ہیں۔ تیسرے استاد نظام الدین صانع اورچوتھے استاد شاہ حاتم ہیں۔ان میں سے اول الذکرتین صاحبان سودا کے باضابطہ استاد نہیں تھے۔لیکن ابتدا میں ان سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ البتہ شاہ حاتم بلا شبہ سوداکے استاد تھے اوران کو سوداکا استاد ہونے کا فخر بھی تھا۔سودا کا مولد دہلی تھا اوروہ اپنے وطن عزیز سے بڑی محبت کرتے تھے۔اس لیے نادرشاہ کے حملے کے بعد بھی وہ دلی میں ڈٹے رہے۔لیکن احمد شاہ ابدالی کے حملوںنے ان کے پائے استقلال میں لغزش پیداکردی۔یہ حملے تھے بھی دل دہلادینے والے۔متعدد شعرا وادبا جو دہلی کی گلیوں پر جان چھڑکتے تھے وہ اسے چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔سودا جو ہنوزدہلی میں مقیم تھے۔1174ھ میں فرخ آباد آگئے۔ اودھ کے باقاعدہ سیاسی وثقافتی مرکز بننے سے پہلے فرخ آباد ہی ایسی جگہ تھی جہاں نواب احمد خان بنگش کے دیوان مہربان خان رند جو شعروشاعری کا ذوق رکھتے تھے،انھوںنے شاعروںکو پناہ دے کر انھیں پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ان میں سودا کا بھی نام شامل ہے۔ سودا مہربان خان رند کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔بعض لوگوں نے سودا کو رند کا استاد بتایا ہے لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ مہربان خان رندکے باقاعدہ استاد میر سوزتھے۔ البتہ رندسودا سے اپنے کلام پروقتاً فوقتاً اصلاح لیا کرتے تھے۔لیکن باضابطہ طورپر انھوںنے سودا کی شاگردی اختیار نہیںکی تھی۔1185ھ میں نواب احمد خاں بنگش کا انتقال ہوگیا، جس کے سبب مہربان خان رند پر دکھوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، جو مہربان خان رند متعدد شعرا کے مربی ہوا کرتے تھے۔انھیںخود ہی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ سودا 1185ھ کے اواخر میں نواب شجاع الدولہ کے عہد حکومت میں فیض آباد آگئے۔اس وقت اودھ کا دارالخلافہ فیض آباد ہی تھا۔ یہاں نواب شجا ع الدولہ نے سودا کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔سودا نواب کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔ان کی تنخواہ دوسوروپے ماہوار تھی۔نواب شجاع الدولہ کے بعد نواب آصف الدولہ تخت نشین ہوئے۔ انھوںنے اپنادارالخلافہ لکھنؤ منتقل کرلیا۔سودا بھی ان کے ساتھ لکھنؤ آگئے اوربدستور دربار سے آخر عمر تک منسلک رہے البتہ نواب آصف الدولہ کے عہد حکومت میں مقررہ رقم ماہ بہ ماہ نہیں ملتی تھی جس کے سبب سودا کی مالی حالت اکثر خراب رہتی تھی۔اس لیے سودا کو اپنے قصیدوں کے ذریعے بادشاہ کے سامنے اپنی مالی تنگی اورکسمپرسی کا احوال بیان کرنا پڑتا تھا۔سودا آخر عمر تک لکھنؤ میںہی مقیم رہے اور6رجب 1195ھ بہ مطابق 27جون 1781 میں ریختہ کا ایک باکمال استاد شاعر اس دار فانی سے رخصت ہوگیااورحسین قلی خاں عاشقی و مرزا علی لطف کے بیان کے مطابق سودا لکھنؤ کے ایک امام باڑہ امام باقر میں مدفون ہوئے۔اردو شاعری میں مرزا محمد رفیع سودا کو ایک بلند مقام حاصل ہے۔ انھیں ریختہ گوئی پر غیر معمولی ملکہ حاصل تھا۔ تشبیہات واستعارات جیسے ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔جو شہرت سودا کوان کی زندگی میں حاصل ہوئی وہ اورکسی دوسرے کے حصے میں نہیں آئی۔اردو شاعر ی میں سوداکے مقام ومرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے استاد شاہ حاتم نے خود سودا کی زمین میں غزلیں لکھیں۔ سودا کے معاصر تذکرہ نگاروں نے سودا کی قادرالکلامی کا لوہا مانا ہے۔سودا کو باقاعدہ ملک الشعراکا خطاب تو نہیں ملا تھا اس کے باوجود بھی عوام میں ’ملک الشعرا‘ہی مشہور تھے۔سوداریختہ کے استاد تو تھے ہی اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ خوش اخلاق اوراچھے کردار کے مالک تھے۔ اپنے زمانے کے رواج کے مطابق سودا آداب مجلس سے بھی واقف تھے۔سوداکو نہ صرف بادشاہوں اورسلاطین کی صحبتوں میں نشست وبرخاست کا سلیقہ خوب آتا تھا۔بلکہ اپنے شاگردوں سے بھی خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔انھیں خوبیوںکی وجہ سے سودا اپنے معاصرین شعرا میں ہردل عزیز تھے۔سودا اپنے عہد کے ایک عدیم المثال اورباکمال شاعر ہیں،جن کی شاعری کی شہرت ومقبولیت اورافادیت آج بھی مسلم ہے۔ان کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوںنے اردوکی تمام مروجہ شعری اصناف میں نظمیں کہیں۔مثلاً قصیدہ، غزل، مرثیہ، مثنوی، رباعی، قطعہ، مثلث، مخمس، مسدس، مثمن، شہر آشوب اورایک عدد واسوخت بھی ان کی یادگار ہے۔کلام سودا کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک وسیع الذہن اوربے پناہ قوت اختراع کے مالک تھے۔نادر تشبیہات اورطرفہ تراکیب کے استعمال پر کامل دسترس رکھتے تھے۔سودااگر قصیدہ کے امام ہیں تو ان کی غزلیں بھی کسی طورپر اعلیٰ ادبی معیار سے ساکت نہیں کہی جاسکتیں۔اس کے ساتھ ہی ساتھ مرثیے، مثنویات، رباعیات، قطعات، مخمسات اورمسدسات بھی ادبی معیار ومیزان پرکھرے اترتے ہیں۔شعری اصناف کے علاوہ دو نثری مختصر تصنیفات بھی سودانے تحریر کی ہیں۔ اول’عبرۃ الغافلین‘ہے جو پانچ ابواب پر مشتمل فارسی رسالہ ہے۔ اس میں سودا نے فارسی شاعر مرزا فاخر مکین کے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو انھوں نے بزرگ شاعروں کے کلام پر کیے ہیں۔اس تحریر کے مطالعے سے سودا کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔دوسری کتاب ’سبیل ہدایت‘ہے۔ اس میں سودا نے ایک مرثیہ گو میر تقی (یہ محمد تقی میر سے علاحدہ شخص ہیں)ہیں،کے ایک سلام اورمرثیے پر اعتراض کیا ہے۔ اس کتاب کی ابتدا میں ایک دیباچہ اردو نثر میں لکھا ہوا ملتاہے۔ا س دیباچے کی اہمیت اردو ادب میںخصوصیت کی حامل ہے۔کیونکہ اس عہد کے تمام شعرا کی نثری تخلیقات فارسی زبان میں ملتی ہیں۔مثلاًمیر،درد،قائم،میر حسن،مصحفی وغیرہ نے اپنی نثری تصنیفات یا دیباچے فارسی زبان میںلکھے ہیں۔آج صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک کے متعدد کتب خانوں میں کلیات سوداکے لاتعداد مطبوعہ وغیر مطبوعہ نسخے ملتے ہیں۔کلیات سودا کے جتنے قلمی نسخے ہماری نظرسے گزرے ہیں۔اس میں سب سے قدیم نسخہ ’نسخۂ حبیب گنج‘ہے۔یہ نسخہ مولانا آزادلائبریری،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ملکیت ہے۔اس کا سنہ کتابت 1174ھ ہے۔اس نسخے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ سودا کی زندگی کا نسخہ ہے۔علاوہ ازیں نسخۂ بنارس1177ھ،کلیات سودا نسخۂ خدابخش لائبریری 1193ھ،انتخاب سودا1193ھ انجمن ترقی اردو ہند دہلی،دیوان سودا1195ھ ادارۂ ادبیات اردوحیدرآباد وغیرہ قلمی نسخے بھی ان کی زندگی میں کتابت کا شرف حاصل کرنے کے باعث اردو ادب میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔سودا کے قلمی نسخوںکی طرح ان کے مطبوعہ نسخے بھی لاتعداد ہیں۔گارساں د تاسی ایک فرانسیسی عالم تھے جو اردو زبان سے خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔کلام سودا کی اشاعت کے بارے میں انھوںنے اپنی معلومات کا اظہار ان لفظوںمیں کیا ہے:۔’’1803میں اعلان ہواتھا کہ کلکتہ میں کلیات سودا تین جلدوں میں زیر طبع تھا۔‘‘11؎غالباً دتاسی کے اسی بیان کی بنیاد پر شیخ چاند رقم طراز ہیں:’’سودا کا کلیات سب سے پہلے ان کی وفات 1781 کے بائیس سال بعد1803 میں کلکتہ میں طبع ہوا۔‘‘12؎نیز قاضی عبدالودوددتاسی کے مندرجہ بالا بیان سے متاثر ہوکر رقم کرتے ہیں:’’میر کا کلیات وفات میر(1810)کے کچھ ہی دنوں بعد کلکتہ (فورٹ ولیم کالج)سے شائع ہواتھا۔ اہل کلکتہ (فورٹ ولیم کالج)کے ارباب حل وعقدکوکلیات سودا کی اشاعت کا خیال آیا ہو تو تعجب کی بات نہیں۔‘‘13؎متذکرہ بالا بیان کے علاوہ میر شیر علی افسوس نے بھی اپنی تصنیف ’آرائش محفل‘کے آغاز میں رقم کیا ہے کہ:’’بے کار رہنا اس ناکارے کا جو شعار نہیں بنا براس کے چند اوقات سرمنشۂ شعرا(شیر بیشۂ شعرا)مرزارفیع سودا کے کلیات کی صحت میں کاٹے از بس کہ وہ کاتبوں کے قلم جہل سے اغلاط ہوگیا تھا۔جیسا چاہے ویساصحیح نہیں ہوسکا اورنسخہ بھی دوسرا کہ مرتبہ صحیح ہوبہم نہ پہنچا سبب اس کے کہیں کہیں غلط رہ گیا۔‘‘14؎لیکن افسوس کہ اس بیان اورقاضی عبدالودود کی قیاسی تائید کے باوجود اب تک 1803 میں شائع شدہ کلیات سودا کے کسی نسخے کی موجودگی کا علم نہیں ہے۔البتہ کلیات سودا کا ایک مطبوعہ انتخاب ایشیا ٹک سوسائٹی کلکتہ میں اندراج نمبرU.N.D.3A (Soc. 225)موجود ہے۔کتاب کی ابتدا میں سرورق پر انگریزی میں فورٹ ولیم کالج کندہ ہے جو مہر بھی ہوسکتی ہے۔اس کی سیاہی متن کی سیاہی سے مختلف ہے۔ متن کے مشکل الفاظ پر جگہ جگہ انگریزی میں ان کے معنیٰ لکھے ہوئے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ کتاب کسی انگریزکی درس وتدریس میں رہ چکی ہے۔یہ نسخہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔حصہ اول میں چودہ قصیدے،تین مخمس،ایک واسوخت اورنو مثنویاں شامل ہیں۔اس حصے کے خاتمے پر ’تمام ہواانتخاب قصائد اورمخمسات اورمثنویات مرزا محمد رفیع سودا‘ رقم ہے۔حصہ دوم غزلیات، مطلعات،رباعیات ایک قطعہ اورایک پہیلی پر مشتمل ہے۔اس انتخاب میں نہ صرف تحریفات وتصرفات کی غلطیاں دیکھنے کو ملتی ہیں بلکہ الحاقی کلام بھی متن میں شامل ہیں۔اس نسخے میں اول تاآخر ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ یہ 1810 میں چھپا ہوا نسخہ ہے۔البتہ ایشیاٹک سوسائٹی،لائبریری،کلکتہ(نمبرU.N.d.3b)اورخدابخش لائبریری، پٹنہ(نمبرH.L.13-446-)میںغلام حیدرنامی شخص کا مرتب کردہ سودا کا ایک انتخاب ملتا ہے۔جس کے خاتمۃ الطبع کی عبارت سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اول الذکر کلام سودا کا انتخاب 1810 میں ہی فور ٹ ولیم کالج سے شائع ہواتھا۔مذکورہ انتخاب کی طرح غلام حیدر کا مرتب کردہ انتخاب بھی دو حصوں میںمنقسم ہے۔حصۂ اول میں قصائد،مخمسات،ایک عددواسوخت اورچند مثنویات کے ساتھ ساتھ ایک مرثیہ بھی شامل ہے۔اس حصے کے آخر میں خاتمہ الطبع کی عبارت کے ساتھ ساتھ غلام حیدر کی مہر بھی موجود ہے۔ عبارت کی تحریر کچھ اس طرح ہے:’’الحمدللہ کہ انتخاب قصائد کلیات مرزا رفیع سودا کا اہتمام سے عاصی پر معاصی غلام حیدر ساکن ہوگلی کے مطبع ’مرأۃ الاخبار ‘میںپہلی تاریخ رجب سنہ 1263ھ قدسی اورپندرہویںجون 1847 میں دوسری بار سینتیس برس بعد معدن علم وفضل جناب میجر جارج ٹرنبل مارشل صاحب بہادرسیکریٹری فورٹ ولیم کالج کے وقت میںچھاپا گیاجو کوئی بے مہرا حقر غلام حیدر کے اس کو بکتے دیکھے ہر گز مول نہ لے اورجانے کہ بے شک وہ چوری کا ہے اوراگر سارق مسروق کو عاصی کے پاس پکڑ کر لاوے تو ایک جلد قصائد محنت کے بدل پاوے جانا چاہیے کہ انتخاب مذکورہ میں بہ نسبت آگے کے عاصی نے قصیدے سودا کے زیادہ کیے ہیں اورمرثیے بھی اس کے کہے ہوئے داخل کیے ہیں تاکہ ان کا ڈھب بھی پڑھنے والوں کو معلوم ہو۔اسی طرح انتخاب غزلیات میں جو کلیات سودا سے ہواتھا غزلیں اس کی زیادہ کی ہیں اوران دونوں قسمتوںکو جلد اول میں چمن مسرت کے جو تالیف کی ہوئی بندے کی ہے داخل کیا ہے حال اس کا مفصل دیباچے سے معلوم ہوگا۔‘‘15؎خاتمۃ الطبع کی اس عبارت کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غلام حیدر نامی شخص نے اس انتخاب کا پہلا حصہ جو قصائد کا ہے اسے 15جون 1847 میں مطبع’مراۃ الاخبار‘سے شائع کرایا۔ ایک اوربات قابل غور ہے کہ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ پہلے والا انتخاب جو 1810 میں شائع ہواتھا اسے 37سال بعد پہلے والے انتخاب کے بہ نسبت قصائد کے تعدادبڑھاکر اورمزید ایک مرثیہ شامل کرکے چھاپا گیا ہے۔اوردونوں نسخوںکا مقابلہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ غلام حیدر کا دعویٰ درست ہے۔غلام حیدر کے مرتب کردہ کلیات سودا کے اس انتخاب کے دوسرے حصے میں غزلیات،مطلعات، رباعیات،ایک قطعہ اورپہیلی شامل ہیں۔اس حصے کے آخر میںبھی خاتمۃ الطبع کی عبارت غلام حیدر کی مہر کے ساتھ موجود ہے۔جو ذیل میں نقل کیاجارہا ہے:’’الحمدللہ انتخاب غزلیات کلیات مرزا رفیع سودا کا اہتمام سے عاصی پر معاصی غلام حیدر ساکن ہوگلی کے مطبع ’اخوان الصفا‘ میںپہلی تاریخ رجب سنہ 1263ھ قدسی..... فورٹ ولیم کالج سے چھاپا گیا… انتخاب مذکور میں بہ نسبت آگے کے عاصی نے غزلیں سودا کی زیادہ کی ہیں۔اسی طرح انتخاب قصائد میں جو کلیات سودا سے ہوا تھا قصیدے اس کے زیادہ کہے ہیں اورمرثیہ بھی اس کے کہے ہوئے داخل کیے ہیں تاکہ پڑھنے والوں کو اس کا ڈھب معلوم ہو……‘‘16؎مذکورہ انتخاب کلیات سودا کا دوسرا حصہ پہلی مرتبہ کلکتہ کے ’اخوان الصفا‘ مطبع سے شائع ہوا اور 1810 والے نسخے کے بہ نسبت غزلیات کی تعداد بڑھادی گئی ہے۔غلام حیدر نے انتخاب کلام سودا کے دونوں حصوں کو الگ الگ مطبع سے شائع کرایا ہے اوربعد میں یکجا کرکے میجر جارج ترنبل مارشل صاحب بہادرسکریٹری فورٹ ولیم کالج کے وقت میں اسی سال یعنی1847 میں چھپ کر منظر عام پر آیا۔ غلام حیدر کی خاتمۃ الطبع کی عبارت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فورٹ ولیم میں شائع ہواانتخاب کلام سودا کا پہلا نسخہ 1810 کا ہے۔گارساں دتاسی اورمیر شیر علی افسوس 1803 میں فورٹ ولیم کالج سے طبع ہونے والے کلیات سودا کے جس نسخے کے متعلق اپنی معلومات کا اظہار کررہے تھے،اس کی موجودگی کی نشان دہی اب تک نہیں ہوئی۔قوی امکان ہے کہ کسی وجہ سے کلیات مکمل نہ ہوسکاہواورفورٹ ولیم کالج نے کلیات سودا کا انتخاب ہی شائع کردیا ہو۔مذکورہ کلیات سوداکا انتخاب بھی دو حصوں میں ہے لیکن کالج کے تمام اہتمام کے باوجود یہ نسخہ الحاقی کلام سے پاک نہیں ہے اورغلام حیدر کے مرتب کردہ نسخے کا ماخذ بھی یہی نسخہ تھا۔ اس لیے اس نسخے کی تمام غلطیاں اس میں بھی شامل ہوگئیں۔مذکورہ کلیات سودا کے انتخاب کو 1810کا انتخاب تسلیم نہ کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔کلیات سوداکاپہلا مطبوعہ نسخہ مطبع مصطفائی سے پہلی بار1856 میں شائع ہوکرمنظرعام پر آیا اس نسخے کا ماخذ کلیات سودا مرتبہ غلام احمد ہے جس کا ثبوت نسخۂ مصطفائی کے پہلے ایڈیشن کے خاتمہ مصنفۂ مولف کی عبارت میں درج ہے۔اس عبارت کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے:’’بعد شکر ایزدواہب العطیات ونعت سید الموجود ات بندۂ غلام احمد کہ مولف کلیات ہیز است.....دیوان ہاے افضل المتاخرین مرزا رفیع المتخلص بہ سودا بہ شوق تمام وذوق مالا کلام بہ کمال محنت ودماغ سوزی از چند جابہم رسانیدہ ترتیب دلپذیر مرتب ساختہ یادگار روزگار گذاشت۔چوں ایں کلیات جامع تراز دیگر دواوین مشہور است۔ آخرعزیزان وصاحبان شوق بہ قیمت صدروپیہ طالب نسخہ موصوفہ بودند۔لیکن دوری آں قبول طبع خاکسار نیفتاد خدا شاہد ایں مقال است..... فقط۔‘‘17؎منقولہ بالا عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نسخۂ مصطفائی غلام احمد کے مرتب کردہ نسخے پر مبنی ہے لیکن سودا کے کلیات کا کوئی علاحدہ ایسا نسخہ نہیں ملتا جس کو غلام احمد نے ترتیب دیا ہو۔لیکن ہم منقولہ بالا عبارت کی بنیاد پر یہ قیاس کرسکتے ہیں کہ اصلح الدین کے بعد غلام احمد دوسرے اہم شخص ہیں جنھوںنے مختلف ذرائع سے دستیاب سودا کے تمام شعری کلام کو ایک کلیات کی شکل میں یکجا کردیا تھا۔ جس کی بنیاد پر نہ صرف نسخۂ مصطفائی کا پہلا ایڈیشن بلکہ دوسرا تمام ایڈیشن ریاست بالواسطہ اسی نسخے کی بنیاد پر شائع ہوئے ہیں۔بدقسمتی سے ارباب مطبع کے تمام تر حزم واحتیاط کے باوجود نہ صرف تحریفات وتصرفات کے اغلاط سے پر ہے بلکہ معاصرین وشاگردان سودا کے بہت سے کلام بھی شامل ہوگئے ہیں۔نسخۂ مصطفائی کے طرز پر مطبع نول کشور کانپورنے کلیات سودا پہلی بار 1872 میں شائع کیا۔اس کے بعد بالترتیب 1873،1877، 1905 اور1916 میں کلیات سودا کے نسخے مسلسل مطبع نول کشور سے شائع ہوکرمنظر عام پر آتے رہیں۔لیکن مطبع نول کشور سے شائع ہونے والے کلیات سودا کے تمام نسخے کاماخذ نسخۂ مصطفائیہونے کے باعث اس کی تمام خوبیاں اورخامیاں بھی شامل ہوگئی ہیں۔مولوی آسی نے بہ گمان خود کلیات سودا کے مطبوعہ نسخوںکے تمام اسقام کی تصحیح کرکے اسے دو حصوں میں مرتب کیا جسے مطبع نول کشور نے1932 میں شائع کیا۔ یہ نسخہ اپنے ماقبل نسخوں سے بالکل مختلف ہے کیونکہ اس کے پہلے کے سارے ایڈیشن نسخہ مصطفائی کی نقل تھے۔بہ حوالہ قاضی عبدالودود آسی رقم طراز ہیں:’’اس سے یہ فائدہ ہوا کہ جو چیزیں آپ کو ڈھونڈنی ہو فوراًنکال سکتے ہیں اورایک قسم کا تمام سودا کا کلام ایک جگہ مل سکتا ہے۔‘‘18؎بے شک نسخۂ آسی صاف ستھرے خط نستعلیق میں شائع ہواہے لیکن متن کے لحاظ سے معتبر نہیں ہے کیونکہ اس میں نسخۂ مصطفائی کی تمام غلطیاں تو شامل ہیں ہی بعض دوسرے اسقام بھی اس نسخے کو اوربھی مشکوک کردیتے ہیں۔ڈاکٹر شمس الدین صدیقی نے کلیات سوداکو مرتب کیا جس پر لندن یونیورسٹی نے انھیں 1967 میں پی ایچڈی کی ڈگری تفویض کی۔ بعد میں ڈاکٹر شمس الدین صدیقی کے اس مقالے کو مجلس ترقی اردو ادب، لاہور نے چار جلدوںمیں شائع کیا۔جس کی تفصیل ہے:۔جلد اول کو1973 میں شائع کیا گیا ہے یہ حصہ سودا کی غزلیات پر مشتمل ہے۔جلد دوم کی تاریخ اشاعت اپریل 1976 ہے۔اس جلد میں قصیدے کو رکھا گیا ہے۔جلد سوم میں مثنویاں،مرثیہ محمد تقی اورشرح سودا وغیرہ پر مشتمل ہے۔جو 1984 میں چھپا اورجلد چہارم مخمسات،مسدسات،رباعیات، قطعات اورواسوخت پر مبنی ہے۔اس جلد کاسنہ اشاعت مارچ 1987ہے۔مذکورہ بالانسخے میں تذکیرو تانیث کی غلطیاں جابہ جادیکھنے کو ملتی ہیں۔قدیم متن میں یائے معرو ف اوریاے مجہول میں عدم تفریق ہوتا تھا۔مرتب نے متن کی تصحیح میں ذاتی پسند وناپسند سے کام لیا ہے۔کلیات سودا کے قلمی نسخے اورمطبوعہ نسخوں کے علاوہ متعدد انتخاب بھی ہیں۔ ان میں سے دو انتخابوں کا تذکرہ تو قبل کے صفحات پر کیا جاچکا ہے۔منتخب مثنویات سودا(کتاب نمبرU.232-)کے عنوان سے کلام سودا کا ایک انتخاب ایشیا ٹک سوسائٹی کلکتہ میں محفوظ ہے۔جو مطبع حبل المتین سے 1903 میں شائع ہوااس کے علاوہ ڈاکٹر خورشید الاسلام نے بھی کلام سوداکاایک انتخاب مرتب کیا تھا جسے انجمن ترقی اردو،علی گڑھ نے 1964 میں شائع کیا۔ مرتب نے مشکوک نسخوں،نسخۂ 1؎جانسن19؎ اور نسخۂ آسی کی بنیاد پر متن کو مرتب کیا۔علاوہ ازیں رشید حسن خاں کا مرتب کردہ کلیات ’انتخاب سودا‘جس کو مکتبہ جامعہ دہلی نے 1972 میں شائع کیا تھا اس کی بنیاد نسخۂ جانسن ہی کے متن پر قائم ہے۔ مرتب نے گمراہ کن نسخے کو بنیادی نسخہ بنایا ہے اس لیے اس کا متن معتبرومستند نہیں کہا جاسکتا ہے۔نیز ہاجرہ ولی الحق انصاری کا مرتب کردہ دیوان ’غزلیات مرز ا محمد رفیع سودا‘کا بھی ماخذ نسخۂ جانسن ہی رہا ہے۔پروفیسر نسیم احمد نے ’غزلیات سودا‘کو مرتب کیا جس پر بنارس ہندویونیورسٹی نے انھیں 1986 میں ڈاکٹرآف فلاسفی کی ڈگری تفویض کی اورتقریباً پندرہ سال بعد 2001 میںضروری اضافوں اور ترمیمات کے ساتھ بنارس ہندویونیورسٹی نے اسے شائع کیا۔ اب تک کلام سودا کے جتنے بھی دواوین مرتب کیے گئے تھے ان کا بنیادی ماخذ نسخۂ جانسن ہونے کی وجہ سے متن تحریفات وتصرفات اورالحاقات کی اغلاط سے خالی نہیں رہا ہے۔موصوف نے اس روایت کو نہ صرف توڑا بلکہ مدلل بحث کرکے یہ ثابت کیا کہ نسخۂ جانسن ایک جعلی اورگمراہ کن نسخہ ہے۔انھوںنے نہایت ایمان داری،محنت اوردماغ سوزی سے ’غزلیات سودا‘ کو ترتیب دیا ہے۔مرزا محمد رفیع سودا کے شاگردوں کی فہرست کافی طویل ہے۔ لیکن اس میں قیام الدین قائم کے سوا اورکوئی اپنی منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔سودا کے شاگردوں میں امیر،متوسط اور غریب ہرطبقے کے لوگ شامل تھے۔ان میں کئی صاحب دیوان بھی تھے۔انھیں میں سے ایک نام قائم چاند پوری کا بھی ہے۔قائم چاند پوری کا پورا نام قیام الدین عرف محمد قائم اور تخلص قائم تھا۔ لیکن تذکروں اورتاریخ ادب اردوکی کتابوں میں قائم چاندپوری کے نام سے مشہور ہوئے۔یہ ضلع بجنور کے قصبہ چاند پور میں تقریباً 1138ھ بہ مطابق1725-26میں پیدا ہوئے اور 1208ھ بہ مطابق1795 میں رامپور میں ان کی وفات ہوئی۔معاش کے سلسلے میں قائم کا زیادہ وقت دہلی میں ہی گزرا۔ تلاش معاش میں جب دہلی پہنچے تو اس وقت میر ومرزا کا اردو شاعری میں ڈنکابج رہا تھا۔شاعری سے شغف انھیں پہلے ہی سے تھا اور طبیعت بھی سازگار تھی۔ شروع میں شاہ ہدایت اللہ ہدایت جو میر درد کے شاگرد تھے، کے سامنے زانوے تلمذتَہ کیا پھر جلد ہی ان سے قطع تعلق ہو کے درد سے اپنے کلام پر اصلاح لینے لگے اور آخر میں سودا کی شاگردی اختیار کرلی۔قائم نے تقریباً تمام اصناف شاعری میں طبع آزمائی کی اورایک بڑا دیوان مرتب کیا علاوہ اس کے اردو شاعروں کا ایک تذکرہ’ مخزن نکات‘بھی اپنی یادگار چھوڑا ہے۔قائم چاند پوری کے معاصرین تذکرہ نگاروں اور مختلف ناقدین نے ان کے فن شعر گوئی کی تعریف کی ہے۔اردو ادب کے پہلے تذکرہ نگار محمد تقی میر نے اپنی تصنیف ’نکات الشعرا‘میں ان کی شعر فہمی کی تعریف نہیں کی لیکن مذمت بھی نہیں کی ہے۔ علاوہ ازیں بقیہ تذکرہ نگاروں نے قائم چاند پوری کی شعر وشاعری کی تعریف کی ہے:کریم الدین احمد نے تو انھیں سودا کا ہم پلہ ہی بتا دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ:’’عجب طرح کا شاعر گفتار، بلند مرتبہ موزونِ طبع عالی مقدار ہے کہ اوس کی برابری اچھے اچھے شاعر نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ شخص اس رتبہ کا ہے کہ دیوان دیکھنے سے اس کی قدر کھلتی ہے بعض بعض …… سودا سے بہتر کہتے ہیں۔‘‘20؎سید عبد الحیٔ کا خیال ہے کہ:’’ان کے طرز ادا کو دیکھ کر سودا کے کلام کا دھو کا ہو تا ہے۔‘‘21؎محمد حسین آزاد نے فرمایا ہے:’’یہ صاحب کمال چاند پور کے رہنے والے تھے مگر فن شعر میں کامل تھے ان کا دیوان ہر گز میر ومرزا کے دیوان سے نیچے نہیں رکھ سکتے مگر کیا کیجے کہ قبول عام اور کچھ شے ہے …شہرت نہ پائی۔‘‘22؎بہ حیثیت مجموعی قائم یقیناً اردو کے عمدہ شاعر ہیں، اس امر کا اعتراف تقریباً سارے تذکرہ نگاروں نے کیا ہے۔ سودا کا تقریباً کل کلام بہ صورت کلیات مطبع مصطفائی دہلی میں پہلی بار چھپ کر 1856 میں شائع ہوا ہے۔ارباب مطبع کے تمام تر حزم و احتیاط کے باوجود اس میں متعدد تحریفیں درآئی ہیں۔ علاوہ ازیں اُن کے بعض معاصرین اور شاگردوں کا خاصا کلام بھی اس پہلے ایڈیشن میں سہوا ًشامل ہو کر شائع ہو گیا ہے۔نیز صاحب دیوان اوران کے معاصرشاعر قائم چاندپوری کی سات مثنویاں چند متفرق اشعار دو مکمل غزلیں دو مخمسات کلام سودا کے بعض چھپے ہوئے نسخوں میں اور چند قلمی نسخوں میں شامل ہو گئے ہیں۔پیش نظر جائزے میں اختصار ملحوظ رکھتے ہوئے ہم یہاں صرف ان کی مثنویوں کا جائزہ لیں گے جو سودا اور قائم دونوں کے یہاں تخلص کی تبدیلی کے ساتھ موجود ہیں۔(1)درہجو سرماعسردی اب کے برس ہے اتنی شدیدیہ مثنوی ’درہجوموسم سرما‘کے عنوان سے کلیات سودا کے تمام مطبوعہ ایڈیشنوںکے علاوہ بعض قلمی نسخوں میں بھی ملتی ہے۔ مثلاً دیوان سودااندراج نمبرUIX3/68/2کتب خانۂ بنارس ہندو یونیورسٹی، دیوان سودا، (اندراج نمبر 888، رضا لائبریری رام پوراوردیوان سوداکتاب نمبرS.L.70،مخزونہ خدا بخش لائبریری پٹنہ وغیرہ میں اسے سودا کے نام سے دیکھا جاسکتا ہے۔برخلاف اس کے کلیات قائم کے تمام معلوم شدہ قلمی ومطبوعہ نسخوںمیں یہ مثنوی ’درہجو شدت سرما‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ علاوہ ازیں معاصر تذکرہ نگاروںمیں مثلاً میر حسن،علی ابراہیم خاں خلیل، مرزا علی لطف اورقدرت اللہ وغیرہ نے بھی اسے قائم ہی سے منسوب کیا ہے اورنمونۂ کلام میں اس مثنوی کے چند اشعار بھی انھی کے نام سے نقل کیے ہیں۔اسی بنیاد پر شیخ چاند،خلیق انجم، پروفیسرگیان چندجین اورپروفیسر نسیم احمد نے اپنے اپنے تحقیقی مقالوںمیں اس مثنوی کو قائم کی ملکیت بتائی ہے۔ کلیات سودا اورکلیات قائم میںاس مشترک مثنوی میں متنی اختلافات کے ساتھ ساتھ اشعار کی تعداد میں بھی تفاوت ہے۔ مثلاً کلیات قائم میں اس کے اشعار کی تعداد 58ہے اورکلیات سودانسخۂ مصطفائی (1272ھ)میں 56اورنول کشور ی ایڈیشن (1916) میں صرف54 شعرہی ملتے ہیں۔ کلیات قائم میں زائد اشعار یہ ہیں؎1عیش کا دل میں کیونکہ ہووے خیالٹھنڈ سے خایہ چڑھ گئی پتاّل2ایسی جاگہ نہیں کوئی خالیجس میں نمد بہ ہوئے یا قالی3ریزش نزلہ ہے زبس کہ عمومرکھے ہیں منہ پہ رینٹ سے خرطوم4صرف ہیزم کیا میں سرمایہگر ہوا پر تنور کا خایہان اشعار میں سے پہلا اورچوتھا شعر کلیات سودانسخۂ مصطفائی میں بہ ادنیٰ تصرف اس طرح نقل ہیں؎کلیات سودا (نسخۂ مصطفائیکلیات قائم جلد دوم (اقتداحسن)1عیش کا دل میں کیوں کہ ہووے خیال……………آئے خیالٹھنڈے خایہ چڑھ گئی پتال……………………2صرف ہیزم کیا میں سرمایہ……………سب ساماںگر ہو پر تنور کا خایہ……ہے ……خایہ کہاںلیکن نسخۂ نول کشوری 1916 میں یہ چاروں شعر موجود نہیں ہیں۔(2)درہجو طفل پتنگ بازایک لونڈا پتنگ کا ہے کھلاڑیہ مثنوی بھی کلیات سودا کے ابتدائی مطبوعہ نسخوںکے علاوہ بعض قلمی نسخوں میں بھی موجود ہے مثلاًکلیات سودانسخۂ بنارس(اندراج نمبرUIX3/68/2میں بہ عنوان ’درہجو طفل پتنگ باز‘شامل ہے،لیکن بعد کے مطبوعہ نسخوں سے بر بناے فحش اسے حذف کردیا گیا ہے۔ اصلاً یہ مثنوی قائم کی ہے کیونکہ قدرت اللہ شوق اورشاہ کمال نے اپنے اپنے تذکروں میں اس کے چند اشعار مع عنوان کلامِ قائم کے طورپر دیے ہیں۔ اس کے برعکس کسیبھی تذکرے میں اس مثنوی کا ایک بھی شعر سودا کے نام سے نہیں ملتا۔ اورسودا کے معتبر نسخے بھی اس مثنوی کے اندراج سے خالی ہیں۔ ان شواہد کی بنا پر سودا کے ناقدین اورمحققین مثلاً شیخ چاند،خلیق انجم، شمس الدین صدیقی، قاضی عبدالودود، پروفیسر گیان چند جین اور پروفیسر نسیم احمد، وغیرہ نے اسے قائم کی مثنوی ہی تسلیم کیا ہے۔کلیات قائم میں شامل اس مثنوی میں صرف 55اشعار ہیں جب کہ کلیات سودا میں اشعار کی تعداد 56ہے۔ درج ذیل شعر کلیات قائم میں نہیں ہے؎اوڑتی دیکھے جس جگہ لکڑیپھینک مارے ہے اس جگہ پگڑیکلیات سودا اورکلیات قائم میں شامل اس مثنوی کے متن میں بھی چند اختلافات ہیں مثلاً؎کلیات سوداکلیات قائم1اگر کوئی گیر سست بہتا ہےسست ہوٹک جو کام میں کوئی مردہاتھ میں اس کو لے کے کہتا ہےدیکھ کر اس کو یہ کہے ہے بے درد2شکر کرتا ہے اس کا جس تس سے……………………آپ کھاتا ہے جس سے یہ گھِس سےخوب……………سودا اورقائم کے کلیات میں شامل اس مثنوی کے مقطعے کے شعر میں صرف تخلص کا فرق ہے۔کلیات سودا؎بس نہ سودا زیادہ بات بڑھائوکلیات قائم؎بس نہ قائم زیادہ بات بڑھائو(3)قصہ شاہ لدھا مسمیٰ بہ عشق درویشیہ مثنوی بلاکسی عنوان کے کلیات سودا کے سبھی مطبوعہ نسخوںاوربعض قلمی نسخوںمیںبھی ملتی ہے۔ مثال کے طورپر دیوانِ سودا،اندراج نمبر888مخزونہ رضالائبریری رام پور، کلیات سودااندراج نمبرUIX3/68/2،ملکیت کتب خانہ بنارس ہندو یونیورسٹی وغیرہ۔دوسری طرف کلیات قائم کے تمام مطبوعہ اورقلمی نسخوںمیں یہ مثنوی منقولہ بالا عنوان کے ساتھ شامل ہے۔ نیز معاصر تذکرہ نگاروں مثلاً شاہ کمال، قدرت اللہ شوق اورسعاد ت خاں ناصر نے اسے قائم ہی سے منسوب کیا ہے اورشاہ کمال اور ناصر نے تو اس مثنوی کے چندشعر بھی قائم کے نمونۂ کلام میں نقل کیے ہیں۔البتہ قدرت اللہ شوق نے اختصار ملحوظ رکھتے ہوئے صرف اتنا ہی لکھا ہے کہ:’’مثنوی شاہ لدھا کہ فقیر تکیہ دارعاشق مزاج مجنوں منش درنواحی پنجاب بود بسیار بہ اداہاے رنگین بستہ، از اول تاآخر ہمہ اشعار انتخاب است۔‘‘گیان چند جین نے اپنی تصنیف ’اردو مثنوی شمالی ہند میں ‘اس مثنوی کو قائم کی تخلیق بتایا ہے اوراس مثنوی کا عنوان ’جذب الفت‘لکھا ہے۔یہ عنوان انھوںنے اس مثنوی کے قصے کی ابتدا کے اس مصرع سے اخذ کیا ہےعکہوں میں داستانِ جذب الفتآگے جین صاحب اس مثنوی کے متعلق لکھتے ہیںکہ:’’داخلی شہادت کی بنا پر بھی یہ مثنوی سودا کی نہیں ہوسکتی۔ سودا شیعہ تھے اورقائم اہل سنت..... اس مثنوی میں منقبت نہیں بلکہ نعت کے بعد یہ شعر ہے؎خداوندا پئے آلِ پیمبربہ حق باطن ہر چار سرورظاہراًچار سرور(خلفائے راشدین )کی بات وہی کرے گا جو سنی المسلک ہوگا۔ اورسودا شیعہ مسلک کے پیروتھے، وہ یہ بات کیسے کہیں گے۔ اس لیے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ مثنوی قائم کی ہی ہے کیونکہ قائم اہل سنت تھے۔کلیات سودا اورکلیات قائم میں شامل اس مثنوی کے اشعار کی تعداد میں فرق ہے۔ مثلاً کلیات سوداکے مطبوعہ نسخہ میں 359؍اشعارہیں جب کہ کلیات قائم (مرتبہ اقتدا حسن)میں یہ تعداد بڑھ کر373ہوگئی ہے۔اس کے علاوہ کم سے کم 13؍شعر کلیات سودا میں اورہیںجو قائم کے یہاں نہیں ملتے اوراسی طرح کلیات قائم میں 28؍شعر ایسے ہیں جو کلیات سودا میں نہیں ہیں۔سطور ذیل میں یہ اشعار نقل کیے جاتے ہیں:کلیات سودا (نسخۂ مصطفائی )کے زاید اشعار؎1بہ رنگ شمع سرسے پانوں تک نارپہ تھی اک اشتعالک اس کو درکار2بھلا اے سفلہ ودور از فتّوتبہی ہوتی ہے عالم میں مروت3کہ یھاں سے گرابھی چلیے توہے خوبکہ ہو معلوم وھاں کا کیا ہے اسلوب4غرض یہ دکھ ہے کچھ ایسی ہی بابتجہاں حیراں ہے سو طب اور طبابت5نہ ملا پاسکے ہرگز یہ اسرارعبث ضائع ہے یھاں تعویز وطومار6عناصر سے ہوگر زیادہ کوئی چیزطبیب اس کی کرے تشخیص وتجویز7نشستہ ہووے جو ں دُر دتِہ آباگر سودتوکیجے فصدو جلاب8وگر صفراکرے صحت کی غارتہو تبرید یوٗں سے اِطفائے حرارت9مگر وہ جس کو اس کالے نے مارانہیں جز مرگ اس کا کوئی چارا10جو پوچھیںگے ہمیں خویش اوربرادرکہاں چھوڑی وہ تم نے ناز پرور11جواب اس کے سوا ہم کیا کہیںگےکہ شرمندہ سے ہوکر چپ رہیںگے12اگر ہم جانتے ایسا سرانجامنہ لیتے یھاں کے رہنے کا کبھو نام13بہ رنگ گل گریباں چاک ومضطرپڑے لُوٹے تھے اس مرقد کے اوپرکلیات قائم کے زائد اشعار؎1تنک نسبت کراپنی اس سے معلومکہ ہو رمزِ حقیقت تجھ کو مفہوم2چبھی دل میں میرے یارب یہ کیا پھانسکہ جی خار سا کھٹکے ہے ہر سانس3پڑی دل میں میرے وہ آتشِ غمکہ مانگے الاماں جس سے جہنّم4میں ہوں وہ طائرِ باز و شکستہکہ صحرا میں با صد غم نشستہ5جلیں دوں سے بناگہ خاروخاشاکہلیں جب تک جگہ سے جل کے ہوخاک6سنیں جو کوئی یہ حرف جاں کاہنہ مارے تھا وہ دم جز نالہ و آہ7تھی گھر میں ہرطرف شادی سے سودھومپہ وہ بے چارہ اک حالت میں مغموم8تھے خوبی میں جو کل مشہورِ ایاّمنہ آج اُن سے نشاں باقی ہے نے نام9غرض کرنے کو اس وحشی کی تسخیربچھاتی تھی وہ دامِ حسن تدبیر10مگر باقی تھا اس مہ سے یہ آثارکہ اک گوشہ تھا مقنع کا نمودار11کہا سب نے کہ کھودے اس جگہ کوہوشاید اس تلک لے جائیں رہ کو12جو کھودا گور کوتو وہ وفا کوشتھے دونوں ایک بغلی میں ہم آغوش13اگرچہ دوتھے یوں ظاہر میں وہ لیکمشابہ یہ کہ ہیں دونوں گویا ایک14نہ کرسکتا تھا فرق ان میں کوئی فردکہ ہے زن کون سی اورکون ہے مرد15نہ بن آئے کوئی جب اُن سے تدبیرکیا اس گور کو ویساہی تعمیر16پہ جیسے ہو وضعِ اہلِ ماتمتھے وہاں سارے اسیر محنت و غم17کسو کی چشم خوں بار اشک سے ترکوئی پیٹے تھا سینہ اورکوئی سر18الا اے واقف زار نہانینہ جان اس بات کو میری کہانی19ٹک اس عشق مجازی کو توٗکر غورکہ ہر گہ ہوویں اس بازی کے یہ طور20کہ ہوجب ساز اس کا وحدت آہنگکرے معشوق سے عاشق کو ہم رنگ21تو وہ معشوق معنی جس سے ہم سبہیں جوں آئینہ سرتاپالبالب22جو ہم سے ٹک وہ اپنے منہ کو لے پھیرتو ہم کیا ہیں، یہی اک خاک کا ڈھیر23کرے ہم پر جو استیلا وہ احوالنہ ہوکیوںکر بناے بودپامال24کریںگے اس انانیت کو مطلقنہ پاویں آپ میں جز ہستیِ حق25بہ ہر صورت عجب کچھ ہیں وہ احبابکہ ہیں جو قطرہ اس دریا میں نایاب26ہوئے ہیں ذاتِ حق میں اس طرح غرقکہ ہے دشوار اپنا آپ انھیں فرق27کہوں آگے میں کیا حرف وحکایاتکہ کہنے میں نہیںآتی ہے یہ بات28وگرہو لفظ یا معنی میں خامیتو مثلِ قول مولانا ئے جامیکلیات سودا اورکلیات قائم میں شامل مذکورہ مثنوی کے اشعار میں کمی وبیشی کے علاوہ اس کے بعض متون میں بھی اختلاف دیکھنے کو ملتے ہیں۔مثال کے طورپر چند اشعار دیکھیے؎دیوان سودادیوان قائم1زموج اشک وبے خنجر گلو کوزخونِ دید گاں تر کر گلو کونیابت دے سناں کی موبہ موکو……………………2نہ ہوتا وہ اگر زینت دہِ خاک……………………تصدق خاک کی ہوتے نہ افلاکبلاگردان خاک……………3جہاںمیں ہے یہ جتنا کچھ ہویداہے جتنا کچھ کہ عالم میں ہوپیداہوا اس کے لیے سب کچھ وہ پیدا………………………4سکوت بر محل ہے دل کی تفریحکہ چپ رہنا جو واقع میں بجا ہےسخن پر اس کو سودرجہ ہے ترجیحکلام غیر موقع سے بھلا ہے5مرے اس خاک کی دھوئیں سے کلفتوہ مے دے جائے جس سے دل کی کلفتکہوںمیں داستانِ جذب الفت………………………6غرض سائے کی وھاں کے ہر سلاسلاک ہم ہیں خلقت انساں کے ننگکشا تھی سوطرف سے دامنِ دلکسی سے ہم،کوئی ہم سے ہے یاں تنگ7ہواگردونِ دوں اس سے مساعدہوا اس سے مساعد چرخ کج بازلی اپنے ہاتھ میں ان نے وہ ساعدلی اُن نے ہاتھ میں وہ ساعدِ ناز8دماغ اپنا جلاتے تھے زن ومرد………………………ولے افزود تھا ہر لحظہ وہ دردپہ صدچنداں تھا ہر اک لحظہ وہ درد9بہ نحوی قصۂ ودستان معقولکبھی، جیسے ہیں دل جوئی کے معمولکبھو رکھتی تھی اس وحشی کو مشغولیہ باتوںمیں اسے رکھتی تھی مشغول10غرض وھاں کے خیاباں کے اطراف…گلشن …سے تکیے………ہیں سینے سے بھی مہ رویوں کے کچھ صاف………………………11کہ یارب کس طرح اب گھر کو ہم جائیںکہ یارب فرق ان کا کس طرح پائیںبھلا جاویں تومنہ کیا لے کے دکھلائیںکسے رہنے دیں یاں اورکس کو لے جائیں(4)حکایتسنا ہے کہ ایک مرد اہل طریقیہ مختصر سی مثنوی گیارہ اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ سودا کے اولین مطبوعہ نسخوںمیں شامل ہے۔کلیات سودا مرتبہ مولوی عبدالباری آسی میں یہ نہیں ملتی۔ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی نے اس مثنوی کو اپنے مرتبہ کلیات سودا حصۂ مثنوی میں شامل نہیں کیا ہے۔ علاوہ ازیں کلیات سودا کے کسی قلمی نسخے میں خواہ معتبر ہوں یا غیر معتبر یہ مثنوی نہیں ملتی اورنہ ہی کسی تذکرے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سوداکی تصنیف ہے۔دوسری طرف یہ مثنوی کلیات قائم کے تمام قلمی ومطبوعہ نسخوںمیں ایک طویل مثنوی ’رمز الصلوٰۃ‘ میں ’حکایت‘ کے ذیلی عنوان سے اشعار نمبر221 سے234 تک ہے۔ قائم کی یہ مثنوی ’مثنوی رمز الصلوٰۃ‘ 254؍اشعار پر مشتمل ہے۔اس مثنوی میں قائم نے الگ الگ عنوان سے سبق آموز حکایات بیان کی ہیں۔ انھی میں سے یہ حکایت بھی ہے جو غلطی سے بعض الحاقی مثنویوں کی طرح سودا کے کلیات میں شامل ہوگئی ہے۔کلیات سوداکے مقابلے میں کلیات قائم (اقتداحسن) میں تین شعر زائد ہیں۔یعنی قائم میں مذکورہ مثنوی 14؍اشعار کی ہے زائد اشعار نیچے دیے جارہے ہیں؎1سوتو گر کرے چشم عبرت سے سیرتری ہی تو ایذا ہے ایذاے غیر2ہے یہ بھی ترابلکہ ناداں گماںکدھر ہے تو موجود اورمیںکہاں3ہے جاں گرچہ تن سے حقیقت میں فردپہ ہے دردِ جاں جو کہ تن کا ہے دردکلیات سودا اورکلیات قائم میں شامل اس مثنوی کے اشعار کی تعداد میں فرق کے ساتھ ساتھ بعض اشعار کے متن میں بھی اختلاف ہے چند اشعار دیکھیے؎کلیات سودا(نسخۂ مصطفائی)کلیات قائم (اقتداحسن)1صفت سے تواضع کی موصوف تھا……………………تعدی کے عالم میں معروف تھاتأدب………………2غرض چاہیے آدمی میں جو چیز……………………رکھے تھا سبھی خوبیاں وہ عزیز…………خوبیں………3قضاکار مجلس میں ہوتا کہیںچنانچہ جو صحبت…………اڑاتا نہ منہ سے مگس کے تئیں……………………4کہا راستی ہے جوتیں نے کہا……………تو……ولے اس سے یہ ہے مرا مدعا……………………5کہ جس حال میں دوں میں اس کواڑ………………اڑائےہے ممکن کسی اورپر بیٹھ جا………………جائے(5)حکایتسلف کے زمانے کا تاریخ داں23؍اشعار کی یہ مثنوی بہ عنوان ’حکایت‘کلیات سودا کے تمام مطبوعہ نسخوںمیں موجود ہے۔یہاں تک کہ مولوی عبدالباری آسی نے بھی اپنے مرتب کردہ کلیات سودا میں اسے شامل کیا ہے۔ البتہ کلیات سودا مرتبہ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی اس کے اندراج سے خالی ہے۔دوسری طرف کلیات سودا کے کسی بھی قلمی نسخے میں یہ مثنوی دیکھنے کو نہیں ملتی جب کہ کلیات قائم کے تمام قلمی اورمطبوعہ نسخوںمیں موجود ہے اسی بنیاد پر اقتدا حسن نے بھی کلیات قائم حصہ دوم میں اس مثنوی کو جگہ دی ہے۔ بنا بریں یہ مثنوی قائم کی تخلیق معلوم ہوتی ہے۔کلیات سودا میں مذکورہ مثنوی میں اشعار کی تعداد 23ہے،لیکن کلیات قائم میں 22؍اشعار ہی ہیں۔ کلیات سودا میں تین شعر ایسے ہیں جو کلیات قائم میںنہیں ہیںاورکلیات قائم میں ایسے دو شعرہیں جو کلیات سودا میں ندارد ہیں۔ نیچے بالترتیب یہ اشعار نقل کیے جارہے ہیں۔کلیات سودا کے زائد اشعار؎نہ گزرا تھا اس بات کو ایک دمجو زایل ہوا نفخ دردِ شکمہے در پیش یک عمدہ تجھ کو سفررکھ احوال ٹک وھاں کا مدِ نظرکہ یھاں تو جو کچھ پیش آجائیںگےبہر حال دودن میں کٹ جائیںگےکلیات قائم کے زاید اشعار؎اورہے واقعی بھی جو سمجھے تو باتکہ وابستہ تجھ سے ہے سب کائناتنہ کرفکر دنیا کہ باطل ہے یہنہ آلودہ کر دل کو یاں،دل ہے یہکلیات سودااورکلیات قائم میں مشمولہ مذکورہ مثنوی کے متن میں بھی اختلافات ہیں۔مثال کے طور پر چند اشعار دیکھیے؎کلیات سوداکلیات قائم1طلب کی اطبا کی تجویز سے…………نے………طبیعت کے تئیں ہر چیز سے……………پرہیز…2دواسے نہ دیکھی جو شہ نے فلاح……………جب ان…کی ارکانِ دولت سے اُن سے صلاح……………………3سنا شاہ نے جب گدا کا سوال……………………یہ کچھ کرکے دل بیچ اپنے خیالکیا دل میں اپنے یہ اس دم خیال4بہر حال تب شہ نے پائی شفاغرض پائی جس وقت ان نے شفاکہا کرکے وعدہ کو اپنے وفالگا کرنے وعدے…………5یہ دنیا جہاںجائے یک چند ہےغرض………………عبث دل تیرا اس جگہ بند ہے……………………6مسلّم ہوا جب کہ ہونا ہلاکمصمم ہواپس جو…………چہ بر تخت مردن چہ برروئے خاک……………………(6)حکایتسنا ہے کہ اک مرد آزادہ طوریہ مثنوی کل 16؍اشعار پر مشتمل ہے اورکلیات سودا کے تمام مطبوعہ نسخوں میں موجود ہے۔صرف ڈاکٹر شمس الدین صدیقی کے مرتب کردہ کلیات سودا میں نہیں ہے۔ علاوہ ازیں کلیات سودا کے کسی بھی قلمی نسخے میں یہ مثنوی نہیں ملتی۔دوسری طرف کلامِ قائم کے تمام قلمی ومطبوعہ دواوین وکلیات میں موجود ہے۔ بنابریں ڈاکٹر اقتدا حسن نے اسے دیوان قائم حصہ دوم میں شامل کیاہے۔اورسوداکے محققین ومرتبین مثلاً شیخ چاند،خلیق انجم، پروفیسر گیان چند جین،پروفیسر نسیم احمدنے اس مثنوی کا انتساب سودا سے غلط ٹھہرایا ہے۔سودا سے اس مثنوی کے انتساب کا کوئی ثبوت نہیں ملتا حتیٰ کہ تذکرے بھی اس معاملے میں خاموش ہیں۔ لہٰذا وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مثنوی قائم کی ہے۔کلیات سودا اورکلیات قائم میں شامل اس مثنوی کے اشعار کی تعداد یکساں ہے۔ یعنی دونوں کے یہاں16شعر ملتے ہیں۔ ہاں!متن میں اختلاف ضرور پایا جاتاہے۔ ذیل میں مثالیں درج کی جاتی ہیں؎کلیات سوداکلیات قائم1کہا اس کو اس شخص نے کیا بعید…سے………………اگر ہم بھی خدمت میں ہوں مستفید………………………2کوئی دن تو اس جا پہ کیجے معاش………جو…………معین ہو یک جابہم بودوباش……کہیں ہوئے یک جائے باش3مگر وھاں سے جاتا کہیں بہر کاروگر……………پر بہ کارکھلے چھوڑتا اس جگہ کے کوار………………………4کھلی جب کہ ہمسایگاں پر یہ بات………………………سبب کو وہ سایل ہوئے اس کے سات……کردہ……………5اس عقدہ کو کیجے گا ہم پر بھی صافوہ ہم پر بھی کیجے اس عقدے کو صافکہ وضع جہاں سے ہے یہ برخلاف……کا یہ کیا…………6کہا چیز کیا اس میں اشکال ہے……خیر………………موافق تمھیں سے تو یہ حال ہے………………………7جو رکھتا ہے کچھ اپنے دل میں ہوسسوترے جتنے کہ اسباب ہیںتواس رمز سے ایک اشارت ہے بسخیالات بے ہودہ درخواب ہیں(7)حکایتسنا جاے ہے ایک مہوش کا حالبار ہ اشعار کی یہ مثنوی کلیات سوداکے تمام چھپے ہوئے ایڈیشنوںمیں موجود ہے۔ البتہ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی کے مرتب کردہ کلیات سودا سے غیر حاضر ہے۔ بہ ایں طور کلیات سودا کے کسی قلمی نسخے میں بھی یہ مثنوی نہیں ملتی۔ بر خلاف اس کے کلیات قائم کے تمام قلمی اورمطبوعہ نسخوںمیں یہ موجود ہے۔اسی بنیاد پر ڈاکٹر اقتدا حسن نے بھی کلیات قائم حصہ دوم میں اس کو شامل کیا ہے۔ مزید برآں شیخ چاند، خلیق انجم، پروفیسر نسیم احمد، وغیرہ نے اس مذکورہ مثنوی کو قائم کی طرف منسوب کیا ہے جو حق بہ جانب ہے۔کلیات سودا اورکلیات قائم میں مشمولہ مثنوی میں اشعار کی تعداد یکساں ہے۔ البتہ دونوں کے متن بعض جگہ مختلف ضرور ہیں۔مثلاًکلیات سوداکلیات قائم1یہ اجزا ہیں اس کے توجا اور لیا……………توجاکرلے آئویہ ترکیب ہے اس طرح سے بنا……………………بنائو2یہ نسخہ تو جس وقت لے کر بنائے………………………کبھوںدل میں بندر کا خطرہ نہ لائےکہیں ………خطرہ نہ آئے3کہا اپنی یہ بات ممکن نہیں……اس نے…………جو خطرہ ہودل میں وہ جاوے کہیں……………………4نہ سمجھا غرض اس کے رمزِ نکات…………………رمزونکاتکہ پردے میں تھی مردِ عارف کی بات………………………5کہ جب دل کو خطرے پہ قادر کیاتو……………………تو پھر پشم ہے خطرۂ کیمیا………………………حواشی1باغ معانی (قلمی)از نقش علی،ص622سفینۂ ہندی از بھگوان داس ہندی،مرتبہ عطاء الرحمن کا کوی،ص1053مرزا محمد رفیع سودا از خلیق انجم،ص564تذکرہ خوش معرکہ زیبا ازسعادت حسن خاں ناصر،ص1305سودااز شیخ چاند،ص416دردو سودااز قاضی عبدالودود،ص70-717مرزا محمد رفیع سوداازڈاکٹر خلیق انجم،ص71-728تاریخ ادب اردو(جلد دوم)از جمیل جالبی، ص6509متعلقاتِ سودااز پروفیسر نسیم احمد(اس کتاب میں شامل سید حنیف احمد نقوی کا ایک مضمون بہ عنوان’سودا کا سالِ ولادت‘سے ماخوذ ہے۔)ص1710نشتر عشق ازحسین علی خاں عاشقی عظیم آبادی،ص66511تاریخ ادبیات جلد سوم ازگارساں دتاسی،ص7012سوداازشیخ چاند،ص7013دردوسودا از قاضی عبدالودود،ص9014آرائش محفل از شیر علی افسوس،ص2715انتخاب کلیات سودا(1847)مرتبہ غلام حیدر،مطبع فورٹ ولیم کالج،کلکتہ،ص11816انتخاب کلیات سودا(1847)مرتبہ غلام حیدر،مطبع اخوان الصفا،ص11417کلیات سودا(1856)مطبع مصطفائی،دہلی،ص4918دردوسودا از قاضی عبدالودود،ص90-9119غزلیات سودااز پروفیسر نسیم احمد،ص۔45-48،متعلقات سودااز پروفیسر نسیم احمد،ص19-4620گلدستۂ ناز نیناں مولف مولوی کریم الدین،مرتبہ ڈاکٹر احمد لاری،ص:3021میر وسوداکا دورازثناء الحق،ص:35022آب حیات ازمحمد حسین آزاد،ص:156Dr. Firdos Jahan D/o Mohd. AslamVill. AkaunaPost.Mirpur RahimaparDist. Mau- 275306 (U.P.)Mob.: 7355772327Email. jahanbhu@gmail.com" مجلہ ’عالمی اردو ادب ‘ ایک اجمالی جائزہ، مضمون نگار: سرتاج احمد میر,https://ncpulblog.blogspot.com/2024/06/,"ماہنامہ اردو دنیا، مئی2024اردو کے بھولے بسرے مجاہد نند کشور وکرم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت افسانہ نگار، ناول نگار، خاکہ نگار، مضمون نگار، تذکرہ نویس، مترجم و مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ادبی صحافی بھی تھے۔ انھوں نے اپنی صحافت نگاری کا آغاز تقسیم ہند کے بعد 1948 میں مشہور صحافی اور شاعر میلارام وفا کی ادارت میں شائع ہونے والے اخبارات ’قومی اخبار‘ اور ’امرت‘ سے کیا۔ کچھ مدت تک ان اخبارات سے وابستہ رہنے کے بعد انھوں نے اپنے قریبی دوست دیویندر اسر کے ساتھ مل کر 1949 میں کانپور سے ایک ترقی پسند رسالہ ’ارتقا‘ جاری کیا۔ بدقسمتی سے اس رسالے کا ابھی صرف ایک ہی شمارہ منظر عام پر آیا تھا کہ دیویندراسر کو رسالہ اجرا کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ جیل سے رہائی کے بعد وہ کانپور چھوڑ کر دہلی چلے گئے۔ اس طرح یہ رسالہ جاری ہونے کے ساتھ ہی بند ہوگیا۔نندکشور وکرم نے 1953 میں کانپور سے ہی ایک اور ماہ نامہ ’نئی کہانی‘ کے نام سے جاری کیا جس میں ہندی زبان کے رسائل ’مایا‘ اور ’منوہر کہانیاں‘ کی طرح صرف کہانیاں ہی شائع ہوتی تھیں۔ ماہ نامہ ’نئی کہانی‘ کے دو شمارے شائع کرنے کے بعد انھیں یہ احساس ہوا کہ اردو میں غزلوں اور نظموںکے بغیر کوئی رسالہ کامیابی کے ساتھ شائع نہیں ہوسکتا اس لیے انھوں نے اس ماہ نامہ میں منظوم حصہ بھی شامل کردیا لیکن اس کے باوجود اس ماہ نامہ کے صرف پانچ شمارے ہی شائع ہوسکے۔ ماہ نامہ ’نئی کہانی‘ کی اشاعت بند ہونے کے بعد نند کشور وکرم نقل مکانی کرکے کانپور سے دہلی آگئے۔1964 میں نند کشور وکرم دہلی سے شائع ہونے والے اردو کے مقبول عام سرکاری ماہنامہ ’آجکل‘ کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1979 میں اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گئے اور اسی سال ان کا تبادلہ پریس انفارمیشن بیورو نئی دہلی میں ہوگیا۔ پریس انفارمیشن بیورو نئی دہلی میں تقریباً آٹھ سال تک خدمات انجام دینے کے بعد 30؍ستمبر 1987 کو نندکشور وکرم سرکاری ملازمت سے سبک دوش ہوگئے۔پریس انفارمیشن بیورو نئی دہلی میں ملازمت کے دوران ہی نندکشوروکرم نے اردو کا پہلا حوالہ جاتی مجلہ ’عالمی اردو ادب‘کے نام سے جاری کیا۔ اس حوالہ جاتی مجلے کا پہلا شمارہ جولائی 1983 میں ’اردو ‘کے نام سے منظر عام پر آیا جب کہ اس مجلہ کے باقی تمام شمارے ’عالمی اردو ادب‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے نندکشور وکرم لکھتے ہیں:’’بہت غور و خوض کے بعد میں نے پہلی بار اسے (عالمی اردو ادب) ’اردو‘ کے نام سے 1983 میں شائع کیا مگر جب اگلے شمارے کے لیے پریس رجسٹر کے دفتر میں ’اردو‘ کے نام سے ڈیکلیریشن لینے گیا تو معلوم ہوا کہ اس نام سے کسی شخص نے حیدرآباد سے پہلے ہی ڈیکلیریشن لیا ہواہے۔ لہٰذا مجبوراً مجھے ’عالمی اردو ادب‘ کے نام پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ ‘‘(نند کشور وکرم،عالمی اردو ادب ( پبلشرز اینڈ ایڈ ورٹائزرزکرشن نگر دہلی، 2011)جلد نمبر 32،ص 8)نعمانی پریس دہلی سے شائع ہونے والے مجلہ کے پہلے شمارے کا سرورق نریش کمار نے تیار کیا تھا۔ اس شمارے کے پیش لفظ میں مدیر مجلہ نندکشور وکرم نے برصغیر ہندو پاک میں اردو زبان بولنے والوں کی تعداد، موجودہ و گزشتہ ادبا و شعرا سے متعلق مواد حاصل کرنے میں پیش آنے والی دشواریوں اور حوالہ جاتی مجلہ اجراکرنے کے وجوہات اور مقاصد وغیرہ جیسے امور پر بحث کی ہے۔نندکشور وکرم نے اردو ز بان و ادب کی ترقی و ترویج کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایاتھا۔ اس حوالہ جاتی مجلے کو شائع کرنے کے پیچھے ان کا کوئی ذاتی مفاد کا رفرمانہ تھا بلکہ انھوں نے اس رسالے کو بغیر کسی سرکاری یا غیر سرکاری امداد کے اپنی نجی آمدنی سے شائع کیا۔ وہ کسی شہرت اور مقبولیت کے خواہاں نہ تھے بلکہ وہ خلوص نیت سے اردو زبان و ادب کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ اس حوالہ جاتی مجلہ کے اجرا کرنے کا مقصد نہ صرف ہندو پاک بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے شعرا و ادبا کی تخلیقات سے بھی قارئین کو روشناس کرانا تھا۔ اس حوالہ جاتی مجلہ کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے نندکشور وکرم یوں رقم طراز ہیں:’’حوالہ جاتی مجلہ عالمی اردو ادب کی اشاعت کا مقصد اردو قارئین کو سال بھر کا منتخب اردو ادب پیش کرنے کے علاوہ ہر طرح کی ادبی سرگرمیوں سے روشناس کرانا نیز تخلیقی اور معلوماتی مضامین پیش کرنا ہے۔‘‘(نند کشور وکرم،عالمی اردو ادب ( پبلشرز اینڈ ایڈ ورٹائزرزکرشن نگر دہلی، 1986)، جلد نمبر3،ص 5)در حقیقت اس طرح کے حوالہ جاتی مجلے کی ترتیب و تدوین کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک ادارے کا کام ہے لیکن نند کشور وکرم نے ایک ادارے کا کام انفرادی طور پر انجام دے کر ثابت کیا کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ نہ صرف اس مجلے کے مدیر تھے بلکہ اس کے کمپوزر، کلرک بھی خود ہی تھے۔ اردو کے چند قارئین نے انھیں مالی معاونت کی پیش کش کی تھی لیکن انھوں نے صاف انکار کیا اور آخری دم تک اس مجلے کو اپنی ذاتی کمائی سے شائع کرتے رہے اس بارے میں وہ لکھتے ہیں:’’میں نے آج تک جو بھی نمبر نکالے ہیں وہ اپنے پلے سے پیسے خرچ کرکے نکالے ہیں یعنی گھر پھونک تماشا دیکھا ہے... اگر مجھے ان نمبروں سے کوئی مالی منفعت حاصل کرنا ہوتی تو میں مرحوم ادبا وشعرا پر خصوصی نمبر کیوں نکالتا۔ ان تھرڈ اور سیکنڈ گریڈ ادبی شخصیتوں پر کیوں نہ نکالتا جو بڑی بڑی رقمیں خرچ کرکے مختلف رسائل میں اپنے خصوصی گوشے یا خصوصی نمبر نکلواتے ہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،نند کشور وکرم مشترکہ وراثت کا آخری داستان گو (ایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس دہلی، 2019)،ص 352)نند کشور وکرم بھارت اور پاکستان سے شائع ہونے والے ادبی رسائل و جرائد کا ہر سال مطالعہ کرکے معیاری تخلیقات کا انتخاب ’عالمی اردو ادب‘ کے لیے کرتے تھے۔ بھارت اور پاکستان کے رسائل و جرائد میں ہر سال شائع ہونے والے مضامین، افسانوں، نظموں اور غزلوں کا انتخاب کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اوّل تو ایسے تمام رسائل و جرائد تک رسائی کا مرحلہ ہی خاصا دشوار تھا پھر ان سب کا مطالعہ اور چھان بین کے بعد اچھی تخلیقات کا انتخاب یقینا جان جوکھوں کا کام تھا لیکن نند کشور وکرم یہ کام آخر تک بڑی فراخ دلی اور باقاعدگی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ حوالہ جاتی مجلہ ’عالمی اردو ادب‘ سال میں ایک بار شائع ہوا کرتاتھا۔ ابتدا میں مجلے کو بہت کم لوگوں نے پسند کیا لیکن آہستہ آہستہ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتاگیااور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر مدیر مجلہ نندکشور وکرم نے 1994 میں اسے ششماہی کردیا۔ ایک شمارے میں معمول کے مطابق گزشتہ سال کے دوران بھارت، پاکستان اور دیگر ممالک کے مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہونے والی شعری و نثری تخلیقات کا انتخاب ہوتاتھا۔ شعری انتخاب میں نظمیں، غزلیں، دوہے، گیت، رباعیات اور قطعات ہوتے تھے جب کہ نثری انتخاب افسانوں اور مضامین پر مشتمل ہوتاتھا۔ اس کے علاوہ کچھ اہم شاعروں اور ادیبوں کے سوانحی اشارے اور ’وفیات‘ کے زیر عنوان مرحومین ادبا کا تذکرہ بھی شامل ہوتاتھا نیز خراج عقیدت کے طو ر پر اہم شعرا اور ادبا پر مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ ’بخط شاعر‘ کے زیر عنوان مشہور شعراکے ہاتھ سے لکھی ہوئی تخلیقات شامل ہوتی تھیں۔ سال بھر کی ادبی خبروں کے علاوہ اہم اردو کتابوں کی فہرست، کتب خانوں کی فہرست، بھارت اور پاکستان کی مختلف دانش گاہوں میں کیے جانے والے تحقیقی کام کا جائزہ بھی دیکھنے کو ملتاتھا۔مجلے کا کوئی شمارہ خصوصی نمبر بھی ہوتاتھا جس میں باری باری بھارت اور پاکستان کی ممتاز ادبی ہستیوں کے فن، شخصیت اور ادبی خدمات کا سیر حاصل جائزہ پیش کیا جاتا تھا۔ 2019 تک اس مجلے کے 44 شمارے شائع ہوچکے ہیں جن میں عام حوالہ جاتی شماروں کے علاوہ 14 خصوصی نمبرات بھی شامل ہیں۔ ان خصوصی نمبرات میں حبیب جالب نمبر 1994، احمد ندیم قاسمی نمبر1996، علی سردار جعفری نمبر 2001، اشفاق احمد نمبر 2006، گوپی چند نارنگ نمبرفروری 2008، کشمیری لال ذاکر نمبر 2009، محمد حسن نمبراپریل2011،دھارمک ادب نمبرمئی 2012، سینما صدی نمبراگست 2013، کرشن چندر نمبر 2014، دیویندر اسر نمبر 2016، انتظار حسین نمبر دسمبر 2016، مصوّر یادگار غالب نمبردسمبر7 201 اور مشتاق احمد یوسفی نمبر 2018 شامل ہیں۔یہ نمبرات اتنے مقبول ہوئے کہ ہندو پاک کے بڑے بڑے ادیبوں اور قلم کاروں نے ان خصوصی نمبرات پر تعریفی و توصیفی الفاظ میں تبصرے کیے ہیں۔ذیل میں چند اہم خصوصی نمبرات کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔گوپی چند نارنگ نمبر:’ گوپی چند نارنگ :بین الاقوامی اردو شخصیت‘ کے عنوان سے شائع شدہ یہ خصوصی نمبر 415صفحات پر مشتمل ہے۔یہ ضخیم نمبر فروری2008 میں منظر عام پر لایا گیا۔اس خصوصی نمبر کو چھ حصّوں میں تقسیم کیا گیاہے۔پہلا حصہ’اوراقِ داستان ‘ کے عنوان سے ہے جس میں گوپی چند نارنگ کے مختصر سوانحی کوائف کے تحت ان کی تاریخ و مقامِ پیدائش،تعلیمی سفر،ملازمت،علمی و ادبی مشاغل،مختلف اداروں سے وابستگی،ان کی تخلیق کردہ اور ان پر تحریر شدہ کتابوں کی مکمل فہرست،قومی و بین الاقوامی سمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کے علاوہ انھیں ملنے والے انعامات و اعزازات کی مکمل تفصیل بھی درج ہے۔اس حصے میں ’بقلمِ خود‘کے عنوان سے نوصفحات پر مشتمل گوپی چند نارنگ کی تحریر کردہ مختصر آپ بیتی بھی شامل ہے جس میں انھوں نے اپنی تاریخ پیدائش سے لے کر اپنے ادبی سفر کے عروج تک کی داستان بیان کی ہے۔زیرِ بحث خصوصی نمبر کا دوسرا حصہ ’آئینہ زندگی۔ تصویریں ‘ کے عنوان کے تحت ہے جس میں گوپی چند نارنگ کی زندگی کے اہم موقعوں پر لی گئی یاد گار تصویریں شامل ہیں۔ان تصویروں میں گوپی چند نارنگ اپنے افرادِ خانہ،اردو کی مشہور اور نامور شخصیات کے علاوہ ملک کے سابقہ وزرائے اعظم اور صدور کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔اس خصوصی نمبر کا تیسرا حصہ گوپی چند نارنگ سے متعلق مشاہیر ِادب کے تاثرات پر مشتمل ہے۔ ان مشاہیرِ ادب میں احمد ندیم قاسمی،مشفق خواجہ،مجتبیٰ حسین اورمظہر امام وغیرہ شامل ہیں۔ چوتھا حصہ انٹرویوز پر مبنی ہے جب کہ پانچویں حصّے میں گوپی چند نارنگ کی سات اہم تحریروں کو شامل کیا گیا ہے جن میں ’بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں‘، ’ سانحہ کربلا بطورِ شعری استعارہ: اردو شاعری کا ایک تخلیقی رجحان‘ اور ’سنسکرت شعریات اور ساختیاتی فکر‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔زیرِ نظر خصوصی نمبر کا آخری اور اہم حصہ ’نقدونظر ‘ کے عنوان کے تحت درج ہے۔ اس حصے میں اردو کے بڑے بڑے محققین و ناقدین کے تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ اس حصے میں حامدی کاشمیری،شمس الرحمن فاروقی، عتیق اللہ، قمر رئیس،گیان چند جین، ناصر عباس نیرّاور وہاب اشرفی وغیرہ کے مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ غرض یہ خصوصی نمبر اس قدر مکمل اور بھر پور انداز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ گوپی چند نارنگ کی شخصیت اور فکرو فن کا کوئی بھی پہلو نظروں سے اوجھل نہیں رہتا۔کشمیری لال ذاکر نمبر: اپریل 2009 میں شائع شدہ یہ خصوصی نمبر چار حصوں پر مشتمل ہے۔’شخصیت‘کے عنوان سے شامل پہلے حصّے میں مختلف قلم کاروں نے کشمیری لال ذاکر کے سوانحی کوائف اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔اس کے علاوہ اس حصّے میں کشمیری لال ذاکر کی تمام تصنیفات (اردو،ہندی، پنجابی)اور انھیں ملنے والے انعامات و اعزازات کی مکمل فہرست بھی درج کی گئی ہے۔زیرِ بحث خصوصی نمبر کا دوسرا حصہ ’فکشن ‘ کے عنوان سے ہے۔اس حصے میں تین ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ ’ ناول نگاری‘ کے عنوان کے تحت درج پہلے حصّے میں کشمیری لال ذاکر کے ناولٹ ’ سمندری ہوائوں کا موسم‘ کا متن دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس حصے میں کشمیری لال ذاکر کی ناول نگاری سے متعلق دو مضامین بھی شامل ہیں۔ دوسرے ذیلی حصّے کا عنوان ’ افسانے‘ رکھا گیا ہے۔اس حصّے میں کشمیری لال ذاکر کے سات افسانوںکو شامل کیا گیا ہے۔ان افسانوں میں ’اس صدی کا گرہن‘، ’ پھولا پتھیرن‘، ’شام بھی تھی دھواں دھواں‘ اور ’کورے تہمدکا درد‘ وغیرہ شامل ہیں۔تیسرا ذیلی حصہ ’ نقدونظر ‘ کے تحت درج ہے۔ یہ ذیلی حصّہ پہلے دو حصوں کی بہ نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔یہ حصہ پندرہ مضامین پر مشتمل ہے۔یہ مضامین اردو ادب کی مشہور و معروف ہستیوں جیسے بلونت سنگھ، جوگندر پال، خلیق انجم،رتن سنگھ،رشید حسن خان،شمس الرحمن فاروقی اور قمر رئیس وغیرہ کے رشحاتِ قلم کی دین ہے۔اس خصوصی شمارے کا تیسرا حصہ ’ خاکہ نگاری‘ کے عنوان سے ہے۔اس حصے کی ابتدا میں ’کشمیری لال ذاکر: بحیثیت خاکہ نگار‘ کے عنوان سے آزاد گلاٹی کا لکھا ہوا مضمون شامل ہے۔اس کے علاوہ اس حصے میں اردو ادب کی اہم شخصیات سے متعلق کشمیری لال ذاکر کے لکھے ہوئے چھ خاکے شامل ہیںجن میں جان نثار اختر،خواجہ احمد عباس،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی پر لکھے گئے خاکے قابلِ ذکر ہیں۔ زیرِ نظر خصوصی نمبر کا آخری حصہ شاعری کے عنوان سے ہے اس حصّے میں کشمیری لال ذاکر کی شاعری سے متعلق اہم ادبا و شعرا کے مضامین شامل کیے گئے ہیں ایسے ادبا و شعرا میں علی سردار جعفری،قتیل شفائی، کیفی اعظمی اور گوپی چند نارنگ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔اس حصّے میں کشمیری لال ذاکر کی کچھ غزلیں اور قطعات بھی شامل ہیں۔ اس خصوصی نمبر کا اختتامیہ ’اب تو اپنی چھائوں میں بیٹھا ہوں‘ کے عنوان سے ہے جو خود کشمیری لال ذاکر کا تحریر کردہ ہے جس میں انھوں نے اپنی زندگی کے اہم واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔کرشن چندر نمبر:یہ خصوصی نمبر 2014 میں شائع ہوا۔ یہ خصوصی نمبر کرشن چندر کے صدسالہ جشنِ ولادت کے سلسلے میں انھیں خراجِ عقیدت کے طور پر شائع کیا گیا۔ یہ ضخیم نمبر گیارہ حصّوں پر مشتمل ہے۔اس میں کرشن چندر کی شخصیت اور فن کا بھر پور انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔ اس خصوصی نمبر کا پیش لفظ ’ کرشن چندر زندہ ہیں‘ کے عنوان سے ہے جس میں مدیر مجلہ نند کشوروکرم نے کرشن چندر کے فن پر بحث کرتے ہوئے انھیں ایک عظیم المرتبت افسانہ نگار اور زندہ جاوید فکشن نگار قرار دیا ہے۔زیرِ نظر خصوصی شمارے کا پہلا حصہ ’ شخص اور شخصیت‘کے عنوان سے ہے جس میں بلونت سنگھ،جگن ناتھ آزاد، خواجہ احمد عباس اور سلمیٰ صدیقی وغیرہ جیسے قلم کاروں نے کرشن چندر کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔’اٹوٹ یادیں ‘ کے عنوان سے شامل دوسرے حصے میں کرشن چندر کے ہم عصر ادبا و شعرا جیسے جیلانی بانو،ساحر لدھیانوی،قرۃ العین حیدر،کشمیری لال ذاکر وغیرہ نے کرشن چندر سے وابستہ اپنی اپنی یادوں کو تازہ کیا ہے۔ اس کے بعد کرشن چندر سے بلونت سنگھ کا لیا ہوا ایک انٹر ویو بھی شامل ہے۔اس خصوصی نمبر کے چوتھے حصے میں کرشن چندر سے متعلق مختلف ناقدین کی آرا کو پیش کیا گیا ہے۔ پانچواں اور چھٹا حصّہ کرشن چندر کی افسانہ نگاری کے لیے مختص کیا گیا ہے۔پانچویں حصے میں کرشن چندر کی افسانہ نگاری پر چھ مضامین شامل ہیں جب کہ چھٹے حصّے میں کرشن چندر کے آٹھ مشہور افسانوں کا متن دیا گیا ہے۔ ان افسانوں میں اَن داتا، آدھے گھنٹے کا خدا،پشاور ایکسپریس اور ’ مہالکشمی کا پُل‘ وغیرہ شامل ہیں۔زیرِ بحث خصوصی نمبر کا ساتواں حصہ ’کرشن چندر بحیثیت ناول نگار‘کے عنوان سے ہے۔اس حصے میں کرشن چندر کی ناول نگاری پر چار اہم مضامین کے علاوہ ان کے دو ناولوں ’ جب کھیت جاگے‘ اور ’ شکست‘ کے دو اہم حصّوں کا متن شامل کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں اس خصوصی نمبر میں کرشن چندر کے تحریر کردہ انشائیہ ’ دلیپ کمار کا نائی‘، ان کے تحریر کردہ ایک خط کا عکس،مختصر کوائف اور تصویریں بھی شامل ہیں۔اس خصوصی نمبر کا اختتامیہ ’اردو ادب میں ایک نئی آواز‘ کے عنوان سے ہے جومحمد حسن کی تحریرہے۔مختصراً یہ خصوصی نمبر کرشن چندر سے متعلق ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔مصور یاد گارِغالب نمبر: 448صفحات پر مشتمل یہ ضخیم نمبر دسمبر 2017 میں شائع ہوا ہے۔’ عالمی اردو ادب‘کے تمام خصوصی نمبرات میں اس نمبر کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہ وہ واحد نمبر ہے جو کسی متقدّم شاعر یا ادیب پر شائع کیا گیا ہے۔اس سے پہلے یا اس کے بعد نند کشور وکرم نے جتنے بھی خصوصی نمبرات نکالے ہیں وہ تمام نمبرات انھوں نے اپنے ہم عصر ادبا و شعرا پر ہی نکالے ہیں۔زیرِ مطالعہ خصوصی نمبر کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اوّل میں غالب کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’توقیت غالب‘ کے عنوان سے شامل اس باب کے پہلے مضمون میں مالک رام نے 1750 سے 1880 تک غالب سے متعلق تمام اہم واقعات کو تاریخ وار درج کیا ہے۔اس باب کے دوسرے اہم مضامین میں محمد حسین آزادکا تحریر کردہ مضمون ’نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسداللہ خاںغالب‘ اور محمد عتیق کا مضمون ’غالبکی کہانی۔ غالب کی زبانی‘ شامل ہیں۔’ مصور یاد گارغالب نمبر‘ کا دوسرا باب ’نقدونظر ‘ کے عنوان سے ہے۔اس اہم حصے میں اردو کے جن مشہور ومعروف محققین وناقدین کے تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں ان میں امتیاز علی عرشی،عبدالرحمن بجنوری،قاضی عبدالودود، گوپی چند نارنگ اور گیان چند جین قابلِ ذکر ہیں۔ امتیاز علی عرشی غالب کی اپنے کلام پر اصلاحوں کو زیرِ بحث لائے ہیں اور غالب کے کئی ایسے اشعار کی نشاندہی کی ہے جن پر غالب نے خود اصلاحیں کی ہیں۔عبدالرحمن بجنوری نے اپنے مقالے میں کلامِ غالبکے فنی محاسن کا جائزہ پیش کیا ہے۔قاضی عبدالودود کا لکھا ہوا تحقیقی مضمون ’جہانِ غالب ‘ غالب کے تحریر کردہ اردو اور فارسی خطوط کی عبارتوں سے مملو ہے۔’حالی،یادگارِ غالب اور ہم‘ کے عنوان سے شامل مقالے میں گوپی چند نارنگ نے مولاناحالی کی مشہورومعروف تصنیف ’یادگارِغالب‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کئی اہم سوالات قائم کیے ہیں۔یہ مقالہ نارنگ کی کتاب ’غالب معنی آفرینی،جدلیاتی وضع،شونیتا اور شعریات ‘ سے ماخوذہے۔گیان چند جین نے اپنے مضمون میں غالب کے ابتدائی کلام کا جائزہ لیتے ہوئے کلام ِ غالب میں فارسی کے استعمال کو اپنے مضمون کا محور بنایا ہے۔زیرِ نظر خصوصی نمبر کے تیسرے باب میں غالبیات سے متعلق تحریر و ترتیب کردہ کتابیات کی فہرست درج کی گئی ہے۔16صفحات پر مشتمل اس طویل فہرست میں اردو کے علاوہ ہندی، پنجابی اور انگریزی کتابوں کی فہرست بھی شامل ہیں۔اس حصے میں مختلف رسائل وجرائد کے ان خصوصی نمبرات کی فہرست بھی درج ہے جو غالب پر شائع کیے گئے ہیں۔اس خصوصی نمبر کے چوتھے باب میں دیوان غالبمرتبہ عبدالرحمن چغتائی بعنوان ’نقش چغتائی: دیوان غالب‘ کو شامل کیا گیا ہے۔یہ دیوان ’نسخہ حمیدیہ ‘ کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا گیا ہے۔ اس دیوان کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر تین چار صفحات کے بعد ایک صفحے پر ایک رنگین تصویر کے ساتھ غالب کا ایک شعر دیا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔زیرِ بحث خصوصی نمبر کا آخری باب ’دیوان غالب بخط غالب‘ کے عنوان سے ہے۔اس باب میں ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ سے متعلق تین اہم مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون امتیاز علی عرشی کا تحریر کردہ’غالب کا خود نقل کردہ دیوان اردو‘ کے عنوان سے ہے جس میں امتیاز علی عرشی نے ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ کو نہ صرف اہم اور نادر نسخہ قرار دیا ہے بلکہ اسے زمانی اعتبار سے ’ نسخہ حمیدیہ ‘ سے مقدم قرار دیا ہے۔اس حصّے میں شامل دیگر دو مضامین نثار احمد فاروقی کے تحریر کردہ ہیں۔انھوں نے اپنے مضامین میں ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے غالبیات کے سلسلے میں تاریخی حیثیت کا حامل قرار دیا ہے۔اس باب کے آخر میں 125صفحات پر مشتمل ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ غرض اس خصوصی نمبر میں جہاں غالب کی سوانح، شخصیت اور شاعری پر مشاہیر ادب کے بہترین مضامین اور مقالات شامل ہیں وہیں دیوان غالب کے دو نسخوں کی اضافت سے اس خصوصی نمبر کی قدرومنزلت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔مذکورہ بالا خصوصی نمبرات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نندکشور وکرم نے بھارت کے علاوہ پاکستانی ادبا و شعرا پر بھی خصوصی نمبرات شائع کیے ہیں۔ جن کی اشاعت پر انھیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر انھوں نے اس مخالفت اور تنقید کی پروا کیے بغیر اپنا کام خوش اسلوبی کے ساتھ جاری رکھا جس سے ان کا غیر جانب دارانہ رویہ و کردار نمایاں ہوجاتاہے۔اس حوالہ جاتی مجلے کی ضخامت ابتدا میں 150 صفحات تھی جو آخر پر 450 صفحات تک پہنچ گئی۔ نندکشور وکرم نے اس مجلے کو ہر لحاظ سے بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اس مجلے کے سرورق اور پشت پر اکثرو بیشتر مختلف ادبا و شعرا کی تصویریں بھی شائع ہوتی تھیں۔ مجلے میں شعرا و ادبا کے قلمی نسخے بھی شائع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ 1993 کے شمارے کے سرورق پر اردو کے مشہور و معروف ادباو شعرا کے دستخط بھی موجود ہیں جن میں فراق گورکھپوری، دیویندر اسر، جمیل جالبی، اختر اورینوی، جوگیندر پال، شمس الرحمن فاروقی، بلراج کومل، مالک رام، خواجہ احمد فاروقی، صالحہ عابد حسین، ساحر لدھیانوی، راجندر سنگھ بیدی، قمر رئیس اور ندیم احمد قاسمی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ مجلے میں مختلف ادبا و شعرا کی تخلیقات کے علاوہ مدیر مجلہ نند کشور وکرم کی تخلیقات و نگارشات بھی وقتاً فوقتاً شائع ہوتی تھیں۔’عالمی اردو ادب‘ 1983 سے 2019 تک نند کشورو کرم کے نجی ادارے ’پبلشرز اینڈ ایڈ ورٹائزرز ‘ کرشن نگر دہلی سے مسلسل شائع ہوتارہا۔ اگست 2019 میں اس کے مدیر جناب نند کشور وکرم کے اچانک انتقال کے سبب اس کی اشاعت کا سلسلہ بند ہوگیا تھا لیکن ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کی اشاعت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے اور اس کا اڑتالیسواں شمارہ پروفیسر کوثر مظہری کی سرپرستی اور نوجوان اسکالر محمد یوسف رضا کی ادارت میں اکتوبر 2022 میں ’اکادمی اردو زبان و ادب‘ دہلی کے زیراہتمام شائع ہوکر قارئین سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ یہ خصوصی شمارہ اردو کے مشہور ادیب ستیہ پال آنند کے احوال و کوائف اور ادبی کارناموں پر محیط ہے۔حوالہ جاتی مجلہ ’عالمی اردو ادب‘ کے اداریوں کے مطالعے سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ نند کشور وکرم ایک نڈر، بے باک اور تعصب سے پاک ادبی صحافی تھے۔ نند کشور وکرم نے علاقائی و مذہبی سطح اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنی صحافتی کاوشوں کے ذریعے اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دی ہے۔ اردو زبان و ادب کو کسی مذہب سے وابستہ کرنے کی شدید مذمت و مخالفت کرتے ہوئے انھوں نے اردو زبان کے سیکولر کردار کو برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔ عالمی اردو ادب کے اداریوں میں انھوں نے اس بات کا تذکرہ بارہا کیا ہے۔الغرض ’عالمی اردو ادب‘ جیسا ضخیم حوالہ جاتی مجلہ جاری کرکے نند کشور وکرم نے ادبی صحافت کے میدان میں ایک بہترین اور قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہے جو لائق تحسین ہے۔Sartaj Ahmad MirResearch Scholar, Dept of UrduUniversity of HyderabadHyderabad- 500046 (Telangana)Mob.: 9469422228" زبان اور اس کے رموز، مضمون نگار: مصطفی ندیم خان غوری,https://ncpulblog.blogspot.com/2024/05/,"ماہنامہ اردو دنیا، اپریل2024انسان زبان کو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کرنے اور اپنے مقابل کو کسی خیر سے آگاہ کرنے اور اسے اپنے ارادے کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کی زبان نہ صرف انسان بلکہ پالتو اور جنگلی جانور تک سبھی سمجھ جاتے ہیں۔ مثلاً جانوروں کو ان کی مرغوب غذا دکھاکر پاس بلانا یا پھر ڈنڈا دکھاکر دور بھگانا۔ مگر یہ میٹھی یا ترش زبان بلکہ اس کے علاوہ سریلی زبان انسان کو کس نے کب اور کہاں سکھائی ہوگی باہمی تجربات نے اس کے اپنے ماحول نے یا پھر اس کے ایجاد کردہ میٹھے سروں، لسانی بحور اور اس ساز و سامان نے یا ان سب نے اجتماعی طور پر۔ انسانی مزاج اور طبیعتیں فرداً افرداً یا ایک فرد میں موقع بموقع جداگانہ ہوتی ہیں۔زبان سیکھنے کے کئی ذرائع (نظریے)پیش کیے گئے ہیں۔ زبان کے آغاز کے سلسلے میں کچھ بنیادی باتیں اس طرح ہیں:الوہی نظریہ:اکثر مذاہب1 اپنے کو قدیم ترین مذاہب گرانتے ہیں۔ ان میں بھارت کا الوہی نظریہ پیش پیش رہا ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہندو دھرم یعنی سناتن دھرم قدیم ترین دھرم ہے۔ ان میں سنسکرت زبان کو دیوبانی کہا جاتا ہے جبکہ بدھ مت کے مطابق پراکرت قدیم ترین زبان ہے۔ چنانچہ انسان آسمانوں میں دیوی دیوتاؤں کے ساتھ سنسکرت زبان میں ہی بات کیا کرتا ہوگا۔ ظاہر ہے جسے دیوتاؤں نے ایجاد کیا ہوگا۔ چنانچہ تمام تر مخلوق بشمول انسان اور جانور باہم سنسکرت میں ہی باتیں کیا کرتے ہوں گے۔ ہندو ازم کے علاوہ کئی مشابہ نظریے بھی دیگر مذاہب میں قائم رہے ہیں۔ مثلاً بدھوں کے قریب پالی پراکرت قدیم ترین زبان ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان نے سب سے پہلے یہی زبان سیکھی ہوگی۔ جینیوں کی دانست میں تیر تھنکروں کے اردھ ماگدھی اپدیشوں کو انسان کے علاوہ حیوانات بھی سمجھتے تھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک اصل زبان عبرانی تھی جبکہ اسلامی عقیدے کے مطابق حضرت آدمؑ کی پیدائش کے بعد انھیں کئی اشیا کے نام سکھائے گئے جن سے فرشتے ناواقف تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ نام عربی زبان میں ازبر کرائے گئے ہوں گے۔ اس طرح تو انسان کی پہلی زبان عربی قرار دی جاسکتی ہے۔ وللہ عالم بالصواب۔فطری نظریہ:اس نظریے کو فیثاغورث چھٹی صدی ق۔م۔ (قبل مسیح) ، ہیراگرٹس 576تا 480ق۔م۔) اور افلاطون (492تا347ق۔م۔)نے باہمی طور پر پیش کیا تھا کہ فطرت نے کسی جبلی ضرورت کے تحت زبان کو جنم دیا تھا ۔ چنانچہ اشیا اور ان کے ناموں میں کوئی فطری تعلق ہوتا ہے۔ چونکہ یہ ایک فلسفیانہ خیال ہے۔ اس لیے ماہرین نے اسے علمی اہمیت نہ دی۔حیوانی آوازوں کی نقل:اس نظریے کے مطابق انسان نے برّی، بحری اور فضائی آوازوں اور جانوروں کی بولیوں کی نقل میں زبان کے اولین الفاظ اختراع کیے ہوں گے۔ مثلاً میاؤں، میاں، بھوں بھوں، دریا سمندر کے لہروں کی آوازیں، جنگلی اور پالتو پرندوں اور جانوروں کی آوازیں جن سے انسان اپنی زبان کے اولین حروف تراش لیے لیکن اس پر نمایاں اعتراض یہ ہوا کہ ہر آواز اور ہر لفظ کی ہر زبان میں تعمیم ممکن نہیں ۔ دوسرے یہ کہ انسان جوکہ اشرف المخلوقات ہے وہ کیونکر جانوروں کی زبانوں کا دست نگر ہوگا۔ اس لیے یہ نظریہ لغو ہے۔ مزید اور بھی کئی نظریے تو ہیں لیکن غیر موضوعی بحث بیجا طوالت کا باعث ہوگی۔بنی نوع انسان کے لیے زبان از بس ضروری ہے کیوں کہ یہ علم کی ترسیل کا بھی مؤثر ذریعہ رہی ہے۔ یعنی جو سنا وہ سیکھا بولا سنایا لکھا اور اگلی پشتوں تک پہنچایا۔موجودہ حالات میں زبانیں غیر عسکری تہذیبوں جیسے وادیِ سندھ کی تہذیب، مصری تہذیب، ہڑپہ موہنجودارو وغیرہ میں پروان چڑھی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی کسی تہذیب یا علاقے میں ان کی اپنی زبان پنپتی ہے جس کے خصائص دوسری تہذیب یا علاقوں سے یکسر جدا ہوتے ہیں۔ مثلاً دراوڑی زبانیں، آریائی زبانیں، یونانی، لاطینی ، انگریزی، فرانسیسی ، فارسی، عربی۔ ذرا غور کریں تو محسوس ہوگا کہ آہستہ آہستہ ان زبانوں پر علاقائی چھاپ واضح ہوتی چلی جائیگی۔ مثلاً انگریزی اور فرانسیسی کو لیجیے۔ ان کے الفاظ اپنے ڈھب کے اعتبار سے انگلستان اور فرانس کو واضح کریں گے۔ ویسے اطالوی ، جرمنی، روسی، چینی وغیرہ۔برصغیر میں آئیں تو پشتو، پنجابی، اودھی، تامل، تیلگو، کنڑی، مراٹھی۔ سب کا مزاج سب سے جدا ۔ اگر یکسانیت کی کوئی جھلک دکھائی تو محض اتفاقی۔ لیکن ہم دو متصل علاقوں کے درمیان یوں خط فاصل بھی تو عائد نہیں کرسکتے کیوں کہ زبانیں بدلتے بدلتے بدلتی ہیں۔موقع محل کے اعتبار سے زبان کے کئی مفاہیم ہوتے ہیں۔ ایک تووہی زبان جو ہر جاندار کے جبڑوں میں ہوتی ہے۔ دوسرے زبان برائے اشاعتِ علم جیسے سنسکرت، عربی، فارسی جیسی زبانیں یا پھر وہ بھی زبانیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ’’بے زبان جانوروں پر رحم کھاؤ‘‘۔ یہ باتیں کئی لوگ سیکھتے اور سکھاتے بھی ہیں جیسے کسی زبان کی قواعد سکھانا۔ اغلاط کی تصحیح، نظم نگاری، مضمون نویسی یا فن خطابت و خوش بیانی۔ ان علوم کے اکتساب سے کئی ایک مقاصد جیسے عمدہ ادیب و شاعر خطیب، خوش گفتارو پیروکار(وکیل) حاصل ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں صوت و آہنگ کی کرشمہ سازیاں ہوتی ہیں۔زبان و آہنگ کے منظم مطالعے کو صوتیات کہتے ہیں۔ ماہر صوتیات و سائنسداں ہوتا ہے جس میں انسانی آوازوں کو سمجھنے کی تمیز ان میں تفریق و تجزیہ کی مہارت ہوتی ہے۔ 2یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں زبان سے مراد بولی جانے والی زبان ہے اسے محفوظ رکھنے کا فن فن تحریر کہلاتا ہے۔اس تمام بیان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو زبانوں کے ترقیاتی دور اور ترمیمی لوازم کی تفصیل کچھ یوں ہوگی کہ کوئی ایک لاکھ سال تا 40 ہزار سال قبل تک سندھ، مصر ، جنوبی افریقہ، چین، وسط ایشیا میں ترقیمی اشیاء، احمرین روغن ، کوئلہ، گوند وغیرہ سے تیار ہوا کرتی تھیں جبکہ سطح ترقیم غیر منقولہ یعنی بھاری چٹانیں،کتبے وغیرہ ہوا کرتے تھے اور منقولہ تعویذ نقوش وغیرہ جن پر ہڈیوں کے نوکدار قلم سے لکھا جاتا تھا۔ پھر 4000(قبل مسیح) تا 400(ق۔م۔) معمولی سی پیش رفت مصر، جنوبی افریقہ ،چین، ہندوستان میں دیکھی گئی ہے۔ جس کے دوران گوند نباتی ہے۔ عرق بطور روشنائی استعمال ہوتے تھے۔ جبکہ سطح ترقیم میں چٹانیں سیپیاں تختیاں کھالیں یا پائرس وغیرہ دستیاب تھے۔ اور قلم کے لیے ہڈیاں سرکنڈ ے بانس مستعمل تھے۔ جو 256ق۔م۔ تک رائج رہے۔ پہلی صدی عیسوی تک ایران ،سندھ ،اسلامی پرتگال کاغذ پر روشنائی کا استعمال ہوا جبکہ 1041ء میں چین میں طباعت شروع ہوچکی تھی۔ 1450ء میں یورپ میں پرنٹنگ پریس شروع ہوچکا تھا اور انیسویں صدی میں کانپور دہلی لکھنؤ کلکتہ میں اُردو کتابوں کی طباعت جاری ہوچکی تھی جن میں 42کتابوں کے کوئی 11458نسخے شائع ہوچکے تھے۔ بیسویں صدی میں کمپیوٹر سے تمام زبانوں میں ایک انقلاب رونما ہوا 3 اور اکیسویں صدی میں تو انٹرنیٹ ، واٹس اپ ، یوٹیوب ،سوشل میڈیا وغیرہ نے تہلکہ مچادیا۔زبان کی ادائیگی میں دماغ کا حصہ:اب تک ہم نے زبان کا علم لسانیات کی روشنی میں جائزہ لیا جس کے دوران ہمیں ماحولیاتی عوامل کی کار فرمائیاں نظر آئیں۔ اب زبان کی اُپچ اور ادائیگی میں انسانی دماغ کے کردار پر نظر ڈالیں گے ۔ واضح رہے کہ انسانی دماغ کے غیاب میں زبان کا کوئی وجود ہی نہ ہوگا۔ اس موضوع پر گفتگو سے قبل اگر انسان کی دماغی ساخت پر اجمالی نظر ڈالی جائے تو معاملے کو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔انسانی دماغ کا سۂ سر میں ہر جانب محفوظ و محصور رہتا ہے۔ اس کی سب سے اوپری پرت بھورے رنگ کی ہوا کرتی ہے اور جس کی موٹائی کم و بیش 3ملی میٹر ہوتی ہے۔ یہ دماغ کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے اور دماغ کے پیچیدہ ترین امور جیسے اشعار کی موزونیت میں غور وفکر کرنا، تحقیق و تنقید کے مسائل کا حل وغیرہ اسی سے انجام پاتے ہیں۔ جانوروں میں اس کا فقدان ہوتا ہے ۔ البتہ بندروں میں یہ ہلکی سی نشوونما پاتی ہے مگر بے اثر ہوتی ہے۔ انسانی دماغ جسے مغز (Cerebrum) کہا جاتا ہے ایک درز کے ذریعے دو متشاکل ، متوازن و مساوی نصف کروں میں منقسم ہوتا ہے۔ اس میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ دایاں نصف کرہ بدن کے بائیں حصے کو کنٹرول کرتا ہے جبکہ بایاں نصف کرہ بدن کے دائیں حصے پر اپنا قابو رکھتا ہے۔ ہر نصف کرہ مزید ایک تڑقن کے ذریعہ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔ اس طرح پورے دماغ کے چار حصہ ہوئے۔ ان میں سے دو حصوں میں زبان و بیان کو کنٹرول کرنے والے حصے ہوتے ہیں جن کی تفصیل ذیل میں ہے۔بروکا ایریا(Broca's Area) :دماغ کے اس حصے کا نام نامور نفسیاتی طبیب پال بروکا(1824تا1880)(Paul Broca)کے نام سے موسوم ہے۔ اپنے معالجہ کے دوران اس کے مشاہدے میں کچھ ایسے مریض آئے جنھیں الفاظ کی اُپچ (Language Production)میں رکاوٹ اور ادائیگی میں لکنت کے مسائل حائل تھے۔ ان مسائل کے حل کے دوران اس نے غور کیا کہ کہیں اس بگاڑ کا تعلق دماغ یا اس کے کسی حصے سے تو نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے چند مریضوں کے دماغ کی جراحت کی تاکہ ناقص حصوں کا گہرائی سے مشاہدہ کیا جاسکے۔ اس جراحت کے دوران اس نے پایا کہ مریضوں کے بائیں پیش دماغ لختہ(Left frontal lobe)5ناقص و ناکارہ ہوچکے ہیں۔ اس طرح فتور گوئی(Aphasia) 6کے علاج کے دوران دماغ کے بائیں نصف کرہ (Left hemisphere)میں اس نے پایا کہ گویائی اُپچ(Speech Production)اور تصویت(Articulation) 7سے مربوط ہوتا ہے اور دماغ کے اسی حصے کو دریافت کرکے اس نے اپنے نام پر ہی بروکا ایریا کانام دیا۔ بروکا کو اپنے اس نظریے پر یہ شرف حاصل ہے کہ دماغ میں گویائی کے اپچ کا مرکز دماغ کے بائیں جانب قائم ہے۔ اپنے اس ہدف یعنی بروکا ایریا کو بعینہہ متعین کرنے کے لیے بھی اسے ناموری حاصل رہی۔ اس نے دماغ کے اس حصے کو دریافت کیا تھا جو خلل زبان کا باعث تھا یعنی جو قشر (Cerebral Cortex)کے پیش دماغ لختہ (Frontal Lobe) کی بائیں جانب قائم رہتا ہے۔ اسے یہ کامیابی ضررِ دماغ (Brain damage) اور خلل گویائی(Speech Disorder)کے متعدد مریضوں کے مشاہدوں کے بعد حاصل ہوئی۔دراصل ہماری ادائیگی الفاظ، نارمل بات چیت، تصورات، نیز تقریری و تحریری زبان میں صحت الفاظ کی بخوبی ادائیگی دماغ کے اسی اہم ترین حصے سے منسوب ہے۔ بروکا ایریا کو حرکی کلامیہ (Motor Speech)حصہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ حرکی قشر دماغ(Motor Cortex)کے قریب درون پیش تلفیف (Inferior Frontal Gyrus)میں واقع ہوتا ہے۔ یہ حصہ بات چیت اور گفتگو کے دوران سانسوں کے زیر و بم پر قابو رکھتا ہے تاکہ بات چیت نارمل انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے۔ اس ضمن میں مزید پیش رفت ہوتی رہی اور یہ اندازہ لگایاگیا کہ بروکا ایریا اور دماغ کے دیگر حصوں میں مزید کوئی ارتباط تسلسل کے امکانات کی تلاش جاری رہی۔ اس سلسلے میں کارل وِرِنِکی کی تحقیق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔8کارل وِرِنِکی1848)تا(1905(Carl Wernicke):یہ ایک جرمن طبیب تھا جو بطور عصب نفسی معالج (Neuropsychiatrist)جیسے پیشے سے عملاً وابستہ تھا۔ نیز اس نے دماغی ترکیب و ساخت (Brain anatomy)اور امراضیات جیسے میدانوں میں نہایت اہم دریافتیں کیں، اس کا یقین تھا کہ قشر دماغ9(Cerebral Cortex)کے حصوں کی خصوصی شناخت کے ذریعے کئی ذہنی فتور کا سدِّباب کیا جاسکتا ہے وار اس طرح دماغ کے ان حصوں کے افعال کا تعین اور درستی کی جاسکتی ہے۔ وہ بطور ایک ماہر کلامیہ زبان (Speech Language Pathologist) کے بڑی شہرت رکھتا تھا کیوں کہ اس نے فتور گوئی(Aphasid) کے مطالعے کے دوران مغز (Cerebrum)کا گہرا مشاہدہ کیا تھا اور یہ پایا کہ انسانی مغز یعنی دماغ ہی زبان اور گویائی جیسے مظاہر (Phenomena) کا طرف دماغ لختہ (کنپٹی) (Temporal Lobe)کی دماغی تلفیف (Superior Gyrus)میں حصول کرتے ہیں۔ورنکی کا پیش کردہ یہ ماڈل دماغ کے ایسے خصوصی حصص کے درمیان اتصال کو ظاہر کرتا ہے یعنی دماغ کے مختلف حصے الفاظ کی ادائیگی سے قبل ان کی معنویت سے متعلق اطلاعات مجتمع کرنے کی خاطر باہم ربط قائم کرتے ہیں تبھی وہ زبان کے حرکی حصے کو تحریک دے پاتے ہیں۔بروکا ایریا اور ورنکی ایریا کا فرق: بروکا ایریا اور ورنکی ایریا دماغ کے وہ حصے ہیں جو زبان کی ادائیگی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بروکا ایریا زبان کی اُپچ (Language Production)سے منسوب ہوتا ہے جبکہ ورنکی ایریا زبان و بیان کے افہام و ادراک سے تعلق رکھتاے۔ ورنکی ایریا اس عمل پر بالضرور زور دیتا ہے کہ بیان کردہ زبان بامطلب ہو، جبکہ بروکا ایریا اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ بیان میں روانی و برجستگی پائی جائے۔ ورنکی ایریا زبان و بیان میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ عقبی اعلیٰ طرف دماغ لختہ10 (Posterior Superior Temporal Lobe) (یعنی کنپٹی) کو ایک عصبی ردعمل کے ذریعے بروکا ایریا سے مربوط کرتا ہے۔ شہادتوں کی بناپر یہ ایریا تحریری و تقریری زبان کے طریقہ عمل جیسے صحت الفاظ تجدید یا تخلیق نو کا ردّعمل سے وابستہ رہا ہے۔ شکل ملاحظہ کریں:شکل:دماغ کے وہ حصے جو گویائی کی اُپچ اور گفتگو پر قابو رکھتے ہیں۔ورنکی نے ایک نظریہ تحصیر(Theory of Localisation)11تجویز کیا تھا ۔ اسے یقین تھا کہ دماغ کے ایسے متعدد حصوں کی شناخت کی جاسکتی ہے جو مختلف انسانی اطوار پر نہ صرف اپنا قابو رکھتے ہیں بلکہ اسے اپنے ردعمل سے مزید کردار و برتاؤ نمودار کرسکتے ہیں۔ بروکا اور ورنکی حصوں کا یہی معاملہ تھا جو باہم ردعمل کے ذریعہ ایک صحت مند زبان کی جانب گامزن تھا۔حواشی و حوالے1-لسانی مطالعے۔ از گیان چند جین، ترقی اُردو بورڈ، نئی دہلی۔ دوسرا ایڈیشن، 1979، ص322-صوتیات اور فونیمیات۔ اقتدار حسین خان۔ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی2013،ص13-سہ ماہی فکر و تحقیق، جولائی ستمبر2015-، قومی کونسل فروئے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، ص20-234-ایضاً، ص245-فرہنگ ِ اصطلاحات۔ فلسفہ نفسیات اور تعلیم۔ترقی اُردو بیورو، نئی دہلی،1988،ص 1866-ایضاً، ص 307-ایضاً، ص348-انٹرنیٹ سے برآمد9-فرہنگ ِ اصطلاحات۔ فلسفہ نفسیات اور تعلیم۔ترقی اُردو بیورو، نئی دہلی،1988،ص5510-ایضاً، ص18611ا-یضاً، ص186Mustafa Nadeem Khan GauriZarrin VillageB.11, Green Valley, Roza BaghAurangabad - 431001 (MS)Mob: 9604957100" کوکن میں ادب اطفال کی صورتِ حال، مضمون نگار، محمد دانش غنی,https://ncpulblog.blogspot.com/2024/04/,کوکن کے اہالیانِ اردو نے کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ اردو زبان سے ہم رشتگی ان کے معاشی مسائل کو حل بھی کرسکے گی یا نہیں؟ وہ تو محض اپنی محبت اور ارتباطِ دلی کا مظاہرہ کرتے رہے لیکن اردو سے لگاوٹ نے انھیں محروم اور مایوس بھی نہیں ہونے دیا چنانچہ آج بھی ہزاروں خاندان صرف اردو زبان کی بدولت روزگار سے جڑے ہوئے ہیں۔ خطۂ کوکن سے علم و ادب میں ممتاز ہستیاں اٹھیں جنھوں نے اپنے نام اور کام سے پورے کوکن کو مقام امتیاز عطاکیا۔ شعر و افسانہ، تحقیق و تنقید، تعلیم و تہذیب، معاشرت اور سیاست و صحافت میں کتنے ہی نام روشن ہیں جن پر نہ صرف خطۂ کوکن کو ناز ہے بلکہ تاریخِ اردو زبان و ادب کا بھی ایک حصہ بنے ہوئے ہیں۔ یوں بھی خطۂ کوکن کو قدرت نے صورت و سیرت اور ذہانت و دولت کی بیش بہا نعمتوں سے سرفراز کیا ہے۔ ساتھ ہی یہاں کے پہاڑ، جنگل، ندی نالے، کھاڑیاں اور دریا... آم، ناریل، سپاری، چیکو، کاجو، ساگوان، بانس، نیلگری، مرغ و ماہی اور چاول وغیرہ کی پیداوار بھی عطیۂ پروردگار  اور انعامِ الٰہی کی مظہر ہے۔ یہاں حسنِ فطرت انگڑائیاں لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے خطۂ کوکن کے شعرا و ادبا نے اپنی طرزِ معاشرت، عادات و اطوار، تاریخ و واقعات اور حسنِ فطرت جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ بچوں کی جسمانی اور ذہنی عمر، شخصی انفرادیت، دلچسپی، خواہشات، تحیر خانۂ ادراک، اکتسابی صلاحیت اور شخصیت کے مکمل فروغ کو دھیان میں رکھتے ہوئے بچوں کا ادب تخلیق کیا ہے۔آزادی سے پہلے بچوں کے ادب پر کوئی قابلِ ذکر کام اگرچہ دکھائی نہیں دیتا لیکن آزادی کے بعدکی ساتویں دہائی میں اس سمت توجہ ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور ادبِ اطفال کا رجحان بڑھتاہوا دکھائی دیتا ہے۔ متعدد شاعروں اور ادیبوں نے بچوں کے لیے تھوڑا بہت لکھنا شروع کیا لیکن بچوں کے ادب سے باقاعدہ وابستگی رکھنے والا ایک نام بدیع الزماں خاور کا ہے۔شری پاد جوشی نے انھیں ’ کوکن کا مغنی ‘ کہا ہے۔ خاور صاحب ایک مدرس تھے۔ عمرِ عزیز کا بڑا حصہ ننھے منوں کی محبت میں گزارا چنانچہ ان کی نفسیات، ان کی زبان اور ان کے پسندیدہ موضوعات سے انھیں بڑی واقفیت تھی اور پھر وہ خود بھی ایک قادرالکلام شاعر تھے اس لیے انھوں نے اسمعیل میرٹھی، افسر میرٹھی، شفیع الدین نیراور راجہ مہدی علی خاں کے زیر اثراپنے طرز پر بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جن میں بطور خاص حب الوطنی، اخلاق و شرافت، کردار و سیرت اور تعلیمی رجحانات کو مدِ نظر رکھا۔ ان کی نظموں میں زورِ بیان، تسلسل، بچوں کی سوجھ بوجھ اور زبان کا سادہ پن بدرجہ اتم موجود ہے۔ چنانچہ یہ نظمیں نہ صرف خطۂ کوکن بلکہ پورے بھارت میں ذوق و شوق سے پڑھی گئیں۔ خاور صاحب نے بچوں کے لیے ’میرا وطن ہندوستان (1973) ‘،  ’امرائی (1976)‘، ’ ننھی کتاب (1983) ‘ اور ’ موتی پھول ستارے (1984) ‘ کے نام سے خوبصورت نظموں کے چار مجموعے دیے۔ اس طرح خطۂ کوکن سے بچوں کے ادب میں اٹھنے والا پہلا معتبر نام بدیع الزماں خاور کا ٹھہر تا ہے۔خطۂ کوکن سے دوسرا اہم نام عبدالرحیم نشتر کا ہے۔ عبدالرحیم نشتر ہندوستان کی جدید اردو شاعری کا ایک نمایاں نام ہے۔ ان کے چار شعری مجموعے، بچوں کی نظموں کے پانچ مجموعے، ایک رپورتاژ، اردو افسانے پر ایک تحقیقی، تنقیدی اور تجزیاتی مطالعے کے علاوہ جدیداردو غزل کے دو انتخاب، ودربھ کی ادبی و شعری روایت سے متعلق نصف درجن کتابچے،کوکن اور پونے کی اردو تعلیم پر تین تحقیقی تصانیف اور برصغیر کے موقر رسائل و جرائد میں ان گنت تخلیقاتِ نظم و نثر شائع ہوچکی ہیں۔ 1960 کے بعد سے تاحال اردو کے اہم ترین رسالوں اور اخباروں میں ان کا نام کہیں نہ کہیں ضرور دکھائی دیتا ہے۔ دراصل ان کا تعلق علاقۂ ودربھ سے ہے۔ 1986  میں تلاشِ روزگار کے سلسلے میں کوکن آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ چونکہ وہ پیشۂ تدریس سے وابستہ تھے اس لیے ان کا ادبِ اطفال کی طرف توجہ دینا بھی فطری تھا۔ یوں تو وہ بچوں کے شعری ادب کی طرف 1990 میں متوجہ ہوئے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری کا آغاز ہی بچوں کے لیے نظمیں لکھنے سے ہوا۔اس وقت جب کہ دہلی سے کھلونا اور پھلواری شائع ہوتے تھے۔ ناگپور سے فیض انصاری کی ادارت میں’چاند‘ اور شفیقہ فرحت کی ادارت میں ’کرنیں ‘شائع ہوا کرتا تھا۔ غالباً یہ 1953 تا 1955 کی بات ہے۔یہی وقت تھا جب عبدالرحیم نشتر نے بچوں کے لیے نظمیں لکھنے کی ابتدا کی۔ شروع میں عبدالرحیم نشتر کی نظمیں ’ انقلاب‘ممبئی کے بچوں کے صفحے پر جگہ پاتی رہیں۔انقلاب میں بچوں کے صفحے کے ایڈیٹر چاچا ناصر نے اس وقت عبدالرحیم نشتر کو آل مہاراشٹر بچوں کی انجمن کاسکریٹری مقرر کیا اور کئی دفعہ انھوں نے انقلاب کے بچوں کے صفحے کی ترتیب کی ذمے داری انھیں سونپی۔ چنانچہ اس زمانے کے ’انقلاب ‘ممبئی کے بہت سے صفحات عبدالرحیم نشتر کے ترتیب دیے ہوئے تھے۔ انھوں نے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی خوب لکھا۔ ان کی نظمیں بچوں کے معروف رسائل میں مسلسل شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اسی لیے بعض اہلِ قلم اور اہلِ نظر نے انھیں بنیادی طور پر بچوں کا شاعر کہا ہے۔عبدالرحیم نشتر کی نظموں کے پانچ مجموعے ’ بچارے فرشتے (1994) ‘، ’ کوکن رانی (1997) ‘، ’ موتی چور کے لڈو (2005)‘، ’گل چھرے (2007)‘ اور ’ بچوں کا سنسار (2021) ‘ کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔تمام مجموعوں کی شاعری ’گنگنائو مرے اشعار مچلتے جائو‘کے مصداق ہے۔ان نظموں میں شاعر کا بچوں کے بارے میں جو مشاہدہ ہے اور بچوں کی نفسیات کا جو عرفان اسے حاصل ہے،وہ اتنا اچھوتا،اتنا پیارا اور اتنا دل آویز ہے کہ طبیعت خود بہ خود کسی نظم کو منتخب کرکے گنگنانے پر مائل ہوتی ہے۔ایک اور بڑی خوبی نظموں کی یہ ہے کہ یہ سبق آموز ہیں۔خدا کی یاد تازہ کردیتی ہیں۔اس کی صناعی کی طرف توجہ کو مرکوز کرتی ہیں۔بچوں کو انسان بن کر جینے کی راہ دکھلاتی ہیں۔ان میں خود شناسی، خود اعتمادی اور شعور کی بالیدگی پیدا کرنے میں معاون نظر آتی ہیں۔حوصلوں کا درس دیتی ہیں۔ مستقل مزاجی کی تعلیم دیتی ہیں۔ کامیابیوں  کے گر سکھاتی ہیں۔قدرت،دنیا اور انسان کی پہچان کراتی ہیں۔اقبال سالک نوجوان شاعر ہیں لیکن انھوں نے خود کو بچوں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ لہذا ان کی پیاری پیاری اور خوبصورت نظمیں رسائل و جرائد میں نظر آجاتی ہیں۔ ’ پہلا قدم ‘ ان کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی نظموںکا مجموعہ ہے جو 2014 میں رحمانی پبلی کیشنز  مالیگائوں کے زیر اہتمام شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے میں انھوں نے زیادہ تر ایسے موضوع کا انتخاب کیا ہے جن سے قاری اکثر وبیشتر گذرتا ہے لیکن یہ نظمیں اُن میں نئی کیفیات وسرشاری پیدا کرتی ہیں۔آسان اور سلیس زبان، چھوٹی بحریں اور مترنم الفاظ کے ساتھ ان نظموں کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ ان میں بچپن صاف طور سے دکھائی دیتا ہے۔ساغر ملک کا تعلق بھیونڈی سے ہے اور وہ بھی اسکول میں ٹیچر رہ چکے ہیں۔ بچوں کے درمیان رہتے سہتے اور انھیں سمجھتے سمجھاتے آئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کہانی کے میڈیم سے بچوں کی شخصیت اور کردار سازی میں ایک موثر کردار ادا کیاجا سکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے کہانی کو اپنی پسندیدہ صنف قرار دیا اور بہت سی دلچسپ کہانیاں لکھیں۔ ساغر ملک کی شہرت ان کی کہانیوں کی پہلی کتاب ’ سفید کوا (1984)‘ سے ہوئی اور اب تک وہ بچوں کے لیے پانچ بہت اچھی کتابیں دے چکے ہیں جن میں ’ قاتل سائنسداں (1988)‘، ’کہانیاں (1990) ‘ اور ’کچے گھر کی دھوپ (1990) ‘ شامل ہیں۔ ان کتابوں میں ساغر ملک نے بچہ بن کر بچوں کی عمر اور مزاج کے مطابق پیاری پیاری، نصیحت آموز اور کردار ساز کہانیاں انھیں کی زبان اور پیرائے میں بیان کرنے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کہانیوں میں بچوں کی افتادِ طبع، پسند نا پسند اور ان کی نفسیات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ ان کہانیوں کے کردار بچوں کے جانے پہچانے جانور اور پرندے یا پھر سادہ لوح اور بھولے بھالے انسان ہیں جن کی بدحواسیاں اور کارکردگیاں پر لطف مناظر سجاتی اور خوشگوار مزاح پیدا کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ہر کہانی بچوں کو ایک سبق دیتی ہے، ایک پیغام پہنچاتی ہے اور ان پر اپنا اثر ڈالتی ہے۔ کہانیوں کی کتابوں کے علاوہ ان کے یہاں بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کا ایک مجموعہ بھی ملتا ہے جو ’کرنیں ‘ کے نام سے 1983 میں شائع ہواتھا جس میں بچوں کے لیے اخلاقی اور سبق آموز نظمیں شامل ہیں۔ایم مبین اپنی کہانیاں اور ڈراما نگاری کی وجہ سے ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ادبی دنیا میںان کی اپنی ایک شناخت بھی ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بڑی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کی نگارشات کو ہندی حلقوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہے۔ بچوں کے تمام رسائل میں ان کی تخلیقات پابندی سے شائع ہوتی ہیں۔ انھیں کہانی لکھنے کا اچھا سلیقہ ہے۔ دل پذیر اندازِ بیان، موثر زبان اور کسا ہوا بیانیہ ان کی کہانیوں کی خصوصیت ہے۔ انھوں نے کامیاب ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ یہ ڈرامے بھی کہانیوں کی طرح سبق آموز اور دل پر اثر کرنے والے ہیں۔ ’ مال مفت 1998) ‘، ’گدھے کی چوری (2005) ‘، ’پپو پاس ہوگیا (2006) ‘ ، ’ہزار روپے کا نوٹ (2008)‘، ’ میرا نام کرے گا روشن (2011) ‘، ’رانگ نمبر (2012) ‘، ’ گبر سنگھ نے ای میل کیا (2013)، ’دان دھرم (2018)، ’گونگا سچ ((2019)،  ’ابراہیم گاردی (2019)‘ اور ’ کھول دو (2020)،   وغیرہ ان کے ڈراموں کے مجموعے بچوں کی نفسیات اور سوجھ بوجھ کو چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’جھنگا پہلوان نے کرکٹ کھیلا (2006)،  ’ انمول ہیرا (2007)،  ’ جادوئی چراغ (2007)، ’ ڈیجیٹل جنگل (2022)  اور ’ مشن اوزون (2023)، ایم مبین کی کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ ’سر کٹی لاشیں (2004)،  ’ زحل کے قیدی (2004)، ’انگوٹھا (2013)، ’اے وطن تیرے لیے (2014)‘ اور ’ خلائی سفر (2021)‘  جیسے ناول انھوں نے بچوں کے لیے لکھے ہیں۔ ان کا تسلسل ان کی تازہ فکری اور غضب کی تخلیقی صلاحیت کا غماز ہے۔ انھیں بیانیہ پر قدرت حاصل ہے۔ وہ اپنے گرد و پیش بکھری ہوئی اور پھیلی ہوئی کہانیوں میں سے بچوں کے لائق کسی ایک موضوع کو منتخب کرلیتے ہیں اور پھر نہایت سادہ انداز میں شروع کرکے تحیر خیز واقعات کی کسی ہوئی ترتیب کے ساتھ بڑی دلچسپ انداز میں بیان کر دیتے ہیں۔ ان کہانیوں اور ڈراموں کے مجموعے ادبِ اطفال کے لیے بیش قیمت تحفے ہیں۔صادقہ نواب سحر ایک مدت سے لکھ رہی ہیں۔ وہ ایک مقبول و معروف فکشن نگار ہیں، ان کے کئی ناول اور افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ہندی جگت والوں میں بھی ان کا نام بڑی اہمیت اور عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ بھی بچوں کی کامیاب اور پسندیدہ ادیب ہیں۔ تعلیم و تدریس میں عمر گزاری۔ مہاراشٹر کی اردو ابتدائی جماعتوں کی نصابی کتابیں تیار کرنے کا انھیں طویل تجربہ حاصل ہے۔ نصابی ضرورتوں کے تحت لکھتی رہی ہیں اس لیے نہایت غور و فکر، ہوش و حواس اور آہستہ روی کے ساتھ لکھتی ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ بچوں کے لیے کیا اور کیسے لکھا جائے۔ حالیہ برسوں میں صادقہ نواب سحر نے بچوں کے ادب میں وقیع اضافے کیے ہیں۔’ مکھوٹوں کے درمیاں ‘ صادقہ نواب سحرکا بچوں کے لیے یک بابی ڈراموں کا مجموعہ ہے جسے تخلیق کار پبلشر نئی دہلی نے 2012میں شائع کیا۔ یہ مجموعہ اسٹیج ڈراموں کی خصوصیات سے معمور ہے۔ ہر ڈرامہ بہ آسانی اسٹیج کیا جاسکتا ہے۔ بچوں سے متعلق دل چھولینے والے موضوعات کو چوکس تھیم اور جاندارا ور اثر آفریں مکالموں کے ساتھ بڑی کامیابی سے پیش کیا گیا ہے۔ ڈراموں کے سارے کردار جانے پہچانے اور ارد گرد کے ہی کردار ہیں۔ اسی وجہ سے ننھا قاری ان میں دلچسپی لیتا ہے۔ ڈراموں کے مناظر کی فضا بندی میں ہنر مندی نظر آتی ہے۔ مکالمے کردار کی عمر، پیشہ اور اس کی نفسیات اور عادات و اطوار کے لحاظ سے لکھے گئے ہیں۔ ڈراموں کے علاوہ صادقہ نواب سحر نے اچھی اچھی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ یوں بھی کہانی لکھنے میں وہ خاصی مشاق ہیں۔ بچے، عورتیں اور بڑے بوڑھے سبھی ان کی کہانیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے نثری ادب میں وہ ایک ممتاز و معتبر مقام رکھتی ہیں۔ نو عمر طالبِ علموں کو ننھی منی کہانیوں اور نظموں کے سہارے پڑھایا جاتا ہے۔ نرسری میں نظموں کی اہمیت اسی لیے ہے۔ صادقہ نواب سحر اس نکتے سے بخوبی واقف ہیں اسی لیے انھوں نے بچوں کی بڑی خوب صورت نظمیں لکھیں۔ ’ پھول سے پیارے جگنو‘ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے جو 2003میں شائع ہوا تھا۔ مجموعے میں شامل ساری نظمیںنہایت کامیاب اور مفید و موثر ہیں۔ بچوں کے سبھی رسالوں میں ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہتی ہیں۔غنی غازی بچوں کے مقبول اور پسندیدہ ادیب ہیں۔ وہ جب تک ممبئی میں رہے ماہنامہ ’ نقشِ کوکن ‘ سے جڑے رہے اور دلچسپ، مزے دار، سبق آموز کہانیاں تخلیق کرتے رہے۔ ان کی کہانیوں کے مجموعے ’ ریت کے گھروندے (1984) ‘، ’ مٹی کے گھروندے (1986) ‘، ’ شبنم کے موتی (1987)کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں جو نایاب تو نہیں کمیاب ضرور ہیں۔ غنی غازی نے ’ مردہ گھر ‘ کے نام سے بچوں کے لیے ایک ناول بھی تحریر کیا تھا جو 2016میں نقشِ کوکن پبلی کیشنز ٹرسٹ، ممبئی کے زیرِ اہتمام شائع ہوا تھا۔ ’ مردہ گھر ‘ کی کہانی شروع ہوتے ہی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ کہانی کی دلچسپی اور قاری کا تجسس آخر تک برقرار رہتا ہے۔ غنی غازی کی کہانیاں من گھڑت نہیں ہوتیں، وہ بچوں میں سائنسی شعور جگاتی ہیں۔ بچوں کے مزاج، رجحان اور زبان کی انھیں اچھی آگہی ہے۔ خیالات کو صفائی اور چابکدستی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں زبان ایک موثر وسیلہ ہے اور وہ کہانی پن کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔مسرت بانو شیخ بھی ادبِ اطفال کا ایک معروف نام ہے۔ وہ بھی پیشۂ تدریس سے وابستہ رہی ہیں اسی لیے ان کی نگارشات ادبِ اطفال کے تقاضے پوری کرتی ہیں۔ ایک زمانے میں وہ نہایت تیزی سے اٹھی تھیں۔ ان کے ڈرامے ماہنامہ نرالی دنیا، گل بوٹے  انقلاب اور دوسرے رسائل و جرائد میں پابندی سے شائع ہورہے تھے،لیکن اب وہ ایک عرصے سے خاموش ہیں۔ مسرت صاحبہ نے بچوں کے لیے ڈرامے بھی لکھے ہیں اور ان ڈراموں نے اسکول اسٹیج پر بڑی شہرت اور مقبولیت بھی حاصل کی۔ان کے ڈراموں کے پلاٹ عمدہ اور مکالمے برجستہ ہیں۔ انھوں نے بچوں کے مزاج اور ذہنی استعداد کا بھی خیال رکھا ہے۔ ڈراموں کے دو مجموعے ’ ہم ایک رہیں گے (1997) ‘ اور ’آدھا ادھورا (2001)‘ بھی شائع ہوچکے ہیں۔شکیل شاہجہاں مہسلہ (رائے گڑھ) کے ایک کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے بچوں کے لیے کچھ ڈرامے تحریر کیے تھے۔ بعد میں ان ڈراموں کا مجموعہ ’ قطار میں آیئے (1994) ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ تمام ڈرامے بچوں کے ذہن اور مزاج کو مدِ نظر رکھ کر لکھے گئے تھے۔نور جہاں نور بچوں کی نفسیات، ان کی ترجیحات، ذہنی سطح اور زبان دانی کی بہترین پارکھ تھیں۔ ان کی نظمیں، کہانیاں، مضامین اور ڈرامے ماہنامہ نرالی دنیا،گل بوٹے، انقلاب اور دوسرے رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ہیںجن میں لفظوں کا برمحل استعمال جچا تلا انداز اور متاثر کن پیرایۂ اظہار پایا جاتا ہے۔ مدیرِ گل بوٹے محترم فاروق سید کے حوالے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محترمہ دوکتابوں کی مصنفہ بھی تھیں اور یہ دونوں کتابیں گل بوٹے پبلی کیشنز  ممبئی کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی تھیں لیکن ان کتابوں کے نام اب مدیرِ گل بوٹے کے حافظے میں محفوظ نہیں ہیں۔بس انھوں نے اتنا ہی بتایاکہ ان کتابوں میں سے ایک بچوں کی نظموں کا مجموعہ تھا اور دوسری کتاب بچوں کے ڈراموں پر مشتمل تھی۔نوگل بھارتی بھی بچوں کے لیے لکھتے رہتے تھے۔ ان کی دلچسپ اور سلیس نظمیں اور کہانیاں اکثر اخباروں کی زینت بنتی رہتی تھیں جنھیں ہم اپنے بچپن میں لہک لہک کر پڑھا کرتے تھے۔انجم عباسی ایک طویل عرصے تک تدریس سے جڑے رہے اس لیے انھیں بچوں کے ادب میں بھی خاص دلچسپی ہے۔ انھوں نے نہ صرف بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھیں بلکہ بچوں کے لیے مراٹھی زبان کی کئی اچھی تحریروں کا ترجمہ بھی کیا۔محمد حسین پرکار بھی اردو کے ساتھ مراٹھی ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ترجمے کی لسانی اور تہذیبی اہمیت سے واقفیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے مراٹھی اور اردو کی لسانی اور تہذیبی روایت کو قائم رکھنے میں اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ محمد حسین پرکار نے مراٹھی شاعری اور ڈراموں کے اردو میں کامیاب تجربے کیے ہیں۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی حیات پر مبنی وی واشرواڈکر کا لکھا گیا ڈرامہ ’ و یزمھنالی دھرتی لا ‘کو اردو روپ دے کر مراٹھی اردو کے لسانی رشتے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔شیریں دلوی اردو صحافت کا ایک معروف نام ہے لیکن بچوں کے ادب سے بھی ان کی دلچسپی کچھ کم نہیں ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے کئی کالم لکھے جو روزنامہ ہندوستان میں ’ ان دنوں ‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ نسوانی جذبات، خیالات و تاثرات اور صفات سے رچی ہوئی اس ادیبہ نے چھوٹے بچوں اور نوخیز لڑکیوں کے لیے بڑی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔ بچوں کے لیے ان کے کالم پابندی سے شائع ہوتے ہیں۔عامل کھٹیلوی ( محمد اقبال خان دیشمکھ ) کا تعلق بھی صحافت کے پیشے سے رہا ہے۔ وہ ایک زمانے میں  ہفت روزہ ’ کوکن کی آواز ‘ کے نائب مدیر تھے۔ بچوں کے لیے انھوں نے ’ چاند تارے (2005) ‘ پیش کیا تھا۔ کہانیوں کے اس مجموعے میںبچوں کے لیے دلچسپ کہانیاں شامل ہیں۔ عامل کھٹیلوی کے پاس کہانی نویسی کا نہایت پر اثر فن موجود ہے۔ وہ اپنے فن کو ادبِ اطفال کی طرف مرکوز کردیں تو بچوں کے ادب کو ایک اچھا کہانی کار مل سکتا ہے۔نظام فیضی، آدم نصرت، ملک تاسے، قاضی فراز احمد، مغل اقبال اختر،تسنیم انصاری، صابر مجگانوی، تاج الدین شاہد، بکر سیمابی اورجویریہ قاضی خطۂ کوکن کے ایسے قلم کار ہیں جن کے یہاں بچوں کے معیار اور ان کے فطری ذوق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کچھ اخلاقی نظم و نثر پائی جا تی ہیں جو بچوں کے رسائل میں شائع بھی ہوئی ہیں۔یہ نظم و نثر بچوں کو خیر کی جانب مائل کرتی ہیں۔ ان کے خوابیدہ جذبات کو مثبت انداز سے بیدار کرتی ہیں۔ غورو فکر کی دعوت اور صالح اقدار کو فروغ دیتی ہیں۔ شاہد مہسلائی، سعید کنول، مبشر کنول، تبسم منظور ناڈکر، فیروزہ تسبیح، نگینہ ناز اور دوسرے چند قلمکاروں نے بھی ادبِ اطفال میں حصہ لیا ہے لیکن بیشتر شعرا و ادبا نے نظمیں، ڈرامے،کہانیاں، تعلیمی مضامین، تاریخی کارنامے  پہیلیاں، لطیفے غرض جو کچھ بھی لکھا یا ترجمہ کیا ان کے مطالعے سے امید تو بندھتی ہے کہ خطۂ کوکن میں بچوں کا ادب اس معیار کا ہے کہ بزرگ بچوں کے مستقبل سے بات کرسکتے ہیں۔خطۂ کوکن میںبچوں کے ادب کی روایت کو جاندار بنانے میں ماہنامہ ’نقشِ کوکن‘ ممبئی کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ رسالہ ادبِ اطفال کو بچانے اور سنبھالنے میں تاریخی کردار کا حامل ہے۔ اس ضمن میں محترم محمد شفیع پورکرکے  ہفت روزہ اخبار ’ کوکن کی آواز ‘ نے بھی لائقِ تحسین کردار ادا کیا ہے۔ نئے قلمکاروں اور قارئین کی ایک کھیپ تیار کی۔ مرحوم محمد شفیع پورکر کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ بچوں سے قریب ہوئے اور بچوں کو اپنے قریب کیا۔ انھوں نے ہمیشہ بچوں کا ادب لکھنے والوں کی ہمت افزائی کی۔ انھوں نے ’ کوکن کی آواز ‘ کے آدھے صفحے کو بچوں کے لیے مختص کر کے ’ نئی پھلواری ‘کے نام سے پیش کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ اس صفحے سے ادب کے ساتھ ساتھ بچوں کی دیگر ضرورتیں بھی پوری کی جارہی ہیں۔  اس طرح ’ کوکن کی آواز ‘ ادبِ اطفال کے فروغ میں برابر کا حصہ دار ہے۔ ’ بزم فروغ ادب کوکن، مہاڈ ‘، ’ آواز گروپ مہاڈ ‘، ’ نقشِ کوکن ٹیلنٹ فورم ممبئی ‘، ’ کوکن ٹیلنٹ فورم ممبئی ‘اور ’ کوکن ادبی فارم رتناگری ‘ کی مختلف النوع تقریبات اور کاوشوں کی بدولت کوکن کی درس گاہوں میں بہت سی ادبی اور کلچرل سرگرمیوں کا آغاز ہوا جن سے ادبِ اطفال کو تقویت پہنچی۔اب وقفے وقفے سے بچوں کے ادب پر اجلاس بھی منعقد ہونے لگے ہیں۔ کانفرنس اور سمینار کا اہتمام بھی کیا جانے لگا ہے۔ 2019 میں شعبۂ اردو، گوگٹے جوگلے کر کالج، رتناگری نے بچوں کے ادب پر ایک قومی سمینار کا انعقاد کیا تھا جس میں ملک کے اہم ترین اہلِ قلم نے شرکت فرمائی اور اپنے فکر و فن اور پر مغز تحریروں سے ادبِ اطفال کے مختلف گوشوں اور پہلوئوں کو روشن کیا۔ان مقالات کا مجموعہ ’ عصرِ حاضر میں بچوں کا ادب ‘ کے نام سے شعبۂ اردو، گوگٹے جوگلے کر کالج، رتناگری نے 2019  میں شائع بھی کیا ہے۔ دراصل یہ ایک سمینار نہیں بلکہ ادبِ اطفال اور بچوں کے قلم کاروں اور خود ادبِ اطفال کے قارئین کا جشن تھا جس کے چرچے ملک ہی میں نہیں بلکہ بیرونِ ملک میں بھی کیے گئے۔ گوگٹے جوگلے کر کالج کا شعبۂ اردو زبان و ادب کی ترقی اور نئے لکھنے والے اور نئے قارئین کی تعداد میں اضافے کے لیے مسلسل عمل و حرکت میں لگا ہوا ہے۔ کوکن کے بیشتر اردو ہائی اسکولوں میں ’ نقشِ دیوار ‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں طلبا و طالبات اپنے اساتذہ کی مدد سے بچوں کا صفحہ ترتیب دیتے ہیں اور یہ سلسلہ نہایت مقبول ہو چلا ہے۔ اب بچوں اور اسکولوں کے مابین صحت مند مقابلہ آرائی اور مسابقت کے جذبے بھی پنپنے لگے ہیں۔ کمال مانڈلیکر نے مضمون نویسی، ذہنی لیاقت، الفاظ سازی، مباحثہ، تقریری مقابلہ اور جنرل نالج کی روایت کو پھر سے زندہ کردیا ہے۔ مبارک کاپڑی کی رہنمایانہ تحریریں بچوں میں اعلیٰ تعلیم اور اچھے نتائج کی تحصیل کا شعور بھی جگارہی ہیں اور ان میں نیا جوش و جذبہ بھی رچا رہی ہیں۔یہ عجیب بات ہے کہ اردو تنقید نے ابھی تک بچوں کے ادب پر ویسی توجہ نہیں کی  جیسا کہ اس کا حق ہے۔ بدیع الزماں خاور، عبدالرحیم نشتر، ایم مبین، صادقہ نواب سحر، ساغر ملک، مسرت بانو شیخ اور اقبال سالک نے بچوں کے ادب کا جو ذخیرہ فراہم کیا ہے اسے پوری طرح نہ تسلیم کیا گیا نہ ان کا قرض اتارا گیا۔ بچوں کا ادب بھی تنقید و تحقیق کے لائق ہے۔ اس طرف سب سے پہلا قدم ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر نے اٹھایا ہے۔  انھوں نے ادبِ اطفال کے مسائل اور ان کی ضروریات کے پیشِ نظر کئی مضامین لکھے۔ ’ہندوستان میں ادبِ اطفال کی موجودہ صورتِ حال ‘، ’ ودربھ میں بچوں کا ادب ‘، ’ کیا بچوں کا ادب، ادب نہیں ہے ؟ ‘، ’کوکن کے بچوں میں مطالعے کا فقدان ‘ کے علاوہ بچوں کے شعرا و ادبا کی کتابوں پر لکھے گئے پیش لفظ اور مضامین سے ان کی سوچ کا دائرہ، احساس کی شدت اور جذبے کی سچائی کا پتہ چلتا ہے۔ان کے مضامین کا مجموعہ ’اردو زبان کا سوتیلا بچہ ‘ کے نام سے 2005  میں شائع ہوچکا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ علم و ادب سے عدم دلچسپی کا ایک بڑا سبب سوشل میڈیا ہے جس کی وجہ سے عصری ادب کی افہام و تفہیم میں مثبت کردار ادا کرنے والے قارئین کی کمی ایک مسئلہ بنتی جارہی ہے، بستیوں سے لائبریریاں غائب ہوگئی ہیں اور ہاتھوں میں موبائل فون آگئے ہیں۔ ہماری نئی نسل جو ابھی ثانوی مدارس میں زیرِ تعلیم ہے کتابوں سے زیادہ موبائل فون میں دل لگا رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو دور کرنے کے لیے بھی بچوں کے بہترین ادب کی تخلیق بے حد ضروری ہے۔ خطۂ کوکن اس لحاظ سے خوش قسمت رہا ہے کہ اس کو ہر زمانے میں اچھے لکھنے والے میسر آئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ دیارِ کوکن کے قلم کاروں سے ادبِ اطفال روشن ہے اور نئے لکھنے والوں نے اس باب میں پیش رفت کر رکھی ہے۔Dr. Mohd. Danish GaniDept. of UrduGogate Jogalekar CollegeRatnagiri - 415 612Mobile No. 7558600893 کتابوں کی اشاعت اور فروخت کے امکانات کی تلاش کے ساتھ اقدامات پر بھی توجہ ضروری: پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین,https://ncpulblog.blogspot.com/2024/03/,"اردو کتابوں کی اشاعت و فروخت کے ممکنہ طریقوں پر غور و خوض کے لیے جامعات کے شعبہ ہاے اردو کے صدور کی اہم میٹنگنئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں اردو کتابوں کی اشاعت و فروخت کی صورتحال کو بہتر کرنے اور اس حوالے سے نئے امکانات پر غورو خوض کے لیے ایک اہم میٹنگ کا انعقاد کیا گیا،جس میں ہندوستان بھر سے مرکزی و ریاستی جامعات کے شعبہ ہاے اردو کے صدور نے شرکت کی اور انھوں نے اپنی قیمتی رائیں اور تجاویز پیش کیں۔اس میٹنگ کی صدارت جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، شعبۂ اردو کے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کی۔کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے تمام مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے اس میٹنگ کی غرض و غایت بیان کی اور کہا کہ قومی اردوکونسل سے ادب کے علاوہ تاریخ،سماجیات،سائنس،طب وغیرہ پر اب تک1433کتابیںشائع ہوئی ہیں،ان میں عام دلچسپی کے علاوہ  بہت سی کتابیں ایسی ہیں جن کی حیثیت حوالہ جاتی اور نصابی کتب کی ہے،جن کی ریسرچ اسکالرزاور اساتذہ کو ضرورت پڑتی رہتی ہے۔آج کی میٹنگ کا مقصد یہ ہے کہ ان کتابوں کو اردو اساتذہ،اسکالرز اور باذوق قارئین تک پہنچانے کے ممکنہ طریقوں پر غور کیا جائے اور ان  کی فروخت کے نئے امکانات تلاش کیے جائیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے کہ جامعات کے اساتذہ اس حوالے سے  ہمارا خصوصی تعاون کریں گے۔ انھوں نے بتایا کہ قومی اردو کونسل کی جانب سے مختلف سطح کے تعلیمی اداروں، تنظیموں اور قارئین کے ساتھ اس طرح کی میٹنگ آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔اس میٹنگ کے شرکا  و مقررین کا متفقہ خیال  تھا کہجدید ٹکنالوجی کے دور میں بھلے  ہی ایک بڑا طبقہ آن لائن فارمیٹ میں کتابوں کے مطالعے کی طرف منتقل ہوا ہے ،مگر مطبوعہ کتابوں کی اہمیت اب بھی برقرار ہے اور قومی اردو کونسل سے مختلف موضوعات پر ایسی کتابیں شائع ہوتی ہیں،جو اساتذہ اور اسکالرز دونوں کے لیے نہایت مفید  ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نئی کتابوں کی اشاعت تبھی ممکن ہے، جب پہلے سے چھپی ہوئی کتابوں کی نکاسی ہو اور اس میں اردو اساتذہ و طلبہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔شرکا نے کہا کہ اردو کتابوں کی اشاعت اور خریداری کو بڑھانےکے لیے یونیورسٹی کے ریسرچ سکالرز کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے تعلیمی وظائف کا ایک حصہ کتابوں کے لیے ضرور مختص کریں۔چوں کہ نئی نسل کا ایک بڑا طبقہ ٹکنالوجی سے مربوط ہے ،اس لیے یہ رائے بھی سامنے آئی کہ  کتابوں کے ڈیجیٹائزیشن  پر توجہ دی جائے اور مطبوعہ کتابوں کے ساتھ ان کی سافٹ کاپی کی فروخت کے لیے بھی ایک میکانزم تیار کیا جائے،اسی طرح قارئین تک پہنچنے کے لیے جدید تکنیکی ذرائع مثلاً سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیا جائے۔ مقررین نے اس پر بھی زور دیا کہ کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیےضروری ہے کہ کلاس روم لیکچرز میں طلبہ کومطالعے کی طرف راغب  کیا جائے اورنصابی کتابوں کو عصری انداز میں شائع کیا جائے۔شرکا نے اس بات پر بھی زور دیا کہ طلبہ کے ساتھ اساتذہ کے درمیان بھی  کتابیں خریدنے کا عام رجحان فروغ پانا چاہیے،تاکہ طلبہ ان سے تحریک لیں۔ میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ قومی اردو کونسل کی جانب سے تمام جامعات کے شعبہ ہائے اردو کو اس تعلق سے ایک خط بھیجا جائے جس پر شعبوں کے صدر اپنے رفقا اور اسکالرس کے ساتھ تبادلۂ خیال کرکے لائحہ عمل بنائیں گے۔میٹنگ کے صدر پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین نے  اپنی صدارتی گفتگو میں کہا کہ تمام شرکا و مقررین کی تجاویز اور مشورے اہمیت کے حامل تھے، اب ان پر عملی اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ آج کی یہ میٹنگ لوگوں میں کتابوں سے قربت و دلچسپی پیدا کرنے کی تحریک  کاآغاز ہے، امید ہے کہ آپ حضرات کے تعاون سے یہ  تحریک کامیابی سے بھی ہم کنار ہوگی۔ انھوں نے اس کامیاب میٹنگ کے انعقاد کے لیے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال ، کونسل کے شعبہ خرید و فروخت کے انچارج جناب اجمل سعید اور متعلقہ اسٹاف کو مباکباد بیش کی۔ میٹنگ کے شرکا و اظہار خیال کرنے والوں میں پروفیسر احمد محفوظ(جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)، پروفیسر نجمہ رحمانی(دہلی یونیورسٹی، دہلی)، پروفیسر قمرالہدی فریدی(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ)،پروفیسر عارفہ بشری(کشمیریونیورسٹی)،پروفیسرشمس الہدی دریابادی(مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد)،پروفیسر شبنم حمید(الہ آباد یونیورسٹی)،پروفیسر شائستہ انجم نوری(پاٹلی پترا یونیورسٹی)،پروفیسر رضوان علی(رانچی یونیورسٹی)،پروفیسر سورج دیوسنگھ(پٹنہ یونیورسٹی)،پروفیسر اسلم جمشید پوری(چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی،میرٹھ)،پروفیسر سید فضل اللہ مکرم (سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد)، ڈاکٹر عبداللہ امتیاز (ممبئی یونیورسٹی)،ڈاکٹر جاوید رحمانی(آسام یونیورسٹی، سِلچَر)، ڈاکٹر زرنگار یاسمین(مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسٹی، پٹنہ)، ڈاکٹر شاہد رزمی (مونگیر یونیورسٹی، بہار) اور ڈاکٹر خان محمد آصف(گوتم بدھ یونیورسٹی،نوئیڈا) شامل تھے۔محترمہ شمع کوثر یزدانی(اسسٹنٹ ڈائرکٹر اکیڈمک)کے اظہار تشکر کے ساتھ میٹنگ کا اختتام عمل میں آیا۔" عالمی کتاب میلے میں قومی اردو کونسل اور این بی ٹی کے اشتراک سے ‘ہندوستان کے کثیر لسانی منظرنامے میں اردو تہذیب کی عکاسی’ پرمذاکرہ,https://ncpulblog.blogspot.com/2024/02/,"نئی دہلی:دہلی کے پرگتی میدان میں جاری عالمی کتاب میلے میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور این بی ٹی(نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا) کے اشتراک سے ۱۵؍فروری کومیلہ گاہ کے تھیم پویلین میں ’ہندوستان کے کثیر لسانی منظرنامے میں اردو تہذیب کی عکاسی‘ کے عنوان سے ایک مجلسِ مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا،جس میں پروفیسرخواجہ اکرام الدین اور پروفیسر کوثر مظہری نے بہ طورمہمان و مذاکرہ کار شرکت کی،جبکہ اس پروگرام کی نظامت ڈاکٹر شفیع ایوب نے کی۔مذاکرے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے کہا کہ اردو تہذیب کا مطلب ہے ہندوستانی تہذیب، یعنی کثرت میں وحدت کا نمونہ ۔انھوں نے کہا کہ یہ زبان خالص ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی زبان ہے، اردو کے پہلے شاعر امیر خسرونے جس زبان میں شاعری کی ہے، وہی ہندوستان کا اصل رنگ ہے جو اردو زبان کے رگ و پے میں شامل ہے، خسرو کے بعد دکن اور میر و غالب اور بعد تک کی شاعری میں یہ رنگ بہت نمایاں ہے۔خواجہ اکرام نے کہا کہ ہندوستان جس کثیر لسانی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے، اس کا سب سے بہترین نمونہ اردو ہے۔انھوں نے اردو پر دوسری زبانوں کے اثرات اور ہندوستانی زبانوں پر اردو کے اثرات کو شعری مثالوں سے بیان کیا۔انھوں نے کہا کہ ہندوستان کو سمجھنے کے لیے ہندوستانی زبانوں کو پڑھنا پڑے گا اور ان زبانوں میںاردو کی سب سے زیادہ اہمیت ہے،کیوں کہ ہندوستان کے تمام تہذیبی مظاہر کی نمائندگی یہ زبان بخوبی کرتی ہے۔پروفیسر کوثر مظہرینے کہا کہ اردو زبان کی تشکیل میں تمام قومی زبانوں اور تہذیبوں کی آمیزش رہی ہے، اس زبان میں ہر ہندوستانی زبان کے علاوہ عربی ، انگریزی ، پرتگیزی ، ترکی اور دیگر کئی زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے اردو نثر کی کلاسیکی کتاب’آب حیات ‘کے ایک اقتباس کا خصوصی حوالہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ اردو کی کلاسیکی شاعری بھی لسانی تنوع کی نمائندگی کرتی ہے، بلکہ نثر سے زیادہ شاعری میں ہندوستانی تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے۔ پروفیسر مظہری نے کہا کہ اردو تہذیب سلیقہ و شائستگی سکھاتی ہے اور یہ بھی اس کی ایک خاص شناخت ہے، ہندوستانی فلموں کو خوب صورتی و مقبولیت عطا کرنے میں بھی اس کا اہم رول رہا ہے۔ آج گرچہ زبان کے استعمال اور اسے برتنے میں گراوٹ آئی ہے، مگر پھر بھی عموما یہی سمجھا جاتا ہے کہ اگر تہذیب اور سلیقہ مندی سیکھنی ہے تو اردو سیکھنی چاہیے۔ہندی اور اردو کے روابط و اثرات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئےانھوں نے کہا کہ یہ دونوں زبانیں سب سے زیادہ ایک دوسرے سے قریب ہیں اور دونوں نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا ہے۔انھوں نے زبانوں میں مشکل پسندی اور ضرورت سے زیادہ شدھی کرن کو نقصان دہ بتایا اور کہا کہ ہمیں اپنی تخلیقات میں ایسی زبان استعمال کرنی چاہیے ،جو آسانی سے سمجھی جاسکے،تاکہ ہم اپنا پیغام وسیع پیمانے پر لوگوں تک پہنچا سکیں۔اس موقعے پر کونسل کے عملے کے علاوہ بڑی تعداد میں شائقینِ زبان و ادب موجود رہے۔" راسخ عظیم آبادی شخصیت اور شاعری: امام الدین امام,https://ncpulblog.blogspot.com/2024/01/,"راسخ عظیم آبادی اُردوکے معروف شاعرگزرے ہیں۔ ان کاتعلق عہد میروسوداسے ہے۔ان نابغۂ روزگار شعرا کے عہدمیں ہونے کے باوجود راسخ کی اہمیت مسلم ہے کیونکہ میراوردردکے عہد میں صنف شاعری کی زلفیں سنوارنا اور ان کی موجودگی میں اپنی شناخت کو قائمرکھناہی ان کی شعری عظمت کی دلیل۔راسخ نے شاعری میں غزل، رباعی، مرثیہ، نعت، قصیدہ وغیرہ جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تصانیف میں کلیات راسخ ہے جس میںبقول حمیدعظیم آبادی نو، دس قصیدے، چودہ مثنویاں، متعدد قطعے، رباعیاں اور متعدد غزلیں ہیں۔ (راسخ، مؤلفہ:حضرت حمیدعظیم آبادی، ص29)، پروفیسروہاب اشرفی اورلطف الرحمن نے راسخ کی مثنوی کی تعداد19 بتائی ہے۔وہاب اشرفی نے لطف الرحمن اور ممتاز احمد کی تحقیق کی تفصیل نام اور نمبر شمار کے ساتھ تاریخ ادب اردوجلد اوّل میں نقل کردی ہے۔ راسخ کی مثنویوں میں میرکی جھلک نظرآتی اور انداز و اسلوب میں ان کا رنگ بھی غالب نظر آتا ہے۔ گیان چندجین نے اپنی کتاب میں اس بات کی طرف کئی جگہ اشارہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:’’راسخ کی مثنوی جذب عشق و کشش عشق میں بھی میرکی دریائے عشق کے اجزا ہیں۔‘‘(اردومثنوی شمالی ہند میں(جلداوّل)ڈاکٹرگیان چندجین،انجمن ترقی اردوہند، دہلی، 1987، ص 226)راسخ کے نام اور تاریخ پیدائش کے بارے میں کئی اقوال ملتے ہیں۔شادعظیم آبادی نے ان کی تاریخ پیدائش وغیرہ کے حوالے سے اپنی تحقیقی رائے پیش کی تھی جس کی تردیدپروفیسر مختارالدین آرزو نے علی گرھ میگزین کی جلد 24بابت 1948-49،میں کی۔ انھوں نے شادکی رائے کی تردیدکرنے کے بعد کسی نئی تاریخ کاتعین نہیں کیااورنہ یہ کہاکہ فلاں تاریخ ان کے نزدیک صحیح ہے۔بلکہ مختارالدین صاحب نے صرف شاد کی رائے سے اختلاف کرنا ہی کافی سمجھا، اس حوالے سے قاضی عبدالودود ایک مضمون میں جو کہ’نوائے ادب‘ بمبئی کے جنوری 1959 کے شمارے میں شائع ہواتھااپنی رائے کا اظہار کیاتھا، ملاحظہ فرمائیں:’’حقیقت یہ ہے کہ شاد پہلے شخص ہیں جنھوں نے یہ سنہ ولادت(1162ھ)بتایاہے۔ان کے بعد لکھنے والوں نے ان سے بالواسطہ یابلاواسطہ نقل کیا ہے۔اس کی تغلیط کے لیے یہ کافی ہے کہ عبرتی عظیم آبادی نے جو رحلت راسخ کے وقت نوجوان تھے،’ریاض الافکار‘نسخہ خدابخش میں بتایاہے کہ راسخ کی وفات ساٹھ برس میں ہوئی۔ چونکہ تذکرہ مذکورمیں سال وفات 1236ھ ہے، مرقوم ہے، عبرتی کے حساب سے سال ولادت 1176ھ قرار پاتاہے لیکن صحیح سال وفات 1238ھ ہے،اس وقت اگر ساٹھ برس کے تھے تو پیدائش 1178ھ کے قریب ٹھہرتی ہے۔میرا خیال ہے کہ 1167ھ سے چند سال قبل متولد ہوئے۔1171ھ کے لگ بھگ۔‘‘(راسخ عظیم آبادی (مونوگراف) لطف الرحمن، ص)قاضی عبدالودو ایک جگہ اور لکھتے ہیں:’’ہماری رائے میں قدیم روایات کی عدم موجودگی میں سال ولادت کا تعین ناممکن ہے۔رہا1162 وہ کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔عبرتی نے جو بقول بعض شاد مرحوم کے اساتذہ میں تھے اپنے تذکرے میں لکھا ہے کہ راسخ نے 60 برس کی عمر پائی۔اس حساب سے سال ولادت 1180 کے لگ بھگ ٹھہرتا ہے،ہماراذاتی خیال ہے کہ 1170 زیادہ قرین قیاس ہے۔ہم اپنے دلائل اس موقع پر پیش کرنا نہیں چاہتے۔‘‘(معیار، مرتب: قاضی عبدالودود، مئی، 1936، ص243)حمیدعظیم آبادی نے لکھا ہے کہ راسخ مرحوم کے سال پیدائش میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن یہ بات سچ نہیں ہے کیونکہ قاضی عبدالودودکی مذکورہ عبارت میں ہی الگ الگ تاریخ پیدائش ملتی ہے اوردوسری طرف رسالہ سالنامہ ’سہیل‘ علی گڑھ 1936 (مرتبہ:رشید احمدصدیقی) کے شمارے میں ایک مضمون ’بہاراوراردوشاعری‘ کے عنوان سے لکھاگیا ہے۔اس میں بھی مضمون نگار نے شادکی پیش کی گئی تاریخ پیدائش 1162ھ اور تاریخ وفات 1238ھ کوہی درج کیاہے۔اس حوالے سے بات کرتے ہوئے قاضی عبدالودود لکھتے ہیں’’سال وفات اورشاگرد سودا اورتپاں کے متعلق مضمون نگارکی رائے صحیح ہے۔‘‘(معیار،مرتب:قاضی عبدلودود،مئی 1936، ص243)قاضی عبدالودونے مضمون نگار کی اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ سودااورتپاںراسخ کے استاد نہیں ہیں اورراسخ کی تاریخ وفات1238ھ ہے۔تاریخ پیدائش سے قاضی صاحب نے اتفاق نہیں کیایہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام تذکرہ نویس اور محققین 1262ھ سے متفق نہیں ہیں۔حمیدصاحب کی رائے ملاحظہ کیجیے:’’راسخ مرحوم کے سالِ ولادت میں کوئی اختلاف نہیں۔ تمام تذکرہ نویس متفق ہیں کہ آپ کی ولادت کا سال 1162ہجری ہے۔‘‘(راسخ عظیم آبادی،مؤلفہ:حضرت حمیدعظیم آبادی، ص28)راسخ کی پیدائش کے بارے میں پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں:’’راسخ عظیم آبادی کی پیدائش پٹنہ سٹی یعنی عظیم آباد میں ہوئی۔سال پیدائش1757کے لگ بھگ ہے۔‘‘(تاریخ ادب اُردو،وہاب اشرفی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2007،ص264)راسخ عظیم آبادی کی تاریخ پیدائش اور وفات میں اختلاف کے حوالے سے معروف ومستندمحقق قاضی عبدالودود کے رسالہ ’معیار‘میں بھی کچھ باتیں ملتی ہیں۔یہ عبارت آرزوجلیلی کی ہے،واضح رہے کہ آرزو جلیلی قاضی عبدالودود کے معاون کی حیثیت سے ’معیار‘کے کاموں میں شامل تھے۔ملاحظہ فرمائیں:’’راسخ عظیم آبادی کے سنہ وفات کے متعلق مرتب نے صرف گارساں دتاسی کا قول نقل کیا ہے،جونہایت بے پرواتذکرہ نگار ہے۔دتاسی نے سال وفات 1240ھ لکھا ہے، لیکن صحیح سال وفات1238ھ ہے جو’سخن شعرا‘ مرتبہ نساخ میں درج ہے۔یاس آروی کے دیوان میں راسخ کی وفات کاقطعہ تاریخ ہے جس سے 1283ھ نکلتا ہے۔‘‘(معیار، مرتب: قاضی عبدالودود، بانکی پور (پٹنہ) اپریل 1936، ص119-20)اسی تاریخ وفات سے حمیدعظیم آبادی نے بھی اتفاق کیاہے۔ وہ اپنی کتاب ’راسخ عظیم آبادی‘ کے صفحہ 19پر اسی تاریخ1238ھ سے اتفاق کرتے ہیں جوکہ یاس آروی اورمولوی عبدالحئی صاحب گل رعنا کی بھی رائے ہے۔راسخ کے مکمل حالات زندگی کے بارے میں بھی صحیح اور پختہ معلومات نہیں ملتیں۔ اس حوالے سے وہاب اشرفی فرماتے ہیں:’’راسخ کی زندگی کے تفصیلی احوال نہیں ملتے لیکن اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عربی اور فارسی زبان پر خاصی دسترس رکھتے تھے۔عروض وبلاغت پربھی قدرت تھی۔‘‘(تاریخ ادب اُردو،ص265)راسخ عظیم آبادی نے شاعری میں کس کی شاگردی اختیار کی اس حوالے سے کئی نام سامنے آتے ہیں جن میں سودا،شرر،تپاں، میرتقی میراور فدوی وغیرہ کانام شامل ہے۔ ان ناموں میںیہ بات ضرور صحیح ہے کہ راسخ نے شروع میں فدوی کو اپنے کلام دکھلائے اور بعدمیں میر تقی میرکی شاگردی اختیار کرلی۔ایک شعرسے فدوی کی شاگردی کا اندازہ ہوتا ہے وہ شعرملاحظہ فرمائیں؎شاگرد ہوں گے حضرت فدوی کے بے شمارراسخ ہوں ایک میں بھی ولے کس شمار میںوہ میرتقی میرکے بھی شاگرد ہیں اور اس کا اعتراف انھوں نے متعدداشعارمیں کیاہے۔ان کا ایک بہت مشہور شعراس حوالے سے ہے؎شاگرد ہیں ہم میر سے استاد کے راسخاستادوں کا استاد ہے استاد ہمارادوشعراورملاحظہ فرمائیں جن سے میر سے تلمذکاصاف اندازہ ہوتاہے؎راسخ کو ہے میر سے تلمذیہ فیض ہے ان کی تربیت کایارب رہیں سلامت تاحشر حضرت میرفیض سخن نے ان کے میرا سخن بنایامذکورہ اشعار کی روشنی میں میرتقی میرکی شاعرانہ عظمت کا بھی بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ کس طرح راسخاپنی قسمت پرنازاں ہیں کہ ان کااستاد میرتقی میرہے جو استادوں کا استاد ہے۔محمدحسین آزاد نے سوداکو بھی راسخ کااستاد بتایا ہے لیکن اس بات کی تردید وہاب اشرفی اور دیگر اہل علم نے کی ہے۔آزاد لکھتے ہیں:’’راسخ عظیم آبادی کا دیوان میں نے دیکھا ہے۔ بہت سنجیدہ کلام ہے۔پرانے مشاق تھے اور سب ادھرکے لوگ انھیں استاد مانتے تھے۔مرزاکے پاس شاگرد ہونے کوآئے۔مرزانے کہاشعرسنائیے۔انھوں نے پڑھا؎ہوئے ہیں ہم ضعیف اب دیدنی رونا ہمارا ہےپلک پر اپنی آنسو صبح پیری کا ستارا ہےمرزانے اٹھ کر گلے لگالیا۔‘‘(آبِ حیات، محمدحسین آزاد، اُترپردیش اُردواکادمی، 2021، ص174)محمدحسین آزادکی مذکورہ بات کی تردیداس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جس طرح سے راسخ نے فدوی اور میرتقی میرکو اپنا استاد ماننے سے انکار نہیں کیااوراشعارمیں اس بات کا اعتراف کیا ہے اگر سوداراسخ کے استاد ہوتے توضرورراسخ اس امر کا اعتراف کرتے کیونکہ سوداسے شرف تلمذ کوچھپانے کی کوئی وجہ نظرنہیں آتی۔ سودابھی میرتقی میرکے برابر ہیں بلکہ بعض معاملوں(مثلاًقصیدہ) میں میرسے آگے بھی نظرآتے ہیں۔حمیدعظیم آبادی نے شادعظیم آبادی کے حوالے سے لکھا ہے کہ:’’جناب شاداِن کو مرزاشرر(تلمیذ تحقیق)کابھی شاگرد لکھتے ہیں۔شیخ صاحب نے اپنے بالکل ابتدائی کلام پرمرزاشرر سے اصلاح لی تھی۔‘‘(راسخ عظیم آبادی،مؤلفہ:حضرت حمیدعظیم آبادی، ص22)وہاب اشرفی نے راسخ کے اساتذہ کے بارے میں لکھتے ہوئے محمدحسین آزاد، شادعظیم آبادی اور ان کی رائے کو نقل کرنے والے حمیدعظیم آبادی کی باتوں کی تردید کی ہے:’’راسخ عظیم آبادی کس کے شاگرد تھے۔اس باب میں خاصی بحث ملتی ہے۔ان کے استادوں میں شرر، تپاں اور سوداکابھی نام آتاہے۔لیکن ان سب کی تردیدہوچکی ہے۔ابتدا میں موصوف نے فدوی سے ضرور اصلاح لی تھی لیکن وہ اصلاًمیرتقی میر کے شاگردتھے۔‘‘(تاریخ ادب اُردو، ص، 265)راسخ کی شاعری میں صوفیانہ کلام بھی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جیساکہ دبستان دہلی کی خصوصیات میں سے تصوف ایک بڑی خصوصیت ہے۔ اس لیے اس رنگ میں رنگ جاناراسخ کے لیے کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ان کی طبیعت میں استغنااور بے نیازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ان کی ذاتی زندگی بھی خوشحال نہیں تھی میرکی طرح ان کی مثنویوں میں بھی معاشی بدحالی اور غزل میں بھی زندگی کے نشیب و فرازوغیرہ کا ذکر خوب ملتا ہے۔ کہاجاتاہے کہ انسان جب عشق مجازی میں تپ کرکندن ہوجاتا ہے تب وہ عشق حقیقی کی طرف بڑھتا ہے۔ راسخ کے وہ اشعارملاحظہ فرمائیں جن میں تصوف کی جھلک ملتی ہے؎مجکو دیوانہ بنا گلیوں میں پھروانا نہ تھاپردہ کرنا تھا تو پہلے جلوہ دکھلانا نہ تھادھواں آہوں کا پہنچے آسماں تکمحبت آتش افگن ہو یہاں تکراسخ کاکلام کئی اعتبارسے اہمیتوں کاحامل ہے ان کی زبان صاف ستھری اور سہل ہے کہیں کہیں پرانے طرز کی اُردوکی وجہ سے ثقالت اور بھاری پن کااحساس بھی ہوتا ہے۔لیکن ان کے کلام میں ایسے اشعارکثرت سے ملتے ہیں جن میں شستہ، آسان، دلکش انداز و اسلوب اور زبان کا استعمال ہوا ہے۔جن کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاری روبہ رو باتیں کررہا ہو۔اشعارملاحظہ فرمائیں؎کس مسرت سے جی دیا ہوگاکیا ہوا ہوگا کیا ہوا ہوگاکس طرح یقین آوے مجھے آنے کا تیرےاِک بار اگر ہاں ہے تو سو بار نہیں ہےجینا دشوار ہو گیا ہےمیرا تو چھری تلے گلا ہےراسخ نے کبھی کسی شاعرکی ہجو نہیں لکھی جیساکہ اس وقت کا عام رواج تھا کہ ایک شاعر دوسرے کی جو ہلکی سی بات پر کہہ دیتا تھا، ان میں میراورسوداوغیرہ کانام سرِ فہرست ہے لیکن اس ماحول اور عہد میں رہتے ہوئے بھی راسخ نے اس سے اپنے دامن کو محفوظ رکھا۔راسخ کے کلام میں ایسے اشعاربھی موجودہیں جن میں انسانی و معاشرتی زندگی اور ان میں پیش آنے والی انسانی جبلتوں کا ذکر ہوا ہے۔جس سے اس وقت کی اخلاقی اور معاشرتی زندگی پر بھی روشنی پڑتی ہے؎کیا عہد ہے کہ سچے کو احمق کہے ہے خلقدانا وہی ہے اب جو کہے سر بسر دروغراسخ کے کلام میں نصیحت آموز اور سبق دینے والے اشعاربھی ہیںجن کو اصلاحی بھی کہہ سکتے ہیں؎وہ سعی کر کہ تجکو حاصل ہو دولت دیںمنعم متاعِ دنیا، کتنی ہے، کس قدر ہےکورانہ، نہ طے کیجو راہِ طلب یارہاں دیکھیو پامال کوئی خار نہ ہووےراسخ عظیم آبادی کے اشعارمیں صنائع بدائع کااستعمال بھی خوبصورتی کے ساتھ آب و تاب سے ہوا ہے۔ان کے یہاں ایک ہی جگہ آمداورآوردکی عمدہ مثال دیکھنے کو ملتی ہے؎ترے ہاتھوں ارباب دیں خوار ہیںترے ہاتھوں تسبیحیں زنار ہیںوہ آزاد مردِ خرد مند تھاکہ دام محبت کا پابند تھاراسخ کے یہاں گوشت پوست کے محبوب کی محبت کاپاکیزہ بیان اوراس کی بے اعتنائی، دلکشی،دلفریبی، شوخی اور نزاکت کے ساتھ ساتھ اس کی اداؤں اورشوخیوں کی خوش نمائی کابھی بیان خوب ہوا ہے۔ان کے یہاں میرکی طرح آنسواوررونے دھونے کابھی ذکر ملتاہے۔ مثلاً؎یہ کم کم دیکھنا بھی اِک ادا ہےحجاب آمیز شوخی، خوش نما ہےنہ تارِ پیرہن زنہار بھاویںمجھے آنسوؤں کے تار بھاویںجگہ جگہ تعلّی کی مثالیں بھی ملتی ہیںجن میں انھوں نے اپنے اشعارکو میرکے بعد عمدہ اشعار گردانا ہے۔ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ راسخ عظیم آبادی خود کو میر کاوارث مانتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ میرتقی میرچونکہ استاد تھے اسی لیے استاد کا رنگ شاگرد (راسخ) کے کلام پر چھا گیا ہے اور وہ خود کو میر کے بعد سب سے اہم شاعر گردانتے ہیں۔اشعار دیکھیے؎ہیں میر گزشتہ کے بدل حضرت راسخاب ان کو سلامت رکھے اللہ تعالیٰزندہ ہے نام میر راسخ سےکون ہے شاعروں میں ایسا آجراسخ کو اپنے اہل وطن سے بھی شکایت ہے ان کاماننا ہے کہ ان کی قدر جس طرح ہونی چاہیے تھی اس طرح نہیں ہوئی ہے اور ان کی تربت بھی ایک چادر کوترس رہی ہے۔ ایسالگتا ہے کہ شایدشادنے انھیں کاروناروتے ہوئے پردہ پوشان وطن سے شکایت کی تھی۔ چنانچہ وہ متعدد اشعارمیں اس بات کی شکایت اہلِ وطن سے کرتے ہیں جن میں زبان حال سے ان کی بے اعتنائی کا شکوہ ہے؎نظر والے نہیں ہیں درمیاں ابکریں عرضِ ہنر جاکر کہاں ابان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ راسخ کافکری اور فنی دائرہ محدود نہیں تھابلکہ وہ ایک وسیع کینوس کے شاعر ہیں۔وہ بیک وقت اپنے اشعارکے ذریعے کئی معرکے سر کرتے چلتے ہیں۔ ان کے سینے میں دھڑکتاہوا دل ہے،تو ساتھ ہی اس دل میں سارے جہان کا دردبھی موجود ہے۔ ان کے کلام میں زبان اور بیان کی صفائی ہے تو موسیقی سے شغف کی وجہ سے اشعارمیں نغمگی، تازگی اورروانی کا بھی بھرپورامتزاج ہے۔عروض اور بلاغت پر دسترس ہونے کی وجہ سے وہ بہترین آہنگ کی بحروں کا استعمال کرتے ہیںاوراسی کی مناسبت سے عمدہ الفاظ کا انتخاب بھی کرنے میں پیچھے نہیں رہتے۔وہ ایسے ایسے خوبصورت الفاظ کا استعمال فنکارانہ انداز میں کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زبان و بیان پر انھیں غیرمعمولی قدرت حاصل تھی۔Imamuddin ImamResearch ScholarDeptt. of UrduUniversity of DelhiMob.- +91 62061 43783" گلزار دہلوی کا شعری انفراد:سجاد احمد نجار,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/,"پنڈت آنند کمار زتشی جو اردو دنیا، خاص کر اردو شعر و ادب، میں گلزار دہلوی کے قلمی نام سے معروف تھے 12 جون بہ روز جمعہ 94 سال کی طویل عمر پا کر ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔گلزار دہلوی کشمیری برہمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی ولادت دہلی میں 1926 میں ہوئی۔ گلزار دہلوی کے والد پنڈت تر بھون ناتھ ’ زتشی زاردہلوی‘ کے بارے میں یہ بات کتابوں میں درج ہے کہ وہ داغدہلوی کے پہلے شاگرد رہے ہیں۔ اسی طرح ان کی والدہ اور ماموں بھی شعرو شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے۔جن کا خاندان شعر و شاعری کے رنگ میں ابتدا ہی سے رنگا ہوا ہو ایسے میں اس خاندان کی نئی نسل کیسے اپنے آپ کو شعر و شاعری سے دور رکھ سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گلزار دہلوی کی زندگی اردو شعرو ادب کے لیے وقف ہوئی تھی اور اس کا ثبوت انھوں نے تا دمِ مرگ دیا۔ گلزار دہلوی کی زندگی کی کہانی میں طرح طرح کے رنگ سمائے ہوئے ہیں۔بچپن ہی سے محبِ وطن ثابت ہوئے اور وطن کے لیے نظمیں کہنے لگے۔گلزار دہلوی نے شعر گوئی کا سفر 1933 کے آس پاس سے شروع کیا۔ شاعری میں انھیں پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی، نواب سراج الدین خان اور پنڈت امرناتھ مدن ساحر وغیرہ کی شاگردی کا شرف نصیب ہوا۔ انھوں نے اردو شاعری کو اس انداز سے برتا کہ ان کی شاعری گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ بن گئی۔ گلزار کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر کا ایک خوب صورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ حقیقتاً اردو شعر و ادب کے ایسے آخری بزرگ تھے جن کے یہاں تہذیبی تجربوں کے عمدہ نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں مشترکہ تہذیب کے حسن و جمال اور خوبیوںکے اظہار کو ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ان کے یہاں امن و شانتی، بھائی چارہ اور مساوات کا عمدہ میلان پایا جاتا ہے۔ وہ ہر ایک مذہب کی ناموس کا خاص خیال رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب وہ عالمی امن کی بات کرتے ہیں تو تمام مذاہب کے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں؎خوابِ غفلت سے جوانوں کو جگانے کے لیےجنگکےفتنہ کودنیا سے مٹانے کے لیےحامیانِامنکیاس بزمِ رنگا رنگ سےہرعدوئےامن کوآیا ہوں میں للکارنےمذکورہ اشعار گلزار دہلوی کی ایک طویل نظم ’ نغمۂ انسانیت‘ میں شامل ہیں۔ اس نظم میں وہ خدا، پیغمبر، اوتار، عیسیٰؑ، موسیٰ، قرآن، محمد صلعم، وید گیتا، رام، رحمان کے بعد باقی عظیم ہستیوں جیسے سوامی ویر، گرو نانک،گاندھی وغیرہ کی قسمیں دے کر اتحاد و اتفاق کی بات کچھ اس طرح سے کرتے ہیں؎دہر کو پھر جنگ کے شعلوں پہ گرنے سے بچاؤابسفینہ آدمیتکا کنارے سےلگاؤمتفقہو جا ؤدنیاکو جگانےکے لیےدہر میں امن و اماں کے گیت گانے کے لیےجب کبھییہنغمہ انسانیت کا گاتا ہوں میںہرعدوئےامن کو گلزارشرماتا ہوں میںان کے یہاں ماضی کے تہذیبی اور ثقافتی نقوش کی جو تصویریں ملتی ہیں ان کی مثال لا مثال ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دہلی کی ٹھیٹھ اردو ان پر آکے رکتی ہے۔ ان کے منفرد انداز اور فصاحت کے یہ نمونے دیکھیے؎تہذیباور تمدنایمان اور عقیدتقائم رہے گا سب کا امن و اماں رہے گایہ وہ گلزار ہستی ہے یہاں دریا تو ملتے ہیںدلوں کیموج کا لیکن کہیں سنگم نہیںملتاایکہی نغمہ اذاں کا زمزمہ ناقوس کاسرد مہری کی فضا میں گرمیاںپیدا کریںگنگا جمنی تہذیب کے آخری سفیر تھے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے گفتار و کردار کے ساتھ ساتھ اپنے کلام کے ذریعے بھی قومی اتحاد اور بھائی چارے کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔انھوں نے ہندوستانی تہذیب کی بقا اور اس کے فروغ کی نمائندگی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ کلیاتِ گلزار دہلوی میں ایسی بھی نظمیں ہیں جن میں عید، ہولی، دیپاولی، شب قدر، رمضان المبارک اور ہندوستانی موسموں کو اپنے خوب صورت اور دلکش اسلوب میں پیش کر کے اپنی انفرادی شان کا منہ بولتا ثبوت پیش کیا ہے۔ گلزار دہلوی کی شاعری میں حیدر آباد، لکھنؤ، علی گڑھ اور کشمیر وغیرہ جیسی جگہوں کی بھی عکاسی کی ہے۔ ان جگہوں کی تعریف میں یہ اشعار ملاحظہ کیجیے؎چشمِ نرگس کی طرح وہ عشق کا بیمار ہےہاں علی گڑھ دہر میں تہذیب کا گلزارہےدہر میں دائم رہیں اللہ اس کے رنگ و بولکھنؤ والو مبارک تم کوجشنِ لکھنؤچپہچپہگلشنِ کشمیرکارنگینہےکان قدرت کا یہ لعل بے بہا رنگین ہےگلزار دہلوی نے غزل، نظم، نعت،منقبت، رباعی اور قطعہ وغیرہ میں طبع آزمائی کر کے اپنے کمالات کا خوب مظاہرہ کیاہے۔ ان تمام شعری اصناف میں انھوں نے ایسے تجربے پیش کیے ہیں جو ان کی انفرادیت قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوئے۔ گلزار ایک خاص لب و لہجے اور اندازِ فکر کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں جمالیات، فطرتِ کائنات، حب الوطنی، قومی یکجہتی،مذہبی مساوات، سیکولرازم، عشق و عاشقی، عصری حسیت،وغیرہ جیسے مضامین کا انوکھا اظہار ملتا ہے۔گلزار دہلوی نے اردو غزل اور نظم میں جہاں ایک طرف اپنے احساسات و جذبات کا بے ساختہ اظہار کیا ہے وہیں دوسری جانب انھوں نے حمد،نعت، منقبت و مناجات کے علاوہ دوسرے مذاہب کی خوبیوں کو بھی پیش کر کے ہندستانی تہذیب کو پیش کیا ہے۔ کلیاتِ گلزار دہلوی میں قطعات و رباعیات بھی شامل ہیں اور ان کے موضوعات بھی وہی ہیں جو ان کی باقی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ یعنی ان کی رباعیات اور ان کے قطعات میں مذہبی، اصلاحی،جمالیاتی، سماجی، سیاسی، تہذیبی، ملی، اور اس طرح کے دوسرے جذبات کی عکاسی ملتی ہے۔ موصوف اردو کی شان اور اس کی عظمت کو کچھ اس طرح سے پیش کرتے ہیں؎ادیان کے سنگم کا نشاںہے اردویکجہتی عالم کیزباںہےاردوشائستہ تہذیبجو مرکزتھا کبھیاس دلی مرحوم کی جاںہے اردوگلزار دہلوی کو امیر خسرو کی ذات و صفات اور ان کی شعری کائنات کے ساتھ ایک خاص لگاؤ تھا۔ وہ امر خسرو کے کلام کو حدیثِ خسرو کے عنوان سے پیش کرتے ہیں اور اس کی وضاحت تفسیرِ گلزار کے عنوان سے پیش کرتے ہیں۔ امیر خسرو کے علاوہ گلزار دہلوی کو حضرت نظام الدین اولیاؒ کے ساتھ بھی گہری عقیدت تھی۔ اسی عقیدت کی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ نظامی و خسروی کا استعمال کیا کرتے تھے۔گلزا ر دہلوی کے مراسم اردو کے بلند پایہ شعرا اور ادبا کے ساتھ ہے۔ ان فن کاروں میں قاضی عبدالغفار، خواجہ حسن نظامی، چکبست، جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی، پروفیسر نثار احمدفاروقی اورڈاکٹر جمیل جالبی وغیرہ شامل ہیں ان تمام ادبی شخصیات نے گلزار دہلوی کی شعری عظمتوں کا اعتراف کیا ہے۔ پروفیسر آل احمد سرور بھی گلزار دہلوی کی انفرادیت کے قائل ہیں۔ وہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:’’میں تو آپ کی ادب دوستی، ذہانت، شاعری اور فن تقریر کا 1946 جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سلورجوبلیکے دور ہی سے قائل ہوں۔ آپ ایک اعلیٰ پایہ کے شاعرہی نہیںبلکہ اردو کے محسن ہیں۔ آپ اردوکے ممتاز اہلِ زبان کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے یہ فن آپ کا خاندانی ہے۔علامہ زار زتشی دہلوی یادگار داغ اورنواب سائل نے آپ کی تربیت کی ہے۔ گلزار دہلوی بجا طور پر ان کے جانشین کہلانے کے حقدار ہیں۔‘‘(گلزارِ غزل، گلزار دہلوی، مکتبہ الیوم دہلی، 2000، ص،3)گلزار دہلوی صحیح معنوں میں اردو شعرو ادب کے ایسے سالار تھے جنھوں نے تا دمِ مرگ اس زبان کے ادب کا ساتھ دیوانہ وار نبھایا۔گلزاردہلوی کی انتھک کوششوں کے صلے میں دلی سے کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ حکومتِ ہند نے سائنس کو عام فہم اور آسان بنانے کے ضمن میں ان کی ادارت میں ’’ سائنس کی دنیا‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی مجلہ شائع کیا۔ یہ رسالہ بر صغیر ہندو پاک کا واحد ایسا رسالہ تھا کہ جو کسی اردو شاعر کی نگرانی میں نکلتا تھا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ گلزار ایک منجھے ہوئے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے ادیب، صحافی اور سائنس کے پاس دار بھی تھے۔وہ اردو کے ایک سچے عاشق تھے۔ انھیں اس زبان سے بے پناہ محبت تھی اس کا اظہار ان کی اس رباعی سے خوب ہوتا ہے؎دنیامیں تو اونچا ہے کلامِاردوعقبیٰ میں بھی اونچا ہے نامِ اردوجبحشر میں ہو نام شماری آقامنظور کہ کہلاؤںغلامِاردومیر مشتاق نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ گلزار کو ’علامہ اور بابائے سائنسی صحافت‘ کا مقام حاصل ہے۔ وہ انھیں دلی کی اور اردو کی آبرو بھی سمجھتے ہیں۔تابش دہلوی انھیں ’نادر الوجودِ چمنستان‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔مولانا عتیق الرحمان عثمانی انھیں ’ اردو اور اردو والوں کی امانت‘ قرار دیتے ہیں۔مولانا احمد سعید اسیر دہلوی ان کو ’اردو کے شیدائی اور ادب کے فدائی‘ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔مولانا حفیظ الرحمٰن نے انھیں ’ اردو کا مرد، مجاہد‘ کہا ہے۔ خواجہ نظامی ان کو ’ چکبستِ ثانی‘ سے یاد کرتے ہیں۔ اس طرح کئی ایسی شخصیات ہیں جنھوں نے گلزار دہلوی کی اردو ادبی خدمات کے اعتراف میں لب کشائی کر کے انھیں خراج پیش کیا ہے۔آفتاب عالم نائب ایڈیٹر روزنامہ ہندی’’نر بھے پتھک‘‘ گلزار کی شان میں کہتے ہیں:’’ ...اے مجاہد اردو تیری کیا تعریف کروں، سچ مچ ہم نے سپنے میں بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک کشمیری پنڈت بے لوث بے غرض طور سے اردو زبان کو زندہ رکھنے اور اس کی ترقی کے لیے اتنا کام کر سکتا ہے جتنا کہ پنڈت آنندموہن زتشی گلزار نظامی دہلوی نے اپنی ذات سے اکیلے ہی کیا...گلزاردہلوی اردو کے درخت ہیں جو سوکھ تو سکتے ہیں لیکن کبھی مرجھا نہیں سکتے۔ مختصراً اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنے آپ میں اردو کی ایک انجمن ہیں تو کوئی غلط نہیں ہوگا۔‘‘(گلزار دہلوی، گلزار غزل، مکتبہ الیوم دہلی، 2000، ص،39,40)مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو گلزار دہلوی ہر لحاظ سے منفرد رہے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں اور ان کی کوششیں نہ صرف ملک و قوم کے لیے فیض رساں ہیں بلکہ وہ آنے والی نسل کے لیے راہِ عمل بھی ہیں۔گلزار دہلوی کو اردو زبان و ادب کے ساتھ ایک عجیب تعلق تھا۔ وہ ہمیشہ اسی زبان کے گیت گاتے رہے اور ہمیشہ اس کے فروغ کے لیے منہمک رہے۔آپ اردو سے اس قدر دیوانہ وار محبت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس کے لیے ہر پل بے تاب نظر آتے ہیں۔ اردو کی شان میں جتنے اشعار گلزار دہلوی نے کہے ہیں، شاید ہی کسی دوسرے شاعر نے اتنے اشعار پیش کیے ہوں۔ آپ انسانیت کے محب، قوم کے سپاہی، تہذیب و تمدن کے وارث، مذہبی رواداری کے عاشق اور اردو شعر و ادب کے شیدائی کے طور پر ادبی اور غیر ادبی حلقوں میں مشہور ہیں۔ گلزار نے اردو شعرو ادب میں ایسی چھاپ چھوڑی ہے جس کو ہمیشہ اردو شعرو ادب کی تاریخ میں رقم کیا جائے گا۔ انھوں نے کیا خوب کہا ہے؟؎میں وہ ہندو ہوں کہ نازاں ہیں مسلمانجس پردل میںکعبہہے مرے دل ہے صنم خانوں میںجوشکاقولہےاوراپنا عقیدہگلزارہمساکافرنہاٹھاکوئیمسلمانوںمیںSajad Ahmad NajarR/O Azad Colony WashbughPulwama- 192301 (J&K)Mob.: 9858667464" گلزار دہلوی کا شعری انفراد:سجاد احمد نجار,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/12/,"پنڈت آنند کمار زتشی جو اردو دنیا، خاص کر اردو شعر و ادب، میں گلزار دہلوی کے قلمی نام سے معروف تھے 12 جون بہ روز جمعہ 94 سال کی طویل عمر پا کر ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔گلزار دہلوی کشمیری برہمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی ولادت دہلی میں 1926 میں ہوئی۔ گلزار دہلوی کے والد پنڈت تر بھون ناتھ ’ زتشی زاردہلوی‘ کے بارے میں یہ بات کتابوں میں درج ہے کہ وہ داغدہلوی کے پہلے شاگرد رہے ہیں۔ اسی طرح ان کی والدہ اور ماموں بھی شعرو شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے۔جن کا خاندان شعر و شاعری کے رنگ میں ابتدا ہی سے رنگا ہوا ہو ایسے میں اس خاندان کی نئی نسل کیسے اپنے آپ کو شعر و شاعری سے دور رکھ سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گلزار دہلوی کی زندگی اردو شعرو ادب کے لیے وقف ہوئی تھی اور اس کا ثبوت انھوں نے تا دمِ مرگ دیا۔ گلزار دہلوی کی زندگی کی کہانی میں طرح طرح کے رنگ سمائے ہوئے ہیں۔بچپن ہی سے محبِ وطن ثابت ہوئے اور وطن کے لیے نظمیں کہنے لگے۔گلزار دہلوی نے شعر گوئی کا سفر 1933 کے آس پاس سے شروع کیا۔ شاعری میں انھیں پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی، نواب سراج الدین خان اور پنڈت امرناتھ مدن ساحر وغیرہ کی شاگردی کا شرف نصیب ہوا۔ انھوں نے اردو شاعری کو اس انداز سے برتا کہ ان کی شاعری گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ بن گئی۔ گلزار کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر کا ایک خوب صورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ حقیقتاً اردو شعر و ادب کے ایسے آخری بزرگ تھے جن کے یہاں تہذیبی تجربوں کے عمدہ نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں مشترکہ تہذیب کے حسن و جمال اور خوبیوںکے اظہار کو ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ان کے یہاں امن و شانتی، بھائی چارہ اور مساوات کا عمدہ میلان پایا جاتا ہے۔ وہ ہر ایک مذہب کی ناموس کا خاص خیال رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب وہ عالمی امن کی بات کرتے ہیں تو تمام مذاہب کے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں؎خوابِ غفلت سے جوانوں کو جگانے کے لیےجنگکےفتنہ کودنیا سے مٹانے کے لیےحامیانِامنکیاس بزمِ رنگا رنگ سےہرعدوئےامن کوآیا ہوں میں للکارنےمذکورہ اشعار گلزار دہلوی کی ایک طویل نظم ’ نغمۂ انسانیت‘ میں شامل ہیں۔ اس نظم میں وہ خدا، پیغمبر، اوتار، عیسیٰؑ، موسیٰ، قرآن، محمد صلعم، وید گیتا، رام، رحمان کے بعد باقی عظیم ہستیوں جیسے سوامی ویر، گرو نانک،گاندھی وغیرہ کی قسمیں دے کر اتحاد و اتفاق کی بات کچھ اس طرح سے کرتے ہیں؎دہر کو پھر جنگ کے شعلوں پہ گرنے سے بچاؤابسفینہ آدمیتکا کنارے سےلگاؤمتفقہو جا ؤدنیاکو جگانےکے لیےدہر میں امن و اماں کے گیت گانے کے لیےجب کبھییہنغمہ انسانیت کا گاتا ہوں میںہرعدوئےامن کو گلزارشرماتا ہوں میںان کے یہاں ماضی کے تہذیبی اور ثقافتی نقوش کی جو تصویریں ملتی ہیں ان کی مثال لا مثال ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دہلی کی ٹھیٹھ اردو ان پر آکے رکتی ہے۔ ان کے منفرد انداز اور فصاحت کے یہ نمونے دیکھیے؎تہذیباور تمدنایمان اور عقیدتقائم رہے گا سب کا امن و اماں رہے گایہ وہ گلزار ہستی ہے یہاں دریا تو ملتے ہیںدلوں کیموج کا لیکن کہیں سنگم نہیںملتاایکہی نغمہ اذاں کا زمزمہ ناقوس کاسرد مہری کی فضا میں گرمیاںپیدا کریںگنگا جمنی تہذیب کے آخری سفیر تھے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے گفتار و کردار کے ساتھ ساتھ اپنے کلام کے ذریعے بھی قومی اتحاد اور بھائی چارے کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔انھوں نے ہندوستانی تہذیب کی بقا اور اس کے فروغ کی نمائندگی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ کلیاتِ گلزار دہلوی میں ایسی بھی نظمیں ہیں جن میں عید، ہولی، دیپاولی، شب قدر، رمضان المبارک اور ہندوستانی موسموں کو اپنے خوب صورت اور دلکش اسلوب میں پیش کر کے اپنی انفرادی شان کا منہ بولتا ثبوت پیش کیا ہے۔ گلزار دہلوی کی شاعری میں حیدر آباد، لکھنؤ، علی گڑھ اور کشمیر وغیرہ جیسی جگہوں کی بھی عکاسی کی ہے۔ ان جگہوں کی تعریف میں یہ اشعار ملاحظہ کیجیے؎چشمِ نرگس کی طرح وہ عشق کا بیمار ہےہاں علی گڑھ دہر میں تہذیب کا گلزارہےدہر میں دائم رہیں اللہ اس کے رنگ و بولکھنؤ والو مبارک تم کوجشنِ لکھنؤچپہچپہگلشنِ کشمیرکارنگینہےکان قدرت کا یہ لعل بے بہا رنگین ہےگلزار دہلوی نے غزل، نظم، نعت،منقبت، رباعی اور قطعہ وغیرہ میں طبع آزمائی کر کے اپنے کمالات کا خوب مظاہرہ کیاہے۔ ان تمام شعری اصناف میں انھوں نے ایسے تجربے پیش کیے ہیں جو ان کی انفرادیت قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوئے۔ گلزار ایک خاص لب و لہجے اور اندازِ فکر کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں جمالیات، فطرتِ کائنات، حب الوطنی، قومی یکجہتی،مذہبی مساوات، سیکولرازم، عشق و عاشقی، عصری حسیت،وغیرہ جیسے مضامین کا انوکھا اظہار ملتا ہے۔گلزار دہلوی نے اردو غزل اور نظم میں جہاں ایک طرف اپنے احساسات و جذبات کا بے ساختہ اظہار کیا ہے وہیں دوسری جانب انھوں نے حمد،نعت، منقبت و مناجات کے علاوہ دوسرے مذاہب کی خوبیوں کو بھی پیش کر کے ہندستانی تہذیب کو پیش کیا ہے۔ کلیاتِ گلزار دہلوی میں قطعات و رباعیات بھی شامل ہیں اور ان کے موضوعات بھی وہی ہیں جو ان کی باقی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ یعنی ان کی رباعیات اور ان کے قطعات میں مذہبی، اصلاحی،جمالیاتی، سماجی، سیاسی، تہذیبی، ملی، اور اس طرح کے دوسرے جذبات کی عکاسی ملتی ہے۔ موصوف اردو کی شان اور اس کی عظمت کو کچھ اس طرح سے پیش کرتے ہیں؎ادیان کے سنگم کا نشاںہے اردویکجہتی عالم کیزباںہےاردوشائستہ تہذیبجو مرکزتھا کبھیاس دلی مرحوم کی جاںہے اردوگلزار دہلوی کو امیر خسرو کی ذات و صفات اور ان کی شعری کائنات کے ساتھ ایک خاص لگاؤ تھا۔ وہ امر خسرو کے کلام کو حدیثِ خسرو کے عنوان سے پیش کرتے ہیں اور اس کی وضاحت تفسیرِ گلزار کے عنوان سے پیش کرتے ہیں۔ امیر خسرو کے علاوہ گلزار دہلوی کو حضرت نظام الدین اولیاؒ کے ساتھ بھی گہری عقیدت تھی۔ اسی عقیدت کی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ نظامی و خسروی کا استعمال کیا کرتے تھے۔گلزا ر دہلوی کے مراسم اردو کے بلند پایہ شعرا اور ادبا کے ساتھ ہے۔ ان فن کاروں میں قاضی عبدالغفار، خواجہ حسن نظامی، چکبست، جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی، پروفیسر نثار احمدفاروقی اورڈاکٹر جمیل جالبی وغیرہ شامل ہیں ان تمام ادبی شخصیات نے گلزار دہلوی کی شعری عظمتوں کا اعتراف کیا ہے۔ پروفیسر آل احمد سرور بھی گلزار دہلوی کی انفرادیت کے قائل ہیں۔ وہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:’’میں تو آپ کی ادب دوستی، ذہانت، شاعری اور فن تقریر کا 1946 جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سلورجوبلیکے دور ہی سے قائل ہوں۔ آپ ایک اعلیٰ پایہ کے شاعرہی نہیںبلکہ اردو کے محسن ہیں۔ آپ اردوکے ممتاز اہلِ زبان کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے یہ فن آپ کا خاندانی ہے۔علامہ زار زتشی دہلوی یادگار داغ اورنواب سائل نے آپ کی تربیت کی ہے۔ گلزار دہلوی بجا طور پر ان کے جانشین کہلانے کے حقدار ہیں۔‘‘(گلزارِ غزل، گلزار دہلوی، مکتبہ الیوم دہلی، 2000، ص،3)گلزار دہلوی صحیح معنوں میں اردو شعرو ادب کے ایسے سالار تھے جنھوں نے تا دمِ مرگ اس زبان کے ادب کا ساتھ دیوانہ وار نبھایا۔گلزاردہلوی کی انتھک کوششوں کے صلے میں دلی سے کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ حکومتِ ہند نے سائنس کو عام فہم اور آسان بنانے کے ضمن میں ان کی ادارت میں ’’ سائنس کی دنیا‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی مجلہ شائع کیا۔ یہ رسالہ بر صغیر ہندو پاک کا واحد ایسا رسالہ تھا کہ جو کسی اردو شاعر کی نگرانی میں نکلتا تھا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ گلزار ایک منجھے ہوئے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے ادیب، صحافی اور سائنس کے پاس دار بھی تھے۔وہ اردو کے ایک سچے عاشق تھے۔ انھیں اس زبان سے بے پناہ محبت تھی اس کا اظہار ان کی اس رباعی سے خوب ہوتا ہے؎دنیامیں تو اونچا ہے کلامِاردوعقبیٰ میں بھی اونچا ہے نامِ اردوجبحشر میں ہو نام شماری آقامنظور کہ کہلاؤںغلامِاردومیر مشتاق نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ گلزار کو ’علامہ اور بابائے سائنسی صحافت‘ کا مقام حاصل ہے۔ وہ انھیں دلی کی اور اردو کی آبرو بھی سمجھتے ہیں۔تابش دہلوی انھیں ’نادر الوجودِ چمنستان‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔مولانا عتیق الرحمان عثمانی انھیں ’ اردو اور اردو والوں کی امانت‘ قرار دیتے ہیں۔مولانا احمد سعید اسیر دہلوی ان کو ’اردو کے شیدائی اور ادب کے فدائی‘ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔مولانا حفیظ الرحمٰن نے انھیں ’ اردو کا مرد، مجاہد‘ کہا ہے۔ خواجہ نظامی ان کو ’ چکبستِ ثانی‘ سے یاد کرتے ہیں۔ اس طرح کئی ایسی شخصیات ہیں جنھوں نے گلزار دہلوی کی اردو ادبی خدمات کے اعتراف میں لب کشائی کر کے انھیں خراج پیش کیا ہے۔آفتاب عالم نائب ایڈیٹر روزنامہ ہندی’’نر بھے پتھک‘‘ گلزار کی شان میں کہتے ہیں:’’ ...اے مجاہد اردو تیری کیا تعریف کروں، سچ مچ ہم نے سپنے میں بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک کشمیری پنڈت بے لوث بے غرض طور سے اردو زبان کو زندہ رکھنے اور اس کی ترقی کے لیے اتنا کام کر سکتا ہے جتنا کہ پنڈت آنندموہن زتشی گلزار نظامی دہلوی نے اپنی ذات سے اکیلے ہی کیا...گلزاردہلوی اردو کے درخت ہیں جو سوکھ تو سکتے ہیں لیکن کبھی مرجھا نہیں سکتے۔ مختصراً اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنے آپ میں اردو کی ایک انجمن ہیں تو کوئی غلط نہیں ہوگا۔‘‘(گلزار دہلوی، گلزار غزل، مکتبہ الیوم دہلی، 2000، ص،39,40)مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو گلزار دہلوی ہر لحاظ سے منفرد رہے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں اور ان کی کوششیں نہ صرف ملک و قوم کے لیے فیض رساں ہیں بلکہ وہ آنے والی نسل کے لیے راہِ عمل بھی ہیں۔گلزار دہلوی کو اردو زبان و ادب کے ساتھ ایک عجیب تعلق تھا۔ وہ ہمیشہ اسی زبان کے گیت گاتے رہے اور ہمیشہ اس کے فروغ کے لیے منہمک رہے۔آپ اردو سے اس قدر دیوانہ وار محبت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس کے لیے ہر پل بے تاب نظر آتے ہیں۔ اردو کی شان میں جتنے اشعار گلزار دہلوی نے کہے ہیں، شاید ہی کسی دوسرے شاعر نے اتنے اشعار پیش کیے ہوں۔ آپ انسانیت کے محب، قوم کے سپاہی، تہذیب و تمدن کے وارث، مذہبی رواداری کے عاشق اور اردو شعر و ادب کے شیدائی کے طور پر ادبی اور غیر ادبی حلقوں میں مشہور ہیں۔ گلزار نے اردو شعرو ادب میں ایسی چھاپ چھوڑی ہے جس کو ہمیشہ اردو شعرو ادب کی تاریخ میں رقم کیا جائے گا۔ انھوں نے کیا خوب کہا ہے؟؎میں وہ ہندو ہوں کہ نازاں ہیں مسلمانجس پردل میںکعبہہے مرے دل ہے صنم خانوں میںجوشکاقولہےاوراپنا عقیدہگلزارہمساکافرنہاٹھاکوئیمسلمانوںمیںSajad Ahmad NajarR/O Azad Colony WashbughPulwama- 192301 (J&K)Mob.: 9858667464" ناول ’نوحہ گر‘ کا بیانیاتی اسلوب: انجم قدوائی,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/11/,"ذات کا کرب جب سماجی خارزاروں کے درمیان لہو لہان ہوتا ہے تو وہیں کسی درد کی لہر سے ایک روشنی کی کرن بھی پھوٹتی ہے اور اس کی روشنی سے ہر جانب اجالا پھیلانے کی کو شش میں اپناوجود فراموش کر دینا،یہ ہے ''نوحہ گر ''۔آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ ذوق سخن اور ذوق قلم دونوں کا معیار کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اور خاص کر اردو زبان کے شیداناپید ہوتے جا رہے ہیں، ایسے پر آشوب دور میں یہ عظیم و ضخیم ناول منظر عام پر آیا ہے جس وقت کسی پختہ اورحقیقی تحریرکی اشد ضرورت ہے۔یہ ناول علم و ادب کے پیاسوں کے لیے ایک میٹھی ندی کے مانند اپنے جملوں اور منظر نگاری سے سیراب کرتا چلا جاتا ہے۔میں نسترن فتیحی صاحبہ کے نئے ناول’’ نوحہ گر ‘‘ کا ذکر کر رہی ہوں۔ جسے ایجویشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کیا ہے۔504 صفحات پر مشتمل یہ ناول جب ایک بار آپ پڑھنا شروع کر دیں تو اس طرح اس ناول کی دنیا کا حصہ بن جائیں گے جیسے آپ وہیں کہیں موجود ہیں۔یہ ناول حاشیے پر رہنے والے ان قبائیلیوں کو موضوع بنا کر لکھا گیاایک ایسا بیانیہ ہے جو مظلوموں کی بے کسی کو نشان زد کرتا ہے۔ جن کے مسائل اور جن کی زندگی کو ہمارے نظام نے حاشیے پر چھوڑ دیا ہے۔جو ہمارے ہی درمیان رہتے ہیں مگر ہمیں نظر نہیں آتے یا انہیں قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا ،مگر اس کا موضوع ان قبائیلیوں تک محدود نہیں ہے یہ کہانی بہار کے ایک بے حد پچھڑے ہوئے علاقے سے شروع ہو کر حالیہ سیاست کے دہلی کے منظر نامے تک پہنچتی ہے اور بغیر کسی رپورٹنگ یا تقریر کے ہمیں اس آئینے کے سامنے لا کر کھڑا کر دیتی ہے جہاں ہر اقلیتی طبقہ خود کو حاشئے پر چھوٹا ہوا محسوس کرتا ہے ۔اس حاشئے پر جہاں سے استحصال کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور جو بے لگام ہٹلر شاہی نظام کی سیاست کے مظالم کا شکار ہوتا ہے ۔جہاں ایک طبقے کو شعوری کوشش کے طور پر اتنا پس ماندہ اور مفلس کر دیا جاتا ہے کہ ان پر بلا تردد حکومت کی جا سکے ،ان کا حق اور ان کے املاک پر قبضہ کیا جا سکے ۔ امراء اور غریب کے درمیان اتنی گہری کھایٔ کھودی جا سکے کہ اسے پاٹنے کا تصور بھی نا ممکن ہو۔ لیکن جنگل اور گاؤں میں حاشئے پر موجود ان طبقوں کی کہانی احساس کے ایسے دھاگے سے بنی گئی ہے کہ کویٔ بھی کردار یا جگہ آپ کو اجنبی نہیں لگتی۔ آپ اس درد کے سفر میں خود کو مکمل طور پر شامل پائیں گے ۔ یہ ناول سرسری ورق گردانی کے لیے نہیں ہے نہ ہی ایک نشست میں پڑھی جانے والی کہانی ہے ۔یہ وقت لے کر پڑھنےوالی کتاب ہے ۔جس کی دنیا میں اگر آپ شامل ہو جائیں تو آخیر تک پہنچ کر ہی دم لیں گے۔یہ نہ تو کوئی تاریخی ناول ہے اور نہ ہی سیاسی مگر اس کا موضوع بہت خوبی کے ساتھ ہماری تاریخ اور سیاست کے ایسے اندیکھے گوشے کو مرکز میں لا کر لکھا گیا ہے جو ہمارے معاشرے کی اس حقیقت کو برہنہ کرنے میں کامیا ب ہوا ہے جس سے حکومتیںجان بوجھ کر اور فرد مجبوری میں چشم پوشی کرتے رہے ہیں اور جن پر گہرائی سے سوچنے اور اس کے سد باب کے لیے اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔برجستہ وبرمحل تخلیقی جملوں سے مزین ناول '' نوحہ گر'' کے الفاظ کا انتخاب،جملوں کی چاشنی اوران کی بنت اور جزئیات نگاری ناول کے طویل ہونے کے باوجود ایسی دلچسپی قائم کردیتا ہے کہ اس طوالت سے اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ دریا کی روانی کی طرح الفاظ کا بہاؤ اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے۔راحت کے کردار کے ذریعے ایک طرف سنہری روایتوں،ادبی ثقافت ، ہمارا تہذیبی اور مذہبی ماحولدکھایا جاتا ہے تو دوسری طرف سماجی نابرابری اور نا انصافی ،انسانی نفسیات،غربت اور کسمپرسی کو دیکھنے کا وسیلہ بھی '' راحت'' کا کردار ہی بنتا ہے۔۔۔۔اس کا کردار،ایک عام کردار نہیں بلکہ وہ اپنی ماں کا صبر ضبط دیکھ کر شعور کی اس منزل پر پہنچ گئی ہے جہاں اسے ساری دنیا دو دائروں میں قید نظر آتی ہے۔ایک طرف ہنسی کے آبشار ہیں بے فکری ہے عیش کوشی ہے اور دوسری طرف صبر و ضبط کی منزل ہے اور ایک سرمئی سی اداسیہے۔ یہ اداسی پورے ناول پرمحیط ہے۔’راحت‘ اس ناول کا مرکزی کردار ہے جو ایک ڈاکٹر ہے ۔ اس کے سامنے مستقبل کی بڑی سنہری راہیں کھلی ہوئی ہیں مگر وہ اپنے آبائی وطن کی کسمپرسی، والد کے خواب اور اپنے عزم کو سامنے رکھ کر اپنے روشن مستقبل کی قربانی دیتی ہے ۔ اس کی یہ قربانی ،اس کا یہ عزم اور اس کی راہ میں حائل تمام مشکلیں راحت کے کردار میں ایسے کئی سوشل ایکٹیوسٹ کی یاد دلاتے ہیںجو اپنے اپنے وقت میں معاشرے کے لیے ہمیشہ فعال رہے اور ہر طرح کی قربانیاں دیں ۔ اپنے انتساب میں نسترن خود بھی لکھتی ہیں ۔۔۔’’صفدر ہاشمی، بنائیک سین اور میگھا پاٹیکر جیسے ایکٹیوسٹ کے نام آج کے سماج میںجن کا کردار اس ناول کو لکھنے کی تحریک بنا۔۔۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ راحت کا کرداراس ناول کا ایک ایسا مضبوط مزاحمتی کردار ہے جو ان سارے ایکٹیوسٹ کے شانہ بہ شانہ آکر کھڑا ہو گیا ہے اور اس ناول کو پڑھ لینے کے بعد اسے بھول پانا مشکل ہے ۔ اس طرح اس ناول کے ذریعے نسترن نے ان سماجی کارکنوں کو بہترین خراج عقیدت بھی پیش کیا ہے ۔ جو اپنی بے لوث خدمت سے معاشرے میں حاشئے پر چھوٹ جانے والوں کی بھلائی کے کام میں خاموشی سے لگے رہتے ہیں اور جس کی وجہ سے بعض دفع انھیں اپنی جان تک کی قربانیاں دینی پڑی ہیں ۔یہ ناول ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے زندگی ہے ۔ جس میں زندگی سے جڑے بڑے گمبھیر مسائل پر بات کی گئی ہے اور حیرت اور خوشی یہ ہوتی ہے کہ ایسے سنجیدہ اور روکھے موضوع کو واقعات اور کرداروں کے ذریعے اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ناول میں داخل ہونے کے بعد ہم اپنے گرد و پیش سے بھی بے خبر ہو جاتے ہیں ۔ناول کے شروع میں ہی وہ اس میں پیش ہونے والے موضوع کاپس منظریوں بناتی ہیں کہ راحتزینہ سے ہوتی ہوئی اس چھت پر آتی ہے جہاں ایک طرف سے اسے ایک دائرے کی چکا چوند روشنی نظر آتی ہے دوسری جانب یادوں میں بسا ویران اداس کھنڈر۔اس کا دل اداس ہے مگر پرہمت بھی،اداسیوں کو ختم کرنےکے سبب کی تلاش بھی اور یہیں سے قاری کے تجسس کا سلسلہ بڑھتا جاتا ہے جو کتاب کے اختتام تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔پورے ناول میں کھیت کھلیان،جنگل، روشنی،سورج چاند بادل اوراستوں کی خوبصورتی کو لفظوں میں اس طرح ڈھال دیا گیا ہے کہ قدرت کی صناعی نظر آنے لگتی ہے ۔گاؤں کے راستے،کوئل کی کوک۔خرگوش کی معصومیت، ان سب چیزو ں نے مل کر تحریر کو ایک نرمی اورایک خوبصورت کیفیت سے دوچار کیا ہے۔آپ مرکزی کردار کی اس کشمکش کو دیکھیں جب اس کی ذات دو متضاد دنیا سے تال میل بٹھانے میں شعور کی منزلیں طے کررہی ہے۔ایک اس کے اندر کی دنیا ہے۔مصالحت پسند،پرسکون، پر محبت اور دوسری حقیقی اورعملی دنیا۔۔ کشاکش سے بھری،پرتصنع اورکرپٹ۔۔۔مثال دیکھیں۔''بہت شروع سے شاید شعور کی سرحد کے کہیں بہت پہلے سے اس نے محسوس کیا تھا کہ اس کے اندر بھی ایک دنیا تھی جو باہر کی دنیا سے بالکل الگ تھی۔ اور ہر وقت بڑی خاموشی سے اس کے ساتھ شب و روز کا سفر طے کرتی۔اس دنیا میں کوئی شور نہ تھا کوئی مصروفیت نہ تھی مگر ایک سرگوشی تھی جوہر وقت اس کی توجہ باہر سے اندرکھینچنے کی کوشش کرتی رہتی۔۔۔اندر کی دنیا میں بے پناہ اداسی بھری رہتی۔شاید باہر کی دنیا میں اس کی شمولیت اندر کی دنیا کو پسند نہ تھی۔۔۔۔اندر کی دنیا۔۔۔۔۔ جہاں کے رشتے نرم و نازک جھاڑیوں کی طرح محبت کی ہوا کی خنکی سے ہلکے ہلکے کانپتے،ہلکورے لیتے ہوئے سانس لیتے۔اور جن میں معصوم خرگوش جیسے جذبے اپنی چمکتی سرخ آنکھوں کو مچمچاتے ہوئے یہاں وہاں پناہ لیتے۔پھدک کرنکلتے اور پھر ان میں ہی جاکر چھپ جاتے۔ ان معصوم جذبوں کو وہ جب چاہےہاتھ بڑھا کر پکڑ لیتی۔ انہیں سہلاتی، پچکارتی اور پھر ان ہی جھاڑیوںمیں چھوڑ دیتی۔ تب اسے معلوم نہ تھا کہ آنے والا وقت اس کے سامنے دونوںدنیاؤں میں تال میل بٹھانے کی اجازت کبھی نہ دے گا۔ باہر کی دنیا کے اپنے اصول تھے۔۔۔اس کا اپنا قانون تھا۔۔''(نوحہ گر: صفحہ۔15)اس باہر کی دنیا کی نا انصافی،نا برابری نے اس کو کم عمری میں ہی بہت دکھ درد دیے،جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے خود کوکیسے تیار کیا۔مثال دیکھیں:۔’’بعد میں راحت نے بھی خود کو سنبھال لیا تھا۔۔۔اس شوق اور اس جنون کے ساتھ کہ وہ اس زمین پرہمیشہ مظلوموں کے ساتھ نا انصافی کے خلاف کھڑی رہے گی۔اس نے پڑھا تھا کہ دھات کو تپا کر جتنا پیٹا جاتا ہے وہ اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے اور اس کی ہر تہ میں بورک ایسڈ ڈالا جاتا ہے تاکہ پرتوں کے بیچ سے آکسیجن نکل جائے اور اس میں زنگ نہ لگے۔اس نے بھی اپنی زندگی کے اس عظیم حادثے کے دردکو یادوں کے ہتھوڑوں سے اتنا پیٹا تھاکہ اس کا دل کافی پختہ اور مضبوط ہو چکا تھا۔ہر گناہ،جبر اور زیادتی کے خلاف ہمیشہ لڑنے کے لیے اور ہر گزرتے لمحے کی تہ میں وہ محنت شاقّہ کے بورک ایسڈ سے اپنے ارادے کو زنگ لگنے سے بچاتی رہتی تاکہ آرام و آسائش کی آکسیجن کسی تہ میں باقی نہ رہ جائے اور اس کے ارادے کو زنگ نہ لگ جائے۔''(نوحہ گر: صفحہ۔16)ماحولیات سے محبت اس ناول کی ایک اور خاصیت ہے ۔منظر نگاری میں وقت کا ذکر ہو، گاؤں یا جنگل ندی کا ذکر ہو یاکھیت کا اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ ۔یہاٖں چند مثالیں پیش ہیں۔اس کی آنکھ کھلی تو کمرے کی مشرقی کھڑکی کے سامنے سورج کا گولا بالکل پورے چاند کی طرح ٹھنڈا سیاہی مائل آسمان کی پیشانی پر سہاگن کی بندی کی طرح چمک رہا تھا۔ماں نماز سے فارغ ہو کر اپنے بستر کو درست کر رہی تھیں۔اس نے حیران ہو کر سورج کی طرف دیکھا۔۔ راحت کی آنکھ کھلتی دیکھ کر وہ مسکرائیں۔۔نماز نہیں پڑھی دیکھو طلوع آفتاب کا وقت ہو گیا۔اٹھ جاؤمیں چائے بنانے جا رہی ہوں۔آج اتنے د نو ں بعد ایسی فر صتسے امّی کے کمر ے میں سو نا اور جا گنا اُسے کتنا اچھا لگ ر ہا ہے۔ جسم کے پورپور سے جیسے تھکن بو ند بو ند ٹپک کر با ہر نکل گئی ہو اور جسم با لکل ہلکاپھلکا اور د ما غ با لکل پر سکو ن ہے اس و قت، جی چا ہ ر ہا ہے کہ صبح صا د ق کا و قت یو ں ہی تھم جا ئے۔اور کھڑ کی کے چہر ے پر طلو ع آفتا ب کی بند ی یوں ہی ٹنکی ر ہے۔ مگر یہ کیا۔۔ ان چند لمحوں میں سو رج کی بند ی کھسک کر او پر چلی گئی تھی اور اب کھڑ کی سے آد ھی نظر آر ہی تھی۔ اُس کی سرخی کے سا تھ اب اُس کے چہا ر طرف روشنی کی سپید ی کا ایک ہا لہ سا بھی بن گیا تھا۔ را حت غور سے اُدھر د یکھتی ر ہی اور اُسے احسا س ہوا کہ وہ بہت تیزی سے کھسکتا جا ر ہا تھا۔ شا ید اُسے د نیا کو جگا نے کی بہت جلد ی تھی۔ اور ایک پل گنوائے بغیر وہ اپنے سفر پر گا مز ن تھا۔ لو گو ں کی سُستی د یکھ کر اُس کا جلا ل اوربھی فزو ں ہو ر ہا تھا۔ را حت کو یقین تھا جب وہ کمر ے سے با ہر جا کر اُس کی طرف د یکھے گی تو اُس سے نظر یں نہ ملا پا ئے گی۔ اب وہ نظروں سے او جھل ہو چکا تھا مگر کھڑکی کے با ہر اُس نے اپنے و جو د کی روشنی کےپہرے بٹھا دئے تھے۔ را حت نے کسلمند ی سے انگڑا ئی لی اور کر و ٹ بد ل کر د یوا ر کی طر ف ر خ کر کے آنکھیں بند کر لیں۔ابھی وہ اس آلسی صبح کو پکڑ ے ر ہنا چا ہتی تھی۔''(نوحہ گر: صفحہ۔14۔13)’’راحت نے دور ندی میں دن کے آخری مدھم اجالے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا۔پانی پر شام کے سلیٹی رنگ کے سائے پگھل کر پوری ندی پر پھیلتے جا رہے تھے۔جنگل کی طرف سے ایک دہشت بھری سرسراہٹ،ایک بہکی ہویٔ جنگلی خوشبو کے ساتھ، ہوک بن کر اس کے دل میں اتر گئی۔''(نوحہ گر: صفحہ۔295)''جیپ پوری رفتار سے بھاگ رہی تھی اور راحت گم تھی اپنے ہی خیالوں میں،ہوا راحت کے سائے کو اڑائے لیے جا رہی تھی۔راحت نے جانے پہچانے اس مانوس ماحول میں اپنی روح کو سرشار ہوتے ہوئے پایا۔سورج تمام دنیا کواپنی ضوفشانی کے دائرے میں لیے ہوئے تھا۔ ا س نے تیز ہوا میں اپنا سر اوپر اٹھایااوراسے محسوس ہوا کہ زمین کا یہ لا متنا ہی سلسلہ، یہ عظیم الشان آسمان اور آزادی اور مسرّتوں سے مالامال وطن کا یہ تمام علاقہ اس کے دل کی وسعتوں میں گم ہوتا جا رہا ہے۔ اسے لگا زمین کا یہ ٹکڑا۔۔۔ دنیا کا سب سے خوبصورت حصّہ ہے، بلکہ بہشت سے مشابہ ہے۔''(نوحہ گر: صفحہ۔180)وہیں آدی واسیوں کے درد کو اس ناول میں اس طرح پیش کیاہے کہ جھکجھورکررکھ دیا ہے۔صاف ہوا پانی بھی میسر نہ ہو تو زندگی کی نمو کہاں ممکن ہے۔آدی واسیوں کی پسماندگی راحت کی حساس طبیعت کو نشتر چبھوتی ہے۔یہ سارا ماحول کچھ اس قدر فطری انداز میں پیش کیا ہے کہ اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ جنگل کا ذکر ہو یا شہر کا،گاؤں ہو یا گھر آپ کی یادداشت میں بس جائے گا۔کوئی اس بات کو محسوس نہیں کرتا کہ راحت کا باغیانہ اند ز اس کی محرومیوں کا بدلا ہے۔اس نے محسوسات اور تخیل کو ایک نئی مضبوط دنیا سے متعارف کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔مظلوم کے لیے طاقت بن کر وہ اس دنیا کو جینے کے قابل بنانا چاہتی ہے۔اس ناول میں رشتوں کی پائیداری بھی ہے، محبت کی میٹھی میٹھی کسک بھی۔اب وہ رشتہ انسانیت کا ہو،ماں کا ،چچا کا یا محبوب کا۔یہ چند اقتباسات دیکھیں۔۔۔۔’’وہ اس کی نظروں میں اعتماد کے ساتھ اپنے لیے الفت بھی دیکھنا چاہتے‘‘تھے۔۔نہ جانے کب سے۔۔شاید ہمیشہ سے ہی،لیکن احساس بعد میں ہوا۔کیونکہ اس کے دراز سبک بالوں کے درمیان اس کا انتہا سنجیدہ اور متین نظر آنے والا چہرہ ان کی کمزوری بن گیا تھا،وہ یہ بھی نہ کہ سکے کہ مسکرانے سے پہلے اس کے گال پر گہرا سا گڑھا جو رقصاں دکھائی دیتا تھا،وہ دل کی کدورتوں کو دھو کر پاک کر دینے کی طاقت رکھتا تھااور اس کے تمام حرکات و سکنات جو شائستگی اور سبکدوشی کا مظہر تھیں،اور اس کا خاموش شرمیلا پن جو بہت ساری دوسری خوبصورتیوں کے معیار سے زیادہ خوبصورت تھیں۔ ان کے جیسے متین شخص کا دل بھی جیت بیٹھے تھے۔''(نوحہ گر: صفحہ۔ 19)’’ساری دنیا سے اپنے غم چھپانا کتنا آسان ہے، مگر ایک ماں سے نا ممکن ۔۔۔ وہ جو اتنی دور ہیںمگر اس کی بے چینیاں انہیں وہاں قرار نہیں لینے دیتی۔ ان سے بات کرنے سے پہلے ،اپنی آواز وہ سارے آنسو پونچھ دینا چاہتی تھی جو اس کے دل میں قطرہ قطرہ گر کر اس کی آواز کو گلوگیر کر رہے تھے ۔اس نے کچھ دیر خود کو نارمل کیا ۔ایک گلاس پانی مانگ کر پیا پھر چائے بھی پی لی۔ اب اسے لگا ،وہ ماں سے بات کر سکتی ہے ۔اس نے فون لگایا۔۔۔۔’ ہیلو ۔۔۔کون ‘ عالیہ بیگم کی آواز میں ایک ایسا اضطرار تھا کہ راحت کی ساری تیاری دھری رہ گیٔ۔ نہ جانے کہاں سے آنسوؤں کا سیلاب امڑ آیااور وہخاموش رہ گئی ۔’ ہیلو ۔۔بیٹا راحت۔‘کیا انھوں نے صرف اس کی سانسوں سے اسے پہچان لیا تھا، ابھی تو وہ کچھ بول بھی نہیں پائی تھی۔‘‘(نوحہ گر: صفحہ۔ 364)اس دنیا میں شروع سے خیر و شر کے تناسب سے جو خلفشار جاری ہے اور یقیناقیامت تک جاری رہے گا وہی اس ناول کا بنیادی موضوع ہے اور کہیں نہ کہیں ناول کی یہ کہانی ہمیں یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ انسانیت اور رشتوں سے محبت یہ دو ایسی طاقتیں ہیںجوہمیں ہر حال میں صرف جینے کا حوصلہہی عطا نہیںکرتیں بلکہ بھلائی کو جاری رکھنے کا حوصلہ بھی دیتی ہیں۔ شر کی طاقتچاہے کتنی بھی بڑھ جائے خیر اس کے سامنے کبھی ہار نہیں مانتا۔اس ناول میں وہ سارے مشاہدات اور تجربات ہیں جو وقتاً فوقتاً سامنے آکر حیران کرتے ہیں اوراپنے دلکش اسلوب میں ہمارے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں۔اگر اس ناول میں کوئی کمی ہے تو وہ یہ کہ کہیں کہیں ٹائیپنگ یا پروف کی کمی کھلتی ہے اس کے علاوہ اس کی ضخامت آج کے مصروف دور میں ناول کے مطالعے کے ارادے کو متزلزل کرتی ہے ۔لیکن میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ جس نے بھی اسے پڑھنا شروع کر دیا اسے اس کا بیانیہ پھر باہر نکلنے نہیں دے گا جب تک کہ وہ اسے ختم نہ کر لے ۔کیونکہ نوحہ گر وقت کے صفحات پرلکھا گیا ایک ایسا نوحہ ہے جسے ہر حساس انسان اپنی روح سے محسوس کرسکتا ہے۔Anjum Kidwai" خلائی افق کا آفتاب ہیں خواتین: آسیہ خان,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/10/,"15اگست2019 کو ہندی فلم مشن منگل کی ریلیز سے قبل شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ اس مشن کی کامیابی کا کریڈٹ ان خواتین کو جاتا ہے جنھوں نے ایسی سائنسی مشین کو پایۂ تکمیل پہنچانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ حالانکہ مشن منگل کے ہیرو اکشے کمار تھے لیکن اس فلم میں5کردار ایسے تھے جو ہیرو کے کردار پرغالب آ گئے تھے او ریہ کردار ادا کیے تھے ودیا بالن، سوناکشی سنہا، تاپسی پنّو ، کیرتی کلہڑی اور نتیا مینن نے۔ ان اداکاروں نے جن کردارکو نبھایا یہی وہ کردار تھے جنھوں نے پوری دنیا میں اس مشن کی کامیابی پر مقبولیت حاصل کی اور ثابت کر دیا کہ سائنس کے میدان میں خواتین کی حصے داری اب بھی برقرار ہے اور صنف نازک کہلائی جانے والی عورت کسی بھی حصے میں مردو ںسے کم نہیں۔آج زندگی کے ہر شعبے میں خواتین ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ آج خلائی سائنس سے لے کر کیمسٹری، فزکس، بایولوجی، مخلوقیات، میڈیکل، نینو تکنیک ، جوہری تحقیق، زمین اور ماحولیاتی سائنس، ریاضی انجینئرنگ اور زراعتی سائنس جیسے چیلنجنگ شعبوں میں خواتین کامیابی کے پرچم لہرا رہی ہیں۔ حالانکہ سائنس، تکنیک، انجینئرنگ اور ریاضی کے شبعوں میں ان کی تعداد مردوں کے برابر تو نہیں ہے۔ لیکن ان شعبوں میں ان کی دلچسپی مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اپنی سماجی اور گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے خواتین کے لیے سائنس کی دنیا میں مقام حاصل کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا ہے۔ کچھ دہائیوں قبل ظاہر ہے حالات اور بھی مشکل تھے۔ جہاں لڑکیوں کا اسکول جانا بھی برا سمجھا جاتا تھا اور انھیں تعلیم سے محروم رکھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں بھی خواتین نے تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے سائنس جیسے شعبے میں اپنی شناخت بنائی اور ایسی مثالیں قائم کیں جنھیں آج دنیا یاد کرتی ہے۔ ایسے میں ان سینئر خواتین سائنس دانو ںکا ذکر ضروری ہے جن کی شخصیت آنے والی نسلوں کے لیے ایک نذیر ہے۔یہاں ہم کچھ ایسی ہی خواتین کا ذکر کر رہے ہیں جن کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور پڑھا جا چکا ہے۔ جیسے انّا منی(23اگست 1918 16-اگست2001) جنھوں نے 8سال کی عمر میں تحفہ میں ملنے والے ہیرے کے بُندے ٹھکرا کر انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا(Britinica)مانگ لیا تھا۔انھوں نے1930 میں نوبل اعزاز سے سرفراز ہندوستانسی سائنس داں سی۔ وی رمن کے ساتھ بہت سے سائنسی پروجیکٹس پر کام کیا اور مختلف سائنسی اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہیں۔اسیما چٹرجی نے23ستمبر1917سے22نومبر2006 کو کیمسٹری کے شعبے میں بہت کام کیا ۔ انھوں نے کینسر جیسی کئی موذی امراض کے لیے موثر دوائیاں ایجاد کیں اور دنیا نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا۔ مرگی سے لے کر ملیریا جیسی بیماریوں میں ان کے فارمولے پر بنی دوائیں آج بھی لوگوں کو راحت پہنچا رہی ہیں۔کمل رن دیوے(15دسمبر1905سے11اگست 1970) ملک میں کینسر کے علاج کو ممکن بنانے میں انھوں نے بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے جزام جیسے مرض کے لیے بہت اہم دوائیوں کی ایجاد کرنے میں مدد کی جس کی وجہ سے انھیں ملک کے دوسرے سب سے بڑے اعزاز پدم وبھوشن سے نوازا گیا۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے انڈین ویمن سائنس فیڈریشن کا قیام کرکے فیلڈ میں آنے والی نئی نسل کی خواتین کے لیے نئی رائیں بھی ہموار کیں۔ای کے جانکی امّال(6نومبر1897سے7فروری1984) جانکی امال نے گنے کی ایک نہایت میٹھی قسم کی ایجاد کی۔ انھوں نے ایسے گنے کی بھی ایجاد کی جو کئی طرح کی بیماریوں اور قحط کے حالات میں بھی پیدا ہو سکے۔انھیں صرف ایسی ریسرچس کی وجہ سے ہی نہیں جانا جاتا بلکہ آزادی کے فوراً بعد جو با صلاحیت سائنس داں یہاں سے جانا چاہتے تھے تو انھیں ملک میں روکنے کے لیے اور با صلاحیت شخصیات کی حوصلہ افزائی کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی درخواست پر انھوں نے انڈین بوٹینیکل سوسائٹی کا دوبارہ قیام کیا۔ انھیں1957میں پدم شری کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔کملا سوہنی(18جون1911 سے28جون1998) کملا سوہنی مشہور سائنس داں پروفیسر سی وی رمن کی پہلی طالب علم تھیں۔ کملا سوہنی پہلی ہندوستانی خاتون سائنس دان بھی ہیں جنھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انھوں نے نوبل اعزاز یافتہ فریڈرک ہاپ کنس کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔آنندی بائی گوپال راؤ جوشی (31مارچ1865سے 26فروری 1887) ہندوستان کی پہلی خاتون فزییشن تھیں۔ ان کی شادی محض 9 سال کی عمر میں ہو گئی تھی اور وہ16سال کی عمر میں ماں بھی بن گئی تھیں ۔ کسی دوائی کی کمی کی وجہ سے بہت ہی کم عمر میں ان کے بیٹے کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انھوں نے نئی نئی دوائیوں کی ایجاد کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ انھوں نے پینسل وینیا میڈیکل کالج میں پڑھائی کی تھی۔ اتنی مشکلات کے باوجود ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا اور انھوں نے اپنی جدوجہد سے کامیابی کی ایک نئی کہانی لکھی۔ڈاکٹر درشن رنگا ناتھن(6جون1961 سے6جون 2001) نے بایو کیمسٹری کے شعبے میں نہایت اہم رول ادا کیا۔ دلی کے مرانڈا ہاؤس کالج میں پڑھا۔ وہاں سے اسکالرشپ مل گئی تو امریکہ چلی گئیں۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد آئی آئی ٹی کانپور میں ٹیچر سبرا منیم رنگا ناتھن سے شادی تھی۔ وہ سائنس سے متعلق جریدوں کی ایڈیٹر بھی رہیں۔ نیشنل سائنس اکیڈمی کی فیلو بھی رہیں۔ پھر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ٹیکنا لوجی حیدر آباد کی ڈائرکٹر کا عہدہ سنبھلا۔ 2001 میں دار فانی سے کوچ کر گئیں۔کلپنا چاولہ: کلپنا اسپیس شٹلSpace Shuttleسے خلاء میں جانے والی پہلی ہندوستانی خاتون سائنس داں ہیں۔ 1982 میں امریکہ جاکر ایئر و اسپیس انجینئرنگ ماسٹر ز کی ڈگری لینے والی کلپنا نے 1986میں دوسری ماسٹرز کی ڈگری لی اور پھر1988میں ایئر و اسپیسAiro Spaceانجینئرنگ میں پی ایچ ڈی مل گئی۔ فروری2003 کو کولمبیا شٹل ڈیزاسٹر(Columbia Shuttel disaster)میں مارے جانے والے کرو ممبرز میں سے ایک کلپنا چاولہ بھی تھیں۔اب ہم ذکر کریں گے نئے دور کی ان خواتین سائنسدانوں کا جنھوں نے پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ابھی حال ہی میں ہندوستان نے خلاء میں ایک سیٹیلائٹ کا کامیاب تجربہ کیا ۔ جس کی تعریف پوری دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی کر رہے ہیں۔ اس کامیابی کے پیچھے بھی خواتین سائنسدانو ںکا اہم رول رہا ہے اور خواتین نے پھر سے ثابت کر دیا کہ ان کی صلاحیتو ںکی کوئی حد نہیں وہ لا محدود ہیں۔ ان خواتین سائنسدانو ں میںریتو کرڈھال کا نام پہلے نمبر پر لیا جا سکتا ہے۔ ایسرو میں آنے والے کئی مسائل کو انھوں نے چٹکیوں میں حل کر دیا ہے۔ دو بچوں کی ماں ہیں اس کے باوجود اپنا زیادہ تر وقت ایرو میں ہی گزارتی ہیں وہ منگل یان مشن کی ڈپٹی آپریشن ڈائرکٹر رہیں اور اس مشن کو پورا کرنے والے کامیاب گروپ کی ایک اہم کردار ہیں۔مومیتا دتّا۔ مومیتا دتا نے منگل یان مشن کے لیے بطور پروجیکٹ منیجر کام کیا۔ انھوں نے کولکاتا یونیورسٹی سے ایم۔ ٹیک کیا ہے۔نندنی ہری ناتھ: نندنی ہری ناتھ اپنی پہلی ملازمت کے طور پر ایسرو میں شامل ہوئی تھیں اور آج20سال گزر جانے کے باوجود مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور اس پروجیکٹ کے لیے انھوں نے بہت محنت کی۔انورادھاٹی کے: ایسرو میں ایک سینئر عہدے پر فائز ہیں اوردیگر خواتین سائنس دانو ںکے لیے ایک آئیڈیل ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں انھیں بجائے رٹتے یا یاد کرنے کے منطقی سبجیکٹس زیادہ پسند تھے آج وہ ایسرو کے اہم ڈرپاٹمنٹ کی ہیڈ ہیں او راب بھی اسی طرح سوچتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برابری یہاں برابری کے سلوک کی وجہ سے کئی بار انھیں یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ ایک خاتون ہیں یا کچھ الگ بھی ہیں۔این ولارمتھی: ولارمتھی نے ہندوستان کے راڈار امیجنگ سیٹیلائٹ کی لانچنگ کی قیادت کی ہے۔ ٹی کے اندورادھا کے بعد وہ ایسرو کے سیٹیلائٹ مشن کی ہیڈ کے طور پر دوسری خاتون افسر ہیں۔52 سال کی عمر میں انھوں نے اپنی ریاست تمل ناڈو کے وقار میں اضافہ کیا ہے وہ ریموٹ سینسنگ سیٹیلائٹ مشن کی بھی ہیڈ رہی ہیں۔مینل سنپتMeenal Sampat:مینل سمپت نے ایسرو کے سسٹم انجینئر کے طور پر 500 سائنسدانوں کی قیادت کی ہے۔مشن منگل میں کامیابی کے بعد اب ان کا دوسرا ٹارگیٹ نیشنل اسپیس انسٹی ٹیوٹ میں پہلی خاتون ڈائرکٹر بننا ہے۔کیرتی فوجدار: ایرو کی کمپیوٹر سائنس داں ہیں جو سٹیلائٹ کو ان کی صحیح جگہ پر پہنچانے کے لیے ماسٹر کنٹرول فیسیلیٹی پر کام کرتی ہیں۔ کچھ بھی غلط ہونے پر سدھار کا کام وہی کرتی ہیں۔ کیرتی اب بھی پڑھائی کرنا چاہتی ہیں اور مزید بہتر کارکردگی کے لیے ایم ٹیک کرنا چاہتی ہیں۔ٹیسی تھامس: ٹیسی ہندوستان کی وہ میزائل ویمن ہیں جنھوں نے اگنی4اوراگنی5مشن میں اہم رول دا کیا ہے۔ ٹیسی ڈی آر ڈی او کے لیے تکنیکی کام کرتی ہیں۔ اپنی صلاحیتوں اور کار گزاریوں کی وجہ سے ہی انھیں ’اگنی پتری ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔موجودہ دور میں6ہزار سے بھی زائد خواتین ایسرو کے لیے کام کر رہی ہیں۔ حالانکہ ایسرو کے سبھی 7ڈائرکٹرز مرد سائنس داں ہی رہے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہزاروں خواتین ہمارے خلائی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی نئی ریسرچوں کے لیے دن رات محنت کر رہی ہیںاور اگر سمت حکومت ہند کے اقدامات کی بات کریں تو خواتین سائنس دانو ںکی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت نے ہر خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ سائنس ،ٹکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے مدیان میں کیریر بنانے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جس کے تحت2019سے ’وگیان جیوتی‘ نامی ایک اسکیم بھی چلائی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی خواتین سائنس دانوں کی صلاحیتوں میں مزید نکھار کے لیے2014-15 میں ایک مہم ’’کیرن یوجنا‘‘ کا آغاز بھی کیا گیا ہے جس کے تحت ہزاروں خواتین کی سائنس کے تعلق سے کارگزاریوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین نے سائنس کے میدان میں اپنی محنت اور لگن سے اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے۔ ہاں ان کی رفتار میں ابھی اتنی تیزی نہیں ہے لیکن ان کے تجربات اور نئی ایجادات نے دنیا کو آگے لے جانے میں بہت مدد دی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بے پناہ صلاحیت کی مالک جو اپنے ذاتی اور گھریلو حالات کے باوجود اتنی محنت کر رہی ہیں ان کو بھر پور تعاون دیا جائے۔ ان کے خاندان، تعلیمی ادارے، کمپنیاں اور حکومتیں سب کو ساتھ مل کر ان کے لیے کام کرنا ہوگا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی وہ خواتین جنھوں نے سائنس کی دنیا میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور اپنے تجربات اور ایجادات سے دنیا کو فائدہ پہنچایا ان کی کہانی ٹی وی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سب تک پہنچائی جانی چاہیے۔تاکہ تنگ ذہنیت والے لوگوں کو بیدا ر کیا جا سکے اور ملک کی بیٹیاں سائنس کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ اپنی حصہ داری کو یقینی بنا سکیں۔Asiya Khan1101, Chabuk SawarLal Kuan, Chandni ChowkDelhi-110006Mob: 7011800481" ادبی متن کی قرأت اور غزل کے تفہیمی مسائل:محمد ریحان,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/09/,"متن کی قرأت کے باب میں سب سے مضبوط نظریہ فرانسیسی ادیب رولاں بارتھ نے پیش کیا تھا۔ 1967 میں اس نے اپنے ایک مضمون ''La mort de l'auteur'' یعنی ’مصنف کی موت‘ میں یہ اعلان کیا کہ متن پر متن کار کی ملکیت نہیں ہوتی۔ یعنی متن جب تخلیق پا جاتا ہے تو وہ متن کار کی گرفت سے نکل جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ کسی متن کو اس کے لکھنے والے سے منسوب نہیں کیا جائے گا۔ یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ غالب کا شعر غالب کا نہیں ہے۔ مصنف کی موت کا مطلب یہ ہے کہ قاری کسی بھی متن کا مطالعہ متن کار کے نقط نظر سے کرنے کا پابند نہیں ہے۔ متن میں کیا لکھا ہے اس کا فیصلہ ہر قاری اپنے طریقے سے کرے گا۔ ایک بار متن تخلیق پا جائے تو پھر وہ آزاد ہو جاتا ہے۔ قاری کے لیے تو ایسے بھی ممکن نہیں کہ وہ مصنف کے مطابق ہی سوچے۔ کیونکہ مصنف اور قاری کی اپنی اپنی علمیات ہوتی ہے۔ کبھی دونوں کے درمیان زمانی بعد ہوتا ہے اور کبھی کبھی ان کے بیچ جغرافیائی دوری حائل ہوتی ہے۔ ایسے میں ممکن ہی نہیں ہے کہ قاری ایک متن سے وہی سب کچھ معنی اخذ کرے جو صاحب متن نے لفظوں کی مدد سے اس میں چھپا رکھے ہیں۔ معنی کے التوا یا غیاب میں رہنے کا ایک نقصان یا فائدہ یہ ہے کہ جب بھی کسی متن کی قرأت کی جائے گی اس کے معنی ہمیشہ ایک سے برآمد نہیں ہوں گے۔ یہاں کوئی یہ سوال بھی قائم کر سکتا ہے کہ یہ تو مصنف کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی ہوگی اگر متن سے وہ معنی برآمد ہی نہ ہو سکے جو مصنف نے لفظوں میں یا بین السطور میں پیش کیے ہیں۔ اس حوالے سے دریدا نے لکھا ہے کہThere is nothing outside of the textیعنی متن سے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی قاری کسی متن سے ایسے معنی نکال ہی نہیں سکتا جو متن میں موجود نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ جو معنی اخذ کرتا ہے وہ منشائے مصنف سے کبھی زیادہ قریب ہوتا ہے اور کبھی کم۔ اس الجھن کو زیادہ خوش اسلوبی سے شمس الرحمن فاروقی نے سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’متن سے وہ معنی برآمد نہیں ہو سکتے جو اس میں نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ منشائے مصنف کو بنیادی اہمیت نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں من مانی کرنے کی اجازت ہے۔ بلکہ متن کی صحت پر اصرار کرنے سے یہ اصول مستحکم ہو جاتا ہے کہ جو معنی متن میں نہیں ہیں ہم انھیں برآمد نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو معنی نہ بیان کریں گے بلکہ اپنے مفروضات بیان کریں گے۔‘‘ـــ(بحوالہ قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری، ص: 19)ـــــــفاروقی کی مذکورہ بالا باتوں سے یہ الجھن تو دور ہو جاتی ہے کہ قاری اگرچہ متن سے معنی اخذ کرنے کے معاملے میں آزاد ہے لیکن وہ متن سے ایسے معنی برآمد کر ہی نہیں سکتا جو اس میں ہے ہی نہیں۔ فاروقی کی یہ بات بہت اہم ہے کہ متن کی صحت پر اصرار ہونا چاہیے۔ بعض دفعہ ہوتا کیا ہے کہ ہم مصنف سے مرعوب ہو کر یا ذاتی تعلقات کی بنا پر متن کے ساتھ انصاف نہیں کرتے ہیں۔ تعصب کے زیر اثر ہم ایمانداری سے متن کی قرأت نہیں کرتے ہیں اور ایک قدرے کم درجہ کے مصنف کو دوسرے بڑے درجہ کے مصنف پر فوقیت دے دیتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کی ’آب حیات‘ اور شبلی کی ’موازنہ انیس و دبیر‘ دونوں کتابیں اس کی زندہ مثال ہیں۔ بعد کے دور میں بھی اس طرح کی بہت سی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں جن میں متن سے زیادہ شخصیت کو اہمیت دی گئی۔متن کو اہمیت دینے سے اس کی غلط تعبیر و تفہیم کے سارے چور دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ متن سے مختلف معانی اور مفاہیم نکل سکتے ہیں اور نکلتے ہیں لیکن میں اس بات سے متفق نہیں کہ کسی بھی متن کی متفقہ قرأت ممکن نہیں۔ یہ ممکن ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ قاری صاحب علم و بصیرت ہو اور وہ متن کے ساتھ مکالمہ کرنے کے ہنر سے واقف ہو۔ متن کی عمارت لفظوں کی اینٹ سے تعمیر ہوتی ہے۔ ہر لفظ کی اپنی ثقافت ہوتی ہے۔ لفظمیں صرف معنی نہیں ہوتے بلکہ اس میں متعلقہ زبان کی تہذیب اور اس کے بولنے والوں کی ثقافت بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ قاری کے لیے ضروری ہے کہ متن کی قرأت کرتے وقت جب کسی لفظ کا معنی متعین کرے تو اس کے ثقافتی عناصر کو نظر انداز نہ کرے۔ دوران قرأت اگر ان باتوں کا خیال نہیں رکھا گیا تو ظاہر ہے کسی بھی ادبی متن کی متفقہ قرأت ممکن نہیں۔ متن کی قرأت کے معاملے میں یہ بات اہم نہیں ہے کہ متن کے معنی التوا میں ہوتے ہیں، مصنف کی موت ہو جاتی ہے یا معنی اخذ کرنے کے معاملے میں قاری آزاد ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ متن کی قرأت کیسے کی جارہی ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے:’’یک طرفہ مکالمے کو وہ جھوٹا مکالمہ کہتا ہے۔ مکالمہ دوطرفہ ہونا چاہیے۔ اس میں طرفین اپنی اپنی شناخت بھی رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔ گدامر کا کہنا ہے کہ کسی متن کو سمجھنا ایسا ہے جیسے کسی شخص کو سمجھ رہے ہیں۔‘‘(بحوالہ: قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری،ص: 11)یہاں لفظ کے ساتھ مکالمے والی بات بہت اہم ہے۔ جب دو شخص آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو دراصل دونوں ایک دوسرے کی باتوں پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہیں۔ دو لوگوں کے درمیان مکالمہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں ایک دوسرے کی باتیں سمجھ رہے ہوں۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایک کسی کی بات نہیں سمجھتا ہے تو اس کی وضاحت طلب کی جاتی ہے۔ یعنی بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہوتی ہے تو استفہامیہ رد عمل ہوتا ہے۔ یہی معاملہ متن اور قاری کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔قاری جب کسی متن کے روبرو ہوتا ہے تو دراصل وہ اس کے ساتھ مکالمہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس میں متن بھی اتنا ہیActiveہوتا ہے جتنا کہ قاری۔ جب کوئی متن کسی قاری کی سمجھ میں نہ آئے تو اسے چاہیے کہ وہ استفہامیہ انداز اختیار کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ متن سے متعلق دوسری چیزوں کو ٹٹو لنے کی کوشش کرے۔ اس سے اسے متن کے معنی تک پہنچنے میں کامیابی مل سکتی ہے۔نثری متن عام طور پر یک رخی ہوتا ہے۔ وضاحت و صراحت اس کی خوبی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نثری متن ایک سے زیادہ مرتبہ قرأت کا متقاضی نہیں ہوتا۔ بہت سنجیدگی اور یکسوئی اختیار کیے بنا بھی معنی تک رسائی ممکن ہے۔ لیکن شاعری کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ خاص طور پر غزل کے اشعار کے معنیاتی نظام کو سمجھنا دشوار ہے۔ گوپی چند نارنگ شاعری کے اس نکتے کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’معنیاتی نظام انتہائی مبہم اور گرفت میں نہ آنے والی چیز ہے۔ بحث و مباحثہ کی سہولت کے لیے اسے چند الفاظ میں مقید تو کیا جا سکتا ہے لیکن معنیاتی کیفیات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (بحوالہ: قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری، ص: 187)اس اقتباس سے اتنی بات تو صاف ہو جاتی ہے کہ شعر کی تفہیم مشکل ہے۔ غزل کی زبان ایک مخصوص نوعیت کی ہوتی ہے۔ اس میں رمزیاتی عناصر کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اس کے اظہار و بیان کے طریقے مشکل اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔ غزل کا شاعر مضامین کو شعری علامتوں اور استعاروں کے حریری نقاب میں چھپا کر پیش کرتا ہے۔ غزل کے معنیاتی نظام تک رسائی اس کے اشعار پر وجد کی کیفیت میں مبتلا ہوکر نہیں ہوسکتی۔ ایک شعر سن کر اس کی مخصوص ہیئت اور ساخت سے وقتی طور پر محظوظ ہوا جا سکتا ہے لیکن ایک بار میں اس کے معنی کی تہہ تک پہنچنا ممکن نہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ غزل جو اردو شاعری کی آبرو اور ادب کی شناخت ہے اس کی تنقید میں اس کی روایتی خصوصیت اور محاسن کا ذکر کیا گیا لیکن اس کے گہرے ایمائی نظام اور طول وعرض میں پھیلے اس کی تہذیبی، عمرانی، اور فکری و ذوقی پس منظر کو نظر انداز کر دیا گیا۔ حالی نے وقت کے جبری تقاضوں کے تحت غزل کے اصلاحی نسخے تیار کرنے میں اپنی توانائی صرف کر دی۔ کلیم الدین احمد نے غزل سے اس کی شناخت سلب کرنے کے لیے اس کی نئی تعریف وضع کرنے کی سعی لا حاصل کی اور جب اس میں نا کام ہوتے نظر آئے تو اسے ’نیم وحشی صنف سخن‘ قرار دے دیا۔ رشید احمد صدیقی نے غزل سے جذباتی طور پر منسلک ہو کر اس کی تشریح وتوضیح کی۔ غزل کے ساتھ ان کا رشتہ مدافعانہ قسم کا تھا۔ غزل کے مخالفین اس کی مخالفت میں ایک انتہا پر تھے اور اس کے حامی اس کی مدافعت میں ایک دوسری انتہا پر۔ غزل ان دو انتہاوں کے بیچ میں معلق ہو کر رہ گئی۔ غزل کے فن پر گفتگو ہوئی ہے لیکن اس کے تفہیمی مسائل پر کم بات ہوئی۔ عملی تنقید کے ذریعے اس کی قرأت اور تفہیمی مسائل پر جس طرح بات ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ کلیم الدین احمد، اختر انصاری، شمس الرحمان فاروقی، گوپی چند نارنگ، ابوالکلام قاسمی، اسعد بدایونی اور دیگر نقادوں نے عملی تنقید کے ذریعے غزل اور شاعری کے معنیاتی نظام کو سمجھنے اور سمجھانے کی جو کوششیں کی ہیں اس سے انکار نہیں لیکن غزل کی قرأت اور اس کی تفہیم کا مسئلہ آج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمآج بھی کلاسیکی شاعری سمجھنے سے قاصر ہیں۔ دیوان غالب کی تشریح لکھ دینے سے غزل کی تفہیم کا مسئلہ حل نہیں ہو جا تا۔ ہمیں مطالعہ غزل کے طریقۂ کار متعین کرنے ہوں گے۔ اختر انصاری نے غزل اور متعلقات غزل کے باب میں جن امور کا خیال رکھنا ضروری سمجھا ہے ان میں غزل کی ہیئت، اس کا عہد بہ عہد ارتقا، اس کے مختلف دبستان اور اسلوب، اس کا رمزیہ اور کنایتی انداز بیان اہم ہیں۔ غزل کی قرأت سے قبل قاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے خارجی امور سے واقفیت بہم پہنچائے۔ غزل کے خارجی امور میں اس کی ہیئت کا علم ضروری ہے۔ بہت بنیادی بات یہ ہے کہ غزل کا ہر شعر اپنا معنی ادا کر نے میں خود مکتفی ہوتا ہے۔ غزل کی اس ریزہ خیالی سے کلیم الدین احمد دھوکہ کھا گئے اور ادبی شرک کے مرتکب ہو گئے۔ غزل جس کو خالص مشرقی شعریات کے تناظر میں پرکھنا تھا، کلیم الدین احمد مغربی اصول و نظریات کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ غزل اتنی مقبولیت کے باوجود آج بھی اس کی ریزہ خیالی یورپ کے لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی۔غزل کی تفہیم میں اس کے ارتقائی سفر کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ غزل اور شاعری کے ڈکشن میں وقت کے ساتھ ساتھ ایک ہی لفظ نے معانی کے کئی رنگ و روپ اختیار کر لیے ہیں۔ میر و غالب کے عہد میں عاشق و معشوق کا جو تصور تھا وہ اقبال کے یہاں کسی اور شکل میں سامنے آیا اور فیض کے یہاں کسی اور روپ میں۔ آپ غالب کے یہ اشعار دیکھیں؎غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہےغم عشق گر نہ ہوتا غم روز گار ہوتاآئے ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالبکس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعدیہی عشق سفر کرتے کرتے جب اقبال تک پہنچتا ہے تو اس طرح شعر میں نمودار ہوتا ہے؎بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشقعقل ہے محو تماشائے لب بام ابھیاگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانینہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیقعشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میںیا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کرفیض احمد فیض کا معشوق گوشت پوست والا انسان بھی ہے اور ان کا ملک اور وطن بھی۔ فیض نے چونکہ زیادہ نظمیں تخلیق کی ہیں اس لیے یہاں ان کی نظم کے حوالے دیے جا رہے ہیں۔ ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘ نظم میں وطن سے اپنی محبت کا اظہار ایسے کیا جیسے کوئی اپنے محبوب سے کرتا ہے؎تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہمدار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئےتیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہمنیم تاریک راہوں میں مارے گئےغالب کا روایتی عاشق اقبال کے یہاں مرد مومن بن جاتا ہے اور فیض کے یہاں مرد مجاہد جو سرمایہ داروں کے خلاف آزادی کا پر چم لیے کھڑا نظر آتا ہے۔ مطالعہ غزل میں مرور ایام کے ساتھ لفظوں اور استعاروں کے بدلے ہوئے رنگ و روپ کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ اس ضمن میں اردو ادب کی مختلف تحریکوں اور رجحانوں کے اسباب و مقاصد سے ہماری آگہی ضروری ہے۔ تمام تحریکوں کے اثرات اصناف ادب پر مرتب ہوئے ہیں۔ غزل کی تفہیم میں یہ طریقہ بھی کارگر ثابت ہوگا کہ ہم غزل کو اس کے ادوار میں رکھ کر اس کا مطالعہ کریں۔ آپ کسی ایک دور کی شاعری کا مطالعہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ اس دور کی شاعری پر اس وقت کے رجحان کا کتنا گہرا اثر ہے۔ غزل کی روایت میں ایک دور ایہام گوئی کا گزرا ہے۔شاکر ناجی اور آبرو کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت ایہام گوئی کا تصور ہمارے ذہن میں واضح ہونا چاہیے۔ ناجی کا ایک شعر ہے؎اس کے رخسار دیکھ جیتا ہوںعارضی میری زندگانی ہےیہاں دوسرے مصرعے میں لفظ عارضی کا ایک مطلب وقتی اورTemporaryہے۔ قاری مزید غور و فکر کرتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ پہلے مصرعے کی مناسبت سے اس کا ایک مطلب رخسار اور عارض بھی ہوسکتا ہے۔ قاری کی نظر جب اس نکتے پر پڑتی ہے تو وہ اس شعر سے زیادہ لطف اٹھاتا ہے۔مطالعۂ غزل میں غزل کی روایت پر نظر نہ ہو تو ہم شاعری کے اصل لطف سے محروم رہ سکتے ہیں۔غزل کے معنیاتی نظام تک رسائی حاصل کر نے کے لیے سب سے اہم اس کے استعاراتی نظام کی مکمل آگہی ہے۔ استعارات و تشبیہات اور معروف صنعتوں کو سمجھے بنا غزل کی صحیح تفہیم تقریبا ناممکن ہے۔ مطالعۂ غزل میں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی ہوگی کہ غزل میں بات سیدھے انداز میں نہیں کی جاتی ہے۔ غزل کا شاعر اشارات و تمثیلات کے ذریعے معنی کو لفظوں میں چھپاتا ہے۔ اردو غزل کے عامۃ الورود الفاظ و تراکیب جیسے عشق و جنوں، لیلی و مجنوں، گل و بلبل، شمع و پروانہ، برق و شرر، دام و صیاد، طور و کلیم، جام و صہبا، دیوانہ و صحرا، ساقی و ناصح، دیر و حرم اور اس نوعیت کے دوسرے الفاظ محض الفاظ نہیں بلکہ غزل کے مخصوص علائم کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس نوعیت کے الفاظ شاعری میں گہری معنویت پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح کے الفاظ ظاہری مفہوم کے ساتھ اپنا باطنی مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ جب جب ہمیں اس طرح کے الفاظ و تراکیب کا سامنا ہو تو ہمارے لیے ہر شعر پر عمل جراحی کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ تبھی ہم اس کے ظاہری مفہوم کے ساتھ اس کے باطنی مفہوم کو تلاش کر سکتے ہیں۔ اس پوری بحث کو میر تقی میر کے اس مشہور شعر سے سمجھیں؎ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیاآگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیاظاہر ہے اس کا ایک مطلب تو یہی ہے جو پڑھتے ہی ہمارے ذہن میں آ تا ہے، یعنی؎یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیےاک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہےیعنی عشق کرنا آسان نہیں ہے۔ اس میں روز بروز پریشانیوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم سنجیدہ ہوکر لفظ عشق پر غور کرتے ہیں تو پھر اس سے یہ معنی بھی نکل کر آتا ہے کہ عشق کی طرح ہم جب بھی کسی بڑے مقصد کے حصول میں نکلتے ہیں تو ہمیں کئی طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب تھوڑی اور مغز ماری کرتے ہیں تو اس سے عشق کا ہی یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ شروع شروع میں معشوق ناز و نخرے تو دکھاتا ہی ہے لیکن رفتہ رفتہ عشق میں وہ منزل بھی آتی ہے جہاں عاشق ہجر کا رونا نہیں روتا۔ وہ وصال کی مسرت کا نغمہ گنگناتا ہے۔ ممکن ہے یہاں شاعر یہ بھی کہنا چاہ رہا ہو کہ ابھی تو آغاز عشق ہے پریشان کیوں ہوتے ہو، حوصلہ رکھو کچھ دن میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہیں سے یہ معنی بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ کسی بھی کام کے آغاز میں دقتیں تو پیش آتی ہی ہیں۔ ان سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں یا ہر پریشانی کے بعد آسانی پیدا ہوتی ہے۔میں نے مضمون کے شروع میں رولاں بارتھ کا نظریہ ’مصنف کی موت‘ کا ذکر کیا ہے لیکن میں اس نظریے سے پورے طور پر اتفاق نہیں رکھتا کہ متن آزاد ہوتا ہے۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ متن کا مطالعہ آزادانہ طریقے سے کرنا چاہیے۔ متن کا آزاد ہونا اور متن کا آزادانہ طریقے سے مطالعہ کرنا، دونوں میں فرق ہے۔ اگر متن آزاد ہوتا ہے تو ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ یہ اسلوب میر کا ہے یہ غالب کا ہے اور یہ اقبال کا ہے۔ دراصل ہر متن میں صاحب متن کی علمی و فکری دنیا موجود رہتی ہے اور بعض دفعہ اس کی شخصیت کی پوری کہانی اس کے متن میں پنہاں ہوتی ہے۔ اس لیے میرا یہ ماننا ہے کہ مطالعۂ غزل میں شاعر کی زندگی کا مطالعہ بھی اہم ہے۔ میر کی زندگی کا مطالعہ کریں یا ان کی غزلوں کی بات ایک ہی ہے۔ ہم ان کی غزلوں کی مدد سے ان کی شخصیت کا ایک خاکہ بنا سکتے ہیں اور ان کی زندگی پڑھ کر ان کی غزلوں کی روح تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصنف کی موت والی بات میرے نزدیک اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ متن کی قرأت کے حوالے سے جتنے بھی نظریات ہیں وہ سب کے سب بے معنی اور بکواس ہیں اگر قاری کی اپنی لیاقت اور علمیت قابل اعتبار نہیں ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری صاحب نے بڑی اچھی بات کہی ہے:’’میرا ذاتی ادراک اورPerceptionیہ ہے کہ متن کی قرأت کے لیے کسی بھی ایزر فش، دریدا، بارتھ، لاکاں فوکو کی قطعی ضرورت نہیں۔ ہاں البتہ آپ کے اپنے شعوری بالیدگی اور قدرےEpistemeکی اہمیت ضرور ہے۔‘‘ (قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری، ص: 24)قاری کا اپنا شعور اگر بالیدہ اور مطالعہ وسیع نہ ہو تو وہ جب جب کسی غزل کی قرأت کرے گا تب تب غیب سے یہ آواز آئے گی؎یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری باتدے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اورآگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائےمدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کااس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ قاری کس نظریے کے تحت متن کی قرأت کر رہا ہے۔Dr. Md. RaihanDept of Urdu, Jamia Millia IslamiaNew Delhi- 110025Mob.: 7366083119" اردو بارہ ماسہ: ایک جائزہ:عمران احمد,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/08/,"’’بارہ ماسوں کی باقاعدہ ابتدا جین سادھوؤں کی شعری تصنیفات سے ہوتی ہے، جن میں لوک کتھائیں، عوامی روایتیں اور نیم تاریخی قصے بیان کیے گئے ہیں،جن کے ضمن میں بارہ ماسے آئے ہیں۔‘‘)تنویر احمد علوی کا جہان ِمعانی جلد اول ص 495(بعض محققین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس صنف شاعری کی ابتدا سنسکرت سے ہوئی ہے۔کیونکہ رامائن جیسی اہم تصنیف میں چار موسموں کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بسنت، برسات، جاڑا ا ور جاڑے کے بعد کا موسم اہم ہے۔ اسی طرح کالی داس نے اپنی تصنیف میں چھے موسموں کا ذکر کیا ہے۔ان کا بارہ ماسہ گرمی سے شروع ہوکر بسنت پر ختم ہوتا ہے۔ جب کہ بیسل دیوراس کا بارہ ماسہ کارتک سے شروع ہو کر کنوار پر ختم ہوتا ہے۔ پندرہویں صدی میں گنپت کوی کا لکھا ہوا بارہ ماسہ پھاگن سے شروع ہوکر چیت پر ختم ہوتا ہے۔ہندی ساہتیہ کوش میں بارہ ماسے کے ابتدائی نقوش پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:’’سنسکرت میںچھ موسموں کا بیان عظیم شاعروں کا ایک ضروری حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔لیکن ہر ایک ماہ کی الگ الگ نشاندہی کر کے شوہر کے فراق میں جھیلے جانے والے دکھوں کو بیان کرنا ہندی بارہ ماسوں کی نجی خصوصیت ہے۔‘‘(متاع بارہ ماسہ ص41)شمالی ہندمیں کئی مختلف زبانوں میں صنف بارہ ماسہ رائج اور مقبول ہوئی۔مثلاً پنجابی، گجراتی، راجستھانی، بنگالی، مراٹھی،اودھی اور ہندی میں عمدہ بارہ ماسے لکھے گئے ہیں۔ بھگتی کال کے شعرا نے خاص طور پر اس جانب توجہ دی۔ اودھی زبان کے اہم شعرا میں قطبن، جائسی اور منجھن شمار کیے جاتے ہیں۔ پندرہویں صدی کے ہندستانی شعر و ادب میں اس پایے کی ادبی تصانیف کے نقوش ملتے ہیں۔اردو میں عوامی شعر و ادب کی جو روایت رہی ہے ان میں بارہ ماسے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔افضل کی بکٹ کہانی کو عموماََ اردو کا پہلا بارہ ماسہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ شمالی ہند کے اس شاعر کا پورا نام محمد افضل اور تخلص افضل تھا۔ بکٹ کہانی کا زمانۂ تصنیف1625 ہے جس کا ذکر اردو کے قدیم تذکروں میں بھی موجود ہے۔افضل کے اس بارہ ماسے کو حافظ محمود شیرانی، پروفیسر نورالحسن ہاشمی اور مسعود حسین خاں نے اپنے فاضلانہ مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔ اردو میں جتنے بھی بارہ ماسے لکھے گئے ہیں وہ سب کے سبـ’لوک ساہتیہ‘ کے گیت کی روایت سے جڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو بارہ ماسہ ایک مستقل صنف کی صورت میں سامنے آیا۔اردو کے یہ بارہ ماسے مختصر گیت ہی نہیں بلکہ طویل اور اپنی جگہ پر ایک مکمل عشق نامے کی حیثیت رکھتے ہیں۔جیسا کہ لفظ بارہ ماسہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق بارہ مہینوں سے ہے۔یہ ایک مرکب ہندی لفظ ہے اور حرفی طور پر یہ لفظ مذکر ہے اور دو اجزا پر مشتمل ہے۔ اسی نسبت سے اسے بارہ ماسہ کہا جاتا ہے۔ اس نظم میں سال کے بارہ مہینوں کے درد جدائی کی تفصیل ہوتی ہے۔ دراصل بارہ ماسہ ایک پریم کہانی ہے۔ یہ درد و غم میں مبتلا منظوم عشقیہ داستان ہے۔ بارہ ماسے میں ایک مہجور عورت اپنے محبوب کے درد جدائی و ہجر کو بیان کرتی ہے۔بارہ ماسے میں عورت کے جذبات اس کی اپنی زبان میں پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب کے فراق میں تڑپتی ہے اور سال کے ہر مہینے میں موسم کے مزاج کے ساتھ اپنے دل کے احوال بیان کرتی ہے۔وہ اپنی سہیلیوں پر رشک کرتی ہے کہ انھیں اس طرح کے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے اوروہ درد جدائی سے انجان ہیں۔وہ اپنے عاشق کو بلانے کے لیے کبھی کسی ملّا تو کبھی کسی پنڈت اور جیوتشی کے پاس جاتی ہے کہ شاید وہ کوئی ایسا نسخہ بتا دے جس سے اس کا بچھڑا ہوا محبوب واپس آجائے۔ یہی کرتے کرتے سال کے گیارہ مہینے بیت جاتے ہیں۔بارہویں مہینے میں اس کی دعا قبول ہو تی ہے اور اس کا محبوب پردیس سے واپس آجاتا ہے۔اس طرح اس کا درد و غم خوشی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اردو زبان کی مشہور لغت ’فرہنگ آصفیہ‘ میں بارہ ماسے کا مفہوم اس طرح سے پیش کیا گیا ہے:’’وہ نظم جس میںہندی کے بارہ مہینوں کی تکلیف اور کیفیت، فراق زدہ عورت کی طرف سے بیان کی جاتی ہے۔‘‘( فرہنگ آصفیہ جلد اوّل مطبوعہ لاہور)ہندی ساہتیہ کوش میں بارہ ماسے کی ادبی اصطلاح کو ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے:’’بارہ ماسہ لوک گیتوں کی وہ قسم ہے جس میں کسی مہجور عورت کے سال کے ہر ایک ماہ میں محسوس کیے ہوئے دکھوں اور دل گداز حالتوں کی تفصیل پائی جاتی ہے۔‘‘(متاع بارہ ماسہ ص15)بارہ ماسہ ایک بیانیہ صنف ہے اور صنف کے اعتبار سے بارہ ماسہ نظم میں داخل ہے۔یہ بیانیہ ایک کرداری ڈرامے کی حیثیت رکھتا ہے جس میں قدرتی مناظر کی مصوری اور موسیقی کی اصطلا حیں بھی موجود ہوتی ہیں۔بارہ ماسہ بارہ ٹکروں یا بندوں پر مشتمل ہوتا ہے۔بارہ ماسے کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر ماہ کے جذبات اور محسوسات ہندی مہینوں کی ترتیب کے مطابق الگ الگ پیش کیے جاتے ہیں۔ تمام بارہ ماسوں میں جدائی کے کرب کے ساتھ ساتھ موسموں کے اثرات،تہواروں کا ذکر اور قدرت کے مناظر کا بیان ملتا ہے۔ بنیادی طور پر اگر دیکھا جائے تو بارہ ماسہ ایک روحانی تجربہ بھی ہے اور سادھنا بھی ہے۔ اس کے اندر بدلتے موسم میں عورت کی جذباتی اور نفسیاتی کیفیتوں کا اظہار کیا جاتا ہے۔بارہ ماسے میں ہر مہینہ حد درجہ رومانی ہوتا ہے۔فراق کے لمحوں میں گرفتار عورت کی ذہنی کیفیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر موسم کی رومانیت کتنی گہری ہے؎نہ مجھ کوں بھوک دن، نا نیند راتابرہ کی درد سوں سینہ پراتاپیا کی یاد میں روتی پھروں ہوںجدائی کی اگن میں نیت جڑوں ہوںبارہ ماسے کے اقسام کے حوالے سے بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انجام کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں۔ ایک قسم وہ جس میںشروع سے لے کر آخر تک فراق و اضطراب کا حال بیان کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس میں سال کے اختتام پر بھی عاشق کی حالتِ زار اُسی طرح برقرار رہتی ہے۔دوسری قسم وہ ہے جس کا اختتام وصل یار پر ہوتا ہے۔ بارہ ماسے کی ان دونوں اقسام میں پہلی قسم کو المیہ اور دوسری قسم کو طربیہ کہا جا سکتا ہے۔ بارہ ماسہ خواہ المیہ ہو یاطربیہ اس کی تکمیل چند اہم لوازمات سے مل کر ہوتی ہے۔ان عناصر میں یاد محبوب، غم ہجراں اور تمنائے وصل اہم ہیں۔اردو بارہ ماسے میں ان تینوں حالتوں کی سچی تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔یہ ترکیبی عناصر بارہ ماسوں کے لیے اہم خیال کیے جاتے ہیں۔بارہ ماسے میں زبان و بیان اور اسلوب نسوانی انداز میںپیش کیے جاتے ہیں۔ جس طرح ریختی میں عورتوں کے جذبات کا اظہار خود عورتوں کی زبان میں کیا جاتا ہے اسی طرح اس صنف میں بھی جذبات اور خیالات کے اظہار کے لیے نسوانی زبان کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔مگر اس مماثلت میں ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ بارہ ماسے کا دامن ابتذال اورسوقیت سے بے داغ نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی لکھتے ہیں:’’ریختی میں صرف عورتوں کی زبان کا لحاظ نہیں رکھا جاتا بلکہ پیشہ ور عورتوں کے مبتذل جذبات، بازاری اور عامیہ زبان میں ادا ہوتے ہیں۔‘‘( متاع بارہ ماسہ ص38)اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو فنی اعتبار سے دونوں ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔ریختی کے لیے فارسی بحروں کا ہونا ضروری خیال کیا جاتا تھاجب کہ بارہ ماسے میں ایسی کوئی قید نہیں ہوتی ہے۔ بارہ ماسے کی کائنات کافی رنگا رنگ اور متنوع ہے۔ اس میں عشقیہ جذبات کی کامیاب تصویر کشی کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ سماج اور تمدن اور قدرتی مناظر کی عکاسی بھی کی جاتی ہے۔مثلاً؎ہوا میں ہووے نیرنگی نہ کیوں کرہزاروں رنگ اڑیں جب یو ں ہوا پربارہ ماسے کے لیے کوئی خاص یا مخصوص ہیئت متعین نہیں کی گئی ہے۔اس میں شاعر کو اس بات کی پوری آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے محسوسات اور جذبات شوق کے لیے جس شکل کو مناسب سمجھے اس کا استعمال کر سکتا ہے۔شاعر کے لیے کم و بیش یہی آزادی بحر و وزن کے سلسلے میں بھی نظر آتی ہے۔بحر و وزن کا استعمال شاعر کی طبیعت پر منحصر ہوتا ہے جس کے نتیجے میںیہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف بارہ ماسے مختلف ہیئت اور بحرمیں لکھے گئے ہیں۔قدیم شعرا نے اپنے بارہ ماسوں میں ہندی دوہا، دوہرے کو شامل کیا ہے۔ یہ طریقۂ کار اس عہد میں بے حد مقبول تھا۔اردو شاعروں نے زیادہ تر بارہ ماسے مثنوی کی شکل میں لکھے ہیں۔اودھی کے عموماً سبھی شاعروں نے بارہ ماسے کو دوہا اور چوپائی کی ہیئت میں لکھا ہے۔ لیکن بعض دیگر شعرا نے خصوصاًمحمد عبد اللہ علم مستزادادی اور ترجیع بند کی صورت میں لکھا ہے، جب کہ عبد اللہ نے غزل کی ہیئت میں لکھا ہے۔قطبی، جائسی، عثمان اورقاسمی شاہ کے بارہ ماسے چوپائی کے وزن میں لکھے گئے ہیں۔ وہاب اور افضل کے بارہ ماسے بحر ہزج مسدس مخدوف میں لکھے گئے ہیں۔اسی طرح منشی ڈوری لال کاایک مختصر بارہ ماسہ ترجیع بند کی شکل میں ملتا ہے جو صرف آٹھ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں کنوار، کارتک اور اگہن کا حال ایک ہی بند میں کچھ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے؎کنوار نند کے کنوار نہ آئےکارتک سیج نہ سہاتیاگہن بِسر گئی سدھ تن من کیبَن بَن ڈھونڈھن جاتیمن موہن سوہن بِن ہے نہ چلن دن راتی(متاع بارہ ماسہ،ص43)درج بالا اشعار سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بارہ ماسہ لکھنے کے لیے شاعر کوکسی مخصوص ہیئت کی پابندی کی ضرورت نہیں ہے۔ اردو بارہ ماسے کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں کے بارہ ماسوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میںزبان، ہیئت اور جذبات و احساسات میں یکسانیت نظر آتی ہے لیکن شاعر اپنے لب و لہجے اور ذاتی اظہار کی انفرادیت سے ان میں تنوع پیدا کر دیتا ہے۔بارہ ماسے کی بنیاد درد و غم اور جستجو و آرزو پر قائم ہے۔اس کے خاص موضوعات ہجر اور فراق کی واردات ہیں۔ مشرقی معاشرہ شوہر پرست تسلیم کیا جاتا ہے۔ مشرقی عورتوں کے لیے اپنے شوہر کی جدائی سے زیادہ اور کیا کرب ہو سکتا ہے؟ مشرقی عورتیں اپنا حسن وشباب، زیب و زینت اور خلوص و محبت سب کچھ اپنے شوہر کے لیے وقف کر دیتی ہیں۔ برہن کوجب اپنے شوہر کے فراق کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس کا برملا اظہار اپنی زبان میں کرتی ہے۔ ہجر میں عورت کی اس کیفیت کی ترجمانی میر حسن نے کچھ اس طرح سے کی ہے؎محبت میں سودا سا ہونے لگاجنوں، تخم، وحشت کا بونے لگاہجرو فراق میں جنسی نزاکت کے لطیف جذبات اور درد انگیز محسوسات اور باطنی اضطراب کو شاعروں نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ کسی نہ کسی صورت میں اس کی عکاسی بھی کی ہے۔لیکن ایسی صورت کی بھر پور ترجمانی ہمیں صرف بارہ ماسے میں دیکھنے کو ملتی ہے۔بارہ ماسے میں عورت کی اس بے قراری اور تڑپ میں اس کی شگفتگی اور اس کا انتہائی خلوص پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس کے بیان میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہوتا جو نفرت اور بے زاری کی غمازی کرتا ہو۔ بارہ ماسے میں عورت اپنے جمالیاتی تجربے میں ڈوبی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔اس کے کلام میں محبوب کے کھو جانے کا نہ صرف احوال ملتا ہے بلکہ جدائی کا کرب بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔بارہ ماسوں میں حسّی جذباتی قدریں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اس میں عورت اپنی سکھیوں سے مخاطب ہو کر اپنے کرب کی عکاسی کرتی ہے۔بارہ ماسوں میں موسم کے ذکر کے ساتھ اپنی باطنی کیفیتوں کے بیان کا احساس ملتا ہے۔ عورت اپنے درد و بے چینی اور کشمکش کو رومانی انداز میں پیش کرتی ہے۔بارہ ماسوں میں مہینوں اور موسموں کی کیفیت بنیادی طور پر ایک جیسی ہوتی ہے۔بارہ ماسے کے انھی نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر شکیل الرحمن لکھتے ہیں:’’تمام بارہ ماسوں کا مزاج ایک جیسا ہے اس لیے کہ ایک ہی جذبہ اپنے مختلف رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش ہوتا رہتا ہے۔ہر موسم کی کیفیت عورت کے پورے وجود میں سرایت کرتی محسوس ہوتی ہے۔ مختلف موسم گہرے احساس کے آہنگ کو چھیڑتے رہتے ہیں، اس قدر کہ ہر موسم کی رومانیت اتنی شدّت اختیار کر لیتی ہے کہ عورت شیریں دیوانگی کا پیکر بن جاتی ہے۔(بارہ ماسہ کی جمالیات،ص 10)بارہ ماسے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میںعورت کے دل گداز، جدائی میں اس کے دل کی کسک، حیا کے ساتھ محبت کی بے خودی، اس کی وفا سپردگی اور اس کی حرماں نصیبی کی تفصیلات ملتی ہیں۔بارہ ماسے میں عورت کی وفا شعاری اور مرد کی بے اعتنائی کی روداد بیان کی جاتی ہے۔اس میں پیار اور جلن کی داستان سنائی جاتی ہے۔بارہ ماسے میں برہن کی تمام جسمانی، ذہنی اور عملی کیفیات کی گہری عکاسی ملتی ہے۔غم زدہ برہن کے اس صدمۂ جاں کا اظہار سال کے گیارہ مہینے تک مسلسل ہوتا رہتا ہے۔جب بارہواں مہینہ بھی ختم ہونے کے قریب آتا ہے تو اس کے آنسوؤں کا تار ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کا بچھڑا ہوا محبوب واپس آجاتا ہے۔اور آخر میں اس برہن کا چہرہ کھل اٹھتا ہے۔افضل کے اس شعر میں اس کیفیت کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے؎جو آیا ماہ پھاگن کیا کروں ریسجن پردیس نت دکھ بھروں ریارے ظالم ترے پیاں پڑوں رےدل و جان تجھ اوپر قرباں کروں رےکہے برہن کہ پھاگن مانس آیاسبھوں نے روپ رنگا رنگ بنایاہندی کے بارہ مہینے بالترتیب چیت، بیساکھ، جیٹھ، اساڑھ، ساون، بھادو، کنوار، کارتک، اگہن، پوس، ماگھ اور پھاگن ہیں۔ان بارہ مہینوں کو برہن شوہر کی جدائی میںرو رو کر گزارتی ہے۔وہ اپنے شوہر کے ساتھ گزارے لمحات کو یاد کرکر کے اسے واپس بلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ بارہ ماسوں میں فرقت کے احوال کا آغاز عام طور پر اساڑھ ماہ سے شروع ہوتا ہے۔ البتہ بعض شعرا کے یہاں اس کی ابتدا چیت سے اور کسی کے یہاں ساون سے بھی ہوئی ہے۔اردو ادب میں زیادہ تر بارہ ماسے اساڑھ یا ساون کے مہینوں سے شروع کیے گئے ہیں۔ہندی کے پہلے ماہ چیت میں چہار جانب جشن کا ماحول ہوتا ہے، خوشیاں منائی جاتی ہیں۔لیکن برہن داخلی طور پر تنہا محسوس کرتی ہے کیوں کہ اس مہینے میں محبوب اس کے ساتھ نہیں ہوتاہے۔بیساکھ مہینے میں عورت اپنے محبوب سے گزارش کرتی ہے کہ تم واپس آجاؤ تو زندگی میں رونق آجائے۔جیٹھ اور اساڑھ کے مہینے میں گرمی کی شدت بڑھ جاتی ہے۔محبوب کے آنے کی آس میں برہن تڑپتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔اساڑھ کے بعد ساون کا مہینہ آتا ہے جس میں خوب بارش ہوتی ہے۔عورت کا دل اپنی تمام تر نسوانی خصوصیات کے ساتھ دھڑکتا ہے۔مگر وہ اس موسم میںبھی محبوب کے ملنے کی امید میں تنہا رہتی ہے۔بھادو ماہ میں بھی برہن کی کیفیت ویسی ہی رہتی ہے۔اس موسم میں فطرت رقص کرتی دکھائی دیتی ہے مگر اس کے نینوں سے آنسو برستے ہیں۔بجلی کی چمک اور کڑک سے اس کے اضطراب میں اضافہ ہوتا ہے۔ کنوار کا مہینہ کم جان لیوا نہیں ہے۔ چاندنی راتیں اس کے لیے دکھ درد کا پیغام لے کر آتی ہیں۔کارتک میں دن چھوٹے ہوتے ہیں جب کہ راتیں لمبی ہوتی ہیں۔ یہ لمبی راتیں برہن کو ڈستی ہیں۔ اگہن اور پوس کی راتوں کا لطف محبوب کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ماگھ مہینے میں برہن کو اپنے محبوب کے ملنے کی آس بڑھ جاتی ہے۔پھاگن مہینے میں ہر طرف رنگوں کی برسات ہوتی ہے۔بالآخر اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کا محبوب واپس آتا ہے۔جس طرح شعری اصناف کی تکمیل کے لیے ہیئت اور بحر و وزن جیسے ترکیبی عناصرناگزیر ہیں اسی طرح بارہ ماسے کو دلچسپ اور اثر انگیز بنانے کے لیے چند بنیادی لوازمات کی پابندی ضروری ہے۔یہاں پر چند اہم لوازمات کی طرف روشنی ڈالی گئی ہے:الف:برہن کے داخلی جذبات اور اس کی باطنی کیفیات محض قیاس اور تخیل پر مبنی نہ ہوں۔ب:سال کے بارہ مہینوں کا ذکر بالترتیب ہو۔ ہر ماہ کی موسمی خصوصیات کے ساتھ ساتھ اس میں ہونے والے تہواروں،میلوں کا بیان کیا جانا چاہیے۔ج:قدرتی مناظر اور موسموں کا ذکر اس طور سے کیا جائے کہ اس کے ذریعے شعلۂ ہجر اور درد فراق میں شدت پیدا کی جاسکے۔د:مناظر فطرت اور کوائف موسم کی تصویر کشی کرتے وقت ضرورت سے زیادہ تخیل اور مبالغے سے کام نہ لیا جائے بلکہ ان کی مصوری اس انداز میںکرنی چاہیے کہ وہ فطری اور حقیقی معلوم ہوں۔س:بارہ ماسے میں پرُ اثر و عام فہم زبان و بیان کا استعمال کرنا چاہیے۔جہاں تک ممکن ہو شاعر کو چاہیے کہ وہ ایسے الفاظ کا استعمال کرے جس سے برہن کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہو سکے۔ص:بارہ ماسہ لکھتے وقت شاعر کے لیے لازمی ہے کہ وہ الفاظ تکرار اور طول طویل کلام سے پر ہیز کرے۔ل:ہر ماہ کی جدائی اور بے قراری کا احوال اس ماہ کی قدرتی خصوصیات اورتہواروںکی رنگا رنگی اور مناظر کی مرقع نگاری کے ساتھ کی جانی چاہیے۔اردو میں بارہ ماسہ نگاری کا آغاز تقریباً 17 ویں صدی کے ربع اوّل سے ہوتا ہے اور اب سے سو سال قبل اس صنف کا خاتمہ بھی ہو گیا۔ لیکن بارہ ماسے نے اپنی اس مختصر سی مدّت میں اردو شاعری میں کئی اہم نمونے چھوڑے ہیں۔اردو میں بارہ ماسہ لکھنے والوں کی فہرست بہت مختصر ہے۔راقم الحروف نے اپنے اس مضمون میں اردو ادب میں دستیاب چند اہم بارہ ماسوں کا اجمالی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔بِکٹ کہانی- افضل:افضل کی بکٹ کہانی اردو کا پہلا بارہ ماسہ ہے۔اردو ادب میں بارہ ماسہ لکھنے کی روایت کا آغاز انھی کے سر جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی بکٹ کہانی کو اردو ادب کی تاریخ کا پہلا بارہ ماسہ تسلیم کیا گیا ہے۔ شمالی ہند کے اس شاعر کا نام محمد افضل تھا اور تخلص افضل۔ افضل کا شمار ہندی کے اہم شاعروں میںبھی ہوتا ہے۔ ہندی زبان میں انھوں نے کئی اہم کار نامے انجام دیے ہیں۔انھوں نے اپنی اس تخلیق کے آخری شعر میں خود کو افضل کے ساتھ گوپال بھی لکھا ہے؎بیادِ دل رُبا خوش حال می باشگہے افضل گہے گوپال می باشبکٹ کہانی پہلی دفعہ 1625 میںشائع ہوئی جب کہ اس نادر شعری تخلیق کی طبع ثانی ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی اور ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے اپنے فاضلانہ مقدمے کے ساتھ شعبۂ اردو، عثمانیہ یونی ورسٹی کے علمی و تحقیقی مجلے ’’قدیم اردو ‘‘ کے جلد اوّل میں 1965میں کی۔بکٹ کہانی بارہ ماسہ ہے جسے مثنوی کے انداز میں لکھا گیا ہے۔پروفیسر نورالحسن نے بکٹ کہانی کے اشعار کی تعداد321 بتائی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ پہلے 325 اشعار تھے۔ بعد میں چار اشعار نکال دیے گئے ہیں۔یہ چار اشعار دو بار شامل ہو گئے تھے جس کی بنا پر اسے خارج کردیا گیا۔ بکٹ کہانی بحر ہزج مسدس الآخر میں لکھی گئی ہے۔اگر زبان و بیان کے تعلق سے بات کی جائے تو یہ بارہ ماسہ کسی ایک زبان اور بولی تک محدود نہیںبلکہ اس میں دہلی اور اس کے نواح میں بولی جانے والی کھڑی بولی،اودھی، مگدھی، بھوجپوری کی بولی ٹھولی کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ بکٹ کہانی کو جدید اردو کا پہلا ادبی و لسانی نقش بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔دوسرے بارہ ماسوں کی طرح بکٹ کہانی کے موضوعات میں برہن کے درد جدائی کی عکاسی ملتی ہے۔بکٹ کہانی کا پہلا شعر؎سنو سکھیوں! بکٹ میری کہانیبھئی ہوں عشق کے غم سوں دوانیافضل کی بکٹ کہانی کا آغاز ساون کے مہینے سے ہوتا ہے اوراساڑھ کے مہینے پر ختم ہوتا ہے۔پہلے ماہ کے آغاز سے پہلے 57 اشعار پر مشتمل عشق نامہ پیش کیا گیا ہے۔ ماہ ساون کا بیان دس اشعار پر مشتمل ہے جب کہ دوسرے ماہ بھادو میں پندرہ اشعار ہیں۔بکٹ کہانی میں ہر مہینے کے اشعار کی تعداد مختلف ہے۔ بارہ ماسہ بکٹ کہانی کے اسلوب کی بات کی جائے تو یہ اپنے عہد کی ریختہ گوئی کی عکاسی کرتی ہے۔ بکٹ کہانی کے بہترین حصوں میں ماہ ساون، بھادو اور پھاگن ہیں جو خارجیت اور داخلیت کا ربط و آہنگ ہے۔یہ بارہ ماسے کا اہم حصہ مانا جاتا ہے۔بارہ ماسہ عزلت:بکٹ کہانی کے بعد اردو کے اہم بارہ ماسوں میںاس کا شمار ہوتا ہے۔اس شعری کلام کے تخلیق کار میر عبد الولی عزلت ہیں۔عزلت گجرات کے رہنے والے تھے۔عزلت اردو کے علاوہ فارسی اور ہندی میں بھی شعر کہتے تھے اور نرگن تخلص کرتے تھے۔ ان کے اردو دیوان میںبارہ ماسے کے علاوہ کہہ مکرنیاں، کبت دوہرے، چھند، سورٹھا، جیسے شعری کلام پائے جاتے ہیں۔افضل کی بکٹ کہانی کے بعد اردو میں بارہ ماسہ عزلت کوزیادہ قدیم قرار دیا جا سکتا ہے۔ سبھی بارہ ماسوں کاموضوع ایک جیسا معلوم ہوتا ہے مگرشاعر کی فنکارانہ صلاحیت اورتحریری انداز سے یہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔بارہ ماسہ عزلت کا آغاز اساڑھ کے مہینے سے ہوتا ہے؎اساڑھ آیا ہے لے بادل کی فوجیںکہ تیغیں برق کی ماریں ہیں موجیںعزلت کے اس بارہ ماسے میںبرہن کے درد و غم کی کیفیت کا بہت ہی تفصیلی بیان ملتا ہے۔البتہ اس کے برعکس اس میں مو سم کا حال مختصر ہے۔عزلت نے ہر مہینے کے بیان کو چار سے پانچ اشعار میں قلم بند کیا ہے۔اس بارہ ماسے میں پورا زور برہن کے بیان پر دیا گیا ہے جو اپنے معشوق کی یاد میں تڑپتی ہے۔اس بارہ ماسے کی بحر وہی ہے جو افضل کی بکٹ کہانی کی ہے۔اس میں جس طرح برہن کے ساتھ ساتھ مہینوں اور تہواروں کی عکاسی کی گئی ہے اس سے بڑے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ عزلت نے اپنی واردات عشق کی تصویر پیش کی ہے۔بارہ ماسہ وحشت:میر بہادر علی وحشت نے بارہ ماسہ وحشت لکھ کر اس صنف میں طبع آزمائی کی۔اردو کے قدیم بارہ ماسوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔اس بارہ ماسے کے متعلق معلومات سب سے پہلے میر حسن کی تحریروں میںملتی ہیں۔ اس بارہ ماسے کا ایک قلمی نسخہ رضا لا ئبریری رامپور میںمحفوظ ہے۔وحشت نے اس بارہ ماسے کو اردو کے پہلے بارہ ماسہ نگار افضل کی تقلید اور اپنے دوستوں کی فرمائش پر لکھا تھا؎عزیز کچھ نہ پوچھو حال میرابرا ہے ان دنوں احوال میرابارہ ماسہ وحشت کا فکری پس منظر،طرز تحریر اور انداز افضل کی بکٹ کہانی سے مختلف ہے۔یہ بارہ ماسہ تو ہے ہی ساتھ ہی اس میں ساقی نامے کا عکس بھی نظر آتا ہے کیوںکہ اس میں شروع سے لے آخر تک ایک ساقی سے خطاب کا سلسلہ رہتا ہے۔ اس بارہ ماسے کی ایک خوبی اور ہے جو دوسرے بارہ ماسوں سے مختلف ہے وہ یہ ہے کہ اس میں برہن کے درد جدائی کو کسی نسوانی زبان کے بجائے مرد کی زبان سے پیش کیا گیا ہے۔اس میں شاعر نے عورت کے احساسات و جذبات کے ساتھ موسمی کیفیت کی عکاسی بہت ہی پر اثر طریقے سے کی ہے۔اس کی اپنی انھی خوبیوں کی وجہ سے اسے اردو بارہ ماسوں میں بہترین نمونہ خیال کیا جاتا ہے۔بارہ ماسہ رباّنی:عبد اللہ انصاری کے اس بارہ ماسے کو اردو کے اہم بارہ ماسوں میں شمار کیا جاتاہے۔عبد اللہ انصاری کا تعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات سے تھا۔ اس بارہ ماسے کا طبع اوّل احمدی علی گڑھ کی جانب سے 1323 ھ میں ہوا۔یہ تصنیف 84 صفحات پر مشتمل ہے۔ آخری صفحے پر کوئی نشان یا شمار موجود نہیں ہے۔ اس کا سرورق سادہ ہے۔ اس بارہ ماسے کے شروع میں پہلے حمد باری تعالیٰ اور پھر نعت رسول پیش کی گئی ہے۔حمد اور نعت رسول کے بعد مناجات عبد اللہ انصاری کے عنوان سے لکھی گئی ہیں۔ تنویر احمد علوی نے ان کی تعداد 27 لکھی ہے جب کہ ان کی تصنیف میں30 اشعار درج ہیں۔ دعائیہ کلمات کے بعد سبب تالیف لکھا ہے جو 224 اشعار پر مشتمل ہے۔اسی طرح نول کشور کی جانب سے شائع بارہ ماسہ صرف 12 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے سرورق پر ’بہ عون صناع مکیںو مکان و فضل خلاّق زمیںو زماں سبحانہ تعالیٰ‘ درج ہے۔عبد اللہ انصاری بارہ ماسے کی تالیف کے محرکات کے سلسلے میں لکھتے ہیں:’’افضل اور مفتی الٰہی بخش کی بکٹ کہانی سے وہ گہرے متاثر ہوئے۔ اسی تاثر کے تحت انھوں نے یہ تالیف تصنیف کی ہے۔‘‘(اردو میں بارہ ماسہ مطالعہ اور متن ص136)دوسرے بارہ ماسوں کی طرح اس میں بھی درد و غم کی تمام کیفیات موجود ہیں۔بارہ ماسے کی ابتدا اساڑھ ماہ سے ہوتی ہے۔اس میںہر ماہ کے اشعار کی تعداد مختلف ہے۔اس بارہ ماسے کا آغاز خواب دیکھنے کے ذکر سے ہوتا ہے جس میں داستانی قصوں اور روایتی کہانیوں کے انداز پر کسی انجان آدمی کودیکھ کر مجازی عشق میں مبتلا ہو جانے کی بات کی گئی ہے۔اس بارہ ماسے کی زبان میں اردو کے کھرے پن کی عکاسی موجود ہے۔اس میں عربی و فارسی کے الفاظ کے علاوہ ہندی الفاظ کو ایک ہندستانی عورت کے روایتی کردار میں پیش کیا گیا ہے جواس بارہ ماسے کی اہم خصوصیات میں شامل ہے۔بارہ ماسہ بکٹ کہانی ازعبد اللہ انصاری:اس بارہ ماسے کا ذکر سب سے پہلے مسعود حسین خاں نے کیا ہے۔انھوں نے لکھا کہ عبد اللہ انصاری نے نہ صرف افضل کی بکٹ کہانی کی تقلید کی ہے بلکہ انھوں نے اسی عنوان سے بکٹ کہانی بھی لکھی ہے۔انھوں نے اس کا زمانہ تصنیف 1823 کے قریب درج کیاہے۔اس بارہ ماسے کی بحر وہی ہے جوافضل کی بکٹ کہانی کی ہے۔بارہ ماسہ بکٹ کہانی از مفتی الٰہی بخش کاندھلوی:بکٹ کہانی کا نام آتے ہی افضل کے بارہ ماسہ کی طرف ذہن جاتا ہے لیکن تنویر احمد علوی نے اپنی تصنیف میں اس بارہ ماسے کا تذکرہ کیا ہے۔مفتی صاحب نے اپنی اس تصنیف کی تخلیق افضل کے بارہ ماسے کو سامنے رکھ کر کی جس کا برملا اظہار انھوں نے کیا ہے؎سنی ہوگی بکٹ تم نے کہانیسب اوس کے خامہ کی آتش فشانیولیکن میں جو دیکھا اوس کو ساراطبیعت نے مری اک جوش مارایہ آیا دل میں کہیے اک کہانیبیاں ہو جس میں سوزِ دل نہانیزبان و بیان اور موضوع کے لحاظ سے دونوں میں یکسانیت نظر آتی ہے۔مگر ایک بنیادی فرق ضرور نظر آتا ہے۔ افضل کی بکٹ کہانی میں حمد و نعت کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے جب کہ مفتی صاحب نے اپنی بکٹ کہانی میں ابتدا میں پہلے حمد اور پھر نعت تحریر کی ہے۔ ایک دوسری بات یہ کہ اس میں ہریانوی اور برج بھاشا سے زیادہ کھڑی بولی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس بارہ ماسے کی مدد سے کھڑی بولی کو سمجھنے میں زیادہ مدد ملتی ہے جو اردو کا اصل روپ تسلیم کی جاتی ہے۔بارہ ماسہ مرد بیوگ:اس بارہ ماسے کے مصنف کا نام لالہ ممِن لعل ہے۔اس کی اشاعت گیان پریس سے 1895 میں ہوئی۔ممِن لعل کا تعلق مراٹھا علاقے سے تھا۔راقم الحروف کی معلومات میں یہ اب تک کے بارہ ماسوں میں سب سے کم اشعارپر مشتمل ہے۔ یہ کتاب کل آٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔اس بارہ ماسے کا آغاز ہندی کے چوتھے مہینے اساڑھ سے شروع ہوتا ہے اور جیٹھ کے مہینے پرا ختتام پذیرہوتا ہے۔ہر ماہ کے بیان کے پہلے ایک دوہا اور آخر میں چوپائی شامل ہے۔اس بارہ ماسے میں برہن کے جذبات و احساسات کے ساتھ موسمی کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے۔ لالہ ممِن لعل کا تعلق چوںکہ مراٹھا علاقے سے تھا اس لیے اس میں مراٹھاعلاقے کی بولی کے ملے جلے اثرات پائے جاتے ہیں۔اس بارہ ماسے کے مطالعے سے اس علاقے کی تہذیب و ثقافت اور بولی ٹھولی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔بارہ ماسہ نیہہ:اس بارہ ماسے کے تخلیق کار مولوی حفظ اللہ قادری ہیں۔ مولوی صاحب کا شمار اپنے عہد کے اہم شعرا میں کیا جاتا تھا۔وہ نہ صرف اردو کے شاعر تھے بلکہ فارسی اور اودھی زبان کے شعرا میں بھی شمار کیے جاتے تھے۔ وہ ان تینوں زبانوں میں اپنا تخلص الگ الگ استعمال کرتے تھے۔اردو شاعری میںان کا تخلص بندہ، فارسی میں حفیظ اور اودھی میںنیہہ تھا۔مولوی صاحب کی پیدائش کی کوئی مستند تاریخ تو نہیں ملتی، البتہ تنویر احمد علوی نے اپنی تصنیف میںلکھا ہے کہ وہ پچاس سال کی عمر میں1860 میں انتقال کر گئے۔یہ بارہ ماسہ کب لکھا گیا اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوتی مگر ان کی تاریخ انتقال سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ قدیم بارہ ماسوں کا ایک اہم نمونہ ہے۔اس بارہ ماسے کی ابتدا میں ہر ماہ کے نمبر درج کیے گئے ہیںاور اسی نسبت سے ابتدائیہ اشعار بھی لکھے گئے ہیں۔ اس بارہ ماسے کی ابتدا اساڑھ مہینے کے بیان سے ہوتی ہے؎آیا ماس اساڑھ کا پیتم ناہیں پاسگھٹا گھٹائے ویت ہے سوپی درش کی ہیں ناہیںبارہ ماسہ نیہہ کی فنی خوبیوں کا ذکر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اشعار کی تعداد مختلف ہے۔ہر ماہ کے بیان کے لیے اشعار کی تعداد متعین نہیں کی گئی ہیں۔یہ ایک ایسا بارہ ماسہ ہے جس کی شروعات کسی تمہید کے بغیر کی گئی ہے۔ اس بارہ ماسے کو سید نذر الحسن قادری نے مرتب کیا ہے۔ اس کی اشاعت مکتبہ قادری رام پور سے 1975 میں ہوئی۔بارہ ماسہ سندر کلی:اس کا شماراردو کے اہم بارہ ماسوں میں ہوتا ہے۔یہ بارہ ماسہ راج رتن کنور اور سندر کلی کی داستان پر مبنی ہے۔ابتدا میں حمد باری تعالیٰ اور اس کے بعد نعت شریف پیش کی گئی ہے۔اس بارہ ماسے کا آغاز اساڑھ مہینے سے ہوتا ہے۔بارہ ماسہ سندر کلی کو ایک ہی زمین میں پیش کیا گیا ہے لیکن اشعار کی تعداد مختلف ہے۔اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ ہر ماہ کا بیان ہندی دوہرے سے شروع ہوتا ہے اور اختتام فارسی کے شعر پر ہوتا ہے۔اس بارہ ماسے میں ہر ماہ کا بیان بے ترتیب ہے۔ہر مہینے کے بیان سے پہلے باقاعدہ اس ماہ کا عنوان درج نہیں کیا گیا ہے بلکہ دوہرے میں ہی اس مہینے کا نام پیش کر دیا گیا ہے۔مثلاً ؎اساڑھ آیا نپٹ گرمی پڑے رینپٹ گرمی ستی دیہی جرے ریاس بارہ ماسے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں ہد ہد کو بطور پیغام لانے لے جانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس میںبارہ مہینوں کے بیان کے بعد آخر میں تاریخ اسلام کا ذکر کیا گیا ہے خصوصاً حضرت خضر کا بیان شامل ہے۔البتہ اس بارہ ماسے میں قصے پن کی کمی محسوس کی جا سکتی ہے۔مگر ہدہد کا کردار انفرادیت کا حامل ہے۔ سندرکلی کو اس کی شعری خوبیوں کی وجہ سے اردو کے معروف بارہ ماسوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔بارہ ماسہ کنول دی:اس بارہ ماسے کے مصنف بہار کے صوفی بزرگ حضرت شاہ آیت اللہ جوہری ہیں۔یہ شعری تخلیق ان کے مجموعہ کلام گوہر جوہری میں داستان کے عنوان سے شامل ہے۔تنویر احمد علوی نے اپنی تصنیفـمیں اس بارہ ماسے کو اس کی ہیروئن کی مناسبت سے کنول دی لکھا ہے۔دوسرے بارہ ماسوں کی طرح یہ بارہ ماسہ بھی اساڑھ سے شروع ہوتا ہے اور جیٹھ کے مہینے پر ختم ہوتا ہے۔ اس میں بھی برہن کے ورنن کے ساتھ ساتھ موسمی کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ماہ اساڑھ کا بیان شروع کرنے سے پہلے تمہیدی اشعار پیش کیے گئے ہیں جن کی تعداد 34 ہے۔پہلا مہینہ اساڑھ کا بیان 21 اشعار پر مشتمل ہے مگر اساڑھ ماہ کا عنوان درج نہیں کیا گیا ہے۔جوہری نے اپنی اس شعری تخلیق میں برہن کے درد و غم اور احساسات و جذبات کو بھر پور انداز میں پیش کیا ہے۔ مگر اس کے برعکس انھوں نے آنے والے مہینوں میں موسمی کیفیات اور میلوں ٹھیلوں کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا ہے۔زبان و بیان کے لحاظ سے یہ بارہ ماسہ توجہ طلب ہے۔ اس بارہ ماسے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر ماہ کے بیان کے ساتھ ساتھ ایک پنچھی کو قاصد کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ہر ماہ میں الگ الگ پنچھیوں کا ذکر ملتا ہے۔مثلاََاساڑھ میں بہنگم کو قاصد بنایا گیا ہے،جب کہ ساون میں کوکلا، بھادو میں کوئل اور ماگھ میں کبوتر کو قاصد کے طور پر استعمال کیا ہے۔اسے اردو کے اہم بارہ ماسوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔نجیب اس طرح سے اساڑھ بیتانجا نو کیوں نہ آیا میرا میتااس بارہ ماسے میں بھی ایک فراق زدہ عورت اپنے محبوب کی یاد میںبرہ ورنن کرتی ہے کہ اس کا شوہر واپس آجائے۔میاں نجیب نے جتنی دلچسپی سے برہن کے درد جدائی کی عکاسی کی ہے اتنی موسمی کیفیات کی مصوری نہیں کی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس بارہ ماسے کا نسبتاََ یہی پہلو کمزور ہے۔مصنف نے اس بارہ ماسے کی تخلیق کے وقت لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہادوغیرہ جیسی عشقیہ داستانوں کے فراق و دردکوذہن میں رکھا ہے۔اس کے علاوہ اردو ادب کا یہ واحد بارہ ماسہ ہے جس میں راجستھان کی مقامی بولیوں کو شامل کیا گیا ہے۔اس بارہ ماسے کی فضاہندستانی ہے جس میں لو ک گیتوں کی اہمیت کو پیش نظرر کھا گیا ہے۔ شمالی ہند کے بارہ ماسوں میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔بارہ ماسہ وہاب:اس کے مصنف کا نام وہاب ہے جن کا تعلق بھوجپوری علاقے سے تھا۔وہ علاقائی بولی اور لوک گیتوں سے بخوبی واقف تھے۔اس بارہ ماسے کا آغاز اساڑھ مہینے سے ہوتاہے۔اس کی ابتدا حمد و نعت کے بغیر سیدھے ماہ اساڑھ سے ہوتی ہے۔ اس میں فراق زدہ برہن کے جذبات و احساسات کی عکاسی منفرد انداز میں کی گئی ہے۔ ساتھ ہی موسمی کیفیات کی منظر کشی نمایا ں ہے۔اس کے علاوہ اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں اس علاقے کی ریت و رواج کا ذکر بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ بارہ ماسہ اردو شاعری کے اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جسے اردو لوک ساہتیہ کی روایت سے تعبیر کر سکتے ہیں۔بارہ ماسہ رنج:اس بارہ ماسے کے مصنف کا نام کیا ہے اس کی تصدیق نہیں ہوتی، البتہ ان کا تخلص رنج تھا۔اس بارہ ماسے کی شروعات حمد و نعت سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد ماہ اساڑھ کے درد و غم کی کیفیت کا بیان ملتا ہے۔ کچھ دوسرے بارہ ماسوں کے مصنفین کی طرح رنج کو بھی موسمی منظر نامے پیش کرنے میں اتنی دلچسپی نہ تھی جتنی انھیں ایک برہن کے جذبات کی عکاسی کرنے میں تھی۔موضوعات سبھی بارہ ماسوں کے ایک جیسے ہیں لیکن ہر ایک کا پیش کرنے کا انداز مختلف ہے۔ اس میں ایک لڑکی جس کی شادی نو عمری میں کر دی جاتی ہے لیکن جب جوان ہوتی ہے تو اس کا پیا پردیس میں ہوتا ہے۔ اسی کی تلاش میں وہ’اک تارا‘ لے کرنکل پڑتی ہے۔اگر زبان و بیان کامطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اردو کے نئے پن سے بہت قریب ہے۔رنج کو ہندی زبان کے ساتھ ساتھ فارسی زبان پر قدرت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس کلام میںہندی اور فارسی الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ انھی تمام خوبیوں کی وجہ سے بارہ ماسہ رنج کوا ردو کی بہترین ادبی کاوشوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔بارہ ماسہ مقصود:اس بارہ ماسے کاتعارف مصحفی نے اپنے تذکرے’ تذکرۂ ہندی‘ میں کیا ہے جس میں انھوں نے مقصود کو ایک بازاری شاعر لکھا ہے۔ مصحفی کے علاوہ اردو ادب میں مقصود کا ذکر بہت کم شعرا نے کیا ہے۔مقصود نے اپنا یہ بارہ ماسہ اپنے دوستوں کی فرمائش پر لکھا ہے۔مقصود کا یہ بارہ ماسہ برہن کی جذبات نگاری، معاشرتی حقیقت پسندی اور موسم کی منظر کشی کے لحاظ سے ایک بہترین شعری کارنامہ ہے۔اس کے علاوہ اس میں عام فہم زبان و بیان کا استعمال کیا گیا ہے۔ اگر بارہ ماسے کے ادبی محاسن کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک اہم کارنامہ ہے۔اردو ادب میں بارہ ماسہ لکھنے والوں کی فہرست مختصر ہے۔ درج بالا بارہ ماسوں کا اختصار سے جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے اہم بارہ ماسوں کے نقوش ملتے ہیں ان میں’بارہ ماسہ دین محمد سنگھ‘، ’بارہ ماسہ سید محمد یاسین احمد‘، ’ بارہ ماسہ خیر شاہ‘ اور’بارہ ماسہ سادھن‘ اہمیت کے حامل ہیں۔اس کے علاوہ کچھ ایسے بارہ ماسوں کا پتا چلتا ہے جن کے متن دستیاب نہیں ہیں۔ان میں بارہ ماسہ اکرم رہتگی، بارہ ماسہ ریحان اہم ہیں۔اردو محققین کی تحقیقی کاوشوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسے بارہ ماسے بھی دستیاب ہوئے ہیں جن کی زبان و بیان اردو کے بارہ ماسوں سے قدرے مختلف ہے۔ ان میں بارہ ماسہ خیرا شاہ، بارہ ماسہ عاشق رسول، بارہ ماسہ الٰہی بخش، بارہ ماسہ قاصد، بارہ ماسہ رام چندر، بارہ ماسہ بینی مادھو اور بارہ ماسہ ظالم سنگھ اہم ہیں۔ عہد حاضر میں اگر دیکھا جائے تو چند بارہ ماسے ہی تحریر کیے گئے ہیں۔اردو میںعوامی شاعری کی جو روایت رہی، ان میں بارہ ماسے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس روایت کے مطالعے سے علاقائی تہذیبوں،روایتوں اور مقامی بولیوں سے سماجی رشتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ انھی تمام خوبیوں کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شمالی ہند میں اردو شاعری کی ترویج وترقی میں بارہ ماسے کا اہم کردار رہا ہے مگر عہد حاضر میں اس صنف کی طرف بہت کم توجہ دی گئی جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔Dr. Imran AhmadLecturer, Dstrict Institute of Education and Training Ikauna, ShrawastiDistrict Shrawasti-271845Mob-9652559916, 9511435693Email-imranhcu13@gmail.com" کیا یہ فکشن کی صدی ہے؟:احسن ایوبی,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/07/,"ترقی پسند تحریک اور تقسیم ہند کے بعد لکھے جانے والے افسانے اور ناولوں میںپیشکش اور زبان و بیان کی درستگی آج بھی کسی نئے لکھنے والے کے لیے جس طرح مشعل راہ بنتی ہے، اُس طرح کیا اِس صدی میں لکھی جانے والی کسی تحریر کو رہنما بنایا جا سکتاہے۔ساتویں اور آٹھویں دہائی کے فکشن نگاروں کے سامنے زبان و بیان اور اظہار کے نئے نئے مسائل تھے۔ جدیدیت کے زیر اثر اسلوبیاتی اور ہیئتی سطح پر افسانے میں جو تبدیلیاں آئی تھیں یا یوں کہہ لیجیے کہ افسانہ،کہانی اور قاری سے دور ہو کر رہ گیا تھا، اسے ازسر نو تعمیر کے مراحل سے گزارنا نئے افسانہ نگاروں کی ذمے داری تھی۔اس لیے 70ء کے بعد لکھے گئے افسانوں میں بیانیہ کی تہہ داری،ابہام اورعلامتوں سے سرو کاراور نئی جہتوں کی گرفت کے ساتھ ساتھ کہانی پن کی جستجوبھی تیز تر ہو گئی تھی، یعنی کہانی پھر اسی محور پر گردش کرنے لگی تھی جس پر منٹو اور ان کے معاصرین چھوڑ گئے تھے۔واضح رہے کہ کہانی پن سے مراد وہ اکہرا بیانیہ نہیں جو ایک زمانے میں اردو افسانے میں در آیا تھا بلکہ ستر کے بعدلکھے جانے والے افسانوں میں کہانی پن پہ زور کے ساتھ ساتھ اس میں تکنیک کے نو بہ نو تجربوں کی بھی آمیزش تھی۔ان سب میں کہانی پن کی واپسی کی آواز زیادہ بلند تھی۔ اُس وقت بھی قاری کی تشفی اور اطمینان کے لیے سلام بن رزاق،رام لعل،عابد سہیل،شوکت حیات، رتن سنگھ، پیغام آفاقی، سید اشرف،اقبال مجید،طارق چھتاری وغیرہ موجود تھے،لیکن اس وقت قاری کے مطالبات، تشفی اور اطمینان کی بات چھوڑیے، زبان و بیان اور موضوع کی سطحی پیشکش اور عامیانہ پن جگہ جگہ قاری کی طبع نازک کو ٹھیس پہنچاتاہے۔مشتعل حالات اور مسائل کو بیان کرنے کا جو ہنرکرشن چندر، عصمت، منٹو، بیدی، شوکت صدیقی  وغیرہ کے یہاں تھا، اس کا عکس ماضی تاحال دیگر ہندوستانی زبانوں خصوصاً تمل، ملیالم،مراٹھی اور ہندی کے فکشن نگاروں کے یہاں پھر بھی نظر آتا ہے لیکن اردو میں اس مہارت کا فقدان ہے۔کتنے ہی مسائل ایسے ہیں جو فکشن کے قالب میں ڈھل کر معاشرتی سطح پر فکر و عمل کی نئی جہات کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے تخلیقی اذہان انقباض کا شکار ہیں اور ان مسائل تک ان کی رسائی نہیں ہو رہی جو دوسری زبانوں کے فکشن میں برتے جا رہے ہیں۔تسلیم شدہ بات ہے کہ کسی بھی صنف ادب کو مقبول بنانے میں اس کی صنفی خصوصیات اور کشش کے ساتھ ساتھ قارئین کا بھی اہم رول ہوتا ہے۔ قاری کا ذوق، اس کی ذہنی سطح کے تناسب سے اس کے مطالبات کا خیال رکھنا گرچہ مصنف کی ذمے داری نہیں ہے مگر انسان تہذیبی و معاشرتی زوال کے جس مرحلے میں ہے،اس کے پیش نظر فرد کے ذوق سے لے کر سماج کی متنوع کیفیات کا ادراک فکشن نگار کے لیے ضروری ہے۔اس کے برعکس اس صدی میںفکشن نگاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے،فکشن پڑھا جا رہا ہے،مباحثے ہورہے ہیں لیکن ملکی اور غیر ملکی زبانوں سے تقابل تو درکنار، بیشتراردو افسانے اور ناول قاری کو ذہنی و جذباتی آسودگی فراہم کرنے اور ذوق مطالعہ کو تسکین دینے کی خوبی سے بھی عاری ہیں۔انگلیوں پر شمار کیے جانے والے چند ناموں کے علاوہ بیشتر مصنفین کے یہاں زبان و بیان کی ایسی فاش غلطیاں ہیں جنھیں در گزر کرنے میں بحیثیت قاری سخت تردد ہوتا ہے۔ لکھنے والوں کو سوشل میڈیا نے شہرت کا شارٹ کٹ ضرور فراہم کر دیا ہے۔ کتابوں کی اشاعت بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گیا،ہفتے اور مہینے گزرتے نہیں کہ ایک نئی کتاب بازار میں آجاتی ہے، معاشرتی احوال کا سرسری تجزیہ،تہذیبی اصولوں سے باغی کردار وں کی من مانیوں کا نفسیاتی جواز پیش کر کے، بولڈنیس کا تڑکا لگا کر، سنسنی پیدا کر نے والے احوال کے سطحی بیان کو فکشن قرار دینے کا وہم عام ہو چکا ہے۔ان حالات نے قاری کو ایک ایسے تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ مطالعے و تجزیے کی کوئی سمت متعین کرنے سے قاصر نظر آرہا ہے۔سنجیدہ قاری کے پاس خاموشی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔اس خاموشی کی اذیت اپنی جگہ، مزید اس پر معاصر فکشن کے عمق سے نابلد ہونے کا الزام بھی ہے۔اس وقت لکھے گئے ناولوں اور افسانوں میں استعمال ہونے والی زبان اور خشک بیانیے اس زمانے کی یاد شدت سے دلاتے ہیں جب اردو افسانہ نظریات کی بھول بھلیوں میںکھو کر قاری سے دور ہو تا جا رہا تھا، اس میں دوبارہ کشش پیدا کرنے کے لیے افسانہ نگاروں نے نت نئے طرز اختیار کیے تھے لیکن زبان و بیان سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔ صحافتی اور تخلیقی بیانیہ کے درمیان ایک حد فاصل تھی۔ تجربات کی شدت اور احساس و شعور کی پیچیدگیوں کو بیان کرنے کے لیے نیا پیرایہ اظہار تلاش کرنے میںحتی الامکان نزاکتوں کا خیال تھا،وہ حسن تناسب اِس صدی کے فکشن میں بمشکل ہی نظر آتا ہے۔ایک عجیب اتفاق یہ ہے کہ اس عہد میں بھی افسانے کی ناخدائی وہی لوگ کر رہے ہیں جنھوں نے بیسویں صدی میں لکھنا شروع کیا تھا۔دوسری جانب،گزشتہ صدی کی روایت اور طریقہ کار سے استفادہ کرنے والوں کی جو کھیپ تیار ہوئی ان کی راہیں تنقیدی نظریات کی بہتات کی وجہ سے تنگ نظرآتی ہیں۔تخیل اور خلاقی کے بجائے نت نئے موضوعات کو برتنے کی عجلت اور لفظوں کے استعمال اور موزونیت سے ناواقفیت کی وجہ سے فکشن کا ایک اور ہی عکس پیش کر رہی ہے۔بعض ایسے بھی ہیں جو اسلوب کے تجربے اور علامت وضع کرنے کے چکر میں انشائیہ نما چیزیں بطور افسانہ پیش کر رہے ہیں۔ اس تخلیقی انقباض کی ایک وجہ تخلیقی اذہان کی اپنی روایت اور اجتماعی شعور تک نارسائی بھی ہے۔تغیر اورترقی کا تحیر خیز منظر نامہ انھیں روایت اور تہذیب سے اغماض پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ نئے قلمکاروں کا المیہ ہے کہ ماضی تو بہت دور، اپنے عہد کے اہم ناموں سے بھی ناواقف اور ان کی تحریر کی خوبیوں سے نا آشنا ہیں۔اس مغائرت کا اثر تخلیق کار کی ذہنی ساخت اور تخلیقی معاملات پر نظر آنافطری ہے۔ ان باتوں کا مقصد کسی پر بے سمتی یالایعنیت کا الزام عائد کرنا نہیں ہے مگرنئی نسل کو احتساب کرنا چاہیے کہ اس عہد کے زندہ حوالوں اور تہذیب و روایت کی روح کی طرف رجوع کرنے اور رو بہ رو ہونے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔سنجیدگی کے فقدان اور اطلاعات سے پرمعاصر افسانوی ادب کی اکھڑتی سا نسیں بحال کر نے میں سید محمداشرف، ذکیہ مشہدی، انیس اشفاق،خالد جاوید، صدیق عالم،محسن خان،رضوان الحق اور چند دیگرنئے پرانے تخلیق کار اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ انھوں نے عصر ی تقاضوں کو تہذیب کی روح سے ہم آہنگ کر کے اپنے تجربات، مشاہدات،اقدار اور اجتماعی احساسات کو فکشن کا روپ دیا ہے اور اس صدی کے اردو فکشن کا وقار انھیں جیسے مصنّفین کی تحریروں سے قائم ہے۔یہاں ا ن سینئر لکھنے والوں کا نام قصداً نہیں لیا گیا ہے جو ایک زمانے سے خود کو دہرا رہے ہیں یا کوئی قابل ذکر تخلیق پیش کرنے سے قاصر ہیں۔مذکورہ ناموں میں ہر ایک کی منفرد تخلیقی شناخت ہے اور اس شناخت کی تشکیل میں برسوں لگے ہیں۔سید محمد اشرف نے اپنے عہد کے سیاسی داؤپیچ کو جس تخلیقی جدت کے ساتھ سیاسی و سماجی معلومات کا انبار لگائے بغیر بیان کیا ہے وہ قابل توجہ ہے۔انھیں پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ٹھہر کر اپنے گرد و پیش کی تخریب کاریوں اور سیاسی رویوں کو محسوس کر کے مشاہدات و تجربات کے اظہار کے لیے نئی راہ نکالی ہے۔ ’آخری سواریاں ‘ میں بڑے ہی سہل انداز میں ان مسائل کی طرف اشارے کیے ہیں جو سیاسی جبر کی وجہ سے قابل گرفت ہو سکتے ہیں۔انیس اشفاق نے ناول کی ہیئت میں جو واقعاتی اور بین المتونی تجربے کیے، تہذیبی تشخص کی بازیافت اور اس کی معنو یت بیانیہ کے ذریعے اجاگر کی وہ ان کی تخلیقی انفرادیت کی بہترین مثال ہے۔ماضی کی طرف مراجعت انیس اشفاق کو عصریت کے تقاضوں سے غافل نہیں کرتی۔انھوں نے مرزا ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کے متن کو جس انداز سے اپنے ناول’خواب سراب‘ میں زندہ رکھا اور اس کی بنیاد پر ایک تازہ بیانیہ خلق کیا، ’پری نازاور پرندے ‘میں نیر مسعود کے طویل افسانے ’ طاؤ س چمن کی مینا‘ کی بازگشت کے باوجود تاثرات،احساسات اور کیفیات کو تازہ تخلیقی زاویوں سے پیش کیا، وہ ان کی فنکارانہ ہنر مندی کو یقینی بناتا ہے۔محسن خان کا ناول ’ اللہ میاں کا کارخانہ ‘گذشتہ دو دہائی میں شائع ہونے والے ناولوں میں ایک ایسا منفرد شہ پارہ ہے، جس نے بزرگ فکشن نگار اور قارئین سے لے کر نئی نسل کے لکھنے اور پڑھنے والوں کو یکساں طور پر متاثر کیا۔محسن خان کے افسانوں سے اردو فکشن کے قاری کی دیرینہ آشنائی ہے۔ان کے یہاںاسلوب کی سادگی اور تجسس خیز سچویشن کے ذریعے قاری کی توجہ کشید کرنے کا ہنر موجود ہے۔مذکورہ ناول میں انھوں نے کسی طرح کا نظریاتی یا فلسفیانہ نکتہ نہیں اٹھایا ہے اور نہ ہی ان کے بیانیے میں مطالعے و تحقیق کا رعب اور علمیت کا زعم ہے بلکہ زندگی کے پیچیدہ حقائق کو نہایت ہی سادے سوالوں کے ذریعے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ان کا یہ طریقہ کار نئے لکھنے والوں کے لیے یقینا مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔رضوان الحق اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ انھوں نے شاعری سے مستعار اسلوب اور علامت کے بجائے روز مرہ کی زبان اور سادہ نثر میں قدرے پیچیدہ اور تہہ دار افسانے اور ناول ’خود کشی نامہ‘ لکھاجو ان کی تخلیقی زرخیز ی کی بہترین مثال ہیں۔دنیا بھر میں خصوصا اپنے ملک میں ہونے والی خود کشی کے واقعات کو بیانیہ کا حصہ بنا کر انھوں نے اس عمل کے محرکات پر مکالمہ قائم کیا ہے۔رضوان الحق نے طریقہ بیان اور برتاؤ سے اس ناول کو راست اظہار سے بعید تر رکھنے کی کوشش کی ہے۔یہ ناول خود کشی سے متعلق مفروضوں کی نفی کرتے ہوئے یہ ثابت کرتا ہے کہ زندگی کے مصائب سے فرار کے لیے اختیار کیا گیا یہ راستہ کس قدر مشکل اور ہمت طلب ہے۔عصری تناظر میں موضوع کی سطح پر یہ ناول اپنی اہمیت منوا نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔رحمن عباس کا تازہ ترین ناول ’ زندیق‘ اس وقت ادبی حلقوں میں زیر بحث ہے۔اس میں انھوں نے تخیل اور ٹھوس حقائق کی آمیزش سے ایک نیا تجربہ کرنے یعنی ڈاکیو فکشن لکھنے کی کوشش کی ہے۔گذشتہ دو دہائیوں میں انھوں نے مختلف قرینوں سے ناول پڑھنے اور اس پر گفتگو کرنے کی تگ و دو عملی سطح پر کی ہے۔ اس عرصے میں انھوں نے پا نچ ناول لکھنے کے علاوہ ناول پر اپنے ہم عصر اور نئے لکھنے والوں سے مکالمے بھی کیے ہیں۔ان کے ناولوں میں عشق اوراس راہ پرخار کی اذیتوں کا بیان غالب موضوع کے طور پر سامنے آتا ہے اس کے علاوہ معاشرتی جبر، ثقافتی تنوع،ممبئی کے طرز زندگی کے توسط سے شہری زندگی کے مسائل،رشتوں کی پیچیدگیاں،جنسی ناآسودگی، اخلاقی بے راہ رویوں کی جزئیات ’روحزن ‘ میں کمال ہنر مندی سے بیان کی گئی ہیں۔اکیسویں صدی میں منظر عام پر آنے والے ناولوں میں مشرف عالم ذوقی کے ناول موضوعات کی جدت کے سبب زیر بحث رہے۔ تیزی سے بدلتی دنیا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے انکشافات کو ذوقی نے بیانیہ کا حصہ بنا کر اردو ناول کو ثروت مند بنانے کی کوشش کی ہے لیکن سب کچھ سمیٹ لینے کی عجلت میں بیانیہ کا اسٹرکچر بکھراؤ کا شکار ہوگیا، مسائل وقوعہ میں نہ ڈھل سکے،حالانکہ حال کے سیاسی منظرنامہ کو منعکس کرنے کے ساتھ ساتھ ماضی میں جا کر وہ ان جڑوں کو بھی تلاش کرنے میں کامیاب رہے، جہاں سے مسائل جنم لیتے ہیں لیکن ناول یا ادب محض مسائل کی پیشکش کا وسیلہ نہیں بلکہ اس کی شناخت اس کی ہیئت اور شعریات سے ہے جسے برقرار رکھنے کے لیے مسائل کی قلب ماہیت ضروری ہے۔.ناول کے فنی پہلوؤں سے قطع نظر اگر نظری اور فکری عمق پر گفتگو کی جائے تو وہ ذوقی کے یہاں بدرجہ اتم موجود ہے۔ تازہ ترین ناول ’مرگ انبوہ‘ اور’مردہ خانے میں عورت‘ میں انھوں نے جن سیاسی اور سماجی المیوں کو طنزیہ پیرایے میں بیان کیا ہے اور جن خدشات اور مسائل کے متعلق پیش گوئی کی ہے وہ موجودہ تناظر میں حرف حرف درست ثابت ہوئے ہیں۔ان کا طریقہ اظہار اب تک تعین قدر کرنے والوں کے درمیان معتوب رہا ہے لیکن ادب کے حسن و قبح پر گہری نظر رکھنے والے ایک وسیع النظر پارکھ انتخاب حمید نے ذوقی کے یہاں کچھ ایسا دریافت کیا ہے جو ان کے طرز اظہار کو معتبر بناتا ہے۔وہ لکھتے ہیں’’ابلیسی سازشوں اور عفریتی توانائیوں کے بالمقابل مسلم معاشرہ کی بے بسی اور اس کی تذلیل پر یہ لرزہ خیز ڈسکورس معاصر اردو فکشن میں ایک منفرد تجربہ ہے اس ڈسکورس کے کچھ ڈائمنشنز ایسے ہیں جنھیں ناولٹی یا نئے پن سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔متن و موضوعات اور زبان و بیان کی سطح پر بھی یہ اختلاف درج کرتا ہے۔سائبر دنیا اور اس کی مخصوص اصطلاحات کا اس قدر تخلیقی تصرف معاصر اردو فکشن میں کہیں اور نظر نہیں آتا۔‘‘’’ہندوستان کی دیگر زبانوں میں اور عالمی سطح پر بھی اس نوعیت کے ملت و قوم اور ثقافت مر کوز بے شمار مخاطبات دستیاب ہیں۔ دلت ادب، افریکن، امریکن، لیٹن امریکی، افریقی اور یوروپ کی مختلف زبانوں میں لاتعداد دانشورانہ نگارشات اورتخلیقی مخاطبات کی اعلی ترین مثالیں ہیں جو اپنے فنی محاسن اور جمالیات ازخود خلق کرتی ہیں۔مزید براں دنیا بھر میں کئی نظریات اور مشہور زمانہ نظریہ ساز اس قبیل کی تخلیقات کی دانشورانہ،نیم فلسفیانہ توجیہات فراہم کرتے ہیں۔‘‘(اردو کے نئے ناول صنفی و جمالیاتی منطق:انتخاب حمید، ص:162-71)انتخاب حمید کی اس حجت کے بعد بحیثیت قاری محاسبہ کیا جائے تو واضح ہوگا کہ کسی تحریر کو مسترد کرنے کے لیے مطالعے کی وسعت ناگزیر ہے۔مختلف زبانوں کے ادب،رجحا نات اور نظریا ت پر گہری نظر کے بغیر کوئی حتمی رائے قائم کرنا غیر تنقیدی رویہ ہے۔مذکورہ غیر تنقیدی رویے کا مظاہرہ خالد جاوید کی تحریروں کے تئیں بھی کیاگیا۔خالد جاوید نے وجود کے اسرار دریافت کرنے کے لیے زندگی کی پیچیدگیوں کو ٹھوس اور معنوی پیرایے میںبیان کرنے کی کوشش کی ہے۔اس پرپیچ سفر میں انھوں نے حقیقت پسند اور بیانیہ کی سیدھی لکیر سے انحراف کرتے ہوئے اپنا ایک نیا لہجہ تخلیق کیا ہے جس سے مانوس نہ ہونے کی وجہ سے اسے بیشتر قارئین نے رد کیا لیکن بالغ نظر اور مختلف اسالیب سے آشنااذہان نے ان ناولوں کی تفہیم مختلف زاویوں سے کرتے ہوئے مطلوبہ مقام پر رکھا۔خالد جاوید کے ناولوں پر فلسفیانہ اور وجودی نظریات کا اطلاق کر کے تفہیم کی کوشش نتیجہ خیز تو ہو سکتی ہے لیکن اس کے برعکس یہ خیال عام ہو چلا ہے کہ مصنف نے فلسفیانہ نظریے کے تحت یا وجودی فلسفے کی روشنی میں ناول کا تانا بانا تیار کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خالد جاوید کا (یا کسی بھی مصنف کا) تخلیقی عمل نظریات اور اصولوں کاپابندنہیں بلکہ مصنف کااسلوب اور طرز اظہار، قاری کے اندر یہ وہم پیدا کرتے ہیں کہ مصنف نے شعوری طور پر ان نظریات کا سہارا لیا ہے۔خالد جاوید کا تخلیقی تجربہ اپنی معنویت کا دائرہ جن عناصر سے پورا کرتاہے ان میں انسانی وجود کے تاریک گوشے ضرور شامل ہو تے ہیں۔اردو فکشن کی صدی پر گفتگو کرتے ہوئے سرحد پا ر لکھے جانے والے فکشن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہاں کی بہ نسبت وہاں قدرے بہتر صورت حال ملتی ہے۔ اکیسویں صدی میں ہی کئی ایسے ناول منظر عام پر آئے  جن میں موضوع اور مواد کی شمولیت اور انتخاب میں بڑی وسعت ہے۔اس ضمن میں وحید احمد کا ناول زینو،جس میں بیک وقت کئی علوم سے استفادہ کر کے،رومان کی آمیزش سے تاریخی حقائق کو بیانیہ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول ’غلام باغ‘ اور’صفر سے ایک تک‘ میں پیچیدہ ترین وقوعوں اور غیر معمولی کرداروں کی پیشکش کے ذریعے بیانیہ کو ایک نئے ڈگر پر رواں رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔ اسی طرح خالد طور کے ناول ’بالوں کا گچھا‘ میں اسلوب کی کشش موضوع کی فرسودگی کو عیاں نہیں ہونے دیتی۔ان کے علاوہ اور کئی ناول ہیں جن کا اگر ذکر کیا جائے تو فہرست سازی  کے زمرے میں آئے گا کیوں کہ اس مختصر مضمون میں تمام ناولوں کا احاطہ ناممکن ہے۔فکشن کے تئیں سازگار فضا تشکیل دینے کی کوشش ہمارے فکشن نگار کر رہے ہیں،اس کوشش میںکامیابی اسی وقت ممکن ہے جب تحریر کو ناپختہ احساسات اور فکری انتشار کا ملغوبہ بننے سے محفوظ رکھا جائے اور وہ معیار پیش نظر ہوں، جن کی بنیاد پر کوئی تخلیقی تجربہ اعتبار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔گذشتہ صفحات میں پیش کیے گئے نام فکشن صدی کی مصنوعی فضا کو با قرینہ اور زرخیز بنانے کے لیے کافی تو نہیں مگر اطمینان بخش ضرور ہیں۔اس اطمینان بخش فضا کو بحال رکھنے کے لیے ان تخلیقات پر گفتگو اور قابل ذکر صفات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ خامیوں کی بھی نشاندہی کی جا نی چاہیے تاکہ اس صدی کا فکشن وقت کی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بھی قاری کے حافظے کا حصہ بن سکے۔Ahsan AyyubiC-4/3,Suroor Apartment, Sir Syed NagarAligarh- 202001Mob: 9616272524" کوچۂ نرگسیت کا والہ و شیدا: ریاض خیرآبادی,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/06/,"ریاض خیر آبادی اردو ادب کے ایک ایسے شاعر گزرے ہیں جنھوں نے اپنے منفرد اور مخصوص شاعرانہ خصائص اور کمالات سے اردو ادب میں اپنی ایک الگ پہچان اور شناخت قائم کی۔ ناقدین ادب نے ان کے کلام کو سراہتے ہوئے انھیں کئی اہم القابات سے نوازا ہے۔ کہیں انھیں ’خیام الہند‘کا خطاب دیا گیا تو کہیں ’خمریات کا امام‘۔ریاض خیر آبادی کی شاعری کو مجموعی طور پر تین اہم ادوار میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔پہلے دور میں ان کے یہاں مشکل پسندی کا رجحان اور سنگلاخ زمین میں غزلیں کہنے کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ اس دور میں وہ غالب کے نقش قدم کے شیدائی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تب کی بات ہے جب آپ آشفتہ تخلص رکھا کرتے تھے۔ تاہم وہ زیادہ دیر تک اس فضا میں سانسیں نہ لے سکے۔ دوسرے دور میں انھوں نے مشکل پسندی سے اعراض کرکے بلند خیالی کی طرف سفر کیا۔ اس دور میں ریاض اپنے استاد کی پیروی میں دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ کے مابین ایک پُل بننے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ اس دور کی شاعری کا مطالعہ کرکے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا تخیل بہت سرگرم عمل ہے۔ البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اس دور کی شاعری میں ان کے یہاں نشاطیہ رنگ غالب ہے۔تیسرے دور کی شاعری میں ان کے یہاں صوفیانہ رنگ ملتا ہے۔ اس دور میں انھوں نے حاجی علی شاہؒ (دیوہ شریف بارہ بنکی) کے مرید کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کیا۔شاید اسی کے پیش نظراس دور کی شاعری میں ان کے یہاں اخلاقی مضامین کا بھی عندیہ ملتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ریاض کی شاعری میں جس خمریات کا بار بار ذکر ملتا ہے وہ دراصل کچھ اسی صوفیانہ خیالات کی مرہون منت کہا جاسکتا ہے ورنہ یہ بات تحقیق سے ثابت شدہ ہے کہ ریاض خیر آبادی بادہ خواری کو کسی شجر ممنوعہ سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ وہ عشق و مستی کے پروردہ ضرور تھے لیکن مے نوشی کے دلدادہ کبھی نہیں تھے۔ لہٰذا ان کی شاعری میں جو خمریات کے جلوے دیدنی ہیں وہ یا تو رسمی اور روایتی ہیں یا اسی دورِ ثالث کے شاعرانہ رجحان اور مزاج کے طفیل ہیں۔کیوں کہ صوفی شعرا نے خمریات کے پس پردہ عشق و مستی کے کئی متنوع رنگ بکھیرے ہیں۔تنقیدی سطح پر ان کے کلام کا صوفیانہ، خمریاتی، حسن و عاشق، رومانوی وغیرہ سطحوں پر کافی کچھ مطالعہ ہوچکا ہے۔ تاہم ان سب پہلوؤں سے پرے ان کے کلام میں جو عنصر بار بار قارئین کو اپنی توجہ کا مرکز بناتا ہے اور جس کے ساتھ بہت محدود تنقیدی مکالمہ قائم کیا جاچکا ہے وہ ہے نرگسیت کا پہلو۔ سلام سندیلوی کی کتاب ’اردو شاعری میں نرگسیت‘ میں اس حوالے سے چند نگارشات کے سوا یہ پہلو ہنوز تشنہ ہے۔اس سے پہلے کہ ہم اس مقالے میں ریاض خیر آبادی کے کلام کے ساتھ نرگسیت کے تحت کچھ خامہ فرسائی کریں، یہاں پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نرگسیت کے بنیاد مبادیات سے آگاہی حاصل کرلیں۔نرگسیت دراصل علم نفسیات کی ایک بسیار البحث اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کا استعمال ماہر نفسیات معالج فرائڈ نے دوران پیشہ اپنے مریضوں کی تشخیص کے حوالے سے کیا۔نرگسیت کے موضوع کے حوالے سے ان کی کتاب""Collected Papers""سند کا درجہ رکھتی ہے۔ ابتدا میں یہ اصطلاح ان مریضوں کے لیے استعمال کی گئی جوایک مخصوص ذہنی خلل کے نتیجے میں اپنے جسم سے جنسی محبت کے شکار ہوگئے تھے۔ ایسے اشخاص مختلف طریقوں سے اپنے جسم سے جنسی لذت حاصل کرتے تھے۔ فرائڈ کے بعد اس کے مقلدین نے بھی ہلکی سی معنوی توسیع کے ساتھ اس اصطلاح کو تقریباً ان ہی معنوں میں پیش کیا۔ نرگسیت کے موضوع کے تمام حدود کو چھونے والی جامع اور مدلل کتاب کیرن ہارنی کی""New Ways In Psychoanalysis""تسلیم کی جاتی ہے۔تمام تر لغوی مباحث اور ماہرین فن کی آرا سے قطع نظر آیئے سیدھے طور پر اسی کتاب سے نرگسیت کی جامع اورمدلل تعریف پیش کرتے ہیں’’ان کا قول ہے کہ نرگسیت کے دائرے میں خود ستائی(Vanity)، غرور(Conciet)، طلبِ جاہ(Craving for Prestige)، جذبۂ محبوبیت(Desire to be Loved)، دوسروں سے کنارہ کشی(Withdrawal from Others)، خودداری(Normal Self Esteam)، تصوریت(Ideal ion)، تخلیقی خواہشات(Creative desire)، شدید فکر صحت(Anxion Concern about Health)، شکل و شباہت(Apperance)، اور ذہنی صلاحیت… شامل ہیں‘‘1یہاں یہ بات واضح رہے کہ نرگسیت کی اصطلاح کے پیچھے ایک طویل تاریخی سیاق و سباق بھی کارفرما ہے ہم نے طوالت سے بچنے کے خاطر ان سب عوامل سے گریز کیا ہے۔نرگسیت کی مذکورہ بالا توضیح کے تناظر میں اگر ہم ریاض خیر آبادی کی شاعری کا بہ غور مطالعہ کریں گے تو صاف اور واضح طور پر ریاض نرگسیت کے شکار نظر آتے ہیں۔ نرگسیت کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ اس میں انسان اپنے آپ سے والہانہ محبت کرنے لگتاہے، وہ اپنی خامیوں سے بے نیاز ہوکر صرف اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کا مدح خواں بن جاتاہے۔ نرگسیت کا شکار انسان اپنی تمام تر غلطیوں سے صرف نظر کرکے اپنی عظمت کے ترانے گاتا ہے۔ایسا بھی نہیں کہ وہ اپنی کمزوریوں اور عیبوں سے بالکل بے بہرہ ہوتا ہے، البتہ نرگسیت کے شکار انسان کو اپنے وجود سے بہت زیادہ پیار ہوتا ہے جس کا اظہار وہ کچھ اس سطح پر کرتا ہے کہ اس کی آواز کی گونج کے میں دیگر پہلو ماند پڑ جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر ریاض خیر آبادی کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو بیسیوں مقامات ایسے ہیں جہاں شاعر نے اپنے آپ کو لاکھوں میں ایک قرار دیا ہے؎لاکھوں ہی جوانوں میں ریاض ایک جواں ہےکمبخت حسینو، اسے چاہو اسے چاہوان کی شاعری میں اسی طرح کے موضوعات پہلو بدل بدل کر سامنے آتے ہیں۔ شاید اسی قسم کی شاعری کا مطالعہ کرکے ڈاکٹر عبد السلام سندیلوی نے ریاض خیر آبادی کو اردو شاعری کا نرگس قرار دیا ہے۔ وہ ڈاکٹر خلیل اللہ خان کی کتاب’’ ریاض خیر آبادیحیات و خدمات‘‘ کے پیش لفظ میںلکھتے ہیں’’ریاض خیر آبادی کو ہم اردو شاعری کا نرگس قرار دے سکتے ہیں۔ یونان کے نرگس میں خودبینی اور خودپسندی کی جو خصوصیت موجود تھی اُس کا مکمل پرتو تو ریاض خیر آبادی کے یہاں رقصاں نظر آتا ہے۔ اس کا پہلا سبب یہ ہے کہ ریاض بذات خود نہایت حسین و جمیل انسان تھے۔ اس لیے دوشیزگان گورکھپور خود ان پر جان چھڑکتی تھیں… دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے مشہور و معروف شاعر اور انشا پرداز تھے، اس لیے اہل ذوق، ’نازت بکشتم کہ نازنینی‘کو مدِ نظر رکھ کر ان کی قدر کرتے تھے۔‘‘ 2مذکورہ بالا حوالے کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ وہ نرگسیت کے دلدادہ گزرے ہیں۔ ریاض خیر آبادی کو اپنی شکل و صورت اور وضع قطع پر ناز تھا۔ انھیں اپنی جسمانی بناوٹ اور ساخت بہت محبوب تھی۔وہ کسی دوشیزہ کے شباب کا گرویدہ ہونے کے بجائے اپنے شباب کو محبوب رکھتا ہے۔ انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا آس پاس ان کے حسن و جوانی کو دیکھ کر رشک کرتا ہے؎دنیا کی پڑرہی ہیں نگاہیں ریاض پرکس نوک کا جوان ہے کس آن بان کااسی نرگسیت کی دین ہے کہ ریاض اپنے محبوب کی بے وفائی اور بے اعتنائی سے مایوس اور قنوطیت کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ان کی خود پسندی انھیں ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ انھیں چھوڑ کر محبوب نے جس شخص کا پلو تھاما وہ شکل و صورت میں ان سے گیا گزرا ہے۔سر پیٹنے کے بجائے انھیں ترس آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غم و غصے کا اظہار کرنے کے بجائے محبوب کے اس عمل کو اس کی نادانی اور بیوقوفی سے تعبیر کرکے ان پر افسوس کا اظہار کرتےہیں؎کیا جانے کیوں رقیب بنا تھا گلے کا ہارصورت میں وہ ریاض سے اچھا تو کچھ نہ تھاریاض اچھی نہیں صورت تو کچھ پروا نہیں اس کیہماری وضع میں کیا ان سے کم کافر ادائی ہےاردو شاعری میں تصور عشق کا جو ماڈل فارسی شاعری کے زیر اثر سامنے آیا وہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک معشوق ہے جس کی ادائیں بے مثال، جس کا حسن لازوال، جس کی وضع قطع توبہ شکن اور ایک قسمت کا مارا ہے جو اس پر فریفتہ ہوکر اپنی جان چھڑکتا ہے، اسے منانے کی ہمہ وقت بے مثال کوششیں کرتا ہے، اسے اپنا بنانے کے لیے اپنی دنیا بھی تیاگ سکتا ہے۔ لیکن ایک معشوق ہے جسے ان سب چیزوں کی کوئی پروا نہیں۔ عاشق واویلا کرتا ہے منتیں کرتا ہے، ہجر کا درد سہتا ہے۔ من جملہ طور پر اس روایتی تصور عشق میں محبوب سراپا ناز ہے اور عاشق سراپا نیازہوا کرتا تھا۔ لیکن ریاض کی نرگسی شاعری کے سامنے ہمیںروایتی تصور عشق کا یہ بت چکنا چور نظر آتا ہے۔ انھیں خود پسندی کا ایسا نشہ سوار ہے کہ جہاں انھیں اپنا سراپا اور اپنی ادائیں محبوب کے مقابلے ہر سطح پر عزیر ہیں۔ روایتی تصور عشق کے نمونے میں جہاں مرکزیت ایک عورت کو حاصل تھی وہیں ریاض کی نرگسیت کی وجہ سے یہاں عورت کے مقابلے میں ریاض کو مرکزیت حاصل ہے۔وہ محبوب کی اداؤں کے مقابلے میں اپنی اداؤں کے گرویدہ نظر آتے ہیں؎چاہتے ہیں تجھے معشوق طرحدار ریاضتجھ میں کم بخت کہاں سے یہ ادائیں آئیںکمسنی پہ ترس آیا نہ شب وصل ریاضاُف رے بیدرد حسینوں کے ستانے والےروایتی تصور عشق کے برعکس یہاں ریاض ناز ہے اور ان پر جان فدا کرنے والی تمام حسینائیں نیاز ہی نیاز۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ نرگسیت کے شکار کسی انسان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ غمخواری اور ہمدردی کے اظہار میں بہت بخیل ہوتا ہے اور دوسروں کے احساسات مجروح ہونے سے بالکل نابلد۔ ریاض خیر آبادی کے یہاں جو حسیناؤں کے تئیں بے التفاتی کا رویہ ملتا ہے وہ اسی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔اس ضمن میں سلام سندیلوی کا درجہ ذیل اقتباس اس حقیقت پر صداقت کی مہر ثبت کرتا ہے’’حقیقت یہ ہے کہ ریاض کے یہاں جذبۂ محبوبیت عروج پر نظر آتا ہے، وہ بذات خود حسین ہیں اس لیے حسیناں و مہوشاں ان کی نظر میں نہیں جچتے ہیں، اسی بنا پر وہ ان کے سامنے عشوہ و غمزہ کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ ان کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں بلکہ ان کی تمنا ہے کہ دوشیزگان گورکھپور ان سے محبت کریں۔ دراصل ریاض خیر آبادی اردو شاعری کے یونانی نرگس ہیں۔‘‘3حسینوں اور دوشیزاؤں کے تئیں بے نیازی کا یہ رویہ اور برتاؤ رکھنا ایسے ہی نہیں بلکہ انھیں اپنے شباب پر بے انتہا اعتماد اور فخر ہے۔ ان کے یہاں اسی شباب کواگر نرگسیت کی بنیادی دین قرار دیا جاسکتا ہے تو کوئی بے جا نہیں ہوگا۔ اپنے شباب اور اپنی جوانی پر انھیں اعتماد اور یقین ہے۔ انھیں اس بات کا پختہ یقین ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی جوانی سے نوازا گیا ہے جو واقعی میں قابل رشک ہے؎پیری میں ریاض اب بھی جوانی کے مزے ہیںیہ ریش سفید اور مئے ہوش ربا سرخوہی شباب کی باتیں وہی شباب کا رنگتجھے ریاض بڑھاپے میں بھی جواں دیکھاجوانی خود آتی ہے سو حسن لے کرجواں کوئی ہو ہم حسین جانتے ہیںاپنے شباب کا یہ نشہ اور اپنے شباب کا یہ غرور ان کے یہاں آخری عمر تک قائم رہا۔ بڑھاپے کی جھریوں نے ان کے خیالات کو پست اور ان کے جذبات کو سرد ہونے نہیں دیا۔ وہ اپنے تازہ تر اور نو آموز خیالات، کیفیات، احساسات کے بل بوتے سدا بہار کی طرح ہمیشہ جواں رہے۔ اپنی جوانی کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی خوش باش طبیعت اور شخصیت سے بھی کافی زیادہ انسیت تھی؎خوش ہوکے ریاض سے بھی ملناکیا باغ و بہار آدمی ہےاپنی اس باغ و بہار طبیعت اور دلکش و دلفریب شخصیت کی وجہ سے وہ کسی بھی عورت کو خاطر میں لاتے ہی نہیں۔ اس حوالے سے ان کی شاعری پرڈاکٹر اعجاز حسین کا یہ نظریہ بالکل بجا معلوم ہوتا ہے’’ریاض نے دنیائے عشق میں عاشق ستم رسیدہ بن کر رہنا پسند نہیں کیا۔ دل پر اگر کبھی گہری چوٹ لگی ہے تو اس کا اظہار آہ و فغاں سے نہیں کیا بلکہ ایک معنی خیز تبسم سے اور ایک ایسی ادا سے کہ معشوق کو خود پیار آجائے۔وہ معشوق کی خوشامد بہت کم کرتے تھے بلکہ کبھی کبھی تو خود روٹھ جاتے ہیںکہ کوئی گُدگدا کے ہنسا کے منائے۔‘‘4اپنے جسمانی خدوخال کے علاوہ ریاض کا اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا خودہی شیدائی بن جانا بھی نرگسیت ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ اس تناظر سے بھی اگر ریاض کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو وہ نرگسیت کے صف اول میں کھڑے کیے جاسکتے ہیں۔انھیں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا نہ صرف ادراک و احساس ہے بلکہ وہ اس معاملے میں خود کو بلند قامت استاد سے کسی طرح کم تصور نہیں کرتے۔ وہ اپنی سخن دانی کو موتیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اسی خود پسندی کے جذبے کے تحت اپنے آپ کو شعر و سخن کے تناظر میں زمانے بھر میں اہل کمال وفن میں یکتا تصور کرتے ہیں۔ہر شعر بلند کا یہ رتبہ ہے ریاضچوٹی ہیں طور کی پڑا ہے موبافقدرداں گو ہر سخن کے ریاضمنہ مرا موتیوں سے بھرتے ہیںمیرے سوا زمانے میں کوئی نہیں ریاضاہل کمال شاعر یکتا کہیں جسےشعر تو میرے چھلکتے ہوئے ساغر ہے ریاضپھر بھی سب پوچھتے ہیں آپ نے مے پی کہ نہیںاردو رباعی کا غالب موضوع اخلاقیات اور آفاقی قدریں رہا ہے۔ اس میں شاعرانہ تعلی اور اظہار خودپسندی کی گنجائش بہت محدود ہوتی ہے۔ لیکن ریاض کا خاصہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی رباعیوں میں بھی نرگسیت کے واضح نقوش چھوڑ دیے ہیں۔کئی ایک رباعی میںاپنی فنکارانہ صلابت کی شان و شوکت یوں ظاہر کرتے ہیں؎موزوں جو کیے ہیں شاہ دیں کے اوصافبندش ہے چست اور مضمون ہے صافسچ ہے اے حضرت ریاض یہ باتکہ جدا سب سے ہے جناب کا رنگانھیں نہ صرف یہ کہ اپنی جوانی، شباب و شہرت اور حسن و جمال پر فخرہے بلکہ بایں ہمہ انھیں اپنے فن اور اسلوب پر بھی ناز ہے۔ ان کی نرگسی صفت انھیں یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ بھی اپنے آپ میں ایک عظیم تخلیق کار ہے۔ وہ اس احساس سے اندر ہی اندر مچل اٹھتا ہے کہ ان کی شاعری کے چرچے نہ صرف خاص و عام میں ہیں بلکہ اس فن کے استاد بھی اس معاملے میں ان کی داددہی کرتے ہیں؎مری افسوں طرازی کی ریاض اتنی جو شہرت ہےسبب یہ ہے کہ ساحر سا ملا ہے قدر داں مجھ کوان کے یہاں جابجا ایسے اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں انھوں نے اپنی پاکدامنی اور اپنی تقوی شعاری کے گن گائے ہیں۔ وہ بزم میخانہ سے جام و سبو اٹھائے جانے کا ذکر جب کرتے ہیں تو اس کی علت یہ پیش کرتے ہیں کہ اب وہاں ریاض جیسے پاکباز بزرگ آنے والے ہیں۔ وہ اس معاملے میں اس قدر خودستائی کے مراحل سے گزرتے ہیں کہ انھیں زمانے بھر میں کسی اور کی پاکدامنی اپنے مقابل میں ایک آنکھ نہیں جچتی۔بڑے پاک طینت، بڑے صاف باطنریاض آپ کو کچھ ہمیں جانتے ہیںآنے کو ہے ریاض سا اک پارسا بزرگمینا و جام بزم سے اٹھوائے جاتے ہیںمری بت پرستی بھی ہے حق پرستیمرا مرتبہ اہل دیں جانتے ہیںانھوں نے اپنی نظموں میں بھی اپنے تقدس اور بزرگی کے گیت گائے ہیں۔نظم چونکہ کسی ایک خاص موضوع کی پابند ہوتی ہے لیکن ریاض کی نرگسیت اس موضوع کے حدود کو چیرتی ہوئی اس کے بین السطور میں اپنا جلوہ کہیں نہ کہیں ضرور دکھاتی ہے۔ ریاض رضوان میں ایک نظم موسوم بہ ’عقد ثریا‘ کہی ہے۔ اس نظم میں انھوں نے مغربی تہذیب و ثقافت کا خوب مذاق اڑایا ہے اور اس وقت کے سیاسی حالات پر بھی طنز کے زہر آلودہ تیر چلائے ہیں۔ لیکن اس موضوع کے پس پردہ بھی غیر ارادی طور پراس کے آخری شعر میںاپنی نرگسیت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے؎بڑھاپے میں ریاض افشا نہ کر راز سیہ کاریمجھے ڈر ہے تقدس کو ترے رسوائیاں ہوں گیوہ چاہتے ہیں کہ ان کے حسن و جوانی کو کبھی زوال کی ہوا بھی نہ لگے۔ جو چیز انسان کو بہت پیاری ہوتی ہے وہ اس کے تئیں بہت فکر مند رہتا ہے۔ ریاض کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ انھیں اپنی جوانی اس قدر عزیز ہے کہ وہ اس پر بڑھاپے کی خزاں دیکھنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔یہی نرگسیت انھیں اللہ کے حضور یوں دست سوال دراز کرنے کے لیے اکساتی ہے؎جواں کردے الٰہی صحبتِ پیر مغاں مجھ کوپرانے میکدے والے بھی جانے نوجواں مجھ کومن جملہ طور پر یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ریاض کے اندر نرگسیت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ان کے اندر کی یہ نرگسیت بعد از مرگ بھی زندہ رہی۔انھیں اپنی خوبصورتی اور قاتلانہ ادا پر کچھ اس قدر ناز ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ موت بھی اس کو مات نہیں دے سکتی۔ وہ تو حشر کے دن بھی اپنی رندانہ وضع ترک کرنے پر تیار نہیں؎کفن سرکا کے حسن نوجوانی دیکھتے جاؤذرا افتادِ مرگ ناگہانی دیکھتے جاؤاہل محشر سے نہ الجھو تم ریاضحشر میں دیوانگی اچھی نہیںدہن گور میں جاتے ہوئے کہتے تھے ریاضاے لبِ گور سمجھ موجِ تبسم مجھ کوہم اپنی وضعِ رندانہ کریں کیوں ترک محشر میںیہی ہوں گے وہاں بھی اہل دنیادیکھنے والےغرض ان کے کلام میں خود پسندی، خودستائی، اناپرستی، شاعرانہ تعلی، جیسے عناصر نرگسیت کا بین ثبوت پیش کرتے ہیں۔مراجع ومصادرDr. Mohd Younus ThokarAsst Professor, (C), Dept of UrduKashmir UniversityKashmir -190006 (J&K)" اردو صحافت کی تین بھولی بسری خاتون اور قومی تحریک آزادی:اسعد فیصل فاروقی,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/05/,"اردو میں نسائی صحافت کا آغاز انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہوتا ہے،جب آگرہ سے’مفید عام‘ نام کا پندرہ روزہ اخبار فروری 1869 میں احمد خاں صوفی کی ملکیت میںجاری ہوا۔ایک عام معلوماتی اخبار ہونے کے باوجود، مفید عام اپنے دیگر ہم عصروں سے اس لیے منفرد تھا کہ اس نے اپنے آٹھ نکاتی مقاصد میںنسائی مضامین کو بھی ترجیحی بنیاد پر شائع کرنے کا اعلان کیا۔ پندرہ روزہ ’مفید عام‘ کاتذکرہ اختر شاہنشاہی میں بھی درج ہے نیز علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ بابت 19مارچ 1869کے پرچہ میں بھی اس کا اشتہار شائع ہوا۔ اختر شاہنشاہی (1888) کے مطابق’’مدارس دختراں کے واسطے بہت عمدہ عمدہ مطالب و مضامین مفید عام میں لکھے جاتے ہیں،جس سے فی الواقع یہ اخبار اسم بامسمی ہورہا ہے۔‘‘ مفید عام کی اشاعت کے پندرہ برس بعد 5مارچ 1884 کولکھنؤ سے مسیحی مشنری،پادری کریون نے’رفیق نسواں‘ کے نام سے ایک نسوانی رسالے کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اس کی مدیرہ مسز ہیڈلی تھیں اور یہ میتھوڈسٹ پبلشنگ ہائوس سے شائع ہوتا تھا۔اردو میں نسائی صحافت کی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ انیسویں صدی کے آخر تک پورے ملک(ہندو پاک) سے جاری ہونے والے نسائی رسائل و جرائد کی تعداد جہاں صرف نو تھی، وہیںبیسویں صدی کے آغاز (1901)  سے ملک کی آزادی (1947) تک یہ تعداد سو سے زائد تجاوز کرچکی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کامقصد خواتین میںتعلیم کو فروغ دینااور ان کی علمی،ادبی اورسماجی اصلاح کرنا تھا۔ اس زمانے کے چند اہم نسائی رسائل وجرائد جنھوںنے خواتین کونہ صرف متاثر کیا بلکہ سماج پر مثبت اثر ڈالا اور تبدیلی کی  ایک روش ڈالی،ان میں شریف بیویاں(لاہور، 1893)، معلم نسواں(حیدرآباد دکن، 1894)، تہذیب نسواں(لاہور، 1898)، خاتون (علی گڑھ، 1904)، پردہ نشیں (آگرہ، 1906)، عصمت (دہلی، 1908)، ظل السلطان (بھوپال، 1913) وغیرہ شامل ہیں۔ یہ جرائد خواتین کے اندر سے اندھی تقلید اور بے جا رسم و رواج کو ختم کرنے میں بھی معاون بنے۔ ان جرائد نے خواتین قلم کاروں کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی مہیا کیا، ان کے اندر بیداری پیدا کی، ان کی ادبی تخلیقات کو جگہ دی اور،ان کے خیالات کو شائع کیا۔ ایسا نہیں کہ اس دور میں خواتین سے متعلق جو جرائد جاری ہوئے، وہ سب کے سب مو ضوعاتی طور پر صرف تعلیمی، سماجی، مذہبی اور اصلاحی ہی تھے، بلکہ ا ن کے علاوہ بھی،بیسویں صدی کے پہلے نصف میں چند ایسے اختصاصی تحریکی جرائدجاری ہوئے، جو موضوع کے اعتبار سے کلی طور پر سیاسی تھے اور جن کا مقصد خواتین میں سیاسی شعور پیدا کرنا اور قومی تحریک آزادی کے جذبے کو پروان چڑھانا تھا۔ البتہ ایسے جرائد اور ان کے مالکان اور مدیروں کو حکومت کا عتاب ضرور جھیلنا پڑا۔ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں جہاں مردوں نے اہم کردار ادا کیا، وہیں خواتین نے بھی شانہ بہ شانہ ان کا ساتھ دیا۔ بیگم حضرت محل(1820-1829) ہوں یا رانی لکشمی بائی (1828-1856) یاپھر بی اماں (1850-1924)  ہوں یا نشاط النساء بیگم (1884-1937) ایسی خواتین مجاہدین آزادی کی ایک لمبی فہرست ہے، جنھوں نے مردانہ وار طریقے سے ہندوستانی جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ تاریخ صحافت کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ تحریک آزادی میں مردوں کے ساتھ اردو کی ایسی خاتون صحافیوں، قلم کاروں اور ادیبوں کا بھی حصہ رہا ہے،جنھوں نے اپنے قلم سے مختلف اردو اخبارات اور رسائل میں سیاسی و سماجی مسائل اور جنگ آزادی کے تناظر میں قومی سیاست پر مضامین تحریر کیے اور اپنے تخلیقی فن پاروں میں بھی انگریزی راج کے ظلم و ستم اور استبدادی رویے کو گفتگو کا موضوع بنایا۔ ان میں چند اہم نام نذر سجاد حیدر (1894-1937)، زخ شروانیہ(1894-1922) ، رشید جہاں (1905-1952)، عصمت چغتائی (1951-1991) وغیرہ ہیں۔ اس طرح ان خواتین قلم کاروں اور صحافیوں نے ہندوستانی جنگ آزادی کی تحریک میں اپنا بھرپور تعاون پیش کیا۔تحریک آزادی کے دوران چند خواتین مجاہدین آزادی ایسی بھی تھیں، جنھوں نے خود کے ا پنے سیاسی اور تحریکی جرائد جاری کیے اور ان کے وسیلے سے خواتین کے اندر تعلیمی، سماجی اور سیاسی شعور اور قومی یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن عام طور پر لوگوں کو ان کے اور ان کی خدمات کے بارے میں واقفیت نہیں ہے یا کم ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں ایسی ہی تین بھولی بسری مسلم خواتین مجاہدین آزادی اور ان کی صحافت پر گفتگو کی جائے گی، جن کی ادارت میں سیاسی جرائد اردو میں جاری ہوئے۔ ان جرائد کے وسیلے سے انھوں نے تحریک آزادی کے مشن کو آگے بڑھایا، عورتوں میں خود اعتمادی پیدا کی، ان کے اندر سماجی مسائل سے نبرد آزما ہونے کا شعور بھی پیدا کیا،ان کو قومی یکجہتی اور امن کا پیغام دیا اور ان کو ان کی قومی ذمے داری اور فرائض کا احساس دلایا۔ ان اخبارات و رسائل نے آزادی کے بعد کے نئے ہندوستان میں خواتین کو کس طرح کی ذمے داری اداکرنی ہے اس پر بھی گفتگو اورمباحثہ کیا۔ ان خواتین میں بیگم خورشید خواجہ (1894-1921)  جو معروف کانگریسی لیڈر عبدالمجید خواجہ (1885-1964) کی زوجہ تھیں،نے علی گڑھ سے 1920 میں ہفت روزہ ’ہند‘ جاری کیا۔ کلثوم سایانی (1900-1987) کی ادارت میں 1942 میںبمبئی سے ہفت روزہ ’رہبر‘ نکلا۔ اور ہاجرہ بیگم(1910-2003)  نے 1945 میں ماہنامہ’روشنی‘ اپنی ادارت میں بمبئی سے جاری کیا۔یہاں یہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ تاریخ ا ردو صحافت کے متعلق اب تک جو تحقیقی کام ہوئے ہیں، ان میںمذکورہ تینوںجرائد و رسائل کے بارے میں تذکرہ نہیں ملتا۔ تاریخ اردو صحافت کے محققین بشمول امداد صابری، عتیق صدیقی، اورڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے بھی اپنے تحقیقی کاموں میںان جرائد کو موضوع گفتگو نہیں بنایا ہے۔ البتہ پروفیسر عابدہ سمیع الدین ( ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ، پٹنہ 1990) اور ڈاکٹر جمیل اختر(اردو میں جرائد نسواں کی تاریخ، 2016) نے ثانوی ماخذ کو بنیاد بناکر ہفت روزہ ’ ہند‘کا رسمی تذکرہ تو کیا ہے، لیکن ان کے یہاں ’رہبر‘ اور’روشنی‘ کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں ملتی۔ ذیل کی سطور میں ان تین گمنام خواتین مجاہدین آزادی کی قومی اور صحافتی خدمات کا معروضی محاکمہ ان کی ادارت میں جاری ہوئے جرائد کے حوالے سے پیش کیا جارہا ہے، تاکہ قارئین کوان خواتین صحافیوں کی جنگ آزادی میں کردارکے بارے میں معلوم ہوسکے۔بیگم خورشید خواجہ ہماری جدوجہد آزادی کا ایک نمایاں چہرہ تھیں۔ وہ 1894 میں نواب سربلند جنگ حمیداللہ خاں کے یہاں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی ممتاز آزادی پسند اور قوم پرست رہنما عبدالمجید خواجہ سے ہوئی تھی۔عبدالمجید خواجہ نے نوآبادیاتی حکومت کے خلاف گاندھی جی کی عدم تشدد کی مزاحمت کی فعال حمایت کی تھی۔ بیگم خورشید خواجہ نے اپنے شوہر کے ساتھ جدو جہد آزادی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔انھوں نے علی گڑھ سے ایک اردو ہفتہ وار ’ہند‘ جاری کیا تاکہ مسلم خواتین کو جدوجہد آزادی میں حصہ لینے اور ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔ علی گڑھ میں انھوںنے آزادی کی جدوجہد، خاص طور پر سودیشی تحریک میں بھی جوش و خروش سے حصہ لیا، اور1920 میں علی گڑھ میں کھادی بھنڈار بھی قائم کیا تھا۔  انھوں نے مسلمانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے بھی انتھک کوششیں کیں اور 1932 میں الہ آباد میں حمیدیہ پرائمری اسکول قائم کیا، جو 1975 میں حمیدیہ ڈگری کالج بن گیا۔ بیگم خورشید خواجہ کا انتقال جولائی 1981 کو ہوا۔ہفتہ وار’ہند‘ایک اہم قوم پرست اردواخبار تھا، جو جدوجہد آزادی کے پس منظر میں شائع ہوتا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا سیاسی اخبار تھا، جسے ایک مسلمان خاتون بیگم خورشید خواجہ نے ایڈٹ کیا تھا۔اس ہفتہ وار نے خواتین میں علمی بیداری کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہندوستانی مسلم خواتین کی رائے کو ہموار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے اس اخبار کے وسیلے سے مسلم خواتین کو آزادی کی تحریک میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا اور یہ بتایا کہ وہ اس اخبار کے وسیلے سے اپنے قومی احساسات اور جذبات کو پیش کر سکتی ہیں۔ اس اخبار میں خواتین کی تعلیم اور ان کو بااختیار بنانے پر بھی توجہ دی گئی۔ یہ 16 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا،اور اس میں مضامین اور خبریںتین کالم میںدرج ہوتی تھیں مطبع ملیہ میں بہ اہتمام علی محمد خاں چھپتا اور دفتر ہند سے سعید الدین خاں پبلیشر شائع کرتے تھے۔ اس اخبار کی قیمت سالانہ چھ روپیہ اور سہ ماہی دو روپیہ تھی۔ہفتہ وار’ہند‘ کا سرورق دو حصوں میں منقسم ہوتا تھا، اوپر کا  نصف حصہ یعنی ماسٹ ہیڈ ٹائٹل سے مزین ہوتا تھا۔ ٹائٹل میں ہندوستان کا نقشہ اور دائیں بائیں (گجرات اور آسام ) حصے میں کانگریس کانقشہ مع چرخہ چھپا ہوتا تھا نیز پیٹ میں جلی حروف میں اخبار کانام ’ہند ‘ اور اس کے اوپر’ اللہ اکبر‘ درج ہوتا تھا نیز اس سے اوپر سورج کی شعاعیں نکلتی ہوئی دکھائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ ا وپر دائیں اور بائیں دونوں کناروں پریہ اشعار درج ہوتے تھے۔عخدا نے آج تک  اس قوم کی حالت نہیں  بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کامذہب  نہیں  سکھاتا  آپس میں  بیر رکھناہندی ہیں ہم  وطن  ہے ہندوستاں   ہماراسرورق کے نیچے کے حصے میں آزادی کے متوالوں کی نظم پیش کی جاتی تھی،دراصل ہفتہ وار ہندایک سیاسی اخبار تھا جس کا مقصد خواتین میں سیاسی اور علمی بیداری کو تحریک دینا اور ان کو عالمی طور پر ہونے والی سیاسی سرگرمیوں سے آگاہ کرنا تھانیز ان کے اندر جدوجہد آزادی کے تئیں جذبہ بیدارکرنا تھا۔ اخبار کے صفحات پر مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی سیاسی قلمی کاوشیں جابہ جا دیکھنے کو ملتی تھیں، جن کو’’ عالم نسواں‘‘ کے عنوان سے ایک علیحدہ گوشے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا جاتا تھا۔ نیز یہ اخبار دیگر قومی اخباروں اور رسائل سے بھی سیاسی مضامین اخذ کرتا تھا مثلاًمسلم آئوٹ لک، لاہور، جوہر، زمانہ،کانپور،ہمدم، وکیل وغیرہ۔’ہند‘ کی اولین جلد کے شمارہ نمبر 16بابت27 ستمبر1922 میں جو مشمولات درج ہیں ان میں افادات آزاد ( نظم مولانا آزاد سبحانی)،ایڈیٹوریلمشرق قریب، انور پاشا، انگورہ کی فوجی مدد، اکالی سکھ، ہمارے اعتدال پسند، مولانا رشید احمد صاحب کی وفات(خورشید خواجہ)، کوائف، عالم نسواںبہنوں سے دو دو باتیں، زنانہ دعا و نماز شکریہ سولن میں(نذر سجاد حیدر)، سوراج کب ملے گا (رضویہ خاتون )،’اوبرا مرگائو‘ یوروپ کی عیسائیت سے وابستگی کا خلوص (م ح ف )، اصلی اور نقلی مجنوں، باسفورس اور درہ دانیال کی آزادی، رئیس وفد عرب فلسطین کا خط عالی جناب سیٹھ چھوٹانی کے نام،ایڈیٹر چہرہ نما (فارسی اخبار )سے ملاقات( مسلم آئوٹ لک لاہور، بحوالہ کانگرس )، یونانی مظالم کی دردناک داستاں (ایک فرانسیسی جریدہ نگار کے قلم سے، بحوالہ زمانہ )، غازی مصطفے کمال پاشا اور درہ دانیال و شا ح زریں( بحوالہ ہمدم)،  ہندوستان کی مشہور درسگاہیں( جناب سعید متعلم تاریخ،  بحوالہ جوہر)، بعد از انکشاف ( بحوالہ وکیل )صلح جویوں کی آزمائش،انقلاب امریکہ پر ایک اجمالی نظر مصطفے کمال پاشا، تازہ خبر، بلوہ ملتان مراسلات،مکتبہ جامعہ ملیہ علی گڑھ، اشتہارات:اسی طرح جلد۱شمارہ 28 بابت20 دسمبر1922 میں درج تحریروں کے عناوین یہ ہیںنظم(رشحات جو ہر )، اڈیٹوریل، برقیات، عالم نسواں، شری متی پاربتی ہندوستانی خاتون پرزور،شری متی پاربتی جی کا پر جوش تحریری بیان، مسئلہ مشرق قریبہ، ہندوستان کا دور جدید، اقتباسات:ہفتہ وار’ہند‘کے27ستمبر 1922کے پرچے میں ’افادات آزاد‘ کے عنوان سے مولانا آزاد سبحانی کی نظم شائع ہوئی،جس کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے        ؎کبھی یہ گھر بھی تھا آباد یعنی عشق کا گھر تھاتمھیں تم دل میں تھے او ر غیر یعنی میں بھی باہر تھاخوشا  ایام  وصل  و  کامرانی جب کہ جان منترا  در  تھا  میر ا سر  تھا  ترا سر  تھا  مر ا د ر  تھاگرا  قصر  تمنا  ایک  آہِ    نامرادی    میںجو  قصر  آہنیں سمجھا  گیا  تھا  ریت کا گھر  تھاحر یفو  خوش  نہ  ہو  یہ گردش  چشم زمانہ ہےکبھی  اس  آ ستان  ناز  پر  اپنا  بھی بستر  تھامبارک تم کو  عیش  و  کامرانی  اہل  خوش بختیگوارا  کرلیا  ہم نے  بھی  جو  اپنا  مقدر  تھاگل افتادہ رکھ کر سامنے بلبل یہ کہتی تھیابھی یہ نو بلادیدہ ذرا پہلے گل تر تھاہوس کاری  نے کھودی آبروئے عشق  دنیا سےیقین  مانو  مقام عشق  اس  سے  پہلے  برتر تھاجہان دل کی قطع راہ  اک تفسیر  وحدت  تھیکہ  دل ہی راہ  تھا  رہرو تھا  اور رہرو کا رہبرتھاکہاں تک کوئی سنتا سننے والے تھک اٹھے آخرترا  آزاد  اک  حرف الم  طو مار  دفتر تھاپرچے کے اڈیٹوریل اور مضامین کو پڑھ کر مدیرہ کے سیاسی فہم وادراک کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ خورشید خواجہ نہ صرف ایک قوم پرست بلکہ ایک منجھی ہوئی سیاست داں تھیںاوراپنے وقت کے قومی اور بین الاقوامی واقعات پر ان کی گہری نظر بھی تھی۔جیسا کہ اس ہفت روزہ کا ایک مقصد خواتین کے اندربھی سیاسی فہم وشعور اورجدوجہد آزادی کا جذبہ بیدار کرنا تھا اسی وجہ سے مدیرہ ’ عالم نسواں‘ کے گوشے کے تحت ’بہنوں سے دو دو باتیں ‘ کے عنوان سے خواتین کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں مطلع کرتی اور ان کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے شوق اور حوصلہ دلاتیں تاکہ ہماری خواتین قومی سیاست سے متعلق مضامین لکھنے کے لیے آمادہ ہو سکیں، مدیرہ 27 ستمبر 1922 کے پرچے میں ’دو دو باتیں‘ کے تحت رقمطراز ہے:’’اس عرصہ میں اگرچہ عدم موجودگی کی وجہ سے اخبار اور بالخصوص عالم نسواں پر اس قدر توجہ نہ کرسکی جیسی کہ ضرورت تھی لیکن یہ سمجھتی تھی کہ فتح سمرنا کی خوشی میں اکثر مضامین بہنوں کے موصول ہوں گے اور بالخصوص نظمیں اس لیے کہ اس سے قبل خلاف توقع اکثر نظمیں آتی تھیں لیکن اس مرتبہ ایسانہ ہوا۔آئندہ ہفتہ میں ملک کے مسلمہ لیڈر مہاتما گاندھی کے سالگرہ اگرچہ میری غیر حاضری کے سبب خاص نمبر کا انتظام دشوار ہے لیکن چاہتی ہوں کہ بہنیں ضرور اپنے صفحات کے لیے مہاتما کی سالگرہ کی تقریب میں خاص مضامین عنایت کریں اگرچہ مہاتما گاندھی کے احسانات تمام عالم پر ہیں اور ہندوستان کا توکہ دمہ ان سے واقف ہے لیکن طبقہ نسواں بالخصوص ان کا ممنون احسان ہے۔اخبار انڈپنڈنٹ الہ آباد کی حق پسندی نے شیخ مبشر حسین صاحب قدوائی کی تجویز حمایت انگورہ کو عملی جامہ پہنایا ہے اور اخبار موصوف نے تجویز کیا ہے کہ ایک مختصر فوج ہندوستانی مسلمانوں کے ترکوں کی مدد کے لیے روانہ کی جائے،اس سلسلہ سے بڑی مسرت ہوئی جب یہ دیکھا کہ ہماری دو بہنوں یعنی بیگم قدوائی اور ان کی صاحبزادی نے بھی اپنے نام اس فوج میں بہ حیثیت نرس دیے  ہیں۔ اس اعلان کو بلا شبہ ہماری جدید قومی تاریخ میں ایک نایاب سمجھنا چاہیے۔ ‘‘  (مدیرہ) (ص6)ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین اپنی کتاب ’ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ‘میں’ ہند‘ کو  ہفت روزہ اخبار کے بجائے ماہانہ جریدہ لکھا ہے جو غلط ہے، دراصل ان کی رسائی اصل اخبار تک نہ ہو سکی تھی بلکہ ان کی اس معلومات کا ماخذ پروفیسر جمال خواجہ کا خط تھا۔ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین رقمطراز ہیں:’’انھوں نے علی گڑھ میں ایک کھادی بھنڈار بھی قائم کیااور1921 میں علی گڑھ سے ہی ’ہند‘ نام کا ایک ماہانہ جریدہ بھی شروع کیا جس کی ادارت کے فرائض بھی انھوں نے خود ہی انجام دیے اپنے ایک پوسٹ کارڈ میں گاندھی جی نے انھیں لکھا تھا کہ وہ انھیںاردو میں اپنا سب سے پہلا خط لکھ رہے ہیں۔‘‘(ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ، ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین، ادارہ تحقیقات اردو پٹنہ، ص161)امۃ الحمید خانم مرزا اپنے مضمون ’ زنانہ اخبارات ورسائل ‘ میں اس اخبار کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں’’ہند سیاسی ہفتے وار اخبار محترمہ خورشید خواجہ صاحبہ کی ایڈیٹری میں علی گڑھ سے نکلنا شروع ہوا تھا۔ سال بھر بعد اشاعت کا انتظام ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا۔ سنا تھا پھر جاری ہوگا۔ معلوم نہیں کہاں تک ٹھیک ہے۔ سالانہ چندہ چھ روپے۔ خبریں، ایڈیٹوریل اور مضامین زیادہ ہوتے تھے۔ دوصفحے عالم نسواں کے عنوان سے نسوانی مضامین کے لیے مخصوص تھے جو خواتین کی عنایت سے بہ مشکل پر ہوتے تھے۔‘‘)تہذیب نسواں، لاہور 20 دسمبر1923، ص 839،)قومی جنگ آزادی سے متعلق علی گڑھ سے جاری ہونے والے رسائل و اخبارات میں  ہفت روزہ ’ہند‘ کا شمار ایک اہم نیشنلٹ کے اخبار کے طور پر ہوتا ہے جس نے گاندھی جی کی سرپرستی میں آزادی کی تحریک کے لیے عوامی رائے بنانے میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ خواتین کی حصے داری کو بھی ممکن بنایا اور ان کے خیالات اور آراکو بھی فوقیت سے شائع کیا۔ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی گمنام خواتین میں کلثوم سایانی(1900-1987) کا نام بھی شامل ہے۔ وہ گاندھی جی کے قریبی رفیق اور ذاتی معالج ڈاکٹر رجب علی پٹیل کی بیٹی تھیں۔ ڈاکٹر رجب علی پٹیل کا تعلق مسلمانوں کے سنی خوجہ جماعت سے تھا۔ کلثوم سایانی کی پیدائش 21اکتوبر 1900کو ہوئی۔ ان کا خاندان قومی سرگرمیوں کے لیے ممتاز تھا اس وجہ سے وہ بھی بچپن سے ہی قوم پرستانہ اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگی تھیں۔ان کی شادی ڈاکٹر جان محمد سایانی سے ہوئی تھی جو کہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر رحمت اللہ سایانی (1847-1902) کے بھتیجے تھے۔ڈاکٹر سایانی خود بھی قومی تحریک میں معاون ہونے کے ساتھ ساتھ آل انڈیا خلافت کمیٹی کے معالج خصوصی بھی تھے۔ انھوں نے کلثوم سایانی کو بھی قومی، سیاسی اور سماجی کاموں میں حصہ لینے کا حوصلہ دیا۔ کلثوم سایانی نے تعلیم خصوصی طور پر تعلیم بالغان میں اپنی دلچسپی کی وجہ سے اپنا زیادہ تر وقت بمبئی کے لوگوں کو چرخہ کلاسس میں حصہ لینے کی ترغیب دینے کے لیے وقف کیا۔ وہ 1930 میں یونٹی کلب کی سکریٹری مقرر ہوئیں، جس کا مقصد عوامی شعور کو بیدار کرنا تھا۔انھیں 1938 میں کانگریس حکومت کی جانب سے قائم کردہ پہلی قومی پلاننگ کمیٹی کی خاتو ن رکن کے طور پر نامزد کیا گیا، انھوں نے اس موقع کا بہترین استعمال کیا اور خواتین کو بااختیار بنانے کی سمت  اہم اقدامات اٹھائے۔انھوں نے گھریلو تعلیم کی اسکیم تیار کی اور مسلم خواتین کے درمیان کام کرنا شروع کیا۔ بیگم کلثوم سایانی نے بمبئی میں بی جی کھیر(1888-1957) کی قیادت میں قائم  1937  کی حکومت میں تعلیم بالغان کی جو کمیٹی بنی تھی وہ پہلے اس کی رکن کے طور پر نامزد کی گئیں اور بعد میں اس کی نائب صدر کے عہدے پر بھی فائز ہوئیں۔ وہ ہنسہ مہتا (1897-1995)کی گرفتاری کے بعد آل انڈیا ویمنس کانفرنس کی 1943 میں ایکٹنگ جنرل سکریٹری مقرر ہوئیں اور 1944 تا 1946 کے درمیان انھوں نے باقاعدہ جنرل سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ انڈین ایڈلٹ ایجوکیشن ایسو سی ایشن،نئی دہلی کی آغاز سے ممبر تھیں۔اس کے علاوہ وہ ہندوستانی پرچار سبھا کی بھی شروع سے ہی ممبر رہیں، جس کے تحت انھوں نے متعدد تعلیمی لیکچر اور سمیناروں کا انعقاد کیا۔اور اس طرح  انھوں نے گاندھی جی کے مشن کو آگے بڑھایا۔کلثوم سایانی نے آزادی کے بعدنئے ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں ایک سرگرم کردار ادا کیا۔ حکومت نے بھی ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کو کئی کمیٹیوں اور اداروں میں ممبر کی حیثیت سے جگہ دی، مثلاً جسٹس آف پیس، بچوں کی عدالت کی آنریری مجسٹریٹ، سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن، قومی یکجہتی کانفرنس، ریڈیو ایڈوائزری بورڈ، بمبئی اور فلم سنسر بورڈ بمبئی۔اس کے علاوہ انھوں نے تعلیم بالغان سے متعلق کئی بین الاقوامی کانفرنسوں اور ورکشاپس میں شرکت کی۔وہ یونسکو کی تعلیم بالغان کی مشاورتی کمیٹی میں ہندوستانی کی نمائندہ تھیں۔ بیگم سایانی کو  1959 میں حکومت ہند نے پدم شری ایوارڈسے نوازا اور 1969 میں انڈین ایڈلٹ ایجوکیشن ایسو سی ایشن کی جانب سے ان کو نہرو لٹریسی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بیگم سایانی کا انتقال 28مئی 1987کو چھیاسی برس کی عمر میں ہوا۔1940میں انھوں نے سادہ ہندوستانی میں ایک پندرہ روزہ اخبار ’رہبر‘ جاری کیا۔ رہبر کے زیادہ تر مضامین سماجی، تعلیمی، اصلاحی اور سیاسی ہوتے تھے اس کا مقصد وہ لوگ جو نئے پڑھے لکھے ہیں، ان کو ہندوستانی زبان میں تعلیم دینا تھا۔یہ ایک قوم پرست اخبار تھا اور یہ اردو کے علاوہ دیو ناگری اور گجراتی رسم الخط میں بھی شائع ہوتا تھا۔ 16جنوری 1945 کو لکھے گئے خط میں گاندھی جی نے سایانی کو بیٹی کلثوم کے نام سے مخاطب کیا اور ان کے پندرہ روزہ اخبار کی تعریف کی۔ انھوں نے لکھا’’مجھے رہبر کا ہندی اور اردو کو متحد کرنے کا مشن پسند ہے، میں اس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں‘‘۔ 1942 میں سیکڑوں مجاہدین آزادی جو کہ سیاسی قیدی کے طور پر ملک بھر کے جیلوں میں بند تھے، رہبر کا مطالعہ کرتے تھے۔  اس زمانے میں اس نے مختلف زبان بولنے والے سیاسی قیدیوں کو ہندوستانی زبان کی تعلیم دی۔کلثوم سایانی نے پندرہ روزہ رہبر کو 20 برس 1940 تا 1960تک جاری رکھا اور وہ پوری طرح اس کی ادارت سے منسلک رہیں۔ رہبر کے وسیلے سے انھوں نے گاندھی جی کے ہندوستانی زبان کے نظریے کو فروغ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے تعلیم بالغان کے مشن کو بھی پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔راقم الحروف کو پندرہ روزہ ’رہبر‘ کی جلد7 نمبر 15,15 فروری 1947 کے پرچے کا پہلا صفحہ ردی کی دوکان سے حاصل ہوا۔ اس کے سرورق کا جائزہ لینے پر یہ معلومات حاصل ہوتی ہے کہ یہ رسالہ دو کالموں میں ٹیبلائیڈ شکل میں چھپتا تھا۔ جس کی قیمت فی پرچہ ڈیڑھ آنہ تھی۔  سرنامے پر ’بالغوں کا پندرہ روزہ اخبار‘ اورپھر اس کے ذیل میں جلی حروف میں ٹائیٹل ’رہبر‘ درج ہے۔ اس کا مقصد نو آموز بالغوں میں تعلیمی اور سیاسی شعور کو پروان چڑھانا تھا۔ رہبر کے مضامین ہلکے پھلکے ہوتے تھے اور ان کی زبان آسان ہندوستانی ہوتی تھی۔مذکورہ پرچے کا جائزہ لینے پر یہ پتا چلتا ہے، کہ اخبار کا آغاز’ نیک بات‘ کی سرخی سے ہوتا ہے، جس کے تحت یہ حدیث درج ہے’ عالم کی سیاہی کی بوند شہیدوں کے خون کے برابر ہے‘۔ اس کے بعد اپنی باتیںکے تحت قومی، سیاسی، اور سماجی خبریں درج ہیں۔ بیرسٹرآصف علی کے امریکہ میں پہلا سفیر مقرر ہونے کی خبر ہے نیز مولانا ابوالکلام آزاد کے وزیر تعلیم مقرر کیے جانے پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایک خبر سبھاش چندر بوس کے جنم دن پر لوگوں کی ہلڑ بازی پر ہے اور اس پر سخت اعتراض جتایا گیا ہے۔ بمبئی میں  ہوئے فساد پر بھی ایک خبر ہے، جس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔اخبار میں خواتین کی اصلاح کے لیے مضامین بھی شامل ہیں۔ہاجرہ بیگم (1910-2003) کا تعلق رامپور کے ایک معروف خانوادے سے تھا۔ ان کی پیدائش سہارنپور میں 24دسمبر 1910 کو ہوئی۔ والد ریاست رام پور میں نائب تحصیلدار تھے۔ والدہ کا  انتقال بچپن میں ہوا۔ ابتدائی روایتی تعلیم گھر پر ہوئی1926 میں کوئنیز میری کالج، لاہور سے میٹری کولیشن کیا۔ پہلی شادی خاندان میں ہوئی لیکن شوہر سے نبھی نہیں اور انھوں نے 1932 میں طلاق لے لی۔ 1933 میں وہ اپنے دو سالہ بیٹے کے ساتھ لندن گئیں جہاں انھوں نے مانٹی سوری کالج ٹیچرس کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ لندن میں وہ سجاد ظہیر(1899-1973) اور دیگر ہندوستانی طلبا کے ساتھ کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ہوگئیں۔  واپس آنے کے بعد وہ کرامت حسین کالج، لکھنؤ میں ٹیچر انچارج کی حیثیت سے منسلک ہوگئیں جہاں ان کا تقرر ٹیچر انچارج جونیئر اسکول ہوا۔لکھنؤ میں ہی انھوں نے سجاد ظہیرکے ساتھ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کے انعقاد کے لیے کام کیا۔اس دوران وہ کمیونسٹ پارٹی کے لیے پی سی جوشی (1907-1980) کے ساتھ بھی خفیہ طور پر کام کرتی رہی تھیں۔ 1935 میں ہی انھوں نے معروف کمیونسٹ لیڈر زیڈ اے احمد(1908-1999) کے ساتھ دوسری شادی کی۔یہ شادی سجاد ظہیر کے مکان پر ہوئی۔شادی کے فوراً بعد دونوں نے الہ آباد میں کمیونسٹ پارٹی کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ ہاجرہ احمد نے پارٹی کے حکم سے انڈین نیشنل کانگریس اور سوشلسٹ پارٹی کی رکنیت بھی حاصل کی۔ اس دوران وہ کمیونسٹ پارٹی کی سرگرم ممبر کے طور پر بھی خفیہ طور پر کام کرتی رہیں۔ اس خفیہ کام کرنے والوں کی ٹیم میں زیڈ اے احمد اور کنور محمد اشرف(1903-1962)بھی شامل تھے۔1936  میں انھوں نے کانگریس کے ماس کانٹیکٹ پروگرام کے تحت خصوصی طور پر خواتین کے لیے کام کیا اور 1937 کے ضمنی انتخابات میں سرگرم رول ادا کیا۔وہ کانگریس کے فیض پور، ہری پور اور رام نگر کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوئیں۔ 1940 میں ہاجرہ بیگم اور زیڈ اے احمد کانگریس سے علیحدہ ہوگئے اور کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ ہاجرہ بیگم نے 1940 میں آل انڈیا وومینس کانفرنس کی آرگنائزنگ سکریٹری کے طور بھی خدمات انجام دی۔و ہ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار’قومی جنگ‘ کی مستقل مضمون نگار تھیں۔ انھوں نے اس دوران ٹریڈ یونین تحریکوں اور خواتین کی تنظیموں میں نمایاں کام کیا،قومی یکجہتی اور امن پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا نیز پنڈت سندر لال کی رہنمائی میں امن دستوں میں شامل ہوکر فرقہ وارانہ فسادات ختم کرانے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ آزادی سے قبل اور بعد میں ملک میںپیدا ہوئے فرقہ وارانہ حالات کا انھوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیااور پنجاب اور سرحدی علاقوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے تدارک کے لیے دیگر خواتین کے ساتھ دورے کیے، علاقائی امن کمیٹیاں قائم کیں اور آپسی بھائی چارے کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دوران انھوں نے ہندوستان اور پاکستا ن میں پھنسی ہوئی خواتین اور بچیوں کی حفاظت کے ساتھ بازیابی کروائی اور ان کو ان کے خاندان والوں تک بحفاظت پہنچایا۔ 1949 میں حکومت کے کمیونسٹوں کے خلاف کریک ڈائون میں ان کو بھی گرفتار کیا گیا اور وہ پانچ برس لکھنؤ جیل میں قید رہیں۔ ہاجرہ بیگم کا انتقال 20جنوری 2003 کو ہوا۔ماہانہ روشنی ہاجرہ بیگم نے بمبئی سے 1946میں جاری کیا تھا۔یہ انجمن خواتین ہند( آل انڈیا وومین کانفرنس) کا ماہانہ رسالہ تھا اور یونائیٹیڈ فائن آرٹ لیتھو، مازگائوں، ممبئی سے چھپتا تھا۔ یہ رسالہ 34 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس رسالے کا مقصد خواتین کو معاشی طور پرخود اختیار بنانا تھا اور اس کی اصلاح کی تدابیرکرنا تھا نیز ان کے اندر قومی معاملات سے متعلق سوجھ بوجھ پیدا کرنا تھا۔ تاکہ وہ بعد آزادی  ہندوستان کی ترقی میں بھرپور حصہ لے سکیں۔اس کی مجلس ادارت میں لیڈی راما رائو، بیگم معصومہ حسین علی خاں، مسز وجے لکشمی پنڈٹ، مسز رامیشوری نہرو، بیگم کلثوم سایانی اور راج کماری امرت کور شامل تھیں۔  ریختہ کی ویب سائٹ پر راقم الحروف کو روشنی کے تین پرچے دستیاب ہوئے ہیں، جن میں دو آزادی سے قبل کے اور ایک آزادی کے بعد کا ہے۔ان تینوںپرچوں کا معروضی جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ ا س رسالے نے آزادی سے قبل اور بعد میں فرقہ وارانہ حالات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور خواتین کو سیاسی طور پر بیدار کر نے میں بھی اس کی کوششیں بہت نمایاں تھیں۔ ان شماروں کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں صرف خواتین قلم کاروں کے مضامین ہی شامل ہوتے تھے۔ہمارے سامنے جلد 1 کا شمارہ چار بابت اگست 1946  موجود ہے جس کا اداریہ ’کانفرنس کی نئی تجویزیں‘ کے عنوان سے ہے جس میں مدیر نے انجمن خواتین ہند کی کانفرنس میں جو تجویزیں پاس کی ہیں ان پر گفتگو کی ہے نیز ہندوستان کے سماجی وسیاسی منظرنامے پر جو تبدیلی آرہی تھی، اس پر بھی روشنی ڈالی، اداریے کا یہ اقتباس دیکھیں:’’آج ہندوستا ن میں صرف پڑھے لکھے لوگوں میں ہی ہل چل نہیں ہے بلکہ ان لوگوں میں بھی ایک نئی بیداری پائی جاتی ہے جو ابھی تک آزادی کی لڑائی سے بہت دور رہتے تھے۔کارخانوںکے ضروری نہیں بلکہ کلرک،ڈسٹرکٹ بورڈ کے ٹیچر میونسپلٹی کے مہتر حتیٰ کی اینگلو انڈین اور عیسائی لڑکیاں، پولس اور فوج کے سپاہی تک نڈر ہوکر اپنی حالت بہتر کرنے کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔ اسی طرح ایسی ریاستوں کے رہنے والے جو ابھی تک باقی ہندوستان کے رہنے والوں سے الگ رکھے جاتے تھے ایسا راج اپنی ریاستوں میں قائم کرنے کی تحریک کررہے ہیں۔جس میں ان کی بھی شنوائی ہو۔ جہاں ان کو اختیار دیے جائیں اور جہاں صرف راجہ اور نواب کی نادر شاہی نہ ہو بلکہ عام لوگوں کے صلاح مشورے سے کام کیا جائے۔‘‘ایک مضمون ’ہماری غلہ کی دوکان‘ کے عنوان سے بھی اس شمارے میں شامل ہے، جس میں بڑودہ میں انجمن خواتین نے غریب لوگوں کے لیے راشننگ کا جو نجی طورپر انتظام کیا تھا اس کی تفصیل درج کی گئی ہے۔اسی طرح ایک مضمو ن صوبۂ بمبئی کی کوآپریٹو سوسائٹی کی تجویز پر ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس طرح کی کوآپریٹو سوسائٹیوں سے خواتین کس طرح فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور خواتین کو امپاور کرنے اور ان کو بااختیار بنانے میں کس طرح مدد کی ہے۔ اسی شمارے میں ایک مضمون معروف سماجی کارکن رامیشوری نہرو (1886-1966)  اور ان کے خواتین کے لیے اصلاحی کارناموں پر ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی صحت اور ان کی تربیت پر بھی کالم ہے۔ خبروں کے تحت ریاست سانگلی میں میونسپلٹی اور دوسری چنی ہوئی کمیٹیوں میں عورتوں کی نمائندگی پر بات کی گئی ہے۔ایک مضمون ’اٹلی کی عورتیں‘ کے عنوان سے بھی شامل ہے۔روشنی کے جلد2 نمبر1، 2 بابت مئی جون 1947 کے پرچے میں اداریہ پنجاب میں فساد پر ہے جس میں انھوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، کہ جس طرح خواتین کو زود کوب کیا گیا ہے وہ ہندوستانیوں کے لیے افسوس ناک بات ہے۔ تقسیم کے وقت فسادات میں سب سے زیادہ متاثر عورتیں اور بچے ہوئے۔ہاجرہ بیگم اس سے بہت متاثر تھیں۔ وہ اپنے اداریے میں لکھتی ہیں’’جو نتیجہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے وہ تو یہی کہ آج کی سیاست ہماری ترقی،تعلیم، سماج سدھار، قومی ایکے اور سیاسی آزادی کی سب ہی سوالوں کودن بہ دن زیادہ مشکل بنائی جارہی ہے اور ہمارا عزم کہ ہم ہندوستان کی عورتوں کو ایک مضبوط کڑی کی باندھ دیں گے اور اس کا سلسلہ دنیا کی عورتوں کی تحریک سے ملادیں گے۔روز بروز زیادہ دشوار ہوتا جارہاہے۔ مگر ہماری انجمن نے عورتوں کی خدمت اور امداد،ان کی تنظیم اور آزادی کا کام جو ہاتھ میں  لیا ہے۔اس کو ہم نہ چھوڑیں گے ہندوستان ہو یا پاکستان ہو۔عورت ذات کی مجبوریاں اور ضرورتیں بدستور قائم ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش ہم جاری رکھیں۔پنجاب کی دکھی عورتوں کے ساتھ ہماری گہری ہمدردی ہے ساتھ ہی ہم اپنی ان بہادر بہنوں کو مبارک باد دیتے ہیں جو کہ نفرت اور انتقام کے جذبوں سے بالاتر ہیں۔وہ سیکڑوں مسلمان بہنیں جنھوں نے اپنی جان پر کھیل سکھ عورتوں اور بچوں کو پناہ دی اور ان کی امداد کی، وہ ہمت والی سکھ اور ہندو عورتیں جنھوں نے مسلمان مرد اور عورتوں کی جان اور عزت کو بچایا۔ہماری انجمن کی بہنیں پنجاب میں اب بھی پوری تند ہی سے کوشش کررہی ہیں کہ پنجاب کی عورتیں سمجھ جائیں کہ آپس میں لڑوانے والا کون ہے اور ہندو مسلمان اور سکھ کی لڑائی سے کس کی طاقت مضبوط ہوتی ہے، تاکہ ان کا غم اور غصہ ان کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردینے کی بجائے مل کر اپنے دشمن سے لڑنے پر تیار کرے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کی یہ کوشش نؤبے کار نہ جائے گی اور پنجاب اور ہندوستان بھر میں وہ اس ایکے کو قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی جس کے بغیر ہم اپنے پیروں پرکھڑے نہیں ہوسکتے اور ملک کوصحیح معنوں میں آزاد نہیں کرواسکتے۔‘‘اسی پرچے میں معروف سماجی مصلح اور مجاہد آزادی کملا دیوی چٹوپادھیا (1903-1988) کا ایک مضمون بعنوان ’انجمن کو کیا کرنا ہے؟‘شامل ہے، جس میں انجمن کے مقاصد کے بارے میں درج کیا گیاہے اور اس کو عملی طور پر فعال بنانے کے لیے اقدامات بتائے گئے ہیں۔ ’پنجاب کے فساد اور ہمارا کام‘ کے عنوان سے ایک تحریر پورن مہتا کی بھی ہے۔ چوڑیاں بنانے والی کے عنوان سے ایک مضمون حسنہ بیگم انصاری کا ہے، جس میں انھوں نے ان خواتین کی حالت زار اور ان کی غربت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جو اس صنعت سے وابستہ ہیں نیز ا ن کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی جانب اقدام کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ ایک اچھا جائزہ ہے۔ ایک مضمون ’کرناٹک میں کستوربا فنڈ کا کام‘ اومابائی کنڈا دیوی کا ہے۔ آخیر میں تھیٹر کی معروف شخصیت اور پنجابی زبان کی معروف شاعرہ شیلا بھاٹیہ (1916-2008) کی ایک طویل پنجابی نظم ’ہندیو !بے خبرو‘ پیش کی گئی ہے۔’روشنی ‘آزادی کے بعد لکھنؤ سے شائع ہونے لگا۔ اس کا شمارہ 10، جلد 2 بابت فروری 1948 گاندھی جی کی شہادت پر خصوصی شمارہ تھا۔ جس میں مدیرہ ہاجرہ بیگم نے 8 صفحات پر مشتمل ایک طویل تعزیتی اداریہ گاندھی جی کی یاد میں تحریر کیا۔ مدیرہ نے اپنی اس تحریر میں گاندھی جی کی خواتین کو بیدار کرنے کی سمت میں جو خدمات رہی ہیں، اس پر خصوصی طور پر روشنی ڈالی ہے۔مدیرہ اپنے اس اداریے میںرقمطراز ہیں:’’ہندوستان کی عورتوں کو آزادی کی تحریک میں شریک کرنے میں گاندھی جی کا بڑا ہاتھ تھا۔ہر تحریک میں انھوں نے ملک کی رہنما خواتین کو اپنے مشوروں میں شریک کیا اور ان کے لیے خاص کام اور خاص جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔پہلی ستیہ گرہ کمیٹی میں مسز سروجنی نائیڈو اور انسوما بہن ان کی شریک تھیں۔ ہریجن کام میں مسز رامیشوری نہرو اور راجکماری امرت کور کو انھوں نے اپنے ساتھ رکھا،خلافت تحریک میں ہزاروں مسلمان عورتیں ان کا پیغام سن کر آگے بڑھیں اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوئیں کستوربا کے مرنے پر ان کی یادگار میں انھوں نے دیہاتی عورتوں اور بچوں کی امداد کا ادارہ قائم کیا۔ ہندوستان کی عورتوں کو انھوں نے سپاہی بننا سکھایا، دیش سیویکا بنا یا، وردی پہنوا کر میدان عمل میں لاکھڑا کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کی عورتیں رورہی ہیں کہ ان کا ایک بڑا سرپرست اور معاون دنیا سے اٹھ گیا۔‘‘ایک ایسے دور میں جب عام طور پر ہندوستانی مسلمان خواتین کے بارے میں یہ تصور قائم تھا کہ وہ گھریلو ہوتی ہیں نیز ان کا کام خاندان کوسنوارنا اور ان کی خدمت کرناہوتا ہے،اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بیگم خورشید خواجہ، بیگم کلثوم سایانی اور ہاجرہ بیگم کی زندگیاں قومی آزادی کی جدوجہد سے عبارت ہیں۔انھوںنے ا پنی روشن خیالی، اپنی قوت ارادی، اپنے عمل سے پرانی دقیانوسی رسوم وروایات کو توڑا اوراپنے جرائد اور اپنی صحافت کے وسیلے سے جدوجہد آزادی کی تحریک میںروشن مثال قائم کی۔ وہ نہ صرف آزادی کی لڑائی میں پیش پیش رہیں بلکہ انھوں نے صنف نسواں میں سیاسی، سماجی اور تعلیمی بیداری، اور شعور پیدا کرنے اور ان کو بااختیار بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔Dr. Asad Faisal FarooquiDept of Mass CommunicationAligarh Muslim UniversityAligarh- 202001 (UP)Mob.: 9412595891Email.: asadfaisalamu@gmail.com" ڈاکٹر منشا کی گل افشانی کردار: محمد اسداللہ,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/04/,"مہاراشٹر کے شہر ناگپور کے بعض تخلیق کاروں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ برصغیر میں بھی خوب جانے جاتے ہیں۔ ان میں دو قلم کار ایسے بھی ہیں جن کی شہرت ان کے گھر کی دہلیز پار کر کے شہر کے چوک تک جاپہنچی اس بیان کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ انھیں اس قدر شہرت حاصل ہوئی کہ بعد وفات شہر کے کسی چوک کو ان کے نام سے موسوم کیاگیا۔ یہ شعرا ہیں۔ناطق گلاوٹھی اور ڈاکٹر منشا الرحمن خان منشا۔ ناگپور میں ان مرحومین کے نام پر پائے جانے والے چوک کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں ضرور ابھر تا ہے کہ آ یا یہ یادگار اس شاعرکی عظمت کی دلیل ہے یا اس چوک کی عزت افزائی۔ودربھ (مہاراشٹر) کے علاقۂ برار کے ایک قصبے پیپل گائوں راجہ کا ایک نوجوان معلم ناگپور کی اعلیٰ تعلیم گاہ اولڈ مارس کالج کے صدر شعبۂ  اردو و فارسی تک کا سفر طے کرتا ہے، اس میں اس کی تگ و دو،ذہانت،زندہ دلی اور خوش گفتاری کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ ڈاکٹر منشاالرحمن خان منشا ناگپور کے ایک اہم شاعر ہی نہیں تھے،انھیں سماجی طور پر جو حیثیت،مقبولیت اور عزت حاصل ہوئی اس دیار کے شایدہی کسی اردو شاعر کے حصے میں آ ئی ہوگی۔ وہ  عام آدمی کے علاوہ شہر کے مشاہیر،صنعت کاروں،ادیبوں شاعروں سے لے کر مہاراشٹر اور ملک کی اہم شخصیات میں خاص طور پر سیاسی لیڈروں میں اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ ان کی پر اثر شخصیت، گل افشانی گفتار اور لگن نے انھیں اس مقام تک پہنچایا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے اور کتابیں شائع ہوئیں جن میں آ ہنگِ حیات، نوائے دل، آئینہ ٔ  اقبال، مطالعہ میر ممنون دہلوی اور عکسِ دوراں قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی نگرانی میں لکھے گئے کئی تحقیقی مقالوں کو ناگپور یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی۔ کئی مرتبہ مہاراشٹر اردو اکادمی کے رکن بنے اور دیگر کئی علمی و ادبی اداروں سے وابستہ رہے۔ ملک بھر کے مشاعروں کے علاوہ ا نھیں دہلی میں لال قلعے کے مشاعروں میں بھی شرکت کے مواقع نصیب ہوئے تھے۔ناطق گلاؤٹھی اور ڈاکٹر منشا الرحمن خان منشا اپنی ادبی اور سماجی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ان کی شاعری کی گونج اب بھی ذہنوں میں موجود ہے۔ ناطق گلاؤٹھی کا ایک مشہور شعر ہے          ؎ناطق نہ ہو جو بات، تو بولے نہ آ دمیبولے تو اس میں بات بھی پیدا کرے کوئیجن لوگوں کو ڈاکٹر منشا صاحب کی پر لطف محفلوں میں حاضری کا شرف حاصل تھا وہ اس بات کی تائید ضرورکریں گے کہ مرحوم نہ صرف ناطق گلاؤٹھی کے معیارِ نطق سے زیادہ ناطق تھے بلکہ قدرت نے انھیں گفتگو اور سخن گوئی میں خوش کلام ہونے کی سعادت عطا کی تھی۔حسِ مزاح ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جو دورانِ گفتگو اور ادبی محفلوں میں اچھل اچھل کر باہر آ تی تھی۔ان میں بات کرنے کا سلیقہ اور باتوں باتوں میں مخاطب کے دل میں اتر جانے کا ہنرتھا۔ جہاں بات نہ بنتی ہو وہاں بات بنانا اور بات سے بات پیدا کرنا انھیں خوب آ تا تھا۔ ایک مشاعرے میں ناطق گلاؤٹھی موجود تھے۔منشاء الرحمن صاحب جب اپنا کلام سنانے مائیک پر آ ئے تو ناطق صاحب نے ان کے تخلص پر اعتراض جڑ دیا کہ منشا تو مونث ہے۔ اس پر منشا صاحب نے برجستہ جواب دیایہ شخص جو آپ کے سامنے کھڑا ہے،کیا آ پ اسے بھی مونث کہیں گے۔ڈاکٹر منشا صاحب کی شاعری میں لذت، سوز و گداز لطف اور زبان کا چٹخارہ ہے،وہ ان کے بعد نہ صرف ان کی شاعری میں محفوظ ہے بلکہ ان کے نام سے موسوم چوک،واقع جعفر نگر،ناگپور کے آ س پاس بھی پھیلا ہوا ہے۔ اس چوک کو اس علاقے کی چٹوری گلی کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی شاعری کی طرح دور دور تک لذتِ کام ودہن کا سامان مہیا کرتی ہوئی دکانوں کی قطاریں ہیں۔ڈاکٹر منشا الرحمن خان کی شاعری یوں تو روایتی انداز لیے ہوئے تھی مگر ان کا ذہن نئی ہوائوں میں اڑنے اور جدھر کی ہو اہو ادھر چلنے کا تھا اسی لیے ان کے یہاں جدید شاعری کا رنگ و آ ہنگ موجود ہے۔ ایک مشاعرے میں اپنا کلام پیش کرنے سے پہلے انھوں نے کہا’ادھر میں نے جدید رنگ میں بھی کچھ کہا ہے۔‘ اس پر ڈاکٹر سید عبدالرحیم صاحب نے جملہ چست کیاآ دمی کو بگڑتے دیر نہیں لگتی۔‘نئی سمتوں میں سفر کی تمنا کے باوجود روایتی شاعروں کی طرح بات بات پر شعر سنانے کی ان کی عادت آخر تک قائم رہی۔ ان کے اعزاز میں ناگپور میں’ جشنِ منشا‘ منایا گیا جس میں مشہور اداکار دلیپ کمار نے شرکت کی تھی۔ اس سلسلے میںبات کرنے کے لیے جب وہ دلیپ کمار کے گھر گئے تو ان کے ایک ہمسفر کے بیان کے مطابق انھوں نے وہاں بہت وقت گزارا اور اس دوران دلیپ کمار کو اپنی شاعری سنانے کی  بھر پور کوشش کر ڈالی مگر اس باکمال اداکار کی یہ ادا بھی قابلِ داد ہے کہ وہ ہر بار بات بدل دیتا،اس نے انھیں ایک بھی شعر سنانے کا موقع نہیں دیا۔سنا ہے ایک مرتبہ ڈاکٹر منشا اپنے چار شاگردوں سمیت ٹرین میں سفر کررہے تھے۔منزل تک کا پورا ٹکٹ نہ ہونے کے سبب ٹی سی نے ان چاروں کو پکڑ لیا اور جرمانہ عائد کر نا چاہا۔ وہ اسے ڈاکٹر منشا کے پاس لائے۔ موصوف نے اس سے کہامیں شاعر ہوں اور یہ چاروں میرے شاگرد ہیں۔ جرمانہ بھرنے میں کوئی مشکل نہیں مگر ہماری ایک شرط ہے، آپ کو ہماری شاعری سننی پڑے گی۔ ٹی سی نے کہامیں ذرا اور لوگوں کی ٹکٹ چیک کر لوں پھر آتا ہوں۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنے شاگردوں سے کہا، بے فکر ہوجائو اب وہ واپس نہیں آ ئے گا اور ویسا ہی ہوا۔ایک مرتبہ سفر کے دوران چند نوجوان ٹرین میں منشاصاحب کی ٹوپی ڈاڑھی اور شیروانی دیکھ کر مذاق اڑانا چاہتے تھے۔ ایک نوجوان نے پوچھاآ پ کیا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر منشا صاحب نے کہا،شاعر ہوں تو اس نے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔ انھوں نے اسے فوراً اپنا ایک شعر سنا دیا جسے سن کر و ہ چوکڑی بھول گیا        ؎خدا نے آ پ کی صورت ہی کچھ  ایسی بنائی ہےٹکٹ ہوتے ہوئے بھی بے ٹکٹ معلوم ہوتے ہوبات سے بات پیدا کرنے کی اپنی اس خدا داد صلاحیت کو انھوں نے نہ صرف منھ توڑ جواب دینے اور ذاتی کاموں کے لیے استعمال کیا بلکہ وہ اوروں کے کام بھی آ تے رہے۔ یہ ان کی وسعت قلبی، زندہ دلی اور لوگوں کے لیے محبت و خلوص کا جذبہ تھا جو لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ منشا صاحب کے اندر چھپا شاعر ان کی سخن طرازی ہی تک محدود نہ تھا وہ ان کی گفتگو میں ہمیشہ حاضر رہتا تھا۔ ان کی خیال آ رائی اور نکتہ آ فرینی دلوں کو جیت لیتی تھی اور ماحول کو پر لطف بنادیتی تھی۔ اگر چہ وہ کام کی باتیں نہ کرتے ہوں تب بھی ان کی باتوں سے کتنے ہی رکے ہوئے کام بن جایا کرتے تھے۔ منشا صاحب جس ماحول اور دنیا میں جی رہے تھے وہاں اکثر لوگ صرف اپنے کام بنانے پر اکتفا کرتے تھے یا دوسروں کے کام بگاڑ نے پر تلے رہتے تھے۔ منشا صاحب اپنے یا اپنے متعلقین کے بہت کام آ ئے۔ خواہ مخواہ دوسروں کا بلکہ اپنے دشمنوںکا بھی کھیل بگاڑنے کا شوق انھیں نہیں تھا۔ایک مرتبہ جب وہ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی کے ممبر تھے،جدید شاعر اور ناقدڈاکٹر صفدر نے انھیں بتایا کہ وہ انعام کے لیے اپنی کتاب اکادمی کو نہیں بھجواپائے ہیں۔ منشا صاحب نے کہا مجھے دے دیجیے میں ممبئی جارہا ہوں وہاں پہنچا دوں گا۔ اس وقت وہ حج کے لیے تشریف لے جارہے تھے اسی کام کے لیے اردو اکادمی کے دفتر پہنچے۔ وہاں لیڈی کلرک جس کا نام دیو بائی تھا اس نے کہا۔ کتاب داخل کر نے کی تاریخ تو گزر چکی ہے۔ منشا صاحب نے اس سے کہا۔ دیکھو میں حج کو جا رہا ہوں،دیو کے کام سے جا رہا ہوں، تمہارا نام بھی دیو بائی ہے، ہمارا اتنا کام کر دو۔یہ سن کر وہ خاتون خوش ہوگئیں اور اس کتاب کو قبول کر لیا۔ معروف محقق اور ادیب ڈاکٹر آغا غیاث الرحمٰن صاحب نے ڈاکٹر منشا صاحب پر لکھے گئے  اپنے خاکے ’ برف کے لڈّو ‘ میں کئی دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ممبئی کے سفر میں وہ ڈاکٹر سید عبدالرحیم صاحب اور ڈاکٹر منشا صاحب  کے ساتھ تھے۔ واپسی میں کسی وجہ سے ٹرینوں کا آ نا جانا بند ہوگیا تو انھیں احمد آ باد ہوتے ہوئے ناگپور آ نا پڑ ا۔ ٹکٹ کا مسئلہ در پیش تھا سب پریشان ہوگئے مگر ڈاکٹر منشا تو استقلال کے ہمالیہ تھے۔ وہ ٹکٹ کی لائین میں چلتے ہوئے کھڑکی تک پہنچے درمیان میں لائین میں کھڑے ہوئے ایک  نوجوان نے انھیں سلام کیا۔بس کام بن گیا۔ وہ نوجوان بھی ناگپور جارہا تھا۔اس کے ذریعے ٹکٹوں کا انتظام ہوگیا۔اس کے ساتھ کچھ زنانہ سواریاں بھی تھیں۔ منشا صاحب ان کے سر پرست بن گئے اور انھیں سوار کرواتے ہوئے اپنے لیے بھی اوپر والی برتھ پرجگہ بنالی۔ آغا صاحب لکھتے ہیں کہ ہم لوگ ڈیڑھ پائوں پر کھڑے رہے کہ پیر رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ ددچار اسٹیشنوں کے بعد منشا صاحب اپنی نیند پوری کر نے کے بعد نیچے اتر آ ئے اور ہمیں از راہ ِ مہر بانی اوپر بھیج دیا۔کچھ دیر بعد ہم نے جو نیچے نظر کی تو  حضرت کو مسافروں کے ساتھ ناشتے میں مصروف پایا۔ہمارا یہ حال تھاکہ ٹُک ٹُک دیدم دم نہ کشیدم۔چند ادبی نشستوں میں مجھے ڈاکٹر منشا صاحب کی صدارت میں اپنے انشائیے پیش کر نے کا موقع ملا اور ہر بار ڈاکٹر صاحب نے اپنی بات اس جملے سے شروع کی کہ ابھی آپ نے اسدا اللہ صاحب سے انشائیہ سنا اور اب اس ناچیز سے منشائیہ سنیے۔ کسی مجلس میں ایک صاحب کے متعلق ڈاکٹر منشا صاحب کو یہ بتایا گیا کہ وہ شادی کے موڈ میں بالکل نہیں ہیں۔ منشاصاحب نے انھیںآ مادہ کرنے کے لیے کہا اگر آ پ شادی کے لیے تیار ہوں تو میں آپ کے لیے دوکام کر دوں گا۔ ایک تو یہ کہ مناسب رشتہ تلاش کر دوں گا اوردوسرے سہر الکھ دوں گا۔ ڈاکٹر منشا صاحب کی شاعری اور اسے پیش کرنے کا ان کا انداز دلوں کو لوٹ لینے والا تھا۔وہ جہاں جاتے اپنی باتوں سے محفل کو گر مادیتے اور جب شعر پڑھتے تو سماں بندھ جاتا۔  ان کی شخصیت کے اس متاثر کن پہلو اور سخن پر وری کے پیش ِنظر ان کے مداح ہندی کے ایک شاعرنے ان ہی کے رنگ میں دو مزیداراشعار کسی محفل میں سنائے        ؎گر میوں کے گرم دنوں میںٹھنڈا کلیجہ کرنا ہوتوشاعری سننا منشا کیآئسکریم کھانا ڈنشا کیایک مشاعرہ جس میں کنور مہندر سنگھ بیدی بھی موجود تھے، منشا الرحمن صاحب اپنا کلام پیش کررہے تھے۔  اتفاق سے جو اشعار اس وقت سنائے وہ سنگین حد تک رنگین تھے۔ بیدی صاحب نے انھیں ٹوکاکہ شیر وانی داڑھی اور یہ اشعار اس پر ڈاکٹر منشا صاحب نے اپنی حاضر جوابی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ شعر پڑھ دیا          ؎رنگین طبیعت ہے تو اشعار ہیں رنگینڈاڑھی ہے میرے چہرے پہ دل پہ تو نہیں ہےایک وقت تھا کہ ناگپور میں باٹا کے جوتوں کا کاروبار خوب چل رہا تھا۔ اس کمپنی کے منیجر نے منشا صاحب کے اعزاز میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔موصوف نے حسبِ معمول مشاعرہ لوٹ لیا۔مشاعرے کے بعد بات چیت کے دوران ان کے کلام پر سامعین کی جانب سے جو داد ملی اس کا ذکر ہورہاتھا۔ منشا صاحب نے کہاکیا اچھا ہوتا اگر داد و تحسین کے بجائے باٹا کی جوتیوں کی جوڑیاں مل جاتیں۔ان کے حاسدین کی بھی کمی نہ تھی کسی نے اس واقعے کو ا س سرخی کے ساتھ چھاپ دیا کہ ڈاکٹر منشا کو داد نہیں جوتے چاہیے۔ا س زمانے میں ڈاکٹر آغا غیاث الرحمن نے اسکول جانے کے لیے ایک لونا خریدی تھی اوروہ اپنی طبیعت کے مطابق ہر ایک کے کام آ تے رہتے تھے۔ اس خدمت گزاری میں ان کی لونا شریک تھی۔ اسی پر اکثر وہ حضرت سید عبدالرحیم صاحب کو سوار کر کے لے جاتے تھے۔ ایک دن ڈاکٹر منشا صاحب نے ان سے کہاآ پ کی یہ لونا زبردست کارِ خیر انجام دے رہی ہے،یہ سیدھی جنت میں جائے گی۔ ڈاکٹر غیاث الرحمن صاحب نے کہاحضرت، دعا کیجیے کہ جب یہ جنت میں جائے تو میں بھی اس پر سوار رہوں۔ ڈاکٹر منشا صاحب نے کہاضرور اور میں یہ دعا کروں گا کہ میں بھی آ پ کے ساتھ اس پر پیچھے بیٹھا رہوں۔‘ڈاکٹر منشا صاحب اپنی گفتگو میں لفظوں اور ناموں پر بہت جلد گرفت کیا کرتے اور ان سے نئے معنی بر آ مد کر کے سننے والوں کا دل خوش کر دیا کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ ناگپور کے سانے گروجی ہائی اسکول و جونیئر کالج کی کسی تقریب میں انھوں نے شرکت کی۔اس میں کامٹی کے ایک مہمان عبدالرحیم صاحب موجود تھے، شعبہ اردو کے ڈاکٹر آ غا غیاث الرحمن میز بان تھے اور اردوکالج کے پرنسپل کا نام تھا کڑوے۔ ڈاکٹر منشا صاحب نے اپنے خطبۂ صدارت میں فرمایااس تقریب نے تو رحمٰن اور رحیم کو ملادیا، پرنسپل صاحب کا نام حالانکہ کڑوے ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت میٹھے ہیں۔ناگپورمیں ایک تقریب میں ڈاکٹر منشاصاحب موجود تھے جس کی صدارت کے فرائض انجام دے رہی تھیں، ناگپور کارپوریشن کی میئر محترمہ پانڈے صاحبہ۔ کسی نے قومی یکجہتی کی موافقت میں برار کے ایک قدیم شاعر غالبا شاہ غلام حسین ایلچپوری کا ایک شعر سنایا            ؎ہندو مسلم کیا ہیں دونوں اک مٹی کے بھانڈےبعد میں جاکر یہ ہوئے ہیں کوئی ملا کوئی پانڈےجب ڈاکٹر منشا اپنا کلام سنانے مائک پر تشریف لائے تو کہا  قدیم شاعر کے اس شعر سے استفادہ کرتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں            ؎ہندو مسلم کیا ہیں دونوں اک مٹی کے بھانڈےبعد میں جاکر یہ ہوئے ہیں کوئی منشا کوئی پانڈےڈاکٹر منشا صاحب خود تو ادب کے ڈاکٹر تھے مگر ڈاکٹر کے نام سے موسوم دیگر شعبوں کو بھی انھوں نے ہاتھ سے جانے نہ دیا اور اپنے بیٹوں کو چن چن کر ان ہی شعبوں میں ڈالا،ادب میڈیسین حتیٰ کہ ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کو بھی نہ چھوڑا۔ ان کی رہائش گاہ کے گیٹ پر لگی تختی پر سارے ڈاکٹروں کے ناموں کی تختی دیکھ کر کسی نے ’ہمہ خانہ ڈاکٹر است‘ کی طرف ان کی توجہ دلائی تو منشا صاحب نے فر مایااگلی باریہاں صرف ایک تختی لگواؤں گا جس پر لکھا ہوگا۔ ’دواخانہ‘اس قسم کے ایک نہ دو بے شمار واقعات ہیں جن سے مرحوم کی زندہ دل اور شگفتہ بیانی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی خوبی کے سبب وہ ہر محفل کی جان ہوا کرتے تھے۔جہاں جاتے لوگوں کے دلوں میں خوشی کی لہر اور چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے عحق مغفرت کرے عجب آ زاد مرد تھاn30-gulistan colony,Near Pande Amrai LawnsNagpur - 440013 ( MS)Mob.: 9579591149" جدید غزل کا امام یاس یگانہ چنگیزی: وسیم فرحت,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/03/,"اردو غزل ’اسم ِ بامسمیٰ‘کا کردار نبھاتے ہوئے دو سو سال سے ایک ہی رنگ و آہنگ میں اپنا سفر طے کرتی آرہی تھی۔ خواجہ حالی کے بیانات محض کاغذی کارروائی کے طور پر ہی دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔عملی طور پر اردو شعرا اس وقت تک اسی گھسی پٹی روش پر گامزن تھے جس کی ابتدا ولی دکنی،عزلت سورتی،شاہ حاتم دہلوی وغیرہ سے ہوتی ہے۔غالب کے گزرنے کو 15 برس بیت گئے تھے اور غالب نے اردو شاعری میں جو انقلاب برپا کیا تھا، بس وہی ایک راستہ اہلِ اردو کے نزدیک ’جدید‘ باقی رہا تھا۔کل ملا کر ہندوستان بھرکے شعرا نے اسی ایک راستے کی تقلید ’فرضِ عین‘ تسلیم کر لی تھی۔ ایسے میں بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یگانہ چنگیزی نے ایک نئی عمارت کی بنا رکھی۔ ابتدا میں خواجہ آتش کے رنگ میں شعر کہنے کے بعد یہ شیوہ بھی یگانہ کو بہت زیادہ مفید نہ معلوم ہوا اور یہیں سے اردو شاعری کو ایک نیا موڑ ’یگانہ‘ کی صورت میں ملتا ہے۔اردو شاعری کو پہلی مرتبہ کسی شاعر نے محض واردات ِ قلب کی سطحیت سے آزاد کرنے کا نظریہ سامنے رکھا۔ گوشت پوست میں غرق اردو شاعری کو دقیانوسی زنجیروں سے آزاد کرنے کا ایک منضبط لائحۂ عمل یگانہ نے اپنی شاعری کے ذریعے پیش کیا۔ وجودی شاعری کا زندہ اور توانا پہلو یگانہ  کے طفیل اردو شاعری کو نصیب آیا۔ فرد اور عظمتِ فرد کو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شاعری کے میدان میں داخل کیا گیا اور یہ تسلیم کرنے پر اہل ِاردو مجبور ہوئے کہ شاعری محض عشقیہ معاملہ بندی ،سرمستیِ رندی اور قصیدہ خوانی تک محدود نہیں بلکہ اور بھی کچھ ہے۔اور اسی ’اور بھی کچھ‘ کو یگانہ نے شعری تہہ داری کے ساتھ غزل میں جائز مقام دلایا۔معرفت اور مجاز کے درمیان حد ِ فاصل کھینچنے میں مصروف شعرائے اردو کے لیے یگانہ کا وژن بالکل انوکھا رہا۔بلکہ اول اول ناقابلِ ہضم۔لیکن زمانہ جانتا ہے کہ جدید شاعری کے امام یگانہ چنگیزی کی قربانیاں داخلِ نصاب نہ ہوتیں توہمیں شکیب جلالی، زیب غوری، ندا فاضلی، شجاع خاور اور اسی قبیل کے دیگر شعرا کی شاعری قطعی پسند نہ آتی۔ نباضِ ادب، ماہرِ غالبیات آنجہانی کالی داس گپتا رضا کے استاد اور شاگرد ِ داغ علامہ جوش  ملسیانی نے یگانہ کے کلام کے متعلق کیا نپی تلی رائے دی ہے، ملاحظہ فرمائیں:’’یگانہ کا نمایاںوصف یہ ہے کہ فلسفیانہ شاعری اور حقائق ِ زندگی کے دقیق مضامین کو موضوعِ سخن قرار دے کر وہ غزل کا انداز ِ بیان اور غزل کی زبان کسی شعر میں ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔کسی غزل میں کوئی شعر ایسا نظر نہیں آتا جو خشک سے خشک مضمون کو بیان کرنے کے باوجود غزل کے انداز سے بیگانہ ہو۔غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ شعر میں اس وصف کا پیدا کرنا اس میدان میں فی الحقیقت بہت مشکل کام ہے۔‘‘1ایمان کی بات یہ ہے کہ یگانہ کی شاعری ہمیں زندگی جینے کا فن سکھاتی ہے۔کم زور لمحوں میں ہمیں حوصلہ بخشتی ہے۔ہماری ڈھارس بندھاتی ہے۔یہی یگانہ کی شاعری کا ماحصل ہے۔خود کے لیے نئی راہ تیار کرنے اور پھر اس کی عظمت و انفرادیت زمانے سے منوانے میں یگانہ کو بڑی قربانیاں دینی پڑیں۔یگانہ کی کیفیت بقول خلیل فرحت کارنجوی مرحوم           ؎ذوق  کے دور میں غالب کا طرفدار ہوں میںبے تکلف مجھے سولی پہ چڑھایا جائےکی سی ہے۔یگانہ کے وقتوں میں لکھنوی تہذیب اور لکھنؤ اسکول پر مرثیے کا کچھ اس طور غلبہ تھا کہ ہر صنفِ سخن سے ’مرثیہ پن‘ جھلکتا تھا۔ یاسیت، قنوطیت سے اردو شاعری لبریز تھی۔ ہر عاشق در ِ جاناں پر مرجانے کو زندہ رہنے پر مقدم جانتا تھا۔گلدستوں اورطرحی مشاعروںمیں محض پینترے بازی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے جنون نے اردو شاعری کی صورت ہی کچھ اور کردی تھی۔ یگانہ نے ان تمام گورکھ دھندوں سے پاک،صاف ستھری اور بامعنی شاعری سے اردو ادب کو روشناس کیا۔ایک ایسی شاعری جو انسانیت کے لیے اکسیر ہو، ایک ایسی شاعری جہاں فرد کے زخموں پر مرہم لگایا جاتا ہو۔میں عرض کر چکا ہوں کہ خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی کے متعینہ اصولوں کو اس وقت تک کسی نے خود پر منطبق نہیں کیا تھا۔یگانہ کی شاعری خواجہ حالی کے نافذ کردہ قوانین سے میلوں آگے بڑھ گئی۔ اہلِ زمانہ اس انقلاب سے چونک پڑے کہ،یہ کون حضرت ِ آتش کا ہم زباں نکلا۔نیاز فتح پوری جیسے سخت ترین نقاد بھی یگانہ کی شعری روش کے قدردان رہے،فرماتے ہیں:’’یگانہ پہلا شخص تھا جس نے لکھنؤ کے روتے اور بسورتے رنگ ِ تغزل پر کاری ضرب لگائی اور یہ کہنا غالباً غلط نہ ہوگا کہ یگانہ ہی نے سب سے پہلے اپنے زمانے کے لکھنوی شاعروں کے اس رنگ ِ تغزل کو بدلاجو اپنا اصلی رنگ چھوڑ کر بے تمیزی کے ساتھ غالب کی تقلید پر آمادہ ہوگئے تھے۔یگانہ نے غالب کے متعلق جو کچھ لکھا ،میں اسے ردِّ عمل سمجھتا ہوںاس شدید مخالفت کا جو لکھنوی مقلدین کی طرف سے یگانہ کے باب میں ظاہر کی گئی اور جسے یگانہ ایسے حساس آدمی کے دماغ کو واقعی بری طرح متاثر کرنا چاہیے تھا،ورنہ یگانہ کی فطرت شاید اس کو گوارا نہ کرتی۔ یگانہ کی شاعری حسن و عشق کا وہ مرقع نہیں ہے، جس میں محبت کی فتادگی،خواری وتذلل تک پہنچ جاتی ہے بلکہ اس میں ہمیں ایسے عشق ِخوددارکی جھلک نظر آتی ہے جس کا سینہ تو ضرور خونچکاں ہے لیکن لب پر آہ و فغاں نہیںہے۔ایسے جواہر ریزوں کی ان کے یہاں کمی نہیں ہے۔‘‘2یگانہ کی شاعری کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان کی آواز اپنے پیش روئوں یا ہم عصروں ، سبھی سے جداگانہ ہے۔ یگانہ کا شعر کسی دوسرے کے خانے میں رکھا نہیں جا سکتا اسی لیے انتساب ِ شعر کے معاملے میں یگانہ کا کوئی ایک شعر بھی تاحال کسی اور شاعر سے منسوب نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کے بر عکس آپ جگر، اصغر، سیماب، فانی، عزیز، ثاقب وغیرہ کے سیکڑوں اشعار یہاں وہاں خلط ملط پائیں گے۔ کلام کی یہی انفرادیت یگانہ کی شناخت کا وسیلہ ہے۔ان کی آواز ان کی اپنی ہے،وہ کسی کے لہجے کی جگالی نہیں کرتے۔ میرے مربی ندافاضلی صاحب یگانہ چنگیزی کے ساتھ ساتھ مرحوم خلیل فرحت  کارنجوی کے متعلق اکثر فرماتے ہیں کہ’بڑا شعر کہنا بڑی بات نہیںہے بلکہ اپنا شعر کہنا بڑی بات ہے۔‘نریش کمار شاد یگانہ کی شاعرانہ عظمت کے یوں قائل ہیں:’’میرزا یگانہ چنگیزی بلا شبہ اس دور کے نہایت عظیم غزل گو شعرا میں سے ہیں۔عظمت کا لفظ اگرچہ اس دور میں اپنی معنویت کھوچکا ہے لیکن میرزا یگانہ کی غیر معمولی شعری صلاحیتوں کے پیشِ نظر ان کی عظمت پر شک کرنا ادبی خیانت کے مترادف ہے۔ یاس کی غزلوں کا لب و لہجہ ہمارا ادبی و تہذیبی ورثہ ہے۔ہمیں نئی نسل کے شاعروں کو ان کے کلام کی صحت مند اور توانا روایات کو اپنانے کے لیے کسی تعصب اور بغض کے بغیر غیر متعلقہ امور کو بھلا کر اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔‘‘ 3یگانہ کی شاعری مردانہ آہنگ کی لَے بلند کرتی ہے۔ مردانہ اور دلیرانہ جذبات کو یگانہ کچھ اس ڈھب سے شعری جامہ پہناتے ہیں کہ قاری و سامع جوش و انبساط کی سی کیفیت محسوس کرنے لگتا ہے۔ یگانہ کے یہاں افسردگی، لاچارگی، یاسیت، شکست خوردگی وغیرہ حوصلہ شکن مضامین عنقا ہیں۔ اس کے بدلے یگانہ کی شاعری ولولہ، غیرت، خودداری، حوصلے کی تعلیم دیتی ہے۔ ہم فرد کے غموں کا مداوایگانہ کی شاعری میں تلاش کر سکتے ہیں اور یقین جانیے کہ اس تلاش میں مایوسی نہیں ہوگی۔حقائق ِ زندگی کے اظہار پر یگانہ کی زبردست گرفت ہے۔ اردو شاعری میں حقائق ِ زندگی کو اس بڑے پیمانے پر یگانہ سے قبل کسی نے بروئے کار نہیں لایا۔یگانہ کی فکری بلندی نے معاملات ِ زیست کی سطحیت کو بھی ارفع مقام عطا کیا ہے۔ان کے یہاں بہت چھوٹی سی بات بھی چھوٹی معلوم نہیں پڑتی۔ اظہار اور تخلیق پر یہی قدرت یگانہ کو سربلندی فراہم کرتی ہے۔ مصائب ِ زمانہ کے یگانہ شاکی ضرور ہیں تاہم ان سے نمٹنے کا فن ان کی شاعری سے عیاں ہے۔حالات کی سختی اور ناہمواری وقت میں یگانہ کے اشعار ایک سچے دوست کا کردار نبھاتے ہیں۔اور محض ہمیں سنبھالا ہی نہیں دیتے بلکہ لب ِ ساحل تک پہنچنے کا راستہ بتاتے ہیں۔یہی بے پناہ انسیت یگانہ کی شاعری سے قاری کا رشتہ استوار کرتی ہے۔اور وہ حیرت،تاسف و گم گشتگی کے بھنور سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔یہی یگانہ کی شعری کامیابی ہے۔پروفیسر مجنوں گورکھپوری یگانہ کی شاعری کا کس بل محسوس کرتے ہیں:’’میزرا یاس یگانہ اردو غزل میں پہلے شخص ہیںجن کی شاعری میں وہ کس بل محسوس ہوتا ہے جس کو ہم صحیح اور توانا زندگی سے منسوب کرتے ہیں۔غزل کو جو اب تک صرف حسن و عشق کی شاعری سمجھی جاتی رہی ہے یگانہ نے زندگی کی شاعری بنا دیا ہے اور انسان اور کائنات کی ہستی کے رموز ا شارات کو اپنی غزلوں کا موضوع قرار دیا ہے۔ میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ ان کے یہاں حسن و عشق سے متعلق اشعار نہیں ملتے،ملتے ہیں مگر ان میں بھی حسن و عشق کا احساس عام اور عالم گیر زندگی کے احساس میں سمویا ہوا ہوتا ہے۔‘‘4تخیل کی بلندی، لہجے کی ندرت اور زبان پر قدرت، یہ تینوں صفات کسی ایک شاعر میں موجود ہوں،اردو شاعری میں اس کی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس قبیل میں غالب، داغ ، امیر اور بلاشبہ یگانہ چنگیزی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ذوق دہلوی کے بعد اردو شاعری میں محاورے کے صرف ِ بامحل کا سہرا یگانہ ہی کے سر جاتا ہے۔ آپ یگانہ کی شاعری میں محاورات کا اصراف ملاحظہ فرمائیں، یوں لگتا ہے جیسے محاورہ ہی شعر کے لیے بنا ہو۔ محاورہ دراصل ایک بے جان شے کا نام ہے، ایک سچا فنکار اپنی برجستگی اور صرف ِ بامحل سے محاورے میں جان بھر دیتا ہے۔ یہی وصف یگانہ کی شاعری کو منتہائے خصوص تک پہنچا دیتا ہے۔ چنداں محاورے تو کچھ یوں نظم ہوگئے ہیں کہ اس کے بعد ممکن نہیں۔یگانہ کی حیات میں ان کے مخالفین بھی اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ انھیں زبان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ فارسی، اردو اور انگریزی ادب کے کثیر مطالعے نے جہاں زبان کو پختگی بخشی وہیں بیان بھی پر اثر ہوگیا۔ ٹھیٹ اردو کے الفاظ بھی یگانہ ہی کے طفیل داخل ِ غزل ہوئے اور وہ بھی اس شان سے کہ باید و شاید۔عوام تو خیر جانے دیجیے،خواص اور اساتذئہ فن بھی اپنے روزمرہ میں جن الفاظ کا استعمال کرتے تھے انھیں غزل میں شریک کرنا گناہ ِ کبیرہ گردانتے تھے۔یگانہ نے روزمرہ کے الفاظ کو غزل میں یوں برتاکہ ایسے خشک اور سماعت پر بار محسوس ہونے والے الفاظ بھی مزہ دینے لگے۔  ایمان کی بات یہ ہے کہ عامیانہ الفاظ بروئے کار لانے پر بھی یگانہ کے ٹھیٹ اردو کے الفاظ ’بازاری‘ نہیں معلوم پڑتے۔عمر بھر کی مشاقی اور قادر الکلامی نے ایسے لفظوں کی ’ثقلیت‘ کو زائل کردیا۔اور غزل کی لفظیات میں ایک زبردست اضافے کا موجب ہوا۔باقر مہدی نے فیصلہ کن انداز میں فرمایا ہے، او رکیا خوب فرمایا ہے:’’یگانہ کا آرٹ مینا کاری کا آرٹ نہیں ہے۔ان کے یہاں نازک جذبات بھی زور ِ بیان کے تیکھے پن کے ساتھ آتے ہیں اور ان کا یہی کارنامہ ہے کہ انھوں نے آتش اور غالب کی زمین میں بلند پایہ غزلیں کہی ہیں جو نہ تو ان شعرا کی آواز ِ بازگشت ہیں اور نہ صدا بہ صحرا بلکہ ان میں آواز کی تیزی اور سوز و گداز کی آنچ کے ساتھ زندگی کا ولولہ بھی پایا جاتا ہے جسے ہم یگانہ آرٹ کہہ سکتے ہیں۔ یگانہ آرٹ سنگ تراشی کا آرٹ ہے۔ان جاندار پتھروں میں ذہن کے مختلف موڈل کی بے شمار کیفیتیں اور فکر کی تصویریں دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ابھر آئی ہیں اور یہ بھی معجز نما شخصیت کا پرتو ہے۔ یگانہ نے اردو شاعری کو جو ولولہ بخشا ہے وہ سرکشوں کی پوری داستان کا عنوان بن سکتا ہے۔ اگر اقبال کی شاعری بقول سرور صاحب’ارضیت کا عہد نامۂ  جدید ‘ ہے تو یگانہ کی شاعری اردو میں ایک باغی کا پہلا کامیاب شعری رجز ہے، جس کی بنیاد’مانگے کے اجالے‘ پر نہیں رکھی گئی تھی بلکہ جس کا سرچشمہ خود یگانہ کی شخصیت تھی۔اردو غزل میں میر اور غالب کے بعد تیسرا نام جو سب سے زیادہ احترام اور اہمیت کا مالک ہے،وہ یگانہ کا ہے۔‘‘5اردو غزل کی تاریخ میں غالب، آتش اور اقبال کے بعد انفرادی لفظیاتی تشکیل صرف یگانہ کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ زبان اور اس کا رچائو،اور ان دونوں خصوصیات کو اپنے قطعی نئے موضوعات میں خوش سلیقگی کے ساتھ جس طرح یگانہ نے برتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حالانکہ محض ’زبان‘ کے نام پر اپنی دوکانداری چلانے والے شعرا کے یہاں ’لچھے دار زبان‘ تو ضرور مل جاتی ہے تاہم اس چکر میں شعری پہلو خشک ہوجاتا ہے۔اور شعر دیر پا اثر چھوڑنے سے قاصر رہتا ہے۔غالب، آتش اور یگانہ متذکرہ دونوں ہی صفات پر ید ِ طولیٰ رکھتے ہیں اور اسی لیے ان کی شاعری کا جادو اتنے برس بعد بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔مصرعوں کی ساخت پر یگانہ بے حد توجہ دیتے ہیں۔ ان کے یہاں کوئی مصرعہ لکنت کا شکارمحسوس نہیں ہوتا۔ سجے سجائے اور ڈھلے ڈھلائے مصرعوں کو پڑھ کر طبیعت جھوم اٹھتی ہے۔ سلاست اور روانی کا وہ عالم ہے کہ گمان پڑتا ہے کہ جیسے پوری غزل غیب سے اتاری گئی ہو۔کہیں کسی شعر میں جھول، بے جا اضافتیں، نامانوس تراکیب، دور از قیاس استعارات وغیرہ کو دخل نہیں ہے۔ ان کے ہر شعر سے استادانہ شان جھلکتی ہے۔رموز ِ شاعری سے مکمل آشنائی نے یگانہ کی شاعری کو ’سند‘ کادرجہ دے دیا ہے۔ فن کی باریکیوں پر قدرت رکھنے کے باوجودان کی شاعری  بوجھل نہیں لگتی۔وگرنہ اس قماش کے بیش تر شعرا کے اشعار بطور ’سند‘ تو پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن ’پسند ‘نہیں کیے جاسکتے۔اردو غزل کے خد و خال اور اس کے تخلیق کاروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے سخت ترین نقاد محترم پروفیسر کلیم الدین احمد نے بھی یگانہ کی شاعری اور اس کے ابعاد کی عظمت ِ دوچند کو تسلیم کیا ہے،فرماتے ہیں:’’یگانہ چنگیزی نے چند مخصوص وجہوں کے سبب صحتِ زبان،لطفِ محاورہ کی طرف زیادہ توجہ کی ہے اور اس میں نمایاں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ان کی شاعری کی دوسری خصوصیت زور،شگفتگی اور انبساط ہے۔قنوطیت کا نام و نشان نہیں۔ان کا لہجہ بلند اور آواز خوش آئند ہے۔‘‘6اردو شاعری کی تثلیث رندی، عاشقی اور تصوف سے قطعی مختلف طرز ِ فکر رکھنے والے یگانہ نے اپنے بعد کی نسلوں کے لیے ایک نئی راہ فراہم کر رکھی ہے۔اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ اعزاز اردو شاعری میں دو ہی شاعروں کے حصے میں آیا ہے۔ اول غالب دوم یگانہ۔غالب نے اپنے پیش روئو ں کے موضوعِ اظہار اور طرز ِ اظہار سے انحراف کیا۔ ٹھیک اسی طرح یگانہ نے غالب کے موضوعات اور طریقہ ہائے اظہار سے انکار کیا اور نئی طرز ایجاد کی۔ مطلب یہ کہ غالب نقشِ اول ہیں اور یگانہ نقشِ ثانی۔ غرض کہ یگانہ کی شاعری ’رجحان ساز‘ ثابت ہوئی اور اسی آواز کی گونج شاد عارفی و نئی نسل کے دیگر احتجاجی شعرا کے یہاں سنائی دی۔یگانہ اظہار کو معنی پر مقدم جانتے ہیں۔ ان کی شاعری پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اظہار کی سطح پر ان کے یہاں مشاقی اور تازہ کاری دکھائی پڑتی ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کسی بھی شاعر کے ہر شعر میںکچھ نہ کچھ معنی تو نکل ہی آتے ہیں، سوال یہ ہے کہ معنی کے علاوہ اظہار کی سطح پر بھی کچھ نیا پن ہے یا نہیں؟ ایک معمولی سے خیال کو مناسب و موزوں اظہارکے پیرائے میں پیش کیا جائے تو شعر دو آتشہ ہوجاتا ہے۔ وگرنہ بلند خیال بھی پست اظہار کی بنا پر رفعت حاصل نہیں کرسکتا۔بلند آہنگی اور بیان کا زور اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یگانہ اظہار کے معاملے میں سنجیدگی سے کام لیتے ہیں۔ندا فاضلی فرماتے ہیں:’’یا س سے یگانہ اور یگانہ سے چنگیزی بننے کا ادبی سفر خود یگانہ کی ادبی زندگی کاہی نہیں اردو ادب کی تاریخ کا بھی اہم واقعہ ہے۔ اس واقعے کی تشکیل میں کئی اہم چہرے شامل ہیں۔ یگانہ کی زندگی کے یہ مختلف ادوار جو ان کی غزلوں، رباعیوں اور مضامین میں نمایاں طور پر جھانکتے نظر آتے ہیں اب غالب کے بعد غالب جیسی تخلیقی توانائی کی دوسری مثال ہے۔ یگانہ کا عہد غزل کا سنہری دور تھا، حسرت، فانی، جگر، اصغر اس دور میں صنف ِ غزل کے روشن ستارے تھے۔ یگانہ کا امتیازی وصف یہی ہے کہ انھوں نے بھی غالب کی طرح اپنے دیکھے ہوئے اور اپنے جیے ہوئے پر اپنی شاعری کی بنیاد رکھی۔ یگانہ نے اپنے شعر کہے جو موضوع،برتائو اور اظہار کے لحاظ سے اپنے ہم عصروں کے اجتماع میں الگ سے نظر آتے ہیں۔ ان کی غزلوں کا مرکزی کردار زمین کی سختی اور آسمان کی دوری کو تصوف اور حسن و عشق کے کھلونے سے بہلاتا نہیں، ان سے آنکھ ملاتا ہے اور ٹکراتا ہے۔یگانہ کی شعری شناخت ان کے عہد میں ممکن نہیں تھی۔اس کو نئے دور کا انتظار تھا جو اب پورا ہوچکا ہے۔‘‘7اردو شاعری میں رباعی یگانہ کی حاضری تک محض ادق مضامین،فلسفیانہ معاملات اور تشکیک و عقیدے کے اظہار کا ذریعہ تھی۔ یگانہ نے پامردی کے ساتھ اس بیش قیمتی صنفِ سخن کا دائرئہ موضوعات وسیع کیا۔انسانی پراگندگی، زمینی مسائل، شکست و ریخت، سماجی افترا پردازیاں وغیرہ سے متعلقہ مضامین کو یگانہ نے اپنی رباعی میں شایانِ شان مقام عطا کیا۔موضوعات کا تنوع، مردانہ کس بل اور فکر کی انفرادیت نے یگانہ کی رباعیوں کو ایک خاص مرتبہ بخشا ہے۔یگانہ کے رباعیوں کے مجموعے ’ترانہ‘ پر تبصرہ فرماتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی نے خوب رائے دی’’میرزا یاس  عظیم آبادی اردو کے مشہور شعرا میں ہیں۔ یہ بات بلا خوف ِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ میرزا یاس یگانہ اپنے وقت کے ایک کامل شاعر ہیں ،ان کے خیالات بلند،زبان صاف ستھری،ترکیبیں چست اور کلام حشو و زوائد سے پاک ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ لکھنو ٔ کے طرز ِ شاعری میں ان کے ہنگاموں کے باعث مفید انقلاب پیدا ہوا ہے۔غزلیات کے ساتھ ان کی ہر رباعی زبان کی صفائی اور روزمرہ اور محاورات کی برجستگی اور ترکیبوں کی چستی کے لحاظ سے قابلِ داد ہے۔ایسا نہ سمجھا جائے کہ ان کی رباعیوں کے مضامین صرف ’فلسفۂ خودی‘کی تشریح پر مشتمل ہیں، بلکہ ’انفس‘ کے بعد ’آفاق‘ کا فلسفہ بھی ان میں جا بہ جا بیان کیا گیا ہے،کہتے ہیں اور کیا خوب کہتے ہیں۔‘‘8غرض کہ یگانہ چنگیزی کی شاعری آنے والے وقت کے لیے نوید ِ بہار کا کام کرتی رہی جو بہ زمانۂ خزاں دی جاتی ہو۔ پھر چاہے وہ غزل کے نصاب میں نئے موضوعات کی شمولیت ہو، یا ٹھیٹ اردو کے الفاظ کی شرکت، یا فرد کو مکمل اکائی کی طرح سمجھنے،اس کے مسائل کا حل تلاش کرنے اور اس پر دست ِ ہمدردی پھیرنے کے ذیل میں ہو۔یگانہ کی خدمات سے اردو ادب انکار نہیں کرسکتا۔حواشیWaseem Farhat (Alig)Editor : Sah Mahi 'Urdu''Adabistan' Near Wahed KhanUrdu, D, Ed, College, Walgaon Road" مہاربھارت کے اردو تراجم: شاہ نواز فیاض,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/02/,"زبان کے حیرت انگیز کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ وہ عوام الناس کے افکاروخیالات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کراتی ہے۔ دنیا میں تقریباً تمام علوم کی کتابوں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے، اس کا جو فائدہ ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح سے مذہبی کتابوں کا بھی دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے، جس سے مذہب کو سمجھنے میں آسانی ہوئی۔ بات صرف مہابھارت کے حوالے سے کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اردو میں مہابھارت سے متعلق اور اس کے تراجم کے حوالے سے تقریباً تین درجن کتابیں موجود ہیں۔ میری معلومات کے حساب سے اردو میں مہابھارت کا پہلا ترجمہ طوطا رام نے 1862 میں کیا تھا، جسے نول کشور پریس نے شائع کیا تھا۔اس کتاب پر کہیں سنہ اشاعت درج نہیں ہے، لیکن کتاب کے بالکل آخری صفحے پر تاریخ طبع کتاب درج ہے، جس کامادہ 1862 نکلتا ہے، اسی طرح سے ہجری میں 1278 درج ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ مہابھارت کا پہلا اردو ترجمہ 1862 میں شائع ہوا۔ نند کشور وکرم نے عالمی ادب کے دھارمک نمبرمیں اس ترجمے کا سنہ اشاعت 1874 لکھا ہے، جب کہ قطعۂ تاریخ سے کچھ اور واضح ہوتا ہے۔ دھارمک نمبر کے حساب سے اردو میں مہابھارت کا پہلا ترجمہ سی۔ پی۔ کھٹاو نے کیا ہے، جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ دوسرا ترجمہ سی پی کھٹاو نے’مہابھارت‘کے عنوا ن سے 1867 میں کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اردو ترجمے کے ابتدائی زمانے میں مذہبی صحائف کے ترجمے کو اولیت کا درجہ حاصل تھا۔مہابھارت کو بچوں کے لیے بھی پیش کیا گیا، اس سلسلے میں شیو ناتھ رائے کی کتاب’بچوں کے لیے مہابھارت‘ کافی اہم ہے۔ اس طرح کے کام کو اس لیے بھی اہم قرار دیا جا سکتا ہے کہ بچوں کے لیے جو کتابیں تیار کی جاتی ہیں، اس کا مقصد صرف کتاب تیار کرنا نہیں ہوتا ہے، بلکہ بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کرکتاب کچھ اس طرح سے مرتب کی جاتی ہے کہ مکمل طور پر کتاب کا مقصد پوراہوسکے۔ اس طرح کی کتابوں سے بچوں کی ذہن سازی میں بہت مدد ملتی ہے۔مہابھارت ہندو مت کا ایک بے حد معروف ومشہورر زمیہ ہے۔دراصل مہابھارت ہندوستان کی بہت قدیم اور طویل منظوم داستان ہے، جسے ہندو مت کے مذہبی صحائف میں بڑا اعتبار حاصل ہے۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ بے حدمتنوع ہے، کیونکہ اس میں جنگ، راج دربار، محبت اور مذہب سب کچھ شامل ہے یا یہ کہیں کہ مہابھارت چار بنیادی مقصد حیات دھرم، کام، ارتھ اور موُ کش کا مرکب ہے۔ مہابھارت سنسکرت کے مشہور عالم وید ویاس کی تصنیف ہے، البتہ اس سلسلے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ اصل مہابھارت میں بعد کے علما نے اضافہ کیا ہے، جس سے اس کے شلوکوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، یہ ایک تحقیق طلب امر ہے۔ اس کے اصل مصنف کے بارے میںسب متفق ہیں۔ مہابھارت کی کہانی کوروؤں اور پانڈوؤں کے خاندان اور ان کے مابین ہونے والی جنگ ہے۔ اس میں حق کی باطل پر جس طرح سے جیت دکھائی گئی ہے،وہی کتاب کے مصنف کا اصل مقصد اور اس کا مرکزی موضوع بھی ہے۔ مہابھارت میں شری کرشن جی کی جو اہمیت ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ چونکہ شری کرشن جی ان دونوں کے قریبی رشتے دار ہیں، اس لیے انھوں نے خود کو غیر جانب دار رہنے اور ہتھیار نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ البتہ شری کرشن جی نے ارجن کو جو درس دیا ہے، وہ غیر معمولی اور آفاقی ہے۔ انھوں نے ارجن کو روح کی عظمت اور حق کی حفاظت کے لیے جان تک کی بازی لگادینے کا درس دیا۔ مہابھارت میں ہندو مذہب کے نصائح کے ذخیرے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی اعلی خیالات موجود ہیں۔ اردو میں مہابھارت کے کئی تراجم منظر عام پر آئے، جس کا ذکر اوپر کیا گیاہے، اسی سلسلے کا ایک ترجمہ جلال افسر سنبھلی کابھی ہے، جو1989 میں منظر عام پر آیا۔اس ترجمے کے متعلق جلال افسر نے لکھا ہے’’اس نظم میں نہایت اعلی خیالات اور ہندو نصا ئح کا ذخیرہ موجود ہے اس لیے اس کے ترجمے متعدد زبانوں میں ہو چکے ہیں مگر پھر بھی عوام الناس اس لافانی نظم سے فیض یاب نہیں پائے..... راقم الحروف نے مہابھارت کو سلیس اردو زبان میںمختصر اً پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘(مہابھات،مترجم جلال افسرسنبھلی1989، ص، 5-6)جلال افسر کا اصل نام جلال الدین ہے۔ ان کی پیدائش یکم دسمبر1949 میں ہوئی۔ انھوں نے بیسک ایجوکیشن بورڈ کے جونیئر ہائی اسکول میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیں۔ انھوں نے تین مجلوں کی ادارت کی، دوکتاب ترتیب دی اور چھ ایسی کتابیں ہیں جو ان کی باقاعدہ تصنیف اور ترجمے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ ایک شاعر تھے۔ مہابھارت کا ترجمہ کرتے وقت انھوں نے کمال کی فنی ہنر مندی کا ثبوت دیاہے۔ جلال افسر نے جس طرح سے اس کا ترجمہ کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ ترجمہ نہیں تخلیق ہے، منظوم تراجم میں تخلیقی ہنر مندی سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مہابھارت میں کرشن جی کی نورانی شخصیت ارجن کو جودرس حیات دیتی ہے، وہ آج بھی حیات انسانی کی منزل مقصود ہے۔ کرشن جی نے ارجن کو کس طرح سے درس دیا ہے، اس حصے کو جلال افسر نے کچھ اس انداز میں نظم کیا ہے؎فکر باطل کی نہ کر، بزدل نہ ہو، ناداں نہ بنموت سے ڈرتے نہیں ہیں رہروِ حق جان منحق امر ہے اس کا کوئی مارنے والا نہیںاور باطل اپنی کوئی اہمیت رکھتا نہیںاس لیے حق کی حفاظت فرض ہے ہر شخص پرزندگی اور موت کا اس پر نہیں ہوتا اثرکون ہے وہ جس کو ارجن ایک دن مرنا نہیںکون ہے جس کو عدم کی راہ طے کرنا نہیںجسمِ خاکی کی حقیقت کچھ نہیں ہے جان لےروح صادق ہے حقیقت میں اسے پہچان لےیہ واقعہ ہے جب ارجن میدان جنگ میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرااور خون کا پیاسا دیکھتے ہیں، تو وہ جنگ کے مقصد کو لے کر پیش و پیش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جنگ وجدل سے کیا فائدہ؟ مہابھارت کے پورے اخلاقی ڈرامے میں نفسیاتی طور پر یہ نقطہ بہت اہم ہے۔ اس حصے کا جلال افسر نے جس انداز میں ترجمہ کیا ہے، اس کو اوپر ملاحظہ کیا گیاہے۔ روح کی عظمت اور غیر فانی حیثیت کے بارے جو کچھ کہا گیا ہے، اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں؎عنصری قالب کی ناداں فکر کرتا ہے عبثجنگ سے باطل پرستوں کی توڈرتا ہے عبثجس طرح انساں بدلتا رہتا ہے اپنا لباسروح بھی بالکل یونہی اپنا بدلتی ہے لباسروح آتش سے کسی حالت میں جل سکتی نہیںآب کیا سیلاب سے بھی یہ تو گل سکتی نہیںاس پہ بادِ تند کا کوئی نہیں ہوتا اثرکاٹنے میں روح کو عاجز ہے تیغِ تیز ترمارنا اس کو الگ ہے دیکھنا بھی ہے محالہے وجود اس کا مرے نزدیک ارجن لا زوالجلال افسرنے جس طرح سے مہابھارت کو اردومیں نظم کیاہے، وہ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ انھوں نے اس ترجمے کے ذریعے اردو زبان وادب میںایک گرانقدر اضافہ کیا ہے، لیکن کیا کہا جائے کہ جلال افسر کے اس ترجمے کی جتنی پذیرائی ہونی تھی، وہ ہو نہ سکی۔ وجوہات کچھ بھی ہوں، لیکن زبان وادب میں شاعری کی جو اہمیت ہے، وہ اپنی جگہ مسلم ہے۔ جلال افسر نے بہت ہی عام فہم الفاظ کا سہارا لیاہے، جس سے یقینا خواص کے ساتھ ساتھ عوام مستفید ہو سکتے ہیں۔ ابتدا میں انھوں نے کہاں کی اور کس کی کہانی ہے کے ساتھ کیسے چھوٹے بیٹے کو باپ کی جگہ ملتی ہے، اس حصے کو کچھ یوں نظم کیاہے؎ہستِنا پور کی کہانی وہاں دو بھائی تھےایک نابینا تھے دیگر صاحب بینائی تھےدونوں بھائی پرتوِ نورِ نگاہِ شاہ تھےاور جنتا کی نظر میں دونوں ہی ذی جاہ تھےشاہ جب رخصت ہوا دنیا سے تو اٹھا سوالکون کر سکتا ہے ملک وقوم کی اب دیکھ بھالعالموں کے سامنے جب مسئلہ رکھا گیاکافی غور وخوض کرنے پر ہوا یہ فیصلااندھا ہونے کے سبب پہلے کو مستثنیٰ رکھواور چھوٹے بھائی کو سب لوگ راجہ مان لواس طرح پانڈو کو آخر تاجِ والد مل گیامژدہ یہ سن کر سبھی کا غنچۂ دل کھل گیادِھرِت راشٹربڑے تھے، بنیادی طور پر تاجِ والد ان کا حق تھا، لیکن اندھے پن کی وجہ سے انھیں محروم کر دیا گیااور چھوٹے بھائی پانڈو کو راجہ بنا دیا گیا۔مہابھارت کے مطالعے سے ہمیں جو سبق ملتا ہے، یقینا اس پر عمل کر کے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا۔ کیونکہ ہمارا موجودہ سماج بہت سی برائیوں سے دو چار ہے۔ کاش کہ مہابھارت کے درس کو عام کیا جاتا تو ہم بہت سی برائیوں سے بچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر لالچ ایک بری عادت ہے، کیونکہ یہ کسی کو بھی تباہ وبرباد کر دینے کے لیے کافی ہے۔ اس سے نہ صرف وہ خود نقصان اٹھاتا ہے، بلکہ حمایتی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ مہابھارت میں اگر دریودھن لالچ نہ کرتااور یدھشٹر اور اس کے بھائیوں کو اس کا حصہ دے دیتا تو لڑائی ہی ممکن نہ ہوتی اور اپنی جان دے کر لالچ کی قیمت نہیں چکانی ہوتی۔ اس نے روپیوں کا لالچ کیا اور اپنی جان کے ساتھ ساتھ بہت کچھ نقصان کر گیا۔مہابھارت سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ آپسی اتحاد کبھی ختم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ بھائیوں کا اتحاد اور بڑے کو اہمیت دینا بسا اوقات کامیابی کی ضمانت ہے۔ مہابھارت میں پانڈوؤں کو کس طرح سے پیارو محبت سے رہتے ہوئے دکھایا گیاہے، ارجن، بھیم، نَکل اور سہدیو نے ہمیشہ اپنے بڑے بھائی یدھشٹرکی بات مانی اور بڑا بھائی بھی چھوٹوں پر شفقت ومحبت کا مظاہرہ کرتارہا۔ اس اتحاد کا جو نتیجہ ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ مہابھارت کے مطالعے سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ حق کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے، چاہے کتنی ہی مشقت کیوں نہ اٹھانی پڑے۔ دریودھن کے پاس کس چیز کی کمی تھی۔ فوج، ہاتھی، گھوڑے اور جرنیل کتنی تعداد میں تھے، لیکن اسے شکست سے دو چار ہوناپڑا۔اسی طرح سے کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے، بعض حالات میں مذاق ایک بڑی مصیبت کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک سبق اور ملتا ہے کہ عورتوں کی عزت کرنا چاہیے، کبھی کسی عورت پر بری نگاہ نہیں ڈالنی چاہیے۔ گویا کہ مہابھارت میںعقل وخرد رکھنے والوں کے لیے بہت سے درس ہیں۔مہابھارت میں دریودھن کے مرنے کے ساتھ ہی جنگ کا خاتمہ ہوا۔جنگ کے خاتمے کے بعد بھیشم نے یدھشٹر سے جو پندو نصائح کیے ہیں، وہ یقینا ایک کامیاب اور باوقار زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ اس حصے کو جلال افسر نے آسان لفظوں میں کچھ اس انداز سے شعری قالب میں ڈھالا ہے؎اس کے مرنے پر ہوا جنگ وجدل کا اختتاماور مضطر پانڈووں کو مل گئی فتح دوامبھیشم دادا ان دنوں بھی تیروں کے بستر پہ تھےاس لیے ان سے یدھشٹر پہلی فرصت میںملےبھیشم نے اس دم یدھشٹر کو بتائے کچھ اصولاور پھر بخشے ہدایت کے انھیں انمول پھولجن کی خوشبو سے معطر ہوگیا ان کا دماغاور تا وقتِ اجل جن سے رہے وہ باغ باغبھیشم کے پند ونصائح کا تھا یہ لب لبابراہِ حق کے راہرو ہوتے ہیں ہر سو کامیاببھیشم نے یہ بھی یدھشٹر کو بتایا تھا تبھیدھرم کے رستے پہ چل کر ملتی ہے آسودگیاس لیے کرنا حکومت دھرم اور انصاف سےاور ہر اک کام کرنا دامن حق تھام کےیاد رکھنا یہ ہمیشہ دھرم ہوتا ہے جہاںکامیابی اور ظفر کا راج ہوتا ہے وہاںسیکھ کر باتیں بہت سی بھیشم سے وہ باوفاہستِنا پور کی حکومت اس طرح کرنے لگابھیشم جی نے جس طرح سے یدھشٹر کو ایمانداری سے کام کرنے کا درس دیا ہے، اس میں بیک وقت بہت کچھ چھپا ہے۔ ایک کامیاب حکومت کے لیے بھیشم جی کے درس بہت معاون ثابت ہو سکتے ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے تو، بصورت دیگر انجام سے بے پرواہ لوگ ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔مہابھارت میں زندگی کے فلسفے کو بہت خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ جلال افسر کا کارنامہ یہ کہ انھوں نے فلسفیانہ بلاغت کے ساتھ پیش کی گئی اس مثنوی کی روح کو اشعار کی شکل میں کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ مہابھارت میں پوشیدہ رموز ونکات سے عوام مستفید ہوسکیں۔ یقینا جلال افسر اپنے اس مقصد میں بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ انھوں نے قصے کو بہت خوبی سے نظم کیا ہے، جس کو پڑھنے سے تسلسل میں کوئی فقدان نظر نہیں آتا۔ البتہ مہابھارت کے جتنے بھی منظوم تراجم منظر عام پر آئے ہیں، ان سب کا موازنہ ہونا چاہیے، تاکہ اندازہ ہو سکے کہ مترجم کس حد تک کامیاب ہو سکے ہے۔مذہبی کتابوں کے حوالے سے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ان صحائف میں انسانیت اور بھائی چارے پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ حقوق العباد سے صرف نظر کرنے کے لیے کسی بھی مذہب نے تائید نہیں کی ہے۔nDr. Shahnewaz FaiyazGuest Faculty, Dept of UrduJamia Millia IslamiaNew Delhi - 110025Mob.: 9891438766" 1857 کی جنگ اور صادق الاخبار، دہلی : مخمور صدری,https://ncpulblog.blogspot.com/2023/01/,"تلخیصہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میںاردوصحافت کاکردارہندوستان کی قومی تاریخ کا ایک ولولہ انگیزباب ہے۔اردوصحافیوں نے آزادی کی جدوجہد میں کافی بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔قوم وملک میں بیداری،انقلاب وتغیروتبدیلی لانے میں بڑاہاتھ اخبارات کا ہے۔ان اخبارات کے اوراق میں وہ معلوماتی خزانے پوشیدہ ہیں جوکسی شاعر کے کلام اور ادیبوں کی تصنیفات میں نہیں ہیں۔1857کی جنگ آزادی میں جن اخبارات نے سرفروشانہ اندازاختیارکیاان میں مولوی محمد باقر کا ’دہلی اردواخبار‘(فروری1837) سیدمحمدکا ’سیدالاخبار‘ (1837)،سیدجمیل الدین کا ’صادق الاخبار‘ (1845 )، مولوی کریم الدین کا’کریم الاخبار‘ (1845) منشی ہرسکھ رائے کا ’کوہ نور‘ (1850) محمد یعقوب انصاری کا ’طلسم لکھنؤ‘ (1854) اور ’سحرسامری،لکھنؤ‘ ہیں۔ یہ اپنے عہد کے سب سے بہتر، بااثر اور دلیر اخبارات تھے۔ ان اخبارات نے1857 کی جنگ آزادی کی فضا تیار کی۔ بالخصوص سیدجمیل الدین خاں ہجرکے اخبار ’صادق الاخبار‘نے نمایاں کرداراداکیا، جس نے بغا وت کے جذبات کی تخم ریزی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا،جنگ کے دوران مجاہدین کے جذبات واحساسات کی بھرپور ترجمانیبھی کی۔کلیدی الفاظصادق الاخبار، سید جمیل الدین خاں ہجر، امداد صابری، نیشنل آرکائیوز آف انڈیا، خواجہ حسن نظامی، جنگ آزادی، مئی 1857، بہادر شاہ ظفر، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی، شاہ ایران، برٹش حکومت، دہلی، بغاوت۔—————ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میںجس اخبارنے نمایاںحصہ لیاوہ سیدجمیل الدین خاں ہجرکا اخبار ’صادق الاخبار‘ ہے۔یہ ہفتہ واراخبار1854کوجمیل پورہ عرف چوڑی والان دہلی سے جاری ہوا۔1؎جو ہر دوشنبہ کوطبع ہوکرشائع ہوتا تھا، ماہانہ ایک روپیہ،پیشگی ششماہی پانچ روپے اورسالانہ پندرہ روپے تھا۔ محصول ڈاک خریدارکے ذمے تھا۔اخبار کاسرورق بیل بوٹوں سے آراستہ ہوتاتھا۔ لوح کے اوپری سرے پر چاند کا نشان تھا،اس کے نیچے ’اللّٰہ جمیل یُحِبُّ الجمال‘لکھا ہوتا تھا۔یہ اخبار لیتھوپریس میں چھپتا تھا اور اس کی اشاعت دو سو تھی۔ جب کوئی اہم خبرآتی، اس کاضمیمہ نکل آتا تھا۔ اگرکوئی مضمون یا خبر چھپوانے کا خواہش مند ہوتاتورفاہِ خاص کے لیے فی سطردوآنہ مقررتھا۔ رفاہِ عام کے لیے ہوتاتو مفت چھپتا تھا ساتھ ہی تاکیدبھی کی جاتی تھی کہ مضمون پرصفائی کے ساتھ دستخط کرکے مالک ومہتمم صادق الاخبار دہلی کوبہ ذریعہ ڈاک بھیج دیں۔ یہ اخبارنہ صرف دہلی میں پڑھاجاتاتھا بلکہ باہربھی جاتاتھا۔ اس کے خریداروں اور مداحوں میں ہندو اور مسلمان سبھی شامل تھے۔’صادق الاخبار‘کے نام سے دہلی سے چاراخبارجاری ہوئے تھے۔اول وہ اخبارجوپہلے فارسی میں تھا اور پھر اردومیں نکلنے لگا۔بقول احسن الاخبار،بمبئی’’صادق الاخبارکے ایڈیٹرصاحب نے رفتہ رفتہ اپنے اخبارکو اردو زبان کا اخبار بنا دیا ہے، سمجھ میں نہیںآتاہے کہ انھوں نے فارسی زبان سے کیوں رابطہ الفت منقطع کردیا۔ شایداخبار کے خریداروں نے تقاضاکیا ہوگاکہ فارسی زبان کردو اور اردو میں اخبار جاری کرواس کے علاوہ تواورکوئی وجہ خیال میں نہیں آتی۔‘‘2؎امداد صابری کے والدصاحب کے کتب خانہ میں مذکورہ صادق الاخبار7؍لغایت 25جنوری 1845 کا ایک پرچہ موجودہے جس سے یہ واضح ہوتاہے کہ یہ اخبار1844میں ضرورجاری ہواہوگا۔3؎نیشنل آرکائیوز کے سرکاری کاغذات میں 24اپریل1847کی تاریخ میں ایک صادق الاخبارکااندراج ملتا ہے جو غالباً یہی صادق الاخباررہاہوگا اورایڈیٹرکانام شیخ امدادحسین تھا۔4؎غالباً یہ اخبار1850 سے پہلے بند ہو چکا تھا۔5؎دوسرا صادق الاخبار1853کودہلی سے جاری ہوا،مہتمم مصطفی خاں تھے۔6؎بقول گارساںدتاسی’’صادق الاخبارجسے مصطفی خاںمصطفائی پریس کے منیجرنکالتے تھے۔یہ پریس پہلے لکھنؤ میں تھا، لیکن چندخاص وجوہ کی بناپرکارخانہ وہاں بندکردیاگیا۔اس کے بعدمصطفی خاں نے اس کی دونئی شاخیں ایک کانپوراوردوسری دہلی میں قائم کیں۔ یہ پرچہ دہلی سے شائع ہوتا ہے ....‘‘7؎یہ اخبارایک سال سے بھی کم عرصہ جاری رہا۔8؎تیسر اصادق الاخبارجنوری1856 میں نکلا۔اس کے اڈیٹرشیخ خدابخش تھے۔جس کاصرف ایک نمبرنیشنل آرکائیوز آف انڈیامیں محفوظ ہے۔9؎چوتھااخبارجنوری1854 میں جاری ہوا۔ اس کے مالک ومہتمم سیدجمیل الدین خاں ہجرتھے۔ جو 1857 کے انقلاب میں بے حد مقبول تھا۔باقی دونوں اخبار ایک ہی نام سے ایک دوسرے کے دوش بدوش 1857کے انقلاب کے آخر تک نکلتے رہے۔ لیکن مقبول عام ’صادق الاخبار‘وہی تھا جسے سیدجمیل الدین خاں نکالتے تھے۔ 10؎1857میں بغاوت کے سلسلے کی جودستاویزیں محفوظ ہیں،اس میں’’24جون1857جوبہادرشاہ ظفرنے ایک شخص جمیل الدین کواجازت دی کہ وہ ایک اخبار جاری کرے۔ لیکن ساتھ ہی ہدایت صادر کی کہ اس میںنہ جھوٹی خبریںچھاپی جائیں اور نہ ایسے بیانات درج کیے جائیں جن میں معززافراد کے اخلاق پربالواسطہ یابلاواسطہ حملہ کیا گیاہو۔‘‘ 11؎بقول عتیق صدیقی خدا جانے وہ اخبارجاری ہوا یا نہیں اوراگرجاری ہواتوکس نام سے۔صادق الاخبار،دہلی اپنے عہد کادوسرا بڑااخبارتھا۔اس میںبیرونی خبروںکے علاوہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کی خبروںکے ساتھ ایک اشتہاربھی شائع ہوتاتھا۔غزلیں،مثنویاں،قطعات،مسدس اور مرثیے ہوتے تھے۔اس میںاچھے اچھے مضمون اور مسلمانوں کی دلچسپی کا مواد انگریزی اخباروں سے بھی ترجمہ کرکے چھاپاجاتاتھا۔ اس کی اشاعت اپنے تمام ہم عصروںسے زیادہ تھی اور خریداروں کے حلقے سے قارئین کاحلقہ بہت زیادہ بڑاتھاکیونکہ ایک ایک اخبار کئی کئی لوگ پڑھتے تھے۔اس میں ایران اور روس کے بارے میں جتنے مضامین چھپتے تھے ان کااندازتحریراورلہجہ انگریزوں کے خلاف ہی نہیںبلکہ تلخ بھی تھا۔ 12؎’صادق الاخبار‘کاشمار اپنے دورکے نمائندہ اخباروںمیںہوتاتھا۔ اس کاایڈیٹرومالک خوددار انسان تھا۔ملک اور قوم سے اس کومحبت تھی،ظلم وناانصافی برداشت نہیں کرتاتھا۔ اس اخبارنے اوراس کے ایڈیٹرنے جنگ آزادی 1857 کو کامیاب کرنے کی سعی کی اورقلم کے جوہردکھائے۔جس کی پاداش میں اس کو اسیرفرنگ بھی بننا پڑا۔13؎جنگ کی ناکامی کے بعد بہادرشاہ پر مقدمہ قائم کیاگیاتو’صادق الاخبار‘کے چند مضامین کو سرکاری وکیل نے بطورشہادت استغاثہ فراہم کیاتھا۔ خواجہ حسن نظامی نے اپنی کتاب ’بہادرشاہ کامقدمہ‘ میں سرکاری حوالوںسے ’صادق الاخبار‘ پرروشنی ڈالی ہے اورلکھاہے کہ بہادرشاہ ظفرکے مقدمہ میں’صادق الاخبار‘ کوبہت گرم اورمنہ زوراخباربیان کیاگیاتھا۔ دہلی کا چنی لال نامی ایک شخص قلمی اخبار نکالتا تھا۔ اس نے بیان دیا ہے کہ ’’مجھے یاد ہے، بعض مواقع پر میں نے کارتوسوں کے مسئلے اور اس پر فوج کے باغیانہ جذبے کی طرف بھی اشارے کیے تھے..... اس نے یہ رائے بھی ظاہر کی کہ ایران و روس کے بارے میںجتنے مضامین چھپتے تھے ان کا انداز تحریر اور لہجہ انگریزوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ تلخ بھی تھا۔جب حکیم احسن اللہ خاںسے ’صادق الاخبار‘کے بارے میں دریافت کیاگیا توکہاکہ بہادرشاہ ظفر ’صادق الاخبار‘ کا باقاعدہ مطالعہ نہیں کرتا تھا۔ البتہ یہ ممکن ہے وقتاًفوقتاًاس کے بعض اقتباسات اس تک پہنچادیے جاتے ہوں۔ میںنے خودیہ اخبارکبھی نہیں پڑھا۔ لیکن سناہے کہ اس اخبارمیں عام طورپر یہی بتایا جاتا تھاکہ ایرانی انگریزوں کو شکست دے رہے ہیں۔شہزادے اس کی خبروں کو اہمیت دیتے تھے اوران کی صحت پریقین رکھتے تھے۔ ‘14؎مقدمے کے گیار ہویں دن (یعنی9فروری1858)کی کارروائی میں قلمی اخبارکے رپورٹر چنی لال پر وکیل سرکارنے جرح کی جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہےسوالکیادہلی سے کوئی ایسے اخبارنکلتے تھے جن کامنشاء گورنمنٹ برطانیہ کی مخالفت ہو؟جوابایساایک پرچہ تھاجمیل الدین کی طرف سے ہفتہ وارشائع ہوتاتھا۔اس کے مضامین گورنمنٹ سے عداوت ظاہرکرتے تھے اوراس کو’صادق الاخبار‘کہتے ہیں۔سوالکیایہ پرچہ کثرت سے شائع ہوتاتھااورچھپاہواہوتاتھا۔جواباس کی تعداداشاعت شہرمیں اورشہرکے باہردوسوتھی اورلیتھوپریس میں طبع ہوتاتھا۔سوالکیایہ پرچہ اپنی ہفتہ واراشاعت پراکتفاکرتاتھایاخبریں بہم پہنچنے پرـضمیمے بھی نکالاکرتاتھا؟جوابجی ہاں،غیرمعمولی خبریں آنے پرضمیمہ جات بھی شائع کرتا تھا۔سوالکون اورکس طبقے کے افرادمیں اس کی اشاعت زیادہ ہوتی تھی؟جوابہرطبقے میں بلاتخصیص مذہب کے یہ مقبول تھا۔سوالاتنے بڑے شہردہلی کے لیے مقبول عام اخبارکی دوسوکاپیاںتوبہت کم ہیں۔کیایہ ہندوستانیوں کے مزاج میں ہے کہ ایک اخبارکئی لوگوںکوسنانے کے لیے خریدلیاجائے۔ ایک پرچہ کس طرح میںمروج ہے کئی خاندانوں کے لیے کافی ہوتاہوگا؟جوابجی ہاں خریدارپڑھ کراپنے اپنے پرچے دوستوںاورعزیزوںکوپڑھنے کے لیے دے دیتے ہیں۔سوالکیادہلی میں ’صادق الاخبار‘مقتدرآرگن ماناجاتاتھااورتعداداشاعت میںدوسرے پرچوں سے بڑھ کرتھا؟جوابجی ہاںیہ مقتدرآرگن خیال کیاجاتاتھا۔اس کے مضامین نہایت عمدہ اورانگریزی اخبارات کے اقتباس ہوتے تھے۔یہ مسلمانوںمیں بہت منظورنظرتھا۔دیگراخبارات سے اس کی کثرت اشاعت میں توازن تومیں نہیں کر سکتا البتہ وہ بہ نسبت کسی ہندوستانی ہم عصرکے زیادہ طبع ہوتاتھا۔سوالتم نے بیان کیاکہ وہ گورنمنٹ برطانیہ سے عداوت رکھتاتھا۔کیاتمہیں کوئی خاص مضمون یادہے جس میں ایسے جذبات کوظاہرکیاگیاہو؟جوابمیں ایساکوئی خاص مضمون یادنہیں رکھ سکاجس میںایسے جذبات کوزیادہ وضاحت سے ظاہرکیا گیا ہو۔ لیکن ایران وروس کے متعلق جوکچھ لکھتاتھااس میںانگریزوں کے لیے الفاظ سخت برتتاتھا۔15؎سرکاری وکیل نے مقدمہ بہادرشاہ ظفرمیں بحث کے دوران’صادق الاخبار‘کے اقتباسات نقل کرتے ہوئے کہاکہ:’’حضرات آپ کویادہوگاصادق الاخبارکی کاپیاںمحل میںجایاکرتی تھیںاورہرشخص ان خوشیوں کا اندازہ لگاسکتاہے جوایسی خبریںپڑھ کر ہو سکتی ہیں خصوصاًاس قسم کی خبریں کہ زار روس چار لاکھ جرار لے کر آرہا ہے نیزتسخیرہندکے لیے ایرانیوں کی مدد پہنچنے والی ہے وغیرہ اور صرف اہل قلعہ یا شہزادوں ہی کوان خبروںکوسننے سے خوشی نہیں ہوتی تھی بلکہ تمام آبادی ایسی خبروںکوسنتی تھی اورمارے خوشی کے پھولے نہیں سماتی تھی۔16؎سرکاری وکیل میجرایف جی ہیرئیٹ نے فوجی عدالت میںجوطویل بیان دیااس میں 1857 کے انقلاب کی وجوہ پرروشنی ڈالتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی بھرپورکوشش کی کہ یہ انقلاب جن وجوہ کی بنا پربرپا ہوا،اسے شہ ملی، اس میں قلعہ معلی اورصحافت کے درمیان سازش کارفرماتھی۔ 1857 سے قبل کے اخباری تراشوںکاحوالہ دیتے ہوئے وکیل استغاثہ نے دلیل دی کہ اخبارات نے جنوری کے مہینے میں یہ خبردرج کی کہ روس اورترکی انگریزوں کے خلاف جنگ میں ایران کی مددکریں گے اورشہنشاہ روس نے چار لاکھ سپاہیوں پر مشتمل فوج اس مہم کے لیے تیارکی ہے۔ اسی اخبارنے بتایا کہ شاہ ایران نے فیصلہ کرلیاہے کہ کون کون سے درباری کوممبئی،کولکتہ اورپونہ کی گورنری سونپی جائے اوراس نے وعدہ کیا ہے کہ بادشاہ ہندوستان بھر کابادشاہ ہو گا۔17؎بادشاہ اور شہزادے اس اخبارکوبہت شوق سے پڑھتے تھے اورعوام میں بھی اس کی ازحدمقبولیت تھی.... اور اسباب غدرمیں ایک سبب یہ اخبار اور اس کی پرجوش خبریں اور تحریریں بھی سمجھی گئی تھیں۔18؎جنگ آزادی کے بعد اس پر بغاوت کامقدمہ چلایاگیا کمپنی اوران کے مخبروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لوگوںکوبھڑکانے اوربغاوت پرآمادہ کرنے میں سب سے زیادہ اسی اخبارنے حصہ لیاہے۔نیشنل آرکائیوزآف انڈیا،نئی دہلی میں ’’صادق الاخبار‘‘کے تقریباً بارہ شمارے موجودہیں۔ان میں محمدعتیق صدیقی نے جلدچہارم کے ابتدائی چھ شماروں( 6جولائی، 20جولائی، 27جولائی، 3اگست، 10اگست اور17اگست)کا مکمل متن اپنی کتاب ’اٹھارہ سوستاون اخباراوردستاویز‘ میںمحفوظ کردیا ہے۔البتہ دیگر شمارے دستیاب نہیں ہوئے ہیں۔ایک مختصر کتاب خواجہ حسن نظامی نے ’غدردہلی کے اخبار‘ کے نام سے مرتب کی ہے۔19؎یہ کتاب مع مقدمہ 26 صفحات پر مشتمل ہے۔اس مجموعے میںکل تیرہ اقتباسات ہیں۔ یہ تمام اقتباسات بہادرشاہ بادشاہ دہلی کے مقدمہ میںپیش کیے گئے تھے جو 1857 میں بعدخاتمۂ غدر دہلی کے بادشاہ پرانگریزوںکی طرف سے قائم کیاگیا تھا۔20؎ اس میں جنوری1857 سے لے کرستمبر1857 کے اقتباسات جمع کیے گئے ہیں۔ گویاجنگ کے چارمہینہ پہلے کے مضامین بھی اس میں ہیں اور عین جنگ کے دن کے اقتباس بھی ہیںاور پھر جنگ کے بعدچارمہینے تک کے اقتباسات ہیں۔بہادرشاہ کے خلاف مقدمے کی رودادمیںاخبارات دہلی سے چودہ اقتباسات دیے گئے ہیں۔ اصل اردو اور فارسی کے اقتباسات کاریکارڈموجودنہیں،صرف انگریزی تراجم موجودہیں۔خواجہ حسن نظامی مرحوم نے انہی کو دوبارہ ترجمہ کراکے ’غدردہلی کے اخبار‘کے نام سے چھاپ دیاتھا۔ترجمے میںجابہ جاسقم ہے،بلکہ بعض جگہ تلخیص بھی کر دی گئی ہے۔ یہ اقتباس خاصے طویل ہیں۔زیادہ تر ’صادق الاخبار‘ سے ہیں۔باقی ’اردواخبار‘ اور ’خلاصۃ الاخبار‘ سے لیے گئے ہیں۔ چودہ میں سے سات اقتباس جنگ سے پہلے کے ہیں،سات دوران جنگ کے۔21 ؎تمام اقتباسات جنھیںسرکاری وکیل نے بہادرشاہ ظفر کے مقدمے میںبطورثبوت پیش کیاتھا۔ جو ایک ضخیم کتاب ’ٹرائل آف بہادرشاہ‘کے نام سے انگریزی میں شائع ہوئی تھی اوردہلی کی سرکاری لائبریری   میں بھی اس کی اصل انگریزی کاپی موجود ہے۔22؎لیکن اس کا نہ ترجمہ درست ہے،نہ ایڈٹنگ صحیح ہے۔23؎ ان اقتباسات کے متعلق خواجہ حسن نظامی کاکہنا ہے کہ’’سمجھ میںآسکتاہے کہ کئی کئی دفعہ کی الٹ پھیر میں’صادق الاخبار‘کی اصلی طرز تحریر کا رنگ بالکل بدل گیاہوگا اوروہ کیفیت ترجمہ کے اس تیسرے قالب میںنہیںآسکتی جو ’صادق الاخبار‘کی اصل اردومیں ہوگی۔‘‘24؎خواجہ حسن نظامی نے اس کتاب میںیہ ثابت کرنے کی شش کی ہے کہ مدیرسیدجمیل الدین خاں ہجر انگریز دشمن نہ تھے یا انہوں نے اپنے اخبارکے ذریعے 1857 کی جنگ میںانگریزوں کے خلاف نفرت و عداوت پیداکرنے کوشش کی ہو۔خواجہ حسن نظامی نے کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے’’اس اردوپرچے ’صادق الاخبار‘کااڈیٹربرطانوی گورنمنٹ کادشمن نہ تھا۔ایساکوئی مضمون یاکوئی خبر شہادت میں پیش نہیںہوئی جس میں اڈیٹرنے برطانیہ کے خلاف کچھ لکھا ہویا انگریزوںکے خلاف نفرت و عداوت پیدا کرنے کی کوشش اس سے پائی جاتی ہو۔ ’صادق الاخبار‘نے صرف ایران وکابل وروس کی خبریںلکھی ہیں اور ان پررائے زنی کرنے میں ایک سچے اورصاف گو اخبار نویس کی طرح لکھ دیاہے کہ برطانوی قوت بہت بڑی ہے اوراس کوخطرے میں سمجھناغلطی ہے۔اس اخبارنے اپنے ناظرین کوخوش کرنے کے واسطے بے عقلی کی کوئی بات نہیں لکھی اورجس چیز میں خلاف عقل مبالغہ معلوم ہوا۔اس کی پرزور تردیدکردی اوربرطانوی حکومت کازوراوراس کی خوبیاں ناظرین کوصاف بتادیں تاکہ ان خبروںسے مغالطے پیدانہ ہوں۔25؎خواجہ حسن نظامی نے اپنے مقدمہ میں ’صادق الاخبار‘کو ایک مصلحت پسنداخبار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور کئی دلائل بھی پیش کیے ہیں جوبہادرشاہ ظفرکے مقدمے میںاس اخبارکے اقتباسات کو استغاثے کی تائیدکے خلاف عقل قراردیاہے کیونکہ ان کے اس اخبار نے افواہوں کی اعلانیہ تکذیب کی ہے اوران کے خلافِ عقل بتایاہے۔خواجہ حسن نظامی نے اپنی کتاب میں عین جنگ کے دن کے اقتباسات کے حوالے دے کریہ ثابت کیاہے کہ اس میںحکومت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیںہے’’بہت تعجب خیزنکتہ ان اقتباسات میںیہ ہے کہ’ صادق الاخبار‘کے وہ مضامین بھی منتخب کیے گئے ہیں جوعین غدرکے دن اورغدرکے چارمہینہ بعدشائع ہوئے مگران مضامین میںبھی برٹش گورنمنٹ کے خلاف ایک لفظ نہیں ہے۔ حالانکہ اخبارنویس کوغدرکے بعدجبکہ انگریزوں کا نشان بھی باقی نہ رہا تھااورتمام ملک میںبرٹش سلطنت ایک امیدوبیم بلکہ نابود ہونے کے خطرے میں پڑی ہوئی تھی اور جبکہ ہندومسلمان دونوںانگریزوںکے خلاف مضامین چھپنے سے خوش ہوسکتے تھے اورجبکہ ایڈیٹر کو بظاہراسباب انگریزوں کا کچھ خوف باقی نہ رہاتھا۔پھربھی ’صادق الاخبار‘ میںبرٹش گورنمنٹ کے خلاف کوئی مضمون نہیں چھپا۔اگرچھپتاتوسرکاری وکیل اس کواستغاثہ کی شہادت میںضرورشریک کرتا۔‘‘26؎یہی نہیںبلکہ خواجہ حسن نظامی نے’صادق الاخبار‘کے ایڈیٹرکودوراندیش،گہری نظروالااورنہایت تجربہ کارشخص قراردیا ہے۔ ان میںجوش اورجذباتیت برائے نام بھی نہیںتھا۔جنگ کے حالات کوبہت محتاط ہوکراورعقل کی کسوٹی پر پرکھ کردیکھ رہے تھے۔خواجہ حسن نظامی ایڈیٹرکوایک بلند اخلاقی قوت کامالک قراردیتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں’’صادق الاخبارکی اس خاموشی واحتیاط سے اس امرپربھی روشنی پڑتی ہے کہ اس کے اڈیٹر کی نظر بہت گہری تھی اور وہ نہایت تجربہ کار اورفوجی وملکی حالات کابہت اچھا مبصر تھا اوراس نے سمجھ لیا تھاکہ موجودہ غدر برٹش سلطنت کاکچھ نہیں بگاڑسکتا اور ہندوستان کی فوج وسیاسی تدابیر انگریزوںکے فوجی اورسیاسی توڑجوڑ پرفتح نہیں پاسکتیں۔ اس واسطے اس نے کوئی مــضـمون غدر کرنے والوں اور ان کے حامیوںکی تائید میں نہیںلکھا۔یہ بات بھی ہندوستانی اخبارنویسوںکے لیے باعث فخرہوسکتی ہے کہ ان میں اس دل ودماغ کے اڈیٹرہوسکتے ہیں جیساکہ ’صادق الاخبار‘ کا اڈیٹر تھا۔‘‘27؎لیکن ’بغاوت ہند‘کے بیان سے’صادق الاخبار‘کے متعلق کچھ دوسراہی رخ سامنے آتاہے’’صادق الاخبار،دہلی میںایک اخبارنکلتاتھا۔جس کامہتمم جمیل الدین تھاجس کواس جرم میںکہ وہ سرکارکی بدخواہی کی خبریںجھوٹی گڑھ کرلکھاکرتاتھا۔تین برس کی قید ہوئی۔ اس کے پرچوں اور دہلی سے اردو اخبار کے پرچوں سے بہت سی خبریں دستیاب ہوئیں۔ اخباروں نے دلیلوںکی پیشین گوئی بھی برٹش گورنمنٹ کے ختم ہونے کی چھاپی تھیں۔ اخباروںمیں سید نعمت اللہ شاہ متخلص ولی ہانسوی کے قصیدے کے اشعار لکھے جاتے تھے یہ قصیدے بھی عجیب ہیں کہ جوواقعات ہوتے جاتے ہیںوہ قصیدے کے دم چھلابنائے جاتے ہیں۔اورولی کی پیشین گوئیاںیقین کی جاتی ہیں۔‘‘28؎مولوی ذکاء اللہ نے بھی اپنی کتاب ’تاریخعروج انگلیشیہ‘میں لکھاہے کہ صادق الاخباردہلی میں ایک اخبار نکلتا تھا جس کامہتمم جمیل الدین تھا۔جس کواس جرم میں کہ وہ سرکارکی بدخواہی کی خبریں جھوٹی جھوٹی گڑھ کر لکھتا تھا تین برس قید ہوئی۔اس کے پرچوںمیں سے اور’دہلی اردواخبار‘کے پرچوںمیں سے بہت سی خبریںانتخاب ہوئیں اور ان کاترجمہ کورٹ میں بروقت تحقیقات پیش ہوا۔ 29؎لیکن ’صادق الاخبار‘کے دیگرشماروںسے یہ واضح ہوتاہے کہ’صادق الاخبار‘ نہایت جری، بیباک، جنگ ِآزادی کا علمبرداراورانگریزدشمن اخبار تھا۔ 1857کی جنگ آزادی کے چھڑتے ہی اس اخبارکی حمایت وہمدردی مغل فرماروا بہادرشاہ ظفر سے وابستہ ہوگئی تھی اوراس نے اعلانیہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی فتح یابی کی نوید دینی شروع کردی تھی۔ یہ اخبارہرممکن کوشش کرتاتھاکہ یہ آزادی کی جنگ کامیاب ہو اورہندوستان سے انگریزوں کے اقتدارکاخاتمہ ہو۔30؎1857میںجنگ آزادی کے شعلے بلندہوئے تو’صادق الاخبار‘(دہلی) نمایاںطور پر سرگرم ہوگیا۔ جنگ کی ابتداہی سے ان میں غم وغصے کے دبے ہوئے طوفان دیکھے جاسکتے ہیں۔جیسے جیسے بغاوت رونماہوئی صادق الاخبارنے فرنگیوں کے خلاف باغیانہ تیوردکھاناشروع کردیا۔اخبارنے اپنے صفحات کوجنگ کی خبروںکے لیے وقف کردیا تھا۔یہ ایک ایسااخبارتھاجس نے کھل کرباغیوںکی حمایت کی۔ ہندوستانیوں پر ہو رہے مظالم اورسرکارکمپنی کی بدانتظامی کاپردہ فاش کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ یہ اخباربہت بے باکی سے اپنی رائے کا اظہارکیاکرتاتھا۔ مجاہدین میںآزادی کا جذبہ بیدارکیا۔مجاہدین کی ہمت بڑھانے کے لیے خبریں اوراپیلیںشائع کیں۔ غیرملکی فوجوں کی آمدکی اطلاع چھاپی جاتی تھی۔ دہلی کی جنگ آزادی میںمجاہدین دشمنوںکاقلع قمع کرتے، ایسی خبروں سے بھی اخبار کو مزین کیا جاتا تھا۔مئی 1857کے قبل سے ہی ہندوستان میںبے چینی اوراضطراب کے اسباب ومحرکات پورے زوروشورسے کارفرما تھے کہ کارتوس کاواقعہ رونماہوا۔انگریزی سرکار نے دیسی فوجیوںکوسوراورگائے کی چربی لگی ہوئی کارتوس استعمال کے لیے دی تھی۔چونکہ نئے کارتوسوںکواستعمال کرتے وقت دانتوں سے کاٹناپڑتاتھا۔لہٰذاافواہ پھیلی کہ اس طرح انگریز ہندوؤںاورمسلمانوںکے مذہب میںخلل ڈالنا چاہتے ہیں۔جس کی وجہ سے سپاہیوںمیں کافی ناراضگی اوربے چینی پیدا ہوگئی تھی اورپورے ملک میں بغاوت کی شکل لے لی تھی۔ 20 اپریل1857 کے’صادق الاخبار‘میں انبالہ اورسیالکوٹ کے کارتوس کے ضمن میں انحراف اور آگ زنی کے متعلق ایک خبرملتی ہے۔ کیونکہ انبالہ میںبھی کارتوسوںکی ٹریننگ کا مرکزقائم کیا گیا تھا اور کمانڈرانچیف جنرل آنسن یہیںمقیم تھا،یہاںدیسی سپاہ کے افسروںنے کارتوسوں پر بے چینی کا اظہارکیا اور کارتوس کاٹنے والوںکو عیسائی ہوجانے کے طعنے دیے۔ مسٹر کے۔ سی۔ یادونے اپنی انگریزی کتاب ’ہریانہ میں1857‘میںتفصیل سے کارتوسوں کے واقعات سرکاری ریکارڈ کے حوالوںسے بیان کیے ہیں۔ چنانچہ 20اپریل 1857 کے ’صادق الاخبار‘ کے شمارے میں فرینڈآف انڈیاکے حوالے سے لکھا ہے کہ تمام سپاہ نے نئے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس وجہ سے وہاںفسادہوگیاہے نیز کچھ پلٹنیںجوبنگال گئی تھیں،ان میں سے ایک توموقوف ہوگئی ہے اوراس کے افسروںکوپھانسی دے دی گئی۔صادق الاخبارکی خبریوںہے’’سرکشی افواج انبالہصاحب فرینڈآف انڈیاتحریرکرتے ہیںکہ ان دنوں تمام سپاہ انگریز نے نئے کارتوسوںسے سرتابی کرناشروع کردی ہے چنانچہ چندروزہوئے کہ علاقہ بنگال میں کچھ پلٹنیں پھر گئی تھیں۔ ایک تو ان میںسے موقوف ہوئی اوراس کے افسران کوبھی پھانسی کا حکم ہواتھا— پلٹن گورکھانمبر16مقیم انبالہ نے بروقت قواعدعمل درآمد کاکارتوسوں سے انکار کیا۔افسرشاہی نے ایک ہندوستانی توپ کوحکم زیرکرنے سرکش پلٹن کادیااوران پر فیر کرنے شروع کردیے۔کہتے ہیںکہ اس طوفان بے تمیزی میںایک بارک گوروںکی پچھلی رات جل کر خاک ہوگئی اورایک ہندوستانی پیادوں کا ڈیرہ جوکہ فاصلہ میل بھرکارکھتاتھاپھنک گیا۔ ازروئے ایک چٹھی سیالکوٹ کے ظاہر ہوا کہ یہاں کے سپاہی بھی نئے کارتوسوںکی قواعدسے بگڑتے ہیںاوربجائے دانتوں کے ہاتھوںسے کارتوس توڑتے ہیں۔لوگوںکے دل کاشک ابھی رفع نہیں ہوا۔‘‘ 31؎ہندوستان کی آزادی کے لیے ملک میںپیہم کوششیںکی گئیںاوراعلانات اوراشتہارات شائع کیے گئے۔بعض مؤرخوںنے ایک اشتہارکاذکر کیاہے جوکسی ایرانی شہزادے کے خیمے سے جنگ ایران کے زمانے میںبرآمدہواجس میںایران اورافغانستان کے حالات بتاتے ہوئے انگریزوںکے خلاف جہادکی دعوت دی گئی تھی۔یہ ضرورسچ ہوسکتاہے کہ جنگ ایران کے دوران شاہ ایران نے بہادرشاہ سے خط و کتابت کی اورایک نمائندہ دہلی سے ایران بھیجاگیا۔ اسی زمانے میںکچھ اشتہارات دہلی میں چسپاں کیے گئے۔ جامع مسجدکے دروازے پر ایک اشتہارپایاگیاجس میںڈھال اور تلوارکی شکل بنی ہوئی تھی۔ اس میں کہا گیاتھاکہ شاہ ایران عنقریب آنے والے ہیں اور مسلمانوں کوچاہیے کہ انگریزوں سے جہاد کے لیے تیار ہو جائیں۔مٹکاف نے بہادرشاہ کے مقدمے میںبیان دیتے ہوئے کہاہے کہ اس پرپانچ سو مسلمانوںنے جہادپرآمادگی ظاہرکی تھی۔ کہا جاتاہے کہ بغاوت سے چند روز پہلے بھی ایک اشتہار جامع مسجد میں چسپاں کیا گیاجس میںبغاوت کی جانب اشارہ تھا۔ دہلی میںدوسری جگہوںپربھی اشتہارات لگائے گئے۔32؎ساور کرنے بھی اپنی کتاب میں دہلی کے عوام کے جذبات اوراشتہارات کا ذکر کیا ہے۔33؎ یہ اشتہارتین گھنٹے تک چپکارہا،لیکن جب مجسٹریٹ کواطلاع ملی تواس نے فوراً ہی اکھڑوا ڈالا۔34؎ ان کاذکراس دور کے بیشتراخبارات میںبھی ملتا ہے۔صادق الاخبارمیںبھی کئی اشتہاروں کا ذکر ملتا ہے۔ 16 مارچ 1857،جلد3 ’صادق الاخبار‘ کے شمارے میںایک اشتہار شائع ہوا تھاجس میں ہے کہ شاہ ایران نے ہراتی کے چند سرداروںاورکئی اراکین سلطنت کودربارمیںبلاکرجنگ کے سلسلے میں صلاح ومشورہ کیاتھا ہرایک وزرا نے یہ صلاح دی کہ اب انگریزوںسے جنگ کریںان شاء اللہ فتحیاب ہوں گے۔ یہ سن کرشاہ ایران نے کہاکہ اگرمجھے ہندوستان پرفتح نصیب ہوئی تومیںتم لوگوں کو وہاںکاصوبے داربناؤںگا۔وہ خبر اس طرح درج ہے’’تازہ بمبئی پیرمصدورہ دفترصادق الاخبارسے منکشف ہواکہ ایک روز شاہ ایران نے سرداران ہراتی اورکئی اراکین سلطنت کودربارمیںطلب کرکے دربارجنگ ایران مشورت کی اوربعدغو رو تامل ہرایک نے یہی صلاح دی کہ آپ گورنمنٹ سے لڑیے۔ ان شاء اللہ فتح پائے گا۔کس لیے کہ ہرات آپ نے نہیںتسخیر کی بلکہ دروازہ ٔ ہند پر جاپہنچے علاوہ بریں مرضی شاہ روس کی بھی یہی ہے کہ انگریزوںسے آپ لڑیںاور ہندوستان پر قبضہ کریں۔شاہ نے یہ کلام ان کا سن کرقسمیہ کہاکہ میںتم سے بہت خوش ہوںکہ برخلاف وزیرنمک حرام کے صلاح دیتے ہواوروعدہ کیاکہ جس وقت میں ہندستان میں پہنچا توتم کوضرورصوبیداربناؤںگا اورشاہ دہلی کوتاج بخشی کروںگا۔‘‘35؎دراصل شہرمیںجب بہادرشاہ ظفر کے شیعہ مذہب قبول کرنے کی خبرگرم ہوئی لہٰذا شیعہ ہونے کے ناطے شاہ ایران،بادشاہ کی مدد کوآئیںگے اورانہیںانگریزوںکے چنگل سے آزادکریںگے۔ چنانچہ غدرکے زمانے میںان اخبارات میںبھی اس قسم کی خبریں شائع ہوتی رہتی تھیں۔مارچ1857 میں شاہ ایران کی طرف سے جاری کیے گئے ایک اعلان کی کاپیاںگلیوںاورسڑکوں پرچسپاںکی گئی تھیں۔ چنانچہ ان کااندازاسلوب اورلہجہ انگریزوںکے خلاف ہی نہیں بلکہ تلخ بھی تھا۔دوسرااشتہاربہ نام نہادشاہ ایران کاجامع مسجددہلی کی دیوارپرچسپاںکیاگیاتھا کہ اہل اسلام و ہندو، عیسائیوںکی مدد معاونت سے باز رہیں۔ان شاء اللہ بہت جلدمیںسریرہندپرجلوہ گرہوںگا۔وہاںکے بادشاہ اوررعیت کو شادمان کروں گا۔ مجھے کسی کے مذہب سے کوئی غرض نہیں۔سب اپنے اپنے مذہب کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، ہتھیار اٹھالیں،اورجہادکریں۔خبرملاحظہ ہو’’ایک اشتہار نام نہاد شاہ ایران دہلی میں گزرگاہوں پر آویزاں کیا گیا ہے..... خلاصہ مضمون اس کا یہ ہے کہ اہل اسلام کو نصارا کی مدد و معاونت سے پرہیز کرنا واجب ہے اور مناسب ہے کہ حتی المقدور مسلمانوں کی نیک خواہی میں مساعی اور عرق ریز رہیں۔ان شاء اللہ تعالیٰ قریب ہے کہ میں سریر ہند پر جلوہ کر ہوتا ہوں اور وہاں کے بادشاہ و رعیت کو خردمند و شادماں کرتا ہوں جیسا کہ انگریزوں نے ان کو نان شبینہ سے محتاج کیا ہے۔ مجھ کو کسی کے مذہب سے کوئی غرض نہیں۔ پس واجب ہے کہ بوڑھے جوان، ادنیٰ، اعلیٰ، عقل مند، کم فہم، کسان اور سپاہی سب کے سب بے پس و پیش اپنے ہم مذہبوں کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، ہتھیار باندھ لیں علم اسلام بلند کریں۔ اور اپنے ہم قوموں کو بھی راہ خدا میں جہاد کرنے کی دعوت پہنچائیں۔‘‘36؎شاہ ایران کے اس اعلان کے متعلق یہی مـضمون کسی حدتک تبدیلی کے ساتھ دہلی کے دوسرے نامور اخبار ’خلاصتہ الاخبار‘کی اشاعت مورخہ13 اپریل 1857 میں شائع ہواتھا۔خلاصتہ الاخبار کا اعلانیوں تھا’’ایرانچندروزہوئے کہ جامع مسجدکی دیوارپرایک اعلان چسپاں کیا گیاتھا۔ اس پہ ایک تلواراور ڈھال کی شکل بنی ہوئی تھی۔اوریہ اعلان شاہ ایران کے پاس سے آیا ہوا بتاتے تھے۔اس کاخلاصہ یہ تھا’’تمام سچے مسلمانوں کا مذہبی فرض ہے کہ کمربستہ ہوکر شاہ ایران کی اعانت کریںاوروفاداری سے اس کی حکومت و اختیارکوملحوظ رکھیں اور انگریزوں سے جہاد کریںتاکہ انہیں تباہ وبربادکرکے اس کی عنایت کے مورد ہوں اور انعامات وخطابات حاصل کریںجوشاہ ایران فراخ دلی سے عطا کریں گا۔‘‘ پھر اعلان میں یہ بیان کیاگیاتھاکہ شاہ ایران یاجمشیدثانی بہت جلدہندوستان آئے گااوراس ملک کو خود مختاربنادے گااورایران میں عوام الناس جمع ہوکرحسب ذیل فقرہ بار بار تکرار کرتے ہیں’’خدایاخاک ایران کو بدبختیوں کی ہواسے بچائیو۔جب کہ خاک وہوا باقی رہیں۔‘‘مجسٹریٹ کی عدالت میںبیشمارگمنام درخواستیںوصول ہوئیںہیںاوران میںیہ بیان کیا گیا ہے کہ آج کی تاریخ سے ایک ماہ بعدکشمیرپرحملہ کیاجائے گا،جس کی فرحت افزائی اور خوبصورتی کاایک شاعرنے یوںخاکہ کھینچا ہے’’اگرایک بلبل بصورت کباب کشمیرمیںلایا جائے توکشمیرکی ہواسے اس کے بھی بال وپرپیدا ہو جائیںگے۔‘‘محرراخباران تمام باتوںکومزخرفات اورحمق پرمبنی سمجھتاہے کیونکہ اگرممالک حکومتوں کے ہاتھ سے یوںہی نکل جایاکریںتوفوجوںکا کیا فائدہ؟‘‘ 37؎اس زمانے میںآئے دن یہ خبرعام ہوتی جارہی تھی کہ شاہ ایران ہندوستان فتح کرنے آرہے ہیں اور ان کی فوجیںہندستان کی سرحدمیں پہنچ چکی ہیں۔19مارچ1857کے صادق الاخبارکے مطابق دہلی کی جامع مسجدسمیت شہر کے کئی اہم مقامات پرمحمدصادق خان کے نام سے شاہ ایران کی جانب سے ایک اعلان چسپاںکیا گیا تھا۔ جس کے مطابق سالم ایمان کے مالک افرادکوغیرملکی عیسائیوںکی مدد کرنے سے گریزکرناچاہیے اوراپنی تمام ترصلاحیتیں مسلمانوں کی فلاح وبہبودکے لیے استعمال کرنی چاہیے اور خدا نے چاہاتوہم بادشاہ ایران ہندوستان کے تخت پرجلوہ افروزہوں گے اور یہاںکی عوام اوربادشاہ کوخوش و خرم بنادیںگے۔ہندوستان کے باشندوںکوتمام تروسائل کے باوجود انگریزوں نے مفلوک الحال بنا دیا ہے، ہم انہیںخوشحال بنادیںگے۔ 19مارچ1857کے صادق الاخبارمیںاس اعلان کا خلاصہ اس طرح شائع ہواتھا۔’’اعلان شاہ ایراناعلان شاہ ایران کی کئی کاپیاںگلیوںاورسڑکوں کے نکڑ پرچسپاں ہیں، میرے ایک دوست نے اس اعلان کی بعینہٖ ایک نقل کرلی ہے جوجامع کی پشت پر چسپاں ہے۔اس اعلان کومتعددآدمیوں نے دیکھاہے، مختصراً اس کاماحصل یہ ہے کہ جو لوگ مذہب حق کادعوی کرتے ہیں ان کافرض ہے کہ عیسائیوںکومددنہ دیںاورحق و راست پرہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی ترقی میں اپنی تمام طاقت صرف کردیں اوروہ وقت قریب، آرہاہے کہ جب مابدولت (شاہ ایران)تخت ہند پرمتمکن ہوں گے اور رعایا کو اتنا ہی خوش حال بنادیں گے جتناکہ انگریزوں نے مفلوک الحال کرکے ذریعہ معاش سے محروم کردیاہے۔ ہم کسی کے مذہب  میں دخل نہیںدیاکرتے ہیںاورنہ وہاں دیں گے۔‘‘38؎صادق الاخبارکاایڈیٹرآگے لکھتاہے’’یہ ایک شخص محمدصادق نامی جس کے ذریعہ سے یہ اعلان کیاگیاتھاکہ 6تاریخ تک انیس ہزار ایرانی سپاہی مع چند معززافسران کے ہندوستان میں داخل ہوچکے ہیں اور خاص دہلی میں پانچ ہزارسپاہی تبدیل لباس میں مختلف صورتوں میں موجودہیں، وہ اپنی نسبت کہتاہے کہ 4؍مارچ کو میں دہلی پہنچاجہاںاعلان چسپاں کردیے گئے ہیں۔ اس کابیان ہے کہ ہرحصۂ ملک سے اس کے پاس خبریں آتی رہتی ہیںاوروہ ہرشہرکی باقاعدہ اطلاع شاہ ایران کے پاس روانہ کرتارہتا ہے۔ آئندہ وہ ایرانی فوج کی نقل وحرکت بذریعۂ اعلان ہرفردوبشر پر ظاہر کر دیا کرے گا۔‘‘لوگ کہتے ہیں کہ اعلان چندبے فکروںکاگھڑاہواہے اورمیںبھی ان کاہم خیال ہوں کہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ محمد صادق کے آخر دہلی آنے کا مدعا کیا ہے؟ اگر اس کا مقصد جنگ ہے تو اس طریقے سے اس کاآنابے سود ہے۔ اگر وہ جاسوس کی حیثیت سے آیا تو اپنے آنے کو مشتہر کرنابالکل بے عقلی اورمشن کے اخراجات میں بے کار روپیا ضائع کرناہے۔‘ ‘ 39؎اس کے بعد22مارچ 1857کے صادق الاخبارمیںاس خبرکاذکرکرتے ہوئے اخبارکا ایڈیٹر لکھتا ہے کہ یہ اشتہار محمد صادق کے نام سے مرقوم ہے۔اس خبرکے ذریعے لوگوںکومطلع کیاگیاہے کہ جو کوئی اس جعل سازاورجھوٹے کوپکڑے گا اسے خاطرخواہ انعام دیاجائے گا’’سابق میںچندمفسدین نے دہلی میں ہنگامہ برپاکرنے کے لیے یہ سمجھ کرکہ شہرت ہوگی، جامع مسجد کی پشت پرایک اعلان شاہ ایران کی طرف سے منسوب کرکے پبلک کومغالطے میں ڈالنے کے لیے چسپاںکردیاتھا۔ جس شخص نے یہ اعلان مشتہرکیاہے اپنانام محمدصادق بتایاہے۔یہ کہا جاتاہے کہ اس لغوولایعنی بات سے حکام دہلی بہت خفاہیں۔مجھے یقین ہے جوشخص اس جعل سازکاذب کوگرفتارکرے گاخاطرخواہ انعام پائے گا لیکن خدامعلوم وہ اب ہاتھ بھی آئے گایا نہیں۔‘‘ 40؎پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی نے اپنے ایک مضمون ’اب سے آدھی صدی پہلے کے اردواخبار‘میں صادق الاخبارکے مذکورہ اشتہارکے متعلق تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔انھوںنے صادق الاخبارکے حوالے سے لکھاہے کہ ’’ایک شخص محمدصادق نامی جس کے ذریعے سے یہ اعلان کیاگیاکہ کہتاہے کہ 16تاریخ تک 900ایرانی سپاہی مع چندمعزز افسران کے ہندوستان میںداخل ہوچکے ہیں اورخاص دہلی میں 500سپاہی تبدیل لباس میں مختلف صورتوںمیں موجودہیں۔ وہ اپنی نسبت کہتاہے کہ14مارچ کو میں دہلی پہنچا،جہاںاعلان چسپاںکردیے گئے ہیں۔‘‘’’اخبارمذکورکاحاشیہ اس اعلان اورمحمدصادق کے بیان پرعجیب لیکن معنی خیز ہے، شروع میںیہ کہہ کر ’’لوگ کہتے ہیںیہ اعلان چندبے فکروں کاگھڑاہواہے۔‘‘صاحب صادق الاخباراس طرح رقمطراز ہے’’ہندوستانی اسی وقت خوش ہوں گے کہ اگرشاہ ایران عباس شاہ صفی کی طرح ہمارے خاص بادشاہ کوسلطنت دیدے اور تعجب بھی نہیں جو وہ ایساکریں کیوں کہ خودتیمورنے ایرانیوں کو سلطنت بخشی تھی اورنظرغائرڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ اسی احسان کے بدلے عباس شاہ صفی نے ہمارے ہمایوں کو مدددی تھی۔‘‘ 41؎پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی آگے لکھتے ہیں:’’اگلی اشاعت مورخہ23 مارچ سنہ1857میںیہی اخبارمحمدصادق کوجعلسازبتاتاہے اور لکھتاہے کہ’’ اگر گورنمنٹ کے ہاتھ لگ جائے توایک دو تلے کاجوتہ سرکہ میں تر کیا ہوا اس کی ٹانٹ پرپڑے گا۔‘‘مگر صادق الاخبار کا یہ فرمانا اور سرکہ میں جوتاترکرنے کا نسخہ تجویزکرنااس مشورہ کے مقابلہ میں جو انہوں نے شاہ ایران کوحضرت بہادرشاہ کے ہاتھوںمیںہندوستان کی سلطنت بخشنے کے بارے میں دیاہے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ ’غدر‘کوابھی قریب تین مہینے ہیںاوردہلی میںیہ شغلے اٹھائے جارہے ہیں۔ پھراگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہالیاںبست و کشادکویہ شک ہواکہ بہادرشاہ کمپنی کے خلاف ایران کے ساتھ سازش کر رہے تھے توذرابھی تعجب کی بات نہیں۔پہلے سنہ 1841 میں دہلی کاریذیڈنٹ بادشاہ سے شکایت کرچکاتھا کہ وہ امیردوست محمد خاں سے براہ راست خط کتابت کرتے ہیںجونہیںہونا چاہیے۔ اب غدرسے دوتین مہینے پہلے یہ ایران کاقضیہ اٹھایاگیا۔چنانچہ ایک شاہزادہ بنارس میں گرفتاربھی کیا گیاجس پریہ الزام تھاکہ بادشاہ کامراسلہ لے کرایران جارہاتھا۔ اشتہارمذکورخواہ کسی کا طبعزاد ہو اخبارکی پہلی اشاعت کانوٹ یقینانامناسب اورفتنہ انگیزہے۔‘‘42؎مولوی محمدذکاء اللہ کی کتاب ’تاریخ عروج انگلیشیہ‘ میں بھی اس کاذکرکیاہے’’ایک شخص نے اپنافرضی نام محمدصادق رکھ کے جامع مسجدکے اندردیواروںپرایک اشتہار چسپاں کیا جس کے اوپرتلوار وسپرکی تصویربھدی سی بنی ہوئی تھی اوراس کے مضمون کاخلاصہ یہ تھاکہ ایران کی سپاہ انگریزوںکے پنجہ سے ہندوستان کوچھٹانے آتی ہے۔سب مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ جہادکے لیے مستعدہوںاپنانام بھی اشتہار میں لکھ دیا۔جب مجسٹریٹ دہلی کو اس اشتہارکی اطلاع ہوئی تواس نے اشتہار کو اکھڑوا ڈالا۔ اشتہارتین گھنٹے چسپاںرہا ہوگا۔‘‘ 43؎شاہ ایران کے اعلان تسخیرہندکواس زمانے کے سیاسی ماحول میںبے حداہمیت حاصل تھی۔ 10 مئی 1857 کو میرٹھ سے جنگ آزادی کی ابتداہوچکی تھی۔فوجیں دہلی آگئی تھیں۔تمام شہرمیںآزادی حاصل کرنے کی جدوجہداورکشمکش جاری تھی۔صادق الاخبارنے ایک انگریزی اخبار’پنجابی‘کے حوالے سے لکھاہے کہ اس کے نامہ نگار کو شہزادے کے خیمے سے ایک اعلان دستیاب ہوا جس کاخلاصہ نامہ نگارمذکورہ نے بذریعہ تاربرقی ایڈیٹرکو روانہ کیاہے اورجسے اب ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے۔جس میںابوشہر، کراچی، سندھ اور دیگر علاقے کے سرداران کوایران کے ساتھ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف آمادہ پیکارہونے کے لیے کہاگیاہے اور مسلمانوںکوانگریزوں کے خلاف جہادکرنے پرابھاراگیا ہے۔بہرحال جیسا کہ گذشتہ اوراق پرذکرآچکاہے کہ جنگ آزادی کے چھڑتے ہی اس اخبارکی حمایت وہمدردی بہادرشاہ ظفرسے وابستہ ہوگئی تھی اوراس نے اعلانیہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی فتح یابی کی نویددینی شروع کردی تھی۔یہ اخبار ہرممکن کوشش کرتاتھاکہ یہ آزادی کی جنگ کامیاب ہواورہندوستان سے انگریزوںکے اقتدارکاخاتمہ ہو۔جب کہ بہادرشاہ ظفر کی شخصیت امدادغیبی کی حامی تھی۔اس قسم کے خواب لوگوں کو نظرآتے تھے جس کو صادق الاخباربھی شائع کرتاتھا۔چنانچہ ایک ایساخواب ’صادق الاخبار‘ کے 14ذی الحجہ1273ھ بمطابق 6جولائی1857کے شمارے میں ’خواب ‘کے عنوان سے ہمیں پہلی خبرملتی ہے۔ اس میں کسی صاحب کے خواب کاذکرہے۔وہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھاکہ ایک بزرگ فرماتے ہیںکہ تم لوگ کیوںخوف زدہ ہوتے ہو،اللہ تعالیٰ نے بادشاہت بہادرشاہ ظفرکے نام عطا کی ہے’’ایک صاحب فرماتے ہیں کہ ان دنوںمیں نے یہ خواب دیکھاکہ ایک بزرگ متبرک صورت میرے پاس آئے اورگویاہوئے کہ تم لوگ کس لیے اتناڈرتے ہو۔ قادر الاطلاق نے توبادشاہ ہندکی ابوظفر محمد سراج الدین بہادرشاہ بادشاہ غازی کے نام عطا کردی۔ میںیہ سن کر شکرخداوندی کا بجا لایا اوراستفسارکیاکہ حضرت یہ توفرمائیے کہ آپ کے ہاتھ سیاہ کیوں ہو گئے؟یہ جواب سن کرخضرصورت ملایک سیرت بولے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خدمت دی ہے کہ تمھارے دشمن تم پرگولہ برساتے ہیں تو میں ہاتھوں میں روکتا ہوں اور یہی باعث ہے کہ رعایادہلی میں سے کم لوگ ضائع ہوتے ہیں۔‘‘44؎برٹش حکومت کے مخالفت میں صرف ہندوستان کی ہی عوام نہیں تھی بلکہ دوسرے ممالک ایران اور روس کی سلطنتیں بھی انگریزوں کی حکومت کے خاتمہ کے منصوبے بناتی تھیں۔ چنانچہ پشاور میں انگریزوں کی قتل وغارت گری اور پٹھانوںکاہندوستان میں انگریزی حکومت پرحملہ کرنے اوردہلی میں آنے کی خبر6جولائی 1857کے صادق الاخبار کے شمارے میںشائع ہوئی تھی۔خبرپشاور:ایک دوست کی زبانی ایک قاصدآنے والے خاص پشاورکے راوی ہیں کہ کئی ہزار سپاہ نے بہت سے انگریزوںکوقتل کیااوریہاںسیدمحمداکبروالی سوات کوکہ بڑے دیندارہیں تخت شاہی پر بٹھایااوراس کاانتظام بخوبی کراکرلاہورکوآن گھیرا۔اب اہل لاہورمحصورہیں یقین کہ سپاہ منصورہ ازراہ شجاعت ذاتی فتح حاصل کرے اور جو تھوڑے بہت گورے لب ِگور ہیںدرگورہوں کہتے ہیں کہ سپاہ اہل اسلام جابجاتھانہ بادشاہی تابہ لاہوربٹھائی چلی آئی ہے اور ارادہ رکھتی ہے کہ بعدفتح لاہور مقام پٹیالہ و دیگر مقامات دشمنان شاہی کو زیر و زبرکرکے قدم بوسی حضورانورحاصل کرے۔سناگیاکہ اب گورے اورانگریزتمام پنجاب میں باقی نہیں رہے۔اگرقدرے قلیل ہیں تو کرنال وعلی پور میں۔ سواب ان کابھی محاصرہ ہواجاتاہے ہمارے اہل شہرخاطرجمع رکھیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر مہربان ہے اورجووہ کرے گا،کوئی فعل بے جاحکمت سے نہ ہوگا۔‘‘ 45؎طاہرمسعودنے اس خبرکے متعلق لکھاہے کہ خبروںکی ترسیل کامعتبرومناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے افواہیںبھی’صادق الاخبار‘ کے صفحات میںجگہ پاجاتی تھیں۔خصوصاً ایسی افواہیں جن میں انگریزوں کی ہزیمت کی خوش خبری ہوتی تھی۔دوردرازسے آنے والے ایڈیٹرکوجواطلاع یاافواہ سنادیتے تھے ان کی تصدیق کیے بغیرہی شائع کر دیا جاتاتھا۔ایسی ہی ایک خبرمیں پشاورسے آنے والے راوی نے اطلاع دی کہ کئی ہزارسپاہیوں نے بہت سے انگریزوں کو قتل کرکے سیدمحمداکبروالی سوات کوتخت شاہی پر بٹھا دیاہے اور پھر لاہور پہنچ کر شہر کا محاصرہ کرلیاہے۔سپاہ اہل اسلام نے لاہورتک بادشاہی تھانے بھی قائم کر دیے ہیں اورارادہ ہے کہ لاہور،پٹیالہ اورپنجاب کے دیگرشہروں کوفتح کر کے ’قدم بوسیِ حضور انور حاصل کرے‘۔اخبارنے لکھاہے کہ’’سناگیاکہ اب گورے اورانگریزتمام پنجاب میں باقی نہیں رہے۔‘‘ ظاہر بات ہے کہ یہ اطلاع درست نہیں تھی۔ 46؎دہلی میں انگریزوں کے ساتھ انقلابیوںکی متعددلڑائیاں ہوئیں۔11مئی سے3جون تک دہلی انگریزوں سے خالی ہوگئی۔اس دوران اطراف واکناف سے بے شمارآزادفوجی دستے جمناکاپل پار کر کے دہلی میںداخل ہوتے رہے۔ مرزا خضر، مرزا ابوبکر، مرزاسیدو، مرزاعبداللہ کومختلف انقلابی فوجی دستوں کے سردار مقررتھے۔مرزامغل کمانڈران چیف بنائے گئے اورجنرل صمدخاں فوج کی رہنمائی کرتے رہے تھے۔ 2جولائی کو صوبے دارجنرل بخت خاںاپنے چودہ ہزارلشکراورخزانے کے ساتھ دہلی میں داخل ہوئے۔ان کے ساتھ ناناصاحب کے بھائی بالاصاحب اورمولانافضل حق خیرآبادی بھی دہلی آئے۔ان کے ہمراہ کفن بردوش مجاہدین کی فوج بھی تھی جن کی رہنمائی مولانا سرفرازعلی کررہے تھے۔ جنرل بخت خاںکے دہلی میں داخل ہوتے ہی انگریزوںکویقین ہوگیاکہ ہندوستان ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔47؎ابتدا میںفوج کی قیادت مغل شہزادے کر رہے تھے۔لیکن جولائی کے شروع   میں جب بخت خاںبریلی سے دہلی آگئے تواعلیٰ کمان ا ن کے سپردکردی گئی۔48؎بہادرشاہ نے لارڈگورنرکاخطاب دیااور مرزامغل کی جگہ باغی فوجیوں کا کمانڈر انچیف مقررکیا۔بادشاہ نے بخت خاں سے کہاتھاکہ وہ شہر میں نظم وضبط برقرارکھنے کے لیے ہرمناسب تدبیرکریں۔49؎سب سے پہلے بخت خاں نے شہرکاانتظام درست کیا، کوتوال کو حکم بھیجاکہ اگرشہرمیں بدنظمی ہوئی توتمھاری خیریت نہیں۔نمک اور شکرسے ٹیکس ہٹایا، عوام کومسلح کیااور دوسری اصلاحات جاری کی گئیں۔بخت خاںاپنی اسکیموں کو بروئے کا لانا شروع کیا، 4جولائی کوپیچھے سے حملہ کیے۔50؎ اس جنگ میں انگریزوں کا بہت نقصان ہوا۔کئی انگریز افسران مارے گئے۔’اس جنگ کی ایک خبرصادق الاخبار6جولائی1857کے شمارے میںشائع ہوئی تھی’’خبردہلیآج کل دہلی میں جوسالہائے سال سے اجڑے دیارکہلاتی تھی سپاہ کی بہت رونق اور کثرت ہے۔ اور بباعث بارش گولہ باری غنیم (جان) کی طرف سے جوخوف ضائع ہونے کاتھا خدائے تعالیٰ کی عنایت ہے یعنی ہرکو چہ وبازار میں صبح وشام ہزاروںآدمی پھرتاہے اوردشمنوں کے گولہ سے بال بال بچتاہے۔واقعی یہ قول سچاہے۔دشمنچہ کندچومہرباںباشددوستدیکھواس کی عنایت کوسولہویںرمضان المبارک1273ھ کوپانچ ترک سواروںفرشتہ منش نے انگریزوںکاراج پاٹ ہندسے اٹھا دیا گویاتختہ حکومت الٹ دیااورحضـرت قضاوقدرت بہ باوری طالع ازسرنوتخت شاہی پربیٹھے ازاآن جاکہ آسائش رعایا ئے ہند منظور خداہے اس لیے منتظم دوران جناب محمدبخت صاحب بہادرجنرل کہ نصفت اور عدالت اور مدبری و انتظام میں اپناثانی نہیں رکھتے ہماراحاکم شفیق بنایااورجناب موصوف نے حضورسے خلعت فاخرہ سپردشمشیرپاتے ہی شہرکاانتظام بخوبی کردیااب کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتاہے بلکہ الٹاسرکش غریب کے ہاتھ میں ہتھیاردیکھ کرڈرتا ہے اورتمام سپاہ کابندوبست بھی بخوبی ہوگیا۔ جمیع تھانہ دارشہر اور سید مبارک شاہ خاںصاحب کوتوال گشت میں مصروف ہیں دکاندار دکان کھولنے جاتے ہیںباہرسے غلہ بافراط چلا آتا ہے اورحال لڑائی کایہ ہے کہ پرسوں کے روزجناب جنرل صاحب نے براہ علی پور گوروںکامحاصرہ کیا تھاسوطرفین سے مقابلہ ہوادیرتک سپاہ شاہی داد شجاعت دیتی رہی آخرکارگورے بھاگ نکلے اورلشکرمظفرنے جب کوئی حریف مقابل نہ پایاتوتین سو گھوڑے اور کچھ چھکڑے رسدوغیرہ اپنے قبضے میں کر کر قصد بازگشت کیا۔سناگیاکہ گورے اس لڑائی میں بہت مارے گئے اورکچھ گورے کل کے دن مقبرہ منصورکی جانب اوترآئے تھے۔سوان کے دفعیہ کے لیے فوج تھوڑی سی کہ بہت سوںپربھاری ہے مع اتواپ روزانہ ہوئی۔‘‘ 51؎’انڈین میوٹنی‘کی ایک تحریرسے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے’’...اس دن کی ہارپرانگریزی سپاہی اتناشرمندہ اورناراض ہوئے کہ انھوںنے اپنے کیمپ میں جاکراپنے بے قصوربھشیتوں اوربہ سے کالے نوکروں کومارڈالا۔اپنے ان ہندوستانی نوکروںکی وفاداری اورخدمتوں کاانہوں نے کچھ بھی خیال نہیںکیاکیونکہ ’’ان گورے سپاہیوں کے دلوں میں سب کالے ایشیاوالوںکی طرف سے سخت نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی۔‘‘ 52؎انقلابیوںکی طرف سے اگلے حملے میں14جولائی کوجنر ل ریڈبھی گھبراگیا۔بیماری کے بہانے استعفیٰ دیااور فوج چھوڑکر چلا گیا۔اب چوتھاکمانڈرانچیف جنرل ولسن مقررہوا۔اس وقت کے کچھ حالات ہم کو’صادق الاخبار‘ میں ملتے ہیں۔ ’صادق الاخبار‘نے اپنے ایک ایک حرف کوصرف جنگ آزادی کی خبروں کے لیے وقف کردیاتھا۔ 20جولائی 1857کوصادق الاخبار نے لکھاتھا:’’حاصل کلام،جوشخص اپنے خداسے سچاہے ا س کاکام سب سے اچھاہے۔اس ہفتے میں یہاں کئی لڑائیاں ہوئیں، سواران وتلنگان ِ شاہی نے ان معرکوںمیں وہ وہ دادِ شجاعتیں دیں کہ زیرزمین جگر رستم کانپ اٹھا یعنی گراپ کھاکھا کرتوپ کے منہ پرجاجاپڑے اور تیغ دلاوری سے ایک کودواور دو کو چارکیا۔آخرکار گورے منہ پھیر پھیر گئے -مگرچونکہ کل امرمنحصر وقت پر ہیںتوان شاء اللہ صبح وشام میں اس باوٹہ کوفتح کرلیں گے ....کہتے ہیں کہ من جملہ اس سپاہ مرد میدان کے سواران جالندھرسے شیخ امیرعلی صاحب دفعدار اور شیخ سبحان علی وکرامت علی وقطب علی صاحبان وغیرہ اور ٹوپ سرسہ میں سے سید فدا علی دفعداراورسیدغلام سروراور مرزا مغل بیگ صاحب نے ایسی ایسی دادشجاعت دی کہ فلک گفت احسن ملک گفت زرہ ِنفس الامر میںمردانگی انھیں کے لیے ہے،کیونکہ اس زمرہ سواران میں اکثرشریف ہوتے ہیں۔خدانے چاہاتوان لوگوں کو بڑے بڑے عہدے اورمنصب پیش گاہ شاہی سے ملیں گے۔’’تحقیق سناگیاکہ رجمنٹ جھانسی بھی ایسی لڑی کہ جولڑنے کاحق تھااور پیدلوںنے بھی اپنی بساط سے زیادہ کام دیااور جنرل بخت خاں ہمہ تن اس میں مصروف ہیں۔ایک عورت جہادیوںکے ساتھ لڑائی میں خوب مردانہ کام کرتی ہے،بلکہ حضورسے اس کو ایک گھوڑا سواری کے لیے ملاہے۔ایک تلنگہ ہندوسیدرفائی کی مسجدکے پاس اذان پراڑپڑا تھا سو کئی ہنودلوگوں اورمسلمان مجاہدین نے اس کے کان کھڑے کردیے۔‘‘ 53؎1857میں دیگر سیاسی، سماجی اورمذہبی عوامل کے ساتھ ساتھ انگریزی اقتدارکے خلاف ملک گیر ماحول بنانے اورمسلمانوں میں جوش وجذبات برانگیختہ کرنے میں علما کے فتوؤں نے کلیدی کردارادا کیا ہے۔ حکومت وقت کے خلاف دیے گئے فتوؤںکے اثرات اوراہمیت کے تعلق سے ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کا بیان ہے.’’جب کبھی کوئی ایسافتوی حکومت کے خلاف شائع ہواتواس کانتیجہ دنیاکی سخت ترین اورنہایت خوں ریزبغاوتوں کی صورت میں ظاہرہوا۔‘‘54؎تاریخ کی مستندکتابوںکے ذریعے انقلاب اٹھارہ سو ستاون میں علماکے ایسے چندفتوؤںکی نشاندہی ہوتی ہے،جن میں انگریزوں  کے خلاف جہاد کو جائز و واجب قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو حرکت وعمل کی ترغیب دی گئی تھی۔لیکن ’صادق الاخبار‘، دہلی (27جولائی1857)میں شائع ایک فتوے کے علاوہ کسی بھی فتوے کامتن دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔تاریخ میں انگریز مخالف ایسے تین فتوؤں کا ذکرملتاہے جوانقلاب اٹھارہ سوستاون میں دیے گئے۔1857کے دوران علمائے کرام کایہ فتوی جس کی نقلیںدہلی کی جامع مسجدکی دیواروں اور مختلف مقامات پرچسپاںکی گئی تھیں۔ سیدجمیل الدین ہجرنے اس فتوے کاسوال اورعلمائے کرام کاجواب دونوں۔ ’ صادق الاخبار‘ میں شائع کیے تھے۔ جس میں انگریزوں کے خلاف انقلابی سپاہیوں کی جنگ کو جہادسے تشبیہ دی گئی تھی۔چنانچہ بخت خاں نے اپنے اختیارات اوراثرورسوخ کے ذریعے اس وقت کے علما سے ایک جہادکافتویٰ مرتب کروایا۔فتویٰ کے اجرا کے بعد مسلمانوںمیں جنگ آزادی کے لیے مذہبی جوش اور ولولے کاپیداہونافطری امرتھا۔میرٹھ سے آئی باغی فوجوںکی قیادت تسلیم کرنے کے بعدبہادرشاہ ظفرنے علامہ فضل حق خیرآبادی اورجنرل بخت خاں سے مشورہ کیا اور ’کنگ کونسل‘ نامی ایک تنظیم کی تشکیل دی اورعلامہ کواس تنظیم کاایک بڑا اہم رکن بنایاگیا۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کا بگل بجانے کے لیے بہادرشاہ نے بخت خاں سے مشورہ کیا اورطے پایاکہ یہ ذمے داریـضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کودی جائے۔ علامہ فضل حق خیرآبادی اس تاریخی کارنامے کوانجام دینے کے لیے دہلی کی جامع مسجدمیں جمعے کوخطبے کے دوران انگریزی ظلم وستم کے خلاف خوب جم کرتقریرکی اورانگریزوں کے خلاف فتوی جہاد اکابرعلمااکرام کی موجودگی میں پیش کردیا۔جس پرمفتی صدرالدین آزردہ، صدالصدوردہلی، مولوی عبدالقادر، فیض اللہ دہلی، مولوی فیض احمدبدایونی، ڈاکٹرمولوی وزیرخاں اکبر آبادی،سیدمبارک شاہ رامپوری نے اس فتوی جہادپردستخط کیے۔55؎غلام رسول مہرنے لکھاہے کہ:’’مولانافضل حق خیرآبادی کے دہلی پہنچنے سے پیشتربھی لوگوں نے جہادکاپرچم بلندکر رکھا تھا۔ مولاناپہنچے تو مسلمانوں کو جنگ آزادی پرآمادہ کرنے کی غرض سے باقاعدہ ایک فتوی مرتب ہواجس پردہلی کے دستخط کے لیے میراخیال ہے کہ یہ فتوی مولانا فضل حق ہی کے مشورے سے تیارہوا تھا اور انھوں نے علماکے نام تجویزکیے جن پر دستخط لیے گئے۔‘‘ 56؎اس فتوے پرمذکوہ28علمائے کرام کے دستخط اورمہریںشائع ہوئی تھیں۔ ’صادق الاخبار‘کی ان خبروں اور سرگرمیوں سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ اس نے 1857کی جنگ آزادی میں کھل کرمجاہدین کا ساتھ دیا۔ جس نے جنگ آزادی کے لیے مذہبی جوش و ولولہ پیدا کیا اور بہت سے لوگ اس کی وجہ سے جنگ آزادی میں شامل ہوئے۔دہلی میں بغاوت کے جوشعلے بھڑکے تھے انہوں نے پورے ملک کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔پہلے وہ دہلی کے آس پاس کے ضلعوںمیں پھیلی۔سردھنہ اورباغپت میں 11اور12مئی کوبغاوتیں ہوئیں۔ رڑکی 13مئی کوآزاد کرا لیا گیااور26مئی کوبلند شہر میں ایک مغل گورنرمقررکیاگیا۔مظفرنگرمیں14مئی کو علی گڑھ میں20مئی کواورسہارن پور میں 30جون کوبغاوتیں پھوٹ پڑیں۔ اس طرح صوبے کی زیادہ ترمغربی کمشنریوںمیں شورش پھیل گئی۔روہیل کھنڈ میں بغاوت مئی میں شروع ہوئی اورخان بہادرنے 31مئی کو انتظام سنبھال لیا۔بریلی کے بعدرام پور، مرادآباد، امروہہ، بجنور،بدایوں اورشاہجہاںپور میں بغاوتیں ہوئیں۔فرخ آباد میں سپاہیوں نے نواب تفضل حسین خاںکی اطاعت قبول کرلی اورفتح گڈھ اور سیتاپور بھی ان کے زیرنگیں آگئے۔57؎مذکورہ اخبارنے ’اخبارمقامات مختلفہ‘ کے عنوان سے لکھنؤاوراس کے نواح میںرونماہونے والے جنگی واقعات کانقشہ یوںکھینچاہےزبانی معتبرآنے والوںپورب کے منکشف ہواکہ بنارس میںوہاںکے راجہ کاانتظام دوربہ خوبی ہو گیا اور کانپور میں نواب محمد علی خاں بہادر عرف ننھے نواب نے دو پلٹنوں تلنگان سے اپنا بندوبست کرلیا اور سپاہ سے وعدہ کیاہے کہ ہم بعدنظم دہلی کوبرائے شرف ملازمت حضوراقدس چلیں گے۔اورالہ آبادمیںجب سے انگریزمارے گئے کوئی حاکم مقررنہیں ہوا کہتے ہیں کہ مقامات مذکورہ بالا میں کیا بلکہ تمام پورب میں دین دار لوگوں نے فرنگیوںاوراون کے زن وبچہ کو چن چن کرقتل کیا۔ اورایک انگریزنام کوباقی نہیں رکھا۔لکھنؤمیں مچھی بھون کے انگریزوںنے یہ بہانہ سنانے مژدہ لندن جمیع مدعیان سلطنت اوراعیان ریاست کوبلاکر مقید کرلیااورآپ بھی اسی میں قید ہیں۔ باہر گوروں کا پہرہ ہے۔کوئی شہرکاکالاآدمی اندرجانے نہیں پاتالیکن باشندے اودھ کوبادشاہ یہاںکا بنادیجیے۔ میرٹھ  میں کل تین سوگورہ مع چند افسران انگریزی بہ مقام دمدمہ محصورہیںکوئی متنفس شہر میں نہیں نکلتا اورکچہری دربارکاتو کیا ذکر ہے... سناگیاہے کہ اس اثنامیںدوسوگورے بہ معاونت قوم جٹ (جاٹ؟)نواب صاحب بہادر (ولی دادخاںوالیِ مالاگڈھ)سے برسرمقابلہ آئے تھے مگراقبال شاہی سے محمداسماعیل خاںبہادرسپہ سالار فوج نے ان کوشکست دی۔کہتے ہیںکہ بروقت مفروری گوروں منہ زدن میں...کئی گاؤں پھونک دیے کہ اس سے لوگوںکوبڑی تکلیف ہوئی۔ آگرہ میں گورہ اورفرنگی اورکرسٹان قلعہ کے اندرگھرے ہوئے ہیں... پلول اور ہوڈل اور کوسی میں راجہ جے پور اور راجہ جیندہ اور دیگر راجہ ونوابوںکی سپاہ زیرحکم چندافسران انگلشیہ پڑی ہوئی ہے۔مگراون لوگوں کا قوم ہے کہ ملک کاہم بندوست بہ خوبی کردیں گے لیک لڑائی میںدین کا ساتھ دیں گے اور یہی کلام اورارادہ تمام افواج کا اور تمام امرا ورؤساکاہے۔‘‘58؎1857کی جنگ آزادی صرف دہلی ہی میں نہیں بلکہ ہندوستان کے ہرگوشے میں لڑی گئی۔ آگرہ میں مجاہدوں نے جس بہادری اورجواںمری کاثبوت دیااورغلامی کی لعنت کے خلاف جدوجہدکی اس کا ذکر صادق الاخبار میں ملتا ہے۔اس وقت آگرہ کمشنری آگرہ،متھرا، مین پوری اور اٹاوہ کے اضلاع پر مشتمل تھی۔ آگرہ صوبے کاصدرمقام تھااور لفٹنٹ گورنروہاںرہتاتھا۔یہ علاقے عیسائی پادریوں کے مرکز تھے۔ یہاںکے اسکول ہندوستانی بچوں کو عیسائیت کے سانچے میں ڈھالنے کافریضـآہستہ آہستہ انجام دیے جا رہے تھے۔ اس کے ردعمل میں ہندوستانی اورخصوصاً مسلمان علما پادریوں سے مناظرے اور عیسائیت کا ردعمل کرنے میں ہمہ تن منہک تھے۔ مولانااحمداللہ شاہ نے یہاں دورے کیے اور تقریریں کیںجس سے نہ صرف مذہبی رجحان پیداہوابلکہ غلامی کااحساس بھی بیدارہوا۔ مولاناکی آمد کی بدولت کچھ عر صہ پہلے ایک ہنگامہ بھی ہوچکاتھاجسے بغاوت کاپیش خیمہ سمجھناچاہیے۔ 59؎دہلی سے بغاوت کی خبرآنے کے فوراًبعدآگرہ میں بھی طوفان کے آثارنظرآنے لگے۔ علی گڑھ اور بلند شہر کے واقعات نے 23مئی کومین پوری میں اور20مئی کواٹاوہ میں بغاوت شروع کردی اور جلدہی باغیوںکاآگرے پر قبضہ ہوگیا۔بھرت پورکی فوج نے جولائی کے شروع میں بغاوت کردی۔ باغیوں نے آگرے کے قریب ساسیاہ کے مقام پر انگریزی فوجوںکوشکست دی اورلفٹنٹ گورنراورآگرے میں رہنے والے قلعے میں پناہ لی۔60؎5جولائی کونیمچ اورنصیرآباد کے باغی دستے آگرہ پہنچے، موضع شاہ گنج پر انگریزی فوج سے مقابلہ ہوا۔ ایک طرف الورکی سپاہ اور دوسری طرف انقلابی دستے نے اچانک حملے کیے جس سے انگریزی فوج کے پاؤں اکھڑگئے۔انقلابیوں نے پیچھا گھیرا اورگورے بمشکل تمام بھاگ کر قلعے میںواپس پہنچے۔عوام نے یہ خبرپاتے ہی انگریزوں کے بنگلوں اورسرکاری دفتروں میںآگ لگادی، باغی فوجیںایک دودن ٹھہرکرمتھرا کے راستے سے دہلی روانہ ہوگئیں۔ متھراپرسیٹھ لکھمی چندنے کل فوج کی دعوت کی اورتین لاکھ روپیہ دیا۔61؎صادق الاخبار میں ’خبرآگرہ ‘عنوان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے’’خبرآگرہزبانی ایک معتبرقاصدآگرہ کے مدرک ہواکہ کمبونیمچہ کاکوچ کرتاہوامقام پہرے میں گوروںسے مقابل ہوا،دیرتک لڑائی ہوتی رہی۔انجام کاربعدمقاتلہ بسیار انگریز شکست کھاکر آگرہ میں جاچھپے اور کمپونے ان کاتعاقب کیا۔ یہاںتک کہ قتل کرتا ہوا شہر میں داخل ہوا۔چھاؤنی اور تمام کوٹھیاں انگریزی پھونک دیں، ہزاروں روپے کامال اوراسباب لوٹااورسامنے سے جو انگریز نظرپڑامارڈالااور محبس خانہ میں قیدی آزادکردیے یہ حال دیکھ کرانگریز اور کچھ گورے اورکرسٹان قلعہ میں پھاٹک بند کرکے محصور ہوگئے اور جو باہر رہا اس کو رعایانے سنگوالیا۔ اس وقت کمپو مذکور نے کوتوالی اورتھانہ شاہی بٹھادیا اور دکانداروں میں سے کسی کولٹنے نہ دیا اورچونکہ اس کمپوکے پاس خزانہ اوررسدواتواپ قلعہ شکن نہ تھیں اس لیے متھرا میں آکر قیام کیا اور لکھمی چندسیٹھ سے پانچ لاکھ روپے کاپیغام ڈالا۔کہتے ہیں سیٹھ نے بعدمعذرت بسیار سوالاکھ روپیہ فوج کے حوالہ کردیا۔اب کمپو مذکور وہیں پڑا ہواراہ جواب عرضی دیکھ رہاہے۔غالب ہے کہ چندروز میں وہ لشکرداخل دہلی ہو،کیونکہ پیشی گاہ حضرت ظل سبحانی سے شقہ درباب طلب ان کے جاری ہواہے۔آگرہ میں اب انگریزوں نے بہ مخبری رعایااکثرلوگوںکوپھانسی دینی اورگولی مارنا شروع کر دی ہے گویا میرٹھ کاساحال ہورہاہے اورمسجدجامع آگرہ کوغضب میں آکر شہیدکر ڈالا، اور چاہا تھاکہ روضہ تاج بی بی کوبھی توڑ پھوڑ ڈالیں لیکن رعایاکواس کے عوض مستعدجنگ پاکرخاموش ہورہے اور تجاران دہلی سے انھوں نے کہہ دیاکہ یہاں سے نکل جاؤچنانچہ کئی سوداگریہاں چلے آئے ہیں۔‘‘ 62؎الٰہ آبادمیں8جون کی رات کوسپاہیوںاورعوام نے مل کرانگریزی فوج پرحملہ کردیا۔ انگریزوں نے قلعے میں پناہ لیاجہاںسکھ سپاہی ان کی حفاظت کررہے تھے۔انقلابیوںنے جن کی رہنمائی رام چندر کر رہے تھے۔مولوی لیاقت علی کواپنالیڈرچن لیا۔ ہندو اور مسلمان متحد ہوکر مولوی لیاقت علی کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔مولوی صاحب نے سپاہیوں کومنظم کرنے کے فوری بعد قلعے پرحملہ کردیا۔ انگریزوں نے قلعہ سے باہرنکل کرمقابلہ کیااورشکست کھاکرواپس قلعے میںچلے گئے۔اس دوران جنرل نیل بنارس کوتباہ کر کے الہ آباد کی طرف بڑھ رہاتھا۔یہ سن کرساراشہرخالی ہوگیا۔17 جون کوجنرل نیل کی فوجیں شہر میں داخل ہوگئیں۔ مولوی صاحب نے سخت مقابلہ کیا۔لیکن شہرخالی کرنے پرمجبورہوگئے اور اپنے مجاہدین کو لے کر گنگا پارکیااورناناصاحب کے پاس کانپور چلے گئے۔ انقلابیوں کے چلے جانے کے بعد جنرل نیل نے الہ آباد کو دوسرا بنارس بنادیا۔الہ آبادپرقبضے کے بعدانگریزوںنے اسے اپنافوجی ہیڈکوارٹربنالیا۔لارڈکننگ بھی کلکتہ سے وسط ہندکی بغاوت کودبانے کے لیے یہیں آگیا۔انگریزوںنے الہ آبادمیں بے شمار انسانوںکوپھانسی دی۔ بے شماردیہات نذرآتش کردیے گئے۔ایک اندازے کے مطابق تقریباًچھ ہزارانسانوںکوقتل کیاگیااور سیکڑوں عورتیں،بچے،جوان اوربوڑھے زندہ جلائے گئے۔63؎صادق الاخبارمیںمذکورہ بالا واقعات کی طرف اشارے ملتے ہیں’’خبرالہ آبادزبانی آئندپورب کے ایک اوس کے ہم وطن کودریافت ہواکہ الہ آباد میں کچھ گورے پرے سے اتر آئے اور انھوں نے میدان خالی دیکھ کرالہ آباداوراس کے قرب وجوارکوبارہ بارہ کوس تک پھونک دیااوررعایاکے ننگ وناموس پربڑی دست درازی کی اب سکنائے پورب ان کے ہاتھ سے تنک ہوکرراہ آنے بادشاہی فوج کے دیکھ رہے ہیںکہ ان کے ہمراہ ہوکرگوروںسے بدلہ اتاریں۔اور راجہ بنارس مثل راجہ پٹیالہ ان کی مددزور زور سے کرتاہے۔‘‘ 64؎لکھنؤمیں’’30تاریخ کوسپاہیوںکی بغاوت شروع ہوگئی۔شعلوں نے لکھنؤکواپنی لپیٹ میں لے لیااور جلد ہی سیتاپور (30 جون) محمدی(4جون)لکھیم پور کھیری(4جون)فیض آباد (5جون) بہرائچ (9جون)سلطان پور (9جون) گونڈا (10جون) تک پھیل گئے۔چنانچہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے اودھ میں ایک ضلع بھی ایسا نہیں تھا جو باغیوں کے قبضے میںنہ آگیاہو۔ 65؎گوکہ ’صادق الاخبار‘نے ایک طرف ملک کے اندرپھیلنے والی بے چینی،شورش اورتحریک آزادی کی جرأت مندانہ تصویرکشی کی تودوسری طرف انگریزوں کے خلاف ایران وروس کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مرعوب کن نقشہ کھینچاجس کامقصدیہاں کے لوگوںمیںاعتمادپیداکرناتھاگوکہ ’صادق الاخبار‘نے ایک طرف ملک کے اندرپھیلتی بے چینی،شورش اورتحریک آزادی کی جرأت مندانہ تصویرکشی کی تودوسری طرف انگریزوں کے خلاف ایران،روس اورچین کی ابھرتی طاقت کامرعوب کن نقشہ کھینچااورساتھ ہی ایسی خبروںکی اشاعت کو ترجیح دی،جن سے عوام الناس کے اندر انگریزوں کے خلاف لڑنے کاجذبہ بیدار ہواوراسے ایک مذہبی فریضہ سمجھیں۔Dr. Md Makhmoor Sadri(Research Associate)Department of Urdu, Faculty of ArtsDelhi University-110007Mob.: 9911685615Email.: sadrijnu@gmail.com" ن م راشد شمیم حنفی کی نظر میں: ثاقب فریدی,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/,"دنیا کے بیش تر افسانوی ادب میںمافوق الفطرت، افسانوی اور دیو مالائی عناصر ضرور پائے جاتے ہیں۔ ان کے مطالعے سے ایک طرف قوموں اور ملکوں کے تاریخی اور ثقافتی ارتقا کے مدارج سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، تودوسری طرف انسانی ذہن کے بدلتے رویوں کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے۔ واضح رہے کہ افسانوی ادب سے یہاں صرف نثر مراد نہیں ہے بلکہ افسانوی ادب میں وہ نظمیں بھی شامل ہیں جن میں قصہ اور کہانی کا وافر ذخیرہ موجود ہے، مثال کے طور پرہومر کی ایلیڈ اور اوڈیسی ہو، شیکسپیئر کے ڈرامے ہوں یامہابھارت اور رامائن ہو۔ یہ سب افسانوی ادب نثر میں نہیں بلکہ نظم کی شکل میں وجود میں آئے ہیں۔اساطیر دراصل عربی لفظ ہے جو اسطورہ کی جمع ہے۔ادب میں اسطور سے بالعموم ایسی کہانی مراد لی جاتی ہے جو حقیقی مفہوم میں پوری طرح صداقت پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس میں اشخاص و کردار اور اعمال طبیعی دنیا سے مختلف ہوتے ہیں۔ اساطیری اور نیم اساطیری کردار فوق الفطرت اور سماوی طاقتوں کا مرقع ہوتے ہیں۔ اردو میں اساطیر کے ساتھ ساتھ دیومالا کی اصطلاح بھی رائج ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے متھ(Myth)کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ماہرین فن نے اپنے اپنے انداز میں اساطیر کی تعریف پیش کی ہے۔بہرحال اساطیر ہو یا دیومالا اور متھ، معنی و مفہوم کے لحاظ سے ان میں بڑی حد تک یکسانیت ہے، اور ان کاگہرا تعلق بالعموم مذہب سے ہوتا ہے۔ مذہب سے الگ رکھ کر ہم اساطیر کی تفہیم کر ہی نہیں سکتے۔اسطوری فکر نے ہر عہد میں ادب او ردیگر فنون لطیفہ کو ایک وسیع کینوس عطا کیا۔ہومر کی ایلیڈ یا اوڈیسی ہو، دانتے کی ڈیوائن کامیڈی ہو یااقبال کا جاوید نامہ۔ ادب سے قطع نظرمائیکل اینجلوکے شاہکار ہوں یا اجنتا اور ایلورا کی گپھاؤں میں موجود فنی شاہکار، اپنے فن کے اظہار کے لیے مرکزی خیال سب کو اساطیر میں ہی نظر آئے۔ شعر و ادب کی دنیا پر بھی اساطیر کے نہ صرف بہت وسیع اور دیرپا اثرات مرتب ہوئے بلکہ آج کی سائنسی حقیقت نگاری کے عہد میں بھی تخلیق کاروں اور فنکاروں کے لیے اساطیرو دیومالا میں تخلیقی کشش برقرار ہے۔ اساطیری فکر پر مبنی ادب میں جہاں ایک طرف معنوی ابعاد پیدا ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف تلمیحات و استعارات، علامات و تمثیلات اور دیگر فنی پیرائے کے لیے نت نئے راستے ہموار ہوتے نظر آتے ہیں۔اساطیر نے شعروادب کو کس طرح گہرائی و گیرائی سے ہمکنار کیا ہے اسے اس مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ غالب کا ایک شعرہے         ؎تھیں بنات النعش گردوں دن کے پردے میں نہاںشب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہوگئیںعام طور پر غالب کے اس شعر کو محض فلکیاتی نکتے کی شاعرانہ وضاحت سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن اسے سپت رشی کے اسطوری قصے سے جوڑ دیا جائے تو شعر کی معنی آفرینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سپت رشی کا قصہ یوں ہے کہ دریا کے کنارے ایک تپسوی ریاضت میں منہمک تھا۔ اسی اثنا میں سات شہزادیاں دریا پر نہانے کے لیے پہنچیں۔ ان کے شوروغل سے رشی کی تپسیا بھنگ ہوگئی اور شہزادیوں کے برہنہ جسم پر نظر پڑنے کی وجہ سے اس کی تپسیا بھی اکارت ہوگئی جس کی وجہ سے اس نے تمام شہزادیوں کو بددعا دے دی اور وہ آسمان میں پہنچ کربنات النعش کی صورت میں چمکنے لگیں۔ اب اگر غالب کے اس شعر کو پڑھتے ہوئے سپت رشیوں کا یہ قصہ مد نظر رہے تو بنات النعش اور عریانیت دونوں کا ایک الگ ہی مفہوم نظر آتا ہے۔1اسطوری لفظیات کے استعمال کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ایک تہذیب و ثقافت میں موجود اسطوری کردار کو پڑھتے ہوئے دیگر ثقافتوں میں موجود ویسے ہی کردار کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے اور ان میں مماثلت یا مطابقت کو تلاش کرتے ہوئے ایک قاری کا ذہن بیک وقت فن پارے کی قرأت اور تخلیق دونوں کی مسرت سے ہمکنار ہوتا ہے۔بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اردو نظم کی دنیا میں دو ایسے شعرامنظر عام پر آئے جنھوں نے اردو نظم کی دنیا کو ایک بالکل ہی نئے، منفر اور انوکھے تجربے سے آشنا کیا۔جنس سے متعلق فرائڈ کے نظریات اور فرد کی سماج پر بالادستی نیز انفرادیت کو اجتماعیت پرفوقیت، یہ ایسے انقلابی تصورات تھے جنھوں نے نظریاتی سطح پر اردو ادب میں اپنی جگہ بنائی۔ نظریات کی اس تبدیلی کے باعث اظہار کے طریقوں میںبھی تبدیلی ناگزیر تھی۔ میراجی اور راشد یہ دو ایسے شعرا تھے جن کے اثرات اردو نظم کی دنیا میں بہت گہرے اور دیرپا ثابت ہوئے۔یہ وہ عہد تھا جب ایک طرف میراجی نے اپنے افکار و خیالات کے اظہار کے لیے ہندو دیومالا میں بے پناہ کشش محسوس کی اور دانستہ اپنی زبان کے ڈانڈے ہندی سے ملائے اور فارسی کو بتدریج کم کرنے کی طرف مائل ہوئے، وہیں راشدکا مزاج یکسر مختلف تھا۔ انھیں صحرا اور عجم کی وسعتوں میں تخلیقی کشش نظر آئی لہٰذا انھوں نے فارسی کے الفاظ و تراکیب کابیش ازبیش استعمال کیا۔ن  م راشد کا نام آتے ہی جو پہلی نظم ذہن کے پردے پر جھلملاتی ہے وہ ہے ’سبا ویراں۔‘ یہ راشد کی ایک ایسی نظم ہے جس کی شمولیت کے بغیر جدید نظم کا کوئی بھی انتخاب مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ راشد کی مشہور ترین نظموں میں دیگر نظمیں اسرافیل کی موت، حسن کوزہ گر اور ’اندھا کباڑیـ‘ وغیرہ ہیں۔ ’اندھا کباڑی ‘سے قطع نظر مذکورہ دو نظمیںاپنے اساطیری ماحول، اپنے معرب ومفرس لہجے کی بلندوبالا گونج اور اپنے کہانی پن کے باعث ہماری یادداشت کا ایک مستقل حصہ بن چکی ہیں۔راشد نے اپنی شاعری میں روایات، اساطیر، قصص اور تلمیحات بطور خاص عرب اور اسرائیلی اساطیرکو اپنے شعری تجربے کی ترسیل کے لیے بہت خوبی سے استعمال کیا ہے۔تبسم کاشمیری لکھتے ہیں’’راشد کی شاعری میں اساطیری شہروں کی ایک دنیا آباد ہے ‘‘2راشد کی شعری زبان اور ان کی علامتی تہ داری ایک ایسی فضا کی حامل تھی جو اردو نظم کے لیے نامانوس تھی۔ اس لیے ان کا پہلا شعری مجموعہ ’ماورا‘ ابتدا میںایک رائیگاں عمل معلوم ہوا۔قاری کو ان نظموں کی لسانی فضا انتہائی نامانوس معلوم ہوئی۔چوں کہ ہماری قدیم حکایتیں، اکثر لوک کتھائیں اور بیش تر الف لیلوی قصے بہت ہی سیدھے سادے انداز میں شروع ہوتے تھے مثلاً ’ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ وغیرہ اور ہمارا قاری اسی انداز بیاں کا عادی تھا۔ایسا نہیں ہے کہ راشد سے قبل اردو نظم میں اسلامی اساطیر، روایات اور تہذیب و ثقافت کا استعمال نہیں ہوا تھا۔ اقبال کی مثال سامنے کی ہے بلکہ اس عہد کی فضا میں اقبال کی پرشکوہ آواز گونج رہی تھی۔ لیکن اقبال اور راشد کے پیرایہ اظہار میں ایک واضح فرق ہے۔ اقبال کے یہاں ماضی کے تعلق سے ایک تفاخر اور اپنی روایت کے تعلق سے ایک قلبی لگاؤ تھا اور بیان کی سطح پر واقعات کی ازسرنو تشکیل نہیں کی گئی تھی، جب کہ راشد کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ان کے یہاں عرب اور اسرائیلی اساطیر بالکل نئے اور نامانوس صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ راشد کے یہاں اساطیر سے استفادے کی نوعیت تلمیحی کے ساتھ ساتھ علامتی بھی ہے،جب کہ راشد سے قبل کی شاعری میں اس کی نوعیت صرف تلمیحی تھی،یعنی اس کردار سے وابستہ قصے سے واقفیت اس نظم یا فن پارے کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتی تھی،جب کہ راشد نے علامتی انداز میں استعمال کرتے ہوئے قصے کے صرف کرداروں کے نام لیے اور ان سے وابستہ تصورات میں یکسر تبدیلی کردی جس سے ان کی تفہیم نسبتاً مشکل ہوگئی۔ اس بات کو زیادہ بہتر طریقے سے واضح کرنے کے لیے راشد کی اسی نظم کی بات کرتے ہیں جس کا عنوان ’سبا ویراں‘ ہے۔ ’سبا ویراںـــ‘ میںموجود کردار اسلامی اور اسرائیلی روایات کے مطابق ایک ایسے بادشاہ کا کردار ہے جس کی حکومت بحروبر، جن و انس، چرندوپرند یہاں تک کہ ہواؤں پر بھی ہے۔’ سبا‘ سے اس کا تعلق یہ ہے کہ وہاں ’بلقیس‘ رہتی ہے جواسرائیلی روایات کے مطابق اس بادشاہ کی بیوی ہے۔’سلیمان‘ کے تعلق سے یہ قصہ ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ ہے۔ اب راشد کی نظم میں بیان کردہ  ’سلیمان‘ کو ملاحظہ فرمائیے        ؎سلیماں سر بہ زانواور سبا ویراںسبا ویراں، سبا آسیب کا مسکنسبا آلام کا انبار بے پایاںگیاہ و سبزہ و گل سے جہاں خالیہوائیں تشنۂ باراںطیور اس دشت کے منقار زیر پرتو سرمہ در گلو انساںسلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں!3’سلیماں‘ اور ’سبا ‘دو ایسی تاریخی علامتیں ہیں جن کے ساتھ عظمت و شوکت کا تصور وابستہ ہے۔ لیکن راشد نے ان علامتوں کو زوال، بے بسی اور تباہی کا منظر نامہ بنایا ہے۔ نظم کے آغاز میں ’سلیماں‘ کی پرشکوہ ہستی سے وابستہ ہمارا تصور مجروح ہوجاتا ہے اور ہم اچانک ’سلیماں‘ کو بے بسی اور کسمپرسی کی انتہاؤں پر دیکھتے ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ شان و شوکت اور سطوت کی یہ علامت اس بدترین حالت کو کیسے پہنچی۔’سبا‘ کا علاقہ جو خوشحالی اور زرخیزی کا دوسرا نام تھا وہ ویران ہی نہیں بلکہ آسیب کا مسکن بن چکا ہے۔ دنیا نباتات سے محروم ہے نہ سبزہ ہے نہ پھول اور نہ گھاس اور یہ سب کچھ ہو بھی تو کیسے کہ ہواؤں میں پانی ہی نہیں۔ گویا ایک آفاقی خشک سالی کا منظرہے۔نظم کے آخری حصے پر پہنچنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تباہی اور زوال کا سبب وہ غارت گر ہے جس کے اثرات ابھی تک اس زمین پر ہیں۔ چونکہ یہ نظم راشد کے مجموعے  ایران میں اجنبی میں شامل ہے اور اس کا پس منظر جنگ عظیم دوم کے بعد کا ایران ہے جو سیاسی و ملکی انحطاط کے سبب غیر ملکی استعماریت کا شکار ہوگیا تھا۔ لہٰذا ’غارت گر‘ یہاں نو آبادیاتی طاقت کی علامت ہے جس نے ایران کو لوٹ کر برباد کردیا تھا۔’ سبا ویراں‘ ایک ایسے انسانی منطقے کی علامت بنائی گئی ہے جو آلام و آسیب کا شکار ہے، جہاں بالیدگی اور نمو پذیری اپنی قوت کھوچکی ہے۔ انسان سے اس کی آزادی سلب کر لی گئی ہے اور پورے ماحول پر ایک غیر تخلیقی قوت غالب آگئی ہے جس کی وجہ سے عمل تخلیق معدوم ہوگیا ہے لہٰذا سب کچھ اگربنجر اور ویران ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ راشد کی اس نظم پر گفتگو کرتے ہوئے طارق ہاشمی لکھتے ہیں’’نظم کی فضا ایلیٹ کے اسلوب شعر سے بہت مماثل ہے۔ نظم پڑھ کر ان کی نظم 'Gerontion' اور 'The Waste Land' کے بعض مصرعے بھی یاد آتے ہیں۔ ‘‘4راشد کے عہد میں بھی لوگوں نے ان کی تخلیقات میں خاصا ابہام محسوس کیا اور اب بھی جدید نظمیں مبہم اور مشکل ترین سمجھی جاتی ہیں۔ جدید نظموں کی تفہیم کے سلسلے میں درپیش مشکلات کے دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ زیادہ تر علامتیں قدیم دیومالائی کہانیوں، لوک کتھاؤں یا تاریخی حوالوں سے وارد ہونے کے باوجود کچھ الگ ہیں۔نیا ادب اگرچہ پرانی علامتوں کے سہارے چل رہا ہے لیکن ایک نئے انداز میں۔ انتظار حسین کا زرد کتا ہو یا آخری آدمی، انور سجاد کا پرومیتھس، سسی فس ہو یا سنڈریلا تاریخی یا نیم تاریخی اور اساطیری حوالوں سے درآنے والے ان کرداروں کو سمجھنے میں قاری کو مشکل یوں بھی پیش آتی ہے کہ نئے ادب میں ان کا استعمال محض تلمیحی نہیں ہے۔ قاری جس ’سلیماں ‘سے روبرو ہوتا ہے وہ کروفر والا اور شان و شوکت والا بادشاہ سلیمان نہیں بلکہ راشد کا ’سلیماں‘ سر بہ زانو ہے۔ اور سبا کی ویرانی میں سلیماں کو سربہ زانو دیکھنا ایک بالکل غیر متوقع اور حیران کن تجربہ ہے۔ ادب میں اساطیر اور دیومالا کے علامتی استعمال کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل احمد خان نے ایک بہت اہم بات کہی ہےنئے ادب میں عموماً ہو ایہ ہے کہ قدیم علامتیں الٹ گئی ہیں۔ زینہ بلندی کی طرف نہیں جاتا پل راستے میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ مذہبی اور اساطیری کردار اپنی قوت کھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سلیماں سر بہ زانو ہے اور سبا ویراں۔ انسان جانور بن جاتا ہے اور بھول بھلیاں سے نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ سواریاں منزل تک نہیں پہنچتیں اور زندگی کا شجر ٹنڈ منڈ درخت بن گیا ہے۔۔۔انسان کو جانور نئے افسانہ نگاروں نے تو نہیں بنایاوہ قدیم کہانیوں ہی کا ایک مرحلہ تو ہے بھول بھلیوں میں پھنسنا بھی خود انھیں کہانیوں ہی کا ایک مرحلہ ہے۔ پل سے لڑھک جانے کا منظر وہاں بھی ہے مگر وہاں انسان گر کر سنبھل جاتا ہے اور ان عبوری مراحل سے نکل آتا ہے نئے ادب میں عموماً یہ مرحلہ مستقل بن جاتا ہے۔5نظم ’اسرافیل کی موت‘ میں راشد نے اسرافیل کے اساطیری کردار کو مختلف جہتوںاور تخلیقی رویوں کی علامت بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ نظم گذشتہ صدی کے ساتویں عشرے میں کہی گئی تھی۔ اس وقت مغربی ادب میں بالخصوصDeath of Orpheusکا بہت چرچا تھا۔ یک بیک سارے مغربی ملکوں میں اور بالخصوص ادیبوں اور دوسرے تخلیق کاروں کی دنیا میں ایک داخلی سناٹے کی کیفیت تھی۔ اس سکوت کی گونج ہمیں اس نظم میںبھی سنائی دیتی ہے۔ اسلامی اساطیر کے حوالے سے اسرافیل انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا اور بہ حکم خداوندی انھیں ایک حیات ابدی عطا کرے گا۔ راشد نے اس روایت کو اپنے تخلیقی رنگ میں الگ جہت دے دی ہے اور ہم ایک ایسے اسرافیل کو دیکھتے ہیں جو خود مرگ آشنا ہے۔ وہ ہستی جو نئی اور ابدی زندگی کا وسیلہ سمجھی جاتی ہے وہی موت سے دوچار ہو گئی۔ مرگ اسرافیل ایک ایسا کربناک حادثہ ہے جس کے صدمے سے نہ یہ کہ پوری کائنات کی حالت ابتر ہے بلکہ خالق کائنات کی آنکھیں بھی نم ہیں، کیوںکہ اسرافیل کی موت گویا آواز کی موت ہے۔ ترسیل اور اظہارکی موت ہے، چنانچہ زمان و مکاں جو آواز ہی کے رشتے سے باہم منسلک تھے اور انسان اور فطرت خداوندی میں آواز ہی سے ربط قائم تھالہٰذا مرگ اسرافیل کے باعث انسان اور خدا کے درمیان رابطہ بھی ختم ہوگیامرگ اسرافیل سےگوش شنوا کی، لب گویا کی موتچشم بینا کی، دل دانا کی موتتھی اسی کے دم سے درویشوں کی ساری ہاؤ ہواہل دل کی اہل دل سے گفتگواہل دل جو آج گوشہ گیر و سرمہ در گلواب تنانا ہو بھی غائب اور یارب ہا بھی گماب گلی کوچوں کی ہر آواز گمیہ ہمارا آخری ملجا بھی گممرگ اسرافیل سےاس جہاں کا وقت جیسے سوگیا، پتھرا گیاجیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیاایسی تنہائی کہ حسن تام یاد آتا نہیںایسا سناٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیںمرگ اسرافیل سےدیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھیزباں بندی کے خوابجس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہواس خداوندی کے خواب! (اسرافیل کی موت)6نظم کی تعبیر مختلف ناقدین نے مختلف طریقے سے کی ہے۔ عقیل احمد صدیقی کے خیال میں اس نظم میں اسرافیل انسانی ضمیر کا استعارہ ہے اور اسرافیل کی موت بنیادی طور پر انسانی ضمیر کی موت ہے۔ یہ تصور کہ قیامت آئے گی اور اس وقت اسرافیل صور پھونکیں گے تو راشد اعلان کرتے ہیںکہ اسرافیل کی تو موت واقع ہوچکی اور اس کے خوف سے جو نظام کائنات میں رنگ و آہنگ یا سوزوگداز تھا، کب کا ختم ہوچکا۔ یہ پوری نظم زبردست طنزیہ انداز رکھتی ہے۔نظم کی ایک تعبیر یہ بھی کی گئی کہ اسرافیل انسانی تہذیب و تمدن کے تحرک اور انسانی حقوق کی حفاظت کی علامت ہے۔ یہ ایک ایسا بنیادی نقطہ ہے، جس کے گرد راشد نے تمام بنیادی انسانی تقاضے جمع کردیے ہیں۔ اسرافیل کی زندگی ان تقاضوں کی حفاظت ہے اور اسرافیل کی موت اس مقصد کی موت ہے۔ انسان کی فکری، تہذیبی اور سیاسی آزادی سلب ہونے سے دنیا انجماد کا شکار ہوگئی ہے۔ اس نظم کی علامتیں ان ایشیائی ممالک پر منطبق ہوتی ہیں جہاں آمرانہ نظام قائم ہے اور عوام بنیادی حقوق سے محروم کردیے گئے ہیں۔ نظم میں معانی کے اتنے امکانات اور فنی دبازت، اسطور کے کامیاب استعمال کی ہی مرہون منت ہے۔ راشد کی ایک اور نظم ہے ابو لہب کی شادی۔ نظم ’ابولہب کی شادی‘ میں ابولہب اجنبی زمینوں سے لعل و گوہر سمیٹتا، سالہا سال بعد جب اپنے گھر واپس آتا ہے تو لوگ اس کی یہ بات نہیں بھولتے کہ         ؎ابولہب!تو وہی ہے جس کی دلہن جب آئی، تو سر پہ ایندھنگلے میں سانپوں کے ہار لائی؟(ابولہب کی شادی)7یہ سن کر ابولہب یہ نہیں کرتا کہ لوگوں سے معافی مانگ لے بلکہ وہ اپنے عمل پر نازاں ہوتا ہے اور اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اجنبی کی طرح باقی زندگی گزار دے      ؎ابولہب ایک لمحہ ٹھٹکا، لگام تھامی، لگائی مہمیز، ابولہب کی خبر نہ آئی!8قرآن میں ابولہب اور اس کی بیوی کا ذکر دشمن اسلام کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ یہ دونوں پیغمبر اسلام کے دشمن تھے اور ہمہ وقت انھیں تکلیف پہنچانے کے درپے رہتے تھے۔ راشد نے دونوں کو ا س تاریخی مفہوم سے نکال کر نئے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ ابو لہب کے لفظ میں ’آگ اور چنگاری‘ کا لغوی مفہوم موجود ہے۔ بیوی کی صفت یہ ہے کہ اس کے سرپہ ایندھن ہے اور گلے میں سانپوں کا ہار۔ دونوں باتیں کسی کو بھی خوف زدہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ عقیل احمد صدیقی کے خیال میں ’ ’اس نظم میں ابولہب مذہبی استعارے کے طور پر مستعمل نہیں ہے بلکہ یہ ’فنکار‘ کی علامت ہے اور ’بیوی‘ اس کا ’فن‘ ہے۔ یہ فن عوام کو اس لیے پسند نہیں کہ یہ اجنبی بوباس رکھتا ہے اور ان کے لیے اچنبھے اور خوف کا باعث ہے۔ ‘‘9ابولہب کو فنکار کی علامت بنانے سے متعلق عقیل صاحب یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ ’’یہ دراصل عوام کے رویے کے خلاف ردعمل بھی ہوسکتا ہے جس طرح فرانس کے علامت نگار خود کو ’زوال پسند(ڈکیڈینس)‘ کہتے تھے گویا اسی طرح راشد نے بھی خود کو ابولہب کہا ہے۔ اس میں ایک طنز کی کیفیت ہے اور یہ طنز عوام پر ہے کہ وہ سنجیدہ شاعروں کو اپنا دشمن مانتے ہیں۔‘‘10اب کچھ ایسی نظموں کا تذکرہ جن میں اسلامی اور اسرائیلی اساطیر سے قطع نظر ان اساطیر سے استفادہ کیا گیا ہے جنھیں کسی مکانی یا ثقافتی چوکھٹے میں بندکرنا مشکل ہے۔ اسا طیر سے ماخوذ علامتوں میں راشد کی ایک علامت  ’سمندر‘ ہے۔ سمندر ادبیات اور اساطیر عالم کی ایک اہم علامت سمجھی جاتی ہے۔ہر تہذیب کے اساطیر میں سمندر ایک مخصوص اہمیت کا حامل ہے۔ چینی تہذیب کے مطابق سمندر ہی اژدہاؤں کا خصوصی مسکن اور ہر قسم کی زندگی کا سرچشمہ ہے۔ قدیم ہند کے ویدک زمانے میں پانی کو زندگی کی ماں کہا گیا۔ پانی کو لافانی بتایا گیا ہے۔اس زمین پر پانی ہی چیزوں کا آغاز اور انجام ہے، یعنی سمندر کے ساتھ موت اور ازسر نو پیدائش کا تصور پایا جاتا ہے۔ راشد کی دو نظموں ’اے سمندر‘ اور ’سمندر کی تہہ میں‘ میں سمندر تہ در تہ لاشعور کی علامت ہے، جس کی اتھاہ گہرائیوں میں نامعلوم کیا کچھ پڑا ہے،گویاماضی اور ماضی کے تجربات، اساطیر، خواب، ناتمام خواہشیں اور پرانی یادیں         ؎سمندر کی تہ میںسمندر کی سنگین تہ میںہے صندوق...صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیامیں ڈبیا...میں کتنے معانی کی صبحیںوہ صبحیں کہ جن پر رسالت کے در بنداپنی شعاعوں میں جکڑی ہوئی کتنی سہمی ہوئی!(سمندر کی تہ میں) 11ذکر جب راشد کا ہو تو ان کی محبوب ترین علامت ’آگ‘ کا تذکرہ کیے بغیر یہ ذکر مکمل نہیں ہوسکتا۔زمانہ قبل از تاریخ سے ’آگ‘ ایک مافوق الفطرت قوت کی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔ بعد ازاں دنیا کی قدیم تہذیبوں مثلاً مصر اور ویدک ہند میں آگ کو دیوتا کا مقام حاصل ہوگیا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں یہ دیوتا مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا۔ چنانچہ آریا اسے اگنی، مصری رع، یونانی اپالو اور ہیلی اوس،  رومی ولکن اور ایرانی اسے مزد کہتے تھے۔12مشرق اور مغرب کی دیومالا میں آگ سے متعلق تصورات میں حیرت انگیز یکسانیت نظر آتی ہے۔ قدیم انسان نے آگ سے جو تجربات حاصل کیے، ان میں ہمہ گیر مماثلت کا عنصر ملتا ہے مثلاً قدیم انسان کا تعلق زرعی زندگی سے تھا۔ انسان ہمیشہ سے بکثرت پیداوار کا خواہش مند رہا۔ اس ضمن میں وہ آگ کو اپنا مددگار اور دوست سمجھتا تھا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ آگ کے سحر سے اس کی فصلوں پر ہونے والے برے اثرات دور ہوسکیں گے۔ زرخیزی کے ساتھ ساتھ آگ کے ساتھ تطہیر کا تصور بھی وابستہ تھا یعنی آگ سے چھوجانے والی ہر چیز پاک، صاف اور گناہ و آلائش کی آلودگی سے مصفا ہوجاتی ہے۔ زرخیزی، افزائش اور تطہیر کے یہ تصورات پوری دنیا میں موجود رہے ہیں، اس سلسلے میں یورپ، ایشیا اور افریقہ میں فرق نہیں ہے۔ ہندو دیومالا کے مطابق ’اگنی‘ ہی ایک ایسا دیوتا ہے جس میں دیگر تمام دیوتا جذب ہوجاتے ہیں، اسی لیے اسے دیوتاؤں کا مجموعہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ راشد کی شاعری میں مختلف شعوری اور غیرشعوری تصورات کی پیش کش کے لیے آگ بار بار اپنے تلازمات کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے۔ کہیں وہ آزادی کی علامت ہے تو کہیں جذبے اور شعور کی علامت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے توکہیں اس کے تطہیری کردار کی طرف بھی اشارہ ملتا ہےآگ آزادی کا دلشادی کا نامآگ پیدائش کا، افزائش کا نامآگ کے پھولوں میں نسریں، یاسمن، سنبل، شفیق و نسترنآگ آرائش کا، زیبائش کا نامآگ وہ تقدیس دھل جاتے ہیں جس سے سب گناہآگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند اک ایسا کرمعمر کا اک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب (دل مرے صحرا نورد پیر دل)13راشد نے نہ صرف یہ کہ اساطیر کا بحسن و خوبی استعمال کیا ہے بلکہ ان کے یہاں اسطور سازی کی کامیاب کوشش بھی نظر آتی ہے۔ راشد کا حسن کوزہ گر، جہاں زاد، وزیرے چنیں اور وزیر معارف کیانی وغیرہ ایسے ہی کردار ہیں جو دیومالائی کردار محسوس ہوتے ہیں۔ حسن کوزہ گر شعریت کے اعتبار سے ان کی نظموں میں ایک مختلف رنگ یعنی ایک وجدانی طرز احساس کی حامل علامت نظم بن جاتا ہے،جہاں بغداد کے اساطیری حوالوں سے راشد نے ایک نیا اسطورتشکیل دینے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ الف لیلوی علامتیں بغداد کی گلیوں اور دروازوں سے ابھرتی ہیں اور قاری خود کو ایک دیومالائی دنیا میں سانس لیتا ہوا محسوس کرتا ہے۔نظم میں جہاں زاد کا کردار ’دنیازاد‘ کے کردار سے ماخوذ ہے۔ حسن کوزہ گر کا کردار راشد نے ایک سیریز کے تحت چار نظموں میں پیش کیا ہے۔ یہ چاروں نظمیں مل کر ایک کل کی تشکیل کرتی ہیں اور جزوی طور پر اپنا اپنا مکمل مفہوم بھی رکھتی ہیں۔اس کی معنوی توضیح اور کرداروں کی توضیح مختلف سطحوں پرکی جاسکتی ہے، کیونکہ راشد نے اس نظم میں محض افسانے یا کردار کی تخلیق پر ہی توجہ مرکوز نہیں رکھی بلکہ عہد جدید کے بعض فکری عناصر بھی سموئے ہیںخصوصاً وقت کا مسئلہ اور زمان و مکاں کے مباحث اس نظم کے مصرعوں میں بار بار آئے ہیں۔ راشد چاہتے تو اسے جنوبی ایشیا کے کسی مقام سے شروع کرسکتے تھے یا کسی ایرانی شہر مثلاً تہران، مشہد اورقزوین وغیرہ سے کیونکہ یہ دیار و امصار راشد کے براہ راست تجربے کا حصہ تھے، لیکن ان کا تخلیقی حوالہ بغداد اور دجلہ کی سرزمین ہے۔ اس سرزمین کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ یہ خطہ ماضی کے آثار قدیمہ اور داستانوں کا ایک کثیر ذخیرہ رکھتا ہے اور راشد نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک اسطورکی تشکیل کی کوشش کی ہے۔ وہ حسن اور جہاں زاد کے رومانس کے اولیں منظروں کے لیے دجلہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ دجلہ وہ الف لیلوی دریا ہے جس کے نام کے ساتھ ہزار راتوں کی داستانیں منسوب ہیں۔راشد کی شاعری سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیر آغا لکھتے ہیں’’خارجی زندگی کے جن پہلوؤں کے خلاف راشد نے جہاد کیا، وہ زمانے کی ایک ہی کروٹ سے مٹ چکے ہیں اور یوں راشد کے جہاد کی عمومی اپیل بھی ازخود ختم ہوگئی۔‘‘14وزیر آغاکے ان الفاظ سے گزرتے ہوئے عقل حیران تھی کہ یہ ادب کے متعلق گفتگو ہے یا کسی فوجی مشن پر جانے سے متعلق۔ اہم بات یہ ہے کہ راشد کے یہاں اساطیری لہجے کی گونج اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتی ہے۔ عمومی اپیل وہ شاعری کھو دیتی ہے جس میں معانی کی ایک سے زیادہ سطحوں کے امکانات نہیں ہوتے۔ لیکن راشد کی مبہم اور علامتی شاعری کو آپ ہر زمانے کے ظلم و جبر کے خلاف اور نظریات کی فرسودگی اور ٹکراؤ میں اپنے دل کی آواز کے ہمراہ پاتے ہیں۔راشد کی بہت سی نظموں میں علامتیں، استعارے، تمثالیں اور تلازمے اگرچہ تاریخ کے خاص کرداروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں مگر یہ علامتیں زمانی اور مکانی حوالوں کے بغیر بھی اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں اور وہی کشش رکھتی ہیں۔ تبسم کاشمیری کی رائے اس سلسلے میں انتہائی معتدل ہے کہ ’’زمان و مکاں کے کسی دور میں بھی جب جمود و انحطاط کی ایسی غیر تخلیقی حالت طاری ہوجائے تو ’سبا ویراں‘ میں اس کی علامتی معنویت موجود ہوگی اور نظم کا یہی قرینہ اسے ہر زمانی حالت میں زوال کی علامت بنا سکتا ہے۔‘‘15راشد کی متعدد نظموں کے تجزیے سے اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ راشد کے یہاں نہ صرف یہ کہ عربی اور اسرائیلی روایات اور اساطیر کا گہر ااثر موجود ہے بلکہ عالمی اساطیر کے حوالے بھی ان کی شاعری میں قابل ذکر تعداد میں نظر آتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ اردو نظم کی تاریخ میں راشد کی مسلم اور منفرد حیثیت کو مستحکم کرنے میں ان کے ان اساطیری حوالوں کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔حواشیDr. Qamar JahanAsst Prof. Dept of UrduMahila P G CollegeBahraich- 271801 (UP)Mob.: 9910360096" ن م راشد شمیم حنفی کی نظر میں: ثاقب فریدی,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/12/,"دنیا کے بیش تر افسانوی ادب میںمافوق الفطرت، افسانوی اور دیو مالائی عناصر ضرور پائے جاتے ہیں۔ ان کے مطالعے سے ایک طرف قوموں اور ملکوں کے تاریخی اور ثقافتی ارتقا کے مدارج سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، تودوسری طرف انسانی ذہن کے بدلتے رویوں کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے۔ واضح رہے کہ افسانوی ادب سے یہاں صرف نثر مراد نہیں ہے بلکہ افسانوی ادب میں وہ نظمیں بھی شامل ہیں جن میں قصہ اور کہانی کا وافر ذخیرہ موجود ہے، مثال کے طور پرہومر کی ایلیڈ اور اوڈیسی ہو، شیکسپیئر کے ڈرامے ہوں یامہابھارت اور رامائن ہو۔ یہ سب افسانوی ادب نثر میں نہیں بلکہ نظم کی شکل میں وجود میں آئے ہیں۔اساطیر دراصل عربی لفظ ہے جو اسطورہ کی جمع ہے۔ادب میں اسطور سے بالعموم ایسی کہانی مراد لی جاتی ہے جو حقیقی مفہوم میں پوری طرح صداقت پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس میں اشخاص و کردار اور اعمال طبیعی دنیا سے مختلف ہوتے ہیں۔ اساطیری اور نیم اساطیری کردار فوق الفطرت اور سماوی طاقتوں کا مرقع ہوتے ہیں۔ اردو میں اساطیر کے ساتھ ساتھ دیومالا کی اصطلاح بھی رائج ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے متھ(Myth)کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ماہرین فن نے اپنے اپنے انداز میں اساطیر کی تعریف پیش کی ہے۔بہرحال اساطیر ہو یا دیومالا اور متھ، معنی و مفہوم کے لحاظ سے ان میں بڑی حد تک یکسانیت ہے، اور ان کاگہرا تعلق بالعموم مذہب سے ہوتا ہے۔ مذہب سے الگ رکھ کر ہم اساطیر کی تفہیم کر ہی نہیں سکتے۔اسطوری فکر نے ہر عہد میں ادب او ردیگر فنون لطیفہ کو ایک وسیع کینوس عطا کیا۔ہومر کی ایلیڈ یا اوڈیسی ہو، دانتے کی ڈیوائن کامیڈی ہو یااقبال کا جاوید نامہ۔ ادب سے قطع نظرمائیکل اینجلوکے شاہکار ہوں یا اجنتا اور ایلورا کی گپھاؤں میں موجود فنی شاہکار، اپنے فن کے اظہار کے لیے مرکزی خیال سب کو اساطیر میں ہی نظر آئے۔ شعر و ادب کی دنیا پر بھی اساطیر کے نہ صرف بہت وسیع اور دیرپا اثرات مرتب ہوئے بلکہ آج کی سائنسی حقیقت نگاری کے عہد میں بھی تخلیق کاروں اور فنکاروں کے لیے اساطیرو دیومالا میں تخلیقی کشش برقرار ہے۔ اساطیری فکر پر مبنی ادب میں جہاں ایک طرف معنوی ابعاد پیدا ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف تلمیحات و استعارات، علامات و تمثیلات اور دیگر فنی پیرائے کے لیے نت نئے راستے ہموار ہوتے نظر آتے ہیں۔اساطیر نے شعروادب کو کس طرح گہرائی و گیرائی سے ہمکنار کیا ہے اسے اس مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ غالب کا ایک شعرہے         ؎تھیں بنات النعش گردوں دن کے پردے میں نہاںشب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہوگئیںعام طور پر غالب کے اس شعر کو محض فلکیاتی نکتے کی شاعرانہ وضاحت سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن اسے سپت رشی کے اسطوری قصے سے جوڑ دیا جائے تو شعر کی معنی آفرینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سپت رشی کا قصہ یوں ہے کہ دریا کے کنارے ایک تپسوی ریاضت میں منہمک تھا۔ اسی اثنا میں سات شہزادیاں دریا پر نہانے کے لیے پہنچیں۔ ان کے شوروغل سے رشی کی تپسیا بھنگ ہوگئی اور شہزادیوں کے برہنہ جسم پر نظر پڑنے کی وجہ سے اس کی تپسیا بھی اکارت ہوگئی جس کی وجہ سے اس نے تمام شہزادیوں کو بددعا دے دی اور وہ آسمان میں پہنچ کربنات النعش کی صورت میں چمکنے لگیں۔ اب اگر غالب کے اس شعر کو پڑھتے ہوئے سپت رشیوں کا یہ قصہ مد نظر رہے تو بنات النعش اور عریانیت دونوں کا ایک الگ ہی مفہوم نظر آتا ہے۔1اسطوری لفظیات کے استعمال کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ایک تہذیب و ثقافت میں موجود اسطوری کردار کو پڑھتے ہوئے دیگر ثقافتوں میں موجود ویسے ہی کردار کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے اور ان میں مماثلت یا مطابقت کو تلاش کرتے ہوئے ایک قاری کا ذہن بیک وقت فن پارے کی قرأت اور تخلیق دونوں کی مسرت سے ہمکنار ہوتا ہے۔بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اردو نظم کی دنیا میں دو ایسے شعرامنظر عام پر آئے جنھوں نے اردو نظم کی دنیا کو ایک بالکل ہی نئے، منفر اور انوکھے تجربے سے آشنا کیا۔جنس سے متعلق فرائڈ کے نظریات اور فرد کی سماج پر بالادستی نیز انفرادیت کو اجتماعیت پرفوقیت، یہ ایسے انقلابی تصورات تھے جنھوں نے نظریاتی سطح پر اردو ادب میں اپنی جگہ بنائی۔ نظریات کی اس تبدیلی کے باعث اظہار کے طریقوں میںبھی تبدیلی ناگزیر تھی۔ میراجی اور راشد یہ دو ایسے شعرا تھے جن کے اثرات اردو نظم کی دنیا میں بہت گہرے اور دیرپا ثابت ہوئے۔یہ وہ عہد تھا جب ایک طرف میراجی نے اپنے افکار و خیالات کے اظہار کے لیے ہندو دیومالا میں بے پناہ کشش محسوس کی اور دانستہ اپنی زبان کے ڈانڈے ہندی سے ملائے اور فارسی کو بتدریج کم کرنے کی طرف مائل ہوئے، وہیں راشدکا مزاج یکسر مختلف تھا۔ انھیں صحرا اور عجم کی وسعتوں میں تخلیقی کشش نظر آئی لہٰذا انھوں نے فارسی کے الفاظ و تراکیب کابیش ازبیش استعمال کیا۔ن  م راشد کا نام آتے ہی جو پہلی نظم ذہن کے پردے پر جھلملاتی ہے وہ ہے ’سبا ویراں۔‘ یہ راشد کی ایک ایسی نظم ہے جس کی شمولیت کے بغیر جدید نظم کا کوئی بھی انتخاب مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ راشد کی مشہور ترین نظموں میں دیگر نظمیں اسرافیل کی موت، حسن کوزہ گر اور ’اندھا کباڑیـ‘ وغیرہ ہیں۔ ’اندھا کباڑی ‘سے قطع نظر مذکورہ دو نظمیںاپنے اساطیری ماحول، اپنے معرب ومفرس لہجے کی بلندوبالا گونج اور اپنے کہانی پن کے باعث ہماری یادداشت کا ایک مستقل حصہ بن چکی ہیں۔راشد نے اپنی شاعری میں روایات، اساطیر، قصص اور تلمیحات بطور خاص عرب اور اسرائیلی اساطیرکو اپنے شعری تجربے کی ترسیل کے لیے بہت خوبی سے استعمال کیا ہے۔تبسم کاشمیری لکھتے ہیں’’راشد کی شاعری میں اساطیری شہروں کی ایک دنیا آباد ہے ‘‘2راشد کی شعری زبان اور ان کی علامتی تہ داری ایک ایسی فضا کی حامل تھی جو اردو نظم کے لیے نامانوس تھی۔ اس لیے ان کا پہلا شعری مجموعہ ’ماورا‘ ابتدا میںایک رائیگاں عمل معلوم ہوا۔قاری کو ان نظموں کی لسانی فضا انتہائی نامانوس معلوم ہوئی۔چوں کہ ہماری قدیم حکایتیں، اکثر لوک کتھائیں اور بیش تر الف لیلوی قصے بہت ہی سیدھے سادے انداز میں شروع ہوتے تھے مثلاً ’ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ وغیرہ اور ہمارا قاری اسی انداز بیاں کا عادی تھا۔ایسا نہیں ہے کہ راشد سے قبل اردو نظم میں اسلامی اساطیر، روایات اور تہذیب و ثقافت کا استعمال نہیں ہوا تھا۔ اقبال کی مثال سامنے کی ہے بلکہ اس عہد کی فضا میں اقبال کی پرشکوہ آواز گونج رہی تھی۔ لیکن اقبال اور راشد کے پیرایہ اظہار میں ایک واضح فرق ہے۔ اقبال کے یہاں ماضی کے تعلق سے ایک تفاخر اور اپنی روایت کے تعلق سے ایک قلبی لگاؤ تھا اور بیان کی سطح پر واقعات کی ازسرنو تشکیل نہیں کی گئی تھی، جب کہ راشد کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ان کے یہاں عرب اور اسرائیلی اساطیر بالکل نئے اور نامانوس صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ راشد کے یہاں اساطیر سے استفادے کی نوعیت تلمیحی کے ساتھ ساتھ علامتی بھی ہے،جب کہ راشد سے قبل کی شاعری میں اس کی نوعیت صرف تلمیحی تھی،یعنی اس کردار سے وابستہ قصے سے واقفیت اس نظم یا فن پارے کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتی تھی،جب کہ راشد نے علامتی انداز میں استعمال کرتے ہوئے قصے کے صرف کرداروں کے نام لیے اور ان سے وابستہ تصورات میں یکسر تبدیلی کردی جس سے ان کی تفہیم نسبتاً مشکل ہوگئی۔ اس بات کو زیادہ بہتر طریقے سے واضح کرنے کے لیے راشد کی اسی نظم کی بات کرتے ہیں جس کا عنوان ’سبا ویراں‘ ہے۔ ’سبا ویراںـــ‘ میںموجود کردار اسلامی اور اسرائیلی روایات کے مطابق ایک ایسے بادشاہ کا کردار ہے جس کی حکومت بحروبر، جن و انس، چرندوپرند یہاں تک کہ ہواؤں پر بھی ہے۔’ سبا‘ سے اس کا تعلق یہ ہے کہ وہاں ’بلقیس‘ رہتی ہے جواسرائیلی روایات کے مطابق اس بادشاہ کی بیوی ہے۔’سلیمان‘ کے تعلق سے یہ قصہ ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ ہے۔ اب راشد کی نظم میں بیان کردہ  ’سلیمان‘ کو ملاحظہ فرمائیے        ؎سلیماں سر بہ زانواور سبا ویراںسبا ویراں، سبا آسیب کا مسکنسبا آلام کا انبار بے پایاںگیاہ و سبزہ و گل سے جہاں خالیہوائیں تشنۂ باراںطیور اس دشت کے منقار زیر پرتو سرمہ در گلو انساںسلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں!3’سلیماں‘ اور ’سبا ‘دو ایسی تاریخی علامتیں ہیں جن کے ساتھ عظمت و شوکت کا تصور وابستہ ہے۔ لیکن راشد نے ان علامتوں کو زوال، بے بسی اور تباہی کا منظر نامہ بنایا ہے۔ نظم کے آغاز میں ’سلیماں‘ کی پرشکوہ ہستی سے وابستہ ہمارا تصور مجروح ہوجاتا ہے اور ہم اچانک ’سلیماں‘ کو بے بسی اور کسمپرسی کی انتہاؤں پر دیکھتے ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ شان و شوکت اور سطوت کی یہ علامت اس بدترین حالت کو کیسے پہنچی۔’سبا‘ کا علاقہ جو خوشحالی اور زرخیزی کا دوسرا نام تھا وہ ویران ہی نہیں بلکہ آسیب کا مسکن بن چکا ہے۔ دنیا نباتات سے محروم ہے نہ سبزہ ہے نہ پھول اور نہ گھاس اور یہ سب کچھ ہو بھی تو کیسے کہ ہواؤں میں پانی ہی نہیں۔ گویا ایک آفاقی خشک سالی کا منظرہے۔نظم کے آخری حصے پر پہنچنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تباہی اور زوال کا سبب وہ غارت گر ہے جس کے اثرات ابھی تک اس زمین پر ہیں۔ چونکہ یہ نظم راشد کے مجموعے  ایران میں اجنبی میں شامل ہے اور اس کا پس منظر جنگ عظیم دوم کے بعد کا ایران ہے جو سیاسی و ملکی انحطاط کے سبب غیر ملکی استعماریت کا شکار ہوگیا تھا۔ لہٰذا ’غارت گر‘ یہاں نو آبادیاتی طاقت کی علامت ہے جس نے ایران کو لوٹ کر برباد کردیا تھا۔’ سبا ویراں‘ ایک ایسے انسانی منطقے کی علامت بنائی گئی ہے جو آلام و آسیب کا شکار ہے، جہاں بالیدگی اور نمو پذیری اپنی قوت کھوچکی ہے۔ انسان سے اس کی آزادی سلب کر لی گئی ہے اور پورے ماحول پر ایک غیر تخلیقی قوت غالب آگئی ہے جس کی وجہ سے عمل تخلیق معدوم ہوگیا ہے لہٰذا سب کچھ اگربنجر اور ویران ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ راشد کی اس نظم پر گفتگو کرتے ہوئے طارق ہاشمی لکھتے ہیں’’نظم کی فضا ایلیٹ کے اسلوب شعر سے بہت مماثل ہے۔ نظم پڑھ کر ان کی نظم 'Gerontion' اور 'The Waste Land' کے بعض مصرعے بھی یاد آتے ہیں۔ ‘‘4راشد کے عہد میں بھی لوگوں نے ان کی تخلیقات میں خاصا ابہام محسوس کیا اور اب بھی جدید نظمیں مبہم اور مشکل ترین سمجھی جاتی ہیں۔ جدید نظموں کی تفہیم کے سلسلے میں درپیش مشکلات کے دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ زیادہ تر علامتیں قدیم دیومالائی کہانیوں، لوک کتھاؤں یا تاریخی حوالوں سے وارد ہونے کے باوجود کچھ الگ ہیں۔نیا ادب اگرچہ پرانی علامتوں کے سہارے چل رہا ہے لیکن ایک نئے انداز میں۔ انتظار حسین کا زرد کتا ہو یا آخری آدمی، انور سجاد کا پرومیتھس، سسی فس ہو یا سنڈریلا تاریخی یا نیم تاریخی اور اساطیری حوالوں سے درآنے والے ان کرداروں کو سمجھنے میں قاری کو مشکل یوں بھی پیش آتی ہے کہ نئے ادب میں ان کا استعمال محض تلمیحی نہیں ہے۔ قاری جس ’سلیماں ‘سے روبرو ہوتا ہے وہ کروفر والا اور شان و شوکت والا بادشاہ سلیمان نہیں بلکہ راشد کا ’سلیماں‘ سر بہ زانو ہے۔ اور سبا کی ویرانی میں سلیماں کو سربہ زانو دیکھنا ایک بالکل غیر متوقع اور حیران کن تجربہ ہے۔ ادب میں اساطیر اور دیومالا کے علامتی استعمال کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل احمد خان نے ایک بہت اہم بات کہی ہےنئے ادب میں عموماً ہو ایہ ہے کہ قدیم علامتیں الٹ گئی ہیں۔ زینہ بلندی کی طرف نہیں جاتا پل راستے میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ مذہبی اور اساطیری کردار اپنی قوت کھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سلیماں سر بہ زانو ہے اور سبا ویراں۔ انسان جانور بن جاتا ہے اور بھول بھلیاں سے نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ سواریاں منزل تک نہیں پہنچتیں اور زندگی کا شجر ٹنڈ منڈ درخت بن گیا ہے۔۔۔انسان کو جانور نئے افسانہ نگاروں نے تو نہیں بنایاوہ قدیم کہانیوں ہی کا ایک مرحلہ تو ہے بھول بھلیوں میں پھنسنا بھی خود انھیں کہانیوں ہی کا ایک مرحلہ ہے۔ پل سے لڑھک جانے کا منظر وہاں بھی ہے مگر وہاں انسان گر کر سنبھل جاتا ہے اور ان عبوری مراحل سے نکل آتا ہے نئے ادب میں عموماً یہ مرحلہ مستقل بن جاتا ہے۔5نظم ’اسرافیل کی موت‘ میں راشد نے اسرافیل کے اساطیری کردار کو مختلف جہتوںاور تخلیقی رویوں کی علامت بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ نظم گذشتہ صدی کے ساتویں عشرے میں کہی گئی تھی۔ اس وقت مغربی ادب میں بالخصوصDeath of Orpheusکا بہت چرچا تھا۔ یک بیک سارے مغربی ملکوں میں اور بالخصوص ادیبوں اور دوسرے تخلیق کاروں کی دنیا میں ایک داخلی سناٹے کی کیفیت تھی۔ اس سکوت کی گونج ہمیں اس نظم میںبھی سنائی دیتی ہے۔ اسلامی اساطیر کے حوالے سے اسرافیل انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا اور بہ حکم خداوندی انھیں ایک حیات ابدی عطا کرے گا۔ راشد نے اس روایت کو اپنے تخلیقی رنگ میں الگ جہت دے دی ہے اور ہم ایک ایسے اسرافیل کو دیکھتے ہیں جو خود مرگ آشنا ہے۔ وہ ہستی جو نئی اور ابدی زندگی کا وسیلہ سمجھی جاتی ہے وہی موت سے دوچار ہو گئی۔ مرگ اسرافیل ایک ایسا کربناک حادثہ ہے جس کے صدمے سے نہ یہ کہ پوری کائنات کی حالت ابتر ہے بلکہ خالق کائنات کی آنکھیں بھی نم ہیں، کیوںکہ اسرافیل کی موت گویا آواز کی موت ہے۔ ترسیل اور اظہارکی موت ہے، چنانچہ زمان و مکاں جو آواز ہی کے رشتے سے باہم منسلک تھے اور انسان اور فطرت خداوندی میں آواز ہی سے ربط قائم تھالہٰذا مرگ اسرافیل کے باعث انسان اور خدا کے درمیان رابطہ بھی ختم ہوگیامرگ اسرافیل سےگوش شنوا کی، لب گویا کی موتچشم بینا کی، دل دانا کی موتتھی اسی کے دم سے درویشوں کی ساری ہاؤ ہواہل دل کی اہل دل سے گفتگواہل دل جو آج گوشہ گیر و سرمہ در گلواب تنانا ہو بھی غائب اور یارب ہا بھی گماب گلی کوچوں کی ہر آواز گمیہ ہمارا آخری ملجا بھی گممرگ اسرافیل سےاس جہاں کا وقت جیسے سوگیا، پتھرا گیاجیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیاایسی تنہائی کہ حسن تام یاد آتا نہیںایسا سناٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیںمرگ اسرافیل سےدیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھیزباں بندی کے خوابجس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہواس خداوندی کے خواب! (اسرافیل کی موت)6نظم کی تعبیر مختلف ناقدین نے مختلف طریقے سے کی ہے۔ عقیل احمد صدیقی کے خیال میں اس نظم میں اسرافیل انسانی ضمیر کا استعارہ ہے اور اسرافیل کی موت بنیادی طور پر انسانی ضمیر کی موت ہے۔ یہ تصور کہ قیامت آئے گی اور اس وقت اسرافیل صور پھونکیں گے تو راشد اعلان کرتے ہیںکہ اسرافیل کی تو موت واقع ہوچکی اور اس کے خوف سے جو نظام کائنات میں رنگ و آہنگ یا سوزوگداز تھا، کب کا ختم ہوچکا۔ یہ پوری نظم زبردست طنزیہ انداز رکھتی ہے۔نظم کی ایک تعبیر یہ بھی کی گئی کہ اسرافیل انسانی تہذیب و تمدن کے تحرک اور انسانی حقوق کی حفاظت کی علامت ہے۔ یہ ایک ایسا بنیادی نقطہ ہے، جس کے گرد راشد نے تمام بنیادی انسانی تقاضے جمع کردیے ہیں۔ اسرافیل کی زندگی ان تقاضوں کی حفاظت ہے اور اسرافیل کی موت اس مقصد کی موت ہے۔ انسان کی فکری، تہذیبی اور سیاسی آزادی سلب ہونے سے دنیا انجماد کا شکار ہوگئی ہے۔ اس نظم کی علامتیں ان ایشیائی ممالک پر منطبق ہوتی ہیں جہاں آمرانہ نظام قائم ہے اور عوام بنیادی حقوق سے محروم کردیے گئے ہیں۔ نظم میں معانی کے اتنے امکانات اور فنی دبازت، اسطور کے کامیاب استعمال کی ہی مرہون منت ہے۔ راشد کی ایک اور نظم ہے ابو لہب کی شادی۔ نظم ’ابولہب کی شادی‘ میں ابولہب اجنبی زمینوں سے لعل و گوہر سمیٹتا، سالہا سال بعد جب اپنے گھر واپس آتا ہے تو لوگ اس کی یہ بات نہیں بھولتے کہ         ؎ابولہب!تو وہی ہے جس کی دلہن جب آئی، تو سر پہ ایندھنگلے میں سانپوں کے ہار لائی؟(ابولہب کی شادی)7یہ سن کر ابولہب یہ نہیں کرتا کہ لوگوں سے معافی مانگ لے بلکہ وہ اپنے عمل پر نازاں ہوتا ہے اور اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اجنبی کی طرح باقی زندگی گزار دے      ؎ابولہب ایک لمحہ ٹھٹکا، لگام تھامی، لگائی مہمیز، ابولہب کی خبر نہ آئی!8قرآن میں ابولہب اور اس کی بیوی کا ذکر دشمن اسلام کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ یہ دونوں پیغمبر اسلام کے دشمن تھے اور ہمہ وقت انھیں تکلیف پہنچانے کے درپے رہتے تھے۔ راشد نے دونوں کو ا س تاریخی مفہوم سے نکال کر نئے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ ابو لہب کے لفظ میں ’آگ اور چنگاری‘ کا لغوی مفہوم موجود ہے۔ بیوی کی صفت یہ ہے کہ اس کے سرپہ ایندھن ہے اور گلے میں سانپوں کا ہار۔ دونوں باتیں کسی کو بھی خوف زدہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ عقیل احمد صدیقی کے خیال میں ’ ’اس نظم میں ابولہب مذہبی استعارے کے طور پر مستعمل نہیں ہے بلکہ یہ ’فنکار‘ کی علامت ہے اور ’بیوی‘ اس کا ’فن‘ ہے۔ یہ فن عوام کو اس لیے پسند نہیں کہ یہ اجنبی بوباس رکھتا ہے اور ان کے لیے اچنبھے اور خوف کا باعث ہے۔ ‘‘9ابولہب کو فنکار کی علامت بنانے سے متعلق عقیل صاحب یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ ’’یہ دراصل عوام کے رویے کے خلاف ردعمل بھی ہوسکتا ہے جس طرح فرانس کے علامت نگار خود کو ’زوال پسند(ڈکیڈینس)‘ کہتے تھے گویا اسی طرح راشد نے بھی خود کو ابولہب کہا ہے۔ اس میں ایک طنز کی کیفیت ہے اور یہ طنز عوام پر ہے کہ وہ سنجیدہ شاعروں کو اپنا دشمن مانتے ہیں۔‘‘10اب کچھ ایسی نظموں کا تذکرہ جن میں اسلامی اور اسرائیلی اساطیر سے قطع نظر ان اساطیر سے استفادہ کیا گیا ہے جنھیں کسی مکانی یا ثقافتی چوکھٹے میں بندکرنا مشکل ہے۔ اسا طیر سے ماخوذ علامتوں میں راشد کی ایک علامت  ’سمندر‘ ہے۔ سمندر ادبیات اور اساطیر عالم کی ایک اہم علامت سمجھی جاتی ہے۔ہر تہذیب کے اساطیر میں سمندر ایک مخصوص اہمیت کا حامل ہے۔ چینی تہذیب کے مطابق سمندر ہی اژدہاؤں کا خصوصی مسکن اور ہر قسم کی زندگی کا سرچشمہ ہے۔ قدیم ہند کے ویدک زمانے میں پانی کو زندگی کی ماں کہا گیا۔ پانی کو لافانی بتایا گیا ہے۔اس زمین پر پانی ہی چیزوں کا آغاز اور انجام ہے، یعنی سمندر کے ساتھ موت اور ازسر نو پیدائش کا تصور پایا جاتا ہے۔ راشد کی دو نظموں ’اے سمندر‘ اور ’سمندر کی تہہ میں‘ میں سمندر تہ در تہ لاشعور کی علامت ہے، جس کی اتھاہ گہرائیوں میں نامعلوم کیا کچھ پڑا ہے،گویاماضی اور ماضی کے تجربات، اساطیر، خواب، ناتمام خواہشیں اور پرانی یادیں         ؎سمندر کی تہ میںسمندر کی سنگین تہ میںہے صندوق...صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیامیں ڈبیا...میں کتنے معانی کی صبحیںوہ صبحیں کہ جن پر رسالت کے در بنداپنی شعاعوں میں جکڑی ہوئی کتنی سہمی ہوئی!(سمندر کی تہ میں) 11ذکر جب راشد کا ہو تو ان کی محبوب ترین علامت ’آگ‘ کا تذکرہ کیے بغیر یہ ذکر مکمل نہیں ہوسکتا۔زمانہ قبل از تاریخ سے ’آگ‘ ایک مافوق الفطرت قوت کی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔ بعد ازاں دنیا کی قدیم تہذیبوں مثلاً مصر اور ویدک ہند میں آگ کو دیوتا کا مقام حاصل ہوگیا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں یہ دیوتا مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا۔ چنانچہ آریا اسے اگنی، مصری رع، یونانی اپالو اور ہیلی اوس،  رومی ولکن اور ایرانی اسے مزد کہتے تھے۔12مشرق اور مغرب کی دیومالا میں آگ سے متعلق تصورات میں حیرت انگیز یکسانیت نظر آتی ہے۔ قدیم انسان نے آگ سے جو تجربات حاصل کیے، ان میں ہمہ گیر مماثلت کا عنصر ملتا ہے مثلاً قدیم انسان کا تعلق زرعی زندگی سے تھا۔ انسان ہمیشہ سے بکثرت پیداوار کا خواہش مند رہا۔ اس ضمن میں وہ آگ کو اپنا مددگار اور دوست سمجھتا تھا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ آگ کے سحر سے اس کی فصلوں پر ہونے والے برے اثرات دور ہوسکیں گے۔ زرخیزی کے ساتھ ساتھ آگ کے ساتھ تطہیر کا تصور بھی وابستہ تھا یعنی آگ سے چھوجانے والی ہر چیز پاک، صاف اور گناہ و آلائش کی آلودگی سے مصفا ہوجاتی ہے۔ زرخیزی، افزائش اور تطہیر کے یہ تصورات پوری دنیا میں موجود رہے ہیں، اس سلسلے میں یورپ، ایشیا اور افریقہ میں فرق نہیں ہے۔ ہندو دیومالا کے مطابق ’اگنی‘ ہی ایک ایسا دیوتا ہے جس میں دیگر تمام دیوتا جذب ہوجاتے ہیں، اسی لیے اسے دیوتاؤں کا مجموعہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ راشد کی شاعری میں مختلف شعوری اور غیرشعوری تصورات کی پیش کش کے لیے آگ بار بار اپنے تلازمات کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے۔ کہیں وہ آزادی کی علامت ہے تو کہیں جذبے اور شعور کی علامت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے توکہیں اس کے تطہیری کردار کی طرف بھی اشارہ ملتا ہےآگ آزادی کا دلشادی کا نامآگ پیدائش کا، افزائش کا نامآگ کے پھولوں میں نسریں، یاسمن، سنبل، شفیق و نسترنآگ آرائش کا، زیبائش کا نامآگ وہ تقدیس دھل جاتے ہیں جس سے سب گناہآگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند اک ایسا کرمعمر کا اک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب (دل مرے صحرا نورد پیر دل)13راشد نے نہ صرف یہ کہ اساطیر کا بحسن و خوبی استعمال کیا ہے بلکہ ان کے یہاں اسطور سازی کی کامیاب کوشش بھی نظر آتی ہے۔ راشد کا حسن کوزہ گر، جہاں زاد، وزیرے چنیں اور وزیر معارف کیانی وغیرہ ایسے ہی کردار ہیں جو دیومالائی کردار محسوس ہوتے ہیں۔ حسن کوزہ گر شعریت کے اعتبار سے ان کی نظموں میں ایک مختلف رنگ یعنی ایک وجدانی طرز احساس کی حامل علامت نظم بن جاتا ہے،جہاں بغداد کے اساطیری حوالوں سے راشد نے ایک نیا اسطورتشکیل دینے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ الف لیلوی علامتیں بغداد کی گلیوں اور دروازوں سے ابھرتی ہیں اور قاری خود کو ایک دیومالائی دنیا میں سانس لیتا ہوا محسوس کرتا ہے۔نظم میں جہاں زاد کا کردار ’دنیازاد‘ کے کردار سے ماخوذ ہے۔ حسن کوزہ گر کا کردار راشد نے ایک سیریز کے تحت چار نظموں میں پیش کیا ہے۔ یہ چاروں نظمیں مل کر ایک کل کی تشکیل کرتی ہیں اور جزوی طور پر اپنا اپنا مکمل مفہوم بھی رکھتی ہیں۔اس کی معنوی توضیح اور کرداروں کی توضیح مختلف سطحوں پرکی جاسکتی ہے، کیونکہ راشد نے اس نظم میں محض افسانے یا کردار کی تخلیق پر ہی توجہ مرکوز نہیں رکھی بلکہ عہد جدید کے بعض فکری عناصر بھی سموئے ہیںخصوصاً وقت کا مسئلہ اور زمان و مکاں کے مباحث اس نظم کے مصرعوں میں بار بار آئے ہیں۔ راشد چاہتے تو اسے جنوبی ایشیا کے کسی مقام سے شروع کرسکتے تھے یا کسی ایرانی شہر مثلاً تہران، مشہد اورقزوین وغیرہ سے کیونکہ یہ دیار و امصار راشد کے براہ راست تجربے کا حصہ تھے، لیکن ان کا تخلیقی حوالہ بغداد اور دجلہ کی سرزمین ہے۔ اس سرزمین کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ یہ خطہ ماضی کے آثار قدیمہ اور داستانوں کا ایک کثیر ذخیرہ رکھتا ہے اور راشد نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک اسطورکی تشکیل کی کوشش کی ہے۔ وہ حسن اور جہاں زاد کے رومانس کے اولیں منظروں کے لیے دجلہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ دجلہ وہ الف لیلوی دریا ہے جس کے نام کے ساتھ ہزار راتوں کی داستانیں منسوب ہیں۔راشد کی شاعری سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیر آغا لکھتے ہیں’’خارجی زندگی کے جن پہلوؤں کے خلاف راشد نے جہاد کیا، وہ زمانے کی ایک ہی کروٹ سے مٹ چکے ہیں اور یوں راشد کے جہاد کی عمومی اپیل بھی ازخود ختم ہوگئی۔‘‘14وزیر آغاکے ان الفاظ سے گزرتے ہوئے عقل حیران تھی کہ یہ ادب کے متعلق گفتگو ہے یا کسی فوجی مشن پر جانے سے متعلق۔ اہم بات یہ ہے کہ راشد کے یہاں اساطیری لہجے کی گونج اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتی ہے۔ عمومی اپیل وہ شاعری کھو دیتی ہے جس میں معانی کی ایک سے زیادہ سطحوں کے امکانات نہیں ہوتے۔ لیکن راشد کی مبہم اور علامتی شاعری کو آپ ہر زمانے کے ظلم و جبر کے خلاف اور نظریات کی فرسودگی اور ٹکراؤ میں اپنے دل کی آواز کے ہمراہ پاتے ہیں۔راشد کی بہت سی نظموں میں علامتیں، استعارے، تمثالیں اور تلازمے اگرچہ تاریخ کے خاص کرداروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں مگر یہ علامتیں زمانی اور مکانی حوالوں کے بغیر بھی اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں اور وہی کشش رکھتی ہیں۔ تبسم کاشمیری کی رائے اس سلسلے میں انتہائی معتدل ہے کہ ’’زمان و مکاں کے کسی دور میں بھی جب جمود و انحطاط کی ایسی غیر تخلیقی حالت طاری ہوجائے تو ’سبا ویراں‘ میں اس کی علامتی معنویت موجود ہوگی اور نظم کا یہی قرینہ اسے ہر زمانی حالت میں زوال کی علامت بنا سکتا ہے۔‘‘15راشد کی متعدد نظموں کے تجزیے سے اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ راشد کے یہاں نہ صرف یہ کہ عربی اور اسرائیلی روایات اور اساطیر کا گہر ااثر موجود ہے بلکہ عالمی اساطیر کے حوالے بھی ان کی شاعری میں قابل ذکر تعداد میں نظر آتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ اردو نظم کی تاریخ میں راشد کی مسلم اور منفرد حیثیت کو مستحکم کرنے میں ان کے ان اساطیری حوالوں کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔حواشیDr. Qamar JahanAsst Prof. Dept of UrduMahila P G CollegeBahraich- 271801 (UP)Mob.: 9910360096" نواب یوسف علی خاں ناظم کے شعری کمالات: رضیہ پروین,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/11/,"نواب یوسف علی خاں ناظم ریاست رام پور کے سربراہ بھی تھے اور کہنہ مشق شاعر بھی۔ آپ کے والد نواب محمد سعید بہادر اور والدہ فتح النسا بیگم تھیں۔ آپ 5 مارچ 1816 میںپیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم بنارس، لکھنؤ اور دہلی میں ہوئی۔ 1840 میں والد ماجد کی مسند نشینی کے ساتھ ہی آپ بھی رام پور آگئے اور 1844 میں آپ کو گورنر جنرل کی طرف سے ولی عہد ی کا خلعت پہنایا گیا۔ مسند نشینی کے وقت آپ کی عمر 39 برس تھی۔ 10 اپریل 1855 کو مسٹر الیگزینڈر ایجنٹ ریاست و کمشنر روہیل کھنڈ نے رام پور تشریف لاکر مسند نشینی کی رسم ادا کی۔ اور اس طرح آپ باقاعدہ ریاست کا کام انجام دینے لگے۔ امتیاز علی عرشی لکھتے ہیں’’آپ فنون سپہ گری میں کامل دستگاہ رکھتے تھے، جسم مضبوط اور چہرہ نہایت خوش قطع تھا۔ داڑھی صاف اور مونچھیں باریک رکھتے تھے اور اس زمانے کے رواج کے مطابق اکثر رنگین وزرتار لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ ‘‘ ( مکاتیب غالب، ص2(آپ عربی فارسی، منطق فلسفے سے خوب آگاہ تھے گفتگو بہت عمدہ کرتے تھے۔ ساتھ ہی طبیعت میں موزونیت اور سخن وری کا ذوق شروع سے ہی تھا۔ لکھنؤ میں امیر اور دہلی میں مومن، غالب اور شیفتہ جیسے بلند پایہ شعرا کی صحبت نے آپ کے ذوق شعر گوئی کو مزید جلا بخشی لیکن جب باقاعدہ شعر کہنے لگے تو مومن کی شاگردی اختیار کرلی۔ آپ صرف ایک حکمراں ہی نہیں بلکہ ایک قابل قدر اور خوش گو شاعر بھی تھے۔ اخبار الصنادید میں نجم الغنی لکھتے ہیں’’شعر کے نکتہ شناس تھے طبیعت موزوں تھی اردو شعر کہنے کا شوق تھا۔ مومن خاں دہلوی سے پہلے مشورۂ سخن تھا پھر مرزا نوشہ سے تلمذ ہوا اس کے بعد مرحوم منشی مظفر علی اسیر لکھنوی کو کلام دکھایا۔ سب سے آخر میںا میر مینائی سے بھی شعر و سخن میں مشورہ رہتا تھا۔‘‘)ذکیہ جیلانی:کلیات ناظم، ص 22,23(مومن کی صحبت کا اثر یہ ہوا کہ آپ نے متعدد غزلیں مومن کی زمین میں کہی مثلا ًغیر سے دلدار خفا ہوگیاناوکِ بیداد خطا ہوگیابڑھتا گیا جو رشک تو اخلاص کم ہواچھینا عدو نے دوست کو یہ کیا ستم ہواوفا کی ہم نے اور تم نے جفا کیتم اچھے ہم برے قدرت خدا کیغدر کی تباہی نے عوام و خواص سبھی کومتاثر کیا شعرا کچھ بنگال، کچھ حیدر آباد، پٹیالہ اور دیگر ریاستوں کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ نواب یوسف علی خاں نے غالب کو رام پور بلا لیا اور دو سو روپیہ ماہوار تنخواہ مقرر کردی۔ ذوق ہمیشہ شاگرد کی سنگ دلی کا رونا روتے رہے۔ نواب یوسف علی خاں ناظم کی خوش اخلاقی و قدردانی نے ملک کے ہر حصے سے شعرا اور با کمال حضرات کو رام پور آنے کی دعوت دی۔ مظفر علی اسیر، مولوی فضل الحق خیر آبادی، منیر شکوہ آبادی، امیر مینائی، داغ دہلوی، مومن وغیرہ باکمال اور فنکا راہل دانش رام پور کی شعری بزم کا حصہ بن گئے۔ نواب یوسف علی خاں مومن کے بعد غالب کی شاگردی اختیار کی اس وقت وہ یوسف تخلص رکھتے تھے مگر غالب کے رابطے میں آئے تو پتہ چلا کہ حسن اتفاق سے غالب کے بھی نوابان رام پور سے دیرینہ تعلق تھے جب نواب یوسف علی خاں نے فضل حق خیر آبادی کے مشورے سے 1857 میں غالب کے نام اپنے خط کے ساتھ ڈھائی سو روپیہ ’بہ تقریب شیرینی‘ اور کچھ کلام بہ غرض اصلاح ارسال کیا تو غالب نے اس کے جواب میں لکھا’’میں نہیں چاہتا کہ آپ کااسم سامی اور نام نامی تخلص رہے، ناظم، عالی، انور، شوکت، نیساں ان میں سے جو پسند آئے رہنے دیجیے مگر یہ نہیں کہ خواہی مخواہی آپ ایسا ہی کریں اگر وہی تخلص منظور ہو تو بہت مبارک زیادہ حد ادب۔تم سلامت رہو قیامت تک۔ ‘‘  (دیوان ناظم، ص نمبر(17اس طرح یوسف کے بجائے ناظم  تخلص پسند فرمایا۔ناظم نکتہ رس، ذہین اور شوخ طبیعت کے مالک تھے روایتی مضامین کو بھی اپنے فنکارانہ انداز بیان سے نئے نئے پہلوؤں کے ساتھ پیش کرنے کا ہنر خوب جانتے تھے سلاست و روانی اور شگفتگی ان کی شاعری کا خاص وصف ہے۔ آپ کی زبان اہل لکھنؤ اور اہل دہلی کی مشترکہ زبان ہے، جس میں گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کا سنگم خاص طور پر دکھائی پڑتا ہے۔کیوں کہے کوئی کہ تم نے کیا کیاکیوں نہیں کہتے کہ ہاں اچھا کیاچلے ہو دشت کو ناظم اگر ملے مجنوںذرا ہماری طرف سے بھی پیار کرلیناان اشعار میں ا ستاد غالب کا کچھ رنگ جھلکتا ہے۔ منشی ذو الفقار علی خاں گوہر  رام پوری لکھتے ہیں’’ناظم نے جس قدر استاد کے رنگ کو نبھایا ہے دوسرے میں یہ مثال نہ ملے گی۔ ہمارے سامنے ذوق، داغ، مومن ، نسیم ، شیفتہ، مظفر علی اسیر، حالی، ناسخ، آتش کے شاگرد موجو دہیں مگر مومن  و نسیم  میں البتہ یک رنگی ایک حد تک ہے لیکن ایسی نہیں ہے جیسے ناظم اور غالب میں ہے۔ مومن  اور شیفتہ  میں بھی اس قدر مشابہت نہیں ہے۔ ‘‘اس طرح ناظم  کا کلام فطری اعتبار سے تو مومن کے قریب ہے مگر زبان و بیان کے لحاظ سے دیکھیں تو غالب کا رنگ نمایاں ہے۔ہے لڑائی اب تو آؤ سامنےصلح میں ہم سے بہت پردا کیامیں نے جل کر بات کرنی چھوڑ دیاس نے چپ رہنے کا بھی چرچا کیاناظم کی شاعری کا انفرادی رنگ اس کی شوخی و بانکپن اور معاملہ بندی ہے۔ جہاں ہجر و وصال کی تڑپ، ناز برداری کی چاہت، حسن و عشق کے معاملات لطف زبان کی مہک مکمل طور پر کلام کو پر کشش بناتی ہے۔ انھوں نے کہیں بھی اپنی انفرادیت کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ ان کی شخصیت ہر رنگ میں اپنی جلوہ نمائی کرتی ہے۔ ناظم نے جہاں کہیں بھی رعایت لفظی سے کام لیا ہے اس کا پاس و لحاظ بھی بخوبی رکھا ہے اور یہی خصوصیت ان کے کلام کو رونق بخشتی ہے        ؎بوسہ عارض مجھے دیتے ہوئے ڈرتا ہے کیوںلوں گا کیا نوکِ زباں سے تیرے رخ کا، تل اٹھاکہتے ہو سب کہ تجھ سے خفا ہوگیا ہے یاریہ بھی کوئی بتاؤ کہ کس بات پر ہوارعایت الفاظ نے ان اشعار کو نہایت خوبصورت بنا دیا ہے جس سے شوخی و بانکپن اور عاشقی کی چاشنی ہمارے احساسات کو مہکا رہی ہے۔جب گزرتی ہے شبِ ہجر، جی اٹھتا ہوںعہدہ خورشید نے پایا ہے، مسیحائی کاشبستاں میں رہو، باغوں میں کھیلو مجھ سے کیوں پوچھوکہ راتیں کس طرح کٹتی ہیں دن کیسے گزرتے ہیںناظم کے کلام میں مومن کی طرح تمام شعری لوازمات جیسے طنزیہ انداز، نوک جھونک اور مکر شاعرانہ جیسی خصوصیات بآسانی تلاش کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً دوست سے امید وفا پر کتنا زبردست طنز کرتے ہیں          ؎اس سے ہے امیدِ وفا واہ واہخیر ہے ناظم تمھیں کیا ہوگیاوفا کی ہم نے اور تم نے جفا کیتم اچھے ہم برے قدرت خدا کیہر چند وصل غیر کا انکار جھوٹ ہےکہنا پڑا لحاظ سے لیکن بجا مجھےمیں، اور چاہوں غیر کو، پر چاہتا ہوں یہپہنچے یہ چرچا کان میں ان کے کسی طرحناظم کے کلام میں اگرچہ فلسفیانہ تخیل، حکیمانہ انداز، محرومی سے پیدا شدہ گداز، تصوف کا رچا ہوا ذوق نہیں ملتا، بر خلاف ناظم کے یہاں رجائیت، انبساط، سرمستی اور رنگینی رچی بسی ملتی ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ تصوف سے ان کا کلام خالی ہے۔ جب کہیں بھی فلسفیانہ مضامین باندھتے ہیں دل پر اثر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ عشق مجازی کی ترجمان ہے            ؎کس کس کا کروں رشک کہ اس راہِ گذر میںہر ذرہ مجھے دیدۂ بینا نظر آیاآگیا دھیان میں مضمون تیری یکتائی کاآج مطلع ہوا مصرع میری تنہائی کانواب یوسف علی خاں ناظم  منطق اور فلسفہ کے ماہر تھے۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر پڑھتے تھے۔ شاعری عہد و ماحول میں پرورش و پروان چڑھتی ہے حالات و ماحول کی پروردہ ہوتی ہے۔ در اصل ناظم کے پاس اپنے ہر جذبہ و خواہش کا ساز و سامان میسر تھا یہی وجہ ہے کہ وہ جذبۂ محرومی سے نا آشنا تھے وہ سوز و گداز اور روح کو تڑپا دینے والا احساس نظر نہیں آتا جو اس دور کے شعرا میں شدت کے ساتھ نظر آتا ہے اس بات کا اعتراف وہ خود کرتے ہیں         ؎فروغ اہل سخن سوزِ غم سے ہے ناظمجلے جو نخل تو، ہیں اس کے برگ و بار چراغلیکن اس کے باوجود اکثر اشعار میں زبان و بیان کے اعتبار سے فکری بصیرت کی بازگشت سنائی دیتی ہے         ؎کم سمجھتے ہیں ہم خلد سے میخانے کودیدۂ حور کہا چاہئے پیمانے کووفا شعاری ناظم یقین نہیں، نہ سہییہ کون شخص ہے، اس کا بھی کچھ خیال نہیںافسانۂ مجنوں سے نہیں کم میرا قصہاس بات کو جانے دو کہ مشہور نہیں ہےناظم کے کلام میں جگہ جگہ ایسے اشعار بکھرے ہوئے ہیں جن سے نوابی شان و شوکت، حکومت اور سماجی برتری کے احساس کا اظہار ہوتا ہے۔ شاعر نے بار بار اپنی جاہ و حشم اور طاقت و مرتبے کا احساس دلایا ہے۔ باوجود اس کے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاعری کے لیے طبیعت کا موزوں ہونا ضروری ہے امیر و غریب کی اس میں قید نہیں         ؎غلطی غیر کی گفتار کی دیکھی ناظممیں جو جاتا ہوں تو کہتا ہے نواب آتے ہیںوہ اٹھے محفل سے ناظم مجھ کو آتا دیکھ کراور میں سمجھا کہ اٹھتے ہیں میری تعظیم کوکیونکہ ناظم ایک ریاست کے مالک تھے لہٰذا دولت کا نشہ، حکومت پسندی اور خود بلندی کی جھلک کلام میں پایا جانا غیرفطری نہیں۔ باوجود اس کے وہ مبتلائے ملک و مال نہیں         ؎قاصدوں کے انعام میں بٹ جائے نہ ملکجلد جلد میرے ناموں کے جواب آتے ہیںناظم یہ انتظام رعایت ہے نام کیمیں مبتلا نہیں ہوں ملک و مال کاناظم اپنے زمانے کی روش عام سے ہٹ کر عشق مجازی کی ڈگر پر چلے ان کا محبوب اسی دنیا کا فرد ہے جس کے ہجر میں وہ بے چین ہوجاتے ہیں لیکن جب لذت وصل کا موقع آتا ہے تاب لانا مشکل نظر آتا ہے          ؎وصل ہے عمر فزا کاش نہ ہو شادیٔ مرگحشر تک زندہ ہوں بچ جاؤں اگر آج کی راتوہی معبود ہے ناظم جو ہے محبوب اپناکام کچھ ہم نہ مسجد سے نہ بت خانہ سےناظم اپنے کلام میں نادر تشبیہات و استعارات کا استعمال بڑی نازک خیالی کے ساتھ کرتے ہیں، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی نہایت خوش اسلوبی سے پیش کرنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ جس کی بنا اکثر مضامین اچھوتے معلوم پڑتے ہیں جس سے کلام کی خوبی میں اضافہ ہوجاتا ہے      ؎رشۂ شمع فروزاں ہے میری نبض طبیبتو ہی جانے گا اگر ہاتھ لگایا تو نےنخل وفا میں دیکھیے آتا ہے کیا ثمرپیدا ہوئے ہیں گل کی جگہ اس شجر میں داغایسی بے مثل تشبیہات و استعارات کو اگر اس طرح لطیف پیرائے میں سجایا جائے تو لذتِ کلام دوبالا ہوجاتا ہے         ؎عیش کی ہجر میں بھی خو نہیں چھٹتی ناظمساغر بادۂ چراغ شبِ تنہائی ہےشجر میں داغ، عیش کی ہجر، بادۂ چراغ شبِ تنہائی کی کیا خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے جو اپنے آپ میں بے حد نرالی ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو ناظم ایک بلند پایہ شاعر ایک کامیاب حکمراں اور علم و فن کا قدر دان نظر آتے ہیں جس کی اپنی ایک الگ شناخت ہے جن کے علم و فن اور حکمت و تدبر سے انسان دوستی کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کا دامن بھی وسیع ہوا یہی وجہ ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں ’اسٹار آف انڈیا‘ کا ایک خاص آرڈر قائم ہوا تھا، جس کے تحت یکم نومبر 1861 میں الہ آباد میں ایک شاہانہ دربار منعقد کیا گیا تھا جس میںمہاراجہ گوالیار، مہاراجہ پٹیالہ، بیگم بھوپال اور نواب یوسف علی خاں بہادر ناظم کو’اسٹار آف انڈیا‘ ( ستارۂ ہند) کے تمغے سے نوازا تھا۔ رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں’’نواب صاحب نے شعرائے دہلی اور لکھنؤ کو اپنے دربار میں جمع کرکے اردو شاعری کو گنگا جمنی کردیا، یعنی ان دونوں طرزوں کو ملا کر ایک نئے طرز کی بنیاد ڈالی تھی۔‘‘)تاریخ ادب اردو، رام بابو سکسینہ، ص412(1861میں پہلی بار ان کا دیوان شائع ہوا۔ دوسرا ایڈیشن ان کی وفات کے بعد 1869 میں شائع ہوا۔ رضا لائبریری میں ان کے دیوان کے 6 قلمی نسخے موجود ہیں۔ ان میں وہ نسخہ بھی شامل ہے جن پر غالب کے قلم کی اصلاحات ہیں۔ سب سے زیادہ اہم اور خوب صورت وہ نسخہ ہے جو خود یوسف علی خاں ناظم کی حسب ہدایت تحریر کیا گیا تھا۔ یہ مرصع نسخہ ہے، لائبریری کی انتظامیہ نے اس نسخے کو من و عن شائع کیا۔سچ تو یہ ہے کہ ناظم کو خود اپنے شعری کمالات پر فخر تھا تبھی تو کہا ہے       ؎جاننا نظم میں ناظم! اسے میرا پیروکوئی مجھ سا اگر آجائے نظر میرے بعدوفات کے بعد آپ کا لقب فردوس مکاں ہوا۔Razia ParveenAssistant Professor UrduGovt. Grils P.G CollegeRampur- 244901 (UP)Mob.: 9457387505" علی گڑھ تحریک، انجمن پنجاب اور جمالیات: دانش کمال,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/10/,"علی گڑھ تحریک کے بانی سرسید احمد خان تھے، جبکہ ان کے رفقا میں مولانا حالی، مولانا شبلی، ڈپٹی نذیر احمد، محسن الملک اور آغا خان وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس تحریک نے مسلمانوں کی علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی بیدار ی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اگرچہ سرسید سے بہت سارے امور میں اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اگر اس تحریک کے اثرات کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس تحریک نے تعلیم کے میدان میں تو جو کارنامے ادا کیے سو کیے، ادبی سطح پر بھی اس تحریک نے بہت فعال کردار ادا کیا اور اردو ادب کے ایک کافی طویل دورانیے کو متاثر کیا۔ اسی تحریک کی ابتدائی شکل ہمیں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کی صورت میں نظر آتی ہے جس کا بنیادی مقصد انگریزی زبان سے اعلیٰ علمی اور سائنسی کتابوں کا ترجمہ تھا۔ یہ تراجم اس لیے بھی ضروری تھے کہ ہندوستانی ماحول میں اکثریت انگریزی زبان سے ناواقف تھی، اوربہت حد تک سرسید اور ان کے حامیوں کا یہ خیال تھا کہ موجودہ حالات میں انگریزی زبان اور اس سے متعلقہ علوم ہی ترقی کا واحد زینہ ہیں۔ چنانچہ اس سوسائٹی نے بہت ساری کتابیں شائع کیں۔ مولوی عبدالحق نے تو سوسائٹی کی جانب سے شائع شدہ کتابوں کی تعداد 40 بتائی ہے لیکن اصغر عباس کی تحقیق کے مطابق سائنٹفک سوسائٹی سے کل 15کتابیں ہی اشاعت پزیر ہوئی تھیں بہرحال اس وقت اور ماحول میں جبکہ تراجم کا کوئی خاص اہتمام نہ تھا اتنی کتابوں کا ترجمہ ہوکرشائع ہوجانا اپنے آپ میں اہمیت کا حامل ہے۔ اسی تحریک کے چلتے علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم کی بنیادرکھی گئی جو بعد میں محمڈن اے او کالج اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوگیا۔اس تحریک کے بنیادی مقاصد تو نئے علوم کا حصول، مذہب کی عقلی تفہیم، سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترویج و ترقی تھے۔ لیکن اس تحریک نے اردو ادب کو جس انداز سے متاثرکیا، اس کے اثرات بہت دیر پا ثابت ہوئے۔ چنانچہ اسی تحریک کے زیر اثر حالی نے سوانحی سلسلہ شروع کیا اور یادگار غالب، حیات سعدی اور حیات جاوید جیسی جاوداں کتابیں تصنیف ہوئیں۔ شبلی نے ہیروز آف اسلام کے منصوبے کے تحت الفاروق، المامون، النعمان اورالغزالی جیسی کتابوں کی تصنیف کا بیڑا اٹھایا۔ ڈپٹی نذیر احمدنے ناول نویسی کی طرف قدم بڑھائے اور اردو میںناول نگاری کا پہلا خاکہ پیش کیا۔ اس طرح اس تحریک نے اردو میںکئی ایک اہم اصناف کی جانب پیش رفت کو تیز کردیا۔اسی کے ساتھ ساتھ اردو نثر و نظم کی تہذیب میں بھی اس تحریک نے نمایاں کردار ادا کیا۔ سرسید اپنی ان کوششوں کے بارے میں خودکہتے ہیں’’جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اردو زبان کے علم و ادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پرچوں کے ذریعے سے کوشش کی۔ مضمون کے ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ جہاں تک ہماری کج مج زبان نے یاری دی،الفاظ کی درستی،بول چال کی صفا ئی پر کو شش کی۔ رنگینیِ عبارت سے جو تشبیہات اور استعاراتِ خیالی سے بھری ہوتی ہے اور جس کی شوکت، صِرف لفظوں ہی میں رہتی ہے اور دِل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا، پرہیز کیا۔تک بندی سے جو اس زمانے میں مقفیٰ عبارت کہلاتی تھی، ہاتھ اٹھایا۔ جہاں تک ہو سکا سادگیِ عبارت پر توجہ کی۔ اِس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو، وہ صرف مضمون کی اَدا میں ہو۔ جو اَپنے دِل میں ہو، وہی دوسرے کے دِل میں پڑے، تاکہ دِل سے نکلے اور دِل میں بیٹھے۔‘‘(ہماری خدمات)اگرچہ اردو ادب میں سادہ زبان کے استعمال کا آغاز مرزا غالب کے خطوط سے ہی ہوچکا تھا، مقفی اور مسجع نثر کی روایت ختم ہونے کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے تھے لیکن اس نظریے کو فروغ دینے اور اسے پوری طرح رائج کرنے میں سرسید کی کوششوں کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سرسید اور ان کے رفقا کے لیے سادہ نثر کو اختیار کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ انھوں نے جو بھی تخلیقات پیش کیں وہ ادب برائے ادب نہیں بلکہ افادی مقاصد کے تحت لکھی گئی تھیں۔ اس افادی مقصدکے تحت ان تخلیقات کے مخاطب ادبی طبقات تو کم کم ہی تھے، ان کا مخاطبہ عوام سے زیادہ تھا اس لیے ضروری بھی تھا کہ ایسا سادہ اور ہلکا پھلکا اسلوب اپنایا جائے جسے سمجھنے میں عوام کو کوئی دشواری نہ ہو۔اس کے بعد انجمن پنجاب کی تشکیل ہوئی اور جدید اردو نظم کی بنیاد اسی کے مناظموں سے پڑی۔ انجمن پنجاب کا خصوصی تعلق علی گڑھ تحریک سے اس لیے بھی جڑتا ہے کیونکہ سرسید کے سب سے قریبی رفقا میں خواجہ الطاف حسین حالی کا بھی شمار ہوتا ہے جو انجمن پنجاب کے زیر انتظام ان مناظموں کے انعقاد میں پیش پیش تھے۔ڈاکٹر عبادت بریلوی انجمن پنجاب کے تعلق سے رقم طراز ہیں’’اردو شاعری اس منزل سے اس وقت روشناس ہوئی جب 57 کے انقلاب کے بعد زندگی میں نئے حالات پیدا ہوئے اور ان نئے حالات کے نتیجے میں جب نیا احساس بیدار ہوا،نئے شعور نے آنکھ کھولی اور نئے معاملات و مسائل وجود میں آئے۔ایک نئی دنیا پیدا ہوئی، ایک نیا نظام قائم ہوا،ایک نئے معاشرے کی بنیاد پڑی اور ایک نئی تہذیب کی جھلکیاں نظر آنے لگیں،یہ تبدیلی ہماری زندگی کی بہت اہم تبدیلی تھی۔ چنانچہ اس نے زندگی کے ہر شعبے میںایک نیا انداز پیدا کیا۔شاعری بھی اس نئے انداز سے بچ نہ سکی۔اس کے موضوعات بدلے اور ان موضوعات کو پیش کرنے کے لیے نئے سانچے بنائے گئے۔اس تبدیلی کی جھلک سب سے پہلے انجمن پنجاب کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ان مشاعروں میں نظر آتی ہے جنھیں لاہور میں اسی مقصد سے ترتیب دیاگیاتھا اور جن میں حالی اور آزاد پیش پیش تھے۔‘‘(عبادت بریلوی،جدید شاعری، ایجوکیشنل بک ہائوس،علی گڑھ، 2005، ص11,12)انجمن پنجاب کے ان مناظموں میں موضوعاتی نظموں کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور ان میں خاص طور پر اس بات پر توجہ مرکوز رکھی گئی کہ نیچرل شاعری کو فروغ دیا جائے اور فطرت، مظاہر فطرت وغیرہ پر خصوصی طور پر نظمیں لکھی جائیں۔ چنانچہ اس ضمن میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری لکھتے ہیں’’انجمن پنجاب کے مشاعرے آزاد یا حالی کے کہنے پر شروع نہ ہوئے تھے۔وہ کسی بھی صورت میں مشاعرے کے محرک نہیں تھے۔حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے لفٹنینٹ گورنر نے مدارس کی درسی کتب کے لیے فطرت کی شاعری پر مشتمل نظمیں لکھوا کر نصاب میں شامل کرنے کے لیے ہالرائیڈ کو خصوصی ہدایات بھیجی تھیں اور ہالرائیڈ نے منصوبہ بندی کرکے آزاد اور حالی کی معاونت حاصل کی تھی۔‘‘(ڈاکٹر تبسم کاشمیری،آزاد انجمن پنجاب اور جدیدیت،مشمولہ آزاد صدی مقالات،شعبہ اردو،پنجاب یونیورسٹی،اورینٹل کالج، لاہور، 2010، ص88)کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں حالی اور آزاد نے اس سلسلے میں بھرپور کوششیں کیں، دراصل یہاں بھی وہی فکر کام کررہی تھی کہ انگریزی ادب سے استفادے کے بغیر ہم بالکل ہی کورے ہیں۔ چونکہ انگلش قوم اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تصور کی جاتی تھی لہٰذا یہ خیال عام تھا کہ تہذیبی، ثقافتی اور ادبی سطحوں پر اس قوم کی برابری کرنے کے لیے یہ لازم ہے کہ انہی کی اتباع و پیروی کی جائے۔ دوسری جانب زمینی سطح پر اس صداقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ انگلش قوم اس وقت علوم و فنون اور ادب میں ایک مخصوص بلندی پر فائز تھی اور بہت ساری قابل استفادہ چیزیں ان کے پاس موجود تھیں۔ لہٰذا ایسی صورت میں اس قوم سے استفادہ کرنا کچھ ایسا برا بھی نہ تھا۔ چنانچہ حالی و آزاد کی کوششوں سے ایک عمومی فضا بننی شروع ہوگئی۔ آزاد نے اس سلسلے میں بہت سارے لکچر دیے جن میں انھوں نے قدیم شعری جمالیات کو مکمل طور پر ترک کردینے کی سفارشیں پیش کیں۔ ان کے شعری خیالات کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے’’شعر سے وہ کلام مراد ہے جو جوش و خروش خیالات سنجیدہ سے پیدا ہوا ہے۔اوراسے قوت قدسیہ الٰہی سے ایک سلسلہ خاص ہے۔خیالات پاک جوں جوں بلند ہوتے جاتے ہیں مرتبۂ شاعری کو پہنچتے جاتے ہیں۔ابتدا میں شعر گوئی حکما اور علمائے متبحر کے کمالات میں شمار ہوتی تھی اور ان تصانیف میں اور حال کی تصانیف میں فرق بھی زمین و آسمان کا ہے۔البتہ فصاحت و بلاغت اب زیادہ ہے مگر خیالات خراب ہو گئے۔سبب اس کا سلاطین و حکام عصر کی قباحت ہے۔انھوں نے جن جن چیزوں کی قدر دانی کی۔لوگ اس میں ترقی کرتے گئے۔ ورنہ اسی نظم و شعر میں شعرا ئے اہل کمال نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں جن کی بنا فقط پند پر ہے اور ان سے ہدایت ظاہر و باطن کی حاصل ہوتی ہے۔چناچہ بعض کلام سعدی و مولوی روم و حکیم سنائی و ناصر خسرواسی قبیل سے ہیں۔‘‘(نظم آزاد،مرتبہ آغا محمد باقر، شیخ مبارک علی تاجر کتب لوہاری بازار، لاہور، 1929، ص22,23)ظاہر سی بات ہے آزاد شاعری کے افادی پہلوؤں پر خاصا زور صرف کررہے تھے، وہ معاملات حسن و عشق اور تفریح و تفنن طبع کے لیے تخلیق شعر کے قائل نظر نہیں آتے بلکہ انتہائی سختی کے ساتھ شعر کے افادی پہلوؤں کو اجاگر کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے کلام خسرو و سعدی، مولانا روم اور حکیم سنائی وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ’بعض‘ کا لاحقہ لگاکر ان کے عشقیہ کلام کو بھی نشان زد کردیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک تخلیق شعر کااصل مقصد تفریح طبع اور تسکین احساس جمال نہیں بلکہ قوم کی تعمیر و ترقی ہے۔ ظاہر سی بات ہے جب کلام میں صرف افادی پہلوؤں پر زور دیا جانے لگے گا تو ایسی صورت میں جمالیاتی پہلو کا دب جانا فطری ہے۔محمد حسین آزاد نے بذات خود ’محنت کرو، حب وطن، میری پیاری اماں‘ جیسی نظمیں تخلیق کیں۔ ان نظموں میں جمالیاتی قدروں کا وہ پیمانہ ہی نہیں ہے جس سے ہم عمومی ادب کو جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ مثال کے طور ان کی نظم حب وطن کے چند اشعار دیکھیں؎بن تیرے ملک ہند کے گھر بے چراغ ہیںجلتے عوض چراغوں کے سینوں میں داغ ہیںکب تک شب سیاہ میں عالم تباہ ہواے آفتاب ادھر بھی کرم کی نگاہ ہوعالم سے تا کہ تیرہ دلی دور ہو تماماور ہند تیرے نور سے معمور ہو مدامحب وطن اپنی جگہ ایک جمالیاتی تجربہ ضرور ہے کہ یہ انسانی فطرت میں داخل و شامل ہے، لیکن اس تجربے کا اظہار جس انداز سے کیا گیا ہے ظاہر سی بات ہے وہ کسی تصنع، تکلف اور ملمع کاری سے عاری ہے۔ یہ سادگی اور صفائی ضرور ہے لیکن اس میں قاری و سامع کو اپنی جانب کھینچنے اور ملتفت کرنے کا وہ ملکہ نہیں جس سے قاری ایک ہی نظر میں شکار ہوجائے اور کسی سحر میں گرفتار کھنچاچلا آئے۔ دوسری طرف اس طرح کے کلام میں اگرچہ سادگی پر بہت زیادہ زور دیا گیا اور لفظی صناعی سے دانستہ گریز کیا گیا لیکن اس کے باوجود مذکورہ پہلے شعر کے دوسرے مصرع میں ’’عوض چراغوں کے‘‘ کے اندر جو لفظی تعقید ہے وہ اہل نظر کی نظر سے مخفی نہیں ہے۔ اس تحریک سے جڑے ہوئے شعرا کے کلام کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ یہ سادگی بذات خود کہیں کہیں تصنع کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ یعنی وہ تراکیب و تعبیرات جو کسی مقام پر بالکل برجستہ سما سکتی تھیں، سادگی کے نام پر انھیں بھی تج دیا گیا اوریہ کلام بالکل ہی سیدھا اور سپاٹ نظر آنے لگا۔اس سے قبل مقدمہ شعر و شاعری میں مولانا الطاف حسین حالی نے بھی کلام کی سادگی کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا؛’’سادگی ایک اضافی امر ہے، وہی شعر جو ایک حکیم کی نظر میں محض سادہ اور سمپل معلوم ہوتا ہے اور جس کے معنی اس کے ذہن میں بمجرد سننے کے متبادر ہوجاتے ہیں اور جو خوبی اس میں شاعر نے رکھی ہے اس کو فورا ادراک کرلیتا ہے۔ ایک عام آدمی اس کے سمجھنے اور اس کی خوبی دریافت کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک عامیانہ شعر جس کو سن کر ایک پست خیال جاہل اچھل پڑتا ہے اور وجد کرنے لگتا ہے ایک عالی دماغ حکیم اسی کو سن کر ناک چڑھالیتا ہے اور اس کو محض ایک سخیف اور رکیک و سبک تک بندی کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔ ہمارے نزدیک ایسی سادگی جو سخافت اور رکاکت کے درجہ کو پہنچ جائے سادگی کا اطلاق کرنا گویا سادگی کا نام بدنام کرنا ہے۔ ایسے کلام کو سادہ نہیں بلکہ عامیانہ کہا جائے گا۔‘‘(مولانا الطاف حسین حالی، مقدمہ شعر و شاعری، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 2002، ص58,59)ظاہر سی بات ہے سادگی اور صفائی، سلاست و روانی، لوازم شعر اور دیگر تمام متعلقات کے لیے سارے اصول خودساختہ تھے ایسی صورت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ انجمن پنجاب کے زیر انتظام جو بھی شاعری پیش کی گئی وہ ایک مستحکم منشور کے تحت تخلیق کی گئی تھی۔ لہٰذا اس ضمن میں عمومی رجحان کا خیال رکھنا، قاری و سامع کے احساس جمال کی تشفی کا سامان فراہم کرنا وغیرہ ضروری نہیں سمجھا گیا بلکہ ایک بندھے ٹکے اصول کے تحت اپنے مقصود و مفہوم کو صرف شعری قالب میں ڈھال کر عوام کے سامنے رکھ دیا گیا۔ اسی تناظر میں اگر ہم مولانا حالی کی شاعری کا جائزہ لینے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ خود مولانا حالی اپنے شعری نظریات کی وضاحت اپنے اشعار ہی کے ذریعے کردیتے ہیں؎اے شعر! دل فریب نہ ہو تو، تو غم نہیںپر حیف تجھ پہ ہے جو نہ ہو دل گداز تویعنی حالی کے نزدیک شعر کا دل گداز ہونا لازمی اور ضروری ہے، جبکہ اس کی دل فریبی ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی اس طرح دیکھا جائے تو حالی نے فنی جمالیات کا گلا تو پہلی ہی فرصت میں گھونٹ ڈالا، نیچر پر مبنی شاعری کی بات کی جائے تو بوزان کے اور اس کے ہم نواؤں نے مظاہر فطرت کو جمالیاتی دائرے سے پہلے ہی باہر نکال رکھا تھا، یہاں صرف ایک ہی بحث باقی تھی کہ مظاہر فطرت کی ادبی یا شعری عکاسی میں چونکہ ادیب و شاعر کا شعور شامل ہوجاتا ہے اس لیے ان ادبی کاوشوں پر جمالیاتی بحثوں کی گنجائش بہرحال باقی رہتی ہے۔ حالی کے اس قول کی روشنی میں ادیب و شاعر کی فنی جمالیات کا راستہ بھی مسدود ہوجاتا ہے۔ حسن و عشق کے معاملات کو حالی و آزاد شاعری کا حصہ رکھنا نہیں چاہتے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟ بقول مولانا حالی’’…انسان کی روحانی اور پاک خوشیوں کو اس کے اخلاق کے ساتھ ایسا صریح تعلق ہے جس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، شعر اگرچہ براہ راست علم اخلاق کی طرح تلقین و تربیت نہیں کرتا لیکن ازروئے انصاف اس کا علم اخلاق کا نائب مناب قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔ اسی بنا پر صوفیہ کرام کے ایک جلیل القدر سلسلہ میں سماع کو جس کا جزو اعظم اوررکن رکین شعر ہے وسیلۂ قرب الٰہی اور باعث تصفیہ نفس و تزکیہ باطن مانا گیا ہے۔‘‘(مولانا الطاف حسین حالی، مقدمہ شعر و شاعری، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 2002، ص15)لفظی صناعی اور فکری سطح پر حسن و عشق کو ممنوع گرداننے کے بعد ظاہر سی بات ہے اب صرف اخلاقی موعظت ہی باقی رہ جاتی ہے جو اشعار میں کسی قدر جمالیاتی قدروں کی موجودگی کا سراغ دے سکتی ہے۔ افادی اور مقصدی ادب کا سب سے بڑا ا ور واضح نقصان یہی رہا ہے کہ یہاں جمالیاتی قدروں نے دم توڑ دیا ہے اور فکری اور موضوعاتی سطح سے لے کر فنی اور اسلوبیاتی سطح تک ایک ہموار اور مسطح راستہ بنادیا ہے جہاں کوئی بھی نشیب و فراز نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ بغیر کسی نشیب و فراز کے، بغیر کسی فنی شعبدہ گری کے، صرف سادگی و صفائی کی بنیاد پر شعر کس قدر دل پزیر بن سکتا ہے! حقیقت کی ترجمانی کچھ الگ شے ہے، خاص طور پر مولانا حالی عربی و فارسی کے جن شعرا کا حوالہ دے رہے ہیں اگر ان کی شعری جمالیات کا جائزہ لیا جائے توبات تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ ان کے یہاں کذب و افترا کا ماحول نہیں ہے، وہ جھوٹی باتیں نہیں کرتے، ان کے یہاں جمالیات کا ایک مخصوص پیمانہ و معیار پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم زہیر ابن ابی سلمی جیسے عظیم الشان شاعرکے معلقہ کی بات کریں جو سماجی اخلاقیات کی بہت زیادہ تلقین کرتا ہے؎فلا تکتمن اللّٰہ ما فی نفوسکملیخفی و مہما یکتم اللہ یعلمیؤخر فیوضع فی کتاب فیذخرلیوم الحساب او یعجل فینقماس طرح کی باتیں کرنے والا شاعر بھی اپنے قصیدے میں آخرکار ایک تخیلاتی منظر میں عورتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ ہی بیٹھتا ہے؎و فیہن ملہی للطیف و منظرانیق لعین الناظر المتوسمیعنی شاعری معاملات حسن و عشق سے مکمل طور پر عاری ہوہی نہیں سکتی، کسی نہ کسی سطح پر حسن و عشق شاعری میں جگہ پا ہی جاتے ہیں کیونکہ یہ فطرت انسانی میں داخل ہیں۔ اگر ان سے دانستہ پہلو تہی کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ایسا نہیں ہے کہ یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی لیکن اتنا ضرور ہوگا کہ شعر بالکل سپاٹ اور بے جان ہوجائے گا اور پھر وہ اپنی جانب قارئین کو کھینچ پانے میں ناکام ہوجائے گا۔ اصلاحی، تعمیری، افادی اور مقصدی شاعری میں بھی ہمیں یہ بات ملحوظ رکھنی ہوگی کہ اس شاعری میں اتنی تو جاذبیت بہرحال موجود رہے کہ لوگ اسے سننے اورپڑھنے پر آمادہ ہوسکیں کیونکہ جب سامعین و قارئین اسے سننے اور پڑھنے پر آمادہ ہی نہیں ہوں گے تو آپ کے مقاصد کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔علی گڑھ تحریک اور انجمن پنجاب کی عمومی خدمات سے انکار کرنا ممکن نہیں اور یہ تقاضا انصاف کے بھی مخالف ہے لیکن اس کے باوجود اس حقیقت کا اعتراف بھی ہونا چاہیے کہ اگر ان کی جانب سے جمالیاتی اقدار پر اس قدر سخت بندش نہ لگائی گئی ہوتی تو شاید اس زمانے میں تخلیق کیا گیا ادب بھی ایک جمالیاتی معیار کا حامل ہوتا۔ ہاں اسی کے ساتھ ساتھ اس تحریک کی عقلیت پسندی اور افادی پہلوؤں پر حد سے زیادہ زور دینے کا جو رد عمل سامنے آیا وہ اردو کو جمالیاتی خزانوں سے معمور کرگیا۔nDanish Kamal(Danish Asari)H.No. 167/A, Behind Ayesha Masjid,Bulaqui Pura, Mau Nath BhanjanMau - 275101 (UP)Mob.: 9236741905, 7007809510E. mail. dkamal2011@gmail.com" مراٹھی زبان پر اردو کے اثرات: ہاجرہ بانو,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/09/,"حرف رسوا ہوئے صدا بن کرآبرو رہ گئی اشاروں کیآج ہم ریاست مہاراشٹر کی مراٹھی زبان پر اردو کے اثرات دیکھیں گے لیکن اس سے پہلے ذرا مہاراشٹر کی ایک جھلک چند سطروں میں دیکھتے ہیں جو کہ مضمون کی نوعیت کے اعتبار سے ضروری ہے۔طبعی ساخت کے اعتبار سے خوبصورت ریاست مہاراشٹر ساحلی، پہاڑی اور سطح مرتفعائی، تین حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے جس کا زیادہ تر زمینی حصہ آتشی چٹان یعنی بسالٹ سے بنا ہوا ہے۔ کھڑکھڑاتی ہوئی بہتی ندیوں میں گوداوری، تاپتی، نربدا، بھیما اور کرشنا کا شمار ہوتا ہے۔ مغربی حصے میں وسیع بحر عرب جلوہ افروز ہے۔علاقوں کے اعتبار سے گرم اور معتدل آب و ہوا ہر طرف چھائی رہتی ہے۔ جن پر غیر مساوی  بار ش کی تقسیم جاری رہتی ہے۔ یہاں کاشتکاری ایک اہم پیشہ مانا جاتا ہے۔ دیہاتی و شہری زندگی کی جھلک بیک وقت نظر آتی ہے۔ کچے پکے، ڈھلوان، چھت والے، سیمنٹ کانکریٹ کے گھر انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پوری کرتے ہیں۔ لباس میں دھوتی، صدری، پگڑی ، ساڑی اور کرتا زیب تن کرتے ہیں۔ دیہاتوں میں موتی، منکے، کوڑی سیپیوں اور مختلف دھاتوں کے زیورات استعمال کیے جاتے ہیں اور شہروں میں سونا، چاندی اور نگینوں کا استعمال ہوتا ہے۔ جوار، باجرہ، چاول، ناچنی، ورتی، گیہوں، اڑد، مونگ، ارہر، لہسن، مرچ، پیاز اور سبزی ترکایوں کا استعمال اپنی غذا میں کرتے ہیں۔ سمندری دولت، معدنی دولت، جنگلاتی دولت، سیاحتی دولت، صنعتی دولت اور فلمی دولت  سے مالامال مہاراشٹر پورے بھارت میں اپنی مثال آپ ہے۔مہاراشٹر بنیادی طور پر کئی آدی واسیوں کے کلچر پر مبنی ریاست ہے ،جس میں بنجارا،گونڈ، بھیل، کوکنا، لمان، پاردھی کیکاڑی، دھنگر، کورکو، وارلی، ٹھاکر، مہادیو کولی،  کولام، آندھ وغیرہ شامل ہیں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو گورماٹی، مالونی، اہیرانی، مراٹھی اور کوکنی یہاں کی اصل زبانیں ہیں۔ چھٹی صدی عیسوی کے بعد ہندوستان مختلف علاقائی ریاستوں میں تقسیم تھا۔ محمود غزنوی کی آمد سے کئی سیاسی و سماجی تبدیلیاں ہوئیں جو تقریباً پونے دو سال تک قائم رہیں۔ اس کے بعد محمد غوری اور قطب الدین ایبک نے اپنی حکومتوں کی بنیاد ڈالی تو ہندوستانی ریاستوں نے پھر نئی کروٹ لی۔ اسی درمیان وسط ایشیا سے چنگیز خان کے خوف سے ایرانی بڑی تعداد میں ہندوستان آئے۔ 1316 میں علاء الدین خلجی نے جب دکن فتح کیا تو ایک نئے دور کی شروعات ہوئی جو اورنگ زیب اور انگریزوں و مراٹھوں تک جاری رہی۔ یہ مختصر ترین تاریخی ادوار کا خاکہ ہند آریائی زبانوں کی تشکیل عمل میں لاتا ہے۔ ان متعدد صدیوں میں تہذیبی اختلاط کی کئی مختلف نوعیتیں رہیں۔  زبان و مکان میں اشتراک کی جڑیں بہت گہرائی سے پیوست ہوئیں، جس کا اثر مہاراشٹر دکن کی سماجی زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ یوروپ اور ہندوستان کے تین بڑے خاندانوں کی زبانیں ہند جرمانی، سامی، تورانی میں سے تیسرے خاندان کی تورانی کا سلسلہ دریائے گنگا کے جنوبی حصے کے ذریعے ریاست مہاراشٹر کے شہرناگپور تک پہنچتا ہے۔ جہاں متمدن کول، گونڈ اور دوسرے تورانی قبائل بسے  ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں تورانی خاندان کی وہ نو زبانیں بولی جاتی ہیں جو اس لسانی خاندان کے چوتھے ضمنی خاندان کول اور دراوڑی خاندان پر مشتمل ہیں جو مہاراشٹر اور ہندوستان کے مغربی حصے میں ہندی سے اور دکن میں مراٹھی آمیز تیلگو سے قربت رکھتے ہیں۔ ان زبانوں میں سے ایک گونڈ زبان ہے جو ناگپور کے قریب آکر مراٹھی میں ضم ہوجاتی ہے۔ مراٹھی اپنی وسعت اور اہمیت کے لحاظ سے ہندوستانی زبانوں میں صرف ہندی زبان کے بعد رکھی جاسکتی ہے۔ ناگپورسے شمال کی طرف چل کر اندور جاپہنچتی ہے او رپھر جنوب کی طرف مختلف غیرمتعین سمتوں سے ہوکر سورت تک جاکر سمندر سے جاملتی ہے۔ یہیں خاندیش کی پہاڑیوں میں بھیل قبیلے کے لوگ ملتے ہیں جو کول ہی کی ایک بولی بولتے ہیں۔ مراٹھی زبان کا دکنی خط ناگپو رسے ہوتا ہوا بیجاپور پہنچ جاتا ہے پھر یہ زبان بلدام او ردھارواڑ سے ہوتی ہوئی کنڑی زبان میں شامل ہوجاتی ہے۔چودہویں صدی میںا یران سے کئی صوفیائے کرام نے دکن میں اپنی ادبی خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی تصنیف اور تصوف کے اثرات زبان اور روایتی کلچر میں صاف نظر آتے ہیں۔ محمد بن تغلق کے دور میں امیرنجم الدین حسن دکن تشریف لائے تھے۔ جو اعلیٰ مرتبہ شاعر اور تصوف میں ڈوبی ہوئی مقدس شخصیت کے مالک تھے۔ صحیح معنوں میں ان کی آمد سے فارسی ادب کا آغاز دکن میں ہوا۔ ایرانی خیالات اور روایات، زبان کے ساتھ ساتھ دکن کو بھی اپنی گرفت میں لیتے چلے گئے۔ امیر نجم الدین حسن کو مہاراشٹرکی زمین اتنی پسند آئی کہ وہ دوبارہ ایران نہیں گئے۔ آج بھی ان کا روضۂ مبارک خلدآباد  مہاراشٹر میں موجود ہے۔پندرہویں صدی میں دکن میں زبان کا ایک سنہرا دور رہا ہے جس کا تاج فارسی اور اردو دونوں عظیم زبانوں کے سر رہاہے۔ دکن میں یہ دور فارسی ادب اور ثقافت کا عروج کا تھا۔ ایرانی تاجر خواجہ محمد گیلانی بہمنی سلطنت میں اپنی دانشوری کے باعث وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ گیلانی کی ہمہ جہت شخصیت میں بہترین مصنف، اعلیٰ پایہ کا شاعر دوررس سائنسداں اور ماہر ریاضیات پوشیدہ تھے۔ اس لیے جب انھو ںنے سلطان کی اجازت سے بمقام بیدر ایک انڈوپرشین طرز کا جامعہ قائم کیا تو اس کے علم و فراست کی روشنی دور دور تک پھیل گئی۔ اس وقت سرکاری زبان کا درجہ فارسی کو حاصل تھا اور آج بھی بشمول ممبئی ان علاقو ںپر فارسی کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ عہد بندہ نواز سے عہد محمود گیلانی تک اور پھر عہد قلی قطب شاہ اور عہد ولی دکنی ان سب ادوار میں دکنی زبان کو خوب فروغ حاصل ہوا۔جس میں فارسی زبان کی روح علاقائی زبانوں کے جسموں کے ساتھ شامل ہے۔ یہ دور فن کا دلدادہ رہا۔ اگر حکمراں فن کی سرپرستی کرے تو فن آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے اور یہی وہ سنہری دور تھا جب ہر طرف فن، تصوف اور زبان کا بول بالا تھا۔ ان ہی ادوار میں تخلیق شدہ ادب ساری زبانی خوبیوں کامرقع ہیں۔  رنگینی، سادگی، روانی، نشاطی، معنی آفرینی، تشبیہی اور استعاراتی جواہرات سے مزین ہیںاور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ سارے جواہرات ایران و عربستان سے آئے اور دکنی زبان کے تاج میں جڑگئے۔ ان ادوار کے صوفی شعرا کا کلام ہو یا خواجہ بندہ نواز گیسو دراز یا پھر حکمراں قلی قطب شاہ ہوں یا پھر ولی دکنی ان سب کی تصانیف اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ کرناٹک، تلنگانہ، آندھراپردیش، کیرالہ اور مہاراشٹر کی مقامی زبانوں کے الفاظ اور لسانی قواعد کے  اشتراک سے دکنی زبان نے ایک نیا رنگ پایا لیکن ان کی بنیاد عربی اور فارسی ہی رہی کیونکہ فارسی زبان کو ایک سیکولر ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ تمام مذاہب کے لوگوں نے اسے پوری طاقت و قوت اور ہم آہنگی سے اپنایا۔ بعد میں سیاسی حالات کے پیش نظر مہاراشٹر کو الگ ریاست قرار دیا گیا اور فارسی کی مہک کے ساتھ ارد وکے 40%  سے زیادہ الفاظ مقامی زبان مراٹھی میں شامل ہوگئے۔ جو آج بھی پوری تابناکی کے ساتھ مروج ہیں۔ الفاظ کی دنیا تو انسانی دنیا سے مماثلت رکھتی ہے جس میں حسن، محبت، توانائی، رعنائی، ہم آہنگی، نزاکت، استحکام، پائیداری، کمزوری، شرافت اور منافقت بھی پائی جاتی ہے۔  الفاظ تو اشیا، کیفیات اور حالات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ جب انسان روزمرہ کی زندگی میں ان الفاظ کے ربط میںا ٓتا ہے تویہ ترجمانی ایک خوبصورت معانی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ علمی زبان میں انھیں معانی کی علامتیں کہتے ہیں۔ ان ہی علامتوں کے ذریعے انسان سماج میں ایک دوسرے سے کاروباری اور جذباتی اظہارکرتا ہے۔ الفاظ کی تاریخ ہی علاقے میں اپنے سماجی ماحول کی مطیع رہی ہے۔ الفاظ ایک لامتناہی زندگی کا نام ہے اور جہاں زندگی ہے وہاں موت بھی ہے۔ ماحول میں الفاظ جنم  لے کر پھلتے پھولتے ہیں اور پھر اسی طرح حالات اور کیفیات کے تحت نشیب و فراز کا شکار ہوکر اپنی زندگی کی افق پر معدوم بھی ہوجاتے ہیں۔ یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو عبارتوں میں جان ڈالتے ہیں اور بسااوقات عبارت کی جان نکال بھی لیتے ہیں۔ کبھی یہی الفاظ کئی جذبات و خیالات کو تصویری روپ دیتے ہیں، اسی پلڑے میں الفاظ کی گرانی و ارزانی ماپی جاتی ہے، جس کی کسوٹی انسان کے جذبات اور خیالات پر منحصر ہوتی ہے جو آگے چل کر الفاظ کی کئی سمتیں مقرر کرتی ہے، بعض الفاظ جذبات کی آئینہ داری کرتے ہیں ان میں انسان کی دلی کیفیت کا عکس ہوتا ہے، بعض الفاظ مرقع ہوتے ہیں جن میں صرف خارجی کائنات نظر آتی ہے اور بعض الفاظ اپنی گرانی کے سبب بلندی پر قائم رہتے ہیں، ان میں ساز اور رس سمائے رہتے ہیں جب یہ الفاظ عبارت کا روپ لیتے ہیں تو ایک حسین موسیقی پیدا کرتے ہیں۔ مہاراشٹر کی اردو، ہند آمیزمراٹھی بولی اسی کی مثال ہے۔ صوفیوں کے الفاظ میں لاانتہائیت ہوتی ہے جو افق کے پار موجود ذات کی نشاندہی کرتی ہے ،اس لیے یہ سب سے افضل ترین ہوتی ہے۔علامتی ادب میں الفاظ بعض ذہنی ،نفسیاتی، روحانی اور سیاسی کیفیتوں کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں۔ یہ حالت الفاظ کے استعمال کرنے والے پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ امید اور توانائی کا پیغام دیتا ہے یا خود اسے کمزور بنا کر رکھتا ہے۔ ہر زبان میں الفاظ کے عروج و زوال کو اس کے لسانی، تاریخی اور سماجی پس منظر میں دیکھنا چاہیے کیونکہ یہاں تکنیکی فارمولہ کام نہیںآسکتا۔اب ان الفاظ کو دیکھتے ہیں جو مراٹھی زبان میں پوری آب و تاب کے ساتھ ہیںخدا،نماز، روزہ، داشتہ، ناشتہ، نادیدہ، خانساماں، گلستان،چمنستان، چراغاں، درگاہ ،مصیبت، دوستی، دشمنی، اصل، نقل، جان، حقیقت عام بول  چال میں، اخباری، زبان میں آسانی سے بولے اور سنے جاتے ہیں۔ پہلے سرکاری زبان فارسی ہونے کی وجہ سے تمام سرکاری دفاتر اور عدلیہ میں فارسی آمیز اردو کی اصطلاحات کا چلن عام تھا۔ مثلاً، سرکاری، سرکار، دفتر، سرکاری دفاتر، دستاویز، دستور، دستوری، دستخط، عدالت، حلف نامہ، وصیت نامہ، قلم (ایکٹ)، حاضر، عمل نامہ، شکایت نامہ، گواہ، چشم دیدہ گواہ، گواہی، پیش، پیشی، پیشکش، پوچی، پوچی خط، منصف، منصف کورٹ، وکیل، وکالت، وکالت نامہ، قید، قیدی، حکم، حکم نامہ، فیصلہ، قانون، دعویدار، تھانے دار، قیدخانہ وغیرہ یہ عدلیاتی اصطلاحات مراٹھی زبان میں اب بھی استعمال ہوتی ہیں۔مہاراشٹر میں ڈرامہ، تھیٹر اور فلم انڈسٹری کے نقوش کافی قدیم ہیں جس پر آریائی تہذیب اور فارسی آمیز اردو کے اثرات آج بھی دیکھیے جاسکتے ہیں۔ اس کا اثر علاقائی فلموں میں سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔ مراٹھی فلمیں بھی اردو زبان کے اثر سے خالی نہیں ہیں۔ مغل اور مراٹھا تہذیبوں کاسنگم ان فلموں کو خوبصورت بنا کر اپنی جڑوں تک رسائی کرواتا ہے۔ جرأت مندانہ مراٹھالہجہ اور مغل تہذیبی پوشاک اور زیورات سے آراستہ ان مراٹھی فلموں کے اردو آمیز مکالمے حاضرین میںنیا جو ش پیدا کردیتے ہیں۔ فن موسیقی میں اردو، فارسی، عربی اور مراٹھی کا سنگم دیکھیے۔ راگ، ندا، ناد، آواز، ساز، ندب، نادی، صدر، نوبت، گان، گاین، گانا، نفیری، باجے، شہنائی، مدنگ، تال، تار، ستار، سارنگی، نقارچی، اونچا، سمل، سملت، عور، آسکت، آورت، عشق، عاشق، شاعر، راغ، دف، رباب، طبلہ، طبل بازی،  راغب، رغب، راغی وغیرہ۔مراٹھی زبان میں رائج پیشے، صنعت کار اور پیشہ وروں کے ضمن میں بھی اردو زبان حاوی نظر آتی ہے۔ جس سے مسلم دور کے سماجی و تجارتی ماحول کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے۔ مسلم دور میں بالخصوص مغل دور میں تجارت اور فنون و حرفت و صنعت اپنی انتہا پر تھی۔ سودا، کسب، کمانا، بازار، دکان، مزدور، دلال، لین دین یہ عربی فارسی الفاظ مراٹھی زبان روزمرہ کاروباری استعمال میں ہیں۔ عربی فارسی میں مزدور اور بغیر پیسے کی مزدوری کو بیگار کہتے ہیں یہ بھی مراٹھی زبان میں مستعمل ہے۔ ان کے علاوہ  طلب، بیباق، جیسے ثقیل الفاظ بھی تجارتی زبان میں کہے جاتے ہیں۔ تجارتی زبان میں ہنڈی اس خط یا  پیغام کو کہا جاتا ہے جو لین دین کرنے والے مہاجن کسی کو روپیہ دلانے کے لیے بھیجتے ہیں یا جسے مہاجنی چیک کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ سلسلہ و روایت راجا ٹوڈرمل سے منسلک ہے۔ مدت، انداز، سند، دام، ضروری، کوری، یہ الفاظ اردو زبان اور تہذیب سے متصل ہیں۔ مہاراشٹر میں جواہرات و زیورات کی بات کریں تو یہاں بھی اردو، عربی و فارسی کا اثر نظر آتا ہے۔ خزانہ، خزانہ داری، صراف،  صرافہ، سونا، چاندی، نگینہ، کھرا کھوٹا،ماشہ، تولہ، بارہ بانی، سونے کا فرق، کندن، میناکاری یہ سارے الفاظ اردو فارسی سے جڑے ہوئے یں۔ اناج و سبزی ترکاریوں میں تو اردو کے الفاظ ہی مراٹھی زبان میں چھائے ہوئے ہیں۔ گیہوں، جوار،باجرہ، مکئی، چنا، تل، مسور، ارہر، مونگ، ٹماٹر، بیگن، بھاجی، آلو، بھنڈی، گوبھی، کریلا، مولی، ادرک، لہسن یہ سارے الفاظ ارد وکے ہیں۔ لکڑی اور تعمیراتی کام کی اصطلاحات بھی اردو سے منسلک ہیں۔ جسے تعمیری کام کرنے والے کو مراٹھی زبان میں مستری کہتے ہیں۔ مستریہ فارسی زبان کا لفظ مزدور کے لیے مخصوص ہے جو تعمیری کام کرتا ہے۔ تعمیرات میں درکار اوزاروں کے نام بھی مراٹھی میں اردو فارسی کے لیے کہے جاتے ہیں۔ جیسے خراد (جو لکڑی کو چکنا کرنے کے لیے ہوتا ہے)، برما، برادہ، دروازہ، چوکھٹ، خط (لائن لگانا)، ریگ مال، ساہل، میز، کرسی، تخت وغیرہ سب مراٹھی میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح زمین اور عمارت کی تعمیرات کے سلسلے میں حد، چونا، سردو (جس سے زمین پکی کی جاتی ہے) دیوار جو دیوال کہاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ کنگورہ، برج، گمٹی، (چھوٹا برج)  مفیار، محل وغیرہ سب مراٹھی زبان میں رائج ہیں۔" ہندوستانی آئین میں اردو زبان کا مقام - مضمون نگار: آفتاب عالم,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/08/,"انسانی زندگی میں زبان کی اہمیتانسان فطری طورپر معاشرے میںایک ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتاہے اسی وجہ سے بنی نوعِ انسان نے موجودہ معاشرے کی تشکیل کی ہے۔ زبان انسانی تعلق کا ایک اہم جز ہے۔اگر چہ تمام انواع کے جاندار کے رابطے کے طریقے الگ الگ ہیں لیکن انسان کے رابطے کا ذریعہ صرف زبان ہے۔زبان میں معاشرے کو بنانے اور تباہ کرنے دونوں کی طاقت ہے۔انسان کی زندگی میں زبان کی اہمیت نا قابلِ تردید ہے کیوںکہ جذبات، احساسات اور نظریات کے اظہار اور آپسی تعامل اور تہذیب و تمدن کے تحفظ اور ترسیل کا واحد ذریعہ زبان ہے۔زبان ہی ہے جو انسان کو تمام جاندا ر سے ممتاز کرتی ہے اور اہم، بے مثال اور اعلی ترین مخلوق بناتی ہے۔ زبان صرف ذریعہ مواصلات ہی نہیں بلکہ جب ہم بات کرتے ہیں، پڑھتے اور لکھتے ہیں یہاں تک کہ جب ہم سماج بنانے کے عمل میں ہوتے ہیں، گاڑی چلاتے ہیں یا تجارت کرتے ہیں ہر جگہ زبان کو کسی نہ کسی شکل میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ زندگی کے ہر پہلومیں زبان شامل ہے۔ زبان کی اصطلاحی تعریف یہ کی جاسکتی ہے کہ زبان الفاظ، علامتوں، نشانیوں، آوازوں، اشاروں کا ایک نظام ہے جس کا استعمال ایک طبقہ،قوم اور ایک ثقافت کے لوگوں میں عام ہوتاہے۔زبان اور ثقافتزبان اور ثقافت میں ایک گہراربط ہے اور دونوں کے مابین جز اور کل کا رشتہ ہے۔ہر زبان کسی نہ کسی مخصوص قوم اورلوگوں کی جماعت کی نشاندہی کرتی ہے اور اس کی ثقافت کا اظہار اسی زبان کے ذریعے ہوتاہے۔ جب ہم کسی دوسری زبان والے کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس ثقافت کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔دنیا کی کسی بھی ثقافت تک رسائی اور اس کی سمجھ بغیر اس کے متعلق زبان کے نہیں ہوسکتی۔ کرامچ (1991)نے کہا ہے کہ زبان اور ثقافت دونوں لازم اور ملزوم ہیں اور ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ زبان اور ثقافت دونوں ہی انسانی زندگی کے لازمی جز ہیں نیز زبان ثقافت کا تعین کرتی ہے اور اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ثقافت کے بغیر زبان مردہ ہے اور زبان کے بغیر ثقافت کی کوئی شکل نہیں ہوگی۔ زبان انسان کی شخصیت او ر اس کی تہذیب و ثقافت کا لازمی جز ہے جس کا کردار نوع انسانی کو وحشت سے نکال کر معاشرتی زندگی میں لانے میں اہم ہے۔ایک نسل سے دوسری نسل تک تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون منتقل کرنے میں زبان کا رول ناقابل فراموش اور ناقابل تردیدہے۔اردو زبان اور اس کی مقبولیتاردو زبان خالص ایک ہندوستانی زبان ہے جس میں اتنی شیرینی ہے کہ اس کو محبت کی زبان کہاجاتاہے اور اس کی ابتدا بھی غزل اور عشق و عاشقی کی شاعری سے ہوئی ہے۔ آزادی سے پہلے اور اس کے بعد بھی اس زبان کی مقبولیت میں کبھی کمی نہیں آئی بلکہ بر صغیر کی نہایت مقبول اور ہندوستان کی آئینی زبانوں میں سے ایک ہے۔اس زبان پر عربی اور فارسی کے اثرات ہونے کے باوجود ہندی کی طرح ایک ہند آریائی زبان ہے جس کی پیدائش اور ترقی برّ صغیر ہند میں ہوئی۔اردو اور ہندی دونوں جدید ہند آریائی زبانیں ہیں اور دونوں کی اساس یکساں ہے، صوتی اور قواعدی سطح پر دونوں زبانیں اتنی قریب ہیں کہ ایک زبان معلوم ہوتی ہیں لیکن طریقۂ استعمال اور رسم الخط کی سطح پر دونوں میں فرق نمایاں ہے۔اردو جنوبی ایشیا کی اہم اور بڑی عوامی زبانوں میں سے ایک ہے اور روز بہ روز اس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہورہاہے۔ حقیقت میں یہ زبان عوامی تہذیب کی سطح پر ترسیل کا ذریعہ ہے اور فلموں، ڈراموں اور تمام طرح کے تفریحی پروگرام میں وسیع پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود کہ اردو دنیا کی نئی زبانوں میں سے ایک ہے لیکن اپنے پاس معیاری ادب اوراس کا ایک وسیع ذخیرہ رکھتی ہے اور خصوصاًجنوبی ایشیائی زبانوں میں یہ اپنی شاعری کے حوالے سے مشہوراورمعروف ہے۔ہندوستان میں زبان کی پالیسیہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں زبان، تہذیب و تمدن، نسل،مذہب اور ذات و غیرہ کا تنوع نہایت ہی قدیم اور مضبوط ہے۔تنوع اس ملک کی شناخت ہے اورا س کثیر ثقافتی اور کثیرلسانی معاشرے میں موجود امن و شانتی اور بھائی چارے کی وجہ ہے کہ تنوع میں وحدتکے لیے دنیا میں ہندوستان کی مثال دی جاتی ہے۔ آزادی کے بعدمجلس دستور ساز نے آئین ہند میں بھی اس تنوع کا پاس و لحاظ رکھا ۔ عہد قدیم اور عہد وسطی نیز عہد جدید میں بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مختلف حکمرانوں کی حکومت ہو نے کی وجہ سے مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں۔ اس ملک میں افراد بیک وقت کئی زبانیں استعمال کرتے ہیں مثلاًایک زبان معاشرے میں دوسری زبان آفس میں اور تیسری زبان مذہبی معلومات اور رسومات میں۔ تاریخی طور پر اکثر ممالک میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمیشہ مذہبی رسومات، عدالت اور اشراف کی زبان، تعلیم اور ادب و ثقافت کی زباناور گھر اور معاشرے کی ایک زبان ہوتی ہے اوراعلی تعلیم اور اشراف کی زبان کاہی غلبہ رہتاہے لیکن ہمارا ملک ہندوستان اس معاملے میں منفرد ہے کیوں کہ ہندوستان میں ہر 60-80 کیلومیٹر میں زبانیں بدل جاتی ہیں اور کسی ایک زبان کا غلبہ بھی نہیں ہے۔ ویدک عہد میں رابطے کی زبان سنسکرت تھی،اس کے بعد پالی، عہد وسطی میں فارسی اورپھر اردو اور انگریزوں کے دور میں انگریزی اور آزادی کے بعد ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہندی کے ساتھ اردو بھی رابطے کی زبان ہے۔آئین ہندیہ آئین جمہوریہ ہند کا دستور اعلی اور دنیا کا سب سے ضخیم تحریری دستور ہے جس میں جمہوریت کے بنیادی سیاسی نکات اور حکومتی اداروں کے ڈھانچے، طریقہ کار، اختیارات اور ذمے داریوں نیز شہریوں کے بنیادی حقوق، رہنما اصول اور ان کی ذمے داریاں شامل ہیں۔ اس دستور کا معماراعظم ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکرہیں جو آئین ہند کی مجلس مسودہ سازی کے صدر تھے۔ آئین ہند کے مطابق دستور کو موجودہ پارلیمانپر فوقیت حاصل ہے لہذا پارلیمان اس دستور کو معطل نہیں کر سکتی ہے۔ آئین ہند کو مجلس دستور سازنے 26 نومبر 1949 کو تسلیم کیا اور 26 جنوری 1950 کو نافذ کیا۔ نفاذ کے وقت یہ دستور 22 ابواب، 8درج فہرست اور 395پر مشتمل تھا اور جنوری 2019 کے ڈاٹا کے اعتبار سے103 ترمیم کے بعد اس دستور میں 25 ابواب، 12 درج فہرست اور 448 ہیں۔ اس ملک کے عاملہ، مقننہ اور عدلیہ کو اختیار اسی دستور سے ملتا ہے اور سب اسی کے پابند ہیں۔دستور ہندکی دفعہ 21 اور21اےدفعہ21کے تحت اس ملک کے ہر شہری کو اپنی زندگی اور ذاتی آزادی کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ قانون کے ذریعے قائم کردہ طریقہ کار کے علاوہ کسی بھی شخص کو اس کی زندگی اور ذاتی آزادیسے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دفعہ21 اے شہریوں کو یہ بنیادی حق دیتا ہے کہ ریاست چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے اور اس کے لیے ریاست قانون بناسکتی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں چودہ کی عمر کو بڑھا کر 18 کردیاہے۔اب اس میں اسکول کی مکمل تعلیم آجاتی ہے جو مفت اور لازمی اس ملک کے ہر بچے کو دی جائے گی۔دونوں دفعات سے یہ استخراج ہوتا ہے کہ اس ملک کا ہر شہری اپنی مرضی سے جینے اور آ زادی سے جینے کا بنیادی اور آئینی حق رکھتاہےاور اس آزادی سے جینے میں اپنے تہذیب و تمدن، ثقافت اور ریتی رواج کے ساتھ جینا شامل ہے۔ 2009 میںRight to Education (آر ٹی ای )ایکٹ پاس ہوا جس کا مقصد اس ملک کے ہر بچے کو مفت اور لازمی اسکو ل کی تعلیم دیناہے۔ لہٰذا وہ اپنے آئینی حقوق، ذمے داریاں اور تہذیب و تمدن، ثقافت اور ریتی رواج اور اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہو جا ئیں گے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات بھی اٹھاسکیں گے۔جس فرد اور شہری کی تہذیب و تمدن، ثقافت کا حصہ اردو زبان ہے وہ صرف اس کے ساتھ جینے پر اکتفا نہ کرکے اس کے تحفظ کے لیے اپنے آئینی حقوق کا استعمال اور اقدامات بھی اٹھائیں گے۔ہر مذہب اس کی تعلیمات کسی نہ کسی زبان کے سہارے لوگوں تک پہنچتی ہیں۔اردو کی ابتدائی دور میں ترویج و اشاعت اور ترقی میں صوفیائے کرام کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے اور شروع سے ہی مدارس اور مکاتب بھی اس ضمن میں نہات ہی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہندوستان بلکہ اس بر صغیر میں اسلامی تعلیمات اور مذہبی معلومات کا سب سےبڑا ذخیرہ اردوزبان میں موجود ہے۔مذکورہ بالا دفعات کے ذریعے حاصل شدہ بنیادی حقوق کے حصول کے ضمن میں اردو زبان کا تحفظ اور ترویج و اشاعت کی جا سکتی ہے۔آئینِ ہندمذہب کے تعلق سے جو بنیادی حقوق فراہم کرتاہے اس کے ذریعے مختلف زبانوں کو تخفظ حاصل ہے اور ان کی وجہ سے زبان کی بھی حفاظت کی جاسکتی ہے۔دستور ہندکی دفعہ 29 اور 30دفعہ 29 اور 30 دونوں اقلیتوں کو کچھ مخصوص حقوق کی ضمانت دیتی ہیں۔دفعہ 29 اقلیتوں کے مفاد کا تحفظ اس طرح کرتی ہے کہ کوئی بھی الگ زبان، رسم الخط اور ثقافت رکھنے والے شہری اور قوم کو اپنے ان امور کے تحفظ کا مکمل حق حاصل ہے۔ ان دفعات کے تحت کسی کے ساتھ بھی مذہب، نسل، ذات، زبان یا ان میں کسی کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔دفعہ 30 اقلیتوں (مذہب یا زبان کی بنیاد پر ہو)اس بات کا حق دیتا ہے کہ وہ اپنے اعتبار سے تعلیمی ادارے قائم کریں اور انتظام کریں۔ حکومت اقلیتوں کے اداروں میں مداخلت نہیں کرسکتیاور ناہی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کر تے ہوئے ان کی امدادروک سکتی ہے۔لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قومی اقلیتی کمیشن کا قیام عمل میں آیاہے۔یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ زبان افراد کی ثقافت اورتہذیب و تمدن کا ایک جزوِلاینفک ہےاور جن لوگوں کی زبان اردو ہے یہ ان کی بھی ثقافت کا ایک حصہ ہے۔ لہذا اس کے بولنے والوں کو مکمل آئینی حق حاصل ہے کہ اس کا تحفظ کریں اور اس غرض سے اپنے تعلیمی ادارے قائم کریں اور حکومت سے امداد بھی حاصل کریں۔آئین ہند کی یہ دو دفعات اردوزبان والوں کو بنیادی حق دیتی ہیں کہ اس زبان کے فروغ اور ترقی کے لیے ہمہ جہت کوششیں کریں۔ان ہی دفعات کے تحت ملک میں لاکھوں لسانی اقلیتی تعلیمی ادارے قائم ہیں اور لسانی خدمات میںمشغول ہیں خصوصی طورپر اردو زبان میں تعلیم دینے والے تعلیمی ادارے لا محدود ہیں جن سے اردو زبان کابراہ راست فروغ ہورہاہے۔دستور ہند کی دفعہ 350، 350اے اور 350 بیدفعہ 350 ہر شہری کو حق دیتی ہے کہ وہ اپنی شکایت کے ازالے کے لیے یونین اور صوبے کے کسی افسر یا اتھارٹی کے پاس اس ملک میں استعمال ہونے والی کسی بھی زبان میں اپنی نمائندگی پیش کرے۔ 350 اے کے تحت اس ملک کی ہر ریاست اور مقامی اتھارٹی کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ لسانی اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو تعلیم کے بنیادی مرحلے میں مادری زبان میں تعلیم کے لیے مناسب سہولیات مہیا کریں۔ صدر جمہوریہ کسی بھی ریاست کو اس طرح کی ہدایات جاری کرسکتے ہیں اگر وہ اس طرح کی سہولیات کی فراہمی کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری یا مناسب سمجھتاہے۔ 350 بی کے تحتلسانی اقلیتوں کے لیے ایک خصوصی افسرکی تقرریصدر جمہوریہ کے ذریعے کی جائے گی۔یہ افسر آئین کے تحت لسانی اقلیتوں کو حاصل شدہ حقوق کی حفاظت سے متعلق تمام معاملا ت کی تحقیقات کرے گا اور صدر جمہوریہ کو رپورٹ کرے گا، یہ رپورٹیں ہرسال ایوان کے سامنے رکھی جائیں گی اور متعلقہ ریاستوں کی حکومتوں کو بھی بھیجی جائیں گی۔ ان دفعات کے مدنظر اردو کے محبین حکومتی معاملات میں اردو زبان کا کثرت سے استعمال کرسکتے ہیں اور حکومتوں کو پابند کراسکتے ہیں کہ ان کے بچوںکو اردو زبان میں ہی بنیادی تعلیم مہیاکرائیں اور ایسا نہ ہونے پر اس کی شکایت اس افسر سے کرسکتے ہیں۔دستور ہندکی دفعہ 345 اور 347دفعہ 345 ملک کی ہر ریاست کو حق دیتی ہے کہ وہ اپنی مقننہ کے ذریعے ریاست میں بولی جانے والی زبانوں میں سے کسی ایک یا زیادہ زبان کو سرکاری زبان کے طورپر اپنا سکے۔دفعہ 347 کے تحت ریاستیں اپنی عوام کے ایک مخصوص طبقے کے ذریعے بولی جانے والی زبان کو پوری ریاست میں یا کسی خاص حصے میں ان عوام کے تقاضے پر حکومتی زبان کے طورپر مان سکتی ہیں اور مخصوص انتظامات کرسکتی ہیں۔نئی تعلیمی پالیسی2020 اور ہندوستانی زبانوں کا فروغنئی تعلیمی پالیسی ہندوستان کی اکیسویں صدی کی سب سے اہم تعلیمی پالیسی ہے جو ایک لمبے انتظار کے بعد 2019 میں ایک مسودے کی شکل میں پیش کی گئی۔ ہندوستان کی یونین کابینہ نے اس مسودے کو 29 جولائی 2020 کو اپنی منظوری دی۔ یہ پالیسی ہر زاویے سے انقلابی، دوررس اور جامع ہے اور تعلیم کے تمام پہلوؤ ں جیسے بنیادی تعلیم، اعلی تعلیم، درس و تدریس، نصاب، تعلیمی نظم و نسق،صنعتی تعلیم، تعلیمی سرمایہ کاری، تعلیم بالغان اور تکنیکی تعلیم وغیرہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس پالیسی نے ملک کے تعلیمی ڈھانچے کے سارے زاویے جیسے قوانین، انتظام اور نظم و ضبط وغیرہ میں تصحیح اور سدھار کی پیشکش کی تا کہ ایک ایسا نیا نظام تیار کیا جا ئے جو اکیسویں صدی کے مقاصد کو پورا کرے اورامیدوں پر کھڑاترے۔اس پالیسی کے ذریعے تمام ہندوستانی زبانوںجن میں اردو بھی شامل ہے کے تحفظ، نشو و نما اور فروغ کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر علاقے کی ثقافت وروایات کی صحیح شمولیت، اس کا تحفظ اور اسکولوں میں تمام طلبا کی صحیح تفہیم اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب قبائلی زبانوں سمیت تمام ہندوستانی زبانوں کو مناسب احترام دیاجائے۔ اس طرح صحیح معنوں میں ہندوستان کی زرخیززبانوں جیسے اردو زبان اور ادبیات کا تحفظ کرنا با لکل ناگزیر ہے۔ اس پالیسی میں اس کی یقین دہانی کی گئی ہے کہ پورے ہندوستان میں مضبوط قومی اور علاقائی زبان اور ادب کے پروگراموں، اساتذہ کی تقرری، تحقیق اور کلاسیکی زبانوں کے فروغ کے ذریعے زبان، ادب اور سائنسی الفاظ پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔کلاسیکی زبان و ادب کے فروغ کے لیے موجودہ قومی اداروں کو مضبوط کیا جائے گا اور ایک قومی انسٹی ٹیوٹ برائے پالی، فارسی اور پراکرت بھی قائم کیا جائے گا۔سائنسی اور تکنیکی اصطلاحات کے کمیشن(Commission for Scientific and Technical Terminology)کا منشور اور فرمان یعنی ملک بھر میں یکساں استعمال کے لیے ذخیرہ الفاظ تیار کیا جائے گا۔خاتمہمذکورہ بالا آئین کی دفعات اور ان میں اس ملک کے شہریوں کو دیے گئے حقوق اردو کی ترقی اور فروغ کا ضامن ہیںبشرطیکہ اس زبان کے بولنے والے اور اس کی محبت کا دعوی کرنے والے ان دفعات اور حقوق سے واقف ہوں۔ محض واقفیت بھی کافی نہیں ہے بلکہ اس زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے دیگر زبانوں کی طرح سعی مسلسل کی ضرورت ہے۔اس زبان کی ترقی کے لیے خلوص کے ساتھ اس زبان کا کثرت سے استعمال کرنے، تعلیمی ادارے جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہوقائم کرنے، اور اردو زبان کے فروغ کے لیے اس ملک میں قائم اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔اس زبان کے تحفظ کے لیے آئین ہند کی جانکاری اور اس کی تعمیل نیز جمہوری اقدار اور طریقہ کار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔اس زبان میں اتنی حلاوت ہے کہ یہ زبان بذات خود ترقی کی راہ طے کرے گی بشرطہ کہ اس کے راستے میں رکاوٹ پیدانہ ہو اور اگر ہو تو اس کو دور کیا جائے۔Aftab AlamCollege of Teacher Education,MANUU)Darbhanga, Ilyas Ashraf NagarChndanpatti, Laheria SaraiDarbhanga- 846002 (Bihar)Mob.: 8285835517" قیصر تمکین کی افسانہ نگاری - مضمون نگار : فیضان الحق,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/07/,"بیسویں صدی کے نصف آخر کے افسانہ نگاروں میں قیصر تمکین ایک اہم نام ہے۔قیصر تمکین کی پیدائش لکھنؤ میں ہوئی لیکن انھوں نے انگلستانہجرت کرکے اسے اپنا مستقل ٹھکانا بنا لیا۔ قیصر تمکین کے بیشتر افسانوں کا خام مواد ہندوستانی مسائل، فرقہ واریت، مشترکہ تہذیب کے زوال اور روایت سے منحرف مسلمان بچوں کی نفسیات سے تیار ہوا ہے۔ قیصر تمکین کا عہد تقسیم کے معاً بعد کا عہد ہے۔ یہی وہ دور ہے جب ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو پامال کرنے کے لیے انتہا پسند طاقتوںکی سازشیں شروع ہوئیں۔ قیصر تمکین نے ان سازشوں کو کامیاب ہوتے اور باہمی رواداری کومٹتے دیکھا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کے مرکزی موضوعات فرقہ واریت، قومی انتشار اور فسادات کے سبب رونما ہونے والے منفی نتائج ہیں۔ فسادات کے متعلق ان کے افسانوں کا دائرہ ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ اسرائیل و فلسطین اور جرمن نازیوں کے مابین تنازعات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس نوعیت کے نمائندہ افسانوں میں یہودن، کفارہ، یروشلم یروشلم، درگاہ شریف، اللہ اکبراور ایک کہانی گنگا جمنی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔قیصر تمکین بیشتر مقامات پر فرسودہ روایتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے نظر آتے ہیں۔اس موضوع پر ان کا سب سے طویل اور عمدہ افسانہ ’ژینیت‘ ہے۔ فرسودہ اقدار کے خلاف بغاوت کا جذبہ اس افسانے میں کامیابی کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ ان کی ترقی پسندی انھیں مذہب، ملک اور قوم کے دائروں سے پرے ہو کر غور و فکر کا موقع فراہم کرتی ہے۔ وہ جذباتیت اور انتہا پسندی کو نقصان دہ ثابت کرتے ہوئے اسے فساد کی جڑ قرار دیتے ہیں۔یہ جذباتیت کس طرح بڑے بڑے نقصانات کو جنم دیتی ہے اس کی ایک مثال افسانہ ’ایک کہانی گنگا جمنی‘ کے کردار’ مولوی حقی ‘ہیں۔ جنھوں نے گلی کے ایک بندر پرانتقاماً لاٹھی چلا کرشرپسندوں کے لیے فرقہ وارانہ فساد برپا کرنے کے لیے ایک بڑا موقع فراہم کر دیا تھا۔قیصر تمکین کے افسانوں کے بیشتر کردار خیالی دنیا کے بجائے آس پاس کے ماحول سے سروکار رکھتے ہیں۔ علامتی اور تجریدی افسانہ نگاری سے یقینا انھوں نے اثر قبول کیا ہے لیکن یہ رنگ ان کے افسانوں پر حاوی نہیں ہونے پاتا۔ ان کی یہ خواہش بھی نہیں تھی کہ انھیں ایک علامتی اور تجریدی افسانہ نگار کے طور پر یاد کیا جائے۔البتہ انھوں نے اپنے افسانوں کو سپاٹ بیانیہ اور طے شدہ انجام پر ختم ہونے سے بچانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ یہ خوبی جدیدمعاشرے پر نظر رکھنے والے افسانہ نگار کے یہاں ہی پیدا ہو سکتی تھی۔قیصر تمکین کے بقول’’ان کہانیوں میں کہیں کہیں یہ کوشش مستور ہے کہ’’پھر کیا ہوا؟۔ یہ تجسس اس بات کی علامت ہے کہ کہانی کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس کا طے شدہ انجام ہوتا ہے۔ جس طرح زندگی مختلف جہتوں میں آگے بڑھ جاتی ہے، اسی طرح کہانی بھی کہیں ختم ہو کر کہیں سے شروع ہو جاتی ہے۔قیصر تمکین کے بعض افسانے قدیم ہندو دیو مالا، اساطیراور ما بعد الطبیعاتی عناصر کی عکاسی بھی کرتے ہیں، لیکن ان کے کرداروں کی ارضیت، موجودہ معاشرے کی تصویر کشی اور رہن سہن جلد ہی قاری کو ایک جانی پہچانی دنیا میں داخل کر دیتے ہیں۔ان کے افسانو ں کا ابہام تفہیم کی سطح پر چیستاں نہیں بننے پاتا۔البتہ قارئین کے لیے ذہنی آسودگی کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید اسلوب میں ڈھلے ہونے کے باوجود ان کے افسانے ’کہانی پن ‘سے مزین ہیں۔قیصر تمکین کی تخلیقات میں نو افسانوی مجموعے،دو ناولٹ،ایک خود نوشت اور تین تنقیدی کتابیں شامل ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کے نمائندہ افسانوں کا انتخاب ’’گومتی سے ٹیمز تک‘‘منظر عام پر آیاہے۔اس انتخاب میں اٹھارہ افسانے شامل ہیں جس میں مختصر افسانوں کے ساتھ وہ افسانے بھی موجود ہیں جنھیں طویل انداز نگارش کی مثال کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح علامتی اور دیومالائی طرز اسلوب کے اہم افسانوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیاہے۔افسانہ ’سواستکا‘ کی قرأت ایک علامتی افسانے کے طور پر بھی ممکن ہے، لیکن افسانے میں موجود سریت سواستکا کو کسی مخصوص معنی کی علامت نہیں بننے دیتی۔ یہ افسانہ راوی اور اجنبی شناسا کے مابین ایک کش مکش کو سامنے لاتا ہے۔ اس کش مکش کی بنیاد پرانی اقدار کی شکست اور تہذیب نو کی بلاخیزی ہے۔ یہ صلیب اور سواستکا کے درمیان کا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سواستکا والا شناسا اجنبی املی کے درخت کے پاس صلیب جلنے پر فاتحانہ شان سے ہنستا ہوا باہر آتا ہے۔افسانے کا آخری اقتباس ملاحظہ کیجیے:’’آرام دہ وی سی10 کے کیبن میں لیٹے لیٹے میں ملکوں ملکوں، شہروں شہروں ہوتا ہوا جب گھر پہنچا تو آنگن میں املی کا وہ درخت کٹ چکا تھا جس کے سایے میں ہم جوان ہوئے تھے۔ وہاں پر ایک صلیب جل رہی تھی۔گھر میں کوئی نہ تھا۔صرف دھواں ہی دھواں پھیلا ہوا تھا۔ایک خوفناک قہقہے نے میرا خیر مقدم کیا۔وہاں میرا منحوس شناسا،وہی پراسرار اجنبی تھا۔جس کے چہرے پر فتح مندی کی چمک تھی۔‘‘(گومتی سے ٹیمز تک، مرتبہ احسن ایوبی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی،سنہ 2021، ص41)یہاں املی کا درخت اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ راوی اپنے وطن میں صلیب (جو کہ جرمن نازیوں کی خاص علامت ہے) کے خلاف بغاوت اور مخالفت کی آگ جلتی ہوئی دیکھتا ہے۔ یہاں محض سواستکا کا لفظ علامت نہیں ہے، بلکہ صلیب اور سواستکا دونوں دو مختلف تہذیبوں کی علامتیں ہیں۔ کہانی کا مبہم کردار (شناسا اجنبی) ان پرانی اقدار کا واہمہ ہے جو انسان کے ذہن و دماغ سے کبھی محو نہیں ہوتیں اور وقتاً فوقتاً اپنی روایت سے انحراف کا خوف پیدا کرتی رہتی ہیں۔افسانہ ’باب الابواب‘ انسانی بے حسی اور سرد مہری کے خلاف ایک بیانیہ ہے۔ افسانے کے مرکزی کردار ’نادر علی‘کی طرح بڑا پھاٹک اور اس کے پیچھے بسنے والی مخلوق بھی پراسرار ہے۔ بظاہر یہ افسانہ قدیم لکھنوی تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتا ہے لیکن کہانی میں موجود سریت اس کی معنوی پرت کو گہرا کر دیتی ہے۔یہ سریت کبھی انسانی بے حسی کی طرف لے جاتی ہے اور کبھی روایت شکنی کی طرف۔ اس میں عہد حاضر کی ترقیوں کے علائم بھی ہیں (مثلاًہیلی کاپٹر) اور عہد عتیق کی مضبوط مثالیں (مثلاًمسیح) بھی۔افسانہ ’مرحبا‘ Irony Basedافسانہ ہے۔ یہ ان لوگوں پر طنز ہے جو احساس برتری میں مبتلا ہو کر دوسروں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لیکن جب وہی صورت حال ان کے سامنے آتی ہے تو منافقانہ رویہ اپناتے ہوئے اپنا دامن بچا کر نکل جاتے ہیں۔ ’دیدے‘ اور ’محمود ہومن‘دو مختلف زاویۂ نظر کے ترجمان ہیں۔ محمود ہومن کے متعلق یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:’’محمود ہومن جب پڑھے لکھوں میں بیٹھتا ہے تو اس کی طبیعت افسردہ ہو جاتی ہے۔جب وہ اچھے لوگوں سے ملتا ہے تو شرمندہ سا ہو جاتا ہے۔جب کامیاب شخصیات کے قصے سنتا ہے تو کھسیانا ہو جاتا ہے۔جب مسکراہٹوں اور قہقہوں کی سنہری چمکیلی دھوپ آس پاس بکھرتی ہے تو اس کے وجود پر گہرے منحوس بادل چھا جاتے ہیں اور سب سے زیادہ رنجیدہ تو وہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ ننھے شرمگیں پودوں کی طرح لہلہاتی الہڑ اور البیلی لڑکیوں کو دیکھتا ہے۔’’حسن ہم کو درد مند کیوں بنا دیتا ہے؟‘‘ یہ سوال وہ اپنے آپ سے کرتا ہے اور کوئی جواب نہیں پاتا ہے۔ اس کا فرانسیسی دوست دیدے کہتا ہے:’’ محمود ہومن تم میڈیوکر ہو۔‘‘(ایضاً، ص 48,49)اس کے بالمقابل دیدے دوسری نوعیت کا فن کار ہے۔وہ کہتا ہے:’’تم محمود ہومن شاعری اور حقیقت کی کھچڑی پکانے کی کوشش میں میڈیوکر بن جاتے ہو۔یہ کیوں نہیں سمجھتے ہو کہ سراپا غم ہو کر مسکرانا ہی اصل فن ہے۔‘‘لیکن بالآخر جب ’فریدہ‘سیاہ فام مرد کی طرف بڑھ جاتی ہے اور اس کے دونوں پیر ٹخنوں تک خون کے حوض میں ڈوب جاتے ہیں تودونوں میں سے کوئی آگے نہیں بڑھتا۔اس وقت ثقافت کا پرستار دیدے اور قنوطیت کا بیمار محمود ہومن خاموش تماشائی بنے کھڑے رہتے ہیں۔ دیدے،جو بات بات پر محمود کو میڈیوکر بتاتاتھا، بے شرمی سے قہقہہ لگاتا ہے اور یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ ہم دونوں ہی میڈیوکر ہیں۔ یہ سماجی خیرخواہوں کے کھوکھلے دعووں کی شکست ہے جو وقت آنے پر باطل طاقتوں کے سامنے گھٹنا ٹیک دیتے ہیں۔قیصر تمکین نے یہاں تثلیث کا جو زاویہ قائم کیا ہے وہ دو خود پرستوں کو بے نقاب کرتا دکھائی دیتا ہے۔ فریدہ کا کردار ایک آئینے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے،جو دیدے اور محمود کو ان کا اصلی چہرہ دکھانے کا کام کرتا ہے۔’سیر گل خوب نہ دیدیم‘، یہ افسانہ ہجرت کے کرب، اجنبیت اور خونی رشتوں سے دوری کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ کہانی کے تینوں مرکزی کردار، منظر، ناظر اور صائمہ کی زندگیاں اسی انتشار کے سبب بے رنگ ہوجاتی ہیں۔ منظور صائمہ بجیا سے دوری برداشت نہیں کر پاتا۔ایک لمحے کو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ منظور کا صائمہ بجیا سے ناجائز رشتہ ہے، لیکن یہ رشتہ ایک پاکباز رشتہ تھا۔یہاں حادثاتی طور پر ان دونوں کی علاحدگی فطرت سے کھلواڑ کے مترادف ہے، جو کہ دونوں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔قیصر تمکین نے ہجرت کو صرف ملک اور جغرافیائی نقشے کی تقسیم نہ سمجھ کر اسے بہت سے رشتوں کی تقسیم کے طور پر بھی دیکھا ہے۔ یہ رشتے فطرتی ہیں،جن میں تقسیم کے غیر فطری عمل کے سبب علاحدگی پیدا ہو گئی اور دونوں کی تباہی کا سبب بنی۔افسانہ ’خدا حافظ ابوالحسن‘ عقلیت پسند میڈیوکر ٹائپ لوگوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ افسانے کا آغاز نہایت دلچسپ اور دیومالائی ہے۔ لیکن کہانی میں ابوالحسن کی انٹری کے بعد افسانہ جنید اور ابوالحسن کے افکار و خیالات کو لے کر آگے بڑھتا ہے۔ابوالحسن ایک عقلیت پسند مفکر ہے۔ اس نے اپنی پوری زندگی عقلیت کی تبلیغ کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مرنے کے بعد جسم کی تدفین کا بھی قائل نہیں تھا۔اتفاقاً اجنبی ملک میں ابوالحسن کی موت ہو جاتی ہے۔اب مسئلہ یہ سامنے آتا ہے کہ ابوالحسن نے اپنی موت سے قبل وصیت کی تھی کہ اسے اس کے آبائی وطن میں دفن کیا جائے۔’ جنید‘ جو کہ اس کا پرانا دوست ہے، اس وصیت کو لوگوں کی طرف سے گڑھی ہوئی بات سمجھتا ہے۔ وہ رات میں رقص کے دوران خاموشی سے ابوالحسن اور فوٹوگرافر ’ڈیونیر‘ کے تابوتوں میں ہیرا پھیری کر دیتا ہے۔ جس کے سبب فوٹوگرافر دفن کر دیا جاتا ہے اور ابوالحسن کی لاش جلائی جاتی ہے۔ جنید کا یہ رویہ عقلیت پسندی کے خلاف ایک تازیانہ ہے۔ ساتھ ہی ابوالحسن کی بیجا عقلیت پسندی کا نتیجہ بھی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ابوالحسن نے اپنی موت سے قبل واقعی اس طرح کی کوئی وصیت کی تھی تو اس کے کیا اسباب تھے؟ یہاں افسانہ نگار خاموش ہے۔شاید اس لیے کہ عقلیت پسندوں کے منحرف رویوں پر اسے بھی حیرانی ہے۔افسانہ ’یروشلم یروشلم‘اس امر کا اثبات ہے کہ قدیم عمارتیں اور پرانی یادیں ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ ان کے ضائع کرنے سے انسانی تاریخ کا ایک بڑا حصہ حذف ہو جاتا ہے۔ افسانہ اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ کوئی بھی شے اپنے وجود کے اعتبار سے نئی یا پرانی نہیں ہوتی، بلکہ لوگوں کی ترجیحات بدلنے سے ان پر قدامت کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ لیکن معیار بدل جانے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ اس افسانے کا موضوع قیصر تمکین کی ہندوستان دوستی اور ان کا عہد طفلی ہے۔ افسانہ نگار اپنے ماضی کا قدردان بھی ہے اور اس کے تحفظ کے لیے فکر مند بھی۔افسانہ ’عہد گل ختم ہوا‘طالب علموں کی ہوسٹل لائف کے علاوہ سماج میں بڑھتی عدم رواداری کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ افسانے کے دو مرکزی کردار ’رام سنگھ‘ اور ’معجز‘دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود ہم پیالہ وہ مشرب والی زندگی گزار رہے ہیں۔ رام سنگھ کیمپس چھوڑنا نہیں چاہتا اور معجز کو سند کی کوئی ضرورت نہیں۔ دونوں اپنے اپنے مقصد میں کامیاب ہیں۔ لیکن ان دونوں کی شراب نوشی اور نتائج سے بے خبری پرانی قدروں کی شکست کی علامت کے طور پر ظاہر ہوئی ہے۔ یہ افسانہ قومی منافرت کے دوستی پر اثرانداز ہونے کی مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم قوم سے دشمنی کی خبریں سن کر رام سنگھ شرمندہ ہو کر خودکشی کر لیتا ہے۔ اس وقت ’معجز‘کو بھی مسلمانوں کی اپنی کوتاہیوں کا احساس ہوتا ہے۔ قیصر تمکین انتہا پسندی کے خلاف ہیں اور یہاں انتہا پسندی کے نتیجے میںخراب ہوتے دوستانہ تعلقات کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ حساس ذہن اور دردمند دل کبھی بھی انتہا پسندی کو قبول نہیں کر سکتے۔رام سنگھ کی خودکشی قوم کے انتہا پسندرویے پر حد سے زیادہ شرمندگی اور صدمے کی مثال ہے۔افسانہ ’باز پرس‘اپنی مٹی سے وابستگی اور ایثار کو سامنے لاتا ہے۔ یہ ان لوگوں پر گہرا طنز ہے جو ہجرت یا فرار کو راہ نجات سمجھتے ہیں۔ یہاں افسانہ نگار اپنی زمین سے وابستہ رہتے ہوئے شہید کر دیے جانے کو ہجرت پر ترجیح دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک احساس فتح مندی ہے۔ اور اسی احساس کے ساتھ عالم ارواح سے وہ خط کے ذریعے ان لوگوں سے باز پرس کرتا ہے جو ہجرت کر گئے تھے یا ہجرت کے لیے بیتاب تھے اور مارے گئے۔اس سلسلے میں وہ ادیبوں اور شاعروں پر بھی اظہار خیال کرتا ہے۔ ایک خط ملاحظہ کیجیے:’’رضوی صاحب!’’اصل میں ادیب و فن کار اگر محض سماجی رتبوں کا پروردہ نہیں ہے تو ایک ایسا مسلک اپناتا ہے جس میں ’مجنوں باشی‘ کی قدیم شرط اول ہی شرط آخر بھی ہوتی ہے۔اسی بنا پر میرا خیال ہے کہ کوئی بھی شاعر اور ادیب جو اپنے ملک، اپنے زمین و آسمان اور اپنے شہریوں اور ہمسایوں سے بھاگ کر دوسرے ملکوں میں پناہ گزیں ہوتا ہے تو وہ سب کچھ تو ہو سکتا ہے مگر ایک مخلص ادیب و دانشورنہیں قرار دیا جا سکتاہے۔ ڈاکو ہو سکتا ہے،سوویت یونین کا سولزے نتسن ہو سکتا ہے، البانیہ کا اسماعیل قادری ہو سکتا ہے، اردو کا۔۔۔خیر چھوڑیے بھی۔ کہنا یہ تھا کہ بھاگنے والا سقراط،مسیح اور منصور نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس راہ فرار کے معنی ہی فقدان اخلاص کے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً، ص ص141)یہاں افسانہ نگار نے ایسے ادیبوں اور شاعروں کو نشانہ بنایا ہے جو ملک سے ہجرت کر جانے کو ہی مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔حالاں کہ قیصر تمکین خود بھی ایک مہاجر تھے،لیکن اس کے باوجود ان کا یہ خیال اہمیت ضرور رکھتا ہے۔ ان کے مطابق ادیب کا اصل کام ہجرت کرنا نہیں بلکہ مسائل سے نبرد آزما ہونا اور ان پر بے باکی سے اظہار خیال کرنا ہے۔ مکتوباتی انداز میں لکھا گیا یہ افسانہ یک طرفہ ہونے کے باوجود کافی دلچسپ اورAttackingنوعیت کا ہے۔افسانہ’سر مقتل‘ ضبط تولید کو زیر بحث لا کر آنے والی نسلوں کے تئیں ایک تشویش کو اجاگر کرتا ہے۔ راوی کا یہ خوف کہ اب ایسی نئی نسل پیدا ہی نہیں ہو سکتی جس کے لیے کوئی پیغام چھوڑا جائے، نسل نو کی اقدار دشمنی، اور رنگینیوں کی طرف ان کے میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے کچھ جملے ملاحظہ فرمائیں:’’وہ دن گئے جب دن دن بھر کتب خانوں میں صرف یہ معلوم کرنے کے لیے بیٹھے رہتے تھے کہ اگلے وقتوں کے جانباز کس دھج سے سر مقتل گئے۔‘‘حقیقت یہ ہے کہ وہ نئی پیڑھی جس کا’میں‘ منتظر ہوں اور ’وہ‘ متوالا تھا،اب ہماری تہذیب کے بطن سے پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔‘‘(ایضاً، ص 171)بغیر کوئی آخری پیغام دیے پھانسی کے پھندے پر جھول جانے والا یہ شخص اصول پسند اور اپنی روایت کا امین ہے، جس کے بعد اس کا کوئی وارث نہیں۔ وراثت کے تحفظ کا فقدان جو کہ ہمارے عہد کا بڑا المیہ ہے اس افسانے کا مرکزی خیال بن کر ابھرا ہے۔’نوجیون‘ایک ایسا افسانہ ہے جو فسادات کے انسانی ذہن و دماغ پر پڑنے والے مہلک اثرات کی نشان دہی کرتا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار ’عنایت‘ ہے۔جو شر پسندوں کے ہاتھوں قتل کیے جانے کی کئی واردات دیکھ چکا تھا۔وہ بالآخر اپنے آپ کو ایک مردہ تسلیم کرلیتا ہے۔ اسی غیر انسانی رویے کے سبب وہ مذہب سے بھی بیزار ہو جاتا ہے۔ اس افسانے میں بھی قیصر تمکین نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ انتہا پسندی کس طرح امن پسند ذہنیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔اور فسادات سے اس شخص پر کیسے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں جو حالت ’عنایت‘کی ہے، بیشتر امن پسند اشخاص اسی صورت حال میں گرفتار نظر آتے ہیں، اور یہی ہمارے سماج کیIronyہے۔’ژینیت‘ اس انتخاب میں شامل سب سے طویل کہانی ہے۔ اسے طویل انداز نگارش کی ایک مثال بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ’ژینیت‘ متعصب اور قدامت پرست مسلم گھرانوں سے اٹھنے والی بغاوت اور احتجاج کی ان آوازوں کی کہانی ہے جو اپنے گھروں کے فرسودہ نظام کے خلاف بلند ہوتی ہیں۔ کہانی کے مرکزی کردار ’ژینت‘ اور ’عدو‘ بھائی کی زندگیوں کے اتار چڑھاؤ دوسروں کے لیے ایک تحریک اور ترغیب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک معمولی غریب لڑکی ہونے کے باوجود ژینیت جس طرح بیرون ملک جاکر کامیاب آرٹسٹ بنتی ہے اور خوب پیسے کماتی ہے، یہ اس کی بے باکی کی مثال ہے۔ ژینیت کا کردار شروع ہی سے اپنی بہادری کا جلوہ دکھاتا نظر آتا ہے، جس کی پہلی نمائش احمد کے اسکول میں کچھ غنڈوں کی پٹائی کے وقت سامنے آتی ہے۔ ژینیت نے یہ ثابت کردیا کہ دنیا میں اصل تقسیم صرف امیری اور غریبی کے مابین ہے۔ اس تقسیم سے نہ کوئی رشتے دار محفوظ ہے اور نہ ہی مساوات کا درس دینے والاکوئی فرد۔ ژینیت کا کردار لڑکیوں کی زندگی کے کئی پہلوؤں کو روشن کرتا ہے۔ اسی طرح ’عدو ‘بھائی کا کردار متمول مسلم گھرانوں کے ان لڑکوں کی مثال ہے جو کچھ دنوںتک روایتی نہج پر چلنے کے بعد اپنے شعور کو کام میں لاتے ہیں اور اس نہج سے انحراف کی جسارت کر بیٹھتے ہیں۔ اس قسم کے کردار ماحولیاتی تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے اپنے ذہن و دماغ کو تیار رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ژینیت بھی جب عدو سے ایک مدت کے بعد ملتی ہے تو اس کی فکر سے متاثر ہو کر اس سے قریب ہو جاتی ہے۔ عدو کی ماں اور دوسرے لوگوں کی ہزار کوششوں کے باوجود افسانے کے اخیر میں عدو اور ژینیت کی ایک دوسرے سے جذباتی ہم آہنگی محض اتفاق نہیں، بلکہ ناسازگار ماحول میں دو مثبت روحوں کے ملاپ کی علامت ہے۔زبان و اسلوب کی سطح پر یہ اعتراف ضروری ہے کہ قیصر تمکین کے افسانوں کی زبان بہت سلیس اور رواں ہے۔ وہ صحافی بھی ہیں اور انگلستان میں رہنے کی وجہ سے وہاں کی زبان اور کلچر سے بخوبی واقف بھی۔ لیکن ان کی زبان نہ تو انگریزی زدہ ہے اور نہ ہی ان کا بیانیہ صحافت کی شکل اختیار کرتا ہے۔ انھوں نے اسلوب کی سطح پر کئی تجربے کیے ہیں لیکن کسی بھی عنصر کو اپنے آپ پر حاوی نہیں ہونے دیا ہے۔ وہ ایک کہانی کار ہیں اور کہانی کار کی حیثیت سے علامت، دیومالا، ابہام اور داستان سے بھی استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔Faizanul HaqueF-11/18, Third FloorJogabai Extn, Near Nooh Masjid, Jamia NagarNew Delhi - 110025Mob.: 8800297878" افسانہ نگار ناقد: اختر اورینوی - مضمون نگار : محمد حسنین رضا,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/06/,"اختر اورینوی ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔ جنھوں نے ادبی کارناموں کا ایک یادگار زخیرہ چھوڑا ہے۔ اختر اورینوی شاعر، افسانہ نگار، ڈراما نگار، ناول نگار، محقق اورناقد بھی تھے۔ ادب کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں انھوں نے تصنیف و تالیف کی صورت میں خوبصورت موتی نہ بکھیرے ہوں۔ ہر صنف ادب میں انھوںنے قلم کا زور دکھایاہے۔اختر اورینوی کا اصل نام سید اختر احمد تھا۔ اختر تخلص کرتے تھے۔عرف عام میں اختر اورینوی کے نام سے مشہور ہوئے اور ادبی دنیا میں بھی اسی نام سے شہرت ملی۔اختر اورینوی کے والد کا نام سید وزارت حسین اور والدہ ماجدہ کا نام بی بی خدیجہ تھا۔آپ کی پیدائش 19 اگست 1910 کو ضلع گیا میں ہوئی تھی۔اختر اورینوی کی شادی مشہور ومعروف خاتون افسانہ نگار شکیلہ اختر (شکیلہ بانو) سے ہوئی۔وہ ایک خوش حال اور ذی علم خاندان کے فرد تھے۔ ننھیال اور ددھیال دونوں جہت سے عزت دار اور پروقار۔ وہ خوب صورت تھے اور خوش خلق وخوش پوش بھی۔نرم مزاجی اور نیک دلی اختر اورینوی کی سرشت تھی اور غم گساری ومنکسرالمزاجی ان کا شعار تھا۔ وہ تعصب اور تنگ نظری سے کوسوں دور تھے۔انسانی ہمدردی سے لبریز وہ ہر کسی سے لطف و اخلاق سے پیش آتے تھے۔حتیٰ کہ اپنے مخالفین سے بھی وہ خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔اختر اورینوی ایک پیدائشی ادیب تھے اور تخلیق کاری ان کی وہبی استعداد تھی۔ انھوں نے لکھا اور خوب لکھا اور ہر میدان میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ وہ شاعر بھی اعلیٰ مقام کے تھے اور افسانہ نگار بھی منفرد تھے۔ ناول نگار ی اور ڈراما نگاری میں بھی ان کی شخصیت قابل ستائش تھی اور بحیثیت ناقد و محقق بھی بلند پایہ تھے۔ ’انجمن آرزو‘ اور ’یک چمن گل‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔ جہاں تک ڈراما اور ناول کا تعلق ہے ان کا ناول ’حسرت تعمیر‘ اوردو ڈرامے ’شہنشاہ حبشہ‘ اور’زوال کینٹین‘ فکری و فنی اعتبار سے کامیاب اور معیاری ہیں۔ ’ بہارمیں اردو ادب کا ارتقا‘ ان کا معرکتہ الآرا کارنامہ ہے۔ جس میں انھوں نے لسانیات سے متعلق اپنی مدلل رائے پیش کی اور تحقیق کا حق ادا کیا۔ علاوہ ازیں ان کی کئی تنقیدی تصانیف بھی منظر عام پر آکر داد وتحسین حاصل کر چکی ہیں۔ جس میں تحقیق و تنقید، نئی تنقید، سراج ومنہاج اور بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا کو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی۔اختر اورینوی نے اپنے تنقیدی مضامین و تصانیف میں تنقید کے بنیادی مسائل کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی۔شاعری اور کہانیوں سے اختر اورینوی کی دلچسپیوں کا سلسلہ دور طفولیت اور آغاز نوجوانی سے شروع ہو جاتا ہے۔اختر اورینوی اپنی اس دلچسپی کا اظہار یوں کرتے ہیں:’’بچپن میں کہانیاں سننے کا بڑا شوق تھا۔ گھر کی بڑی بوڑھیوں کی خوشامدیں کیا کرتا تھا اور خوب کہانیاں سنا کرتا۔ دادی اماں مذہبی قصے سناتی تھیں اور دوسرے لوگ دنیا بھر کی حکایتیں اور داستانیں سناتے تھے۔ بیمار بہت پڑتا تھااور کہانیوں سے میری بیماریاں بہلائی جاتی تھیں۔ مجھے میٹھی چیزوں اور کہانیوں کا بڑا شوق رہا۔آج بھی ناولوں اور داستانوں پر اور حلووں پر جان دیتا ہوں۔‘‘(بحوالہ :ہندوستانی ادب کے معمار،اختر اورینوی، ساہتیہ اکادمی، 2004، ص68)کہانی سننے کا یہ شوق رفتہ رفتہ سنانے کی خلش بن گیا اور وہ ایک عظیم افسانہ نگار بن گئے جنہوں نے صوبۂ بہار کانام افسانوی ادب میں روشن کیا۔ ان کا شمار بہار کے ممتاز ترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اختر اورینوی صوبہ بہار کے وہ لعل ہیں جن کے قلم سخن نے بیسیوں افسانے کو وجود بخشااور افسانوں کا ایک ذخیرہ تیار کیا۔اختر اورینوی نے اپنے افسانوی سفر کا آغاز 1927 میں کیا۔ اختر اورینوی اپنے ایک مقالہ’میرا نظریۂ فن‘ میں خودلکھتے ہیں کہ:’’مجھے یاد ہے کہ میں نے 1927 سے چھوٹے چھوٹے ادب لطیف کے نمونے پیش کرنے شروع کر دیے تھے اور غزلیں لکھنی شروع کر دی تھیں۔ عنفوان شباب کا خاص تعلق ادب لطیف اور غزل سے بھی ہے۔ تخلیق سے ذوق وشوق کی تسکین ہوتی تھی اور بس! ادب ونظریہ کے تصور سے بھی واقف نہ تھا۔ یہ کیفیت 1936 تک رہی اور اس لمبے عرصے میں میں نے رومانی رنگ کی تخلیقات بھی کیں۔ حقیقت پسندانہ بھی اور مقصدی ادب بھی پیش کیا۔‘‘ (اختر اورینوی:فنکار وناقد، ص15)اختراورینوی کی افسانوی تخلیقات میں ’رتنا‘جسے انھوں نے 1927 میں لکھا، ان کی اہلیہ شکیلہ اختر کے مطابق کہیں شائع نہ ہوسکی۔ان کا پہلا افسانہ جو ادبی پرچہ میں شائع ہو ا وہ’بدگمانی‘ ہے۔ اس کے بعد تو وہ مسلسل ومتواتر لکھتے رہے۔ان کے چھ افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: منظر وپس منظر، کلیاں اور کانٹے،انارکلی اور بھول بھلیاں،سمینٹ اور ڈائنامیٹ، کیچلیاں اور بال جبریل،سپنوں کے دیس میں۔ان کے چھ افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے جن میںتقریباً سو افسانے شامل ہیں۔ ’ بدگمانی‘سے لے کر ’ایک درخت کا قتل‘ تک ان کا طویل افسانوی سفر ہے جو 1927 سے 1977 تک پھیلا ہوا ہے۔جو مکمل آدھی صدی پر مشتمل ہے۔ اس میں اختر اورینوی نے اپنے تجربوں اور مشاہدوں، افسانوی صلاحیتوں اور فنی بصیرتوں کو بروئے کار لا کر افسانوں کی خوبصورت دنیا آباد کی ہے، جس کا کینوس فن، ہیئت اور موضوع کے اعتبار سے وسیع اور متنوع ہے۔مظہر امام اپنی بیش قیمت رائے کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:’’اورینوی کے افسانے فن اور موضوع دونوں اعتبار سے نادیدہ جہانوںکے تلاش وجستجو کا پتہ دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی دنیا اپنے موضوعات کے لحاظ سے بڑی وسیع اور متنوع ہے۔ یہ افسانے کسی مقید فضا میں سانس نہیں لیتے۔ ان کا خمیر زندگی سے اٹھا ہے اور زندگی کہیں دور خلا کے اندھیروں میں پرواز نہیں کرتی۔ وہ انسان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں ہنستی اور مایوسیوں میں آنسو بہاتی ہے۔ اورینوی کے زندگی آمیز اور زندگی آموز افسانوں پر ایک ہمہ جہت اور پروقار شخصیت کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ ‘‘ (ایضاً، ص26)اختر اورینوی نے مذکورہ بالا مجموعوں کے مختلف افسانوں میں مختلف النوع موضوع، اسلوب اورتحریکات کو سمونے کی عمدہ سعی کی ہے۔ ان کے ابتدائی دور کے افسانوں میں رومانویت کا عنصر نمایاں ہے۔چنانچہ اس تعلق سے وہ خود ایک جگہ اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے سب سے پہلے رومانی افسانہ نگار نیاز فتحپوری سے اثر قبول کیااور علامہ اقبال سے بھی متاثر ہوئے جو ان کی تخلیقات میں دکھائی دیتا ہے۔ گھر کے مذہبی ماحول نے ان کو حالی، اقبال، شبلی اور شرر کا گرویدہ بنا دیا۔ وہیں وہ میر، غالب، نیاز، یلدرم اور اختر شیرانی سے مستفیض ہوئے اورترقی پسندی کا بھی خاص اثر قبول کیا۔ بقول اختر اورینوی:’’میں نے اہل زندگی میںسب سے پہلے نیاز فتحپوری سے اثر لیا اور ساتھ ہی ساتھ یا اس کے کچھ بعد اقبال سے اثر پزیر ہوا۔ نیاز اور اقبال کے دو متضاد نظریہ ہائے فن ہیں۔ آج میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں نظریے ایک دوسرے کی تشکیل کا باعث ہیں۔ اردو ادب کی روایت میں ترقی پسندی بھی ملتی ہے اور عیش کوشی بھی۔ ان دونوں کا تصادم بھی ملتا ہے اور رجعت پسندی بھی۔ میرے گھر کی مذہبی فضا نے مجھے حالی، اقبال، شبلی اور شررکا گرویدہ بنا دیا لیکن میرے مزاج کی جذبات پروری اور رومانیت نے مجھے میر، غالب، نیاز فتحپوری، یلدرم اور اختر شیرانی کی طرف بھی مائل کیا۔ درمیانی دور میں اشتراکیت سے بھی بہت متاثرہوا ہوں۔ اسی بنا پر ترقی پسند مصنفین کی انجمن اور ترقی پسند تحریک سے گہرا اثر قبول کیا۔ اب غور کرتا ہوں تو میں کسی ایک میلان کا کبھی نہیں رہا اور ایک دھارے میں کبھی نہیں بہا۔‘‘(ایضاً، ص27)یہی وجہ ہے کہ اختر اورینوی کے یہاں ایک میلان نہیں ملتا ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں مختلف النوع موضوعات کو پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔اسی مضمون میں اختر اورینوی اپنے نظریۂ فن کو مزید وضاحت وصراحت کے ساتھ اس طرح پیش کرتے ہیں:’’میرا نظریہ یہ ہے کہ فن کی ساری قسمیں تجربات زندگی سے خام مواد حاصل کرتی ہیں اور ترتیب فن کی اندرونی شخصیت سے نئی ترتیب تازگی، زندگی، روح سوز وساز، تعمیر ومعنویت حاصل کرتی ہیںاور پھر پیش کش کی منزل میں فنکاری کی ہنرمندی سے ترتیب وتناسب ربط وہم آہنگی، تراش وخراش، وضع وقطع، اسلوب وادا، تنظیم وتعمیر پاتی ہیں۔ غرض یہ کہ فن، فطرت اور معاشرہ زندگی اور کائنات کی محض ترجمانی کا نام نہیں بلکہ تخلیق جدید کا نام ہے۔‘‘(اردو میں ترقی پسند ادبی تحریکـ: خلیل الرحمٰن اعظمی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 2007، ص197)پروفیسر عبدالمغنی نے اختر اورینوی کی افسانہ نگاری کے ابتدائی مرحلے کی نشاندہی کرتے ہوئے اس دور کے حالات و کیفیات پر مفصل روشنی ڈالی ہے:’’جس وقت اختر اورینوی نے افسانہ نگاری شروع کی، پریم چند زندہ تھے اور ان کے پیروئوں کی ایک پوری نسل بروئے کار آچکی تھی۔ سدرشن، اعظم کریوی اور علی عباس حسینی ابھر چکے تھے۔ اس کے ساتھ نیاز فتحپوری کا جمالستان اور سجاد حیدر یلدرم کا خیالستان سج چکے تھے۔ مجنوں گورکھپوری کا بیان بھی آ چکا تھا۔ حجاب امتیاز علی کا کوہِ قاف نمودار ہو رہا تھا، سعادت حسن منٹو نے ابھی لکھنا شروع کیا تھا پھر اختر اورینوی کے لکھنا شروع کرنے کے دوتین برسوں بعد کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور چند سال اور بعد عصمت چغتائی بھی میدان میں آ گئیں۔‘‘(نیا افسانہ، ص 175)اختر اورینوی کے افسانے کی نمایاں خصوصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے پریم چند کی طرح بہار کی دیہی زندگی اور وہاں کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اختر صاحب نے خود کو بہار کے دیہاتوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے موضوعات میں تنوع اور رنگارنگی ہے۔اختراورینوی کے افسانوں میں سماج کے مظالم اورسرمایہ دارانہ نظام پر طنزو تنقید بھی ہے۔ان کو سماج کے متوسط طبقے سے ہمدردی ہے۔وہ موضوعات بھی متوسط طبقے سے لیتے ہیں مثلاً جونیئر وکیل، ٹائپسٹ، بوڑھی ماما، سینی ٹوریم کا فقیر، پندرہ منٹ اور ’درخت کا قتل‘ ان کے شاہکار افسانے ہیں۔اختر اورینوی کے تمام افسانوں میں اختر اورینوی نے اپنے عہد کی بصیرت کو بڑی احتیاط، سنجیدگی اور انسان دوستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے طبقاتی کشمکش اور متوسط طبقے اور نچلے طبقے کی اقتصادی الجھنوں اور محرومیوں کو نہایت عمدگی سے بروئے کار لایا ہے۔خلیل الرحمٰن اعظمی اختر اورینوی کے افسانوں کے موضوعات پر روشنی ڈالتے ہیں:’’اختر اورینوی نے بعض پیچیدہ مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ نچلے طبقے کی معاشی مشکلات، انسانی قدروں اور بھوک کا تصادم،قرض اور سود، لڑائی اور جھگڑے اورمقدمہ بازی، خاندانی مناقشات، زمیندار اور کاشتکار، قلی، نانبائی، رکشہ کھینچنے والے اور بھٹی جھونکنے والے سب کا مطالعہ اختر اورینوی نے قریب سے کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی متوسط طبقے کی ناکامیاں ونامرادیاں بھی ان کا موضوع رہی ہیں۔‘‘(ساغر نو: اختر اورینوی نمبر، 1965، ص 412)اختر اورینوی نے سماجی بصیرت اور حقیقت کے امتزاج سے ایک ایسا اسلوب ایجاد کیاکہ اس سے زندگی کی ترجمانی میں جان پڑ گئی۔ انھوں نے دیہات کی عوامی زندگی اور ساتھ شہری زندگی کے مسائل کو واقعیت اور حقیقت شعاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بقول وقار عظیم:’’شہری زندگی کی بھیڑ بھاڑ میں سے اختر اورینوی نے بہت سی چیزیں چنی ہیں اور انھیں بہت سی چیزوںسے ان کے افسانوں کی تشکیل ہوئی ہے۔ اسی بھیڑ بھاڑ کی دنیا میں نچلے طبقے کے لوگ ہیں جیسے یکہ والے، موٹر ڈرائیور، نانبائی، چھوٹے بڑے مختلف طرح کے مزدور جو شہر میں رہ کر بھی بے سروسامان ہیں اور بے سروسامانی کبھی ان کی قوت بازو اور جذبہ خودداری کا مضحکہ اڑاتی ہوئی انھیں بھیک کے پنجوں میں لا پھنساتی ہے۔‘‘(جادۂ اعتدال، ص 160)اختر اورینوی کے افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے افسانوں میں وہی خوبیاں موجود ہیں جو عام طور پر معاشرتی اور سماجی مسائل کے پیچ وخم ہیں۔ وہ ایک بالغ النظر فن کار کی طرح ہندوستان کی پوری زندگی پر چھا گئے۔ ایک طرف بہار کی مخصوص فضا اور حالات میں رہنے والے کسانوں کے مصائب، خشک سالی، بھوک، غربت، سودہیں تودوسری جانب شہر کی بے بسی اور بے حسی کے درمیان پھنسا انسانی ہجوم اور مختلف طبقات میں بٹی ہوئی ان کی زندگی۔ ان کے افسانوی مجموعوںمنظر وپس منظر، سمینٹ ڈائنا مائٹ، کیچلیاں اور’بال جبریل‘ کے افسانوں میں وہی سسکتی زندگیاں ہیں جو سماج اور زمانے کے دوپاٹوں کے درمیان پسے جا رہے ہیں۔ زمیندار اور سرمایہ دار کے ذریعہ استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔ اکتاہٹ، شادی کے تحفے،کلیاں اور’کانٹے‘ جیسے افسانوں سے اختر اورینوی کا شمار اردو ادب کے ان باکمال افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جن میں بیدی، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس اور حسن عسکری نظر آتے ہیں۔ان کے افسانوں میں سماجی زندگی، حقیقت کے ساتھ رومان سے قریب نظر آتی ہے جو قاری کے دل پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔نینی، شاکرہ اورراشدہ کا کردار بحیثیت نسوانی کردار ان کے افسانوں کے مرکزی کردار ہیں۔ یہ وہ کردار ہیں جو مسلم اور کرشچن، باعزت مڈل کلاس کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سادہ لوح، خاموش اور محبت کی مٹی سے گندھے ہوئے ہیں۔ اختر اورینوی کا مطالعہ و مشاہدہ اس تناظر میں بھی کم نہیں۔ان کرداروں پراختر اورینوی کی نظر موضوع سے زیادہ قریب ہوتی ہے اور وہ ان کرداروں کی گہری جذباتی ہیجان کو نہایت قریب سے پیش کرنے میں بہت ہی ماہرانہ چابکدستی سے کام لیتے ہیں۔ بحیثیت افسانہ نگار ان کا قد بلند دکھائی دیتا ہے۔ان کے افسانوں میں زندگی کا گہرا مطالعہ اور اس کے معنی خیز پہلوؤں کا احساس بھی پایاجاتاہے۔ وہ کہانی میں کردار، پلاٹ اور ہیئت کو اس سلیقہ مندی سے پیش کرتے ہیں کہ کہیں بھی تاثر کم نہیں ہوتا۔ زبان میں تاثیر اور کیفیت ہے۔ ان کے افسانے ہمیں گرد وپیش کے متعلق ایک بصیرت عطا کرتے ہیںاور ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ ان افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جو زندگی کی تصویر کشی میں نفسیات کے مطالعہ سے کام لیتے ہیں۔ انھیں انسانیت کی بنیادی قدروں کا بھی عرفان ہے اور وہ زندگی کے کائناتی نظام سے بھی واقفیت ہے۔بلا شبہ اختر اورینوی کی ادبی شخصیت ہمہ گیر تھی۔ ان کے جادو نگار قلم کی جولانیاں مختلف اصناف ادب میں نظر آتی ہیں۔ اختر اورینوی اردو ادب کے اعلیٰ ادیب وشاعر ہیں۔ شاعری ہو کہ افسانہ، ناول ہو کہ ڈراما، تاریخ ہوکہ صحافت اور تحقیق ہو یا تنقیدہر جگہ ان کی جلوہ سامانی موجود ہے اوروہ اتنی آہستگی اورشائستگی کے ساتھ یہ کارنامہ انجام دیتے ہیںکہ ہر سو ان کے فن کا ڈنکا بجنے لگتا ہے۔اختر اورینوی کی غیرمعمولی کاوشوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔Md Hasnain RazaD-4, Second Floor, Okhla Vihar,Jamia Nagar, OkhlaNew Delhi-110025Mob.: 9891675442" اردو غزل کا علامتی نظام : ایک جائزہ - مضمون نگار : ساجد ممتاز,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/05/,"شعرا و ادبا اپنے خیالات و احساسات کے بہتر اظہار کے لیے ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ اس بات کی تلاش میں رہتے ہیں کہ اپنے احساسات و جذبات کے اظہار کے لیے مؤثر سے مؤثرترین طریقے اور ترسیل خیالات کے نئے نئے پہلو ایجاد کیے جائیں اور ان کو عملی زندگی میں استعمال کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ادائے مطلب کے دوران ادب کا دامن بھی ہاتھوں سے چھوٹنے نہ پائے۔ اس کے لیے انھوںنے رمز و اشارہ اور کنایے کا سہارا لیا۔ مثلاً کبھی تشبیہ و استعارے کی شکل میں تو کبھی علامت کی صورت میں اور کبھی علم معانی و بدیع کی دوسری مختلف صنائع کے ذریعے اپنے خیالات کو پیش کیا۔ ان تمام خوبیوں کو برتنے کے پیچھے یہی جذبہ اور جوش کام کرتا رہتا ہے کہ ادائے خیالات کے نئے نئے سانچے مہیا ہوں جس سے سننے والے کے دل و دماغ میں اشیا اور محسوسات و جذبات کی صحیح تصویر کشی ہو سکے۔اظہار کا بالواسطہ پیرایہ ادب کی ایک اہم خصوصیت ہے یعنی شاعر یا ادیب جو بات کہے اس سے دوسرے معنی مراد لیے جائیں۔ تشبیہ، استعارہ، کنایہ، تمثیل اور مجاز وغیرہ اس بالواسطہ اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔ اظہار کی یہ اہم ترین صورتیں بہ ظاہر تو ایک دوسرے سے مشابہ نظر آتی ہیں لیکن حقیقتاً یہ ایک دوسرے سے منفرد ہیں۔علامت بھی انھیں طریقۂ اظہار میں سے ایک مؤثر ترین طریقہ ہے۔ علمائے ادب اور شاعروں نے علامت کا استعمال بہت فصیح انداز میں کیا ہے۔ اس سے کلام میں وسعت پیدا ہوئی اور کلام اختصار کی سرحدوں سے نکل کر ایجاز کی وادیوں میں پہنچ گیا۔ معانی و مطالب کے نئے نئے غنچے کھلنے لگے۔ علامت کا لطف منتہا بھی یہی ہے کہ اس کے اشارے میں لطافت اور دلچسپی کوٹ کوٹ کر بھری ہو، شاعرانہ تخیل کو تیز رفتاری ملے، واقعے اور قصے میں چاشنی کے ساتھ ساتھ تجسس بھی ہو، کوزے میں سمندر بھی سمایا رہے اور باوجود ان خصوصیات کے فنی ضرورتوں اور تقاضوں سے اس کا دامن بھی خالی نہ ہونے پائے۔علامت سے متعلق جب گفتگو ہوتی ہے تو ذہن میں لاشعوری طور پر یہ سوال رقص کرنے لگتا ہے کہ علامت کہتے کسے ہیں؟ علامت کی جامع و مانع تعریف کیا ہے؟ اس سلسلے میں زبان کے تخلیقی عناصر پر بحث کرتے ہوئے ادب کے ناقدین نے علائم کی مختلف تعریفیں اور توضیحیں کی ہیں۔ ان میں سے بیش تر تعریفیں اپنے آپ میں اتنی مبہم اور پیچیدہ ہیں کہ ان سے کوئی کامل نتیجہ نکالنا بہت مشکل ہے۔ اس کے باوجود ان سے علامت کو سمجھنے اور ان کی روشنی میں علامت کی ایک جامع و مانع تعریف متعین کرنے میں مدد ضرور ملتی ہے۔انسانی فکر کی تاریخ میں علامت کا تصور بہت قدیم ہے۔ علامتی عمل نے اساطیر، لوک گیتوں و لوک کہانیوں، مذہب، سماجی رسومات اور تہذیب و تمدن کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔علامت کی تعریف کرتے ہوئے حامدی کاشمیری لکھتے ہیں:’’کوئی لفظ جب اپنے معنی کے علاوہ کسی وسیع اور تہہ دار معنی کو پیش کرے تو وہ علامت کا درجہ حاصل کرتا ہے۔ گویا علامت شعری ہنر مندی سے زبان کے ایک مخصوص استعمال کے طریقے سے تشکیل پاتی ہے۔‘‘(بحوالہ ڈاکٹر نجمہ رحمانی، جدید غزل کی علامتیں: ص 18:ایم آرپبلی کیشنز، نئی دہلی:2005)علامت سے مراد وہ بیان ہے جس کے ذریعے جو کہا جائے اس سے کچھ الگ اور کچھ زیادہ معنی مراد لیے جائیں۔ علامت ہمارے ذہن کو معانی کی کئی جہتوں کی طرف منتقل کرتی ہے اور اس کی یہی خوبی ہے کہ یہ ان میں سے ہر جہت کے لیے موزوں قرار پاتی ہے۔ٹی ایس ایلیٹ کا خیال ہے کہ نظم یا علامت جو ایک قائم بالذات شے ہے جو شاعر اور قاری کے مابین رہتی ہے اور کسی نہ کسی طرح اس کا رابطہ دونوں سے ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کا یہ رابطہ شاعر کے ساتھ بھی ویسا ہی ہو جیسا قاری کے ساتھ۔ نظم یا علامت شاعر کے مدعا کو ظاہر اور قاری کے ذہن کو (علامت کی طرف) منتقل تو کر سکتی ہے لیکن اس اظہار و انتقال میں مطابقت ہونا ضروری نہیں۔علامت کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر انیس اشفاق لکھتے ہیںـ:’’علامتی بیان میں جیسے جیسے ہم الفاظ اور ان کے انسلاکات کا تجزیہ کرتے جاتے ہیں ویسے ویسے وہ بیان وسیع المفہوم ہوتا جاتا ہے اور ہر تجربے کے بعد جہاں موضوع بیان میں تنوع پیدا ہے وہیں اس کا تاثر بھی مختلف ہو جاتا ہے۔‘‘(ڈاکٹر انیس اشفاق،اردو غزل میں علامت نگاریص 96-97، اترپردیش اردو اکادمی1995)آگے لکھتے ہیں:’’علامتی اسلوب کبھی مفہوم کو مختلف زاویوں سے پیش کرتا ہے اور کبھی بجائے خود کثیرالمفہوم ہوتا ہے یعنی اس کا ہر لفظ معنی کا ذخیرہ ہوتا ہے اور ہر لفظ کے معنی دوسرے لفظ کے معنی سے مختلف لیکن متعلق ہوتے ہیں اور ہر لفظ مختلف مفاہیم کی ترجمانی میں قاری سے پورا تعاون کرتا ہے۔‘‘(ڈاکٹر انیس اشفاق،اردو غزل میں علامت نگاری ص 102، اترپردیشاردو اکادمی1995)چونکہ غزل ایجاز و اختصار کا فن ہے اس لیے علامتیں اس اختصار میں سحر کاری کا کام کرتی ہیں۔ غزل کے فن میں علامتوں کی اہمیت مسلم ہے اور اس میں عہد بہ عہد تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ مثلاً گل و بلبل سے پیدا علامت ہر دور میں مختلف رہی ہے اور لفظ ’سرخ‘ کبھی خوشی،قربانی اور خطرے کی علامت رہا ہے تو کبھی انقلاب کا ہم معنی ٹھہرا ہے۔ غزل کی قدیم علامتوں میں گل و بلبل، شمع و پروانہ، ساقی و میخانہ وغیرہ کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔جس طرح اردو کی شعری اصناف فارسی ادب سے مستعار ہیں اسی طرح اولین اردو غزل کا علامتی نظام بھی فارسی غزل کے علامتی نظام سے متاثر نظر آتا ہے۔ گل و بلبل اور شمع و پروانہ وغیرہ فارسی غزل سے ہی اردو غزل میں علامت کی شکل میں شامل ہوئے۔ فارسی ادب میں ان الفاظ کو علامت کی منزل تک پہنچنے میں چند مراحل سے گزرنا پڑا جب کہ اردو ادب میں یہ الفاظ سیدھے طور پر ایک علامتی الفاظ کی حیثیت سے مگر ناپختہ حالت میں شامل ہوئے۔ ان علامتی الفاظ کو اردو غزل میں منتقل ہونے سے بہت قبل ہی فارسی غزل میں ان کی علامتی حیثیت مستحکم ہو چکی تھی لہٰذا اردو شعرا نے انھیں علامتی شکل میں جوں کا توں قبول کر لیا اور ان علامتی الفاظ کا استعمال سب سے زیادہ صنف غزل میں ہوا۔ گل و بلبل، آئینہ، شمع و پروانہ، صیاد، قفس، باغ وغیرہ جیسے الفاظ فارسی شاعری کی ابتدا سے ہی ملنے لگتے ہیں۔ لیکن اس وقت یہ الفاظ کسی خاص علامت کی شکل میں استعمال نہیں ہوتے تھے۔ ایک عرصے تک یہ الفاظ محض منظروں کی عکاسی کے طور پر ہی اپنے اصل معنی و مفہوم میں استعمال ہوتے رہے۔ جیسے آئینہ خود کو دیکھنے، نکھارنے اور لازمۂ حسن کے طور پر استعمال ہوتا ہے، گل باغ کے حسن اور اس کی شادابی کو دوبالا کرتا ہے، باغ خوش نما اور خوب صورت منظر کو پیش کرتا ہے اور شمع صرف روشنی کا کام کرتی ہے اور محفل کی رونق میں اضافہ کرتی ہے۔ اس طرح شروع شروع یہ تمام الفاظ اکثر و بیش تر اپنے اصل معنی و مفہوم میں ہی استعمال ہوتے رہے۔ ان الفاظ میں چوں کہ علامتی قوت موجود تھی اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ ان کی علامتی معنویت کا ظہور ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ شاعر کو اپنے جذبات و احساسات کے لیے یہ پیرایۂ اظہار موزوں معلوم ہونے لگا۔ گل اپنے حسن شگفتگی اور خوشبو کی بنیاد پر محبوب سے مشابہ ہو گیااور بلبل کی نغمہ سرائی آہ و زاری میں تبدیل ہو کر عاشق کا کردار ادا کرنے لگی۔ اس طرح گل و بلبل کا تلازمہ عاشق و معشوق کی علامت بن گیا۔شمع پہلے صرف محفلوں کو روشن کرنے کا کام کرتی تھی لیکن بعد میں شعرا کو اس میں ایک قسم کے سوز و گداز کی نئی معنویت نظر آنے لگی۔ اب جو چراغ پہلے صرف محفلوں کو روشن کرنے کا کام کرتا تھا وہ اب غم کی نمائندگی بھی کرنے لگا۔ اب شمع کے ارد گرد پروانے کے والہانہ طواف اور جاں فشانی نے بھی عاشق کی بے لوث اور پُر خلوص محبت کے ساتھ ساتھ اس کے ایثار و قربانی کی معنویت اختیار کرنے لگا۔ اس طرح شمع و پروانے کا تلازمہ عاشق و معشوق، سوز وگداز اور نور و ضیا کے مفاہیم ادا کرنے لگے۔آئینہ جو پہلے صرفلازمۂ حسن تھا بعد میں اس نے بے پناہ علامتی معنویت اختیار کر لیا اور وہ فرد کے غیر محدود ذہنی و مادی تجربات اور احساسات و کیفیات کی عکاسی کرنے لگا۔ صوفی شعرا نے آئینے کو مختلف مفاہیم اور مسائل کی نمائندگی کے لیے استعمال کیا۔ باغ اور اس کے متعلقات کو شعرا پہلے صرف مناظر کی عکاسی کے طور پرہی استعمال کرتے تھے لیکن بعد میں یہ باغ دنیا کی علامت کے طور پر پیش کیا جانے لگا اور اس کے متعلقات دنیوی ساز وسامان کے طور پر پیش ہونے لگے۔اردو غزل کے علامتی نظام کی تشکیل پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداً اس کا علامتی نظام حسن، عشق اور غم کے ارد گرد ہی گھومتا ہے۔ عشق و محبت کے نتیجے میں پیدا شدہ ان جذبات و احساسات کے بالواسطہ اظہار کے لیے گل و بلبل اور شمع و پروانہ کا پیرایہ اپنی علامتی قوت کی وجہ سے ایک بہترین پیرایہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان پیرایوں کو اظہار کا وسیلہ بنایا گیا۔مگر جیسے جیسے ان کے تلازمے زیادہ معنویت کے حامل ہوتے گئے ویسے ویسے ان کے دائرے میں بھی مزید وسعت پیداہونے لگی۔ اب یہ پیرائے اپنے متعلقات کے ساتھ حسن، عشق اور غم کے علاوہ دوسرے مفاہیم کی نمائندگی بھی کرنے لگے۔ مثلاً محفل میں شمع، پروانہ، شراب، کباب، پیالہ، مینا، صراحی، خُم، جُرعہ، نشہ، خمار، صبوحی، ساقی، مطرِب، چنگ، ارغواں مِضراب، پردہ اور ساز وغیرہ میں علامتی معنویت پیدا ہو گئی۔ اسی طرح باغ کے تلازمات میں سرو، قمری، گل و بلبل، صیاد، گلچیں، باغباں، آشیانہ، قفس، دام، دانہ، یاسمن، نسرین، نسترن، سوسن، خار وغیرہ دنیوی وقوعوں کے لیے علامتی تلازمات کا کام کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ یہ تمام تلازمات بالواسطہ طور پر مادی مسائل کے ساتھ ساتھ مابعدالطبیعات مسائل کی ترجمانی کرتے بھی نظر آنے لگے۔یہ حقیقت ہے کہ تمام علامتیں پہلے استعاراتی اور تشبیہی پیرایوں میں ہی استعمال ہوتی ہیں اور پھر اپنی علامتی صلاحیت کی بنا پر یہی استعارے اور تشبیہیں علامتوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شروع شروع میں اردو ادب کے ابتدائی شعرا کے یہاں فارسی شاعری کے تلازمے علامتی پیرائے سے زیادہ استعاراتی اور تشبیہی پیرائے میں نظر آتے ہیں۔ البتہ کہیں کہیں یہ تلازمے نیم علامتی مفہوم ادا کرنے میں کامیاب ضرور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ان شعرا کے یہاں استعاراتی اور تشبیہی پیرائے بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جس سے اردو شاعری پر فارسی روایت کے اثرات کے ساتھ ساتھ ابتدائی اردو شاعری کے علامتی نظام کا تجزیہ کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ دکنی شاعری بھی فارسی سے مستعار علامتوں کے استعمال سے اپنے علامتی نظام کو متاثر ہونے سے پاک نہ رکھ سکی۔ پھر بھی ان کے یہاں بعد کے شعرا کی مانند علامت کا وسیع استعمال نظر نہیں آتا۔ البتہ صوفیانہ مضامین کی عکاسی کرنے کی وجہ سے ان شعرا کے یہاں لفظِ آئینہ میں کثیرالمعنویت پیدا ہو گئی ہے۔ اسی طرح شمع کے علامتی مفاہیم بھی فارسی کے روایتی مفہوم کی طرح وسیع مگر کسی حد تک مختلف ہو گئے۔ یہاں چند ایسے اشعار اور ان کے علامتی پیرائے کے مفاہیم کو پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے جس میںایسی مستعار علامتیں مستعمل ہیں؎گر نہیں ہے خنجرِ بیدادِ خوباں کا شہیددامن صد چاکِ گل کس واسطے پر خوں ہوادرد منداں باغ میں ہرگز نہ جاویں اے ولیگر نہ دیوے نالۂ بلبل سراغ عاشقی(ولی دکنی)صحنِ گلزار میں کیا کام ہے صحرائی کاجائے گل حیف یہاں خارِ بیاباں نہ ہوا(سراج اورنگ آبادی)فصلِ خزاں میں بلبل ہے گل کا مرثیہ خواںمرغ چمن ہیں جتنے سب ہیں جوابیوں میں(سراج اورنگ آبادی)مندر جہ بالا اشعار میں گل و بلبل اپنے دیگر متعلقات کے ساتھ مل کر ایک علامتی نظام کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بظاہر یہ الفاظ اور ان کے متعلقات عشقیہ مضامین کی ترجمانی کرتے ہوئے دِکھتے ہیں لیکن ان اشعار کے تجزیے سے جو مختلف مفاہیم اخذ ہوتے ہیں اس سے انسانی زندگی کے دوسرے معاملات کی طرف بھی ذہن منتقل ہوتا ہے۔ یعنی ان اشعار میں مستعمل تمام تلازمے دنیا کی واردات کے لیے ایک علامتی پیرایہ اختیار کر لیتے ہیں۔مثلاً ولی دکنی کا یہ شعر؎گر نہیں ہے خنجر بیدادِ خوباں کا شہیددامنِ صد چاک گل کس واسطے پُر خوں ہوااس شعر میں دو محبوب کا ذکر کیا گیا ہے۔ خوباں حقیقی محبوب کا ترجمان ہے اور گل مجازی محبوب کا اور حقیقی محبوب مجازی محبوب سے زیادہ حسین ہے۔ اس لیے مجازی محبوب حقیقی محبوب کے عشق میں مبتلا ہو کر اس کی سفاکیوں کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ شعر عشق کی عالمگیری کو ظاہر کرتا ہے۔ کیوں کہ جب کسی حسین اشیا کو کوئی دوسری حسین تر اشیا مل جائے تو وہ اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ اس شعر میں ایک قسم کا استفہام بھی شامل ہے۔ یعنی اگر گل (مجازی محبوب)، خوباں (حقیقی محبوب) کے ظلم کا شکار نہیں ہے تو اس کا دامنِ صد چاک خون سے کیوں بھرا ہے؟ یہ سوال ذہن کو مختلف پہلوؤں کی طرف منتقل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ کیا یہ ظلم گلچیں نے کیا ہے یا چمن پر کسی اور آفت کا نزول ہوا ہے یا یہ کسی جنونی کا انتقام ہے؟ قاری کا ذہن ان سوالات کی طرف منتقل ہونے کی وجہ سے شعر میں ایک قسم کی دلچسپی کا پیدا ہونا لازمی بات ہے۔ یہ سوالات زندگی کے مختلف وقوعوں، ان کے نظریوں اور ان میں رونما ہونے والی مختلف تبدیلیوں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے کہ ذہن کو ان سوالات کی طرف منتقل ہونے کے باعث جس طرحشعر میں حسن پیدا ہوا ہے اسی طرح یہ زندگی کے مختلف وقوعوں اور نظریوں کو بھی تبدیل کرتا جاتا ہے؎صحنِ گلزار میں کیا کام ہے صحرائی کاجائے گل حیف یہاں خارِ بیاباں نہ ہوااس شعر میں علامت اپنے اصل جوہر کے ساتھ نمایاں ہوئی ہے۔ صحرا اور گلشن میں تضاد کا رشتہ ہے۔ صحرا پریشانی اور صعوبت کی علامت ہے اور گلشن آرائش اور مسرت کی۔ اس طرح یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہاں گلشن صحرائی کے لیے قفس بن گیا ہے۔صحرائی کا اصل کام صحرا نوردی ہے اور صحرا میں صرف بنجر زمین اور خار ہوتے ہیں اور صحرائی انھیں خاروں کو دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔صحن گلزار پھولوں کا مسکن ہوتا ہے اور چوں کہ صحرائی پھولوں سے نامانوس ہے اس لیے صحنِ گلزار میں اسے پھولوں سے وہ خوشی اور مسرت نہیں حاصل ہو سکتی جو صحرا کے کانٹوں سے ہوتی ہے۔ صحرا نوردی میں ہر قدم پر صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ صحن گلزار محض آرام و سکون کی جگہ ہے۔ صحرائی چونکہ گلشن میں رہنے کے لیے مجبور ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ گلشن بھی بیاباں میں تبدیل ہو جائے۔اس شعر میں صحرائی مشکل پسند اور متحرک انسان کی علامت ہے۔ خارِ بیاباں آلام و مصائب کی اور گل آرام و سکون کی علامت ہے یعنی سر گرم عمل رہنا ہی مشکل پسند انسان کی تسکین کا باعث ہے؎فصلِ خزاں میں بلبل ہے گل کا مرثیہ خواںمرغ چمن ہیں جتنے سب ہیں جوابیوں میںمرثیہ خوانی میں جوابی وہ شخص ہوتا ہے جو مرثیہ خواں کے ادا کردہ الفاظ کو اسی لے، سُر اور انداز میں دہراتا ہے۔خزاں کے موسم میں پھول مرجھا جاتے ہیں یعنی ان کی موت واقع ہو جاتی ہے اور بلبل ان کی موت پر مرثیہ خوانی کرتا ہے۔ گل کی موت واقع ہونے سے تمام مرغانِ چمن غم زدہ ہیں لیکن ان کا یہ غم فغانِ بلبل کے مقابلے میں کم درجہ کا ہے۔ جس طرح جوابی اصل مرثیہ خواں کے مقابلے میں کم درجے کا ہوتا ہے۔اس شعر کے علامتی مفہوم پر نظر کیا جائے تو فصلِ خزاں زوال کی علامت ہے، گل قدیم آثار کی نمائندگی کرتا ہے اور بلبل وقت کی علامت ہے۔ مرغِ چمن سے ذہن اہلِ دنیا کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یعنی دنیا میں کسی شئے کو ثبات نہیں ہے۔ ہر شئے زوال پزیر ہے اور وقت اس زوال پزیری کو نہ صرف محسوس کراتا ہے بلکہ خود بھی زوال کا ماتم کرتا ہے اور اہل دنیا کو بھی اس ماتم میں شریک ہونے پر مجبور کرتا ہے۔اٹھارویں صدی عیسوی کا دور سیاسی و سماجی اعتبار سے انتہائی تغیر کا دور تھا۔ ایک طرف اندرونی سازشیں دیمک کی مانند ملک کی جڑوں کو کمزور کر رہیں تھی تو دوسری طرف بیرونی حملوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی تھی۔سر زمین ہند پر انسانی خون کی ندیاں بہنے لگیں۔ دلّی کے قتل عام نے انسان کے دل و دماغ پر اتنا شدید، گہرا اور دیر پا اثر چھوڑا کہ ایک زمانے تک یہ سانحہ لوگوں کو صدمے سے باہر نہ آنے دیا۔ان حالات کا اثر معاشرے پر پڑنا لازمی تھا لہٰذا سماجی زندگی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور اس سے سماج بہت حد تک متاثر ہوا۔ اُس وقت دلّی کے حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ ہر شخص زندگی کے ایک ایک پل کو آخری پل سمجھ کر اس سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کی کوشش میں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورا معاشرہ رنگینیوں میں ڈوب کر بیتے ہوئے اور آنے والے کل کو بھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ صرف آج میں جینا چاہتے تھے۔ تمام کوششوں کے بعد بھی اس وقت کے شعرا و ادبا اپنے دل و دماغ پر جمے ہوئے حادثات کے گرد و غبار کو صاف کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان غزلوں میں اس وقت کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات ہمیں علامتی پیرائے میں ملتے ہیں۔یہ حسرت رہ گئی کن کن مزوں سے زندگی کرتےاگر ہوتا چمن اپنا گل اپنا باغباں اپنا(مظہر)خزاں تک تو رہنے دے صیاد ہم کوکہاں یہ چمن پھر کہاں آشیانہ(تاباں)بلبلو کیا کروگے چہک کرگلستاں تو اجڑ چکا کب کا(تاباں)مذکورہ بالا اشعار کا تجزیہ اگر اسی دور کے سماجی و سیاسی پس منظر کو سامنے رکھ کر کیا جائے تو ہر لفظ ایک علامتی پیرایہ اختیار کر لیتا ہے۔ جس طرح فیض کی شاعری میں گل و بلبل کو سیاسی علامت تسلیم کیا گیا ہے اسی طرح اس عہد کے شعرا کے یہاں مستعمل علامتی الفاظ کو بھی قبول کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس عہد کے حالات بھی کم و بیش وہی تھے جو آزادی کے بعد ہند و پاک کے تھے۔ شاعر کسی وقوعے کے صرف لفظی پیکر دینے کا کام کرتا ہے۔ اس کے مفاہیم ہر قاری اپنے انداز سے اخذ کر سکتا ہے شرط یہ ہے کہ وہ اشعار میں مستعمل تلازمات کے لیے موزوں قرار پائے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر قاری کے ذہن میں کسی شعر کا ایک ہی مفہوم ہو۔ مفہوم اخذ کرنے میں قاری کے مزاج اور اس کے حالات کی مناسبت سے تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا کلاسیکی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اردو شاعری کی علامتیں فارسی ادب سے مستعار ضرور ہیں لیکن ان کا استعمال و اطلاق ہندوستانی سماج پر ہی ہوا ہے۔گل و بلبل کے بعد اردو شاعری میں شمع و پروانہ اور آئینے کو علامتی پیرائے میں پیش کیا جانے لگا۔ یہ علامتیں اپنی معنی خیزی اور معنی آفرینی کی بنا پر شاعری میں بہت زیادہ مقبول اور مستعمل رہی ہیں؎تھا ذوق سراج آتش دیدار میں جلناصد شکر کہ پروانے کا مقصود بر آیاپروانے کو مگر نہیں ہے خوفِ جاں سراجناحق چلا ہے شعلۂ دیدار کی طرف(سراج)مذکورہ بالا دونوں اشعار میں پروانہ بندے کی علامت ہے اور آتشِ دیدار و شعلۂ دیدار خدا کی علامت ہے۔ قربِ الٰہی (آتش دیدار میں جلنا) بندے کا مقصود ہوتا ہے اسی لیے وہ خود کو خدا کی ذات میں گُم کر دینا چاہتا ہے۔ آتشِ دیدار اور شعلۂ دیدار سے کائنات کے اسرار و رموز کی طرف بھی ذہن منتقل ہوتا ہے اور اس طرح پروانہ ان اسرار و رموز کی جستجو میں سرگرداں رہنے والے شخص کی علامت ہے۔ اسرار و رموز کی تلاش و تحقیق میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انسان اسی جستجو میں اپنی ہستی بھی فراموش کر دیتا ہے؎صافی دل کا اور عالم ہےعکسِ آئینہ جس پہ زنگ ہوا(آبرو)صافی دل سے مراد یہ ہے دل بالکل صاف و شفاف ہے۔ اس پر کسی قسم کا کوئی داغ، دھبّہ یا نقش نہیں ہے۔ یعنی وہ اللہ کے علاوہ ہر شئے سے پاک ہے۔عکس غیر مجسم اور مجرد شئے ہے۔ اس طرح شعر کا مفہوم یہ ہوا کہ دل کا آئینہ اتنا صاف ستھرا اور روشن ہے کہ غیر مجسم شئے یعنی آئینے پر بننے والا عکس بھی اس کے لیے زنگ کا کام کرتا ہے۔لفظی مفہوم سے قطعِ نظر اس شعر کے دوسرے نکات بھی پیش کیے جاتے ہیں۔مادی آئینے کا عکس عارضی اور لمحاتی ہوتا ہے اور اس کا کوئی اپنا تاثر نہیں ہوتا۔ یہ عکس محض اسی وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک کوئی شخص اس کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ لیکن آئینۂ دل پر پڑنے والا عکس دیر پا اثر رکھتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ انسان کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوتا ہے۔دل خارجی اور مادی اشیا کے تاثرات کا گہوارہ ہے یعنی دل کے آئینے پر اشیا کی غیر مرئی مگر زیادہ وقت تک رہنے والی اور تاثراتی نقش گری ہوتی ہے اور اس کے بر عکس مادی آئینے پر محض مرئی اور لمحاتی۔یہاں عکس خود بینی کی علامت ہے۔ خود بینی ہمیں اپنی ذات میں محدود اور قید کر دیتی ہے اور اپنی ذات کے علاوہ سبھی سے ہمارے رشتے ٹوٹ اور ہم خارجی اشیا کے مشاہدے سے محروم ہو جاتے ہیں۔خارجی اشیا کے مشاہدے سے ہی ہم زندگی کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ بیرونی مظاہر سے ہی ہمیں زندگی کو سمجھنے کا شعور ملتا ہے۔اس طرح اس شعر کا مفہوم یہ ہوا کہ اگر ہم میں خود بینی کا ذرا سا بھی خیال پیدا ہوا تو ہم اسرار کے مشاہدے سے محروم ہو جائیں گے۔ یعنی خود بینی (عکسِ آئینہ) ہمارے دل کے آئینے کو جو تمام تاثرات کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تمام اسرار کو ہم پر عیاں کرتا ہے، اس طرح میلا کر دے گی کہ حقیقتاً جس عکس کو دیکھنے کے لیے آئینۂ دل بنا ہے اب وہی اس میں صحیح طور پر نظر نہ آ سکے گا۔ اس کا نتیجہ یہ بر آمد ہوگا کہ ہمارے ذریعے لیا گیا فیصلہ درست نہ ہوگا۔اردو ادب کی اولین غزلوں کے علامتی نظام کا جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح اردو ادب کے شعری نظام نے فارسی کی تمام اصناف سخن اور ان سے متعلق تمام موضوعات کو قبول کیا ہے اسی طرح فارسی شاعری میں مستعمل علائم بھی اردو غزل میں داخل ہو ئے ہیں۔ اردو غزل میں اس علامتی نظام کے منتقل ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ابتدائی اردو شعرا فارسی میں بھی شاعری کرتے تھے اس لیے انھیں ان علامتوں کو مختلف تلازموں کے ساتھ اردو غزل میں برتنے میں کسی خاص دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ فارسی شعرا کا اتباع کرتے ہوئے ابتدائی اردو شعرا ان علامتوں کے روایتی اور جدید تلازموں کے ایک ساتھ استعمال سے ایک وسیع مفہوم پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ابتدائی اردو غزل میں چوں کہ فارسی علامتیں اپنی موجودہ معنویت کے اعتبار سے ناکافی تھیں اس لیے نئی علامتوں کی تخلیق کے بجائے انھیں موجودہ علامتوں کی توسیع پر زیادہ زور دیا گیا۔ اخذ کی گئی علامتوں کے نئے نئے تلازمات اور مناسبات تلاش کیے گئے۔ ان تلازمات ومناسبات کی وجہ سے ایک طرف مستعار علامتوں کے معنوی امکانات کی توسیع ہوئی اور دوسری طرف شاعرانہ حدود میں بھی اضافہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلوبیاتی اور موضوعاتی یکسوئی کے باوجود اردو شاعری معنی و مفہوم کے اعتبار سے فارسی شاعری سے بہت کچھ مختلف ہے۔غزل اردو شاعری کی سب سے مقبول و معروف صنف ہے۔ مواد یا موضوع کو پیش کرنے میں جو اسلوب، انداز بیان اور طرز ادا اختیار کیا جاتا ہے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ علامت کو غزل کے ہر دور میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اردو غزل میں علامت کا استعمال مختلف زمانے میں مختلف معنی و مفہوم کے لیے ہوتا رہا ہے۔ابتدا میں زیادہ تر علامتیں فارسی سے مستعار تھیں۔ ترقی پسند شعرا نے ان علائم کو غزل میں نئی معنویت کے ساتھ پیش کیا۔ غرض غزل میں علامتیں کبھی مذہب سے آئیں تو کبھی روایات و تہذیب کے بعض مظاہر علامتوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔بیسویں صدی کی پہلی دہائی تک پرانی علامتیں کم و بیش قدیم معنی میں ہی استعمال ہوتی تھیں۔ اس کے بعد علامہ اقبال نے نہ صرف قدیم علامات کو نئی معنویت دی بلکہ نئی اور بلیغ علامات سے اردو غزل کو متعارف کرایا۔ جیسے شاہین، ابلیس، مرد مومن وغیرہ۔ شاہین کی علامت کو علامہ اقبال نے مرد مومن کی مکمل علامت بتایا ہے یعنی وہ ایک خاص اونچائی پر پرواز کرتا ہے اور گھر نہیں بناتا۔ علامہ اقبال کی اس علامت پر اگرچہ اعتراضات بھی بہت ہوئے جن میں سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ شاہین میں ہمدردی کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا لہٰذا اسے مرد مومن کی علامت بتانا کسی بھی نظریے سے درست اور مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ شاہین کے علاوہ اقبال نے شمع پروانہ، کہسار، گل و بلبل وغیرہ جیسی روایتی علامتوں کو بھی نئی معنویت بخشی۔ملک کی آزادی کا مطالبہ بیسویں صدی کے اوائل سے جوش و خروش کے ساتھ ہونے لگا تھا۔ چوں کہ حکمراں طبقے کے ظلم و استحصال کا اظہار برائے راست خطرے کا باعث تھا۔ اس لیے یہ ماحول علامتوں کے استعمال کے لیے نہایت سازگار تھا۔ اس میں قفس، آشیاں، نشیمن، چمن، گلستان، صیاد، بلبل، صبا وغیرہ علامات نئی معنویت کے ساتھ غزل میں استعمال ہوئیں۔ 1947 کے بعد ان علامتوں کو نئی سماجی اور سیاسی معنویت بخشی گئی بالخصوص فیض احمد فیض نے علامتوں کے استعمال میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا۔ فیض اور مخدوم محی الدین کے یہاں علامتوں کا استعمال زیادہ وسیع اور زیادہ عمیق ہے۔انسانی زندگی کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی کیفیات نے غزل کے علامتی نظام کو ہر دور میں متاثر کیا ہے۔ جدید دور میں علی سردار جعفری، جاں نثار اختر، اختر الایمان، کیفی اعظمی، ناصر کاظمی، خلیل الرحمٰن اعظمی، منیر نیازی، زیب غوری، راجندر منچندا بانی، احمد مشتاق، ظفر اقبال، شہریار، عرفان صدیقی، افتخار عارف کے ساتھ ساتھ بشیر بدر نے بھی اپنی غزلوں میں علامتوں کا استعمال انتہائی خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے جس سے ان کے انداز بیان میں مزید حسن اور کشش پیدا ہو گئی ہے۔ جو قاری کے ذہن کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔کتابیاتاردو غزل میں علامت نگاری:ڈاکٹر انیس اشفاقجدید غزل کی علامتیں: ڈاکٹر نجمہ رحمانیدیوانِ آبرو: مرتبہ ڈاکٹر محمد حسندیوانِ تاباں:مرتبہ مولوی عبدالحقکلیات سراج : مرتبہ عبدالقادر سروریکلیاتِ ولی:مرتبہ نورالحسن ہاشمینئی علامت نگاری: سید محمد عقیلSajid MumtazPh.D, Research Scholar, Dept of UrduMaulana Azad National UniversityHyderabad - 500032 (Telangana)Mob.: 9616227262" ایک وضع دار شخصیت: سحر سعیدی - عظیم راہی,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/04/,"ڈاکٹرسحرسعیدی مرحوم پرانی تہذیب کے علمبردار تھے۔ نہایت وضعدار اور اصول پسند شخص تھے۔ اپنی اصول پسندی کی وجہ سے کئی بار انھیں نقصان بھی اٹھانا پڑا، لیکن وہ آخر تک اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ بہت کم آمیز اور کم گو تھے۔ قہقہہ مار کر ہنسنا ان کے نزدیک آداب و اخلاق کے خلاف تھا۔ وہ صرف مسکرانے پر اکتفا کرتے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ مزاجاً سخت تھے بلکہ ہر بات میں آداب ملحوظ رکھتے تھے اور ایک طرح کی شائستگی ان کی طبیعت کا خاصہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ا ن کی زندگی میں بڑا نظم و ضبط اور سلیقہ و طریقہ اور ایک ترتیب تھی۔ وہ وقت اور وعدے کے بڑے پابند تھے۔ چونکہ کم گو تھے لہٰذا اکثر خاموش ہی رہتے، لیکن جب کبھی بولنے پر آتے تو سامنے والے کو خاموش ہوجانا پڑتا۔ اپنے مخصوص لباس اور بڑے رکھ رکھاؤ کے آدمی تھے۔ خوش خطی ان کے مزاج کے صاف ستھرے اور نکھرے ہوئے ذہن کی نمائندگی کرتی، ان کے اندازتحریر میں ان کی شخصیت کا پرتو صاف جھلکتا تھا۔سحرسعیدی خاموش طبیعت کے مالک ضرور تھے لیکن خاموشی سے وہ اپنا کام کرتے رہنے کے قائل تھے۔ لہٰذا اُن کی شخصیت ہمیشہ فعال اور متحرک رہی‘ اُن کی کوئی نہ کوئی ادبی ‘ سماجی اور معاشرتی سرگرمیاں جاری رہتیں۔ انھوں نے اورنگ آباد میں نان قلیہ کلب بھی اپنے گروپ کے ساتھ قائم کیا تھا جس میں نان قلیہ سے مدعوئین کی ضیافت کی جاتی۔ وقت اور اصولوں کی بڑی پابندی کے ساتھ ایک عرصے تک وہ نان قلیہ کلب کا بڑی خوش اسلوبی سے اہتمام کرتے رہے۔ اِسی طرح سیروتفریح کا پروگرام بھی وہ اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ طے کرتےاور اپنے احباب کے ساتھ کسی صحت بخش یا تاریخی مقام پر تفریح کو جایا کرتے تھے۔ اپنے اِن ہم خیال دوستوں کے ساتھ ایک بڑی لٹریری سوسائٹی بھی قائم کی تھی جس کے تحت کئی کتابوں کی ترتیب تدوین کا انھوں نے ارادہ کیا تھا جس میں نذرعبدالحق اور دکن کے چار چاند کے علاوہ اورنگ آباد خجستہ بنیاد کی تہذیبی و تمدنی تاریخ ترتیب دینے اور اُسے کتابی شکل میں شائع کرنے کا منصوبہ بھی انھوں نے بنایا تھا لیکن اس کام میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کے سبب ان کے یہ خواب پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے۔ بقول اسلم مرزا، سحر سعیدی دوستی کے معاملے میں بہت محتاط رہے۔ زبردست قیافہ شناس رہے۔ انھوں نے کبھی اپنے اطراف دوستوں کی بھیڑ کو پسند نہیں کیا۔ اِس معاملے میں وہ بہت احتیاط سے کام لیتے رہے اور اپنے ہم خیال مخلص دوستوں کو ترجیح دی۔ دراصل وہ تعلقات میں کچھ فاصلے روا رکھتے تھے۔ شاید اسی لیے اکثر لوگ انھیں اناپسند سمجھتے تھے۔ حالانکہ اُن کی طبیعت میں اناپسندی تھی اور نہ ہی تصنع ‘ اِس بات کا اظہار انھوں نے اپنے شعروں میں یوں کیا تھا کہ؎تعلقات میں کچھ فاصلے میں رکھتا ہوںانا پسند عبث لوگ مجھ کو سمجھے تھےتصنع سے عاری ہے طبیعت میریمرا دل ہے شفاف آئینہ جیسےسحرسعیدی بنیادی طور پر ایک شاعر تھے۔ شاعری میں بطورِخاص غزل ان کا خاص میدان تھا اور اس میں ان کا اپنا ایک رنگ سر چڑھ کر بولتا تھا۔ ان کی یہ غزلیں زیادہ تر غنائیت سے پُر ہوتی تھیں، غزل اُن کی پسندیدہ صنف سخن تھی۔ کوشش کے باوجود غزل کے علاوہ کسی اور صنف میں طبع ازمائی نہیں کی۔ غزل دراصل ان کے مزاج سے میل کھاتی تھی انھوںنے خود ہی کہا تھا؎میں نے غزل میں اتنی توانائی صرف کیمیرا تعارف اب مری پہچان ہے غزلمحمدعلی اثرکے مطابق ’سحرسعیدی بنیادی طور پر غزل کے شاعر اور اُن کی شہرت اور ناموری کا دارومدار بھی اس صنفِ شعر پر ہے۔‘ سحرسعیدی کی شاعری جہاں روایت سے جڑی رہی وہیں جدیدیت کا فن بھی ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ان کی شاعری کا خمیر روایت اور جدیدیت کی آمیزش سے اٹھا تھا۔ شاذ تمکنت نے بجا طور پر کہا تھا کہ:’’ سحرسعیدی‘ جدت کے چراغ، روایت کے روغن سے روشن کرتے رہیں گے۔‘‘ شاعری میں وہ جدت کو پسند تو کرتے تھے لیکن جدیدیت کی انتہاپسندی کے خلاف تھے۔ اِ س تعلق سے انھوں نے کہا تھا کہ؎روایتی ہے مرا طرز گفتگو لیکندکھائی دے گی غزل میں جدیدیت میریاپنی شاعری کو وہ اپنے شہر ولی و سراج کی دین سمجھتے تھے۔ جس کا انھوں نے یوں اعتراف کیا تھا کہ؎مجھ کو مرے کلام سے پہچانتے ہیں لوگیہ ذوق یہ ہنر ہے مرے شہر کی عطاجہاں وہ اپنی شاعری میں خود کی الگ پہچان کا اعتراف کرتے‘ وہیں اپنے منفرد لہجے کی بات یوں کرتے کہ؎منفرد لہجہ میں کہتا ہوں غزلہے مرقع یہ دلی جذبات کاان کا ایک شعر مجھے بے حد پسند آیا تھا اور اکثر نظامت کے دوران ان کے اس شعر سے شاعروں کو دعوت سخن دیتا تھا۔ جو حالات حاضرہ کی بھرپور ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔ شعر دیکھیے؎پرانے لوگ مراسم کا پاس رکھتے تھےکوئی بھی اب نہیں ملتا ہے ضرورتوں کے بغیردراصل اِن ہی مراسم کا پاس ان کی شاعری میں ملتا ہے جس میں اُن کی شخصیت کا پرتو بھی نظر آتا ہے۔ وہیں عصرحاضر کے مسائل اور خاص کر ٹوٹتی ہوئی تہذیب اور گرتی ہوئی قدروں کی عکاسی بھی ان کے اشعار میں اکثر نظر آتی ہے جو آج ہماری تہذیب اور معاشرتی زندگی کی ترجمانی کرتے ہیں؎آج اخلاص سے کھل کر نہیں ملتا کوئیسادگی بولتے چہروں سے عیاں تھی پہلےوہ عہد بھی تھا کہ معصوم باادب بچےنظر جھکا کے بزرگوں سے بات کرتے تھےوفا پہ جان بھی دینے تو کم سمجھتے تھےسنا ہے اگلے زمانے میں لوگ ایسے تھےڈاکٹرعصمت جاوید شیخ نے’’ سحرسعیدی کی غزلوں کو ایک ایسے ابلتے ہوئے چشمے سے تعبیر کیا جس کی سمت اور رفتار کا انحصار رستوں کے موڑ اور اُن کے نشیب و فراز پر نہیں ہوتا بلکہ اپنی دھن میں ایک اڑتے ہوئے پرندے کی بے کراں فضاؤں میں اپنا راستہ آپ متعین کرنے کی بساط بھر کوشش ہے۔‘‘ سحرسعیدی کی غزل بشرنواز کے لفظوں میں:’’سحرسعیدی کے لہجے کے غنائیت اپنے موضوع سے ہم آہنگ ہوکر ایسی تخیلی دنیا آباد کرتی ہے جو بالکلیہ نئی نہ ہونے کے باوجود بھی نئی معلوم ہوتی ہے اور دلکش بھی۔‘ ‘سحرصاحب شاعری کے ساتھ نثر بھی بہت اچھی لکھتے تھے اور انھوں نے اپنے غائر مطالعے اور ادبی ذوق و شوق سے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ جتنے اچھے شاعر تھے اتنی اچھی نثر بھی لکھتے تھے۔ ان کی نثر میں بلاکی روانی کے ساتھ زبان سلاست اور فصاحت سے بھری ہوتی تھی، حافظہ بھی خوب پایا تھا اور ہر چیز میں ان کا اپنا ایک انداز اور بڑا سلیقہ ہوتا تھا۔ ان کی خودنوشت کے مطالعے سے بھی اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تحقیقی و تنقیدی نظر بھی غضب کی تھی۔ ان کی کتابوں میں ان کا تنقیدی نظریہ اور تحقیقی نقطۂ نظر بڑی قطعیت کے ساتھ ملتا ہے اور تحریروں میں بڑا توازن اور تسلسل ملتا ہے۔ وہی توازن اور ترتیب‘ جو اُن کی زندگی کا معمول تھا۔ علاقۂ مرہٹواڑہ کے مایہ ناز سپوت اور محقق و ناقد شیخ چاند پر انھوں نے تحقیقی کام کیا اور اسی مناسبت سے بعد میں شیخ چاند کے مضامین کو کتابی شکل میں ترتیب دیا تھا۔ ڈاکٹر عصمت جاوید نے انھیں دھن کا پکا ریسرچ اسکالر کہا تھا اور فاروق شمیم کے لفظوں میں ’’ڈاکٹرسحرسعیدی نے شیخ چاند پر تحقیقی مقالہ سپردقلم کر کے اپنی مٹی کا حق ادا کیا۔‘‘ شاعری کے چار مجموعوں کے ساتھ نثر میں بھی ان کی چار کتابیں ان کی گرانقدر ادبی خدمات کا بین ثبوت ہیں تو وہیں کئی جلدوں پر مشتمل ادبی تراشے کو جمع کرنے کا اہم کام بھی سحرصاحب نے انجام دیا تھا۔سحرسعیدی صاحب کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ جو ایک بار ٹھان لیتے تھے چاہے وہ کتنا ہی مشکل کام کیوں نہ ہو، کر گزرتے تھے۔ ان کی پوری زندگی میں اسی بات کا عمل دخل رہا۔ اسی جہد مسلسل سے ان کی زندگی عبارت ہے۔ چاہے وہ کیسا معاملہ ہو، کوئی بات رہی ہو، تقریباً بہت سارے معاملات میں چاہے علم و ادب اور تعلیم کے میدان میں ہو یا عملی زندگی کے مرحلے ہوں یا پھر ابتدا میں ملازمت کے سلسلے میں جو پریشانیاں رہی ہوں، مختلف ملازمتیں کیں اور بعد میں مرہٹواڑہ یونیورسٹی میں باقاعدہ ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا اور ترقی پاتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے حسن وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔ازدواجی زندگی کے معاملے میں بڑے دشوارکن مراحل سے گزرتے ہوئے ان حالات سے نبردآزما ہوکر بعد میں ایک پُرسکون ازدواجی زندگی گذاری۔ اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی ملازمت کے دوران ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ بیماری کے آخری ایام میں باوجود بیحد تکلیف کے، اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کیا۔ ان کی گرتی ہوئی صحت دیکھ کر دیکھنے والے کی ہمت پست ہوجاتی لیکن ان کی ہمت میں کمی نہیں آتی۔ ان میں قوت برداشت بلا کی تھی اور قوت ارادی غضب کی تھی۔ فریضہ حج کے دوران ان کی اہلیہ کا ایک حادثے میں پیر فریکچر ہوگیا تھا۔ انھوں نے بڑی ہمت سے خود اپنے حج کے ارکان ادا کرتے ہوئے وہیل چیئر پر اہلیہ کو بھی ارکان ادا کروائے اور حج بیت اللہ سے واپسی پر بیوی کا معقول علاج کروایا۔ مگر مختلف امراض کی وجہ سے علاج کا خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا۔ سحرصاحب مسلسل علاج کے ساتھ تیمارداری کرتے رہے اور اہلیہ کی خوب خدمت کی۔ لیکن طویل علالت کے بعد ان کی شریک زندگی نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ بیوی کی جدائی کے بعد وہ اندر سے بہت ٹوٹ گئے تھے۔ لیکن اپنی طبیعت کے مطابق کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا اور پھر ایک ایسی بیماری نے انھیں گھیر لیا کہ باوجود علاج کے کوئی افاقہ نہ ہوا اور تقریباً ایک سال کی طویل بیماری کی تکلیف جھیل کر آخر وہ 26 جنوری 2017کو اس دارِفانی سے رحلت کر گئے۔سحرسعیدی کا پورا نام سیدمنیرالدین تھا۔ وہ 18مئی 1940 کو اورنگ آباد کی تحصیل پیٹھن میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اورنگ آباد کے ایک سادات خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ تحتانیہ تک اُن کی تعلیم پھلمبری میں ہوئی اور مڈل سے ہائی اسکول تک انھوں نے اورنگ آبادمیں پڑھائی کی۔ 1958 میں چیلی پورہ ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ اسی سال انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ابتدا میں جے پی سعید سے مشورہ سخن کیا تقریباً آٹھ دس برس ان کی رہنمائی حاصل رہی۔ ان کے اسکول کے استاد عباس انجم نے انھیں سحر تخلص عطا کیا تھا اور جے پی سعید سے نسبتِ تلمذکی وجہ سے سعیدی ہوگئے تھے۔اپنے استاد جے پی سعید کے احترام میں انھوں نے یہ شعر بھی کہا تھاکہ؎خاطر سے احترام سے سر جھک گیا مرامحفل میں ذکر آیا تھا جے پی سعید کاڈاکٹرسحرسعیدی نے 1993 میں میسور یونیورسٹی کرناٹک سے اردو میں ایم اے کامیاب کیا تھا اور 1997میں ڈاکٹرباباصاحب امبیڈکر مرہٹواڑہ یونیورسٹی سے ’’شیخ چاند، حیات اور ادبی خدمات ‘‘ موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھا۔ اِس تحقیقی کام کی خاص بات یہ تھی کہ اِسے بغیر کسی گائیڈ کے یونیورسٹی میں راست پیش کر کے ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی اور یہ تعلیمی لیاقت، اپنی علمی و ادبی دلچسپی کے باعث ملازمت کے دوران مکمل کی اور اس کے ساتھ ہی علم و ادب کی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے۔ چونکہ سحرسعیدی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ بچپن سے ان کی طبیعت کا میلان شاعری اور موسیقی کی طرف تھا۔ 1958 سے انھوں نے باقاعدہ اپنی شاعری کا آغاز کیا تھا۔ سحرسعیدی صاحب کے چار مجموعہ کلام بالترتیب مضراب (1978)، کمندہوا (1980)، شعرخوشبو لے (1987) اور شعرمیرا شوق انگیز (2015) میں شائع ہوکر مقبول ہوئے، جن کی ہندوپاک کے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی اور مقتدراہل علم و فن نے انھیں خراج تحسین سے نوازا۔ عارف خورشید مرحوم نے سحرسعیدی کے چار شعری مجموعوں کے بارے میں یہ دلچسپ بات بتائی تھی کہ ’مضراب‘ یک لفظی، ’کمندہوا‘ دو لفظی، شعر خوشبو لے، سہ لفظی، اور شعر میرا شوق انگیز چہار لفظی ہے۔ سحرسعیدی کے ان چاروں شعری مجموعوں میں بڑی تعداد میں ایسے اشعار ملتے ہیں جو نمونے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں لیکن یہاں میں نے طوالت کے خوف سے چند ایسے اشعار کا انتخاب کیا ہے جو انھوں نے خود نمونے کے طور پر عالم گیر ادب کے اپنے نمبر میں پیش کیے تھے۔ ملاحظہ کیجیے؎دل کو تنہائی میں اک گونہ سکوں ملتا ہےہاں یہی بات ذرا مجھ سے بچھڑ کر کہنادل میں ارماں منفرد ہیں، سر میں سودا منفردسوچتے تو سب ہیں لیکن میں نے سوچا منفردآتشیں رخسار کی نیرنگیوں کے سامنےاس دہکتے دل کے سارے استعارے مستردگھنا درخت کسی نے کہیں گرایا تھانواحِ دشت کئی دن ہوا بلکتی رہیشرارتاً وہ کبھی جھانک کر گیا تھا سحرکئی برس مری کھڑکی مگر مہکتی رہیہم دونوں کی چاہ نرالی، ہم دونوں کا ظرف اعلیٰاپنے گھر کا راجا میں وہ میرے گھر کی رانی ہےآپ آئے سامنے یا میں نہ آیا آپ میںخوبصورت جھیل پر جیسے ٹھہر جائے نظرگزر ہوا جو اُدھر سے تو کپکپی سی ہوئیہم ایک ساتھ جہاں بارشوں میں بھیگے تھےہمارے پاؤں کے پڑتے ہی چیخ اٹھے تھےنظر جھکا کے جو دیکھا تو خشک پتے تھےدور کیسے میں کروں اپنی نگاہوں سے اُسےوسوسے دل میں کہیں سر نہ اٹھانے لگ جائیںسحروابستگی روح و بدن کی عارضی نکلیرہی یہ زندگی، اندر سے وہ بھی کھوکھلی نکلیسحر لب بوس ہوتے پھول سے دیکھا جو تتلی کوہمارے حق میں یہ چاہت بھی اک تحریک سی نکلیسحرسعیدی صاحب کو شاعری کے علاوہ چونکہ تحقیق و تنقید سے بھی گہری دلچسپی رہی تھی اسی سبب انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران پی ایچ ڈی مکمل کی اور 1998 میں اپنے گرانقدر تحقیقی مقالے کو کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔ جس کی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی۔ اس تحقیقی کام کی تکمیل کے بعد‘ اپنے موضوع ’شیخ چاند‘ کو آگے بھی تحقیق کا مرکز بنایا اور شیخ چاند کے مطبوعہ مضامین جو مختلف رسائل میں چھپ چکے تھے مگر اِدھراُدھر بکھرے پڑے تھے ان کو یکجا کر کے مرتب کیا اور ’مضامین شیخ چاند‘ کے نام سے 2007 میں شائع کیا۔ جس کی ایک عرصے سے تعلیمی حلقے میں ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ اس کے علاوہ ’نذرمولوی عبدالحق‘ اور کئی تحقیقی و تنقیدی کتابیں زیرترتیب رہیں لیکن طویل علالت نے ان کاموں کو پورا نہیں ہونے دیا۔ اُس کے ساتھ ہی اسی دوران ہم خیال احباب کے مشورے سے کتابی سلسلے کے تحت ایک ادبی تنظیم تشکیل پائی جن میں عارف خورشید، نورالحسنین، شاہ حسین نہری، اسلم مرزا، مرحوم قاضی رئیس، ساحر کلیم اور راقم الحروف پیش پیش تھے۔ جسے ’عالم گیر ادب‘ کا نام دیاگیا جو سحرسعیدی کا تجویزکردہ نام تھا جسے اتفاق رائے سے منظوری دی گئی اور اس کے تحت کتابی سلسلے کا کام شروع ہوا۔ طے شدہ ضابطے کے مطابق پہلے عالم گیر ادب کے ارکان کے فن اور شخصیت پر مشتمل نمبر شائع کیے جائیں گے۔ لہٰذا اس کے تحت اسلم مرزا کے بعد سحرسعیدی صاحب کا نمبر شائع ہوا تھا۔ (اس کے بعد عارف خورشید، شاہ حسین نہری، جاویدناصر، حمیدسہروردی اور نورالحسنین کے نمبر شائع ہوکر مقبول ہوئے ہیں)عالم گیر ادب کتابی سلسلے کے تحت ہر ہفتے ایک نشست کا اہتمام ہونا طے پایا تھا، جس کے تحت یہ نشستیں جاری ہیں۔ ویسے تو سبھی اراکین اُن کے قریب تھے لیکن اسلم مرزا کی قربتوں کا یہ عالم تھا کہ وہ اُن کو اپنا پیرومرشد کہتے تھے۔ ان نشستوں کے ذریعے میری سحرصاحب سے تقریباً ہر ہفتے ملاقات ہوتی رہی اور ان ملاقاتوں کے سبب ان کے قریب آنے، ان کی شخصیت کو سمجھنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کے مواقع حاصل ہوئے۔ ایک دو بار میری اُن سے بحث بھی ہوئی اور ناراضگی بھی رہی لیکن اُس کے باوجود میں ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا۔عالم گیر ادب کی نشستوں نے ہم سب کی ادبی سرگرمیوں میں اضافہ کردیا اور اسی دوران انھوں نے اپنی خودنوشت تحریر کی جو ’یادوں کی مہک‘ کے نام سے 2015 میں کتابی شکل میں شائع ہو کر بہت مقبول ہوئی۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں اسلم مرزا لکھتے ہیں کہ:’’یادوں کی مہک ایک دلچسپ من موہنی دلچسپ سوانح ہے جس میں بے شمار کردار ہیں، واقعات ہیں، پلاٹ ہیں، علامت نگاری، تصوریت، رمز و کنایہ، اشاریت اور فلیش بیک کے رنگ آمیز مناظر ہیں اس پر مستزاد اُن کا زوردار بیانیہ جو ایک نیک طنیت، سلیقہ مند اور کھرے انسان کی یادوں اور اس کے تجرباتِ زندگی کا دل گداز اظہاریہ ہے جو ایک غیرمعمولی ادبی دستاویز بن گئی ہے۔‘‘اس کے اگلے سال ان کی ایک اور اہم کتاب ’خاصان خوش خیال‘ کے عنوان سے چھپ کر ادبی حلقوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئی، جو مختلف ادبی شخصیات کی حیات اور ادبی کارناموں پر لکھے گئے ان کے مضامین پر مشتمل تھی۔ بقول عارف خورشید:’’خاصان خوش خیال اورنگ آباد دکن کے ادبی خزانے کی ایک ایسی کتاب ہے جو اس میں مذکورہ اشخاص ہی نہیں بلکہ سحرسعیدی کے موجود ہونے کا احساس دلانے کے ضامن ہیں۔‘‘اسے مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی نے انعام سے بھی نوازا تھا جو ان کے انتقال کے بعد ان کے لواحقین نے حاصل کیا تھا۔سحرسعیدی مرحوم کا ایک اور اہم اپنی نوعیت کا منفرد کام ’ادبی تراشے‘ ہیں جو انھوں نے بڑی لگن اور جستجو کے بعد اپنے طور پر بڑی تعداد میں جمع کیے تھے۔ 15جلدوں پر مشتمل ’ادبی تراشے‘ میں سحرسعیدی نے اہم کثیرالاشاعت روزناموں اور رسائل میں شائع ہونے والے ادبی تحقیقی، تنقیدی مضامین کے تراشوں کو ان میں محفوظ کردیا۔ بقول خان شمیم ڈاکٹر سحرسعیدی نے برسوں کی ان محنت کو ان اخبار کے تراشوں کو یکجا کیا، ژیراکس کاپیاںبنوائیں، بائنڈنگ کروائیں اس طرح ان تراشوں سے اردو کی ایک تاریخ مرتب کردی۔ دراصل ان کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے اردو اخبارات کے تراشے جمع کرنا شروع کیے تھے۔ ان تراشوں میں شہر اورنگ آباد کے شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کے تذکرے کو محفوظ کرلیا جن کا تعلق اردو زبان اور دکن کی تہذیب و تمدن سے رہا ہے اس کے علاوہ قدیم شعرا اور ادبا پر مختلف دور میں جو مضامین شائع ہوتے رہے ہیں ان کو بھی محفوظ کرلیا گیا۔ جو ان کی برسوں کی محنت کا ثمرہ ہے۔ یہ نہایت ٹھوس اور جامع کام ہے۔ یہ مشکل اور اہم ترین کام سحرسعیدی نے انجام دے کر واقعی اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام کیا تھا۔ یہ ادبی تراشے ریسرچ اسکالرس کے استفادے کے لیے اہم دستاویزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ادبی تراشوں کی جلدوں کا اجرا حمایت علی شاعر کے ہاتھوں 2007 میں انجام پایا تھا۔ یہ ایک بڑی یادگار تقریب تھی۔سحرسعیدی کی تحقیقی و تنقیدی خدمات کا تمام اہل ادب نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور وہ اپنی شاعری کے ساتھ ان تحقیقی و تنقیدی خدمات کے سبب اردو ادب میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ آخر میں دنیا کی بے حسی اور آج کے دور کی ترجمانی کرتے ہوئے اُن کے اِس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ؎جیتے جی تو قدر نہیں کی ‘ یاد بھی ہم کو کب آتے ہیںکتنے دنیا سے اٹھّے ہیں ‘ نیک صفت دیوانے لوگAzeem RahiKarim ColonyRoshan GateAurangabad - 431001Mob.: 9370992203" عائشہ عودہ کی خودنوشت أحلام بالحریۃ - مضمون نگار : ڈاکٹر صہیب عالم,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/03/,"عائشہ عودہ کی پیدائش رام اللہ کے ایک گاؤں دیر جریر میں1944 میں ہوئی۔ اسرائیلی فوجیوں نے 1969 میں قیدی بناکر ان کے ساتھ زبردست ظلم وجارحیت کا رویہ اختیارکیا۔ خاندانی گھر کو مسمار کردیا۔ 1970 میں اسرائیلی فوجی کورٹ نے عمر قید کی سزا سنا دی۔ مزید مغربی قدس میں بم رکھنے کے الزام اور غیرقانونی تنظیم سے تعلق رکھنے کی پاداش میں 10 سال کی سزا سنادی۔1979میں قیدیوں کے تبادلے کے تحت ان کی رہائی ممکن ہو پائی۔ 1998 میں قائم شدہ ابن رشد اکیڈمی نے ان کے علمی کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں انعام واکرام سے نوازا۔ یہ ادارہ مسلسل کسی نہ کسی ادیب کو اس کے تخلیقی ادب یعنی ناول، خودنوشت، سفرنامے، اور شعروشاعری پر انعام سے نوازتی ہے۔عائشہ عودہ گرفتار ہونے سے قبل رام اللہ کے ایک اسکول میں علم ریاضیات کی معلمہ کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دے رہی تھیں۔ 1967 کی عظیم فلسطینی جدوجہد میں آپ کا نام نمایاں ہوکر سامنے آیا۔ادب السجون جدید فلسطینی ادب میں ایک نئے صنف کی حیثیت سے 1967 سے پروان چڑھ رہا ہے۔ اہم فلسطینی شعرائ محمود درویش، سمیح القاسم، توفیق زیاد وغیرہ کو جب قید کیا گیا تو انھوں نے قید خانوں کے اندر بھی شعروشاعری کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک مشہور شاعر معین بسیسو نے مصر میں اپنی گرفتاری کے تجربے کو ’دفاتر فلسطینیہ‘ (فلسطینی ڈائری) کے نام سے شائع کرایا ہے۔یہ صنف یعنی ادب السجون کافی حد تک جدید عربی ادب میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ اس صنف میں مرد وعورت، ترقی پسند، تقلید پسند اور اسلام پسند ادبائ وشعرائ اپنی تخلیقات پیش کر رہے ہیں۔ ایسے افراد بھی اس میں طبع آزمائی کر رہے ہیں جن کے پاس نہ توکوئی سیاسی رجحان ہے اور نہ وہ کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ صنف ڈائری، خودنوشت، ناول ، اشعار ، ڈرامے، شذرات، انٹرویوز کی شکل میں موجو د ہے۔ عربی ادب سے دلچسپی رکھنے والے اسکالرس کے لیے یہ ایک اہم میدان کے طور پر سامنے آرہا ہے، یہ تحقیق کا ایک نیا دروا کررہا ہے، اس کا تاریخی، سیاسی، سماجی اور تنقیدی جائزہ لیا جانا چاہیے۔عائشہ عودہ نے ایک انٹریو کے دورانـاپنی خودنوشت ’احلام بالحریہ‘ کی تصنیف کا مقصد واضح کرتے ہوئے کہا کہ میرے لکھنے کا مقصد ہرگز ادب السجون کا حصہ بننا نہیں بلکہ میرا مقصد صرف اور صرف قید میں گزاری ہوئی زندگی کے کربناک تجربات کو سامنے لانا ہے تاکہ جو شخص جب چاہے اس سے واقفیت حاصل کرسکے۔حقیقتاً میری یہ تحریر مزاحمتی ادب اور آزادی کے ادب کا حصہ ہے۔ قید ہماری جد وجہد کا ایک مرحلہ ہے۔ میں ادب السجون کی قیدی نہیں ہوں کیونکہ میںنے یہ تحریر قید سے آزاد ہونے کے بعد مختلف ایام میں تحریر کی ہے۔ میری تحریر کا مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے جس کا فلسطین کی آزادی کے لیے کوشاں ہر فلسطینی اسرائیلی قیدخانوں میں سامنا کر رہا ہے۔عائشہ عودہ نے أحلام بالحریہ لکھتے وقت مکمل دیانت داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک انٹریو میں بیان کرتی ہیں:’’میں نے یہ خودنوشت لکھنے کے دوران حد درجہ امانت، سچائی اور دیانت داری سے کام لیا ہے۔ کیونکہ میرے ذہن ودماغ میں وہ تمام اذیتیں اور صعوبتیں نقش ہوگئی ہیں جیسا کہ میںنے اپنے ہیر کلپ سے قید خانے کی دیوار پر کندہ کیا ہے اور میں تا حیات اسے بھول نہیں سکتی۔ ممکن ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ اس کی شدت میں کمی آ جائے لیکن ہمارے ذہن ودماغ پر اس کا نقش گہرا ہوتا جائے گا اور ممکن ہے آنے والے وقت میں اس سے محاسبہ اور نقد کرنے میں آسانی ہو۔ اور ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں زبان میں کچھ نرمی آ جائے اور میں آج جوہوں وہ نہ رہ سکوں۔‘‘اس کتاب میں انھوں نے قید میں ہونے والے مزاحمتی تجربات کو، اپنے تجربات کو بھی اور اپنے رفقائ کے تجربات کو بھی، اور قید کے اندر اسرائیلی فوجیوں کے جبروظلم کو اجاگر کیا ہے۔ یہ قیدی کے نام کو پسند نہیں کرتی ہیں۔أحلام بالحریہ 2005 میں پہلی بار شائع ہوئی جو کہ166 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ نسائی ادب کا ایک مثالی نمونہ بھی ہے۔ قید کے دوران عائشہ اور ان کی قیدی ساتھیوں نے قید خانہ کو ایک انقلابی مدرسہ میں تبدیل کردیا تھا۔ ان کا پہلا مقصد جہالت کو ختم کرنا تھا اور دوسرا مقصد ثابت قدمی، امیدوں کی پرورش اور مایوسی کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنا تھا، اور نیا سورج اگنا ہی چاہتا ہے اس پر یقین کامل پیدا کرنا تھا۔فنی پہلو سے اگر عائشہ عودہ کی خودنوشت کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ انھوں نے ادب السجون کے ساتھ مزاحمتی اور نسائی ادب کو تقویت دی۔ 1969 سے 1979 کے دوران اسرائیل کی طرف سے ہونے والے ظلم وجبر، کربناک اذیتوںاور صعوبتوں کو انھوں نے مکمل طور سے پیش کیا ہے۔ ان پر جسمانی، ذہنی، معنوی، جذباتی اور وجدانی تمام خطرناک اور کربناک اذیتوں کا تجربہ کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان کے گھر کو ڈھا دیا گیا۔ انھوں نے قید میں جودس سال گزارے یہ ان کے وہ ایام گزشتہ ہیں جس میں انہوں نے دوسرا جنم لیا ۔عورت ہونے کے باوجود عائشہ نے اپنے جسم وقلم سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ اپنی اس خودنوشت کے ذریعہ عائشہ نے اسرائیلی جرائم، ظلم وبربریت، اور اذیتوں سے پردہ اٹھایا اور عام لوگوں کے سامنے اسے پیش کردیا تاکہ عورتوں اور مردوں کے ساتھ اسرائیلی قیدخانوں کی کہانی دنیا کے سامنے آسکے۔أحلام بالحریہ کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے جب قاری اسے پڑھتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ اس کے سامنے ایک لائیو ویڈیو چل رہاہے جس میں یکے بعد دیگرے اس کے سامنے دل دہلا دینے والے منظر گزرتے جارہے ہیں۔ اس دوران قاری نہ اکتاہٹ محسوس کرتا ہے اور نہ اس کا ذہن ودماغ کتاب سے باہر نکل پاتا ہے۔یہ کتاب مقدمہ کے علاوہ نو ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب آزاد ی کا خواب، دوسرا باب آدھی رات، تیسرا باب تفتیش، چوتھا باب اعتراف جرم ، پانچواں باب گویا کہ دیوار پھٹ گئی، چھٹا باب دوسرا جنم، ساتواں باب گنگناہٹ، آٹھواں با ب اپنے دوستوں کے ساتھ اور نواں باب لکھنے کا تجربہ۔عائشہ مسئلہ کا سرسری تجزیہ کرتی ہوئی نہیں گزرجاتی ہیں، بلکہ وہ اس قیدوبند کے بنیادی سبب کا برملا اظہار کرتی ہیں، ان کا ماننا ہے کہ اسرائیلی غاصب جب تک سرزمین فلسطین پر موجود رہیں گے، قیدوبند کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ـ’’میں پہلی لڑکی نہیں ہوں اور نہ آخری، جب تک فلسطین اسرائیلی غاصبوں کے قبضے میں رہے گا ہماری جیسی لڑکیا ںگرفتار ہوتی رہیں گی‘‘۔اسرائیلی جارحیت کس طرح مردوعورت میں تفریق کیے بغیرانسانیت کوشرمسار کرنے والی حرکتیں کرتی ہے، اس کا اندازہ عائشہ کے ان بیانات سے لگایا جاسکتا ہے جو وہ تفتیش کے دوران اپنے اوپر گزرے ہوئے دردناک لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے قلم بند کرتی ہیں:’’ان میں سے ایک نے میری چوٹیوں کی طرف دیکھا، اس کو زور سے پکڑا، اور ہوا میں مجھے اونچا اٹھایا اور زمین پر پھینک دیا اور ان کے قدموں نے مجھے روندنا شروع کردیا۔ دوبارہ اس نے میرے بال کی چوٹی کو اپنی طرف کھینچا اور مجھے اوپر اٹھایا اور زمین پر دے مارا ، گویا کہ انھوں نے مجھے کھلونا بنا رکھا تھا اور ان لوگوں نے میرے ساتھ تین یا چار بار حرکتیں کیں۔‘‘’’جب میں نے ان کے سوال کا جواب نہیں دیا تو اسرائیلی فوجی نے مجھے حرافہ کے نام سے پکارا اور کہا:یہ حرافہ ایسے نہیں بولے گی۔‘‘’’میرے پیچھے کھڑے شخص نے دو پائپ اٹھایا، اور میرے سر پر مارنے لگا، جیسے کہ ڈھول بجانے والا ڈھول پر مارتا ہے، میں نے اپنے سر کو بچانے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کیے، تو وہ میرے ہاتھ کے اوپر سے مارنے لگا۔‘‘’’دوسرا شخص میری طرف بڑھا، میرے چہرے پر زور سے تھوکا، میں نے اپنے چہرے کو صاف کرنے کی کوشش کی۔ اس نے دوبارہ تھوکا، اس نے میرے دونوں ہاتھوں کو پیچھے کرکے کرسی سے باندھ دیا اور اپنے گھونسے سے میرے سر کے آخری حصہ پر مارنے لگا۔ میں نے اپنا توازن کھو دیا۔‘‘’’اس نے استہزائ اًکہا : یہ حرافہ نہیں بولے گی۔ دوبارہ اس نے لوہے کے دو پائپ لیے اور میرے سر پر مارنے لگا، رکتا ، مارتا، رکتا، مارتا، یکے بعد دیگرے… یہاں تک کی سر زخمی ہوگیا۔‘‘’’ایک فوجی دروازہ پر کھڑا ہوا، کچھ بولا، جلد ہی ایک شخص پانی سے بھری بالٹی لے کر آیا، بغیر کچھ بولے میرے اوپر انڈیل دیا اور نکل گیا۔میرا جسم سکڑ گیا، میرے دانت ٹھنڈک کی وجہ سے کڑکڑانے لگے، ٹھنڈک میری ہڈیوں میں گھس گئی، میں اپنے جسم کو سمیٹ کر ایک حصے کو دوسرے حصہ سے گرمی پہنچانے کی کوشش کرنے لگی، میرے دانت ٹھنڈ کی وجہ سے کڑکڑارہے تھے، اورکانپ رہے تھے۔ ٹھنڈ میرے پورے جسم میں سرایت کرگئی۔ زمیں بھی میرے لیے پناہ گا ہ نہ بن سکی، میں قید خانے کے ایک گوشے سے لگے دیوار سے چمٹ گئی، کچھ منٹ بعد دوسری بار پانی سے بھری بالٹی میرے جسم پر انڈیل دی گئی۔ میرا پورا جسم پانی سے بھیگ گیا۔ ٹھنڈک نے میرے پورے جسم کو لپیٹ لیا، میرے دانت پرانی کار کے انجن کی طرح کانپ رہے تھے۔‘‘عائشہ ان تمام اذیتوں اور صعوبتوں کے باوجود ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کے بارے میں کچھ بھی سننا گوارہ نہیں کرتی ہیں۔ وہ اذیت خانے میں بھی اسرائیلی جارحیت پسندوں کو عار دلانے اور ان کو ان کی حیثیت دکھانے کا کام کرتی ہیں۔ایک جگہ لکھتی ہیں:’’ان میں سے ایک نے حقارت اور ذلت آمیز لہجے میں بات کرنا شروع کردیا۔تم، تم، تم حقیر ہو، اسرائیل سے لڑنا چاہتی ہو، ھ ھ ھ ھپھر اس نے زور سے قہقہہ لگایا اور بولنے لگا:اسرائیل سے پنگا،اسرائیل نے تو بس چھ دنوں کے اندر تمام عرب ممالک کو شکست دے دی۔ اور وہ بھی چھ گھنٹوں میں۔ تم حقیر، ذلیل اسرائیل سے جنگ کرو گی۔ تم کند ذہن ہو، بے وقوف ہو۔متکبرانہ لہجے میںبولا:اس کی اس بات نے مجھے ہلادیا۔ میرا غصہ پھٹنا ہی چاہتا تھا ، میں نے اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود اس کے لہجے میں ایک جملہ کہا۔اگر تم طاقتور اور مہذب ہو تو میری جیسی لڑکی کو مارنے کی کیا ضرورت؟زور سے چیخا اور کہا، اپنا منہ بند کرو، منہ نہ لڑاؤ، جو ہم کہہ رہے ہیں سنو۔اس نے عرب قوم کی عزت پر حملہ کیا۔ اور عرب کی قیادت پر بھی۔ اور کہا کہ عرب کی قیاد ت نے تو اپنے آپ کو بیچ دیا ہے۔‘‘’’اگر تم طاقتور اور مہذب ہو تو میری جیسی لڑکی کو مارنے کی کیا ضرورت‘‘ اس ایک جملہ میں اس نے اپنا مقام بھی بیان کردیا کہ وہ کہاں کھڑی ہے اور اسرائیلی جارحیت پسندوں کو ان کی حیثیت بھی یاد دلادی کہ وہ کس قدر سطحیت اور گراوٹ کا شکار ہیں۔عائشہ قید وبند کے ان ایام میں اپنی فلسطینی بہنوں کو نہیں بھولتی ہیں، انہیں یاد رکھتی ہیں اور انھیں اونچے اونچے عزائم سے مالامال دیکھنا چاہتی ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ فلسطینی لڑکیاں اپنے گھر اور بال بچوں سے آگے بڑھ کر ملک کی تعمیر وترقی اور ملک کی آزادی کی جدوجہد میں اس کے ساتھ شریک ہوں۔’’میرا مقصد ملک کی تعمیر ہے، صرف گھر کی تعمیر نہیں، میری زندگی کا مقصد صرف اپنے بچوں کے عدد بڑھانے کے بجائے عوام کی تربیت ہے۔ ان کی آزادی اور زندگی اس ناجائز قبضہ میں محفوظ نہیں ہے…‘‘’’میرے خواب بڑے اور وسیع تر ہیں، جنھیں چھینا نہیں جاسکتا۔ اگر میں نہیں جلی اور تم نہیں جلے تو روشنی کہاں سے آئے گی۔‘‘عائشہ عزم اور حوصلے کا نام ہے، پوری کتاب میں اس کی یہ شان اور عظمت واضح طور سے نظر آتی ہے، تمام حالات کا سامنا کرنے کے باوجود اس کے قدم میں کہیں لغزش نہیں آئی، اس نے بے مثال ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا، لکھتی ہیں:’’یہ وہ تحریر ہے جسے میں نے 33 سال بعد لکھاہے۔ میں نے بم نصب کرنے کے سلسلے میں کبھی بھی لب نہیں کھولا۔ بہت سے لوگوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اپنے اس جرأت مند انہ کارنامہ کو بیان کروں جیسا کہ وہ سمجھتے ہیں لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ مجھے یا د ہے کہ فلسطین کی نسائی تنظیم کی سربراہ ڈاکٹر عصام عبد الھادی نے عمان میں اس سلسلے میں بات کرنے کے لیے بلایا، اور بہت سی طالبات نے اس سلسلے میں سوالات کیے، میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ گوناگوں کیفیت میں پایا۔‘‘آگے لکھتی ہیں:اصل چیز عزم کے ساتھ فیصلہ لینا ہے …… عزم ہی کامیابی کا ضامن ہے…اس کے بالمقابل وہ اسرائیلی جارحیت کی کمزوری پر بہت ہی گہرا طنز کرتی ہوئی لکھتی ہیں:’’زمین وآسماں سے وہ لوگ ہمارے خیمے پر بمباری کرتے ہیں، برباد کردیتے ہیں، قتل کرتے ہیں، پانی اور بجلی کاٹ دیتے ہیں۔ زمیں گھر اور درختوں پر بلڈوزرچلا دیتے ہیں۔ موت، ڈر، رعب اور بربادی کی کاشت کرتے ہیں… اور وہی لوگ… عمالقہ ہیں اور وہی فیصلہ کرنے والے ہیں۔‘‘عائشہ اپنی اور آزادی فلسطین کے لیے جدوجہد کرنے والی اپنی تمام بہنوں کے آہنی عزائم کا اظہار ان لفظوں میں کرتی ہیں:’’مرد عورت سے افضل نہیں ہیں۔ عورت مرد سے کم نہیں ہیں۔ وطن ، مستقبل ، آزادی اور عزت نفس تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے اور ثبات قدمی ہمارا شعار ہے۔‘‘Dr. Suhaib AlamAssistant ProfessorDepartment of ArabicJamia Millia IslamiaNew Delhi-110025" فائز دہلوی کے کلام میں مقامی رنگ - مضمون نگار : نفاست کمالی,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/02/,"شمالی ہند میں جدید تحقیق کے مطابق نواب صدرالدین خاں فائز دہلوی اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں ان کے آباو اجداد سلطنت مغلیہ کے منصب داروں میں سے تھے اور خود بھی منصب امارت اور جاگیر سے سرفراز تھے۔ غالباً اس لیے وہ اپنے نام کے شروع میں ’نواب ‘ کا اضافہ کرتے تھے۔فائز دہلوی کا زمانہ سیاسی طور پر بڑے انتشار کا تھا۔ سلطنت مغلیہ دن بہ دن زوال کے تاریک غار کی طرف جا رہی تھی۔ آئے دن بادشاہ تبدیل ہو رہے تھے۔ سیاست کی طاقت بکھر رہی تھی لیکن اردو اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ ترقی کے زینوں کی طرف گامزن تھی۔شمال میں اردو شاعری اپنا اعتبار قائم کر رہی تھی جبکہ اس وقت تک دکن میں شعروادب کے انبار لگ چکے تھے خصوصاً صنف مثنوی نے بڑی ترقی کر لی تھی۔ فائز کا بہر حال یہ کارنامہ ہے کہ وہ اپنی منصبی ذمے داریوں کوپوراکرتے ہوئے اردو کے دامن کو اپنی شاعر ی سے ’دامانِ باغباں‘اور ’کف گل فروش‘ بنا رہے تھے اوراس طرح انھوں نے شاعری میں اپنی ایک امتیازی حیثیت بنالی۔ فنی اور ادبی حیثیت سے اگر چہ فائز دہلوی کا مرتبہ زیادہ بلند نہیں ہے لیکن قدامت کو ذہن میں رکھتے ہوئے فائز کی شاعری کا ناقدانہ جائزہ لیں تو فائز کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔فائز دہلوی بنیادی طور پر فارسی کے شاعر ہیں اور ان کے فارسی کلام کا ایک بڑا ذخیرہ آج بھی موجود ہے پھر بھی ان کو شہرت ان کے اردو دیوان کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ انھوں نے اردو میںباضابطہ شاعری اس وقت شروع کی جب 1720 میں ولی کا دیوان دہلی پہنچا۔ اس سلسلے میں جمیل جالبی اپنی کتاب ’تاریخ ادب اردو‘ میں لکھتے ہیں:’’انھوں نے رواج زمانہ کے مطابق دیوان ولی کے آنے کے بعد1132ھ بمطابق 1720میں یا اس کے بعد اردو میں شاعر ی شروع کی۔‘‘(جمیل جالبی: تاریخ ادب اردو، جلد دوم،نمبر301اس سے قبل بہت سے اہل قلم کی طرح اردو کو فارسی زبان کے مقابلے میں حقیر اور بازاری سمجھتے تھے انھوں نے جملہ اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن غزل گوئی اور نظم نگاری کو فوقیت حاصل ہوئی۔فائز کے زمانے میں ایہام گوئی کا دوردورہ تھا۔ حاتم، ناجی، آبرو، مضمون، یکرنگ وغیرہ اردو کے تمام سربر آوردہ شعرا اس رنگ سے رنگے ہوئے تھے۔بعد میں یہ رنگ ہلکا پڑگیا اور شاعروں نے اس طرز کو چھوڑ دیا اور دوسروں کو بھی اسے ترک کرنے کی تلقین کی لیکن فائز ایہام گو شاعر نہیں ہیں انہوں نے ولی دکنی کا اثر قبول کرکے انھیں کے طرزپر شاعری شروع کی ان کی 46غزلوں میں سے 33 غزلیں ولی کی ہی طرز پر لکھی گئی ہیں۔خطبۂ کلیات میں خود فائز کے اپنے آغاز شباب کی حدت،شوخی اور آزاد روی کا ذکر کیا گیا ہے اپنی عاشقانہ اور رومانی افتاد طبع کی وجہ سے کبھی بھی مضمون آفرینی کی کوشش نہیں کی۔شوق کے غلبے میں جو کچھ محسوس کیا بلا کم وکاست لکھ دیا اوراس طرح انھوں نے شاعری میں اپنی امتیازی حیثیت بنالی۔انھیں امتیاز وخصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہندوستانی یا مقامی رنگ کی بھی جلوہ گری ہے۔ان کے کلام میں ہندوستانی عناصر اور مقامی رنگ کی عکاسی بڑی خوبی سے کی گئی ہے۔فارسی اور ہندوستانی عناصر کے امتزاج سے ان کی شاعری میں گنگا جمنی حُسن پیدا ہو گیا ہے۔ابتدا میں ان کی شاعری کی بنیاد فارسی شاعروں کی روایتوں پر کھڑی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں فارسی کے اصناف غزل،قصیدہ،مثنوی،اردو میں لائی گئیں۔خیالات اور مواد میں تقلید کی گئی اس طرح فارسی شاعری کی بیجا تقلید اردو شاعری کی روایت بن گئی اس لیے یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ اردو شاعری ولی سے غالب کے زمانے تک خارجی اور معنوی حیثیت سے صرف فارسی شاعری کی نقالی کرتی رہی یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں ہمیشہ اصلی تجربات و مشاہدات اورذاتی جذبات واحساسات کی کمی محسوس کی گئی حد تو یہ ہے کہ اردو شعرا بیت کے علاوہ مضامین بندش الفاظ و تراکیب تشبیہات واستعارات میں کورانہ تقلید کرنے لگے نقادوں نے اس سلسلے میں اردو شاعری پر کافی تنقیدیں کی ہیں جو بجاہیں۔محمد حسین آزاد اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’آب حیات‘ میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:’’تعجب ہے کہ فارسی شاعری نے اس قدر خوش ادائی اور خوش نمائی پیدا کی ہے کہ ہندی بھاشا کے خیالات جو خاص اس ملک کے حالات کے موجب تھے انھیں بھی مٹا دیا چنانچہ خاص وعام پپیہے اور کوئل کی آواز چمیلی کی خوشبو کو بھول گئے۔نسرین وسنبل جو کبھی دیکھی نہ تھی ان کی تعریف کرنے لگے رستم اور اسفند یار کی بلندی کو ہ اَلوَنداور بے ستون کی بلندی اور جیحوں اورسیہون کی روانی نے وہ طوفان اٹھا یا کہ ارجن کی بہادری ہمالیہ کی ہری ہری پہاڑیاں برف سے بھری چوٹیاں گنگا جمنا کی روانیکو با لکل روک دیا۔‘‘(آب حیات)بحوالہ کلیم الدین احمد اردو شاعری پر ایک نظرص2)کلیم الدین احمد کہتے ہیں:’’فارسی شاعری نے کچھ ایسا سبز باغ دکھا یا ہے کہ شعرا اپنی فطری ذہانت اور طباعی،اپنی قوت اور جدت طرازی سے دست بردار ہو کر فارسی شاعری کی تقلید میں منہمک ہو گئے۔‘‘(اردو شاعری پر ایک نظر)حقیقت بھی یہی ہے کہ اردو شعرا ہندوستانی ماحول اور آب وہوا میں رہ رہے تھے لیکن ایرانی ماحول کا نقشہ اپنے کلام میں پیش کر رہے تھے۔لیکن فائز دہلوی اور نظیر اکبر آبادیاس سے مستثنیٰ ہیں۔ان کی شاعری ایرانی فضا میں سانس نہیں لیتی ہے۔ہندوستانی عناصر سے اپنے کلام کو آراستہ و پیراستہ کرتے ہیں اس سلسلے میں فائز کے کلام کا جائزہ لیتے ہوئے مسعود حسین رضوی تحریر کرتے ہیں:’’اردو شاعری پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ مقامی رنگ سے خالی ہے لیکن فائز کا کلام اس اعتراض کی زد سے دور ہے وہ تشبیہوں،استعاروںا ور تلمیحات میں خالص ہندوستانی چیزوں سے زیادہ کام لیتے ہیں۔‘‘(مقدمہ، دیوان فائز مسعود حسین رضوی ادیب ص830)فائز ہندوستانی زندگی،ہندوستانی رسم ورواج، تہوار اور میلوں کا منظر اپنے کلام میں بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں مجنون گورکھپوری نے نظیر کے بارے میں لکھا ہے جو فائز پر بھی صادق آتا ہے:’’نظیر پہلے شاعر تھے جن کو میں نے زمین کی چیزوں کے متعلق باتیں کرتے ہوئے پایا۔پہلی دفعہ میں نے محسوس کیا کہ شاعر کا تعلق روئے زمین سے بھی ہے۔‘‘فائز سراپا ہندوستانی ہیں۔ان کے سوچنے کا انداز، تخیل،فکر اور ان کا اسلوب بیان ان کے پیش کردہ مناظر حتی کہ ان کی تشبیہات واستعارات بھی سو فیصد ہندوستانی نظر آتے ہیں فائز کا یہ کمال ہے کہ ہماری زندگی کی چلتی پھرتی تصویر پیش کر دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے کلام میں بھر پور صداقت اور واقعیت کی جھلک ملتی ہے۔نظموں کے چند عنوانات دیکھیے؎تعریف پنگھٹ،تعریف ہولی، بیان میلہ بہتہ، تعریف جوگن، دروصف کاچن،تعریف تمبولن،در وصف بھنگیرن،تعریف گوجری،درگاہ قطب وغیرہ۔پنگھٹ کا تعلق پورے طور پر ہندوستان سے ہے اس کے نام ہی سے ایک خاص رومانی فضا کا تصور ذہن میں ابھر تا ہے۔جہاں لڑکیاں اور عورتیں پانی بھرنے کو جمع ہوتی ہیں۔کیا ہی خوبصورت منظر نظر آتا ہے۔عاشق مزاج حضرات اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔فائز نے اپنی فنکاری اور تخلیقی قوت سے تمام جزئیات کے ساتھ اس منظر کو پیش کر دیا ہے چند اشعار ملاحظہ ہوں؎کیا جب سیر میں پنگھٹ کا گلزارکنویں کے گرد دیکھی فوج پنیہارہر اک پنیہار واں اک اپچھرا تیکنویں کے گرد اندر کی سبھا تیلے آئی تھی ججریاں اک سندرلے جاتی اک گگریاں سیس پر دھرسبن کی رنگ رنگ لہنگا وساریکنارے ان کے تھی ٹانکی کناریان اشعار میں سارے الفاظ تلمیحات وتشبیہات ہندوستانی ہیں۔پنگھٹ پر ساری لڑکیاں انھیں اپسرا ہی نظر آئیں معلوم ہوتا ہے کہ فائز کی نگاہ میں کوئی بدصورت عورت تھی ہی نہیں۔نظم ’’تعریف ہولی بھی ایک کامیاب اور دلکش نظم ہے۔اس کے واقعات اور مناظر بڑے ہی دلکش انداز میں پیش کیے گئے ہیں ان کی رنگ رلیاں اور گل چھڑے کا مزہ لے لے کر تبصرہ کرتے ہیں۔گلال،ابیر،کیسر کے چھینٹے پھینکے جاتے ہیں مرد عورت مستی میں ہنسی مذاق اور ٹھیٹھول کرتے ہیں خوشی اور مسرت میں رقص کرتے ہیں فائز کہتے ہیں؎لے ابیر اور گجابھر کر رومالچھڑکتے ہیں اور اڑاتے ہیں گلالسب کے تن میں ہے لباس کیسریکرتے ہیں صد برگ سوں سب ہمسریناچتی گا گا کے ہوری دم بدمجیوں سبھا اندر کے دربار ارمبعد میں اس روایت کو نظیرنے کافی آگے بڑھایا اور ہولی کی رنگینی کو زیادہ موثر طریقے سے پیش کیا۔ فائز سے پہلے قلی قطب شاہنے بھی ہولی بسنت وغیرہ پر خوبصورت نظمیں کہی ہیں۔نظم ’بیان میلہ بہتہ‘ میں ایک بازار کی تصویر کشی ملتی ہے جو لال قلعے کے لاہوری دروازے پر لگتا تھامنظر نگاری سے صداقت جھلکتی ہے۔لوگوں کا ریلا آرہا ہے،شور و غل بڑھ رہا ہے،بازار وں کی چہل پہل بھی بڑھ رہی ہے،ماہ جبیں عورتیں بھی بازار کی رونق میں اضافہ کر رہی ہیں۔کہیں تاشہ،حلوائی،گلفروش،تمبولن،شراب فروش ہیں کہیں بھکتوں کا ہجوم ہے تو کہیں بھانڈ اور نٹ  کا ہنگامہ۔ سبھی اپنی دکانیں سجائے بازار میں جلوہ افروز ہیں ذرا فائز کی زبانی سنیے؎آج بہتے کا یار میلا ہےخلق کا اس کنارے ریلا ہےمرد وزن سب چلے ہیں اس جاں پرخلق پھیلی کنارے دریا پربہل وگاری میں سب چلے نسواںکوچۂ بازار میں ہوں چیں چاںاک جانب میں بھانڈ کا ہے شوردیکھنا ان کا اہل دل کو ضروراس زمانے میں جب کہ اردو شاعری گھٹنوں کے بل چل رہی تھی۔ فائز کی نظموں میں تخیل کی فراوانی، تخلیقی صلاحیت،قوت مشاہدہ اورتجربات واحساسات کی تیزی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے وہ بڑی سادگی سے سارے مناظر پیش کر دیتے ہیں۔کاچن،تمبولن،بھنگیرن،گوجرن یہ تمام مختلف پیشہ ور عورتیں ہیں اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن فائز نے ایک عام ہندوستانی نظر سے دیکھا۔ان عورتوں کے ہندوستانی حسن اور لباس سے بہت متاثر ہیں۔فائز نے اس زمانے کی عام روش کے خلاف پست طبقے کی گنوار عورتوں کے حسن اور طور طریقے کو اجاگر کیا ہے۔بعد میں جوش ملیح آبادی نے جامُن والیاں اور دیگر مزدور پیشہ جفاکش عورتوں کی تعریف میں نظمیں لکھیں۔وہ عام زمینداروں اور رئیسوں کے مقابلے میں نچلے طبقے کی حمایت کرتے تھے۔ ان کی نظم ’تمبولن ‘ کے چند اشعار پیش ہیں؎ایک تمبولن دیکھی میں دل رباماہ رخاں بیچ بہت خوش ادابانکری تھی ہاتھ میں اس کے ہریبیٹھی دکان میں وہ جوں پریہونٹا اوپر زیب دیتی تھی دھڑیگَل میں تی موتیاں کی اس کو لڑیکیلے کے گابھے سے ملائم دو ہاتدیکھ کے مرجھا تے تھے کیلے کے پاتنت دل عشاق کی چوری کرےہاتھ میں لے اپنی گلوری کرےان اشعار کی یہ خوبی ہے کہ عورت کے حسن وادا کے ساتھ عشوہ وغمزہ اور چاہنے والے کے ساتھ اس کے برتاؤ کو بھی پیش کیا گیا ہے۔تشبیہات واستعارات کی شیریں ادائیگی کی فکر میں کبھی کبھی شاعر بہک بھی جاتا ہے اوردور ازکار تشبیہات انقباض پیدا کرتی ہیں لیکن فائز نے تشبہیات و استعارات کی پیش کش میں بڑی تخلیقی بصیرت اور فن کاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ مسعود حسین رضوی ادیب لکھتے ہیں:’’وہ تشبیہوں استعاروں اور تلمیحوں میں خاص ہندوستانی چیزوں سے زیادہ کام لیتے ہیں مثلاً پلک کو کٹاری،نرم اور نازک گول باہوں کو کمل کی ڈنڈی اور کیلے کا کابھا،ناک کو چمپے کی کلی سے دلکش،رفتارکو موڑ اور مست ہاتھی کی چال سے تشبیہہ دیتے ہیں حقیقت بھی یہی ہے کہ تشبیہات اور استعارات سے ان کے قوت مشاہدہ اور فن کا رانہ بصیرت کا بخوبی اندازہ ہو جاتاہے۔‘‘(مقدمہ،دیوان فائز دہلوی سید مسعود حسین رضوی ادیبص83)اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں؎خوش نما تھا اس کے پگ میں پائے زیبپیر نارنگی و تلوے تھے سیبکنک سوں سفادار وہ بدنکنول ڈال ہے ہاتھ گال ہے چرندو کنول دو گل ہیں گالکلی چمپے کی ناک کو ہے مثالآوارہ اور اوباش لوگ بھنگیر خانے میں اس طرح پھیلے ہوئے ہیں جیسے آشیانے پر کوے اودھم مچا رہے ہیں۔کوا ہندوستانی پرندہ ہے۔کوّے کا غول کبھی کبھی جو منظر پیش کرتا ہے وہ ہندوستانیوں سے پوشیدہ نہیں۔ہندی شاعری کی پیروی اور تقلید میں معشوق کا استعارہ چاند سے اور عاشق کا چکور سے پیش کیا جاتاہے جیسے؎سب چکورے بھنگیر خانے پرجیسے کوّے ہیں آشیانے پرفائز نے اپنی شاعری   میں ہندؤں کے مذہبی عقائد اور معاشرتی طریقوں کا بھی ذکر کیا ہے جیسے اندر کی سبھا،اپچھرا وغیرہ فائز کی نظموں میں ان کی غزلوں کی بنسبت ہندوستانی عناصر یا مقامی رنگ زیادہ ہیں لیکن ان کی غزلیں بھی مقامی رنگ سے بالکل عاری نہیں ہیں۔ خاص کر عشق میں ان کی ارضیت اور معشوق کی سج دھج بالکل ہندوستانی ہے۔طرز ادا اور لب ولہجہ پر خالص برج بھاشا اور دہلی کی بولیوں کا اثر ہے۔غزل کے ایک شعر کی طرز ادا ملاحظہ ہو؎حسن بے ساختہ لبھاتا ہے مجھےسُرمہ انکھیا ں میں لگایا نہ کرواس طرح کے اور بھی اشعار ہیں جن کی تلاش میں جانے پر طوالت پائے قلم تھام لیتی ہے۔فائز کی شاعری کا محاکمہ کرتے ہوئے جمیل جالبی لکھتے ہیں:’’فائز کی شاعری میں کوئی گہری معنویت نہیں ہے لیکن آبرو، ناجی اور دیگر شعرا کے یہاں سے زیادہ مقامی رنگ ملتا ہے۔ان کی شاعری کی فضا ان کے ذخیرۂ الفاظ اور ان کے رمز و کنایے میں ہندوئیت کی چھاپ گہری ہے۔ یہی وہ رنگ سخن ہے جو فائز کو اردو کے دوسرے شاعروں سے مختلف کرتاہے۔‘‘(ڈاکٹر جمیل جالبی :تاریخ ادب اردو، حصہ دومص305)اتنی بات تو تسلیم کرنی ہی ہوگی کے فائز دہلوی نے فارسیت کے اس دور میں مقامی رنگ اور ہندوستانی عناصر کی جلوہ گری سے اردو شاعری کے دامن کو وسیع اور زبان کو تقویت بخشی ہے یہ ان کاطرۂ امتیاز ہے۔Dr. Nafasat KamaliAsst ProfessorGuest Faculty, Dept of UrduC M College, Qila GhaatDarbhanga - 846004 (Bihar)ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر 2021" بالی ووڈ فلمیں اور مشاہیر اردو - مضمون نگار: محمد عارف,https://ncpulblog.blogspot.com/2022/01/,"اردو ہندوستان میں جنم لینے والی ایک ایسی زبان ہے جس نے زندگی کے ہرشعبے پر اپنا گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ یہ اس زبان کی شیرینی، سادگی اور سلاست کا ہی کرشمہ ہے کہ جو اس زبان سے نا مانوس ہیں انھیں بھی اس زبان سے انسیت ہے۔اس کا ایک ثبوت بالی ووڈ کی فلمیں ہیں جن میں زیادہ تر ڈائلاگ، نغمے اور مکالمے اردو میں ہوتے ہیں۔مگر وہ ناظرین کو اتنے بھلے لگتے ہیں کہ زبان کی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا اور نغمے تو کانوں میں اس طرح رس گھولتے ہیں کہ فلم دیکھنے والا کسی اور ہی دنیا میں کھو سا جاتا ہے۔ جہاں زبان سے زیادہ جذبے کی تپش محسوس ہوتی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ انسانی جذبات اور احساسات کی بہت ہی خوب صورت عکاسی اسی زبان میں ہوتی ہے۔اسی لیے اردو زبان نہ جانتے ہوئے بھی لوگوں کو اس زبان سے عشق سا ہو جاتا ہے اور شاید عشق کا یہی وہ جادو ہے جو آج بھی بالی ووڈ میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا توغالب پر لکھی ہوئی سعادت حسن منٹو کی مشہور زمانہ کلاسیکل فلم ’غالب‘ اور گلزار کا تحریر کیا ہوا ٹی وی ڈراما’ مرزا غالب‘اور دوسری بہت سی فلموں کو اتنی مقبولیت اور شہرت نصیب نہ ہوتی۔میر و غالب وغیرہ تو سب کی پسند ہیں اور ان کے نغمے پوری دنیا میں گونجتے ہیں۔ بالی ووڈ کی فلموں میں بھی اردو کے کلاسیکی شاعروں کی بہت سی غزلیں ہیں جو بہت مقبول ہیں اور جنھیں گلوکاروں کی آواز نے نئی زندگی سی بخش دی ہے۔یہ وہ نغمے ہیں جو صرف جذبے کو مہمیز نہیں کرتے بلکہ انسانی وجود کو ایک ایسے آہنگ سے بھر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے ذہن کا انتشار ختم ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی میں ایک نیا احساس جنم لیتا ہے۔ جب کہ ان نغموں میں اردو کی سہل اور سادہ لفظیات کے علاوہ تلاطم، عقوبت، سنگ باری، غمازی جیسے مشکل الفاظ بھی استعمال میں آتے ہیں۔خالص اردو کے شہکاروں پر بنی فلمیں بھی اردو زبان کی مقبولیت اور قدر و قیمت کا ثبوت ہیں۔ مرزا ہادی رسوا کے ناول ’امرائو جان ادا‘ پر مظفر علی کی بنائی ہوئی فلم نے اپنا جو اثر ناظرین پر نقش کیا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی اردو کے تخلیقی ادب میں بڑی قوت اور توانائی ہے۔یہی وہ فلم ہے جس میں ریکھا نے اپنی اداکارانہ صلاحیت کا لوہا ایک زمانے سے منوایا اور جس کے نغموں کی وجہ سے شہریار نے ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں شہرت کےہفت آسمانوں کی سیر کی۔اس سے بھی پہلے آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے ’یہودی کی لڑکی‘ پر بنائی جانے والی فلم ’یہودی کی بیٹی‘ میں دلیپ کمار کے کردار نے اس کہانی کی ڈرامائیت میں چار چاند لگادیا۔اسی طرح منشی پریم چند کی کہانیوں پر بھی ہندوستانی فلم نگری میں کئی کہانیاں بنائی گئیں۔لیکن اس سلسلے میں سب سے زیادہ مشہور ہوا ان کے ناول’ گئودان‘ پر بنایا ہوا ٹیلی ویژن ڈراما۔جس کی جذباتیت نے ناظرین کو اس قدر متاثر کیا کہ اسے آج بھی ہندوستانی فلم اور ٹیلی ویژن میں کسی شاہکار سے کم کا درجہ حاصل نہیں ہے۔اردو معاشرے اور تہذیب پربنائی جانے والی فلموں اور ٹی وی ڈراموں نے بھی ہندوستان میں خاصی شہرت حاصل کی۔ایسی فلموں میں شبانہ اعظمی، ارمیلا ماتونڈکر اور دیا مرزا جیسے فنکاروں کو لے کر بنائی جانے والی فلم ’تہذیب‘ اور امیتابھ بچن اور شری دیوی جیسے اداکاروں سے سجی ہوئی فلم ’ خدا گواہ‘۔اس کے علاوہ ٹی وی پر آنے والا مشہور فیملی ڈراما’ حنا‘ بھی اردو تہذیب کی جلوہ گری کے باعث لوگوں کی نگاہو ںمیں رچ بس گیا اور اس نے اپنی شہرت کی بنیاد پر دوسرے کئی ہم عصر ٹیلی ویژن ڈراموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔اردو نے ہندی فلم نگری پر ایسا جادو کیا کہ اس کی سحر انگیز نگاہوں کی روشنی نے ایک عالم کو اپنا اسیر بنالیا۔اس حوالے سے یہ اقتباس کافی اہم ہے:’’ہندی فلموں نے اردو کی ان تمام مشہور داستانوں کو فلما کران کی شہرت اور مقبولیت میں چار چاند لگادیے اور اردو کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ایک دیکھی جانے والی کہانی، پڑھی جانے والی کہانی کی بہ نسبت زیادہ موثر ہوتی ہے کیونکہ ایک کہانی کو بیک وقت ایک ہی شخص پڑھ کر متاثر ہوتا ہے جب کہ وہی کہانی جب فلم کے پردے پر دکھائی جاتی ہے تو بیک وقت ہزاروں اشخاص مثبت یا منفی اثر قبول کرتے ہیں۔چنانچہ اردو ادب کی مشہور اور معرکتہ الآراداستانوں مثلاً قصہ چہار درویش، قصہ حاتم طائی، شیرین فرہاد، لیلیٰ مجنوں، گل و صنوبر، شہزادی، علی بابا چالیس چور، انارکلی (ڈرامہ)، امرائوجان ادا (ناول) وغیرہ کو ہندی فلموں نے حیات جاودانی بخش دی۔آج یہ کہانیاں کتابوں کے صفحات سے اڑ کر عوام کے دلوں میں جا بسی ہیں۔ان کتابوں کے مصنفین اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ان کی کہانیاں اتنی مقبول ہوسکیں گی۔ان کہانیوں کے علاوہ اردو کے مشہور ناولوں پر مبنی فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔مثلاً راجندر سنگھ بیدی کی ’ایک چادر میلی سی‘ اور منشی پریم چند کے ناول ’ غبن ‘ اور ’کفن ‘ بھی فلم کے پردے کی زینت بن چکے ہیں۔’شطرنج کے کھلاڑی‘ستیہ جیت رے کی مشہور فلم تھی جو پریم چند کی کہانی سے ماخوذ تھی۔ان کے علاوہ جتنی بھی کہانیاں لکھی گئیں ان میں بیشتر کے خالق اردو کے ادیب ہی تھے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔‘‘(ہندی فلموں پر اردو کا جادو از پروفیسر محمد منصورعالم، ص 41، ہندوستانی فلموں کا آغاز و ارتقا، مولف الف انصاری، مطبوعہ اقبال پبلیکشنز، کلکتہ)اردو کے بہت سے ادیبوں نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے خدمات انجام دیں۔ان ادیبوں کے شاعرانہ اور فلمی کرئیر کے بارے میں گفتگو کی اسے ادب اور آرٹ کے اس اہم سنگم کا بہت خوبصورت منظرنامہ سامنے آئے گا۔سعادت حسن منٹو:سعادت حسن منٹو کی شخصیت سے کون واقف نہیں ہے۔انھوں نے اردودنیا میں اپنے نام اور کام دونوں کا سکہ جمایا۔گوکہ منٹو کو فلمی دنیا میں زیادہ بڑی جگہ نہ مل سکی۔ ان کی کہانیاں بہت سی فلمی پلاٹس کی زینت بنیں مگر ان کے جیتے جی وہ ہندوستانی فلم انڈسٹری سے اتنا کچھ حاصل نہ کرپائے جتنا کہ ان کا حق تھا۔اس کی وجہ ہم منٹو کی اس لاابالی فطرت کو بھی کہہ سکتے ہیں جو کہ ہر اصلی تخلیق کار کے یہاں پائی جاتی ہے۔وہ کہیں بھی ٹک کر کوئی کام کرنے سے قاصر رہے۔تاہم انھوں نے اپنی دلچسپی کی بنیاد پر مرزا غالب پر ایک فلم لکھی اور ہندی فلم جگت میں اسے اپنے افلاس زدہ دنو ںمیں کسی ڈائرکٹر کے بہت زیادہ اصرار کرنے پر فروخت کردیا۔نتیجتاً فلمی پردے کی زینت بنی اور اپنے زمانے میں بے حدکامیاب بھی رہی۔اس کے علاوہ منٹو کی مشہور زمانہ کہانی جو کہ تقسیم ہند کے موضوع پر تھی اور جسے دنیا ٹو بہ ٹیک سنگھ کے نام سے جانتی ہے۔کئی بار ہندوستانی فلم اور ڈراما کمپنیوں کی جانب سے فلمائی اور اسٹیج کی گئی۔مجروح سلطان پوری: مجروح سلطان پوری کا اصلی نام اسرار الحسن خان تھا۔آپ کا آبائی وطن نظام آباد، اعظم گڑھ تھا۔انھوں نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز 1945میں کیا اور دو دہائیوں کے مقبول ترین نغمہ نگار رہے۔مجروح صاحب کو اس بات پر اپنی پوری زندگی میںفخر رہا کہ انہیں اپنی اردو شاعری کی بنا پر ہی فلمی دنیا میں آنے کا اور ایسی سنہری خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔مجروح صاحب نے چھبیس سال کی عمر میں اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا اور اپنی اردو شاعری اور زبان کی صلاحیت کی بنیاد پر ایک سے ایک فلمی گیت تخلیق کیے۔مجروح صاحب نے اپنی فلمی زندگی میں نوشاد صاحب، مدن موہن، اوپی نیر، شنکر جے کشن، جتن للت اور اے آر رحمن جیسے عظیم میوزک ڈائرکٹرز کے ساتھ کام کیا اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کے دلوں کو اپنے اردو کے خوبصورت الفاظ کے رشتے میں پروتے چلے گئے۔انھوں نے اپنی پہلی فلم’ شاہجہاں‘ کے ہی گانے اس قدر خوبصورت لکھے کہ ان میں سے بیشتر عوام میں بہت مقبول ہوئے اور پروڈیوسر کے حسب خواہش ان نغموں میں مغلیہ عہد کے زبان و بیان کی اس چاشنی کو بھی ملحوظ رکھا گیا۔ ان کی ایسی ہی شاہکار خدمات کی وجہ سے انھیں 1965میں اپنے مشہور نغمے ’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘ کے لیے فلم فیئر ایوارڈ اور 1993میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بنام دادا صاحب پھالکے سے نوازا گیا۔مجروح صاحب نے اپنے تمام فلمی گیتوں میں اردو زبان اور اس کی زود اثری سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا۔ آج بھی ان کے اشعار فلمی گیتوں اور مکالموں میں استعمال کیے جاتے ہیں اور جس شعر نے انہیں دنیائے ادب اور فلم دونوں میں یکساں طور پر شناخت حاصل کرنے میں مدد دی وہ ہے؎میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگرلوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیامجروح سلطان پوری کے مشہور نغمے اس طرح سے ہیں جس پر انھیں فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا۔چاند میرا دل چاندنی ہو تم چاند سے ہے دور چاندنی کہاں(ہم کسی سے کم نہیں)، راجہ کو رانی سے پیار ہو گیا(اکیلے ہم اکیلے تم)، پہلا نشہ پہلا خمار(جو جیتا وہی سکندر)، او میرے دل کے چین (میرے جیون ساتھی)،یہ ہے ریشمی زلفوں کا اندھیرا(میرے صنم)، آجا پیا توہے پیار دوں (بہاروں کے سپنے)،ائے دل ہے مشکل جینا یہاں (سی آئی ڈی)،چھپا لو یوں دل میں پیار مرا(ممتا)ساحر لدھیانوی:ساحر کی تخلیقی صلاحیت کو کون نہیں پہچانتا۔ ان کے نغمے آج بھی ریڈیو، ٹی وی کے ذریعے لوگوں کے گوش گزار ہوتے رہتے ہیں اور وقت کی کئی پرتیں پڑنے کے باوجود ان نغموں کی مہک تازہ ہی رہتی ہے۔وہ بیسویں صدی کے وسط میںلاہور سے ہندوستان آئے اور یہاں آکر ممبئی میں انھوں نے فلم ’آزادی کی راہ پر‘ سے اپنے فلمی کرئیر کا آغاز کیا۔یہ فلم اپنا کچھ خاص اثر ہندوستانی سنیما پر نہیں ڈال پائی مگر ساحر کی تخلیقی صلاحیت کو ابھی اور چمکنا تھا اس لیے وہ اس راہ پر آگے بڑھے اور انھوں نے 1950میں فلم ’نوجوان‘ کے گانے لکھے جو کہ اتنے مقبول ہوئے کہ ساحر کا نام بطور نغمہ نگار ہندوستانی فلم انڈسٹری میں خاصی شہرت حاصل کرگیا۔ساحر کی شخصیت چونکہ خود بھی بے حد رومانی تھی اس لیے انھوں نے جب اپنی رومانویت کو نغموں میں اتارنا شروع کیا تو لوگ اس سحرزدہ لہجے کی تمکنت سے چونک اٹھے۔ساحر کے فلمی نغمے نہ صرف اپنی غنائیت کی وجہ سے بے مثال ہیں بلکہ ان نغموں کی معنی آفرینی اور معاشرتی حسیت نے انھیں آفاقیت عطا کی ہے۔ساحر کا امتیاز ہے کہ جو باتیں نثر کے پیرائے میں بیان کی جا سکتی ہیں انھیں ساحر نے شعر کے قالب میں ڈھال کر نہایت غنائیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔کبھی کبھیمیرےد لمیںخیالآتاہےکہجیسےتجھ کوبنا یاگیاہےمیرےلیےتوابسےپہلےستاروںمیں بس رہی تھی کہیںتجھےز میںپہاتاراگیاہےمیرےلیےساحر لدھیانوی اپنے عہد کے وہ نازک مزاج نغمہ نگار تھے جنہوں نے دھنوں پر گیت لکھنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے قلم کی عظمت کا اعتراف کروایا۔انھوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ پہلے گیت لکھیں گے اور اس کے بعد ہی ان کو دھنیں عطا کرنے کے لیے موسیقار کو محنت کرنا پڑے گی۔اس طرح موسیقی اور شاعری کی اس پرانی جنگ میں انھوں نے فلم انڈسٹری کو اپنے عہد تک تو یہ بات ماننے پر مجبور کردیا کہ گانوں میں بول کی اہمیت دھنوں سے زیادہ ہوتی ہے۔اس کے علاوہ بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر ان کو کس حد تک ناز تھا اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ فلموں میں موسیقاروں کی بہ نسبت پروڈیوسر سے ایک روپیہ زیادہ ہی قیمت وصول کی۔وہ اپنے کلام کی سحر بیانی کی صحیح قیمت سے واقف تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے زندگی بھر کسی بھی طرح کے معاوضے کے لیے معاہدہ کرنا غیر ضروری سمجھا۔ساحر کے چند مشہور نغمے اس طرح ہیں؎جا نے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملاہم نے جب کلیاں مانگیں کانٹوں کاہار ملا(فلم ’پیاسا‘)عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیاجب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیاندا فاضلی: اردو شاعری کے لحاظ سے فلمی دنیا میں ندا فاضلی کا نام ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی شاعری نے اپنے اسلوب اور افکار کی بدولت ایک ایسے لہجے کی بازیافت کی ہے جو بیک وقت میر اور نظیرکی یاد دلاتا ہے۔ نداکے یہاں جو فکری بہائو ہے وہ دراصل اودھت گیتا سے مستعار ہے۔ایک دن اچانک وہ ایک مندر کے پاس سے گزرتے ہیں جہاں انہیں سورداس کا ایک بھجن ’مدھوبن تم کیاں رہت ہرے؟برہ بیوگ سیام سندر کے ٹھارے، کیوں نہ جرے؟‘ سنائی دیا۔ اس بھجن میں کرشن کے متھرا سے دوارکا چلے جانے پر رادھا اور گوپیاں چمن سے استفسار کرتی ہیں کہ اے چمن! تم کرشن کے بغیر اتنے سرسبز کیوں ہو، ان کی جدائی کے غم نے تمہیں جلا کیوں نہ دیا؟۔۔۔اس واقعے کو ندا کے لہجے کی تشکیل اور فکر کی پرواز کی اساس کہا جاسکتا ہے اور یہاں سے ان کے دورِ مشق کے بعد ان کا اصل شعری دور شروع ہوتا ہے اور دراصل یہی درمیانی دور ندا کی شناخت کے طور پر مقبول ہوا۔ ندا کی شاعری کا تیسرا دور ان کی بمبئی (موجودہ ممبئی) آمد کے ساتھ 1964میں شروع ہوا۔یہاں آنے کے بعد ندا نے اس دورِ زندگی کا تجربہ حاصل کیا جہاں لوگ ایک دوسرے کے غم آشنا ہوتے ہوئے بھی ان غموں سے بھی فائدہ اٹھانے کی تدابیر میں جٹے رہتے تھے۔ندا اپنے فلمی کیریئر میں اس قدر کامیاب نہیں ہوئے جتنا انھیں ہونا چاہیے تھا بلکہ ان کی زیادہ شہرت اسی فقیر منش شاعر کے طور پر ہے جس کے اقوال کے آئینے میں لوگ دنیا کی سیدھی سچی تصویر دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔معاصر شاعری میں ندا فاضلی نے جدیدیت کے جس رنگ کی جانب اپنے اسلوبِ شعر کی باگ موڑی تھی خود اس کا وجود اتنا قوی ثابت نہیں ہوا کہ ندا جیسے شاعروں کے خیالات کی ترجمانی کا بوجھ برداشت کرسکتا۔اس لہر سے جڑنے کی بھی ایک اپنی وجہ گوتم بدھ کے اسی بیان کی سی معلوم ہوتی ہے جس میں وہ خود کو پانی کا مماثل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ ان کا رنگ کچھ نہیں ہے بلکہ وہ اوروں کے رنگ میں رنگنے کی اہلیت ضرور رکھتے ہیں۔‘‘ایسا نہیں ہے کہ اور شاعروںنے ندا کی طرح نظموں اور ددہوں میں دنیا کی تفہیم کی اس کوشش کو شامل نہیں کیا بلکہ کئی ایک تو ایسے ہیں جنہوں نے ندا کے یہاں سے خوشہ چینی کو بھی برا نہیں مانا مگر غزل کے قصر میں ندا کا اپنا ایک علیحدہ مقام ہے اور غزل کو سادھو سنتوں کا چولا پہنانے والے ندا کی برابری کرنا کسی بھی شاعر کے بس کی بات نہیں ہے یہ صرف ندا کا ہی حصہ ہے۔وہ اپنی دھرتی اور اس کی بوباس میں اس طرح رچے بسے ہیں کہ یہاں کے اوتار، ندیاں، مزاریں، گنڈے، تعویذ، درخت اور پرندے ان کی شاعری کی دنیا کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکے ہیں جس کو بمبئی کی بھیڑ بھی پامال کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور سچ پوچھا جائے تو ندا کی بہت بعد تک کی شاعری میں ان کے یہاں کا وہی خالص اور صوفیانہ اسلوب کارگر رہا جس نے انہیں ہجر کی تنہائی میں بھی خدا کے ترحم کا درس دیا تھا اور شہر کی ہائوہو میں بھی اسی کی کرپا کا پاٹھ پڑھایا۔البتہ فلمی دنیا میں رومانیت کے سہارے اپنی غزلوں سے فلموں میں چار چاند لگانے والے ندا فاضلی کے جن بولوں نے لوگوں کو متاثر کیا ان میں ’کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا‘، ’ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے‘ جیسے سدا بہار اور مشہور نغمے سر فہرست ہیںجنھیں ہندوستانی عوام کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔شہریار: مرزا ہادی رسوا کے ناول ’امرائو جان ادا‘ پر بنائی ہوئی مظفر علی کی یادگارفلم ’امرائو جان ‘ میں اپنے نغموں سے سحر طاری کرنے والے شاعر شہریار اپنی فنی صلاحیتوں کی وجہ سے ہندوستانی فلمی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ شہریار نے امرائو جان ادا کے فلمی نغمے واقعی اتنے اچھے تحریر کیے تھے۔ آج بھی وہ نغمے روح کو تازگی بخشتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا مشہور نغمہ؎دل چیز کیا ہے آپ مری جان لیجیےبس ایک بار میرا کہا مان لیجیےشہریار اردو ادب میں اپنی فنی بصیرت اور ادبی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ہندوستانی فلم انڈسٹری نے بھی ان کے کلام کی پختگی کو قبول کیا اور ان کی انمول اور بے بہا خدمات کی وجہ سے انھیں 2012میں ہی ان کے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے مشہور اداکار امیتابھ بچن کے ہاتھوں سے ایک ایوارڈ سے نوازا گیا۔شہریار نے فلموں کی طرح اپنی ادبی زندگی میں شاعری سے لوگوں کو متاثر کیا۔اخترالایمان: اخترالایمان کے اندر چونکہ ایک بہت ہی اہم شاعر وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھ رہا تھا اس لیے وہ بہت جلد ہی روایت شکن بن کر ابھرے اور ان کی یہی روایت شکنی انہیں ممبئی کی فلم نگری کی جانب کھینچ لائی۔ ممبئی میں ان کی آمد 1945میں ہوئی۔ انھیں اپنی مکالمہ نگاری کے سبب 1963میں فلم’ برہمپتر‘ اور 1966 میں فلم ’وقت‘ کے لیے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اخترالایمان نے تیس سے زائد فلموں میں مکالمے لکھے۔اخترالایمان کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے جس قدر کامیابی اپنے ادبی کریئر میں حاصل کی اتنی ہی انھیں فلمی دنیا میں بھی ملی۔چونکہ وہ زبان و بیان پرقادر تھے اس لیے انھوں نے کئی فلموں میں گیت بھی لکھے اور مکالموں کی ہی طرح ان کے نغمے بھی عوام کے لیے سدا بہار ثابت ہوئے۔اخترالایمان اپنی شاعری کی ہی طرح بالکل منفرد شخصیت کے حامل تھے۔انھوں نے فلم نگری میں رہ کر بھی اپنی فنی صلاحیتوں کو کسی بھی طور کم نہیں ہونے دیا۔وہ ایک باکمال اور با صلاحیت ادیب ہونے کے ساتھ ایک خوبصورت مکالمہ نگار بھی تھے۔اسی لیے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جب جب اردو اور بالی ووڈ کے رشتوں کا ذکر ہوگا۔تب تب اردو کے شعرا و ادبا کو یاد کیا جائے گا۔کیفی اعظمی: 14جنوری9 191کو آنکھیں کھولنے والے کیفی اعظمی کو آج ہندوستانی فلم انڈسٹری میں کون شخص نہیں جانتا ہوگا۔ان کا مشہور زمانہ نغمہ ’’عجیب داستاں ہے یہ، کہاں شروع کہاں ختم‘ لوگوں کے لیے آج بھی کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ان کی فلمی خدمات کے لیے انھیں خواجہ احمد عباس کی ہدایت میں بنی ہوئی فلم ’سات ہندوستانی‘ میں برائے نغمہ نگاری نیشنل فلم ایوارڈ سے 1970میں نوازا گیا۔اس کے علاوہ 1975میں انہیں فلم فیئر کی جانب سے بہترین مکالمہ نگاری، بہترین منظرنامے اور بہترین کہانی کے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا۔کیفی اعظمی نے اپنی اردو زبان دانی کی بدولت فلمی کرئیر میں ایسی کئی فلمیں لکھیں اور ایسے نغمے تحریر کیے جس میں اس زبان کا جادو سننے والے کے سر چڑھ کر بولتا ہوا محسوس ہوا۔ان کے کچھ سدا بہار نغمے مندرجہ ذیل ہیں؎آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہےتو جو بے جان کھلونوں سے بہل جاتی ہےوقت نے کیا کیا حسیں ستمتم اتنا جو مسکرارہے ہوزندگی بھر مجھے نفرت سی رہی اشکوں سےآج سوچا تو آنسو بھر آئے مدتیں ہو گئیں مسکرائےاس کے علاوہ اور بھی بہت سے نغمے ہیں جو ان کے قلم سے نکلے اور ہندوستانی فلم انڈسٹری کے آسمان پر ستاروں کی صورت جگمگائے۔شکیل بدایونی: ساحر لدھیانوی کی طرح شکیل بدایونی بھی اردو ادب کے حوالے سے فلموں میں ایک بہت عظیم نام بن کر ابھرے۔ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کی ہی بدولت انھیں فلم انڈسٹری میں سو سے زائد فلموں کے گیت لکھنے کا موقع ملا۔یوں تو ان کے بہت سے نغمات مشہور ومقبول ہوئے لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ مغلِ اعظم جیسی فلم میں لکھے گئے ان کے نغموں کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔بھلا کون ہے جو’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ اور ’اے محبت زندہ باد‘ جیسے گانوں کی کھنک آج بھی اپنے کانوں میں محسوس نہیں کرتا۔ بہترین نغمہ نگار کے طور پرانھیں کئی بارفلم فیئر ایوارڈ ملا۔ شکیل بدایونی کے تقریباًتمام فلمی نغمے مقبول و محبوب ہوئے ہیں، مثال کے طور پر کچھ مشہور نغموں کا ایک ایک مصرعہ پیش کرنا چاہتا ہوں؎اودور کے مسافر ہم کو بھی ساتھ لے لے (اڑن کھٹولہ)، تو گنگا کی موج میں جمنا کی ھار(بیجو باورا)، او دنیا کے رکھوالے سن دردبھرے میرے نالے(بیجو باورا)، جب پیار کیا تو ڈرنا کیا (مغل اعظم)حسرت جے پوری : حسرت کا نام اقبال حسین تھا۔ 15اپریل 1922کو جے پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے نانا فدا حسین اردو اور فارسی میںشاعری کرتے تھے حسرت کو بچپن ہی سے شعروشاعری میں دلچسپی تھی اکثراپنے نانا کے ساتھ مشاعروں میںشریک ہوتے تھے۔یہیںسے ان کے اندر شعر فہمی کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں ممبئی آگئے اور پابندی سے مشاعروں میںشریک ہونے لگے۔ایک مرتبہ ایک مشا عرے میں پرتھو ی راج کپور نے ان کی نظم ’مزدور کی تلاش‘ سنی تو ان کی ملاقات اپنے بیٹے راج کپور سے کرائی۔راج کپورنے ان سے کچھ اور غزلیں سنیں تو انھیں اندازہ ہواکی ان کے اندر نغمہ نگاری کی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے اسی ملاقات نے حسرت کی زندگی بدل کر رکھ دی راج کپور کے ہی وسیلے سے ان کو فلموں میں کام مل گیا۔اسی بنا پرہم دیکھتے ہیں کی راج کپور کی بیشتر فلموں کے نغمے حسرت جے پوری کے تحریر کردہ ہیں۔راج کپور کی فلموں کے سدا بہار نغمے حسرت جے پوری کی گہری بصیرت اور کمال فن کے مظہر ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر پروڈکشنز کے تحت بننے والی فلموں میں بھی ان کی بڑی حصے داری ملتی ہے۔ان کے کچھ نغمے جو انھیں بالی ووڈ میں بلند مقام عطا کیے؎زندگی ایک سفر ہے سہانہ(انداز)، تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لے (سسرال)، پنکھ ہوتے تو اڑ آتی رے (صحرا)، احسان تیرا ہو گا مجھ پر(جنگلی)، تم مجھے یوں بھلا نہ پائو گے (پگلا کہیں کا )، بدن پر ستارے لپیٹے ہوئے(پرنس)حسرت نے اپنا پہلا فلمی نغمہ ’جیا بے قرار ہے چھائی بہارہ ہے،آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے‘ لکھا،ان کے نغموں میں سہل نگاری اور سلاست پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ بہ آسانی زبان زد عام ہوئے۔کبھی کبھی ہندی تراکیب کا استعمال کر کے اپنے کلام میں ایک نیاآہنگ پیدا کر دیتے ہیں۔گلزار:ہندوستانی فلمی صنعت میںکم لوگوں کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ جنھوں نے فلم سازی کے مختلف شعبوں میں اپنی انفرادیت اور صلاحیتوں کے چراغ روشن کیے ہیں۔ پورن سنگھ عرف گلزار بھی انھیں لوگوں میں سے ایک ہیں و ہ بہترین اور حساس نغمہ نگار، کامیاب ہدایت کار، فطری مکالمہ نویس اور چست اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے جا نے جاتے ہیں۔ بحیثیت نغمہ نگار گلزار کی پہلی فلم ’بندی‘ تھی جس کے ایک نغمے نے حسن کی ایک نئی تعریف وضع کی اور وہ نغمہ بہت مقبول ہوا۔گلزار ایک ایسے نغمہ نگار ہیں جو اپنے نغموں میں نئی لفظیات، اچھوتے خیال اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہیں؎ہزار راہیں مڑکے دیکھیں کہیں سے کوئی صدا نہ آئیبڑی ادا سے نبھائی تم نے ہماری تھوڑی سی بے وفائی(فلم ’تھوڑی سی بے وفائی)وہ شام کچھ عجیب تھی، یہ شام بھی عجیب ہےوہ کل بھی آس پاس تھی، وہ آج بھی قریب ہے(فلم’خاموشی‘)نوشاد: نوشاد صاحب ہندوستان میں موسیقار اعظم کے نام سے جانے جاتے ہیں۔انھوں نے بیجو باورا سے لے کر مغل اعظم جیسی فلموں تک میں اپنی موسیقی سے جادو جگایا ہے۔ان کی عظمت کا اعتراف آج بھی ہندوستان کے کم و بیش تمام موسیقار کرتے ہیں۔نوشاد صاحب کے بارے میں شاید زیادہ تر لوگ یہ بات نہیں جانتے ہیں کہ وہ اردو کے ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے اور ان کا شعری مجموعہ ’آٹھواں سر‘ کے نام سے شائع ہوکر منظر عام پر آیا تھا۔نوشاد صاحب کو اردو زبان وادب دونوں سے دلچسپی تھی۔انھوں نے فلم مغل اعظم کی کلاسیکیت کو برقرار رکھنے کے لیے جس طرح نرگسی موسیقی کی دھنیں تیار کی تھیں اس سے یہ بات تو ثابت تھی کہ وہ اردو کے کلاسیکی مزاج سے پوری طرح واقف ہیں اور نہ صرف ان دھنوں کو زبان عطا کرنا جانتے ہیں بلکہ زبان کی دھنوںکا بھی پورے طور پر ادراک رکھتے ہیں۔کمال امروہی: یہ ہندوستانی فلم سینما کی تاریخ میں اپنی تخلیقی صلاحیت کی وجہ سے ہمیشہ یادرکھے جائیں گے۔ انھوں نے جو مکالمے لکھے اور جن فلموں میں ہدایتکاری کے فرائض انجام دیے۔ان میں سے بیشتر کامیاب رہیں۔کمال صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ ذہنی طور پر اپنا بالکل جداگانہ انداز رکھتے تھے۔جب ہندوستانی سینما میں تشدد اور عریانیت سے بھرپور فلمیں بنائی جانے کا ایک فیشن چل نکلا تھا تو انھوں نے ’پاکیزہ‘ جیسی خوبصورت اور پاکیزہ فلم بنائی۔زبان و بیان کے معاملے میں بھی ابتدا سے ہی کمال صاحب اپنی زبان میں اردو الفاظ کا بھرپور استعمال کیا کرتے تھے۔ان کی لکھی ہوئی کہانیوں اور مکالموں میں اردو زبان کی چاشنی و شیرینی کو بہت صاف طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔پھر مغل اعظم کے مکالموں کو کون شخص بھول سکتا ہے۔جن کی وجہ سے انھیں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔اصل میں کمال امروہی صاحب صرف اردو زبان سے ہی نہیں بلکہ اس کی تہذیب اور تہذیب کے ہر مخفی وظاہر گوشوں سے اچھی طرح واقف تھے۔اسی لیے انھوں نے فلمی دنیا میں اردو زبان و ادب کی ترویج میں ایک اہم کردار ادا کیا۔کمال امروہی صاحب نے بمبئی جوگیشوری (مشرق) میں کمالستان نام کا ایک اسٹوڈیوبھی تعمیر کروایا تھا۔اس اسٹوڈیو میںخود ان کی ہدایتکاری میں بننے والی فلم رضیہ سلطان کے علاوہ امر اکبرانتھونی، کالیہ، کوئلہ اور حال میں بننے والی فلم دبنگ دوئم کی بھی شوٹنگ ہوئی ہے۔یہ اسٹوڈیو تقریباً پندرہ ایکڑ میں پھیلا ہوا ہے۔کمال صاحب کی مقبولیت ان کی زندگی میں تو تھی ہی، فلم انڈسٹری نے ان کے انتقال کے بعد بھی ان کی شخصیت کے اثر کے حصار سے کبھی خود کو باہر محسوس نہیں کیا ہے۔گزشتہ سالوں میں ان کی شخصیت اور فلم انڈسٹری میں ان کی جدوجہد اور کردار سے متاثرہوکر ’کھویا کھویاچاند‘ نام کی ایک فلم بھی بنائی گئی تھی جس میں ’شاہنی آہوجہ‘ نے کمال امروہی صاحب کا کردار ادا کیا تھا۔اردو زبان اور ادب سے ان کو گہرا عشق تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جب وہ اردو رسائل میں سید امیر حیدر کمال کے نام سے شائع ہوا کرتے تھے تب سے شہرت کی بلندیوں کو سر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو ممبئی کے فلمی طلسم کدے میں ہمیشہ اسی زبان نے اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں مدد دی۔Mohammad Arif62, Paick Road, Ajeet NagatPratapgarth - 230001 (UP)Mob.: 9015799692" اردو میں مکتوب نگاری: آغاز و ارتقا اور زوال - مضمون نگار: اسلم جمشیدپوری,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/,"خط لکھنا، خیریت کا لین دین ہے۔ اس کی ضرورت اُس وقت پڑی ہوگئی، جب انسان لکھنے پڑھنے لائق ہوا ہوگا اور اپنوں سے دور بغرضِ ملازمت، تجارت یا رہائش کہیں اور گیا ہوگا۔یہ کہنا تو ممکن نہیں کہ دنیا کا وہ پہلا شخص کون ہے جس نے پہلی بار خط لکھا ہوگا۔ اُردو میں مکتوب نگاری کی روایت تو خاصی قدیم ہے لیکن غالب نے مکتوب نگاری کو ایک نیا مقام عطا کیا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ غالب نے مکتوب نگاری کو بطورِ صنفEstablishکرنے اور اعتبار بخشنے میں اساسی کردار ادا کیا۔ غالب سے قبل کی خطوط نگاری کے بہت واضح نقوش نہیں ملتے۔ ایسا نہیں ہے کہ غالب سے قبل خط لکھے نہیں جاتے تھے، بلکہ خط بہت زیادہ ثقیل زبان اور طول طویل القابات کے ساتھ لکھے جاتے تھے۔ خط میں کام کی بات تو صرف دو ایک جملے ہی میں ہوا کرتی تھی، مگر پورا خط احترام و آداب، القابات، دعائیہ جملوں سے بھرا ہوتا تھا۔ فارسی کے جملے، مصرعے اور ضرب الامثال کا استعمال زیادہ ہوتاتھا۔ یہ تو خیر سمجھیں کہ حضرتِ غالب نے شاعری کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں اور عزیزوں کو باضابطہ خط لکھے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ غالبکے وہ خط محفوظ رہے جو بعد میں ترتیب و تدوین کے ساتھ کتابی شکل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے ورنہ اردو ادب ایک صنف سے محروم ہو جاتا۔غالب نے جس طرح خطوط تحریر کیے، اس سے جہاں ایک طرف خطوط میں در آئی ثقالت کم ہوئی تو دوسری طرف خط میں گفتگو کا انداز بھی آیا۔ غالب کی زبان کی بے ساختگی، برجستگی اور ظرافت نے خط کو انتہائی مؤثر اور دلچسپ بنادیا۔ خطوطِ غالب پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے گویا دو لوگ آپس میں گفتگو کر رہے ہیں۔ سنجیدہ سے سنجیدہ مسائل بھی خط میں کچھ اس طرح بیان ہوتے ہیں کہ گویا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔اردو میں خطوط نگاری کی ابتدایہ بات آج تک تحقیق طلب ہے کہ اردو میں پہلا خط کس نے کس کو تحریر کیا۔ اس سلسلے میں ہمارے محققین اور ناقدین کرام کسی ایک بات پر متفق نہیں ہیں۔ 1981ئ میں شائع پروفیسر ثریا حسین کی کتاب گارساں د تاسی: اردو خدمات، علمی کارنامے‘ محمد طفیل کے نقوش کے خطوط نمبر 1968، داستانِ تاریخِ اردو، حامد حسن قادری 1966 اور غالب اور شاہانِ تیموریہ (ڈاکٹر خلیق انجم) میں اردو کے پہلے خط اور پہلے مکتوب نگار پر کچھ اشارے ملتے ہیں۔ جن کے مطالعے سے ایک دھندلی سی تصویر سامنے آتی ہے، جس کے مطابق افتخار الدین علی خاں شہرت (1810)، رجب علی بیگ سرور، خواجہ غلام غوث خاں بے خبر (1846)، جان طپش، راسخ عظیم آبادی (1914 سے قبل) کے خطو ط ملتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر ثریا حسین کی تحقیق کے مطابق شہرت کا خط تاریخی اعتبار سے اردو کا پہلا خط قرار پاتا ہے لیکن یہاں ایک مسئلہ پھر بھی قائم ہے۔ شہرت نے یہ خط کس کو لکھا، یہ واضح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں گارساں د تاسی کے ذریعہ اس عہد کے خطوط کا مجموعہ ’ضمیمہ ہندوستانی کی مبادیات‘ جو 1833 میں شائع ہوا۔ ہماری تحقیق کا واحدResourceہے۔ اس مجموعے میں اردو کے بیشتر خطوطملتے ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی اور فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین اور ملازمت کے خواہش مند حضرات کے خطوط ہیں۔ انھیں خطوط میں ایک خط راجہ رام موہن رائے کا بھی ہے۔ جو انھوں نے 1831 میں لندن سے دتاسی کو پیرس بھیجا تھا۔ خط ملاحظہ فرمائیں:جناب فضیلت مآب زاد مجدہم و شرفہیمرقعہ مبارک پہنچا و بندہ کو مسرور و معزز کیا۔ قادر علی الاطلاق آپ کو اس یاد آوری کے ساتھ سلامت رکھے۔ تین مہینے سے زیادہ انگلینڈ میں مقیم ہے۔ انشا اللہ تعالیٰ عنقریب پارس میں مشرف خدمت ہوگا اور وہ آپ کی توجہ سے جناب شیزی صاحب کی ملاقات حاصل کرے گا۔ آپ کے وعدۂ مراعات سے بندۂ کمتر ممنون ہوا و ادائے شکر تہہ دل سے کرتا ہے۔زیادہ حدِّ ادبخادمکم ممنونکمرام موہنو ہنحرّر فی التاریخ یکم اگست 1831(بحوالہ اردومیں ادبی خط نگاری کی روایت اور غالب، ڈاکٹر بیگم نیلوفر احمد، ص70، ماڈرن پبلشنگ ہائوس، دہلی2007)راجہ رام موہن رائے کا یہ خط اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ گارساں د تاسی کے نام ہے اور اردو خطوط کے اوّلین نمونوں میں سے ایک ہے۔ غالب سے قبل رجب علی بیگ سروراور ایک آدھ خط خواجہ غلام غوث خاں بے خبر کا ملتاہے۔ ویسے یہ بات بھی ثابت ہے کہ بے خبر، غالب کے معاصر ہیں اور خطوطِ غالب کے مجموعے ’عودِ ہندی‘ کو پہلے انھوں نے ترتیب دیا تھا۔ ہوسکتا ہے ایک آدھ خط، غالب کے خطوط سے پہلے کا ہو، یہاں ان کے ایک خط کا اقتباس نقل کر رہا ہوں۔’’۔۔۔خدا کا شکر کرو کہ اُس نے تمہیں محبوب صورت، مرغوب سیرت، حسنِ شمائل، پسندیدہ خصائل، فہم و رسائ، ذہن و ذکا، عقل سلیم، طبیعت مستقیم، علمِ مفید، بختِ سعید، تقریر کی فصاحت، تحریر کی بلاغت۔۔۔‘‘(انشائے بے خبر، مرتبہ سیّد مرتضیٰ حسین بلگرامی، علی گڑھ، ص10)بے خبر کا یہ خط، مدح سرائی دوسرے لفظوں میں نثر میں تعریف کا نمونہ ہے۔ بے خبر ہوں یا رجب علی بیگ سرور، سرسیّد ہوںیا الطاف حسین حالی، سب غالب کے معاصر ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ غالب سے قبل اردو میں مکتوب نگاری کی روایت نہ بہت قدیم ہے اورنہ صحت مند وتوانا۔ معاصرین غالب میں بھی بے خبر پر غالب کے اثرات نظر آتے ہیں۔ خط کو عام فہم اور نثر کورواں دواں بنانے میں جو کردار خطوطِ غالب نے ادا کیا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ ہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کام کو آگے بڑھاتے ہوئے غالب کے ساتھ ساتھ سرسیّد اور الطاف حسین حالی کے خطوط نے بھی ا ہم کردار ادا کیا۔ یہاں غالب کا ایک خط ضرور پیش کرنا چاہوں گا۔ مرزا ہرگوپال تفتہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں:از عمر و دولت برخوردار باشند۔بدھ کا دن، تیسری تاریخ فروری کی، ڈیڑھ پہر دن باقی رہے۔ ڈاک کا ہرکارہ آیا اور خط مع رجسٹری لایا۔ خط کھولا۔ سو روپیے کی ہنڈوی، بِل، جو کچھ کہیے وہ ملا۔ ایک آدمی رسید مہری لے کر نیل کے کٹرے چلاگیا۔ سو روپیہ چہرہ شاہی لے آیا۔ آنے جانے کی دیر ہوئی اور بس۔ چوبیس روپیے داروغہ کی معرفت اُٹھے تھے۔ وہ دیے گئے۔ پچاس روپے محل میں بھیج دیے۔ چھبیس روپے باقی رہے، وہ بکس میں رکھ لیے۔ روپے کے رکھنے کے واسطے بکس کھولا تھا، سو یہ رقعہ بھی لکھ لیا۔ کلیان سودالینے بازار گیا ہوا ہے۔ اگر جلد آگیا تو آج، ورنہ کل یہ خط ڈاک میں بھیج دوں گا۔ خدا تم کو جیتا رکھے اور اجر دے۔ بھائی! بری آبنی ہے۔ انجام اچھا نظر نہیں آتا، قصہ مختصر یہ کہ قصہ تمام ہوا۔غالبچار شنبہ، 3 فروری 1858، وقت دوپہرغالب کے مذکورہ خط میں جو اوصاف ہیں، وہ سب پر عیا ں ہیں۔ لفظوں کی سادگی، جذبات نگاری، چھوٹے چھوٹے جملے، بے ساختگی، حالات کا تذکرہ وغیرہ سب کچھ ایک چھوٹے سے خط میں موجود ہے۔ خطوطِ غالب میں نہ صرف غالب کی ذاتی زندگی کے عکس ملتے ہیں بلکہ عہدِ غالب، معاصرینِ غالب، دوست احباب، شاگرد اور اُن کے عہد کے علاوہ 1857 کے حالات، انگریزوں کے بدلتے تیور، پنشن کے معاملات، اصلاح و تصحیح کے معاملے وغیرہ کا بھی احوال ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ خطوطِ غالب سے عہدِ غالب کے سیاسی، سماجی اور ادبی حالات کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہی باعث ہے کہ مکتوب نگاری میں ڈیڑھ صدی کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی آج تک کوئی غالب کا ہمسر پیدا نہیں ہوا۔ جبکہ مکتوب نگاری کے ضمن میں تقریباً ایک درجن بڑے ادیبوں کے نام بہ آسانی لیے جاسکتے ہیں۔ بے خبر، سرور، الطاف حسین حالی، سرسیّد، شبلی، مہدی افادی، اقبال، منٹو، ابوالکلام آزاد، مالک رام، سجاد ظہیر، عبدالحق کے خطوط کی اہمیت سے کسے انکار ہوسکتاہے۔ مگر غالب ان سب پر غالب ہیں۔اردو میںجب مکتوب نگاری کی ابتدا کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے محقق اس کا سہرا بھی غالب کے ہی سر باندھتے ہیں۔لیکن ما ہر غالب مالک رام کی رائے دوسروں سے کچھ مختلف ہے۔وہ غالب سے پہلے رجب علی بیگ سرور اور دیگر اصحاب کا ذکر بھی کرتے ہیں:’’بیش تر لوگوں کا خیال ہے کہ اردو میں خط نویسی کی ابتدا غالب سے ہوئی۔یہ درست نہیں۔غالب سے پہلے فسانۂ عجائب والے رجب علی بیگ سرور نے خطوط لکھے اور شائع کیے اور یوں اِکا ّ دُکا ّ خط کئی اور اصحاب کے بھی ملتے ہیں۔ہاں یہ درست ہے کہ غالب نے خطوں میں ایسا بدیہہ انداز اختیار کیا کہ انہیں سحرِ حلال بنادیا۔اس سے پہلے اور خودان کے زمانے میں بھی فارسی خطوں میں لمبے لمبے القاب و آداب اور عبارت آرائی کی یہ بھر مارتھی کہ سطریں پڑھ جائیے لیکن مدعاعنقا ہے اپنے عالمِ تحریر کا۔یہ تو ممکن نہیں کہ کسی کو بھی اس اسلوب تحریر کی لغویت کا خیال نہ آیاہو لیکن اس میں شک نہیں کہ اسے ترک کر دینے یا اس میں اصلاح کی جرأت نہیں ہوئی۔اس کا سہرا بھی غالب کے سر رہا۔‘‘(’نقوش‘ خطوط نمبر، جلد اوّل،مدیر: محمد طفیل، اپریل 1968، ص39)مالک رام نے اردو خطوط نویسی کی ابتدا کے تعلق سے رجب علی بیگ سرور اور دیگر کا ذکر ضرور کیا ہے لیکن یہ بھی ماناہے کہ وہ غالب ہی ہیں جنھوں نے فارسی خطوط کے لمبے لمبے القاب و آداب اور عبارت آرائی کو اپنی تحریر سے ترک کرنے کی جرأت کی اور بالآخر وہ غالب کی اولیت کو مان لیتے ہیں۔مکتوب نگاری کا ارتقامکتوب نگاری کی روایت کو غالب کے عہد اور بعد میں سمجھنے کے لیے میںیہاں چار معروف مکتوب نگاروں سرسیّد، شبلی،اقبال، منٹو اور ابوالکلام کے خطوط کے حوالے سے گفتگو کر رہاہوں۔ سرسیّد کا شمار معاصرینِ غالب میں بھی ہوتا ہے اور بعد کے لوگوں میں بھی۔ ویسے ایماندارانہ بات تو یہی ہے کہ سرسیّد کی فکرو نظر اور تحریر میںایک موڑ 1870سفر لندن سے واپسی کے بعدآیا۔ جس میں ’تہذیب الاخلاق‘ کی اشاعت کا بڑا ہاتھ ہے۔ جس کے بعد سرسیّد کے مضامین، مقالات اور خطوط میں بھی اردو نثر کے وہ نمونے ملتے ہیں جن سے اردو نثر کو عام بنانے کی تحریک کو تقویت ملی اور یہ سب غالب کے بعد ہوا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سرسیّد کی نثر پر بھی غالب کے خطوط کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اور سرسیّد کو نثر کو عام فہم بنانے کی تحریک بھی غالب سے ہی ملی ہے۔ 1870 کو سرسیّد کی ادبی اور سماجی زندگی کا خط فاصل کہا جاسکتا ہے۔ ان کی تحریر میں امتیازات کو بخوبی دیکھا جاسکتاہے۔ یہاں سرسیّد کا ایک خط ملاحظہ فرمائیں۔ منشی شیام بہاری لال کو لکھا گیا سرسیّد کا یہ خط:مشفقی منشی شیام بہاری لال صاحبنجم الدین عرف ٹٹو کو یکم جنوری سے بارہ روپیہ ماہواری کے حساب سے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس سے تنخواہ ملا کرے گی۔ آپ لالہ سری لال کے ہاں سے منجملہ مبلغان کانفرنس 20 روپیہ منگا لیجیے۔ بارہ روپیہ تو نجم الدین کو بابت ماہ جنوری دے دیجیے اور کانفرنس کے اخراجات میں لکھیےاوریہ روپیہ بابت کرایہ ریل آمدورفت نجم الدین کانفرنس کے حساب میںلکھیے اور وہ آٹھوں روپیہ میری امانت روزنامچۂ مدرسہ میں جمع کر دیجیے۔ والسلامخاکسار2؍فروری 1893سیّد احمد(مکاتیب سرسیّد، مرتبہ مشتاق حسین، ص383، فرینڈ بک ہائوس، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، 1995)سرسیّد کا مذکورہ بالا خط کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس خط سے ایک تو سرسیّد کے قومی یکجہتی کے نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ سرسیّد نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں غیر مسلم ملازمین کو بھی ملازمت پر رکھا۔ دوسرے سرسیّد کے ذاتی معاملات کی ایک جھلک بھی دکھائی دیتی ہے کہ سرسیّد کس طرح محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا حساب کتاب شفافیت سے رکھتے تھے۔ جہاں تک خط کی زبان کا تعلق ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زبان بہت سہل اور عام فہم ہے۔ خط کا سن 1893ہے یعنی عہدِ غالب کے بعد کا زمانہ خطوطِ غالب کے اثرات بھی مکاتیب سرسیّد پر صاف نظر آتے ہیں۔ سرسیّد کی تخلیقی کائنات کا یہ دوسرا دَور ہے جس میں تہذیب الاخلاق کے مضامین کے موضوعات اور زبان سے اُردو کے فروغ کا نیا دَر وا ہوا تھا۔اردو خطوط نگاری کے ارتقا میں معاصرین سر سید میں علامہ شبلی کا نام خاصا نمایاں ہے۔انہوں نےقسطنطنیہ سے سرسید احمد خاں کے نام متعدد خطوط لکھے،جن میںسے ایک طویل خط کا اقتباس یہاں پیش کیا جارہا ہے۔سیدی!تسلیم، 22مئی کو یہاں پہنچا،لیکن ترددات کی وجہ سے خط لکھنے کی مہلت نہ مل سکی،یہ خط بھی مختصر اور پرائیویٹ ہے، کچھ میںکچھ باتیں آپ انتخاب فرما کر چھاپ دیں تو ممکن ہے، میں نے سردست ایک مختصر ساحجرہ۱۱؍روپیے مہینہ کرایہ کا لے لیا ہے،لیکن کھانے کا صرف بہت زیادہ ہے۔سب سے ضروری بات یہ ہے کہ آپ دو تین سویا اس سے زیادہ روپئے بھیج دیں کہ جو کتاب جس وقت ہاتھ آئے لے لی جائے،یانقل و کتابت کا انتظام کیا جا سکے، کتابیں بہاں بہت ہیں اور نادر ہیں، لیکن کہاں تک لکھوائی جاسکتی ہیں،امام غزالی کی تصنیفیں یہاں موجود ہیں اور بوعلی سینا کی توشاید کل تصنیفات مل سکتی ہیں،امام غزالی کے خطوط بھی موجود ہیں،خیر جو ممکن ہوگا کیاجائے گا،یہاں اکثرلوگوں سے ملاقات ہوسکتی ہے،لیکن مشکل زبان کی ہے،بعض بڑے کالج دیکھے مگر زبان کی اجنبیت کی وجہ سے حالات معلوم کرنے میں نہایت دقت ہوتی ہے،میں نے ترکی پڑھنی شروع کی ہے اور ان شائ اللہ کچھ نہ کچھ بقدرضرورت واپسی کے وقت تک سیکھ لوں گا،اس وقت تمام کا لجوں وغیرہ کی رپورٹ تیار کر سکوں گا۔حالات دلچسپ ہیں اور سفر نامہ کے لیے بہت سامان مل جائے گا،لیکن اس وقت بلکہ زمانۂ قیام تک مطلق فرصت نہیں مل سکتی،ہرروز تین چار میل کا چکر کرنا پڑتا ہے،بہت بڑا شہر ہے اور تمام کتب خانے وغیرہ دوردور واقع ہیں...شبلی نعمانی25؍مئی 1882قسطنطنیہ مقام تختہ خان قریب محمود پاشا(خطوط شبلی، مرتب مولوی محمد امین زبیری،تاج کمپنی لاہور، 1926 ص،41)بیسویں صدی میں مکتوب نگاری کا جہاں تک سوال ہے تو اقبالمنٹو اورابوالکلام آزاد کے مکاتیب کو صدی کے نمائندہ خطوط کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اقبال ہماری شاعری کی آبرو ہیں توان کی نثر کا بھی ایک اہم مقام ہے۔ مکاتیبِ اقبال خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ جنھیں سیّد مظفر حسین برنی نے ’کلیاتِ مکاتیبِ اقبال‘ کی شکل میں پانچ ضخیم جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ جنھیں اُردو اکادمی، دہلی نے 1993 میں شائع کیا۔ اقبال کا ایک خط دیکھیں۔ یہ انھوں نے مولانا سیّد سلیمان ندوی کے نام لکھا تھا۔15؍جنوری 34مخدومی، السلام علیکمدنیا اس وقت عجیب کشمکش میں ہے، جمہوریت فنا ہوری ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹرشپ قائم ہورہی ہے۔ جرمنی میں مادّی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جارہی ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف بھی ایک جہاد عظیم ہورہا ہے۔ تہذیب و تمدن (بالخصوص یورپ میں) حالتِ نزاع میں ہے۔ غرض کہ نظامِ عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ ان حالات میں آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہوسکتا ہے۔ اس مبحث پر اپنے خیالات سے مستفیض فرمائیں۔ اور اگر کچھ کتابیں ایسی ہوں جن کا مطالعہ اس ضمن میں مفید ہو تو ان کے ناموں سے آگاہ فرمائیے۔والسلاممحمد اقبال(کلیات مکاتیبِ اقبال، مرتبہ سیّد مظفر حسن برنی، ص449، جلدسوم، اردو اکادمی دہلی، 1993)مولانا سیّد سلیمان ندوی، اقبال کے معاصرین میں تھے۔ مذہبی فکر و فلسفہ اور اسلامی وژن کے معاملے میں مولانا سیّد سلیمان ندوی یدطولیٰ رکھتے تھے۔ اقبال ان کا بہت احترام کرتے تھے اور وقتاً فوقتاً بعض اسلامی معاملات میں مولانا سے صلاح و مشورہ بھی کر لیا کرتے تھے۔ اقبال خود اسلامی فکر و فلسفے کے تعلق سے اپنا ایک مخصوص نظریہ رکھتے تھے۔ اور اپنی شاعری میں خودی کا فلسفہ ہو یا کامل مومن کی بات، اقبال نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور تعلیمات کو بنیاد بناکر اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ اقبال کے متعدد اشعار اسلامی نظریۂ تبلیغ و اشاعت کا بہترین ذریعہ ہیں۔مذکورہ خط میں اقبال پورے عالم میں سیاسی ابتری اور تہذیب و تمدن کی شکست و ریخت سے فکرمند ہیں۔ جمہوریت اور سرمایہ داری کا خاتمہ ہورہا ہے۔ آمریت بڑھ رہی ہے۔ایسے میں اقبال مولانا سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا اسلام عالم میں جدید تشکیل میں معاون ہوسکتا ہے؟ یہ خط دراصل ہندوستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے سیاسی نظام کے لیے ہونے والی فکرمندی کا اظہاریہ ہے۔ یعنی اس خط سے عصری حسیت کے طورپر سیاسی صورتِ حال کا بخوبی علم ہوتاہے۔ ساتھ ہی مولانا سیّد سلیمان ندوی کی سیاسی، سماجی اور مذہبی مدبر کی حیثیت کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ سیاسی نظامِ حیات کے تعلق سے اقبال کے فکر و نظر اور عملی اقدام سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ یہ ایک اچھے خط کا وصف ہے کہ اچھے خطوط، ذاتی زندگی، عوامی رابطے، اپنے عہد کی سیاسی و سماجی صورتِ حال کی تفصیل نہیں بتاتے تو اشارے ضرور کرتے ہیں۔ غالب کے خطوط میں یہ عناصر بخوبی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔سعادت حسن منٹواردو خطوط نگاری میں جب منٹو کا نام لیا جاتا ہے تو بعض لوگوں کو حیرانی ہوتی ہے۔منٹو جیسا بڑا افسانہ نگار جس نے اپنے عہد اور بعد میں بھی اپنی افسانہ نگاری کا لوہا تسلیم کروایا تھا۔جب کسی کو خط لکھتا ہے تو اس میں بھی بہت سے نئے پہلو وا ہوتے ہیں۔منٹو کے احمد ندیم قاسمی کے نام بہت سے خطوط ملتے ہیں۔جو دلچسپی سے خالی نہیں ہیں یہاں ان کا ایک خط نقل کیا جا رہا ہے:71اڈلفی چیمبرز، کلیئر روڈ۔بمبئی 8(جنوری 1939)برادرِمکرّموعلیکم السلام۔آپ کا محبت نامہ ملا۔ شکریہ!…میں آگے کچھ اور لکھنا چاہتا تھا معاًمیرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ آپ اور میں، یعنی قاسمی اور منٹو،مٹی کے دو ڈھیلے ہیں جو لڑھک لڑھک کر قریب آنا چاہتے ہیں…مٹی کے دوڈھیلے…!ٹھیک ہے… انسان مٹی کا ڈھیلا ہی تو ہے۔یہ سن کر بہت خوشی حاصل ہوئی کہ آپ کو انعام میں ایک طلائی تمغہ ملا…مجھے تمغے پسند ہیں، مگر ان پر کھدے ہوئے حروف اور شکلیںبالکل ناپسند ہیں، جو گونگی ہوتی ہیں۔آپ کاخط ڈاکیے نے اس وقت میرے ہاتھ میں دیا، جبکہ میں اپنی اسٹوریMUDکو مکمل کر رہا تھا۔ آپ کی رائے پر میں نے غور کیا،مگر جو کچھ آپ نے لکھا ہے غیر فلمی ہے۔ اس لیے مجھے اۡس سے کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا۔ بہر حال آپ یہ سن کر خوش ہوں گے کہ میں نے’کیچڑ‘ مکمل کر لیا ہے۔ جو کچھ میں چاہتا تھا اس کا 3/4 حصہ اس میں آچکا ہے۔ بقایا آ جائے گا اس لیے کہ میں دن رات اسی کے متعلق غور و فکر کرتا رہتا ہوں۔MUDمیں آپ کو بہت سی نئی چیزیں نظر آئیں گی۔’’ نیا قانون‘‘ کے استاد منگو کی جھلک آپ کو نتھو کے کیریکٹر میں ملے گی۔ پھر میں نے اپنے ہر کیریکٹر کو اۡس کی برائیوں اور اچھائیوں سمیت پیش کیا ہے۔ اگر یہ اسٹوری فلمائی گئی اور ڈائریکشن اۡس چیز کو بر قرار رکھ سکی جو میرے سینے میںہے تومیرا خیال ہے کہ آپ میرےMUDمیں سارا ہندوستان دیکھ لیں گے۔’خود کشی‘ میں بچپن ہے، یہ اۡس زمانے کی تحریر ہے، جب میں خود کشی کا خیال کیا کرتا تھا۔ آپ نے ضرور محسوس کیا ہوگا کہ افسانے کی عبارت ایک ایسے سینے سے نکلی ہوئی ہے، جو بہت چھوٹا ہے۔آپ’اوپیرا‘ لکھ کر ضرور روانہ فرمائیے۔ یہاں سے آپ کو اس کا حق الخدمت روانہ کر دیا جائے گا۔ رفیق صاحب اسے کمپوز کریں گے۔آپ کی نظمیں مل گئیں۔ بے حد شکریہ۔ مصوّر میں چھپتی رہیں گی۔ رفیق صاحب سب کی سب لے گئے ہیں۔خلش صاحب اور نذیر صاحب آداب عرض کرتے ہیں۔اگر ہو سکے تو ’ ساقی ‘ کے سالنامے میں ’ پھا ہا‘ اور ’ادبِ لطیف‘ کے سالنامے میں ’ٹیڑھی لکیر‘ضرور پڑھیے گا۔کیا آپ نے مصوّر میں ’’ نیا سال‘‘ پڑھا ؟…کیا رائے ہے؟امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔آپ کا بھائیسعادت حسن منٹو(آپ کا سعادت حسن منٹو(منٹو کے خطوط ,مرتب اسلم پرویز، دوسرا ایڈیشن،عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی، 2019، ص،69)احمدندیم قاسمی کے نام منٹو کے ہر خط میں کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور سامنے آتی ہے۔اس خط میں بھی منٹو نے انسان کی بے ثباتی کو ثابت کیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ اپنیMud (کیچڑ) کے تعلق سے بہت ساری باتیں لکھی ہیں یہ بھی لکھا ہے کہ نیاقانون کے استاد منگو کی جھلک مڈ کے نتھو کے کردار میں نظر آئے گی اور یہ فلم ہندوستان کا منظر نامہ پیش کرے گی۔افسانہ خودکشی کے بارے میں بھی احمد ندیم قاسمی سے ذکر کرتے ہیں۔اس طرح کی باتوں سے منٹو کا یہ خط بھرا پڑا ہے،آپ کو یہاں بھی منٹو دوسروں سے مختلف نظر آئے گا۔جس میں ساقی اور ادب لطیف کا ذکر ملے گا تو مصور کا بھی۔ممبئی کے فلمی شب وروز ملیں گے تو افسانوی دنیا بھی نظر آئے گی۔بیسویں صدی میں مکتوب نگاری کا کوئی ذکر مولانا ابوالکلام آزاد کے مکتوب کے بغیر ادھورا ہی تسلیم کیا جائے گا۔ بیسویں صدی ہی کیا اردو میں مکتوب نگاری کا ارتقا اور روایت، مولانا آزاد کے خطوط کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ’غبارِ خاطر‘ مولانا ابوالکلام آزاد کے ایسے خطوط کا مجموعہ ہے جو انھوں نے احمد نگر قلعہ میں نظربندی کے تقریباً تین سال کے دوران اپنے رفیق نواب صدر یار جنگ (حیدرآباد) کے نام تحریر کئے تھے۔ یہ سارے خطوط، اردو میں مکتوب نگاری کے ذیل میں عام ڈگر سے ایک انحراف کی صورت سامنے آئے۔ بظاہر یہ خطوط ایک رفیقِ خاص کے لیے تحریر ہوئے ہیں لیکن ان خطوط میں ایک عالم، مفکر، دانشور، سیاست داں کی زندگی کے ذاتی اوراق موجود ہیں۔ قیدوبند کے معاملات وحالات، ہندوستان کاسیاسی منظر نامہ، تحریکِ آزادی کی سرگرمیاں، کانگریس کا حال، انگریزوں کی منصوبہ بندی اور مقاماتِ نظربندی کے تذکرے شامل ہیں۔ یہ سارے خطوط یک طرفہ ہیں اور ایک عالم، ادیب اور دانشور کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ بعض خط خاصے طویل ہیں اور بڑی بڑی کہانیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان خطوط کا سب سے بڑا وصف ان کی زبان اور طرزِ تحریر ہے۔ یہاں میں قلعۂ احمد نگر سے 29؍اگست 1942 کو لکھا گیا ایک خط پیش کرنا چاہوں گا۔ پورا خط تو طویل ہے، ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔قلعہ احمد نگر29؍اگست 1942۔۔۔۔ لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود میں بسر کرتے ہیں، مگر بارہ تیرہ برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر کسی گوشہ میں جا بیٹھتا اور کوشش کرتا کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہوں۔ کلکتہ میں آپ نے ڈلہوزی اسکوائر ضرور دیکھا ہوگا۔ جنرل پوسٹ آفس کے سامنے واقع ہے، اسے عام طو رپر ’لال ڈگی‘ کہا کرتے تھے۔ اس میں درختوں کا ایک جھنڈ تھا کہ باہر سے دیکھیے تو درخت ہی درخت ہیں، اندر جائیے تو اچھی خاصی جگہ ہے اور ایک بینچ بھی بچھی ہوئی ہے۔ معلوم نہیں، اب بھی یہ جھنڈ ہے کہ نہیں۔ میں جب سیر کے لیے نکلتا، تو کتاب ساتھ لے جاتا اور اس جھنڈ کے اندر بیٹھ کر مطالعہ میں غرق ہو جاتا۔ والد مرحوم کے خادمِ خاص حافظ ولی اللہ مرحوم ساتھ ہوا کرتے تھے۔ وہ باہر ٹہلتے رہتے اور جھنجھلا جھنجھلا کر کہتے، ’’اگر تجھے کتاب ہی پڑھنی تھی، تو گھر سے نکلاکیوں؟‘‘ یہ سطریں لکھ رہاہوں اوراُن کی آواز کانوںمیں گونج رہی ہے۔ دریا کے کنارے ایڈن گارڈن میں بھی اس طرح کے کئی جھنڈ تھے۔ ایک جھنڈ جو برمی پگوڈا کے پاس مصنوعی نہر کے کنارے تھا اور شاید اب بھی ہو، میں نے چن لیا تھا کیوں کہ اس طرف لوگوں کا گذر بہت کم ہوتا تھا۔ اکثر سہ پہر کے وقت کتاب لے کر نکل جاتا اور شام تک اس کے اندر گم رہتا۔ اب وہ زمانہ یاد آتا ہے تو دل کا عجب حال ہوتا ہے؎عالمِ بے خبری، طرفہ بہشتے بوداستحیف صد حیف کہ ما دیر خبردار شدیم!ابوالکلاممحولہ بالا اقتباس مولانا آزاد کے ایک طویل خط جو تقریباً 11 صفحات (کتابی سائز) پر پھیلا ہوا ہے، کا ہے۔اس چھوٹے سے اقتباس کے مطالعے کے بعدبھی یہ احساس ہو جاتا ہے کہ مولانا کا طرزِ تحریر نہ صرف اپنے معاصرین بلکہ اردو مکتوب نگاری کی روایت میں مختلف و منفرد ہے۔ اقتباس کا مطالعہ کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ہم کسی افسانے یا ناول کے کسی اقتباس کا مطالعہ کر رہے ہوں۔ اقتباس کا کمال یہ ہے کہ اس میں مولانا کے بچپن کے یادگار واقعات کا ذکر ہے۔ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مولانا بچپن سے ہی تعلیم کے دیوانگی کی حد تک شوقین تھے۔ ورنہ کھیل کود اور سیر و تفریح کی عمر میں جھنڈ کے اندر کتاب لے کر پڑھائی کرنا، کہاں سمجھ میں آتا ہے۔ آج کل ایسے جھنڈ کا طالب علموں کے ذریعہ جو استعمال ہوتا ہے، وہ بھی ہم پر عیا ںہے۔ آج کی نسل تو پارکوں میں ایسے تنہا گوشوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے اور عاشقانہ راز ونیاز بلکہ اس کے آگے کے سفر سے بھی محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ خط میں کلکتہ کے بعض معروف مقامات ڈلہوزی اسکوائر اور ایڈن گارڈن کا ذکر موجود ہے۔ ویسے خط کی زبان میں ایک طرح کی سادگی ہے۔ عموماً یہ تصور کیا جاتا ہے کہ مولانا کی زبان بہت زیادہ فصیح و بلیغ ہوا کرتی ہے۔ جس کے سمجھنے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، ایسا نہیں ہے۔ خط میں جس طرح کی عام فہم زبان کی بنیاد غالب نے ڈالی اور پھر بعد کے لوگوں نے جس طرح سے اسے عروج بخشا، مولانا آزاد نے اپنے خطوط میں اس کو آگے بڑھایا ہے۔اردو مکتوب نگاری کا سفر راجہ رام موہن رائے سے غالب، پھر اقبال، منٹو اور ابوالکلام آزاد تک آتے آتے عروج تک آپہنچا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو مکتوب نگاری کے ارتقامیں متعدد مکتوب نگار نے اپنے کارہائے نمایاں سے اسے ہر طر ح مضبوط و مستحکم کیاہے۔ لیکن جو کام غالب نے کیا وہ بے مثل ہے۔ آج بھی مکتوب نگاری کے تعلق سے جتنا کام، ترتیب و تدوین، سمینار وغیرہ کا انعقاد عمل میں آتا ہے اس میں کثرت غالب پر ہونے والے کاموں کی ہی ہے۔مکتوب نگاری کا زوالاکیسویں صدی میں انفارمیشن ٹکنالوجی نے جس برق رفتاری سے ترقی کی ہے اور پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں قید کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ نئی صدی، نئی تکنالوجی اور نئے موضوعات نے ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی متاثر کیا ہے۔ ادب کی صورت تبدیل ہوئی ہے۔ نئے اور انوکھے موضوعات بعض ایسے موضوعات بھی جن کے بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا، آج ہمارے سامنے ہیں۔ اکیسویں صدی سے قبل سائبر اسپیس، سائبر کرائم، سوشل میڈیا وغیرہ کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ آج بڑے بڑے کارنامے، کرائم اورنت نئی چیزیں سوشل میڈیا اور سائبر میڈیا سے سامنے آرہی ہیں۔ رابطے کے نہ صرف ذرائع بدل گئے ہیں بلکہ انتظار کے لمحات ختم سے ہوگئے ہیں۔ اب طویل محبت ناموں اوراُن کے جوابات کا انتظار نہیں ہوتا۔اب چھوٹی بڑی باتیں، انتہائی راز دارانہ طریقے سے ایک دوسرے تک پہنچ جاتی ہیں۔ آج کے زمانے میں ای میل، وہاٹس ایپ، فیس بک وغیرہ کے ذریعہ نہ صرف خط بلکہ تصاویر اور آواز سب سکنڈوں میں ایک دوسرے تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں جہاں ہم نے بہت ترقی کی ہے وہیں ہماری کچھ خوبصورت عادتوں، روایتوں اور محبت کے طور طریقوں کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ اب خطوط لکھنے کا سلسلہ کم ہوتے ہوتے آفس کے کام کاج تک سمٹ کر رہ گیا۔ شارٹ ہینڈ کا زمانہ تو کب کا جاچکا لیکن اختصار نویسی، مخفف اور ابتدائی حروف، اختتامی حروف، نشانات، اعداد، اشیا کی تصاویر وغیرہ ایسے اشارے کنایے بن گئے ہیں کہ اب لمبی لمبی باتیں، طویل گفتگو، لمبے جملے وغیرہ یہ سب گئے وقتوں کی باتیں ہوگئی ہیں۔ جب آج ہر آدمی گھوڑے کی پیٹھ پر سوار، اُلٹے سیدھے، قواعد کی درستگی جیسی صفات سے خالی جملے فخریہ استعمال کر رہا ہے۔ ایسے میں جہاں ہماری بہت سی اصناف میں تبدیلیاں آئی ہیں، وہیں کچھ نے بالکل دم توڑ دیا ہے۔ کچھ تغیر و تبدل کے شانوں پر سوار خود کو نئے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کچھ خاتمے کے قریب ہیں۔ اکیسویں صدی میں تغیر و تبدل اور تکنیک کے طوفان سے خود کو محفوظ نہ کرپانے والی اصناف میں سب سے زیادہ خطرناک عہد سے گزرنے والی صنف مکتوب نگاری ہے۔ بیچارے غالب کو کیا پتہ تھا کہ وہ جس صنف کو ثقیل عبارت، فارسی زدگی، طول طویل القابات سے نکال کر بے تکلّفی، برجستگی اور مکالمے کی فصا تک لے آئے ہیں، وہ ایک-ڈیڑھ صدی کے اندر، قریب المرگ ہو جائے گی۔ اب خط لکھنے کی زحمت کون کرتا ہے اور ایسا کرے بھی کیوں؟ خط سے خیریت کا ہی تو تبادلہ ہوتا تھا۔ اب یہ سارے کام ای-میل اور فیس بُک، وہاٹس ایپ اور دوسرے میڈیا انجام دیتے ہیں۔ ہم سب نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ مکتوب نگاری کا پورا نظام ہی مفت(Free)ہو جائے گا۔ لفافے، پوسٹ کارڈ، ان لینڈ لیٹر، ایئرمیل، ٹکٹ، تار وغیرہ کی ضرورت ہی ختم ہو جائے گی۔ ایسے میں خطوط کے تعلق سے کوئی بات کرنا کیسا عجیب لگتا ہے۔ غالب، سرسیّد، شبلی،مہدی افادی، اقبال، ابوالکلام کے بعد بھی مکتوب نگاری سجاد ظہیر، منٹو، علی سردار جعفری، قمر رئیس، مجروح رشید احمد صدیقی، آل احمد سرور، رالف رسل، محمد حسن، شارب ردولوی اورعارف نقوی کے یہاں بھی ایک مستحکم روایت کے طور پر نظر آتی ہے۔ بعد میں بیسویں صدی کے اواخر اور کچھ اکیسویں صدی کے اوائل تک خطوط کے باقیات ملتے ہیں۔ لیکن اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اب بہت ضروری کام سے ہی خط تحریر ہوتے ہیں۔ باقی زیادہ تر کام اب موبائل سے ہونے لگے ہیںاور سوشل میڈیا آدھے ادھورے جملوں کے ساتھ پوری تصویر ہمارے سامنے کردیتا ہے۔ زمانہ تصویر اور آواز کا ہے اوراب تحریر قصّۂ پارینہ ہوئی جاتی ہے۔Prof. Aslam JamshedpuriChaudhary Charan Singh UniversityRamgarhiMeerut-250001 (UP)Mob.: 8279907070" اردو میں مکتوب نگاری: آغاز و ارتقا اور زوال - مضمون نگار: اسلم جمشیدپوری,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/12/,"خط لکھنا، خیریت کا لین دین ہے۔ اس کی ضرورت اُس وقت پڑی ہوگئی، جب انسان لکھنے پڑھنے لائق ہوا ہوگا اور اپنوں سے دور بغرضِ ملازمت، تجارت یا رہائش کہیں اور گیا ہوگا۔یہ کہنا تو ممکن نہیں کہ دنیا کا وہ پہلا شخص کون ہے جس نے پہلی بار خط لکھا ہوگا۔ اُردو میں مکتوب نگاری کی روایت تو خاصی قدیم ہے لیکن غالب نے مکتوب نگاری کو ایک نیا مقام عطا کیا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ غالب نے مکتوب نگاری کو بطورِ صنفEstablishکرنے اور اعتبار بخشنے میں اساسی کردار ادا کیا۔ غالب سے قبل کی خطوط نگاری کے بہت واضح نقوش نہیں ملتے۔ ایسا نہیں ہے کہ غالب سے قبل خط لکھے نہیں جاتے تھے، بلکہ خط بہت زیادہ ثقیل زبان اور طول طویل القابات کے ساتھ لکھے جاتے تھے۔ خط میں کام کی بات تو صرف دو ایک جملے ہی میں ہوا کرتی تھی، مگر پورا خط احترام و آداب، القابات، دعائیہ جملوں سے بھرا ہوتا تھا۔ فارسی کے جملے، مصرعے اور ضرب الامثال کا استعمال زیادہ ہوتاتھا۔ یہ تو خیر سمجھیں کہ حضرتِ غالب نے شاعری کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں اور عزیزوں کو باضابطہ خط لکھے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ غالبکے وہ خط محفوظ رہے جو بعد میں ترتیب و تدوین کے ساتھ کتابی شکل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے ورنہ اردو ادب ایک صنف سے محروم ہو جاتا۔غالب نے جس طرح خطوط تحریر کیے، اس سے جہاں ایک طرف خطوط میں در آئی ثقالت کم ہوئی تو دوسری طرف خط میں گفتگو کا انداز بھی آیا۔ غالب کی زبان کی بے ساختگی، برجستگی اور ظرافت نے خط کو انتہائی مؤثر اور دلچسپ بنادیا۔ خطوطِ غالب پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے گویا دو لوگ آپس میں گفتگو کر رہے ہیں۔ سنجیدہ سے سنجیدہ مسائل بھی خط میں کچھ اس طرح بیان ہوتے ہیں کہ گویا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔اردو میں خطوط نگاری کی ابتدایہ بات آج تک تحقیق طلب ہے کہ اردو میں پہلا خط کس نے کس کو تحریر کیا۔ اس سلسلے میں ہمارے محققین اور ناقدین کرام کسی ایک بات پر متفق نہیں ہیں۔ 1981ئ میں شائع پروفیسر ثریا حسین کی کتاب گارساں د تاسی: اردو خدمات، علمی کارنامے‘ محمد طفیل کے نقوش کے خطوط نمبر 1968، داستانِ تاریخِ اردو، حامد حسن قادری 1966 اور غالب اور شاہانِ تیموریہ (ڈاکٹر خلیق انجم) میں اردو کے پہلے خط اور پہلے مکتوب نگار پر کچھ اشارے ملتے ہیں۔ جن کے مطالعے سے ایک دھندلی سی تصویر سامنے آتی ہے، جس کے مطابق افتخار الدین علی خاں شہرت (1810)، رجب علی بیگ سرور، خواجہ غلام غوث خاں بے خبر (1846)، جان طپش، راسخ عظیم آبادی (1914 سے قبل) کے خطو ط ملتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر ثریا حسین کی تحقیق کے مطابق شہرت کا خط تاریخی اعتبار سے اردو کا پہلا خط قرار پاتا ہے لیکن یہاں ایک مسئلہ پھر بھی قائم ہے۔ شہرت نے یہ خط کس کو لکھا، یہ واضح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں گارساں د تاسی کے ذریعہ اس عہد کے خطوط کا مجموعہ ’ضمیمہ ہندوستانی کی مبادیات‘ جو 1833 میں شائع ہوا۔ ہماری تحقیق کا واحدResourceہے۔ اس مجموعے میں اردو کے بیشتر خطوطملتے ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی اور فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین اور ملازمت کے خواہش مند حضرات کے خطوط ہیں۔ انھیں خطوط میں ایک خط راجہ رام موہن رائے کا بھی ہے۔ جو انھوں نے 1831 میں لندن سے دتاسی کو پیرس بھیجا تھا۔ خط ملاحظہ فرمائیں:جناب فضیلت مآب زاد مجدہم و شرفہیمرقعہ مبارک پہنچا و بندہ کو مسرور و معزز کیا۔ قادر علی الاطلاق آپ کو اس یاد آوری کے ساتھ سلامت رکھے۔ تین مہینے سے زیادہ انگلینڈ میں مقیم ہے۔ انشا اللہ تعالیٰ عنقریب پارس میں مشرف خدمت ہوگا اور وہ آپ کی توجہ سے جناب شیزی صاحب کی ملاقات حاصل کرے گا۔ آپ کے وعدۂ مراعات سے بندۂ کمتر ممنون ہوا و ادائے شکر تہہ دل سے کرتا ہے۔زیادہ حدِّ ادبخادمکم ممنونکمرام موہنو ہنحرّر فی التاریخ یکم اگست 1831(بحوالہ اردومیں ادبی خط نگاری کی روایت اور غالب، ڈاکٹر بیگم نیلوفر احمد، ص70، ماڈرن پبلشنگ ہائوس، دہلی2007)راجہ رام موہن رائے کا یہ خط اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ گارساں د تاسی کے نام ہے اور اردو خطوط کے اوّلین نمونوں میں سے ایک ہے۔ غالب سے قبل رجب علی بیگ سروراور ایک آدھ خط خواجہ غلام غوث خاں بے خبر کا ملتاہے۔ ویسے یہ بات بھی ثابت ہے کہ بے خبر، غالب کے معاصر ہیں اور خطوطِ غالب کے مجموعے ’عودِ ہندی‘ کو پہلے انھوں نے ترتیب دیا تھا۔ ہوسکتا ہے ایک آدھ خط، غالب کے خطوط سے پہلے کا ہو، یہاں ان کے ایک خط کا اقتباس نقل کر رہا ہوں۔’’۔۔۔خدا کا شکر کرو کہ اُس نے تمہیں محبوب صورت، مرغوب سیرت، حسنِ شمائل، پسندیدہ خصائل، فہم و رسائ، ذہن و ذکا، عقل سلیم، طبیعت مستقیم، علمِ مفید، بختِ سعید، تقریر کی فصاحت، تحریر کی بلاغت۔۔۔‘‘(انشائے بے خبر، مرتبہ سیّد مرتضیٰ حسین بلگرامی، علی گڑھ، ص10)بے خبر کا یہ خط، مدح سرائی دوسرے لفظوں میں نثر میں تعریف کا نمونہ ہے۔ بے خبر ہوں یا رجب علی بیگ سرور، سرسیّد ہوںیا الطاف حسین حالی، سب غالب کے معاصر ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ غالب سے قبل اردو میں مکتوب نگاری کی روایت نہ بہت قدیم ہے اورنہ صحت مند وتوانا۔ معاصرین غالب میں بھی بے خبر پر غالب کے اثرات نظر آتے ہیں۔ خط کو عام فہم اور نثر کورواں دواں بنانے میں جو کردار خطوطِ غالب نے ادا کیا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ ہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کام کو آگے بڑھاتے ہوئے غالب کے ساتھ ساتھ سرسیّد اور الطاف حسین حالی کے خطوط نے بھی ا ہم کردار ادا کیا۔ یہاں غالب کا ایک خط ضرور پیش کرنا چاہوں گا۔ مرزا ہرگوپال تفتہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں:از عمر و دولت برخوردار باشند۔بدھ کا دن، تیسری تاریخ فروری کی، ڈیڑھ پہر دن باقی رہے۔ ڈاک کا ہرکارہ آیا اور خط مع رجسٹری لایا۔ خط کھولا۔ سو روپیے کی ہنڈوی، بِل، جو کچھ کہیے وہ ملا۔ ایک آدمی رسید مہری لے کر نیل کے کٹرے چلاگیا۔ سو روپیہ چہرہ شاہی لے آیا۔ آنے جانے کی دیر ہوئی اور بس۔ چوبیس روپیے داروغہ کی معرفت اُٹھے تھے۔ وہ دیے گئے۔ پچاس روپے محل میں بھیج دیے۔ چھبیس روپے باقی رہے، وہ بکس میں رکھ لیے۔ روپے کے رکھنے کے واسطے بکس کھولا تھا، سو یہ رقعہ بھی لکھ لیا۔ کلیان سودالینے بازار گیا ہوا ہے۔ اگر جلد آگیا تو آج، ورنہ کل یہ خط ڈاک میں بھیج دوں گا۔ خدا تم کو جیتا رکھے اور اجر دے۔ بھائی! بری آبنی ہے۔ انجام اچھا نظر نہیں آتا، قصہ مختصر یہ کہ قصہ تمام ہوا۔غالبچار شنبہ، 3 فروری 1858، وقت دوپہرغالب کے مذکورہ خط میں جو اوصاف ہیں، وہ سب پر عیا ں ہیں۔ لفظوں کی سادگی، جذبات نگاری، چھوٹے چھوٹے جملے، بے ساختگی، حالات کا تذکرہ وغیرہ سب کچھ ایک چھوٹے سے خط میں موجود ہے۔ خطوطِ غالب میں نہ صرف غالب کی ذاتی زندگی کے عکس ملتے ہیں بلکہ عہدِ غالب، معاصرینِ غالب، دوست احباب، شاگرد اور اُن کے عہد کے علاوہ 1857 کے حالات، انگریزوں کے بدلتے تیور، پنشن کے معاملات، اصلاح و تصحیح کے معاملے وغیرہ کا بھی احوال ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ خطوطِ غالب سے عہدِ غالب کے سیاسی، سماجی اور ادبی حالات کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہی باعث ہے کہ مکتوب نگاری میں ڈیڑھ صدی کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی آج تک کوئی غالب کا ہمسر پیدا نہیں ہوا۔ جبکہ مکتوب نگاری کے ضمن میں تقریباً ایک درجن بڑے ادیبوں کے نام بہ آسانی لیے جاسکتے ہیں۔ بے خبر، سرور، الطاف حسین حالی، سرسیّد، شبلی، مہدی افادی، اقبال، منٹو، ابوالکلام آزاد، مالک رام، سجاد ظہیر، عبدالحق کے خطوط کی اہمیت سے کسے انکار ہوسکتاہے۔ مگر غالب ان سب پر غالب ہیں۔اردو میںجب مکتوب نگاری کی ابتدا کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے محقق اس کا سہرا بھی غالب کے ہی سر باندھتے ہیں۔لیکن ما ہر غالب مالک رام کی رائے دوسروں سے کچھ مختلف ہے۔وہ غالب سے پہلے رجب علی بیگ سرور اور دیگر اصحاب کا ذکر بھی کرتے ہیں:’’بیش تر لوگوں کا خیال ہے کہ اردو میں خط نویسی کی ابتدا غالب سے ہوئی۔یہ درست نہیں۔غالب سے پہلے فسانۂ عجائب والے رجب علی بیگ سرور نے خطوط لکھے اور شائع کیے اور یوں اِکا ّ دُکا ّ خط کئی اور اصحاب کے بھی ملتے ہیں۔ہاں یہ درست ہے کہ غالب نے خطوں میں ایسا بدیہہ انداز اختیار کیا کہ انہیں سحرِ حلال بنادیا۔اس سے پہلے اور خودان کے زمانے میں بھی فارسی خطوں میں لمبے لمبے القاب و آداب اور عبارت آرائی کی یہ بھر مارتھی کہ سطریں پڑھ جائیے لیکن مدعاعنقا ہے اپنے عالمِ تحریر کا۔یہ تو ممکن نہیں کہ کسی کو بھی اس اسلوب تحریر کی لغویت کا خیال نہ آیاہو لیکن اس میں شک نہیں کہ اسے ترک کر دینے یا اس میں اصلاح کی جرأت نہیں ہوئی۔اس کا سہرا بھی غالب کے سر رہا۔‘‘(’نقوش‘ خطوط نمبر، جلد اوّل،مدیر: محمد طفیل، اپریل 1968، ص39)مالک رام نے اردو خطوط نویسی کی ابتدا کے تعلق سے رجب علی بیگ سرور اور دیگر کا ذکر ضرور کیا ہے لیکن یہ بھی ماناہے کہ وہ غالب ہی ہیں جنھوں نے فارسی خطوط کے لمبے لمبے القاب و آداب اور عبارت آرائی کو اپنی تحریر سے ترک کرنے کی جرأت کی اور بالآخر وہ غالب کی اولیت کو مان لیتے ہیں۔مکتوب نگاری کا ارتقامکتوب نگاری کی روایت کو غالب کے عہد اور بعد میں سمجھنے کے لیے میںیہاں چار معروف مکتوب نگاروں سرسیّد، شبلی،اقبال، منٹو اور ابوالکلام کے خطوط کے حوالے سے گفتگو کر رہاہوں۔ سرسیّد کا شمار معاصرینِ غالب میں بھی ہوتا ہے اور بعد کے لوگوں میں بھی۔ ویسے ایماندارانہ بات تو یہی ہے کہ سرسیّد کی فکرو نظر اور تحریر میںایک موڑ 1870سفر لندن سے واپسی کے بعدآیا۔ جس میں ’تہذیب الاخلاق‘ کی اشاعت کا بڑا ہاتھ ہے۔ جس کے بعد سرسیّد کے مضامین، مقالات اور خطوط میں بھی اردو نثر کے وہ نمونے ملتے ہیں جن سے اردو نثر کو عام بنانے کی تحریک کو تقویت ملی اور یہ سب غالب کے بعد ہوا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سرسیّد کی نثر پر بھی غالب کے خطوط کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اور سرسیّد کو نثر کو عام فہم بنانے کی تحریک بھی غالب سے ہی ملی ہے۔ 1870 کو سرسیّد کی ادبی اور سماجی زندگی کا خط فاصل کہا جاسکتا ہے۔ ان کی تحریر میں امتیازات کو بخوبی دیکھا جاسکتاہے۔ یہاں سرسیّد کا ایک خط ملاحظہ فرمائیں۔ منشی شیام بہاری لال کو لکھا گیا سرسیّد کا یہ خط:مشفقی منشی شیام بہاری لال صاحبنجم الدین عرف ٹٹو کو یکم جنوری سے بارہ روپیہ ماہواری کے حساب سے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس سے تنخواہ ملا کرے گی۔ آپ لالہ سری لال کے ہاں سے منجملہ مبلغان کانفرنس 20 روپیہ منگا لیجیے۔ بارہ روپیہ تو نجم الدین کو بابت ماہ جنوری دے دیجیے اور کانفرنس کے اخراجات میں لکھیےاوریہ روپیہ بابت کرایہ ریل آمدورفت نجم الدین کانفرنس کے حساب میںلکھیے اور وہ آٹھوں روپیہ میری امانت روزنامچۂ مدرسہ میں جمع کر دیجیے۔ والسلامخاکسار2؍فروری 1893سیّد احمد(مکاتیب سرسیّد، مرتبہ مشتاق حسین، ص383، فرینڈ بک ہائوس، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، 1995)سرسیّد کا مذکورہ بالا خط کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس خط سے ایک تو سرسیّد کے قومی یکجہتی کے نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ سرسیّد نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں غیر مسلم ملازمین کو بھی ملازمت پر رکھا۔ دوسرے سرسیّد کے ذاتی معاملات کی ایک جھلک بھی دکھائی دیتی ہے کہ سرسیّد کس طرح محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا حساب کتاب شفافیت سے رکھتے تھے۔ جہاں تک خط کی زبان کا تعلق ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زبان بہت سہل اور عام فہم ہے۔ خط کا سن 1893ہے یعنی عہدِ غالب کے بعد کا زمانہ خطوطِ غالب کے اثرات بھی مکاتیب سرسیّد پر صاف نظر آتے ہیں۔ سرسیّد کی تخلیقی کائنات کا یہ دوسرا دَور ہے جس میں تہذیب الاخلاق کے مضامین کے موضوعات اور زبان سے اُردو کے فروغ کا نیا دَر وا ہوا تھا۔اردو خطوط نگاری کے ارتقا میں معاصرین سر سید میں علامہ شبلی کا نام خاصا نمایاں ہے۔انہوں نےقسطنطنیہ سے سرسید احمد خاں کے نام متعدد خطوط لکھے،جن میںسے ایک طویل خط کا اقتباس یہاں پیش کیا جارہا ہے۔سیدی!تسلیم، 22مئی کو یہاں پہنچا،لیکن ترددات کی وجہ سے خط لکھنے کی مہلت نہ مل سکی،یہ خط بھی مختصر اور پرائیویٹ ہے، کچھ میںکچھ باتیں آپ انتخاب فرما کر چھاپ دیں تو ممکن ہے، میں نے سردست ایک مختصر ساحجرہ۱۱؍روپیے مہینہ کرایہ کا لے لیا ہے،لیکن کھانے کا صرف بہت زیادہ ہے۔سب سے ضروری بات یہ ہے کہ آپ دو تین سویا اس سے زیادہ روپئے بھیج دیں کہ جو کتاب جس وقت ہاتھ آئے لے لی جائے،یانقل و کتابت کا انتظام کیا جا سکے، کتابیں بہاں بہت ہیں اور نادر ہیں، لیکن کہاں تک لکھوائی جاسکتی ہیں،امام غزالی کی تصنیفیں یہاں موجود ہیں اور بوعلی سینا کی توشاید کل تصنیفات مل سکتی ہیں،امام غزالی کے خطوط بھی موجود ہیں،خیر جو ممکن ہوگا کیاجائے گا،یہاں اکثرلوگوں سے ملاقات ہوسکتی ہے،لیکن مشکل زبان کی ہے،بعض بڑے کالج دیکھے مگر زبان کی اجنبیت کی وجہ سے حالات معلوم کرنے میں نہایت دقت ہوتی ہے،میں نے ترکی پڑھنی شروع کی ہے اور ان شائ اللہ کچھ نہ کچھ بقدرضرورت واپسی کے وقت تک سیکھ لوں گا،اس وقت تمام کا لجوں وغیرہ کی رپورٹ تیار کر سکوں گا۔حالات دلچسپ ہیں اور سفر نامہ کے لیے بہت سامان مل جائے گا،لیکن اس وقت بلکہ زمانۂ قیام تک مطلق فرصت نہیں مل سکتی،ہرروز تین چار میل کا چکر کرنا پڑتا ہے،بہت بڑا شہر ہے اور تمام کتب خانے وغیرہ دوردور واقع ہیں...شبلی نعمانی25؍مئی 1882قسطنطنیہ مقام تختہ خان قریب محمود پاشا(خطوط شبلی، مرتب مولوی محمد امین زبیری،تاج کمپنی لاہور، 1926 ص،41)بیسویں صدی میں مکتوب نگاری کا جہاں تک سوال ہے تو اقبالمنٹو اورابوالکلام آزاد کے مکاتیب کو صدی کے نمائندہ خطوط کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اقبال ہماری شاعری کی آبرو ہیں توان کی نثر کا بھی ایک اہم مقام ہے۔ مکاتیبِ اقبال خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ جنھیں سیّد مظفر حسین برنی نے ’کلیاتِ مکاتیبِ اقبال‘ کی شکل میں پانچ ضخیم جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ جنھیں اُردو اکادمی، دہلی نے 1993 میں شائع کیا۔ اقبال کا ایک خط دیکھیں۔ یہ انھوں نے مولانا سیّد سلیمان ندوی کے نام لکھا تھا۔15؍جنوری 34مخدومی، السلام علیکمدنیا اس وقت عجیب کشمکش میں ہے، جمہوریت فنا ہوری ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹرشپ قائم ہورہی ہے۔ جرمنی میں مادّی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جارہی ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف بھی ایک جہاد عظیم ہورہا ہے۔ تہذیب و تمدن (بالخصوص یورپ میں) حالتِ نزاع میں ہے۔ غرض کہ نظامِ عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ ان حالات میں آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہوسکتا ہے۔ اس مبحث پر اپنے خیالات سے مستفیض فرمائیں۔ اور اگر کچھ کتابیں ایسی ہوں جن کا مطالعہ اس ضمن میں مفید ہو تو ان کے ناموں سے آگاہ فرمائیے۔والسلاممحمد اقبال(کلیات مکاتیبِ اقبال، مرتبہ سیّد مظفر حسن برنی، ص449، جلدسوم، اردو اکادمی دہلی، 1993)مولانا سیّد سلیمان ندوی، اقبال کے معاصرین میں تھے۔ مذہبی فکر و فلسفہ اور اسلامی وژن کے معاملے میں مولانا سیّد سلیمان ندوی یدطولیٰ رکھتے تھے۔ اقبال ان کا بہت احترام کرتے تھے اور وقتاً فوقتاً بعض اسلامی معاملات میں مولانا سے صلاح و مشورہ بھی کر لیا کرتے تھے۔ اقبال خود اسلامی فکر و فلسفے کے تعلق سے اپنا ایک مخصوص نظریہ رکھتے تھے۔ اور اپنی شاعری میں خودی کا فلسفہ ہو یا کامل مومن کی بات، اقبال نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور تعلیمات کو بنیاد بناکر اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ اقبال کے متعدد اشعار اسلامی نظریۂ تبلیغ و اشاعت کا بہترین ذریعہ ہیں۔مذکورہ خط میں اقبال پورے عالم میں سیاسی ابتری اور تہذیب و تمدن کی شکست و ریخت سے فکرمند ہیں۔ جمہوریت اور سرمایہ داری کا خاتمہ ہورہا ہے۔ آمریت بڑھ رہی ہے۔ایسے میں اقبال مولانا سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا اسلام عالم میں جدید تشکیل میں معاون ہوسکتا ہے؟ یہ خط دراصل ہندوستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے سیاسی نظام کے لیے ہونے والی فکرمندی کا اظہاریہ ہے۔ یعنی اس خط سے عصری حسیت کے طورپر سیاسی صورتِ حال کا بخوبی علم ہوتاہے۔ ساتھ ہی مولانا سیّد سلیمان ندوی کی سیاسی، سماجی اور مذہبی مدبر کی حیثیت کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ سیاسی نظامِ حیات کے تعلق سے اقبال کے فکر و نظر اور عملی اقدام سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ یہ ایک اچھے خط کا وصف ہے کہ اچھے خطوط، ذاتی زندگی، عوامی رابطے، اپنے عہد کی سیاسی و سماجی صورتِ حال کی تفصیل نہیں بتاتے تو اشارے ضرور کرتے ہیں۔ غالب کے خطوط میں یہ عناصر بخوبی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔سعادت حسن منٹواردو خطوط نگاری میں جب منٹو کا نام لیا جاتا ہے تو بعض لوگوں کو حیرانی ہوتی ہے۔منٹو جیسا بڑا افسانہ نگار جس نے اپنے عہد اور بعد میں بھی اپنی افسانہ نگاری کا لوہا تسلیم کروایا تھا۔جب کسی کو خط لکھتا ہے تو اس میں بھی بہت سے نئے پہلو وا ہوتے ہیں۔منٹو کے احمد ندیم قاسمی کے نام بہت سے خطوط ملتے ہیں۔جو دلچسپی سے خالی نہیں ہیں یہاں ان کا ایک خط نقل کیا جا رہا ہے:71اڈلفی چیمبرز، کلیئر روڈ۔بمبئی 8(جنوری 1939)برادرِمکرّموعلیکم السلام۔آپ کا محبت نامہ ملا۔ شکریہ!…میں آگے کچھ اور لکھنا چاہتا تھا معاًمیرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ آپ اور میں، یعنی قاسمی اور منٹو،مٹی کے دو ڈھیلے ہیں جو لڑھک لڑھک کر قریب آنا چاہتے ہیں…مٹی کے دوڈھیلے…!ٹھیک ہے… انسان مٹی کا ڈھیلا ہی تو ہے۔یہ سن کر بہت خوشی حاصل ہوئی کہ آپ کو انعام میں ایک طلائی تمغہ ملا…مجھے تمغے پسند ہیں، مگر ان پر کھدے ہوئے حروف اور شکلیںبالکل ناپسند ہیں، جو گونگی ہوتی ہیں۔آپ کاخط ڈاکیے نے اس وقت میرے ہاتھ میں دیا، جبکہ میں اپنی اسٹوریMUDکو مکمل کر رہا تھا۔ آپ کی رائے پر میں نے غور کیا،مگر جو کچھ آپ نے لکھا ہے غیر فلمی ہے۔ اس لیے مجھے اۡس سے کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا۔ بہر حال آپ یہ سن کر خوش ہوں گے کہ میں نے’کیچڑ‘ مکمل کر لیا ہے۔ جو کچھ میں چاہتا تھا اس کا 3/4 حصہ اس میں آچکا ہے۔ بقایا آ جائے گا اس لیے کہ میں دن رات اسی کے متعلق غور و فکر کرتا رہتا ہوں۔MUDمیں آپ کو بہت سی نئی چیزیں نظر آئیں گی۔’’ نیا قانون‘‘ کے استاد منگو کی جھلک آپ کو نتھو کے کیریکٹر میں ملے گی۔ پھر میں نے اپنے ہر کیریکٹر کو اۡس کی برائیوں اور اچھائیوں سمیت پیش کیا ہے۔ اگر یہ اسٹوری فلمائی گئی اور ڈائریکشن اۡس چیز کو بر قرار رکھ سکی جو میرے سینے میںہے تومیرا خیال ہے کہ آپ میرےMUDمیں سارا ہندوستان دیکھ لیں گے۔’خود کشی‘ میں بچپن ہے، یہ اۡس زمانے کی تحریر ہے، جب میں خود کشی کا خیال کیا کرتا تھا۔ آپ نے ضرور محسوس کیا ہوگا کہ افسانے کی عبارت ایک ایسے سینے سے نکلی ہوئی ہے، جو بہت چھوٹا ہے۔آپ’اوپیرا‘ لکھ کر ضرور روانہ فرمائیے۔ یہاں سے آپ کو اس کا حق الخدمت روانہ کر دیا جائے گا۔ رفیق صاحب اسے کمپوز کریں گے۔آپ کی نظمیں مل گئیں۔ بے حد شکریہ۔ مصوّر میں چھپتی رہیں گی۔ رفیق صاحب سب کی سب لے گئے ہیں۔خلش صاحب اور نذیر صاحب آداب عرض کرتے ہیں۔اگر ہو سکے تو ’ ساقی ‘ کے سالنامے میں ’ پھا ہا‘ اور ’ادبِ لطیف‘ کے سالنامے میں ’ٹیڑھی لکیر‘ضرور پڑھیے گا۔کیا آپ نے مصوّر میں ’’ نیا سال‘‘ پڑھا ؟…کیا رائے ہے؟امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔آپ کا بھائیسعادت حسن منٹو(آپ کا سعادت حسن منٹو(منٹو کے خطوط ,مرتب اسلم پرویز، دوسرا ایڈیشن،عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی، 2019، ص،69)احمدندیم قاسمی کے نام منٹو کے ہر خط میں کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور سامنے آتی ہے۔اس خط میں بھی منٹو نے انسان کی بے ثباتی کو ثابت کیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ اپنیMud (کیچڑ) کے تعلق سے بہت ساری باتیں لکھی ہیں یہ بھی لکھا ہے کہ نیاقانون کے استاد منگو کی جھلک مڈ کے نتھو کے کردار میں نظر آئے گی اور یہ فلم ہندوستان کا منظر نامہ پیش کرے گی۔افسانہ خودکشی کے بارے میں بھی احمد ندیم قاسمی سے ذکر کرتے ہیں۔اس طرح کی باتوں سے منٹو کا یہ خط بھرا پڑا ہے،آپ کو یہاں بھی منٹو دوسروں سے مختلف نظر آئے گا۔جس میں ساقی اور ادب لطیف کا ذکر ملے گا تو مصور کا بھی۔ممبئی کے فلمی شب وروز ملیں گے تو افسانوی دنیا بھی نظر آئے گی۔بیسویں صدی میں مکتوب نگاری کا کوئی ذکر مولانا ابوالکلام آزاد کے مکتوب کے بغیر ادھورا ہی تسلیم کیا جائے گا۔ بیسویں صدی ہی کیا اردو میں مکتوب نگاری کا ارتقا اور روایت، مولانا آزاد کے خطوط کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ’غبارِ خاطر‘ مولانا ابوالکلام آزاد کے ایسے خطوط کا مجموعہ ہے جو انھوں نے احمد نگر قلعہ میں نظربندی کے تقریباً تین سال کے دوران اپنے رفیق نواب صدر یار جنگ (حیدرآباد) کے نام تحریر کئے تھے۔ یہ سارے خطوط، اردو میں مکتوب نگاری کے ذیل میں عام ڈگر سے ایک انحراف کی صورت سامنے آئے۔ بظاہر یہ خطوط ایک رفیقِ خاص کے لیے تحریر ہوئے ہیں لیکن ان خطوط میں ایک عالم، مفکر، دانشور، سیاست داں کی زندگی کے ذاتی اوراق موجود ہیں۔ قیدوبند کے معاملات وحالات، ہندوستان کاسیاسی منظر نامہ، تحریکِ آزادی کی سرگرمیاں، کانگریس کا حال، انگریزوں کی منصوبہ بندی اور مقاماتِ نظربندی کے تذکرے شامل ہیں۔ یہ سارے خطوط یک طرفہ ہیں اور ایک عالم، ادیب اور دانشور کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ بعض خط خاصے طویل ہیں اور بڑی بڑی کہانیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان خطوط کا سب سے بڑا وصف ان کی زبان اور طرزِ تحریر ہے۔ یہاں میں قلعۂ احمد نگر سے 29؍اگست 1942 کو لکھا گیا ایک خط پیش کرنا چاہوں گا۔ پورا خط تو طویل ہے، ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔قلعہ احمد نگر29؍اگست 1942۔۔۔۔ لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود میں بسر کرتے ہیں، مگر بارہ تیرہ برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر کسی گوشہ میں جا بیٹھتا اور کوشش کرتا کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہوں۔ کلکتہ میں آپ نے ڈلہوزی اسکوائر ضرور دیکھا ہوگا۔ جنرل پوسٹ آفس کے سامنے واقع ہے، اسے عام طو رپر ’لال ڈگی‘ کہا کرتے تھے۔ اس میں درختوں کا ایک جھنڈ تھا کہ باہر سے دیکھیے تو درخت ہی درخت ہیں، اندر جائیے تو اچھی خاصی جگہ ہے اور ایک بینچ بھی بچھی ہوئی ہے۔ معلوم نہیں، اب بھی یہ جھنڈ ہے کہ نہیں۔ میں جب سیر کے لیے نکلتا، تو کتاب ساتھ لے جاتا اور اس جھنڈ کے اندر بیٹھ کر مطالعہ میں غرق ہو جاتا۔ والد مرحوم کے خادمِ خاص حافظ ولی اللہ مرحوم ساتھ ہوا کرتے تھے۔ وہ باہر ٹہلتے رہتے اور جھنجھلا جھنجھلا کر کہتے، ’’اگر تجھے کتاب ہی پڑھنی تھی، تو گھر سے نکلاکیوں؟‘‘ یہ سطریں لکھ رہاہوں اوراُن کی آواز کانوںمیں گونج رہی ہے۔ دریا کے کنارے ایڈن گارڈن میں بھی اس طرح کے کئی جھنڈ تھے۔ ایک جھنڈ جو برمی پگوڈا کے پاس مصنوعی نہر کے کنارے تھا اور شاید اب بھی ہو، میں نے چن لیا تھا کیوں کہ اس طرف لوگوں کا گذر بہت کم ہوتا تھا۔ اکثر سہ پہر کے وقت کتاب لے کر نکل جاتا اور شام تک اس کے اندر گم رہتا۔ اب وہ زمانہ یاد آتا ہے تو دل کا عجب حال ہوتا ہے؎عالمِ بے خبری، طرفہ بہشتے بوداستحیف صد حیف کہ ما دیر خبردار شدیم!ابوالکلاممحولہ بالا اقتباس مولانا آزاد کے ایک طویل خط جو تقریباً 11 صفحات (کتابی سائز) پر پھیلا ہوا ہے، کا ہے۔اس چھوٹے سے اقتباس کے مطالعے کے بعدبھی یہ احساس ہو جاتا ہے کہ مولانا کا طرزِ تحریر نہ صرف اپنے معاصرین بلکہ اردو مکتوب نگاری کی روایت میں مختلف و منفرد ہے۔ اقتباس کا مطالعہ کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ہم کسی افسانے یا ناول کے کسی اقتباس کا مطالعہ کر رہے ہوں۔ اقتباس کا کمال یہ ہے کہ اس میں مولانا کے بچپن کے یادگار واقعات کا ذکر ہے۔ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مولانا بچپن سے ہی تعلیم کے دیوانگی کی حد تک شوقین تھے۔ ورنہ کھیل کود اور سیر و تفریح کی عمر میں جھنڈ کے اندر کتاب لے کر پڑھائی کرنا، کہاں سمجھ میں آتا ہے۔ آج کل ایسے جھنڈ کا طالب علموں کے ذریعہ جو استعمال ہوتا ہے، وہ بھی ہم پر عیا ںہے۔ آج کی نسل تو پارکوں میں ایسے تنہا گوشوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے اور عاشقانہ راز ونیاز بلکہ اس کے آگے کے سفر سے بھی محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ خط میں کلکتہ کے بعض معروف مقامات ڈلہوزی اسکوائر اور ایڈن گارڈن کا ذکر موجود ہے۔ ویسے خط کی زبان میں ایک طرح کی سادگی ہے۔ عموماً یہ تصور کیا جاتا ہے کہ مولانا کی زبان بہت زیادہ فصیح و بلیغ ہوا کرتی ہے۔ جس کے سمجھنے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، ایسا نہیں ہے۔ خط میں جس طرح کی عام فہم زبان کی بنیاد غالب نے ڈالی اور پھر بعد کے لوگوں نے جس طرح سے اسے عروج بخشا، مولانا آزاد نے اپنے خطوط میں اس کو آگے بڑھایا ہے۔اردو مکتوب نگاری کا سفر راجہ رام موہن رائے سے غالب، پھر اقبال، منٹو اور ابوالکلام آزاد تک آتے آتے عروج تک آپہنچا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو مکتوب نگاری کے ارتقامیں متعدد مکتوب نگار نے اپنے کارہائے نمایاں سے اسے ہر طر ح مضبوط و مستحکم کیاہے۔ لیکن جو کام غالب نے کیا وہ بے مثل ہے۔ آج بھی مکتوب نگاری کے تعلق سے جتنا کام، ترتیب و تدوین، سمینار وغیرہ کا انعقاد عمل میں آتا ہے اس میں کثرت غالب پر ہونے والے کاموں کی ہی ہے۔مکتوب نگاری کا زوالاکیسویں صدی میں انفارمیشن ٹکنالوجی نے جس برق رفتاری سے ترقی کی ہے اور پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں قید کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ نئی صدی، نئی تکنالوجی اور نئے موضوعات نے ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی متاثر کیا ہے۔ ادب کی صورت تبدیل ہوئی ہے۔ نئے اور انوکھے موضوعات بعض ایسے موضوعات بھی جن کے بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا، آج ہمارے سامنے ہیں۔ اکیسویں صدی سے قبل سائبر اسپیس، سائبر کرائم، سوشل میڈیا وغیرہ کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ آج بڑے بڑے کارنامے، کرائم اورنت نئی چیزیں سوشل میڈیا اور سائبر میڈیا سے سامنے آرہی ہیں۔ رابطے کے نہ صرف ذرائع بدل گئے ہیں بلکہ انتظار کے لمحات ختم سے ہوگئے ہیں۔ اب طویل محبت ناموں اوراُن کے جوابات کا انتظار نہیں ہوتا۔اب چھوٹی بڑی باتیں، انتہائی راز دارانہ طریقے سے ایک دوسرے تک پہنچ جاتی ہیں۔ آج کے زمانے میں ای میل، وہاٹس ایپ، فیس بک وغیرہ کے ذریعہ نہ صرف خط بلکہ تصاویر اور آواز سب سکنڈوں میں ایک دوسرے تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں جہاں ہم نے بہت ترقی کی ہے وہیں ہماری کچھ خوبصورت عادتوں، روایتوں اور محبت کے طور طریقوں کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ اب خطوط لکھنے کا سلسلہ کم ہوتے ہوتے آفس کے کام کاج تک سمٹ کر رہ گیا۔ شارٹ ہینڈ کا زمانہ تو کب کا جاچکا لیکن اختصار نویسی، مخفف اور ابتدائی حروف، اختتامی حروف، نشانات، اعداد، اشیا کی تصاویر وغیرہ ایسے اشارے کنایے بن گئے ہیں کہ اب لمبی لمبی باتیں، طویل گفتگو، لمبے جملے وغیرہ یہ سب گئے وقتوں کی باتیں ہوگئی ہیں۔ جب آج ہر آدمی گھوڑے کی پیٹھ پر سوار، اُلٹے سیدھے، قواعد کی درستگی جیسی صفات سے خالی جملے فخریہ استعمال کر رہا ہے۔ ایسے میں جہاں ہماری بہت سی اصناف میں تبدیلیاں آئی ہیں، وہیں کچھ نے بالکل دم توڑ دیا ہے۔ کچھ تغیر و تبدل کے شانوں پر سوار خود کو نئے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کچھ خاتمے کے قریب ہیں۔ اکیسویں صدی میں تغیر و تبدل اور تکنیک کے طوفان سے خود کو محفوظ نہ کرپانے والی اصناف میں سب سے زیادہ خطرناک عہد سے گزرنے والی صنف مکتوب نگاری ہے۔ بیچارے غالب کو کیا پتہ تھا کہ وہ جس صنف کو ثقیل عبارت، فارسی زدگی، طول طویل القابات سے نکال کر بے تکلّفی، برجستگی اور مکالمے کی فصا تک لے آئے ہیں، وہ ایک-ڈیڑھ صدی کے اندر، قریب المرگ ہو جائے گی۔ اب خط لکھنے کی زحمت کون کرتا ہے اور ایسا کرے بھی کیوں؟ خط سے خیریت کا ہی تو تبادلہ ہوتا تھا۔ اب یہ سارے کام ای-میل اور فیس بُک، وہاٹس ایپ اور دوسرے میڈیا انجام دیتے ہیں۔ ہم سب نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ مکتوب نگاری کا پورا نظام ہی مفت(Free)ہو جائے گا۔ لفافے، پوسٹ کارڈ، ان لینڈ لیٹر، ایئرمیل، ٹکٹ، تار وغیرہ کی ضرورت ہی ختم ہو جائے گی۔ ایسے میں خطوط کے تعلق سے کوئی بات کرنا کیسا عجیب لگتا ہے۔ غالب، سرسیّد، شبلی،مہدی افادی، اقبال، ابوالکلام کے بعد بھی مکتوب نگاری سجاد ظہیر، منٹو، علی سردار جعفری، قمر رئیس، مجروح رشید احمد صدیقی، آل احمد سرور، رالف رسل، محمد حسن، شارب ردولوی اورعارف نقوی کے یہاں بھی ایک مستحکم روایت کے طور پر نظر آتی ہے۔ بعد میں بیسویں صدی کے اواخر اور کچھ اکیسویں صدی کے اوائل تک خطوط کے باقیات ملتے ہیں۔ لیکن اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اب بہت ضروری کام سے ہی خط تحریر ہوتے ہیں۔ باقی زیادہ تر کام اب موبائل سے ہونے لگے ہیںاور سوشل میڈیا آدھے ادھورے جملوں کے ساتھ پوری تصویر ہمارے سامنے کردیتا ہے۔ زمانہ تصویر اور آواز کا ہے اوراب تحریر قصّۂ پارینہ ہوئی جاتی ہے۔Prof. Aslam JamshedpuriChaudhary Charan Singh UniversityRamgarhiMeerut-250001 (UP)Mob.: 8279907070" قرۃالعین حیدر: اپنی تخلیق کے آئینے میں - مضمون نگار: ڈاکٹر محمد شارب,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/11/,"بیسویں صدی کی خواتین فکشن نگاروں میں قرۃ العین حیدر کا نام سب سے نمایاں ہے۔انھوں نے اپنی ہمہ جہت تخلیق کے ذریعے ادب کے قاری کو باور کرایا کہ اردو افسانہ نویسی ہو یا نا ول نگاری، ناولٹ کا ذکر ہو یا ترجمہ نگاری گویا تمام اصناف ادب میں وہ ید طولیٰ رکھتی ہیں۔ان کی تحریر وںمیں زبان و بیان ، تصورو خیال کے ساتھ ساتھ اسلوب میں بھی جدت پائی جاتی ہے۔ ان کی کہانیاں بڑی معنیٰ خیز اور تہہ دار ہوتی ہیںجن سے قاری کو بصیرت و رسائی حاصل ہوتی ہے۔روایت سے انحراف عینی کا خاص وصف ہے۔انھوں نے اپنی راہ الگ بنائی جہاں وہ اپنے فکری و علمی تجربات کی بنیاد پر قاری کو حصار میں لیے رہتی ہیں۔ان کے اسلوب و بیان نے نہ صرف اردو ادب کو جدت عطا کی بلکہ فکشن کی سمت و رفتار بھی متعین کی۔ان کے فکشن میں موضوعات کا تنوع بدرجۂ اتم موجود ہے۔قرۃ العین حیدر کی پیدائش ایک متوسط گھرانے میں20؍جنوری 1927 کو علی گڑھ میں ہوئی۔مصنفہ خود اپنے نام کے متعلق بتاتی ہیںہے کہ ’’ان کے دو ماموں حسنین اور الن نے اذان و اقامت ان کے کانوں میں پھونکی اور جب وہ چھ دن کی تھیں تو نام نیلوفر رکھا گیالیکن ان کے خالو میر فضل علی نے تاج طاہرہ کے اسم گرامی پر نام ’’قرۃالعین حیدر‘‘ رکھا۔‘‘یہ بہت زیادہ باتونی تھیں اور اسی مناسبت سے انھیں پیار سے ’’طوطا‘‘بھی کہا جاتا تھا۔ ان کے والد کا نام سجاد حیدر یلدرم اور والدہ کانذر زہرہ بیگم تھا جو 1912 میں شادی کے بعدنذر سجاد حیدر کہلائیں۔دونوں پایہ کے اردو ادیب گزرے ہیں۔ان کا خاندان علم و ادب کا گہوارہ تھااس لیے لکھنے پڑھنے کا فن انھیں ورثہ میں ملاتھا۔ سجاد حیدر یلدرم کے یہاں چھ بچوں کی ولادت ہوئی۔ چار بچے بچپن میں ہی اس دنیاسے رخصت ہوئے۔ ایک بیٹا مصطفیٰ حیدر عرف چھبوا اور ایک بیٹی قرۃالعین حیدر عرف عینی کے نام سے معروف رہیں۔ان کے والد نے علی گڑھ کے ایم۔اے۔او کالج سے گریجویشن کیا۔ اس وقت یہ کالج الہٰ آبادیونیورسٹی سے ملحق تھا۔ جب اس کالج نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ1920 میں حاصل کیا توان کے والدکواس کا پہلا رجسٹرار مقرر کیا گیا۔ قرۃالعین حیدر کا بچپن پورٹ بلئیر میں گزرااور ابتدائی اور ثانوی تعلیم دہرادون، لاہوراور لکھنؤ میں ہوئی۔ دہرادون کے غیر سرکاری اسکول سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔میٹرک پاس کرنے کے بعدانٹرمیڈیٹ کاامتحان 1941 میں ازبیلا تھبرن کالج، لکھنؤ سے پاس کیا۔والد کے انتقال کے بعد بھائی کو دہلی میں ملازمت مل گئی اور سبھی لوگ دہلی آگئے۔بی۔ اے کاامتحان 1945 میں اندر پرستھ کالج، دہلی یونیورسٹی سے کرنے کے بعدلکھنؤ یونیورسٹی سے 1947 میں ایم۔اے انگریزی میں کیا۔جدید انگریزی ادب کاکورس 1952 میں کیمبرج یونیورسٹی سے کیا۔اس کے بعد آرٹ کی تعلیم گورنمنٹ اسکول آف آرٹ لکھنؤ سے حاصل کی۔صحافت کی تعلیم ریجنٹ اسٹریٹ پولی ٹیکنک لندن سے حاصل کی ۔ انھیں تصنیف وتخلیق کے ساتھ ساتھ مصوری کا بے حد شوق تھا مشہور ایل ایم سین سے انھوں نے جاپانی واش تکنیک بھی سیکھی۔لندن میں پنچ تنتر پر بنائی ان کی الیسٹریشن کی نمائش بھی ہوئی۔عینی کے مذہب و مسلک کے اعتبار سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مجیب احمد خاں رقمطراز ہیں کہ:’’میرے والد سنی اور والدہ شیعہ تھیں مگر میری والدہ شیعہ حضرات کی مجالس میں کم ہی جاتی تھیں اور تبرہ کی سخت مخالف تھیں۔ البتہ میں سنی مسلک کی پیروی کرتی ہوں۔‘‘(قرۃ العین حیدر(ذات و صفحات)، صفحہ: 11؍12)قرۃالعین کی پہلی کہانی 1939 میں ’بی چوہیاکی کہانی‘بچوں کے رسالے ’پھول‘لاہور سے شائع ہوئی۔ان کا پہلا افسانہ ’’ایک شام‘‘ فرضی نام ’لالہ رخ‘ کے نام سے’ادیب‘ نومبر 1942میں شائع ہوا۔پھر ان کا دوسرا افسانہ’’یہ باتیں‘‘ بنت سجادحیدر یلدرم کے نام سے رسالہ ’ہمایوں‘کے مئی 1943 میں شائع ہوا۔تیسرا افسانہ ’’ارادے‘‘ قرۃالعین حیدر کے نام سے جون 1944شائع ہواجس پر انھیں بیس روپے کا انعام بھی ملاتو ان کے چچا مشتاق احمدزاہدی نے کہا کہ اب تم افسانہ نگاربن چکی ہو۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’ستاروں سے آگے ‘‘ ہے جو 1947 میں خاتون کتاب گھر ، دہلی سے شائع ہوا۔انھوں نے انگریزی رسائل و اخبارات میں بھی متعدد مضامین لکھے ۔ان کا پہلامضمون جارج برناڈ شاپر پاکستان ٹائمز میں شائع ہوا۔انھوں نے مختلف شخصیات پر خاکے بھی رقم کیے ہیں جن میں عزیز احمد، عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور، شاہد احمد دہلوی، صدیق احمد صدیق، چودھری محمد علی رودولوی، ابن انشا، مولانا مہر محمد خان ملیر کوئلوری،واجدہ تبسم وغیرہ کے نام نامی شامل ہیں۔قرۃ العین حیدر کی خوشحال زندگی کو 1947 تک آتے آتے زبردست دھکا لگا۔ ایک تو ان کے والدکا انتقال تھااور دوسرا تقسیم ملک کے بعد ہجرت کا سلسلہ۔ان دونوںالمیوں نے ان کے ذہن ، کردار اور قلم پر عمیق چھاپ چھوڑی۔ یہ بھی اس ہجرت کے قافلے میں شریک ہو کر دسمبر 1947 میں پاکستان چلی گئیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے فکشن میں ذہنی اور جذباتی طور پر تقسیم ہند کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔پاکستان میں قیام کے دوران وہ محکمہ اطلاعات ونشریات میں بحیثیت اسیسٹینٹ ڈائریکٹر کام کرتی رہیں ۔ اس کے علاوہ پاکستان انٹرنیشنل ایر لائن(PI A)میں1955 سے 1956تک انفارمیشن افسر رہیں اور کچھ وقت کے لیے ’’پاکستان کوارٹر‘‘ کی قائم مقام ایڈیٹر بھی رہیں۔لندن میں1960میں ایک ملاقات کے دوران جواہر لال نہرو نے انھیں ہندوستان واپس لوٹ آنے کو کہا۔1961 میں وہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان آگئیں اور بمبئی کی سکونت اختیار کر لی اور یہاں وہ بیس سال مقیم رہیں۔واپسی کی وجہ وہ دل و دماغ کی مشرق زدگی اور دقیانوسیت سے بیزاری بتاتی ہیںجہاں اس ماحول میں انھیں گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ہندوستان میں اپنا ادبی سفر کامیابی سے آگے بڑھایا۔بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل سے کئی سال وابستگی رہی۔ انگریزی صحافت سے بھی ان کا رشتہ رہا۔بمبئی میں وہ السٹریڈ ویکلی آف انڈیا کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل ہوگئیں اور آٹھ سال کام کیا۔اس دوران ادیبہ پر جو گزری وہ ان کی تحریروںاور کہانیوںمیں ظاہر ہوتی ہے۔قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں رومانوی نقطۂ نظر حاوی ہے جس میں اعلیٰ طبقے کی زندگی اور جاگیردارانہ ماحول کو خصوصیت کے ساتھ پیش کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان پر ’پوم پوم ڈارلنگ‘ کے جملے چسپاں کیے گئے۔68۔ 1964 تک امپرنٹ بمبئی کی کریئر ایڈیٹر رہیں۔ 86۔ 1977تک ساہتیہ اکادمی جنرل کونسل کی اردو ایڈوائزری بورڈ کے رکن کے طور پر کام کیاجس سے دولت اور شہرت دونوں ملیںبعد ازیں جامیہ ملیہ اسلامیہ میں1981-82پھرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 84 ۔1982میں ویزیٹنگ پروفیسر کے عہدے پر بھی کام کیا۔ اردو ادب میں ہیئتی تجربوںکی بابت انھیں ورجینا ولف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔انھوں نے دہلی میں مکمل سکونت اختیار کر لی۔اپنی زندگی کے آخری کچھ سال نوئیڈا میں گزارے۔مزاج کے اعتبار سے سخت تھیں لیکن جن سے دوستی ہو جاتی ان سے بہت فراخدلی اور شفقت سے پیش آتیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ادبی دنیا میں ’عینی آپا‘کے لقب سے مشہور ہوئیں۔80 سال کی عمر میں نوئیڈا کے کیلاش ہاسپٹل میں12؍اگست 2007 کواپنے مالک حقیقی سے جاملیں ۔ ان کی تدفین بعد نماز عصر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے قبرستان میں عمل میں آئی ۔قرۃالعین حیدر کی شخصیت اور ان کے فن پر مختلف فنکاروں نے اپنی تخلیقیت کے جوہر دکھائے ہیں جن میںان سے انٹر ویوز کا مجموعہ ’نوائے سروش‘ (مرتب جمیل اختر)،’داستان عہد گل‘(مرتب آصف فرخی)،’قرۃ العین حیدر کے خطوط‘(مرتب خالد حسن)،’انداز بیاں‘(مرتب جمیل اختر)، ’گل صد رنگ‘( مرتب محمد حبیب خان) ،’آئینہ جہاں‘،’کلیات قرۃالعین حیدر‘(مرتب جمیل احمد)،’آئینہ حیات‘ کے عنوان سے ان کے چاروں ناولٹ کا مجموعہ(مرتب جمیل اختر)،’قرۃ العین حیدر کا فن‘(ڈاکٹر عبدالمغنی)،’قرۃ العین حیدر کے ناولوں میںتاریخی شعور‘ (خورشید انور)، ’قرۃ العین حیدر شخصیت اور فن‘( ڈاکٹر صاحب علی)اور قرۃ العین حیدر ایک مطالعہ‘(مرتب پروفیسر ارتضیٰ کریم)وغیرہ کے علاوہ پروفیسر عبدالمغنی، امجد طفیل، اسلم آزاد اور عامر سہیل کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔قرۃالعین حیدر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں مختلف ادبی اعزازات سے نوازا گیا جو درج ذیل ہیں:٭تیسرے افسانوی مجموعے ’’پت جھڑ کی آواز‘‘ پر صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹرذاکر حسین کے ہاتھوں1967 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا۔٭چند روسی ناولوں کے اردو تراجم پر محترمہ اندرا گاندھی وزیر اعظم ہندکے ہاتھوں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ 1968میں ملا اور روس کی سیرکرنے کا موقع٭مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی جانب سے پرویز شاہدی کل ہند ایوارڈ1981 میں ملا۔٭مجموعی خدمت کے لیے اتر پردیش اردو اکیڈمی ایوارڈبرائے مجموعی ادبی خدمات 1982میں حاصل ہوا۔٭غالب ایوارڈ 1984 میں ملا۔٭پدم شری ایوارڈ1984 میں عطا کیا گیا۔٭اقبال سمان ایوارڈ(حکومت مدھیہ پردیش)1988 میں ملا۔٭گیان پیٹھ ایوارڈبدست چندر شیکھر،وزیراعظم ہند 1989 عطا کیا گیا۔٭بھائی ویر سنگھ انٹرنشنل ایوارڈ بدست ڈاکٹر شنکر دیال شرما، نائب صدر جمہوریہ ہند ،1991 میں ملا۔٭بھارت گورو،روٹری انٹرنیشنل ایوارڈ(غیر معمولی خدمات)1991 میں ملا۔٭فیلو آف ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ1996 میں نوازا گیا۔٭کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ(اردو اکادمی دہلی)بدست علی محمد خسرو 2000میں دیا گیا۔٭پدم بھوشن ایوارڈسے 28؍مارچ2005 کو سرفراز کیا گیا۔قرۃالعین حیدر کثیرالتصانیف شخصیت تھیں جنھوں نے کثرت سے لکھا، پڑھااور زندگی کے بیشتر اوقات مطالعے،مشاہدے اور تجربے میں گزارے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز تاریخ کے نبض پر ہاتھ رکھ کر شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی ادب پر چھاگئیں۔ ان کی تقریباً سبھی تخلیقات میں تقسیم ہندکادرداور ہجرت کا کرب نمایاں ہے۔ ان کے تخلیقی ذہن نے انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیاتبھی ان کے نوک قلم نے ایسے جوہر دکھائے کہ اپنے معاصرین میں سب سے پیش پیش دکھائی دیتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کے ادبائ ودانشوران اردو اپنی تحریروں میں انھیں بطور حوالہ کے پیش کرتے ہیں اور ان کی تحریروں کو قدرومنزلت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے تخلیقی کام میں سب سے زیادہ شہرت ناول نگاری کو ہی ملی۔اگرکلی طور سے ان کے ادبی سرمایہ پر نظر ڈالی جائے تو درج ذیل تصاویر ابھر کر سامنے آتیں ہیںجن سے ان کی عظمت اور شخصیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔میں نے ان کی ادبی خدمات کو ناول، ناولٹ، افسانوی مجموعے، تراجم وغیرہ کے زمروں میں منقسم کیا ہے جو حسب ذیل ہے۔ناول نگاریقرۃ العین حیدر نے اپنے کل آٹھ ناولوں کے ذریعہ اردو فکشن میںاپنی عمیق چھاپ چھوڑی ہے جن پر مختصر روشنی ذیل میں ڈالی جا رہی ہے۔ انھوں نے اردو ناول نگاری کی سمت کو متعین کیا ۔ان کے ناولوں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان میں زندگی کا جمود نہیں بلکہ وقت کے ساتھ بہائو اور رفتار ہے جس کے آگے انسان کا کوئی چارہ نہیں۔دوسری خصوصیت یہ ہے کہ شعور کی رو کی تکنیک نے انھیں دیگر فنکاروں میں انفرادیت عطا کی ہے۔تیسری خصوصیت یہ ہے کہ ان کی تحریروں میں تاریخ، تہذیب اور وقت کو مرکزیت حاصل ہے جن کے توسط سے مصنفہ کے تخیل و تصور کو تقویت ملتی ہے اور وہ آگے بڑھتی ہیں۔چوتھی خصوصیت ان کے ناولوں کی یہ ہے کہ ان میں ماضی کی بازیافت اور اعلیٰ طبقے کی نمائندگی ہوتی ہے اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہوتا ہے جو تمام خصوصیات پر بسیط ہے۔یہی سبب ہے کہ وہ مغربی ادیب جیمس جوائس اور ورجینا وولف کو اپنے پیچھے چھوڑ آتی ہیں۔کیوں کہ یہ دونوں اپنی تحریروں میں مغربی حدود کو پار نہیں کر پاتیں اس کے برعکس عینی نے نہ صرف برصغیر کو اپنے فکشن میں سمیٹا ہے بلکہ یورپ کو بھی اپنی احاطہ تحریر میں لینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔(1)’’میرے بھی صنم خانے‘‘اپریل 1949 میںمکتبہ جدید ، لاہور سے منصئہ شہود پر آیا جس میں قرۃالعین حیدر نے تقسیم ہند کا منظرنامہ پیش کر ایک نظیر قائم کی ہے جو اوروں کے لیے باعث تقلید بنی۔اس میں جاگیر دارنہ طبقے کے زوال کا بیان ہے۔مصنفہ کا یہ پہلا ناول ہے جو لاہور، پاکستان کے مکتبہ جدید سے شائع ہوا۔جیسا کہ میں نے قبل میں ہی بتایا ہے کہ ان کا قوت مطالعہ وسیع ہے۔انھیں فکشن کی روایت اور شاعری کی قرأت کو سمجھنے کا سلیقہ تھا جس بنیادپر انھوں نے اقبال کی شاعری:میرے بھی صنم خانے تیرے بھی صنم خانےدونوںکے صنم خاکی دونوںکے صنمفانیسے اثر لے کر یہ شعرمستعار لیا اور اس کا نام ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ رکھا۔یہ شعر اقبال کے دوسرے مجموعے ’بال جبریل‘(1935)میں شامل ہے۔ ناول کے متعلق خود مصنفہ کا قول ہے کہ ’’تقسیم ہند کے صدمے نے۱۹۴۷ئ کے آخر میںساڑھے انیس سال کی عمر میں مجھ سے ’میرے بھی صنم خانے ‘ لکھوایاجو میرا پہلا ناول ہے۔‘‘(2)’’سفینۂ غم دل‘‘دوسرا ناول ہے جو 1952 میںمکتبہ جدید، لاہور سے منظر عام پر آیا۔اس کاعنوان فیض احمد فیض کی نظم ’صبح آزادی‘سے مشتق ہے جو اگست 1947 میں لکھی تھی۔(3)’’آگ کا دریا‘‘دسمبر 1959میںمکتبہ جدید ، لاہور سے قرۃالعین حیدرکے پاکستان میں قیام کے دوران منظر عام پر آیا جس کا موضوع انسانی زندگی کو اپنے حصار میں لیے ہوئے وقت کی رفتار کو بنایا گیا ہے اور دکھایا ہے کہ جس طرح دریاکسی کی پروا کیے بغیر اپنی روانی کے ساتھ بہتا ہواا ٓگے نکلتاہے اسی طرح وقت بھی اپنی رفتار سے آگے بڑھتا جاتا ہے،وہ کسی کا انتظار نہیںکرتا۔اس ناول کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ ہندوستان کی تاریخ و تہذیب کے ڈھائی ہزار سال کو اپنے دامن میں سمیٹے ہو;ے ہے۔شمس الرحمن فاروقی کے مطابق ’ آگ کا دریا30 فیصد شاعری ہے اور 70 فیصد نثر ہے‘۔یہ ناول642 صفحات اور 101ابواب پر مشتمل قرۃالعین حیدر کا شاہکار ناول ہے جس کا آغاز ٹی۔ ایس ایلیٹ کی نظم’’ The West land‘‘کے چھوٹے سے ٹکڑے سے ہوتا ہے۔ابواب 13۔۱تک شراوستی ، ابواب 17۔14تک پاٹلی پترا کی تاریخی حسیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ابواب 25۔18 تک بہرائچ،جون پور اور بنارس،ابواب 56۔26 تک کلکتہ اور لکھنئو کا تہذیبی منظرنامہ بیان کرتے ہیں۔ ابواب 57اور 58 میں قدیم و جدید تاریخ کا حسین امتزاج ہے ۔ابواب 96۔59 یورپ سے متعلق ہیں ، ابواب 97 اور98عصر حاضر کے تغیرات سے تعلق رکھتا ہے ۔ ابواب 99 اور 100 میںہندوپاک کو محور میں رکھا گیا ہے اور آخر باب میں خالص جدید ہندوستان کا بیان موجود ہے۔اس میں کئی کردار ہیں لیکن چارکردار جن میںگوتم،چمپک، کمال اور ہری شنکر خصوصیت کے حامل ہیں۔دیگر کرداروں میں نرملا،سرل ایشلے ،عامر رضا، تہمینہ، ریکھا،شانتا، روشن ، مسز سنیلا مکھرجی وغیرہ ہیں۔ مصنفہ نے وقت کو دریا سے تعبیر کیا ہے جس کااستعمال علامت کے طور پر کیا گیا ہے ۔اس میں ڈھائی ہزار سال قبل کی برصغیر کی تہذیب وتاریخ مضمر ہے جو آریہ تہذیب کے ادوار سے ہوتے ہوئے گوتم بدھ اور اشوک کے بھارت کے درشن کراتا ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد،عربوں،ترکوں،پٹھانوں اور مغلوںکے ساتھ اس دھرتی پر آنے والی اسلامی تہذیب اور ہندو سنسکرتی کے اتصال سے جنم لینے والے مشترکہ تمدنی ماحول کی زندہ مثال ہے۔اگراس ناول کے کرداروں کے حوالے سے بات کریں توقدیم عہد کا ’گوتم‘ فلسفیانہ مزاج لیے ہوئے اپنے دور کا نمایاں طالب علم ہے جو اپنے ہاتھوں کی انگلیاںمگدھ کی لڑائی میں جو پہلے عہد کے دوسرے حصے میں ہوتی ہے گنواں دیتا ہے۔دوسرا نسوانی کردار ’چمپک‘ ہے جو بعد کے عہدمیں چمپا اور چمپابائی کا روپ دھارتی ہے، وہ گوتم سے سرجو ندی کے کنارے ملتی ہے، یہ ہندوستانی عورت کی تہذیب کی علمبردار ہے اور خواندہ طبقے کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے جس میں گوتم جیسے فلسفی مرد سے بحث و مباحث کرنے کی قوت بدرجۂ اتم موجود ہے۔یہ چندر گپت موریہ سے جنگ کے دوران گرفتار ہو کر پاٹلی پترا جاتی ہے۔دوسرے دور میں مسلمانوں کی آمد اور ان کے اختلاط سے ہندوستانی تہذیب میں آئی تبدیلیوں کا ذکر ہے۔اس دور میں’ کمال‘نامی تیسرا کردار ہے جو بعد میں ابو المنصور کمال الدین کی صورت میں قارئین کے سامنے آتا ہے جو حسین شرقی کے کتب خانے کا نگراں ہے اور تہذیبی حوالے سے اہم رول ادا کرتا ہے۔اس کی ملاقات چمپا سے ہوتی ہے جو پہلے دور میں چمپک تھی۔تیسرے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کاقیام ،انگریزوںکے پیر جمانے اور مغلیہ سلطنت کے بکھرتے شیرازے کی داستان ہے۔اسی دور میں گوتم کا دوسرا روپ گوتم نیلمبر سامنے آتا ہے ۔اسی میں سرل، ایشلے کا بھی کردار ہے۔اسی دور میں چمپک کا تیسرا روپ طوائف کی صورت میں چمپا بائی کے نام سے لکھنئو میں روشناس ہوتا ہے اور اسی دور میں کمال الدین منصور کا دوسرا کردارنواب کمن کے نام سے سامنے آتا ہے جو بعد میں کمال کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔چوتھے دور میں ہندوستان اور یورپ کے انتظامی امور اور حکمت عملی کی جھلک ملتی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ جو نسل لکھنؤ میں تیسرے دور کے آخر میں متوسط طبقے کی نمائندگی کر رہی تھی لندن، پیرس میں نظر آتی ہے اور پانچواں دورملک کی تقسیم اور ہندوپاک کی معاشرتی و تہذیبی بحران سے وابستہ ہے۔ مختصر یہ کہ اس ناول میں منظر نگاری کی عمدہ مثالیں موجودہیں جس میں قرۃ العین حیدر نے چندرگپت موریہ ، چانکیہ، شیر شاہ، شاہ حسین مشرقی، ہمایوں، ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام، غدر کی ہنگامہ آرائی، برجیس قدر، راجہ رام موہن رائے کی تحریک، رابندر ناتھ ٹیگوراور شانتی نکیتن، تقسیم ہند کا المیہ اور قیام پاکستان، ہندو مسلم فرقہ واریت و فسادات نیز ڈھائی ہزار سال کے تبدیل شدہ حادثات و واقعات کی مکمل داستان ہے۔(4)’’آخر شب کے ہم سفر‘‘1979 میں لکھااور ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ سے شائع ہوا۔ اس ناول میں وقت کی بالادستی اور انسان کے خوابوں کی شکست کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ریحان اور دیپالی اس کے مرکزی کردار ہیں۔اس کا عنوان فیض کی غزل سے مستعارلیا گیا ہے:آخر شب کے ہم سفر فیض نہ جانے کیا ہوئےرہ گئی کس جگہ صبا، صبح کدھر نکل گئییہ ناول کمٹمنٹ اور پھر اس سے انحراف کی کہانی بیان کرتا ہے جس پر ترقی پسندوں نے اپنی ناراضگی کا اظہا ر بھی کیا ہے۔یہ ناول۴۶ابواب پر مشتمل ہے۔(5)’’کار جہاں دراز ہے‘‘مکتبہ اردو ادب ، لاہور سے شائع ہوا۔ یہ تین حصوں پر مشتمل ہے جس کا حصہ اول1977، حصہ دوم 1979 اور حصہ سوم’ شاہراہ ہریر ‘کے نام ہے جو 2002 میں شائع ہوا۔ اسے قرۃ العین حیدر کا خود نوشت، سوانحی ناول قرار دیا جاتاہے جس میں انھوں نے اپنی زندگی سے جڑے کئی پہلوئوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔اس کوFamily sagaکے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔(6)’’گردش رنگ چمن‘‘1987میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی سے شائع ہواجس کا پس منظر صوفی سنت اور طوائفوں کا ڈیرہ ہے۔اس کا موضوع قدیم و جدید کے درمیان کشمکش ہے جس کے نتیجے میں مختلف افراد ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار عندلیب بیگ، ڈاکٹر منصور کا شغری، دلنواز بانو، مہرو اور نواب فاطمہ ہیں۔اس میں علامتی زبان کا استعمال زیادہ پایا جاتا ہے۔اس کا موضوع دراصل قدیم و جدید کے درمیان کشمکش ہے جس کے نتیجے میں مختلف افراد ذہنی کشمکش میں مبتلاہو جاتے ہیں۔ اس میں علامتی زبان کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔یہ ناول لکھنؤتہذیب کو آشکارا کرتا ہے جہاں سے مصنفہ کا ایک والہانہ تعلق تھا۔اس کے متعلق مصنفہ کا کہنا تھا کہ’’اگر اس ناول کا انگریزی ترجمہ کیا جائے تو’دی ڈیتھ آف اے سیٹیـ‘ہوگا۔(7)’’چاندنی بیگم‘‘ 1990 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی سے شائع ہوا۔اس میں مصنفہ نے اپنے دیگر ناولوں کے بر عکس شعری طرز اظہارسے دامن بچانے کی کوشش کی ہے۔ بعض نقادوں نے اس ناول کو قرۃ العین حیدر کا آخری ناول قرار دیا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے بلکہ اس کے بعد ایک اور ناول ’شاہراہ حریر‘‘۲۰۰۲میں مصنفہ کی حیات میں ہی منظر عام پر آ کر داد تحسین حاصل کر چکا ہے ۔یوں تو ان کے بیشتر ناولوں میں وقت کی کارفرمائی ہوتی ہے لیکن اس ناول کے مطالعے کے بعدقاری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتاہے کہ قرۃالعین حیدرکو دیگر موضوعات پر بھی دسترس حاصل تھی۔لیکن بعض ناقدین نے اس کا موضوع زندگی ، زمانہ، زمین ،وقت اور موت کو بتایا ہے ۔اس ناول میں 1947 کے بعد مسلم خاندان کے جذبات و احساسات کی عکاسی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح کی المناک صورت حال سے اشرافیہ طبقے کے لوگ دو چار ہوئے ۔ خاص طور پر پاکستان ہجرت کرنے کی وجہ سے معاشرتی توازن بگڑا۔ لڑکیوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔ زمینداری کے خاتمے کی وجہ سے بہت سے المیوں نے جنم لیاجن میں لڑکیوں کی شادی نہ ہونا یا اچھے لڑکوں کا نہ ملنا بھی شامل ہے۔اس ناول کو عمرانیاتی تناظر میںبھی پڑھا جا سکتا ہے۔کیوں کہ اس میں شیخ اظہر علی کی کوٹھی ، ریڈروز اور راجہ انوار حسین کی کوٹھی تین کٹوری ہاؤس یہ محض عمارتیں نہیں بلکہ تہذیبی و ثقافتی علامتیں بھی ہیں۔(8)’’شاہراہِ حریر‘‘قرۃ العین حیدر کا آخری ناول ہے جو 2002 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ، دہلی سے شائع ہوا۔ناولٹ:قرۃالعین حیدر نے جہاں سات ناول لکھے وہیں چھ ناولٹ کی بھی تخلیق کی ہیں جن میں:(1)سیتا ہرن۔1960میںنیا دور ، کراچی سے شائع ہوا۔ اس کا موضوع عورتوں کا استحصال ہے۔(2)چائے کے باغ۔1964 میں حلقئہ ادب، بمبئی سے شائع ہوا۔ یہ مشرقی پاکستان(بنگال)کے امیر طبقے کے ہاتھوں غریب محنت کشوں کے استحصال کے خلاف درد ناک تحریرہے ۔(3)ہاؤسنگ سوسائٹی۔1966 میں شائع ہوا۔مجموعہ پت جھڑ کی آواز میں شامل ہے۔ اس میں جاگیردارانہ نظام کے زوال کو مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔(4)اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو۔1977 میں بیسویں صدی ، دہلی سے شائع ہوا۔اس میں عورت ذات کی زبوں حالی اور معاشرے کے ایک المیے کو اس اندازمیں بیان کیا کہ یہ بیان کا لا فانی حصہ بن گیاہے۔(5)دل ربا۔1976، اس میں تھیٹر اور مختلف زمانے میں تبدیل ہوتی تہذیب کو فوکس کیا گیا ہے۔(6)فصل گل آئی یا جل آئی۔افسانوی مجموعے:(1)’’ستاروں سے آگے‘‘(پہلاافسانوی مجموعہ) 1947(2)’’شیشے کے گھر‘‘ 1954میں مکتبہ جدید لاہور سے شائع ہوا۔(3)پت جھڑ کی آواز:۔ یہ مجموعہ مکتبہ جامعہ، دہلی سے 1965 میں شائع ہوا اور1966 میں اردو کاساہتیہ اکادمی ایوارڈملا۔اس میں کل آٹھ افسانے شامل ہیں ۔(4)روشنی کی رفتار:۔ یہ مجموعہ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے1982 میں شائع ہوا۔اس میں کل اٹھارہ افسانے شامل ہیں (5) جگنوئوں کی دنیا1990(6)کف گل فروش(7)داستان عہد گل(8)پکچر گیلری۔ یہ عینی کے اردو مضامین کا مجموعہ ہے۔(9)قندیل چین (نیا افسانوی مجموعہ، مرتب جمیل اختر) 2007رپورتاژ:(1)لندن لیٹر۔اسے عینی نے 1953 میں لکھا جو’شیشے کے گھر‘ میں 1954 میں شامل ہوا۔(2)ستمبر کا چاند۔ جون؍1958 میں نقوش ، لاہور سے شائع ہوا(اس نام سے رپورتاژ کا پہلامجموعہ 2002 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے منظر عام پر آچکا ہے، اس میں چار رپورتاژ شامل ہیں)(3)چھٹے ا سیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔1966 میں اپریل؍جون کے شمارے نقوش ، لاہور سے شائع ہوا۔(4)درچمن ہرورٖقئی دفتر حال دیگر است۔1968 نقوش میں شائع ہوا۔(5)کوہ دماوند۔آج کل ، دہلی سے1978(اسی نام سے دوسرا مجموعہ بھی 2000 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہو چکا ہے جس میں چھرپورتاژ شامل ہیں۔)(6)قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہندآتی ہے۔1983میں ادب لطیف، لاہور سے شائع ہوا۔یہ رپورتاژ ایران کے انقلاب پر مبنی تھا جس کا عنوان مرزا سلامت علی دبیر کے مرثیے سے اخذ کیا گیا ہے۔عینی نے ایک مضمون ’ عالم آشوب‘ کے نام سے لکھاتھا جو مذکورہ مضمون کے ایک ذیلی عنوان کا نام ہے۔(7)گلگشت۔ مکتبہ اردو ادب ، لاہور سے شائع ہوا۔(8)جہان دیگر۔ یہ بھی مکتبہ اردو ادب ، لاہور سے شائع ہوا۔(9)خضر سوچتا ہے دولرکے کنارے(10)دکن سا نہیں ٹھار سنسار میں۔ اس کا عنوان ملا وجہی کے ایک مصرع سے مشتق ہے۔یہ عینی کے سفر حیدرآباد کی یاد کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے پروفیسر ابولکلام قاسمی کے اسرار پر رسالہ ’ انکار‘ کے پہلے شمارے کے لیے لکھا تھا۔(11)پدماندی کے کنارےتراجم:(1)ہمیں چراغ ہمیں پروانےPortrait of a lady on fire by Henry Games)1958مطبع: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور((2)ڈنگو،ناول آرفریرمین،آسٹریلیا،مطبع: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور(3)آلپس کے گیت ،ناولواسل بائی کوف،روس، 1969 مطبع: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور(4)کلیسا میں قتلMurder in the Cathedral by T.S Eliot(5)تلاشBreakfast Tiffany by Truman Capoteبچوں کے لیے کہانیاں:انگریزی سے اردو ترجمہ(1)لومڑی کے بچے(2)بہادر گھوڑے(3)میاں ڈھینچو کے بچے(4)شیر خان(5)بھیڑیے کے بچے(6)ہرن کے بچے (7)ڈینگومتفرقات:(تریتب شدہ کتابیں)(1)دامانِ باغباں (خطوط کا مجموعہ)2003میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوئی۔(2)کف گل فروش (حصہ اول)سیاہ سفید تصاویر کا البم ہے جو2004میں اردو اکادمی ، دہلی سے شائع ہوئی۔(3)کف گل فروش(حصہ دوم)رنگین تصاویر کا البمہے جو 2004میں اردو اکادمی، دہلی سے شائع ہوئی۔(4)استاد بڑے غلام علی خاں ہز لائف ۔ مالتی گیلانی کے ساتھ انگریزی میں ترتیب دی جو ہر آنند پبلی کیشنز، اینڈ میوزک ، دہلی سے 2003 میں شائع ہوا ۔(5)ہوائے چمن میں خیمئہ گل (کلیات نذر سجاد حیدر)ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے 2004 میں منظر عام پر آئی۔قرۃ العین حیدر کی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ان کا تجربہ بھی بڑھتا گیا۔ ان کی ذہنی پختگی نے خواب و خیال کی دنیا کو آباد کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے حقیقت کی ترجمانی کرنے پر آمادہ کیا جس کا واضح اثر ان کی بعد کی تحریروں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ان کی تحریروں کی یہ تبدیلیاں ان کے ذہنی شعور کی پختگی اور بالیدگی کا پتہ دیتی ہیں۔ان کی شخصیت بے نظیر تھی اسی لیے ان کے تعلقات کا دائرہ بھی وسیع تھا۔ وہ تمام موضوعات پر کھل کر بحث و مباحثہ میں حصہ لیتیں ساتھ ہی کچھ ناگوار گزرنے پر اپنے ساتھیوں کو بھی آڑے ہاتھ لینے سے گریز نہیں کرتیں۔انھوںنے تصوف کے رموزو اسرارکا گہرا مطالعہ کیااوراس کو خوب باریکی سے سمجھا بھی۔یہی سبب ہے کہ ان کی تحریروں میں صوفیائے کرام کی عظمت اور ان کا احترام جابجا نظر آتا ہے۔ انگریزی شاعری سے بھی ان کی دلچسپی تھی جہاں انھوں نے تجریدی اور علامتی نظموں پر زور آزمائی کی ہے۔انھوں نے اردوادب میں جدت و ندرت کے ساتھ حقیقت نگاری کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر اوروں کے لیے مشعل راہ بنی۔جب انھوں نے قلم اٹھایا تب تاریخی حقیقت نگاری کی جانب کم لوگوں کا رجحان تھا۔ عینی نے نہ صرف اپنی تحریروں میں تاریخ کا بھرپور استعمال کیا بلکہ اس میں تخیلات و تصورات کے عناصر شامل کر کے انھیں اور بھی حسین بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول و افسانوں میںتاریخی فضا، رومانی تخیل، نفسیاتی ماحول اور فلسفیانہ فکر کا حسین امتزاج نمایاں ہے۔قرۃالعین حیدر تاریخ وتہذیب کی کامیاب تخلیق کار تھیں جنھیں حسن اسلوبی کے ساتھ بیان کرنے کا ہنر آتاتھا۔وہ عہد حاضر کی اس تہذیب کی پروردہ تھیں جس سے ہم محروم ہوتےجا رہے ہیں۔Dr. (Mr.) Md. SharibVill. Mandeya, MasihaniP.O.& P.S- ChhattarpurDist. Palamu- 822113 (Jharkhand)Mob. 9835938234" اردو افسانے میں تقسیم ہند کے مسائل اور کرب - مضمون نگار: ساجد علی قادری,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/10/,"بر صغیر ہمیشہ سے دنیا کی نگاہ میں پرکشش اور پراسرار رہاہے۔ اس کشش نے کئی قوموں اور نسلوں کو یہاں بسنے پر نہ صرف مجبور کیا بلکہ انھوں نے اسے وطنِ ثانی بنالیا لیکن سترھویں صدی میں ایک ایسی قوم نے سرزمین ہند پر قدم رکھا۔ جو تجارتی حدود کو پار کر کے دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کے سیا ہ و سفید کی مالک بن گئی۔ اور 1857کے ناکام انقلاب کے بعد پوری طرح سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی اوراس طرح برطانوی حکومت کا دور شروع ہوگیا۔ 1857 کے خونی انقلاب کے بعد ہندوستان کی سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی، اور اخلاقی و مذہبی زندگی دگر گوں ہو گئی۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ بساط ِ ہند پر اماوس کی کالی رات کی تاریکی چھا گئی۔ جسے ہر ہندوستانی اپنا لہو دے کر آزاد کرانا چاہتا تھا۔ یعنی ملک کو انگریزوں کی غلامی کی زنجیر سے آزاد کرانے کے لیے ہندومسلم نے یکجا ہوکر اپنے سر پر کفن باندھ لیا۔ اہل ہند کی حب الوطنی اور اتحاد و اتفاق نے برٹش حکومت کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ یہی سبب ہے کہ انگریزوں نے ایک نہایت گھٹیا پالیسی۔ ’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ اپنائی جس کا مکروہ چہرہ 1947 میں نظر آیا اور وہ مکروہ چہرہ ہندوستان کی تقسیم اور اس کے بعد رونما ہونے والے فساد ات تھے۔ ایک چہرے کا نام تھا ہندوستان اور دوسرے کا پاکستان۔ بر صغیر کے اس خط ِ فاصل نے جغرافیائی سطح پر کوئی لائن نہیں کھینچا تھا بلکہ انسانی رشتے، ناطے، محبتیں اور یادیں، اخلاقیات، تہذیب و ثقافت، جذبات، انسانیت گویا سب کچھ کا بٹوارہ کردیا۔ اس خطِ تنسیخ کے اثرات نے دونوں ملکوں کی سیاسی، سماجی، و اقتصادی زندگی کو تبا ہ و بر باد کر دیا۔ آزادی کے نام پر ہو نے والی تقسیم کی تاریخ بے حد دل سوز واقعات وحادثات سے پر ہے۔ انسان کے ہاتھوں انسان کے قتل نے ہماری بر سوں کی مشتر کہ تہذیب پر سوالیہ نشان لگا دیا اور انسا نیت سرچھکاے سسکتی رہ گئی۔سینہ ہندپر ایک ایسی آگ جل رہی تھی جو ہر چیز کو خاکستر کر دینے پر آمادہ تھی۔ جان، مال عفت و نا موس اور اقدار غرض سب کچھ اس کی زد میں تھا۔ تقسیم کے بعد ہجرت کے دوران بچے، بوڑھے، جوان، مرد، عورتوں کا بے دریغ قتل عام روز کا معمول بن گیا تھا۔ سرسبز و شاداب کھیت کھلیان اجڑ کر شہر خمو شا ں میں تبدیل ہوگئے۔تقسیم ہند کے بعد فسادات کے سیلاب نے اپنی تمام تر تباہیوں اور بربادیوں کے ساتھ اخلاق و اقدار اور باہمی اخوت کا ایسا جنازہ نکالا کہ دہائیوں تک کے لیے پنجاب کی گلیا ں ہیر اور رانجھا کے عشقیہ گیت سے محروم ہوگئیں۔ وحشیانہ قتل عام کے اتنے دلدوز مناظر سامنے آئے کہ آج بھی ان کے خیال سے لزرہ طاری ہو جاتا ہے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا بر صغیر میں قتل و غارت گری یا جنگ و جدل کے واقعات اس سے قبل وقوع پذیر نہیں ہوئے تھے؟دراصل بات یہ ہے کہ اس سے قبل خانہ جنگی نے زندگی کو اس وسیع پیمانے پر نیست و نابود نہیں کیا تھا، دیکھا جائے تو دوسری عالمی جنگ میں ایٹم بم کا استعمال ایک مخصوص خطے میں کیا گیا تھا۔ بیشک ایٹم بم نے لاکھوںانسانوں کی زندگی کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ لیکن 47 کے بعد ہجرت کے نام پر قسطوں میں انسانی زندگی کو تباہ کیا گیا۔ایسے پر آشوب ماحول میں اردو کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے، ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ جن افسانہ نگاروں نے فسادات اور ہجرت کے مسائل اور اس کے کرب کو اپنے فن کے کینوس پر بکھیرا ان میںکرشن چندر،سعادت حسن منٹو، مہندرناتھ، بلونت سنگھ، احمد ندیم قاسمی، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی،قرۃ العین حیدر، حیات اللہ انصاری، انتظار حسین وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان افسانہ نگاروں نے فسادات کے مختلف مسائل بالخصوص قتل و غارت گری، عورتوںکی بے حرمتی، بے گناہ و معصوم افرادکا قتل، لاپتا افراد، نفسیاتی کشمکش، وغیرہ کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا۔ کرشن چندر کا افسانہ ’پشاور ایکسپریس‘ تقسیم ہند کے بعد نقل مکانی کے حالات کے دردو کرب کا مر قع ہے۔ وہ محض ایک ایکسپریس ٹرین نہیں تھی جو لاہور سے چلی تھی ہندوستان کے لیے، اور ہندوستان سے پاکستان جانے کے لیے۔ دراصل یہ ٹرین لاشیں ڈھونے والی ایک ارتھی تھی۔ ہزاروں بے گناہ انسانوںکی لاشیں جیسے پشاور ایکسپریس اپنے کندھے میں لاد کر چل رہی تھی۔ آزادی کے نام پر ملنے والی تقسیم نے انسانی زندگی اور انسانیت دونوں کو تہس نہس کردیا تھا۔ فرقہ وارانہ فسادات نے جن جن علاقوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ان میں خصوصاً پنجاب، دلی، لاہور، بنگال، حیدر آباد ہیں۔ ان ریاستوں میں قتل و غارت، جنگ و جدال اور درندگی کی تمام حدیں پار کردی تھیں۔ بقول فرمان فتح پوری:’’آزادی کا دیاپوری طرح روشن بھی نہ ہونے پایا تھا کہ فسادات کے نام سے برق و باد نے گھیر لیا۔ گائوں کے گائوں اور شہر کے شہر قتل و غارت کی آندھیوں میں تنکے کی طرح اُڑگئے۔ بادلوں سے پانی کے بجائے خون برسنے لگا۔ گلی کوچے اور بستیاں ڈوب گئیں۔ آدمی کے روپ میں درندے نکل پڑے۔ برسوں کی یاری اور ہمسائیگی کچھ کام نہ آئی۔سارے رشتے آن کی آن میںمنقطع ہوگئے۔‘‘(اردو افسانہ اور افسانہ نگار، ص 91)کرشن چندر نے اپنے افسانے ’امرت سر آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعدـ‘ میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ اور انسانی زندگی کے اس کرب کو واضح کیا ہے جہاں انسانی زندگی کی کوئی قدروقیمت نہیں تھی۔ انسان کا خون بہانا جیسےFundamental Rightsہو۔ ہر کوئی حیوانیت کا سردار بن گیا تھا۔ بچوں بوڑھوں، جوان اور عورتوں کا بے دریغ قتل کیا جا رہا تھا۔ افسانہ ’لالہ باغ‘ میں انسانی زندگی کی قیمت طے کی گئی۔ ایک انسان کو مارنے کی قیمت پچاس روپئے، چاہے وہ ہندو ہو یا مسلم یا سکھ۔ جبکہ ایک گلاس پانی کی قیمت ایک سوروپیہ تھی۔ بقول کرشن چند ر:’’پانی ہندوستان میں بھی تھا اور پانی پاکستان میں بھی تھا۔ لیکن پانی کہیں نہیں تھا، کیونکہ آنکھوں کا پانی مرگیا تھا اور یہ دونوںملک نفرت کے صحرا بن گئے تھے۔۔۔ جس دیس میں لسی اور دودھ پانی کی طرح بہتے تھے وہاں آج پانی نہیں تھا۔ اس کے بیٹے پیاس سے بلک بلک کر مررہے تھے۔‘‘(ہم وحشی ہیں، ص95)انتقام کی آگ نے صرف تباہی وبربادی کو جنم دیا۔ اشفاق احمد کا افسانہ ’گڈریا‘ میں فرقہ وارانہ جھگڑے کے واقعات کی سچی تصویر کشی کی گئی ہے۔ نفرت کی آگ نیک انسان کو شیطان بنادیتی ہے اور دوست کو دشمن۔ خواجہ احمد عباس نے اپنے افسانے ’’اجنتا‘‘ میں اس پہلو کو بطور خاص اجاگر کیا ہے کہ انسانی عقل کس قدر نا قص ہے۔ مذہب کے نام پر تعصب کا ایک ایسا کھیل کھیلا کہ انسانیت ایک بے معنی سی چیز بن گئی۔ اس افسانے کا ہیرو نر مل ایک صحافی ہے۔ جو فسادات کی بر بریت اور حیو انیت کے زد میں آئے افراد کی مدد کے لیے امن کمیٹی کی تشکیل میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیتا ہے۔ لیکن اس کو اس بات کا شدید صدمہ ہو تا ہے کہ امن کے پر چار کر نے والوں میں در ندے بھی مو جود ہیں تو وہ مایو سی اور ذہنی تنائو کا شکا ر ہو جاتا ہے۔ خواجہ احمد عباس نے ’اجنتا ‘ میں نر مل کی ذہنی کیفیت کی تصویر کشی یو ں کی ہے:’’اس دبلے پتلے نو جوان کی صورت اب بھی میری آنکھوں کے سامنے پھرتی ہے۔ بھارتیــ!اس کی آخری چیخ اب بھی میرے کا نو ں میں گونج رہی ہے اور اس نے میری نینداڑا دی ہے۔ رات کو سوتا بھی ہوں تو خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں ایک خون کے سمندر میں ڈوب رہا ہوں اور کو ئی میریمدد کو نہیں آتا۔‘‘(اجنتا مجموعہ زعفران کے پھول ص نمبر37)عزیز احمد کا افسانہ ’ کا لی رات ‘ میں بر بریت اور حیو انیت اپنے بام عروج پرنظر آتی ہے، اس رات کی تا ریکی میں انسانیت آخری دم تک درند گی سے مقابلہ کر تی ہے۔ بلوائی ریل کے ڈبے کو توڑکر نئی نویلی د لہن کو اس کے شوہر کے سامنے قتل کردیتے ہیں۔حیات اﷲ انصاری کے افسانے ’شکر گزار آنکھیں‘ میں بھی بربریت کے سامنے عز ت بچانے کی خاطر جان دینے کا دل سوز واقعہ ہے۔ قرۃالعین حیدر نے اپنے افسانے ’جلاوطن‘ میں لکھنؤ کی مشترکہ تہذیب کے بکھرنے کے درد و کرب کو کہانی کا روپ بخشا ہے۔ بٹوارہ صرف ایک زمین کا نہیں ہوا تھا بلکہ ایک تہذیب کا تھا، جس کا ماتم ہر ہندوستانی نے کیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ ہر انسان کو اپنی قوم پر ستی کا ثبوت دینا پڑ رہا تھا۔ افسانہ جلا وطن کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’پولیس ہر لمحےان کو تنگ کرتی۔ آپ کے بیٹے کا پاکستان سے آپ کے پاس کب خط آیا تھا۔ آپ نے کراچی میں کتنی جائیداد خرید لی ہے۔ آپ خود کب جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ جو بابا کی ساری قوم پرستی تھی سارا جون پور عمر بھر سے واقف ہے کہ بابا کتنے بڑے نیشنلسٹ تھے۔ تب بھی پولیس پیچھا نہیں چھوڑتی۔‘‘(افسانہ جلا وطن، ص129,30)فسادات کی آگ نے انسانی زندگی کو تہس نہس کر دیا تھا۔ اس آگ کے شعلے نے انسان کی نفسیات کو چکنا چور کیا۔ افسانہ’ٹو بہ ٹیک سنگھ‘ میں بشن سنگھ کی دما غی کیفیت کی منٹو نے جو تصویر کشی کی ہے بے حد درد ناک ہے۔ تقسیم ہند کے دو سال کے بعد دو نوں ملکوں کے سیا سی لیڈروں کو مذہبی نقطہ نگاہ کی بنا پر یہ فیصلہ لینا پڑتا ہے کہ جو ہندو پا گل ہیں وہ ہندوستان میں بھیج دیے جا ئیں اور مسلما ن پاگل پا کستان میں رہیں گے۔شاید حکومت کا یہ فیصلہ دونوں ملکوں کے مذہبی لیڈروں کو اپنا قد اونچا کر نے کا سنہرامو قع مل گیا تھا۔ منٹو کے نزدیک یہ فیصلہ مذہب کے نام پر نہیں کیا گیا بلکہ انسان کو اپنی زمین اور اپنی شناخت سے جدا کر نے کی ایک گھناونی سازش تھی جو47 کے بعد کامیا ب ہوئی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تقسیم ہند کے بعد فسادات کی آگ نے معاشرے کے ہر فرد کو نقصان پہنچایا۔ جانی و مالی نقصانات سے لے کر روحانی تک، لیکن تقسیم ہند کے بعد ہجرت کے نام پر فسادات کی سب سے بھاری قیمت خواتین نے اپنی جان وآبرو کی قربانی دے کر ادا کی۔ ان قیامت خیز حالات میں مردوں نے اپنی جنسی تسکین کے لیے عورتوں کی آبرو کو تا ر تار کیا اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔انھیں اغوا کیا گیا اور قحبہ خانوں کی زینت بننے پر مجبور کیا گیا۔ یہاں تک کہ سربازار عورتوں کی بولی بھی لگائی گئی۔ تقسیم ہند کے بعد سب سے بڑا کرب عورتوں کی حرمت کا المیہ ہے۔ خواتین نے مردوں کی زیادتی اور استحصال کے ساتھ ساتھ درندگی اور حیوانیت کے بے شمار ستم برداشت کیے اس موضوع پر منٹو کے افسانے کھول دو، ٹھنڈا گوشت، شریفن قابل ذکر ہیں۔ افسانہ شریفن میں بملا اور شریفن کی عصمت کی بے حرمتی کی جامع تصویر ملتی ہے۔ افسانہ کھول دو میں ایک ایسی لڑکی سکینہ کی کہانی ہے جو مشرقی پنجاب میں سکھ مردوں کی درندگی کا نشانہ بنتی ہے تو پاکستان میں رضاکار بھائیوں کی دل بستگی کرتی ہے۔ رضاکاروں کے کردار میں منٹو نے اس شیطانی چہرے کو ظاہر کیا ہے جو فرشتہ صفت بن کر عورتوں کی عصمت کو داغدار کرتے ہیں۔ اسی طرح ’ٹھنڈا گوشت‘ میں ایشر سنگھ کی حیوانیت بامِ عروج پر نظر آتی ہے۔فسادکے دوران ایک گھر کے تمام افراد کو قتل کردیاجاتاہے ایک درندہ صفت ایک لڑکی کو اُٹھا کر لے جاتا ہے مگر جب اپنی حیوانی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکی پہلے ہی مرچکی ہے۔ اس طرح کے کردار کے ذریعے افسانہ نگاروں نے عورتوں کی بے بسی اور لاچاری کے کرب کو واضح کیا ہے۔مہندر ناتھ کا افسانہ ’پاکستان سے ہندوستان تک‘ میں ایک بازیافتہ عورت کو اپنے گھر والوں کی نفرت اور حقارت کا نشانہ بنتے دکھایا گیا ہے۔ افسانے کی ہیروئن پشپا اور صفدر ایک ہی گائوں میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ لیکن گھر والوں کی خوشی کی خاطر پشپا سوہن لال سے شادی کرلیتی ہے۔ کچھ عرصے بعد فرقہ وارانہ فساد شروع ہوجاتا ہے۔ سوہن لال اپنی بیوی کو چھوڑ کر اپنی ماں اور اپنے بچوں کو لے کر دلّی چلا آتا ہے۔ پشپا کو تنہا دیکھ کر حملہ آوراس کے گھر پر حملہ کرتے ہیں۔’’پھر پشپا کی باری آئی۔ لوٹنے والوں نے اسے بھی مال غنیمت سمجھا۔۔۔۔۔۔ عورت کی حیثیت ہمارے معاشرے میں ایک تہائی کی سی ہے۔۔۔۔۔ یوں تو ہمارے گرنتی صاحب میں، وید میں قرآن مجید میں عورت کو بہت اونچا مقام دیا گیا ہے لیکن موقع ملنے پر ہم لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ مسلمان نوجوانوںنے پشپاکو ایک کوٹھری میں بندکردیااوراس کی تنہائی اور بے بسی کا فائدہ اُٹھایا۔‘‘(افسانہ پاکستان سے ہندوستان تک، ص184)راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ ’لاجونتی‘ ایک بد قسمت عورت کی کہانی ہے۔ جسے فساد میں اغوا کرلیا جاتا ہے۔ اور وہ اپنے شوہر سندر لال سے بچھڑ جاتی ہے۔ کچھ دِنوں کے بعد لاجونتی کی ملاقات سندرلال سے ہوتی ہے، لیکن اس ملاقات میںلاجو ایک پتنی کے روپ میں اپنے پتی سے نہیں ملتی بلکہ ایک ناپاک جسم کے طور پر، یہاں پر بیدی نے سندرلال اور لاجو کے اس ذہنی کرب اور نفسیاتی کشمکش کو اجاگر کیا ہے جو عورتیں بازیاب ہوکر اپنے گھروں میں واپس آتیں ہیں۔ ان کے اپنے انہیں اپنانے سے انکار کردیتے ہیں۔ جبکہ ان خواتین کی بے گناہی کے چشم دید گواہ ان کے بھائی، رشتے دار خود ہیں۔دراصل تقسیم ہند کے بعد قیامت خیزحالات نے خواتین کی زندگی کو جہنم زار بنادیا تھا۔ ایک مصیبت سے نکلتی تو فوراً دوسرے مصائب کا شکار ہوجاتی تھی۔قدرت اﷲشہاب کا افسانہ ’ یا خدا ‘ میں عورت کی ٹریجڈی بڑی درد ناک نظر آتی ہے۔ دلشاد پا کستان کی سر زمین کو مقدس سمجھ کر آتی ہے جہاں اس کے زخموں پر مر ہم رکھنے والے بھا ئی ہو ں گے مگر بھا ئی کے روپ میں در ند ے ملتے ہیں۔ اس طر ح ممتاز مفتی کا افسانہ ’گوبر کے ڈھیر پر‘ اور سید انور کا ’ ظلمت ‘ اور شکیلہ اختر کا’آ خر ی سہارا ‘ میں عورتوں کی ٹریجیڈی کی منہ بولتی تصویریں ہے۔عورت اپنے ہی وطن میں اپنے ہی رشتے داروں کے ہا تھوں ظلم و ستم سہنے وا لی کٹھ پتلی بن جا تی ہے افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیوںمیں عورتوں کے اپنے ہی وطن میں ان کے خوابوں کو ٹو ٹتے اور بکھرتے دکھا یا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ تقسیم ہند کا سب سے بڑا درد اور کرب کسی نے اگر جھیلا ہے تو وہ خواتین ہیں۔ عورتوں کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ معاشرے میں مقام اور عزت کا مسئلہ تھا۔ کہ اس کی حیثیت کیا تھی؟ وہ ایک ناپاک جسم تھا یاد ل شکستہ آئینہ تھا۔‘‘ جسے سماج سنبھال کر رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ جس خاموشی اور جواں مردی کے ساتھ عورتوں نے تقسیم ہند کے کرب کو سہا ہے شاید ہی اس آگ میں کوئی اور جھلسا ہو۔رام لعل نے اپنے افسانے ’نئی دھرتی پرانے گیت‘ میں ان افراد کی سماجی اقتصادی زندگی کے درد و کرب کو واضح کیا ہے جو اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا بستے ہیں اور مہاجر کے نام سے پکار ے جاتے ہیں۔ اس افسانے میں رام لعل نے نئی بستیوں میں بسنے والوں کی شناخت کے کرب کو پیش کیاہے۔ سیاست کے مفاد پرست اماموں نے برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے صرف غیر دانشورانہ عمل کا ثبوت ہی نہیں پیش کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کتاب ِ زیست میں بر بر یت اور درندگی کا ایک ایسا باب بھی رقم کیا۔ جس کی قیمت آج تک ہم اپنے لہو سے ادا کر رہے ہیں۔الغرض تقسیم ہند کے عنوان پر لکھے جانے والے افسانے فنی اعتبار سے اپنے فن کی معراج سے تعبیر کیے جا سکتے ہیں اور یہی افسانے موضوعاتی اعتبار سے اپنے دور کی وہ تصویر یں پیش کرتے ہیں جہاں انسان اور انسانیت کی قبائیں تار تار ہوجاتی ہیں وہ خوبصورت ملک ہندستان جنت نشان جہاں ہر ہندستانی نے اپنے ملک عزیز کی آزادی کے لیے انقلاب اور ولولہ انگیز جذبوں کے درمیان اپنے جانوں کی قربانی پیش کرکے ملک کی نئی صبح کی امید کی تھی وہ صبح تو آئی ضرور لیکن اس قیامت کے ساتھ ٓائی کہ آسمان امید پر شفق کی لالی کی جگہ انسانی جذبوں اور جسموں کا خون چڑھاہوا تھا۔ ایسے دور کے میں لکھے گئے افسانے ا ٓج بھی ان خون آشام دن اور رات کی قیامت خیز کہانیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں؎لہو میں ڈوب کے پہنچے ہیں جو کنارے تکوہ جانتےہیں کہ یہراہ کس قدر تھی کٹھنDr. Sajid Ali QadriHo.D, Urdu & Research Guide (KBC NMU)S.P.D.M. CollegeShirpur, Dist: Dhulia - 425405 (MS)Mob.: 9423288786ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2021" ماحولیاتی تحفظ اور ادب اطفال - مضمون نگار: زاہد ندیم احسن,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/09/,"ماحول اپنے آپ میں ایک مکمل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے جس میں نامیاتی اور غیر نامیاتی اجزا تشکیل پاتے ہیں۔ یہی وہ خصوصیت ہے جو ماحولیاتی نظام قائم کرنے میں معاون ہے۔ ماحولیات یا ما حولیاتی نظام کرہ ارض کے کسی بھی حصے میں پائے جانے والے نامیہ اور غیر نامیہ عناصر کے باہمی تعلقات کے مجموعے کو کہتے ہیں۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماحول ایک حیاتیاتی نظام ہے۔ماحول ان سبھی جسمانی،کیمیائی اور حیاتیاتی عناصر کامستحکم ڈھانچاہے،جو کسی بھی ذی روح،ماحول اور زندگی میں پیش آنے والی سبھی چیزوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ عمومی طور پر دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہماری زندگی کو متاثر کرنے والی تمام نامیاتی اور غیر نامیاتی اشیا اور ان کے افعال و اعمال سے وقوع پزیر ہونے والے حادثات و واقعات کے مجموعے کو ماحول کہتے ہیں۔ اس سے تمام جاندار متاثر بھی ہوتے ہیں اور اپنے عمل سے اس کو متاثر بھی کرتے رہتے ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ ما حولیات میں مذکورہ تمام عناصرشامل ہیں جن کے اثرات بالواسطہ یابلا واسطہ طور پر حیات ا نسانی پر پڑ تے ہیں۔بہ ایں طور مفید اورمضر دونوں صورتوں میں اثر انداز ہوتے ہیں۔فی زمانہ اس بات کی ضرورت اور اہمیت دو چند ہو جاتی ہے کہ علم ما حولیات سے متعلق تمام چیزوں کی معلومات کے ساتھ ان کے تمام عوامل کی تعلیم پر بھی زور دیا جائے، تاکہ ان مسائل کی تدبیر کی جا سکے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس جدید معاشرے کو ماحولیات کے در پیش مسائل سے آگاہ کیا جا ئے۔ چونکہ آج کے اس مشینی دور میں پوری دنیا اس انجام کو پہنچ چکی ہے جس میں فضائی آلودگی اور زمینی آلودگی ہمارے لیے نہ صرف ایک مسئلہ ہے بلکہ ایک چیلینج ہے اورپوری دنیا خطرناک مسائل سے دو چار ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ماحول سے جڑے تمام مسائل پر سنجیدگی سے غور خوض کیا جائے اورنسل انسانی کے تحفظ کی کیا تدبیر ممکن ہو سکتی ہے اس کو عام کیا جائے،تاکہ اسکے برے اور ہولناک انجام سے عوام واقف ہو سکیں۔اب ایک نظر ان مسائل پر بھی ڈال لیں جو مسائل، ماحول اور ہمیں در پیش ہیں اور کس طرح سے زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آلودگی : زراعت،تجارتی اور رہائشی تپش،صنعتیں،حمل ونقل، زمینی اور فضائی آلودگی میں اہم رول ادا کرتی ہیں، فضامیں، کاربن مونو آکسائڈ، سلفر ڈائی آکسائڈ،کلورو فلورو کاربن، اور موٹر گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے نائیٹروجن آکسائڈ سے فضا ئی آلودگی پیدا ہوتی ہے جوسانس کے ساتھ پھپڑے میں پہنچ کر طرح طرح کی بیماری پیدا کرتی ہے۔ آلودگی کی وجہ سے بہت سے جاندارکی قسمیں ختم ہورہی ہیں یا ختم ہونے کے دہانے پرہیں۔ صوتی آلودگی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے کچھ آوازیں جو نا گوار ہوتی ہیں جس سے نقصان پہنچتا ہے اور سننے والے پر ان کے برے اثرات پڑتے ہیں صوتی آلودگی کے زمرے میں آتی ہیں صوتی آلودگی سے سماعت پر اثر پڑتا ہے، کان کا درد،چڑ چڑا پن جیسی حالت ہوتی ہے اور اگر یہ بہت دنوں تک رہ جائے تو بلڈ پریشر ہو جائے گا۔ صوتی آلودگی کے ذرائع سڑک پر چلنے والی گاڑیوں سے نکلنے والی آوازیں ہوائی جہاز اور جیٹ کی آواز نئے شہروں کی پلاننگ کاروباری علاقوں میں نا قابل برداشت آواز صنعتی شور ہیں۔ اس کا تدارک یہ ہے کہ گاڑیوں کی رفتار کم کی جائے ہارن کے استعمال پر پابندی کی جائے۔ رہائشی علاقوں اوربھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں بڑی بڑی گاڑیوں کا جانا ختم کیا جائے۔یہ درست ہے کہ تعلیم کے ذریعے سے ماحول کی معلومات سماجی زندگی کے فروغ کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کا بنیادی مقصد انسانوں کے اندر،جسمانی، ذہنی، سماجی، تہذیبی، اور روحانی پختگی لانا ہے۔ اس طرح کے تعلیمی نظریات کو استحکام بخشنے کے لیےفطرت کے ذریعے بنائے گئے اس ما حولیاتی نظام کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔ما حول کا علم حاصل کرنا ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی روایت کا اہم حصہ ہے اور اس کی روایت ابتدا سے ہی رہی ہے۔ طبیعیاتی اور معاشیاتی دور میں حالات کچھ الگ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں سائنس اور تکنیک کے مختلف شعبوں میں نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ تو دوسری طرفHuman Environment)انسانی ماحول بھی بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔ نئی نسل کو ماحولیات میں ہونے والی تبدیلی اور بگاڑ کا شعور تعلیم کے ذریعے سے پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ ماحولیات اور تعلیم کے مابین جو رشتہ ہے اس کو جان کر بھی انسان اپنے اندر بیداریلاسکتا ہے۔ طالب علموں کو ماحول اور ماحولیات کی تعلیم عام فہم اور آسان زبان میں دینا چاہیے ابتدا میں یہ تعلیم بالکل سطحی اور تعارفی انداز سے دینا چاہیے۔ آگے چل کر اس کے تکنیکی پہلوئوں پر غور کرنا چاہیے۔ تعلیمی سطح پر ما حولیات کی معلومات انسانی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔UNESCOنے ماحولیاتی تعلیم اور اس کے مقاصد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے یہ بات کہی ہے:’’ماحولیاتی تعلیم ایک ایسا لائحہ عمل ہے جس سے طلبا مختلف مسائل کو اور اہم قدروں کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے وہ اپنے اندر ایسی صفات کو فروغ دیں گے جس سے وہ یہ سمجھ سکیں کہ انسان کا اپنے ماحول اپنی ثقافت اور آس پاس کی چیز سے گہرا تعلق ہے۔یہ ایسی تعلیم ہے جو ان کے رویے اورطرز عمل میں ماحولیاتی اہمیت کا احساس اجاگر کرے۔‘‘مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں دیکھا جائے اور ان پر غور کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ماحولیات کی تعلیم زیادہ کار آمد اسکول کی وجہ سے ہے اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جب نئی نسل کو اس کی تعلیم سے بہرور کیا جائے گا اور اس کی اہمیت کو زندگی کے افادی پہلوئوں سے مربوط کیا جائے گا تو ہمارے بچے نہ صرف اس کی اہمیت اور افادیت کو محسوس کریں گے بلکہ اسے اپنی زندگی میں اتار کر حیات کے ہر موڑ پر مقدم رکھیں گے۔چونکہ بچے کسی بھی قوم کے معمار اور خشت اول ہوتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ ما حولیات کی تعلیم اسکولی سطح سے ہی دی جائے کیونکہاس کی تعلیم ابتدا ہی سے دی جائے گی تو ایک عمر تک پہنچ کے پختہ ہو جائیں گے جس کا ایک بہتر نتیجہ سامنے آئے گا۔ نفسیات کی نظر سے یہ درست ہے کہ کسی بھی چیز کو سکھانے کے لیےاس میں دلچسپی پیدا کی جائے خاص طور سے اگر بچوں کو کچھ سکھانا ہے یا کسی کام کے لیے عمل پیرا کرناہے تو اس کے لیےSubject Stimulus,MotivationاورDriveان چار چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے کہانیاں مذکورہ تمام چیزوں کے لیے بہتر ہے۔ اسی کے پیش نظر بہت سے لوگوںنے ایسی کہانیاں لکھی ہیںجس میں ماحولیاتی قدروں کی افادیت اور اہمیت پر زور ملتا ہے۔اس حوالے سے میرے پیش نظر بچوں کے لیے لکھی گئیں کچھ کہانیاں ہیں جو ما حولیات اور اس کے مسائل سے سروکار رکھتی ہیں:بھنورا، سیدہ فرحت کی کہانی ہے اس کہانی میں ماحول میں پائی جانے والی فطری چیزوںمیں چھیڑ چھاڑ سے کیا نتیجہ نکلتا ہے ان باتوں کو کہانی کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کا سیاق یہ ہے کہ چھوٹی بچی جس کا نام کنول ہےپانی میں کھیلنے کی وجہ سے اسے سردی ہوگئی ہے وہ گھر میں لیٹی لیٹی اکتاہٹ محسوس کرتی ہے تو اپنے گھر کے باغ میں چلی جاتی ہے۔ وہاں وہ پھول پر منڈراتے ہوئےبھنورے کو دیکھتی ہے۔ وہیں اسے نیند آجاتی ہے۔ پھر خواب میں وہی بھنورا آتا ہے اور اسے کہانی سناتا ہے۔خواب کے ذریعے سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔’’ہاں سنو! بھنورے نے جواب دیا۔ میں ایک دیس کا راجہ تھا۔ یہاں سے بہت دور دیس کا۔ مجھے سونےچاندی ہیرے موتی سے بڑا پیار تھا۔ میرا محل سونے کا تھا۔ اس میں چاندی کے دروازے تھے میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتاپیتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے باغ میں ٹہلتے ہوئے سوچا۔یہ پھول، پتے،ہری ہری گھاس سب کچھ سوکھ کر کوڑے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اور ہاں مجھے چڑیوں کی چو ںچوں،کبوتروں کی غٹر غوں کا شور بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ بسمیں نے ایک دم سے حکم دیا۔یہ سارے باغ اجاڑ دیے جائیں۔ پھول پتے نوچ کر پھینک دیے جائیں۔چڑیوں کو مار دیا جائے۔ باغ میں سونے چاندی کے پھولوںکے پودے لگائے جائیں ان میں سونے چاندی کی گھنٹیاں باندھی جائیں۔‘‘’’بس میرا حکم ہونے کی دیر تھی تمام باغاجڑ گئے۔ چڑیاں مر گئیںتتلیاں بھاگ گئیں اور جگہ جگہ سونے چاندی کی گھنٹیاں لگادی گئیں۔مگر اس کے بعد کیا ہوا یہ مت پوچھو! کیا ہوا کنول نے حیرت سے پوچھا۔‘‘یہ کہانیچونکہ بچوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے لکھی گئی ہے اس لیےاس کی بنت میں کہانی کے تمام خصائل موجود ہیں اور ساتھ میں پیغام بھی موجود ہے کہ اپنے آس پاس کے ہرے بھرے ماحول کو ختم کرنے سے کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں اس کہانی میں کہانی نویس نے یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ اگر ہم اپنے آس پاس موجود ہرے بھرے باغ کو نقصان پہنچا دیں تو ماحول آلودہ ہو جائے گا اورآس پاس کے رہنے والے تمام جاندار پر مہلک اور مضر اثرات مرتب ہوںگے۔کان کی خراش، فرحت قمر کی کہانی ہے اس میں انھوں نے صوتی آلودگی سے سماج میں کیا نقصان پہنچ سکتے ہیں اس کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ کہانی کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ رضوانہ اور خالد کے ابو امی شادی میں گئے ہوئے ہیں گھر اکیلا ہے،یہ دونوں بھائی بہن اپنے گھر میں اور دوستوں کو بلا لیتے ہیں سبھی دوست مل کر ہنگامہ شروع کرتے ہیں تیز تیز آواز نکالتے ہیںوہیںپڑوس میں رہنے والے رضوی صاحب کی طبیعت خراب ہے،انھیں ان کی آواز ناگوار گزرتی ہے،وہ اپنے کمرے سے نکل کر بچوں کے پاس آتے ہیں اور ان کو شور کے نقصانات بڑے ہی پیار سے سمجھاتے ہیں۔ اقتباس دیکھیں:’’جی ہاں‘‘ رضوی صاحب نے فوراً کہا۔ جب کوئی خواہ مخواہ شور کرتا ہے تو اسی طرح پڑوسیوں کو بھی برا لگتا ہے۔ اصل میں لوگ زیادہ تر آوازیں خواہ مخواہ ہی پیدا کرتے ہیں۔ زور زور سے بولتے ہیں زور زور سے ریڈیو اور ٹی وی چلاتے ہیں لائوڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں اور خواہ مخوہچلاتے ہیں۔ اسی خواہ مخواہ کی آوازیں تو شور ہیں اور ہماری صحت پر برا اثر ڈالتی ہیں‘‘تو سنو‘‘ جس طرح سے گرمی کو تھرما میٹر کی ڈگر ی کی اکائی سے ناپا جاتا ہے یا فاصلوں کو میٹراور کیلو میٹر سے اسی طرح شور کو ڈسی بل کی اکائی سے ناپا جاتا ہے۔ اب جیسے سڑک کے ٹریفک سے 90 ڈیسی بل شور پیدا ہوتا ہے، بڑے پریس میں یہ شور 100 ڈیسی بل ہو جاتا ہے اور جب کوئی جیٹ جہاز اڑان بھرتا ہے تو 120 ڈیسی بل شور پیدا کرتا ہے انسان کے کان 140 ڈیسی بل تک شور برداشت کر سکتے ہیں۔ اگر شور اس سے زیادہ بڑھ جائے تو آدمی کے کان پھٹ سکتے ہیں۔ اسی لیے بے کار کی پر شور باتوں کوسمع خراشی کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کان کی خراش۔‘‘مذکورہ بالااقتباس میں کہانی کار نے بے حد عمدگی سے بچوں کو زیادہ شور اور ہنگامے کے نقصانات سے با خبر کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس طرح کا ماحول نہیں پیدا کرنا چاہیے جو پاس پڑوس کے لوگوں کو ناگوار خاطر گزرے اور جس کی وجہ سے دل آزاری ہو کیوں کہ یہ چیزیں بھی ہمارے ماحول کو مکدر کرتی ہیں۔’’مچھلی بنا  ننھیالا۔نہیں نہیں‘‘سریکھا پانند یکرکی کہانیہے اس کہانی میںپانی کی آلودگی اور اس سے ہونے والے نقصانات کو کہانی کے ذریعے پیش کیاگیا ہے۔ کہانی کا سیاق یہ ہے کہ دنو کے اسکول کی چھٹی ہونی ہے اور گھر کے لوگوں نے اس کے ننھال جانے کا ارادہ کر رکھا ہے یہ سن کر دنو بہت خوش ہے کہ ننھیال میں اسے موج مستی کرنے کا اوردوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کا موقع ملے گا اور ساتھ میں ماما کے ساتھ ندی پر مچھلی پکڑنے کا مزہلگ،مگر جب وہ اپنے ننھیال پہنچتا ہے تو سارا مزہ خراب ہو جاتا ہے مچھلیوںکی بیما ری پھیلی ہوئی ہے جسے کھا کر لوگ بیمار پڑ رہے ہیں۔ جس مقصد سے دنو وہاں گیا اسی پر پابندی لگ جاتی ہے۔ اس کہانی میں اس کے اسباب کا پتاکچھ اس طرح سے چلتا ہے۔اقتباس دیکھیں۔’’آؤ بابو میں دکھاتا ہوں‘‘ کہہ کر بوڑھا بابا اسے تھوڑی دور لے گیا۔وہاں پڑے پڑے کئی بھگو نوںمیں کئی رنگوں کا پانی ابل رہا تھا۔ دو لوگ ناریلکے ریشے اس میں ڈال کر ڈنڈوں سے ہلا تے اور اوپر نیچے کر کے، باہر نکال کر سوکھنے کے لیے پھیلا دیتے اب ان میں سے کسی کا رنگ ہلکا لال کسی کا نیلا اور کسی کا ہرا ہو گیا تھا۔دنو نے پوچھا‘‘ یہ جو بچا ہوا پانی یا رنگ آپ نے پھینکا تھا وہ کہاں جاتا ہے‘‘ ڈھلان ہے نہ تھوڑی سی۔بہہ کر جاتا ہوگا ندی میں۔بابا نے بتایا۔ندی میں‘‘ دنو نے پوچھا۔ ہاں اور کہاں جائے گا۔ دو فر لانگپر تو ہے جھواری، اسی سے تو پانیلاتے ہیں ! ابھی یہاں نل کہاں لگے ہیں۔ بابا نےبتایا۔‘‘ اب سمجھ گیا کہہ کردنو ماما کے پاس بھاگا آیا۔ماما مچھلیاں کیوں بیمار ہوتی ہیں اور کھانے والے کیوں بیمار پڑتے ہیں میں سمجھ گیا۔آؤ  میں بتاتاہوں دنو ماما کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے بولا۔ یہ دیکھو ماما یہ رنگ کا گندا پانی۔یہ لوگ یہاں پھینک رہے ہیں وہ بہہ کر ندی میں جا رہا ہے اسی سے ندی کی مچھلیاں بیمارپڑ رہی ہیں اور انھیں کھا کر سارور ڈے کے لوگ بیمار ہوئے ہیں۔ دنو جلدی جلدی بولا۔پر ڈاکٹر بابو رنگ کے پانی میں گندا کچھ نہیں ہوتا رنگ پھینکنے والوں میں سے ایک آدمی بولا۔دیکھو یہ سوکھا رنگ جو تم لوگ بناتے ہو ماما نے پوری بات ایک دم سمجھتے ہوئے کہا...اس میں کچھ کیمیائی چیزیں پڑی ہوتی ہیں۔ اور اسے کچھ اور پکا کرنے کے لیے سوڈا، تیزاب اور کچھ کیمیائی چیز یں ملاتے ہو۔ دیکھو تم خود بھی تو اسے ہاتھ سے نہیں ڈنڈے سے چلاتے ہو اور ڈنڈے سے ہی ریشے کو پھیلاتے ہو‘‘ ماما نے سمجھاتے ہوئے کہا۔‘‘ ہاں بابو ہاتھ سے چلائیں گے تو ہاتھ جل نہ جائیں گے۔ رنگ والا بولا۔‘‘ اگر تمہارا ہاتھ جل سکتا ہے تو‘ جب یہ رنگ بہہ کر ندیکے پانی میں جاتا ہے ‘ تو وہاں کی مچھلیوں پر بھی اثرضرور ڈالتا ہوگا! اسی سے ندی کا پانی بھی گندہ ہو رہا ہے اور تمہارے یہاں اور گائوں کے لوگ بھی بیمار پڑ رہے ہیں۔ دنو نے سمجھاتے ہوئے کہا۔‘‘کارخانوں میں تو سرکار اس کے لیے بندو بست کرتی ہے۔ تم لوگوں کو بھی کچھ کرنا ہوگا۔تمہاری بھلائی اسی میں ہے۔ کیوں بابا آپ سمجھائیں گے اپنے سب ساتھیوں کو؟ ماما نے پوچھا۔کیوں نہیں ڈاکٹر بابو! ہم بیمارتھوڑی ہی پڑنا چھاہتے ہیں‘‘مذکورہ کہانی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کس طرح سے کیمیکل اور دیگر فضلات کے پانی میں ملنے سے پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔اور اس کے اثرات کس طرح پانی میں رہنے والے جاندار اور اس علاقے میں رہنے والے لوگوں پر پڑتے ہیں۔نیم کا پیڑ طلعت عزیز کی کہانی ہے جس میں انھوں نے فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی نقصان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ کہانی کا سیاق کچھ اس طرح ہے کہ ایک گھر کے آنگن میں نیم کا پیڑ تھا جسے کٹوا دیا گیا ہے بچے اسے دیکھ کر اداس ہیں پھر اس کے چچاچچی اور بھائی بہن شہر سے آتے ہیں تو باتوں باتوں میں پیڑ کٹنے کے کیا نقصان ہیں اسے بتایا گیا ہے۔ابا بہت خوشی خوشی گاؤں میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کر رہے تھے۔ لیکن بڑے چچا اس سے زیادہ خوش نہیں تھے۔ اسلم بھائی کا کہنا تھا کہ اس گاؤں    کا نقشہ ہی بدلتا جا رہا ہے،یہ تو بالکل شہر ہوتا جا رہا ہے۔یہ تو اچھی ہی بات ہے نا۔ہم گاؤں والوں کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ابا نے کہا۔ لیکن یہ سوچو اس ترقی کے لیے تم کیا کھورہے ہو؟ بڑے چچا بولے۔ یہ کھلا آسمان یہ پاک صاف تازہ ہوا۔ یہ چڑیاں، یہ جانور، ندی کاشفاف میٹھاپانی۔ کیا یہ سب ایسے ہی رہیں گے؟ کیوں اس کو کیا ہوگا؟ ہمارے پاس ندی بھی رہے گی اور آسمان بھی۔ابا نے کہا۔ماسٹر جی نے کچھ رک کر جواب دیا۔ اصل میں خود انسان نے ہی اب ماحول کے اس تال میل کو کچھ بگاڑ دیا ہے۔ مثال کے طور پر اس نے اپنی ضرورت کے لیے د ھڑا دھڑ پیڑ کاٹ کر جنگل صاف کر دیے۔پیڑ کٹنے سے سب سے پہلا نقصان تو یہی ہے کہ ہوا گندی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بارش کا پیڑوں کے ساتھ بھی کافی گہرا رشتہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ سمندر سے پانی بھر کر ہوابھاری ہو جاتی ہے تو وہ ایسے علاقوں کی طرف چلتی ہے جہاں کی ہوا سورج کی گرمی سے گرم ہو کر ہلکی ہو جاتی اور اوپر اٹھنے لگتی ہے۔ سمندر سے آنے والی بھاری ہوا اس جگہ کو بھرنے آتی ہے جو ہلکی ہوا نے خالی کی تھی۔ اب اگر اسعلاقے میں پہاڑ ہوں تو ہوا ان سے ٹکرا کر بارش کرتی ہے۔ میدانی علاقے میں پہاڑ تو ہوتے نہیں یہاں پیڑ ہی اس ہوا کو بارش دینے میں مدد دیتے ہیں۔ اگر پیڑ نہ ہوں تو یہ ہوا آندھی کی شکل میں اس علاقے سے تیزی سے نکل جاتی ہے‘‘ہاں ایک اور رشتہ بھی ہے پیڑوں سے پانی کا۔ پیڑ بارش کے پانی کو اپنی جڑوں کی وجہ سے زمین میں بہت گہرا نہیں رسنے دیتے۔ اگر پیڑ نہ ہوں تو اس علاقے کے کنویں اور تالاب سوکھ جائیں۔ اور پھر یہ پیڑ زمین کے پانی کو سورج کی روشنی سے بچا کر اسے ابخارات یا بھاپبن کر اڑ نے سے روکتے ہیں۔ ایک اور بہت اہم کام بھی یہ پیڑ کرتے ہیں جسے تم نے اپنی کتابوں میں بھی پڑھا ہوگا‘‘کیا؟ دونوں نے ایک ساتھ پوچھاوہ یہ کہ جب بارش کاپانی تیزی سے بہتا ہے تو پیڑوں کی جڑیں زر خیز مٹی کو پانی کے ساتھ بہہ جانے سے روک لیتی ہے ہیں اگر یہ پیڑ نہ ہوںتو یہ مٹی بہہ کر دریا میں چلی جائے اور دریا سے سمندر کی تہہ میں جا کر بیٹھ جائیں اس سے اس علاقے کی زمین فصلیں اگانے کے قابل ہی نہ بچے۔اور تو اور اگر پہاڑ پر جمی برف کے پگھلنے کے بعد تیزی سے بہتے پانی کو اگریہ پیڑ کم نہ کریں تو یہ پانی میدانی علاقوں میں باڑھ بن کر تباہی مچائے گا۔مذکورہ تمام کہانیاں اس طور پر اہم ہیں کہ وہ ماحول کے توازن اور تناسب سے تعلق رکھتی ہیں اور بچوں کو ما حول کی آلودگی اور اس کے مسائل کوسمجھانے کی غرض سے لگھی گئیں ہیںجب کہ کہانیوں کو پڑھنے کے بعد یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ پوری طرح سے مقصدی کہانیاں بن کر رہ گئیں ہیں اس میں کہانی کی تمام خوبی موجود ہے اور ساتھ ساتھ ہر جگہ کہانی کی آمد کا بھی احساس ہوتا ہے جو ان تمام کہانیوں کو دلچسپ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے خاص بات یہ ہے کہ یہ کہانیاں بچوں کے لیے بچوں کی زبان میں ہی لکھی گئی ہیں اور بچوں کی ذہنی استطاعت کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہیں جس کی وجہ سے ان کی معنویت دو چند ہو جاتیہے اور اس کی افادیت میں چار چاند لگ گیا ہے اگر اس طرح کی کہانیوں کو اسکولی نصاب کا حصہ بنایا جائے تو یہ بعید نہیں کہ ہماری نئی نسل ایک اہم علم سے بہر مند ہو سکے گی بلکہ ما حولیاتی بگاڑ کے خاتمے کے لیے معاون بھی ثابت ہو گی پھر اس عالمی خطرے سے بچنا ہمارے لیے بے حد آسان ہو گا۔Dr. Zahid Nadeem AhsanDept of Urdu, Jamia Millia IslamiaNew Delhi - 110025" کشمیر کی درد آشنا: ترنم ریاض - مضمون نگار: قدوس جاوید,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/08/,"’’میرا عظیم وطن، میرا کشمیر، نرم خو، حلیم اور حسین کشمیریوں کیزمین۔ دانشوروں،فنکاروں اور دستکاروں کا خطہ، ریشم و پشم، زعفران زاروں اور مرغزاروں کی سرزمین، پہاڑیوں اور وادیو ں کا مسکن،یہ جنتِ بے نظیر، جس کی پانچ ہزار سالہ پرانی تاریخ موجود ہے،جس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔قدیم ترین زبان و تہذیب کا مرکز کشمیر، رِشیوں، مُنیوں کا کشمیر،شیخ العالم اور لل دید کا کشمیر، شاکیہ منی کی پیش گوئی کا بودھ گہوارہ کشمیر، کشیپ رشی اور پرور سین کا کشمیر، للتا دتیہ اور سوئیہ کا کا کشمیر، اشوک، کنشک، کلہن، اور بڈشاہ کا کشمیر، حبہ خاتون کا کشمیر،ارنی مال کا کشمیر ۔‘‘یہ اقتباس، اسی کشمیر کی خاک سے اٹھنے والی ایک غیر معمولی قلم کار خاتون ترنم ریاض کے ناول ’برف آشنا پرندے‘ سے ماخوذ ہے۔اس اقتباس کے الفاظ، کشمیر کے تئیں ترنم ریاض کے فخر آمیز عشق اور عقیدت مندی کا مظہر ہی نہیں، اس حقیقت کا اشاریہ بھی ہے کہ ’اٹوٹ انگ‘اور ’شہہ رگ‘ کی دو چکیوں کے بیچ پستی ہوئی کشمیر ی سائکی، معاشرت، سیاست اور ثقافت کے پاکیزہمنظر نامے کو لہو کی چھینٹوں سے بدنما بنانے کی کیسی کیسی کوششیں اور سازشیں کی گئیں اور صرف ’ برف آشنا پرندے‘ہی نہیں، کم و بیش ترنم ریاض کی ہر تحریر کسی نہ کسی زاویے سے ان کے وطن عزیز کشمیر کو لازماً مَس کرتی نظر آتی ہے۔محمد الدین فوق، چراغ حسن حسرت، پریم ناتھ پردیسی اور نور شاہ کے فکشن، اور زینب بی بی محجوب، مہجور،غلام رسول نازکی اور حکیم منظورکے شعری سرمایے کی امینترنم ریاض کشمیر کے معروف علاقہ ’کرن نگر ‘میں ایک معزز گھرانے میں (9اگست1960) کو پیدا ہوئیں۔ اسکول اور کالج کے بعداول تو انھوں نے کشمیر یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔اے کیا اور پھر کشمیر یونیورسٹی سے ہی ’ایجوکیشن‘ میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا۔ ترنم ریاض کی شادی کشمیر کے مشہور ادیب، پروفیسر ریاض پنجابی سے ہوئی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مواقع ملنے کے باوجود ترنم ریاض نے کہیں باضابطہ ملازمت نہیں کی۔ یہاں تک کہ جب ان کے شوہر مشہور سوشل سائنٹسٹ اور ادیب،J.N.Uکے پروفیسر ریاض پنجابی کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر (جنوری2008، جون2011) مقرر ہوئے تو کئی شعبوں کی جانب سے آفر کے باوجود ترنم ریاض نے کو ئی عہدہ قبول کرنا منظور نہ کیا۔ البتہ وہ کئی یونیورسٹیوں اور باوقار تعلیمی اداروں کے ساتھ ’وزٹنگفیلو‘اور ’گیسٹ پروفیسر‘ کے بطور وابستہ رہیں۔ 2014 میںانھیںSAARC Literary Awardسے نوازا گیا۔ غالباً اس سے قبل اور بعد یہ اعزاز جموں وکشمیر کے کسی اور قلم کار کے حصے میں نہیں آیا۔ ترنم ریاض تا دمِ حیات، وزارت ثقافت (حکومت ہند) کی ’سینئر فیلو‘ کی حیثیت سے بھی سرگرم رہیں۔ترنم ریاض نےہندوستانکے کئی صوبوں کے تعلیمی اور ثقافتی اداروں کے علاوہ مختلف ممالک میں ’سارک ‘ کے کئی ’لٹریری فیسٹول میں اجلاس کی صدارت کی اور اپنی شعری اور نثری تخلیقات بھی پیش کیں۔ 2005 میں اسلام آباد پاکستان میں منعقدہ ’ورلڈ اردو کانفرنس ‘ میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 2010 میں کراچی پاکستان میں ہونے والے ’امن کی آشا‘ لٹر یری فیسٹول میں بھی ترنم ریاض نے شرکت کی۔ 2011 میں انھوں نے کناڈا میں ’انڈین رائٹرس فیسٹول ‘میں لیکچر دیا اور کولمبیا یونیورسٹی میں اپنی شعری تخلیقات سے سامعین کو مسحور کیا۔ مرزا غالب، قرۃالعین حیدر، وارث علوی پر ان کے لیکچرس یادگار مانے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق، تصوف، تانیثیت اور مشترکہ تہذیب کے موضوعات پر ان کے مضامین خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ترنم ریاض ایک عمدہ شاعرہ بھی تھیں اور کشمیر کی معاصر شاعرات رخسانہ جبیں اور شبنم عشائی کی طرح وہ بھی ملکی اور بین الاقوامی مشاعروں میں مدعو کی جاتی رہیں۔ترنم ریاض کو ہندوستان، پاکستان اور کناڈا کے علاوہ قطر اور ریاض ( سعودی عرب ) میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ ترنم ریاض کے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں، مثلاً پرانی کتابوں کی خوشبو، بھادوں کے چاند،زیرسبزہ محوِخواب وغیرہ۔ ترنم ریاض کی شاعری کے مزاج اور معیار کا اندازہ ان کی ایک غزل کے اشعار سے لگایا جا سکتا ہے؎میں درد جاگتی ہوں زخم زخم سوتی ہوںنہنگ جس کو نِگل جائے ایسا موتی ہوںوہ میری فکر کے روزن پہ کیل جڑتا ہےمیں آگہیکے تجسس کو خون روتی ہوںمری دعا میں نہیںمعجزوں کی تاثیریںنصیب کھولنے والی میں کونہوتی ہوںشجر کو دیتی ہوں پانی تو آگ اُگلتا ہےمیں فصل خار کی چُننے کوپھول بوتی ہوںفضا میں پھیل گیاہے،تری زبان کا زہرمیں سانس لینے کی دُشواریوں پہ روتی ہوںترنم ریاض کے ادبی اعمال نامے میں تقریباً بیس تصنیفات شامل ہیں۔ ترنم ریا ض نے دو ناول لکھے ہیں۔پہلا ناول ’مورتی ‘ کے نام سے 2004 میں شائع ہوا۔جس میں ایک حساس (مجسمہ ساز )عورت کی نفسیاتی کشمکش اور شوہر کے رویے کے سبب ’انا‘کی شکستگی کو بڑی سادگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اگر ’مورتی‘ کو ابتدائی تانیثی ناولو ں میں شمار کیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ترنم ریاض کا دوسرا ناول ’برف آشنا پرندے ‘پہلی بار 2009میں شائع ہوا اور اب تک اس ناول کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ترنم ریاض کے مختصر ناولوں کا ایک مجموعہ 2005 میں ’فریبِ خطائے گُل‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں کے کئی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں: یہ تنگ زمیں (1998)، ابابیلیں لوٹ آئیں گی(2002)،یمبرزل (2004)، مرا رختِ سفر(2008)اردو فکشن کے معتبر نقاد وارث علوی نے اپنی کتاب ’گنجفہ باز ِخیال ‘میں لکھا ہے:’’ترنم ریاض ایک غیر معمولی صلاحیت کی افسانہ نگار ہیں۔ترنم ریاض کے یہاں اچھے افسانے اتنی وافر تعداد میںملتے ہیں کہ ہمواری اور ثروت مند ی کا احساس ہوتا ہے۔ترنم ریاض کی ایک بڑی خوبی ان کی فن کارانہ شخصیت کی سادگی ہے۔ ان کے یہاں کوئیArtistic Pretensionsنہیں،کوئی بلند بانگ دعوے نہیں،کوئی تکنیک کی طراریاں نہیں۔کہیں نظر نہیں آتا کہ استعارے، علامتیںاور اساطیر مُنہ میں سو کینڈل پاور کا بلب لیے جلوہ افروزہیں۔ان کے یہاں کاوش اور کاہش کی جگہ برجستگی اور بے ساختگی ہے ‘‘۔ِترنم ریاض کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی ’ اجنبی جزیروں میں ‘کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ ترنم ریاض ساہتیہ اکیڈمی، منسٹری آف کلچر اور ادبی سمیناروں کے لیے تنقیدی مضامین بھی لکھتی رہیں۔ان مضامین کو انھوں نے ’ چشمۂ نقشِ قدم‘کے نام سے ترتیب دیا تھا،لیکن بحیثیت مجموعی میرے خیال میں ترنم ریاض کو ان کے شاہکار کشمیر مرکوز ناول’برف آشنا پرندے ‘ کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ برف آشنا پرندے،کشمیری سائیکی، سماج اور ثقافت کا رزمیہ ہے۔ اکیسویں صدی میں یوں تو ’نا دید‘ (جوگندر پال )، چاندنی بیگم (قرۃالعین حیدر )، مکان (پیغام آفاقی )، مسلمان (مشرف عالم ذوقی )، اور دویہ بانی ( غضنفر ) اور برف آشنا پرندے کے بعد یا ساتھ ساتھ جو کئی شاہکار ناول منظر عام پر آئے مثلاً ’اماوس میں خواب‘ ( حسین الحق)، جہاں تیرا ہے یا میرا (عبدالصمد )، فائر ایریا (الیاس احمد گدی )، عندلیب بر شاخ شب (شائستہ فاخری )، کہانی کوئی سناو متاشا (صادقہ نواب سحر )، خواب سراب (انیس اشفاق )، ندی(شموئل احمد )، بُلہا کیہ جاناں میں کون ‘(ذکیہ مشہدی ) اور شبیر احمد کے ’ہجور آما‘ سے لے کر محسن خان کے ’ اللہ میاں کا کارخانہ ‘ تک ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ ناول سامنے آئے لیکن ان میں ترنم ریاض کے ناول ’بر ف آشنا پرندے ‘کا انفراد و امتیاز یہ ہے کہ اس ناول میں پہلی بار سِکھ دور سے لے کر ڈوگرہ دور تک کے جبر اور صبر کے واقعات کمال فنی و جمالیاتی در و بست کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ تاریخی،سیاسی،سماجی اور ثقافتی نشیب و فراز اور انتشار و بحران نے کشمیری عوام کی نفسیات،جذبات اور محسوسات پر کس قدر منفی اثرات مرتب کیے ہیں،ترنم ریاض نے اس کی تصویر کشی ناول کے کرداروں،شیبا،پروفیسر دانش، پروفیسر شہاب، نجم خان، سلیم میاں،ثریا بیگم،سیمیں، خدا بخش، سکینہ بیگم اور باب صاحب وغیر ہ کے حوالے سے بڑی خوبی سے کی ہے۔ ترنم ریاض نے کشمیر کے مختلف طبقوں کے ان کرداروں کے شعور اور لاشعور میں اتر کر،لا محدود امکانات کے ساتھ جس طرح ان کاImpersonal Narrationکیا ہے اس کی بنا پر برف آشنا پرندے کی موضوعی پرواز کشمیر سے شروع تو ہوتی ہے لیکن اس کا آسما ن آفاقی ہے۔اس ناول میں ’بیانیہ ‘کا ایسا منفرد روپ ملتا ہے جس میں کردار کی خارجی زندگی سے کہیں زیادہ داخلی زندگی کی وضاحت کی گئی ہے۔ ترنم ریاض نے کشمیر اور اہل کشمیر کے تئیں استحصالی قوتوں کےColonial Attitudeکے خلاف اہل کشمیر کی احتجاجی سوچ کااظہار اس طرح کیا ہے:’’عجب محرومی تھی اس وادی کی معصومیت اور سادگی کی، کہ کوئی دوسرے خطوں سے اور کوئی سمندر پار سے آکراس کی قسمت کا مالک ہو جاتا تھا۔افغانوں اور سکھوں نے اگر کوئی کسر چھوڑی تھی تو وہ ڈوگرہ راج میں پوری ہو گئی۔‘‘ (ص 259)آزادی سے قبل کشمیریوں پر جو مظالم ڈھائے گئے، ویسے مظالم ’ابو غریب‘ کے عقوبت خانوں میں امریکیوں نے عراقیوں پر بھی نہ ڈھائے ہوںگے۔اس کا اندازہ ’گلگِت بیگار ‘کے حوالے سے درج ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:’’۔۔۔۔گلگت ‘ ریاست جموں کشمیر کی آخری سرحد تھا۔۔۔۔ جہاں بد نصیب کشمیریوں کو (بیگار کے لیے )سالم و ثابت بھیجا جاتا تھا،اور اکثر ان کے جسم کا ایک ٹکڑا یعنی ’سر‘ واپس آتا تھا،بہت سے سر،لاریوں میں ٹُھنسے ہوئے بے شمار سر۔بچ گئے افراد کی لاشوں کی بجائے اُن کے مجبور و مظلوم وارثوں کے حوالے ان کے عزیزوں کے ’سر ‘ کیے جاتے تھے کہ کوئی کیوں غلام قوم کے لواحقین کی سالِم لاشیں ان کے حوالے کرتا اور وہ انھیںصحیح طرح سپرد خاک کرکے اپنے مجروح سینوں پر جدائی کی سِل رکھ لیتے۔‘‘(ص261)برف آشنا پرندے میں ترنم نے کشمیر کی تاریخ نہیں دُہرائی ہے بلکہ تاریخی حقائق کی تہوں کو کھولا ہے اور جو کچھ ہاتھ آیا ہے انھیں گرفت میں لے کر بڑی مہارت کے ساتھ ناول کے اصل موضوع کی طرف لوٹ آئی ہیں۔ لیکن ناول کے بیانیہ کو آگے بڑھانے اور اپنے نقطہ نظر کو مستحکم کرنے کی غرض سے کشمیر کی دلدوز تاریخی جہات کو بھی مزید واضح بھی کرتی گئی ہیں:’’سن انیس سو اکتیس سے لے کر سن چھیالیس تک کشمیر کی عوامی تحریک نہ صرف برِصغیر میں بلکہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کر لی گئی تھی۔‘‘ (ص 260)’’اس تاریخی حقیقت سے چشم پوشی کی جاتی ہے کہ جب سرحدوں پر قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا،وادی کشمیر پُر سکون تھی، غیر مسلم اقلیتیں،مسلم اکثریت کے حفظ وامان میں شادماں تھی۔پوری وادی میں لوگ ٹولیاں بنا بنا کر عوام کو صبر و تحمل کی تلقین کر رہے تھے۔حملہ آور خبردار،ہم کشمیری ہیں تیارشیرکشمیر کا کیا ارشاد،ہندو مسلمسکھ اتحاد۔‘‘ ( ص272)آزادی سے پہلے،پُرکشش نعروں اور وعدوں سے پوری ریاست گونج رہی تھی:1’’سرداری عوام کا حق ہے۔یہ ملک ہمارا ہے،اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔‘‘شیخ محمد عبداللہ(ص 269)2’’کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں‘‘۔ جواہر لعل نہرو(ص 270)3’’اب جب کہ پورا برِ صغیر گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوب گیا ہے،مجھے کشمیر سے روشنی کی کرن نظر آتی ہے۔ مہاتما گاندھی۔ (ص 272)ترنم ریاض اردو اور ہندی ادبیات کے علاوہ مغربی ادبیات کے بھی جدید ترین تخلیقی رویوں، رحجانات اور نظریات کا گہرا شعور رکھتی تھیں۔اسی لیے ان کی تخلیقات میں، خواہ وہ شاعری ہو یا افسانہ،ناول ہو یا سماجی یا تنقیدی مضامین،ہر جگہ ان کی فکریات،اظہار و بیان اور اصناف کے فنی و جمالیاتی تقاضوں کے برتائو میں اجتہاد اور آزادہ روی کے عناصر کا غلبہ نظر آتا ہے۔دراصل ترنم ریاض کے ادبی سفر کا زمانہ1980کے آس پاس سے شروع ہوتا ہے۔یہ وہ زمانہ ہے جب اردو میں سوسئیر کے نظریۂ لسان اور رولاں بارتھ اور دریدا کے ساختیات،پس ساختیات اور ردِ تشکیل وغیرہ نظریات کے زیر اثر جدیدیت کا رحجان مجہول اورمابعد جدید تصور مضبوط و مستحکم ہورہا تھا۔ عالمی سطح پر تخلیقی اور تنقیدی ادب میں داخلی اور خارجی ہر اعتبار سے اجتہاد اور تجربہ پسندی کا رحجان عام ہو رہا تھا۔خاص طور پر گیبریل گارسیامارکیز کے ناول’تنہائی کے سو سال ‘ کی مقبولیت، اور روسی ہئیت پسندوںجیکوبسن اور شکلووسکی کے علاوہجولیا کرسٹیواوغیرہ کے، ’ادب میں زبان کی کار کردگی‘ اور ’ادب کی ادبیت ‘ جیسے نظریات کی مقبولیت کے بعد عالمی سطح پر (تخلیقی اور تنقیدی )ادب میں تعمیری اور انسان دوست بصیرت مندی کو برتنے کا جو رحجان عام ہوا، اردو میں اس کی عمدہ مثالیں قرۃالعین حیدر اور لالی چودھری کے بعد ترنم ریاض کے یہاں بھی ملتی ہیں۔اگر’ برف آشنا پرندے‘ اور ترنم ریاض کی دیگر تخلیقات کی بھی سنجیدہ قرأت کی جائے تو ادب عالیہ سے متعلق یہ بات درست معلوم ہوگی کہ کسی بھی فن کار کے فن کے انفراد اور اعتبار کا ایک جواز یہ بھی ہوتا ہے کہ جس معاشرے اور ثقافت کے حوالے سے اس فن کار کا فن پارہ ( ناول،افسانہ، نظم یا شعر ) لکھا گیا ہے، اس معاشرے کی سائیکی اور ثقافت کی ’تعمیر نو‘ کے امکانات بھی اس فن پارے میں موجود ہوں۔ اس اعتبارسے بحیثیت مجموعی ترنم ریاض کا فن (فکشن،شاعری اور مضامین )کشمیری سائیکی کا بے باک ترجمان توہے ہی، ساتھ ہی فکری اعتبار سے اہلِ کشمیر / قارئین کو،کشمیر کی ’تعمیر نو‘کے امکانات سے رُو برو کرنے کی کامیاب کوشش سے بھی عبارت ہے۔Quddus JavedEx. Head Dept of UrduKashmir University- 190006 (J&K)Mob.: 9419010472" اردو ادب و صحافت کے امام: افتخار امام صدیقی- مضمون نگار۔ شمع اختر کاظمی,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/07/,"ماضی سے عہد حاضر تک اردو کے بے شمارادبی و نیم ادبی رسائل و جرائد شائع ہوئے لیکن تجزیہ نگاروں اور علم و ادب کے پارکھیوں نے پہلے آگرہ اور پھر ممبئی سے نکلنے والا رسالہ ماہنامہ ’شاعر‘ کو ادبی رسالوں کا سرتاج ہی نہیں قافلۂ سالارکہا۔ ’شاعر‘ کو یہ افتخار حاصل ہے کہ ہر دور میں اسے ممتاز و مقتدر اہل قلم کا تعاون حاصل رہا، بلکہ اردو ادب کے قابل قدر قلم کاروں نے اپنی تخلیقات کے شاعر میں شائع ہونے پر فخر محسوس کیا۔شاعر کے تاحال ایڈیٹر افتخار امام احمد صدیقی 16 ستمبر 1947کو آگرہ میں پیدا ہوئے اور طویل علالت کے بعد 4 اپریل 2021 کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ وہ ایک ایسے گھرانے کے چشم و چراغ تھے جو نہ صرف شعر و ادب کا شیدائی بلکہ شعرا و ادبا کا قدردان، منکسرالمزاج، مہمان نواز اور انتہائی مہذب بھی ہے۔ اپنے والد محترم اعجاز صدیقی کی رحلت کے بعد تاجدار احتشام صدیقی کے ایما پر رسالہ شاعر کی باگ ڈور افتخار امام صدیقی نے سنبھالی۔غالباً یہ مارچ 1978 کا زمانہ تھا۔ ادبی رسالے کے مسائل اور اس کا کرب ان پر ظاہر تھا پھر بھی اپنے اسلاف کی ادبی وراثت کو زندہ رکھنے کی خاطر بہت ساری قربانیاں دیں۔ شاعر جیسے تاریخ ساز رسالے کو ایک تاریخی تسلسل سے ہم کنار رکھا۔ خرابیِ صحت کے باوجود اردو زبان کے کسی رسالے یا مجلے کی طویل مدتی اشاعت، ادبی صحافت کے چٹیل میدان میں لالہ و گل کھلانے کے مترادف ہے۔ایک متحرک و متنوع شخصیت کا نام افتخار امام صدیقی تھا جن کی ذات بہت سارے اوصاف کی جامع خوبیوں کی حامل تھی۔ صحافتی، علمی، ادبی ہر میدان میں ایک انفرادی مقام رکھتے تھے۔ باکمال شاعر و صحافی ہی نہیں باوصف انسان بھی تھے۔ جن کا ذہن و قلم ہمہ دم تروتازہ رہا۔ وہ اپنی فطری ذہانت کے ساتھ اپنے چاہنے والوں پر خلوص پسند مشوروں کے لعل و گہر لٹاتے۔ شاعری ‘ ادب و صحافت کی روشنائی سے انسانیت کی راہ اجالنے والے افتخار امام جنھیں رب العالمین نے کمال خوبیوں سے نوازا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی برسوں کنج تنہائی میں گزاردی، جس گھر میں شعور کی آنکھیں کھولی وہاں ہر طرف شعرو سخن کے چرچے تھے، شعرا و ادبا کی آمدورفت تھی، ادبی محفلوں کی دھوم اور طبیعت میں خداداد شعری صلاحیت تھی، یہی وجہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ممبئی اور پھر عالمی مشاعرے کے ایک مقبول ترین غزل گو شاعروں کی صف میں شمار کیے جانے لگے۔ ان کے کلام میں غیر صالح خیالات و جذبات کا کہیں گذر نہیں۔ قربان جایئے کہ بڑھتی ہوئی عمر اور نقاہت کے باوجود تخلیقی قوتوں میں کوئی فرق پڑا نہ یادداشت میں بلکہ حافظہ غضب کا رہا۔ شاعری ذاتی تجربات و ذہنی کیفیات کی دین رہی وہ عالمگیر سطح پر عام انسانوں کے مسائل اور مقتدر جماعت کے کارناموں سے بھی واقف تھے؎ایسا نہ ہو کہ خواب ہی ہوجائے آدمیآبادیوں میں پھیلتے جنگل کو روکیےجب افکار کے دریچے کھلتے تو لفظیات کی تلاش اور جملوں کے دروبست انھیں حیران نہیں کرتے۔ نئے اچھوتے لفظ اور جملے خلق کرتے۔ ایسی ایک دنیا ان کے سوچ کینوس میں آباد تھی اس کا بھلا مشاہدہ رسالہ شاعر کے ہر شمارے میں کیا جاسکتا ہے۔ کسی فنکار، انشا پرداز کی شخصیت و کردار اور اس کے کارناموں کا اختصار نویسی کے ساتھ لفظوں کی جادوبیانی سے ایسا مرقع تراشتے کہ قلم کار پردۂ خفا سے کاغذ پر اترآتا۔ محسوس یہ ہوتا گویا چند جملوں میں تخلیق کار کو اس کی فنی خوبیوں اور کارناموں کے حوالے سے قاری کے روبرو کردیا گیا ہو۔ ایسی تحریری تصویر کشی سے ان کے باریک بین، گوہر شناس اور بصیرت افروز نقدو نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔افتخار امام صدیقی کی طبیعت میں کمال بے نیازی کا غرّہ تھا۔ تمکین و تمکنت کے جذبے سے نہاں حلم و انکساری بھی دامن گیر تھی لیکن مزاج میں نہ خودسری اور نہ درشتی تھی وہ پرخلوص، مشفقانہ احترام کے جذبے سے نہال تھے۔ کرب تھا تو برسوں کی بے کراں تنہائی کا، وہ ہمیشہ رجائیت پسند رہے۔ ہزارہا کرب آزار و تنہائی کے نئے چراغوں کی باتی بڑھاتے، ان کے ظاہر و باطن میں کوئی فرق نہ تھا۔ نیک طینت، شریف النفس، خوش فکری اور نرم خوئی ان کے کردار و افکار کو اونچا بناتی تھی۔ کبھی کبھی گفتگو کے دوران خاموشی کا لمحہ طویل ہوجاتا یہ بیماری کا تقاضہ تھا یا فطرت کا خاصہ، پتہ نہیں۔ یہ فرض کفایہ مانی بھائی (ناظر نعمان صدیقی) ادا کرتے۔ ایک محفل پسند شاعر کی ایسی اتھاہ خاموشی میں پنہاں صبر ان کے کرب کو سمجھنے پر دلالت کرتا ہے۔ وہ علم و ادب کے سفیر تھے۔ اپنا کرب اپنے سینے میں سمیٹے ادب کے قاری کو ادب فہمی اور ادب نوازی کے ہزارہا طریقے بتاتے رہے۔ زندگی میں ماندگی کے کئی موڑ آئے مگر مثبت انداز فکر اورحوصلے سے سب کا رخ موڑ دیا۔ حادثے انھیں آزماتے رہے اور عارضے اپنا شکار بناتے رہے۔ یہاں تک کہ بصارت اور سماعت تھک گئیں۔ مطالعے کی خاطر بلوری شیشے کا سہارا لیتے، جسم کی ہڈیاں خستہ جاں ہوچکی تھیں۔ ہمہ وقت بھائی مانی سائے کی طرح ساتھ رہتے۔ بقول مانی بھائی۔ ’’ ہم تو اب زرد پتہ ہیں کب جھڑ جائیں پتہ نہیں، مگر یا اللہ مجھے افتخار کے بعد اٹھانا میرے بعد ان کا کیا ہوگا...؟ یہ ایک بھائی کی اپنے بھائی کے لیے ایسی دردمندی کہ جس میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر پنہاں تھا۔ اپنا گھربار، بیوی بچے، کہیں آنا جانا وہ سب کچھ بھائی افتخار کی دیکھ ریکھ پر قربان کر بیٹھے تھے۔افتخار امام صدیقی نے اپنی معذوری کو ہمیشہ مثبت انداز میں قبول کیا۔ کبھی شکوہ سنج نہ رہے۔ برسوں گوشہ نشینی کا کرب جھیلا پھر بھی انسان دوستی کا فریضہ ادا کیا۔ ٹرین حادثے میں زخمی ہوئے اور پھر لگاتار کوئی نہ کوئی افتاد انھیں آزماتی رہی۔دو دہائیوں سے زائد عرصہ وہ صاحب فراش رہے۔ پے در پے عارضے کا حملہ مگر واللہ کیا ذات رب پر توکل کامل، ہمہ وقت ان کا دماغ منصوبے ترتیب دیتا، جدت پسندی شاعر کے ہر شمارے میں دیکھی جاسکتی تھی۔ ادبی اختراع اور یادداشت کی درستگی پر سخت حیرت کہ اس لاغر و ناتواں جسم کا دماغ اتنا توانا... آخر یہ ناتواں جسم کس قدر بوجھ برداشت کرتا، حافظہ اور حوصلہ جسم و جاں سے مطابقت بھی نہیں رکھتے تھے۔ اپنے ایک شعر میں انھوں نے درست ہی کہا؎کون ہے کس کی دعاؤں کی چھاؤں میںچل رہی ہے سانس تلواروں کے بیچمرحوم کی حمدونعت، سلام و منقبت جیسی تقدیسی شاعری اپنی پوری تابانی کے ساتھ دین فطرت سے مستعار نظر آتی ہے۔ حتی کہ نظموں اور غزلوں میں بھی ان کے پاکیزہ خیالات، معاشرے و سماج کی فکرمندی، انسانیت و اقدار کے زوال کا درد اور فطرت کا عکس ان میں نظر آتا ہے۔ انھوں نے امریکہ، کینیڈا، لندن، پاکستان اور خلیجی ممالک کے مشاعروں میں شرکت کی۔ ان کے دو شعری مجموعے ’چاند غزل‘ اور ’یہ شاعری نہیں ہے‘ زیر ترتیب تھے۔ حمد اور نعت کی بھی دو کتابیں ترتیب دے چکے تھے۔ افتخار صاحب کی غزلوں کو اپنی آواز سے سجانے والوں میں چترا سنگھ، جگجیت سنگھ، چندن داس، پنکج اداس اور سدھا ملہوترا ہیں۔مستقل علالت اور کمزوری کے باوجود وہ بستر ہی سے ماہنامہ شاعر کی ادارتی ذمے داری کو ادا کررہے تھے۔ شاعر کے متعدد خصوصی شمارے شائع ہوئے جس نے ادبی رسالوں میں اپنی منفرد پہچان بنائی۔ اردو کی نئی بستیوں کے قلم کاروں کو متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔ زندگی کے آخری ایام تک تقریباً سو قلم کاروں سے تحریری انٹرویو لیے، باصلاحیت خواتین کی ادب کی راہ تک رہنمائی کی اور شاعر کے صفحات ان کے اعتراف ذات میں پیش کیے۔ شاعر ان کی ادارت میں مارچ 1978 سے تاحال بلاناغہ اسی آن بان اور شان سے جاری ہے جس طرح ان کے والد مرحوم اعجاز صدیقی اور دادا سیماب اکبرآبادی نے جاری رکھا تھا۔ رسالہ شاعر کا طرۂ امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں خالص ادبی و لسانی مواد کو زیربحث لایا جاتا ہے۔ ادبی نظریات، ترجیحات و تبادلۂ خیال ترسیل کا ذریعہ بنتے ہیں جو اپنے عہد کے لسانی رجحانات اور افکار و مزاج کا عکاس ہوتے ہیں۔شاعر کے ایک قدیم شمارے میں کائنات، آدمی، نظریہ اور زندگی کے عنوان سے تحریر کردہ اداریے اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ نثرنگاری کے فن میں بھی انہیں مہارت حاصل تھی۔ ایک خودساختہ مشن کے ذریعے نئے قلم کاروں کو دعوت فکر دیتے رہے ہیں۔ شاعر کے اداریے میں وہ لکھتے ہیں۔’’سوال یہ ہے کہ کیا نظریے کے بغیر ادب تخلیق نہیں ہوسکتا...؟ سوال یہ بھی ہے کہ نظریے کے بغیر زندگی بسر کی جاسکتی ہے کہ نہیں...؟ مگر میں فکرمندہوں نئی نسل کے لیے جو ترقی پسندی یا جدیدیت کے الجھاؤ میں پڑے بغیر ادب تخلیق کرنا چاہتی ہے یا ادب تخلیق کررہی ہے۔ دراصل نظریہ یا رجحان جو بھی کہہ لیں، اس نے قلم کار اور قاری دونوں ہی کا مزاج خراب کردیا ہے۔ ترقی پسندوں نے اپنا ادب اور جدیدیوں نے اپنا ادب دونوں ہی نے انتہا پسندی کی بھی انتہا کردی۔ نظریہ مذہبی ہو یا مادی، نظریہ ساز بھول جاتے ہیں کہ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ نا ابتدا کی خبر ہے نا انتہا معلوم سانسوں کا شور اور اپنے ہونے کا تھوڑا بہت ادراک اور اپنے آس پاس کو ٹھیک ٹھاک رکھنے کی خواہش اور خواہش کی تعمیر، ارتقا پذیر دنیا میں کوئی بھی آئیڈیا لوجی بہت دور تک نہیں جاتی، اپنا اچھا برا کردار ادا کرتی ہے، یا تو ختم ہوجاتی ہے یا پھر شکل بدل لیتی ہے۔ شب و روز کے تسلسل میں چلتے پھرتے آدمی کی بنیادی جبلتیں مر تو نہیں گئیں۔ ایک دوسرے سے خوفزدہ آدمی سرحد وںسے باہر کب آیا ہے...؟ ہاں اتنا شائستہ ضرور ہوگیا ہے کہ بہت پہلے پتھروں سے اپنا دفاع کرتا تھا۔بیسویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے اس نے جدید مہلک ہتھیار بنالیے ہیں۔ آدمی کے بنیادی مسائل اپنی جگہ ہیں اور اس کی ساری تگ و دَو اسی کے لیے ہیں۔ کوئی پل کوئی لمحہ ایسا نہیں جس نے آدمی کو اپنی بنیادی ضرورتوں سے بے نیاز کردیا ہو۔ طاقت، اقتدار اور تحفظ کسی بھی نظریے کا تصور اور نفاذ ان کے بغیر ممکن نہیں۔ نظریوں کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کسی بھی نظریے کے اچھے برے اثرات تو مرتب ہوتے ہیں، کسی عالمی سماج کی تشکیل و تعمیر کا خواب دیکھنے کی عملی صورتوں میں اختلاف بھی شامل ہوتا رہتا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ اس کی نفسیاتی و جمالیاتی سطحیں بھی اپنا دفاع کرتی رہتی ہیں۔اردو میں نقاد و دانشور یہ تو بتارہے ہیں کہ عالمی سطح پر جدید فکری صورت حال کیا ہے۔ سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی سطح پر نظریوں کو اب کس طرح دیکھا جارہا ہے۔ وہ باخبر تو ہیں اور بضد بھی کہ جو اطلاعات وہ فراہم کررہے ہیں انہیں تسلیم کیا جائے۔ لیکن چونکہ ان کا اپنا کوئی فکری نظام نہیں ہے۔ لہٰذا نئی نسل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسے اب بھی ترقی پسند نظریے کے تحت اپنا ادب تخلیق کرنا ہے یا پھر جدیدیت یا مابعد جدیدیت کے رجحان کو اپناتے ہوئے اپنا تخلیقی نظام قائم کرنا ہے۔ مگر ایک تیسری صورتحال بھی ابھر رہی ہے۔ (تیسری دنیا نہیں) اور وہ یہ کہ بغیر کسی نظریاتی وابستگی کے آزادانہ طور پر ادب تخلیق کیا جائے۔ تمام نظریوں کی کسی مشترک فکری اساس کے بغیر۔تخلیقی ذہن، نظریوں کا پابند نہیں ہوتا،  اگر وہ بڑا اور سچا فن کار ہے تو اپنا نظریہ خود پیش کرتا ہے۔ وہ نظریوں سے سچ کو اخذ کرتا ہے اور اسی کا آزادانہ اظہار کرتا ہے۔ خاموشی کو لفظ دیتا ہے، لفظوں میں اپنی آواز رکھتا اور یہ آواز سفر کرتی ہے۔ اس آواز کی روح جتنی توانا ہوگی، آواز باقی رہے گی، روشن رہے گی، عہد بہ عہد سفر کرے گی اور ہر عہد کو منور کرے گی۔فن کار چاہے جس آئیڈیا لوجی سے وابستہ ہو اسے سچ بولنا ہے‘ سچ لکھنا ہے وہ اپنے فکری رویوں سے فن پارے کو جیتا ہے اور اجتماعی آئیڈیالوجی کو سنوارتا ہے‘ نا کہ نظریے کا مبلغ بن جاتا ہے۔ اردو میں مبلغ و مقلد بہت ہوئے ہیں مگر جنوئن یا جئنیس فنکاروں کی کمی رہی ہے۔ سچا فنکار قطعی آزاد مزاج ہوتا ہے وہ کہیں ٹھہرنا پسند نہیں کرتا کھلی آنکھوں اور کشادہ ذہن سے دیکھتا اور سوچتا ہے۔ اپنے آپ میں جذب کرتا رہتا ہے۔ ہم عصر اردو ادب میں فلسفۂ جمالیات اور تنقید کے دبستانوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن تخلیقی ذہن بہرحال ان دبستانوں میں قید نہیں ہوتا وہ ان میں رچ بس جاتا ہے اور پھر ان سے ابھر جاتا ہے۔ ساری کوششیں اسی کے لیے ہونی چاہئیں جو عموماً ہوتی نہیں ہیں۔ کیونکہ نئے قلم کاروں کو گمراہ کرنے والی تنقیدی تحریریں اپنا کام بھی کرتی رہتی ہیں۔ آج بھی یہی ہورہا ہے۔مگر نئے قلم کاروں کو نہ صرف یہ کہ اپنے عہد کو پوری طرح محسوس کرنا ہے بلکہ آنے والے زمانوں کی دھمک کو بھی سننے کی سعی پیہم کرنا ہے۔ نظریہ چاہے سیاسی ہو سماجی یا مذہبی، انتہاپسندی سے بچتے ہوئے اس سے استفادہ کرنے اور ادب و فنون میں اس کے مناسب نفوذ کا شعور پیدا کرنا چاہیے۔ میں مذہب کو برا نہیں سمجھتا مگر ان کے خلاف ہوں جو مذہب کی گفتگو کرنے والوں کو بنیاد پرست کہتے ہیں۔ نظریوں کی زندگی یا موت کی بحث میں مذہب زیر بحث آنا چاہیے مگر وہ مذہب نہیں جو سیاسی ہو۔‘‘افتخار امام صدیقی کی مقبولیت اور عظمت کا راز دراصل ان کی صلاحیتوں اور بے پایاں فکر و فن میں پوشیدہ ہے۔ گو کہ وہ ایک منفرد لب و لہجے کے جدت پسند شاعر تھے لیکن انھیں اداریہ نگاری میں یدطولیٰ حاصل تھا۔ اردو میں اداریہ نگاری کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہ مشکل فن ایک بیدار متنوع ذہن چاہتا ہے۔ اداریے کے مطالعے سے حالات حاضرہ سے لے کر ادب، تاریخ، فلسفہ، طنز و مزاح سب کچھ صحافی کے قلم کی زد پر رہتا ہے اور جن کے پاس بے پناہ مدیرانہ صلاحیتیں، ادب و شاعری تینوں جوہر موجود ہوں تو ان کی زبان اور ذہن میں خلاقانہ شان پیدا ہوجاتی ہے تب اداریہ دل و دماغ کی تربیت کا فریضہ ادا کرتا ہے، ادبی مسائل کی گرہ کشائی کرتا ہے ادب کے کھوکھلے پن کو اجاگر کرتا ہے اور ادب کی صالح اور دیرپا قدروں کے فروغ میں حصہ لیتا ہے۔ رسائل و جرائد کے اداریے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ کن قدروں کا پاس دار ہے۔ اس کا مزاج کیسا ہے۔ افتخار امام صدیقی کے اداریے ہمیشہ منفرد، نئے موضوعات و ادبی مسائل پر اپنا اشارتاً نہیں بلکہ واضح طور پر اپنا مدعا بیان کرتے، کسی خاص نظریے اور موضوع کے تحت تحریر کیے جانے والے اداریے عصری حسیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ انھوں نے مدیرانہ، مدبرانہ اور شاعرانہ زبان میں بسا اوقات حق اداریہ ادا کیا۔ مختصر اور جامع اداریے بھی تحریر کیے مگر اپنی اثرپذیری سے ایک جہاں کو متاثر کیا۔ ان کی تحریروں میں الفاظ اور جملے بھرتی کے نہیں ہوتے بلکہ ہر لفظ اور جملے سے معنی کا ایک جہاں ابھرتا تھا۔ ادب، جمالیات اور صحافت سے متعلق اپنا واضح نظریہ ’افتخار‘ رکھنے والے ’امام‘ نے ادب اور ادبی صحافت کی خدمت کو اپنا وظیفۂ حیات بنالیا تھا۔ رسالہ ’شاعر‘ کے اداریے کے ذریعے انھوں نے میدان ادب میں فرمانروائے فکر و فن کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ اپنی بات کو نئی سوچ، نئے رنگ، نئے احساس، نئی زبان، نئی لفظیات اور نئے جملوں کے قالب میں ڈھال کرقاری کو نئی طرز تحریر سے آشنا ہی نہیں کیا بلکہ نئی اسلوبی راہیں بھی دریافت کیں۔ انھوں نے اعترافی ادب میں بھی اسی جدت طبع سے کام لیا۔ اداریہ نگاری ایسا بحرذ خار کہ اچھے اچھوں کو اس میں ڈوبتے دیکھا گیا۔ اس کی تھاہ پالینا سب کے بس کی بات نہیں۔زبان ویسے بھی تغیر بذیر شئے ہے اور اردو زبان تو بہت سے چولے بدل کر ہم تک پہنچی ہے۔ یہ کسی کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نہیں، یہ خود ساختہ زبان و زماں، ذہنوں ذہن سفر کرتی سوچ کو لفظ عطا کرتی، مزدور، کاریگر، صنعت کار، فنکار اور تخلیق کاروںکے الفاظ، سوچ فکر، خودداری اور خود اعتمادی کے ساتھ مسکراکر سب کو اپنا محبوب بناکر اور اپنا نیا روپ دکھا کرآگے بڑھ جاتی ہے۔ یہ سلسلہ صدیوں صدی سے جاری ہے۔ کچھ جگمگاتے، حیرت زدہ کرتے، سنہرے الفاظ کے جادو کی چھڑی اپنے دیوانوں کو سونپ کر کہیں اور نکل جاتی ہے۔ جدیدلفظوں کی یہ شہزادی ہر دور میں آتی رہی ہے اور آئے گی۔افتخار امام نے نصف صدی سے زائد عرصے تک کاروان ادب و صحافت کی سالاری کی، تہذیب و ثقافت کے دیے روشن کیے ان کی واحد دلچسپی ادب، ادبیات اور ادبی صحافت سے تھی۔ محبت اور جاںنثاری کے جس شعبے سے وہ اٹھتے تھے وہ ان کی پسندیدہ اور تخلیق کردہ تھی۔ اخباری صحافت کی بنسبت ادبی صحافت کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔  چونکہ ادبی رسائل سیاست دانوں کے بیان اور تقریر نہیں چھاپتے نہ تبصرے کرتے نہ تصویر شائع کرتے ہیں۔ وہ سیاسی پارٹیوں کے اتار چڑھاؤ اور ابن آدم کے خرید و فروخت کے دام تک نہیں بتاسکتے۔، کسی معجون اعظم، قرص مقوی کے اشتہار ہوں یا ضرورت رشتہ کا اشتہار وہ شائع نہیں کرتے۔ اپنی پوری توجہ، زبان و ادب، لسانیات، ادبی مسائل، ادبی شخصیات، اجرا و وفات پر رکھتے ہیں۔ یہ ایسا جرم کہ جس کی وجہ سے ان کا حلقۂ اشاعت، تعداد اشاعت دونوں متاثر و محدود ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی طباعت کے مصارف، اشاعت کی مشکلات، کاغذ کی فراہمی، سرکیولیشن کا مسئلہ مسلسل سر پر سوار رہتا ہے۔ وزیروں، سفیروں اور سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کو ان سے کوئی نسبت بھی نہیں ہوتی۔ ان کی نظر کرم ایسے خشک رسالوں تک بھلا کیوں پڑے...؟ اس پر افتاد یہ کہ ادبی رسائل اپنے معیار و وقار کے دائرے میں محبوس اور زرآمد کے ذرائع مفقود۔ رسالے کا وقت پر شائع ہونا ہی بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ ایسے مسائل سے اکیلے شخص کا گزر نا پل صراط طے کرنے کے برابر ہوتا ہے جس کا اعتراف افتخار صاحب نے برجستہ اپنے اداریے میں بارہا کیا تھا۔ تمام اخراجات کا بار ان کے نوک قلم پر ٹکا ہوا تھا۔ ساتھ ہی زندگی کی ضروریات، مسائل اور شکم کے تقاضے بھی تھے۔ اپنی ذہانت اور جدوجہد سے رسالہ شاعر کو بلندی تک پہنچایا۔ ایک خوددار، آزردہ اور خلوت انجمن پسند انسان، صحافت کے کالے بازار میں معاش اور ادب کی خاطر یرقانیت کے کاروبار کا جھولا لٹکائے برسوں کھڑا رہا مگر اس کے ہاتھ اور کردار ہمیشہ اجلے رہے۔ وہ دنیا سے چلا گیا۔ اپنے پیچھے مال و زر نہیں عزت و افتخار چھوڑگیا۔ایک دین دار، متقی، پرہیزگار، نیک طنیت انسان جن کی فطرت میں انکساری اور متحمل مزاجی رچی بسی تھی، شاعروں، ادیبوں اور تخلیقی فن کاروں کی قدر و منزلت کرنے والے افتخار امام جیسے محسن اردو کی غیر معمولی کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ کسی کی موت کے بعد ان کے حوالے سے ہم سب بارہا باتیں کرتے ہیں۔ موت نے کیسے کیسے باغ و بہار شخص سے ہمیں محروم کردیا جن کا ہم احترام کرتے ہیں۔ ان کے لیے تعزیتی کالم لکھنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔شاعر خاندان نے جس طرح مصائب و افتاد کا سامنا کیا اور ثابت قدم رہے۔ نامساعد حالات کے باوجود ثابت قدمی کی بنیاد بیگم اعجاز صدیقی رہیں۔ محترمہ نسیم بانو اعجاز صدیقی دراصل حالات کے مارے اس خاندان کی سب سے بڑی طاقت و قوت تھیں۔ ماہنامہ شاعراور شاعر خانوادے کو ایک برانڈ بنادیا۔ اس کی حرمت اور دائمیت کو قائم رکھنے میں محترمہ نسیم بانو اعجاز صدیقی کا کردار اہم ہی نہیں اساسی نوعیت کا حامل بھی ہے۔افتخار امام صدیقی نے جس گھرانے میں آنکھیں کھولی، بچپن گزرا، وہاں خونی رشتوں کا ہی نہیںبغرض ملاقات آنے والوں کا بھی احترام کیا جاتا، ادبا و شعرا کا خیرمقدم ہوتا، آگرہ سے ممبئی تک ہر دور میں زبان و ادب سے وابستہ خواتین بصد شوق ملاقات کو جاتیں تو خانوادۂ سیماب کی مستورات ان کی خوب پذیرائی اور خاطر مدارت کرتیں۔ ایک ملاقات کے دوران افتخار صاحب نے بتایا کہ’’ہمارے بچپن کے زمانے میں مہنگائی ایسی نہ تھی لوگ بڑے مخلص تھے۔ کوئی تخلیق کار خاتون ہمارے گھر ملنے آتیں تو گھر کی عورتیں انہیں گھیر لیتی، خوب خاطر ہوتی، ہماری دادی جان ان کی آمدورفت کے اخراجات اور جوڑے انہیں دیتیں، ہتھیلی پر کچھ نذرانے بڑے شوق سے رکھتیں اور پھر کسی قریبی رشتے سے وابستگی باندھ لیتیں اور ہمیشہ اسی رشتے سے ان کا ناطہ جڑ جاتا۔ یہ ہمارے ادبی خاندان کی تہذیبی روایت رہی ہے۔۔۔‘‘آج ایک خوش خلق اور مشفق شخصیت ہماری نگاہوں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوگئی۔ افتخار صاحب کی موت ایک بڑا ادبی خسارہ ہے۔ جس کا ازالہ تقریباً ناممکن ہے ان کی مقبولیت اور شہرت کو سرحدوں میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ ماہنامہ شاعر جو عنقریب اپنی اشاعت کے سو سال مکمل کرلے گا۔ بلاشبہ افتخار امام صدیقی اردو کی ادبی صحافت کا افتخار تھے۔ افسوس کہ ادب کے اس ’’امام‘‘ کی آواز ہمیشہ کے لیے بے صدا ہوگئی۔پتہ نہیں پہلے پہل میں نے انھیں بھائی کب کہا یا انھوں نے مجھے بہن کا درجہ دیا لیکن اس مقدس رشتے کا تمام حسن انہوں نے قائم رکھا۔ ہمیشہ میرے ساتھ ان کا برتاؤ ایک محترم بھائی کے خلوص کی صداقت کا مظہر رہا۔ وہ سراپا مہر و مروت رہے۔ اردو ادب و صحافت سے محبت اور رشتوں کی نگہبانی کرنے والے میرے محترم بھائی میں بڑی خوبیاں تھیں؎درد کی ساری تہیں اور سارے گزرے حادثےسب دھواں ہوجائے گا ‘ ایک واقعہ رہ جائے گاShama Akhtar Kazmi12/14, Sai Nagar,Gaibi Nagar,Bhiwandi - 421302 (M.S.)Mob.: 9284690949" اساتذۂ شعبۂ اردو علی گڑھ کے ماہ و سال - مضمون نگار : شمس بدایونی,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/06/,"تلخیصعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کو تاریخی طور پر تقدم حاصل ہے کہ اس کا قیام گو کہ 1932میں عمل میں آیا لیکن اس کے قیام کا اعلان یونیورسٹی کے ساتھ کردیا گیا تھا۔ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی ایک زریں تاریخ رہی ہے۔ اس شعبے سے وابستہ جو بھی شخصیات رہی ہیں ان میں بیشتر عالمی سطح پر شہرت کی حامل ہیں اور ان کے امتیازات سے علمی اور ادبی حلقہ واقف ہے۔ یہاں کے اساتذہ نے تصانیف کے ذریعے اردو زبان و ادب کی ثروت میں گراں قدر اضافے کیے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ جملہ اصنافِ ادب پر یہاں کے اساتذہ نے جو تحقیقی اور تنقیدی کام کیے ہیں وہ حوالہ جاتی حیثیت کے حامل ہیں۔ اس شعبے میں جو موضوعات پر کام ہوا ہے اس کا دائرہ خاصا وسیع اور متنوع بھی ہے۔کلیدی الفاظاساتذہ،شعبہ، ماہ و سال، ولادت، منصب، مدت کار،صدر شعبہ، اولیات، امتیاز، وفات، مطبوعات،مآخذ————جامعات ہند میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ یہ امتیاز کیفیت اور کمیت دونوں کا ہے۔یہ پہلی یونیورسٹی ہے جہاں اردو شعبے کے قیام کااعلان، یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ کردیا گیا(دسمبر 1920)یوں اسے ملک کی تمام جامعات میں تاریخی طور پر بھی تقدم حاصل ہے، اگرچہ اس کا باقاعدہ قیام 1932 میں عمل میں آیا۔یونیورسٹی میں بی اے آنرس کی کلاس 1934 میں شروع ہوی اور گرلس کالج میں 1938 میں، البتہ ایم اے کی کلاسیز یونیورسٹی ہی میں ہوتی تھیں۔ ایم اے کے دوسرے سال کے بیچ میں خواتین کی کلاسیز کا اہتمام پردے کے ساتھ کیا گیا تھا۔شعبۂ اردو کے پہلے استاد رشید احمد صدیقی(ف 1977) اور گرلس کالج کی پہلی خاتون استاد، سلمیٰ حقی (ف2003) تھیں۔اپنے قیام سے آج تک گرلس کالج اور یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے اساتذہ کی مجموعی تعداد کم و بیش یک صد [100] ہوگئی ہے۔ان میں وہ مرحوم اساتذہ بھی ہیں جو ادب اردو کے ممتاز ناقد، ادیب، محقق، ماہر لسانیات، ناول و افسانہ نگار،مورخ ادب اور شاعر کے طور پر تاریخ ادب اردو میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں، اور وہ زندہ پروفیسران بھی ہیں جو ادب میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں،اور وہ نووارد ادیب بھی جو اپنی شناخت بنانے میں سر گرم عمل ہیں۔1920 سے تا ایں دم یہاں ادب کی مختلف تحریکوں اور دھاراؤں نے دستک دی، بعض رجحان اور نظریے اسی شعبے کے گلیاروں سے ہوکر گزرے، علی گڑھ نے سب کی پذیرائی کی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے اساتذہ کی تصنیفات کے موضوعات کا دائرہ خاصا وسیع ہے اور متنوع بھی۔یہ کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ اردوادب کامطالعہ ان کی بعض تصنیفات کے مطالعے کے بغیر مکمل نہیں سمجھاجاسکتا۔اس وقت شعبے میں 6+27=33،اساتذہ برسرکار ہیں۔تقریباً21، اساتذہ گذشتہ چندسالوں میںریٹائر ہوکراپنے نامکمل تصنیفی و تالیفی کام انجام دے رہے ہیں۔ وہ شعبے کے سمیناروں اور ورکشاپوں میں اکثرموجود رہتے ہیں۔سطور ذیل میں صرف45 مرحوم اساتذہ کے کوائف سوانحی لغت کے انداز پر مرتب کرکے پیش کیے جارہے ہیں۔ [اس کا دوسرا حصہ متقاعد[ریٹائرڑ] اور تیسرا بقید حیات اساتذہ پر مشتمل ہوگا]انھیں سہولت کے لیے الف بائی ترتیب میں رکھا گیا ہے۔ان کوائف کو عموماََ چھ شقوں کے تحت مرتب کیا گیا ہے:نام مع ادبی شناخت،ولادت مع جاے ولادت،منصب و مدت کار،وفات مع جاے وفات،مدفن اور مطبوعات۔ اگر صدر شعبہ رہے تو اس کی بھی مدت کا تذکرہ کردیا گیا ہے۔منصب کے تحت عارضی، جونیئر،سینیرلکچرر، ریڈر یا پروفیسر کا جو اندراج کیا گیا ہے وہ ان کی ملازمت سے سبکدوشی کے وقت کا گریڈ یعنی منصب ہے۔ ترقیاتی منازل، لکچرر سے پروفیسر تک کے سنوں کی تلاش میں غلطیوں کے امکان کا اندیشہ تھا اس لیے اس سے اجتناب کیا گیا۔بعض قارئین کے ذہن میں ممکن ہے یہ سوال پیدا ہو کہ مرتب نے اِن اساتذہ کے تراجم میں تعلیم کی شق کا اندراج نہیں کیا۔ اس سلسلے میں یہ عرض کردینا مناسب ہوگا کہ سوائے مولانا احسن مارہروی کے (جن کے پاس کالج کی کوئی سند نہیں تھی) باقی تمام اساتذہ پوسٹ گریجویٹ، یعنی اردو یا فارسی میں ایم اے تھے۔ اِن کے علاوہ جو اساتذہ پی ایچ ڈی بھی تھے، ان کے نام کے ساتھ لفظ ’ڈاکٹر‘ کا اندراج کیا گیا ہے۔ان اساتذہ کی تاریخ ولادت اور وطنی نسبت میں خاصا اختلاف ہے۔ میں نے جن تاریخوں کو درست خیال کیا ہے انھیں شامل کرلیا ہے۔ان پر تحقیقی بحث سے صرف نظر کیا ہے۔ فہرست اساتذہ میں ان اساتذہ کو شامل نہیں کیا ہے جو وزیٹنگ پروفیسر، وزیٹنگ فیلو یا کسی اور حیثیت سے تین ماہ، چھ ماہ یا سال بھر کے لیے یہاں نامزد کیے گئے مثلاََ:نار من زائڈNorman H.Zide (پ 1928،پروفیسر شکاگو یونیورسٹی) علی سر دار جعفری(فٖ2000 )قرۃ العین حیدر(ٖف2007) نذیر احمد (ف 2008) حنیف نقوی (ف2012) چودھری محمد نعیم (پ1936)، شمیم حنفی(پ1939) وغیرہ۔ پروفیسر نارمن زائڈ لسانیات کی تعلیم میں مدد دینے کے لیے، شعبے کی دعوت پر بطور مہمان پروفیسر چار ماہ کے لیے [دسمبر 1966 تا مارچ 1967] تشریف لائے تھے(ماہنامہ رفتار علی گڑھ دسمبر 1966 ص:2) خیر سے ابھی بقید حیات ہیں۔اس تذکرۂ ماہ سال کو مرتب کرنے کی ضرورت کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب ایک مقالے کی تصنیف کے دوران یہاں کے دو اساتذہ کی تاریخ وفات حاصل کرنے میں متعدد رسائل کے وفیات کے کالم، ان کے واقف کاروں کو فون اور عزیزوں کے گھروں پر دستک دینی پڑی۔ مطبوعات کا اضافہ محض اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ ادبی تاریخ میں یہاں کے اساتذہ کی حصے داری کا احساس بھی کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں مجھے سب سے زیادہ مدد اُس فہرست سے ملی جو شعبے کے ترجمان ’رفتار‘، 2003-4 میں بہ عنوان’’شعبۂ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ اساتذہ کی تصانیف [ابتدا سے اب تک]شائع ہوئی تھی۔ اس پر مرتب کا نام درج نہیں البتہ’ رفتار‘ پر مدیر کی حیثیت سے پروفیسرسیدمحمد ہاشم کے نام کا اندراج ملتاہے۔ یہ فہرست لاک ڈاؤن کے دوران ایک خیر خواہ نے واٹس ایپ کی مدد سے مجھے بھیجی ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔یہ فہرست متحقق نہیں، کسی طالب علم کی بنائی ہوئی ہے ؛ تاہم افادیت سے خالی نہیں۔اس کے علاوہ شعبے کے مجلے ’رفتار‘ کی وہ تعزیتی قراردادیں بھی میرے لیے بڑی معاون ثابت ہوئیں جن کے عکس ڈاکٹر خالد سیف اللہ نے واٹس ایپ کے ذریعے مجھے فراہم کیے۔اس ماہ وسال کی ترتیب میں اکثر کتب کے صرف طبع اول کا اندراج کیا گیا ہے۔ کتب کی فہرست کو تاریخی تسلسل میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ مصنّفین کے ذہنی ارتقا اور اس نے کس عہد میں کن موضوعات پر کام کیا اس کابھی اندازہ لگایا جاسکے۔جن کتب کے نام بدل کر دوسرے ایڈیشن طبع ہوئے ہیں انھیں علاحدہ شمار نہ کرتے ہوئے پہلے ایڈیشن کے نام کے ساتھ ہی بریکٹ میں واضح کردیا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مصنّفین کی طویل فہرست کتب اور مختلف النوع موضوعات پر متعددمطبوعات کی موجودگی دیکھ کراسے الف، ب۔، ج، د، میں تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تقسیم کسی خاص اصول کے تحت نہیں ہے۔ہر اندراج کے نیچے اس کے اہم مآخذ کا حوالہ دے دیا گیا ہے، حالانکہ ہر اندراج میں ذاتی تلاش اور معلومات کابھی وافر حصہ ہے۔ہر مصنف کی جملہ مطبوعات، اس کی تحریروں پر مشتمل دوسرے قلم کاروں کی مرتبہ کتابوں، انتخابوں او رکلیات کوبھی بعہدمصنف اور مابعد مصنف بھی یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ بعض اساتذہ عارضی طور پر شعبے سے وابستہ رہے اور کچھ وقت کے بعد کسی دوسری یونیورسٹی یا کالج کے لیے اپنی خدمات منتقل کرالیں، چونکہ ان کی ذہن سازی علی گڑھ میں ہوئی بایں سبب ان کے جملہ علمی کام کو متعارف کرایا گیا ہے۔ گرلس کالج کا شعبۂ اردو، یونیورسٹی کے شعبۂ اردو ہی کے زیر انتظام ہے اس لیے وہاں کے اساتذہ بھی ہمارے اس مضمون کا حصہ بنے ہیں۔شعبۂ اردو کے صدور کے تعلق سے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ فروری1935 سے جولائی 1979 تک جو استاد صدر شعبہ ہوتا وہ اپنی مدت ملازمت تک شعبے کی سر براہی کرتا تھا۔ رشید صاحب کے زمانے سے خورشید الاسلام تک یہی سلسلہ رہا۔ ثریا حسین کے زمانے [جولائی 1979]میں یہ مدت پانچ سال طے کردی گئی۔ ان کے بعدجولائی 1984 سے صدارت کی مدت صرف تین سال کردی گئی جو آج تک اسی طرح جاری ہے۔یہاں ایک اہم امر کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مقام و تاریخ پیدائش میں عموماً اختلاف پایا جاتا ہے، اس اختلاف سے عہدہ برآہوناممکن بھی نہیں۔اکثر افراد کی ایک اصل اور ایک سندی تاریخ پیدائش ہوتی ہے جس کا وہ خود بھی اعتراف و اظہار اور اندراج کرتے ہیں۔ اساتذۂ شعبۂ اردو کے تراجم کے سلسلے میں بھی یہ دشواری پیش آئی، چونکہ یہاں تحقیقی گفتگو کا محل نہیں تھا، اس لیے اپنی دانست میں جسے صحیح سمجھا اسے درج کیا۔یہی صورت تاریخ وفات کی بھی ہے۔اکثر لوگ تدفین کی تاریخ کا وفات کی تاریخ کے طورپر اندراج کردیتے ہیں۔ اس کا بھی خیال رکھنے کی کوشش کی ہے۔اسی سلسلے کی ایک بات کتابوں کے سال اشاعت کے اندراج کی بھی ہے۔اکثر اشاعتی ادارے سنہ کے اندراج کو کافی سمجھتے ہیں ایڈیشن کا تذکرہ نہیں کرتے۔ چونکہ ہر کتاب کی پہلی اشاعت کا اندراج ہی ہماری ترجیح تھی لہٰذا اس میں بھی ہمیں سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ خصوصا ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ کی جتنی بھی مطبوعات ہیں بیشتر ایڈیشن کے اندراج سے بے نیاز ہیں۔مصنّفین کو خود بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔شعبے کے قیام سے آج تک طلبہ کی تعداد کے مناسب حال اساتذہ کا تقرر کبھی نہیں ہوسکا، بایں سبب ایم اے پاس یا پی ایچ ڈی کے سند یافتہ طلبہ کی عارضی طور پر، تین ماہ چھ ماہ، اورکبھی کبھی سال بھر تک خدمات حاصل کی جاتی رہی ہیں۔ ایسے عارضی اساتذہ کی قابل ذکر تعداد ماضی میں بھی رہی ہے اور آج بھی ہے۔ ان کے کوائف فراہم کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ شعبہ ٔ اردو کے بزرگ اور متقاعد اساتذہ ان میں سے اکثر کے نام سے ناواقف ہیں۔ ایسے عارضی اساتذہ میں یہ چند نام میرے علم میں آسکے ہیں،جن کے حالات اور مدت ملازمت تک میری رسائی نہیں ہوسکی:حنیفہ شاہ، ناصرحسین نقوی،محمودہ اسلم،محمد اسلم رضوی اور رضیہ سید۔ شعبے کے ابتدائی ایام میں یہ کام شعبۂ دینیات، فارسی اور تاریخ کے اساتذہ سے بھی اضافی طور پر لیا گیا ہے، جن کا ذکر اس مضمون میں آگیا ہے۔پیش نظر کام تحقیقی زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ لاک ڈاؤن کے سبب سارے مآخذ میں خود نہیں دیکھ سکا ہوں۔ احباب کی مدد، واٹس ایپ اور ریختہ کی ای لائبریری کے ذریعے ان سے استفادہ کیا گیا ہے،لہٰذا غلطیوں اور تسامحات کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا؛لیکن اس کام میں جو بے پناہ مشقت اور محنت ہوئی ہے اس کی داد بہرحال ملنی چاہیے۔ اس سلسلے میں شعبے کے جن اساتذہ نے تعاون دیا ہے ان کا شکریہ مآخذ کے اندراج کے ساتھ کیا گیا ہے۔یہاں مجموعی طور پر سب کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے؛خصوصاً شعبے کے سر براہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی کا، جن کی فرمائش، بیش از بیش تعاون اور اصرار پر یہ کام میں نے انجام دیا۔ یہ ایک مستقل کام ہے جسے ایک علمی مقالے کی صورت میں کیا جانا چاہیے۔ [اس مقالے میں یکم جون 2020 تک وفات پانے والے اساتذہ ہی کے تراجم شامل کیے گئے ہیں]1ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر [ادبی شناخت :ناقد، ماہر قواعد ولسانیات، مورخ ادب اور محقق]ولادت: آگرہ[یوپی]15؍جون 1916 [صحیح22؍فروری 1917]منصب ومدت کار: سینئر لکچرر،1938تا 1950 [5؍جون 1948 تا1950 تعلیمی رخصت]اولیات : اے ایم یو کے پہلے پی ایچ ڈیوفات: کراچی7؍ستمبر 1994 ، تدفین : قبرستان جامعہ کراچیمطبوعات:انیسویں صدی میں اردو صحافت (علی گڑھ، 1942؟) میرحسن اور ان کا غیر مطبوعہ کلام (علی گڑھ1942 ؟) لکھنؤ کا دبستان شاعری( علی گڑھ 1944)مصحفی اور ان کا کلام ( لاہور 1950) جرأت ان کا عہد اور عشقیہ شاعری (کراچی1952) غزل اور متغزلین ( لاہور 1954) نظیر اکبر آبادی ان کا عہد اور شاعری (کراچی1957)اسباب بغاوت ہند [سر سید احمد خاں] ( کراچی 1957) تجربے اور روایت ( کراچی1959)اردو کی ادبی تاریخ کا خاکہ ( کراچی1961) ادب و لسانیات (کراچی 1970) جامع القواعد( لاہور1971)آج کا اردو ادب (علی گڑھ 1975) ملفوظات اقبال (لاہور 1977) اقبال اور مسلک تصوف (لاہور1977) ہندوستانی گرامر(بنجمن شُلزے) ترجمہ ( لاہور 1977) اردو میں سائنسی ادب کا اشاریہ (کراچی1981) اردو قواعد (کراچی 1989 ) امراو ٔجان ادا، تنقید و تبصرہ ( دہلی 1992) تہذیب و تاریخ ( کراچی1992)تاریخ زبان و ادب اردو (کراچی 1998) رفت و بود، مرتب سید معین الدین عقیل ( کراچی، 2011) لکھنؤ کی آخری شمع (علی گڑھ سنہ ندارد)تاریخ اصول تنقید(غالباً 1944) دیوان زادہ حاتم[ترتیب و حواشی] (کراچی) کلیات مصحفی [ترتیب و حواشی] ( کراچی) نصاب سے متعلق چندکتب اور انگریزی مطبوعات اس فہرست کا حصہ نہیں ہیں۔[ماخذ:جامعات ہند میں اردو کا پہلا پی ایچ ڈی۔ راقم الحروف کا غیر مطبوعہ مقالہ]2احسن مارہروی،سید علی احسن(تلمیذ داغ)[شاعر، مورخ ادب اور ادیب]ولادت:مارہرہ،ضلع ایٹہ( یوپی)9؍نومبر1976منصب ومدت کار:سینئر لکیچرر،اکتوبر1922 تا17؍جولای 1938اولیات: طلبہ کی تنظیم ’حدیقتہ الشعرا‘ کے بانی اور مدت کار صدروفات:پٹنہ،30؍اگست 1940تدفین : درگاہ برکاتیہ، مارہرہمطبوعات:جلوۂ داغ (حیدر آباد1902)یادگار داغ (1907) ا ردو لشکر (بدایوں1910) کسوف الشمسین مرتب نظامی بدایونی (بدایوں1915) تخمیسیں (علی گڑھ1922)کلیات ولی مع ضمیمہ جات (اورنگ آباد 1927) روداد کل ہند مشاعرہ(علی گڑھ1928) منتخبات عود ہندی مع مقدمہ و فرہنگ (علی گڑھ 1929) انتخاب رقعات غالب مع مقدمہ و فرہنگ(علی گڑھ)چند منظوم مشتملبر ماضی و حال مدرسۃ العلوم(علی گڑھ 1929) سالانہ مشاعرہ (علی گڑھ 1930) تاریخ نثر اردو ( علی گڑھ 1930) مثنوی ’حزن اختر‘ اور خصوصیات مصنف ( 1931) مکاتیب الغالب (علی گڑھ 1931)شاہکار عثمانی(1937) احسن الانتخاب(علی گڑھ 1937) کارنامۂ غم (علی گڑھ1938)احسن الکلام(کراچی 1965) تحفۂ احسن( الہ آباد ) چپ کی فریاد، مجمع البرکات، قصیدہ ٔشاہ عالم۔[مآخذ: مولانا احسن مارہروی آثار و افکار، صابر حسن خاں، عاکف بک ڈپو دہلی، 1994، مقدمہ مکاتیب احسن، ج/1، مرتبین: ڈاکٹر عنوان چشتی و صغیر احسنی۔ اردو سماج دہلی، 1977 بہ شکریہ جناب تسلیم غوری، بدایوں]3اختر انصاری[شاعر، افسانہ نگار، ناقداور ماہر تعلیم]ولادت: بدایوں، یکم اکتوبر1909منصب ومدت کار:جونیئر لکچرر،1947تا1950وفات: علی گڑھ، 5؍اکتوبر1988، تدفین: یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات :[الف=تصنیفات،ب=انتخابات ، ج=انگریزی کتب،د=نصاب]الف :نغمۂ روح(دہلی 1932)اندھی دنیا اور دوسرے افسانے(دہلی 1939) نازو اور دوسرے افسانے (دہلی 1940)آبگینے(لاہور 1941)افادی ادب( پٹنہ 1941)خوناب(لاہور 1943) خونی اور دوسرے افسانے ( لاہور 1943) خندۂ سحر( دہلی 1944) روح عصر( لاہور 1945)ایک ادبی ڈائری (لاہور 1945)غزل اور درس غزل(لاہور 1959)حالی اور نیا تنقیدی شعور(کراچی 1962)، ٹیڑھی زمین (کراچی 1963) سرود جاں (کراچی 1963)مطالعۂ تنقید(علی گڑھ 1965)چند نظمیں (علی گڑھ 1967) دردو داغ(علی گڑھ 1967) شعلہ بجام (علی گڑھ 1968)غزل کی سر گزشت (علی گڑھ 1975) د کا روڑا (علی گڑھ 1977)غزل اور غزل کی تعلیم (دہلی 1979) تعلیم اور سماج( دہلی 1979) وقت کی بانہوں میں ( علی گڑھ 1979)اردو فکشن بنیادی و تشکیلی عناصر( کراچی 1983)ایک قدم اور سہی (علی گڑھ 1984)ب: لو ایک قصہ سنو (علی گڑھ 1953)انتخاب اختر انصاری(علی گڑھ 1957)یہ زندگی اور دوسرے افسانے(علی گڑھ 1958)بادۂ شبانہ (لاہور 1961) پر طاؤس( علی گڑھ 1965) دہان زخم (علی گڑھ 1971) شعلہ بکف (علی گڑھ 1973) روح نغمہ (علی گڑھ 1974)ج:1.Studies in language and language teaching [ Aligarh 1962]2.A background to education theory [ Aligarh 1965]3.Anecdotes from life of Ghalib [Aligarh 1972]د:نصاب اردو (علی گڑھ 1962)[ماخذ: اختر انصاری دید پس دید، شمس بدایونی، اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بدایوں،1989]4اسعد بدایونی، اسعد احمد، ڈاکٹر[شاعر، ادبی صحافی اور ادیب]ولادت: سہسوان (ضلع بدایوں) 3؍اگست1957 [سندی تاریخ 25؍فروری 1958]منصب ومدت کار: سینئر لکچرر، بعد از وفات، ریڈر۔جولائی1993تامارچ 2003وفات:علی گڑھ،5؍مارچ 2003 ، تدفین: خاندانی قبرستان،بدایوںمطبوعات :گل رنگیں( بدایوں 1972 ) دھوپ کی سر حد ( بدایوں 1977 ) خیمۂ خواب(دہلی 1984 ) داغ کے اہم تلامذہ (علی گڑھ 1986) نئی غزل نئی آوازیں( علی گڑھ 1987) انتخاب کلام بیخود بدایونی (لکھنؤ 1990)کاروان رفتہ (علی گڑھ 1991) جنوں کنارا (1992)بیخود بدایونی حیات اورادبی خدمات (علی گڑھ 1995 ) نئی اور پرانی غزلیںمرتب خان فہیم[ہندی](بدایوں 1997) کلیات اسعد بدایونی مرتب رضوان الرضا رضوان (دہلی 2008 )[ماخذ:بہ شکریہ تسلیم غوری،بدایوں]5اطہر پرویز، ڈاکٹر،محمد عثمان[ادیب، ناقد، مصنف ادب اطفال]ولادت:الہ آباد،25؍ستمبر1925 وطن: سیوہارہ،ضلع بجنور(یو پی)منصب ومدت کار: ریڈر، 1972تاوفات مارچ1984وفات:علی گڑھ، 10؍مارچ1984 ، تدفین:یونیورسٹی قبرستان،علی گڑھمطبوعات: [الف=ادبی کتبب= بچوں کاادب]الف :ادب کا مطالعہ (علی گڑھ 1962)فسانۂ عجاب(الہ آباد 1969)۔قصۂ حاتم طائی موسوم بہ آرائش محفل(دہلی 1972)۔پنج تنتر کی کہانیاں(دہلی1973)ادب کسے کہتے ہیں(دہلی 1976)۔ اردو کے تیرہ افسانے(علی گڑھ 1976)علی گڑھ سے علی گڑھ تک(دہلی 1977) منٹو کے تیرہ افسانے ( علی گڑھ1981)ہمارے پسندیدہ افسانے( علی گڑھ 1982 )محمدشفیع الدین نیر ایک مطالعہ (دہلی 1982)راجندر سنگھ بیدی اور ان کے افسانے(علی گڑھ 1983)داستان کا فن (علی گڑھ 2010)ب:شرابی (دہلی 1956)نجومی آپا(علی گڑھ 1957) ایورسٹ کی فتح( دہلی 1958) نئی کتاب (علی گڑھ 1966)ایک دن کا بادشاہ( دہلی 1977) مشینی گھوڑا( دہلی 1977) پودوں اور جانوروں کی دنیا (دہلی 1979) دیس بدیس کی کہانیاں (دہلی 1981) ایک نائی اور رنگ ساز کا قصہ( دہلی 2000) انمول رتن (دہلی) گلیلی گلیلیو، مصنوعی چاند، خلا کا سفر،توانائی کا راز، ستاروں کی دنیا بہت دور ہے،باپو کے قدموں میں۔[ریختہ ای لائبریری، رفتار علی گڑھمارچ 1984،4۔2003، تذکرۂ ماہ و سال، مالک رام۔ دہلی 1991، ترقی پسند ادب کے معمار،ج/ 1 مرتبہ پروفیسر قمر رئیس،نیا سفر پبلی کیشنز دہلی، 2006]6افسر قریشی، ڈاکٹر [ادیب]کیفیت:بقول پروفیسر قیصر جہاں:’’ان کا وطن، اترولی (ضلع علی گڑھ ) تھا۔ ‘‘ا نھوں نے شعبۂ اردو سے پی ایچ ڈی کیا تھا۔ موضوع تھا:حسرت موہانی نظم و نثر ؛اور یہیں ویمینس کالج میں لکچرر ہوگئی تھیں۔ 1978 سے قبل ریٹائر ہوئیں۔ کالج میگزین میں ان کی ایک تحریر نظر سے گزری؛ انھوں نے شادی نہیں کی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے بھائی کے پاس کراچی پاکستان چلی گئیں۔ 2004 میں پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے انھیں کراچی میں اپنے ایک ملاقاتی کے یہاں دیکھا تھا۔اس سے زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوسکیں۔7انجمن آرا،انجم،ڈاکٹر[ناقد، ادیب، شاعرہ و افسانہ نگار)ولادت:قصبہ، حال تحصیل گنور،ضلع بدایوں( حال سنبھل، یوپی) یکم نومبر 1933منصب ومدت کار: ریڈر، 16؍اگست 1983 تا31؍اکتوبر 1992وفات: علی گڑھ،5؍اگست 2016 ، تدفین:یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات:[ الف=تصانیف و تالیفاتب=تراجمج=ادب اطفال]الف :آ غا حشر کاشمیری اور اردو ڈراما(علی گڑھ 1979 لاہور 2002) فکرو آگہی(علی گڑھ 1992)آغا حشر کاشمیری(دہلی 2000)آغا حشر کاشمیری کے نمائندہ ڈرامے( 2004) مقالات مسلم یونیورسٹی گزٹ(علی گڑھ) لمحہ لمحہ زندگی( علی گڑھ 2013)ب: بی اماں کا دورۂ بہار 1922 (پٹنہ2001 ) پانی کے نشان (علی گڑھ2013)لکڑ بگھے شہر میں (علی گڑھ 2014)ج: تحفہ(علی گڑھ2006) روشنی (علی گڑھ 2011)[مآخذ: دستاویز، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ 1983، رفتار علی گڑھ 16۔2015، میسج : جناب حبیب الرحمن چغانی و اسعد فیصل فاروقی]8انصاراللہ، محمد، ڈاکٹر[محقق، مورخ ادب، مدون، لغت و قواعد نویس]ولادت:اعظم گڑھ،4؍جنوری 1936 سندی[صحیح: جولائی 1934]منصب ومدت کار: پروفیسر،28؍جولائی 1967تا31؍جنوری1996وفات: علی گڑھ،21؍اکتوبر 2017تدفین: یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات:[ الف=عمومی کتبب =تاریخ ادبج= زبان غیر میں]الف :اردو کے حروف تہجی(علی گڑھ 1972) غالب ببلیو گرافی(علی گڑھ 1972)پدماوت کی مختصر فرہنگ (علی گڑھ 1972) قاعدۂ ہندی ریختہ(علی گڑھ 1973) برہن کی کہانی (علی گڑھ 1974) اردو صرف(علی گڑھ 1975) اردو نحو( علی گڑھ 1975) تلخیص معلا (کراچی 1975) قطعۂ منتخب (کراچی 1976) رسالہ زبان ریختہ(علی گڑھ 1977) شعراے اردو کے اولین تذکرے(علی گڑھ 1978) شعرکبیر(علی گڑھ 1979) انتخاب رغمی(علی گڑھ 1981) انتخاب رشک(لکھنؤ 1981) صہبائی ایک مختصر تعارف(علی گڑھ 1986) اصطلاحات جمالیات(علی گڑھ 1987) اردو پر تمل کے اثرات(علی گڑھ 1988) معتمدالدولہ آغا میر(دہلی 1989) داتا دیال مہرشی شیو برت لال ورمن (دہلی 1991) قدیم متون(علی گڑھ 1991) سنسکرت اردو لغت(اسلام آباد 1993) داتا دیال مہرشی شیو برت لال ورمن حیات و خدمات (پٹنہ 1994) داتا دیال شیو برت لال ورمن اور ان کی کتابیں (پٹنہ 1994) پدماوت کی فرہنگ(کراچی 1994) چنداین(پٹنہ 1996)کتابیات ادب اردو(لاہور 2002) جامع التذکرہ [جلد 1-2 ](دہلی 2006[جلد3] دہلی 2007)اردومیں تدوین (دہلی 2014)ب:تاریخ اقلیم ادب جلد 1، 2 (دہلی،80،1979) تاریخ ارتقا، زبان و ادب(لاہور 2006) تاریخ زبان و ادب اردو۔ جلد1,2(علی گڑھ 2012، 2016)تاریخ ادب اردو[1811 تا 1911] کل نو جلدیں 9 تا 17(قومی اردو کونسل دہلی، [جلد 9,10]،2012 [ج/11]، 2013 [ج/12 تا 18]، 2015 [ج/16، 17]، 2016)ج:داتا دیال شیو برت لال ورمن [ہندی] (دہلی 1995)مہرشی شیو برت لال ورمن کا کلام نیر اعظم [ہندی](علی گڑھ 1996) نیر اعظم [رومن میں] (علی گڑھ 1999)[مآخذ:سہ ماہی روشن بدایوں، گوشۂ انصاراللہ۔ شمارہ 2، 1990،علی گڑھ میگزین 2010(علی گڑھ میں اردو تحقیق،خصوصی شمارہ)مدیر محمد عمران خاں وذاتی معلومات]9اے۔ایچ۔ فاروقی، [عالم دین، مورخ،سوانح نویس، مترجم]اصل نام:ابرار حسین فاروقی، مولانا/ولادت:گوپامئو، ضلع ہردوئی(یوپی)دسمبر 1894منصب و مدت کار: جونیئرلکچرر،1924تا1933وفات: علی گڑھ،4؍جون 1981 ،تدفین:یونیورسٹی قبرستان، علی گڑھمطبوعات: خدائی دربار(دہلی1920)بنت سمرنا(دہلی1921)فہرستِ مطبوعات [سبحان اللہ کلکشن، آزاد لائبریری] (علی گڑھ 1932)فتوح الغرب(حیدر آباد 1937)مجمل(حیدرآباد 1937) پریم رس( بدایوں1943)جواہر زواہر[فہرستِ اٹاوہ، اسلامیہ کالج کلکشن] (علی گڑھ 1950) مرقع افغان(علی گڑھ 1953)عددالسنین والحساب (علی گڑھ 1960)ضیاء الوارث من مشکوٰۃ الوارث (لکھنؤ1965)مآثر دلاوری( لکھنؤ 1968)مراۃ احمدی(لکھنؤ 1973) مآثرالمسیح(لکھنؤ 1976 ) کشکول(علی گڑھ 1980)Comparative stuady of Nizami and Khusro[Delhi ,1925]کیفیت:اے ایچ فاروقی کا نام یونیورسٹی کی سالانہ رپورٹ 1933 [کلاز نمبر 34] میں شعبۂ اردو کے جونیئر لکچرر کے تحت درج ہے۔ یہ اطلاع ڈاکٹر راحت ابرار نے دی اور اس کا عکس بھی فراہم کیا۔بعد تلاش بسیار یہ پتہ چلا کہ یہ مولانا کے نام کا مخفف ہے۔مولانا کی سوانح’ کشکول‘ [ص: 129] کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ وہ بیک وقت تاریخ، اردو،فارسی اور شعبۂ دینیات کی کلاس لیا کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ لازمی مضامین :اردو اور دینیات کے لیے ان کی خدمات مشترک طور پر وقف تھیں۔[مآخذ:مولانا محمد ابرار حسین فاروقی از محمد صلاح الدین عمری، تہذیب الاخلاق مارچ 2013، کشکول، ابرار حسین فاروقی، علی گڑھ1980،بہ شکریہ ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی]10بسم اللہ نیاز احمد بیگم،ڈاکٹر[ادیبہ]ولادت : مراد آباد(یوپی)یکم جنوری1910/منصب و مدت کار: جونیئر لکچرر، قیاساًستمبر 1947تا1950وفات:کراچی، 29؍دسمبر 1987تدفین: کراچیکیفیت: یہ پروفیسر ثریاحسین کے تقرر کے دوران پاکستان ہجرت کرگئیں اور وہاں اردو گورنمنٹ کالج براے خواتین کراچی میں خدمات ادا کرکے سبکدوش ہوئیں۔مطبوعات:اردو گیت(کراچی 1987)[ماخذ: وفیات ناموران پاکستان، ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، اردو سائنس بورڈ لاہور 2006]11ثریّا حسین، ڈاکٹر[ادیب و اسکا لر]ولادت:علی گڑھ،(یوپی)25؍دسمبر 1925/منصب ومدت کار: پروفیسر، ستمبر 1950تااکتوبر 1987صدر شعبہ: 11؍جولائی 1979تا10؍جولائی 1984وفات:بوسٹن [یو ایس اے]29؍جون2018 ، تدفین:ویسٹ روکسبری سیمٹری، بوسٹنمطبوعات:[الف: =تصنیفات و مرتبات، ب=نصاب]الف: Garcin de tassybiographie et etude critique de ses oeuvresگارسین دتاسی، حیات اور اس کی تصانیف کا تنقیدی تجزیہ (بہ زبان فرانسیسی،پانڈیچری 1962)جمالیات اور ادب(علی گڑھ 1979) جمالیات شرق و غرب(علی گڑھ 1983) گارسین دتاسی: اردو خدمات، علمی کارنامے( بہ زبان اردو،لکھنؤ 1984) مولیر اور اس کے دو ڈرامے(دہلی 1984) پیرس و پارس(دہلی 1984)سید سجاد حیدر یلدرم(علی گڑھ 1984)انتخاب یلدرم (لکھنؤ 1984) حسرت موہانی (علی گڑھ 1985) غزل : فن اور فنکار (علی گڑھ 1986)سر سید احمد خاں اور ان کا عہد(علی گڑھ 1993) آب رود گنگا(علی گڑھ 2015)ب:معیار ادب(علی گڑھ 1980) اردو نثر( علی گڑھ 1984)[مآخذ:ہندوستان کے اردو مصنّفین اور شعرا،گوپی چند نارنگ و عبداللطیف اعظمی، اردو اکادمی دہلی 1996، ای لائبریری ریختہ، میسج ڈاکٹرفرقان سنبھلی]12جذبی [ملال]معین احسن، ڈاکٹر[شاعر و ناقد]ولادت :مبارکپور،ضلع اعظم گڑھ (یوپی)21؍اگست 1912منصب و مدت کار: ریڈر، ستمبر 1945تا21؍اگست 1974وفات: علی گڑھ، 13؍فروری 2005تدفین: یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات:فروزاں(لاہور سنہ ندارد قیاساََ 1943) حالی کا سیاسی شعور (لکھنؤ 1959)سخن مختصر (علی گڑھ 1960)انتخاب جذبی(دہلی 1962) گداز شب (دہلی 1985) کلیات جذبی،مرتب فاروق ارگلی(دہلی 2007)[مآخذ: ریختہ ای لائبریری، ترقی پسند ادب کے معمارجلد1،معین احسن جذبی، مشتاق صدف۔ ساہتیہ اکیڈمی دہلی اول 2008]13جلیل احمد قدوائی[شاعر، افسانہ نویس، مترجم، محقق اور ادیب]ولادت:اُناؤ(یوپی)16؍مارچ 1904منصب ومدت کار:جونیئر لکچرار، نومبر1934تاجولائی 1936اولیات:ہائی اسکول کے لیے اردو نصاب تعلیم ’حسن انتخاب‘ کے مرتب[ غالباََ پہلی کتاب]وفات:اسلام آباد، یکم فروری 1996تدفین: راولپنڈیمطبوعات: نقش و نگار( 1928)انتخاب حسرت( 1929) سیر گل(علی گڑھ 1927) اصنام خیالی (1933) مونا وانا( علی گڑھ 1933) دیوان بیدار(1934) نوائے سینہ تاب(1951) تنقید اور خاکے (1952) تذکرے اور تبصرے(1959) انتخاب شعرائے بدنام (1960) کلام غالب (کراچی 1960) مکتوبات عبد الحق(کراچی 1963) مرقع مسعود(1966) خیابان مسعود(1970) قطرات شبنم (1973) چنداکابرچندمعاصر(1977) چشمۂ آفتاب(1984) فوسٹر مسعود (1984)سرسید و سید محمود(1985)سر سید علیہ الرحمہ (کراچی 1985) حیات مستعار(کراچی1987) خاکستر پروانہ (1987) جگر و اصغر(کراچی)شعر و شعریات، کارنامۂ ادب،انتخاب سودا، اپنی امی کی یاد میں، ماموں جان،when India is divided [1987][مآخذ:رفتار علی گڑھ 4۔2003 علی گڑھ میگزین 2010 خصوصی شمارہ، تذکرۂ ماہ وسال، مالک رام]حیات مستعار، جلیل قدوائی، مشمولہ ’غالب ‘ادارہ یادگار غالب کراچی شمارہ 1۔6، 1992]14جمال آرا نظامی،ڈاکٹر[ادیب و ناقد]ولادت:میرٹھ (یوپی)25؍دسمبر 1939منصب و مدت کار:سینئر لکچرر،6؍نومبر 1993 تا 31؍دسمبر 2001وفات:نیو یارک (یو ایس اے) 22؍ستمبر2019 ،تدفین: مسلم میموریل سیمیٹری، نیو جرسی( یو ایس اے)مطبوعات: اردو میں افسانوی ادب(لکھنؤ1984) مختصر افسانے کا ارتقا( لکھنؤ1985)میزان (1985)[بہ شکریہ محمد رضوان پسر[یو ایس اے ] ومحمد شہزاد علی گڑھ]15حاذق،محمد حاذق[شاعر]ولادت:محلہ نخاسہ، سہارنپور(یوپی)1892منصب و مدت کار:عارضی لکچرر،اوائل 1938 تا…؟[صرف چند ماہ]وفات: علی گڑھ15؍مارچ 1970تدفین: یونیورسٹی قبرستان علی گڑھکیفیت:1938 سے پیشترشعبٔہ فارسی میں لکچرر تھے۔[مدت کار:1922 تا 1952] سرور صاحب کے بقول فارسی طلبہ کی تعداد کم ہونے کے سبب انھوں نے شعبۂ اردو میںعارضی طور پر اپنی خدمات کو منتقل کرالیا تھا۔(خواب باقی ہیں علی گڑھ 1991، ص :72)میراخیال ہے شعبۂ اردو میں ان کا باقاعدہ تقرر نہیں کیا گیا، بلکہ خالی اوقات میں ان کو لازمی اردو کے کلاسز دے دی جاتی تھیں۔ یہ پروفیسر اسلوب احمد انصاری کے ماموں تھے۔[ماخذ: بہ شکریہ جناب تنویر حاذق، پسر(دہلی) وپروفیسر طارق چھتاری]16حامدہ مسعود، ڈاکٹر[ادیبہ]ولادت: بھوپال (مدھ پردیش)30؍اگست 1931/منصب و مدت کار:ریڈر،1976تا1992وفات: دہلی،6؍جون 2014 ، تدفین: یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات:خطوط غالب، فنی تجزیہ(علی گڑھ 1982)[ماخذ: بہ شکریہ پروفیسر شافع قدوائی، و ڈاکٹر سجاد]17خلیل الرحمن اعظمی، ڈاکٹر[ترقی پسندشاعر و ناقد]ولادت: موضع سیدھا، سلطانپور۔ضلع اعظم گڑھ(یوپی)9؍اگست 1927منصب و مدت کار: ریڈر بعد ازوفات پروفیسر،1953تاجون 1987وفات :علی گڑھ، یکم جون 1978،تدفین: یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات: کاغذی پیرہن(دہلی 1955) فکروفن (دہلی 1956) نوائے ظفر(علی گڑھ 1958) مقدمۂ کلام آتش(علی گڑھ 1959) نیا عہد نامہ (علی گڑھ 1965) زاویہ ٔ نگاہ(گیا 1966) نئی نظم کا سفر (دہلی 1972) اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک(علی گڑھ 1972) مثنوی سحرالبیان مع مقدمہ(علی گڑھ 1976) مضامین نو(علی گڑھ1977) زندگی اے زندگی(لکھنؤ 1983) آئینہ خانے میں (علی گڑھ سنہ ندارد) آسماں اے آسماں (علی گڑھ 2000) مضامین خلیل الرحمن اعظمی جلد 1 مرتب پروفیسر شہر یار(دہلی 2004)خلیل الرحمن اعظمی باقیات نثر، مرتب معاذ احمد (دہلی 2018)[مآخذ:ای لائبریری ریختہ،و تذکرہ ماہ وسال، مالک رام]18خورشید الاسلام، ڈاکٹر [ شاعر، ناقد]ولادت:رامپور(یوپی)21؍جولائی 1919وطن قصبہ عمری مرادآباد(یوپی)منصب ومدت کار:پروفیسر، 1959تا۔۔۔۔باردگر1962تا۔۔۔ بار سوم 1973تا1981صدر شعبہ:8؍اکتوبر 1973تا10؍جولائی 1979وفات:علی گڑھ، 17؍جون 2006تدفین: یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات :[الف=اردو کتبب:=انگریزی کتب]الف:تنقیدیں(علی گڑھ1957)غالب ابتدائی دور(علی گڑھ 1960 بار دوم غالب ایک نئی تعبیر۔ بار سوم غالب تقلید اور اجتہاد،علی گڑھ 1979) رگ جاں (علی گڑھ 1961) دیوان قائم(دہلی 1963) کلیات سودا(علی گڑھ1964) اردو ادب آزادی کے بعد(علی گڑھ 1973) شاخ نہال غم (علی گڑھ 1975) جستہ جستہ (دہلی 1977) بہ نوک خار می رقصم(دہلی 2009) مرزا رسوا کی ناولیں(علی گڑھ 2009) باقیات خورشید الاسلام(علی گڑھ2010)ب : بہ اشتراک رالف رسلThree Mughal Poets [1969]Ghalib:Life and Letters[1969]The satirical verses of Akbar AIlahabadi[مآخذ: خورشید الاسلام، سرورالہدی، ساہتیہ اکیڈمی دہلیدوم 2014،خورشید الاسلام کی اردو نثر، نورالدین، کلاسک آرٹ پریس دہلی 2011،ای لائبریری ریختہ]19ذوقی، مسعود علی، خواجہ [شاعر]ولادت: لکھنؤ(یوپی)10؍نومبر 1904/منصب و مدت کار:لکچرر،اپریل 1958تااپریل 1967وفات:لکھنؤ 4؍جولائی 1986 ، تدفین : لکھنؤکیفیت:وفات سے پیشتر پروفیسر وحید اختر (ف 1996)کے مقدمہ کے ساتھ دیوان زیر ترتیب تھا،لیکن شائع نہیں ہوسکا۔[مآخذ:علی گڑھ میگزین، انتخابِ کلامِ شعرائے علی گڑھ، 1970، وفیات مشاہیر اردو، بشارت علی خاںفروغ، کلکتہ آفسیٹ پریس دہلی، 2000]20راہی معصوم رضا، ڈاکٹر [فکشن نگار، ترقی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر]ولادت: قصبہ بگھوری بزرگ،ضلع غازی پور(یوپی)یکم اگست 1927،سندی تاریخ یکم ستمبر 1927منصب و مدت کار:عارضی لکچرر، 1963تا1967(قیاساََ 4 برس)وفات: بمبئی ،15؍مارچ 1992، تدفین: قبرستان جوہو بمبئیمطبوعات:[صرف اردو مطبوعات، ہندی مطبوعات اس فہرست کا حصہ نہیں ہیں]نیا سال (بنارس 1952) رقص مے(الہ آباد 1960) 1857( الہ آباد 1960) اجنبی شہر اجنبی راستے ( الہ آباد1965) یاس یگانہ چنگیزی( الہ آباد 1967) طلسم ہوش ربا ایک مطالعہ (بمبئی 1979) غریب شہر( بمبئی 1992) محبت کے سوا، آدھا گاؤں ترجمہ اسلم جمشید پوری(اعظم گڑھ 2003)[مآخذ: ای لائبریری ریختہ، ترقی پسند ادب کے معمارجلد 1]21رشید احمد صدیقی، پروفیسر[انشا پرداز، طنز و مزاح نگار، ناقد و خاکہ نگار]ولادت: ننھیال قصبہ بیریا،ضلع بلیا۔24؍دسمبر 1892 وطن، موضع مڑیاہوں،ضلع جونپور( یوپی)منصب و مدت کار:پروفیسر،دسمبر 1921تا30؍اپریل 1958صدر شعبہ: نومبر1934تا30؍اپریل 1958اولیات: طلبہ کی تنظیم اردوئے معلی کی جانب سے رسالہ سہیل جاری کرنا(1926) اور بی اے و ایم اے کے نصاب کے لیے اسی انجمن کی جانب سے ایک کتاب’مقالات اردو‘ شائع کرناوفات: علی گڑھ، 15؍جنوری 1977تدفین: یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات:[ الف=تصنیفاتب=دوسروں کی مرتبہ کتب]الف:زبان اردو(علی گڑھ 1924)طنزیات مضحکات اردو(الہ آباد قیاساََ 1934 بعد کی اشاعتوں میں اردو کا لفظ حذف کردیا گیا) خنداں (دہلی1940) مضامین رشید(دہلی 1941) گنج ہاے گراں مایہ(علی گڑھ1942) ذاکر صاحب(دہلی1944، ہمارے ذاکر صاحب،دلی 1973)سہیل کی سر گزشت(حیدرآباد 1947) جدید غزل(علی گڑھ 1955) شیخ نیازی(علی گڑھ 1954)آشفتہ بیانی میری(علی گڑھ 1958) ہم نفسان رفتہ(اعظم گڑھ 1958) عزیزان ندوہ کے نام(لکھنؤ 1967) علی گڑھ کی مسجد قرطبہ(علی گڑھ 1967) غالب کی شخصیت اور شاعری(دہلی 1970)اقبال کی شاعری (دہلی 1970) علی گڑھ ماضی و حال(علی گڑھ 1970) دانائے راز(لاہور 1976)ب:نقش ہاے رنگ رنگ، مرتبہ پروفیسر نظیر صدیقی(ملتان1977)خطوط رشید احمد صدیقی،مرتبہ خلیق احمد نظامی(دہلی 1978) مکاتیب رشید، مرتبہ سلیمان اطہر جاوید(حیدر آباد 1980)رقعات رشیداحمد صدیقی،مرتبہ مسعود حسین خاں(علی گڑھ1981، رشید احمد صدیقی کے کچھ خطوط کچھ رقعات، پٹنہ 1995)شیرازہ ٔ خیال، مرتبہ پروفیسر نظیر صدیقی(ملتان 1982)انتخاب مضامین رشید احمد صدیقی، مرتبہ شہاب الدین ثاقب(لکھنؤ 1983)خطوط رشید احمدصدیقی، مرتبہ لطیف الزماں خاں(کراچی 1988) سر سید کی مغربی تعلیم کا تصور اور اس کا نفاذ علی گڑھ میں، مرتبہ مہر الہی ندیم (پٹنہ 1989، کراچی 1993) عزیزان علی گڑھ کے نام، مرتبہ فصیح احمد صدیقی و لطیف الزماں خاں(کراچی 1990)گنج ہائے گراں مایہ[2](کراچی 1991) آپ بیتی رشید احمد صدیقیمرتبہ ڈاکٹر سید معین الرحمن(لاہور 1992)رشید احمد صدیقی کے تنقیدی مضامین، مرتب ڈاکٹر نعیم احمد(علی گڑھ 1995)رشید احمد صدیقی کے خطوط، مرتبہ پروفیسر آل احمد سرور(علی گڑھ 1996)غالب نکتہ داں، مرتبہ مہر الٰہی ندیم(کراچی 1997) کلیات رشید احمد صدیقی علاحدہ علاحدہ عنوانات کے تحت[21جلدوں میں] مرتبہ مہر الٰہی ندیم، لطیف الزماں خاں (کراچی1988 تا 2010) کلیات رشید احمد صدیقی،مرتبہ ابوالکلام قاسمی(قومی کونسل دہلی7جلدیں جلد اول 2009۔۔۔۔۔۔)[مآخذ:رشید احمد صدیقی۔ کردار، افکار، گفتار،مالک رام، علمی مجلس دہلی1975 رشید یات،مہر الٰہی ندیم،شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ 1995، رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید، ساہتیہ اکیڈمی دہلی، بار دوم1992، رشید احمد صدیقی آثار و اقدار، ڈاکٹر اصغر عباس، شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ1984، ای لائبریری، ریختہ، میسج، جناب مہر الٰہی ندیم وپروفیسر صغیر افراہیم،]22سرور،آل احمد،[ ناقد [غالب و اقبال شناس] دانشور، ادبی صحافی، اردو تحریک کے علم بردار اور شاعر]ولادت: بدایوں [یوپی]9؍ستمبر 1911منصب ومدت کار: پروفیسر، جولائی 1936 تا فروری 1945، بار دگر:دسمبر 1955تا 7 اکتوبر 1973صدر شعبہ :یکم مئی 1958تا7؍اکتوبر1973اولیات:شعبۂ اردو کے پہلے ایمرطس پروفیسروفات: دہلی،9؍فروری 2002[شب کے 2 بجے]تدفین،یونیورسٹی قبرستان،علی گڑھمطبوعات :[الف= تصنیفات،ب=خطبات،ج=مرتباتد=نصابہ=انگریزی کتب]الف: سلسبیل (علی گڑھ 1935) تنقیدی اشارے(علی گڑھ 1942)نئے اور پرانے چراغ (لکھنؤ 1946) تنقید کیا ہے (دہلی 1947)ادب اور نظریہ (لکھنؤ 1954) ذوق و جنوں (لکھنؤ 1955) نظر اور نظریے (دہلی 1973) مسرت سے بصیرت تک(دہلی 1974) پہچان اور پرکھ(دہلی 1990) خواب باقی ہیں (علی گڑھ 1991) خواب اور خلش(دہلی 1991) دانشور اقبال( علی گڑھ 1994) فکر روشن (علی گڑھ 1995 )کچھ خطبے کچھ مقالے(علی گڑھ 1996)اردو تحریک (علی گڑھ 1999) افکار کے دیے (علی گڑھ 2000)لفظ [نظمیں اور غزلیں](دہلی 2005) میرے گھر میں اجالا(دہلی 2014)٭عرفان اقبال، مرتبہ،زہرا معین(لاہور 1977) حرف سرور، مرتبہ معین زہرا(لاہور 1980) مجموعۂ تنقیدات، مرتبہ عاصمہ وقار (لاہور 1996)آل احمد سرور کے تبصرے،مرتبہ محمد ضیاء الدین انصاری، (پٹنہ 2003)مکاتیب سرور، مرتبہ انجینئر وارث رفیع(لکھنؤ 2003)خواجہ غلام السیدین مرتبہ اسلم پرویز (دہلی 2004) کلیات آل احمد سرور، محی بخش قادری(دہلی 2011)آل احمد سرور کے سفر نامے، مرتبہ امتیاز احمد(علی گڑھ 2018)نقد غالب اور آل احمد سرور، ڈاکٹر امتیاز احمد (دہلی 2019)ب: اردو رسم خط (دہلی 1956)اقبال کے مطالعے کے تناظرات (سری نگر 1978) اقبال نظریہ اور شاعری(دہلی 1979) ہندوستان کدھر(دہلی 1983) ہماری تعلیمی صورت حال( سری نگر) مجیب صاحب اور ہندوستانی مسلمان (دہلی 1989)ج :انتخاب جدید ( بہ اشتراک عزیز احمد،اورنگ آباد 1943) مقالات یوم اقبال (رامپور 1945) علی گڑھ تاریخ ادب اردو، پہلی جلد کے نگراں( علی گڑھ 1962) تنقید کے بنیادی مسائل (علی گڑھ 1967) جدیدیت اور ادب (علی گڑھ 1969) عکس غالب (علی گڑھ 1969) عرفان غالب (علی گڑھ 1971) اردو فکشن (علی گڑھ 1973)اقبال اور تصوف(سری نگر 1980) اقبال اور مغرب (سری نگر 1981)تشخص کی تلاش کا مسئلہ اور اقبال(سری نگر 1984)جدیدیت اور اقبال (سری نگر 1985) اقبال اور اردو نظم (سری نگر 1986)ہندوستان میں تصوف (سری نگر 1987) اردو شعریات (سری نگر 1987)جدید دنیا میں اسلام(سری نگر 1987) رشید احمد صدیقی کے خطوط(علی گڑھ 1996)خطوط عبدالحق بنام آل احمد سرور (کراچی 1998)د : ہمارا ادب[نظم](آگرہ 1945) ہمارا ادب(لاہور 2001)ہ:[Lecture]1.Literature: Question and answer (Delhi1992)[Compiled] :1.Islamic Resurgence(Sri nagar)2.Modernity and Iqbal (Srinagar)3.Islam In the modern word( Srinagar)4.Modernity and Iqbal (Sri nagar)5.Quest for Identity and Iqbal( Sri nagar)[مآخذ:آل احمد سرور، مرتب امتیازاحمد، ساہتیہ اکیڈمی دہلی، اول 2005 و ذاتی معلومات]23سلمیٰ حقی،سلمیٰ سلام الحق [زوجہ شان الحق حقی، ادیبہ، مترجم، کہانی نویس]ولادت:ناگپور،(مہاراشٹر)15؍اکتوبر 1917،[سندی:7؍اکتوبر 1921]منصب ومدت کار:جونیئرلکچرر،2؍ستمبر 1942تا اواخر اگست1947وفات:ٹورنٹو،[کنیڈا]30؍ستمبر 2003تدفین: ٹورنٹواولیات: گرلس کالج اے ایم یو کی پہلی اردو خاتون لکچررمطبوعات: گلدستۂ نگارش(کراچی 1972)شہیدان وفا کا خوں بہا کیا (کراچی 2014)کیفیت:سلمیٰ حقی، اور سلیمہ سلطانی کاتذکرہ پروفیسر آل احمد سرور نے اپنی سوانح ’خواب باقی ہیں‘ میں کیا ہے[ص:104] ان کے بیان کے مطابق ان دونوں خواتین نے علی گڑھ ہی سے 1943 کے بعداردو میں ایم اے کیا تھا اور دونوں گرلس کالج میںاردو استاذ کی جگہ پر تقرر چاہتی تھیں۔وائس چانسلر ڈاکٹرضیاء الدین(ف1947) نے دونوں کا انٹر ویو لیا اور دونوں کا تقرر کردیا اوراردو کے ساتھ دینیات کی تعلیم بھی ان کے ذمے کردی۔اگست 1947 کے بعدسلمیٰ حقی اور ان کے شوہر پاکستان چلے گئے۔ سلمیٰ حقی کی اپنی تحریر ’شہیدان وفا کا خوں بہا کیا (مطبوعہ غالب،کراچی شمارہ 1 تا6، 1992 بار دگر علی گڑھ میگزین خواتین نمبر 2001) سے شعبۂ اردو میں ان کی تقرری کی تاریخ اور ان کے شوہر شان الحق حقی (ف2005) کی تحریر’کوئے آشنا‘(مطبوعہ رفتارعلی گڑھ 17۔2016) سے ان کے پاکستان ہجرت کرنے کے زمانے کا علم ہوتا ہے۔سرور صاحب کے درج کردہ سنہ 1943 کو حافظے کے سہو پر محمول کرنا چاہیے۔ سلمیٰ حقی نے 1942 میں ایم اے اردو سے فراغت کے معاََ بعد شیخ عبداللہ پاپا میاں کی تحریک پر شعبہ ٔ اردو جوائن کرلیا تھا۔ ہجرت کے بعد وہ کراچی کے گورنمنٹ کالج برائے خواتین کراچی سے وابستہ ہوگئیں اور وہیں سے1978 میں سبکدوش ہوئیں۔وہ اپنے شوہر کے علمی کاموں میں معاونت کرتی رہیں، خود بہت کم لکھا۔انھوں نے وکٹر ہیگو کے ایک ناول کا ترجمہ کیا تھا جو نامکمل رہا۔ چند کہانیاں بھی لکھیں تھیں۔اپنی سہیلی صفیہ اختر (زوجہ جاں نثار اختر)کی داستان حیات کاخاکہ ’’شہیدان وفا کا خوں بہا کیا‘‘ لکھا جس کوآ کسفورڈ پریس کراچی نے 2014 میں شائع کردیا ہے۔ پر وفیسر معین الدین عقیل (کراچی) نے میری طلب پر ان کے بیٹے شایاں حقی سے مذکورہ بالا کوائف فراہم کیے۔ ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔[مآخذ: علی گڑھ میگزین خواتین نمبر 2001 ص:221، خواب باقی ہیں:104،رفتار17۔2016 ص:67]24سلمیٰ صدیقی، سلمیٰ رشید صدیقی[ترقی پسند افسانہ و ناول نگار]ولادت:بنارس،18؍جون 1931منصب و مدت کار:عارضی لکچرر،1948 تا1949۔ تخمیناََایک سال سے کچھ کم۔[ قیا ساََ1948میں ایم اے کی تکمیل کے معاََبعد گرلس کالج سے وابستہ ہوگئی تھیں]وفات: بمبئی، 13؍فروری 2017، تدفین:اندھیری قبرستان بمبئیمطبوعات:مٹی کا چراغ(لکھنؤ 1976) سکندر نامہ (دہلی سنہ ندارد)[مآخذ:ای بک ریختہ لائبریری، ایلو منائی ڈائرکٹری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ج3، علی گڑھ،1974]25سلیمہ سلطانیولادت: ۔۔۔؟/منصب ومدت کار:جونیئرلکچرر 1942تا1947وفات:۔۔۔؟کیفیت:سرور صاحب کے علاوہ ان کا تذکرہ سلمیٰ حقی کی تحریر ’’شہیدان وفا کا خوں بہا کیا‘‘ میں دو ایک جگہ آیا ہے، باقی ان کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوسکا۔ ان کا تقرر محض اس وجہ سے ہوا تھا کہ یہ ڈاکٹر ضیاء الدین کے ایک دوست کی بیٹی تھیں اور تعلیم کے دوران کچھ دن ان کے گھر میںقیام بھی کیا تھا(خواب باقی ہیں:104) پروفیسر ذکیہ صدیقی(سابق پرنسپل ویمینس کالج ) نے بتایا کہ یہ بھی ہندوستان کی تقسیم کے دوران پاکستان چلی گئی تھیں۔پاکستانی کتبِ شخصیات و وفیات اور اردو قلم کاروں سے ان کی بابت کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا۔26سمیع اللہ اشرفی، ڈاکٹر[ادیب]ولادت:مراد آباد(یوپی)7؍جون1930منصب و مدت کار: سینئرلکچرر،24؍اگست 1981تا7؍جون 1992وفات:علی گڑھ،16؍مئی 1998، تدفین: یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات:[الف=تصانیف وتالیفاتب=ہندی کتب وتراجم]الف: اردواور ہندی کے جدید مشترک اوزان۔ ایک تقابلی جائزہ(دہلی 1984) اردو شاعری میں دوہے کی روایت(علی گڑھ 1990) منتخبات جامعہ اردو(علی گڑھ 1995) انتخاب نثر 1857 سے 1920 تک(علی گڑھ 2004)ب: نوین چکتسا سنکیت(1968) جواہر میڈیکل گاڈ(1969) اردو دوہے کی پرمپرا اور عالی کے دوہے(علی گڑھ 1988)[مآخذ:پسر:محمد سمیع اشرف،ریختہ ای لائبریری، رفتار 2003-4]27شہریار، کنور اخلاق محمد خاں، ڈاکٹر [شاعر، ادبی صحافی اور ناقد]ولادت:آنولہ،ضلع بریلی (یوپی)16؍جون 1936منصب و مدت کار:پروفیسر،20؍اکتوبر1966تا15؍جون 1996صدر شعبۂ:22؍جنوری 1996تا15؍جون 1996وفات: علی گڑھ، 13؍فروری 2012 ،تدفین : یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات:[الف=تصنیفات و تالیفاتب =دیوناگری و انگریزی]الف:اسم اعظم (علی گڑھ1965) ساتواں در (الہ آباد1969) ن م راشد فکروفن(حیدر آباد 1971) ہجر کے موسم (دہلی 1978) دنیا کی بہترین کہانیاں (ترجمہ 1981 )خواب کا در بند ہے (علی گڑھ 1985)انتخاب کلام خلیل الرحمن اعظمی(لکھنؤ 1991) نیند کی کرچیں (علی گڑھ 1995) میرے حصے کی زمین(علی گڑھ 1999) حاصل سیر جہاں(علی گڑھ 2001) شام ہونے والی ہے( علی گڑھ 2004) کلیات شہریار(پاکستان 2007) سورج کو نکلتا دیکھوں((علی گڑھ 2013)ب: قافلے یادوں کے(1987) خواب کا در بند ہے(1995) دھوپ کی دیواریں(1998) میرے حصے کی زمین(1998) سیر جہاں (2001) دھند کی روشنی (دہلی 2001)ملتا رہوں گا خواب میں (2004) کہیں کچھ کم ہے (2004)شام ہونے والی ہے(علی گڑھ 2005) شہر یار سنو، مرتبہ گلزار(دہلی 2011)1.The gateway of dream is closed [1992]2.Throughthecloseddoorway, Translator:RakhshandaJalil [2004][مآخذ: دستاویز، اتر پردیش اردو اکیڈمی لکھنؤ 1983، شہر یار حیا ت و خدمات، ڈاکٹر ساجد حسین انصاری، دہلی 2014]28ظہیر احمد صدیقی، ڈاکٹر [ناقد،مومن شناس، مترجم اورشاعر]ولادت: بدایوں(یوپی)10؍جولائی 1929صحیح:10؍جولائی 1928منصب و مدت کار:عارضی لکچرر،1953تا1954[صرف ایک سال]وفات: علی گڑھ،17؍فروری 2003تدفین:یونیورسٹی قبرستان، علی گڑھمطبوعات:[الف =تصنیفاتب= مرتبات]الف: تحقیقی مطالعہ ٔ حالی(علی گڑھ 1956) تحقیقی مطالعۂ انیس(علی گڑھ 1956) فانی کی شاعری (لکھنؤ 1969) فکری زاویے (لکھنؤ 1972) مومن شخصیت اور فن((دہلی 1972) ادب میں جمالیاتی اقدار(علی گڑھ 1979)احساس و ادراک(علی گڑھ 1981) خواجہ میر درد(دہلی 1983) مومن خاں مومن (دہلی 1985) میزان قدر(علی گڑھ 1993) جدید شاعری( دہلی 1993) عکس جاوید[منظوم ترجمہ، جاوید نامہ]( لاہور 1993) دبستان مومن(دہلی 1996) نقوش رشید احمد صدیقی(علی گڑھ 1996)ب: مثنوی سحر البیان(1956)مثنوی گلزار نسیم (1955) مجموعہ ٔ نظم حالی (علی گڑھ1956) دیوان درد(دہلی 1956) جذبات رضی(دہلی 1956) انتخاب دیوان مومن (علی گڑھ 1958) قصائد مومن (لکھنؤ 1960) نقش ہاے رنگ رنگ(دہلی 1970) انشائے مومن (دہلی 1977) ارمغان فاروقی (دہلی 1987) نقیب بہار(1990) کلیات فانی(دہلی1993) کلیات ضیا(1996) مجموعۂ مضامین (دلی1997)[مآخذ: دستاویز، لکھنؤ 1983، ای بک لائبریری ریختہ، رفتار علی گڑھ 4۔2003، مراسلہ تسلیم غوری]29ظہیر الدین علوی [ادیب، محسن اردو، جامعۂ اردو علی گڑھ کے مؤسس]ولادت : جونپور( یو پی )1898منصب و مدت کار: لکچرار، 1938تا1958وفات: علی گڑھ،12؍جنوری 1964تدفین:یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات: یادگار نصیر(علی گڑھ 1940)اشک و رشک غالب (علی گڑھ 1941) تاریخ ادب ہندی(الہ آباد 1942) ادبی کارنامے (علی گڑھ 1951) انتخاب سخن(علی گڑھ 1955) علمی قواعد اردو(علی گڑھ سنہ ندارد)[ماخذ: مراسلہ ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی و ڈاکٹر فرقان سنبھلی]30عبد الستار، قاضی، ڈاکٹر[ناول و افسانہ نگار، ناقد و شاعر]ولادت: مچھر ہٹہ، ضلع سیتا پور (یوپی)16؍جولائی 1930،سندی تاریخ:8؍فروری 1933منصب و مدت کار:پروفیسر، 1956تا1993صدر شعبہ:8؍اگست 1987 تا 14؍جولائی 1990وفات:دہلی، 29؍اکتوبر2018تدفین:یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات:[12،ناول، دوافسانوی کتب، دو تنقیدی کتب]شکست کی آواز(طبع اول1954۔ طبع دوم، دود چراغ محفل [پاکستان 1961 ]اور طبع سوم پہلا اور آخری خط[1962] کے نام شائع ہوا)اردو شاعری میں قنوطیت(علی گڑھ 1963) مجو بھیا(1963) بادل (1964) شب گزیدہ (الہ آباد1966) دارا شکوہ (لکھنؤ 1967) صلاح الدین ایوبی( دہلی 1968) غبار شب( لکھنؤ 1974)پیتل کا گھنٹہ(الہ آباد 1977) جمالیات اور ہندوستانی جمالیات(علی گڑھ 1977) غالب (علی گڑھ 1986)حضرت جاں(علی گڑھ 1990) خالد بن ولید(دہلی 1997) آئینہ ٔ ایام میں، مرتبہ ڈاکٹر محمد غیاث الدین(دہلی 1995) تاجم سلطان (2005) تاج پور(2006)[ماخذ: ترقی پسند ادب کے معمار ج/1 دہلی 2006، ای لائبریری ریختہ،]31عبد الغفار شکیل، ڈاکٹر[ادیب، ناقد، ماہر لسانیات]ولادت:بنور،ضلع میسور(کرناٹک)17؍مئی 1929منصب و مدت کار: لکچرر،1958تا1965 بار دگر 1966تا1970کیفیت:اے ایم یو کے شعبۂ لسانیات میں بہ حیثیت ریڈراپنی خدمات منتقل کرالیں پھر وہیں سے پروفیسر و صدر شعبہ کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔وفات: میسور، یکم اگست 2016 ، تدفین:بڑا مکان قبرستان، میسور کرناٹکمطبوعات: نوادر اقبال (علی گڑھ1962 ) نوادر ابوالکلام(علی گڑھ ) ابوالکلام کے افسانے( علی گڑھ) زبان و مسائل زبان(علی گڑھ 1974) لسانی وتحقیقی مطالعے(علی گڑھ 1975) اقبال کے نثری افکار (دہلی1977 ) بنیادی ہندی حصہ ٔاول و دوم (علی گڑھ ) لسانیات کیا ہے، اردو کی لسانیاتی تاریخ، سر سید کے غیر مطبوعہ خطوط،ڈاکٹر ذاکر حسین خاں، حیات فکر اور عمل، شریک مرتب خلیق انجم (بنگلور 1999)[مآخذ: دستاویز، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ 1983، ہندوستان کے اردو مصنّفین اور شعرا، نار نگ و اعظمی، دہلی 1996]32عتیق احمد صدیقی، ڈاکٹر[ محقق، ناقد، مترجم]ولادت: دیوبند،ضلع سہارنپور (یوپی)10؍ستمبر 1933منصب و مدت کار:پروفیسر،13؍دسمبر 1966تاستمبر 1994 [ مع یک سالہ توسیع]صدر شعبہ:11؍جولائی 1984تا7؍اگست 1987وفات: علی گڑھ،17؍دسمبر 2004تدفین: یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات:[الف= تصنیفات و تالیفاتب= نصاب و معاون نصابج=تراجم]الف:قصائد سودا(1976)یونانی ڈراما (علی گڑھ 1977) سید سلیمان ندوی (علی گڑھ 1985) انتخاب زمیندار(لکھنؤ 1988) سر سید بازیافت (علی گڑھ 1990) اشا ریۂ تنقید( علی گڑھ1991) انتخاب الٰہی بخش معروف (لکھنؤ 1991)میری نظر میں مرتبہ ڈاکٹر حسان عتیق صدیقی (علی گڑھ 2009)ب: مقدمۂ شعرو شاعری(علی گڑھ 1968) بنیادی اردو(علی گڑھ 1969)آسان قواعد(علی گڑھ 1970) بنیادی نصاب(علی گڑھ 1971) انتخاب مضامین سر سید(علی گڑھ1983) منتخب مضامین سرسید (علی گڑھ 1988)مراسلات سرسید (علی گڑھ 1990)ج:ہند آریائی اور ہندی(دہلی 1977) مقدمۂ توضیحی لسانیات(دہلی 1979) سر سید لیک سنچین (علی گڑھ1990) شاہ لطیف (دہلی 1992) اسلام اور امن عالم (دہلی 2000) اسلام اکیسویں صدی میں (دہلی 2000)A M U Contribution and Achievements[Aligahrh][مآخذ:تعزیتی قرار داد، رفتار علی گڑھ2004-5، ای لائبریری ریختہ]33مجنوں گورکھپوری، احمد صدیق[رومانوی افسانہ نگار، ناقد، شاعر، مترجم]ولادت: موضع پلڈہ،ضلع بستی ( یوپی)سندی10؍جنوری1904، صحیح:10؍مئی 1904منصب و مدت کار:ریڈر،نومبر 1958تامئی 1968[جولائی تا دسمبر 1935 شعبۂ انگریزی میں]وفات:کراچی،4جون 1988 ، تدفین: قبرستان سخی حسن، کراچیمطبوعات:[الف =تصنیفات و تالیفاتب = تراجم]الف:زہر عشق(گورکھپور 1930) شوپنہار(گورکھپور 1930) خواب و خیال اور دوسرے افسانے (گورکھپور 1931)افسانہ (گورکھپور 1935) تاریخ جمالیات(گورکھپور 1935) ہتیا اور دوسرے افسانے (اس کا دوسرا ایڈیشن ’مجنوں کے افسانے ‘ کے نام سے دہلی سے 1938 میں شائع ہوا تھا)ادب اور زندگی(گورکھپور 1939)سمن پوش اور دوسرے افسانے(اول گورکھپور سنہ ندارد، دوم دہلی 1943) صید زبوں(حیدر آباد 1944)گردش ( دہلی دوم 1945) تنقیدی حاشیے(حیدر آباد 1945) زیدی کا حشر(ناگپور 1946) نقوش و افکار (لکھنؤ 1955) اقبال اجمالی تبصرہ(دہلی دوم 1955) نکات مجنوں (الہ آباد 1957) پر دیسی کے خطوط (لکھنؤ 1957) دوش و فردا(الہ آباد 1959)غزل سرا (دہلی1964) تین مغربی ڈارمے(علی گڑھ دوم 1968)غالب شخص اور شاعر(کراچی1974) شعر اور غزل (کراچی سنہ ندارد) سوگوار شباب(گورکھپور سنہ ندارد) ارمغان مجنوں(کراچی سنہ ندارد) نقش ناہید، سر نوشت، سراب، حسن فطرت(عبرت گورکھپوری)ب:مریم مجد لانی( گورکھپور 1947)سنگھاسن بتیسی(لکھنؤ سنہ ندارد) سالومی (الہ آباد سنہ ندارد) قابیل (گورکھپور سنہ ندارد) ابو الخمر، کنگ لیر، شمسون مبارز۔[مآخذ :ترقی پسند ادب کے معمار جلد 1، ای لائبریری ریختہ، رفتار علی گڑھ]34محمد حسن، ڈاکٹر[ دانشور،ترقی پسند ناقد، ڈرامہ نگار، شاعر، مدون]ولادت: مراد آباد، 15؍اگست 1925سندی تاریخ : یکم جولائی 1926منصب و مدت کار: لکچرر،1952تااگست 1953 چند ماہ،بار دگر 1954تا1962وفات : دہلی،24؍اپریل 2010تدفین: دہلی گیٹ قبرستان دہلیمطبوعات:[الف = تصانیفب:=مرتبات و انتخاباتج: تراجمد: انگریزی کتب]الف:ادبی تنقید (لکھنؤ1954)اردو ادب میں رومانوی تحریک(علی گڑھ 1955)ہندی ادب کی تاریخ(لکھنؤ 1955) جلال لکھنوی(کراچی 1956) نئے ڈرامے(علی گڑھ 1960) میرے اسٹیج ڈرامے (لکھنؤ 1961) مطالعۂ سودا ( لکھنؤ 1965) کہرے کا چاند(دہلی 1969)جدید اردو ادب (دہلی 1975) تماشہ اور تماشائی (دہلی 1975) فیض آباد کی جھلکیاں (دہلی 1975) مور پنکھی اور دوسرے ڈرامے (لکھنؤ 1975) عرض ہنر (لکھنؤ 1977) زلفیں زنجیریں (لاہور1978) ضحاک (دہلی 1980) معاصر ادب کے پیش رو (دہلی1982) ادبی سماجیات (دہلی 1983) قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ (لکھنؤ 1986) شناسا چہرے(کراچی 1987) ادبیات شناسی(دہلی 1988) دہلی میں اردو شاعری کا تہذیبی و فکری پس منظر(دہلی 1989) زنجیر نغمہ (دہلی 1989) مشرق و مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ( دہلی 1990) اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ(دہلی 2000) آخری سلام (دہلی 2002)غم دل وحشت دل(دہلی 2003) غالب ماضی حال اور مستقبل(پٹنہ 2005)طرز خیال (دہلی 2005) خواب نگر (دہلی 2007)ب: سہ نثر ظہوری (لکھنؤ 1942)مارکسزم اور ادب (دہلی 1961) مرزا رسوا کے تنقیدی مراسلات (علی گڑھ 1961)ہیتی تنقید (دہلی 1973) نئے ڈرامے (دہلی 1975) انتخاب سراج (دہلی سنہ ندارد) اردو نصاب[1](علی گڑھ 1977) اردو نصاب [2] (علی گڑھ 1978) ہندوستانی شاعری (علی گڑھ 1978) ضیائے اختر(لکھنؤ 1978) نصاب فارسی (دہلی 1978) انار کلی (علی گڑھ 1980) امراو جان ادا( علی گڑھ 1980) کلیات سودا[2] ( دہلی 1984) کلیات سودا [1] (دہلی 1985) نظیر اکبر آبادی (دہلی 1986) مشرقی تنقید (دہلی 1988) انتخاب کلام فائز(دہلی 1991) ہندوستانی رنگ(دہلی 1993) ہندوستانی محاورے(دہلی 1995) انتخاب کلام مجاز، جذبی، اختر (دہلی 1996) اردو ڈراموں کا انتخاب (دہلی 1998) دیوان آبرو (دہلی 2000) انتخاب مرزا ہادی رسوا (لکھنؤ دوم 2009)ج: جوالا مکھی (دہلی 1961) گرونانک (پٹیالہ 1975) ہندی کے یک بابی ڈرامے(دہلی 1975) ہندوستانی محاورے (دہلی 1995)شریشٹھ کوی اقبال(لکھنؤ) گذشتہ لکھنؤ۔ نظیر اکبر آبادی۔د:1.A new approach to Iqbal,[Delhi]2.Multidisciplinary approach to Iqbal3.Thought pattern of nineteenth century literature of north India [karachi,1990]4.NazeerAkbarabadi [Delhi][مآخذ:ترقی پسند ادب کے معمار جلد1 دہلی 2006، پروفیسر محمد حسن نقاد اور دانشور، مرتبہ سرورالہدی، غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی 2010 رفتار علی گڑھ]35محمد زاہد، ڈاکٹر[ادیب]ولادت:قصبہ سبر حد (ضلع جونپور)25؍دسمبر 1953/منصب و مدت کار:پروفیسر،1978 تا 25 دسمبر2018صدر شعبہ:31؍اگست 2010تا30؍اگست 2013وفات:علی گڑھ، 17؍مئی 2020 ،تدفین: یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات:اکبر کی طنزیہ و ظریفانہ شاعری (1979)عبدالرحمن بجنوری حیات اور ادبی کارنامے (علی گڑھ 2000)اردو رومانی نثر کے معمار( علی گڑھ 2002)مجاز اور ان کا عہد ( علی گڑھ2013)[ماخذ: تعزیتی قرارداد شعبۂ اردو،نقل مرسلہ ڈاکٹر محمد شارق]36محمدعزیر، ڈاکٹر[اسکالر، مورخ، مترجم]ولادت: موضع بی بی پور، ضلع اعظم گڑھ1904منصب و مدت کار:ریڈر، جولائی 1938تا1966[مع دوسالہ توسیع]وفات : کراچی، جنوری1995 ،تدفین: کراچیمطبوعات: رسول وحدت(مقالہ ٔسید سلیمان ندوی کا انگریزی ترجمہ) دولت عثمانیہ دو جلد(اعظم گڑھ 1939، 1943) اسلام کے علاوہ مذاہب کی ترویج میں اردو کا حصہ(علی گڑھ 1955) خوشبوئیں(لاہور سنہ ندارد۔ خلیل جبران کی کسی کتاب کا ترجمہ)خودنوشت( مطبوعہ پاکستان)[مآخذ: تعزیتی قرار داد، مشمولہ رفتار علی گڑھ95۔1994، دارالمصنّفین کے سوسال، کلیم صفات اصلاحی، دارالمصنّفین اعظم گڑھ، 2014، خط: جناب عطا خورشید(علی گڑھ)]37مسعود حسین خاں، ڈاکٹر[ماہر لسانیات، ناقد، مدون، شاعر]ولادت:فرخ آباد(یوپی)28؍جنوری 1919/منصب و مدت کار:ریڈر،نومبر 1943تا1962اولیات: شعبہ لسانیات کو قائم کرنے میں نمایاں خدماتوفات: علی گڑھ16؍اکتوبر 2010تدفین:یونیورسٹی قبرستان علی گڑھمطبوعات:[الف= تصنیفات و تالیفاتب:=انگریزی کتب اور ان کے ترجمے]الف:مقدمۂ تاریخ زبان اردو(علی گڑھ 1948) اردو زبان و ادب (علی گڑھ 1952)روپ، بنگال اور دوسرے گیت(علی گڑھ 1954) سریلے بول (علی گڑھ 1954)زبان و ادب (علی گڑھ 1954) دونیم (دہلی 1956) پرت نامہ (حیدرآباد 1965)قدیم اردو (حیدرآباد 1965)شعرو زبان (حیدرآباد 1966)ابراہیم نامہ (لکھنؤ 1966) دکنی اردو کی لغت(بہ اشتراک غلام عمر خاں، حیدرآباد 1969)بکٹ کہانی (لکھنؤ 1970)قصہ مہر افروز و دلبر(علی گڑھ 1988)اردو زبان کی تاریخ کا خاکہ (1981)رقعات رشید صدیقی (علی گڑھ 1981 باردگررشید احمد صدیقی کے کچھ خطوط کچھ رقعات، پٹنہ 1995)اقبال کی نظری و عملی شعریات(سری نگر 1983) اردو زبان ( 1988) اردو زبان : تاریخ، تشکیل، تقدیر(علی گڑھ 1988) نظیر اکبر آبادی((لکھنؤ 1988)ورود مسعود (پٹنہ 1989) مقالات مسعود (دہلی 1989) محمد قلی قطب شاہ(دہلی 1989) یوسف حسین خاں (دہلی 1990) تاریخ جامعہ اردو (علی گڑھ 1990) انتخاب کلام اقبال (علی گڑھ 1991) انتخاب کلام غالب (علی گڑھ 1991) اردو غزل کے نشتر(دہلی 1995) مضامین مسعود(علی گڑھ 1997)ب: A phonetic and phonological study of the word in Urdu[Aligarh, 1954]اردو کا المیہ، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ 1973) اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجزیاتی مطالعہ، ترجمہ مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ 1986)[مآخذ: ورود مسعود، مسعود حسین خاں خدا بخش لائبریری، پٹنہ 1989، ماہنامہ کتاب نما دہلی، گوشۂ مسعود حسین خاں، اکتوبر 1992]38منور حسین، ڈاکٹر [ادیب و ادبی صحافی]ولادت:موضع پپرا لطیف، ضلع کھگڑیا (بہار) یکم جولائی 1959منصب و مدت کار:سینئر لکچرر،19؍دسمبر1994 تا وفات ستمبر 2000وفات: علی گڑھ17/18 ستمبر 2000تدفین: آبائی وطن موضع پپرا لطیفمطبوعات: مولوی چراغ علی کی علمی خدمات(پٹنہ 1997)، اردو میں علمی نثر(علی گڑھ،2020)[ماخذ: تعزیتی قرارداد، مشمولہ رفتار علی گڑھ، جون 2003]39میمونہ جعفری، میمونہ قدیر صدیقیولادت:بستی (یوپی)1921 ،سندی جون 1922منصب و مدت کار:لکچرر، 1949تا۔۔؟باردگر 1972تا1983وفات: علی گڑھ 15؍مارچ 2013تدفین: یونیورسٹی قبرستان علی گڑھ[ماخذ:تعزیتی قرارداد،مشمولہ رفتار علی گڑھ2012-13]40نسرین ممتاز بصیر، ڈاکٹر [ادیب]ولادت: گورکھپور،(یوپی)15؍جولائی 1957منصب و مدت کار: سینئر لیکچرر،1988تانومبر1999وفات: علی گڑھ،یکم دسمبر 1999 ،تدفین: یونیورسٹی قبرستان، علی گڑھمطبوعات: اردوخطوط نگاری ایک مطالعہ( دہلی 1995) خطوط سرسید (علی گڑھ 1995)، مراثی انیس()[مآخذ: تعزیتی قرارداد، مشمولہ رفتار علی گڑھ، جون 2002 و ذاتی معلومات]41نسیم قریشی[مورخ ادب، ادیب]ولادت:مہوبا ( یوپی)اپریل 1919منصب و مدت کار: ریڈر،1956تااپریل 1981وفات : علی گڑھ، 16؍فروری 1985تدفین: لکھنؤمطبوعات: تاریخ ادب اردو (دہلی 1955)علی گڑھ تحریک آغاز تا امروز(علی گڑھ 1960) انتخاب نثر اردو(علی گڑھ 1962)[ماخذ:علی گڑھ میگزین علی گڑھ 1989]42نعیم احمد، ڈاکٹر[مارکسی نقاد،محقق، مدون، اور ادبی صحافی]ولادت:دہلی، 19؍اپریل 1939منصب و مدت کار:پروفیسر، 8؍جنوری 1968تاجولائی 1973 بار دگر 11؍مارچ 1975تاوفاتصدر شعبہ: 15؍جولائی 1993تا21؍جنوری 1996وفات: دہلی، 22؍جنوری 1996،تدفین: دہلی گیٹ قبرستان دہلیمطبوعات:تذکرۂ بہار بے خزاں( دہلی 1968) کلیات جعفر زٹلی(علی گڑھ 1979) شہر آشوب کا تحقیقی مطالعہ(علی گڑھ 1979)سیر المنازل[ترتیب و ترجمہ](علی گڑھ 1980) دواوین غزلیات راغب( علی گڑھ 1980) علم شرح، تعبیر اور تدریس متن(علی گڑھ 1995) رشید احمد صدیقی کے تنقیدی مضامین(علی گڑھ 1995) دیوان عبیدللہ خاں مبتلا( )[مآخذ: ترقی پسند ادب کے معمار جلد 1، تعزیتی قرارداد، مشمولہ رفتار علی گڑھ6۔1995 میسج پروفیسر صغیر افراہیم]43نورلحسن ہاشمی، ڈاکٹر [محقق، مدون، ناقد، شاعر، مترجم]ولادت:سندیلہ،ضلع ہردوئی(یوپی)12؍اگست 1911 ،سندی تاریخ یکم جولائی 1913منصب و مدت کار: جونیئر لیکچرر،1940تا1943وفات: لکھنؤ،28؍نومبر 2000 ،تدفین:قبرستان عیش باغ لکھنؤمطبوعات:کلیات ولی(اورنگ آباد 1945) سیاسی نظریے(دہلی 1946) دلی کا دبستان شاعری (کراچی 1949) ناول کیا ہے (لکھنؤ 1951، بہ اشتراک احسن فاروقی) کینڈا(ترجمہ لکھنؤ 1954) ایک نادر روز نامچہ (لکھنؤ 1954) ادب کیا ہے (لکھنؤ 1956) ادب کا مقصد(لکھنؤ 1956) لکھنؤ اور جنگ آزادی(لکھنؤ 1957)نو طرز مرصع(الہ آباد 1958) مزیدار قاعدہ (لکھنؤ 1960) مثنوی سراپا سوز(لکھنؤ1961) مثنوی طوطی نامہ (لکھنؤ 1961)بکٹ کہانی (لکھنؤ1965 بہ اشتراک مسعود حسین خاں) کلیات حسرت دہلوی(لکھنؤ 1966) ریختۂ ولی(لکھنؤ1983)، تذکرۂ مشاہیرسندیلہ(1976) انتخاب سب رس(لکھنؤ) اندرونم (1984) ساز اودھی میں نغمۂ غالب (1985)ریختۂ غالب ( لکھنؤ 1985) ولی (دہلی 1986، اردو و انگریزی)فسانۂ اعجاز(لکھنؤ 1988) آسان اردو لغت(دہلی) ہندی اردو لغت، لغت القوافی[مآخذ: دستاویز، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ 1983 تعزیتی قرار داد،رفتار علی گڑھ، جون 2002 ایضاً 4۔2003]44نورالحسن نقوی، ڈاکٹر[ناقد،مصحفی شناس، محقق، مدون، مورخ ادب،مترجم]ولادت:امروہہ (یوپی)2؍مئی 1933منصب و مدت کار: پروفیسر،1967تا1993وفات: دہلی، 25؍جنوری 2006 ،تدفین: قبرستان پنج پیراں دہلیمطبوعات:[ الف =تصنیفاتب=مرتباتج= بہ زبان غیر]اقبال فن اور فلسفہ(علی گڑھ 1978) سر سید اور ہندوستانی مسلمان (علی گڑھ1979) نذیر احمد (دہلی 1984) سر سید کا خواب (دہلی 1985) فلسفۂ جمال اور اردو شاعری(علی گڑھ 1988) مصحفی (دہلی 1989) فن تنقید اور اردو تنقید نگاری(علی گڑھ 1990) اقبال شاعرو مفکر(علی گڑھ 1992) مصحفی حیات اور شاعری (لاہور 1998) تاریخ ادب اردو (علی گڑھ 1997) تصویریں اجالوں کی(علی گڑھ 1999) محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تک(علی گڑھ 2000) سرسید اور ان کے کارنامے(علی گڑھ 2000) غالب شاعر و مکتوب نگار(علی گڑھ 2000)سر سید کا تعلیمی منصوبہ اور عہد حاضر میں اس کی معنویت(کراچی سنہ ندارد) قصۂ چہار درویشب: کلیات مصحفی چھ جلدیں(لاہور 1968تا 1994) کلیات مصحفی دیوان قصاد(لاہور ) اردو لغت (دہلی 1970) کلیات جرأت(علی گڑھ 1971) دیوان غالب (علی گڑھ 1980) تذکرہ ٔ عیار الشعرا[بہ اشتراک پروفیسر سید محمد طارق(دہلی 2011 کراچی2012)ج:غالب ویکتتو اور کرتتو [ہندی ]نور نبی عباسی کے اشتراک سے(علی گڑھ 1969)Ghalib reveals himself[Aligarh1972]رام چرت مانس (دہلی1972) راجہ رام موہن رائے(دہلی 1984) نہرو کے ان دیکھے روپ (دہلی 1989) اشارات تعلیم (دہلی 1989) میرابائی اور اس کے گیت(دہلی)[ماخذ: رفتار علی گڑھ 4۔2003 و 6۔2005، ترقی پسند ادب کے معمار جلد 1، مقالہ قمرالہدی فریدی مشمولہ تہذیب الاخلاق علی گڑھ مشاہیر علی گڑھ نمبر جلد دوم مارچ 2013]45یلدرم، سجاد حیدر، سید[ڈرامہ نویس، مترجم،شاعر][نوٹ:یلدرم شعبۂ اردو کے استاد نہیں تھے، البتہ انھیں اکیڈمک سر براہ یعنی رجسٹرارہونے کے سبب شعبۂ اردو کا ریڈر اورعلامتی صدر نامزد کیا گیا تھا۔ یہی جواز ہے ان کے ترجمے کا]ولادت:نانڈیر،ضلع جھانسی (یوپی)1880منصب: ریڈردور صدارت:6؍جون 1921تا13؍جنوری1929وفات :لکھنؤ11؍اپریل 1943تدفین:قبرستان عیش باغ لکھنؤاولیات: اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ [پہلا افسانہ’ غربت وطن‘ مشمولہ اردوئے معلی علی گڑھ اکتوبر 1906 ] ترکی ناولوں و افسانوں کے بھی مترجم۔مطبوعات:[الف =تصنیفاتب=تراجم]الف: مرزا پھویا (بدایوں 1909 )خیالستان (لاہور 1911) پرانا خواب اور دو افسانے(علی گڑھ 1930)ایک کہانی پانچ ادیبوں کی زبانی(دہلی 1938) حکایت لیلیٰ مجنوں(لاہور 1944 سے پیشتر)ب: ثالث بالخیر(انبالہ1902) زہرا (علی گڑھ1902)مطلوب حسیناں (علی گڑھ 1902) جلال الدین خوارزم شاہ (علی گڑھ 1926) آسیب الفت (علی گڑھ 1930)حکایات و احتساسات (علی گڑھ 1930) ہما خانم (حیدرآباد 1931) جنگ و جدال(علی گڑھ 1933)[ماخذ:اردو ادب کے خالق جلد 1، ڈاکٹر شہزاد بانو دہلوی،شیروانی آرٹ پرنٹرز دہلی 2010]استدراکزیر نظر مقالہ جون 2020 میں مکمل ہوگیا تھاجو شعبہ ٔ اردو کی صدی مکمل ہونے پر شعبے کی جانب سے زیر ترتیب کتاب ’شعبۂ اردو کی سوسالہ خدمات‘ کے لیے پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی فرمائش پر لکھ کر فوری طور پر انھیں کو سونپ دیا گیا تھا۔ کیا پتہ تھا کہ چھ ماہ بعد وہ خود بھی اس ماہ وسال کاحصہ بن جائیں گے۔ رہے نام اللہ کا۔اس استدراک کے تحت جون 2020 سے دسمبر 2020 کے درمیان وفات پانے والے دو اساتذہ کے نام کا اضافہ کیا جارہا ہے:1کوکب قدر سجادعلی میرزا[ایم کوکب]ڈ اکٹر[محقق، مترجم، مدیر]ولادت: کلکتہ (بنگال)26؍اگست 1933منصب و مدتِ کار:ریڈر1967 تا 1993وفات:کلکتہ،13؍ستمبر2020، تدفین: گلشن آباد، مٹیابرج، کلکتہامتیاز:نواب واجد علی شاہ اور بیگم حضرت محل کے پرپوتےمدیر:1981میںBilliards and Snookerسے متعلق ایک ماہانہ رسالہThe Baulk Lineجاری کیا۔مطبوعات:ولایتی بھوت (انگریزی کہانیوںکا ترجمہ، لکھنؤ1962)،انتخاب واجد علی شاہ، اختر (لکھنؤ 1984)واجد علی شاہ کی ادبی و ثقافتی خدمات (علمی مقالہ، دہلی 1995)،اقلیم سخن کے تاجدار (کلکتہ 2004)[مآخذ: میسج، عرفان علی مرزا، پسر کوکب قدر، میسج پروفیسر محمد علی جوہر و ذاتی معلومات]2ظفر احمد صدیقی،مظاہری، ندوی، ڈاکٹر[محقق، مدون، فاضل زبان و ادبیات مشرق، عالم دین]ولادت:قصبہ گھوسی، ضلع مئو(یوپی)،10؍اگست 1955منصب و مدت کار: پروفیسر،20دسمبر 1997 تا 31؍اگست 2020صدر شعبہ:یکم اکتوبر 2019 تا 9؍اگست 2020وفات:علی گڑھ، 29؍دسمبر 2020، تدفین :30؍دسمبر،یونیورسٹی قبرستان، علی گڑھمطبوعات:[الف=مصنفہ کتبب=مرتبہ و مدونہ کتبج=نصاب]الف:تنقیدی معروضات (بنارس 1983)، شبلی (دہلی1988)، نقش معنی (دلی1999)مولانا شبلی بحیثیت سیرت نگار(دہلی 2001)، تحقیقی مقالات (پٹنہ 2003)افکار و شخصیات (رامپور2006)، شبلی کی علمی و ادبی خدمات (علمی مقالہ، علی گڑھ2012)نظم طباطبائی (دہلی 2019)، قصیدہ: اصل ہیئت اور حدود (علی گڑھ2020)ب:انتخاب مومن (لکھنؤ 1983)،انتخاب کلام آبرو (لکھنؤ 1997)شبلی معاصرین کی نظر میں (لکھنؤ 2005) [بار دگر مع اضافہ بہ اسم شبلی شناسی کے اولین نقوش (اعظم گڑھ 2016)]دیوان ناظم (رامپور 2011)،شرح دیوان اردوئے غالبنظم طباطبائی(دہلی 2012 ولاہور 2013)مقالاتِ نذیر (دہلی 2012)، مثنوی موضع آرایش معشوق (بمبئی 2013)ج:ابتدائی عربی (علی گڑھ2015)[ماخذ:جناب عبدالرازق،شاگردِ ظفر احمد صدیقی و ذاتی معلومات]Dr. Shams BadauniJ-2, New Naz ResidencySir Syed NagarAligarh - 202002 (UP)Mob.: 9837092245" شیکسپیئر کے گیارہ سانیٹس کا اردو ترجمہ - مضمون نگار: ف س اعجاز,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/05/,"ولیم شیکسپیئر((1564-1616 کے154سانیٹوں کا شمار انگریزی کے سدا بہار منظوم ادب میں ہوتا ہے۔اور اس کے سانیٹس میںعشقیہ سانیٹس((Love Sonnetsشاہکار قرار دیے جاتے ہیں۔اِن میں نمبر 127سے 154تک کے 28سانیٹس جو اس نے اپنی ’ڈارک لیڈی‘ ((Dark Ladyکو منسوب کیے ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ یہ شیکسپئیر کی زندگی کے ایک خاص دور کا پس منظر بھی فراہم کرتے ہیں۔عجیب بات ہے تخلیقی ادب میں کالی عورت کو ایک الگ قابلِ ذکر مقام ملا ہے۔ صوفی شاعر بابا بلّھے شاہ نے مجنوں کے تعلق سے کہا ہے؎کیتا سوال میاں مجنوںنوںتیری لیلیٰ رنگ دی کالی اےدِ تّا جوابمیاں مجنوںنےتیری انکھ نہد یکھن والی اےٹیگور کی مصوّری میں بھی ایک ڈارک لیڈی قابل ذکر ہے جس کا مفصّل ذکر میں نے اپنی کتاب ’تھوڑا سا ٹیگور‘ میں ایک تحقیقی مضمون میں کیا ہے۔یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے اپنی ہی ایک کہانی ’یونس تنویر کا فلیٹ‘ (مشمولہ افسانوی مجموعہ’پلوٹو کی موت‘)کے فریدہ نام کے حقیقی کردار کی یاد آرہی ہے۔میرا یہ سیاہ فام کریکٹر کہانی کے ناقدین نے بہت پسند کیا۔مگر ظاہر ہے کہ اپنے کالے رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کردار یا سائیکی کی بدولت۔بہر حال شیکسپیئر کی’ڈارک لیڈی‘ کیا ہے،کون ہے یہ تحقیق بہت دلچسپ پیرائے میں میری فرمائش پر جناب ستیہ پال آنند صاحب( کنیڈا) نے مضمون کی شکل میں لکھی تھی ’جو ادیبوں کی حیاتِ معاشقہ‘ کے دوسرے البم ایڈیشن میں شامل ہے۔شیکسپیئر کی یہ سیاہ عورتLucy Negroتھی جوBlack Luceکے نام سے بھی موسوم تھی۔لوسی نیگرو شمالی لندن کے کلرکین ویل چکلے کی بدنام رنڈی تھی جسے شیکسپیئر نے""My female evil""اور""My bad engel ""گردانا ہے۔بہر حال، شیکسپیئر کے سانیٹس سے اس کے ا علیٰ افکار ہی نہیں اُس کے اپنے کردار کے بھی کئی گوشے سامنے آتے ہیں۔سانیٹ کا ترجمہ پابند سانیٹ میں بہت مشکل کام ہے۔اور پھر شیکسپیئر کے زمانے کی انگریزی میں لکھے گئے اس کے سانیٹس کا ترجمہ بہت کٹھن کام ہے۔ہندی میں تو شعری زبان یوں بھی آزاد ہے۔اس لیے ہندی میں ترجمے کے نام پر شیکسپیئر کے سانیٹس کا جوزبانی یا تحریری متن ملتا ہے اُسے اصل کی تشریح سے تو تعبیر کیا جا سکتا ہے، ہیئت کے اعتبار سے ترجمہ نہیں کہا جا سکتا۔ شیکسپیئر کے سانیٹوں کا ترجمہ تھوڑی محنت سے کیا جا سکتا تو اب تک اس کے کئی سانیٹوں کا ترجمہ ہو چکا ہوتا۔میں نے بھی اب تک اس کے صرف11 سانیٹ ترجمہ کیے ہیں۔پہلے دو ترجمے شیکسپیئر یَن سوسائٹی آف انڈیا کیدعوت پر 1989شاعر کی 425 ویں سالگرہ کے موقع پر کیے تھے۔وہ تقریب کلکتہ کے روٹری سدن میں ہوئی تھی۔پھرمزید تینترجمے کیے۔اُس کے بعد آنند صاحب کے مذکورہ تحقیقی مضمون کیSupportمیں ضرورتاً ایک سانیٹ ترجمہ کیاجو ’ ادیبوں کی حیاتِ معاشقہ‘ کے دوسرے ایڈیشن میں ’میرا گلاب ‘ عنوان سےشامل ہوا۔ پھر کورونا کی وجہ سے لگے لاک ڈائون میں کرفیو کے دوران دیگرادبی کاموں کے ساتھ پانچ سانیٹوں کا ترجمہ کیا۔ اصل متن کی چودہ سطروں میں رموزِ اوقاف(Punctuations )کو سمجھنا اور پھر اپنی زبان میں ان وقفوں کی گرہیں کھول کر اپنی زبان میں چودہ سطروں ہی میں گرہیں ڈالنا۔ مترجم کا دماغ الجھا دینے کے لیے بہت کافی ہے۔ یہاں کُل گیارہ سانیٹس کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ واضح رہے کہ شیکسپیئر کے سانیٹ بلا عنوان تھے۔ لیکن میں نے اردو قاری کی دلچسپی اور فہمائش کے لیے ہر ترجمے کواپنا ایک من چاہا عنوان دیا ہے۔حسن اور موسم ِگرما: سانیٹ نمبر18گرماکے دن سے میں کروں تیرا مقابلہ؟تو دل رُبا زیادہ ہے اور معتدل ہے خوبہِلتے ہیں گو شگوفے مئی کی ہَوا سے خوبگرمی کے دنزیادہ نہیں ‘کم ہے آسرا؟چمکےہے گرمآنکھکبھی آسمان کیجتناسنہر ارنگہوسنولاتاہے کبھیہر حسن اپنے رُتبے سے گِر جاتا ہے کبھیہو بات اتّفاق کی‘ فطرت کی آن کیمُرجھانے دے گی پر نہ جو گرمی ازل کی ہےجو ملکیت ہے حسن کی وہ کھو نہ پائے گیآوارگیپہموتنہشیخیدکھائے گیتیرینمومیںپنہاںترقّیازل کی ہےجب تک تُوسانس لے سکے یا آنکھ دیکھ لےجب تک کہ زندگیتجھےدےاور تُو جیےچھایا کا تماشہ: سانیٹ نمبر43جب آنکھوں کو میں سب سے زیادہ ہوں جھپکتاوہچیزیں تکیں دنمیں کہ عزت نہیں جن کیپر سوئوں تو بس خواب میں دیکھیں وہ تجھے ہیظلمتمیں جوچمکےسوئے ظلمتہےلپکتاتب تُوکہتری چھایا کو چمکاتے ہیں سائےبنپائےگا کیوں کرتیریچھایاکاتماشہاِس دن میں کہ روشن ہے تو دن سے بھی زیادہنا دیکھتیآنکھوںمیںتراسایہ چمک جائےاُس نے میری آنکھوں کو ہے نعمت سے نوازادن زندہ ہے میں اس میں تجھے دیکھوں بہت صافاسگہریسیہشبمیںتراسایۂ شفّافجونیندمیں بےنور سیآنکھوںپہ ہے ٹھہرادنلگتےہیں راتیں، ترا دیدار کیے بِنتُو خواب میں آئے تو لگے رین مجھے دنظاہر سے جدا: سانیٹ نمبر 69وہ پہلوترادنیاکیآنکھیںجسےدیکھیںمحتاجنہیںلوگوںکےکلماتِ رفوکاسچ بول دے جب خلقِ خدا خود ترے حق میںکلمہپڑھےدشمنبھیترےجوہرِ خوکاظاہر کوملےظاہریتوصیفکااک تاجلوگوںکیزبانیںجو کبھی کرتی ہیں تائیدگر ٹھان لیں، کر دیتی ہیں عزت کو بھی تاراججبآنکھوںکوہر باتسُجھادیتیتنقیدیہدیکھنےلگجاتیہیںباطنکیحقیقتاورتولنےلگجاتیہیں اچھے برےاعمالاُ جڈ ّ کیطرحپھرنہیںکر تیں یہ مروّتچاہےتو کسیپھولمیں تو گھاس کی بو ڈاللیکنتری خوشبوترے ظاہر سےجدا کیوں؟مٹّیکاجناچھوڑ کےمٹّیکواُگا کیوں؟پُرانا سونا: سا نیٹ نمبر 76جانے کیوں ہیں میری نظمیں نئے رنگ سے خالیہرہونیانہونیسےہوں کیوںاتنابیگانہسمےکی بدلیدھارادیکھوں،ایسی خُو نہیں ڈالینئینئیترکیبوںسےہوںمیںبا لکلانجاناکیوں لکھتا ہوں جانے اب تک وہی ایک سے بولوہیپراناسبزہمیرامیدانِ تحقیقاکاکاکشرپیٹےمیرےاپنےنامکاڈھولکتنیدورکیراہیہوگیمیریہر تخلیق؟لیکن،میریجانِ تمنا!تیرےلیےہیلکھتا ہوںتُواورتیریپیتابھیتکمیرا ایکسوالاسیلیےتوشبدپرانےپھرسے سجاتا رہتا ہوںتاکہجسکوخرچ کیا، پھرخرچ کروںوہ مالجیسےسورجروزنیا ہےجیسےروز پرانامیری پیت کا کام ہےپچھلے قصے کو دہراناموسم کی تبدیلیاں: سانیٹ نمبر 104میرےلیےتو کبھینہبوڑھیہوگی اے محبوبپہلے پہل جب تیری آنکھیں میری آنکھ نے دیکھی تھیںتینسردیاںتین گرمیوںکا فخرہلا کر گذریںاببھیتیراحسنہےلیکن پہلےجیسا خوبتین حسین بہاریں زرد خزاں میں ہوئیں تبدیلتین سال کے جُونجلاگئے تین اپریل کی خوشبوآج بھی تُو سر سبز ہے لیکن آج بھی تازہ دم ہے تُومیں نےیوںہوتےدیکھیہےموسم کی تکمیلآہ تیرایہ حسنگھڑی کے ہاتھ کے جیسا لگتا ہےکچھ ہندسوں کو چُرا لیتی ہے پر معلوم نہیں ہوتاتیرامیٹھارنگمجھےلگتا ہے اپنی جگہ ٹھہرالیکن وہ حرکت میں ہے، میری آنکھ کا دھوکا لگتا ہےسُن اِس خوف سے، عمر کا تیری کوئی نہیں ہے بھروساتُوجب پید ا ہوئیتھی تب ہی مر گیا حسن کاسرمامیرا گلاب: سانیٹ نمبر 109جانِ من یہ کبھی نہ کہنا کہ میں دل کا جھوٹا تھاگرچہمیراغائبرہنا ایسا ثابت کرتا ہےلیکن تیرا عاشق کیا یوں ہی تیرا دم بھرتا ہےمرنا تھا تو تجھ سے جدا ہونا ہی خوب بہانا تھاتیرا سینہ ہی میری چاہت کا گھر ہے، ٹھکانہ ہےمیں ہوں ایک مسافر ایسا ، سمے پہ جو لوٹ آئےایسے وقت نہیں آتا،جو اُس کا وقت بدل جائےخود ہی پانی لانا ہے، اپنے دھبّوں کومٹانا ہےلوگوںکاتُو یقیں نہ کرنا،دیکھتُو میری سُنعیب جو میری فطرت میں تھے آپ ہی میں کہہ دوںہر وہ نقص تھا مجھ میں جس سے آلودہ ہوجائے خوںلیکن کیسے چھوڑوںتجھ کو،تجھ میں سارے گُنکائناتمیں تُو ہےتولگتا ہےاپناسب کچھ ہےتُو ہی تو وہ گلاب ہے جس کے اندر میرا سب کچھ ہےمورکھ عشق: سانیٹ نمبر 137اے مورکھ اندھے عشق یہ آنکھوں سے کیا کیا؟وہ دیکھ کر نہ دیکھیں کہ کیا دیکھتی ہیں وہ؟کیا حسن ہے کہاں پہ ہے یہ جانتی ہیں وہپھر بھیجوسب سےخوباُسی کو برا کہا!جزُوینظرنےآنکھوں کو برباد کردیاچڑھتے ہیں سب جہاں اُسی کھاڑی پہ رُک گئیںکذِب ِنظرسےایسےشکنجےمیںجا پھنسیں؟جس سے بندھا ہوا ہے میرے دل کا فیصلہ؟کیوںسمجھےمیرا دل اُسے اک مختلفمقامجس کو کہےجہاں میں وہ اک عام سر زمیں؟یادیکھ کر کہیںمِریآنکھیں ’یہ سچ نہیں‘سچّائی گندے چہرے پہ رکھنے کا کیا ہے کام؟یہ چشم و دلنے کیسےغلطکام کرلیےطاعون کے مرَض میں جواَب منتقل ہوئےجھوٹا سچ: سانیٹ نمبر 138جھوٹی قسموں کے سہارے وہ دلاتی ہے یقیں:’’سچ کہوں، کس لیے میں تم پہ بہت مرتی ہوںتم ابھی تک ہو جواں اِس لیے دم بھرتی ہوں‘‘اُس کی باتوںپہ مگر مجھکوبھروسہہی نہیںمیں سمجھتا ہوںعبث وہ مجھے کہتی ہے جواںاُس کومعلوم ہے کہہے ِمریمٹّی پہزوالاب جوانی ہے مری اُس کی ہی باتوں کا کماللاکھاچّھیلگےپرباتمیںسچّائی کہاں؟پھر بھیوہ کہہ دےتو کیاکوئی غلط کہتی ہے؟میں نے کب خود بھی کہا اُس سے کہ میں بوڑھا ہوںپیارمیںسچےبھروسےکےتحتزندہہوںعشقمیںعمرجوانیکی طرحبہتیہے!اس لیے جھوٹ رَوا رکھتے ہیں ہم آپس میںاکخوشامد سی کیا کرتے ہیں ہم آپس میںمکافات: سانیٹ نمبر 142میریالفتپاپہے، تیرینفرت کا جنجالمیرے پاپ سے تُو نفرت کر، ہے جومجرمپیاردیکھمریحالتکےآگےلیکناپناحالاپنےحقمیںدوبھیلفظنہیں ملیں گے یارمل بھی گئے تو تیرے منہ سے کب وہ ہوں گے اداپاپیلبوںنےلفظوںکے زیو ر کیعصمت لوٹیاپنیمحبتپرجھوٹےپیما ںکیمہرلگاجیسےمیںنےغیروںکےبسترکینعمتلوٹیتجھکوپیار کروںمیں،جیساتُو کرتاغیروںکوہوتیرےافسوسپہساریدنیاکوافسوستجھ کو میں اُس آنکھ سے دیکھوں جس سے تو اوروں کواِکپَلاپنینفرتپرتُواپنےدلکومسوساپنےعملسے جسحقکاتُوکرتاہےانکارتجھکوبھیوہنہیںملےگاہر گزمیرےیارجاں بخشی: سانیٹ نمبر 145وہہونٹ جنھیںپیارکےہاتھوںنےبنایااُنہونٹوںسےآوازچلی آتی تھی ’نفرت‘سن کر جسے کیا رنگ اڑا میرا خدایاپراُسنےجو دیکھیمِری بگڑی ہوئی حالتاکرحمسامحبوبکےد ل میںاُبھرآیاپلٹادیایوںشیریںومشّاقزباںکوپھرموتکاعالممجھےٹلتانظرآیادینےلگادعوتو ہمِریچشمِ جواںکو’نفرت ہے مجھے‘کہہ کے بدلنے لگاوہ باتجنت سے جہنم کو چلے جیسے کہ شیطاندِن جیسے بڑے دھیرے سے بن جائے سیہ راتجبدیکھچکاوہ مِرےاُڑتےہوئے اوسان’نفرت ہے مجھے‘کہہکےعجب آگ لگا دی’پر تم سے نہیں‘ کہہکےمِریجانبچادیپرانا پاگل: سانیٹ نمبر 147مِریمحبتبخار جیسیاسی کو اب بھی ترس رہی ہےبہت دنوں تک بڑھائے رکھتا ہے جو مرَض کومریضرہتا ہے جس کے چارے پہ زندہ دیکھووہ چارئہ بے یقیں ہمیشہ مِٹی ہے روگی کی بھوک جس سےیہ عقلمیری،مِر ی محبتکی جومعالجبنیہوئی ہےہے اس پہ برہم کہاس کا نسخہ کوئی بھی مانا نہیں گیاہےجو چھوڑ کر یہ مجھے گئی ہے تو میں نے اقرار اب کیا ہےکہ ہے جو خواہش وہ موت ہے ‘ میرے تن سے جو کہ چُھٹی ہوئی ہےعلاج ماضی ہوں اور ماضی کے دیکھنے میں لگا ہوا ہوںپراناپاگلہمیشہبدامنیپیداکرناشعار میراکہ اپنے افکار و گفتگو سے بگاڑ ہے کاروبار میراجو بات سچائی سے سوا ہے اسی کا اظہار کررہا ہوںتجھے جو قسما ً کہا ہے گورا، کہا ہے روشن ہے تیرا چہرہہے تُو جہنّم کے جیسی کالی، سیاہ شب سا ہے رنگ تیراFay Seen EjazEditor 'Mahnama Insha'B, Zakaria Street-25Kolkata - 700073Mob.: 9830483810ماہنامہ اردو دنیا ، مئی 2021" عصری حسیت اور ساتویں دہائی کی اہم ہندی کہانیاں - مضمون نگار: فیضان حسن ضیائی,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/04/,"ساتویں دہائی کا عرصہ ہندی افسانوی ادب کا سنہرا دور تسلیم کیا جاتا ہے۔جہاں ایک طرف سماجی مسائل کی حکایت تھی تو دوسری جانب انسان کی ذات کا کرب بھی سمویا جا رہا تھا۔جس کی وجہ سے افسانے کا موضوع ترقی پسندی کی خارجیت سے باہر نکل کر داخلیت کا متقاضی ہو رہا تھا۔اروو میں جہاں جدیدیت کے رجحان نے افسانے کے ٹرینڈ میں تبدیلی پیدا کی تو وہیں ہندی میں نئی کہانی آندولن کے زیر اثر نئی تہذیب کے نئے تقاضوں کو جدید زاویہ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی ۔اس عہد میں تبدیلی کا رجحان بھی بڑھا اور تجربات بھی کیے گئے۔رسم و رواج میں تبدیلی،انسان کے فطری تقاضوں مثلاً جنسی آسودگی،محبت کا نیا مفہوم جس میں سڑکوں ہوٹلوں اور پارکوں کوبھی جگہ ملی۔اعلی سوسائٹی کی چمک دمک اور روشن خیالی کے نام پر مرد و عورت کے رشتوں کی نئی معنویت بھی ابھر کر سامنے آئی۔  لہٰذا نئی کہانی آندولن کے زیر اثر لکھنے والے مصنّفین نے زمانے کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے موضوعات،نقطئہ نظر،فلسفہ حیات،ہیئت اور اسلوب میں تبدیلی کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔اس حوالے سے معروف فکشن نگارکملیشور کے احساسات بھی ملاحظہ کیجیے:ــــ’’ صدیوں جھوٹی بنی رہنے کے بعد اب کہانی سچی ہو گئی ہے۔صدیوں کے اس پاپ سے نجات پانے کے لیے کہانی کو خود اپنے آپ سے اوراپنے چاروں طرف کے ماحول سے زبردست جہاد کرنا پڑا ہے۔وقت اور بنی نوع انسان کے تفکرات کو اپنے دائرہ میں سمیٹ کرکہانی نے ایک انتہائی زور دار اور موثر ادبی صنف کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔رفتہ رفتہ کہانی نے سبھی انسانی فکروں کو اپنے دائرہ میں سمیٹ لیا جو دور حاضر کے اہم مسائل ہیں اور جو ہر ذی ہوش انسان کو ذہنی اور روحانی طور پرپریشان کرتے ہیں۔‘‘ (ہندی کہانی کا سفر : رسالہ معلم اردو،لکھنئو،ہندی کہانی نمبر،نومبر1984، ص 6)یہ مشینی دور تھا جس میں یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ انسا ن کی وقعت کم ہو رہی ہے بلکہ انسان اپنی شناخت کھوتا جارہا ہے اور اس احساس نے انسان کو تنہائی کے کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔اس عہد کی ایک بڑی تبدیلی یہ بھی ہے کہ عورتیں گھر کی چہار دیواری سے باہر نکل کر خود کفیل ہورہی تھیں۔تعلیم نے خواتین کو اپنے بارے میں سوچنے اور اپنے وجود کا احساس کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ ماحولیاتی، نظریاتی اور موضوعاتی صورت حال کی تبدیل ہوتی ہوئی فضا میں کئی کہنہ مشق اور جدید افسانہ نگار ابھر کر سامنے آئے جنھوں نے پرانے اصولوں، پرانی اخلاقیات، پرانے موضوعات اور نظریات سے انحراف کو اپنا امتیاز جانا۔ بھیروپرساد گپت کے زیر ادارت شائع ہونے والا ماہنا مہ ’کہانی ‘ نے اس نئی فکر کے لیے ایک مثبت فضا قائم کی۔ اس دہائی کے افسانہ نگاروں کے حوالے سے ڈاکٹر نامور سنگھ کی یہ رائے بھی اہم ہے:’’ساتویں دہائی کے افسانہ نگاروں نے کہانی کی روایات سے حاصل شدہ سچائیوں کو متروک قرار دیا اور اوسط آدمی کی عام زندگی پر مطلق احساس،اجنبیت و جلا وطنی،انسانیت سے بعید سلوک اور خوف و ہراس کی عمیق ترین گہرائیوں میں جھانکے کا جتن کیا جن سے اب تک آنکھ چرائی جاتی تھی۔‘‘(ہندی افسانے :ڈاکٹر نامور سنگھ،نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا،دہلی، 1971، ص 316)تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس عہد میں کئی رجحانات پیدا ہوئے۔ان کے نام تو مختلف تھے لیکن یہ رجحانا ت فکری اور نظریاتی اعتبار سے بے حد قریب تھے۔اس لیے کہانی ہو یا سمانتر کہانی،یا نئی کہانی اپنی مقصدیت اور منہاج کے اعتبار سے ان میں زیادہ فرق نہیں تھا۔بقول طارق چھتاری:’’نئی کہانی کے علاوہ ’ اکہانی، سچیتن کہانی ‘ اور سمانتر کہانیاں بھی لکھی گئی ہیں مگر موضوعات،اسلو ب اور زبان و بیان کے لحاظ سے یہ سارے رجحانات ’ نئی کہانی ‘ سے مختلف نہیں ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ وقتا ً فوقتاً تحریک کے نام بدلتے رہے تھے۔سچیتن کہانی کے زیر اثر جو لوگ کہانیاں لکھ رہے تھے ان کا اسٹائل،موضوع، زبان، پس منظر غرضیکہ کچھ بھی نئی کہانی سے مختلف نہیں تھا۔‘‘(جدید افسانہ : اردو ہندی، طارق چھتاری، ص،166،برائون بک پبلی کیشن،نئی دہلی2015)اس دہائی میں اپنی شناخت مسحکم کرنے والوں میں راجندر یادو، کملیشور،موہن راکیش، نرمل ورما، بھیشم ساہنی، گیان رنجن، منو بھنڈاری، دودھ ناتھ سنگھ،بلونت سنگھ، وکاشی ناتھ سنگھ غیرہ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔یہا ں میں چند ایسے افسانہ نگار او ر ان کے افسانوں کا ذکر رہاہوں جو اس دہائی میں خصوصیت سے یاد کیے جاتے ہیں۔راجندر یادو: ممتاز فکشن نگار،صحافی، دانشور، ترقی پسند تحریک سے وابستہ اور نئی ہندی کہانی کے بنیاد گزار راجندر یادوکا شمار ہندی ادب کے ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہندی ساہتیہ کو ایک منفردمقام عطا کیا ہے۔ انھوں نے نہ صرف افسانے لکھے بلکہ افسانہ نگار کی نئی نسل کی تربیت بھی کی۔ان کا ادبی سفر کئی دہائیو ں پر محیط ہے۔ ان کے کارنامے کسی ایک صنف ادب تک محدود نہیں بلکہ علم و فن کے دیگر شعبوں میں بھی موصوف کی گراں قدر خدمات موجود ہیں۔ہندی افسانوں میں ان کے مجموعےکھیل کھلونے(1953)، جہاں لکشمی قید ہے (1957)،ابھیمنیو کی آتم ہتیا (1959)، چھوٹے چھوٹے تاج محل (1961)، کنارے سے کنارے تک (1962)، ٹوٹنا (1966) وغیرہ اہم یادگار ہیں۔ان کے علاوہ دیگر کہانیوں کے مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں جو مختلف نمائندہ کہانیوں پر مشتمل ہیں۔ راجندر یادو کی کہانیاں زندگی کے لمحات، واقعات اور تاثرات کو اپنی گرفت میں رکھتی ہیں۔کہانی کے فن پر انھیں بے پناہ قدرت ہے اور قاری کو ہم خیال بنانے کا گر بھی انھیں خوب آتا ہے۔عام طور پر ان کے کردار سماج کے ٹوٹے اور تھکے ہارے لوگ ہیں جو زندگی کے مختلف شیڈس میں نظر آتے ہیں۔کملیشور: ساتویں دہائی میں اپنی شناخت مستحکم کرنے والوں میں کملیشور ایک معتبر نام ہے۔ مختلف الجہات خوبیوں کے مالک،ٹیلی ویژن آرٹسٹ،ساریکا جیسے معیاری رسالے کے مدیر اور معر کۃ الآرا ناول کے خالق ہونے کے ساتھ نئی ہندی کہانی کے ایک اہم ستون ہیں۔جنہوں نے فکری سطح پر اہم موضوعات کی طرف توجہ کی ہے۔ ماحول اور زمانے کی بدلتی ذہنیت،اخلاقی اور جذباتی قدروں کی پامالی اور شہری زندگی کے بنیادی مسائل کو شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے۔ ان کی پہلی کہانی ’کامریڈ‘ ایٹہ سے شائع ہونے والا رسالہ ’ اپسرا‘ میں (1950)شائع ہوئی تھی۔کہانیاں لکھنے کا ابتدائی احساس کملیشور یوں بیان کرتے ہیں:’’جب سے اپنے چاروں طرف کی دنیا کو دیکھنا شروع کیا تو پایا کہ کہیں کچھ بدل نہیں رہا تھا اس لیے مجھے بدلنا پڑا۔مجھے میرے چاروں طرف کی سچائیوں نے بدل دیا۔دسواں پاس کرتے کرتے انقلابی سماجی پارٹی کے رابطے میں آیا۔مارکسزم کی فعال پاٹھ شالا میں شامل ہوا اور ’ جن کرانتی‘ میں شہیدوں کی سوانح حیات پر چھوٹے چھوٹے مضمون لکھنے شروع کیے۔‘‘(فرقہ ورایت اور اردو ہندی افسانے،محمد غیاث الدین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائو س،دہلی 1999، ص 255)کملیشور کے تخلیقی کارناموں کی بڑائی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی قدر شناسی مختلف مکتبہ خیال کے اہل ذوق نے کی ہے۔بلا شبہ انھوں نے ہندی کہانی کو ایک نئی سمت دے کر اپنی انفرادیت کا اعتراف کروایا ہے۔کرشن چندر کی یہ رائے بھی ملاحظہ کیجیے:’’جدید ہندی افسانے میں کملیشور نے بہت نمایاں رول ادا کیا ہے۔وہ اسے گھر کی چہار دیواری سے نکال کر کھیت، چوپال، سڑک اور فٹ پاتھ پر لے آیا ہے... مشکل لہجے میں بات کرنا آسان ہے لیکن آسان لہجے میں پیچیدہ اور مشکل بات کرنا بہت مشکل ہے۔کملیشور نے اپنی حسی قوت سے اس مسئلے کو بخوبی حل کر لیا ہے۔‘‘ (ایضاً)کرشن چندر کے اس تاثراتی اقتباس کی روشنی میں کملیشور کی کہانی ’ کھوئی ہوئی دشائیں‘ پر نظر ڈالتے ہیں۔ کملیشور نے اس کہانی میں شہر کی مصروف ترین زندگی میں ایک فرد کی ذہنی کشمکش کو قارئین کے حوالے کیا ہے۔کہانی کا مرکزی کردار چندر ایک ایسا نوجوان ہے جو الہ آباد جیسے چھوٹے شہر سے ملک کی راجدھانی دہلی آتا ہے۔شہری زندگی کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ انسان خود اپنی دنیامیں مگن ہے ایسے میں شناسا چہرے بھی اجنبی معلوم ہوتے ہیں جہاں وہ خود اپنی ذات کی تلاش میں بے سمتی کا سفر کرتا نظر آتا ہے۔جہاں دماغ اور پیٹ کا ساتھ بھی ایسا ہو گیا ہے کہ سوچنے پربھی بھوک لگتی ہے۔’’اور تبھی چندر کولگا کہ ایک عرصہ ہو گیا،ایک زمانہ گزر گیا، وہ خود سے بھی نہیں مل پایا...یہ بھی نہیں پوچھا کہ آخر تیرا حال کیا ہے اور تجھے کیا چاہیے،نہ جانے کیوں من خود سے ملنے میں گھبراتا ہے۔رہ رہ کر کتراتا ہے۔(کھوئی ہوئی دشائیں : کملیشور۔ایک دنیا سمانانتر، مرتب راجندر یادو، 1993، ص 142)کہانی میں چندر کی محبوبہ اندرا اس کے لاشعور میں بسی رہتی ہے وہ اندرا جس سے چندر کو قلبی لگائو تھا۔جس سے آنکھیں ملائے اسے سکون میسر نہیں ہوتا لیکن اسے اپنی معاشی تنگی کا بخوبی اندازہ تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اندرا اس کی شریک حیات بننے کے بعد پتھروں پر چلے اور کانٹوں بھری زندگی کا سامنا کرے اس لیے نرملا اس کی زندگی میں شریک حیات بن کر آتی ہے گزرے ہوئے لمحوں کی یادیں چندر کو ذہنی تنائو میں مبتلا کر دیتی ہیں وہ نرملا میں اندرا کا عکس دیکھنا چاہتا ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ملتی اور وہ ذہنی کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے۔موہن راکیش: (1925 تا 1972) موہن راکیش بھی نئی ہندی کہانی کے اہم ستون ہیں۔ ان کا ادبی سفر نہ صرف افسانوی ادب تک محدود رہا بلکہ ناول، تنقید،اور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت ادبی حلقوں میں محفوظ رہی ہے۔موہن راکیش کے یہاں موضوعات کی مختلف جہتیں نظر آتی ہیں۔فرد معاشرہ اور وقت کے نشیب و فراز کے پیچیدہ مسائل نے راکیش کو فکری سطح پر اپنی گرفت میں رکھا ہے۔ان کی کہانیوں میں فرسودہ اور غیر حقیقی رسم و رواج کا اختلاف نمایاں نظر آتا ہے۔موہن راکیش لکھتے ہیں۔’’میرے لیے تجربے کا سیدھا راستہ میری سچائیوں سے ہے اور سچائی ہی میرا زمانہ ہے اور ماحول۔ آدمی سے خاندان خاندان سے قوم اور قوم سے انسانی معاشرے کا پورا دائرہ۔میں ان میں سے کسی ایک سے کٹ کر باقی سے منسلک نہیں رہ سکتا۔اپنے پاس کے ماحول سے آنکھ ہٹا کر دور کی فضا ؤں میں جی نہیں سکتا۔‘‘(بحوالہ فرقہ واریت اور اردو ہندی افسانے، محمد غیاث الدین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی 1999، ص 248)راکیش کے خیال میں عصری مسائل و معاملات پر توجہ مرکوز رکھنا اہم فریضہ ہےگزرے ہوئے زمانے پر آنسو بہانا بے سود ہے۔درج بالا اقتباس کی روشنی میں ان کی کہانی ’ ایک اور زندگی ‘ پر نظر ڈالتے ہیں۔کہانی ایک اور ز ندگیدو بیویوں کے درمیان ایک شخص کی بے مزہ زندگی کی ذہنی اور نفسیاتی کشمکش کو اجاگر کیا گیا ہے۔معاشرے میں پنپنے والے جدید ذہن نے میاں بیوی کے درمیان روایتی زندگی گزارنے کے عمل کو جس طر ح مسمار کیا ہے اور جو خوفناک نتائج دن بہ دن ہمارے سامنے آرہے ہیں اس کی تصویر یہاں دکھائی دیتی ہے۔اس کہانی میں وینا پرکاش کی پہلی بیوی کی شکل میں سامنے آتی ہے جس سے ایک بیٹا بھی ہے۔وینا ایک تعلیم یافتہ،خود دار،ماڈرن اور اپنی شخصیت سے پر اعتماد لڑکی ہے۔معاشی اعتبار سے بھی وینا پرکاش سے مضبوط ہے۔وہیں پرکاش بھی اپنی شخصیت کے سلسلے میں بیدار ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مسائل بھی پہاڑ بن جاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور بالآخر الگ الگ زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ اس درمیان ایک بچے کی ولادت ہوتی ہے جسے خود وینا ایک آکسمک گھٹنا تسلیم کرتی ہے۔نرمل ورما: ساتویں دہائی کا ایک اہم ترین نا م نرمل ورما بھی ہے۔نرمل ورما نے اپنے عہد کو جس طرح سمجھا اور سمجھ کر جس طرح اپنی کہانیوں میں برتا ہے وہ ان کی انفرادیت کا ایک اہم باب ہے۔شہری زندگی،پہاڑ، جنگل،سفر اور پردیس کے پس منظر میں ان کی کہانیوں نے تنہائی، رشتے، ناطے اور ذات کی تہہ داریوں کا بہت قریب سے مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے۔ ان کی کہانیاں عصری زندگی کی پیچیدگیوں کی آگہی اور بصیرت میں قاری کو شریک کر لیتی ہیں ڈاکٹر نامور سنگھ، کتے کی موت، مایا درپن اور لندن کی ایک رات کے پس منظر میں انھیں پرگتی شیل کہانی کار تسلیم کرتے ہیں۔وہیں ان کی مشہور زمانہ کہانی ’ پرندے ‘کو نئی کہانی کا نقطہ آغاز بھی بتاتے ہیں۔ آئیے اس کہانی پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ کہانی ’ پرندے‘‘ آزادی کے بعد ایک مخصوص طبقے میں پنپنے والی نفسیاتی اور ذہنی کشمکش کا کامیاب اظہار ہے۔ اس کا مرکزی کردار لتیکا ہے جو اسکول کی ٹیچر بھی ہے اور وارڈن بھی۔یہاں آنے کے بعد اس کی زندگی ایک محدود دائرے میں سمٹ گئی ہے۔جس کی وجہ میجر گریش نیگی سے اس کی ملاقات ہے۔ڈاکٹر مکر جی نے ایک تقریب میں لتیکا کو گریش نیگی سے متعارف کرایا تھا۔اس ملاقات کا اثر لتیکا پر یوں ہوتا ہے کہ گریش نیگی کو وہ اپنے مستقبل کا حصہ تصور کرنے لگتی ہے۔لیکن میجر نیگی اس اسکول کے علاقے سے کشمیر گئے تو پھر لوٹ کر نہیں آئے۔یہی وہ کرب ہے جو لتیکا کے لیے تنہائی کا سبب بن جاتا ہے اور وہ سردیوں کی طویل چھٹیاں بھی ہاسٹل میں گزار دیتی ہے کہ شاید میجر نیگی لوٹ آئیں۔ گویا محبت میں اس ناکامی کے باوجود وہ اپنی خوبصورت یادوں کو سینے سے لگائے رکھنا چاہتی ہے اور اسی کے سہارے اپنی زندگی کا سفر بھی طے کرنا چاہتی ہے۔بقول کہانی کار:’’لتیکا کو لگا جو وہ یاد کرنا چاہتی ہے وہی بھولنا بھی چاہتی ہے۔لیکن جب وہ سچ مچ بھولنے لگتی ہے تب اسے خوف آتا ہے جیسے کوئی چیز اس ہاتھوں سے چھین لے جارہا ہے۔ایسا کچھ جو سدا کے لیے کھو جائے گا۔من میں جب کبھی وہ اپنے کسی کھلونے کو کھو دیا کرتی تھی تو وہ گم سمسی ہو کر سوچا کرتی تھی کہ کہاں رکھ دیا میں نے ؟ جب بہت دوڑ دھوپ کرنے پر کھلونا مل جاتا تو وہ بہانا کرتی کہ ابھی اسے کھوج رہی ہے۔جس جگہ پر کھلونا رکھا ہوتا جان بوجھ کر اسے چھوڑ کر گھر کے دوسرے کونوں میں اسے تلاش کرتی ہے۔تب کھوئی ہوئی چیز یاد رہتی، اس لیے بھولنے کا خوف نہیں رہتا تھا۔ آج وہ بچپن کے اس کھیل کا بہانہ کیوں نہیں کر پاتی۔بہانہ شاید کرتی ہے۔ اسے یاد کرنے کا بہانہ جو اسے بھولتا جا رہا ہے ...دن مہینے بیت جاتے ہیں اور وہ الجھی رہتی ہے، انجانے میں گریش کا چہرہ دھندلا پڑ جاتا ہے۔ یاد وہ کرتی ہے لیکن جیسے کسی پرانی تصویرکے دھول بھرے شیشے کو صاف کر رہی ہے اب ویسا درد نہیں ہوتا صرف اس درد کو یاد کرتی ہے جو پہلے کبھی ہوتا تھا تب اسے اپنے اوپر شرمندگی ہوتی ہے۔وہ پھر جان بوجھ کر اس زخم کو کریدتی ہے جو بھرتا جا رہا ہے، خود بخود اس کی کوششوں کے باوجود بھرتا جا رہا ہے۔‘‘(پرندے: نرمل ورما، بحوالہ ایک دنیا سمانانتر: راجندر یادو، ص 186)لتیکا کی دلچسپی کسی دوسری جانب نہیں ہوتی لیکن ہیوبرٹ دل ہی دل میں اس کے لیے جذبہ ہمدردی اور الفت کا اظہار بھی ایک خط میں کر چکے ہیں۔ڈاکٹر مکھرجی بھی لتیکا میں لاشعور ی طور پر دلچسپی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں۔’’مس لتیکا میں کبھی کبھی سوچتا ہوں، کسی چیز کو نہ جاننا اگر غلط ہے تو جان بوجھ کر نہ بھول پانا ہمیشہ جونک کی طرح چپٹے رہنا یہ بھی غلط ہے۔برماسے آتے وقت جب میری بیوی کا انتقال ہوگیا تھا، اس وقت مجھے اپنی زندگی بے کا ر سی لگنے لگی تھی۔آج اس حادثے کو عرصہ گزر گیا اور جیسا آپ دیکھتی ہیں،میں جی رہا ہوں۔ امید ہے کہ عرصہ دراز تک یوں ہی جیتا رہوں گا۔ زندگی کافی دلچسپ لگتی ہے۔اور اگر عمر کی مجبوری نہ ہوتی تو شاید میں دوسری شادی کرنے میں بالکل نہ ہچکچا تا۔‘‘(پرندے: نرمل ورما، ایک دنیا سمانانتر، راجندر یادو، نئی دہلی، 1993، ص 191)میجر، ہیوبر ٹ،ڈاکٹر مکھرجی اور تمام لوگ اپنے دل کے نہا خانے میں لتیکا کے لیے جذبہ محبت تو رکھتے ہیں لیکن محبت کی حقیقی تعریف پر کھرا نہیں اترتے۔یہ سبھی موسمی پرندے ثابت ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ اپنے اپنے سفر پر رواں دواں نظر آتے ہیں ہیں۔ بقول طارق چھتاری:’’اس کہانی کا عنوان بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ آج کا انسان ان پرندوں کی مانند ہے جو ہر موسم سرما میں انجان میدانوں کی جانب سفر کرتے ہیں،راہ کی کسی پہاڑی پر لمحے بھر کے لیے رکتے ہیں اور پھر آگے بڑھ جاتے ہیں۔جن کی زندگی کا سفر ایک محدود دائرے میں (ذات کے دائرے میں ) چکر کاٹتا رہتا ہے۔،بے مقصد اور اپنے اپنے درد کو دل میں چھپائے...!(جدید افسانہ: اردو ہندی، طارق چھتاری، ص 166)یہ ایک ایسے کردار کی کہانی ہے جو محبت میں ملے زخم کو اپنے دل میں ہمیشہ تازہ رکھنا چاہتی ہے۔وہ مختلف پروگراموں میں شامل ہوتی ہے۔زندگی کے معمولات طے ہوتے رہتے ہیںلیکن اس کے اندر کا کرب ہمیشہ تازہ رہتا ہے اور جب کبھی یہ زخم مندمل ہوتا ہے وہ اسے کرید کر تازہ کر دیتی ہے۔کہانی کار نے اسے ایک لڑکی نہیں بلکہ ادھیڑ عمر کی عورت کی شکل میں پیش کیا ہے۔محبت کی راہ میں ایک زخم خوردہ دل کی حسیت کو کہانی کار نے ایک نئے زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی ایک کامیا ب کوشش کی ہے۔ٍمنو بھنڈاری : ہندی افسانوی ادب میں خواتین افسانہ نگاروں کے درمیا ن منو بھنڈاری ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ اکیلی ، ایک پلیٹ سیلاب ،یہی سچ ہے ، عیسی کے گھر انسان ، مکتی اور سیانی بوا ان کے قابل ذکر افسانے ہیں۔ انھوں نے عورتوں کے طرز معاشرے،توہم پرستی، کھوکھلے رسم و رواج اور ان پر غیر ضروری پابندیوں کے خلاف آوازیں بلند کی ہیں۔معاشرے کے بنیادی مسائل (خاص کر عورتو ں کے حوالے سے ) کا مشاہدہ کرنے کے بعد عورتوں کی اپنی ضرورتیں،ان کے مساویانہ حقوق، نوجوان لڑکیوں کے جنسی اور نفسیاتی مسائل وغیر ہ کو نہایت فنکارانہ ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔آ ئیے کہانی ’یہی سچ ہے‘ پر نظر ڈالتے ہیں۔مغربی تہذیب کے زیر اثر جدید عہد میں عورتوں کی طرز زندگی نے جسمانی اور روحانی طور پر جو آزادانہ روی اختیار کی ہے اس کی تصویر کہانی ’’ یہی سچ ہے ‘‘ میں نمایاں ہے۔اس کہانی میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکی کا ایک آزادانہ کردار ہمارے سامنے آتا ہے۔وہ بیک وقت دو لڑکوں سے عشق کرتی ہے۔ اور دونوں کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات اسے سکون بخشتے ہیں جب وہ کانپور میں رہتی ہے تو تو سنجے میں ہی اسے زندگی کے ہر رنگ نظر آتے ہیں اور جب کلکتہ کا سفر کرتی ہے تو قدیم ہم جماعت نشیتھ میں کشش محسوس کرنے لگتی ہے۔کہانی میں دیپا کا کردار عصری مسائل کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ آج کے عہد میں ہمارے ارد گرد کئی ایسے معاملات پیش آتے ہیں جب ایک لڑکی دو لڑکوں سے وابستہ پائی جاتی ہے۔ یہ مسائل خون خرابے کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔یہ ایک انوکھا کردار ہے جو لڑکی کی نفسیات پر غور کرنے کو مجبور کرتا ہے۔ اس میں ایک جانب آج کے دور میں ایک لڑکی کی آزاد خیالی اور خود مختاری کی بات پوشیدہ ہے تو دوسری جانب وہ جس کے قریب ہوتی ہے اسی میں کشش محسوس کرنے لگتی ہے۔اس کہانی میں دیپاکا کردار عشق کی ایک ایسی حقیقت لے کر ابھرتا ہے جو حالات کے تابع ہے۔طارق چھتاری کے مطابق:’’منو بھنڈاری نے یہ کہانی لکھ کر ثابت کردیا کہ عشق کیRealityوہ نہیں ہے جو اب تک ہندی کہانی میں پیش کی جاتی تھی بلکہ یہ ہے جو اس کہانی کی دیپا کے ساتھ گزر ی ہے۔‘کچھ اس طرح کا خیال میرا سیکری کا بھی ہے۔’’کہانی کی سب سے بڑ ی خوبی یہ ہے کہ یہاں عورت ایک مختلف روپ لیے،ایک آزاد شخصیت لیے سامنے آتی ہے،عورت کا یہ روپ ہندی کے لیے ایک دم نیا ہے۔‘‘(جدید افسانہ: اردو ہندی، طارق چھتاری، ص 166)گیان رنجن : گیان رنجن بھی اس عہد سے تعلق رکھنے والے ایک معتبر افسانہ نگار ہیں۔ان کی کہانیوں میں واقعات اور کردار عام زندگی سے اخذ کیے گئے ہیں۔ انھوں نے زندگی کی مختلف جہات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ان کے افسانے اپنے دور میں عصری حسیت اور خود آگہی کے حامل رہے ہیں۔میرے پیش نظر ان کی کہانی ’ فینس کے ادھر اور ادھر ‘ ہے فینس ایک ٹوٹی ہوئی دیوار ہے جو دو تہذیبوں کی علامت ہے۔یعنی ایک وہ تہذیب جو پرانی قدروں کی حامل ہے اور دوسری وہ جو نئی قدروں پر مشتمل ہے۔یہ کہانی در اصل بدلتے سماجی سروکا رکی کہانی ہے۔جس میں پرانے پڑوسی مکھرجی کے تبادلے کے بعد نئے پڑوسی قیام پذیر ہیں جن کا ایک مختصر کنبہ ہے۔جب سے نئے پڑوسی آئے ہیں وہ لوگ اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں اپنے ہمسایہ اور آس پاس کے لوگوں سے ان کا کوئی میل جول نہیں رہتاہے۔ دوسری جانب دیوار کے اس پار کی دنیا اس کی خیر و خبر رکھنا چاہتی ہے۔ان کے بارے میں مسلسل گفتگو کرتی ہے اور دلچسپی لیتی ہے۔اس کے ذہن میں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ ان سے رابطہ کیسے قائم ہو۔لیکن دوسری جانب کے لوگ اپنے ہمسایہ کی فکروں سے بے خبر اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں اور اپنے ہمسایہ میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔موجودہ معاشرے میں ایک دوسرے سے لا تعلقی اور نئی پرانی قدروں کے بکھرائو کو کہانی کار یو ں بیان کرتا ہے۔’’...بڑے شہروں میں ایک دوسرے سے بے تعلق اور اپنی ذات میں محصور رہنے کی جو خاصیت پائی جاتی ہے غالباًہمارے یہ پڑوسی اسی خاصیت اور فطرت کے حامل ہیں۔یہ شہر اور یہ محلہ دونوں پر سکون ہیں۔یہا ں لوگ آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور نسبتاً لاابالی سے چہل قدمی کرتے ہیں کیونکہ یہاں کی زندگی میں کوئی ہلچل نہیں ہے۔اسی لیے ہمیں اپنے پڑوسی عجیب لگتے ہیں۔میں باہر نکلتا ہوں وہ لوگ صبح کی چائے پی رہے ہوتے ہیں۔میاں بیوی کے علاوہ ایک لڑکی بھی ہے جو غالباً ان کی بیٹی ہے۔ یہی تین فرد ہمیشہ نظر آتے ہیں۔ان کے یہاں شاید چوتھا کوئی نہیںہے۔ لڑکی اگر چہ خوبصورت تونہیں لیکن سلیقہ شعار معلوم ہوتی ہے۔ڈھنگ سے میک اپ کرے تو شاید خوبصورت بھی نظر آئے،میں دیکھتا ہوں کہ وہ اکثر ہنستی رہتی ہے۔اس کے ماں باپ بھی ہنستے رہتے ہیں۔وہ سب ہمیشہ خوش و خرم نظر آتے ہیں۔وہ کس قسم کی باتیں کرتے ہیں اور وہ کیوں ہمیشہ ہنستے رہتے ہیں ؟ کیا ہر وقت ہنستے رہنے کے لیے ان کی زندگی میں ان گنت خوشگوار واقعات ہیں ؟ کیا وہ زندگی کے پر پیچ اور حقیقی مسائل سے غافل ہیں ؟ مجھے حیرت ہوتی ہے اورمیںاپنے گھر کے افرا د کا ان لوگوںسے موازنہ کرنے لگتا ہوں۔(فینس کے ادھر اور ادھر، گیان رنجن، بحوالہ ہندی افسانے، ص 213-14)کہانی کا میں ‘ دل ہی دل میں اس لڑکی سے عشق کر بیٹھتا ہے۔لیکن اس کی شادی کہیںاور ہو جاتی ہے۔دودھ والے سے شادی ہونے کی خبر تو مل گئی لیکن والدین سے جدائی کی اس گھڑی میں اس کی آنکھوں میں ایک بوند آنسو نہ تھے۔یہ حیرت ناک منظر دیکھ کر ما ں کی کربناک آواز دیکھیے؎’’پیٹ کاٹ کر جنھیں پالو پوسو ان کی آنکھوں میں ایک بوند آنسو بھی نہیں۔جدید عہد کے اس المیے کو کیا کہیے ؟ بہت پہلے اقبال نے مشینوں کی حکومت کو دل کے لیے موت قرار دیا تھا آج جنریشن گیپ اس طرح حاوی ہے کہ پڑوسی کی شادی محبتیں اور رسمیں بھی جنریشن گیپ کی نذر ہوگئیں۔پتا جی کہنے لگے۔’’قدیم زمانے میں لڑکیاں رخصتی کے وقت بے تحاشا رویا کرتی تھیں...پتا جی کو بڑا درد ہوتا ہے کہ آج ویسا نہیں ہے۔۔پرانا زمانہ رخصت ہو رہا ہےاور آدمی کا دل مشین ہو گیا ہے۔اس صورت حال سے تشویشناک حد تک دادی متاثر ہوئیں وہ زیر لب بڑا بڑا رہی ہیں۔ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ شادی بیاہ ایسے بھی ہوتا ہے۔ان کا لہجہ تلخ ہو اٹھا۔’’...پھر ایسے موقع پر پڑوسی کو نہ پوچھنا،واہ رے انسانیت ! رام رام۔ (ایضاً، ص 217)پروفیسر لطف الرحمن نے بجا لکھا ہے؎اتناچپ چاپ تعلق پہزوال آیاتھادل ہی رویا ہے نہ چہرے پہ ملال آیا تھاساتویں دہائی میں خصوصیت سے یاد رکھے جانے والے ان مذکورہ کہانی کاروں کے علاوہ بھی کئی اہم کہانیاں اور نام ہیں جنھوں نے ساٹھ کے بعد اپنا مقام بنایا اور ہندی کہانی کو ہیئت، اسلوب، موضوعات اور فن کی سطح پر اعتبار بخشا ہے۔جن میں رویندر کالیہ، کاشی ناتھ سنگھ، شری کا نت ورما، مہرالنسا پرویزدودھ ناتھ سنگھ،ناصرہ شرما، عبد ل بسم اللہ،بلونت سنگھ وغیرہ کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے۔ جن کے یہاں انسان کی داخلی کیفیات بھی ہیں، سماجی حقیقت نگاری بھی اور اپنے عہد کا گہرا سیاسی و سماجی شعور بھی۔Dr.Faizan Hasan ZeyaiS/O Late Dr Mozaffar Hasan AaliMOH - Baradari, PO+PS SasaramDistt.: Rohtas - 821115 (Bihar)E-mai . faizanzeyai.ssm@gmail.comMob7631887356/ 7903399020" 2020 کا فکشن اور فکشن تنقید - مضمون نگار: اسلم جمشیدپوری,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/03/,"زمانے کے سمندر میں بارہ مہینوں کا ایک کلینڈر دریا کی شکل میں سما گیا۔ وقت کا سمندر ایسے ہزاروں اور لاکھوں برسوں کے خزانے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور روز افزوں وسیع وبیکراں ہوتا جاتا ہے۔ موضوعات اور وقت کی ستم ظریفیوں کے حساب سے 2020کا نٹے کی طرح دل میں چبھنے والا سال ثابت ہوا ہے۔2020 میں کورونا سے متاثر ادب خاصا تخلیق ہوا۔ادبی رسائل محفلیں اور سمینار آن لائن ہونے لگے۔ہر سال کی طرح میں نے 2020 میں لکھے گئے فکشن اور فکشن تنقید کا ایک جائزہ لیا ہے جو اردو دنیا کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔2020کا افسانہ:2020میں افسانوں اور افسانچوں کے متعدد مجموعے منظر عام پر آئے کچھ نے چونکایابھی،کچھ افسانوی مجموعے بہت مشہور ہوئے اور کچھ نے قاری پر گہرا تاثر قائم کیا۔ اس سال شائع ہونے والے خاص مجموعوں میں تین کہانیاں(خالد جاوید)ادراک(شبیر مصباحی)ذہن زاد (توصیف بریلوی) نئی راہ نئی روشنی (انور آفاقی) دیوار ہجر کے سائے (عشرت معین سیما) بکھرے رنگ (ڈاکٹر عقیلہ) ڈائجسٹ کہانیاں (راشد اشرف) امریکی کہانیاں (یاسر حبیب) میری چاہت کے گلاب (احمد حسنین) نیا حمام(ڈاکٹر ذاکر فیضی)خون کا رنگ(ارشد منیم) گمشدہ دولت(طارق شبنم)وہ دس اور دوسری کہانیاں (ف۔س اعجاز) احتیاط(راجیو پرکاش ساحر) چراغوں کے اندھیرے (محمد عرفان ثمین)پس پردہ (ڈاکٹر عارف انصاری) دخمہ(پروفیسر بیگ احساس) حمید سہروردی اور بچوں کی کہانیاں (ڈاکٹر اسرارالحق سبیلی) اونچی اڑان(ڈاکٹر ایم اے حق)کل اور آج کا غم(ڈاکٹر عظیم راہی)تنکے (ڈاکٹر نذیر مشتاق)وغیرہ ہیں۔خالد جاوید کا افسانوی مجموعہ’تین کہانیاں‘ کے نام سے 2020 میں منظر عام پر آیا۔اس سے قبل آپ کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ’بُرے موسم میں‘2002 دوسرا مجموعہ ’آخری دعوت‘2007 میں تیسراا فسانوی مجموعہ ’تفریح کی ایک دوپہر‘2008 میں شائع ہوا۔ان تینوں افسانوی مجموعوں نے قارئین کو اتنا متاثر کیاکہ آپ کو ایک معتبر افسانہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔سبھی کہانیوں میں فکری وفنی جنبش نظر آتی ہے۔خالد جاوید کے تازہ مجموعے میں تین کہانیاں ’تاش کے پتوں کے عجائب گھر‘،’تنقید کے خلاف ایک بیانیہ ‘ اور ’زندوں کے لیے ایک تعزیت نامہ‘ شامل ہیں۔یہ تینوں کہانیاں سماج و معاشرے کے الگ الگ موضوعات پر تحریر کی گئی ہیں۔ کہانیوں کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ آپ کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ذاکرفیضی کا پہلا افسانوی مجموعہ ’نیا حمام‘ 2020 میں منظر عام پر آیا۔ادبی حلقوں میں اس کی پزیرائی ہو چکی ہے۔سماجی رشتوں کے تانے بانے بنتا ہوا یہ مجموعہ دیگر فکشن نگاروں کے دل میں بھی جگہ بناچکا ہے۔مشہورفکشن نگار پیغام آفاقی کے بقول ’’فیضی کے اندر ایک عمدہ افسانہ نگار ہے، جو اپنے انداز میں افسانے لکھ رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ذاکر فیضی کے اس افسانوی مجموعے میں نیا حمام، ٹوٹے گملے کا پودا، فنکار، ٹی۔او۔ڈی وائرس، اسٹوری میں دم نہیں ہے۔ مردوں کی الف لیلہ، کوڑا گھر، ورثے میں ملی بارود، ہٹ بے، کلائمکس،اخبار کی اولاد، بدری، لرزتی کھڑکی، دعوتِ نون ویج غور و فکر کی دعوت دینے میںمجموعے میںپانچ افسانچے بھی شامل ہیں۔ ان کہانیوں میں انسانی رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ، سماجی اور ثقافتی سروکار امیر غریب کے جذبات و احساسات کی سچی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔ناصر آزاد کا پہلا افسانوی مجموعہ ’خواب اور حقیقت‘ 2020 میں منظر عام پر آیا۔ایک اہم اور منفرد قسم کا افسانوی مجموعہ ہے۔ جس میں عورت مرد کی خودپسندی، خواتین پر ظلم و ستم، غریبی، مفلسی کی ستم ظریفی، ازدواجی زندگی میں بے چینی، بے قراری وغیرہ کے نقوش آسانی سے مل جاتے ہیں۔ناصر آزاد کی ایک اہم خوبی جو انہیں مقبول عام بناتی ہے وہ ہے ’باریک بینی سے سوچنا‘ ہمیشہ اپنے افسانوں کو بار بار پڑھتے ہیں اور بہتر سے بہتر کہانی لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مالیر کوٹلہ پنجاب کے ممتاز افسانہ نگار محمد بشیر مالیر کوٹلوی لکھتے ہیں:’’ناصر افسانے کو بہت باریک بینی سے دیکھتے ہیں اور بہتر تخلیق پر یقین رکھتے ہیں۔ افسانے کا کوئی پہلو کمزور ہواس کے لیے فکر مند رہتے ہیں‘‘’وہ دس اور دوسری کہانیاں ‘ ف۔ س۔ اعجاز کا یہ دوسرا اور تازہ افسانوی مجموعہ ہے۔اس مجموعے میں ف۔ س۔ اعجاز نے اپنی مشہور کہانی ’وہ دس‘ کے علاوہ بتیس چھوٹی بڑی کہانیاں شامل کی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کہانی ریزی کے عنوان سے تیتیس ایک صفحے کی کہانیاں بھی شامل اشاعت ہیں۔ انھوں نے ان کہانیوں کو افسانچہ نہیں کہا ہے۔یہ ایک سوال ہے جس کا جواب قاری تلاش کرے گا۔ ف۔س اعجاز کی کہانیاں ہمارے عہد کا سچ تو ہیں ہی مستقبل کا پیش خیمہ بھی ہیں۔ ان کی کئی کہانیاں وہ دس، کبیرا کھڑا بازار میں،ایریکا، گڑیا، من و سلوا، لکڑی کاجزیرہ، بھولاپن، پاسورڈ، گرین سون، چاند اور چھپکلی، اسکرولڈ، آپ کی توجہ ضرورمبذول کرائے گی۔ ان کے کئی افسانچے سوال، ساسک،بے رحم، میٹو، ڈر، بھی آپ کو سوچنے پر مجبور کریں گے۔’دیوارہجر کے سائے‘ جرمنی کی مشہور افسانہ نگار عشرت معین سیما کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔آپ کے افسانوں میں یوں تو ہر طرح کے موضوعات شامل ہیں لیکن عورت کی بے بسی، عورت پر ہونے والے ظلم وستم، بے چارگی اور مرد سماج کے ذریعے ڈھائے جانے والے ظلم وستم کا خاصہ واضح نظر آتا ہے۔وہ اپنے خواتین کردار کو سماج سے لڑنے کا حوصلہ بھی بخشتی ہیں۔ دیوارِ ہجرکے سائے میں عشرت معین سیما کے تقریباً انیس افسانے شامل ہیں،جن میں وہ کون تھی، دھواں، دیوار ہجر کے سائے، جنت، چاند، اور چاردیواری،سبزپوش، کفارہ ایسے افسانے ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔’بکھرے رنگ‘ ڈاکٹر عقیلہ کا افسانوی مجموعہ ہے۔ جس کا پیش لفظ ڈاکٹر ریاض توحیدی نے لکھا ہے۔ ڈاکٹر عقیلہ نئی افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے افسانوں سے بہت جلدی شناخت قائم کی ہے۔ بکھرے رنگ مجموعے میں ڈاکٹر عقیلہ کے تقریباً گیارہ افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں میں رومان کی لہریں کہیں تیز ہو جاتی ہیں تو کہیں مدھم،لیکن ایک دھیمی دھیمی آنچ کا احساس ہمیشہ باقی رہتا ہے۔مجموعے کے افسانے طلاق، آخرمیں نے پالیا تجھے، سرجو، چھوٹی سی محبت، چال، بکھرے رنگ، ایسے افسانے ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور گہرا تاثر چھوڑتے ہیں۔ڈاکٹر ایم۔اے حق کی کتاب ’اونچی اُڑان‘ مختصر ترین کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ افسانچوں کے اس مجموعے میں کل باسٹھ افسانچے شامل ہیں۔نصیحت،ترکیب، اخلاق،ٹریننگ، پہل، ذہانت، ناکام سازش، واہ !!!، معافی، حاضر دماغ، جوئے کااڈا، تبدیلی، ضدی شہزادہ، شرمندگی، کھیل کھیل میں،گوگل، ہابیل اور قابیل، مہنگا فلیٹ، وندے ماترم،اسکیم، اُووراسمارٹ، بھول، دوراندیشی، سزا، باخبر، جیت،احتیاط، تدبیر، انوکھا فیصلہ، مذاق، نے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ بچوں کی تربیت اور انھیں اردو ادب سے منسلک کرنے کے لیے ان افسانچوں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ افسانچوں کو یکجا کر کے کتابی شکل میں لانے کا منفرد کارنامہ ڈاکٹر تسلیم عارف نے بخوبی انجام دیا ہے ا فسانچوں میں سماج و معاشرے کے مقامات،تجربات مشاہدات کی تصاویر نظر آتی ہیں۔2020کا ناولگذشتہ سال 2020 میں متعدد ناول شائع ہوئے۔کئی نے ہمارے ذہنوں کو جھنجوڑڈالا جنھیں ہم بہت زمانے تک یاد رکھیں گے۔کورونا کے اثرات پر بھی کئی ناول سامنے آئے ہیں۔اس سال لکھے گئے متعدد ناولوں میں مردہ خانے میں عورت (مشرف عالم ذوقی) ہجور آما (شبیر احمد) ایک خنجر پانی میں(خالد جاوید) اللہ میاں کا کارخانہ(محسن خان) میں تمثال ہوں(عارفہ شہزاد) کابُلہاکیہہ جانا میں کون (ذکیہ مشہدی )سہیم(نجم الدین احمد)پچھل پیری(نعمان فاروقی) شہر مرگ (طاہرہ) شیلٹر۔ ہوم شیلٹر (افسانہ خاتون) موسیٰ (ڈاکٹر شفق سوپوری)وقت قیام(مشتاق انجم) چلڈرنس فارم (ایم مبین) دھول دیپ(یعقوب یاور)کڑوے کریلے (ثروت خان) سودوزیاں کے درمیان(خالد فتح محمد) کورونا ایٹ داریٹ سکسٹی ڈگری(اختر آزاد، پی ڈی ایف فارم)وغیرہ۔’ایک خنجر پانی میں‘ خالد جاوید کا ناولٹ ہے۔ ناول کا موضوع بظاہر پانی کے مسائل ہیں۔لیکن خالد جاوید نے پانی کو زندگی کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے اور پانی کے لیے جدید فلیٹ نما زندگی میں جو مشکلات اور مصائب بالواسطہ اور بلاواسطہ انسانی زندگی میں در آتے ہیں،ان کو اپنے مخصوص بیانیے اور فلسفیانہ انداز کے ساتھ اس طور پیش کیاہے کہ ان کے پرانے ناولوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ خود خالد جاوید اپنے ناول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ یقیناموت کی تیسری کتاب ہے۔جو دراصل بہتے ہوئے وقت اور پانی کی کتاب بھی ہے۔اس ناول کا موضوع یتیم خانے،شیلٹر ہوم اور اس طرح کے ادارے ہیں۔ گذشتہ برسوں بہار میں شیلٹر ہومزکے شرمناک واقعات منظر عام پر آئے تھے۔ جس میں سیاسی، رہنماؤں کی کالی کرتوتوں کو خاص شہرت ملی تھی۔یہ واقعات عورتوں کے شیلٹر ہومس میں زیادہ ہوئے تھے۔افسانہ خاتون نے عورتوں کے ساتھ ہونے والے عبرت ناک واقعات کے اسباب و علل پر غور کرتے ہوئے پردے کے پیچھے کے سچ کو بے نقاب کیا ہے۔ناول ’مردہ خانے میں عورت‘بھی ان کے سابقہ انداز کا ایک کھلا بیان ہے۔نئے عہد میں کوئی داستان گوکس طرح کی داستان لکھے گا۔طلسم ہوشربا،کا ملک کے پس منظر میں ازسرنو لکھے جانے کا کیاانداز ہوگا یہ مردہ خانے میں عورت کو پڑھ کر سمجھا جاسکتا ہے۔’میں تمثال ہوں ‘ عارفہ شہزاد کا ناول ہے جو متعدد عشقیہ قصوں پر مبنی ہے۔پورے ناول میں سات عشقیہ قصے بیان کیے گئے ہیں۔جن میں مختلف نشیب و فراز ہیں کہیں بچپن کے واقعات ہیں تو کہیں جوانی کے قصے مصنفہ کی تعریف کرنی چاہیے کہ اس نے ان قصوں کا بیان حقیقت پسند انہ کیا ہے۔’ہجور آما‘ بنگال کے مشہور ومعروف فکشن نگار شبیر احمد کا پہلا ناول ہے جسے بنگال کے پس منظر میں لکھی گئی ایک ایسی عشقیہ داستان ہے جو سیاسی اور سماجی نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی زندگی کی دھوپ چھاؤں کو پیش کرتی ہے۔ناول میں خواب، خوابوں کی تعبیر فرائڈ کے جنسی نظریات کا رل مارکس کا سماجی نظریہ، بنگال کی سیاست کالال رنگ اور بنیادی سہولیات کے فقدان میں زندگی گزارتے آدی واسی وغیرہ کو اس طور ناول کیا ہے کہ واقعہ در واقعہ ہجور آما کا سحر کاری کو انگیز کرتا رہتا ہے۔ ویب نینا کے برج مکھرجی اور باز احمدکی شکل میں کئی عمدہ کردار اور ناول نے ہمیں دیے ہیں۔’دھول دیپ‘ یعقوب یاور کا تحریر کردہ دلچسپ ناول ہے ۔ یعقوب یاور نے اسے بارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ دراصل یہ ناول بھی گجرات کے تاریخی مقامات کا تقریباً سات ہزار سال پرانا قصہ اور معاشرہ ہے۔ ایسے میں مصنف کا تخیل اگر اس کی صحیح رہنمائی کرے تو بعض ایسے کردار اور قصے سامنے آتے ہیں جو زمانے تک ہماری یادکا حصہ بنے رہتے ہیں۔دھول دیپ یعقوب یاور کا ایک شاہکار ناول ثابت ہوگا۔’اللہ میاں کا کارخانہ‘محسن خان کاپہلا ناول ہے۔ ناول کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی سال میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہو گئے ہیں۔پہلا ایڈیشن ایم۔آر سی پبلی کیشن اور دوسرا ایڈیشن عرشیہ پبلی کیشن دہلی کے زیر اہتمام بڑے خوبصورت گیٹ اپ میں شائع ہوا ہے۔’اللہ میاں کا کارخانہ‘ محسن خان کے تجربات و مشاہدات اور بیانیہ کے سبب ایک منفرد ناول کے طور پر سامنے آیا۔یہ دراصل عام زندگی کی کہانی ہے جس میں انسانی بستیوں کے ساتھ ساتھ قبرستان بھی ایک کردار کے طور پر موجود ہے۔ناول کا بیانیہ اس قدر پختہ اور مستحکم ہے کہ واقعات درواقعات ناول قاری کو اپنی گرفت میں لیتا چلا جاتا ہے۔’چلڈرنس فارم‘ دراصل ایم مبین کے ذریعے لکھا گیا بچوں کے لیے ایک اہم ناولٹ ہے۔چلڈرنس فارم میں ثواب و گناہ،کفارہ، بے ضمیری جیسے جذبات سے پر کردار ہیں تو چلڈرن فارم کا یعنی یتیم خانے کاپس منظر ہے۔یہ یتیم خانہ پارسیوں کا دکھایا گیا ہے لہٰذا ایم مبین نے پارسیوں کی زندگی،ان کی تہذیب اور رہن سہن کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔’کڑوے کریلے‘ ڈاکٹر ثروت خان کا اس سال شائع ہونے والا نیا ناول ہے۔دراصل ان کا خواتین کے استحصال پر لکھا گیا ایک عمدہ ناول ہے جس میں انہوں نے آج کی عورت کو جس کی نمائندگی مولی کر رہی ہے۔آج کی عورت کو ظالم اورہوس زدہ انسانوں کے بُرے کارناموں کی نذر ہوتے ہوئے دکھایا ہے۔’سودوزیاں کے درمیاں‘ خالد فتح محمد کا ایک اہم ناول ہے۔2020میں شائع ہونے والے اس ناول ’سودوزیاں کے درمیاں‘ میں نئی تکنیک نئے رنگ اور سماج و معاشرے کی سچی تصاویر نظر آتی ہیں۔ناول کے کرداروں کے ذریعے خالد فتح محمد نے عوامی زندگی کے نشیب و فراز کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔خالد فتح محمد نے اس ناول کے ذریعے عام انسانوں کے دکھ درد اور غموں کو فنکارانہ انداز میں پیش کرنے کا منفرد کارنامہ انجام دیا ہے۔2020کی فکشن تنقید2020میں متعدد تنقیدی کتابیں شائع ہوئیں کچھ کتابیں ترتیب شدہ ہیں۔کچھ شخصیات پر مبنی ہیں اور کچھ خالصاً تنقید کا حق ادا کرتی ہیں۔اس سال شائع ہونے والی خاص کتابوں میںراجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری (ڈاکٹر پرویز شہر یار)اردو فکشن کے پانچ رنگ(پروفیسر اسلم جمشید پوری)شین مظفر پوری(ڈاکٹر ابوبکر رضوی) اسرار گاندھی کے تخلیقی اسرار(پروفیسراسلم جمشید پوری) گاہے گاہے باز خواں(سلام بن رزاق)اردو فکشن تعبیر و تفہیم (ڈاکٹر کہکشاں عرفان)جوگندر پال: دید و نادید (حمید سہروردی) ذکی انورشخصیت فن اور تنقیدی مطالعہ (ڈاکٹر اختر آزاد)فکشن تنقید،تکنیک و تفہیم(ڈاکٹر منور حسن کمال) عصمت چغتائی روایت شکنی سے روایت سازی تک(ڈاکٹر فرزانہ کوکب) اردو افسانے میںدلت مسائل (ڈاکٹر نزہت پروین) اظہار الاسلام شخصیت اور فن (ڈاکٹر فاروق اعظم) مرگ انبوہ (مشرف عالم ذوقی) آزادی کے بعد اردو فکشن(ڈاکٹر محمد سلمان بلرامپوری)سیمانچل کے افسانہ نگار(احسان قاسمی)اردو افسانوں میں مسائل نسواں کی عکاسی(ڈاکٹر نورالصباح) اکیسویں صدی کی دہلیز پراردوکے اہم ناول (رحمن عباس) وغیرہ۔’اردو فکشن تعبیر و تفہیم ‘ ڈاکٹر کہکشاں عرفان کی فکشن تنقید پر پہلی کتاب ہے۔اردو فکشن تعبیر و تنقید میں ڈاکٹر کہکشا ںکے تقریباً 15 مضامین شامل ہیں۔کتاب کاا ختصاص یہ ہے کہ اس میں پریم چند سے ترقی پسند فکشن نگار،پھر 1970کے اہم فکشن نگاروں، غضنفر، اسرار گاندھی سے لے کر اکیسویں صدی کے معروف افسانہ نگار فکشن نگار، صادقہ نواب سحر،شائستہ فاخری اور جدید تر نسل کے ڈاکٹر محمد مستمر کے فن پر کہکشاں عرفان نے کھل کر بحث کی ہے۔’جوگندر پال: دیدونادید‘ حمید سہروردی کے قلم کا کمال ہے۔کتاب ہذا میں جوگندر پال کی زندگی،ان کا ادبی سفر، افسانہ،افسانچہ، ناول، ناولٹ، ڈرامہ،اور تنقید وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ساتھ ہی جوگندر پال کے منتخب افسانے،افسانچے اور ڈرامے بھی کتاب میں شامل کیے ہیں۔’زکی انور کی شخصیت وفن‘ڈاکٹر اختر آزاد کی تازہ ترین تنقیدی و تحقیقی کاوش ہے جو کتاب ہذا میں اختر آزاد نے اپنے زمانے کے مقبول و معروف فکشن نگار’زکی انور کی شخصیت وفن‘ کو موضوع بنایا ہے۔انھوں نے زکی انور کے تقریباً انیس افسانوں کا تجزیہ کیا ہے ساتھ ہی زکی انور کے آٹھ اہم افسانوں کا انتخاب بھی شامل کیا ہے۔اُمید ہے کہ یہ کتاب زکی انور شناسی میں سنگ میل ثابت ہوگی۔’شین مظفر پوری‘ ڈاکٹر ابوبکر رضوی کا تحریر کردہ فردنامہ(Monograph)ہے۔انھوں نے شین مظفر پوری کے حالات زندگی، افسانہ نگاری، ناول نگاری، ریڈیائی ڈرامے، طنزومزاح نگاری، یادداشت، صحافت وغیرہ موضوعات کے تحت خاصا مواد فراہم کیا ہے۔آپ نے شین مظفر پوری کے تین افسانے،ناول کا ایک باب، انشائیہ، خاکہ اور اداریہ کے نمونے بھی شامل کیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کتابیات کے تحت شین مظفر پوری کی کتابوں کو شامل کیا ہے۔’راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری‘ ڈاکٹر پرویز شہریار کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے۔ یہ کتاب بیدی فہمی میں اپنا الگ مقام رکھتی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے راجندر سنگھ بیدی کے سوانحی کوائف، بیدی کے افسانوں کے فکری سروکار،بیدی کا افسانوی فن، کردار نگاری، اسلوب اور زبان پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ساتھ ہی بیدی کے مشہور افسانوں، اپنے دکھ مجھے دے دو، لاجونتی، جوگیاوغیرہ افسانوں کے تجزیے بھی شامل کیے ہیں۔’گاہے گاہے بازخواں‘ (اردو کے کلاسیکی افسانے اوران کے تجزیے)مشہور و معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق کی اہم تنقیدی کتاب ہے۔عرشیہ پبلی کیشنز نے اسے شائع کیا ہے۔اس کتاب میں پوس کی رات، ٹھنڈا گوشت، دوفرلانگ لمبی سڑک، لاجونتی، جڑیں نظارہ درمیاں ہے، مورنامہ، گاڑی بھررسد، پرندہ پکڑنے والی گاڑی، آگ کے پاس بیٹھی عورت، ہزاروں سال لمبی رات،پیتل کاگھنٹہ جیسے کلاسیکی اور عمدہ افسانوں کے تجزیے ہیں۔ایک فنکار یا افسانہ نگار جب افسانوں کے تجزیے کرتا ہے تو وہ افسانے کے ہر پہلوں کا خیال رکھتا ہے۔ہر طرح سے افسانہ سمجھنے اور سمجھانے کا کام کرتا ہے۔افسانے کے جھول کی طرف بھی اشارے کرتا ہے۔ایسے تبصروں کو ہم تخلیقی تنقیدمیں شامل کرتے ہیں۔اس طور دیکھا جائے تو سلام بن رزاق نے ان تجزیوں کے ذریعے عمدہ تخلیقی تنقیدکا نمونہ پیش کیا ہے۔’فکشن تنقید تکنیک و تفہیم‘ڈاکٹر منور حسن کمال کی تازہ ترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر منور حسن کمال نے مشرف عالم ذوقی کے ناولوں اور افسانوں پر لکھے گئے مضامین کو یکجا کیا ہے۔مضامین کی ترتیب و تہذیب کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک مقدمہ بھی تحریر فرمایاہے۔ دراصل یہ کتاب ذوقی فہمی میں معاون ثابت ہوگی۔’اردو افسانہ میں دلت مسائل‘ ڈاکٹر نزہت پروین کا تحقیقی و تنقیدی کارنامہ ہے۔انھوں نے اس کتاب میں ابتدا سے لے کر موجودہ افسانوی منظرنامے تک پینتالس دلت افسانوں کا انتخاب شامل کیا ہے۔ساتھ ہی بہت سے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ بھی کیا ہے۔اردو افسانہ میں دلت مسائل ہندوستان میں دلتوں کی سیاسی و سماجی صورت حال جیسے موضوعات پر بھی نزہت پروین نے خاطر خواہ بحث کی ہے۔اپنے موضوع پر یہ اب تک کی پہلی اور عمدہ کتاب ہے۔ڈاکٹر محمد فاروق اعظم کی کتاب ’اظہار الاسلام: شخصیت اور فن‘ افسانے کی تنقیدکے تعلق سے بہت اہم کتاب ہے۔اظہارالاسلام شناسی کے تعلق سے اس کتاب کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔مغربی بنگال کے منفرد افسانہ نگار اظہا رالاسلام پر مربوط یہ تنقیدی اور تحقیقی کام ڈاکٹر محمد فاروق اعظم کا منفرد کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر محمد فاروق نے ا بتدا میں ’اپنی بات ‘ کے علاوہ اظہارالاسلام کا ’سوانحی خاکہ‘ اور ’اظہارالاسلام میری نظر میں‘ تحریر کیا ہے۔صاحب کتاب کی تحریر کے علاوہ ممتاز ناقدین پروفیسر شمس الرحمن فاروقی،مشرف عالم ذوقی، رونق نعیم، ڈاکٹر سید عارفی، ڈاکٹر علی حسین شائق، نصراللہ نصر، ڈاکٹر سید قمر صدیقی وغیرہ نے اظہار الاسلام کی شخصیت، فن اور افسانہ نگاری کے تعلق سے پر مغز مضامین تحریر کیے ہیں جن کو ڈاکٹر محمد فاروق اعظم نے نہایت فنکارانہ انداز سے کتاب میں یکجا کیا ہے۔’آزادی کے بعد اردو فکشن تنقید‘ ڈاکٹر محمد سلمان بلرامپوری کی تحقیقی و تنقیدی کاوش ہے۔محمد سلمان بلرامپوری کی یہ پہلی کتاب ہے جس میں انہوں نے آزادی کے بعد کے فکشن ناقدین اور ان کے کاموں پر کھل کر بحث کی ہے۔ پانچ ابواب میں تقسیم اس کتاب کے پہلے باب میں فکشن تنقید کے بنیادی مسائل پرگفتگو کی ہے۔دوسرے باب میں ترقی پسند تنقید اور اردو فکشن کا مطالعہ،تیسرے باب میں نئی تنقید اورفکشن کا مطالعہ،چوتھے باب میں آزادی کے بعد اردو فکشن کا تجزیاتی مطالعہ اور پانچویں باب میں آزادی کے بعد اردو فکشن کے اہم ناقدین پر گفتگو کی ہے۔محمد سلمان بلرامپوری نے آزادی کے بعد کے اہم ناقدین میںشمس الرحمن فاروقی، وارث علوی، گوپی چند نارنگ، حافظ سہیل، مہدی جعفر، وہاب اشرفی، پروفیسر خورشید احمد،مرزا حامد بیگ، شمیم حنفی، ابوالکلام قاسمی اور معین الدین جینا بڑے پر گفتگو کی ہے۔ اس فہرست میں چند اور نام شامل ہو سکتے تھے مثلاً پروفیسر قمر رئیس، ڈاکٹر انوار احمد، صغیر افراہیم، ارتضیٰ کریم، محمد حمید شاہد،علی احمد فاطمی۔’سیما نچل کے افسانہ نگار‘معروف شاعر اور ناقد محترم احسان قاسمی کی ’سیمانچل ادب گہوارہ‘ سیریز کی پہلی کتاب ہے جس میں سیمانچل کے متعدد افسانہ نگاروں، رفیع حیدرانجم،عبدالمنان،معین الدین احمد،شمس جمال، مشتاق احمد نوری، احسان قاسمی، جمشید عادل، نیلوفر پروین،پرمودبھارتیہ، کلام حیدری، شبیہہ مشہدی، علی امام وغیرہ تقریباً تیتس افسانہ نگاروں کے افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے میں سیمانچل میں مستقل سکونت اختیار کرنے والے افسانہ نگار، کچھ دن قیام کرنے والے افسانہ نگار اور ملازمت کرنے والے افسانہ نگار شامل ہیں۔رسائل کے فکشن نمبر2020میں متعدد رسائل کے فکشن نمبر شائع ہو چکے ہیںکچھ ناول نمبر،کچھ افسانہ نمبر اورکچھ شخصیا ت پر مبنی ہیں۔ اس سال شائع ہونے والے خاص فکشن نمبر میںلوح،ادب سلسلہ،شاعر،چہار سو وغیرہ نے قارئین کو کافی متاثر کیا۔کتابی سلسلہ ششماہی ’لوح‘اپنی نوعیت کا مختلف و منفرد رسالہ ہے جس کے مدیر ممتاز احمد شیخ ہیں۔ ’لوح‘ نے دنیا بھر کے اردو رسائل میں اپنا الگ مقام بنالیا ہے۔اس کا ہر شمارہ کسی نہ کسی موضوع پر مشتمل خاصا ضخیم ہوتا ہے۔تازہ شمارہ ’ناول‘ پر ایک خاص شمارہ ہے جو تقریباً پونے آٹھ سو صفحات پر پھیلا ہے۔’لوح‘ کے ناول نمبر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ناول کی تاریخ یعنی ابتدا سے لے کر موجودہ عہد یعنی بیسویں صدی کے مشہور ومعروف ناولوں کے منتخب ابواب شامل کیے گئے ہیں۔ساتھ ہی مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر رشید امجد، مشرف عالم ذوقی، محمد حمید شاہد،ڈاکٹر امجد طفیل، ڈاکٹر محمد اشرف کمال کے منفرد مقالات و مضامین اور ناول کی ابتدا، ارتقا، بیسویں صدی کے اہم ناول اور نئے ناول کے سفر کو عمدگی سے سمیٹا ہے۔لوح کا یہ شمارہ طالب علموں،ریسرچ اسکالر، اساتذہ اور شائقین ناول کے لیے کارآمد اور یادگار شمارہ ہے۔’ادب سلسلہ‘کا ایک خصوصی شمارہ افسانہ نمبر کی شکل میں سامنے آیا ہے۔اس کے مدیر محمد سلیم علیگ اور مہمان مدیر راقم ہے۔ اس شمارے میں اردو افسانہ اور ناول کی صورت حال اور مستقبل کے تعلق سے بارہ مضامین شامل ہیں۔ ساتھ ہی سلسلۂ افسانہ کے تعلق سے بارہ افسانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔آخر میں اردو ناول اور افسانوں کے تعلق سے ایک دلچسپ سوال نامہ مع جوابات شامل ہے۔شاعر کا اکتوبر 2020 کا شمارہ افسانہ نمبر کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اس میں اردو کے عالمی افسانہ نگاروں کی تخلیقات شامل ہیں۔اس افسانہ نمبر میں تقریباً بیس افسانے شامل ہیں۔یہ افسانہ نمبر نئے افسانہ نگاروں کی خصوصاً نمائندگی کرتا ہے۔ ’شاعر‘کا یہ مشن رہا ہے کہ وہ نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔شاعر کی یہ خوبی اس کی مقبولیت کا راز بھی ہے۔معروف رسالہ’چہار سو ‘کے ستمبر۔ اکتوبر کے شمارے میں صادقہ نواب سحر پر ایک گوشہ شامل ہے۔رسالے کے مدیر گلزار جاوید ہیں جو گذشتہ تین دہائیوں سے رسالہ جاری رکھے ہوئے ہیںاور ہر شمارے میں کسی ادیب یا شاعر پرگوشہ ضرور شائع کرتے ہیں۔ادبی رسائل کی بھیڑ میں چہار سو کا اپنے گوشوں کے حوالے سے ایک منفرد مقام ہے۔ تازہ ترین شمارہ ستمبر اکتوبر 2020 میں گوشہ ٔ صادقہ نواب سحر شائع ہوا ہے۔اس گوشے میں تقریباً پندرہ مضامین، ان کے فن اورشخصیت پرشامل ہیں ساتھ ہی ایک ڈرامہ چڑیا کا بچہ گیا کہاں اور ایک افسانہ منت بھی شامل ہے۔ناول ’’راجدیو کی امرائی‘‘ کا ایک باب بھی گوشے کی زینت بنا ہوا ہے۔سوشل میڈیا پر اردو فکشنجوں جوں کمپیوٹر اور موبائل ہماری زندگی کا لازمی جز وبنتے جا رہے ہیں اور کورونا کی وجہ سے بہت ساری آف لائن سرگرمیاں آن لائن ہونے لگیں تو ادب کی صورت حال بھی تبدیل ہونے لگی ہے۔فکشن کی ہی بات کی جائے تو اب فیس بک پر بہت سے گروپ نہ صرف کہانیوں کا مقابلہ کر ارہے ہیں بلکہ افسانوں کے وائس ایڈیشنvoice editionبھی آنے لگے ہیں۔اردو افسانہ، وولر،اردو ادبی فورم، عالمی افسانہ فورم (وحید قمر) اردو افسانہ (صدف اقبال)اشتراک ڈاٹ کام،صدا پارے، لفظ نامہ ڈاٹ کام، اردو فکشن یو ٹیوب چینل، جموں وکشمیر فکشن رائٹر س گلڈ، انہماک انٹر نیشنل فورم( سید تحسین گیلانی) عالمی اردو فکشن (ڈاکٹر ریاض توحیدی) جیسے بہت سے گروپ فیس بک پر افسانوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔اسی طرح افسانچے کے فروغ میں بھی بہت سارے افسانچہ گروپ حصہ لے رہے ہیں۔انٹرنیشنل افسانچہ فاؤنڈیشن (نخشب مسعود )عالمی افسانچہ اکیڈمی (ڈاکٹرایم۔اے حق)دنیائے افسانچہ (پرویز بلگرامی) گلشن افسانچہ (رونق جمال)وغیرہ پر متعدد افسانچے آوازکی صورت میں لوڈ ہو رہے ہیں۔واٹس اپ پر بھی کئی گروپ افسانے اور افسانچے کے فروغ میں مستقل اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بزم افسانہ (سلام بن رزاق)اور افسانہ و افسانچہ گروپ (محمد علیم اسماعیل)بزم نثار(جاوید نہال حشمی)افسانچے ہی افسانچے وغیرہ کی کاوشوں سے سوشل میڈیا پر افسانے کے ساتھ افسانچوں کی بھی بہار آئی ہوئی ہے۔Prof. Aslam JamshedpuriDept of Urdu,Chaudhary Charan Singh University, RamgarhiMeerut- 250001 (UP)E-mail aslamjamshedpuri@gmail.comMob.8279907070" ناول ’قبض زماں‘ ایک ماحولیاتی قرأت - مضمون نگار: توصیف بریلوی,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/02/,"شمس الرحمن فاروقی ناول نگار سے زیادہ نقاد کی حیثیت سے معروف ہیں لیکن ان کی ناول نگاری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ان کا ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ زوال پذیر مغلیہ عہد کی داستان سناتا ہے۔ اس وقت کے رہن سہن، کھان پان،پہناوے اور زیورات پر خاصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔موصوف کا دوسرا ناول ’قبض زماں‘ 2012 میں پہلی بار پاکستان میں منظر عام پر آیا اور اب 2020 تک اس کے متعدد ایڈیشن آ چکے ہیں۔’قبض زماں‘ کے متعلق ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ اسے ناول کی صف میں رکھیں یا داستان کی صف میں یا پھر طویل افسانے کی؟ کیوں کہ اس میں ناول اور افسانے والے تمام اجزا تو ہیں لیکنTime Travelبھی اس کا خاص وصف ہے جس کی وجہ سے داستان کا شائبہگزرتا ہے۔ حالانکہ دنیا کے بیشتر مذاہب کی کتابوں میں اس طرح کے واقعات درج ہیں پھر بھی ایسی باتوں پر یقین کرنا آسان نہیں۔ مذکورہ ناول ’قبض زماں‘سے مراد بھی یہی بات ہے کہ وقت کو قبضے میں کر لینا یا یوں سمجھیں کہ وقت کی قید سے آزاد ہو جانا۔ ’قبض زماں‘ کی کہانی یہ ہے کہ ایک سپاہی جو سکندر سلطان لودی کی حکومت کے آخری سال یعنی 1517سے مغلیہ حکومت کے زوال کے وقت یعنی اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں پہنچ جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ سکندر سلطان لودی کا ایک سپاہی ڈاکوؤں سے لٹ جانے کے بعد اپنی بیٹی کے بیاہ کے لیے ایک طوائف سے قرض لیتا ہے اور اپنی بیٹی کی شادی کر دیتا ہے۔کچھ سال کے بعد جب وہ قرض واپس کرنے جاتا ہے تو اس طوائف کا انتقال ہو چکا تھا۔ وہ اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جاتا ہے تو اسی قبر سے ہوتے ہوئے ایک ایسی دہلی میں پہنچ جاتا ہے کہ جس کا زمانہ اورنگ زیب کے بعد کا ہے۔جو رقم وہ اپنا قرض اتارنے کے لیے لایا تھا وہ تو اس زمانے میں رائج ہی نہ تھی جس کی وجہ سے وہ بہت حیران و پریشان بھی ہوتا ہے۔اُس موقعے پر اصحاب کہف کا واقعہ بے ساختہ یاد آ جاتا ہے۔ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیکڑوں برس گزار آیا ہے تو اس کی کیفیت مجنونانہ ہو جاتی ہے اور ذہن کچھ سوچنے کے لائق بھی نہیں رہتاہے۔راقم کو ناول کی کہانی بیان کرنا مقصود نہیں تھا پھر بھی ناول کے تعارف میں اختصار سے کام لیتے ہوئے اب اصل موقف کی طرف بڑھا جائے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ناول میں جو زبان(بلکہ املا بھی) استعمال کی ہے وہ واقعی قدیم اردو کی یاد دلاتی ہے اور تاریخی نقطہ نظر سے بھی ناول اہمیت کا حامل ہے۔ ادبی ماحول کا جو تانا بانا مغلیہ حکومت کے آخری وقتوں میں اردو ادب کے عظیم شاعروں پر مبنی ہے مثلاً میر تقی میر، سودا، درد اور ان کے معاصرین کا تذکرہ، ان کی صحبتیں اور ان کی ادبی محفلیں ان سب کا تفصیلی تذکرہ ایک عہد آنکھوں کے سامنےVisualizeکر دینے کی قوت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں مغل حکومت سے بھی پہلے دہلی اور اطراف دہلی میں آب و ہوا کیسی تھی؟ کون کون سے جانور، چرند اور پرند انسانی بستیوں اور جنگلوں میں پھرتے تھے۔ ان کے بارے میں بہت سی معلومات ناول میں مہیا کی گئی ہیں۔جس سے اس وقت کے ماحولیات کا اندازہ ہوتا ہے۔ آگرہ جب بسایا جا رہا تھااس وقت سے لے کر روہیل کھنڈ میں دھام پور کے نزدیک مغل اور روہیلوں کی جنگ تک تکنیکی اسلحوں کا ارتقا، ایسی بہت سی باتیں ناول کو معنی خیزبناتی ہیں اورقاری کو پرانے عہد میں لے جاتی ہیں۔ماحولیات اپنے آپ میں زندگی کی علامت ہے۔ اگر ماحولیاتی نظام ہی درہم برہم ہو جائے تو زندگی اجیرن ہو جائے۔ مختلف قسم کی آلودگی، جانوروں اور پرندوں کا حد سے زیادہ شکار اور جنگلوں کا بے تحاشا کاٹا جانا ماحولیات کے لیے سم قاتل ہے۔ ماحولیات کو بچائے رکھنےکے لیے چھوٹے سے چھوٹے جرثومے سے لے کر بڑے بڑے جانوروں تک کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے لیکن انسان نے اپنی ضرورت کے مطابق نہ صرف جانوروں کا شکار کیا بلکہ جنگلوں کو کاٹ کر کھیت اور اب ان کھیتوں کو ختم کرکے بستیاں بسانے اور فیکٹریاں لگانے میں منہمک ہے۔یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے جس سے جانوروں اور پیڑوں کا تناسب روز بہ روز کم ہوتا جا رہا ہے اور یہ سیارہ ہمہ وقت ایک عجیب و غریب خطرے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چونکہ ناول کی قرأت ماحولیات کے حوالے سے کی گئی ہے تو اس میں ان اقتباسات پر گفتگو کی جائے گی کہ جہاں پر ماحولیات سے متعلق کوئی پہلو سامنے آتا ہوگا۔راوی جب رات کو اپنے گاؤں کے گھر میں رات کو سونا چاہتا ہے اور اسے پرانی باتیں یاد آتی ہیں جو اس کے بچپن کی یادوں میں سے ہیں، اس میں سے ایک جگہ تالاب اور اس میں رہنے والے چیونٹوں اور دیگر کیڑے مکوڑوں کا تذکرہ بڑی باریکی سے کیا گیا ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’بہر حال ہماری گڑھی میں مچھلیاں نہیں، لیکن جونکیں، گھونگے اور پانی کے چیونٹے بے شمار تھے۔ یہ پانی کے چیونٹے بھی خوب تھے، نہایت دبلے پتلے،بالکل جیسے وہ تنگ اور پتلی اور لمبی ہلکی بادبانی کشتیاں جنھیںPinnaceکہتے ہیں، یا جیسے کشمیری شکارے، بے حد ہلکے پھلکے۔ سیاہ بھورا رنگ، جسےSteel Greyکہیے، اور اس قدر لمبی لمبی ٹانگیں جیسے وہ سرکس کے جوکروں کی طرح پاؤں میں بانس باندھے ہوئے ہوں۔وہ پانی کی سطح پر اس قدر تیز دوڑتے جیسے دوڑ کے میدان میں گرے ہاؤنڈ کتے دوڑتے ہیں۔ مجھے اب یہ تو نہیں یاد کہ وہ کتنی دور تک دوڑتے نکل جاتے تھے(گڑھی خاصی چوڑی تھی، یا مجھے وہ چوڑی لگتی تھی۔) مجھے یاد نہیں کہ کوئی چیونٹا کبھی اس پار سے اس پار پہنچتا ہوا دکھائی دیا ہو۔ لیکن وہ جانور بالکل ننھے منے اور ہلکے پھلکے تھے اور گڑھی کا پانی بھی کچھ بہت روشن نہ تھا، اس لیے اگر وہ اس پار نکل بھی گئے ہوتے تو مجھے نظر نہ آ سکتا تھا کہ وہ اس کنارے پر پہنچ ہی گئے ہیں۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد آتا ہے ان کی دوڑ یہی کوئی دو ڈھائی فٹ کی ہوتی تھی اور مجھے ایک چھوٹے سے آبی منطقے میں دوڑتے بھاگتے نظر آتے تھے،اپنے تئیں ایک عجب اہمیت کا احساس اور خودنگری کا رنگ لیے ہوئے، گویا وہ سارا پانی انھیں کے لیے بنایا گیا تھا۔ اکثر میں دیکھتا کہ وہ ایک طرف دوڑتے ہوئے گئے، پھر دفعتاً کنی کاٹ کر کسی اور طرف نکل گئے۔چراگاہوں میں کلیلیاں کرتے ہوئے آہو بچوں اور الل بچھیروں کی طرح انھیں ایک دم قرار نہ تھا۔‘‘(شمس الرحمن فاروقی، قبض زماں، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی2020(چھٹا ایڈیشن) ص35-36)مندرجہ بالا اقتباس میں فاروقی صاحب نے گاؤں کے چھوٹے سے تالاب جسے گڑھی کہا جاتا تھا اس میں چیونٹوں جیسے کیڑوں کا ذکر نیز ان کی جسمانی ساخت اور ان کی دوڑ بھاگ کے متعلق تفصیلی ذکر کیا ہے۔ تالاب کے کیڑے مکوڑوں اور جانوروں کا اپنا ایک نظام ہوتا ہے۔ یہ چیونٹے نما کیڑے اسی نظام کا حصہ ہوتے ہیں جو اپنے اپنے طور پر ماحولیات کو بنائے رکھنے میں اپنا تعاون پیش کرتے ہیں۔ یہاں اختصار کی وجہ سے یہ اقتباس مختصر کرنا پڑا ورنہ آگے چل کر گھونگوں اور جونکوں کا ذکر بھی مصنف نے دلچسپ انداز میں قلم بند کیا ہے۔راوی جب سونے کی کوشش میں ناکام ہو جاتا ہے تو اپنے گاؤں کے وہ دن بھی یاد کرتا ہے جب اس کے دادا کے دروازے پر نیم کا پیڑ تھا۔ اصل میں درخت ہندوستانی تہذیب کا بہت اٹوٹ حصہ رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ درخت انسانی تاریخ اور زندگی کا اہم حصہ ابھی بھی ہیں۔ درختوں نے ہی انسان کو شروع میں سر چھپانے کو اور جنگلی جانوروں سے بچنے کے لیے اپنی شاخوں کو آغوش کی طرح پھیلا دیا تھا۔ بہر کیف آج درختوں کی کٹائی جس بے حسی کی ساتھ ہو رہی ہے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ نقصانات کے طور پر پوری دنیا میں آکسیجن کو صاف رکھنے کے لیے پیڑ پودے دن بہ دن کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنے اسی طرح کے ایک عزیز نیم کے درخت کے نہ ہونے پر مصنف جن لفظوں میں افسوس کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں:’’دادا کے دروازے پر نیم کا پیڑ، جس کے نیچے خاندان کے لوگوں کے ساتھ گاؤں کا ہر اجنبی مسافر کھانا کھاتا تھا، اب نہیں ہے۔ جس درخت کے سائے میں اس وقت میں لیٹا ہوا سونے کی کوشش کر رہا ہوں، اس کی عمر بمشکل تیس چالیس برس ہوگی۔ وہ گڑھی اور وہ پیپل تو اس طرح صفحۂ وجود سے محو ہو چکے ہیں گویا کبھی تھے ہی نہیں؎ہم تو جیسے یہاں کے تھے ہی نہیںخاک تھے آسماں کے تھے ہی نہیںجو ن ایلیا نے ہجرت کے پس منظر میں کہا تھا۔ ان بچاروں کو کیا معلوم کہ ہم لوگ جو یہیں کے تھے اور کہیں نہ گئے، ہم لوگوں کا سارا بچپن، سارا لڑکپن، تمام اٹھتی ہوئی جوانیاں، تمام دوستیاں اور رقابتیں ان اشجار کے ساتھ گئیں جو کٹ گئے، ان تال تلیوں کے ساتھ ڈوب گئیں جو سوکھ گئے، ان راہوں سے اٹھا لی گئیں جن پر گھر بن گئے۔‘‘(ایضاً، ص39)محولہ بالا عبارت سے اُس افسوس کا انکشاف ہو جاتا ہے جو ایک طویل عرصے بعد مصنف کو اس کے ماضی کی یاد ہی نہیں دلاتا بلکہ بچپن، جوانیاں، دوستیاں اور رقابتوں سے متعلق بہت سے واقعات تازہ کر دیتا ہے جن کا تعلق گاؤں کے متعدد اشجار کے ساتھ تھا اور وہ اشجار ان کے گواہ تھے۔راوی اپنے گاؤں میں رات کے وقت نیند سے عاری ہے اور اپنے بچپن کے قصے یاد کرتا ہے پھر اسے بھوت، چڑیل، جنات وغیرہ سبھی کے واقعات یاد آتے چلے جاتے ہیں۔ پیپل کے درخت کا برم بھی اسے یاد آتا ہے اور پھر اسے ایسا لگتا ہے کہ کوئی روح اس کے قریب آکر اپنا واقعہ سنانا چاہتی ہے۔ اسی واقعے پر اصل ناول مبنی ہے۔ سکندر سلطان لودی کی حکومت میں ایک سپاہی جب جنگل میں لٹ جاتا ہے اور وہ لٹیرے اسے باندھ کر ڈال جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں اسے خیال آتا ہے کہ کہیں جنگلی جانور اسے اپنا نوالہ نہ بنا لیں۔ اس موقعے پر اس کے ذہن میں نقصان پہچانے والے جانوروں اور ان کے مناسب ماحولیات کی باتیں گردش کرتی ہیں۔اس ذیل میں ناول سے ایک عبارت یہاں رقم کی جاتی ہے:’’کیا بہت دیر ہو گئی تھی؟ کیا اب کوئی آنے والا نہیں ہے؟ ابھی ابھی میں نے شیر کی دہاڑ سنی تھی کیا؟ شیر تو اس علاقے میں تھے نہیں، ہاں گلدار بہت تھے۔ گلدار تو جمنا کے کنار ے کی کچھاروں میں دہلی سے کرنال تک چھوٹے ہوئے سانڈوں کی طرح بے روک ٹوک گھومتے تھے اور بھیڑیے بھی۔گلداروں کی تو ہمتیں اس قدر کھلی ہوئی تھیں کہ دہلی کے مضافات میں جو آبادیاں بوجہ نقل مکانی کے ذرا چھدری ہو جاتیں، ان کے خالی گھروں میں گلدار آباد ہو جایا کرتے تھے۔ یہاں تو میں جمنا کے کنارے سے دور تھا۔ سلطان فیروز شاہ خلد مکانی نے یہ نہر بنوائی ہی اسی لیے تھی کہ جمنا کا پانی جن علاقوں میں پہنچتا نہیں ہے وہاں بذریعہ اس نہر کے پہنچ جائے۔ لیکن یہاں بھی اب درختوں کے گھنے اور نہر کی رطوبت نے کچھار جیسا سماں پیدا کر دیا تھا۔ سلطان فیروز کو اللہ نے جنت میں اونچا مقام ضرور دیا ہوگا۔‘‘(ایضاً، ص53)مذکورہ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سپاہی جسے ڈاکو باندھ کر چلے جاتے ہیں وہ دل ہی دل سوچتا ہے کہ اس علاقے میں شیر تو ہیں نہیں ہاں گلدار بہت ہیں بلکہ ان کی اتنی بہتات ہے کہ وہ جمنا کے کنارے کنارے کچھاروں میں دہلی سے کرنال تک پھیلے ہوئے ہیں یہاں تک کہ یہ گلدار دہلی کے مضافات میں بسی بستیوں کے خالی گھروں میں بھی رہنے لگتے تھے۔علاوہ ازیں اس اقتباس میں ایک نہر کا بھی ذکر ہے جو اپنی رطوبت سے کچھار جیسا ماحول بناتی ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے قدیم زمانے کی دہلی کی ماحولیات میں پائے جانے والے جانوروں کا بھی خاصا مطالعہ کیا ہوگا۔سپاہی جب اپنے گاؤں میں بیٹی کی شادی کے بعد کچھ برس گزارتا ہے تو سردیوں کی آمد پر جانوروں اور پرندوں کی بہتات گاؤں کے آس پاس اور باغ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس ضمن میں ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’چیل کوے گوریاں درختوں اور آسمانوں میں شور مچاتے پھرتے کہ سردیاں اب واپس آنے والی ہیں۔ باغوں میں موروں کی کثرت تھی۔ کالے تیتر اپنے اپنے بھٹ سے نکل کر اتراتے پھر رہے تھے۔ تنو مند، بلند و بالا نیل گائیں، بارہ سنگھے، چھریرے چیتل، کانکر، لمبی پیچ دار سینگوں والے کالے، ٹھگنے چو سنگھے، سبھی طرح کے ہرن ہر موڑ پر اور ہر کھلی جگہ پر دکھائی دیتے اور آنکھوںکو ٹھنڈک پہنچاتے۔‘‘ ایضاً، ص72)مندرجہ بالا اقتباس میں ناول نگار نے موسم کا ذکر کیا ہے اور اسی کی مناسبت سے مختلف جانوروں اور پرندوں کا بھی ذکر آیا ہے۔ جانور انسانوں سے بھی زیادہ حساس ہوتے ہیں انھیں موسم کی تبدیلیوں کا اندازہ ہم انسانوں سے پیشتر ہی ہو جاتا ہے۔ اقتباس کے شروع ہی میں بتا دیا گیا ہے کہ سردیوں کا موسم آنے کو تھا اس لیے سپاہی کے گاؤں کے آس پاس کے علاقے میں پائے جانے والے مختلف قسم کے جانوروں اور پرندوں کے جھنڈ اور غول دیکھنے میں آنے لگے تھے جو کہ آنکھوں کو سکون بخشتے تھے۔ یہ جس زمانے کی کہانی ہے اس زمانے میں مور، نیل گائے، مختلف قسم کے ہرن، چیتل اور کانکر جیسے جانوروں کی بہتات تھی جو ماحولیات کو بنائے رکھنے میں ظاہر ہے اپنا تعاون پیش کرتے رہے ہوں گے۔اب ان میں سے کچھ جانور ناپید ہیں اور کچھ اختتام کی دہلیز پر ہیں۔آج جب جنگل ہی ختم ہو رہے ہیں تو ان جانوروں کے لیے کوئی جائے رہائش ہی کہاں ہے۔ یہ آج کے وقت کا بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے۔سپاہی جب امیر جان نامی طوائف کا قرض ادا کرنے جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فوت ہو چکی ہے اور اس کی محل نما حویلی بھی اب کھنڈر ہوئی جاتی ہے تو اس نے سوچا کہ اب امیر جان کی قبر پر فاتحہ پڑھنا اس کا فرض ہے۔ اسی غرض سے وہ قبرستان کا رخ کرتا ہے اور اس موقعے پر قبرستان میں کھلے پھولوں، پرند اور جانوروں کی وجہ سے وہاں کا ماحول خاصا پر فضا دکھائی دیتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’پھولوں اور پیڑوں کے باعث قبرستان خاصا پر فضا تھا۔ قمریاں اور کبوتروں اور فاختائیں غول کے غول ہر طرف یاہو اور غٹر غوں کرتے دانہ چنتے نظر آتے تھے۔ مور بھی کثرت سے تھے۔ کبھی کبھی تیتر، لومڑیاں اور خرگوش بھی دکھائی دے جاتے۔ ‘‘ (ایضاً، ص75)مذکورہ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پھول، پیڑ، پرندے اور دیگر جانور اپنے طور پر ماحولیات میں توازن برقرار رکھتے ہی ہیں ساتھ ہی ان کے دم سے فضا میں بہار محسوس کی جاتی ہے۔ تصور ہی نہیںکیا جا سکتا کہ کوئی بھی چمن صرف پیڑ پودوں کی وجہ سے مکمل ہو، تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ مختلف قسم کے جانور بغیر جنگل اور پیڑ پودوں کی شوخیوں کے ساتھ گھومیں پھریں۔ان سب سے مل کر ہی ماحولیات تیار ہوتا ہے جو سب کے لیے مفید ہے۔ ناول نگار نے مذکورہ بالا حصے میں قبرستان کے پر فضا ہونے کی بات کہی ہے جب کہ قبرستان میں جاکر اداسی چھا سکتی ہے، لواحقین کی یاد تازہ ہو سکتی ہے لیکن مختلف قسم کے خوبصورت پرندے مثلاً مور، فاختائیں اور کبوتر اور جانور مثلاً خرگوش یہ سب مل کر اس اداس ماحول کو بھی تر و تازہ بنانے کی قوت رکھتے ہیں۔ یہیں ماحولیات کی اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اُس کا صحت مند ہونا انسانوں کے لیے بھی کتنا ناگزیر ہے۔سپاہی جب امیر جان کی قبر میں راستہ دیکھتا ہے تو پس و پیش کے بعد اس میں اتر جاتا ہے اور ایک الگ ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے سامان بہت تھے۔ امیر جان نے اس سے وہ رقم تو واپس لی نہیں اور منہ پھیرتے ہوئے اسے باہر نکل جانے کو کہا بلکہ اپنی اردابیگنی( محافظ لڑکی) سے کہہ کر اسے باہر کا راستہ دکھا دیا۔ باغ سے باہر آکر سامنے ہی ایک بازار تھا جو مختلف قسم کی جنس، میوہ جات اوردیگر سامان سے بھرا پڑا تھا۔حسینوں کا جمال بھی بازار میں جا بجا نظر آتا تھا۔ بیچ بازار کے ایک نہر تھی، آئینے کی طرح شفاف جس کے دونوں طرف پھل پھول والے درخت تھے۔ اس نہر کو کوئی بھی شخص گندا نہیں کر سکتا تھا۔ شاہی ملازمین اس کام پر بھی مامور تھے اور جو نہر کو گندا کرتا تو اسے لہو لہان کر دیا جاتا۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’بیچ میں بازار کے ایک نہر، تازہ خوش گوار پانی کی رواں، اس کے دو رویہ درخت پھولوں اور پھلوں سے لدے ہوئے۔ مگر کسی کو یاراے گل چینی نہیں۔ ثمر ہائے شیرین و پختہ کو ملازمان شاہی چن چن کر توڑتے اور مونج کی سبد میں اکٹھا کرتے ہوئے۔ نہر کا پانی خس وخاشاک سے پاک آئینے کی مانند۔ باغبانیاں، گری ہوئی پتیوں اور پنکھڑیوں کو جال سے سمیٹتی ہوئی۔کیا مجال جو کوئی بے خیالی میں بھی کوئی تنکا، کوئی خاش، کوئی دھجی، نہر میں ڈال دے۔ محتسبان بازار کا یہ بھی ایک کام ہے۔ سونٹے لیے ہوئے پھرتے ہیں۔ جہاں کسی نے ایک دھج بھی گرائی، سونٹا لہرا کے اس سے کہا کہ اٹھا، ورنہ پیٹھ لہو لہان کر دوں گا۔‘‘(ایضاً، ص87)مندرجہ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے شاہی انتظامات نہر کے لیے بھی کتنے سخت تھے۔ نہروں کو صاف رکھنے کے پیچھے وجہ یہ بھی تھی کہ انھیں نہروں سے کارو بار زمانہ چلتا تھا۔ ان نہروں کی صفائی اور خوبصورتی کاذکر پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صاف و شفاف نہریں اس وقت ماحولیاتی نظام میں بڑی معاون ثابت ہوئی ہوں گی۔ ہاں بے شک اس زمانے میں فیکٹریوں سے نکلنے والی گندگی کا رخ نہروں کی طرف نہیں موڑا جاتا ہوگا، نہ ہی برسات میںکھیتوں سے بہہ کر مہلک کیمکل نہروں میں شامل ہوتے ہوں گے۔ پھر بھی ان کی صفائی کا کیسا خیال رکھا جاتا تھا۔ مندرجہ بالا اقتباس میں نہر کی صفائی کا جو نظام پیش کیا گیا ہے وہ متاثر کن ہے۔وہ سپاہی جب خواب جیسی زندگی سے نکل کر اپنے گاؤں کا تصور کرتا ہے تو اسے اپنے بیوی بچوں کے پیکر تو نظر آتے ہی ہیںساتھ ہی اپنے باغ اور وہاں کے چرند پرند بھی یاد آتے ہیں۔ باغ کے ختم ہونے کا افسوس بھی وہ کرتا ہے اور پھر یہ بھی سوچتا ہے کہ نیا باغ کسی نے لگا لیا ہوگا۔’’کچھ نہ ہوگا تو میرا گاؤں تو ہوگا۔ کوئی تو میری زمینوں کو کاشت کر رہا ہوگا۔ میرا اپنا باغ سوکھ گیا ہوگا، دیمک کھا گئے ہوں گے لیکن اس کی جگہ نیا باغ تو کسی نے لگا لیا ہوگا۔ اس میں پپیہے اور کوئلیں تو کوکتی ہوں گی۔ اس پر بارش کی پہلی پھوار سے گرد آلود آم کا منھ تو اب بھی دھل جاتا ہوگا؟‘‘(ایضاً، ص142)محولہ بالا اقتباس میں مصنف نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ سپاہی اپنے گاؤں کو اور اپنے کنبے کو یاد کرتا ہے ساتھ ہی اپنے کھیت کھلیان، باغ اور اس میں رہنے والے پپیہے اور کویلوں کوبھی یاد کرتا ہے۔ پیڑ پودے روز اول ہی سے انسان کو سہارا دئے ہوئے ہیں۔ اس کی یادوں کے مسکن اور زندگی میں اہم ستون کی اہمیت رکھتے ہیں۔وہ سپاہی ایک الگ ہی دنیا میں پہنچنے کے بعد بھی اپنے کنبے کے ساتھ ساتھ اپنے کھیت کھلیان اور باغ کو بھلا نہ سکا۔اس حصے سے انسان کا قدرت کے ساتھ اہم رشتے کی وضاحت ہوتی ہے۔زیر نظر مضمون میں حتی المقدور ان عبارتوں اور اقتباسات کو پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے جن میں ماحولیات یا ماحولیات کو بنائے رکھنے میں معاون چرند، پرند، موسم، ندی نہر، فصلیں، پھل پھول، باغات اور کھیت کھلیان کا تذکرہ کیا گیاہے۔ ناول کا مطالعہ کرنے پر مصنف کی باریک نظر، عمیق فکر اور ماحولیاتی حسیات کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے ’قبض زماں‘ میں ایسے کئی مواقع پر ماحولیاتی مسائل کو بڑی حسیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ سب سے زیادہ باریکی سے ص 35 سے 38 تک مختلف قسم کے آبی کیڑے مکوروں کا ذکر ہی نہیں کیا بلکہ ان کی عادات و اطوار کو بھی پیش کیا ہے جس سے ان کا مشاہدہ اور مطالعہ صاف جھلکتا ہے۔ضرور موصوف نےAnimal BehaviourاورEntomologyکا بڑی دلچسپی سے اور تادیر مطالعہ کیا ہوگا۔ اس ضمن میں طوالت سے بچنے کے لیے ص 35 تا 36 تک ہی اقتباس دیا جا سکا ہے۔علاوہ ازیں ناول میں کئی جگہوں پر پیڑوں کے کٹنے یا وقت کی آندھیوں میں کھو جانے پرشدید اظہار افسوس ملتا ہے۔بہت سے جانوروںاور پرندوں کا ذکر پر فضا ماحول اور زندگی کی علامت کے طور پر کیا گیا ہے۔مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ناول ’’قبض زماں‘‘ میں تاریخی، جغرافیائی اورTime Travelجیسے نکات سموئے ہوئے ہے لیکن اس کا ماحولیاتی پہلو بھی قابل غور و فکر ہے۔TauseefBarelviResearch Scholar, Dept of UrduAligarh Muslim UniversityAligarh - 202001 (UP)Mob.: 7302702087Email.: venuseefvi@gmail.com" اردو نصاب ہندوستان کے مدرسوں میں: ایک جائزہ - مضمون نگار: محمد توقیر عالم راہی,https://ncpulblog.blogspot.com/2021/01/,"نصاب نہ صرف ملک کے تعلیمی نظام سے متعلق ہوتا ہے بلکہ طلبا کی کامیابی اور ناکامی میں بھی اس کا کردار ہوتا ہے۔ دراصل وہی نصاب مفید اورکارآمد ثابت ہوسکتا ہے جو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔یہی وجہ ہے کہ ماہرین ِتعلیم کو فی زمانہ نصابی امور پر غور وغوض کرتے رہنا چاہیے تاکہ نصاب طلبا کے حق میں مفید رہے۔نصاب مادری زبان کا ہو یا پھر بیرونی زبان کا، عمدگی سے اسے ترتیب دینا اشد ضروری ہے۔ اس کے بغیر تدریس میں کامیابی ممکن نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کامیاب تدریس ایک موزوں لائحۂ عمل پر مبنی ہوتی ہے جس کے تحت اغراض ومقاصد کا تعین کیا جاتا ہے۔ پھر ان مقاصد کے حصول کے لیے مناسب اقدامات کیے جاتے ہیں۔ انہی اقدامات میں نصاب بھی ایک اہم قدم ہے۔نصاب کی تیاری میں ماہرین تعلیم کی رائے کی اہمیت ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ زمانے کے نشیب وفراز پر نظر رکھتے ہیں۔ تغیر پذیر حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ پھر وہ لسانی مہارتوں،طلبہ کی ضروریات، دلچسپی، ماحول کے تقاضے اور قومی اقدار کے فروغ کو مدنظر رکھتے ہوئے اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ لیتے ہیں اور اس طرح کوئی پرکشش ومفید نصاب تیار ہوپاتا ہے۔مدارس کے اردو نصاب پر گفت وشنید سے قبل نصاب کی تعریف پر توجہ مرکوز کرنا مناسب ہے۔نصاب کی تعریف وتشریح مختلف ماہرینِ تعلیم نے مختلف طور پر کی ہے۔ ڈاکٹر صابرین نے نصاب کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے:’’مطالعے کے لیے درسی کتب کے منظور شدہ خاکے کو نصاب سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔یا ایک ایسا تعلیمی منصوبہ، جس کی تکمیل مخصوص منظور شدہ کتب کے خاکے کے مطابق اپنی مقررہ مدت میں عمل میں آئے نصاب کہلاتا ہے۔ یا تعلیم کا ایسا نظام جس میں مطالعے کے لیے وقت اور کتب دونوں کا تعین کیا گیا ہو،نصاب سے منسوب کیا جاسکتا ہے، یا ایک ایسا تدریسی منصوبہ جو ایک خاص مدت پر مشتمل ہو، نصاب سمجھا جاتا ہے، یا یہ کہ اعلیٰ تعلیمی مقاصد کے حصول کے لیے مطالعے کا باقاعدہ منظور شدہ منصوبہ، نصاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک قسم کی تعلیمی منصوبہ بندی جس میں طلبہ کے ماضی اور حال کو نظر میں رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مستقبل پر بھی نظر رکھی گئی ہو، نصاب کہلاتا ہے‘‘۔(ڈاکٹر محمد صابرین، یونیورسٹی درجات کے اردو نصابات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، دہلی ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ص37،1988)ڈاکٹر صابرین نے نصاب کے مختلف پہلوؤں کو بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ مذکورہ اقتباس کی روشنی میں نصاب کا ایک خاکہ سامنے آجاتا ہے ۔ اس وضاحت کے بعدایک اچھے نصاب کے بنیادی ارکان کا تعین بھی تفہیم نصاب میں معاونت کرتاہے۔ اساسی طور پر اچھے نصاب کے چار ارکان ہیں:.1مقاصدِ تدریس.2مضامینِ تدریس (جن کی تدریس کے ذریعے مقاصد کی تکمیل ممکن ہوسکے۔).3طریقۂ تدریس (تدریس کے لیے سوچا سمجھا طریقہ جس سے سیکھنے کا عمل آسان،دلچسپ اور مؤثر بن سکے)۔.4اندازۂ قدر(Evaluation)یہ معلوم کرنے کا عمل کہ طلبہ کو سیکھنے کے عمل میں کس حد تک کامیابی ملی ہے، نیز استاتذہ تدریس کے عمل میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ اس عمل میں استاد کے ذریعے ’سبق کی منصوبہ بندی‘ اور’طریقۂ تدریس‘ دونوں کی جانچ شامل ہے۔مذکورہ چار ارکان کے تناظر میں ہندوستانی مدرسوں کے رائج اردو نصاب کا جائزہ لیا جاسکتاہے تاہم یہ وضاحت لازمی ہے کہ مدرسوں میں ذریعۂ تعلیم اردوہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس میں ایک طرف سیکولر اردو داخل نصاب ہے،وہیں اسلامیات کی تفہیم کے لیے اردو میں لکھی گئی کتابوں سے مدد لی جاتی ہے۔ گویا مدارس میں دو طرح کی اردو شامل ہے۔ سردست یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مدارس کی تعلیم کا بنیادی مقصد قرآن وحدیث کو مرکزی حیثیت دیناہے، نیز اس کی روشنی میں طلبہ کی شخصیت کی ہمہ جہت نشو ونما کرنا ہے اور شخصیت کی یہ نشو ونما محض ایک پہلو پر توجہ دینے سے نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دینی تعلیم کو بنیاد بناکر ہی نصابِ تعلیم، تدریسی مقاصد،تدریسی مضامین ، طریقۂ تدریس اور طریقۂ امتحان کا تعین کیا جائے تاکہ تعلیم سے فراغت کے بعد مدارس سے نکلنے والے افراد کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہ رہ جائے۔بہرحال، ایک اچھا نصاب وہ ہے جس کی روشنی اور استاد کی رہنمائی میں متعینہ تجربات کی بنیاد پر طلبہ کی انفرادی ضروریات اور ملک کی اجتماعی ضروریات کی تکمیل کے لیے جملہ وسائل تعلیم کی مدد سے طلبہ کی شخصیت کی مکمل اور ہمہ جہت نشو ونما کی جائے۔رہی باتمدرسہ بورڈوں میں اردو نصاب کی تو بہار اور اڑیسہ مدرسہ بورڈوں میں اردو زبان و ادب کی تعلیم تحتانیہ سے فاضل (پرائمری تا ایم اے) تک کے درجات میں دی جاتی ہے، جب کہ یوپی کے ملحقہ و امدادی مدارس میں ابتدائی درجات مولوی ؍منشی (مساوی ہائی اسکول ) اور عالم (مساوی انٹر میڈیٹ )کے درجات میں اردو نصاب کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے بر عکس آسام مدرسہ بورڈ کے ملحقہ مدارس میں ابتدائی درجات کے ساتھ ساتھ ثانوی درجات میں اردو نصاب شامل ہے۔ مغربی بنگال مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے مدارس میں پرائمری درجات کے ساتھ سیکنڈری درجات میں بھی اردو زبان و ادب داخلِ نصاب ہے۔مدرسہ بورڈوں کے اردو نصاب کا یہ امتیازی پہلو ہے کہ وہاں ان ادبا اور شعرا کو شامل نصاب کیا جاتا ہے جن کی تخلیقات میں سیکولرازم کی روح بسی ہوئی ہو۔مذکورہ کتب پر غور وفکر کرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ نثری اور شعری دراصل وہی کتابیں مدرسہ بورڈوں میں پڑھائی جاتی ہیں جن سے شخصیت کی نشو ونماہوسکے۔ بہ استثنائے آسام مدرسہ بورڈ، جس میں غیر ملحقہ مدارس کے اردو نصاب کی طرح مذہبی رعایتوں کے ساتھ اردو کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی کتاب (اسمٰعیل میرٹھی) اور ’مسدس حالی‘ (حالی) وغیرہ بھی داخلِ نصاب ہیں۔ مذکورہ کتابوں کی روشنی میں یہ رائے قائم کرنا بھی مناسب ہے کہ مدرسہ بورڈوں میں سیکولراردو داخل نصاب ہے ۔غیر ملحقہ مدارس کے اردونصاب کی بات کی جائے تو اس کامزاج بورڈکے مدرسوںسے ذرا مختلف ہے۔ جیسا کہ مذکورہ سطور میں کہا گیا کہ مدارس کی تعلیم کا مقصد فروغِ اردو سے کہیں زیادہ اسلامیات کا فروغ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ایسی کتابوں کو شامل نصاب کیا جاتا ہے جن سے مذہبیات کی تفہیم ہوسکے یا پھر ایسی اردو کتابوں کو اہمیت دی جاتی ہے جو دینی مزاج کے ساتھ لکھی گئی ہوں یعنی ان مدارس میں ایسے ادبا و شعرانیز ایسے مضامین منتخب کیے گئے ہیں جن سے مذہبی رواداری کو کوئی ٹھیس نہ پہنچتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر ’رحمت عالم‘ اردو کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی (اسمٰعیل میرٹھی) داخل نصاب ہیں۔ اسی طرح حالی کی ’مسدس حالی‘ اوراقبال پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ مدرسوں میں اردو کے داخل نصاب ہونے سے اردو فروغ پاتی، تاہم فروغ اردو اور مدارس کے ضمن میں یہ کہنا لازمی ہے کہ وہاں ذریعۂ تعلیم عموماً اردو ہے۔ اس لیے اردو از خود مدرسوں کے ذریعے پروان چڑھتی رہتی ہے۔مشیر الحق کا خیال ہے:’’دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت کے علاوہ اردوزبان کو بھی بر صغیر کے کونے کونے تک پھیلانے میںعربی مدارس کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ مدرسو ں کے اس پہلو پر ابھی تک کسی نے باقاعدہ نظر نہیں ڈالی ہے، لیکن یہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اس پر پوری تحقیق ہونی چاہیے۔ باوجود یکہ نصابی کتابیں تقریباً سب کی سب عربی زبان میں ہوتی ہیں لیکن ہندوستان کے مذہبی مدرسوں میں اعلیٰ تعلیم اردو ہی میں دی جاتی ہے۔۔۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مدرسے کے طالب علموں کی راہ میں ملک کی جغرافیائی، لسانی اور تہذیبی حد بندیاں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ بغیر کسی مبالغہ کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بر صغیر کے اس کونے سے اس کونے تک جہاں کہیں بھی کوئی عالم ملے گا،وہ اردو ضرور جانتا ہوگا ۔۔۔ غیر ممالک کے طلبہ بھی جو علم دین کے حصول کے لیے یہاں]ہندوستان[ آتے ہیں، چونکہ ان غیر ملکی طلبہ کو بھی دیر یا سویر اردو زبان میں ہی اسباق حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی جلد از جلد روز مرہ کی اردو سیکھ لیتے ہیں۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو برصغیر کے باہر بھی اردو کا تعارف کرانے میں مدارس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔‘‘(بحوالہ: پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، دہلی اسکولوں میں اردو نصاب کے مسائل، دہلی، اردو اکادمی، ص 120، 1967)مشیر الحق کے علاوہ پروفیسر وہاب اشرفی نے بھی متعدد مقامات پر کھلے دل سے فروغ ِ اردو کے تناظر میں مدارس کا حوالہ دیا ہے۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ کالجوں سے اردو غائب ہوتی جا رہی ہے۔ لہٰذا میں نے اردو کی عظمت اور زندگی کی جب بھی باتیں کی ہیں تو مجھے مدارس کی کارکردگی ضرور یاد رہی۔ ان کے علاوہ ممتاز ناقد شمس الرحمن فاروقی نے اس طرح مدارس کی اردو دوستی کا حوالہ دیا ہے ’’۔۔۔ہندوستان میں بہر حال تمام مدرسے زبانوں کی تعلیم دیتے ہیں۔ عربی فارسی کے علاوہ انگریزی بھی اکثر مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔کمپیوٹر کی بھی تعلیم کا اہتمام بہت سے مدارس میں ہے۔ اتر پردیش ، بہار، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں اردو کی بقا زیادہ تر مدرسوں کی مرہون منت ہے۔‘‘(اردو نصاب اور مدارس، نئی دہلی، براؤن پبلی کیشنز، 2012، ص نمبر7)حقیقت یہ ہے کہ مدارس دو سطحوں پر اردو کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اول:وہاں اردو ’ذریعۂ تعلیم ‘ ہے اور اردو کے ماحول میں ہی مدارس کے طلبا کی ذہنی نشو ونما ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بڑے مدارس میں زیر تعلیم بیرون ممالک کے طلبا بھی اردو سیکھ لیتے ہیں۔گو یا بیرون ممالک کے طلبا کے کندھوں پر سوار ہوکر اردو نے سرحدیں پار کیں۔دوم:بور ڈ سے ملحق مدرسوں کے ساتھ ساتھ غیر ملحقہ مدرسوں میں بھی اردو کتابوں کو شامل نصاب رکھا گیا ہے۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اہل مدارس دو سطحوں پر اردو کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مدارس میں اردو کتابوں پر مبنی جو نصاب شامل ہے،اس میں عصری تقاضوں کے مدنظر تبدیلی ضروری ہے ۔ساتھ ہی ساتھ راقم کا یہ بھی مفروضہ ہے کہ فروغِ اردو کے لیے کام کرنے والے اداروں کو بھی مدارس کے اردو نصاب میں تبدیلی لانے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اردو نصاب اور مدارس کے تنقیدی ڈسکورس سے یہ بات واضح ہے کہ عہدِ حاضر میں مدارس اور اردو کی حیثیت لازم و ملزوم کی سی ہوگئی ہے۔ مدارس کے بغیر اردو اور اردو کے بغیر مدارس کا تصور اب ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔ مدرسوں کے نصاب میں اردو کو کلیدی جگہ مل گئی ہے جو اردو زبان کی بقا کی ضمانت معلوم ہوتی ہے۔اس لیے مدارس کے اردو نصاب پر گہرائی سے غور وفکر کیا جائے اوراردو کا ایسا ہمہ گیر نصاب تیار کیا جائے جس میں اردو مذہبیات کی بھی گنجائش ہو اور’سیکولر اردو‘ کی بھی ، تاکہ فارغین ِمدارس نہ صرف زبان کی سطح پر اپنی انفرادیت درج کروائیں،بلکہ ادبی سطح پر بھی وہ مزید مستحکم ہوسکیں۔Dr. Md. Tauqeer Alam RahiF-1/76, First Floor, Shaheen BaghNew Delhi - 110025" جدید میتھلی اور ہندی کا قطب نما: باباناگارجن - مضمون نگار: مشتاق احمد,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/,"جدید ہندی اور میتھلی ادب کی تاریخ میں جن تخلیق کاروں کو قدآوری حاصل ہے ان میں بابا ناگارجن کی امتیازی حیثیت ہے۔وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت شاعر،افسانہ نگار، ناول نگار، صحافی اور مضمون نگار تھے۔ وہ خود کو بنیادی طورپر میتھلی زبان کا شاعر اور ادیب کہتے تھے۔ یہ ان کی مادری زبان سے والہانہ محبت کا ثبوت ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا ادبی ذخیرہ میتھلی زبان سے کہیں زیادہ ہندی میں موجود ہے اور ان کا شمار ہندی کی جدید شاعری کے جنم داتاؤں میں ہوتا ہے۔ناگارجن کا اصل نام بیدناتھ مشر تھا۔ ان کی پیدائش صوبہ بہار کے دربھنگہ ضلع کے ایک گائوں ترونی میں 1911 میں ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک سنسکرت پاٹھشالہ میں ہوئی۔ ابھی وہ صرف ساڑھے تین سال کے تھے کہ والدہ کا انتقال ہوگیا اس لیے اپنے گاؤں میں زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکے۔ ان کے والد ایک پیشہ ور پنڈت تھے۔ ہمیشہ گھر سے باہر رہا کرتے تھے اس لیے ان کو گنگولی سنسکرت پاٹھشالہ میں داخل کردیا گیا۔ وہاں سے وہ بنارس چلے گئے اور پھر وہاں سے کلکتہ۔ اس طرح وہ سنسکرت کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ آخر میں انھوں نے مدراس جا کر اپنی تعلیم مکمل کی اور وہاں سے انھوں نے ’اچاریہ ‘ کی ڈگری حاصل کی۔ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1930میں ہوا۔ جب ان کی پہلی نظم’متھلا‘(لہریاسرائے) میں شائع ہوئی۔ انھوں نے پہلے اپنا قلمی نام بدیہہرکھا۔ پھر کچھ دنوں کے بعد قلمی نام بدل کر ’یاتری‘ کے نام سے لکھنے لگے۔ 1930 تک ہندی اور میتھلی دونوں زبان میں ’یاتری‘ کے نام سے ہی لکھتے رہے۔ جب وہ سری لنکا گئے اور بدھ ازم کی طرف مائل ہوگئے تو اپنا نام بدلا اور ’ناگارجن‘ کے نام سے ہندی میں لکھنے لگے مگر میتھلی میں وہ اپناقلمی نام یاتری ہی لکھتے رہے اور بعد کے دنوں میں ان کی پہچان ’ناگارجن‘ سے ہی مستحکم ہوئی۔ہندی ادب کی تاریخ میں ناگارجن کوغیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ ان کا شمار ہندی ادب کو نئی سمت دینے والوں میں ہوتاہے۔ جہاں تک میتھلی زبان وادب کا سوال ہے تو ودیاپتی، پنڈت ہرش ناتھ، پنڈت سیتا رام جھااور چنداجھا کے بعد ان کا نام لیاجاتاہے۔ انھوں نے نہ صرف میتھلی شاعری کو نئے افکار ونظریات سے آشنا کیا بلکہ میتھلی ناول نگاری کو اعتبار کا درجہ عطا کیا۔ افسوس صد افسوس کہ آسمانِ ادب کا یہ درخشاں ستارہ 5؍ نومبر1998 کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔لیکن ان کی تخلیقات کا ذخیرہ ان کی ابدی شہرت کا ضامن ہے۔ان کے بغیر جدید میتھلی ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہندی کی جدید شاعری کا ذکر ہی ناگارجن کے بغیر مکمل ہو سکتا ہے۔میتھلی ان کی مادری زبان تھی۔ اس زبان میں وہ اپنی بات کہنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے تھے۔ میتھلی زبان میں ان کے دو شعری مجموعے ’چترا‘اور پترہین نگن گاچھہیں۔ ’پترہین نگن گاچھ‘ پر انھیں1967 میں شاعری کا میتھلی ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا تھا۔’پارو’نوتوریا‘اور ’بلچنما‘ان کے مشہور ناول ہیں۔راقم الحروف نے ان کے ناول ’بلچنما‘ کا اردوترجمہ 2005 میں کیا تھاجسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ہندی میں نئی پود، رتی ناتھ کی چاچی، برون کے بیٹے، اُگرتارا، امرتیا کومبھی پاک، بابا بٹیشور ناتھ، پارو، دکھ موچن، غریب داس، جمنیا کا بابا اور ’ہیرک جینتی‘ ان کے مشہور ناول ہیں۔ تالاب کی مچھلیاں، یُگ دھارا، تم نے کہا تھا، پرانی جوتیوں کا کورس اور ’ہزار ہزار بانھوں والی‘ قابلِ ذکر شعری مجموعے ہیں۔ادب ہی ان کا ذریعہ معاش تھا اس لیے وہ ہمیشہ اپنے ہاتھ میں قلم لیے ہوتے تھے۔ ان کی نگاہ بہت بلند تھی، مشاہدہ بہت گہرا تھا، کوئی بھی موضوع ان کے لیے مشکل نہیں ہوتا تھا۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی کافی لکھا ہے۔ ویروکرم،ترکو کا کھیل، ندی بول اٹھی، بانر کماری بچوں کے لیے لکھی گئی قابلِ ذکر کتابیں ہیں۔ ’پریم چند کی جیونی‘ اور ’ایک ویکتی ایک یُگ‘ ہندی ادب میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ناگارجن نے سنسکرت زبان میں بھی شاعری کی ہے۔ ان کی تیس نظموں کا مجموعہ ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ انھوں نے بنگلہ میں بھی شاعری کی ہے۔ وہ میتھلی، ہندی اور بنگلہ کے علاوہ گجراتی، مراٹھی، پنجابی، ملیالم اور تیلگو زبان بھی جانتے تھے۔ناگارجن خاموشی کے ساتھ کام کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ ان کو کبھی اس بات کا خیال نہیں رہا کہ دنیائے ادب میں انھیں کون کیا کہہ رہاہے۔ بس وہ لکھتے رہے۔ اپنے آس پاس کی زندگی کو اپنے فن میں ڈھالتے رہے۔ وہ اپنے عہد کے ایک سچے عکاس تھے۔ آخر کار دنیائے ادب کو ان کی عظمت کا اعتراف کرنا پڑا اور 1967میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، مدھیہ پردیش کا اچاریہ میتھلی شرن گپت ایوارڈ، یوپی حکومت کا ’بھارت بھارتی‘ انعام اور بہار سرکار کا ’راجندر شکھر سمّان ‘ ملا۔ناگارجن کے لیے مذہب کوئی دیوار نہیں تھی۔ وہ ایک ہندو برہمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ بدھ ازم کو اپنایا، جین ازم کی طرف مائل ہوئے اور پھر ناستک ہوگئے۔ درحقیقت ان کا کوئی مذہب نہیں تھا۔اگر ان کا کوئی مذہب تھا تو وہ مذہب انسانیت کا تھا۔ وہ انسانیت کے پجاری تھے۔ان کی تمام شاعری انسان کے دکھ درد کی کہانی ہے۔ ان کے ناول انسان کے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی زندگی بھی انسان کے لیے تھی، وہ خود بھی ایک اعلیٰ انسان تھے۔ راقم الحروف کو ان سے ملنے کا بارہا موقع نصیب ہوا ہے۔ وہ میرے گاؤں کے پڑوسی یعنی بس دوکلومیٹر دور کے رہنے والے تھے۔ اس لیے انھیں ذاتی طورپر بھی خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ کبھی کسی کے سامنے جھکے نہیں۔ اپنی بات کہتے رہے، وہ اپنے طنزیہ لہجے کی وجہ سے بھی ہندی ادب میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ناول’بلچنما‘ بابا ناگارجن کا ایک شاہکار ہے۔ اس ناول میں آزادی سے قبل کے متھلانچل بالخصوص دربھنگہ، مدھوبنی اور سمستی پور کے زمینداروں کے ذریعے گاؤں کے مزدوروں، کسانوں اور پسماندہ طبقے کے لوگوں پر جو ظلم وستم ڈھائے جا رہے تھے، ان کی عکاسی کی گئی ہے۔ ناول کا ہیرو بلچنما دراصل ایک علامت ہے ظلم کے خلاف بغاوت اور طبقاتی کشمکش کی، جو زمینداروں کے ظلم اور غیرانسانی فعل کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ بلچنما اسی زمیندار کے یہاں مجبوراً بھینس چرانے کی نوکری کرتاہے جس زمیندار نے اس کے باپ کو محض ایک آم توڑنے کے جرم میں ایک کھمبے سے باندھ کر اس قدر ماراپیٹا کہ موقع پر ہی اس کی موت ہوگئی تھی۔ لیکن ایک دن بلچنما ان بے رحم اور قصائی صفت زمینداروں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور نہ صرف خود زمینداروں کے شکنجے سے آزاد ہوتا ہے بلکہ گائوں کے سیکڑوں کسانوں کو آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے اپنی تحریک کا حصہ بناتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن غلامانہ زندگی گذارنے والے کسان اور مزدور زمینداروں کے چنگل سے نجات پاتے ہیں۔بابا ناگارجن نے ہمیشہ ان طاقتوں کے خلاف آوازِ بغاوت بلند کی جو ہندوستانی عوام کی آزادی کی راہ میں حائل تھے۔انھوں نے ہندوستانی گاؤں میں رہنے والے پسماندہ طبقے کے لوگوں کی زندگی کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں میں ہندوستانی معاشرت ملتی ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں طبقاتی کشمکش کے ساتھ ساتھ آزادی کی تحریک کی بھی تصویر کشی کی ہے۔ ان کے کرداروں کا فطری ارتقا ہی ان کی ایک بڑی انفرادیت ہے۔ ’بلچنما‘ میں تمام کردار فعال ومتحرک نظر آتے ہیں۔ بابا ناگارجن کی مثالیت پسندی کی ایسی مثال کسی دوسرے ناول میں نہیں ملتی۔بلچنما، چنی، رادھا بابو، سوامی جی، پھول بابو، برج بہاری عرف بچو اور اور جانکی سب مثالی کردارہیں۔ان کرداروں کو چوتھی دہائی کے ہندوستان اور اس کے خاص سیاسی اور معاشی پسِ منظر میں دیکھیے تو ہر ایک کردار کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔جہاں تک شاعری کا سوال ہے تو ان کی شاعری کا موضوع بھی جبر واستبداد رہاہے۔ وہ ہر طرح کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود مارکسی نظریے کے تھے لیکن مارکسی حکومت کے خلاف بھی آوازِ بغاوت بلند کرتے رہے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی نگاہ میں وہ ایک باغی ادیب وشاعر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جس فنکار کی فکر ونظر کا محور انسانی معاشرے کی بدحالی اور استحصال ہوگا اسے کوئی بھی حکمراں جماعت قبول نہیں کر سکتی۔ان کی نظم’ان کو پرنام‘ تو میتھلی اور ہندی دونوں میں ایک شاہکار نظم تسلیم کی گئی ہے؎جو نہیں ہو سکے پورن کام/میں ان کو کرتا ہو ں پرنامکچھ کنٹھت او لکچھ بھرشٹجن کے ابھیمنترت تیر ہوئےرَن کی سماپتی کے پہلے ہیجو بیر رکت تو نیر ہوئےان کو پرنام!جو چھوٹی سی نیّا لے کراترے کرنے کو اُددھی پارمن کی من میں ہی رہی سوینگہوگئے اسی میں نرا کارا ن کو پرنام!جو اونچ شکھر کی اور بڑھےرہ رہ نو نو اُتساہ بھرےپر کچھ نے لے لی ہیم سمادھیان کو پرنام!ایکاکی اور اکنچن ہوجو بھو پریکرما کو نکلےہوگئے پنگو پرتی پد جن کےاتنے ادرشٹ کے دائو چلےان کو پرنام!کرت کرت نہیں جو ہو پائےپرتیوت پھانسی پر گئے جھولکچھ ہی دن بیتے ہیں پھر بھییہ دنیا جن کو گئی بھولان کو پرنام!تھی عمر سادھنا پر جن کاجیون ناٹک دکھانت ہوایا جنم کال میں ہی سنگھ لگنپرکوسمے ہی دیہانت ہواان کو پرنام!دریڈھ برت اور دودرم ساہس کےجو اُداہرن تھے مورتی منترپر نربدھی بندی جیون میںجن کی دُھن کا کردیا انتان کو پرنام!جن کی سیوائیں اتولنیہپروگیاپن سے رہے دورپرتی کول پرستھیتی نے جن کےکردئے منورتھ چورچوران کو پرنام!یہ مذکورہ نظم پانچ دہائی پہلے کی لکھی ہوئی ہے لیکن عصری تناظر میں بھی اس نظم کی قرأت ذہن کے دریچوں کو وا کرتی ہے اور ایک عظیم فنکار کی تخلیق اپنی عصری معنویت بر قرار رکھتی ہے اس کا بھی خلاصہ ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی نظم ’میری بھی آبھا ہے اس میں‘ ملاحظہ کیجیے؎نئے گگن میں نیا سورج جو چمک رہاہےیہ وشال بھوکھنڈ جو دمک رہاہےمیری بھی آبھا ہے اس میںبھینی بھینی خوشبو والےرنگ برنگےیہ جو اتنے پھول کھلے ہیںکل ان کو میرے پرانوں میں نہلایا تھاکل ان کو میرے سپنوں نے سہلایا تھاپکی سنہری فصلوں سے جواب کی یہ کھلیان بھر گیامیری رگ رگ کی سونت کی بوندیںاس میں مسکراتی ہےنئے گگن میں نیا سورج جو چمک رہا ہےیہ وشال بھوکھنڈ جو دمک رہاہےاس نظم میں بھی جدید ہندوستان کی تعمیر میں مزدور طبقے کی قربانیوں کو شعری پیکر میں ڈھالا گیاہے اور کس طرح حاشیائی طبقے کو نظر انداز کیا گیاہے اس کو علامتی انداز میں پیش کیا گیاہے۔مختصر یہ کہ ناگارجن نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں صرف ہماری سماجی زندگی کی ہی عکاسی نہیں کی ہے بلکہ سماجی زندگی کے ایسے تاریک گوشے کو موضوع بنایا ہے جس سے ان کے بنیادی نقطۂ نظر کی مکمل عکاسی ہوتی ہے۔ان کی مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے ہی آس پاس کی زندگی کی ترجمانی کی ہے، اپنے ہی ماحول کی عکاسی کی ہے۔دوسرے شعراء کی طرح ان کا رنگ مصنوعی نہیں اور نہ ان کے موضوع مانگے کا اجالا ہیں۔ غرض کہ ناگارجن ادب برائے زندگی کے علمبردار ہیں اور اپنے قلم کی جنبش سے فرسودہ سماج کے تمام ہوائی قلعوں کو منہدم کرکے ہمیں اس دنیا سے روشناس کراتے ہیں جس میں ہم بستے ہیں اور اپنی آنکھوں سے انسانی زندگی کو قریب سے دیکھتے ہیں۔Dr. Mushtaque AhmadPrincipal, CM CollegeDarbhanga- 846004 (Bihar)Mob.: 9431414586Email.: rm.meezan@gmail.com" جدید میتھلی اور ہندی کا قطب نما: باباناگارجن - مضمون نگار: مشتاق احمد,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/12/,"جدید ہندی اور میتھلی ادب کی تاریخ میں جن تخلیق کاروں کو قدآوری حاصل ہے ان میں بابا ناگارجن کی امتیازی حیثیت ہے۔وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت شاعر،افسانہ نگار، ناول نگار، صحافی اور مضمون نگار تھے۔ وہ خود کو بنیادی طورپر میتھلی زبان کا شاعر اور ادیب کہتے تھے۔ یہ ان کی مادری زبان سے والہانہ محبت کا ثبوت ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا ادبی ذخیرہ میتھلی زبان سے کہیں زیادہ ہندی میں موجود ہے اور ان کا شمار ہندی کی جدید شاعری کے جنم داتاؤں میں ہوتا ہے۔ناگارجن کا اصل نام بیدناتھ مشر تھا۔ ان کی پیدائش صوبہ بہار کے دربھنگہ ضلع کے ایک گائوں ترونی میں 1911 میں ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک سنسکرت پاٹھشالہ میں ہوئی۔ ابھی وہ صرف ساڑھے تین سال کے تھے کہ والدہ کا انتقال ہوگیا اس لیے اپنے گاؤں میں زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکے۔ ان کے والد ایک پیشہ ور پنڈت تھے۔ ہمیشہ گھر سے باہر رہا کرتے تھے اس لیے ان کو گنگولی سنسکرت پاٹھشالہ میں داخل کردیا گیا۔ وہاں سے وہ بنارس چلے گئے اور پھر وہاں سے کلکتہ۔ اس طرح وہ سنسکرت کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ آخر میں انھوں نے مدراس جا کر اپنی تعلیم مکمل کی اور وہاں سے انھوں نے ’اچاریہ ‘ کی ڈگری حاصل کی۔ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1930میں ہوا۔ جب ان کی پہلی نظم’متھلا‘(لہریاسرائے) میں شائع ہوئی۔ انھوں نے پہلے اپنا قلمی نام بدیہہرکھا۔ پھر کچھ دنوں کے بعد قلمی نام بدل کر ’یاتری‘ کے نام سے لکھنے لگے۔ 1930 تک ہندی اور میتھلی دونوں زبان میں ’یاتری‘ کے نام سے ہی لکھتے رہے۔ جب وہ سری لنکا گئے اور بدھ ازم کی طرف مائل ہوگئے تو اپنا نام بدلا اور ’ناگارجن‘ کے نام سے ہندی میں لکھنے لگے مگر میتھلی میں وہ اپناقلمی نام یاتری ہی لکھتے رہے اور بعد کے دنوں میں ان کی پہچان ’ناگارجن‘ سے ہی مستحکم ہوئی۔ہندی ادب کی تاریخ میں ناگارجن کوغیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ ان کا شمار ہندی ادب کو نئی سمت دینے والوں میں ہوتاہے۔ جہاں تک میتھلی زبان وادب کا سوال ہے تو ودیاپتی، پنڈت ہرش ناتھ، پنڈت سیتا رام جھااور چنداجھا کے بعد ان کا نام لیاجاتاہے۔ انھوں نے نہ صرف میتھلی شاعری کو نئے افکار ونظریات سے آشنا کیا بلکہ میتھلی ناول نگاری کو اعتبار کا درجہ عطا کیا۔ افسوس صد افسوس کہ آسمانِ ادب کا یہ درخشاں ستارہ 5؍ نومبر1998 کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔لیکن ان کی تخلیقات کا ذخیرہ ان کی ابدی شہرت کا ضامن ہے۔ان کے بغیر جدید میتھلی ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہندی کی جدید شاعری کا ذکر ہی ناگارجن کے بغیر مکمل ہو سکتا ہے۔میتھلی ان کی مادری زبان تھی۔ اس زبان میں وہ اپنی بات کہنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے تھے۔ میتھلی زبان میں ان کے دو شعری مجموعے ’چترا‘اور پترہین نگن گاچھہیں۔ ’پترہین نگن گاچھ‘ پر انھیں1967 میں شاعری کا میتھلی ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا تھا۔’پارو’نوتوریا‘اور ’بلچنما‘ان کے مشہور ناول ہیں۔راقم الحروف نے ان کے ناول ’بلچنما‘ کا اردوترجمہ 2005 میں کیا تھاجسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ہندی میں نئی پود، رتی ناتھ کی چاچی، برون کے بیٹے، اُگرتارا، امرتیا کومبھی پاک، بابا بٹیشور ناتھ، پارو، دکھ موچن، غریب داس، جمنیا کا بابا اور ’ہیرک جینتی‘ ان کے مشہور ناول ہیں۔ تالاب کی مچھلیاں، یُگ دھارا، تم نے کہا تھا، پرانی جوتیوں کا کورس اور ’ہزار ہزار بانھوں والی‘ قابلِ ذکر شعری مجموعے ہیں۔ادب ہی ان کا ذریعہ معاش تھا اس لیے وہ ہمیشہ اپنے ہاتھ میں قلم لیے ہوتے تھے۔ ان کی نگاہ بہت بلند تھی، مشاہدہ بہت گہرا تھا، کوئی بھی موضوع ان کے لیے مشکل نہیں ہوتا تھا۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی کافی لکھا ہے۔ ویروکرم،ترکو کا کھیل، ندی بول اٹھی، بانر کماری بچوں کے لیے لکھی گئی قابلِ ذکر کتابیں ہیں۔ ’پریم چند کی جیونی‘ اور ’ایک ویکتی ایک یُگ‘ ہندی ادب میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ناگارجن نے سنسکرت زبان میں بھی شاعری کی ہے۔ ان کی تیس نظموں کا مجموعہ ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ انھوں نے بنگلہ میں بھی شاعری کی ہے۔ وہ میتھلی، ہندی اور بنگلہ کے علاوہ گجراتی، مراٹھی، پنجابی، ملیالم اور تیلگو زبان بھی جانتے تھے۔ناگارجن خاموشی کے ساتھ کام کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ ان کو کبھی اس بات کا خیال نہیں رہا کہ دنیائے ادب میں انھیں کون کیا کہہ رہاہے۔ بس وہ لکھتے رہے۔ اپنے آس پاس کی زندگی کو اپنے فن میں ڈھالتے رہے۔ وہ اپنے عہد کے ایک سچے عکاس تھے۔ آخر کار دنیائے ادب کو ان کی عظمت کا اعتراف کرنا پڑا اور 1967میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، مدھیہ پردیش کا اچاریہ میتھلی شرن گپت ایوارڈ، یوپی حکومت کا ’بھارت بھارتی‘ انعام اور بہار سرکار کا ’راجندر شکھر سمّان ‘ ملا۔ناگارجن کے لیے مذہب کوئی دیوار نہیں تھی۔ وہ ایک ہندو برہمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ بدھ ازم کو اپنایا، جین ازم کی طرف مائل ہوئے اور پھر ناستک ہوگئے۔ درحقیقت ان کا کوئی مذہب نہیں تھا۔اگر ان کا کوئی مذہب تھا تو وہ مذہب انسانیت کا تھا۔ وہ انسانیت کے پجاری تھے۔ان کی تمام شاعری انسان کے دکھ درد کی کہانی ہے۔ ان کے ناول انسان کے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی زندگی بھی انسان کے لیے تھی، وہ خود بھی ایک اعلیٰ انسان تھے۔ راقم الحروف کو ان سے ملنے کا بارہا موقع نصیب ہوا ہے۔ وہ میرے گاؤں کے پڑوسی یعنی بس دوکلومیٹر دور کے رہنے والے تھے۔ اس لیے انھیں ذاتی طورپر بھی خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ کبھی کسی کے سامنے جھکے نہیں۔ اپنی بات کہتے رہے، وہ اپنے طنزیہ لہجے کی وجہ سے بھی ہندی ادب میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ناول’بلچنما‘ بابا ناگارجن کا ایک شاہکار ہے۔ اس ناول میں آزادی سے قبل کے متھلانچل بالخصوص دربھنگہ، مدھوبنی اور سمستی پور کے زمینداروں کے ذریعے گاؤں کے مزدوروں، کسانوں اور پسماندہ طبقے کے لوگوں پر جو ظلم وستم ڈھائے جا رہے تھے، ان کی عکاسی کی گئی ہے۔ ناول کا ہیرو بلچنما دراصل ایک علامت ہے ظلم کے خلاف بغاوت اور طبقاتی کشمکش کی، جو زمینداروں کے ظلم اور غیرانسانی فعل کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ بلچنما اسی زمیندار کے یہاں مجبوراً بھینس چرانے کی نوکری کرتاہے جس زمیندار نے اس کے باپ کو محض ایک آم توڑنے کے جرم میں ایک کھمبے سے باندھ کر اس قدر ماراپیٹا کہ موقع پر ہی اس کی موت ہوگئی تھی۔ لیکن ایک دن بلچنما ان بے رحم اور قصائی صفت زمینداروں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور نہ صرف خود زمینداروں کے شکنجے سے آزاد ہوتا ہے بلکہ گائوں کے سیکڑوں کسانوں کو آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے اپنی تحریک کا حصہ بناتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن غلامانہ زندگی گذارنے والے کسان اور مزدور زمینداروں کے چنگل سے نجات پاتے ہیں۔بابا ناگارجن نے ہمیشہ ان طاقتوں کے خلاف آوازِ بغاوت بلند کی جو ہندوستانی عوام کی آزادی کی راہ میں حائل تھے۔انھوں نے ہندوستانی گاؤں میں رہنے والے پسماندہ طبقے کے لوگوں کی زندگی کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں میں ہندوستانی معاشرت ملتی ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں طبقاتی کشمکش کے ساتھ ساتھ آزادی کی تحریک کی بھی تصویر کشی کی ہے۔ ان کے کرداروں کا فطری ارتقا ہی ان کی ایک بڑی انفرادیت ہے۔ ’بلچنما‘ میں تمام کردار فعال ومتحرک نظر آتے ہیں۔ بابا ناگارجن کی مثالیت پسندی کی ایسی مثال کسی دوسرے ناول میں نہیں ملتی۔بلچنما، چنی، رادھا بابو، سوامی جی، پھول بابو، برج بہاری عرف بچو اور اور جانکی سب مثالی کردارہیں۔ان کرداروں کو چوتھی دہائی کے ہندوستان اور اس کے خاص سیاسی اور معاشی پسِ منظر میں دیکھیے تو ہر ایک کردار کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔جہاں تک شاعری کا سوال ہے تو ان کی شاعری کا موضوع بھی جبر واستبداد رہاہے۔ وہ ہر طرح کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود مارکسی نظریے کے تھے لیکن مارکسی حکومت کے خلاف بھی آوازِ بغاوت بلند کرتے رہے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی نگاہ میں وہ ایک باغی ادیب وشاعر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جس فنکار کی فکر ونظر کا محور انسانی معاشرے کی بدحالی اور استحصال ہوگا اسے کوئی بھی حکمراں جماعت قبول نہیں کر سکتی۔ان کی نظم’ان کو پرنام‘ تو میتھلی اور ہندی دونوں میں ایک شاہکار نظم تسلیم کی گئی ہے؎جو نہیں ہو سکے پورن کام/میں ان کو کرتا ہو ں پرنامکچھ کنٹھت او لکچھ بھرشٹجن کے ابھیمنترت تیر ہوئےرَن کی سماپتی کے پہلے ہیجو بیر رکت تو نیر ہوئےان کو پرنام!جو چھوٹی سی نیّا لے کراترے کرنے کو اُددھی پارمن کی من میں ہی رہی سوینگہوگئے اسی میں نرا کارا ن کو پرنام!جو اونچ شکھر کی اور بڑھےرہ رہ نو نو اُتساہ بھرےپر کچھ نے لے لی ہیم سمادھیان کو پرنام!ایکاکی اور اکنچن ہوجو بھو پریکرما کو نکلےہوگئے پنگو پرتی پد جن کےاتنے ادرشٹ کے دائو چلےان کو پرنام!کرت کرت نہیں جو ہو پائےپرتیوت پھانسی پر گئے جھولکچھ ہی دن بیتے ہیں پھر بھییہ دنیا جن کو گئی بھولان کو پرنام!تھی عمر سادھنا پر جن کاجیون ناٹک دکھانت ہوایا جنم کال میں ہی سنگھ لگنپرکوسمے ہی دیہانت ہواان کو پرنام!دریڈھ برت اور دودرم ساہس کےجو اُداہرن تھے مورتی منترپر نربدھی بندی جیون میںجن کی دُھن کا کردیا انتان کو پرنام!جن کی سیوائیں اتولنیہپروگیاپن سے رہے دورپرتی کول پرستھیتی نے جن کےکردئے منورتھ چورچوران کو پرنام!یہ مذکورہ نظم پانچ دہائی پہلے کی لکھی ہوئی ہے لیکن عصری تناظر میں بھی اس نظم کی قرأت ذہن کے دریچوں کو وا کرتی ہے اور ایک عظیم فنکار کی تخلیق اپنی عصری معنویت بر قرار رکھتی ہے اس کا بھی خلاصہ ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی نظم ’میری بھی آبھا ہے اس میں‘ ملاحظہ کیجیے؎نئے گگن میں نیا سورج جو چمک رہاہےیہ وشال بھوکھنڈ جو دمک رہاہےمیری بھی آبھا ہے اس میںبھینی بھینی خوشبو والےرنگ برنگےیہ جو اتنے پھول کھلے ہیںکل ان کو میرے پرانوں میں نہلایا تھاکل ان کو میرے سپنوں نے سہلایا تھاپکی سنہری فصلوں سے جواب کی یہ کھلیان بھر گیامیری رگ رگ کی سونت کی بوندیںاس میں مسکراتی ہےنئے گگن میں نیا سورج جو چمک رہا ہےیہ وشال بھوکھنڈ جو دمک رہاہےاس نظم میں بھی جدید ہندوستان کی تعمیر میں مزدور طبقے کی قربانیوں کو شعری پیکر میں ڈھالا گیاہے اور کس طرح حاشیائی طبقے کو نظر انداز کیا گیاہے اس کو علامتی انداز میں پیش کیا گیاہے۔مختصر یہ کہ ناگارجن نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں صرف ہماری سماجی زندگی کی ہی عکاسی نہیں کی ہے بلکہ سماجی زندگی کے ایسے تاریک گوشے کو موضوع بنایا ہے جس سے ان کے بنیادی نقطۂ نظر کی مکمل عکاسی ہوتی ہے۔ان کی مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے ہی آس پاس کی زندگی کی ترجمانی کی ہے، اپنے ہی ماحول کی عکاسی کی ہے۔دوسرے شعراء کی طرح ان کا رنگ مصنوعی نہیں اور نہ ان کے موضوع مانگے کا اجالا ہیں۔ غرض کہ ناگارجن ادب برائے زندگی کے علمبردار ہیں اور اپنے قلم کی جنبش سے فرسودہ سماج کے تمام ہوائی قلعوں کو منہدم کرکے ہمیں اس دنیا سے روشناس کراتے ہیں جس میں ہم بستے ہیں اور اپنی آنکھوں سے انسانی زندگی کو قریب سے دیکھتے ہیں۔Dr. Mushtaque AhmadPrincipal, CM CollegeDarbhanga- 846004 (Bihar)Mob.: 9431414586Email.: rm.meezan@gmail.com" اردو رسم الخط - مضمون نگار: ریاض احمد,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/11/,"اردو ایک جدید ہند آریائی زبان ہے۔ اس کو ہندوستانی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسی ملک میں پیدا ہوئی او ریہیں پھلی پھولی ہے۔ لفظـ’اردو‘ ترکی زبا ن کاا لفظ ہے جس کے معنی لشکر کے ہیں۔ اس کا ڈھانچہ تیار کرنے میں کھڑی بولی نے سب سے اہم رول ادا کیا ہے۔ اُردو کو ضبطِ تحریر میں لانے کے لیے عربی فارسی حروف کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اُردو کا رسمِ خط عربی اور فارسی ہے بلکہ عربی فارسی کی توسیع شدہ شکل ہے۔ اردو جنوبی ایشیا کی وہ زبان ہے جسے لکھنے پڑھنے کے لیے عربی نظامِ ہجا استعمال میں لایا جاتا ہے۔ جو خط نسخ اور تعلیق سے وجود پذیر ہوا ہے۔ خط تعلیق کا جہاں تک سوال ہے اس کو حسن بن حسین علی فارسی نے فروغ دیا۔اس نے خط رقاع اور خط توقیع سے ایک نیا خط بنایا۔ یہ سرکاری مراسلت کے لیے استعمال ہونے لگا۔خط تعلیق اور خط نسخ کے ملاپ سے ایک تیسرا رنگ ابھر آیا جسے نستعلیق کہا گیا۔اس نے کافی مقبولیت حاصل کی۔خواجہ ابوالمعالی بک نے خط تعلیق میں انقلابی اصلاحات کی۔ انھوں نے فارسی کی مخصوص آواز( پ، چ،گ) کے لیے حروف ایجاد کیے اور اس مقصد کے لیے تین تین نقطے وضع کیے۔ابتدا میں گ پر بھی دو لکیروں کے بجائے تین نقطے لگائے جاتے تھے۔لیکن لسانی اور جمالیاتی ذوق سے ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث اسے ترک کردیا گیا اور اس کی جگہ دو لکیروں کا استعمال شروع ہوا۔ حافظ یوسف سدیدی نے یاقوت ( پورا نام یاقوت بن عبداللہ الرومی المعتصمی) کو خط تعلیق کا موجد قرار دیا، محمد سجاد مرزا نے خط تعلیق کا اجرا چوتھی صدی ہجری (1000) اور پروفیسر شیخ عنایت اللہ نے ایم ایس ڈیمنڈ کے حوالے سے تیرہویں صدی عیسوی قرار دیا ہے۔محتاط تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا اجرا پانچویں صدی ہجری (1107)میں ہوا۔خط نستعلیق نے امیر تیمور کے دور میں ترقی کی۔ مشہور خطاط سید میر علی تبریزی نے خط نسخ اور تعلیق کی آمیزش سے خط نستعلیق ایجاد کیا۔اس خط کے اساتذہ میں میر فریدالدین،جعفر تبریزی،سلطان علی مشہدی، میر علی ہروی، میر عمادالحسنی، حافط نورانہ، صوفی خورشید عالم اقبال،ابن پروین اور میر پنجہ کش رقم مشہور ہیں۔ شیخ ممتاز حسین جونپوری، ڈاکٹر شیرین بیانی کے نزدیک نستعلیق کے رواج پانے کا زمانہ ساتویں صدی ہجری ہے۔ محمد سجاد مرزا کے نزدیک اس کا زمانہ آٹھویں صدی ہجری کا ابتدائی دور ہے۔ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اور محمد اسحق صدیقی نے آٹھویں صدی، قیصرانی نے تیرھویں اور چودھویں صدی عیسوی اور پروفیسر شیخ عنایت اللہ نے پندرھویں صدی عیسوی کو ابتدائی دور قرار دیا ہے۔خط نستعلیق میں حروف کے دائرے گول ہوتے ہیں۔جس سے تحریر میں حسن اور دلکشی پیدا ہوتی ہے۔بارھویں صدی کے اوائل میں مرتضی خان شاملو نے خط نستعلیق سے ایک اور خط اخذکیا جسے خط شکستہ کا نام دیا گیا۔اردو میںفارسی،عربی، ہندی، ترکی اور دیگر زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ فارسی حروف میں ٹ، ڈ، اور ڑ کے اضافے سے یہ تعداد 36بن گئی ہے۔ ہمزہ کو شامل کرنے سے 37 ہو جاتی ہے۔ انشاء اللہ خان نے اُردو حروفِ تہجی کی تعداد 85 بتائی ہے۔ پنڈت برج موہن دتاتریاکیفی کے نزدیک حروفِ تہجی کی تعداد47ہے۔ مولوی عبدالحق نے قواعد اُردومیں حروف کی تعداد 36 کے بجائے 50بتائی ہے کیونکہ انھوں نے ہکاری آوازوں کو بھی حروف گردانا ہے۔ان میں ث، ح، ص،ط،ظ، ع، ق عربی زبان کے حروف ہیں۔ خ، ذ عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں ہیں۔ اردو میں نسخ اور نستعلیق میں مقامی مزاج داخل ہونے کی وجہ سے ان کا اسلوب فارسی سے مختلف ہو گیا۔درحقیقت یہی وہ اسلوب ہے جسے ہم اردو رسم الخط کہتے ہیں۔ اردو کے املا کے مسائل میں اہم مسئلہ یہ گردانا جاتاہے کہ دس مصوتوںکے لیے صرف تین علا متیں یعنی الف‘،’واو ‘اور ’ی ‘ہے۔جو کہ اس طرح سے ہیں:اَ،اِ،اُ،آ،اے،ای،ا و،اوٗ،اَے،اَو۔مصلحینِ زبان اس بارے میں کہتے ہیں کہ زیر،زبر،پیش چونکہ عملاََ استعمال نہیں کیے جاتے ہیں،اس لیے زبان سیکھنے والے نئے قارئین کے لیے دقت کھڑی ہو جاتی ہے۔چنانچہ حروف کے اوپر نیچے لگنے والی علامتوں کو ختم کرکے ہر مصوتے کو ایک الگ حرف کی شکل دے دی جائے جیسا کہ انگریزی یا رومن حروف میں لکھی جانے والی دیگر زبانوں میں ہوتا ہے۔اس پر اب زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اردو کے حروف کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔کبھی پورا یا آدھا حرف لکھا جاتا ہے تو کبھی اس کا چہرہ۔اس طرح الفاظ کی لکھائی سیکھنا، سکھانا مشکل ہے۔ اس مسئلے پر اگر غور کیا جائے تو یہ بذاتِ خود ایک علمی غلطی ہے جو کہ زبان کا نہیں بلکہ قاری کا معاملہ ہے۔اردوکا دائیں سے بائیں لکھنا بھی کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہوتا ہے یعنی کہ وہ دیوناگری رسم الخط کی وکالت کرتے رہتے ہیں جو کہ اردو کی شبیہ بگاڑنے کے لیے ایک سازش سے کم نہیں۔بعض حلقوں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ’مہینہ ‘یا ’تھانہ ‘جیسے الفاظ کے آخر میں’ ہ‘ نہیں بلکہ’ الف‘ آنا چاہیے کیونکہ یہ ہندی میں الف سے لکھے جاتے ہیں۔ یہ اعتراض نیا نہیں ہے بلکہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر نے بھی اس پراعتراض جتایا تھا لیکن کسی نے کان نہ دھرا اور وہ الفاظ صدیوں سے ویسے ہی لکھے جاتے ہیں۔اس حوالے سے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ہر زندہ زبان روایت،چلن اور رواج پر چلا کرتی ہے،نہ کہ چند افراد کے ایک کمرے میں بیٹھ کر احکامات صادر کرنے سے۔جب مسلمانوں کی آمد ہندوستان میں ہوئی تو وہ اپنے ساتھ فارسی لائے۔ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی ہو گئی۔ہندی کی مخصوص آوازیں مثلاً ( ٹ، ڈ، ڑ، بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ،کھ، گھ وغیرہ ) کو ادا کرنے کے لیے حروف موجود نہیں تھے۔اردو چونکہ ان تینوں زبانوں کے مرکب سے پیدا ہوئی لہٰذا ضروری تھا کہ ان تینوں زبانوں کی آوازیں ادا کرنے کے لیے علامتیں موجود ہوں۔ فارسی حروف میں شکلوں کی قبیلہ وار تقسیم سے فائدہ اٹھا کر دو نئے نشانات وضع کیے گئے جن کے ذریعے ہندی مخصوص آوازوں کے ادا کرنے کے لیے نئے حرف بنانا ممکن ہو گیا۔ 1857 تک کی تحریروں میں (ٹ ) اور (ڈ) اس طرح لکھتے تھے کہ ان کے اوپر چار نقطے ڈال دیتے تھے۔بعد میں (ط) کی علامت کو بطور نقطہ استعمال کرنے لگے۔ھ کی علامت سے بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ،دھ، ڈھ، ڑھ،کھ، گھ، لھ بنالیے گئے۔ فارسی، اردو، پنجابی، بلوچی،سرائیکی اور براہوی نے نستعلیق اپنایا۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے اس کو چار چاند لگائے۔جب کہ نستعلیق میںپنجابی، بلوچی، سرائیکی، بروہی اور اردو لکھی جاتی ہے۔ہائیہ آوازوں والی تحریری شکلوں مثلاً پھ، بھ، تھ، دھ، کھ،گھ وغیرہ کو مفرد حروف کا درجہ نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ یہ حروف کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں۔ لسانیات کی رو سے’’حرفــ‘‘سب سے چھوٹی تحریری اکائی ہوتی ہے جس کے مزید ٹکڑے نہیں کیے جاسکتے۔اب اس تحریری اکائی کو لسانیاتی اصطلاح میںـ’ ترسیمیہ‘ کہتے ہیں۔ مثلاً ب ت پ ج گ وغیرہ۔مخلوط حروف مثلاََ پھ، بھ، تھ، جھ، دھ، کھ وغیرہ کو حروف یا سب سے چھوٹی تحریری اکائی ترسیمیہ کا درجہ اس لیے نہیں دیا جاسکتا کہ ان کی تشکیل دو تحریری عناصرپ +ھ=پھ یا۔د+ھ=دھ کی ترکیب سے عمل میںآتی ہے،اس لیے انھیں حروف تہجی میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمزہ بھی اُردو میں حروفِ تہجی نہیں ہے بلکہ محض ایک تحریری علامت ہے جس کا استعمال مصوتی تسلسل کے لیے کیا جاتا ہے بہ استثنائے ہمزہ اُردو حروف تہجی کی کل تعداد36ہے بعض لوگوں نے ہمزہ کو بھی حرف جانا ہے۔ ان کے نزدیک 37حروف تہجی ہیں۔ عربی حروف تہجی کی کل تعداد 28 ہے۔ اُردو کے حروف تہجی میں 28 عربی کے، چار فارسی کے اور چار نئے حروف جو خود اُردو میں وضع کیے گئے ہیں یعنی کل 36 حروف وضع کیے گئے ہیں۔اُردو میں جو چار حروف وضع کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: ٹ، ڈ، ڑ، ے۔ اُر دو رسم الخط نے اعراب وعلامات جیسے زیر، زبر، پیش، مد،اُلٹا پیش، ہمزہ، تشدید اور جزم وغیرہ عربی و فارسی سے مستعار لیے ہیں۔ اور تحریری نظام میں تنوین جیسے مثلاً، فور اورالف مقصورہ جیسے عیسیٰ الف وصل جیسے دارالحکومت، کسرائِ اضافت مثلاً محفل اور واوِ معدولہ جیسے خوش وغیرہ عربی فارسی رسم الخط سے مستعار لے گئے ہیں۔ اُردو کا طرز تحریر اور اندازِ کتابت نستعلیق کہلاتا ہے۔ اس خطِ نستعلیق کا ارتقا ایران میں ہوا تھا۔ خواجہ میر علی تبریزی نے ایران میںعربی کے دو رسومِ خط نسخ اور تعلیق کو ملا کر ایک نیا رسمِ خط ایجاد کیا جو نستعلیق کہلایا۔اُردو کے لیے آج یہی رسمِ خط مشہور ہے اور آج یہ اُردو کا اپنا رسمِ خط بن گیا ہے۔ اُردو کا صوتی نظام مختلف زبانوں سے آئی ہوئی آوازوں کا مجموعہ ہے۔اُردو ایک ہند آریائی زبان ہے اسی وجہ سے اس میں صرف ہندی نژاد آوازوںکی تعداد زیادہ ہے۔ مثلاََ ٹ، ڈ، ڑ،بھ، تھ،دھ وغیرہ۔اُردو میں خالص ہند آریائی یا ہندی الاصل آوازیں خالص عربی آوازیں خالص فارسی آوازیں اور دو یا تین زبانوں کی مشترک آوازیں موجود ہیں۔ اُردو میں ہندی نژاد آوازوں کے علاوہ عربی و فارسی کی چھ آوازیں بھی ہیں جو یہ ہیں ف،ز،ژ، خ، غ،ق۔ اُردو رسم الخط میں ذ،ض، ظ کے لیے ز اور ث،ص کے لیے س اور ح کے لیے ہ اور ط کے لیے ت کی آوازیں مقرر کی گیٔ ہیں۔مسعود حسین خان ز، ض، ظ، ث،ص، ح اورط کو زائد حروف کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صوتی نقطہ نظر سے یہ سب مردہ لاشیں ہیں جن کو اُردو رسم الخط نے اُٹھا رکھا ہے۔ ان کو اُٹھانے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلق عربی و فارسی سے ثابت رہے۔ اُردو میں عربی الفاظ براہِ راست عربی زبان سے داخل نہیں ہوئے بلکہ فارسی کے ذریعے اُردو میں آئے ہیں۔اُردو نے ان کو اپنے صوتی آہنگ کے مطابق استعمال کیا ہے۔ اردومیں استعمال ہونے والی تمام ضمیریں سنسکرت اورپراکرت سے لی گئی ہیں۔اُردو کے تمام افعال بھی ہندی الاصل ہیں ضمائر کی طرح۔ اُردو کے بنیادی حروف کی تعداد ایک جگہ18 قرار دی گئی ہے۔ اُردو رسم خط میں ایک حرف جب دوسرے حرف کے ساتھ جوڑ کر لکھا جاتا ہے، تو اس کی شکل قدرے تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس حرف کی اس تبدیل شدہ شکل کو ترکیبی شکل کہتے ہیں۔لسانیاتی اصطلاح میں حروف کی تبدیل ہوئی شکل کو’زہلی ترسیمیہ ‘ کہا جاتا ہے۔ اُردو کے تقریباً سارے حروف ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر لکھے جاتے ہیں اور اپنی ترکیبی شکلیں یعنی بدلی ہوئی شکلیں وضع کر سکتے ہیں۔ لیکن صرف 9 حروف ایسے ہیں جو اپنے بعد کسی دوسرے کے ساتھملا کر لکھے نہیں جاتے۔ وہ 9 حروف یہ ہیںادڈذرڑزژو۔ اُردو رسم الخط میں اعراب و علامات کی حیثیت ثانوی ہے۔ اعراب و علامات ایک قسم کے مختصر تحریری نشانات ہوتے ہیں۔اُردو رسم الخط میں اعراب و علامات مصوتی، مصمتی، غنائی اور قواعدی کردار ادا کرتے ہیں اور اعراب و علامات کی گروہ بندی1مصوتی2مصمتی 3غنائی اور4 اضافی علامات کے طور پر کی گیٔ ہے۔ اُردو رسم الخط میں بنیادی حیثیت حروف اور ان کی ترکیبی شکلوں یا ذیلی حروف کو حاصل ہے۔الف:مصوتی علامات:مصوتی علامات مصوتی خصوصیات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کا استعمال مصوتوں اور مصمتوں کی نمائندگی کرنے والے حروف کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ مصوتی علامات کی تعداد 9 ہے1زیر2زبر3 پیش4مد5 کھڑا زیر6اُلٹا پیش7کھڑا زبر 8 اُلٹا جزماور9ہمزہ۔ب: مصمتی علامات:مصمتی علامات مصمتی خصوصیات کی نمائندگی کرتی ہیں جن کا استعمال مصمتوں کی نمائندگی کرنے والے حروف کے ساتھ ہوتا ہے۔ مصمتی علامات چار ہوتے ہیں۔1تشدید2دوچشمی3جزم 4تنوین۔ج: غنائی علامات:غنائی علامات وہ علامات ہیں جو غنہ کو ظاہر کرتی ہیں۔ اُردو رسم الخط میں غنہ کو ظاہر کرنے کے لیے دو علامتیں رائج ہیں:1۔نون غنہ 2۔اُلٹا قوس۔د :اضافی علامات :اضافی علامات سےکا،کی،کےکے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اضافی علامات تین ہیں:1زیر 2ہمزہ3بڑی ے (یاے مجہول)مولانا سید احمد دہلوی کے مطابق اُردو کے ساڑھے پانچ لاکھ الفاظ میں تین چوتھائی الفاظ سنسکرت الاصل ہیں۔دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنانے کی وجہ سے اُردو کے تلفظاور املا میں کچھ مسائل بھی ضرور پیدا ہوئے ہیں جن کی بنا پر بعض دانشوروں نے اُردو کے رومن یا دیو ناگری رسم الخط میں منتقل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ راہی معصوم رضا نے بہت پہلے کہا تھا کہ ’’اُردو آئندہ پچاس برسوں کی مہمان ہے لہٰذا اُردووالوں کو چاہیے کہ جتنی جلد ممکن ہو وہ اُردو کے سرمائے کو دیو ناگری رسم الخط میں منتقل کر دیں۔ ’’ علی سردار جعفری اور عصمت چغتائی نے بھی اُردو کے لیے دیوناگری رسم الخط کا مشورہ دیا ہے۔ان دانشوروںنے کہا کہ اس رسم الخط کو اپنانا چاہیے جس سے روزی روٹی کا مسئلہ بھی حل ہو سکے۔ حاصل کلام یہ کہ اُردو زبان میںکچھ کمیاں ضرور ہو سکتی ہیں لیکن ان کی وجہ سے اُردو سرمائے رومن یا دیو نگری رسم الخط میں منتقل کرنا کسی طرح ممکن نہیں۔ہندوستان کی دوسری زبانوں کی طرح اُردو کی بھی ایک تاریخ ہے۔ اپنا لسانی عمل ہے، اپنے ارتقائی مدارج ہیں اور اپنے قواعد اور اپنا رسم الخط بھی ہے، لغت ہے، صوتی نظام ہے۔ہیئت و تشکیلکے اپنے اصول ہیں۔ یہ ایسے حقائق ہیں جنھوں نے مل کراُردو کی انفرادیت کو سنوارا اور نکھارا ہے۔قفزخغ حروف صحیح اُردو کے علاوہ کسی دوسری زبان میں بنیادی حیثیت نہیں رکھتے۔ حاضر ضمیر کی واحد شکل میں اُردو میں تین ذیلی ضمیریں استعمال ہوتی ہیں جو دوسری کسی زبان میں نہیں ہیں۔ اُردو رسم الخط میں لفظوں کے انتخاب میں بڑی گنجائش ہے مثلاً مہہ ،مہتاب ،قمر ،چاند ،بازار،دولت ،روپیہ ،پیسہ وغیرہ۔ اردو رسم الخط یا اُردو زبان میں (اَت) کالاحقہ بھی استعمال ہوتا ہےجس کا رواج کسی دوسری زبان یا رسم الخط میں نہیں ملتا۔ مثلاً جذبہ سے جذبات،مشکل سے مشکلات وغیرہ۔ اُردو رسم الخط اور اُردو زبان میں ایسے محاوروں کی تعداد بکثرت ہے جو صفت کو ملا کر بنائے گئے ہیں۔ مثلاََ منہ بنانا، منہ مارنا وغیرہ۔ اُردو رسم الخط میں نسبت کا لاحقہ (ای) ہے۔ اگر لفظ حروف علت پر ختم ہوتا ہو تو (ای) کے بجاے (وی) لا حقہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاًلکھنؤ سے لکھنوی،دہلی سے دہلوی وغیرہ۔ اُردو رسم الخط نے فرہنگ کی سطح پر عربی و فارسی سے جتنا استفادہ کیا ہے، اتنا اور کسی نے نہیں کیا۔ ایک اندازے کے مطابق 35 فیصد الفاظ اُردو رسم الخط میں عربی فارسی انگریزی وپشتو زبانوں کے ہیں۔دوسری زبانوں کے مقابلے میں یہ ایک ریکارڈ بھی ہے۔ اُردو اپنے اسالیب، لب و لہجہ، انتخاب الفاظ اور مختلف لسانی و ادبی اقدار کے لحاظ سے تین رجحان میں بٹی ہوئی ہے۔ پہلے رجحان میں عربی و فارسی الفاظ اور تراکیب و تلمیحات میں آتی ہیں۔ دوسرے رجحان میں دیسی سادگی اور سلاست ہے۔ تیسرے رجحان کو انگریزی رجحان کہا جاسکتا ہے۔ جہاں حقیقت پسندی ہے۔اُردو زبان کی موجودہ خامیوں کے باوجود اُردو رسم الخط کے بدلنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ کیونکہ رسم خط کے بدلنے کے معنی ہیں اپنے ماضی اور اس کی روایتوں سے بے تعلق ہوجانا۔ رسم خط زبان کا نہ صرف خوبصورت لباس ہے بلکہ یہ زبان کی روح بھی ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کے مطابق کوئی زبان بغیر رسم خط کے زندہ نہیں رہ سکتی۔ اُردو بھی اُس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اُس کا رسم خط زندہ رہے گا۔ تمدن کی تاریخ دنیا کے ہر رسم الخط کے پیچھے ہوتی ہے۔ یا اس طرح کہیں کہ ہر رسم الخط کے پیچھے اُس کے تمدن کی تاریخ ہوتی ہے۔Reyaz AhmadResearch Scholar, Dept of UrduO.P.J.S UniversityChuru - 331303 (Rajasthan)" روزنامہ ’رہبردکن‘ سے ’رہنمائے دکن‘ کا 100 سالہ صحافتی سفر- مضمون نگار: شیخ عمران,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/10/,"آزاد ہندوستان میں حیدرآباد کی ایک مخصوص شناخت ہے۔ دکن کا یہ تاریخی شہر اپنی گنگا جمنی تہذیب اور اردو کے ایک اہم مرکز کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہے۔ اس شہر کو تاریخ و تہذیب،علم و فن اور زبان و ادب کے معاملے میں ملک کی نمائندگی کا شرف حاصل ہے جہاں اس شہر نے اردو کو کئی نامور شاعر، ادیب، محقق،نقاد، مفکر دیے وہیں صحافت کے معاملے میں بھی اس شہر کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ دور قدیم سے ہی صحافت کی جڑیں اس شہر سے پیوستہ رہی ہیں۔ حیدرآباد میں اردو صحافت کی تاریخ قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔حیدرآباد میں زبان و ادب کے فروغ کے لیے کہیں نہ کہیں صحافت کا بھی نمایاں کردار رہا ہے اگر ایسا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔اس شہر سے اردو کے کئی بڑے اخبارجاری ہوئے اور کچھ عرصہ بعد بند ہوگئے ان اخبارات میں آفتاب دکن، مشیردکن، دکن پنچ، سفیر دکن، نظامی، محبوب گزٹ، صحیفہ، معارف، افسر الاخبار، آصف الاخبار، ہزار داستان، آصفی، گلزار دکن وغیرہ شامل ہیںلیکن ان ہی میں ’رہبر دکن‘ ایک ایسا اخبار ہے جو آزادی ہند سے پہلے جاری ہوا اور آج بھی جاری ہے۔ جنوبی ہند کی اردو صحافت کے لیے یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اس اخبار نے اپنے 100 برس مکمل کرلیے ہیں۔ یہ حیدرآباد کا واحد اردو اخبار ہے جو اپنے 100 سال مکمل کرنے کے بعد بھی آج بڑی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔یہاں میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس روزنامہ کو دو ادوار میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دور وہ ہے جب یہ روزنامہ ’رہبر دکن ‘ کے نام سے اگست 1921 میں منظر عام پرآیا اور کئی برس تک جاری رہنے کے بعد بند ہوگیا۔ اس کا دوسرا دور ’رہنمائے دکن‘ (موجودہ نام) سے شروع ہوتا ہے جو جولائی 1949 میں جاری ہوا اور آج بھی اسی نام سے جاری ہے۔’رہنمائے دکن‘ حیدرآباد ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی اردو صحافت میں ایک بہترین اور معیار ی اخبار ثابت ہوا۔ رہنمائے دکن روایتی طرز کا اخبار ہے۔ اس اخبار کی خدمات کے پیش نظر اسے جنوبی ہندی اردو کا نمائندہ اخبار کہا جاسکتا ہے۔ادبی سرپرستی میں اس اخبار نے اپنا منفرد رول ادا کیا جو ناقابل فراموش ہے۔بابائے دکنی محی الدین قادری زور،نصیر الدین ہاشمی، عبدالقادر سروری وغیرہ کی نایاب تحریریں اس روزنامے کا حصہ رہیں۔سید احمد محی الدین نے اپنی ادارت میں1 اگست 1921 میں افضل گنج حیدرآبادسے ایک روزنامہ جاری کیا جس کا نام ’رہبردکن‘ تھا۔ ’رہبر دکن‘ جن حالات میں جاری ہوا وہ حالات اردو اور صحافت دونوں کے لیے ناسازگار تھے، اخبار کا جاری ہونا بڑا مشکل کام تھا لیکن سید احمدمحی الدین نے اپنی بے باکانہ صحافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اخبارکو جاری کیا جو آگے چل کر شہر حیدرآباد کا ایک عظیم اخبار ثابت ہوا۔’’رہبر دکن کا شمار جنوبی ہند کے اس دور کے تمام اردو روزناموں میں کثیر الاشاعت روزنامے کی حیثیت سے ہوتا ہے۔اس اخبار کی اس دور میں تعداد اشاعت آٹھ دس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ’رہبر دکن ‘ کے سالنامے اور خاص نمبر عوام الناس میں اور بالخصوص ادبی حلقوں میں بہ نظر تحسین دیکھے جاتے تھے۔اس اخبار کے اداریوں نے سیاسی افراتفری کے زمانے میں عوام کی صحیح رہنمائی کی۔‘‘(حیدرآباد دکن کے اردو اخبارات: ایک جائزہ،محمد اعجاز الدین حامد، ص61)’رہبر دکن‘ نے حیدر آباد کی اردو صحافت کو جلا بخشی۔ سید احمد محی الدین نے مدیر کی حیثیت سے کئی برس کام کیا۔ انھوںنے اس روزنامے میں کئی اضافے بھی کیے جو اس کی شہرت کا باعث بنے۔1942میں سید احمد محی الدین کا انتقال ہوگیا اور حامد محی الدین اس اخبار کے مدیر ہوئے۔صرف ایک سال تک وہ اس اخبار سے وابستہ رہے چونکہ ان کی تقرری حیدر آباد سول سروس میں ہوگئی۔ جس کی وجہ سے ان کو اخبار چھوڑنا پڑا اور ان کی جگہ سید محمود وحید الدین اس اخبار کے مدیر نامزد ہوئے۔سید محمود وحید الدین نے اس اخبار کی ادارت کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دی۔خاص بات یہ ہے کہ آزادی ہند کے وقت بھی سید محمود وحید الدین اس اخبار کے مدیر تھے۔ آزادی کے بعد جب ملک فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں تھا تو حیدر آباد میں بھی اس کی گونج سنائی دی۔ بلکہ بڑی شدت سے سنائی دی چونکہ اس وقت تک حیدر آباد نظام شاہی کے تحت تھا۔ 1948 میںیہاں ’پولس ایکشن‘ ہوا، جسے ’رہبردکن ‘کے مدیر سید محمودوحید الدین نے ’ملٹری ایکشن‘ سے تعبیر کیا۔ ’رہبر دکن‘ ستمبر 1948 میں حیدرآباد کی سیاسی تبدیلی تک زندہ رہنے کے بعد بند ہوگیا۔اب ایک نئے نام سے اخبار کے لیے کسی معتبر شخص کی تلاش شروع ہوئی تو رہبر دکن کے ایک سابق رکن منظور حسن پر نظر گئی جو کہ رہبر دکن کے انتظامی امور کے ذمہ دار تھے اور نئے اخبار کی ادارت کے لیے بہت موزوں بھی تھے۔ لہٰذا اب پرانے اخبار کا نیا نام ’رہنمائے دکن ‘ رکھا گیا۔ جو جولائی 1949 کومنظر عام پر آیا۔مدیر کی حیثیت سے منظور حسن کا انتخاب عمل میں آیا۔ اخبار کے تمام انتظامی امور کی ذمے داری سید محمود نے سنبھالی۔ منظور حسن کی سبکدوشی کے بعد محمود صاحب نے اس کی ادارت کی ذمے داری سید لطیف الدین قادری (وقار الدین قادری کے بڑے بھائی) کے سپرد کی جو سن 1984 تک ’رہنمائے دکن ‘ سے وابستہ رہے۔ سید لطیف الدین قادری ایک اعلٰی درجے کے صحافی تھے انھوں نے ’رہنمائے دکن‘ کو مقبولیت عطا کرنے کی غرض سے کئی اہم کام انجام دیے۔ سید لطیف الدین قادری کے انتقال کے بعد ان کے چھوٹے بھائی سید وقار الدین نے ’رہنمائے دکن‘ کی ادارت کی ذمے داری سنبھالی۔سید وقار الدین کی ادارت میں اس اخبار کے سنہری دور کا آغاز ہوا۔وقارا لدین صاحب کی نگرانی میں ’رہنمائے دکن‘ کو ہمہ گیر شہرت حاصل ہوئی ایسا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وقار الدین صاحب خود ایک اعلیٰ درجے کے صحافی ہیں گزشتہ کئی برسوں سے ادب و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ آپ نے جس وقت اس اخبارکی ذمہ داری بطور مدیر اپنے کندھوں پر لی وہ وقت اور حالات کافی نازک تھے۔ اخبار نکالنا اور اسے جاری رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھالیکن باوجود اس کے وقار الدین نے بہترین انداز میں اس اخبار کو جاری رکھا اور نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس اخبار کو ہندوستان کے دیگر اردو اخبارات کی فہرست میں صف اوّل پر پہنچا دیا۔ مئی 2015 میں سید وقارالدین کو ’ستارۂ فلسطین ‘ جیسے باوقار اعزاز سے نوازا گیا۔ آج ’رہنمائے دکن‘ شہر حیدرآباد سے نکلنے والے بڑے اخبارات میں شامل ہے۔ اداریوں کی حق گوئی و بے باکی،مدیر کا نڈر و بے خوف ہونا یہ ابتدا ہی سے رہنمائے دکن کا شیوہ رہا ہے۔بقول سید وقار الدین (مدیر روزنامہ رہنمائے دکن):’’ہم حق بات لکھنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے اور صحیح معنوں میں اردو صحافت اگر دکن میں نام کمائی ہے تو روزنامہ ’رہبر دکن‘ کی وجہ سے جو آزادی سے قبل بارہ تا چودہ صفحات پر مشتمل ہوتا تھا اور ہمارے نامہ نگار لندن، واشنگٹن،قاہرہ اور دلّی میں ہوتے تھے۔‘‘(حیدرآباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات: سید ممتاز مہدی، ص 390)غالباً یہ اردو کا پہلا اخبار ہے جس کے نامہ نگار ملک کے تمام بڑے شہروں کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی موجود تھے۔ یہ اخبار اس زمانے میں بھی تمام پڑوسی ممالک کے علاوہ افغانستان، مصر،عرب ممالک اور انگلینڈ تک جاتا تھا۔’رہنمائے دکن‘ کی مقبولیت کے لیے کئی عناصر کار فرما رہے ہیں جن میں اس اخبار کے مختلف کالمس کا نمایاں رول رہا ہے جن کا مختصر تعارف درج ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔پسند اپنی اپنی: رہنمائے دکن کا مستقل ہفتہ واری کالم تھا۔جو سن 1959 میں شروع کیا گیا۔اس کالم کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں قارئین کو ایک عنوان دیا جاتا تھا اور اس عنوان کے تحت ان سے اشعار لکھواکر اسے شائع کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کالم کو قارئین میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل اردو میں رہنمائے دکن کے متعلق ذوق پیدا ہوا۔ہماری جامعات: ہماری جامعات رہنمائے دکن کے دیگر کالمس کی طرح ایک غیر معمولی کالم تھا۔ اس کالم میں جامعہ عثمانیہ سے وابستہ بلند پایہ شخصیات کا تعارف پیش کیا جاتا تھا،ساتھ ہی جامعہ عثمانیہ کے مختلف شعبہ جات کی سرگرمیوں کا جائزہ بھی اس کالم کے تحت لیا جاتا تھا۔یہ سلسلہ کافی برسوں تک جاری رہا۔اس کالم کو اردو داں طبقے میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔گلہائے صد رنگ:یہ روزنامہ رہنمائے دکن کا ایک مستقل کالم تھا۔جو ہر دوشنبہ کو پابندی سے شائع کیا جاتا تھا۔ ’گلہائے صدرنگ‘ کالم کے ذیل میں حید رآباد کے نو مشق شاعروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ یہ کالم سن 1961 میں شروع کیا گیااور تقربیاً دس برس جاری رہا۔ اس کالم میں شاعروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ان کے کلام پر مختصر رائے بھی پیش کی جاتی تھی۔اس کالم کی بدولت شہر حیدرآباد میں نو مشق اردو شاعروں کا اچھا خاصا گروہ تیار ہوا۔ ان شاعروں میں حمید الدین شاہد،فیض الحسن، صلاح الدین نیر (مدیر ماہنامہ خوشبو کا سفر) رئیس اختر، باقر منظور، رؤف خیر، ابوالفضل محمود، قطب سرشار، ڈاکٹر راہی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں بعد میں یہی شعرا اردو کے بلند پایہ شاعر ثابت ہوئے،اور ادب کے میدان میں اپنا نام کمایا۔بچوں کا صفحہ: ’رہنمائے دکن‘ میں شائع ہونے والے اس صفحہ کو اہل نظر نے بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھا۔ رہنمائے دکن میں یہ صفحہ بڑا مقبول رہا۔ ’بچوں کا صفحہ‘ میں ادب اطفال سے متعلق مختصر کہانیاں،نظمیں،پہیلیاں وغیرہ شائع کی جاتی تھیں۔تخلیق کار بچوں کے نام بھی اس صفحہ میں شائع ہوا کرتے تھے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔یہ اس روزنامے کی ایک نئی پہل تھی جو کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی۔اس صفحہ کے باعث بچوں کا لکھنے پڑھنے کا رجحان بڑھا۔اس صفحہ کے زریعے بچوں کو ادب سے جوڑنے میں یہ روزنامہ کامیاب رہا۔یہ اس دور کا واحد روزنامہ تھا جس میں بچوں کا صفحہ پابندی کے ساتھ شائع ہوا کرتا تھا۔کچھ عرصہ جاری رہنے کے بعد اس صفحہ کا نام بدل کر ’طلبا اور نوجوانوں کا صفحہ‘کردیا گیا۔طلبا اور نوجوانوں کا صفحہ:اس صفحہ میں اردو کے اْبھرتے ہوئے نوجوان قلمکاروں کی تخلیقات کو پیش کیا جاتا تھا۔ دیگر زبانوں کے تراجم بھی اس صفحہ کا حصہ بنتے رہے۔ اس کے علاوہ اس صفحہ میں تنقید و تبصرہ پر بھی بات کی جاتی تھی جس کو بہت پسند کیا گیا۔بہر کیف رہنمائے دکن کے دیگر صفحات کی طرح اس صفحہ کو بھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔رہبر و رہرو:حیدرآباد دکن میں طنز و مزاح کی ایک بہترین روایت رہی ہے۔رہنمائے دکن نے بھی اس روایت کو جاری رکھا۔رہبر و رہرو ایک مزاحیہ کالم تھا جسے بہت شہرت ملی۔اس کالم میں سنجیدہ اور باوقار طنز کا پہلو نمایاں رہا۔ شفیع الدین ناکارہ اس کالم کو ترتیب دیا کرتے تھے۔ ان کے بعد پروفیسر سلیمان اطہر نے اس کالم کو جاری رکھنے میں اہم رول ادا کیا۔پروفیسر سلیمان اطہر جاویدکا نام اردو اور حیدرآباد دونوں کے لیے تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ ایک اعلٰی ادیب و نقاد تسلیم کیے جاتے ہیں کئی برسوں تک’رہنمائے دکن‘ کے ادبی صفحہ’رفتار سیاست ‘ سے وابستہ رہے۔ جب وہ آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھے ایک کہانی لکھ کر اشاعت کی غرض سے ’رہنمائے دکن‘ کو بھیجی جو اس اخبار میں بہت جلدی شائع ہوگئی۔ یہ اس کم سن طالب علم کی پہلی ادبی تحریر تھی جو منظر عام پر آئی۔اس اشاعت کے بعد اردو کے اس خدمت گار کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سلیمان اطہر جاوید اردو کے بڑے ادیب بن گئے۔ کئی برسوں تک انھوںنے اس روزنامے میں ملازمت بھی کی۔ ’رفتارِ سیاست‘ رہنمائے دکن کا ایک مقبول صفحہ تھا۔ لوگ صرف’رفتار سیاست‘ کی خاطر دوشنبہ کا خاص ایڈیشن خریدا کرتے تھے۔ تروپتی یونیورسٹی میں تدریسی شعبہ سے وابستہ ہوجانے کے بعد رہنمائے دکن کی ملازمت کو انھوں نے خیر اباد کہا لیکن رہنمائے دکن کے لیے کافی عرصہ تک مضامین لکھتے رہے۔ڈاکٹر مصطفی کمال صاحب (مدیر ماہنامہ شگوفہ )کی رہنمائے دکن سے دلی وابستگی تھی۔وہ اس کے ’شعر و ادب‘ کے صفحہ سے وابستہ رہے۔ڈاکٹر سید مصطفی کمال نے ’شعر و ادب‘ کے صفحہ کے ذریعہ بہت سے ادیبوں اور شاعروں کو ادبی دنیا سے متعارف کرایا۔تقریباً دس برس وہ اس اخبار سے جڑے رہے۔اخبار کے انتظامی امور میں وہ ایک ذمہ دار شخص تھے۔ وقار الدین اور منظور حسن صاحب سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔وہ جتنا عرصہ اس روزنامہ کا حصہ رہے وہ دور رہنمائے دکن کی خدمات کا سنہرا دور کہلاتا ہے۔ ادبی صفحہ کی ترتیب کے علاوہ ڈاکٹر مصطفی کمال نے اخبار کے لیے اداریے بھی لکھے جنھیں کافی سراہاگیا۔ دور حاضر میں حیدرآباد کے نامور ماہنامہ ’شگوفہ‘ کے مدیر کی حیثیت سے آپ خدمات انجام دے رہے ہیں۔اخبار کے عمومی دور ہی سے اردو کی مختلف اصناف کا احاطہ رہنمائے دکن کے ادبی صفحہ میں کیا گیا۔افسانہ،ناول وغیرہ پر توجہ دی گئی لیکن زیادہ زور شاعری پر رہا۔ اس ضمن میں مدیر رہنمائے دکن سید وقار الدین رقمطراز ہیں:’’ہم نے شاعری کے لیے زیادہ جگہ رکھی ہے چوں کہ اس کاResponseبہت ہی اچھا ہے۔ چونکہ ہر اخبار کو اپنے قارئین کی خواہش کے مطابق ہی مواد دینا ہوتا ہے لہذا ہمارے اخبار میں جتنا مواد ادب کے بارے میں شائع ہوتا ہے اس کا بڑا حصہ شعر و شاعری کی نذر ہوتا ہے۔اس کی وجہ عوام کی پسند ہے۔‘‘(حیدرآباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات: سید ممتاز مہدی، ص391)صفحہ’گلستان ‘: اس روزنامہ کے تمام صفحات غیر معمولی ہوتے ہیں جیسے کھیل کود کا صفحہ، فلمی صفحہ، روزگار سے متعلق صفحہ وغیرہ، لیکن جس صفحہ کے باعث اس روزنامہ کو غیرمعمولی مقبولیت حاصل ہوئی وہ ’گلستان‘ہے۔ یہ صفحہ در اصل خالص ادبی نوعیت کا حامل تھا۔اردو کے مشہور و معروف صحافی، شاعر حسن فرخ یہ صفحہترتیب دیتے تھے۔ ’گلستان‘نے حیدرآباد کے کئی اہل قلم کی ذہنی و ادبی نشوونما میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اردو کے کئی نئے قلمکار، ادیب اور شاعر اس صفحہ میں چھپ کر پروان چڑھے۔ اس ادبی صفحہ نے نئے لکھنے والوںکی تربیت کافریضہ انجام دیا۔’گلستان‘ ادبی صفحہ میں اردو کے جن نامور شعرا و ادبا کے نام ہمیشہ جڑے رہے ان میں پروفیسر مغنی تبسم، پروفیسر سلیمان اطہر جاوید، مضطر مجاز، محمد حبیب بیدل شاذ تمکنت، احمد قاسمی، قدیرانصاری، حامداکمل، عابد صدیقی، نادراسلوبی، ڈاکٹرمجیدبیدار،بشیر احمد،نادر المسدوسی، ڈاکٹر راہی، انیس احمد انیس، حسن فرخ، کامل حیدرآبادی، حیدر حسین، اقبال شیدائی، حامد رضوی، نسیم اعجاز نسیم، طاہر حسین طاہر، روبینہ نازلی، ضامن علی حسرت، رشید رہبر، شوکت علی دردوغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب یہ صفحہ ’رہنمائے دکن‘ کی روح کہلاتا تھا۔ بروز پیر پابندی کے ساتھ یہ صفحہ شائع ہوتا تھا۔ ’گلستان‘ میں منتخب نامور شعرا کی غزلیں،نظمیں، رباعیات، حمد، نعت، منقبت، قطعات وغیرہ کو جگہ دی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ نثری و تنقیدی مضامین بھی اس ادبی صفحہ کا اہم حصہ تھے۔ہندوستان اور بیرون ملک کے مختلف حصوں سے تخلیق کار اپنی تخلیقات ارسال کرتے تھے۔ ’گلستان‘ کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ اس صفحہ میں اردو زبان و ادب سے متعلق منعقد ہونے والے کانفرنس، سمیناراور ادبی مشاعروں کی روداد کو بھی بڑے مؤثر پیرائے میں پیش کیا جاتا تھا۔اس صفحہ میں نئے لکھنے والوں کو بطور خاص ترجیح دی جاتی تھی۔روزنامہ’رہنمائے دکن‘کا دائرہ صرف ادب اور سیاست تک محدود نہیں ہے۔ اپنے اسلامی مزاج کے باعث بھی اس روزنامے کو بہت قدر و منزلت حاصل ہوئی۔ ’رہنمائے دکن‘ میں محرم اور اعراس وغیرہ کے مواقع پر خراج عقیدت والی تخلیقات کو بھی اس روزنامہ میں جگہ دی گئی۔ میلادالنبیؐ، عیدین، شب معراج، شب برات، شب قدرکے مواقع پر خصوصی اشاعتیں عمل میں لائی گئیں۔ قومی تہوار 26جنوری اور15 اگست جیسے موقعوں پر آزادی ہند سے متعلق تحریریں شائع ہوئی۔ علاوہ ازیں ’رہنمائے دکن‘ نے کئی یاد گار نمبر بھی شائع کیے ہیں جن میں ’غالب نمبر‘،’اقبال نمبر‘جامعہ عثمانیہ کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر ’گولڈن جوبلی نمبر‘ آصف سابع نمبر وغیرہ قابل ذکر ہیںجنھیں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔’رہنمائے دکن‘نے اردو زبان کے فروغ، ترقی و ترویج کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے مفادات کی ترجمانی بڑی بے باکی کے ساتھ کی۔ قومی، بین الاقوامی، ریاستی اور مقامی خبریں معتبر ذرائع سے حاصل کر کے عوام تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی۔یہی نہیں بلکہ رہنمائے دکن، صحافت کو ادب عالیہ بنا کر پیش کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کے علاوہ کئی نوجوانوں کی تربیت کر کے انھیں کامیاب صحافی بنایا۔جس کی وجہ سے آج بھی یہ روزنامہ عوام و خواص میں مقبول ہے اور حیدرآباد کی صحافت میں اس اخبار کو خاص مقام حاصل ہے۔حوالہ جات:.1حیدرآباد دکن کے اردو اخبارات: ایک جائزہ،محمد اعجاز الدین حامد،ص،12,61.2حیدرآباد میں اردو صحافت:طیب انصاری،ص11,48.3حیدرآباد کے اردوروزناموں کی ادبی خدمات، سیدممتاز مہدی، ص43,390,391.4اردو صحافت آزادی کے بعد: ڈاکٹر افضل مصباحی،ص281.5اردو میڈیا:سید فاضل حسین پرویز،ص82Dr. Shaikh ImranAsst.Professor, Dept.of UrduVasantrao Naik Govt.Inst.of Arts & Social Sciences,Nagpur 440001Mob: 09921986904ماہنامہ اردو دنیا۔ ستمبر 2020" اردو زبان و ادب پر فارسی زبان و ادب کے اثرات مضمون نگار: نصرت امین,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/09/,"یہ بات ہم بحسن و خوبی جانتے ہیں کہ ’اردو زبان کا تعلق دنیا کے سب سے بڑے لسانی خاندان ’ہندیورپی خاندان ِالسنہ ‘ کی ’ہندایرانی شاخ‘ (Indic/Indo-Aryan)سے ہے، جو جدید ہند آریائی زبانوں کے خاندان کی کھڑی بولی سے تعلق رکھتی ہے۔اس کا رسم الخط مغربی ہند کی کھڑی بولیوں کے برعکس ’سامی‘ خاندان سے تعلق رکھنے والی عربی زبان سے ملتا ہے۔’املا نامہ ‘کے مقدمہ میں صاحبِ مقدمہ لکھتے ہیں:’’اردو ایک ہند آریائی زبان ہے، لیکن اس کا رسم الخط سامی خاندان کی زبان عربی سے ماخوذ ہے۔‘‘(املا نامہ ، مرتب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی، ص 13)قواعداردو کے مقدمے میں صاحبِ مقدمہ لکھتے ہیں:’’اردو ،ہندی نژاد ہے اورقدیم ہندی پراکرت کی آخری اور سب سے شائستہ صورت ہے۔‘‘(قواعدا ردو مرتبہ عبد الحق، مطبوعہ انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی2011،مقدمہ ص 8)اردو زبان طویل عرصے تک فارسی زبان و ادب اور اس کی تہذیب کے زیرِ اثر رہی ہے۔اردو زبان پر یہ اثرات آج بھی بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ فارسی زبان کے مقابلے میں عربی زبان جو سامی زبانون کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، اس کے بھی اثرات اردو زبان و ادب پر پڑے ہیں ۔مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں:’’اردو نے اپنے ارتقا کے دوران کئی زبانو ں کے اثرات قبول کیے ہیں، جن میں عربی، فارسی اور ترکی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔‘‘(اردو کی لسانی تشکیل: مرزا خلیل احمد بیگ، ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ2012، ص 193)فارسی زبان چونکہ ہند و ایرانی زبانوں کے خاندان سے ہی تعلق رکھتی ہے اس نسبت سے اردو اور فارسی زبان میں فطری رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ ہند و بیرونِ ہند کی بے شمار زبانوں کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات بھی اس زبان میںشامل ہیں۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ احسن معلوم ہوتا ہے کہ ’اردو زبان نے دیگر زبانوں کے الفاظ و اصطلاحات اور مرکبات کو اس خوش اسلوبی کے ساتھ قبول کیا ہے گویا یہ تمام الفاظ و اصطلاحات اس زبان کی اپنی ہوں‘ ۔ اس زبان نے دوسری زبانوں کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات کو ’نا‘ کبھی نہیں کہا۔ غالباً اسی اخذ و اشتقاق اور اپنا لینے کی بنیاد پر اردو زبان کو مخلوط زبان یا ساجھی وِراثت کی زبان کہا جاتا ہے۔ صاحبِ املا نامہ، مقدمہ میں لکھتے ہیں:’’اردو دنیا کی ان چندانتہائی متمول زبانوں میں سے ہے جن کا دامن اخذو استفادے کے اعتبار سے ایک سے زیادہ لسانی خاندانوں سے بندھا ہوا ہے۔اس کے ذخیرۂ الفاظ کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہند آریائی مآخذ یعنی سنسکرت پراکرتوں اور اپ بھرنشوں سے آیا ہے تو ایک چوتھائی حصہ جو در اصل ہند آریائی گروہ کی زبانوں میں اس کے امتیاز وافتخار کا ضامن ہے، سامی و ایرانی مآخذ یعنی عربی وفارسی زبانوں سے لیا گیا ہے۔‘‘(املا نامہ ،مرتب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی ، ص 13)اردو کی یہی خصوصیات زبانوں کی سطح پر اسے سیکولر شکل عطا کرتی ہے۔ اردو زبان اور لسانیات کے دیباچے میں گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:’’اردو کا ایک نام سیکولرازم یعنی ’ غیر فرقہ واریت‘ اور ’بقائے باہم ‘ بھی ہے۔ اردو نے صدیوں سے اس کی مثال قائم کی ہے اور ہر طرح کی تنگ نظری اور دقیانوسیت کے خلاف محاذ باندھا ہے۔‘‘(اردو زبان اور لسانیات: گوپی چند نارنگ، رام پور رضا لائبریری 2006 ، ص 11)یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اردو زبان نے لسانی، ادبی اور عام بول چال کی سطحوںپر عربی اور فارسی زبانوں کے اثرات قبول کئے ہیں ۔ اردو زبان نے عربی کے مقابلے میں فارسی زبان کا رنگ اور ڈھنگ کہیں زیادہ اختیار کیا ہے۔ نیز جہاں تک عربی رنگ و ماحول کی بات ہے تو وہ بھی بذریعہ فارسی اپنایا ہے۔ اس کی وجہ جگ ظاہر ہے کہ عرب تاجروں کا آنا جانا ہمارے یہاں برسوں سے ہوتا رہا ہے ،لیکن یہ آنا جانا بس تجارتی سطح تک محدود رہا ہے۔ اس کے برعکس فارسی زبان بولنے والے ہندستان میںحکومتی سطح تک پہنچے ۔ یہ الگ تاریخی بحث ہے کہ یہ لوگ اس ملک میں کس حیثیت سے داخل ہوئے؟ یہاں یہ پہلو دل چسپی سے خالی نہیں ہے کہ انگریزوں نے کم و بیش دو سو سال تک اس ملک پر حکومت کی لیکن انہوں نے کبھی اس ملک کو اپنا وطن تسلیم نہیں کیا جبکہ ’آریوں اور مغلوں‘ نے اس ملک میں رہائش اختیار کی تو یہیں کے ہو رہے۔اردو میں دخیل الفاظچونکہ اپنی اور پرائی ہر زبان سے استفادہ کرنا اردو کا شیوہ رہا ہے ایسے میں یہ بات قدرے آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ ’اردو زبان میں مستعار اور دخیل الفاظ کا بڑا ذخیرہ ہے‘۔پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں:’’زبان جتنا دوسری زبانوں سے لے گی اتنی ہی سرمایہ دار ہوگی۔‘‘(خواب باقی ہیں ، آل احمد سرور، ایجوکیشن بُک ہائوس یونیورسٹی مارکیٹ، علی گڑھ 1991، ص 338)دخیل الفاظ کی نسبت اردو میں مستعار الفاظ کی تعداد زیادہ ہے۔ ذیل میں چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں: زندگی، زندہ دلی، شادی اور برات، بالٹی، دال وغیرہ۔یہ سب الفاظ اردو زبان کے ساتھ ہی بول چال میں اس طرح سے گھل مل گئے ہیں کہ آج ان میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔لسانی سطح پر پڑنے والے اثراتاردو زبان سنسکرت کی ایک ترقی یافتہ شکل سورسینی اَپ بھرنش پر پڑنے والے مختلف زبانوں کے اثرات کا نتیجہ ہے ۔ یہ نتیجہ باہر سے آنے والی ترک، عرب، ازبک، ایرانی اور انگریز قوموں کے مقامی لوگوں سے باہم اختلاط کی وجہ سے ہے۔ چونکہ ہندوستان میںباہر سے آنے والوںمیں بیشتر لوگوں کا تعلق عرب، فارس اور ترکی سے تھا۔ جو یہاںکی خوش گوارآب و ہواکی بنا پر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ حسنِ اتفاق کہ انہیں یہاں حکومت کرنے کا بھی موقع مل گیا،جسے یہ لوگ سیکڑوں برس تک بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ چلاتے رہے۔ ا ن کے حکومتی طریقۂ کاراور عوام سے باہم اختلاط کے اثرات یہاں کے ہر شعبے پر پڑے، جس میں اردو زبان بھی شامل ہے۔ جو مقامی، مضافاتی اورباہر سے آنے والوں کے درمیان رابطے کی بھی زبان تھی لیکن چونکہ حکومت کی زبان فارسی تھی اس لیے مقامی زبانوں جن میں اردو فارسی سے نسبتاً قریب تھی اس پر اس کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔صوتی سطح پر فارسی کے اثراتاردو کا صوتی نظام اگرچہ مختلف زبانوں سے آئی ہوئی آوازوں کا مجموعہ ہے۔ اردو چوں کہ ایک ہند آریائی زبان ہے اس لیے اس میں خالص ہندی نژاد آوازوں کی تعداد زیادہ ہے، مثلاً ٹ، ڈ،ڑ،بھ، پھ، تھ، دھ۔لیکن اس کے صوتی نظا م پر چار لسانی خاندانوں کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں ۔الف:عربی و فارسی کے اثرات:خ ،ز،ف،ق،غ،خالص عربی و فارسی آوازیں ہیں ،جو ان زبانوں سے براہِ راست مستعار عمل کے ذریعے اردو میں در آئی ہیں ۔ یہ آوازیں اصل کی رو سے اگرچہ اپنی شناخت یا اپنی آوازیں رکھتی ہیں ، لیکن اردو زبان میں ان کی ایک ہی آوازیں ہو گئی ہیں ۔اردو نے ایسا ہندوستانی نہج پر کیا ہے۔ ہاں مدارس میں آج بھی ان حروف کی قرات ان کی اصل آوازوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔ب:ژ،آواز خالص فارسی ہے، جو اس زبان کے مستعار الفاظ کے ذریعے اردو کے صوتی نظام کا ایک حصہ بن گئی ہے۔یہ آواز صرف فارسی الفاظ مثلاً مژدہ، مژگاں ، ژالہ، پژمردہ، اژدہا وغیرہ میں پائی جاتی ہے۔ اب یہ اردو زبان میں بھی مستعمل ہے۔ج:کوزی آوازیں جیسے ٹ،ڈ،ڑ،وغیرہ خالص دراوڑی آوازیں ہیں جو بالواسطہ طور پر اردو میں مستعار الفاظ کے ذریعے در آئی ہیں۔و:ہا کاری آوازیں خالص دیسی آوازیں ہیں جو اردو کے صوتی نظام کا بنیادی حصہ ہیں ۔اس کے علاوہ اردو زبان میں بے شمار فارسی کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات موجودہیں ۔ یہ سب آج بھی اسی روانی کے ساتھ بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ ذیل میں چند الفاظ بطور مثال پیش کیے جارہے ہیں:چشم، اشک، نماز ، بہشت، برزخ، عدالت،اناج، آب پاشی، آرائش، آداب و تسلیمات،انگشتری، بریانی، مرغ مسلم وغیرہ۔اردو زبان میں بعض الفاظ اس طرح سے در آئے ہیں کہ وہ حقیقت میں عربی الاصل تھے ،لیکن ان پر فارسی زبان کے لاحقے یا سابقے لگا کر انھیں اردو بنا لیا گیا ہے۔ ذیل میں اس کی مثالیں دیکھیں:لفظ’شان ‘کے معنی بدل کر اس پر فارسی کا لاحقہ لگایا اور شاندار بنا لیا گیا۔ اسی طرح لفظ ’نقش ‘ پر خلافِ قاعدہ تائے وحدت لگا کر ’ نقشہ کشی، نقش کشی، نقشہ نویس اور نقشہ باز‘بنا لیا گیا۔یوں تو اردو کے صوتی نظام پرعربی و فارسی کے علاوہ زبانوں کے بھی اثرات نمایاں ہیں، لیکن یہاں صرف فارسی زبان کے تعلق سے بات کرنا مقصود ہے۔ اس کی ایک مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔ جیسے حرف ’’ ز‘‘ جو فارسی زبان سے اردو میں منتقل ہوا ہے۔صرفی سطح پر اردو زبان پر پڑنے والے اثرات اس طرح ہیں۔ ذیل میں واحد سے جمع بنانے کا قاعدہ دیکھیں:استاذ سے اساتذہ۔ اخبار سے اخبارات ۔ مشکل سے مشکلات۔ تخیل سے تخیلات وغیرہ۔مرکباتتوصیفی، اضافیمرکبات کے معاملے میں بھی اردو زبان پر فارسی زبان کے اثرات نمایاں ہیں ۔ جیسے مردُم شماری، شیر خوار اور گرانقدر وغیرہ ۔اسی طرح نحوی سطح پر جیسے اضافت وغیرہ بھی فارسی سے ہی مستعار ہیں ۔ مرکبِ اضافی کی مثالیں جیسے لبِ دریا، زیرِ لب، زیرِ انتظام ، دردِ دل، چراغِ محفل، شمرِ محفل اور باغِ عدن وغیرہ۔اردو کا طرزِ تحریر اور اندازِ کتابت(نستعلیق)اردو کا طرزِ تحریر اور اندازِ کتابت’نستعلیق‘ کہلاتا ہے۔ یہ بھی فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔ خواجہ میر علی تبریزی نے ’خطِ نسخ‘ اور ’تعلیق‘ کو ملا کر ایک نیا رسم ِ خط دریافت کیا جو ’’نستعلیق کہلایا۔ مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں:’’ایران کے ایک عالم خواجہ میر علی تبریزی نے عربی کے دورسومِ خط ’نسخ’ اور’ تعلیق‘ کو ملا کر ایک نیا رسمِخط ایجاد کیا جو ’نستعلیق‘ کہلایا ۔ اردو کے لیے آج یہی رسم ِ مروج ہے اور یہ اردو کا اپنا رسمِ خط بن گیا ہے۔‘‘(اردو کی لسانی تشکیل: مرزا خلیل احمد بیگ،ایجوکیشنل ہائوس علی گڑھ 2012، ص 196)اردو ادب پر فارسی کے اثراتاردو زبان پر فارسی زبان و ادب کے اثرات کس طرح یا کس حد تک پڑے ،اس کو قدرے آسانی سے سمجھنے کے لئے ہم اردو ادب کو دو زمروں میں تقسیم کر لیتے ہیں ۔ شعری ادب اور نثری ادب۔شعری ادب: دورِ حاضر کے شاعروں میں یا ماضی قریب کی شاعری میں مغربی یا جدید رجحانات صاف نظر آتے ہیں ۔ لیکن اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اردو زبان کا شعری سرمایہ مکمل طور سے فارسی زبان و ادب سے متاثر ہے بلکہ شعری اصناف براہِ راست فارسی سے ہی مستعار ہیں۔ مثال کے طور پر مثنوی، رباعی، قطعہ،قصیدہ وغیرہ۔اردو میں مرثیہ لکھنے کا رواج فارسی سے ہی آیا ہے۔ فارسی میں مثنوی کی روایت بہت مقبول رہی ہے۔ اردو زبان میں بھی یہ صنف وہیں سے آئی ہے۔ اس کے علاوہ اصول اور موضوعات کی سطح پر بھی فارسی کے اثرات ملتے ہیں ۔برِّصغیرہر اعتبار سے خوش نصیب خطہ رہا ہے۔یہاں ہر طرح کا موسم، ندیاں اور جھرنے اورپہاڑ،چرند و پرند اور درند اور انسانوں میں کالے اور گورے، چپٹی ناک سے لے کر لمبی ناک والے سب کچھ پہلے سے ہی یہاں موجود ہیں۔ بلکہ ندیوں کے معاملے میں تو یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جس کی گود میں سب سے زیادہ ندیاں بہتی ہیں ۔ ڈاکٹر محمداقبالنے اس بات کو اس طرح کہا ہے؎گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاںلیکن یہاں کے شعرا نے اپنے کلام میں ’طوطا ، مینا اور کوئل‘ کی جگہ بلبل و عندلیب کا ذکر کیا ہے۔ مقامی درختوں جیسے ’تاڑ، چنار، نیم، برگد اور لپٹس ‘ کی جگہ سَروکا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ندیوں کے معاملے میں ’راوی، جہلم،گھاگھرا، سریوـ‘یا دیگر ندیوں کی جگہ نیل و فرات اور دجلہ کا ذکر کیا ہے۔ شاعر نے ہندوستانی پھولوں جیسے ’بیلا، چمپا،، موتیا،گیندا اور رات کی رانی کی جگہ ایرانی پھولوں کا ذکر کیا ہے۔ لاجونت کی جگہ نرگس کا ذکر کرتا ہے۔ کوئل و پپیہے کی جگہ بلبل و قمری کا ذکر کرتا ہے۔ ہمالیہ و ہندو کش کی جگہ طور و کوہِ قاف کا ذکر کرتا ہے۔ عشق و عاشقی کا ذکر کرتا ہے تو لیلیٰ و مجنوں کی بات کرتا ہے۔ اسی طرح اردو شاعروں نے خمریات پر قلم اُٹھایا تو ایرانی شاعر ’عمر خیام‘ کو اپنا ماخذ و مرجع بنایا۔اس معاملے میں تو ہندوستان کی دیگر زبانوں نے بھی استفادہ کیاہے۔ ہندی شاعر ’ ہری ونش رائے بچن ‘ کی ’مدھوشالا‘ اس کی بہترین مثال ہے۔اس کے علاوہ اردو زبان کے مشاہیر شعرا نے بزبانِ فارسی سخن بھی فرمایا ہے۔ اردو زبان کا شاعرِ اعظم ’مرزا غالب ‘بقول کسے اپنی اردو شاعری کے مقابلے میں اپنے فارسی اشعار پرکہیںزیادہ نازاں تھا۔ اپنی فارسی دانی پر بھی اسے کمال درجہ فخر تھا ۔ جبکہ یہ عجیب طُرفہ تماشہ ہے کہ آج اس کا وجود بڑی حد تک اس کی اردو شاعری کی وجہ سے ہے۔ کم از کم اردو زبان و ادب کا مجھ جیسا طالب علم غالب کو ان کے اردو کلام کی وجہ سے ہی جانتا ہے۔اسی طرح اردو زبان کے ایک اور مشہورشاعر ڈاکٹر محمداقبال نے تو فارسی کے کئی دیوان چھوڑے ہیں۔’اسرارِ خودی‘ ان کا پہلا فارسی شعری مجموعہ ہے۔ محمد اقبال کو بھی اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ اردو زبان و ادب کے مقابلے میں فارسی زبان وا دب کا دائرۂ کار قدرے وسیع ہے۔ نیز وہ زبان و ادب سے جو کام لیناچاہتے ہیں اس کے لیے یہی فارسی زبان ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر ’ سید عبد اللہ‘اپنے ایک مضمون ’تشریحِ اقبال‘میں لکھتے ہیں:’’اقبال کی زبان حکیمانہ اصطلاحوں اور ترکیبوں سے پُر ہے۔ عام خصوصیات کے اعتبار سے اقبال پر حافظ، فگانی، جلال اسیر،سالک یزدی، رضی دانش،ابو طالب کلیم اور طالب آملی وغیرہ کا بڑا اثر ہے۔ لیکن حکیمانہ مضامین کے لیے انھوں نے رومی، خاقانی،بیدل ااور طالب کی زبان استعمال کی ہے۔‘‘ ( آثارِ اقبال ص 267)اردو کے شعری سرمائے میں درج ذیل لفظیات کا استعمال خوب ملتا ہے:رخِ زیبا، چہرہ یار، قامت زیبا، دراز قامت، دراز گیسو، موجِ تبسم، روبہ قضا، ماہِ نَو، صورتِ طائوس، چشمہ آتش، چشمِ سوزن، چشمِ آہو، رنگِ یاقوت وغیرہ۔ایک زمانے تک اردو زبان کا ہر شاعر فارسی میں ضرور کلام موزوں کرتا تھا ۔ بلکہ فارسی زبان میں سخن کر کے اپنے شعری کمالات کو پرکھتا تھا۔ سامنے والا بھی اسی سے اس کی لیاقت کا اندازہ کرتا تھا۔ جس طرح مشاہیر شعرا نے فارسی زبان میں غزلیں کہی ہیں اسی طرح آج بھی لوگ بزبان فارسی کلام موزوں کررہے ہیں ، اگرچہ پہلے کی طرح نہیں۔بارہا کہا جاتا ہے کہ اردو زبان و ادب کو سمجھنے نیز کلاسیکی ورثے کی سُن گُن کے لیے ناگزیر ہے کہ فارسی زبان و ادب سے واقفیت حاصل کی جائے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ چونکہ اردو زبان و ادب کا بیشتر سرمایہ عربی و فارسی سے مستعار ہے اس لیے اردو الفاظ اور جملوں کی درست قرأت کے لیے ان زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔نثری ادب: شعری سرمائے کے مقابلے میں اردو کا نثری سرمایا اول روز سے ہی مغربی ادب سے متأثر رہا ہے۔ فورٹ ولیم کالج ، ورنا کولر سوسائٹی ، علی گڑھ تحریک،انجمنِ پنجاب کی تحریک اور دہلی کالج سے لیکر مختلف دبستانوں تک مغربی زبان و ادب کے اثرات جا بجا نظر آتے ہیں لیکن یہاں بھی فارسی زبان و ادب کے اثرات موجود ہیں۔ میر امّن کے تراجم اس کی مثال ہیں۔ دکنی نثر پاروں میں بھی فارسی کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ صوفیائے کرام کی تحریریں اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے کلی طور پر فارسی کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اردو زبان کا نمائندہ شاعر میرتقی میر جنھیں اردو شاعری کا خدائے سخن بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے مختلف شاعروں کی سوانح حیات کو ’بزبانِفارسی‘ترتیب دیا۔ اس سے اس زبان کی مقبولیت اور رواج کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔عام بول چال:عام بول چال میں بھی فارسی زبان کی لفظیات کا استعمال بڑی روانی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بول چال کے کئی ایسے الفاظ ہیں جنھیں فارسی لاحقے اور سابقے یا اس کے بغیر بھی عام بول چال میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ذیل میں چند مثالیں دیکھیں:بہشت،نماز، پنج سورہ، پنج تن،مشت،ہفتہ، دوشنبہ، بریانی، دسترخوان، باورچی خانہ، غسل خانہ، نعمت خانہ، میز پوش، سفید پوش، پان دان، سُرمہ دانی، صراحی،بُت، سخن، دندان،ابرو، عارض، گیسو، نماز پنجگانہ، جائے نماز، نیم جان، نیم گرم، نیم حکیم،نا بینا، پر نوروغیرہ۔ اسی طرح بے شمار ایسے الفاظ ہیں جو فارسی کی نسبت سے اردو زبان میں داخل ہوئے ہیں۔مذکورہ بالا الفاظ اردو زبان میں اس طرح رائج ہیں جیسے اس کے اپنے ہوں ۔ان لفظیات کو ایک عام آدمی بھی بڑی خوبی کے ساتھ بولتا اور سمجھتاہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کے شعری اور نثری سرمائے کے ساتھ ہی عام بول چال پر بھی فارسی زبان و ادب کے گہرے اثرات ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ تین چار سو سالوں تک عظیم ہندوستان پر فارسی سرکاری زبان کے طور پر رائج رہی ہے۔ نیز پورا خطہ اس کی تہذیب و تمدن کے زیرِ اثر رہا ہے۔ مغلیہ سلطنت کی یہ سرکاری زبان تھی ۔ اس کے علاوہ برِ صغیر کے مسلمانوں نے مذہبی عقیدے کے طور پر عربی زبان کے بعد اسی زبان کو اپنایا۔ ہندوستان کے طول و عرض میں بالخصوص مدارسِ اسلامیہ میں فارسی زبان کی باضابطہ تعلیم و تدریس آج بھی ہوتی ہے۔ سعدی کی گلستاں وبوستاں اور گلزارِ دبستاںکئی نسلوں نے پڑھی ہے۔ یہ کتابیں آج بھی بعض مدارس کے نصاب میں شامل ہیں۔عدلیہ اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری محکموں میں آج بھی فارسی کی بے شمار لفظیات کا استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طورپرفردِ جرم، مو قعۂ واردات،عدالت، دفعات، وکیل اور عدالتی حکم نامہ وغیرہ۔ایسے میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ یہاں کی زبان اور یہاں کے ادب پر فارسی زبان کے اثرات نہ پڑے ہوں ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو زبان ہی نہیں دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ ہی یہاں کی طرزِ معاشرت پر بھی فارسی تہذیب و تمدن کے اثرات پڑے ہیں ۔ فارسی زبان نے اس وقت اپنے سامنے اردو ہی نہیں، بلکہ کسی بھی زبان کو پنپنے نہیں دیا۔ حد تو یہ ہے کہ ’عربی زبان‘ جو یہاں پہلے سے موجود مسلمانوں میں مذہبی اعتبار سے مقبول تھی اور فارسی بولنے والے مغل حکمرانوں کی بھی مذہبی زبان تھی نیز فارسی ز بان بھی اس کے گہرے اثرات نمایاں ہیں، اسے بھی نہیں پنپنے دیا۔Dr. Nusrat AmeenRoom No. 59, Koyna Hostel, JNUNew Delhi-110067ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2020" شین مظفرپوری کی صحافت: نصف صدی کا قصہ مضمون نگار: ابرار احمد اجراوی,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/08/,"ولی الرحمن شیدا یعنی شین مظفر پوری (1920-1996) ہر فن مولا شخص تھے۔وہ مصنف و مدیر اور شہرت یافتہ شاعر و ادیب تھے،انھوں نے ہر صنف پر طبع آزمائی کی۔شعر و نثر، ادب و صحافت، ناول وافسانہ، ڈرامہ وخاکہ، طنز و مزاح، خود نوشت و انشائیہ، کیا ہے جس سے ان کی زنبیل خالی ہے۔ ان کے موضوعات و مضامین کی بھی کوئی تحدید و تعیین نہیں ہے،وہ افسانہ نگار توتھے،مگران کاذہنی وجود صحافت سے عبارت تھا،ان کے افسانے فنی اعتبارسے ذراکمزور بھی تھے کہ یہ بسیار نویسی اور کم سنی کے زائیدہ تھے اور جو لکھا اس پر نظر ثانی کی نوبت بھی کم ہی آئی، مگر ان کی صحافتی تحریروں پرپختگی اور کہنہ مشقی کا نقش ثبت تھا، ان کی صحافیانہ تحریروں پر حک و اضافہ کرنا اور اس پر ایک نقطے کا اضافہ کرنا بھی ہما شما کے لیے نا ممکن سا لگتا ہے۔ صحافت ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی تھی، انھوں نے پچاس سال سے زائد تک قلم و قرطاس کی محفل روشن کی، ہزاروں صفحات پر ان کی تحریریں ثبت ہیں، اس میں سب سے زیادہ حصہ صحافت کا ہی ہے۔ گرچہ ان کا صحافتی سرمایہ بہت کچھ مجلات و رسائل کی دھول پھانک رہا ہے کہ وہ ایک بے نیازاور خود دار صحافی تھے،شہرت و ناموری کا غم کم پالتے تھے، انھوں نے تین سو سے زائد افسانے لکھے، مگران کی ادبی زندگی کا اول و آخرصحافت ہی ٹھہرا، اسی سے ان کا ذہن لگا کھاتا تھا، انھوں نے اپنی قلمی زندگی کا آغازاخباری صحافت سے کیا اور صحافت ہی ان کا آخری پڑاؤ ثابت ہوا۔ 10 ؍افسانوی مجموعے، دو ناولٹ اور 5؍ ناول، طنز و مزاح کا مجموعہ، انشائیہ،ڈرامہ،خاکہ اور سیکڑوںمضامین، ان تمام تحریروں کے بین السطور میں بھی ان کی صحافیانہ صلاحیتوں کا جوہر نظر آتا ہے۔شین مظفر پوری کا وطن باتھ اصلی ضلع سیتا مڑھی تھا، یہیں انھوں نے ایک معمولی مذہبی اور کسان گھرانے میں آنکھیں کھولیں، ان کے والد حافظ تھے جو کلکتہ کی ایک مسجد میں امامت کرتے تھے۔تعلیم کی بسم اللہ بھی یہیں ہوئی، اور گاؤں کے مکتب میں ہی اردو، دینیات، فارسی اور قرآن شریف ناظرہ وغیرہ کی بنیادی تعلیم پائی، ان کی تعلیم واجبی اور بہت مختصر تھی، مدرسہ عالیہ کلکتہ سے ثانوی تعلیم پائی اور کلکتہ یونی ورسٹی سے انھوں نے میٹریکولیشن کیا تھا، یہی تھی ڈگری کے حوالے سے ان کی کل کائنات، نہ اعلی اداروں کی سند اور نہ سرمایہ دار گھرانے کی چمک دمک،مگر انھوں نے ڈگریوں سے محرومی کے باوجود زبان و ادب کے نقشے پر اپنی مستحکم شناخت قائم کی۔ان کا ذریعۂ اظہار تو اردوتھا، مگر انھیں اردو، فارسی اور انگریزی ہر ایک زبان پر عبور حاصل تھا۔اور 1937 کے آس پاس ایک بار ان کا قلم جب چل پڑا تو پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، مالی تنگ دستی، معاشی بحران، اقتصادی مسائل سے نجات کے لیے انھوں نے بسیار نویسی کا دامن تھاما کہ اسی راہ سے ان کی گزر بسر کا سامان نکلتا تھا،معاش کی تکمیل اور دہنی تسکین کی خاطر 24-24 گھنٹے قلم انگلیوں میں تھامے رہے،اتنا لکھا کہ پٹنہ اور کلکتہ ہی نہیں، دہلی اور لاہور کے رسالوں میں بھی ان کا نام پکی روشنائی سے لکھا جانے لگا۔اپنے ادبی اور صحافتی سفر کی داستان وہ خود اپنی تالیف’آدھی مسکراہٹ‘ کی ابتدائی سطروں میں یوںبیان کرتے ہیں:’’سنہ 1937 عیسوی میں(بہ عمر۱۷سال) بے سان و گمان ادب کا چسکا لگا تو ذہنی اور علمی دونوں اعتبار سے میں ناپخت بلکہ مفلس تھا۔ علمی اعتبار سے تو آج بھی مفلس ہوں اور مفلس ہی مروں گا۔ ہاں تو ادبی دنیا میں جب میںنے آنکھیں کھولیں تو افسانے میں سب سے زیادہ کشش پائی اور ہوتے ہوتے 1940 سے باقاعدہ افسانہ نویسی شروع کردی۔ مروجہ رجحانات کے مطابق میں سمجھا کہ افسانے بس حسن و عشق، غریبی، ناداری اور ظالم و مظلوم وغیرہ ہی کے لکھے جاتے ہیں۔ چنانچہ بعض وہبی صلاحیت کے طفیل اسی ڈگر پہ تیزی سے چل پڑا..... چل پڑا تو چل پڑا۔ مگر کسی خود رو پودے کی مانند۔ قدم بہ قدم، کسی بیساکھی کے بغیر چلتے چلتے 1947 میں وہ منزل بھی آئی جہاں یکا یک محسوس ہوا کہ مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔ ذہن و فکر کا انداز، فن کا مزاج اور تحریر کا رنگ روپ اپنے آپ بدلنے لگا۔ تب تک صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرچکا تھا۔ آج محسوس ہوتا ہے کہ صحافت نے بھی میرے فکر و فن کو ضرور متاثر کیا ہوگا۔ تحریر میں تیکھا پن آنے لگا۔ اخبارات و رسائل میں طنز و مزاح لکھنے کے بھی مواقع ملے۔‘‘(آدھی مسکراہٹ،ص:5، پٹنہ لیتھو پریس پٹنہ1980)شین مظفر پوری ایکSelf Made Personیعنی خود ساختہ شاعر و ادیب تھے۔ ان کی شخصیت سازی میں کسی خاص شخص یا کسی مخصوص تحریک کا رول نہیں تھا۔وجہ ان کی حد درجہ خلوت پسندی، خود داری، طبیعت کی بے نیازی اور مزاج کی آزادہ روی تھی۔انھوں نے ترقی پسند تحریک اور اس سے وابستہ مصنّفین کا اثر ضرور قبول کیا، مگر وہ کسی ازم یا تحریک سے کلیتاً وابستہ اور کسی لکیر کا فقیر نہیں تھے۔ وہ خود کہتے ہیں:’’ابتدا سے لے کر اب تک ادب و صحافت میں میرا کوئی راہبر اور استاد نہیں رہا ہے۔ میری حیثیت خود رو پودے کی ہے۔ ‘‘(شین مظفر پوری:شخص اور عکس، ص53)شین مظفر پوریمالی بد حالی کا شکار تھے، شاید اسی لیے انھوں نے زیادہ تر کمرشیل فلمی رسالوں میںکام کیا، اور مفت نہیں بالمعاوضہ لکھا،اپنی یاد داشت میںلکھتے ہیں:’’دریں اثنا لاہوری کمرشیل رسالوں نے مجھے قلیل حق المحنت کا’چارہ‘ ڈالنا شروع کردیا تھا۔ اس طرح ادب کا چسکا کچھ اور بڑھا، مگر یہ ’چارہ‘ تو آٹے میں نمک کے برابر تھا۔ پھر بھی میری افسانہ نگاری کی رفتار تیز سے تیز ترہوتی گئی۔ کچھ شہرت بھی ملنے لگی۔ کیوں کہ درجنوں رسائل میں تواتر کے ساتھ میری چیزیں چھپ رہی تھیں۔ہوتے ہوتے اگست 1945 میں کلکتہ کے ہفتہ وار نقاش میں کام شروع کرکے صحافت کا پیشہ اختیار کرلیا۔ یہ گویا ایک سانحہ ہی تھا۔‘‘(رقص بسمل،دی آرٹ پریس پٹنہ، ص:8-9، 1993)شین مظفر پوری اردو کے سنجیدہ حلقوں اور با ذوق قارئین میں اتنے مقبول تھے کہ انھیں ابتدا سے ہی اہم رسالوں سے تحریری معاوضہ ملنے لگا تھا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:’’لاہور کے بازار ادب میں انہوں]شبلی بی کام[نے ہی مجھے روشناس کراکر فروختنی(Saleable)بنایا تھا۔ میری ابتدائی ادبی زندگی (1939) کے دور میں شبلی ہی نے رسالہ بیسویں صدی سے چار آنہ فی صفحہ کے معاوضہ پر میرا معاملہ کرایا تھا۔ غریبی کے مارے ہوئے انہی ایام میں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے طور پر مجھے معاوضہ کا چسکا لگا۔ ایڈیٹر کی پسند بازار کی طلب کے مطابق زیادہ سے زیادہ لکھ کر زیادہ سے زیادہ معاوضہ پاکر اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتا۔لکھتا تو میں ملک کے اور خود لاہور کے کتنے ہی رسالوں میں تھا لیکن ابتدامیں معاوضہ صرف بیسویں صدی ہی سے ملتا تھا۔ 1947 تک غالبا دو روپے فی صفحہ تک میرا ریٹ پہنچ چکا تھا۔ شبلی اپنے رسالہ عالمگیر اور خیام میں بھی مجھے خوب چھاپتے تھے۔ ان کی اس فراخدلی سے مجھے کافی پبلسٹی ملی۔ بعد میں بیسویں صدی کے علاوہ کمترمعیار کے دو تین دوسرے رسائل بھی معاوضہ دے کر مجھ سے لکھوانے لگے۔‘‘(رقص بسمل، ص129)شین مظفر پوری نے محنت و ریاضت سے اپنی خودی کو بہت بلند کرلیا تھا، اسی لیے وہ کسی رسالے میں مفت کی ملازمت بھی نہیں کرنا چاہتے تھے، کیوں کہ وہ ایک مشہور ادیب و صحافی تھے اور قارئین میں بے حد مقبول بھی، پھر وہ ثروت مند نہیں، ایک مفلس و قلاش ادیب تھے، ان کے سامنے معاش کا مسئلہ اژدہے کی طرح منہ پھاڑے رہتا تھا۔چناں چہ جب لاہور میں رسالہ نیرنگ خیال کے ادارتی کاموں میں بلا معاوضہ ہاتھ بٹانے کی بات آئی تو پریشانی کے عالم میں بھی وہ ٹال گئے۔حالاں کہ اس میں ان کی کئی چیزیں پہلے شائع ہوچکی تھیں۔:’’انھوں ]ایڈیٹر اور پروپرائٹر حکیم یوسف حسن صاحب[ نے یہ فرمائش کی(پیش کش نہیں) کہ نیرنگ خیال کے ادارتی کاموں میں ان کا ہاتھ بٹادیا کروں۔ میں خاموش رہا کہ حکیم صاحب کچھ آگے بھی بولیں۔ کیوں کہ اندھا کیا چاہے دو آنکھ۔ مجھے تو کسی ایسی سبیل کی تلاش ہی تھی۔ میں ان کے سامنے اپنا سارا دکھڑا رو ہی چکا تھا۔ مگر آگے حکیم صاحب سکوت اختیار کیے رہے۔ ظاہر ہے میں ایک ’شوق فضول‘ِکے طور پر اس کام کو کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔‘‘(رقص بسمل، ص143)شین مظفر پوری صحافت کے مرد مریض تھے، اس لیے انھوںنے ابتدا سے ہی صحافت کو اپنا مرکز و محور بنالیا تھا اور ادھر ادھر کے رسالوں میں لکھنے اور چھپنے بھی لگے تھے، مگر ان کی صحافتی زندگی کا باضابطہ آغاز دربھنگہ سے نکلنے والے ماہنامہ’ہمالہ‘ سے ہوا، جس کی ابتدا 1941 میں ہوئی تھی، لیکن یہ ایک ادبی رسالہ تھا اور اس کی عمر بھی بہت مختصر تھی۔ اور یہ ان کی پیشہ ورانہ صحافت سے الگ چیز تھی۔اپنی صحافت کی بسم اللہ کے تعلق سے لکھتے ہیں:’’1941میں دربھنگہ سے میری ادارت میں ماہنامہ ہمالہ کے دو تین شمارے نکلے تھے۔۔۔۔۔میرے صحافتی تجربے کی بسم اللہ یہیں سے ہوئی تھی۔‘‘(رقص بسمل، ص264)سوال یہ ہے کہ ایک اچھے خاصے ادیب اور مشہور افسانہ نگار نے صحافت کو اپنی جولان گاہ کیوں بنایا؟ابھی ذکر آیا کہ لاہوری کمرشیل رسالوں میں شین مظفر پوری لکھنے لگے تھے اور وہاں سے چارہ بھی ملنے لگا تھااور افسانے کی اشاعت سے تھوڑی بہت آمدنی ہونے لگے تھی، اور اس سے قبل وہ کلکتہ اور بمبئی وغیرہ میں کلرکی کی ملازمت بھی کرچکے تھے، مگر ایک تو یہ ملازمت ان کے افسانوی مزاج سے میل نہیں کھاتی تھی، دوسرے اس دفتری ملازمت کی سماج یا سوسائٹی میں کوئی اہمیت بھی نہ تھی اور آمدنی بھی کوئی زیادہ نہ تھی کہ ان کی معاشی کفالت کرسکے۔ ان سب وجوہ سے انھوں نے صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرلیا، اس میں نام بھی تھا اور مال بھی۔ ڈاکٹر منظر اعجاز لکھتے ہیں، حالاں کہ انھوں نے شین مظفر پوری کی با ضابطہ صحافت کی ابتدا کو نقاش کلکتہ سے جوڑ دیا ہے:’’چنانچہ متبادل انتظام کے طور پر انھوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ اور اس کا باضابطہ آغاز 1945 میں ہفتہ وار’نقاش‘ کلکتہ کی ملازمت سے ہوا اور کچھ ہی دنوں میں بہ حیثیت صحافی ان کی شہرت دلی کی صحافتی دنیا تک پہنچ گئی جس کے نتیجے میں فوری 1946 کی ابتدائی تاریخوں میں رسالہ ’آرٹسٹ‘ کے مالک خلیق دہلوی کے بلاوے پر شین مظفر پوری دہلی پہنچ گئے۔‘‘(شین مظفر پوی:شخص اور عکس، ص60)اس طرح وہ بہار کی محدود صحافتی دنیا سے نکل کر دلی کے وسیع صحافتی افق کا حصہ بن گئے۔یہ فروری 1946 کی بات ہے۔دہلی میں شین مظفر پوری کا زیادہ تر تعلق فلمی رسالوں سے رہا۔انھوں نے نہ صرف ان رسالوں میں کام کیا، بلکہ اس وقت دلی میں صحافت کی جو کچھ صورت حال تھی، اس پر بھی نظر رکھی۔ رقص بسمل میں لکھا ہے:’’ان دنوں دلی کی صحافت میں جو عبرت ناک صورت حال تھی اس کا ایک سرسری جائزہ میں نے اپنے ناول’’کھوٹا سکہ‘‘ کے ایک باب میں پیش کیا ہے۔ خالص ادبی رسالہ تو (جہاں تک مجھے یاد آتا ہے) صرف ایک ماہنامہ ساقیہی نکلتا تھا۔ باقی کم از کم دو درجن نیم ادبی یا فلمی رسالے نکلتے تھے۔ ان میں سے کچھ نام یوں یادرہ گئے ہیں۔ شمع، فلم لائٹ، آرٹسٹ، کامیاب، مشہور، آریہ ورت، کہکشاں، آستانہ، (مذہبی)صوفی(مذہبی) محشر خیال، مولوی، خاتون مشرق، پیشوا(مذہبی)دین دنیا، نگار خانہ، انوار سحر اور روزانہ اخبارات میں الجمعیۃ، تیج، جنگ، انجام۔ کوئی ہفتہ وار یاد نہیں۔میرا پیشہ ورانہ واسطہ زیادہ تر فلمی رسالوں ہی سے رہا۔ ان میں زیادہ بول بالا شمع، فلم لائٹ اور کہکشاں کا تھا۔ ان تینوں میں معاصرانہ چشمک اور پیشہ ورانہ رقابت بھی خوب خوب تھی۔‘‘ (رقص بسمل، ص15)رسالہ آرٹسٹ کے مالک و مدیر خلیق دہلوی نے شین مظفرپوری کا شایان شان استقبال کیا۔ان کی آؤ بھگت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ رسالے کا دفتر گلی قاسم جان میں واقع تھا۔ شین مظفر پوری کی رہائش کا انتظام بھی یہیں کردیا گیا۔ انھوں نے اس رسالے کی ادارت تو بحسن و خوبی انجام دی ہی، دوسرے رسائل نے بھی ان کی صلاحیتوں سے خوب فیضان حاصل کیا،خان عیسی غزنوی کے رسالے فلم لائٹ میں بھی انھیں اچک لیا گیا۔ ان کے سامنے مواد و مضمون کا ایک دفترتھا، جو کسی تخلیقی ذہن کا منتظر تھا،چناں چہ انھوں نے اپنے شوق قلم نویسی کو تیزتر کردیا،یکسوئی تھی،پھر انھیں لکھنے پڑھنے کا اچھا ماحول بھی ملا، وہ یہاں کوئی ڈیڑھ سال رہے ہوں گے، مگر اسی مختصر مدت میں انھوں نے نہ صرف ادب و صحافت کی دنیا میں اپنی پہچان بنائی، بلکہ اپنا حلقۂ یاراں بھی وسیع تر کرلیا۔ اورمعاشی تنگ دستی جو بہار سے لے کر کلکتہ اور بمبئی تک، ان کا تعاقب کر رہی تھی، اس سے بھی وہ بڑی حد تک آزاد ہوگئے تھے، مگر اسی درمیان 1947 کا الم ناک حادثہ پیش آگیا، ملک دو لخت ہوگیا، دونوں طرف خون کی ہولی کھیلی گئی، دلی سے لاہور تک،ہر جگہ سرخ انسانی خون سے زمین لالہ زار ہوگئی۔اس کا شکار شین مظفر پوری بھی ہوئے، پولس کی گولی سے بال بال بچے، راستے بند تھے سب کوچۂ قاتل کے سوا۔نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔مایوس و شکستہ حال، پرانے قلعے کی پناہ گزینی ان کا بھی نصیبہ بنی اور پھر یہی طوفان انھیں لاہور لے گیا۔دلی سے12گھنٹے کے بجائے 72 گھنٹے میں لاہور پہنچے، جن لوگوں نے یہ خوش نما خواب پالے تھے کہ یہاں سے نکل کر دار الامن میں امن و سکون ہوگا، فارغ البالی ہوگی، اپنا ملک اور اپنا جھنڈا ہوگا، اپنی زمین اور اپنا آسمان ہوگا،انھیں بہت جلد کف افسوس ملنا پڑا۔لاہور میں دلی سے کم بدتر حالات نہ تھے، یہاں بھی نفسی نفسی کا عالم تھا، کوئی کسی کا پرسان حال نہ تھا، سبھی کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے، سنہرے خوابوں کا جو شیش محل دو قومی نظریہ کے حامیوںنے ذہن میں تعمیر کیا تھا، وہ پل بھر میں چکنا چور ہوگیا۔مگرحسن اتفاق کہ شین مظفر پوری کو یہاں بھی دلی کے کچھ احباب مل گئے، یہ لوگ معاشی طور پرذرا خوش حال تھے، شین صاحب کی طرح نادار اور مجبور نہ تھے۔ لاہور میں بھی انھیں ایک عدد نوکری کی تلاش تھی، مگر کہیں نوکری ملنی دشوار تھی۔ سبھی ہائے ہائے کر رہے تھے،سارے کاروبار ٹھپ تھے، سارے کل کارخانے مقفل اور سارے معاشی ذرائع بند تھے۔ شین مظفر پوری کی جیب میں دو چار روپے تھے، جس سے وہ کسی طرح صبح و شام بسر کر رہے تھے،شین صاحب ہی کیا، سبھی کے چہرے پر خوف اور نا امیدی کے آثار نمایاں تھے، انھوں نے یہاں پہنچ کر ان رسائل اور اخبار کا چکر کاٹا جس میں وہ ماقبل آزادی لکھتے رہے تھے اور جس کی وجہ سے علمی اور ادبی حلقوں میں ان کا شہرہ بھی تھا،سب سے پہلے رسالہ عالمگیر کا دفتر تلاش کیا،جو بڑی مشقت سے انھیں ملا۔ انھی دنوں رسالہ نیرنگ خیال کے دفتر کا چکربھی کاٹا۔ وہ لاہور میں پہلے سے متعارف تھے، اس لیے انھیں پاؤں جمانے میں دیر نہ لگی،لکھتے ہیں:’’لاہور کے رسالوں میں چوں کہ میں بہت چھپ چکا تھا اس لیے وہاں کے قاریوں بالخصوص شاعروں ادیبوں میں میری کافی شہرت تھی۔ جس سے بھی میرا تعارف کرایا گیا اس کے لیے میرا نام نیا نہیں تھا۔ اور بعد میں بھی میں نے وہاں اپنے لیے نسبتا ایک نرم گوشہ محسوس کیا۔‘‘(رقص بسمل، ص121)دلی کے جو صاحب ثروت افراد ہجرت کرکے لاہور آئے تھے، وہ کچھ کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے اور اپنے بال و پر پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ انھی پناہ گزینوں میں رفیق چمن بھی تھے، جن سے شین صاحب کی شناسائی تھی، اورجو لاہور میں کس مپرسی کی زندگی جی رہے تھے۔جب ان کے یہاںکچھ ہریالی اور چہل پہل آگئی تو انھوں نے صحافت کو اپنا میدان عمل منتخب کیا۔ اور دو ڈکلیریشن ( روزنامہ مسلم اور ہفت روزہ نور جہاں کے لیے)انھوں نے لے لیے۔ انھوں نے اپنا روزنامہ اخبار ’مسلم‘ جاری کیا، شین مظفر پوری اس میں بحال کر لیے گئے۔ حالاں کہ اس وقت تک انھیں اخباری صحافت کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا، جیسا کہ انھوں نے خود لکھا ہے۔ اس اخبار میں ان کے ذمے کیا کام تھا اور یہ منزل ان کے لیے کس طرح آسان ہوئی، وہ لکھتے ہیں:’’دو ورق کا اخبار تھا۔ خبریں بنانا، انگریزی سے ترجمہ کرلینا رفتہ رفتہ میرے لیے آسان ہوگیا۔۔۔۔بھائی چمن سے کچھ پیسے بھی ملنے لگے تھے۔ اس سہولت کے بعد طبیعت کچھ موج میں رہنے لگی۔‘‘(رقص بسمل، ص172)’’مسلم‘ بمشکل دو ہفتہ جاری رہا اور ایک روز بندہوگیا اور شین مظفر پوری کے لیے دو وقت کی روٹی کی جو امید قائم ہوئی تھی، اس پر بھی اوس پڑگئی۔پھر ہفت روزہ ’نور جہاں ‘کی ذمے داری ان پر آگئی۔ انھوں نے رقص بسمل میںلکھا ہے کہ یہ جوا بھی میرے ہی کاندھوں پر پڑا۔شین صاحب کے لیے میدان صحافت میں ایک راستہ بندہوا تو دوسرے راستے کھلنے شروع ہوگئے، الٰہی بخش یا بخش الہٰی نام کے ایک فرد نےہفت روزہ اخبار ’آبشار‘ کا ڈکلیریشن حاصل کرلیا اور وہ بھی شین مظفر پوری کی ادارت میں۔ مگر اس میں پناہ گزیں رفیوجیوں کے حال زار پر کچھ اس قسم کے سخت الفاظ میں تبصرہ کیا گیا تھا کہ اس کا پہلا شمارہ ہی ضبط ہوگیا۔یہ تحریر دو قومی نظریہ کی مذمت پر لکھی گئی تھی،جو شین مظفر پوری کی ہی تھی، اس لیے الٰہی بخش کو نہ صرف نقصان برداشت کرنا پڑا بلکہ انھوں نے اس کی پاداش میں شین مظفر پوری سے قطع تعلق بھی کرلیا۔ اور نتیجتاً وہ دوبارہ بے روز گارو بے کار ہوگئے۔لاہور میں وہ دس ماہ رہے ہوں گے کہ رفیق چمن کے بھائی خلیق دہلوی نے انھیں کراچی بلالیا، جو ’مضراب‘ نام سے ایک رسالہ نکالنے کی پلاننگ کر رہے تھے۔ اس کا دفتر جنگ اخبار کے دفتر سے ملحق تھا، جنگ کے ادارتی سیکشن میں بھی شین مظفر پوری نے لگ بھگ دو ماہ،جزوی طور پر کام کیا۔ خیر اصل میں وہ مضراب کی ادارت سنبھالنے کے لیے کراچی آئے تھے، یہ ایک ادبی رسالہ تھا،اس کا پہلا شمارہ شین مظفر پوری کی ادارت میں ہی منظر عام پر آیا۔ خلیق دہلوی نے مضراب کے دفتر میں ہی ان کی بود و باش کا انتظام کر رکھا تھا اور انھیں تنخواہ کے طور پر ڈیڑھ سو روپے ماہوار دینا طے کیا تھا۔ ’مضراب‘ ایک ترقی پسند ادبی جریدہ تھا،چونسٹھ صفحات پر مشتمل اس کا پہلا شمارہ اگست 1948 میں منظر عام پر آیا۔ دوسرا شمارہ ستمبر1948 میں اور تیسرا شمارہ دسمبر1948 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد شین مظفر پوری لوٹ کر ہندستان آگئے کہ وہ اپنے والدین، بھائی، عزیز و اقارب اور بال بچوں سے ملنے کے لیے بے تاب و بے قرار تھے، ان کی یاد رہ رہ کر انھیں کچوکے لگاتی تھی، کیوں کہ وہ ہزاروں میل دور تھے، اور بہار بھی فرقہ وارانہ فسادات کی زد پر رہتا تھا۔احمد ندیم قاسمی، خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور وغیرہ نے انھیں منایا، اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کیا اور وہاں کے ادبی حلقے اور کئی اعلی افسران نے بھی چاہا کہ وہ پاکستانی شہریت اختیار کرلیں، مگر وہ ہندستان واپسی کے اپنے فیصلے پر مصر رہے۔ 29دسمبر 1984 کو کراچی سے بذریعہ پانی جہاز روانہ ہوئے،پہلے بمبئی اور پھر دلی پہنچے۔ دلی میں دو تین دن رکے۔ خوشتر گرامی سے ملاقات کے لیے بیسویں صدی کے دفتر گئے، خوشتر صاحب نے بڑی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا اور جو معاوضے کی بقایا رقم تھی وہ بطیب خاطر ادا کردی۔ اس کے بعد رسالہ ’شمع‘ کے دفتر بھی گئے، حافظ یوسف دہلوی اور ان کے صاحب زادے یونس دہلوی نے ان کا خیر مقدم کیا۔ شین مظفر پوری اس وقت معاشی بد حالی کے شکنجے میں تھے، نا گفتنی کا عالم تھا، اس لیے انھوں نے اشارے کنایے میں حافظ یوسف دہلوی سے اپنا مدعا بھی بیان کردیا کہ وہ پھر دلی کو ہی اپنا مسکن بنانا چاہتے ہیں اور یہیں تلاش معاش کرنا چاہتے ہیں، مگر انھوں نے کوئی رسپانس نہیں دیا،اس لیے انھوں نے بذریعہ ٹرین 5 جنوری کو پٹنہ کے لیے رخت سفر باندھ لیا اورایک بار پھر اپنی آبائی ریاست بہار کو ہی اپنا مسکن و مرکز بنالیا۔ ان کی پٹنہ آمد کی خبر ہر جگہ مشتہر ہوگئی، طلبہ اور نو جوانوں میں وہ پہلے سے بے حد مقبول تھے، جس ہوٹل میں وہ ٹھہرے تھے، وہاں کئی طلبہ نے انھیں آکر گھیر بھی لیا۔طلبہ اور نوجوانوں سے مختلف امور پر تبادلۂ خیال ہوا، اور پھر 8جنوری 1948 کو وہ دربھنگہ کے لیے روانہ ہوگئے اور مظہر امام کے یہاں امیر منزل پہنچ گئے۔ شین مظفرپوری کو گھر سے جدا ہوئے ایک طویل عرصہ بیت گیا تھا اور پھر 1947 کے ہنگاموں نے ان کے اندرون کو ہلا کر رکھ دیا تھا، وہ بال بچوں سے ملنے کے لیے سخت بے چین بھی تھے، اس لیے وہ دربھنگہ سے بلا تاخیر 10 جنوری کو سیتا مڑھی کے لیے روانہ ہوگئے اور سسرال جاکر لوگوں سے ملاقات کی۔پھر بیوی بچوں کے ہمراہ بیل گاڑی پر اپنے گاؤں کے لیے نکل پڑے۔کسب معاش کا مسئلہ ایک بار پھر شین مظفر پوری کا پیچھا کرنے لگا۔ انھیں اپنا پیٹ پالنے اور گھر بار چلانے کے لیے نوکری کی تلاش تھی۔اس بار انھوں نے اپنی پرانی آماج گاہ کلکتہ کا انتخاب کیا اور وہاں پہنچ کر ’عصر جدید‘ اور روزانہ ’ہند‘ میں کام کرنے لگے۔ وہ اپنے عہد کے ایک سینئر صحافی تھے، وہ میدان صحافت کے شہسوار اور ماہر سمجھے جاتے تھے۔ صحافت میں ان کا کوئی رقیب و حریف نہ تھا۔کلکتہ میں ان کی صحافت کا طوطی بولتا تھا۔ مگرکلکتہ میں انھوں نے بہت سی مجبوریوں کا بار اٹھایا۔ اپنے نام سے بھی لکھا اور تسکین نفس کی خاطر پردے کے پیچھے سے دوسروںکے نام سے بھی لکھا۔ فرضی ناموں کو بھی انھوں نے وقار بخشا اور اپنی تحریریں؍افسانے بازار ادب میں فروخت بھی کیے۔ کلکتہ میں انھوں نے نام بھی کمایا اور کافی بد نام بھی ہوئے اور جب ذلت و رسوائی نے ان کا دامن نہ چھوڑا، تو پھر وہ پٹنہ لوٹ آئے، جہاں وہاب اشرفی نے انھیں ماہ نامہ’صنم‘ کی ادارتی ذمے داری سونپ ڈالی۔ وہاب اشرفی لکھتے ہیں:’’میرے ان(شین مظفر پوری) سے دیرینہ تعلقات تھے۔ کلکتہ میں جب دوستوں کی مدد سے روز نامہ ’اخوت‘ (مدیر ناظرالحسینی) نکالا گیا تو نہ معلوم کیوں مجھے شین مظفر پوری نظر آئے۔ وہ اس وقت ممبئی میں تھے۔ میں اکبر ’بکی‘ کو جو اس اخبار کے مالک تھے، شین صاحب کی انشا پردازی اور صحافتی تجربے کا حال بتایا تو انہوں نے فورا ان کو دعوت بھیج دی۔ وہ کلکتہ چلے آئے اور ’اخوت‘ سے وابستہ ہوگئے۔ میں کچھ دنوں کے بعد جب پٹنہ آیا تو’صنم‘ کا اجرا کیا۔ اب تک اس کے پچاس شمارے نکل چکے تھے۔ میرا تبادلہ جب گیا ہونے لگا تو میں نے خود شین مظفر پوری کو دعوت دی کہ وہ ’صنم‘ کی باگ ڈور سنبھالیں۔ موصوف میری دعوت پر پٹنہ آگئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اپنے اخبارات بھی نکالے۔ دوسرے اخبارات میں بھی فیچر لکھتے رہے اور اپنا تخلیقی کام بھی سر انجام دیتے رہے۔ پھر وہ بہار اردو اکادمی کے رسالہ ’زبان و ادب‘ سے وابستہ ہوگئے۔‘‘انھوں نے پٹنہ پہنچ کر کسی در کا فقیر بننا گوارا نہیں کیا، ملازمتی ذمے داریوں کی تکمیل کے ساتھ آزادانہ طور پر بھی کام کرتے رہے۔ انھوں نے اپنا ہفت روزہ اخبار ’ہمارا بہار‘ پٹنہ سے نکالاجو کافی مقبول ہوا، یہ ایک بے باک اخبار تھا اور عوام میں اپنی جرأت و حق گوئی کے لیے کافی مشہور بھی تھا۔شین مظفر پوری کی اخباری اور مجلاتی صحافت ہی نہیں، ادبی صحافت کا کینوس بھی بہت زیادہ وسیع تھا اور ان کی ادبی تخلیقی تحریروں کا جو معیار تھا، وہ بہتوں کے لیے ایک چیلنج تھا۔ انھوں نے ادبی صحافت کا حق ادا کیا اور جن ادبی رسالوں اور مجلات سے وابستہ رہے، اس کو شہرت کے اوج ثریا پر پہنچادیا۔ کئی ادبی رسائل کی ادارت کی اور اس میں تنقیدی ادبی مضامین اور تبصرے لکھے، زبان اور شعر و ادب کے اسرار سے ہم عصروں کو باخبر کیا۔انھوں نے صحافت برائے صحافت نہیں کی، بلکہ اصولی اور بے لوث صحافت کی، صحافت کے تعلق سے ان کا ایک کمٹنمنٹ تھا،صحافیانہ رموز و نکات پربھی ان کی نظر بڑی گہری تھی۔ وہ اردو صحافت سے اتنے بیزار بھی نہیں تھے جتنے آج کل کے نام نہاد دانش ور اس میں مبتلا نظر آتے ہیں اوربلا وجہ اردو صحافت کی زبوں حالی اور پستی پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ وہ اردو صحافت سے بڑی حد تک مطمئن تھے، مگر وہ اس کو مزید صیقل کرنے اور اس کو مانجھنے کے حق میں تھے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:’’میںنے محسوس کیا ہے کہ فی الواقع صحافی خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ باقی جو کارکن ہیں وہ نام کے صحافی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک صحافی کا زبان داں اور کسی نہ کسی درجے کا ادیب ہونا بنیادی طور پر ضروری ہے۔ اس کے بعد دیگر صلاحیتوں کی بات آتی ہے لیکن میں نے یہ دیکھا ہے کہ اردو کے بیشتر صحافیوں میں بنیادی صلاحیت ہی مفقود ہے۔ خیر جس ڈھنگ اور جس معیار کی اردو صحافت ہے اسے بھی غنیمت سمجھتا ہوں کیوں کہ اس کے وجود سے اردو کو بہت تقویت پہنچ رہی ہے لیکن اردو صحافت کے معیار اور حالات سے میں مطمئن نہیں ہوں۔‘‘(شین مظفر پوری:شخص اور عکس، ص58-59)شین مظفر پوری ایک بسیار نویس اور تیز نویس ادیب و صحافی تھے، انھوںنے دس ہزار صفحات کا اخباری ادارتی سرمایہ دنیائے صحافت کو دیا، اخباری طنز و مزاح پر مبنی انھوں نے 500 صفحات اپنے پیچھے چھوڑے اور تقریبا ایک ہزار صفحات کے ادبی اداریے لکھے، ایک لاکھ صفحات تو وہ ہیں، جو ترجمہ ہوکر اخباروں کی زینت بنے، خلاصہ یہ کہ انھیں صحافت سے پیار تھا،صحافت ان کا عشق تھا، صحافت ان کے لیے دانہ پانی کی حیثیت رکھتی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام تالیفات میں صحافتی نقوش روشن ملیں گے۔ ایک ناول’کھوٹا سکہ‘ کا تو پورا باب ہی دلی کی صحافت اور وہاں کے رسائل آرٹسٹ وغیرہ اور اس کے ماحول اور اس مکان کی فضا پر مرکوز ہے، جہاں سے یہ رسالہ شائع ہوتا تھا۔ان کی صحافت کا شہرہ اتنا تھا کہ لوگ انھیں اپنے اخبار و رسائل کی ادارت کی باگ ڈور سونپنا باعث اعزاز سمجھتے تھے۔ انھوں نے ایڈیٹر سے زیادہ پلے بیک ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا، پیش منظر سے زیادہ پس منظر میں رہ کر صحافت کو اعتبار بخشا، نام بھی کمایا اور بد نام بھی ہوئے، شہرت بھی حصے میں آئی اور یار دوستوں نے تحقیر کا ٹھیکر ا بھی ان کے سر پھوڑنے میں دریغ سے کام نہیں لیا۔شین صاحب اپنے عہدشباب میں مختلف اخبارات و رسائل کی تقدیر اور تصویر بدلتے رہے، مگر وہ خود اپنی تصویر نہ بدل سکے، اخیر تک مفلس رہے،کئی نومولود رسائل کو انھوں نے اپنا خون جگر پلاکر طفولیت سے شباب کی دہلیز پر پہنچایا، مگروہ خود شباب کی منزل پر قدم نہ رکھ سکے۔اخیر عمر میں بڑی صعوبتیں اور اذیتیں اٹھائیں۔وفات سے کوئی دو ماہ قبل جو ایک مکتوب لکھا ہے، اس کا ایک جملہ ہمیں اپنی بے توجہی اور ادیب و صحافی کی نا قدری پر آنسو بہانے پر مجبور کرتا ہے:’’اعصاب کی ناتوانی سے معذوریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ میرے حال احوال پر کہیں سے کوئی توجہ بھی نہیں ہورہی ہے۔‘‘ان کا آخری وقت بہت ہی خراب حالت میں گزرا، مرتا کیا نہ کرتا،جب روزی روٹی کے لالے پڑ گئے تو انھوں نے گاؤں کی مسجد میں مؤذن بننے کی مشقت اٹھائی، ایک مذہب بیزار آدمی دو وقت کی روٹی کے لیے مذہب پسند بننے پر مجبور ہوگیا۔ اور ایک ایسا صحافی جس کی تحریروں کی ایک دنیا دیوانی تھی، جس کی تحریروںپر مبنی رسالوں کو محفوظ کرلیا جاتا تھا، وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مسجد کے درو دیوار میں محصور ہوکر رہ گیا۔گویا وہ اپنے ناول’’کھوٹا سکہ‘‘ کازندہ جاوید مرکزی کردار مسعود بن گئے۔ وہی مسعود جو ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا، کسب معاش کے لیے ادب و صحافت کی دنیا میں ملازمت کی، کلکتہ، بمبئی، کانپور اور دلی کی سڑکوں پر قلندرانہ بھٹکتا رہا اور جب اپنی معشوقہ سے جدا ہونے کا وقت آیا تو اس کو مخاطب کرکے آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دے گیا کہ:’’اگر خدا کا کرنا ایسا ہوجائے تو تم آگے چل کر صاحب اولاد بنو تو ایک بات کا ضرور خیال رکھنا۔ اگرتم اپنی اولاد کا رجحان اردو شعر و ادب یا اخبار نویسی کی طرف دیکھو تو چپکے سے اسے زہر کھلا دینا۔‘‘Dr Abrar AhmadB.M college, RahikaMadhubani-847238 (Bihar)" سوانح مولانا روم: ایک تنقیدی مطالعہ مضمون نگار: الطاف احمد اعظمی,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/07/, اردو میں رام کتھا مضمون نگار: اجے مالوی,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/06/, سیتا ہرن —ایک مطالعہ مضمون نگار: اسما مسعود,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/05/, الیکٹرانک میڈیا میں بذریعہ اردو روزگار کے مواقع مضمون نگار: شاہ رشاد عثمانی,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/04/, مشرقی خاندیش کے موجودہ نثرنگار مضمون نگار: وسیم عقیل شاہ,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/03/, معاصر غزل میں اسلامی افکار و اقدار مضمون نگار: کوثر مظہری,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/02/, شفیع جاوید: اوراقِ زندگی مضمون نگار: سید مسعود حسن,https://ncpulblog.blogspot.com/2020/01/, لئیق صلاح کی علمی و ادبی خدمات مضمون نگار: قمر النسا,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/, لئیق صلاح کی علمی و ادبی خدمات مضمون نگار: قمر النسا,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/12/, دبستانِ رامپور اور حیدرآباد، چند مشترک باتیں مضمون نگار: محمد الیاس,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/11/, اردو ریڈیائی ڈراما: منظر پس منظر مضمون نگار: پاکیزہ اختر,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/10/, کیفی اعظمی کی معنویت، مضمون نگار: آفاق عالم صدیقی,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/09/, بیکل اتساہی: ایک درویش صفت سخن ور مضمون نگار: تابش مہدی,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/08/, حالی کی شخصیت خودنوشت اور مکاتیب کے آئینہ میں مضمون نگار: ثنا کوثر,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/07/, عصمت کا معتوب افسانہ’لحاف مضمون نگار: جاوید احمد مغل,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/06/, اشعارِ غالب سے ماخوذ عنوانات مضمون نگار: عسکری صفدر,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/05/, شکیل الرحمن... سیکولر رحمن مضمون نگار: قدوس جاوید,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/04/, موسیقی اور ہماری زندگی مضمون نگار:۔ اختر آزاد,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/03/, اردو میں ادبی کالم نگاری مضمون نگار:۔ صابر علی سیوانی,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/02/, نئی آزاد نظم کے فنی تقاضے مضمون نگار:۔ شائستہ یوسف,https://ncpulblog.blogspot.com/2019/01/, متن، معنی اور نقد بنیادی مسائل و مباحث مضمون نگار:۔ شاکر علی صدیقی,https://ncpulblog.blogspot.com/2018/, متن، معنی اور نقد بنیادی مسائل و مباحث مضمون نگار:۔ شاکر علی صدیقی,https://ncpulblog.blogspot.com/2018/12/, اختر تلہری: ایک گمنام ادبی شخصیت. مضمون نگار:۔ سید ابوذر علی,https://ncpulblog.blogspot.com/2018/11/, جوزف کانراڈ: مہم جو، سامراج شکن ناول نگار۔ مضمون نگار: احمد سہیل,https://ncpulblog.blogspot.com/2018/10/, ثانوی درجات کی درسی کتب کا جائزہ (تلنگانہ بورڈ کے حوالے سے) مضمون نگار رضوانہ بیگم,https://ncpulblog.blogspot.com/2018/09/, عصمت کا تخلیقی سفر مضمون نگار:۔ جمیل اختر,https://ncpulblog.blogspot.com/2018/08/, تمباکو مضمون نگار حکیم ایس حبیب الرحمن,https://ncpulblog.blogspot.com/2018/07/, میرا جی کی تنقید۔ مضمون نگار ابو ذر ہاشمی,https://ncpulblog.blogspot.com/2018/06/, مضمون۔ جنوبی ہند کے عصری اردو ادب میں علاقائی اثرات از مہ نور زمانی بیگم,https://ncpulblog.blogspot.com/2018/05/, مسلم خواتین کی تعلیمی پسماندگی,https://ncpulblog.blogspot.com/2018/04/, مضمون: 1857 اور بہادر شاہ ظفر از سعدیہ پروین نہال احمد,https://ncpulblog.blogspot.com/2018/01/, تبصرہ: غواصی(مونوگراف) مبصر: ارشاد قمر,https://ncpulblog.blogspot.com/2017/, تبصرہ: غواصی(مونوگراف) مبصر: ارشاد قمر,https://ncpulblog.blogspot.com/2017/12/, تبصرہ اصولِ تعلیم اور عملِ تعلیم از شاہ عمران حسن,https://ncpulblog.blogspot.com/2017/11/, حیدرآباد کی چند اہم خواتین ناول نگار از جاوید شاہ آبادی,https://ncpulblog.blogspot.com/2017/10/, حقوقِ نسواں کی علم بردار- رقیہ سخاوت حسین از عذرا نقوی,https://ncpulblog.blogspot.com/2017/09/, بی امّاں از ڈاکٹر بانو سرتاج,https://ncpulblog.blogspot.com/2017/08/, مونوگراف شفیق جونپوری,https://ncpulblog.blogspot.com/2017/06/, ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کی صورتِ حال,https://ncpulblog.blogspot.com/2017/05/, اتساہتِ بیکل : امتیاز رومی,https://ncpulblog.blogspot.com/2017/01/, اردو ادب وسط انیسویں صدی تک/سید احتشام حسین,https://ncpulblog.blogspot.com/2016/, اردو ادب وسط انیسویں صدی تک/سید احتشام حسین,https://ncpulblog.blogspot.com/2016/02/, شعر شور انگیز/شمس الرحمٰن فاروقی,https://ncpulblog.blogspot.com/2016/01/, تانیثی ادب کی شناخت اور تعیّنِ قدر /ابولکلام قاسمی,https://ncpulblog.blogspot.com/2015/, تانیثی ادب کی شناخت اور تعیّنِ قدر /ابولکلام قاسمی,https://ncpulblog.blogspot.com/2015/12/, اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو / قرۃ العین حیدر,https://ncpulblog.blogspot.com/2015/11/,