diff --git "a/cleaned_wikipedia_articles.csv" "b/cleaned_wikipedia_articles.csv"
new file mode 100644--- /dev/null
+++ "b/cleaned_wikipedia_articles.csv"
@@ -0,0 +1,2408 @@
+,Title,URL,Content
+0,ویکیپیڈیا:اسلوب نامہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D8%B2_%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AA,"اردو ویکیپیڈیا پر کوئی مضمون تحریر کرتے وقت دائرۃ المعارف کے اسلوب نامہ (style of articles) کے مندرجہ ذیل طریقۂ کار کو مدنظر رکھیے ؛ یہ اسلوب نامہ آنے والے صارفین (باالفاظ دیگرمستقبلیات (futurology)) کو پیش نظر رکھ کر منتخب کیا جارہا ہے تاکہ موجودہ مصنف کی تحریر آنے والے دنوں (یعنی بصورت مصنف کی عدم دستیابی) میں نئے لکھنے والوں کے ليے ابہام پیدا نہ کرے اور وہ بآسانی اس میں اضافہ جات اور وقتِ حاضر کی ضروریات کے مطابق ترامیم کر سکیں۔ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ کے مضمون کا جو عنوان ہو وہ ایک سے زائد مفاہیم یا مطالب میں آتا ہو اور ان پر الگ الگ صفحات یا مضامین کی ضرورت ہو۔ ایسی صورت میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ مضمون کی ابتدا (یعنی پہلی سطر) ہی میں اس بات کا ذکر کر دیا جائے اور اس نام کے دیگر استعمالات کے صفحے کی جانب ربط (link) دے دیا جائے۔ عام طور پر ایسے صفحے کے نام کے ساتھ قوسین میں لفظ ----- (ضدابہام) ----- کا اضافہ پایا جاتا ہے۔ ایسا کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ مضمون کی ابتدا میں سانچہ {{دیگر}} رکھ دیا جائے، جس کے ليے مندرجہ ذیلترمیز یا کوڈنگاختیار کی جاتی ہے۔اردو دائرۃ المعارف چونکہانٹرنیٹپر موجود ایک ویب سائٹ ہے اور اس وجہ سے اس پرہائپر ٹیکسٹ(hyperlink) روابط سے بھر پور استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ اپنے مضمون کی معلومات کو ورلڈ وائڈ ویب پر موجود دیگرڈیٹااور سائٹ سے بہراور کرنے کی خاطر اس میں ان مواقع کے روابط دے سکتے ہیں۔ کسی بھی مضمون میں ایسے روابط متعدد اقسام کے ہوتے ہیں جن کا تذکرہ اور ان کے اندراج کا طریقۂ کار ذیل میں دیا جارہا ہے؛ اس میں سے سب سے پہلے درج کیا گیا ربط (یعنی #1) انتہائی اہم ہے اور اس کے نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے مضمون کی نہ صرف یہ کہ شاخت محدود ہو جائے گی بلکہ اس میں ترامیم و بہتری پیدا کرنے کے خواہش مند صارفین کو بھی دشواری کا سامنا ہوسکتا ہے اس #1 پر مذکور ربط کی اسی اہمیت کی خاطر اردو ویکیپیڈیا اس کا اندراج لازمی سمجھتا ہے۔اسی طرح آپ اعدادی شمار کے ساتھ جس قدر بھی بیرونی روابط ہوں ان کو یکے بعد دیگرے درج کر سکتے ہیں۔اعراباردوزبان میں بعض اوقات انتہائی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں، بطور خاص اس وقت کہ جب کوئی کلمہ یالفظنیا ہو یاعربیزبان سے آیا ہو۔ گو اعراب کا اندراج تلفظ کی ادائیگی کے ليے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا مگر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اندراج اعراب، باعثِ سہولت ہو نا کہ باعث زحمت۔ چونکہ ویکیپیڈیا پر تحریرشمارندیویب صفحہپر دکھائی دیتی ہے اورکاغذیصفحۂ کتابسے نہایت مختلف نوعیت کی ہوتی ہے لہٰذا ویکیپیڈیا پر اعراب کے استعمال میں درج ذیل باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔اردو ویکیپیڈیا میں نئیسائنسی،ریاضیاتی،تاریخی،معاشیاتیو دیگر مضامین کی اصطلاحات جوق در جوق چلی آتی ہیں، ان اصطلاحات کو بہتری اور ترقی کے مقصد سے اختیار کیا جاتا ہے اور اگر ان سے یہی ترقی و ارتقا اردو کا مقصد حاصل نہیں ہو سکے تو انکا اندراج کوئی معنی نہیں رکھتا۔ چونکہ اردو پڑھنے والوں کے ليے یہ اصطلاحات انگریزی کی نسبت اجنبی ہوتی ہیں اس ليے جب تک ان کے اصطلاحات کے اندراج میں یکسانی سے ایکدستورنہیں اپنایا جائے گا انکا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی اصطلاح یا نئے لفظ کے استعمال میں درج ذیل باتوں کو ملحوظ خاطر رکھیے۔اقدار[[زمرہ:و
+یکیپیڈیا]]"
+1,ویکیپیڈیا:امیدوار برائے ��نتخب مضمون,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%B1_%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D9%85%D9%88%D9%86,"بہترین مضامینکی نامزدگی کے لیےویکیپیڈیا:امیدوار برائے بہترین مضمونملاحظہ فرمائیں۔یہاں ہم اس بات تعین کرنا چاہتے ہیں کہ کونسے مضامینمنتخب مضمون کے معیارپر پورے اُترتے ہیں۔ منتخب مضامین ویکیپیڈیا کی بہترین کارکردگی کا نمونہ ہیں اور نامزدہ شدہ مضمون ہر لحاظ سے ویکیپیڈیا کےمنتخب مضمونکے معیار پر پورا اُترنا چاہیے، بصورتِ دیگر اُنہیں اس فہرست سے خارج کردیا جائے گا۔کسی بھی مضمون کو نامزد کرنے سے پہلے نامزد کنندہ دیگر صارفین کی آراء معلوم کرلے۔ نامزد کنندہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ویکیپیڈیا کے قواعد و ضوابط سے کما حقہ آگاہی رکھتا ہو اورمنتخب مضمونکے مرحلے سے گزرنے کے دوران مضمون کے تمام تر اعتراضات و کمزور پہلوؤں کو دور کرسکے۔ ایسے نامزد کنندگان جو نامزد کردہ مضمون کے تحریری مشارکین میں شامل نہ ہوں، وہ براہ کرم نامزد کرنے سے قبل متعلقہ مضمون کے مصنفین سے ضرور رائے لے لیں۔ نامزد کنندگان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تنقید کا مثبت جواب دیں گے اور اس سلسلے میں اُٹھائے گئے تمام اعتراضات کو دور کرنے میں پرُ خلوص کوشش کریں گے۔نامزدگی کا طریقۂ کارتائید و تنقیدبراہ کرم نامزد کردہ کسی بھی مضمون پر تائید و تنقید کرنے سے پہلے درج ذیل امور بغور ملاحظہ فرما لیں۔یہ مضمون انگریزی زبان کے ویکیپیڈیا پر بھی منتخب مضمون ہے اور ادرو ویکیپیڈیا پر بھی منتخب مضمون کے معیارات کے مطابق ہے۔۔۔۔۔۔۔امین اکبر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 16:14، 2 اکتوبر 2022ء (م ع و)یہ مضمون انگریزی ویکی پر منتخب ہے اور یہ اس کا ترجمہ ہے۔Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:32، 15 اپریل 2021ء (م ع و)اربعین۔۔۔۔۔۔۔علی نقی(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:37, 20 نومبر 2015 (م ع و)سومرو صاحب!آپ کے اندر تخلیقیت (Creativity) کا مادہ ہے۔ حساسیت (Sensitivity) کا مادہ بھی ہے۔ یہ بات بھی تسلیم ہے کہ آپ محنتی (Hardworking) بھی ہیں ۔ اور اردو ویکی پیڈیا کے لیے فکر مند بھی۔ لیکن حسساسیت جب تخلیقیت پر غالب آ جاتی ہے تو ایسے الفاظ (دانستہ نہ سہی) آپ کی انگلیوں سےنکل جاتے ہیں جو آپ کی محنت پر زحمت بن جاتے ہیں۔ خواہ کچھ بھی ہو آپ کو ایسا نہیں کہنا چائیے کہآپ کو برا لگتا ہے تو لگے۔آپ کو تو پتہ ہے کہ عبید بھائی میں بھی وہی صفات ہیں جو میں نے اوپرگنوائے ہیں بلکہ کہیں زیادہ۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے دستخظ نہ کرسکے ہوں توایک ساتھ موصوف پر برس پڑنا بھی تو ٹھیک نہیں۔ ایسے ہی تلخ الفاظ عبید بھائی نے نثار صاحب کے لیے استعمال کئے تھے اس بندے میں حسساسیت آپ سے بھی زیادہ تھی اب تک اردو ویکی پیڈیا سے دور ہے۔ آ پ سے التماس ہے کہ آپ صرف یہ الفاظ واپس لے لیں کہآپ کو برا لگتا ہے تو لگے۔ لگے ہاتھوں میں عبید بھائی سے بھی گزارش کروں گا (اردو کےلیے اردو ویکی پیڈیا کے لیے) وہ بھی دل میں کچھ نہ رکھیں۔
+اور ہو سکے تو نثار صاحب کوبھی ایک پیغام دیں کہ وہ واپس لوٹ آئیں۔ میں یہ بالکل نہیں کہوں گا آپ غلطی پر تھے لیکن قبلہ الفاظ ۔۔۔۔۔ حساس لوگ۔۔۔۔
+دونوں خطرناک ہوتے ہیں۔ امیدوں کے ساتھ کہ۔۔۔--Drcenjary(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:34, 27 نومبر 2015 (م ع و)میں نے کام کرنے سے انکار نہیں کیا، منتظم نہ رہنے یا کم از کم بطور منتظم جو کچھ کرتا ہوں وہ نہیں کروں گا۔ --Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 04:58, 28 نومبر 2015 (م ع و)ایک صارف کو تو کسی کو بھی کچھ بھی کہنے کی اجا��ت ہے، مگر ایک منتظم صرف وضاحت ہے کرے تب بھی،اسے یہ کہنا زیب نہیں دیتا--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 04:08, 29 نومبر 2015 (م ع و)اردو ویکیپیڈیا پر منتظمین کسی بھی خصوصی رویہ کے مستحق نہیں ہوتے، وہ عام صارفین ہی کی طرح ہیں محض ان کے پاس چند اختیارات زیادہ ہوتے ہیں۔ تمام ساتھیوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ اس گفتگو کو یہیں ختم فرما دیں تو نوازش ہوگی۔ ہم لوگ اردو ویکیپیڈیا کے اہم سنگ میل پر کھڑے ہیں، ایسے موقع پر کسی قسم کی تلخی و رنجش ہمارے ہی کاز کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ امید ہے احباب اس دردمندانہ گزارش کو شرف قبول بخشیں گے۔محمد شعیب(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:42, 28 نومبر 2015 (م ع و)بہت اچھے!--ابو السرمدمحمد یوسف(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:04, 28 نومبر 2015 (م ع و)بہت اچھے!۔۔علی نقی(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:17, 28 نومبر 2015 (م ع و)یہ مضمون انگریزی مضمون Lion کا مکمل ترجمہ ہے جہاں اسے منتخب مضمون قرار دیا جاچکا ہے۔16:04, 30 جنوری 2016 (م ع و)تبصرہ:--تمام احباب سے مضمون سے سرخ روابط کو ختم کرنے کی درخواست ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:41, 28 اپریل 2016 (م ع و)Yتکمیل--خطاؤں کی حد تکعلی نقی(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:17, 28 اپریل 2016 (م ع و)یہ مضمون اب تک کا شاید سب سے شاندار مضمون ہے، کیوں کہ اس میں منتخب مضمون کی خوبیان ہیں یہ مکمل اور معیاری مضمون ہے۔ مزید دیکھیے کے ذیل میں سرخ روابط کو ایک ایک کر کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے، اور میرے خیال میں سرخ راوبط کو بنیاد بنا کر اسے انتظار میں نہ رکھا جائے۔--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:05, 19 اکتوبر 2015 (م ع و)؛Yتکمیل--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:17, 30 اکتوبر 2015 (م ع و)سانچہ:م-م-رش-ب2حجکے مضمون کو منتخب مضمون کے لیے نامزد کیا جا رہا ہے۔Yتکمیل--«عبید رضا» 06:30, 24 مئی 2015 (م ع و)تائیدفہد احمد11:59, 13 نومبر 2009 (UTC)فقہ شافعیہ کے امام حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح و مختصر تاریخی حالات کو جاننے کے لیے یہ مضمون جو بشکل مقالہ لکھا گیا ہے، اِس کا مطالعہ ضروری و لازم ہے۔
+______اگر آپ نے آئمہ اربعہ کی سیرت و سوانح سے متعلق اسلاف کی کتب کا مطالعہ کیا ہو تو معلوم ہوگا کہ اُنہوں نے اُن کے فقہ کے متعلق معلومات و تبصرہ حیات کے تذکرے کے بعد کیا ہے۔ میں نے بھی اُسی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:38, 16 مئی 2016 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:36, 26 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون پوری اردو ویکیپیڈیا میں غالبًا سب سے زیادہ حوالہ جات رکھتا ہے اور غیرمعمولی تحقیقی نوعیت کا حامل ہے۔مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:24, 17 دسمبر 2015 (م ع و)تبصرہ:مضمون کو ویکی مزاج کے مطابق نہیں لکھا گیا۔اس میں جی،عظیم ، جیسے ممنوع القابات استعمال ہوئے ہیں اور اسے غیر جانبدارانہ بھی نہیں لکھا گیا جیسے یہ حصہبرطانوی راج کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے کیااورسدا بہار تخلیق سرفروشی کی تمنا ہی ہے جسے گاتے ہوئے نہ جانے کتنے محب وطن تختہ دار پر جھول گئے۔وغیرہ اس کے علاوہ اس میں ہندی خط میں بھی قطعے شامل کئے گئے ہیں جنکا ترجمہ ہونا چاہئے نیز بیشر حوالاجات کی تصدیق آن لائن نہیں دی گئی ۔حوالہ جات کو یا تو اردو یا انگریزی میں کم از کم بدل دی تاکہ ہم لوگ بھی اسے سمجھ سکیں--06:36, 9 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:@محمد افضل:صاحب، میں اس بات کے لیے ممنون ہوں کہ مضمون ک�� آپ نے بہ غور مطالعہ کیا اور منطقی نکات رقم فرمائے۔ یہ مضمون میں نے ہندی ویکی سے ترجمہ کیا تھا اور غالبًا اس دوران لب و لہجہ جس طرح وہاں تھا، ایضًا یہاں آگیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہم بھارت کے لوگ بھی کئی بار جذباتی اور ہو جاتے ہیں۔ تاہم جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ ڈاکٹر کرانت ایم ایل ورما نے کافی محنت سے اپنے یکجا کر کے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں شامل کیا تھا، اس لیے وہ تسلیم شدہ ہیں اور اسی کی بنیاد پر پی ایچ ڈی ہوئے۔ ہاں لب و لہجہ بدلنے کی ضرورت ہے، ممکن ہے کہ کوئی تبصرہ ہٹانے یا مختصر کرنے کی ضرورت ہو جو کہ آپ جیسے ویکی اصول سے واقف اور ان پر کاربند اصحاب کرسکتے ہیں۔ حوالہ جات یا کتابوں کے نام اردو میں لکھے جا سکتے ہیں، اگرچہ وہ اتنے ہی عجیب کیوں نہ لگے یا پڑھنے میں دشواری کیوں نہ ہو جیسے کہ اتپیڈن اور شڈینتر جیسے الفاظ! کیا آپ اس کی حمایت کرتے ہیں۔--مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:52, 9 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:مضمون عنوان و مواد کے لحاظ سے منفرد ہے۔اس مضمون کو متخب مضمون ضرور بننا چاہیے۔--محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:07, 10 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:انشاءاللہ میں تعاون کرونگا لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا--05:16, 13 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:محمد افضل کی تنقید بے جا نہیں لیکن مزمل نے اس کی بالکل صحیح وضاحت کی ہے۔ سب کو مل کر اسے منتخب مضمون بنانے کی سعی کرنا چاہیے۔--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:16, 13 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:اس مضمون کے اندر شامل ہندی متن کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حتی المقدور ذاتی رائے اور تقریری زبان کو بھی ہٹا چکا ہوں۔ کچھ ایسے دلچسپ اضافی پہلو جیسے کہ بسمل اور ان کی ماں کا آخری مکالمہ شامل کر لیا گیا ہے۔ اس طرح سے اس مضمون کی افادیت کافی بڑھ گئی ہے۔ گزارش ہے کہ اسے منتخب کرلیں اور ایک تاریخی شخصیت پر تحقیقی مضمون کو اس کا مستحقہ مقام عطا کریں۔ --مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 18:49, 19 مئی 2016 (م ع و)Yتکمیل، مضمون کو مثبت آراء کو مد نظر رکھتے ہوئے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا رہا ہے، براہ مہربانی اس کی مزید اصلاح کے لیے مضمون کا تبادلۂ خیال صفحہ استعمال کریں۔یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:47, 16 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:کسی بھی صارف کا منتخب معیار تک پہنچنے سے قبل مضمون کی تائید کرنا غلط امر ہے۔--☪جواب06:40, 17 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:آپ کی بات بالکل درست ہے۔ دراصل ہمارے ایک ساتھی نے خواہش ظاہر کی تھی کہٹیپو سلطاناورابو الکلام آزادکو منتخب مضمون ہونا چاہیے، اور میرا خیال ہے کہ سب اس بات سے متفق ہوں گے کہ واقعی یہ مضامین منتخب مضمون ہونا چاہیں۔ اسی لیے میں نے ان کو امیدوار برائے منتخب مضمون بنایا کہ سب ساتھی مشترکہ کوشش سے انہیں منتخب مضمون بنائیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جلد ہی ان کو کو منتخب مضمون کے معیار پر لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:44, 20 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:@Drcenjary:ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام صاحب کی مشہور کتاب Wings of Fire میں مرحوم نے ناسا میں ٹیپو سلطان کی تصویر دیکھنے کی بات کہی تھی، جس کا سبب اس دور کے عسکری ایجادات تھے۔ چونکہ آپ ایک جامعہ سے منسلک ہیں، اس موضوع کا مطالعہ کر کے متعلقہ مواد شامل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی ادب میں ٹیپو سلطان کا تذکرہ بھی دلچسپ موضوع ہے۔ جن دنوں میں بنگلور میں تھا میں نے ٹیپو سلطان کا پسندیدہ کھلونا دیکھا تھا جس کی رو سے لکڑی کے بنے انگریز فوجی کو شیر مسلسل حملہ کررہا تھا۔ اس سے ٹیپو کی انگریز دشمنی عیاں ہوتی ہے۔ ٹیپو کی زرعی اور ماحولیات دوست اصولوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ یہ بات کہ ٹیپو کے دو بیٹے انگریزوں کے قبضے میں رہے اور بعد میں انہیں دوران حکومت ہی رہا کیا گیا تھا، تفصیل طلب ہے اور اسے شامل کرنا چاہیے۔ ان اضافوں سے یہ مضمون کی افادیت بڑھے گی اور ہم اسے بجا طور منتخب کرسکیں گے۔--مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:07, 20 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:یقینا اس مضمون کو منتخب ہونا چاہئے اور اسے اس مقام تک پہنچانا کوئی مشکل بھی نہیں ہے بشرطِ ہم سب اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔--☪جواب04:13, 21 مئی 2016 (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:51، 6 اپریل 2023ء (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:41, 28 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:47, 16 مئی 2016 (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:40, 28 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون انگریزی ویکی کی مختصر ترین منتخب مضامین میں سے ایک ہے اب اس کے مکمل اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔☪جواب05:39, 21 مئی 2016 (م ع و)ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2016/36میں شامل کر دیا گیا۔--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:03, 24 اگست 2016 (م ع و)☪جواب13:33, 18 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:؛اس مضمون کو انگریزی ویکی سے ترجمہ کیا گیا ہے جہاں اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جاچکا ہے۔اسے ترجمہ کرنے میںمزمل،عثمان،طاہراورسنجری بھائیکا تعاون رہا جسکے لئے میں ان حضرات کا شکرگزار ہوں۔☪جواب14:06, 18 مئی 2016 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے☪☎07:05, 3 جون 2016 (م ع و)فقہ شافعیہ کے امام حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح و مختصر تاریخی حالات کو جاننے کے لیے یہ مضمون جو بشکل مقالہ لکھا گیا ہے، اِس کا مطالعہ ضروری و لازم ہے۔
+______اگر آپ نے آئمہ اربعہ کی سیرت و سوانح سے متعلق اسلاف کی کتب کا مطالعہ کیا ہو تو معلوم ہوگا کہ اُنہوں نے اُن کے فقہ کے متعلق معلومات و تبصرہ حیات کے تذکرے کے بعد کیا ہے۔ میں نے بھی اُسی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔______منتخب مضمون کا درجہ دے دیا گیا۔:)—خادم—05:34, 23 اگست 2016 (م ع و)یہ مضمون حالیہ پنجاب ترمیمی مہم میں سبھی جنوبی ایشیائی ویکیوں کے مضامین سے بڑا اور زیادہ معلوماتی رہا ہے۔ ویکی کانفرنس بھارت میں بھی یہ پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا گیا۔ اس مضمون کا انتخاب مہم میں شامل سبھی شرکاء کی کوششوں کا اعتراف ہوگا۔ --مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 15:28, 19 ستمبر 2016 (م ع و)مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔:)—خادم—19:45, 30 ستمبر 2016 (م ع و)سانچہ:م-م-رش-ب2یہ مضمون ٹھٹہ سندھ سے تعلق رکھنے والے اٹھارویں صدی کے عظیم محدث، یگانۂ روزگار فقیہ اور قادر الکلام شاعر کی شخصیت پر تحریر کیا گیا جن کی شہرت بین الاقوامی حیثیت کی حامل ہے۔ مواد کے حساب سے شخصیت کا مکمل احاطہ کرنے کی حقیر سی کوشش کی گئی ہے۔ مذکورہ مضمون سندھ کی تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے نمائندہ مضمون ہے۔--محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 04:35, 3 اکتوبر 2016 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا۔:)—خادم—13:43, 3 اکتوبر 2016 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا۔--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:36, 21 نومبر 2016 (م ع و)نامزد کنندہ(گان):--محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 04:35, 3 اکتوبر 2016 (م ع و)یہ مضمون مغلیہ فن تعمیر کا ایک اعلیٰ شاہکار مسجد وزیر خان پر مشتمل ہے۔ یہ مسجد بھارت اور پاکستان میں موجود مغلیہ عمارات میں سے چند اعلیٰ تعمیرات میں شامل ہے۔ اس مسجد کو یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ شامل کیا ہے۔اس مضمون کے صفحہ ساز عامر شاہین ہیں۔ بعد ازاں محترم محمد عمیر مرزا کی انتھک محنت نے مذکورہ مضمون کو ایک عمدہ مضمون بنا دیاہے۔ اس کے علاوہ اس مضمون میں محترم طاہر محمود صاحب اور راقم (محمد عارف سومرو) نے بھی اپنا مقدور بھر حصہ ڈالا۔ آپ سب سے گزارش ہے اس مضمون کی رائے شماری میں حصہ لیں اور اپنیتائید،تنقیداور اپنےتبصرہ:سے اس مضمون کے بارے میں خیالات کا اظہار کریں۔ شکریہ-محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:52, 6 جنوری 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا۔ --محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:44, 17 جنوری 2017 (م ع و)نامزد کنندہ(گان): --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:03, 15 فروری 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:49, 26 فروری 2017 (م ع و)نامزد کنندہ(گان): --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:41, 28 فروری 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 18:29, 8 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:10, 19 مارچ 2017 (م ع و)اس بندہ ناچیز کو یہاں اختلافی نوٹ لگانا چاہیے تھا مگرنہیں لگا رہا ہوں۔--علی نقی(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:19, 25 مارچ 2017 (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:45, 27 جولائی 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:22, 23 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:18, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:55, 23 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:21, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:58, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:42, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:03, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:23, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:09, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:25, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:49, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:36, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:52, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:33, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:22, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:41, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:01, 28 جون 2017 (م ع و)کلکتہ سے کولکاتا --— سابقہغیر دستخط شدہتبصرہ بدستAbualsarmad(تبادلۂ خیال•شراکتیں)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:41, 12 جولائی 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:16, 12 جولائی 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:42, 27 جولائی 2017 (م ع و))یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:32, 10 ستمبر 2017 (م ع و)پشاور میں شامل دریائے کنہار شاید ٹھیک نہیں یہ دریائے کنڑ ہو گا جو دریائے چترال کا دوسرا نام ہے۔
+پشاور شہر سے بہت سے بزرگان دین کا تعلق بھی رہا ہے مختصر سا ذکر ان کا بھی ہونا چاہیئے۔— سابقہغیر دستخط شدہتبصرہ ازAbualsarmad(تبادلۂ خیال•شراکتیں)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:44, 26 نومبر 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔ میرے خیال میں اردو ویکیپیڈیا پر مضمون انگریزی اور عبرانی سے بھی بہتر ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:20، 3 اگست 2018ء (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:40، 29 اگست 2018ء (م ع و)جمہوریہ آئرلینڈکے دار الحکومتڈبلنپر ویکیپیڈیا کی 174 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔باسک زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہڈینش زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرڈبلنمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔یہ مضمون ایک اچھے معیاری مضمون کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ اس میں کسی قسم کا کاپی رائٹ نہیں پے۔حسیب احمد(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:24، 25 اگست 2018ء (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:33، 5 ستمبر 2018ء (م ع و)ویکیپیڈیا:منتخب مضامینفہرست دیکھی جا سکتی ہے، منتخب مضامین کی اشد ضرورت ہے۔ براہ مہربانی رائے دیجیے۔—بخاری سعیدتبادلہ خیال11:46، 6 جنوری 2019ء (م ع و)Yتکمیل—بخاری سعیدتبادلہ خیال19:30، 6 جنوری 2019ء (م ع و)یہ مضمون فی الحال کسی دیگر ویکیپیڈیا پر منتخب مضمون نہیں۔ اردو ویکیپیڈیا پر اسے منتخب مضمون بنانے کی سعی کی گئی ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر وہ اس میں کوئی کمی یا غلطی دیکھتے ہیں تو اسے پورا یا درست کرنے کی کوشش کریںطاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:49، 14 جنوری 2019ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 125 زبانوں میں موجود ہے اور صرفملیالم زبانمیں منتخب مضمون کا درجہ رکھتا ہے۔اردومیں اس مضمون پر خاصی محنت کی گئی ہے بہت سی نئی تصاویر خاص طور پر جدہ کے لیے ویکیپیڈیا کامنز پر شائع کی گئی ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:39، 16 مئی 2019ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادل�� خیال•شراکتیں) 07:54، 30 مئی 2019ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 148 زبانوں میں موجود ہے۔ عربی میں یہمنتخب مضمونجبکہ انگریزی میں یہبہترین مضمونہے۔اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں دونوں دیکیپیڈیا کی معلومات یکجا کر دی گئی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ مزید اضافہ بھی کیا گیا ہے، یوں عمان پر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:08، 14 جولائی 2019ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل—ابن سعیدتبادلہ خیال04:44، 16 اگست 2019ء (م ع و)یہ مضمون انگریزی ویکیپیڈیا سے مکمل ترجمہ شدہ ہے اور وہاں بھی منتخب ہے۔ —ابن سعیدتبادلہ خیال07:29، 15 اگست 2019ء (م ع و)سرخ روابط اور حوالہ جات کی خامیوں کو دور کیا جائے۔--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:27، 15 اگست 2019ء (م ع و)یہ مضمونویکیپیڈیاکی 154 زبانوں میں موجود ہے۔مالے زباناور ہاکا چینی میں یہمنتخب مضمونجبکہانگریزی،ہسپانویاورانڈونیشیائیمیں یہبہترین مضمونہے۔اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں ان تمام دیکیپیڈیا کی معلومات یکجا کر دی گئی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ مزید اضافہ بھی کیا گیا ہے، یوں کوالا لمپور پراردو ویکیپیڈیاکا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:43، 21 جنوری 2020ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:54، 4 فروری 2020ء (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:37، 2 مارچ 2020ء (م ع و)ویکی احباب کے اتفاق رائے سے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے۔:)—خادم—مورخہ 21 مارچ 2020ء، بوقت 11 بج کر 23 منٹ (بھارت)یہ مضمونویکیپیڈیاکی 210 زبانوں میں موجود ہے۔افریکانر،عربی،انگریزی،کرویئشائی،مجارستانی،انڈونیشیائی،جارجیائی،لیٹویائی،مقدونیائی،پرتگیزی،سربیائیاورویتنامیمیں یہمنتخب مضمونہے۔اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوں استنبول پراردو ویکیپیڈیاکا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 15:19، 27 اپریل 2020ء (م ع و)ویکی احباب کے اتفاق رائے سے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:14، 12 مئی 2020ء (م ع و)آداب، امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ثناء اللہ امرتسریمعروف عالم دین، مفسرِ قرآن، صحافی تھے۔ احباب اپنی رائے ضرور دیں۔--شکریہ --حسن(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 15:52، 4 دسمبر 2020ء (م ع و)تبصرہ:مضمون میں مولانا اور اس طرح کے دیگر اعزازی کلمات کے علاوہ مضمون کے متن کا غیر جانبدار نہ ہونا، جیسے :اس کے علاوہ کئی مقامات پر حوالہ جات کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے، اور کہیں کہیں حد سے زیادہ۔ اگر اس جانب کوئی توجہ دی جائے تو مضمون لائق صد تحسین ہے۔ ─عافی(تبادلۂ خیال)تبصرہ:مضمون میں حوالوں کی حقیقتاً کمی ہے۔ اور اس میں دو متضاد چیزوں کے لیے ایک جیسے حوالے دیے ہیں۔مثلاً قادیانی اور مسیحی۔ ��یکن معلومات بہت اچھی طرح فراہم کی ہے۔ بس اس مضمون کو تھوڑا تراشنے کی ضرورت ہے۔پھر یہ مضمون قابلِ دید ہوگا۔ ─مُحَمد عُثمان(تبادلۂ خیال)تبصرہ:- مضمون میں زبانی سدھار کی گنجائش ہے۔فیسمین(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 02:31، 5 دسمبر 2020ء (م ع و)@محمد افضل:جناب آپ نےمضمون فرقہ وارانہ ڈھنگ میں لکھی گئی ہےلکھ دیا لیکن بتایا نہیں کہ کہاں پر آپ کو لگا کی فرقہ وارانہ ہے- کہاں کمی ہے میں درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں-- شکریہ----حسن(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:16، 5 دسمبر 2020ء (م ع و)یہ مضمون ہر طرح سے مکمل ہے۔ یہ مضمون ایک طرح سے پوری کتاب کی ضخامت کے برابر ہے۔امین اکبر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 19:57، 20 فروری 2021ء (م ع و)ویکی احباب کے اتفاق رائے سے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:48، 14 اپریل 2021ء (م ع و)یہ مضمون پاکستانی تاریخ کا ایک اہم اور فراموش باب ہے جسے انگریزی ویکی پر پہلے سے ہی منتخب مضمون کا درجہ مل چکا ہے جبکہ زیر نظر مضمون بھی اسکا مکمل ترجمعہ ہے۔ احباب سے آراء کی درخواست ہے۔ شکریہ🇵🇰🇵🇰✉16:57، 11 نومبر 2020ء (م ع و)ویکی احباب کے اتفاق رائے سے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:10، 14 اپریل 2021ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 255 زبانوں میں موجود ہے۔ایفریکانز،باسک،کروشیائی،نورویجینی نینوشک،پرتگیزیاوراسکاٹسمیں یہمنتخب مضمون، جبکہانگریزی،بیلاروسی،ڈینش،جرمن،ہسپانوی،انڈونیشیائی،جاپانیاورنورویجینی بوکمولمیں یہبہترین مضمونہے۔ اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںلندنپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:58، 9 ستمبر 2021ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔YتکمیلObaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:02، 28 ستمبر 2021ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 75 زبانوں میں موجود ہے۔نیپالی زباناورمیتھلی زبانمیں یہمنتخب مضمون، جبکہ حیرت انگیز طور پر یہگرمکھیپنجابی زبانمیں یہ منتخب مضمون نہیں ہے۔ اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںہرمندر صاحبپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:12، 8 جنوری 2022ء (م ع و)؛یہ مضمون منتخب مضامین کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 03:42، 2 فروری 2022ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 197 زبانوں میں موجود ہے۔ترکی زباناورمجارستانی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے، اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںانقرہپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:06، 12 جون 2022ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 175 زبانوں میں موجود ہے۔عربی زبان،کروشیائی زباناورمجارستانی زبانمیں یہمنتخب مضمون، جبکہا��پرانتو زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںمیلانپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:43، 11 اگست 2022ء (م ع و)ایک تفصیلی اور تحقیقی مضمون ہے جس پر بہت محنت کی گئی ہے اس لیے اسے منتخب مضمون ہونا چاہئیےیہ مضمون انگریزی زبان کے ویکیپیڈیا پر بھی منتخب مضمون ہے اور ادرو ویکیپیڈیا پر بھی منتخب مضمون کے معیارات کے مطابق ہے۔۔۔۔۔۔۔امین اکبر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 16:14، 2 اکتوبر 2022ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 240 زبانوں میں موجود ہے۔جرمن زبان،نورشک،سرویائی زبان،سربی کروشیائیاورمجارستانی زبانمیں یہمنتخب مضمونجبکہاسپرانتو،فرانسیسی زباناورفنی زبانمیں یہبہترین مضمونہے، اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںبیجنگپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:15، 3 اکتوبر 2022ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 198 زبانوں میں موجود ہے۔تھائی زبانمیں یہمنتخب مضمونجبکہجرمن زبانمیں یہبہترین مضمونہے، اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںبینکاکپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:02، 26 اکتوبر 2022ء (م ع و)یہ مضمون۔۔۔۔۔۔۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:54، 29 دسمبر 2022ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:20، 11 فروری 2023ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:23، 11 فروری 2023ء (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:42، 7 مارچ 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 269 زبانوں میں موجود ہے۔افریکانز،عربی زبان،باشقیر زبان،بلغاری زبان،بوسنیائی زبان،کروشیائی زبان،عبرانی زبان،لمبرخی،مقدونیائی زبان،مراٹھی زبان،پرتگیزی زبان،تاتاری زبان،ویتنامی زباناوراسپرانتومیں یہمنتخب مضمونجبکہڈینش زبان،جرمن زبان،باسک زبانمیں یہبہترین مضمونہے،اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںپیرسپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:59، 12 جنوری 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 216 زبانوں میں موجود ہے۔عربی زبان،جرمن زباناورمصری عربیاور میں یہمنتخب مضمونہے، اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںقاہرہپراردو ویکیپیڈیاکا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ م��ربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:38، 12 جنوری 2023ء (م ع و)مضمون منتخب ہو چکا ہے۔Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:22، 9 فروری 2023ء (م ع و)یہ مضمون جنابFaismeenکی تحریک پر بندہ نے تقریباً پانچ ماہ قبل انگریزی ویکی سے اردو میں کیا تھا، اس کے سرخ روابط کو زرق کرنے اور اس کو معیاری بنانے میں بندہ کو تقریباً پانچ ماہ لگے، اب بندہ چاہتا ہے کہ یہ منتخب بن کر صفحۂ اول کی زینت بنے؛ لہذا آپ حضرات سے بھی التماس ہے کہ اپنی آرا سے نواز کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں، نیز کوئی کمی یا تکنیکی خرابی آپ کی نظر میں آئے تو درست فرما دیں یا آگاہ فرما دیں؛ تاکہ مضمون اگر منتخب مضمون بنائے جانے کے معیار کے مطابق نہ ہو تو اسے ویسا بنایا جا سکے۔ شکریہKhaatir(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:44، 18 جنوری 2023ء (م ع و)تبادلہ خیال پر انگریزی ویکی سے ترجمہ شدہ ہونے کا سانچہ (سانچہ:Translated page) لگائیں تو میری تائید بھی شامل ہے۔ ─عافیؔ(تبادلۂ خیال)17:16، 21 جنوری 2023ء (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:47, 16 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:کسی بھی صارف کا منتخب معیار تک پہنچنے سے قبل مضمون کی تائید کرنا غلط امر ہے۔--☪جواب06:40, 17 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:آپ کی بات بالکل درست ہے۔ دراصل ہمارے ایک ساتھی نے خواہش ظاہر کی تھی کہٹیپو سلطاناورابو الکلام آزادکو منتخب مضمون ہونا چاہیے، اور میرا خیال ہے کہ سب اس بات سے متفق ہوں گے کہ واقعی یہ مضامین منتخب مضمون ہونا چاہیں۔ اسی لیے میں نے ان کو امیدوار برائے منتخب مضمون بنایا کہ سب ساتھی مشترکہ کوشش سے انہیں منتخب مضمون بنائیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جلد ہی ان کو کو منتخب مضمون کے معیار پر لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:44, 20 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:@Drcenjary:ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام صاحب کی مشہور کتاب Wings of Fire میں مرحوم نے ناسا میں ٹیپو سلطان کی تصویر دیکھنے کی بات کہی تھی، جس کا سبب اس دور کے عسکری ایجادات تھے۔ چونکہ آپ ایک جامعہ سے منسلک ہیں، اس موضوع کا مطالعہ کر کے متعلقہ مواد شامل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی ادب میں ٹیپو سلطان کا تذکرہ بھی دلچسپ موضوع ہے۔ جن دنوں میں بنگلور میں تھا میں نے ٹیپو سلطان کا پسندیدہ کھلونا دیکھا تھا جس کی رو سے لکڑی کے بنے انگریز فوجی کو شیر مسلسل حملہ کررہا تھا۔ اس سے ٹیپو کی انگریز دشمنی عیاں ہوتی ہے۔ ٹیپو کی زرعی اور ماحولیات دوست اصولوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ یہ بات کہ ٹیپو کے دو بیٹے انگریزوں کے قبضے میں رہے اور بعد میں انہیں دوران حکومت ہی رہا کیا گیا تھا، تفصیل طلب ہے اور اسے شامل کرنا چاہیے۔ ان اضافوں سے یہ مضمون کی افادیت بڑھے گی اور ہم اسے بجا طور منتخب کرسکیں گے۔--مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:07, 20 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:یقینا اس مضمون کو منتخب ہونا چاہئے اور اسے اس مقام تک پہنچانا کوئی مشکل بھی نہیں ہے بشرطِ ہم سب اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔--☪جواب04:13, 21 مئی 2016 (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:51، 6 اپریل 2023ء (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:41, 28 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 125 زبانوں میں موجود ہے اور صرفملیالم زبانمیں منتخب مضمون کا درجہ رکھتا ہے۔اردومیں اس مضمون پر خاصی محنت کی گئی ہے بہت سی نئی تصاویر خاص طور پر جدہ کے لیے ویکیپیڈیا کامنز پر شائع کی گئی ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:39، 16 مئی 2019ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:54، 30 مئی 2019ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 161 زبانوں میں موجود ہے۔ یہ مضمون دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون کو بہت بہتر کر دیا گیا ہے اور مزید حوالہ جات بھی شامل کیے گئے ہیں۔اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوں اسلام آباد پراردو ویکیپیڈیاکا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:42، 16 مئی 2023ء (م ع و)صارف:محمد ذیشان خان13:43، 20 مئی 2023ء (م ع و)ان میں سے عبد الواحد کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ یہ اس نئے شہر میں جنت سے آنے والا پہلا ننھا وجود تھا جس سے تمام ملازمین اور ان کے گھرانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے اسے اسلام آباد کے لیے برکت قرار دیا گیا۔ سب نے مل کر خوشی منائی جیسے سب کے گھرانوں پر رحمت اتری ہو۔ والدین نے بیٹی کا نام ”آب پارہ “ رکھا۔اسلام آباد کے پرانے دیہات کے عنوان سے کسی ویب سائٹ کا پورا مضمون کاپی پیسٹ کردیا گیا ہے۔اس طرح مضمون میں کئی جگہ تحریر غیر ضروری طوالت اور غیر ضروری معلومات پر مشتمل ہے۔صارف:محمد ذیشان خان13:54، 20 مئی 2023ء (م ع و)غیر حوالہ شدہ اخباری کالمز ، ٹاک شورز ، ویڈیوز اور کسی سوشل میڈیا پوسٹ کو حوالہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔حوالہ نمبر 3 (ایک فرد واحد کی سوشل میڈیا پوسٹ ہے)، حوالہ نمبر 10 اور 14 (ٹاک شوز ویڈیو)
+حوالہ نمبر 24، 25 (اخباری کالم کاپی پیسٹ) اس اخباری کالم کی متن کے لیے حوالہ 26 ، 27 دینا درست نہیں ۔
+حوالہ نمبر 29 اور 31 ایک ہی ہے، (اخباری کالم کاپی پیسٹ) بیچ میں حوالہ نمبر 30 اضافی ہے متن سے اس کا کوئی لنک نہیں۔
+حوالہ نمبر 18 ، 32 ، 81 اور 119 غیر موجود ہیں۔صارف:محمد ذیشان خان14:54، 20 مئی 2023ء (م ع و)--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:12، 19 مئی 2023ء (م ع و)°تبصرہ:-- اگر یہ مضمون منتخب مضمون کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو اس پر رائے شماری کو مقفل کر دیا جائے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال)--(شراکتیں)07 16:56، 28 اپریل 2024ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 25 زبانوں میں موجود ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 21:38، 7 مئی 2023ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:31، 17 مئی 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 37 زبانوں میں موجود ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:02، 22 جون 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 77 زبانوں میں م��جود ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:57، 28 جون 2023ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:00، 2 جولائی 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 88 زبانوں میں موجود ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو اس مضمون میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:39، 30 جون 2023ء (م ع و)""مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو"" یہغلط بیانیہے عربی ویکیپیڈیا پر مضمون خاصہ بہتر ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:02، 3 اگست 2023ء (م ع و)نامزد کنندہ(گان):فیسمین(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:48، 31 جولائی 2023ء (م ع و)یہ مضمون انگریزی پر منتخب ہے۔ اردو میں اس مضمون کا حرف بہ حرف ترجمہ ہے۔ مشینی ترجمہ بالکل نہیں۔ کہیں کہیں کچھ تبدیلی اور کمی و بیشی بھی ہے۔ تمام روابط نیلے ہیں۔ امید ہے احباب اسے لائق منتخب سمجھیں گے۔فیسمین(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:48، 31 جولائی 2023ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:17، 1 اگست 2023ء (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔عاقب نذیر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:13، 24 ستمبر 2023ء (م ع و)یہ مضمون انگریزی ویکی مضمونen:Jamiat Ulema-e-Hindکا مکمل ترجمہ ہے، جس کی باضابطہ وضاحت اس صفحے کے تبادلۂ خیال صفحے پر دیکھی جا سکتی ہے۔ انگریزی مضمون انگریزی ویکی پربہترین مضمونہے۔زیر نظر مضمون کا حجم 90,054 بائٹس پر مشتمل ہے۔ نیز مضمون کو میں نے ایک ڈیڑھ سال پہلے ہی بڑی محنت سے کام کیا اور اسے نامزد نہیں کیا؛ مگر بعد میں مئی 2023ء کو اور اب آج کل کے اندر مضمون پر تازہ تازہ گہری نظر ڈال کر حتی الوسع خامیوں کو دور کرنے کی سعی کی ہے۔ حوالہ جات کا بھی مکمل ترجمہ کر دیا گیا ہے۔ اب اس مضمون کو اردو ویکیپیڈیا کےمنتخب مضامینیا کم ازبہترین مضامینمیں شامل کرنے کی گزارش کرتا ہوں۔ احباب سے مخلصانہ التماس ہے کہ وہ اپنے محبانہ آرا سے نوازیں۔Khaatir(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 19:57، 1 جنوری 2024ء (م ع و)انگریزی ویکی مضمون کو بہترین مضمون بنانے میںصارف:TheAafiکی محنت تھی۔Khaatir(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 20:03، 1 جنوری 2024ء (م ع و)ایک معلوماتی مضمون ہے اور اس کو لازمی طور پر منتخب ہونا چاہئےابوالحسن راجپوت(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:38، 2 جنوری 2024ء (م ع و)انگریزی اور اردو کے قارئین الگ ہیں اور دونوں کا معیار بھی الگ ہی ہے۔ جمعیت نے جہاں کئی مثبت کام کیے ہیں وہیں کچھ اہم امور پر جمعیت کی خاموشی یا اس کی ناکامی پر تنقید بھی ہوتی رہتی ہے۔ لہذا اس مضمون میں اس تنقید کا کچھ حصہ ہونا چاہیے۔ بحیثیت اردو قاری ہمیں یہ مضمون ادھورا سا معلوم ہوتا ہے۔فیسمین(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 19:03، 16 فروری 2024ء (م ع و)اس ویکیپیڈیا پر یہ مضمون سب سے پہلا منتخب مضمون ہونا چاہیے تھا۔امین اکبر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:41، 6 ستمبر 2023ء (م ع و)تبصرہ:– وہ علاقے جہاں اردو بولے جاتے ہیں، ان کے ساتھ دیے گئے حوالہ جات میں لنک شکستہ ہیں، انھیں صحیح کر لیا جائے تو اچھا ہے۔ بہت سے ایسے مقامات ہیں، جن کے ساتھ حوالہ جات ہونے چاہئیں۔ اس مضمون کو فی نفسہ منتخب ہونا چاہیے؛ کیوں کہ اردو ویکیپیڈیا ہی اردو کی فروغ و ترقی کے لیے ہے؛ مگر مضمون میں اگر قابل اصلاح چیزیں نظر آئیں، تو کوئی بھی کر سکتا ہے اور میرے خیال سے سب کو مل کر اسے بہتر بنانا چاہیے اور جس پیراگراف میں حوالہ جات نہیں ہیں، اس سے متعلق حوالہ جات تلاش کرکے لگا دیے جائیں۔
+نیز بعض خانوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ مضمون پر ابھی کام مکمل نہیں ہوا ہے، کام چل رہا ہے۔Khaatir(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:32، 7 ستمبر 2023ء (م ع و)تبصرہ:– میرے خیال میںعافیصاحب نے جن غیر ضروری حوالہ جات کی طرف توجہ دلائی ہے وہ انہیں حذف کر کے مضمون کو منتخب درجے پر فائز کریں، اگر اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:50، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:54، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)روسکےدار الحکومتاوروفاقی شہرماسکوپر ویکیپیڈیا کی 274 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔ایفریکانز،جرمن زبان،کرویئشائی زبان،منگولی زبان،سلووین زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہڈینش زبان،ہسپانوی زبان،اسپرانتو،لادین زبان،البانوی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرماسکومضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:51، 24 اگست 2024ء (م ع و)ترکیہمغربی ایشیامیںاناطولیہمیں ایک ملک ہے۔ترکیہپر ویکیپیڈیا کی 323 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔ہسپانوی زبان،کرویئشائی زبان،جارجیائی زبان،لاطینی زبان،لیٹویائی زبان،مجارستانی زبان،مقدونیائی زبان،پرتگیزی زبان،کردی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہعربی زبان،ڈینش زبان،یونانی زبان،عبرانی زبان،فنی زبان،تاتاری زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرترکیہمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:40، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)المغربکے شہر اور سابقہدار الحکومتمراکش (شہر)پر ویکیپیڈیا کی 111 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔پرتگیزی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہانگریزی زبان،تشلحیتمیں یہبہترین مضمونہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرمراکش (شہر)مضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:35، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)المغربشمالی افریقاکے خطےالمغرب العربیمیں واقع ایک ملک ہے۔المغربپر ویکیپیڈیا کی 262 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔عربی زبان، مغربی فلیمش میں یہمنتخب مضمونہے جبکہ ٹمبوکا زبان،فنی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ ان��ریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرالمغربمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:42، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)غزہ پٹیکے شمال میں واقعدولت فلسطینکا شہر ہے۔غزہ شہرپر ویکیپیڈیا کی 105 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔عربی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہپرتگیزی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرغزہ شہرمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:48، 6 ستمبر 2024ء (م ع و)یونانکےدار الحکومتاور سب سے بڑے شہرایتھنزپر ویکیپیڈیا کی 225 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔فاروی زبان،لاطینی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہاسپرانتومیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرایتھنزمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:06، 8 ستمبر 2024ء (م ع و)ریاست ہائے متحدہکےدار الحکومتواشنگٹن، ڈی سیپر ویکیپیڈیا کی 246 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔انگریزی زبان،افریکانز،جاپانی زبان،ویتنامی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہبیلاروسی زبان،روسی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ یہ مضمون نہ صرف انگریزی ویکیپیڈیا کا مکمل ترجمہ ہے بلکہ اس میں مزید معلومات کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرواشنگٹن، ڈی سیمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:40، 12 ستمبر 2024ء (م ع و)اطالیہکےدار الحکومترومپر ویکیپیڈیا کی 262 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔باشقیر زبان،کرویئشائی زبان،جارجیائی زبان،لاطینی زبان، لزگی زبان،کریمیائی تاتاری زبان،تگالوگ زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہڈینش زبان،اطالوی زبان،سربیائی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرروممضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:51، 12 ستمبر 2024ء (م ع و)ریاست ہائے متحدہکی ریاستکیلیفورنیاکا سب سے زیادہ آبادی والا شہرلاس اینجلسپر ویکیپیڈیا کی 220 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔ایفریکانز،بوسنیائی زبان،ہسپانوی زبان،فرانسیسی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہ ٹمبوکا زبان،جرمن زبان،روسی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرلاس اینجلسمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:41، 14 ستمبر 2024ء (م ع و)آسٹریلیاکی ریاستنیوساؤتھ ویلزکےدار الحکومتسڈنیپر ویکیپیڈیا کی 216 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔ایفریکانز،لتھووینیائی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہجرمن زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرسڈنیمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:46، 14 ستمبر 2024ء (م ع و)"
+2,ویکیپیڈیا:اسلوب نامہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D8%B2_%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AA,"اردو ویکیپیڈیا پر کوئی مضمون تحریر کرتے وقت دائرۃ المعارف کے اسلوب نامہ (style of articles) کے مندرجہ ذیل طریقۂ کار کو مدنظر رکھیے ؛ یہ اسلوب نامہ آنے والے صارفین (باالفاظ دیگرمستقبلیات (futurology)) کو پیش نظر رکھ کر منتخب کیا جارہا ہے تاکہ موجودہ مصنف کی تحریر آنے والے دنوں (یعنی بصورت مصنف کی عدم دستیابی) میں نئے لکھنے والوں کے ليے ابہام پیدا نہ کرے اور وہ بآسانی اس میں اضافہ جات اور وقتِ حاضر کی ضروریات کے مطابق ترامیم کر سکیں۔ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ کے مضمون کا جو عنوان ہو وہ ایک سے زائد مفاہیم یا مطالب میں آتا ہو اور ان پر الگ الگ صفحات یا مضامین کی ضرورت ہو۔ ایسی صورت میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ مضمون کی ابتدا (یعنی پہلی سطر) ہی میں اس بات کا ذکر کر دیا جائے اور اس نام کے دیگر استعمالات کے صفحے کی جانب ربط (link) دے دیا جائے۔ عام طور پر ایسے صفحے کے نام کے ساتھ قوسین میں لفظ ----- (ضدابہام) ----- کا اضافہ پایا جاتا ہے۔ ایسا کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ مضمون کی ابتدا میں سانچہ {{دیگر}} رکھ دیا جائے، جس کے ليے مندرجہ ذیلترمیز یا کوڈنگاختیار کی جاتی ہے۔اردو دائرۃ المعارف چونکہانٹرنیٹپر موجود ایک ویب سائٹ ہے اور اس وجہ سے اس پرہائپر ٹیکسٹ(hyperlink) روابط سے بھر پور استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ اپنے مضمون کی معلومات کو ورلڈ وائڈ ویب پر موجود دیگرڈیٹااور سائٹ سے بہراور کرنے کی خاطر اس میں ان مواقع کے روابط دے سکتے ہیں۔ کسی بھی مضمون میں ایسے روابط متعدد اقسام کے ہوتے ہیں جن کا تذکرہ اور ان کے اندراج کا طریقۂ کار ذیل میں دیا جارہا ہے؛ اس میں سے سب سے پہلے درج کیا گیا ربط (یعنی #1) انتہائی اہم ہے اور اس کے نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے مضمون کی نہ صرف یہ کہ شاخت محدود ہو جائے گی بلکہ اس میں ترامیم و بہتری پیدا کرنے کے خواہش مند صارفین کو بھی دشواری کا سامنا ہوسکتا ہے اس #1 پر مذکور ربط کی اسی اہمیت کی خاطر اردو ویکیپیڈیا اس کا اندراج لازمی سمجھتا ہے۔اسی طرح آپ اعدادی شمار کے ساتھ جس قدر بھی بیرونی روابط ہوں ان کو یکے بعد دیگرے درج کر سکتے ہیں۔اعراباردوزبان میں بعض اوقات انتہائی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں، بطور خاص اس وقت کہ جب کوئی کلمہ یالفظنیا ہو یاعربیزبان سے آیا ہو۔ گو اعراب کا اندراج تلفظ کی ادائیگی کے ليے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا مگر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اندراج اعراب، باعثِ سہولت ہو نا کہ باعث زحمت۔ چونکہ ویکیپیڈیا پر تحریرشمارندیویب صفحہپر دکھائی دیتی ہے اورکاغذیصفحۂ کتابسے نہایت مختلف نوعیت کی ہوتی ہے لہٰذا ویکیپیڈیا پر اعراب کے استعمال میں درج ذیل باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔اردو ویکیپیڈیا میں نئیسائنسی،ریاضیاتی،تاریخی،معاشیاتیو دیگر مضامین کی اصطلاحات جوق در جوق چلی آتی ہیں، ان اصطلاحات کو بہتری اور ترقی کے مقصد سے اختیار کیا جاتا ہے اور اگر ان سے یہی ترقی و ارتقا اردو کا مقصد حاصل نہیں ہو سکے تو انکا اندراج کوئی معنی نہیں رکھتا۔ چونکہ اردو پڑھنے والوں کے ليے یہ اصطلاحات انگریزی کی نسبت اجنبی ہوتی ہیں اس ليے جب تک ان کے اصطلاحات کے اندراج میں یکسانی سے ایکدستورنہیں اپنایا جائے گا انکا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی اصطلاح یا نئے لفظ کے استعمال میں درج ذیل باتوں کو ملحوظ خاطر رکھیے۔اقدار[[زمرہ:و
+یکیپیڈیا]]"
+3,ویکیپیڈیا:منتخب مضمون کا معیار,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D9%85%D9%88%D9%86_%DA%A9%D8%A7_%D9%85%D8%B9%DB%8C%D8%A7%D8%B1,منتخب مضمونسے مُراد ایسا مضمون ہے جو ہر لحاظ سے بہترین اور عمدہ مواد و معلومات کا حامل ہو۔ اس میں نہ صرف مضمون سے متعلق تمام تر مواد جامع و مفصل انداز میں حوالہ جات کی مدد سے تحریر کئے جائیں بلکہ اس کے لکھنے کا انداز پیشہ ورانہ ہو اور اس میں موضوع کا مکمل احاطہ کیا گیا ہو۔ ویکیپیڈیا کے قواعد و ضوابط کے مطابق ایک منتخب مضمون میں درج ذیل خوبیاں ہونی چاہیے:
+4,ویکیپیڈیا:امیدوار برائے منتخب مضمون,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%B1_%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D9%85%D9%88%D9%86,"بہترین مضامینکی نامزدگی کے لیےویکیپیڈیا:امیدوار برائے بہترین مضمونملاحظہ فرمائیں۔یہاں ہم اس بات تعین کرنا چاہتے ہیں کہ کونسے مضامینمنتخب مضمون کے معیارپر پورے اُترتے ہیں۔ منتخب مضامین ویکیپیڈیا کی بہترین کارکردگی کا نمونہ ہیں اور نامزدہ شدہ مضمون ہر لحاظ سے ویکیپیڈیا کےمنتخب مضمونکے معیار پر پورا اُترنا چاہیے، بصورتِ دیگر اُنہیں اس فہرست سے خارج کردیا جائے گا۔کسی بھی مضمون کو نامزد کرنے سے پہلے نامزد کنندہ دیگر صارفین کی آراء معلوم کرلے۔ نامزد کنندہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ویکیپیڈیا کے قواعد و ضوابط سے کما حقہ آگاہی رکھتا ہو اورمنتخب مضمونکے مرحلے سے گزرنے کے دوران مضمون کے تمام تر اعتراضات و کمزور پہلوؤں کو دور کرسکے۔ ایسے نامزد کنندگان جو نامزد کردہ مضمون کے تحریری مشارکین میں شامل نہ ہوں، وہ براہ کرم نامزد کرنے سے قبل متعلقہ مضمون کے مصنفین سے ضرور رائے لے لیں۔ نامزد کنندگان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تنقید کا مثبت جواب دیں گے اور اس سلسلے میں اُٹھائے گئے تمام اعتراضات کو دور کرنے میں پرُ خلوص کوشش کریں گے۔نامزدگی کا طریقۂ کارتائید و تنقیدبراہ کرم نامزد کردہ کسی بھی مضمون پر تائید و تنقید کرنے سے پہلے درج ذیل امور بغور ملاحظہ فرما لیں۔یہ مضمون انگریزی زبان کے ویکیپیڈیا پر بھی منتخب مضمون ہے اور ادرو ویکیپیڈیا پر بھی منتخب مضمون کے معیارات کے مطابق ہے۔۔۔۔۔۔۔امین اکبر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 16:14، 2 اکتوبر 2022ء (م ع و)یہ مضمون انگریزی ویکی پر منتخب ہے اور یہ اس کا ترجمہ ہے۔Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:32، 15 اپریل 2021ء (م ع و)اربعین۔۔۔۔۔۔۔علی نقی(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:37, 20 نومبر 2015 (م ع و)سومرو صاحب!آپ کے اندر تخلیقیت (Creativity) کا مادہ ہے۔ حساسیت (Sensitivity) کا مادہ بھی ہے۔ یہ بات بھی تسلیم ہے کہ آپ محنتی (Hardworking) بھی ہیں ۔ اور اردو ویکی پیڈیا کے لیے فکر مند بھی۔ لیکن حسساسیت جب تخلیقیت پر غالب آ جاتی ہے تو ایسے الفاظ (دانستہ نہ سہی) آپ کی انگلیوں سےنکل جاتے ہیں جو آپ کی محنت پر زحمت بن جاتے ہیں۔ خواہ کچھ بھی ہو آپ کو ایسا نہیں کہنا چائیے کہآپ کو برا لگتا ہے تو لگے۔آپ کو تو پتہ ہے کہ عبید بھائی میں بھی وہی صفات ہیں جو میں نے اوپرگنوائے ہیں بلکہ کہیں زیادہ۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے دستخظ نہ کرسکے ہوں توایک ساتھ موصوف پر برس پڑنا بھی تو ٹھیک نہیں۔ ایسے ہی تلخ الفاظ عبید بھائی نے نثار صاحب کے لیے استعمال کئے تھے اس بندے میں حسساسیت آپ سے بھی زیادہ تھی اب تک اردو ویکی پیڈیا سے دور ہے۔ آ پ سے التماس ہے کہ آپ صرف یہ الفاظ واپس لے لیں کہآپ کو برا لگتا ہے تو لگے۔ لگے ہاتھوں میں عبید بھائی سے بھی گزارش کروں گا (اردو کےلیے اردو ویکی پیڈیا کے لیے) وہ بھی دل میں کچھ نہ رکھیں۔
+اور ہو سکے تو نثار صاحب کوبھی ایک پیغام دیں کہ وہ واپس لوٹ آئیں۔ میں یہ بالکل نہیں کہوں گا آپ غلطی پر تھے لیکن قبلہ الفاظ ۔۔۔۔۔ حساس لوگ۔۔۔۔
+دونوں خطرناک ہوتے ہیں۔ امیدوں کے ساتھ کہ۔۔۔--Drcenjary(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:34, 27 نومبر 2015 (م ع و)میں نے کام کرنے سے انکار نہیں کیا، منتظم نہ رہنے یا کم از کم بطور منتظم جو کچھ کرتا ہوں وہ نہیں کروں گا۔ --Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 04:58, 28 نومبر 2015 (م ع و)ایک صارف کو تو کسی کو بھی کچھ بھی کہنے کی اجازت ہے، مگر ایک منتظم صرف وضاحت ہے کرے تب بھی،اسے یہ کہنا زیب نہیں دیتا--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 04:08, 29 نومبر 2015 (م ع و)اردو ویکیپیڈیا پر منتظمین کسی بھی خصوصی رویہ کے مستحق نہیں ہوتے، وہ عام صارفین ہی کی طرح ہیں محض ان کے پاس چند اختیارات زیادہ ہوتے ہیں۔ تمام ساتھیوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ اس گفتگو کو یہیں ختم فرما دیں تو نوازش ہوگی۔ ہم لوگ اردو ویکیپیڈیا کے اہم سنگ میل پر کھڑے ہیں، ایسے موقع پر کسی قسم کی تلخی و رنجش ہمارے ہی کاز کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ امید ہے احباب اس دردمندانہ گزارش کو شرف قبول بخشیں گے۔محمد شعیب(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:42, 28 نومبر 2015 (م ع و)بہت اچھے!--ابو السرمدمحمد یوسف(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:04, 28 نومبر 2015 (م ع و)بہت اچھے!۔۔علی نقی(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:17, 28 نومبر 2015 (م ع و)یہ مضمون انگریزی مضمون Lion کا مکمل ترجمہ ہے جہاں اسے منتخب مضمون قرار دیا جاچکا ہے۔16:04, 30 جنوری 2016 (م ع و)تبصرہ:--تمام احباب سے مضمون سے سرخ روابط کو ختم کرنے کی درخواست ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:41, 28 اپریل 2016 (م ع و)Yتکمیل--خطاؤں کی حد تکعلی نقی(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:17, 28 اپریل 2016 (م ع و)یہ مضمون اب تک کا شاید سب سے شاندار مضمون ہے، کیوں کہ اس میں منتخب مضمون کی خوبیان ہیں یہ مکمل اور معیاری مضمون ہے۔ مزید دیکھیے کے ذیل میں سرخ روابط کو ایک ایک کر کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے، اور میرے خیال میں سرخ راوبط کو بنیاد بنا کر اسے انتظار میں نہ رکھا جائے۔--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:05, 19 اکتوبر 2015 (م ع و)؛Yتکمیل--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:17, 30 اکتوبر 2015 (م ع و)سانچہ:م-م-رش-ب2حجکے مضمون کو منتخب مضمون کے لیے نامزد کیا جا رہا ہے۔Yتکمیل--«عبید رضا» 06:30, 24 مئی 2015 (م ع و)تائیدفہد احمد11:59, 13 نومبر 2009 (UTC)فقہ شافعیہ کے امام حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح و مختصر تاریخی حالات کو جاننے کے لیے یہ مضمون جو بشکل مقالہ لکھا گیا ہے، اِس کا مطالعہ ضروری و لازم ہے۔
+______اگر آپ نے آئمہ اربعہ کی سیرت و سوانح سے متعلق اسلاف کی کتب کا مطالعہ کیا ہو تو معلوم ہوگا کہ اُنہوں نے اُن کے فقہ کے متعلق معلومات و تبصرہ حیات کے تذکرے کے بعد کیا ہے۔ میں نے بھی اُسی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:38, 16 مئی 2016 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:36, 26 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون پوری اردو ویکیپیڈیا میں غالبًا سب سے زیادہ حوالہ جات رکھتا ہے اور غیرمعمولی تحقیقی نوعیت کا حامل ہے۔مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:24, 17 دسمبر 2015 (م ع و)تبصرہ:مضمون کو ویکی مزاج کے مطابق نہیں لکھا گیا۔اس میں جی،عظیم ، جیسے ممنوع القابات استعمال ہوئے ہیں اور اسے غیر جانبدارانہ بھی نہیں لکھا گیا جیسے یہ حصہبرطانوی راج کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے کیااورسدا بہار تخلیق سرفروشی کی تمنا ہی ہے جسے گاتے ہوئے نہ جانے کتنے محب وطن تختہ دار پر جھول گئے۔وغیرہ اس کے علاوہ اس میں ہندی خط میں بھی قطعے شامل کئے گئے ہیں جنکا ترجمہ ہونا چاہئے نیز بیشر حوالاجات کی تصدیق آن لائن نہیں دی گئی ۔حوالہ جات کو یا تو اردو یا انگریزی میں کم از کم بدل دی تاکہ ہم لوگ بھی اسے سمجھ سکیں--06:36, 9 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:@محمد افضل:صاحب، میں اس بات کے لیے ممنون ہوں کہ مضمون کا آپ نے بہ غور مطالعہ کیا اور منطقی نکات رقم فرمائے۔ یہ مضمون میں نے ہندی ویکی سے ترجمہ کیا تھا اور غالبًا اس دوران لب و لہجہ جس طرح وہاں تھا، ایضًا یہاں آگیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہم بھارت کے لوگ بھی کئی بار جذباتی اور ہو جاتے ہیں۔ تاہم جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ ڈاکٹر کرانت ایم ایل ورما نے کافی محنت سے اپنے یکجا کر کے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں شامل کیا تھا، اس لیے وہ تسلیم شدہ ہیں اور اسی کی بنیاد پر پی ایچ ڈی ہوئے۔ ہاں لب و لہجہ بدلنے کی ضرورت ہے، ممکن ہے کہ کوئی تبصرہ ہٹانے یا مختصر کرنے کی ضرورت ہو جو کہ آپ جیسے ویکی اصول سے واقف اور ان پر کاربند اصحاب کرسکتے ہیں۔ حوالہ جات یا کتابوں کے نام اردو میں لکھے جا سکتے ہیں، اگرچہ وہ اتنے ہی عجیب کیوں نہ لگے یا پڑھنے میں دشواری کیوں نہ ہو جیسے کہ اتپیڈن اور شڈینتر جیسے الفاظ! کیا آپ اس کی حمایت کرتے ہیں۔--مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:52, 9 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:مضمون عنوان و مواد کے لحاظ سے منفرد ہے۔اس مضمون کو متخب مضمون ضرور بننا چاہیے۔--محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:07, 10 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:انشاءاللہ میں تعاون کرونگا لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا--05:16, 13 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:محمد افضل کی تنقید بے جا نہیں لیکن مزمل نے اس کی بالکل صحیح وضاحت کی ہے۔ سب کو مل کر اسے منتخب مضمون بنانے کی سعی کرنا چاہیے۔--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:16, 13 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:اس مضمون کے اندر شامل ہندی متن کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حتی المقدور ذاتی رائے اور تقریری زبان کو بھی ہٹا چکا ہوں۔ کچھ ایسے دلچسپ اضافی پہلو جیسے کہ بسمل اور ان کی ماں کا آخری م��المہ شامل کر لیا گیا ہے۔ اس طرح سے اس مضمون کی افادیت کافی بڑھ گئی ہے۔ گزارش ہے کہ اسے منتخب کرلیں اور ایک تاریخی شخصیت پر تحقیقی مضمون کو اس کا مستحقہ مقام عطا کریں۔ --مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 18:49, 19 مئی 2016 (م ع و)Yتکمیل، مضمون کو مثبت آراء کو مد نظر رکھتے ہوئے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا رہا ہے، براہ مہربانی اس کی مزید اصلاح کے لیے مضمون کا تبادلۂ خیال صفحہ استعمال کریں۔یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:47, 16 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:کسی بھی صارف کا منتخب معیار تک پہنچنے سے قبل مضمون کی تائید کرنا غلط امر ہے۔--☪جواب06:40, 17 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:آپ کی بات بالکل درست ہے۔ دراصل ہمارے ایک ساتھی نے خواہش ظاہر کی تھی کہٹیپو سلطاناورابو الکلام آزادکو منتخب مضمون ہونا چاہیے، اور میرا خیال ہے کہ سب اس بات سے متفق ہوں گے کہ واقعی یہ مضامین منتخب مضمون ہونا چاہیں۔ اسی لیے میں نے ان کو امیدوار برائے منتخب مضمون بنایا کہ سب ساتھی مشترکہ کوشش سے انہیں منتخب مضمون بنائیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جلد ہی ان کو کو منتخب مضمون کے معیار پر لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:44, 20 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:@Drcenjary:ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام صاحب کی مشہور کتاب Wings of Fire میں مرحوم نے ناسا میں ٹیپو سلطان کی تصویر دیکھنے کی بات کہی تھی، جس کا سبب اس دور کے عسکری ایجادات تھے۔ چونکہ آپ ایک جامعہ سے منسلک ہیں، اس موضوع کا مطالعہ کر کے متعلقہ مواد شامل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی ادب میں ٹیپو سلطان کا تذکرہ بھی دلچسپ موضوع ہے۔ جن دنوں میں بنگلور میں تھا میں نے ٹیپو سلطان کا پسندیدہ کھلونا دیکھا تھا جس کی رو سے لکڑی کے بنے انگریز فوجی کو شیر مسلسل حملہ کررہا تھا۔ اس سے ٹیپو کی انگریز دشمنی عیاں ہوتی ہے۔ ٹیپو کی زرعی اور ماحولیات دوست اصولوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ یہ بات کہ ٹیپو کے دو بیٹے انگریزوں کے قبضے میں رہے اور بعد میں انہیں دوران حکومت ہی رہا کیا گیا تھا، تفصیل طلب ہے اور اسے شامل کرنا چاہیے۔ ان اضافوں سے یہ مضمون کی افادیت بڑھے گی اور ہم اسے بجا طور منتخب کرسکیں گے۔--مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:07, 20 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:یقینا اس مضمون کو منتخب ہونا چاہئے اور اسے اس مقام تک پہنچانا کوئی مشکل بھی نہیں ہے بشرطِ ہم سب اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔--☪جواب04:13, 21 مئی 2016 (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:51، 6 اپریل 2023ء (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:41, 28 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:47, 16 مئی 2016 (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:40, 28 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون انگریزی ویکی کی مختصر ترین منتخب مضامین میں سے ایک ہے اب اس کے مکمل اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔☪جواب05:39, 21 مئی 2016 (م ع و)ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2016/36میں شامل کر دیا گیا۔--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:03, 24 اگست 2016 (م ع و)☪جواب13:33, 18 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:؛اس مضمون کو انگریزی ویکی سے ترجمہ کیا گیا ہے جہاں اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جاچکا ہے۔اسے ترجمہ کرنے میںمزمل،عثمان،طاہراورسنجری بھائیکا تعاون رہا جسکے لئے میں ان ح��رات کا شکرگزار ہوں۔☪جواب14:06, 18 مئی 2016 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے☪☎07:05, 3 جون 2016 (م ع و)فقہ شافعیہ کے امام حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح و مختصر تاریخی حالات کو جاننے کے لیے یہ مضمون جو بشکل مقالہ لکھا گیا ہے، اِس کا مطالعہ ضروری و لازم ہے۔
+______اگر آپ نے آئمہ اربعہ کی سیرت و سوانح سے متعلق اسلاف کی کتب کا مطالعہ کیا ہو تو معلوم ہوگا کہ اُنہوں نے اُن کے فقہ کے متعلق معلومات و تبصرہ حیات کے تذکرے کے بعد کیا ہے۔ میں نے بھی اُسی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔______منتخب مضمون کا درجہ دے دیا گیا۔:)—خادم—05:34, 23 اگست 2016 (م ع و)یہ مضمون حالیہ پنجاب ترمیمی مہم میں سبھی جنوبی ایشیائی ویکیوں کے مضامین سے بڑا اور زیادہ معلوماتی رہا ہے۔ ویکی کانفرنس بھارت میں بھی یہ پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا گیا۔ اس مضمون کا انتخاب مہم میں شامل سبھی شرکاء کی کوششوں کا اعتراف ہوگا۔ --مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 15:28, 19 ستمبر 2016 (م ع و)مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔:)—خادم—19:45, 30 ستمبر 2016 (م ع و)سانچہ:م-م-رش-ب2یہ مضمون ٹھٹہ سندھ سے تعلق رکھنے والے اٹھارویں صدی کے عظیم محدث، یگانۂ روزگار فقیہ اور قادر الکلام شاعر کی شخصیت پر تحریر کیا گیا جن کی شہرت بین الاقوامی حیثیت کی حامل ہے۔ مواد کے حساب سے شخصیت کا مکمل احاطہ کرنے کی حقیر سی کوشش کی گئی ہے۔ مذکورہ مضمون سندھ کی تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے نمائندہ مضمون ہے۔--محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 04:35, 3 اکتوبر 2016 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا۔:)—خادم—13:43, 3 اکتوبر 2016 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا۔--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:36, 21 نومبر 2016 (م ع و)نامزد کنندہ(گان):--محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 04:35, 3 اکتوبر 2016 (م ع و)یہ مضمون مغلیہ فن تعمیر کا ایک اعلیٰ شاہکار مسجد وزیر خان پر مشتمل ہے۔ یہ مسجد بھارت اور پاکستان میں موجود مغلیہ عمارات میں سے چند اعلیٰ تعمیرات میں شامل ہے۔ اس مسجد کو یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ شامل کیا ہے۔اس مضمون کے صفحہ ساز عامر شاہین ہیں۔ بعد ازاں محترم محمد عمیر مرزا کی انتھک محنت نے مذکورہ مضمون کو ایک عمدہ مضمون بنا دیاہے۔ اس کے علاوہ اس مضمون میں محترم طاہر محمود صاحب اور راقم (محمد عارف سومرو) نے بھی اپنا مقدور بھر حصہ ڈالا۔ آپ سب سے گزارش ہے اس مضمون کی رائے شماری میں حصہ لیں اور اپنیتائید،تنقیداور اپنےتبصرہ:سے اس مضمون کے بارے میں خیالات کا اظہار کریں۔ شکریہ-محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:52, 6 جنوری 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا۔ --محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:44, 17 جنوری 2017 (م ع و)نامزد کنندہ(گان): --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:03, 15 فروری 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:49, 26 فروری 2017 (م ع و)نامزد کنندہ(گان): --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:41, 28 فروری 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 18:29, 8 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:10, 19 مارچ 2017 (م ع و)اس بندہ ناچیز کو یہاں اختلافی نوٹ لگانا چاہیے تھا مگرنہیں لگا رہا ہوں۔--علی نقی(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:19, 25 مارچ 2017 (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:45, 27 جولائی 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:22, 23 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:18, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:55, 23 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:21, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:58, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:42, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:03, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:23, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:09, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:25, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:49, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:36, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:52, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:33, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:22, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:41, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:01, 28 جون 2017 (م ع و)کلکتہ سے کولکاتا --— سابقہغیر دستخط شدہتبصرہ بدستAbualsarmad(تبادلۂ خیال•شراکتیں)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:41, 12 جولائی 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:16, 12 جولائی 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:42, 27 جولائی 2017 (م ع و))یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:32, 10 ستمبر 2017 (م ع و)پشاور میں شامل دریائے کنہار شاید ٹھیک نہیں یہ دریائے کنڑ ہو گا جو دریائے چترال کا دوسرا نام ہے۔
+پشاور شہر سے بہت سے بزرگان دین کا تعلق بھی رہا ہے مختصر سا ذکر ان کا بھی ہونا چاہیئے۔— سابقہغیر دستخط شدہتبصرہ ازAbualsarmad(تبادلۂ خیال•شراکتیں)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:44, 26 نومبر 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔ میرے خیال میں اردو ویکیپیڈیا پر مضمون انگریزی اور عبرانی سے بھی بہتر ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:20، 3 اگست 2018ء (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:40، 29 اگست 2018ء (م ع و)جمہوریہ آئرلینڈکے دار الحکومتڈبلنپر ویکیپیڈیا کی 174 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔باسک زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہڈینش زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پ�� بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرڈبلنمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔یہ مضمون ایک اچھے معیاری مضمون کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ اس میں کسی قسم کا کاپی رائٹ نہیں پے۔حسیب احمد(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:24، 25 اگست 2018ء (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:33، 5 ستمبر 2018ء (م ع و)ویکیپیڈیا:منتخب مضامینفہرست دیکھی جا سکتی ہے، منتخب مضامین کی اشد ضرورت ہے۔ براہ مہربانی رائے دیجیے۔—بخاری سعیدتبادلہ خیال11:46، 6 جنوری 2019ء (م ع و)Yتکمیل—بخاری سعیدتبادلہ خیال19:30، 6 جنوری 2019ء (م ع و)یہ مضمون فی الحال کسی دیگر ویکیپیڈیا پر منتخب مضمون نہیں۔ اردو ویکیپیڈیا پر اسے منتخب مضمون بنانے کی سعی کی گئی ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر وہ اس میں کوئی کمی یا غلطی دیکھتے ہیں تو اسے پورا یا درست کرنے کی کوشش کریںطاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:49، 14 جنوری 2019ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 125 زبانوں میں موجود ہے اور صرفملیالم زبانمیں منتخب مضمون کا درجہ رکھتا ہے۔اردومیں اس مضمون پر خاصی محنت کی گئی ہے بہت سی نئی تصاویر خاص طور پر جدہ کے لیے ویکیپیڈیا کامنز پر شائع کی گئی ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:39، 16 مئی 2019ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:54، 30 مئی 2019ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 148 زبانوں میں موجود ہے۔ عربی میں یہمنتخب مضمونجبکہ انگریزی میں یہبہترین مضمونہے۔اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں دونوں دیکیپیڈیا کی معلومات یکجا کر دی گئی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ مزید اضافہ بھی کیا گیا ہے، یوں عمان پر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:08، 14 جولائی 2019ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل—ابن سعیدتبادلہ خیال04:44، 16 اگست 2019ء (م ع و)یہ مضمون انگریزی ویکیپیڈیا سے مکمل ترجمہ شدہ ہے اور وہاں بھی منتخب ہے۔ —ابن سعیدتبادلہ خیال07:29، 15 اگست 2019ء (م ع و)سرخ روابط اور حوالہ جات کی خامیوں کو دور کیا جائے۔--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:27، 15 اگست 2019ء (م ع و)یہ مضمونویکیپیڈیاکی 154 زبانوں میں موجود ہے۔مالے زباناور ہاکا چینی میں یہمنتخب مضمونجبکہانگریزی،ہسپانویاورانڈونیشیائیمیں یہبہترین مضمونہے۔اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں ان تمام دیکیپیڈیا کی معلومات یکجا کر دی گئی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ مزید اضافہ بھی کیا گیا ہے، یوں کوالا لمپور پراردو ویکیپیڈیاکا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:43، 21 جنوری 2020ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:54، 4 فروری 2020ء (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:37، 2 مارچ 2020ء (م ع و)ویکی احباب کے اتفاق رائے سے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے۔:)—خادم—مورخہ 21 مارچ 2020ء، بوقت 11 بج کر 23 منٹ (بھارت)یہ مضمونویکیپیڈیاکی 210 زبانوں میں موجود ہے۔افریکانر،عربی،انگریزی،کرویئشائی،مجارستانی،انڈونیشیائی،جارجیائی،لیٹویائی،مقدونیائی،پرتگیزی،سربیائیاورویتنامیمیں یہمنتخب مضمونہے۔اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوں استنبول پراردو ویکیپیڈیاکا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 15:19، 27 اپریل 2020ء (م ع و)ویکی احباب کے اتفاق رائے سے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:14، 12 مئی 2020ء (م ع و)آداب، امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ثناء اللہ امرتسریمعروف عالم دین، مفسرِ قرآن، صحافی تھے۔ احباب اپنی رائے ضرور دیں۔--شکریہ --حسن(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 15:52، 4 دسمبر 2020ء (م ع و)تبصرہ:مضمون میں مولانا اور اس طرح کے دیگر اعزازی کلمات کے علاوہ مضمون کے متن کا غیر جانبدار نہ ہونا، جیسے :اس کے علاوہ کئی مقامات پر حوالہ جات کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے، اور کہیں کہیں حد سے زیادہ۔ اگر اس جانب کوئی توجہ دی جائے تو مضمون لائق صد تحسین ہے۔ ─عافی(تبادلۂ خیال)تبصرہ:مضمون میں حوالوں کی حقیقتاً کمی ہے۔ اور اس میں دو متضاد چیزوں کے لیے ایک جیسے حوالے دیے ہیں۔مثلاً قادیانی اور مسیحی۔ لیکن معلومات بہت اچھی طرح فراہم کی ہے۔ بس اس مضمون کو تھوڑا تراشنے کی ضرورت ہے۔پھر یہ مضمون قابلِ دید ہوگا۔ ─مُحَمد عُثمان(تبادلۂ خیال)تبصرہ:- مضمون میں زبانی سدھار کی گنجائش ہے۔فیسمین(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 02:31، 5 دسمبر 2020ء (م ع و)@محمد افضل:جناب آپ نےمضمون فرقہ وارانہ ڈھنگ میں لکھی گئی ہےلکھ دیا لیکن بتایا نہیں کہ کہاں پر آپ کو لگا کی فرقہ وارانہ ہے- کہاں کمی ہے میں درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں-- شکریہ----حسن(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:16، 5 دسمبر 2020ء (م ع و)یہ مضمون ہر طرح سے مکمل ہے۔ یہ مضمون ایک طرح سے پوری کتاب کی ضخامت کے برابر ہے۔امین اکبر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 19:57، 20 فروری 2021ء (م ع و)ویکی احباب کے اتفاق رائے سے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:48، 14 اپریل 2021ء (م ع و)یہ مضمون پاکستانی تاریخ کا ایک اہم اور فراموش باب ہے جسے انگریزی ویکی پر پہلے سے ہی منتخب مضمون کا درجہ مل چکا ہے جبکہ زیر نظر مضمون بھی اسکا مکمل ترجمعہ ہے۔ احباب سے آراء کی درخواست ہے۔ شکریہ🇵🇰🇵🇰✉16:57، 11 نومبر 2020ء (م ع و)ویکی احباب کے اتفاق رائے سے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:10، 14 اپریل 2021ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 255 زبانوں میں موجود ہے۔ایفریکانز،باسک،کروشیائی،نورویجینی نینوشک،پرتگیزیاوراسکاٹسمیں یہمنتخب مضمون، جبکہانگریزی،بیلاروسی،ڈینش،جرمن،ہسپانوی،انڈونیشیائی،جاپانیاورنورویجینی بوکمولمیں یہبہترین مضمونہے۔ اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںلندنپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:58، 9 ستمبر 2021ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔YتکمیلObaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:02، 28 ستمبر 2021ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 75 زبانوں میں موجود ہے۔نیپالی زباناورمیتھلی زبانمیں یہمنتخب مضمون، جبکہ حیرت انگیز طور پر یہگرمکھیپنجابی زبانمیں یہ منتخب مضمون نہیں ہے۔ اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںہرمندر صاحبپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:12، 8 جنوری 2022ء (م ع و)؛یہ مضمون منتخب مضامین کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 03:42، 2 فروری 2022ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 197 زبانوں میں موجود ہے۔ترکی زباناورمجارستانی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے، اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںانقرہپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:06، 12 جون 2022ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 175 زبانوں میں موجود ہے۔عربی زبان،کروشیائی زباناورمجارستانی زبانمیں یہمنتخب مضمون، جبکہاسپرانتو زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںمیلانپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:43، 11 اگست 2022ء (م ع و)ایک تفصیلی اور تحقیقی مضمون ہے جس پر بہت محنت کی گئی ہے اس لیے اسے منتخب مضمون ہونا چاہئیےیہ مضمون انگریزی زبان کے ویکیپیڈیا پر بھی منتخب مضمون ہے اور ادرو ویکیپیڈیا پر بھی منتخب مضمون کے معیارات کے مطابق ہے۔۔۔۔۔۔۔امین اکبر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 16:14، 2 اکتوبر 2022ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 240 زبانوں میں موجود ہے۔جرمن زبان،نورشک،سرویائی زبان،سربی کروشیائیاورمجارستانی زبانمیں یہمنتخب مضمونجبکہاسپرانتو،فرانسیسی زباناورفنی زبانمیں یہبہترین مضمونہے، اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںبیجنگپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:15، 3 اکتوبر 2022ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 198 زبانوں میں موجود ہے۔تھائی زبانمیں یہمنتخب مضمونجبکہجرمن زبانمیں یہبہترین مضمونہے، اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںبینکاکپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:02، 26 اکتوبر 2022ء (م ع و)یہ مضمون۔۔۔۔۔۔۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:54، 29 دسمبر 2022ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:20، 11 فروری 2023ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:23، 11 فروری 2023ء (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:42، 7 مارچ 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 269 زبانوں میں موجود ہے۔افریکانز،عربی زبان،باشقیر زبان،بلغاری زبان،بوسنیائی زبان،کروشیائی زبان،عبرانی زبان،لمبرخی،مقدونیائی زبان،مراٹھی زبان،پرتگیزی زبان،تاتاری زبان،ویتنامی زباناوراسپرانتومیں یہمنتخب مضمونجبکہڈینش زبان،جرمن زبان،باسک زبانمیں یہبہترین مضمونہے،اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںپیرسپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:59، 12 جنوری 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 216 زبانوں میں موجود ہے۔عربی زبان،جرمن زباناورمصری عربیاور میں یہمنتخب مضمونہے، اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںقاہرہپراردو ویکیپیڈیاکا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:38، 12 جنوری 2023ء (م ع و)مضمون منتخب ہو چکا ہے۔Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:22، 9 فروری 2023ء (م ع و)یہ مضمون جنابFaismeenکی تحریک پر بندہ نے تقریباً پانچ ماہ قبل انگریزی ویکی سے اردو میں کیا تھا، اس کے سرخ روابط کو زرق کرنے اور اس کو معیاری بنانے میں بندہ کو تقریباً پانچ ماہ لگے، اب بندہ چاہتا ہے کہ یہ منتخب بن کر صفحۂ اول کی زینت بنے؛ لہذا آپ حضرات سے بھی التماس ہے کہ اپنی آرا سے نواز کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں، نیز کوئی کمی یا تکنیکی خرابی آپ کی نظر میں آئے تو درست فرما دیں یا آگاہ فرما دیں؛ تاکہ مضمون اگر منتخب مضمون بنائے جانے کے معیار کے مطابق نہ ہو تو اسے ویسا بنایا جا سکے۔ شکریہKhaatir(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:44، 18 جنوری 2023ء (م ع و)تبادلہ خیال پر انگریزی ویکی سے ترجمہ شدہ ہونے کا سانچہ (سانچہ:Translated page) لگائیں تو میری تائید بھی شامل ہے۔ ─عافیؔ(تبادلۂ خیال)17:16، 21 جنوری 2023ء (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:47, 16 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:کسی بھی صارف کا منتخب معیار تک پہنچنے سے قبل مضمون کی تائید کرنا غلط امر ہے۔--☪جواب06:40, 17 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:آپ کی بات بالکل درست ہے۔ دراصل ہمارے ایک ساتھی نے خواہش ظاہر کی تھی کہٹیپو سلطاناورابو الکلام آزادکو منتخب مضمون ہونا چاہیے، اور میرا خیال ہے کہ سب اس بات سے متفق ہوں گے کہ واقعی یہ مضامین منتخب مضمون ہونا چاہیں۔ اسی لیے میں نے ان کو امیدوار برائے منتخب مضمون بنایا کہ سب ساتھی مشترکہ کوشش سے انہیں منتخب مضمون بنائیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جلد ہی ان کو کو منتخب مضمون کے معیار پر لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:44, 20 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:@Drcenjary:ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام صاحب کی مشہور کتاب Wings of Fire میں مرحوم نے ناسا میں ٹیپو سلطان کی تصویر دیکھنے کی بات کہی تھی، جس کا سبب اس دور کے عسکری ایجادات تھے۔ چونکہ آپ ایک جامعہ سے منسلک ہیں، اس موضوع کا مطالعہ کر کے متعلقہ مواد شامل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی ادب میں ٹیپو سلطان کا تذکرہ بھی دلچسپ موضوع ہے۔ جن دنوں میں بنگلور میں تھا میں نے ٹیپو سلطان کا پسندیدہ کھلونا دیکھا تھا جس کی رو سے لکڑی کے بنے انگریز فوجی کو شیر مسلسل حملہ کررہا تھا۔ اس سے ٹیپو کی انگریز دشمنی عیاں ہوتی ہے۔ ٹیپو کی زرعی اور ماحولیات دوست اصولوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ یہ بات کہ ٹیپو کے دو بیٹے انگریزوں کے قبضے میں رہے اور بعد میں انہیں دوران حکومت ہی رہا کیا گیا تھا، تفصیل طلب ہے اور اسے شامل کرنا چاہیے۔ ان اضافوں سے یہ مضمون کی افادیت بڑھے گی اور ہم اسے بجا طور منتخب کرسکیں گے۔--مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:07, 20 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:یقینا اس مضمون کو منتخب ہونا چاہئے اور اسے اس مقام تک پہنچانا کوئی مشکل بھی نہیں ہے بشرطِ ہم سب اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔--☪جواب04:13, 21 مئی 2016 (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:51، 6 اپریل 2023ء (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:41, 28 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 125 زبانوں میں موجود ہے اور صرفملیالم زبانمیں منتخب مضمون کا درجہ رکھتا ہے۔اردومیں اس مضمون پر خاصی محنت کی گئی ہے بہت سی نئی تصاویر خاص طور پر جدہ کے لیے ویکیپیڈیا کامنز پر شائع کی گئی ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:39، 16 مئی 2019ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:54، 30 مئی 2019ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 161 زبانوں میں موجود ہے۔ یہ مضمون دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون کو بہت بہتر کر دیا گیا ہے اور مزید حوالہ جات بھی شامل کیے گئے ہیں۔اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوں اسلام آباد پراردو ویکیپیڈیاکا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:42، 16 مئی 2023ء (م ع و)صارف:محمد ذیشان خان13:43، 20 مئی 2023ء (م ع و)ان میں سے عبد الواحد کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ یہ اس نئے شہر میں جنت سے آنے والا پہلا ننھا وجود تھا جس سے تمام ملازمین اور ان کے گھرانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے اسے اسلام آباد کے لیے برکت قرار دیا گیا۔ سب نے مل کر خوشی منائی جیسے سب کے گھرانوں پر رحمت اتری ہو۔ والدین نے بیٹی کا نام ”آب پارہ “ رکھا۔اسلام آباد کے پرانے دیہات کے عنوان سے کسی ویب سائٹ کا پورا مضمون کاپی پیسٹ کردیا گیا ہے۔اس طرح مضمون میں کئی جگہ تحریر غیر ضر��ری طوالت اور غیر ضروری معلومات پر مشتمل ہے۔صارف:محمد ذیشان خان13:54، 20 مئی 2023ء (م ع و)غیر حوالہ شدہ اخباری کالمز ، ٹاک شورز ، ویڈیوز اور کسی سوشل میڈیا پوسٹ کو حوالہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔حوالہ نمبر 3 (ایک فرد واحد کی سوشل میڈیا پوسٹ ہے)، حوالہ نمبر 10 اور 14 (ٹاک شوز ویڈیو)
+حوالہ نمبر 24، 25 (اخباری کالم کاپی پیسٹ) اس اخباری کالم کی متن کے لیے حوالہ 26 ، 27 دینا درست نہیں ۔
+حوالہ نمبر 29 اور 31 ایک ہی ہے، (اخباری کالم کاپی پیسٹ) بیچ میں حوالہ نمبر 30 اضافی ہے متن سے اس کا کوئی لنک نہیں۔
+حوالہ نمبر 18 ، 32 ، 81 اور 119 غیر موجود ہیں۔صارف:محمد ذیشان خان14:54، 20 مئی 2023ء (م ع و)--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:12، 19 مئی 2023ء (م ع و)°تبصرہ:-- اگر یہ مضمون منتخب مضمون کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو اس پر رائے شماری کو مقفل کر دیا جائے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال)--(شراکتیں)07 16:56، 28 اپریل 2024ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 25 زبانوں میں موجود ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 21:38، 7 مئی 2023ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:31، 17 مئی 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 37 زبانوں میں موجود ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:02، 22 جون 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 77 زبانوں میں موجود ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:57، 28 جون 2023ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:00، 2 جولائی 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 88 زبانوں میں موجود ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو اس مضمون میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:39، 30 جون 2023ء (م ع و)""مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو"" یہغلط بیانیہے عربی ویکیپیڈیا پر مضمون خاصہ بہتر ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:02، 3 اگست 2023ء (م ع و)نامزد کنندہ(گان):فیسمین(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:48، 31 جولائی 2023ء (م ع و)یہ مضمون انگریزی پر منتخب ہے۔ اردو میں اس مضمون کا حرف بہ حرف ترجمہ ہے۔ مشینی ترجمہ بالکل نہیں۔ کہیں کہیں کچھ تبدیلی اور کمی و بیشی بھی ہے۔ تمام روابط نیلے ہیں۔ امید ہے احباب اسے لائق منتخب سمجھیں گے۔فیسمین(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:48، 31 جولائی 2023ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:17، 1 اگست 2023ء (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔عاقب نذیر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:13، 24 ستمبر 2023ء (م ع و)یہ مضمون انگریزی ویکی مضمونen:Jamiat Ulema-e-Hindکا مکمل ترجمہ ہے، جس کی باضابطہ وضاحت اس صفحے کے تبادلۂ خیال صفحے پر دیکھی جا سکتی ہے۔ انگریزی مضمون انگریزی ویکی پربہترین مضمونہے۔زیر نظر مضمون کا حجم 90,054 بائٹس پر مشتمل ہے۔ نیز مضمون کو میں نے ایک ڈیڑھ سال پہلے ہی بڑی محنت سے کام کیا اور اسے نامزد نہیں کیا؛ مگر بعد میں مئی 2023ء کو اور اب آج کل کے اندر مضمون پر تازہ تازہ گہری نظر ڈال کر حتی الوسع خامیوں کو دور کرنے کی سعی کی ہے۔ حوالہ جات کا بھی مکمل ترجمہ کر دیا گیا ہے۔ اب اس مضمون کو اردو ویکیپیڈیا کےمنتخب مضامینیا کم ازبہترین مضامینمیں شامل کرنے کی گزارش کرتا ہوں۔ احباب سے مخلصانہ التماس ہے کہ وہ اپنے محبانہ آرا سے نوازیں۔Khaatir(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 19:57، 1 جنوری 2024ء (م ع و)انگریزی ویکی مضمون کو بہترین مضمون بنانے میںصارف:TheAafiکی محنت تھی۔Khaatir(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 20:03، 1 جنوری 2024ء (م ع و)ایک معلوماتی مضمون ہے اور اس کو لازمی طور پر منتخب ہونا چاہئےابوالحسن راجپوت(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:38، 2 جنوری 2024ء (م ع و)انگریزی اور اردو کے قارئین الگ ہیں اور دونوں کا معیار بھی الگ ہی ہے۔ جمعیت نے جہاں کئی مثبت کام کیے ہیں وہیں کچھ اہم امور پر جمعیت کی خاموشی یا اس کی ناکامی پر تنقید بھی ہوتی رہتی ہے۔ لہذا اس مضمون میں اس تنقید کا کچھ حصہ ہونا چاہیے۔ بحیثیت اردو قاری ہمیں یہ مضمون ادھورا سا معلوم ہوتا ہے۔فیسمین(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 19:03، 16 فروری 2024ء (م ع و)اس ویکیپیڈیا پر یہ مضمون سب سے پہلا منتخب مضمون ہونا چاہیے تھا۔امین اکبر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:41، 6 ستمبر 2023ء (م ع و)تبصرہ:– وہ علاقے جہاں اردو بولے جاتے ہیں، ان کے ساتھ دیے گئے حوالہ جات میں لنک شکستہ ہیں، انھیں صحیح کر لیا جائے تو اچھا ہے۔ بہت سے ایسے مقامات ہیں، جن کے ساتھ حوالہ جات ہونے چاہئیں۔ اس مضمون کو فی نفسہ منتخب ہونا چاہیے؛ کیوں کہ اردو ویکیپیڈیا ہی اردو کی فروغ و ترقی کے لیے ہے؛ مگر مضمون میں اگر قابل اصلاح چیزیں نظر آئیں، تو کوئی بھی کر سکتا ہے اور میرے خیال سے سب کو مل کر اسے بہتر بنانا چاہیے اور جس پیراگراف میں حوالہ جات نہیں ہیں، اس سے متعلق حوالہ جات تلاش کرکے لگا دیے جائیں۔
+نیز بعض خانوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ مضمون پر ابھی کام مکمل نہیں ہوا ہے، کام چل رہا ہے۔Khaatir(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:32، 7 ستمبر 2023ء (م ع و)تبصرہ:– میرے خیال میںعافیصاحب نے جن غیر ضروری حوالہ جات کی طرف توجہ دلائی ہے وہ انہیں حذف کر کے مضمون کو منتخب درجے پر فائز کریں، اگر اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:50، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:54، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)روسکےدار الحکومتاوروفاقی شہرماسکوپر ویکیپیڈیا کی 274 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔ایفریکانز،جرمن زبان،کرویئشائی زبان،منگولی زبان،سلووین زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہڈینش زبان،ہسپانوی زبان،اسپرانتو،لادین زبان،البانوی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرماسکومضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا��Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:51، 24 اگست 2024ء (م ع و)ترکیہمغربی ایشیامیںاناطولیہمیں ایک ملک ہے۔ترکیہپر ویکیپیڈیا کی 323 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔ہسپانوی زبان،کرویئشائی زبان،جارجیائی زبان،لاطینی زبان،لیٹویائی زبان،مجارستانی زبان،مقدونیائی زبان،پرتگیزی زبان،کردی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہعربی زبان،ڈینش زبان،یونانی زبان،عبرانی زبان،فنی زبان،تاتاری زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرترکیہمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:40، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)المغربکے شہر اور سابقہدار الحکومتمراکش (شہر)پر ویکیپیڈیا کی 111 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔پرتگیزی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہانگریزی زبان،تشلحیتمیں یہبہترین مضمونہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرمراکش (شہر)مضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:35، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)المغربشمالی افریقاکے خطےالمغرب العربیمیں واقع ایک ملک ہے۔المغربپر ویکیپیڈیا کی 262 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔عربی زبان، مغربی فلیمش میں یہمنتخب مضمونہے جبکہ ٹمبوکا زبان،فنی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرالمغربمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:42، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)غزہ پٹیکے شمال میں واقعدولت فلسطینکا شہر ہے۔غزہ شہرپر ویکیپیڈیا کی 105 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔عربی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہپرتگیزی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرغزہ شہرمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:48، 6 ستمبر 2024ء (م ع و)یونانکےدار الحکومتاور سب سے بڑے شہرایتھنزپر ویکیپیڈیا کی 225 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔فاروی زبان،لاطینی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہاسپرانتومیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرایتھنزمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:06، 8 ستمبر 2024ء (م ع ��)ریاست ہائے متحدہکےدار الحکومتواشنگٹن، ڈی سیپر ویکیپیڈیا کی 246 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔انگریزی زبان،افریکانز،جاپانی زبان،ویتنامی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہبیلاروسی زبان،روسی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ یہ مضمون نہ صرف انگریزی ویکیپیڈیا کا مکمل ترجمہ ہے بلکہ اس میں مزید معلومات کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرواشنگٹن، ڈی سیمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:40، 12 ستمبر 2024ء (م ع و)اطالیہکےدار الحکومترومپر ویکیپیڈیا کی 262 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔باشقیر زبان،کرویئشائی زبان،جارجیائی زبان،لاطینی زبان، لزگی زبان،کریمیائی تاتاری زبان،تگالوگ زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہڈینش زبان،اطالوی زبان،سربیائی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرروممضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:51، 12 ستمبر 2024ء (م ع و)ریاست ہائے متحدہکی ریاستکیلیفورنیاکا سب سے زیادہ آبادی والا شہرلاس اینجلسپر ویکیپیڈیا کی 220 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔ایفریکانز،بوسنیائی زبان،ہسپانوی زبان،فرانسیسی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہ ٹمبوکا زبان،جرمن زبان،روسی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرلاس اینجلسمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:41، 14 ستمبر 2024ء (م ع و)آسٹریلیاکی ریاستنیوساؤتھ ویلزکےدار الحکومتسڈنیپر ویکیپیڈیا کی 216 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔ایفریکانز،لتھووینیائی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہجرمن زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرسڈنیمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:46، 14 ستمبر 2024ء (م ع و)"
+5,ویکیپیڈیا:امیدوار برائے منتخب مضمون,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%B1_%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D9%85%D9%88%D9%86,"بہترین مضامینکی نامزدگی کے لیےویکیپیڈیا:امیدوار برائے بہترین مضمونملاحظہ فرمائیں۔یہاں ہم اس بات تعین کرنا چاہتے ہیں کہ کونسے مضامینمنتخب مضمون کے معیارپر پورے اُترتے ہیں۔ منتخب مضامین ویکیپیڈیا کی بہترین کارکردگی کا نمونہ ہیں او�� نامزدہ شدہ مضمون ہر لحاظ سے ویکیپیڈیا کےمنتخب مضمونکے معیار پر پورا اُترنا چاہیے، بصورتِ دیگر اُنہیں اس فہرست سے خارج کردیا جائے گا۔کسی بھی مضمون کو نامزد کرنے سے پہلے نامزد کنندہ دیگر صارفین کی آراء معلوم کرلے۔ نامزد کنندہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ویکیپیڈیا کے قواعد و ضوابط سے کما حقہ آگاہی رکھتا ہو اورمنتخب مضمونکے مرحلے سے گزرنے کے دوران مضمون کے تمام تر اعتراضات و کمزور پہلوؤں کو دور کرسکے۔ ایسے نامزد کنندگان جو نامزد کردہ مضمون کے تحریری مشارکین میں شامل نہ ہوں، وہ براہ کرم نامزد کرنے سے قبل متعلقہ مضمون کے مصنفین سے ضرور رائے لے لیں۔ نامزد کنندگان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تنقید کا مثبت جواب دیں گے اور اس سلسلے میں اُٹھائے گئے تمام اعتراضات کو دور کرنے میں پرُ خلوص کوشش کریں گے۔نامزدگی کا طریقۂ کارتائید و تنقیدبراہ کرم نامزد کردہ کسی بھی مضمون پر تائید و تنقید کرنے سے پہلے درج ذیل امور بغور ملاحظہ فرما لیں۔یہ مضمون انگریزی زبان کے ویکیپیڈیا پر بھی منتخب مضمون ہے اور ادرو ویکیپیڈیا پر بھی منتخب مضمون کے معیارات کے مطابق ہے۔۔۔۔۔۔۔امین اکبر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 16:14، 2 اکتوبر 2022ء (م ع و)یہ مضمون انگریزی ویکی پر منتخب ہے اور یہ اس کا ترجمہ ہے۔Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:32، 15 اپریل 2021ء (م ع و)اربعین۔۔۔۔۔۔۔علی نقی(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:37, 20 نومبر 2015 (م ع و)سومرو صاحب!آپ کے اندر تخلیقیت (Creativity) کا مادہ ہے۔ حساسیت (Sensitivity) کا مادہ بھی ہے۔ یہ بات بھی تسلیم ہے کہ آپ محنتی (Hardworking) بھی ہیں ۔ اور اردو ویکی پیڈیا کے لیے فکر مند بھی۔ لیکن حسساسیت جب تخلیقیت پر غالب آ جاتی ہے تو ایسے الفاظ (دانستہ نہ سہی) آپ کی انگلیوں سےنکل جاتے ہیں جو آپ کی محنت پر زحمت بن جاتے ہیں۔ خواہ کچھ بھی ہو آپ کو ایسا نہیں کہنا چائیے کہآپ کو برا لگتا ہے تو لگے۔آپ کو تو پتہ ہے کہ عبید بھائی میں بھی وہی صفات ہیں جو میں نے اوپرگنوائے ہیں بلکہ کہیں زیادہ۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے دستخظ نہ کرسکے ہوں توایک ساتھ موصوف پر برس پڑنا بھی تو ٹھیک نہیں۔ ایسے ہی تلخ الفاظ عبید بھائی نے نثار صاحب کے لیے استعمال کئے تھے اس بندے میں حسساسیت آپ سے بھی زیادہ تھی اب تک اردو ویکی پیڈیا سے دور ہے۔ آ پ سے التماس ہے کہ آپ صرف یہ الفاظ واپس لے لیں کہآپ کو برا لگتا ہے تو لگے۔ لگے ہاتھوں میں عبید بھائی سے بھی گزارش کروں گا (اردو کےلیے اردو ویکی پیڈیا کے لیے) وہ بھی دل میں کچھ نہ رکھیں۔
+اور ہو سکے تو نثار صاحب کوبھی ایک پیغام دیں کہ وہ واپس لوٹ آئیں۔ میں یہ بالکل نہیں کہوں گا آپ غلطی پر تھے لیکن قبلہ الفاظ ۔۔۔۔۔ حساس لوگ۔۔۔۔
+دونوں خطرناک ہوتے ہیں۔ امیدوں کے ساتھ کہ۔۔۔--Drcenjary(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:34, 27 نومبر 2015 (م ع و)میں نے کام کرنے سے انکار نہیں کیا، منتظم نہ رہنے یا کم از کم بطور منتظم جو کچھ کرتا ہوں وہ نہیں کروں گا۔ --Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 04:58, 28 نومبر 2015 (م ع و)ایک صارف کو تو کسی کو بھی کچھ بھی کہنے کی اجازت ہے، مگر ایک منتظم صرف وضاحت ہے کرے تب بھی،اسے یہ کہنا زیب نہیں دیتا--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 04:08, 29 نومبر 2015 (م ع و)اردو ویکیپیڈیا پر منتظمین کسی بھی خصوصی رویہ کے مستحق نہیں ہوتے، وہ عام صارفین ہی کی طرح ہیں محض ان کے پاس چند اختیارات زیادہ ہوتے ہیں۔ تمام ساتھیوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ اس گفتگو کو یہیں ختم فرما دیں تو نوازش ہوگی۔ ہم لوگ اردو ویکیپیڈیا کے اہم سنگ م��ل پر کھڑے ہیں، ایسے موقع پر کسی قسم کی تلخی و رنجش ہمارے ہی کاز کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ امید ہے احباب اس دردمندانہ گزارش کو شرف قبول بخشیں گے۔محمد شعیب(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:42, 28 نومبر 2015 (م ع و)بہت اچھے!--ابو السرمدمحمد یوسف(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:04, 28 نومبر 2015 (م ع و)بہت اچھے!۔۔علی نقی(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:17, 28 نومبر 2015 (م ع و)یہ مضمون انگریزی مضمون Lion کا مکمل ترجمہ ہے جہاں اسے منتخب مضمون قرار دیا جاچکا ہے۔16:04, 30 جنوری 2016 (م ع و)تبصرہ:--تمام احباب سے مضمون سے سرخ روابط کو ختم کرنے کی درخواست ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:41, 28 اپریل 2016 (م ع و)Yتکمیل--خطاؤں کی حد تکعلی نقی(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:17, 28 اپریل 2016 (م ع و)یہ مضمون اب تک کا شاید سب سے شاندار مضمون ہے، کیوں کہ اس میں منتخب مضمون کی خوبیان ہیں یہ مکمل اور معیاری مضمون ہے۔ مزید دیکھیے کے ذیل میں سرخ روابط کو ایک ایک کر کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے، اور میرے خیال میں سرخ راوبط کو بنیاد بنا کر اسے انتظار میں نہ رکھا جائے۔--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:05, 19 اکتوبر 2015 (م ع و)؛Yتکمیل--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:17, 30 اکتوبر 2015 (م ع و)سانچہ:م-م-رش-ب2حجکے مضمون کو منتخب مضمون کے لیے نامزد کیا جا رہا ہے۔Yتکمیل--«عبید رضا» 06:30, 24 مئی 2015 (م ع و)تائیدفہد احمد11:59, 13 نومبر 2009 (UTC)فقہ شافعیہ کے امام حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح و مختصر تاریخی حالات کو جاننے کے لیے یہ مضمون جو بشکل مقالہ لکھا گیا ہے، اِس کا مطالعہ ضروری و لازم ہے۔
+______اگر آپ نے آئمہ اربعہ کی سیرت و سوانح سے متعلق اسلاف کی کتب کا مطالعہ کیا ہو تو معلوم ہوگا کہ اُنہوں نے اُن کے فقہ کے متعلق معلومات و تبصرہ حیات کے تذکرے کے بعد کیا ہے۔ میں نے بھی اُسی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:38, 16 مئی 2016 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:36, 26 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون پوری اردو ویکیپیڈیا میں غالبًا سب سے زیادہ حوالہ جات رکھتا ہے اور غیرمعمولی تحقیقی نوعیت کا حامل ہے۔مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:24, 17 دسمبر 2015 (م ع و)تبصرہ:مضمون کو ویکی مزاج کے مطابق نہیں لکھا گیا۔اس میں جی،عظیم ، جیسے ممنوع القابات استعمال ہوئے ہیں اور اسے غیر جانبدارانہ بھی نہیں لکھا گیا جیسے یہ حصہبرطانوی راج کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے کیااورسدا بہار تخلیق سرفروشی کی تمنا ہی ہے جسے گاتے ہوئے نہ جانے کتنے محب وطن تختہ دار پر جھول گئے۔وغیرہ اس کے علاوہ اس میں ہندی خط میں بھی قطعے شامل کئے گئے ہیں جنکا ترجمہ ہونا چاہئے نیز بیشر حوالاجات کی تصدیق آن لائن نہیں دی گئی ۔حوالہ جات کو یا تو اردو یا انگریزی میں کم از کم بدل دی تاکہ ہم لوگ بھی اسے سمجھ سکیں--06:36, 9 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:@محمد افضل:صاحب، میں اس بات کے لیے ممنون ہوں کہ مضمون کا آپ نے بہ غور مطالعہ کیا اور منطقی نکات رقم فرمائے۔ یہ مضمون میں نے ہندی ویکی سے ترجمہ کیا تھا اور غالبًا اس دوران لب و لہجہ جس طرح وہاں تھا، ایضًا یہاں آگیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہم بھارت کے لوگ بھی کئی بار جذباتی اور ہو جاتے ہیں۔ تاہم جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ ڈاکٹر کرانت ایم ایل ورما نے کافی محنت سے اپنے یکجا کر کے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں شامل کیا تھا، اس لیے وہ تسلیم شدہ ہیں اور اسی کی بنیاد پر پی ایچ ڈی ہوئے۔ ہاں لب و لہجہ بدلنے کی ضرورت ہے، ممکن ہے کہ کوئی تبصرہ ہٹانے یا مختصر کرنے کی ضرورت ہو جو کہ آپ جیسے ویکی اصول سے واقف اور ان پر کاربند اصحاب کرسکتے ہیں۔ حوالہ جات یا کتابوں کے نام اردو میں لکھے جا سکتے ہیں، اگرچہ وہ اتنے ہی عجیب کیوں نہ لگے یا پڑھنے میں دشواری کیوں نہ ہو جیسے کہ اتپیڈن اور شڈینتر جیسے الفاظ! کیا آپ اس کی حمایت کرتے ہیں۔--مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:52, 9 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:مضمون عنوان و مواد کے لحاظ سے منفرد ہے۔اس مضمون کو متخب مضمون ضرور بننا چاہیے۔--محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:07, 10 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:انشاءاللہ میں تعاون کرونگا لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا--05:16, 13 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:محمد افضل کی تنقید بے جا نہیں لیکن مزمل نے اس کی بالکل صحیح وضاحت کی ہے۔ سب کو مل کر اسے منتخب مضمون بنانے کی سعی کرنا چاہیے۔--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:16, 13 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:اس مضمون کے اندر شامل ہندی متن کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حتی المقدور ذاتی رائے اور تقریری زبان کو بھی ہٹا چکا ہوں۔ کچھ ایسے دلچسپ اضافی پہلو جیسے کہ بسمل اور ان کی ماں کا آخری مکالمہ شامل کر لیا گیا ہے۔ اس طرح سے اس مضمون کی افادیت کافی بڑھ گئی ہے۔ گزارش ہے کہ اسے منتخب کرلیں اور ایک تاریخی شخصیت پر تحقیقی مضمون کو اس کا مستحقہ مقام عطا کریں۔ --مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 18:49, 19 مئی 2016 (م ع و)Yتکمیل، مضمون کو مثبت آراء کو مد نظر رکھتے ہوئے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا رہا ہے، براہ مہربانی اس کی مزید اصلاح کے لیے مضمون کا تبادلۂ خیال صفحہ استعمال کریں۔یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:47, 16 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:کسی بھی صارف کا منتخب معیار تک پہنچنے سے قبل مضمون کی تائید کرنا غلط امر ہے۔--☪جواب06:40, 17 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:آپ کی بات بالکل درست ہے۔ دراصل ہمارے ایک ساتھی نے خواہش ظاہر کی تھی کہٹیپو سلطاناورابو الکلام آزادکو منتخب مضمون ہونا چاہیے، اور میرا خیال ہے کہ سب اس بات سے متفق ہوں گے کہ واقعی یہ مضامین منتخب مضمون ہونا چاہیں۔ اسی لیے میں نے ان کو امیدوار برائے منتخب مضمون بنایا کہ سب ساتھی مشترکہ کوشش سے انہیں منتخب مضمون بنائیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جلد ہی ان کو کو منتخب مضمون کے معیار پر لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:44, 20 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:@Drcenjary:ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام صاحب کی مشہور کتاب Wings of Fire میں مرحوم نے ناسا میں ٹیپو سلطان کی تصویر دیکھنے کی بات کہی تھی، جس کا سبب اس دور کے عسکری ایجادات تھے۔ چونکہ آپ ایک جامعہ سے منسلک ہیں، اس موضوع کا مطالعہ کر کے متعلقہ مواد شامل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی ادب میں ٹیپو سلطان کا تذکرہ بھی دلچسپ موضوع ہے۔ جن دنوں میں بنگلور میں تھا میں نے ٹیپو سلطان کا پسندیدہ کھلونا دیکھا تھا جس کی رو سے لکڑی کے بنے انگریز فوجی کو شیر مسلسل حملہ کررہا تھا۔ اس سے ٹیپو کی انگریز دشمنی عیاں ہوتی ہے۔ ٹیپو کی زرعی اور ماحولیات دوست اصولوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ یہ بات کہ ٹیپو کے دو بیٹے انگریزوں کے قبضے میں رہے اور بعد میں انہیں دوران حکومت ہی رہا کیا گیا تھا، تفصیل طلب ہے اور اسے شامل کرنا چاہیے۔ ان اضافوں سے یہ مضمون کی افادیت ��ڑھے گی اور ہم اسے بجا طور منتخب کرسکیں گے۔--مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:07, 20 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:یقینا اس مضمون کو منتخب ہونا چاہئے اور اسے اس مقام تک پہنچانا کوئی مشکل بھی نہیں ہے بشرطِ ہم سب اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔--☪جواب04:13, 21 مئی 2016 (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:51، 6 اپریل 2023ء (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:41, 28 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:47, 16 مئی 2016 (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:40, 28 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون انگریزی ویکی کی مختصر ترین منتخب مضامین میں سے ایک ہے اب اس کے مکمل اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔☪جواب05:39, 21 مئی 2016 (م ع و)ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2016/36میں شامل کر دیا گیا۔--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:03, 24 اگست 2016 (م ع و)☪جواب13:33, 18 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:؛اس مضمون کو انگریزی ویکی سے ترجمہ کیا گیا ہے جہاں اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جاچکا ہے۔اسے ترجمہ کرنے میںمزمل،عثمان،طاہراورسنجری بھائیکا تعاون رہا جسکے لئے میں ان حضرات کا شکرگزار ہوں۔☪جواب14:06, 18 مئی 2016 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے☪☎07:05, 3 جون 2016 (م ع و)فقہ شافعیہ کے امام حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح و مختصر تاریخی حالات کو جاننے کے لیے یہ مضمون جو بشکل مقالہ لکھا گیا ہے، اِس کا مطالعہ ضروری و لازم ہے۔
+______اگر آپ نے آئمہ اربعہ کی سیرت و سوانح سے متعلق اسلاف کی کتب کا مطالعہ کیا ہو تو معلوم ہوگا کہ اُنہوں نے اُن کے فقہ کے متعلق معلومات و تبصرہ حیات کے تذکرے کے بعد کیا ہے۔ میں نے بھی اُسی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔______منتخب مضمون کا درجہ دے دیا گیا۔:)—خادم—05:34, 23 اگست 2016 (م ع و)یہ مضمون حالیہ پنجاب ترمیمی مہم میں سبھی جنوبی ایشیائی ویکیوں کے مضامین سے بڑا اور زیادہ معلوماتی رہا ہے۔ ویکی کانفرنس بھارت میں بھی یہ پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا گیا۔ اس مضمون کا انتخاب مہم میں شامل سبھی شرکاء کی کوششوں کا اعتراف ہوگا۔ --مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 15:28, 19 ستمبر 2016 (م ع و)مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔:)—خادم—19:45, 30 ستمبر 2016 (م ع و)سانچہ:م-م-رش-ب2یہ مضمون ٹھٹہ سندھ سے تعلق رکھنے والے اٹھارویں صدی کے عظیم محدث، یگانۂ روزگار فقیہ اور قادر الکلام شاعر کی شخصیت پر تحریر کیا گیا جن کی شہرت بین الاقوامی حیثیت کی حامل ہے۔ مواد کے حساب سے شخصیت کا مکمل احاطہ کرنے کی حقیر سی کوشش کی گئی ہے۔ مذکورہ مضمون سندھ کی تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے نمائندہ مضمون ہے۔--محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 04:35, 3 اکتوبر 2016 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا۔:)—خادم—13:43, 3 اکتوبر 2016 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا۔--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:36, 21 نومبر 2016 (م ع و)نامزد کنندہ(گان):--محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 04:35, 3 اکتوبر 2016 (م ع و)یہ مضمون مغلیہ فن تعمیر کا ایک اعلیٰ شاہکار مسجد وزیر خان پر مشتمل ہے۔ یہ مسجد بھارت اور پاکستان میں موجود مغلیہ عمارات میں سے چند اعلیٰ تعمیرات میں شامل ہے۔ اس مسجد کو یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ شامل کیا ہے۔اس مضمون کے صفحہ ساز عامر شاہین ہیں۔ بعد ازاں محترم محمد عمیر مرزا کی انتھک محنت نے مذکورہ مضمون کو ایک عمدہ مضمون بنا دیاہے۔ اس کے علاوہ اس مضمون میں محترم طاہر محمود صاحب اور راقم (محمد عارف سومرو) نے بھی اپنا مقدور بھر حصہ ڈالا۔ آپ سب سے گزارش ہے اس مضمون کی رائے شماری میں حصہ لیں اور اپنیتائید،تنقیداور اپنےتبصرہ:سے اس مضمون کے بارے میں خیالات کا اظہار کریں۔ شکریہ-محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:52, 6 جنوری 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا۔ --محمد عارف سومرو(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:44, 17 جنوری 2017 (م ع و)نامزد کنندہ(گان): --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:03, 15 فروری 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:49, 26 فروری 2017 (م ع و)نامزد کنندہ(گان): --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:41, 28 فروری 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 18:29, 8 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:10, 19 مارچ 2017 (م ع و)اس بندہ ناچیز کو یہاں اختلافی نوٹ لگانا چاہیے تھا مگرنہیں لگا رہا ہوں۔--علی نقی(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:19, 25 مارچ 2017 (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:45, 27 جولائی 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:22, 23 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:18, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:55, 23 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:21, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:58, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:42, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:03, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:23, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:09, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:25, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:49, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:36, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون قرار دئے جانے کے لائق ہے۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:52, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:33, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:22, 26 مارچ 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا----طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:41, 2 اپریل 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:01, 28 جون 2017 (م ع و)کلکتہ سے کولکاتا --— سابقہغیر دستخط شدہتبصرہ بدستAbualsarmad(تبادلۂ خیال•شراکتیں)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:41, 12 جولائی 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں�� --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 12:16, 12 جولائی 2017 (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:42, 27 جولائی 2017 (م ع و))یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:32, 10 ستمبر 2017 (م ع و)پشاور میں شامل دریائے کنہار شاید ٹھیک نہیں یہ دریائے کنڑ ہو گا جو دریائے چترال کا دوسرا نام ہے۔
+پشاور شہر سے بہت سے بزرگان دین کا تعلق بھی رہا ہے مختصر سا ذکر ان کا بھی ہونا چاہیئے۔— سابقہغیر دستخط شدہتبصرہ ازAbualsarmad(تبادلۂ خیال•شراکتیں)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:44, 26 نومبر 2017 (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔ میرے خیال میں اردو ویکیپیڈیا پر مضمون انگریزی اور عبرانی سے بھی بہتر ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:20، 3 اگست 2018ء (م ع و)Yمنتخب کر لیا گیا--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:40، 29 اگست 2018ء (م ع و)جمہوریہ آئرلینڈکے دار الحکومتڈبلنپر ویکیپیڈیا کی 174 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔باسک زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہڈینش زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرڈبلنمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔یہ مضمون ایک اچھے معیاری مضمون کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ اس میں کسی قسم کا کاپی رائٹ نہیں پے۔حسیب احمد(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:24، 25 اگست 2018ء (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:33، 5 ستمبر 2018ء (م ع و)ویکیپیڈیا:منتخب مضامینفہرست دیکھی جا سکتی ہے، منتخب مضامین کی اشد ضرورت ہے۔ براہ مہربانی رائے دیجیے۔—بخاری سعیدتبادلہ خیال11:46، 6 جنوری 2019ء (م ع و)Yتکمیل—بخاری سعیدتبادلہ خیال19:30، 6 جنوری 2019ء (م ع و)یہ مضمون فی الحال کسی دیگر ویکیپیڈیا پر منتخب مضمون نہیں۔ اردو ویکیپیڈیا پر اسے منتخب مضمون بنانے کی سعی کی گئی ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر وہ اس میں کوئی کمی یا غلطی دیکھتے ہیں تو اسے پورا یا درست کرنے کی کوشش کریںطاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:49، 14 جنوری 2019ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 125 زبانوں میں موجود ہے اور صرفملیالم زبانمیں منتخب مضمون کا درجہ رکھتا ہے۔اردومیں اس مضمون پر خاصی محنت کی گئی ہے بہت سی نئی تصاویر خاص طور پر جدہ کے لیے ویکیپیڈیا کامنز پر شائع کی گئی ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:39، 16 مئی 2019ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:54، 30 مئی 2019ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 148 زبانوں میں موجود ہے۔ عربی میں یہمنتخب مضمونجبکہ انگریزی میں یہبہترین مضمونہے۔اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں دونوں دیکیپیڈیا کی معلومات یکجا کر دی گئی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ مزید اضافہ بھی کیا گیا ہے، یوں عمان پر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:08، 14 جولائی 2019ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل—ابن سعیدتبادلہ خیال04:44، 16 اگست 2019ء (م ع و)یہ مضمون انگریزی ویکیپیڈیا سے مکمل ترجمہ شدہ ہے اور وہاں بھی منتخب ہے۔ —ابن سعیدتبادلہ خیال07:29، 15 اگست 2019ء (م ع و)سرخ روابط اور حوالہ جات کی خامیوں کو دور کیا جائے۔--Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:27، 15 اگست 2019ء (م ع و)یہ مضمونویکیپیڈیاکی 154 زبانوں میں موجود ہے۔مالے زباناور ہاکا چینی میں یہمنتخب مضمونجبکہانگریزی،ہسپانویاورانڈونیشیائیمیں یہبہترین مضمونہے۔اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں ان تمام دیکیپیڈیا کی معلومات یکجا کر دی گئی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ مزید اضافہ بھی کیا گیا ہے، یوں کوالا لمپور پراردو ویکیپیڈیاکا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:43، 21 جنوری 2020ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:54، 4 فروری 2020ء (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کے قابل ہے براہ مہربانی اپنی آرا سے مستفید کریں۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:37، 2 مارچ 2020ء (م ع و)ویکی احباب کے اتفاق رائے سے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے۔:)—خادم—مورخہ 21 مارچ 2020ء، بوقت 11 بج کر 23 منٹ (بھارت)یہ مضمونویکیپیڈیاکی 210 زبانوں میں موجود ہے۔افریکانر،عربی،انگریزی،کرویئشائی،مجارستانی،انڈونیشیائی،جارجیائی،لیٹویائی،مقدونیائی،پرتگیزی،سربیائیاورویتنامیمیں یہمنتخب مضمونہے۔اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوں استنبول پراردو ویکیپیڈیاکا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 15:19، 27 اپریل 2020ء (م ع و)ویکی احباب کے اتفاق رائے سے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:14، 12 مئی 2020ء (م ع و)آداب، امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ثناء اللہ امرتسریمعروف عالم دین، مفسرِ قرآن، صحافی تھے۔ احباب اپنی رائے ضرور دیں۔--شکریہ --حسن(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 15:52، 4 دسمبر 2020ء (م ع و)تبصرہ:مضمون میں مولانا اور اس طرح کے دیگر اعزازی کلمات کے علاوہ مضمون کے متن کا غیر جانبدار نہ ہونا، جیسے :اس کے علاوہ کئی مقامات پر حوالہ جات کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے، اور کہیں کہیں حد سے زیادہ۔ اگر اس جانب کوئی توجہ دی جائے تو مضمون لائق صد تحسین ہے۔ ─عافی(تبادلۂ خیال)تبصرہ:مضمون میں حوالوں کی حقیقتاً کمی ہے۔ اور اس میں دو متضاد چیزوں کے لیے ایک جیسے حوالے دیے ہیں۔مثلاً قادیانی اور مسیحی۔ لیکن معلومات بہت اچھی طرح فراہم کی ہے۔ بس اس مضمون کو تھوڑا تراشنے کی ضرورت ہے۔پھر یہ مضمون قابلِ دید ہوگا۔ ─مُحَمد عُثمان(تبادلۂ خیال)تبصرہ:- مضمون میں زبانی سدھار کی گنجائش ہے۔فیسمین(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 02:31، 5 دسمبر 2020ء (م ع و)@محمد افضل:جناب آپ نےمضمون فرقہ وارانہ ڈھنگ میں لکھی گئی ہےلکھ دیا لیکن بتایا نہیں کہ کہاں پر آپ کو لگا کی فرقہ وارانہ ہے- کہاں کمی ہے میں درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں-- شکریہ----حسن(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:16، 5 دسمبر 2020ء (م ع و)یہ مضمون ہر طرح سے مکمل ہے۔ یہ مضمون ایک طرح سے پوری کتاب کی ضخامت کے برابر ہے۔امین اکبر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 19:57، 20 فروری 2021ء (م ع و)ویکی احباب کے اتفاق رائے سے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:48، 14 اپریل 2021ء (م ع و)یہ مضمون پاکستانی تاریخ کا ایک اہم اور فراموش باب ہے جسے انگریزی ویکی پر پہلے سے ہی منتخب مضمون کا درجہ مل چکا ہے جبکہ زیر نظر مضمون بھی اسکا مکمل ترجمعہ ہے۔ احباب سے آراء کی درخواست ہے۔ شکریہ🇵🇰🇵🇰✉16:57، 11 نومبر 2020ء (م ع و)ویکی احباب کے اتفاق رائے سے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:10، 14 اپریل 2021ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 255 زبانوں میں موجود ہے۔ایفریکانز،باسک،کروشیائی،نورویجینی نینوشک،پرتگیزیاوراسکاٹسمیں یہمنتخب مضمون، جبکہانگریزی،بیلاروسی،ڈینش،جرمن،ہسپانوی،انڈونیشیائی،جاپانیاورنورویجینی بوکمولمیں یہبہترین مضمونہے۔ اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںلندنپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:58، 9 ستمبر 2021ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔YتکمیلObaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:02، 28 ستمبر 2021ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 75 زبانوں میں موجود ہے۔نیپالی زباناورمیتھلی زبانمیں یہمنتخب مضمون، جبکہ حیرت انگیز طور پر یہگرمکھیپنجابی زبانمیں یہ منتخب مضمون نہیں ہے۔ اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںہرمندر صاحبپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:12، 8 جنوری 2022ء (م ع و)؛یہ مضمون منتخب مضامین کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 03:42، 2 فروری 2022ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 197 زبانوں میں موجود ہے۔ترکی زباناورمجارستانی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے، اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںانقرہپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:06، 12 جون 2022ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 175 زبانوں میں موجود ہے۔عربی زبان،کروشیائی زباناورمجارستانی زبانمیں یہمنتخب مضمون، جبکہاسپرانتو زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںمیلانپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:43، 11 اگست 2022ء (م ع و)ایک تفصیلی اور تحقیقی مضمون ہے جس پر بہت محنت کی گئی ہے اس لیے اسے منتخب مضمون ہونا چاہئیےیہ مضمون انگریزی زبان کے ویکیپیڈیا پر بھی منتخب مضمون ہے اور ادرو ویکیپیڈیا پر بھی منتخب مضمون کے معیارات کے مطابق ہے۔۔۔۔۔۔۔امین اکبر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 16:14، 2 اکتوبر 2022ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 240 زبانوں میں موجود ہے۔جرمن زبان،نورشک،سرویائی زبان،سربی کروشیائیاورمجارستانی زبانمیں یہمنتخب مضمونجبکہاسپرانتو،فرانسیسی زباناورفنی زبانمیں یہبہترین مضمونہے، اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںبیجنگپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:15، 3 اکتوبر 2022ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 198 زبانوں میں موجود ہے۔تھائی زبانمیں یہمنتخب مضمونجبکہجرمن زبانمیں یہبہترین مضمونہے، اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںبینکاکپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:02، 26 اکتوبر 2022ء (م ع و)یہ مضمون۔۔۔۔۔۔۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:54، 29 دسمبر 2022ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:20، 11 فروری 2023ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:23، 11 فروری 2023ء (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:42، 7 مارچ 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 269 زبانوں میں موجود ہے۔افریکانز،عربی زبان،باشقیر زبان،بلغاری زبان،بوسنیائی زبان،کروشیائی زبان،عبرانی زبان،لمبرخی،مقدونیائی زبان،مراٹھی زبان،پرتگیزی زبان،تاتاری زبان،ویتنامی زباناوراسپرانتومیں یہمنتخب مضمونجبکہڈینش زبان،جرمن زبان،باسک زبانمیں یہبہترین مضمونہے،اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںپیرسپر اردو ویکیپیڈیا کا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:59، 12 جنوری 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 216 زبانوں میں موجود ہے۔عربی زبان،جرمن زباناورمصری عربیاور میں یہمنتخب مضمونہے، اردو ویکیپیڈیا پر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوںقاہرہپراردو ویکیپیڈیاکا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:38، 12 جنوری 2023ء (م ع و)مضمون منتخب ہو چکا ہے۔Obaid Raza(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:22، 9 فروری 2023ء (م ع و)یہ مضمون جنابFaismeenکی تحریک پر بندہ نے تقریباً پانچ ماہ قبل انگریزی ویکی سے اردو میں کیا تھا، اس کے سرخ روابط کو زرق کرنے اور اس کو معیاری بنانے میں بندہ کو تقریباً پانچ ماہ لگے، اب بن��ہ چاہتا ہے کہ یہ منتخب بن کر صفحۂ اول کی زینت بنے؛ لہذا آپ حضرات سے بھی التماس ہے کہ اپنی آرا سے نواز کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں، نیز کوئی کمی یا تکنیکی خرابی آپ کی نظر میں آئے تو درست فرما دیں یا آگاہ فرما دیں؛ تاکہ مضمون اگر منتخب مضمون بنائے جانے کے معیار کے مطابق نہ ہو تو اسے ویسا بنایا جا سکے۔ شکریہKhaatir(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:44، 18 جنوری 2023ء (م ع و)تبادلہ خیال پر انگریزی ویکی سے ترجمہ شدہ ہونے کا سانچہ (سانچہ:Translated page) لگائیں تو میری تائید بھی شامل ہے۔ ─عافیؔ(تبادلۂ خیال)17:16، 21 جنوری 2023ء (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:47, 16 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:کسی بھی صارف کا منتخب معیار تک پہنچنے سے قبل مضمون کی تائید کرنا غلط امر ہے۔--☪جواب06:40, 17 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:آپ کی بات بالکل درست ہے۔ دراصل ہمارے ایک ساتھی نے خواہش ظاہر کی تھی کہٹیپو سلطاناورابو الکلام آزادکو منتخب مضمون ہونا چاہیے، اور میرا خیال ہے کہ سب اس بات سے متفق ہوں گے کہ واقعی یہ مضامین منتخب مضمون ہونا چاہیں۔ اسی لیے میں نے ان کو امیدوار برائے منتخب مضمون بنایا کہ سب ساتھی مشترکہ کوشش سے انہیں منتخب مضمون بنائیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جلد ہی ان کو کو منتخب مضمون کے معیار پر لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 17:44, 20 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:@Drcenjary:ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام صاحب کی مشہور کتاب Wings of Fire میں مرحوم نے ناسا میں ٹیپو سلطان کی تصویر دیکھنے کی بات کہی تھی، جس کا سبب اس دور کے عسکری ایجادات تھے۔ چونکہ آپ ایک جامعہ سے منسلک ہیں، اس موضوع کا مطالعہ کر کے متعلقہ مواد شامل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی ادب میں ٹیپو سلطان کا تذکرہ بھی دلچسپ موضوع ہے۔ جن دنوں میں بنگلور میں تھا میں نے ٹیپو سلطان کا پسندیدہ کھلونا دیکھا تھا جس کی رو سے لکڑی کے بنے انگریز فوجی کو شیر مسلسل حملہ کررہا تھا۔ اس سے ٹیپو کی انگریز دشمنی عیاں ہوتی ہے۔ ٹیپو کی زرعی اور ماحولیات دوست اصولوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ یہ بات کہ ٹیپو کے دو بیٹے انگریزوں کے قبضے میں رہے اور بعد میں انہیں دوران حکومت ہی رہا کیا گیا تھا، تفصیل طلب ہے اور اسے شامل کرنا چاہیے۔ ان اضافوں سے یہ مضمون کی افادیت بڑھے گی اور ہم اسے بجا طور منتخب کرسکیں گے۔--مزمل(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:07, 20 مئی 2016 (م ع و)تبصرہ:یقینا اس مضمون کو منتخب ہونا چاہئے اور اسے اس مقام تک پہنچانا کوئی مشکل بھی نہیں ہے بشرطِ ہم سب اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔--☪جواب04:13, 21 مئی 2016 (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:51، 6 اپریل 2023ء (م ع و)Nمنتخب نہیں کیا گیا۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:41, 28 مارچ 2017 (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 125 زبانوں میں موجود ہے اور صرفملیالم زبانمیں منتخب مضمون کا درجہ رکھتا ہے۔اردومیں اس مضمون پر خاصی محنت کی گئی ہے بہت سی نئی تصاویر خاص طور پر جدہ کے لیے ویکیپیڈیا کامنز پر شائع کی گئی ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:39، 16 مئی 2019ء (م ع و)منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خی��ل•شراکتیں) 07:54، 30 مئی 2019ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 161 زبانوں میں موجود ہے۔ یہ مضمون دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون کو بہت بہتر کر دیا گیا ہے اور مزید حوالہ جات بھی شامل کیے گئے ہیں۔اردو ویکیپیڈیاپر اس مضمون میں کئی ویکیپیڈیا کی معلومات مختلف صفحات سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ یوں اسلام آباد پراردو ویکیپیڈیاکا مضمون کسی بھی زبان سے بہتر ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی اسے دور کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:42، 16 مئی 2023ء (م ع و)صارف:محمد ذیشان خان13:43، 20 مئی 2023ء (م ع و)ان میں سے عبد الواحد کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ یہ اس نئے شہر میں جنت سے آنے والا پہلا ننھا وجود تھا جس سے تمام ملازمین اور ان کے گھرانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے اسے اسلام آباد کے لیے برکت قرار دیا گیا۔ سب نے مل کر خوشی منائی جیسے سب کے گھرانوں پر رحمت اتری ہو۔ والدین نے بیٹی کا نام ”آب پارہ “ رکھا۔اسلام آباد کے پرانے دیہات کے عنوان سے کسی ویب سائٹ کا پورا مضمون کاپی پیسٹ کردیا گیا ہے۔اس طرح مضمون میں کئی جگہ تحریر غیر ضروری طوالت اور غیر ضروری معلومات پر مشتمل ہے۔صارف:محمد ذیشان خان13:54، 20 مئی 2023ء (م ع و)غیر حوالہ شدہ اخباری کالمز ، ٹاک شورز ، ویڈیوز اور کسی سوشل میڈیا پوسٹ کو حوالہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔حوالہ نمبر 3 (ایک فرد واحد کی سوشل میڈیا پوسٹ ہے)، حوالہ نمبر 10 اور 14 (ٹاک شوز ویڈیو)
+حوالہ نمبر 24، 25 (اخباری کالم کاپی پیسٹ) اس اخباری کالم کی متن کے لیے حوالہ 26 ، 27 دینا درست نہیں ۔
+حوالہ نمبر 29 اور 31 ایک ہی ہے، (اخباری کالم کاپی پیسٹ) بیچ میں حوالہ نمبر 30 اضافی ہے متن سے اس کا کوئی لنک نہیں۔
+حوالہ نمبر 18 ، 32 ، 81 اور 119 غیر موجود ہیں۔صارف:محمد ذیشان خان14:54، 20 مئی 2023ء (م ع و)--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:12، 19 مئی 2023ء (م ع و)°تبصرہ:-- اگر یہ مضمون منتخب مضمون کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو اس پر رائے شماری کو مقفل کر دیا جائے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال)--(شراکتیں)07 16:56، 28 اپریل 2024ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 25 زبانوں میں موجود ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 21:38، 7 مئی 2023ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:31، 17 مئی 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 37 زبانوں میں موجود ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:02، 22 جون 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 77 زبانوں میں موجود ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:57، 28 جون 2023ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:00، 2 جولائی 2023ء (م ع و)یہ مضمون ویکیپیڈیا کی 88 زبانوں میں موجود ہے۔ کوشش ��ی گئی ہے کہ مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو۔ اگر آپ کو اس مضمون میں کوئی کمی یا خامی نظر آئے تو براہ مہربانی آپ مضمون میں ترامیم کریں تاکہ اسے منتخب مضمون کا درجہ دیا جا سکے۔Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:39، 30 جون 2023ء (م ع و)""مواد کے لحاظ سے یہ جامع اور منفرد مضمون ہو جو کسی بھی دیگر ویکیپیڈیا سے بہتر ہو"" یہغلط بیانیہے عربی ویکیپیڈیا پر مضمون خاصہ بہتر ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 11:02، 3 اگست 2023ء (م ع و)نامزد کنندہ(گان):فیسمین(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:48، 31 جولائی 2023ء (م ع و)یہ مضمون انگریزی پر منتخب ہے۔ اردو میں اس مضمون کا حرف بہ حرف ترجمہ ہے۔ مشینی ترجمہ بالکل نہیں۔ کہیں کہیں کچھ تبدیلی اور کمی و بیشی بھی ہے۔ تمام روابط نیلے ہیں۔ امید ہے احباب اسے لائق منتخب سمجھیں گے۔فیسمین(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 10:48، 31 جولائی 2023ء (م ع و)Fahads1982(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:17، 1 اگست 2023ء (م ع و)یہ مضمون منتخب مضمون بننے کا حقدار ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اسے جلد از جلد منتخب مضمون بنانے میں مدد کریں۔عاقب نذیر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:13، 24 ستمبر 2023ء (م ع و)یہ مضمون انگریزی ویکی مضمونen:Jamiat Ulema-e-Hindکا مکمل ترجمہ ہے، جس کی باضابطہ وضاحت اس صفحے کے تبادلۂ خیال صفحے پر دیکھی جا سکتی ہے۔ انگریزی مضمون انگریزی ویکی پربہترین مضمونہے۔زیر نظر مضمون کا حجم 90,054 بائٹس پر مشتمل ہے۔ نیز مضمون کو میں نے ایک ڈیڑھ سال پہلے ہی بڑی محنت سے کام کیا اور اسے نامزد نہیں کیا؛ مگر بعد میں مئی 2023ء کو اور اب آج کل کے اندر مضمون پر تازہ تازہ گہری نظر ڈال کر حتی الوسع خامیوں کو دور کرنے کی سعی کی ہے۔ حوالہ جات کا بھی مکمل ترجمہ کر دیا گیا ہے۔ اب اس مضمون کو اردو ویکیپیڈیا کےمنتخب مضامینیا کم ازبہترین مضامینمیں شامل کرنے کی گزارش کرتا ہوں۔ احباب سے مخلصانہ التماس ہے کہ وہ اپنے محبانہ آرا سے نوازیں۔Khaatir(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 19:57، 1 جنوری 2024ء (م ع و)انگریزی ویکی مضمون کو بہترین مضمون بنانے میںصارف:TheAafiکی محنت تھی۔Khaatir(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 20:03، 1 جنوری 2024ء (م ع و)ایک معلوماتی مضمون ہے اور اس کو لازمی طور پر منتخب ہونا چاہئےابوالحسن راجپوت(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 08:38، 2 جنوری 2024ء (م ع و)انگریزی اور اردو کے قارئین الگ ہیں اور دونوں کا معیار بھی الگ ہی ہے۔ جمعیت نے جہاں کئی مثبت کام کیے ہیں وہیں کچھ اہم امور پر جمعیت کی خاموشی یا اس کی ناکامی پر تنقید بھی ہوتی رہتی ہے۔ لہذا اس مضمون میں اس تنقید کا کچھ حصہ ہونا چاہیے۔ بحیثیت اردو قاری ہمیں یہ مضمون ادھورا سا معلوم ہوتا ہے۔فیسمین(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 19:03، 16 فروری 2024ء (م ع و)اس ویکیپیڈیا پر یہ مضمون سب سے پہلا منتخب مضمون ہونا چاہیے تھا۔امین اکبر(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 14:41، 6 ستمبر 2023ء (م ع و)تبصرہ:– وہ علاقے جہاں اردو بولے جاتے ہیں، ان کے ساتھ دیے گئے حوالہ جات میں لنک شکستہ ہیں، انھیں صحیح کر لیا جائے تو اچھا ہے۔ بہت سے ایسے مقامات ہیں، جن کے ساتھ حوالہ جات ہونے چاہئیں۔ اس مضمون کو فی نفسہ منتخب ہونا چاہیے؛ کیوں کہ اردو ویکیپیڈیا ہی اردو کی فروغ و ترقی کے لیے ہے؛ مگر مضمون میں اگر قابل اصلاح چیزیں نظر آئیں، تو کوئی بھی کر سکتا ہے اور میرے خیال سے سب کو مل کر اسے بہتر بنانا چاہیے اور جس پیراگراف میں حوالہ جات نہیں ہیں، اس سے متعلق حوالہ جات تلاش کرکے لگا دیے جائیں۔
+نیز بعض خانوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ مضمون پر ابھی کام مکمل نہیں ہوا ہے، کام چل رہا ہے۔Khaatir(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:32، 7 ستمبر 2023ء (م ع و)تبصرہ:– میرے خیال میںعافیصاحب نے جن غیر ضروری حوالہ جات کی طرف توجہ دلائی ہے وہ انہیں حذف کر کے مضمون کو منتخب درجے پر فائز کریں، اگر اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہے۔ --طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:50، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:54، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)روسکےدار الحکومتاوروفاقی شہرماسکوپر ویکیپیڈیا کی 274 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔ایفریکانز،جرمن زبان،کرویئشائی زبان،منگولی زبان،سلووین زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہڈینش زبان،ہسپانوی زبان،اسپرانتو،لادین زبان،البانوی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرماسکومضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 07:51، 24 اگست 2024ء (م ع و)ترکیہمغربی ایشیامیںاناطولیہمیں ایک ملک ہے۔ترکیہپر ویکیپیڈیا کی 323 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔ہسپانوی زبان،کرویئشائی زبان،جارجیائی زبان،لاطینی زبان،لیٹویائی زبان،مجارستانی زبان،مقدونیائی زبان،پرتگیزی زبان،کردی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہعربی زبان،ڈینش زبان،یونانی زبان،عبرانی زبان،فنی زبان،تاتاری زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرترکیہمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:40، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)المغربکے شہر اور سابقہدار الحکومتمراکش (شہر)پر ویکیپیڈیا کی 111 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔پرتگیزی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہانگریزی زبان،تشلحیتمیں یہبہترین مضمونہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرمراکش (شہر)مضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:35، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)المغربشمالی افریقاکے خطےالمغرب العربیمیں واقع ایک ملک ہے۔المغربپر ویکیپیڈیا کی 262 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔عربی زبان، مغربی فلیمش میں یہمنتخب مضمونہے جبکہ ٹمبوکا زبان،فنی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرالمغربمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضموں کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 05:42، 3 ستمبر 2024ء (م ع و)غزہ پٹیکے شمال میں واقعدولت فلسطینکا شہر ہے۔غزہ شہرپر ویکیپیڈیا کی 105 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔عربی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہپرتگیزی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرغزہ شہرمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:48، 6 ستمبر 2024ء (م ع و)یونانکےدار الحکومتاور سب سے بڑے شہرایتھنزپر ویکیپیڈیا کی 225 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔فاروی زبان،لاطینی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہاسپرانتومیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرایتھنزمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 13:06، 8 ستمبر 2024ء (م ع و)ریاست ہائے متحدہکےدار الحکومتواشنگٹن، ڈی سیپر ویکیپیڈیا کی 246 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔انگریزی زبان،افریکانز،جاپانی زبان،ویتنامی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہبیلاروسی زبان،روسی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ یہ مضمون نہ صرف انگریزی ویکیپیڈیا کا مکمل ترجمہ ہے بلکہ اس میں مزید معلومات کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرواشنگٹن، ڈی سیمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:40، 12 ستمبر 2024ء (م ع و)اطالیہکےدار الحکومترومپر ویکیپیڈیا کی 262 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔باشقیر زبان،کرویئشائی زبان،جارجیائی زبان،لاطینی زبان، لزگی زبان،کریمیائی تاتاری زبان،تگالوگ زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہڈینش زبان،اطالوی زبان،سربیائی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرروممضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 09:51، 12 ستمبر 2024ء (م ع و)ریاست ہائے متحدہکی ریاستکیلیفورنیاکا سب سے زیادہ آبادی والا شہرلاس اینجلسپر ویکیپیڈیا کی 220 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔ایفریکانز،بوسنیائی زبان،ہسپانوی زبان،فرانسیسی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہ ٹمبوکا زبان،جرمن زبان،روسی زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرلاس اینجلسمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:41، 14 ستمبر 2024ء (م ع و)آسٹریلیاکی ریاستنیوساؤتھ ویلزکےدار الحکومتسڈنیپر ویکیپیڈیا کی 216 زبانوں میں مضامین موجود ہیں۔ایفریکانز،لتھووینیائی زبانمیں یہمنتخب مضمونہے جبکہجرمن زبانمیں یہبہترین مضمونہے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی مضمون اچھا ہے تاہم وہاں یہ منتخب یا بہترین مضمون نہیں ہے۔
+اردو ویکیپیڈیا پرسڈنیمضمون کسی بھی دوسرے ویکیپیڈیا سے معیار، معلومات یا حجم کے لحاظ سے بہتر ہے۔
+تمام صارفین سے گزارش ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔رائے شماری کے مطابق مضمون کو منتخب کر لیا گیا۔Yتکمیل--طاہر محمود(تبادلۂ خیال•شراکتیں) 06:46، 14 ستمبر 2024ء (م ع و)"
+6,فائل:LinkFA-star.png,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D8%A7%D8%A6%D9%84:LinkFA-star.png,رجوعِ مکرر از:
+7,ویکیپیڈیا:منتخب مواد,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D9%88%D8%A7%D8%AF,"ویکیپیڈیا میں منتخب موادمنتخب موادویکیپیڈیاکے بہترین مواد کی نمائندگی کرتا ہے، بشممول مضامین, تصاویر, اور دیگر شراکتیں جو ویکیپیڈیا کی باہمی تعاون کی کوششوں کے بہترین نتائج ظاہر کرتی ہیں۔ تمام منتخب کردہ مواد جائزہ لینے کے ایک مکمل عمل سے گزرنا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ یہ ویکیپیڈیا کے اہداف کی بہترین مثال کے طور پر پیش کرنے کے لئے اعلی معیارات پر پورا اترتا ہے۔کانسی کا ایک چھوٹا ستارہ () صفحہ کے اوپر دائیں کونے میںڈیسک ٹاپپر اشارہ کرتا ہے کہ یہ منتخب مواد ہے۔یہ صفحہ ویکیپیڈیا کے تمام منتخب کردہ مواد کو ربط دیتا ہے۔منتخب مواد:"
+8,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#فنون،_فنِ_تعمیر_اور_آثارِ_قدیمہ,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ا��لیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+9,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#اعزاز،_سجاوٹ_اور_امتیازیات,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+10,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#حیاتیات,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ��و کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+11,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#تجارت،_معیشت_اور_مالیات,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیل�� گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+12,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#کیمیاء_اور_معدنیات,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+13,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#کمپیوٹر,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہ��ں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+14,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#ثقافت_و_سماج,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+15,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#تعلیم,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنو��ن درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+16,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#انجینئری_اور_ٹیکنالوجی,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+17,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#کھانا_اور_پینا,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ م��چ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+18,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#جغرافیہ_اور_مقامات,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+19,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#ارضیات،_ارضی_طبیعیات_ت_اور_موسمیات,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹ��سٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+20,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#صحت_و_طب,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤن�� بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+21,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#تاریخ,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس ن�� جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+22,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#زبان_و_لسانیات,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 س��مبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+23,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#قانون,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+24,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#ادب_اور_فن_کدہ,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا ک��اتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+25,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#ریاضیات,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+26,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#شامہ_میان_(میڈیا),"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+27,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#موسیقی,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا ش��رہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+28,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#فلسفہء_اور_نفسیات,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا ت��مینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+29,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#طبیعیات_و_فلکیات,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ��لین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+30,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#سیاسیات_و_حکومت,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+31,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#مذہب،_عقیدہ_اور_ضعف_الاعتقاد,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+32,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#شاہی،_شریف_اور_حسب_نسب,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے�� ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+33,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#کھیل_اور_تعمیری_سرگرمیاں,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںس�� سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+34,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#نقل_و_حمل,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+35,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#بصری_کھیل,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں د��تاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکےدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+36,صفحۂ اول,https://ur.wikipedia.org#جنگ_و_جدل,"ماسکوروسکادار الحکومتاورسب سے بڑا شہرہے۔
+یہ شہر وسطیروسمیںدریائے ماسکواکے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اورمیٹروپولیٹن علاقےمیں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکودنیا کے سب سے بڑے شہروںمیں سے ایک ہے، مکمل طور پریورپمیںسب سے زیادہ آبادی والا شہرہونے کے ناطے،یورپکابڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نےماسکو کی گرینڈ ڈچیکے��ار الحکومتکے طور پر کام کیا۔ جبروسی زار شاہیکا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔پطرس اعظمکے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہرسینٹ پیٹرز برگمیں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔انقلاب روساورروسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہکے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میںسوویت یونینکا سیاسی مرکز بن گیا۔سوویت اتحاد کی تحلیلکے بعد، ماسکو نئے قائم کردہروسی وفاقکا دار الحکومت رہا۔• …کہتونسمیں واقعجامعہ زیتونہ(تصویر میں) تاریخ کی سب قدیم یونیورسٹی ہے، اس کے بعدجامعہ قروییناورجامعہ الازہرکا نمبر آتا ہے؟• …کہ 16 اپریل 1853ء کو ہندوستان کیپہلی سفری ریل گاڑیکا آغاز ہوا اور اس ریل گاڑی نےممبئیسےتھانےکے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا؟• …کہرتھ ایلیس،برطانیہمیں پھانسی کی سزا پانے والی آخری خاتون تھیں؟• …کہحنین زعبیپہلی عرب خاتون ہیں جواسرائیلکیکنیستمیں کسی عرب سیاسی جماعت سے منتخب ہو کر پہنچیں؟• …کہ کرکٹ کاپہلا عالمی کپ 1975ءمیں انگلینڈ میں کھیلا گیا، جبکہ خواتین کا پہلاکرکٹ عالمی کپ 1973ءسے کھیلا جا رہا ہے؟اردو ویکیپیڈیا پر اس وقت211,192مضامین موجود ہیں، اگر آپ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اسصفحۂ تلاشپر جا کر عنوان لکھیے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کا مطلوبہ مضمون پہلے سے موجود ہو۔ اگر مضمون موجود نہ ہو تو ذیل کے خانہ میں وہ عنوان درج کریں اور نیا مضمون تحریر کریں۔مارچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان میلبورن میں ہونے والے پہلے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ٹیسٹ میچ کے بعد سے ایک سو تئیس گراؤنڈز مردوں کیٹیسٹ کرکٹکی میزبانی کر چکے ہیں۔ اس فہرست میںورلڈ سیریز کرکٹکے مقامات اورخواتین کے ٹیسٹکے مقامات شامل نہیں ہیں۔8 جولائی 2009ء کو،کارڈفمیںصوفیہ گارڈنز100 واں ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا۔ بیلفاسٹ میںسٹورمونٹ کرکٹ گراؤنڈ123 واں اور حالیہ ٹیسٹ گراؤنڈ بن گیا جب اس نے جولائی 2024ء میںآئرلینڈ اور زمبابوےکے درمیان میچ کا انعقاد کیا۔آج: پير،16 ستمبر2024عیسویبمطابق12 ربیع الاول1446ہجری(م ع و)•اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن•میکسیکواورپاپوا نیو گنیکایوم آزادی•یوم ملائیشیاہمارے ساتھ شامل ہوںاگر آپ کا کھاتہ پہلے سے ہے تو براہ کرملاگ انہوںکیا آپ نے ابھی تک کھاتہ نہیں بنایا؟_ابھی بنائیں"
+37,اطالوی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B7%D8%A7%D9%84%D9%88%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,اطالیہ(اٹلی) میں بولی جانے والی ایک زبان۔[2][3]
+38,شمالی اطالیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C_%D8%A7%D8%B7%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81,"شمالی اطالیہ(اطالوی: Italia settentrionale)اطالیہکے شمالی حصے میں ایک جغرافیائی اور ثقافتی علاقہ ہے۔[2]شمالی اطالیہ کا رقبہ 120,260 مربع کیلومیٹر ہے، ہے۔ کی مجموعی آبادی"
+39,لومباردیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%84%D9%88%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%D8%AF%DB%8C%DB%81,"لومباردیہیالومباردی(انگریزی: Lombardy) (اطالوی: Lombardia)اٹلیکے بیس علاقوں میں سے ایک ہے، جس کا علاقائی صدر مقاممیلانہے۔ اطالوی آبادی کا چھٹا حصہ لومباردیہ میں رہتا ہے، جہاں اٹلی کی کلجی۔ڈی۔پیGDPکا چوتھا حصہ پیدا ہوتا ہے۔لومباردیہ کے شمال میں بلند پہاڑیاں واقع ہیں، علاقہ کا تقریبا چالیس فیصد حصہ پہاڑی ہے جن میں بلند ترین برنینا رینج (Bernina Range) کی پہاڑیاں ہیں جو چار ہزار میٹر تک کی بلندی تک بھی جاتی ہیں۔ جنوب میںدریائے پوہ(Po river) بہتا ہے، جو اٹلی کا سب سے (طویل ترین) لمبا دریا ہے۔ علاقہ کے دیگر اہم دریاؤں میںدریائےآدّا(Adda river)،منچیواوردریائے تیچینو(تیچینو) شامل ہیں جو سب دریائے پوہ میں گرتے ہیں۔ دریاؤں کے علاوہ علاقہ میں کئی ندیاں بھی بہتی ہیں جن میں بڑی ندیاں، ندی ماجیورے (Maggiore)( ماجّورے) یا واریزے کی ندی (Lake of Varese)، کومو کی جھیل (lake Como) اور گاردا جھیل (lake Garda) ہیں۔علاقہ کو بارہ صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کی تفصیل خانہ معلومات میں دی گئی ہے۔(نوٹ: خانہ معلومات میں دی گئی آبادی سارے صوبہ بشمول تمامکمونےکی آبادی کے ہے، نہ کا صرف شہر کی۔)لومباردی دنیا کے کاروباری انجنوں (محرّک)میں سے ایک ہے، جس کی جی۔ ڈی۔ پی GDP اسٹاٹ (ISTAT) کے اعدادوشمار کے مطابق چار کھرب امریکی ڈالر ہے جو کئی امیر ممالک مثلاسعودی عرب،سویزرلینڈاورسویڈنکی جی۔ ڈی۔ پی سے بھی زیادہ ہے۔ علاقہ کا شماریورپکے تین امیر ترین علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں فی کس آمدنی اٹلی ہی کے باقی علاقوں کی فی کس آمدنی سے پچاس فیصد زیادہ ہے۔2003ءکے یوروسٹیٹ (Eurostat) اعداد شمار کے مطابق لومباردیہ کی جی۔ ڈی۔ پی یورپ کے تمام علاقوں میں سب سے زیادہ تھی۔کئی قومی اور بین الاقوامی اداروں کے مراکزمیلانمیں واقعہ ہیں۔ پیداوار میں لوہا اور سٹیل، گاڑیاں، میکانی نظام اور پرزہ جات، کمیائی مادے، کپڑا، فرنیچر، چمڑہ اور چمڑہ کی مصنوعات، جوتے وغیرہ شامل ہیں۔بریشیاکا صوبہ دفاعی سازوسامان کی پیداوار کے لیے شہرت رکھتا ہے، جبکہ صوبہکوموریشم اور لیس کی پیداوار کے لیے۔ اچھے نہری نظام اور کھادوں کے استعمال میں ترقی کی وجہ سے زرعی پیداوار میں بھی بہتر ہے۔ میدانی علاقے جو نہروں سے آب پاش ہوتے ہیں وہاں سال میں آٹھ فصلیں بھی ہوتی ہیں۔ اہم زرعی مصنوعات میں سبزیاں، اناج، پھل وغیرہ شامل ہیں۔ قدرے بلند علاقوں میں پھلوں کے درخت بکثرت ہیں اور اہم پیداوار میں وائن کی تیاری میں استعمال ہونے والے پھل اور زیتون شامل ہیں۔ بکثرت پیدا ہونے والے مویشیوں میںسورہیں۔علاقہ پچانوے لاکھ افراد کا گھر ہے، جو اٹلی کی کل آبادی کا چھٹا حصہ ہے۔ علاقائی آبادی پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اٹلی کے جنوبی علاقوں کے مہاجروں کی آمد کی وجہ سے تقریبا دگنی ہو گئی تھی۔ اسی اور نوے کی دہائی میں علاقہ غیر ملکی مہاجرین کی منزل مقصود رہا اور آج اٹلی میں رہنے والے غیر ملکی مہاجرین کا ایک چوتھائی لومباردیہ میں رہتا ہے۔ اطالوی قومی ادارہ شماریات (ISTAT) کے 2006ء کے اعدادوشمار کے مطابق علاقہ میں 665,884 غیر ملکی مہاجرین رہتے ہیں، جو علاقہ کی کل آبادی کا سات فیصد ہے۔علاقہ کے آباد ترین شہر جن کی آبادی پچاس ہزار نفوس سے زیادہ ہے درج ذیل ہیں۔(نوٹ: خانہ معلومات میں دی گئي آبادی شہر کی ہے نہ کہ پورے صوبہ کی، شہر کی آبادی میں زیر انتظام کمونے کی آبادی شامل نہیں ہے۔)آبروزو|وادی آوستہ|پلیہ|بازیلیکاتا|کلابریا|کمپانیہ|ایمیلیا رومانیا|فریولی وینیزیا جولیا|لازیو|لیگوریا| لومباردیہ |مارچے|مولیزے|پیعیمونتے|ساردینیا|سسلیہ|ترینتینو جنوبی ٹائرول|تسکانہ|امبریا|وینیتو"
+41,اطالیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B7%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81,"اطالیہ((اطالوی:Italia)[iˈtaːlja](سنیے))، سرکاری نام:جمہوریہ اطالیہ(اطالوی:Repubblica Italiana)[reˈpubblika itaˈljaːna]،انگریزی: Italy،عربی:ایطالیا)،[7][8][9][10]جنوبییورپمیں واقع ایک جزیرہ نما ملک ہے۔[11]یہاطالوی جزیرہ نماکا ایک حصہ ہے اور رہیں سےرومی سلطنتورومی تہذیبشروع ہوئی تھی۔ اسےمغربی یورپبھی کہا جاتا ہے۔[12][13]بعض لوگ اسے انگریزی کی نقالی میں اردو میں بھیاٹلیکہتے ہیں۔ اطالیہ کومسیحیتکا گڑھ کہا جاتا ہے۔رومن کیتھولکفرقے کے روحانی پیشواہ جن کوپوپکہا جاتا ہے وہ روم میں واقع ایک جگہ جسے ویٹیکن سٹی (شہر واتیکان) کہتے ہیں، وہاں رہتے ہیں۔ اطالیہ کی سرحد فرانس،آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ سے ملتی ہے۔ جبکہ اٹلی کے درمیان میںسان مرینو(سان مارینو) اورویٹیکن سٹی( شہر واتیکان) کے آزاد مگر چھوٹے علاقے ہیں۔ اس کا دار الحکومترومہے۔زبان اطالویاور نظام حکومت پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ 25 مارچ 1957 کو یہیورپی یونینکا رکن بنا تھا۔ اطالیہیورپی یونینکے بانی ممالک میں شامل ہے۔ اس کا کل رقبہ 301,340 کلومیٹر2(116,350 مربع میل) اور اس کیزمینی سرحدفرانس، سوتزرلینڈ، آسٹریا، سولوینیا اورویٹیکن سٹیاورسان مارینوسے ملتی ہیں۔ جنوبی یورپ اوربحیرہ روم طاسمیں اپنی مرکزی جغرافیائی وقوع کی وجہ سے اطالیہ ہمیشہ سے ہزارہا اقوام اور تہذیبوں کا مسکن و ملجا رہا ہے۔ متعدد قدیم اقوام کے علاوہ یہاں ہند-یورپی اطالوی قوم آکر آباد ہوئی جنھوں نے جدید ملک کو یہ نام دیا۔ ان کا عہد کلاسیکی دور سے شروع ہوتا ہے جبفونیقیاورقدیم قرطاجنہنے اطالیہ میں قدم رکھا،[14]ان کے بعدقدیم یونانکی تہذیب ظہور پزیر ہوئی۔ 8ویں صدی ق م میں ایک اطالوی قبیلہ نےرومی مملکتکی بنیاد رکھی اور بعد میںرومی جمہوریہکے نام سے جانا گیا۔ یہاں اب سینیٹ اور عوامی طرز حکومت ہے۔عہد وسطی کے اوائل میں اطالیہ کئی بار انہدام اور تخریب کا شکار ہوا۔ لیکن 11ویں صدی میں اطالیہ میںسرمایہ داری نظامکا آغاز ہوا۔[15]اب ریاستیں آزاد رہنے لگی تھیں اور اور یہاں جہوری اورجاگیردارانہ نظامقائم تھا جس سے تجارت کو خوب فروغ حاصل ہوا اور علاقہ ایشیا و یورپ کا تجارتی مرکز بن گیا۔ البتہ اطالیہ کا ایک حصہ اب بھی مذہبی شکنجہ میں تھا جہاںمذہبی آمریتاورپاپائی ریاستیںقائم تھیں۔41°54′N12°29′E / 41.900°N 12.483°E /41.900; 12.483اسلاماطالیہ (اٹلی) میںرومن کیتھولککے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے،2011ءکے اندازے کے مطابق اطالیہ میں مسلمان 2٪ ہیں ۔[16]اطالیہ کا قومی شماریاتی ادارہ (Instituto Nazionale di Stastica) یہاں کے شہریوں کی ""حساس"" معلومات یکجا نہیں کرتا۔ اس زمرے میں مذہبی وابستگی پر اعداد و شمار بھی شامل ہیں۔ تاہم2006میں غیر سرکاری طور پر جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں 723188 سے لے کر دس لاکھ کے درمیان مسلمان یہاں آباد ہیں۔ مسلمانوں کی پہلی آمدنویں صدیعیسوی میں جبصقلیہخلافت عباسیہکے زیر اقتدار تھا، تب ہوئی۔827ءمیں مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادماتزارمیں کاروبار کر رہی تھی۔[17]اطالوی معاشرتی جمہوریہ(آلپی)"
+42,اطالیہ کے شہروں کی فہرست,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B7%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81_%DA%A9%DB%92_%D8%B4%DB%81%D8%B1%D9%88%DA%BA_%DA%A9%DB%8C_%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA,یہاطالیہکے شہروں کی فہرست(List of cities in Italy) ہے۔
+43,میٹروپولیٹن شہر میلان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%B9%D8%B1%D9%88%D9%BE%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%B9%D9%86_%D8%B4%DB%81%D8%B1_%D9%85%DB%8C%D9%84%D8%A7%D9%86,"میلان میٹروپولیٹن شہر(اطالوی: Città metropolitana di Milano)اطالیہکا ایک آباد مقام جولومباردیہمیں واقع ہے۔[2]میلان میٹروپولیٹن شہر کا رقبہ 1,575 مربع کیلومیٹر ہے اور اس کی مجموعی آبادی 3,259,835 افراد پر مشتمل ہے۔"
+44,یورپی یونین کے بڑے شہری علاقہ جات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE%DB%8C_%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%86_%DA%A9%DB%92_%D8%A8%DA%91%DB%92_%D8%B4%DB%81%D8%B1%DB%8C_%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%DB%81_%D8%AC%D8%A7%D8%AA,یہیورپی یونین کے بڑے شہری علاقہ جات(Largest urban areas of the European Union) ہے۔
+46,یورپی اتحاد,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE%DB%8C_%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%86,"یورپی اتحاد(انگریزی: European Union) (/ˌjʊrəˈpiːənˈjuːnjən/(سنیے)) براعظمیورپکے27 ممالک کا اتحاد ہے۔ اس کے قیام اقتصادی و سیاسی مقاصد تھے۔ 27 میں سے 18 رکن ممالک واحد کرنسی ""یورو"" استعمال کرتے ہیں۔ آخری شامل ہونے والا ملککروشیاتھا، جو یکم جولائی 2013 کو اس میں شامل ہوا۔یورپی ممالک کے سیاسی و اقتصادی طور پر متحد ہونے کی اہم ترین وجوہات درج ذیل ہیں:دوسری جنگ عظیمکے بعد یورپ کے ممالک پرامن انداز میں رہنا اور ایک دوسرے کی معیشت کی مدد کرنا چاہتے تھے۔1952ءمیںمغربی جرمنی،فرانس،اٹلی،بیلجیئم،نیدرلینڈزاورلکسمبرگنے کوئلے و اسٹیل کی واحد یورپی کمیونٹی تشکیل دی۔1957ءمیں اس کے رکن ممالک نے اطالوی دار الحکومتروممیں ایک اور معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے یورپی اقتصادی کمیونٹی تشکیل دی۔ اب یہ کمیونٹی کوئلے، اسٹیل اور تجارت کے لیے تھی۔ بعد ازاں اس کا نام تبدیل کرکے یورپی کمیونٹی رکھ دیا گیا۔1992ءمیں معاہدہ ماسٹرچٹ کے تحت اس کا نام یورپی یونین رکھا گیا۔ اب یہ ممالک نہ صرف سیاست اور اقتصادیات میں بلکہ دولت، قوانین اور خارجی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ شینجن معاہدے کے تحت 13 رکن ممالک نے اپنی سرحدیں ایک دوسرے کے لیے کھول دیں اور اب ان کے باشندے بغیر کسی پاسپورٹ یا ویزے کے ان ممالک کے درمیان سفر کرسکتے ہیں۔2002ءمیں 12 رکن ممالک نے اپنی قومی کرنسیوں کی جگہ یورو کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔2004ءمیں 10 اور2007ءمیں 2 نئے ممالک نے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی۔2014ءمیںکرویئشانے شمولیت اختیار کیا۔ اب یورپی یونین کے کل ارکان کی تعداد 28 ہے۔WW1 جو 1914-1919 کے درمیان واقع ہوئی۔ جس میں دو غیر مسلم گروپ The Triple Alliance اورThe Triple Entente ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہوکر دہشت گردی اور عام انسانیت کے قتل کی بے درد بنیاد رکھی۔وہ ممالک جو The Triple Alliance گروپ میں تھی جن میں جرمنی، اسٹریا اور اٹلی شامل تھے جبکہ The Triple Entente گروپ میں فرانس، روس اور برطانیہ شامل تھا۔ان دونوں کی جنگ سے کروڑوں مظلوم غیر مسلح انسانیت کا خون بہا ہوا اور عزتیں لوٹیں گئی اور ایک درندگی نما منظر کشی ہوئی۔WW1 کی جنگ کے اختتام کے بعد 19 سال کے بعد انھیں دو دشمنوں نے اپس کی منافقانہ دوستی کی آڑ میں ایک دوسرے کے خلاف قوت بنا کر WW2 کی شکل میں ایک بار پھر دہشت گردی اور کروڑوں انسانیات کے قتل سے اپنے ہاتھ خون آلود کر ڈالے۔WW2 جو 1939–1945 کے درمیان واقع ہوئی۔ یعنی 19 سال تک یہ دو غیر مسلم دہشت گرد گروپ نے اپنے مدِ مخالف ایک دوسرے کے خلاف دوستی کی آر میں دوبارہ انتقام کی غرض سے اندرونی طور پر اپنی اپنی قوتوں کے نقشے جمع کرتے رہے۔غیر مسلم گروپ The Triple Alliance نے مزید جن ممالک کو اپنے ساتھ ملایا ان میںسویت یونین، اسٹریا، اٹلی، کینیڈا ، برازیل، نیوزلینڈ، سوتھ آفریقہ، آمریکہ ، جرمنی، بلگوریا اور چند دیگر ملڈنڈ گروپس شامل تھے۔جبکہ The Triple Entente نے مزید جن ممالک کو اپنے ساتھ ملایا ان میں فرانس، روس، برطانیہ، رومانیہ، سلویکیا، ہونگری گروپ شامل تھے۔WW2 کے اثرات پوری دنیا کے ممالک تک پہنچے اور خوف دل کی پڑاس نکالی گئی اور ایک دشمن نے دوسرے دشمن کو شکست دینے کے لیے دہشت گردی کا وہ خوف ناک منظر بنایا کہ انسانیت آج بھی اس کی وجہ سے سر اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ان دو بڑی جنگوں نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا لیکن نتیجہ صرف اور صرف دہشت گردی، خون اور عزت لوٹائی۔ ان جنگوں میں دونوں اطراف کے دوشمنوں کی عورتوں کے ساتھ ٹشو پیپر جیسا سلوک کیا گیا اور نوجوانوں کو قید کرکے ان کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کر دیا گیا جہاں تک دشمن کا اپنے دشمن کے علاقے پر قبضے کے بعد ہزاروں بے گناہ لوگوں کو زندہ آگ کا لقمہ بنایا گیا۔انھیں دو جنگوں کے کالے کرتوت اور دہشت گردی کو مستقبل کی تاریخ سے غائب کرنے کے غرض سے انھیں دو غیر مسلم گروپس نے 1952 میں یعنی جنگ کے بعد 7 تک اپنے دہشت گردی پر مبنی کالے کارنامہ کو مستقبل کی نسل کے کانوں سے دور رکھنے کے لیے انھوں نے دلوں میں آفسوس اور شرمندگی رکھتے ہوئے اور انسانیت کے مجرم ہونے کی ضمیری آواز کو سن کر اس کو دباتے ہوئے یورپ کے ممالک پرامن انداز میں رہنا اور ایک دوسرے کی معیشت کی مدد کرنا اور لڑایوں کو ہمیشہ کے لیے زمین دوس بنانے کے نام پر ایک معاہدہ دنیا کے سامنے رکھ دیا جس کا نام یورپین یونین رکھا گیا یعنی یورپی یونین کے رکن ممالک کا کوئی بھی باشندہ تنظیم کے کسی بھی رکن ملک میں رہائش اختیار کرنے کے علاوہ ملازمت، کاروبار اور سیاحت کر سکتا ہے اور اس کے لیے اسی پاسپورٹ، ویزا یا دیگر دستاویزات کی کوئی ضرورت نہیں۔ بالکل اسی طرح کسی ایک ملک کی مصنوعات بھی دوسرے ملک میں کسی خاص اجازت یا اضافی محصولات کے بغیر معیاری مصنوعات کے قانون کے تحت فروخت کی جا سکتی ہیں۔مختصراایک دوسرے کے دشمنوں کا آپس میں جنگ کی شکل میں کئی لاکھ انسانیت کا خون خرابا کرکے بغیر کسی نتجیہ کے اپنے جرم کو مستقبل کی تاریخ میں دنیا کے سامنے افشاں ہوجانے کے ڈر سے ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کے غرض سے ایک اتحاد بنانا جس کو آج یورپین یونین کے نام سے جانا جاتا ہے۔محمد فیصل محمودیورپی یونین کے رکن ممالک کا کوئی بھی باشندہ تنظیم کے کسی بھی رکن ملک میں رہائش اختیار کرنے کے علاوہ ملازمت، کاروبار اور سیاحت کر سکتا ہے اور اس کے لیے اسی پاسپورٹ، ویزا یا دیگر دستاویزات کی کوئی ضرورت نہیں۔ بالکل اسی طرح کسی ایک ملک کی مصنوعات بھی دوسرے ملک میں کسی خاص اجازت یا اضافی محصولات کے بغیر معیاری مصنوعات کے قانون کے تحت فروخت کی جا سکتی ہیں۔
+واجد گبول1958ءسے (بانی ارکان)1973ءسے1981ءسے1986ءسے1990ءسے1995ءسے2004ءسے2007ءسے2014ءسےرکنیت کے امیدوار٭ 1990ء میں دونوں ممالک متحد ہو گئے تھے اور ابجرمنیکے نام سے یورپی یونین کے رکن ہیں۔یورپی یونین کے رکن اور امیدوار ممالک کی اقتصادی حالت٭ مشرقی اور مغربی جرمنی1990ءمیں متحد ہو گئے جس کے بعد سےجرمنییورپی یونین کا رکن ہےباضابطہ ویب گاہآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ europa.eu(Error: unknown archive URL)یورپی یونین کی تاریخ[مردہ ربط]یورپی یونین سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک پرآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ cia.gov(Error: unknown archive URL)"
+47,عالمگیریت اور عالمی شہر تحقیق نیٹ ورک,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DA%AF%DB%8C%D8%B1%DB%8C%D8%AA_%D8%A7%D9%88%D8%B1_%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C_%D8%B4%DB%81%D8%B1_%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82_%D9%86%DB%8C%D9%B9_%D9%88%D8%B1%DA%A9,عالمگیریت اور عالمی شہر تحقیق نیٹ ورک(انگریزی: Globalization and World Cities Research Network)عالمگیریتکے تناظر میںعالمی شہروںکے مابین تعلقات کا مطالعہ کرنے والی ایکمحفل فکرہے۔ یہلیسٹرشائر،انگلستان،مملکت متحدہکیلفبرو یونیورسٹیکے شعبہجغرافیہمیں قائم ہے۔[1]
+48,عالمی شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C_%D8%B4%DB%81%D8%B1,"عالمی شہر(Global city، ّWorld city, Alpha city) جسےعالمی مرکز(World center) بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا شہر ہے جوعالمی اقتصادی نظامکا اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔"
+49,فن��ات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D9%86%DB%8C%D8%A7%D8%AA,فنیاتیافنون(arts)،فن(art) کے مطالعے کو کہا جاتا ہے اور بنیادی طور پر اس سے مراد ایسا تخلیقی کام اور ہنر ہوتا ہے کہ جو کسی پیشہ ورانہ نقطۂ نظر کی بجائے انسان کی فطری صلاحیت سے زیادہ قریب ہوتا ہے، لیکن آج کل یہ بنیادی تصور خاصہ بدل گیا ہے اور اب فن بھی پشہ ورانہ طریقوں پر اور باقاعدہ پیشہ ورانہ دانشگاہوں اور جامعات کے مدارج تک تدریس کیے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ انسانی علم کے اضافوں کے ساتھ ساتھ فن اور سائنس کی حد فاصل بہت باریک ہوتی چلی آئی ہے اور بعض اوقات فن، سائنس اور سائنس، فن کی حدود میں بھی داخل ہوجاتی ہے مثال کے طور پرطبایک سائنس بھی ہے اور ایک فن بھی اور اسی طرحنقاشیجب اپنے درجۂ کمال پر پہنچ جائے تو یہ فن سے نکل کر سائنس میں داخل ہو جاتی ہے۔ اور اسی سائنس کی ترقی نے فنتخطیط(graphics) کو فن کے دائرے سے نکال کرشمارندی تخطیط (computer graphics)کی صورت میں سائنس کی حدود میں داخل کر دیا ہے۔ فنیات کو عام طور پرثقافتکی ایک ذیلی شاخ بھی تصور کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ لفظ صرف فن کے لفظ سے خاصہ وسیع ہے۔
+50,تجاریات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%AA,کاروبارسے مراد منافع حاصل کرنے کے لیے کسی تنظیم کی قدر سازی (value-creating) سرگرمیاں ہوتی ہیں، جبکہتجاریاتسے مراد معیشت کا وہ پُورا نظام ہے جو کاروبار کے لیے ایک ماحول تشکیل دیتا ہے۔ اِس نظام میں، ملک میں فعال، قانونی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور تکنیکی نظامات شامل ہیں۔ یوں، تجاریات ایک ایسا نظام یا ماحول ہے جو معیشت یا ملک کے کاروباری تناظر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ہم اِس کی تعریف کاروبار کے جزء ثانی کے طور پر بھی کرسکتے ہیں جس میں پیداکاران (producers) سے صارفین تک اجناس کی منتقلی سے وابستہ تمام سرگرمیاں، افعال اور اِدارے شامل ہوتے ہیں۔تجاریات سے اصلاً خرید و فروخت کی تجریدی مفاہیم (abstract notions) مراد ہوتی ہیں، جبکہتجارتاشارہ کرتا ہے اجناس کی کسی خاص قسم کے تبادلے کی طرف (جیسا کہ کپڑے کی تجارت وغیرہ) یا تبادلے کے کسی خاص فعل کی طرف (مثلاً ’’بازارِ حصصپر تجارت‘‘)۔ تجاریات کا لفظ عموماً تجارت، بینکاری، تشہیر وغیرہ کا اِحاطہ کرتا ہے۔کاروبارسے مطلب ایک ایسی تنظیم کی ہو سکتی ہے جسے تصنیع یا تبادلے کے عمل میں لگنے کے لیے بنایا گیا ہو۔
+51,ترتیب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%B1%D8%AA%DB%8C%D8%A8,ترتیب(انگریزی: Design) ایک منصوبہ یا کسی شے کی تعمیر کا بیانیہ یا کسی سرگرمی یا طریقہ کار کی عمل آوری یا اس منصوبے کے نتیجے میں وقوع پزیر اولین مصنوع، حتمی مصنوع یا طریقے کا نام ہے۔ ترتیب دینے کے فعل کے تحت ایک مکمل تیاری کا عمل شامل ہے۔ کچھ معاملوں میں کسی شے کی راست تعمیر جس میں قبل اس کے کوئی واضح منصوبہ موجود نہیں ہو (جیسا کہ ہنر مندی سے جڑے کام، کچھ انجینئری کے کام، کوڈنگ اور گرافکس) کو بھی ترتیب سے متعلقہ سرگرمی تصور کیا جاتا ہے۔ ترتیب عمومًا کچھ مقاصد کی تکمیل کرتی ہے۔ اس میں کچھ ممانعتیں بھی ہو سکتی ہیں: مثلًا زیر نظر کام کا اسلوب، تکمیلی، معاشی اور سماجی و سیاسی غور و فکر؛ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ کسی ماحول سے ترتیب ہم آہنگ ہو۔ ترتیبات کی مثالوں میںتعمیری نقشہ جات،انجینئری کی مصوری،کاروباری طریقے،سرکٹ ڈائیگراماورخیاطی کی ترتیباتشامل ہیں۔[1][1][2][3][4][5][6][7][8][9][10]}}
+52,تعلیم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85,"تعلیماپنے وسیع تر معنوں میں وہ چیز ہے جس کے ذریعے لوگوں کے کسی گروہ کی عادات اور اہداف ایک نسل سے دوسرینسلکو منتقل ہوتے ہیں۔ اپنے تکنیکی معنوں میں اس سے مراد وہ رسمی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ایکمعاشرہاپنا مجموعی علم، ہنر، روایات اور اقدار ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتا ہے؛ عموماً اسکول میں کی جانے والی تربیت۔تعلیم کی اقسام۔تعلیم کی درجہ بندی کرنے کے مختلف طریقے ہیں ، مثال کے طور پر عمر یا موضوع کے لحاظ سے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے رسمی تعلیم ، نیم رسمی تعلیم اور غیر رسمی تعلیم میں تقسیم کیا جائے۔رسمی تعلیمعام طور پر اسکول میں ہوتی ہے ، جہاں ایک شخص بنیادی ، تعلیمی یا تجارتی مہارتیں سیکھ سکتا ہے۔ چھوٹے بچے اکثر ایک نرسری یا کنڈرگارٹن میں جاتے ہیں لیکن اکثر رسمی تعلیم ابتدائی اسکول میں شروع ہوتی ہے اور سیکنڈری اسکول کے ساتھ جاری رہتی ہے۔ ثانوی بعد کی تعلیم (یا اعلیٰ تعلیم) عام طور پر کسی کالج یا یونیورسٹی میں ہوتی ہے جو تعلیمی ڈگری دے سکتی ہے۔ یا ، طلبہ سٹی کالج جا سکتے ہیں جہاں وہ عملی مہارتیں سیکھتے ہیں۔ اس طرح سیکھنے والے پلمبر ، الیکٹریشن ، بلڈر اور اسی طرح کے پیشے کے اہل بن سکتے ہیں۔ ان کورسز میں طلبہ کو عملی تجربہ حاصل کرنے کا انتظام ہے۔ اپرنٹس شپ یہ کرنے کا پرانا طریقہ تھا ،غیر رسمی تعلیممیں بالغوں کی بنیادی تعلیم ، بالغوں کی خواندگی کی تعلیم یا اسکول کی مساوات کی تیاری شامل ہے۔ غیر رسمی تعلیم میں کوئی (جو اسکول میں نہیں ہے) خواندگی ، دیگر بنیادی مہارتیں یا ملازمت کی مہارتیں سیکھ سکتا ہے۔ ہوم ایجوکیشن ، انفرادی ہدایات (جیسے پروگرام لرننگ) ، ڈسٹنس لرننگ اور کمپیوٹر سے معاون ہدایات دیگر امکانات ہیںغیر رسمی تعلیم کم منظم ہے۔ [4] یہ والدین ہو سکتا ہے کہ کسی بچے کو کھانا تیار کریں یا سائیکل چلائیں۔ لوگ لائبریری یا تعلیمی ویب سائٹس سے بہت سی کتابیں پڑھ کر غیر رسمی تعلیم بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اسے خود تعلیم بھی کہا جا سکتا ہے۔ کچھ مشہور آدمی بڑے پیمانے پر خود تعلیم یافتہ رہے ہیں ، جیسے الفریڈ رسل والیس۔غیر اسکولنگ اس وقت ہوتی ہے جب بچے جاتے جاتے سیکھتے ہیں اور اسکول کی روایتی عمارتوں میں نہیں جاتے۔ اس کی بجائے ، وہ ویب سائٹس پر جاتے ہیں ، گیم کھیلتے ہیں یا عام مشاغل میں مشغول رہتے ہیں اور راستے میں سیکھتے ہیں۔ ""غیر ساختہ"" زندگیوں والے بچوں کا تجربہ یہ ہے کہ وہ مصیبت میں پڑ جاتے ہیں۔ [5]ڈسکولنگ ایک زیادہ سخت طریقہ ہے۔ یہ اسکولوں کو ختم کرنے کی وکالت کرتا ہے۔ اسے 1960 اور 1970 کی دہائی میں امریکا میں پیش کیا گیا۔ اب یہ ایک فعال تحریک نہیں ہے۔اسکولنگبہت سے سرکاری اسکول (امریکی اصطلاحات) حکومت کے ذریعے مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول بھیج سکتے ہیں ، لیکن انھیں اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ کچھ غریب جگہوں پر ، کچھ بچے اسکول نہیں جا سکتے ، کیونکہ ان کے ممالک تعلیم کو دستیاب نہیں کرتے یا اس وجہ سے کہ ان کے خاندانوں کے پاس کافی پیسہ نہیں ہے یا اس وجہ سے کہ بچوں کو پیسے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے یا اس لیے کہ معاشرے میں تعلیم کے خلاف تعصب ہے۔ لڑکیاں.یہاں پرائمری اسکول اور سیکنڈری اسکول ہیں۔ بہت سی جگہوں پر انھیں حکومت کی مالی امداد حاصل ہے۔ کالج اور یونیورسٹیاں عام طور پر فیس (ٹیوشن ادائیگی) لیتی ہیں جو مختلف ممالک میں مختلف ہو سکتی ہیں۔"
+53,تفریح,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D9%81%D8%B1%DB%8C%D8%AD,"تفریح(entertainment) سے مُراد کوئی بھی ایسیسرگرمیہے جو لوگوں کوفرصتکے اوقات میں اپنے آپ کو محظوظ یامسرور(amuse) کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔تفریح عموماً ایک ساکن یا بے حرکت سرگرمی ہوتی ہے مثلاً متحرک فلم (movie) یااوپراوغیرہ دیکھنا۔ جبکہ فرحت (amusement) کی متحرک یا فعال اشکال، جیسا کہکھیلوغیرہ، کو زیادہ ترتفنّن(recreation) میں شمار کیا جاتا ہے۔ سرگرمیاں مثلاً ذاتی پڑھائی یا کسی موسیقی ادات (musical instrument) کی ممارست (practice) کومشاغلسمجھا جاتا ہے۔وہصنعتجو تفریح فراہم کرتی ہے اُسے تفریحی صنعت یاتفریحیاتکہاجاتا ہے۔ تفریح کی کئی اقسام ہیں مثلاً:سنیما،جلوہ کاری،کھیل،لعبہ جات(games) اورسماجی رقص(social dance) وغیرہ۔کٹھ پتلیاں(puppets)،مسخرے(clowns)،سوانگ(mimes) اورکارٹوناتوغیرہ بچوں کو راغب کرتے ہیں، تاہم بڑے بھی بعض اوقات انھیں تفریح بخش پاتے ہیں۔تفریحیات پر سب سے بڑی تنقید یہ کی جاتی ہے کہ یہ معنی خیز سمجھی جانے والی سرگرمیوں مثلاً مطالعے اور رضاکاری (volunteering) وغیرہ سے لوگوں کا پیسہ اور وقت دوسری طرف مبذول کرتی ہیں۔تفریحایک فرصت کی سرگرمی ہے اور فرصت صوابدیدی وقت ہے۔[1]""تفریح کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت"" انسانی حیاتیات اورنفسیاتکا ایک لازمی عنصر ہے۔[2]تفریحی سرگرمیاں اکثرلطف اندوزی،دلچسپییاخوشیکے لیے کی جاتی ہیں اور انھیں "" لطف "" سمجھا جاتا ہے۔"
+54,رواج,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%DB%8C%D8%B4%D9%86,رواج(fashion)، سے مراد ایسے انداز اور رسوم ہیں جو ایک خاص وقت پر رائج ہوں۔ عام استعمال میں رواج کی مثالپوشاکسے دی جاتی ہے، لیکن اِس اصطلاح کی معنی وسیع ہیں۔ کئی رواج کئی ثقافتوں میں ایک خاص وقت پر مقبول ہوتے ہیں۔
+55,فنانس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D9%86%D8%A7%D9%86%D8%B3,فنانس(Finance)(اردو۔۔۔۔)۔ زر(Moeny) اور اثاثہ جات(Asstets) کیمینجمنٹکو فنانس کہا جاتا ہے۔ مزید دیکھنےزمرہ فنانس
+56,طبی نگہداشت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B7%D8%A8%DB%8C_%D9%86%DA%AF%DB%81%D8%AF%D8%A7%D8%B4%D8%AA,طبی نگہداشت(انگریزی: Health care) صحت کی برقراری اور اس میں بہتری سے متعلق امور پر مشتمل نظام ہے جس میںاحتیاط،تشخیص،علاج، صحت یابی،بیماریاورزخمسےشفااور دیگرجسمانی اور دماغی بد نظمیاںشامل ہیں جو لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ طبی نگہداشت کی ذمہ داریصحت کے پیشہ ورملحقہ صحت کے شعبوںمیں انجام دیتے ہیں۔جدید دور میں بڑھی ہوئی آبادی اور نئی اور پرانی بیماریوں کے بیچ ڈاکٹروں اور نرسوں کے ذریعہ صحت سے متعلق چیلنجوں کا سامنا کرنے اور شخصی خاندانوں کی اور آبادیوں کی صحت ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں طبی پیشہ اورنرسوںکے ذریعے کی جانے والی تیمار داری درحقیقت ایک انسانی خدمت کی علامت ہے کیوں کہ لوگ صحت یاب ہو کر دوبارہ کام پر لگ سکتے ہیں۔ مختلف دنوں اور سالوں کو طبی افادیت سے موسوم کرنے کی طرز پرعالمی ادارہ صحتنے سال2020ءکو نرسوں اوردائیوںکا سال قراردیا ہے۔ سماج میں بڑی عمر کے ایسے لوگوںکی تعداد بڑھتی جارہی ہے جنہیں مناسب دیکھ ریکھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ دائمی طور پر بیمار ہوتے ہیں اور چوبیسوں گھنٹے طبی نگرانی ضروری ہوتی ہے۔دیکھ بھال کی خدمات فراہم کرانے والوں کے لیے صرف یہ ضروری نہیں کہ وہ تربیت یافتہ نرسیں یا ڈاکٹر ہوں بلکہ ضعیفوں اور معذوروں کی دیکھ بھال کی بنیادی تربیت ان کے لیے ضروری ہوتی ہے جو کئی ملکوں میں فراہم کی جاتی ہے۔ کئی ملکوں کے نرسنگ کے تربیتی ادارے ایسی دیکھ بھال کی خدمات فراہم کرانے والوں کے لیے قلیل مدتی تربیتی پروگرام فراہم کر رہے ہیں۔[1]جس طرح کہ ہر شعبہ حیات میں نئی نئ تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں، اسی طرح سے صحت کی دیکھ میں بھی ریکھنے میں آ رہی ہیں۔ پسپتال کے منتظمین اور ڈاکٹروں پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وقتًا فوقتًا مرض کے علاج کی نئی تکنیکوں کا مطالعہ کریں اور انھیں اپنے ہسپتالوں میں اپنائیں۔ اس طرح سے جدیدیت کا اپنایا جانا ہی لوگوں کی صحت کی دیکھ ریکھ اور ان کے علاج و معالجہ میں بہتری اور مثبت نتائج دے سکتا ہے۔ چنانچہ طبی ماہرین دنیا بھر میں نئے تجربوں اور نئی در یافتوں پر خاص توجہ دیتے ہیں اور انھیں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
+57,ابلاغ عامہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%A8%D9%84%D8%A7%D8%BA_%D8%B9%D8%A7%D9%85%DB%81,کبیر الوسیطسےمرادایسی وسیطی ٹیکنالوجی ہیں جو ابلاغ عامہ کی بدولت سامعین تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔
+58,تحقیق,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82,تحقیقکا مطلب ہےعلمکی تلاش۔ اور کھلے ذہن سے منظم تحقیقات اور حقائق جاننے کے لیے یا کسی موجودہ یا نئے مسئلے کو حل کرنے کے لیے۔
+59,سیاحت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%AD%D8%AA,سیاحتتفریحی، فرحت بخشانہ،صحت افزائی، اطمینان بخشی یا قدرتی نظاروں کو دیکھنے کے مقاصد کے لیے سفر ہے۔2011 میں سیاحت ایک مقبول عالمی تفریحی سرگرمی بن چکی ہے۔ ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ ایک سے دوسرے مُلک سفر کرنے والے لوگوں کی تعداد1997ءمیں 631 ملین سے سنہ2020ءتک 1 اعشاریہ 6 بلین تک بڑھ جائے گی۔ جس میں تاحال کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ طلب کی اس افزائش کی وجہ سے کاروبار، تفریحگاہوں اور سیاحوں کے لیے خدمات فراہم کرنے والے ممالک کی تعداد میں افزائش کی گئی تھی۔ سیاحت نہ صرف سیر و تفریح اور صحت افزائی کے لیے مفید ہے بلکہ سیاحت سے مقامی آبادی اور اس ملک کے اقتصاد کو تقویت ملتی ہے۔ لوگوں کو کام کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ سیاحت سے مختلف ثقافتوں اور خطے سے تعلق رکھنے والے لوگوں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور مختلف اچھی چیزیں ایک معاشرے سے دوسرے میں رائج ہوجاتی ہیں۔ سیاحت کے مختلف اقسام ہیں جیسے قدرتی نظاروں کو دیکھنے والا سیاحت، مذہبی سیاحت جس میں لوگ مختلف مذہبی جگہوں کو دیکھنے جاتے ہیں،تاریخی سیاحت جس میں لوگ آثار قدیمہ وغیرہ دیکھتے ہیں۔2011 کے مطابق
+60,اسٹاک ایکسچینج,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B3%D9%B9%D8%A7%DA%A9_%D8%A7%DB%8C%DA%A9%D8%B3%DA%86%DB%8C%D9%86%D8%AC,اسٹاک مارکیٹیا ایکوئٹی مارکیٹ، مختلف کمپنیوں کے اسٹاک یا حصص کے خریداروں اور فروخت کنندگان کو اکٹھاکرتی ہے۔ یہاں محض اقتصادی لین دین ہوتی ہے اور اس کا حقیقی جگہ پر وجود لازم نہیں . یہاں عوامی یعنی پبلک اور نجی سطح کے سودے ہوتے ہیں۔ یہاں ہونے والے سودوں میں کمپنیوں کے حصص کے علاوہ بانڈ بھی بیچے اور خریدے جاتے ہیں .
+61,اطالوی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B7%D8%A7%D9%84%D9%88%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,اطالیہ(اٹلی) میں بولی جانے والی ایک زبان۔[2][3]
+62,خام ملکی پیداوار,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%A7%D9%85_%D9%85%D9%84%DA%A9%DB%8C_%D9%BE%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D9%88%D8%A7%D8%B1,کسی مخصوص مدت (عموماً مالیاتی سال) کے دوران کسی ملک کی حدود میں پیدا ہونیوالی تماماشیاءاورخدماتکی بازار میں موجود قدر (مارکیٹ ویلیو) خام ملکی پیداوار (GDP - gross domestic product) کہلاتی ہے۔ یہ معاشی ترقی کا سب سے اہم شماریاتی اشاریہ ہے۔ اس میں وہ اشیاء اور خدمات شامل نہیں ہیں جو اس ملک کے شہری غیر ممالک میں پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہم اس میں وہ اشیاء اور خدمات شامل کر دیں جو اس ملک کے شہری غیر ممالک میں پیدا کرتے ہیں اور وہ پیداوار تفریق کریں جو غیر ملکی اس ملک میں کر رہے ہیں تو اسےخام قومی پیداوار(GNP - gross national product) کہتے ہیں۔
+64,میدرد,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D8%AF%D8%B1%D8%AF,"مادرید(ہسپانوی:[maˈðɾið](سنیے))ہسپانیہکا سب سے بڑا شہر اوردارالحکومتہے۔ اردو کی تاریخ کی کتابوں میں اس کا ذکر ""مجریط"" کے نام سے ملتا ہے جو دراصل اس شہر کا عربی نام ہے اوراندلسکے زمانے سے یہ نام آرہا ہے۔ یہیورپی اتحادکے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ہسپانیہ کے وسط میں واقع یہ شہر دار الحکومت اور شاہ ہسپانیہ کی رہائش گاہ ہونے کے علاوہ ہسپانیہ کی سیاست کا مرکز بھی ہے۔ شہر کی آبادیدسمبر2005ءکے مطابق تقریباً 32 لاکھ ہے۔ شہر 698 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور کل شہری علاقے کی آبادی 58 لاکھ سے زائد ہے۔مسلمانوں کی آمدسے قبل میدرد کی حیثیت ایک چھوٹے سے قصبے کی تھی۔ 9 ویں صدی میں مسلمانوں نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کیا۔ قریبی دریا کو مسلمانوں نے مجریط یعنی 'پانی کا ذریعہ' کا نام دیا جو بعد میں بدل کر شہر کے موجودہ نام میدرد میں تبدیل ہو گیا۔طلیطلہکو تسخیر کرنے کے ارادے سے نکلنے والے مسیحیتاجدارالفانسو ششم(الفونسو ششم) نے1083ءمیں اس قلعے کو تسخیر کر کے مسلمانوں کو اس شہر سے محروم کر دیا۔ شہر کو سَر کرنے کے بعد مسیحیوں نے شہر کے مرکز پر قبضہ کر لیا اورمسلماناوریہودیباشندے مضافاتی اور حوالی علاقوں میں دھکیلے گئے تھے۔1309ءمیں،تاجدارفرڈینینڈ چہارم کے تحت پہلی بار میڈرڈ میںقشتالہکا شاہی دربار کا اجلاس ہوا جو زمانۂ حال تک ہسپانیہ کے دار الحکومت کی حیثیت میں قائم رہا ہے۔آلمُدینا گرجا گھر"
+65,یورپی اتحاد,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE%DB%8C_%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%86,"یورپی اتحاد(انگریزی: European Union) (/ˌjʊrəˈpiːənˈjuːnjən/(سنیے)) براعظمیورپکے27 ممالک کا اتحاد ہے۔ اس کے قیام اقتصادی و سیاسی مقاصد تھے۔ 27 میں سے 18 رکن ممالک واحد کرنسی ""یورو"" استعمال کرتے ہیں۔ آخری شامل ہونے والا ملککروشیاتھا، جو یکم جولائی 2013 کو اس میں شامل ہوا۔یورپی ممالک کے سیاسی و اقتصادی طور پر متحد ہونے کی اہم ترین وجوہات درج ذیل ہیں:دوسری جنگ عظیمکے بعد یورپ کے ممالک پرامن انداز میں رہنا اور ایک دوسرے کی معیشت کی مدد کرنا چاہتے تھے۔1952ءمیںمغربی جرمنی،فرانس،اٹلی،بیلجیئم،نیدرلینڈزاورلکسمبرگنے کوئلے و اسٹیل کی واحد یورپی کمیونٹی تشکیل دی۔1957ءمیں اس کے رکن ممالک نے اطالوی دار الحکومتروممیں ایک اور معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے یورپی اقتصادی کمیونٹی تشکیل دی۔ اب یہ کمیونٹی کوئلے، اسٹیل اور تجارت کے لیے تھی۔ بعد ازاں اس کا نام تبدیل کرکے یورپی کمیونٹی رکھ دیا گیا۔1992ءمیں معاہدہ ماسٹرچٹ کے تحت اس کا نام یورپی یونین رکھا گیا۔ اب یہ ممالک نہ صرف سیاست اور اقتصادیات میں بلکہ دولت، قوانین اور خارجی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ شینجن معاہدے کے تحت 13 رکن ممالک نے اپنی سرحدیں ایک دوسرے کے لیے کھول دیں اور اب ان کے باشندے بغیر کسی پاسپورٹ یا ویزے کے ان ممالک کے درمیان سفر کرسکتے ہیں۔2002ءمیں 12 رکن ممالک نے اپنی قومی کرنسیوں کی جگہ یورو کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔2004ءمیں 10 اور2007ءمیں 2 نئے ممالک نے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی۔2014ءمیںکرویئشانے شمولیت اختیار کیا۔ اب یورپی یونین کے کل ارکان کی تعداد 28 ہے۔WW1 جو 1914-1919 کے درمیان واقع ہوئی۔ جس میں دو غیر مسلم گروپ The Triple Alliance اورThe Triple Entente ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہوکر دہشت گردی اور عام انسانیت کے قتل کی بے درد بنیاد رکھی۔وہ ممالک جو The Triple Alliance گروپ میں تھی جن میں جرمنی، اسٹریا اور اٹلی شامل تھے جبکہ The Triple Entente گروپ میں فرانس، روس اور برطانیہ شامل تھا۔ان دونوں کی جنگ سے کروڑوں مظلوم غیر مسلح انسانیت کا خون بہا ہوا اور عزتیں لوٹیں گئی اور ایک درندگی نما منظر کشی ہوئی۔WW1 کی جنگ کے اختتام کے بعد 19 سال کے بعد انھیں دو دشمنوں نے اپس کی منافقانہ دوستی کی آڑ میں ایک دوسرے کے خلاف قوت بنا کر WW2 کی شکل میں ایک بار پھر دہشت گردی اور کروڑوں انسانیات کے قتل سے اپنے ہاتھ خون آلود کر ڈالے۔WW2 جو 1939–1945 کے درمیان واقع ہوئی۔ یعنی 19 سال تک یہ دو غیر مسلم دہشت گرد گروپ نے اپنے مدِ مخالف ایک دوسرے کے خلاف دوستی کی آر میں دوبارہ انتقام کی غرض سے اندرونی طور پر اپنی اپنی قوتوں کے نقشے جمع کرتے رہے۔غیر مسلم گروپ The Triple Alliance نے مزید جن ممالک کو اپنے ساتھ ملایا ان میںسویت یونین، اسٹریا، اٹلی، کینیڈا ، برازیل، نیوزلینڈ، سوتھ آفریقہ، آمریکہ ، جرمنی، بلگوریا اور چند دیگر ملڈنڈ گروپس شامل تھے۔جبکہ The Triple Entente نے مزید جن ممالک کو اپنے ساتھ ملایا ان میں فرانس، روس، برطانیہ، رومانیہ، سلویکیا، ہونگری گروپ شامل تھے۔WW2 کے اثرات پوری دنیا کے ممالک تک پہنچے اور خوف دل کی پڑاس نکالی گئی اور ایک دشمن نے دوسرے دشمن کو شکست دینے کے لیے دہشت گردی کا وہ خوف ناک منظر بنایا کہ انسانیت آج بھی اس کی وجہ سے سر اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ان دو بڑی جنگوں نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا لیکن نتیجہ صرف اور صرف دہشت گردی، خون اور عزت لوٹائی۔ ان جنگوں میں دونوں اطراف کے دوشمنوں کی عورتوں کے ساتھ ٹشو پیپر جیسا سلوک کیا گیا اور نوجوانوں کو قید کرکے ان کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کر دیا گیا جہاں تک دشمن کا اپنے دشمن کے علاقے پر قبضے کے بعد ہزاروں بے گناہ لوگوں کو زندہ آگ کا لقمہ بنایا گیا۔انھیں دو جنگوں کے کالے کرتوت اور دہشت گردی کو مستقبل کی تاریخ سے غائب کرنے کے غرض سے انھیں دو غیر مسلم گروپس نے 1952 میں یعنی جنگ کے بعد 7 تک اپنے دہشت گردی پر مبنی کالے کارنامہ کو مستقبل کی نسل کے کانوں سے دور رکھنے کے لیے انھوں نے دلوں میں آفسوس اور شرمندگی رکھتے ہوئے اور انسانیت کے مجرم ہونے کی ضمیری آواز کو سن کر اس کو دباتے ہوئے یورپ کے ممالک پرامن انداز میں رہنا اور ایک دوسرے کی معیشت کی مدد کرنا اور لڑایوں کو ہمیشہ کے لیے زمین دوس بنانے کے نام پر ایک معاہدہ دنیا کے سامنے رکھ دیا جس کا نام یورپین یونین رکھا گیا یعنی یورپی یونین کے رکن ممالک کا کوئی بھی باشندہ تنظیم کے کسی بھی رکن ملک میں رہائش اختیار کرنے کے علاوہ ملازمت، کاروبار اور سیاحت کر سکتا ہے اور اس کے لیے اسی پاسپورٹ، ویزا یا دیگر دستاویزات کی کوئی ضرورت نہیں۔ بالکل اسی طرح کسی ایک ملک کی مصنوعات بھی دوسرے ملک میں کسی خاص اجازت یا اضافی محصولات کے بغیر معیاری مصنوعات کے قانون کے تحت فروخت کی جا سکتی ہیں۔مختصراایک دوسرے کے دشمنوں کا آپس میں جنگ کی شکل میں کئی لاکھ انسانیت کا خون خرابا کرکے بغیر کسی نتجیہ کے اپنے جرم کو مستقبل کی تاریخ میں دنیا کے سامنے افشاں ہوجانے کے ڈر سے ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کے غرض سے ایک اتحاد بنانا جس کو آج یورپین یونین کے نام سے جانا جاتا ہے۔محمد فیصل محمودیورپی یونین کے رکن ممالک کا کوئی بھی باشندہ تنظیم کے کسی بھی رکن ملک میں رہائش اختیار کرنے کے علاوہ ملازمت، کاروبار اور سیاحت کر سکتا ہے اور اس کے لیے اسی پاسپورٹ، ویزا یا دیگر دستاویزات کی کوئی ضرورت نہیں۔ بالکل اسی طرح کسی ایک ملک کی مصنوعات بھی دوسرے ملک میں کسی خاص اجازت یا اضافی محصولات کے بغیر معیاری مصنوعات کے قانون کے تحت فروخت کی جا سکتی ہیں۔
+واجد گبول1958ءسے (بانی ارکان)1973ءسے1981ءسے1986ءسے1990ءسے1995ءسے2004ءسے2007ءسے2014ءسےرکنیت کے امیدوار٭ 1990ء میں دونوں ممالک متحد ہو گئے تھے اور ابجرمنیکے نام سے یورپی یونین کے رکن ہیں۔یورپی یونین کے رکن اور امیدوار ممالک کی اقتصادی حالت٭ مشرقی اور مغربی جرمنی1990ءمیں متحد ہو گئے جس کے بعد سےجرمنییورپی یونین کا رکن ہےباضابطہ ویب گاہآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ europa.eu(Error: unknown archive URL)یورپی یونین کی تاریخ[مردہ ربط]یورپی یونین سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک پرآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ cia.gov(Error: unknown archive URL)"
+66,یورپی اتحاد,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE%DB%8C_%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%86,"یورپی اتحاد(انگریزی: European Union) (/ˌjʊrəˈpiːənˈjuːnjən/(سنیے)) براعظمیورپکے27 ممالک کا اتحاد ہے۔ اس کے قیام اقتصادی و سیاسی مقاصد تھے۔ 27 میں سے 18 رکن ممالک واحد کرنسی ""یورو"" استعمال کرتے ہیں۔ آخری شامل ہونے والا ملککروشیاتھا، جو یکم جولائی 2013 کو اس میں شامل ہوا۔یورپی ممالک کے سیاسی و اقتصادی طور پر متحد ہونے کی اہم ترین وجوہات درج ذیل ہیں:دوسری جنگ عظیمکے بعد یورپ کے ممالک پرامن انداز میں رہنا اور ایک دوسرے کی معیشت کی مدد کرنا چاہتے تھے۔1952ءمیںمغربی جرمنی،فرانس،اٹلی،بیلجیئم،نیدرلینڈزاورلکسمبرگنے کوئلے و اسٹیل کی واحد یورپی کمیونٹی تشکیل دی۔1957ءمیں اس کے رکن ممالک نے اطالوی دار الحکومتروممیں ایک اور معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے یورپی اقتصادی کمیونٹی تشکیل دی۔ اب یہ کمیونٹی کوئلے، اسٹیل اور تجارت کے لیے تھی۔ بعد ازاں اس کا نام تبدیل کرکے یورپی کمیونٹی رکھ دیا گیا۔1992ءمیں معاہدہ ماسٹرچٹ کے تحت اس کا نام یورپی یونین رکھا گیا۔ اب یہ ممالک نہ صرف سیاست اور اقتصادیات میں بلکہ دولت، قوانین اور خارجی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ شینجن معاہدے کے تحت 13 رکن ممالک نے اپنی سرحدیں ایک دوسرے کے لیے کھول دیں اور اب ان کے باشندے بغیر کسی پاسپورٹ یا ویزے کے ان ممالک کے درمیان سفر کرسکتے ہیں۔2002ءمیں 12 رکن ممالک نے اپنی قومی کرنسیوں کی جگہ یورو کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔2004ءمیں 10 اور2007ءمیں 2 نئے ممالک نے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی۔2014ءمیںکرویئشانے شمولیت اختیار کیا۔ اب یورپی یونین کے کل ارکان کی تعداد 28 ہے۔WW1 جو 1914-1919 کے درمیان واقع ہوئی۔ جس میں دو غیر مسلم گروپ The Triple Alliance اورThe Triple Entente ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہوکر دہشت گردی اور عام انسانیت کے قتل کی بے درد بنیاد رکھی۔وہ ممالک جو The Triple Alliance گروپ میں تھی جن میں جرمنی، اسٹریا اور اٹلی شامل تھے جبکہ The Triple Entente گروپ میں فرانس، روس اور برطانیہ شامل تھا۔ان دونوں کی جنگ سے کروڑوں مظلوم غیر مسلح انسانیت کا خون بہا ہوا اور عزتیں لوٹیں گئی اور ایک درندگی نما منظر کشی ہوئی۔WW1 کی جنگ کے اختتام کے بعد 19 سال کے بعد انھیں دو دشمنوں نے اپس کی منافقانہ دوستی کی آڑ میں ایک دوسرے کے خلاف قوت بنا کر WW2 کی شکل میں ایک بار پھر دہشت گردی اور کروڑوں انسانیات کے قتل سے اپنے ہاتھ خون آلود کر ڈالے۔WW2 جو 1939–1945 کے درمیان واقع ہوئی۔ یعنی 19 سال تک یہ دو غیر مسلم دہشت گرد گروپ نے اپنے مدِ مخالف ایک دوسرے کے خلاف دوستی کی آر میں دوبارہ انتقام کی غرض سے اندرونی طور پر اپنی اپنی قوتوں کے نقشے جمع کرتے رہے۔غیر مسلم گروپ The Triple Alliance نے مزید جن ممالک کو اپنے ساتھ ملایا ان میںسویت یونین، اسٹریا، اٹلی، کینیڈا ، برازیل، نیوزلینڈ، سوتھ آفریقہ، آمریکہ ، جرمنی، بلگوریا اور چند دیگر ملڈنڈ گروپس شامل تھے۔جبکہ The Triple Entente نے مزید جن ممالک کو اپنے ساتھ ملایا ان میں فرانس، روس، برطانیہ، رومانیہ، سلویکیا، ہونگری گروپ شامل تھے۔WW2 کے اثرات پوری دنیا کے ممالک تک پہنچے اور خوف دل کی پڑاس نکالی گئی اور ایک دشمن نے دوسرے دشمن کو شکست دینے کے لیے دہشت گردی کا وہ خوف ناک منظر بنایا کہ انسانیت آج بھی اس کی وجہ سے سر اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ان دو بڑی جنگوں نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا لیکن نتیجہ صرف اور صرف دہشت گردی، خون اور عزت لوٹائی۔ ان جنگوں میں دونوں اطراف کے دوشمنوں کی عورتوں کے ساتھ ٹشو پیپر جیسا سلوک کیا گیا اور نوجوانوں کو قید کرکے ان کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کر دیا گیا جہاں تک دشمن کا اپنے دشمن کے علاقے پر قبضے کے بعد ہزاروں بے گناہ لوگوں کو زندہ آگ کا لقمہ بنایا گیا۔انھیں دو جنگوں کے کالے کرتوت اور دہشت گردی کو مستقبل کی تاریخ سے غائب کرنے کے غرض سے انھیں دو غیر مسلم گروپس نے 1952 میں یعنی جنگ کے بعد 7 تک اپنے دہشت گردی پر مبنی کالے کارنامہ کو مستقبل کی نسل کے کانوں سے دور رکھنے کے لیے انھوں نے دلوں میں آفسوس اور شرمندگی رکھتے ہوئے اور انسانیت کے مجرم ہونے کی ضمیری آواز کو سن کر اس کو دباتے ہوئے یورپ کے ممالک پرامن انداز میں رہنا اور ایک دوسرے کی معیشت کی مدد کرنا اور لڑایوں کو ہمیشہ کے لیے زمین دوس بنانے کے نام پر ایک معاہدہ دنیا کے سامنے رکھ دیا جس کا نام یورپین یونین رکھا گیا یعنی یورپی یونین کے رکن ممالک کا کوئی بھی باشندہ تنظیم کے کسی بھی رکن ملک میں رہائش اختیار کرنے کے علاوہ ملازمت، کاروبار اور سیاحت کر سکتا ہے اور اس کے لیے اسی پاسپورٹ، ویزا یا دیگر دستاویزات کی کوئی ضرورت نہیں۔ بالکل اسی طرح کسی ایک ملک کی مصنوعات بھی دوسرے ملک میں کسی خاص اجازت یا اضافی محصولات کے بغیر معیاری مصنوعات کے قانون کے تحت فروخت کی جا سکتی ہیں۔مختصراایک دوسرے کے دشمنوں کا آپس میں جنگ کی شکل میں کئی لاکھ انسانیت کا خون خرابا کرکے بغیر کسی نتجیہ کے اپنے جرم کو مستقبل کی تاریخ میں دنیا کے سامنے افشاں ہوجانے کے ڈر سے ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کے غرض سے ایک اتحاد بنانا جس کو آج یورپین یونین کے نام سے جانا جاتا ہے۔محمد فیصل محمودیورپی یونین کے رکن ممالک کا کوئی بھی باشندہ تنظیم کے کسی بھی رکن ملک میں رہائش اختیار کرنے کے علاوہ ملازمت، کاروبار اور سیاحت کر سکتا ہے اور اس کے لیے اسی پاسپورٹ، ویزا یا دیگر دستاویزات کی کوئی ضرورت نہیں۔ بالکل اسی طرح کسی ایک ملک کی مصنوعات بھی دوسرے ملک میں کسی خاص اجازت یا اضافی محصولات کے بغیر معیاری مصنوعات کے قانون کے تحت فروخت کی جا سکتی ہیں۔
+واجد گبول1958ءسے (بانی ارکان)1973ءسے1981ءسے1986ءسے1990ءسے1995ءسے2004ءسے2007ءسے2014ءسےرکنیت کے امیدوار٭ 1990ء میں دونوں ممالک متحد ہو گئے تھے اور ابجرمنیکے نام سے یورپی یونین کے رکن ہیں۔یورپی یونین کے رکن اور امیدوار ممالک کی اقتصادی حالت٭ مشرقی اور مغربی جرمنی1990ءمیں متحد ہو گئے جس کے بعد سےجرمنییورپی یونین کا رکن ہےباضابطہ ویب گاہآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ europa.eu(Error: unknown archive URL)یورپی یونین کی تاریخ[مردہ ربط]یورپی یونین سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک پرآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ cia.gov(Error: unknown archive URL)"
+67,تورینو,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%86%D9%88,تورینو(اطالوی: Torino) (انگریزی: Turin) جسےتورنبھی کہا جاتا ہے شمالیاطالیہمیں ایکشہراور اہم کاروباری اور ثقافتی مرکز ہے۔
+68,نیلا کیلا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%DB%8C%D9%84%D8%A7_%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A7,"نیلا کیلا(انگریزی: Blue Banana)
+تقریباً 111 ملین کی آبادی کے ساتھ،مغربیاوروسطی یورپپر پھیلا ہوئیشہرکاریکا ایک منقطع راہداری ہے۔[1]""نیلے کیلے"" کے طور پر علاقے کا تصور 1989ء میں ریکلس (RECLUS) نے تیار کیا تھا، جو فرانسیسی جغرافیہ دانوں کا ایک گروپ ہے جس کا انتظام راجر برونیٹ نے کیا تھا۔[2]یہ تقریباًشمال مغربی انگلستانسے لے کرگریٹر لندنکے پار مڈلینڈز سے ہوتے ہوئے یورپی میٹروپولیس آف لِل تک پھیلا ہوا ہے،بینیلکسریاستیں معڈچرینڈسٹڈ اوربرسلزکے ساتھ ہیں۔ اور جرمنرائنستانکے ساتھ ساتھ، جنوبی جرمنی،الزاس-فرانسمیں موسیلے مغرب میں اورسویٹذرلینڈبازلزیورخسےشمالی اطالیہمیلاناورتورینوجنوب میں۔"
+69,مغربی رومی سلطنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%BA%D8%B1%D8%A8%DB%8C_%D8%B1%D9%88%D9%85%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA,مغربی رومی سلطنت(Western Roman Empire) تاریخ میںرومی سلطنتکےمغربی صوبوںپر مشتمل تھی۔ مغربی رومی سلطنت اورمشرقی رومی سلطنت(یابازنطینی سلطنت)درحقیقتعلاحدہ خود مختار اکائیاں تھیں، تاہمرومیانھیں علاحدہسلطنتیںتصور نہیں کرتے تھے بلکہ یہ ایک ہیسلطنتکے دو حصے تھے جو انتظامی مصلحت کی وجہ سے دو علاحدہ شاہی درباروں کے زیر انتظام تھے۔
+70,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+71,بارہویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%81%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<گیارہویں صدی <<<بارہویں صدی>>> تیرہویں صدی>>>
+72,سولہویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%88%D9%84%DB%81%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<پندرہویں صدی <<<سولہویں صدی>>> سترہویں صدی>>>
+73,یورپ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE,"یورپیافرنگستان(انگریزی: Europe) دنیا کے سات روایتی براعظموں میں سے ایک ہے تاہمجغرافیہدان اسے حقیقیبراعظمنہیں سمجھتے اور اسےیوریشیاکا مغربیجزیرہ نماقرار دیتے ہیں۔ اصطلاحی طور پرکوہ یورالکے مغرب میں واقع یوریشیا کا تمام علاقہ یورپ یا فرنگستان کہلاتا ہے۔یورپ کے شمال میںبحر منجمد شمالی، مغرب میںبحر اوقیانوس، جنوب میںبحیرہ روماور جنوب مشرق میں بحیرہ روم اوربحیرہ اسودکو ملانے والے آبی راستے اورکوہ قفقازہیں۔ مشرق میں کوہ یورال اوربحیرہ قزوینیورپ اورایشیاکو تقسیم کرتے ہیں۔فرنگستانرقبےکے لحاظ سےآسٹریلیاکو چھوڑ کر دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کا رقبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر ہے جو زمین کے کل رقبے کا صرفدوفیصد بنتا ہے۔ یورپ سے بھی چھوٹا واحد براعظمآسٹریلیاہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ تیسرا سب سے بڑا براعظم ہے جس کی آبادی 71 کروڑ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 11 فیصد بنتا ہے۔Within the above-mentioned states are severalدرحقیقتindependent countries withمحدود تسلیم شدہ ریاستوں کی فہرست۔ None of them are members of the UN:Several dependencies and similar territories with broad autonomy are also found within or in close proximity to Europe. This includes Åland (aفن لینڈ کے علاقہ جات)، two constituent countries of the Kingdom of Denmark (other than Denmark itself)، threeتاج توابع، and twoبرطانوی سمندر پار علاقے۔ Svalbard is also included due to its unique status within Norway, although it is not autonomous. Not included are the threeمملکت متحدہ کے ممالکwith devolved powers and the twoپرتگال کے خود مختار علاقہ جات، which despite having a unique degree of autonomy, are not largely self-governing in matters other than international affairs. Areas with little more than a unique tax status, such asHeligolandand theجزائر کناری، are also not included for this reason."
+74,ڈچی میلان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%88%DA%86%DB%8C_%D8%A2%D9%81_%D9%85%DB%8C%D9%84%D8%A7%D9%86,ڈچی میلان(لاطینی: Duchy of Milan) شمالیاطالیہکی ایک ریاست تھی جو 1395ء میں بنائی گئی۔[1]
+76,573ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/573%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+77,22 اگست,https://ur.wikipedia.org/wiki/22_%D8%A7%DA%AF%D8%B3%D8%AA,آخری مغلفرماں روابہادر شاہ ظفرؔ کے استاد اور اردو کے شاعر جو غالب کے معاصر تھے۔
+78,634ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/634%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+79,خلافت راشدہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D9%84%DB%8C%D9%81%DB%81_%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D8%AF,محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے وصال کے بعدابوبکر صدیق،عمر فاروق،عثمان غنیاورعلی المرتضی،حسن المجتبیکا عہد خلافتخلافت راشدہکہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں، حسن کی خلافت کے چھ ماہ خلافت علی میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اسلاف کی رائے ہے۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔خلافت راشدہ کا دور اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس زمانے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کیا گیا اور حکومت کے اصول اسلام کے مطابق رہے۔ یہ زمانہ اسلامی فتوحات کا بھی ہے۔ اوراسلام میںجنگ جملاورجنگ صفینجیسے واقعات بھی پیش آئے۔جزیرہ نما عربکے علاوہایران،عراق،مصر،فلسطیناورشامبھی اسلام کے زیر نگیں آ گئے۔شیعہخلافت راشدہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیکرسول اللہکے جائز اور اکلوتے جانشین صرفحضرت علیتھے۔ اور وہی پہلے امام اور حقیقی خلیفہ ہیں۔اہل تشیعمیں خلافت کی بجائے امامت کا تصور پایا جاتا ہے۔ خلافتامامتکا چھوٹا سا حصہ ہے۔10ھمیں رسُول اللہ کی رحلت کے بعد صحابہ کرام کے زیرِ بحث رسول اللہ ﷺ کی جانشینی کا ہی مسئلہ تھا کہ کون رسول اللّٰہ ﷺ کے بعد اُمّتِ مسلمہ کے معمولات کو سنبھال سکے، جبکہاہلِ بیتؓ، رسول اللّٰہ ﷺ کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے۔عمر بن خطاباورابو عبیدہ بن جراحنےابوبکر صدیقسے وفا کا عہد کیا اور تمامانصاراورقریشنے بھی اُن کی تائید کی۔ یوں ابو بکر صدیق کوخَـلِـيْـفَـةُ رَسُـوْلِ اللهِکا لقب ملا اور آپ نے ترویجِ اسلام کی غرض سے باقاعدہ عسکری مُہمّات کا بھی آغاز کیا۔ آپ کے ذمے، قبل از تمام یہ تھا کہ وہ اُن عرب قبائل کی بغاوتوں کو کچل ڈالیں، جنھوں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہٖ وَآلِہٖ وَسَلَّم سے بیعت کرکے اسلام قبول کرنے کے باوجود اللّہ کے اہم ترین احکامات امیر المومنین کی اتباع سے انکار کر دیا تھا۔ بحیثیتِ خلیفہ، ابو بکر صدیق نہ تو بادشاہ تھے اور نہ آپ یا دیگر خُلفائے راشدین نے کبھی بادشاہت کا دعویٰ کیا۔ اُن کا انتخاب اور قیادت، سراسر لیاقت و استعداد پر مبنی تھے۔[2][3][4][5]بالخُصوص،سُنّیعلماءکے مُطابق، چاروں خُلفائے راشدین، رسول اللّٰہ ﷺ کے قریب ترین صحابہ کرام میں سے ایک تھے، قبل از تمام اسلام قبول کرنے والے تھے[6]اورعَشْرَہ مُبَشَّرَہمیں بھی شامل تھے۔مگرشیعہعلماعلی بن ابی طالبکے علاوہ کسی شخص کو خلافت و امامت کا اہل نہیں سمجھتے۔ اور ابو بکر کے انتخاب غیر اسلامی اور غلط سمجھتے ہیں۔ اور تینوں خلفا کے دور کو اسلام کا سیاہ دور ہی جانتے ہیں۔رسول اللّٰہ کی رحلت کے بعد تمام انصارِ مدینہ،بنی ساعدہکےسقیفہمیں اکٹھے ہوئے[7]، تاکہ اُمّتِ مُسلمہ کے لیے ایک امیرِ نو کا انتخاب کیا جاسکے۔ کہا جاتا ہے کہ اس انتخاب سے مہاجرینِ مکہ کو مکمل طور پر مُستثنیٰ رکھا جانا تھا، لیکن اس موضوع پر بہت سے ابہام پائے جاتے ہیں۔[8]بہرحال، حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عُمر فارُوق، دونوں صحابہ کرام عرب قبائل کی مُمکِنہ بغاوتوں سے خائف تھے، لہٰذا آپ دونوں فی الفور اس اجتماع میں پہنچے اور حضرت ابو بکر نے وہاں ایک خُطبہ دیتے ہوئے اہلِ محفل کو مُتنبہ کیا کہ رسول اللّٰہ کے قبیلےقُریشسے باہر کسی کا انتخاب کیا گیا تو یہ سختاختلافکا باعث ہوگا۔اس دور کی پہلی خصوصیت جمہوریت تھی۔ حضرت ابو بکر سے حضرت علی تک کی خلافت کے لیے نامزدگی میں جمہوری روح کار فرما تھی۔ ان میں کوئی خلیفہ ایسا نہ تھا جس کو امیر مقرر کرنے میں مسلمانوں کی عام رائے اور مرضی شامل نہ ہو۔ یا جسے مسلمانوں پر زبردستی مسلط کر دیا گیا ہو۔سقیفہ بنو ساعدہمیں مسلمانوں کا حضرت ابو بکر کو نامزد کرنا، حضرت عمر فاروق کے لیے حضرت ابو بکر کی تمام صحابہ کرام سے رائے لینا اور مسلمانوں کا ان کے لیے متفق ہونا۔ حضرت عمر فاروق کی چھ صحابہ کرام کی کمیٹی میں حضرت عثمان کی خلافت کے لیے متفق ہونا اور حضرت علی سےمسلمانوںکا خلافت کا بار اٹھانے پر اصرار۔ یہ تمام طریقے اسلامی سلطنت میں خلیفہ کے انتخاب کے لیے جمہوریت کی انتہائی عمدہ اور واضح مثالیں ہیں۔ پھر ان کے عہد میں ہر موقع پر اس نظام میں جمہوریت کی روح کار فرما رہی۔خلافت راشدہ کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ اس کا نظام ایک شورائی نظام تھا۔ مجلس شوریٰ کی بنیاد پر عام مسلمانوں سے رائے لی جاتی اور مشوروں پر عمل کیا جاتا۔ ہر مسلمان کو مشورہ اور رائے کا حق حاصل تھا اور حکومت پر نکتہ چینی کا حق بھی رکھتا تھا۔ صدیوں کے حکام اور والی بھی لوگوں سے مشورے کے بعد مقرر ہوتے اور لوگوں کی شکایات پر ان کی تبدیلی بھی کر دی جاتی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ میں عوام سے مشورے اور رائے کو کتنی اہمیت حاصل تھی۔خلافت راشدہ میں تمام عوام کو بنیادی حقوق حاصل تھے۔ ان کی شخصی و سیاسی آزادی کی حفاظت کی جاتی تھی۔ مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے حقوق یکساں تھے اور ان حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری تھی۔ کوئی شخص کسی دوسرے کی حق تلفی نہیں کر سکتا تھا اور نہ کسی پر زیادتی کی اجازت دی جاتی تھی۔ غیر مسلموں کومذہبی آزادیدینے کے ساتھ ساتھ ان کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت بھی کی جاتی تھی۔ غرض سلطنت اسلامیہ میں اس عہد میں کوئی ایک فرد بھی اپنے حقوق سے محروم نہ تھا۔خلافت راشدہ میں عدل و انصاف فراہم کرنا ایک بڑی خصوصیت تھی۔ اس عدل کے لیے سب برابر تھے۔ نہ کوئی امیر تھا اور نہ کوئی غریب۔ نہ کوئی بادشاہ تھا اور نہ کوئی رعایا۔ نہ کوئی گورا تھا اور نہ کوئی کالا اور نہ رنگ و نسل اور طبقہ کا امتیاز قائم تھا۔ سب برابر کا درجہ رکھتے تھے۔ مجرم مجرم ہی تھا خواہ کوئی ہی کیوں نہ ہو۔خلافت راشدہ میں فتوحات کا سلسلہ بھی جاری ہوا اور سلطنت وسیع ہوئی۔ نظام حکومت کی طرف بھی توجہ دی گئی اور ایک مکمل نظام جمہوریت کے مطابق قائم ہوا۔ اندرونی فتنوں کو بھی دبایا گیا اور بیرونی خطرات کا مقابلہ بھی ہوا لیکن ان تمام کاموں میں ایک چیز مشترک تھی وہ یہ کہ ان کا مقصد عوام کی فلاح، ان کی خوش حالی و آسودہ حالی، ان کو امن و سکون اور اسلامی ریاست و اسلام کا تحفظ تھا۔ یہ ایک مکمل فلاحی ریاست تھی۔ جس میں ہر شخص کے حقوق و فرائض اور ان کی ادائیگی کے طریقۂ کار مقرر تھے۔ اس ریاست کا مقصد آئینی فلاح اور اسلامی تصور فراہم کرنا تھا جو اس کی بڑی خصوصیت تھی۔اس عہد میں نظام حکومت کی توسیع کے ساتھ ہر صوبے میں حکام اور عمال کا تقرر ہوتا تھا جس کو خلیفہ خود مقرر کر کے بھیجتے لیکن ان کی طرف سے غفلت نہیں برتی جاتی تھی۔ ان کے لیے تاکیدی احکامات ہوتے اور ان کی نگرانی ہوتی۔ ان کے خلاف کسی بھی قسم کی شکایت کے لیےحجکے موقع پر تمام عماد کو جمع کرنے کی تاکید ہوتی اور اعلان کیا جاتا جس کسی کو اپنے صوبے کے والی یا حاکم سے شکایت ہو کھلم کھلا پیش کرے۔ شکایات درج ہونے کے بعد ان کی تحقیق ہوتی اور درست ثابت ہونے پر ذمہ دار افراد کو سزا دی جاتی۔ حکام اور عمال کے خلاف اس طرح سختی سے باز پرس ہوتی جو اس کے بعد کے دور حکومت میں نظر نہیں آتی۔ ایک کامیاب حکومت کی یہ بڑی خوبی ہے کہ اس کے عوام حکومت کے مقرر کردہ عمال سے مطمئن رہیں۔ان تمام خصوصیات کے علاوہ سب سے بڑی خصوصیتخلفائے راشدینکا بلند کردار ہے۔ کیونکہ حکومت کیکامیابیکا تمام تر دار و مدار خلیفہ کی ذات پر تھا۔ اگر سربراہ حکومت خوبیوں کا مالک نہ ہو، اس کا کردار بلند نہ ہو تو باوجود کوشش کے حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ خلفائے راشدین کے کردار کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ ایسا پاک و صاف اور بلند کردار کسی اور حکمران میں دیکھنے میں نہیں آیا۔ایسا کردار جو ہر لمحہ امت کی بھلائی میں کوشاں رہے۔ عوام کی تکلیف پر خودتکلیفمیں مبتلا ہو جائے۔ ذمہ داری کا احساس اتنا کہ بھوک پیاس نیند آرام سب کچھ بھول کر عوام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھا۔ سادگی و انکسار اتنی کہ ان کی مثال خلافت راشدہ کے علاوہ اور کہیں نہیں ملتی۔ شرم و حیا جو وہ سخا کے پیکر، خدا ترسی اور ایثار و خلوص، عزم و حوصلہ اور بے لوث خدمت کے جذبے جیسی خصوصیات اور کردار کے مالک خلفائے راشدہ تھے جن کا ہر لمحہ اسلام کی بقا اور مسلمانوں کی فلاح کے لیے گذرا۔ خلافت راشدہ کے یہ خلفا اپنے بلند کردار کی وجہ سے دنیا کی دوسری تمام حکومتوں کے سربراہوں میں اولیت کا درجہ رکھتے ہیں جن کے کردار کی خوبیوں کی مثال کہیں اور تلاش کرنا ممکن نہیں۔خلافت راشدہ تو ایک دینی حکومت تھی جس کی بنیاد قرآن و سنت تھی۔ دنیاوی غرض اور لالچ سے پاک حکومت دین کو پھیلانے اور دینی علوم کو مسلمانوں تک پہنچانے کا کام کرتی رہی اس حکومت کے تمام فرائض دین کا جزو تھے۔ لوگوں کوقرآنوسنتکی تعلیم اور صحیح اسلامی تصور بہم پہنچانا اس حکومت کی ذمہ داری تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی اسلامی ریاست اور 23 سال کی جدوجہد سے قائم ہونے والا دین 'دینِ اسلام' ہی اس حکومت کی بنیاد تھی۔خلافت راشدہ کا دور ایک اہم دور تھا جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بے لوث خدمت کا جذبہ تھا۔ اس دور کی تمام خصوصیات میں اس دور کو چلانے والی وہ مقدس ہستیاں تھیں جن کا نصب العین اسلامی ریاست کو سیاسی اور اجتماعی نظام دین کے اصولوں کے مطابق فراہم کرنا تھا۔خلافت کا اسلامی نقطہ نظرآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ scribd.com(Error: unknown archive URL)
+80,عشرہ مبشرہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%B4%D8%B1%DB%81_%D9%85%D8%A8%D8%B4%D8%B1%DB%81,بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلامعشرہ مبشرہحضرتمحمدمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وہ دسصحابہہیں جنہیں زندگی میں ہیجنتکیبشارتدے دی گئی۔ان 10 صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا ذکرحضرت عبدالرحمن بن عوفرضي اللہ تعالٰی عنہ کیروایتکردہحدیثمیں ہے کہ:عبد الرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،عمررضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،عثمانرضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں ،علیرضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں،طلحہرضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،زبیررضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،عبدالرحمن بن عوفرضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،سعدرضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں ،سعیدرضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،ابوعبیدہرضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ۔[1][2]حدیث میں سعد سے مطلب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ اور سعید سے مطلب سعید بن زید رضي اللہ تعالٰی عنہ ہیں ۔ان صحابہ کرام کے علاوہ اوربھی کئی ایک صحابہ کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے مثلاخدیجہ بنت خویلدرضي اللہ تعالٰی عنہا،عبداللہ بن سلاماورعکاشہ بن محصن رضی اللہ تعالٰی عنہم وغیرہ۔ایک ہی حدیث میں ان سب کے نام ذکر ہونے کی بنا پر انھیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے ۔ایک صحابی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ جنت کی بشارت دی۔ان کا واقعہ درجہ ذیل ہےعَنْ اَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: کُنَّا جُلُوْسًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: ((یَطْلُعُ عَلَیْکُمُ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ۔)) فَطَلَعَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ تَنْطِفُ لِحْیَتُہُ مِنْ وُضُوْئِہِ، قَدْ تَعَلَّقَ نعَلَیْہِ فِیْیَدِہِ الشِّمَالِ، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِثْلَ ذٰلِکَ، فَطَلَعَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ عَلٰی مِثْلِ الْمَرَّۃِ الْاُوْلٰی، فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الثَّالِثُ قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِثْلَ مَقَالَتِہِ اَیْضًا، فَطَلَعَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ عَلٰی مِثْلِ حَالِہِ الْاُوْلٰی، فَلَمَّا قَامَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تَبِعَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ فَقَالَ: اِنِّیْ لَاحَیْتُ اَبِیْ فَاَقْسَمْتُ اَنْ لَا اَدْخُلَ عَلَیْہِ ثَلَاثًا، فَاِنْ رَاَیْتَ اَنْ تُؤْوِیَنِیْ اِلَیْکَ حَتّٰی تَمْضِیَ فَعَلْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ اَنَسٌ: وکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ یُحَدِّثُ اَنَّہُ بَاتَ مَعَہُ تِلْکَ اللَّیَالِیَ الثَّلَاثَ، فَلَمْ یَرَہُیَقُوْمُ مِنَ اللَّیْلِ شَیْئًا غَیْرَ اَنَّہُ اِذَا تَعَارَّ وَتَقَلَّبَ عَلَی فِرَاشِہِ ذَکَرَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ، وَکَبَّرَ حَتّٰییَقُوْمَ لِصَلَاۃِ الْفَجْرِ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: غَیْرَ اَنِّیْ لَمْ اَسْمَعْہُ یَقُوْلُ اِلَّا خَیْرًا، فَلَمَّا مَضَتِ الثَّلَاثُ لَیَالٍ، وَکِدْتُ اَنْ اَحْتَقِرَ عَمَلَہُ، قُلْتُ: یَا عَبْدَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَمْ یَکُنْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اَبِیْ غَضَبٌ وَلَا ھَجْرٌ ثَمَّ،وَلٰکِنْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ لَکَ ثَلَاثَ مِرَارٍ: ((یَطْلُعُ عَلَیْکُمُ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ۔)) فَطَلَعْتَ اَنْتَ الثَّلَاثَ مِرَارٍ، فَاَرَدْتُ اَنْ آوِیَ اِلَیْکَ لِاَنْظُرَ مَاعَمَلُکَ فَاَقْتَدِیَ بِہٖ،فَلَمْاَرَکَتَعْمَ��ُکَثِیْرَ عَمَلٍ، فَمَا الَّذِیْ بَلَغَ بِکَ، مَاقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ فَقَالَ: مَاھُوَ اِلَّا مَارَاَیْتَ، قَالَ: فَلَمَّا وَلَّیْتُ دَعَانِیْ، فَقَالَ: مَاھُوَ اِلَّا مَارَاَیْتَ غَیْرَ اَنِّیْ لَا اَجِدُ فِیْ نَفْسِیْ لِاَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غِشًّا وَلَا اَحْسُدُ عَلٰی خَیْرٍ اَعْطَاہُ اللّٰہُ اِیَّاہُ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: ھٰذِہِ الَّتِیْ بَلَغَتْ بِکَ وَھِیَ الَّتِیْ لَانُطِیْقُ۔[3]سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اب تمھارے پاس جنتی آدمی آنے والا ہے۔ پس ایک انصاری آدمی آیا، وضو کی وجہ سے اس کی داڑھی سے پانی ٹپک رہا تھا اور اس نے اپنے بائیں ہاتھ میں اپنے جوتے لٹکائے ہوئے تھے، اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر وہی بات ارشاد فرمائی اور وہی آدمی اسی پہلے والی کیفیت کے ساتھ آیا، جب تیسرا دن تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر وہی بات ارشاد فرما دی کہ تمھارے پاس جنتی آدمی آنے والا ہے ۔ اور (اللہ کا کرنا کہ) وہی بندہ اپنی سابقہ حالت کے ساتھ آ گیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے تو سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما اس آدمی کے پیچھے چل پڑے اور اس سے کہا: میرا ابو جان سے جھگڑا ہو گیا ہے اور میں نے ان کے پاس تین دن نہ جانے کی قسم اٹھا لی ہے، اگر تم مجھے اپنے پاس جگہ دے دو، یہاں تک کہ یہ مدت پوری ہو جائے، اس کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہو گا؟ اس نے کہا: جی ہاں، تشریف لائیے۔ پھر سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس نے اس آدمی کے ساتھ تین راتیں گزاریں، وہ رات کو بالکل قیام نہیں کرتا تھا، البتہ جب بھی وہ جاگتا اور اپنے بستر پر پہلو بدلتا تو وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا اور تکبیرات پڑھتا، یہاں تک کہ نمازِ فجر کے لیے اٹھتا، علاوہ ازیں اس کا یہ وصف بھی تھا کہ وہ صرف خیر و بھلائی والی بات کرتا تھا، جب تین راتیں گذر گئیں اور قریب تھا کہ میں اس کے عمل کو حقیر سمجھوں، تو میں نے اس سے کہا: اے اللہ کے بندے! میرے اور میرے ابو جان کے مابین نہ کوئی غصے والی بات ہوئی اور نہ قطع تعلقی، تیرے پاس میرے ٹھہرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین بار یہ فرماتے ہوئے سنا: ابھی ایک جنتی آدمی تمھارے پاس آنے والا ہے۔ اور تین بار تو ہی آیا، پس میں نے ارادہ کیا کہ تیرا عمل دیکھنے کے لیے تیرے گھر میں رہوں اور پھر میں بھی تیرے عمل کی اقتدا کروں، لیکن میں نے تجھے دیکھا کہ تو تو زیادہ عمل ہی نہیں کرتا، اب یہ بتلا کہ تیرے اندر وہ کون سی صفت ہے جس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث بیان کی (اور اس کا مصداق بنا)؟ اس نے کہا: میرا عمل تو وہی ہے جو تو نے دیکھ لیا ہے، پھر جب میں جانے لگا تو اس نے مجھے دوبارہ بلایا اور کہا: میرا عمل تو وہی ہے، جو تو نے دیکھ لیا ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ میرے نفس میں کسی مسلمان کے خلاف کوئی دھوکا نہیں ہے اور جسمسلمانکو اللہ تعالیٰ نے جو خیر عطا کی ہے، میں اس پر اس سے حسد نہیں کرتا، سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: بس یہی چیز ہے، جس نے تجھے اس مقام پر پہنچا دیا ہے اور یہ وہ عمل ہے جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے
+82,وزیر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1,"جنوب ایشیائی ممالک میں وزیر ایک عہدہ ہے۔ وزیر کا لفظعربیلفظوزیر(فارسی:وازیرvazīr;ترکی زبان:vezir;چینی: 宰相zǎixiàng; (بنگالی:উজির)ujira';ہندوستانی (ہندی-اردو):वज़ीरوزیر) سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے ""بوجھ""۔ چنانچہ وزیر ملک کا بوجھ اٹھانے اور ملکی معاملات میں مدد فراہم کرتا ہے اسی لیے اس کو وزیر کہا جاتا ہے۔ وزیر ایک خاندانی نام بھی ہے۔"
+83,صحابی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B5%D8%AD%D8%A7%D8%A8%DB%8C,"صحابیوہ شخص جس نے بحالتِ ایمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور اسلام پر وفات پائی، اگرچہ درمیان میں ارتداد پیش آ گیا ہو۔[1]صحابی لفظ واحد ہے، اس کی جمعصحابہہے۔مذکرکے لیے صحابی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جبکہمؤنثواحدکے لیےصحابیہاورجمعکے لیےصحابیاتکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔سیرت صحابہ ؓ پرتین کتب جامع معلومات فراہم کرتی ہیں۔الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب از ابن عبد البر ،اسدالغابہ از ابن اثیر، الاصابہ فی تمییز الصحابہ از ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ۔صحابی کے اصل معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں؛ لیکن یہ اسلام کی ایک مستقل اور اہم اصطلاح ہے، اصطلاحی طور پر صحابی کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنھوں نے بحالت ایمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔[2]صحابہ کرام کے مقام اور ان کی حیثیت کو خود اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ صحابہ کرام اللہ کی منتخب کردہ ایک چندہ جماعت ہیں، ان کی صفات کا تذکرہ گذشتہ نبیوں کی کتابوں میں بھی بیان کیا گیا ہے، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اللہ نے صحابہ کرام کو جنت کی خوشخبری بھی سنادی:پھر وارث بنایا ہم نے کتاب کا ان لوگوں کو جن کا ہم نے اپنے بندوں میں سے انتخاب کیا۔۔الخ۔""الکتاب"" یعنی قرآن مجید کے پہلے وارث بالیقین صحابۂ رسول ہیں، جن کے بارے میںآیتِ مبارکہ گواہی دیتی ہے، وہ اﷲ کے منتخب بندے ہیں؛ پھر بعض مقامات پر ان منتخب بندوں کو سلامِ خداوندی سے بھی نوازا گیا، ارشاد ہے:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ فرمادیجئے کہ تعریفات سب اﷲ کے لیے ہیں اورسلام ہو ان بندوں پر جن کو اﷲ نے منتخب فرمایا۔عبد اللہ ابنِ عباس اورسفیان ثوریسے روایت ہے کہ اس آیت میں منتخب بندوں سے مراد ""صحابۂ رسول"" ہیں۔[3]قرآن کریم میں اور احادیث میں صحابہ کرام کی مدح وثناء کی گئی اور ان کو جنت کی بشارت دی گئی اور اسی کے ساتھ امت کو ان کے ادب واحترام اور ان کی اقتداء کا حکم بھی دیا گیا ہے، ان میں سے کسی کو برا کہنے پر سخت وعید بھی فرمائی ہے، ان کی محبت کورسول اللہﷺ کی محبت، ان سے بغض کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض قرار دیا گیا ہے،
+""خَیْرُالْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ""۔[9]میرے عہد کے مسلمان بہترینمسلمانہیں پھر ان کے بعد آنے والے پھر ان کے بعد آنے والے۔
+""عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ""۔[10]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے صحابہ کو برا نہ کہو؛اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرو تو وہ ان کے ایک مد بلکہ اس کے نصف خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ایک اور روایت میں آپ نے ارشاد فرمایا:
+""قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي لَاتَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ""۔[11]لوگو! میرے صحابہ کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو میرے بعد ان کو نشانہ نہ بناؤ، جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے در حقیقت مجھ سے بغض رکھا، جس نے ان کو اذیت پہنچائی اس نے مجھ کو اذیت پہنچائی اور جس نے مجھ کو اذیت پہچائی اس نے اللہ کو اذیت پہنچائی اور جس نے اللہ کو اذیت پہنچائی قریب ہے کہ اللہ تعالی اس کو پکڑلے۔
+سعید بن زید سے مروی ہے:
+خدا کی قسم ہے کہ صحابہ کرام میں کسی شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد میں شریک ہونا جس میں اس کا چہرہ غبار آلود ہو جائے غیر صحابہ سے ہر شخص کی عمر بھر کی عبادت وعمل سے بہتر ہے اگرچہ اس کو عمر نوح(علیہ السلام)عطا ہو جائے۔[12]عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا :
+میرے اصحاب کو گالی نہ دو اللّٰہ تعالٰی اس پر لعنت کرے جو میرے اصحاب کو گالی دے۔[13]ابوزرعہ رازی کا قول ہے کہ آپ کی وفات کے وقت جن لوگوں نے آپ کو دیکھا اور آپ سے حدیث سنی ان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی(تجرید:/3) جن میں مرد اور عورت دونوں شامل تھے اوران میں ہر ایک نے آپ سے روایت کی تھی (مقدمہ اصابہ :3)۔ ابن فتحون نے ذیل استیعاب میں اس قول کو نقل کرکے لکھا ہے کہ ابوزرعہ نے یہ تعداد صرف ان لوگوں کی بتائی ہے جو رواۃ حدیث میں تھے، لیکن ان کے علاوہ صحابہؓ کی جو تعداد ہو گی وہ اس سے کہیں زیادہ ہوگی (مقدمہ اصابہ :3) بہرحال اکابر صحابہ کے نام ان کی تعداد اوران کے حالات تو ہم کو صحیح طور پر معلوم ہیں، لیکن ان کے علاوہ اور صحابہ کی صحیح تعداد نہیں بتا سکتے۔ اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ خود صحابہ کے زمانہ میں مشاغل دینیہ نے صحابہ کو یہ موقع نہ دیا کہ وہ اپنی تعداد کو محفوظ رکھیں (مقدمہ اسد الغابہ :3)۔ اس کے علاوہ اکثر صحابہ صحرا نشین بدوی تھے، اس لیے ایسی حالت میں ان کا گمنام رہنا ضروری تھا۔(مقدمہ اصابہ :4)ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ہر نبی کو اس کی امت میں سے سات نقیب دیے گئے تھے اور مجھے چودہ(14) دیے گئے ہیں جو یہ ہیں:1علی المرتضی2حسن3حسین4جعفر5حمزہ6ابوبکر7عمر8مصعب بن عمیر9بلال10سلمان فارسی11عمار بن یاسر12عبد اللہ بن مسعود13مقداد14حذیفہ بن یمان[14]صحابہ کرام کا مبارک زمانہ ابتدائے بعثت سے شروع ہوکر دوسری صدی کے آغاز میںعامر بن واثلہکی وفات کے ساتھ ختم ہو گیا اوراس طرح رسول اللہﷺ کی معجزانہ پیشین گوئی پوری ہوئی جو ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
+""فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةٍ لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ""۔[15]ترجمہ:جو لوگ آج روئے زمین پر موجود ہیں ان میں سے سو سال کے بعد کوئی باقی نہ رہے گا۔صحابہ کرام عین دین کی بنیاد ہیں، دین کے اول پھیلانے والے ہیں، انھوں نے حضور اقدسﷺ سے دین حاصل کیا اور ہم لوگوں تک پہنچایا، یہ وہ مبارک جماعت ہے جس کو اللہ جل شانہ نے اپنے نبی پاکﷺ کی مصاحبت کے لیے چنا اور اس ب��ت کی مستحق ہے کہ اس مبارک جماعت کو نمونہ بناکر اس کا اتباع کیا جائے۔
+عبد اللہ بن مسعود فرمایا کرتے تھے جسے دین کی راہ اختیار کرنی ہے تو ان کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گذر چکے ہیں اور وہ حضرت محمدﷺ کے صحابہ ہیں جو اس امت کا افضل ترین طبقہ ہے، قلوب ان کے پاک تھے، علم ان کا گہرا تھا، تکلف اور بناؤٹ ان کے اندر نہیں تھی، اللہ جل شانہ نے انھیں اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اشاعت کے لیے چنا تھا، اس لیے ان کی فضیلت کوپہچانو ان کے نقش قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو، اس لیے کے وہی ہدایت کے راستے ہیں۔[16]انسان کے فرائض میں سب سے مقدم اور سب سے اہم فرض یہ ہے کہ اخلاق انسانی کی اصلاح کی جائے، علم اور فن، تہذیب وتمدن، صنعت وحرفت تمام چیزیں دنیا میں آئیں اور آتی رہیں گی؛ لیکن انسانیت کو تہذیب سے آراستہ کرنا بہت ضروری تھا اس لیے دنیا میں جب سب سے پہلے انسان حضرتآدم علیہ السلامکو بھیجا گیا تو اسی ذمہ داری کے ساتھ بھیجا گیا پھر ان کے بعد آنے والے بڑے بڑے پیغمبر اسی سلسلے کو یعنیتہذیبنفوس کو آگے بڑھاتے رہے اس کے بعد سب سے آخر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام کمالات کا مجموعہ بناکر بھیجا گیا اور پھر اعلان کر دیا گیا کہ :
+""اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاۭ""۔(المائدہ: 3)آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کومکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کر لیا۔
+اب انسانوں کے اخلاق سدھارنے کے لیے قیامت تک کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے، اگر کوئی انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا مطالعہ کرنا چاہے یا آپ کی تربیت کا انداز دیکھنا چاہے، آپ کے اقوال وافعال اور اعمال کا نمونہ دیکھنا چاہے تو وہ صحابہ کرام کی مقدس جماعت ہے، صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ ایمانی کیفیت کو بڑھاتا ہے، زندگی کے اصول سکھاتا ہے، عقائد، عبادات، معاشرت اورمعاملات انسان کے درست ہوتے ہیں، سنت اوربدعتکی پہچان ہوتی ہے۔
+اس زمانے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ صحابہ کرام کی مقدس زندگی کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا جائے جس سے لوگوں میں شوق عمل پیدا ہو اور اس مثال کو پیش نظر رکھ کر لوگ خود بخود اپنے عقائد واعمال کی طرف مائل ہوں۔[17]جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو پہچاننے کے لیے حضرات صحابہ ہی کی زندگی معیار ہو سکتی ہے کیونکہ یہی وہ مقدس جماعت ہے جس نے براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا اور آپ کی نبوت کی روشنی بغیر کسی پردہ اور بغیر کسی واسطے کے صحابہ کرام پر پڑی ان میں جو ایمان کی حرارت اور نورانی کیفیت تھی وہ بعد والوں کو میسر آنا ممکن نہ تھی، اس لیے قرآن کریم نے صحابہ کرام کی پوری جماعت کی تقدیس وتعریف فرمائی ہے اور جماعت صحابہ کو مجموعی طور پر ""رضی اللہ عنہم ورضو عنہ"" فرمایا یعنی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، صحابہ کرام راستہ پانے والے اور راستہ دکھانے والے ہیں،جماعت صحابہ میں کسی ایک کی بھی تنقیص و تحقیر پوری جماعت صحابہ کی تنقیص و تحقیر ہے کیونکہ یہ صحبت نبوت کی تنقیص و تحقیر ہے اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔"
+84,خسر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%B3%D8%B1,خاوندیابیویکے باپ کوسسرکہتے ہیں۔
+85,ہجرت مدینہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%81%D8%AC%D8%B1%D8%AA_%D9%85%D8%AF%DB%8C%D9%86%DB%81,"ہجرت مدینہپیغمبر اسلام حضرتمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماور ان کےصحابہکی طرف سےمکہ مکرمہسےیثرب(جسے اس ہجرت کے بعدمدینۃ النبیصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دیا گیا) منتقل ہوجانے کے عمل کو کہتے ہیں جو 12ربیع الاول 13نبوی (جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا)، بمطابق 24 ستمبر 622ء عیسوی بروز جمعہ کو ہوئی، بعد میں اسی دن کی نسبت سےہجریتقویم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے قمریہجری تقویماورشمسی ہجری تقویمدونوں کا آغاز اسی واقعہ کی بنیاد پر کیا۔بیعتِ عقبہ اُولیٰاوربیعتِ عقبہ ثانیہکے بعد عہد کے مطابق یثرب کے لوگوں نے اپنے ایکصدیسے جاری جنگوں کا تنازع ختم کروانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یثرب بلایا۔ مگر مکہ کے مشرکین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان مبارک کے در پے ہو گئے تو مؤرخہ 26 صفر یعنی 9 ستمبر 622 عیسوی کی رات آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اہلِ مکہ کی امانتیں سپرد فرما کر اپنے بستر پر سُلا دیا اور نہایت خاموشی کے ساتھ اپنے گھر سے نکل کر سب سے پہلے حضرت ابو بکر ؓ کے گھر گئے اور پھر ابو بکر ؓ کے ہمراہ تین دن تک غار ثور میں پناہ لی ۔ یکم ربیع الاول یعنی مؤرخہ 13 ستمبر 622 عیسوی کو اونٹوں پر سوار بچتے بچاتے مؤرخہ 20 ستمبر 622 عیسوی بروز پیر مدینہ کے مضافاتی علاقہ قبا میں پہنچ کر تشریف فرما ہوئے۔ مؤرخہ 12 ربیع الاول یعنی 24 ستمبر 622 عیسوی بروز جمعۃُ المبارک کو مدینہ منورہ تشریف لا کر نماز جمعہ پڑھائی۔چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معلوم تھا کہ قریش پوری جانفشانی سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تلاش میں لگ جائیں گے اور جس راستے پر پہلے ان کی نظر اٹھے گی وہ مدینہ کا کاروانی راستہ ہو گا جو شمال کے رخ پر جاتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ راستہ اختیار کیا جو اس کے بالکل الٹ تھا ۔[4]نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مختصر قافلے کا تعاقب سراقہ بن مالک نے کیا , دراصل اس نے انعام کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کیا لیکن اس کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگ لی اور امان نامہ لکھوا لیا. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر سراقہ کو کسری کے کنگن پہننے کی بھی خوشخبری سنائی , جو بعد میں حضرت عمر کے دور میں پوری ہو گئی."
+86,اہل سنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%81%D9%84_%D8%B3%D9%86%D8%AA_%D9%88_%D8%A7%D9%84%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%AA,"اہلسنت و الجماعت(أهل السنة والجماعة)مسلمانوں میں پیدا ہو جانے والے دو بڑے فرقوں میں سے ایک ہے، جسے عرف عام میں سنی مکتب فکر بھی کہا جاتا ہے۔[1]مسلمانوں کی اکثریت اسیفرقےسے تعلق رکھتی ہے۔اہل سنتوہ لوگ ہیں جو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت پر ایمان رکھتے ہیں، تمامصحابہ کرامکو احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب صحابی بالخصوصخلفائے راشدینبرحق ہیں اور ان کا زمانہ ملت اسلامیہ کا بہترین اور درخشاں دور ہے۔ ان کے نزدیکخلافتپر کوئی بھی مومن فائز ہو سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو۔ ان کے نزدیک خلیفہ جمہور کی رائے سے منتخب ہونا چاہیے۔ وہ خدا کی طرف سے مامور نہیں ہوتا، وہ خلافت کے موروثی نظریے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیکابوبکر صدیقصحابہ میں فضیلت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور پھر خلافت کی ترتیب سے حضرتعمر فاروق، حضرتعثمان غنیاور حضرتعلی بن ابی طالب۔خانداناہل بیتکو بھی سنی بڑی احترام و عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سنی عقیدہ کے مطابق سوائے پیغمبروں کے کوئی انسان معصوم ��ہیں۔ اہل سنت مکتب فکر مذہب میں اعتدال اور میانہ روی پر زور دیتا ہے۔ اہل سنت کے ہاں بالعموم چارفقہشافعی،مالکی،حنفیاورحنبلیرائج ہیں۔مضامین بسلسلہاسلام:توحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل و انبیاءایمان بالیوم الآخرایمانو بالقدرمُحمَّد رسول اللہانبیاء وصالحینخُلفائے راشدین(ابو بکر الصدیق•عُمر بن الخطاب(عُثمان بن عفَّان•علی بن ابی طالب((حسن بن علی•عمر بن عبد العزیز(صحابہامہات المؤمنینائمہ اربعہ(ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس(مُحمَّد بن اِدریس شافعی•احمد بن حنبل(القرآن الكريمسنت نبویہ•اجماع اقوال العلماءقیاس•اجتہادحنفی•مالکیشافعی•حنبلیظاہریہ•اوزاعیہاللیثیہسلفیہ•اشعریہماتریدیہ•صوفیاہل حدیثمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•القدس شریفمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد النبوی•مسجد اقصیٰاسلامی سنی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی سنی فتوحاتمکہ•شام•عراق•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عید الاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہنیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء و معراجوہابیاخوان المسلمون•دعوت سلفیہدیوبندی•بریلویمودودیہ•حزب التحریرتنظیم القاعدہصحیح البخاری•صحیح مسلمسنن النسائی•سُنن ابی داؤدسُنن الترمذی•سنن الدارمیسنن ابن ماجہ•موطأ امام مالکشیعہ سنی تعلقاتکتب اہل سنتاہل سنت میں مہدیباب:اسلامجیسا کہ ابتدائیہ میں مذکور ہوا کہ اہل السنت و الجماعت ہر ان تمام افراد کو کہا جاتا ہے کہ جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوں اور صحابہ کرام کا احترام کرتے ہوں۔ اس نام کی وجہ تسمیہ ان کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ اہل سنت کہنے کی وجہ تو یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو سنت پر چلنے والا مانتے ہیں اور جماعت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جو حق (سچائی) پر جمع ہوئے اور تفرقات میں نہیں پڑے۔آج اکیسویں صدی کی ابتدا پر مسلمانوں میں تفرقہ بازی کی ابتدا ہوئے قریب قریب 1400 سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔۔[2]632ءمیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے شروع ہونے والی مسلمانوں کی تفرقہ بازی کی اس داستان کو اگر پیچیدہ تاریخی و معاشرتی وجوہات و واقعات کی طوالت سے صرف نظر کرتے ہوئے مختصر بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان میںأهل السنة والجماعةیعنی سنی اورالشيعة الامامية الاثنا العشريةیعنی شیعہ تفرقے کی تشکیل کا آغاز نفسیاتی طور پر، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین اور امت کے لیے خلیفہ کا تعین کرنے کے وقت سے ہو چکا تھا۔ اس انتخاب پر جن لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ خود محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی جانشین کی جانب اشارہ نہیں کیا اس لیے جو بھی متقی اور کامل مومن ہو وہ خلیفہ بن سکتا ہے، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک ساتھی اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے والےابو بکرکے حق میں فیصلہ ہوا اور 632ء تا634ءکی مدت کے لیے وہ خلیفہ رہے، اسی عمل پیرا ہونے والوں کی نسبت سے اس گروہ یا تفرقے کو اہل السنۃ یا سنی کہا گیا۔اس وقت کچھ لوگوں کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعدعلی بن ابی طالبکی ولایت کا بار ہا اعلان کیا تھا اور امامت خدا کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے۔ پھرعمرکا انتخاب بط��ر خلیفۂ دوم (634ءتا644ء) کر لیا گیا اور علی بن ابی طالب کی حمایت کرنے والے افراد کینفسیاتمیں وہ حمایت اور شدت اختیار کر گئی، اگر تفصیل سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ وہ عرصہ تھا کہ گو ابھی شیعہ و سنی تفرقے بازی کھل کر تو سامنے نہیں آئی تھی لیکن تیسرے خلیفہعثمانکے انتخاب (644ءتا656ء) پر بہرحال ایک جماعت اپنی وضع قطع اختیار کر چکی تھی جس کا خیال تھا کہ چونکہ علی بن ابی طالب، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصلی جانشین تھے لہذا ان کو ناانصافی کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس جماعت سے ہی اس تفرقے نے جنم لیا جسےشيعة علیاور مختصراً شیعہ کہا جاتا ہے۔
+=== خلافت راشدہ کا اختتام ===حئثیح
+کوئیساتویں صدیکے میان سے امت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ایک پرتشدد اور افراتفری کا دور شروع ہوا جس کی شدت و تمازتعثمانکی شہادت پر اپنے عروج پر پہنچی؛ اب خلافت راشدہ کا اختتام قریب قریب تھا کہ جب علی بن ابی طالب خلیفہ کے منصب پر آئے (656ءتا661ء)۔ لوگ فتنۂ مقتلِ عثمان پر نالاں تھے اور علی بن ابی طالب پر شدید دباؤ ان کے قاتلوں کیگرفتاریکے لیے ڈال رہے تھے جس میںناکامیکا ایک خمیازہ امت کو656ءکے اواخر میںجنگ جملکی صورت میں دیکھا نصیب ہوا؛ پھرعائشہکے حامیوں کی شکست کے بعددمشقکے حاکم امیر معاویہ نے علی بن ابی طالب کی بیعت سے انکار اور عثمان کے قصاص کا مطالبہ کر دیا، فیصلے کے لیے میدان جنگ چنا گیا اور657ءمیںجنگ صفینکا واقعہ ہوا جس میں علی بن ابی طالب کو فتح نہیں ہوئی۔ معاویہ کی حاکمیتمصر،حجازاوریمنکے علاقوں پر قائم ہو گئی۔661ءمیںعبد الرحمن بن ملجمکی تلوار سے حملے میں علی بن ابی طالب شہید ہوئے۔ یہاں سے، علی بن ابی طالب کے حامیوں اور ابتدائیییی سنی تاریخدانوں کے مطابق،حسن ابن علیکا عہد شروع ہوا۔"
+87,عائشہ بنت ابی بکر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%A7%D8%A6%D8%B4%DB%81_%D8%A8%D9%86%D8%AA_%D8%A7%D8%A8%DB%8C_%D8%A8%DA%A9%D8%B1,"◈◈سیدہعائشہ بنت ابی بکر(رضی اللہ عنہا) (پیدائش:614ء– وفات:13 جولائی678ء)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عہدخلفائے راشدینمیں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میںابوہریرہرضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپعہدِ نبویصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نےخلافت امویہکے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے
+ہیں۔بعض روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علمائے اسلام نےبدعتسے نسبت رکھنے ��الی روایات کو مردود قرار دیا ہے۔آپ کا نام عائشہ ہے۔ خطاباُم المومنینہے۔ القاب صدیقہ، حبیبۃ الرسول، المُبرۃ، المُوَفقہ، طیبہ، حبیبۃ المصطفٰی اور حمیراء ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنت الصدیق سے بھی آپ کو خطاب فرمایا ہے۔[6][7]علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کویَا عَائشُۃکے نام سے بھی خطاب فرمایا ہے۔[8]آپ کیکنیتاُمِ عبد اللہ ہے۔ عرب میں کنیت اشراف کی شرافت کا نشان تھا اور چونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہ تھی، اِس لیے کنیت بھی نہ تھی۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ازراہِ حسرت عرض کرنے لگیں کہ اور خواتین نے تو اپنی سابقہ اولادوں کے نام پر اپنی اپنی کنیت رکھ لی، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟۔ فرمایا: اپنے بھانجے عبد اللہ کے نام پر[9][10]جو آپ کی بہناسماء بنت ابی بکراورزبیر ابن عوامکے بیٹے تھے۔آپ والد کی طرف سے قریشیہ تیمیہ ہیں اور والدہ کی طرف سے کنانیہ ہیں۔ والد کی طرف سے قبیلہقریشکی شاخبنو تمیمسے تعلق ہے اور والدہ کی طرف سے قبیلہقریشکی شاخ کنانہ سے تعلق ہے۔عائشہ بنت ابی بکر الصدیق بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بنلوی بن غالببن فہر بن مالک۔[10]عائشہ بنت اُمِ رومان زینب بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذینہ بن سبیع بن وہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ۔[10]والد کی طرف سے عائشہ رضی اللہ عنہا کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نسب سےمرہ بن کعبپر آٹھویں پشت پر ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے عائشہ رضی اللہ عنہا کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نسب سے مالک بن کنانہ پر گیارہویں پشت پر ملتا ہے[11]۔محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن کنانہ۔عائشہ رضی اللہ عنہا خوش رو اور صاحب جمال تھیں۔ رنگ سفید تھا جس میں سرخی غالب تھی، اِسی لیے لقب حمیراء سے مشہور ہیں۔[12]نو یا دس سال کی عمر تک آپ بالغ ہو چکی تھیں۔[13]لڑکپن میں دبلی پتلی تھیں[14][15]مگر بعد ازاں فربھی غالب آگئی تو بدن کسی قدر بھاری ہو گیا تھا[15]۔ زہد و قناعت کی وجہ صرف ایک جوڑا لباس کا اپنے پاس رکھتی تھیں اور اُسی کو دھو دھو کر پہن لیا کرتی تھیں۔[16]ایک کرتا جس کی قیمت پانچ درہم تھی اور یہ اُس زمانہ کے لحاظ سے اِس قدر بیش قیمت تھا کہ تقاریب میں دلہن کے واسطے عاریتاً مانگ لیا جاتا۔[17]زعفران میں رنگ کر کپڑے پہن لیا کرتی تھیں۔[10][18]بعض اوقات سرخ رنگ کا کرتا زیب تن فرماتیں۔[10]اکثر سیاہ رنگ کا دوپٹہ استعمال فرماتیں۔[10]کبھی کبھی زیور بھی پہن لیا کرتیں، گلے میں یمن کا بنا ہوا خاص قسم کا سیاہ و سفید مہروں کا ہار ہوا کرتا۔[19]انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں بھی پہنا کرتی تھیں۔[10][20]طوافِ کعبہ کے دوران میں چہرہ اقدس پر ایک پردہ نقاب جیسا اوڑھ لیا کرتیں تاکہ لوگوں سے پردے میں رہیں۔[10]ایک ریشمی چادر آپ کے پاس تھی، بعد ازاں وہ چادر آپ نے اپنے بھانجے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دی۔[10][21]یہ ریشمی چادر آپ اوڑھا کرتی تھیں۔[10]آپ فرماتی ہیں : ہمعہد رسالتمیں سیراء کے کپڑے پہنا کرتے تھے، سیرا میں کچھ ریشم ہوتا ہے۔[10]رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی مہندی استعمال فرماتی رہیں اور زعفران میں رنگے ہوئے لباس میں حج ادا کر لیا کرتیں۔[10]حالتِ احرام میں سرخ لباس زیب تن بھی فرماتیں۔[10]تابعی عطاء بن ابی الرباح کہتے ہیں کہ میں اور عبید بن عمیر عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جایا کرتے تھے جبکہ آپ کوہِ ثبیر پر ٹھہری ہوئی تھیں (یعنی موسم حج میں) ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا: اُس دِن آپ کا پردہ کیا تھا؟ فرمایا: آپ اُس وقت اپنے ترکی خیمہ میں تھیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان میں خیمہ کی قناتیں حائل تھیں لیکن میں نے دیکھا کہ آپ زعفران میں رنگا ہوا کرتا پہنے ہوئے ہیں، اُس وقت میں بچہ تھا۔[10]سر اقدس پر اکثر خوشبو لگا لیا کرتیں۔ خود فرماتی ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے حتیٰ کہ ہم مقام قاحہ میں پہنچے تو میرے سر سے زردی بہہ کر چہرے پر آئی کیونکہ میں نے روانہ ہونے سے قبل سر پر خوشبو لگائی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اب تمھارا رنگ بڑا پیارا ہے۔[10]تابعی اسحٰق اعمیٰ جو نابینا تھے، کہتے ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، آپ نے مجھ سے پردہ کیا، میں بولا: آپ مجھ سے پردہ کرتی ہیں حالانکہ میں آپ کو دیکھ نہیں سکتا۔ آپ نے فرمایا: اگر تم مجھے نہیں دیکھتے تو میں تو تمھیں دیکھتی ہوں۔[10]آپ کے والدابوبکر صدیقابن ابی قحافہ عثمان رضی اللہ عنہ ہیں جو سب سے پہلے اسلام لائے اور اُن کا اِنتقال بروزپیر22جمادی الثانی13ھمطابق22 اگست634ءکو 63 سال کی عمر میںمدینہ منورہمیں ہوا، تب عائشہ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک تقریباً 22 سال تھی۔آپ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال ماہِشوالالمکرم مطابق ماہِجولائی614ءبمقاممکہمکرمہ،حجازمقدس میں ہوئی[11]۔ ابن سعد نے طبقات میں آپ کی ولادت نبوت کے چوتھے سال کے آغاز میں لکھی ہے[10]مگر پہلی روایت پر تمام مورخین کا اتفاق ہے۔ آپ بحالتِ مسلمانی پیدا ہوئیں ہیں کیونکہ آپ کے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت سے قریباً پانچ سال قبل اسلام لے آئے تھے۔ آپ کا بچپنمکہمکرمہ میں ہی گذرا۔ اور قریباً 9 سال کی عمر میں ہجرت کرکےمدینہ منورہلائی گئیں۔غیر معمولی اشخاص اپنے بچپن میں ہی اپنی حرکات و سکنات اور نشو و نما میں ممتاز ہوتے ہیں، اُن کے ایک ایک خط و خال میں کشش ہوتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بچپن بھی روشن اور سعادت مندی سے بھرپور گذرا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کو لڑکپن میں کھیل کود کا شوق تو تھا مگر دو شوق مرغوب تھے: گڑیاؤں سے کھیلنا اور جھولا جھولنا۔[23]گڑیائیں تو مدت مدید تک آپ کے پاس رہیں۔ سنن ابوداؤد کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غزؤہ خیبر یا غزؤہ تبوک سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے پاس گڑیائیں دیکھیں تھیں جو ایک طاق میں رکھی ہوئی تھیں اور اُن کھلونوں میں ایک پروں والا گھوڑا بھی تھا۔[24]اگر یہ روایت غزؤہ خبیر (محرم7ھ) سے متعلق ہے تو غالباً اُس وقت عائشہ رضی اللہ عنہا 14 برس کی تھیں اور اگر یہ روایت غزؤہ تبوک (رجب9ھ) سے متعلق ہے تو اُس وقت عائشہ رضی اللہ عنہا ساڑھے 16 برس کی تھیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا خود بیان ہے کہ: میں گڑیاؤں سے کھیلتی تھی۔[23]""میں گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھی، بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے پاس آتے اور میرے پاس چھوٹی چھوٹی بچیاں بیٹھی ہوتی تھیں، جب آپ داخل ہوتے تو وہ بچیاں باہر نکل جاتیں اور جب آپ تشریف لے جاتے تو وہ داخل ہوجاتیں (یعنی میرے پاس واپس آ جاتیں)۔""[23]جھولا جھولنے سے متعلق کئی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جھولا جھولنا مرغوب تھا۔ سنن ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نکاح سے تھوڑی دیر قبل تک آپ جھولا جھول رہی تھیں۔[25]اور جھولا جھولنے میں اکثر آپ کی سانس پھول جایا کرتی۔[25]عموماً ہر زمانہ کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچوں کا ہے کہ سات یا آٹھ سال کی عمر تک تو انھیں کسی بات کا مطلق بھی ہوش نہیں رہتا اور نہ وہ کسی بات کی تہ تک ہی پہنچ سکتے ہیں لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا لڑکپن میں بھی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں، اُن باتوں کی روایت بھی کر دیا کرتی تھیں اور اُن سے اکثر احکام بھی اِستنباط فرما لیا کرتیں۔ لڑکپن کے جزئی جزئی واقعات کی مصلحتوں کو بیان فرمایا کرتیں۔ اِسی زمانہ میں اگر کھیل کود کے دوران میں کوئی سن لیتیں تو اُس کو یاد رکھتی تھیں۔ہجرت کے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سن محض 8 سال کا تھا مگر اِس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوتِ حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام واقعات بلکہ جزئیات بھی یاد تھیں، آپ سے بڑھ کر کسی صحابی نے ہجرت کے واقعات کا تمام مسلسل بیان محفوظ نہیں رکھا۔امام بخارینے صحیح بخاری میں باب الہجرۃ کے تحت اِن تمام روایات کو نقل کر دیا ہے۔عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی زوجہخدیجہ بنت خویلدرضی اللہ عنہا ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجیت میں آئیں تو اُس وقت اُن کا سن 40 سال کا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سن مبارک 25 سال کا تھا۔ اورخدیجہ بنت خویلدمزید 25 سال تک شرفِ زوجیت میں رہیں۔ ماہِرمضان10 نبوی مطابقاپریل619ءمیںخدیجہ بنت خویلدرضی اللہ عنہا نے 65 سال کی عمر میںمکہمکرمہ میں وفات پائی۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سن 50 سال تھا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غمگین رہنے لگے۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ہمراہ ہر موقع پر ساتھ دیتی رہیں، آپ کے ساتھ ہمدردی کرتی رہیں، مصائب میں آپ کا ہاتھ بٹاتی رہیں، سب سے پہلے آپ کے رسول و نبی ہونے کا اقرار کیا، ایسی غمگسار اور رفیق زوجہ کی جدائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہت ملول رہا کرتے، بلکہ تنہائی کے غم میں زندگی میں دشواری آنے لگی۔جانثاران رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت فکر لاحق ہوئی، مشہور صحابی عثمان بن مظعون (متوفی2ھ/624ء) کی زوجہ خولہ رضی اللہ عنہا بنت حکیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! آپ دوسرا نکاح کر لیں۔ آپ نے فرمایا: کس سے؟ خولہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: بیوہ اور کنواری دونوں طرح کی لڑکیاں موجود ہیں، جس کو آپ پسند فرمائیں اُسی کے متعلق گفتگو کی جائے۔ فرمایا: وہ کون ہیں؟ خولہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بیوہ توسودہ بنت زمعہہیں اور کنواری ابوبکر ( رضی اللہ عنہ) کی بیٹی عائشہ (رضی اللہ عنہا)۔ ارشاد ہوا: بہتر ہے تم اِن کی نسبت گفتگو کرو۔ خولہ رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مرضی پا کرابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ کے گھر آئیں اور اُن سے تذکرہ کیا۔ دورِ جاہلیت میں دستور تھا جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں، اِسی طرحعرباپنے منہ بولے بھائی کی اولاد سے بھی شادی نہیں کیا کرتے تھے۔ اِس بنا پرابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے کہا: خولہ! عائشہ (رضی اللہ عنہا) تو آن(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بھتیجی ہے، آپ سے اُس کا کیونکر نکاح ہو سکتا ہے؟ خولہ رضی اللہ عنہا نے آنصلی اللہ علیہ و آلہ ��سلم سے اِستفسار کیا تو آپ نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے دینی بھائی ہیں اور اِس قسم کے بھائیوں سے نکاح جائز ہے۔[29]ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو انھوں نے قبول کر لیا۔لیکن اِس سے قبل عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جبیر بن مطعم کے بیٹے سے ہو چکی تھی، اِس لیے اُن سے پوچھنا بھی ضروری تھا۔ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے جبیر سے جا کر پوچھا کہ تم نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی نسبت اپنے بیٹے سے کی تھی، اب کیا کہتے ہو؟ جبیر نے اپنی بیوی سے پوچھا۔ جبیر بن مطعم کا خاندان ابھیاسلامسے آشنا نہیں ہوا تھا، اُس کی بیوی نے کہا: اگر یہ لڑکی (یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا) ہمارے گھر آگئی تو ہمارا بچہ بے دِین ہو جائے گا (یعنیبت پرستیچھوڑ دے گا)، ہم کو یہ بات منظور نہیں۔[10][30][31]عائشہ رضی اللہ عنہا کا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نکاح ہوا تو تب آپ کی عمر 6سال تھی۔۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سن 49 سال 7 ماہ تھا۔ یہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تین سال قبل کا واقعہ ہے۔ آپ کا مہر 500 درہم تھا۔[32]آپ کی رخصتی ہجرت کے پہلے سال ماہِ شوال1ھ/اپریل623ءمیں عمل میں آئی۔ اُس وقت آپ کی عمر مکمل 9 سال تھی۔ تابعی عروہ بن زبیر (جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں) نے آپ سے نکاح کے متعلق پوچھا تو بیان فرمایا کہ: جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا تو میں بچیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی، مجھے معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے نکاح کر لیا ہے حتیٰ کہ مجھے میری والدہ پکڑ کر گھر میں لے گئیں اور گھر ہی مجھے روک دیا، اب مجھے خیال آیا کہ میرا نکاح ہو گیا ہے۔ میں نے اِس بارے میں اپنی والدہ سے نہیں پوچھا، ہاں انھوں نے خود ہی مجھے بتادیا کہ تمھارا نکاح ہو گیا ہے۔[10]تابعیہ عمرہ بنت عبد الرحمٰن (جو عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی ہیں) نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ فرماتی تھیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے شوال 10 نبوی میں ہجرت سے تین سال قبل نکاح کیا، اُس وقت میں 6 سال کی تھی[33]، پھر آپ ہجرت کرکےمدینہ منورہپیرکے دن 12ربیع الاولکو آئے اور ہجرت سے آٹھویں ماہ میں آپ نے مجھ سے بیاہ کیا (یعنی رخصتی) اور خلوت کے وقت میں 9 سال کی تھی۔[10][33]رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلممدینہ منورہماہربیع الاول1ھکو پہنچے اورربیع الاولسے آٹھواں مہینہشوالہوتا ہے۔ جس کے مطابق یہ رخصتی ماہِشوال1ھ/اپریل623ءمیں عمل میں آئی اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک 53 سال 10 ماہ تھی۔ اِس لحاظ سے عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں 9 سال 6 ماہ رہیں۔بکثرت احادیث میں آیا ہے کہ نکاح سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر آپ کے سامنے کوئی چیز پیش کر رہا ہے، پوچھا: کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی زوجہ ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے کھول کر دیکھا تو عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:میں تم کو دو بار خواب میں دیکھ چکا ہوں، میں نے دیکھا کہ ایک شخص ریشمی کپڑے میں تم کو میرے پاس لایا ہے اور کہہ رہا ہے: یہ آپ کی اہلیہ ہیں، اِن کا پردہ اُٹھا کر دیکھیے، میں نے پردہ اُٹھا کر دیکھا تو تم تھیں۔ میں نے کہا: اگر یہ اللہ کے پاس سے ہے تو اللہ اِسے ضرور نافذ فرما دے گا۔[10]عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: جبرئیل امین علیہ السلام ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی) اُن کی تصویر لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ دنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔[34]آپ فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ: میں نے خواب میں تمھیں دو بار دیکھا، میں نے فرمایا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے، جب میں نے دیکھا تو تم ہی تھی۔ تو میں نے کہا: اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ ایسا کرکے ہی رہے گا۔[35][36][37][38][39]کم سنی کی شادی کے حوالے سے سید سلیمان ندوی کہتے ہیں:کم سنی کی اِس شادی کا اصل منشا نبوت اور خلافت کے درمیان میں تعلقات کی مضبوطی تھی۔ ایک توعربکی گرمآب و ہوامیں خواتین کی غیر معمولی نشوونماء کی طبعی صلاحیت موجود ہے، دوسرے عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیر معمولی استعداد ہوا کرتی ہے، اِسی طرح قد و قامت میں بھی بالیدگی کی خاص قابلیت ہوتی ہے، انگریزی میں اِسے Precocious بھی کہتے ہیں۔ بہرحال اِس کمسنی میں آنصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی زوجیت میں قبول کرنا اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ لڑکپن سے اُن میں نشوونماء، ذکاوت، جودتِ ذہن اور نکتہ رسی کے آثار نمایاں تھے۔[40]بہت سے مسلمان مصنفین نے عائشہ کی عمر کا حساب اُن کی بہن اسماء کی عمر کی معلومات سے بھی نکالا ہے۔ جس کے مطابق شادی کے وقت اُن کی عمر 13، 17 یا 19 سال کے درمیان میں تھی۔[41]محمد نکنام عرب شاہی، جو ایرانی اسلامی محقق اور تاریخ دان ہیں، نے 6 مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے کہ منگنی کے وقت عائشہ کی عمر 17 یا 19 سال اور رخصتی کے وقت 20 یا 22 سال تھی۔[42]فاطمہ کی عمر کو بنیاد بنا کر لاہور احمدیہ تحریک کے محقق محمد علی نے اندازہ لگایا ہے کہ نکاح کے وقت عائشہ کی عمر 10 سال سے زیادہ اور رخصتی کے وقت 15 سال سے زیادہ تھی۔[43]حضرت عائشہ صدیقہ کی رخصتی کے وقت عمر 12 سال تھی۔ اگر تاریخ پیدائش اور نکاح کی تاریخ کا علم ہو جائے تو یہ بہت آسان معاملہ ہے چنانچہ اگر ایسی تمام روایات جو کتب احادیث میں ملتی ہیں کا جائزہ لیا جائے تو عمر 12 سال ہی نکلتی ہے ۔
+اور حضرت عائشہ صدیقہ کی اپنی روایت کا جہاں تک سوال ہے تو وہ حضرت عائشہ صدیقہ کا ایک اندازہ تھا نہ کہ کوئی حتمی بات بلکہ دو روایات ملتی ہیں اور دونوں میں اندازہ مختلف ہے ۔
+ایسا دیکھنے میں اکثر آیا ہے کہ عمر کے تعین اندازے سے ہی کیا جاتا ہے مثلاً میں کہوں کہ جب میرے دادا کی وفات ہوئی اس وقت میری عمر 6 سال تھی مگر حقیقت اس کے برعکس ہوگی ہو سکتا ہے جیسے میں چھ سال سمجھ رہا ہوں وہ سات سال ہو۔عائشہ کیتعلیم و تربیتان کے والد ماجدابو بکر صدیقنے کی۔ ابو بکر صدیق علم و فضل اور حکمت و دانائی کے مجموعہ تھے۔ انھوں نے بی بی عائشہ کو زیادہ تر تاریخ و ادب کے علوم پڑھائے۔ مگر ان کی اصلی تعلیم و تربیت کے دور کا آغاز رخصتی کے بعد شروع ہوا۔ انھوں نے شادی کے بعد ہی قرآن پاک کا ناظرہ پڑھا۔عائشہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد تین سال تک میکہ میں مقیم رہیں۔ 2 سال 3 ماہمکہمکرمہ میں اور 7 یا 8 مہینے ہجرت کے بعدمدینہ منورہمیں مقیم رہیں۔ مسلمانوں نے اپنے وطن سے دو بار ہجرت کی۔ پہلے ملکہحبشہمیں اور اُس کے بعدمدینہ منورہ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ میرے والدابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے بھیحبشہ��ی طرف ہجرت کرنا چاہی تھی اور برک الغماد نامی مقام (جومکہمکرمہ سے پانچ روز کی مسافت پر ہے) پہنچ چکے تھے کہ اتفاق سے ابن الدغنہ نامی ایک شخص کہیں سے آ رہا تھا، اُس نے یہ دیکھ کر کہابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ بھی اب وطن چھوڑ رہے ہیں، قریش کی بدقسمتی پر اُس کو افسوس ہوا اور نہایت اِصرار سے اپنی پناہ میں اُن کومکہمکرمہ لے آیا۔[44]ممکن ہے کہ اِس سفر میں عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُن کا خاندان بھی ہمراہ ہو۔دوسری بارابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہمکہمکرمہ سےمدینہ منورہکی جانب کی۔ اِس ہجرت کا تمام واقعہ تفصیلاً عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، اِس تفصیل کو امام بخاری نے صحیح بخاری باب الہجرۃ جلد اول میں نقل کر دیا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلممدینہ منورہپہنچے اورمدینہ منورہمیں مقیم ہو گئے اور اطمینان ہوا تو آپ نے اہل و عیال کو لانے کے واسطےزید بن حارثہرضی اللہ عنہ اور اپنے غلامابو رافع رضی اللہ عنہکومکہمکرمہ بھیجا،ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے بھی اپنا آدمی ساتھ بھیج دیا۔ چنانچہ عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اپنی والدہام رومانرضی اللہ عنہا اور دونوں بہنوں یعنی اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کومکہمکرمہ سے لے کر روانہ ہوئے۔ بیض منیٰ کے مقام پر جب آپ اپنی والدہام رومانرضی اللہ عنہا کے ہودج میں اُن کے ساتھ سوار تھیں، اِتفاق سے وہ اونٹ بھاگ نکلا اور اِس زور سے دوڑا کہ اب یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اب پالان گرا کہ اب گرا، خواتین کا یہ قاعدہ ہے کہ ماں کو اپنی پروا نہ تھی بلکہ لخت جگر کے واسطے رونے لگیں، آخر میلوں پر جاکر جب اونٹ پکڑا گیا تو اُن کو تشفی ہوئی۔ یہ مختصر سا قافلہمدینہ منورہپہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُس وقت مسجد نبوی کے آس پاس میں مکانات تعمیر کروا رہے تھے۔ آنصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دونوں صاحبزادیاںام کلثومرضی اللہ عنہا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا اورسودہ بنت زمعہرضی اللہ عنہا اِن نئے گھروں میں فروکش ہوئیں۔ (ابن سعد نے طبقات میں اِس واقعہ کی مکمل تفصیل بیان کردی ہے مگر ہم نے یہاں مختصراً خلاصہ پیش کیا ہے )۔[10]یہ واقعہ ماہِشوال1ھ/اپریل623ءکا ہے۔ہجرتمدینہ منورہکے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے عزیزوں کے ساتھ بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں اُتریں۔[45]اور 7 یا 8 مہینوں تک اپنی والدہام رومانرضی اللہ عنہا کے ساتھ رہیں۔ اکثر مہاجرین کومدینہ منورہکی آب و ہوا موافق نہ آئی اور متعدد اشخاص بیمار پڑ گئے۔ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ بھی سخت بیمار ہوئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے والد کی تیمارداری میں مصروف رہیں۔ بعد ازاں آپ بھی بخار میں مبتلا ہوگئیں، مرض کی شدت کا یہ حال تھا کہ آپ کے سر کے تمام بال گر گئے۔[46]کچھ مدت بعد آپ صحت مند ہوئیں توابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! آپ اپنی اہلیہ کو رخصت کیوں نہیں کرا لیتے؟ اِس میں کیا رکاوٹ ہے؟ (مراد یہ تھا کہ آپ اپنی زوجہ اپنے گھر کیوں نہیں بلوا لیتے؟)۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اِس وقت میرے پاس مہر اداء کرنے کے لیے رقم موجود نہیں۔ یہ سن کرابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے آپ کو ساڑھے بارہ اوقیہ یعنی 500 درہم دیے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ تمام رقم عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھجوا دی اور اِس طرح آپ کی رخصتی عمل میں آئی (یہ واقعہ خود عائشہ رضی اللہ ع��ہا سے مروی ہے جسے ابن سعد نے طبقات میں نقل کر دیا ہے)۔[10]دراصل دورِ جاہلیت میںمدینہ منورہمیں طاعون پھوٹ پڑا تھا جس کے سبب اہلیانِمدینہ منورہماہِشوالمیں رخصتی یا نکاح کو نیک خیال نہیں کرتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات اقدس کے سبب یہ جاہلانہ رسم ختم ہو گئی۔[10]سیدنا سہل بن سعد سے مروی ہے کہ:سیدنا عروہ اُم لمومنین عائشہ صدیقہ سے روایت کرتے ہیں کہ عائشہ صدیقہ نے ان سے فرمایا:عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کی:انھوں نے فرمایا:اماممالک بن انستک ام المومنین سیدنا عائشہ صدیقہ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ:ماہِشعبان5ھ/جنوری627ءمیں غزوہ المریسیع پیش آیا۔ مریسیع قدید کے اطراف میں ساحل کے قریب ایک چشمہ ہے[50]جس کے گرد بنو مصطلق آباد تھے جوبنو خزاعہکی ایک شاخ ہیں اور یہ بنی مدلج کے حلفاء میں سے تھے۔ بنو مصطلق اپنے اِس کنویں یعنی مریسیع پر اُترا کرتے تھے۔ اِس کنویں اور الضرع کے مقام کے درمیان میں ایک دن کی مسافت تھی، الضرع اورمدینہ منورہمیں 8 برد یعنی 96 میل کا فاصلہ تھا۔[51]مریسیع میں بنو مصطلق کا سردار الحارث بن ابی ضرار تھا جو لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جنگ کرنے پر آمادہ کر رہا تھا۔ یہ خبر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے بریدہ بن حصیب الاسلمی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ اِس خبر کا علم لائیں۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بنو مصطلق کے حال کی خبر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا اور جمع کیا اور لوگ بوقت روانگی گھوڑوں کی باگ ڈور پکڑ کر روانہ ہوئے، یہ تعداد میں 30 تھے، 10 مہاجرین کے اور 20 انصار کے افراد شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ منافقین کے بھی بہت سے آدمی روانہ ہوئے جو اِس سے قبل کسی غزوہ میں روانہ نہیں ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کومدینہ منورہپر اپنا قائم مقام بنایا۔[51]رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلممدینہ منورہسے 2شعبان5ھ/26 دسمبر626ءکو روانہ ہوئے، الحارث بن ابی ضرار اور اُس کے ساتھیوں کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کی خبر ملی اور اِس امر کی بھی خبر ملی کہ اُن کا جاسوس قتل کر دیا گیا جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خبر لانے کے لیے روانہ کیا تھا، تو الحارث بن ابی ضرار کے وہ ساتھی سخت ناگواری کا اظہار کرکے اُس سے جدا ہو گئے اور اِسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مریسیع پہنچ گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ اِس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو ازواج عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بھی ہمراہ تھیں۔ بنو مصطلق سے جنگ کی تیاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب کو صف بستہ کیا، مہاجرین کا عَلَمابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ اور انصار کا عَلَم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو دیا۔ تھوڑی دیر انھوں نے مخالفین سے تیراندازی کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب کو حکم دیا تو انھوں نے یکبارگی حملہ کر دیا۔ مشرکین میں کوئی شخص نہ بچا، 10 آدمی قتل ہوئے اور باقی گرفتار کرلیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مردوں، عورتوں اور بچوں اور اونٹ اور بکریاں قید کرلیے۔ مسلمانوں میں ایک شخص شہید ہوا۔ اِسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا جو بنو مصطلق کے سردار الحارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔[51]مسلمانوں کیمدینہ منورہآمد سے انھیں جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا، اُن میں منافقین سر فہرست تھے۔ منافقین کا یہ گروہ مسلمانوں اور اسلام مخالف سازشوں میں مصروف رہتا تھا۔ منافقین کی سازشوں کی بروقت سرکوبی کردی جاتی تاکہ وہ کامیاب نہ ہوسکیں مگر وہ مسلمانوں کی عزت و آبرو سے متعلق طرح طرح کی سازشیں تیار کرلیتے تاکہ مسلمان قبیلوں میں پھوٹ پڑوا سکیں۔ کئی غزوات میں منافقین بڑی تعداد میں جمع ہوجاتے تاکہ خونریزی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ ایسا ہی موقع غزوہ بنو مصطلق یا غزوہ بنو مریسیع (وقوعہ ماہِشعبان5ھ/جنوری627ء) پیش آیا جو تاریخ میں اِفک کے نام سے مشہور ہے اور یہ منافقین کی سب سے بڑی ذلیل حرکت تھی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذات مبارکہ پر بھی اُنگلی اُٹھائی اور اِس تہمت کا بنیادی مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اِیذاء پہنچانا تھا، نعوذ باللہ۔ چونکہ منافقین کو یہ معلوم تھا کہ یہاں (یعنی مریسیع کے مقام پر) کوئی خونریز جنگ نہ ہوگی اِس لیے منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد فوج میں شریک ہو گئی تھی۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ: "" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ منافقین کے بھی بہت سے آدمی روانہ ہوئے جو اِس سے قبل کسی غزوہ میں روانہ نہیں ہوئے تھے۔""[51]منافقین ہر چند اِس غزوہ میں اپنی شریر حرکات سے باز نہ آئے، ایک دفعہ قریب تھا کہ مہاجرین اور انصار تلوار کھینچ کر باہم لڑتے، آخر مشکل سے معاملہ رفع دفع کیا گیا۔ اِن شریروں نے انصار کو کہا کہ وہ مسلمانوں یعنی مہاجرین کی مالی خدمت کرنا چھوڑ دیں، عبد اللہ بن اُبی جو منافقین کا سردار تھا، اُس نے تو برملا کہا کہ: ہم عزت والے اِن ذلیل لوگوں کو مدینہ سے نکال دیں گے (نعوذ باللہ)۔ اللہ تعالیٰ نے اِسی کے قول کو سورہ منافقون میں دہرا دیا ہے کہلیکن منافق نہیں سمجھتے۔[52]کہتے ہیں کہ اگر ہم لوٹ کر مدینے پہنچے تو عزت والے ذلیل لوگوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے۔ حالانکہ عزت خدا کی ہے اور اس کے رسول کی اور مومنوں کی لیکن منافق نہیں جانتے۔[53]زید بن ارقمرضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن اُبی کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچا دیا۔ آپ نے لشکر کے کوچ کا حکم دیا اور اُسی وقت مریسیع سے روانہ ہوئے۔[54]رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انصارِ مدینہ کو جمع کرکے اِس واقعہ کی اطلاع دی گو کہ وہ اِس جرم میں شریک نہ تھے مگر اُن کو ندامت ہوئی اور عبد اللہ بن اُبی کی نسبت اُن میں نفرت سی پیدا ہو گئی۔ خود اُس کے بیٹے نے جب یہ سنا تو اُس نے باپ کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور کہا: میں اُس وقت تک تجھے نہ چھوڑوں گا جب تک تو یہ اقرار نہ کرلے کہ تو ہی ذلیل ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) عزت والے ہیں۔[54][55]واقعہ اِفک (واقعہ تہمت) یعنی اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا واقعہ غزوہ بنو مصطلق (جسے غزوہ بنو مریسیع بھی کہا جاتا ہے) سے واپسی پر ماہِ شعبان 5ھ/ جنوری 627ء سے واپسی پر پیش آیا۔ واقعہ اِفک کی تفصیل خود عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی صحیح بخاری میں موجود ہے، یہاں یہ واقعہ اِختصار سے تحریر کیا گیا ہے۔عائشہ رضی اللہ عنہا غزوہ مریسیع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ تھیں،مدینہ منورہسے روانگی سے قبل انھوں نے اپنی بہناسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریتہً پہننے کو مانگ لیا تھا، ہار کی لڑیاں کمزور تھیں کہ ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھیں، اِس وقت آپ کی عمر بھی 14/15 سے زائد نہ تھی، یہ دور خاتون کے لیے ایسا ہے کہ اُن کے نزدیک معمولی سا زیور بھی گراں قیمت ہوتا ہے۔ چونکہ پردہ کا حکم اِس غزوہ سے قبل ہی نازل ہو چکا تھا اِسی لیے آپ دورانِ سفر محمل یعنی ہودج میں سوار ہوتی تھیں جس پر پردے لٹکے رہتے تھے، ساربان ہودج سمیت آپ کی سواری کو اُتار لیتے اور یونہی ہودج سمیت آپ اونٹ پر سوار ہوجاتیں۔ اُس زمانہ میں عائشہ دبلی پتلی تھیں اور ساربانوں کو یہ مطلق معلوم نہ ہوتا تھا کہ آپ ہودج میں سوار ہیں بھی کہ نہیں۔بنو مصطلق سے واپسی پرمدینہ منورہسے ایک منزل پہلے ذی قرع کی بستی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پڑاؤ کا حکم دیا،[56]یہاں ایک رات لشکر نے پڑاؤ کیا، پچھلے پہر لشکر روانگی کو تیار تھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا لشکر کے کوچ سے قبل قضائے حاجت کے لیے لشکر سے ذرا دور نکل کر باہر آڑ میں چلی گئیں۔ واپس لوٹیں تو اِتفاقاً ہاتھ گلے پر پڑا تو ہار نہیں تھا، وہیں تلاش کرنے لگیں، اُدھر لشکر تیار تھا، سفر کی ناتجربہ کاری سے اُن کو یقین تھا کہ لشکر کی روانگی سے قبل ہی ہار تلاش کرکے میں واپس آجاؤں گی مگر ہار تلاش کرنے میں دیر ہو گئی، جاتے وقت آپ کسی کو مطلع کیے بغیر چلی گئیں تھیں، ساربانوں نے خیال کیا کہ آپ ہودج میں سوار ہیں، ہودج کے پردے چھٹے ہوئے تھے، سو انھوں نے ہودج اونٹ پر رکھا جو دراصل خالی تھا اور لشکر روانہ ہو گیا۔ اُس زمانہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا غالباً 14/15 سال کی تھیں اور دبلی پتلی تھیں اِسی لیے ہودج رکھنے والوں کو معلوم نہ ہو سکا کہ آپ سوار ہیں یا نہیں؟۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب میں ہار کے بغیر واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر کوچ کو تیار ہے، میں پھر ہار تلاش کرنے چلی گئی، اب کی بار وہ ہار مجھے مل گیا، جب دوبارہ واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر روانہ ہو چکا تھا اور لوگ مجھ کو ہودج میں بیٹھا ہوا سمجھ کر میرا ہودج اونٹ پر کس کر لے گئے تھے۔[57][58]جب آپ ہار مل جانے کے بعد واپس اُسی مقام پر آئیں تو دیکھا کہ لشکر روانہ ہو چکا ہے اور وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ اِس خیال سے کہ جب لوگ مجھے نہ پائیں گے تو میری تلاش میں واپس یہیں آئیں گے، آپ چادر لپیٹ کر لیٹ گئیں۔ اِسی اثناء میں نیند آگئی۔ صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ جو لشکر کی گری پڑی اشیاء اُٹھانے کے لیے پیچھے رہا کرتے تھے، وہ وہاں پہنچے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہچان لیا۔ صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ نے آپ کو پردہ کے حکم نازل ہونے سے قبل دیکھا تھا۔ آپ کو دیکھتے ہی بلند آواز سےاِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَپڑھا۔ غالباً صفوان رضی اللہ عنہ نے با آوازِ بلند اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ اِس لیے پڑھا کہ اُم المومنین بیدار ہوجائیں اور خطاب و کلام کی نوبت نہ آئے اور ایسا ہی ہوا کہ کلام کی نوبت نہیں آئی جیسا کہ آپ خود فرماتی ہیں کہ:اللہ کی قسم! صفوان نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی اور نہ اُن کی زبان سے سوائے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ کے میں نے کوئی کلمہ سنا۔[59][58]آپ فرماتی ہیں کہ: کہ صفوان نے اپنا اونٹ میرے قریب کیا اور خود پیچھے ہٹ گئے، میں اُس پر سوار ہوئی اور صفوان اُس اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے ہو لیے اور لشکر کی تلاش میں تیزی سے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب صبح ہوئی اور لشکر ٹھہرا تو صفوان مجھ کو لے کر لشکر جا پہنچے اور تمہت لگانے والوں کو جو کچھ کہنا تھا، انھوں نے کہا اور مجھ کو اِس کی کوئی خبر نہ تھی۔[59]آپ خود فرماتی ہیں کہ: لوگ پڑاؤ میں اُتر چکے تھے اور اطمینان سے بیٹھے تھے کہ صفوان مجھے لیے ہوئے آ گئے تو اہل اِفک اور تہمت تراشوں نے جو کہنا تھا، کہا اور لشکر میں تہلکہ مچ گیا، واللہ! مجھے اِس ہیجان کا کچھ علم نہ تھا۔[58]ابن ہشامنے آپ کی لشکر میں آمد کا وقت صبح لکھا ہے جبکہ مستند تواریخ کے مطابق آپ کی لشکر میں آمد دوپہر کے وقت ہوئی اور دوپہر کا وقت زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے جسے امام بخاری نے خود عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے نقل کیا ہے[60]کیونکہ منافقین نے دوپہر میں واضح دیکھا تو خباثت بکنا شروع کی، صبح کا وقت صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اگر صبح کا وقت ہوتا تو منافقین دیکھ نہ پاتے۔ منافقین کے سردار عبد اللہ ابن اُبی بن سلول اور اُس کے ساتھیوں نے یہ منظر دیکھتے ہی اپنی خباثت بکنا شروع کردی کہ اُم المومنین اب پاکدامن نہ رہیں (نعوذ باللہ)[61]اور جس کو ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوا۔[62]رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اِس غزوہ میں 28 دنمدینہ منورہسے باہر رہے اوررمضان5ھکو بوقت رؤیتِ ہلال شبجمعرات22 جنوری627ءکومدینہ منورہپہنچے۔[63]مدینہ منورہپہنچ کر عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوگئیں۔ تقریباً ایک مہینہ بیماری میں گذرا۔ اِفتراء پرداز اور طوفان برپا کرنے والے اِسی چرچہ میں تھے مگر عائشہ رضی اللہ عنہا کو مطلق بھی اِس کا علم نہ تھا لیکن آپ فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اُس تلطف اور مہربانی میں کمی آ جانے کی وجہ سے جو سابقہ بیماریوں میں مبذول رہی، دل کو خلجان اور تردد تھا کہ کیا بات ہے کہ آپ گھر تو تشریف لاتے ہیں اور دوسروں سے میرا حال دریافت کرکے واپس ہوجاتے ہیں، مجھ سے دریافت نہیں کرتے، آپ کی اِس بے التفاتی سے میری تکلیف میں مزید اضافہ ہوتا تھا۔ ابن ہشام نے آپ کا قول نقل کیا ہے کہ: آپ فرماتی ہیں کہ یہاں تک کہ جب ہم مدینہ پہنچے تو میں بیمار ہو گئی اور تہمت لگانے کی خبر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گوش زد ہوئی اور میرے والدین کو بھی پہنچی، مگر کسی نے مجھ سے ذکر تک نہ کیا۔ صرف اِتنی بات ہوئی کہ اِس سے قبل جب میں بیمار ہوتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میری دِلجوئی فرمایا کرتے تھے، اِس مرتبہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ توجہ اپنے حال پر نہ دیکھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر میں آتے تو میری والدہ اُم رومان سے جو بیماری میں میرے پاس تھیں، فقط اِتنا پوچھتے کہ اب یہ کیسی ہیں؟۔ بس، اِس سے زیادہ اور کچھ نہ فرماتے۔[64]آپ فرماتی ہیں کہ: اِن حالات میں، میں دل گرفتہ ہو گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر آپ مجھے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں اور میں وہاں منتقل ہوجاؤں تو وہ میری تیمارداری اچھی طرح سے کرسکیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: کوئی ہرج نہیں۔[65]ابن ہشام نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: تمھیں اِختیار ہے۔[66]چنانچہ میں اپنی والدہ کے پاس چلی آئی اور میں اِن باتوں سے قطعاً بے خبر تھی اور قریباً ایک ماہ کی بیماری میں نہایت کمزور ہو چکی تھی۔ ہمعرب لوگتھے، ہمارے گھروں میں اہل عجم کی طرح بیت الخلا نہ تھا۔ قضائے حاجت کے لیے مدینہ کی کھلی فضاء میں چلے جاتے تھے (یعنی کھلے جنگل میں شہر کے باہر) اور خواتین حوائج ضروریہ کے لیے رات کو باہر جایا کرتی تھیں۔ چنانچہ میں بھی ایک شب رفع حاجت کے لیے باہر گئی اور میرے ہمراہ اُم مسطح بنت ابی رہم بن مطلب تھیں، چلتے چلتے وہ اپنی چادر میں اُلجھ کر ٹھوکر لگی اور گر گئیں تو اُن کے منہ سے نکلا: مسطح ہلاک ہو (مسطح اُن کا بیٹا تھا، لقب مسطح تھا اور نام عوف تھا)۔ یہ سن کر میں نے کہا: اللہ کی قسم! تم نے ایک بدری مہاجر کو بددعاء دے کر برا کیا۔ تو اُم مسطح نے کہا: اے دختر ابی بکر! کیا تم کو وہ بات معلوم نہیں؟ میں نے پوچھا کونسی؟ تو اُم مسطح نے مجھے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ میں نے حیرت سے پوچھا: کیا یہ بات ہو چکی ہے؟۔ اُم مسطح نے کہا: ہاں واللہ! یہ بات پھیل چکی ہے۔ میرے اوسان خطاء ہو گئے اور میں رفع حاجت کے بغیر ہی واپس چلی آئی، واللہ! میں رات بھر روتی رہی، میں نے محسوس کیا کہ روتے روتے میرا کلیجا پھٹ جائے گا۔ یہ سنتے ہی مرض میں اور شدت آگئی۔[66][65]میں اپنے والدین کے پاس آئی اور اپنی ماں سے کہا: اے میری ماں آپ کو معلوم ہے کہ لوگ میری بابت کیا کہہ رہے ہیں؟۔ ماں نے کہا: اے میری بیٹی تو رنج نہ کر، دنیا کا قاعدہ یہی ہے کہ جو عورت خوبصورت اور خوب سیرت ہو اور اپنے شوہر کے نزدیک بلند مرتبہ ہو تو حسد کرنے والی عورتیں اُس کے ضرر کے درپے ہو جاتی ہیں اور لوگ بھی اُس پر تمہتیں تراشتے ہیں[66][65](صحیح بخاری میں واقعہ اِفک کے اِس موقع پر لفظ ضرائر آیا ہے جو سوکن کے معنی میں مستعمل ہے، چونکہ اِس واقعہ میں کوئی بھی زوجہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہ تھی، اِس لیے یہاں اِس لفظ سے مراد حاسد عورتیں ہیں جوزبان عربیمیں مستعمل بھی ہے)۔[67]ابن ہشام کی روایت ہے کہ میں نے کہا: کیا میرے باپ کو بھی اِس کا علم ہے؟ ماں نے کہا: ہاں۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ میں نے کہا: اے میری ماں! اللہ تمھاری مغفرت کرے، لوگوں میں تو اِس کا چرچہ ہے اور تم نے مجھ سے اِس کا ذکر تک نہ کیا، یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میری چیخیں نکل گئیں۔ میرے والد بالاخانہ پر تلاوت قرآن میں مصروف تھے کہ میری چیخ سن کر نیچے آ گئے اور میری ماں سے دریافت کیا۔ ماں نے کہا کہ اِس کو قصے کی خبر ہو گئی ہے۔ یہ سن کر میرے والد رونے لگے۔ مجھ کو شدت کا لرزہ آیا کہ میری والدہ اُم رومان نے گھر کے تمام کپڑے مجھ پر ڈال دیے اور یونہی تمام رات روتے ہوئے گذر گئی۔ ایک لمحہ کے لیے آنسو نہیں تھمتے تھے کہ اِسی طرح صبح ہو گئی۔ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے شدت غم سے صرف ایک بار یہ کہا کہ: اللہ کی قسم! یہ بات تو ہمارے حق میںزمانہ جاہلیتمیں بھی نہیں کہی گئی، پھر جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام سے عزت بخشی تو اِس کے بعد کیسے ممکن ہے؟[68]جب اِس معاملہ میں نزول وحی میں تاخیر ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ اور اُسامہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرمایا۔ اُسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! وہ آپ کے اہل ہیں، جو آپ کے شایانِ شان اور منصبِ نبوت و رِسالت کے مناسب ہیں۔ اُن کی عصمت و عفت کا کیا پوچھنا؟۔ آپ کی حرم محترم کی طہارت و نزاہت تو اظہر من الشمس ہے، اِس میں رائے اور مشورہ کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر حضور کو ہمارا مشورہ اور خیال معلوم فرمانا ہے تو یہ عرض کرتا ہوں کہ جہاں تک ہم کو معلوم ہے، آپ کے اہل اور ازواج المطہرات میں ہم نے کبھی سوائے خیر اور خوبی، نیکی اور بھلائی کے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رنج و غم اور حزن و ملا�� کے خیال سے یہ عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! اللہ نے آپ پر تنگی نہیں کی، عورتیں اُن کے سواء اور بہت ہیں، آپ اگر گھر کی لونڈی سے دریافت فرمائیں تو وہ سچ سچ بتا دے گی (یعنی آپ مجبور نہیں، مفارقت آپ کے اِختیار میں ہے لیکن گھر کی لونڈی سے تحقیق فرمالیں، وہ آپ کو بالکل سچ سچ بتلادے گی اِس لیے کہ گھر کی لونڈی بہ نسبت مردوں کے زیادہ خانگی حالات سے باخبر ہوتی ہیں۔ معاذ اللہ، علی رضی اللہ عنہ کو اُم المومنین کی برات و نزاہت میں ذرہ برابر شک بھی نہ تھا، یہ کلمات محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تسلی کے لیے فرمائے، مطلب یہ تھا کہ حزن و ملال کی شدت کی وجہ سے مفارقت میں عجلت نہ فرمائیں، فی الحال تحقیقِ حال سے پہلے کوئی خیال قائم نہ فرمائیں اور بریرہ باندی سے حالت دریافت کرنے کا آپ کو مشورہ دیا کیونکہ علی رضی اللہ عنہ کو یقین کامل تھا کہ مجھ سے زیادہ گھر کی لونڈی زیادہ اُم المومنین کی طہارت و نزاہت کو جانتی ہیں)۔[69]علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گھر کی باندی بریرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ گچھ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بریرہ کو بلا کر اُن سے پوچھا: کیا تو گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟، بریرہ نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: میں تجھ سے کچھ دریافت کرنا چایتا ہوں، چھپانا نہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ مجھ کو بذریعہ وحی بتلاد دے گا۔ بریرہ نے کہا: جی میں چھپاؤں گی نہیں، آپ دریافت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا: تو نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی ہے؟ بریرہ کہنے لگیں: نہیں۔صحیح بخاریمیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بریرہ سے فرمایا: اے بریرہ! اگر تو نے ذرہ برابر بھی کوئی شے ایسی دیکھی ہو جس میں تجھ کو شبہ اور تردد ہو تو بتلا۔[70]بریرہ کہنے لگیں: قسم ہے اُس ذات پاک کی، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا، میں نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی کوئی بات معیوب اور قابل گرفت کبھی نہیں دیکھی، سوائے اِس کے کہ وہ ایک کمسن لڑکی ہیں، آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر سو جاتی ہیں اور بکری کا بچہ آکر اُسے کھا جاتا ہے۔[71]رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بریرہ کا یہ جواب سن کرمسجد نبویچلے گئے اورمنبرپر کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا، اول حمد و ثناء بیان فرمائی اور بعد ازاں عبد اللہ بن اُبی کا ذکر کرکے یہ ارشاد فرمایا: اے گروہ مسلمین! کون ہے کہ جو میری اُس شخص کے مقابلہ میں مدد کرے؟ جس نے مجھ کو میرےاہل بیتکے بارے میں اِیذاء پہنچائی ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے اہل سے سوائے نیکی اور پاکدامنی کے کچھ نہیں دیکھا اور علیٰ ہذا جس شخص کا اُن لوگوں نے نام لیا ہے اُس سے بھی سوائے خیر اور بھلائی کے کچھ نہیں دیکھا""[71](یہ اشارہ صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ کے متعلق تھا)۔ یہ سن کر قبیلہ اَوَس کے سرداد سعد بن معاذ رضی اللہ کھڑے ہو گئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کی اعانت اور امداد کو حاضر ہوں، اگر یہ شخص ہمارے قبیلہ اَوَس کا ہوا تو ہم خود ہی اُس کی گردن اُڑا دیں گے اور اگر قبیلہ خزرج سے ہوا اور آپ نے حکم دیا تو ہم تعمیل کریں گے۔[71]سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہا جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے، کو یہ خیال ہوا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہم پر تعریض کر رہے ہیں کہ اہل اِفک قبیلہ خزرج میں سے ہیں، اِس لیے انھیں جوش آ گیا۔ابن اسحاقکی روایت میں اِس کی تصریح ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو مخاطب بناکر کہا: اللہ کی قسم! تم اُس کو ہر��ز قتل نہ کرسکو گے، یعنی اگر وہ ہمارے قبیلہ کا ہوا تو ہم خود اُس کو قتل کر دیں گے، اگرچہ وہ شخص قبیلہ خزرج کا ہو یا کسی اور قبیلہ کا ہو، کوئی بھی ہم کو روک نہیں سکتا اور کیا تو منافق ہے جو منافقین کی طرف سے جواب دہی کرتا ہے؟ یہ تلخ کلامی حد سے بڑھ گئی، خدشہ تھا کہ کہیں قبیلہ اَوَس قبیلہ خزرج سے لڑ پڑیں۔ اِسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر سے اُتر آئے اور لوگوں کو خاموش کروایا۔[72]عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: یہ دن بھی تمام کا تمام روتے ہوئے گذرا، ایک دقیقہ کے لیے بھی آنسو نہیں تھمتے تھے۔ رات بھی اِسی طرح گذری، میری اِس حالت میں میرے والدین کو گمان ہونے لگا تھا کہ اب اِس کا کلیجا پھٹ جائے گا۔ جب صبح ہوئی تو بالکل میرے قریب آکر میرے والدین بیٹھ گئے اور میں رو رہی تھی اتنے میں انصار کی ایک عورت آگئی اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی[72][71]کہ اِسی حالت میں اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے اور سلام کرکے میرے قریب بیٹھ گئے۔ اِس واقعہ کے بعد سے کبھی آپ میرے پاس آکر نہیں بیٹھے تھے اور وحی کے اِنتظار میں ایک مہینہ گذر چکا تھا۔ آپ بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان فرمائی۔ اِس کے بعد یہ فرمایا:اے عائشہ! مجھ کو تیری جانب سے ایسی خبر پہنچی ہے، اگر تو بَری ہے تو عنقریب اللہ تجھ کو ضرور بَری کرے گا اور اگر تو نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو اللہ سے توبہ اور استغفار کر، اِس لیے کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ اُس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔[73][74]آپ فرماتی ہیں کہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِس کلام کو ختم فرمایا اُسی وقت میرے آنسو منقطع ہو گئے۔ آنسو کا ایک قطرہ میری آنکھ میں نہ رہا اور میں نے اپنے والد سے کہا: آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جواب دیں، انھوں نے کہا: میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا جواب دوں؟۔ پھر میں نے یہی الفاظ اپنی ماں سے کہے تو ماں نے بھی یہی جواب دیا۔ اِس کے بعد میں نے خود جواب دیا کہ: اللہ کو خوب معلوم ہے کہ میں بالکل بَری ہوں لیکن یہ بات سب لوگوں کے دلوں پر اس درجہ راسخ ہو گئی ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ میں بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین نہ کرو گے اور اگر بالفرض میں اقرار کرلوں حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین کروگے اور میں نے روتے ہوئے یہ کہا کہ: اللہ کی قسم! میں اُس چیز سے کبھی توبہ نہ کروں گی جو یہ لوگ مجھ سے منسوب کرتے ہیں، بس میں وہی کہتی ہوں کہ جویوسف علیہ السلامکے باپ نے کہا تھا (آپ فرماتی ہیں کہ: میں نےیعقوب علیہ السلامکا نام یاد کیا تو نام یاد نہ آیا تو اِس لیے یوسف علیہ السلام کے والد کہا) اور پھر کہا:فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ( پس صبر و شکر بہتر ہے اور اللہ ہی مددگار ہے اُس بات کے آشکارا کرنے پر جو تم بیان کرتے ہو)۔آپ فرماتی ہیں کہ: اُس وقت قلب کو یقینِ کامل اور جزمِ تام تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو ضرور بَری فرمائے گا، لیکن یہ وہم و گمان نہ تھا کہ میرے بارے میں اللہ تعالیٰ ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی ہمیشہ تلاوت ہوتی رہے گی، میں خیال کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ شاید کوئی خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اِس طرح کا دکھا دے گا جس میں میری بریت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معلوم ہو جائے گی۔[75][76]آپ فرماتی ہیں کہ: ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہیں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ وحی کا نزول شروع ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سر اقدس کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ رکھ دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک چادر اوڑھا دی گئی۔[77]باوجود شدید سردی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جبین مبارک سے پسینے کے قطرات ٹپکنے لگے۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب وحی کا نزول شروع ہوا تو میں بالکل نہیں گھبرائی، کیونکہ میں جانتی تھی کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر ظلم نہیں فرمائے گا، لیکن میرے والدین کا خوف سے یہ حال تھا کہ مجھ کو اندیشہ ہوا کہ اُن کی جان ہی نہ نکل جائے۔ اُن کو یہ خوف تھا کہ مباداء وحی اُسی کے موافق نہ نازل ہو جائے جیسا کہ لوگ کہہ رہے ہیں۔[75]میرے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا کا یہ حال تھا کہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب دیکھتے اور کبھی میری طرف، تو انھیں یہ اندیشہ ہوتا کہ آسمان سے کیا حکم نازل ہوتا ہے؟ جو قیامت تک نہ ٹل سکے گا اور جب میری طرف دیکھتے تو میرے سکون و اطمینان کو دیکھ کر انھیں ایک گونہ اُمید ہوتی۔ سوائے آپ کے تمام گھر والے اِسی خوف سے گھبرائے جا رہے تھے کہ وحی آسمانی کا نزول ختم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جبین مبارک سے پسینہ صاف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرہ انوار پر مسرت و بشاشت کے آثار نمودار ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسکراتے ہوئے اور دست مبارک سے جبین مبارک سے پسینہ صاف کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی جانب متوجہ ہوئے، پہلا کلمہ جو زبان مبارک سے نکلا، وہ یہ تھا:يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ بَرَّأَکِ (اے عائشہ! اللہ نے تمھاری پاکدامنی بیان فرما دی)۔[75]آپ فرماتی ہیں کہ: میری والدہ نے کہا: اُٹھ اے عائشہ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا شکریہ اداء کر۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! سوائے اللہ تعالیٰ کے جس نے میری براءت نازل فرمائی، کسی کا شکر اداء نہ کروں گی[75][77](یہ شکر الٰہی اور انعامِ یزدانی کے باعث کہا وگرنہ اُم المومنین کا اس حالت میں شکر نبوی سے انکار محض ناز محبوبی کے مقام سے تھا اور ناز محبوبی کی یہ حقیقت ہے جس چیز سے لبریز ہو، زبان سے اُس کے خلاف اِظہار ہو، ظاہر میں ایک ناز ہی تھا اور صد ہزار نیاز مستور میں تھے )۔[78]عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی براءت میں سورۃ النور کی آیات 11 سے 20 تک نازل ہوئیں:جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اِن آیاتِ مبارکہ کی تلاوت سے فارغ ہوئے توابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ اُٹھے اور لخت جگر کی جبین مبارک پر بوسہ دیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اے میرے باپ! پہلے سے آپ نے مجھ کو کیوں نہ معذور اور بے قصور نہ سمجھا؟۔ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کون سا آسمان مجھ پر سایہ ڈالے اور کون سی زمین مجھ کو اُٹھائے اور تھامے جبکہ میں اپنی زبان سے وہ بات کہوں جس کا مجھ کو علم نہ ہو۔[79]بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ کے مکان سے مسجد نبوی تشریف لائے اور مجمع عام میں خطبہ دیا اور یہ آیات تلاوت فرمائیں۔اِس فتنہ کا اصل بانی تو عبد اللہ ابن اُبی تھا اور اُس کے ہمراہ منافقین کا گروہ اِس فتنہ کے پھیلاؤ میں سرگرم تھا۔ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اِس فتنہ میں مبتلا نہ ہوا، سوائے تین افراد کے جو منافقین کے بہکاوے میں آ گئے تھے: مسطح بن اثاثہ، حسان بن ثابت، حمنہ بنت جحش۔ اِن تینوں افراد پرحد قذفجاری گئی اور 80، 80 کوڑے مارے گئے اور وہ اپنی غلطی سے تائب ہوئے۔[77]عبد اللہ ابن اُبی کو سزا نہیں دی گئی کیونکہ وہ منافق تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ اِس تمہت کا بانی عبد اللہ بن اُبی بن سلول تھا اور قبیلہ خزرج کے چند لوگ جن میں مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش بھی اُس کے ساتھ شریک تھے۔ حمنہ بنت جحش کے شریک ہونے کا مقصد یہ تھا کہ حمنہ اُم المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن تھی اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جو التفات مجھ سے تھا، وہ کسی اور زوجہ سے نہیں تھا، اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے زینب رضی اللہ عنہا کو اُن کی دینداری کے سبب سے رشک و حسد سے محفوظ رکھا، مگر حمنہ بنت جحش بہن کی خاطر مجھ سے ضد رکھتی تھی اور اِسی سبب سے اِس تمہت میں شریک ہوئی۔[77]مسطح بن اثاثہابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ عسرت و تنگدستی کے سبب سےابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ اُن کو خرچ دیا کرتے تھے۔ مسطح چونکہ اِفک کے فتنہ میں شریک تھے اِسی لیےابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اب مسطح کو کبھی خرچ نہ دوں گا۔ اُن کی اِس قسم پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:جب یہ آیتابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے سنی تو کہا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم البتہ تحقیق میں اِس کو بہت ہی زیادہ محبوب رکھتا ہوں کہ اللہ میری مغفرت فرمائے۔[80][81]واقعہ اِفک کے متعلق مؤرخین کے کئی اقوال ہیں کہ یہ سنہ ماہِشعبان5ھمیں غزوہ مُرَیسیع کے بعد پیش آیا جبکہ بعض مؤرخین کے مطابق یہ سنہ6ھمیں پیش آیا۔ سنہ5ھکے متعلق قول قوی ہے کیونکہ اِس واقعہ میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موجودگی کا پتا چلتا ہے جبکہ وہ اِسی سال کے اواخر میں ماہِ ذو الحجہ5ھ/اپریل/مئی627ءمیں فوت ہو گئے تھے[82]اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہغزوہ خندقمیں موجود تھا حو غزوہ مُرَیسیع کے بعد ماہِذوالقعدہ5ھ/مارچ627ءمیں پیش آیا تھا۔ سو واقعہ اِفک کے سنہ5ھمیں پیش آنے کا قوی ثبوت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات کا ہے جو اِس واقعہ کے 5 ماہ بعد فوت ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غزوہ مُرَیسیع سے واپسی پرمدینہ منورہماہِرمضان5ھکی رؤیتِ ہلال کے وقت پہنچے تھے، علاوہ ازیں اِس واپسی پر عائشہ رضی اللہ عنہا ایک مہینہ بیمار رہیں، غالباً اِمکان ہے کہسورۃ النورکی آیات 11 تا 20 جو عائشہ رضی اللہ عنہا کی شانِ اقدس میں نازل ہوئیں، ماہِشوال5ھ/فروری/مارچ627ءمیں نازل ہوئیں۔ اِس طرح ماہشوالکو یہ نسبت خاص عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہے۔تحریم کاسورہ تحریمکی ابتدائی آیتوں کی طرف اشارہ ہے جس میں اپنی بیوی خوش رکھنے کے لیے ایک حلال کام کو حرام کرنے پر اللہ تعالی، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مذمت کرتے ہیں اور آیتوں کے نزول کی حقیقت تفسیر نمونہ کے مطابق کچھ یوں بیان ہوئی ہے:- مغافیر اس رس کو کہا جاتا ہے جو عرفط (حجاز کا ایک کانٹا دار درخت) سے نکلتا ہے جسے گندہ بیروزہ کہا جاتا ہے اور بدبودار ہے - جبکہ حضور اکرم ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ آپ کے دھان مبارک یا کپڑوں سے بدبو نہ آئےیہ روایت مختلف تحریروں میں تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ نقل ہوئی ہے[84]اور امام بخاری نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔[85][86]اس واقعے میں اللہ کے رسول ان دونوں سے ناراض ہوتے ہیں اورامام قرطبینے ناراض گی کی مدت کو ایک مہینہ ذکر کیا ہے۔[87]امام قرطبی اورابن قیماس یہاں تک کہتے ہیں کہ سورہ تحریم کی دسویں آیت (:ضَرَبَ اللَّہ مَثَلاً لِلَّذینَ کفَرُوا امْرَأَةَ نُوحٍ وَامْرَأَةَ لُوطٍ کانَتا تَحْتَ عَبْدَینِ مِنْ عِبادِنا صالِحَینِ فَخانَتاہما فَلَمْ یغْنِیا عَنْہما مِنَ اللَّہ شَیئاً وَقیلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلینَ)۔ عائشہ (رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ) اور حفصہ (رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ) کو ڈرانے کے لیے ہی نازل ہوئی ہے۔[88][89]بروزپیر12ربیع الاول11ھمطابق8 جون632ءکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےمدینہ منورہمیں واقع مسجد نبوی سے ملحقہحجرہ عائشہمیں وفات پائی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک اُس وقت 18 سال تھی۔ آپ 9 سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ رہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وفات پائی تب آپ کی عمر 18 سال تھی[10][90]اور قریباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال 6 ماہ 5 یوم (قمری) اور 46 سال 1 ماہ 5 یوم (شمسی) تک بقید حیات رہیں۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے 9 سال،خلافت راشدہکے مکمل 30 سال اور امیرمعاویہ بن ابو سفیانرضی اللہ عنہ کی خلافت کے 17 سالوں کی وہ عینی شاہد تھیں۔ اِس تمام عرصہ میں آپ کی شخصیت نمایاں نظر آتی ہے، کبھی آپ لوگوں کومناسک حجکی تعلیم دیتی نظر آتی ہیں اور کبھی آپ عبادات و ایمانیات کے متعلق تعلیم دیتی ہیں، کبھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات اقدس کے روشن پہلو بیان فرماتی ہیں اور کبھی امت میں اصلاح کے واسطے مہمل و کجاوے میں مسند نشیں نظر آتی ہیں۔ گویا اِس تمام مدت میں آپ کی شخصیت محور و مرکز بنی ہوئی تھی اور تمام مملکت اسلامیہ میں آپ بحیثیت مرکز و محور تسلیم کی جاتی تھیں، خلافت راشدہ کے اختتام پر اور اُموی خلافت کے زمانہ میں یہ شانِ جلالت اوجِ کمال پر رہی۔ حرم نبوت کی یہ شمع اپنی آب و تاب سے ملت اسلامیہ کو ہر وقت روشن کرتی رہی، اِس بات کا اندازہ اِس سے کیا جا سکتا ہے جس روز آپ کا اِنتقال ہوا تومدینہ منورہمیں کثرت اژدھام کی وجہ سے عید کا گماں ہونے لگا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعدابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ کو خلیفہ اول منتخب کیا گیا اور انھیں خلیفۃ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ کے لقب سے پکارا گیا۔ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ بروزپیر12ربیع الاول11ھ/8 جون632ءکو خلیفہ منتخب ہوئے اور بروزپیر22جمادی الثانی13ھ/22 اگست634ءکومدینہ منورہمیں اِنتقال فرمایا۔ آپ کا عہدِ خلافت 2 سال 3 ماہ 10 دن بلحاظ قمری سال کے ہے۔ربیع الاول11ھ/جون632ءمیںابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہو گئے تو آنصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیتجہیز و تکفینکے بعد ازواج المطہرات نے چاہا کہعثمان بن عفانرضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کرابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجیں تاکہ وہ وراثت کا مطالبہ کرسکیں لیکن عائشہ رضی اللہ عنہ نے یاد دلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: میرا کوئی وارث نہ ہوگا، میرے تمام متروکات صدقہ ہوں گے۔ یہ سن کر سب خاموش ہوگئیں۔[91]بروزبدھ25ربیع الاول41ھ/28 جولائی661ءکو امامحسن ابن علیرضی اللہ عنہ نے خلافت امیرمعاویہ بن ابو سفیانکو سپرد کردی۔ سنہ41ھسے سنہ60ھتک تقریباً 20 سال تک امیرمعاویہ بن ابوسفیانمسلم دنیا پر حکمرانی کرتے رہے، امیرمعاویہ بن ابوسفیانکی مدت خلافت کے اِختتام سے 2 سال قبل عائشہ رضی اللہ عنہا نے58ھ/678ءمیں وفات پائی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کم و بیش 18 سال امیرمعاویہ بن ابوسفیانکی خلافت میں بسر کیے اور یہ تمام زمانہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خاموشی سے گزارا، مگر کئی مواقع پر یہ سکوت ختم بھی ہوتا رہا بلکہ آپ براہِ راست حکمران پر تنقید کر لیا کرتی تھیں، ایسے کئی مواقع تاریخ میں محفوظ ہو چکے ہیں۔امامحسن بن علیرضی اللہ عنہ نے ماہِربیع الاول49ھ/اپریل669ءمیںمدینہ منورہمیں وفات پائی۔حجرہ عائشہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم،ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ اورعمر بن خطابرضی اللہ عنہ مدفون ہیں۔حجرہ عائشہکے ایک گوشہ میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔حسن بن علیرضی اللہ عنہ نے اِسی گوشہ مین مدفون ہونے کی وصیت کی تھی اور مزید یہ کہا تھا کہ اگر کوئی تدفین میں مزاحمت کرے تو جنگ و جدل کی ضرورت نہیں، مجھے میری والدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے قریب قبرستان بقیع الغرقد میں دفن کر دینا۔ جبحسن بن علیرضی اللہ فوت ہو گئے تو آپ کے بھائیحسین بن علیرضی اللہ عنہ نے اِس وصیت کی تکمیل کرنا چاہی تومروان بن حکممخالفت پر اُتر آیا اور کہنے لگا کہ جب یہاں باغیوں نےعثمان بن عفانرضی اللہ عنہ کو دفن نہ ہونے دیا تو کسی اور کو بھی اجازت نہیں ہو سکتی۔مروان بن حکمبنو اُمیہ کی معیت میں ہتھیار لگائے باہر نکل آیا اورحسین بن علیرضی اللہ عنہ بنو ہاشم کی معیت میں ہتھیار لگائے سامنے آ گئے، قریب تھا کہ خونریز جنگ و جدل کی اِبتداء ہوجاتی مگر درمیان میںابوہریرہرضی اللہ عنہ آ گئے اورمروان بن حکمسے کہا: نواسہ اگر اپنے نانا کے پہلو میں دفن ہوتا ہے تو تم کو اِس میں دخل دینے کا کیا حق ہے؟ اورحسین بن علیرضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی: امام مرحوم کی یہ بھی تو وصیت تھی کہ اگر میری تدفین میں کوئی مزاحمت ہو تو جنگ و جدل سے پ رہی ز کیا جائے۔ غرض یہ کہ امامحسن بن علیرضی اللہ عنہ کی تدفین قبرستان بقیع الغرقد میں اُن کی والدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں کی گئی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس سارے معاملہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا طرز عمل کیا تھا؟ بعض شیعی مؤرخین نے اِس واقعہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے کردار کو منفی انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے جو دراصل بے سرو پا کذاب روایات ہیں اور شیعی مؤرخیں کی یہ بے سرو پا روایات گستاخئ حرم نبوی (عائشہ رضی اللہ عنہا) پر دلالت کرتی ہیں۔ اِن تمام بے سرو پا روایات کا کوئی راوی نہیں ہے اور نہ کوئی سند۔ اِن شیعی روایات کی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ تدفینحسن بن علیرضی اللہ عنہ کے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا خود سفید خچر پر سوار ہو کرحسن بن علیرضی اللہ عنہ کے جنازہ کو روکنے کے لیے نکلیں۔ سپاہیوں نے تیر چلائے اور اِتنی دیر میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی آئے اور انھوں نے کہا: ابھیجنگ جملکی شرم ہمارے خاندان سے مٹی نہیں کہ تم ایک اور جنگ کے لیے آمادہ ہو۔ یہ سن کر عائشہ رضی اللہ عنہا واپس چلی گئیں۔یہ موضوع روایتابن جریر طبریکیتاریخ الرسل والملوککی ایک فارسی ترجمہ میں جوبرصغیرمیں اُنیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں طبع ہوا تھا، پڑھنے کو ملتی ہے۔ اصل نسخہ عربی میں یہ روایت ہی موجود نہیں بلکہ یہ تو شیعی مؤرخین کافارسیترجمہ میں اضافہ کیا ہوا ہے، اِس فارسی ترجمہ میں دراصل کئی اضافے موجود ہیں جن میں کئی ضعیف اور کذاب روایات بیان کی گئی ہیں جو عربی کے اصل نسخہ میں موجود نہیں ہیں۔ فارسی کے مترجم نے اِس کتاب کے مقدمہ میں اِس بات کی تصریح بھی کردی ہے کہ بعض روایات موضوع اور من گھڑت ہیں جو فارسی کے اِس ترجمہ میں اضافہ شدہ ہیں یا جن کی کوئی اصل موجود ہی نہیں۔یعقوبیجوتیسری صدیہجری کا شیعہ مؤرخ ہے وہ بھی اِس واقعہ کو بغیر کسی سند کے بیان کرتا ہے۔ بغیر کسی سند کے کوئی واقعہ مصدقہ نہیں ہو سکتا۔ اصل واقعہ کے بیان کے بعد کہ در حقیقت فعلمروان بن حکمکا تھا، قیل یعنی ضعفِ روایت کے ساتھ صیغہ کے ساتھ اِس کا ذکر کیا گیا لیکن یہ نہیں لکھا گیا کہ انھوں نے نعوذ باللہ تیر چلائے یا جنگ کی۔تمام معتبر کتب ہائے تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بطیب خاطرحسن بن علیرضی اللہ عنہ کی تدفین کی اجازت دے دی تھی۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سعید ابن ابی العاص جو والئمدینہ منورہتھا، اُس نے بھی تدفین سے نہیں روکا، مگرمروان بن حکمچند افراد کو لے کر فساد برپا کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ امام موصوف نے یہ وصیت کی تھی کہ اگر میری تدفین میں جنگ و جدل کا خطرہ ہو تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان یعنی بقیع میں دفن کردینا۔مروان بن حکمکی اِس شرارت سےحسین بن علیرضی اللہ عنہ کو نہایت غصہ آیا اور آپحسن بن علیرضی اللہ عنہ کو بذریعہ زورحجرہ عائشہمیں دفن کرنے پر تیار ہو گئے اور اپنے بھائی کی وصیت سے گو اِنحراف کرنا چاہا۔[99][100][101]محدثابن عبد البرنے الاستیعاب میں اور امامجلال الدین سیوطینےتاریخ الخلفاءمیں ایک راوی سے روایت بیان کی ہے جو امام موصوفحسن بن علیرضی اللہ عنہ کی وفات کے اُن کے پاس موجود تھا: امامحسن بن علیرضی اللہ عنہ وصیت فرماتے ہیں کہ میں نے اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے درخواست کی تھی کہ مجھے آنصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اپنے گھر (یعنیحجرہ عائشہ) میں دفن ہونے کی اجازت دیں، انھوں نے مجھے اجازت دے دی، لیکن معلوم نہیں کیا انھوں نے شرما شرمی میں مجھے اجازت دی یا نہیں۔ میرے مرنے ک بعد اُن سے جا کر پھر اجازت لینا، اگر وہ خوشی سے اجازت دیں تو وہیں دفن کرنا۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ تم کو ایسا کرنے سے روکیں گے، اگر واقعتاً وہ روکیں تو اِس میں اُن لوگوں سے ردوکد کرنے کی ضرورت نہیں، مجھے بقیع میں دفن کردینا۔ جبحسن بن علیرضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا توحسین بن علیرضی اللہ عنہ نے جا کر عائشہ رضی اللہ عنہا سے اجازت طلب کی، انھوں نے کہا: بخوشی۔مروان بن حکمکو واقعہ معلوم ہوا تو اُس نے کہا: حسین (رضی اللہ عنہ) اور عائشہ (رضی اللہ عنہا) غلط کہتے ہیں، حسن (رضی اللہ عنہ) کبھی وہاں دفن نہیں کیے جا سکتے، عثمان (رضی اللہ عنہ) کو قبرستان تک میں دفن کرنے نہ دیا گیا اور حسن (رضی اللہ عنہ) عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے گھر (حجرہ عائشہ) میں دفن ہوں گے؟۔ (خلیفہ سومعثمان بن عفانرضی اللہ عنہ کو باغیوں نے بقیع میں دفن نہیں کرنے دیا تھا مگر اصحاب کبار نے بقیع سے متصل باغ حش کوکب میں آپ کو دفن کیا، بعد ازاں وہ باغ قبرستان بقیع میں ضم کر لیا گیا تھا،مروان بن حکمکا اِشارہ اِسی جانب تھا)۔مروان بن حکمکی مخالفت کا بڑا سبب یہ تھا کہ وہ اُن دِنون امارتمدینہ منورہسے معزول تھا،مروان بن حکمکو48ھ/668ءمیں امارتمدینہ منورہسے معزول کر دیا گیا تھا۔ اِس بہانے سےمروان بن حکمامیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خوشنودی کا طلب گار تھا کیونکہ35ھ/656ءمیں جب خلیفہ سومعثمان بن عفانرضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو باغی اُن کیحجرہ عائشہمیں تدفین میں آڑے آئے اور انھیںحجرہ عائشہمیں دفن نہیں کیا گیا بلکہ تدفین بقیع الغرقد میں کی گئی۔عثمان بن عفانرضی اللہ عنہ چونکہ اُموی تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خاندان بنو اُمیہ سے تھے، اِسی لیےمروان بن حکمنے خاندان بنو ہاشم اور خاندان بنو اُمیہ کی قدیمی مخاص��ت کو دوبارہ چھیڑنا چاہا جس میں ہرگز بھی کامیاب نہ ہو سکا۔عروہ بن زبیرفرماتے ہیں ""میں نے کسی ایک کو بھی معانی قرآن، احکام حلال و حرام، اشعار عرب اور علم الانساب میں عائشہ سے بڑھ کر نہیں پایا""۔ عائشہ کی خصوصیت تھی کہ جب کوئی نہایت مشکل و پیچیدہ مسئلہ صحابہ میں آن پڑتا تھا تو وہ آپ ہی کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے اور آپ کے پاس اس سے متعلق علم ضرور موجود ہوتا تھا۔ عائشہ کو علمی حیثیت سے عورتوں میں سب سے زيادہفقیہہاور صاحب علم ہونے کی بنا پر چند صحابہ کرام پر بھی فوقیت حاصل تھی۔ فتوے دیا کرتی تھیں اور بے شمار احادیث ان سے مروی ہیں۔ خوش تقریر بھی تھیں۔آپ سے احادیث کو روایت کرنے والے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں مشہور حضرات یہ ہیں:ابراہیم بن یزید النخعی (مرسلاً)، ابراہیم بن یزید التمیمی، اسحاق بن طلحہ، اسحاق بن عمر، الاسود بن یزید، ایمن المکی، ثُمامہ بن حزن، جُبیر بن نُفیر، جُمَیع بن عمیر، الحارث بن عبد اللہ بن ابی ربیع ہ المخزومی، الحارث بن نوفل،حسن ابن علی، حمزہ بن عبد اللہ بن عمر،خالد بن سعید، خالد بن معدان، خباب، خبیب بن عبد اللہ بن الزبیر، خلاس الہجری، خیار بن سلمہ، خیثمہ بن عبد الرحمن، ذکوان السمان، مولیٰ ذکوان، ربیع ہ الجرشی، زاذان ابو عمر الکندی، زُرار ہ بن اوفی، زِر بن حُبَیش، زید بن اسلم، سالم بن ابی الجعد، زید بن خالد الجُہنی، سالم بن عبد اللہ، سالم سبلان، سائب بن یزید، سعد بن ہشام، سعید المَقبری، سعید بن العاص،سعید بن مسیب، سلیمان بن یسار، سلیمان بن بریدہ، شریح بن ارطاہ، شریح بن ھانی، شریق الہوزنی، شقیق ابو وائل، شہر بن حوشب، صالح بن ربیع ہ بن الہدیر، صعصہ، طاووُس، طلح ہ بن عبد اللہ التیمی، عابس بن ربیعہ، عاصم بن حمید السکونی، عامر بن سعد، الشعبی، عباد بن عبد اللہ بن الزبیر، عباد ہ بن الولید، عبد اللہ بن بریدہ، ابوالولید عبد اللہ بن الحارث البصری، عبد اللہ ابن الزبیر، عرو ہ ابن الزبیر، عبد اللہ بن شداد اللیثی، عبد اللہ بن شقیق، عبد اللہ بن شہاب الخولانی، عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ، عبد اللہ ابن عمر، عبد اللہ ابن عباس، عبد اللہ بن فروخ، عبد اللہ بن ابی مُلَیکہ، عبد اللہ بن عبید ابن عمیر، ابن عمیر، عبد اللہ بن حکیم، عبد اللہ بن ابی قیس، عبد اللہ و القاسم، ابنا محمد، عبد اللہ بن ابی عتیق محمد، عبد الرحمن بن ابی عتیق، عبد اللہ بن واقد العمری، عبد اللہ بن یزید، عبد اللہ البھی، عبد الرحمن بن الاسود، عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام، عبد الرجمن بن سعید بن وہب الہمدانی، عبد الرحمن بن شُماسہ، عبد الرحمن بن عبد اللہ بن سابط الجُمَحی، عبد العزیز، والد ابن جُریج، عبید اللہ بن عبد اللہ، عبید اللہ بن عیاض، عرو ہ المزنی، عطاء بن ابی رباح، عطاء ابن یسار، عکرمہ، علقمہ، علقمہ بن وقاص، علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب، عمرو بن سعید الاشدق، عمرو بن شرحبیل، عمرو بن غالب، عمرو ابن میمون، عمران بن حطان، عوف بن الحارث، عیاض ابن عروہ، عیسیٰ بن طلحہ، غُضیف بن الحارث، فرو ہ بن نوفل، القعقاع بن حکیم، قیس بن ابی حازم، کثیر بن عبید الکوفی، کُریب، مالک بن ابی عامر، مجاہد، محمد بن ابراہیم التیمی، محمد بن الاشعث، محمد بن زیاد الجُمَحی، ابن سیرین، محمد بن عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام، ابوجعفر محمد الباقر، محمد بن قیس بن مخرمہ، محمد بن المنتشر، محمد ابن المنکدر، مروان العقیلی ابولبابہ، مسروق، مصدع ابو یحیی، مُطرف بن الشِخِیر، مِقسَم، مولیٰ ابن عباس، المطلب بن عبد اللہ بن حنطب، مکحول شامی، موسیٰ بن طلحہ، میمون بن ابی شبیب، میمون بن مہران، نافع بن جُبیر، نافع ابن عطاء، نافع العمری، نعمان بن بشیر، ہمام بن الحارث، ہلال ابن یساف، یحیی بن الجزار، یحیی بن عبد الرحمن بن حاطب، یحیی بن یعمر، یزید بن بابنوس، یزید بن الشِخِیر، یعلیٰ بن عقبہ، یوسف بن ماھَک، ابواُمام ہ بن سہل، ابوبرد ہ بن ابی موسیٰ، ابوبکر بن عبد الرحمن بن الحارث، ابوالجوزاء الربعی، ابو حذیفہ الارحبی، ابو حفصہ، ابو الزبیر المکی، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، ابو الشعشاء المحاربی، ابو الصدیق الناجی، ابو ظبیان الجنبی، ابو العالیہ رُفَیع الریاحی، ابو عبد اللہ الجدلی، ابو عبید ہ بن عبد اللہ بن مسعود، ابوعثمان النہدی، ابو عطیہ الوادعی، ابو قلابہ الجرمی، ابو الملیح الہذلی، ابو موسیٰ الاشعری، ابو ہریرہ، ابو نوفل بن ابی عقرب، ابو یونس مولیٰ عائشہ، بُھَیَّہ، مولا ہ الصدیق، جسر ہ بنت دُجاجہ، ذِفر ہ بنت غالب، زینب بن ابی سلمہ، زینب بنت نصر، زینب السہمیہ، سمیہ البصریہ، شُمَیسہ العتکیہ، صفیہ بن شیبہ، صفیہ بنت ابی عبید، عائشہ بنت طلحہ، عمر ہ بنت عبد الرحمن، مرجانہ، والدہ علقمہ بن ابی علقمہ، معاذ ہ العدویہ، ام کلثوم بنت ابی بکر (بہن)، اُم محمد۔[116]ایک صحابی کا بیان ہے کہ آپ نے ایک روز میں 70 ہزار درہم اللہ کی راہ میں صرف کیے اور خود پیوند لگے کپڑے پہنا کرتی تھیں۔ طیبہ صدیقی اثر ترقی اسلام پر ہے جو تفقہ آپ نے دین میں حاصل کیا اور جو تبلیغ آپ نے امت کو فرمائی اور علم نبوت کی اشاعت میں جو مساعی انھوں نے کیں اور حو علمی فوائد انھوں نے فرزندان امت کو پہنچائے وہ ایسک درجہ ہے جو کسی اور زوجہ محترمہ کو حاصل نہیں۔امام ابو نُعَیم الاصبہانی نے اِس روایت کو تفصیلاً بیان کیا ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "" عورتوں پر عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔[10]ثرید اُس کھانے کو کہتے ہیں جس کے شوربے میں روٹی بھگودی جائے اور بعد میں تناول کی جائے۔ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ثرید تمام کھانوں میں ممتاز سمجھا جاتا تھا۔تابعی قاسم بن محمد بن ابی بکر (جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ: عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے ازواج المطہرات پر دس وجوہات سے فضیلت حاصل ہے۔ پوچھا گیا: اُم المومنین وہ دس وجوہات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:دوسری روایت میں ہے کہ تابعی عمیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ فرماتی ہیں کہ: مجھے چند چیزیں حاصل ہیں جو کسی عورت کو حاصل نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نکاح کے وقت میری عمر سات سال تھی، آپ کے پاس فرشتہ اپنے ہاتھ میں میری تصویر لے کر آیا اور آپ نے میری تصویر دیکھی، رخصتی کے وقت میں نو سال کی تھی، میں نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا، انھیں میرے سواء کسی عورت نے نہیں دیکھا، میں آپ کی سب سے زیادہ چہیتی تھی، میرے والد آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھے، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے گھر میں مرض الموت کے ایام گزارے اور میں نے آپ کی تیمارداری کی پھر جب آپ نے وفات پائی تو آپ کے پاس صرف میں اور فرشتے تھے، کوئی اور نہ تھا۔[126]بکثرت احادیث و روایات سے یہ مسلمہ ہے کہ بوقت نکاح آپ کی عمر 6 سال تھی، یہاں سات سال سے مراد یہ ہے کہ بوقت نکاح 6 سال مکمل ہوکر ساتویں سال کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔تابعی عروہ بن ز��یر بیان کرتے ہیں کہ مجھے اُم المومین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھانجے! مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: تمھاری ناراضی اور رضا مجھ سے چھپی نہیں رہتی۔ میں بولی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کس طرح پہچان جاتے ہیں؟ فرمایا: رضا کے وقت جب تم قسم کھاتی ہو تو محمد کے رب کی قسم کہتی ہو اور ناراضی کے وقت ابراہیم کے رب کی قسم کہتی ہو۔ میں بولی: یارسول اللہ! آپ سچ فرماتے ہیں۔[10][127][128][129]تابعی مسروق جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں، جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی حدیث بیان کرتے تو فرماتے: مجھ سے یہ حدیث صدیقہ بنت صدیق نے اور اللہ کے محبوب کی معصومہ محبوبہ نے بیان فرمائی۔[10]یہ اُن کی اُم المومنین سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہے۔ابی حازم عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کو سب سے زیادہ کون پیارے ہیں؟ فرمایا: عائشہ، بولے: میں مردوں میں سے پوچھ رہا ہوں۔ فرمایا: اُن کے والد۔[10]عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث روایت کرتے تو فرماتے: اللہ کی قسم! عائشہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کبھی جھوٹ نہیں باندھ سکتیں۔[10]آپ فرماتی ہیں کہ: میں انے اپنے اِس حجرے کے دروازے پر جبرئیل امین علیہ السلام کو گھوڑے پر سوار دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ سے چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے، پھر جب آپ اندر تشریف لائے تو میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! یہ کون تھے جن سے آپ چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے؟ فرمایا: کیا تم نے انھیں دیکھا تھا؟ میں بولی: جی۔ فرمایا: تم نے انھیں کس کے مشابہ پایا؟ میں بولی: دحیہ کلبی کے۔ فرمایا: تم نے فراوانی کے ساتھ خیر دیکھی، وہ جبرئیل علیہ السلام تھے، تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا: عائشہ یہ جبرئیل ہیں، تم کو سلام کہہ رہے ہیں۔ میں بولی: وعلیہ السلام، اللہ تعالیٰ اِس آنے والے کو بہتر صلہ عطاء فرمائے۔[10]دوسری روایت میں ہے کہ آپ فرماتی ہیں کہ: میں نے اُن کو (یعنی جبرئیل علیہ السلام) کو نہیں دیکھا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔[10][130]امام بخاری نے ابو سلمہ سے روایت کیا ہے کہ: عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! یہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں اور تمھیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا: اُن پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکات ہوں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو کچھ دیکھ سکتے ہیں، وہ میں نہیں دیکھ سکتی۔[131][132][133][134][135][136][137][138][139][140][141][142][143][144][145][146]آپ سے 2210 احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روایت ہیں جبکہ اِن میں سے 174 متفق علیہ ہیں، یعنی اِن کو امام بخاری نے صحیح بخاری اورامام مسلمنےصحیح مسلممیں سنداً روایت کیا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے متفق روایات 174 لی ہیں جن میں امام بخاری 54 میں منفرد ہیں اور امام مسلم 69 احادیث میں منفرد ہیں۔[147]2210 احادیث والی تعداد کو سید سلیمان ندوی نےسیرت عائشہمیں لکھا ہے مگر یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ صرفمسند احمد بن حنبلمیں ہی عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 2524 ہے۔اگرصحاح ستہمیں مکرر رویات حذف نہ کی جائیں تو روایات عائشہ رضی اللہ عنہا کی تعداد یوں ہے:آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقیدِ حیات رہیں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ��ی خلافت کے اواخر سال عائشہ رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے اواخر سال ہیں۔ سنہ58ھمطابق678ءمیں جب آپ کی عمر مبارک 67 سال کے قریب قریب تھی کہ ماہِرمضان58ھ/جولائی678ءمیں علیل ہوگئیں اور چند روز تک علیل رہیں۔ کوئی حال پوچھتا تو فرماتیں: اچھی ہوں۔[10]جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمانے لگیں: کاش میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی، کاش میں ایک درخت ہوتی کہ اللہ کی پاکی میں رطب اللسان رہتی اور پوری طرح سے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی، کاش میں مٹی کا ایک ڈھیلا ہوتی، کاش اللہ تعالیٰ مجھے پیدا نہ فرماتا، کاش میں زمین کی بوٹیوں میں سے کوئی بوٹی ہوتی اور قابل ذکر شے نہ ہوتی۔[10]ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نےمنگل17رمضان58ھمطابق13 جولائی678ءکی شب کو اِس دارِ فانی سے عالم بقاء کو لبیک کہا۔[148][10][149][33]آپ کی وفات کی خبر اچانک ہی تماممدینہ منورہمیں پھیل گئی اور انصارِمدینہ منورہاپنے گھروں سے نکل آئے۔ جنازہ میں ہجوم اِتنا تھا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اِتنا مجمع کبھی نہیں دیکھا گیا، بعض عورتوں کا اژدھام دیکھ کر روزِ عید کے ہجوم کا گماں گزرتا تھا۔ آپ کی مدتِ حیات شمسی سال کے اعتبار سے 64 سال اور قمری سال کے اعتبار سے 66 سال 11 ماہ تھی۔ نمازِ جنازہابوہریرہرضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ کی تجہیز و تکفین شب میں ہی عمل میں آئی۔ابوہریرہرضی اللہ عنہ اُن دِنوںمدینہ منورہکے قائم مقام امیر تھے کیونکہمروان بن حکممدینہ منورہمیں موجود نہ تھا، وہ عمرہ کے لیےمکہمکرمہ گیا ہوا تھا اورمدینہ منورہمیںابوہریرہرضی اللہ عنہ کو اپنا نائب اور قائم مقام امیر بنا کر گیا تھا۔[10]بوقت تدفین آپ کی قبر اطہر کے چاروں اطراف ایک کپڑے سے پردہ کر دیا گیا تھا تاکہ آپ کے احترام میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔[10]آپ کو قبر اطہر میں آپ کے بھانجوں، بھتیجوں یعنی جناب قاسم بن محمد بن ابی بکر، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر، عبد اللہ بن محمد بن عبد الرحمٰن بن ابی بکر اور عبد اللہ بن عبد الرحمٰن بن ابی بکر نے قبر اطہر میں اُتارا۔[10]شببدھمیں تہجد کے وقت تدفین عمل میں آئی۔عائشہ رضی اللہ عنہا کے کوئی اولاد نہیں ہوئی، ابن الاعرابی نے لکھا ہے کہ ایک ناتمام بچہ ساقط ہوا تھا، اس کا نام عبد اللہ تھا اور اسی کے نام پرانہوں نے کنیت رکھی تھی؛ لیکن یہ قطعاً غلط ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی کنیت ام عبد اللہ ان کے بھانجے عبد اللہ بن زبیر کے تعلق سے تھی، جن کوانہوں نے متبنیٰ بنایا تھا۔عائشہ رضی اللہ عنہا خوش رواور صاحب جمال تھیں، رنگ سرخ وسفید تھا۔عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت بعثت نبوی کے چوتھے سال ماہِ شوال مطابقجولائی614ءمیں ہوئی اور آپ کی وفات بروز منگل 17رمضان58ھمطابق13 جولائی678ءکو ہوئی۔ شمسی سال کے اعتبار سے مدت حیات مکمل 64 سال ہوتی ہے اور قمری سال کے اعتبار سے 66 سال 11 ماہ ہوتی ہے یعنی ماہِشوال4 نبوی سے ماہِرمضان58ھتک۔ اِس کو باآسانی یوں شمار کیا جا سکتا ہے کہ 4 نبوی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک 44 سال تھی یعنی 44 سال میلادی۔11ھمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائی تو وہ 64 سال میلادی تھا۔ ہجرت کا سال میلادی 53 تھا۔ اگر58ھمیں سال میلادی 53 جوڑ دیے جائیں تو 111 سال ہوتے ہیں۔ اِن 111 سالوں میں 44 سال نفی کر دیں (جو ولادت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سال ہے اور اُس میں سال میلادی 44 تھا) تو باقی رہے 67 سال۔ یعنی 4 نبوی سے58ھتک 67 سال قمری ہوتے ہیں جو قریب قریب آپ کی مدت حیات 66 سال 11 ماہ ��ے ہے۔== بیرونی روابط ==*[1]*[2]*[3][مردہ ربط]*[4]*[5]آرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ urduencyclopedia.org(Error: unknown archive URL)*[6]According to these sources, we can conclude that Aisha was much older than what she claimed and narrated in some hadith.۔۔ and she was 17 or 19 years old when she got engaged and she would be 20 or 22 when she had sex. (Original: از اين روايات می توان چنين نتيجہ گرفت کہ عايشہ بسيار بزرگتر از آن چيزی است کہ خودش ادعا می کند و در روايت ها نقل شدہ است؛۔۔۔و در هنگام ازدواج 17 يا 19 سالہ و در هنگام دخول 20 يا 22 سالہ خواهد بود)لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+88,عام الفیل,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%A7%D9%85_%D8%A7%D9%84%D9%81%DB%8C%D9%84,"عام الفیل(عربی:عام الفيل،انگریزی: The Year of the Elephant)، اسلامی تاریخ میں یہ سال بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ سال570ءکا ہے۔ اسی سالمکہ مکرمہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت ہوئی، ان کے والد محترم وفات پائے اورکعبہپر حملہ کا واقعہ پیش آیا۔عام الفیل کا مطلب ہے 'ہاتھی والا سال'۔ عام الفیل یا ہاتھی والے سال کا ذکر قرآن میں سورہ الفیل میں ہے۔ اس سالحبشہکے مقرر کردہ یمن کے گورنرابرہہنے مکہ پر حملہ کیا۔ اس نے اصل میں صنعاء (یمنکا شہر) میں ایک کلیسا (چرچ) الكليس تعمیر کیا تھا اور چونکہ وہ مسیحی تھا اس لیے وہ چاہتا تھا کہعربمکہجانے کی بجائے اس کلیسا کو مرکز بنائیں۔ جب یہ ممکن نہ ہوا تو اس نےکعبہکو تباہ کرنے کی ٹھانی۔ اس کے لشکر میں سینکڑوں ہاتھی شامل تھے۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ابرہہ نےکعبہکو ڈھانے کا ارادہ مذہبی جنون میں نہیں کیا تھا بلکہ اس کی پشت پر کھڑی اس وقت کیمسیحیدنیا کوبحيره احمركى بحرى گذر گاه پر مكمل تسلط دركار تھا كيونكه اس زمانے میں جس قوت کے ہاتھ ميں بحرى گذر گاہیں ہوا کرتى تھیں وهى عالمى اقتصاديت حكمرانى كرتى تھى۔ اسلام سے قبل کعبہ چونكه عربوں كا ثقافتى اور مذهبى مركز ہونے کے ساتھ ساتھ ان كا اقتصادى ""چيمبر آف كامرس"" بھی تھا۔ اس لیے منهدم كرنے کے لیے بڑے جواز کے طور پریمنميں قائم عيسائيت كا سب سے بڑا گرجا ""الكليس"" تباه كرا ديا گيا جس كا الزام عربوں پر لگا كر اس نے اسلام سے پہلے بيت الله كو مٹانے کا اراده كيا۔ اس وقت قریش کے سردار حضرتمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا حضرتعبدالمطلبنے قریش کو پہاڑوں پر پناہ لینے کو کہا اور خود اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ شہر میں رہے۔ابرہہنے پیغام بھیجا کہ وہ صرف کعبہ کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو حضرت عبد المطلب نے کہا کہ اس گھر کا مالک خود اس کا محافظ ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ اسے حملہ آوروں سے بچائے گا اور اس گھر کے خدام کو بے عزت نہیں کرے گا۔ ابرہہ نے جب حملہ کیا تو اللہ نے ابابیلوں کا جھرمٹ بھیجا جس نے ابرہہ کے تمام لشکر پر کنکریاں برسایا۔ ان کنکریوں نے ابرہہ کے لشکر کو تباہ کر دیا۔ابرہہزخمی حالت میں یمن کی طرف فرار ہوا مگر راستے میں مرگیا۔ یہ واقعہ 570ء میں پیش آیا اور اسی سال حضرتمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔عام الفیل کو عربوں نے مختلف واقعات کے لیے ایک حوالہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ اس سے ایک تقویم ( کیلینڈر) کا آغاز ہوا جوحضرت عمررَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دور تک جاری رہا یعنی ہجری کیلینڈر کے اجرا تک، جب مسلمانوں نے ہجرتِ مدینہ کو ایک حوالہ کے طور پر مانا اوراسلامی تقویمکا آغاز کیا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ حضرتمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سن ایک عام الفیل میں ہوئی۔"
+89,مکہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DA%A9%DB%81,"مکہیامکہ مکرمہ(عربی:مَكَّةُ الْمُكَرّمَةْ) تاریخی خطہحجازمیںسعودی عربکےصوبہ مکہکا دار الحکومت[5]اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ شہر کی آبادی 2004ء کے مطابق 12 لاکھ 94 ہزار 167 ہے۔ مکہجدہسے 73 کلومیٹر دوروادی فارانمیں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہبحیرہ احمرسے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔[6]یہ شہراسلامکا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقامبیت اللہیہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کاحجکرنا فرض ہے ۔.[7][8]انگریزیزبان میں Mecca کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں حکومتسعودی عربنے شہر کا انگریزی نام Mecca سے بدل کر Makkah کر دیا۔[9]معروف مؤرخابن خلدونکے مطابق مکہ پہلے بکہ کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم مؤرخین کے درمیان اس امر پر اختلاف ہے:ابراہیم النخعینے بکہ کو کعبہ اور مکہ کو شہر سے منسوب کیا جبکہامام ُزہریبھی اسی کے حامی ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بکہ میں استعمال ہونے والابدونوں آوازوں کے درمیان قربت کے باعث بعد ازاںممیں تبدیل ہو گیا۔ مکہ کو”ام القری“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔.[10]مسجد حرامکے اندر قائمخانۂ کعبہحضرت ابراہیماورحضرت اسماعیلعلیهم السلامنے تعمیر کیا۔ مؤرخین کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا مرکز تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ مکہ جنوبی عرب سے شمال میںرومیوبازنطینیسلطنتوں کے لیے زمینی راستے پر تھا اورہندوستانکے مصالحہ جاتبحیرہ عرباوربحر ہندکے راستے سے یہیں سے گزرتے تھے۔[11][12]کعبة اللهکی تعمیری تاریخ عہد ابراہیم اور اسماعیلعلیهم السلامسے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہر میں نبی آخر الزماںمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمپیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اور یہاں پ رہی مسجدحرامواقع ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :”اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے“ (آل عمران:96 )570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانرواابرہہساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے، اپنے سردارعبدالمطلبکی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ہزاروں پرندے جنہیں عام طور پر ابابیل کا نام دیا جاتا ہے چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے نمودار ہوئے اور انھوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکرمنیٰکے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالٰی کے حکم سے تباہ و برباد ہو گیا اللہ تعالٰی نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :""کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کی سازش و مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو انھیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے، پس انھیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا""(سورة الفیل)یہ وہی سال تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ آنحض��ر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا۔ آپ پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اورتبلیغاسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کر گئے۔بالآخر 10رمضانالمبارک8ھبمطابق 630ء میں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے۔ مدینہ ہجرت کر کے جانے کے بعد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کوفتح مکہکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام اہلیان شہر کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔خلافتاسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جوکعبة اللهسے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔مکہ کبھی ملت اسلامیہ کادارالخلافہنہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دار الخلافہمدینہتھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔خلافت راشدہکے زمانے میں بھی مدینہ ہی دار الخلافہ رہا اور پھر حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں پہلےکوفہاور اس کے خاتمے کے بعددمشقاور بعد ازاںبغدادمنتقل ہو گیا۔مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔ سنہ 1926ء میںسعودیوںنے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کوسعودی عربمیں شامل کر لیا۔[13][14]جنوری، 2022 ء سے مکہ شہر کے مئیر صالح الترکی ہیں۔[15]جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم عمارات ختم ہو چکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔[16]مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے۔ حالیہ سالوں میں ماہذوالحجہمیں 20 سے 30 لاکھ مسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمانعمرےکی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔شہر مکہ میں بنیادی حیثیتبیت اللہکو حاصل ہے جومسجد حراممیں واقع ہے۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گردطوافکرتے ہیں،حجر اسودکو بوسہ دیتے ہیں اورزمزمکے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیںصفااورمروہکی پہاڑیوں کے درمیانسعیاورمنیٰمیںشیطان کو کنکریاں مارنے کا عملبھی کیا جاتا ہے۔ حج کے دورانمیدان عرفاتمیں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکےنمازادا کرتے ہیں۔غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔سعودی عرب کے دوسرے شہروں کے برعکس مکہ کا موسم سردیوں میں بھی نسبتاً گرم رہتا ہے۔ سردیوں میں رات کا درجہ حرارت 17سینٹی گریڈاور دوپہر کے وقت 25 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور دوپہر کو درجہ حرارت عام طور پر 40سینٹی گریڈسے اوپر چلا جاتا ہے جبکہ رات کو بھی 30 درجے تک ر��تا ہے۔ نومبر سے جنوری کے درمیان عموماً ہلکی بارشیں ہوتی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+90,زمانہ جاہلیت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D9%88%D8%B1_%D8%AC%D8%A7%DB%81%D9%84%DB%8C%D8%AA,قبل از اسلام دورجب اہلعربشرکاوربت پرستی میںمبتلا تھے۔ اس وقت عرب میں کوئی مرکزی حکومت نہ تھی۔ مختلف قبائل کے اپنے اپنے سردار تھے جو اکثر کسی بادشاہ کے تابع ہوتے تھے۔ مگر وہ اپنی داخلی آزادی ہر حالت میں برقرار رکھتے تھے۔ قبیلے کا سردار وہی ہو سکتا تھا جس کے حامی افراد زیادہ ہوں اوراہل عرب کی قومی خصوصیات بہادری، مہمان نوازی اورفیاضی میں بھی ممتاز ہو۔اہل عرب بالعموم اورقریشبالخصوص تجارت پیشہ تھے۔ صنعت و حرفت میں پسماندہ تھے۔ صرفیمنمیں اون کاتنے اورچادراورکمبلبنانے کی صنعت موجود تھی یا بعض جگہوں پر جنگی ہتھیار بنانے کا رواج تھا۔ یہ لوگ اپنے قومی اخلاق، مہمان نوازی، ایفائے عہد، بہادری اور فیاضی کے ساتھ بعض برائیوں میں بھی مبتلا تھے۔ مثلاً شراب خوری، قمار بازی، دختر کشی اور معمولی جھگڑے پر مسلسل لڑائی جیسی عادات موجود تھیں۔خانہ کعبہعرب کا دینی مرکز تھا مگر اہل عرب میں بت پرستی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ کعبے میں بھی بت رکھے ہوئے تھے چاند، سورج اور ستاروں کی پرستش ہوتی تھی۔نصرانیت،یہودیتاور مجوسیت کے پیرو بھی تھے مگر ان مذاہب کی صورت بدل چکی تھی۔ ایرانییزداںاوراہرمندو قسم کے خداؤں کے قائل تھے۔ہندوستانمیں بت پرستی کا دور دورہ تھا۔ گویا اس زمانے میں صرف عرب ہی نہیں ساری دنیا جہالت اور گمراہی میں غرق تھی۔8ھمیںفتح مکہکے بعد اس دور کا خاتمہ ہوا۔
+91,قریش,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%B4,"قریشعرب کا ایک مشہور اور ذی عزت قبیلہ نیز اس کا کوئی فرد یا افراد۔
+بنو قریش یا قریش مکہ کا ایک اہم ترین قبیلہ تھا۔ خاتم الانبیا حضرتمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکا تعلق اسی قبیلے کی ایک شاخ بنو ھاشم سے تھا۔قریش قبیلے کا نام قریش ہونے کے حوالے سے کئی روایات بیان کی جاتی ہیں جو درج ذیل ہیں۔حضرتمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی پیدائش سے قبل بھیعربکے تمام قبیلوں میں خاندانِ قریش کو خاص امتیاز حاصل تھا۔خانہ کعبہجو تمام عرب کا دینی مرکز تھا اس کے متولی یہی قریش تھے اورمکہ مکرمہکی ریاست بھی انہی سے متعلق تھی۔ قبیلہ قریش کی بڑی بڑی شاخیں مندرجہ ذیل تھیں:ان کے علاوہ دیگر شاخیں بھی ہیں۔مکہ معظمہکی تمام ذمہ داری کے عہدے انہی شاخوں میں بٹے ہوئے تھے ان عہدوں اور ان کے متعلقین کی تفصیل درج ذیل ہے:1۔ سداتہ، یعنی کعبہ کی حفاظت اور اس کی خدمت، محافظ کعبہ ہی کے پاس کعبہ کی کنجی رہتی تھی اور وہی لوگوں کو اس کی زیارت کراتا تھا۔ یہ عہدہ بنی ہاشم کے خاندان میں تھا اور نبی عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کے زمانہ میں آپ کے دادا عبد المطلب اس عہدے پر مقرر تھے ۔2۔ سقایہ، یعنی پانی کا انتظام، مکہ معظمہ میں پانی کی قلت تھی اور موسمحجمیں ہزا رہا زائرین کے جمع ہو جانے کی وجہ سے پانی کا خاص انتظام کیا جاتا تھا۔ اس کی صورت یہ تھی کہ چمڑے کے حوض بنوا کر انھیں صحنِ کعبہ میں رکھ دیا جاتا تھا اور اُس کے آس پاس کے پانی کے چشموں سے پانی منگوا کر انھیں بھر دیا جاتا تھا۔ جب تک چاہِ زمزم دوبارہ صاف نہ ہو گیا یہ دستور جاری رہا۔ سقایہ کی خدمت بنی ہاشم سے متعلق تھی۔3۔ رفادہ زائرین، کعبہ کی مہمانداری کے لیے قریش کے تمام خاندان ایک قسم کا چندہ ادا کرتے تھے اس چندہ سے غریب زائرین کے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا یہ خدمت پہلے بنی نوفل سے متعلق تھی پھر بنی ہاشم کے حصے میں آئی۔4۔ عُقاب، یہ قریش کے قومی جھنڈے کا نام تھا جب لڑائی کا زمانہ ہوتا تھا تو اسے نکالا جاتا تھا اگر اتفاق رائے سے کوئی معزز شخص جھنڈا اُٹھانے کے لیے تجویز ہو گیا تب تو اسے دے دیا جاتا تھا ورنہ جھنڈے کا محافظ جو بنو امیہ کے خاندان میں سے ہوتا تھا، یہ خدمت انجام دیتا تھا۔5۔ ندوہ، یہ مکہ کی قومی اسمبلی تھی۔ قریش مشورہ کرنے کے لیے یہیں جمع ہوتے تھے یہیں جنگ و صلح اور دوسرے بڑے بڑے معاملات کے فیصلے ہوتے تھے اور قریش کی شادیاں بھی یہیں ہوتی تھیں ( ندوہ ) کا انتظام بنی عبد الدار سے متعلق تھا۔6۔ قیادہ، یعنی قافلہ کی راہنمائی، جس شخص سے یہ منصب متعلق ہوتا تھا اسے خاص معاملات میں مشورہ لیا جاتا تھا۔ قریش کسی معاملہ کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے مشیر کی رائے ضرور حاصل کر لیتے تھے۔ یہ منصب بنی اسد سے متعلق تھا۔7۔ قبہ، جب مکہ والے لڑائی کے لیے نکلنے کا ارادہ کرتے تو ایک خیمہ نصب کیا جاتا اس خیمہ میں لڑائی کا سامان جمع کر دیا جاتا تھا۔ یہ ذمہ داری بھی قریش کے کسی خاندان سے متعلق ہوتی تھی۔8۔ حکومہ، یعنی آپس کے لڑائی جھگڑوں کا فیصلہ کرنا ،9۔ سفارہ، یعنی ایلچی گری، جب کسی دشمن قبیلہ سے صلح کی بات چیت ہوتی تو کسی سمجھ دار آدمی کو اس کام کے لیے مقرر کیا جاتا۔ ابتدا اسلام میں قریش کے آخری سفیر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ بن خطاب تھے۔اس تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ، قریش، عرب کا سب سے زیادہ معزز قبیلہ تھا۔
+پھر قریش میں بھی بنی ہاشم کا خاندان سب سے زیادہ ممتاز تھا کیونکہ اکثر بڑے بڑے عہد انہی سے متعلق تھے۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+93,یثرب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D8%AB%D8%B1%D8%A8,"یثربمدینہکا پرانا نام تھا۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےمکہسے یثرب کو ہجرت کی تو اس کا ناممدینۃ النبیپڑ گیا جو اب اختصاراًمدینہکہلاتا ہے۔مدینہ منورہ کے نام سو سے زیادہ نام ہیں ہجرت سے پہلے لوگ اسے یثرب کہتے تھے یا تو اس لیے کہ یہاں قومعمالقہکا جو پہلا آدمی آیا اس کا نام یثرب بن قانیہ تھاجوحضرت نوح علیہ السلام کی اولاد کی ساتویں پشت میں تھا(يثرب ابن قاينة بن مهلائيل بن إرم بن عبيل بن عوض بن إرم بن سام بن نوح.)[1]لہذا کافر کے نام پر اس پاکیزہ شہر کا نام رکھنا عزت و شرف کے منافی ہےیا یہ لفظ ثرب سے مشتق ہے بمعنی سرزنش،سزا مصیبت وبلا،یا تثریب کے جس کے معنی مواخذۃ اور عذاب کے ہیں رب تعالیٰ فرماتا ہے:""لَا تَثْرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الْیَوْمَ""اب اسے یثرب کہنا سخت منع ہے،قرآن کریم میں جو اسے یثرب کہا گیا ""یٰۤاَہۡلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ""وہ قول منافقین ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ جومدینہ منورہکو یثرب کہے وہ توبہ کرے،بخاری نے اپنی تاریخ میں فرمایا کہ جو ایک بار اسے یثرب کہے وہ بطور کفارہ دس بار اسے مدینہ کہے۔(عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ يَثْرِبُ مَرَّةً فَلْيَقُلِ الْمَدِينَةَ عَشْرًا.)[2]امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے کہ اگر کوئی شخص مدینہ کو یثرب کہے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں استغفار کریں اس کا نامطابہہے[3]مدینہ کے معنے ہیں اجتماع کی جگہ،مدن سے مشتق ہے بمعن�� اجتماع اسی سے ہے تمدن و مدنیت،شہر کو مدینہ اسی لیے کہتے ہیں کہ و ہاں ہر قسم کے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے،[4]ابوہریرہسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے ایسے شہر جانے کا حکم دیا گیا جو دوسرے شہروں کو کھاجائے، منافق لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں اس کا نام مدینہ ہے اور برے لوگوں کو اس طرح دور کر دے گا جس طرح بھٹی لوہے کا میل دور کرتی ہے۔[5]قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+94,غزوہ بدر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%BA%D8%B2%D9%88%DB%81_%D8%A8%D8%AF%D8%B1,"سرایاغزوہ بدر(عربی:غزوة بدر الكبرى وبدر القتال ويوم الفرقان)17 رمضان2 ہجریبمطابق13 مارچ624ءکومحمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی قیادت میںمسلمانوںاورابو جہلکی قیادت میںمکہکے قبیلہقریشاور دیگر عربوں کے درمیاں میںمدینہمیں جنوب مغرب میںبدرنامی مقام پر ہوا۔ اسےغزوہ بدر کبریبھی کہتے ہیں۔[1][2]قریشمکہ نے مدینہ کی اس اسلامی ریاست پر حملہ کرنے کا اس لیے بھی فیصلہ کیا کہ وہ شاہراہ جومکہسےشامکی طرف جاتی تھی مسلمانوں کی زد میں تھی۔ اس شاہراہ کی تجارت سے اہل مکہ لاکھوں اشرفیاں سالانہ حاصل کرتے تھے۔ اس کا اندازہ ہمیں اس واقعہ سے ہوتا ہے کہبنو اوسکے مشہور سردارسعد بن معاذجب طواف کعبہ کے لیے گئے توابوجہلنےخانہ کعبہکے دروازے پر انھیں روکا اور کہا تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ہم تمھیں اطمینان کے ساتھ مکے میںطوافکرنے دیں؟ اگر تمامیہ بن خلفکے مہمان نہ ہوتے تو یہاں سے زندہ نہیں جا سکتے تھے۔ یہ سن کرسعد بن معاذرضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔’’خدا کی قسم اگر تم نے مجھے اس سے روکا تو میں تمھیں اس چیز سے روک دوں گا۔ جو تمھارے لیے اس سے اہم تر ہے یعنیمدینہکے پاس سے تمھارا راستہ۔‘‘حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلماور ان کے ساتھیوں کومدینہمیںتبلیغکرنے کی پوری آزادی تھی اور اسلام کے اثرات دور دراز علاقوں میں پہنچ رہے تھے۔ جنوب کے یمنی قبائل میں سے بھی بعض سلیم الفطرت لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے اور ان کی کوششوں سےبحرینکا ایک سردار عبدالقیسمدینہکی طرف آ رہا تھا کہقریشمکہنے راستے میں اسے روک دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جب تک خدا پرستی اور شرک میں ایک چیز ختم نہیں ہو جائے گی، کشمکش ختم نہیں ہو سکتی۔رجب2ھمیںحضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنےعبداللہ بن حجشکی قیادت میں بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس غرض سے بھیجا کہقریشکے تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے۔ اتفاق سے ایک قریشی قافلہ مل گیا اور دونوں گروہوں کے درمیان میں جھڑپ ہو گئی جس میںقریش مکہکا ایک شخص عمر بن الحضرمی مقتول ہوا اور دو گرفتار ہوئے۔ جب عبد اللہحضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے پاس پہنچے توآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس واقعہ پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔جنگی قیدیرہا کر دیے گئے اور مقتول کے لیےخون بہاادا کیا۔ اس واقعہ کی حیثیت سرحدی جھڑپ سے زیادہ نہ تھی چونکہ یہ جھڑپ ایک ایسے مہینے میں ہوئی جس میں جنگ و جدال حرام تھا۔ اس لیے قریش مکہ نے اس کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا اور قبائل عرب کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔ عمرو کے ورثا نے بھی مقتول کا انتقام لینے کے لیے اہلمکہکومدینہپر حملہ کرنے پر اکسایا۔مکہاورمدینہکے درمیان میں کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی اس سلسلے میں یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ ایک مکی سردارکرز بن جابر فہرینے مدینہ کے باہر مسلمانوں کی ایک چراگاہ پر حملہ کرکے رسول اللہ کے مویشی لوٹ لیے۔ یہ ڈاکہ مسلمانوں کے لیے کھلا چیلنج تھا۔ چند مسلمانوں نےکرزکا تعاقب کیا لیکن وہ بچ نکلا۔قریشمکہنے اسلامی ریاست کو ختم کرنے کا فیصلہ کرکے جنگ کی بھرپور تیاریاں شروع کر دیں۔افرادی قوتکو مضبوط بنانے کے لیے انھوں نےمکہ مکرمہکے گرد و نواح کے قبائل سے معاہدات کیے اور معاشی وسائل کو مضبوط تر کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مرتبہ جو تجارتی قافلہشامبھیجا جائے اس کا تمام منافع اسی غرض کے لیے وقف ہو۔ چنانچہابوسفیانکو اس قافلے کا قائد مقرر کیا گیا اورمکہ مکرمہکی عورتوں نے اپنے زیور تک کاروبار میں لگائے۔ اسلامی ریاست کے خاتمے کے اس منصوبے نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان میں کشیدگی میں بہت اضافہ کر دیا۔جبابوسفیانکا مذکورہ بالا قافلہ واپس آ رہا تھا۔ توابوسفیانکو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ قافلہ راستے ہی میں نہ لوٹ لیا جائے چنانچہ اس نے ایک ایلچی کو بھیج کرمکہسے امداد منگوائی۔ قاصد نے عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیر دی اور رنگ دار رومال ہلا کر واویلا کیا اور اعلان کیا کہابوسفیانکے قافلے پرحملہ کرنے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بڑھا چلا آ رہا ہے۔ اس لیے فوراً امداد کے لیے پہنچو۔ اہل مکہ سمجھے کہقریشکا قافلہ لوٹ لیا گیا ہے۔ سب لوگ انتقام کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں معلوم ہوا کہ یہ قافلہ صحیح سلامت واپس آ رہا ہے۔ لیکن قریش کے مکار سرداروں نے فیصلہ کیا کہ اب مسلمانوں کا ہمیشہ کے لیے کام ختم کرکے ہی واپس جائیں گے۔ نیز حضرمی کے ورثاء نے حضرمی کا انتقام لینے پر اصرار کیا۔ چنانچہ قریشی لشکرمدینہکی طرف بڑھتا چلا گیا اور بدر میں خیمہ زن ہو گیا۔مدینہمیں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ نے مجلس مشاورت بلوائی اور خطرے سے نپٹنے کے لیے تجاویز طلب فرمائیں۔مہاجریننے جانثاری کا یقین دلایا۔ آپ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا توانصارمیں سےسعد بن عبادہنے عرض کیا کہ غالباً آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ حضرتسعد بن عبادہنے عرض کیا کہ:حضرتمقدادنے عرض کیا:مشاورت کے بعد مجاہدین کو تیاری کا حکم ہوا۔ مسلمانوں کے ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نوعمر صحابی حضرتعمیر بن ابی وقاصاس خیال سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ بھیج دیے جائیں۔ اس کے باوجود مجاہدین کی کل تعداد 313 سے زیادہ نہ ہو سکی۔ یہ لشکر اس شان سے میدان کارزار کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کسی کے پاس لڑنے کے لیے پورے ہتھیار بھی نہ تھے۔ پورے لشکر کے پاس صرف 70 اونٹ اور 2 گھوڑے تھے جن پر باری باری سواری کرتے تھے۔ مقام بدر پر پہنچ کر ایک چشمہ کے قریب یہ مختصر سا لشکر خیمہ زن ہوا۔ مقابلے پر تین گنا سے زیادہ لشکر تھا۔ ایک ہزار قریشی جوان جن میں سے اکثر سر سے پاؤں تک آہنی لباس میں ملبوس تھے وہ اس خیال سے بدمست تھے کہ وہ صبح ہوتے ہی ان مٹھی بھر فاقہ کشوں کا خاتمہ کر دیں گے لیکن قدرت کاملہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔رات بھر قریشی لشکر عیاشی و بدمستی کا شکار رہا۔ خدا کے نبی نے خدا کے حضور آہ و زاری میں گزاری اور قادر مطلق نے فتح کی بشارت دے دی۔ جس طرف مسلمانوں کا پڑاؤ تھا وہاں پانی کی کمی تھی اور ریت مسلمانوں کے گھوڑوں کے لیے مضر ثابت ہو سکتی تھی۔ لیکن خداوند تعالٰی نے باران رحمت سے مسلمانوں کی یہ دونوں دقتیں دور کر دیں۔ ریت جم گئی اور قریشی لشکر کے پڑاؤ والی مقبوضہ چکنی مٹی کی زمین پر کیچڑ پیدا ہو گیا۔17رمضان المبارک2ھ(17 مارچ624ء) کو فجر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاد کی تلقین کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق انھوں نے صف بندی کی اور آہن پوش لشکر کو شکست دینے کا آہنی عزم لے کر میدان کی طرف چلے۔ قریشی لشکر تکبر و غرور میں بدمست نسلی تفاخر کے نعرے لگاتا ہوا سامنے موجود تھا۔ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی بھائی بند سامنے کھڑے تھے۔ابوبکراپنے بیٹےعبد الرحمنسے اورابو حذیفہکو اپنے باتعتبہسے مقابلہ کرنا تھا۔ عرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے۔ سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر میدان میں نکلا اور مد مقابل طلب کیا۔ مقابلے پر حضرت عمر کا ایک غلام نکلا اور اس نے چشم زدن میں اس مغرور کا خاتمہ کر دیا۔ جو اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعدعتبہ بن ربیعہاس کا بھائیشیبہاور اس کا بیٹاولید بن عتبہمیدان میں نکلے اور مبارز طلب کیے۔ تین انصاری صحابہ میدان میں نکلے لیکن ان تینوں نے یہ کہہ کر ان سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں اور پکار کر کہا اے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے مقابلے پر قریشی بھیجو۔ ہم عرب کے چرواہوں سے مقابلے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ کے ارشار پرحضرت حمزہ،حضرت علیاورحضرت عبیدہمقابلے کے لیے نکلے۔ مغرور قریشی سرداروں نے ان کے نام پوچھے اور کہا۔ ’’ہاں تم ہمارے ہم پلہ ہو‘‘مقابلہ شروع ہوا۔ چند لمحوں میں حضرتحمزہنے شیبہ کو جہنم رسید کر دیا اور حضرتعلینے ولید کو قتل کر ڈالا اور لشکر اسلام سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ اس دوران میں عتبہ اور حضر�� عبیدہ نے ایک دوسرے پر بھرپور وار کیا اور دونوں زخمی ہو کر گر پڑے۔حضرت علیاپنے مد مقابل سے فارغ ہو کر عتبہ کی طرف لپکے اور ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کرکے حضرت عبیدہ کو لشکر میں اٹھا لائے۔ قریش نے اپنے نامور سرداروں کو یوں کٹتے دیکھا تو یکبارگی حملہ کر دیا تاکہ اکثریت کے بل بوتے پر لشکر اسلام کو شکست دیں۔اس غزوہ میں مومنین کے جوشجہادکا یہ حال تھا کہ ایک صحابی عمر بن جام کھجوریں کھا رہے تھے۔ انھوں نے حضور اکرم کا اعلان ’’آج کے دن جو شخص صبر و استقامت سے لڑے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا وہ یقینا جنت میں جائے گا‘‘۔ سنا تو کھجوریں پھینک دیں اور فرمایا ’’واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان میں بس اتنا وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں۔‘‘ یہ کہہ کر اتنی بہادری سے لڑے کہ شہید ہوئے اور چند لمحوں میں جنت کا فاصلہ طے کر لیا۔ میدان کارزار خوب گرم تھا قریش کے مغرور آہن پوش لوہے کے لباس سمیت کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔ مسلمان بھی خود داد شجاعت دے رہے تھے۔ اس ہنگامے میںانصارکے دو کم عمر بچےمعاذ بن عمر بن جموعاورمعاذ بن عفر، حضرتعبدالرحمن بن عوفکے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا۔’’چچا! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں وہ کہاں ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ وہ مر نہ جائے یا میں شہید نہ ہو جاؤں‘‘ اتفاق سے ابوجہل کا گذر سامنے سے ہوا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ یہ اشارہ پاتے ہی یہ دونوں ننھے مجاہد اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بھاگے۔ وہ گھوڑے پرسوار تھا اور یہ دونوں پیدل۔ جاتے ہی ان میں سے ایک ابوجہل کے گھوڑے پر اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اور ابوجہل دونوں گر پڑے۔ عکرمہ بن ابوجہل نے معاذ بن عمر کے کندھے پر وار کیا اور ان کا باز لٹک گیا۔ باہمت نوجوان نے بازو کو راستے میں حائل ہوتے دیکھا تو پاؤں کے نیچے لے کر اسے الگ کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے اپنے شکار پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں معاذ بن عفرا کے بھائی معوذ وہاں پہنچے اور انھوں نے ابوجہل کو ٹھنڈا کر دیا اور عبد اللہ بن مسعود نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔اس میدان بدر میںابوجہلکے علاوہامیہ بن خلفجس نے حضرت بلال پر بے پناہ ظلم ڈھائے تھے اور ابوبختری جیسے اہم سرداران قریش بھی مارے گئے۔ اور یہ مغرور لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اللہ تعالٰی نے اسلام کو فتح دی تھی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ فتح و شکست میں مادی قوت سے زیادہ روحانی قوت کا دخل ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے کل 14 آدمی شہید ہوئے۔ اس کے مقابلے میں قریش کے 70 آدمی مارے گئے جن میں سے 36 حضرتعلیکرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ 70 سے زیادہ گرفتار ہوئے۔ قریشی مقتولین میں ان کے تقریباً تمام نامور سردار شامل تھے اور گرفتار ہونے والے بھی ان کے معززین میں سے تھے۔ مثلاً حضرت عباس بنعبد المطلب’’حضور کے چچا‘‘عقیل بن ابی طالب، اسود بن عامر،سہیل بن عمرواورعبد اللہ بن زمعہوغیرہ۔یہ وہ چودہ خوش نصیب صحابی ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور شہادت پائی۔ ان کے علاوہ اور بھی نام ذکر کیے جاتے ہیں جو مختلف فیہ ہیں۔شہداء بدر میں سے تیرہ حضرات تو میدان بدر ہی میں مدفون ہوئے مگر حضرت عبید ہ بن حارث نے چونکہ بدر سے واپسی پر منزل ”صفراء” میں وفات پائی اس لیے ان کی قبر شریف منزل ”صفراء” میں ہے۔١۔ مہجع بن صالح رضی اللہ تعالی عنہ٢۔ عبید ہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ٣۔ عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ4۔ عاقل بن بکیر رضی اللہ تعالی عنہ5۔ عمیر بن عبد عمرو رضی اللہ تعالی عنہ٦۔ عوف بن عفرا رضی اللہ تعالی عنہ٧۔ معوذ بن عفرا رضی اللہ تعالی عنہ٨۔ حارث بن سراقہ رضی اللہ تعالی عنہ٩۔ یزید بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ١٠۔ عمیر بن حمام رضی اللہ تعالی عنہ١١۔ رافع بن معلی رضی اللہ تعالی عنہ١٢۔ عمار بن زیادہ رضی اللہ تعالی عنہ١٣۔ سعد بن خیثمہ رضی اللہ تعالی عنہ١4۔ مبشر بن عبد منذر رضی اللہ تعالی عنہآنحضرت نے اسیران جنگ کا صحابہ میں تقسیم کرکے انھیں آرام سے رکھنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام نے اپنے قائد کے فرمان پر اس حد تک عمل کیا کہ خود کھجوریں کھا کر قیدیوں کو کھانا کھلایا۔ صحابہ کرام سے ان کے بارے میں مشورہ طلب کیا گیا توحضرت عمر فاروقنے انھیں قتل کر کے دشمن کی قوت توڑنے کی تجویز پیش کیحضرت ابوبکرنے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔ آنحضرت نے حضرتابوبکرسے اتفاق کرتے ہوئے اسیران جنگ کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جو قیدی غربت کی وجہ سے فدیہ ادا نہیں کر سکتے تھے اور پڑھے لکھے تھے انھیں دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کے عوض رہا کر دیا گیا۔ یہ قیدی حسن سلوک سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ ان میں سے بہت سے مشرف بہ اسلام ہوئے جن میںعباس بن عبد المطلباورعقیل بن ابوطالبشامل تھے۔غزوہ بدرمیں مسلمان قریش کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم تھے۔ قریش کے پاس اسلحہ بھی مسلمانوں سے زیادہ تھا۔ اس کے باوجود کامیابی نے مسلمانوں کے قدم چومے۔ اس کے چند اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔غزوہ بدرمیں مسلمانوں کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرت الہی تھا۔ اللہ تبارک و تعالٰی سے حضور نبی اکرم نے دعا فرمائی تھی:اس کے جواب میں اللہ تعالٰیٰ نے فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائیسورہ الانفالمیں غزوہ بدر کی تفصیل موجود ہے۔اسلامنے مسلمانوں کے جو عقائد مقرر تھے۔ ان میں عقیدہ آخرت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مسلمان موت کے بعد آنے والی ابدی زندگی کے لیے اس زندگی کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ شہادت کی موت اس کے نزدیک موت نہیں ابدی زندگی ہے۔ اس عقیدہ نے مسلمانوں کو بے جگری سے لڑنے پر آمادہ کیا اور موت جس سے ہر انسان خائف ہوتا ہے۔ مسلمانوں اسے خوشی سے قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔اسلامی لشکر اپنے سالار اعظممحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمپر جان چھڑکنے کو تیار تھا۔ ہر شخص اپنے قائد کے ہر حکم کو بلا چوں چراں مانتا تھا۔ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ادنٰی سے اشارے پر حرکت میں آجاتے تھے۔ لہذا ان کا تنظیمی ڈھانچہ اپنے حریفوں سے بہتر تھا۔ اس کے برعکس لشکر کفار کئی ایک سرداروں کی کمان میں تھا اور ان سرداروں میں اتحاد عمل پیدا ہونا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ جبقریشنے مل کر حملہ کیا تو اسے مسلمانوں نے روک لیا لیکن مسلمانوں کے منظم حملے کو قریش نہ روک سکے۔عام لڑائی کے آغازسے پہلے تین نامور قریشی سردار میدان میں آئے اور انھوں نے نہایت متکبرانہ انداز میں مد مقابل طلب کیے لیکن وہ تینوں مقتول ہوئے۔ عتبہ، ولید اور شیبہ قریش کے بہت ہی بہادر سردار سمجھے جاتے تھے۔ ان کے قتل سے قریش کے حوصلے پست ہو گئے۔ بعد میںابوجہلکی ہلاکت نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔قبائلی نظام جہاں بھی ہوگا اتحاد کامل پیدا ہونا ناممکن ہے۔ قبائلی کبر و غرور تنظیم کا دشمن ہوتا ہے۔ قریشی لشکر بھی اس اصول سے مسثنیٰ نہ تھا۔ اس وجہ سے مکہ سے آنے والے لشکر میں اتحاد کا فقدان تھا۔اگرچہ لشکر قریشی خاندانی شرافت کو برقرار رکھنے کے لیے میدان جنگ میں آ گیا لیکن اس مسئلہ پر ان کے درمیان میں اختلاف رائے اور بددلی پائی جاتی تھی۔ ابوسفیان جب اپنے قافلے کو بچا کر نکل گیا تو اس نے پیغام بھیجا کہ جنگ کیے بغیر واپس لوٹ آؤ لیکن ابوجہل نہ مانا۔ اس پر بنی زہرہ اور بنی عدی واپس لوٹ گئے۔ بنو ہاشم سے مغرور قریشی سرداروں نے کہا۔ ’’اے بنو ہاشم ! اگرچہ تم ہمارے ساتھ چلے آئے لیکن تمھارا دل تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہے۔‘‘ اس پر بنی ہاشم میں ایک گروہطالب بن ابی طالبکی سرکردگی میں واپس لوٹ گیا۔حکیم بن حزاماور عتبہ نے بھی جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکنابوجہلاور حضرمی کے خاندان کے اصرار پر معرکہ کارزار گرم ہو کر رہا اور سرداروں نے بادل ناخواستہ اس جنگ میں شرکت کی۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض قریشی پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان سے ہم پر بلائیں نازل ہو رہی ہیں۔ ان کے بعض افراد نے ایسے خواب دیکھے تھے جن میں ان کی تباہی کی خبر دی گئی تھی۔ ان تمام چیزوں کی حقیقت یہ تھی کہ جو لوگ اسلام کی حقانیت کو سمجھتے تھے اور انھیں معلوم تھا کہ ہم ’’خدا کا مقابلہ‘‘ کرنے جا رہے ہیں۔ اس لیے وہ خواب دیکھتے تھے کہ ان خوابوں کے عام چرچوں سے لشکر قریش میں اندر ہی اندر بددلی پھیلی ہوئی تھی۔مسلمانوں کی کامیابی کی بعض دیگر وجوہات بھی تھیں۔ مثلاً نیز قریش کو لڑائی کے وقت سورج سامنے پڑتا تھا اور اس سے ان کی آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ جنگ سے چند گھنٹے پہلے بارش ہوئی جس نےقریشکے پڑاؤ کے قریب کیچڑ پیدا کر دیا۔ جب کہ مسلمانوں کا پڑاؤ ریتلی زمین پر تھا اور انھیں اس سے فائدہ پہنچا کہ ریت جم گئی ایسی تمام چیزوں کو مسلمانوں نے اپنے لیے غیبی امداد سمجھا اور قریش مکہ نے اسے برے شگون لیے اور ان کے حوصلے پست ہوتے چلے گئے۔جنگ بدر حق و باطل کے درمیان میں فیصلہ کن معرکہ تھا اس کی اہمیت و اثرات کا اندازہ مندرجہ ذیل امور سے ہو سکتا ہے۔اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے ساتھ وعدہ فرمایا تھا کہ تجارتی قافلہ اور قریشی لشکر میں ایک ضرور مفتوح ہو گیا۔ابوجہلاور دیگر قریشی سرداروں نےمکہسے روانہ ہونے سے پہلے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر دعا کی تھی کہ ’’خدایا دونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطا کراور جو برسر ظلم ہو اسے تباہ کر‘‘ چنانچہ غزوہ بدر میں اللہ تعالٰی نے فیصلہ فرما دیا کہ کون حق ہے اور باطل پر کون ہے۔میدان بدر میں آنے والے قریشی لشکر کی حالت یہ تھی کہ وہ اکڑتا ہوا اور لوگوں کو نمائش کرتا ہوا بڑھ رہا تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ بدر میں لگنے والے میلے میں لوگ ہماری قوت دیکھیں گے تو پورے عرب پر ہمارا رعب طاری ہو جائے گا۔ لیکن جنگ نے غرور کا سر نیچا کر دیا۔غزوہ بدر میں اسلام کی فتح نے اسلامی حکومت کو عرب کی ایک عظیم قوت بنا دیا۔ ایک مغربی مورخ کے الفاظ ہیں:’’بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب۔۔۔۔ تھا مگر بدر کے بعد ہو مذہب ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا۔‘‘مدینہمیںبنو اوساوربنو خزرجقبائل کے بہت سے لوگوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا اور وہ ہوا کا رخ دیکھ رہے تھے۔ 313 کے ہاتھوں ایک ہزار قریشی سرداروں کی شکست نے ان پرلاتومناتوعزیاورہبلکی قوت کا کھوکھلا پن واضح کر دیا۔غزوہ بدرکے نتیجہ کے طور پر بہت سے ایسے لوگوں نے بھی اسلام قبول کر لیا جو فی الحقیقت اسلام کے قائل نہ ہوئے تھے۔ بلکہ دل سے اس کے دشمن تھے۔ اس کے نتیجہ کے طور پر منافقین کا گروہ پیدا ہو گیا تھا۔ جو بعد میں مسلمانوں کے اندر گھس کر خلاف اسلام سرگرمیوں میں مصروف رہا۔ عبد اللہ بن ابی ’’رئیس المنافقین‘‘ نے بھی جنگ بدر کے بعد مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔یہودیاب تک یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ مسلمانقریشمکہکے ہاتھوں ختم ہو جائیں گے اورمدینہپر ان کی سیادت حسب سابق قائم ہو جائے گی لیکن اس جنگ کے نتیجہ نے انھیں سیخ پا کر دیا چنانچہیہودیسردارمکہگئے اور ""اشراف عرب"" کے مرنے پر روئے۔ ماتم کیا اورقریشکو ازسر نومدینہپر حملہ کرنے کی ترغیب دلائی اور امداد کا وعدہ کیا۔ اس طرح یہودیوں کے ساتھ بھی مسلمانوں کے تصادم کا آغاز ہو گیا۔قریشمکہکے بڑے بڑے سردار اس جنگ میں مارے گئے۔ صرفابوسفیانبچا تھا جو اس جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا اس لیے قریش کی قیادتابو سفیانکے ہاتھوں میں آگئی۔بنو امیہکے اقتدار کی جدوجہد کے پس منظر میں ابوسفیان کو بڑا دخل حاصل تھا۔ مکہ پہنچ کرابوسفیاناور اس کی بیوی ھندہ نے انتقامی جذبات کو بھڑکایا اورمدینہپر ازسرنو دوسرے حملے کے منصوبے بنانے شروع کر دیے۔ اور اس کے بعد اسلام کے خلاف تمام جنگوں میں کفار مکہ کی قیادت اس نے کی۔غزوہ بدر کے بعدسویقواحدکے غزوات اسی غزوہ کا نتیجہ ہے۔ اس میںقریشنے اپنے مقتولین کا بدلہ لینے کے لیے مدینہ پر حملے کیے۔غزوہ بدر اسلام اور کفر کا پہلا اور اہم ترین تصادم ہے اس سے دنیا پر واضح ہو گیا کہ نصرت الہی کی بدولت مومنین اپنے سے کئی گناہ فوج کو شکست دے سکتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نےقرآن پاکمیں سو مومنوں کو ہزار کافروں پر فتح کی بشارت دی۔ غزوہ بدر میں شامل مسلمانوں نے جس قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ باپ بیٹے کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف۔ بھانجا ماموں کے خلاف اور چچا بھتیجے کے خلاف میدان میں آیا۔حضرت عمرنے اپنے ماموں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔حضرت ابوبکرکے بیٹےعبد الرحمننے جوقریشکی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ایک دفعہ حضرتابوبکرکو بتایا کہ جنگ میں ایک مرتبہ آپ میری زد میں آ گئے تھے لیکن میں نے آپ پر وار کرنا پسند نہ کیا۔حضرت ابوبکرنے فرمایا خدا کی قسم اگر تم میری زد میں آجاتے تو کبھی لحاظ نہ کرتا۔ حضرت حذیفہ کا باب عتبہ بن ربیعہ لشکر قریش کا سپہ سالار تھا اور سب سے پہلے قتل ہونے والوں میں شامل تھا۔ اس جنگ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے بہت نظم و ضبط سے دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنی صفیں نہیں ٹوٹنے دیں۔ جنگ کے خاتمے پر خدا اور رسول کے حکم کے تحتمال غنیمتکی تقسیم ہوئی۔ مال غنیمت کی اتنی پر امن اور دیانت دارانہ تقسیم کی مثال کم ہی ملتی تھی۔ القصہ مسلمانوں کے تقوی اور اطاعت رسول کی وجہ سے ان کی برتری روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی اور کفار کے حوصلے پست ہوئے۔ جب کی مسلمانوں کا اللہ پر توکل بہت بڑھ گیا۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااح��داور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•م��ینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدارلوا خطا ماڈیول:Authority_control میں 306 سطر پر: attempt to call field '_showMessage' (a nil value)۔"
+96,فتنۂ ارتداد کی جنگیں,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D8%AA%D9%86%DB%82_%D8%A7%D8%B1%D8%AA%D8%AF%D8%A7%D8%AF_%DA%A9%DB%8C_%D8%AC%D9%86%DA%AF%DB%8C%DA%BA,محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے آخری ایام میںنجدمیںمسیلمہ کذاباوریمنمیںاسود عنسینے نبوت کا دعوی کر دیا تھا۔ اس کے بعد اور کئی لوگوں نے نبوت کا دعوی کیا اور ان کے بہت سے پیروکار بھی اکٹھے ہو گئے۔ بعض لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا۔ابوبکر صدیقکی زیر قیادت مسلمانوں نے ان تمام مرتدین سے جنگ کی اور ایک سال کی جنگ کے بعد ان سب پر قابو پایا۔ ان جنگوں کو فتنۂ ارتداد کی جنگیں کہا جاتا ہے۔
+97,جزیرہ نما عرب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D8%B2%DB%8C%D8%B1%DB%81_%D8%B9%D8%B1%D8%A8,جزیرہ نمائے عربیاعربستان(عربی:شبه الجزيرة العربية،انگریزی: Arabian Peninsula) جس کے تین طرف سمندر اور ایک طرف خشکی ہو وہ جزیرہ نما کہلاتی ہے۔جنوب مغربی ایشیا میںافریقااورایشیاکے سنگم پر واقع ایکجزیرہ نماہے جس کا بیشتر حصہ صحرائی ہے۔ جزیرہ نما عربمشرق وسطیکا اہم ترین حصہ ہے اور تیل اور گیس کے وسیع تر ذخائر کے باعث خطے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔جزیرہ نما عرب کا ساحل مغرب میںبحیرہ احمراورخلیج عقبہ، جنوب مشرق میںبحیرہ عرباور شمال مشرق میںخلیج اومان،آبنائے ہرمزاورخلیج فارسسے ملتا ہے۔شمال میں جزیرہ نما عرب کی حدودکوہ زاگرس(عربی:زاغروس) تک جاکر ختم ہوجاتی ہیں۔ جغرافیائی طور پر یہ بغیر کسی واضح علامتصحرائے شامسے مل جاتا ہے۔سیاسی طور پر جزیرہ نما عربسعودی عرباورکویتکی شمالی سرحدوں کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے۔درج ذیل ممالک جزیرہ نما کا حصہ سمجھے جاتے ہیں:جزیرہ نما کا بیشتر حصہسعودی عربمیں شامل ہے اور آبادی کی اکثریت بھی سعودی عرب اور یمن میں رہائش پزیر ہے۔ جزیرہ نما عرب میں دنیا کے سب سے زیادہ تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے مقدس ترین مقاماتمکہ مکرمہاورمدینہ منورہبھی یہیں ہیں۔ معاشی طور پرمتحدہ عرب اماراتاورسعودی عربخطے کی امیر ترین اقوام ہیں۔ عربی دنیا کا معروف ٹیلی وژن چینلالجزیرہبھی اسی جزیرہ نما کے ایک ملکقطرس�� چلایا جاتا ہے۔
+99,سرزمین شام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B1%D8%B2%D9%85%DB%8C%D9%86_%D8%B4%D8%A7%D9%85,"شامیالیونت(انگریزی: The Levant)مشرق وسطٰیکے ایک بڑے علاقے کے لیے استعمال ہونے والی ایک غیر واضح تاریخی اصطلاح ہے۔ یہ علاقہ مغرب میںبحیرہ روم، مشرق میںصحرائے عربکے شمالی حصوں اور بالائیبین النہریناور شمال میںکوہ ثورکے درمیان واقع ہے۔ لیونت میںکوہ قفقاز،جزیرہ نما عربیااناطولیہکا کوئی حصہ شامل نہیں سمجھا جاتا۔یہ اصطلاحانگریزیمیں پہلی بار1497ءمیں استعمال ہوئی جس کا مطلب ""وینیٹیاکے مشرق میں بحیرہ روم کی سرزمین"" کو واضح کرنا تھا۔لیونتقرون وسطٰیکیفرانسیسی زبانکے لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب ""ابھرنا"" ہے اور اس ضمن میں اس خطے کو ابھرتے سورج کا علاقہ سمجھا جا سکتا ہے اور اسےعربیکے لفظ مشرق کا متبادل سمجھا جا سکتا ہے یعنی وہ علاقہ جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے۔19 ویں صدی کے سفرناموں میں یہ اصطلاحسلطنت عثمانیہکے زیر نگیں مشرقی علاقوں کے لیے استعمال ہونے لگی۔لیونتیائی باشندوں کی اصطلاح خاص طور پراطالویوںکے لیے استعمال ہوتی ہے خصوصاًوینساورجینووا،فرانسیسیاور دیگر جنوبی یورپی نسل کے باشندوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جوصلیبی جنگوں،بازنطینی سلطنتاورعثمانی سلطنتکے ادوار میںترکییابحیرہ رومکے مشرقی ساحلوں پر رہتے تھے۔ ان افراد کے آبا و اجداد دراصل بحیرہ روم کی بحری مملکتوں کے رہنے والے تاجر تھے۔1920ءسے1946ءتک فرانس کے زیر قبضہسوریہاورلبنانلیونت ریاستیں(بلاد شام) کہلاتے تھے۔آج کل لیونت کی اصطلاح ماہرینآثار قدیمہاورتاریخدان خطے کیقبل از تاریخ،قدیماورقرون وسطٰیکی تاریخ کے حوالے سے استعمال میں رہتی ہے خصوصاً جب وہ صلیبی جنگوں کا ذکر کرتے ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحز��ب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+102,برٹش میوزیم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%B1%D9%B9%D8%B4_%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%B2%DB%8C%D9%85,"برٹش میوزیمیابرطانوی عجائب گھرلندنکا شماردنیاکے چند اہم ترین عجائب گھروں میں ہوتا ہے۔ یہ انسانی ثقافت اور تاریخ پر ہے۔ اس عجائب گھر کی ابتدا 1753ء میں ہوئی۔
+اس میں دیکھنے کے لیے 1 کروڑ 30 لاکھ اشیا ہیں جو تمام براعظموں سے چوری کرکے یہاں لائي گئی ہیں۔
+1846 میں اس میوزیم میں کتابوں کی طباعت سے متعلق عہدے پر مشہور برطانوی شاعرکووینٹرے پیٹ مورنے 19 سال کی عمر میں ملازمت حاصل کی۔[3]"
+105,ارکان اسلام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D9%86_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85,بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاماسلام کے ارکانانھیں ارکان الدین بھی کہا جاتا ہے۔ دین اسلام میں یہ ارکان بنیادی اصول ہیں۔ انھیں فرائض بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ذکر حدیث جبریل میں واضح طور پر کیا گیا ہے۔[1][2][3][4]شہادہ، یعنی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں۔[5]اس بات کی گواہی دینا اور زندگی میں اپنانا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے۔ یہ کلمہ یوں ہے لَا إِلٰهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله، کلمہ شہادہ یا کلمئہ توحید بھی کہتے ہیں۔ اگر کوئی اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اس کو بھی اس کلمئہ توحید کا اقرار کرنا پڑے گا۔[6]صلواۃ عربی اصطلاح ہے، نماز فارسی اور اردو صورت۔ دین اسلام میں نماز دوسرا رکن ہے۔ نماز عبادت کی صورت ہے۔ نماز روزانہ پانچ وقت کی فرض ہیںزکوٰۃ، اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ اس کا اہم اصول اللہ کی عطا کی نعمتوں کو خالص کرنا ہے۔ اس کی ادائگی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس کا اہم مقصد غیر مساوات کو ختم کرنا معاشی مساوات کو برقرار رکھنا۔[7][8]زکوٰۃ کے پانچ اصول مانے جاتے ہیں :صوم یا روزہ تیسرا رکن ہے۔ جس کی تاکید قرآن میں واضح طور پر ملتی ہے۔ روزے تین قسم کے ہیں۔ پہلا ماہ رمضان کے ۔[10]دوسری قسم کے معافی مانگنے کے۔ ان دونوں کا ذکر سورۃ البقریٰ میں ہے۔[11]تیسری قسم کا روزہ تقویٰ کا، جس کا ذکر الاہذب میں ہے۔[12][13]حج، پانچواں رکن ہے۔ ہر وہ مسلمان، جو قابل ہو اُس پر فرض کیا گیا رکن ہے۔اسلامی تقویمکے آخری مہیناذوالحجہمیں ادا کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس حج کی ادائگی کے لیے مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔[14]مسلکاہل تشیعارکان اسلام کو فروع دین کہتے ہیں یعنی فروع دین اسلام کے عملی احکام کو کہا جاتا ہے جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کا شرعی وظیفہ ہے۔ شیعہ نطقہ نگاہ سے فروع دین دس ہیں: نماز، روزہ، خمس، زکوۃ، حج، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تَوَلّی اورتبرا۔[15]
+106,ذوالحجہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B0%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AC%DB%81,اسلامی تقویم26 ذو الحجہاسلامی تقویمکا بارھواں اور آخری مہینہ ہے۔56ھ–24 ذوالحجہمیلاد مسعود سیدہ معصومہ حضرتسکینہعلیہ السلامباغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا چالیس یا انچاس دن تک محاصرہ کر کے 12 ذوالحج 35 ہجری بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ آپ نے 82 سال کی عمر پائی۔حضرت عبد اللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی:اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔آپ انتہائی سخی ہونے کی وجہ سے غنی کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ کو یہ عظیم اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو بیٹیوں کے شوہر تھے۔ آپ اپنی صفت حیا کے حوالے سے فرشتوں میں بھی مشہور تھے۔ حضرت عثمان غنی ان دس صحابہ کی جماعت کا بھی حصہ ہیں جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری سنا دی تھی
+107,مکہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DA%A9%DB%81,"مکہیامکہ مکرمہ(عربی:مَكَّةُ الْمُكَرّمَةْ) تاریخی خطہحجازمیںسعودی عربکےصوبہ مکہکا دار الحکومت[5]اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ شہر کی آبادی 2004ء کے مطابق 12 لاکھ 94 ہزار 167 ہے۔ مکہجدہسے 73 کلومیٹر دوروادی فارانمیں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہبحیرہ احمرسے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔[6]یہ شہراسلامکا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقامبیت اللہیہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کاحجکرنا فرض ہے ۔.[7][8]انگریزیزبان میں Mecca کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں حکومتسعودی عربنے شہر کا انگریزی نام Mecca سے بدل کر Makkah کر دیا۔[9]معروف مؤرخابن خلدونکے مطابق مکہ پہلے بکہ کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم مؤرخین کے درمیان اس امر پر اختلاف ہے:ابراہیم النخعینے بکہ کو کعبہ اور مکہ کو شہر سے منسوب کیا جبکہامام ُزہریبھی اسی کے حامی ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بکہ میں استعمال ہونے والابدونوں آوازوں کے درمیان قربت کے باعث بعد ازاںممیں تبدیل ہو گیا۔ مکہ کو”ام القری“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔.[10]مسجد حرامکے اندر قائمخانۂ کعبہحضرت ابراہیماورحضرت اسماعیلعلیهم السلامنے تعمیر کیا۔ مؤرخین کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا مرکز تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ مکہ جنوبی عرب سے شمال میںرومیوبازنطینیسلطنتوں کے لیے زمینی راستے پر تھا اورہندوستانکے مصالحہ جاتبحیرہ عرباوربحر ہندکے راستے سے یہیں سے گزرتے تھے۔[11][12]کعبة اللهکی تعمیری تاریخ عہد ابراہیم اور اسماعیلعلیهم السلامسے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہر میں نبی آخر الزماںمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمپیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی و�� شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اور یہاں پ رہی مسجدحرامواقع ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :”اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے“ (آل عمران:96 )570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانرواابرہہساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے، اپنے سردارعبدالمطلبکی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ہزاروں پرندے جنہیں عام طور پر ابابیل کا نام دیا جاتا ہے چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے نمودار ہوئے اور انھوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکرمنیٰکے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالٰی کے حکم سے تباہ و برباد ہو گیا اللہ تعالٰی نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :""کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کی سازش و مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو انھیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے، پس انھیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا""(سورة الفیل)یہ وہی سال تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا۔ آپ پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اورتبلیغاسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کر گئے۔بالآخر 10رمضانالمبارک8ھبمطابق 630ء میں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے۔ مدینہ ہجرت کر کے جانے کے بعد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کوفتح مکہکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام اہلیان شہر کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔خلافتاسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جوکعبة اللهسے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔مکہ کبھی ملت اسلامیہ کادارالخلافہنہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دار الخلافہمدینہتھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔خلافت راشدہکے زمانے میں بھی مدینہ ہی دار الخلافہ رہا اور پھر حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں پہلےکوفہاور اس کے خاتمے کے بعددمشقاور بعد ازاںبغدادمنتقل ہو گیا۔مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔ سنہ 1926ء میںسعودیوںنے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کوسعودی عربمیں شامل کر لیا۔[13][14]جنوری، 2022 ء سے مکہ شہر کے مئیر صالح الترکی ہیں۔[15]جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم ع��ارات ختم ہو چکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔[16]مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے۔ حالیہ سالوں میں ماہذوالحجہمیں 20 سے 30 لاکھ مسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمانعمرےکی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔شہر مکہ میں بنیادی حیثیتبیت اللہکو حاصل ہے جومسجد حراممیں واقع ہے۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گردطوافکرتے ہیں،حجر اسودکو بوسہ دیتے ہیں اورزمزمکے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیںصفااورمروہکی پہاڑیوں کے درمیانسعیاورمنیٰمیںشیطان کو کنکریاں مارنے کا عملبھی کیا جاتا ہے۔ حج کے دورانمیدان عرفاتمیں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکےنمازادا کرتے ہیں۔غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔سعودی عرب کے دوسرے شہروں کے برعکس مکہ کا موسم سردیوں میں بھی نسبتاً گرم رہتا ہے۔ سردیوں میں رات کا درجہ حرارت 17سینٹی گریڈاور دوپہر کے وقت 25 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور دوپہر کو درجہ حرارت عام طور پر 40سینٹی گریڈسے اوپر چلا جاتا ہے جبکہ رات کو بھی 30 درجے تک رہتا ہے۔ نومبر سے جنوری کے درمیان عموماً ہلکی بارشیں ہوتی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت���واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+108,خانہ کعبہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%A7%D9%86%DB%81_%DA%A9%D8%B9%D8%A8%DB%81,"خانہ کعبہ، کعبہ یا بیت اللہ (عربی:الكعبة المشرًفة، البيت العتيق یا البيت الحرام)مسجد حرامکے وسط میں واقع ایک عمارت ہے، جومسلمانوںکاقبلہہے، جس کی طرف رخ کرکے وہ عبادت کیا کرتے ہیں۔ یہ دیناسلامکا مقدس ترین مقام ہے۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کاحجکرنا فرض ہے۔ابراہیمکاقائم کردہ بیت اللہ بغیر چھت کے ایک مستطیل نما عمارت تھی جس کے دونوں طرف دروازے کھلے تھے جو سطح زمین کے برابر تھے جن سے ہر خاص و عام کو گذرنے کی اجازت تھی۔ اس کی تعمیر میں 5 پہاڑوں کے پتھر استعمال ہوئے تھے جبکہ اس کی بنیادوں میں آج بھی وہی پتھر ہیں جوابراہیمنے رکھے تھے۔ خانہ خدا کا یہ انداز صدیوں تک رہا تاوقتیکہ قریش نے 604ء میں اپنے مالی مفادات کے تحفظ کے لیے اس میں تبدیلی کردی کیونکہ زائرین جو نذر و نیاز اندر رکھتے تھے وہ چوری ہوجاتی تھیں۔امام مسلم رحمہ اللہ تعالٰی نے عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے حدیث بیان فرمائی ہے کہ :""عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ بیت اللہ کا ہی حصہ ہے؟تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں!، عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا کہ اسے پھر بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کيا گيا؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا کہ تیری قوم کے پاس خرچہ کے لیے رقم کم پڑ گئی تھی ۔میں نے کہا کہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری قوم نے اسے اونچا اس لیے کیا تا کہ وہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل کریں اورجسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں ۔اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تو میں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا""۔قریشنے بیت اللہ کے شمال کی طرف تین ہاتھ جگہ چھوڑ کر عمارت کومکعب نما(یعنی کعبہ) بنادیا تھا۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ روپے پیسے کی کمی تھی کیونکہ حق و حلال کی کمائی سے بیت اللہ کی تعمیر کرنی تھی اور یہ کمائی غالباً ہر دور میں کم رہی ہے لیکن انھوں سے اس پر چھت بھی ڈال دی تاکہ اوپر سے بھی محفوظ رہی، مغربی دروازہ بند کر دیا گیا جبکہ مشرقی دروازے کو زمین سے اتنا اونچا کر دیا گہ کہ صرف خواص ہی قریش کی اجازت سے اندر جاسکیں۔ اللہ کے گھر کو بڑا سا دروازہ اور تالا بھی لگادیا گیا جو مقتدر حلقوں کے مزاج اور سوچ کے عین مطابق تھا۔ حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم (جو اس تعمیر میں شامل تھے اور حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنے کا مشہور زمانہ واقعہ بھی رونما ہوا تھا) کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کو ابراہیمی تعمیر کے مطابق ہی بنایا جائے۔عبد اللہ بن زبیر(جو عائشہ ا کے بھانجے تھے اور امام حسین کی شہادت کے بطور احتجاجیزید بن معاویہسے بغاوت کرتے ہوئے مکہ میں اپنیخود مختاریکا اعلان کیا تھا) نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے685ءمیں بیت اللہ کو دوبارہ ابراہیمی طرز پر تعمیر کروایا تھا مگرحجاج بن یوسفنے693ءمیں انھیں شکست دی تو دوبارہ قریشی طرز پر تعمیر کرادیا جسے بعد ازاں تمام مسلمان حکمرانوں نے برقرار رکھا۔خانہ کعبہ کے اندر تین ستون اور دو چھتیں ہیں۔ باب کعبہ کے متوازی ایک اور دروازہ تھا دیوار میں نشان نظر آتا ہے یہاں نبی پاک صلی اللہ وسلم نماز ادا کیا کرتے تھے۔ کعبہ کے اندر رکن عراقی کے پاس باب توبہ ہے جو المونیم کی 50 سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ چھت پر سوا میٹر کا شیشے کا ایک حصہ ہے جو قدرتی روشنی اندر پہنچاتا ہے۔ کعبہ کے اندرسنگ مرمرکے پتھروں سے تعمیر ہوئی ہے اور قیمتی پردے لٹکے ہوئے ہیں جبکہ قدیم ہدایات پر مبنی ایک صندوق بھی اندر رکھا ہوا ہے۔کعبہ کی موجودہ عمارت کی آخری بار 1996ءمیں تعمیر کی گئی تھی اور اس کی بنیادوں کو نئے سرے سے بھرا گیا تھا۔ کعبہ کی سطح مطاف سے تقریباً دو میٹر بلند ہے جبکہ یہ عمارت 14 میٹر اونچی ہے۔ کعبہ کی دیواریں ایک میٹر سے زیادہ چوڑی ہیں جبکہ اس کی شمال کی طرف نصف دائرے میں جوجگہ ہے اسے حطیم کہتے ہیں اس میں تعمیری ابراہیمی کی تین میٹر جگہ کے علاوہ وہ مقام بھی شامل ہے جو ابراہیم نے ہاجرہ اوراسماعیلکے رہنے کے لیے بنایا تھا جسے باب اسماعیل کہا جاتا ہے۔حطیمجسےحجر اسماعیلبھی کہا جاتا ہے، خانہ کعبہ کے شمال کی سمت ایک دیوار ہے جس کے باہر سےطوافکیا جاتا ہے۔ اس دیوار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خانہ کعبہ میں شامل تھی۔ حطیم کی چوڑائی 30 اِنچ (90 سینٹی میٹر) ہے اور اونچائی1.5 میٹر (4.9 فُٹ) ہے۔خانہ کعبہ سے تقریباً سوا 13 میٹر مشرق کی جانبمقام ابراہیمقائم ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت ابراہیمنے اپنے قد سے اونچی دیوار قائم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا تاکہ وہ اس پر اونچے ہوکر دیوار تعمیر کریں۔1967ءسے پہلے اس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب سونے کی ایک جالی میں بند ہے۔ اس مقام کو مصلے کا درجہ حاصل ہے اور امام کعبہ اسی کی طرف سے کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاتے ہیں۔ طواف کے بعد یہاں دورکعتنفل پڑھنے کا حکم ہے۔کعبہ کے جنوب مشرقی رکن پر نصب تقریباً اڑھائی فٹقطرکے چاندی میں مڑھے ہوئے مختلف شکلوں کے 8 چھوٹے چھوٹے سیاہ پتھر ہیں جن کے بارے میں اسلامی عقیدہ ہے کہ تعمیری ابراہیمی کے وقت جنت سے جبریل لائے تھے اور بعد ازاں تعمیر قریش کے دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس جگہ نصب کیا تھا اور ایک بہت بڑے فساد سے قوم کو بچایا۔ جسے بعد میں چاندی میں مڑھ دیا گیا۔ کعبہ شریف کا طواف بھی حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اور ہر چکر پر اگر ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دینا چاہیے ورنہ دور سے ہی ہاتھ کے اشارے سے بوسہ دیا جا سکتا ہے۔ حج کے دنوں میں ہر کسی کو اس مقدس پتھر کو بوسہ دینا یا استلام کرنا ممکن ہوپاتا۔مسجد حرام میں کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کے فاصلے پر تہ خانے میں آب زمزم کا کنواں ہے جو ابراہیم اور ہاجرہ کے شیر خوار بیٹے اسماعیل کی پیاس بجھانے کے بہانے اللہ تعالٰیٰ نے تقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے بے آب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو وقت کے ساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے اشارہ خداوندی سے دوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ آب زمزم کا سب سے بڑا دہانہ حجر اسود کے پاس ہے جبکہ اذان کی جگہ کے علاوہ صفا و مروہ کے مختلف مقامات سے بھی نکلتا ہے۔ 1953ءتک تمام کنوئوں سے پانی ڈول کے ذریعے نکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زمزم کا پانیمسجد نبویمیں بھی عام ملتا ہے اور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔کعبہشریف میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک دروازہ ہے جسے باب کعبہ کہا جاتا ہے۔ باب کعبہ زمین یا حرم کے فرش سے 2.13 میٹر اوپر ہے۔ یہ دروازہ کعبہ شریف کے شمال-مشرقی دیوار پر موجود ہے اور اس کے قریب ترین دہانے پرحجر اسودنصب ہے جہاں سے طواف کی ابتدا کی جاتی ہے۔ 1942ء سے پہلے پہلے باب کعبہ کس نے تیار کیا اور کیسے تیار کیا اس کا تاریخ میں زیادہ تذکرہ نہیں ملتا۔ تاہم 1942ء میں ابراہیم بدر نے چاندی کا بنایا تھا،اس کے بعد 1979ء میں ابراہیم بدر کے بیٹےاحمد بن ابراہیم بدرنے خانہ کعبہ کا سنہرہ دروازہ بنایا۔ یہ سنہرہ دراوزہ تقریباََ 300 کلوگرام سونے سے تیار کیا گیا تھا۔رکن یمانیخانہ کعبہ کے جنوب مغربی کونے کو کہتے ہیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنےفرمایا:رکن یمانی اور حجر اسود دونوںجنتکے دروازے ہیں۔[1]ترجمہ:عبد اللہ بن عمرفرماتے ہیں کہ رکن یمانی پر دوفرشتےہیں جو وہاں سے گزرنے والے کی دعا پر آمین کہتے ہیں اورحجر اسودپر تو بے شمار فرشتے ہوتے ہیں“۔[2]اثنا عشری دو گروہوں میں منقسم ہیں:اورحجر اسودکو اس لیےبوسہدیا جاتا اورمسکیا جاتا ہے تا کہ اسعہدکو جومیثاقمیں ان لوگوں سے لیا گیا تھااللہکی بارگاہ میں ادا کر دیا جائے۔اور حجر اسود کو اس کےرکنمیں رکھا گیا جہاں وہ اس وقت ہے کسی دوسرے رکن میں اس لیے نہیں رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت میثاق کیا تھا اس کو اسی جگہ رکھا تھا۔اورکوہ صفاسے اس رکن کا استقبال جس میں حجر اسود ہےتکبیرکے ساتھ کرنے کیسنتاس لیے جاری ہو گئی کہ جبآدمنے کوہ صفا سے دیکھا کہ حجر اسود اس رکن میں رکھا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تمجید کرنے لگے۔اور میثاق کو حجر اسود میں اس لیے رکھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اورمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کینبوتاورعلیکیوصایتکا میثاق کیا توملائکہکے جوڑ جوڑ کانپنے لگے۔ اور سب سے پہلے اقرار میں جس نے جلدی کی یہی حجر اسود تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو منتخب کیا اور وہ میثاق اس کےمنہمیں ڈال دیا۔ اب وہقیامتکے دن آئے گا تو اس کی بولتی ہوئیزباناور دیکھنے والیآنکھہو گی اور وہ ہر اس شخص کی گواہی دے گا جس نے یہاں آ کر اس میثاق کو ادا کیا۔اور حجر اسود کوجنتسے اس لیے نکال کر بھیجا گیا تا کہ آدم جو عہد و میثاق میں سے بھول گئے ہوں انھیں یاد دلا دے۔ اورحرمکے حدود جو تھے وہ وہی ہیں ان میں نہ کچھ کم ہوئے نہ زیادہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے پاس ایکسرخ یاقوتنازل فرمایا تھا اس کو انھوں نے بیت اللہ کی جگہ رکھا تھا اور اس کاطوافکرتے تھے جس کی ضَوانِ نشانات تک پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اِن نشانات تک حرم قرار دے دیا۔اور حجر اسود کو مس اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس میں سارے خلائق کے عہد و میثاق ودیعتہیں اوردودھسے بھی زیادہسفیدتھا مگربنی آدمکے گناہوں نے اس کوسیاہبنا دیا اگر ایام جاہلیت کے گندے اورنجسلوگ اس کو مس نہ کرتے تو یہ ایسا ہوتا کہ جوبیماربھی اس کو مس کرتا وہ اچھا ہو جاتا۔[8]اوررکن شامیجاڑےگرمیمیں متحرک رہتا ہے اس لیے کہ اس کے نیچےہواقیدہے اور خانہ کعبہ اتنا بلند ہو گیا کہ اس پرسیڑھیلگا کر جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جبحجاجنے خانہ کعبہ کو منہدم کیا تو لوگ اس کیمٹیاٹھا اٹھا کر لے گئے اور پھر جب لوگوں نے اس کی دوبارہ تعمیر کا ارادہ کیا تو ایکسانپنمودار ہوا جس نے لوگوں کو تعمیر سے روک دیا جب حجاج آیا تو اسے لوگوں نے بتایا اس نےامام علی بن الحسینسے اس کے متعلق رجوع کیا تو آپ نے فرمایا تم لوگوں کو حکم دو کہ جو شخص یہاں سے جو کچھ لے گیا ہے وہ سب لا کر یہاں واپ�� ڈال جائے۔ چنانچہ جب اس کی دیواریں بلند ہو گئیں تو آپ نے حکم دیا کہ اس کی ساری مٹی اس میں ڈال دی جائے اس لیے خانہ کعبہ اتنا بلند ہو گیا کہ اس میں سیڑھی لگا کر جاتے ہیں۔ اور لوگ اس چہار دیواری سے باہر خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اس کے اندر سے نہیں کرتے اس لیے کہاسماعیلکی مادر گرامی چہار دیواری کے اندردفنہیں اور اس میں ان کیقبرہے اس لیے باہر سے طواف کرتے ہیں تا کہ ان کی قبر پاؤں تلے روندی نہ جائے۔[10]اور اس چہار دیواری میں خانہ کعبہ کا کوئی جزناخنکے ایک تراشے کے برابر بھی نہیں ہے۔[11]قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضی��•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدارسانچہ:شیعہ اسلام میں مقدس ترین مقامات"
+109,ناصر داوود خلیلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%B1_%D8%AF%D8%A7%D9%88%D9%88%D8%AF_%D8%AE%D9%84%DB%8C%D9%84%DB%8C,"سرناصر داوود خلیلی(انگریزی: Nasser Khalili) ( فارسی: ناصر داوود خلیلی، پیدائش 18 دسمبر 1945)لندنمیں مقیم ایک برطانوی-ایرانی اسکالر، کلکٹر اور مخیر ہیں۔ وہایرانمیں پیدا ہوئے اورکوئنز کالج، سٹی یونیورسٹی آف نیو یارکاوراسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندنمیں تعلیم حاصل کی، وہ ایک برطانوی شہری ہیں۔[6]ان کے نام آرٹ کے آٹھ مجموعے ہیں۔ — خلیلی مجموعے — ان میں سے ہر ایک کو اپنے شعبے میں سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ان مجموعوں میں کل 35,000 فن پارے ہیں اور اس میں اسلامی آرٹ کا سب سے بڑا نجی مجموعہ اور جاپانی شاہی خاندان کے مقابلے میں جاپانی آرٹ کا مجموعہ شامل ہے۔ انھوں نے مجموعوں کو محفوظ کرنے، تحقیق کرنے اور دستاویز کرنے پر لاکھوں پاؤنڈ خرچ کیے ہیں، انھوں نے اب تک کیٹلاگ اور تحقیق کی ست�� سے زیادہ جلدیں شائع کی ہیں۔ مجموعوں سے تیار کردہ نمائشیں دنیا بھر کے اداروں میں نمودار ہوئی ہیں۔خلیلی نے سب سے پہلے 1970 کی دہائی کے دوران میں نیویارک شہر میں آرٹ ورک جمع کرنا شروع کیا، بعد میں 1980 کی دہائی میں برطانیہ میں جائداد میں سرمایہ کاری کی۔ جس سے ان کی تجارت میں کافی ترقی ہوئی اور ان کی دولت بڑحتی گئی۔انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ""آرٹ، کموڈٹیز اور رئیل اسٹیٹ کا کاروبار""۔ خلیلی کو لندن میں متعدد بڑی جائیدادوں کی خریداری اور تزئین و آرائش کے لیے جانا جاتا ہے۔اپنی فلاحی تنظیم، خلیلی فاؤنڈیشن کے ذریعے، وہ ابراہیمی مذاہب کے درمیان میں باہمی افہام و تفہیم اور مکالمے کو فروغ دینے کے لیے مختلف سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے عطیات نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامی فن میں ایک تحقیقی مرکز کے ساتھ ساتھ اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں اس مضمون میں پہلی یونیورسٹی چیئر کے قیام کے لیے فنڈ فراہم کیا۔ وہ تعلیمی مواد کی تخلیق اور تقسیم کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ اور اس نے اسلامی فن اور فن تعمیر کی تاریخ لکھی اور تقسیم کی ہے۔[7]"
+110,ناصر داوود خلیلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%B1_%D8%AF%D8%A7%D9%88%D9%88%D8%AF_%D8%AE%D9%84%DB%8C%D9%84%DB%8C,"سرناصر داوود خلیلی(انگریزی: Nasser Khalili) ( فارسی: ناصر داوود خلیلی، پیدائش 18 دسمبر 1945)لندنمیں مقیم ایک برطانوی-ایرانی اسکالر، کلکٹر اور مخیر ہیں۔ وہایرانمیں پیدا ہوئے اورکوئنز کالج، سٹی یونیورسٹی آف نیو یارکاوراسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندنمیں تعلیم حاصل کی، وہ ایک برطانوی شہری ہیں۔[6]ان کے نام آرٹ کے آٹھ مجموعے ہیں۔ — خلیلی مجموعے — ان میں سے ہر ایک کو اپنے شعبے میں سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ان مجموعوں میں کل 35,000 فن پارے ہیں اور اس میں اسلامی آرٹ کا سب سے بڑا نجی مجموعہ اور جاپانی شاہی خاندان کے مقابلے میں جاپانی آرٹ کا مجموعہ شامل ہے۔ انھوں نے مجموعوں کو محفوظ کرنے، تحقیق کرنے اور دستاویز کرنے پر لاکھوں پاؤنڈ خرچ کیے ہیں، انھوں نے اب تک کیٹلاگ اور تحقیق کی ستر سے زیادہ جلدیں شائع کی ہیں۔ مجموعوں سے تیار کردہ نمائشیں دنیا بھر کے اداروں میں نمودار ہوئی ہیں۔خلیلی نے سب سے پہلے 1970 کی دہائی کے دوران میں نیویارک شہر میں آرٹ ورک جمع کرنا شروع کیا، بعد میں 1980 کی دہائی میں برطانیہ میں جائداد میں سرمایہ کاری کی۔ جس سے ان کی تجارت میں کافی ترقی ہوئی اور ان کی دولت بڑحتی گئی۔انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ""آرٹ، کموڈٹیز اور رئیل اسٹیٹ کا کاروبار""۔ خلیلی کو لندن میں متعدد بڑی جائیدادوں کی خریداری اور تزئین و آرائش کے لیے جانا جاتا ہے۔اپنی فلاحی تنظیم، خلیلی فاؤنڈیشن کے ذریعے، وہ ابراہیمی مذاہب کے درمیان میں باہمی افہام و تفہیم اور مکالمے کو فروغ دینے کے لیے مختلف سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے عطیات نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامی فن میں ایک تحقیقی مرکز کے ساتھ ساتھ اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں اس مضمون میں پہلی یونیورسٹی چیئر کے قیام کے لیے فنڈ فراہم کیا۔ وہ تعلیمی مواد کی تخلیق اور تقسیم کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ اور اس نے اسلامی فن اور فن تعمیر کی تاریخ لکھی اور تقسیم کی ہے۔[7]"
+112,ایران,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86,"اسلامی جمہوریۂ ایران(عرف عام: ایران، سابق نام: فارس، موجودہ فارسی نام: جمهوری اسلامی ایران)مغربی ایشیاکا ایک ملک ہے، جومشرق وسطیمیں واقع ہے۔ ایر��ن کی سرحدیں شمال میںآرمینیا،آذربائیجاناورترکمانستان، مشرق میںپاکستاناورافغانستاناور مغرب میںترکیاورعراق(کردستان علاقہ) سے ملتی ہیں۔ مزید برآںخلیج فارساورخلیج عمانواقع ہیں۔اسلامملک کا سرکاری مذہب اورفارسیملک کی قومی اور بین النسلی زبان ہے اور اس کے سکے کوریالکہتے ہیں۔ فارسوں، آذربائیجانی ترک، کردوں (کردستانی)، لروں (لرستانی)، بلوچی، گیلک & مازندرانی، خوزستانی عرب اور ترکمان ملک میں سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں۔ایران جغرافیائی اعتبار سے بہت اہم ہے قدرتی گیس، تیل اور قیمتی معدنیات اس کے دامن میں پوشیدہ ہیں۔
+رقبہ کے اعتبار سے دنیا میں 17ویں نمر پر شمار کیا جاتا ہے
+ایران دنیاکی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ملک کی تاریخ ہزاروںسالوںپر محیط ہے جو مدائن سلطنت 678 ق۔م سے لے کرصفوی اور پہلوی سلطنت تک پھیلی ہوئی ہے۔یہ ملک اپنےتہذیبتمدن کے اعتبار سے ایشیا میں تیسرے اور دنیا میں گیارہویں درجے پر قابض ہے۔یورپاورایشیاکے وسط میں ہونے کے باعث اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ ایراناقوام متحدہ، غیر وابستہ ممالک کی تحریک (نام)،اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کا بانی رکن ہے۔ تیل کے عظیم ذخائر کی بدولت بین الاقوامی سیاست میں ملک اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ لفظ ایران کا مطلبآریاؤںکی سرزمین ہے۔ریاست ایران 1648195 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ ایران کی کل آبادی 85 ملین ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ایران دنیا میں ستارہویں نمبر پر ہے۔ایرانمشرق وسطیمیں واقع ہے۔ اس کے شمال میںآرمینیا،آذربائیجان،ترکمانستاناوربحیرہ قزوین، مشرق میںافغانستاناورپاکستان، جنوب میںخلیج فارساورخلیج اومانجبکہ مغرب میںعراقاورترکیواقع ہیں۔ ملک کا وسطی و مشرقی علاقہ وسیع بے آب و گیاہ صحراؤں پر مشتمل ہے جن میں کہیں کہیں نخلستان ہیں۔ مغرب میں ترکی اور عراق کے ساتھ سرحدوں پر پہاڑی سلسلے ہیں۔ شمال میں بھیبحیرہ قزوینکے ارد گرد زرخیز پٹی کے ساتھ ساتھکوہ البرسواقع ہیں۔8 اپریلکی تاریخ ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے مناسبت رکھتی ہے۔ آج کا دن مقامی ٹیکنا لوجی کی بنیاد پر یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیاں شروع کیے جانے سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس بڑی سائنسیکامیابیکے اعلان کے بعد ایران کے ثقافتی انقلاب کی اعلیٰ کونسل کی منظوری اور ایران کے جوان دانشوروں کی قابل افتخار کوششوں کی قدردانی کے مقصد سے8 اپریلکی تاریخ کو ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے موسوم کیا گیا۔ جوہری ٹیکنالوجی کا اطلاق، ایٹم کے شگاف اور انھیں جوڑنے کی توانائی کے ذریعے قدرتی یورینیم کو افزودہ یورینیم میں تبدیل کرنے کی توانائی پر ہوتا ہے۔پرامن استعمال کے لیے مقامی جوہری ٹیکنالوجی، سائنسی اور صنعتی اعتبار سے قابل ذکر اہمیت کی حامل ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال صرف توانائی کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے ایرانی ماہرین کی جانب سے طبی اور تحقیقاتی امور میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ایران سنہ1958ءمیں آئی اے ای اے کا رکن بنا اور سنہ1968ءمیں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے۔
+حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیش رفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کے لی�� 90 سے 95 فی صد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کے لیےیورینیمکو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔تہران کا یہ ایٹمی ری ایکٹر کینسر کی بیماری میں مبتلا بیماروں کے لیے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہیورینییمکے ایندھن کی ضرورت ہے جو دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے 20 فیصد افزودہیورینییمکا ایندھن دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جس کی ساری سرگرمیاں اٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں،یورینیمکی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی، فیوز یعنی پگھلانے والی مشین تیار کرنا ہے اور اس وقت ایران اس حوالے سے ٹیکنالوجی رکھنے والے دنیا کے پانچ ملکوں میں شامل ہے اور ایران مشرق وسطی کا واحد ملک ہے کہ اس سلسلے میں جس کی سرگرمیاں آئی اے ای اے کی نگرانی میں جاری ہیں۔توقع کی جاتی ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں جوہری دنیا، توانائی کی پیداوار میں جوہری شگاف سے اسے پگھلانے کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایران اس وقت اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھہ مشترکہ جوہری منصوبوں منجملہ یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی فیوز کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی توانائی رکھتا ہے اور اس نے یہ ٹیکنالوجی آئی اے ای اے کی زیر نگرانی ہی حاصل کی ہے مگر پھر بھی امریکا اور گنتی کے چند دیگر ممالک کہ جن سے ایران کی ترقی و پیشرفت برداشت نہیں ہوپا رہی ہے۔تہران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں۔ ایران کا بائیکاٹ۔ نفسیاتی جنگ۔ سیاسی دباؤ۔ فوجی حملے کی دھمکی۔ یہانتکہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہو چکی ہے۔پیرانشہرشہر 8000 سال کی تاریخ کے ساتھ ایران کا سب سے قدیم تہذیب ہے۔[5][6][7][8]تفصیلی مضمون کے لیے دیکھیں۔ایران کی صوبائی تقسیمایران کو انتظامی طور پر اکتیس صوبوں یااستانمیں تقسیم کیا گیا ہے۔موجودہ آئین1979ءکےانقلابکے بعد منظور کیا گیا جس کے مطابق ایران کو ایک اسلامی جمہوریہ اور اسلامی تعلیمات کو تمام سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا۔ مجموعی اختیارات رہبر معظم (سپریم لیڈر) کے پاس ہوتے ہیں۔ آج کلآیت اللہ علی خامنہ ایرہبر معظم ہیں۔ رہبر معظم کا انتخاب ماہرین کی ایک مجلس (مجلس خبرگان رہبری) کرتی ہے جس میں پورے ایران سے 86 علما منتخب کیے جاتے ہیں۔ رہبر معظم مسلح افواج کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے۔حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے جسے پورے ملک سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔ آئین کے تحت کوئی فرد دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ قانون سازی کے اختیارات مجلس کے پاس ہیں جو 290 منتخب اراکین پر مشتمل اور 4 سال کے لیے علاقوں اور مذہبی برادریوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مسیحیوں، زرتشتوں اور یہودیوں کے اپنے نمائندے مجلس میں شامل ہیں۔ مجلس کے منظور شدہ قوانین منظوری کے لیےشوریٰ نگہبانکے پاس بھیجے جاتے ہیں۔شوری نگہبان اس لحاظ سے مجلس کے منظور کردہ قوانین کا جائزہ لیتی ہے کہ وہ آئین اور اسلامی قوانین کے مطابق ہیں۔ اس میں رہبر معظم کی جانب سے نامزد کردہ 6 مذہبی رہنما اور عدلیہ کے نامزد کردہ 6 قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں جن کی منظوری مجلس دیتی ہے۔ شوری نگہبان کو مجلس، مقامی کونسلوں، صدارت اور مجلس خبرگان کے امیدواروں کو ویٹو کردینے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔قانون سازی کے حوالے سے مجلس اور شوری نگہبان کے درمیان میں پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لیے1988ءمیں ""مجمع تشخیص مصلحت نظام"" (ایکسپیڈیئنسی کونسل) قائم کی گئی۔اگست1989ءسے یہ قومی پالیسی اور آئینی امور پر رہبر معظم کا مشیر ادارہ بن گئی۔ اس کے سربراہ سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ہیں اور اس میں حکومت کے تینوں شعبوں کے سربراہ اور شوری نگہبان کے مذہبی ارکان شامل ہیں۔ رہبر معظم تین سال کے لیے ارکان نامزد کرتا ہے۔مجلس کے بڑے گروہوں کو عموما ""اصلاح پسند"" اور ""قدامت پرست"" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس وقت مجلس میں ""آبادگاران"" کا اتحاد غالب ہے۔ یہ قدامت پرست ہیں۔1997ءمیں صدر خاتمی کے منتخب ہونے کے بعد ایران کے زیادہ تر ممالک سے تعلقات بہتر ہوئے۔1998ءمیںبرطانیہاور ایران کے تعلقات اس یقین دہانی پر بحال ہوئے کہ ایرانی حکومت کاسلمان رشدیکی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔1999ءمیںبرطانیہاور ایران نے سفارتکاروں کا تبادلہ کیا۔ایران اورامریکاکے تعلقات1980ءمیں ٹوٹے اور آج تک بحال نہیں ہوئے۔ جولائی2001ءمیںامریکانے ایران اورلیبیاپر پابندیوں کے قانون میں مزید 5 سال کے لیے توسیع کردی۔ جنوری 2002ء میں صدر بش نے ایران کو ""بدی کے محور"" (Axis of Evil) کا حصہ قرار دیا۔ اس وقت ایران مغربی طاقتوں کی جانب سے جوہری پروگرام، مبینہ دہشت گردی،مشرق وسطیکے امن کو خراب کرنے کے خواہش مند گروہوں کی مبینہ سرپرستی اور دیگر الزامات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے مغرب کی ریشہ دوانیوں امریکی سازشوں اور عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے ملت ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں کے بعد ہر سطح پر خود کفیل ہونے کا فیصلہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی، نانو ٹیکنا لوجی، کلوننگ اور میڈیکل کے ساتھ ساتھ ائرو اسپیس نیز دفاعی شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے جس کے بارے میں اختصار کے ساتھ کچھ مطالب قارئین کی معلومات افزائی کے لیے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔ائرواسپیسایٹمی ٹیکنالوجینانو ٹیکنا لوجیکلوننگمیڈیکلدفاعی1980ءکی دہائی میںایران عراق جنگکے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے تاہم عراق کے تنازعے پر ایران نے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کر دیا اگرچہ اس نے فوجی کارروائی پر تنقید کی لیکن اس نے اعلان کیا کہ وہ تنازعے سے باہر رہے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک مستحکم اور متحد عراق کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ ایران کاعراقکی عبوری حکومت کے ساتھ براہ راست دو طرف معاہدہ ہے۔ ایران بجلی کی فراہمی کے سلسلے میںعراقکی مدد کر رہا ہے۔30 نومبر2004ءکوعراقمیں سلامتی، عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور بیرونی عناصر کی مداخلت روکنے پر غور کے لیے ایران میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کی میزبانی ایرانی وزارت داخلہ نے کی۔ اس کانفرنس میںعراق،سعودی عرب،کویت،ترکی،اردناورمصرکے وزرائے داخلہ اور سیکورٹی حکام نے شرکت کی۔ایران افغان خانہ جنگی سے بھی متاثر ہو رہا ہے اور وہاں استحکام کے فروغ کا خواہاں نظر آ رہا ہے۔ ایران نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 5 سالوں میں 560 ملین ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے منشیات کے خلاف ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین رہائش پزیر ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔1979ءمیں انقلابِ اسلامی کے بعد سے ایران کا موقف یہ رہا ہے کہاسرائیلکا وجود غیر قانونی ہے۔ ایران اب بھی اسرائیل کی پرجوش مخالفت پر قائم ہے۔ وہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے اقدامات پر بھی اعتراضات کرتا رہتا ہے اور مبینہ طور پرفلسطیناورلبنانکے ان اسرائیل مخالف گروہوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ 2002ء میں ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اور فلسطین کو کوئی معاہدہ قابل قبول ہو تو ایران ایسے دو طرفہ معاہدے کو رد نہیں کرے گا۔ایران ایک متنوع ملک ہے جہاں بہت سےنسلی گروہپائے جاتے ہیں، ان میںفارسیبولنے والے سب سے زیادہ ہیں۔بیسویں صدیکے اواخر میں ایران کی آبادی تیزی سے بڑھی، 1956ء میں ایران کی آبادی صرف 19 ملین تھی جو 2009ء تک 79 ملین تک جاپہنچی۔ تاہم حالیہ چند سالوں میں ایران کی شرح پیدائش میں نمایا کمی آئی ہے 2012ء میں لیے گئے اندازے کے مطابق ایران کی شرح پیدائش 1.29 فیصد رہی۔ایران دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہیں جہاں پناہ گزینوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو زیادہ ترافغانستاناورعراقمیں جاری جنگوں کے باعث ایران آئے ہیں۔ ایرانی آئین کے مطابق حکومتِ وقت پر ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں جن میں جان و مال کا تحفظ، طبی سہولیات، معزور افراد کی دیگ بال، وغیرہ شامل ہیں اور ان چیزوں پر خرچہ بجٹ کے ذریعے حاصل کردہ ریونیو (سالانہ آمدنی) سے کیا جاتا ہے۔ملک کی اکثریت باشندےفارسی زبانبولتے ہیں جو اکثریتی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ایران کی سرکاری زبان بھی ہے۔ ایران میں بولے جانے والے زبانیں اکثرہند-ایرانی زبانیںہیں۔ اقلیتی زبانوں کی بات کی جائے تو ایران کے شمال مغرب میںآذربائجانی، شمال میں ترکمن اور مشرق میں پاکستانی سرحدوں کے قریب علاقے میںبلوچی زبانبولی جاتی ہے۔ایران میں 53 فیصد افراد کیفارسی، 16 فیصد کیآذربائجانی، 10 فیصد کیکردی، 7 کی فیصد گیلکی اور مزدارین، 7 فیصد کی لوری، 2 فیصد کی عربی اور 2 فیصد کیبلوچیمادری زبان ہے۔ تاہم ان تمام مادری زبانوں کا استعمال صرف بطور علاقائی زبان کیا جاتا ہے باقی ملک بحر میں فارسی ہی استعمال ہوتی ہے۔تاریخی طور پرزرتشتیتایران کا قدیم مذہب تھا خاص کرہخامنشی سلطنت،سلطنت اشکانیاناورساسانی سلطنتکے ادوار میں زرتشتیت ہی ایران کا سب سے بڑا مذہب تھا۔ 651ء کے لگ بگ مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا اور یہاں سے آتش پرستساسانی سلطنتکا سقوط ہو گیا، مسلم فتح کے بعد دھیرے دھیرے اسلام پھیلتا گیا۔ ایران میں لوگ 15ویں صدی تکسنیاسلام کے پیروکار تھے، تاہم 1501ء میںصفوی سلطنتقائم ہو گیا جس نے 16ویں صدی میں مقامی سنی مسلم آبادی کو دباؤ کے ذریعےاثنا عشریہ اہل تشیعمسلم میں تبدیل کیا۔[9]آجاثنا عشرہشیعہ اسلام ایران کا سرکاری مذہب ہے۔ ایران کی 90 فیصد آبادی شیعہ اسلام کے پیروکار ہے، 8 فیصد سنی اسلام اور باقی کے 2 فیصد غیر مسلم ہیں۔ایران انتہائی متحرک زلزلے کی پٹی پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں۔ 1991ء سے اب تک ملک میں ایک ہزار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے جاچکے ہیں جن سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 17 ہزار 600 جانیں ضائع ہوئیں۔ 2003ء میں جنوب مشرقی ایران میں شدید زلزلے نے تباہی مچادی۔ اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.3 تھی اور اس نے قدیم قصبہ بام کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔سانچہ:جنوبی ایشیا کے ممالک"
+113,کوئنز کالج، سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D9%88%D8%A6%D9%86%D8%B2_%DA%A9%D8%A7%D9%84%D8%AC%D8%8C_%D8%B3%D9%B9%DB%8C_%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%B3%D9%B9%DB%8C_%D8%A2%D9%81_%D9%86%DB%8C%D9%88_%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DA%A9,کوئنز کالج(لاطینی: Queens College)ریاست ہائے متحدہکا ایکجامعہوریاستہائے متحدہ کا عوامی تعلیمی ادارہجوکوئینزمیں واقع ہے۔[2]
+114,اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B3%DA%A9%D9%88%D9%84_%D8%A2%D9%81_%D8%A7%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%86%D9%B9%D9%84_%D8%A7%DB%8C%D9%86%DA%88_%D8%A7%D9%81%D8%B1%DB%8C%D9%82%D9%86_%D8%B3%D9%B9%DA%88%DB%8C%D8%B2%D8%8C_%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%B3%D9%B9%DB%8C_%D8%A2%D9%81_%D9%84%D9%86%D8%AF%D9%86,"اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن(انگریزی: SOAS, University of London)مملکت متحدہکا ایکجامعہجولندنمیں واقع ہے۔[1]"
+115,دہلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C_%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C_%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA%DB%8C_%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%DB%81,"دہلی(جسے مقامی سطح پردِلّیاور سرکاری سطح پردہلی قومی دار الحکومتی علاقہکہتے ہیں)بھارتکیدار الحکومتیعملداریہے۔[7]یہ تین اطراف سےہریانہسے گھرا ہوا ہے، جبکہ اس کےمشرقمیںاتر پردیشواقع ہے۔ یہ بھارت کا مہنگا ترین شہر ہے۔ اس کا رقبہ 1،484 مربع کلومیٹر (573 مربع میل) ہے۔
+2.5 کروڑ آبادی پر مشتمل یہ شہرممبئیکے بعدبھارتکادوسرا،اور دنیا کا تیسرا[8]سب سے بڑاشہری علاقہہے۔[9][10]دہلیممبئیکے بعد، بھارت میں دوسرا امیر ترین شہر ہے، جس کے کل املاک 450 بلینامریکی ڈالرہے اور یہ 18 ارب پتی اور 23000 کروڑ پتیوں کا مسکن بھی ہے۔[11]دریائے جمناکے کنارے یہ شہرچھٹی صدی قبل مسیحسے آباد ہے۔[12]تاریخ میں یہ کئی سلطنتوں اور مملکتوں کادار الحکومترہا ہے جو کئی مرتبہ فتح ہوا، تباہ کیا گیا اور پھر بسایا گیا۔سلطنت دہلیکے عروج کے ساتھ ہی یہ شہر ایکثقافتی، تمدنی و تجارتی مرکز کے طور پر ابھرا۔ شہر میں عہد قدیم اورقرون وسطیٰکی بے شمار یادگاریں اور آثار قدیمہ موجود ہیں۔سلطنت دہلیکے زمانے کاقطب میناراورمسجد قوت اسلامہندوستانمیں اسلامی طرز تعمیر کی شان و شوکت کے نمایاں مظاہر ہیں۔عہد مغلیہمیںجلال الدین اکبرنے دار الحکومتآگرہسے دہلی منتقل کیا، بعد ازاں1639ءمیںشاہجہاںنے دہلی میں ایک نیا شہر قائم کیا جو1649ءسے1857ءتکمغلیہ سلطنتکا دار الحکومت رہا۔ یہ شہرشاہجہاں آبادکہلاتا تھا جسے ابپرانی دلیکہا جاتا ہے۔غدر(جنگ آزادی 1857ء) سے قبلبرطانیہکیایسٹ انڈیا کمپنیہندوستانکے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر چکی تھی اوربرطانوی راجکے دوران میںکلکتہکو دار الحکومت کی حیثیت حاصل تھی۔ بالآخرجارج پنجمنے1911ءمیں دار الحکومت کی دہلی منتقلی کا اعلان کیا اور1920ءکی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر ""نئی دہلی"" بسایا گیا۔1947ءمیںآزادئ ہندکے بعد نئی دہلی کو بھارت کا دار الحکومت قرار دیا گیا۔ شہر میں بھارتی پارلیمان سمیت وفاقی حکومت کے اہم دفاتر واقع ہیں۔1991ءمیں بھارت کے آئین کی 69 ویں ترمیم کے مطابق دہلی کو خصوصی درجہقو��ی دارالحکومت علاقہعطا کیا گیا ہے۔قومی دار الحکومتی علاقہمیں قریبی شہرفریدآباد،گرگاؤں،نوئیڈا،غازی آباد،فرید آباد عظمی،گریٹر نوئیڈا،بہادرگڑھ،سونی پت،پانی پت،کرنال،روہتک،بھیوانی،ریواڑی،باغپت،میرٹھ،مظفر نگر،الوار،بھرت پوربھی شامل ہیں۔ موجودہ دور میں دہلیبھارتکا اہم ثقافتی، سیاسی و تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔دہلی نام کیاشتقاقیاتکے بارے میں کئی روایات موجود ہیں، لیکن بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک قدیم بادشاہ ""ڈھللو"" سے موسوم ہے، جس نے 50 ق م میں شہر کو اپنا نام دیا۔[13][14][15]ایک اور روایت کے مطابق شہر کا نامہندی/پراکرتلفظڈھیلیسے ماخوذ ہے، کیونکہتومر خانداندہلی کے لوہے کے ستون کی بنیاد کو کمزور کہتے تھے جسے منتقل کیا جانا ضروری تھا۔[15]اور اسی سے اس کا نامڈھیلیوالپڑا۔[16]بھویشیے پرانکے مطابقاندر پرستھکےبادشاہپرتھوی راج چوہاننے اپنی بادشاہت کی چار ذاتوں کی سہولت کے لیے ایک نیا قلعہ تعمیر کروایا جو موجودہ دور میںپرانا قلعہعلاقہ میں تھا۔ اس قلعہ لیے ایک دروازے کی تعمیر کا حکم دیا اور بعد میں قلعے کا نامدہالیرکھا۔[17]بعض مورخین اس نامہندوستانیزبان کے لفظدلیسے ماخوذ سمجھتے ہیں جودہلیزکہ بگڑی ہوَئی شکل ہے، کیونکہ یہ شہرسندھ و گنگ کا میدانکا دروازہ تصور کیا جاتا ہے۔[18][19]ایک اور مفروضے کے مطابق اس شہر کا ابتدائی نامڈھلكاتھا۔[20]دہلی کا قدیم ذکرمہا بھارتنامت مہا پران میں ملتا ہے جہاں اس کا ذکر قدیماندر پرستھکے طور پر کیا گیا ہے۔ اندرپرستھمہا بھارتکے دور میں پانڈو کا دار الحکومت تھا۔[21]آثار قدیمہ کے جو پہلے ثبوت ملے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ دو ہزارقبل مسیحسے پہلے بھی دہلی اور اس کے آس پاس انسانی رہائش گاہیں تھیں۔ موریہ کال (300 ق م) سے یہاں ایک شہر نے ترقی پانا شروع کی۔پرتھوی راج چوہانکے درباریشاعرچند بردائیکی ہندی تحریر پرتھوی راسو میںتومربادشاہ انگپال کو دہلی کا بانی بتایا گیا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس نے ہی 'لال کوٹ' تعمیر کروایا تھا اور مہرولی کے لوہے کے ستون کو دہلی لایا۔ دہلی میںتومرکا دور حکومت سال 900-1200سال تک سمجھا جاتا ہے۔پرتھوی راج چوہانکو دہلی کا آخری ہندو شہنشاہ سمجھا جاتا ہے۔1206ءسے دہلیسلطنت دہلیکادار الحکومتبنا۔ ترک اورپشتوننسل کی ان حکومتوں میںخاندان غلاماں(1206ء تا 1290ء)،خلجی خاندان(1290ء تا 1320ء)،تغلق خاندان(1320ء تا 1413ء)،سید خاندان(1414ء تا 1451ء) اورلودھی خاندان(1451ء تا 1526ء) کی حکومتیں شامل ہیں۔ 1526ء میں دہلی کی آخری سلطنتمغلیہ سلطنتمیں ضم ہو گئی۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ آج کی جدید دہلی بننے سے پہلے، دہلی سات بار اجڑی اور مختلف مقامات پر بسی، جن کی کچھ باقیات جدید دہلی میں اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔دہلی کے اس وقت کے حکمرانوں نے اس شکل میں کئی بار تبدیلی کی۔مغل شہنشاہہمایوںنے سرہند کے قریب جنگ میں افغانوں کو شکست دی اور بغیر کسی مزاہمت کے دہلی پر قبضہ کر لیا۔ہمایوںکی وفات کے بعد ہے مو وكرمادتیا کی قیادت میں افغانوں نے مغل فوج کو شکست دے کر آگرہ اور دہلی پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔مغل شہنشاہاکبرنے دار الحکومت کو دہلی سےآگرہمنقل کر دیا۔اکبرکے پوتےشاہ جہاںنےسترہویں صدیکے وسط میں اسے ساتویں بار بسایا جسےشاہجہان آبادکے نام سے پکارا گیا۔شاہجہان آبادکو عام بول چال کی زبان میں پرانا شہر یاپرانی دلیکہا جاتا ہئے۔ زمانہ قدیم سے پرانی دہلی پر کئی بادشاہوں اور شہنشاہوں نے حکومت کی اور اس کے نام میں بھ�� تبدیلی کیے جاتے رہے۔پرانی دہلی1638ءکے بعد سےمغل شہنشاہوںکا دار الحکومت رہا۔ دہلی کا آخری مغل بادشاہبہادر شاہ ظفرتھا جس کی وفات جلا وطنی میںرنگونمیں ہوئی۔جنگ آزادی ہند 1857ءکے بعد دہلی پربرطانوی راجقائم ہو گیا۔1947ءمیں انگریزوں سے آزادی کے بعد دہلیبھارتکادار الحکومتبنا۔ دہلی میں کئی بادشاہوں کی سلطنت کے عروج اور زوال کے ثبوت آج بھی موجود ہیں۔دلیبھارتکےشمالمیں واقع ہے۔ اس کی سرحد شمال،مغرب اور جنوب میںہندوستانکی ریاستہریانہسے ملتی ہے، جبکہ مشرق میں یہاتر پردیشسے منسلک ہے۔ برطانوی دور اقتدار میں دلیصوبہ پنجابکا حصہ تھا اور اب بھی تاریخی اور ثقافتی طور پر دلیخطۂ پنجابسے جڑا ہوا ہے۔جمناکے سیلابی میدان اوردلی کی نا ہموار چوٹیاں یہ دلی کے دو نمایاں جغرافیائی پہلو یہں۔دریائے جمناپنجاباوراتر پردیشکے درمیان میں تاریخی سرحد ہیں اور اس کے سیلا بی میدان زراعت کے لیے زرخیز مٹی فراہم کراتے ہیں لیکن ڈھلان سطح سیلاب کی باز گشتی کی وجہ بھی بنتے ہیں۔دریائے جمناہندوں کا مقدس دریا ہے جو دلی سے گذرنے والا واحد بڑا دریا بھی ہے۔ ہندن ندی غازی آباد کو دلی کے مشرقی حصے سے الگ کرتی ہے۔ دلی کا پہاڑی سلسلہ جنوب میں اراولی پہاڑی سلسلے سے شروع ہوتا ہے اور شہر کے مغربی،شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے کا محاصرہ کرتا ہے۔ اس کی بلندی 318 فٹ ہے یہ اس کی سب سے اہم خوبی ہے۔ستمبر2012ءکے مطابق قومی دار الحکومت علاقہ دہلی گیارہ اضلاع، 27 تحصیلوں، 59 مردم شماری ٹاؤن، 300 دیہاتوں[22]اور تین قانونی ٹاؤنز پر مشتمل ہے۔دہلی قومی دار الحکومت علاقہ کا اپناقانون ساز اسمبلی، لیفٹیننٹ گورنر، وزراء کی کونسل اور وزیر اعلیٰ ہے۔ قانون ساز اسمبلی2023ءمیں ختم کر دی گئی تھی، جس کے بعد براہ راست وفاقی انتظام لاگو کر دیا گیا تھا، تاہم اسے2021 ءمیں بحال کر دیا گیا۔لوک سبھا(بھارتی پارلیمانی ایوان زیریں) میں دہلی سے 70 اسمبلی حلقوں ہیں۔[23][24]1990ءکی دہائی تکانڈین نیشنل کانگریسدہلی میں تمام حکومتیں بناتی تھی حتیٰ کہبھارتیہ جنتا پارٹیطاقت میں آئی۔[25]1998ءمیں کانگریس ایک بار پھر کامیاب ہوئی۔2013ءمیںاروند کیجریوالکی قیادت میںعام آدمی پارٹیکانگریس کی حمایت کے ساتھ حکومت کی تشکیل دی۔[26]تاہم یہ حکومت قلییل مدتی ثابت ہوئی اور صرف 49 کے بعد ہی ٹوٹ گئی۔[27]دہلی فروری2015ءتک براہ راست صدر کے زیرِ اقتدار رہا۔[28]10 فروری،2015ءکوعام آدمی پارٹیبھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی،اور دہلی اسمبلی کی 70 نشستوں میں سے 67 جیتیں اور دوبارہ برسراقدارآئی۔[29]تاریخی طور پر دہلیشمالی ہندکا ایک اہم کاروباری مرکز بھی رہا ہے۔ پرانی دہلی نے اب بھی اپنی گلیوں میں پھیلے بازاروں میں ان تجارتی صلاحیتوں کی تاریخ کو چھپا کر رکھا ہے۔[30]پرانے شہر کے بازاروں میں ہر ایک قسم کا سامان دستیاب ہے۔ تیل میں ڈوبے چٹپٹے آم، نیبو، وغیرہ کے اچارو سے لے کر مہنگے ہیرے جواہرات، زیور سے دلہن کے لباس، تیار کپڑے، مصالحے، مٹھائیاں اور ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہے۔چاندنی چوکیہاں کا تین صدیوں سے بھی قدیم بازار ہے۔ یہ دہلی کے زیور، زری ساڑیوں اور مصالحے کے لیے مشہور ہے۔[31]دہلی کی مشہور دستکاریوں میں زرودزی (سونے کی تار کام، جسے زری بھی کہا جاتا ہے) اور میناکاری (جس پیتل کے برتنوں وغیرہ پر نقش کے درمیان میں روغن بھرا جاتا ہے) ہیں۔دہلیشمالی بھارتکا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔2008ءکے مطابق دہلی کیخام ملکی پیداوار167 بلینامریکی ڈالرتھی۔[32]دہلی کی افرادی قوت کی آبادی کا 32،82 فیصد ہے۔ جس میں1991ءاور2001ءکے درمیان میں 52،52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔[33]دہلی میں بے روزگاری کی شرح 1999ء-2000ء میں 12.57 فی صد سے کم ہو کر 4.63 فیصد ہو گئی ہے۔[33]کلیدی خدماتی صنعتوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن، ہوٹل، بینکاری، ذرائع ابلاغ اور سیاحت شامل ہیں۔[34]تعمیرات، بجلی، صحت، کمیونٹی کی خدمات اور جائداد کی خرید و فروخت بھی شہر کی معیشت کے لیے اہم ہیں۔ دہلی بھارت کی سب سے بڑی اور سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی خوردہ صنعتوں میں سے ایک ہے۔[35]دہلی اسٹاک ایکسچینجنئی دہلی،بھارتمیں واقع ہے۔ یہ ایکسچینجدہلی اسٹاک اور شیئر بروکرز ایسوسی ایشن لمیٹڈاوردہلی اسٹاک اور شیئر ایکسچینج لمیٹڈکا اخلاط ہے۔[36]یہ بھارت کی پانچویں اکسچینج ہے۔ ایکسچینج بھارت کی اہم سٹاک ایکسچینجز میں سے ایک ہے۔ دہلی اسٹاک ایکسچینج شمالی بھارت میں ٹرمینلز کے ساتھ 50 شہروں سے منسلک ہے۔دہلی کی عوامی ٹریفک کے لیے بنیادی طور بس، آٹوركشا اور میٹرو ریل سروس زیر استعمال ہیں۔ دہلی کی اہم ٹریفک کی ضرورت کا 60 فیصد حصہ بسیں مکمل کرتی ہیں۔ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی طرف سے سرکاری بس سروس دہلی میں موجود ہے۔ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن دنیا کی سب سے بڑی ماحول دوست بس سروس ہے۔[37]آٹو رکشہ دہلی میں ٹریفک کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ ایندھن کے طور پرسی این جیکا استعمال کرتے ہیں۔ دہلی میں ٹیکسی سروس بھی دستیاب ہے جس کا کرایہ 7.50 سے 15 روپے فی کلومیٹر تک ہے۔ دہلی کی کل گاڑیوں کی تعداد کا 30٪ ذاتی گاڑیاں ہیں۔[38]دہلی بھارت کے پانچ اہم شہروں سے قومی شاہراہوں سے منسلک ہے۔ یہ شاہراہیں : قومی شاہراہ نمبر: 1، 2، 8، 10 اور 24 ہیں۔2008ءکے مطابق دہلی میں 55 لاکھ گاڑیاں میونسپل کارپوریشن کی حدود کے اندر ہیں۔ اس وجہ دہلی دنیا کا سب سے زیادہ گاڑیوں والا شہر ہے۔1998ءمیں سپریم کورٹ آف انڈیا نے دہلی کے تمام عوامی گاڑیوں کو ڈیزل کی جگہ پرسی این جیکا استعمال لازمی طور سے کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد سے یہاں تمام عوامی گاڑیاں سی این جی پر ہی چلنے والی ہیں۔اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹدہلی کے جنوب مغربی کنارے پر واقع ہے اور یہاں سے بین ریاستی اور بین الاقوامی سفر کی سہولیات موجود ہیں۔ سال 2012–13 میں ہوائی اڈے پر 35 ملین مسافر درج کیے گئے تھے، جو اسے جنوبی ایشیا کے مصروف ترینہوائی اڈوںمیں سے ایک بناتے ہیں۔[39][40]ٹرمینل 396.8 ارب بھارتی روپوں (امریکی ڈالر 1.4 ارب) سے 2007 اور 2010 کے درمیان میں تعمیر کیا گیا جہاں اضافی سالانہ 37 ملین مسافروں کے لیے گنجائش موجود ہے۔[41]صفدر جنگ ہوائی اڈادہلی کا ایک اورہوائی اڈاہے، جو عام ہوا بازی مشقوں اور کچھ وی آئی پی پروازوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔دہلی دیگر تمام اہم شہروں اور بڑے شہروں سے کئی ہائی ویز اور ایکسپریس ویز سے منسلک ہے۔ دہلی سے گزرنے والیقومی شاہراہیںمندرجہ ذیل ہیں:دہلیبھارتی ریلوےکے نیٹ ورک میں ایک اہم جنکشن ہے اور شمالی ریلوے کا ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ دہلی کے پانچ اہم ریلوے اسٹیشن مندرجہ ذیل ہیں:دہلی میٹرو ریل کارپوریشن کی طرف سے دہلی میٹرو ریل ایک بڑے پیمانے پر ریپڈ ٹرانزٹ (فوری ٹرانزٹ) نظام ہے جو دہلی کے کئی علاقوں میں سروس فراہم کرتی ہے۔ اس کا آغاز24 دسمبر2002ءکو ہوا۔ اس ٹرانسپورٹ نظام کی زیادہ سے زیادہ رفتار 80 کلومیٹر فی گھنٹہ (50 میل فی گھنٹے) رکھی گئی ہے اور یہ ہر اسٹیشن پر تقریباً 20 سیکنڈ رکتی ہے۔ تمام ٹرینوں کی تعمیرجنوبی کوریاکی کمپنی روٹیم (ROTEM) نے کی ہے۔ دہلی کی نقل و حمل سہولیات میں میٹرو ریل ایک اہم جزو ہے۔ ابتدائی مرحلے کی منصوبہ بندی چھ لائنوں پر چلنے کی ہے جو دہلی کے زیادہ تر حصوں کو آپس میں جوڑے گی۔ اس کا پہلا مرحلہ2006ءمیں مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے راستے کی کل لمبائی تقریباً 65.11 کلومیٹر ہے جس میں 13 کلومیٹر زیر زمین اور 52 کلومیٹر مرتفع ہے۔بھارت کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق دہلی کی آبادی 16،753،235 تھی۔[42]اس کی کثافت آبادی 11،297فی مربع کلومیٹر، جنسی تناسب 866 خواتین فی 1000 مرد اور شرح خواندگی 86،34 فیصد تھی۔ہندو متدہلی کی آبادی کا 81،68 فیصد،اسلام(12.86٪)،سکھ مت(3.4٪)،جین مت(0.99٪)،مسیحیت(0.87٪) اور دیگر (0.12٪) ہے۔ دیگر اقلیتی مذاہب میںبدھ مت،زرتشتیت،بہائیاوریہودیتشامل ہیں۔[43]دہلی کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد[44]بنیادی سہولتوں کی ناکافی فراہمی کے ساتھ کچی آبادیوں میں رہتا ہے۔[45]ان کچی آبادیوں کی اکثریت کو ناکافی بنیادی سہولیات مہیا ہیں۔ ڈی یو ایس آئی بی کی رپورٹ کے مطابق صرف 16 فیصدلوگ بیت الخلاؤں کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ تقریباً 22 فیصد افراد قضائے حاجت کے لیے کھلی جگہوں کا استعمال کرتے ہیں۔[46]دہلی شہر میں بنی یادگاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی ثقافت مشرقی تاریخی زمین سے متاثر ہے۔ بھارتی آثار قدیمہ سروے محکمہ نے دہلی شہر میں تقریباً 1200 ثقافتی ورثہ مقامات کی نشان دہی کی ہے جو دنیا میں کسی بھی شہر سے کہیں زیادہ ہے۔[47]ان میں سے 175 مقامات کو قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔[48]پرانا شہر وہ مقام ہے جہاں مغلوں اور ترکوں حکمرانوں نے کئی تعمیرات کیں٫ مثلاًجامع مسجد(بھارت کی سب سے بڑی مسجد)،لال قلعہ،قطب مینار،ہمایوں کا مقبرہدہلی کے عالمی ثقافتی ورثہ مقامات ہیں۔[49]دیگر یادگاروں میں انڈیا گیٹ، جنتر منتر (اٹھارویں صدیکیرصدگاہ)، پرانا قلعہ (سولہویں صدیکا قلعہ)۔ برلا مندر، اکشر دھام مندر اور کمل مندر تعمیرات کی شاندار مثالیں ہیں۔ راج گھاٹ میں قومی رہنمامہاتما گاندھیاور قریب ہی دوسرے بڑے افراد کی سمادھياں ہیں۔ نئی دہلی میں بہت سے سرکاری دفتر، سرکاری رہائش گاہیں اور برطانوی دور کی باقیات اور عمارتیں ہیں۔ کچھ انتہائی اہم عمارتوں میں صدارتی محل، مرکزی سیکرٹریٹ، راج پتھ، پارلیمنٹ کی عمارت شامل ہیں۔یہاں بہت سے قومی تہوار جیسے یوم جمہوریہ، یوم آزادی اور گاندھی یوم پیدائش رسمی طور پر جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ بھارت کے یوم آزادی پر وزیر اعظم لال قلعہ سے یہاں کے عوام سے خطاب کرتے ہیں۔ بہت سےدلی والےاس دن کو پتنگیں اڑا کر مناتے ہیں۔ اس دن پتنگوں کو آزادی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔[50]یوم جمہوریہ کی پریڈ ایک بڑا جلوس ہوتی ہے، جس میں بھارت کی فوجی طاقت اور ثقافتی جھلک کا مظاہرہ ہوتا ہے۔[51]یہاں کے مذہبی تہواروں میںدیوالی،ہولی،دسہرا، درگا پوجا، مہاویر جینتی،کرسمس،مہا شواراتری،عید الفطر، بدھ جینتی لوهڑی پونگل اور اوڑم جیسے تہوار شامل ہیں۔ قطب فیسٹیول میں موسیقاروں اور رقاصوں کا کل ہند سنگم ہوتا ہے، جو کچھ راتوں کو جگمگا دیتا ہے۔ دیگر کئی تہوار بھی یہاں سالانہ منائے جاتے ہیں جیسے آم فیسٹیول، پتنگ بازی فیسٹیول، موسم بہار پنچمی۔ایشیاکی سب سے بڑی آٹو نمائش، آٹو ایکسپو دہلی میں منعقد ہوتی ہے۔ پرگتی میدان میں سالانہ کتاب میلہ منعقد ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کتاب میلہ ہے جس میں دنیا کے 23 ممالک حصہ لیتے ہیں۔ دہلی کو اس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ صلاحیت کی وجہ سے کبھی کبھی دنیا کا کتاب دار الحکومت بھ�� کہا جاتا ہے۔[52]پنجابی اور مغلائی خان جیسے کباب اور بریانی دہلی کے کئی حصوں میں مشہور ہیں۔[53][54]دہلی کی انتہائی مخلوط آبادی کی وجہ سے بھارت کے مختلف حصوں کے پکوانوں کی جھلک دہلی میں ملتی ہے، جیسے راجستھانی، مہاراشٹرین، بنگالی، حیدرآبادی اور جنوبی بھارتی کھانے کی اشیاء جیسے اڈلی، سانبھر، دوسا وغیرہ کثرت میں مل جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مقامی خاصیت والی چیزیں جیسے چاٹ وغیرہ بھی خوب ملتی ہے، جسے لوگ چٹخارے لگا لگا کر کھاتے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں براعظم کھانا جیسے اطالوی اور چینی کھانا بھی عام دستیاب ہے۔مغلیہ سلطنتکےدار الحکومترہنے کی وجہ سے دلی کے لوگوں کومغلائی پکوانوںنے بہت متاثر کیا ہے۔[55]شہر کے خصوصی پکوانوں میں بٹر چکن، آلو چاٹ، چاٹ، دہی بڑے، کچوری، گول گپے،سموسہ، چھولےبھٹورے، چھولے کلچہ، جلیبی اور لسی شامل ہیں۔[55][56]:40–50, 189–196دہلی کی تیز زندگی کی وجہ سے فاسٹ فوڈ نے شہر میں کافی ترقی کی ہے۔[56]:41مقامی باشندوں میں ڈھابے پر کھانے کا رجحان بہت مقبول ہے۔ ہائی پروفائل ریستورانوں نے حالیہ برسوں میں کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔[57]گلی پراٹھے والیچاندنی چوکمیں ایک سڑک ہے جو خاص طور1870ء کی دہائیسے کھانوں کے لیے مشہور ہے۔ یہ تقریباً ایک روایت بن گئی ہے کہ ہر وزیر اعظم ایک بارگلی پراٹھے والیکا دورہ کرتا ہے۔ اگرچہ یہ سڑک شمال بھارتی پکوانوں کے لیے مشہور ہے تاہم یہاں بھات کے دیگر علاقوں کے پکوان بھی دستیاب ہیں۔[56]:40–50[58]دہلی کے رہائشیوں کودلی والےیا واحددلی والا/دلی والیکہا جاتا ہے۔[59]ابھی دلی دور ہےیافارسیمیںہنوز دہلی دور است[60][61]دلی دل والوں کا شہریادلی دل والوں کی[62]آس پاس برسے، دلی پانی ترسے[61]دہلی صرفبھارتکا دار الحکومت ہی نہیں بلکہ یہسیاحتکا اہم مرکز بھی ہے۔ دار الحکومت ہونے کی وجہ سے حکومت ہند کے کئی دفاتر، ایوان صدر، پارلیمنٹ ہاؤس، مرکزی سیکرٹریٹ وغیرہ ا جدید معماری کے نمونے ہیں۔ قدیم شہر ہونے کی وجہ سے اس کی تاریخی اہمیت بھی ہے۔ سیاحتی مقامات میںمقبرہ ہمایوں،لال قلعہ،لودھی باغ،پرانا قلعہ،مزار صفدر جنگ،جنتر منتر،قطب مینار،باب ہنداوردہلی کا آہنی ستوںکی دنیا بھر میں خاص اہمیت ہے۔ تقریباً تمام مذاہب کے مشہور مذہبی مقامات یہاں موجود ہیں مثلالکشمی نارائن مندر،چھترپور مندر،گردوارہ بنگلہ صاحب،معبد کنولاورجامع مسجد دہلی۔ بھارت کے وزرائے اعظم کی سمادھياں یہاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کئیعجائب گھراور کئی مشہور بازار بھی ہیں۔ تفریحی مقامات میں مغل باغات، گارڈن آف فائیو سنسن، تال کٹورا گارڈن، لودھی گارڈن، چڑیا گھر، وغیرہ شامل ہیں۔دہلی شہر کے دروازےآٹھویں صدیسےبیسویں صدیتک مختلفشاہی خاندانوںکے حکمرانوں نے تعمیر کروائے۔ کیونکہ شہر کئی بار اجڑا اور پھر بسایا گیا اس لیے کئی دروازے اور کھڑکیاں (چھوٹے دروازوں کو کہا جاتا تھا۔ لیکن ان میں سے اب کوئی باقی نہیں) اب صفحہ ہستی پر موجود نہیں۔دہلی قومی دار الحکومت علاقہ میں تقریباً 500،000 یونیورسٹی کے طالب علموں 165 سے زائد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں۔ دہلی میں نو بڑی یونیورسٹیاں ہیں۔بھارت کے دار الحکومت ہونے کی وجہ سے دہلی سیاسی رپورٹنگ کی خاص توجہ کا مرکز ہے، جن میں پارلیمانی اجلاس کے باقاعدہ ٹیلی ویژن کی نشریات بھی شامل ہیں۔ بہت سے قومی میڈیا ادارے، بھارت کا سرکاری پریس ٹرسٹ، بھارت کا میڈیا ٹرسٹ اور دوردرشن سمیت کئی کے صدر دفاتر شہر میں واقع ہیں۔[63]مطبوع�� صحافت دہلی کے مقبول ذرائع ابلاغ میں سے ہے۔ شہر کی اخبارات میں چند مندرجہ ذیل ہیں:ریڈیو دہلی میں ایک کم مقبول ہے، تاہم2006ء[66]میں کئی نئے اسٹیشنوں کے افتتاح کے بعد سے ایف ایم ریڈیو نے مقبولیت حاصل کر لی ہے۔[67]سرکاری اور نجی ریڈیو سٹیشنوں کی ایک بڑی تعداد نے دہلی سے نشریات کرتی ہیں۔[68][69]دہلی کئی اہم بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کر چکا ہے۔ جن میںایشیائی کھیل 1951ء،ایشیائی کھیل 1982ءاور2010ء دولت مشترکہ کھیلقابل ذکر ہیں۔ دہلی میں متعدد کھیلوں کے میدان موجود ہیں جن میں چند اہم مندرجہ ذیل ہیں:دلی کی آب و ہوا نمی والی اور منطقۂ حارہ سے ملتی جلتی ہیں۔
+دہلی کی آب و ہوا میں موسم گرما اور موسم سرما کے درجہ حرارت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ موسم گرما طویل، انتہائی گرم اور اپریل سے وسط اکتوبر تک چلتا ہے۔ اس کے درمیان میںمون سونکا برساتی موسم بھی آتا ہے۔ گرمی کافی مہلک بھی ہو سکتی ہے، جس نے ماضی میں کئی جانیں بھی لی ہیں۔ مارچ کے شروع سے ہی آب و ہوا میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔ ہوا شمال مغرب سے تبدیل ہو کر جنوب مغربی سمت میں چلنے لگتی ہے۔ یہ اپنے ساتھ راجستھان کی گرم لہر اور دھول بھی لے کر چلتی ہیں۔ یہ گرمی کا بنیادی حصہ ہیں جنہیں لو کہتے ہیں۔ اپریل سے جون کے مہینے انتہائی گرم ہوتے ہیں۔ جون کے آخر تک نمی میں اضافہ ہوتا ہے جو ہلکی مونسون بارش لاتی ہیں۔ اس کے بعد جولائی سے یہاںمون سونکی ہوائیں چلتی ہیں، جو اچھی بارش لاتی ہیں۔ اکتوبر نومبر میں درجہ حرارت میں کمی واقع ہوتی ہے، اس میں ہلکی سردی کافی لطف اندوز ہوتی ہے۔
+نومبر سے سرد موسم کا آغاز ہوتا ہے جو فروری کے شروع تک چلتا ہے۔ موسم سرما میں گھنی دھند بھی ہوتی ہے۔ یہاں کے درجہ حرارت میں انتہائی فرق آتا ہے جو -0.6 ° س (30.9 ° ف) سے لے کر 48 ° س (118 ° ف) تک جاتا ہے۔ سالانہ اوسط درجہ حرارت 25 ° س (77 ° ف)؛ ماہانہ اوسط درجہ حرارت 13 ° س سے لے کر 32 ° س (56 ° ف سے لے کر 9 0 ° ف) تک ہوتا ہے۔[70]اوسط سالانہ بارش تقریباً 714 مم (28.1 انچ) ہوتی ہے، جس سے زیادہمون سونمیں جولائی اگست میں ہوتی ہے۔ دہلی میں مون سون کی آمد کی اوسط تاریخ 29 جون ہوتی ہے۔[71]عالمی ادارہ صحتدہلی کے مطابق2014ءمیں دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر تھا۔[74]2016ءمیںعالمی ادارہ صحتنے شہری ہوا کے معیار کی ڈیٹا بیس میں دہلی کی گیارہ درجے میں کمی ہے۔[75]ایک اندازے کے مطابق، ہوائی آلودگی ہر سال دہلی میں تقریباً 10،500 لوگوں کی موت کا سبب بنتی ہے۔[76][77][78]2013–14 کے دوران میں نقصان دہ ذراتِ مادہ دہلی میں 44 فیصد بڑھ گیا جس کی بنیادی وجہ ملحقہ ریاستوں میں گاڑیوں اور صنعتی اخراج، تعمیراتی کام اور فصل کا جلایا جانا ہے۔[76][79][80][81]نقصان دہ ہوائی ذرات پی ایم 2,5 جسے صحت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ سمجھا جاتا ہے کی دہلی میں 153 مائیکروگرام کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر ہے۔[82]بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی وجہ سے بچوں اور خواتین میں پھیپھڑوں سے متعلقہ بیماریوں (خاص طور پر دمہ اور پھیپھڑوں کے کینسر) میں اضافہ ہوا ہے۔[83][84]موسم سرما میں ہر سال گہریاسموگکی وجہ سے گاڑیوں اور ریل ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔[85]بھارتی ماہرین موسمیات کے مطابق موسم سرما کے دوران میں دہلی میں 1998 کے بعد خاص طور پر اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں کمی واقع ہوئی ہے۔[86]جنات کا شہردہلی پر لکھی گئیولیم ڈیلرمپلکی کتاب ہے، جوبھارتکے دار الحکومت دہلی کی تاریخی اہمیت کا احاطہ کرتی ہے۔ دہلی عظیم ماضی رکھنے والا ایک عظیم شہر ہے، جو اتنے زیادہ ہندوستانی حکمرانوں کا دار الحکومت رہا کہ اس کی ہر اینٹ ایک داستان سناتی ہے اورہندوستانکے عظیم ماضی کی ترجمانی کرتی ہے۔سرکاریعمومی معلوماتدستاویزی فلمیں"
+117,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+118,یونین علاقہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%86_%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%DB%81,یونین علاقےبھارتکے زیر انتظام حصے ہیں۔ریاستوںکے بہ نسبت یہ مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام ہیں۔بھارت میں آٹھ یونین علاقے ہیں
+119,ہریانہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%81%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D9%86%DB%81,"ہریانہ(ہندی:हरियाणा)شمالی بھارتمیں واقع ایک ریاست ہے۔ 'ہریانہ' لفظ کا مطلب ہے 'ہریانوی بولنے والوں کی زمین'۔
+ہریانہ کا کل رقبہ 44 ہزار 212 مربع کلومیٹر ہے جبکہ ریاست کے 22 اضلاع ہ��ں۔ اکثریتی زبانہریانویہے۔
+ہریانہ کا دار الحکومتچندی گڑھہے جو پڑوسی ریاستپنجابکا بھی دار الحکومت ہے۔ہریانہ نام 12 ویں صدی عیسوی میں امیرھرمشا مصنف ""وِبُدھ شْرِیدھر"" (وی 1189-1230) کے کاموں میں پایا جاتا ہے۔[1]ہریانہ کا نامسنسکرتالفاظہری(ہندو خداوشنو) اورآیانا(گھر) سے حاصل کیا گیا ہے جس کا معنی ""خدا کا گھر""
+ہے۔[2]تاہم، منی لعل، مرلی چندر شرما، ایچ اے فڈک اور سکوید سنگھ چب جیسے علما کا خیال ہے کہ یہ نام سنسکرت الفاظ ""ہرِت"" بمعنیہرایاسبز(Green) اور ""ایرانی"" (جنگل) کے ایک مرکب سے آتا ہے۔[3]کیونکہ، یہ ممکن نہیں ہے کہجنگلاورسبزدونوں ایک دوسرے کو اکٹھا کریں، لہٰذا ایک ہیناممیں دو مختلف الفاظ کو استعمال کیا جائے گا،تو یہاں ""ہریانہ"" کے لفظی معنی ""سبز جنگل"" کے بنتے ہیں۔ یعنی سرسبز و شاداب اور ہرا بھر علاقہ۔ہریانہ ریاست1 نومبر1966ءکو لسانی و ثقافتی بنیادوں پر قائم ہوئی جو پہلے سابقہ بھارتی ریاستمشرقی پنجابکا حصہ تھی۔2011ءکیمردم شماریکے مطابق 87.45 فیصد لوگہندو متکے پیروکار ہیں۔ غیر ہندو اقلیت میںمسلمان7.03 فیصد،سکھ4.90 فیصد ہیں۔[4]ہریانہ کے مذاہب (2011)ریاست ہریانہ کے 22 اضلاع نام مندرجہ ذیل ہیں:اضلاعنوہرہ"
+120,مشرق,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B4%D8%B1%D9%82,مشرقہماریزمینپر موجود ایک ایسی سمت ہے، جومغربکےمحاذیواقع ہے۔ نقشوں میں اس کا مقام دائیں طرف ہوتا ہے۔قطب نماکو 90 ڈگری پر طے کرنے سے کسی مقام پر مشرقی سمت کا تعین بآسانی کیا جا سکتا ہے۔دوسرے لفظوں میں مشرق وہ سمت ہے،گویا یہ وہ سمت ہے جدھر سےسورجطلوعہوتا دکھائی دیتا ہے۔
+121,اتر پردیش,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%AA%D8%B1_%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4,اترپردیش(ہندی:उत्तर प्रदेश) بلحاظ آبادی،بھارتکی سب سے بڑی اور رقبے کے اعتبار سے پانچویں بڑی ریاست ہے۔اترپردیشدریائے گنگاکے انتہائی زرخیز اور گنجان آباد میدانوں پر پھیلی ہوئی ریاست ہے۔ اس کی سرحدیںنیپالکے علاوہ بھارت کی ریاستوںاتر انچل،ہماچل پردیش،ہریانہ،دہلی،راجستھان،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ،جھاڑکھنڈاوربہارسے ملتی ہیں۔اترپردیش کا انتظامی و قانونیدار الحکومتلکھنؤہے جبکہ اعلیٰ عدالتالہ آبادمیں قائم ہے۔اترپردیش قدیم اور قرون وسطی بھارت کی طاقتور سلطنتوں کا گھر تھا۔ ریاست کے دو بڑے دریاؤں،گنگااوردریائے جمنا،الٰہ آبادمیں ملتے ہیں اور پھر گنگا مشرق کی طرف مڑ جاتا ہے۔ ریاست میں کئی تاریخی، قدرتی اور مذہبی سیاحتی مقامات ہیں، جیسا کہ،آگرہ،وارانسی،رائے بریلی،کوسامبی،کانپور،بلیا،شراوستی ضلع،گورکھپور،اناؤ،چوری چورامیں واقعگورکھپور،کشی نگر،لکھنؤ،جھانسی،الٰہ آباد،بدایوں،میرٹھ،متھرا،جونپور، اترپردیشاورمظفر نگر۔جدید انسانشکاری ہجوم کی صورت اترپردیش میں رہے ہیں[6][7][8]یہ تقریباً[9]85 اور 73 ہزار سال پہلے یہاں رہے۔ اس کے علاوہ اترپردیش سے ماقبل تاریخ کے درمیانے اور اعلا قدیم حجری دور کے 21–31 ہزار سال پہلے کے[10]اوروسطی حجری دور/خرد حجری دورhunter-gathererکی آبادکاری کے نشانات،پرتاپگڑھکے قریب ملے ہیں، جو 10550–9550 قبل مسیح قدیم ہیں۔ آثار میں ایسے گاؤں بھی ملے ہیں جن میں پالتو مویشی، بھیڑیں اور بکریاں اور زراعت کا ثبوت ملتا ہے جو 6000 قبل مسیح سے شروع ہو کر آہستہ آہستہ 4000 تا 1500 قبل مسیح میںویدک دورکیوادیٔ سندھ کی تہذیباورہڑپہ تہذیبکے آغاز تک جاتا ہے ; جولوہے کے زمانےکی توسیع ہے۔[11][12][13]اترپردیش بھارت کے شعبہ زراعت میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات ��ے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں ہر پانچ فروخت ہونے والے ٹریکٹروں میں سے ایک اس ریاست میں بکتا ہے۔[14]2010-11 میں اترپردیش میں ہر وقت سے زیادہ یعنی 47.55 میٹریک ٹن غلے کی پیداوار درج کی جو پچھلے سال سے 10 فی صد اضافہ تھا۔ 2010-11 میں ریاست میں پورے ملک کے غلے کا پانچواں حصہ اگا تھا۔ ریاست میں ملک کے کل چاول کا 13 فی صد، گیہوں کا 35 فی صد، دالوں کا 13 فی صد اور موٹے اناج کا 8 فی صد اگا تھا۔ ۔[15]Uttar Pradesh سفری راہنمامنجانبویکی سفرسانچہ:Hydrography of Uttar Pradeshلوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+122,ممبئی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%85%D8%A8%D8%A6%DB%8C,"ممبئی(مراٹھی: मुंबई)، (سابق نام :بمبئی)،بھارتکی ریاستمہاراشٹرکادار الحکومتہے۔ تقریباً ایک کروڑ 42 لاکھ کی آبادی کا حامل یہ شہر آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ اپنے مضافاتی علاقوںنوی ممبئیاورتھانےکو ملا کر یہ دنیا کا چوتھا سب سے بڑا شہری علاقہ بنتا ہے جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 90 لاکھ بنتی ہے۔ ممبئی بھارت کے مغربی ساحل پر واقع ہے اور ایک گہری قدرتیبندرگاہیہاں موجود ہے۔ بھارت کی نصف سے زائد بحری تجارت ممبئی کی بندرگاہ سے ہوتی ہے۔یہ شہرتیسری صدیقبل مسیحمیںسلطنت موریہنے سات جزائر پرہندووبدھثقافتکے مرکز کی حیثیت سے قائم کیا۔ بعد ازاں یہ جزائر مختلف سلطنتوں کا حصہ رہے اور بالآخرسلطنت برطانیہکیایسٹ انڈیا کمپنیکے زیر نگیں آئے جس نے ان سب کو ملا کر بمبئی کا نام دیا۔ 18 ویں صدی کے وسط میں یہ ایک اہم تجارتی قصبے کی حیثیت سے ابھرا۔19 ویں صدیمیں اقتصادی و تعلیمی سرگرمیوں نے شہر کو شناخت بخشی۔20 ویں صدیکے دوران یہ بھارت کی آزادی کی تحریک کا ایک اہم مرکز رہا اورستیاگرہتحریک]] اور بحریہ کی بغاوت یہیں سے سے پھوٹیں۔1947ءمیںہندوستانکی آزادی کے بعد شہر کر ریاست بمبئی کا حصہ بنایا گیا تھا۔1960ءمیں ایک تحریک کے بعد مہاراشٹر کی نئی ریاست تشکیل دی گئی اور بمبئی کو اس کا دار الحکومت بنایا گیا۔1996ءمیں، شہر کا نام بدل کر ممبئی کر دیا گیا۔ممبئی بھارت کا تجارتی و تفریحی مرکز ہے جو بھارت کے کلجی ڈی پیکا 5 فیصد پیدا کرتا ہے اور 25 فیصد صنعتی پیداوار، 40 فیصد بحری تجارت اور 70 فیصد سرمایہ کی لین دین کے ذریعے بھارت کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ممبئی اہم مالیاتی اداروں کا مرکز بھی ہے اورریزرو بینک آف انڈیا،بمبئی اسٹاک ایکسچینج،نیشنل اسٹاک ایکسچینج آف انڈیااور کئی بھارتی و کثیر القومی اداروں کے دفاتر اسی شہر میں واقع ہیں۔ شہر میں ہندی فلموں اور ٹیلی وژن صنعت کا مرکز بھی واقع ہے جو ""بالی ووڈ"" کہلاتا ہے۔ ممبئی میں کاروبار کے وسیع مواقع اور بہتر طرز رہائش اسے بھارت بھر کے لیے لوگوں کے لیے پرکشش بناتے ہیں اور یوں یہ شہر مختلف طبقات اور ثقافتوں کا مرکز بن چکا ہے۔ممبئی شہربھارتکے مغربی کنارے پر كوك ساحلی علاقے میں الهاس دریا کے کنارے پر واقع ہے۔ اس میں سے لسیٹجزیرےکا یا جزوی حصہ ہے اور باقی حصہ تھانے ضلع میں آتے ہیں۔ زیادہ تر شہرسطح سمندرسے کم بلند ہے، جس کی اوسط اونچائی 10 میٹر (33 فٹ) سے 15 میٹر۔ (49 فٹ) کے درمیان میں ہے۔ شمالی ممبئی کا علاقہ پہاڑی ہے، جس کا اولین مقام 450 میٹر۔ (1،476 فٹ) پر ہے۔ [21] شہر کا کل رقبہ 603 کہ میٹر ² (233 sq mi) ہے۔سنجے گاندھی نیشنل پارکشہر کے قریب ہی واقع ہے یہ کل شہری علاقے کے تقریباً نصف حصہ میں بنا ہوا ہے۔ اس پارک میںتیندوےوغیرہ جانورآج بھی مل جاتے ہیں۔
+بھاٹسا ڈیم کے علاوہ، 6 اہم جھيلیں شہر کو پانی فراہم کرتی ہیں: وہار جھیل، وے ترا، ایڈیشنل وے ترا، تلسی، تس و پووي۔تلسی اور وہار جھیل بورولی نیشنل پارک میں شہر کی میونسپل حدود کے اندر واقع ہیں۔ پووی جھیل سے صرف صنعتی جلاپرت کی جاتی ہے۔ تین چھوٹی ندیاں دہسر، پوسر اور اوہواڑا (یا اوشيواڑا) پارک کے اندر سے نكلتی ہیں، جب کہ میٹھی ندی، تلسی جھیل سے نکلتی ہے اور وہار اور پووی جھیلوں کا اضافہ ہوا پانی لے لیتی ہے۔ شہر کی تٹرےكھا بہت زیادہ نوے شكاو (تنگ كھاڑيو) سے بھری ہے۔ سیلیسٹ جزیرے کی مشرقی طرف دلدلی علاقہ ہے، جو جے وبھننتاو سے بھر ہے۔ مغربی کنارے میں زیادہ تر ریتلا یا پتھريلا ہے۔
+ممبئی کی بحیرہ عرب سے سميپتا کی طرف شہری علاقے میں خاص طور ریتيلی ریت ہی ملتی ہے۔ مضافاتی علاقوں میں، مٹی زیادہ تر اليويل اور ڈھیلے دار ہے۔ یہ آخری كرہٹشيس اور ابتدائی ايوسين دور کے ہیں۔ ممبئی سيذمك اےكٹو (زلزلہ آور) خطہ ہے، جس کی وجہ سے اس علاقے میں تین سرگرم فالٹ لائنز ہیں۔ اس علاقے کو تیسری قسم میں درجہ بندی کی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ شدت ریکٹر پیمانے پر 6.5 شدت کے زلزلے آ سکتے ہیں۔ممبئی کا ایک نام بمبئی بھی ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہاں پر مُمب نام کی ایک دیوی کی پوجا کی جاتی تھی جس کی وجہ سے ممبئی کا موجودہ نام پڑ گیا۔ مُمب اس دیوی کا نام ہے اور آخر میںئیکا اضافہ کیا گیا ہے جو حقیقت میں لفظآئیہے، مقامی زبانوں (جیسے مراٹھی وغیرہ) میں آئی کا مطلبماںہے۔كادولی کے قریب شمالی ممبئی میں ملے قدیم باقیات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ جزائر پاشا دور سے یہاں آباد ہیں۔ انسانی آبادی کے تحریری ثبوت 250ء تک ملتے ہیں۔ تیسری صدی میں یہ جزائرسلطنت موریہکا حصہ بنے، جب جنگجواشوکعظیم کا راج تھا۔ کچھ ابتدائی صدیوں میں ممبئی کا کنٹرول ساتواہن سلطنت کے پاس رہا۔ بعد میں ہندو سلهارا خاندان کے بادشاہوں نے یہاں1343ءتک راج کیا، یہاں تک کہگجراتکے بادشاہنے اس خطہ پر قبضہ نہیں کر لیا۔1534ءمیں،پرتگالیوںنےگجراتکے بہادر شاہ سے یہ جزائر هتھيا لیے۔ جو بعد میںچارلس دوم،انگلینڈکو تحفہ کی شکل دے دیے گئے۔ یہ جزائر1668ءمیں، برطانویایسٹ انڈیا کمپنیکو صرف دس پاونڈ فی سال کی شرح پر ٹھیکا پر دے دیے گئے۔ کمپنی کو جزائر کے مشرقی کنارے پر گہرے کی بندرگاہ عطا حوالے کی گئیں، جوبرصغیرمیں ترسیل کے لیے انتہائی اہم تھی۔ یہاں کی آبادی1661ءمیں صرف دس ہزار تھی، جو1675ءمیں بڑھ کر ساٹھ ہزار ہو گئی۔1687ءمیں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے صدر دفتر کو سورت سے منتقل کر کے یہاں ممبئی میں قائم کیا۔ اور آخر میں شہر بمبئی پریزیڈنسی کا ہیڈ کوارٹر بن گیا۔گیٹ وے آف انڈیا، 2 دسمبر،1911ءکو بھارت میں بادشاہجارج پنجماور ملکہ میری کے آمد پر استقبال کے لیے بنایا گیا، جو 4 دسمبر،1924ءکو مکمل ہوا۔
+سن1817ءکے بعد، شہر کو بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں سے مزین کیا گیا۔ اس میں تمام جزیروں کو ایک جڑے ہوئے جزائر میں جوڑنے کا منصوبہ اہم تھا۔ جزائر کو جوڑنے کا یہ منصوبہ1845ءمیں مکمل ہوا۔1853ءمیں،بھارتکی پہلی مسافر ریلوے لائن قائم ہوئی، جس نے ممبئی کو تھانے سے جوڑا۔ یہ شہر تب دنیا کا اہم کاروباری مرکز بنا، جس سے اس کی معیشت مضبوط ہوئی۔ ترقی کی وجہ سے شہر کی اہمیت چنداں بڑھ گئی اور تب ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا جس کے تحت شہر کی سطح سمندر سے بلند کی گئی۔1869ءمیںنہر سویزکے کھلنے کے بعد سے، یہبحیرہ عربکی سب سے بڑی بندرگاہ بن گیا۔ اگلے تیس برسوں میں، یہ معمولی شہر سے بڑے شہری مرکز کی صورت اخیتار کرنے لگا۔1906ءتک شہر کی آبادی دس لاکھ کے تقریباً ہو گئی تھی۔ اب یہ بھارت کی اس وقت دار الحکومت کلکتہ کے بعد بھارت میں، دوسرے نمبر سب سے بڑا شہر تھا۔ ممبئی پریزیڈنسی کے دار الحکومت کے طور پر، یہ ہندوستانی جنگ آزادی کی بنیاد بنا رہا۔ممبئی میں اس جنگ کی یادگار کی تیاری کا منصوبہ1942ءمیں مہاتماگاندھیکی طرف سے پیش کیا گیا اور تب ہیآل انڈیا کانگریسکی مشہور زمانہبھارت چھوڑو تحریککا آغاز کیا گیا۔1947ءمیں ہندوستان کی آزادی کے بعد، یہ بامبئے ریاست کا دار الحکومت بنا۔1950ءمیں شمالی جانب واقع سے لسیٹ جزیرے کے حصوں کو ملاتے ہوئے، یہ شہر اپنی موجودہ سرحدوں تک پہنچا۔1955ءکے بعد، بمبئے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور زبان کی بنیاد پر اسےمہاراشٹراورگجراتریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک مطالبہ اٹھا کہ شہر کو ایک خود مختار شہر، یعنی ریاست کا درجہ دیا جائے۔ حالانکہ اقوام مہاراشٹر کمیٹی کی تحریک میں اس کی بھرپور مخالفت ہوئی اور ممبئی کو مہاراشٹر کے دار الحکومت بنانے پر زور دیا گیا۔ اس قضیہ کی وجہ سے، 105 لوگ پولیس فائرنگ میں مارے بھی گئے اور اس کے نتیجے کے طور 1 مئی،1960ءکو ریاست مہاراشٹر قائم ہوا، جس کا دار الخلافہ ممبئی بنا۔1970ءکی دہائی کے آخر تک، یہاں کی تعمیر میں ایک تبدیلی ہوئی، جس نے یہاں آنے والے مہاجروں کی تعداد کو ایک بڑے پوائنٹس تک پہنچایا۔ اس سے ممبئی نےکلکتہکو آبادی میں پیچھے چھوڑ دیا۔ اس تازہ صورت حال نے مقامیمراٹھیلوگوں کے اندر ایک نئی فکر کو جگہ دی، جو اپنی ثقافت، تجارت، زبان کے کھونے سے اقلیت میں تبدیل ہو رہے تھے۔بالا صاحب ٹھاکرےکی طرف سےشیوسینا پارٹیبنائی گئی، جو مراٹھوں کے مفاد کی حفاظت کرنے کے لیے بنی تھی۔ شہر کا مذہب - جانبدار ذرائع1992ء-93ء کے فسادات کی وجہ سے ممبئی ہل کر رہ گیا، جس میں بڑے پیمانے پر جان اور مال کا نقصان ہوا۔ اس کے کچھ ہی ماہ بعد 12 مارچ،1993ءکو بم دھماکوں نے شہر کو دہلا دیا۔ ان میں پورے ممبئی میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔1995ءمیں شہر کا نام تبدیل کر کے ممبئی کر دیا گیا۔ یہاں حالیہ برسوں میں بھی شدت پسندوں کی طرف سے دہشت گردانہ حملے ہوئے۔2006ءمیں یہاں ٹرین دھماکے ہوئے جن میں دو سو سے زیادہ افراد ہلاک، جب کئی بم ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں پھٹے۔ اس کے علاوہ،2008ءمیں ہوئے المعروفممبئی حملوںمیں کئی لوگ ہلاک ہوئے۔"
+124,بھارت کے شہر بلحاظ آبادی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA_%DA%A9%DB%92_%D8%B4%DB%81%D8%B1_%D8%A8%D9%84%D8%AD%D8%A7%D8%B8_%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF%DB%8C,مندرجہ ذیل جدولوں میں ''بھارتکے شہروں کی فہرستیں بلحاط آبادیکے ہیں۔یہ فہرست صرف شہروں کی ہے۔تعریف:[1]جن شہروں کے نامموٹے حروفمیں ہیں وہریاستیدار الحکومت ہیں۔۔(بھارت)
+125,فہرست شہری علاقہ جات بلحاظ آبادی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA_%D8%B4%DB%81%D8%B1%DB%8C_%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%DB%81_%D8%AC%D8%A7%D8%AA_%D8%A8%D9%84%D8%AD%D8%A7%D8%B8_%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF%DB%8C,یہفہرست شہری علاقہ جات بلحاظ آبادی(List of urban areas by population) ہے۔ اس کے اعداد و شمارڈیموگرافیانے مرتب کیے ہیں۔[1]آبادی کے اندازوں اور زمین کے علاقے کی تعریف کے ذرائع، بالترتیب مندرجہ ذیل جدول میں حرف بطور رمز موجود ہیں۔
+126,ممبئی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%85%D8%A8%D8%A6%DB%8C,"ممبئی(مراٹھی: मुंबई)، (سابق نام :بمبئی)،بھارتکی ریاستمہاراشٹرکادار الحکومتہے۔ تقریباً ایک کروڑ 42 لاکھ کی آبادی کا حامل یہ شہر آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ اپنے مضافاتی علاقوںنوی م��بئیاورتھانےکو ملا کر یہ دنیا کا چوتھا سب سے بڑا شہری علاقہ بنتا ہے جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 90 لاکھ بنتی ہے۔ ممبئی بھارت کے مغربی ساحل پر واقع ہے اور ایک گہری قدرتیبندرگاہیہاں موجود ہے۔ بھارت کی نصف سے زائد بحری تجارت ممبئی کی بندرگاہ سے ہوتی ہے۔یہ شہرتیسری صدیقبل مسیحمیںسلطنت موریہنے سات جزائر پرہندووبدھثقافتکے مرکز کی حیثیت سے قائم کیا۔ بعد ازاں یہ جزائر مختلف سلطنتوں کا حصہ رہے اور بالآخرسلطنت برطانیہکیایسٹ انڈیا کمپنیکے زیر نگیں آئے جس نے ان سب کو ملا کر بمبئی کا نام دیا۔ 18 ویں صدی کے وسط میں یہ ایک اہم تجارتی قصبے کی حیثیت سے ابھرا۔19 ویں صدیمیں اقتصادی و تعلیمی سرگرمیوں نے شہر کو شناخت بخشی۔20 ویں صدیکے دوران یہ بھارت کی آزادی کی تحریک کا ایک اہم مرکز رہا اورستیاگرہتحریک]] اور بحریہ کی بغاوت یہیں سے سے پھوٹیں۔1947ءمیںہندوستانکی آزادی کے بعد شہر کر ریاست بمبئی کا حصہ بنایا گیا تھا۔1960ءمیں ایک تحریک کے بعد مہاراشٹر کی نئی ریاست تشکیل دی گئی اور بمبئی کو اس کا دار الحکومت بنایا گیا۔1996ءمیں، شہر کا نام بدل کر ممبئی کر دیا گیا۔ممبئی بھارت کا تجارتی و تفریحی مرکز ہے جو بھارت کے کلجی ڈی پیکا 5 فیصد پیدا کرتا ہے اور 25 فیصد صنعتی پیداوار، 40 فیصد بحری تجارت اور 70 فیصد سرمایہ کی لین دین کے ذریعے بھارت کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ممبئی اہم مالیاتی اداروں کا مرکز بھی ہے اورریزرو بینک آف انڈیا،بمبئی اسٹاک ایکسچینج،نیشنل اسٹاک ایکسچینج آف انڈیااور کئی بھارتی و کثیر القومی اداروں کے دفاتر اسی شہر میں واقع ہیں۔ شہر میں ہندی فلموں اور ٹیلی وژن صنعت کا مرکز بھی واقع ہے جو ""بالی ووڈ"" کہلاتا ہے۔ ممبئی میں کاروبار کے وسیع مواقع اور بہتر طرز رہائش اسے بھارت بھر کے لیے لوگوں کے لیے پرکشش بناتے ہیں اور یوں یہ شہر مختلف طبقات اور ثقافتوں کا مرکز بن چکا ہے۔ممبئی شہربھارتکے مغربی کنارے پر كوك ساحلی علاقے میں الهاس دریا کے کنارے پر واقع ہے۔ اس میں سے لسیٹجزیرےکا یا جزوی حصہ ہے اور باقی حصہ تھانے ضلع میں آتے ہیں۔ زیادہ تر شہرسطح سمندرسے کم بلند ہے، جس کی اوسط اونچائی 10 میٹر (33 فٹ) سے 15 میٹر۔ (49 فٹ) کے درمیان میں ہے۔ شمالی ممبئی کا علاقہ پہاڑی ہے، جس کا اولین مقام 450 میٹر۔ (1،476 فٹ) پر ہے۔ [21] شہر کا کل رقبہ 603 کہ میٹر ² (233 sq mi) ہے۔سنجے گاندھی نیشنل پارکشہر کے قریب ہی واقع ہے یہ کل شہری علاقے کے تقریباً نصف حصہ میں بنا ہوا ہے۔ اس پارک میںتیندوےوغیرہ جانورآج بھی مل جاتے ہیں۔
+بھاٹسا ڈیم کے علاوہ، 6 اہم جھيلیں شہر کو پانی فراہم کرتی ہیں: وہار جھیل، وے ترا، ایڈیشنل وے ترا، تلسی، تس و پووي۔تلسی اور وہار جھیل بورولی نیشنل پارک میں شہر کی میونسپل حدود کے اندر واقع ہیں۔ پووی جھیل سے صرف صنعتی جلاپرت کی جاتی ہے۔ تین چھوٹی ندیاں دہسر، پوسر اور اوہواڑا (یا اوشيواڑا) پارک کے اندر سے نكلتی ہیں، جب کہ میٹھی ندی، تلسی جھیل سے نکلتی ہے اور وہار اور پووی جھیلوں کا اضافہ ہوا پانی لے لیتی ہے۔ شہر کی تٹرےكھا بہت زیادہ نوے شكاو (تنگ كھاڑيو) سے بھری ہے۔ سیلیسٹ جزیرے کی مشرقی طرف دلدلی علاقہ ہے، جو جے وبھننتاو سے بھر ہے۔ مغربی کنارے میں زیادہ تر ریتلا یا پتھريلا ہے۔
+ممبئی کی بحیرہ عرب سے سميپتا کی طرف شہری علاقے میں خاص طور ریتيلی ریت ہی ملتی ہے۔ مضافاتی علاقوں میں، مٹی زیادہ تر اليويل اور ڈھیلے دار ہے۔ یہ آخری كرہٹشيس اور ابتدائی ايوسين دور کے ہیں۔ ممبئی سيذمك اےكٹو (زلزلہ آور) خطہ ہے، جس کی وجہ سے اس علاقے میں تین سرگرم فالٹ لائنز ہیں۔ اس علاقے کو تیسری قسم میں درجہ بندی کی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ شدت ریکٹر پیمانے پر 6.5 شدت کے زلزلے آ سکتے ہیں۔ممبئی کا ایک نام بمبئی بھی ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہاں پر مُمب نام کی ایک دیوی کی پوجا کی جاتی تھی جس کی وجہ سے ممبئی کا موجودہ نام پڑ گیا۔ مُمب اس دیوی کا نام ہے اور آخر میںئیکا اضافہ کیا گیا ہے جو حقیقت میں لفظآئیہے، مقامی زبانوں (جیسے مراٹھی وغیرہ) میں آئی کا مطلبماںہے۔كادولی کے قریب شمالی ممبئی میں ملے قدیم باقیات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ جزائر پاشا دور سے یہاں آباد ہیں۔ انسانی آبادی کے تحریری ثبوت 250ء تک ملتے ہیں۔ تیسری صدی میں یہ جزائرسلطنت موریہکا حصہ بنے، جب جنگجواشوکعظیم کا راج تھا۔ کچھ ابتدائی صدیوں میں ممبئی کا کنٹرول ساتواہن سلطنت کے پاس رہا۔ بعد میں ہندو سلهارا خاندان کے بادشاہوں نے یہاں1343ءتک راج کیا، یہاں تک کہگجراتکے بادشاہنے اس خطہ پر قبضہ نہیں کر لیا۔1534ءمیں،پرتگالیوںنےگجراتکے بہادر شاہ سے یہ جزائر هتھيا لیے۔ جو بعد میںچارلس دوم،انگلینڈکو تحفہ کی شکل دے دیے گئے۔ یہ جزائر1668ءمیں، برطانویایسٹ انڈیا کمپنیکو صرف دس پاونڈ فی سال کی شرح پر ٹھیکا پر دے دیے گئے۔ کمپنی کو جزائر کے مشرقی کنارے پر گہرے کی بندرگاہ عطا حوالے کی گئیں، جوبرصغیرمیں ترسیل کے لیے انتہائی اہم تھی۔ یہاں کی آبادی1661ءمیں صرف دس ہزار تھی، جو1675ءمیں بڑھ کر ساٹھ ہزار ہو گئی۔1687ءمیں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے صدر دفتر کو سورت سے منتقل کر کے یہاں ممبئی میں قائم کیا۔ اور آخر میں شہر بمبئی پریزیڈنسی کا ہیڈ کوارٹر بن گیا۔گیٹ وے آف انڈیا، 2 دسمبر،1911ءکو بھارت میں بادشاہجارج پنجماور ملکہ میری کے آمد پر استقبال کے لیے بنایا گیا، جو 4 دسمبر،1924ءکو مکمل ہوا۔
+سن1817ءکے بعد، شہر کو بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں سے مزین کیا گیا۔ اس میں تمام جزیروں کو ایک جڑے ہوئے جزائر میں جوڑنے کا منصوبہ اہم تھا۔ جزائر کو جوڑنے کا یہ منصوبہ1845ءمیں مکمل ہوا۔1853ءمیں،بھارتکی پہلی مسافر ریلوے لائن قائم ہوئی، جس نے ممبئی کو تھانے سے جوڑا۔ یہ شہر تب دنیا کا اہم کاروباری مرکز بنا، جس سے اس کی معیشت مضبوط ہوئی۔ ترقی کی وجہ سے شہر کی اہمیت چنداں بڑھ گئی اور تب ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا جس کے تحت شہر کی سطح سمندر سے بلند کی گئی۔1869ءمیںنہر سویزکے کھلنے کے بعد سے، یہبحیرہ عربکی سب سے بڑی بندرگاہ بن گیا۔ اگلے تیس برسوں میں، یہ معمولی شہر سے بڑے شہری مرکز کی صورت اخیتار کرنے لگا۔1906ءتک شہر کی آبادی دس لاکھ کے تقریباً ہو گئی تھی۔ اب یہ بھارت کی اس وقت دار الحکومت کلکتہ کے بعد بھارت میں، دوسرے نمبر سب سے بڑا شہر تھا۔ ممبئی پریزیڈنسی کے دار الحکومت کے طور پر، یہ ہندوستانی جنگ آزادی کی بنیاد بنا رہا۔ممبئی میں اس جنگ کی یادگار کی تیاری کا منصوبہ1942ءمیں مہاتماگاندھیکی طرف سے پیش کیا گیا اور تب ہیآل انڈیا کانگریسکی مشہور زمانہبھارت چھوڑو تحریککا آغاز کیا گیا۔1947ءمیں ہندوستان کی آزادی کے بعد، یہ بامبئے ریاست کا دار الحکومت بنا۔1950ءمیں شمالی جانب واقع سے لسیٹ جزیرے کے حصوں کو ملاتے ہوئے، یہ شہر اپنی موجودہ سرحدوں تک پہنچا۔1955ءکے بعد، بمبئے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور زبان کی بنیاد پر اسےمہاراشٹراورگجراتریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک مطالبہ اٹھا کہ شہر کو ایک خود مختار ��ہر، یعنی ریاست کا درجہ دیا جائے۔ حالانکہ اقوام مہاراشٹر کمیٹی کی تحریک میں اس کی بھرپور مخالفت ہوئی اور ممبئی کو مہاراشٹر کے دار الحکومت بنانے پر زور دیا گیا۔ اس قضیہ کی وجہ سے، 105 لوگ پولیس فائرنگ میں مارے بھی گئے اور اس کے نتیجے کے طور 1 مئی،1960ءکو ریاست مہاراشٹر قائم ہوا، جس کا دار الخلافہ ممبئی بنا۔1970ءکی دہائی کے آخر تک، یہاں کی تعمیر میں ایک تبدیلی ہوئی، جس نے یہاں آنے والے مہاجروں کی تعداد کو ایک بڑے پوائنٹس تک پہنچایا۔ اس سے ممبئی نےکلکتہکو آبادی میں پیچھے چھوڑ دیا۔ اس تازہ صورت حال نے مقامیمراٹھیلوگوں کے اندر ایک نئی فکر کو جگہ دی، جو اپنی ثقافت، تجارت، زبان کے کھونے سے اقلیت میں تبدیل ہو رہے تھے۔بالا صاحب ٹھاکرےکی طرف سےشیوسینا پارٹیبنائی گئی، جو مراٹھوں کے مفاد کی حفاظت کرنے کے لیے بنی تھی۔ شہر کا مذہب - جانبدار ذرائع1992ء-93ء کے فسادات کی وجہ سے ممبئی ہل کر رہ گیا، جس میں بڑے پیمانے پر جان اور مال کا نقصان ہوا۔ اس کے کچھ ہی ماہ بعد 12 مارچ،1993ءکو بم دھماکوں نے شہر کو دہلا دیا۔ ان میں پورے ممبئی میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔1995ءمیں شہر کا نام تبدیل کر کے ممبئی کر دیا گیا۔ یہاں حالیہ برسوں میں بھی شدت پسندوں کی طرف سے دہشت گردانہ حملے ہوئے۔2006ءمیں یہاں ٹرین دھماکے ہوئے جن میں دو سو سے زیادہ افراد ہلاک، جب کئی بم ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں پھٹے۔ اس کے علاوہ،2008ءمیں ہوئے المعروفممبئی حملوںمیں کئی لوگ ہلاک ہوئے۔"
+127,امریکی ڈالر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DB%8C_%DA%88%D8%A7%D9%84%D8%B1,"250 px|بائیں|تصغیر|ایک امارات درہم کا نوٹ. سامنے کا رخ[[فائیلUnited States one dirhamr bill, reverse.jpg|250 px|تصغیر|بائیں|ایک امارات کے نوٹ کا پچھلا نظارہ۔ دائیں جانب 'عظیم امارات مہر' کا اگلا اور بائیں جانب پچھلا منظر ہے جس پر لکھا ہے Novus Ordo Seclorum]]درہمبہت سے ممالک کا زرِ مبادلہ (کرنسی) ہے جس میں امارات بھی شامل ہے۔اماراتڈالر کی موجودہ قیمت تقریباً127 پاکستانی روپے سے زیادہ ہے۔ جن ممالک کی کرنسی ڈالر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے اور وہ درہم کومعیاری سکہ فرض کرکےبین الاقوامیتجارت کرتے ہیں ان کو درہم ممالک کہتے یں۔ جن ممالک کی کرنسی انگریزیپونڈکے معیار کے مطابق گھٹتی بڑھتی ہے ان کو سٹرلنگ ممالک کہتے ہیں۔عام طور پر عددی رقم سے پہلے لکھی جانے والی علامت$امریکی ڈالر کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ علامتاٹھارویں صدیکے کاتب مخففpsکے ارتقا کا نتیجہ ہے جوپیسوکے لیے استعمال ہوتی تھی۔ P اور S بالآخر ایک دوسرے کے اوپر لکھے جانے سے$کو جنم دیا۔[15][16][17][18]ماضی میں ایک لاکھ ڈالر کابینک نوٹ امریکا میں استعمال ہو چکا ہے۔21 اپریل 2010 کو 100 ڈالر کے نئے امریکی کرنسی نوٹ کی تصویر جاری کر دی گئی ہے۔ یہ نوٹ جعلی چھاپنا بہت ہی مشکل ہے اور یہ نوٹ فروری 2011 سے استعمال ہونا شروع ہوئے ہیں۔"
+128,دریائے جمنا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D8%AC%D9%85%D9%86%D8%A7,کوہہمالیہکے علاقہ جمنوتری سے نکلتا ہے۔ اور 850 میل جنوب کی طرف بہتا ہواالہ آبادکے مقام پردریائے گنگاسے جا ملتا ہے۔ہندواس مقام کو بہت متبرک خیال کرتے ہیں۔دہلی، برنداون،متھرا،اورآگرہ، اسی دریا کے کنارے آباد ہیں۔ الہ آباد سے متھرا تک اس میں کشتیاں چل سکتی ہیں۔چنبل، بیتوا اور کین سون دریائے جمنا کے معاون ہیں جو بندھیا چل سے نکلتے ہیں۔ ہندوگنگاکی طرح جمنا کو بھی مقدس سمجھتے ہیں۔کانپورکے قریب دریائے جمنا سے نہر جمن شرقی نکالی گئی ہے۔ جو گنگا اور جمنا کے درمیانی دوآبہ کو سیراب کرتی ہے۔دہلیسے ذرا نیچے نہرآگرہبھی دریائے جمنا ہی سے نکالی گئی ہے۔
+129,چھٹی صدی ق م,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%86%DA%BE%D9%B9%DB%8C_%D8%B5%D8%AF%DB%8C_%D9%82_%D9%85,چھٹی صدی ق میاچھٹی صدی قبل مسیح(6th century BC) ایک مدت ہے جس میں600 ق مسے501 ق متک کے سال ہیں۔
+130,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+131,سلطنت دہلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA_%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C,"1206ء سے 1526ء تک ہندوستان پر حکومت کرنے والی کئی حکومتوں کو مشترکہ طور پردہلی سلطنتکہا جاتا ہے۔ ترک اورپشتوننسل کی ان حکومتوں میںخاندان غلاماں(1206ء تا 1290ء)،خلجی خاندان(1290ء تا 1320ء)،تغلق خاندان(1320ء تا 1413ء)،سید خاندان(1414ء تا 1451ء) اورلودھی خاندان(1451ء تا 1526ء) کی حکومتیں شامل ہیں۔ 1526ء میں دہلی کی آخری سلطنتمغلیہ سلطنتمیں ضم ہو گئی۔12 ویں صدی میںشہاب الدین غورینےغزنی،ملتان،سندھ،لاہوراوردہلیکو فتح کیا اور 1206ء میں اس کی شہادت کے بعد اس کا ایک غلام جرنیلقطب الدین ایبکدہلی میں تخت نشین ہوا اور اس طرح دہلی سلطنت اورخاندان غلاماںکی حکومت کا آغاز ہوا۔ خاندان غلاماں کی حکومت انتہائی تیزی سے پھیلی اور صدی کے وسط تکدرہ خیبرسے لے کربنگالتک کا علاقہ سلطنت میں شامل ہو گیا۔التمش(1210ء تا 1235ء) اورغیاث الدین بلبن(1266ء تا 1287ء) اس خاندان کے مشہور حکمران رہے۔
+1290ء میں اس خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اورخلجی خاندانابھرا جو غوری کے دوران میں بنگال کا حکمران تھا۔ خلجی حکمرانوں نےگجراتاورمالوہفتح کیا اوردریائے نرمداکے پار جنوب میںتمل ناڈوتک ان کے قدم جاپہنچے۔ پہلے سلطان دہلی اور بعد ازاںگلبرگہکیبہمنی سلطنتاور 1518ء میں بہمنی سلطنت کی 5 دکن سلطنتوں میں تقسیم کے بعد بھی جنوبی ہند میں مسلمانوں کی پیش قدمی جاری رہی۔ ہندو سلطنت وجے نگر نے جنوبی ہند کو اپنے پرچم تلے جمع کرتے ہوئے دہلی سلطنت کی پیش قدمی کو کچھ عرصے کے لیے روکا لیکن 1565ء میں دکن سلطنت کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔دہلی سلطنت واحد سلطنت تھی جس کے دوران بھارت پر ایک خاتون نے حکومت کی۔ خاندان غلاماں کی حکومت کے دوران التتمش نے اپنی بیٹیرضیہ سلطانہکے حق میں وصیت کردی تھی جس نے 1236ء سے 1240ء تک تخت ہندوستان سنبھالا۔ حالانکہ اس کا دور حکومت انتہائی مختصر تھا لیکن مورخین اس کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ التتمش کے کئی بیٹے تھے لیکن وہ کہتا تھا کہ ""مرد تو صرف رضیہ ہے""۔ رضیہ کو اپنے ہی بھائیوں کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر اپنے شوہر سمیت انہی کے ہاتھوں ماری گئی۔ وہمسلمتاریخ کی پہلی خاتون حکمران تھی جس کی حکومت مشرق میںدہلیسے مغرب میںپشاوراورشمالمیںکشمیرسے جنوب میںملتانتک قائم تھی۔1398ء میںتیمور لنگکے حملے کے باعث سلطنت دہلی کو زبردست نقصان پہنچا اوراودھ،بنگال،جونپور،گجراتاورمالوہکی آزاد حکومتیں قائم ہوگئیں۔ لودھیوں کے دور حکومت میں دہلی سلطنت کافی حد تک بحال ہو گئی اور بالآخر 1526ء میںظہیر الدین بابرنےمغلیہ سلطنتکی بنیاد رکھی۔مزید دیکھیے:دہلی سلطنت کے حکمرانوں کی فہرست"
+132,سلطنت دہلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA_%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C,"1206ء سے 1526ء تک ہندوستان پر حکومت کرنے والی کئی حکومتوں کو مشترکہ طور پردہلی سلطنتکہا جاتا ہے۔ ترک اورپشتوننسل کی ان حکومتوں میںخاندان غلاماں(1206ء تا 1290ء)،خلجی خاندان(1290ء تا 1320ء)،تغلق خاندان(1320ء تا 1413ء)،سید خاندان(1414ء تا 1451ء) اورلودھی خاندان(1451ء تا 1526ء) کی حکومتیں شامل ہیں۔ 1526ء میں دہلی کی آخری سلطنتمغلیہ سلطنتمیں ضم ہو گئی۔12 ویں صدی میںشہاب الدین غورینےغزنی،ملتان،سندھ،لاہوراوردہلیکو فتح کیا اور 1206ء میں اس کی شہادت کے بعد اس کا ایک غلام جرنیلقطب الدین ایبکدہلی میں تخت نشین ہوا اور اس طرح دہلی سلطنت اورخاندان غلاماںکی حکومت کا آغاز ہوا۔ خاندان غلاماں کی حکومت انتہائی تیزی سے پھیلی اور صدی کے وسط تکدرہ خیبرسے لے کربنگالتک کا علاقہ سلطنت میں شامل ہو گیا۔التمش(1210ء تا 1235ء) اورغیاث الدین بلبن(1266ء تا 1287ء) اس خاندان کے مشہور حکمران رہے۔
+1290ء میں اس خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اورخلجی خاندانابھرا جو غوری کے دوران میں بنگال کا حکمران تھا۔ خلجی حکمرانوں نےگجراتاورمالوہفتح کیا اوردریائے نرمداکے پار جنوب میںتمل ن��ڈوتک ان کے قدم جاپہنچے۔ پہلے سلطان دہلی اور بعد ازاںگلبرگہکیبہمنی سلطنتاور 1518ء میں بہمنی سلطنت کی 5 دکن سلطنتوں میں تقسیم کے بعد بھی جنوبی ہند میں مسلمانوں کی پیش قدمی جاری رہی۔ ہندو سلطنت وجے نگر نے جنوبی ہند کو اپنے پرچم تلے جمع کرتے ہوئے دہلی سلطنت کی پیش قدمی کو کچھ عرصے کے لیے روکا لیکن 1565ء میں دکن سلطنت کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔دہلی سلطنت واحد سلطنت تھی جس کے دوران بھارت پر ایک خاتون نے حکومت کی۔ خاندان غلاماں کی حکومت کے دوران التتمش نے اپنی بیٹیرضیہ سلطانہکے حق میں وصیت کردی تھی جس نے 1236ء سے 1240ء تک تخت ہندوستان سنبھالا۔ حالانکہ اس کا دور حکومت انتہائی مختصر تھا لیکن مورخین اس کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ التتمش کے کئی بیٹے تھے لیکن وہ کہتا تھا کہ ""مرد تو صرف رضیہ ہے""۔ رضیہ کو اپنے ہی بھائیوں کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر اپنے شوہر سمیت انہی کے ہاتھوں ماری گئی۔ وہمسلمتاریخ کی پہلی خاتون حکمران تھی جس کی حکومت مشرق میںدہلیسے مغرب میںپشاوراورشمالمیںکشمیرسے جنوب میںملتانتک قائم تھی۔1398ء میںتیمور لنگکے حملے کے باعث سلطنت دہلی کو زبردست نقصان پہنچا اوراودھ،بنگال،جونپور،گجراتاورمالوہکی آزاد حکومتیں قائم ہوگئیں۔ لودھیوں کے دور حکومت میں دہلی سلطنت کافی حد تک بحال ہو گئی اور بالآخر 1526ء میںظہیر الدین بابرنےمغلیہ سلطنتکی بنیاد رکھی۔مزید دیکھیے:دہلی سلطنت کے حکمرانوں کی فہرست"
+134,قوت اسلام مسجد,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%D8%AC%D8%AF_%D9%82%D9%88%D8%AA_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85,"قوت اسلام مسجدہندوستانکے دار الحکومتدہلیمیںعہد خاندان غلاماںکی ایک عظیم یادگار جس کا ""قطب مینار"" عالمی شہرت کا حامل ہے۔ یہقطب الدین ایبککے دور کی تعمیرات میں سب سے اعلٰی مقام رکھتی ہے۔ یہ ہندوستان کی فتح کے بعد دہلی میں تعمیر کی جانے والی پہلیمسجدتھی۔ اس کی تعمیر کا آغاز1190ءکی دہائی میں ہوا۔13 ویں صدی میںالتمشکے دور حکومت میں اس میں توسیع کر کے حجم میں تین گنا اضافہ کیا گیا۔ بعد ازاں اس میں مزید تین گنا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور عظیم مینار تعمیر کیا گیا۔اس کے مشہور قطب مینار کی تعمیر کا آغاز1199ءمیں ہوا تھا۔ اور بعد ازاں آنے والے حکمران اس میں مزید منزلوں کا اضافہ کرتے گئے اور بالآخر1368ءمیں یہمینار72 اعشاریہ 5میٹر(238فٹ) تک بلند ہو گیا۔ اس طرح یہ مینار آج بھی اینٹوں کی مدد سے تعمیر کردہ دنیا کا سب سے بلند مینار ہے اور ہندی-اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ بنیاد پر اس کا قطر 14 اعشاریہ 3 جبکہ بلند ترین منزل پر 2 اعشاریہ 7 میٹر ہے۔ یہ مینار اور اس سے ملحقہ عماراتاقوام متحدہکے ذیلی ادارےیونیسکوکےعالمی ثقافتی ورثےکی فہرست میں شامل ہیں۔مسجد میںخط کوفیمیںخطاطیکے بہترین نمونے موجود ہیں۔ مسجد کے مغرب میںالتتمشکا مزار ہے جو1235ءمیں تعمیر کیا گیا۔ مسجد کی موجودہ صورت حال کھنڈر جیسی ہی ہے۔
+حکیم الامتعلامہ محمد اقبالنے اپنے مجموعۂ کلام ""ضرب کلیم"" میں ایک نظم ""قوت اسلام مسجد"" کے عنوان سے لکھی ہے:'لا الہ' مردہ و افسردہ و بے ذوقِ نمودچشمِ فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کوکہ ایازی سے دگرگوں ہے مقامِ محمودکیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سےکہ غلامی سے ہوا مثلِ زُجاج اس کا وجودہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نمازجس کی تکبیر میں ہر معرکۂ بود و نبوداب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت، وہ گدازبے تب و تابِ دروں میری صلوٰۃ و درودہے مری بانگِ اذاں می�� نہ بلندی، نہ شکوہکیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟"
+135,ہندوستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"ہندوستان(فارسی: هندوستانتلفظ(معاونت·معلومات)) جس کا تلفظ (ہندُوستان یا ہندوستاں) سے ہوتا ہے، اس کی مختصر شکلہند(هند) ہے،[1]جو ہندوستان کے لیےفارسیمیں بھی مستعمل ہے، بڑے پیمانے پربرصغیر ہند؛ جسے بعد میں اس کے باشندوں نےہندی–اردو (ہندوستانی)میں استعمال کیا۔[2][3][4][5]برصغیر کے دیگر ناموں میںجمبُو دویپ،بھارتاور انڈیا شامل ہیں۔تقسیم ہندکے بعد؛ یہجمہوریہ ہندکے تاریخی نام کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔[6][7][8]ہندوستان کا ایک ثانوی معنی شمالی ہندوستان میںہند گنگا میدانکے لیے جغرافیائی اصطلاح کے طور پر ہے۔[9]ہندستانفارسیلفظہندوسے ماخوذ ہے، جو سنسکرت کےسندھوکے مشابہ ہے۔[10]ایسکو پرپولاکے مطابقپروٹو-ایرانیآواز کیسسےہمیں تبدیلی 850-600 قبل مسیح کے درمیان واقع ہوئی۔[11]لہذا،رگ ویدیسپت سندھو(سات دریاؤں کی زمین[پنجاب])اوستامیںہپت ہندوبن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ""پندرھواں ڈومین"" ہے، جسےاہورا مزدانے بنایا ہے، بظاہر 'غیر معمولی گرمی' کی سرزمین۔[12]515 قبل مسیح میںدارا اولنےوادی سندھکو شامل کیا جس میںسندھو(آج کل کاسندھ) بھی شامل تھا، جسے فارسی میںہندوکہا جاتا ہے۔[13]خشیارشا اولکے زمانہ میں ""ہندو"" کی اصطلاح سندھ کے مشرق کی زمینوں کو بھی شامل ہوتی تھی۔[10]درمیانی فارسیمیں غالباً پہلی صدی عیسوی سے-ستان(جائے، جگہ) کا اضافہ کیا گیا، جو کسی ملک یا خطے کی نشان دہی کرتا ہے، موجودہ لفظہندوستانکی تشکیل دیتا ہے۔[14]اسی طرحت262 عیسوی میںشاہپور اولکے نقشِ رستم نوشتہ میں سندھ کوہندوستانکہا گیا ہے۔[15][16]مورخبرتندر ناتھ مکھرجیبیان کرتے ہیں کہ زیریں سندھ طاس سے، ""ہندوستان"" کی اصطلاح آہستہ آہستہ ""کم و بیش پورےبرصغیرمیں پھیل گئی""۔ گریکو رومن نام ""انڈیا"" اور چینی نام ""شین ٹو"" نے بھی اسی طرح کے ارتقا کی پیروی کی۔[15][17]عربی اصطلاحہند؛ جو فارسیہندوسے ماخوذ ہے، عربوں نےمکرانکے ساحل سے انڈونیشیا کے جزیرہ نما تک ہندوستانی خطے کے لیے استعمال کیا تھا۔[18]لیکن آخر کار اس کی شناخت بھی برصغیر پاک و ہند سے ہوئی۔""ہندوستان"" اکثر جدید دورجمہوریہ ہندکے لیے استوتا ہے۔[19][7][8]اصطلاح میں شامل نعرے عام طور پر کھیلوں کے پروگراموں اور دیگر عوامی پروگراموں میں سنائے جاتے ہیں، جن میں ٹیمیں یا ادارے شامل ہوتے ہیں، جو ہندوستان کی جدید قومی ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مارکیٹنگ میں ہندوستان نام؛ عام طور پر اشتہاری مہموں میں قومی اصل کے اشارے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور یہ بہت سے کمپنی کے ناموں میں بھی مستعمل ہے۔پاکستانکے بانیمحمد علی جناحاور ان کی جماعتمسلم لیگنے ہندو اکثریتی آبادی کے حوالے سے جدید دور کی جمہوریہ ہند کو ""ہندوستان"" کہنے پر اصرار کیا۔[20]ہندوستان میں ہندوستانی بولنے والوں کے درمیان ایک استعمال میں مذہبی نسبت سے قطع نظر؛ 'ہندوستانی' اصطلاح سے مراد انڈین (ہندوستان کا باشندہ) ہے۔ غیر ہندستانی بولنے والوں مثلاً بنگالی بولنے والوں میں ""ہندوستانی"" کا استعمال؛ ان لوگوں کی وضاحت کے لیے کیا جاتا ہے، جو اوپری گنگا سے ہیں، مذہبی وابستگی سے قطع نظر؛ بلکہ ایک جغرافیائی اصطلاح کے طور پر۔ہندوستانیکو بعض اوقات جنوبی ایشیا میں لاگو ہونے والینسلیاصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے (مثال کے طور پر،جنوبی ایشیامیں جڑیں رکھنے والا ماریشیا یا سورینام کا آ��می اپنی نسل کو یہ کہہ کر بیان کر سکتا ہے کہ وہ ""ہندوستانی"" ہے)۔ مثال کے طور پر 'ہندستانینایکولندیزیلفظ ہے، جونیدرلینڈزاورسریناممیں جنوب ایشیائی نژاد لوگوں کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ہندوستانی زبانہندوستان کی زبان ہے اور برصغیر پاک و ہند کیزبانِ رابطۂ عامہہے۔[21]ہندوستانیمغربی اتر پردیش/مغربی یوپیاوردہلیکے علاقوں کیپرانی ہندیبولی سے ماخوذ ہے۔ اس کی ادبی معیاری شکلیں—-سنڌي جديد زبانجدید معیاری ہندیاورجدید معیاری اردو—مختلف رسم الخط استعمال کرتی ہیں۔ خود ہندی رجسٹر نے اپنا نام مختصر شکلہند(انڈیا) سے اخذ کیا ہے۔[22]–بابر نامہ، اے ایس بیوریج، انگریزی ترجمہ، جلد.1، سیکشن. iii: 'ہندوستان'[23]ابتدائی فارسی علما کو ہندوستان کی حد تک محدود علم تھا۔ اسلام کی آمد اوراسلامی فتوحاتکے بعد؛ہندوستانکے معنی نے اس کی عربی شکلہندکے ساتھ تعامل کیا، جو فارسی سے بھی ماخوذ تھا اور تقریباً اس کا مترادف بن گیا۔ عربوں نے، سمندری تجارت میں مصروف، مغربی بلوچستان میںتیسسے لے کر انڈونیشیا کے جزیرہ نما تک کی تمام زمینوں کوہندکے تصور میں شامل کیا، خاص طور پر جب اس کی وسیع شکل میں ""الہند"" کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ہندوستانلفظ نے اس وسیع معنی کو حاصل نہیں کیا۔ آندرے وِنک کے مطابق، اس نے وہ امتیاز بھی حاصل نہیں کیا، جو مٹ گیا،سندھ(تقریباً جو اب مغربی پاکستان ہے) اورہند(دریائے سندھ کے مشرق کی سرزمینوں) کے درمیان؛[4][18][24]دوسرے ذرائع بتاتے ہیں کہسندھاورہندکو ابتدائی زمانے سے مترادف استعمال کیا جاتا تھا۔[25]اور یہ کہہندوستان میں اسلامی حکومت کی آمدکے بعد؛ ""پورے برصغیر کے لیے ہند اور سندھ مترادفات کے طور پر استعمال کیے گئے۔""[26]10ویں صدی کے متنحدود العالمنے ہندوستان کو تقریباًبر صغیر پاک و ہندکے طور پر بیان کیا ہے، جس کی مغربی حد دریائے سندھ سے بنتی ہے، جنوبی حد بحیرہ عظیم تک جاتی ہے اور مشرقی حدکاماروپا، موجودہ آسام میں ہے۔[17]اگلی دس صدیوں تک،ہنداورہندوستاندونوں برصغیر میں بالکل اسی معنی کے ساتھ استعمال ہوتے رہے، اس کے ساتھ ان کی صفتہندَوی،ہندوستانیاورہندیاستعمال ہوتی رہی۔[27][28][29]درحقیقت 1220 عیسوی میں مؤرخحسن نظامی نیشاپورینےہندکو ""پشاورسےبحر ہندکے ساحلوں تک اور دوسری سمت میںسیستانسےچینکی پہاڑیوں تک بتایا۔""[30]11 ویں صدی میں شروع ہونے والی ترک-فارسی فتوحات کے ساتھہندوستانکا ایک تنگ معنی بھی شکل اختیار کر گیا۔ فاتحین برصغیر کے باقی حصوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے زیر تسلط زمینوں کوہندوستانکہنے کے ذمہ دار تھے۔[31]11ویں صدی کے اوائل میںپنجابمیںسلطنت غزنویہکی ایکسیٹیلائٹ ریاستجس کا دار الحکومتلاہورتھا، کو ""ہندوستان"" کہا جاتا تھا۔[32]دہلی سلطنتکے قیام کے بعد، شمالی ہندوستان، خاص طور پر گنگا کے میدانی علاقوں اور پنجاب کو ""ہندوستان"" کہا جانے لگا۔[31][33][34][35]اسکالر برتیندر ناتھ مکھرجی کا کہنا ہے کہہندوستانکا یہ تنگ معنی وسیع معنی کے ساتھ ساتھ موجود تھا اور بعض مصنفین نے ان دونوں کو بیک وقت استعمال کیا ہے۔[36]مغلیہ سلطنت(1526ء–1857ء) نے اپنی سرزمین کو 'ہندوستان' کہا۔ 'مغلیہ' اصطلاح خود کبھی بھی زمین کے لیے استعمال نہیں ہوئی۔ جیسے جیسے سلطنت پھیلی، اسی طرح 'ہندوستان' بھی پھیل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ 'ہندوستان' کے معنی پورےبرصغیر ہندکے طور پربابر نامہاورآئین اکبریمیں بھی پائے جاتے ہیں۔[37]آخریگورکھائیبادشاہپرتھوی ناراین شاہنے خودسلطنت نیپالکااصل ہندوستانکے طور پر اعلان کیا؛ کیوں کہ شمالی ہندوستان پر اسلامیمغل حکمرانوںکی حکومت تھی۔ خود اعلان ان کے دور حکومت میں ہندو سماجی ضابطہدھرم شاسترکو نافذ کرنے اور اپنے ملک کوہندووںکے لیے قابل رہائش قرار دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس نے شمالی ہندوستان کومغلان(مغلوںکا ملک) بھی کہا اور اس خطہ کو مسلمان غیر ملکیوں کی دراندازی قرار دیا۔[38]یہ دوہری معنی یورپیوں کی آمد کے ساتھ برقرار رہے۔جیمز رینلنے 1792 میں ’’میموئیر آف اے میپ آف ہندستان‘‘ کے عنوان سے ایکاطلستیار کیا، جو درحقیقت برصغیر پاک و ہند کا نقشہ تھا۔ اس طرح رینل نے تین تصورات،انڈیا،ہندوستاناورمغل سلطنتکو آپس میں ملا دیا۔[39][40]جے برنولی، جن کے لیے ہندوستان کا مطلب مغلیہ سلطنت تھا، نے اپنے فرانسیسی ترجمہ کو La Carte générale de l'Inde (ہندوستان کا عمومی نقشہ) کہا۔[41]برطانوی حساب کا یہ 'ہندوستان' انگریزوں کے زیر اقتدار علاقوں (جسے کبھی کبھی 'انڈیا' بھی کہا جاتا ہے) اور مقامی حکمرانوں کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔[42]تاہم برطانوی حکام اور مصنفین کا خیال تھا کہ ہندوستانی 'ہندوستان' کا استعمال صرف شمالی ہندوستان کے لیے کرتے ہیں۔[43][35]1886ء میں شائع ہونے والی ایکاینگلو-انڈین ڈکشنریمیں کہا گیا ہے: جب کہ ہندوستان کا مطلب انڈیا ہے، ""مقامی زبان"" میں یہبہاراوربنگالکو چھوڑ کردریائے نرمداکے شمال میں واقع علاقے کی نمائندگی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔[34]تحریک آزادی کے دوران، ہندوستانیوں نے اپنی سرزمین کو تینوں ناموں سے پکارا: 'انڈیا'، 'ہندوستان' اور 'بھارت'۔[44]محمد اقبالکی نظمترانۂ ہندیہندوستانی آزادیکارکن۔محمد اقبالکی نظمترانۂ ہندیتحریک آزادی ہندکے کارکنوں میں ایک مقبول حب الوطنی کا ترانہ تھا۔[45]سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا(روئے زمیں پر سب سے بہتر ہمارا ہندوستان ہے۔)آل انڈیا مسلم لیگکی 1940 کیقرارداد لاہور(جسے قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے) نےبرطانوی ہندکے شمالِ مغرب اور شمالِ مشرق میں مسلم اکثریتی علاقوں کے لیے خود مختاری کا مطالبہ کیا، جسے مقبولیت میں 'پاکستان' کہا جانے لگا۔ بول چال اور بقیہ ہندوستان کو 'ہندوستان' کہا جانے لگا۔[46]برطانوی حکام نے بھی ان دونوں اصطلاحات کو منتخب کر لیا اور انھیں سرکاری طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔[19]تاہم 'ہندوستان' کےہندووںکی سرزمین کے مضمر معنی کی وجہ سے یہ نام ہندوستانی لیڈروں کی منظوری پر پورا نہیں اترا۔ ان کا اصرار تھا کہ نئےڈومینین آف انڈیاکو 'ہندوستان' نہیں بلکہ 'انڈیا' کہا جانا چاہیے۔[47]غالباً اسی وجہ سے 'ہندوستان' نام کوہندوستان کی دستور ساز اسمبلیکی سرکاری منظوری نہیں ملی، جب کہ 'بھارت' کو سرکاری نام کے طور پر اپنایا گیا۔[48]تاہم یہ تسلیم کیا گیا کہ 'ہندوستان' غیر سرکاری طور پر استعمال ہوتا رہے گا۔[49]بھارتی مسلح افواجنام کا سلامی ورژن، ""جے ہند"" کو جنگ کی پکار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔[1]پروفیسر اشتیاق احمد ظلی۔ پروفیسر عبد العظیم اصلاحی۔ پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی۔ پروفیسر الطاف احمد اعظمی۔ ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی۔ مختار احمد اصلاحی۔ ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی۔23°59′40″N67°25′51″E / 23.99444°N 67.43083°E /23.99444; 67.43083"
+138,آگرہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%DA%AF%D8%B1%DB%81,آگرہہندوستانکی شمالی ریاستاترپردیشکا اہم شہر ہے۔ اس کا پرانا نام اکبر آباد تھا۔مغلیہ دوربالخصوص شہنشاہجلال الدین محمد اکبرکے زمانے میں یہ دار السلطنت رہا ہے۔آگرہ دنیاکی مشہور اور خوبصورت عمارتتاج محلکے لیے جانا پہچانا جاتا ہے۔ اور یہاں پر شہنشاہجلال الدین محمد اکبرکا تعمیر کردہ لال قلعہ بھی قائم ہے جو ایک خوبصورت اور بڑی عمارت ہے کہا جاتا ہے کہ یہ عمارتدہلیکےلال قلعہسے بھی زیادہ وسیع ہے اس عمارت کے اندر فرصت کے ساتھ گھومنے پر یہاں کی بہت سی حیران کن چیزوں سے تعارف ہوتا ہے۔ پورے لال قلعہ کو سرعت کے ساتھ گھومنے کے واسطے بھی چار پانچ گھنٹے درکار ہیں۔دہلیسے پہلے یہی شہرجلال الدین محمد اکبرکا دار الحکومت ہوا کرتا تھا۔ یہاں پر متعّدد برجیاں قدیمی آثار کی بنی ہوئی۔ اس شہر کی تاریخ بیان کرتی رہتی ہیں یہاں پرشاہجہاںاورسکندرتعمیر کردہ کئی خوبصورت عمارتیں ہیں جنمیںفتح پور سیکریسکندرا دیوان عام، دیوان خاص سر فہرست ہیں۔ یہاں پر قدیم زمانہ کی تعمیر شدہ کئی مساجد ہیں جن میں سے شاہی جامع مسجد آج بھی اپنی پوری آب و تاب و خوبصورتی کے ساتھ ایک مسلمان کا دل موہ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آگرہ سے چالیس کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک شہرفیروزآبادبسا ہو ہے جہاں پر چوڑی کے کارخانے ہیں جن کے دھویں کی وجہ سےتاج محلکی عمارت کو کافی نقصان پہنچتا ہے گورنمینٹ ان کارخانوں کو گیس سے چلانے کا انتظام کر رہی تاکہتاج محلکی خوبصورتی کو قایم رکھا جا سکے اسی بات کے پیش نظر حکومت نے جتنی بھی فیکٹریاں تاج محل کے آس پاس تھیں ان کو ختم کروا دیا ہے۔
+139,1639ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1639%D8%A1,<<< تیسری دہائی <<<چوتھی دہائی>>> پانچویں دہائی >>>
+141,1649ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1649%D8%A1,<<< چوتھی دہائی <<<پانچویں دہائی>>> چھٹی دہائی >>>
+142,1857ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1857%D8%A1,29مارچ کومنگل پانڈے نے ۔۔جو بنگال رجمنٹ کی 34 بٹالین کا سپاہی تھے۔۔۔ایک انگریز سارجنٹ اورایڈجوٹنٹ کو زخمی کر دیا۔۔ ==== اپریل ==18 اپریل کو بارک پور چھاونی نزد کلکتہ منگل پانڈے کو بغاوت کے الزام میں پھانسی دی گئی۔۔<<< پانچویں دہائی <<<چھٹی دہائی>>> ساتویں دہائی>>>
+144,پرانی دہلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%D8%A7%DB%81%D8%AC%DB%81%D8%A7%DA%BA_%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF,پرانی دہلیکومغل حکمرانشاہ جہاںنے 1639ء میں بنامشاہ جہاں آبادقائم کیا تھا اور اپنا پایہ تختآگرہسے یہیں منتقل کر لیا تھا۔ ایک یہ فصیل بند شہر ہے۔[1]پرانی دہلی کی تعمیر 1648ء میں مکمل ہوئی اور مغلیہ سلطنت کے زوال (1857ء) تک پایہ تخت رہی۔[1][2][3]1857ء میں مغلیہ سلطنت زوال پزیر ہوئی اورہندوستانمیںبرطانوی راجقائم ہو گیا۔ پرانی دہلی کبھی خوبصورت مساجد، شاہی دربار، علما و ادبا کامرکز ہوا کرتی تھی۔ آج بھی دہلی کی وہی شان و شوکت باقی ہے مگر اب وہ بھیڑ بھاڑ اور عوام کی عدم دلچسپی کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ بہر حال دہلی اب بھی لوگوں کے دلوں میں بستی ہے یا یوں کہئے کہ دہلی کے دل میں لوگ بستے ہیں۔ اب اس زمانے کی کچھحویلیباقی رہ گئی ہیں جن کی دہلی بلدیہ دیکھ ریکھ کرتی ہے۔2012ء میں دہلی بلدیہ کی از سر نو تقسیم کی گئی اور پرانی دہلی کو جنوبی دہلی میونسپل کارپوریسشن کے زیر انتظام دیا گیا۔[4][5]شاہ جہاں آباد کو قدیم بستی کے شمال میں بسایا گیا تھا۔ جنوبی علاقہ میں 14ویں صدی میںتغلق خانداننے حکومت کی تھی جب دہلیسلطنت دہلیکا پایہ تخت تھا۔ سلطنت دہلی کا زمانہ 1206ء[6]تا 1526ء رہا ہے اور اس پر حکمران آخری خاندانلودھیجسے مغلوں نے شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔[7]سلطنت دہلیکی مندرجہ ذیل پانچ حکومتیں رہیں؛مغل خاندان نے دہلی کی خوب خدمت کی۔ انھوں نے محلات، مساجد اور حویلیاں تعمیر کرائیں۔ ان میں شاہ ج��اں سرفہرست ہے جس نےجامع مسجد دہلی،لال قلعہجیسی شاہکار عمارتیں تعمیر کرائیں۔ انھوں نے لال قلعہ اورچاندنی چوککو ملاتے ہوئے ایک فصیل قائم کی۔ دہلی مغلیہ سلطنت کے 12 صوبوں میں سی ایک تھی جسے 1648ء میں شاہ جہاں آباد کا نام دیا گیا اور اس کی سرحدیں اودھ، آگرہ،اجمیر، ملتان اور لاہور سے ملتی تھیں۔ یہ تمام مغلیہ سلطنت کے صوبے تھے۔ دہلی کی اصلچھاؤنیدریا گنجمیں تھی۔1857ء بغاوتکے بعد مغلیہ سلطنت کا زوال ہوا اور برطانوی حکومت نے اپنا پایہ تختکولکاتاسے دہلی منتقل کر لیا اور 1911ء تک دہلی ان کا دار الحکومت رہا۔ اس کے بعد انگریزی حکومت نے ایک نیا شہرنئی دہلیبسایا اور اس کا افتتاح 1931ء میں ہوا۔ اب نئی دہلی حکومت کا دار الحکومت رہا اور پرانی دہلی کو تاریخی حیثیت دے کر اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا۔
+145,پرانی دہلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C_%D8%AF%D9%84%DB%8C,پرانی دہلیکومغل حکمرانشاہ جہاںنے 1639ء میں بنامشاہ جہاں آبادقائم کیا تھا اور اپنا پایہ تختآگرہسے یہیں منتقل کر لیا تھا۔ ایک یہ فصیل بند شہر ہے۔[1]پرانی دہلی کی تعمیر 1648ء میں مکمل ہوئی اور مغلیہ سلطنت کے زوال (1857ء) تک پایہ تخت رہی۔[1][2][3]1857ء میں مغلیہ سلطنت زوال پزیر ہوئی اورہندوستانمیںبرطانوی راجقائم ہو گیا۔ پرانی دہلی کبھی خوبصورت مساجد، شاہی دربار، علما و ادبا کامرکز ہوا کرتی تھی۔ آج بھی دہلی کی وہی شان و شوکت باقی ہے مگر اب وہ بھیڑ بھاڑ اور عوام کی عدم دلچسپی کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ بہر حال دہلی اب بھی لوگوں کے دلوں میں بستی ہے یا یوں کہئے کہ دہلی کے دل میں لوگ بستے ہیں۔ اب اس زمانے کی کچھحویلیباقی رہ گئی ہیں جن کی دہلی بلدیہ دیکھ ریکھ کرتی ہے۔2012ء میں دہلی بلدیہ کی از سر نو تقسیم کی گئی اور پرانی دہلی کو جنوبی دہلی میونسپل کارپوریسشن کے زیر انتظام دیا گیا۔[4][5]شاہ جہاں آباد کو قدیم بستی کے شمال میں بسایا گیا تھا۔ جنوبی علاقہ میں 14ویں صدی میںتغلق خانداننے حکومت کی تھی جب دہلیسلطنت دہلیکا پایہ تخت تھا۔ سلطنت دہلی کا زمانہ 1206ء[6]تا 1526ء رہا ہے اور اس پر حکمران آخری خاندانلودھیجسے مغلوں نے شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔[7]سلطنت دہلیکی مندرجہ ذیل پانچ حکومتیں رہیں؛مغل خاندان نے دہلی کی خوب خدمت کی۔ انھوں نے محلات، مساجد اور حویلیاں تعمیر کرائیں۔ ان میں شاہ جہاں سرفہرست ہے جس نےجامع مسجد دہلی،لال قلعہجیسی شاہکار عمارتیں تعمیر کرائیں۔ انھوں نے لال قلعہ اورچاندنی چوککو ملاتے ہوئے ایک فصیل قائم کی۔ دہلی مغلیہ سلطنت کے 12 صوبوں میں سی ایک تھی جسے 1648ء میں شاہ جہاں آباد کا نام دیا گیا اور اس کی سرحدیں اودھ، آگرہ،اجمیر، ملتان اور لاہور سے ملتی تھیں۔ یہ تمام مغلیہ سلطنت کے صوبے تھے۔ دہلی کی اصلچھاؤنیدریا گنجمیں تھی۔1857ء بغاوتکے بعد مغلیہ سلطنت کا زوال ہوا اور برطانوی حکومت نے اپنا پایہ تختکولکاتاسے دہلی منتقل کر لیا اور 1911ء تک دہلی ان کا دار الحکومت رہا۔ اس کے بعد انگریزی حکومت نے ایک نیا شہرنئی دہلیبسایا اور اس کا افتتاح 1931ء میں ہوا۔ اب نئی دہلی حکومت کا دار الحکومت رہا اور پرانی دہلی کو تاریخی حیثیت دے کر اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا۔
+146,جنگ آزادی ہند 1857ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%BA%D8%AF%D8%B1,"سلطنت مغلیہایسٹ انڈیا کمپنیکے سپاہی جو انگریزوں کے خلاف تھےسات ہندوستانینوابی ریاستیںبرطانوی فوجایسٹ انڈیا کمپنیوفادار سپاہیNative irregularsEast India Company British regularsBritish and European civilian volunteers raised in the Bengal Presidency21نوابی ریاستیںجنگ آزادی ہند 1857ءجو ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ تھی اسے انگریزوں نے ""جنگ غدر"" کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نےہندوستانکے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جو کارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔جنگ آزادی ہند کا آغاز1857ءمیںبنگالمیں دمدم اور بارک پور کے مقامات پر ہوا جہاں دیسی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کے استعمال سے انکار کر دیا جن میں ان کے خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی لگی ہوئی تھی۔ انگریزی حکومت نے ان سپاہیوں کو غیر مسلح کرکے فوجی ملازمت سے برخواست کر دیا۔ لکھنؤ میں بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ برخاست شدہ سپاہی ملک میں پھیل گئے۔ اور فوجوں کو انگریزوں کے خلاف ابھارنے لگے۔9 مئی1857ءکومیرٹھمیں ایک رجمنٹ کے سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔ جس طریقے سے یہ حکم سنایا گیا وہ بھی تہذیب سے گرا ہوا تھا۔ دیسی سپاہیوں نے انگریز افسروں کو ہلاک کرکے ان قیدیوں کو آزاد کرا لیا اور میرٹھ سےدہلیکی طرف بڑھنے لگے ۔میرٹھکے سپاہیوں کیدہلیمیں آمد سےدہلیکی فوجیں بھی بگڑ گئیں۔ اوردہلیکے مغل تاجداربہادر شاہ ظفرکی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے بعد بغاوت کی آگ دور دور تک پھیل گئی۔جنرل نکلسننے انگریز فوجوں کی مدد سے تقریباً چار مہینے تکدہلیکا محاصرہ کیے رکھا۔14 ستمبرکو کشمیری دروازہ توڑ دیا گیا۔ جنرل نکلسن اس لڑائی میں مارا گیا مگر انگریز اورسکھفوجوں نےدہلیپر قبضہ کر کے۔بہادر شاہ ظفرکو گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا۔ ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو گولی سے اڑا دیا گیا۔دہلیپر انگریزوں کا قبضہ ہو جانے سے ہر جگہ جنگ آزادی کی رفتار مدہم پڑھ گئی۔مارچ1858ءمیںلکھنؤپر دوبارہ انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔دہلی،لکھنؤ،کانپور،جھانسیکے علاوہ چند اور مقامات بھی انگریزوں کے تصرف میں آ گئے۔جنگ آزادی کا نعرہ ""انگریزوں کوہندوستانسے نکال دو"" تھا، اس لیے اس میں تمام ایسے عناصر شامل ہو گئے جن کو انگریز حکومت سے نقصان پہنچا تھا۔ متضاد عناصر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف یکجا تو ہوئے تھے لیکن وطنیت اور قومیت کے تصورات سے ناآشنا تھے۔بہادر شاہ ظفرجس کی بادشاہت کا اعلان باغی سپاہیوں نے کر دیا تھا۔ نہ بادشاہت کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ باغیوں کی مخالفت کرنے کی طاقت۔ مزید برآں باغیوں نےدہلیمیں لوٹ مار اور غارت گری مچا کر عام لوگوں کی ہمدریاں کھو دی تھیں۔ چنانچہ1857ءکی یہ جنگ آزادی ناکام ری۔علامہفضل حق خیر آبادیاور ان کے ساتھیمفتی صدر الدین خان آزردہ،سید کفایت علی کافیاور دیگر بہت سے مسلمان علما نےدہلیکی جامع مسجد سے بیک وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا جس کے نتیجے میں مسلمان اس جنگ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے لڑے۔[3][4][5][6][7][8][9][10]اگست1858ءمیں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلانملکہ وکٹوریہکے ذریعےایسٹ انڈیا کمپنیکا خاتمہ کرکےہندوستانکو تاج برطانیہ کے سپرد کر دیا۔اس جنگ کے بعد خصوصاً مسلمان زیر عتاب آئے۔ جب کہ ہندوؤں نے مکمل طور پر انگریز سے مفاہمت کر لی۔ یوں مسلمانوں پر جدید علم کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اور خود مسلمان بھی نئی دنیا سے دور ہوتے چلے گئے۔ ایسے میںسرسیدجیسے لوگ سامنے آئے جنھوں نے اس جنگ آزادی کے وجوہات پر روشنی ڈالی اور انگریزوں پر زور دیا کہ ہندوستانیوں میں موجود احساس محرومیوں کو دور کرکے ہی انگریز یہاں حکومت کر سکتا ہے۔سرسیدنے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب لانے کے لیے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔اس جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمان مل کرہندوستانکے لیے لڑے لیکن اس کے بعد انگریز کی سازش اور کچھ ہندوؤں کے رویے کی وجہ سے مسلمان اور ہندو الگ الگ قوموں کی صورت میں بٹ گئے۔ یوں پہلی مرتبہدو قومی نظریےکی بنیاد پڑی۔"
+147,جنگ آزادی ہند 1857ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%86%DA%AF_%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C_1857%D8%A1,"سلطنت مغلیہایسٹ انڈیا کمپنیکے سپاہی جو انگریزوں کے خلاف تھےسات ہندوستانینوابی ریاستیںبرطانوی فوجایسٹ انڈیا کمپنیوفادار سپاہیNative irregularsEast India Company British regularsBritish and European civilian volunteers raised in the Bengal Presidency21نوابی ریاستیںجنگ آزادی ہند 1857ءجو ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ تھی اسے انگریزوں نے ""جنگ غدر"" کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نےہندوستانکے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جو کارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔جنگ آزادی ہند کا آغاز1857ءمیںبنگالمیں دمدم اور بارک پور کے مقامات پر ہوا جہاں دیسی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کے استعمال سے انکار کر دیا جن میں ان کے خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی لگی ہوئی تھی۔ انگریزی حکومت نے ان سپاہیوں کو غیر مسلح کرکے فوجی ملازمت سے برخواست کر دیا۔ لکھنؤ میں بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ برخاست شدہ سپاہی ملک میں پھیل گئے۔ اور فوجوں کو انگریزوں کے خلاف ابھارنے لگے۔9 مئی1857ءکومیرٹھمیں ایک رجمنٹ کے سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔ جس طریقے سے یہ حکم سنایا گیا وہ بھی تہذیب سے گرا ہوا تھا۔ دیسی سپاہیوں نے انگریز افسروں کو ہلاک کرکے ان قیدیوں کو آزاد کرا لیا اور میرٹھ سےدہلیکی طرف بڑھنے لگے ۔میرٹھکے سپاہیوں کیدہلیمیں آمد سےدہلیکی فوجیں بھی بگڑ گئیں۔ اوردہلیکے مغل تاجداربہادر شاہ ظفرکی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے بعد بغاوت کی آگ دور دور تک پھیل گئی۔جنرل نکلسننے انگریز فوجوں کی مدد سے تقریباً چار مہینے تکدہلیکا محاصرہ کیے رکھا۔14 ستمبرکو کشمیری دروازہ توڑ دیا گیا۔ جنرل نکلسن اس لڑائی میں مارا گیا مگر انگریز اورسکھفوجوں نےدہلیپر قبضہ کر کے۔بہادر شاہ ظفرکو گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا۔ ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو گولی سے اڑا دیا گیا۔دہلیپر انگریزوں کا قبضہ ہو جانے سے ہر جگہ جنگ آزادی کی رفتار مدہم پڑھ گئی۔مارچ1858ءمیںلکھنؤپر دوبارہ انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔دہلی،لکھنؤ،کانپور،جھانسیکے علاوہ چند اور مقامات بھی انگریزوں کے تصرف میں آ گئے۔جنگ آزادی کا نعرہ ""انگریزوں کوہندوستانسے نکال دو"" تھا، اس لیے اس میں تمام ایسے عناصر شامل ہو گئے جن کو انگریز حکومت سے نقصان پہنچا تھا۔ متضاد عناصر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف یکجا تو ہوئے تھے لیکن وطنیت اور قومیت کے تصورات سے ناآشنا تھے۔بہادر شاہ ظفرجس کی بادشاہت کا اعلان باغی سپاہیوں نے کر دیا تھا۔ نہ بادشاہت کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ باغیوں کی مخالفت کرنے کی طاقت۔ مزید برآں باغیوں نےدہلیمیں لوٹ مار اور غارت گری مچا کر عام لوگوں کی ہمدریاں کھو دی تھیں۔ چنانچہ1857ءکی یہ جنگ آزادی ناکام ری۔علامہفضل حق خیر آبادیاور ان کے ساتھیمفتی صدر الدین خان آزردہ،سید کفایت علی کافیاور دیگر بہت سے مسلمان علما نےدہلیکی جامع مسجد سے بیک وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا جس کے نتیجے میں مسلمان اس جنگ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے لڑے۔[3][4][5][6][7][8][9][10]اگست1858ءمیں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلانملکہ وکٹوریہکے ذریعےایسٹ انڈیا کمپنیکا خاتمہ کرکےہندوستانکو تاج برطانیہ کے سپرد کر دیا۔اس جنگ کے بعد خصوصاً مسلمان زیر عتاب آئے۔ جب کہ ہندوؤں نے مکمل طور پر انگریز سے مفاہمت کر لی۔ یوں مسلمانوں پر جدید علم کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اور خود مسلمان بھی نئی دنیا سے دور ہوتے چلے گئے۔ ایسے میںسرسیدجیسے لوگ سامنے آئے جنھوں نے اس جنگ آزادی کے وجوہات پر روشنی ڈالی اور انگریزوں پر زور دیا کہ ہندوستانیوں میں موجود احساس محرومیوں کو دور کرکے ہی انگریز یہاں حکومت کر سکتا ہے۔سرسیدنے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب لانے کے لیے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔اس جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمان مل کرہندوستانکے لیے لڑے لیکن اس کے بعد انگریز کی سازش اور کچھ ہندوؤں کے رویے کی وجہ سے مسلمان اور ہندو الگ الگ قوموں کی صورت میں بٹ گئے۔ یوں پہلی مرتبہدو قومی نظریےکی بنیاد پڑی۔"
+148,مملکت متحدہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%B1%D8%B7%D8%A7%D9%86%DB%8C%DB%81,"مملکت متحدہ برطانیہ عظمیٰ و شمالی آئرستان(United Kingdom of Great Britain and Northern Ireland)، جسے عام طور پرمملکت متحدہ(United Kingdom) یابرطانیہ(Britain) کے طور پر جانا جاتا ہے، شمال مغربییورپکا ایک ملک ہے۔ یہ جزیرہ برطانیہ اورشمالی آئرلینڈکے علاوہ ملحقہ سمندر کے مختلف جزائر پر پھیلا ہوا ہے۔برطانیہ کے چاروں طرفبحر اوقیانوساور اس کے ذیلی بحیرے ہیں جن میںبحیرہ شمال،رودباد انگلستان،بحیرہ سیلٹکاوربحیرہ آئرششامل ہیں۔برطانیہچینل سرنگکے ذریعےفرانسسے منسلک ہے جورودباد انگلستانکے نیچے سے گذرتی ہے جبکہشمالی آئرلینڈجمہوریہ آئرلینڈکے ساتھ ملتا ہے۔در حقیقتمملکت برطانیہایک سیاسی اتحاد ہے جو 4 ممالکانگلستان،اسکاٹ لینڈ،ویلزاورشمالی آئرلینڈسے مل کر بنا ہے۔ ان کے علاوہ دنیا بھر میں برطانیہ کے دیگر کئی مقبوضات بھی ہیں جن میںبرمودا،جبل الطارقیاجبرالٹر،مونٹسیرٹاورسینٹ ہلینابھی شامل ہیں۔برطانیہ ایک آئینی بادشاہت ہے جو دولت مشترکہ کے 16 ممالک کی طرح شہنشاہچارلس سومکو اپنا حکمران تصور کرتی ہے۔برطانیہ جی 8 کا رکن اور انتہائیترقی یافتہ ملکہے۔ اس کی معیشت دنیا کی پانچویں اوریورپکی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جس کا اندازہ 2.2 کھرب امریکی ڈالرز ہے۔ برطانیہ آبادی کے لحاظ سےیورپی یونینکا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی 60.2 ملین ہے۔ برطانیہشمالی اوقیانوسی معاہدہ(نیٹو) اوراقوام متحدہکا بانی رکن اورسلامتی کونسلکا مستقل رکن ہے۔ برطانیہ دنیا کی بڑیجوہری طاقتوںمیں سے ایک ہے۔ یہیورپی یونینکا بھی رکن ہے۔سلطنت برطانیہ کے خاتمے کے باوجودانگریزی زبانکے عالمی استعمال اوردولت مشترکہکے باعث برطانیہ کے اثرات ابھی بھی دنیا پر باقی ہیں۔برطانیہیورپکے ان ممالک میں سے ہے جن کی تاریخ بہت زرخیز ہے۔ کرو-میگنونز، جو قدیم برطانیہ بناتے تھے اس کا تصفیہ تقریباً 30,000 سال قبل شروع ہونے والی لہروں میں ہوا تھا۔ علاقے کے ما قبل تاریخ دور کے اختتام تک، خیال کیا جاتا ہے کہ آبادی کا زیادہ تر تعلق انسولر سیلٹک کہلانے والی ثقافت سے تھا، جس میں بریٹونک برطانیہ اور گیلک آئرلینڈ شامل ہیں۔ بریٹن قبائل کی وجہ سے ان جزائر کا نام برطانیہ پڑ گیا جویورپاور دیگر خطوں سے ہجرت کرکے برطانیہ میں آباد ہوئے۔ ان بریٹنوں کی اکثریت آج بھیویلزکے علاقے میں مقیم ہے ان بریٹنوں کے مذہبی رہنماؤں کو ڈروئدا کہا جاتا تھا۔قبل مسیحکے رومی حکمرانآگستسکے زمانے میں جزائر برطانیہ پر رومی حکومت کا قبضہ تھا اگرچہ کہ برطانیہ میں اس دور میں رہنے والے تمدن کے اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ نہ تھے مگر پھر بھی وہ رومہتہذیبکا حصہ تصور کیے جاتے ہیں۔117ءمیںھیڈرینکو روم کی سینٹ نے روم کا بادشاہ بنوایا۔اس دور میں ہیڈرین نے خصوصی طور پر برطانیہ پر توجہ دی۔ برطانیہ کی قدیم سڑکوں کی تعمیر ھیڈرین کے دور ہی میں ہوئی تھی اور قلعہ بندی کا آغاز بھی ہیڈرین کے دور ہی میں شروع ہوا جس کے بعد طویل مدت تک برطانیہرومی سلطنت کا صوبہبنا رہا اسی دور میں وسطی ایشیائی ممالک اور روس اور دیگر خطوں سے یورپ کی جانب خونخوار قبیلوں کی ہجرت کا آغاز ہوا جن میں اہم ترین قبیلےجرمن،ھن،مشرقی گاتھ، ایلارک، ونڈال، مغربی گاتھ،فرینکاورلمبارڈشامل ہیں۔ ان خونخوار اور لڑاکا قبائل نے جن کی اکثریت وسطی ایشیا اور روس سے ہجرت کرکے یورپ میں داخل ہوئی تھی یورپ میں جنگ و جدل کی فضا قائم کردی یہ لڑاکا قبائل جو وحشیانہ زندگی کے خوگر تھے جلد ہی یورپ کی فضاؤں میں داخل ہو کر یورپ کی زندگی میں رچ بس گئے اور انھوں نے اپنے آبائی مذاہب کو چھوڑ کر یورپی مذہبمسیحیتکو اپنا لیا۔ ان جنگجو قبائل میں سےگاتھجو کے مشرقی اور مغربی گاتھوں میں تقسیم تھے انتہائی لڑاکا اور جنگجو تھے۔ گاتھوں کی لڑائیوں کی وجہ سے یورپ کی سب سے مضبوط سلطنت زوال سے دوچار ہوئی جب کے یورپ کے بیشتر علاقے پر گاتھوں نے بذور شمشیر قبضہ کر لیا، گاتھوں کے حملے کی وجہ سےرومجس کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب تھا تباہ و برباد ہو گیا۔ گاتھوں کے حملے ہی کی وجہ سےقسطنطیننے اپنادار الحکومترومکی جگہقسطنطنیہکو بنایا۔ مگر جلد ہی گاتھ مسیحی مذہب سے متاثر ہو گئے۔ اس کے ساتھ وہیورپکے بیشتر حصوں پر قابض ہوتے چلے گئے جس کی وجہ سے نوبت یہ ہو چکی تھی کہ اگرچہ گاتھ مسیحی ہو چکے تھے مگر اس کے باوجودیورپکے تمدن یافتہ اور سابق حکمراں گاتھوں کو اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتے تھے۔ گاتھوں کے اقتدار کے دور میں اگرچہ کےیورپمیں کسی حد تک استحکام رہا مگر اس طرح نہیں جس طرح رومی حکومت کے دور میں رہا۔جزائر برطانیہ بھی ان حملہ آووروں کے حملوں سے بری طرح سے متاثر ہوا ایک جانب رومی حکومت کی گرفت کمزور ہوئی تو دوسری جانب علاقائی حکومتیں قائم ہوتی چلی گئیں جو چھوٹے چھوٹے علاقوں پر مشتمل تھیں ان حکومتوں کو تاریخ میں حکومت ہفتگانہ کہا جاتا ہے اسی زمانے میں برطانیہ میں مسیحیت کیتبلیغہوئی اور برطانیہ کے مختلف علاقےبت پرستیسے مسیحیت کی آغوش میں چلے گئے اسی دوران میںآٹھویں صدیمیں برطانیہ پرڈنمارککے رہنے والےڈین قبائلنے حملے کرنا شروع کردیے۔ حملوں کا مقصد برطانیہ پر قبضہ کرنا تھا۔ ٹھیک اسی زمانے میںناروےمیں بسنے والے جنگجووائیکنگنے بھی برطانیہ پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کرنا شروع کردیے۔ وائیکنگ یورپ کی تاریخ کی انتہائی جنگجو قوم تھی جس نے تمام یورپ میں اپنی وحشیانہ اور جنگجویانہ سرگرمیوں سے دہشت قائم کر رکھی تھی۔اس زمانے میں برطانیہ کا بادشاہ ایلفرڈ بہت بہادر تھا، جسے ایلفرڈ اعظم بھی کہا جاتا ہے، نے ان وائی کنگ حملہ آوروں کے خلاف طویل ترین جنگیں لڑیں اور بڑی بہادری کے ساتھ وائیکنگ کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں وائیکنگ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ مگر اس کے باوجودایلفرڈ اعظمنے جو صلح کا معاہدہ وائی کنگ کے ساتھ کیا، اس معاہدے میں حکمتِ عملی کے تحتدریائے ٹیمزسے اوپر کے علاقے جس میں شمالی و مشرقی انگلستان کا ایک وسیع علاقہ ان وائیکنگ کے حوالے کیا اور باقی حصہ بدستور ایلفرڈ اعظم کے قبضے میں رہا۔
+ایلفرڈ اعظم کے بعد اس کی اولاد حکمران رہی یہاں تک کہدسویں صدیکے آخر میںڈنمارککے بادشاہ نے حملہ کیا اور اس خاندان کا ایک فرد باقاعدہ انگلستان کا بادشاہ بن گیا۔ مگر اس کی حکومت کا خاتمہ اس کی موت کے بعد جلد ہی ہو گیا کیونکہ اس کی اولاد میں سے کوئی بھی حکمرانی کے قابل نہیں نکلا۔ لہٰذا1042ءمیں اس حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور ایلفرڈ اعظم کی اولاد میں ایڈورڈ کو انگلستان کا بادشاہ بنایا گیا۔ مگر ایڈورڈ لاولد انتقال کرگیا جس کی موت کے بعد انگلستان میں تخت کے دو دعویداروں ھیرلڈ اور ولیم کے درمیان میں جنگ ہوئی جس میں ھیرلڈ مارا گیا اور ولیم انگلستان کا بادشاہ بنا۔ واضح رہے کہ ولیم ایڈورڈ کا رشتے دار تھا مگر چونکہ اس کا تعلق نارمنڈی سے تھا اس لیے اس کی حکومت کو نارمنوں کی حکومت تصور کیا جاتا ہے۔جنگ ھیسٹینگز کے بعد انگلستان پر نارمنوں کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ ولیم اول نے انگلستان پر بڑی ہی فراست کے ساتھ حکومت کی۔ قدیم جاگیر دارانہ نظام بدستور قائم رکھا گیا، مگر اس کے باوجود ولیم کا ان جاگیرداروں پر بہت مضبوط کنٹرول تھا۔ اس کے احکامات تھے کہ کوئی بھی جاگیردار اس کی اجازت کے بغیر کوئی قلعہ تعمیر نہیں کر سکتا۔ بڑے بڑے مذہبی عہدے داروں کا تقرر بادشاہ کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ 1087ء میں ولیم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ولیم ثانی بادشاہ بنا مگر لوگ اس سے بہت ناراض تھے جس کی وجہ سے ولیم ثانی1100ءمیں مارا گیا۔ جس کے بعد اس کا بیٹا ہنری اول تخت نشین ہوا، جس کے عہد میں تجارت کو بہت ہی فروغ حاصل ہوا۔ ہنری کے دور میں ہی انگریز تاجر برطانیہ سے باہر نکلے اور تجارت کے میدان میں دیگر یورپی اقوام کے مقابلہ میں جدوجہد شروع کی۔ہنری اول کی وفات کے بعد اس کا نواسہ ہنری دوم کے نام سے انگلستان کا بادشاہ بنا۔پلانٹیجنیٹ(Plantagenet) خاندان سے تعلق رکھنے والا ہنری دوم، ہنری اول کی بیٹی مٹیلڈا کا بیٹا تھا۔ مٹیلڈا کی شادی آنجو (Angou) کے نواب جیوفرے کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس خاندان کا نشان ایک جھاڑی تھا اس لیے اس کوخاندان پلانٹیجنیٹ(Plantagenet) کہا جاتا ہے۔ ہنری دوم کے بعد ا��گلستان میں جب تک اس خاندان کی حکومت قائم رہی اس حکومت کو پلانٹیجنیٹ (Plantagenet) کا دور کہا گیا۔ ہنری دوم کے دور میں انگلستان کے نظام کو بہتر بنایا گیا۔ جو علاقے اس سے قبل انگلستان کے بادشاہوں کے ہاتھ سے نکل گئے تھے ان علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا۔ اس کے علاوہ ہنری نے عدالتی اصلاحات کی، مالیات کے محکمے کو ازسر نو منظم کیا، تجارت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے۔ اس کا سب سے یادگار قدم جو آج بھی ہنری دوم کی یاد دلاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد 1209ء میں رکھی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا رچرڈ بادشاہ بنا، تاریخ میں اس بادشاہ کورچرڈ شیردلکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ رچرڈ شیر دل تیسری صلیبی جنگ میں خود شامل ہوا تھا جس کے بعد اس کی بہن کی شادی سلطان ایوبی کے بھائی کے ساتھ ہوئی۔سن1272ءمیں ہنری کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا ایڈورڈ انگلستان کا بادشاہ بنا جسے ایڈورڈ اول کہا گیا جو انگلستان کی تاریخ کا انتہائی قابل اور مدبر بادشاہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے زمانے میں ویلز کی بغاوت کا خاتمہ ہوا، اسکاٹ لینڈ بھی انگلستان کے ساتھ شامل ہوا، اگرچہ یہ شمولت رسمی ہی تھی مگر اس کے باوجود اسکاٹ لینڈ پر انگلستان کا جھنڈا لہرایا گیا۔ اس کے ساتھ انگلستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جو اہم ترین فیصلہ ایڈورڈ اول نے کیا وہ یہ تھا کہ1290ءمیں اس نے انگلستان کی حدود سے یہودیوں کو نکل جانے کے احکامات دیے۔1295ءمیں ایک نمائندہ پارلیمنٹ بلوائی جس میں، بشپ، ایبٹ، بڑے بڑے امیر، نامور جنگجو اور مختلف قبائلی سرداروں نے شرکت کی۔ اس نمائندہ اجلاس میں پہلی بار میگنا کارٹا کی تصدیق کردی گئی اور اس کے ساتھ میگنا کارٹا میں ایک دفعہ مزید بڑھائی گئی کہ بادشاہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی غیر جاگیردار محصول نافذ نہیں کرے گا۔ ایڈورڈ کے دور کی ایک خوبی یہ ہے کہ متوسط طبقے سے بادشاہ باقاعدہ رابطہ قائم رکھتا تھا اور ان کی تجاویز سنتا تھا اور ان پر عمل درآمد بھی کرواتا تھا۔ بادشاہ کا یہ قدم انگلستان میں جمہوریت کو قائم رکھنے میں بہت مدد گار ثابت ہوا۔ اس کے ساتھ عدالتوں کی اصلاح بھی کی گئی، عدالتوں کی کارکردگی کے بارے میں ایک سوالنامہ شائع کیا جاتا تھا جس میں تمام عدالتی کارروائی کی تفصیل درج ہوتی تھی۔رچرڈ کی وفات کے ساتھ ہی برطانیہ میںخاندان لنکاسٹرکا آغاز ہو گیا، جس کا بانیہنری سومتھا، جو ڈیوک آف لنکاسٹر کا بیٹا تھا۔ ہنری سوم کے دور میں برطانیہ میں بہت سے کام ہوئے، مگر ہنری کے دور میں بہت سے امرا نے بغاوت کی۔فرانسنے بھی باغی سرداروں کی امداد میں اپنی فوج بھیجی۔ مگر1413ءمیں ہنری وفات پاگیا جس کے بعد اس کا بیٹاہنری پنجمکے لقب سے بادشاہ بنا ہنری پنجم بہت ہی لائق بادشا ہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے برگنڈی کے ڈیوک کیساتھ صلح کرکے فرانس کے تخت و تاج کا دعویٰ کر دیا اور فرانس کے خلاف لڑائی شرع کردی۔ جس کے بعد ہنری کی افواج نے ایجن کورٹ کے مقام پرفرانسکو شکست دیدی اور نارمنڈی کے علاقے کو فتح کر لیا۔1420ءمیں صلح نامے کے نتیجے میں فرانس کے ولی عہد کو سلطنت سے محروم کرکے اعلان کر دیا گیا کہ ہنری پنجم ہی فرانس کا آئندہ بادشاہ ہو گا۔ مگر ہنری1422ءمیں اچانک وفات پاگیا ہنری پنجم کی وفات کے بعد اس کے نو ماہ کے بیٹے کوہنری ششمکے لقب سے بادشاہ بنایا گیا۔ اس کے تین چچاؤں نے بادشاہ کے سرپرست کی حیثیت اختیار کی ایک چچا فرانس میں نائب السلطنت بن گیا دوسرا انگلستان میں نائب سلطنت بنا، مگر ان ہی دنوں فرانس میں بغاوت کی ابتدا ہو گئی، یہ بغاوت مشہور و معروفجون آف آرکنے شروع کی، جس کے نتیجے میں فرانس میں انگلستان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔1437ءمیں ہنری بالغ ہو گیا لیکن وہ اچھا حکمران ثابت نہیں ہو سکا۔ اس کے دور میں بد نظمی ہی رہی کبھی کوئی نواب فوج جمع کرکے کنٹرول کرلیتا کبھی کوئی۔ ان حالات میں ڈیوک آف یارک کے پوتے نے بادشاہ کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ اس طرح ایک ہی خاندان کی دو شاخوں کے درمیان میں خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی۔ یارک اور لنکاسٹر خاندانوں کے درمیان میں ہونے والی اس جنگ میں ابتدا میں یارک نے شاہی فوج کو شکست دے کر بادشاہ کو گرفتار کر لیا۔ مگر بادشاہ کی ماں اور ہنری پنجم کی بیوہ نے فوج جمع کرکے ڈیوک آف یارک کی افواج کو شکست دیدی۔ جنگ میں ڈیوک آف یارک مارا گیا مگر جنوبی انگلستان کے لوگوں کی حمایت سے ڈیوک آف یارک کے بیٹے ایڈورڈ نے شاہی افواج کو شکست دینا شروع کردی جس کے نتیجے میں جلد ہی لنکاسٹر خاندان شکست کھا گیا اور1461ءمیںخاندان یورککی حکمرانی کی ابتدا ہو گئی۔ 1465ء میں ہنری ششم گرفتار ہو گیا جس کو ٹاؤر میں بند کر دیا گیا جہاں اس نے اپنی زندگی کے آخری دنخاندان پلانٹیجنیٹ(Plantagenet) کے آخری بادشاہ رچرڈ کی مانند گزارے۔پانچویں صدیعیسوی میں مسیحی راہبوں کے ذریعہآئرلینڈمیں مسیحیت پھیلی۔ اس سے قبل یہاں پر بت پرستی رائج تھی۔ مسیحیت پھیلنے کے تین سو برس بعد تک آئیر لینڈ میں مسیحی رہبانیت کے تحت ہی نظام کام کرتا رہا۔ مگر آٹھویں صدی کے بعد جو صورتِ حال انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کی اوپر بتائی گئی ہے اس سے ملتی جلتی صورت حالآئرلینڈکی ہو گئی، جہاں یورپ کے دیگر علاقوں کے مختلف قبائل آکر حملہ کرتے اور قبضہ کرلیتے تھے۔ مگر پھر سنہ 1171ء میں انگلستان کے نارمن بادشاہ ہنری دوم نےپوپکے فرمان کے مطابقآئرلینڈپر حملہ کرکے قبضہ کر لیا اور یوں وہاں انگلستان کی حکومت قائم ہو گئی۔اسی طرحاسکاٹ لینڈکی بھی صورت یہ تھی کہپانچویں صدیمیں اسکاٹ لینڈ چار حصوں میں تقسیم تھا۔ چھوٹے چھوٹے قبائلی سردار اپنی اپنی راجدھانی کے سردار بن کر بیٹھ گئے تھے۔ پانچویں صدی عیسوی میں اسکاٹ لینڈ کے لوگوں نے انگلستان کی حکومت کا خاتمہ کرکے اپنی مقامی حکومت قائم کرلی۔ مگر یہاں بھی اسی طرح کی صورت حال تھی کےاسکینڈینیویاکے ممالک کے لوگ اسکاٹ لینڈ پر حملہ آور ہوتے اور کبھی کسی علاقے پر قبضہ کرلیتے اور کبھی کسی علاقے پر۔ مگر پھر ان کو احساس ہوا اور1034ءمیں تمام اسکاٹ لینڈ ایک حکومت کے جھنڈے تلے آ گیا۔1199ءمیں رچرڈ کی وفات کے بعداس کا بھائیجانبادشاہ بنا۔ برطانیہ کی تاریخ میں کنگ جان سے زیادہ اچھا بادشاہ کسی کو نہیں جانا جاتا ہے۔ کنگ جان کوئی زیادہ کامیاب باشاہ نہیں تھا۔ اس کے دور میں ایک جانب تو پوپ کے ساتھ کشمکش کا آغاز ہوا اور دوسری جانب امیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ لڑائیاں ہوئیں جس کی وجہ سے انگلستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا۔ مگر تاریخ میں کنگ جان کا نام اس اعتبار سے زیادہ مشہور ہے کہ اس کے دور میں اس جمہوریت کی ابتدا ہوئی جس کی وجہ سے آج برطانیہ کا نام قوموں میں سر بلند ہے۔ کنگ جان نے1214ءمیں اس دستاویز پر دستخط کیے جو تاریخ میںمیگنا کارٹایعنی منشور کبیر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ہی منشور انگلستان میں جمہوریت کی سنگ بنیاد تصور کیا جاتاہے۔ جان کے دور میں انگلستان میں پوپ کا عمل دخل زیادہ بڑھ گیا تھا۔ جان کے لیے ضروری تھا کہ پوپ کو خوش رکھنے کے لیے باقاعدہ نذرانے بھیجتا رہے جس سے معیشت بہت متاثر ہوئی اور اس کے نتیجے میں انگلستان مختلف شورشوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔1216ءمیں جان نے وفات پائی۔ جان کے بعد اس کا بیٹاہنری سومکے نام سے نو برس کی عمر میں انگلستان کا بادشاہ بنا۔ مگر اس کی خوش نصیبی یہ رہی کہ ایک انتہائی قابل شخص ولیم مارشل جو اس کے باپ جان کا ساتھی تھا ہنری سوم کا نائب السلطنت بنا۔ ولیم مارشل انتہائی قابل اور وفادار تھا۔ اس نے انتہائی قابلیت اور ذہانت کے ساتھ کار مملکت چلائے۔ جس کی وجہ سے انگلستان میں نو سالہ بادشاہ کی موجودگی میں کسی بھی طرح کی بے امنی اور بد انتظامی نہیں ہو سکی۔ مگر جلد ہی ولیم مارشل کی وفات کے بعد انتظامی معاملات بگڑنے لگے۔ ایک جانب پوپ انگریزی کلیساؤں سے چندے کی رقم کا مطالبہ کرتا تھا اور دوسری جانب پوپ کی طرف سے مختلف مذہبی مطالبات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے تھے۔ پھر ویلز میں بغاوت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ انگلستان اورفرانسکے درمیان میں جنگ بھی شروع ہو گئی۔ حالانکہ ہنری کی شادی فرانس کی شہزادی کے ساتھ ہوئی تھی مگر اس کے باوجود انگلستان اورفرانسکے درمیان میں جنگ ہوئی۔ پوپ کی جانب سے انگلستان میں مداخلت کا سلسلہ بھی جاری ہی رہا۔ ایک جانب تو پوپ نے اپنے مصارف کے لیے مستقل دباؤ ڈالنا شروع کیا جس کی انتہائی صورت یہ تھی کہ انگلستان کی پوری آمدنی کا ایک تہائی حصہ پوپ کے حوالے کیا جانے لگا۔ جس کے نتیجے میں عوام ناراض ہونے لگے اور امرا کی ایک کمیٹی جو 24 اراکین پر مشتمل تھی، نے اصلاحی اسکیم پیش کردی۔ ہنری نے اس اسکیم کو توڑنے کی بہت کوشش کی مگر اس میں اس کوکامیابینہیں ہوئی۔ اس طرح خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا جس میں بادشاہ کے بہنوئی سائمن ڈی مانفرٹ (Siman de Monfort) نے اصلاحی گروہ کی سرداری قبول کرلی۔ بادشاہ کو شکست ہوئی اور سائمن نے پورا انتظامی کاروبار سنبھال لیا۔ بادشاہ نے مشورے کے لیے جو مجلس بنا رکھی تھی اسے پہلے مجلس کبیر (Great Council) کہا جاتا تھا مگر1240ءمیں اس کا نام پارلیمنٹ رکھا گیا، جو آج تک جاری ہے۔1925ءمیں سائمن نے ایک نمائندہ پارلیمنٹ بلوائی۔ بادشاہ کا بڑا بیٹا، ایڈورڈ جو پہلے اصلاحی پارٹی کے ساتھ تھا ان امیروں کے ساتھ مل گیا، جو بادشاہ کے طرف دار تھے۔ اس نے سائمن کو شکست دی۔ اب اقتدار دوبارہ ہنری کے ہاتھ میں آ گیا لیکن اس وقت بھی وہ برائے نام بادشاہ تھا کیونکہ تمام اقتدار ایڈورڈ کے ہاتھ میں ہی تھا۔ایڈورڈ کا دور اس اعتبار سے بھی بہت اہم ہے کہ اس دور میں آئیرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ انگلستان کا حصہ بنے جو گریٹ برٹین کی ابتدا تھی اس کے ساتھ ایڈورڈ نے جو اہم ترین کام انجام دیا وہ یہ کہ1209ءمیں بننے والیآکسفورڈ یونیورسٹیکی جانب بھرپور توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہو سکا آکسفورڈ یونیورسٹی اس وقت دنیا کی سب سے قدیم یونیورسٹی شمار کی جاتی ہے جہاں سے کروڑوں طالب علم اس وقت اپنی تعلیم کو مکمل کرکے دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں۔یہ وہ دور تھا جب منگولوں نےچنگیز خانکی سربراہی میں منگولیا سے نکل کر بیرونی دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دے کر تہلکہ مچا دیا تھا منگولوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں نے عالمِاسلامکے اہم ترین اور طاقتور ریاستوںسمرقندوبخارااوربغدادکو روند کراور تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا وہیں ان ہی منگولوں نے ایک جانب تمام روس دوسری جانبپولینڈ،جرمنی،آسٹریا،بلغاریہ،ترکی،رومانیہپر قبضہ جمالیا تھا یورپ میں موجود مسیحیت کی سب سے بڑی روحانی شخصیت پوپ نے منگولوں کے حملے کو عذابِ خداوندی قرار دیا اور یورپ کے تمام بادشاہوں کو اس عذابِ خداوندی کا مقابلہ کرنے کے لیے یکجا ہونے کی دعوت دی مگر جلد ہی منگولوں کے پہلے بادشاہچنگیز خانکے مر جانے کے بعدایشیامیں مسلمانوں کے ہاتھوں پہلی شکست کھانے کے بعد منگولوں کی قوت تتر بتر ہونے لگی جس کے نتیجے میں ان کے طوفانی حملوں کا زور یورپ میں ختم ہو گیا اور یورپی ریاستوں نے ایک ایک کرکے منگولوں سے آزادی حاصل کرنا شروع کردی اس صورت حال کے اثرات برطانیہ پر بھی پڑے ایک جانب منگولوں کے ہاتھوں شکست کھانے والے قبائل پناہ لینے کے لیے برطانیہ کی جانب رخ کرنے لگے دوسری جانب برطانیہ میں اعلیٰ ترین صنعت کار اور تاجر آنے لگے یورپ کے اجڑنے کے ساتھ برطانیہ کے بسنے کا عمل بھی جاری ہوا اسے انگریز قوم کی خوبی ہی کہا جائے گا کہ انگریزوں نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اور ایسا قومی ماحول تشکیل دیا جس کے نتیجے میں قومی ترقی کے امکانات وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے گئے۔ایڈورڈ اولکی وفات کے بعد اس کے بیٹےایڈورڈ دومکے نام سے تخت نشین ہوا وہ زیادہ قابل نہ تھا اس لیے امیروں کا کنٹرول ایڈورڈ دوم پر تھا جس کی وجہ سے نہ تو ایڈورڈ دوم پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی کام کر سکتا تھا اور نہ ہی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اعلانِ جنگ کر سکتا تھا اس کے دور میں اسکاٹ لینڈ کے باغیوں نے شاہی فوج کو شکست دیدی جس کے نتیجے میں اسکاٹ لینڈ آزاد ہو گیا ایڈورڈ کی شکست کے نتائج اس کو اس طرح سے بھگتنا پڑے کہ1327ءمیں اسے تاج و تخت سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا گیا آٹھ ماہ کی قید کے بعد اسے قتل کر دیا گیا جس کے بعدایڈورڈ سومپندرہ سال کی عمر میں بادشاہ بنایا گیا مگر جلد ہی اس نے تمام معاملات اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کردیے۔1330ءمیں اس نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور1337ءمیں فرانس کے خلاف جنگ شروع کی جو سو سال تک جاری رہی اس لیے اس جنگ کوصد سالہ جنگبھی کہا جاتا ہے ایڈورڈ سوم کے دور میں انتظامی معاملات درست ہو گئے ا سی کے عہد میں پارلیمنٹ کا آغاز ہوا دارلعوام اور دار الامرا کا آغاز ہوا مگر1348ءمیں خونی پلیگ پھیلی جس کی وجہ سے نصف آبادی موت کا شکار ہو گئی اسی دور میں مسیحیت کی اصلاحی تحریک کا آغاز بھی ہوا اس تحریک کے بانیجان وکلفکا کہنا تھا کہ ہر شخص کسی کی وساطت کے بغیر خدا سے براہ راست رشتہ قائم رکھ سکتا ہے اور کلیساؤں کے ساتھ اوقاف رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، نیز پادریوں نے شادی نہ کرنے کا جو سلسلہ قائم کررکھا ہے وہ غلط ہے، پادریوں نے دولت جمع کرنے کا جو سلسلہ قائم کررکھا ہے وہ غلط ہے۔ اس طرح جان وکلف نے پوپ اور پادریوں کے تمام اقتدار کا خاتمہ کر دیا جان وکلف نے1372ءمیںبائبلکا مکمل انگریزی ترجمہ کیا۔ اپنے ان خیالات کی وجہ سے جان وکلف کو آخری دور میں بہت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔دوسری جانب بڑھاپے کی وجہ سے ایڈورڈ بالکل ہی ناکارہ ہو گیا اس کا بڑا بیٹا بھی بیمار تھا اس وجہ سے برطانیہ کا نظام بگڑ گیا اس کے بیٹے نے حالات کو بہت درست کرنے کی کوشش کی مگر وہ1376ءمیں وفات پاگیا اس کا بیٹارچرڈ سومتخت نشین ہوا جو تخت نشین کے وقت صرف دس سال کا تھا اس کا چچا جان جو لینکاسٹر کا ڈیوک تھا بادشاہ کی سرپرست مجلس کا سربراہ بنایا گیا اس کے دور میں فرانس کے ساتھ از سر نو جنگ چھڑ گئی جس میںفلینڈرسکا علاقہ چھن گیا۔ اس وقت روپے کی سخت ضرورت پڑی جو محصول لگا کر حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اس کی وجہ سے برطانیہ میں بے چینی بڑھنے لگی جس کی وجہ سے بعض مقامات پر تشدد کے واقعات بھی پیش آئے۔ بڑے بڑے زمینداروں کی جانب سے کسانوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے نتیجے میں کسانوں کی جانب سے بغاوت ہو گئی۔ جاگیرداروں کے مراکز جلادئے گئے، بڑے بڑے زمیندار اور قانون داں اس بغاوت میں مار دیے گئے۔ انگلستان کے مشرقی اور جنوبی حصے سے ایک بہت بڑا ہجوم دو سرداروں ویٹ ٹائیلر اور پول ٹاکس کی قیادت میں لندن کی جانب روانہ ہوا۔ ہجوم کے بڑے بڑے مطالبات یہ تھے کہ زمینداروں نے کسانوں پر جو ناواجب ٹیکس لگائے ہوئے ہیں وہ منسوخ کر دئے جائیں، کلیساؤں کے اوقاف چھین لیے جائیں اور شکار کے تمام قوانین ختم کردئے جائیں۔ بادشاہ نے ہجوم سے ملاقات کرکے ان کے ساتھ ہوشیاری کے ساتھ مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں ہجوم واپس ہو گیا۔ اس دوران میں ویٹ ٹائیلر مارا گیا اس کے بعد رچرڈ نے خومختار بننے کی کوشش کی پارلیمنٹ نے اس کے اس اقدام کی مخالفت کی اسی دوران میں ڈیوک آف لنکاسٹر کا بیٹا آئیر لینڈ سے آ گیا اس نے رچرڈ کے تمام اختیارات خود لے کر رچرڈ کو بادشاہت سے دستبردار کرکے اور رچرڈ کو ٹاؤر میں قید کر دیا جہاں رچرڈ نے1400ءمیں وفات پائی۔خاندان یورککی حکمرانی برطانیہ کے عوام کے لیے نئی صبح بن کرطلوع ہواعوام مسلسل ہونے والی خانہ جنگی سے بے زار آچکے تھے۔انگریزی اصلاحات نےسولہویں صدیمیں سیاسی، آئینی، سماجی اور ثقافتی تبدیلی کا آغاز کیا اور چرچ آف انگلینڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مزید برآں، اس نے انگلینڈ کے لیے ایک قومی شناخت کی وضاحت کی اور آہستہ آہستہ، لیکن گہرے طور پر، لوگوں کے مذہبی عقائد کو بدل دیا۔ ویلز کو مکمل طور پر برطانیہ کی بادشاہی میں شامل کر لیا گیا اور آئرلینڈ کو انگلش تاج کے ساتھ ذاتی اتحاد میں ایک مملکت کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ اور باقی حصہ جس میں شمالی آئرلینڈ بننا تھا، آزاد کیتھولک گیلک اشرافیہ کی زمینیں ضبط کر لی گئیں اور انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے پروٹسٹنٹ آبادکاروں کو دے دی گئیں۔1603 میں، انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی سلطنتیں ایک ذاتی اتحاد میں متحد ہوئیں جب اسکاٹس کے بادشاہ جیمز ششم نے انگلینڈ اور آئرلینڈ کے تاج وراثت میں حاصل کیے اور اپنے دربار کو ایڈنبرا سے لندن منتقل کر دیا۔ اس کے باوجود ہر ملک ایک الگ سیاسی وجود رہا اور اپنے الگ الگ سیاسی، قانونی اور مذہبی اداروں کو برقرار رکھا۔ 17ویں صدی کے وسط میں، تینوں مملکتیں متصل جنگوں کی ایک سیریز میں شامل تھیں (بشمول انگریزی خانہ جنگی) جس کی وجہ سے بادشاہت کا عارضی طور پر تختہ الٹ دیا گیا اور انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ پر مشتمل دولت مشترکہ کی جمہوریہ رہ گئی۔اگرچہ بادشاہت بحال کر دی گئی، 1688 کے شاندار انقلاب اور اس کے بعد کے بل آف رائٹس 1689 کے ساتھ ساتھ اسکاٹ لینڈ میں کلیم آف رائٹ ایکٹ 1689 نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یورپ کے باقی حصوں کے برعکس، شاہی مطلق العنانیت نہیں ہوگی۔ کیتھولک سے تعلق رکھنے والا کبھی بھی تخت پر نہیں بیٹھ سکتا۔ برطانوی آئین آئینی بادشاہت اور پارلیمانی نظام کی بنیاد پر تیار ہوگا۔ 1660ء میں رائل سوسائٹی کے قیام کے ساتھ، سائنس کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس عرصے کے دوران، خاص طور پر انگلستان میں، بحری طاقت کی ترقی اور دریافت کے سفروں میں دلچسپی بیرون ملک مقیم کالونیوں کے حصول اور آباد کاری کا باعث بنی، خاص طور پر شمالی امریکا اور کیریبین میں۔اگرچہ 1606، 1667 اور 1689 میں برطانیہ کے اندر دو ریاستوں کو متحد کرنے کی پچھلی کوششیں ناکام ثابت ہوئی تھیں، لیکن 1705 میں شروع کی گئی کوشش کے نتیجے میں 1706 کے اتحاد کے معاہدے پر دونوں پارلیمانوں نے اتفاق کیا اور اس کی توثیق کی۔ یکم مئی 1707 کو، برطانیہ کی بادشاہی قائم ہوئی، جو یونین 1707 کے ایکٹ کے نتیجے میں ہوئی۔ 18ویں صدی میں، کابینہ کی حکومت رابرٹ والپول کے تحت تیار ہوئی، جو عملی طور پر پہلےوزیر اعظم(1721–1742) تھے۔ جیکبائٹ بغاوتوں کی ایک سیریز نے پروٹسٹنٹ ہاؤس آف ہینوور کو تخت سے ہٹانے اور کیتھولک ہاؤس آف اسٹورٹ کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ جیکبائٹس کو بالآخر 1746ء میں کلوڈن کی جنگ میں شکست ہوئی، جس کے بعد سکاٹش ہائی لینڈرز کے قبیلے کے سرداروں کی جاگیردارانہ آزادی کو منسوخ کر کے زبردستی اسکاٹ لینڈ میں ضم کر دیا گیا۔ شمالی امریکا میں برطانوی کالونیاں جو امریکی جنگ آزادی میں ٹوٹ گئیں وہ ریاستہائے متحدہ بن گئیں، جسے برطانیہ نے 1783 میں تسلیم کیا۔برطانوی راجیا سلطنت برطانیہ کو ’’سرکارِ انگلشیہ‘‘ بھی کہا جاتا تھا، خصوصاً 1857ء سے1947ءکے دوران میں جببرصغیرمکمل طور پر سلطنت برطانیہ کا حصہ تھا۔گریٹ برٹین یا متحدہ برطانیہ کی ابتدا ہوئیکرام ویل اور اس کا بیٹا رچرڈ کرام ویل ڈکٹیٹر بنے 1649تا1712برطانیہ کا کل رقبہ تقریباً 244,820 مربع کلومیٹر (94,530 مربع میل) ہے۔ یہ ملک برطانوی جزائر کے بڑے حصے پر قابض ہے اور اس میں برطانیہ کا جزیرہ، آئرلینڈ کے جزیرے کا شمال مشرقی ایک چھٹا حصہ اور ارد گرد کے کچھ چھوٹے جزائر شامل ہیں۔ یہ شمالی بحر اوقیانوس اور بحیرہ شمالی کے درمیان واقع ہے جس کے ساتھ جنوب مشرقی ساحل شمالی فرانس کے ساحل سے 22 میل (35 کلومیٹر) کے اندر آتا ہے، جہاں سے اسے انگریزی چینل کے ذریعے الگ کیا گیا ہے۔لندن میں رائل گرین وچ آبزرویٹری کو 1884 میں بین الاقوامی میریڈیئن کانفرنس میں پرائم میریڈیئن کے ڈیفائننگ پوائنٹ کے طور پر چنا گیا تھا۔ یونائیٹڈ کنگڈم عرض البلد 49° اور 61° شمال اور عرض البلد 9° مغرب اور 2° مشرق کے درمیان واقع ہے۔ شمالی آئرلینڈ جمہوریہ آئرلینڈ کے ساتھ 224 میل (360 کلومیٹر) زمینی سرحد کا اشتراک کرتا ہے۔ برطانیہ کی ساحلی پٹی 11,073 میل (17,820 کلومیٹر) لمبی ہے۔ یہ چینل ٹنل کے ذریعے براعظم یورپ سے منسلک ہے، جو 31 میل (50 کلومیٹر) (24 میل:38 کلومیٹر) پانی کے اندر) دنیا کی سب سے طویل زیر آب سرنگ ہے۔ برطانیہ چار زمینی ماحولیاتی خطوں پر مشتمل ہے: سیلٹک broadleaf جنگلات ، انگلش لو لینڈ ساحلی جنگلات، شمالی بحر اوقیانوس کے نم ملے جلے جنگلات اور کیلیڈون جنگلات۔ 2023 میں برطانیہ میں جنگلات کا رقبہ 3.25 ملین ہیکٹر ہونے کا تخمینہ ہے، یہ برطانیہ کے کل رقبہ کا 13% ہے۔برطانیہ آئینی راجشاہی کے تحت ریاست ہے۔ملکہ ایلزبتھ دومپندرہ دیگردولت مشترکہ ریاستوںکا فرمانروا ہونے کے علاوہ برطنیہ کا صدر ملک ہے۔ فرمانروا کو مشورہ دینے کا، حوصلہ دینے کا اور انتباہ دینے کا حق ہے۔ برطانیہ دنیا کے ان چار ممالک میں سے ایک ہے جن کی کوئی تدوین شدہ آئین نہ ہو۔ لہٰذا برطانیہ کا آئین زیادہ تر الگ الگ تحریری ذرائع پر مشتمل ہے، بشمول تحریری قانون، منصف ساختہ نظائری قانون اور بین الاقوامی معاہدے، آئینی رواجوں کے ساتھ۔ چونکہ عام تحریری قانون اور آئینی قانون میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، برطانوی پارلیمان آئینی اصلاح کر سکتا ہے صرف پارلیمانی قانون جاری کرنے سے اور لہٰذا آئین کی تقریباً کوئی بھی تحریری یا غیر تحریر شدہ عنصر ک�� منسوخ کرنے کی سیاسی اقتدار رکھتا ہے۔ تاہم کوئی پارلیمان ایسا قانون جاری نہیں کر سکتا جو آئندہ پارلیمان بدل نہ سکیں۔برطانیہ کی ویسٹ مِنسٹر نظام پر مبنی پارلیمانی حکومت ہے جس کی دنیا بھر میںتقلیدکیا گیا ہے: برطانوی سامراج کا ایک ورثہ۔ برطانیہ کا پارلیمان جو ویسٹمِنسٹر محل میں ملتا ہے اس کے دو ایوان ہیں؛ ایک منتخب ہاؤس آف کامَنز (ایوانِ زیریں) اور مقررہ ہاؤس آف لارڈز (ایوانِ بالا)۔ تمام مسوداتِ قانون جو جاری کیے جاتے ہیں انھیں قانون بنانے سے پہلے شاہی منظوری دی جاتی ہے۔برطانوی حکومت کے سربراہ، وزیرِ اعظم کا عہدہ وہ رکنِ پارلیمان رکھتا ہے جس کو ہاؤس آف کامنز کے سب سے زیادہ ارکان کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہاؤس آف کامنز میں جس سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل ہو جاتی ہے، برطانوی وزیر اعظم اسی جماعت سے ہی چنا جاتا ہے۔ منتخب وزیر اعظم اس اکثریتی سیاسی جماعت کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ ملک میں وزیر اعظم کا عہدہ خالی ہونے پر بادشاہ ہاؤس آف کامنز میں اکثریتی سیاسی جماعت کے سربراہ کو حکومت بنانے کے لیے کہتا ہے۔ پھر وہ اکثریتی جماعت کا سربراہ ہاؤس آف کامنز سے ووٹ لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ بادشاہ سے ملاقات کرتا ہے اور اپنی حکومت کی ترجیحات اور پالیسیوں سے آگاہ کرتا ہےکابینہ عام طور پر دونوں ایوانوں میں سے وزیرِ اعظم کے جماعت کے ارکان سے چنا جاتا ہے اور زیادہ تر حصہ ہاؤس آف کامنز سے، جسے وہ ذمہ دار ہیں۔ وزیرِ اعظم اور کابینہ عاملانہ اقتدار رکھتے ہیں۔ ہاؤس آف کامنز کے انتخابات کے لیے، برطانیہ 650 حلقۂ انتخابوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جن میں سے ہر ایک ایک ہی رکنِ پارلیمان انتخاب کرتا ہے۔ عام انتخابات فرمانروا مقرر کرتا ہے وزیرِ اعظم کے مشورے پر۔1911ءاور1949ءکے پارلیمانی قانون لازمی بناتے ہیں کہ نئے انتخابات پچھلے والوں کے بعد پانچ سال ختم ہونے سے پہلے مقرر ہوں۔برطانیہ میں تین سب سے بڑے سیاسی جماعتیں ہیںکنزرویٹو پارٹی، لیبر پارٹی اورلبرل ڈیموکریٹس۔عیسائیت کی شکلیں 1,400 سال سے زیادہ عرصے سے برطانیہ کی مذہبی زندگی پر حاوی رہی ہیں۔ اگرچہ شہریوں کی اکثریت اب بھی بہت سے سروے میں عیسائیت کے ساتھ شناخت کرتی ہے، 20ویں صدی کے وسط سے چرچ میں باقاعدگی سے حاضری ڈرامائی طور پر گر گئی ہے، جب کہ امیگریشن اور آبادیاتی تبدیلی نے دیگر عقائد، خاص طور پر اسلام کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ مبصرین نے برطانیہ کو ایک کثیر العقیدہ، سیکولرائزڈ یا بعد از مسیحی معاشرے کے طور پر مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ 2001 کی مردم شماری میں، تمام جواب دہندگان میں سے 71.6 فیصد نے اشارہ کیا کہ وہ عیسائی ہیں، جن میں اگلا سب سے بڑا عقیدہ ہے اسلام (2.8 فیصد)، ہندومت (1.0 فیصد)،سکھ مت(0.6 فیصد)،یہودیت(0.5 فیصد) ,بدھ مت(0.3 فیصد) اور دیگر تمام مذاہب (0.3 فیصد)۔ جواب دہندگان میں سے، 15 فیصد نے کہا کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے اور مزید 7 فیصد نے مذہبی ترجیح بیان نہیں کی۔ 2007 میں ایک ٹیئرفنڈ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ دس میں سے صرف ایک برطانوی درحقیقت ہفتہ وار چرچ میں آتا ہے۔ 2001 اور 2011 کی مردم شماری کے درمیان، عیسائی کے طور پر شناخت کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 12 فیصد کمی واقع ہوئی، جب کہ ان لوگوں کی فیصد جو کوئی مذہبی وابستگی نہیں بتاتے تھے دگنی ہو گئی۔ یہ دیگر اہم مذہبی گروہوں میں ترقی کے برعکس ہے، مسلمانوں کی تعداد میں سب سے زیادہ فرق سے کل تقریباً 5 فیصد تک اضافہ ہوا۔ مسلمانوں کی آبادی 2001 میں 1.6 ملین سے بڑھ کر 2011 میں 2.7 ملین ہو گئی ہے، جس سے یہ برطانیہ میں دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروہ بن گیا ہے۔"
+149,برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D8%B3%D9%B9_%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7_%DA%A9%D9%85%D9%BE%D9%86%DB%8C,"برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنییابرٹش ایسٹ انڈیا کمپنییابرطانوی شرق الہند کمپنیجسےانگریزی(British East India Company) کہا جاتا ہے،جزائر شرق الہندمیں کاروباری مواقع کی تلاش کے لیے تشکیل دیا گیا ایک تجارتی ادارہ تھا تاہم بعد ازاں اس نےبرصغیرمیں کاروبار کے علاوہ تخت و تاج پر نظریں مرکوز کر لیں اور یہاںبرطانیہکے قبضے کی راہ ہموار کی۔1857ء کی جنگ آزادیتکہندوستانمیں کمپنی کا راج تھا۔ اس کے بعد ہندوستان براہ راستتاج برطانیہکے زیر نگیں آ گیا۔برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو1600ءمیں ملکہالزبتھ اولکے عہد میںہندوستانسے تجارت کا پروانہ ملا۔1613ءمیں اس نےسورتکے مقام پر پہلی کوٹھی قائم کی اس زمانے میں اس کی تجارت زیادہ ترجاوااورسماٹراوغیرہ سے تھی۔ جہاں سے مصالحہ جات برآمد کرکےیورپمیں بھاری داموں فروخت کیا جاتا تھا۔1623ءمیں جبولندیزیوں(ڈچ) نے انگریزوں کو جزائر شرق الہند سے نکال باہر کیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تمام تر توجہہندوستانپر مرکوز کر دی۔1662ءمیںبمبئیبھی اس کے حلقہ اثر میں آ گیا۔ اور کچھ عرصہ بعد شہر ایک اہم تجارتیبندرگاہبن گیا۔1689ءمیں کمپنی نے علاقائی تسخیر بھی شروع کردی جس کے باعث بالآخرہندوستانمیں برطانوی طاقت کو سربلندی حاصل ہوئی۔ 1795ء میں جبفرانسنےنیدرلینڈ(ڈچ) فتح کر لیا تو برطانیہ نے ڈچ کولونیوں پر قبضہ کر لیا۔ نیدر لینڈ کے بڑے بینکار (Hope) لندن منتقل ہو گئے اور اس طرح مالیاتی مرکزایمسٹرڈمسے لندن منتقل ہو گیا۔1858ءمیں یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیاراتتاج برطانیہنے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ تاہم1874ءتک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے۔ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی1602ءمیں بنی تھی مگر برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے زیادہ بڑی ثابت ہوئی۔ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنیکے پاس 4785 بحری جہاز تھے جبکہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس 2690 جہاز تھے۔[1]انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی پہلیلمیٹڈ کمپنیتھی۔ اس کے 125 شیئر ہولڈرز تھے اور یہ 72000 پاونڈ کے سرمائے سے شروع کی گئی تھی۔[2]2010ءمیں ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستانی نژاد برطانوی کاروباری شخصیت سنجیو مہتا نے خرید لیا۔[3]ایسٹ انڈیا کمپنی اگرچہ ایک تجارتی کمپنی تھی مگر ڈھائی لاکھ سپاہیوں کی ذاتی فوج رکھتی تھی۔ جہاں تجارت سے منافع ممکن نہ ہوتا وہاں فوج اسے ممکن بنا دیتی۔1757ءمیںجنگ پلاسیکا واقعہ پیش آیا جس میں انگریزوں کو کامیابی حاصل ہوئی، جس کے بعد بنگال کے جوبیس پرگنوں پر انگریزوں کا کنٹرول ہو گیا۔مغلیہ سلطنتکے زوال کے نتیجے میں 1765ء میںلارڈ کلائیومغل بادشاہشاہ عالم ثانیسے مشرقی صوبوںبنگال،بہاراوراڑیسہکیدیوانی(ٹیکس وصول کرنے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے حقوق) چھبیس لاکھ روپے سالانہ کے عوض حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ دیوانی حاصل کرنے کے بعد، انگریزوں نے رفتہ رفتہ اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے اور ان مہاراجوں پر بھی تسلط حاصل کر لیا جومغلیہ سلطنتکے زوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے اپنے صوبوں کی خود مختیاری کا اعلان کرچکے تھے۔ ان میں سے چند مہاراجے ہندو تھے جو دوسری مغربی طاقتوں کی مدد سے مغل شہنشاہ کے خلاف بغاوت کرچکے تھے۔ ان کے خلاف، کامیاب فوجی کارروائی کرتے ہوئے انگریزوں کو ملک کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول حاصل ہو گیا۔[4]شیخ دین محمدجو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے کہ (سن1772ءمیں) جب ہماری افواج آگے بڑھ رہی تھیں تو ہمیں بہت سارےہندوزائریننظر آئے جوسیتا کُنڈجا رہے تھے۔ 15 دنوں میں ہممنگیرسےبھاگلپور(بہار) پہنچ گئے۔ شہر سے باہر ہم نے کیمپ لگا لیا۔ یہ شہر صنعتی اعتبار سے اہم تھا اور اس کی ایک فوج بھی تھی تاکہ اپنی تجارت کو تحفظ دے سکے۔ یہاں ہم چار پانچ دن ٹھہرے۔ ہمیں پتہ چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کاکیپٹن بروکجو سپاہیوں کی پانچ کمپنیوں کا سربراہ تھا وہ بھی قریب ہی ٹھہرا ہوا ہے۔ اسے کبھی کبھار پہاڑی قبائلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پہاڑی لوگ بھاگلپور اور راج محل کے درمیانی پہاڑوں پر رہتے تھے اور وہاں سے گزرنے والوں کو تنگ کرتے تھے۔ کیپٹن بروک نے ان کی ایک بڑی تعداد کو پکڑ لیا اور انھیں عبرت کا نمونہ بنا دیا۔ کچھ لوگوں کو سر عام بے تحاشا کوڑے مارے گئے اور کچھ مردُودوں کو پھانسی پر اس طرح لٹکایا گیا کہ پہاڑوں پر سے واضح نظر آئے تاکہ ان کے ساتھیوں کے دلوں میں دہشت بیٹھ جائے۔یہاں سے ہم آگے بڑھے اور ہم نے دیکھا کہ ان پہاڑیوں کی لاشیں نمایاں جگہوں پر ہر آدھے میل کے فاصلے پر لٹکی ہوئی ہیں۔ ہمسکلی گڑھیاورتلیا گڑھیسے گذر کرراج محلپہنچے جہاں ہم کچھ دن ٹھہرے۔ ہماری فوج بہت بڑی تھی مگر عقب میں تاجروں پر کچھ دوسرے پہاڑیوں نے حملہ کر دیا۔ ہمارے محافظوں نے ان کا پیچھا کیا، کئی کو مار دیا اور تیس چالیس پہاڑی لوگوں کو پکڑ لیا۔ اگلی صبح جب شہر کے لوگ معمول کے مطابق ہاتھی گھوڑوں اور بیلوں کا چارہ لینے اور جلانے کی لکڑی خریدنے پہاڑیوں کے پاس گئے تو پہاڑیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ سات آٹھ شہری مارے گئے۔ پہاڑی اپنے ساتھ تینہاتھیکئیاونٹگھوڑے اوربیلبھی لے گئے۔ ہماریبندوقبردار فوجوں نے جوابی کارروائی میں بہت سے پہاڑیوں کو مار دیا جوتیرکماناورتلواروںسے لڑ رہے تھے اور دو سو پہاڑیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان کی تلوار کا وزن 15 پاونڈ ہوتا تھا جو اب ہماری فتح کی ٹرافی بن چکی تھیں۔کرنل گرانٹ کے حکم پر ان پہاڑیوں پر شدید تشدد کیا گیا۔ کچھ کے ناک کان کاٹ دیے گئے۔ کچھ کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد ہم نےکلکتہکی طرف اپنا مارچ جاری رکھا۔[5]جون1757ءمیںپلاسی کی جنگمیں نوابسراج الدولہ(جوفرانسکا اتحادی تھا) کو شکست دینے کے بعد کمپنی کے اعلیٰ ترین افسران نےبنگالمیں یکے بعد دیگرے کئی نواب مقرر کیے اور ہر ایک سے رشوت لے کر 26 لاکھ پاونڈ بٹور لیے۔
+ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں اکثر مقامی حکمرانوں کو اجرت کے عوض فوجی خدمات فراہم کرتی تھیں۔ لیکن ان فوجی اخراجات سے مقامی حکمران جلد ہی کنگال ہو جاتے تھے اور اپنی حکمرانی کھو بیٹھتے تھے (جیسےاودھ)۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔[6]بنگالکے قحط (1769ء - 1770ء) نے کمپنی کے افسران کو امیر بننے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ چاول جو ایک روپے میں 120 سیر ملتا تھا اب ایک روپے میں صرف تین سیر ملنے لگا۔ ایک جونیئر افسر نے اس طرح 60,000 پاونڈ منافع کمایا۔ Cornelius Wallard کے مطابقہندوستانمیں پچھلے دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میںلگان(ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔Warren Hastingsکے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھے۔ لوگ روٹی کی خاطر اپن�� بچے فروخت کرنے لگے تھے۔[7]برطانیہکےہاوس آف کامنزنے1813ءمیں Thomas Munroe (جسے1820ءمیںمدراسکا گورنر بنایا گیا) سے جاننا چاہا کہ آخر صنعتی انقلاب کے بعدبرطانیہکے بنے ہوئے کپڑے ہندوستان میں کیوں نہیں بک رہے تو اس نے جواب دیا کہ ہندوستانی کپڑے کہیں زیادہ بہتر کوالٹی کے ہوتے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ میں ایک ہندوستانی شال سات سال سے استعمال کر رہا ہوں مگر وہ آج بھی نئی جیسی ہے۔ اگر کوئی مجھےیورپکی بنی شال تحفے میں بھی دے تو میں اسے استعمال نہیں کروں گا۔[8][9]اس کے بعد ایسی ظالمانہ پالیسیاں اپنائی گئیں کہ برطانیہ کی ایکسپورٹ جو 1815ء میں 25 لاکھ پاونڈ تھی وہ 1822ء تک 48 لاکھ پاونڈ ہو گئی۔[10]برطانیہمیں بنے کپڑے کو ہندوستان میں مقبول بنانے کے لیےہندوستانکی کپڑے کی صدیوں پرانی صنعت کو بڑی بے رحمی سے تباہ کیا گیا۔ اگر کوئیجولاہاکپڑے فروخت کرتا ہوا نظر آ جاتا تو اس کے ہاتھ کاانگوٹھاکاٹ دیا جاتا تھا تاکہ وہ زندگی بھر کپڑا نہ بن سکے۔ کسانوں کی آمدنی پر ٹیکس 66 فیصد کر دیا گیا جومغل دورمیں 40 فیصد تھا۔ روز مرہ استعمال کی عام اشیاء پر بھی ٹیکس عائد کیے گئے جن میںنمکبھی شامل تھا۔ اس سے نمک کی کھپت آدھی ہو گئی۔ نمک کم استعمال کرنے کی وجہ سے غریب لوگوں کی صحت سخت متاثر ہوئی اورہیضےاور لو لگنے کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بڑا اضافہ ہوا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ڈائریکٹرہنری جارج ٹکرنے1823ءمیں لکھا کہ اس طرحہندوستانکو ایک صنعتی ملک کی حیثیت سے گرا کر ایک زراعتی ملک بنا دیا گیا ہے۔ (تاکہانگلستانکا مالہندوستانمیں فروخت کیا جا سکے)1814ءسے1835ءتکبرطانیہکے بنے کپڑے کیہندوستانمیں فروخت میں 51 گنا اضافہ ہوا جبکہہندوستانسےبرطانیہآنے والی درآمدات صرف چوتھائی رہ گئیں۔ اس دورانڈھاکہجو کپڑا سازی کا بڑا مرکز تھا اس کی آبادی دیڑھ لاکھ سے گر کر صرف بیس ہزار رہ گئی۔گورنر جنرلویلیم بنٹنکنے1834ءمیں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی بدترین صورت حال کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سےہندوستانکی زمین سفید ہو گئی ہے۔[13]1771ءمیں کمپنی کے پاس صرف 187 یورپی سول افسران تھے جوبنگالمیں تعینات تھے اور تین کروڑ لوگوں پر حکومت کرتے تھے۔ فوج میں بھی عموماً آدھے سے زیادہ لوگ ہندوستانی ہوا کرتے تھے۔1857ء کی جنگ آزادیمیں شکست کے بعد انگریزوں نے ہندوستانیوں کو بے دریغ قتل کیا۔ بے شمارگاؤں دیہات جلا دیے اورسارے دیہاتیوں کو پھانسی دے دی۔ اُس زمانے میں ہندوستان میں بینک نہیں ہوتے تھے اور امیر لوگ حفاظت کی خاطر اپنی دولت زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے۔ انگریزوں نے امرا کی حویلیاںبارودسے اڑا دیں اور زمین کھدوا کر سارا سونا چاندی لوٹ لیا۔انگلینڈمیں نئی فوجی بھرتی کے لیے ہمیشہ کی طرح اس جنگ کو بھی مذہب کا روپ دیا گیا۔ معظم پادری نے اپنے وعظ میں کہا کہ ہم نے توکافروں کو مسیحت اور شائستگی جیسی نعمت کی پیشکش کری تھی لیکن انھوں نے نہ صرف اسے ٹھکرا دیا بلکہ تشدد پر اتر آئے۔ اب تلوار نیام سے نکال لینی چاہیے اور ان سے ہزار گنا بڑا بدلہ لینا چاہیے۔[14]لندن کے اخبار “دا ٹائم“ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہاں ہر درخت کی شاخ پر باغی کی لاش ہونی چاہیے۔[15]اور واقعی یہی کیا گیا۔دہلیمیں کوئی درخت ایسا نہ تھا جس سے کوئی لاش نہ لٹک رہی ہو۔ ایک سال تک ان لاشوں کو ہٹانے کی اجازت نہ تھی۔کانپورمیں ایکبرگدکے درخت سے 150 لاشیں لٹک رہی تھیں۔[16]""انگریز مورخین نے عام طور پر برٹش افواج کے ان بہیمانہ مظالم کو نظرا نداز کیا ہے۔ لیکن کچھ نے اس پر نفریں اور دکھ کا اظہار ضرور کیا ہے جو بدلے کے جذبے سے ہندوستانیوں پر کیے گئے تھے۔ خود ہڈسن کا نام خون کا پیاسا پڑ گیا تھا۔ نیل اس بات پر فخر کیا کرتا تھا کہ نام نہاد مقدموں کے نام پر اس نے سینکڑوں ہندوستانیوں کو پھانسی کے تختے پر چڑھایا۔ الٰہ آباد کے آس پاس کوئی ایسا درخت نہیں بچا تھا جس سے کسی ہندوستانی کی لاش نہ لٹکائی گئی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ انگریزوں کو غصہ زیادہ آ گیا ہو۔ لیکن یہی بات ہندوستانی بھی اپنے بارے میں کہا کرتے تھے۔ اگر بہت سے ہندوستانیوں کی اس حرکت کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جا سکتا تو یہی بات انگریزوں کے ساتھ بھی صادق آتی تھی۔ مسلمان امرا کو سور کی کھالوں میں زندہ سی دیاجاتا۔ اور پھر زبردستی ان کے گلے میں سور کا گوشت ڈال دیا جاتا۔ ہندؤوں کو لٹکتی تلواروں کے تلے گائے کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔ زخمی قیدیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ انگریز سپاہی گاؤں میں نکل جاتے اور گاؤں والوں کو پکڑ کر لاتے اور انھیں اتنی اذیت دیتے کہ آخر کار وہ مرجاتے۔ کوئی بھی ملک یاکوئی بھی شخص اس قدر نفرت انگیز پُرتشدد کام نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد بھی وہ اپنے کو مہذب ہونے کا دعویٰ کرتے۔ ""[17]اگرچہ لندن سے بمبئی تک ٹیلی گرافی کا آغاز 1870ء میں ہوا مگر انڈیا میں ریلوے لائن کے ساتھ ٹیلی گرافی کا آغاز بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ 1856ء تک ہندوسان کے مختلف بڑے شہروں میں 4000 میل لمبے ٹیلی گرافی سسٹم کا کامیاب نظام شروع ہو چکا تھا۔[19]مورخین کا کہنا ہے کہ ٹیلی گرافی نے 1857ء کی ناکام جنگ آزادی میں انگریزوں کی بڑی مدد کی۔ مقامی باغی اس ٹیکنولوجی سے محروم تھے۔[20]نک روبنس اپنی کتاب The Corporation that Changed the World میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بارے میں لکھتے ہیں “اس کمپنی نے معیشت کی تاریخ بالکل بدل دی۔ صدیوں سے دولت کا بہاو مغرب سے مشرق کی طرف تھا۔رومکے عروج کے زمانے سےیورپتجارت کے لیےایشیاکا مرہون منت تھا اور مسالا، کپڑے اور نفیس اشیاء کے بدلے سونا اور چاندی ادا کرتا تھا۔ انگلینڈ کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا جسے مشرق خریدنا پسند کرتا۔جنگ پلاسیسے پہلےتجارتی توازنسارے ممالک کے خلاف اوربنگالکے حق میں تھا۔ بنگال وہ جگہ تھی جہاں جا کر یورپ کا سونا چاندی گُم ہو جاتا تھا اور جہاں سےیورپکا سونا چاندی واپس آنے کے امکانات صفر تھے۔ (1694ء میںبینک آف انگلینڈکا قیام ہوا جس سے سرکاری سطح پرکاغذی کرنسیکا اجرا شروع ہوا اور)1773ءتک سونے چاندی کے بہاو کا رخ پلٹ چکا تھا۔1600ءمیںہندوستاناور چین کی معیشت یورپ کی معیشت سے دوگنی تھی۔1874ءمیں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ ہوا اس وقت یورپ کی معیشتہندوستاناور چین کی معیشت کا دُگنا ہو چکی تھی۔ اس کمپنی نے ساری دولت لوٹ کر انڈیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔اس کمپنی نےہندوستانپر قبضہ جمانے کے لیے دو حربے استعمال کیے۔ پہلا یہ کہ فیصلہ کرنے والوں کو رشوت سے قابو کرو اور دوسرا یہ کہ عوام کو تقسیم کرو۔ (Divide and rule)جنگ پلاسیمیں فتح حاصل ہونے سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو 25 لاکھ پاونڈ کا مال غنیمت ہاتھ لگا جبکہلارڈ کلائیوکو دو لاکھ چونتیس ہزار پاونڈ ذاتی منافع ہوا“۔ اس کی مالیت آج کل کے حساب سے تین کروڑ ڈالر بنتی ہے۔اس رقم سے اس نے برطانیہ میں ایک شاندار محل بنوایا اور وسیع جاگیر خریدی جس کا نام 'پلاسی' رکھا۔ یہی نہیں، اس نے پیسہ دے کر نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے باپ کے لیے بھی پارلیمان کی نشست خرید لی۔ بعد میں اسے سر کا خطاب بھی عطا کر دیا گیا۔ پارلیمان کے ایک چوتھائی کے لگ بھگ ارکان خود ایسٹ انڈیا کمپنی کے شیئر ہولڈر تھے۔[22]ایسٹ انڈیا کمپنی (جوجوہن کمپنیکے نام سے شروع ہوئی تھی) نےہندوستانکو تجارت کے نام پر لوٹ کر بے حساب دولت کمائی مگر ہندوستانیوں کو شدید کرب و اذیت سے دوچار کیا۔ کمپنی کی تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں صرف تجارت نہیں چاہتیں بلکہ سیاسی طاقت بھی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔اپنے آغاز کے 275 سال بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو تحلیل کر دیا گیا اور اس کے سارے اثاثے Lloyds کے حوالے کر دیے گئے جو N.M. Rothschild & Co کا ذیلی ادارہ ہے۔ آج کل ایسی کمپنیاںملٹی نیشنل کمپنیاںکہلاتی ہیں۔[23][24]یورپ میں سونے چاندی کے سکوں کی شدید قلت ہوا کرتی تھی۔ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنیدنیا کی پہلی کمپنی تھی جس نے 1602ء میں کاغذ پر چھاپ کر شیئر (اسٹاک) فروخت کرنا شروع کیے[25](یعنی دنیا کے پہلے IPO جاری کیے) جس سے سونا چاندی یورپ آنے لگا۔ اس سے پہلے اسٹاک کاغذ کی بجائے تجارتی اشیاء پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔[26]خود ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا پہلا منافع (dividend) مصالحوں کی شکل میں ادا کیا تھا۔ اگرچہ یورپ میں جوائنٹ اسٹاک کمپنیاں کئی صدیوں سے موجود تھیں لیکن ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے یہ کاغذی شیئر (حصص) باآسانی دوسروں سے خریدے اور فروخت کیے جا سکتے تھے۔[27]اس طرح پہلی دفعہ کیپیٹل مارکیٹ کا آغاز ہوا[28]اور کاغذی اثاثوں کی خرید و فروخت شروع ہوئی۔ کاغذی دولت تخلیق کرنے کا یہ کاروبار اتنا منافع بخش ثابت ہوا کہ جلد ہی اسےپرتگال،اسپیناورفرانسکی بحری تجارتی کمپنیوں نے اپنا لیا۔ اس کے بعد یہ کاروبار برطانیہ پہنچ گیا۔ آج بھی اسٹاک مارکیٹیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔[29]لگ بھگ دو سو سال پہلے کسی گورے نے ہندوستانیوں کے بارے میں لکھا کہ پرانی نسل نے بزور شمشیر یہ سلطنت بنائی اور قائم رکھی۔ آج کی زوال شدہ نسل کس قدر مختلف ہے جو روٹی کے لیے بھی فرنگیوں کے فراخ دلانہقرضکی محتاج ہے۔اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ انگریزوں کے دو سو سالہ استحصال نے ہندوستان کو کتنا نقصان پہنچایا۔اس سلسلے میں مختلف لوگوں نے مختلف اندازے لگانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے زیادہ قرینِقیاسماہرِ معاشیات اور صحافی منہاز مرچنٹ کی تحقیق ہے۔ ان کے مطابق 1757 سے لے کر 1947 تک انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والے مالی دھچکے کی کل رقم 2015 کے زر مبادلہ کے حساب سے 30 کھرب ڈالر بنتی ہے۔ذرا ایک منٹ رک کر اس رقم کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے مقابلے پرنادر شاہبے چارے کو دہلی سے صرف 143 ارب ڈالر لوٹنے ہی پر اکتفا کرنا پڑی تھی۔[34]1947ء میں تقسیم ہند کے موقعے پرونسٹن چرچلکے جانشینClement Richard Attleeنے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں اپنے ساتھیوں کے اُن کارناموں پر فخر ہے جو انھوں نے انڈیا میں انجام دیے۔[35]"
+150,ہندوستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"ہندوستان(فارسی: هندوستانتلفظ(معاونت·معلومات)) جس کا تلفظ (ہندُوستان یا ہندوستاں) سے ہوتا ہے، اس کی مختصر شکلہند(هند) ہے،[1]جو ہندوستان کے لیےفارسیمیں بھی مستعمل ہے، بڑے پیمانے پربرصغیر ہند؛ جسے بعد میں اس کے باشندوں نےہندی–اردو (ہندوستانی)میں استعمال کیا۔[2][3][4][5]برصغیر کے دیگر ناموں میںجمبُو دویپ،بھارتاور انڈیا شامل ہیں۔تقسیم ہندکے بعد؛ یہجمہوریہ ہندکے تاریخی نام کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔[6][7][8]ہندوستان کا ایک ثانوی معنی شمالی ہندوستان میںہند گنگا میدانکے لیے جغرافیائی اصطلاح کے طور پر ہے۔[9]ہندستانفارسیلفظہندوسے ماخوذ ہے، جو سنسکرت کےسندھوکے مشابہ ہے۔[10]ایسکو پرپولاکے مطابقپروٹو-ایرانیآواز کیسسےہمیں تبدیلی 850-600 قبل مسیح کے درمیان واقع ہوئی۔[11]لہذا،رگ ویدیسپت سندھو(سات دریاؤں کی زمین[پنجاب])اوستامیںہپت ہندوبن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ""پندرھواں ڈومین"" ہے، جسےاہورا مزدانے بنایا ہے، بظاہر 'غیر معمولی گرمی' کی سرزمین۔[12]515 قبل مسیح میںدارا اولنےوادی سندھکو شامل کیا جس میںسندھو(آج کل کاسندھ) بھی شامل تھا، جسے فارسی میںہندوکہا جاتا ہے۔[13]خشیارشا اولکے زمانہ میں ""ہندو"" کی اصطلاح سندھ کے مشرق کی زمینوں کو بھی شامل ہوتی تھی۔[10]درمیانی فارسیمیں غالباً پہلی صدی عیسوی سے-ستان(جائے، جگہ) کا اضافہ کیا گیا، جو کسی ملک یا خطے کی نشان دہی کرتا ہے، موجودہ لفظہندوستانکی تشکیل دیتا ہے۔[14]اسی طرحت262 عیسوی میںشاہپور اولکے نقشِ رستم نوشتہ میں سندھ کوہندوستانکہا گیا ہے۔[15][16]مورخبرتندر ناتھ مکھرجیبیان کرتے ہیں کہ زیریں سندھ طاس سے، ""ہندوستان"" کی اصطلاح آہستہ آہستہ ""کم و بیش پورےبرصغیرمیں پھیل گئی""۔ گریکو رومن نام ""انڈیا"" اور چینی نام ""شین ٹو"" نے بھی اسی طرح کے ارتقا کی پیروی کی۔[15][17]عربی اصطلاحہند؛ جو فارسیہندوسے ماخوذ ہے، عربوں نےمکرانکے ساحل سے انڈونیشیا کے جزیرہ نما تک ہندوستانی خطے کے لیے استعمال کیا تھا۔[18]لیکن آخر کار اس کی شناخت بھی برصغیر پاک و ہند سے ہوئی۔""ہندوستان"" اکثر جدید دورجمہوریہ ہندکے لیے استوتا ہے۔[19][7][8]اصطلاح میں شامل نعرے عام طور پر کھیلوں کے پروگراموں اور دیگر عوامی پروگراموں میں سنائے جاتے ہیں، جن میں ٹیمیں یا ادارے شامل ہوتے ہیں، جو ہندوستان کی جدید قومی ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مارکیٹنگ میں ہندوستان نام؛ عام طور پر اشتہاری مہموں میں قومی اصل کے اشارے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور یہ بہت سے کمپنی کے ناموں میں بھی مستعمل ہے۔پاکستانکے بانیمحمد علی جناحاور ان کی جماعتمسلم لیگنے ہندو اکثریتی آبادی کے حوالے سے جدید دور کی جمہوریہ ہند کو ""ہندوستان"" کہنے پر اصرار کیا۔[20]ہندوستان میں ہندوستانی بولنے والوں کے درمیان ایک استعمال میں مذہبی نسبت سے قطع نظر؛ 'ہندوستانی' اصطلاح سے مراد انڈین (ہندوستان کا باشندہ) ہے۔ غیر ہندستانی بولنے والوں مثلاً بنگالی بولنے والوں میں ""ہندوستانی"" کا استعمال؛ ان لوگوں کی وضاحت کے لیے کیا جاتا ہے، جو اوپری گنگا سے ہیں، مذہبی وابستگی سے قطع نظر؛ بلکہ ایک جغرافیائی اصطلاح کے طور پر۔ہندوستانیکو بعض اوقات جنوبی ایشیا میں لاگو ہونے والینسلیاصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے (مثال کے طور پر،جنوبی ایشیامیں جڑیں رکھنے والا ماریشیا یا سورینام کا آدمی اپنی نسل کو یہ کہہ کر بیان کر سکتا ہے کہ وہ ""ہندوستانی"" ہے)۔ مثال کے طور پر 'ہندستانینایکولندیزیلفظ ہے، جونیدرلینڈزاورسریناممیں جنوب ایشیائی نژاد لوگوں کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ہندوستانی زبانہندوستان کی زبان ہے اور برصغیر پاک و ہند کیزبانِ رابطۂ عامہہے۔[21]ہندوستانیمغربی اتر پردیش/مغربی یوپیاوردہلیکے علاقوں کیپرانی ہندیبولی سے ماخوذ ہے۔ اس کی ادبی معیاری شکلیں—-سنڌي جديد زبانجدید معیاری ہندیاورجدید معیاری اردو—مختلف رسم الخط استعمال کرتی ہیں۔ خود ہندی رجسٹر نے اپنا نام مختصر شکلہند(انڈیا) سے اخذ کیا ہے۔[22]–بابر نامہ، اے ایس بیوریج، انگریزی ترجمہ، جلد.1، سیکشن. iii: 'ہندوستان'[23]ابتدائی فارسی علما کو ہندوستان کی حد تک محدود علم تھا۔ اسلام کی آمد اوراسلامی فتوحاتکے بعد؛ہندوستانکے معنی نے اس کی عربی شکلہندکے ساتھ تعامل کیا، جو فارسی سے بھی ماخوذ تھا اور تقریباً اس کا مترادف بن گیا۔ عربوں نے، سمندری تجارت میں مصروف، مغربی بلوچستان میںتیسسے لے کر انڈونیشیا کے جزیرہ نما تک کی تمام زمینوں کوہندکے تصور میں شامل کیا، خاص طور پر جب اس کی وسیع شکل میں ""الہند"" کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ہندوستانلفظ نے اس وسیع معنی کو حاصل نہیں کیا۔ آندرے وِنک کے مطابق، اس نے وہ امتیاز بھی حاصل نہیں کیا، جو مٹ گیا،سندھ(تقریباً جو اب مغربی پاکستان ہے) اورہند(دریائے سندھ کے مشرق کی سرزمینوں) کے درمیان؛[4][18][24]دوسرے ذرائع بتاتے ہیں کہسندھاورہندکو ابتدائی زمانے سے مترادف استعمال کیا جاتا تھا۔[25]اور یہ کہہندوستان میں اسلامی حکومت کی آمدکے بعد؛ ""پورے برصغیر کے لیے ہند اور سندھ مترادفات کے طور پر استعمال کیے گئے۔""[26]10ویں صدی کے متنحدود العالمنے ہندوستان کو تقریباًبر صغیر پاک و ہندکے طور پر بیان کیا ہے، جس کی مغربی حد دریائے سندھ سے بنتی ہے، جنوبی حد بحیرہ عظیم تک جاتی ہے اور مشرقی حدکاماروپا، موجودہ آسام میں ہے۔[17]اگلی دس صدیوں تک،ہنداورہندوستاندونوں برصغیر میں بالکل اسی معنی کے ساتھ استعمال ہوتے رہے، اس کے ساتھ ان کی صفتہندَوی،ہندوستانیاورہندیاستعمال ہوتی رہی۔[27][28][29]درحقیقت 1220 عیسوی میں مؤرخحسن نظامی نیشاپورینےہندکو ""پشاورسےبحر ہندکے ساحلوں تک اور دوسری سمت میںسیستانسےچینکی پہاڑیوں تک بتایا۔""[30]11 ویں صدی میں شروع ہونے والی ترک-فارسی فتوحات کے ساتھہندوستانکا ایک تنگ معنی بھی شکل اختیار کر گیا۔ فاتحین برصغیر کے باقی حصوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے زیر تسلط زمینوں کوہندوستانکہنے کے ذمہ دار تھے۔[31]11ویں صدی کے اوائل میںپنجابمیںسلطنت غزنویہکی ایکسیٹیلائٹ ریاستجس کا دار الحکومتلاہورتھا، کو ""ہندوستان"" کہا جاتا تھا۔[32]دہلی سلطنتکے قیام کے بعد، شمالی ہندوستان، خاص طور پر گنگا کے میدانی علاقوں اور پنجاب کو ""ہندوستان"" کہا جانے لگا۔[31][33][34][35]اسکالر برتیندر ناتھ مکھرجی کا کہنا ہے کہہندوستانکا یہ تنگ معنی وسیع معنی کے ساتھ ساتھ موجود تھا اور بعض مصنفین نے ان دونوں کو بیک وقت استعمال کیا ہے۔[36]مغلیہ سلطنت(1526ء–1857ء) نے اپنی سرزمین کو 'ہندوستان' کہا۔ 'مغلیہ' اصطلاح خود کبھی بھی زمین کے لیے استعمال نہیں ہوئی۔ جیسے جیسے سلطنت پھیلی، اسی طرح 'ہندوستان' بھی پھیل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ 'ہندوستان' کے معنی پورےبرصغیر ہندکے طور پربابر نامہاورآئین اکبریمیں بھی پائے جاتے ہیں۔[37]آخریگورکھائیبادشاہپرتھوی ناراین شاہنے خودسلطنت نیپالکااصل ہندوستانکے طور پر اعلان کیا؛ کیوں کہ شمالی ہندوستان پر اسلامیمغل حکمرانوںکی حکومت تھی۔ خود اعلان ان کے دور حکومت میں ہندو سماجی ضابطہدھرم شاسترکو نافذ کرنے اور اپنے ملک کوہندووںکے لیے قابل رہائش قرار دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس نے شمالی ہندوستان کومغلان(مغلوںکا ملک) بھی کہا اور اس خطہ کو مسلمان غیر ملکیوں کی دراندازی قرار دیا۔[38]یہ دوہری معنی یورپیوں کی آمد کے ساتھ برقرار رہے۔جیمز رینلنے 1792 میں ’’میموئیر آف اے میپ آف ہندستان‘‘ کے عنوان سے ایکاطلستیار کیا، جو درحقیقت برصغیر پاک و ہند کا نقشہ تھا۔ اس طرح رینل نے تین تصورات،انڈیا،ہندوستاناورمغل سلطنتکو آپس میں ملا دیا۔[39][40]جے برنولی، جن کے لیے ہندوستان کا مطلب مغلیہ سلطنت تھا، نے اپنے فرانسیسی ترجمہ کو La Carte générale de l'Inde (ہندوستان کا عمومی نقشہ) کہا۔[41]برطانوی حساب کا یہ 'ہندوستان' انگریزوں کے زیر اقتدار علاقوں (جسے کبھی کبھی 'انڈیا' بھی کہا جاتا ہے) اور مقامی حکمرانوں کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔[42]تاہم برطانوی حکام اور مصنفین کا خیال تھا کہ ہندوستانی 'ہندوستان' کا استعمال صرف شمالی ہندوستان کے لیے کرتے ہیں۔[43][35]1886ء میں شائع ہونے والی ایکاینگلو-انڈین ڈکشنریمیں کہا گیا ہے: جب کہ ہندوستان کا مطلب انڈیا ہے، ""مقامی زبان"" میں یہبہاراوربنگالکو چھوڑ کردریائے نرمداکے شمال میں واقع علاقے کی نمائندگی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔[34]تحریک آزادی کے دوران، ہندوستانیوں نے اپنی سرزمین کو تینوں ناموں سے پکارا: 'انڈیا'، 'ہندوستان' اور 'بھارت'۔[44]محمد اقبالکی نظمترانۂ ہندیہندوستانی آزادیکارکن۔محمد اقبالکی نظمترانۂ ہندیتحریک آزادی ہندکے کارکنوں میں ایک مقبول حب الوطنی کا ترانہ تھا۔[45]سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا(روئے زمیں پر سب سے بہتر ہمارا ہندوستان ہے۔)آل انڈیا مسلم لیگکی 1940 کیقرارداد لاہور(جسے قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے) نےبرطانوی ہندکے شمالِ مغرب اور شمالِ مشرق میں مسلم اکثریتی علاقوں کے لیے خود مختاری کا مطالبہ کیا، جسے مقبولیت میں 'پاکستان' کہا جانے لگا۔ بول چال اور بقیہ ہندوستان کو 'ہندوستان' کہا جانے لگا۔[46]برطانوی حکام نے بھی ان دونوں اصطلاحات کو منتخب کر لیا اور انھیں سرکاری طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔[19]تاہم 'ہندوستان' کےہندووںکی سرزمین کے مضمر معنی کی وجہ سے یہ نام ہندوستانی لیڈروں کی منظوری پر پورا نہیں اترا۔ ان کا اصرار تھا کہ نئےڈومینین آف انڈیاکو 'ہندوستان' نہیں بلکہ 'انڈیا' کہا جانا چاہیے۔[47]غالباً اسی وجہ سے 'ہندوستان' نام کوہندوستان کی دستور ساز اسمبلیکی سرکاری منظوری نہیں ملی، جب کہ 'بھارت' کو سرکاری نام کے طور پر اپنایا گیا۔[48]تاہم یہ تسلیم کیا گیا کہ 'ہندوستان' غیر سرکاری طور پر استعمال ہوتا رہے گا۔[49]بھارتی مسلح افواجنام کا سلامی ورژن، ""جے ہند"" کو جنگ کی پکار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔[1]پروفیسر اشتیاق احمد ظلی۔ پروفیسر عبد العظیم اصلاحی۔ پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی۔ پروفیسر الطاف احمد اعظمی۔ ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی۔ مختار احمد اصلاحی۔ ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی۔23°59′40″N67°25′51″E / 23.99444°N 67.43083°E /23.99444; 67.43083"
+151,برطانوی راج,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%B1%D8%B7%D8%A7%D9%86%D9%88%DB%8C_%D8%B1%D8%A7%D8%AC,"برطانوی راجیابرطانوی ہند(غیر باضابطہ نام:سلطنت ہندوستان) (انگریزی: British Raj یا British India، باضابطہ نام Indian Empire) کی اصطلاح1858ءسے1947ءتکبرطانیہکے زیر نگیںبر صغیرکے لیے استعمال کی جاتی ہے۔سلطنت ہندوستان علاقائی و بین الاقوامی سطح پر ""ہندوستان"" کے نام سے جانی جاتی تھی۔ ""ہندوستان""جمعیت اقوامکا تاسیسی رکن اور1900ء،1920ء،1928ء،1932ءاور1936ءکےگرمائی اولمپک کھیلوںمیں شامل ہوا۔
+برطانوی ہند میں ہندوستان 17 انتظامی صوبوں پر مشتمل تھا۔اس عرصے میں برطانیہ کے زیر قبضہ رہنے والے علاقوں میں موجودہبھارت،پاکستاناوربنگلہ دیششامل ہیں جبکہ کبھی کبھارعدن(1858ءسے1937ء)، زیریںبرما(1858ءتا1937ء)، بالائیبرما(1886ءتا1937ء) شامل ہیں (مکمل برما1937ءمیں برطانوی ہند سے الگ کر دیا گیا)،برطانوی ارض صومال(1884ءسے1898ء) اورسنگاپور(1858ءسے1867��) کو بھی برطانوی راج کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔مشرق وسطٰی،جنگ عظیم اولکے فوراً بعد برطانیہ کے زیر قبضہبین النہرین(موجودہعراق) کا انتظام بھی حکومت برطانیہ کے ہندی دفتر سے چلایا جاتا تھا۔ہندوستانی روپیہمشرق وسطٰی کے کئی علاقوں اورمشرقی افریقہمیں زیر استعمال رہا۔خطے کے دیگر ممالک میں1802ءمیںمعاہدۂ ایمینزکے تحتبرطانیہکے زیر نگیں آنے والا علاقہسیلون(موجودہسری لنکا)برطانیہکی شاہی نو آبادی تھا اوربرطانوی ہندکا حصہ شمار نہیں ہوتا تھا۔ علاوہ ازیںنیپالاوربھوٹانکی بادشاہتیںبرطانیہسے معاہدے کے تحت آزاد ریاستوں کی حیثيت سے تسلیم کی گئی تھیں اور برطانوی راج کا حصہ نہیں تھیں۔ ۔[1][2]1861ءکے معاہدے کے نتیجے میںسکمکی ریاستی خود مختاری تسلیم کی گئی ۔[3]جزائر مالدیپ1867ءسے1965ءتکبرطانیہکے زیر نگیں رہے اور برطانوی راج کا حصہ شمار نہیں ہوتے تھے۔ہندوستانمیں برطانوی راج کا آغاز1858ءمیں (جنگ آزادی ہند 1857ءکے بعد)ایسٹ انڈیا کمپنیکے اقتدار کے خاتمے اورہندوستانکے براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگیں آنے سے ہوتا ہے اور خاتمہ1947ءمیںتقسیم ہنداوربھارتوپاکستانکےقیامکے ساتھ ہوتا ہے۔"
+152,کولکاتا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D9%84%DA%A9%D8%AA%DB%81,"کولکاتایاکلکته(انگریزی: Kolkata؛ (بنگالی:কলকাতা)؛ تلفظ:/koʊlˈkɑːtɑː/؛بنگالی تلفظ:[kolkat̪a]) جس کا سرکاری نام سنہ2001ءسے قبلکلکتہ(انگریزی: Calcutta؛ تلفظ:/kælˈkʌtə/) تھا (اردو میں معمولاً کلکتہ ہی کہتے ہیں)،بھارتکیریاستمغربی بنگالکادار الحکومتہے جودریائے ہوگلیکے مشرقی کنارے پر واقع ہے اورمشرقی بھارتکا اہم تجارتی، ثقافتی اور تعلیمی مرکز ہے۔کولکاتا بندرگاہبھارت کی قدیم ترین اور واحد اہم دریائی بندرگاہ ہے۔2011ءمیں شہر کی آبادی 4.5 ملین، جبکہ شہر اور اس کے مضافات کی آبادی 14.1 ملین تھی جو اسے بھارت کا تیسرا بڑامیٹروپولیٹن علاقہبناتی ہے۔ کولکاتا میٹروپولیٹن علاقے کی معیشت کا حالیہ تخمینہ 60 تا 150 بلینامریکی ڈالر(مساوی قوتِ خرید خام ملکی پیداوار) تھا، جو اسےممبئیاوردہلیکے بعدبھارتکا تیسراسب سے زیادہ پیداواری میٹروپولیٹن علاقہبناتا ہے۔[14][15][16]اپنے بہترینمحل وقوعکی وجہ سے کولکاتا کو ""مشرقی بھارت کا داخلی دروازہ"" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نقل و حمل کا اہم مرکز، وسیع مارکیٹ تقسیم مرکز، تعلیمی مرکز، صنعتی مرکز اور تجارتی مرکز ہے۔ کولکاتا کے قریبدریائے ہوگلیکے دونوں کناروں پر بھارت کے زیادہ ترپٹ سنکے کارخانے واقع ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں موٹر گاڑیاں تیار کرنے کی صنعت، کپاس-کپڑے کی صنعت، کاغذ کی صنعت، مختلف قسم کی انجینئری کی صنعت، جوتوں کی صنعت، ہوزری صنعت اور چائے فروخت کے مراکز وغیرہ بھی موجود ہیں۔سرکاری طور پر1 جنوری،2001ءکو اس شہر کا نام تبدیل کر کے اس کے بنگالی تلفظ پرکولکاتارکھا گیا۔[18]لفظ کولکاتا بنگالی اصطلاحکولیکاتا((بنگالی:কলিকাতা)) تلفظ: [ˈkɔlikat̪a]) سے حاصل ہے جو انگریزوں کی آمد کے زمانہ میں اس جگہ پر موجود تین دیہاتوں میں سے ایک کا نام تھا۔ دیگر دو دیہاتشوتنتی((بنگالی:সুতানুটি)) اورگوبندپور((بنگالی:গোবিন্দপুর)) تھے۔[19]اس کا سابق نام انگریزی میںکیلکٹا(Calcutta) تھا لیکنبنگلہبولنے والے اسے ہمیشہکولکتہیاكولكاتاہی کہتے ہیں۔ہندیاوراردومیں اسےکلکتہ(कलकत्ता) کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس کے نام کی اصل کے بارے میں کئی طرح کی کہانیاں مشہور ہیں۔ سب سے زیادہ مقبول کہانی کے مطابق اس شہر کے نام ہندوؤں کیدیویکالیکے نام سے ہے۔کولکاتا کے شمال میں 35 کلومیٹر (22 میل) کے فاصلے پر شمال میںچندرکیتوگڑھکےآثار قدیمہکے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ یہ علاقہ دو ہزار سال قبل آباد تھا۔[21][22]مہا بھارتمیں بھی بنگال کے کچھ راجاؤں کا نام ہے جو کورو فوج کی جانب سے جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ اس شہر کے وجود کا ذکر تجارتی بندرگاہ کے طور پر چین کے قدیم مسافروں کے سفرناموں اور فارسی تاجروں کی دستاویزات میں ملتا ہے۔ شہنشاہاکبرکی محصول دستاویزات اورپندرہویں صدیکے ادب اور نظموں میں اس نام کا بار بار ذکر ملتا ہے۔1698ءمیںایسٹ انڈیا کمپنینے ایک مقامی زمیندار خاندان ساورن رائے چودھری سے تین گاؤں (شوتنتی، کولیکاتا اور گوبندپور) حاصل کیے۔ اگلے سال کمپنی نے ان تین گاؤں کا ارتقا پریسیڈنسی سٹی کے طور پر شروع کر دیا۔1727ءمیںمملکت برطانیہ عظمیکے بادشاہجارج دومکے حکم کے مطابق یہاں ایک شہری عدالت قائم کی گئی۔ کولکاتا میونسپل کارپوریشن قائم کی گئی اور پہلے میئر کا انتخاب ہوا۔1756ءمیں بنگال کےنوابسراج الدولہنے كولكاتا پر حملہ کرکے اسے فتح کر لیا اس نے اس کا نامعلی نگررکھا۔ لیکن سال بھر کے اندر ہی سراج الدولہ کی گرفت یہاں ڈھیلی پڑ گئی اور انگریزوں کا اس پر دوبارہ غلبہ ہو گیا۔1772ءمیںوارن ہیسٹنگزنے اسے برطانوی راج کا ہندوستانی دار الحکومت بنا دیا۔ کچھ مورخ اس شہر کو ایک بڑے شہر کے طور پر1698ءمیںفورٹ ولیمکے قیام سے جوڑتے ہیں۔1911ءتک کولکاتا ہندوستان میںبرطانوی راجکادارالحکومترہا۔22 اکتوبر،1764ءکوبرطانوی ایسٹ انڈیا کمپنیاورنواب بنگالمیر قاسم،نواب اودھ،مغل شہنشاہشاہ عالم ثانیکے درمیانبکسرکے مقام پر جنگ ہوئی جسےبکسر کی لڑائیکہا جاتا ہے۔ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو فتح حاصل ہوئی۔1757ءکے بعد سے اس شہر پر مکمل طور انگریزوں کا غلبہ ہو گیا اور1850ءکے بعد سے اس شہر میں تیزی سے صنعتی ترقی ہونا شروع ہوئی خاص طور پر کپڑوں کے صنعت میں۔5 اکتوبر1865ءکوسمندری طوفان(جس میں ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے) کی وجہ سے کولکاتا میں بری طرح تباہی ہونے کے باوجود کولکاتا صنعتی طور پر اگلے ڈیڈھ سو سالوں میں بڑھتا ہی رہا۔1850ءکی دہائی تک کولکاتا دو علاقوں میں تقسیم ہو چکا تھا ایک گوروں کا شہرچورنگیاورڈلہوزی اسکوائرجس میں بنیادی طور پر برطانوی مقیم تھے جبکہ دوسرا کالوں کا شہر جس میں مقامی لوگ آباد تھے۔برطانیہ نے1911ءمیں دار الحکومتنئی دہلیمنتقل کر دیا۔[23]تاہم کلکتہ (کولکاتا) کاتحریک آزادی ہندمیں مرکزی کردار رہا ۔دوسری جنگ عظیمکے دوران1942ءاور1944ءمیں شہر اور اس بندرگاہ پر جاپانیوں نے کئی بار بمباری کی۔[24][25]جنگ کے ساتھ فوجی، انتظامی اور قدرتی عوامل کے ایک مجموعہ کی وجہ1943ءکے بنگال قحط کے دوران لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔[26]1946ءمیں ایکمسلم ریاستکی تشکیل کے مطالبات پر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں 4،000 سے زائد ہلاک ہوئے۔[27][28][29]تقسیم ہندکی وجہ سے مزید فسادات ہوئے۔ مسلمانوں ایک کثیر تعدادمشرقی پاکستان(موجودہبنگلہ دیش) ہجرت کر گئی اور اس طرحمشرقی بنگالسے ہندو کولکاتا آ گئے۔[30]آج اس کی آبادی لگ بگ 1 کروڑ 40 لاکھ ہے۔ کولکتہ1980ءسے قبل کولکاتا بھارت کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر تھا، لیکن اس کے بعدممبئینے اس کی جگہ لی۔برطانوی راجکے دوران جب کولکاتاہندوستانکادارالحکومتتھا، کولکاتا کولندنکے بعدسلطنت برطانیہکا دوسرا سب سے بڑاشہرسمجھا جاتا تھا۔ اس شہر کی شناختمحلات کا شہر،مشرق کا موتیوغیرہ کے طور پر تھی۔
+اسی دوران بنگال اور خاص طور پر کولکاتا میں بابو ثقافت کا ارتقا ہوا جو برطانوی لبرل ازم اور بنگالی سماج میں بغاوت کا نتیجہ تھا۔ اس کی بنیادی وجہ بنگالی زمینداری رواج، ہندو مذہب کا متعصبانہ رویہ، سماجی، سیاسی اور اخلاقی اقدار میں تبدیلی تھی۔
+اسی کشمکش کے نتیجہ میں کہ انگریزوں کے جدید تعلیمی اداروں میں پڑھے کچھ لوگوں نے بنگال کے معاشرے میں اصلاح پسند بحث کو جنم دیا۔ بنیادی طور پربابوان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو مغربی طریقے کی تعلیم پاکر بھارتی اقدار کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور خود کو زیادہ سے زیادہ مغربی انداز میں ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔
+لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود جب انگریزوں کے درمیان ان کا فرق برقرار رہا تو اس کے برعکس نتائج بھی آئے، اسی قسم کے کچھ لوگوں نے نئی بحثوں کا آغاز کیا جو بنگال کے ""حیات نو"" (پنرجہرن) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت بنگال میں سماجی، سیاسی اور مذہبی اصلاحات ہوئیں۔ بنگلہ ادب نے نئی ااونچائیوں چھوا جس کا اثر دیگر ہندوستانی برادریوں نے بھی اپنایا۔کولکاتامشرقیاورشمال مشرقی بھارتکا بنیادی تجارتی اور مالیاتی مرکز ہے۔[31]یہاں کولکاتااسٹاک ایکسچینجبھی واقع ہے، جو بھارت کا دوسرا سب سے بڑا اسٹاک ایکسچینج ہے۔[32][33]یہاں اہم تجارتی اور فوجی بندرگاہ بھی ہے، اس کے علاوہ اس علاقے کا واحدبین الاقوامی ہوائی اڈابھی یہیں ہے۔ ہندوستان کے اہم تجارتی شہر کولکاتا کو آزادی بعد کچھ ابتدائی سالوں میںکساد بازاریکا سامنا رہا، جس کی بنیادی وجہ سیاسی عدم استحکام اور تجارتی یونینوں کا بڑھنا تھا۔[34]1960ءکی دہائی سے1990ءکے دہائی کے وسط تک شہر کی معیشت مسلسل گرتی گئی جس کی وجہ یہاں پر بند یا منتقل ہوتے کارخانے اور کاروبار تھے۔[34]بھارتی اقتصادی پالیسی کی اصلاحات کے عمل سے1990ءکے دہائی میں شہر کے اقتصاد کو نئی سمت دی گئی، اس کے بعد پیداوار بھی بڑھی اور بے روزگار لوگوں کو کام بھی ملا۔[35]شہر کیافرادی قوتمیں سرکاری اور نجی کمپنیوں کے ملازم ایک بڑا حصہ ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں غیر ہنر مند اور نیم ہنر مند کارکنان موجود ہیں۔ ماہر کاریگرں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو شہر کی معیشت میںریڑھ کی ہڈیکی طرح ہے۔ شہر کی اقتصادی حالت کی بہتری میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خدمات کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں یہاں سالانہ تقریباً 70 فیصد ترقی ہورہی ہے جو قومی اوسط دگنا ہے۔[36]حالیہ برسوں میں یہاں تعمیرات اور ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں بھی سرمایہ کار کافی دلچسبی لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے شہر میں کئی نئے منصوبوں کا آغاز ہوا ہے۔[37]کولکاتا میں کئی بڑی بھارتی کارپوریشنز کے صنعتی یونٹس قائم ہیں، جن کے مصنوعات پٹ سن سے لے کر الیکٹرانک اشیا تک ہیں۔
+کچھ قابل ذکر کمپنیاں جن کے صدر دفتر یہاں ہیں، آئی ٹی سی لمیٹڈ، باٹا ، برلا کارپوریشن، کول انڈیا لمیٹڈ، دامودر ویلی کارپوریشن، یونائیٹڈ بینک آف انڈیا، یوکو بینک اورالہ آبادبینک وغیرہ اہم ہیں۔
+حال ہی میں حکومت ہند کی ""مشرق دیکھو"" (لک ایسٹ) پالیسی کی وجہ سےچیناورجنوب مشرقی ایشیائیممالک سے تجارتی روابط بڑھانے کی پالیسیوں کی وجہ سے یہاں کئی ممالک نے بھارتی بازار میں قدم کیا ہے۔ اسی وجہ سے کولکاتا میںسرمایہ کاریکرنے سے یہاں کی اقتصادیات میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔[38][39]کولکاتامشرقی بھارتمیں22°34′22″N88°21′50″E / 22.57278°N 88.36389°E /22.57278; 88.36389پر واقع ہے۔ شہر کے مشرق میںبنگلہ دیشاور بھارتی ریاستآسام، شمال میںسکم، مغرب میںبہاراورجھارکھنڈجبکہ جنوب میںخلیج بنگالواقع ہے۔ شہر کی بلندی 1.5-9 میٹر (5-30 فٹ) ہے۔[40]شہردریائے ہوگلیکے کنارے شمال اور جنوب میں پھیلا ہوا ہے۔ شہر کا بہت سا حصہ ایک بڑی مرطوب زمینی علاقے تھا، جسے بھر کر شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کو بسایا گیا ہے۔[41]ماندہ مرطوب زمین جسے اب ایسٹ کلکتہ ویٹ لینڈز کہتے ہیں، کو رامسر کنونشن کے تحتبین الاقوامیاہمیت کی مرطوب زمین قرار دیا گیا ہے۔[42]دیگرسندھ و گنگعلاقوں کی طرح یہاں کی زمین بھی زرخیز ہے۔
+بھارتی معیاری بیورو کے مطابق ایک سے لے کر چار کے پیمانے پر شہر زلزلہ زون تین کے اندر مضمر ہے۔[43]دریائے ہوگلیجسے روایتی طور پرگنگابھی کہا جاتا ہےبھارتکی ریاستمغربی بنگالمیںدریائے گنگاکا ایک معاوندریاہے جو تقریباً 260 کلومیٹر (160 میل) طویل ہے۔[44]یہضلع مرشدابادکے مقام پر گنگا سے بطور نہر علاحدہ ہوتا ہے۔کولکاتہشہر دریائے ہوگلی کے کنارے بسا ہے۔[45]کولکاتا کے مقام پر اس پر دو پل واقع ہیں جن میں سے ایک مشہور زمانہہاوڑہ پلاور دوسراودیاساگر پلپل ہے۔کولکاتا کیآب و ہوااستوائی نم-خشک ہے۔ یہ کوپین موسمیاتی درجہ بندی کے مطابق (Aw) کے زمرے میں آتی ہے۔اقوام متحدہکے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق یہ تیز ہواوں اور طوفان زون میں ہے اور اسے ""بہت زیادہ نقصان کا خطرہ"" لاحق ہے۔[43]سالانہ اوسط درجہ حرارت 26.8 ° س (80 ° ف)؛ ماہانہ اوسط درجہ حرارت 1 9 ° س سے 30 ° س (67 ° ف. سے 86 ° ف) رہتا ہے۔[46]موسم گرما گرم اور مرطوب رہتا ہے، جس سے کمدرجہ حرارت30 ڈگری کی دہائی میں رہتا ہے اور خشک عرصے میں یہ 40 ° س (104 ° ف) کو بھی پار کر جاتا ہے۔ ایسا عام طور پر مئی اور جون میں ہوتا ہے۔[46]موسم سرما ڈھائی ماہ تک ہی رہتا ہے جس میں کم از کم درجہ حرارت 12 ° س سے 15 ° س (54 ° ف. - 57 ° ف) تک جاتا ہے۔ ایسا دسمبر سے فروری کے درمیان ہوتا ہے۔[46]اکثر گرمیاں کے شروع میں دھول والی آندھیاں آتی ہیں جن کے ساتھ ہی تیز بارشیں ہوتی ہیں۔ یہ شہر کو شدید گرمی سے راحت دلاتی ہیں۔ اس بارشوں کو موسم کو کال بیساکھی (কালবৈশাখী) کہا جاتا ہے۔[47]خلیج بنگالکی جنوب مغربی شاخ کےمون سونکی بارشیں کولکاتا میں جون اور ستمبر کے درمیان خوب برستی ہیں، جو یہاں کی سالانہ بارش 1،800ملی میٹرکا زیادہ تر حصہ ہوتی ہیں۔ سب سے زیادہ ماہانہ بارش جولائی اور اگست میں ہوتی ہے۔
+شہر میں فی سال دھوپ کے 2،528 گھنٹے نکلتی ہے جس میں مارچ کا مہینا سب سے نمایاں ہوتا ہے۔[48]کولکاتا کو کئی سمندری طوفانوں کا سامنا رہا ہے؛ 1737 اور 1864 میں آنے والے ان طوفانوں سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔[49][50]آلودگیکولکاتا میں ایک بڑی تشویش کا سبب ہے۔ 2008 کے مطابق سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کا سالانہ ار تکاز بھارت کے قومی ہوا معیار کے اندر تھی۔
+لیکن قابل تنفس معلق ذرات کی سطح اعلیٰ تھی اور مسلسل پانچ سال سے بڑھتا ہوا رجحاناسموگاور کہر کا باعث بنا ہے۔[53][54]شہر میں شدیدفضائی آلودگیسانس کی بیماریوں اورپھیپھڑوں کے کینسر میں اضافہ کی وجہ ہے۔[55]کولکاتا کانام آبادیكلكتياہے۔[57][58]2001ءکیمردم شماریکے مطابقکولکاتا ضلعکا کل رقبہ 185مربع کلومیٹر(71 مربع میل) اور اس کی آبادی 4,486,679 تھی[59]جبکہ اس کیکثافتِ آبادی24.252 / مربع کلومیٹر (62،810 / مربع میل) تھی۔[59]2001ءکے مطابق شہری بستگی آبادی 14,112,536 نفوس پر مشتمل تھی۔[12]بنگالی ہندوکولکاتا کی آبادی کی اکثریت کی تشکیل دیتے ہیں جبکہ مارواڑی، بہاری اورمسلمانبڑی اقلیتیں ہیں۔[60]کولکاتا کی چھوٹی برادریوں میں چینی، تامل، نیپالی، اوڈیشائی، تیلگو، آسامی،گجراتی،اینگلو انڈین، آرمینیائی،یونانی،تبتی، مہاراشٹری، کونکنی،ملیالی،پنجابیاورپارسیشامل ہیں۔[61]آرمینیائی، یونانیوں، یہودیوں اور دیگر غیر ملکی نژاد گروہوں کی تعداد میںبیسویں صدیکےدوران کمی آئی ہے۔[62]کولکاتا کی یہودی آبادیدوسری جنگ عظیمکے دوران 5،000 تھی لیکنآزادی ہنداوراسرائیلکی ریاست کے قیام کے بعد یہ کم ہو گئی۔[63]2013ءکے مطابق شہر میں صرف 25 یہودی آباد تھے۔[64]بھارت کی واحد چائنا ٹاؤن مشرقی کولکاتا میں ہے۔ ایک وقت میں یہاں 20،000 نسلی چینی آباد تھے[62]تاہم2009ءمیں یہ کم ہو کر 2،000 رہ گئے۔[62]چینی برادری روایتی طور پر مقامی دباغت کی صنعت اور چینی ریستورانوں میں کام کرتی تھی۔[62][65]کولکاتا کئی سرکاری ایجنسیوں کے زیر انتظام ہے۔ کولکاتا میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) شہر کی 15 بروز جو 141 وارڈوں میں منقسم ہیں کا انتظام سنبھالتی ہے۔[66]ہر وارڈ سے ایم سی کے لیے ایک کونسلر منتخب ہوتا ہے۔ ہر برو کے کونسلروں کی ایک کمیٹی ہوتی ہے جو وارڈوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ برو کمیٹیوں کے ذریعے کارپوریشن (بلدیہ) شہری منصوبہ بندی، سڑکوں کی دیکھ بھال، حکومتی اسکولوں، ہسپتالوں اور میونسپل منڈیوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔[67]کے ایم سی کے فرائض میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب اور سیوریج، صفائی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، گلی، نظم روشنی اور عمارت ضابطہ بھی شامل ہیں۔ہیں۔[67]وزارت دفاعکے آرڈننس فیکٹریز بورڈ کے مطابقبھارتی فوجگارڈن ریچ شپ بلڈرز اینڈ انجینئرز اور مشرقی کمان کے صدردفاتر تمام شہر میں واقع ہیں۔ کولکاتا میں امریکی قونصلیٹ ریاستہائے متحدہ کا دوسرا قدیم ترین امریکی قونصلیٹ ہے جو19 نومبر1792ءسے قائم ہے۔[68]یہ قونصلیٹ جنرلبہار،جھارکھنڈ،اوڈیشا،مغربی بنگال،سکم،آسام،میگھالیہ،تریپورہ،میزورم،منی پور،ناگالینڈاوراروناچل پردیشکی ریاستوں کو خدمت فراہم کرتا ہے۔کولکاتا کی عوامی ٹریفک کے لیے بنیادی طور بس، آٹوركشا، سائیکل ركشا،ٹراماور میٹرو ریل سروس زیر استعمال ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ بنیادی طور پر بسوں کو سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ یہاں سرکاری اور نجی کمپنیوں کی بسیں زیر استعمال ہیں۔ بھارت میں کولکاتا واحد شہر ہے، جہاں ٹرام سروس دستیاب ہے۔مانسونکے وقت بھاری بارشوں کی وجہ سے کئی بار مقامی ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔ کولکاتا میں تقریباً تمام پیلی ٹیکسیاں ایمبیسیڈر ہی ہیں۔ کولکتہ کے علاوہ دیگر شہروں میں زیادہ تر ٹاٹا انڈکا یا فیئٹ ہی ٹیکسی کے طور پر چلتی ہیں۔ دیگر شہروں کی نسبت یہاں ذاتی گاڑی کافی کم ہیں۔ تاہم حال میں شہر میں نجی گاڑیوں کی رجسٹریشن میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔2002ءکے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سات سالوں میں گاڑیوں کی تعداد میں 44 فیصد اجافہ نظر آتا ہے۔ شہر کے آبادی کی کثافت کے تناسب سے سڑکیں محض 6 فیصد ہیں، جبکہ دہلی میں یہ 23 فیصد اور ممبئی میں 17 فیصد ہیں۔ یہی یہاں کے ٹریفک جام کی بنیادی وجہ ہے۔[69]کولکاتا میٹرو اور بہت سے نئے فلائی اوورز اور نئی سڑکوں کی تعمیر نے شہر کو کافی راحت دی ہے۔نیتا جی سبھاش چندر بوس انٹرنیشنل ائیرپورٹیانیتا جی سبھاش چندر بوس بین الاقوامی ہوائی اڈاکولکاتا،مغربی بنگال،بھارتمیں واقع ایکبین الاقوامی ہوائی اڈاہے۔ یہ شہر کے مرکز سے تقریباً 17 کلومیٹر (11 میل) کے فاصلے پرڈم ڈممیں واقع ہے۔ اس کا نام پہلےڈم ڈم ایئر پورٹتھا جسے بعد میںتحریک آزادی ہندکے ایک رہنماسبھاش چندر بوسکے نام پر تبدیل کر دیا گیا۔کولکاتابھارتی ریلوےکے سترہ علاقائی ڈویژنوں میں سے تین ریلوے زون کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر کام کرتا ہے۔[70]کولکاتابنگلہ دیشکےدارالحکومتڈھاکہکے ساتھ ریل اور سڑک کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔[71][72][73]کولکاتا میں ریلوے کے مندرجہ ذیل اسٹیشن ہیں۔کولکاتا مضافاتی ریلوےایک مضافاتی ریلوے نظام ہے جو کولکاتا اور اس کے مضافات کو خدمات فراہم کرتا ہے۔کولکاتا میٹروکولکاتا شہر میں ایک میٹرو ریل نظام ہے۔ 300 میٹرو خدمات روزانہ 650،000 سے زائد مسافروں کو خدمات فراہم کریں ہیں۔ یہبھارتکا دوسرا مصروف ترین میٹرو نظام ہے۔[74]کولکاتا ٹرامبھارتکے شہر کولکاتا میں ایکٹرامنظام ہے جوکلکتہ ٹرام ویز کمپنی(Calcutta Tramways Company) کے زیر انتظام ہے۔ یہ فی الحال بھارت میں واحد فعال ٹرام نیٹ ورک ہے،[75]اورایشیامیں سب سے قدیم فعال برقی ٹرام ہے جو1902ءکے بعد سے چل رہی ہے۔[76]کولکاتا بندرگاہبھارتکےشہرکولکاتا میں ایک دریاَئیبندرگاہہے جوسمندرسے تقریباً 203 کلومیٹر (126 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔[77]یہ بھارت کی سب سے قدیم عمل کاری بندرگاہ ہے جسےبرطانوی ایسٹ انڈیا کمپنینے تعمیر کیا تھا۔2011ءکے مطابق کولکاتا میں صحت کی دیکھ بھال کا نظام 48 سرکاری اسپتالوں پر مشتمل ہے جن میں زیادہ تر صحت اور خاندان فلاحی شعبہ، مغربی بنگال کی حکومت کے تحت اور 366 نجی طبی اداروں کے ہیں۔[78]یہ مجموعی طور پر 27،687 ہسپتال بستر فراہم کرتے ہیں۔[78]شہر میں ہر 10،000 افراد کے لیے، 61.7 ہسپتال بستر ہیں[79]جو قومی اوسط 9 ہسپتال بستر فی 10،000 افراد سے کہیں بہتر ہے۔[80]کولکاتا میٹروپولیٹن علاقہمیں دس میڈیکل اور ڈینٹل کالج موجود ہیں جو ریاست میں تیسرے درجے ریفرل ہسپتالوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔[81][82]کلکتہ میڈیکل کالج1835ءمیں قائم کیا گیا جوایشیامیں پہلا جدید طب سکھانے والا ادارہ تھا۔[83]تاہم یہ سہولیات شہر کی صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔[84][85][86]2005ءنیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق کولکاتا کے گھرانوں کے کا صرف ایک چھوٹے تناسب کسی بھی صحت کی منصوبہ بندی یا صحت کی انشورنس کے تحت شامل تھا۔[87]:41کولکاتا میں شرح پیدائش 1.4 تھی جو سروے میں شامل آٹھ شہروں میں سب سے کم تھی۔[87]:45کولکاتا کے تعلیمی اارے ریاستی حکومتی اور نجی تنظیموں کے زیر انتظام ہیں جن میں سے کئی مذہبی ہیں۔بنگالیاورانگریزیتدریس کی بنیادی زبانیں ہیں،اردواورہندیبھی زیر استعمال ہیں خاص طور پر مرکزی کولکاتا میں۔[88][89]کولکاتا میںیونیورسٹی آف کلکتہسمیت کئی نامور تعلیمی ادارے اور کالج ہیں یہاں چار میڈیکل کالج بھی ہیں۔ اسی کی دہائی کے بعد کولکاتا کی تعلیمی حیثیت میں کمی ہوئی لیکن کولکاتا اب بھی تعلیمی ماحول کے لیے جانا جاتا ہے۔کلکتہ یونیورسٹی، جادو پور یونیورسٹی، رویندر بھارتی یونیورسٹی، مغربی بنگال قومی عدالتی سائنس یونیورسٹی، نیتا جی سبھاش آزاد یونیورسٹی، بنگال انجینئری اور سائنس یونیورسٹی، مغربی بنگال صحت سائنس یونیورسٹی، مغربی بنگال ٹیکنیکل یونیورسٹی یونیورسٹی آف کلکتہ کے مختلف حصوں میں واقع ہیں۔کولکاتا میں کئی اہم تحقیقی ادارے بھی موجود ہیں جیسےانڈین ایسوسی ایشن برائے سائنس کی کاشت(Indian Association for the Cultivation of Science)،انڈین انسٹی ٹیوٹ برائے کیمیائی حیاتیات(Indian Institute of Chemical Biology)،انڈین انسٹی ٹیوٹ برائے سائنس کی تعلیم اور تحقیق(Indian Institute of Science Education and Research)،بوس انسٹی ٹیوٹ(Bose Institute)،ساہا انسٹ�� ٹیوٹ برائے جوہری طبیعیات(Saha Institute of Nuclear Physics)،آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ برائے صحت و صفائی اور عوامی صحت(All India Institute of Hygiene and Public Health)،مرکزی شیشہ اور خزافی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(Central Glass and Ceramic Research Institute)،ایس این بوس قومی مرکز برائے بنیادی سائنسز(S.N. Bose National Centre for Basic Sciences)،انڈین انسٹی ٹیوٹ برائے سوشل ویلفیئر اور بزنس مینجمنٹ(Indian Institute of Social Welfare and Business Management)،نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے دواسازی کی تعلیم اور تحقیق(National Institute of Pharmaceutical Education and Research)،متغیر توانائی سائکلوٹران سینٹر(Variable Energy Cyclotron Centre) اورانڈین سینٹر برائے خلائی طبیعیات(Indian Centre for Space Physics).کولکاتا کو طویل عرصے سے اس کی ادبی، انقلابی اور فنکارانہ ورثے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ہندوستان کے سابق دار الحکومت رہنے کی وجہ سے یہ جدید ہندوستان کی ادبی اور فنکارانہ سوچ کا مرکز بنا۔ كولكاتا کے رہنے والوں میں بنیادی سطح پر ہمیشہ ہی فن اور ادب کے لیے خاص مقام رہا ہے۔ ہمیشہ نئے باصلاحیت افراد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے کولکاتا کو بھارت کا ثقافتی دار الحکومت بھی کہا جاتا ہے جو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔کولکاتا کے خاص حصے جنہیںپاراکہا جاتا ہے، جس کے معنی قریبی علاقے ہیں۔ ہر پارا ایک کمیونٹی سینٹر کھیل کے مقامت وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ لوگوں میں یہاں فرصت کے وقت اڈا (یعنی آرام سے باتیں کرنا) میں اجلاس، بحثیں وغیرہ میں کبھی کبھار مسائل پر بات کرنے کی عادت ہے۔ یہ عادت ایک آزاد فکری گفتگو کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔[90]کولکاتا میں بہت سی عمارتیں گوتھک، بروق، رومن اور ہند-اسلامیطرز تعمیرکی ہیں۔ برطانوی دور کی کئی عمارتیں اچھی طرح سے محفوظ ہیں اور اب انھیں ورثہ قرار دیا جا چکا ہے جبکہ بہت سی عمارتیں تباہی کے دہانے پر ہیں۔1814ءمیں بنا بھارتی عجائب گھر کا شمار ایشیا کے قدیم عجائب گھروں میں ہوتا ہے۔ یہاں ہندوستانی تاریخ، قدرتی تاریخ اور ہندوستانی فنون کا حیرت انگیز مجموعہ موجود ہے۔[91]وکٹوریہ میموریلکولکاتا کی بلا شبہ سب سے اہم یادگار ہے۔ یہاں کے عجائب گھر میں شہر کی تاریخ موجود ہے۔ یہاں کا بھارتی قومی کتب خانہبھارتکا ایک اہم اور بڑاکتب خانہہے۔ فائن آرٹس اکیڈمی اور بہت سے دوسرے فن کے ادارے باقاعدہ فن پر مبنی نمائش منعقد کرتے رہتے ہیں۔شہر میں تھیٹر اور اجتماعی تھیٹر آج بھی زندہ ہے۔ یہاں ہندی فلمیں اتنی ہی مقبول ہیں جتنی کہ بنگلہ فلمیں۔ یہاں کی فلمی صنعت کوٹالووڈنام دیا گیا ہے۔ یہاں کی فلمی صنعت ٹولی گنج میں واقع ہے۔ طویل عرصے موجود یہاں کی فلمی صنعت نے کئی مشہور فلم ڈائریکٹر جیسے ستیہ جیت رائے، مرنال سین، تپن سنہا بھارتی فلمی صنعت کو دیے ہیں۔کولکاتا کے پکوان کے بنیادی اجزا چاول اور ماچھیر جھول جبکہ میٹھے میںرس گلہاور مشٹی ڈوئی بہت مشہور ہیں۔ بنگالی لوگوں کی بنیادی غذا میں مچھلی پسندیدہ ترین ہے۔[92][93]بنگالی خواتین عام طور پرساڑیپہنتی ہیں تاہم کم عمر خواتین میںشلوار قمیضاور مغربی لباس بھی مقبول ہو رہا ہے۔ گھریلو طور پر ساڑی پہننے کا ایک مخصوص انداز ہوتا ہے جو خاص بنگالی شناخت ہے۔ ساڑیوں میں یہاں کی بنگالی سوتی اور ریشمی ساڑیاں مشہور ہیں۔ مردوں میں اکثر مغربی پنٹ شرٹ ہی چلتے ہیں، مگر تہواروں اور خاص موقوں پر روایتی سوتی اور ریشمی کرتوں کو دھوتی کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔ یہاں مردوں کا دھوتی کا سرے ہاتھ میں پکڑ کر چلنے کا رواج رہا ہے، جو ایک خاص بنگالی پہچان دیتا ہے۔ دھوتی عام طور پر سفید رنگ کی ہی ہوتی ہے۔درگا پوجا کولکاتا کا سب سے زیادہ نمایاں اور چکاچوند کرنے والا جشن ہے۔[94][95][96]یہ تہوار اکثر اکتوبر کے مہینے میں آتا ہے تاہم ہر چوتھے سال ستمبر میں بھی آ سکتا ہے۔ دیگر قابل ذکر تہواروں میں جگددھاتری پوجا، پولا بیاكھ، سرسوتی پوجا ، رتھ یاترا، پوش پربو،دیوالی،ہولی،کرشن جنم اشٹمی،مہا شواراتری،گنیش چترتھی،مکر سنکرانتیکرسمساورعید،محرموغیرہ اہم ہیں۔ ثقافتی تہواروں میں کولکاتا کتاب میلہ، کولکتہ فلم اتسو، ڈوور لین موسیقی تہوار اور نیشنل تھیٹر فیسٹیول آتے ہیں۔ شہر میں ہندوستانیکلاسیکی موسیقیاور بنگالی لوک گیت موسیقی کو بھی سراہا جاتا ہے۔ہندوستان کا پہلااخبار، بنگال گزٹ1780ءمیں کولکاتا سے شائع ہونا شروع ہوا۔[97]بہت سے بنگلہ اخبار یہاں شائع ہوتے ہیں، جن میں آنند بازار پتریکا، آج کل، برتمان، سگنباد پرتیدن، گنیشکتی اور دیانک سٹیٹمن اہم ہیں۔[98]دی سٹیٹسمین اور دی ٹیلی گراف کولکاتا سے شائع ہونے عالے دو بڑےانگریزیاخباراتہیں۔ کولکاتا میں شائع اور فروخت ہونے والے دیگر مقبول انگریزی اخبارات میں ٹائمز آف آنڈیا، ہندوستان ٹائمز، دی ہندو، انڈین ایکسپریس اور ایشین ایج شامل ہیں۔[98]مشرقی بھارتکا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے کولکاتا میں اکنامک ٹائمز، فنانشل ایکسپریس، بزنس لائن اور بزنس سٹینڈرڈ سمیت کئی اعلی مالی روزنامے گردش میں ہیں۔[98][99]مقامی زبانوں کے اخبارات جیسےہندی،اردو،گجراتی،اڑیہ،پنجابیاور چینی مقامی اقلیتوں میں پڑھے جاتے ہیں۔[62][98]آکاش وانیقومی سرکاری ریڈیو براڈکاسٹر شہر میں کئی اے ایم ریڈیو اسٹیشنوں سے نشریات کرتا ہے۔[100]کولکاتا میں 12 مقامی ریڈیو اسٹیشن ایف ایم پر نشریات کرتے ہیں۔[101]بھارت کا سرکاری ٹیلی ویژن براڈکاسٹر،دوردرشندو مفت چینلز پر نشریات کرتا ہے۔[102]جبکہ بنگالی، ہندی، انگریزی اور دیگر علاقائیٹیلی ویژنچینلز کیبل، براہ راست مصنوعی سیارہ نشریات یا انٹرنیٹ کے ذریعے قابل رسائی ہیں۔[103][104][105]کولکتہ میں سرکاری بی ایس این ایل اور نجی مواصلاتی کمپنیاں جیسے ووڈافون، ایئر ٹیل، ریلائنس کمیونی کیشنز، ٹاٹا انڈیکوم وغیرہ ٹیلی فون اور موبائل خدمات فراہم کرتے ہیں۔ شہر میںجی ایس ایماورسی ڈی ایم اےدونوں قسم کی خدمات دستیاب ہیں۔ یہاں بی ایس این ایل، ٹاٹا کمیونی کیشنز، ایئر ٹیل اور ریلائنس کمیونی کیشنز کی طرف سے براڈبینڈ سروس بھی دستیاب ہے۔ ان کے علاوہ سفی اور الائنس بھی یہ سروس فراہم کرتے ہیں۔کولکاتا میں سب سے زیادہ مقبول کھیلفٹ بالاورکرکٹہیں۔ بھارت کے بیشتر حصوں کے برعکس یہاں کے رہائشیوں میں فٹ بال کے لیے اہم جذبہ ہے۔[106]شہر بہترین قومی فٹ بال کلب جیسے موہن باگان اے سی، مشرقی بنگال ایف سی، پریاگ یونائٹڈ ایس سی اور محمڈن اسپورٹنگ کلب کا گھر ہے۔[107][108]کلکتہ فٹ بال لیگ جو1898ءمیں شروع ہوئیایشیامیں سب سے پرانی فٹ بال لیگ ہے۔[109]بھارتکے باقی حصوں کی طرحکرکٹکولکاتا میں مقبول ہے اور شہر بھر کے میدانوں اور گلیوں میں کھیلا جاتا ہے۔[110][111]انڈین پریمیئر لیگمیں کولکاتا کی ایک فرنچائز ہے جوکولکاتا نائٹ رائیڈرزہے۔ بنگال کرکٹ ایسوسی ایشن جومغربی بنگالمیں کرکٹ کے انتظامی امور سنبھالتی ہے کولکاتا ہی میں واقع ہے۔
+شہر میں بین محلہ یا بین کلب بنیادوں پر کھیلوں کے ٹورنامنٹ خاص کرکرکٹ،فٹ بال،بیڈمنٹناور کیرم منعقد کیے جاتے ہیں۔[112]میدانشہر میں ایک وسیع میدان ہے جو سب سے بڑا پارک ہے۔ یہاں کئی معمولی فٹ بال اور کرکٹ کلبوں اور کوچنگ اداروے موجود ہیں۔[113]ایڈن گارڈنزکی گنجائش 66،349 ہے۔کرکٹ عالمی کپ 1987ءکی میزبانی اسیاسٹیڈیمنے کی تھی۔ یہ بنگال کرکٹ ٹیم اورکولکاتا نائٹ رائیڈرزکا گھر بھی ہے۔سالٹ لیک اسٹیڈیمگنجائش کے لحاظ سےبھارتکا سب سے بڑااسٹیڈیمہے۔ کلکتہ کرکٹ اور فٹ بال کلب دنیا کا دوسرا سب سے پرانا کرکٹ کلب ہے۔[114][115]نیتا جی انڈور اسٹیڈیمنے1981ءایشیائیباسکٹ بالچیمپئن شپ کے میزبان کے طور پر خدمات انجام دیں۔ شہر میں تین 18 ہول گالف کورس بھی ہیں۔[116][117]کلکتہ پولو کلب دنیا میں سب سے قدیم موجودہ پولو کلب سمجھا جاتا ہے۔[118][119][120]میداناورفورٹ ولیم،دریائے ہوگلیکے قریب بھارت کے سب سے بڑے پارکوں میں سے ایک ہے۔یہ 3 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ میدان کے مغرب میں فورٹ ولیم ہے۔ چونکہ فورٹ ولیم اب بھارتی فوج کے زیر استعمال ہے اس لیے یہاں داخل ہونے کے لیے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے۔ایڈن گارڈنزکے ایک چھوٹے تالاب میں برما کا پگوڈا تعمیر کیا گیا ہے، جو اس باغ میں خاص توجہ کا مرکز ہے۔ یہ مقام مقامی لوگوں میں بہت مقبول ہے۔وکٹوریہ میموریل1906ءسے1921ءکے درمیان تعمیر کیا گیا یہبرطانویملکہ وکٹوریہکی ایک یادگار ہے۔ یادگار میں ایک شاندارعجائب گھربھی ہے جہاں ملکہ کے پیانو اور سٹڈی ڈیسک سمیت 3000 سے زائد چیزیں رکھی گئی ہیں۔ یہ روزانہ صبح 10:00 بجے سے شام 4:30 بجے تک کھلتا ہے، پیر کو یہ بند رہتا ہے۔سینٹ پال کیتھیڈرلتعمیرات کی ایک منفرد مثال ہے، اس کی رنگین شیشے کی کھڑکیاں اور گوتھک طرز تعمیر اس کا خاصہ ہیں۔ یہ روزانہ صبح 9:00 بجے سے دوپہر تک اور شام 3:00 بجے سے 6:00 بجے تک کھلتا ہے۔ناخدا مسجدسرخ پتھر سے بنی ہوئی ہے۔ یہ ایک بڑیمسجدہے جس کی تعمیر1926ءمیں ہوئی تھی۔ اس میں 10،000 افراد کی گنجائش ہے۔ماربل پیلسایم جی روڈ پر واقع کو اس محل کی خوبصورتی قابل دید ہے۔1800ءمیں یہ محل ایک امیر بنگالی زمیندار کی رہائش تھا۔ یہاں کچھ خوبصورت مجسمے اور پینٹنگ ہیں۔ خوبصورت فانوس، یورپین اینٹیک، وینیٹين گلاس، پرانے پیانو اور چین کے بنے نیلے گلدان آپ کو اس وقت کے امیروں کی طرز زندگی کی جھلک دکھاتے ہیں۔پارس ناتھ جین مندر1867ءمیں بنا۔ یہ مندر وینیٹين گلاس، پیرس کے فانوسوں، سونے کا ملممع چڑھا گنبد، رنگین شیشوں والی کھڑکیاں اور شیشے لگے كھبوں سے سجا ہے۔ یہ روزانہ صبح 6:00 بجے سے دوپہر تک اور شام 3:00 بجے سے 7:00 بجے تک کھلتا ہے۔بیلور خانقاہرام کرشن مشن کا ہیڈ کوارٹر ہے، اس کی تعمیر1899ءمیں سوامی وویکانند نے کی تھی، جو رام کرشن کے شاگرد تھے۔ یہ اکتوبر سے مارچ کے دوران صبح 6:30 بجے سے 11:30 بجے تک اور شام 3:30 بجے سے 6:00 بجے تک اور اپریل سے ستمبر تک یہ صبح 6:30 بجے سے 11:30 بجے تک اور شام 4:00 بجے سے 7:00 بجے تک کھلتا ہے۔دكشن ایشور کالی مندردریائے ہوگلیکے مشرقی ساحل پر واقع یہ ماں کالی کا مندر ہے جہاں شری رام کرشن پرہمنس ایک پادری تھے یہاں انھیں تمام مذاہب میں اتحاد لانے کی معرفت ہوئی۔ کالی مندر سڈر سٹریٹ سے 6 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ یہ صبح 3:00 بجے سے رات 8:00 بجے تک کھلتا ہے۔مدر ٹریسا ہومزسینکڑوں بے گھروں غریبوں کا گھر ہے جو خود کو خدمت خلق کے لیے وقف کر دینے والی مسیحی راہبہمدر ٹریساکی کاوش ہے۔بوٹینکل گارڈنزکئی ایکڑ میں پھیلا ایک سرسبز، پودوں کی نایاب قسموں، خوبصورت کھلے پھولوں، پرسکون ماحول فراہم کرتا ہے۔ یہاں قدرت کے ساتھ شام گزارنے کا ایک بہترین موقع ہے۔ دریا کے مغربی جانب واقع اس باغ میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برگد کا درخت ہے، جو 10،000مربع میٹرمیں پھیلا ہوا ہے، اس کی تقریباً 420 شاخیں ہیں۔"
+153,جارج پنجم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D8%A7%D8%B1%D8%AC_%D9%BE%D9%86%D8%AC%D9%85,جارج پنجم(George V) مکمل نامجارج فریڈرک ارنسٹ البرٹ(George Frederick Ernest Albert) مئی 1910 سے اپنی وفات تکبرطانیہاور برطانوی دولت مشترکہ کا بادشاہ اورشہنشاہ ہندوستانتھا۔ اس کا پیشرو ایڈورڈ ہفتم اور جانشیں ایڈورڈ ہشتم تھا۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+154,1911ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1911%D8%A1,<<< پہلی دہائی <<<دوسری دہائی>>> تیسری دہائی>>>
+155,1920ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1920%D8%A1,1915<<< پہلی دہائی <<<دوسری دہائی>>> تیسری دہائی>>>
+156,نئی دہلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D8%A6%DB%8C_%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C,نئی دہلیحکومت بھارتکادار الحکومتاور قدیم شہر ہے۔ یہ پہلے بھی بادشاہوں کی دار الحکومت ہو کرتا تھا اور آج بھی یہ اس ملک کا دار الحکومت ہے مغلوں کے زمانے میں تعمیر شدہ عمارتین آپ کو اس شہر میں بھی کافی تعداد میں ملتی ہیں جنمیںدہلیکالال قلعہ،جامع مسجداورقطب الدینکی تعمیر کردہقطب مینارسر فہرست ہے۔
+157,عربی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%B1%D8%A8%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,الجزائر: المجلس الأعلى للغة العربیة بالجزائر ()سوڈان: مجمع اللغة العربية بالخرطوم (عربی زبان اکادمی،خرطوم)عراق: المجمع العلمي العراقي فيبغداد(عراقی سائنس اکادمی)تونس: مؤسسة بيت الحكمةسوریہ: مجمع اللغة العربية بدمشقلیبیا: مجمع اللغة العربية الليبيمصر: مجمع اللغة العربية بالقاهرةالمغرب: عربی زبان اکادمیاسرائیل: مجمع اللغة العربية في حيفا[3]عربی(عربی:العربية)سامی زبانوںمیں سب سے بڑی زبان ہے اورعبرانیاور آرامی زبانوں سے بہت ملتی ہے۔ جدید عربی کلاسیکی یا فصیح عربی کی تھوڑی سی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فصیح عربی قدیم زمانے سے ہی بہت ترقی یافتہ شکل میں تھی اورقرآنکی زبان ہونے کی وجہ سے زندہ ہے۔ فصیح عربی اور بولے جانے والی عربی میں بہت فرق نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے بولے جانے والیاردواورادبی اردومیں فرق ہے۔ عربی زبان نےاسلامکی ترقی کی وجہ سے مسلمانوں کی دوسری زبانوں مثلاًاردو،فارسی،ترکیوغیرہ پر بڑا اثر ڈالا ہے اور ان زبانوں میں عربی کے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ عربی کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کی حیثیت حاصل ہے اور تمام دنیا کےمسلمانقرآنپڑھنے کی وجہ سے عربی حروف اور الفاظ سے مانوس ہیں۔ تاریخ میں عربی زبان کی اہمیّت کے سبب بہت سے مغربی زبانوں میں بھی اِس کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔عربی کے کئی لہجے آج کل پائے جاتے ہیں مثلاً مصری، شامی، عراقی،حجازیوغیرہ۔ مگر تمام لہجے میں بولنے والے ایک دوسرے کی بات بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور لہجے کے علاوہ فرق نسبتاً معمولی ہے۔ یہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے اور اس میںھمزہ سمیت29حروف تہجی ہیںجنہیںحروف ابجدکہا جاتا ہے۔عربی کی وسعت فصاحت و بلاغت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ حروف تہجی میں سے کوئی سے تین حروف کسی بھی ترتیب سے ملا لیے جائیں تو ایک بامعنی لفظ بن جاتا ہے۔عرب قدیم زمانے میں سامی زبانوں کی وسیع اقسام پر فخر کرتا تھا۔ جنوب مغرب میں، مختلفوسطی سامی زبانیںبولی جاتی تھیں جوقدیم جنوبی عربیخاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اس سے باہر تھیں (مثلاً جنوبی ثامودی)۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جدید جنوبی عربی زبانوں (غیر مرکزی سامی زبانوں) کے آبا و اجداد بھی اُس وقت جنوبی عرب میں بولے جاتے تھے۔ شمال کی طرف، شمالی حجاز کے نخلستانوں میں،دادانیاورتیمائیکو نوشتی زبان کے طور پر کچھ وقار حاصل تھا۔ نَجد اور مغربی عرب کے کچھ حصوں میں، ایک زبان جو علما کے نزدیک ثمودی جیم کے نام سے مشہور ہے۔ مشرقی عرب میں، قدیم جنوبی عربی سے ماخوذ ایک رسم الخط میں تحریریں ایک زبان کی تصدیق کرتی ہیں جسےحسائیکہا جاتا ہے۔ آخر میں، عرب کی شمال مغربی سرحد پر، مختلف زبانیں جو علما کے نزدیک ثمودی ب، ثمودک د،سفائیہاورحسمائیہکے نام سے مشہور ہیں۔ آخری دو، عربی کی بعد کی شکلوں کے ساتھ اہم خط تفریقِ لسانی کا اشتراک کرتی ہیں، مفکرین کو یہ نظریہ پیش کرنے کو کہتی ہیں کہ صفاتی اور حسمائی دراصل عربی کی ابتدائی شکلیں ہیں اور انھیں پرانی عربی سمجھا جانا چاہیے۔عربی درج ذیل ممالک میں سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے:یہ درج ذیل ممالک کیقومی زبانبھی ہے:
+158,اسلامی اصطلاحات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C_%D8%A7%D8%B5%D8%B7%D9%84%D8%A7%D8%AD%D8%A7%D8%AA,"اسلام کی اصطلاحات اور اس کے مضامین کے روابط ذیل میں ہیں۔اجزائے ایمان سے مراد ان عقائد کی ہوتی ہے کہ جن پر کامل اعتقاد اسلام میں ایمان (اللہ پر یقین) کی تکمیل کے لیے ضروری ہوتا ہے، عام طور ان میں چھ اجزا کا ذکر زیادہ ہوتا ہے[13] جن کا تمام مسلمان اقرار کرتے ہیں۔ایمان باللہ
+ایمان بالملائکہ
+ایمان بالکتب
+ایمان بالرسالت
+ایمان بالقدر
+ایمان بالآخرت"
+159,مسلمان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86,"بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاممسلمان(عربی:مسلم، مسلمة)، (فارسی: مسلمان)، (انگریزی:Muslim) سے مراد وہ شخص ہے جو دینِاسلامپر یقین رکھتا ہو۔ اسلام کا لغوی معنیاللہکے سامنے سرتسلیم خم کرنا۔[1]اگرچہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق اسلام خدا کا دین ہے اور یہ دینحضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے بھی موجود تھا اور جو لوگ اللہ کے دین پر عمل کرتے رہے وہ مسلمان ہیں۔ مثلاًقرآنکے مطابق حضرتابراہیم علیہ السلامبھی مسلمان تھے۔ مگر آج کل مسلمان سے مراد اسے لیا جاتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر عمل کرتا ہو اور یقین رکھتا ہو۔ کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان انبیا کے آخر میں آئے ہیں اور آخری قانون پر عمل ہوتی باقیہ خود بخود منسوخ ہو جاتے ہے۔پہلے پہل جو لوگ مسلمان ہوئے وہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اس طریقہ سے کوئی بھی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ جب کوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا رسول مان لے تو اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ ان کی ہر بات پر ایمان رکھے اور عمل کرنے کی کوشش کرے۔اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے مفہوم ""کہ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرے۔مثلاً انھوں نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور یہ کہ وہ خدا کے آخری رسول ہیں تو اس بات پر ایمان رکھنا اسلام کے فرائض میں سے ہے۔اگر کوئی نافرمانی کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔اسلام کے بنیادی عقائد جن پر مسلمانوں کے کسی فرقہ میں کوئیاختلافنہیں، درج ذیل ہیں• اچھی اور بری تقدیر پر ایمان کہ جو کچھ بھی اس کائنات میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے۔
+اوپر دی گئی چیزوں پر ایمان رکھنے والے کو مسلمان کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اختلافات فروعی و سیاسی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نو��(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+160,قرآن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86,"قرآن کریم،قرآن مجیدیاقرآن شریف(عربی:القرآن الكريم) دیناسلامکی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہماسلام کے پیروکاروںکا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے[1][2]اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلاممحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمپر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتےحضرت جبرائی�� علیہ السلاملاتے تھے[3]جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے[4][5][6]، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کیتلاوتعبادت ہے۔[7]اورصحف ابراہیم،زبور[8]اورتوراتوانجیل[9][10]کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کیفصاحتوبلاغتکے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔[11][12][13][14][15][16][17]نیزعربی زبانوادباور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاًسیبویہ،ابو الاسود الدؤلیاورخلیل بن احمدفراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔گو کہ نزول قرآن سے قبل عربی زبان کا ادب خاصا وسیع اور اس کا دامن الفاظ و تراکیب اور تشبیہات و استعارات سے لبریز تھا لیکن وہ متحد نہیں تھی۔ قرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے عربی زبان کو ایک بنیاد پر متحد کیا[18]اور حسن کلام، روانی، فصاحت و بلاغت اور اعجاز و بیان کے ایسے شہ پارے پیش کیے جنہیں دیکھ کر فصحائے عرب ششدر تھے۔[19]نیز قرآن نے عربی زبان کو مٹنے سے بھی بچایا، جیسا کہ بہت سیسامی زبانیںوقت کے گزرنے کے ساتھ ناپید یا زوال پزیر ہو گئیں جبکہ عربی زبان گزرتے وقتوں کے ساتھ مزید مالا مال ہوتی رہی اور قدیم و جدید تمام تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ رکھا۔[20][21][22][23]قرآن میں کل 114سورتیںہیں جن میں سے 87مکہمیں نازل ہوئیں اور وہ مکی سورتیں کہلاتی ہیں اور 27مدینہمیں نازل ہوئیں اور مدنی سورتیں کہلاتی ہیں ۔[24]مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ قرآن کو اللہ نےجبریلفرشتہ کے ذریعہ پیغمبر محمد پر تقریباً 23 برس کے عرصہ میں اتارا۔ نزول قرآن کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب پیغمبر محمد چالیس برس کے تھے اور ان کی وفات سنہ 11ھ بمطابق 632ء تک جاری رہا۔ نیز مسلمان یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وفات نبوی کے بعد صحابہ نے اسے مکمل اہتمام و حفاظت کے ساتھ منتقل کیا اور اس کی آیتیں محکمات کا درجہ رکھتی ہیں،[25][26]نیز قرآن تاقیامتقابل عمل اور ہر دور کے حالات کا حل پیش کرتا ہے۔[27]قرآن کا سب سے پہلا ترجمہسلمان فارسینے کیا۔ یہسورۃ الفاتحہکا فارسی میں ترجمہ تھا۔ قرآن کو دنیا کی ایسی واحد کتاب کی بھی حیثیت حاصل ہے جو لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو زبانی یاد ہے اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، جسے مسلمان روز ہرنمازمیں بھی پڑھتے ہیں اور انفرادی طور پر تلاوت بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں مسلمان ہر سالرمضانکے مہینہ میںتراویحکی نماز میں کم از کم ایک بار پورا قرآن با جماعت سنتے ہیں۔ قرآن نے مسلمانوں کی عام زندگی، عقائد و نظریات، فلسفہ اسلامی، اسلامی سیاسیات، معاشیات، اخلاقیات اور علوم و فنون کی ��شکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔وفات نبوی کے بعدعمر بن خطابکی تجویز پر، خلیفہ اولابو بکر صدیقکے حکم سے اورزید بن ثابتانصاری کی سربراہی میں قرآن کومصحفکی شکل میں یکجا کیا گیا۔ عمر بن خطاب کی وفات کے بعد یہ نسخہ ام المومنینحفصہ بنت عمرکے پاس محفوظ رہا۔ خلیفہ سومعثمان بن عفاننے جب لہجوں کے اختلاف کی بنا پر قرات میں اختلاف دیکھا تو حفصہ سےقریشکے لہجہ میں تحریر شدہ اُس نسخہ کے نقل کی اجازت چاہی تاکہ اسے معیار بنایا جائے۔ اجازت ملنے کے بعد انھوں نے مصحف کی متعدد نقلیں تیار کرکے پورےعالم اسلاممیں بھیج دیں اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اس مصحف کی پیروی کریں۔ ان نسخوں میں سے ایک نسخہ انھوں نے اپنے پاس بھی رکھا۔ یہ تمام نسخے اب مصحف عثمانی کہلاتے ہیں۔[28]بیشتر محققین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ تمام نسخے ابو بکر کے تیار کردہ نسخہ کی ہو بہو نقل تھے، ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی۔[29][30]مسلمانوں کے مطابق قرآن پیغمبر محمد کامعجزہہے اور اس کی آیتیں تمام انسانوں کے سامنے یہ چیلنج پیش کرتی ہیں کہ کوئی اس کے مثل نہیں بنا سکتا،[31]نیز یہ قرآن پیغمبر محمد کی نبوت کی دلیل[32]اور صحف آدم سے شروع ہونے والے اور صحف ابراہیم، تورات، زبور اور انجیل تک آسمانی پیغام کا یہ سلسلہ قرآن پر ختم ہوا۔[33]قرآن کی تشریحات کو اسلامی اصطلاح میںتفسیرکہا جاتا ہے جو مختلف زبانوں میں کی جاتی رہی ہیں۔قرآنی تراجمدنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ جبکہ صرفاردو زبانمیں تراجم قرآن کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔قرآن میں لفظقرآنقریباً 70 دفعہ آیا ہے اور متعدّد معانی میں استعمال ہوا ہے۔ یہعربی زبانکے فعلقرأکامصدرہے جس کے معنی ہیں ’’اُس نے پڑھا ‘‘ یا ’’اُس نے تلاوت کی‘‘۔سریانی زبانمیں اس کے مساوی (ܩܪܝܢܐ) qeryānā کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’صحیفہ پڑھنا‘‘ یا ’’سبق‘‘۔۔[34]اگرچہ کئی مغربی عالم اس لفظ کو سریانی زبان سے ماخوذ سمجھتے ہیں، مگر اکثر مسلمان علما اس کی اصل خود لفظقرأکو ہی قرار دیتے ہیں[35]بہرحال محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت تک یہ ایک عربی اصطلاح بن چکی تھی[35]۔ لفظقرآنکا ایک اہم مطلب ’’تلاوت کرنا‘‘ ہے جیسا کہ اس ابتدائی قرآنی آیت میں بیان ہوا ہے: ’’یقیناً اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔[36]دوسری آیات میںقرآنکا مطلب ’’ایک خاص حصّہ جس کی تلاوت (محمد نے ) کی ‘‘کے بھی ہیں۔نمازمیں تلاوت کے اس مطلب کا کئی مقامات پر ذکر آیا ہے جیسا کہ اس آیت میں:’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو‘‘۔[37]جب دوسرے صحائف جیسا کہتوراتاورانجیلکے ساتھ یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب ’’تدوین شدہ صحیفہ‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔اس اصطلاح سے ملتے جلتے کئیمترادفبھی قرآن میں کئی مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ ہر مترادف کا اپنا ایک خاص مطلب ہے مگر بعض مخصوص سیاق و سباق میں ان کا استعمال لفظقرآنکے مساوی ہو جاتا ہے مثلا ًکتاب(بمعنی کتاب)،آیۃ(بمعنی نشان) اورسورۃ(بمعنی صحیفہ)۔ آخری دو مذکورہ اصطلاحات ’’وحی کے مخصوص حصّوں‘‘ کے مطلب میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ بیشتر اوقات جب یہ الفاظ ’’ال‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو ان کا مطلب ’’وحی‘ ‘ کا ہوتا ہے جو وقفہ وقفہ سے نازل کی گئی ہو ۔[38][39]بعض مزید ایسے الفاظ یہ ہیں:ذکر(بمعنی یاد دہانی) اورحکمۃ(بمعنی دانائی)۔قرآن اپنے آپ کوالفرقان(حق اور باطل کے درمیان میں فرق کرنے والا)،امّ الکتاب،ہدٰی(راہنمائی)،حکمۃ(دانائی)،ذکر(یاد دہانی) اورتنزیل(وحی یا اونچے مقام سے نیچے بھیجی جانے والی چیز) بیان کرتا ہے۔ ایک اور اصطلاحالکتاببھی ہے، اگرچہ یہ عربی زبان میں دوسرے صحائف مثلاً تورات اور انجیل کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ قرآن سےاسم صفت’’قرآنی‘‘ ہے۔مصحفکی اصطلاح اکثر مخصوص قرآنی مسوّدات کے لیے استعمال ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ اصطلاح قرآن میں گذشتہ کتابوں کے لیے بھی استعمال ہوئی ہے۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجیدآخری آسمانی کتابہے جو پیغمبرمحمدپر نازل ہوئی اور اس کا پڑھنا، سننا اور اس پر عمل کرنا موجب تقرب الہی اور باعث اطمینان قلب ہے۔ بیشتر مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ قرآن ان کیتہذیبو تمدن اور معاشرت کی بنیاد ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس سے رہنمائی حاصل کرنا لازمی ہے۔ ڈاکٹر وصفی عاشور ابو زید لکھتے ہیں:[40]مسلمانوں کے نزدیک کوئی مسلمان قرآن سے مستغنی نہیں ہو سکتا، یہی کتاب اس کا سرمایہ زندگی، سرمہ بصیرت اور رہبر کامل ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کی ہر شے اس کتاب سے مربوط ہے، اسی سے ان کے عقائد ماخوذ ہیں، یہی ان کیعبادتوںکا تعارف کراتی اور رضائے الہی کے حصول میں مددگار بنتی ہے۔ نیز اخلاق و معاملات میں جن امور کی رہنمائی درکار ہے وہ سب اس میں موجود ہیں۔ جو مسلمان اس کتاب پر عمل نہیں کرتے وہ گمراہ ہیں اور ان کا انجام تاریک ہے۔[41]جیسا کہ حسب ذیل آیتوں اور احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ اسرا میں ہے:
+سورہ طہ میں ہے:
+نیزعبد الرحمن دارمینےعلی بن ابی طالبکی روایت نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ:[42]چنانچہ قرآن میںعقائدکا مفصل تذکرہ،عباداتمثلاً روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ کے احکام، نیز خرید و فروخت، نکاح و طلاق، وراثت و تجارت کے احکام بھی درج ہیں۔ اخلاق و آداب کا بھی مفصل ذکر ہے۔[43]متعدد علما و مفسرین نے ""احکام قرآن"" کے موضوع پر بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں فقہی احکام سے متعلق آیتوں کو یکجا کیا اور عبادات و معاملات میں ان آیتوں سے مستنبط شدہ احکام کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے تاکہ احکام قرآن سے شناسائی میں سہولت ہو۔ مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ سابقہ آسمانی کتابوں میں امور زندگی کے متعلق جو ہدایات اور رہنمائی موجود تھیں، قرآن ان سب پر مشتمل ہے۔ وہسورہ مائدہکی درج ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں:
+سورہ مائدہمفسرین کا کہنا ہے کہ قرآن سابقہ کتابوںزبور،توراتاورانجیلکے تمام مضامین پر مشتمل ہے اور اخلاق و معاملات کے بہت سے امور میں ان کتابوں سے زیادہ رہنمائی فراہم کرتا ہے۔[44]قرآن وہ کتاب ہے جو سابقہ کتابوں کی تمام حق باتوں کا حکم کرتا اور ان پر عمل کرنے پر ابھارتا ہے۔ اس کتاب میں گذشتہ قوموں، امتوں اور انبیا و رسولوں کی حکایتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ تاہم اس میں فروعی احکام مذکور نہیں، محض کلیات کا احاطہ کیا گیا ہے جو یہ ہیں: تحفظ دین، تحفظ ذات، تحفظ عقل، تحفظ نسب اور تحفظ مال۔[45]علاوہ ازیں مسلمان یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن کی بعض آیتیں اہمیت و فضیلت میں زیادہ ہیں، بعض آیتیں انھیںحسداورشیطانکے وسوسوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔ جو آیتیں فضیلت میں ممتاز ہیں ان میںآیت الکرسی،سورہ بقرہکی آیت نمبر 255 اوراہل تشیعکے یہاں سورہ بقرہ کی آیت 255، 256 اور 257 قابل ذکر ہیں، ان کا پڑھنامستحبخیال کیا جاتا ہے۔[46][47][48][49][50][51]علمائے اسلام کا کہنا ہے کہاللہ کے ناموں اور صفاتپر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی عظمت بڑھ گئی، ان کا پڑھنا شیطان اور اس کے تسلط سے گھر اور انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔[52][53]اسی طرح ایکسورہ فلقبھی ہے جسے مسلمان غیر محسوس برائیوں اور آفتوں سے بچنے کے لیے پڑھتے ہیں۔[54]سورہ ناسبھی شیطان کے شر و فتن سے بچنے کے لیے پڑھی جاتی ہے۔[55]علمائے اسلام کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختلاف ہے کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا بتدریج اترا۔ بعض آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج نزول کو بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ اس اختلاف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے کیے گئے جو حسب ذیل ہیں:بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌفِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ[ا]إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ[ب]،إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[پ]۔درج ذیل حدیثیں بھی اس کی دلیل ہیں:عبد اللہ بن عباسسے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ""قرآن کو لوح محفوظ سے نکال کر آسمان دنیا کے ایک مقام بیت العزت پر اتارا گیا، جہاں سے جبریل پیغمبر پر لے جایا کرتے تھے""۔[57]ابو شامہ مقدسی نے اپنی کتابالمرشد والوجيز عن هذا النزولمیں لکھا ہے: ""علما کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں ایک ہی رات کو مکمل نازل ہوا اور جبریل نے اسے یاد کر لیا۔ کلام الہی کی ہیبت سے آسمان والے غش کھا گئے، جب جبریل کا ان پر سے گذر ہوا تو انھیں ہوش آیا اور کہنے لگے:وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ[ت]۔ بعد ازاں جبرئیل نے کاتب فرشتوں کو اس کا املا کرایا، چنانچہ قرآن میں مذکور ہے:بِأَيْدِي سَفَرَةٍ[ٹ][58]بتدریج نزول قرآن کی مقدار کا تذکرہاحادیثمیں ملتا ہے کہ جب جتنی ضرورت ہوتی اتنا نازل ہوتا۔ نیز تاریخ قرآن کو دو ادوار میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور عہد نبوی کا جس میں قرآن کاوحیکے ذریعہ نزول ہوا اور دوسرا دورخلفائے راشدینکا جس میں قرآن کو ایکمصحفمیں یکجا کرکے محفوظ کر دیا گیا۔اسلامی روایات کے مطابقمحمّدپرپہلی وحیغار حرامیں اُس وقت نازل ہوئی جب آپ تنہائی میں عبادات کے لیے وہاں گئے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ سلسلہوحی23 برس کے عرصہ تک جاری رہا۔احادیثاور اسلامیتاریخکے مطابقہجرت مدینہکے بعد جب محمد نے وہاں ایک آزاد اسلامی معاشرہ قائم کر لیا تو آپ نے اپنےصحابہکو قرآن کی تلاوت اور اس کے روزمرّہ نازل ہونے والے احکام کو یاد کرنے اور دوسروں کو سکھانے کا حکم دیا۔ روایات میں یہ بھی ذکر موجود ہے کہجنگ بدرکے بعدجبقریشکے کئی لوگ مسلمانوں کے ہاتھ قیدی بن گئے تو اُن میں سے کئی نے مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے بدلے اپنی آزادی حاصل کی۔ اسی طرح آہستہ آہستہ کئی مسلمان خواندہ ہونے لگے۔ قرآن کو پتھروں، ہڈیوں اور کھجور کے پتّوں پر لکھا جانے لگا۔ اکثر سورتیں ابتدائی مسلمانوں کے زیراستعمال تھیں کیونکہ ان کا ذکرسنّیاورشیعہدونوں روایات میں ملتا ہے۔ جیسا کہ محمد کا قرآن کوتبلیغکے لیے استعمال کرنا، دعا ؤں میں اس کا پڑھا جانا اور انداز تلاوت کے بیان میں ان کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم، 632 عیسوی میں محمد کی وفات کے وقت ابھی قرآن ایک کتاب کی شکل میں موجود نہ تھا۔ تمام علما اس بات پر متّفق ہیں کہ محمد خود وحی کی کتابت نہیں کرتے تھے۔صحیح بخاریمیں محمد کی وحی کی کیفیات کا حال یوں درج ہے کہ ’’بسا اوقات (وحی) گھنٹی کے بجنے کی طرح نازل ہوتی ہے‘‘ اورعائشہسے روایت ہے کہ، ’’میں نے ایک بہت سرد دن میں حضور پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا اور (جب وحی ختم ہوئی تو) آپ کے ماتھے سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے۔‘‘قرآن کے بیان کے مطابق محمد پر پہلی وحی ایک کشف کے ساتھ نازل ہوئی۔ وحی نازل کرنے والی ہستی کا بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے’’مضبوط طاقتوں والا‘‘، وہ جو ’’بلند ترین اُفق پر تھا۔ پھر وہ نزدیک ہوا۔ پھر وہ نیچے اُتر آیا۔ پس وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیایا اُس سے بھی قریب تر‘‘۔ ویلچ (Welch) جو ایک اسلامی سکالر ہیں، Encyclopaedia of Islam میں لکھتے ہیں کی وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وحی کے نزول کے وقت محمد کی کیفیات کی جو ظاہری شکل بیان کی گئی ہے وہ درست ہو سکتی ہے کیونکہ وہ وحی کے نزول کے بعد کافی پریشان ہو گئے تھے۔ ویلچ کے مطابق، وحی کے موقع پر محمد کو ہلا دینے والے جھٹکے اُن کے گرد لوگوں کے لیے اس بات کا ثبوت واقع ہوئے ہوں گے کہ محمد کی وحی کا مبدا واقعیمافوق الفطرتہے۔ تاہم، محمد کے ناقدین ان مشاہدات کی بنا پر اُن کو مجنون، کاہن اور جادوگر قرار دیتے تھے کیونکہقدیم عربمیں کئی ایسے لوگ اس طرح کے تجربات کے مدّعی تھے۔ ویلچ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ اس طرح کے مشاہدات محمد کے ابتدائی دعوٰی نبوت سے پہلے کے ہیں یا بعد کے ۔قرآن محمد کو اُمّی قرار دیتا ہے جس کا عام طور پر ’’ان پڑھ‘‘ مطلب لیا جاتا ہے مگر اس کا مطلب دراصل کچھ پیچیدہ ہے۔ قرون وسطیٰ کے مفسّرین جیسا کہطبریکے مطابق اس اصطلاح کے دو مطالب ہیں:پہلا تو یہ کہ عمومی طور پر لکھنے اور پڑھنے کا قابل نہ ہونا جبکہ دوسرا یہ کہ گذشتہ کتب اور صحائف سے لاعلم ہونا (اگرچہ اکثر مفسّرین پہلے مطلب کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں)۔ اس کے علاوہ، محمد کا ناخواندہ ہونا آپ کی نبوّت کی صداقت کی ایک دلیل سمجھا جاتا تھا۔ جیسا کہامامفخر الدّین رازیکہتے ہیں کہ، اگر محمد لکھنے پڑھنے پر پوری مہارت رکھتے ہوتے تو اُن پر یہ شبہ کیا جا سکتا تھا کہ انھوں نے اپنے آبا و اجداد کی کتب پڑھی ہوں گی۔ کچھ عالم جیسا کہواٹدوسرے معنی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔خلفائے راشدینکے عہد میں جمع قرآن کے متعلق دو نقطہ نظر ہیں، پہلا نقطہ نظراہل سنتکا ہے اور دوسراامامیہاہل تشیعکا۔ اہل سنت کا متفقہ نقطہ نظر یہ ہے کہابو بکر صدیقکے عہد میں قرآن کو یکجا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کیا گیا اور عہد عثمان میں اسی مصحف کو باضابطہ نسخہ قرار دے کر بقیہ نسخوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔[59]جبکہ اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہعلی ابن ابی طالبنے وفات نبوی کے بعد مکمل قرآن کو ایک مصحف میں جمع کیا تھا[60]اور ان کی ترتیب عثمانی مصحف کی ترتیب سے مختلف تھی لیکن بایں ہمہ انھوں نے اس مصحف پر اعتراض نہیں کیا اور اپنے مرتب کردہ مصحف کو اپنے پاس محفوظ رکھا۔ اہل تشیع کا کہنا ہے کہ علی بن ابی طالب کے مصحف کے چند امتیازات تھے، مثلاً وہ ترتیب نزولی پر تھا یعنی منسوخ آیتوں کو ناسخ آیتوں سے پہلے اورمکی سورتوںکومدنی سورتوںسے پہلے درج کیا گیا تھا۔[61]اس کے حاشیے پر آیت کی مناسبت سے اہم تشریحات وغیرہ لکھی گئی تھیں[62]اور تفصیل کے ساتھ آیتوں کا شان نزول اور مقام نزول بھی مذکور تھا۔ چنانچہ اسی ضمن میںجعفر صادقکا قول ہے: ""فرمان رسول ہے: اگر قرآن کو لوگ اس طرح پڑھیں جس طرح نازل ہوا ہے تو کبھی اختلاف نہ ہو""۔[63]عہد صدیقی میں جمع قرآن کی روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ جمع قرآن کی کارروائیجنگ یمامہکے بعد شروع ہوئی۔ جنگ یمامہ میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی تو عمر بن خطاب ابو بکر صدیق کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ حفاظ صحابہ کی وفات سے قبل قرآن کو یکجا کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ ابو بکر صدیق نےزید بن ثابتکو اس کی ذمہ داری دی کیونکہ وہ اس کے اہل بھی تھے اور عہد نبوی میں کاتب قرآن اورحافظ قرآنبھی تھے۔ علاوہ ازیں زید بن ثابت کی فہم و فراست، ذہانت و فطانت اور سچائی و امانت داری مشہور تھی۔ زید بن ثابت نے کاغذ کے ٹکڑوں، ہڈیوں اور چمڑوں کو اکٹھا کرکے اور حفاظ سے مل کر جمع قرآن کا آغاز کیا، اس پورے عمل میں ابو بکر، عمر اور بڑے صحابہ ان کی معاونت اور نگرانی کر رہے تھے۔ قرآن کو ہر غلطی سے محفوظ رکھنے کے لیے ابو بکر و عمر نے یہ طریقہ کار وضع کیا کہ صحابہ محض اپنے حافظہ اور سننے پر اکتفا نہ کریں بلکہ قرآن کا تتبع کریں، نیز ہر آیت کو دو ماخذ سے لیا جائے، پہلا عہد نبوی میں لکھا ہوا اور دوسرا سینوں میں محفوظ۔ چنانچہ کسی آیت کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک اس پر دو عادل گواہ اس کی گواہی نہ دے دیں کہ یہ آیت عہد نبوی میں لکھی گئی تھی۔[64]جمع قرآن کی کارروائی جاری رہی اورسورہ توبہکی آخری آیتوں پر اختتام کو پہنچی جوابو خزیمہ انصاریکے پاس ملیں۔ مکمل ہو جانے کے بعد یہ نسخہ ابو بکر صدیق کے پاس رہا، پھر عمر بن خطاب کے پاس اور بعد ازاں ان کی بیٹیحفصہ بنت عمرکے پاس محفوظ رہا۔[65]تمام علما کا اس پر اتفاق ہے کہ عہد صدیقی میں جمع قرآن سے قبل صحابہ کے پاس اپنے ذاتی مصحف موجود تھے جن میں انھوں نے قرآن یا اس کا کچھ حصہ اکٹھا کر رکھا تھا لیکن یہ انفرادی کاوشیں تھیں اور انھیں یکجا کرنے میں تلاش، تواتر اور اجماع صحابہ کا اس درجہ لحاظ نہیں رکھا گیا تھا جیسا عہد صدیقی میں ملحوظ رہا۔عمر بن خطاب کی شہادت کے بعد عثمان بن عفان خلیفہ بنے اور سنہ650ءتک اسلامسرزمین شام،مصر،عراقوایراناورشمالی افریقاکے کچھ خطوں تک جا پہنچا۔ اہل سنت و الجماعت کے مصادر میں لکھا ہے کہ عثمان بن عفانآرمینیااورآذربائیجانپر لشکر کشی کی تیاری کر رہے تھے کہ اسی اثنا میںحذیفہ بن یمانان کے پاس پہنچے اور یہ عرض گزاری: ""امیر المومنین! اس امت کو سنبھا لیے، قبل اس کے کہ ان میں بھی کتاب اللہ کے سلسلہ میں ایسا ہی اختلاف رونما ہو جیسا یہود و نصاریٰ کے یہاں ہوا""۔ حذیفہ بن یمان نے بتایا کہ تلاوت قرآن میں عراقیوں اور شامیوں میں کیسا اختلاف برپا ہے اور ہر ایک اپنے طرز قرات کو درست سمجھ رہا ہے۔[66]یہ سن کر عثمان بن عفان نے فوراً حفصہ بن عمر کے پاس قاصد بھیجا اور ان سے عہد ابو بکر کا مصحف طلب کیا۔ پھر زید بن ثابت،عبد اللہ ابن زبیر،سعید بن العاصاور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا کہ وہ اس کی متعدد نقلیں تیار کریں۔ روایت میں لکھا ہے کہ عثمان نے ان سے کہا: ""اگر کسی جگہ تم میں اختلاف ہو جائے تو اسےقریش کے لہجہمیں لکھنا، کیونکہ قرآن انہی کے لہجہ ميں نازل ہوا ہے""۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ان حضرات نے نقلیں تیار کر لیں تو عثمان بن عفان نے اصل مصحف حفصہ کو لوٹا دیا اور اس کی نقلیں سارے عالم اسلام میں بھیج دیں اور حکم دیا کہ اس کے سوا بقیہ تمام نسخے نذر آتش کر دیے جائیں۔[67][68]چنانچہ اس کے بعد تمام نسخے ختم ہو گئے اور یہی نسخہ باقی رہا جو مصحف عثمانی کہلاتا ہے اور اب تک دنیا بھر میں یہی رائج چلا آرہا ہے۔اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پیغمبر محمد اپنی زندگی میں حفظ قرآن کا خاصا اہتمام کرتے تھے اور سب سے پہلے انھوں نے جمع قرآن کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ پیغمبر کی نگرانی ہی میں تمام آیتوں اور سورتوں کو مرتب کیا گیا۔[69]اہل تشیع کے بڑے علما مثلاًسید ابو القاسم خوئیوغیرہ نے اہل سنت کی کتابوں میں مذکور روایتوں (جن میں سر فہرستصحیح بخاریکی روایت ہے) کا دقت نظر سے جائزہ لے کر ان کے تعارض اور اختلاف کو واضح کیا اور ساتھ ہی اہل سنت کی کتابوں میں درج ان روایتوں کو بھی پیش کیا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کو عہد نبوی میں جمع کر لیا گیا تھا۔ مثلاًطبرانیاورابن عساکرشعبی سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا: ""چھ انصاری صحابہ نے عہد نبوی میں قرآن کو یکجا کر لیا تھا، ابی بن کعب، زید بن ثابت، معاذ بن جبل، ابو الدردا، سعد بن عبید اور ابو زید""۔[70]اس روایت کو پیش کرنے کے بعد ابو القاسم خوئی نے لکھا ہے کہ ان روایتوں میں لفظ ""جمع"" کے معنیٰ مکمل قرآن کو محفوظ کر لینے کے ہیں اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان چند افراد نے مختلف جگہوں سے قرآن کو اکٹھا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کر لیا تھا۔[71]عہد عثمانی میں نقل مصحف کی کارروائی کے متعلق خوئی کہتے ہیں کہ اس جمع سے مراد تمام مسلمانوں کو ایک مصحف پر متحد کرنا تھا چنانچہ انھوں نے اس کے سوا تمام مصاحف کو جلانے کا حکم جاری کیا تھا اور مسلمانوں کو اختلاف قرات سے حکماً منع کیا۔[72]قرآن ایک بڑی کتاب ہے۔ اس کی تقسیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی میں فرما چکے تھے اور یہ رہنمائی کر چکے تھے کہ کس آیت کو کس سورت میں کہاں رکھنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن کے بے شمار حافظ تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمشعباناوررمضانکے مہینوں میں قرآن کئی دفعہختمکرتے تھے جو ظاہر ہے کہ کسی ترتیب کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ آج تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکی۔ پہلی صدیہجریکے لکھے ہوئے قرآن جوترکیکے عجائب گھر توپ کاپی میں ہیں یاایرانکے شہرمشھدمیں امامعلی رضا علیہ السلامکے روضہ کے عجائب گھر میں ہیں، ان میں بعینہ یہی قرآن خطِ کوفی میں دیکھا جا سکتا ہے جو آج جدید طباعت کے بعد ہمارے سامنے ہے۔ اسے سات منزلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور تقسیم سیپاروں کے حساب سے ہے۔ سیپارہ کا لفظی مطلب تیس ٹکروں کا ہے یعنی اس میں تیس سیپارے ہیں۔ ایک اور تقسیم سورتوں کی ہے۔ قرآن میں 114 سورتیں ہیں جن میں سے کچھ بڑی اور کچھ چھوٹی ہیں۔ سب سے بڑی سورت سورۃ البقرہ ہے۔ سورتوں کے اندر مضمون کو آیات کی صورت میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ قرآن میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہیں۔ نیچے اس تقسیم کو پیش کیا گیا ہے۔مدرجہ بالا تقاسيم ميں سے سورتوں اور آيات كی تقسيم توقيفی ہے۔ يہ اللہ تعالٰی كے نبی نے الہامی راہنمائی ميں أپنی حيات مباركہ ميں كر دی تھی۔ اور اسی صورت ميں محفوظ ہے۔ ركوع پاروں اور منازل ميں تقسيم بعد كے لوگوں نے حفاظ، قاريوں اور عام مسلمانوں كی متعين ايام ميں ختم كرنے كے پيش نظر كی ہے۔ ركوع ميں تقسيم كے سوا دونوں تقسيميں مضمون كے بجائے مقدار كے تحت كی گئی ہيں۔
+موجودہ زمانے ميں برصغير پاك و ہند كے بعض اہل علم نے نظم قرآن پر بہت كام كيا ہے اور اس اعتبار سے بھی قرآن كو مضامين اور ترتيب كے اعتبار سے ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔ حميد الدين فراہی، امين احسن اصلاحی اور جاويد احمد غامدی كا كام اس سلسلہ ميں بہت نماياں ہے۔ ان علما نے قرآن كی سورتوں كو سات ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔
+ان كے كام كا خلاصہ جاويد احمد غامدی كے الفاظ ميں يہ ہے:قرآن کے اِن ساتوں ابواب میں سے ہر باب ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔
+پہلا باب فاتحہ سے شروع ہوتا اورمائدہ پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں فاتحہ مکی اور باقی چار مدنی ہیں۔
+دوسرا باب انعام اور اعراف ،دو مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور دو مدنی سورتوں،انفال اور توبہ پر ختم ہوتا ہے۔
+تیسرے باب میں یونس سے مومنون تک پہلی چودہ سورتیں مکی ہیں اور آخر میں ایک سورۂ نور ہے جو مدنی ہے۔
+چوتھا باب فرقان سے شروع ہوتا ہے ،احزاب پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں پہلی آٹھ سورتیں مکی اور آخر میں ایک، یعنی احزاب مدنی ہے۔
+پانچواں باب سبا سے شروع ہوتا ہے ،حجرات پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں تیرہ سورتیں مکی اور آخر میں تین مدنی ہیں۔
+چھٹا باب ق سے شروع ہو کر تحریم پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں سات مکی اور اِس کے بعد دس مدنی ہیں۔
+ساتواں باب ملک سے شروع ہو کر ناس پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں آخری سورتیں دو ،یعنی معوذتین مدنی اور باقی سب مکی ہیں۔
+اِن میں سے ہر باب کا ایک موضوع ہے اور اُس میں سورتیں اِسی موضوع کی رعایت سے ترتیب دی گئی ہیں۔
+پہلے باب کا موضوع یہود و نصاریٰ پر اتمام حجت ،اُن کی جگہ بنی اسمٰعیل میں سے ایک نئی امت کی تاسیس، اُس کا تزکیہ و تطہیر اور اُس کے ساتھ خدا کا آخری عہدو پیمان ہے۔
+دوسرے باب میں مشرکین عرب پر اتمام حجت ،مسلمانوں کے تزکیہ و تطہیر اور خدا کی آخری دینونت کا بیان ہے۔
+تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے باب کا موضوع ایک ہی ہے اور وہ انذار و بشارت اور تزکیہ و تطہیر ہے۔ساتویں اور آخری باب کا موضوع قریش کے سرداروں کو انذار قیامت ،اُن پر اتمام حجت، اِس کے نتیجے میں انھیں عذاب کی وعید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سرزمین عرب میں غلبۂ حق کی بشارت ہے۔ اِسے ہم مختصر طریقے پر محض انذار و بشارت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔[74]قران کا اسلوب شعری ونثری اسلوب سے الگ ہے بایں طور پر کہ کسی بھی سورت میں کوئی مقدمہ، کوئی خاص موضوع یا خاتمہ نہیں ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات ایک آیت میں ایک موضوع ہوتا ہے جو اس کے بعد یا پہلی آیت سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔[75]اسی لیے قران کی کوئی آیت اپنی ما قبل آیت کا خاتمہ نہیں ہوتی ہے اور نہ اپنیما بعد کا مقدمہ ہوتی ہے۔[76]صحابہ کراماورتابعینمیں قران میں اجتہاد سے کام لیتے ہوئے اسے 30 برابر حصوں میں منقسم کر دیا تاکہ تلاوت کرنے میں آسانی ہو اوررمضانمیں رومیہ ایک پارہ کی تلاوت کی جا سکے۔ یہ ایک اجتہادی عمل ہے جس پر مسلمان مستحب سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ بعد ازاں ہر پارے کو نصفین میں تقسیم کیا اور ہر نصف کو ربعین میں۔قران 114 سورتوں پر مشتمل ہے جو طوالت میں یکسر مختلف ہیں۔[77][78]پھر یہ سورتیں آیا مکی ہیں یا مدنی ہیں۔مکی سورہوہ کہلاتی ہے جوہجرت مدینہسے قبل نازل ہوئی۔ ان سورتوں میں عموما عقیدہ، توحید اور اس کی دلائل کے مضمون شامل ہیں۔ یہ کل 86 سورتیں ہیں۔[77]مدنی سورہوہ ہے جو ہجرت مدینہ کے بعدمدینہ منورہمیں نازل ہوئی۔ ان سورتوں میں عموما شریعت، احکام اورحلالوحرامکے مضمون موجود ہیں۔ یہ کل 28 سورتیں ہیں۔[77]تلاوت کی آسانی کے لیے علما نے ان سورتوں کی 3 اقسام کی ہیں۔ طوال مفصل یعنیسورہ بقرہ، وآل عمران، والنساء، والمائدہ، والانعام، والاعراف، وبراءة۔ وسميت بالطوال لطولها، والطوال جمع طولى۔[79]۔ اوساط مفصل جو طوال مفصل، یہ وہ سورتیں ہیں جن میں تقریباً 100 آیتیں ہیں۔[79]تیسری قسم ہے قصار مفصل جس میں تمام چھوٹی سورتیں شامل ہیں جو اوساط مفصل میں نہیں ہیں۔[79]قرآن کی زبان فصیح عربی ہے جسے آج بھی ادبی مقام حاصل ہے اور باوجودیکہ عربی کے کئی لہجے (مصری، مراکشی، لبنانی، کویتی وغیرہ) پیدا ہو چکے ہیں، قرآن کی زبان کو ابھی تک عربی کے لیے ایک معیار کی حیثیت حاصل ہے۔ عربی کے بڑے بڑے عالم جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں قرآن کی فصیح، جامع اور انسانی نفسیات سے قریب زبان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اتنی بڑی کتاب ہونے کے باوجود اس میں کوئی گرامر کی غلطی بھی موجود نہیں۔ بلکہ عربی حروف ابجد کے لحاظ سے اگر ابجد کے اعداد کو مدِ نظر رکھا جائے تو قرآن میں ایک جدید تحقیق کے مطابق جو ڈاکٹر راشد الخلیفہ نے کمپیوٹر (کمپیوٹر) پر کی ہے، قرآن میں باقاعدہ ایک حسابی نظام موجود ہے جو کسی انسان کے بس میں نہیں۔ قرآن میں قصے بھی ہیں اورتاریخی واقعاتبھی، فلسفہ بھی ملے گا اورمنطقبھی، پیچیدہ سائنسی باتیں بھی ہیں اور عام انسان کی زندگی گذارنے کے طریقے بھی۔ جب قرآن نازل ہوا اس وقت جو عربی رائج تھی وہ بڑی فصیح تھی اور اس زمانے میں شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل تھی لھٰذا یہ ممکن نہیں کہ قرآن میں کوئی غلطی ہوتی اور دشمن اس کے بارے میں بات نہ کرتے۔ بلکہ قرآن کا دعوہ تھا کہ اس جیسی ایک آیت بھی بنا کر دکھا دیں مگر اس زمانے کے لوگ جو اپنی زبان کی فصاحت اور جامعیت کی وجہ سے دوسروں کو عجمی (گوں گا) کہتے تھے، اس بات میں کامیاب نہ ہو سکے۔قرآن مجید کی پہلی آیت :قرآن مجید کی آخری آیت :حروف مقطعات(عربی: مقطعات، حواميم، فواتح) قرآن مجید کی بعض آیات کے شروع میں آتے ہیں اور الگ الگ پڑھے جاتے ہیں، ان کوآیات مقطعاتاور ان حروف کوحروف مقطعاتکہا جاتا ہے، مثلاًالم۔ یہ قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں آتے ہیں۔ یہ کل چودہ حروف ہیںا، ل، م، ص، ر، ک، ہ، ی، ع، س، ج، ق، ن۔ مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ ان کا حقیقی مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ مقطعات کا لفظی مطلب قطع شدہ، ٹکڑے، کترنیں کے ہیں۔ بعض علما کے مطابق یہ عربی الفاظ کے اختصارات ہیں اور بعض علما کے مطابق یہ کچھ رمز (code) ہیں۔[82]یہ حروف 29 سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر ہیں اورسورۃ الشوریٰ( سورۃ کا شمار: 42) کی دوسری آیت کے طور پر بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ ایک سے پانچ حروف پر مشتمل 30 جوڑ (combinations) ہیں۔ جو 29 سورتوں کے شروع میں قرآن میں ملتے ہیں۔انٹرنیٹ کی ترقی سے جہاں مواد کو لوگوں تک پہنچانا آسان ہو گیا ہے وہاں قرآن کے بارے میں ویب سائٹوں کی بہتات ہے جس میں سے کچھ تو درست مواد فراہم کرتے ہیں مگر بیشتر غلطیوں سے پاک نہیں۔ اس میں کچھ تو قرآن کو یونیکوڈ میں لکھنے کی مشکلات ہیں مگر کچھ اسلام کے خلاف کام کرنے والوں کا کام ہے جس میں قرآن کے عربی متن اور اس کے ترجمہ کو بدل کر رکھا گیا ہے۔ جس کا عام قاری اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ صرف ایسی سائٹس کی طرف رجوع کریں جن کے بارے میں یقین ہو کہ وہ درست یا تصدیق شدہ ہیں۔
+اس کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا مرکزی ادارہ بنایا جائے جس میں تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں کے نمائندے اور ماہرین شامل ہوں اور ماہرین کسی بھی قرآنیویب سائٹکی تصدیق کر سکیں اور اسے ایک سرٹیفیکیٹ جاری کر سکیں جو ان کی ویب گاہ پر لگائی جائے۔ جو کم از کم عربی متن کی تصدیق کرے جیساپاکستانمیں چھپے ہوئے قرآن کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ اس کی تصدیق کہ کوئی قرآنی ویب گاہ مصدقہ ہے کہ نہیں، اس مرکزی ادارہ کی ویب گاہ سے ہو سکے۔ چونکہ انٹرنیٹ پر پابندی نہیں لگائی ج�� سکتی اس لیے لوگوں کی اپنی کوشش ہوگی کہ وہ اس مرکزی ادارہ کی تصدق شدہ ویب گاہ کا استعمال کریں۔ تا حال ایسا کوئی ادارہ نہیں مگر مستقبل میں یہ نہائت ضروری ہوگا۔قرآن کے تراجم دنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں اور کیے جا رہے ہیں۔ بڑی زبانوں میں تراجم قرآن ایک سے زائد لوگوں نے مختلف ادوار میں کیے ہیں۔ قرآن کے یورپی اور دیگر کئی زبانوں میں غیر مسلمان افراد نے بھی ترجمہ کیا ہے۔ اسی طرح کچھ تراجم بنا عربی متن کے بھی شائع کیے گئے ہیں، جبکہ رومن رسم الخط میں بھی مختلف وجوہات کی بنا پر تراجم ہوئے ہیں۔قرآن کے الفاظ کو ان کے حروف کو زبان سے درست مخارج سے ادا کرنے کا علم، تجوید کہلاتا ہے۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤت��کات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدارلوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+161,تفسیر قرآن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%81%D8%B3%D8%B1_%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86,"لفظ تفسیرعربی زبانکا لفظ ہے جس کا [مادہمعینی] فسر ہے۔ یہ باب تفصیل کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں واضح کرنا، کھول کر بیان کرنا، وضاحت کرنا، مراد بتانا اور بے حجاب کرنا ہے۔قرآنکی تشریح و وضاحت کے علم کو تفسیر کہتے ہیں اور تفسیر کرنے والے کومفسر۔[1][2]اسی عربی لفظ فسر سے، اردو زبان میں، تفسیر کے ساتھ ساتھ ديگر متعلقہ الفاظ بھی بنائے جاتے ہیں جیسے؛ مُفسَر، مُفَسِّر اور مُفَسّر وغیرہ[3]ایک اردو لغت میں [ مُفسَر]، [ مُفَسِّر][4]اور [ مُفَسّــَر] کا اندراج۔[5]تفسیر کی جمع تفاسیر کی جاتی ہے اور مفسر کی جمع مفسرین آتی ہے۔تفسیر کا مادہ ف-س-ر=فسر ہے اور اس مادہ سے جو الفاظ بنتے ہیں۔ ان سے بالعموم شرح و ایضاح کے معنی شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ فَسّرَ (ماضی) کے مصدری معنی ہیں:واضح کرنا، تشریح کرنا، مراد بتانا، پردا ہٹانا۔ جبکہ اسی سے تفسیر ہے کیونکہ اس میں بھی عبارت کھول کر معانی کی وضاحت کی جاتی ہے۔وہ علم جس سے قرآن کو سمجھا جاتا ہے۔ اس علم سے قرآن کے معانی کا بیان، اس کے استخراج کا بیان، اس کے احکام کا استخراج معلوم کیا جاتا ہے۔ اور اس سلسلے میں لغت، نحو، صرف، معانی و بیان وغیرہ سے مدد لی جاتی ہے۔ اس میںاسباب نزول،ناسخ و منسوخسے بھی مدد لی جاتی ہے۔ علامہ امبہانی کہتے ہیں: تفسیر اصطلاح علما میں قرآن کریم کے معانی اور اس کی مراد کو واضح کرنے اور بیان کرنے کو کہتے ہیں، خواہ باعتبار حل الفاظ مشکل ہو یا باعتبار معنی ظاہر ہو یا خفی اور تاویل کلام تام اور جملوں کا مفہوم متعین کرنے کو کہتے ہیں۔
+امامماتریدیکے نزدیک: تفسیر اس یقین کا نام ہے کہ لفظ سے یہی مراد اور اس قدر یقین ہو کہ خدا کو شاہد ٹھہرا کر کہا جائے کا خدا نے یہی مراد لیا ہے۔ اور تاویل یہ ہے کہ چند احتمالات میں سے کسی ایک کو یقین اور شہادت الہی کے بغیر ترجیح دی جائے۔
+امام ابو نصر القشیری کہتے ہیں کہ تفسیر موقوف ہے سماع اور اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر۔ علامہ ابو طالب شعلبی کہتے ہیں: تفسیر کے معنی لفظ کی وضع کا بیان کر دینا ہے، خواہ وہ حقیقت ہویا مجاز، مثلا صراط کے معنی راستہ، صیب کے معنی بارش اور کفر کے معنی انکار۔قرآن میں جو بیان کیا گيا ہے اور صحیح سنت میں اس کی تعین کیا گیا ہے اس کو ظاہر کرنا تفسیر ہے۔ جو بیان ظاہر کے مطابق ہو وہ تفسیر ہے۔علامة شیخ عثیمین کہتے ہے کہ تفسیر سے مراد قرآن پاک کا معانی کو بیان کر نا ہے “بيان معانى القرآن الكريم"" أصول في التفسير، المؤلف: محمد بن صالح العثيمين، ص23۔تاویل کا مادہ ا-و-ل=اول ہے۔ اس کے لغوی معنی تعبیر بتانا، کل بتانا۔ بیان حقیقت، اپنی اصل کی طرف لوٹنے کے ہیں۔ مرجع اور جائے بازگشت کو موؤل کہتے ہیں۔ کسی شے کو فعل ہو علم اس کی اصل کی طرف لوٹانے کا نام تاویل ہے۔ قرآن اور کلام عرب میں یہ لفظ بیان حقیقت، تفسیر، توضیح معانی، تبیین کے مترادف استعمال ہوا ہے۔ یعنی قرآن میں تاویل و تفسیر ایہم معنی استعمال ہوا ہے۔ چوتھی صدی ہجری سے پہلے تک تاویل و تفسیر کا ایک ہی معنی لیا جاتا رہا ہے۔ اور اسی (تفسیر) کے مترادف کے طور پر تاویل کا لفظ مستعمل رہا۔ پھر اس میں شروع شروع میں تھوڑا فرق پایا جاتا تھا، عام طور پر علما ان دونوں لفظموں کے مفہوم میں یہ فرق کیا کرتے تھے کہ: تاویل کا استعمال جملوں اور معانی کی توضیح کے لیے استعمال کرتے اور تفسیر کا لفظ مشکل الفاظ اور مفردات کی تشریح کے لیے، مگر یہ تمام علما کے نزدیک مسلم نہیں تھا۔پھر جب بعد میں علوم اسلامیہ کی باقاعدہ ترتیب و تدوین عام ہو گئی۔ تو تفسیر و تاویل کے اصطلاحی معانی بھی مقرر ہوئے اور دونوں میں واضح فرق کیا جانے لگا۔ اور فنی و اصطلاحی حیثیت سے تفسیر و تاویل الگ الگ چیزیں ہو گیئں۔
+{اس{قرآنیات}کو اسان بناو اور قران مجید کا ایک معنی ہے تحقیق کرو یہ قران مجید میں تماری بہتری اور کامیابی ہے}علامہ زرکشی نے اس کی مختصر تعریف یوں نقل کی ہے:
+""ھُوَعِلْمٌ یُعْرَفُ بِہٖ فَھْمُ کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ عَلیٰ نَبِیِّہَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَیَانُ مَعَانِیْہِ وَاسْتَخْرَاج أَحْکَامِہٖ وَحِکَمِہٖ""۔[6]وہ ایسا علم ہے جس سے قرآن کریم کی سمجھ حاصل ہو اور اس کے معانی کی وضاحت اور اس کے احکام اور حکمتوں کو نکالا جاسکے۔
+علامہ آلوسی تعریف میں مزید عموم پیدا کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
+""ھُوَعِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ كَيْفِيَّةِ النُّطْقِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ، وَمَدْلُوْلَاتِهَا، وَأَحْكَامِهَا الْإِفْرَادِيَّةِ وَالتَّرْكِيْبِيَّةِ، وَمَعَانِيْهَا الَّتِيْ تُحْمَلُ عَلَيْهَا حَالَۃِ التَّرْكِيْبِ، وَتَتِمَّاتُ لِذَلِك""۔[7]وہ علم ہے جس میں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور اُن معانی سے بحث کی جاتی ہو جو ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ و منسوخ اور شان نزول اور غیرواضح مضمون کی وضاحت میں بیان کیا جائے۔اس تعریف کی روشنی میں علمِ تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے :وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریات:21)اور تم اپنی جانوں میں غور کرو کیا تم نہیں دیکھتے۔غور فرمائیے اس مختصر سے جملے کی تشریح و تفصیل میں پورا علم الابدان (Physiology) اور پورا علمِ نفسیات (Psychology) سماجاتا ہے اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی تخلیقی حکمت بالغہ کے جن اسرار کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ سب پورے ہو گئے ہیں؛ چنانچہ تفسیر کے اس ذیلی جز میں عقل و تدبر، تجربات و مشاہدات کے ذریعے انتہائی متنوع مضامین شامل ہیں۔[8]چونکہ ہرکام کی ایک اصل ہوتی ہے اور اصول کے ساتھ ہونے والے کام کو کام کہا جاتا ہے، بے اصولی تو کسی بھی شعبہ میں اچھی نہیں سمجھی جاتی؛ اسی اصول پر تفسیر کے اصول بھی ہیں؛ تاکہ اس میں دلچسپی پیدا ہو، اب ایک بات ضروری طور پر یہ رہ جاتی ہے کہ وہ کیا ذرائع اور طریقے ہیں جن کی بنیاد پر قرآن کریم کی تفسیر کی جاسکے، یقیناً ہم کو اس کے لیے حق سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے رہبری کی گئی ہے؛ چنانچہ فرمایا:
+""ھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ""۔(آل عمران:7)اے رسول!وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے اورکچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔
+گویا اس آیت کی رو سے آیات کی اولین تقسیم دوطرح پر کی گئی ہے۔
+حسنا کا معنی کیا ہےآیات محکماتآیات متشابہات؛ پھرمتشابہات دوقسم پر ہیں:جو لفظ بھی سمجھ سے باہر ہو جیسے حروف مقطعاتلفظ تو سمجھ میں آتے ہوں؛ لیکن مفہوم ان کا قابل فہم نہ ہو۔
+پھرآیاتِ محکمات کو مفسرین نے دوطرح پر تقسیم کیا ہے:یعنی وہ ذارئع جن سے قرآن کریم کی تفسیر معلوم ہو سکتی ہے، یہ تقریباً چھ قسم کی بتلائی گئی ہیں:ہرایک کی تھوڑی سی تفصیل ضروری مثالوں سے ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:اختصار کی غرض سے اس کی صرف تین مثالیں پیش کی جاتی ہیں:سورۃ الفاتحہ کو ہی لیجئے، اِس کی دونوں آیتیں اس طرح ہیں:
+""اهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِالْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ""۔(الفاتحۃ:6،7)ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما، ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے۔
+جن پر انعام کیا گیا ہے اس کی تفسیر""سورۃالنساء"" کی درجِ ذیل آیت میں کی گئی ہے:
+""وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا""۔ (النساء:69)اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین، شہداءاور صالحین اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔""فَتَلَـقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِoاِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ""۔ (البقرۃ:37)پھر آدمؑ نے اپنے پروردگار سے (توبہ کے )کچھ الفاظ سیکھ لیے(جن کے ذریعہ انھوں نے توبہ مانگی)چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی، بے شک وہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
+اس آیت میں کلمات کا تذکرہ ہے مگر وہ کلمات کیا تھے؟ دوسری آیت میں اس کی تفسیرموجود ہے:
+""قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا، وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ""۔(الاعراف:23)دونوں بول اٹھے کہ:اے ہمارے پروردگار!ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گذرے ہیں اور اگرآپ نے ہمیں معاف نہ فرمایااور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔ اللہ ہم۔پر رحم فرما میں تیری پاک کلام پڑی ہے میں بہت بھٹکا ہوا تھا میرے اللہ مجے اپنی اس حدایت کے رستے پر چلنے کی توفیک عطا فرما اور باقی سب امیر المومنین پر بی حدایت پہچانے کی توفیق عطافرما میرے اللہ میں اس تیری دنیاہ کو محبت والے رستے پر چل کر عدل اور انصاف سے بھر دینہ چاہتہ ہوں۔اے اللہ میری مدد فرما آمین ثم آمین""سورۃ الانعام"" کی آیت نازل ہوئی:
+""الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولِٰئکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ""۔(الانعام:82)جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انھوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہ دیا، امن وچین تو بس انھی کا حق ہے اور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔
+توصحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس سے ( کسی نہ کسی طرح کا) ظلم صادر نہ ہوا ہو، تو اللہ نے ظلم کی تفسیر ومراد کو واضح کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی:
+"" إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ""۔(لقمان:13)کہ شرک ظلم عظیم ہے۔
+یعنی آیت بالا میں ایمان کے ساتھ جس ظلم کا تذکرہ آیا ہے وہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔[9]تفسیر القرآن بالقرآن کے موضوع پرایک گرانقدر کتابمدینہ منورہکے ایک عالم شیخ محمد امین بن محمد مختار کی تالیف ہے جو ""اضواء البیان فی ایضاح القرآن بالقرآن"" کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔قرآن پاک کی تفسیررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں کرنا تفسیر القرآن بالحدیث والسیرۃ کہلاتا ہے، خود قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقوال وافعال اور عملی زندگی سے آیات قرآنیہ کی تفسیر وتشریح فرمائیں۔
+(النحل:44)تو جس طرح اللہ تعالی نے انسانی زندگی کو بندگی بنانے کے لیے اپنے احکامات کو قرآن حکیم کی شکل میں نازل فرمایا، اسی طرح ان احکامات پر عمل آوری کے لیے آپ ﷺکے پوری عملی زندگی کو در حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر بناکر مبعوث فرمایا، جو کچھ احکامات قرآن کریم کی شکل میں نازل کیے گئے ان پر سب سے پہلے آپ ہی نے عمل کرکے دکھلایا اور ان احکامات خدا وندی کو عملی جامہ پہناکر دنیا کے سامنے پیش کرنا یہ آپ کی خصوصیات میں سے ایک نمایا خصوصیت ہے، خواہ وہ حکم ایمان، توحید، نماز، روزہ، زکوۃ، حج، صدقہ وخیرات، جنگ وجدال، ایثار وقربانی، عزم واستقلال، صب�� و شکر سے تعلق رکھتا ہو یا حسن معاشرت وحسن اخلاق سے، ان سب میں قرآن مجید کی سب سے پہلی وعمدہ عملی تفسیر نمونہ وآئیڈیل کے طور پر آنحضرت ﷺ ہی کی ذات اقدس میں ملے گی، اس میں بھی دو قسم کی تفسیر ہے ایک تفسیرتو وہ قرآن پاک کے مجمل الفاظ وآیات کی تفسیر وتوضیح ہے جن کی مراد خدا وندی واضح نہیں تو ان کی مراد واجمال کی تفصیل کو زبان رسالت مآب ﷺ نے واضح فرمادیا اور دوسری قسم عملی تفسیر کی ہے، یعنی قرآنحکیمکی وہ آیات جن میں واضح احکامات دئے گئے ہیں جن کا تعلق عملی زندگی کے پورے شعبۂ حیات سے ہے، خواہ وہ عقائد، عبادات، معاملات کی رو سے ہوں یا حسن معاشرت وحسن اخلاق کی رو سے اس میں بھی آپ نہ وہ کمال درجہ کی عبد یت اور اطاعت وفرمانبرداری کی ایسی بے مثال وبے نظیر عملی تفسیر وتصویر امت کے سامنے پیش فرمائی جس طرح کلام اللہ تمام انسانی کلاموں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے اسی طرح آپ کی عملی زندگی کا ہر قول وفعل بھی تمام انسانی زندگیوں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے، دوسری قسم کی مثالیں کتب سیر، کتب مغازی، کتب تاریخ، کتب دلائل اور کتب شمائل میں بکثرت ملیں گے؛ بلکہ یہ کتابیں تو آپ ہی کی عملی تفسیر پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں جن کی مثالوں کو یہاں ذکر نہیں کیا جا رہا ہے اگر دیکھنا چاہیں تو ہمارے ہوم پیج کے عنوان""سیرت طیبہ"" میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں اور پہلی قسم کی مثالیں کتب احادیث وتفسیر میں بکثرت ملیں گی ان میں سے بغرض اختصار صرف تین مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:سورۂ بقرہ کی آیت شریفہ:
+""وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ""۔(البقرۃ:187)
+اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر واضح (نہ) ہو جائے۔
+آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیط ابیض اور خیط اسود کی مراد کو اپنے ارشاد مبارک سے واضح فرمایا :
+"" إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَار""۔[10]کہ خیط ابیض سے مرادصبح صادقاور خیط اسود سے مرادصبح کاذبہے۔سورہ نور کی آیت:
+""اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ، وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ""۔ (النور:2)زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرددونوں کو سوسو کوڑے لگاؤاور اگر تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ میں ان پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پرغالب نہ آئے اور یہ بھی چاہیے کہ مؤمنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے۔ظاہر ہے کہ اس آیت سے زانیہ اور زانی کی سزامیں سو کوڑے مارنے کاذکر ہے، اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا کوئی فرق نہیں کیا گیا؛اس کی تفسیر احادیثِ پاک سے واضح ہوتی ہے کہ غیر شادی شدہ کو کوڑوں کی سزا دی جائے گی جیسا کے بخاری شریف میں ہے:
+""عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَمَرَ فِيمَنْ زَنَى وَلَمْ يُحْصَنْ بِجَلْدِ مِائَةٍ وَتَغْرِيبِ عَامٍ""۔[11]زید بن خالد سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے غیر شادی شدہ زنا کرنے والوں کو سو کوڑے مارنے کا اور ایک سال کے لیے وطن سے نکالنے کاحکم دیا۔اور شادی شدہ مرد وعورت کو سنگسار کیا جائے گا:
+""الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَازَنَيَا فَارُجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ، رَجَمَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهٗ""۔[12]شادی شدہ مرد وعورت جب زنا کے مرتکب ہوں تو ان کو رجم کرو، یعنی سنگسار کردو، راوی کہتے ہیں کہ خود حضور ﷺ نے اپنی زندگی میں ایسی سزادی ہے اور بعد میں ہم نے بھی ایسی سزا دی ہے۔قرآن کی تفسیر حدیث سے کرنے کی مثال میں یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے:
+""غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ""۔ (الفاتحۃ:7)نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔
+قرآن پاک میں المغضوب اور الضال کا مصداق متعین نہیں کیا گیا ہے ؛لیکن ان دونوں کا مصداق متعین کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
+""إِنَّ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ أَلْيَهُوْدُ وَإِنَّ الضَّالِّيْنَ النَّصَارَىٰ""۔[13]جن پر غضب نازل ہوا اس سے مراد یہود ہیں اور جو راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اس سے مراد نصاری ہیں۔
+اس طرح کی بے شمار مثالیں کتب احادیث میں بکثرت موجود ہیں اور اس نقطۂ نظر سے بھی کئی تفاسیر لکھی گئی ہیں، اُن میں سے چند تفاسیر یہ ہیں۔حضرات صحابہ چونکہ بجا طور پر خیر امت کہلانے کے مستحق ہیں جنھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست قرآن کریم کی تعلیم و تربیت حاصل کی، ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کر دیں کہ قرآن کریم اوراس کی تفسیر وتاویل کو بلاواسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کریں، اہل زبان ہونے کے باوجود ان کو صرفزبان دانیپر بھروسا نہ تھا؛ چنانچہ بعضے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سبقاً سبقاً قرآن کریم کو پڑھا، مشہور تابعی ابوعبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں:
+""حَدَّثَنَا الَّذِيْنَ كَانُوْا يَقْرَؤَوْنَ الْقُرَآنَ كَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَغَيْرِهِمَا أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا تَعَلَّمُوْا مِنَ النَّبِيِّﷺ عَشَرَ آيَاتِ لَمْ يَتَجَاوَزُوْهَا حَتَّى يَعْلَمُوْا مَافِيْهَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ""۔[14]صحابہ میں سے جو قرآن کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا کرتے تھے، مثلاًعثمان بن عفان، عبد اللہ بن مسعود وغیرہ انھوں نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیتیں سیکھتے تو ان آیتوں سے آگے نہ بڑھتے جب تک ان آیتوں کی تمام علمی وعملی باتوں کو نہ جان لیتے۔یہ ہے حضرات صحابہ کا براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم و تربیت کا سیکھنا کہ جتنا سیکھتے اتنا عمل کا بھی اہتمام فرماتے شاید اسی وجہ سے مسند احمد میں انس کا یہ اثرمنقول ہے:
+""كَانَ الرَّجُلُ إِذَاقَرَأ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ جَدَّ فِيْنَا""۔[15]یعنی جب کوئی شخص سورۃ بقرہ وآل عمران کو پڑھ لیتا تووہ ہماری نظروں میں بہت ہی عزت والا سمجھا جاتا اور موطا مالک کی روایت میں ہے:
+""أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مَكَثَ عَلَى سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثَمَانِيَ سِنِينَ يَتَعَلَّمُهَا""۔[16]عبد اللہ ابنِ عمر کو سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے۔
+یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ابن عمر اتنے کمزور ذہن والے تھے کہ سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے، جبکہ موجودہ دور میں کمزور سے کمزورطالب علماتنے عرصہ سے کم میں پورا قرآن کریم حفظ کرلیتا ہے، دراصل بات یہ تھی کہ آٹھ سال کی مدت ابن عمر کو سورۂ بقرہ کے الف��ظ اور اس کی تفسیر وتاویل اور اس کے متعلقات کے ساتھ حاصل کرنے میں لگی، اس کی تائیدابن مسعودکے اس اثر سے ہوتی ہے جس کو ابن کثیر نے نقل کیا ہے:
+""والذي لا إلہ غيرہ، ما نزلت آية من، كتاب اللہ إلا وأنا أعلم فيمن نزلت؟ وأين نزلت؟ ولو أعلم أحد اأعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایا لاتیتہ""۔[17]قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس بارے میں اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی شخص ایسی معلومات مجھ سے زیادہ رکھتا ہے اور سواریاں اس شخص تک پہنچاسکتی ہیں تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔یہ چند نمونے ہیں حضرات صحابہ کی جانفشانی اور ان کی محنت کے جو تفسیر قرآن کے سلسلہ میں پیش کیے گئے، یوں تو بہت سی آیات کی تفسیر حضرات صحابہ کے اقوال سے ثابت ہیں ان میں سے کچھ برائے نمونہ پیش ہیں۔ایک دفعہ ابن عمرؓ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور درج ذیل آیت کی تفسیر دریافت کی:
+""أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا""۔(الانبیاء:30)
+کیا کفار نے دیکھا نہیں کہ آسمان وزمین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔
+ابن عمرنے اس سے فرمایا کہ تم ابن عباس کے پاس جاؤ اور ان سے اس کی تفسیر معلوم کرو اور وہ جو تفسیر بتائیں وہ مجھے بھی بتاتے جانا، وہ شخص ابن عباس ke پاس پہنچااور درج بالا آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
+آسمان خشک تھے ان سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بانجھ تھی اس سے کچھ اُگتا نہیں تھا، بارش کے طفیل یہ پودے اگانے لگی؛گویا آسمان کا فتق(پھٹنا)بارش کے ساتھ ہے اور زمین کا پھل پودے اگانے سے۔ اس شخص نے ابن عمر کو جب یہ تفسیر بتائی تو انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی جانب سے ان کو خصوصی علم عطا ہوا ہے۔[18]"" وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ، وَاَحْسِنُوْا، اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِـنِیْنَ""۔(البقرۃ:195)
+اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں اور نیکی کرو، بے شک اللہ تعالی دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو۔
+اس آیت کی تشریح میں مفسرین نےابوایوب انصاریکا ارشاد نقل کیا ہے کہ:
+""التھلکۃ الاقامۃ فی الاھل والمال وترک الجھاد""۔(تفسیر ابن کثیر، تحت قولہ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ)""التھلکۃ ""سے مراد گھر اور مال کیمصروفیاتمیں لگا رہنا اور جہاد کو چھوڑ بیٹھنا ہے۔ عام مفسرین نے اپنی اپنی تفاسیر میں اس تفسیر کو خاص طور سے نقل کیا ہے۔علامہ طبری روایت کرتے ہیں کہ عمرنے صحابہ سے درج ذیل آیت کے متعلق دریافت کیا :
+""أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ""۔(البقرۃ:266)کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں (اور)اس کو اس باغ میں اور بھی ہر طرح کے پھل حاصل ہوں اور بڑھاپے نے اسے آپکڑا ہواور اس کے بچے ابھی کمزور ہوں، اتنے میں ایک آگ سے بھرا بگولا آکر اس کو اپنی زد میں لے لے اور پورا باغ جل کر رہ جائے۔کوئی بھی اس کا شافی جواب نہ دے سکے، ابن عب��س نے عرض کیا کہ میرے دل میں ایک بات آ رہی ہے، عمر نے فرمایا کہ آپ بلا جھجک برملا بیان کیجیے، ابن عباس نے فرمایا:
+""اللہ تعالی نے اس آیت میں ایک مثال بیان کی ہے فرمایا :کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ عمر بھر نیکی کا کام کرتا رہے اور جب اس کا آخری وقت آئے جب کے نیکیوں کی اسے زیادہ ضرورت ہوتو بُرا کام کرکے سب نیکیوں کو برباد کر دے""۔[19]ایک اہم بات اس بارے میں اہل اصول نے بتلائی ہے کہ جن صحابہ کے تفسیری اقوال میں صحیح وسقیم ہر طرح کی روایتیں ملتی ہیں تو ان اقوال کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کیے جانے سے پہلے اصول ِحدیث کے اعتبار سے ان کی جانچ ضروری ہے۔
+2۔ نیز دوسرے یہ کہ حضرات صحابہ کے اقوال تفسیر اسی وقت حجت، دلیل سمجھے جائیں گے جبکہ آپﷺ سے آیت شریفہ کی کوئی صریح تفسیر مستند طور پر ثابت نہ ہو؛چنانچہ اگر آپ ﷺ سے تفسیر منقول ہو تو پھر صحابہ سے اقوال محض اس تفسیر کی تائید شمار کیے جائنگے اور اگر آپ ﷺ کے معارض کوئی قول صحابی ہوتو اس کو قبول نہ کیا جائے گا۔
+3۔ تیسرے یہ کہ صحابہ کے اقوال تفسیر میں اگر تعارض اور ٹکراؤ ہو تو جہاں تک ہو سکے ان کے اقوال میں مطابقت پیداکی جائے گی اگر مطابقت نہ ہو سکے تو پھر مجتہد کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ دلائل کی روشنی میں جس صحابی رضی اللہ عنہ کا قول مضبوط ہے اس کو اختیار کرلے۔[20]اس موضوع پر مستقل کتاب، تنویرالمقباس فی[21]/ تفسیر ابن عباس]""ہے اور اس کے علاوہ دیگر کتب تفاسیر میں صحابہ کی تفسیری روایات مذکور ہیں۔واضح ہونا چاہیے کہ تابعین سے مراد تمام ہی تابعین نہیں ہیں؛ بلکہ وہ حضرات تابعین جنھوں نے حضرات صحابہ کی صحبت اٹھائی ہواور ان کی صحبت سے علمی استفادہ کیا ہو، اہل علم میں اس بات پربھی اختلاف ہے کہ تفسیر قرآن کے بارے میں اقوال تابعین حجت ہیں یا نہیں، اس معاملہ میں علامہ ابن کثیر نے بہت ہی معتدل بات لکھی ہے کہ اگر کوئی تابعی کسی صحابی سے تفسیر نقل کر رہے ہوں تو اس کا حکم صحابی کی تفسیر جیسا ہوگا اور اگر خود تابعی اپنا قول بیان کریں تو دیکھا جائے گا کہ دوسرے کسی تابعی کا قول ان کے خلاف تو نہیں اگر خلاف میں کوئی قول ہو تو پھر اس تابعی کے قول کو حجت نہیں قرار دیا جائے گا؛ بلکہ ایسی آیات کی تفسیر کے لیے قرآن کی دوسری آیتیں احادیث نبویہ آثارصحابہ اورلغت عرب جیسے دوسرے دلائل پر غور کرکے فیصلہ کیا جائے گا، ہاں اگر تابعین کے درمیان میں کوئی اختلاف نہ ہوتو ان کے تفسیری اقوال کو بلاشبہ حجت اورواجب الاتباع قراردیا جائے گا۔[22]جب تابعین کے اقوال پر تفسیر کی جا سکتی ہے تو اس کے کچھ نمونے بھی ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں :ارشاد باری تعالی ہے:
+""وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ، رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا، ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ""۔(التوبہ:100)اور جولوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مددکرنے والے اور جو ان کے پیروہوئے نیکی کے ساتھ اللہ تعالی راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور اللہ نے تیار کررکھا ہے ان کے واسطے ایسے باغات کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں رہا کریں ان میں وہ ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی۔
+اس آیت شریفہ میں حضرات صحابہ کے مختلف درجاتِ فضیلت بیان کیے گئے ہیں ایک سابقین اولین کا، دوسرے ان کے بعد والوں کا، اب س��بقین اولین کون ہیں، اس میں مفسرین کے مختلف اقوال نقل کیے جاتے ہیں، کبار تابعین سعید بن المسیب، ابن سیرین اور قتادہ کا یہ قول ہے کہ اس سے مراد وہ صحابہ ہیں جنھوں نے دونوں قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور عطاء بن ابی رباح کا یہ قول ہے کہ سابقین اولین سے مرادبدرمیں شریک ہونے والے صحابہ ہیں اورشعبی نے فرمایا کہ وہ جو حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شامل رہے۔[23]اس آیت میں تابعین کے مختلف اقوال سامنے آئے، مفسرین نے کسی قول کو رد نہیں کیااور ان کے درمیان میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
+"" اَلتَّائِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّائِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنََ""۔ (التوبہ:112)توبہ کرنے والے، اللہ کی بندگی کرنے والے، اس کی حمد کرنے والے، روزے رکھنے والے،رکوعمیں جھکنے والے،سجدہگزارنے والے، نیکی کی تلقین کرنے والے، برائی سے روکنے والے اوراللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے(اے پیغمبر )ایسے مؤمنوں کو خوشخبری دے دو۔آیت میں ایک لفظ ""أَلسَّائِحُوْنَ"" آیا ہے، جس کا مطلب جمہور مفسرین کے ہاں""صَائِمُوْنَ""یعنی روزہ دار مراد ہیں اور عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی سائحین کا لفظ آیا ہے وہاں صائمین مراد ہیں، عکرمہ جو کبارِ تابعین میں سے ہیں انھوں نے کہا سیاحت کرنے والوں سے مرادطالب علم ہیں جو علم کی طلب میں ملکوں میں پھرتے ہیں۔[24]اس تفسیر کو مفسرین نے رد نہیں کیا ہے اگرچہ عکرمہ اس تفسیر میں منفرد ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے: ""اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ(التوبہ:60)صدقات تو صرف غریبوں کے لیے ہیں۔۔الخ۔
+اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے غنی اور فقیر کے درمیان میں فرق کو واضح کیا ہے، غنی سے متعلقامام ابو حنیفہنے فرمایا کہ غنی وہ شخص ہے جس کے پاس اصلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بقدر نصاب زکوۃ مال باقی رہے۔[25]عام مفسرین نے امامابو حنیفہکے ذکر کردہ تعریف غنی کو اپنی تفاسیر میں بلا کسی نکیر کے ذکر فرمایا ہے۔اس موضوع پر بھی بہت سی تفاسیرلکھی گئی ہیں؛ چنانچہ علامہ نیشاپوری کی تفسیر""غرائب القرآن اور رغائب الفرقان"" قابل ذکر ہے اور علامہ نسفی کی مدارک التزیل بھی قابل ذکر ہے اور علامہ آلوسی کیروح المعانیبھی ایک وقیع تفسیر ہے۔
+نیز اردو تفاسیر میںمفتی محمد شفیعصاحب کی تفسیرمعارف القرآنآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ islamicbookslibrary.wordpress.com(Error: unknown archive URL)بھی اہم تفاسیر میں سے ایک ہے۔لغت عرب کو تفسیر کا ماخذ ماننے میں اگرچہ اہل علم کے یہاں اختلاف ہے، جیسے کہ امام محمد نے لغۃ عرب سے قرآن کی تفسیر کو مکروہ قراردیا ہے[26]کیونکہ؛ عربی زبان ایک وسیع زبان ہے اور بعض اوقات ایک لفظ کئی معانی پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک جملے کے بھی متعدد اور کئی مفہوم ہو سکتے ہیں تو ایسے مواقع پر صرف لغت عرب کو بنیاد بناکر ان میں سے کوئی ایک مفہوم متعین کرنا تفسیر میں مغالطہ کا سبب بن سکتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو مکروہ بھی کہا گیا ہے مگر محققین کا کہنا ہے کہ مغالطہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ لغت کے کثیر الاستعمال معانی کو چھوڑکر انتہائی قلیل الاستعمال معنی مراد لیے جائیں اس لیے ایسی جگہ جہاں قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین میں سے کوئی صراحت نہ ملے تو آیت کی تفسیر لغت عرب کے عام محاورات(جن کا چ�� چلاؤہو) کے مطابق کی جائے گی۔ایک مرتبہ خلیفہ ثانی عمر فاروق نے صحابہ کرام سے درج ذیل آیت کے معنی دریافت کیے:
+""أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ""۔(النحل:47)یا انھیں اس طرح گرفت میں لے کہ وہ دھیرے دھیرے گھٹتے چلے جائیں۔
+یہ سن کر قبیلہ بنو ھذیل کا ایک شخص کھڑا ہوکر کہنے لگاکہ ہماری زبان میں""تخوف""کمی اور نقصان کو کہتے ہیں، امیر المؤمنین عمر نے پوچھا عربی اشعار میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے؟اس نے کہا جی ہاں اور فوراً یہ شعر پڑھ دیا:ترجمہ:کجاوہ کی رسی اونٹنی کے کوہان کے بال کو کم کرتی رہتی ہے، جیسا کہ لوہا کشتی کی لکڑی کو کم کرتا رہتا ہے۔یہ سن کر عمرنے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا اپنے دیوان کو تھامے رکھو، صحابہ نے عرض کیا دیوان سے کیا مراد ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا جاہلی شاعری، اس میں قرآن کی تفسیر اور تمھاری زبان کے معانی موجود ہیں۔[27]علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ ابن عباس صحن کعبہ میں تشریف فرما تھے سوال کرنے والوں کا ایک ہجوم تھادو آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ سے تفسیر قرآن کے متعلق کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں، ابن عباس نے فرمایا دل کھول کر پوچھیے، انھوں نے پوچھا کہ آپ اس آیت باری تعالی کی تفسیر بتائیے:
+""عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ""۔ (المعارج:37)دائیں بائیں حلقے باندھے ہوں گے۔
+ابن عباس نے فرمایا عزین کے معنی ہیں ساتھیوں کے حلقے، انھوں نے پھر سوال کیا کہ کیا اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں؟ ابن عباس نے فرمایا :جی ہاں پھر آپ نے عبید بن الابرص کا شعر پڑھا
+فَجَاؤُا يُهْرَعُوْنَ إِلَيْهِ حَتً
+يَكُوْنُوْا حَوْلَ مِنْبَرِهِ عِزِيْنًاوہ لوگ اس کی طرف بھاگتے ہوئے آتے ہیں
+اس کے منبر کے گرد حلقہ باندھ لیتے ہیں[28]دیکھیے یہاں ابن عباس نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب کی مدد سے کی ہے۔اُسی صاحب نے آپ سے درج ذیل آیت کی تفسیردریافت کی:
+""وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ""۔ (المائدۃ:35)اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔
+ابن عباس نے فرمایا کہ وسیلہ حاجت اور ضرورت کو کہتے ہیں اس نے پوچھا کہ اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں:آپ ﷺ نے فرمایا کیا آپ نے عنترۃ نامی شاعر کا شعر نہیں سناہے؟پھر شعر پڑھا:
+إنَّ الرِّجَالَ لَهُمْ إِلَيْكِ وَسِيلَةٌ إِنْ يَأْخُذُوكِ، تكَحَّلِي وتَخَضَّبي[29]اس شعر میں وسیلہ کا لفظ حاجت وضرورت کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ ابن عباسؓ نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب سے کی ہے۔
+اس نقطۂ نظر سے بہت سی تفاسیر لکھی گئی ہیں، ان میں تفسیر خازن جس کا اصل نام ""لباب التاویل فی معانی التنزیل(2)السراج المنیر فی الاعانۃ علی معرفۃ بعض معانی کلام ربنا الحکیم الخبیر، للخطیبشربینی""قابل ذکر ہیں۔عقل سلیم جس کی اہمیت وضرورت سے کسی کو انکار نہیں، دنیا کے ہر کام میں اس کی اہمیت ہوتی ہے اور پچھلے مآخذ سے فائدہ اٹھانا بغیر عقل سلیم کے معتبر نہیں اس ماخذ کو علاحدہ لکھنے کی ضرورت محض اس لیے پڑتی ہے کہ قرآن کریم کے معارف ومسائل، اسرارورموز یقینا ًایک بحر بیکراں ہیں اور پچھلے مآخذ سے ان کو ایک حد تک سمجھا جا سکتا ہے ؛لیکن کسی نے بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ قرآن کریم کے اسرار ومعارف کی انتہا ہو گئی اور مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی، یہ بات خود قرآن کریم کی صریح آیتوں کے خلاف ہوگی، فرمان خدا وندی ہے:
+""قُلْ لَّوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ، الخ""۔ (الکہف:109)کہہ دو کہ اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر روشنائی بن جائے، تو میرے رب کی باتیں ختم نہیں ہوں گی کہ اس سے پہلے سمندر ختم ہو چکا ہوگا، چاہے اس سمندر کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم ویسا ہی ایک سمندر کیوں نہ لے آئیں۔گویا اس آیت میں وضاحت ہے کہ ساری مخلوق مل کر بھی کلمات الہی کا احاطہ کرنا چاہے تو ممکن نہیں سارا سامان تسوید ختم ہوجائیگا اور لامتناہی کسی طرح بھی متناہیوں کی گرفت میں نہ آسکے گا، متناہی صفات والے لا متنا ہی صفات والی ہستی کو کیونکر اپنی گرفت میں لاسکتے ہیں اور یقیناً قرآن کریم بھی صفات باری میں سے ایک ہے لہذا عقل سلیم کے ذریعہ ان حقائق اور اسرار پر غور و فکر کا دروازہ قیامت تک کھلاہوا رہے گا اور جس شخص کو بھی اللہ تعالی نے علم و عقل اور خشیت و تقوی اور رجوع الی اللہ کی صفات سے مالا مال کیا وہ تدبیرکے ذریعہ نئے نئے حقائق تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؛چنانچہ ہر دور کے مفسرین کی تفسریں اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ اور نبی اکرمﷺ کی دعاجو ابن عباس کے لیے تھی:""اَللّٰھُمَّ عِلْمُہٗ الْکِتَابَ وَفقہُ فِی الدِّیْنِ""۔[30]ترجمہ: اے اللہ ان کو تاویل یعنی تفسیر قرآن اور دین کی سمجھ عطا فرما۔
+یہ دعا بھی اشارہ کرتی ہے کہ اس باب میں راہیں کھلی ہیں البتہ اہل علم نے اس معاملہ میں یہ اصول ضرور بتلایا ہے کہ عقل سلیم کے ذریعہ مستنبط ہونے والے وہی مسائل اور معارف معتبر ہوں گے جو سابق مآخذ سے متصادم نہ ہوں، یعنی ان سے نہ ٹکراتے ہوں، اصول شرعیہ کے خلاف کوئی نکتہ آفرینی کی جائے تو اس کی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی۔
+ہم کو ایمان رکھنا چاہیے کہ کل کائنات خدا کی بنائی ہوئی اور اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، لہذاقرآن کریم کی بعض آیتوں سے اگرکوئی ڈاکٹریا سائنس داں معلومات کو اخذ کرتا ہے اور وہ معلومات مذکورہ اصولوں سے متصادم نہ ہوں توایسی تفسیر بھی قابل اعتبار ہوگی۔""لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَايَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثاً وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَo أَوْيُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَاناً وَإِنَاثاً وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيماً إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ"" (الشوری:49،50)سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ جس کوچاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے یا پھر ان کو ملاکر لڑکے بھی دیتا ہے اورلڑکیاں بھی اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنادیتا ہے، یقیناً وہ علم کا بھی مالک ہے قدرت کا بھی مالک۔
+بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس آیت میں خنثیٰ(ایسا شخص جو نہ مرد ہو نہ عورت) کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؛لیکن ابن العربیؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ ایسا کہنا عقل کے خلاف بات ہے اس لیے کہ اللہ نے آیت کے ابتدا ہی میں فرمادیا""يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ""وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، لہذااس میں خنثیٰ بھی شامل ہے۔[31]موسی جب کوہ طور پر تیس دن کے لیے تشریف لے گئے تھے اور انھیں چالیس یوم تک وہاں رہنا پڑا تھاتو ان کے غائبانہ ان کی قوم نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی تھی اس واقعہ سے متعلق ایک حصہ کو قرآن پاک نے یوں بیان کیا ہے :
+""وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا""۔ (الاعراف:148)موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کے بعد زیورات سے ایک بچھڑا بنالیا۔
+اس آیت کی تفسیر میں علامہ تستری لکھتے ہیں کہ بچھڑے سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی محبت میں گرفتار ہوکر انسان اللہ سے منہ موڑلے ؛مثلاً اہل واولاد اور مال وغیرہ انسان تمام خواہشات کو ختم کر دے جس طرح بچھڑے کے پجاری اس سے اسی حالت میں چھٹکارا پاسکتے ہیں جب وہ اپنی جانوں کو تلف کر دیں۔[32]یہ تفسیر بھی عقل سلیم کی روشنی میں کی جانے والی تفسیر کے قبیل سے ہے اور یہ اصول شرعیہ کے مخالف بھی نہیں ہے۔قرآن پاک نےابراہیم علیہ السلامکا واقعہ ذکر کیا ہے جس میں اللہ تعالی نے ان کو اپنے لخت جگر حضرتاسماعیل علیہ السلامکو ذبح کرنے کا حکم دیا تھا قرآن پاک میں یوں ہے:
+""وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ""۔(الصافات:107)اور اس کے عوض ہم نے ایک بڑا جانور دے دیا۔
+اس کی تفسیر میں علامہ تستری لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ بتقاضائے بشریت اپنے بیٹے سے محبت کرتے تھے اس لیے اللہ تعالی نے آزمائش کے طور پر اس کو ذبح کرنے کا حکم دیا، منشأ خدا وندی دراصل یہ نہ تھا کہ ابراھیمؑ بیٹے کو ذبح کرڈالیں؛ بلکہ مقصود یہ تھا کہ غیر اللہ کی محبت کو دل سے نکال دیا جائے، جب یہ بات پوری ہو گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی عادت سے باز آ گئے تو اسماعیل کے عوض ذبح عظیم عطا ہوئی۔[33]یہ تفسیر بھی اسی قبیل سے ہے اور اصول شرعیہ کے معارض بھی نہیں ہے اس لیے اس کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
+اس عنوان پر تفسیر یں بھی لکھی گئی ہیں، علامہ ابوالسعودکی""ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم"" اور"" تفسیر التستری""قابل ذکر ہیں۔قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں، ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں، جنت ودوزخ کا تذکرہ اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں وغیرہ جس کو ہر عربی داں شخص سمجھ سکتا ہے؛بلکہ مستند ترجمہ کی مدد سے اپنیمادری زبانمیں بھی ان آیات کو سمجھ سکتا ہے، ان آیات کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
+""وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر""۔ٍ (القمر:17)اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے؛ اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟۔
+دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام وقوانین، عقائد اور علمی مضامین پر مشتمل ہیں، اس قسم کی آیتوں کو پوری طرح سمجھنے اوران سے احکام ومسائل مستنبط کرنے کے لیے علم تفسیرکاجانناضروری ہے، صرف عربی زبان کا سمجھنااس کے لیے کافی نہیں ہے، صحابہ کرامؓ اہل عرب ہونے کے باوجودایسی آیتوں کی تفسیر اللہ کے رسولﷺسے معلوم کیا کرتے تھے، اس کی تفصیلی مثالیں اس مقالہ میں آچکی ہیں؛یہاں سمجھنے کے لیے ایک مثال پر اکتفا کیا جا رہا ہے، روزوں سے متعلق جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
+""وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ""۔(البقرۃ:187)اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے میں تمھیں فرق معلوم ہونے لگے۔
+اس آیت کو سننے کے بعدعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ(67ھ) نے سفید اورسیاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے؛ تاکہ جب دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے وہ اپنے روزے کی ابتدا کر لیا کریں؛اسی طرح اور ایک روایت میں سہل بن سعد(951ھ) کہتے ہیں:کچھ لوگ جنھوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں پاؤں سے سفید اورسیاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر سحری کھاتے رہتے؛یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس میں ممتاز نہ ہوجائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سمجھا یا کہ یہاں سفید اورسیاہ دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اورشب کی سیاہی ہے۔[34]الغرض!قرآن کریم کی تفسیر ک��نے کے لیے علم تفسیر کا جاننا ضروری ہے، کسی بھی آیت کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے والا غلطی پر ہے، خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا، قرآن کریم کی تفسیرسمجھنے کے لیے مستند تفاسیر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور علما سے استفادہ کرنا چاہیے، اس مضمون کے آخر میں مستنداردو تفاسیر کے نام ذکر کیے گئے ہیں، درج ذیل احادیث میں تفسیر قرآن کی باریکی کا اندازہ ہوتا ہے :""مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ""۔
+جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
+""مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ""۔
+جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔[35]علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ بعض غلو پسند لوگوں نے اس حدیث سے یہ مطلب سمجھا کہ قرآن کریم کے بارے میں کوئی بات فکر ورائے کی بنیا دپر کہنا جائز نہیں؛ یہاں تک کہ اجتہاد کے ذریعے قرآن کریم سے ایسے معانی بھی مستنبط نہیں کیے جا سکتے جو اصول شرعیہ کے مطابق ہوں؛ لیکن یہ خیال درست نہیں؛ کیونکہ خود قرآن کریم نے تدبر اور استنباط کو جا بجا مستحسن قرار دیا ہے اور اگر فکر وتدبر پر بالکل پابندی لگادی جائے توقرآن وسنت سے شرعی احکام وقونین مستنبط کرنے کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا ؛لہٰذا اس حدیث کا مطلب ہر قسم کی رائے پر پابندی لگانا نہیں ہے۔[36]چنانچہ اس بات پر جمہور علما متفق ہیں کہ خود قرآن وسنت کے دوسرے دلائل کی روشنی میں اس حدیث کا منشا یہ ہر گز نہیں ہے کہ معاملہ میں غور و فکر اور عقل ورائے کو بالکل استعمال نہیں کیا جا سکتا ؛بلکہ اس کا اصل منشا یہ ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کے لیے جو اصول اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ ہیں ان کو نظر انداز کرکے جو تفسیر محض رائے کی بنیاد پر کی جائے وہ ناجائز ہوگی اور اگر اس طرح تفسیر کے معاملہ میں دخل دے کر کوئی شخص اتفاقاً کسی صحیح نتیجہ پر پہنچ جائے تو وہ خطا کار ہے، اب اصول تفسیر کو نظر انداز کرنے کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً:
+1۔ جو شخص تفسیر قرآن کے بارے میں گفتگو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ محض اپنی رائے کے بل بوتے پر تفسیر شروع کر دے۔
+2۔ کسی آیت کی کوئی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ وتابعین سے ثابت ہو اور وہ اسے نظر انداز کرکے محض اپنی عقل سے کوئی معنی بیان کرنے لگے۔
+3۔ جن آیات میں صحابہ کرام وتابعین سے کوئی صر یح تفسیر منقول نہیں ان میں لغت اور زبان و ادب کے اصولوں کو پامال کرکے کوئی تشریح بیان کرے۔
+4۔ قرآن وسنت سے براہ راست احکام وقوانین مستنبط کرنے کے لیے اجتہاد کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور پھر بھی اجتہاد شروع کر دے
+5۔ قرآن کریم کے متشابہ آیات (جن کے بارے میں قرآن نے خود کہے دیا ہے کہ ان کی سو فیصد صحیح مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا) ان کی جزم ووثوق کے ساتھ کوئی تفسیر بیان کرے اور اس پر مصر ہو۔ 6۔ قرآن کریم کی ایسی تفسیر بیان کرے جس سے اسلام کے دوسرے اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ عقائد یا احکام مجروح ہوتے ہوں
+7۔ تفسیر کے معاملہ میں جہاں عقل وفکر کا استعمال جائز ہے وہاں کسی قطعی دلیل کے بغیر اپنی ذاتی رائے کو یقینی طور پر درست اور دوسرے مجتہدین کی آراء کو یقینی طور سے باطل قرار دے۔
+یہ تمام صورتیں اس تفسیر بالرائے کی ہیں جن سے مذکورہ بالا حدیث میں منع کیا گیا ہے؛ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ان تمام صورتوں کو اس مختصر جملے میں سمیٹ دیا گیا ہے :
+من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من لنار
+(ترمذی، باب ماجاء یفسر القرآن، حدیث نمبر:2874)جو شخص قرآن کریم کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
+البتہ تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر میں کسی ایسی رائے کا اظہار کیا جائے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہے؛ البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن وسنت کے وسیع وعمیق علم اور اسلامی علوم میں مہارت کے بغیر ممکن نہیں اور علما نے اس کے لیے بھی کچھ کار آمد اصول مقرر فرمائے ہیں جواصول فقہاور اصول تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کا ایک نہایت مفید خلاصہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ""الب رہان فی علوم القرآن کی نوع 41 میں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان (صفحہ:164۔170)بیان فرمایا ہے، یہ پوری بحث نہایت قابل قدر ہے ؛لیکن چونکہ عربی زبان وعلوم کی مہارت کے بغیر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا، اس لیے اس کا ترجمہ یہاں نقل کرنا بے فائدہ ہے جو عربی داں حضرات چاہیں وہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔سابقہ تمام تفصیل سے یہ ثابت ہواکہ تفسیر قرآن مجید کے لیے کچھ ضروری علوم ہوتے ہیں جن کے بغیر تفسیر کرنا ایسا ہے جیسے بغیر آلات کے صناعی کرنا کہ جیسے کوئی بھی فن بغیر آلاتِ ضروریہ کے نہیں آتا ایسے ہی ہر علم کا بھی یہی مسئلہ ہے؛ چنانچہ مفسرین اوراہل علم نے ضروری علوم کی تفصیل یوں بتلائی ہے:علم لغت، صرف ونحو، معانی، بیان، بدیع، عربی ادب، علم کلام، منطق، حکمت وفلسفہ، علم عقائد، علم تفسیر، پھر اس میں درجات اہل علم کے ہاں مانے گئے ہیں، چنانچہ ابتدائی لغت وصرف نحو ادب یہ عربی زبان سیکھنے اور اس کی باریکیوں کو جاننے کے لیے ہیں؛ کیونکہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا نیز معانی بیان وبدیع وغیرہ اس کی رعنایوں کو سمجھنے ک لیے اورمنطقحکمت وفلسفہ کلام، دوسری زبانوں سے مستعا رعلوم کے ذریعہ جو گمراہیاں آ سکتی ہیں اس کے دفع کے لیے، پھر علم تفسیر کے اندر بھی کئی تفصیلات بتلائی گئی ہے؛ مثلا وحی اوراس کی ضرورت کو سمجھنا پھر وحی کی اقسام مثلاً، وحی قلبی، وحی ملکی، پھر وحی کی مختلف شکلیں جیسے صلصلۃ الجرس اورفرشتے کاانسانی شکل میں آنا، رویائے صادقہ، نفث فی الروع، پھر وحی متلو وغیر متلو، پھر قرآن کریم کے نزول کے متعلق تفصیلات اورسورتوں کی تدوین مکی ومدنی ہونے کے اعتبار سے نیز بعض مدنی سورتوں میں مکی آیتیں اوربعض مکی سورتوں میں مدنی آیتیں کونسی ہیں اس کا استقصاء پھر قرآن کریم سات حروف پر نازل ہونے کا کیا مطلب ہے؛ پھر ناسخ و منسوخ آیتوں کی تفصیلات، سبعہ احرف سے کیا مراد ہے اورحفاظت قرآن اورجمع قرآن کی تفصیلات پھر اس کے اندر دیے ہوئے علامات وقف کی تفصیلات اوراسی میں پاروں کی تقسیم اوراس کے اعراب وحرکات سے متعلق تفصیلات پھر قرآن کریم میں جو مضامین ذکرکئے گئے ہیں، مثلا عقائد، واقعات اورایام اللہ وانعم اللہ، پھر آیات مقطعات و متشابھات ومحکمات وغیرہ کی تفصیلات، بہرحال یہ تو چندضروری علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ان کی تفصیل میں جائیں تو بہت وقت لگ جائے۔جب اہم مفسرین کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے قرن اول یعنی صحابہ و تابعین کا ذکر ضروری ہوتا ہے۔
+لہٰذا سب سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اہم مفسرین کے نام آتے ہیں اور ان میں سے بھی پہلے عبد اللہ بن عباسؓ ہیں جو مفسر اول کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے جو تفسیر فی زمانہ منظر عام پر آئی ہے تنویر المقباس فیتفسیر ابن عباسآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ islamicbookslibrary.wordpress.com(Error: unknown archive URL)حتی کہ اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا؛ لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں مانی گئی ہے ؛کیونکہ یہ کتاب ""محمد بن مروان السّدّی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ""کی سند سے مروی ہے اور اس سلسلہ سند کو محدثین نے سلسلۃ الکذب قرار دیا ہے۔ (دیکھیے الاتقان:188/2)بہرحال قرن اول کے مفسرین میں پہلا نام عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے تاریخ وفات سنہ68ھ۔دوسرا نامعلی بن ابی طالبوفات سنہ40ھ۔
+پہلے تین خلفاء کی نسبت علی سے تفسیری روایات زیادہ مروی ہیں؛ چنانچہ علامہ ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علیؓ نے اپنے خطبے میں یوں فرمایا کہ لوگو! مجھ سے کتاب اللہ کے بارے میں سوالات کیا کرو؛ کیونکہ قسم خدا کی قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں مجھے معلوم نہ ہو کہ یہ آیت رات کو نازل ہوئی یا دن میں میدان میں اتری یا پہاڑ پر۔(الاتقان:187/2)تیسرا نام عبد اللہ بن مسعود متوفی سنہ32ھ۔
+ان کی بھی کئی روایات تفسیر میں منقول ہیں؛ بلکہ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں زیادہ منقول ہیں۔چوتھا نام ابی بن کعب رضی اللہ عنہ متوفی سنہ39ھ۔ابی بن کعباُن صحابہ میں سے ہیں جو تفسیر اور علم قرأت میں مشہور ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا، اَقْرَأُ کُمْ اُبَیْ ابْنُ کَعْبٍ، تم میں سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔
+(تذکرۃ الحفاظللذھبی:38/2)
+ابی بن کعب کی علمی وقعت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ معمر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
+""عَامَّۃُ عِلْمِ ابنِ عَبَّاسٍ مِنْ ثَلٰثَہٍ، عُمَر وَ عَلِی وَ اُبَیْ بنُ کَعبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ""۔(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:38/2)
+عبد اللہ بن عباس کے بیشتر علوم تین حضرات سے ماخوذ ہیں، عمر و علی و ابی بن کعبان حضرات صحابہ کے علاوہ اور بھی کچھ نام تفسیر کے سلسلہ میں منقول ہیں مثلاً زید بن ثابتؓ،معاذ بن جبل، عبد اللہ بن عمرو،عبد اللہ بن عمر، عائشہ، جابر، ابو موسیٰ اشعری، انس اور ابو ھریرہ۔حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے چونکہ مختلف علاقوں اورمقامات میں پھیل کر قرآن کریم کی خدمت کا سلسلہ شروع کیا، جس کی وجہ سے تابعین کی ایک بڑی جماعت اس کام کے لیے تیار ہوئی، جس نے علم تفسیر کو محفوظ رکھنے میں نمایاں خدمات انجام دیں، ان میں سے کچھ برائے تعارف پیش کیے جاتے ہیں:مفسرین نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے کئی نقطۂ نظر سے تفسیریں لکھی ہیں؛ مثلاًادبی، عقلی اور کلامی وغیرہ، بعض نے تفسیر بالماثور بھی لکھی، بعض نے تفسیر اشاری یعنی صوفیانہ انداز پر تفسیرلکھی، غرض مختلف نقاط نظر سے قرآن کی خدمت کی گئی ہے۔تفسیر بالماثور میں اہم تفاسیر تفسیر طبری، تفسیر بحرالعلوم ازسمر قندی، الکشف والبیان عن تفسیر القرآن از ثعالبی، معالم التنزیل ازبغوی، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب لابن عطیہ، تفسیر ابن کثیر، الدر المنثور فی تفسیر الماثور ازسیوطی، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن ازثعالبی- خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔تفسیر بالرائے کے نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں مفاتیح الغیب ازرازی، انوارالتنزیل واسرار التاویل ازبیضاوی، مدارک التنزیل وحقائق التاویل فی معانی التنزیل از خا��ن، غرائب القرآن ورغائب الفرقان از نیسا پوری، تفسیر جلالین، السراج المنیراز خطیب شربینی، روح المعانی از آلوسی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔صوفیانہ نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی تفاسیر میں تفسیر ابن عربی، تفسیر فیضی، تفسیر القرآن العظیم از تستری، حقائق التفسیر ازسلمی، عرائس البیان فی حقائق القرآن وغیرہ ہیں۔فقہی نقطہ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں احکام القرآن ازکیاہراسی، احکام القرآن ازابن العربی، الجامع لاحکام القرآن از قرطبی، کنزا لعرفان فی فقہ القرآن، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن للتھانوی اور اردو میں ایک مختصر سی کتاب مولانا عبد المالک صاحب کاندھلوی کی فقہ القرآن کے نام سے آئی ہے۔چند اردو تفاسیر:قرآن مجید کے نزول سے قبل دیگر آسمانی کتابیں مثلاًتوراتوانجیلوغیرہ نازل ہو چکی تھی اور نزولِ قرآن کے زمانہ میںاہل کتابکی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو قرآن میں بیان کردہ انبیا کرام کے واقعات کو اپنی کتابوں کے حوالہ سے بھی پیش کرتے تھے اوربعض اوقات من گھڑت حکایات بھی نقل کردیتے ؛لیکن اس سلسلہ میں نبی کریمﷺ نہایت قیمتی اصول بیان فرمائے جو آگے پیش کیے جائیں گے تو آئیے قرآن کریم میں اسرائیلیات کی حیثیت اوران کا مقام و مرتبہ کیا ہے، اس کو فرامین رسول کی روشنی میں اور علمائے امت کی تحریروں کے آئینہ میں ملاحظہ کرتے ہیں:اسرائیلی روایات کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:""{{ }}الاسرائیلیات: الاخبار المنقولۃ عنبنی اسرائیلمن الیھود وھو الاکثر اومن النصاری""۔
+(قسم التفسیر واصولہ:1/47[37])اسرائیلیات وہ باتیں جو بنی اسرائیل یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یا نصاریٰ سے۔شیخ الاسلاممفتیمحمد تقی عثمانیمدظلہ نے رقم فرمایا کہ:""اسرائیلیات یا اسرائیلی روایات ان روایات کو کہتے ہیں جو یہودیوں یا مسیحیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے بعض براہِ راستبائبلیا تالمود سے لی گئی ہیں بعض منشاءاوران کی شروح سے اوربعض وہ زبانی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئی ہیں اور عرب کے یہود ونصاری میں معروف ومشہور تھیں""۔
+(علوم القرآن:345)جب قرآن مجید نازل ہونے لگا اوراس میں حضرات انبیا کرام کے واقعات اوران کی قوموں کے احوال بیان کیے جانے لگے تو اہل کتاب یہود ونصاری اپنیعبرانی زبانمیں موجود کتابوں سے جو تحریف شدہ تھے اس سے واقعات عربی میں حضرات صحابہ کرام ؓسے بیان کرتے تھے جب اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان اہل کتاب کے بیان کردہ واقعات کی نہ تصدیق کرو اورنہ تکذیب ؛بلکہ کہو کہ جو کچھ اللہ تعالی نے نازل کیا ہے ہمارا اس پر ایمان ہے؛چنانچہابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ:
+""كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا""۔
+(بخاری، بَاب:قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا، حدیث نمبر:4125)اہل کتاب تورات عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو اور کہو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں۔
+علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ (المتوفی:853 ھ) حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ نہ تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب یہ اس وجہ سے ہے کہ جن باتوں کی وہ خبر دے رہے ہیں وہ سچ اورجھوٹ دونوں کا احتمال رکھتی ہیں، اگر فی الواقع وہ سچ ہوں اور تم ان کی تکذیب کردویا اگر وہ جھوٹ ہوں اور تم اس کی تصدیق کردو تو دونوں اعتبار سے حرج اور تنگی میں پڑجانے کا اندیشہ ہے اس لیے ان کی بیان کردہ باتوں کو سن کر نہ تصدیق کی جائے نہ تکذیب؛ تاکہ فتنہ میں نہ پڑو۔
+(فتح الباری، حدیث نمبر:4125،شاملہ)دومتعارض حدیثوں کا جواب:
+اسرائیلیات کے عنوان میں دوحدیثیں ہیں ایک جو ابھی اوپر مذکور ہوئی دوسری حدیث ہے کہ:
+""حَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ""۔
+(ابو داؤد، بَاب الْحَدِيثِ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، حدیث نمبر:3177)اس حدیث سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ بنی اسرائیل کے بیان کردہ واقعات وغیرہ کے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ پہلی روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ بنی اسرائیل کے بیان کردہ واقعات پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے چہ جائیکہ ان کو بیان کیا جائے بظاہر دوحدیثوں میں باہم تعارض دکھائی دے رہا ہے، اس کا جواب دیتے ہوئے علامہمحمد حسینالذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو بنی اسرائیل سے بیان کرنے کی اجازت نظر آتی ہے وہ وہ واقعات اور عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات ہیں جن کے بارے میں معلوم بھی ہو کہ وہ سچ ہیں توان کو بیان کیا جا سکتا ہے اورپہلی حدیث میں توقف ہے کہ ان کے بیان کرنے میں احتیاط کی جائے تاکہ سچ اور جھوٹ میں اختلاط نہ ہو جائے اوراس خلط ملط کے نتیجہ میں حرج میں نہ پڑ جائے، خلاصہ یہ ہے کہ دوسری حدیث عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات کی اباحت پردلالت کرتی ہے اورپہلی حدیث ان مضامین کے بارے میں توقف پردلالت کرتی ہے جن میں عبرت ونصیحت سے ہٹ کر دیگر مضامین ہوں؛اس طرح کوئی بھی حدیث متعارض نہیں۔اس سلسلہ میں تقریباً علمائے امت نے ایک ہی جواب دیا، الفاظ وتعبیرات اگر چہ مختلف ہیں؛ لیکن حکم ایک ہی ہے، آگے ہم مختلف علما کرام کی تحریریں پیش کریں گے، سب سے پہلے شیخ الاسلام مفتیمحمد تقیعثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انھوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ:#پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہو چکی ہے مثلا:فرعونکا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔#دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہو چکا ہے، مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ)بت پرستیمیں مبتلا ہو گئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔#تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
+""لا تصدقوھا ولاتکذبوھا""۔
+اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جا سکتی ہے اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔
+(علوم القرآن:364)یہی بات علامہ محمد حسینی ذہبیؒ اور علامہ ابن تیمیہؒ وغیرہ نے بھی کہی ہے۔
+(الت��سیر و المفسرون للذھبی، باب ثانیا:الااسرائیلیات:4/14)مسند الہند امام شاہولی اللہمحدث دہلویؒ (المتوفی:1176) نے نہایت اختصار کے ساتھ مگر جامع بات لکھی ہے کہ تفسیر میں اسرائیلی روایتوں کو بیان کرنا دراصل یہ بھی ایک سازش ہے جبکہ یہ قاعدہ مسلم ہے کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ ان کی تکذیب کرو؛ لہٰذا اس قاعدہ کی بنیاد پر دوباتیں نہایت ضروری ہیں:#جب حدیث میں قرآن کریم کے اشارہ کی تفصیل موجود ہو تو اسرائیلی روایات کو تفسیر میں نقل نہیں کرنا چاہیے۔#قرآن کریم میں جس واقعہ کی طرف اشارہ آیا ہو اس کی تفصیل ضرورت کے بقدر ہی بیان کرنی چاہیے تاکہ قرآن کریم کی گواہی سے اس کی تصدیق ہو کیونکہ یہ بھی قاعدہ ہے کہ ضروری بات بقدر ضرورت مانی جاتی ہے۔
+(الفوزالکبیر مع شرح الخیر الکثیر:453)""وَجَاءُوْ عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ""۔
+(یوسف:18)اوریوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگاکر لے آئے۔#اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہیوسف علیہ السلامکے بھائیوں نے اپنے والد کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے کہ حضرت یوسف کو ایک بھیڑیے نے ہی کھا لیا ہے، ایک بھیڑیے کو باندھ کر حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب کے پاس لے آئے اور کہا کہ: ابا جان! یہی وہ بھیڑیا ہے جو ہماری بکریوں کے ریوڑ میں آتا رہتا ہے اور ان کو چیرتا پھاڑتا ہے، ہمارا خیال ہے کہ اسی نے ہمارے بھائی یوسف کا خون کیا ہے، بحضرت یعقوب نے بھیڑیے سے کہا قریب آؤ، قریب آؤ، وہ قریب آ گیا، اس سے کہا تم نے میرے بیٹے کو مار کر تکلیف پہنچائی اور مسلسل غم میں مبتلا کر دیا ہے، پھر حضرت یعقوب نے اللہ سے دعا کی کہا اللہ! تو اس کو گویائی دے، اللہ نے اس کو بولنا سکھا دیا، بھیڑیے نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنایا ہے، نہ میں نے اس کا گوشت کھایا نہ میں نے اس کی کھال ادھیڑی ہے، نہ میں نے اس کا ایک بال اکھیڑا ہے، قسم خدا کی آپ کے لڑکے سے میرا کوئی سروکار نہیں، میں ایک پردیسی بھیڑیا ہوں میں مصر کے اطراف سے اپنے ایک بھائی کی تلاش میں آیا ہوا ہوں، میں اس کی جستجو میں تھا کہ آپ کے لڑکوں نے میرا شکار کر لیا، ہم لوگوں پر انبیا اور رسولوں کا گوشت حرام کر دیا گیا ہے۔الخ۔
+(تفسیر ثعلبی:4/21)""فَاَلْقٰہَا فَاِذَا ہِىَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی""۔
+(طٰہٰ:20)انھوں نے اسے پھینک دیا، وہ اچانک ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گئی۔ اس آیت کے سلسلہ میں وہب بن منبہ کی ایک روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت موسی نے جب عصا کو زمین پر ڈالا تو دیکھا کہ وہ ایک عظیم الجثہ اژدہا بن گیا، لوگ حیرت و استعجاب اور خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، اژدہا اِدھر اُدھر رینگ رہا ہے، جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو، اژدہا رینگتا ہوا پہاڑ کی چٹانوں کے پاس پہنچ گیا تو بھوکے اونٹ کی طرح بیتابی کے ساتھ پوری چٹان نگل گیا، جب وہ اپنا منہ بڑے سے بڑے تناور درخت کی جڑوں پر لگا دیتا تھا تو اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتا تھا، اس کی دونوں آنکھیں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح تھیں؛ اس کے بال نیزوں کی طرح تھے۔الخ۔
+(تفسیر ابن کثیر:5/279)""أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْك""۔
+(البقرۃ:258)کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار( کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیمؑ سے بحث کرنے لگا؟ اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت میں نمرود کے بارے میں اس طرح لکھا ہوا ہے: ایک مچھر نمرود کی ناک میں گس گیا اور اس کی ناک میں چار سو سال تک بھنبھناتا رہا، اس مچھر کی اذیت کی وجہ سے نمرود انتہائی بے چین رہتا تھا اور مستقل عذاب میں مبتلا تھا اور جب تکلیف کی شدت اور بے چینی بڑھ جاتی تھی تو لوہے کی سلاخ سے یا ہتھوڑے سے اس کے سر کو ٹھونکا جاتا تھا جس سے مچھر کی اذیت کچھ ہلکی پڑتی تھی، اسی عذاب میں نمرود چار سو سال زندہ رہا پھر اسی اذیت کی وجہ سے مر گیا۔
+(تفسیر ابن کثیر:1/313)یہ تینوں روایتیں اسرائیلی خرافات میں سے ہیں، جیسا کے علما امت نے اس کی تصریح کی ہے۔(تفسیروں میں اسرائیلی روایات:444)قرآن کریم جو اللہ تبارک وتعالی کا عظیم ترین اور مقدس ترین کلام ہے اور رسول کریمﷺ کا حیرت انگیز ابدی و دائمی معجزہ ہے، جو ساری انسانیت کے لیے نسخہ ہدایت اوردستور حیات بنا کر نازل کیا گیا، جس سے مردہ دلوں کی مسیحائی ہوئی اورگم گشتہ راہ لوگوں کومنزلِ مقصود کا پتہ ملا، جس کی علمی، ادبی حلاوتوں، روحانی راحتوں اور معانی و مفاہیم کے بے پناہ وسعتوں نے ہر زمانہ کے انسانوں کو متاثر کیا اورقلب و نظر کی دنیا میں انقلاب کا ذریعہ ہے، سب سے بڑا اعجاز اس کلام مبارک کا یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے جو اس دنیا میں ازل سے کسی اورکتاب یا صحیفہ آسمانی کو نصیب نہیں ہوا اور علوم و معارف کے اس گنجینۂ گراں مایہ کی حفاظت اورخدمت کے لیے انسانوں ہی میں سے مختلف علوم کے مختلف افراد کا انتخاب فرمایا؛ چنانچہ الفاظ قرآنی کے لیے حفاظِ کرام کوسعادت حفظِ قرآن بخشی اور مرادِ ربانی منشائے نبوی کی صحیح تعیین و تشریح کے لیے حضرات مفسرین کو منتخب کیا؛ چنانچہ مفسرین کرام نے اپنی خداداد ذہانت اور تمام تر صلاحیت کو اس کلام الہٰی کی غواصی میں لگادیا؛ لیکن آج کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ تمام تر موتیوں اورعلم وحکمت کے جواہر پاروں کو اکٹھا کیا جاس کا، یہ کلام ایک بحر بیکراں ہے جس کی مختلف زبانوں میں علمائے امت نے اپنی صبح و شام کی محنتوں کا محور بنایا۔ آج انہی علما کرام اور مفسرین عظام کی کوششوں اور کاوشوں کا ثمرہ ہے کہ مختلف زبانوں میں قرآن کی تفسیر موجود ہے، ذیل میں ہم صرف تفسیر قرآن کی مختلف کتابوں کے نام مع اسمائے مصنفین و سنہ وفات پیش ہیں، جو شروع سے لے کر آج تک امت میں مقبول و متداول ہیں اور لاتعداد انسان ان کتابوں سے استفادہ کر رہے ہیں، پہلے عربی تفاسیر کے نام بعد ازاں اردو کتب تفاسیر رقم کی جا رہی ہیں۔عہد صحابہ اوراس کے بعد کے ادوار میں بھی تفسیر قرآن کے ماخذ کے طور پر یہودونصاریٰ رہے ہیں؛ کیونکہ قرآن کریم بعض مسائل میں عموماً اورقصص انبیا اور اقوام سابقہ کے کوائف واحوال میں خصوصاً تورات کے ساتھ ہم آہنگ ہے، اسی طرح قرآن کریم کے بعض بیانات انجیل سے بھی ملتے ہیں؛ مثلاً حضرتعیسیٰ علیہ السلامکی ولادت کا واقعہ اوران کے معجزات وغیرہ۔
+البتہ قرآن کریم نے جو طرز و منہاج اختیار کیا ہے وہ تورات وانجیل کے اسلوب بیان سے بڑی حد تک مختلف ہے، قرآن کریم کسی واقعہ کی جزئیات وتفصیلات بیان نہیں کرتا، بلکہ واقعہ کے صرف اسی جز پر اکتفاء کرتا ہے جو عبرت وموعظت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہوتا ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ تفصیلی واقعہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام اوربعد کے ادوار میں تابعین اورتبع تابعینحضرات اہل کتاب کے ان اہل علم سے جو حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے قرآن میں ذکر کردہ واقعات کی تفصیل کے واسطے رجوع کیا کرتے تھے، اسرائیلی روایات کا مدار وانحصار زیادہ تر حسب ذیل چار راویوں پر ہے:
+عبد اللہ بن سلامؓ، کعب احبار، وھب بن منبہ، عبد الملک بن عبد العزیزابن جریج، جہاں تک عبد اللہ بن سلام کی بات ہے تو آپ کے علم و فضل میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور ثقاہت و عدالت میں آپ اہل علم صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، آپ ؓ کے بارے میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں،امام بخاریؒ اورامام مسلمؒ اوردیگر محدثین نے آپ کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔
+کعب احبار بھی ثقہ راویوں میں سے ہیں، ا نہوں نےزمانہ جاہلیتکا زمانہ پایا اورخلافت صدیقی یا فاروقی میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ خلافت فاروقی میں آپ کے اسلام لانے کی بات مشہور تر ہے۔[38]آپ کے ثقہ اورعادل ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ اپنی جلالت قدر اورعلمی عظمت کے باوجود آپ سے استفادہ کرتے تھے، امام مسلمؒ نےصحیح مسلممیں کتاب الایمان کے آخر میں کعب سے متعدد روایات نقل کی ہیں، اسی طرح ابوداؤد، ترمذی اورنسائی نے بھی آپ سے روایت کی ہیں؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کعب احبار ان سب محدثین کے نزدیک ثقہ راوی ہیں۔اسی طرح وھب بن منبہ کی جمہور محدثین اورخصوصاً امام بخاری ؒ نے توثیق و تعدیل کی ہے، ان کے زہد وتقوی کے بارے میں بڑے بلند کلمات ذکر کیے ہیں، فی نفسہ یہ بڑے مضبوط راوی ہیں ؛البتہ بہت سے لوگوں نے ان کی علمی شہرت وعظمت سے غلط فائدہ اٹھایا کہ بہت سی غلط باتوں کو ان کی طرف منسوب کرکے اپنے قد کو اونچا کیا اورلوگوں نے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ابن جریج اصلاً رومی تھے، مکہ کے محدثین میں سے تھے، عہد تابعین میں اسرائیلی روایات کے مرکز ومحور تھے، تفسیر طبری میں نصاری سے متعلق آیات کی تفسیر کا مدار انہی پر ہے، ان کے بارے میں علما کے خیالات مختلف ہیں، بعض نے توثیق کی ہے تو بعض نے تضعیف بھی کی ہے، بکثرت علما آپ کو مدلس قرار دیتے ہیں اورآپ کی مرویات پر اعتماد نہیں کرتے، مگر بایں ہمہ امام احمد بن حنبلؒ ان کوعلم کا خزانہ قرار دیتے ہیں؛ بہرحال ابن جریج سے منقول تفسیری روایات کو حزم واحتیاط کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔کوئی ایسی کتاب جس میں خاص اسرائیلی(اہل کتاب کی) روایات کے جمع کرنے پر توجہ دی گئی ہوایسی توکوئی تفسیر نہیں ہے؛ البتہ آیات کی تفسیر میں عموماً کتب تفاسیر میں اسرائیلی روایات بھی ذکر کی گئی ہیں، جس کا علم راوی کو دیکھ کر یا پھر ان کی بیان کردہ باتوں کو اصول شرعیہ کی روشنی میں پرکھ کر معلوم کیا جا سکتا ہے، مولانا اسیر ادروی صاحب کی ایک کتاب اردو میں"" تفسیروں میں اسرائیلی روایات"" کے نام سے آچکی ہے، جس کے مقدمہ میں اسرائیلی روایات سے متعلق عمدہ بحث اکٹھا کردی ہے اورپھر جو اسرائیلی روایات ان کو معلوم ہوسکیں ان پر الگ الگ کلام کیا ہے اورمعتبر تفاسیر سے ان کا اسرائیلی روایات کے قبیل سے ہونا بھی ظاہر کیاہے، تفصیل کے لیے اسی کتاب کی طرف رجوع کیا جائے۔
+یہاں پر چند عربی اور اردو تفاسیرکے نام لکھے جا رہے ہیں اور اردومیں صرف مستند تفاسیر کے نام لکھے گئے ہیں۔""نسخ"" کے لغوی معنی ہیں مٹانا، ازالہ کرنا، اوراصطلاح میں اس کی تعریف یہ ہے :
+رَفْعُ الْحُکْمِ الشَّرَعِیِّ بِدَلِیْلٍ شَرَعِیٍّ(مناہل العرفان:ماھو النسخ2/176)""کسی حکم شرعی کو کسی شرعی دلیل سے ختم کردینا""
+مطلب یہ ہے کہ بعض مرتبہ اللہ تعالی کسی زمانے کے حالات کے مناسب ایک شرعی حکم نافذ فرماتا ہے پھر کسی دوسرے زمانے میں اپنی حکمت بالغہ کے پیش نظر اس حکم کو ختم کرکے اس جگہ کوئی نیا حکم عطا فرمادیتا ہے اس عمل کو نسخ کہا جاتا ہے اور اس طرح جو پرانا حکم ختم کیا جاتا ہے اس کومنسوخ اور جو نیا حکم آتا ہے اسے ناسخ کہتے ہیں۔ نسخ کا مطلب رائے کی تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ ہر زمانے میں اس دور کے مناسب احکام دینا ہوتا ہے، ناسخ کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ منسوخ کو غلط قرار دے؛بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے حکم کی مدت نفاذ متعین کر دے اور یہ بتادے کہ پہلا حکم جتنے زمانے تک نافذ رہا اس زمانے کے لحاظ تووہی مناسب تھا لیکن اب حالات کی تبدیلی کی بنا پر ایک نئے حکم کی ضرورت ہے، جو شخص بھی سلامتِ فکر کے ساتھ غور کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تبدیلی حکمت الہٰیہ کے عین مطابق ہے، حکیم وہ نہیں جو ہر قسم کے حالات میں ایک ہی نسخہ پلاتا رہے بلکہ حکیم وہ ہے جو مریض اور مرض کے بدلتے ہوئے حالات پر بالغ نظری کے ساتھ غور کرکے نسخہ میں ان کے مطابق تبدیلیاں کرتا رہے۔متقدمین کی اصطلاح میں نسخ کا مفہوم بہت وسیع تھا، اسی لیے انھوں نے منسوخ آیات کی تعداد بہت زیادہ بتائی ہے لیکن علامہجلال الدین سیوطیرحمہ اللہ نے متأخرین کی اصطلاح کے مطابق لکھا ہے کہ پورے قرآن میں کل انیس آیتیں منسوخ ہیں۔
+(الاتقان، علامہ سیوطی:2،22)پھر آخری دور میںشاہ ولی اللہصاحب محدث دہلویؒ نے ان انیس آیتوں پر مفصل تبصرہ کرکے صرف پانچ آیتوں میں نسخ تسلیم کیا ہے اور باقی آیات میں ان تفسیروں کو ترجیح دی ہے جن کے مطابق انھیں منسوخ ماننا نہیں پڑتا ان میں سے اکثر آیتوں کے بارے میں شاہ صاحب کی توجیہات نہایت معقول اور قابل قبول ہیں لیکن بعض توجیہات سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، جن پانچ آیات کو انھوں نے منسوخ تسلیم کیا ہے وہ یہ ہیں :#کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْن۔
+(البقرۃ: 180)جب تم میں سے کسی کے سامنے موت حاضر ہو جائے اگر وہ مال چھوڑ رہا ہو تو اس پر والدین اور اقرباء کے لیے وصیت بالمعروف کرنا فرض قرار دیدیا گیا ہے، یہ حکم متقیوں پر لازم ہے۔ یہ آیت اس زمانے میں لازم تھی جب میراث کے احکام نہیں آئے تھے اور اس میں ہر شخص کے ذمے یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے ترکہ کے بارے میں وصیت کرکے جائے کہ اس کے والدین یا دوسرے رشتہ دار کو کتنا کتنا مال تقسیم کیا جائے؟بعد میں آیات میراث یعنی یوصیکم اللہ فی اولادکم، الخ (النساء:11) نے اس کو منسوخ کر دیا اور اللہ تعالی نے تمام رشتہ داروں میں ترکے کی تقسیم کا ایک ضابطہ خود متعین کر دیا اب کسی شخص پر مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض نہیں رہا۔
+سورہ ٔ انفال میں ارشاد ہے :
+إِنْ یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُونَ۔
+(الأنفال:65)اگر تم میں سے بیس آدمی استقامت رکھنے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے کیونکہ یہ کافر ایسے لوگ ہیں جو صحیح سمجھ نہیں رکھتے۔یہ آیت اگرچہ بظاہر ایک خبر ہے لیکن معنی کے لحاظ سے ایک حکم ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنے سے دس گنازائددشمن کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں یہ حکم اگلی آیت کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا :
+اَلآنَ خَفَّفَ اللّہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّ��َۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْْنِ بِإِذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔
+(الأنفال:66)اب اللہ نے تمھارے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اللہ کو علمٹ ہے کہ (اب)تم میں کچھ کمزوری ہے پس اب اگر تم میں سے ایک ہزار افراد استقامت رکھنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب ہوں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس آیت نہ پہلی آیت کے حکم میں تبدیلی پیدا کردی اور دس گنے دشمن کی بجائے دوگنے کی حد مقرر کردی کہ اس حد تک راہ فرار اختیار کرنا جائز نہیں۔ تیسری آیت جسے شاہ صاحب نے منسوخ قرار دیا ہے سورۂ احزاب کی یہ آیت ہے :
+لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُہُن۔
+(الاحزاب:52)(اے نبی )آپ کے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہحلالہے کہ ان(موجودہ ازواج) کو بدل کر دوسری عورتوں سے نکاح کریں خواہ ان کا آپ کا حسن پسند آئے۔اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید نکاح کرنے سے منع فرمادیا گیا تھا بعد میں یہ حکم منسوخ کر دیا گیا اور اس کی ناسخ آیت وہ ہے جو قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں مذکور بالا آیت سے پہلے مذکور ہے یعنی:
+""یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْتَ أُجُورَہُنَّ""۔
+(الاحزاب:50)(اے نبی) ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ ازواج حلال کردی ہیں جنھیں آپ نے ان کا مہر دے دیا ہو۔شاہ صاحب وغیرہ کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ سابقہ ممانعت منسوخ ہو گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں نسخ یقینی نہیں ہے’ بلکہ اس کی وہ تفسیر بھی بڑی حد تک بے تکلف اور سادہ ہے جو حافظ ابن جریر نے اختیار کی ہے یعنی یہ کہ یہ دونوں آیتیں اپنی موجودہ ترتیب کے مطابق ہی نازل ہوئی ہیں:
+یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ۔
+(الاحزاب:50)والی آیت میں اللہ تعالی نے کچھ مخصوص عورتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ نکاح آپ کے لیے حلال ہے پھر اگلی آیت لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْد(احزاب:) میں ارشاد فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ دوسری عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں۔
+(تفسیر ابن جریر)یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیْْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً ذَلِکَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَأَطْہَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔
+(المجادلہ: 12)اے ایمان والو جب تم کو رسول سے سرگوشی کرنی ہو تو سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ کر دیا کرو یہ تمھارے لیے باعث خیر وہ طہارت ہے پھر اگر تمھارے پاس (صدقہ کرنے کے لیے) کچھ نہ ہوتو اللہ تعالی بخشنے والا اور مہربان ہے، یہ آیت اگلی آیت سے منسوخ ہو گئی۔أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللہُ عَلَیْْکُمْ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَأَطِیْعُوا اللہ وَرَسُولَہُ۔
+(المجادلہ:13)کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقات پیش کرو پس جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تمھاری توبہ قبول کرلی (اب)نماز قائم رکھو اور زکوۃ ادا کرتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو""اس طرح سرگوشی سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم منسوخ قرار دیا گیا۔ پانچویں آیت سورۂ مزمل کی مندرجہ ذیل آیات ہے :# یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ#قُمِ اللَّیْْلَ إِلَّا قَلِیْلاً#نِصْفَہُ أَوِ انقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً
+اے مزمل(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں)رات کو (تہجد میں) کھڑے رہی ے مگر تھوڑا سا حصہ آدھی رات یا اس میں سے بھی کچھ کم کردیجیے""اس آیت میں رات کے کم از کم آدھے حصہ میںتہجدکی نماز کا حکم دیا گیا تھا، بعد میں اگلی آیتوں نے اس میں آسانی پیدا کرکے سابقہ حکم منسوخ کر دیا وہ آیتیں یہ ہیں:عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوہُ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ :الخ
+(المزمل: 20)""اللہ کو معلوم ہے کہ تم (آئند)ہے اس حکم کی پابندی نہیں کرسکوگے اس لیے اللہ نے تمھیں معاف کر دیا پس تم( اب) قرآن کا اتنا حصہ پڑھ لیا کرو جو تمھارے لیے آسا ن ہو۔
+شاہ صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ تہجد کا حکم واجب تو پہلے بھی نہیں تھا؛ لیکن پہلے اس میں زیادہ تاکید بھی اور اس وقت بھی زیادہ وسیع تھا بعد میں تاکید بھی کم ہو گئی اور وقت کی اتنی پابندی بھی نہ رہی۔یہ ہیں وہ پانچ آیتیں جن میں شاہ صاحب کے قول کے مطابق نسخ ہوا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ پانچ مثالیں صرف اسصورت کی ہیں جس میں ناسخ اور منسوخ دونوں قرآن کریم کے اندر موجود ہیں اس کے علاوہ ایسی مثالیں قرآن کریم میں باتفاق بہت سی ہیں جن میں ناسخ تو قرآن کریم میں موجود ہے لیکن منسوخ موجود نہیں ہے مثلاًتحویل قبلہکی آیات وغیرہ۔
+(علوم القرآن:172)لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+162,آن لائن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D9%86_%D9%84%D8%A7%D8%A6%D9%86,آن لائن(Online :انگریزی) ایک مفہومیلفظہے جو خطوط کی سطح پر یا براہ خط کا مفہوم ادا کرتا ہے ، ایسی کسی بھی چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی بڑےشراکی نظامیا نیٹ ورک سسٹم (بطور خاص،شمارندی شراکہیعنی computerآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ foxtodaynews.org(Error: unknown archive URL)network) سے متصل ہو۔ بالفاظ دیگر اس شراکے میں موجودآلات،عقدے (nodes)یاشمارندےایک خطی حیثیت میں مسلسل تصور کیے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے ان پر موجود کوئی بھیموادیاڈیٹا(جو منتقل کیا جا رہا ہو) وہ خطوط پر ہونے کا تصور پیدا کرتا ہے اور اسی تصور سے یہ لفظ یعنی برخط یا آن لائن وجود میں آتا ہے۔
+163,اسباب نزول,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B3%D8%A8%D8%A7%D8%A8_%D9%86%D8%B2%D9%88%D9%84,تعریف:اسباب نزول سے مراد وہ واقعات، حوادث اور سوالات ہیں جو کسی آیت یا چند آیات کے نزول کا باعث بنے۔ مثلاً قریش نے آنحضرتﷺسے روح، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا تو ان کے جواب میں سورۃ کہف نازل ہوئی۔ ایسا بھی ہوا کہ آنحضرت ﷺ یا صحابہ ؓ کے دل میں کوئی خیال آیا اور جلد ہی اس کے مطابق کوئی آیت یا آیات نازل ہو گئیں او روہ آرزو ان کا سبب نزول بن گئی۔ مثلاً: آپ ﷺ کا بار بار آسمان کی طرف چہرہ مبارک کو کرنا تاکہ قبلہ تبدیل ہوجائے اور پھر قبلہ تبدیل ہو گیا۔ سیدنا عمر ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کی:یا رسول اللہ! اگر ہم مقام ابراہیم کو مصلی بناتے تو اچھا ہوتا۔ اسی وقت آیت{وَاتَّخِذُوْا مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی} (البقرۃ:125)نازل ہوئی۔سبب نزول کی بنیاد پر آیات کی تقسیم:سبب نزول کی بنا پر قرآنی آیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ وہ آیات جو بغیر کسی سبب کے نازل ہوئیں۔ مثلاً: انبیا کے قصے، مستقبل کے واقعات، قیامت کی منظر کشی اور عذاب وثواب کے ذکر پر مشتمل آیات۔ قرآن مجید کا غالب حصہ انہی آیات کا ہے۔ مثلاًًاللہ تعالی کا یہ ارشاد{وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللّٰہ�� لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَں} (التوبۃ:75) یہ آیت کچھ منافقین کے حالات بیان کرنے کے لیے شروع میں نازل ہوئی۔وہ آیات جن کے نزول کا کوئی نہ کوئی سبب تھا۔ مثلاً:احکام و اخلاقیات کی زیادہ تر آیات۔اس سبب میں:٭ … یا تو کوئی سوال ہوتا جس کا جواب اللہ تعالی مرحمت فرماتے جیسے: {یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِقُلْ ہیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجَِ} (البقرۃ:189)لوگ آپ سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورت کے بارے میں پوچھتے ہیں؟کہئے کہ یہ لوگوں کے مقرر اوقات کے لیے اور حج کے لیے ہیں۔٭… یا نزول کا سبب کوئی حادثہ ہوتا مگر اس کے لیے وضاحت وتنبیہ کی ضرورت ہو تی ہے۔امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:{وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ}(التوبۃ:65)منافق شخص کے بارے میں یہ آیات اتریں جس نے غزوہ تبوک میں کسی محفل میں یہ زبان درازی کی: ہم نے پیٹ کا شوقین، زبان کا جھوٹا اور وقت لڑائی انتہائی بزدل انسان اپنے ان قراء جیسا کسی کو نہیں پایا۔اس کی مراد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ رسول تھے۔آپ ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو یہ منافق معذرت کرتا ہوا حاضر ہوا تو آپ ﷺ کی طرف سے اللہ تعالی نے یہ جواب دیا:{قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُ وْن ں} (التوبہ:65)٭… یا کوئی ایسا کام ہوا ہو جس کا حکم معلوم نہ ہو ۔ جیسے:{قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِلَی اللّٰہِِقصلے وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَاط اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌمبَصِیْرٌ }(المجادلۃ:1)یقیناً سن لی اللہ نے اس عورت کی بات جو اپنے خاوند کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی اور اللہ کی جناب میں وہ شکایت کررہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو کو سن رہا تھا بیشک اللہ تعالی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ققرآن 23 سال کے عرصہ میںتھوڑا تھوڑاکر کے نازل ہوا۔ جو اکثر حالات و واقعات کے مطابق ہوتا تھا۔ قرآن کی موجودہ ترتیب وہ نہیں ہے جس سے یہ نازل ہوا تھا۔ جن حالات و واقعات، اعتراضات و استفسارات وغیرہ کے جواب میں قرآن کا جو حصہ نازل ہوا۔ وہ وجہ یا سبب ہی ان آیات یا سورہ یا سبب نزول کہلاتا ہے۔ جو عام طور پر سبب کی جمع اسباب کے ساتھ بطور اصطلاح بولا اور لکھا جاتا ہے۔فی کذاکی اصطلاحصحابہاورتابعینکے دور میں اسباب نزول کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ وہ اس اصطلاح کو دور رسالت میں واقع ہونے والے کسی ایک واقعہ کے لیے بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ جن پر آیت صادق آتی تھی۔ بعض دفعہ جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سوال پیش کیا جاتا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں کبھی کوئی خاص واقعہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے مواقع پر قرآن کی کسی آیت سے کوئی حکم مستنبط فرمایا تو ساتھ ہی اس آیت کی تلاوت بھی فرما دی، صحابہ اس طرح کے مواقع پر بھی وہی اصطلاح استعمال کرتے تھے اور اس قسم کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھےنزلت فی کذااس بارے میں نازل ہوا۔مفسرین اسباب نزول بیان کرتے وقت کئی قسم کے امور پیش کرتے ہیں۔شاہولی اللہفرماتے ہیں : قرآن صرف لوکوں کے نفسوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور فاسد اعمال کی اصلاح کے لیے نازل ہوا ہے۔ لہذا مختلف قسم کی آیات کے اسباب نزول بھی مختلف ہیں۔ مثلا:
+164,نسخ (قرآن),https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D8%A7%D8%B3%D8%AE_%D9%88_%D9%85%D9%86%D8%B3%D9%88%D8%AE,"نسخ(باب فتح) مصدر بمعنی زائل کرنا۔ بدل دینا۔ بیکار کر دینا۔ ایک چیز کو دوسری جگہ قائم کرنا۔ صورت بدل دینا۔ لکھنا۔ الا ستنساخ (باب اسفعال) کے معنی کسی چیز کے لکھنے کو طلب کرنے یا لکھنے کے لیے تیار ہونے کے ہیں لیکن بمعنی نسخ (لکھنا) بھی قرآن مجید میں آیا ہے۔منسوخی، بطلان، تنسیخ، منسوخ کرنا، زائل کرنا، دور کرنا[2]نسخ کے لغوی معنی تو منسوخ کرنے کے ہیں، لیکن شرعیاصطلاحمیں ایک حکم بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں یہ نسخ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا جیسےآدم علیہ السلامکے زمانے میں سگے بہن بھائی کا آپس میں نکاح جائز تھا بعد میں اسے حرام کر دیا گیا وغیرہ، اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔[3]لغت میں نسخ کے دو معنی ہیں، ایک معنی لکھنا اور نقل کرنا‘ اس اعتبار سے تمام قرآن منسوخ ہے، یعنی لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے بیت العزت کی طرف نقل کیا گیا ہے‘ قرآن مجید میں نسخ کا لفظ لکھنے اور نقل کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے :بیشک ہم لکھتے رہے جو کچھ تم کرتے تھے۔
+نسخ کا دوسرا معنی ہے : کسی چیز کو باطل اور زائل کرنا‘ اور اس کی دو قسمیں ہیں : # کسی چیز کو زائل کرکے دوسری چیز کو اس کے قائم مقام کر دیا جائے جیسے عرب کہتے ہیں کہ بڑھاپے نے جوانی کو منسوخ کر دیا یعنی جوانی کے بعد بڑھاپا آگیا‘ سورہ البقرہ کی آیت 106میں ہے : ہم جس آیت کو منسوخ کرتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی دوسری آیت لے آتے ہیں۔مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ-أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍاس کی تعریف یہ ہے دلیل شرعی سے کسی حکم شرعی کو زائل کرنا۔
+(ب) کسی چیز کا قائم مقام کیے بغیر اس کو زائل کر دیا جائے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم اس کو محو کردیتے ہیں یعنی ہم تمھارے ذہنوں اور دلوں سے اس آیت کو نکال دیتے ہیں‘ پس وہ آیت یاد آتی ہے نہ اس کو پڑھا جاتا ہے۔[4]"
+166,پاکستان کی انتظامی تقسیم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86_%DA%A9%DB%8C_%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%B8%D8%A7%D9%85%DB%8C_%D8%AA%D9%82%D8%B3%DB%8C%D9%85,باب سیاستپاکستان کو وفاقی دار الحکومت، چار صوبوں،آزاد کشمیراورگلگت و بلتستانمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو اس کے بڑے بڑے علاقے ہیں۔ سرکاری طور پر پاکستان کے چار صوبے اور ایک وفاقیدار الحکومتہے جس کے لیے آپ دیکھ سکتے ہیں:پاکستان کی انتظامی اکائیاں۔ مگر اس کے علاوہ چند علاقے ہیں جو ابھی باقاعدہ پاکستان میں شامل نہیں کیے جاتے اور ان کی آزاد حیثیت برقرار ہے جیسےآزاد کشمیر،قبائلی علاقےاورگلگت و بلتستان۔ لیکن اس کے باوجود یہ علاقے عملی طور پر پاکستان کے زیرِ اختیار ہیں چنانچہ انھیں پاکستان کا حصہ کہا جاتا ہے۔فاٹاپاکستان کے صوبوں کو اضلاع میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اگست 2000ء تک صوبوں کو ڈویژن اور ڈویژن کو اضلاع میں تقسیم کیا جاتا تھا مگر اگست 2000ء میں ڈویژن ختم کر دیے گئے اور اب صوبوں کو اضلاع میں تقسیم کیا جاتا ہے۔[1]پاکستان کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ویب گاہ (ویب گاہ)[1]کی معلومات (120مثلاً اضلاع) اور پاکستان کی وفاقی ادارہ برائے شماریات کے ویب گاہ[2]پر 14 نومبر 2009ء کو پائے جانے والی معلومات (مثلاً اضلاع کی تعداد 113) میں فرق تھا اور دونوں میں اضلاع کی تعداد اص�� سے کم بتائی گئی تھی کیونکہ نئے اضلاع تشکیل پائے تھے۔ اسی طرح وزارتِ اطلاعات کے ویب گاہ پر گلگت و بلتستان کا تذکرہ نہیں حالانکہ گلگت و بلتستان میں انتخابات بھی ہو چکے ہیں اور اس کا آرڈیننس جاری ہوئے اب کئی ماہ ہو گئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نیچے دی گئی معلومات ان دونوں مواقع الجال (ویب سائٹس) کے مدد کے علاوہ دوسرے ذرائع بشمول انگریزی ویکیپیڈیا سے مرتب کی گئی ہیں۔پاکستان کو مختلف درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سب سے پہلا درجہوفاقہوتا ہے جو پوری ملک پر اختیار رکھتی ہے۔ دوسرا درجہصوبہہے جو ایک مخصوص صوبے میں مختار ہوتی ہے اور اس کو پھر مزید ڈیوژنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تیسراں درجہڈیوژنہوتا ہے جس کو پھر مزیدضلعوںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ چوتھا درجہ ضلع ہے جس کو مزید تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پانچواں درجہتحصیلہوتا ہے جس کو مزید یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ چھٹا درجہیونین کونسلہوتا ہے ۔جنوبی پنجاب(جنوبی پنجاب)-جنوبی پنجاب سیکرٹریٹذیل کی تصویر پاکستانی نظام حکومت کی چھ سطحوں کا تعین کرتی ہے۔
+167,پنجاب، پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%A8%D8%8C_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پنجابپاکستانکا ایک صوبہ ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پنجاب میں رہنے والے لوگپنجابیکہلاتے ہیں۔ پنجاب جنوب کی طرفسندھ، مغرب کی طرفخیبرپختونخوااوربلوچستان، شمال کی طرفکشمیراوراسلام آباداور مشرق کی طرف ہندوستانی پنجاب اورراجستھانسے ملتا ہے۔ پنجاب میں بولی جانے والی زبان بھی پنجابی کہلاتی ہے۔ پنجابی کے علاوہ وہاں کردستانی ،بلوچوں اورعربینژادوں کی کافی تعداد ہے۔ پنجاب کا دار الحکومتلاہورہے۔ پنجاب سب سے بڑا بارہ کروڑ آبادی والا صوبہ ہے۔پنجابفارسىزبان كے دو لفظوںپنجبمعنی پانچ(5) اورآببمعنی پانی سے مل کر بنا ہے۔ان پانچ درياؤں كے نام ہيں:پنجاب کا صوبائی دار الحکومت لاہور، پاکستان کا ایک ثقافتی، تاریخی اور اقتصادی مرکز ہے جہاں ملک کی سنیما صنعت اور اس کے فیشن کی صنعت ہے۔عید الفطر،عید الاضحی،شبِ براتاورعید میلاد النبیپنجاب کے علاوہ پورے پاکستان میں خاص تہوار ہیں اور پورے جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ ان تہواروں کے علاوہرمضانکا پورا مہینہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔
+مگر بسنت ایک ایسا تہوار ہے جو پنجاب سے منسلک ہے۔ یہ تہوار بہار کے موسم کو خوش آمدید کہنے کا ایک خاص طریقہ ہے۔ جس میں لوگپتنگاڑا کر اور پنجاب کے خاص کھانے بن ا کر اور کھا کراس تہوار کو مناتے ہیں۔ مگر بہت سے لوگ بسنت منانے کے خلاف ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے کئی معصوم لوگ اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔پنجاب رقبے کے لحاظ سےبلوچستانکے بعدپاکستانکا دوسرا بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ 205,346 مربع کلومیٹر (79,284 مربع میل) ہے۔ یہ پاکستان کے کل رقبے کا 25.8 فیصد ہے۔ صوبہ پنجاب کی سرحد جنوب میںسندھ، جنوب مغرب میںصوبہ بلوچستان، مغرب میںصوبہ خیبر پختونخواہاور شمال میںاسلام آباددار الحکومت اورآزاد کشمیرسے ملتی ہے۔ پنجاب کی سرحدیں شمال میںجموں و کشمیراور مشرق میںبھارتیریاستپنجاباورراجستھانسے ملتی ہیں۔دار الحکومت اور سب سے بڑا شہرلاہورہے جو پنجاب کے وسیع علاقے کا تاریخی دار الحکومت تھا۔ دیگر اہم شہروں میںفیصل آباد،راولپنڈی،گوجرانوالہ،سرگودھا،ملتان،سیالکوٹ،بہاولپور،گجرات،منڈی بہاؤالدین،شیخوپورہ،جہلماورساہیوالشامل ہیں۔ پنجاب کی جغرافیہ میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کے پانچوں بڑے دریاؤں کا گھر ہے۔ وہ پانچ دریا یہ ہیں:اس کے علاوہ اس خطے میںریگستانبھی موجود ہیں جو پاک بھارت سرحد کے قریب ہیں خاص طور پر بھارتی صوبےراجستھانکے پاس۔ دیگر ریگستانوں میںصحرائے تھلاورصحرائے چولستانشامل ہیں۔فروری سے پہلے پنجاب میں بہت سردی ہوتی ہے اور پھر اس مہینے سے موسم میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے اور موسم خوشگوار ہونے لگتا ہے۔ مارچ اور اپریل میں بہار کا موسم رہتا ہے اور پھر گرمیاں شروع ہونے لگتی ہیں۔گرمیوں کا موسم مئی سے شروع ہوتا ہے تو ستمبر کے وسط تک رہتا ہے۔ جون اور جولائی سب سے زیادہ گرم مہینے ہیں۔ سرکاری معلومات کے مطابق پنجاب میں C°46 تک درجہ حرارت ہوتا ہے مگر اخبارات کی معلومات کے مطابق پنجاب میں C°51 تک درجہ حرارت پہنچ جاتا ہے۔ سب سے زیادہ گرمی کا ریکارڈ ملتان میں جون کے مہینے میں قلمبند کیا گیا جب عطارد کا درجہ حرارت C°54 سے بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ برسات یا مونسون کا موسم بھی جون سے شروع ہو کر ستمبر تک رہتا ہے۔ ستمبر کے اواخر میں گرمی کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اکتوبر کے بعد پنجاب میں سردی کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں دسمبر اور جنوری میں شدید دھند پڑتی ہے، جس کے باعث ملکی و غیر ملکی آمد و رفت متاثر ہوتی ہے۔یہ صوبہپاکستانکی نصف سے زیادہ آبادی کا گھر ہے اور یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ذیلی قومی ادارہ ہے اورچیناوربھارتکے بعد سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے۔ پاکستان میں پنجاب میں غربت کی شرح سب سے کم ہے، حالانکہ صوبے کے شمالی اور جنوبی حصوں کے درمیان تقسیم موجود ہے۔ صوبے کے خوش حال شمالی حصے میں واقعضلع سیالکوٹمیں غربت کی شرح 5.63% ہے، جب کہ غریب ترین جنوبی میں واقعضلع راجن پورمیں غربت کی شرح 60.05% ہے۔پنجاب کی زبانیں(2017ء مردم شُماری)[1]پنجاب میں بولی جانے والی بڑی مادری زبانپنجابیہے، جو ملک میں بولی جانے والی سب سے بڑی زبان کی نمائندگی کرتی ہے۔ پنجابی کو پنجاب کی صوبائی زبان کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن قومی سطح پر پاکستان کے آئین میں اسے کوئی سرکاری سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پنجابی سے گہرا تعلق رکھنے والی کئی زبانیں اس خطے میں بولی جاتی ہیں۔ پنجاب کے جنوبی حصے میں اکثریتی زبانسرائیکیہے جبکہ شمال میںہندکواورپوٹھواری لہجہبولنے والے ہیں۔پشتوبھی پنجاب کے کچھ حصوں میں بولی جاتی ہے، خاص طور پراٹک،میانوالیاورراولپنڈیکے اضلاع میں۔پنجاب میں مذاہبِ (2017 مردم شُماری)[2][3]پنجاب (پاکستان) کی آبادی کا تخمینہ 110,012,942 ہے، جس میں 2017ء کی مردم شماری کے مطابق، 107,558,164 یعنی (92%)مسلمانہیں۔ سب سے بڑی غیر مسلم اقلیت عیسائی ہیں اور ان کی آبادی 2,068,233 یعنی (2.5%) ہے۔ ہندو تقریباً 220,024 افراد ہیں یعنی آبادی کا (0.8%)۔ دیگر اقلیتوں میں سکھ، پارسی اور بہائی شامل ہیں۔حکومت پنجاب،پاکستانکے وفاقی ڈھانچے میں ایک صوبائی حکومت ہے، جو صوبہ پنجاب کے دار الحکومتلاہورمیں واقع ہے۔وزیر اعلیٰ(سی ایم) کوپنجاب کی صوبائی اسمبلیمیں صوبائی حکومت کے سربراہ کے طور پر کام کرنے کے لیے منتخب کرتی ہے۔ موجودہ وزیر اعلیٰچوہدری پرویز الٰہیہیں جو 26 جولائی 2022ء کو قومی اسمبلی سے منتخب ہوئے۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی صوبہ پنجاب کے منتخب نمائندوں کی یک ایوانی مقننہ ہے جو پاکستان میں لاہور میں واقع ہے۔ یہ اسمبلیآئین پاکستانکے آرٹیکل 106 کے تحت قائم کی گئی تھی جس کی کل 371 نشستیں تھیں، جن میں سے 66 خواتین کے لیے اور آ��ھ غیر مسلموں کے لیے مخصوص تھیں۔"
+168,پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پاکستان (رسمی نام:اسلامی جمہوریۂ پاکستان- انگریزی میں: PAKISTAN)جنوبی ایشیاکے شمال مغربوسطی ایشیااورمغربی ایشیاکے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختاراسلامیملکہے۔ یہ دنیا کاپانچواںسب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کیدوسریسب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کاتینتیسواں(33) بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کےجنوبمیں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جوبحیرہ عربسے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميںبھارت، شمال مشرق ميںچیناور مغرب ميںافغانستاناورايرانواقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگواخان راہداریتاجکستانسے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدودعمانکے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم تریندنیامیں وہ علاقے تھے جن میںموہنجوداڑواورانڈس سولائیزیشنمہر گڑھٹیکسلاپراچین سنسکرت دوراور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسےقندھاراتہذیبو تمدن تھی۔ اس علاقے پرپراچین راجپوتایرانییونانیعرب،بدھ مت،سکھ،مغل،ہن سفیداورترکحملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسےچندر گپت موریا،ہخامنشی سلطنتعربوں کیخلافت امویہ،مغلیہ سلطنت،درانی سلطنت،سکھ سلطنتاوربرطانوی راجکا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعدمحمد علی جناحکی قیادت میںتحریک پاکستانکامیاب ہوئی اور14 اگست1947ءکوہندوستانکے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اورخودمختاراسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین1956ءمیں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.1971ءمیں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملکبنگلہ دیشبن گیا۔پاکستانوفاقیپارلیمانیجمہوری ریاستکے تحت چلتا ہے۔ اس کےپانچ صوبے ہیں اور کچھ علاقے وفاقی حکومتکے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کیفوجدنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسریایٹمی طاقتہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 42https://www.worlddata.info/asia/pakistan/economy.phpویں نمبر پر ہے۔پاکستان کی تاریخفوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سے جھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملکمؤتمر عالم اسلامی،اقوام متحدہ،دولت مشترکہ ممالک،سارک،ترقی پذیر 8،اقتصادی تعاون تنظیمجیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔[7]پاکستان کے لفظی معنیپاک لوگوں کی سر زمینہے، پاک کےاردواورفارسیمیں معنی خالص اور صاف کے ہیں اورستانکا مطلب زمین یا وطن کا ہے-1933ءمیںچودھری رحمت علینے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہاب یا کبھی نہیںشائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔لفظپاکستاناس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔پپنجاب،اخیبر پختونخوا(افغانیہ)،ککشمیر،سسندھ،تانبلوچستان۔711ءمیںامویخلیفہولید بن عبدالملککے دور میںمحمد بن قاسمبرصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوںبرصغیر(موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑیعربریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کادار الحکومتدمشق، زبانعربیاور مذہباسلامتھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پرعربدنیاسے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اورجنوبی ایشیاکی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔سن1947ءسے پہلےبھارت، پاکستان اوربنگلہ دیشبرطانویکالونیاں تھیں اوربرّصغیرکے نام سے جانے جاتے تھے۔ہندوستان کی آزادی(انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران میںہندوستانکےمسلمانوںنے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ ""پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ"" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحتتحریک پاکستانوجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادتمحمد علی جناحنے کی۔14 اگست1947ءکو پاکستان وجود میں آیا۔تقسیمبرصغیر پاک و ہندکے دوران میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اوربھارتکے درمیان میں1948ءاور1965ءمیںکشمیرکے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریابھارتکے زیر انتظامکشمیرسے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو1960ءمیںانڈیاکے ساتھسندھ طاس معاہدہکرنا پڑا، جس کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاؤں،ستلج،بیاساورراویسے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہدریائے سندھ،چناباورجہلمپر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔1947ءسے لے کر1948ءتک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہبھارتنے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ریاست بہاولپورکے نوابصادق محمد خان پنجمنے اس وقت پاکستان کی مالی مدد کی۔پاکستان بطور برطانوی ڈامنینئن آزاد ہوا تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور پہلےوزیر اعظملیاقت علی خان تھے۔ پاکستان کی عبوری حکومت ١١ اگست ١٩٤٧ کو تشکیل دی گئی تھی۔ 1948 میں قائد اعظم ٹی بی سے وفات پا گئے۔1951ءمیں پستول کی گولی کا شانہ بنا کر[لیاقت علی خان]] کو شہید کر دیا گیا۔1951ءسے1958ءتک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔1956ءمیں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ1958ءمیں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیمجنرل ایوبکے دور آمریت میں بنائے گئے۔جنرل ایوبکے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکنمشرقی پاکستاندور ہوتا گیا۔1963ءمیں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگرمشرقی پاکستانکے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ایوب خانعوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علاحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انھوں نے حکومت اپنے فوجی پیش روجنرل یحییٰ خانکے حوالے کر دی۔1971ءکے عام انتخابات میںمشرقی پاکستانسے عوامی لیگ کی واضحکامیابیکے باوجود فوجی حکمرانیحییٰ خاننے اقتدار کی منتقلی کی بجائےمشرقی پاکستانمیں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہہندوستاننے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکاردسمبر1971ءمیںسقوط ڈھاکہہو گیا اورمشرقی پاکستانایک علاحدہ ملکبنگلہ دیشکی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔1972ءسے لے کر1977ءتک پاکستان میںپاکستان پیپلز پارٹیکی حکومت تھی۔ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے صدراور بعد ازاںوزیر اعظمرہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسل��مک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں1977ءمیں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔اگلا دور1977ءتا1988ءمارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمرانجنرل ضیا الحقتھے۔افغانستانمیں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں1985ءکے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے1988ءمیںضیاءالحقنے برطرف کر دیا-1988ءمیںصدر مملکتکا طیارہ گر گیا اورضیاءالحقکے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سےجمہوریتکا آغاز ہو گیا۔اس کے بعد1988ءمیں انتخابات ہوئے اوربينظير بھٹوکی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدرغلام اسحاق خاننے حکومت کو برطرف کر دیا۔1990ءمیںنواز شریفکی قیادت میںآئی جے آئیاور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔1993ءمیں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔اگلے انتخابات1993ءمیں ہوئے اور ان میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس وقت پاکستان کے صدرفاروق احمد خان لغاریتھے۔ صدر فاروق احمد خان لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔1997ءمیں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میںمسلم لیگ ناور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1999ءمیں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکتپرويز مشرفبنے اور2001ءمیں ہونے والے انتخابات کے بعدوزیر اعظمظفر اللہ خان جمالیبنے۔2004ءمیں جنرل مشرف نےشوکت عزیزکووزیر اعظمبنانے کا فيصلہ کیا۔ مختصر عرصہ کے لیےچوہدرى شجاعت حسيننےوزیراعظمکی ذمہ داریاں سر انجام دیں اورشوکت عزیزکےقومی اسمبلیکے ارکان منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔شوکت عزیزقومی اسمبلیکی مدت15 نومبر2007ءکو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16نومبر2007ءکو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔فروری2008ءمیں الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نےیوسف رضا گیلانیکو وزیر اعظم نامزد کیا، جنھوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔22 جون2012ءکویوسف رضا گیلانیکی نااہلی کے بعدراجہ پرویز اشرفنئے وزیر اعظم بنے۔مئی2013ءمیں عام انتحابات ہوئے جس میںپاکستان مسلم لیگ نایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کے تیسرے بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک اور وزیر اعظمنوازشریفکوپانامالیکسفیصلے میں تا حیات نا اہل قرار دے کر برطرف کر دیا اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کےشاہد خاقان عباسینئے وزیر اعظم بن گئے۔ 17 اگست 2018ء کوعمران خان176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔پاکستان کا اعلیٰ اساسی قانونآئین پاکستانکہلاتا ہے۔ آئین، پاکستان کا وہ اعلیٰقانونہے جو ریاست پاکستان کے اندر تمام اہم چیزوں اور فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔ ملک میں چار مرتبہمارشل لالگا جس سے دو مرتبہ آئین معطل ہوا، ایک مرتبہ1956ءکا آئین اور دوسری مرتبہ1962ءکا آئین۔1972ءمیںمشرقی پاکستانمیں مخالفین نے سازشیں کی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھ گئی جس کی نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اورمشرقی پاکستانبنگلہ دیش کے نام ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ اس وقت غور کیا گیا تو ملک ٹوٹنے کی بہت سے وجوہات تھیں۔ اسی بنا پر1973ءکا آئین بنایا گیا۔آئین بنانے کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور آئین میں ہر شعبے اور اہم امور کے لیے اصول بنے، آئین میں ریاست کی تمام بڑے فیصلوں کے لیے قوانین بنائے گئے، حکومت اور ریاست کا پورا تشکیل بیان کیا گیا۔ مسودہ تیار ہونے کے بعد اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔پاکستانی سیاست کی بنیاد کوآئین پاکستاننے قائم کیا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان ایکجمہوریاورقومی ریاستہے۔ آئین پاکستان نے ایک وفاق اور اس کے ماتحت صوبائی حکومتیں قائم کی ہیں۔ آئین کا پہلا آرٹیکل بیان کرتا ہے کہ ""مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریت ہوگا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا""۔پاکستان کی مختلف علاقہ جات کے متعلق آئین پاکستان کا دوسرا آرٹیکل بیان کرتا ہے:پاکستان کے علاقے مندرجہ ذیل پر مشتمل ہوں گے:آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کوئی واضح حیثیت تو بیان نہیں کی گئی لیکن2009ءمیںقومی اسمبلیسے ایک اور بل منظور ہوا جس نے واضح طور پر گلگت بلتستان کو نیم-صوبے کا درجہ دیا اور یہاں باقاعدہ صوبائی حکومت کو قائم کیا گیا، جس کے تمام بنیادی شاخ (اسمبلی، عدلیہ، وزارتیں، وغیرہ) قائم کیے گئے۔[9]آئین نے مزید ملک میں دو قانون ساز ایوان قائم کیے ایکقومی اسمبلیاور دوسراسینٹ۔ قومی اسمبلی کی بنیاد آبادی کے لحاظ سے ہے یعنی جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں زیادہ نشستیں رکھی جائے گی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو براہ راست عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کے نشستیں دیے گئے ہیں چاہے صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سینٹ کے ارکان کو سینیٹر کہا جاتا ہے اور ان سینیٹرز کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے ووٹ سے منتخب کر سکتے ہیں۔کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کا سلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور، دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے، ایک نقطہ ذہن نشین کر لیں کہخارجہ پالیسیمیں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سےانڈونیشیاکے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایکایٹمی طاقتہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاص ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔پاکستان کی دفاع کا ذمہ ملک کے مسلح افواج پر ہے جس کی بنیادی طور پر تین شاخیں ہیں:1947ءمیںقیام پاکستانسے پہلے پاک عسکریہ، ہندوستانی فوج کا حصہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کےتاج برطانیہکے زیر اثرپہلی جنگ عظیماوردوسری جنگ عظیممیں بھی حصہ لیا ہے۔ تقسیمبرصغیرکے بعد ہندوستانی فوج پاکستان اوربھارتمیں بالترتیب 36% اور 64% کے تناسب میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت اعلان ہوا کہ کوئی بھی فوجی جس بھی فوج میں جانا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔ اس وقت بہت سے مسلمان فوجی، پاک عسکریہ میں شامل ہو گئے۔ تقسیم کے وقت بھارت میں 16 آرڈیننس فیکٹریاں تھیں جبکہ پاکستان میں ایک بھی نہیں تھی۔ اب پاکستان کافی حد تک دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہو گیا ہے۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔ فوج اداروں میںپاک فوج،پاک فضائیہاورپاک بحریہشامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میںفرنٹیئر کانسٹبلری،سرحد کور،پاکستان رینجرزشامل ہیں۔ پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنیپنجاباورسندھمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس لیے اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنیپنجاب رینجرزاورسندھ رینجرز۔ اسی طرحسرحد کوراورفرنٹیئر کانسٹبلریکو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہخیبر پختونخوااوربلوچستانمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی ادارے کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائی گئی ہیں جن میںخیبر پختونخواپولیس،پنجابپولیس،سندھپولیس،بلوچستانپولیس،آزاد کشمیرپولیس اورگلگت بلتستانپولیس شامل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے، اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سر انجام دینا ہے اسی طرحموٹروےپولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔تحقیقات کے لیے وفاقی ادارۂ تحقیقات (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی مخابراتی ادارے (جیسےآئی ایس آئی، وغیرہ) موجود ہیں۔پاکستان ميں 5 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نےگلگت بلتستانکو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔
+صوبہ جات کی تقسیمیکم جولائی1970ءکو کی گئی۔صوبہ بلوچستانکا کل رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2011ءمیں آبادی 79 لاکھ 14 ہزار تھی۔صوبہ پنجابکا کل رقبہ 205,344 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2013ءمیں آبادی 10 کروڑ 10لاکھ تھی۔صوبہ خیبر پختونخواکا کل رقبہ 74,521 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ تھی۔صوبہ سندھکا کل رقبہ 140,914 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 4 کروڑ 24 لاکھ تھی۔گلگت بلتستان(سابق شمالی علاقہ جات) کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2008ء میں آبادی 18 لاکھ تھی۔جغرافیائی طور پر پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ پاکستان کاجغرافیہاور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیںجانوراورپرندےایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 796,095 مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقےپہاڑیہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریادریائے سندھہے۔ یہدریاپاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گذر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکنبلوچستانکاسبیعلاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اورشمالی علاقہ جاتمیں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادیزراعتکے شعبے سے منسلک ہے۔پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے، زمینی سرحد میں سے 2,430 کلومیٹر سرحدافغانستانکے ساتھ، 523 کلومیٹرچینکے ساتھ، 2,912بھارتکے ساتھ اور 909ایرانکے ساتھ لگا ہوا ہے۔پاکستان دنيا کا ايک ترقی پزیر ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات ميں فوج كى مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کوتعلیمسے محروم رکھنے کینفسیاتیاور خود غرضانہفطرت(تاکہبیگاراورسستے پڑاؤ (Labor Camp)قائم رکھے جاسکیں)، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيلیے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلےپاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعتپر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا[حوالہ درکار]۔ اِس وقت پاکستان کیمعيشتمستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے[حوالہ درکار]۔کراچی سٹاک ایکسچینجکےکے ايس سی انڈکسگزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے[حوالہ درکار]۔پاکستانآبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصداہل تشیع، 77 فيصداہل سنتاور تقریباً 3 فيصد ديگرفقہسے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ایک فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانیمسیحیمذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب وسرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔پاکستان کیقومی زباناردوہے، جبکہ زيادہ تر دفتری کامانگريزیميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اردو پاکستان کی عوامی و قومیزبانہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئی اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميںپنجابی،سرائیکی،سندھی،گجراتی،بلوچی،براہوی، پہاڑی،پشتواورہندکوزبانیں قابلِ ذکر ہيں۔پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پٹھان، بلوچی اورمہاجر قومہيں، ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مابین فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميںدراوڑ،آريا،ہن،ايرانی،يونانی،عرب،ترکاورمنگوللوگوں کی رياستوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھ��وسماورآب و ہواکا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايکاسلامی تہذيبکا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسيقی ملتی ہے۔کلاسيکی موسيقی،نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک، ان سب کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميںقوالیکا مرکز سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے جا رہے ہيں۔ يہ امرا اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جگہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکاؤاسلاماور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔پاکستانيوں کی بڑی تعدادامريکہ،برطانيہ،آسٹريليا،کینیڈااورمشرق وسطیميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہتسرمايہ کاریبھی کی ہے۔پاکستان کا سب سے پسنديدہکھيلکرکٹ ہے۔ پاکستان کیکرکٹٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميںہاکیبھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کےشمالی علاقہ جاتكے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدائش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھیلی جاتی ہے۔پاکستان میں سب سے عام لباسشلوار قمیضہے جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوںبلوچستان،پنجاب،سندھاورخیبر پختونخواسمیتقبائلی علاقہ جات،گلگت بلتستاناورآزاد کشمیرمیں پہنا جاتا ہے۔ تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمالاسکول،کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ اور ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔شیروانیکا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔پاکستانی خواتین میں بھی شلوار قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔پاکستان میں بہت سے ذرائع ابلاغ موجود ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔اس سے پہلےپی ٹی ویملک کا واحد چینل نیٹ ورک ہوتا تھا اور حکومت پاکستان اس نیٹ ورک کو چلا رہی تھی۔2002ءکے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 50 سے بھی زیادہ صرف نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نیوز، انٹرٹینمنٹ، ہیلتھ، ایجوکیشن، علاقائی اور بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتے ہیں تاہم ملک کے علاقائی زبانوں (پشتو،پنجابی،سندھی،بلوچی،کشمیری،سرائیکیوغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔پی ٹی وی ورلڈپاکستان کا پہلاانگریزیچینل ہے۔اردو فلم انڈسٹریلالی وڈکی صدر مقاماتلاہور،کراچیاورپشاورمیں واقع ہے۔ لالی وڈ نے اب تک بہت سے فلمیں ریلیز کی ہیں اور کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے عام اردو ڈراما سیریلز ہیں جو مختلف چینلز پر چلائ�� جاتے ہیں۔پاکستان کے فن تعمیرات ان مختلف عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مختلف ادوار میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔وادئ سندھ کی تہذیبکے شروع ہونے کے ساتھ ہی جو 3500قبل مسیحتھا، موجودہ پاکستان کے علاقے میں شہری ثقافت کا ارتقا ہوا جس میں بڑی عمارتیں تھیں جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے بعدگندھاراطرز کا بدھ طرز تعمیر آیا جس میں قدیمیونانکے اجزاء بھی شامل تہے۔ اس کے بقایا جاتگندھاراکے صدر مقامٹیکسلامیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان میں مغل اور انگریزی طرز تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں۔آزادی کے بعد کا فن تعمیر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی نئیحاصلکی گئی آزادی اور شناخت کو فن تعمیر کے ذریعے سے ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان خود کو جدید عمارتوں میں ظاہر کرتا ہے مثلاًفیصل مسجدجو وفاقی دار الحکومتاسلام آبادمیں واقع ہے اس مسجد کو1960ءمیں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں جیسےمینارپاکستان، سفید ماربل سے بنا مزار قائد اعظم۔ یہ عمارتیں نئی ریاست کی خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ملکی دار الخلافہ اسلام آباد میں موجود قومی یادگار تہذیب، آزادی اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔پاکستان میں اس وقت چھ (6) جگہیں ایسی ہیں جنہیں عالمی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال2012ءمیں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت1970ءکے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس،پشاور،کراچی،لاہور،سواتاورراولپنڈیتھیں۔ اس ملک کی حامل کشش جگہوں میں موہنجو داڑو،ٹیکسلااورہڑپہجیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لے کرکوہ ہمالیہکے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کےشمالی علاقہ جاتمیں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اورچترالکی وادیاں جو ایک چھوٹی سی غیر مسلم سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کوسکندر اعظمکی اولاد سے بتاتے ہیں۔پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقاملاہورمیں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسےبادشاہی مسجد، شالیمار باغ،مقبرہ جہانگیراورقلعہ لاہورشامل ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ (5) لاکھ سیاح آتے تھے۔ تاہم سال2008ءسے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورت حال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔اکتوبر2006ءمیںکشمیرکے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی کی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقاماتٹیکسلا،لاہور،شاہراہ قراقرم، کریم آباد اورجھیل سیف الملوکتہے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سےوادئ سندھ کی تہذیبکے موہنجو داڑو اورہڑپہجیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔پاکستانی کھانے جنوبی ایشیا کے مختلف علاقائی کھانوں کا حسین امتزاج ہیں۔ پاکستانی کھانوں میں شمالی ھندوستانی،وسط ایشیائیاور مشرق وسطیٰ کے کھانے شامل ہیں لیکن یہاں کے کھانوں میں گوشت کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میںاشیائے خور و نوش کے نامبہت آسان ہیں۔پاکستان میں ایک علاقے کے کھانے دوسرے علاقے کے کھانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں جس سے اس ملک کی ثقافتی اور لسانی تنوع جھلکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کھانے مصالحے دار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیا کے کھانوں کی خاصیت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے کھانے مثلاً خیبر پختونخوا، بلوچستان، قبائیلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور کشمیر کے کھانے بھی اپنی اپنی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بھی مختلف علاقائی رنگ غالب ہوتے ہیں۔پاکستان میں کھیلے جانے والے بیشتر کھیلوں کا آغازبرطانیہمیں ہوا اور برطانویوں نے انھیںہندوستانمیں متعارف کرایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس نے 1960ء، 1968ء اور 1984ء میں کھیلے گئے اولمپک کھیلوں میں تین سونے کے طمغے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ بھی چار بار جیتا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ 1971ء، 1978ء، 1982ء اور 1994ء میں جیتا ہے۔ تاہم، کرکٹ پاکستان کا سب سے زیادہ مشہور کھیل ہے۔ پاکستان کرکٹ کے ٹیم، جنہیں شاہین کہا جاتا ہے، نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ 1999ءمیں شاھین دوسرے نمبر پر رہے۔ اور 1987ء اور 1996ء میں عالمی کپ کے مقابلے جزوی طور پر پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان ٹی 20 قسم کے کھیل کے پہلے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے جو سال 2007ء میںجنوبی افریقامیں کھیلا گیا تھا۔ اور سال 2009ء میں اسی قسم کے کھیل میں پہلے نمبر پر رہے اور عالمی کپ جیتا جوبرطانیہمیں کھیلا گیا تھا۔ سال 2009ء کے مارچ کے مہینے میں دہشت گردوں نےسری لنکاکے کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا جو پاکستان کے دورے پرلاہورمیں موجود تھی اور اسی کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ تاہم چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد مئی 2015ء میں عالمی کرکٹ پاکستان میں اس وقت بحال ہوئی جب زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ تمام مقابلے سخت حفاظتی حصار میںلاہورمیں ہوئے اور تمام مقابلوں کے لیے ٹکٹ سارے بک چکے تھے اور کرسیاں ساری بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس نے دوسری ٹیموں کے آنے کے لیے بھی راہ ہموار کر لی۔
+ورزشی کھیلوں میں عبد الخالق نے سال 1954ء اور سال 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس نے 35 سونے کے طمغے اور 15 عالمیچاندیاور پیتل کے طمغے پاکستان کے لیے حاصل کیے۔اسکواشمیں پاکستان کے شہرپشاورسے تعلق رکھنے والے کھلاڑیجہانگیر خانہیں جن کو عالمی معیار کا کھلاڑی اور کھیلوں کی تاریخ میں عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے اور ساتھ ہی جانشیر خان ہیں جنھوں نے عالمیاسکواشکے مقابلوں میں کئی بار پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج درمیانے سے لے کر اعلیٰ طبقے کے ليے مخصوص ہے۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں اپنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی حالت ابتر ہے۔ریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔چاند اور ستارہ جو روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
+چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔
+شیلڈ کے اردگرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔
+علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔پاکستان کی زیادہ تر آبادی ملک کی وسطی علاقوں میں ہے، ملک کے جنوب میں زیادہ آباد مقامات اکثردریائے سندھکے آس پاس پر واقع ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی والا علاقہکراچیہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔پاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کامانگریزیزبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہاردوپاکستان کی قومی زبان ہے۔پاکستان کی صوبائی زبانوں میںپنجابیصوبہ پنجاب،پشتوصوبہ خیبر پختونخوا،سندھیصوبہ سندھ،بلوچیصوبہ بلوچستاناورشیناصوبہ گلگت بلتستانمیں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔[13]پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں،آیر،سرائیکی زبان،بدیشی،باگڑی،بلتی،بٹیری،بھایا،براہوی،بروشسکی،چلیسو،دامیڑی،دیہواری،دھاتکی،ڈوماکی،فارسی،دری،گواربتی،گھیرا،گوریا،گوورو،گجراتی،گوجری،گرگلا،ہزاراگی،ہندکو،جدگلی،جنداوڑا،کبوترا،کچھی،کالامی،کالاشہ،کلکوٹی،کامویری،کشمیری،کاٹی،کھیترانی،کھوار،انڈس کوہستانی،کولی(تین لہجے)،لہندالاسی،لوارکی،مارواڑی،میمنی،اوڈ،اورمڑی،پوٹھواری،پھالولہ،سانسی،ساوی،شینا(دو لہجے)،توروالی،اوشوجو،واگھری،وخی،وانیسیاوریدغہشامل ہیں۔[14]ان زبانوں میں بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں- ي سرا سنکے عمران خان سب سے اچھا ہے2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+169,پاکستان کے گنجان آباد شہروں کی فہرست,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86_%DA%A9%DB%92_%DA%AF%D9%86%D8%AC%D8%A7%D9%86_%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF_%D8%B4%DB%81%D8%B1,"یہپاکستان کی 2017ء کی مردم شماریکے مطابقپاکستانکے100سب سے زیادہ آبادی والےشہروںکی فہرست ہے۔ اس فہرست میں مردم شماری کا مجموعہ پاکستان کے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے ل��ےپاکستان بیورو آف شماریات[1]اورآزاد کشمیرکے اندر کے شہروں کے لیے آزاد جموں و کشمیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔[2]2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد کیپٹل ٹیریٹریمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء میں پچھلی مردم شماری کی طرح، گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔"
+170,شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%B1,شہريک بڑی انسانی بستی کو کہتے ہیں۔ ایک بڑی آبادیوالیبستی جہاں عمارتیں، دکانیں اور سڑکیں وغیرہ بکثرت ہوں، جہاں کی صحت تعلیم اور تعمیرات وغیرہ کی انتظامیہ یا بلدیہ (میونسپل کارپوریشن) موجود ہو۔
+171,دریائے راوی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D8%B1%D8%A7%D9%88%DB%8C,30°35′N71°49′E / 30.583°N 71.817°E /30.583; 71.817صوبہ پنجابمیںدریائے سندھاور اس کے معاوندریائے جہلم،دریائے چناب،دریائے راویاوردریائے ستلجبہتے ہیں۔ دریائے راویضلع کانگڑامیںدرہ روتنگ سے نکلتا ہے اور ساڑھے چار سو میل لمبا (720 کلومیٹر)ہے۔ پاکستانی پنجاب کا درالحکومتلاہوراسی دریا کے کنارے واقع ہے۔ دریائے راوی اور دریائے چناب کا درمیانہ علاقہ دوآبہ رچنا کہلاتا ہے۔ (دریائے راوی پہلے ایراوتی کہلاتا تھا۔)دریائے راوی کی بڑی بڑی نہریں یہ ہیں۔اپر باری دوآبمادھو پوربھارتسے نکلتی ہے۔ اس کی قصور برانچپاکستانکو سیراب کرتی ہے۔نہر لوئر باری دوآبکے ہیڈورکس بلوکی میں ہیں۔ یہ نہر اضلاع ملتان اور منٹگمری کو سیراب کرتی ہے۔ انہار ثلاثہ ان میں دریائے راوی، چناب اور جہلم کی تین نہریں اپر جہلم، اپر چناب اور لوئر باری دواب شامل ہیں۔ گنجی یار منٹگمری اور ملتان کو سیراب کرنے کے لیے راونی کا پانی کافی نہ تھا۔ چنانچہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے چناب کا پانی بلوکی کے مقام پر بذریعہ نہر اپرچناب دریائے راوی میں ڈالا گیا۔ اس سے نہر لوئر چناب کا پانی کم ہو گیا۔ اور گوجرانولہ شیخوپورہ،لائل پور(موجودہ نام فیصل آباد) اورجھنگکے اضلاع کے لیے پانی ناکافی ثابت ہونے لگا۔ چنانچہ منگلا کو نہر اپرجہلمکا پانی خانکی کے مقام پر دریائے چناب میں ڈال دیا گیا۔ اضلاع لائل پور، گوجرانولہ،ساہیوالاورملتانکی نہری آبادیاں انہار ثلاثہ کی بدولت ہی سیراب ہوتی ہیں ان میں اعلیٰ قسم کی گندم اور امریکن کپاس پیدا ہوتی ہے۔ دریائے راوی کے پرانے حصے کو راوی ضعیف بھی کہا جاتا ہے۔
+172,پاکستان کے گنجان آباد شہروں کی فہرست,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86_%DA%A9%DB%92_%DA%AF%D9%86%D8%AC%D8%A7%D9%86_%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF_%D8%B4%DB%81%D8%B1,"یہپاکستان کی 2017ء کی مردم شماریکے مطابقپاکستانکے100سب سے زیادہ آبادی والےشہروںکی فہرست ہے۔ اس فہرست میں مردم شماری کا مجموعہ پاکستان کے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے لیےپاکستان بیورو آف شماریات[1]اورآزاد کشمیرکے اندر کے شہروں کے لیے آزاد جموں و کشمیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔[2]2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک ک�� سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد کیپٹل ٹیریٹریمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء میں پچھلی مردم شماری کی طرح، گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔"
+173,شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%B1,شہريک بڑی انسانی بستی کو کہتے ہیں۔ ایک بڑی آبادیوالیبستی جہاں عمارتیں، دکانیں اور سڑکیں وغیرہ بکثرت ہوں، جہاں کی صحت تعلیم اور تعمیرات وغیرہ کی انتظامیہ یا بلدیہ (میونسپل کارپوریشن) موجود ہو۔
+174,مغل,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%BA%D9%84,"مغلاردوزبان میںجنوبی ایشیاکے ایک قبیلہ یا ذات کا نام ہے، (فارسیوعربی:مغولاورانگریزی:Mughal or Mogol)؛بھارت،پاکستان،افغانستان،اوربنگلہ دیشسے متعلق ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو مغلوں نے مختلف ادوار میں وسط ایشیا سے حملوں کے دوران میں آباد کیے- دیگر قومیں جیسا کہترکاورایرانیتارکین وطن بھی یہاں آباد ہوئے۔قیات۔بورجگین۔ترک۔منگول۔تاتاری۔تیموری۔برلاس۔چغتائی۔قزلباش۔خان مغل۔کسرمغل۔دولی مغل۔تنولی۔قازق۔تغلق۔ازبک۔کمیک۔ترکمان۔توران۔چرکس۔چوغطہ۔ہن۔قفقاز۔گوک ترک۔اویغور۔آزری۔ملدیال۔جنہال۔خزر۔خلجی۔قپچاق۔تاجک۔عثمانی۔ایوبی۔غزنوی۔ایل خانی۔قارا خانی۔غوری۔سلجوقی۔خوارزمی۔چکرک۔ہزارہ قبائل۔تمام وہ لوگ جو مغل نسب کا دعویٰ کرتے ہیں، مختلف وسطی ایشیائی ترکی-مغول فوجوں کی اولادیں ہیں-چنگیز خانسےامیر تیموراورامیر تیمورسےظہیر الدین محمد بابرتک ایران اور جنوبی ایشیا پر حملے کے نتیجے میں یہ لوگ یہاں مقیم پزیر ہوئے-لیکنمغلکی اصطلاح ایک وسیع معنی ہو گیا ہے- Bernier، ایک فرانسیسی مسافر جو مغل شہنشاہاورنگزیبکے دور حکومت کے دوران میںہندوستانکا دورہ کیا تھا کے مطابق16th صدی میںمغللفظ مختلف گروہوں کی ایک بڑی تعداد کا احاطہ کرتا ہے- عام طور پر، بھارت کے تمام مرکزی ایشیائی تارکین وطن،ازبک،چغتائی،تاجک،قپچاق،برلاس،قازق،ترکمان،کرغزستان،اویغوریاافغاناورقفقازکے تارکین وطن کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔یہوشو پراجیکٹکے مطابق مغل قوم کی تعداد مختلف ممالک میں مندرجہ ذیل ہے؛سن آف دین محمدتاریخ مغلیہ از مرزا الیاس
+: چنگیز خان از علیم اللہ
+:رشتوں کی پہچان از مولوی محمد
+نصیر گریبان نامہ از عشمان انجم
+بحوالہ۔ تاریخ مغلیہ کشمیر از سردار بشیر احمد صدیقی"
+175,نورالدین جہانگیر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%AC%DB%81%D8%A7%D9%86%DA%AF%DB%8C%D8%B1,اکبر اعظمکے تین لڑکے تھے۔سلیم،مراداوردانیال(مغل خاندان)۔ مراد اور دانیال باپ کی زندگی ہی میں شراب نوشی کی وجہ سے مر چکے تھے۔ اکبر اعظم کی1605ءمیں وفات کے بعد شہزادہ سلیم نور الدین جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ اس نے کئی مفید اصلاحات نافذ کیں.1606ء میں اس کے سب سے بڑے بیٹے خسرو نے بغاوت کردی۔ اور آگرے سے نکل کر پنجاب تک جا پہنچا۔ جہانگیر نے اسے شکست دی۔ سکھوں کے گوروارجن دیوبھی جو خسرو کی مدد کر رہے تھے۔ شاہی عتاب میں آ گئے۔ شہنشاہ نے گوروارجن دیو کو قید کرکے بھاری جرمانہ عائد کر دیاجس کو گورو نے ادا کرنے سے معذرت کی۔گورو کو شاہی قلعہ لاہور میں قید میں ڈال دیا گیا ایک روز گورو نے فرمائش کی کہ وہدریائے راویمیں اشنان (غسل) کرنا چاہتے ہیں انھیں اس کی اجازت دے دی گئی غسل کے دوران گورو ارجن دیو نے دریا میں ڈبکی لگائی اور اس کے بعد وہ دکھائی نہ دیے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے دریائے راوی میں ڈوب کر خودکشی کرلی۔ جس مقام پر گورو نے دریامیں چھلانگ لگائی وہاں سکھوں نے ان کی سمادھی بنادی ہے۔ اس واقعہ سے مغلوں اور سکھوں کے درمیان نفرت کا آغاز ہواجس کے نتیجہ میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔1614ء میں شہزادہ خرم ’’شاہجہان‘‘ نےمیواڑکے راناامرسنگھکو شکست دی۔ 1620ء میںکانگڑہخود جہانگیر نے فتح کیا۔ 1622ء میںقندھارکا علاقہ ہاتھ سے نکل گیا۔ جہانگیر ہی کے زمانے میںانگریزسر ٹامس روسفیر کے ذریعے، پہلی بار ہندوستان میں تجارتی حقوق حاصل کرنے کی نیت سے آئے۔ 1623ء میں خرم نے بغاوت کردی۔ کیونکہ نورجہاں اپنے دامادشہریارکو ولی عہد بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخر 1625ء میں باپ اور بیٹے میں صلح ہو گئی۔بادشاہ جہانگیر اپنیتزک جہانگیریمیں لکھتے ہیں کہعطر گلابمیرے عہد حکومت میںملکہ نورجہاںکی والدہ نے ایجاد کیا تھا۔ جہانگیر مصوری اورفنون لطیفہکا بہت شوقین تھا۔ اس نے اپنے حالات ایک کتابتوزک جہانگیریمیں لکھے ہیں۔ اسے شکار سے بھی رغبت تھی۔ شراب نوشی کے باعث آخری دنوں میں بیمار رہتا تھا۔جہانگیر کی چہیتی بیوی نور جہاں امور سلطنت کے امور میں مداخلت کرتی تھی جس کی وجہ سے بہت سے امرا جہانگیری دربار سے بد ظن ہو گئے اور دربار میں کئی امرا کی آمدورفت بندہوگئی۔ نور جہاں چاہتی تھی کہ تختدہلیپر اس کا داماد شہزادہ شہریار رونق افروز ہو مگر دوسری طرف شہزادہ خرم بھی تخت کا طلب گار تھا اس لیے دو فریق بن گئے جس سے مغل امرا میں پھوٹ پڑ گئی ۔مغل افواج کا سپہ سالار مہابت خان تھا جو مغلوں کا وفادار خادم تھا۔ مگر اس کا جھکاؤ شہزادہ خرم کی طرف تھا جس سے نور جہان نے شہنشاہ جہانگیر کو اس کے خلاف کر دیا مہابت خان کو دربار میں طلب کرکے اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا اس کی بیٹی کا جہیز ضبط کر لیاگیا۔ جہانگیر جبکشمیرجا رہاتھا تو راستے میں مہابت خان نے بغاوت کردی مغل فوج اس کے ساتھ تھی اس لیے اس نے باآسانی جہانگیر کو قیدکرلیا ان حالات میں نور جہان اور اس کے بھائی آصف جاہ نے بھی خود کو مہابت خان کے حوالے کر دیا مہابت خان ایک بلند پایہ جرنیل تھا مگر سازشوں اور مکارانہ چالوں سے بے بہرہ تھا نور جہان نے چند دنوں میں مغل فوج کے بہت بڑے حصے کو اپنے ساتھ ملالیا جس سے مغل فوج میں پھوٹ پڑ گئی مہابت خان تنہا رہ گیا اس نے فرار ہو کر جان بچائی ۔مہابت خان کی قید سے رہائی پانے کے بعد جہانگیر زیادہ عرصہ زندہ نہ رہا گرمیوں کے موسم میں اس نے کشمیر میں قیام کیا کچھ عرصہ وہاں مقیم رہنے کے بعد 1627ء میںکشمیرسے واپس آتے وقت راستے ہی میں بھمبر کے مقام پر انتقال کیا۔ اس کی میت کو لاہور لایا گیا جہاں دریائے راوی کے کنارے باغ دلکشالاہورموجودہشاہدرہمیں دفن ہوا۔ یہ مقام ابمقبرہ جہانگیرکے نام سے مشہور ہے۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+176,ملکہ نورجہاں,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%84%DA%A9%DB%81_%D9%86%D9%88%D8%B1%D8%AC%DB%81%D8%A7%DA%BA,نور جہان 1577 میں قندہار (آج کے افغانستان) کے ایک معزز ایرانی گھرانے میں پیدا ہوئیں جنھوں نے صفوی دور میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے نتیجے میں اپنا ملک چھوڑ کر زیادہ روادار مغل سلطنت میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔اپنے والدین کے ملک اور اپنے نئے وطن کی مخلوط روایت میں پروان چڑھنے والی نور جہاں کی پہلے مغل حکومت کے ایک اہل کار شیرافگن سے سنہ 1594 میں شادی ہوئی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ مشرقی ہند کے امیر صوبے بنگال منتقل ہو گئیں۔ تاریخ میں نورجہاں کے متعلق بہت سی متضاد تحریریں بھی ملتی ہیں اور معتدل تحریریں بھی، تاریخ کی بعض کتب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جہانگیر کو نورجہاں پسند آگئی تھی اور اس نے نور جہاں کے شوہر کو ایک جنگ میں بھیج کر اپنے کارندوں کے ہاتھوں مروا دیا تھا ، اس کے ساتھ ہمیں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ جب ان کے شوہر پر جہانگیر کے خلاف سازش میں شامل ہونے کا شبہ پیدا ہوا تو بادشاہ نے بنگال کے گورنر کو اسے اپنے دربار آگرہ میں پیش کرنے حکم دیا۔ لیکن نور جہاں کا شوہر گورنر کے آدمیوں کے ساتھ تصادم میں مارا گیا۔نورجہاںبرصغیر کے شہنشاہجہانگیرکی ملکہ تھی۔ ان کا مزارلاہورکے نواح میںدریائے راویکے کنارے موجود ہے۔سکھدور میں جب لوٹ کھسوٹ کی گئی اور مقبروں اور قبرستانوں کو بھی نہ بخشا گیا ،اس دور میں سکھ مظالم کا شکار مقبرہ نورجہان بھی ہوا۔ جس تابوت میں ملکہ کو دفنایا گیا تھا وہ اکھاڑا گیا اور اس کے اوپر لگے ہیرے جواہرات پر خالصہ لٹیروں نے ہاتھ صاف کیے۔ بعد ازاں مقبرہ کے ملازموں نے تابوت کو عین اسی جگہ کے نیچے جھاں وہ لٹکایا گیا تھا زمین میں دفن کر دیا۔۔ مندرجہ ذیل بیت اسی کا ہے جو اس کے مزار کی لوح پر لکھا گیا ہے۔ایک موقع پر جہانگیر نے یہ شعر کہا:نورجہان نے فوراً جواب دیا:سترہ سال کی عمر میں مہرالنسا کی شادی ایک بہادر ایرانی نوجوان علی قلی سے ہوئی، جنہیں جہانگیر کے عہد کے آغاز میں شیر افگن کے خطاب اور بردوان کی جاگیر سے نوازا گیا تھا۔ 1607 ء میں جہانگیر کے قاصدوں نے شیر افگن کو ایک جنگ میں مار ڈالا۔ مہرالنسا کو دہلی لایا گیا اور شہنشاہ کے شاہی حرم میں بھیج دیا گیا۔ یہاں وہ شہنشاہ اکبر کی بیوہ ملکہ رقیہ بیگم کی خدمت پر مامور کی گئیں۔بیوہ مہرالنسا کو جہانگیر کے حرم میں پناہ ملی جہاں دوسری خواتین نے ان پر اعتماد کرنا اور ان کی تعریف کرنا شروع کر دیا۔ نور جہاں نے جہانگیر سے سنہ 1611 میں شادی کی اور وہ اس کی 20 ویں اور آخری بیوی ہوئيں۔ مہرالنسا کو نوروز کے تہوار کے موقع پر پہلی بار جہانگیر نے دیکھا اوروہ ان کی خوبصورتی پر فریفتہ ہو گیا۔ جہانگیراور مہرالنسا 1611 میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ شادی کے بعد جہانگیر نے انھیں 'نورمحل' اور 'نور جہاں' کے لقب سے نوازا۔ 1613 ء میں نور جہاں کو 'بادشاہ بیگم' بنایا گیا۔ عمومی طور پر درباری ریکارڈ میں بہت کم خواتین کا ذکر کیا جاتا تھا لیکن سنہ 1614 کے بعد اپنے روزنامچے میں نور جہاں کے ساتھ اپنے مخصوص رشتے کا ذکر کرنا شروع کیا۔ اور انھوں نے نورجہاں کا توصیفی خاکہ پیش کیا کہ وہ حساس ساتھی ہیں، ایک شاندار خیال رکھنے والی ہیں، ایک ماہر مشورہ دینے والی، ایک اچھی شکاری، سفیر اور فن کی پرستار ہیں۔بہت سے تاريخ دانوں کا خیال ہے کہ جہانگیر شراب کی مریضانہ لت کا شکار تھا جسے حکومت پر توجہ دینے کی طاقت نہیں تھی اور اسی لیے اس نے اپنی حکومت کی عنان نور جہاں کے ہاتھوں میں سونپ دی تھی۔ لیکن اس میں مکمل صداقت نہیں ہے۔یہ سچ ہے کہ بادشاہ بلانوش تھا اور افیم کا دھواں اڑاتا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ اپنی بیگم سے بہت محبت کرتا تھا۔ لیکن یہ نور جہاں کے ایک اہم حکمراں بننے کی وجوہات نہیں ہیں۔ دراصل نور جہاں اور جہانگیر ایک دوسرے کو مکمل کرتے تھے اور بادشاہ اپنی بيگم کے شریک حکمراں ہونے کے بوجھ سے کبھی غیر مطمئن نہیں ہوا۔اس سلطنت کی واحد خاتون حکمران ہونے کے ناطے نور جہاں ہندوستان، پا��ستان اور بنگلہ دیش کی لوک کہانیوں میں ہر جگہ موجود ہیں۔ ان پر ناول لکھے گئے ہیں، فلمیں بنائی گئی ہیں اور ڈرامے بھی نشر کیے جا چکے ہیں۔وہ شاعرہ، ماہر شکاری اور ماہر فن تعمیر تھیں۔ اپنے والدین کے لیے انھوں نے آگرہ میں مقبرے کا جو ڈیزائن تیار کیا تھا اس کی جلوہ گری بعد میںتاج محلمیں نظر آتی ہے۔سنہ 1617 میں سونے اور چاندی کے سکوں پر جہانگیر کے نام کے ساتھ ان کا نام بھی کندہ ہونے لگا۔ دربار کے واقعہ نویس، غیر ملکی سفیر، تجار اور درباری جلد ہی ان کی اہمیت کو محسوس کرنے لگے۔ایک درباری نے ایک واقعہ بیان کیا کہ کس طرح انھوں نے مردوں کے لیے مخصوص شاہی بالاخانے پر آکر لوگوں کو حیران کر دیا۔ یہ ان کی حکم عدولی کی واحد مثال نہیں۔شکار کرنا ہو یا شاہی فرمان اور سکے جاری کرنا ہو، سرکاری عمارات ڈیزائن کرنا ہو یا غریب خواتین کی امداد کے کام کرنا ہو یا پسماندوں کی آواز اٹھانا ہو نور جہاں نے ایسی زندگی گزاری جو اس وقت کی خواتین کے لیے لیے غیر معمولی تھی۔انھوں نے بادشاہ کے قید کیے جانے کے بعد ان کو بچانے کے لیے فوج کی قیادت بھی کی جو ایسا ہمت والا کام تھا جس سے ان کا نام عوام کی یادداشت اور تاریخ میں نقش ہو کر رہ گیا ہے۔
+177,پران,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%B1%D8%A7%D9%86,"ہندو متکی مذہبی کتابوں میں سب سے بڑا درجہ ’’ویدوں‘‘ کا ہے جن کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ یہ ’’ایش وانی‘‘ یعنی خدا کا کلام ہے۔ ’’وید‘‘ چار ہیں:ان چار ویدوں کے علاوہاپنشد،پُراناسمرتیاںوغیرہ کو ان کی مذہبی کتابوں کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی کل تعداد ’’مترمشر‘‘ کے مطابق 57 ہے اور محقق ’’نیل کنڑ‘‘ کے مطابق 97 ہے۔ ایک دوسرے ہندو محقق ’’کملاکر‘‘ نے ان کی تعداد 131 بتائی ہے۔[1]انھی پُرانوں میں ایک مشہور پُران کا ناممتسیہ پرانہے۔ متسیہ کا مطلب مچھلی ہے۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ صرف ایک ہی دیوی ہے جسے ہندوستان کے مختلف حصوں میں الگ الگ ناموں سے جانا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ لوگوں نے انھیں مختلف دیویوں کے طور پر ماننا شروع کر دیا۔ بنگال کے علاقے کے لوگ اس ایک دیوی کو درگا کے نام سے پُکارتے تھے۔[2]ایک اور مشہور کتب وِشْنُو پُران میں صفات الٰہیہ حسب ذیل مذکور ہیں: ""مخلوق کو پیدا کرنے‘ پرورش کرنے اور تباہ کرنے کے میرے اوصاف کی وجہ سے ہے۔ میرے ہیبرہما،وشنو،شیوکے تین فرق ہوئے ‘حقیقتًا میری صورت ہمیشہ بغیر کسی شکل کے ایک رہی ہے۔""[3]"
+179,دسویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%B3%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<نویں صدی <<<دسویں صدی>>> گیارہویں صدی>>>
+180,گیارہویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DB%81%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<دسویں صدی <<<گیارہویں صدی>>> بارہویں صدی>>>
+181,محمود غزنوی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF_%D8%BA%D8%B2%D9%86%D9%88%DB%8C,"مسعود غزنوییمین الدولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگینالمعروفمحمود غزنوی(2 نومبر 971 ء - 30 اپریل 1030)سلطنت غزنویہکا پہلا آزاد حکمران تھا، اس نے 999 سے 1030 تک حکومت کی۔ ان کی موت کے وقت، اس کی سلطنت ایک وسیع فوجی سلطنت میں تبدیل ہو چکی تھی، جو شمال مغربیایرانسے لے کربرصغیرمیںپنجابتک،ماوراء النہرمیںخوارزماورمکرانتک پھیلی ہوئی تھی۔محمود نے اپنے پیش روسامانیوںکے بیوروکریٹک، سیاسی اور ثقافتی رواج کو جاری رکھا، جس نےشمالی ہندوستانمیں ایک فارسی ریاست کے لیے بنیاد قائم کرنے کا ثبوت دیا۔ اس کا دار الحکومتغزنیاسلامی دنیا کے ایک اہم ثقافتی، تجارتی اور فکری مرکز کی حیثیت سے تیار ہوا، اس نےبغدادکے ��ہم شہر کا تقریباً مقابلہ کیا۔ دار الحکومت میں بہت سی ممتاز شخصیات، جیسےالبیرونیاورفردوسیسے اپیل کی گئی۔وہ پہلا حکمران تھا جس نے سلطان (""اتھارٹی"") کا لقب اختیار کیا تھا، جس نے اس کی طاقت کی حد کی نشان دہی کرتے ہوئےخلافت عباسیہکے سرغنہ کے نظریاتی رابطے کا تحفظ کیا تھا۔ اپنے اقتدار کے دوران میں، اس نے سترہ باربرصغیر پاک و ہند(دریائے سندھکے مشرق) کے کچھ حصوں پر حملہ کیا اور فتح حاصل کی۔محمودزابلستان(موجودہافغانستان) کے علاقےغزنیمیں 2 نومبر971کو پیدا ہوا تھا۔ اس کے والد،سبکتگین، ایکترکغلام کماندار (غلمان) تھے جنھوں نے977میںغزنوی سلطنتکی بنیاد رکھی، جس پر انھوں نے سامانیوں کے ماتحت کی حیثیت سےخراساناورماوراء النہرپر حکمرانی کی۔ محمود کی والدہالپتگینکی بیٹی تھی۔ محمود کی ابتدائی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہے، وہ احمد میماندی کا اسکول کا ساتھی تھا، جو فارسی کا دار الحکومتزابلستانکا رہائشی تھا اور اس کا رضاعی بھائی تھا۔سلطان محمود غزنوی بہت بڑے عاشق رسول تھے۔نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے اور قرآن و سنت کی پاسداری رکھنے والے عظیم حکمران تھے۔ امت مسلمہ سلطان محمود غزنوی کی اصطلاحات کو تا قیامت رشک کی نگاہوں سے دیکھتی رہے گی۔سبگتگیین نے کوساری جہاں نامی ایک عورت سے شادی کی اور ان کے بیٹےمحمود غزنویاوراسمعیل غزنویتھے، جو ایک کے بعد ایک اس کا جانشین ہوا۔ محمود غزنوی کے بیٹے مسعود غزنوی اور محمد غزنوی تھے جو محمود غزنوی کے بعد اس کے جانشین مقرر ہوئےمحمود غزنوی، بھی بعد میں سلطنت کے حکمران بنے۔ اس کی بہن، ستارِ مُعلّٰی کی شادی محمود بن عطاء اللہ علوی سے ہوئی، جسے غازی سالار ساہو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جس کا بیٹا غازی سید سالار مسعود تھا۔محمود کا ساتھیجارجیائیغلامملک ایازتھا اور اس سے ان کی محبت نے نظموں اور کہانیوں کو متاثر کیا۔994 میں محمود نےسامانیامیر،نوح دومکی مدد سے باغی فایق سےخراسانکو قبضہ کرنے میں اپنے والدسبکتگینکے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ اس عرصے کے دوران میں،سامانی سلطنتانتہائی غیر مستحکم ہو گئی، داخلی سیاسی لہروں میں تبدیلی کے ساتھ ہی مختلف گروہوں نے قابو پانے کے لیے جدوجہد کی، ان میں سب سے اہم ابو القاسم سمجوری، فائق، ابو علی، جنرل بختوزین نیز ہمسایہآل بویہاورقراخانیانشامل تھے۔سبکتگینکا انتقال 997 میں ہوا اور اس کے بعد ان کے بیٹےاسماعیل غزنویسلطنت غزنویہکا حکمران بنا۔سبکتگینکے زیادہ تجربہ کار اور بڑے محمود پر وارث کی حیثیت سے اسماعیل کی تقرری کے پیچھے کی وجہ معلوم نہیں۔ اس کی وجہ شایہ اسماعیل کی والدہسبکتگینکے بوڑھے مالکالپتگینکی بیٹی ہیں۔ محمود نے جلد ہی بغاوت کر دی اور اپنے دوسرے بھائیابوالظفر،لشکر گاہکے گورنر کی مدد سے، اس نے اگلے سال غزنی کی لڑائی میں اسماعیل کو شکست دی اورغزنوی سلطنتپر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس سال، 998 میں، اس کے بعد محمود نےبلخکا سفر کیا اور امیر ابو الحارث منصور بی۔ نور دوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کے بعد اس نے ابو الحسن اصفرینی کو اپنا وزیر مقرر کیا اور اس کے بعد مغرب سےغزنیسےقندھارکا علاقہ لینے کے لیے روانہ ہوا جس کے بعدلشکر گاہگیا، جہاں اس نے اسے ایک عسکری شہر میں تبدیل کر دیا۔جبسبکتگینکی وفات اگست 997ء میں ہوئی تو اس وقت سلطان محمود اپنے باپ کی طرح سےنیشاپورکا حاکم مقرر تھا اور سلطان کا بھائی اسماعیل جو باپ کی وفات کے موقع پر غزنی میں موجود تھا، نے اپنے تاج پوشی کا اعلان کر دیا۔ سلطان محمود نے پہلے خط کتابت کے ذریعے بھائی اسماعیل سے بات کرنے کی کوشش کی جب کوئی حل نہ نکلا تو 998ء میں غزنی پر حملہ کر دیا۔ اسماعیل کی حکومت ختم کرکے خود غزنی کی سلطنت سنبھال لی۔سلطان محمود جن کو اسلامی تاریخ کے چند عظیم جرنیلوں میں شامل کیاجاتا ہے، کی فوج کم و بیش ایک لاکھ تھی اور فوج میں عرب، غوری، سلجوق، افغان، مغل کے علاوہ دس سے پندرہ ہزار ہندو سپاہی بھی شامل تھے۔ ہندوستان سے جتنے بھی فوجی بھرتی کیے جاتے تھے۔ وہ بیشتر ہندو ہوتے تھے۔ ان کا کمانڈر بھی ہندوستانی ہوتا تھا جس کو سپہ سالار ہندوان کہا جاتا تھا ہندو فوجی افسروں میں چند ایک قابل زکر نام بیرپال، چک ناتھ، زناش، بجے راؤ اور سوھنی راؤ شامل تھے۔ عباسی خلیفہ نے 999ء میں سلطان محمود کویمین الدولہکا خطاب عطا کیا جس کی مناسبت سے سلطان محمود کے خاندان کی حکومت کویمینی سلطنتبھی کہا جاتا ہے۔ محمود غزنوی نے ہرات کے قریب صحرا کنارے ایک خاص شہر، ہاتھی نگر، تعمیر کیا کہ ان خطوں کی گرم آب و ہوا ہندوستان کے موسموں سے مطابقت رکھتی تھی۔ پھر اس نے ہندوستان سے لائے ہوئے سینکڑوں ہاتھیوں کی پرورش اس شہر میں کی۔ ہاتھیوں کے ساتھ انھیں سدھارنے والے بھی ہندستان سے منگوائے گئے اور یوں ہاتھی اس شہر میں خوش وخرم ہو گئے۔ محمود ہربرس ان ہاتھیوں کی مدد سے ہندوستان پر حملہ آور ہوتا اور واپسی پر انھیں غزنی کی بجائےہراتکے قریب اس ہاتھی نگرمیں واپس بھیج دیتا تھا۔سلطان محمود غزنوی جس کی سب سے بڑی وجہ شہرت ہندوستان پر سترہ حملے ہیں، کی بنیادی وجہ جان لینا انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ پاکستان کے علاقے لاہور سے پشاور تک کا علاقہ ایک ہندو راجا جے پال کے زیر سلطنت تھا۔ جے پال اور سلطان محمود کے باپسبکتگینکی ایک جنگ پشاور اور جلال آباد کے علاقوں میں 986ء میں ہوئی تھی، جس میں جے پال کو شکست ہوئی اور سبکتگین کی سلطنت دریائے سندھ کے ساتھاٹکتک پھیل گئی تھی۔سلطان محمود نے حکومت سنبھالتے ہیپشاورتک کے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی مہمات کرکے اپنی سلطنت کو مضبوط کیا تو راجا جے پال جو پہلے ہی اپنی شکست کا بدلہ لینے کو بے تاب تھا، نے ایک بڑا لشکر تیار کیا اور غزنی پر حملے کے لیے نکل پڑا۔ 1001ء میں پشاور کے قریب راجا جے پال اور سلطان محمود کی فوجوں کا ٹکراؤ ہوا۔ راجا جے پال کو شکست ہوئی اور پورے خاندان سمیت گرفتار ہو گیا۔ مذاکرات اور ایک بھاری تاوان کے عوض رہائی کے بعد جے پال واپس لاہور آیا، چونکہ لڑائی سے پہلے جے پال اپنے اردگرد کے راجاؤں سے مدد لے کرگیا تھا اس لیے شکست کے بعد نہایت شرمندگی کی حالت میں اپنی حکومت بیٹےانندپالکے حوالے کرکے خود لاہور کے ایک دروازے کے پرانے برگد کے درخت کے پاس ایک بہت بڑی چتا جلائی اور جل مرا۔سلطان محمود غزنوی نے دوسرا حملہ جو 1004ء کو ہوا۔ بھنڈا یا بھیرہ جودریائے ستلجکے قریبی علاقوں پر مشتمل ریاست پر کیا جس کا راجا بجی راؤ تھا۔ تیسرا حملہملتانکے حاکم ابوالفتح کے خلاف 1006ء میں کیا لیکن راستے میں ہی دریائے سندھ کے کنارے جے پال کے بیٹے انند پال کے ساتھ مڈبھیڑ ہو گئی۔سخت جنگ کے بعد انند پال کو شکست ہوئی اور بعض روایات کے مطابق وہ کشمیر پناہ لینے کے لیے بھاگ گیا۔ انند پال کو شکست دینے کے بعد سلطان محمود نے ملتان کا رخ کیا اور ملتان کو فتح کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ملتان کا حاکم جے پال کے پوتے سکھ پال کو مقرر کیا جو اسلام قبول کرچکا تھا۔ جلد ہی سلطان م��مود کو پھر ملتان جانا پڑا جہاں پر سکھ پال نے بغاوت کردی تھی۔ 1008ء میں سلطان نے سکھ پال کو شکست دے کر معزول کر دیا۔ اسی دوران میں انند پال جو شکست کھا کر کشمیر بھاگ گیا تھا، نے واپس آ کر ایک بار پھر سلطان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی انند پال نے اردگرد کے راجاؤں سے مدد لے کر ایک بہت بڑا لشکر اکٹھا کر دیا۔ 1008ء کے آخری دنوں میں ایک بار پھر دریائے سندھ کے قریب اٹک کے علاقے میں جنگ کا آغاز ہوا۔ خونریز جنگ کے بعد انند پال کو ایک بار پھر شکست ہوئی۔1009ء کے آخری مہینوں میں ایک بار پھر سلطان محمود نے ہندوستان پر حملہ کرکے پہلےنرائن پورکی ریاست کو فتح کیا اور پھر 1010ء میں ملتان کے گرد و نواح کے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کرلئے۔ 1014ء میں سلطان نے انند پال کے بیٹے لوجن پال کو موجودہکوہستانکے علاقے میں شکست دی اور مزید لوجن پال کی مدد کے لیے کشمیر سے آئے ہوئے ایک بڑے لشکر کو بھی شکست فاش سے دوچار کیا۔ 1015ء میں سلطان محمود نےکشمیرپر حملہ کیا اور لیکنبرف باریکے باعث راستے بند ہونے پر بغیر جنگ کے ہی واپس آنا پڑا۔ 1018ء میں سلطان محمود نے پہلی بار پنجاب کے پاردریائے جمناکے علاقے میں اپنی فوج کو اُتارا اور ہندوؤں کے مذہبی مقام متھرا کو فتح کرنے کے بعد ایک مشہور ریاستقنوجکا محاصرہ کر لیا۔ قنوج کے راجے نے سلطان سے صلح کا پیغام بھیجا اور سلطان کا باجگزار بننا قبول کر لیا۔ 1019ء میں قنوج کی ملحقہ ریاستکالنجرکے راجا گنڈا نے قنوج پر حملہ کرکے راجا کو قتل کر دیا اس کی خبر جب سلطان محمود تک پہنچی تو وہ اپنے مطیع راجے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے نکلا اور کالنجر پر حملہ کرکے اسے شکست فاش سے دوچار کیا۔ راجالوجن پالاورراجہ گنڈاجو سلطان محمود سے شکست خوردہ تھے۔ دونوں نے مشترکہ طور پر ایک بڑے حملے کی تیاری کی اور ایک بار پھر 1019ء میں ہی سلطان کو دوبارہ ان دونوں کی سرکوبی کے لیے ہندستان کا سفر کرنا پڑا۔ نتیجتاً دونوں راجاؤں کو شکست ہوئی اورہندوستانسے ہندو شاہی راجا کا خاتمہ ہو گیا۔سلطان محمود غزنوی 1020ء سے 1025ء کے درمیانی عرصے میں سلطنت کے شمالی مغربی حصے اوردریائے فراتکی وادیوں میں فتوحات میں مشغول رہا۔ اسی عرصہ میں سلطان محمود کو اپنے مخبروں سے یہ اطلاعات متواتر مل رہی تھیں کہ شمالی اور وسطی ہندوستان کی تمام ریاستیں سلطان سے شکست کھانے کے بعد بدلہ لینے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہیں اور اب کے بار ایک مشترکہ حملہ کی تیاری ہے اس کے لیے گجرات کے علاقے کاٹھیاوار میں ایک بہت ہی مشہور مندر سومنات کو مرکز بنایا گیا ہے۔سومناتسمندر کے کنارے ایک عظیم الشان مندر تھا، جسے پورے ہندوستان میں ہندوؤں کے درمیان میں ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ مندر میں موجود شیوا کے بت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شیوا بت کو غسل دینے کے لیے تازہ پانی روزانہ کی بنیاد پردریائے گنگاسے لایا جاتا تھا۔ جنگ کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں کہ سلطان نے پیشگی حملے کی تیاری کردی۔ غزنی سے سومنات تک فاصلہ تقریباً 2600 کلومیٹر بنتا ہے جس میں سے 500 کلومیٹر طویل مشکل ترینصحرائے چولستاناورراجستھانبھی پڑتا تھا۔اکتوبر 1025ء میں سلطان کی فوج تیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ غزنی سے روانہ ہوئی۔ تین مہینوں کی مسافت کے بعد جنوری 1026ء میں سومنات مندر کے قریب پڑاؤ ڈالا۔ ہندوستان کے طول و عرض سے مہاراجے اور رجواڑے اپنی اپنی فوج کے ساتھ مندر کی حفاظت کے لیے موجود تھے۔ جنگ کا آغاز ہوا اور ایک سخت مقا��لے کے بعد سلطان محمود فتح یاب ہوا۔ مندر کو توڑ ڈالا گیا۔ یہی وہ مشہور جنگ ہے جس کی بنا پر بعض مورخین نے سلطان محمود کی ذات کو ایک لٹیرا مشہور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سومنات کے بعد سلطان محمود کی ہندوستان پر آخری لڑائی 1027ء میں ہوئی جو دریائے سندھ سےدریائے بیاسکے درمیانی علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔آخری دو تین سال سلطان محمود غزنوی بیمار بھی رہا اپنی آخری جنگی مہم 1029ء میں ایرانی علاقے رے میں انجام دی اوررےکے حاکمآل بویہکو شکست دی۔کہا جاتا ہے کہ دق اور سل کے مرض میں مبتلا ہوکر30 اپریل1030ءمیں 59 سال کی عمر میںغزنیمیں وفات پائی۔مزید جانیں۔آرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ readblog1.com(Error: unknown archive URL)"
+182,خطۂ پنجاب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%B7%DB%82_%D9%BE%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%A8,"پنجاب (شاہ مکھی پنجابی: پنجاب،گرمکھی پنجابی: ਪੰਜਾਬ) جسے پانچ دریاؤں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے،جنوبی ایشیاکا ایک جغرافیائی، ثقافتی، اور تاریخی خطہ ہے۔ یہ خاص طور پربرصغیر پاک و ہندکے شمال مغربی حصے میں واقع ہے، جو جدید دور کےمشرقی پاکستاناورشمال مغربی ہندوستانکے علاقوں پر مشتمل ہے۔ پنجاب کے بڑے شہرلاہور،فیصل آباد،راولپنڈی،گوجرانوالہ،ملتان،لدھیانہ،امرتسر،سیالکوٹ،چنڈی گڑھ،شملہ،جالندھر،پٹیالہ،گڑگاؤںاوربہاولپورہیں۔پنجاب پانچ دریاؤں کے کنارے آباد بستیوں پہ پھلا پھولا، جو قدیموادیٔ سندھ کی تہذیب(کم از کم 3000قبل مسیحمیں شروع ہوئی) کے آغاز میں قریب مشرق کے لیے ایک اہم راستے کے طور پر کام کرتا تھا، اس کے بعدہند آریاؤںکی ہجرت ہوئی۔ زراعت پنجاب کی اہم اقتصادی خصوصیت رہی ہے اور اس نےپنجابی ثقافتکی بنیاد رکھی۔ پنجاب ایک اہم زرعی خطے کے طور پر ابھرا، خاص طور پر 1960 کی دہائی کے وسط سے 1970 کی دہائی کے وسط کے دورانسبز انقلابکے بعد، اور اسے ""ہندوستان اور پاکستان دونوں کی بریڈ باسکٹ"" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔[1]پنجاب کی تاریخ تنازعات کا ایک تسلسل ہے، جس میں مقامی خاندانوں اور سلطنتوں کے عروج کا نشان ہے۔ چوتھی صدی قبل مسیح میںسکندر اعظمکے حملے کے بعد،چندرگپت موریانےموریا سلطنتقائم کرنے کے لیے پنجابی جمہوریہ کے ساتھ اتحاد کیا۔ ہند-یونانی سلطنت،کوشان سلطنت، اور ہند-سیتھیوں کے یکے بعد دیگرے دور حکومت ہوئے، لیکن بالآخر مشرقی پنجاب کےجن پدوںجیسےیودھیوں، تریگرتا سلطنت، اودمبروں، ارجنیانوں، اور کُنیندا سلطنت کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔فہرست ہم نام ریاستیں اور علاقے"
+183,احمد ایاز,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D8%A7%D8%B2,"سلطانمحمود غزنویکا محبوب غلام اور مشیر۔ پورا نام ابوالنجم ایاز۔ باوجود قرب سلطانی کے اس کی زندگی بڑی سادہ اور کفایت شعارانہ تھی۔ وہ زمانہ قرب سلطانی سے پیشتر کا مفلسانہ لباس بطور یادگار اپنے پاس صندوق میں محفوظ رکھتے رہتا اور جب کبھی اس یادگار کو ملاحظہ کرتا تو یاز قدر خود بشناس کہتا یعنی ایاز تو اپنی ماضی کی حیثیت کو بھول نہ جانا۔ مورخین کا خیال ہے کہوزیرآبادکے قریب (سوہدرہ) کا قصبہ اسی ایاز نے آباد کیا تھا۔ 1036ء کے لگ بھگلاہورکا صوبیدار مقرر ہوا۔ اور یہیں وفات پائی۔ اس کا مزار چوک رنگ محل میں ہے۔محمود غزنوی کے معروف غلام کا مقبرہ ان سے منسوب ہے، یہ مقبرہرنگ محلمشن ہائی اسکوللاہورکے سامنے چوک میں موجود ہے۔ایاز کو ایاس اور الیاس بھی لکھا گیا ہے۔ اس کے ابتدائی حالات کے متعلق مستند معلومات نہیں ملتیں. ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی نے ایاز کا سنہ پیدائش اندازہً373ھتحریر کیا ہے۔ ایاز سلطان کے دربار میں کیسے پہنچا اس کے متعلق بہت سی کہانیاں موجود ہیں۔ مجالس العشاق(بحوالہ نقوش) کے مطابق397ھمیں غلام فروشوں کی ایک جماعت نے سلطان کے لیے 120 غلام پیش کیے اب بعض کہتے ہیں کہ ایاز کو اس کی خوبصورتی کے باعث سب سے پہلے منتخب کیا گیا جبکہ بعض کے نزدیک اس کو کمزوری و بیماری کے باعث چھوڑ دیا گیا اور پھر ایاز کے زار و قطار رونے پر اس کو بھی لے لیا گیا۔ زلالی نے اپنی مثنوی (بحوالہ مآثر لاہور) محمود و ایاز میں ایاز کو کسی کشمیری بادشاہ کا بیٹا بتایا ہے جو لڑکپن میں گم جاتا ہے اور غلام بنا کر بیچا جاتا ہے, لیکن اس زمانے تک کشمیر میں کوئی مسلمان بادشاہ نہ تھا۔ اسی طرح ایاز کے آبائی علاقے کے متعلق اختلاف ہے۔ ایاز کو مختلف لوگوں نے ترک, روسی, منگول, افریقی,ترکمانی, ختنی, کشمیری وغیرہ لکھا ہے۔ایاز کی کنیت ابو النجم بتائی جاتی ہے۔ اس کے باقی خاندان کا تاریخ میں کوئی خاص ذکر نہیں بعض نے اس کی ایک بہن کو محمود کی بیوی بتایا ہے مگر مستند روایات میں ایسا کوئی تذکرہ موجود نہیں. بعض نے ایماق یا اوئماق ایاز کے باپ کا نام اور بعض نے ایاز کے قبیلے کا نام بتایا ہے۔ دائر معارف اسلامیہ میں اس ضمن میں کہا گیا ہے"" ابن اثیر نے ""ابن اوئماق"" لکھ کر بظاہر بعد کے فارسی تاریخ نویسوں کو غلط راستے پر ڈالا اور ان کے بعض کاتبوں نے اسے ابن اسحاق بنا دیا.""ایاز محمود کا وفادار تھا۔ ایاز کوئی عام غلام نہیں تھا, جیسا کہ مورخ بیہقی ایاز کا تذکرہ اخص خواص آٹھ غلاموں میں کرتا ہے۔ ایاز محمود کے شاہی دستے کا سالار بھی تھا۔ ایاز کی محمود کے دربار میں حیثیت سے متعلق پروفیسر مشتاق احمد بھٹی نے اورینٹل کالج میگزین شمارہ نومبر 1943ء میں اپنے مضمون میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ نور احمد چشتی تو کہتے ہیں کہ محمود نے سومنات کا بت ایاز کے مشورے پر ہی توڑا. ایاز و محمود پر بہت سے شعرا نے لکھا ہے۔ ایاز سے متعلق فارسی ادب میں بہت سی حکایت موجود ہیں۔ زلالی, سعدی, عوفی,رومی,عطار, غقاری,عنصری,حافظ, فرخی, نظامی,جامی, وغیرہ نے ایاز پر لکھا ہے۔ شعرا کے قصائد کی بنا پر ہمارے بہت سے مورخین نے محمود و ایاز کو داستان عشق بنا دیا۔ اب اس معاملے میں ہر ایک نے اپنی کہانی تراش لی. شعر العجم میں مولانا شبلی نے لکھا ہے"" سلطان محمود کو ایاز سے جو محبت تھی اگرچہ حد سے متجاوز تھی لیکن ہوس کا شائبہ نہ تھا۔ ایک دن بزم عیش میں بادہ و جام کا دور تھا محمود خلاف عادت معمول سے زیادہ پی کر بدمست ہو گیا, اسی حالت میں ایاز پر نظر پڑی اس کی شکن در شکن زلفیں چہرہ پر بکھری ہوئی تھیں محمود نے بے اختیار اس کے گلے میں ہاتھ ڈال دیے, لیکن فوراً سنبھل گیا..."" اب مولانا نے محمود کی مے نوشی کے متعلق کوئی حوالہ نہیں لکھا لیکن انکا یہ بیان ایک شاعر کے قصے پر مبنی ہے۔ اس بیان پر بہت سے لوگوں نے جرح کی ہے ابن کثیر ,ابن خلدونو دیگر مورخین نے محمود کا جو کردار لکھا ہے اس میں یہ واقعہ ویسے بھی نہیں جچتا. اسی طرح محمود و فردوسی کے متلعق بھی کہانی بنا لی گئی ہے۔ایاز کو بانی لاہور اور لاہور کا پہلا حاکم بھی کہا جاتا ہے لیکن غزنوی دور میں لاہور کے اولین صوبہ داروں میں عبد اللہ فراتگین اور حاجب اریاروق کے نام بھی ملتے ہیں۔ ایاز لاہور میں کب آیا اس کے متلعق مورخین کا اختلاف ہے۔ صاحب تاریخ الامت, سجان رائے,سید لطیف,لوسی پیک,محمد ممتاز ارشد, گلاب سنگھ(پنجاب نوٹس اینڈ کویریزفروری 1884ءمیں), لاہور گزیٹیئر(1893ءمیں), محمد اکرام(آب کوثر میں) و دیگر کی رائے ہے کہ ایاز کو لاہور کا صوبہ دار یا منتظم محمود غزنوی نے فتح لاہور کے بعد خود بنایا. کہنیالال کا بیان ہے ""محمودغزنیچلا گیا اور یہ شہر چند سال ویران پڑا رہا. من بعد جب ملک ایاز بادشاہ کے حکم سے پنجاب کا حاکم بنا اور شہر بسایا.""ایاز نے محمود کی وفات کے بعد محمد کی بجاے مسعود کی حمایت کی تھی اس کے باعث ایاز مسعود کا بھی منظور نظر بن گیا۔مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایاز کو امیر مسعود کے عہد میں اس کے فرزند مجدود(کچھ لوگوں نے غلطی سے مسعود کے دوسرے فرزند مودود کا نام بھی لکھا ہے) کا اتالیق بنا کر تقریباً 426ھ یا427ھمیں لاہور بھیجا گیا۔ اس روایت کو مورخ فرشتہ, محمد دین فوق,سید ہاشمی فرید آبادی, ڈاکڑ خواجہ عابد نظامی, طاہر لاہوری ,پروفیسر مشتاق احمد بھٹی, ڈاکٹر محمد باقر, مفتی غلام سرور لاہوری,ڈاکٹر انجم رحمانی و دیگر نے درج کیا ہے۔ مورخ بیہقی اورمسعودیکے بیانات سے بھی اس روایت کی تائید ہوتی ہے مگر انھوں نے ایاز کا نام درج نہیں کیا. ایک قصے میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ محمود ایاز کو لاہور سپرد کرنا چاہتا تھا مگر ایاز نے قبول نہیں کیا اسی طرح روایات میں موجود ہے کہ ایاز محمود کی وفات کے وقت اس کے پاس تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مجدود کی کم عمری کے باعث اصل طاقت ایاز کے ہی ہاتھ میں تھی مورخ فرشتہ کے بقول قاضی القضاۃ و سپہ سالار بھی ایاز کے ماتحت تھے۔ ایاز نے لاہور کو خوب ترقی دی.ایاز کب تک لاہور میں بر سر اقتدار رہا اس کی صحیح مدت معلوم نہیں کیونکہ اس کی سنہ وفات میں اختلاف ہے۔ مورخ فرشتہ نے لکھا433ھمیں مسعود کے قتل کے بعد مودود اور مجدود ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہوگے. مگر عید کے روز مجدود مردہ پایا گیا اور اس کے کچھ عرصہ بعد ایاز کا بھی انتقال ہو گیا۔ مولانا ذکاء اللہ و دیگر نے ایاز کا سنہ وفات یہی لکھا ہے۔ مفتی غلام سرور نے گنج تاریخ (بحوالہ پیر غلام دستگیر نامی) میں سنہ وفات434ھجبکہ اپنی دوسری کتاب حدیقتہ الاولیا میں450ھلکھا ہے۔ مستند کتب میں سے ابن اثیر نے سنہ وفات 449ھ تحریر کیا ہے اورطبقات ناصری کے انگریز مترجم ریورٹی نے بھی حاشیے پر سنہ وفات 449ھ لکھا ہے۔ محمد دین فوق اور ہاشمی فریدآبادی نے بھی اس کی تائید کی ہے اور پروفیسر مشتاق احمد بھٹی نے اپنے مضمون میں اس تاریخ کو ثابت کیا ہے۔ ایاز کے آخری دنوں کے متعلق مآثر لاہور میں درج ہے ""معلوم نہیں زندگی کے آخری سال جو بظاہر لاہور ہی میں گذرے کس طرح اور کن اشغال میں بسر ہوئے."" مفتی غلام سرور نے حدیقتہ الاولیاء میں لکھا ہے "" مودود نے ایاز کو واپس غزنی لے جانے کی بہت کوشش کی مگر اس نے منظور نہ کیا اور تارک الدنیا ہوکر صحبت فقر اختیار کی اور بزرگان لاہور سے سے فیض کامل حاصل کیا..."" کہا جاتا ہے کہ ایاز سلسلہ جنیدیہ میں بیعت ہوگے اور آپ کی کرامت بتائی جاتی ہے کے آپ نے ایک ہی دن میں لاہور کی فصیل اور قلعہ تعمیر کیا ( اولیاء کے تذکروں کے علاوہ یہ روایت سید لطیف اور لاہور گزیٹیئر 1893ء کے مرتبین نے بھی درج کی ہے).بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ مقبرہ ایاز کا نہیں. کچھ ایاز کا مقبرہ صوابی میں بتاتے ہیں(مگر کسی مستند کتاب میں ایسی کوئی روایت نہیں ملی). لاہور کے حوالے سے ایاز نام کے دو اور معروف لوگ بھی گذرے ہیں۔ دائر معارف اسلامیہ میں اس مسئلے کے متلعق کہا گیا ہے ""ایک ایاز عزالدین کبیر خانی تھے جو شمسی سلاطین دھلی کے زمانے میں لاہور کا حاکم تھا, لیکن اس کی وفات اُچ سندھ میں ہوئی اور دوسرے خواجہ ایاز ��اھجانی مگر وہ گیارھویں/ستھرویں صدی کا آدمی تھا۔ غزنوی ایاز کے ساتھ اس کا التباس بعید از قیاس ہے."" ماضی میں ایاز کا مقبرہ کافی وسیع تھا۔ کہنیا لال لکھتے ہیں "" اس مزار کے ساتھ بہت بڑا احاطہ و باغیچہ و ملکیت تھی جو بسبب گزرنے عرصہ دراز کے جاتی رہی."" سید لطیف کا بیان ہے "" اس مزار کے ساتھ ملحقہ ایک بہت بڑا باغ سکھوں کی حکومت کے دوران ختم ہو گیا."" ماضی قریب میں نواز شریف نے بطور وزیر اعلی پنجاب مقبرہ ایاز دوبارہ تعمیر کروایا اور ساتھ ایک مسجد بھی. گو کہ یہ مقبرہ کوئی برا نہیں مگر شاید اس محسن لاہور کے شایان شان بھی نہیں. جب یہاں علی الصبح حاضری دی تو حیرت ہوئی کے مسجد کھلی تھی حالات کے باعث زیادہ تر مساجد نماز کے اوقات میں ہی کھلتی ہیں۔ مقبرہ کافی مشکل سے ملا کئی لوگوں سے پوچھا یہاں تک مقبرے و مسجد کے بالکل قریب موجود دکان دار بھی اس کے متعلق نہیں جانتے تھے شاید وجہ ہماری تاریخ سے عدم دلچسپی ہے۔ جس مقبرے کے متعلق ماضی کی کتب میں لکھا ہے کہ اہلیان لاہور بانی لاہور کی اس قبر کی خصوصی تعظیم کرتے ہیں آج کے جدید لاہوریے بانی لاہور کی اس قبر کو فراموش کرچکے ہیں،[1]آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نمازقبلہ رُو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجازایک ہی صف میں کھڑے ہو گئےمحمود و ایازنہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نوازبندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئےتیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئےحوالہ جات"
+184,شہاب الدین غوری,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%A7%D8%A8_%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%BA%D9%88%D8%B1%DB%8C,"معز الدین محمد بن سام(فارسی: معز الدین محمد بن سام)، (1144ء–15 مارچ،1206ء)، جوشہاب الدین غوریکے نام سے مشہور ہیں، موجودہ وسطیافغانستانکےغورمیں واقعغوری خاندانسے تعلق رکھنے والے ایک حکمران تھے۔ جنھوں نے1173ءسے1206ءتک حکومت کی۔ شہاب الدین غوری اور ان کے بھائیغیاث الدین محمد غورینے1203ءمیں اپنی وفات تکغوری سلطنتکے مغربی علاقے پر دار الحکومتفیروزکوہسے حکومت کی جبکہ شہاب الدین غوری نے غوری سلطنت کو مشرق کی طرف بڑھایا اوربرصغیر پاک و ہندمیں اسلامی حکمرانی کی بنیاد رکھی۔[1][2]غوری سلطنتکے جنوبی علاقے کے گورنر کی حیثیت سے اپنے ابتدائی دور کے دوران ، شہاب الدین غوری نے متعدد حملوں کے بعد اغوز ترکوں کو زیر کیا اورغزنیپر قبضہ کر لیا جہاں اسےغیاث الدین محمد غورینے ایک آزاد خود مختار کے طور پر قائم کیا۔ محمد غوری نے1175ءمیںدریائے سندھعبور کیا اور گومل درہ کے ذریعے اس کے قریب پہنچا اور ایک سال کے اندر کارماتھیوں سےملتاناوراوچپر قبضہ کر لیا۔[3]اس کے بعد ، شہاب الدین غوری نے اپنی فوج کو زیریں سندھ کے راستے سے صحرائے تھر کے ذریعے موجودہ گجرات میں داخل ہونے کی کوشش کی ، لیکن آخر میں مولاراجا کی سربراہی میں راجپوت سرداروں کے اتحاد نے کاسہراڈا میں کوہ ابو کے قریب راستہ روکا ، جس نے اسے مستقبل میں ہندوستانی میدانوں میں داخل ہونے کے لیے اپنا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ چنانچہ شہاب الدین غوری نے غزنویوں پر دباؤ ڈالا اور1186ءتک انھیں اکھاڑ پھینکا اور بالائی سندھ کے میدان کے ساتھ ساتھپنجاب، پاکستانکے بیشتر حصوں کو بھی فتح کر لیا۔ غزنویوں کو ان کے آخری گڑھ سے بے دخل کرنے کے بعددرہ خیبرکو بھی محفوظ بنایا ، جو شمالی ہندوستان میں حملہ آور فوجوں کے داخلے کا روایتی راستہ تھا۔[4]غوری سلطنت کو مزید مشرق کی طرف گنگا کے میدان تک پھیلاتے ہوئے ، غوری افواج کو فیصلہ کن رد عمل کا سامنا کرنا پڑا اور شہاب الدین غوری خود1191ءمیںترائنمیں چاہمان حکمرانپرتھوی راج چوہانکی قیادت میں راجپوت کنفیڈریسی کے ساتھ مصروفیت میں زخمی ہو گئے۔ شکست کے بعد محمد غوریخراسانواپس آ گیا اور ایک بڑی فوج کے ساتھ ہندوستان واپس آیا تاکہ اسی میدان جنگ میں فیصلہ کن فتح حاصل کی جاسکے[5]اس جنگ میں فتح کے بعد پرتھوی راج کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد انھوں نےہندوستانمیں اپنی موجودگی کو مشرق میںبنگالاوربہارکے شمالی علاقوں تک بڑھا دیا۔1203ءمیںغیاث الدین محمد غوریکی وفات کے بعد شہاب الدین غوریفیروزکوہکے تخت پر فائز ہوئے اور غوری سلطنت کے سب سے بڑے سلطان بن گئے۔[6]ہندوستان سے واپس جاتے ہوئے شہاب الدین غوری کو15 مارچ1206ءکو دھمیک کے مقام پردریائے سندھکے کنارے اسماعیلی شیعہ سفیروں نے اس وقت قتل کر دیا جب وہ شام کی نماز ادا کر رہے تھے۔[7][8]محمد غوری موجودہ مغربی وسطیافغانستانکے علاقےغورمیں غوری حکمران بہاء الدین سام اول کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ جنھوں نے1149ءمیں اپنی وفات سے قبل اپنے آبائی علاقے پر حکومت کی تھی۔ ان کا نام مختلف طور پر معز الدین بن بہاؤ الدین سام، شہاب الدین غوری، محمد غوری اور غور کے محمد کے طور پر ترجمہ کیا گیا ہے۔[9]طبقات ناصری کے مطابق ، ان کا پیدائشی نام ""محمد"" تھا جسے مقامی طور پر غوریوں نے ""حماد"" کہا ہے۔ غزنہ میں تاج پوشی کے بعد ، انھوں نے خود کو ""ملک شہاب الدین"" کے طور پر پیش کیا اورخراسانپر قبضے کے بعد ، انھوں نے ""معز الدین"" کا لقب اختیار کیا۔[10]ان واقعات میں محمد کی صحیح تاریخ پیدائش کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ محمد غوری، غیاث الدین سے تین سال اور چند ماہ چھوٹے تھے ، جو1140ءمیں پیدا ہوئے تھے۔ لہٰذا محمد غوری کی ولادت کا سال1144ءقرار دیا جا سکتا ہے۔[11]غیاث الدین محمد کی وفات کے بعد محمد غوری نے ""سلطان الاعظم"" کا لقب اختیار کیا جس کا مطلب ""عظیم ترین سلطان"" تھا۔[12]قطب مینارمیں ایک کالونی پر ان کے کچھ سنہری ٹکسالہندوستانمیں گردش کرتے ہیں۔ محمد کو ""سکندر الثانی"" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔[13]محمد غوری کے درباری انھیں اسلام کے داعی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور انھیں ""سلطان غازی"" (مقدس جنگجوؤں کا سلطان) قرار دیتے ہیں اور ان کی ہندوستانی مہمات کو اسلام کی فوج (لشکر اسلام) اور کافروں کی فوج کے درمیان مصروفیت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔[14]شہاب الدین غوری اور ان کے بھائی غیاث الدین دونوں کے ابتدائی سال مسلسل مشکلات میں گذرے۔ ان کے چچا علاء الدین حسین نے غزنہ میں اپنی مہم کے بعد ابتدائی طور پر انھیں سنجہ کا گورنر مقرر کیا۔ تاہم ، صوبے کی ان کی موثر انتظامیہ نے اسے ان کے عروج کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا اور اپنے اختیار کو ممکنہ چیلنج کو دیکھتے ہوئے ، اس نے اپنے بھتیجوں کو گرجستان کے قلعے میں قید کرنے کا حکم دیا۔[14]اگرچہ ، انھیں1161ءمیں اپنے والد کی موت کے بعد ان کے بیٹے سیف الدین محمد کو قید سے رہا کر دیا تھا۔[15][16]سیف الدین ، بعد میں بلخ کے خانہ بدوش اوغوز کے خلاف جنگ میں ہلاک ہو گئے۔[17][18]قید سے رہائی کے بعد ""تاریخ فرشتہ"" میں کہا گیا ہے کہ غوری بھائیوں کو سنجہ میں بحال کر دیا گیا تھا، حالانکہ ""طبقات ناصری"" کے پہلے بیان میں کہا گیا تھا کہ ان کی مالی حالت کی وجہ سے مشکلات جاری رہیں۔ اس طرح محمد غوری نے اپنے چچا فخر الدین مسعود کے دربار میں پناہ لی جنھوں نےبامیانکی سلطنت کو اپنے چچا علاؤ الدین حسین کا جانشین قرار دیا۔[19]بعد میں فخر الد��ن مسعود نے سید الدین کی وفات کے بعدغوری خاندانکے بڑے رکن کی حیثیت سے جانشینی کے لیے اپنا دعویٰ پیش کیا۔ محمد غوری نے فخر الدین کی بغاوت کو دبانے میں اپنے بھائی کی مدد کی جس نےبلخاورہراتکے سرداروں کے ساتھ اتحاد میں ایک بڑی فوج حاصل کی ، دونوں کو جنگ کے بعد پھانسی دے دی گئی ، حالانکہ فخر الدین کو1163ءمیں بامیان میں بحال کر دیا گیا تھا۔[20][21]مقامی غوری افسران اور ""مالکوں"" کی مدد سے ، اس کے بھائی نے 1163ء میں سیف الدین کے بعد تخت سنبھالا اور ابتدائی طور پر محمد غوری کو اپنے دربار میں ایک معمولی افسر کے طور پر رکھا ، جس کے نتیجے میں وہسیستانکے دربار میں سبکدوش ہو گیا۔[22][23]شہزادے کی حیثیت سے محمد غوری کی ابتدائی مہمات کے دوران ، اسے اوغوز قبائل کو زیر کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جن کی طاقت اور اثر و رسوخ کم ہونا شروع ہوا تھا ، حالانکہ وہ اب بھی وسیع علاقوں کو کنٹرول کر رہے تھے۔ اس نےقندھارکو ایک اڈے کے طور پر استعمال کیا اور اوغوز کی سلطنت پر متعدد بار حملہ کیا اور غیاث الدین کے ساتھ مل کر انھیں فیصلہ کن طور پر شکست دی اور1169ءمیں موجودہ مشرقی افغانستان کے کچھ دیگر علاقوں کے ساتھ غزنہ کو فتح کرکے اس فتح کو آگے بڑھایا۔[24]جلد ہی ، محمد غوری کی تاج پوشی1173ءمیں غزنہ میں ہوئی اور اس کا بھائی ٹرانسوکسانیا میں مغرب کی توسیع کے لیےفیروزکوہواپس آگیا۔ محمد نے غزنہ شہر کو ایک لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کیا تاکہ انڈس ڈیلٹا اور اس سے آگے علاقے کی فتح کی قیادت کی جاسکے۔1174ءمیں محمد غوری نے موجودہترکمانستانمیں سنکران کے اغوز کے خلاف ایک مہم کی قیادت کی اور انھیں زیر کر لیا۔[25][26]1175ءمیں ، محمد غوری نے غزنہ سے مارچ کیا اور سلجوقیوں کے ایک سابق جنرل کو شکست دینے کے بعد کاسموپولیٹن شہر ہرات اور پشانگ کے الحاق میں اپنے بھائی کی مدد کی۔[27]غوری بھائیوں نے موجودہ ایران میں پیش قدمی کی اور سیستان کے نصری خاندان کو اپنے زیر تسلط لایا جس کے حکمران تاج الدین سوم حرب بن محمد بن نصر نے غوریوں کی بالادستی کو تسلیم کیا اور بعد میں اپنی فوجیں کئی بار بھیجی اور ان کی جنگوں میں غوریوں کی مدد کی۔ اس کے بعد ، غیاث الدین نے بلخ اور خراسان میں ہرات سے ملحقہ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔[28][21]شہاب الدین محمد غوری کا تعلق افغان سور قبیلے سے تھا۔
+سیف الدین ثانی کے انتقال کے بعد غیاث الدین غوریسلطنت غوریہکے تخت پر بیٹھا اور اس نے 567ھ بمطابق 1173ء میںغزنیکو مستقل طور پر فتح کرکے شہاب الدین محمد غوری جس کا اصل نام معز الدین محمد غوری ہے[29]غزنی میں تخت پر بٹھایا۔ غیاث الدین نے اس دورانہراتاوربلخبھی فتح کرلئے اور ہرات کو اپنا دار الحکومت بنایا۔[30]سلطان شہاب الدین غوری اگرچہ اپنے بھائی کا نائب تھا لیکن اس نے غزنی میں ایک آزاد حکمران کی حیثیت سے حکومت کی اورپاکستاناور شمالی ہندوستان کو فتح کرکے تاریخ میں مستقل مقام پیدا کر لیا۔ 598ھ میں اپنے بھائی کے انتقال کے بعد وہ پوری غوری سلطنت کا حکمران بن گیا۔[31]شہاب الدین محمد غوری کی فوجی کارروائیاں موجودہ پاکستان کے علاقے سے شروع ہوئیں اور وہ مشہور عالمدرہ خیبرکی بجائےدرہ گوملسےپاکستانمیں داخل ہوا۔ اس نے سب سے پہلےملتاناوراوچپر حملے کیے جو غزنویوں کے زوال کے بعد ایک بار پھراسماعیلیفرقے کا گڑھ بن گئے تھے۔ یہ اسماعیلی ایک طرفمصرکےفاطمیخلفاء کے ساتھ اور دوسری طرفہندوستانکے ہندوؤں سے قریبی تعلق قائم کیے ہوئے تھے۔ غور کے حکمران عام مسلمانوں کی طرح عباسی خلافت کو تسلیم کرتے تھے اور اسماعیلیوں کی سرگرمیوں کو مسلمانوں کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ محمد غوری نے 571ھ بمطابق 1175ء میں ملتان اور اوچ دونوں فتح کرلئے اس کے بعد 575ھ بمطابق 1179ء میں محمد غوری نےپشاوراور 576ھ بمطابق 1182ء میںدیبلکو فتح کرکے غوری سلطنت کی حدود کوبحیرہ عربکے ساحل تک بڑھادیں۔[32]لاہوراس کے نواح کا علاقہ ابھی تک غزنوی خاندان کے قبضے میں تھا جن کی حکومت غزنی پر جہانسوز کے حملے کے بعد لاہور منتقل ہو گئی تھی۔
+شہاب الدین محمد غوری نے582ھبمطابق 1186ء میں لاہور پر قبضہ کرکے غزنوی خاندان کی حکومت کو بالکل ختم کردی۔غوری بھائیوں نے غیاث الدین محمد کے ساتھ مل کر مغربی وسطی افغانستان میں واقع اپنے دار الحکومتفیروزکوہسے خوارزمیوں کے ساتھ ایک طویل لڑائی میں حصہ لیا ، جبکہ غور کے محمد نے اپنے دار الحکومت غزنہ سے مشرق کی طرف غوری علاقوں کو ہندوستانی میدانوں میں پھیلا دیا۔[33]ہندوستانی میدانی علاقوں میں مہمات اور گنگا کے میدان میں منافع بخش ہندو مندروں کو مسمار کرنے سے نکالی گئی لوٹ مار نے محمد کو غزنہ میں ایک بہت بڑا خزانہ فراہم کیا جس کے مطابق تاریخ دان جوزجانی کے مطابق محمد کے کے پاس 60،000 کلوگرام (1500 من) زیورات شامل تھے۔[34]محمد غوری نےبرصغیر پاک و ہندمیں غور کی مہمات کا آغاز قرامتیوں (اسماعیلیوں کی ساتویں شاخ) کے خلاف کیا جنھوں نے محمود غزنوی کی موت کے فورا بعدملتانمیں اپنے قدم جما لیے جس نے وہاں ایک سنی گورنر مقرر کیا۔[35]محمد غوری نے1175ءمیں قرامطی حکمران خفیف کو شکست دی اور ملتان پر قبضہ کر لیا۔[36]یہ شکست ملتان میں قرامتی طاقت کے لیے موت کا جھٹکا ثابت ہوئی ، جس نے دوبارہ اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ دوبارہ حاصل نہیں کیا۔[37]ملتان کی فتح کے بعد ، محمد غوری نے اوچ پر قبضہ کیا جو دریائے چناب اور جہلم کے سنگم کے جنوب میں واقع تھا۔ اگرچہ اوچ میں ان کی مہم کا ذکر قریب قریب کے معاصر واقعات میں نہیں ملتا سوائے کامل فیط تاریخ کے ، حالانکہ اوچ میں ان کی مہم کے بارے میں متن میں تفصیل ممکنہ طور پر بھاٹی راجپوتوں سے وابستہ ایک افسانے کی وجہ سے دھندلی ہے۔ بہرحال ، بعد کے ایک مؤرخ فرشتہ نے اوچ فتح کے سال کو 1176 کے طور پر ذکر کیا۔ 1204ء میں غزوۂ اندخد میں ان کی وفات تک اسے ملک نصرالدین ایاتم کے ماتحت رکھا گیا۔ اس کے بعد اسے ناصر الدین قباچہ کے ماتحت رکھا گیا۔[38]اپنے ابتدائی حملوں کے دوران ، محمد غوری نے پنجاب سے گریز کیا اور اس کی بجائے دریائے سندھ کے وسط اور نچلے راستے سے متصل علاقوں پر توجہ مرکوز کی۔ لہٰذا، پنجاب میں غزنویوں کو شکست دینے اور شمالی ہندوستان کے لیے ایک متبادل راستہ کھولنے کے لیے محمد غوری نے جنوب میں انہیلواڑہ میں موجودہ گجرات کا رخ کیا۔[39]انہیلواڑہ میں داخل ہونے سے پہلے ، اس نے ناڈول کے قلعے (مارواڑ کے آس پاس) کا محاصرہ کیا اور کیرادو میں شیو مندر کو تباہ کرنے کے ساتھ کیلہنادیوا سے مختصر محاصرے کے بعد اس پر قبضہ کر لیا۔ مارواڑ کے جنوب میں خشک صحرائے تھر سے گزرنے کے بعد غوری فوج تھک گئی، جب وہ کوہ ابو پہنچے، جہاں انھیں گدراگھٹا کے پہاڑی درے میں سولنکی حکمران مولاراجا دوم نے مدد فراہم کی، جس کی مدد دوسرے راجپوت سرداروں نے بھی کی تھی، خاص طور پر نادولہ چاہمانہ حکمران کیلہنادیوا (جسے پہلے محمد نے ناڈول سے معزول کر دیا تھا)۔ جلور چاہمن حکمران کیرتی پالا اور اربودا پرمار حکمران دھاراورشا۔ جنگ کے دوران غوری فوج ک�� بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا اور صحرا کے پار غزنی کی طرف پیچھے ہٹنا پڑا۔[40]اس شکست نے محمد غوری کو شمالی راستوں کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جنھوں نے شمالی ہندوستان میں مزید دراندازی کے لیے پنجاب اور شمال مغرب میں ایک مناسب حکومت بنانے پر توجہ مرکوز کی۔[41]1179ءمیں ، محمد غوری نےپشاورکو فتح کیا جس پر ممکنہ طور پر غزنویوں کی حکومت تھی۔[42]اس کے بعد محمد غوری نے مزید پیش قدمی کی اورلاہورکا محاصرہ کیا ، حالانکہ خسرو ملک نے غزنہ میں اپنی تحویل میں ایک غزنوی شہزادے (ملک شاہ) کو یرغمال بنا کر خراج تحسین بھیج کر اسے مزید کچھ سالوں تک لاہور کی سرحدوں کے ارد گرد رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔[43]1181ءمیں محمد غوری نے جنوب کی طرف چلتے ہوئےسندھکےبحیرہ عربکے ساحل پر واقع بندرگاہی شہردیبلکا رخ کیا۔[44]بعد کے سالوں میں ، اس نے موجودہپاکستانکے ارد گرد اپنی فتوحات کو وسعت اور مستحکم کیا اور لاہور اور دیہی علاقوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھسیالکوٹپر قبضہ کر لیا۔[45]خسرو ملک نے سیالکوٹ میں غوری گیریژن کو بے دخل کرنے کی ناکام کوشش محمد غوری نے لاہور پر آخری حملہ کیا اور اسے مختصر محاصرے کے بعد ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔[46]اس نے خسرو ملک کو گھرچستان کے قلعے میں قید کر دیا ، جس نے اس کی موجودگی کے لیے محفوظ طرز عمل کے اپنے ہی معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ خسرو ملک کو فیروزکوہ میں غیاث الدین محمد کے پاس بھیجا گیا جہاں اسے اور اس کے تمام رشتہ داروں کو 35 سے پہلے پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح ، غزنویوں کا سلسلہ نسب اور غوریوں کے ساتھ ان کی تاریخی جدوجہد کا خاتمہ ہوا۔[47][48]غزنویوں کو اکھاڑ پھینکنے کے بعد ، محمد غوری نے اب پنجاب کے بیشتر حصوں سمیت اسٹریٹجک سندھ طاس پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔[49][50]انھوں نے ملا سراج الدین کو ، جو پہلے اپنے والد کے دربار میں ایک اعلی درجے کے قاضی تھے ، ملتان کے انچارج کے ساتھ ساتھ نئے فتح شدہ غزنوی علاقوں میں عدالتی محکمے کا سربراہ مقرر کیا۔ ان کے بیٹے منہاج السراج (پیدائش 1193ء) نے بعد میں 1260ء میں طبقات ناصری کی تالیف کی جسے غوری خاندان اور دہلی سلطنت پر قرون وسطیٰ کے دور کا ایک یادگار کام سمجھا جاتا ہے تحریر کی۔[51][51]لاہور اور پاکستان کو فتح کرنے کے بعد شہاب الدین نےبھٹنڈہکو فتح کیا جو پہلےغزنوی سلطنتمیں شامل تھا لیکن اس وقتدہلیاوراجمیرکے ہندوراجہ پرتھوی راج چوہانکے قبضے میں تھا۔ پرتھوی راج نے جب یہ سنا کہ شہاب الدین نے بھٹنڈہ فتح کر لیا ہے تو وہ ایک زبردست فوج لے کر جس کی تعداد دو لاکھ تھی مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نکلا۔ دہلی کے شمال مغرب میںکرنالکے قریب ترائن یا تراوڑی کے میدان میں دونوں افواج میں خوب لڑائی ہوئی لیکن شہاب الدین کی فوج تھوڑی تھی، اس کو شکست ہوئی اور وہ بری طرح زخمی ہو گیا۔ اسی حالت میں ایک سپاہی اس کو بچا کر لے گیا۔ اس کے سپاہی اور جرنیل محمدغوری کوغائب دیکھ کر بددل ہو گئے اور میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔ محمد غوری کو زخمی حالت میں لاہور لایاگیا جہاں سے وہ غزنی پہنچا۔[52][53][54][55]جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر میں میں آکرتبلیغ شروع کی تو آس پاس کے لوگ مسلمان ہونا شروع ہو گئے اور اس بات کی خبر پورے علاقے میں پھیل گئی۔ آپ کے پاس راجپوتوں کی ٹولیاں آتیں اور آپ کا امتحان لینے کی کوشش کرتیں اور آپ کو یہاں سے نکالنے کی دھمکیاں بھی دی جاتیں ۔ جب پرتھوی راج چوھان کو اس کی خبر ملی تو وہ خوب آگ بگولا ہوا اور اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ آپ کو ی��اں سے نکال دے لیکن آپ اپنی جگہ پر قائم رہے۔ جب حضرت معین الدین چشتی کے ہاتھوں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا تو وہ آپ کی جان کا دشمن بن گیا یہاں پر آپ قدرت کا کمال دیکھے کے ایک طرف فقیر جو بے سروسامان نہ کوئی ظاہری طاقت کے کیسے وقت کے ظالم اور طاقتور ترین بادشاہ کے سامنے ڈٹ گیا۔ اب پرتھوی راج بے ادبی پر اتر آیا تھا اس نے آپ کو قتل کرنے کی دھمکی دے دی حضرت معین الدین چشتی بھی جلال میں آگئے اور فرمایا کہ “ہم نے تجھ کو گرفتار کر کے مسلمان فوج کے حوالے کیا”۔ پہلے تو پرتھوی راج یہ سن کر حیران ہو گیا پھر قہقہہ لگا کر بولا کہ” کونسی فوج آئے گی مجھے گرفتار کرنے” اس کے طنزیہ سوال پر حضرت معین الدین چشتی نے صرف اتنا جواب دیا کہ ” اب جو ہوگا وہ تم خود دیکھ لوگے”۔ادھر سلطان کو ایک رات خواب میں ایک بزرگ کی زیارت ہوئی جو ان سے واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ ” میں نے ہندوستان تجھ کو دیا آکر اس پر قبضہ کرلو”۔ سلطان جب خواب سے بیدار ہوتے ہیں تو اس تعبیر کے بارے میں پریشان ہوجاتے ہیں ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ بھرپور تیاری کے بغیر ہندوستان پر ایک مرتبہ پھر حملہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے خواب کو نظر انداز کر دیا۔ مگر پھر متواتر سے خوابوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اب کی بار ان بزرگ کے لہجے میں سختی بھی آگئی۔سلطان نے بھی علما اور صاحب فراست لوگوں سے مشورے شروع کردیے ایک فقیر نے انھیں بتایا کہ ان بزرگ کی آمد ایک غیبی مدد کی طرف اشارہ ہے ان کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ ہندوستان جائیں ان کی فتح یقینی ہے۔ جب سلطان نے ان سے ان بزرگ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اب اس کی حقیقت فتح کے بعد ہی آشکار ہوگی۔ اس کے بعد سلطان نے فیصلہ کیا کہ یکسو ہو کر ہندوستان پر حملہ کی تیاری کی جائے اور جتنی فوج بھی تیار ہے اس کے ساتھ ہی ہندوستان پر یلغار کردی جائے۔[7]شہاب الدین کو اس شکست کا اتنا رنج ہوا کہ ایک سال تک اس نے عیش و آرام کی زندگی نہیں گزاری۔ اس نے اپنے جرنیلوں سے بات چیت تک ترک کردی بعض جرنیلوں کو اس نے سخت سزائیں دیں بالآخر اس نے تمام جر نیلوں کو تربیت یافتہ فوج تیار کرنے کاحکم دیا کچھ عرصہ بعد ایک بڑی فوج جس کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزارجمع کرلی، وہ اس فوج کو لے کر پچھلی شکست کا بدلہ لینے کے لیے دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ ادھر سے پرتھوی راج بھی بھارت کے ڈھائی سو راجاؤں کی مدد سے 3 لاکھ سے زائد فوج اور کئی ہزار جنگی ہاتھی لے کر روانہ ہوا۔ دونوں جرنیلوں کی افواج ایک بار پھر ترائن یا تراوڑی کے میدان میں آمنے سامنے ہوئیں۔ راجا پرتھوی راج چوہان نے محمد غوری کو خط لکھا اور نصیحت کی کہ اپنے سپاہیوں کے حال پر رحم کھاؤ اور انھیں لے کر غزنی واپس چلے جاؤ ہم تمھارا پیچھا نہیں کریں گے۔ لیکن شہاب الدین غوری نے نہایت متانت سے جواب دیا کہ وہ اپنے بھائی کے حکم کے مطابق عمل کرتاہے اس لیے بغیر جنگ کے واپسی ناممکن ہے۔ اگلے دن دونوں افواج کا آمنا سامنا ہواجنگ سورج طلوع ہونے سے پہلے شروع ہوئی جبکہ ظہر کے وقت تک ختم ہو گئی۔ شہاب الدین غوری کو فتح ہوئی اور پرتھوی راج کو شکست ہوئی اس نے میدان جنگ سے بھاگ کر جان بچائی مگر دریائے سرسوتی کے پاس سے گرفتار ہواسلطان محمد غوری کے حکم پر اسے قتل کر دیا گیا۔[56][57][58][56][59][60]اس جنگ کے دور رس نتائج برآمد ہوئے مسلمانوں کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ رہا اگرچہ قنوج اور انہلواڑہ کے راجاؤں نے اطاعت سے انکار کیا مگر شکست کھاکر مسلمانوں کے سامنے جھک گئے۔ ��س طرح مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت ہندوستان میں قائم ہوئی جو 1857ء تک قائم رہی۔پرتھوی راج کو شکست دینے کے بعد شہاب الدین نےدہلیاوراجمیربھی فتح کر لیا اور اس کے سپہ سالار ملک محمد ابن بختیار خلجی نے آگے بڑھ کربہاراوربنگالکو زیر نگین کیا۔[61][62]اس طرح پورا شمالی ہندوستان اور پاکستان مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔ہندوستان اور بنگال میں مسلم اقتدار کے بانی اور ایک بیدار مغز حکمران کی حیثیت سے شہاب الدین کا پایہ بہت بلند ہے۔ اس کی فتوحات محمود غزنوی کی لشکر کشی کے مقابلے میں زیادہ مفید ثابت ہوئیں۔ وہ محمود کی طرح کسی علاقے کو فتح کرکے واپس نہیں جاتا تھا بلکہ اس کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیتا تھا۔ اس نے بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی مستقل حکومت قائم کردی اور اس طرح وہ کام مکمل کر دیا جو 500 سال قبلمحمد بن قاسمنے شروع کیا تھا۔[63][64][65][6]جب ایبک نے دہلی دوآب میں اور اس کے آس پاس غوری حکمرانی کو مستحکم کیا تو محمد غوری خود گنگا وادی میں مزید توسیع کرنے کے لیے ہندوستان واپس آیا۔ اس کے مطابق ،1194ءمیں ، اس نے 50،000 گھڑ سواروں کی فوج کے ساتھ جمنا ندی کو عبور کیا اور جمنا کے قریب ایک جنگ میں گہڈاوالا بادشاہ جے چندر کی فوجوں کو شکست دی اور جے چندر مارا گیا۔1198ءمیں گہاڈاوالا کے دار الحکومتقنوجپر قبضہ کر لیا گیا۔ اس مہم کے دوران ، بدھ مت کے شہر سارناتھ کو بھی برخاست کر دیا گیا تھا۔[65][65]محمد غوری1196ءکے آس پاس موجودہ راجستھان کے ارد گرد اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے دوبارہ ہندوستانی سرحد پر واپس آیا۔ بیانہ کا علاقہ اس وقت جادون راجپوتوں کے قبضے میں تھا۔ محمد غوری نے قطب الدین ایبک کے ساتھ مل کر پیش قدمی کی اور تھانکر کا محاصرہ کیا جس کے حکمران کمار پال کو شکست ہوئی۔ محمد غوری نے اس قلعے کو اپنے سینئر غلام بہاؤ الدین تغرل کے ماتحت کر دیا ، جس نے بعد میں سلطان کوٹ قائم کیا اور اسے اپنے گڑھ کے طور پر استعمال کیا۔ تھانکر کی فتح کے بعد ، بہادر الدین ترغل نےگوالیارکے قلعے کو کم کر دیا جس کے پریہار کے سردار سلاخانپال نے ایک طویل محاصرے کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور غوری تسلط کو قبول کر لیا۔ محمد غوری کے قتل کے بعد ، تورغل نے خود کو بیانہ میں سلطان کے طور پر پیش کیا۔[66]1197ءمیںقطب الدین ایبکنے گجرات پر حملہ کیا اور بھیما دوم کو سروہی میں اچانک حملے کے بعد شکست دی اور اس کے بعد اس کے دار الحکومت انہیلوارہ کو تباہ کر دیا۔ اس طرح ، ایبک نے1178ءمیں اسی مقام پر محمد غوری کی شکست کا بدلہ لیا۔[67]محمد غوری نے مغرب میں خوارزمیوں کے خلاف مغرب میں توسیع کے لیے اپنے بھائی کی مدد جاری رکھی۔ دریں اثنا ، چوراسمیا کے معاملات میں ، سلطان شاہ کو اس کے بھائی علاء الدین ٹیکیش نے قارا خیتائی فوجوں کے ساتھ اتحاد میں شکست دی اور بعد میں دسمبر1172ءمیں خوارزم کے تخت پر فائز ہوئے۔ سلطان شاہ غوری بھائیوں کے پاس بھاگ گیا اور اپنے بھائی ٹیکیش کو نکالنے کے لیے ان سے مدد طلب کی۔[68]اگرچہ انھوں نے اسے اچھی طرح سے قبول کیا ، لیکن انھوں نے اسے ٹیکیش کے خلاف فوجی امداد دینے سے انکار کر دیا ، جس کے ساتھ اس وقت تک غوریوں کے اچھے تعلقات تھے۔خراسانمیں اپنی آزاد ریاست تشکیل دی اور اپنے گورنر بہاؤ الدین ترغل کے ساتھ غور کے علاقوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ لہٰذا غیاث الدین نے محمد غوری سے مدد مانگی جو اس وقت اپنی ہندوستانی مہمات میں مصروف تھا اور اپنی فوج کے ساتھ غزنہ سے روانہ ہوا۔ غوری جاگیردار: بامیان کے شمس الدین محمد اور ہرات کے تاج الدین نے خوارزمیوں کے خلاف اپنے اپنے دستوں کے ساتھ ان کا ساتھ دیا۔[69]غوری افواج نے مہینوں کی مہم کے بعد دریائے مرغاب کے کنارے سلطان شاہ کو فیصلہ کن شکست دی اور ہرات بہاؤ الدین ترغل کے اپنے گورنر کو پھانسی دے دی جبکہ سلطان شاہ مرو بھاگ گیا۔[70]غوریوں نے اپنی فتح کے بعد ہرات پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔[71]1200ءمیں ٹیکیش کا انتقال ہوا ، جس کے نتیجے میں خوارزم کے علاء الدین شاہ اور اس کے بھتیجے ہندو خان کے مابین جانشینی کے لیے مختصر مدت کے لیے جدوجہد ہوئی۔ غوری بھائیوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور جانشینی کے لیے خوارزمی خاندان میں افراتفری کے درمیان ، محمد غوری اور غیاث الدین نے حملہ کیا اور نیشاپور ، مرو اور طوس کے نخلستان شہروں پر قبضہ کر لیا اور گورگن تک پہنچ گئے۔ اس طرح غوریوں نے اپنی تاریخ میں پہلی بار خراسان کے زیادہ تر حصوں پر مختصر مدت کے لیے اپنا تسلط قائم کیا۔[72][73]تاہم ، ان کی کامیابی ایک قلیل مدتی معاملہ بن گئی کیونکہ علاؤ الدین نے اگست1200ءمیں تخت سنبھالا[74]اور جلد ہی1201ءتک اپنے کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔[75]غوریوں کے خلاف کامیابی کے باوجود ، علاؤ الدین نے محمد کے پاس سفارت کاری کے لیے ایک سفیر بھیجا ، شاید اس لیے کہ وہ غوریوں کے ساتھ امن قائم کرکے قارا خطیس کے تسلط پر قابو پانے پر توجہ مرکوز کرے۔ تاہم ، یہ کوشش ناکام ہو گئی اور محمد غوری نے اپنی افواج کے ساتھ نیشاپور پر دوبارہ مارچ کیا جس نے علاؤ الدین کو شہر کی دیواروں کے اندر خود کو بند کرنے پر مجبور کیا۔ محمد غوری نے ہرات کے ساتھ طوس پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور ملک کے فریق کو برطرف کر دیا۔[76]غیاث الدین محمد13 مارچ1203ءکوہراتمیں انتقال کر گئے، مہینوں کی علالت کے بعد جس نے مختصر طور پرشہاب الدین غوری کی توجہ موجودہ صورت حال سے ہٹا دی۔ اس طرح ، ہرات سے اس کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ، جہاں اس نے اپنے بھتیجے الپ غازی کو مقرر کیا ، خوارزمی افواج نے مرو پر قبضہ کر لیا اور وہاں غوری گورنر کرنگ کا سر قلم کر دیا۔[77]شہاب الدین غوری نے ، ممکنہ طور پر پوری خوارزمی سلطنت پر قبضہ کرنے کے لیے ، ہرات کی بجائے اپنے دار الحکومت گور گنج کا محاصرہ کیا ، جسے غیاث الدین کی موت کے بعد خوارزمیوں نے گھیر لیا تھا۔ علاؤ الدین غوریوں کی پیش قدمی پر پیچھے ہٹ گیا اور قارا خطائیوں سے مدد کی درخواست کی ، جنھوں نے خوارزمیوں کی مدد کے لیے ایک بڑی فوج بھیجی۔ شہاب الدین غوری ، قارا خیتائی افواج کے دباؤ کی وجہ سے محاصرہ ختم کرنے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔ تاہم ، فیروزکوہ جاتے ہوئے ان کا تعاقب کیا گیا اور 83 میں جنگ اندخد میں تانیکو اور عثمان بن ابراہیم کی سربراہی میں قارا خیتائی اور کارا خانید خانیت کی مشترکہ افواج نے فیصلہ کن شکست کھائی۔ قارا خیتائی جنرل تانیکو (تیانگو) کو بھاری تاوان ادا کرنے کے بعد اسے اپنے دار الحکومت واپس جانے کی اجازت دی گئی جس میں کئی ہاتھی اور سونے کے سکے شامل تھے۔ کے مطابق ، غور اور تانیکو کے شہاب الدین غوری کے مابین مذاکرات کا انتظام سمرقند کے عثمان بن ابراہیم نے کیا تھا جو نہیں چاہتے تھے کہ ""اسلام کے سلطان"" کو کافروں کے قبضے میں لیا جائے۔[78]شکست کے بعد ، غوریوں نے ہرات اور بلخ کے علاوہ خراسان کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول کھو دیا۔ اس طرح ، شہاب الدین غوری نے خوارزمیوں کے ساتھ سرد امن کے لیے اتفاق کیا۔[79][80][81]انخد کی تباہی اور اس کے ب��د جنگ میں محمد غوری کی موت کی افواہوں کے بعد غوری سلطنت میں بڑے پیمانے پر بغاوتیں ہوئیں ، خاص طور پر ایبک بیگ ، حسین کھرمل اور غزنہ یلدیز کے گورنر کی طرف سے بھی کوشش کی گئی۔[82]محمد غوری نے سب سے پہلے غزنہ کی بجائے ملتان کی طرف مارچ کیا ، جہاں اس کے غلام جنرل ایبک بیگ (جس نے اسے جنگ اندخد میں بچایا تھا) نے غوری گورنر امیر داد حسن کو ایک ذاتی ملاقات میں قتل کر دیا اور محمد غوری کی طرف سے اسے ملتان کا نیا گورنر مقرر کرنے کا جعلی فرمان جاری کیا۔ محمد غوری نے ایبک بیگ کو فیصلہ کن طور پر شکست دی اور جنگ میں اسے پکڑ لیا۔ اس کے بعد ، اس نے غزنہ کی طرف مارچ کیا ، جہاں یلدیز نے پہلے بغاوت کی اور شہر پر قبضہ کر لیا۔[83]محمد غوری کی ایک بڑی فوج کی پیش قدمی پر ، ناگزیر شکست کی پیش گوئی کرتے ہوئے ، یلدیز اور اس کے اشرافیہ نے محمد غوری کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ، جس نے انھیں معاف کر دیا۔[84]اس طرح ، محمد غوری نے باغیوں کو دبانے کے بعد کامیابی سے اپنی سلطنت کو استحکام کی طرف بحال کیا اور اندھاخد میں شکست کا بدلہ لینے اور خراسان میں اپنے قبضے کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنی توجہ وسطی ایشیا کے معاملات کی طرف موڑ دی۔ اس کے مطابق ، جولائی 1205ء تک ، بلخ کے محمد کے گورنر نے موجودہ ازبکستان میں ترمذی کا محاصرہ کیا اور ایک مختصر محاصرے کے بعد شہر پر قبضہ کر لیا ، وہاں تعینات قارا خیتائی گیریژن کو تباہ کر دیا اور اسے اپنے بیٹے کے ماتحت کر دیا۔[85]اس کے بعد، محمد غوری نے وادی بامیان میں اپنے نائب بہاء الدین سام دوم کو حکم دیا کہ وہ دریائے آکسس کے پار ایک کشتی کا پل اور ایک قلعہ تعمیر کرے تاکہ ٹرانسوکسیانا میں اپنی فوجوں کی پیش قدمی کو آسان بنایا جاسکے۔[86]محمد غوری نے اپنے ہندوستانی فوجیوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ قارا خطیس کے خلاف مہم میں ان کے ساتھ شامل ہوں۔[87]جلد ہی ایک اور سیاسی بے امنی پھیل گئی جس نے محمد غوری کو دوبارہ پنجاب کی طرف موڑ دیا جہاں بالآخر اسے قتل کر دیا گیا۔[88]کھوکھر قبیلہ جس کا اثر و رسوخ زیریں سندھ سے سیوالک پہاڑیوں تک پھیلا ہوا تھا ، آمو دریا کے قریب محمد غوری کی شکست کے بعد پیدا ہوا اورلاہورکو لوٹنے کے ساتھ ساتھ لاہور اور غزنی کے مابین غوری مواصلاتی سلسلے میں خلل ڈال کر بغاوت کی۔ السراج کے مطابق ، کھوکھر خاندان مسلمانوں کے دشمن تھے اور ""پکڑے گئے ہر مسلمان کو اذیت دیتے تھے""۔[83]لہذا ، محمد غوری نے کھوکھروں کو زیر کرنے کے لیے اپنی آخری مہم کے لیے دسمبر1205ءمیں غزنہ سے مارچ کیا۔ بکن اور سرکھا کی قیادت میں کھوکھروں نے دریائے چناب اور جہلم کے درمیان کہیں جنگ کی پیش کش کی اور دوپہر تک بہادری سے لڑتے رہے لیکن محمد غوری نے التتمش کے ایک ریزرو دستے کے ساتھ پہنچنے کے ایک دن بعد یہ جنگ لڑی ، جسے محمد غوری پہلے جہلم کے کنارے تعینات کرتے تھے۔ محمد غوری نے اپنی فتح کے بعد بڑے پیمانے پر کھوکھروں کا قتل عام کیا۔ اس کی فوجوں نے جنگلوں کو بھی جلا دیا جہاں ان میں سے بہت سے لوگوں نے بھاگتے ہوئے پناہ لی۔[84][89]التمش کو کھوکھروں کے خلاف ان کی بہادری کا صلہ دیا گیا اور محمد غوری کی طرف سے خصوصی اعزاز کا لباس پیش کیا گیا۔ منہاج کے مطابق، انھوں نے التتمش کو بھی چھوڑ دیا، اس حقیقت کے باوجود کہ ان کے آقا ایبک جنھوں نے انھیں اصل میں خریدا تھا، اب بھی محمد غوری کے دوسرے سینئر غلاموں کے ساتھ غلام تھے جنہیں اس وقت تک غلام نہیں بنایا گیا تھا۔[90][91]شہاب الدین غوری کے زمانے میں غیر مسلموں کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔ دریائے جہلم اور سندھ کے درمیانکھوکھرنامی ایک قوم آباد تھی جن کے یہاں ایک مسلمان قید تھا۔ یہ مسلمان ان لوگوں کواسلامکی خوبیاں بیان کرتا رہتا تھا جسے وہ لوگ بڑی دلچسپی سے سنتے تھے۔ ایک دن ان کے سردار نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو تمھارا بادشاہ میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ مسلمان قیدی نے جواب دیا کہ اگر تو مسلمان ہو جاؤ تو میں یقین دلاتا ہوں کہ بادشاہ تمھارے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرے گا۔ کھوکھروں کے سردار نے جب یہ بات سنی تو اسلام لے آیا۔ مسلمان نے ایک خط کے ذریعے اپنی گفتگو کی اطلاع سلطان شہاب الدین کو دی۔ شہاب الدین نے اس کے جواب میں سردار کو انعام و اکرام سے نوازا اور علاقے کی جاگیر اس کو دے دی۔اس کے بعد اس کی قوم نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ اسلام قبول کرنے سے قبل کھوکھر بہت سی برائیوں میں مبتلا تھے جن میں ایک ”دختر کشی“ بھی تھی۔ یہ لوگ عہد جاہلیت کے عربوں کی طرح لڑکیوں کو قتل کردیتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد یہ بری رسم بھی ختم ہو گئی۔ پاکستان میں بلوچستان کے پہاڑی علاقوں کے پٹھان بھی اسی زمانے میں اسلام لائے ۔شام کی نماز پڑھتے ہوئے محمد کے قتل کی فنکارانہ وضاحت۔یہ وہ زمانہ تھا جبسلجوقیوںکے بعدخراساناورترکستانمیںخوارزم شاہیخاندان کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ غوریوں کی اس خاندان سے مسلسل لڑائیاں رہتی تھیں۔ غیاث الدین کے بعد شہاب الدین کے زمانے میں یہی لڑائیاں جاری رہیں۔ ان لڑائیوں کے سلسلے میں شہاب الدین 601ھ میںخوارزمتک پہنچ گیا لیکن وہاں اس کو شکست ہوئی اور یہ مشہور ہو گیا کہ محمد غوری جنگ ہار گیا۔[93]اس خبر کے پھیلنے پر پنجاب کے کھوکھروں نے بغاوت کردی۔[94]محمد غوری فوراً پنجاب آیا اور بغاوت فرو کی لیکن بغاوت فرو کرنے کے بعد جب وہ واپس جا رہا تھا تودریائے جہلمکے کنارے ایکاسماعیلیفدائی نے حملہ کرکے انھیں شہید کر دیا۔ ان کا مقبرہ ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں چکوال موڑ جی ٹی روڈ سے 17 کلومیٹر کے فاصلے پر چوہان گاؤں میں واقع ہے۔[95]شہاب الدین محمد غوری کی شہادت کے ساتھ غوری خاندان کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔ ہرات اور غزنی کے علاقوں پر خوارزم شاہ کی حکومت قائم ہو گئی اور برصغیر پاک و ہند میں محمد غوری کے وفادار غلام اور دہلی میں سلطان کے نائبقطب الدین ایبکنے ایک مستقل اسلامی حکومت یعنیسلطنت دہلیکوخاندان غلاماںکے زیر عصر قائم کرلی۔[96][97][98]شہاب الدین غوری کی اکلوتی اولاد ان کی بیٹی تھی جو ان کی اپنی زندگی میں ہی فوت ہو گئی تھی۔[99]میں ان کے اچانک قتل کے نتیجے میں ان کے غلاموں اور دیگر غوری اشرافیہ کے درمیان جانشینی کے لیے جدوجہد کا دور شروع ہوا۔ غزنہ اورفیروزکوہکے غوری اشرافیہ نے بامیان شاخ سے بہاء الدین سام دوم کی جانشینی کی حمایت کی ، حالانکہ اس کے ترک غلاموں نے غیاث الدین محمود کی حمایت کی جو اس کا بھتیجا اور اس کے بھائی غیاث الدین کا بیٹا تھا۔[100]بہرحال ، بہاء الدین 107 فروری 24 کو بیماری کی وجہ سےغزنیکی طرف مارچ کرتے ہوئے انتقال کر گئے۔[101]اس طرح1206ءمیں غور کے محمد کے بعد غیاث الدین محمود نے اقتدار سنبھالا، حالانکہ وادی گنگا میں ان کی زیادہ تر فتوحات ان کے ساتھیوںقطب الدین ایبک، تاج الدین یلدیز، بہاؤ الدین طغرل، ناصر الدین قباچہ اور محمد بختیار خلجی کی گرفت میں تھیں جنھوں نے اپنے معاملات میں غیاث الدین محمود سے مشکل سے مشورہ کیا تھا۔ اس کے باوجود، انھوں نے پھر بھی اسے کم سے کم خراج عقیدت پیش ��یا۔[102]دور حکومت کے دوران ، محمود نے باضابطہ طور پر ایبک اور یلدیز کو ""منومشن"" بھی دیا۔[103]اس طرح غلامی سے آزاد ہونے اور محمود سے ""چتر"" کی سرمایہ کاری سے ، یلدیز نے 1206 میں خود کو غزنہ کے بادشاہ کے طور پر قائم کیا اور لاہور میں ایبک (جس نے 1208 میں آزادی کا اعلان کیا) نے دہلی سلطنت قائم کی۔[104]تاہم مورخ افتخار عالم خان کو شک تھا کہ ایبک نے خود کو ""سلطان"" کے طور پر پیش کیا ہے کیونکہ عددی شواہد سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی ہے۔[105]جلد ہی ، محمود کوخوارزمکے علاؤ الدین شاہ کی بالادستی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جس کی تصدیق عددی ثبوتوں سے ہوتی ہے جس میں اس نے علاء الدین کا نام ""خطبہ"" میں رکھنے کے ساتھ ساتھ 112 میں اپنے قتل تک رکھا۔[106]اس کے بعد ، خوارزمیوں نے غوری علاقوں میں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی ، حالانکہ یلدیز نے1213ءمیں انھیں واپس بھگا دیا اس سے پہلے کہ علاؤ الدین نے غوریوں کا خاتمہ کیا[107]اور1215ءمیں ضیاء الدین علی سےفیروزکوہپر قبضہ کر لیا ، جو یا تو اس کے قیدی (ایران میں جلا دیا گیا) یا جلاوطنی میںدہلیواپس چلا گیا۔ علاؤ الدین نے اسی سال بامیان لائن سے آخری غوری حکمران جلال الدین علی کو بھی شکست دی اور پھانسی دے دی۔ اس طرح ، 108 تک سنسابانی گھر کو خالی کر دیا گیا۔ یلدیز کو اسی وقت غزنی سے بھی گرا دیا گیا تھا جو بعد میں دہلی بھاگ گیا اور غور کے محمد کی غوری فتوحات کی جانشینی کے لیے اپنا دعویٰ پیش کیا۔ تاہم ، اسے شکست ہوئی اور 87 میں ترائن میں التتمش نے پھانسی دے دی۔[108][109]منہاج القرآن کے طبقات ناصری (1260ء) کے مطابق غور کے محمد نے اپنی زندگی میں جوش و خروش سے بہت سے غلام خریدے جو بعد میں منہاج کے مطابق دنیا بھر میں اپنی قابلیت کی وجہ سے مشہور ہو گئے۔ محمد نے ایک نوجوان قباچہ خریدا جسے غلامی میں فروخت کر دیا گیا تھا اور بعد میں غوری سلطان نے اسے اپنے عقیدے کے لیے کرمان اور سنجر کے ڈومین سے نوازا۔ اس نے اپنے غلاموں کو پیار سے پالا اور بعد کے دنوں میں اپنے غوری گھرانے سے مایوسی کے بعد انھیں اپنے بیٹوں اور جانشینوں کے طور پر دیکھا۔[110]مدبر کے ایک اور معاصر بیان کے مطابق جس نےقطب الدین ایبککی سرپرستی میں لکھا تھا ، نے بھی محمد کے لیے ہر ترک غلام (""بندگان"") کی اہمیت پر زور دیا۔[111]انھوں نے اپنے آقا کے اعتماد کو برداشت کرنے کے لیے ایبک کو مزید سزا دی۔ کے غلاموں نے گنگا جمنا دوآب میں غوریوں کی فتوحات کی توسیع اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا جب وہ خراسان کے امور میں مشغول تھے اور اس کے درمیان شمالی ہندوستان میں بھی اپنا اختیار قائم کیا جبکہ شہاب الدین غوری کو ان کے قتل تک ان کا سپریم آقا مانا جاتا تھا۔[112]شہاب الدین غوری نے بعد میں اپنے غلاموں کے خاندانوں کے درمیان اینڈوگیمی کے رواج کے مطابق ازدواجی اتحاد کا بھی اہتمام کیا۔ ان اتحادوں میں سے قابل ذکر تاج الدین یلدیز کی بیٹیوں کیقطب الدین ایبکاورناصر الدین قباچہسے شادیاں تھیں۔[113]مزید برآں، ایبک کی دو بیٹیوں کی شادی قباچہ سے ہوئی۔ ایبک نے بھی جاری رکھا ، جس نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے غلام التتمش سے کردی۔[114]مشہور روایات میں، جب ایک درباری نے افسوس کا اظہار کیا کہ سلطان (غور کے محمد) کا کوئی مرد وارث نہیں ہے، تو اس نے جواب دیا:""دوسرے بادشاہوں کے ایک بیٹا یا دو بیٹے ہو سکتے ہیں۔ میرے ہزاروں بیٹے ہیں، میرے ترک غلام ہیں جو میری سلطنتوں کے وارث ہوں گے اور جو میرے بعد ان علاقوں میں خطبہ جمعہ میں میرے نام کو محفوظ رکھنے کا خیال رکھیں گے۔[115]محمد غوری اور اس کے بڑے بھائی غیاث الدین محمد کے دور حکومت میں ، غوری مشرقی اسلامی دنیا کی ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرے۔ انھوں نے مختصر عرصے میں ایک ایسے علاقے پر حکمرانی کی جو مشرق سے مغرب تک 124 کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا۔ ان سالوں کے دوران ، ان کی سلطنت مشرقی موجودہایرانمیںنیشاپورسے موجودہہندوستانمیںبنارساوربنگالاور جنوب میں ہمالیہ کے دامن سےسندھ(پاکستان) تک پھیلی ہوئی تھی۔
+اندخد کی تباہی اورچنگیز خانکے عروج کے ساتھ ساتھ ان کے قتل کے ایک دہائی کے اندر اندر اندخد کی تباہی نےخراساناور فارس میں ان کی قلیل مدتی کامیابیوں کو وسطی ایشیا کے زیادہ اہم اسلامی بادشاہوں کے مقابلے میں کم نتیجہ خیز بنا دیا۔ اگرچہ ، محمد غوری ٹرانسوکسیانا میں اپنے ترک مخالفین کے خلاف زیادہ کامیاب نہیں تھے ، باوجود ،برصغیر پاک و ہندمیں ان کی کامیابی کے بہت اچھے نتائج تھے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں محمد اوفی کی کتاب'جوامی الحکیات' میں کہا گیا ہے کہ سلطان (محمد غور)ہراتسے لے کرآسامتک تمام مساجد میں خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ راج سوم کی راجپوت افواج کے خلاف تارائن کی دوسری جنگ میں اس کی فیصلہ کن فتح نے پورے گنگا طاس کو ترک قبضے کے لیے کھول دیا اور بعد میںقطب الدین ایبککے ذریعہ دہلی سلطنت کا قیام عمل میں لایا گیا جسے اس کے غلام کمانڈر التتمش نے مزید مستحکم کیا۔ دہلی کی سلطنت واحد بڑی اسلامی ریاست بن گئی جو تیرہویں صدی کے دوران منگولوں کے ہاتھوں وسطی ایشیا میں ہونے والے قتل عام میں زندہ رہی۔[116][117][118][119]غزنویوں کی طرح غوری بھی خراسان کی اپنی رعایا میں غیر مقبول تھے۔ منہاج السراج کے مطابق محمد غوری نے اپنے لشکر کی توسیع کے لیے بھاری ٹیکس عائد کیے، لوٹ مار کی اور املاک پر قبضہ کر لیا، جو امام کے حرم کی حفاظت کے لیے وقف تھا۔ ان واقعات نے بالآخر لوگوں کو غوریوں کی طرف موڑ دیا جنھوں نے اس وقت جوابی کارروائی کی جب محمد غوری نے گرگنز کا محاصرہ کیا اور محصور خوارزمی شاہ کی فوجی حمایت کی جس کے نتیجے میں 70،000 کی فوج جمع ہوئی جس نے بالآخر محمد غوری کو محاصرے سے چھٹکارا حاصل کرنے اور قارا خیتائی افواج کے ہاتھوں گھیرے میں لینے سے پہلے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔[120][121]تاہم ، غور کا علاقہ ان کے دور حکومت میں خوش حال ہوا اور تعلیم اور ثقافت کا ایک اہم مرکز بن گیا۔ انھوں نے مولانا فخر الدین رازی جیسے مختلف علما کو بھی گرانٹ دی جنھوں نےغوری سلطنتکے پسماندہ علاقوں میں اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کی۔[118]1199ءکے آس پاس غزنہ میں محمد غوری کے دربار سے سکوں کی ترسیل، جو اسلامی دنیا کے عددی معیار کی تصدیق کرتی ہے، میں صرف عربی خطاطی تھی جس میں ان کے بھائی غیاث الدین محمد کا نام اور ان کا لقب شامل تھا، جبکہ سکے کے پچھلے حصے میں خلافت کے لقب کے ساتھ محمد غوری کا نام اور لقب درج تھا۔ اور غیاث الدین کی طرف سے جاری کردہ سکوں کا نمونہ 141 کے بعد تیزی سے تبدیل ہو گیا اور دونوں طرف قرآنی آیات کے ساتھ ایک اور زیادہ قدامت پسند مفکر بن گیا۔ اس سکے میں قدامت پسندی کی طرف بنیادی تبدیلی غالبا غیاث الدین اور محمد غوری کی جانب سے کرامیہ سےحنفیاورشافعیمکاتب فکر میں ان کے مکتب فکر کی تبدیلی کو فروغ دینے کے لیے ہے تاکہ وہ خود کو وسیع تر اسلامی دنیا کے عالمگیر نیٹ ورکس میں شامل کر سکیں اور اپنی پسماندہ اصل کو ختم کر سکیں۔[122][123]شمالی ہندوستان میں محمد غوری کے ذریعہ جاری کردہ سکے وزن اور دھاتی پاکیزگی کے ہندوستانی معیارکی پیروی کرتے تھے۔[124]بنگال کے علاوہہندوستانمیں غوری سکے فتح سے پہلے کے اسی نمونے پر چلتے رہے اور موجودہ ہندو مورتیوں کو سنسکرت میں لکھے گئے محمد غوری کے نام کے ساتھ جوڑا گیا ، جو شمالی ہندوستانی خواندہ اشرافیہ کی زبان ہے نہ کہ عربی میں۔[125]ہندوستان میں محمد غوری اور اس کے ساتھیوں کے ذریعہ بنائے گئے سکوں میں ایک طرف ہندو دیوتا لکشمی (چاہمنوں کے موجودہ نمونے پر مبنی) اور دوسری طرف ناگری رسم الخط میں محمد غوری کا نام سنسکرت میں لکھا ہوا تھا۔[126]اسی طرحدہلیمیں ، غوریوں کی فتح سے پہلے کے پیراڈائم پر جاری رہی جس میں نندی بیل اور ایک ""چاہمان گھڑ سوار"" کی تصویر کشی کی گئی تھی جس میں محمد غوری کے نام کو ""شری حمیرہ"" لکھا گیا تھا۔[127][128]"
+185,1186ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1186%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+186,خاندان غلاماں,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86_%D8%BA%D9%84%D8%A7%D9%85%D8%A7%DA%BA,خاندان غلاماں1206ء سے 1290ء تکہندوستانمیںسلطنت دہلیپر حکمران رہا۔ اس خاندان کا بانیقطب الدین ایبکتھا جوشہاب الدین غوریکی افواج کا جرنیل اور ہندوستان میںغوری سلطنتکے حصوں کا منتظم تھا۔1206ء میں غوری کی شہادت کے بعدقطب الدیننے غوری سلطنت کے ہندوستانی حصوں پر اپنی حکومت کا اعلان کر دیا۔ اس نے پہلےلاہورکو دار الحکومت قرار دیا جسے بعد ازاںدہلیمنتقل کر دیا گیا۔قطب 1210ء میں انتقال کرگیا جس کے بعد ایک ترک غلامالتتمشتخت پر بیٹھا۔ التتمش قطب الدین کا داماد تھا اور التتمش کے بعد آنے والے تقریبا تمام سلاطین اسی کی اولاد میں سے تھے جن میں اس کی بیٹیرضیہ سلطانہبھی شامل تھی۔سلطان ناصر الدین شاہکی افواج کے سپہ سالارغیاث الدین بلبننے ہندوستان کومنگولوںکے حملے سے بچانے کے لیے تاریخی کارنامے انجام دیے اور بعد ازاں تخت حاصل کیا۔خاندان غلاماں کی حکومت کا خاتمہخلجی خاندانکےجلال الدین فیروز خلجینے کیا جس نے محمد غوری کے دور میںبہاراوربنگالمیں استحکام حاصل کیا تھا۔خاندان غلاماں[مردہ ربط]
+187,1290ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1290%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+188,خلجی خاندان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D9%84%D8%AC%DB%8C_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86,"چوتھی صدی ہجری میںمسلمانجغرافیہ دانوں محمودکاشغری، رشید الدین اور ابوزید البلخی ترک قبائل کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ جو ترک قبائل بلاد اسلام کے قریبی ہمسائے تھے، ان میں ایک ترک قبیلہ قرلق،فارسی (خلج)، عربی (خلخ) تھا۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)نوشیروان نے ہنوں کے خلاف ترکوں سے مدد لی اور ان کی مدد سے ہنوں کو شکست دی۔ مگر جلد ہیافغانستانپر ترک چھاگئے۔کتاب الاغانیکے مطابق رود گرگان کے ترکوں نے ایرانیوں کی زبان و مذہب اختیار کر چکے تھے۔ وہ سانیوں دور میں ہی اس علاقے کو فتح کرچکے تھے۔ افغانستان میںدریائے ہلمندکے چڑھاؤ کے رخ پر ایک مرحلے کے فاصلے سے دریا کے اسی کنارے پر جس پر درتل تھا، شہر درغش آباد تھا اور درتل کے مغرب میں ایک مرحلے کے فاصلے پر بغنین اس علاقہ میں تھا۔ جہاں قبائل پشلنگ کے ترک آباد تھے۔ ان میں قبیلہ خلج بھی رہتا تھا۔ ان خلجی ترکوں نے بعد میں مغرب کی طرف نقل مکانی کی تھی۔ لیکنابن حوقلنے چوتھی (دسویں) صدی میں لکھتا ہے کہ یہ لوگ اپنی زندگی بہت قناعت سے زمینداری کرکے علاقہ میں بسر کرتے تھے اور وضح قطع ترکوں کی رکھتے تھے۔[2]خلجیافغانستانمیں ابتدئے اسلام سے ہی آباد تھے اور غالباً انھوں نے دوسرے افغان قبائل کے ساتھ اسلام چو تھی صدی ہجری میں اسلام قبول کیا تھا۔ کیوں کہ یہخوارزمشاہیوں اور غوریوں اور اس سے پہلے سلجوقیوں کے لشکر میں شامل رہے تھے۔ علاؤ الدین جہاں سوز نے سلطان سنجر کا مقابلہ کرنا چاہا تو عین لڑائی کے وقت یہ ترکوں اور خلجیوں نے علاؤ الدین جہاں کا ساتھ چھور کر یہ سلطان سنجر کے ساتھ جاملے۔ جس کی وجہ سے علاؤ الدین جہاں سوز کو شکست ہوئی اور وہ قید ہو گیا۔ اس طرح یہ سلطان مغزالدین محمد غوری کے لشکر میں شامل تھے اور ہند کی فتوحات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب سلطان محمد غوری ترائن کی لڑائی میں زخمی ہو گیا تو اس کو میدان جنگ سے بچالانے والا بھی ایک خلجی نوجوان تھا۔[3]خلجی سلطان محمد خوارزم کے لشکر میں بھی شامل تھے، اس نے سمرقند کی حفاظت کے لیے جو لشکر منگولوں کے مقابلے کے لیے چھوڑا تھا اس میں کثیر تعداد میں خلجی شامل تھے۔ خلجیوں نے خوارزم شاہیوں کے ساتھ مل کر منگولوں کے خلاف مزحمت کی تھی۔ 366ھ میں خلجیوں کے ایک گروہ جو سلطان محمد خلجی کے لشکری تھے اپنے سردار ملکخان محمدخلجی کی سرکردگی میں سندھ پر قابض ہو گئے، ناصرالدین قباچہ نے ان کے خلاف اقدام کیا اور انھیں نکال باہر کیا اور ان کا سردار ماراگیا۔[4]خلجیخاندان غلاماںکے لشکر میں بھی شامل رہے۔ بلکہ ترکوں کے لشکریوں کا غالب عنصر خلجی ہی تھے اور ان کی سرکردگی میں ہند میں وسیع فتوحات حاصل کیں۔ ان میں بختیار خلجی بہت مشہور ہوا، جس نے
+صرف دوسو آدمیوں کی مدد سے بنگال فتح کیا۔ اس طرح دوسرے خلجی سرداروں میں علی مردان خلجی، غرزالدین، محمد شیراں،میران شاہاور ملک جلال الدین بن خلج خان کے نام ملتے ہیں۔ آخر الذکر برصغیر میں خلجی سلطنت کا بانی تھا۔[5]931ء میں خلجی اچانک دہلی کے تخت پر قابض ہو گئے۔ خود اس پر دہلی کے امرا اور شہری بھی حیرت زدہ رہے گئے۔ نیا بادشاہ جلال الدین فیروز خلجی تھا۔ وہ کافی عرصہ تک دہلی میں داخلے کی ہمت نہیں
+کرسکا۔ اس خاندان کا سب سے مشہور بادشاہ علاؤ الدین خلجی تھا۔ جو جلاؤالدین فیروزکا بھتیجا اور داماد تھا۔ جو اپنے چچا کو قتل کرکے تخت پر بیٹھا تھا۔ یہ پہلاحکمران تھا جس نےجنوبی ہندکو فتح کیا۔ اس کے علاوہ یہ اپنی دور رس اصلاحات کی وجہ سے تاریخ میں مشہور ہوا۔ اس خاندان کا آخری حکمران اس کا بیٹا قطب الدین مبارک خلجی تھا جس کو اس کے نومسلم غلام خسرونے قتل کرکے اس خاندان کا خاتمہ کر دیا۔[6]1641ء میںمالوہکی حکمرانی خلجیوں نے حاصل کرلی۔ اس خاندان کا بانی محمود خلجی تھا۔ اس نے اپنےبرادر نسبتیکو زہر دے کر ہلاک کر دیا اور خود تخت پربیٹھ گیا۔ یہ ایک بیدار مغز بادشاہ تھا۔ اس کا سنتیس سالہ دور حکومت کا بیشتر حصہ گرد و نواع کی حکومتوں سے لڑنے اور سلطنت کی توسیع میں گذرا۔ اس خاندان کا آخر حکمرانباز بہادرتھا۔ اس کو اکبر کی فوجوں نے 1651ء میں تخت سے محروم کر دیا۔[7]ہندوستانکا ایکترک النسلحکمران خاندان جس نےافغانیرسم و رواج اورفارسیزبان اپنا لیا ہوا تھا۔مملوک سلاطینِ دہلیکے بعد 1290ء سے 1320ء تک خلجی بادشاہ ہندوستان پر حکمران رہے۔ خلجی خاندان کی بنیادجلال الدین خلجینے رکھی۔ اور اس کے بعد انکا بھتیجاعلاؤ الدین خلجیتخت نشین ہوا۔ جس کے قبضہ میں بعد ازاں پورا ہندوستان آیا۔ علاؤ الدین خلجی کے بعد اس کے جانشین نااہل ثابت ہوئے اور بالآخرتغلقوںکے ہاتھوں خاندان خلجی کا خاتمہ ہوا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ خلجیترکتھے۔ لیکن خلجی دراصل ایک افغان قبیلے غلجئی سے تعلق رکھتے تھے۔ اور یہی غلجئی نام ہندوستان میں خلجی کی صورت اختیار کر گیا۔اسلام کی امد نے ہندوستانی تہذیب میں ایک نئے طبقہ کو روشناس کرایا تھا، جب فوجی تصادم ختم ہوا تو سیاسی اور سماجی سرگرمیوں نے جگہ پائی، علاؤ الدین کے تخت نشین ہونے کے بعد تعمیرات کا کام جوش و خروش سے شروع ہوا، اس نے مسجد قوت الاسلام کی توسیع کرائی، مزید مساجد تعمیر کرائیں اور ایک نیا شہر آباد کیا۔جلال الدین نے کوشک لعل بنایا۔ علائی دروازہ علاؤ الدین کی تعمیر کرائی گئی شاندار عمارت ہے۔ یہ مسجد قوت الاسلام کا جنوبی دروازہ ہے۔امیر خسروکہتے ہیں کہ علائی دروازہ کی تعمیر کے بعد علاؤ الدین نے مسجد کی توسیع کرائی، نو دروازے رکھے ،خارالحکومت کے باہرمتھراکے مقام پر مسجد اور شیخ فرید کے الگ بھگ تعمیر کرائی، ایک دریا پر پل باندھا۔"
+190,سید خاندان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%DB%8C%D8%AF_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86,ؓملک خانداننے ہندوستان میں 1414 سے 1451 تکدہلی سلطنتپر حکومت کی ـ یہتغلق خاندانکو ہٹانے میں کامیابی کے بعد ہی آئے تھےـ۔ دہلی سلطنت کی مرکزی اتھارٹیامیر تیمورکے مسلسل حملے اور 1398 میں دلی کی مکمل تباہی کے بعد کمزور ہو گیا تھا۔ افراتفری کی ایک مدت کے بعد، جب کوئی مرکزی اتھارٹی کی بالا دستی کی ضرورت تھی تو، دہلی میں ملک خاندان نے طاقت حاصل کی۔ ان کی حکومت کی مدت 37 سال تھی۔[ملک خضر خان]]، تیمور کی طرف سےملتان(پنجاب) کے گورنر مقرر ہوئےـ خضر خان دہلی کی جانب 28 مئی، 1414 کو روانہ ہوا اوردولت خان لودھیکو ہٹا کر ملک خاندان کی بنیاد رکھی۔ لیکن اس نے بادشاہت کا اعلان نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کوتیموری سلطنتکا جاگیردار ظاہر کیا، ابتدائی طور پر تیمور کے اور اس کی موت کے بعد ان کے جانشینشاہ رخ، تیمور کے پوتے کے .اس خاندان کے آخری حکمران،ملک علاؤ الدین ابن محمد شاہنے رضاکارانہ طور پربہلول خان لودھیکے حق میں 19 اپریل، 1451 کودہلی سلطنتکے تخت کو چھوڑ دیا اور اس طرحبہلول خان لودھینےلودھی خاندانکی بنیاد رکھی۔
+191,لودھی سلطنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%84%D9%88%D8%AF%DA%BE%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA,لودھی سلطنت، دہلی کی آخری سلطنت تھی جو1451ءسے1526ءتک قائم رہی۔1412ءمیںسلطان ناصر الدین محمود شاہ تغلقکے انتقال کے بعدسلطنت دہلیمیں کئی سال تک ہنگامے رہے اورسیدوں کا خاندانمضبوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا[1]۔ لیکن1451ءمیںلاہوراور سرہند کےافغانصوبیداربہلول لودھی(1451ءتا1489ء) نےدہلیپر قبضہ کر کے ایک بار پھر مضبوط حکومت قائم کر دی جولودھی سلطنتکہلائی[حوالہ درکار]۔ اس نےجونپوربھی فتح کر لیا جہاں ایک آزاد حکومت قائم ہو گئی تھی[حوالہ درکار]۔دہلی کی یہ لودھی سلطنت اگرچہجونپورپٹودی سےملتانتک پھیلی ہوئی تھی،لیکن دہلی کی مرکزی حکومت کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھی۔ اس کی حیثیت سب مقامی حکومتوں کی طرح صرف ایک صوبائی حکومت کی تھی-لودھی خاندان میں سب سے زیادہ شہرتبہلولکے لڑکےسکندر لودھی(1489ءتا1517ء) کو حاصل ہے[حوالہ درکار]۔آگرہکے شہر کی بنیاد اس نے ڈالی۔ اس زمانے میں آگرہ کا نامسکندر آبادتھا۔ شہر آباد ہو جانے کے بعد سکندر لودھی نے دہلی کی بجائے آگرہ کو دار الحکومت بنا دیا لیکن پھر بعد میں دہلی منتقل کر لیا[حوالہ درکار]۔وہ سادہ طبیعت کا حامل تھا شاہی لباس میں تکلف پسند نہ کرتا تھا[حوالہ درکار]۔ انتظام مملکت اور رعایا کو خوش حالی کے لیے اقدامات میں مشغولیت، جاڑے میں کپڑے اور شالوں کی تقسیم اور محتاجوں کو کھانے کی فراہمی میں خوشی محسوس کرتا تھا[حوالہ درکار]۔ ہر چھ ماہ بعد مح��اجوں اور مسکینوں کی فہرست اس کے سامنے پیش ہوتی اور وہ چھ ماہ کے لیے ان کے وظیفے جاری کرتا[حوالہ درکار]۔البتہ سکندر لودھی غصے کا تیز تھا جس کی وجہ سے وہ کبھی کبھیہندوؤںسے زیادتی کر جاتا تھا[حوالہ درکار]لیکن وہ وفادار ہندوؤں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرتا تھا۔[حوالہ درکار]سلطان کے زمانے میں ہندوؤں نے پہلی بارفارسیپڑھنا شروع کی اور اس نے ان ہندوؤں کو سرکاری ملازمتیں دیں۔ اس کے عہد میںسنسکرتکی کتابوں کا فارسی ترجمہ کیا گیا۔سکندر کے بعد اس کا بیٹاابراہیم لودھی(1517ءتا1526ء) تخت پر بیٹھا۔ انتہائی نا اہل حکمران تھا۔ اس کو دہلی کے قریبپانی پتکے میدان میںکابلکےمغلحکمرانظہیر الدین بابرکے ہاتھوں شکست ہو گئی اور اس طرح لودھی سلطنت کا خاتمہ ہوا اورمغلیہ سلطنتکی بنیاد پڑی۔ یہ فیصلہ کن جنگپانی پت کی پہلی لڑائیکہلاتی ہے۔
+193,سندھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%86%D8%AF%DA%BE,"سندھ(سندھی:سنڌ)پاکستانکےچارصوبوںمیں سے ایک صوبہ ہے، جو برِصغیر کے قدیم ترینتہذیبیورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ سندھ پاکستان کا جنوب مشرقی حصہ ہے۔ سندھ کی صوبائی زبانسندھیاور صوبائی دار الحکومتکراچیہے۔سندھ کو باب الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔لفظ ’’سندھ‘‘ دراصل دریائے سندھ ہی سے مستعار ہے، جوسنسکرتلفظ ’’سندھو‘‘ کی موجودہ شکل ہے۔ذیلی منطقہ حارہ میں واقع ہونے کی وجہ سے سندھ کی عمومی آب و ہوا، گرم اور خشک ہے جبکہ ساحلی علاقوں کا موسم قدرے مرطوب ہے۔ تاہم، گرمیوں (بالخصوص مئی۔ جون) میں موسم سخت گرم اور سردیوں (بالخصوص دسمبر۔ جنوری) میں موسم انتہاہی سرد رہتا ہے۔ سندھ کا علاقہ جیکب آباد اپنے ریکارڈ درجہ حرارت کی وجہ سے مشہور ہے۔ جولائی اور اگست کے ماہ مون سون کے موسم ہیں۔ سندھ میں اوسطاًسالانہسات انچ بارش ہوتی ہے۔ یہ بات کم ہی افراد جانتے ہیں کہ سندھ کے شمال میں کوہ کھیرتھرکے بعض علاقے سطح سمندر سے 6000 ہزار فٹ بلند ہیں اور موسمِ سرما میں اکثر یہاںبرف باریہوتی ہے۔زمانہ قدیم سندھ اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموے ہوئے ہے۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراڑوی آبادکاروں سے قبل یہاں(7000 ق م) مختلف قبائل آباد تھے۔ دراڑویوں نے تقریباً 4000 ق م میں وادئ سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔موہن جوداڑوکے کھنڈر بتاتے ہیں کہ دراڑوی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشتکاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے۔ جنھوں نے پانچ ہزار سال قبل (3000 ق م) وادئ سندھ کو علمی، فنی اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔ وادئ سندھ کے دامن میں کئی شہری مراکز قائم تھے، جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ موجودہ گرڈ سسٹم کے قاعدے کے مطابق آباد ان شہروں میںشاہرایںپختہ تھیں اور نکاسی و فراہمئ آب کا زیرِ زمین نظام موجود تھا۔ مگر پھر کسی ناقابلِ دریافت وجہ سے وادئ سندھ کے یہ عظیم مراکز تباہی سے دوچار ہو گئے۔ موہن جو داڑو اور دیگر دراڑوی مراکز کی تباہی کی کیا وجوہات تھیں، اس پر محققین میںاختلافپایا جاتا ہے۔ بعض اسے قدرتی آفات اور سیلاب قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض محققین کے نزدیک وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ سے آریاوں کی فوجی یلغار نے یہ تہذیب نیست و نابود کردی۔ آریاوں نے یہاں ہند۔ آریائی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو دریائے سرسوتی اوردریائے گنگاکے کناروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب 1500 ق م میں اپنے عروج پر تھی۔ ہند۔ آریائی تہذیب (ویدک سویلایزیشن 1700-500 ق م) نےہندوستانکےمذہب، رسوم، معاشرت و رہن سہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔سندھ: کلہوڑا دور کا فنِ تعمیر[1]برِصغیر کے فن و ثقافت، خاص طور پر فنِ تعمیر کے ضمن میں محققین کی یہ شکایت عام ہے کہ علاقائی رجحانات پر نہ تو ریسرچ کی جاتی ہے اور نہ اِن نادر و نایاب نقوش کا کوئی مستند ریکارڈ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے۔
+اس شکایت کے ازالے کی خاطر آج سے تین برس پہلے سندھی ثقافت کے امین ادارے سندھ آرکائیوز نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کی جِسے ماہرین فنِ تعمیر کے علاوہ تاریخ کے طلبہ نے بھی بہت سراہا اور بے چینی سے اس منصوبے کے نتائج کا انتظار کرنے لگے۔حال ہی میں اس سلسلے کا تحقیقی مواد ایک کتاب کی شکل میں منظرِ عام پر آیا ہے جس کے مولّف ہیںسیدحاکم علی شاہ بخاری ہیں۔ مواد کی ترتیب و پیشکش میں انھیں سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر غلام محمد لاکھو اور ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کی مدد اور بھر پور تعاون حاصل رہا ہے۔ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ ورثہ دو طرح کا ہوتا ہے: مرئی اور غیر مرئی۔ مرئی اشیا وہ ہیں جنہیں ہم ٹھوس شکل میں اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں مثلاً فنِ تعمیر، مصوری، صنم تراشی، نقاشی، کندہ کاری، زر دوزی وغیرہ، جبکہ غیر مرئی ثقافتی ورثے میں شعر و ادب وغیرہ آتے ہیں۔ ٹھوس شکل میں نظر آنے والا ثقافتی ورثہ خود بخود محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر قدیم رومن آثار، یونانی کھنڈر، پراچین بھارت کے مندر اورجنوبی امریکامیں قبلِ مسیح کے تاریخی آثار کو بے رحم فطرت کے مقابل بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہوتا تو آج ہمیں قدماء کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوتا۔سندھی تہذیب کی بہت سی تاریخی نشانیاں موسمی شداید کی نذر ہو کر ہمیشہ کے لیے نابود ہو چُکی ہیں، لیکن جو آثار ابھی موجود ہیں اُن کو ریکارڈ پر لانا اور اُن کے تحفظ کی جدو جہد کرنا، سندھ آرکائیوز کے مقاصد میں شامل ہے اور اس غرض سے کئی تحقیقی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ایسے ہی ایک ریسرچ پراجیکٹ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔پاک و ہند کے فنِ تعمیر پر یوں تو گذشتہ دو صدیوں سے کام ہو رہا ہے لیکن یہ محققین یورپ سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کی تمام تر عرق ریزی کے باوجود یہ نکتہ اُن پر عیاں نہ ہو سکا کہ وہہندوستانیفنِ تعمیر کو یورپ کے روائیتی کلاسیکی پیمانوں سے ناپ رہے ہیں۔ اس سقم کا احساس پہلی بار 1920 کی دہائی میں ہوا لیکن تب تک ثقافتی مطالعے کے ضمن میں کئی اور نظری مسائل سر اُٹھا چُکے تھے، مثلاً یہی کہ ایک دور کے طرزِ تعمیر کو دوسرے دور سے ممیّز کرنے کے لیے ہم ایک واضح خطِ تقسیم کیسے کھینچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور ہر کیا ہم سلطنت دور کے فنِ تعمیر کو ایک لکیر کھینچ کر مغلیہ دور کے فنِ تعمیر سے الگ کر سکتے ہیں؟زیرِ نظر کتاب میں یہ مسئلہ مغلیہ اور کلہوڑا دور کے خطِ امتیاز کی صورت میں نظر آتا ہے، کیونکہ تاریخی طور پر جب کلہوڑا دور کا سورج طلوع ہو رہا تھا تو سلطنتِ مغلیہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا لیکن ادب، آرٹ، کلچر اور تہذیب کی تقسیم دو ٹوک انداز میں نہیں ہو سکتی کیونکہ ایک دور کے اثرات اگلے دور کے انداز دُور تک مار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سندھ ارکائیوز کے ڈائریکٹر اقبال نفیس خان کی مدد سے مصنف حاکم علی شاہ بخاری نے اس پراجیکٹ کا قریب سے مطالعہ کیا اور ایک ایسی کتاب تحریر کی جو نہ صرف اسکالروں بلکہ عام قارئین کے لیے بھی دلچسپی کا باعث بنے اور کلہوڑا دور کے حوالے سے پڑھنے والوں کے ذہن میں سندھ کے قدیم اور جدید طرزِ تعمیر کی مختلف جہتوں کو روشن کرے۔گڑھی کے مقام پر میاں نصیر محمد کیمسجدجو امتدادِ زمانہ سے کھنڈر میں تبدیل ہوچُکی تھی، لیکن حال ہی میں اس کی تعمیرِ نو ہوئی ہے۔کلہوڑا دور کے فنِ تعمیر پر بڑی تختی کے ایک سو ستائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب سندھ آرکائیوز نے خود شائع کی ہے۔ مختلف عمارتوں کی رنگین اور سیاہ و سفید تصاویر حاصل کرنے کے لیے کراچی کے جوان سال فوٹو گرافر وقار اشرف کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ طالب علموں کی قوتِ خرید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کتاب کی قیمت صرف 400 روپے مقرر کی گئی ہے جو کتاب پر آنے والی اصل لاگت سے بہت کم محسوس ہوتی ہے۔موجودہ سندھ، انتظامی لحاظ سے مندرجہ ذیل 23 ضلعوں میں منقسم ہے۔سندھ کا دار الحکومتکراچیہے۔ سندھ کے کراچی سمیت دیگر بڑے شہر درج ذیل ہیں۔کراچیحیدرآبادحیدرآباد، سندھسکھرسندھی قبائل"
+194,لاڑکانہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%84%D8%A7%DA%91%DA%A9%D8%A7%D9%86%DB%81,لاڑکانہصوبہ سندھ،پاکستانکا ایک شہر ہے، جوضلع لاڑکانہمیںدریائے سندھکے کنارے آباد ہے۔لاڑکانہ شہر کے تجارتی مراکز میں ریشم گلی، شاہی بازار، سبزی منڈی، جیلس بازار، صدیقی بازار، خٹاڑ بازار، صرافہ بازار، بندر روڈ، پاکستان چوک، لاہوری محلہ اور غلہ منڈی وغیرہ شامل ہیں۔شہر میں آباد اہم محلے درج ذیل ہیں:یہضلع لاڑکانہاور تحصیل لاڑکانہ کا صدر مقام بھی ہے۔ اس کی چار تحصیلیں ہیںلاڑکانہ ریلوے اسٹیشنپاکستان ریلویزکیکوٹری-حبیب کوٹبرانچ ریلوے لائن پر لاڑکانہ کے درمیان واقع ہے۔ یہاں تمام اکسپريس ٹرینیں رکتیں ہیں۔لاڑکانہ کا شُمار پاکستان کے گرم ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں 31 مئی 1998 کو درجہ حرارت 52.2 ڈگری ریکارڈ کیا گیا تھا لیکن لاڑکانہ میں 6 جنوری 2006 میں لوگوں نے ایک ایسا دن دیکھا جب اتنی سردی پڑی کے درجہ حرارت منفی 1 ڈگری ہو گیا،ساسولی (اللہ دازئی)
+195,کلو میٹر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%84%D9%81_%D9%BE%DB%8C%D9%85%D8%A7,کلومیٹر(Kilometre) لمبائی کا پیمانہ ہے۔ یہ ایک ہزارمیٹرکے برابر ہے۔ بین الاقوامی اکائیوں کے نظام میں یہ لمبائی کا پیمانہ ہے۔میٹر·گرام·ہرٹز·کلوبائٹ·کلومیٹر·فٹ·وولٹ·واٹ·جاؤل·کلوگرام·انچ·گز·فرلانگ·نیوٹن·میل·منٹ·مائکرون·لٹر·قیراط
+197,80ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/80,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+198,وادیٔ سندھ کی تہذیب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%88%D8%A7%D8%AF%DB%8C_%D8%B3%D9%86%D8%AF%DA%BE_%DA%A9%DB%8C_%D8%AA%DB%81%D8%B0%DB%8C%D8%A8,"وادیٔ سندھ کی تہذیبسنہ 3800 سے 1300قبل مسیحتک قائم رہنے والیانسانکی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہوادیٔ سندھکے میدان میںدریائے سندھاور اس کے معاون دریاؤں کے کناروں پر شروع ہوئی۔ اسےہڑپہ کی تہذیببھی کہتے ہیں۔ہڑپہاورموئن جو دڑواس کے اہم مراکز تھے۔دریائے سواںکے کنارے بھی اس تہذيب کے آثار ملے ہیں۔ اس تہذيب کے باسی پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے۔ ان کے پاس بیل گاڑياں تھیں، وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے، کسان، جولاہے،کمہاراور مستریوادیٔ سندھکی تہذیب کے معمار تھے۔سوتی کپڑاکہ جسےانگریزیمیں کاٹن کہتے ہیں وہ انہی کی ایجاد تھی کہ لفظ کاٹن انہی کے لفظ کاتنا سے بنا ہے۔شکراورشطرنجدنیا کے لیے اس تہذیب کے انمول تحفے ہیں۔
+وادیٔ سندھ کی تہذیب کی دولت نے ہزاروں سال سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔خیال کیا جاتا تھا پاک و ہند میں تمذن کی بنیادآریاؤںنے 1500 ق م میں ڈالی تھی۔ اس سے پہلے یہاں کے باشندے جنگلی اور تہذیب و تمذن سے کوسوں دور تھے۔ مگر بعد کی ��حقیقات نے اس نظریے میں یک لخت تبدیلی پیدا کردی اور اس ملک کی تاریخ کو ڈیرھ ہزار پیچھے کر دیا۔ ایک طرف موہنجودڑو اورہڑپاکے آثار اور سندھ کی قدیم تہذیب کے بارے میں جو معلومات ہوئیں ان سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ کی ہے کہ کہآریوںکے آنے سے بہت پہلے یہ ملک تہذیب و تمذن کا گہوارہ بن چکا تھا ۔1921ءکا واقعہ ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نےہڑپہکے مقام پر نے قدیم تہذیب کے چند آثار پائے۔ اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار مسٹر آر ڈی بنرجی کو موہنجودڑو کی سر زمین میں دستیاب ہوئے۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی۔ محکمہ کے ڈائرکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی، ڈائرکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ اثریات کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا۔1931ءمیں فنڈ کی کمی کی وجہ سے کام روک دیا گیا۔ اس اثنائ میں محکمہ نے دوسرے مقامات پر اثری تلاش شروع کی۔ اس میں بڑی کامیابی ہوئی اور پتہ چلا کہ یہ قدیم تہذیبموہنجوداڑواورہڑپہتک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس کا سلسلہصوبہ سندھمیں چنہودڑو، جھوکر، علی مراد اورآمریاورصوبہ پنجابمیں روپر اوربلوچستانمیں نال اور کلی کے مقام پر بھی قدیم تہذیب کے آثار موجود ہیں ۔وادی سندھسے صرف موجودہسندھمراد نہیں بلکہ موجودہپاکستان،افغانستانکا مشرقی حصہ،بھارتکا مغربی حصہوادئ سندھمیں شمار ہوتا ہے۔وادئ سندھمغرب میں پاکستانی صوبہبلوچستانسے لے کر مشرق میںاتر پردیشتک پھیلا ہوا ہے،جبکہ شمال میںافغانستانکے شمال مشرقی حصے سے لے کر جنوب مغرب میں بھارتی ریاستمہراشٹراتک پھیلی ہوئی تھی۔سندھ و گنگ کا میدان(انگریزی:Indo-Gangetic Plains) ایک بہت بڑا میدانی علاقہ ہے جوبرصغیرکے شمالی حصّے میں واقع ہے۔ اس میدان کا نامسندھاورگنگاکے دو بڑے دریاؤں پر پڑا ہے جن کی وجہ سے اس میدان کی زمین بے حد زرخیز ہے۔ یہ میدان چار ملکوں میں پھیلا ہوا ہے -پاکستان،ہندوستان،نیپالاوربنگلہ دیش.ابھی ہم متاخر حجری عہد سے گزرتے ہیسندھ کی وادیمیں ہماری نظر تمذن کے ایسے آثاروں پر پڑتی ہے کہ ہم ٹھٹھک کر رہ جاتے ہیں۔ ہم ابھی اجتماعی زندگی کی بنیاد پڑنے، بستیاں بسنے، صنعت میں کس قدر مشق و صفائی پیدا کرنے کا ذکر کر رہے تھے۔ اب یک بارگی ہمیں عالی شان شہر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مکانات پختہ اور مظبوط، دو دو تین تین منزلہ اونچے ہیں۔ ان میں سڑکیں ہیں، بازار ہیں۔ ان کے باشندوں کی زندگی و رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ یہ عجیب بات وادی سندھ کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دیتے ہیں۔ یعنی جب یہاں کے شہر پہلے پہل بنے تب یہاں کی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور بعد میں اسے زوال آتا رہا۔وادی سندھ کی تہذیبکی بے نقابی اور تشریح شایدبیسویں صدیکا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے۔ کیوں کہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو1922ءمیںموہنجودڑوکی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جاسکا ۔وادی سندھ کی تہذیب ارضپاکستانکی قبل از تاریخ دور کی سب سے شاندار چیز ہے۔ اس تہذیب کی بہت سی خصوصایت ایسی ہیں جو صرف اس کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ماضی میں اس تہذیب کے بارے میں ماہرین کی رائے تھی کہ یہ مغربی ایشیائ سے اس سرزمین سے لائی گئی تھی اور مغربی ایشائی کے تہذیبی عروج و زوال کا تمتہ تھی۔ لیکن1950ءمیں ڈاکٹر ایف اے خان نےکوٹ ڈیجیکی کھدائی کی۔ اس سے نئی چیزیں سامنے آئیں اور پرانے ت��ورات میں تبدیلی واقع ہوئی۔کوٹ ڈیجیمیںہڑپہکے پختہ دور سے بہت پہلے کی مدفون آبادی ملی۔ اس کی تہذیب کے زمانے کا تعین ریڈیو کاربن کے ذریعے کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ آبادیہڑپہسے بھی 800 سال پرانی ثقافت ہے۔ اس کے بعد بے درپے کھدائیاں ہوئیں۔ جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اس تہذیب کے سرچشمے اسی سر زمین میں تھے۔ یہ مقامی سماج کے ارتقا کا لازمی نتیجہ تھی اور بیرونی اثرات جو بھی تھے وہ ثانوی اور کم اہم تھے۔ اس تہذیب کا پختہ زمانہ تو 2500 ق م سے لے کر 1700 ق م ہے۔ لیکن در حقیت اس کا تسلسل 3800 ق م تک نظر آتا ہے۔ اس کا دائرہ اثر شمال میں شمالیافغانستانکے علاقہ بدخشاں سے لے کر جنوب میں ساحل سمندر تک ہے۔ جہاں یہبلوچستانکے ساحل سے لے کرکاٹھیاواڑتک محیط ہے۔ پرانی کھدائیوں میں اس تہذیب سے وابستہ شہر اور قبضے بیالیس کی تعداد میں تھی۔ اب اس کی تعداد میں سیکڑوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ صرف چولستان میں ڈاکٹر رفیق مغل نے تین سو تریسٹھ مدفون بستیاں ڈھونڈی ہیں جن کا تعلق اس تہذیب سے ہے۔ اس کے علاوہ سرائے کھولا،جھنگ، بٹھیال، وادیسواتمیں غالاگئی، وادیگوملمیں کے کئی مقامات،بلوچستانکے علاقہ کچھی کے علاقے میںمہر گڑھمیں اس تہذیب کے اثرات ملے ہیں۔بھارتمیں دریائے گھگھر (ہاکڑہ) اور اس کے معاون دریاؤں کے طاس کا علاقہ ان آثار سے پر ہے۔ اس میںراجپوتانہ،مشرقی پنجاباورہریانہکے صوبے شامل ہیں۔ یہاں جن مقامات سے اس تہذیب کے آثار ملے ہیں ان میں کالی بنگن، سیسوال، بانے والی منڈا اور دوسرے بہت سی جگہیں شامل ہیں۔ ساحل کے قریب لوتھل اور رنگ پور بڑے شہر تھے۔ ان کے علاوہ چھوٹی بستیاں بہت زیادہ ہیں۔اس تہذیب کا سب سے پہلے ملنے والا شہرہڑپہتھا اور اس وجہ سے اسےہڑپہسویلائزیشن بھی کہا جاتا ہے۔ دوسرا بڑا شہرموہنجوداڑوتھا۔ بعد میں اب گنویری والا ملا ہے۔ جوہڑپہسے بڑا شہر ہے لیکن ماہرین زیادہ اہمیتہڑپہاورموہنجوداڑوکو دی۔بڑے شہروں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ آبادی وسیع تھی۔ شہروں میں تو تھی ہی، دیہات میں بھی بہت تھی۔ جو وافر مقدار میں اجناس ۔۔۔ اپنی مقامی ضرورتوں سے زائد ۔۔۔ پیدا کر رہی تھی کہ یہ اجناس شہروں کو بھیجی جاسکیں۔ ملک کے طول و عرض میں پختہ اینٹوں کا کثرت سے استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ وسیع جنگلات تھے۔ برتن اور مہروں پر جانوروں کی شکلیں اور دفینوں پر ان کی ہڈیاں جانوروں کی کثرت سے موجودگی اور دوسرے لفظوں میں جنگلوں کی کثرت کا ثبوت ہیں۔ جانوروں میں گینڈے، شیر، دریائی بھینس اور ہاتھی کثیر تھے۔ ان کے علاوہ گھڑیال کا ثبوت ملا ہے۔ ریچھ کی بعض نسلیں، بندر گلہری اور طوطا بھی ملا ہے۔ بارہ سنگھا اورہرنبھی ملے ہیں۔اس تہذہب کے نمایاں شہرموہنجوداڑو،ہڑپہکے علاوہچنھودڑو، ستکگن دڑو، بالاکوٹ، سوتکا کوہ، ٹوچی، مزینہ دمب، سیاہ دمب، جھائی، علی مراد، گنویری والا اور معتدد شہر شامل ہیں۔مادی ثقافت کی جملہ تفصیلات میں سارا وسیع و عریض علاقہ ۔۔۔ جسے اب ماہرین آثار عظیم تر وادی سندھ کہتے ہیں ۔۔۔ آپس میں مکمل یکسانی رکھتا ہے۔ مٹی کے برتن ہر جگہ ایک جیسے ہی ہیں۔ جو تھوک پیداوار کا نتیجہ ہیں، مکانات طے شدہ معیاری نقشوں پر بنے ہیں اور پختہ اینٹوں کے ہیں۔ مہریں ایک طرح کے کھدے ہوئے مناظر سے مزین ہیں اور رسم الخط سب جگہ ایک ہی ہے۔ اوزان اور پیمائش کا ایک ہی معیاری نظام ہر جگہ رائج ہے ۔ماہرین عموماًوادی سندھ کی تہذیبکے لیے سلطنت کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن ��اید پگٹ اور ویلر نے سرسری طور پر انڈس ایمپائر کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جب کہ اکثر ماہرین کا رجحان یہ ہے اسے ایک سلطنت نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن بعض بنیادی حقائق ایسے ہیں جن کی کوئی دوسری تشریح ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی۔ وادی سندھ کی صنعتی پیداوار کی زبر دست یکسانی اس خیال کی گنجائش ضرور پیدا کرتی ہے کہ ایک طاقت ور مرکزی حکومت موجود تھی۔ جو سارے علاقے کو کنٹرول کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ پیداوار اور تقسیم کا ایک مربوط ایک مسوط سلسلہ تھا جس کو وہ کنٹرول کرتی تھی۔ اس کا یقینا ایک محصول چونگی اور شاہرہوں کی حفاظت کامربوط نظام تھا۔ ہڑپہ اور موہنجو دڑو ہم عصر شہر تھے، جو یقناً جڑواں دالحکومت تھے۔ ان دونوں شہروں کے اندر بلند و بالا قلعے تھے۔ جو باقی ماندہ آبادی پر غالب نظر آتے تھے۔ اس لیے قیاس آرئی کی گنجائش تھی کہ یہ مرکزی حکومت کے دالحکومت تھے۔ملک کے طول و عرض میں مصنوعات اور دستکاریوں کی زبردست یکسانی صرف مرکزی حکومت کے سخت قوانین کا نتیجہ نہ تھی، بلکہ سماج کے تجارتی قوانین بھی ۔۔۔ جنہیں مذہبی رنگ حاصل تھا ۔۔۔ یقینا بہت سخت ہوں گے۔ جن پر حروف بحروف عمل ہوتا تھا۔ ہر علاقے میں اوزان کا یکساں تھے۔ کانسی کی کلہاڑی کی بناوٹ اور بھالے کی شکل ایک سی تھی۔ اینٹوں کا سائز، مکانوں کا نقشہ، بڑی گلیوں کی ترتیب، الغرض پورے شہر کی ٹاون پلانگ ایک سی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ صدیوں تک پرانی عمارتوں پر نئی عمارتیں ہو بہو ویسی کی ویسی بنتی رہیں۔ ایک گھر کی خارجی چار دیواری کئی صدیوں تک نہیں بدلی تھی۔ اس کا مطلب ہے حکمران اور محکوم دونوں طبقات تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ کاریگر لوگ ذات پات کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے نسل درنسل ایک ہی کام کرتے چلے آ رہے تھے اور کچھ ایسا ہی حال اونچے طبقات کا تھا ۔وادی سندھکی یکسانی زمان اور مکان میں ایک جیسی شدت تھی۔ ایک طرف یہبلوچستانسے لے کرپنجاباورخیبر پختوںخواتک یکساں ہے۔ دوسری طرف تیرہ سو سال کے عرصے پر محیط جب تک یہ تہذیب زندہ رہی اس کی تفصیلات میں فرق نہیں آیا ۔موہنجوداڑومیں کل نو رہائشی پرتیں نکالی گئیں۔ ان میں کئی جگہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملتا ہے۔ لیکن ان متفرق ادوار کی مادی ثقافت میں زرا فرق نہیں ملتا۔ نہ زبان بدلی ہے نہ رسم الخط۔ ایک ایسی زمین پر جس میں زبان نے متعدد شکلیں اختیار کی ہیں اور رسم الخط بار بار یکسر تبدیل ہوا ہے اس میں ایک ہی رسم الخط کا تسلسل اس کے ٹہراؤ کا بڑ ثبوت ہے ۔ایک طرف تو ان کے عکاد اور سومیر سے تعلقات تھے۔ دوسری طرف تیرہ سو سال تک انھوں نے عکاد اور سومیر سے بدلتے ہوئے صنعتی طریقوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس مطلب ہے کہ ٹہراؤ کی وجوہات اندرونی اور بہت مضبوط تھیں اور بیرونی اثرات کمزور تھے ۔کوسمبی مزید کہتا ہے کہ اس تہذیب میں پھیلاؤ کا فقدان تھا۔ یعنیدریائے سندھاور اس کے معاون دریاؤں کے کنارے شہر آباد تھے۔ باقی تمام آبادی چھوٹے چھوٹے گاؤں پر مشتمل تھی اور یہ تہذیب وادی گنگ و جمن اور خاکنائے دکن کی طرف نہیں گئی ۔[3][4][5][6][7]"
+199,ہڑپہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%81%DA%91%D9%BE%DB%81,ہڑپہپاکستانکا ایک قدیم شہر ہے جس کے کھنڈرپنجابمیںساہیوالسے 35کلومیٹرمغرب کی طرفچیچہ وطنیشہر سے 15 کلومیٹر پہلے کھدائی کے دوران ملے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً 1200 سال پہلے لکھی جانے والی ہندووں کی کتاب رگ وید سے اس شہر کی تاریخ کا اندازہ لگایا گیا ہے۔رگ وید میں ایک شہر کا نام آیا ہے ’ ہری یوپیہ ‘سنسکرتمیں اس کا مطلب ہے ’ قربانی کے سنہری ستوں والا شہر ‘ ماہرین کا اب اتفاق ہے۔ جن میں ویلز اور ڈی ڈہ کوسامبی شامل ہیں کہ ہری یوپیہ ہڑپہ ہی کا سنسکرت میں نام ہے۔ اگرچہ اس کا اصل نام کچھ اور ہوگا، شاید ہری یوپویا ہو یا کچھ اور ہو اوررگ ویدکے مطابق اسی ہری یوپیہ کے قریب آریاؤں کی مقامی باشندوں سے جنگ ہوئی تھی۔رگ ویدمیں آیا ہے اندرا نے ورشکھو ( یا ورچکھو ) کی باقیات کو ایسے ملیامیٹ کر دیا کہ جیسے مٹی کا برتن۔ اس نے ورچی وات ( یا ورشی ونت یا ورکی ذات ) لوگوں کے ایک سو تیس مسلح جانبازوں کی پہلی صف کو کچل دیا۔ جس پر باقی بھاگ کھڑے ہوئے ۔1921ءمیں رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپہ کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار پائے۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی۔ محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ہڑپہ کی کھدائی کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی، ڈائریکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ اثریات کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا۔1931ءمیں فنڈز کی کمی کی وجہ سے کام روک دیا گیا۔ بعد میں بھی کھدائی کا کام بھرپور طریقہ سے نہیں ہو سکا۔ قدیم ہڑپہ کے مقام سے موجودہدریائے راویتقریباً چھ میل دور ہے۔ لیکن جب یہ شہر آباد تھا تو راوی اس کے قریب بہتا تھا۔ اس لیے ہڑپہ کے قلعے کے قدیم دور میں اس کے ساتھ کچی اینٹوں اور مٹی سے ایک بڑا حفاظتی بند بنایا گیا تھا۔ جب کبھی راوی میں سیلاب آتا تو یہ بند قلعے کی حفاظت کرتا تھا۔ ہڑپہ اورموئن جو دڑودونوں شہروں کا نقشہ اور ترتیب آپس میں انتہائی مشابہت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ہڑپہ سے ان گنت اینٹیں لوگوں نے چوری کرکے نئی تعمیرات میں استعمال کیں اور لاہور ملتان ریلوے لائین بچھانے کے سلسلے میں یہاں سے ملبہ اٹھا کر استعمال کیا گیا۔ جس وجہ سے ہڑپہ کی مکمل شکل و صورت ماہرین آثار کے سامنے نہیں آ سکی، پھر بھی جو کچھ بچا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہڑپہ کا عمومی نقشہ موہونجودڑو جیسا تھا۔ ہڑپہ کی سب سے نچلی تہ موہنجودڑو کی پہلی تہ سے زیادہ پرانی معلوم ہوتی ہے اور وہاں کی آخری، یعنی سب سے بعد کی تہوں میں ایسے آثار ملے ہیں جوموئن جو دڑوکےآخری زمانے کے بعد کے ہیں۔قلعہ جنوب مغرب میں ہے اور نچلا شہر مشرق اور جنوب مشرق میں ہے۔ ان دونوں کے درمیان میں منظم شہر کی باقیات ہیں۔ قلعے کے جنوب میں ایک پہاڑی ہے اور قبرستان ہے۔ جسے ’ مدفن H ‘ کہتے ہیں۔ شمالاً جنوباً 460 گز اور اس کی موجودہ چوٹی کی زمین شمال سے جنوب کی طرف ڈھلان رکھتی ہے اور اس کی سب سے اونچی جگہ ایک جدید قبرستان ہے۔ جس کی وجہ سے کھدائی نہیں کی جاسکی۔ یہ سب اونچی جگہ ارد گرد کی سطح زمین سے 45 فٹ تا 50 فٹ اونچی ہے۔ قلعے کے اندر کی عمارتیں اس وقت زمین سے بیس تا پچیس اونچے چبوترے پر بنائی گئی تھیں۔ چبوترا مٹی اور کچی اینٹوں سے بنایا گیا تھا اور اس کے ارد گرد نہایت موٹے حفاظتی پشتے تھ۔ اس پشتے میں ایک مختصر سی جگہ کھودی گئی ہے۔ اس کے نیچے برتنوں کے کچھ ٹکڑے ملے ہیں۔ جس کا مطلب ہے یہاں قریب انسانی آبادی رہی ہوگی۔ کچھ برتن رانا غندئی کے سطح سوم کے برتنوں جیسے ہیں۔ یہ پہلی آبادی ہے جو گاؤں کے لوگوں کی ہے۔ ان برتنوں پر سرخ رنگ کیا ہوا تھا۔ پھر اس پر سیاہ رنگ نقاشی کی گئی ہے۔ اس کے بعد دوسرے دور میں قلعے کی ایک عظیم فیصل بنتی ہے اور اس کے ساتھ ایک حفاظتی پشتہ بنایا جاتا ہے۔ جو اینٹ روڑوں اور مٹی سے بھرا گیا ہے۔ یہ پشتہ بنیادوں کے قریب 35 فٹ چوڑا ہے اور اوپر چڑھ��ے ہوئے پتلا ہوجاتا ہے۔ اصل فصیل اندر اور باہر سے پختہ اینٹوں سے بنی ہے اور بیچ میں کچی اینٹوں سے بھرائی کی ہے۔ اس دیوار کی کل موٹائی چایس فٹ ہے اور اونچائی 35 فٹ۔ فصیل کے باہر جو پختہ اینٹوں کی دیوار ہے وہ چار فٹ موٹی ہے۔ قلعے کی فصیل میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر حفاظتی برج بنے ہوئے ہیں۔ جو فصیل سے اونچے ابھرے ہوئے ہیں۔ قلعے کا اصل پھاٹک شمالی جانب تھا۔ ایک چور دروازہ مغربی جانب تھا۔ جس کے آگے ایک حفاظتی برج تھا۔ اس چور دروازے سے اندر داخل ہوں تو اندر کئی دروازے ہیں۔ جس کے اندر دمدمے اور چبوترے ہیں اور ان کی بغل میں محافظوں کے کمرے ہیں۔ چور دروازے کی بھول بھلیوں کے جنوبی سرے پر ایک خفیہ راستہ زینے کے ذریعے قلعے کے اندر داخل ہوتا تھا۔ ہڑپہ میں زینے کا استعمال عام تھا۔ قلعے کی تعمیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پہلی بار اتنی عمدگی سے نہیں تعمیر کیا گیا۔ بلکہ اس کی تعمیر کے بھی کم از کم تین مرحلے ہیں۔ پہلی بار قلعہ پکی اینٹوں کے ٹکڑوں سے بنایا گیا تھا اور اس پر کسی حملے کے اثرات کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ بلکہ صرف موسمی اثرات دیکھنے میں آتے ہیں۔ دوسری تعمیر پختہ سالم اینٹوں سے کی گئی۔ اس مرتبہ فن تعمیر پہلے سے بدرجہ بہتر ہے۔ تیسری تعمیر میں فصیل کے ارد گرد بھاری بھرکم پشتے لگائے گئے ہیں اور قلعہ واقعی زبردست قلعہ بن گیا۔ اس مطلب ہے ایک تو یہ ہے کہ حکمرانوں کی خوش حالی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ دوسرے یہ بھی ہے کہ عوام کے بالمقابل اور دیگر حملہ آوروں کے خلاف حفاظت کی ضرورت کا بڑھ جانا ہے۔قلعے کے شمال کی جانب ایک بیس فٹ اونچی اور 300 گز مربع وسیع ڈھیری کی کھدائی کی گئی ہے۔ اس کے نیچے سے اہم عمارتیں برآمد ہوئیں۔ قلعہ کے قریب فوجی بیرکوں کے انداز کی عمارتوں کی دو قطاریں چلی گئی ہیں۔ ایک قطار میں سات اور دوسری میں آٹھ گھر ہیں۔ ہر گھر کے آگے پیچھے دائیں بائیں گلیاں ہیں۔ کہیں بھی دو گھر کی دیواریں ساتھ نہیں ہیں۔ ہر گھر کا سائز 52 * 24 فٹ ہے۔ ہر گھر ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ ہر گلی تین سے چار فٹ چوڑی تھی۔ ہر گھر میں داخلے کا رستہ ترچھا اور خفیہ تھا۔ یہ آبادی انتہائی منظم طریقہ سے بنی ہے اور تنطیم میں باقائدہ شہر ہے جو انتہائی منظم ہے۔ حد درجہ منفرد اور نمایاں ہے۔ یقینا یہ حکومت نے سرکاری منصوبہ بندی کے تخت بنائی ہے۔ ان بیرک نما مکانوں کو غلاموں کے گھر سمجھا گیا ہے۔ یہ غلام گھر جب مٹی میں دفن ہو چکے تو ان کے اوپر نئی زمین پر سولہ بھٹیاں بنائی گئی تھیں۔ یہ ناشپاتی کی شکل کی تھیں۔ ان کی لمبائی تین فٹ چار انچ سے لے کر چھ فٹ دو انچ تک تھی اور اس میں جلانے کے لیے گائے کا گوبر اور لکڑی کا کوئلہ استعمال کیا جاتا تھا اور دھوکنی سے ہوا دی جاتی تھی۔ ان بھٹیوں کے قریب ایک کھٹالی پڑی ہوئی ملی ہے۔ جس میں کانسی پگھلانے کے آثار ہیں۔غلام گھر سے آگے شمال کی طرف گول چبوتروں کی پانچ قطاریں چلی گئی ہیں۔ یہ پختہ اینٹوں سے بنے پونے گیارہ سے لے گیارہ فٹقطرکے گول چبوترے ہیں۔ جن کے مرکز میں خالی جگہ ہے۔ اس خالی جگہ میں لکڑی کی بڑی بڑی اوکلیاں دبائی ہوتی تھیں۔ جن میں لکڑی کے بڑے بڑے موصلوں سے کوٹ کوٹ کر آٹا پستے تھے تو یہ چکیاں تھیں۔ شروع میں سترہ چکیاں دریافت ہوئیں۔ 1946 میں کھدائی میں مزید ایک اور نکالی گئیں۔ مزید کھدائی سے مزید چکیاں نکل نے کی امید کی جا سکتی ہے۔ ان میں ایک میں سے بھوسے کے ٹکڑے ملے ہیں اور ایک میں جلی ہوئی گندم جھڑے ہوئے جو، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوکھلی اور موصلی سے جو جھڑن�� اور گندم پیسنے کا کام لیا جاتا تھا۔ یہ چکیاں کارخانہ معلوم ہوتی ہیں ۔۔۔ یہ ایک بڑی سرکاری فلور مل ۔۔۔ جس میں غلام مشقت پر مامور تھے۔ بعض چکیوں کی اینٹیں گھسی ہوئی صاف ظاہر دکھائی دیتی ہیں۔ جو ثابت کرتی ہیں کہ یہاں یہاں پر برہنہ پا غلام کھڑے ہوکر غلہ کوٹتے تھے ۔ان چکیوں سے آگے ایک بڑا اناج گھر ہے۔ جس میں عمارتوں کی دو قطاریں ہیں جن کے اندر غلہ گوداموں کا ایک مسبوط سلسلہ ہے۔ یہ ہڑپہ کی ایک نمایاں عمارت ہے۔ پہلے زمین کے اوپر چار فٹ اونچا مٹی کا چبوترا بنایا گیا ہے۔ اس کے اوپر یہ سارے گودام ہیں۔ ہر گودام کا سائز 50 * 20 فٹ ہے اور ایسے چھ گوداموں پر مشتمل دو قطاریں متوازی بنائی گئیں ہیں۔ ان قطاروں کا درمیانی فاصلہ 23 فٹ ہے۔ یہ اناج گھر دریا کے کنارے واقع تھا اور اس میں داخلے کا رستہ دریا کی جانب تھا۔ جس کا مطلب ہے مختلف دیہاتوں سے گندم اکھٹی کر کے دریا کے راستے گودام تک لائی جاتی تھی اور پھر دوسرے علاقوں کو جاتی بھی دریا کے راستے سے تھی۔ ہر گودام کے اندر دہرا فرش تھا، جو سلیپروں کی دیواروں پر بنایا گیا تھا۔ سلیپر رکھنے کا مقصد یہ تھا۔ کہ گودام کے نیچے سے ہوا گذرے۔ تاکہ اناج نمی سے ے محفوظ رہے۔ تین سلیپروں کی ایک دیوار بنتی تھی۔ ان گوداموں میں داخلے کا اندورنی راستہ اندرونی راہ داری میں سے جاتا تھا۔ اتنا ہی رقبہموئن جو دڑوکے اناج گھر کا تھا۔ قلعے کے پاس ہی غلاموں کے کواٹر اور پاس ہی چکیاں اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں غلامی کا نظام تھا۔ یہاں کے غلام جبری زندگی پر راضی برضا تھے۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس سلطنت کی سب سے بڑی دولت یہی اناج تھا۔ جس کی اول تو پیداوار کو بھی نہیں کم از کم تقسیم کو حکومت ضرور کنڑول کرتی تھی۔ حکومت کے ملازم افسر بھی ہوں گے۔ منشی اور مزدور بھی۔ موہنجودڑو میں ایسا اناج گھر قلعے کے اندر واقع ہے۔ چونکہ ابھی سکہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ اس لیے اس اناج گھر کو سرکاری خزانہ سمجھنا چاہیے اور سرکاری ملازموں کی تنخوائیں اسی ہی غلہ سے ادا کی جاتی ہوگی۔ ایسا ہی رواج میسوپوٹیمیا میں بھی رواج تھا۔ہڑپہ میں نسبتاً زیادہ قدیم زمانے کی انتہائی ننھی منی مہریں بھی ملی ہیں جن کی لمبائی 1.07 تا 1.36 انچ ہے۔ چوڑائی 1.02 تا 1.06 موٹائی 1.05 تا 1.13 انچ ہے۔ ان پر جانوروں تصویریں نہیں ہیں یا نشانات ہیں یا پھر مچھلی یامگر مچھوغیرہ نظر آتے ہیں۔ ان میں سوراخ بھی نہیں ہیں ۔[1]30°38′N72°52′E / 30.633°N 72.867°E /30.633; 72.867
+200,پنجاب، پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%A8%D8%8C_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پنجابپاکستانکا ایک صوبہ ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پنجاب میں رہنے والے لوگپنجابیکہلاتے ہیں۔ پنجاب جنوب کی طرفسندھ، مغرب کی طرفخیبرپختونخوااوربلوچستان، شمال کی طرفکشمیراوراسلام آباداور مشرق کی طرف ہندوستانی پنجاب اورراجستھانسے ملتا ہے۔ پنجاب میں بولی جانے والی زبان بھی پنجابی کہلاتی ہے۔ پنجابی کے علاوہ وہاں کردستانی ،بلوچوں اورعربینژادوں کی کافی تعداد ہے۔ پنجاب کا دار الحکومتلاہورہے۔ پنجاب سب سے بڑا بارہ کروڑ آبادی والا صوبہ ہے۔پنجابفارسىزبان كے دو لفظوںپنجبمعنی پانچ(5) اورآببمعنی پانی سے مل کر بنا ہے۔ان پانچ درياؤں كے نام ہيں:پنجاب کا صوبائی دار الحکومت لاہور، پاکستان کا ایک ثقافتی، تاریخی اور اقتصادی مرکز ہے جہاں ملک کی سنیما صنعت اور اس کے فیشن کی صنعت ہے۔عید الفطر،عید الاضحی،شبِ براتاورعید میلاد النبیپنجاب کے علاوہ پور�� پاکستان میں خاص تہوار ہیں اور پورے جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ ان تہواروں کے علاوہرمضانکا پورا مہینہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔
+مگر بسنت ایک ایسا تہوار ہے جو پنجاب سے منسلک ہے۔ یہ تہوار بہار کے موسم کو خوش آمدید کہنے کا ایک خاص طریقہ ہے۔ جس میں لوگپتنگاڑا کر اور پنجاب کے خاص کھانے بن ا کر اور کھا کراس تہوار کو مناتے ہیں۔ مگر بہت سے لوگ بسنت منانے کے خلاف ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے کئی معصوم لوگ اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔پنجاب رقبے کے لحاظ سےبلوچستانکے بعدپاکستانکا دوسرا بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ 205,346 مربع کلومیٹر (79,284 مربع میل) ہے۔ یہ پاکستان کے کل رقبے کا 25.8 فیصد ہے۔ صوبہ پنجاب کی سرحد جنوب میںسندھ، جنوب مغرب میںصوبہ بلوچستان، مغرب میںصوبہ خیبر پختونخواہاور شمال میںاسلام آباددار الحکومت اورآزاد کشمیرسے ملتی ہے۔ پنجاب کی سرحدیں شمال میںجموں و کشمیراور مشرق میںبھارتیریاستپنجاباورراجستھانسے ملتی ہیں۔دار الحکومت اور سب سے بڑا شہرلاہورہے جو پنجاب کے وسیع علاقے کا تاریخی دار الحکومت تھا۔ دیگر اہم شہروں میںفیصل آباد،راولپنڈی،گوجرانوالہ،سرگودھا،ملتان،سیالکوٹ،بہاولپور،گجرات،منڈی بہاؤالدین،شیخوپورہ،جہلماورساہیوالشامل ہیں۔ پنجاب کی جغرافیہ میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کے پانچوں بڑے دریاؤں کا گھر ہے۔ وہ پانچ دریا یہ ہیں:اس کے علاوہ اس خطے میںریگستانبھی موجود ہیں جو پاک بھارت سرحد کے قریب ہیں خاص طور پر بھارتی صوبےراجستھانکے پاس۔ دیگر ریگستانوں میںصحرائے تھلاورصحرائے چولستانشامل ہیں۔فروری سے پہلے پنجاب میں بہت سردی ہوتی ہے اور پھر اس مہینے سے موسم میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے اور موسم خوشگوار ہونے لگتا ہے۔ مارچ اور اپریل میں بہار کا موسم رہتا ہے اور پھر گرمیاں شروع ہونے لگتی ہیں۔گرمیوں کا موسم مئی سے شروع ہوتا ہے تو ستمبر کے وسط تک رہتا ہے۔ جون اور جولائی سب سے زیادہ گرم مہینے ہیں۔ سرکاری معلومات کے مطابق پنجاب میں C°46 تک درجہ حرارت ہوتا ہے مگر اخبارات کی معلومات کے مطابق پنجاب میں C°51 تک درجہ حرارت پہنچ جاتا ہے۔ سب سے زیادہ گرمی کا ریکارڈ ملتان میں جون کے مہینے میں قلمبند کیا گیا جب عطارد کا درجہ حرارت C°54 سے بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ برسات یا مونسون کا موسم بھی جون سے شروع ہو کر ستمبر تک رہتا ہے۔ ستمبر کے اواخر میں گرمی کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اکتوبر کے بعد پنجاب میں سردی کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں دسمبر اور جنوری میں شدید دھند پڑتی ہے، جس کے باعث ملکی و غیر ملکی آمد و رفت متاثر ہوتی ہے۔یہ صوبہپاکستانکی نصف سے زیادہ آبادی کا گھر ہے اور یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ذیلی قومی ادارہ ہے اورچیناوربھارتکے بعد سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے۔ پاکستان میں پنجاب میں غربت کی شرح سب سے کم ہے، حالانکہ صوبے کے شمالی اور جنوبی حصوں کے درمیان تقسیم موجود ہے۔ صوبے کے خوش حال شمالی حصے میں واقعضلع سیالکوٹمیں غربت کی شرح 5.63% ہے، جب کہ غریب ترین جنوبی میں واقعضلع راجن پورمیں غربت کی شرح 60.05% ہے۔پنجاب کی زبانیں(2017ء مردم شُماری)[1]پنجاب میں بولی جانے والی بڑی مادری زبانپنجابیہے، جو ملک میں بولی جانے والی سب سے بڑی زبان کی نمائندگی کرتی ہے۔ پنجابی کو پنجاب کی صوبائی زبان کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن قومی سطح پر پاکستان کے آئین میں اسے کوئی سرکاری سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پنجابی سے گہرا تعلق رکھنے والی کئی زبانیں اس خطے میں بولی جاتی ہیں۔ پنجاب کے جنوبی حصے میں اکثریتی زبانسرائیکیہے جبکہ شمال میںہندکواورپوٹھواری لہجہبولنے والے ہیں۔پشتوبھی پنجاب کے کچھ حصوں میں بولی جاتی ہے، خاص طور پراٹک،میانوالیاورراولپنڈیکے اضلاع میں۔پنجاب میں مذاہبِ (2017 مردم شُماری)[2][3]پنجاب (پاکستان) کی آبادی کا تخمینہ 110,012,942 ہے، جس میں 2017ء کی مردم شماری کے مطابق، 107,558,164 یعنی (92%)مسلمانہیں۔ سب سے بڑی غیر مسلم اقلیت عیسائی ہیں اور ان کی آبادی 2,068,233 یعنی (2.5%) ہے۔ ہندو تقریباً 220,024 افراد ہیں یعنی آبادی کا (0.8%)۔ دیگر اقلیتوں میں سکھ، پارسی اور بہائی شامل ہیں۔حکومت پنجاب،پاکستانکے وفاقی ڈھانچے میں ایک صوبائی حکومت ہے، جو صوبہ پنجاب کے دار الحکومتلاہورمیں واقع ہے۔وزیر اعلیٰ(سی ایم) کوپنجاب کی صوبائی اسمبلیمیں صوبائی حکومت کے سربراہ کے طور پر کام کرنے کے لیے منتخب کرتی ہے۔ موجودہ وزیر اعلیٰچوہدری پرویز الٰہیہیں جو 26 جولائی 2022ء کو قومی اسمبلی سے منتخب ہوئے۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی صوبہ پنجاب کے منتخب نمائندوں کی یک ایوانی مقننہ ہے جو پاکستان میں لاہور میں واقع ہے۔ یہ اسمبلیآئین پاکستانکے آرٹیکل 106 کے تحت قائم کی گئی تھی جس کی کل 371 نشستیں تھیں، جن میں سے 66 خواتین کے لیے اور آٹھ غیر مسلموں کے لیے مخصوص تھیں۔"
+201,قبل مسیح,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A8%D9%84_%D9%85%D8%B3%DB%8C%D8%AD,وقت کا حساب رکھنے کے لیے عیسویتقویمکی شروعات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ہوتی ہے۔ حضرتعیسیٰ علیہ السلامکی پیدائش سے پہلے کے زمانے کوعیسوی تقویممیںقبل مسیح(BC) کہا جاتا ہے۔
+203,قدیم مصر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%AF%DB%8C%D9%85_%D9%85%D8%B5%D8%B1,قدیم مصریامصری سلطنتشمالی افریقہکی ایک قدیم تہذیب ہے، جودریائے نیلکے کنارے واقع ہے، جہاں آج شمالی افریقی ملکمصرآباد ہے۔ قدیم مصر 3500 قبل مسیح کا ایک معاشرہ تھا، جو اس وقت تک قائم رہا جب 20 ق م میںرومی سلطنتنے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔
+204,بین النہرین,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DB%8C%D9%86_%D8%A7%D9%84%D9%86%DB%81%D8%B1%DB%8C%D9%86,بین النہرین (عربی:مابين النهرين،انگریزی: Mesopotamia)عراقمیںدریائے دجلہاوردریائے فراتکے درمیان واقع علاقے کو کہتے ہیں، جہاں دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں مثلاًعکادی،اشوریاوربابلنے جنم لیا۔ یہ چھ ہزار سال قبل مسیح سے بھی زیادہ پرانی ہے۔
+205,1980ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1980%D8%A1,"سانچہ:C20 year in topic1980ء(MCMLXXX)
+تھاعیسوی تقویمکامنگل کو شروع ہونے والاایکلیپ کا سالجوعام زمانہ(عیسوی) اورقبل مسیح(ق م) کی تعین کاری کے مطابق 1980 واں سال،2 ہزاریہکا 980 واں سال ہے،20 صدیکا 80 واں سال اور1980ء کی دہائیکا 1 واں سال ہے۔اتٹپجرزسشعفلمنکگہیابجدسصعموچڈکہیسانچہ:ابتدائی ترتیب:1980ء"
+206,یونیسکو,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%B3%DA%A9%D9%88,"یونیسکو(انگریزی :UNESCO) (عربی : منظمة الأمم المتحدة للتربية والعلم والثقافة)؛اقوام متحدہ تعلیمی، علمی و ثقافتی تنظیم(united nations educational, scientific and cultural organization)اقوام متحدہکی ایک شاخ ہے، یہ عمومآ ثقافتی معاملات میں مصروف رہتی ہے۔ اس کا دارالتنظیمفرانسکے دار الحکومتپیرسمیں موجود ہے۔"
+207,یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%B3%DA%A9%D9%88_%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C_%D8%AB%D9%82%D8%A7%D9%81%D8%AA%DB%8C_%D9%88%D8%B1%D8%AB%DB%81,"""یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ"" ایسے مقام (جنگل،پہاڑ،جھیل،صحرا، یادگار، عمارت یا شہر) کو کہا جاتا ہے جسے بین الاقوامی عالمی ثقافتی ورثہ پروگرام کے تحت اقوام متحدہ کے تعلیمی سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) کی عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی کی مرتب کردہ فہرست کے لیے نامزد یا اس میں شامل کیا گیا ہو۔
+یہ منصوبہ ثقافتی یا قدرتی اہمیت کے حامل مقامات کی فہرست مرتب کرنے اور ان کی حفاظت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ مختلف شرائط کے تحت مندرج مقامات کو عالمی ورثہ فنڈ میں سے رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ منصوبہ ""عالمی ثقافتی و قدرتی ورثے کی حفاظت کے حوالے سے میثاق"" کے ذریعے شروع ہوا جسے یونیسکو کی مجلس عمومی نے16 نومبر1972ءکو اختیار کیا۔ اس وقت سے 184 ممالک (بمطابقجولائی2007ء) اس کنونشن کی توثیق کر چکے ہیں۔2007ءکے مطابق 142 ممالک کے 851 مقامات اس فہرست میں شامل ہیں جن میں 660 ثقافتی، 166 قدرتی اور 25 مخلوط خصوصیات کے حامل ہیں۔
+ہر عالمی ورثے کا حامل مقام اس ملک کی ملکیت ہے جہاں وہ واقع ہے لیکن مستقبل میں بنی نوع انسان کے لیے اسے محفوظ رکھنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔
+مختلف خطوں میں واقع مقامات کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی فہرست میں شامل مقامات میں انتظامی معاملات پر غور کے حوالے سے سال میں متعدد بار اجلاس منعقد کرتی ہے لیکن World Heritage Committee Session نامی اجلاس سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے جس میں مختلف مقامات کو عالمی ثقافتی ورثہ فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔
+سالانہ اجلاس دنیا کے مختلف شہروں میں منعقد ہوتا ہے۔پیرس(فرانس)، جہاں یونیسکو کے صدر دفاتر واقع ہیں، کے علاوہ یہ اجلاس صرف عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی کے رکن ممالک میں ہی منعقد ہو سکتا ہے جس کے لیے انھیں کمیٹی کی منظوری درکار ہوتی ہے۔"
+209,وکیل (قانون),https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%88%DA%A9%DB%8C%D9%84_(%D9%82%D8%A7%D9%86%D9%88%D9%86),"وکیل (advocate) ایک ایسی شخصیت کو کہا جاتا ہے کہ جو دوسرے (اپنے صارف) کی جانب سے یا اس کی بابت گفتگو کرے، اس مضمون میں یہ گفتگوقانونسے متعلق تصور کی گئی ہے اور اس وجہ سے یہ مضمون صرف قانونی وکلا کے بارے میں ذکر کرتا ہے۔ عام طور پر اردو میں وکیل کا لفظ lawyer کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے، lawyer کو اردو میںقانون دانکہتے ہیں۔مختلف ممالک میں اس اصطلاح کے مختلف معنی لیے جاتے ہیں۔انگریزی قانونپر مبنی ممالک میں، عمومی طور پر اس کا معنیبیرسٹریامشیر قانوناخذ کیا جاتا ہے۔ تاہم،اسکاٹش، مانکس قانون (آئل آف مین کا قانون)، جنوبی افریقی، اطالوی، فرانسیسی، ہسپانوی، پرتگالی، اسکینڈینیوین، پولش، اسرائیلی، جنوب ایشیائی اور جنوبی امریکی دائرہ اختیار میں، ""ایڈوکیٹ"" اعلی درجے کے وکیل کو کہتے ہیں۔ عام وکلا کے برعکس، یہ قانون کی مختلف شاخوں پر عبور رکھ سکتے ہیں۔[1][2][3][4]"
+210,سیاست دان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA_%D8%AF%D8%A7%D9%86,سیاست دان(Politician)اس شخص کو کہا جاتا ہے جوسیاستمیں حصہ لے کرعواماورریاست کی فلاح کو ملحوظ رکھتا ہے۔ معاشرے کو تقسیم سے بچا کر اسے کسی نظریہ کے ساتھ مربوط کرتا ہےسیاست کاربھی کہا جاتا ہے۔
+211,1913ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1913%D8%A1,<<< پہلی دہائی <<<دوسری دہائی>>> تیسری دہائی>>>
+212,پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پاکستان (رسمی نام:اسلامی جمہوریۂ پاکستان- انگریزی میں: PAKISTAN)جنوبی ایشیاکے شمال مغربوسطی ایشیااورمغربی ایشیاکے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختاراسلامیملکہے۔ یہ دنیا کاپانچواںسب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کیدوسریسب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ��ے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کاتینتیسواں(33) بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کےجنوبمیں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جوبحیرہ عربسے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميںبھارت، شمال مشرق ميںچیناور مغرب ميںافغانستاناورايرانواقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگواخان راہداریتاجکستانسے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدودعمانکے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم تریندنیامیں وہ علاقے تھے جن میںموہنجوداڑواورانڈس سولائیزیشنمہر گڑھٹیکسلاپراچین سنسکرت دوراور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسےقندھاراتہذیبو تمدن تھی۔ اس علاقے پرپراچین راجپوتایرانییونانیعرب،بدھ مت،سکھ،مغل،ہن سفیداورترکحملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسےچندر گپت موریا،ہخامنشی سلطنتعربوں کیخلافت امویہ،مغلیہ سلطنت،درانی سلطنت،سکھ سلطنتاوربرطانوی راجکا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعدمحمد علی جناحکی قیادت میںتحریک پاکستانکامیاب ہوئی اور14 اگست1947ءکوہندوستانکے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اورخودمختاراسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین1956ءمیں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.1971ءمیں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملکبنگلہ دیشبن گیا۔پاکستانوفاقیپارلیمانیجمہوری ریاستکے تحت چلتا ہے۔ اس کےپانچ صوبے ہیں اور کچھ علاقے وفاقی حکومتکے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کیفوجدنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسریایٹمی طاقتہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 42https://www.worlddata.info/asia/pakistan/economy.phpویں نمبر پر ہے۔پاکستان کی تاریخفوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سے جھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملکمؤتمر عالم اسلامی،اقوام متحدہ،دولت مشترکہ ممالک،سارک،ترقی پذیر 8،اقتصادی تعاون تنظیمجیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔[7]پاکستان کے لفظی معنیپاک لوگوں کی سر زمینہے، پاک کےاردواورفارسیمیں معنی خالص اور صاف کے ہیں اورستانکا مطلب زمین یا وطن کا ہے-1933ءمیںچودھری رحمت علینے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہاب یا کبھی نہیںشائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔لفظپاکستاناس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔پپنجاب،اخیبر پختونخوا(افغانیہ)،ککشمیر،سسندھ،تانبلوچستان۔711ءمیںامویخلیفہولید بن عبدالملککے دور میںمحمد بن قاسمبرصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوںبرصغیر(موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑیعربریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کادار الحکومتدمشق، زبانعربیاور مذہباسلامتھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پرعربدنیاسے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اورجنوبی ایشیاکی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔سن1947ءسے پہلےبھارت، پاکستان اوربنگلہ دیشبرطانویکالونیاں تھیں اوربرّصغیرکے نام سے جانے جاتے تھے۔ہندوستان کی آزادی(انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران میںہندوستانکےمسلمانوںنے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ ""پاکستان کا مطل�� کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ"" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحتتحریک پاکستانوجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادتمحمد علی جناحنے کی۔14 اگست1947ءکو پاکستان وجود میں آیا۔تقسیمبرصغیر پاک و ہندکے دوران میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اوربھارتکے درمیان میں1948ءاور1965ءمیںکشمیرکے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریابھارتکے زیر انتظامکشمیرسے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو1960ءمیںانڈیاکے ساتھسندھ طاس معاہدہکرنا پڑا، جس کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاؤں،ستلج،بیاساورراویسے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہدریائے سندھ،چناباورجہلمپر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔1947ءسے لے کر1948ءتک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہبھارتنے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ریاست بہاولپورکے نوابصادق محمد خان پنجمنے اس وقت پاکستان کی مالی مدد کی۔پاکستان بطور برطانوی ڈامنینئن آزاد ہوا تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور پہلےوزیر اعظملیاقت علی خان تھے۔ پاکستان کی عبوری حکومت ١١ اگست ١٩٤٧ کو تشکیل دی گئی تھی۔ 1948 میں قائد اعظم ٹی بی سے وفات پا گئے۔1951ءمیں پستول کی گولی کا شانہ بنا کر[لیاقت علی خان]] کو شہید کر دیا گیا۔1951ءسے1958ءتک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔1956ءمیں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ1958ءمیں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیمجنرل ایوبکے دور آمریت میں بنائے گئے۔جنرل ایوبکے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکنمشرقی پاکستاندور ہوتا گیا۔1963ءمیں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگرمشرقی پاکستانکے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ایوب خانعوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علاحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انھوں نے حکومت اپنے فوجی پیش روجنرل یحییٰ خانکے حوالے کر دی۔1971ءکے عام انتخابات میںمشرقی پاکستانسے عوامی لیگ کی واضحکامیابیکے باوجود فوجی حکمرانیحییٰ خاننے اقتدار کی منتقلی کی بجائےمشرقی پاکستانمیں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہہندوستاننے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکاردسمبر1971ءمیںسقوط ڈھاکہہو گیا اورمشرقی پاکستانایک علاحدہ ملکبنگلہ دیشکی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔1972ءسے لے کر1977ءتک پاکستان میںپاکستان پیپلز پارٹیکی حکومت تھی۔ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے صدراور بعد ازاںوزیر اعظمرہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں1977ءمیں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔اگلا دور1977ءتا1988ءمارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمرانجنرل ضیا الحقتھے۔افغانستانمیں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں1985ءکے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے1988ءمیںضیاءالحقنے برطرف کر دیا-1988ءمیںصدر مملکتکا طیارہ گر گیا اورضیاءالحقکے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سےجمہوریتکا آغاز ہو گیا۔اس کے بعد1988ءمیں انتخابات ہوئے اوربينظير بھٹوکی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدرغلام اسحاق خاننے حکومت کو برطرف کر دیا۔1990ءمیںنواز شریفکی قیادت میںآئی جے آئیاور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔1993ءمیں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔اگلے انتخابات1993ءمیں ہوئے اور ان میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس وقت پاکستان کے صدرفاروق احمد خان لغاریتھے۔ صدر فاروق احمد خان لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔1997ءمیں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میںمسلم لیگ ناور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1999ءمیں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکتپرويز مشرفبنے اور2001ءمیں ہونے والے انتخابات کے بعدوزیر اعظمظفر اللہ خان جمالیبنے۔2004ءمیں جنرل مشرف نےشوکت عزیزکووزیر اعظمبنانے کا فيصلہ کیا۔ مختصر عرصہ کے لیےچوہدرى شجاعت حسيننےوزیراعظمکی ذمہ داریاں سر انجام دیں اورشوکت عزیزکےقومی اسمبلیکے ارکان منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔شوکت عزیزقومی اسمبلیکی مدت15 نومبر2007ءکو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16نومبر2007ءکو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔فروری2008ءمیں الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نےیوسف رضا گیلانیکو وزیر اعظم نامزد کیا، جنھوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔22 جون2012ءکویوسف رضا گیلانیکی نااہلی کے بعدراجہ پرویز اشرفنئے وزیر اعظم بنے۔مئی2013ءمیں عام انتحابات ہوئے جس میںپاکستان مسلم لیگ نایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کے تیسرے بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک اور وزیر اعظمنوازشریفکوپانامالیکسفیصلے میں تا حیات نا اہل قرار دے کر برطرف کر دیا اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کےشاہد خاقان عباسینئے وزیر اعظم بن گئے۔ 17 اگست 2018ء کوعمران خان176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔پاکستان کا اعلیٰ اساسی قانونآئین پاکستانکہلاتا ہے۔ آئین، پاکستان کا وہ اعلیٰقانونہے جو ریاست پاکستان کے اندر تمام اہم چیزوں اور فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔ ملک میں چار مرتبہمارشل لالگا جس سے دو مرتبہ آئین معطل ہوا، ایک مرتبہ1956ءکا آئین اور دوسری مرتبہ1962ءکا آئین۔1972ءمیںمشرقی پاکستانمیں مخالفین نے سازشیں کی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھ گئی جس کی نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اورمشرقی پاکستانبنگلہ دیش کے نام ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ اس وقت غور کیا گیا تو ملک ٹوٹنے کی بہت سے وجوہات تھیں۔ اسی بنا پر1973ءکا آئین بنایا گیا۔آئین بنانے کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور آئین میں ہر شعبے اور اہم امور کے لیے اصول بنے، آئین میں ریاست کی تمام بڑے فیصلوں کے لیے قوانین بنائے گئے، حکومت اور ریاست کا پورا تشکیل بیان کیا گیا۔ مسودہ تیار ہونے کے بعد اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔پاکست��نی سیاست کی بنیاد کوآئین پاکستاننے قائم کیا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان ایکجمہوریاورقومی ریاستہے۔ آئین پاکستان نے ایک وفاق اور اس کے ماتحت صوبائی حکومتیں قائم کی ہیں۔ آئین کا پہلا آرٹیکل بیان کرتا ہے کہ ""مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریت ہوگا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا""۔پاکستان کی مختلف علاقہ جات کے متعلق آئین پاکستان کا دوسرا آرٹیکل بیان کرتا ہے:پاکستان کے علاقے مندرجہ ذیل پر مشتمل ہوں گے:آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کوئی واضح حیثیت تو بیان نہیں کی گئی لیکن2009ءمیںقومی اسمبلیسے ایک اور بل منظور ہوا جس نے واضح طور پر گلگت بلتستان کو نیم-صوبے کا درجہ دیا اور یہاں باقاعدہ صوبائی حکومت کو قائم کیا گیا، جس کے تمام بنیادی شاخ (اسمبلی، عدلیہ، وزارتیں، وغیرہ) قائم کیے گئے۔[9]آئین نے مزید ملک میں دو قانون ساز ایوان قائم کیے ایکقومی اسمبلیاور دوسراسینٹ۔ قومی اسمبلی کی بنیاد آبادی کے لحاظ سے ہے یعنی جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں زیادہ نشستیں رکھی جائے گی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو براہ راست عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کے نشستیں دیے گئے ہیں چاہے صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سینٹ کے ارکان کو سینیٹر کہا جاتا ہے اور ان سینیٹرز کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے ووٹ سے منتخب کر سکتے ہیں۔کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کا سلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور، دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے، ایک نقطہ ذہن نشین کر لیں کہخارجہ پالیسیمیں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سےانڈونیشیاکے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایکایٹمی طاقتہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاص ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔پاکستان کی دفاع کا ذمہ ملک کے مسلح افواج پر ہے جس کی بنیادی طور پر تین شاخیں ہیں:1947ءمیںقیام پاکستانسے پہلے پاک عسکریہ، ہندوستانی فوج کا حصہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کےتاج برطانیہکے زیر اثرپہلی جنگ عظیماوردوسری جنگ عظیممیں بھی حصہ لیا ہے۔ تقسیمبرصغیرکے بعد ہندوستانی فوج پاکستان اوربھارتمیں بالترتیب 36% اور 64% کے تناسب میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت اعلان ہوا کہ کوئی بھی فوجی جس بھی فوج میں جانا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔ اس وقت بہت سے مسلمان فوجی، پاک عسکریہ میں شامل ہو گئے۔ تقسیم کے وقت بھارت میں 16 آرڈیننس فیکٹریاں تھیں جبکہ پاکستان میں ایک بھی نہیں تھی۔ اب پاکستان کافی حد تک دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہو گیا ہے۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔ فوج اداروں میںپاک فوج،پاک فضائیہاورپاک بحریہشامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میںفرنٹیئر کانسٹبلری،سرحد کور،پاکستان رینجرزشامل ہیں۔ پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنیپنجاباورس��دھمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس لیے اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنیپنجاب رینجرزاورسندھ رینجرز۔ اسی طرحسرحد کوراورفرنٹیئر کانسٹبلریکو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہخیبر پختونخوااوربلوچستانمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی ادارے کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائی گئی ہیں جن میںخیبر پختونخواپولیس،پنجابپولیس،سندھپولیس،بلوچستانپولیس،آزاد کشمیرپولیس اورگلگت بلتستانپولیس شامل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے، اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سر انجام دینا ہے اسی طرحموٹروےپولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔تحقیقات کے لیے وفاقی ادارۂ تحقیقات (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی مخابراتی ادارے (جیسےآئی ایس آئی، وغیرہ) موجود ہیں۔پاکستان ميں 5 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نےگلگت بلتستانکو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔
+صوبہ جات کی تقسیمیکم جولائی1970ءکو کی گئی۔صوبہ بلوچستانکا کل رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2011ءمیں آبادی 79 لاکھ 14 ہزار تھی۔صوبہ پنجابکا کل رقبہ 205,344 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2013ءمیں آبادی 10 کروڑ 10لاکھ تھی۔صوبہ خیبر پختونخواکا کل رقبہ 74,521 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ تھی۔صوبہ سندھکا کل رقبہ 140,914 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 4 کروڑ 24 لاکھ تھی۔گلگت بلتستان(سابق شمالی علاقہ جات) کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2008ء میں آبادی 18 لاکھ تھی۔جغرافیائی طور پر پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ پاکستان کاجغرافیہاور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیںجانوراورپرندےایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 796,095 مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقےپہاڑیہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریادریائے سندھہے۔ یہدریاپاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گذر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکنبلوچستانکاسبیعلاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اورشمالی علاقہ جاتمیں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادیزراعتکے شعبے سے منسلک ہے۔پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے، زمینی سرحد میں سے 2,430 کلومیٹر سرحدافغانستانکے ساتھ، 523 کلومیٹرچینکے ساتھ، 2,912بھارتکے ساتھ اور 909ایرانکے ساتھ لگا ہوا ہے۔پاکستان دنيا کا ايک ترقی پزیر ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات ميں فوج كى مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کوتعلیمسے محروم رکھنے کینفسیاتیاور خود غرضانہفطرت(تاکہبیگاراورسستے پڑاؤ (Labor Camp)قائم رکھے جاسکیں)، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيلیے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلےپاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعتپر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا[حوالہ درکار]۔ اِس وقت پاکستان کیمعيشتمستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے[حوالہ درکار]۔کراچی سٹاک ایکسچینجکےکے ايس سی انڈکسگزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے[حوالہ درکار]۔پاکستانآبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصداہل تشیع، 77 فيصداہل سنتاور تقریباً 3 فيصد ديگرفقہسے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ایک فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانیمسیحیمذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب وسرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔پاکستان کیقومی زباناردوہے، جبکہ زيادہ تر دفتری کامانگريزیميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اردو پاکستان کی عوامی و قومیزبانہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئی اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميںپنجابی،سرائیکی،سندھی،گجراتی،بلوچی،براہوی، پہاڑی،پشتواورہندکوزبانیں قابلِ ذکر ہيں۔پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پٹھان، بلوچی اورمہاجر قومہيں، ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مابین فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميںدراوڑ،آريا،ہن،ايرانی،يونانی،عرب،ترکاورمنگوللوگوں کی رياستوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھموسماورآب و ہواکا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايکاسلامی تہذيبکا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسيقی ملتی ہے۔کلاسيکی موسيقی،نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک، ان سب کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميںقوالیکا مرکز سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے ��ا رہے ہيں۔ يہ امرا اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جگہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکاؤاسلاماور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔پاکستانيوں کی بڑی تعدادامريکہ،برطانيہ،آسٹريليا،کینیڈااورمشرق وسطیميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہتسرمايہ کاریبھی کی ہے۔پاکستان کا سب سے پسنديدہکھيلکرکٹ ہے۔ پاکستان کیکرکٹٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميںہاکیبھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کےشمالی علاقہ جاتكے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدائش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھیلی جاتی ہے۔پاکستان میں سب سے عام لباسشلوار قمیضہے جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوںبلوچستان،پنجاب،سندھاورخیبر پختونخواسمیتقبائلی علاقہ جات،گلگت بلتستاناورآزاد کشمیرمیں پہنا جاتا ہے۔ تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمالاسکول،کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ اور ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔شیروانیکا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔پاکستانی خواتین میں بھی شلوار قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔پاکستان میں بہت سے ذرائع ابلاغ موجود ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔اس سے پہلےپی ٹی ویملک کا واحد چینل نیٹ ورک ہوتا تھا اور حکومت پاکستان اس نیٹ ورک کو چلا رہی تھی۔2002ءکے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 50 سے بھی زیادہ صرف نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نیوز، انٹرٹینمنٹ، ہیلتھ، ایجوکیشن، علاقائی اور بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتے ہیں تاہم ملک کے علاقائی زبانوں (پشتو،پنجابی،سندھی،بلوچی،کشمیری،سرائیکیوغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔پی ٹی وی ورلڈپاکستان کا پہلاانگریزیچینل ہے۔اردو فلم انڈسٹریلالی وڈکی صدر مقاماتلاہور،کراچیاورپشاورمیں واقع ہے۔ لالی وڈ نے اب تک بہت سے فلمیں ریلیز کی ہیں اور کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے عام اردو ڈراما سیریلز ہیں جو مختلف چینلز پر چلائے جاتے ہیں۔پاکستان کے فن تعمیرات ان مختلف عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مختلف ادوار میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔وادئ سندھ کی تہذیبکے شروع ہونے کے ساتھ ہی جو 3500قبل مسیحتھا، موجودہ پاکستان کے علاقے میں شہری ثقافت کا ارتقا ہوا جس میں بڑی عمارتیں تھیں جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے بعدگندھاراطرز کا بدھ طرز تعمیر آیا جس میں قدیمیونانکے اجزاء بھی شامل تہے۔ اس ��ے بقایا جاتگندھاراکے صدر مقامٹیکسلامیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان میں مغل اور انگریزی طرز تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں۔آزادی کے بعد کا فن تعمیر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی نئیحاصلکی گئی آزادی اور شناخت کو فن تعمیر کے ذریعے سے ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان خود کو جدید عمارتوں میں ظاہر کرتا ہے مثلاًفیصل مسجدجو وفاقی دار الحکومتاسلام آبادمیں واقع ہے اس مسجد کو1960ءمیں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں جیسےمینارپاکستان، سفید ماربل سے بنا مزار قائد اعظم۔ یہ عمارتیں نئی ریاست کی خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ملکی دار الخلافہ اسلام آباد میں موجود قومی یادگار تہذیب، آزادی اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔پاکستان میں اس وقت چھ (6) جگہیں ایسی ہیں جنہیں عالمی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال2012ءمیں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت1970ءکے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس،پشاور،کراچی،لاہور،سواتاورراولپنڈیتھیں۔ اس ملک کی حامل کشش جگہوں میں موہنجو داڑو،ٹیکسلااورہڑپہجیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لے کرکوہ ہمالیہکے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کےشمالی علاقہ جاتمیں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اورچترالکی وادیاں جو ایک چھوٹی سی غیر مسلم سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کوسکندر اعظمکی اولاد سے بتاتے ہیں۔پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقاملاہورمیں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسےبادشاہی مسجد، شالیمار باغ،مقبرہ جہانگیراورقلعہ لاہورشامل ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ (5) لاکھ سیاح آتے تھے۔ تاہم سال2008ءسے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورت حال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔اکتوبر2006ءمیںکشمیرکے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی کی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقاماتٹیکسلا،لاہور،شاہراہ قراقرم، کریم آباد اورجھیل سیف الملوکتہے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سےوادئ سندھ کی تہذیبکے موہنجو داڑو اورہڑپہجیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔پاکستانی کھانے جنوبی ایشیا کے مختلف علاقائی کھانوں کا حسین امتزاج ہیں۔ پاکستانی کھانوں میں شمالی ھندوستانی،وسط ایشیائیاور مشرق وسطیٰ کے کھانے شامل ہیں لیکن یہاں کے کھانوں میں گوشت کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میںاشیائے خور و نوش کے نامبہت آسان ہیں۔پاکستان میں ایک علاقے کے کھانے دوسرے علاقے کے کھانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں جس سے اس ملک کی ثقافتی اور لسانی تنوع جھلکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کھانے مصالحے دار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیا کے کھانوں کی خاصیت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے کھانے مثلاً خیبر پختونخوا، بلوچستان، قبائیلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور کشمیر کے کھانے بھی اپنی اپنی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بھی مختلف علاقائی رنگ غالب ہوتے ہیں۔پاکستان میں کھیلے جانے والے بیشتر کھیلوں کا آغازبرطانیہمیں ہوا اور برطانویوں نے انھیںہندوستانمیں متعارف کرایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس نے 1960ء، 1968ء اور 1984ء میں کھیلے گئے اولمپک کھیلوں میں تین سونے کے طمغے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ بھی چار بار جیتا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ 1971ء، 1978ء، 1982ء اور 1994ء میں جیتا ہے۔ تاہم، کرکٹ پاکستان کا سب سے زیادہ مشہور کھیل ہے۔ پاکستان کرکٹ کے ٹیم، جنہیں شاہین کہا جاتا ہے، نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ 1999ءمیں شاھین دوسرے نمبر پر رہے۔ اور 1987ء اور 1996ء میں عالمی کپ کے مقابلے جزوی طور پر پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان ٹی 20 قسم کے کھیل کے پہلے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے جو سال 2007ء میںجنوبی افریقامیں کھیلا گیا تھا۔ اور سال 2009ء میں اسی قسم کے کھیل میں پہلے نمبر پر رہے اور عالمی کپ جیتا جوبرطانیہمیں کھیلا گیا تھا۔ سال 2009ء کے مارچ کے مہینے میں دہشت گردوں نےسری لنکاکے کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا جو پاکستان کے دورے پرلاہورمیں موجود تھی اور اسی کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ تاہم چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد مئی 2015ء میں عالمی کرکٹ پاکستان میں اس وقت بحال ہوئی جب زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ تمام مقابلے سخت حفاظتی حصار میںلاہورمیں ہوئے اور تمام مقابلوں کے لیے ٹکٹ سارے بک چکے تھے اور کرسیاں ساری بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس نے دوسری ٹیموں کے آنے کے لیے بھی راہ ہموار کر لی۔
+ورزشی کھیلوں میں عبد الخالق نے سال 1954ء اور سال 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس نے 35 سونے کے طمغے اور 15 عالمیچاندیاور پیتل کے طمغے پاکستان کے لیے حاصل کیے۔اسکواشمیں پاکستان کے شہرپشاورسے تعلق رکھنے والے کھلاڑیجہانگیر خانہیں جن کو عالمی معیار کا کھلاڑی اور کھیلوں کی تاریخ میں عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے اور ساتھ ہی جانشیر خان ہیں جنھوں نے عالمیاسکواشکے مقابلوں میں کئی بار پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج درمیانے سے لے کر اعلیٰ طبقے کے ليے مخصوص ہے۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں اپنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی حالت ابتر ہے۔ریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔چاند اور ستارہ جو روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
+چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔
+شیلڈ کے اردگرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔
+علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔پاکستان کی زیادہ تر آبادی ملک کی وسطی علاقوں میں ہے، ملک کے جنوب میں زیادہ آباد مقامات اکثردریائے سندھکے آس پاس پر واقع ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی والا علاقہکراچیہے ��و ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔پاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کامانگریزیزبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہاردوپاکستان کی قومی زبان ہے۔پاکستان کی صوبائی زبانوں میںپنجابیصوبہ پنجاب،پشتوصوبہ خیبر پختونخوا،سندھیصوبہ سندھ،بلوچیصوبہ بلوچستاناورشیناصوبہ گلگت بلتستانمیں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔[13]پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں،آیر،سرائیکی زبان،بدیشی،باگڑی،بلتی،بٹیری،بھایا،براہوی،بروشسکی،چلیسو،دامیڑی،دیہواری،دھاتکی،ڈوماکی،فارسی،دری،گواربتی،گھیرا،گوریا،گوورو،گجراتی،گوجری،گرگلا،ہزاراگی،ہندکو،جدگلی،جنداوڑا،کبوترا،کچھی،کالامی،کالاشہ،کلکوٹی،کامویری،کشمیری،کاٹی،کھیترانی،کھوار،انڈس کوہستانی،کولی(تین لہجے)،لہندالاسی،لوارکی،مارواڑی،میمنی،اوڈ،اورمڑی،پوٹھواری،پھالولہ،سانسی،ساوی،شینا(دو لہجے)،توروالی،اوشوجو،واگھری،وخی،وانیسیاوریدغہشامل ہیں۔[14]ان زبانوں میں بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں- ي سرا سنکے عمران خان سب سے اچھا ہے2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+213,14 اگست,https://ur.wikipedia.org/wiki/14_%D8%A7%DA%AF%D8%B3%D8%AA,14 اگست عیسوئی تقویم کا 226 واں دن ہے جبکہ لیپ کے سال میں یہ 227 واں دن ہے۔ اس دن مزید 139 دن سال کے اختتام ہونے میں رہتے ہیں۔
+214,1947ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1947%D8%A1,<<< چوتھی دہائی <<<پانچویں دہائی>>> چھٹی دہائی>>>
+216,قانون آزادی ہند 1947ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%DB%8C%D8%A7%D9%85_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,4 جولائی1947ءکو ایک مسودہ قانون برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ 15جولائی کودارالعوامنے اس کی منظوری دے دی،16 جولائی1947ءکو دار الامرا نے بھی اس کو منظور کیا۔18 جولائی1947ءکوشاہ برطانیہنے اس کی منظوری دے دی، پھر اس قانون کے تحتتقسیم ہندعمل میں لائی گئی اور دو نئی عملداریاںآزاد مملکت پاکستاناورآزاد مملکت بھارتوجود میں آئیں۔ قانون کو شاہی اجازت18 جولائی1947ءکو حاصل ہوئی۔ اور دو نئے ممالکپاکستاناوربھارت15 اگست1947ء کو وجود میں آئے۔اس قانون کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
+217,گورنر جنرل پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%D9%88%D8%B1%D9%86%D8%B1_%D8%AC%D9%86%D8%B1%D9%84_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,یہ مضمون پاکستان میں ایک سابق سیاسی عہدے گورنر جنرل کے بارے میں ہے۔ پاکستانی صوبوں کے گورنروں کے بارے میں مضمون کے لیے دیکھیےفہرست گورنران پاکستانگورنر جنرل(انگریزی: Governor-General of Pakistan)قیام پاکستانکے بعد تاج برطانیہ کے نمائندے کی حیثیت سے ملک کا اعلیٰ ترین عہدہ تھا۔ گورنر جنرل1947ءسے1952ءتک شاہجارج ششماور1952ءسے1956ءتک ملکہایلزبتھ دومکا نمائندہ قرار دیا جاتا تھا۔1956ءمیںآئینکی تکمیل کے ساتھ ہی گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہو گیا۔1947ءمیںقیام پاکستانکے بعدبھارتکی طرحپاکستانمیں بھیتعزیرات ہند 1935ءکے قوانین کا تسلسل جاری رہا جس کے تحت آئین کی تیاری تک آئینی بادشاہت جاری رہے گی۔ اس میں شاہ وزير اعظم کی مشاورت سے گورنر جنرل کا تقرر کیا کرتا تھا اور گورنر جنرل ملک میں شاہ/ملکہ کا نمائندہ ہوتا تھا۔ لیکنقیام پاکستانکے موقع پر انگریزوں کے ہندوؤں کی جانب جھکاؤ اورپاکستان مسلم لیگمیںمحمد علی جناحکی حیثیت و عظیم خدمات کے باعث نومولود ریاست میں گورنر جنرل کو زیادہ اختیارات حاصل رہے۔ پہلے گورنر جنرلمحمد علی جناحاپنی وفات11 ستمبر1948ءتک اس عہدے پر فائز رہے۔1956ءمیں آئین کی تیاری کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہصدر پاکستانکے عہدہ نے لے لی اور اس وقت کے گورنر جنرلاسکندر مرزاملک کے پہلےصدرقرار پائے۔=
+218,پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پاکستان (رسمی نام:اسلامی جمہوریۂ پاکستان- انگریزی میں: PAKISTAN)جنوبی ایشیاکے شمال مغربوسطی ایشیااورمغربی ایشیاکے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختاراسلامیملکہے۔ یہ دنیا کاپانچواںسب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کیدوسریسب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کاتینتیسواں(33) بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کےجنوبمیں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جوبحیرہ عربسے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميںبھارت، شمال مشرق ميںچیناور مغرب ميںافغانستاناورايرانواقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگواخان راہداریتاجکستانسے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدودعمانکے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم تریندنیامیں وہ علاقے تھے جن میںموہنجوداڑواورانڈس سولائیزیشنمہر گڑھٹیکسلاپراچین سنسکرت دوراور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسےقندھاراتہذیبو تمدن تھی۔ اس علاقے پرپراچین راجپوتایرانییونانیعرب،بدھ مت،سکھ،مغل،ہن سفیداورترکحملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسےچندر گپت موریا،ہخامنشی سلطنتعربوں کیخلافت امویہ،مغلیہ سلطنت،درانی سلطنت،سکھ سلطنتاوربرطانوی راجکا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعدمحمد علی جناحکی قیادت میںتحریک پاکستانکامیاب ہوئی اور14 اگست1947ءکوہندوستانکے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اورخودمختاراسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین1956ءمیں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.1971ءمیں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملکبنگلہ دیشبن گیا۔پاکستانوفاقیپارلیمانیجمہوری ریاستکے تحت چلتا ہے۔ اس کےپانچ صوبے ہیں اور کچھ علاقے وفاقی حکومتکے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کیفوجدنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسریایٹمی طاقتہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 42https://www.worlddata.info/asia/pakistan/economy.phpویں نمبر پر ہے۔پاکستان کی تاریخفوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سے جھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملکمؤتمر عالم اسلامی،اقوام متحدہ،دولت مشترکہ ممالک،سارک،ترقی پذیر 8،اقتصادی تعاون تنظیمجیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔[7]پاکستان کے لفظی معنیپاک لوگوں کی سر زمینہے، پاک کےاردواورفارسیمیں معنی خالص اور صاف کے ہیں اورستانکا مطلب زمین یا وطن کا ہے-1933ءمیںچودھری رحمت علینے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہاب یا کبھی نہیںشائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔لفظپاکستاناس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔پپنجاب،اخیبر پختونخوا(افغانیہ)،ککشمیر،سسندھ،تانبلوچستان۔711ءمیںامویخلیفہولید بن عبدالملککے دور میںمحمد بن قاسمبرصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوںبرصغیر(موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑیعربریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کادار الحکومتدمشق، زبانعربیاور مذہباسلامتھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پرعربدنیاسے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اورجنوبی ایشیاکی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔سن1947ءسے پہلےبھارت، پاکستان اوربنگلہ دیشبرطانویکالونیاں تھیں اوربرّصغیرکے نام سے جانے جاتے تھے۔ہندوستان کی آزادی(انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران میںہندوستانکےمسلمانوںنے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ ""پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ"" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحتتحریک پاکستانوجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادتمحمد علی جناحنے کی۔14 اگست1947ءکو پاکستان وجود میں آیا۔تقسیمبرصغیر پاک و ہندکے دوران میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اوربھارتکے درمیان میں1948ءاور1965ءمیںکشمیرکے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریابھارتکے زیر انتظامکشمیرسے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو1960ءمیںانڈیاکے ساتھسندھ طاس معاہدہکرنا پڑا، جس کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاؤں،ستلج،بیاساورراویسے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہدریائے سندھ،چناباورجہلمپر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔1947ءسے لے کر1948ءتک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہبھارتنے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ریاست بہاولپورکے نوابصادق محمد خان پنجمنے اس وقت پاکستان کی مالی مدد کی۔پاکستان بطور برطانوی ڈامنینئن آزاد ہوا تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور پہلےوزیر اعظملیاقت علی خان تھے۔ پاکستان کی عبوری حکومت ١١ اگست ١٩٤٧ کو تشکیل دی گئی تھی۔ 1948 میں قائد اعظم ٹی بی سے وفات پا گئے۔1951ءمیں پستول کی گولی کا شا��ہ بنا کر[لیاقت علی خان]] کو شہید کر دیا گیا۔1951ءسے1958ءتک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔1956ءمیں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ1958ءمیں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیمجنرل ایوبکے دور آمریت میں بنائے گئے۔جنرل ایوبکے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکنمشرقی پاکستاندور ہوتا گیا۔1963ءمیں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگرمشرقی پاکستانکے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ایوب خانعوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علاحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انھوں نے حکومت اپنے فوجی پیش روجنرل یحییٰ خانکے حوالے کر دی۔1971ءکے عام انتخابات میںمشرقی پاکستانسے عوامی لیگ کی واضحکامیابیکے باوجود فوجی حکمرانیحییٰ خاننے اقتدار کی منتقلی کی بجائےمشرقی پاکستانمیں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہہندوستاننے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکاردسمبر1971ءمیںسقوط ڈھاکہہو گیا اورمشرقی پاکستانایک علاحدہ ملکبنگلہ دیشکی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔1972ءسے لے کر1977ءتک پاکستان میںپاکستان پیپلز پارٹیکی حکومت تھی۔ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے صدراور بعد ازاںوزیر اعظمرہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں1977ءمیں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔اگلا دور1977ءتا1988ءمارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمرانجنرل ضیا الحقتھے۔افغانستانمیں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں1985ءکے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے1988ءمیںضیاءالحقنے برطرف کر دیا-1988ءمیںصدر مملکتکا طیارہ گر گیا اورضیاءالحقکے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سےجمہوریتکا آغاز ہو گیا۔اس کے بعد1988ءمیں انتخابات ہوئے اوربينظير بھٹوکی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدرغلام اسحاق خاننے حکومت کو برطرف کر دیا۔1990ءمیںنواز شریفکی قیادت میںآئی جے آئیاور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔1993ءمیں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔اگلے انتخابات1993ءمیں ہوئے اور ان میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس وقت پاکستان کے صدرفاروق احمد خان لغاریتھے۔ صدر فاروق احمد خان لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔1997ءمیں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میںمسلم لیگ ناور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1999ءمیں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکتپرويز مشرفبنے اور2001ءمیں ہونے والے انتخابات کے بعدوزیر اعظمظفر اللہ خان جمالیبنے۔2004ءمیں جنرل مشرف نےشوکت عزیزکووزیر اعظمبنانے کا فيصلہ کیا۔ مختصر عرصہ کے لیےچوہدرى شجاعت حسيننےوزیراعظمکی ذمہ داریاں سر انجام دیں اورشوکت عزیزکےقومی اسمبلیکے ارکان منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔شوکت عزیزقومی اسمبلیکی مدت15 نومبر2007ءکو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16نومبر2007ءکو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔فروری2008ءمیں الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نےیوسف رضا گیلانیکو وزیر اعظم نامزد کیا، جنھوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔22 جون2012ءکویوسف رضا گیلانیکی نااہلی کے بعدراجہ پرویز اشرفنئے وزیر اعظم بنے۔مئی2013ءمیں عام انتحابات ہوئے جس میںپاکستان مسلم لیگ نایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کے تیسرے بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک اور وزیر اعظمنوازشریفکوپانامالیکسفیصلے میں تا حیات نا اہل قرار دے کر برطرف کر دیا اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کےشاہد خاقان عباسینئے وزیر اعظم بن گئے۔ 17 اگست 2018ء کوعمران خان176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔پاکستان کا اعلیٰ اساسی قانونآئین پاکستانکہلاتا ہے۔ آئین، پاکستان کا وہ اعلیٰقانونہے جو ریاست پاکستان کے اندر تمام اہم چیزوں اور فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔ ملک میں چار مرتبہمارشل لالگا جس سے دو مرتبہ آئین معطل ہوا، ایک مرتبہ1956ءکا آئین اور دوسری مرتبہ1962ءکا آئین۔1972ءمیںمشرقی پاکستانمیں مخالفین نے سازشیں کی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھ گئی جس کی نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اورمشرقی پاکستانبنگلہ دیش کے نام ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ اس وقت غور کیا گیا تو ملک ٹوٹنے کی بہت سے وجوہات تھیں۔ اسی بنا پر1973ءکا آئین بنایا گیا۔آئین بنانے کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور آئین میں ہر شعبے اور اہم امور کے لیے اصول بنے، آئین میں ریاست کی تمام بڑے فیصلوں کے لیے قوانین بنائے گئے، حکومت اور ریاست کا پورا تشکیل بیان کیا گیا۔ مسودہ تیار ہونے کے بعد اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔پاکستانی سیاست کی بنیاد کوآئین پاکستاننے قائم کیا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان ایکجمہوریاورقومی ریاستہے۔ آئین پاکستان نے ایک وفاق اور اس کے ماتحت صوبائی حکومتیں قائم کی ہیں۔ آئین کا پہلا آرٹیکل بیان کرتا ہے کہ ""مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریت ہوگا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا""۔پاکستان کی مختلف علاقہ جات کے متعلق آئین پاکستان کا دوسرا آرٹیکل بیان کرتا ہے:پاکستان کے علاقے مندرجہ ذیل پر مشتمل ہوں گے:آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کوئی واضح حیثیت تو بیان نہیں کی گئی لیکن2009ءمیںقومی اسمبلیسے ایک اور بل منظور ہوا جس نے واضح طور پر گلگت بلتستان کو نیم-صوبے کا درجہ دیا اور یہاں باقاعدہ صوبائی حکومت کو قائم کیا گیا، جس کے تمام بنیادی شاخ (اسمبلی، عدلیہ، وزارتیں، وغیرہ) قائم کیے گئے۔[9]آئین نے مزید ملک میں دو قانون ساز ایوان قائم کیے ایکقومی اسمبلیاور دوسراسینٹ۔ قومی اسمبلی کی بنیاد آبادی کے لحاظ سے ہے یعنی جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں زیادہ نشستیں رکھی جائے گی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو براہ راست عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کے نشستیں دیے گئے ہیں چاہے صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سینٹ کے ارکان کو سینیٹر کہا جاتا ہے اور ان سینیٹرز کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے ووٹ سے منتخب کر سکتے ہیں۔کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کا سلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور، دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے، ایک نقطہ ذہن نشین کر لیں کہخارجہ پالیسیمیں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سےانڈونیشیاکے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایکایٹمی طاقتہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاص ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔پاکستان کی دفاع کا ذمہ ملک کے مسلح افواج پر ہے جس کی بنیادی طور پر تین شاخیں ہیں:1947ءمیںقیام پاکستانسے پہلے پاک عسکریہ، ہندوستانی فوج کا حصہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کےتاج برطانیہکے زیر اثرپہلی جنگ عظیماوردوسری جنگ عظیممیں بھی حصہ لیا ہے۔ تقسیمبرصغیرکے بعد ہندوستانی فوج پاکستان اوربھارتمیں بالترتیب 36% اور 64% کے تناسب میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت اعلان ہوا کہ کوئی بھی فوجی جس بھی فوج میں جانا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔ اس وقت بہت سے مسلمان فوجی، پاک عسکریہ میں شامل ہو گئے۔ تقسیم کے وقت بھارت میں 16 آرڈیننس فیکٹریاں تھیں جبکہ پاکستان میں ایک بھی نہیں تھی۔ اب پاکستان کافی حد تک دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہو گیا ہے۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔ فوج اداروں میںپاک فوج،پاک فضائیہاورپاک بحریہشامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میںفرنٹیئر کانسٹبلری،سرحد کور،پاکستان رینجرزشامل ہیں۔ پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنیپنجاباورسندھمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس لیے اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنیپنجاب رینجرزاورسندھ رینجرز۔ اسی طرحسرحد کوراورفرنٹیئر کانسٹبلریکو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہخیبر پختونخوااوربلوچستانمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی ادارے کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائی گئی ہیں جن میںخیبر پختونخواپولیس،پنجابپولیس،سندھپولیس،بلوچستانپولیس،آزاد کشمیرپولیس اورگلگت بلتستانپولیس شامل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے، اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سر انجام دینا ہے اسی طرحموٹروےپولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔تحقیقات کے لیے وفاقی ادارۂ تحقیقات (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی مخابراتی ادارے (جیسےآئی ایس آئی، وغیرہ) موجود ہیں۔پاکستان ميں 5 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نےگلگت بلتستانکو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔
+صوبہ جات کی تقسیمیکم جولائی1970ءکو کی گئی۔صوبہ بلوچستانکا کل رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2011ءمیں آبادی 79 لاکھ 14 ہزار تھی۔صوبہ پنجابکا کل رقبہ 205,344 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2013ءمیں آبادی 10 کروڑ 10لاکھ تھی۔صوبہ خیبر پختونخواکا کل رقبہ 74,521 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ تھی۔صوبہ سندھکا کل رقبہ 140,914 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 4 کروڑ 24 لاکھ تھی۔گلگت بلتستان(سابق شمالی علاقہ جات) کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2008ء میں آبادی 18 لاکھ تھی۔جغرافیائی طور پر پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ پاکستان کاجغرافیہاور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیںجانوراورپرندےایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 796,095 مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقےپہاڑیہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریادریائے سندھہے۔ یہدریاپاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گذر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکنبلوچستانکاسبیعلاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اورشمالی علاقہ جاتمیں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادیزراعتکے شعبے سے منسلک ہے۔پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے، زمینی سرحد میں سے 2,430 کلومیٹر سرحدافغانستانکے ساتھ، 523 کلومیٹرچینکے ساتھ، 2,912بھارتکے ساتھ اور 909ایرانکے ساتھ لگا ہوا ہے۔پاکستان دنيا کا ايک ترقی پزیر ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات ميں فوج كى مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کوتعلیمسے محروم رکھنے کینفسیاتیاور خود غرضانہفطرت(تاکہبیگاراورسستے پڑاؤ (Labor Camp)قائم رکھے جاسکیں)، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيلیے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلےپاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعتپر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا[حوالہ درکار]۔ اِس وقت پاکستان کیمعيشتمستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے[حوالہ درکار]۔کراچی سٹاک ایکسچینجکےکے ايس سی انڈکسگزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے[حوالہ درکار]۔پاکستانآبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصداہل تشیع، 77 فيصداہل سنتاور تقریباً 3 فيصد ديگرفقہسے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ایک فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانیمسیحیمذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب وسرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔پاکستان کیقومی زباناردوہے، جبکہ زيادہ تر دفتری کامانگريزیميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اردو پاکستان کی عوامی و قومیزبانہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئی اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميںپنجابی،سرائیکی،سندھی،گجراتی،بلوچی،براہوی، پہاڑی،پشتواورہندکوزبانیں قابلِ ذکر ہيں۔پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پٹھان، بلوچی اورمہاجر قومہيں، ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مابین فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميںدراوڑ،آريا،ہن،ايرانی،يونانی،عرب،ترکاورمنگوللوگوں کی رياستوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھموسماورآب و ہواکا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايکاسلامی تہذيبکا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسيقی ملتی ہے۔کلاسيکی موسيقی،نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک، ان سب کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميںقوالیکا مرکز سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے جا رہے ہيں۔ يہ امرا اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جگہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکاؤاسلاماور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔پاکستانيوں کی بڑی تعدادامريکہ،برطانيہ،آسٹريليا،کینیڈااورمشرق وسطیميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہتسرمايہ کاریبھی کی ہے۔پاکستان کا سب سے پسنديدہکھيلکرکٹ ہے۔ پاکستان کیکرکٹٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميںہاکیبھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کےشمالی علاقہ جاتكے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدائش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھیلی جاتی ہے۔پاکستان میں سب سے عام لباسشلوار قمیضہے جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوںبلوچستان،پنجاب،سندھاورخیبر پختونخواسمیتقبائلی علاقہ جات،گلگت بلتستاناورآزاد کشمیرمیں پہنا جاتا ہے۔ تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پ��نے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمالاسکول،کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ اور ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔شیروانیکا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔پاکستانی خواتین میں بھی شلوار قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔پاکستان میں بہت سے ذرائع ابلاغ موجود ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔اس سے پہلےپی ٹی ویملک کا واحد چینل نیٹ ورک ہوتا تھا اور حکومت پاکستان اس نیٹ ورک کو چلا رہی تھی۔2002ءکے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 50 سے بھی زیادہ صرف نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نیوز، انٹرٹینمنٹ، ہیلتھ، ایجوکیشن، علاقائی اور بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتے ہیں تاہم ملک کے علاقائی زبانوں (پشتو،پنجابی،سندھی،بلوچی،کشمیری،سرائیکیوغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔پی ٹی وی ورلڈپاکستان کا پہلاانگریزیچینل ہے۔اردو فلم انڈسٹریلالی وڈکی صدر مقاماتلاہور،کراچیاورپشاورمیں واقع ہے۔ لالی وڈ نے اب تک بہت سے فلمیں ریلیز کی ہیں اور کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے عام اردو ڈراما سیریلز ہیں جو مختلف چینلز پر چلائے جاتے ہیں۔پاکستان کے فن تعمیرات ان مختلف عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مختلف ادوار میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔وادئ سندھ کی تہذیبکے شروع ہونے کے ساتھ ہی جو 3500قبل مسیحتھا، موجودہ پاکستان کے علاقے میں شہری ثقافت کا ارتقا ہوا جس میں بڑی عمارتیں تھیں جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے بعدگندھاراطرز کا بدھ طرز تعمیر آیا جس میں قدیمیونانکے اجزاء بھی شامل تہے۔ اس کے بقایا جاتگندھاراکے صدر مقامٹیکسلامیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان میں مغل اور انگریزی طرز تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں۔آزادی کے بعد کا فن تعمیر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی نئیحاصلکی گئی آزادی اور شناخت کو فن تعمیر کے ذریعے سے ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان خود کو جدید عمارتوں میں ظاہر کرتا ہے مثلاًفیصل مسجدجو وفاقی دار الحکومتاسلام آبادمیں واقع ہے اس مسجد کو1960ءمیں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں جیسےمینارپاکستان، سفید ماربل سے بنا مزار قائد اعظم۔ یہ عمارتیں نئی ریاست کی خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ملکی دار الخلافہ اسلام آباد میں موجود قومی یادگار تہذیب، آزادی اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔پاکستان میں اس وقت چھ (6) جگہیں ایسی ہیں جنہیں عالمی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال2012ءمیں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت1970ءکے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس،پشاور،کراچی،لاہور،سواتاورراولپنڈیتھیں۔ اس ملک کی حامل کشش جگہوں میں موہنجو داڑو،ٹیکسلااورہڑپہجیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لے کرکوہ ہمالیہکے پہاڑی ��قامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کےشمالی علاقہ جاتمیں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اورچترالکی وادیاں جو ایک چھوٹی سی غیر مسلم سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کوسکندر اعظمکی اولاد سے بتاتے ہیں۔پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقاملاہورمیں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسےبادشاہی مسجد، شالیمار باغ،مقبرہ جہانگیراورقلعہ لاہورشامل ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ (5) لاکھ سیاح آتے تھے۔ تاہم سال2008ءسے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورت حال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔اکتوبر2006ءمیںکشمیرکے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی کی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقاماتٹیکسلا،لاہور،شاہراہ قراقرم، کریم آباد اورجھیل سیف الملوکتہے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سےوادئ سندھ کی تہذیبکے موہنجو داڑو اورہڑپہجیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔پاکستانی کھانے جنوبی ایشیا کے مختلف علاقائی کھانوں کا حسین امتزاج ہیں۔ پاکستانی کھانوں میں شمالی ھندوستانی،وسط ایشیائیاور مشرق وسطیٰ کے کھانے شامل ہیں لیکن یہاں کے کھانوں میں گوشت کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میںاشیائے خور و نوش کے نامبہت آسان ہیں۔پاکستان میں ایک علاقے کے کھانے دوسرے علاقے کے کھانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں جس سے اس ملک کی ثقافتی اور لسانی تنوع جھلکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کھانے مصالحے دار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیا کے کھانوں کی خاصیت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے کھانے مثلاً خیبر پختونخوا، بلوچستان، قبائیلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور کشمیر کے کھانے بھی اپنی اپنی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بھی مختلف علاقائی رنگ غالب ہوتے ہیں۔پاکستان میں کھیلے جانے والے بیشتر کھیلوں کا آغازبرطانیہمیں ہوا اور برطانویوں نے انھیںہندوستانمیں متعارف کرایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس نے 1960ء، 1968ء اور 1984ء میں کھیلے گئے اولمپک کھیلوں میں تین سونے کے طمغے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ بھی چار بار جیتا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ 1971ء، 1978ء، 1982ء اور 1994ء میں جیتا ہے۔ تاہم، کرکٹ پاکستان کا سب سے زیادہ مشہور کھیل ہے۔ پاکستان کرکٹ کے ٹیم، جنہیں شاہین کہا جاتا ہے، نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ 1999ءمیں شاھین دوسرے نمبر پر رہے۔ اور 1987ء اور 1996ء میں عالمی کپ کے مقابلے جزوی طور پر پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان ٹی 20 قسم کے کھیل کے پہلے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے جو سال 2007ء میںجنوبی افریقامیں کھیلا گیا تھا۔ اور سال 2009ء میں اسی قسم کے کھیل میں پہلے نمبر پر رہے اور عالمی کپ جیتا جوبرطانیہمیں کھیلا گیا تھا۔ سال 2009ء کے مارچ کے مہینے میں دہشت گردوں نےسری لنکاکے کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا جو پاکستان کے دورے پرلاہورمیں موجود تھی اور اسی کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ تاہم چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد مئی 2015ء میں عالمی کرکٹ پاکستان میں اس وقت بحال ��وئی جب زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ تمام مقابلے سخت حفاظتی حصار میںلاہورمیں ہوئے اور تمام مقابلوں کے لیے ٹکٹ سارے بک چکے تھے اور کرسیاں ساری بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس نے دوسری ٹیموں کے آنے کے لیے بھی راہ ہموار کر لی۔
+ورزشی کھیلوں میں عبد الخالق نے سال 1954ء اور سال 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس نے 35 سونے کے طمغے اور 15 عالمیچاندیاور پیتل کے طمغے پاکستان کے لیے حاصل کیے۔اسکواشمیں پاکستان کے شہرپشاورسے تعلق رکھنے والے کھلاڑیجہانگیر خانہیں جن کو عالمی معیار کا کھلاڑی اور کھیلوں کی تاریخ میں عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے اور ساتھ ہی جانشیر خان ہیں جنھوں نے عالمیاسکواشکے مقابلوں میں کئی بار پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج درمیانے سے لے کر اعلیٰ طبقے کے ليے مخصوص ہے۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں اپنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی حالت ابتر ہے۔ریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔چاند اور ستارہ جو روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
+چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔
+شیلڈ کے اردگرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔
+علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔پاکستان کی زیادہ تر آبادی ملک کی وسطی علاقوں میں ہے، ملک کے جنوب میں زیادہ آباد مقامات اکثردریائے سندھکے آس پاس پر واقع ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی والا علاقہکراچیہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔پاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کامانگریزیزبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہاردوپاکستان کی قومی زبان ہے۔پاکستان کی صوبائی زبانوں میںپنجابیصوبہ پنجاب،پشتوصوبہ خیبر پختونخوا،سندھیصوبہ سندھ،بلوچیصوبہ بلوچستاناورشیناصوبہ گلگت بلتستانمیں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔[13]پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں،آیر،سرائیکی زبان،بدیشی،باگڑی،بلتی،بٹیری،بھایا،براہوی،بروشسکی،چلیسو،دامیڑی،دیہواری،دھاتکی،ڈوماکی،فارسی،دری،گواربتی،گھیرا،گوریا،گوورو،گجراتی،گوجری،گرگلا،ہزاراگی،ہندکو،جدگلی،جنداوڑا،کبوترا،کچھی،کالامی،کالاشہ،کلکوٹی،کامویری،کشمیری،کاٹی،کھیترانی،کھوار،انڈس کوہستانی،کولی(تین لہجے)،لہندالاسی،لوارکی،مارواڑی،میمنی،اوڈ،اورمڑی،پوٹھواری،پھالولہ،سانسی،ساوی،شینا(دو لہجے)،توروالی،اوشوجو،واگھری،وخی،وانیسیاوریدغہشامل ہیں۔[14]ان زبانوں می�� بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں- ي سرا سنکے عمران خان سب سے اچھا ہے2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+219,بابائے قوم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D9%82%D9%88%D9%85,"بابائے قومایک ایک اعزازی خطاب ہے جسے کسی ملک کے ایسے عظیم انسان کو دیا جاتا ہے جس نے اپنےملک،خود مختار ریاستیاقومکے تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا ہو۔پیٹر پیٹریا(جمع پیٹریس پیٹریا) جوپیرنس پیٹریا کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے، ایک رومن اعزازی خطاب ہے جس کے معنی ""وطن کا باپ"" ہیں اور یہ خطاب سینیٹ کے ہیرو کو عطا ہوتا تھا۔ بعد میں بادشاہوں کو بھی دیا جانے لگا۔ شہنشاہیت میں بادشاہ اکثر ""قوم کا باپ / ماں"" کہلاتا ہے یا ایک رئیس قبیلہ سمجھا تھا جو اپنے خاندان کی رہنمائی کرتا ہو۔ بعض بادشاہتوں میں یہ نظریہ الہی مانا جاتا ہے جبکہ بعض حکومتوں میں ایک قانونی اعزاز ہوتا ہے جیسا کہاسپینمیں ہوتا ہے۔ یہاں بادشاہ کو ایک شخصیت اور جذبہ تصور کیا جاتا ہے جو ملک کے اتحاد اور دوام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ میں بھی بادشاہ کو ایسی ہی شناخت دی جاتی ہے اور اس سے وفاداری کو مجرم نما مجسموں کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے۔بہت سے آمروں نے اپنے آپ کو خطابات دیے جن میں شاذ و نادر ہی ان کی حکومت کے اختتام تک باقی رہے ہیں۔ غناسنغبی ایادیما کے القاب میں ""بابائے قوم""، ""پرانے بھائی"" اور ""عوام کا رہنما"" ملتے ہیں۔زائرکےمووٹو سی سی سیکونے ""بابائے قوم""، ""راہنما""، ""مسیحا""، ""دوش،"" تیندوا"" اور ""سورج صدر"" جیسے خطاب شامل کیے ہیں۔ مابعد استعماریافریقامیں ""بابائے قوم"" کا خطاب ایک طرف جنگ آزادی کی تحریک میں اپنے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے بہت سے رہنماؤں نے استعمال کیا وہیں دیگر اس خطاب کو مسلسل مقبولیت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ 1972ء میںجوزف استالنکی سترہویں سالگرہ پردوسری جنگ عظیمکے بعدیو ایس ایس آرکے مقبوضہ ملکوں میں عوامی جمہوریت نافذ ہونے کی وجہ سے انھیں بابائے قوم کا خطاب دیا گیا۔بابائے قوم کا خطاب کبھی کبھی سیاسی گھمسان کا سبب بھی بنتا ہے۔بنگلہ دیشکا 1972ء کادستورشیخ مجیب الرحمانکو بابائے قوم کا خطاب دیتا ہے۔ سنہ 2004ء میں رحمن کی صاحبزادیحسینہ واجدکے زیر قیادتعوامی لیگکے مظاہرے کے بعدبی این پیحکومت ان سے یہ خطاب چھین لیتی ہے۔سلواکیاکی پارلیمان میں جنگ سے قبل کے متنازع راہنماآندرے ہلینکاکو بابائے قوم کا خطاب دینے کا بل ستمبر 2007ء میں منظور ہوا۔محمد علی جناحکوپاکستانی��ومکی جانب سے بابائے قوم یعنی قوم کا باپ کہا جاتا ہے، اسی طرح بھارتیوں نےتحریک آزادی ہندکے علمبردارموہن داس گاندھیکو بابائے قوم کہا۔(پیرو)Fundador de la República y Protector del Perúپیرو رپبلک کے بانی اور محافظBangabandhu (বঙ্গবন্ধু)بنگال کے دوست(کولمبیا)
+(ایکواڈور)(پاناما)
+(پیرو)(وینیزویلا)اوردوسرے بابائے کنفیڈریشنPresident Osvoboditel"
+220,پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پاکستان (رسمی نام:اسلامی جمہوریۂ پاکستان- انگریزی میں: PAKISTAN)جنوبی ایشیاکے شمال مغربوسطی ایشیااورمغربی ایشیاکے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختاراسلامیملکہے۔ یہ دنیا کاپانچواںسب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کیدوسریسب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کاتینتیسواں(33) بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کےجنوبمیں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جوبحیرہ عربسے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميںبھارت، شمال مشرق ميںچیناور مغرب ميںافغانستاناورايرانواقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگواخان راہداریتاجکستانسے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدودعمانکے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم تریندنیامیں وہ علاقے تھے جن میںموہنجوداڑواورانڈس سولائیزیشنمہر گڑھٹیکسلاپراچین سنسکرت دوراور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسےقندھاراتہذیبو تمدن تھی۔ اس علاقے پرپراچین راجپوتایرانییونانیعرب،بدھ مت،سکھ،مغل،ہن سفیداورترکحملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسےچندر گپت موریا،ہخامنشی سلطنتعربوں کیخلافت امویہ،مغلیہ سلطنت،درانی سلطنت،سکھ سلطنتاوربرطانوی راجکا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعدمحمد علی جناحکی قیادت میںتحریک پاکستانکامیاب ہوئی اور14 اگست1947ءکوہندوستانکے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اورخودمختاراسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین1956ءمیں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.1971ءمیں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملکبنگلہ دیشبن گیا۔پاکستانوفاقیپارلیمانیجمہوری ریاستکے تحت چلتا ہے۔ اس کےپانچ صوبے ہیں اور کچھ علاقے وفاقی حکومتکے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کیفوجدنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسریایٹمی طاقتہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 42https://www.worlddata.info/asia/pakistan/economy.phpویں نمبر پر ہے۔پاکستان کی تاریخفوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سے جھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملکمؤتمر عالم اسلامی،اقوام متحدہ،دولت مشترکہ ممالک،سارک،ترقی پذیر 8،اقتصادی تعاون تنظیمجیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔[7]پاکستان کے لفظی معنیپاک لوگوں کی سر زمینہے، پاک کےاردواورفارسیمیں معنی خالص اور صاف کے ہیں اورستانکا مطلب زمین یا وطن کا ہے-1933ءمیںچودھری رحمت علینے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہاب یا کبھی نہیںشائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔لفظپاکستاناس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔پپنجاب،اخیبر پختونخوا(افغانیہ)،ککشمیر،سسندھ،تانبلوچستان۔711ءمیںامویخلیفہولید بن عبدالملککے دور میںمحمد بن قاسمبرصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوںبرصغیر(موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑیعربریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کادار الحکومتدمشق، زبانعربیاور مذہباسلامتھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پرعربدنیاسے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اورجنوبی ایشیاکی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔سن1947ءسے پہلےبھارت، پاکستان اوربنگلہ دیشبرطانویکالونیاں تھیں اوربرّصغیرکے نام سے جانے جاتے تھے۔ہندوستان کی آزادی(انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران میںہندوستانکےمسلمانوںنے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ ""پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ"" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحتتحریک پاکستانوجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادتمحمد علی جناحنے کی۔14 اگست1947ءکو پاکستان وجود میں آیا۔تقسیمبرصغیر پاک و ہندکے دوران میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اوربھارتکے درمیان میں1948ءاور1965ءمیںکشمیرکے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریابھارتکے زیر انتظامکشمیرسے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو1960ءمیںانڈیاکے ساتھسندھ طاس معاہدہکرنا پڑا، جس کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاؤں،ستلج،بیاساورراویسے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہدریائے سندھ،چناباورجہلمپر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔1947ءسے لے کر1948ءتک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہبھارتنے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ریاست بہاولپورکے نوابصادق محمد خان پنجمنے اس وقت پاکستان کی مالی مدد کی۔پاکستان بطور برطانوی ڈامنینئن آزاد ہوا تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور پہلےوزیر اعظملیاقت علی خان تھے۔ پاکستان کی عبوری حکومت ١١ اگست ١٩٤٧ کو تشکیل دی گئی تھی۔ 1948 میں قائد اعظم ٹی بی سے وفات پا گئے۔1951ءمیں پستول کی گولی کا شانہ بنا کر[لیاقت علی خان]] کو شہید کر دیا گیا۔1951ءسے1958ءتک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔1956ءمیں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ1958ءمیں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیمجنرل ایوبکے دور آمریت میں بنائے گئے۔جنرل ایوبکے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکنمشرقی پاکستاندور ہوتا گیا۔1963ءمیں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگرمشرقی پاکستانکے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ایوب خانعوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علاحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انھوں نے حکومت اپنے فوجی پیش روجنرل یحییٰ خانکے حوالے کر دی۔1971ءکے عام انتخابات میںمشرقی پاکستانسے عوامی لیگ کی واضحکامیابیکے باوجود فوجی حکمرانیحییٰ خاننے اقتدار کی منتقلی کی بجائےمشرقی پاکستانمیں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہہندوستاننے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکاردسمبر1971ءمیںسقوط ڈھاکہہو گیا اورمشرقی پاکستانایک علاحدہ ملکبنگلہ دیشکی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔1972ءسے لے کر1977ءتک پاکستان میںپاکستان پیپلز پارٹیکی حکومت تھی۔ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے صدراور بعد ازاںوزیر اعظمرہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں1977ءمیں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔اگلا دور1977ءتا1988ءمارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمرانجنرل ضیا الحقتھے۔افغانستانمیں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں1985ءکے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے1988ءمیںضیاءالحقنے برطرف کر دیا-1988ءمیںصدر مملکتکا طیارہ گر گیا اورضیاءالحقکے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سےجمہوریتکا آغاز ہو گیا۔اس کے بعد1988ءمیں انتخابات ہوئے اوربينظير بھٹوکی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدرغلام اسحاق خاننے حکومت کو برطرف کر دیا۔1990ءمیںنواز شریفکی قیادت میںآئی جے آئیاور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔1993ءمیں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔اگلے انتخابات1993ءمیں ہوئے اور ان میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس وقت پاکستان کے صدرفاروق احمد خان لغاریتھے۔ صدر فاروق احمد خان لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔1997ءمیں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میںمسلم لیگ ناور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1999ءمیں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکتپرويز مشرفبنے اور2001ءمیں ہونے والے انتخابات کے بعدوزیر اعظمظفر اللہ خان جمالیبنے۔2004ءمیں جنرل مشرف نےشوکت عزیزکووزیر اعظمبنانے کا فيصلہ کیا۔ مختصر عرصہ کے لیےچوہدرى شجاعت حسيننےوزیراعظمکی ذمہ داریاں سر انجام دیں اورشوکت عزیزکےقومی اسمبلیکے ارکان منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔شوکت عزیزقومی اسمبلیکی مدت15 نومبر2007ءکو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16نومبر2007ءکو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔فروری2008ءمیں الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نےیوسف رضا گیلانیکو وزیر اعظم نامزد کیا، جنھوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔22 جون2012ءکویوسف رضا گیلانیکی نااہلی کے بعدراجہ پرویز اشرفنئے وزیر اعظم بنے۔مئی2013ءمیں عام انتحابات ہوئے جس میںپاکستان مسلم لیگ نایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کے تیسرے بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک اور وزیر اعظمنوازشریفکوپانامالیکسفیصلے میں تا حیات نا اہل قرار دے کر برطرف کر دیا اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کےشاہد خاقان عباسینئے وزیر اعظم بن گئے۔ 17 اگست 2018ء کوعمران خان176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔پاکستان کا اعلیٰ اساسی قانونآئین پاکستانکہلاتا ہے۔ آئین، پاکستان کا وہ اعلیٰقانونہے جو ریاست پاکستان کے اندر تمام اہم چیزوں اور فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔ ملک میں چار مرتبہمارشل لالگا جس سے دو مرتبہ آئین معطل ہوا، ایک مرتبہ1956ءکا آئین اور دوسری مرتبہ1962ءکا آئین۔1972ءمیںمشرقی پاکستانمیں مخالفین نے سازشیں کی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھ گئی جس کی نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اورمشرقی پاکستانبنگلہ دیش کے نام ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ اس وقت غور کیا گیا تو ملک ٹوٹنے کی بہت سے وجوہات تھیں۔ اسی بنا پر1973ءکا آئین بنایا گیا۔آئین بنانے کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور آئین میں ہر شعبے اور اہم امور کے لیے اصول بنے، آئین میں ریاست کی تمام بڑے فیصلوں کے لیے قوانین بنائے گئے، حکومت اور ریاست کا پورا تشکیل بیان کیا گیا۔ مسودہ تیار ہونے کے بعد اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔پاکستانی سیاست کی بنیاد کوآئین پاکستاننے قائم کیا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان ایکجمہوریاورقومی ریاستہے۔ آئین پاکستان نے ایک وفاق اور اس کے ماتحت صوبائی حکومتیں قائم کی ہیں۔ آئین کا پہلا آرٹیکل بیان کرتا ہے کہ ""مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریت ہوگا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا""۔پاکستان کی مختلف علاقہ جات کے متعلق آئین پاکستان کا دوسرا آرٹیکل بیان کرتا ہے:پاکستان کے علاقے مندرجہ ذیل پر مشتمل ہوں گے:آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کوئی واضح حیثیت تو بیان نہیں کی گئی لیکن2009ءمیںقومی اسمبلیسے ایک اور بل منظور ہوا جس نے واضح طور پر گلگت بلتستان کو نیم-صوبے کا درجہ دیا اور یہاں باقاعدہ صوبائی حکومت کو قائم کیا گیا، جس کے تمام بنیادی شاخ (اسمبلی، عدلیہ، وزارتیں، وغیرہ) قائم کیے گئے۔[9]آئین نے مزید ملک میں دو قانون ساز ایوان قائم کیے ایکقومی اسمبلیاور دوسراسینٹ۔ قومی اسمبلی کی بنیاد آبادی کے لحاظ سے ہے یعنی جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں زیادہ نشستیں رکھی جائے گی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو براہ راست عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کے نشستیں دیے گئے ہیں چاہے صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سینٹ کے ارکان کو سینیٹر کہا جاتا ہے اور ان سینیٹرز کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے ووٹ سے منتخب کر سکتے ہیں۔کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کا سلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور، دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے، ایک نقطہ ذہن نشین کر لیں کہخارجہ پالیسیمیں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سےانڈونیشیاکے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایکایٹمی طاقتہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاص ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔پاکستان کی دفاع کا ذمہ ملک کے مسلح افواج پر ہے جس کی بنیادی طور پر تین شاخیں ہیں:1947ءمیںقیام پاکستانسے پہلے پاک عسکریہ، ہندوستانی فوج کا حصہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کےتاج برطانیہکے زیر اثرپہلی جنگ عظیماوردوسری جنگ عظیممیں بھی حصہ لیا ہے۔ تقسیمبرصغیرکے بعد ہندوستانی فوج پاکستان اوربھارتمیں بالترتیب 36% اور 64% کے تناسب میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت اعلان ہوا کہ کوئی بھی فوجی جس بھی فوج میں جانا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔ اس وقت بہت سے مسلمان فوجی، پاک عسکریہ میں شامل ہو گئے۔ تقسیم کے وقت بھارت میں 16 آرڈیننس فیکٹریاں تھیں جبکہ پاکستان میں ایک بھی نہیں تھی۔ اب پاکستان کافی حد تک دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہو گیا ہے۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔ فوج اداروں میںپاک فوج،پاک فضائیہاورپاک بحریہشامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میںفرنٹیئر کانسٹبلری،سرحد کور،پاکستان رینجرزشامل ہیں۔ پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنیپنجاباورسندھمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس لیے اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنیپنجاب رینجرزاورسندھ رینجرز۔ اسی طرحسرحد کوراورفرنٹیئر کانسٹبلریکو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہخیبر پختونخوااوربلوچستانمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی ادارے کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائی گئی ہیں جن میںخیبر پختونخواپولیس،پنجابپولیس،سندھپولیس،بلوچستانپولیس،آزاد کشمیرپولیس اورگلگت بلتستانپولیس شامل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے، اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سر انجام دینا ہے اسی طرحموٹروےپولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔تحقیقات کے لیے وفاقی ادارۂ تحقیقات (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی مخابراتی ادارے (جیسےآئی ایس آئی، وغیرہ) موجود ہیں۔پاکستان ميں 5 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نےگلگت بلتستانکو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔
+صوبہ جات کی تقسیمیکم جولائی1970ءکو کی گئی۔صوبہ بلوچستانکا کل رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2011ءمیں آبادی 79 لاکھ 14 ہزار تھی۔صوبہ پنجابکا کل رقبہ 205,344 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2013ءمیں آبادی 10 کروڑ 10لاکھ تھی۔صوبہ خیبر پختونخواکا کل رقبہ 74,521 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ تھی۔صوبہ سندھکا کل رقبہ 140,914 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 4 کروڑ 24 لاکھ تھی۔گلگت بلتستان(سابق شمالی علاقہ جات) کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2008ء میں آبادی 18 لاکھ تھی۔جغرافیائی طور پر پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ پاکستان کاجغرافیہاور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیںجانوراورپرندےایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 796,095 مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقےپہاڑیہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریادریائے سندھہے۔ یہدریاپاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گذر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکنبلوچستانکاسبیعلاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اورشمالی علاقہ جاتمیں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادیزراعتکے شعبے سے منسلک ہے۔پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے، زمینی سرحد میں سے 2,430 کلومیٹر سرحدافغانستانکے ساتھ، 523 کلومیٹرچینکے ساتھ، 2,912بھارتکے ساتھ اور 909ایرانکے ساتھ لگا ہوا ہے۔پاکستان دنيا کا ايک ترقی پزیر ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات ميں فوج كى مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کوتعلیمسے محروم رکھنے کینفسیاتیاور خود غرضانہفطرت(تاکہبیگاراورسستے پڑاؤ (Labor Camp)قائم رکھے جاسکیں)، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيلیے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلےپاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعتپر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا[حوالہ درکار]۔ اِس وقت پاکستان کیمعيشتمستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے[حوالہ درکار]۔کراچی سٹاک ایکسچینجکےکے ايس سی انڈکسگزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے[حوالہ درکار]۔پاکستانآبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصداہل تشیع، 77 فيصداہل سنتاور تقریباً 3 فيصد ديگرفقہسے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ایک فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانیمسیحیمذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب وسرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔پاکستان کیقومی زباناردوہے، جبکہ زيادہ تر دفتری کامانگريزیميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اردو پاکستان کی عوامی و قومیزبانہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئی اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميںپنجابی،سرائیکی،سندھی،گجراتی،بلوچی،براہوی، پہاڑی،پشتواورہندکوزبانیں قابلِ ذکر ہيں۔پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پٹھان، بلوچی اورمہاجر قومہيں، ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مابین فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميںدراوڑ،آريا،ہن،ايرانی،يونانی،عرب،ترکاورمنگوللوگوں کی رياستوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھموسماورآب و ہواکا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايکاسلامی تہذيبکا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسيقی ملتی ہے۔کلاسيکی موسيقی،نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک، ان سب کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميںقوالیکا مرکز سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے جا رہے ہيں۔ يہ امرا اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جگہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکاؤاسلاماور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔پاکستانيوں کی بڑی تعدادامريکہ،برطانيہ،آسٹريليا،کینیڈااورمشرق وسطیميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہتسرمايہ کاریبھی کی ہے۔پاکستان کا سب سے پسنديدہکھيلکرکٹ ہے۔ پاکستان کیکرکٹٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميںہاکیبھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کےشمالی علاقہ جاتكے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدائش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھیلی جاتی ہے۔پاکستان میں سب سے عام لباسشلوار قمیضہے جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوںبلوچستان،پنجاب،سندھاورخیبر پختونخواسمیتقبائلی علاقہ جات،گلگت بلتستاناورآزاد کشمیرمیں پہنا جاتا ہے۔ تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمالاسکول،کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ اور ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔شیروانیکا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔پاکستانی خواتین میں بھی شلوار قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔پاکستان میں بہت سے ذرائع ابلاغ موجود ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔اس سے پہلےپی ٹی ویملک کا واحد چینل نیٹ ورک ہوتا تھا اور حکومت پاکستان اس نیٹ ورک کو چلا رہی تھی۔2002ءکے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 50 سے بھی زیادہ صرف نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نیوز، انٹرٹینمنٹ، ہیلتھ، ایجوکیشن، علاقائی اور بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتے ہیں تاہم ملک کے علاقائی زبانوں (پشتو،پنجابی،سندھی،بلوچی،کشمیری،سرائیکیوغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔پی ٹی وی ورلڈپاکستان کا پہلاانگریزیچینل ہے۔اردو فلم انڈسٹریلالی وڈکی صدر مقاماتلاہور،کراچیاورپشاورمیں واقع ہے۔ لالی وڈ نے اب تک بہت سے فلمیں ریلیز کی ہیں اور کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے عام اردو ڈراما سیریلز ہیں جو مختلف چینلز پر چلائے جاتے ہیں۔پاکستان کے فن تعمیرات ان مختلف عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مختلف ادوار میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔وادئ سندھ کی تہذیبکے شروع ہونے کے ساتھ ہی جو 3500قبل مسیحتھا، موجودہ پاکستان کے علاقے میں شہری ثقافت کا ارتقا ہوا جس میں بڑی عمارتیں تھیں جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے بعدگندھاراطرز کا بدھ طرز تعمیر آیا جس میں قدیمیونانکے اجزاء بھی شامل تہے۔ اس کے بقایا جاتگندھاراکے صدر مقامٹیکسلامیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان میں مغل اور انگریزی طرز تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں۔آزادی کے بعد کا فن تعمیر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی نئیحاصلکی گئی آزادی اور شناخت کو فن تعمیر کے ذریعے سے ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان خود کو جدید عمارتوں میں ظاہر کرتا ہے مثلاًفیصل مسجدجو وفاقی دار الحکومتاسلام آبادمیں واقع ہے اس مسجد کو1960ءمیں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں جیسےمینارپاکستان، سفید ماربل سے بنا مزار قائد اعظم۔ یہ عمارتیں نئی ریاست کی خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ملکی دار الخلافہ اسلام آباد میں موجود قومی یادگار تہذیب، آزادی اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔پاکستان میں اس وقت چھ (6) جگہیں ایسی ہیں جنہیں عالمی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال2012ءمیں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت1970ءکے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس،پشاور،کراچی،لاہور،سواتاورراولپنڈیتھیں۔ اس ملک کی حامل کشش جگہوں میں موہنجو داڑو،ٹیکسلااورہڑپہجیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لے کرکوہ ہمالیہکے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کےشمالی علاقہ جاتمیں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اورچترالکی وادیاں جو ایک چھوٹی سی غیر مسلم سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کوسکندر اعظمکی اولاد سے بتاتے ہیں۔پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقاملاہورمیں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسےبادشاہی مسجد، شالیمار باغ،مقبرہ جہانگیراورقلعہ لاہورشامل ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ (5) لاکھ سیاح آتے تھے۔ تاہم سال2008ءسے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورت حال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔اکتوبر2006ءمیںکشمیرکے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی کی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقاماتٹیکسلا،لاہور،شاہراہ قراقرم، کریم آباد اورجھیل سیف الملوکتہے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد ��یاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سےوادئ سندھ کی تہذیبکے موہنجو داڑو اورہڑپہجیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔پاکستانی کھانے جنوبی ایشیا کے مختلف علاقائی کھانوں کا حسین امتزاج ہیں۔ پاکستانی کھانوں میں شمالی ھندوستانی،وسط ایشیائیاور مشرق وسطیٰ کے کھانے شامل ہیں لیکن یہاں کے کھانوں میں گوشت کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میںاشیائے خور و نوش کے نامبہت آسان ہیں۔پاکستان میں ایک علاقے کے کھانے دوسرے علاقے کے کھانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں جس سے اس ملک کی ثقافتی اور لسانی تنوع جھلکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کھانے مصالحے دار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیا کے کھانوں کی خاصیت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے کھانے مثلاً خیبر پختونخوا، بلوچستان، قبائیلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور کشمیر کے کھانے بھی اپنی اپنی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بھی مختلف علاقائی رنگ غالب ہوتے ہیں۔پاکستان میں کھیلے جانے والے بیشتر کھیلوں کا آغازبرطانیہمیں ہوا اور برطانویوں نے انھیںہندوستانمیں متعارف کرایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس نے 1960ء، 1968ء اور 1984ء میں کھیلے گئے اولمپک کھیلوں میں تین سونے کے طمغے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ بھی چار بار جیتا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ 1971ء، 1978ء، 1982ء اور 1994ء میں جیتا ہے۔ تاہم، کرکٹ پاکستان کا سب سے زیادہ مشہور کھیل ہے۔ پاکستان کرکٹ کے ٹیم، جنہیں شاہین کہا جاتا ہے، نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ 1999ءمیں شاھین دوسرے نمبر پر رہے۔ اور 1987ء اور 1996ء میں عالمی کپ کے مقابلے جزوی طور پر پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان ٹی 20 قسم کے کھیل کے پہلے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے جو سال 2007ء میںجنوبی افریقامیں کھیلا گیا تھا۔ اور سال 2009ء میں اسی قسم کے کھیل میں پہلے نمبر پر رہے اور عالمی کپ جیتا جوبرطانیہمیں کھیلا گیا تھا۔ سال 2009ء کے مارچ کے مہینے میں دہشت گردوں نےسری لنکاکے کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا جو پاکستان کے دورے پرلاہورمیں موجود تھی اور اسی کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ تاہم چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد مئی 2015ء میں عالمی کرکٹ پاکستان میں اس وقت بحال ہوئی جب زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ تمام مقابلے سخت حفاظتی حصار میںلاہورمیں ہوئے اور تمام مقابلوں کے لیے ٹکٹ سارے بک چکے تھے اور کرسیاں ساری بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس نے دوسری ٹیموں کے آنے کے لیے بھی راہ ہموار کر لی۔
+ورزشی کھیلوں میں عبد الخالق نے سال 1954ء اور سال 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس نے 35 سونے کے طمغے اور 15 عالمیچاندیاور پیتل کے طمغے پاکستان کے لیے حاصل کیے۔اسکواشمیں پاکستان کے شہرپشاورسے تعلق رکھنے والے کھلاڑیجہانگیر خانہیں جن کو عالمی معیار کا کھلاڑی اور کھیلوں کی تاریخ میں عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے اور ساتھ ہی جانشیر خان ہیں جنھوں نے عالمیاسکواشکے مقابلوں میں کئی بار پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج درمیانے سے لے کر اعلیٰ طبقے کے ل��ے مخصوص ہے۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں اپنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی حالت ابتر ہے۔ریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔چاند اور ستارہ جو روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
+چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔
+شیلڈ کے اردگرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔
+علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔پاکستان کی زیادہ تر آبادی ملک کی وسطی علاقوں میں ہے، ملک کے جنوب میں زیادہ آباد مقامات اکثردریائے سندھکے آس پاس پر واقع ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی والا علاقہکراچیہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔پاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کامانگریزیزبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہاردوپاکستان کی قومی زبان ہے۔پاکستان کی صوبائی زبانوں میںپنجابیصوبہ پنجاب،پشتوصوبہ خیبر پختونخوا،سندھیصوبہ سندھ،بلوچیصوبہ بلوچستاناورشیناصوبہ گلگت بلتستانمیں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔[13]پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں،آیر،سرائیکی زبان،بدیشی،باگڑی،بلتی،بٹیری،بھایا،براہوی،بروشسکی،چلیسو،دامیڑی،دیہواری،دھاتکی،ڈوماکی،فارسی،دری،گواربتی،گھیرا،گوریا،گوورو،گجراتی،گوجری،گرگلا،ہزاراگی،ہندکو،جدگلی،جنداوڑا،کبوترا،کچھی،کالامی،کالاشہ،کلکوٹی،کامویری،کشمیری،کاٹی،کھیترانی،کھوار،انڈس کوہستانی،کولی(تین لہجے)،لہندالاسی،لوارکی،مارواڑی،میمنی،اوڈ،اورمڑی،پوٹھواری،پھالولہ،سانسی،ساوی،شینا(دو لہجے)،توروالی،اوشوجو،واگھری،وخی،وانیسیاوریدغہشامل ہیں۔[14]ان زبانوں میں بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں- ي سرا سنکے عمران خان سب سے اچھا ہے2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+221,کراچی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D8%B1%D8%A7%DA%86%DB%8C,"کراچی(سندھی:ڪراچي) (انگریزی: Karachi)پاکستانکا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی دنیا کاچهٹا بڑا شہر ہے۔[4]کراچی پاکستان کے صوبہسندھکادارالحکومتہے۔ شہردریائے سندھکے مغرب میںبحیرہ عربکی شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑیبندرگاہاورہوائی اڈابھی کراچی میں قائم ہے۔ کراچی1947ءسے1960ءتک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا۔
+موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستی کا نام مائیکولاچیتھا۔ جو بعد میں بگڑ کر کراچی بن گیاانگریزوںنے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین کا دخول ہوا۔پاکستانکا دار الحکومت اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں۔1959ءمیں پاکستان کے دار الحکومت کیاسلام آبادمنتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔پورے پاکستان سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں مختلف مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔ کراچی کو اسی وجہ سے چھوٹا پاکستان بھی کہتے ہیں۔ ان گروہوں کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے 80 اور 90 کی دہائیوں میں کراچی لسانی فسادات، تشدد اور دہشت گردی کا شکار رہا۔ بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے ليےپاک فوجکو بھی کراچی میں مداخلت کرنی پڑی۔ اکیسویں صدی میں تیز قومی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی کے حالات میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ کراچی کی امن عامہ کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے اور شہر میں مختلف شعبوں میں ترقی کی رفتار میں بہت اضافہ ہوا ہے۔کراچیدریائے سندھکے دہانے کی شمالی حد پر واقع ہے۔ شہر ایک قدرتی بندرگاہ کے گرد وجود پایا۔ کراچی 52´ 24° شمال اور 03´ 67° مشرق پر واقع ہے۔قدیمیونانیکراچی کے موجودہ علاقہ سے مختلف ناموں سے واقف تھے:کروکولا، جہاںسکندر اعظموادی سندھمیں اپنی مہم کے بعد، اپنی فوج کی واپسبابلروانگی کی تیّاری کے لیے خیمہ زن ہوا ؛ بندر مرونتوبارا (Morontobara)، (ممکنً کراچی کی بندرگاہ سے نزدیک جزیرہمنوڑہجہاں سے سکندر کا سپہ سالار نییرچس(نیارخوس) واپس اپنے وطن روانہ ہوا ؛ اور بربیریکون(بارباریکون)، جو ہندوستانی یونانیوں کیباختریمملکت کی بندرگاہ تھی۔ اس کے علاوہ،عرباس علاقہ کو بندرگاہِدیبلکے نام سے جانتے تھے، جہاں سےمحمد بن قاسمنے712ءمیں اپنی فتوحات کا آغاز کیا۔ برطانوی تاریخ دان ایلیٹ کے مطابق موجودہ کراچی کے چند علاقے اور جزیرہ منوڑہ، دیبل میں شامل تھے۔موجودہ نام کراچی سے پہلے کراچی کو مکران (بلوچستان) کے علاقے کولانچ کی ایک بلوچ مائی جو کولانچ سے ھجرت کر کے یہاں آباد ہوئی تھی کی نسبت سے مائی کولاچی کے نام سے جانا جاتا تھا جس کی تمام تر آبادی بلوچ تھی مائی کولاچی سے بعد میں کولاچی اور بگڑ کر انگریزوں کے دور میں کراچی ھو گئی 1772ء کو مائی کولاچی کومسقطاوربحرینکے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بندرگاہ منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے یہ گاؤں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ یوں مائی کولاچی میں بلوچوں کے علاوہ ہمسایہ علاقوں کی کمیونٹی بھی بڑی تعداد میں بس گئی بڑھتے ہوئے شہر کی حفاظت کے لیے شہر کی گرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپیں درآمد کرکے شہر کی فصیل پر نصب کی گئیں۔ فصیل میں 2 در تھے (بلوچی میں در گیٹ کو کہتے ہیں) ایک در (گیٹ) کا رخسمندرکی طرف تھا اور اس لیے اس کو بلوچی میںکھارادر(سندھیمیں کھارودر) کہا جاتا اور دوسرے در (گیٹ) کا رخلیاری ندیکی طرف تھا اور اس لیے اس کو بلوچی میںمیٹھادر(سندھی میں مٹھودر) کہا جاتا تھا۔1795ءتک کراچی (کولاچی) خانقلاتکی مملکت کا حصہ تھا۔ اس سالسندھکے حکمرانوں اورخان قلاتکے درمیان میں جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر سندھ کی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔ اس کے بعد شہر کی بندرگاہ کیکامیابیاور زیادہ بڑے ملک کی تجارت کا مرکز بن جانے کی وجہ سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ اس ترقی نے جہاں ایک طرف کئی لوگوں کو کراچی کی طرف کھینچا وہاںانگریزوںکی نگاہیں بھی اس شہر کی طرف کھینچ لیں۔انگریزوں نے3 فروری1839ءکو کراچی شہر پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا۔ تین سال کے بعد شہر کوبرطانوی ہندوستانکے ساتھ ملحق کرکے ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔ انگریزوں نے کراچی کی قدرتی بندرگاہ کودریائے سندھکی وادی کا اہم تجارتی مرکز بنانے کے لیے شہر کی ترقی پر اہم نظر رکھی۔برطانوی راجکے دوران میں کراچی کی آبادی اور بندرگاہ دونوں بہت تیزی سے بڑھے۔1857ءکیجنگ آزادیکے دوران میں کراچی میں 21 ویں نیٹِو انفنٹری نے10 ستمبرکو مغل فرمانروابہادر شاہ ظفرسے بیعت کر لی۔ انگریزوں نے شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور ""بغاوت"" کا سر کچل دیا۔1876ءمیں کراچی میں بانی پاکستانمحمد علی جناحکی پیدائش ہوئی۔ اس وقت تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کر چکا تھا جس کا انحصار شہر کے ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تھا۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو بر صغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔ اسی دور میں کراچی ادبی، تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن رہا تھا۔کراچی آہستہ آہستہ ایک بڑی بندرگاہ کے گرد ایک تجارتی مرکز بنتا گیا۔ 1880 کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔1881میں کراچی کی آبادی 73،500 تک،1891میں 105،199 اور1901میں 115،407 تک بڑھ گئی۔1899میں کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑاگندمکی درآمد کا مرکز تھا۔ جب1911میں برطانوی ہندوستان کا دار الحکومتدہلیبنا تو کراچی سے گزرنے والے مسافروں کی تعداد بڑھ گئی۔1936میں جب سندھ کو صوبہ کی حیثیت دی گئی تو کراچی کو اس کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔1947میں کراچی کو پاکستان کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس وقت شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔ پاکستان کا دار الحکومت کراچی سےراولپنڈیاور پھراسلام آبادمنتقل تو ہوا لیکن کراچی اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔ کراچی 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں تشدد، سیاسی اور سماجی ہنگامہ آرائی اور دہشت گردی کا شکار بنا رہا۔ موجودہ دہائی میں کراچی میں امن عامہ کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے شہر میں بہت ترقی ہوئی۔ابھی کراچی میں ترقیاتی کام بہت تیزی سے جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی ایکعالمی مرکزکی شکل میں ابھر رہا ہے۔کراچی جنوبی پاکستان میں بحیرہ عرب کے عین شمال میں واقع ہے۔ شہر کا رقبہ 3،527 مربعکلومیٹرہے۔ یہ ایک ناہموار میدانی علاقہ ہے جس کی شمالی اور مغربی سرحدیں پہاڑیاں ہیں۔ شہر کے درمیان میں سے دو بڑی ندیاں گزرتی ہیں،ملیر ندیاورلیاری ندی۔ (سیلابی ند یاں) اس کے ساتھ ساتھ شہر سے کئی اور چھوٹی بڑی ندیاں)( اور برساتی نالے)گزرتی ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ شہر کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ چونکہ بندرگاہ ہر طرف سے زمین سے گھری ہوئی ہے اس ليے اس کو ایک بہت خوبصورت قدرتی بندرگاہ سمجھا جاتا ہے۔ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے شہر کا موسم بہت معتدل ہے۔ شہر میں بارشیں کم ہوتی ہیں، سال میں اوسطا 250 ملی میٹر، جن کا زیادہ تر حصہمون سونمیں ہوتا ہے۔ کراچی میں گرمیاںاپریلسےاگستتک باقی رہتی ہیں اور اس دوران میں ہوا میں نمی کا تناسب بھی زیادہ رہتا ہے۔نومبرسےفروریشہر میںموسم سرمامانا جاتا ہے۔دسمبراورجنوریشہر میں سب سے زیادہ آرام دہ موسم کے مہینے ہیں اور اس وجہ سے شہر میں انھی دنوں میں سب سے زیادہ تقاریب اورسیاحت ہوتی ہے۔اس شہر کا عام طور موسم سرما سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا اور یہاں کا موسم گرم مرطوب ہی رہتا ہے لیکن 21 جنوری 1934 میں کراچی والوں نے ایک ایسا دن دیکھا جب کراچی کا درجہ حرارت 0 ڈگری ہو گیا۔کراچی شہر کی بلدیہ کا آغاز1933ءمیں ہوا۔ ابتدا میں شہر کا ایک میئر، ایک نائب میئر اور 57 کونسلر ہوتے تھے۔1976ءمیں بلدیہ کراچی کوبلدیہ عظمی کراچیبنا دیا گیا۔ سن2000ءمیں حکومت پاکستان نے سیاسی، انتظامی اور مالی وسائل اور ذمہ داریوں کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے بعد2001ءمیں اس منصوبے کے نفاذ سے پہلے کراچی انتظامی ڈھانچے میں دوسرے درجے کی انتظامی وحدت یعنی ڈویژن،کراچی ڈویژن، تھا۔ کراچی ڈویژن میں پانچ اضلاع،ضلع کراچی جنوبی،ضلع کراچی شرقی،ضلع کراچی غربی،ضلع کراچی وسطیاورضلع ملیرشامل تھے۔سن2001ءمیں ان تمام ضلعوں کو ایک ضلعے میں جوڑ لیا گیا۔ اب کراچی کا انتظامی نظام تین سطحوں پر واقع ہے۔ضلع کراچی کو 18 ٹاؤن(بلدیات) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان سب کی منتخب بلدیاتی انتظامیہ موجود ہیں۔ ان کی ذمہ داریوں اور اختیارات میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب، کوڑے کی صفائی، سڑکوں کی مرمت، باغات، ٹریفک سگنل (حمل و نقل کی ہم آہنگی) اور چند دیگر زمرے آتے ہیں۔ بقیہ اختیارات ضلعی انتظامیہ کے حوالے ہیں۔یہ ٹاؤنز(بلدیات) مزید 178 یونین کونسلوں میں تقسیم ہیں جو مقامی حکومتوں کے نظام کی بنیادی اکائی ہے۔ ہر یونین کونسل 13 افراد کی باڈی پر مشتمل ہے جس میں ناظم اور نائب ناظم بھی شامل ہیں۔ یوسی ناظم مقامی انتظامیہ کا سربراہ اور شہری حکومت کے منصوبہ جات اور بلدیاتی خدمات کے علاوہ عوام کی شکایات حکام بالا تک پہنچانے کا بھی ذمہ دار ہے۔2005ء میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میںسیدمصطفیٰ کمالنے کامیابی حاصل کی اورنعمت اللہ خانکی جگہ کراچی کے ناظم قرار پائے جبکہنسرین جلیلشہر کی نائب ناظمہ قرار پائیں۔مصطفیٰ کمالناظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل صوبہ سندھ کے وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی تھے۔ ان سے قبل کراچی کے ناظم نعمت اللہ خان 2004ء اور 2005ء کے لیے ایشیا کے بہترین ناظمین میں سے ایک قرار پائے تھے۔ مصطفیٰ کمال نعمت اللہ خان کا شروع کردہ سفر جاری رکھتے ہوئے شہر میں ترقی میں کافی تیزی سے کام کیا۔ لیکن 2010 کے بعد کراچی شہر میں بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بعد سے کراچی شہر کی ترقی کافی حد تک رک سی گئی تھی لیکن 2015 میں عام انتخابات کے بعد سے نئی حکومتوں کے بعد شہر کی تعمیر و ترقی کا دوبارہ سے آغاز ہو چکا ہے۔کراچی شہر مندرجہ ذیل قصبات میں تقسیم ہے[7]:واضح رہے کہڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیکراچی میں قائم ہے لیکن وہ کراچی کا ٹاؤن نہیں اور نہ کسی ٹاؤن کا حصہ ہے بلکہ پاک افواج کے زیر انتظام ہے۔کراچی جنوبیکراچی غربیگذشتہ 150 سالوں میں کراچی کی آبادی و دیگر اعداد و شمار میں واضح تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ غیر سرکاری اور بین الاقوامی ذرائع کے مطابق کراچی کی موجودہ آبادی 24 ملین ہے۔ جو1947ءکے مقابلے میں 37 گنا زیادہ ہے۔ آزادی کے وقت کراچی کی آبادی محض 4 لاکھ تھی۔ تقسیم ہند (1947) کے نتیجے میں دس لاکھ لوگ ہجرت کر کے کراچی میں آ بسے۔[8]شہر کی آبادی اس وقت 5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جس میں اہم ترین کردار دیہات سے شہروں کو منتقلی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ 45 ہزار افراد شہر قائد پہنچتے ہیں۔ کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔کراچی ایک کثیر النسلی، کثیر اللسانی اور کثیر الثقافتی بین الاقوامی شہر ہے۔1998ءکی مردم شماری کے مطابق کراچی کی 94 اعشاریہ 04 فیصد آبادی شہر میں قیام پزیر ہے۔ اس طرح وہ صوبہسندھکا سب سے جدید علاقہ ہے۔کراچی میں سب سے زیادہ آبادیاردوبولنے والے مہاجرین کی ہے جو 1947ء میںتقسیم برصغیرکے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آکر کراچی میں آباد ہوئے تھے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے ان مسلم مہاجرین کو نو آموز مملکت پاکستان کی حکومت کی مدد سے مختلف رہائش گاہیں نوازی گئیں جن میں سے اکثر پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے والی ہندو اور سکھ برادری کی تھی۔ انڈیا سے آنے والے مہاجرین میں دہلی، یوپی، حیدرآباد دکن سے آنے والوں کے علاوہ گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور راجپوتانہ سے آنے والی ماڑواڑی، میمن، ملباری، باہری اور بعد میںمشرقی پاکستانسے آنے والی بہاری کمیونٹی قابل ذکر ہیں-شہر کے دیگر باسیوں میںسندھی،بلوچی،پنجابی،پٹھان،گجراتی،کشمیری،سرائیکیاور 10 لاکھ سے زائدافغانمہاجرین شامل ہیں جو 1979ء میںافغانستانپرسوویت یونینکی جارحیت کے بعد ہجرت کرکے شہر قائد پہنچے اور اب یہاں کے مستقل باسی بن چکے ہیں۔ ان مہاجرین میںپختون،تاجک،ہزارہ،ازبکاورترکمانشامل تھے۔ ان کے علاوہ ہزاروںبنگالی،عرب،ایرانی، اراکانی کے مسلم مہاجرین (برماکی راکھائن ریاست کے ) اور افریقی مہاجرین بھی کراچی میں قیام پزیر ہیں۔ آتش پرستپارسیوںکی بڑی تعداد بھی تقسیم ہند سے قبل سے کراچی میں رہائش پزیر ہے۔ کراچی کے پارسیوں نے شہر کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اہم سرکاری عہدوں اور کاروباری سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے شامل رہے ہیں۔ آزادی کے بعد ان کی اکثریت مغربی ممالک کو ہجرت کرگئی تاہم اب بھی شہر میں 5 ہزار پارسی آباد ہیں۔ علاوہ ازیں شہر میںگواسے تعلق رکھنے والے کیتھولکمسیحیوںکی بھی بڑی تعداد آبادی ہے جوبرطانوی راجکے زمانے میں یہاں پہنچی تھی۔1998ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی لسانی تقسیم اس طرح سے ہے:کراچی پاکستان کا تجارتی دار الحکومت ہے اور جی ڈی پی کے بیشتر حصہ کا حامل ہے۔ قومی محصولات کا 65 فیصد کراچی سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کے تمام سرکاری و نجی بینکوں کے دفاتر کراچی میں قائم ہیں۔ جن میں سے تقریباً تمام کے دفاترپاکستانکیوال اسٹریٹ""آئی آئی چندریگر روڈ""(سابق میکلیوڈ روڈ) پر قائم ہیں۔دبئیکا معروف تعمیراتی ادارہ ایمار پراپرٹیز کراچی کے دو جزائر بنڈل اور بڈو پر 43 ارب امریکی ڈالرز کی لاگت سے تعمیراتی کام کا آغاز کر رہا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ 20 ارب روپے کے ایک منصوبےپورٹ ٹاور کمپلیکسکا آغاز کر رہی ہے جو ایک ہزار 947 فٹ بلندی کے ساتھ پاکستان کی سب سے بلند عمارت ہوگی۔ اس میں ایک ہوٹل، ایک شاپنگ سینٹر اور ایک نمائشی مرکز شامل ہوگا۔ عمارت کی اہم ترین خوبی اس کا گھومتا ہوا ریستوران ہوگا جس کی گیلری سے بدولت کراچی بھر کا نظارہ کیا جاسکے گا۔ مذکورہ ٹاور کلفٹن کے ساحل پر تعمیر کیا جائے گا۔بینکنگ اور تجارتی دار الحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی میں پاکستان میں کام کرنے والے تمامبین الاقوامی اداروں کے بھی دفاتر قائم ہیں۔ یہاں پاکستان کا سب سے بڑا بازار حصصکراچی اسٹاک ایکسچینجبھی موجود ہے جو ابپاکستان اسٹاک ایکسچینجبن چکا ہے۔ اس نے 2005ء میں پاکستان کے جی ڈی پی میں 7 فیصد اضافے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشنز ٹیکنالوجیز (آئی سی ٹی)، الیکٹرانک میڈیا اور کال سینٹرز کا نیا رحجانبھی شہر کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں (شرکتوں)کے کال سینٹرز کو ترقی کے ليے بنیادی ہدف قرار دیا گیا ہے اور حکومت نے آئی ٹی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے ليے محصولات میں 80 فیصد تک کمی کے ليے کام کر رہی ہے [حوالہ درکار]۔ کراچی پاکستان کاسافٹ ویئرمرکز بھی ہے۔ پاکستان کے کئی نجی ٹیلی وژن اور ریڈیو چینلوں کے صدر دفاتر بھی کراچی میں ہیں جن میں سےجیو،اے آروائی ،ڈان، ہم، ایکسپرس اورآج ٹی ویمشہور ہیں۔ مقامی سندھی چینل کے ٹی این،سندھ ٹی ویاور کشش ٹی وی بھی معروف چینل ہیں۔کراچی میں کئی صنعتی زون واقع ہیں جن میں کپڑے، ادویات، دھاتوں اور آٹو موبائل کی صنعتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ مزيد برآں کراچی میں ایک نمائشی مرکز ایکسپو سینٹر بھی ہے جس میں کئی علاقائی و بین الاقوامی نمائشیں منعقد ہوتی ہیں۔ٹویوٹااورسوزوکیموٹرز کے کارخانے بھی کراچی میں قائم ہیں۔ اس صنعت سے متعلق دیگر اداروں میںملت ٹریکٹرز، آدم موٹر کمپنی اورہینو پاککے کارخانے بھی یہیں موجود ہیں۔ گاڑیوں کی تیاری کا شعبہ پاکستان میں سب سے زیادہ تیزی سے ابھرتی ہوا صنعتی شعبہ ہے جس کا مرکز کراچی ہے۔کراچی بندرگاہاورمحمد بن قاسم بندرگاہپاکستان کی دو اہم ترین بندرگاہیں ہیں جبکہجناح بین الاقوامی ہوائی اڈاملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈا ہے۔1960ء کی دہائی میں کراچی کو ترقی پزیر دنیا میں ترقی کا رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہجنوبی کوریانے شہر کا دوسرا پنج سالہ منصوبہ برائے 1960ء تا 1965ء نقل کیا۔پورٹ ٹاور کمپلیکس(مجوزہ)کریسنٹ بے (منظور شدہ)کراچی کریک مرینا (زیر تعمیر)ڈولمین ٹاورز (زیر تعمیر)آئی ٹی ٹاور (منظور شدہ)بنڈل جزیرہ (منظور شدہ)بڈو جزیرہ (منظور شدہ)(اب کام رک چکا ہے)اسکوائر ون ٹاورز (زیر تعمیر)کراچی ماس ٹرانزٹ نظامانشاء ٹاورز (منظور شدہ)ایف پی سی سی آئی ٹاور (مجوزہ)کراچی پاکستان کے چند اہم ترین ثقافتی اداروں کا گھر ہے۔ تزئین و آرائش کے بعد ہندو جیم خانہ میں قائم کردہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کلاسیکی موسیقی اور جدید تھیٹر سمیت دیگر شعبہ جات میں دو سالہ ڈپلوما کورس پیش کرتا ہے۔ آل پاکستان میوزیکل کانفرنس 2004ء میں اپنے قیام کے بعد سالانہ میوزک فیسٹیول منعقد کر رہا ہے۔ یہ فیسٹیول شہری زندگی کے ایک اہم جز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے اور 3 ہزار سے زائد شہری اس میں شرکت کرتے ہیں جبکہ دیگر شہروں سے بھی مہمان تشریف لاتے ہیں۔کوچہ ثقافت میں مشاعرے، ڈرامے اور موسیقی پیش کی جاتی ہے۔ کراچی میں قائم چند عجائب گھروں میں معمول کی بنیادوں پر نمائشیں منعقد ہوتی ہیں جن میںموہٹہ پیلساور قومی عجائب گھر شامل ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر منعقدہ کارا فلم فیسٹیول میں پاکستانی اور بین الاقوامی آزاد اور دستاویزی فلمیں پیش کی جاتی ہیں۔ کراچی کی ثقافتمشرق وسطی،جنوبی ایشیائیاور مغربی تہذیبوں کے ملاپ سے تشکیل پائی ہے۔ کراچی میں پاکستان کی سب سے بڑی مڈل کلاس آبادی قیام پزیر ہے۔ کراچی صوبہ سندھ کا صدر مقام ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی کراچی شہر میں ہے جہاں کئی جامعات اور کالیجز قائم ہیں۔ کراچی اپنی کثیر نوجوان آبادی کے باعث ملک بھر میں جانا جاتا ہے۔ کراچی کی کئی جامعات ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں شمار ہوتی ہیں۔کراچی کے اہم تعلیمی ادارے درج ذیل ہیں؛کراچی کے مشہور کھیلوں میںکرکٹ،ہاکی،مکے بازی،فٹ بالاور گھڑ دوڑ شامل ہیں۔ بین الاقوامی مرکزنیشنل اسٹیڈيمکے علاوہ کرکٹ کے میچز(مقابلے) یو بی ایل اسپورٹس کمپلیکس، اے او کرکٹ اسٹیڈیم، کے سی سی اے کرکٹ گراؤنڈ، کراچی جیم خانہ گراؤنڈ اور ڈی ایچ اے کرکٹ اسٹیڈیم پر منعقد ہوتے ہیں۔ شہر میں ہاکی کے ليے ہاکی کلب آف پاکستان اور یو بی ایل ہاکی گراؤنڈ، باکسنگ کے ليے کے پی ٹی اسپورٹس کمپلیکس، اسکواش کے ليے جہانگیر خان اسکواش کمپلکیس اورفٹبالکے ليے پیپلز فٹ بال اسٹیڈیم اور پولو گراؤنڈ، کراچی جیسے شاندار مراکز قائم ہیں۔ 2005ء میں شہر کے پیپلز فٹ بال اسٹیڈيم میں ساف کپ فٹ بال ٹورنامنٹ منعقد ہوا۔کشتی رانیبھی کراچی کی کھیلوں کی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہے۔کراچی جیم خانہ، سندھ کلب، کراچی کلب، مسلم جیم خانہ، کریک کلب اور ڈی ایچ اے کلب سمیت دیگر کھیلوں کے کلب اپنے ارکان کوٹینس،بیڈمنٹن،اسکواش، تیراکی، دوڑ، اسنوکر اور دیگر کھیلوں کی سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ کراچی میں دو عالمی معیار کے گالف کلب ڈي ایچ اے اور اور کارساز قائم ہیں۔ علاوہ ازیں شہر میں چھوٹے پیمانے پر کھیلوں کی سرگرمیاں بھی عروج پر ہوتی ہیں جن میں سب سے مشہور نائٹ کرکٹ ہے جس میں ہر اختتام ہفتہ پر چھوٹے موٹے میدانوں اور گلیوں میں برقی قمقموں میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔کراچی میں بین الاقوامی معیار کی تقریبا تمام طبی سہولیات موجود ہیں- کراچی کے طبی اداروں میں جگر کی پیوندکاری، گردوں کی پیوندکاری، آنکھوں کی پیوندکاری سمیت دل کے بائی پاس اور انجیوگرافی کی سہولیات موجود ہیں- کراچی میں مندرجہ ذیل اہم طبی ادارے ہیں؛یونیورس سنیپلیکس (کلفٹن)علاوہ ازیں کلفٹن، ڈي ایچ اے، شارع فیصل، نارتھ ناظم آباد، کریم آباد،گلشن اقبال، گلستان جوہر وغیرہ میں بھی کئی مراکز ہیں۔حسین آباد کو کو دوسرا برنس روڈ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کیونکہ یہاں بھی بے شمار فوڈ اینڈ ڈرنکس کے مراکز ہیں۔کلفٹن کا ساحل ماضی قریب میں دو مرتبہ تیل کی رسائی کے باعث متاثر ہو چکا ہے جس کے بعد ساحل کی صفائی کردی گئی ہے۔ علاوہ ازیں رات کے وقت تفریح کے ليے ساحل پر برقی قمقمے بھی نصب کیے گئے ہیں۔ حکومت نے کراچی کی ساحلی پٹی کی خوبصورتی کے ليے کلفٹن میں بیچ پارک قائم کیا ہے جو جہانگیر کوٹھاری پیریڈ اور باغ ابن قاسم سے منسلک ہے۔ شہر کے قریب دیگر ساحلی تفریحی مقامات بھی ہیں جن میں سینڈزپٹ، ہاکس بے، فرنچ بیچ، رشین بیچ اور پیراڈائز پوائنٹ معروف ہیں۔اس کے علاقوں کے کچھ عجیب و غریب اور دلچسپ نام۔کراچیپاکستانمیں خریداری کا مرکز تصور کیا جاتا ہے جہاں روزانہ لاکھوں صارفین اپنی ضروریات کی اشیاء خریدتے ہیں۔صدر، گلف شاپنگ مال،بہادر آباد،طارق روڈ،زمزمہ،زیب النساء اسٹریٹاورحیدریاس حوالے سے ملک بھر میں معروف ہیں۔ ان مراکز میں کپڑوں کے علاوہ دنیا بھر سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء حاصل کی جا سکتی ہیں۔ برطانوی راج کے زمانے کی ایمپریس مارکیٹ مصالحہ جات اور دیگر اشیاء کا مرکز ہے۔ صدر میں ہی قائم رینبو سینٹر دنیا میں چوری شدہ سی ڈیز کے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔ دیگر اہم علاقوں میں پاپوش مارکیٹ اور حیدری شامل ہیں۔ ہر اتوار کولیاقت آبادمیں پرندوں اور پالتو جانوروں کے علاوہ پودوں کا بازار بھی لگتا ہے۔کراچی میں جدید تعمیرات کے حامل خریداری مراکز کی بھی کمی نہیں ہے، جن میں پارک ٹاورز، دی فورم، ملینیم مال اور ڈولمین مال خصوصا قابل ذکر ہیں۔ اس وقت زیر تعمیر ایٹریم مال، جمیرہ مال، آئی ٹی ٹاور اور ڈولمین سٹی مال بھی تعمیرات کے شاہکار ہیں۔اس کے علاوہ ٹائون اور اضلاع کی سطح پر بھی ملبوسات، زیورات اور اشیائے صرف کی خریداری کے مراکز ہیں-جوڑیا بازار اور اس سے متصل صرافہ بازار اور کاغذی بازار بالترتیب اشیائے خورد، زیورات اور ملبوسات کے مرکزی بازار ہیں جہاں سے یہ شہر کے دوسرے بازاروں تک ان اشیاء کے پہنچنے کا ذریعہ بنتے ہیں-لانڈھی کی بابر مارکیٹ، ملیر کی لیاقت مارکیٹ، واٹر پمپ مارکیٹ، ناظم آباد گول مارکیٹ، لیاقت آباد مارکیٹ، نیو کراچی کی کالی مارکیٹ، شاہ فیصل مارکیٹ، سولر بازار، رنچھوڑلین مارکیٹ، اورنگی میں پاکستان بازار اور کیماڑی کی جیکسن مارکیٹ اہم مقامی بازار ہیں-کراچی ایک جدید بین الاقوامی ہوائی اڈےجناح انٹرنیشنلکا حامل ہے جو پاکستان کا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے۔ شہر کا قدیم ایئرپورٹ ٹرمینل اب حج پروازوں، کارگو اور سربراہان مملکت کے ليے استعمال ہوتا ہے۔ نیا ہوائی اڈا 1993ء میں ایک فرانسیسی ادارے نے تیار کیا۔ملک کی سب سے بڑی بندرگاہیں بھی کراچی میں قائم ہیں جو کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کہلاتی ہیں۔ یہ بندرگاہیں جدید سہولیات سے مزین ہیں اور نہ صرف پاکستان کی تمام تجارتی ضروریات کے مطابق کام کرتی ہیں بلکہافغانستاناوروسط ایشیاءکے ممالک کی سمندری تجارت بھی انہی بندرگاہوں سے ہوتی ہے۔کراچیپاکستان ریلویزکے جال کے ذریعے بذریعہ ریل ملک بھر سے منسلک ہے۔ شہر کے دو بڑے ریلوے اسٹیشنسٹیاورکینٹ ریلوے اسٹیشنہیں۔ ریلوے کا نظام کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے ملک بھر کو سامان پہنچانے کی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس وقت شہر میں بسوں اور منی بسوں نے عوامی نقل و حمل کا بیڑا اٹھارکھا ہے لیکن مستقبل میں شہر میں تیز اور آرام دہ سفر کے ليےکراچی سرکلر ریلوےکی بحالی اور ماس ٹرانزٹ نظام کی تعمیر کا منصوبہ بھی موجود ہے۔کراچی شہر کو دنیا کے اور ممالک کی طرح نقل و حمل کے نئے طرز کے وسائل فراہم کرنے کے لیے اٹھارویں صدی کے اواخر میں ٹرام گاڑی چلانے کی تجویز پیش کی گئی، نتیجتاً اکتوبر 1884 میں اس پر کام شروع ہو گیا- ٹرامیں(1885–1975) سڑکوں پر باقائدگی سے یہ خدمت انجام دیتی رہی- لیکن سیاسی گٹھ جوڑکی وجہ سے اس سہولت کو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر نہ بنایا جا سکا- جیسا کہ دنیا بھر کے اور شہروں میں ہوا ہے۔کراچی ساحل کے ساتھ نیم صحرائی علاقے پر قائم ہیں جہاں صرف دو ندیوں ملیر اور لیاری کے ساتھ ساتھ موجود علاقے کی زمین ہی زراعت کے قابل ہے۔ آزادی سے قبل کراچی کی اکثر آبادی ماہی گیروں اور خانہ بدوشوں پر مشتمل تھی اور بیشتر زمین سرکاری ملکیت تھی۔ آزادی کے بعد کراچی کو ملک کا دار الحکومت قرار دیا گیا تو زمینی علاقے ریاست کے زیر انتظام آ گئے۔1988ءمیں کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق 4 لاکھ 25 ہزار 529 ایکڑ (1722 مربع کلومیٹر) میں سے تقریباً 4 لاکھ ایکڑ (1600 مربع کلومیٹر) کسی نہ کسی طرح سرکاری ملکیت ہے۔ حکومت سندھ ایک لاکھ 37 ہزار 687 ایکڑ (557 مربع کلومیٹر)،کے ڈی اے ایک لاکھ 24 ہزار 676 ایکڑ، کراچی پورٹ ٹرسٹ 25 ہزار 259 ایکڑ، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) 24 ہزار 189 ایکڑ، آرمی کنٹونمنٹ بورڈ 18 ہزار 569 ایکڑ، پاکستان اسٹیل مل 19 ہزار 461 ایکڑ، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی 16 ہزار 567 ایکڑ، پورٹ قاسم 12 ہزار 961 ایکڑ، حکومت پاکستان 4 ہزار 51 ایکڑ اور پاکستان ریلوے 12 ہزار 961 ایکڑ رقبے کی حامل ہے۔1990ءکی دہائی میں کے ڈی اے کی غیر تعمیر زمین ملیر ڈيولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) اور لیاری ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کو منتقل کردی گئی۔کراچی دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے اس ليے اسے بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک، آلودگی، غربت، دہشت گردی اور جرائم جیسے مسائل کا سامناہے۔اس وقت کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ہر سال 550 افراد ٹریفک حادثوں میں اپنی جان گنواتے ہیں۔ شہر میں کاروں کی تعداد سڑکوں کے تعمیر کردہ ڈھانچے سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹریفک کے ان مسائل سے نمٹنے کے ليے شہر میں نعمت اللہ خان کے دور میں کئی منصوبے شروع کیے گئے جن میں فلائی اوورز اور انڈر پاسز شامل ہیں۔بڑھتے ہوا ٹریفک اور دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو کھلی چھٹی کے باعث شہر میں آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔ کراچی میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے متعین کردہ معیار سے 20 گنا زیادہ ہے۔ ٹریفک کے علاوہ کوڑے کرکٹ کو آگ لگانا اور عوامی شعور کی کمی بھی آلودگی کا بڑا سبب ہے۔ایک اور بڑا مسئلہ شاہراہوں کو چوڑا کرنے کے ليے درختوں کی کٹائی ہے۔ کراچی میں پہلے ہی درختوں کی کمی ہے اور موجود درختوں کی کٹائی پر ماحولیاتی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا ہے۔ جس پر شہری حکومت نے ستمبر 2006ء سے تین ماہ کے ليے شجرکاری مہم کا اعلان کیا۔پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح سیاست دانوں اور سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے کھلی جگہوں پر ناجائز تجاوازات تعمیر کا مسئلہ کراچی میں بھی عوام اور آنے والی نسلوں کے لیے پریشان کن ہے۔[9]ان کے علاوہ فراہمی آب اور بجلی کی فراہمی میں تعطل شہر کے دو بڑے مسائل ہیں خصوصا 2006 کے موسم گرما میں کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عالمیشہرتحاصل کی۔شہری حکومت کی آفیشل ویب گاہآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ karachicity.gov.pk(Error: unknown archive URL)کراچی اسٹاک ایکسچینجآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ kse.com.pk(Error: unknown archive URL)جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹکراچی بندرگاہکراچی پورٹ ٹرسٹکراچی کی سیٹیلائٹ تصویرکراچی آپ ڈیٹس کراچی کی تازہ ترین صورت حالکراچی کی تاریخ، شہر کی پرانی تصاویر کے ساتھآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ historickarachi.com(Error: unknown archive URL)کراچی کی تصویری البم از علی عدنان قزلباشکارا فلم فیسٹیولآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ karafilmfest.com(Error: unknown archive URL)کراچی میں ٹرامیںآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ historyrecall.blogspot.se(Error: unknown archive URL)پاکستان کے شہر"
+222,بیسویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DB%8C%D8%B3%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<انیسویں صدی <<<بیسویں صدی>>> اکیسویں صدی>>>
+223,انڈین نیشنل کانگریس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D9%84_%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7_%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B3,"انڈین نیشنل کانگریس(جسےکانگریس پارٹیاورآئی این سیبھی کہا جاتا ہے)بھارتکی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ جماعت کا قیامدسمبر1885ءمیں عمل میں آیا جبایلن اوکٹیوین ہیوم،دادابھائی نوروجی،ڈنشا واچا،ومیش چندر بونرجی،سریندرناتھ بینرجی،مونموہن گھوشاورولیم ویڈربرننے اس کی بنیاد رکھی۔ اپنے قیام کے بعد یہ ہندوستان میںبرطانوی راجکے خلاف جدوجہد کرنے والی ایک اہم جماعت بن گئی اورتحریک آزادی ہندکے دوران اس کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد اراکین تھے۔پاکستانکے بانیمحمد علی جناحبھیمسلم لیگمیں شمولیت سے قبل اس جماعت میں شامل رہے ہیں جبکہ ہندوستان کی تاریخ کی کئی عظیم شخصیات بھی اس جماعت سے وابستہ رہی ہیں جن میںموہن داس گاندھی،جواہر لعل نہرو،ولبھ بھائی پٹیل،راجندرہ پرساد،خان عبدالغفار خاناورابو الکلام آزادزیادہ معروف ہیں۔ ان کے علاوہسبھاش چندر بوسبھی کانگریس کے سربراہ رہے تھے تاہم انھیںاشتراکی نظریاتکی وجہ سے جماعت سے نکال دیا گیا۔بعد آزاد تقسیم کے معروف کانگریسی رہنماؤں میںاندرا گاندھیاورراجیو گاندھیمعروف ہیں۔1947ءمیںتقسیم ہندکے بعد یہ ملک کی اہم سیاسی جماعت بن گئی، جس کی قیادت بیشتر اوقاتنہرو گاندھی خانداننے کی۔ 15 ویںلوک سبھا(2009ءتا حال) میں 543 میں سے اس کے 206 اراکین تھے۔ یہ جماعت بھارت کے حکمرانیونائیٹڈ پروگریسیو الائنسکی سب سے اہم رکن ہے۔ یہبھارتکی واحد جماعت ہے جس نے گذشتہ تین انتخابات (1999ء،2004ء،2009ء) میں 10 کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔۔کانگریس کو1975ءمیںبھارتمیںہنگامی حالتکے نفاذ اور1984ءمیں سکھ مخالف فسادات (آپریشن بلیو اسٹار) کے باعث شدید تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا۔کانگریس کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔اس کا پہلا حصہ 1885ء سے1905ءتک محیط رہا۔ اس دور کو اعتدال پسندوں کے دور سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ کانگریس پر ان رہنماؤں کا غلبہ رہا جوحکومتکے وفادار تھے۔ مغربی تعلم سے آراستہ تھے،برطانویجمہوری اداروں کو ہندوستان میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ انگریزوں کے منصفانہ جذبہ میں یقین رکھتے تھے اور ان کے وجود کو ہندوستان کے باعث رحمت تصور کرتے تھے۔اعتدال پسندوں کی پالیسی سے کانگریس کے رہنماؤں کا ایک طبقہ اختلاف رکھتا تھا۔ وہ اعتدال پسندوں کی اصلاحات اور مراعات کی پالیسی کو خیرات کی پالیسی سے تعبیر کرتا تھا اور ہندوستان کو ہندوستانیوں کی تقدیر سمجھتا تھا۔ وہ اس پر ہندوستانیوں کا تصور کرتا تھا۔ یہ دور 1905ء سے 1919ء تک جاری رہا اور انتہا پسندوں کے دور سے موسوم ہوا۔ اس کے رہنماؤں میںلالہ لاجپت رائے،بال گنگا دھر تلکاور بپن چندر پال بڑی اہمیت کے حامل تھے۔1907ءمیں اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے مابین اختلافات کے سبب دو حصوں میں منقسم ہو گئی اور اعتدال پسندوں کو کانگریس کی رکنیت سے خارج کر دیا۔ بعد ازاں 1916 میں جبمسلم لیگاور کانگریس نے میثاقلکھنؤپر دستخط کیے تو انتہا پسندوں کو دوبارہ کانگریس میں داخل کر لیا گیا۔ 1918 میں مانٹیگو جیمسفورڈ اصلاحات پر اختلافات کے سبب اعتدال پسند کانگریس سے منحرف ہو گئے اور انھوں نے اپنے آپ کو لبرل پارٹی کے نام سے منظم کر لیا۔کانگریس کا تیسرا دور 1919ء سے 1947ء تک محیط رہا ہے۔ اسےمہاتما گاندھیکے دور سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس دور میں گاندھی نےافریقاسے ہندوستان واپس آ کر 1917ء میں چمپارن میں ستیہ گرہ کیا۔احمد آبادکے مل مزدوروں کی تحریک چلائی۔ 1919ء رولٹ بل کی مخالفت میں ستیہ گرہ کیا۔ 1920ء میں خلافت عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ 1930ء میں ڈانڈی مارچ کر کے نمک کا قانون توڑا۔ 1932ء میں تحریک سول نافرمانی کا آغاز کیا۔ 1940ء میں جنگ کے خلاف انفرادی ستیہ گرہ کیا ��ور 1942 میںابو الکلام آزادکی صدارت میں ""ہندوستان چھوڑ دو"" تحریک کی قرارداد پیش کی۔ اس کے نتیجے میں کانگریس کے تمام رہنماؤں کو گرفتا ر کر کے گاندھی جی کو آغا خان پونا میں نظر بند کر دیا گیا اور دوسرے رہنماؤں کو احمد نگر کے تاریخی قلعہ میں قید کر دیا گیا۔23 مارچ 1940ء کو جبمسلم لیگنےلاہورمیں اجلاس میںدو قومی نظریہکی بنیاد پر لاہور قرارداد کے تحت مسلمانوں کے لیے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو کانگریس نے شدت سے اس کی مخالفت کی لیکن برطانوی حکومت نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا اور اس کی پالیسی سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ ہر قدم پر اس کی مدد بھی کی اور بالآخر ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ذریعہ تین جون پلان کے تحت 14اگست1947ء کوپاکستانکا قیام عمل میں آ گیا اور 15 اگست کو ہندوستان آزاد ہو گیا۔ حصولِ آزادی کے بعد کانگریس تین برس تک مرکز اور کئی برسوں تک ریاستوں میں برسرِ اقتدار رہی۔ تاہم کانگریس کو 1977ء میں مسنر اندرا گاندھی کے الیکشن میںناکامیکے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور جنتا پارٹی نے مرار جی ڈیسائی کے زیر قیادت اقتدار کی ذمہ داری سنبھالی تاہم 1980ء میں مسنر گاندھی دوبارہ برسرِ اقتدار آ گئیں اور انھوں نے کانگریس کو کانگریس، آئی، کے نام سے موسوم کیا۔ مسنر گاندھی اس کی صدر منتخب ہوئیں۔اکتوبر1984ء میں ان کی ہتھیا کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی کانگریس کے صدر اوروزیر اعظممنتخب ہوئے۔ 1989ء میں کانگریس پھر اقتدار سے محروم ہو گئی۔ تاہم 1991میں پھر برسرِ اقتدار آ گئی اور 1995ء تک صدر کانگریس نرسمہاراؤ کی وزارتِ عظمیٰ میں اقتدار پر قابض رہی۔ اس کے بعد سے 2001ء تک یہ اقتدار سے محروم ہے اور اس کی باگ ڈورراجیو گاندھیکیبیویاور مسنراندرا گاندھیکی بہوسونیا گاندھیکے ہاتھوں میں ہے۔"
+224,1916ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1916%D8%A1,<<< پہلی دہائی <<<دوسری دہائی>>> تیسری دہائی>>>
+226,انڈین نیشنل کانگریس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D9%84_%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7_%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B3,"انڈین نیشنل کانگریس(جسےکانگریس پارٹیاورآئی این سیبھی کہا جاتا ہے)بھارتکی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ جماعت کا قیامدسمبر1885ءمیں عمل میں آیا جبایلن اوکٹیوین ہیوم،دادابھائی نوروجی،ڈنشا واچا،ومیش چندر بونرجی،سریندرناتھ بینرجی،مونموہن گھوشاورولیم ویڈربرننے اس کی بنیاد رکھی۔ اپنے قیام کے بعد یہ ہندوستان میںبرطانوی راجکے خلاف جدوجہد کرنے والی ایک اہم جماعت بن گئی اورتحریک آزادی ہندکے دوران اس کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد اراکین تھے۔پاکستانکے بانیمحمد علی جناحبھیمسلم لیگمیں شمولیت سے قبل اس جماعت میں شامل رہے ہیں جبکہ ہندوستان کی تاریخ کی کئی عظیم شخصیات بھی اس جماعت سے وابستہ رہی ہیں جن میںموہن داس گاندھی،جواہر لعل نہرو،ولبھ بھائی پٹیل،راجندرہ پرساد،خان عبدالغفار خاناورابو الکلام آزادزیادہ معروف ہیں۔ ان کے علاوہسبھاش چندر بوسبھی کانگریس کے سربراہ رہے تھے تاہم انھیںاشتراکی نظریاتکی وجہ سے جماعت سے نکال دیا گیا۔بعد آزاد تقسیم کے معروف کانگریسی رہنماؤں میںاندرا گاندھیاورراجیو گاندھیمعروف ہیں۔1947ءمیںتقسیم ہندکے بعد یہ ملک کی اہم سیاسی جماعت بن گئی، جس کی قیادت بیشتر اوقاتنہرو گاندھی خانداننے کی۔ 15 ویںلوک سبھا(2009ءتا حال) میں 543 میں سے اس کے 206 اراکین تھے۔ یہ جماعت بھارت کے حکمرانیونائیٹڈ پروگریسیو الائنسکی سب سے اہم رکن ہے۔ یہبھارتکی واحد جماعت ہے جس نے گذشتہ تین انتخابات (1999ء،2004ء،2009ء) میں 10 کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔۔کانگریس کو1975ءمیںبھارتمیںہنگامی حالتکے نفاذ اور1984ءمیں سکھ مخالف فسادات (آپریشن بلیو اسٹار) کے باعث شدید تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا۔کانگریس کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔اس کا پہلا حصہ 1885ء سے1905ءتک محیط رہا۔ اس دور کو اعتدال پسندوں کے دور سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ کانگریس پر ان رہنماؤں کا غلبہ رہا جوحکومتکے وفادار تھے۔ مغربی تعلم سے آراستہ تھے،برطانویجمہوری اداروں کو ہندوستان میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ انگریزوں کے منصفانہ جذبہ میں یقین رکھتے تھے اور ان کے وجود کو ہندوستان کے باعث رحمت تصور کرتے تھے۔اعتدال پسندوں کی پالیسی سے کانگریس کے رہنماؤں کا ایک طبقہ اختلاف رکھتا تھا۔ وہ اعتدال پسندوں کی اصلاحات اور مراعات کی پالیسی کو خیرات کی پالیسی سے تعبیر کرتا تھا اور ہندوستان کو ہندوستانیوں کی تقدیر سمجھتا تھا۔ وہ اس پر ہندوستانیوں کا تصور کرتا تھا۔ یہ دور 1905ء سے 1919ء تک جاری رہا اور انتہا پسندوں کے دور سے موسوم ہوا۔ اس کے رہنماؤں میںلالہ لاجپت رائے،بال گنگا دھر تلکاور بپن چندر پال بڑی اہمیت کے حامل تھے۔1907ءمیں اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے مابین اختلافات کے سبب دو حصوں میں منقسم ہو گئی اور اعتدال پسندوں کو کانگریس کی رکنیت سے خارج کر دیا۔ بعد ازاں 1916 میں جبمسلم لیگاور کانگریس نے میثاقلکھنؤپر دستخط کیے تو انتہا پسندوں کو دوبارہ کانگریس میں داخل کر لیا گیا۔ 1918 میں مانٹیگو جیمسفورڈ اصلاحات پر اختلافات کے سبب اعتدال پسند کانگریس سے منحرف ہو گئے اور انھوں نے اپنے آپ کو لبرل پارٹی کے نام سے منظم کر لیا۔کانگریس کا تیسرا دور 1919ء سے 1947ء تک محیط رہا ہے۔ اسےمہاتما گاندھیکے دور سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس دور میں گاندھی نےافریقاسے ہندوستان واپس آ کر 1917ء میں چمپارن میں ستیہ گرہ کیا۔احمد آبادکے مل مزدوروں کی تحریک چلائی۔ 1919ء رولٹ بل کی مخالفت میں ستیہ گرہ کیا۔ 1920ء میں خلافت عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ 1930ء میں ڈانڈی مارچ کر کے نمک کا قانون توڑا۔ 1932ء میں تحریک سول نافرمانی کا آغاز کیا۔ 1940ء میں جنگ کے خلاف انفرادی ستیہ گرہ کیا اور 1942 میںابو الکلام آزادکی صدارت میں ""ہندوستان چھوڑ دو"" تحریک کی قرارداد پیش کی۔ اس کے نتیجے میں کانگریس کے تمام رہنماؤں کو گرفتا ر کر کے گاندھی جی کو آغا خان پونا میں نظر بند کر دیا گیا اور دوسرے رہنماؤں کو احمد نگر کے تاریخی قلعہ میں قید کر دیا گیا۔23 مارچ 1940ء کو جبمسلم لیگنےلاہورمیں اجلاس میںدو قومی نظریہکی بنیاد پر لاہور قرارداد کے تحت مسلمانوں کے لیے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو کانگریس نے شدت سے اس کی مخالفت کی لیکن برطانوی حکومت نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا اور اس کی پالیسی سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ ہر قدم پر اس کی مدد بھی کی اور بالآخر ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ذریعہ تین جون پلان کے تحت 14اگست1947ء کوپاکستانکا قیام عمل میں آ گیا اور 15 اگست کو ہندوستان آزاد ہو گیا۔ حصولِ آزادی کے بعد کانگریس تین برس تک مرکز اور کئی برسوں تک ریاستوں میں برسرِ اقتدار رہی۔ تاہم کانگریس کو 1977ء میں مسنر اندرا گاندھی کے الیکشن میںناکامیکے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور جنتا پارٹی نے مرار جی ڈیسائی کے زیر قیادت اقتدار کی ذمہ داری سنبھالی تاہم 1980ء میں مسنر گاندھی دوبارہ برسرِ اقتدار آ گئیں اور انھوں نے کانگریس کو کانگریس، آئی، ک�� نام سے موسوم کیا۔ مسنر گاندھی اس کی صدر منتخب ہوئیں۔اکتوبر1984ء میں ان کی ہتھیا کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی کانگریس کے صدر اوروزیر اعظممنتخب ہوئے۔ 1989ء میں کانگریس پھر اقتدار سے محروم ہو گئی۔ تاہم 1991میں پھر برسرِ اقتدار آ گئی اور 1995ء تک صدر کانگریس نرسمہاراؤ کی وزارتِ عظمیٰ میں اقتدار پر قابض رہی۔ اس کے بعد سے 2001ء تک یہ اقتدار سے محروم ہے اور اس کی باگ ڈورراجیو گاندھیکیبیویاور مسنراندرا گاندھیکی بہوسونیا گاندھیکے ہاتھوں میں ہے۔"
+227,میثاق لکھنؤ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D8%AB%D8%A7%D9%82_%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A4,اکتوبر1916ءمیںآل انڈیا مسلم لیگاورآل انڈیا کانگریسکے درمیان ہونے والا سیاسی معاہدہ تھا۔غیر منقسم ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں معاہدہ لکھنؤ کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ یہ معاہدہآل انڈیا مسلم لیگاورآل انڈیا کانگریسکے درمیان پہلا اور آخری سیاسیسمجھوتہتھا ۔انگریزکے دور اقتدار میں اگر ہندوستانیوں کی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستانیوں کی ایک خاص تعداد اس مفروضے پر یقین رکھتے تھے اگرہندواورمسلمانمتحد ہو جائیں تو برطانوی سامراجیت کا خاتمہ اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنا ممکن ہے۔ مختلف رہنماؤں نے مختلف اوقات میں اس نظریے کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں بھی کی ہیں۔ ایک زمانے تک خودآل انڈیا مسلم لیگاورآل انڈیا کانگریسمیں ایسے رہنما موجود تھے جو اس خیال کے بہت بڑے مدعی تھے۔ مگر بیسویں صدی کے اوائل میںہندوستانکے اندر اورہندوستانسے باہر چند ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی بنا پرہندوستانکی سیاست کی کایہ پلٹ گئی اورہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت پیدا ہونے کے لیے حالات سازگار ہو ئے۔ مسلمانوں میں تیزی سے انگریز سرکار کے خلاف نفرت کا جذبہ پروان چڑھنے لگا۔ جس کی وجہ انگریز سرکار کی کچھ پالیسیاں تھیں۔تریپولیمیںاٹلیکی کارروائی کی حمایت،کانپورمیں بڑے پیمانے پر قتل عام اوربلقانکی جنگوں میں انگریز کی اسلام دشمن سرگرمیاں اور پالیسوں نے مخالفت کو مزید ہوا دی۔ان کے علاوہ چند امور ایسے تھے جن پرآل انڈیا مسلم لیگاورآل انڈیا کانگریسکے درمیان مکمل اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔ ان میں سیکرٹری آف سٹیٹ آفتاب احمد رودینی بلوچ کی کونسل کو ختم کرانا، ایمپرئیل لیجسلٹیو کونسل اور بڑے بڑے صوبوں میں صوبائی لیجسلٹیو کونسلز کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ حق انتخاب کا دائرہ وسیع کرانا شامل ہیں۔اسی سیاسی فضا میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی جس نے ہندو۔ مسلم اتحاد کے نظریے کو مزید تقویت پہنچائی۔ اب دونوں قومیں(ہندو اور مسلمان) اپنے مشترکہ دشمن انگریز کے خلاف بر سر پیکار ہوگئیں اور کوئی مؤثر اور مربوط لائحہ عمل اختیار کرنے کے لیے پر تول رہی تھیں۔انہی حالات و واقعات میں بالآخرآل انڈیا مسلم لیگاورآل انڈیا کانگریسکے درمیان فاصلے گھٹ گئے۔ نتیجے کے طور پر1915ءمیں دونوں جماعتوں کے اجلاسممبئیمیں ایک ہی مقام پر منعقد ہوئے جہاں دونوں پارٹیوں کی طرف سے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں تاکہ دونوں جماعتوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور مفاہمت کے کسی فارمولے پر باالمشافہ بات چیت ہو سکے ۔نومبر1916ءمیں ان کمیٹیوں کا ایک مشترکہ اجلاسلکھنؤمیں منعقد ہوا اس اجلاس میں کافی غور وخوص کے بعد ایک معاہدہ طے پایا ۔دسمبر1916ءمیںآل انڈیا کانگریساورآل انڈیا مسلم لیگدونوں نے اپنے اجلاس منعقدہلکھنؤمیں اس معاہدے کی توثیق کر دی ۔غیر منقسمہندوستانکی تاریخ میں معاہدہ لکھنؤ کو ایک اہم سیاسی دستاویز قرار د یا جا سکتا ہے۔ اس کے تحتآل انڈیا کانگریساورآل انڈیا مسلم لیگکے رہنماؤں نے نہ صرف ایک دوسرے کے مؤقف کے جاننے اور برداشت کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ انھوں نے اپنے رویوں میں بھی خاصی لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔اس معاہدے کی رو سے جن نکات پر اتفاق رائے کیا گیا ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔1۔کانگریسنےمسلم لیگکا مطالبہ برائے جداگانہ انتخاب تسلیم کر لیا۔2۔ مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کے لیے ایک تہائی نشستیں مخصوص کرنے سے بھیکانگریسنے اتفاق کر لیا۔3۔ ہندوؤں کوپنجاباوربنگالمیں توازن بخشا گیا۔ ان صوبوں میں ہندو نشستوں میں اضافے کے ساتھمسلم لیگنے اتفاق کر لیا ۔4۔ جن جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت نہیں تھی وہاں مسلم نشستوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ یعنی جن ریاستوں میں مسلمان اقلیت کے طور پر تھے وہاں مسلمانوں کی آبادی کی مناسبت سے نششتوں کا تعین کیا گیا۔5۔ اس بات سے بھی اتفاق کیا گیا کہ کوئی ایسا بل یا قرارداد جس کے ذریعے اگر ایک قومیت متاثر ہو سکتی ہے اور اسی قومیت کے تین چوتھائی اراکین اس بل یا قرارداد کی مخالفت کرے تو ایسا کوئی مسودہ قانون کارروائی کے لیے کسی بھی اسمبلی میں پیش نہیں کیا جائے گا۔معاہدہ لکھنؤ انگریز کی پالیسی “Divide and Rule”کے خلاف ایک مؤثر اور بہترین حکمتِ عملی تھی ہم اسے (Be united and get ruined the British Imperialism in India)کا نام دے سکتے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کو اپنانے اور اسے عملی جامہ پہنانے میں جن زعماء نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ان میں معمارِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا نام سرفہرست ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کو ان کی اپنی خدمات کے اعتراف کے طور پر Ambassador of Hindu Muslim unityکے خطابات سے نوازا گیا۔ علاوہ ازیں اس یادگار واقعے کی یاد میں آپ ہی کے نام پر بمبئی میں ’’جناح ہال‘‘ بھی تعمیر کیا گیا۔ یہقائداعظمکی سیاسی زندگی کا پہلا دور تھا اس پہلے دور میں آپ ہندو، مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ یہ معاہدہ آپ کی طرف سے ہندو مسلم اتحاد کا پہلا تجربہ تھا۔ لیکن بعد کے حالات و واقعات اور خاص کر ہندوؤں کے رویے نے آپ کو اس نظریے سے منحرف کر دیا۔معاہدہ لکھنؤ پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اگر اس معاہدے کی شرائط پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ معاہدہقائداعظماور ان کے ساتھیوں کی ایک بہت بڑی سیاسی جیت تھی۔ کیونکہ اس کی رو سے انھوں نے نہ صرف مسلمانوں کو ایک علاحدہ اور کامل قوم منوایا بلکہآل انڈیا مسلم لیگکو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بھی تسلیم کروایا۔ انھوں نے مسلمانوں کے لیے اس معاہدے کے ذریعے ویٹو کا حق حاصل کیا وہ بلاشبہ ان کے بہترین مفاد میں تھا کیونکہ اس کے ذریعے وہ ہر ایسے بل کو ویٹو کر سکتے تھے جو ان کے مذہب، ثقافت یا روایات پر اثر انداز ہو سکتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے کی رو سے ہندوؤں کی کوشش یہ تھی کہ کسی طریقے سے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان نفاق کے بیج بو دیے جائیں۔ ان کے خیال میں اس کا جو بھی نتیجہ برآمد ہوگا وہ ہندوؤں کے مفاد میں ہوگا لیکن جبپہلی جنگ عظیمکے بعد حالات تبدیل ہو گئے،تحریک ہجرتاورتحریک خلافتکے ذریعے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان میں براہ راست تصادم کا آغاز ہوا تو اس صورتِ حال میں ہندوؤں کے لیے معاہدہ لکھنؤ کی اہمیت ختم ہو گئی اس لیے کانگریسی قیادت نے اس معاہدے کو پس پشت ڈال دیا۔
+228,انڈین ہوم رول لیگ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D9%86_%DB%81%D9%88%D9%85_%D8%B1%D9%88%D9%84_%D9%84%DB%8C%DA%AF,انڈین ہوم رول لیگایکبر صغ��رکی قومی سیاسی تنظیم تھی جسےاینی بیسنٹنےمحمد علی جناحاوربال گنگا دھر تلکساتھ مل کر1916ءمیں قائم کیا۔ اس تنظیم کا مقصدہندوستانکو ایک بااختیار خطہ بنانا تھا جیسا کہآسٹریلیا،کینیڈا،نیوزی لینڈجیسے برطانوی علاقے تھے۔
+229,جناح کے چودہ نکات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%AD_%DA%A9%DB%92_%DA%86%D9%88%D8%AF%DB%81_%D9%86%DA%A9%D8%A7%D8%AA,"ہندو مسلم مسئلے کے حل کے لیےمحمد علی جناحنے جنہیں موجودہپاکستانمیں قائد اعظم کے لقب سے جانا جاتا ہے،28 مارچ1929ءکودہلیمیںآل انڈیا مسلم لیگکے اجلاس میںنہرو رپورٹکے جواب چودہ نکات میں پیش کیے جوتحریک پاکستانمیں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیںمحمد علی جناح کے چودہ نکات درج ذیل ہیں:محمد علی جناح کے نقاط کو گرچہ کانگریس نے تسلیم نہیں کیا لیکن مبصرین کی رائے میں انھوں نے مسلمانانِ ہند کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے مفادات و حقوق کو مدلل انداز میں پیش کر کے برطانوی حکومت کو یہ بات باور کروانے کی کوشش کی کہ کانگریس محض ہندوؤں اور ان کی اکثریت ہی کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتی ہے جبکہ ہندوستان کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو ان کے حقوق و مفادات کے حوالے سے کسی خاطر میں نہیں لاتی۔ یہ چودہ بنیادی نکات تھے جو صحیح معنوں میں ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کا موجب بن سکتے تھے۔ اور ان نقاط کا تمام طبقہ ہائے فکر نے مناسب طریقے سے خیر مقدم کیا۔
+جب یہ چودہ نکات منظرعام پر آئے تو جناح کوگول میز کانفرنسمیں مدعو کیا گیا۔[حوالہ درکار]"
+230,ہندوستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"ہندوستان(فارسی: هندوستانتلفظ(معاونت·معلومات)) جس کا تلفظ (ہندُوستان یا ہندوستاں) سے ہوتا ہے، اس کی مختصر شکلہند(هند) ہے،[1]جو ہندوستان کے لیےفارسیمیں بھی مستعمل ہے، بڑے پیمانے پربرصغیر ہند؛ جسے بعد میں اس کے باشندوں نےہندی–اردو (ہندوستانی)میں استعمال کیا۔[2][3][4][5]برصغیر کے دیگر ناموں میںجمبُو دویپ،بھارتاور انڈیا شامل ہیں۔تقسیم ہندکے بعد؛ یہجمہوریہ ہندکے تاریخی نام کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔[6][7][8]ہندوستان کا ایک ثانوی معنی شمالی ہندوستان میںہند گنگا میدانکے لیے جغرافیائی اصطلاح کے طور پر ہے۔[9]ہندستانفارسیلفظہندوسے ماخوذ ہے، جو سنسکرت کےسندھوکے مشابہ ہے۔[10]ایسکو پرپولاکے مطابقپروٹو-ایرانیآواز کیسسےہمیں تبدیلی 850-600 قبل مسیح کے درمیان واقع ہوئی۔[11]لہذا،رگ ویدیسپت سندھو(سات دریاؤں کی زمین[پنجاب])اوستامیںہپت ہندوبن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ""پندرھواں ڈومین"" ہے، جسےاہورا مزدانے بنایا ہے، بظاہر 'غیر معمولی گرمی' کی سرزمین۔[12]515 قبل مسیح میںدارا اولنےوادی سندھکو شامل کیا جس میںسندھو(آج کل کاسندھ) بھی شامل تھا، جسے فارسی میںہندوکہا جاتا ہے۔[13]خشیارشا اولکے زمانہ میں ""ہندو"" کی اصطلاح سندھ کے مشرق کی زمینوں کو بھی شامل ہوتی تھی۔[10]درمیانی فارسیمیں غالباً پہلی صدی عیسوی سے-ستان(جائے، جگہ) کا اضافہ کیا گیا، جو کسی ملک یا خطے کی نشان دہی کرتا ہے، موجودہ لفظہندوستانکی تشکیل دیتا ہے۔[14]اسی طرحت262 عیسوی میںشاہپور اولکے نقشِ رستم نوشتہ میں سندھ کوہندوستانکہا گیا ہے۔[15][16]مورخبرتندر ناتھ مکھرجیبیان کرتے ہیں کہ زیریں سندھ طاس سے، ""ہندوستان"" کی اصطلاح آہستہ آہستہ ""کم و بیش پورےبرصغیرمیں پھیل گئی""۔ گریکو رومن نام ""انڈیا"" اور چینی نام ""شین ٹو"" نے بھی اسی طرح کے ارتقا کی پیروی کی۔[15][17]عربی اصطلاحہند؛ جو فارسیہندوسے ماخوذ ہے، عربوں نےمکرانکے ساحل سے انڈونیشیا کے جزیرہ نما تک ہندوستانی خطے کے لیے استعمال کیا تھا۔[18]لیکن آخر کار اس کی شناخت بھی برصغیر پاک و ہند سے ہوئی۔""ہندوستان"" اکثر جدید دورجمہوریہ ہندکے لیے استوتا ہے۔[19][7][8]اصطلاح میں شامل نعرے عام طور پر کھیلوں کے پروگراموں اور دیگر عوامی پروگراموں میں سنائے جاتے ہیں، جن میں ٹیمیں یا ادارے شامل ہوتے ہیں، جو ہندوستان کی جدید قومی ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مارکیٹنگ میں ہندوستان نام؛ عام طور پر اشتہاری مہموں میں قومی اصل کے اشارے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور یہ بہت سے کمپنی کے ناموں میں بھی مستعمل ہے۔پاکستانکے بانیمحمد علی جناحاور ان کی جماعتمسلم لیگنے ہندو اکثریتی آبادی کے حوالے سے جدید دور کی جمہوریہ ہند کو ""ہندوستان"" کہنے پر اصرار کیا۔[20]ہندوستان میں ہندوستانی بولنے والوں کے درمیان ایک استعمال میں مذہبی نسبت سے قطع نظر؛ 'ہندوستانی' اصطلاح سے مراد انڈین (ہندوستان کا باشندہ) ہے۔ غیر ہندستانی بولنے والوں مثلاً بنگالی بولنے والوں میں ""ہندوستانی"" کا استعمال؛ ان لوگوں کی وضاحت کے لیے کیا جاتا ہے، جو اوپری گنگا سے ہیں، مذہبی وابستگی سے قطع نظر؛ بلکہ ایک جغرافیائی اصطلاح کے طور پر۔ہندوستانیکو بعض اوقات جنوبی ایشیا میں لاگو ہونے والینسلیاصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے (مثال کے طور پر،جنوبی ایشیامیں جڑیں رکھنے والا ماریشیا یا سورینام کا آدمی اپنی نسل کو یہ کہہ کر بیان کر سکتا ہے کہ وہ ""ہندوستانی"" ہے)۔ مثال کے طور پر 'ہندستانینایکولندیزیلفظ ہے، جونیدرلینڈزاورسریناممیں جنوب ایشیائی نژاد لوگوں کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ہندوستانی زبانہندوستان کی زبان ہے اور برصغیر پاک و ہند کیزبانِ رابطۂ عامہہے۔[21]ہندوستانیمغربی اتر پردیش/مغربی یوپیاوردہلیکے علاقوں کیپرانی ہندیبولی سے ماخوذ ہے۔ اس کی ادبی معیاری شکلیں—-سنڌي جديد زبانجدید معیاری ہندیاورجدید معیاری اردو—مختلف رسم الخط استعمال کرتی ہیں۔ خود ہندی رجسٹر نے اپنا نام مختصر شکلہند(انڈیا) سے اخذ کیا ہے۔[22]–بابر نامہ، اے ایس بیوریج، انگریزی ترجمہ، جلد.1، سیکشن. iii: 'ہندوستان'[23]ابتدائی فارسی علما کو ہندوستان کی حد تک محدود علم تھا۔ اسلام کی آمد اوراسلامی فتوحاتکے بعد؛ہندوستانکے معنی نے اس کی عربی شکلہندکے ساتھ تعامل کیا، جو فارسی سے بھی ماخوذ تھا اور تقریباً اس کا مترادف بن گیا۔ عربوں نے، سمندری تجارت میں مصروف، مغربی بلوچستان میںتیسسے لے کر انڈونیشیا کے جزیرہ نما تک کی تمام زمینوں کوہندکے تصور میں شامل کیا، خاص طور پر جب اس کی وسیع شکل میں ""الہند"" کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ہندوستانلفظ نے اس وسیع معنی کو حاصل نہیں کیا۔ آندرے وِنک کے مطابق، اس نے وہ امتیاز بھی حاصل نہیں کیا، جو مٹ گیا،سندھ(تقریباً جو اب مغربی پاکستان ہے) اورہند(دریائے سندھ کے مشرق کی سرزمینوں) کے درمیان؛[4][18][24]دوسرے ذرائع بتاتے ہیں کہسندھاورہندکو ابتدائی زمانے سے مترادف استعمال کیا جاتا تھا۔[25]اور یہ کہہندوستان میں اسلامی حکومت کی آمدکے بعد؛ ""پورے برصغیر کے لیے ہند اور سندھ مترادفات کے طور پر استعمال کیے گئے۔""[26]10ویں صدی کے متنحدود العالمنے ہندوستان کو تقریباًبر صغیر پاک و ہندکے طور پر بیان کیا ہے، جس کی مغربی حد دریائے سندھ سے بنتی ہے، جنوبی حد بحیرہ عظیم تک جاتی ہے اور مشرقی حدکاماروپا، موجودہ آسام میں ہے۔[17]اگلی دس صدیوں تک،ہنداورہندوستاندونوں برص��یر میں بالکل اسی معنی کے ساتھ استعمال ہوتے رہے، اس کے ساتھ ان کی صفتہندَوی،ہندوستانیاورہندیاستعمال ہوتی رہی۔[27][28][29]درحقیقت 1220 عیسوی میں مؤرخحسن نظامی نیشاپورینےہندکو ""پشاورسےبحر ہندکے ساحلوں تک اور دوسری سمت میںسیستانسےچینکی پہاڑیوں تک بتایا۔""[30]11 ویں صدی میں شروع ہونے والی ترک-فارسی فتوحات کے ساتھہندوستانکا ایک تنگ معنی بھی شکل اختیار کر گیا۔ فاتحین برصغیر کے باقی حصوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے زیر تسلط زمینوں کوہندوستانکہنے کے ذمہ دار تھے۔[31]11ویں صدی کے اوائل میںپنجابمیںسلطنت غزنویہکی ایکسیٹیلائٹ ریاستجس کا دار الحکومتلاہورتھا، کو ""ہندوستان"" کہا جاتا تھا۔[32]دہلی سلطنتکے قیام کے بعد، شمالی ہندوستان، خاص طور پر گنگا کے میدانی علاقوں اور پنجاب کو ""ہندوستان"" کہا جانے لگا۔[31][33][34][35]اسکالر برتیندر ناتھ مکھرجی کا کہنا ہے کہہندوستانکا یہ تنگ معنی وسیع معنی کے ساتھ ساتھ موجود تھا اور بعض مصنفین نے ان دونوں کو بیک وقت استعمال کیا ہے۔[36]مغلیہ سلطنت(1526ء–1857ء) نے اپنی سرزمین کو 'ہندوستان' کہا۔ 'مغلیہ' اصطلاح خود کبھی بھی زمین کے لیے استعمال نہیں ہوئی۔ جیسے جیسے سلطنت پھیلی، اسی طرح 'ہندوستان' بھی پھیل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ 'ہندوستان' کے معنی پورےبرصغیر ہندکے طور پربابر نامہاورآئین اکبریمیں بھی پائے جاتے ہیں۔[37]آخریگورکھائیبادشاہپرتھوی ناراین شاہنے خودسلطنت نیپالکااصل ہندوستانکے طور پر اعلان کیا؛ کیوں کہ شمالی ہندوستان پر اسلامیمغل حکمرانوںکی حکومت تھی۔ خود اعلان ان کے دور حکومت میں ہندو سماجی ضابطہدھرم شاسترکو نافذ کرنے اور اپنے ملک کوہندووںکے لیے قابل رہائش قرار دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس نے شمالی ہندوستان کومغلان(مغلوںکا ملک) بھی کہا اور اس خطہ کو مسلمان غیر ملکیوں کی دراندازی قرار دیا۔[38]یہ دوہری معنی یورپیوں کی آمد کے ساتھ برقرار رہے۔جیمز رینلنے 1792 میں ’’میموئیر آف اے میپ آف ہندستان‘‘ کے عنوان سے ایکاطلستیار کیا، جو درحقیقت برصغیر پاک و ہند کا نقشہ تھا۔ اس طرح رینل نے تین تصورات،انڈیا،ہندوستاناورمغل سلطنتکو آپس میں ملا دیا۔[39][40]جے برنولی، جن کے لیے ہندوستان کا مطلب مغلیہ سلطنت تھا، نے اپنے فرانسیسی ترجمہ کو La Carte générale de l'Inde (ہندوستان کا عمومی نقشہ) کہا۔[41]برطانوی حساب کا یہ 'ہندوستان' انگریزوں کے زیر اقتدار علاقوں (جسے کبھی کبھی 'انڈیا' بھی کہا جاتا ہے) اور مقامی حکمرانوں کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔[42]تاہم برطانوی حکام اور مصنفین کا خیال تھا کہ ہندوستانی 'ہندوستان' کا استعمال صرف شمالی ہندوستان کے لیے کرتے ہیں۔[43][35]1886ء میں شائع ہونے والی ایکاینگلو-انڈین ڈکشنریمیں کہا گیا ہے: جب کہ ہندوستان کا مطلب انڈیا ہے، ""مقامی زبان"" میں یہبہاراوربنگالکو چھوڑ کردریائے نرمداکے شمال میں واقع علاقے کی نمائندگی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔[34]تحریک آزادی کے دوران، ہندوستانیوں نے اپنی سرزمین کو تینوں ناموں سے پکارا: 'انڈیا'، 'ہندوستان' اور 'بھارت'۔[44]محمد اقبالکی نظمترانۂ ہندیہندوستانی آزادیکارکن۔محمد اقبالکی نظمترانۂ ہندیتحریک آزادی ہندکے کارکنوں میں ایک مقبول حب الوطنی کا ترانہ تھا۔[45]سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا(روئے زمیں پر سب سے بہتر ہمارا ہندوستان ہے۔)آل انڈیا مسلم لیگکی 1940 کیقرارداد لاہور(جسے قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے) نےبرطانوی ہندکے شمالِ مغرب اور شمالِ مشرق میں مسلم اکثریتی علاقوں کے لیے خود مختاری کا مطالبہ کیا، جسے مقبولیت میں 'پاکستان' کہا جانے لگا۔ بول چال اور بقیہ ہندوستان کو 'ہندوستان' کہا جانے لگا۔[46]برطانوی حکام نے بھی ان دونوں اصطلاحات کو منتخب کر لیا اور انھیں سرکاری طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔[19]تاہم 'ہندوستان' کےہندووںکی سرزمین کے مضمر معنی کی وجہ سے یہ نام ہندوستانی لیڈروں کی منظوری پر پورا نہیں اترا۔ ان کا اصرار تھا کہ نئےڈومینین آف انڈیاکو 'ہندوستان' نہیں بلکہ 'انڈیا' کہا جانا چاہیے۔[47]غالباً اسی وجہ سے 'ہندوستان' نام کوہندوستان کی دستور ساز اسمبلیکی سرکاری منظوری نہیں ملی، جب کہ 'بھارت' کو سرکاری نام کے طور پر اپنایا گیا۔[48]تاہم یہ تسلیم کیا گیا کہ 'ہندوستان' غیر سرکاری طور پر استعمال ہوتا رہے گا۔[49]بھارتی مسلح افواجنام کا سلامی ورژن، ""جے ہند"" کو جنگ کی پکار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔[1]پروفیسر اشتیاق احمد ظلی۔ پروفیسر عبد العظیم اصلاحی۔ پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی۔ پروفیسر الطاف احمد اعظمی۔ ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی۔ مختار احمد اصلاحی۔ ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی۔23°59′40″N67°25′51″E / 23.99444°N 67.43083°E /23.99444; 67.43083"
+231,1920ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1920%D8%A1,1915<<< پہلی دہائی <<<دوسری دہائی>>> تیسری دہائی>>>
+232,انڈین نیشنل کانگریس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D9%84_%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7_%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B3,"انڈین نیشنل کانگریس(جسےکانگریس پارٹیاورآئی این سیبھی کہا جاتا ہے)بھارتکی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ جماعت کا قیامدسمبر1885ءمیں عمل میں آیا جبایلن اوکٹیوین ہیوم،دادابھائی نوروجی،ڈنشا واچا،ومیش چندر بونرجی،سریندرناتھ بینرجی،مونموہن گھوشاورولیم ویڈربرننے اس کی بنیاد رکھی۔ اپنے قیام کے بعد یہ ہندوستان میںبرطانوی راجکے خلاف جدوجہد کرنے والی ایک اہم جماعت بن گئی اورتحریک آزادی ہندکے دوران اس کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد اراکین تھے۔پاکستانکے بانیمحمد علی جناحبھیمسلم لیگمیں شمولیت سے قبل اس جماعت میں شامل رہے ہیں جبکہ ہندوستان کی تاریخ کی کئی عظیم شخصیات بھی اس جماعت سے وابستہ رہی ہیں جن میںموہن داس گاندھی،جواہر لعل نہرو،ولبھ بھائی پٹیل،راجندرہ پرساد،خان عبدالغفار خاناورابو الکلام آزادزیادہ معروف ہیں۔ ان کے علاوہسبھاش چندر بوسبھی کانگریس کے سربراہ رہے تھے تاہم انھیںاشتراکی نظریاتکی وجہ سے جماعت سے نکال دیا گیا۔بعد آزاد تقسیم کے معروف کانگریسی رہنماؤں میںاندرا گاندھیاورراجیو گاندھیمعروف ہیں۔1947ءمیںتقسیم ہندکے بعد یہ ملک کی اہم سیاسی جماعت بن گئی، جس کی قیادت بیشتر اوقاتنہرو گاندھی خانداننے کی۔ 15 ویںلوک سبھا(2009ءتا حال) میں 543 میں سے اس کے 206 اراکین تھے۔ یہ جماعت بھارت کے حکمرانیونائیٹڈ پروگریسیو الائنسکی سب سے اہم رکن ہے۔ یہبھارتکی واحد جماعت ہے جس نے گذشتہ تین انتخابات (1999ء،2004ء،2009ء) میں 10 کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔۔کانگریس کو1975ءمیںبھارتمیںہنگامی حالتکے نفاذ اور1984ءمیں سکھ مخالف فسادات (آپریشن بلیو اسٹار) کے باعث شدید تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا۔کانگریس کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔اس کا پہلا حصہ 1885ء سے1905ءتک محیط رہا۔ اس دور کو اعتدال پسندوں کے دور سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ کانگریس پر ان رہنماؤں کا غلبہ رہا جوحکومتکے وفادار تھے۔ مغربی تعلم سے آراستہ تھے،برطانویجمہوری اداروں کو ہندوستان میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ انگریزوں کے منصفانہ جذبہ میں یقین رکھتے تھے اور ان کے وجود کو ہندوستان کے باعث رحمت تصور کرتے تھے۔اعتدال پسندوں کی پالیسی سے کانگریس کے رہنماؤں کا ایک طبقہ اختلاف رکھتا تھا۔ وہ اعتدال پسندوں کی اصلاحات اور مراعات کی پالیسی کو خیرات کی پالیسی سے تعبیر کرتا تھا اور ہندوستان کو ہندوستانیوں کی تقدیر سمجھتا تھا۔ وہ اس پر ہندوستانیوں کا تصور کرتا تھا۔ یہ دور 1905ء سے 1919ء تک جاری رہا اور انتہا پسندوں کے دور سے موسوم ہوا۔ اس کے رہنماؤں میںلالہ لاجپت رائے،بال گنگا دھر تلکاور بپن چندر پال بڑی اہمیت کے حامل تھے۔1907ءمیں اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے مابین اختلافات کے سبب دو حصوں میں منقسم ہو گئی اور اعتدال پسندوں کو کانگریس کی رکنیت سے خارج کر دیا۔ بعد ازاں 1916 میں جبمسلم لیگاور کانگریس نے میثاقلکھنؤپر دستخط کیے تو انتہا پسندوں کو دوبارہ کانگریس میں داخل کر لیا گیا۔ 1918 میں مانٹیگو جیمسفورڈ اصلاحات پر اختلافات کے سبب اعتدال پسند کانگریس سے منحرف ہو گئے اور انھوں نے اپنے آپ کو لبرل پارٹی کے نام سے منظم کر لیا۔کانگریس کا تیسرا دور 1919ء سے 1947ء تک محیط رہا ہے۔ اسےمہاتما گاندھیکے دور سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس دور میں گاندھی نےافریقاسے ہندوستان واپس آ کر 1917ء میں چمپارن میں ستیہ گرہ کیا۔احمد آبادکے مل مزدوروں کی تحریک چلائی۔ 1919ء رولٹ بل کی مخالفت میں ستیہ گرہ کیا۔ 1920ء میں خلافت عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ 1930ء میں ڈانڈی مارچ کر کے نمک کا قانون توڑا۔ 1932ء میں تحریک سول نافرمانی کا آغاز کیا۔ 1940ء میں جنگ کے خلاف انفرادی ستیہ گرہ کیا اور 1942 میںابو الکلام آزادکی صدارت میں ""ہندوستان چھوڑ دو"" تحریک کی قرارداد پیش کی۔ اس کے نتیجے میں کانگریس کے تمام رہنماؤں کو گرفتا ر کر کے گاندھی جی کو آغا خان پونا میں نظر بند کر دیا گیا اور دوسرے رہنماؤں کو احمد نگر کے تاریخی قلعہ میں قید کر دیا گیا۔23 مارچ 1940ء کو جبمسلم لیگنےلاہورمیں اجلاس میںدو قومی نظریہکی بنیاد پر لاہور قرارداد کے تحت مسلمانوں کے لیے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو کانگریس نے شدت سے اس کی مخالفت کی لیکن برطانوی حکومت نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا اور اس کی پالیسی سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ ہر قدم پر اس کی مدد بھی کی اور بالآخر ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ذریعہ تین جون پلان کے تحت 14اگست1947ء کوپاکستانکا قیام عمل میں آ گیا اور 15 اگست کو ہندوستان آزاد ہو گیا۔ حصولِ آزادی کے بعد کانگریس تین برس تک مرکز اور کئی برسوں تک ریاستوں میں برسرِ اقتدار رہی۔ تاہم کانگریس کو 1977ء میں مسنر اندرا گاندھی کے الیکشن میںناکامیکے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور جنتا پارٹی نے مرار جی ڈیسائی کے زیر قیادت اقتدار کی ذمہ داری سنبھالی تاہم 1980ء میں مسنر گاندھی دوبارہ برسرِ اقتدار آ گئیں اور انھوں نے کانگریس کو کانگریس، آئی، کے نام سے موسوم کیا۔ مسنر گاندھی اس کی صدر منتخب ہوئیں۔اکتوبر1984ء میں ان کی ہتھیا کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی کانگریس کے صدر اوروزیر اعظممنتخب ہوئے۔ 1989ء میں کانگریس پھر اقتدار سے محروم ہو گئی۔ تاہم 1991میں پھر برسرِ اقتدار آ گئی اور 1995ء تک صدر کانگریس نرسمہاراؤ کی وزارتِ عظمیٰ میں اقتدار پر قابض رہی۔ اس کے بعد سے 2001ء تک یہ اقتدار سے محروم ہے اور اس کی باگ ڈورراجیو گاندھیکیبیویاور مسنراندرا گاندھیکی بہوسونیا گاندھیکے ہاتھوں میں ہے۔"
+233,موہن داس گاندھی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%88%DB%81%D9%86_%D8%AF%D8%A7%D8%B3_%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C,"موہن داس کرم چند گاندھی(گجراتی: મોહનદાસ કરમચંદ ગાંધી؛ہندی: मोहनदास करमचंद गांधी؛انگریزی: Mohandas Karamchand Gandhi؛ 2 اکتوبر،1869ءتا30 جنوری1948ء)بھارتکے سیاسی اور روحانی رہنما اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ انھوں نے ستیہ گرہ اور اہنسا (عدم تشدد) کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ستیہ گرہ، ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظمسول نافرمانیہے جو عدم تشدد پر مبنی ہے۔ یہ طریقئہ کارہندوستانکی آزادی کی وجہ بنی۔ اور ساری دنیا کے لیے حقوق انسانی اور آزادی کی تحاریک کے لیے روح رواں ثابت ہوئی۔بھارتمیں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اورباپوکہا جاتا ہے۔[32][33]بھارت میں وہبابائے قوم(راشٹر پتا) کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ گاندھی کی یوم پیدائش (گاندھی جینتی)بھارتمیں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ہے ا ور دنیا بھر میں یوم عدم تشدد کی طور پر منایا جاتا ہے۔30 جنوری،1948ءکو ایکہندو قوم پرستنتھو رام گوڈسےنے ان کا قتل کر دیا۔[34]جنوبی افریقامیں وکالت کے دوران میں گاندھی جی نے رہائشی ہندوستانی باشندوں کےشہری حقوقکی جدوجہد کے لیے شہری نافرمانی کا استعمال پہلی بار کیا۔1915ءمیں ہندوستان واپسی کے بعد، انھوں نے کسانوں اور شہری مزدوردں کے ساتھ بے تحاشہ زمین کی چنگی اور تعصب کے خلاف احتجاج کیا۔1921ءمیںانڈین نیشنل کانگریسکی قیادت سنبھالنے کے بعد، گاندھی ملک سے غربت کم کرنے، خواتین کے حقوق کو بڑھانے، مذہبی اور نسلی خیرسگالی، چھواچھوت کے خاتمہ اور معاشی خود انحصاری کا درس بڑھانے کی مہم کی قیادت کی۔ انھوں نے بھارت کوغیر ملکی تسلّط سے آزاد کرانے کے لیےسوراجکا عزم کیا۔ گاندھی نے مشہورعدم تعاون تحریککی قیادت کی۔ جو1930ءمیں مارچ سے برطانوی حکومت کی طرف سے عائد نمک چنگی کی مخالفت میں 400 کلومیٹر (240 میل) لمبی دانڈی نمک احتجاج سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد1942ءمیں انھوں نےبھارتچھوڑو شہری نافرمانی تحریک کا آغاز فوری طور پر آزادی کا مطالبہ کے ساتھ کیا۔ گاندھی دونوں جگہجنوبی افریقااوربھارتمیں کئی سال قید میں گزارے۔عدم تشدد کے پیشوا طور پر، گاندھی نے سچ بولنے کی قسم کھائی تھی اور دوسروں سے ایسا ہی کرنے کی وکالت کرتے تھے۔ وہسابرمتی آشرممیں رہتے اور سادہ زندگی بسرکرتے تھے۔ لباس کے طور پر روایتی ہندوستانی دھوتی اور شال کا استعمال کرتے، جو وہ خود سے چرخے پر بُنتے تھے۔ وہ سادہ اور سبز کھانا کھاتے اور روحانی پاکیزگی اور سماجی احتجاج کے لیے لمبے اُپواس (روزے) رکھا کرتے تھے۔موہن داس کرم چند گاندھی[35]گجرات، ہندوستان کے مغربی ساحلی شہرپوربندر(جو اُس وقتبمبئی پریزیڈنسی،برطانوی ہندوستانکا حصّہ تھا) میں 2 اکتوبر،1869ء[36]میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کرم چند گاندھی (1822ء-1885ء) ہندو مودھ فرقہ سے تھے اور ریاست پوربندر کے دیوان تھے۔[37]ان کی ماں کا نام پُتلی بائی تھا، جو ہندو پرنامی ویشنو فرقہ سے تعلق رکھتی تھیں۔[38]وہ کرمچند کی چوتھی بیوی تھی۔ان کے والد کرم چند گاندھی ہندو مودھ برادری سے تعلق رکھتے تھے اور انگریزوں کے زیر تسلط والے بھارت کے امییواڑ ایجنسی میں ایک چھوٹی سی ریاست پوربندر صوبے کے دیوان یعنیوزیر اعظمتھے۔[39]ان کے دادا کا نام اُتّم چند گاندھی تھا جو اتّا گاندھی سے بھی مشہور تھے۔ پرنامی ویشنو ہندو برادری کی ان کی ماں پتلی بائی کرم چند کی چوتھی بیوی تھی، ان کی پہلی تین بیویاں زچگی کے وقت مر گئی تھیں۔[40]عقیدت کرنے والی ماں کی دیکھ بھال اور اس علاقے کی جین برادری کی وجہ سے نوجوان موہن داس پر ابتدائی اثرات جلد ہی پڑ گئے جو ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔ ان اثرات میں کمزوروں میں جوش کا جذبہ، سبزی خواری کی زندگی، روح کی پاکیزگی کے لیے بپوبس اور مختلف ذاتوں کے لوگوں کے درمیان میں رواداری شامل تھیں۔مئی،1883ءمیں جب وہ 13 سال کے تھے تب ان کی شادی 14 سال کیکستوربائی ماکھنجی کپاڈیاسے کر دی گئی جن کا پہلا نام چھوٹا کرکے کستوربا کر دیا گیا تھا اور اسے لوگ پیار سے با کہتے تھے۔ یہ شادی ایک منظم کم سنی کی شادی تھی[41]جو اس وقت اس علاقے میں عام تھی۔ اس علاقے میں وہاں یہی رسم تھی کہ نابالغ دلہن کو اپنے ماں باپ کے گھر اور اپنے شوہر سے الگ زیادہ وقت تک رہنا پڑتا تھا۔[42][43]1885ءمیں جب گاندھی جی 15 سال کے تھے تب ان کی پہلی اولاد کی پیدائش ہوئی لیکن وہ صرف کچھ دن ہی زندہ رہی اور اسی سال کے شروعات میں گاندھی جی کے والد کرمچند گاھی بھی چل بسے۔[44]موہن داس اور کستوربا کے چار اولاد ہوئیں جو تمام بیٹے تھے - ہری لال1888ءمیں، منی لال1892ءمیں، رام داس،1897ءمیں اور دیوداس1900ءمیں پیدا ہوئے۔[44][45]پوربندرمیں ان کے مڈل اسکول اور راجکوٹ میں ان کے ہائی اسکول دونوں میں ہی تعلیمی سطح پر گاندھی جی ایک اوسططالب علمرہے۔[46]انھوں نے اپنا میٹرک کا امتحان بداؤنگر گجرات کے سملداس کالج سے کچھ پریشانیوں کے ساتھ پاس کیا[47]اور جب تک وہ وہاں رہے ناخوش ہی رہے کیونکہ ان کا خاندان انھیں بیرسٹر بنانا چاہتا تھا۔4 ستمبر1888ءکو اپنی شادی کی انیسویں سالگرہ سے کچھ ماہ قبل، گاندھی جی قانون کی پڑھائی کرنے اور بیرسٹر بننے کے لیےلندن،برطانیہکے یونیورسٹی کالج آف لندن گئے۔
+شاہی دار الحکومتلندنمیں ان کے اوقات، اپنی ماں سے جین بھکشو کے سامنے بھارت چھوڑتے وقت کیے وعدے،ہندوؤں کی تہذیب کے تحت گوشت، شراب اور تنگ نظریہ سے پرہیزکرتے گذرا۔ حالانکہ گاندھی جی نے انگریزی رسم و رواج کا تجربہ بھی کیا جیسے مثال کے طور پر- رقص کی کلاس میں جانا- پھر بھی وہ اپنی مکان مالکن سے گوشت اور پتہ گوبھی کو ہضم نہیں کر سکے۔ اور انھوں نے بھوکا رہنا پسند کیا جب تک انھیںلندنمیں کچھ خالص سبزی ریستراں نہیں ملے۔سالٹسے متاثر ہو کر، انھوں نے سبزخور سماج کی رکنیتاختیار کی۔ اور اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے لیے انکا انتخاب بھی ہو گیا جہاں انھوں نے ایک مقامی باب کی بنیاد رکھی۔ وہ جن سبزخور لوگوں سے ملے ان میں سے کچھتھیوسوفیکل سوسائٹیکے رکن تھے جس کا قیام1875ءمیں عالمی بھائی چارگی کو مضبوط کرنے کے لیے اور بودھ مت اور ہندو مت کے ادب کے مطالعہ کے لیے وقف کیا گیا تھا۔ انھوں نے گاندھی کو ان کے ساتھبھگوت گیتااصل اور ترجمہ دونوں میں پڑھنے کے لیے متاثر کیا۔ جس گاندھی جی کو پہلے مذاہب میں خاص دلچسپی نہیں تھی، وہ مذہب میں دلچسپی لینے لگے اور ہندواور مسیحی دونوں مذاہب کی کتابوں کو پڑھنے لگے۔10 جون1810ءمیں ان کوانگلستاناورویلزبار بلایا گیا۔ اور12 جون1892ءکو لندن سے، ہندوستان لوٹ آئے۔ جہاں انھیں اپنی والدہ کی موت کا علم ہوا۔ لیکن ممبئی میں وکالت کرنے میں انھیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ بعد میں ایک ہائی اسکول کے استاد کے طور پر جزوقتی کام کے ساتھ ساتھ انھوں نے دعوں کے لیے مقدمے لکھنے کے لیے راجکوٹ کو ہی اپنا مقام بنا لیا لیکن ایک انگریز افسر کی حمایت کی وجہ سے انھیں یہ کاروبار بھی چھوڑنا پڑا۔ اپنی آپ بیتی (My Experiments with the Truth) میں، نے اس واقعہ کا بیان انھوں نے اپنے بڑے بھائی کی طرف سے پیروی کی ناکام ��وشش کے طور پر کیا ہے۔ یہی وہ وجہ تھی جس وجہ سے انھوں نے1893ءمیں ایک بھارتی فرم دادا عبد اللہ اینڈ کمپنی کی ایک سالہ قرار پرنیٹال،جنوبی افریقاجو اس وقتسلطنت برطانیہکا حصہ ہوتا تھا، جانا قبول کیا تھا۔1893ءمیں گاندھی جبجنوبی افریقاپہنچے تو ان کی عمر 24 سال تھی۔[48]وہپریٹوریامیں مقیم مسلم ہندوستانی تاجروں کے لیے ایک قانونی نمائندے کے طور پر کام کرنے گئے۔ جہاں وہ 21 برس مقیم رہے۔[49]جنوبی افریقامیں گاندھی جی کو ہندوستانیوں اور کالے رنگ کے لوگوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع میں انھیں پہلے درجے کے کوچ کی درست ٹکٹ رکھنے کے باوجود تیسرے درجہ کے ڈبے میں سفرکرنے پر مجبور کرنے اورگاندھی جی کے انکار کرنے پرانھیں پیٹرمارتسبرگ میں ٹرین سے باہراتارا جا چکا تھا۔[50]پائے دان پر باقی سفر کرتے ہوئے ایک یورپی مسافر کے اندر آنے کے لیے اسے ڈرائیور سے پٹائی بھی جھیلنی پڑی تھی۔[51]انھوں نے جنوبی افریقا کے قیام کے دوران میں پیش آئیں دیگر دشواریوں کا سامنا کیا جس میں کئی ہوٹلوں میں ان کے لیے پابندی لگا دی گئی تھی۔[52]اسی طرح کا ایک اور واقعہ میںڈربنکی ایک عدالت کے جج نے گاندھی جی کو اپنی پگڑی اتارنے کے لیے حکم دیا تھا جسے گاندھی جی نے نہیں مانا۔[53]یہ سارے واقعات گاندھی جی کی زندگی میں ایک اہم موڑ بن گئی اور سماجی نا انصافی کی بیداری کا سبب بنا اور سماجی سرگرمی کے لیے متاثر کیا۔جنوبی افریقامیں پہلی نظر میں ہی ہندوستانیوں پر اور نا انصافی،نسل پرستیاور تعصب کو دیکھتے ہوئے گاندھی نے برطانوی سلطنت کے تحت اپنے لوگوں کے احترام اور ملک میں خود اپنی حالت کے لیے سوال اٹھا دیے۔[54]گاندھی جی نے حکومتِجنوبی افریقاکے ذریعے پیش کردہ بل کی، جس میں ہندوستانیوں کے ووٹ دینے کے حق کو چھینا گیا تھا کی مخالفت کی۔ حالاں کہ بل کو منظوری سے روکنے میں وہ ناکام رہے، تاہم اس مہم سے بھارتیوں کی شکایات پر جنوبی افریقا کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ انھوں نے1894ءمیںنیٹالمیںانڈین کانگریسقائم کرنے میں مدد کی اور اس کی تنظیم کے ذریعے انھوں نےجنوبی افریقاکی ہندوستانی برادری کو ایک متحدہ سیاسی طاقت میں تبدیل کر دیا۔[50][55]جنوری1897ءمیں جب گاندھی ڈربن میں اترے تو سفید آباد کاروں کے ایک ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا تھا اور صرف پولیس سپرنٹنڈنٹ کی بیوی کی کوششوں سے بچ گئے۔ تاہم انھوں نے بھیڑ کے کسی بھی رکن کے خلاف الزامات عائد کرنے سے انکار کیا اور کہا وہ ان کے اصولوں میں سے ایک تھی کہ ذاتی مسئلہ کے ازالے کے لیے عدالت میں نہیں جائيں گے۔1906ءمیںٹرانسوالحکومت نے ایک نیا قانون نافذ کیا جس میں کالونی میں ہندوستانی آبادی کو رجسٹریشن کے لیے مجبور کیا۔[56]اس سالجوہانسبرگمیں ایک بڑے پیمانے پر احتجاج11 ستمبرکو منعقد ہوا۔ اجلاس میں گاندھی نے پہلی بار ستیاگرہ (حق کی بارگاہ) یا عدم تشدد پر مبنی احتجاج کا طریقہ اختیار کیا اور اپنے ساتھی ہندوستانوں کو تشدد اپنانے کی مخالفت اور اس طریقے سے نئے قانون پر عمل نہ کرنے اور سزا بردشت کرنے کہا۔[57]کمیونٹی نے اس منصوبے کو اپنایا جو سات سال کی جدوجہد ہے جس میں گاندھی سمیت ہزاروں بھارتی جیل میں ڈال دیے گئے، کوڑے برسائے گئے، حتّٰی کہ گولیوں کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ انھوں نے رجسٹریشن سے انکار کیا، اپنے رجسٹریشن کارڈ جلائے یا دوسری قسم کی غیر تشدد مزاحمت میں شامل ہوئے۔ جبکہ حکومت ہندوستانی مظاہرین کو دبانے میں کامیاب رہی اور پرامن بھارتی مظاہرین پر سرکار کی ذیادتی کے خلاف عوام کو سخت دباؤ کا سامنا کرتے بالآخر مجبورًاجنوبی افریقاکے جنرل جان کرسٹین اسمٹس نے جنوبی افریقا کی حکومت کی طرف سے گاندھی کے ساتھ بات کرکے معاہدہ کیا۔ گاندھی کے نظریات اور ستیاگرہ کا تصور اس جدوجہد کے دوران میں واضح ہوا۔گاندھی کےجنوبی افریقاکے ابتدائی سال بعض معاملوں میں متنازع ہیں۔7 مارچ1908ءکوانڈین اوپنینمیں گاندھی نےجنوبی افریقاکے جیل میں گزارے وقت کے بارے لکھا: ""کافر اصولی طور پر بے ادب ہیں-وہ سب سے زیادہ مجرم ہیں۔ وہ شرپسند، بہت ہی گندے ہیں اور تقریبًا جانوروں کی طرح رہتے ہیں۔""1903ءمیں ہجرت کے موضوع پر گاندھی نے تبصرہ کیا :""ہم پاکیزگی نسل میں زیادہ سے زیادہ یقین کے طور پر ہم سوچتے ہیں وہ کرتے ہیں۔۔۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہجنوبی افریقامیں سفید فام نسل غالب ہونی چاہیے۔""جنوبی افریقاقیام کے دوران میں گاندھی بھارتیوں کی درجہ بندی سیاہ فام کے ساتھ کرنے پر با رہا احتجاج کیا۔ جسے وہ ""بلاشبہ لامتناہی درجہ کافر سے بہتر"" بتایا۔ اسی قسم کے تبصرے گاندھی پر نسل پرستی کے الزام کے لیے ذمہ دار بنے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ لفظکافران دنوں میں مختلف معنی میں لیا جا تا تھا۔[حوالہ درکار]تاہم تاریخ کے دو پروفیسر سریندر بھانا اور غلام واحد، جوجنوبی افریقامیں مہارت رکھتے ہیں، نے اپنی عبارت،دی میکنگ آف پالٹیکل ریفارمر: گاندھی ان ساؤتھ افریقا،1893ءتا1914ء(نئ دہلی: منوہر: 2005) میں اس تنازع کی پڑتال کی۔ انھوں نے باب 1- ""گاندھی، افریقی اور بھارتی نوآبادیات نیٹال میں"" میں ""سفید فام راج"" کے ماتحت افریقی اور ہندوستانی برادریوں کے درمیان میں تعلقات اور وہ پالیسیاں جو ان فرقوں کے درمیان میں تنازع کی وجہ بنی کا ذکر کیا ہے۔ وہ اس صورت حال پر کہتے ہیں ""نوجوان گاندھی 1890 کے دہے میں ان اختلاف پسندوں کے تصورات سے بہت متاثر تھے""۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ، ""ایسا لگتا ہے کہ، جیل میں گاندھی کے تجربات نے ان کو اس حال کے لیے زیادہ حساس بنا دیا تھا۔۔۔ بعد میں گاندھی نرم پڑے، وہ افریقیوں کے خلاف تعصب کے ان کے اظہاریے میں کمی آئی اور وہ زیادہ تر مشترکہ امداد پر توجہ دینے لگے۔جوہانسبرگجیل میں ان کے منفی خیالات عام افریقا نہیں بلکہ سخت گیر افریقی قیدیوں کے لیے مخصوص تھے۔ تاہم بہت بعد کے زمانے میں جبجوہانسبرگمیں گاندھی کی ایک مورتی کی نقاب کشائی کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا، تو اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے گاندھی کی ""نسل پرستی پر مبنی"" بیانات کو وجہ بنا کر روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔[58]برطانوی سامراجنے جبجنوبی افریقامیں مقامی بوئر باشندوں پر جنگ مسلط کی تو مہاتما گاندھی نے استعماری فوجوں کو ہندوستانیوں کی بھرتی کا تیقن ان الفاظ میں دلایا:[59]اس حقیر پیشکش کا مقصد یہ باور کرانے کی کوشش ہے، کہجنوبی افریقاکی ملکہ کے دوسری رعایا کے دوش بدوش، ہندوستانی بھی، اپنی بادشاہت کی میدان جنگ میں خدمت بجا لانے کے لیے تیار ہیں۔ اس پیشکش کا مقصد ہندوستانیوں کی وفاداری کا بیعانہ ہے۔1906ءمیں زولوجنوبی افریقامیں نئی طے کی جانے والی چنگی کے عائد کرنے کے بعد دو انگریز افسروں کو مار ڈالا تھا۔ بدلے میں انگریزوں نے زولوؤں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ گاندھی جی نے ہندوستانیوں کو بھرتی کرنے کے لیے برطانوی حکام کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کا کہنا تھا اپنی شہریت کے دعووں کو قانونی جامہ پہنانے کے لیے بھارتیوں کو جنگی کوششوں میں ت��اون کرنا چاہیے۔ تاہم انگریزوں نے اپنی فوج میں ہندوستانیوں کو عہدے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے باوجود انھوں گاندھی جی کی اس تجویز کو مان لیا کہ ہندوستانی زخمی انگریز فوجیوں کو علاج کے لیے اسٹریچر پر لانے اور علاج کا کام کر سکتے ہیں۔ اس ٹکڑی کی باگ ڈور گاندھی نے تھامی۔21 جولائی1906ءکو گاندھی نےانڈین اوپنین(Indian Opinion) میں لکھا کہ ""نیٹال حکومت کے کہنے پر مقامی لوگوں کے خلاف جنگ کے لیے 23 ہندوستانی باشندوں کے ایک دستے کا قیام تجرباتی طور پر کیا گیا ہے۔گاندھیانڈین اوپینینکے مقالوں کے ذریعے جنوبی افریقا میں ہندوستانی لوگوں سے اس جنگ میں شامل ہونے کے لیے درخواست کی اور کہا : ""اگر حکومت صرف یہی محسوس کرتی ہے کہ ریزرو فورس بیکار ہو رہے ہیں تو اس وقت وہ اس کا استعمال کریں گے اور اصل لڑائی کے لیے ہندوستانی کو ٹریننگ دے کر اس کا موقع دیں گے""۔[60]گاندھی کی رائے میں1906ءکا ڈرافٹ آرڈیننس ہندوستانیوں کی حالت مقامی شہریوں سے نیچے لانے جیسا تھا۔ اس لیے انھوں نے ستیہ گرہ کی طرز پر ""کافروں"" کی مثال دیتے ہوئے ہندوستانیوں سے آرڈیننس کی مخالفت کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کے الفاظ میں، ""یہاں تک کہ نصف برادری اور کافر ہم سے کم جدید ہیں، انھوں نے بھی حکومت کی مخالفت کی ہے۔ بس وہی اصول ان پر بھی عائد ہوتا ہے لیکن وہ برابر نہیں دکھاتے ہیں۔[61][62][63][64]1927ءمیں گاندھی نے اس واقعہ کا ذکر یوں کیا: ""بوئر جنگ نے مجھے اتنا نہیں ڈرایا، جیسا کہ زولو' بغاوت ' نے ڈرایا۔ کیوں کہ یہ کوئی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ انسان کا شکار تھا، ایسا صرف میرے ہی نہیں بلکہ کئی انگریز جن سے گفتگو کا موقع ملا، کی رائے بھی ایسی ہی تھی""۔[65][65][66][67]1915ءمیں گاندھیجنوبی افریقاسے واپسبھارتمیں رہنے کے لیے آئے۔ انھوں نےانڈین نیشنل کانگریسکے کنونشن میں شرکت کی تھی، لیکن بنیادی طور پر بھارتی مسائل، سیاست اور عوام سے تعارف گوپال کرشن گوگھلے کے توسط سے ہوا جو اس وقت کے کانگریس پارٹی کے قابل احترام قائد تھے۔[68]اپریل1918ءمیں،پہلی عالمی جنگکے اواخر کے دوران میں وائسرائے نےدہلیمیں جنگ کی کانفرنس میں گاندھی کو مدعو کیا۔[69]اس امید سے کہ شاید وہ سلطنت کے لیے اپنی حمایت ظاہر کریں اور ہندوستان کی آزادی کے لیے ان کے معاملے میں مدد کی جائے۔ گاندھی جنگ کی کوششوں کے لیے فعال طور پر ہندوستانیوں کی بھرتی سے اتفاق کیا۔[70]1906ءکی زولو جنگ اور1914ءکی عالمی جنگ کے ہو بہ ہو جن میں انھوں نے ایمبولینس کور کے لیے رضاکاروں کی بھرتی کی تھی، اس وقت گاندھی جنگجو رضاکاروں کی بھرتی کی کوششیں کی تھیں۔1 جون1918ءکے ایک کتابچہ""بھرتی کے لیے اپیل"" میں گاندھی نے لکھا ""اس طرح کے حالات میں ہمیں اپنے آپ کا دفاع کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے جو ہتھیار اٹھانے اور انھیں استعمال کرنے کی صلاحیت ہے۔۔۔ اور اگر ہم ہتھیار کا استعمال کرنا سیکھنا چاہتے ہیں تو فوج میں شامل ہونا ہمارا فرض ہے۔ حالانہ کے انھوں نے وائسرائے کے ذاتی سکریٹری کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ وہ ""ذاتی طور پر کسی کا قتل یا زخمی نہیں کرسکتے خواہ وہ دوست ہو یا دشمن""۔[71]""[72]گاندھی کی پہلی بڑی کامیابی1918ءمیں چمپارن تحریک اور کھیڑا ستیہ گرہ میں ملی، کھیڑا میں اپنے گذر بسرکے لیے ضروری خوراکی فصلوں کی بجائے نیل اور نقدی فصلوں کی کھیتی کا معاملہ تھا۔[73]زمیندار (زیادہ تر انگریز) کی طاقت سے مظالم ہوئے ہندوستانیوں کو برائے نام محنتانہ دیا جاتا تھا جس سے وہ انتہائی غربت میں رہ رہے تھے۔ گاؤں میں بری طرح گندی اور شراب خوری تھی۔ اب ایک تباہ کن قحط کی وجہ سے شاہی خزانے کی تلافی کے لیے انگریزوں نے چنگی لگا دی، جن کا بوجھ دن بہ دن بڑھتا ہی گیا۔ یہ صورت حال پریشان کن تھی۔ کھیڑا،گجراتمیں بھی یہی مسئلہ تھا۔ گاندھی جی نے وہاں ایک آشرم بنایا جہاں ان کے بہت سارے حامیوں اور نئے کارکنوں کو منظم کیا گیا۔ انھوں نے گاؤں کا ایک وسیع مطالعہ اور سروے کیا جس میں لوگوں پر ہوئے ظلم کے خوفناک کانڈوں کا ریکارڈ رکھا گیا اور اس میں لوگوں کی تنزیلی حالت کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ دیہاتوں میں یقین پیدا کرتے ہوئے انھوں نے اپنا کام گاؤں کی صفائی کرنے سے شروع کیا جس کے تحت اسکول اور ہسپتال بنائے گئے اور سماجی برائیوں جیسے چھواچھوت، شراب خوری کو ختم کرنے کے لیے دیہی قیادت کی حوصلہ افزائی کی۔[74][75]لیکن اس کے اصل اثرات اس وقت دیکھنے کو ملے جب انھیں بے امنی پھیلانے کے لیے پولیس نے گرفتار کیا اور انھیں صوبے کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور جیل، پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے باہر ریلیاں نکال کر گاندھی کو بغیر شرط رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ گاندھی نے زمیں دارز کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالوں کی قیادت کی جنھوں نے انگریزی حکومت کی رہنمائی میں اس خطے کے غریب کسانوں کو زیادہ معاوضہ منظور کرنے اور کھیتی پر کنٹرول، قحط تک چنگی کو منسوخ کرنا والے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس جدوجہد کے دوران میں ہی، گاندھی جی کو عوام نے باپو اور مہاتما (عظیم روح) کے نام سے خطاب کیا۔ کھیڑا میں سردار پٹیل نے انگریزوں کے ساتھ گفتگو کے لیے کسانوں کی قیادت کی جس میں انگریزوں نے چنگی کو منسوخ کر کے تمام قیدیوں کو رہا کر دیا۔ اس کے نتیجے میں، گاندھی کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی۔گاندھی نے عدم تعاون، عدم تشدد اور پرامن مزاحمت کوبرطانوی راجکے خلاف جدوجہد میں ""ہتھیار"" کے طور پر اپنایا۔ پنجاب کیجلیانوالہ باغ قتل عام(جسےامرتسر قتل عامسے بھی جانا جاتا ہے) کی وجہ سے عام شہریوں میں کافی غم و غصہ تھا، جس وجہ سے برطانوی فوجیوں کو عوام کے غصے اور تشددی کارروائیوں کا سامنہ کرنا پڑا۔ گاندھی نے دونوں برطانوی راج کے اقدامات اور ہندوستان کی جوابی تشدد پر تنقید کی۔ انھوں نے برطانوی شہریوں کے متاثرین کے لیے تعزیت کی پیشکش اور فسادات کی مذمت کی قرارداد لکھی، جسے پارٹی میں ابتدائی مخالفت اور گاندھی کی اس اصول کی جذباتی وکالت کہ، تمام تشدد ہی برا ہیں اور ناقال قبول ہیں، کے بعد منظور کر لیا گیا۔ لیکن قتل عام اور اس کے بعد کی تشدد نے گاندھی کی توجہ مکمل خود حکومت اور تمام بھارتی حکومتی ادارے کا کنٹرول حاصل کرنے پر مرکوز کر دیا، جو جلد ہیسوراجیا مکمل ذاتی، روحانی،سیاسی آزادیمیں بدل گئی۔[76]دسمبر1921ءمیںانڈین نیشنل کانگریسنے گاندھی کو خصوصی اختیارات کے ساتھ پارٹی کا ذمہ سونپا۔ ان کی قیادت میں کانگریس کو ایک نئے آئین اور سوراج کے مقاصد کے ساتھ دوبارہ سے منظم کیا گیا۔ پارٹی میں رکنیت کے ایک ٹوکن فیس ادا کرنے کے بعد ہر کسی کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ پارٹی کو مخصوص طبقے کی جماعت سے، منظم اور قومی اپیل میں تدیل کرنے کے لیے کئی درجاتی ذیلی تناظیم قائم کیے گئے۔ گاندھی اپنی عدم تشدد لائحہ عمل میں سودیشی پالیسی (غیر ملکی مال کے بائیکاٹ کی، خاص طور پر برطانوی اشیاء ) کو شامل کر اسے توسیع دی۔ اس سے منسلک انھوں نے ہر ہندوستانی کو انگریزی ٹکسٹائل کی بجائے کھادی (گھروں میں بنے کپڑے) کے استعمال کی وکالت کی۔[77]گاندھی ہندوستان کے مردوں اور عورتوں، امیر ہو یا غریب کو آزادی کی تحریک کی حمایت میں ہر دن کھادی کی کتائی کے لیے وقت خرچ کرنے کی نصیحت دی۔ گاندھی نے ایک چھوٹی سی چرخہ بنوائی جو ایک چھوٹے سے ٹائپ رائٹر کے سائز میں موڑا جا سکتا تھا۔ انھوں نے ایسا لوگوں میں نظم و ضبط، جذبہ، خوداعتمادی میں اضافہ اور منفی خیالات کو دور کرنے اور عورتوں کو بھی اس تحریک میں شامل کرنے کے لیے کیا جو وقت سوچ کہ، اس طرح کی سرگرمیوں میں عورتوں کے لیے عزت کا مقام نہیں ہے کو بدل دیا۔ برطانوی مصنوعات کے بائیکاٹ کے علاوہ، گاندھی نے برطانوی تعلیمی اداروں اور قانونی عدالت کے بائیکاٹ پر بھی زور دیا کہ، حکومت کی ملازمت سے استعفی دے دیں اوربرطانیہکے القاب اور اعزازات چھوڑنے کے لیے کہا۔[78][79]عدم تعاون کو بڑے پیمانے پر اپیل اور کامیابی کا لطف اٹھایا، ہندوستانی سماج کے تمام طبقات کی طرف سے حوصلہ افزائی ملی اور شرکت میں اضافہ ہوا۔ پھر جب تحریک اپنی فراز پر تھی،چوری چورااترپردیش کی ایک بستی میں فروری1922ءکے پر تشدد تصادم کے نتیجے میں اچانک ختم ہو گیا۔ اس ڈر سے کہ تحریک تشدد کی طرف موڑ نہ لے لے اور سارے کیے کرائے پر پانی نہ پھر جائے۔ گاندھی نے عوامی سول نافرمانی کی مہم کے خاتمے کا اعلان کیا۔ 10 مارچ1922ءکو گاندھی کو گرفتار کیا گیا، بغاوت کے لیے کوشش کے الزام میں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ انھوں نے 18 مارچ1922ءاس سزا کی شروعات کی۔ انھیں ایک پتھری کے آپریشن کے لیے1924ءفروری میں رہا کر دیا گیا اس طرح وہ صرف 2 سال تک ہی جیل میں رہے۔[80]گاندھی کی ایسی متحدہ کی شخصیت کے بغیر، انڈین نیشنل کانگریس، دو دھڑوں میں بٹ گئی، ایک چتّا رنجن داس اور موتی لال نہرو کی قیادت میں جو اسمبلی میں پارٹی کی شرکت کے حامی تھے اور دوسرا چکرورتی راج گوپال آچاریہ اور سردار وللببائی پٹیل کی قیادت میں جو اس اقدام کی مخالف تھے۔ اس کے علاوہ، ہندو اور مسلمان اتحاد، جو عدم تشدد کی مہم کی بلندی پر مضبوط تھا، ٹوٹ گیا تھا۔ گاندھی1924ءکے موسم خزاں میں تین ہفتے کا احتجاجی روزہ کے ذریعے ان اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کو محدود کامیابی ملی۔[81]گاندھی جی سرگرم سیاست سے دور ہی رہے اور 1920ء کی زیادہ تر مدت تک وہ سوراج پارٹی اورانڈین نیشنل کانگریسکے درمیان میں کی خلیج کو پر کرنے میں لگے رہے اور اس کے علاوہ وہ چھواچھوت، شراب، جہالت اور غربت کے خلاف تحریک چھیڑتے بھی رہے۔ وہ1928ءمیں منظر عام پر لوٹے۔ ایک سال پہلے انگریزی حکومت نے سر جان سائمن کی قیادت میں ایک نیا قانون اصلاحات کمیشن تشکیل دے دیا جس میں ایک بھی رکن ہندوستانی نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ بھارتی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بائیکاٹ نکلا۔ دسمبر1928ءمیں گاندھی جی نےکلکتہمیں منعقد کانگریس کے ایک اجلاس میں ایک تجویز پیش کی جس میں ہندوستانی سلطنت کو اقتدار فراہم کرنے کے لیے کہا گیا تھا یا ایسا نہ کرنے کے بدلے اپنے مقصد کے طور پر مکمل ملک کی آزادی کے لیے عدم تعاون تحریک کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ گاندھی جی نے نہ صرف نوجوان طبقےسبھاش چندر بوساورجواہر لال نہروجیسے مردوں سے فوری آزادی کا مطالبہ کے خیالات کو معتدل کیا بلکہ اپنی خود کی مانگ کو دو سال کی بجائے ایک سال کر دیا۔ انگریزوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 31 دسمبر1929ءکولاہورمیں بھارت کا جھنڈا لہرایا گیا۔26 جنوری1930ءکا دن لاہور میں بھارتی یوم آزادی کے طور پرانڈین نیشنل کانگریسنے م��ایا۔ یہ دن تقریباً تمام ہندوستانی تنظیموں کی طرف سے بھی منایا گیا۔ اس کے بعد گاندھی جی نے مارچ1930ءمیں نمک پر چنگی لگائے جانے کی مخالفت میں نیا ستیہ گرہ چلایا جسے 12 مارچ سے 6 اپریل تکنمک تحریککے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں 400 کلومیٹر (248 میل) تک کا سفراحمد آبادسے دازڈی،گجراتتک کیا گیا تاکہ خود نمک پیدا کیا جا سکے۔ سمندر کے طرف کے اس سفر میں ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے حصہ لیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کی پکڑ کو کمزور کرنے والی یہ ایک سب سے زیادہ کامیاب تحریک تھی جس میں انگریزوں نے 80،000 سے زیادہ لوگوں کو جیل بھیجا۔لارڈ ایڈورڈ اروین (Lord Edward Irwin) کی طرف سے نمائندگی والی حکومت نے گاندھی جی کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ لیا۔ یہ اروین گاندھی کی صلح (Gandhi – Irwin Pact) مارچ1931ءمیں دستخط کیے تھے۔ شہری نافرمانی تحریک کو بند کرنے کے عوض برطانوی حکومت نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے اپنی رضامندی دے دی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں گاندھی کو انڈین نیشنل کانگریس کے واحد نمائندے کے طور پر لندن میں منعقد ہونے والےگول میز کانفرنسمیں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا گیا۔ یہ کانفرنس گاندھی جی اور قومیت وادیوں کے لیے سخت مایوس کن رہا، اس کی وجہ اقتدار کا منتقلی کرنے کی بجائے ہندوستانی رجواڑے اور ہندوستانی اقلیتوں پر مرکوز ہونا تھا۔ اس کے علاوہ، لارڈ اروین کے جانشیں لارڈ ولنگٹن (Lord Willingdon)، نے قومیت وادیوں کے تحریک کو کنٹرول اور کچلنے کی ایک نئی مہم شروع کردی۔ گاندھی پھر سے گرفتار کر لیے گئے اور حکومت نے ان کے عاملین کو ان سے پوری طرح دور رکھتے ہوئے گاندھی جی کی طرف سے متاثر ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن، یہ مشین کامیاب نہیں ہوا۔[82]1932ء میں دلت رہنمابھیم راؤ امبیڈکر(BR Ambedkar)کے انتخابی مہم کے ذریعے حکومت نے اچھوتوں کو ایک نئے آئین کے تحت الگ سے انتخاب کو منظور کر دیا۔ اس فیصلے کی مخالفت میں گاندھی جی نے ستمبر1932ءمیں چھ دن کے احتجاجی روزہ رکھا جس کی کامیابی کہ باعث عوامی احتجاج نے طول پکڑا۔ اس کے اثر سے حکومت نے دلت کرکٹ کھلاڑی سے سیاسی لیڈر بنےپلوانکر بالوکی ثالثی میں ایک یکساں نظام کو اپنانے پر زور دیا۔ اس واقعہ نے اچھوتوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے گاندھی جی کی طرف سے مہم کی شروعات کی۔گاندھی جی نے ان اچھوتوں کو ہریجن کا نام دیا جنہیں وہ خدا کی اولاد سمجھتے تھے۔8 مئی1933ءکو گاندھی جی نے ہریجن تحریک میں مدد کرنے کے لیے اور خود پاکیزگی کے لیے 21 دن تک کا روزہ رکھا۔ یہ نئی مہم دلتوں کو پسند نہیں آئی تاہم وہ ایک اہم رہنما بنے رہے۔ بی آر امبیڈکر (BR Ambedkar) نے گاندھی جی سے ہریجن لفظ کا استعمال کرنے کی مذمت کی کہ دلت سماجی طور پر نادان ہیں اور اونچے ذات والے ہندوستانی ان کے ساتھ پدری کردار ادا کیا ہے۔ امبیڈکر اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی محسوس ہوا کہ گاندھی جی دلتوں کے سیاسی حقوق کو ہلکا لے رہے ہیں۔ حالانکہ گاندھی جی ایک ویشو ذات میں پیدا ہوئے پھر بھی انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ امبیڈکر جیسے دلت کارکن کے ہوتے ہوئے بھی وہ دلتوں کے لیے آواز اٹھا سکتا ہے۔1934ءکی گرمیوں میں ان کی جان لینے کے لیے ان پر تین ناکام کوششیں کی گئیں۔جب کانگریس پارٹی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا اور وفاقی منصوبہ کے تحت اقتدار قبول کی تو گاندھی جی نے پارٹی کی رکنیت سے استعفی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ پارٹی کے اس قدم سے متفق نہیں تھے لیکن محسوس کرتے تھے کہ اگر وہ استعفی دیتے ہیں تب ہندوستانیوں کے ساتھ ان کی مقبولیت پارٹی کی رکنیت کو مضبوط کرنے میں آسانی فراہم کرے گی جو اب تک کمیونسٹوں، ماوعوادیوں، کاروباری مئوز، طلبہ، مذہبی رہنماؤں سے لے کر کاروبار مئوز اور مختلف آواز جو ان کے درمیان موجود تھی۔ اس سے ان تمام کو اپنی اپنی باتوں کے کہے جانے کا موقع حاصل ہوگا۔ گاندھی راج کے لیے کسی پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے مہم سے کوئی ایسا ہدف ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے جسے راج کے ساتھ عارضی طور پر سیاسی نظام کے طور پر قبول کر لیا ہو۔[83]گاندھی جی نہرو کی صدارت اور کانگریس کے لاہور اجلاس کے ساتھ ہی1936ءمیں فعّال سیاست میں لوٹ آئے۔ حالانکہ گاندھی کی مکمل خواہش تھی کہ وہ آزادی حاصل کرنے پر اپنی مکمل توجہ مرکوز کریں نہ کہ بھارت کے مستقبل کے بارے میں نانکلوں پر۔ اس نے کانگریس کو سماجواد کو اپنے مقصد کے طور پر اپنانے سے نہیں روکا۔1938ءمیں صدر کے عہدے کے لیے منتخبسبھاش چندر بوسکے ساتھ گاندھی جی کے اختلافات تھے۔ بوس کے ساتھ اختلافات میں گاندھی کے اہم نقطہ بوس کی جمہوریت میں عزم کی کمی اور عدم تشدد میں یقین کی کمی تھی۔ بوس نے گاندھی جی کی تنقید کے باوجود دوسری بار کامیابی حاصل کی لیکن کانگریس کو اس وقت چھوڑ دیا جب تمام ہندوستانی رہنماؤں نے گاندھی کے لاگو کیے گئے تمام اصولوں کو نظر انداز کرنے پر احتجاجی طور پر متحدہ استعفی دے دیا۔نازی جرمنیکےپولینڈپر حملہ سےدوسری عالمی جنگ1939ءمیں پھوٹ پڑی۔ ابتدا میں گاندھی نے برطانوی کوشش کی ""غیر متشدد اخلاقی حمایت"" کی پیشکش کی، لیکن کانگریس کے دوسرے رہنما عوام کے منتخب نمائندے کی مشاورت کے بغیر ہندوستان کو جنگ میں یک طرفہ شامل کیے جانے سے ناراض تھے۔ سب نے کانگریس کے عہدوں سے استعفی دے دیا۔ طویل بحث کے بعد، گاندھی نے اعلان کیا ہے کہہندوستانایک ظاہری طور جمہوری آزادی کے لیے لڑنے جا رہا ہے وہ جنگ کی پارٹی نہیں بنے گی، جبکہ خود ہندوستان کو آزادی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ جنگ بڑھنے کے ساتھ، گاندھی نے آزادی کے لیے ان کی مانگ کو تیز کر دیا۔ ایک قرارداد تیار کر کے برطانوی حکومت سےہندوستان چھوڑوکی مانگ کی گئی۔ یہ گاندھی اور کانگریس پارٹی کی طرف سے، ہندوستان سے برطانوی اخراج کو یقینی بنانے کے مقصد سے کی گئی سب سے زیادہ بغاوت تھی۔[84]دونوں برطانوی حامی اور مخالف، کچھ کانگریس پارٹی کے اراکین اور دیگر ہندوستانی سیاسی گروپ نے گاندھی کے اس قدم کی تنقید کی۔ بعض نے محسوس کیا کہنازی جرمنیکے خلاف جدوجہد میںبرطانیہکی حمایت نہیں کرنا غیر اخلاقی تھا۔ دیگر نے محسوس کیا کہ ہندوستان کا جنگ میں حصہ لینے کا گاندھی سے انکار ناکافی تھا اور زیادہ براہ راستحزب اختلافکی کارروائی کی جانی چاہیے تھی، جبکہبرطانیہجو ابھی تک نازیوں کے خلاف لڑ رہا تھا ہندوستان کو آزادی دینے سے انکار کر کے تردید جاری رکھا۔ ہندوستان چھوڑو جدوجہد بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور بے اندازہ تشدد کے ساتھ تاریخ کی سب سے زیادہ مضبوط تحریک بن گی۔ ہزاروںمجاہد آزادیپولس کے گولیوں سے قتل یا زخمی ہوئے اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا۔ گاندھی اور ان کے حامیوں نے یہ واضح کیا کہ وہ جنگ کی کوشش کی حمایت نہیں کرتے جب تک کہ ہندوستان کو فوری طور پر آزادی نہیں دی جاتی ہے۔ اس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس وقت تحریک کو تشدد کی انفرادی کارروائیوں کی بنا پر بند نہیں کیا جائے گا،[85][86]انھوں نے کہا کہ ""حکم دیا اراجکتا"" ان کے گرد کے ""اصلی انتشار سے بھی بڑھ کر۔"" ہے۔ انھوں نے تمام کانگریس اور ہندوستانیوں پرعدم تشددکے ذریعہ نظم و نسق بنائے رکھنے اور آزادی کے لیےکرو یا مروپر زور دیا۔[87]برطانوی حکومت نے 9اگست1942ءمیں گاندھی اور پوری کانگریس ورکنگ کمیٹی گرفتار کر لیا گیا۔ گاندھی کو پونے میںآغا خان محلمیں دو سال کے لیے مقید کیا گیا۔ یہاں گاندھی کو ذاتی زندگی میں دو خوفناک حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے 50 سالہ سیکرٹری مہادیو دسائی کادل کا دورہسے اور 6 دن بعد ان کی بیوی کستوربا 18 ماہ قید کی سزا کے بعد 22 فروری 1944ء کو وفات پا گئیں۔ چھ ہفتوں کے بعد میں گاندھی کو ایک سختملیریاکے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں جنگ کے اختتام سے پہلے 6 مئی 1944ء کو گرتی صحت اور ضروری سرجری کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔، برطانوی راج جیل میں ان کی موت کی وجہ سے متحدہ قوم نہیں چاہتا تھا۔ اگرچہ ہندوستان چھوڑو تحریک اس مقصد میں معتدل کامیابی ملی تھی، اس تحریک کی شدّت نے 1943ء کے آخر تک ہندوستان کے لیے آزادی کا پیغام لائی۔ جنگ کے اختتام پر برطانوی حکومت نے اقتدار کو ہندوستانی ہاتھ منتقل کرنے کا واضح اشارہ دیا۔ اس وقت گاندھی نے جدوجہد کی اختتام کا اعلان کیا۔ اورکانگریس کی قیادت سمیت تقریباً 100،000 سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔[88][89]جبانڈین نیشنل کانگریساور گاندھی برطانیہ پر بھارت چھوڑنے کا دباؤ بنا رہے تھے،1943ءمیںمسلم لیگملک کو تقسیم کرنے اور چھوڑ نے کی قرارداد منظور کیا، مانا جاتا ہے کہ گاندھی ملک کو تقسیم کرنے کی مخالفت تھے۔[90]اور مشورہ دیا کہ ایک معاہدہ کے تحت کانگریس اورمسلم لیگکی تعاون سے ایک عارضی حکومت کے تحت آزادی حاصل کی جائے۔ اس کے بعد تقسیم کے سوال پر مسلم اکثریت کے اضلاع میں ایک رائے شماری کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔[91][92]پرمحمد علی جناحبراہ راست کارروائی کے حق میں تھے۔16 اگست1946ءکو گاندھی مشتعل تھے اور فسادات زدہ علاقوں کا دورہ کر قتل عام کو روکنے کی ذاتی طور پر کوشش کی۔ انھوں نے بھارتی ہندو، مسلمان اور مسیحی کی اتحاد کی مضبوط کوشش کی۔ اور ہندو سماج میں ""اچھوت"" کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔[93]14 اور 15 اگست، 1947ء کو برطانوی ہندوستانی سلطنت نے بھارتی آزادی ایکٹ پاس کر دیا، جو قتل عام اور 12.5 لاکھ لوگوں کے منتقلی اور کروڑوں کے نقصان کی گواہ بنی۔ ممتاز نارویجن تاریخ داںجینس اروپ سیپکے مطابق گاندھی کی تعلیمات، اس کے پیروکاروں کی کوشش اور ان کی اپنی موجودگی تقسیم کے دوران میں نقصانات کو کم تر کرنے میں کامیاب رہی۔[94]اسٹینلے والپرٹتقسیم پر گاندھی کے کردار اور خیالات کا خلاصہ ان الفاظوں میں کیا ہے:— Stanley Wolpert: Gandhi's Passion, The Life and Legacy of Mahatma Gandhi، Oxford University Press1883ء میں کستوربا گاندھی سے شادی ہوئی، اولاد میں 4 بیٹے یہ ہیں،30 جنوری 1948ء کو ایک عبادتی خطبے کے لیے چبوترے کی طرف جاتے وقت گاندھی کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ قاتلناتھو رام گوڈسےایکہندو قوم پرستاور ہندو انتہاپسند تنظیم ہندو مہاسبھا سے وابستہ تھا جو گاندھی کوپاکستانکو ادایئگی کے لیے مجبور کرنے اور کمزور کرنے کے لیے ذمہ دار سمجھتی تھی۔ گوڈسے اور اس کا ساتھی سازش کار نارایئن آپٹے کو عدالتی کارروائی کے بعد مجرم قرار دیا گیا اور 15 نومبر 1949ء کو ان دونوں کو پھانسی دے دی گئی۔ گاندھی کی سمادھیراج گھاٹنئی دہلیمیں ہے۔ جس پر بڑے حروف میںہے راملکھا ہوا ہے۔ عموماً یہ گاندھی کے آخری الفاظ مانے جاتے ہیں حالانکہ یہ متنازع ہے۔جواہر لعل نہرونے ریڈیو سے قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا:گاندھی کے جسد خ��کی کی راکھ کلشوں میں ڈال کر پورے بھارت میں یادگار کی طور پر بھیجی گیا۔ زیادہ تر کاالہ آبادکی سنگم پر12 فروری1948ءمیں بہا دئے گئے، لیکن کچھ چھپا کر دور لے جایا گیا 1997 ء میں تشار گاندھی ایک کلش کا مواد، ایک بینک کے والٹ میں پایا اور عدالتوں کے ذریعے حاصل کر الہ آباد میں سنگم میں بہا دئے۔ مہاتما کے راکھ کا کچھ حصہیوگنڈاکے قریبدریائے نیلکے منبع پر منتشر کیے گئے۔30 جنوری2008ءایک کلش کا مواد اس کے خاندان کی طرف سے گرگوام چوپاٹی میں ڈوب گیا جودبئیکے ایک تاجرممبئیکے ایک میوزیم کو بھیج دیا تھا۔ ایک اور کلش آغا خان کی ایک محل میں پونے ہے (جہاں انھیں 1942ء سے 1944ء تک قید کر رکھا گیا تھا) اور دوسرا سیلف ریالایئز فیلوشپ جھیل (Self-Realization Fellowship Lake shrine)لاس اینجلسمیں ہے۔ خاندان کو علم ہے کہ ان راکھ کا سیاسی مقاصد کے لیے غلط استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن ان علامات کو توڑ کر ہٹانا نہیں چاہتے۔گاندھی نے اپنی زندگی کو سچّائی (حق) کی تلاش کے لیے نذر کر دیا۔ انھوں نے اسے اپنی غلطیوں اور تجربات سے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری کو ""سچائی کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی"" (The Story of My Experiments with Truth) کا عنوان دیا۔[95]گاندھی نے کہا کہ انھوں نے سب سے اہم جنگ اپنی نفسیاتی خوف اور عدم تحفظ پر قابو پانے کے لیے لڑی۔ گاندھی اپنے عقائد کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا، ""خدا حق ہے""۔ انھوں نے اس بیان کو بعد میں ""حق خدا ہے"" سے تبدیل کر دیا۔ اس طرح، گاندھی کے فلسفہ میں حق (ستیا) ""خدا"" ہے۔[96]اگرچہ مہاتما گاندھی عدم تشدد کے اصول کے موجد تو نہیں تھے مگر، انھوں نے بڑے پیمانے پر اس کا سیاسی میدان میں استعمال پہلی بار کیا تھا۔ اہنسا (عدم تشدد) کا تصور بھارتی مذہبوں میں ایک طویل تاریخ ہے۔ ہندو، بدھ، جین، یہودی اور مسیحی مذاہب میں اس کا اعادہ ہے۔ گاندھی اپنی سوانح عمری ""حق کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی"" میں اس فلسفہ اور زندگی کی راہ بتاتے ہیں۔ ذیل اقتباس ان کے سوانح عمری سے ماخوذ ہیں۔[97][98][99]نوجوان گاندھی نے تجسس میں گوشت خوری کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ اپنے علاقے کے ہندو اور جین سے متاثر ہو کر ہمیشہ سبزی خور رہے۔[100][101]اور سن بلوغ کو پہنچتے ہی پکے سبزی خور بن چکے تھے۔ انھوں نے اپنے قیام لندن میں اس پر کئی مقالے بھی لکھے جو لندن کے رسالہ ""دی وجیٹیرین""(The Vegeterian) میں شائع ہوئے۔ انھوں نے اس پر ایک کتاب ""سبزی خوری کے اخلاقی اصول"" بھی تصنیف کی۔اپنے کامیاب برہم آچاری ہونے کی وجہ بھی سبزی خوری کو بتاتے۔ جس کا ذکر انھوں نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔گاندھی نے پھل خوری کا بھی تجربہ کیا۔ اپنی آپ بیتی میں اس کا ذکر کرتے ہوئے گاندھی نے کہا، """"میں نے صرف پھل کھا کر زندہ رہنے کا فیصلہ کیا اور وہ بھی سب سے سستے پھلوں سے … مونگپھلی، کیلے، کھجور، نیبو اور زیتون کے تیل پر مشتمل کھانا""۔[102][103]حالانکہ طبیبوں کی صلاح پر اس اصول کو توڑا اور اخیر دنوں میں بکری کا دودھ استعمال کرتے تھے۔[104]گاندھی نے برت کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا۔ کانگریس نے برتوں کو سیاسی مقاصد کے لیے تشہیر دی جس سے وسیع پیمانے پر ہمدردی حاصل ہوتی تھی۔ بدلے میں حکومت نے اپنے راج کو تحفظ دینے کے لیے ایسی خبروں کو کم سے کم جگہ دی۔ گاندھی نے 1932 میں دلتوں کے لیے الگ سے سیاسی نمائندگی دیے جانے کے خلاف برت رکھا کیونکہ وہ دلتوں کو الگ کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ حکومت نے لندن پریس کو گاندھی کی فاقہ زدہ تصاویر دکھانے سے روک دیا کیونکہ اس طرح ع��ام میں ہمدردی پیدا ہوتی۔ گاندھی کی 1943ء کیبھوک ہڑتالکا سبب (Quit India) نامی نوآبادیاتی نظام کی مخالف مہم تھی۔ حکومت نے ماہرینِ غذائیات سے مدد لی اور تصاویر پر پابندی لگا دی۔ تاہم 1948ء میں ان کے آخری برت جو بھارت کی آزادی کے بعد رکھا گیا، کو برطانوی پریس نے پوری توجہ دی اور پورے صفحات کی تصاویر شائع کیں۔[105]آلٹر کا خیال ہے کہ گاندھی کی مستقل بھوک ہڑتالوں اور برہمچاریہ کے پیچھے اپنی ذات پر ضبط سے زیادہ گہری وجوہات تھیں۔ ان کے اپنے خیالات روایتی ہندو آیورویدک اور مغربی خیالات پر مشتمل تھے۔ گاندھی کے نزدیک جدت پسندی اور روایات بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی تھیں جتنا کہ صحت اور عدم تشدد۔[106]گاندھی کی تعلیمی پالیسیوں کی جھلک نئی تعلیم سے ملتی ہے جس کا مطلب “تعلیم سب کے لیے” تھا۔ اس کے پیچھے وہ مذہبی اصول کارفرما تھا کہ کام اور علم کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل یہ نظام برطانوی نظام تعلیم اور نوآبادیاتی نظام کی مخالفت میں بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے ہندوستانی بچوں کے لیے نظامِ تعلیم مشکل ہو جاتا تھا اور جسمانی کام سے نفرت پیدا ہوتی تھی اور ایک نیا طبقہ اشرافیہ پیدا ہو جاتا تھا اور انڈسٹریلائزیشن اور شہروں کو رخ کرنے کا رحجان پیدا ہوتا تھا۔[107]نئی تعلیم ایک روحانی اصول ہے جس کے مطابق علم کام سے جدا نہیں ہے۔ گاندھی نے اسی اصول پر ""نئی تعلیم"" کے نام سے ایک نئے تعلیمی نصاب کو فروغ دیا۔[108][109]گاندھی کے درس کے تین ستون یوں ہیں:جب گاندھی کی عمر 16 سال تھی ان کے والد سخت بیمار پڑ گئے تھے گاندھی ایک فرماں بردار اولاد کی طرح اپنے والد کی خدمت میں دن رات لگے رہتے تھے۔ ایک ربت ان کے چاچا خود ذمہ دری لے کر انھیں آرام کرنے بھیج دیا۔ گاندھی اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے کہ نفسیاتی خواہش میں آکر اپنی اہلیہ کے ساتھ ہمبستر ہو گئے۔ تھوڑے ہی دیر میں نوکر نے انھیں ان کے والد کے موت کی خبر دی۔ گاندھی اپنے آپ پر شرمندگی محسوس کرنے لگے اور کبھی اپنے آپ کو اس کے لیے معاف نہیں کر پائے۔ بعد میں گاندھی نے اسے دوہری شرمندگی کا نام دیا۔ اس کے نتیجہ میں گاندھی نے 36 سال کی عمر میں ہی خود کو جسمانی تعلقات سے دور کر لیا حالانکہ وہ شادی شدہ ہی رہے۔[110]یہ فیصلہ برہم آچاری کے فلسفہ سے بہت متاثر تھا۔ گاندھی کو برہم آچاری خود کو خدا کے قریب تر کر لینے اور خود آشنائی سمجھتے تھے۔ اپنے سوانح عمری میں اس کا ذکر کرتے ہوئے گاندھی نے کہا کہ انکا خود کو نفسیاتی ضروریات سے روک لینے کا فیصلہ ہوس کی بجائے محبت کو سیکھنا تھا۔ گاندھی کے مطبق برہم آچاری "" اپنے سوچ، الفاظ اور عمل پر قابو"" ہے۔زندگی کے اخیٖر مراحل تک یہ بات عام ہو گئی تھی کے گاندھی رات کو مختلف جوان عورتوں کے ساتھ سوتے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا وہ ایسا جسمانی گرمی کو محسوس کرنے کے کیے کرتے ہیں اور اسے ""فطرتی علاج"" کہا۔ گاندھی نے اپنے نفس پر قابو کو پرکھنے کے لیے اپنے اخری دنوں میں کئی تجربات کیے۔ برلہ کے نام اپریل 1945ء کا ایک خط میں انھوں نے 'کئی عورتوں اور لڑکیوں کا ان کے ساتھ برہنہ ہونے' کا ذکر کیا ہے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کے ان تجربات میں کئی عورت شامل تھیں۔ انھوں نے برہم آچاری پر عمل پیراں ہونے پر پانچ اداریے لکھے۔[111][112]اپنے اس تجربے کے لیے وہ پہلے اپنے عورت کارکنوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں دور دور سوئے پھر ایک ساتھ سوئے اور آخر میں برہنہ سوئے۔ اور یہ تجربہ کئی عورتوں کے ساتھ کیا جیسے 16 سالہ آبھا (جو ان کے بھتیجے کے بیٹے کنو گاندھی کی بیوی تھی)، بھتیجے جئے سکھ لال کی 19 سالہ بیٹی منو گاندھی (جس کا ذکر گاندھی نے اس کے والد سے خود خط میں کیا کہ میں اس کے سونے کی عادتوں کو درست کرنے ساتھ سوتے ہیں)، گاندھی خود کو ان کی ماں مانتے تھے اور انھیں اپنی بیساکھی بتاتے تھے۔[113][114][115]گاندھی سرلا دیوی کو اپنی روحانی بیوی بتاتے تھے جو خود شادی شدہ اور با اولاد تھیں۔ گاندھی نے خلاصہ کیا کہ وہ دونوں اتنے قریب ہو گئے تھے کہ جسمانی تعلقات بنا بیٹھتے۔ان تجربات کی وجہ سے گاندھی کی فضیحت بھی ہوئی۔ ان کے اسٹونوگرافر آر پی پرسو رام گاندھی کو منو کے ساتھ برہنہ سوتے دیکھ کر استعفی دے دیا۔ گاندھی نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ سوتے کبھی نفسیاتی خواہش نہیں ہوئی۔ انھوں نے پرسو رام سے کہا کہ مجھے افسوس ہے تاہم اگر تم جانا چاہو توجا سکتے ہو۔ گاندھی کے ساتھی نرمل کمار بوس اور دتتاتیریا بالکرشنا کیلکر نے بھی کچھ اس قسم کے واقعات بتائے تاہم انھوں نے اسے ان کے ساتھ گاندھی کی ممتا بتایا۔گاندھی کے نزدیک آزاد ہندوستان کا مطلب ہزاروں کی تعداد میں خود کفیل اور خوش حال چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھا جو خود مختار ہوں اور دوسروں سے الگ تھلگ کام کریں۔ گاندھی کے نظریے کے مطابق دیہات کی سطح پر خود کفالت اہمیت رکھتی تھی۔[116]سرودیا کی پالیسی کے مطابق گھریلو صنعتوں اور زراعت کی صورت حال بہتر بنا کر غربت کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ گاندھی نے نہرو کے معاشی نمونے کو مکمل طور پر رد کیا جس میں روسی طرز پر صنعتی ترقی اہمیت رکھتی تھی۔[117]گاندھی کے ذہن میں مقامی آبادی اور ان کی ضروریات تھیں۔ گاندھی کی وفات کے بعد نہرو نےہندوستانکو جدید بنایا اور ہیوی انڈسٹری کے علاوہ زراعت کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا۔[118]مؤرخ پانڈی کتو کے مطابق “ہندوستان کی حکومت نے گاندھی نہیں بلکہ نہرو کی پالیسی کو اپنایا”۔ گاندھی کے مطابق “غربت بدترین تشدد ہے”۔[119]رڈولف کے خیال میںجنوبی افریقاسے انگریزوں کو نکالنے میں ناکامی کے بعد گاندھی کو حوصلہ ملا۔ انھوں نے روایتی بنگالی طریقے سے خود تکلیف سہہ کر ستیہ گرہ یا اہنسا کو پورے ہندوستان میں پھیلا دیا۔ گاندھی کے مطابق آزادی کے چار معنی ہیں:ہندوستانکی قومی آزادی، انفرادی سیاسی آزادی، غربت سے اجتماعی چھٹکارا اور خود پر حکومت کرنا۔[120][121]گاندھی کے مطابق ہر انسان کی مرضی کے بغیر اس سے متعلق کوئی کام نہ کیا جائے۔جنوبی افریقاسے لوٹ کر جب گاندھی کوانسانی حقوقسے متعلق شمولیت کی درخواست کی گئی تو انھوں نے کہا کہ زیادہ اہمیت انسانی فرائض کو متعین کرنے کی ہونی چاہیے۔آزاد ہندوستان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انگریز آقاؤں کی جگہ دیسی آقا لے لیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان آزاد ہونے کے بعد بھی انگلستان ہی رہتا جو سوراج نہیں۔ گاندھی کے خیال میں جمہوریت زندگی بسر کرنے کا ایک طریقہ ہے۔[122][123]گاندھی کو لکھنے کا جنون تھا۔ گاندھی کی ابتدائی تصانیف میں سے ایک ‘ہند سوراج‘ 1909ء میںگجراتی زبانمیں چھپی۔ کئی دہائیوں تک گاندھی نے گجراتی اور ہندی کے علاوہ انگریزی اخبارات میں ادارت کے فرائض سر انجام دیے اور یہ سلسلہ جنوبی افریقا میں بھی جاری رہا۔ اس کے علاوہ گاندھی نے تقریباً ہر روز ہی مختلف اخبارات کے مدیران کو اور عام افراد کو خطوط لکھے۔[124]گاندھی کی ڈھیر ساری تصانیف میں ان کی اپنی سوانح حیات بھی شامل ہے جس کا نام (The Story of My Experiments with Truth) ہے۔[125]گاندھی نے اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کو پورا کا پورا خرید لیا تاکہ اس کا ��وسرا ایڈیشن چھپ سکے۔ دیگر سوانح حیات میں ‘جنوبی افریقا میں ستیہ گرہ‘، اپنی جدوجہد کے بارے کتابچہ ‘ہند سوراج‘ وغیرہ بھی لکھے۔ ان کا آخری مضمون معاشیات کے بارے تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے سبزی خوری، غذائیات اور صحت، مذہب، سماجی بدلاؤ وغیرہ پر بھی لکھا۔ گاندھی نے عموماً گجراتی میں لکھا لیکن ان کی کتب کے ہندی اور انگریزی تراجم بھی عام ملتے ہیں۔[126]گاندھی کی تمام کتب کو انڈین حکومت نے (The Collected Works of Mahatma Gandhi) کے نام سے 1960ء کی دہائی میں چھپوایا۔ اس کے کل صفحات کی تعداد 50.000 ہے اور 100 جلدوں میں چھاپی گئی ہیں۔[127][128]گاندھی نےبین الاقوامیسطح پر بہت سارے لیڈران اور سیاسی تحاریک پر اثر ڈالا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں شہری حقوق کی تحریک میںمارٹن لوتھرکنگ، جیمز لاسن اور جیمز بیول نے گاندھی کی تحاریر سے عدم تشدد کا فلسفہ نکالا۔ مارٹن لوتھر کنگ کے مطابق “مسیح نے ہمیں مقاصد عطا کیے اور گاندھی نے ان کے حصول کے طریقے بتائے”۔ مارٹن کنگ نے گاندھی کو بعض اوقات ‘ننھا بھورا ولی‘ بھی کہا ہے۔ اس کے علاوہ نیلسن منڈیلا، خان عبد الغفار خان، سٹیو بیکو اور آنگ سان سوچی بھی گاندھی سے متائثر ہیں۔[129][130][131]گاندھی کی زندگی سے متائثر ہونے والے افراد نے گاندھی کو اپنا محسن کہا ہے اور ان کی تعلیمات کو آگے پھیلانے میں زندگیاں صرف کی ہیں۔ یورپ کے مشہور لیڈران نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ یورپی ماہرِ طبیعیاتالبرٹ آئن سٹائننے 1931ء میں گاندھی کو خطوط لکھے اور گاندھی کو ‘آنے والی نسلوں کا رہنما‘ قرار دیا۔ آئن سٹائن کے مطابق:آنے والی نسلوں کو شاید یقین نہ آئے کہ ایسا انسان کبھی ہمارے درمیان میں گوشت پوست کی شکل میں بھی رہتا تھا۔لنزا ڈیل واستو 1936ء میں گاندھی کے ساتھ رہنے کی نیت سے آیا اور پھر جب یورپ واپس گیا تو گاندھی کے فلسفے کی ترویج میں لگ گیا۔ میڈیلین سلیڈ ایک برطانویامیر البحرکی بیٹھی تھی اور اس نے اپنی بالغ زندگی کا زیادہ تر وقت گاندھی کی خدمت میں ہندوستان میں گزارا۔برطانوی مویسقار جان لینن نے گاندھی کے بارے بات کرتے ہوئے ان کے عدم تشدد کے فلسفے پر بات کی۔ سابقہ امریکینائب صدرالگور نے بھی 2007ء میں گاندھی کے اہنسا کے فلسفے پر بات کی۔امریکی صدر براک اوبامہ نے 2010ء میں انڈین پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی کا حوالہ دیا:[132]ٹائمز میگزین نے 14ویں دلائی لامہ، لیچ ویلیسا، مارٹن لوتھر کنگ، سیزر شاویز، آنگ سان سوچی، ڈاکٹر ڈیسمنڈ ٹوٹو اورنیلسن منڈیلاکو گاندھی کی روحانی اولاد قرار دیا۔ ہیوسٹن، ٹیکساس میں انڈین آبادی کے ایک علاقے کو سرکاری طور پر ‘گاندھی‘ کا نام دیا گیا۔[133]2007 میںاقوامِ متحدہکی جنرل اسمبلی نے گاندھی کے یومِ پیدائش 2 اکتوبر کوبین الاقوامی عدم تشدد کا دنقرار دیا۔[134]یونسکو نے 1948 میں 30 جنوری کو ‘عدم تشدد اور امن کے اسکول ڈے‘ کی تجویز پیش کی تھی۔ جنوبی نصف کرے میں یہ دن 30 مارچ کو منایا جاتا ہے۔[135]ٹائم میگزین نے 1930ء میں گاندھی کو سال کا بہترین مرد قرار دیا تھا۔[136]1999ء میں صدی کے بہترین انسان کے لیے گاندھی کو آئن سٹائن کے بعد دوسرا نمبر دیا گیا۔ انڈیا کی حکومت ہر سال گاندھی کا امن انعام بہترین سماجی کارکنوں، دنیا بھر کے رہنماؤں اور شہریوں وک دیتی ہے۔ نیلسن منڈیلا یہ انعام پانے والے غیر ہندوستانیوں میں نمایاں نام ہیں۔ 2011 میں ٹائم میگزین نے گاندھی کو دنیا بھر کے 25 بہترین سیاسی رہنماؤں میں شمار کیا ہے۔[137]1937ء سے 1948ء کے دوران میں گاندھی کو امن کےنوبل انعامکے لیے پانچ بار نامزد کیا گیا تھا لیکن انھیں یہ ایوارڈ نہ مل سکا۔[138]نوبل کمیٹی نے بعد میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انھوں نے گاندھی کو یہ انعام نہیں دیا۔ 1948 میں فیصلے سے قبل گاندھی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس سال کمیٹی نے اعلان کیا کہ اس سال یہ انعام نہیں دیا جائے گا کہ کوئی بھی مناسب امیدوار زندہ نہیں۔ جب 1989ء میں 14ویں دلائی لامہ کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تو کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ‘یہ مہاتما گاندھی کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے‘۔[139]انڈین لوگوں کی اکثریت گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ مانتی ہے۔[32][33]تاہم یہ خطاب سرکاری نہیں اور انڈین حکومت اسے نہیں مانتی اور نہ یہ خطاب حکومت کی طرف سے کبھی عطا کیا گیا۔ تاہم اس خطاب کی ابتدا شاید 1944ء میں سبھاش چندر بھوس سے ہوئی جنھوں نے اپنے ریڈیو خطاب میں گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کہا۔ 28 اپریل 1947ء میں سروجنی نائیڈو نے ایک کانفرنس کے دوران میں گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کہا۔ بعد میں یہ درخواست بھی دی گئی کہ گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کا خطاب دیا جائے لیکن انڈین آئین میں تعلیمی اور فوجی اعزازات کے علاوہ اور کوئی اعزاز نہیں دیا جا سکتا۔[140][141]5 گھنٹے اور 9 منٹ طویل ڈاکومنٹری فلم کا نام (Mahatma: Life of Gandhi, 1869–1948) کو 1968 میں بنایا گیا[142]جس میں گاندھی کے اقتباسات اور بلیک اینڈ وائٹ فٹیج، تصاویر اور تاریخی حوالہ جات شامل کیے گئے۔[143]1982ء میں رچرڈ اٹنبرو کیف لم میں بین کنگسلے نے گاندھی کا کردار ادا کیا اور اس فلم کو بہترین فلم کا اکیڈمی ایوارڈ ملا۔ 1996ء میں (The Making of the Mahatma) میں گاندھی کی زندگی کے جنوبی افریقا میں گزارے گئے وقت کو دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایک غیر معروف بیرسٹر ایک مشہور سیاسی رہنما بنا۔ ‘لگے رہو منا بھائی‘ جوبالی وڈمیں 2006ء میں بنائی گئی، میں گاندھی کو مرکزی کردار کے طور پر دکھایا گیا۔ جانو بروا کی فلم ‘میں نے گاندھی کو نہیں مارا‘ میں بھی گاندھی کو دکھایا گیا ہے۔[144]گاندھی کی مخالفت میں بھی فلمیں اور ڈرامے بنے ہیں۔ 1995ء میں مراٹھی ڈراما گاندھی ورودھ گاندھی بنایا گیا جس میں گاندھی اور ان کے بیٹے ہری لعل کے تعلقات پر روشنی ڈالی گئی۔ 2007 میں (Gandhi, My Father) بھی اسی موضوع پر بنائی گئی تھی۔ 1989ء میں مراٹھی ڈراما ‘مے نتھو رام گوڈسے بولتے‘ اور 1997ء میں ہندی ڈراما ‘گاندھی امبیدکر‘ میں بھی گاندھی اور ان کے اصولوں پر تنقید کی گئی ہے۔[145][146]گاندھی کی زندگی پر بہت ساری سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ڈی جی ٹنڈولکر کی 8 جلدوں پر مشتمل کتاب (Mahatma. Life of Mohandas Karamchand Gandhi) اور پیارے لعل اور سوشیلا نیئر کی کتاب‘مہاتما گاندھی‘ 10 جلدوں میں ہے۔2010 میں جوزف لیلی ویلڈ نے (Great Soul: Mahatma Gandhi and His Struggle With India) میں گاندھی کی جنسی زندگی کے بارے متنازع متن شامل کیا ہے۔ 2014 میں بنائی گئی فلم (Welcome Back Gandhi) میں دکھایا گیا ہے کہ اگر گاندھی آج واپس آ جاتے تو جدید انڈیا کو دیکھ کر انھیں کیسا محسوس ہوتا۔[147][148][149]تیز معاشی ترقی اور اربنائزیشن کی وجہ سے موجودہ انڈیا نے گاندھی کے معاشی نظریے کو رد کر دیا ہے لیکن ان کے سیاسی نظریات سے ہم آہنگ رہا ہے۔[150][151]گاندھی کا یومِ پیدائش 2 اکتوبر ہے اور اس روز انڈیا میں قومی تعطیل ہوتی ہے جو ‘گاندھی جینتی‘ کہلاتی ہے۔[152]گاندھی کی شبیہہ انڈین ریزرو بینک کے چھاپے گئے تمام کرنسی نوٹوں ماسوائے ایک روپے کے، پر ثبت ہوتی ہے۔ گاندھی کو 30 جنوری کو قتل کیا گیا اور اس دن کو انڈیا میں “یومِ شہدا‘ کے طور پ�� منایا جاتا ہے۔[153]انڈیا میں تین مندر گاندھی سے منسوب ہیں۔ ایک مندر اوڑیسہ میں سنبل پور کے مقام پر اور دوسرا کرناٹکا میں چک مگلور کے مقام پر ہے۔[154][154][155][156]لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+234,ستیاگرہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%AA%DB%8C%D8%A7%DA%AF%D8%B1%D8%A7,ستیاگرا(معنی: ستیا:سچ:گرا:اڑنا)[1]ایک مہم کا نام ہے، جسے کانگریسی رہنماگاندھیجی نے شروع کیا تھا۔ اس کا مطلب ہے سچ کے لیے عدم تشدد اور استقامت کے ساتھ ڈٹے رہنا، اس مہم میں گاندھی کے فلسفہ عدم تشدد اور عوامی مزاحمت دونوں شامل ہیں۔ اس اصطلاح کے موجد بھی گاندھی تھے۔گاندھی نےبرصغیرکی آزادی کی مہم اورجنوبی افریقامیں ہندوستانیوں کو حقوق دلانے کے لیے اس فلسفے کو اپنایا۔ یہ فلسفہنیلسن منڈیلا،مارٹن لوتھراور کئی سماجی کارکنوں کو متاثر کر گیا۔ اس فلسفے پر عمل پیرا لوگوں کو ستیاگراہی کہتے ہیں۔
+235,گردوارہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%D8%B1%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%B1%DB%81,سکھ عبادت گاہ کوگردوارہ(گرو کا در) کہا جاتا ہے۔ گردوارہ بالعموم ایک بڑا کمرا ہوتا ہے جس میںگرنتھ صاحبکو درمیان میں چوکی پر ادب سے رکھا جاتا ہے۔ اس کمرے کے دروازے چاروں طرف کھلے ہوتے ہیں۔ سمت کی کوئی تخصیص نہیں کہ کتاب کا رخ کس جانب ہو۔ تاہم شمال اور مشرق کو افضل سمجھا جاتا ہے۔ گردوارہ کی عمارت کے اوپر بالعموم گنبد اور برجیاں ہوتی ہیں، گنبد کی شکل گولائی لیے ہوئے ہوتی ہے اور اس کے اوپر کلس ہوتا ہے۔ عمارت یک منزل، دومنزلہ یا سہ منزلہ وغیرہ ہو سکتی ہے۔ بالعموم گرودوارے کے سات سرائے یا مسافر خانہ ہوتا ہے جہاں زائرین اور حاجت مند لوگ آکر ٹھہر سکتے ہیں۔ گرودواروں کا خرچ زائرین کے چڑھاوے سے پورا ہوتا ہے۔ ہر گرودوارے کے ساتھ ایک لنگر خانہ ہوتا ہے جہاں ہر روز جو بھی آئے اسے راہ مولا کھانا مل جاتا ہے خواہ وہ حاجت مند ہو یا کھانا تبرک کے طور پر کھانے آئے۔ دعا کے بعد اور خاص موقعوں پر حلوہ بٹتا ہے جسے پرشاد (خدا کی طرف سے نعمت) کہا جاتا ہے۔ ہر گرودوارے میں مذہبی فرائض کو سر انجام دینے والے اور دعا کے وقت امامت کرنے والے شخص کو گرنتھی کہا جاتا ہے۔ یہ شخص کسی بھی ذات کا ہو سکتا ہے۔ سکھوں کے نزدیک اونچی نیچی ذات والوں کی نفی نہیں ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ مذہبی اصول کے مطابق اعتبار کے قابل ہو اور امامت کے کام کو سر انجام دینے کی تعلیم کے اعتبار سے اہلیت رکھتا ہو، سکھوں کی مذہبی تعلیمات میںذات پاتکی تمیز اور تقسیم کی مخالفت کی گئی ہے، نہ براہمن کی تقدیس تسلیم کی جاتی ہے اور نام نہاد اچھوتوں کو نیچ سمجھا جاتا ہے گروؤں کی تعلیم کے مطابق فضیلت عمل سے حاصل ہوتی ہے، نسب سے نہیں۔ اسلام کے نزدیک بھی شخصی فضیلت کا معیار یہی ہے
+236,امرتسر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%85%D8%B1%D8%AA%D8%B3%D8%B1,"امرتسر(Amritsar)
+(تلفظ(معاونت·معلومات);پنجابی:ਅੰਮ੍ਰਿਤਸਰ;پنجابی تلفظ:[əm:ɾɪt̪səɾ]) (مقامی پنجابی تلفظامبرسربھی ہے)بھارتیپنجابکا ایکشہرہے اور ہندوستان کی شمال مغربیریاست(پنجاب) کےدار الحکومت،چندی گڑھسے 217 کلومیٹر (135 میل) اورپاکستانکےلاہورسے 28 کلومیٹر (17.4 میل)مشرقکی جانب واقع ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی پندرہ لاکھ بتائی جاتی ہے جبکہ تمامضلعامرتسر کی آبادی قریباً چھتیس لاکھ بیان ہوتی ہے۔ امرتسر شہر میںسکھ متکا روحانی مقامہرمندر صاحبواقع ہے۔امرتسر شہر کی ابتدا کے بارے میں یہ ذکر بھی تاریخ میں ملتا ہے کہمغلیہ سلطنتکے شہنشاہاکبرنے امرتسر کا علاقہ سکھوں کے چوتھے روحانی پیشواگرو رام داسکو دے دیا تھا اور رام داس نے یہاںرام داس پورکی بنیاد ڈالی جس کا نام بعد میں امرتسر ہوا[3]۔[4]؛ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے1565ءمیں گروامر داساور پھر1579ءمیں گرو رام داس اور1606ءمیںگرو ارجن دیوکو علاقے کی پیشکش کی تھیں جنہیں ان تینوں اشخاص نے قبول نہیں کیا تھا ؛ گرو امرداس کی نسبت یہ بھی تاریخ میں آتا ہے کہ جاگیر قبول کرنے سے انکار کے بعد اکبر نے وہ جاگیر جس پر امرتسر قائم ہوا امرداس کی بیٹیبی بی بھانیکو شادی کے تحفے کے طور پر دے دی تھی جس سے امر داس انکاری نہ ہو سکے[5]مزید یہ کہ اکبر نے سکھوں کے تمام علاقے کو محصول ادا کرنے سے آزاد کر دیا تھا ۔[6]امرتسر کے لیے پرانے نام رام داس پور کے علاوہگرو چکاوررام داس چکبھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔کرتار پورمیں1539ءمیں اپنے انتقال سے قبلگرو نانکنےگرو انگد دیوکو نیا گرو نامزد کر دیا تھا پھر تیسرےگروامر داس(1479ءتا1574ء) کے بعد آنے والے چوتھےگرورام داس(1534ءتا1581ء) نے امرتسر کے پرانے تالاب کی مرمت کا کام شروع کیا اور اس کے درمیان میں ایکمندریاگردوارہ،دربار صاحبتعمیر کیا جس کوہرمندر صاحببھی کہا جاتا ہے۔ شہنشاہ اکبر اور اس کے بعد بھی عمومی تعلقات رام داس پور (امرتسر) کی جانب اچھے رہتے اور مغلیہ سلطنت میں رام داس پور کی حیثیت نیم خود مختار علاقے کی سی تھی لیکن پھرسولہویں صدیسے اس علاقے میں مکمل آزادی یا خود مختاری کے احساسات نمودار ہونا شروع ہوئے ۔[7]تصوفکے کرشمات کو سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور عرصے تک تصوف کے افکار سے ایک مبہم صورت قائم رہی حتیٰ کہگرو نانککو مسلمان بھی کہا جاتا ہے[3]۔شہنشاہجہانگیرکے زمانے میں بھیسکھ متاتنا واضح اور الگ مذہب نہیں بنا تھا لیکن آثار نمایاں ہونے لگے تھے کہ اب سکھ مغلیہ سلطنت کے مرکز برائےپنجابیعنیلاہورکی بجائے امرتسر کی جانب دیکھنے لگے تھے ۔[8]سکھ ذرائع کے مطابق شہنشاہ جہانگیر کے کہنے پرادی گرنتھمیں ترامیم سےگرو ارجنکے انکار پر، اس نےخسروکو امداد فراہم کرنے کا بہانا بنا کر ان کو قتل کروا دیا تھا[9]اور اس بات نے ان کے بیٹے اور چھٹے گروہرگوبند(1595ءتا1644ء) کو عسکری طاقت کی جانب مائل کر دیا تھا جس کے رد عمل کے طور پر جہانگیر نے ایک بار امرتسر سے ہرگوبند کو گرفتار بھی کیا لیکن پھر آزاد کر دیا۔ ہرگوبند نے مغلیہ سلطنت کو ناجائز قرار دیکر اپنے پیروکاروں کو اسے تسلیم کرنے سے منع کر دیا تھا اور گرو کو خدا کی جانب سے دی جانے والی سلطنت کو جائز قرار دیا؛شاہجہانکے دور (1628ءتا1658ء) میں رام داس پور (امرتسر) پر حملہ کیا گیا اورہرگوبندنے امرتسر سے بھاگ کرکرتار پورمیں سکونت اختیار کی۔اورنگزیبکے تبدیل ہوتے ہوئے کردار نے مختلف واقعات کو جنم دیا جن میں ایک سکھوں سے معاملات کا واقع بھی ہے جس میں محصول یا جزیہ پر ہونے والی معاشیاتی کشمکش کو مذہب اور خود مختاری سے جوڑ دیا گیا۔تیغ بہادرکے قتل کو متعدد تاریخی دستاویزات میں سکھ مسلم ناچاقی یا نفرت کا آغاز کہا جاتا ہے[10]۔سولہویں صدی کے اواخر کے امرتسر (رام داس پور) میںگروگوبند سنگھکیخالصہبراہ راستمغلیہ سلطنتسے ٹکرانے پر تیار ہو رہی تھی[11]؛ گو کہ اکبر سے لے کر شاہ جہاں تک مغلوں کا رویہ گروؤں کی جانب مناسب ہی نہیں باعزت بھی رہا لیکن امرتسر کی جانب سے جہانگیر اور شاہ جہاں دونوں کی حکومت کے دوران سلطنت مغلیہ کے معاملات میں مداخلت کی جاتی رہی۔برطانویقانون آزادی ہند 1947ءکے تحتب��طانوی ہنداگست1947ءکوپاکستاناوربھارتمیں تقسیم ہوا جس سے امرتسر پر بلحاظ آبادیات، معاشیات، ثقافت، سیاسی اور سماجی ڈھانچے پر گہرا اثر پڑا۔صوبہ پنجاب (برطانوی ہند)کی بھارت اور پاکستان میں تقسیم پر امرتسر ایک سرحدی شہر بن گیا۔ تقسیم سے قبلمسلم لیگامرتسرکولاہورسے قربت (30 میل کا فاصلے) اور تقریبا 50 فیصد مسلم آبادی کی وجہ سے پاکستان میں شامل کرنا چاہتی تھی، لیکن شہر بھارت کا حصہ بن گیا۔ امرتسرکو بھارت کی تقسیم کے دوران بدترین فرقہ وارانہ فسادات کا سامنا کرنا پڑا۔ امرتسر کے مسلمان رہائشی مسلم مخالف فسادات کی وجہ سے گھروں اور املاک کو چھوڑ کر امرتسر سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔امرتسر ضلع میں اہم مسلم اکثریت دیہات قبل تقسیم سلطان پور، کالا افغانہ، عبد ل کلاں، رشید بال، لاہوریے، شاہ پور، شاہ کوٹ، علی پور، علی وال، اللہ آباد، فتح آباد، چک، گوزہ چک، جٹاں اور چیمہ تھے۔1984ءمیں بھارتی فوج کا اپنے ہی ملک میں امرتسر شہر میں واقعہرمندر صاحبپر کیا جانے والا آپریشن۔ یہ آپریشر اس وقت کی بھارتی وزیر اعظماندرا گاندھیکے حکم سے 3 سے 8 جون تک ہوا۔[12]گولڈن ٹیمپل امرتسر کا سب سے اہم مقام ہے جوسکھمذہب کی ایک مقدس عبادت گاہ ہے۔ اس کا اصل نامہرمندر صاحبہے لیکن یہگولڈن ٹیمپلکے نام سے مشہور ہے۔ امرتسرشہرگولڈن ٹیمپل کے چاروں طرف بسا ہوا ہے۔ گولڈن ٹیمپل میں روزانہ ہزاروں سیاح آتے ہیں۔ امرتسر کا نام اس تالاب کے نام پر رکھا گیا ہے جس کی تعمیرگرو رام داسنے اپنے ہاتھوں سے کروائی تھی۔سکھگولڈن ٹیمپل میں داخل ہونے سے پہلے مندر کے سامنے سر جھکاتے ہیں، پھر پاؤں دھونے کے بعد سیڑھیوں سے مندر تک جاتے ہیں۔ سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ اس کی مکمل تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ گولڈن ٹیمپل انتہائی خوبصورت ہے اور اس میں روشنی کا خوبصورت انتظام کیا گیا ہے۔ سکھوں کے علاوہ بھی بہت سے سیاح یہاں آتے ہیں۔13 اپریل،1919ءکو اس مقام پر ایک اجتماع منعقد کیا گیا تھا جس انگریز فوج کےجنرل ڈائرکے احکام پر سینکڑوں حریت پسندوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ جلسہ کے دوارن جنرل ڈائر نے باغ کے واحد راستے کو اپنے فوجیوں کے ساتھ گھیر لیا اور ہجوم پر اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ اس واقعہ کو تاریخ کی سب سے دردناک واقعات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔جلیانوالہ باغ کا قتل عاماتنا زیادہ تھا کہ اس باغ میں واقع کنواں لاشوں سے مکمل بھر گیا۔ اب اسے ایک خوبصورت پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے۔ اس کی دیکھ بھال اور حفاظت کی ذمہ داری جلیانوالہ باغ ٹرسٹ کے سپرد ہے۔ یہاں خوبصورت درخت لگائے گئے ہیں۔ باغ میں آنے کا وقت موسم گرما میں صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک اور موسم سرما میں صبح 10 بجے سے شام 5 تک رکھا گیا ہے۔امرتسر کے جنوب میں ستوكھسر صاحب اور ببے سر صاحب گردوارے ہیں۔ ان میں سے ستوكھسر گرودوارہگولڈن ٹیمپلسے بھی بڑا ہے۔مہاراجا رنجیت سنگھنے رام باغ پارک میں موسم گرما کے لیے ایک محل بنوایا تھا۔ اس کی اچھی دیکھ بھال کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ آج بھی صحیح حالت میں موجود ہے۔ اس محل کی بیرونی دیواروں پر سرخ پتھر لگے ہوئے ہیں۔ اس محل کو اب مہاراجا رنجیت سنگھ عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس عجائب گھر میں متعدد تصاویر اور فرنیچر کی نمائش کی گئی ہے۔ یہ ایک پارک کے وسط میں بنا ہوا ہے جو ایک خوبصورت پارک ہے۔ اس پارک کولاہورکےشالیمار باغجیسا بنایا گیا ہے۔ عجائب گھر میں داخلے کا وقت صبح 10 بج�� سے شام 5 بجے تک رکھا گیا ہے۔ عجائب گھر پیر کو بند رہتا ہے۔درگیانا مندر ایک قدیم ہندو مندر ہے جو ہاتھی گیٹ کے علاقے میں واقع ہیں۔ اس مندر کوہرمندرکی طرح بنایا گیا ہے۔ درگیانا مندر کے بالکل پیچھے ہنومان مندر واقع ہے۔یہ مسجد گاندھی گیٹ کے قریب ہال مارکیٹ میں واقع ہے۔ نماز کے وقت یہاں بہت بھیڑ ہوتی ہے۔ مناسب دیکھ بھال کی وجہ سے بھیڑ کے باوجود ان کے حسن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ یہ مسجداسلامی فن تعمیرکی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے اس کی دیواروں پر آیتیں لکھی ہوئی ہیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہجلیانوالہ باغکے اجتماع کے لیے سیف الدین کچیلو اور ستیہ پال اسی مسجد ہی اجتماع کو خطاب کر رہے تھے۔یہگرو ہرگوبندکے نو سالہ بیٹے کی شہادت کا جائے مقام ہے۔یہبھگوانرامکے بیٹوں لو اور کش کی جائے پیدائش تصور کی جاتی ہے۔واہگہ بارڈرپاکستاناوربھارتکے درمیان ایک سرحدی راستہ جولاہورکو امرتسر سے ملاتا ہے۔ ہر شام یہاں بھارت بارڈر سکیورٹی فورس اورپاکستان رینجرزکے فوجی اپنے جھنڈے اتارنے کےتقریبمنعقد کرتے ہیں۔ خاص موقعوں پر مثلا بنیادی طور پر14 اگستپاکستان کےیوم آزادیکی شام اوربھارتکے یوم آزادی کی صبح ہوتی ہے۔ اس شام وہاں پر امن کے لیے رات بیداری کی جاتی ہے۔امرتسر سے تقریبا 22 کلومیٹر دور اس مقام پر ایک تالاب ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس کے پانی میں بیماریوں کو دور کرنے کی طاقت ہے۔امرتسر کے پکوان پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ یہاں کا بنی مرغی، مکئی کی روٹی،سرسوں کا ساگاورلسیبہت مشہور ہیں۔ یہاں کی اسپیشل تھالی بھی بہت مشہور ہے۔ اس کے علاوہ لارنس روڈ کی ٹکی آلو اور آلو پراٹھے بہت مشہور ہیں۔ امرتسر کے امرتسری كلچے بہت مشہور ہیں۔ امرتسری كلچے کے لیے سب سے بہتر جگہ مقبول روڈ کے ڈھابے ہیں۔ یہاں صرف دو بجے تک ہی كلچے ملتے ہیں۔ پپڈی چاٹ اور ٹکی کے لیے برجواسی کی دکان مشہور ہے۔ یہ دکان کوپر روڈ پر واقع ہے۔ لارنس روڈ پر بی بی کے دیو لڑکیوں کے کالج کے پاس شہر کے سب سے اچھے آم پاپڑ ملتے ہیں۔ سبزی کھانوں کے ساتھ ساتھ امرتسر آپ گوشت سے بنے کھانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ گوشت خور ترکیبوں میں امرتسری مچھلی بہت مشہور ہے۔ اس ڈش کو چالیس سال پہلے چمن لال نے تیار کیا تھا۔ اب یہ پکوان امرتسر کے گوشت پکوانوں کی شناخت ہے۔ لارنس روڈ پر سرجیت چکن ہاؤس آپ بھنے ہوئے چکن کے لیے اور کٹرا شیر سنگھ اپنی امرتسری مچھلی کے لیے پورے امرتسر میں مشہور ہے۔ sweetiامرتسر کا بازار بہت اچھا ہے۔ یہاں ہر طرح کے مقامی اور غیر ملکی كپڑے دستیاب ہیں۔ اس کا بازار کچھلاجپت نگرجیسا ہے۔ امرتسر کے پرانے شہر کے ہال مارکیٹ کے آس پاس کے علاقے بنیادی طور کوتوالی علاقے کے قریب روایتی بازار ہیں۔ یہاں پر زیورات سے لے کر باورچی خانے تک کا تمام سامان ملتا ہے۔ یہ اپنے پاپڑ کے لیے بہت مشہور ہے۔ پنجابی پہناوا بھی پوری دنیا میں بہت مشہور ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں میں پنجابی سوٹ کا کافی شوق ہے۔ سوٹوں کے علاوہ یہاں پر پگڑی، شلوار قمیض، رومال اور پنجابی جوتیوں کی بہت مانگ ہے۔دربار صاحب کے باہر جو بازار لگتا ہے اس میں سٹیل کے اعلی معیار کے برتن اور کرپان ملتے ہیں۔ کرپان کو سکھوں میں بہت مقدس سمجھا جاتا ہے جوپانچ ککوںمیں سے ایک ہے۔
+اس کے علاوہ یہاںسکھ مذہبسے متعلقہ کتابیں بھی ملتی ہیں۔امرتسربھارتکے بالکل مغربی سرے پر واقع ہے۔ یہاں سے پاکستان صرف 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ نیشنل ہائی وے 1 کے ذریعےکرنال،انبالہ،کھنہ،جالندھر��ورلدھیانہسے ہوتے ہوئےامرتسرپہنچا جا سکتا ہے۔ امرتسردہلیکت شمال مشرق میں 447 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔دہلی سے سفر میں براستہ ریلوے اور سڑک تقریبا 9 گھنٹے اور ہوائی جہاز سے 1 گھنٹہ لگتا ہے۔سری گرو رام داس جی بین الاقوامی ہوائی اڈاامرتسر سے تقریبا 11 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جسے طے کرنے میں تقریبا 15 منٹ کا وقت لگتا ہے۔دہلی سے ٹرینوں کے ذریعے آسانی سے امرتسر ریلوے اسٹیشن پہنچا جا سکتا ہے۔kisan yojanaذاتی گاڑی سے بھیگرینڈ ٹرنک روڈکے ذریعے آسانی سے امرتسر پہنچا جا سکتا ہے۔ درمیان میں آرام کرنے کے لیے کئی اچھے ڈھابے اور ریستوران موجود ہیں۔ یہاں پر رک کر کچھ دیر آرام کیا جا سکتا ہے اور کھانے کا لطف بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دہلی کے کشمیری گیٹ بس اڈے سے بھی امرتسر کے لیے بسیں جاتی ہیں۔2011ءکی مردم شماری کے مطابق امرتسر بلدیہ کی آبادی 1،132،761[1]اور شہری ہم بستگی کی آبادی 1،183،705 تھی۔[2]بلدیہ کا جنسی تناسب 1،000 مرد فی 879 خواتین جبکہ آبادی کا 9.7 فیصد چھ سال کی عمر تھا۔[1]موثر خواندگی تناسب 85،27 فیصد تھا؛ مرد خواندگی 88،09 فیصد جبکہ خواتین خواندگی 82،09 فیصد تھی۔[1]بھارتکی2011ءکی مردم شماری کے مطابق امرتسر شہر کے اہم مذاہب میںہندو متاورسکھ متسر فہرست تھے۔ ہندووں کا تناسب 49،36٪ اور سکھ 49.00٪ تھے۔ حالانکہ پورےامرتسر ضلعمیں دیہی علاقوں سمیت سکھ 70 فیصد ہیں۔[15]امرتسر شہر میںمسلمان0.51%،مسیحی0.23% اور تقریبا 0.23% کوئی خاص مذہب کو ماننے والے نہیں۔"
+237,سکھ مت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%DA%A9%DA%BE_%D9%85%D8%AA,"سکھ مت(پنجابی: ਸਿੰਖੀ ) ایکتوحیدیمذہبہے۔ اس مذہب کے پیروکاروں کوسکھکہا جاتا ہے۔ سکھوں کی مذہبی کتابشری آدی گرنتھیاگیان گرو گرنتھ صاحبہے۔ عام طور پر سکھوں کے 10 ستگر مانے جاتے ہیں، لیکن سکھوں کی مذہبی کتاب میں 6 رہنماؤں کے ساتھ ساتھ 30 بھگتوں کی بانی ہے، جن کی عمومی تعلیمات کو سکھ راستہ پر چلنے کے لیے اہم مانا جاتا ہے۔ سکھوں کے مذہبی مقام کوگردوارہکہتے ہیں۔1469ءمیںپنجابمیں پیدا ہونے والےنانک دیونے گرمت کو کھوجا اور گرمت کی تعلیمات کو دیش دیشانتر میں خود جا جا کر پھیلایا تھا۔ سکھ انھیں اپنا پہلا رہنما مانتے ہیں۔ گرمت کی تبلیغ باقی 9 گروؤں نے کی۔ دسویں رہنماگوبند سنگھنے یہ تبیلغی کامخالصہکو سونپا اورگیان گرو گرنتھ صاحبکی تعلیمات پر عمل کرنے کی نصیحت کی۔سنت کبیر،دھنا،سادھنا،رامانند،پرمانند،نامدیواورتکاراموغیرہ جن کے اقوال آدی گرنتھ میں درج ہیں، ان بھگتوں کو بھی سکھ ستگرؤں کے جیسے مانتے ہیں اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سکھ ایک ہیخداکو مانتے ہیں، جسے وہ ایک اونکار کہتے ہیں۔ انکا عقیدہ ہے کہ ایشور اکال اور نرنکار ہے۔سکھ مت کی شروعات ہی ""ایک"" سے ہوتی ہے۔ سکھوں کے دھرم گرنتھ میں ""ایک"" کی ہی ویاکھیا ہیں۔ ایک کو نرنکار، پار برہم آدک گن واچک نامو سے جانا جاتا ہیں۔ نرنکار کا سوروپ آدی گرنتھ کے شروعات میں بتایا ہے جس کو عام بھاشا میں مول منتر کہتے ہیں۔
+اونکار، ست نام، کرتاپرکھ، نربھاؤ، نرویر، اکالمورت، اجونی، سویبھنگ اس کی پراپتی گیان دوارہ ہوتی ہے، اس لیے ""گر پرساد"" پر مول منتر سماپت ہوتا ہے۔تقریباً سبھی دھرم اسی ""ایک"" کی آرادھنا کرتے ہیں، لیکن ""ایک"" کی وبھن اوستھاؤں کا ذکر و ویاکھیا آدی گرو گرنتھ صاحب میں دی گئی ہے وہ اپنے آپ میں نرالی ہے۔جیو آتما جو نراکار ہے، اس کے پاس نرنکار کے صرف 4 ہی گن ویاپت ہے : اونکار، ست نام، کرتا پر کھ، سویب��نگ۔ باقی چار گن پراپت کرتے ہی جیو آتما واپس نرنکار میں سماں جاتی ہے، لیکن اس کو پراپت کرنے کے لیے جیو آتما کو خود کو گرمت کے گیان دوارہ سمجھنا ضروری ہے۔ اسے سکھ دھرم میں ""آتم چنتن"" کہا جاتا ہے۔آتما کا نراکاری سوروپ من(آتم)، چت(پراتم)، صورت، بدھی، متی آدک کی جانکاری سکھ مت کے مول سکھیاؤں میں دی جاتی ہے۔ ان کی گتودھیوں کو سمجھ کر انسان خود کو سمجھ سکتا ہے۔سکھ مت کی شروعات ہی آتم گیان سے ہوتی ہے۔ آتما کیا ہے؟ کہا سے آئی ہے؟ وجود کیوں ہے؟ کرنا کیا ہے اتہادی روحانیت کے وشے سکھ پرچار دوارہ پڈھایے جاتے ہیں۔ آتما کے وقار کیا ہیں، کیسے وقار مکت ہو۔ آتما سویم نرنکار کی انش ہے۔ اس کا گیان کرواتے کرواتے نرنکار کا گیان ہو جاتا ہے۔سکھ مت کارمک فلسفے میں یقین نہیں رکھتا۔ انیہ دھرمو کا کہنا ہے کہ پربھو کو اچھے قرم پسند ہیں اور برے کرمو والوں کے ساتھ پرمیشور بہت برا کرتا ہے۔ لیکن سکھ دھرم کے انوسار انسان خود کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ انسان صرف سوچنے تک سیمت ہے کرتا وہی ہے جو ""حکم"" میں ہے، چاہے وہ کسی غریب کو دان دے رہا ہو چاہے وہ کسی کو جان سے مار رہا ہو۔ یہی بات بابا نانک میں گرنتھ کے شروع میں ہی درڈ کروا دی تھی : ہکمے اندر سب ہے باہر حکم نہ کوئے جو ہتا ہے حکم میں ہی ہوتا ہے۔ حکم سے باہر کچھ نہیں ہوتا۔ اسی لیے گرمت میں پاپ پنیہ کو نہیں من جاتا۔ اگر انسان کوئی کریا کرتا ہے تو وہ انتر آتما کے ساتھ آواز ملا کر کرے۔ یہی کرن ہے کی گرمت قرم کانڈ کے وردھ ہے۔ گرو نانک دیو نے اپنے سمیہ کے بھارتیہ سماج میں ویاپت کپرتھاؤں، اندھوشواسوں، جرجر روڈھیوں اور پاکھنڈوں کو دور کرتے ہوئے جن سادھارن کو دھرم کے ٹھیکیداروں، پنڈوں، پیروں آدی کے چنگل سے مکت کرنے کی کوشش کی۔یہ پدارتھ مانو کو اپنے جیواں کال کے سمے پراپت کرنے انواریہ ہے :مذہب ارتھ کام موکش کو چار پدارتھوں میں نہیں لیا گیا۔ ستگر گوبند سنگھ کہتے ہیں:گیان کے وہین لوبھ موہ میں پروین، کامنا ادھین کیسے پانوے بھگونت کوسکھ مت میں بھکتوں ایوم ستگروں نے نرنکار کو اکار رہت کہا ہے۔ کیونکہ سنسارک پدارتھ تو ایک دن ختم ہو جاتے ہیں لیکن پر برہم کبھی نہیں مرتا۔ اسی لیے اسے اکال کہا گیا ہے۔ یہی نہیں جیو آتما بھی آ کر رہت ہے اور اس شریر کے ساتھ کچھ سمیہ کے لیے بندھی ہے۔ اس کا وجود شریر کے بغیر بھی ہے، جو عام منشیہ کی بدھی سے دور ہے۔یہی کرن ہے کی سکھ مت مورتی پوجا کے سخت خلاف ہے۔ ستگرؤں ایوں بھکتوں نے مورتی پوجکوں کو اندھا، جانور اتیادی شبدوں سے نواجا ہے۔ اس کی تصویر بنے نہیں جا سکتی۔ یہی نہیں کوئی بھی سنساری پدارتھ جیسے کی قبر، بھکتو ایوں ستگرؤں کے اتہاسک پدارتھ، پرتمائیں آدک کو پوجنا سکھوں کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ دھارمک گرنتھ کا گیان ایک ودھی جو نرنکار کے دیش کی طرف لے کر جاتی ہے، جس کے سمکش سکھ نتمستک ہوتے ہیں، لیکن دھارمک گرنتھوں کی پوجا بھی سکھوں کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔سکھ مت میں ہر جیو کو اوتار کہا گیا ہے۔ ہر جیو اس نرنکار کی انش ہے۔ سنسار میں کوئی بھی پنچی، پشو، پیڑ، اتیادی اوتار ہیں۔ مانش کی یونی میں جیو اپنا گیان پورا کرنے کے لیے اوترت ہوا ہے۔ ویکتی کی پوجا سکھ دھرم میں نہیں ہے ""مانکھ کہ ٹیک برتھی سب جانت، دینے، کو اے کےبھگوان""۔ تمام اوتار ایک نرنکار کی شرط پر پورے نہیں اترتے کوئی بھی اجونی نہیں ہے۔ یہی قارن ہے کی سکھ کسی کو پرمیشر کے روپ میں نہیں مانتے۔ ہاں اگر کوئی اوتار گرمت کا اپدیس کرتا ہے تو سکھ ا�� اپدیش کے ساتھ ضرور جڑے رہتے ہیں۔ جیسا کی کرشن نے گیتا میں کہا ہے کی آتما مرتی نہیں اور جیو ہتیا کچھ نہیں ہوتی، اس بات سے تو سکھ مت سہمت ہے لیکن آگے کرشن نے کہا ہے کی قرم ہی دھرم ہے جس سے سکھ دھرم سہمت نہیں۔پیغمبر وہ ہے جو نرنکار کا سندیش اتھوا گیان عام لوکئی میں بانٹے۔ جیسا کی اسلام میں کہا ہے کی محمد آخری پیغمبر ہے سکھوں میں کہا گیا ہے کہ ""ہر جگ جگ بھکت اپایا""۔ بھکت سمے در سمے پیدا ہوتے ہیں اور نرنکار کا سندیش لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ سکھ مت ""الا ال اللہ"" سے سہمت ہے لیکن صرف محمد ہی رسول اللہ ہے اس بات سے سہمت نہیں۔ ارجن دیو جی کہتے ہیں ""دھر کی بانی آئی، تن سگلی چنت مٹائی""، ارتھات مجھے دھر سے وانی آئی ہے اور میری سگل چنتائیں مٹ گئی ہیں کیونکی جس کی طاق میں میں بیٹھا تھا مجھے وہ مل گیا ہے۔"
+238,گرو رام داس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%D8%B1%D9%88_%D8%B1%D8%A7%D9%85_%D8%AF%D8%A7%D8%B3,گرو رام داس([ɡʊru ɾɑm dɑs];1534ء–1581ء) سکھوں کے 10 میں سے چوتھےسکھ گروتھے۔ انھیں30 اگست1574ءکو سکھ گرو بنایا گیا۔ وہ سات سال تک گرو رہے۔ وہ24 ستمبر1534ءکو چونا منڈیلاہور،خطۂ پنجابمیں پیدا ہوئے۔ گرو رام داس1 ستمبر1581ءکوامرتسر، پنجاب میں فوت ہوئے۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+239,میاں میر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D8%A7%DA%BA_%D9%85%DB%8C%D8%B1,میر محمدالمعروف میاں میر پیر لاہوری ایکمسلمصوفیبزرگ ہیں، جولاہور(موجودہپاکستان) کے علاقےدھرم پورہمیں مقیم رہے۔شیخ میر محمد المعروف میاں میر کی ولادت1550ءبمطابق957ھسندھکے شہرسیوستانمیں ہوئی۔ آپ کے والد قاضی سائیں دتہ فاروقی تمام سندھ میں نہایت معزز و ممتاز بزرگ شمار کیے جاتے تھے۔ قاضی سائیں دتہحضرت عمر فاروقکی اولاد سے تھے۔ آپ کی والدہ ایک صاحب علم و عمل خاتون تھیں۔ آپ نے انھیںسلسلہ قادریہکے سلوک سے روشناس کرایا اور تعلیم دی۔ اس کے بعد آپ قادری سلسلے کے ایک نامور بزرگ جناب شیخ سیوستانی کے مرید ہو گئے۔ ایک طویل عرصے تک آپ شیخ کی خدمت میں حاضر رہے۔ جب آپ کی عمر پچیس برس کی ہوئی تو شیخ کی اجازت سےلاہورآ گئے۔لاہور میں جہاں آپ نے قیام کیا اسےمحلہ باغبانکہتے ہیں، جسے ان دنوں خانپورہ بھی کہتے ہیں۔ آپ اپنے مریدوں اور شاگردوں پر خاص توجہ فرماتے۔ ان کی اصلاح فکر اور تہذیب نفس کو مقدم جانتے تھے۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ جو شخص آپ کو ملنے کے لیے حاضر ہوتا آپ اس سے بڑی خوش خلقی اور خنداں پیشانی سے پیش آتے۔ اور اس کے حال پر اتنی شفقت فرماتے کہ اسے اس کا سو فیصدی پورا یقین ہو جاتا کہ آپ صرف میرے حال پر ہی کرم فرماتے ہیں۔ لیکن اپنے مریدوں کے احوال پر خاص کر کڑی نظر رکھتے۔ ان سے اگر کوئی خلاف شریعت کام ہو جاتا تو انھیں سختی سے منع کرتے اور آئندہ کے لیے تنبیہ فرما دیتے۔آپ کے مریدوں کی تعداد بے شمار ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنے خلفاء سے فرمایا کہ دیکھو تم دوسروں کی دیکھا دیکھی کہیں میری ہڈیاں نہ بیچنے لگنا اور میری قبر پر دوسروں کی طرح دکان نہ کھول لینا۔آپ آخر عمر میں اسہال کی بیماری میں مبتلا ہوئے۔ پانچ دن تک بیمار رہنے کے بعد7 ربیع الاول،1045ھکو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ آپ نے وفات اسی محلہ خان پور میں اپنے حجرے میں پائی، جس میں آخر تک آپ مقیم رہے اور بعد از وفات وہیں مدفون ہوئے۔ آپ کا مزاراورنگزیب عالمگیرنے تیار کروایا تھا۔[1]
+240,گرو ارجن دیو,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%D8%B1%D9%88_%D8%A7%D8%B1%D8%AC%D9%86_%D8%AF%DB%8C%D9%88,"گرو ارجن دیوسکھوںکے پانچویں گرو،گرو رام داسکے بیٹے تھے۔ بعض روا��ات کے مطابقشہنشاہ اکبرنے انھیں شرفِ باریابی بخشا۔شہزادہ خسرونے اپنے باپشہنشاہ جہانگیرکے خلاف بغاوت کی تو گرو ارجن دیو نے خسرو کی حمایت کی۔ خسرو کی گرفتاری کے بعد اس کے ساتھیوں پر شاہی عتاب نازل ہوا۔ ارجن دیو کوقلعہ لاہورمیں قید کر دیا گیا۔ یہیں ان کا انتقال ہوا۔ قلعہ لاہور کے قریبگوردوارہ ڈیرہ صاحبانہی کی یاد میں تعمیر کیا گیا۔ سکھ مذہب کے پانچویں گُرو 15 اپریل 1560 کو گوئندوال میں پیدا ہوئے۔ وہ گُرو رام داس اور بی بی بھانی کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ بی بی بھانی گُرو امر داس کی بیٹی تھیں۔ یکم ستمبر 1581 کو گُرو کے منصب پر فائز ہوئے۔
+ان کے عہد میں امرتسر کی تعمیر مکمل ہوئی۔ ترن تارن اور کرتار پور بھی انھوں نے بسائے۔ گرنتھ کو اکٹھا کرنا ان کا عظیم کارنامہ تھا۔ انھوں نے سکھ مذہب کے پرچار کے لیے مسند بنائے، لنگر خانوں اور گردواروں کے انتظام و انصرام کے لیے سکھوں پر دسواں ٹیکس نافذ کیا۔ 30 مئی 1606 کو انھیں لاہور میں جہانگیر نے قتل کروادیا۔شری گُرو ارجن دیو جی 19 بیساکھ 1620(15 اپریل 1563) کو چوتھے گُرو گُرو رام داس کے ہاں بی بی بھانی جی کی کوکھ سے گوئندوال میں پیدا ہوئے۔[2]بچپن کے ابتدائی 11 برس اپنے نانا
+شری گُرو امرداس جی کے زیر سایہ گزارے اور ان سے گور مکھی کی اعلیٰ مہارت حاصل کی، دیوناگری گاؤں کے دھرم شالہ سے سیکھی۔ سنسکرت میں آپ کے استاد پنڈت بینی تھے۔ گنت کا علم ماما موہری جی سے حاصل کیا۔ آپ کے ماموں بابا موہن جی نے آپ کو مراقبہ کی تعلیم دی۔
+شری گُرو امرداس جی کا وقت وداع قریب ہوا تو تیسرے گُرو صاحب نے یکم ستمبر 1574 کو چوتھے گُرو رام داس جی کو گُرو مسند عنایت کی ، بابا بڈھا جی نے گُرو تلک کی رسم ادا کی ، اسی دن سری گُرو امرداس جی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ اس کے بعد سال 1574 میں ہی سری گُرو رام داس اپنے تینوں بیٹوں پرتھی چند، سری مہاں دیوا تے سری گُرو ارجن دیو جی کو لے کر گورو کے چک یعنی امرتسر آگئے؛ اولین سیوا جو گُرو امرداس جی کے وقت سے چل رہی تھی اور جس شیشم کے درخت کے نیچے گُرو جی سیوا کروایا کرتے تھے وہاں اب گردوارہ ٹاہلی صاحب ہے۔ ٹاہلی پنجابی میں شیشم کو کہتے ہیں۔"
+241,گرو گرنتھ صاحب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D8%AF%DB%8C_%DA%AF%D8%B1%D9%86%D8%AA%DA%BE,"گرنتھ صاحبسکھ متکی مقدس کتاب ہے۔ گرنتھپنجابیمیں کتاب کو اور صاحباردواورعربیمیں دوست ساتھی یا مالک کو کہتے ہیں۔ سکھ اسے محض مذہبی کتاب ہی نہیں سمجھتے بلکہ یہ ان کے لیے زندہ گرو کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے اسے گرو گرنتھ صاحب بھی کہتے ہیں۔پانچویں سکھگرو ارجن دیو(1616- 1581) نے گرُو گرنتھ کی ترتیب و تدوین سنہ 1603ء میں شروع کی تھی۔ اس وقت پنجاب کے دانشور حلقوں میں گرنتھ صاحب کی تیاری کا کافی چرچا ہوا۔گرو ارجن دیو جی کے علاوہ پہلے چار سکھ گروؤں، مسلمان، ہندو صوفیا اور بھگتوں کے کلام پر مشتمل گرو گرنتھ صاحب1604ءمیں مکمل ہوئی۔اس کے بعد اس میں باقی پانچ گرووں کا کلام بھی شامل کیا گیا۔ دسویں گرو گوبند جی کا علاحدہ کلام دسم گرنتھ کے نام سے موسوم ہے۔ آخری گرو گوبند سنگھ جی نے اپنی موت سے ایک سال پیشتر 1708 میں حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق ان کے بعد کوئی گرو نہیں آئے گا۔ گرو گرنتھ صاحب کو ہی رہبر و رہنما تسلیم کیا جائے گا اسی لیے گرو گرنتھ صاحب کو حاضر گرو مانا جاتا ہے۔گرو ارجن دیو جی نے کوشش کی کہ گرو گرنتھ صاحب مذہبی تعصب سے بالاتر ہو اور پورے پنجاب کی اجتماعی فہم و فراست کا ترجمان ہو۔ اس کا یہ بھی مقصد تھا کہ مروج مذہبی تعصب ��ور مغلوں کے غیر منصفانہ نظام سے چھٹکارے کے لیے متوازی نظریہ سازی کی جائے۔ اس لیے گرو گرنتھ صاحب کا ایک حصہ بھگت بانی کہلاتا ہے جس میں شیخ بابا فرید شکر گنج، بھگت کبیر اور ہندو سنت سور داس کا کلام شامل ہے۔ بابا فرید کا کلام تو مسلمانوں تک پہنچا ہی گرو گرنتھ صاحب کی وساطت سے ہے۔ اسی روایت کے پیش نظر زمانہ جدید میں بھی بہت سے مسلمان صوفیا (کلام شاہ حسین) کے کلام کی کھوج اور تحقیق بھی سکھ محقق ڈاکٹرموہن سنگھجیسی شخصیتوں کی مرہون منت ہے۔گروارجن دیو جی اس سے پہلے بھی مسلمان صوفیا کے ساتھ اپنی قربت کا مظاہرہ کر چکے تھے۔ انھوں نے گرو گرنتھ صاحب کی تدوین سے پہلے امرتسر کا تالاب مکمل کروایا تھا جو ان کے والد گرو رام داس جی نے شروع کیا تھا۔ امرتسر کے تالاب میں گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھنے سے پہلے وہ لاہور تشریف لے گئے اور مسلمان صوفی میاں میر (1635-1550 ) سے درخواست کی کہ وہ اس کی بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھیں۔ مشہور سکھ تاریخ دان گیانی گیان سنگھ اور مسلمانمؤرخغلام محی الدین المعروف بھٹے شاہ بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ گرو ارجن جی نے اس موقع پر بہت سے صوفیا کو مدعو کیا اور میاں میر صاحب نے چار اینٹوں سے اس کی بنیاد رکھی۔ اس لیے گرنتھ صاحب کی ترتیب و تدوین میں مسلمان صوفی شاعروں کے کلام کی شمولیت نئی بات نہیں تھی۔ البتہ سب مسلمان صوفیوں کا کلام اس میں شامل نہیں کیا گیا۔لگتا ہے کہ جب گروگرنتھ صاحب کی تیاری ہو رہی تھی تو پنجاب کے صوفی اور سنت شاعروں میں اس کی دھوم تھی۔ ڈاکٹر جیت سنگھ سیتل (شاہ حسین، ڈاکٹر جیت سنگھ سیتل، پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ، 1995 صفحہ 36 ) نے گیانی پرناپ سنگھ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لاہور سے مادھولال شاہ عرف شاہ حسین، بھگت چھجو، کاہنا اور پیلو بھی اپنا کلام لے کر گرو صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ گرو صاحب نے ان بھگت شعرا کا کلام سنا لیکن اسے گرنتھ صاحب میں شامل کرنے سے معذوری ظاہر کی جس پرشاہ حسینیہ کہتے اٹھ گئے کہ ’ایتھے بولن دی نہیں جاء وے اڑیا‘ (یہاں بولنے کا مقام نہیں ہے)۔ ایک اور روایت کے مطابق جب گرو صاحب لاہور تشریف لائے تو شاہ حسین پھر اپنا کلام لے کر حاضر ہوئے لیکن ان کا کلام شامل نہ ہو سکا۔ شاہ حسین کا کلام شامل نہ ہونا تاریخ دانوں کے درمیان بحث کا موضوع رہا ہے۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ان کا یا کسی بھی ایسے بھگت یا سنت کا کلام شامل نہیں کیا گیا جو عام انسانوں کی زندگی کے فرائض نہیں نبھا رہے تھے۔رو گرنتھ صاحب 5894 منظوم حمدوں پر مشتمل ہے جس میں دس گروؤں اور پندرہ مسلمان اور ہندو صوفیا اور بھگتوں کا کلام ہے۔ گرنتھ صاحب 18 مختلف راگوں میں تقسیم اور منظم کیا گیا ہے۔ گرو گرنتھ صاحب میں گرو نانک جی کی 974 منظوم حمدیں ہیں۔ گرو گرنتھ صاحب میں بہت سی زبانوں کا استعمال کیا گیا ہے جن میں پنجابی، ملتانی یا سرائیکی کے علاوہ فارسی، پراکرت، ہندی اور مراٹھی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے بنیادی فہم کے لیے ہندی پنجابی کے علاوہ فارسی کی جانکاری لازمی ہے۔گرو گرنتھ صاحب کا آغاز بابا گرو نانک کی مشہور حمد جپ جی سے ہوتا ہے۔ اس نظم میں وہ سکھ مت کے واحدانیت کے نظریے کو فلسفیانہ سطح پر بیان کرتے ہیں۔ یہ حصہ کافی پیچیدہ اور توجہ طلب ہے کیونکہ اس میں بابا گرونانک دوسرے مذہب اور مکاتب فکر سے مباحثے کا انداز اختیار کرتے ہیں۔ اس کی تفہیم میں دقت اس لیے بھی پیش آتی ہے کیونکہ ان کے مخاطب مکاتب فکر کی بہت سی دلیلیں ہمارے سامنے نہیں ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس میں گرو نانک ہندو ازم کے کئی خداؤں کے تصور کی نفی اور خدا کی وحدت کے نظریے کو کئی پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں:
+تھا پیا نہ ہوئے ہوئیا نہ ہوئے آپے آپ نرجن سوئے
+(نہ ہی اسے مٹی سے گڑھا جا سکتا ہے اور نہ ہی (انسانی) فعل سے ہوتا ہے۔ وہ بے عیب ہے اور اپنی ذات میں سمویا ہوا ہے)یوں تو گرو گرنتھ صاحب گورمکھی رسم الخط میں لکھا گیا ہے اور اس کے مذہب کے ماننے والے اس رسم الخط میں پڑھتے ہیں لیکن تقسیم پنجاب سے پہلے اس کے بہت سے حصوں (مثلاّ جپ جی کا) کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا تھا۔ پرانے فارسی رسم الخط میں بھی پورا گرو گرنتھ صاحب لدھیانہ سے شائع کیا گیا تھا جو کچھ سال پہلے تک دستیاب تھا۔(چند سال پیشتر مکمل کلام نانک مع معنی اور تفسیر لاہور سے شائع ہوا اور دستیاب ہے۔)"
+242,اکال تخت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DA%A9%D8%A7%D9%84_%D8%AA%D8%AE%D8%AA,"اکال تخت(Akal Takht)
+(پنجابی:ਅਕਾਲ ਤਖ਼ਤ) لفظی معنی:ابدی تخت[1]سکھوںكى پانچتختوںمیں سے ایک ہے۔ یہہرمندر صاحب(گولڈن ٹیمپل) کمپلیکسامرتسر،پنجاب،بھارتمیں واقع ہے اورنئی دہلیکے شمال مغرب میں تقریبا 290 میل (470 کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع ہے۔اکال تخت پانچتختوںمیں سب سے پہلاتختہے۔ اسےسکھوںکےچھٹے گروگرو ہرگوبند[1]نے انصاف اور دنیاوی مسائل پر غور کرنے کے لیے تعمیر کروایا۔ یہ خالصہ کی دنیاوی اتھارٹی کی اعلی ترین نشست ہے اور جتھے دار سکھوں کے اعلیٰ ترین ترجمان کا مقام ہے۔ موجودہ جتھے دار سنگھ صاحب گیانی گربچن سنگھ خالصہ ہیں۔گرو رام داسنے سب سے پہلےہرمندر صاحبکے نزدیک بیٹھنے کے لیے مٹی کا ایک چبوترا بنوایا۔ اس کے بعدگرو ارجن دیونے اسی مقام پر ایک کچی کوٹھری بنوا سی جسے سکھ کوٹھا صاحب کہتے ہیں۔ ایک خاص بات یہ ہے کہہرمندر صاحبکی بنیاد مسلمان صوفیمیاں میرنے رکھی۔ جبکہ اکال تخت کی بنیاد بابا بڈھا جی، بھئی گرداس جی اورگرو ہرگوبندصاحب جی نے رکھی۔ سب سے پہلےگرو ہرگوبنداس تخت پر بیٹھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اکال تخت پر بار بار حملے ہوِئے۔اٹھارویں صدیمیںاحمد شاہ ابدالینے اکال تخت اورہرمندر صاحبپر کئی حملے کیے۔[1]ہری سنگھ نلوہجس کہراجہ رنجیت سنگھکا ایک جنرل تھا اس کی سونے تزین کی۔[2]4 جون،1984ءمیںآپریشن بلیو سٹارکے تحت اکال تخت اورہرمندر صاحبکو بہت نقصان پہنچا۔1984ءمیں بھارتی فوج کا اپنے ہی ملک میںامرتسرشہر میں واقعہرمندر صاحبپر کیا جانے والا آپریشن۔ یہ آپریشر اس وقت کی بھارتی وزیر اعظماندرا گاندھیکے حکم سے 3 سے 8 جون تک ہوا۔[3]31°37′14″N74°52′31″E / 31.62056°N 74.87528°E /31.62056; 74.87528"
+243,گرو ہرگوبند,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%D8%B1%D9%88_%DB%81%D8%B1%DA%AF%D9%88%D8%A8%D9%86%D8%AF,گرو ہر گوبند[ɡʊru həɾɡobɪnd]، جسےسچابادشاہبھی کہا جاتاہے (19 جون1595ء–3 مارچ1644ء)،[1][2]سکھوں کا چھٹاسکھ گروہے۔ وہ 11 سال کا تھا، جب30 مئی1606ءکو مغل بادشاہنورالدین جہانگیرکے ہاتھوں اس کے باپگرو ارجن دیوکی موت کے بعد اسے گرو بنایا گیا۔[3]گرو ہر گوبند کے اس وجہ سے بھی یاد رکھا جاتا ہے کہ اس نے سکھوں میں فوجی روایات اور دفاع کا کام شروع کیا۔ وہ سب سے طویل عرصے تک یعنی37 سال 9 ماہ اور 3 دن تک سکھ گرو رہا۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+245,جسا سنگھ اہلو والیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D8%B3%D8%A7_%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE_%D8%A7%DB%81%D9%84%D9%88%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81,جسا سنگھ اہلوالیہ (1718–1783) اٹھارویں صدی کا ایک مشہورسکھسردار تھا۔ وہلاہورکے نزدیک ایک گاؤں پند اہلوال میں پیدا ہوا۔نواب کپور سنگھنے اس کی دلیری سے خوش ہوکے 1753 میں اپنے مرنے پر اسے اپنا وارث بنایا۔ جسا سنگھ نے 1761 میں لاہور پر قبضہ کر لیا۔احمد شاہ ابدالیکے ساتھ اس کی کئی لڑائیاں ہوئیں۔ 1772 میں اس نےکپورتھلہ ریاستکی بنیاد رکھی جس کادارالحکومتکپورتھلہشہر تھا ۔
+247,آپریشن بلیو اسٹار,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D9%86_%D8%A8%D9%84%DB%8C%D9%88_%D8%A7%D8%B3%D9%B9%D8%A7%D8%B1,جرنیل سنگھ بھنڈراں والےقتل ہوا۔1984ءمیں بھارتی فوج کا اپنے ہی ملک میںامرتسرشہر میں واقعہرمندر صاحبپر کیا جانے والا آپریشن۔ یہ آپریشن اس وقت کی بھارتیوزیر اعظماندرا گاندھیکے حکم سے 3 سے 8 جون تک ہوا۔[10]
+249,جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D8%B1%D9%86%DB%8C%D9%84_%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE_%D8%A8%D9%86%DA%88%D8%B1%D8%A7%D9%86%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%A7,"جرنیل سنگھ بھنڈرانوالاایک سکھ مبلغ تھے۔ بھارت کے شمال مغربی ریاستپنجابمیں دمدمی ٹکسال تنظیم کے لیڈر تھے۔ بھارت میں سکھوں پر ہونے والے مظالم کے بعد انھوں نے الگ ریاست کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔ 1983میں جرنیل سنگھ اور اُن کے پیش روؤں نے امرتسر میں سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل میں پناہ لے لی، (جو جرنیل سنگھ کا ایک غلط فیصلہ تھا، اس لیے کہ انھیں گولڈن ٹیمپل میں پناہ لے کر بھارتی فوج سے لڑنے کی بجائے بھارتی فوج سے گوریلا طرز کی لڑائی لڑنی چاہیے تھی۔ کیونکہ جرنیل سنگھ کے پاس اسلحے اور ساتھیوں کا بھارتی فوج کی تعداد اور اسلحے سے کوئی مقابلہ نہیں تھا ایسے میں دو بدو لڑنے کی کوئی وجہ نہیں تھی) جس کے بعد بھارتی حکومت نے گولڈن ٹیمپل کو اسلحہ خانے کے طور پر استعمال ہونے اور عسکریت پسندوں، مطلوب مجرموں کی پناہ گاہ قرار دیتے ہوئے کارروائی کا فیصلہ کیا اورآپریشن بلیو سٹارشروع کر دیا۔ اس آپریشن میں جرنیل سنگھ بھی ہلاک ہوئے
+سکھ قوم آج بھی انھیں عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور انھیں خالصتان تحریک کا سب سے بڑا قائد تسلیم کرتے ہیں ہیں سکھ آج اپنے الگ ملک کے لیے بھارتی پنجاب اور ہریانہ میں الگ تحریک چلا رہے ہیں ."
+250,مصر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B5%D8%B1,"عرب جمہوریہ مصریامصر،جمهوريةمصرالعربية(قبطی زبان:Ⲭⲏⲙⲓ Khēmi)، بر اعظمافریقاکے شمال مغرب اور بر اعظمایشیاکےسنائیجزیرہ نما میں واقع ایک ملک ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلومیٹر ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو شمال مشرق میںغزہ پٹیاوراسرائیل، مشرق میںخلیج عقبہاوربحیرہ احمر، جنوب میںسوڈان، مغرب میںلیبیااور شمال میںبحیرہ رومہیں۔ خلیج عقبہ کے اس طرفاردن، بحر احمر کے اس طرفسعودی عرباور بحیرہ روم کے دوسری جانبیونان،ترکیاورقبرصہیں حالانکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مصر کی زمینی سرحد نہیں ملتی ہے۔کسی بھی ملک کے مقابلے میں مصر کی تاریخ سب سے پرانی اور طویل ہے اور اس کی تاریخی ابتدا 6 تا 4 ملنیا قبل مسیح مانی جاتی ہے۔ مصر کوگہوارہ ثقافتبھی مانا جاتا ہے۔قدیم مصرمیں کتب، زراعت، شہرکاری، تنظیم اور مرکزی حکومت کے آثار ملتے ہیں۔[5]مصر میں دنیا کے قدیم ترین یادگار عمارتیں موجود ہیں جو مصر کی قدیم وراثت، تہذیب، فن اور ثقافت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میںاہرامات جیزہ،ابوالہول،ممفس، مصر،طیبہاوروادی ملوکشامل ہیں۔ ان مقامات پر اکثر سائنداں اور محققین تحقیق میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور مصر کی قدیم روایات اور تاریخی حقائق سے آشکارا کرتے ہیں۔ مصر کی قدیم تہذیب ہی وہاں کی قومی علامت ہے جسے بعد میںیونانی قوم،فارس،قدیم روم،عرب قوم، ترکی ع��مانی اور دیگر اقوام نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم مصرمسیحیتکا ایک بڑا مرکز تھا لیکن 7ویں صدی میںمسلمانوںنے یہاں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور مصر مکمل طور سے مسلم اکثریت ملک بن گیا مگر عیسائی بھی وہاں موجود رہے گوکہ اقلیت میں تھے۔سولہویں صدی تا بیسویں صدی کے آغاز تک مصر پر بیرونی طاقتوں نے حکومت کی۔ شروع میںسلطنت عثمانیہاور بعد میںسلطنت برطانیہنے مصر کو اپنی حکومت کا حصہ بنایا۔ جدید مصر کا آغاز 1922ء سے ہوا جب مصر کو برطانیہ سے آزادی ملی مگر آزادی کے بعد وہاں بادشاہت قائم ہو گئی۔ البتہ اب بھی وہاں برطانوی فوج کا غلبہ تھا اور کئی مصریوں کا کہنا ہے کہ بادشاہت دراصل برطانیہ کی ایک چال تھی تاکہ مصر ان کی کالونی کا حصہ بنا رہے۔مصری انقلاب، 1952ءمیں مصریوں نے برطانوی فوج اور افسروں کو اپنے ملک سے بھگادیا اور اس طرح مصر سے برطانیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ برطانوینہر سوئزکا قومیا لیا گیا اورشاہ فاروق اولکو مع اہل خانہ ملک بدر کر دیا گیا۔ اس طرح مصر ایکجمہوریملک بن گیا۔ 1958ء میںجمہوریہ سوریہکے ساتھ مل کرمتحدہ عرب جمہوریہکی بنیاد ڈالی گئی مگر 1961ء میں اسے تحلیل کرنا پرا۔بیسویں صدیکے نصف آخر میں مصر میں سماجی اور مذہبی اتار چڑھاو دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو گئی اور اسی دوران میں1948ءمیںاسرائیل کے ساتھ تنازع، 1956ء میںسوئز بحران، 1967ء میں چھروزہ جنگاور 1973ء میںجنگ یوم کپورجیسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ مصر نے 1967ء تکغزہ پٹیپر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1978ء میں مصر نےکیمپ ڈیوڈ معاہدہپر دستخط کیے اور غزہ پٹی سے اپنا قبضہ واپس لے لیا اور ساتھ ہی ساتھاسرائیلکو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ملک میں بدستور سیاسی ہنگامہ جاری رہا اور بے امنی کا دور دورہ رہا۔ 2011ء میں پھر ایک انقلاب برپا ہوا اور مصر کی سیاست میں زبردست تبدیلی آئی۔ اسی دوران مصر دہشت گردی کی زد میں رہا اور معاشی مسائل سے بھی دوچار رہا۔ مصر کی موجودہ حکومتبین صدارتی جمہوریہہے اور مصر کے موجودہ صدرعبدالفتاح السیسیہیں۔ سیاست میں انھیں آمر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔مصر کاسرکاری مذہباسلامہے اورسرکاری زبانعربیہے۔[6]مصر کی کل آبادی تقریباً 95 ملین ہے اور اس طرح یہشمالی افریقا،مشرق وسطیاورعرب دنیاکا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔نائیجیریااورایتھوپیاکے بعد بر اعظمافریقاکا تیسرا بڑا آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر میں بلحاظ آبادی اس کا نمبر 15واں ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادیدریائے نیلکے کنارے پر بسی ہوئی ہے۔ ملک یا زیادہ تر زمینی حصہصحرائے اعظمپر مشتمل ہے جو تقریباً ناقابل آباد ہے۔ کثیر آبادی والے علاقوں میںقاہرہ،اسکندریہاور دریائے نیل کے جزیرے ہیں۔مصر کیخود مختار ریاستشمالی افریقا، مشرق وسطی اورعالم اسلاممیں ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مصر ایک اوسط درجہ کی طاقتور حکومت ہے۔[7]مصر کی معیشتمشرق وسطی کی بڑی معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے اور اکیسویں صدی میں اس کےدنیا کی بڑی معیشتوںمیں شمار ہونے کا امکان ہے۔ 2016ء میںجنوبی افریقاکو پیچھے چھوڑتے ہوئے مصرنائیجیریاکے بعد افریقا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا۔[8][9]مصر مندرجہ ذیل تنظیموں کا بانی/شرک بانی اور رکن ہے؛مصر (بکسر المیم)Miṣr"" (عربی تلفظ:[mesˤɾ]; ""مِصر"") is theکلاسیکی عربیخالصکلاسیکی عربیکا لفظ ہے اورقرآنمیں بھی اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ اس کا یہی نام زماہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ البتہمص��ی عربیمیںMaṣr"" (مصری عربی تلفظ:[mɑsˤɾ];مَصر) (بفتح المیم) کہتے ہیں۔[10]قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسل��م (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+251,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+252,افریقہ کے بڑے شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%81%D8%B1%DB%8C%D9%82%DB%81_%DA%A9%DB%92_%D8%A8%DA%91%DB%92_%D8%B4%DB%81%D8%B1,یہ فہرستافریقہ کے بڑے شہربلحاظ آبادی ہے۔
+253,عرب دنیا کے بڑے شہروں کی فہرست,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%B1%D8%A8_%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7_%DA%A9%DB%92_%D8%A8%DA%91%DB%92_%D8%B4%DB%81%D8%B1%D9%88%DA%BA_%DA%A9%DB%8C_%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA,یہعرب دنیا کے بڑے شہروں کی فہرست(List of largest cities in the Arab world) ہے۔
+254,مشرق وسطی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B4%D8%B1%D9%82_%D9%88%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%B0,"مشرق وسطیٰافریقہ۔یوریشیاکا ایک تاریخی و ثقافتی خطہ ہے جس کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے۔ اس خطے میں جنوب مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔
+مغربی دنیا میں مشرق وسطی کو عام طور پرعرباکثریتی ممالک سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ علاقے کی تمام ریاستوں کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ علاقے کی نسلی برادریوں میںافریقی،عرب،آرمینیائی،آذری،بربر،یونانی،یہودی،کرد،فارسی،تاجک،ترکاورترکمانشامل ہیں۔ خطے کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بلاشبہعربیہے جبکہ دیگر زبانوں میںآرمینیائی،آذری، بربر زبانیں،عبرانی، کرد،فارسی،ترکی،یونانیاوراردوشامل ہیں۔مشرق وسطی کی مغرب میں کی گئی تعریف کے مطابق جنوب مغربی ایشیا اورایرانسےمصرتک کا علاقہ مشرق وسطیٰ ہے۔ مصر مشرق وسطی کا حصہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ وہ جغرافیائی طور پر شمالی افریقہ میں ہے۔مقدرہ بین الاقوامی فضائی سفر (IATA) کی تیار کردہ مشرق وسطی کی تعریف کے تحتبحرین،مصر،ایران،عراق،اسرائیل،اردن،کویت،لبنان،فلسطین،اومان،قطر،سعودی عرب،سوڈان،شام،متحدہ عرب اماراتاوریمنمشرق وسطی کا حصہ ہیں۔مشرق وسطی اور اس سے منسلک اسلامی ممالک کے لیے عظیم مشرق وسطی کی سیاسی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس میں روایتی مشرق وسطی کے علاوہترکی،اسرائیل،افغانستاناورپاکستانبھی شامل ہیں۔یہ اصطلاح 2004ء میںجی 8کے اجلاس میںامریکہکے صدرجارج ڈبلیو بشنے استعمال کی تھی۔"
+255,قاہرہ کبری,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A7%DB%81%D8%B1%DB%81_%DA%A9%D8%A8%D8%B1%DB%8C,"قاہرہ کبری(عربی:القاهرة الكبرى) ہے جومصرمیں واقع ہے۔ اس کی مجموعی آبادی 17,816,000 افراد پر مشتمل ہے، یہمحافظہ قاہرہمیں واقع ہے۔[1]"
+256,میٹروپولیٹن علاقہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%B9%D8%B1%D9%88%D9%BE%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%B9%D9%86_%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%DB%81,میٹروپولیٹن علاقہاس شہر کو کہتے ہیں جس کے مرکز میں بہت زیادہ آبادی ہو اور اس کے اطراف میں بھی کم آبادی والے علاقے ہوں۔ اس کے علاوہ وہ شہر صنعت و حرفت میں بھی اپنا کردارادا کرتا ہو۔ شہر کا مرکز ہی کئی انتظامی حصوں میں تقسیم ہو۔پاکستانمیںکراچیاورلاہورمیٹروپول ہیں۔ مختلف ممالک میٹروپول کی مختلف تعریف کرتے ہیں۔ جیسےبھارتمیں میٹروپول وہ شہر ہوتا ہے جس کی آبادی ایک ملین سے زیادہ ہو، جس کی شہر آبادی چار ملین سے زیادہ ہو اس کومیگا سٹیکہتے ہیں ۔میٹروپولس
+257,میگا شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%DA%AF%D8%A7_%D8%B4%DB%81%D8%B1,میگا شہریامیگا سٹی(Megacity) عام طور پر دس ملین افراد سے زیادہ کل آبادی والے ایکمیٹروپولیٹن علاقہکو کہا جاتا ہے۔[1]ایک میگا شہر ایکمیٹروپولیٹن علاقہیا دو یا زیادہمیٹروپولیٹنعلاقے یکجا ہو سکتے ہے۔ اصطلاحات کانربیشن،میٹروپولساورمیٹروپلیکسمؤخر الذکر پر لاگو ہوتی ہیں۔2013 میںپاپولیشن ریفرینس بیوروکے مطابق 24 میگا شہر وجود میں ہیں۔ ان میں سب سے بڑےٹوکیو،دہلی،میکسیکو شہر،نیویارک شہراورشنگھائیکےمیٹروپولیٹن علاقےہیں۔ ان میں سے ہر کی آبادی 20 ملین افراد سے زیادہ ہے۔[2]
+258,قدیم مصر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%AF%DB%8C%D9%85_%D9%85%D8%B5%D8%B1,قدیم مصریامصری سلطنتشمالی افریقہکی ایک قدیم تہذیب ہے، جودریائے نیلکے کنارے واقع ہے، جہاں آج شمالی افریقی ملکمصرآباد ہے۔ قدیم مصر 3500 قبل مسیح کا ایک معاشرہ تھا، جو اس وقت تک قائم رہا جب 20 ق م میںرومی سلطنتنے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔
+259,اہرامات جیزہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%81%D8%B1%D8%A7%D9%85%D8%A7%D8%AA_%D8%AC%DB%8C%D8%B2%DB%81,اَہرامِ جیزہمصرکے پایۂ تختقاہرہکے قریب واقع ایک آثارِ قدیمہ ہے۔ یہ اَہراماتجیزہسطح مرتفعپر واقع ہیں۔ یہمصرکے قدیم یادگاروں میں سے ایک ہے۔ یہاں خصوصاً اَہراماتِ عظیم کے نام سے تین اہرامات اورابوالہولِ عظیمکے نام سے ایک بڑا مجسمہ بھی موجود ہیں۔ دریائےنیلکے کنارے پر واقع شہرِ جیزہ سے آٹھ کلومیٹر اورقاہرہسِٹی سینٹر سے پچیس کلومیٹر جنوب مغرب میں یہ واقع ہیں ۔
+260,ممفس، مصر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%85%D9%81%D8%B3%D8%8C_%D9%85%D8%B5%D8%B1,29°50′58.8″N31°15′15.4″E / 29.849667°N 31.254278°E /29.849667; 31.254278ممفسیامنف(عربی: منف،انگریزی: Memphis،یونانی: Μέμφις)مصرمیں واقع ایکعالمی ثقافتی مقامہے۔ اس مقام کو 1979ء میں یہ درجہ ملا۔ یہ شہرقدیم مصرکا ایک بڑا شہر تھا، اُس وقت مصر میں تین حکومتیں تھیں: شمالی، وسطی اور جنوبی۔وسطی مصرکےفرعونمینسنے ایک بڑے لشکر کے ہمراہ جنوبی مصر کے حکمراںسائتپر حملہ آور ہوا، سائت کو اس نے شکست دی اور جنوبی مصر کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد وہ شمالی مصر پر حملہ آور ہوا اور اسے بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ یوں پہلی بار مصر میں ایک متحدہ سلطنت قائم ہوئی، پھر مینس نے ہی ممفس کو تقریباً 3000 ق م میںقدیم مملکتکے عہد میں تعمیر کیا اور اپناپایۂ تختبنایا۔ آج کل ممفس دریائے نیل کے دامن میںقاہرہسے 15 میل جنوب میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، اس کے آثار جنوبیقاہرہکے علاقہمیت رہینہمیں پائے جاتے ہیں۔ممفسقاہرہکے جنوب میں اوردریائے نیلکے مغربی کنارے پر واقع ہے۔میت رہینہ،دہشوروغیرہ شہر بھی اس کے قریب ہیں۔
+261,عين شمس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D9%8A%D9%86_%D8%B4%D9%85%D8%B3,"عين شمس(Heliopolis) (قدیم یونانی: Ἡλιούπολις، مصری: ỉwnw، عربی: عين شمس) قدیممصرکے قدیم ترین شہروں میں سے ایک تھا۔ع��ن شمس (Heliopolis) مرکزیقاہرہسے چند کلومیٹر دور شمال مشرق میں واقع مقام ہے جہاں دریائے نیل کا ڈیلٹائی علاقہ شروع ہوتا ہے۔ یہدریائے نیلسے 5 کلومیٹر دور مشرق میں واقع ہے۔ اس کے یونانی نام یعنی ہیلیوپولس کا مطلب ہے ""سورج کا شہر"" کیونکہ یہاں سورج دیوتا کا مندر تھا، اسی لیے عربوں نے اسے یہی نام دیا اور یہ علاقہ ""عین شمس"" کہلایا۔آج کل یہ علاقہ قاہرہ کی آبادی ""مصر الجدیدہ"" کا حصہ ہے۔ مصر الجدیدہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قائم کردہ بستی ہے جس کی تعمیرات کا آغاز 1905ء میں ہوا تھا۔ قاہرہ کابین الاقوامیہوائی اڈا بھی یہیں واقع ہے۔یہاں قدیم دور کے ستون ہیں جنہیں ""قلوپطرہ کی سوئیاں' کہا جاتا ہے۔"
+262,نیل ڈیلٹا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%DB%8C%D9%84_%DA%88%DB%8C%D9%84%D9%B9%D8%A7,نیل ڈیلٹا(انگریزی: Nile Delta)عربی:دلتا النيل،Delta an-Nīlیا صرفالدلتا،ad-Delta)زیریں مصرمیں بننے والاڈیلٹاہے جہاںدریائے نیلپھیل کربحیرہ روممیں جا گرتا ہے۔
+263,فسطاط,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D8%B3%D8%B7%D8%A7%D8%B7,"فسطاط(عربی: الفسطاط) مسلممصرکا پہلا دار الحکومت تھا ۔ فسطاط کا شمالی حصہقاہرہہے جو اب مصر کا دار الحکومت ہے۔آج کل فسطاط قاہرہ کے ضلع ""قدیم مصر"" کا حصہ ہے۔ یہ دور فراعین کے بعدنیلکے ساحل پر واقع مصر کا پہلا دار الحکومت تھا۔عربیزبان میں فسطاط کا مطلب ""خیمہ"" ہے۔یہاں خیمہ نماٗ اہرام موجود ہے اور اسی نسبت سے یہ شہر فسطاط کہلایا۔"
+264,اسلامی فتح مصر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C_%D9%81%D8%AA%D8%AD_%D9%85%D8%B5%D8%B1,بادشاہ ہرقلاسکندریہ سائرستھودوروسعمر بن خطابعمرو ابن العاصزبیر ابن عواممقداد بن اسودعبادہ بن صامتشام کی اسلامی فتحاسلامی فتح مصرافریقہ اور المغرب کی فتحامویوں کے اناطولیہاورقسطنطنیہپر حملےسرحدی جھڑپیںصقلیہاورجنوبی اطالیہجہاد، لڑائیاں اور بحری حملےفارسماوراء النہرسندھخزر خاناتبرصغیرقفقازاندلسغالعمرو بن عاص4000گھڑ سواروںکے ہمراہمصرفتحکر نے کے لیے روانہ ہوئے۔ مصر پران دنوںرومیشہنشاہہرکولیسکیحکومتتھی۔رومیافواجنے 640ء میں،فيوماورعین شمسمیں شکست کے بعد وہاں کا کنٹرول کھودیا۔ عمرو نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ شکست خوردہ رومی افواجبےبیلونکےقلعےمیں جمع ہوگئیں۔عمرو بن عاصؓ نے انھیں شکست دے کر قلعے سے باہر نکا لا اور وہاں بھی شکست سے دوچار کیا۔کوروشنے جومصرکاگورنرتھا۔ اس نازک صورت حال کو دیکھتے ہوئے امن مذاکرات شروع کیے اور اپنے اس فیصلے کیہرکولیسسے تائید چاہی۔شہنشاہنے امن معاہدے کو مسترد کر کےکوروشکو باغی قرار دے دیا۔ فروری 641ء میںشہنشاہکا انتقال ہو گیا اور اسی سالبےبیلونکے ہتھیار ڈالنے کے بعدکوروشامن قائم کرنے کے قابل ہوا۔مصرماسوائےاسکندریامسلمانوں کے زیر قبضہ آچکا تھا۔ نئےشہنشاہقسطنطین سومنے دفاع کے لیے ایک بڑی فوج روانہ کی۔عمرو بن العاصنےاسکندریاکی طرف قدم بڑھائے اور اپنی مہارت و شجاعت کے باعث ایک بار پھر رومی افواج کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔اسکندریابھی اب مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا،خلیفہ عثماننےعمرو بن عاصکومصرکاگورنرمقرر کر دیا۔
+265,رومی سلطنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D9%88%D9%85%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA,"میدیولانم(286–402,مغربی رومی سلطنت)Augusta Treverorumسرمیومراوینا(402–476، مغربی)نیکومیڈیا(286–330,بازنطینی سلطنت)سلطنتِ رومایارومی سلطنت، زمانۂ قدیم کی ایک سلطنت، جس کا دار الحکومترومتھا۔ اس سلطنت کا پہلا بادشاہآگسٹس سیزرتھا جو 27 قبل مسیح میں تخت پر بیٹھا۔ اس سے قبل روم ایک جمہوری�� تھا جوجولیس سیزراورپومپئکی خانہ جنگی اورگائس ماریئساورسولاکے تنازعات کے باعث کمزور پڑ گئی تھی۔کئی موجودہ ممالک بشمولانگلستان،اسپین،فرانس،اٹلی،یونان،ترکیاورمصراس عظیم سلطنت کا حصہ تھے۔ رومی سلطنت کی زبانلاطینیاوریونانیتھی۔مغربی رومی سلطنت500 سال تک قائم رہی جبکہ مشرقی یعنیبازنطینی سلطنت، جس میںیوناناورترکیشامل تھے، ایک ہزار سال تک موجود رہی۔ مشرقی سلطنت کا دار الحکومتقسطنطنیہتھا۔مغربی رومی سلطنت4 ستمبر476ءکو جرمنوں کے ہاتھوں تباہ ہو گئی جبکہبازنطینی سلطنت29 مئی1453ءمیںعثمانیوںکے ہاتھوںفتح قسطنطنیہکے ساتھ ختم کردی۔اپنے عروج کے دور میں رومی سلطنت 5،900،000 مربع کلومیٹر (2،300،000 مربع میل) پر پھیلی ہوئی تھی۔ مغربی تہذیب کی ثقافت، قانون، ٹیکنالوجی، فنون، زبان، مذاہب، طرز حکومت، افواج اور طرز تعمیر میں آج بھی رومی سلطنت کی جھلک نظر آتی ہے۔رومی سلطنت کی تاریخ یورپی اقوام کے لیے آج بھی انتہائی دلچسپی کا باعث ہے۔ وہ ان رومی بادشاہوں اور جنرلوں کی تعریف اور توصیف کرتے ہیں کہ جنھوں نے حملہ کرکے قبائل کو غیر مہذب اور وحشی قرار دے کر ان کا قتل عام کیا، ان کو غلام بنایا اور ان کی لوٹی ہوئی دولت سے اپنے محلات، مندر اور عمارتیں بنائیں۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ ان کے ہمسایہ قبائل جو امن و امان کی زندگی گزار رہے تھے اور جو اپنے قبائلی رسم و رواج پر عمل پیرا تھے، وہ غیر مہذب جب کہ حملہ آور جنھوں نے ان پر بغیر کسی اشتعال کے حملہ کیا اور ان کے مال و اسباب کو لوٹا، وہ مہذب اور قابل تعریف ٹھہرائے گئے۔
+یورپ کی اقوام نے رومیوں سے کئی ریاستی ادارے وراثت میں پاکر انھیں اختیار کیا جیسے سینیٹ، اسمبلیاں، قانون، ووٹنگ سسٹم اور ویٹو کی طاقت استعمال کرنے کا طریقہ، اس کے علاوہ رومی سلطنت کی تاریخ کو یاد رکھنے کے لیے مختلف موضوعات پر فلمیں بنائی گئیں۔ ڈرامے سٹیج کیے گئے۔ مصوری اور مجسمہ سازی میں ان کی تعریف کے اہم واقعات افراد اور ان کے کردار کو محفوظ کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں رومی تاریخ پر کتابیں لکھی گئیں۔ آثار قدیمہ نے ان کی پرانی عمارتوں اور یادگاروں کو دریافت کرکے نئی زندگی دی۔ تاریخی ناولوں کے ذریعے عام لوگوں میں ان کو مقبول بنایا گیا۔رومی سلطنت کے زوال کے بعد 800 عیسوی میں اس کے احیا کی کوشش کی گئی۔ جب کارولینجین (Carolingian) خاندان کا حکمراں شارلیمن (Charlemagne) ہوا تو پوپ نے اس کی تاج پوشی کی۔ اس کے بعد وہ ہولی رومن ایمپرر کہلایا۔ یورپ کے سیاسی اتار چڑھائو میں یہ ادارہ قائم رہا اور وولیٹر نے طنزاً اس کے بارے میں کہا کہ یہ نہ تو ہولی ہے، نہ رومن ہے اور نہ ایمپرر۔ بالآخر نپولین نے 1806 عیسوی میں اس کا خاتمہ کیا۔جب یورپ کے لوگوں نے تاریخ میں رومی سلطنت کی ٹوٹ پھوٹ کے بارے میں پڑھا تو
+انھیں اس پر حیرت ہوئی کہ ایک طاقتور مال اور دولت سے بھرپور مشرق اور مغرب میں پھیلی ہوئی یہ سلطنت کیونکر زوال کا شکار ہوئی، کیونکہ اس کی ایک وجہ تو انھیں سلطنت کی تقسیم میں نظر آئی۔ مغربی رومی سلطنت پوپ کی سربراہی میں کیتھولک فرقے پر قائم تھی جب کہ مشرقی سلطنت بازنطینی ہو گئی اور اس نے (Orthodox) عیسائیت کو اپنالیا۔ اس تقسیم نے دونوں میں رقابت اور تضاد کو پیدا کیا۔
+مؤرخوں نے رومی سلطنت کے عروج کی تاریخ کے بعد اس پر توجہ دی کہ وہ کون سی وجوہ تھیں کہ جن کے باعث رومی سلطنت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ اگرچہ اس موضوع پر مؤرخوں نے لکھا ہے مگر یہاں ہم ان دو ابتدائی مؤرخوں کا ذکر کریں گے، جنھوں نے اس کے زوال کی جانب نشان دہی کی، اہم وجہ سیاست کا غیر مستحکم ہونا بتایا۔ جب ریاست کا تسلط کمزور ہوا تو اس کے ساتھ ہی سماجی اور معاشی بحرانوں کی ابتدا ہوئی، جس نے انتشاروں کو پیدا کیا، جس نے سلطنت کو غیر محفوظ بنایا۔دوسرا اہم مورخ Edwin Gibbon تھا جس نے رومی ہسٹر کے کھنڈر دیکھ کر اس کی کھوئی ہوئی عظمت سے متاثر ہوکر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس کے زوال کی تاریخ لکھے۔ یہاں خاص بات یہ کہ اس نے رومی
+سلطنت کے عروج کو نظر انداز کیا اور ان وجوہ کی نشان دہی کی کہ جو اس کے زوال کا باعث ہوئیں، جیسے فوج کا سیاست میں آنا اور اپنی مرضی کے حکمران منتخب کرنا، رومی شہنشاہوں کا یکے بعد دیگرے قتل ہونا، غلاموں کی تعداد کا لڑنا جو گھریلوں کاموں سے لے کر زراعت اور جنگ میں مصروف رکھے جاتے تھے۔ سرحدوں پر قبائلی حملوں کی وجہ سے زراعت کا تباہ ہونا، بے روزگار کسانوں کا شہروں میں آنا، بڑھتی آبادی کی وجہ سے شہر میں صفائی کا نہ ہونا، بیماریوں کا پھیلنا، عوامی جھگڑے اور فسادات کی وجہ سے شہروں کا غیر محفوظ ہونا اور امرا کا دیہات کی جانب حویلیوں میں منتقل ہونا۔ان وجوہ کے علاوہ زوال کے جس اہم پہلو کی جانب گبنن نے توجہ دلائی ہے وہ یہ کہ جب رومی معاشرہ عیسائی ہوا تو اس نے اس کے کردار کو بدل کر رکھ دیا۔ جب رومی پیگن یا غیر عیسائی تھے اور اس وقت ان میں جنگی جذبہ تھا۔ بہادری اور جرأت تھی اور میدان جنگ میں جان دینے پر تیار تھے، لیکن عیسائی ہونے کے بعد ان کا یہ جنگی جذبہ ختم ہو گیا، کیونکہ عیسائیت امن کی تعلیم دیتی تھی اور جنگ کے خلاف تھی، دوسری اہم تبدیلی یہ آئی کہ پوری رومی سلطنت میں خانقاہوں کی بنیاد پڑی، جہاں ایک بڑی تعداد میں بطور راہب داخل ہوتے تھے اور عہد کرتے تھے کہ وہ اپنی زندگی عبادت کے لیے وقف کر دیں گے۔ اس نے ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو پیداواری عمل میں شریک نہ تھا اور جو معاشرے پر معاشی بوجھ بن گیا تھا۔ جب تک رومی معاشرہ پیگن تھا، اس نے فلسفہ، ادب، آرٹ اور مجسمہ سازی کو پیدا کیا، اس کے تعلیمی اداروں میں فلسفے کی تعلیم دی جاتی تھی، جو زمینی ترقی کے لیے لازمی تھی، لیکن جب معاشرے پر عیسائیت کا غلبہ ہوا تو اس نے تمام
+پیگن اداروں کو بند کر دیا۔ فلسفے کی تعلیم ممنوع قرار پائی۔ پیگن فلسفیوں کا استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے پورے معاشرے پر چرچ کا تسلط ہو گیا اور فنونِ لطیفہ کے لیے یہ لازم ہوا کہ وہ مذہبی دائرے میں رہتے ہوئے تخلیق کریں، اس تبدیلی نے رومی معاشرے کو مذہبی طور پر انتہا پسند بنادیا اور روشن خیالی کے تمام دروازے بند کردیے۔تو اس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک جانب رومی معاشرہ زمینی طور پر بنجر اور شکستہ ہو گیا۔ دوسری طرف اس کی افواج اس قابل نہ رہیں کہ وہ بار بیرین قبائل سے اپنا دفاع کرسکیں۔ چنانچہ 410 عیسوی میں ویزوگوتھ شہر روم پر قابض ہوئے اور مغربی رومی ایمپائر کا خاتمہ کر دیا۔ ایک وقت میں شکست کھانے والے شہر میں فاتح بن کر آئے۔ مشرقی رومی ایمپائر نے ایک طویل عرصے کی سیاسی ٹوٹ پھوٹ کے بعد 1453 عیسوی میں ترکوں کے ہاتھوں شکست کھائی اور یوں رومی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔
+جدید زمانے میں یورپی اقوام نے بھی اسی رومی ماڈل کو اختیار کیا، خود کو مہذب کہا، ایشیا اور افریقا کے جن ملکوں پر قبضہ کیا، ان کو غیر مہذب کہہ کر ناصرف ان کا قتل عام کیا بلکہ ان کی دولت کو بھی لوٹا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ میں اس روایت کو تبدیل کیا جائے اور ہر اس حملہ آور کو جس نے اپ��ی فوجی طاقت اور ٹیکنالوجی کی مدد سے دوسرے ملکوں پر قبضہ کیا، انھیں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جائے۔ درحقیقت حملہ آور ظالم اور غیر مہذب تھے، جنھوں نے پُرامن اور مہذب قوموں کو شکست دے کر اپنی انتہا پسندی اور تشدد کا اظہار کیا۔ ان کے ان جرائم کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے، تاکہ مہذب اور غیر مہذب کے پردے میں جو جرائم ہوئے ہیں، ان کی حقیقت معلوم ہو سکے۔[5]"
+266,قلعہ بابلیون,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D9%84%D8%B9%DB%81_%D8%A8%D8%A7%D8%A8%D9%84%DB%8C%D9%88%D9%86,قلعہ بابلیون(عربی: حصن بابليون)مصرکا ایکقلعہجومحافظہ قاہرہمیں واقع ہے۔[1]
+268,قاہرہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%84%D9%82%D8%A7%DB%81%D8%B1%DB%81,"قاہرہ(انگریزی: Cairo) (تلفظ:/ˈkaɪroʊ/KY-roh;عربی:القاهرة،تلفظ[ælqɑ(ː)ˈheɾɑ])مصرکادار الحکومت،افریقہ،عرب دنیااورمشرق وسطیٰمیں سب سے بڑا شہری مجموعہ ہے۔قاہرہ کبریمیٹروپولیٹن علاقہ، جس کی آبادی 21.9 ملین ہے،[3]آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارھواں بڑامیگا شہرہے۔ قاہرہ کا تعلققدیم مصرسے ہے، کیونکہاہرامات جیزہاور قدیم شہرممفساورعين شمساس کے جغرافیائی علاقے میں واقع ہیں۔نیل ڈیلٹاکے قریب واقع،[4][5]شہر سب سے پہلےفسطاطکے طور پر آباد ہوا، ایک بستی جس کی بنیاد مسلمانوں کیفتح مصرکے بعد 640ء میں ایک موجودہ قدیمرومیقلعے،بابلیونکے ساتھ رکھی گئی تھی۔دولت فاطمیہکے تحت 969ء میں قریب ہی ایک نئے شہرالقاہرہکی بنیاد رکھی گئی۔ اس نے بعد میںایوبی سلطنتاورسلطنت مملوک (مصر)ادوار (بارہویں-سولہویں صدی) کے دوران میںفسطاطکو مرکزی شہری مرکز کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا۔[6]قاہرہ طویل عرصے سے اس خطے کی سیاسی اور ثقافتی زندگی کا مرکز رہا ہے اوراسلامی فن تعمیرکی پیش رفت کی وجہ سے اسے ""ہزارمیناروںکا شہر"" کا عنوان دیا گیا ہے۔ قاہرہ کے تاریخی مرکز (قاہرہ المعز) کو 1979ء میںیونیسکو عالمی ثقافتی ورثہکا درجہ دیا گیا۔[7]عالمگیریت اور عالمی شہر تحقیق نیٹ ورککے مطابق قاہرہ کو ""بیٹا +"" درجہ بندی کے ساتھعالمی شہرسمجھا جاتا ہے۔[8]آج، قاہرہ میںعرب دنیاکی سب سے قدیم اور سب سے بڑی سنیما اور موسیقی کی صنعت ہے، نیز دنیا کا دوسرا قدیم ترین اعلیٰ تعلیم کا ادارہ،جامعہ الازہربھی یہیں واقع ہے۔ بہت سے بین الاقوامی میڈیا، کاروباری اداروں اور تنظیموں کے علاقائی ہیڈ کوارٹر شہر میں ہیں۔عرب لیگکا صدر دفتر قاہرہ میں اپنے زیادہ تر وجود میں رہا ہے۔453 مربع کلومیٹر (175 مربع میل) پر پھیلا ہوا 10 ملین[9]سے زیادہ آبادی کے ساتھ، قاہرہ مصر کا سب سے بڑا شہر ہے۔
+مزید 9.5 ملین باشندے شہر کے قریب رہتے ہیں۔ قاہرہ، بہت سے دوسرےشہروںکی طرح، آلودگی اور ٹریفک کی اعلیٰ سطح کے مسائل کا شکار ہے۔قاہرہ میٹرو، جو 1987ء میں کھولی گئی،افریقہکا سب سے پرانامیٹرو نظامہے،[10][11]اور اس کا شمار دنیا کے پندرہ مصروف ترین نظاموں میں ہوتا ہے، جس میں سالانہ 1 بلین[12]مسافروں کی سواری ہوتی ہے۔
+قاہرہ کی معیشت 2005ء میںمشرق وسطیٰمیں پہلے نمبر پر تھی،[13]اورفارن پالیسی (رسالہ)کے 2010ءگلوبل سٹیز انڈیکسمیں عالمی سطح پر 43 ویں نمبر پر ہے۔[14]مصری اکثر قاہرہ کومصری عربی، یںمصر(کلمہ نویسیMaṣr(بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ:[mɑsˤɾ];مَصر) کہتے ہیں، جو ملک کے لیے شہر کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔[15][16]اس کا رسمی نامالقاہرہ(القاهرة) کا مطلب ہے 'فتح کرنے والا' یا 'قاتح، اس حقیقت کی وجہ سے کہ سیارہمریخ،نجم القاہر(النجم القاہر، 'فتح کرنے والا ستارہ')، اس وقت عروج پر تھا جب شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔[17]ممکنہ طور پردول�� فاطمیہکے خلیفہمعز لدین اللہکی آمد کے حوالے سے بھی جو 973ء میں فاطمیوں کے پرانے دار الحکومتمہدیہ (شہر)سے قاہرہ پہنچے تھے۔
+قدیم شہرعين شمسکا مقامعين شمس (قاہرہ)(عربی زبان: عين شمس، 'سورج کی آنکھ') قاہرہ کا مضافاتی علاقہ ہے۔شہر کے چندقبطینام ہیں۔Tikešrōmi(قبطی: Ϯⲕⲉϣⲣⲱⲙⲓموخر قبطی:[di.kɑʃˈɾoːmi])
+1211 کی عبارت (The Martyrdom of John of Phanijoit) میں تصدیق شدہ ہے اور یا تو ایک کالک ہے جس کا مطلب ہے 'مرد توڑنے والا' (Ϯ-، 'the'، ⲕⲁϣ-، 'to break'، and ⲣⲱⲙⲓ، 'man')، عربی القاہرہ کے مشابہ یاعربیسے ماخوذ ""قصر الروم"" (رومی قلعہ)،قدیم قاہرہمیںقلعہ بابلیونکا ایک اور نام سے ہو سکتا ہے۔قبطی زبانکی شکلخیرون(ⲭⲁⲓⲣⲟⲛ) جدید قبطی متن (Ⲡⲓⲫⲓⲣⲓ ⲛ̀ⲧⲉ ϯⲁⲅⲓⲁ ⲙ̀ⲙⲏⲓ Ⲃⲉⲣⲏⲛⲁ) میں تصدیق شدہ ہے۔[18]لیوئی(Lioui)موخر قبطی:[lɪˈjuːj]) یاایلیوئیElioui(Ⲉⲗⲓⲟⲩⲓقبطی:[ælˈjuːj])
+ایک اور نام ہے جو یونانی نامہیلیوپولیس(Ήλιούπολις) سے نکلا ہے۔[19]کچھ لوگ استدلال کرتے ہیں کہمیسترم(Mistram) (Ⲙⲓⲥⲧⲣⲁⲙموخر قبطی:[ˈmɪs.təɾɑm]) یانسترم(Nistram) (Ⲛⲓⲥⲧⲣⲁⲙموخر قبطی:[ˈnɪs.təɾɑm]) قاہرہ کا ایک اور قبطی نام ہے۔
+اگرچہ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ ایکعباسیکےدار الحکومتالعسکر'کا نام،[20]قاہری(ⲔⲁϩⲓⲣⲏKahi•ree)
+عربی نام کا ایک مقبول جدید ترجمہ ہے (دیگر Ⲕⲁⲓⲣⲟⲛ [Kairon] اور Ⲕⲁϩⲓⲣⲁ [Kahira]) جو جدید لوک اشعار ہے جس کا مطلب ہے 'سورج کی سرزمین' ہے۔ کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ یہ ایک مصری بستی کا نام تھا جس پر قاہرہ تعمیر کیا گیا تھا، لیکن یہ مشکوک ہے کیونکہ یہ نام کسیحیروغلیفییادیموطیقیماخذ میں تصدیق شدہ نہیں ہے، اگرچہ کچھ محققین، جیسے پال کاسانووا، اسے ایک جائز نظریہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔[19]قاہرہ کوکیمی(Ⲭⲏⲙⲓ) (موخر قبطی:[ˈkɪ۔mi]) یاگیپدوس(Ⲅⲩⲡⲧⲟⲥ) (موخر قبطی:[ˈɡɪp.dos]) بھی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب قبطی میں مصر ہے، اسی طرح مصری عربی میں اسے کہا جاتا ہے۔[20]بعض اوقات اسکندریہ کے لوگ غیر رسمی طور پر اس شہر کوکایروکہتے ہیں۔ (بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ:[ˈkæjɾo]; (مصری عربی:كايرو))۔[21]موجودہ قاہرہ کے آس پاس کا علاقہ طویل عرصے سےقدیم مصرکا مرکزی نقطہ رہا ہے کیونکہ اس کے تزویراتی مقاموادی نیلاورنیل ڈیلٹاعلاقوں (تقریباً)بالائی مصراورزیریں مصرکے سنگم پر ہے، جس نے اسےشمالی افریقہاورسرزمین شامکے درمیان میں بڑے راستوں کے تقاطع پر ہے۔[22][23]ممفس،قدیم مملکت مصرکے دوران مصر کادار الحکومتاورسلطنت بطلیموستک ایک بڑا شہر، موجودہ قاہرہ کے جنوب میں تھوڑے فاصلے پر واقع تھا۔[24]عين شمس(ہیلیوپولیس) ایک اور اہم شہر اور بڑا مذہبی مرکز، اس جگہ واقع تھا جو اب قاہرہ کے شمال مشرقی مضافات ہیں۔[24]یہ بڑی حد تک 525 قبل مسیح اور 343 قبل مسیح میں فارسی حملوں سے تباہ ہو گیا تھا اورپہلی صدی قبل مسیحکے آخر میں اسے جزوی طور پر ترک کر دیا گیا تھا۔[22]تاہم جدید قاہرہ کی ابتدا عام طور پرپہلی صدیعیسوی میں بستیوں کے ایک سلسلے سے ملتی ہے۔
+چوتھی صدی کے آخر میں،[25]چونکہممفسکی اہمیت میں مسلسل کمی آرہی تھی،[26]رومیوںنےدریائے نیلکے مشرقی کنارے کے ساتھ ایک بڑا قلعہ قائم کیا۔
+قلعہ، جسےقلعہ بابلیونکہا جاتا ہے، رومی شہنشاہدائیوکلیشن(دور 285ء-305ء) نےدریائے نیلکوبحیرہ احمرسے ملانے والی ایک نہر کے دروازے پر تعمیر کیا تھا، جسے اس سے پہلے شہنشاہتراجان(دور 98ء–115ء) نے کھدوایا تھا۔[ب][27]قلعہ کے مزید شمال میں، موجودہ ضلعازبکیہکے قریب، ایکبندرگاہاور مضبوط چوکی تھی جسےتندونیاس(Tendunyas) (��بطی: ϯⲁⲛⲧⲱⲛⲓⲁⲥ)[28]یاام دونینکہا جاتا تھا۔[29][30][31]اگرچہ اس علاقے میںساتویں صدیسے زیادہ پرانی عمارتیں رومی قلعوں کے علاوہ محفوظ نہیں ہیں، تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ یہاں ایک بڑا شہر موجود تھا۔ یہ شہر اتنا اہم تھا کہ اس کےاسقفسائرس نے 449ء میںافسس کی دوسری کونسلمیں شرکت کی۔[32]تاہمبازنطینی-ساسانی جنگ602ء اور 628ء کے درمیان میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ممکنہ طور پر زیادہ تر شہری آبادی کو دیہی علاقوں میں جانا پڑا، جس سے بستی جزوی طور پر ویران ہو گئی۔[30]یہ جگہ آجقبطی راسخ الاعتقادکمیونٹی کے مرکز میں موجود ہے، جوچوتھی صدیکے آخر میں رومنی اور بازنطینی گرجا گھروں سے الگ ہو گئی تھی۔ قاہرہ کے قدیم ترین موجودہ گرجا گھر، جیسےقبطی قاہرہ میں قدیس بربارہ گرجا گھراورقدیس سرجیوس و باخوس گرجا گھر(ساتویں صدیکے آخر یاآٹھویں صدیکے اوائل سے)، قلعہ کی دیواروں کے اندر واقع ہے جسے ابقدیم قاہرہیاقبطی قاہرہکے نام سے جانا جاتا ہے۔[33]بازنطینی مصرپرمسلمانوں کی فتحکی قیادتعمرو ابن العاصنے 639ء سے 642ء تک کی۔
+ستمبر 640ء میںقلعہ بابلیونکا محاصرہ کیا گیا تھا اور اپریل 641ء میں اسے فتح کیا۔ 641ء یا 642ء کے اوائل میں،اسکندریہ(اس وقت مصری دار الحکومت) کے ہتھیار ڈالنے کے بعد، اس نےقلعہ بابلیونکے ساتھ ایک نئی بستی کی بنیاد رکھی۔[34][35]شہر جسےفسطاط(عربی:الفسطاط) کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک چھاونی قصبے کے طور پر اورمصرکے نئے انتظامی دار الحکومت کے طور پر خدمات انجام دیں۔ جانيت ابو لجد اور آندرے ریمنڈ جیسے مورخین نے موجودہ قاہرہ کی ابتدا کوفسطاطکی بنیاد تک پہنچایا۔[36][37]بحیرہ رومکے ساحل پر اسکندریہ کے موجودہ دار الحکومت کو استعمال کرنے کی بجائے، اس اندرون ملک مقام پر ایک نئی بستی قائم کرنے کا انتخاب، نئے فاتحین کی تزویراتی ترجیحات کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ نئی مسلم انتظامیہ کے اولین منصوبوں میں سے ایکتراجانکی قدیم نہر کو صاف کرنا اور اسے دوبارہ کھولنا تھا تاکہ اناج کو مصر سے براہ راستمدینہ منورہ، جوجزیرہ نما عربمیںخلافت راشدہکادار الحکومتتھا۔[38][39][40][41]عمرو ابن العاصنے اسی وقت شہر کے لیے ایک مسجد بھی قائم کی، جسے ابمسجد عمرو بن العاصکے نام سے جانی جاتی ہے، جو مصر اور افریقہ کی قدیم ترین مسجد (تاہم موجودہ ڈھانچہ بعد کی توسیع سے متعلق ہے) ہے۔[23][42][43][44]750ء میںعباسیوںکے ذریعہاموی خلافتکے خاتمے کے بعد، نئے حکمرانوں نےفسطاطکے شمال مشرق میں اپنی ایک بستی بنائی جو نیا صوبائی دار الحکومت بن گیا۔ یہالعسکر(عربی:العسكر) کے نام سے جانا جاتا تھا، جیسا کہ یہ ایک فوجی چھاونی کی طرح استعمال ہوتا تھا۔ ایک گورنر کی رہائش گاہ اور ایک نئیمسجدبھی شامل کی گئی، جو 786ء میں مکمل ہوئی۔[45]861ء میں عباسی خلیفہالمتوکل علی اللہکے حکم پر،فسطاطکے قریبجزیرہ روضہپر مقیاس النیل تعمیر کیا گیا۔ اگرچہ بعد کی صدیوں میں اس کی مرمت کی گئی اور اسے نئی چھت ڈالی گئی، لیکن اس کا بنیادی ڈھانچہ آج بھی محفوظ ہے، جو اسے آج قاہرہ میں اسلامی دور کا سب سے قدیم محفوظ ڈھانچہ بناتا ہے۔[46][47]868ء میںترکنژاد بکبک نامی کمانڈر کو عباسی خلیفہالمعتز باللہنے ملک میں بغاوت کے بعد امن بحال کرنے کے لیے مصر بھیجا تھا۔ ان کے ساتھ ان کا سوتیلا بیٹااحمد بن طولونبھی تھا جو مصر کا موثر گورنر بنا۔ وقت گزرنے کے ساتھ،احمد بن طولوننے ایک فوج حاصل کی اور اثر و رسوخ اور دولت جمع کی، جس سے وہ 878ء تک مصر اورسوریہدونوں کادرحقی��تآزاد حکمران بن گیا۔[48][49][50]870ء میں اس نے اپنی بڑھتی ہوئی دولت کا استعمال کرتے ہوئے ایک نیا انتظامی دار الحکومت،القطائع((عربی:القطائـع)،فسطاطاورالعسکرکے شمال مشرق میں قائم کیا۔ نئے شہر میں ایک محل جو دار الامارہ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک پریڈ گراؤنڈ جسے المیدان کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک بیمارستان (اسپتال) اور پانی کی فراہمی کے لیے ایکآبراہشامل ہے۔ 876ء اور 879ء کے درمیان میںاحمد بن طولوننے ایک عظیم مسجد تعمیر کی، جسے ابمسجد ابن طولونکے نام سے جانا جاتا ہے، شہر کے مرکز میں، محل کے ساتھ واقع ہے۔[50][51]884ء میں اس کی موت کے بعد،احمد بن طولونکے بیٹے کو جانشین بنایا گیا جس نے ایک مختصر مدت کے خاندان،طولون شاہی سلسلہکو جاری رکھا۔ 905ء میں عباسیوں نے جنرل محمد سلیمان الکاتب کو ملک پر دوبارہ براہ راست کنٹرول قائم کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ طولون کی حکمرانی ختم ہو گئی اورالقطائعکو زمین بوس کر دیا گیا، سوائے اس مسجد کے جو آج بھی قائم ہے۔[52][53]969ء میںشیعہاسماعیلیوںکیفاطمی سلطنتنےافریقیہسے حکومت کرنے کے بعد مصر کو فتح کیا۔ فاطمی جنرلجوہر صقلینےفسطاطاور سابقہالقطائعکے شمال مشرق میں ایک نئے قلعہ بند شہر کی بنیاد رکھی۔ اس شہر کی تعمیر میں چار سال لگے، جسے ابتدا میں المنصوریہ[54]کہا جاتا تھا، جو خلافت کے نئے دار الحکومت کے طور پر کام کرنا تھا۔ اس وقت کے دوران،الازہر مسجدکی تعمیر کا کام خلیفہ کے حکم سے شروع کیا گیا تھا، جو دنیا کی تیسری قدیم ترین یونیورسٹی میں تبدیل ہوئی۔ قاہرہ آخر کار سیکھنے کا مرکز بنا، قاہرہ کی لائبریری میں سیکڑوں ہزاروں کتابیں ہیں۔[55]جب خلیفہمعز لدین اللہپرانے فاطمی دار الحکومتمہدیہ،تونسسے 973ء میں پہنچا، تو اس نے اس شہر کا موجودہ نامقریہ المعز[54]رکھا، جس سے ممکنہ طور پر ""قاہرہ"" کا نام نکلا ہے۔ خلیفہ ایک وسیع و عریض محل کے احاطے میں رہتا تھا جو شہر کے قلب میں واقع تھا۔ قاہرہ اس دور کے بیشتر عرصے تک ایک نسبتاً خاص شاہی شہر رہا، لیکنبدر الجمالیکے بطوروزیر(1073ء-1094ء) کے دور میں پہلی بار پابندیاں ڈھیلی کی گئیں اور امیر خاندانوں کوفسطاطسے شہر میں جانے کی اجازت دی گئی۔[56]1087ء اور 1092ء کے درمیان میںبدر الجمالینے بھی شہر کی دیواروں کو پتھر سے دوبارہ تعمیر کیا اورباب الفتوح،باب النصراورباب زویلہکے شہر کے دروازے بنائے جو آج بھی موجود ہیں۔[57]فاطمی دور کے دوران میںفسطاطاپنے حجم اور خوش حالی کے اعتبار سے عروج پر پہنچ گیا، دستکاری اور بین الاقوامی تجارت کے ایک مرکز کے طور پر اوردریائے نیلپر علاقے کی مرکزیبندرگاہکے طور پر کام کیا۔[58]تاریخی ذرائع کی اطلاع ہے کہ شہر میں کثیر منزلہ فرقہ وارانہ رہائش گاہیں موجود تھیں، خاص طور پر اس کے مرکز میں، جو عام طور پر متوسط اور نچلے طبقے کے باشندے آباد تھے۔ ان میں سے کچھ سات منزلہ تھے اور ان میں 200 سے 350 افراد رہ سکتے تھے۔[59]ہو سکتا ہے کہ وہ رومی انسولے سے ملتے جلتے ہوں اور کرایہ پر لینے والے اپارٹمنٹ کمپلیکس کے نمونے رہے ہوں جو بعد کے مملوک اور عثمانیایالت مصرادوار میں عام ہو گئے۔[59]تاہم 1168ء میں فاطمی وزیرشاور بن مجیر السعدینےمملکت یروشلمکے بادشاہامالریک اولکیصلیبی جنگکے ممکنہ قبضے کو روکنے کے لیے غیر محفوظفسطاطکو آگ لگا دی۔
+اگرچہ آگ نے شہر کو تباہ نہیں کیا اور یہ اس کے بعد بھی موجود رہا، لیکن اس نے اپنے زوال کا آغاز کیا۔
+اگلی صدیوں کے دوران یہ قاہرہ تھا، جو سابقہ محلاتی شہر تھا، جو ��یا اقتصادی مرکز بن گیا اورفسطاطسے لوگوں کو ہجرت کی طرف راغب کیا۔[60][61]صلیبی 1168ء میں شہر پر قبضہ نہیں کر پائے،شاور، شاہامالریک اولاورزنگی سلسلہ شاہیکے جنرلشیر کوہکے درمیان مسلسل اقتدار کی کشمکشدولت فاطمیہکے زوال کا باعث بنی۔[62]1169ء میںشیر کوہکے بھتیجےصلاح الدین ایوبیکو فاطمیوں نے مصر کا نیا وزیر مقرر کیا اور دو سال بعد اس نے آخری فاطمی خلیفہالعاضدکے خاندان سے اقتدار چھین لیا۔[63]پہلےسلطان مصرکے طور پر صلاح الدین نے قاہرہ میںایوبی سلطنتقائم کی اورمصرکواہل سنتعباسیوں کے ساتھ جوڑ دیا، جوبغدادمیں مقیم تھے۔[64]1176ء میں صلاح الدین نےقلعہ قاہرہکی تعمیر شروع کی، جوانیسویں صدیکے وسط تک مصری حکومت کی نشست کے طور پر کام کرنا تھا۔ قلعہ کی تعمیر نے قطعی طور پر فاطمیوں کے بنائے ہوئے قاہرہ کی ایک خصوصی محلاتی شہر کی حیثیت کو ختم کر دیا اور اسے عام مصریوں اور غیر ملکی تاجروں کے لیے کھول دیا، جس سے اس کی تجارتی ترقی کو ہوا ملی۔[65]قلعہ کے ساتھ، صلاح الدین نے ایک نئی 20 کلومیٹر لمبی دیوار کی تعمیر بھی شروع کی جو قاہرہ اورفسطاطدونوں کو ان کی مشرقی جانب حفاظت کرے گی اور انھیں نئے قلعے سے جوڑے گی۔ یہ تعمیراتی منصوبے صلاح الدین کی زندگی کے بعد بھی جاری رہے اور ان کے ایوبی جانشینوں کے دور میں مکمل ہوئے۔[66]1250ء میںساتویں صلیبی جنگکے دوران، ایوبی خاندان میںالصالح ایوبکی موت کے ساتھ بحران پیدا ہوا اور اقتدارمملوکوںکو منتقل ہوا، جزوی طور پر الصالح کی بیویشجر الدر، جس نے اس وقت کے ارد گرد ایک مختصر مدت تک حکومت کی۔[67][68]مملوک وہ سپاہی تھے جنہیں نوجوان غلاموں کے طور پر خریدا گیا اور سلطان کی فوج میں خدمت کرنے کے لیے تیار کیا گیا۔ 1250ء اور 1517ء کے درمیان میںسلطنت مملوککا تخت ایک مملوک سے دوسرے مملوک میں ایک ایسے نظامِ جانشینی میں گذرا جو عام طور پر غیر موروثی تھا، لیکن اکثر پرتشدد اور افراتفری کا شکار بھی ہوتا تھا۔[69][70]مملوک سلطنت اس کے باوجود خطے کی ایک بڑی طاقت بن گئی اورمنگولوں(سب سے زیادہ مشہورجنگ عین جالوتمیں 1260ء میں) کی پیش قدمی کو پسپا کرنے اورسرزمین شاممیں آخریصلیبی ریاستوںکو ختم کرنے کی ذمہ دار تھی۔[71]اپنے فوجی کردار کے باوجود، مملوک بھی شاندار معمار تھے اور قاہرہ بھر میں تعمیراتی میراث چھوڑ گئے۔[72]ایوبیوں کی طرف سے شروع کی گئی ایک مشق کو جاری رکھتے ہوئے، سابقہ فاطمی محلات کے زیر قبضہ زیادہ تر اراضی فروخت کر دی گئی اور اس کی جگہ نئی عمارتیں بن گئیں، جو مملوک مذہبی اور جنازہ گاہوں کی تعمیر کے لیے ایک باوقار مقام بن گئی۔[73]مملوکوں کی طرف سے شروع کیے گئے تعمیراتی منصوبوں نے شہر کو باہر کی طرف دھکیل دیا جبکہ شہر کے وسط میں نئے انفراسٹرکچر کو بھی لایا۔[74]دریں اثنا قاہرہاسلامی تعلیماتکے مرکز اورافرو-یوریشیاکی تہذیبوں کے درمیان مصالحہ جات کے تجارتی راستے کے ایک سنگم کے طور پر ترقی کرتا رہا۔[75]مملوک سلطانناصر محمد بن قلاوون(1293ء-1341ء کے دور حکومت میں، باہم وقفے وقفے کے ساتھ)، قاہرہ آبادی اور دولت کے لحاظ سے اپنے عروج پر پہنچا۔[76]1340ء تک قاہرہ کی آبادی نصف ملین کے قریب تھی، یہچینکے مغرب میں سب سے بڑا شہر بنا۔[75]کرائے کے اپارٹمنٹس کے زیر استعمال کثیر المنزلہ عمارتیں، جنہیں راب (جمع ربع) کے نام سے جانا جاتا ہے، مملوک دور میں عام ہوگئیں اور بعد کے عثمانی دور میں شہر کی رہائش کی خصوصیت بنی رہیں۔[77][78]یہ اپارٹمنٹس اکثر کثیر منزلہ ڈوپلیکس یا ٹرپل��کس کے طور پر بنائے گئے تھے۔ وہ بعض اوقات کاروان سرائے سے منسلک ہوتے تھے، جہاں دو نچلی منزلیں تجارتی اور ذخیرہ کرنے کے مقاصد کے لیے ہوتی تھیں اور ان کے اوپر کی متعدد منزلیں کرایہ داروں کو کرائے پر دی جاتی تھیں۔ اس قسم کے ڈھانچے کی سب سے قدیم جزوی طور پر محفوظ مثال امیر قوسن کا وکالا ہے جو 1341ء سے پہلے بنایا گیا تھا۔[77][78]رہائشی عمارتوں کو بدلے میں ایک قریبی محلے میں منظم کیا گیا جسے حرات کہا جاتا ہے، جس میں بہت سے معاملات میں ایسے دروازے ہوتے ہیں جو رات کو یا خلل کے وقت بند کیے جا سکتے تھے۔[78]جب سیاحابن بطوطہ1326ء میں پہلی بار قاہرہ آیا تو اس نے اسے مصر کا بنیادی ضلع بتایا۔[79]جب وہ 1348ء میں واپسی کے سفر پر دوبارہ اس علاقے سے گذرا توسیاہ موتبیشتر بڑے شہروں کو تباہ کر رہی تھی۔ اس نے قاہرہ میں روزانہ ہزاروں اموات کی اطلاعات کا حوالہ دیا۔[80][81]اگرچہ قاہرہ نےقرون وسطیکے اواخر میںیورپکے جمود سے گریز کیا، لیکن یہسیاہ موتسے نہیں بچ سکا، جس نے 1348ء اور 1517ء کے درمیان میں شہر کو پچاس سے زیادہ بار نقصان پہنچایا۔[82]اس کی ابتدائی اور سب سے زیادہ مہلک لہروں کے دوران، تقریباً 200,000 لوگ طاعون سے ہلاک ہوئے،[83]اورپندرہویں صدیتک قاہرہ کی آبادی کم ہو کر 150,000 اور 300,000 کے درمیان میں رہ گئی تھی۔[84]آبادی میں کمی 1348ء اور 1412ء کے درمیان میں سیاسی عدم استحکام کے دور کے ساتھ تھی۔ بہر حال اس دور میں مملوک دور کی سب سے بڑی مذہبی یادگار،مسجد و مدرسہ سلطان حسنتعمیر کی گئی تھی۔[85]چودہویں صدیکے آخر میںبرجی مملوکنےبحری مملوککی جگہ مملوک ریاست کے حکمرانوں کے طور پر لے لی، لیکن مملوک نظام مسلسل زوال پزیر رہا۔[86]اگرچہپندرہویں صدیمیںطاعونکی وبا کثرت سے لوٹی پھر بھی قاہرہ ایک بڑا شہر رہا اور اس کی آبادی کچھ حد تکدیہی نقل مکانیکے ذریعے بحال ہوئی۔[86]شہر کے بنیادی ڈھانچے اور صفائی ستھرائی کے ازالے کے لیے حکمرانوں اور شہر کے اہلکاروں کی طرف سے زیادہ شعوری کوششیں کی گئیں۔ اس کی معیشت اور سیاست بھی وسیعبحیرہ رومکے ساتھ زیادہ گہرے جڑے ہوئے ہیں۔[86]اس دور میں کچھ مملوک سلاطین، جیسےالاشرف سیف الدین برسبای(دور 1422ء–1438ء) اورسیف الدین قایتبای(دور 1468ء–1496ء) نے نسبتاً طویل اور کامیاب حکومت کی۔[87]سیف الدین قایتبایکے بعدالناصر ناصر الدین محمد بن قایتبای، مملوک دور کے فن اور فن تعمیر کے سب سے بڑے سرپرستوں میں سے ایک تھے۔ اس نے قاہرہ میں متعدد یادگاریں تعمیر کیں یا بحال کیں، اس کے علاوہ مصر سے باہر منصوبوں کو شروع کیا۔[88][89]قایتبای کے بعد مملوک اقتدار اور قاہرہ کے معاشی کردار کا بحران مزید گہرا ہو گیا۔ 1497ء اور 1499ء کے درمیان میںواسکو ڈے گاماکی طرف سےکیپ آف گڈ ہوپکے گرد ایک سمندری راستہ دریافت کرنے کے بعد شہر کی حیثیت کم ہو گئی، اس طرح مصالحہ جات کے تاجروں کو قاہرہ سے گذرے بغیر سفر کا راستہ ملا۔[75]1516ء میںجنگ مرج دابقمیںعثمانیوںنے سلطانالاشرف قانصوہ غوریکو شکست دی اور 1517ء میں مصر کو فتح کرنے کے بعد قاہرہ کا سیاسی اثر نمایاں طور پر کم ہوا۔قسطنطنیہسے حکمرانی کرتے ہوئے،سلطانسلیم اولنے مصر کو ایکایالت(صوبہ) بنا دیا، جس کادار الحکومتقاہرہ تھا۔[90]اس وجہ سے، عثمانی دور میں قاہرہ کی تاریخ کو اکثر غیر ضروری قرار دیا جاتا ہے، خاص طور پر دوسرے ادوار کے مقابلے میں۔[75][91][92]تاہمسولہویںاورسترہویںصدیون کے دوران، قاہرہ ایک اہم اقتصادی اور ثقافتی مرکز رہا۔
+اگرچہ اب یہ مصالحہ کے راستے پر نہیں ��ھا، شہر نےیمنیقہوہاورہندوستانیمنسوجکی نقل و حمل کی سہولت فراہم کی، بنیادی طور پراناطولیہ،شمالی افریقہاوربلقانسے خاص طور پر سالانہحجکے دوران میں بنجرحجازاورمکہمیں سامان لانے میں قارین کے تاجروں کا اہم کردار تھا۔[91][93]اسی دور میںجامعہ الازہرنے اسلامی مکاتب فکر میں اس برتری کو حاصل کیا جو آج بھی برقرار ہے؛[94][95]حج پر جانے والے عازمین اکثر اس ادارے کی برتری کی تصدیق کرتے ہیں، جس کا تعلق مصر کے اسلامیعلماءکی تنظیم سے ہو گیا تھا۔[96]مشرق وسطیٰ کا پہلا پرنٹنگ پریس 1557ء میںعبرانی زبانمیں پرنٹنگ کے لیے، قاہرہ میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ پرنٹرز کے سونسینو خاندان کے ایک نسلاشکنازی یہودنژاد اطالوی یہودی سے تھے جو قسطنطنیہ میں پریس چلاتے تھے۔ پریس کا وجود صرفجنیزہ قاہرہمیں دریافت ہونے والے دو ٹکڑوں سے معلوم ہوتا ہے۔[97]عثمانیوں کے تحت، قاہرہ قلعہ کے ارد گرد اپنے مرکز سے جنوب اور مغرب میں پھیل گیا۔[98]قسطنطنیہکے بعد یہ شہرسلطنت عثمانیہکا دوسرا سب سے بڑا شہر تھا اور اگرچہ ہجرت قاہرہ کی ترقی کا بنیادی ذریعہ نہیں تھی،اٹھارہویں صدیکے آخر میں اس کی آبادی کا بیس فیصد حصہبحیرہ رومکے آس پاس کے مذہبی اقلیتوں اور غیر ملکیوں پر مشتمل تھا۔[99]پھر بھی جبنپولین1798ء میں قاہرہ پہنچا، اس وقت شہر کی آبادی 300,000 سے کم تھی، جو مملوک اور کیرین کے اثر کے عروج پرچودہویں صدیکے وسط سے چالیس فیصد کم تھی۔[75][99]فرانسیسی قبضہ مختصر عرصے کے لیے تھا کیونکہبرطانویاورعثمانیافواج نے، جس میں البانیائی دستے بھی شامل تھے، 1801ء میں ملک پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ 22 جون 1801ء کو فرانسیسی ہتھیار ڈالنے کے ساتھ ہی قاہرہ کا خود برطانوی اور عثمانی فوج نے محاصرہ کیا تھا۔[100]برطانیہ نے دو سال بعد مصر کو خالی کر دیا، عثمانیوں، البانیوں اور طویل عرصے سے کمزورمملوککو ملک کے کنٹرول کے لیے لڑتے ہوئے چھوڑ دیا۔[101][102]مسلسل خانہ جنگی نےمحمد علی پاشانامی ایک البانوی کو کمانڈر کا کردار حاصل کرنے میں مدد دی اور آخر کار، مذہبیعلماءکی منظوری سے 1805 میں مصر کے والی کے طور پر حکمرانی کی۔[103]1848ء میں اپنی موت تک،محمد علی پاشانے متعدد سماجی اور اقتصادی اصلاحات کیں جس کی وجہ سے انھیں جدید مصر کے بانی کا خطاب ملا۔[105][106]تاہم جب محمد علی نے شہر میں عوامی عمارتوں کی تعمیر کا آغاز کیا،[107]ان اصلاحات کا قاہرہ کے منظر نامے پر کم سے کم اثر پڑا۔[108]قاہرہ میںاسماعیل پاشا(دور 1863ء–1879ء) کے دور میں بڑی تبدیلیاں آئیں، جنھوں نے اپنے دادا کی طرف سے شروع کی گئی جدید کاری کے عمل کو جاری رکھا۔[109]پیرسسے متاثر ہو کر، اسماعیل نے میدانوں کے شہرتحریر چوکاور وسیع راستوں کا تصور کیا۔ مالی مجبوریوں کی وجہ سے، ان میں سے صرف کچھ، جو ابوسط البلد قاہرہپر مشتمل ہے، نتیجہ خیز ہو سکے۔[110]اسماعیل نے شہر کو جدید بنانے کی بھی کوشش کی، جو پڑوسی بستیوں کے ساتھ ضم ہو رہا تھا، ایک عوامی کام کی وزارت قائم کر کے، شہر میںقدرتی گیساور روشنی لا کر اور ایک تھیٹر اور اوپیرا ہاؤس کھولا۔[111][112]اسماعیل کے منصوبوں کے نتیجے میں بے تحاشہ قرض نے یورپی کنٹرول کو بڑھانے کا بہانہ فراہم کیا، جس کا اختتام 1882ء میں برطانوی حملے کے ساتھ ہوا۔[75]شہر کا اقتصادی مرکز تیزی سے مغرب کی طرفدریائے نیلکی طرف، تاریخیاسلامی قاہرہ(قاہرہ المعز) کے حصے سے دور اور اسماعیل کے بنائے ہوئے عصری یورپی طرز کے علاقوں کی طرف بڑھ گیا۔[113][114]انیسویں صدیکے آخر میں قاہرہ کی آبادی کا پانچ فیصد یورپی باشندوں پر مشتمل تھا، اس وقت تک وہ اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر فائز تھے۔[115]1906ء میں بیلجیئم کے صنعت کار ایڈورڈ ایمپین اور اس کے مصری ہم منصب بوغوس نوبار کی سربراہی میں ہیلیو پولس نخلستان کمپنی نے قاہرہ کے مرکز سے دس کلومیٹر کے فاصلے پرمصر جدیدہ(ہیلیوپولیس) (یونانی میں سورج کا شہر) کے نام سے ایک مضافاتی علاقہ تعمیر کیا۔[116][117]اس نے اپنے فن تعمیر کو فروغ دینے کی پہلی بڑے پیمانے کی کوشش کی نمائندگی کی، جسے اب ہیلیوپولیس اسٹائل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1905ء-1907ء میںجزیرہ (قاہرہ)جزیرے کے شمالی حصے کو باہلر کمپنی نے زمالیک میں تیار کیا، جو بعد میں قاہرہ کا اعلیٰ درجے کا ""چیک"" محلہ بن گیا۔[118]1906ء میںگارڈن سٹیپر تعمیر شروع ہوئی، جو باغات اور خمیدہ گلیوں کے ساتھ شہری ولاز کا ایک محلہ ہے۔[118]برطانوی قبضے کا ارادہ عارضی تھا، لیکن یہبیسویں صدیتک برقرار رہا۔
+قوم پرستوں نے 1919ء میں قاہرہ میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے،[75]پانچ سال بعد مصر کو برطانویمحمیہقرار دیا گیا۔[119]بہر حال یہ 1922ء میں مصر کی آزادی کا باعث بنا۔1919ء کا مصری انقلابمصراورسوڈانپربرطانویقبضے کے خلاف ملک گیر انقلاب تھا۔ یہ 1919ء میں انقلابی مصریقوم پرستیکے رہنماسعد زغلول پاشااور وفد پارٹی کے دیگر اراکین کی برطانوی حکم پر جلاوطنی کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مصریوں نے انجام دیا تھا۔[120]اس انقلاب کے نتیجے میںبرطانیہنے بعد میں1922ءمیںمصر کی آزادیکومملکت مصرکے طور پر تسلیم کیا اور1923ءمیں ایک نئے آئین کے نفاذ کا باعث بنا۔
+تاہم، برطانوی حکومت نے سوڈان پر مصر کی مکمل خود مختاری کو تسلیم کرنے یانہر سوئززون سے اپنی فوجیں نکالنے سے انکار کر دیا، جو مصری انقلاب کی دہائیوں میں اینگلو-مصری تعلقات کو خراب کرتے رہے اور آخر کا1952ء کے مصری انقلابکا موجب بنے۔مصر کی آزادی کا یکطرفہ اعلان28 فروری1922ءکو ایک باقاعدہ قانونی آلہ تھا جس کے ذریعےمملکت متحدہنےمملکت مصرکو ایک آزاد خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔محمد علی پاشاکے دور میں 1805ء میںسلطنت عثمانیہسے علیحدگی کے بعد سے مصر کی حیثیت انتہائی پیچیدہ ہو گئی تھی۔ اس وقت سے مصر، سلطنت عثمانیہ کی ایکخراجگزار ریاستتھا، لیکنسوڈانمیں اپنی موروثی بادشاہت، فوجی، کرنسی، قانونی نظام اور سلطنت کے ساتھ، حقیقت میں خود مختار تھا۔ 1882ء کے بعد سے، مصر پرمتحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈکا قبضہ تھا، لیکن اس کا الحاق نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے ایک ایسے ملک کی انوکھی صورت حال پیدا ہوئی جو قانونی طور پر سلطنت عثمانیہ کا خراجگزار تھا جب کہ ریاستی حیثیت کی تقریباً تمام صفات موجود تھیں، لیکن حقیقت میں ریاست کی حکومت تھی۔ بادشاہی جس میں ""پردہ دار محکوم ریاست"" (برطانوی مصر) کے نام سے جانا جاتا تھا۔اگرچہ برطانیہ نے مصر کا الحاق نہیں کیا لیکن اس نے بحال شدہ سلطنت کو ایکمحمیہ(ایک ریاست جو برطانوی سلطنت کا حصہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود برطانیہ کے زیر انتظام ہے) بنا دیا، اس طرح 1882ء سے مصر میں اس نے سیاسی اور فوجی کردار کو باقاعدہ بنایا۔ برطانیہ کی طرف سے مصری معاملات پر مسلسل کنٹرول کے ساتھ ساتھ آزادی کے لیے زور دینے والے مصریوں پر برطانوی جبر نے1919ء کے مصری انقلابکو جنم دیا۔ اس کے بعد، برطانیہ کی حکومت نے ملک میں اپنی فوجی موجودگی اور سیاسی اثر و رسوخ کو برقرار رکھتے ہوئے مصریوں کی شکایات کو دور کرنے کے لیے بات چیت کی۔ جب یہ مذاکرات ناکام ہوئے تو برطانیہ نے یکطرفہ طور پر پروٹوٹریٹ کو ختم کرنے اور مصر کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔کنگ فواد اولقرآنکی پرنٹنگ[121]پہلی بار 10 جولائی 1924ٰء کو قاہرہ میںشاہ فواد اولکی سرپرستی میں ہوئی۔[122][123]مصر کی نو تشکیل شدہمملکت مصرکی حکومت کا مقصد دیگر متغیر قرآنی نصوص (""قرأت"") کو غیر قانونی قرار دینا نہیں تھا، بلکہ قرآنی نصوص میں استعمال ہونے والی غلطیوں کو ختم کرنا تھا۔ اساتذہ کی ایک کمیٹی نے قرآنیقرأتمیں سے ایک کو محفوظ کرنے کا انتخاب کیا، یعنی ""حفص بن سلیمان کوفی"" ورژن،[124]آٹھویں صدی کیکوفیتلاوت۔
+یہ ایڈیشن[125][126]زیادہ تر اسلامی دنیا کے لیے قرآن کی جدید طباعت کا معیار بن گیا ہے۔[127]اشاعت کو ایک ""زبردست کامیابی"" کہا گیا ہے اور ایڈیشن کو ""اب بڑے پیمانے پر قرآن کے سرکاری متن کے طور پر دیکھا جاتا ہے"" کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جو سنی اور شیعہ دونوں کے درمیان میں اس قدر مقبول ہے کہ عام عقیدہ کم ہی لوگوں میں ہے۔ - باخبر مسلمان یہ ہے کہ ""قرآن کی ایک واحد، غیر واضح پڑھائی ہے""۔ بعد میں 1924ء اور 1936ء میں معمولی ترامیم کی گئیں - اس وقت کے حکمرانشاہ فاروق اولکے اعزاز میں ""فاروق ایڈیشن""۔[128]1952ء کا مصری انقلاب[129][130][131]مصرمیں ایک گہری سیاسی، اقتصادی اور سماجی تبدیلی کا دور تھا جس کا آغاز 23 جولائی 1952ء کوشاہ فاروق اولکے خلاف بغاوت کے بعد فری آفیسرز موومنٹ کے ایک گروپ کے ذریعے ہوا تھا۔ فوجی افسران کی قیادتمحمد نجیباورجمال عبد الناصرکر رہے تھے۔
+انقلاب نےعرب دنیامیں انقلابی سیاست کی ایک لہر کا آغاز کیا اورسرد جنگکے دوران میں ڈی کالونائزیشن کو بڑھانے اورتیسری دنیاکی یکجہتی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔اگرچہ ابتدائی طور پرشاہ فاروق اولکے خلاف شکایات پر توجہ مرکوز کی گئی تھی، لیکن اس تحریک کے سیاسی عزائم زیادہ وسیع تھے۔ انقلاب کے پہلے تین سالوں میں، آزاد افسرانمصراورسوڈانکیآئینی بادشاہتاور اشرافیہ کو ختم کرنے کے درپئے ہو گئے، ایک جمہوریہ کا قیام، ملک پربرطانوی تسلطکا خاتمہ اورسوڈانکی آزادی کو محفوظ بنانا (اس سے قبل مصر اور برطانیہ کے کنڈومینیم (اینگلو مصری سوڈان) کے طور پر حکومت کرتے تھے۔) اس کے مقاصد میں شامل ہو گیا۔[132]انقلابی حکومت نے ایک کٹرقوم پرست، سامراج مخالف ایجنڈا اپنایا، جس کا اظہار خاص طور پرعرب قومپرستی اورغیر وابستہ ممالک کی تحریککے ذریعے کیا گیا۔برطانوی فوجیں 1956ء تک ملک میں موجود رہیں۔ اس وقت کے دوران، شہری قاہرہ، نئے پلوں اور نقل و حمل کے رابطوں کی وجہ سے،گارڈن سٹی،زمالکاور ہیلیوپولیس کے اعلیٰ درجے کے محلوں کو شامل کرنے کے ساتھ پھیلتا رہا۔[133]1882ء اور 1937ء کے درمیان، قاہرہ کی آبادی تین گنا سے زیادہ ہو گئی — 347,000 سے 1.3 ملین تک بڑھ گئی[134]- اور اس کا رقبہ 10 سے بڑھ کر 163 مربع کلومیٹر (4 سے 63 مربع میل) ہو گیا۔[135]یہ شہر 1952ء کے فسادات کے دوران میں تباہ ہو گیا تھا جسےقاہرہ آتشزدگییا ""سیاہ ہفتہ"" کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں قاہرہ کے مرکز میں تقریباً 700 دکانوں، فلم تھیٹروں، کیسینو اور ہوٹلوں کو تباہ کر دیا گیا تھا۔[136]کچھ لوگوں کے خیال میں یہ آگمملکت مصرکے خاتمے کا اشارہ تھا۔[137][138]قاہرہ آتشزدگی کے مرتکب آج تک نامعلوم ہیں اور جدید مصری تاریخ کے اس اہم واقعے کی حقیقت ابھی تک قائم نہیں ہو سکی ہے۔[139]فسادات کا براہ راست محرکاسماعیلیہشہر میں ایک مصری حکومت کی عمارت پر ایک دن پہلےبرطانوی فوجکے دستوں کا حملہ تھا، ��س میں 50 مصری معاون پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔[140]ان ہلاکتوں کے بعد ہونے والے بے ساختہ برطانوی مخالف مظاہروں کو بھیڑ میں موجود منظم عناصر نے تیزی سے پکڑ لیا، جنھوں نے سکیورٹی فورسز کی غیر واضح غیر موجودگی کے درمیان میں قاہرہ کے بڑے سیکٹروں کو جلایا اور توڑ پھوڑ کی۔[141]1952ء کے مصری انقلاب کے بعد برطانیہ نے قاہرہ کو چھوڑ دیا، لیکن شہر کی تیز رفتار ترقی میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔
+بڑھتی ہوئی آبادی کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے،صدرجمال عبدالناصرنےتحریر چوکاور نیل کورنیش کو دوبارہ تیار کیا اور شہر کے پلوں اور شاہراہوں کے نیٹ ورک کو بہتر کیا۔[142]دریں اثنا، نیل کے اضافی کنٹرول نےدریائے نیلکے جزیرہجزیرہ (قاہرہ)کے اندر اور شہر کے واٹر فرنٹ کے ساتھ ساتھ ترقی کو فروغ دیا۔ میٹروپولیس نے زرخیزنیل ڈیلٹاپر قبضہ کرنا شروع کر دیا، جس سے حکومت کو صحرائیسیٹلائٹ شہربنانے اور شہر کے باسیوں کو ان میں منتقل ہونے کے لیے ترغیبات وضع کرنے پر آمادہ کیا گیا۔[143]بیسویں صدیکے دوسرے نصف میں قاہرہ آبادی اور رقبہ دونوں میں بے پناہ ترقی کرتا رہا۔ 1947ء اور 2006ء کے درمیان میںقاہرہ کبریکی آبادی 2,986,280 سے 16,292,269 ہو گئی۔[144]آبادی میں ہونے والے غیر معمولی اضافے نے ""غیر رسمی"" ہاؤسنگ ('اشوائیت) کے عروج کو بھی جنم دیا، یعنی ایسی رہائش جو بغیر کسی سرکاری منصوبہ بندی یا کنٹرول کے تعمیر کی گئی تھی۔[145]اس قسم کی رہائش کی صحیح شکل کافی حد تک مختلف ہوتی ہے لیکن عام طور پر رسمی رہائش سے کہیں زیادہ آبادی کی کثافت ہوتی ہے۔ 2009ء تکقاہرہ کبریکی 63% سے زیادہ آبادی غیر رسمی محلوں میں رہتی تھی، حالانکہ یہقاہرہ کبریکے کل رقبے کے صرف 17% پر قابض تھے۔[146]ماہر اقتصادیات ڈیوڈ سمز کے مطابق، غیر رسمی رہائش قاہرہ کے محنت کش طبقوں کی ایک بڑی تعداد کو سستی رہائش اور متحرک کمیونٹیز فراہم کرنے کے فوائد رکھتی ہے، لیکن یہ حکومت کی نظر اندازی، خدمات کی نسبتاً کمی اور زیادہ بھیڑ کا بھی شکار ہے۔[147]’’رسمی‘‘ شہر کو بھی وسعت دی گئی۔ سب سے قابل ذکر مثالنصر شہرکی تخلیق تھی، جو حکومت کے زیر اہتمام مشرق میں شہر کی ایک بہت بڑی توسیع تھی جو باضابطہ طور پر 1959ء میں شروع ہوئی تھی لیکن بنیادی طور پر 1970ء کی دہائی کے وسط میں تیار ہوئی تھی۔[148]1977ء میں مصری حکومت نے قاہرہ کے مضافات میں نئے منصوبہ بند شہروں کی ترقی شروع کرنے اور ہدایت دینے کے لیے نیو اربن کمیونٹی اتھارٹی قائم کی، جو عام طور پر صحرائی زمین پر قائم کیے گئے تھے۔[149][150][151]ان نئے سیٹلائٹ شہروں کا مقصد علاقے کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے رہائش، سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ غیر رسمی محلوں کی مزید ترقی کو پہلے سے خالی کرنا تھا۔[149]2014ء تک قاہرہ کی تقریباً 10% آبادی نئے شہروں میں رہتی تھی۔[149]اس کے ساتھ ساتھ قاہرہ نے خود کوشمالی افریقہاورعرب دنیاکے لیے ایک سیاسی اور اقتصادی مرکز کے طور پر قائم کیا، جس میں بہت سے کثیر القومی کاروبار اور تنظیمیں شامل ہیں، جن میںعرب لیگبھی شامل ہے۔ شہر 1979ء میں قاہرہ کے تاریخیقاہرہ المعزکویونیسکو عالمی ثقافتی ورثہکے طور پر درج کیا گیا تھا۔[7]1992ءمیں قاہرہ میں زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں 545 افراد ہلاک، 6512 زخمی اور 50,000 افراد بے گھر ہو گئے۔[152]قاہرہ کاتحریر چوکسابق صدرحسنی مبارککے خلاف 2011ء کے مصری انقلاب کا مرکزی نقطہ تھا۔[153]قاہرہ کے تحریر چوک پر 20 لاکھ سے زیادہ مظاہرین موجود تھے۔
+50,000 سے زیا��ہ مظاہرین نے سب سے پہلے 25 جنوری کوتحریر چوکپر قبضہ کیا، اس دوران میں علاقے کی وائرلیس سروسز کے متاثر ہونے کی اطلاع ملی۔[154]اگلے دنوں میںتحریر چوکقاہرہ[155]میں مظاہروں کی بنیادی منزل بنا رہا کیونکہ یہ ایک عوامی بغاوت کے بعد ہوا جو منگل 25 جنوری 2011ء کو شروع ہوا اور جون 2013ء تک جاری رہا۔ بغاوت بنیادی طور پر غیر متشدد شہری مزاحمت کی مہم تھی، جس میں مظاہروں، مارچوں، سول نافرمانی کی کارروائیوں اور مزدوروں کی ہڑتالوں کا سلسلہ شامل تھا۔ مختلف سماجی، اقتصادی اور مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مظاہرین نے مصری صدر حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ الٹنے کا مطالبہ کیا۔ فطرت میں بنیادی طور پر پرامن ہونے کے باوجود، انقلاب سیکورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان میں پرتشدد جھڑپوں کے بغیر نہیں تھا، جس میں کم از کم 846 افراد ہلاک اور 6,000 زخمی ہوئے۔
+یہ بغاوت قاہرہ،اسکندریہاور مصر کے دیگر شہروں میںتونسکے انقلاب کے بعد ہوئی جس کے نتیجے میں تونس کے طویل عرصے سے صدرزین العابدین بن علیکا تختہ الٹ دیا گیا۔[156]11 فروری کو کئی ہفتوں کے پرعزم عوامی احتجاج اور دباؤ کے بعد،حسنی مبارکنے عہدے سے استعفا دے دیا۔صدرعبدالفتاح السیسیکے دور حکومت میں، مارچ 2015ء میں ایک اور ابھی تک نامعلوم منصوبہ بند شہر کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا جو موجودہ سیٹلائٹ شہرجدید قاہرہکے مزید مشرق میں تعمیر کیا جائے گا اور مصر کےنئے دار الحکومتکے طور پر کام کرے گا۔[157]مصر کے نئے دار الحکومت کا ابھی کوئی نام نہیں بتایا گیا ہے۔ شہر کے لیے نئے نام اور لوگو کے انتخاب کے لیے نئے دار الحکومت کی ویب گاہ پر ایک مقابلہ شروع کیا گیا۔ فہرست میں پیش کی گئی تجاویز کا جائزہ لینے اور تمام تجاویز میں سے بہترین کا تعین کرنے کے لیے ماہرین کی ایک جیوری تشکیل دی گئی۔[158][159]مصری حکومت کی جانب سے ابھی تک کسی سرکاری نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ اکتوبر 2021 میں، وزیر ٹرانسپورٹ کامل الوزیر نے اشارہ کیا کہ اس شہر کا نام مصر رکھا جا سکتا ہے۔[160]دار الحکومت بین الاقوامی ہوائی اڈایاکیپٹل انٹرنیشنل ایئرپورٹمصرکا ایکہوائی اڈاوبین الاقوامی ہوائی اڈاجوقاہرہمیںنئے انتظامی دار الحکومتمیں واقع ہے۔[161]قاہرہ شمالیمصرمیں واقع ہے، جسےزیریں مصرکہا جاتا ہے،بحیرہ رومکے جنوب میں 165 کلومیٹر (100 میل) اورخلیج سوئزاورنہر سوئزکے مغرب میں 120 کلومیٹر (75 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔[162]یہ شہردریائے نیلکے ساتھ واقع ہے، اس مقام کے بالکل جنوب میں جہاں دریا اپنی صحرائی وادی سے نکلتا ہے اور نیچے والےنیل ڈیلٹاکے علاقے میں شاخیں ڈالتا ہے۔
+اگرچہ قاہرہ کا شہر دریائے نیل سے تمام سمتوں میں پھیلا ہوا ہے، قاہرہ شہر صرف دریا کے مشرقی کنارے پر رہتا ہے اور اس کے اندر دو جزیرے 453 کلومیٹر 2 (175 مربع میل) کے کل رقبے پر ہیں۔[163][164]ارضیاتی طور پر، قاہرہ ایلوویئم اور ریت کے ٹیلوں پر واقع ہے جو چوتھائی دور سے ہیں۔[165][166]انیسویں صدیکے وسط تک، جب دریا کو ڈیموں، سطحوں اور دیگر کنٹرولوں کے ذریعے قابو کیا گیا تھا، قاہرہ کے آس پاس میں دریائے نیل اپنے راستے اور سطح کی سطح میں تبدیلیوں کے لیے انتہائی حساس تھا۔
+برسوں کے دوران، دریائے نیل آہستہ آہستہ مغرب کی طرف منتقل ہوتا گیا، جس نے دریا کے مشرقی کنارے اور موکتم ہائی لینڈز کے درمیان میں جگہ فراہم کی جس پر اب یہ شہر کھڑا ہے۔
+وہ سرزمین جس پر قاہرہ 969ء میں قائم ہوا تھا (موجودہقاہرہ المعز) پانی کے نیچے صرف ت��ن سو سال پہلے واقع تھا، جبفسطاطپہلی بار تعمیر کیا گیا تھا۔[167]گیارہویں صدیکے دوران میںدریائے نیلکے نچلے ادوار نے قاہرہ کے منظرنامے میں اضافہ کرنا جاری رکھا۔ ایک نیا جزیرہ، جسے جزیرہ الفل کے نام سے جانا جاتا ہے، پہلی بار 1174ء میں نمودار ہوا، لیکن آخر کار سرزمین سے جڑ گیا۔ آج جزیرہ الفل کے مقام پر ضلع شبرا کا قبضہ ہے۔ کم ادوار نےچودہویں صدیکے اختتام پر ایک اور جزیرہ تخلیق کیا جو ابزمالکاورجزیرہ (قاہرہ)پر مشتمل ہے۔مملوکوںاورعثمانیوںکی طرف سے زمین کی بحالی کی کوششوں نے دریا کے مشرقی کنارے پر توسیع میں مزید تعاون کیا۔[168]نیل کی نقل و حرکت کی وجہ سے، شہر کے نئے حصے —گارڈن سٹی،وسط البلد قاہرہاورزمالک— دریا کے کنارے کے قریب واقع ہیں۔
+وہ علاقے، جو قاہرہ کے زیادہ ترسفارت خانوںکے گھر ہیں، شمال، مشرق اور جنوب میں شہر کے پرانے حصوں سے گھرے ہوئے ہیں۔قدیم قاہرہمرکز کے جنوب میں واقع ہے،فسطاطکی باقیات اورقبطی قاہرہمصر کیقبطی مسیحیکمیونٹی کا دل ہے۔بولاقضلع، جو شہر کے شمالی حصے میں واقع ہے،سولہویں صدیکی ایک بڑی بندرگاہ سے پیدا ہوا تھا اور اب یہ ایک بڑا صنعتی مرکز ہے۔ قلعہ شہر کے مرکز کے مشرق میںاسلامی قاہرہ(قاہرہ المعز) کے ارد گرد واقع ہے، جو فاطمی دور اور قاہرہ کی بنیاد کا ہے۔ جب کہ مغربی قاہرہ وسیع بلیوارڈز، کھلی جگہوں اور یورپی اثر و رسوخ کے جدید فن تعمیر کا غلبہ ہے، مشرقی نصف صدیوں کے دوران میں بے ترتیبی سے پروان چڑھنے کے بعد، چھوٹی گلیوں، ہجوم والے مکانات اوراسلامی فن تعمیرکا غلبہ ہے۔قاہرہ کے شمالی اور انتہائی مشرقی حصے، جن میںسیٹلائٹ شہرشامل ہیں، شہر میں حالیہ اضافے میں شامل ہیں، کیونکہ یہ شہر کی تیز رفتار ترقی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیےبیسویں صدیکے آخر اوراکیسویں صدیکے اوائل میں تیار ہوئے تھے۔دریائے نیلکا مغربی کنارہ عام طور پر قاہرہ کے شہری علاقے میں شامل ہے، لیکن یہ شہرجیزہاورمحافظہ جیزہپر مشتمل ہے۔
+حالیہ برسوں میںجیزہشہر میں بھی نمایاں توسیع ہوئی ہے اور آج اس کی آبادی 2.7 ملین ہے۔[164]محافظہ قاہرہ2008ء سےمحافظہ حلوانکے بالکل شمال میں تھا جب قاہرہ کے کچھ جنوبی اضلاع بشمول،معادیاورجدید قاہرہالگ ہو گئے اور نئے محافظہ میں شامل ہو گئے،[169]تاہم 2011ء میںمحافظہ حلوانکو دوبارہمحافظہ قاہرہمیں شامل کیا گیا۔عالمی ادارہ صحتکے مطابق قاہرہ میںفضائی آلودگیکی سطح تجویز کردہ حفاظتی سطح سے تقریباً 12 گنا زیادہ ہے۔[170]قاہرہ میں اور دریائے نیل کی وادی کے ساتھ، آب و ہوا ایک گرمصحرائی آب و ہوا(کوپن موسمی زمرہ بندیکے مطابق[171]) ہے۔
+مارچ سے مئی تک ہوا کے طوفان اکثر ہو سکتے ہیں، جو صہارا کی دھول کو شہر میں لاتے ہیں اور ہوا اکثر غیر آرام دہ طور پر خشک ہو جاتی ہے۔ سردیوں میں اعلیٰ درجہ حرارت 14 سے 22 °س (57 سے 72 °ف) تک ہوتا ہے، جبکہ رات کے وقت کم درجہ حرارت 11 °س (52 °ف) سے نیچے، اکثر 5 °س (41 °ف) تک گر جاتا ہے۔ گرمیوں میں، اونچائی شاذ و نادر ہی 40 °س (104 °ف) سے تجاوز کر جاتی ہے اور نیچی تقریباً 20 °س (68 °ف) تک گر جاتی ہے۔ بارش کم ہوتی ہے اور صرف سرد مہینوں میں ہوتی ہے، لیکن اچانک بارش شدید سیلاب کا سبب بن سکتی ہے۔ موسم گرما کے مہینوں میں اس کے ساحلی مقام کی وجہ سے نمی زیادہ ہوتی ہے۔ برف باری انتہائی نایاب ہے؛ 13 دسمبر 2013ء کو قاہرہ کے سب سے مشرقی مضافاتی علاقوں میں گریپل کی ایک چھوٹی سی مقدار، جسے وسیع پیمانے پربرف باریسمجھا جاتا ہے، کئی دہائیوں میں پہلی بار قاہرہ کے علاقے میں اس قسم کی بارش ہوئی۔[172]گرم ترین مہینوں میں اوس نقاط جون میں 13.9 °س (57 °ف) سے اگست میں 18.3 °س (65 °ف) تک ہوتے ہیں۔[173]قاہرہ شہرقاہرہ کبریکا حصہ ہے، جوافریقہکا سب سے بڑامیٹروپولیٹن علاقہہے۔[177]اگرچہ اس کا کوئی انتظامی ادارہ نہیں ہے، وزارت منصوبہ بندی اسےمحافظہ قاہرہ،محافظہ جیزہاورمحافظہ قلیوبیہپر مشتمل ایک اقتصادی خطہ سمجھتی ہے۔[178]ایک متصل میٹروپولیٹن علاقے کے طور پر، مختلف مطالعات نےقاہرہ کبریکو انتظامی شہروں پر مشتمل سمجھا ہے جو قاہرہ،جیزہاورشبرا الخیمہ،سیٹلائٹ شہراور اس کے ارد گرد نئے شہر کے علاوہ ہیں۔[179]قاہرہ شہر مصر کے دوسرے شہروں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں شہر اور ضلعی سطحوں کے درمیان میں ایک اضافی انتظامی تقسیم ہے اور وہ علاقے ہیں۔ قاہرہ 4 علاقوں (مناطق) پر مشتمل ہے جسے 38 اضلاع (احیا) میں تقسیم کیا گیا ہے۔[180]1977ء کے بعد سے قاہرہ کے آس پاس کے مشرقی صحرا میں نیو اربن کمیونٹیز اتھارٹی (این یو سی اے) کے ذریعہ متعدد نئے قصبوں کی منصوبہ بندی اور تعمیر کی گئی ہے، ظاہر ہے کہ شہر کی اضافی آبادی میں اضافے اور ترقی کو ایڈجسٹ کرنے اور خود ساختہ غیر رسمی علاقوں خاص طور پر زرعی زمین پر ترقی کو روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ قاہرہ شہر کے علاوہ، پانچ سیٹلائٹ شہر ہیں جو ہاؤسنگ، یوٹیلٹیز اور شہری کمیونٹیز کے وزیر کے دائرہ اختیار میں ہیں جو نیو اربن کمیونٹی اتھارٹی کی سربراہی کرتے ہیں جو انھیں براہ راست کنٹرول کرتی ہے (منصوبہ بندی، زمین کی فروخت، زوننگ)، جبکہ محافظہ کے محکمے (مدیریات) پولیس کو کنٹرول کرتا ہے اور عوامی خدمات (تعلیم، صحت، سبسڈی والی خوراک) کا انتخاب کرتا ہے۔
+زیادہ آبادی والےقسممیں تقسیم ہوتے ہیں، جب کہ ابھی زیر تعمیر لوگوں کی محافظہ کی نمائندگی باقی ہے۔ شہر یہ ہیں:صدرعبدالفتاح السیسیکے دور حکومت میں، مارچ 2015ء میں ایک اور ابھی تک نامعلوم منصوبہ بند شہر کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا جو موجودہ سیٹلائٹ شہرجدید قاہرہکے مزید مشرق میں تعمیر کیا جائے گا اور مصر کےنئے دار الحکومتکے طور پر کام کرے گا۔[157]مصر کے نئے دار الحکومت کا ابھی کوئی نام نہیں بتایا گیا ہے۔ شہر کے لیے نئے نام اور لوگو کے انتخاب کے لیے نئے دار الحکومت کی ویب گاہ پر ایک مقابلہ شروع کیا گیا۔ فہرست میں پیش کی گئی تجاویز کا جائزہ لینے اور تمام تجاویز میں سے بہترین کا تعین کرنے کے لیے ماہرین کی ایک جیوری تشکیل دی گئی۔[185][186]مصری حکومت کی جانب سے ابھی تک کسی سرکاری نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ اکتوبر 2021 میں، وزیر ٹرانسپورٹ کامل الوزیر نے اشارہ کیا کہ اس شہر کا نام مصر رکھا جا سکتا ہے۔[187]دار الحکومت بین الاقوامی ہوائی اڈایاکیپٹل انٹرنیشنل ایئرپورٹمصرکا ایکہوائی اڈاوبین الاقوامی ہوائی اڈاجوقاہرہمیںنئے انتظامی دار الحکومتمیں واقع ہے۔[188]قاہرہ کے ساتھ ساتھ ہمسایہ محافظہجیزہکو طبی علاج کے لیے مصر کے مرکز کے طور پر قائم کیا گیا ہے اور کچھ استثنیٰ کے باوجود، ملک میںطبی نگہداشتکی اعلیٰ ترین سطح ہے۔
+قاہرہ کے ہسپتالوں میں جے سی آئی سے تسلیم شدہ السلام بین الاقوامی ہسپتال - کورنیش النیل، مادی (350 بستروں والا مصر کا سب سے بڑا نجی ہسپتال) شامل ہیں۔جامعہ عین شمسہسپتال،دار الفواد،نیل بدراوی ہسپتال،چلڈرن کینسر ہسپتال مصر،قبطی ہسپتال،نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ (مصر)کے ساتھقصر العینی ہسپتالبھی یہاں موجود ہیں۔گریٹر قاہرہطویل عرصے سے مصر او�� خطے کے لیے تعلیم اور تعلیمی خدمات کا مرکز رہا ہے۔ آج، گریٹر قاہرہ مصر کے تعلیمی نظام کو کنٹرول کرنے والے بہت سے سرکاری دفاتر کا مرکز ہے، اس میں دوسرے شہروں اور مصر کے گورنروں کے درمیان میں سب سے زیادہ تعلیمی اسکول اور اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں۔قاہرہ میں سڑکوں کا ایک وسیع نیٹ ورک،ریل کا نظام،سب وے سسٹماور سمندری نقل و حمل بھی موجود ہے۔ روڈ ٹرانسپورٹ کو ذاتی گاڑیوں، ٹیکسیوں، نجی ملکیت والی پبلک بسوں اور قاہرہ کی مائیکرو بسوں کے ذریعے سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ قاہرہ، خاص طور پررمسیس اسٹیشن، تقریباً پورے مصری نقل و حمل کے نیٹ ورک کا مرکز ہے۔[189]سب وے سسٹم، جسے باضابطہ طور پر ""میٹرو (مترو)"" کہا جاتا ہے، قاہرہ کے ارد گرد جانے کا ایک تیز اور موثر ترین طریقہ ہے۔ میٹرو نیٹ ورکحلواناور دیگر مضافات کا احاطہ کرتا ہے۔ رش کے اوقات میں بہت بھیڑ ہو سکتی ہے۔ دو ٹرین بوگیاں (چوتھی اور پانچویں) صرف خواتین کے لیے مخصوص ہیں، حالانکہ خواتین اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی کار میں سوار ہو سکتی ہیں۔گریٹر قاہرہمیں قاہرہ ٹرالی بس میں ٹراموں کو نقل و حمل کے طریقوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، لیکن 1970ء کی دہائی میںجدید قاہرہاورحلوانکے علاوہ ہر جگہ بند کر دیا گیا تھا۔ یہ مصری انقلاب کے بعد 2014ء میں بند کر دیے گئے تھے۔[190]سڑکوں کا ایک وسیع نیٹ ورک قاہرہ کومصرکے دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے ملاتا ہے۔ یہاں ایک نئی رنگ روڈ ہے جو شہر کے مضافات کو گھیرے ہوئے ہے، باہر نکلنے والے راستے قاہرہ کے بیرونی اضلاع تک پہنچتے ہیں۔
+وہاں فلائی اوور اور پل ہیں، جیسے کہ6 اکتوبر پلجہاں ٹریفک زیادہ نہ ہو تو، شہر کے ایک طرف سے دوسری طرف تیز رفتار[189]آمدورفت کے ذرائعہیں۔قاہرہ کی ٹریفک بہت زیادہ بھیڑ کے لیے جانا جاتا ہے۔[191]ٹریفک نسبتاً تیز رفتاری سے چلتی ہے۔ ڈرائیور جارحانہ ہوتے ہیں، لیکن جنکشنوں پر زیادہ شائستہ ہوتے ہیں، باری باری جاتے ہیں، پولیس کچھ بھیڑ والے علاقوں میں ٹریفک کنٹرول میں مدد کرتی ہے۔[189]2017ء میں،دو مونو ریل سسٹمکی تعمیر کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا، ایک6 اکتوبر شہرکو مضافاتیجیزہسے جوڑتا ہے، جو 35 کلومیٹر (22 میل) کا فاصلہ ہے اور دوسرانصرشہر کوجدید قاہرہسے جوڑتا ہے، جو52 کلومیٹر (32 میل) کا فاصلہ ہے۔[192][193]مصرکا سب سے بڑا ہوائی اڈا،قاہرہ بین الاقوامی ہوائی اڈا،مصر جدیدہضلع کے قریب واقع ہے اور کار، ٹیکسی اور بس کے ذریعے قابل رسائی ہے۔قاہرہ میٹرو لائن 3، جو 2012ء میں کھولی گئی تھی، اصل میں ہوائی اڈے تک پہنچنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، لیکن ان منصوبوں کو 2020ء کے وسط میں مستقبل کے شٹل بس سسٹم کی جگہ منسوخ کر دیا گیا جو عدلی منصور اسٹیشن سے براہ راست چلتی ہے۔[194]قاہرہ ہوائی اڈے کی شٹل بس بھی پورے قاہرہ میں ہوائی اڈے سے یا اس روٹ کے لیے چلتی ہے۔قاہرہ بین الاقوامی ہوائی اڈامصرکا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے اور اسٹار الائنس کا رکن اور پرچم بردار کمپنیایجپٹ ائیرکا بنیادی مرکز ہے۔ہوائی اڈاشہر کے کاروباری علاقے سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر شہر کے شمال مشرق میں واقع ہے۔دار الحکومت بین الاقوامی ہوائی اڈامصرکےنئے دارالحکومتکی خدمت کرنے والا بنیادیبین الاقوامی ہوائی اڈاہے، جسے ابھی تک کوئی نام نہیں دیا گیا ہے۔
+یہ قاہرہ سے تقریباً 45 کلومیٹر (28 میل) مشرق میں واقع ہے اور اسی وقت قاہرہ کے مغرب میںسفنکس بین الاقوامی ہوائی اڈاکے کی تعمیر کے وقت ہی بنایا گیا تھا۔[195]ہوائی اڈے کا رقبہ 16 ��ربع کلومیٹر (6.2 مربع میل) ہے اور اس سے قاہرہ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے اورسفنکس بین الاقوامی ہوائی اڈےپر دباؤ کو جزوی طور پر کم کرنے کی امید ہے۔[196]سفنکس بین الاقوامی ہوائی اڈاایک عوامیہوائی اڈاہے، جو قاہرہ،مصرکے مغربی جانبجیزہشہر کی خدمت کرتا ہے۔
+اکتوبر 2017ء میں، یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ہوائی اڈا 2018ء کے موسم گرما میں تجارتی پروازوں کے لیے کھلا رہے گا اور اکتوبر 2018 میں تجرباتی آپریشن شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔[197][198][199]1 جنوری 2020ء کو، ہوائی اڈے کو اردن سے پہلی بین الاقوامی پرواز موصول ہوئی، جو فلائی اردن کے ذریعے چلائی گئی۔[200]تاہم، مارچ 2021ء تک، ہوائی اڈے پر یا وہاں سے اب بھی کوئی طے شدہ پروازیں نہیں ہیں۔
+2 نومبر 2022ء سےشرم الشیخ انٹرنیشنل ایئرپورٹسے سفنکس ہوائی اڈے کے لیے شیڈول پروازیں شروع ہو گئی ہیں۔ ہوائی اڈا کام کر رہا ہے لیکن اب بھی حتمی فٹ ہونے سے گذر رہا ہے۔سڑکوں کا ایک وسیع نیٹ ورک قاہرہ کو مصر کے دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے ملاتا ہے۔ یہاں ایک رنگ روڈ ہے جو شہر کے مضافات کو گھیرے ہوئے ہے، جس کے راستے قاہرہ کے تقریباً ہر ضلع تک پہنچتے ہیں۔فلائی اووراور پل ہیں جیسے6 اکتوبر پلاورقصر النیل پل، جو شہر کے ایک طرف سے دوسری طرف نقل و حمل کے تیز رفتار اور موثر ذرائع کی اجازت دینے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ تاہم، عملی طور پر، قاہرہ کی ٹریفک بہت زیادہ اور زیادہ ہجوم کے طور پر جانا جاتا ہے، ٹریفک جام کی وجہ سے سفر کے وقت میں نظریاتی رفتار سے کہیں زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔[201]2014ء اور 2020ء کے درمیان میں کی مدت کے دوران، بہت سی سڑکوں کو وسیع اور بہتر کیا گیا۔ ستمبر 2020ء تک رنگ روڈ کی توسیع بھی جاری ہے، جس کا مقصد تین یا چار کی بجائے سات یا آٹھ تک لین کی تعداد بڑھانا ہے۔قاہرہ کے بہت سے محلوں میں غیر منصوبہ بند عمارتیں ہیں، جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں آبادی کی کثافت میں اضافہ ہوا ہے، اس لیےمصر جدیدہاورنصر شہرجیسے محلوں کی سڑکیں تقریباً روزانہ اور ہر وقت بھیڑ رہتی تھی۔قاہرہ میں دو قسم کی بسیں ہیں، ایک وہ جو قاہرہ ٹرانسپورٹ اتھارٹی چلاتی ہے اور دوسری وہ جو نجی کمپنیاں چلاتی ہیں اور چھوٹی منی بسیں استعمال کرتی ہیں۔ بس لائنیںقاہرہ کبریکے علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں اور بہت سے قاہرہ کے مقامی لوگوں کے لیے نقل و حمل کا اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔قاہرہ کی خدمت اس کی ""سفید ٹیکسیوں"" کے ذریعہ کی جاتی ہے جو 2010ء کی دہائی کے اوائل میں متعارف کرائی گئی تھیں اور یہ کمپنی نہیں بلکہ افراد چلاتے ہیں۔ ان ٹیکسیوں کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، ان چیزوں کی وجہ سے جیسے ڈرائیور اپنے میٹر آن نہیں کرتے اور اس کی بجائے کرایہ کا مطالبہ کرتے ہیں جو عام طور پر کافی مہنگا ہوتا ہے اور دیگر مسائل جیسے ایئر کنڈیشننگ کی کمی۔تاہم، بنیادی وجہاوبر،کریماورسوولجیسی ایپلی کیشنز کا متعارف کرانا ہے، جو ٹیکسیوں کی بجائے زیادہ مقبول اہم آپشن بن گئی ہیں۔[202][203]مقامی ٹیکسی ڈرائیور ایسی ایپلیکیشنز کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں جہاں ان خدمات پر پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔[204]یہ سروس مسافروں کو ہوائی اڈے یا دیگر مقامات سے ان کی منزل تک پہنچانے کے لیے ایک لگژری سیڈان یا سیلون کار کا استعمال کرتی ہے جو ڈرائیور کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔ لیموزین سروسز کی اقسام ہیں جن میں سب سے اہم ایئرپورٹ لیموزین ہے اور دوسری مصر میں لوگوں کو شہر سے دوسرے شہر تک پہنچانے کے لیے ہے۔قاہرہمصری قومی ریلوےکے ��ریعے چلنے والی ریل کے ذریعےمصرکے دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے بڑے پیمانے پر جڑا ہوا ہے۔ قاہرہ کا مرکزی ریلوے اسٹیشن -رمسیس اسٹیشنرمسیس چوک پر واقع ہے۔قاہرہ لائٹ ریل ٹرانزٹقاہرہ لائٹ ریل ٹرانزٹیا ایل آر ٹی، جس کا جون 2022ء میں افتتاح کیا گیا تھا، قاہرہ کو10 رمضان شہراورنئے انتظامی دارالحکومتسے جوڑتا ہے، راستے میں قاہرہ کے مشرق میں کئی دیگر کمیونٹیز کو رابطہ فراہم کرتا ہے۔ ایل آر ٹی کا مغربی ٹرمینس عدلی منصور اسٹیشن پر ہے، جہاں سےقاہرہ میٹرو لائن 3میں منتقلی ممکن ہے۔قاہرہ میٹروگریٹر قاہرہ،مصرکا پہلا تیز رفتار ٹرانزٹ سسٹم ہے اور افریقہ میں صرف دو مکمل میٹرو سسٹم میں سے پہلا اور عرب دنیا میں صرف چار ہے۔ اسے 1987ء میںحلوانسے رمسیس اسکوائر تکقاہرہ میٹرو لائن 1کے طور پر کھولا گیا تھا، جس کی لمبائی 29 کلومیٹر (18.0 میل) تھی۔ 2014ء تک،قاہرہ میٹروکے 61 اسٹیشن ہیں (زیادہ تر ایٹ گریڈ)، جن میں سے تین ٹرانسفر اسٹیشن ہیں، جن کی کل لمبائی 77.9 کلومیٹر (48.4 میل) ہے۔ یہ نظام تین فعال لائنوں پر مشتمل ہے جو 1 سے 3 ہے۔ 2013 تک، میٹرو روزانہ تقریباً 4 ملین مسافروں کو لے جاتی ہے۔ قاہرہ میٹرو کو نیشنل اتھارٹی فار ٹنل چلاتی ہے۔ لائنیں معیاری گیج کا استعمال کرتی ہیں (1,435 ملی میٹر (4 فٹ 8 1⁄2 انچ))بیسویں صدیکے آغاز کے قریب تعمیر کیا گیا، 2014ء تک، قاہرہ ٹرام وے نیٹ ورک اب بھی جدید دور کے قاہرہ میں استعمال ہوتا تھا، خاص طور پر جدید علاقوں میں، جیسےمصر جدیدہاورنصر شہر۔ 1970ء کی دہائی کے دوران میں حکومتی پالیسیوں نے کاروں کے لیے جگہ بنانے کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں 120 کلومیٹر کے نیٹ ورک میں سے نصف سے زیادہ کو ہٹا دیا گیا۔
+ٹراموں کو وسطی قاہرہ سے مکمل طور پر ہٹا دیا گیا لیکنمصر جدیدہاورحلوانمیں جاری رکھا۔ تاہم، 2015ء میں، ٹرام وے کی پٹریوں کو ہٹا دیا گیا تھا اور سڑکوں اور اطراف کے راستے وسیع ہو گئے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ پچھلی دہائی کے دوران میں اسے شاذ و نادر ہی کسی نے استعمال کیا ہے کیونکہ یہ نقل و حمل کا ایک سست ذریعہ ہے اور اس کی محدود جغرافیائی کوریج ہے۔2015ء میں دومونو ریلسسٹم کی تعمیر کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا، ایک6 اکتوبر شہرکو مضافاتیجیزہسے جوڑتا ہے، جو 42 کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور دوسرانصر شہرکو نیو قاہرہ سے جوڑتا ہے، جو 54 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔
+یہ مصر کا پہلا مونو ریل سسٹم ہے۔[212][213]ضسےنیل بسکہا جاتا ہے، یہ جدید مصر میں نقل و حمل کے قدیم ترین ذرائع میں سے ایک ہے۔ نیل بس کو پہلی بار 1960ء کی دہائی میں استعمال کیا گیا تھا۔ یہ نیل پر سفر کرنے کے آسان طریقوں میں سے ایک ہے اور بہت سے لوگ اسے امبا کے بحری ہسپتال جانے کے لیے استعمال کرتے تھے کیونکہ وہاں جانے کا یہ واحد راستہ تھا۔ 2001ء میں، سروس کے پاس 14 اسٹاپوں کے ساتھ 35 بسیں تھیں اور وہ ہفتے کے ہر دن صبح 6 بجے سے شام 5 بجے تک، جمعہ، اتوار اور قومی تعطیلات کے دنجیزہچڑیا گھر کے لیے خصوصی سفر کے ساتھ چلتی تھیں۔
+ان چھٹیوں کے دوران میں شام 6 سے 11 بجے تک رات کے دورے بھی ہوتے ہیں۔ تاہم، نیل پر بہت سے پلوں کی تعمیر کے بعد، جیسےقصر النیل پلاور6 اکتوبر پل، نیل بس نقل و حمل کے ذریعہ سے ایک اچھے اور سستے نیل کے سفر میں تبدیل ہو گئی کیونکہ ٹکٹ کی قیمت 50 مصری پیاسٹر تھی۔[214]فٹ بالمصرمیں سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے،[215]اور قاہرہ میں کھیلوں کی متعدد ٹیمیں ہیں جو قومی اور علاقائی لیگز میں حصہ لیتی ہیں، خاص طور پرالاہلی ایس سیاورزمالک ایس سی، جوبیسوی�� صدیکےافریقی فٹ بال کنفیڈریشنکے پہلے اور دوسرے افریقی کلب ہیں۔ الاہلی اور زمالک کے درمیان میں سالانہ میچ مصر کے ساتھ ساتھ افریقی عرب خطے میں کھیلوں کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے مقابلوں میں سے ایک ہے۔ یہ ٹیمیں مصری فٹ بال کی بڑی حریف ہیں اورافریقہاورعرب دنیامیں پہلی اور دوسری چیمپئن ہیں۔ وہ اپنے گھریلو میچقاہرہ بین الاقوامی سٹیڈیممیں کھیلتے ہیں، جو مصر کا دوسرا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہے، اسی طرح قاہرہ کا سب سے بڑا اور دنیا کے سب سے بڑے اسٹیڈیموں میں سے ایک ہے۔قاہرہ انٹرنیشنل اسٹیڈیم1960ء میں بنایا گیا تھا اور اس کا کثیر المقاصد اسپورٹس کمپلیکس جس میں مرکزی فٹ بال اسٹیڈیم، ایک انڈور اسٹیڈیم ہے، کئی سیٹلائٹ فیلڈز جن میں کئی علاقائی، براعظمی اور عالمی کھیل، بشمولافریقی کھیل،
+انڈر17 فٹ بال ورلڈ چیمپیئن شپ کے اسٹیڈیموں میں سے ایک تھا جس نے 2006ء کے افریقہ کپ آف نیشنز کی میزبانی کی تھی جو جنوری 2006ء میں کھیلا گیا تھا۔ مصر نے بعد میں مقابلہ جیتا اور گھانا (2008ء) میں اگلا ایڈیشن جیت کر مصر اور گھانا کی قومی ٹیمیں واحد ٹیمیں بن گئیں جنھوں نے افریقی نیشنز کپ متواتر در بار جیت لیا جس کے نتیجے میں مصر نے افریقی کانٹینینٹل مقابلہ کی تاریخ میں بار ریکارڈ چھ کی تعداد میں ٹائٹل جیتا۔ اس کے بعد انگولا 2010ء میں مسلسل تیسری جیت ہوئی، مصر واحد ملک بنا جس نے مسلسل 3 اور 7 کل کانٹی نینٹل فٹ بال مقابلہ جیتنے کا ریکارڈ بنایا۔ اس کامیابی نے مصری فٹ بال ٹیم کو دنیا کی فیفا رینکنگ میں نمبر 9 بہترین ٹیم کے طور پر بھی جگہ دی تھی۔ 2021ء تک، مصر کی قومی ٹیم فیفا کے ذریعہ دنیا میں 46 نمبر پر ہے۔[216]2008ء گرمائی اولمپکسکے لیے بولی لگاتے وقت قاہرہ درخواست دہندہ کے مرحلے میں ناکام رہا، جس کی میزبانیبیجنگ،چینمیں ہوئی تھی۔[217]تاہم قاہرہ نے 2007ء کے پین عرب گیمز کی میزبانی کی۔[218]شہر میں کئی دیگر کھیلوں کی ٹیمیں ہیں جوجزیرہ اسپورٹنگ کلب، الشمس کلب، السعید کلب،ہیلیوپولیس اسپورٹنگ کلبسمیت متعدد کھیلوں میں حصہ لیتی ہیں، لیکن مصر میں سب سے بڑے کلب (علاقے میں نہیں بلکہ کھیلوں میں)الاہلی ایس سیاورزمالک ایس سیہیں۔ ان کے پاس مصر میں فٹ بال کی دو بڑی ٹیمیں ہیں۔ نیو قاہرہ کے علاقے میں نئے اسپورٹس کلب ہیں (قاہرہ کے ڈاون ٹاؤن سے ایک گھنٹہ دور)، یہ الزہور اسپورٹنگ کلب، وادی دیگلا اسپورٹنگ کلب اور پلاٹینم کلب ہیں۔[219]ملک کی زیادہ تر کھیلوں کی فیڈریشن بھی شہر کے مضافات میں واقع ہیں جن میںمصری فٹ بال ایسوسی ایشنبھی شامل ہے۔[220]افریقی فٹ بال کنفیڈریشن(کاف) کا صدر دفتر6 اکتوبر شہرمیں اپنے نئے ہیڈ کوارٹر میں منتقل ہونے سے پہلے قاہرہ میں واقع تھا، جو قاہرہ کے پرہجوم اضلاع سے دور ایک چھوٹا شہر ہے۔
+اکتوبر 2008ء میں مصری رگبی فیڈریشن کو باضابطہ طور پر تشکیل دیا گیا اور اسے بین الاقوامی رگبی بورڈ میں رکنیت دی گئی۔[221]مصر بین الاقوامی سطح پر اپنے اسکواش کھلاڑیوں کی برتری کے لیے جانا جاتا ہے جو پیشہ ورانہ اور جونیئر دونوں ڈویژنوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔[222]پی ایس اے مردوں کی عالمی درجہ بندی کے ٹاپ ٹین میں مصر کے سات کھلاڑی اور خواتین کی ٹاپ ٹین میں تین کھلاڑی ہیں۔
+قاہرہ کراس مصر چیلنج کا باضابطہ اختتامی نقطہ ہے جہاں اس کا راستہ ہر سال مصر کے مقدس ترین مقام پر ختم ہوتا ہے،جیزہکے عظیماہراماتکے نیچے ایک بہت بڑی ٹرافی دینے کی تقریب کے ساتھ۔[223]قاہرہ میں موجود کھیلوں کے ایم مق��مات مندرجہ ذیل ہیں:مصر میں ثقافتی سیاحت کی ایک فروغ پزیر صنعت ہے، جو ملک کی پیچیدہ تاریخ، کثیر الثقافتی آبادی اور علاقائی مرکز کے طور پر اہمیت پر مبنی ہے۔ مصر کی ثقافتی سیاحت کی تجارتانیسویں صدیسے اتار چڑھاؤ کا شکار ہے، جس کی مقبولیت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ایک علمی اور شوقیہ حصول کے طور پر علم مصریات کے عروج پر ہے۔ یکے بعد دیگرے مصری حکومتوں نے ثقافتی سیاحت کی قدر پر بہت زور دیا ہے، ""یقین ہے کہ کوئی دوسرا ملک اس علاقے میں حقیقتاً مقابلہ نہیں کر سکتا""[224]خاص طور پر جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیا کے سیاحوں کی شناخت مصری ثقافتی سیاحت پر توجہ مرکوز کرنے والی مارکیٹنگ مہموں کے لیے اچھی طرح سے رد عمل کے طور پر کی گئی ہے۔ ٹورازم بیورو کے نمائندوں نے ان خطوں پر مارکیٹنگ کے اخراجات بڑھانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔[225]ہف پوسٹکے مطابق:[226]عرب بہارسے پہلے، سیاحت کا ملک کے جی ڈی پی کا تقریباً 11 فیصد حصہ تھا اور یہ معیشت میں روزگار کا ایک اہم تخلیق کار تھا۔ 2011 کے انقلاب کے بعد، سیاحت ڈرامائی طور پر گر کر جی ڈی پی کے 6.7 فیصد پر آ گئی۔ گزشتہ تین سالوں کے سیاسی بحران کے دوران میں غیر ملکی سیاح دور رہے ہیں۔ سیکورٹی کے بنیادی ڈھانچے میں خرابی نے آثار قدیمہ کے مقامات پر لوٹ مار میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ کیا -- ناقابل تلافی ثقافتی مواد کا تباہ کن نقصان۔ جنرل السیسی کے اقتدار سنبھالنے کے مہینوں میں، مصر دنیا کے مہم جوؤں کے لیے ایک محفوظ مقام کے طور پر اپنی ساکھ کو آہستہ آہستہ دوبارہ بنا رہا ہے۔صدرحسنی مبارکنے 10 اکتوبر 1988ء کو مصری قومی ثقافتی مراکز کے نئےقاہرہ اوپیرا ہاؤسکا افتتاح کیا،خدیویہ اوپیرا ہاؤس17 سال قبل آگ سے تباہ ہو گیا تھا۔ نیشنل کلچرل سینٹر جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی کی مدد سے بنایا گیا تھا اور یہجاپان-مصری تعاون اور دونوں ممالک کے درمیان میں دوستی کے لیے ایک نمایاں خصوصیت کے طور پر قائم ہے۔خدیویہ اوپیرا ہاؤسقاہرہ،مصرمیں ایک اوپیرا ہاؤس تھا، جو پورےافریقہمیں سب سے قدیم اوپیرا ہاؤس تھا۔ اس کا افتتاح یکم نومبر 1869ء کو ہوا اور 28 اکتوبر 1971ء کو جلا دیا گیا۔ اوپیرا ہاؤسنہر سویزکے افتتاح کا جشن منانے کے لیےخدیواسماعیل پاشاکے حکم پر بنایا گیا تھا۔ اس میں تقریباً 850 لوگ بیٹھے تھے اور زیادہ تر لکڑی سے بنا تھا۔
+یہ مصر کے دار الحکومت میںازبکیہاور اسماعیلیہ کے اضلاع کے درمیان میں واقع تھا۔قاہرہ نے اپنا پہلا بین الاقوامی فلمی میلہ 16 اگست 1976ء کو منعقد کیا، جب مصری ایسوسی ایشن آف فلم رائٹرز اینڈ کریٹکس نے پہلاقاہرہ انٹرنیشنل فلم فیسٹیولشروع کیا جس کی سربراہی کمال الملخ کر رہے تھے۔ ایسوسی ایشن نے 1983ء تک سات سال تک یہ میلہ چلایا۔ یہ کامیابی فیسٹیول کے صدر کو دوبارہ ایف آئی اے پی ایف سے رابطہ کرنے کی درخواست کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ 1991ء کے فیسٹیول میں ایک مقابلہ شامل کیا جائے، یہ درخواست منظور کر لی گئی۔ 1998ء میں یہ فیسٹیول مصر کے معروف اداکاروں میں سے ایک حسین فہمی کی صدارت میں منعقد ہوا، جسے سعد الدین وہبہ کی موت کے بعد وزیر ثقافت فاروق حسنی نے مقرر کیا تھا۔ چار سال بعد صحافی اور مصنف شیرف الشوبشی صدر بن گئے۔ اب یہقاہرہ اوپیرا ہاؤسمیں سالانہ بنیاد پر منعقد کیا جاتا ہے۔[227]جنیزہ قاہرہیہ تقریباً 400,000[228]یہودی مخطوطات کے ٹکڑوں اورفاطمیانتظامی دستاویزات کا مجموعہ ہے جوفسطاطیاقدیم قاہرہ،مصرمیںمعبد بن عزراکےجنیزہمیں رکھے گئے تھ��۔[229]یہ مخطوطاتمشرق وسطیٰ، شمالی افریقی اوراندلسییہودی تاریخ کیچھٹی صدی[230]اورانیسویں صدی[231]عیسوی کے درمیانی عرصے پر محیط ہیں اور یہ دنیا میں قرون وسطی کے مخطوطات کا سب سے بڑا اور متنوع مجموعہ پر مشتمل ہے۔جنیزہ کے متن مختلف زبانوں میں لکھے گئے ہیں، خاص طور پرعبرانی زبان،عربی زباناورآرامی زبان، بنیادی طور پر ویلم اور کاغذ پر، لیکن کچھپیپرساور کپڑے پر بھی۔ یہودی مذہبی متون پر مشتمل ہونے کے علاوہ جیسے کہعبرانی بائبل،تلموداور بعد میںربیائی یہودیتکام (کچھ مصنفین کے اصل ہاتھ سے ہیں)، جینزہبحیرہ رومکے خطے کی معاشی اور ثقافتی زندگی کی ایک تفصیلی تصویر پیش کرتا ہے، خاص طور پردسویںسےتیرہویں صدیکے دوران میں کے عرصے میں۔[232][233]قاہرہ والوں کی اکثریت اپنے لیے خود کھانا بناتی ہے اور مقامی پیداواری منڈیوں کا استعمال کرتی ہے۔[234]ریستوراں کے منظر میںعرب پکواناور مشرق وسطیٰ کے پکوان شامل ہیں، بشمولکشریجیسے مقامی خاص پکوان۔
+شہر کے سب سے خصوصی ریستوراں عام طور پرزمالکمیں اورگارڈن سٹیضلع کے قریبدریائے نیلکے ساحل پر واقع لگژری ہوٹلوں کے ارد گرد مرکوز ہیں۔
+جدید مغربی معاشرے کا اثر بھی واضح ہے، جیسا کہ امریکی ریستوراں سلسلےمیکڈونلڈ، آربیز،پیزا ہٹ، سب وے،کینٹکی فرائیڈ چکنمرکزی علاقوں میں تلاش کرنا آسان ہے۔[234]مصر میں مذہب (2019)مصر میں اسلام80 ملین مسلمانوں کے ساتھ مصر کا سرکاری مذہب ہے۔ 2010ء کے مطابق کل آبادی کا 94.7% مسلمانوں پر مشتمل ہے۔[235][236]جن میں سے اکثریتاہل سنتکی ہے،[237]اور شیعہ کی تعداد کم ہے۔ قادیانی مصر میں بطور مسلمان قبول نہیں کیے جاتے۔[238]1980ء میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیا گيا۔[239]مصر میںمسلمانوںاورمسیحیوںکی مشترکہ تاریخ، قومی شناخت،نسلیت،نسل،ثقافتاورزبانہے۔[240]عبادت گاہوںمیں زیادہ تراسلامیمساجدہیں۔[241]قاہرہ میں بے شمار مساجد موجود ہیں، یہاں تاریخی اعتبار سے انتہائی اہم مساجد کا ذکر کیا گیا ہے۔مسجد عمرو بن العاصخلافت راشدہکے دور میںافریقاکے پورے علاقے اورمصرمیں قائم کی جانے والی پہلی مسجد ہے۔ یہ مسجد مصر کےفسطاطشہر میں مسلمانوں نے مصر فتح کرنے کے بعد تعمیر کی تھی، اس مسجد کو مسجد فتح، مسجد عتیق اور تاج الجوامع بھی کہا جاتا ہے، جامع عمرو بن العاصدریائے نیلکے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ یہ مسجد اپنی پہلی تعمیر کے وقت 30x50 کی جگہ پر واقع تھی اور اس کے چھ دروازے تھے، سال53ھمطابق672ءتک مسجدعمرو ابن العاصاپنی پہلی تعمیر پر قائم رہی، حضرتامیر معاویہکے حکم پرمسلمہ بن مخلد الانصارینے مسجد عمرو بن العاص میں اذان دینے کے لیے چار منبروں کا اضافہ کیا۔ اس کے بعد پے در پے مختلف عہدوں میں مسلسل اصلاحات اور توسیع کا کام جاری رہا اور آج مسجد عمرو ابن العاص 110 میٹر لمبائی اور 120 میٹر چوڑائی پر مشتمل ہے۔سال564ھمیں صلیبیوں کی مسلم ممالک پر یلغار کے بعد وزیر شاور کو فسطاط شہر پر صلیبیوں کے قبضہ کا خوف ہوا تو اس نے دفاع کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے فسطاط شہر میں دانستہ آگ لگادی، جس کے نتیجے میں پورا فسطاط شہر آگ کی لپیٹ میں آگیا، مسجد عمروبن العاص بھی آتشزدگی کا شکار ہوئی۔مسجد ابن طولونخلافت عباسیہکے دور میںمصرکے شہرقاہرہمیں بننے والی مسجد ہے۔ یہ اصل حالت میں اب تک محفوظ رہنے والی، اس شہر کی قدیم ترین مسجد ہے۔ اور بلحاظ رقبہ قاہرہ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اسے ایک کھلے مربع صحن کے ارد گرد بنایا گیا ہے جو قدرتی روشنی کو مسجد میں داخل ہونے ��یتا ہے۔ ابن طولون مسجد میں مصر کے قدیم طرز تعمیر کا نمونہ ہے، اس کی سجاوٹ کھدی ہوئی سٹکو اور لکڑی سے بنائی گئی ہے۔[242]یہ مسجد سیاحوں کی توجہ کا خاص بھی مرکز ہے۔دولت فاطمیہدور کی 970ء میں قائم ہونے والی ایک مسجد ہے۔قاہرہشہر کا قیامفاطمیجنرلجوہر صقلینے اپنے اس وقت کے خلیفہمعز لدین اللہکے حکم سے، 969ء میں فاطمیوں کی مصر کی فتح کے بعد کیا تھا، جوصقلیہکے ایک سابقیونانیغلام تھے۔
+شہر کا اصل نامالمنصوریہ، جدیدتونسمیں فاطمی خلافت کی سابقہ نشستالمنصوریہکے نام پر رکھا گیا تھا۔
+پہلی بار 972ء میں استعمال ہونے والی اس مسجد کا نام شایدجامع المنصوریہرکھا گیا تھا، جیسا کہ اس وقت عام رواج تھا۔ یہمعز لدین اللہتھا جس نے شہر کا نام بدل کرالقاہرہ(قاہرہ) رکھا۔ اس طرح مسجد کا نامجامع القاہرہہو گیا۔[243]مسجد کا موجودہ نام، الازہر،معز لدین اللہکیخلافتاورمصرمیں دوسرےفاطمی خلیفہعزیز باللہکے دور حکومت کے اختتام کے درمیان میں تبدیل ہوا تھا۔یہ مسجد اپنی گونا گوں دینی و ملی خدمات کی بدولت جامعہ کی شکل اختیار کر گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ جامعہ ’’جامعہ ازہر شریف‘‘ کے نام سے پوری دنیا میں مشہور و معروف ہو گیا، آج یہ جامعہعالم اسلامکی وہ عظیم درس گاہ ہے جس میں دینی اور دنیوی تمام علوم کی تعلیم دی جاتی ہے، دینی تعلیم کے لیے جامعہ ازہر شریف کو عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کا مرجع مانا جاتا ہے۔ اس وقت ازہر کے طلبہ کی ٹوٹل تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہے[حوالہ درکار]جس میں تقریباً 50 ہزار غیر ملکی طلبہ ہیں۔ جن کا تعلق 100 سے زائد ممالک سے ہے، ان طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے 6 ہزار سے زائد فقط مصر میں ازہر کے معاہد اور اسکولز عالم وجود میں آئے۔مسجد حاکم بامراللہمصرکے دار الحکومت قاہرہ میں واقع ایکمسجدہے جوفاطمی دور حکومتکی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا آغاز990ءمیں فاطمی خلیفہعزیز باللہکے دور حکومت میں ہوا اور ان کے بیٹے خلیفہالحاکم بامر اللہکے دور حکومت میں1013ءمیں اس کا کام تکمیل کو پہنچا۔یہ مسجد قاہرہ میں آنے والے ایکزلزلےسے شدید متاثر ہوئی تھی اور1989ءمیںمحمد برہان الدیناور ان کے پیروکاروں نے اس کی تعمیر نو کی اورمصرکے اُس وقت کے صدرمحمد انور الساداتنے اس کا افتتاح کیا۔مسجد الحسینقاہرہ،مصرکی ایک قدیممسجدہے جو 549ھ (1154ء) میں تعمیر ہوئی۔ تحقیق کے مطابق یہ مسجدفاطمیخلفاء کے ایک قبرستان کی زمین پر تعمیر کی گئی۔[244]یہ مسجد اپنے تبرکات کی وجہ سے مشہور ہے مثلاً حضرتمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ڈاڑھی کے کچھ بال، ان کے کچھ کپڑے اور ایک قدیم ترینقرآنکا مکمل مخطوطہ جس کا تعلق حضرتعثمانرَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دور سے ہے اور حضرتعثمانرَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ہاتھ کا اور حضرتعلی ابن ابی طالبکرم اللہ وجہہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔۔[245]اس کے علاوہ یہ مشہور ہے کہامام حسین علیہ السلامکا سر مبارک جو اولاًدمشق،سوریہمیں دفنایا گیا تھا، یہاں لا کر دفنایا گیا مگر زیادہ روایات یہ ہیں کہ یہ سرِ اقدس واپسکربلا،عراقلے جا کر دفنایا گیا تھا۔قبطی مسیحیکیکلیسیاکی بنیادی جڑیںمصرمیں مقیم ہیں، لیکن دنیا بھر میں قبطی مسیحی پائے جاتے ہیں۔ روایت کے مطابق،انجیلکے مُبلغ،مرقسنے پہلی صدی عیسوی میں اس کی بنیاد رکھی۔ اس وقت تقریباً 10 فی صد مصری قبطی مسیحی ہیں۔ کچھ مسیحی اندازوں کے مطابق یہ تخمینہ تقریباً 23 فی صد ہے۔سوڈانمیں بھی تقریباً 1 فی صد سوڈانی قبطی مسیحی ہیں۔ مصر اور سوڈان کے علاوہ ان کی ایک بڑی تعدادریاست ہائے متحدہ امریکا،کینڈااورانگلستانمیں پائی جاتی ہے۔ ایک مذہبی اقلیت کے طور پر، قبطی اکثر جدید مصر میں امتیازی سلوک سے مشروط ہیں اور اسلامیعسکریت پسندو انتہا پسند گروہوں کی طرف سے حملوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔قاہرہ کے مشہور گرجا گھر اورکیتھیڈرلدرج ذیل ہیں:1956ء سے پہلے اور1948ءکی مردم شماری کے مطابق مصری یہودیوں کی تعداد 65,639 تھی۔ یہودیوں نے مصر کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی زندگی کے تمام پہلوؤں میں حصہ لیا۔ سب سے پرجوش مصری قوم پرستوں میں سے ایکیعقوب صنوعیہودی تھا جیسا کہ موسیقار داؤد حسنی بھی تھا، معروف گلوکارہ اور اداکارہلیلیٰ مراداور فلم ساز توجو مزراحى بھی یہودی تھے۔1956ءکےسوئز بحرانکے بعد،جمال عبد الناصرنے بڑی تعداد میں یہودیوں کو ملک بے دخل کر دیا تھا۔ ان کی مصری شہریت منسوخ کر دی گئی اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔1967ءمیںاسرائیلکے ساتھ6 روزہ جنگکے بعد مصری یہودیوں کی ہجرت کا ایک مستقل سلسلہ شروع ہوا، جو اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ 2016ء کے وسط تک، قاہرہ میں کل 6 یہودی باقی تھے، بشمول ان کے روحانی پیشوا مگدا تانیہ ہارون سمیت 65 سال سے زیادہ عمر کی تمام خواتین تھیں۔[246]قاہرہ کی معیشت روایتی طور پر حکومتی اداروں اور خدمات پر مبنی رہی ہے، جدید پیداواری شعبے نےبیسویں صدیمیں ٹیکسٹائل اور فوڈ پروسیسنگ میں پیش رفت کو شامل کیا ہے - خاص طور پر گنے کی پیداوار میں۔ 2005ء تکمصرعرب دنیامیں سب سے زیادہ غیر تیل پر مبنی جی ڈی پی رکھتا ہے۔[247]قاہرہ مصر کی آبادی کا 11% اور اس کی معیشت (مساوی قوت خرید) کا 22% ہے۔ ملک کی تجارت کی اکثریت وہیں پیدا ہوتی ہے یا شہر سے گزرتی ہے۔ پبلشنگ ہاؤسز اور میڈیا آؤٹ لیٹس کی بڑی اکثریت اور تقریباً تمام فلمی اسٹوڈیوز ہیں، جیسا کہ ملک کے ہسپتالوں کے بستروں اور یونیورسٹیوں میں سے نصف ہیں۔ اس نے شہر میں تیزی سے تعمیرات کو ہوا دی ہے، پانچ میں سے ایک عمارت 15 سال سے کم پرانی ہے۔[247]یہ ترقی حال ہی میں شہر کی خدمات کے مقابلے میں کافی آگے تھی۔ گھروں، سڑکوں، بجلی، ٹیلی فون اور سیوریج سروسز سب کی سپلائی کم تھی۔ تبدیلی کی شدت کو سمجھنے کی کوشش کرنے والے تجزیہ کاروں نے ""ہائپر اربنائزیشن"" جیسی اصطلاحات وضع کیں۔[247]تحریر چوککی بنیادانیسویں صدیکے وسط میں جدید شہر قاہرہ کے قیام کے ساتھ رکھی گئی تھی۔
+اسے سب سے پہلے اسماعیلیہ اسکوائر کا نامانیسویں صدیکے حکمرانخدیواسماعیل پاشاکے نام پر رکھا گیا تھا، جس نے نئے شہر کے ضلع کے 'پیرس آن دی نیل' کا ڈیزائن بنایا تھا۔1919ء کے مصری انقلابکے بعد
+چوک کو بڑے پیمانے پر تحریر (آزادی) اسکوائر کے نام سے جانا جانے لگا، حالانکہ1952ء کے مصری انقلابکے بعد تک اس کا سرکاری طور پر نام تبدیل نہیں کیا گیا تھا جس نے بادشاہت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ چوک کے چاروں طرف کئی قابل ذکر عمارتیں ہیں جن میںقاہرہ میں امریکی یونیورسٹیکا ڈاون ٹاؤن کیمپس،مجمع التحریرسرکاری انتظامی عمارت،عرب لیگکا صدر دفتر، نیل رٹز کارلٹن ہوٹل اورمصری عجائب گھرشامل ہیں۔ قاہرہ کے مرکز میں ہونے کی وجہ سے، چوک نے کئی سالوں میں کئی بڑے احتجاجی مظاہروں کا مشاہدہ کیا۔ تاہم اسکوائر میں سب سے قابل ذکر واقعہ سابق صدرحسنی مبارککے خلاف 2011ء کے مصری انقلاب کا مرکزی نقطہ تھا۔[255]ٌ2020ء میں حکومت نے مربع کے بیچ میں ایک نئی یادگار کی تعمیر مکمل کی جس میںرمسيس ثانیکے دور سے ایک قدیم اوبلیسک موجود تھا، اصل میں 2019ء میںتانیسمیں دریافت کیا گیا تھا اور چار مینڈھے کے سر والےاسفنکسمجسمےکرنکسے منتقل ہوئے۔[256][257][258]مصری نوادرات کاعجائب گھرجسے عام طور پرمصری عجائب گھرکہا جاتا ہے، دنیا میںقدیم مصرنوادرات کا سب سے وسیع ذخیرہ ہے۔ اس میں 136,000 نوادرات نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں، اس کے تہ خانے کے سٹور رومز میں مزید سیکڑوں ہزاروں کے ساتھ۔ نمائش میں رکھے گئے مجموعوں میں توتنخمون کے مقبرے سے ملنے والی چیزیں بھی شامل ہیں۔[259]مصری نوادرات کےعجائب گھرکا زیادہ تر ذخیرہ، بشمول توتنخمون مجموعہ، نئے عظیم الشانعظیم مصری عجائب گھرمیں منتقل کیا جائے گا، جوجیزہمیں زیر تعمیر تھا اور 2020ٰء کے آخر میں اسے کھولنا تھا۔[260][261]برج قاہرہایک آزاد ٹاور ہے جس کے اوپر ایک گھومتا ہوا ریستوراں ہے۔ یہ ریستوراں کے سرپرستوں کو قاہرہ کا پرندوں کا نظارہ فراہم کرتا ہے۔ یہ شہر کے مرکز میںدریائے نیلکےجزیرہ (قاہرہ)پرزمالکضلع میں واقع ہے۔ 187 میٹر (614 فٹ) پر، یہجیزہکے عظیماہرام مصرسے 44 میٹر (144 فٹ) اونچا ہے، جو جنوب مغرب میں تقریباً 15 کلومیٹر (9 میل) پر واقع ہے۔[262]قاہرہ کے اس علاقے کو نام دیا گیا ہے جس میں بابل کے قدیم رومی قلعےقلعہ بابلیونکی باقیات موجود ہیں اور یہمصرکی پہلی عرب بستی (ساتویں صدی) اور بعد میں قاہرہ کے پیشروفسطاطکے اصل مقام کو بھی برپوشی کرتا ہے۔ اس علاقے میںقبطی قاہرہشامل ہے، جس میں پرانے مسیحی گرجا گھروں جیسےمعلق گرجا گھر، یونانی آرتھوڈوکسقدیس جارج کا گرجا گھرشامل ہیں اور دیگر مسیحی یا قبطی عمارتیں، جن میں سے زیادہ تر قدیم رومی قلعے کی جگہ پر واقع ہیں۔یہقبطی عجائب گھرکا بھی مقام ہے، جو یونانی-رومی سے لے کر اسلامی دور تک قبطی فن کی تاریخ اورمعبد بن عزراکی تاریخ کو ظاہر کرتا ہے، جو قاہرہ میں سب سے قدیم اور مشہورکنیسہہےجہاں سےانیسویں صدیمیںجنیزہدستاویزات کا اہم ذخیرہ دریافت ہوا تھا۔[263]اس قبطی علاقہ کے شمال میںمسجد عمرو بن العاصہے، جو مصر کی پہلی مسجد ہے اور اس کا سب سے اہم مذہبی مرکز ہے جو پہلےفسطاطتھا، جس کی بنیاداسلامی فتح مصرکے فوراً بعد 642 عیسوی میں رکھی گئی تھی، تاہم یہ اس کے بعد کئی بار دوبارہ تعمیر ہوئی۔[264]قاہرہ دنیا میںاسلامی فن تعمیرکی سب سے بڑی تاریخی یادگاروں میں سے ایک ہے۔[265]پرانے فصیل والے شہر اور قلعہ کے آس پاس کے علاقے سینکڑوںمساجد، مقبرے،مدارس، حویلیوں،کارواں سرائےاور قلعہ بندیوں کی خصوصیت رکھتے ہیں جو اسلامی دور اور خاص طور پر انگریزی سفری ادب میں اسے اکثر ""اسلامی قاہرہ(قاہرہ المعز)"" کہا جاتا ہے۔[266]یہ کئی اہم مذہبی مزارات کا بھی مقام ہے جیسے کہمسجد الحسین(جس کے مزار پرحسین ابن علیکا سر رکھا گیا ہے)، اماممحمد بن ادریس شافعیکا مقبرہ (بانیشافعیفقہی مذاہب، سنی اسلامی فقہ کے بنیادی مکاتب فکر میں سے ایکفقیہ، سیدہ رقیہ کا مقبرہمشہد السیدہ رقیہ،مسجد سیدہ نفیسہاور دیگر۔[267]مصر کی پہلی مسجدمسجد عمرو بن العاصتھی جو اس علاقے میں سابقہفسطاطمیں تھی، جو اس علاقے میں پہلی عرب مسلم بستی تھی۔ تاہممسجد ابن طولونقدیم ترین مسجد ہے جو اب بھی اپنی اصلی شکل کو برقرار رکھتی ہے اوراسلامی تہذیبکے کلاسیکی دور سے عباسی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اسے 876-879 عیسوی میں عراق میں عباسی دار الحکومتسامراءسے متاثر انداز میں بنایا گیا تھا۔[268]یہ قاہرہ کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے اور اسے اکثر خوبصورت ترین مساجد میں سے ایک کہا جاتا ہے۔[269][270]ایک اور عباس�� تعمیر، روضہ جزیرے پر نیلومیٹر، قاہرہ کا قدیم ترین اصل ڈھانچہ ہے، جو 862 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسےدریائے نیلکی سطح کی پیمائش کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، جو زرعی اور انتظامی مقاصد کے لیے اہم تھا۔[271]وہ بستی جسے باضابطہ طور پر قاہرہ کا نام دیا گیا تھا (عربی: القاہرہ) فاتح فاطمی فوج نے 959 عیسوی میںفسطاطکے شمال مشرق میں قائم کی تھی۔ فاطمیوں نے اسے ایک الگ محلاتی شہر کے طور پر بنایا جس میں ان کے محلات اور حکومت کے ادارے تھے۔ اسے دیواروں کے ایک چکر سے گھیر لیا گیا تھا، جسےگیارہویں صدیعیسوی کے آخر میںوزیربدر الجمالینے پتھر سے دوبارہ تعمیر کیا تھا، جس کے کچھ حصےباب زویلہمیں آج بھی باقی دہ ہیں، جنوب میںباب الفتوحاور شمال میںباب النصرواقع ہیں۔ فاطمی دور کی موجودہ یادگاروں میں الحاکم کی بڑیالحاکم مسجد،مسجد اقمر،مسجد جیوشی،مسجد لؤلؤہاورمسجد صالح طلائعہیں۔[272][267]فاطمی دور میں قائم ہونے والے سب سے اہم اور دیرپا اداروں میں سے ایکالازہر مسجدتھی جس کی بنیاد 970 عیسوی میں رکھی گئی تھی، جس کا مقابلہفاسدنیا کی میں قدیم ترین یونیورسٹیجامعہ قرویینسے ہوتا ہے۔[273]آججامعہ الازہردنیا میں اسلامی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز ہے اورمصرکی سب سے بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے جس کے پورے ملک میں کیمپس ہیں۔[273]مسجد ہی میں اہم فاطمی عناصر کو برقرار رکھا گیا ہے لیکن اس کے بعد کی صدیوں میں اس میں اضافہ اور توسیع کی گئی ہے، خاص طور پر مملوک سلطانوںسیف الدین قایتبائیاورالاشرف قانصوہ غوریاوراٹھارہویں صدیمیں عبد الرحمن کتخدا نے۔[274]قرون وسطیٰکے قاہرہ کا سب سے نمایاں تعمیراتی ورثہ، مملوک دور، 1250 سے 1517 عیسوی تک کا ہے۔ مملوک سلاطین اور اشرافیہ مذہبی اور علمی زندگی کے شوقین سرپرست تھے، عام طور پر مذہبی یا جنازے کے احاطے بناتے تھے جن کے کاموں میں مسجد، مدرسہ، ڈسپنسری،خانقاہ(صوفیا کے لیے)، سبیل شامل ہوتے تھے۔ اور اپنے اور ان کے اہل خانہ کے لیے ایک عظیم الشان مقبرہ۔[72]قاہرہ میں مملوک یادگاروں کی سب سے مشہور مثالوں میںمسجد و مدرسہ سلطان حسن،مسجد امیر الماردانی،مسجد سلطان المؤید(جن کے جڑواں مینارباب زویلہکے دروازے کے اوپر بنائے گئے تھے)،مجموعہ سلطان الاشرف غوری،مجموعہ سلطان قایتبائی،القرافہاور سلطانناصر محمد بن قلاوونکےمسجد و مدرسہ ناصر قلاوونکمپلیکس پر مشتملبین القصرینکے علاقے میں تہری یادگاریں،مدرسہ ناصر محمد قلاووناورمسجد و مدرسہ سلطان برقوقشامل ہیں۔
+کچھ مساجد میںرومیوں،بازنطینیوںیاقبطیوںکی تعمیر کردہ قدیم عمارتوں سے سپولیا (اکثر کالم یا کیپٹل) شامل ہیں۔[265]مملوکوں اور بعد کے عثمانیوں نے بھی قاہرہ کی معیشت میں تجارت اور تجارت کے اہم کردار کی وجہ سے تاجروں اور سامان کے قیام کے لیے ویکلاس یاکارواں سرائےبنائے۔[275]وکالہ الغوریآج بھی برقرار ہے، جو آج التنورہ (صوفی رقص) مصری ہیریٹیج ڈانس گروپ کی باقاعدہ پرفارمنس کی میزبانی کرتا ہے۔[276]خان الخلیلیایک تجارتی مرکز ہے جس نےکارواں سرائے(جسے خان بھی کہا جاتا ہے) کو بھی مربوط کیا ہے۔[277]قلعہ صلاح الدین ایوبیقاہرہ،مصرمیں ایکقرون وسطیکی اسلامی قلعہ بندی ہے۔ یہ کوہ المقطم کے نزدیک قاہرہ کے وسط میں واقع ہے۔ اب یہ ایک محفوظ تاریخی مقام ہے یہ قلعہ اسلامی تعمیر کا ایک شاہکار ہے آپ قدیم قاہرہ میں داخل ہوں تو سامنے قلعہ صلاح الدین ایوبی دور سے نظر آتا ہے جب آپ سیدہ عائشہ کی طرف سے آئیں یا جمالیہ کی طرف ��ے یا کوہ مقطم سے آئیں تو اس قلعہ کاگنبداور منار سامنے دکھائی دیتے ہیں اور یہ بڑا خوشگوار منظر ہوتا ہے قلعہ سے اہرام مصر کی مسافت تیس منٹ ہے لیکن قلعہ صلاح الدین ایوبی سے با آسانی آپ اہرام مصر کا نظارہ کرسکتے ہیں یہ قاہرہ کی بلند ترین مقامات میں سے ایک مقام پر بنایا گیا ہے جس آپ تقریباً آدھے سے زیادہ قاہرہ دیکھ سکتے ہیں
+اس پر آج بھی فوج کا قبضہ ہے، لیکن اب ایک سیاحتی مقام کے طور پر کھلا ہے، خاص طور پر،مصری قومی عسکری عجائب گھر،چودہویں صدیکیمسجد الناصر محمد،انیسویں صدیکیمسجد محمد علیجو قاہرہ کی اسکائی لائن پر غالب پوزیشن پر ہے۔[278]خان الخلیلیایک قدیمبازاریا منڈی ہے جومسجد الحسینسے متصل ہے۔ یہ 1385ء کا ہے، جب امیر جرکس الخلیلی نے ایک بڑاکارواں سرائے(کارواں سرائے تاجروں کے لیے ایک ہوٹل ہے اور عام طور پر آس پاس کے کسی بھی علاقے کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے) یا خان بنایا۔ اس اصلکارواں سرائےعمارت کو سلطانالاشرف قانصوہ غورینے منہدم کر دیا تھا، جس نے اسےسولہویں صدیکے اوائل میں ایک نئے تجارتی کمپلیکس کے طور پر دوبارہ تعمیر کیا، جو آج موجود سوق (بازار) کے نیٹ ورک کی بنیاد بنا۔[279]قرون وسطی کے بہت سے عناصر آج بھی موجود ہیں، بشمول آرائشیمملوکطرز کے دروازہ گزرگاہ۔[280]آج، خان الخلیلی سیاحوں کی توجہ کا ایک بڑا مرکز اور ٹور گروپس کے لیے مقبول اسٹاپ ہے۔[281]موجودہ دور میں قاہرہ بہت زیادہشہریبنا ہوا ہے اور زیادہ تر قاہرہ کے باشندے اپارٹمنٹس کی عمارتوں میں رہتے ہیں۔ شہر میں لوگوں کی آمد کی وجہ سے، تنہا کھڑے مکانات نایاب ہیں اور اپارٹمنٹ کی عمارتیں محدود جگہ اور لوگوں کی کثرت کے لیے جگہ رکھتی ہیں۔ سنگل علاحدہ مکانات عام طور پر امیروں کی ملکیت ہوتے ہیں۔[282]بارہ سال کی معیاری رسمی تعلیم کے ساتھ رسمی تعلیم کو بھی اہم سمجھا جاتا ہے۔ قاہرہ والے اعلیٰ تعلیم کے ادارے میں قبول کیے جانے کے لیےایس اے ٹیکی طرح معیاری ٹیسٹ دے سکتے ہیں، لیکن زیادہ تر بچے اسکول ختم نہیں کرتے اور ورک فورس میں داخل ہونے کے لیے تجارت کا انتخاب کرتے ہیں۔[282]مصر اب بھیغربتکے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے، جہاں تقریباً نصف آبادی یومیہ 2امریکی ڈالریا اس سے کم پر گزارہ کر رہی ہے۔[283]قاہرہ میں خواتین کے لیے شہری حقوق کی تحریک - اور حد تک مصر میں - برسوں سے جدوجہد کر رہی ہے۔ قاہرہ بھر میں خواتین کو مسلسل امتیازی سلوک، جنسی ہراسانی اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2013ء کےاقوام متحدہکے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ 99% سے زیادہمصری خواتیننے اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موقع پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی اطلاع دی۔[284]2014ء کے بعد سے نئے قومی قوانین کے باوجود جنسی ہراسانی کی تعریف اور اسے مجرم قرار دینے کے باوجود یہ مسئلہ برقرار ہے۔[285]صورت حال اس قدر سنگین ہے کہ 2017ء میں قاہرہ کو ایک سروے میں خواتین کے لیے دنیا کا سب سے خطرناکمیگا شہرقرار دیا گیا تھا۔[286]2020ء میں سوشل میڈیا اکاؤنٹ ""اسالٹ پولیس"" نے ممکنہ مجرموں کو روکنے کی کوشش میں خواتین کے خلاف تشدد کے مرتکب افراد کا نام لینا شروع کیا۔[287]اس اکاؤنٹ کی بنیاد طالبہنادین اشرفنے رکھی تھی، جسے مصر میںمی ٹو تحریککی تکرار پر اکسانے کا سہرا جاتا ہے۔[288]قاہرہ میںفضائی آلودگیایک سنگین تشویش کا معاملہ ہے۔ گریٹر قاہرہ کی غیر مستحکم خوشبودار ہائیڈرو کاربن کی سطح بہت سے دوسرے اسی طرح کے شہروں سے زیادہ ہے۔[289]قاہرہ میں ہوا کے معیار کی پیمائش کئی دہائیوں سے گاڑی��ں کے غیر منظم اخراج، کچرا جلانا۔ شہری صنعتی آپریشنز اور بھوسے کی وجہ سےسیسہ،کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور معلق ذرات کے ارتکاز کی خطرناک سطح کو بھی ریکارڈ کرتی رہی ہے۔ قاہرہ کی سڑکوں پر 4,500,000 سے زیادہ کاریں ہیں، جن میں سے 60% 10 سال سے زیادہ پرانی ہیں اور اس لیے ان میں اخراج کو کم کرنے کی جدید خصوصیات نہیں ہیں۔ قاہرہ میں بارش کی کمی اور اس کی اونچی عمارتوں اور تنگ گلیوں کی ترتیب کی وجہ سے پھیلاؤ کا عنصر بہت کم ہے، جو پیالے کا اثر پیدا کرتا ہے۔[290]حالیہ برسوں میں، ہرموسم خزاںمیںدرجہ حرارتکے الٹ جانے کی وجہ سے ایک""سیاہ بادل""(جیسا کہ مصری اسے کہتے ہیں)اسموگکا قاہرہ پر نمودار ہوتا ہے۔اسموگشہر کے شہریوں کے لیے سانس کی سنگین بیماریوں اور آنکھوں کی جلن کا باعث ہے۔ ایسے سیاح جو آلودگی کی اتنی بلند سطح سے واقف نہیں ہیں انھیں اضافی احتیاط کرنی چاہیے۔[291]قاہرہ میں بہت سے غیر رجسٹرڈسیسہاورتانباکے بدبوداردھاتوں کا حصولبھی ہیں جو شہر کو بہت زیادہ آلودہ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں شہر پر ایک مستقل کہرا چھا گیا ہے جس میں ہوا میں ذرات معمول کی سطح سے تین گنا زیادہ ہو گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق قاہرہ میں سالانہ 10,000 سے 25,000 افراد فضائی آلودگی سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔سیسہمرکزی عصبی نظامکو نقصان پہنچاتا ہے اور خاص طور پر بچوں میں نیوروٹوکسائٹی کا مرض پیدا کرتا ہے۔[292]1995ء میں پہلی ماحولیاتی کارروائیاں متعارف کرائی گئیں اور 36 فضائی نگرانی کے اسٹیشنوں اور کاروں پر اخراج کے ٹیسٹ کے ساتھ صورت حال میں کچھ بہتری دیکھی گئی۔ بھیڑ کی سطح کو بہتر بنانے کے لیے 20 ہزار بسیں بھی شہر میں چلائی گئی ہیں، جو بہت زیادہ ہیں۔[293]یہ شہر زمینی آلودگی کی بلند سطح کا بھی شکار ہے۔ قاہرہ ہر روز 10,000 ٹن فضلہ پیدا کرتا ہے، جس میں سے 4,000 ٹنجمع یا انتظامنہیں کیا جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے اور مصری حکومت اس سے نمٹنے کے طریقے تلاش کر رہی ہے۔ کچرا جمع کرنا اور اس میں سے پلاسٹک اور دیگر اشیا کو فروخت کرنا بھی ایک پیشہ ہے اور ایسا کام کرنے والوں کوزبالینکہا جاتا ہے۔ قاہرہ کلیننگ اینڈ بیوٹیفیکیشن ایجنسی کی بنیاد فضلے کو جمع کرنے اور ری سائیکل کرنے کے لیے رکھی گئی تھی۔ وہزبالینکمیونٹی کے ساتھ کام کرتے ہیں جوبیسویں صدیکے آغاز سے قاہرہ کے فضلے کو جمع اور ری سائیکل کر رہی ہے اور ایک ایسے علاقے میں رہتی ہے جسے مقامی طور پرمنشیت ناصرکہا جاتا ہے۔[294]پانی کی آلودگی بھی شہر میں ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ سیوریج سسٹم ناکام اور اوور فلو ہوتا ہے۔ بعض موقع پر سیوریج کا پانی سڑکوں پر نکل کر صحت کے لیے خطرہ پیدا کر دیتا ہے۔ امید ہے کہ یہ مسئلہیورپی یونینکی مالی اعانت سے چلنے والے نئے سیوریج سسٹم سے حل ہو جائے گا، جو شہر کی طلب کو پورا کر سکتا ہے۔
+شہر کے پانی کے نظام میںپارہکی خطرناک حد تک بلند سطح نے صحت کے عالمی حکام کو متعلقہ صحت کے خطرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔عرب لیگکا صدر دفتر قاہرہ کے مرکزی کاروباری ضلع کے قریبتحریر چوکمیں واقع ہے۔قاہرہ مندرجہ ذیل کے ساتھجڑواں شہرلوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+269,ایوبی سلطنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%A8%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA,ایوبی سلطنتیاسلطنت آل ایوب(Ayyubid Sultanate)کردنسل کے مسلم خاندان کی حکومت تھی جس نے 12 ویں اور 13 ویں صدی میںمصر،شام،یمن،دیار بکر،مکہ،حجازاور شمالیعراقپر ح��ومت کی۔ایوبی سلطنت کے بانیصلاح الدین ایوبیتھے جن کے چچاشیر کوہنے زنگی سلطاننور الدین زنگیکے سپہ سالار کی حیثیت سے1169ءمیںمصرفتح کیا تھا۔ اس سلطنت کا نام شیر کوہ کے بھائی اورصلاح الدینکے والدنجم الدین ایوبکے نام پر ایوبی سلطنت پڑا۔صلاح الدیننےمصرمیںفاطمی سلطنتکا خاتمہ کیا اور1174ءمیںنور الدینکے انتقال کے بعددمشقپر قبضہ کرکےشامکو بھی اپنی قلمرو میں شامل کر لیا۔صلاح الدینصلیبی جنگوںکے دوران1187ءمیںجنگ حطینمیں صلیبیوں کو عظیم شکست،فتح بیت المقدساور اس کے نتیجے میں ہونے والیتیسری صلیبی جنگمیں فتح کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔صلاح الدین1193ءمیں انتقال کر گئے جس کے بعد سلطنت ان کے بیٹوں کے درمیان بٹ گئی اور بالآخر 1200ء میں صلاح الدین کے بھائیالعادلپوری سلطنت کا قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔1218ءمیں العادل اور 1238ء میںالکاملکے انتقال پر پھر یہی صورت حال سامنے آئی۔1250ءمیں آخری ایوبی سلطانتوران شاہقتل ہو گیا اور اس کے مملوک غلام جرنیلایبکنے بحریمملوک سلطنتکی بنیاد رکھی۔مصرہاتھوں سے نکل جانے کے بعد ایوبیوں نے اگلے 80 سال تک شام میں مزاحمت جاری رکھی اور بالآخر1334ءمیں شام بھی مکمل طور پر مملوکوں میں شامل ہو گیا۔(نامکمل فہرست)صلاح الدین ایوبیصلیبی جنگیںمملوکایوبی سلطنت[مردہ ربط]
+270,سلطنت مملوک (مصر),https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA_%D9%85%D9%85%D9%84%D9%88%DA%A9_(%D9%85%D8%B5%D8%B1),"لبنانلیبیافلسطینسلطنت مملوک(ترکی: Memlük Sultanlığı, عربی: سلطنة المماليك)آل محمد علیسے قبل آخری آزاد مصری- ترک ریاست تھی۔ یہایوبی سلطنتکے زوال کے بعد قائم ہوئی اور عثمانی فتح مصر 1517 تک رہی۔"
+271,بارہویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%81%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<گیارہویں صدی <<<بارہویں صدی>>> تیرہویں صدی>>>
+272,سولہویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%88%D9%84%DB%81%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<پندرہویں صدی <<<سولہویں صدی>>> سترہویں صدی>>>
+273,فسطاط,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D8%B3%D8%B7%D8%A7%D8%B7,"فسطاط(عربی: الفسطاط) مسلممصرکا پہلا دار الحکومت تھا ۔ فسطاط کا شمالی حصہقاہرہہے جو اب مصر کا دار الحکومت ہے۔آج کل فسطاط قاہرہ کے ضلع ""قدیم مصر"" کا حصہ ہے۔ یہ دور فراعین کے بعدنیلکے ساحل پر واقع مصر کا پہلا دار الحکومت تھا۔عربیزبان میں فسطاط کا مطلب ""خیمہ"" ہے۔یہاں خیمہ نماٗ اہرام موجود ہے اور اسی نسبت سے یہ شہر فسطاط کہلایا۔"
+274,اسلامی فن تعمیر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C_%D9%81%D9%86_%D8%AA%D8%B9%D9%85%DB%8C%D8%B1,اسلامی فن تعمیرکی ابتدا 622ء مطابق پہل ہجری میں شروع ہوئی جب مدینہ میںمسجد نبویاورمحمد بن عبد اللہکی رہائش گاہ تعمیر ہوئی۔ یہ ایک بے انتہا سادہ تعمیر تھی لیکن اس میں مستقبل کی مساجد کی تعمیر کے لیے ابتدائی خطوط شامل تھے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ سادہ منصوبہ وسیع تر اور ہمہ جہت ہوتا گیا اور پھر مسجد کی تعمیر میں دوسرے تعمیراتی عناصر مثلاً صحن، حوض، نماز کا وسیع ہال، محراب مقصورہ شریف، منبر اور میناروں کا اضافہ ہوا۔
+275,مینار,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%86%D8%A7%D8%B1,میناراسلامی طرز تعمیر میںمسجدکے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ مینار عام طور پر اونچے تقسیم شدہ لمبوترےتاجکی طرح تعمیر کیا جاتا ہے جو بغیر کسی سہارے کے ملحقہعمارتسے اونچا ہوتا ہے۔مینار عام طور پراسلامی معاشرےمیں مسجد کے ساتھ تعمیر کیا جاتا ہے جو اسلامی معاشرے یا آبادی کو ظاہر کرتا ہے۔ مسجد کے ساتھ مینار کی تعمیر دراصل اس سوچ کے تحت شروع کی گئی تھی کہ بلند مقام سے لوگوں کونمازکے لیےاذانکے ذریعے بلایا جا سکے۔ نماز کے اوقات کے مطابق دن میں پانچ بار منادی کو اذان کہا جاتا ہے۔ یہ اوقاتفجر(سورج طلوع ہونے سے پہلے)،ظہر(دوپہر کے وقت)،عصر(سہ پہر)،مغرب(سورج غروب ہونے کے فوراً بعد) اورعشاء(رات کے پہلے پہر) کے ہیں۔ جدید دور میں مینار پر سے منادی کرنے کا رواج ختم ہو چکا ہے، اب یہی کامجائے نمازسے سپیکر یاصوتی آلاتکی مدد سے کیا جاتا ہے۔ مینار اب بھی تعمیر ہوتے ہیں مگر وہ مسجد اوراسلامی طرز تعمیرکو ظاہر کرتے ہیں۔کئی جگہوں پر مینار مسجد کے مرکزی حصے میں ہوا کی آمدورفت کی سہولت کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں، عموماً مسجدوں میں بلند مینار کے ساتھ ساتھ گول مینارے بھی تعمیر کیے جاتے ہیں جو گرم ہوا کو سمونے اور پھر باہر نکالنے کے کام آتے ہیں، مسجد کی خوبصورتی اور اسلامی طرز تعمیر کو اجاگر کرتے ہیں۔اسلامی تاریخ میں جو مساجد اوائل میں تعمیر کی گئی تھیں ان میں مینار کا تذکرہ کہیں بھی نہیں ملتا۔ اذان یا نماز کے لیے منادی کے لیے بلند مقام کا استعمال ہوتا تھا، اوائل میںنبی کریم صلی اللہ و علیہ وسلمکے گھر کی چھت اور پھرمسجد نبویکی دیوار۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی وفات کے 80 سال بعد پہلا مینار تعمیر کیا گیا، جس کا مقصد بلند مقام سے اذان یا نماز کے لیے منادی کرنا تھا۔دنیا کا سب سے بلند مینارکاسا بلانکامراکشمیںحسن 2 مسجدمیں واقع ہے جس کی بلندی 210میٹرہے۔ اس کے علاوہ اینٹ سے تعمیر شدہ دنیا کا سب سے بلند میناربھارتمیں واقعقطب مینارہے۔ایرانکے شہرتہرانمیں ابھی دو مینار جن کی بلندی 230 میٹر ہے زیر تعمیر ہیں۔تاریخ سے واضح ہوتا ہے کہ چند قدیم مساجد جیسےدمشقکی عظیم مسجد میں تعمیر شدہ مینار جہازوں، قافلوں اور بیڑوں کے لیے راستہ دکھانے کے کام کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔مینار کے تین حصے ہوتے ہیں؛ بنیاد، مرکزی مہرہ اور گیلری۔ بنیاد کے لیے زمین میں کھدائی کر کے سخت پتھر کی بھرائی کی جاتی ہے تاکہ مینار کا وزن اٹھانے اور بغیر کسی سہارے کے مینار کو کھڑے رہنے میں کوئی مشکل حائل نہ ہو، اس کے علاوہ زمین میں مینار کے دھنسنے کے عمل کو بھی مضبوط بنیاد سے روکا جا سکتا ہے۔ مینار کی عام زمین پر تعمیر عموماً کبھی کامیاب نہیں ہوتی مگر پھر بھی کئی مقامات پر چھوٹے مینار بغیر کسی بنیاد کے تعمیر کیے گئے ہیں۔ مینار بلندی میں تعمیر کیے جاتے ہیں اور ان کیاشکالمختلف ہو سکتی ہیں، یہ گولائی میں مربع، لمبائی میں مستطیل، کثیر الرخی اور سیدھے لمبوتری شکل میں تعمیر ہو سکتے ہیں۔ بلندی کی جانب مرکز میں یا ارد گرد سیڑھیوں کی تعمیر کی جاتی ہے جو انتہائی مضبوط بنائی جاتی ہیں تاکہ مینار کے وزن کو سنبھالنے میں مدد مل سکے۔ ایک طرح سے یہ سیڑھیاں دراصل مرکز ہوتی ہیں جس کے اردگرد مینار اپنا وزن تھامے کھڑا رہتا ہے۔ گیلری مینار کے اوپری حصوں میں بنائی جانے والی وہ جگہ ہوتی ہے جو موذن کے لیے تعمیر کی جاتی ہے جس پر کھڑے ہو کر وہ ازان یا نماز کی منادی کر سکے۔ اس گیلری یا بالکونی کو چھت نما گول چھت سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ اسی چھت کی تزئین و آرائش بھی کی جاتی ہے جس سے مینار کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔
+276,قاہرہ المعز,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A7%DB%81%D8%B1%DB%81_%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B9%D8%B2,"قاہرہ المعز(انگریزی: Islamic Cairo)
+(عربی:قاهرة المعز) مرکزی قاہرہ کے ارد گرد اورقلعہ صلاح الدین ایوبیکے ارد گرد کا علاقہ ہے جس میں سیکڑوںمساجد، مقبرے، مدرسے، مینشن،کارواں سرائےاور اسلامی دور کی قلعہ بندی شامل ہے۔[1]1979ءمیںیونیسکونےاسےیونیسکو عالمی ثقافتی ورثہکی فہرست میں شامل کر لیا۔[2]"
+277,یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%B3%DA%A9%D9%88_%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C_%D8%AB%D9%82%D8%A7%D9%81%D8%AA%DB%8C_%D9%88%D8%B1%D8%AB%DB%81,"""یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ"" ایسے مقام (جنگل،پہاڑ،جھیل،صحرا، یادگار، عمارت یا شہر) کو کہا جاتا ہے جسے بین الاقوامی عالمی ثقافتی ورثہ پروگرام کے تحت اقوام متحدہ کے تعلیمی سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) کی عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی کی مرتب کردہ فہرست کے لیے نامزد یا اس میں شامل کیا گیا ہو۔
+یہ منصوبہ ثقافتی یا قدرتی اہمیت کے حامل مقامات کی فہرست مرتب کرنے اور ان کی حفاظت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ مختلف شرائط کے تحت مندرج مقامات کو عالمی ورثہ فنڈ میں سے رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ منصوبہ ""عالمی ثقافتی و قدرتی ورثے کی حفاظت کے حوالے سے میثاق"" کے ذریعے شروع ہوا جسے یونیسکو کی مجلس عمومی نے16 نومبر1972ءکو اختیار کیا۔ اس وقت سے 184 ممالک (بمطابقجولائی2007ء) اس کنونشن کی توثیق کر چکے ہیں۔2007ءکے مطابق 142 ممالک کے 851 مقامات اس فہرست میں شامل ہیں جن میں 660 ثقافتی، 166 قدرتی اور 25 مخلوط خصوصیات کے حامل ہیں۔
+ہر عالمی ورثے کا حامل مقام اس ملک کی ملکیت ہے جہاں وہ واقع ہے لیکن مستقبل میں بنی نوع انسان کے لیے اسے محفوظ رکھنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔
+مختلف خطوں میں واقع مقامات کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی فہرست میں شامل مقامات میں انتظامی معاملات پر غور کے حوالے سے سال میں متعدد بار اجلاس منعقد کرتی ہے لیکن World Heritage Committee Session نامی اجلاس سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے جس میں مختلف مقامات کو عالمی ثقافتی ورثہ فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔
+سالانہ اجلاس دنیا کے مختلف شہروں میں منعقد ہوتا ہے۔پیرس(فرانس)، جہاں یونیسکو کے صدر دفاتر واقع ہیں، کے علاوہ یہ اجلاس صرف عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی کے رکن ممالک میں ہی منعقد ہو سکتا ہے جس کے لیے انھیں کمیٹی کی منظوری درکار ہوتی ہے۔"
+278,ایوبی سلطنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%A8%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA,ایوبی سلطنتیاسلطنت آل ایوب(Ayyubid Sultanate)کردنسل کے مسلم خاندان کی حکومت تھی جس نے 12 ویں اور 13 ویں صدی میںمصر،شام،یمن،دیار بکر،مکہ،حجازاور شمالیعراقپر حکومت کی۔ایوبی سلطنت کے بانیصلاح الدین ایوبیتھے جن کے چچاشیر کوہنے زنگی سلطاننور الدین زنگیکے سپہ سالار کی حیثیت سے1169ءمیںمصرفتح کیا تھا۔ اس سلطنت کا نام شیر کوہ کے بھائی اورصلاح الدینکے والدنجم الدین ایوبکے نام پر ایوبی سلطنت پڑا۔صلاح الدیننےمصرمیںفاطمی سلطنتکا خاتمہ کیا اور1174ءمیںنور الدینکے انتقال کے بعددمشقپر قبضہ کرکےشامکو بھی اپنی قلمرو میں شامل کر لیا۔صلاح الدینصلیبی جنگوںکے دوران1187ءمیںجنگ حطینمیں صلیبیوں کو عظیم شکست،فتح بیت المقدساور اس کے نتیجے میں ہونے والیتیسری صلیبی جنگمیں فتح کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔صلاح الدین1193ءمیں انتقال کر گئے جس کے بعد سلطنت ان کے بیٹوں کے درمیان بٹ گئی اور بالآخر 1200ء میں صلاح الدین کے بھائیالعادلپوری سلطنت کا قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔1218ءمیں العادل اور 1238ء میںالکاملکے انتقال پر پھر یہی صورت حال سامنے آئی۔1250ءمیں آخری ایوبی سلطانتوران شاہقتل ہو گیا اور اس کے مملوک غلام جرنیلایبکنے بحریمملوک سلطنتکی بنیاد رکھی۔مصرہاتھوں سے نکل جانے کے بعد ایوبیوں نے ا��لے 80 سال تک شام میں مزاحمت جاری رکھی اور بالآخر1334ءمیں شام بھی مکمل طور پر مملوکوں میں شامل ہو گیا۔(نامکمل فہرست)صلاح الدین ایوبیصلیبی جنگیںمملوکایوبی سلطنت[مردہ ربط]
+279,تاریخ اسلام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85,بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلام610ء میں قرآن کی پہلی صدا کی بازگشت ایک صدی سے کم عرصے میںبحر اوقیانوسسےوسط ایشیاتک سنائی دینے لگی تھی اورپیغمبرِ اسلامکی وفات (632ء) کے عین سو سال بعد ہی اسلام732ءمیںفرانسکے شہرتور (tours)کی حدود تکپہنچچکا تھا۔مندرجہ ذیل خط زمانی انتہائی اہم اسلامی مملکتوں کی سیاسی صورت حال کوپہلی جنگ عظیمتک بیان کرتی ہے۔ یہ ثقافت و طاقت کے اہم تاریخی مراکز بشمولجزیرہ نما عرب،بین النہرین(جدیدعراق)،ایران(جدیدایران)،سرزمین شام(جدیدسوریہ،لبنان،اردناورفلسطین)،مصر،المغرب(شمال مغربی افریقا)،اندلس(جزیرہ نما آئبیریا)،ما وراء النہر(وسط ایشیا)،ہندوستان(جدیدپاکستاناور شمالبھارت) اوراناطولیہ(جدیدترکی) کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ تخمینی مواد ہے، کچھ علاقوں پر حکمرانی بعض اوقات مختلف علاقوں میں تقسیم ہوتی اور ایک ہی قوت میں مختلف علاقوں پر مختلف خاندانوں کی حکومت ہوتی ایسا اس لیے تھا کہ بڑے ممالک کو اکثر کئی خاندانوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ بطور مثال،خلافت عباسیہکے بعد کے مراحل کے دوران میں، یکساں دار الحکومتبغدادتھا لیکن مؤثر طریقے سے اس طرح کچھ دیگر خاندانوں کی حکومت تھیآل بویہاورسلجوق خاندان، جبکہعثمانی خاندانکو مقامی حکومتوں کو بیرونی صوبوں پر ایگزیکٹو اتھارٹی تفویض تھی، جیسےدےالجیریا کے دے،تونس کے بائیاورعراق کے مملوک۔632ءمیںابو بکرکے انتخاب پرخلافت راشدہکا آغاز ہوا، انھوں نےحروب الردہکے بعدسلطنت ساسانیاناورسلطنت بازنطینیکی جانب پیشقدمیاں کیں۔634ءمیں ابوبکر کے انتقال کے بعدعمر بن الخطابخلیفۂ دوم مقرر ہوئے، عمر نےساسانیوںسےعراق(بین النہرین)،ایرانکے علاقے اوررومیوںسےمصر،فلسطین،سوریااورآرمینیاکے علاقے لے کر اسلامی خلافت میں داخل کیے اور عملی طور پر دونوں بڑی سلطنتوں کا خاتمہ ہوا۔638ءمیں مسلمانبیت المقدسمیں داخل ہو چکے تھے۔644ءمیں عمر کی شہادت کے بعدعثمانخلیفۂ سوم منتخب ہوئے اور652ءتک اسل��می خلافت،مغرب کی حدوں(جزیرۃ الاندلس) میں پہنچ گئی۔ عثمان کی شہادت کے بعد خلیفہ چہارم علی خلیفہ مقرر ہوئے۔ (656ءتا661ء)۔ علی کی شہادت کے بعد حسن خلیفہ منتخب کیے گئے۔ 3 ماہ کے حسن کا مسلمانوں میں باہمی اختلاف کو ختم کرنے کے لیے خلافت سے علیدہ ہوئے۔ آپ کے خلیفہ امیر معاوہ بن سفیان کو خلیفہ مقرر کیا گیا۔سقوط بغدادکے تین سال بعد شہزادےاحمد المستنصر بالله الثانیکومصرکے بادشاہبیبرسنے1262ءمیںقاہرہمیں خلیفہ منتخب کیا۔ اسی طرح تین سال بعدخلافتکا دوبارہ نفاذ ہوا۔1948ءمیںفلسطینپر زبردستییہودی ریاستاسرائیلقائم کی گئی اورمسلمانوںکو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔بیت المقدسپر بهی اسرائیلی قابض ہو گئے۔2014ءمیں شدت پسند تنظیمداعشکے سربراہابوبکر البغدادینے تقریبا ایک صدی کے بعدخلافتکا اعلان کیا۔ جسےامتکی طرف سے رد کیا گیا۔ کیوں کہ ابوبکرالبغدادیبهی شریف مکہ کی طرح مغربی ایجنٹ ہے۔
+280,1138ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1138%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+282,تکریت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D8%AA,تکریتعراقکا ایک قصبہ ہے جو دار الحکومتبغدادسے 140 کلومیٹر شمال مغرب میںدریائے دجلہکے کنارےسامراکے قریب واقع ہے۔2002ءکے مطابق اس کی آبادی 28 ہزار 900 تھی اور یہصوبہ صلاح الدینکا انتظامی مرکز ہے۔ایوبی سلطنتکا بانی اور فاتحبیت المقدسصلاح الدین ایوبی1137ءمیں تکریت میں پیدا ہوا تھا جس نےصلیبی جنگوںکے دوران عیسائیوں کو مسلسل شکستیں دیکر عالمی شہرت حاصل کی اور 1187ء میںبیت المقدسکو صلیبیوں سے آزاد کرایا۔عراقکا وہ صوبہ جس میں تکریت واقع ہے صلاح الدین ایوبی کے نام پر ہی صوبہ صلاح الدین کہلاتا ہے۔1394ءمیں تیمور لنگ نے اسے تباہ کیاپہلی جنگ عظیمکے دوران ستمبر 1917ء میں برطانوی افواج نےسلطنت عثمانیہکے خلاف جنگ کے دوران تکریت پر قبضہ کیا۔یہ شہر عراق کے سابق صدرصدام حسینکی بھی جائے پیدائش ہے جو 1937ء میں یہیں پیدا ہوئے۔ ان کے دور میں عراق پر زیر اقتدار پر حکومتی اراکین کی اکثریت اسی شہر سے تعلق رکھتی تھی۔2003ء میں عراق پر امریکی جارحیت اورسقوط بغدادکے بعدصدام حسیناسی شہر کے نواح میں چھپ گئے اور بالآخر 13 دسمبر 2003ء کو امریکی افواج نے انھیں تکریت سے 15 کلومیٹر جنوب میں ایک زیر زمین پناہ گاہ سے گرفتار کر لیا۔
+283,مصر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B5%D8%B1,"عرب جمہوریہ مصریامصر،جمهوريةمصرالعربية(قبطی زبان:Ⲭⲏⲙⲓ Khēmi)، بر اعظمافریقاکے شمال مغرب اور بر اعظمایشیاکےسنائیجزیرہ نما میں واقع ایک ملک ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلومیٹر ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو شمال مشرق میںغزہ پٹیاوراسرائیل، مشرق میںخلیج عقبہاوربحیرہ احمر، جنوب میںسوڈان، مغرب میںلیبیااور شمال میںبحیرہ رومہیں۔ خلیج عقبہ کے اس طرفاردن، بحر احمر کے اس طرفسعودی عرباور بحیرہ روم کے دوسری جانبیونان،ترکیاورقبرصہیں حالانکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مصر کی زمینی سرحد نہیں ملتی ہے۔کسی بھی ملک کے مقابلے میں مصر کی تاریخ سب سے پرانی اور طویل ہے اور اس کی تاریخی ابتدا 6 تا 4 ملنیا قبل مسیح مانی جاتی ہے۔ مصر کوگہوارہ ثقافتبھی مانا جاتا ہے۔قدیم مصرمیں کتب، زراعت، شہرکاری، تنظیم اور مرکزی حکومت کے آثار ملتے ہیں۔[5]مصر میں دنیا کے قدیم ترین یادگار عمارتیں موجود ہیں جو مصر کی قدیم وراثت، تہذیب، فن اور ثقافت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میںاہرامات جیزہ،ابوالہول،ممفس، مصر،طیبہاوروادی ملوکشامل ہیں۔ ان مقامات پر اکثر سائنداں اور محققین تحقیق میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور مصر کی قدیم روایات اور تاریخی حقائق سے آشکارا کرتے ہیں۔ مصر کی قدیم تہذیب ہی وہاں کی قومی علامت ہے جسے بعد میںیونانی قوم،فارس،قدیم روم،عرب قوم، ترکی عثمانی اور دیگر اقوام نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم مصرمسیحیتکا ایک بڑا مرکز تھا لیکن 7ویں صدی میںمسلمانوںنے یہاں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور مصر مکمل طور سے مسلم اکثریت ملک بن گیا مگر عیسائی بھی وہاں موجود رہے گوکہ اقلیت میں تھے۔سولہویں صدی تا بیسویں صدی کے آغاز تک مصر پر بیرونی طاقتوں نے حکومت کی۔ شروع میںسلطنت عثمانیہاور بعد میںسلطنت برطانیہنے مصر کو اپنی حکومت کا حصہ بنایا۔ جدید مصر کا آغاز 1922ء سے ہوا جب مصر کو برطانیہ سے آزادی ملی مگر آزادی کے بعد وہاں بادشاہت قائم ہو گئی۔ البتہ اب بھی وہاں برطانوی فوج کا غلبہ تھا اور کئی مصریوں کا کہنا ہے کہ بادشاہت دراصل برطانیہ کی ایک چال تھی تاکہ مصر ان کی کالونی کا حصہ بنا رہے۔مصری انقلاب، 1952ءمیں مصریوں نے برطانوی فوج اور افسروں کو اپنے ملک سے بھگادیا اور اس طرح مصر سے برطانیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ برطانوینہر سوئزکا قومیا لیا گیا اورشاہ فاروق اولکو مع اہل خانہ ملک بدر کر دیا گیا۔ اس طرح مصر ایکجمہوریملک بن گیا۔ 1958ء میںجمہوریہ سوریہکے ساتھ مل کرمتحدہ عرب جمہوریہکی بنیاد ڈالی گئی مگر 1961ء میں اسے تحلیل کرنا پرا۔بیسویں صدیکے نصف آخر میں مصر میں سماجی اور مذہبی اتار چڑھاو دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو گئی اور اسی دوران میں1948ءمیںاسرائیل کے ساتھ تنازع، 1956ء میںسوئز بحران، 1967ء میں چھروزہ جنگاور 1973ء میںجنگ یوم کپورجیسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ مصر نے 1967ء تکغزہ پٹیپر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1978ء میں مصر نےکیمپ ڈیوڈ معاہدہپر دستخط کیے اور غزہ پٹی سے اپنا قبضہ واپس لے لیا اور ساتھ ہی ساتھاسرائیلکو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ملک میں بدستور سیاسی ہنگامہ جاری رہا اور بے امنی کا دور دورہ رہا۔ 2011ء میں پھر ایک انقلاب برپا ہوا اور مصر کی سیاست میں زبردست تبدیلی آئی۔ اسی دوران مصر دہشت گردی کی زد میں رہا اور معاشی مسائل سے بھی دوچار رہا۔ مصر کی موجودہ حکومتبین صدارتی جمہوریہہے اور مصر کے موجودہ صدرعبدالفتاح السیسیہیں۔ سیاست میں انھیں آمر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔مصر کاسرکاری مذہباسلامہے اورسرکاری زبانعربیہے۔[6]مصر کی کل آبادی تقریباً 95 ملین ہے اور اس طرح یہشمالی افریقا،مشرق وسطیاورعرب دنیاکا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔نائیجیریااورایتھوپیاکے بعد بر اعظمافریقاکا تیسرا بڑا آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر میں بلحاظ آبادی اس کا نمبر 15واں ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادیدریائے نیلکے کنارے پر بسی ہوئی ہے۔ ملک یا زیادہ تر زمینی حصہصحرائے اعظمپر مشتمل ہے جو تقریباً ناقابل آباد ہے۔ کثیر آبادی والے علاقوں میںقاہرہ،اسکندریہاور دریائے نیل کے جزیرے ہیں۔مصر کیخود مختار ریاستشمالی افریقا، مشرق وسطی اورعالم اسلاممیں ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مصر ایک اوسط درجہ کی طاقتور حکومت ہے۔[7]مصر کی معیشتمشرق وسطی کی بڑی معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے اور اکیسویں صدی میں اس کےدنیا کی بڑی معیشتوںمیں شمار ہونے کا امکان ہے۔ 2016ء میںجنوبی افریقاکو پیچھے چھوڑتے ہوئے مصرنائیجیریاکے بعد افریقا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا۔[8][9]مصر مندرجہ ذیل تنظیموں کا بانی/شرک بانی اور رکن ہے؛مصر (بکسر المیم)Miṣr"" (عربی تلفظ:[mesˤɾ]; ""مِصر"") is theکلاسیکی عربیخالصکلاسیکی عربیکا لفظ ہے اورقرآنمیں بھی اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ اس کا یہی نام زماہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ البتہمصری عربیمیںMaṣr"" (مصری عربی تلفظ:[mɑsˤɾ];مَصر) (بفتح المیم) کہتے ہیں۔[10]قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+284,سرزمین شام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B1%D8%B2%D9%85%DB%8C%D9%86_%D8%B4%D8%A7%D9%85,"شامیالیونت(انگریزی: The Levant)مشرق وسطٰیکے ایک بڑے علاقے کے لیے استعمال ہونے والی ایک غیر واضح تاریخی اصطلاح ہے۔ یہ علاقہ مغرب میںبحیرہ روم، مشرق میںصحرائے عربکے شمالی حصوں اور بالائیبین النہریناور شمال میںکوہ ثورکے درمیان واقع ہے۔ لیونت میںکوہ قفقاز،جزیرہ نما عربیااناطولیہکا کوئی حصہ شامل نہیں سمجھا جاتا۔یہ اصطلاحانگریزیمیں پہلی بار1497ءمیں استعمال ہوئی جس کا مطلب ""وینیٹیاکے مشرق میں بحیرہ روم کی سرزمین"" کو واضح کرنا تھا۔لیونتقرون وسطٰیکیفرانسیسی زبانکے لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب ""ابھرنا"" ہے اور اس ضمن میں اس خطے کو ابھرتے سورج کا علاقہ سمجھا جا سکتا ہے اور اسےعربیکے لفظ مشرق کا متبادل سمجھا جا سکتا ہے یعنی وہ علاقہ جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے۔19 ویں صدی کے سفرناموں میں یہ اصطلاحسلطنت عثمانیہکے زیر نگیں مشرقی علاقوں کے لیے استعمال ہونے لگی۔لیونتیائی باشندوں کی اصطلاح خاص طور پراطالویوںکے لیے استعمال ہوتی ہے خصوصاًوینساورجینووا،فرانسیسیاور دیگر جنوبی یورپی نسل کے باشندوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جوصلیبی جنگوں،بازنطینی سلطنتاورعثمانی سلطنتکے ادوار میںترکییابحیرہ رومکے مشرقی ساحلوں پر رہتے تھے۔ ان افراد کے آبا و اجداد دراصل بحیرہ روم کی بحری مملکتوں کے رہنے والے تاجر تھے۔1920ءسے1946ءتک فرانس کے زیر قبضہسوریہاورلبنانلیونت ریاستیں(بلاد شام) کہلاتے تھے۔آج کل لیونت کی اصطلاح ماہرینآثار قدیمہاورتاریخدان خطے کیقبل از تاریخ،قدیماورقرون وسطٰیکی تاریخ کے حوالے سے استعمال میں رہتی ہے خصوصاً جب وہ صلیبی جنگوں کا ذکر کرتے ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصح��ب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+285,یمن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%85%D9%86,"جمہوریہ یمنیایمنمغربی ایشیامیں واقعمشرق وسطیٰکا ایک مسلم ملک ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کے جنوبی سرے پر واقع ہے اور اس کے شمال میںسعودی عرب، مشرق میںاومان، جنوب میںبحیرہ عرباور مغرب میںبحیرہ احمرواقع ہیں۔ اس کی سمندری حدیں اریٹیریا، جبوتی اور صومالیہ کے ساتھ ملتی ہیں۔ 555,000 مربع کلومیٹر (214,000 مربع میل) رقبے پر محیط ہے اور تقریباً 2,000 کلومیٹر (1,200 میل) کی ساحلی پٹی پر مشتمل یمن جزیرہ نما عرب پر دوسری سب سے بڑی عرب خود مختار ریاست ہے۔ یمن کادار الحکومتصنعاءہے اورعربیاس کیقومی زبانہے۔ یمن کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے، جن میں سے زياده تر عربی بولتے ہیں۔ سنہ 2023ء تک ملک کی آبادی کا تخمینہ 34.4 ملین ہے۔ یمنعرب لیگ،اقوام متحدہ،ناوابستہ تحریکاوراسلامی تعاون تنظیمکا رکن ہے۔قدیم زمانے میں، یمن سبائیوں کا گھر تھا، ایک تجارتی ریاست جس میں جدید دور کےایتھوپیااوراریٹیریاکے حصے شامل تھے۔ بعد میں سنہ 275ء عیسوی میں،حمیارائی بادشاہتیہودیتسے متاثر ہوئی۔عیسائیتچوتھی صدی میں پہنچی اور ساتوی�� صدی میںاسلامتیزی سے پھیل گیا، ابتدائی اسلامی فتوحات میں یمنی فوجوں نے اہم کردار ادا کیا۔ نویں اورسولہویں صدیکے درمیان مختلف خاندان ابھرے۔ اٹھارھویں صدی کے دوران، ملک کو عثمانی اور برطانوی سلطنتوں کے درمیان تقسیم کر دیا گیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، یمن کی متوکلائی سلطنت قائم ہوئی، جس کے بعد سنہ 1962ء میں یمن عرب جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا۔ جنوبی یمن سنہ 1967ء میں آزاد ہوا۔ سنہ 1990ء میں، دو یمنی ریاستوں نے متحد ہو کر جدید جمہوریہ یمن (جمہوریہ الیمانیہ) تشکیل دی۔صدر علی عبداللہ صالحنئی جمہوریہ کے پہلے صدر تھے اور وہ سنہ 2012ء میںعرب بہارکے نتیجے میں مستعفی ہو گئے۔سنہ 2011ء سے، یمن کو سیاسی بحران کا سامنا ہے، جس کی نشان دہی غربت، بے روزگاری، بدعنوانی اور صدر صالح کے یمن کے آئین میں ترمیم کرنے اور صدارتی مدت کی حد کو ختم کرنے کے خلاف سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں سے ہے۔ اس کے بعد، ملک ایک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا ہے جس میں متعدد ادارے حکمرانی کے لیے کوشاں ہیں، بشمول صدر ہادی کی حکومت (بعد میں صدارتی قیادت کونسل)،حوثی تحریککی سپریم پولیٹیکل کونسل اور علیحدگی پسند جنوبی تحریک کی جنوبی منتقلی کونسل۔ یہ جاری تنازع ایک شدید انسانی بحران کا باعث بنا ہے اور یمن کے لوگوں پر اس کے تباہ کن اثرات کے لیے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔ یمن کی انسانی صورت حال پر ڈرامائی طور پر بگڑتے ہوئے اثرات کے لیے جاری انسانی بحران اور تنازعات کو وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ""انسانی تباہی"" کی سطح تک پہنچ گیا ہے اور کچھ نے اسے نسل کشی کا نام بھی دیا ہے۔ یمن دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے، پائیدار ترقی کی راہ میں نمایاں رکاوٹوں کا سامنا ہےاقوام متحدہنے 2019 میں رپورٹ کیا کہ یمن میں انسانی امداد کی ضرورت میں سب سے زیادہ لوگ ہیں، جن کی تعداد تقریباً 24 ملین ہے، جو اس کی آبادی کا تقریباً 75 فیصد ہے۔ 2020 تک، یمن نازک حالت کے اشاریہ پر سب سے اونچے مقام پر ہے اور عالمی بھوک کے اشاریہ پر دوسرے نمبر پر ہے، جسے صرفوسطی افریقی جمہوریہنے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مزید برآں، اس کا انسانی ترقی کا انڈیکس تمام غیر افریقی ممالک میں سب سے کم ہے۔مشرق وسطیٰ میں یمن عربوں کی اصل سرزمین ہے۔ یمن قدیم دور میں تجارت کا ایک اہم مرکز تھا، جو مسالوں کی تجارت کے لیے مشہور تھا۔ یہ وہ قدیم سرزمین ہے جس میں سے ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پچاس یوم قبل ابرہہ نامی عیسائی بادشاہخانہ کعبہپر حملہ آور ہوا۔ حوالے کے لیے دیکھیے:الرحیق المختومازمولاناصفی الرحمن مبارکپورییامنات Yamnat کی اصطلاح کا تذکرہ پرانے جنوبی عربی نوشتہ جات میں دوسریحمیری بادشاہتکے بادشاہوں میں سے ایک کے عنوان پر کیا گیا تھا جسے شمر یحرش II کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح غالباً جزیرہ نما عرب کی جنوب مغربی ساحلی پٹی اورعدناورحضرموتکے درمیان جنوبی ساحل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تاریخی یمن میں موجودہ یمن کے مقابلے میں بہت بڑا علاقہ شامل تھا، جوجنوب مغربی سعودی عربمیںشمالی عسیرسے لے کرجنوبی عمانمیں ظوفر تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک تشبیہ یمن کو ymnt سے ماخوذ ہے، جس کا لفظی معنی ہے ""جنوبی عرب جزیرہ نما"" اور نمایاں طور پر دائیں طرف زمین کے تصور پر ادا کرتا ہے (حمیاری:𐩺𐩣𐩬)۔ دیگر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یمن کا تعلق یامن یا یم سے ہے، جس کا مطلب ہے ""خوش حالی"" یا ""برکت""، کیونکہ م��ک کا زیادہ تر حصہ زرخیز ہے۔ رومیوں نے اسے صحرائی عربیہ Arabia deserta کے برخلاف زرخیز عربیہ Arabia Felixa (""خوش"" یا ""خوش قسمت"" عربیہ) کہا۔ لاطینی اور یونانی مصنفین نے قدیم یمن کو ""ہندوستان"" کہا، جو فارسیوں کے نام سے نکلا تھا۔یمن 7000 سال سے زیادہ عرصے سے اپنی تہذیبوں کے سنگم پر موجود ہے۔ ملک سبا کی ملکہ شیبا جیسی شخصیات کا گھر تھا جو بادشاہ سلیمان کے لیے تحائف کا ایک قافلہ لے کر آئی تھی۔ صدیوں سے، یہ موچا کی بندرگاہ میں برآمد کی جانے والی کافی کا بنیادی پیداکار بن گیا تھا۔ قدیم رومی اس علاقے کو عربیہ فیلکس یا زرخیز یا خوش الحال عرب کہتے تھے۔ ساتویں صدی میں اسلام قبول کرنے کے بعد، یمن اسلامی تعلیم کا مرکز بن گیا اور اس کا زیادہ تر فن تعمیر جدید دور تک زندہ رہا۔مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان اپنی طویل سمندری سرحد کے ساتھ، یمنجزیرہ نما عربکے مغرب میں تجارت کے لحاظ سے ایک اسٹریٹجک مقام کے ساتھ ثقافتوں کے سنگم پر طویل عرصے سے موجود ہے۔ 5000 قبل مسیح میںشمالی یمنکے پہاڑوں میں ان کے دور کے لیے بڑی بستیاں موجود تھیں۔سبائی بادشاہتکم از کمبارہویں صدیقبل مسیحمیں وجود میں آئی۔ جنوبی عرب میں چار بڑی سلطنتیں یا قبائلی کنفیڈریشنزسبا،حضرموت،قتاباناورمعنتھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچازاد بھائی حضرت علی علیہ السّلام کو سنہ 630ء کے قریب صنعاء اور اس کے گرد و نواح میں بھیجا۔ اس وقت یمن عرب کا سب سے ترقی یافتہ خطہ تھا۔ بنو ہمدان کنفیڈریشن سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا والی بنا کر بھیجا اور ساتھ ہی موجودہ دور کے طائز میں حضرت جنادہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور مختلف قبائلی رہنماؤں کو خط بھیجے۔ اس کی وجہ قبیلوں میں تقسیم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یمن میں مضبوط مرکزی اتھارٹی کا نہ ہونا تھا۔ حمیار سمیت بڑے قبائل نے 630-631ء کے ارد گرد ""وفود کے سال"" کے دوران وفود مدینہ بھیجے۔ سنہ 630ء سے پہلے کئی یمنیوں نے اسلام قبول کیا۔ اس دورانابلہ بن کعب العنسی (اسود عنسی)نے باقی ماندہ فارسیوں کو نکال دیا اور نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا کہ وہ رحمان کا نبی ہے۔ اسے فارسی نژاد یمنیحضرت فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہنے قتل کیا۔ عیسائی، جو بنیادی طور پر یہودیوں کے ساتھنجرانمیں مقیم تھے، جزیہ ادا کرنے پر راضی ہو گئے، حالانکہ کچھ یہودیوں نے اسلام بھی قبول کیا، جیسے حضرت وہب بن منبی اور کعب الاحبار رضی اللہ عنہ۔خلافتراشدہ کے دوران یمن مستحکم تھا۔ یمنی قبائل نےمصر،عراق،فارس،لیوانت (شام و فلسطین)،اناطولیہ،شمالی افریقہ،سسلیاوراندلسمیں اسلامی پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ شام میں آباد ہونے والے یمنی قبائل نےاموی حکومتکو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر مروان اول کے دور میں, کندا جیسے طاقتور یمنی قبائل مرج رہت کی جنگ کے دوران اس کے ساتھ تھے۔یمن تقریباً مکمل طور پر مغربی ایشیا میں ہے، جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے میں جو جزیرہ نما کو مشرقی افریقہ سے ملا رہا ہے، اس کی سرحد شمال میں سعودی عرب، جنوب اور مشرق میںعمان, مغرب میںبحیرہ احمر،خلیج عدناور گارڈافوئی چینل سے ملتی ہے۔ عرض البلد 12 اور 19 ° N اور طول البلد 42 اور 55 ° E کے درمیان ,یمن 15°N 48°E پر ہے اور اس کا سائز 555,000 مربع کلومیٹر (214,287 مربع میل) ہے۔ بحیرہ احمر کے متعدد جزائر، بشمول ہنیش جزائر، کا��ران اور پریم، نیز بحیرہ عرب میںسوکوترا، کا تعلق یمن سے ہے۔ ان میں سب سے بڑا سوکوترا ہے۔ بہت سے جزیرے آتش فشاں ہیں۔ مثال کے طور پر، جبل الطائر میں سنہ 2007ء میں اور اس سے پہلے سنہ 1883ء میں آتش فشاں پھٹا تھا۔ اگرچہ مین لینڈ یمن جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے میں ہے اور اس طرح ایشیا کا حصہ ہے اور اس کے جزائر ہنیش اور بحیرہ احمر میں پریم کا تعلق ایشیا سے ہے، مگر سوکوترا کا جزیرہ نما، جوصومالیہکےسینگکے مشرق میں واقع ہے اور ایشیا کے مقابلے افریقہ سے بہت قریب ہے، جغرافیائی اور جیو جغرافیائی طور پر افریقہ سے منسلک ہے۔ سوکوترا کا سامنا گارڈافوئی چینل اور صومالی سمندر سے ہے۔یمن ایک جمہوریہ ہے جس میں دو ایوان والی مقننہ ہے۔ سنہ 1991ء کے آئین کے تحت، ایک منتخب صدر، ایک منتخب 301 نشستوں والی اسمبلی اور ایک مقرر کردہ 111 رکنی شوریٰ کونسل طاقت میں حصہ لیتی ہے۔ صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہے اوروزیر اعظمحکومت کا سربراہ ہے۔ صنعاء میں، ایک سپریم پولیٹیکل کونسل (بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نہیں) حکومت بناتی ہے۔ سنہ 1991ء کا آئین یہ فراہم کرتا ہے کہ صدر کا انتخاب کم از کم دو امیدواروں میں سے مقبول ووٹ کے ذریعے کیا جائے جس کی پارلیمنٹ کے کم از کم 15 ارکان نے توثیق کی ہو۔وزیر اعظم، بدلے میں، صدر کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے اور پارلیمنٹ کے دو تہائی سے منظور ہونا ضروری ہے۔ صدارتی عہدے کی مدت سات سال ہے اور منتخب دفتر کی پارلیمانی مدت چھ سال ہے۔ حق رائے دہی 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے عالمگیر ہے، لیکن صرفمسلمانہی منتخب عہدہ پر فائز ہو سکتے ہیں۔صدر علی عبداللہ صالحسنہ 1999ء میں دوبارہ متحد یمن کے پہلے منتخب صدر بنے (حالانکہ وہ سنہ 1990ء سے متحدہ یمن کے صدر اور سنہ 1978ء سے شمالی یمن کے صدر تھے)۔ وہ ستمبر 2006ء میں دوبارہ عہدے کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ صالح کی فتح کو ایک ایسے انتخاب سے نشان زد کیا گیا تھا جس کے بارے میں بین الاقوامی مبصرین نے فیصلہ کیا تھا کہ ""جزوی طور پر آزاد"" تھا، حالانکہ انتخابات کے ساتھ تشدد، پریس کی آزادیوں کی خلاف ورزی اور دھوکا دہی کے الزامات تھے۔ پارلیمانی انتخابات اپریل 2003ء میں ہوئے اور جنرل پیپلز کانگریس نے قطعی اکثریت برقرار رکھی۔ صالح سنہ 2011ء تک اپنی اقتدار کی نشست پر تقریباً بلا مقابلہ رہے، یہاں تک کہ سنہ 2011ء کےعرب بہارکے اثرات کے ساتھ مل کر انتخابات کے دوسرے دور کے انعقاد سے انکار پر مقامی مایوسی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ سنہ 2012ء میں، انھیں اقتدار سے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا، حالانکہ وہ یمنی سیاست میں ایک اہم عنصر رہے ہیں، سنہ 2010ء کی دہائی کے وسط میں حوثیوں کے قبضے کے دوران ان کے ساتھ اتحاد کیا۔آئین آزاد عدلیہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ سابقہ شمالی اور جنوبی قانونی ضابطوں کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ قانونی نظام میں علاحدہ عدالتیں اور صنعاء میں قائم سپریم کورٹ شامل ہیں۔شریعتقوانین کا بنیادی ماخذ ہے، جس میں بہت سے عدالتی مقدمات قانون کی مذہبی بنیاد کے مطابق زیر بحث آتے ہیں اور بہت سے جج مذہبی اسکالرز کے ساتھ ساتھ قانونی حکام بھی ہوتے ہیں۔ جیل اتھارٹی آرگنائزیشن ایکٹ، ریپبلکن فرمان نمبر۔ 48 (1981) اور جیل ایکٹ کے ضوابط، ملک کے جیل کے نظام کے انتظام کے لیےقانونیفریم ورک فراہم کرتے ہیں۔انڈیا کا یمن سے بہت اچھا رشتہ ہے یہاں کی خوبصورتی یہ ہے کہ یمن نے فلسطینوں کا ساتھ دیا اور اسرائیلی کتوں کے جہاز کو مار گرایا یہ بہت اچھا کام کیا ہےیمنیوں نے"
+287,حجاز,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%D8%AC%D8%A7%D8%B2,شمال مغربیسعودی عربکا ایک علاقہ جوبحیرہ قلزمکے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مربع میل ہے۔مکہاورمدینہکے شہر اسی علاقے میں واقع ہیں۔ قدیم و جدید عرب تہذیب کا گہوارہ ہے۔ 1913ء تکسلطنت عثمانیہکے زیر تسلط رہا۔ 1932ء میںنجدو حجاز کے اتحاد سےسلطنت سعودیوجود میں آئی۔[1]خطہ حجاز بحیرہ احمر کے قریب واقع ہے۔ یہ خطہ گہرے رنگ کی ریت کی وجہ سے مشہور ہے۔ حجاز مقدس سروات کے پہاڑی سلاسل پر مشتمل ہے جو نجد کو تہاما سے علاحدہ کرتا ہے۔
+288,دیار بکر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D8%B1_%D8%A8%DA%A9%D8%B1,دیار بکر(ترکی: Diyarbakır) جنوب مشرقیترکیکا ایک بڑا شہر ہے جودریائے دجلہکے کنارے واقع ہے۔ یہصوبہ دیار بکرکادارالحکومتہے۔ 2000ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی 546،000 اور 2005ء کے مطابق 721،000 ہے۔ یہ جنوب مشرقیاناطولیہکا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔دیار بکر میں کردوں کی اکثریت ہے اور یہ ترک کردستان کا بے ضابطہ دار الحکومت قرار دیا جاتا ہے۔یہ شہر تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور عہد قدیم میںرومی،بازنطینیاورساسانی سلطنتوںکا حصہ رہا ہے۔جنگ ملازکردکے بعد اس پر اوغوز ترکوں نے بادشاہت کی۔ یہایل خانیاورایوبی سلطنتوںکے درمیان تنازعات کا بھی سبب رہا۔ بعد ازاں اس پر ترکمان ریاستوںقرہ قویونلواورآق قویونلونے یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سلیم اول کے دور میں یہسلطنت عثمانیہکا حصہ بن گیا۔عثمانی ولایت دیار بکر موجودہ ترکی کے جنوب مشرقی صوبوں میں ایک مثلث کی شکل میں تھی جوجھیل ارومیہاورجھیل وانکے درمیان واقع تھی۔پہلی جنگ عظیممیں شہر کی شامی و آرمینی آبادی کو باہر نکال دیا گیا اور عثمانی سلطنت کی شکست کے بعد فرانسیسیوں نے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔یہ شہر اپنے تربوزوں کے باعث عالمی شہرت رکھتا ہے۔
+289,مسلمان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86,"بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاممسلمان(عربی:مسلم، مسلمة)، (فارسی: مسلمان)، (انگریزی:Muslim) سے مراد وہ شخص ہے جو دینِاسلامپر یقین رکھتا ہو۔ اسلام کا لغوی معنیاللہکے سامنے سرتسلیم خم کرنا۔[1]اگرچہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق اسلام خدا کا دین ہے اور یہ دینحضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ ��سلم سے پہلے بھی موجود تھا اور جو لوگ اللہ کے دین پر عمل کرتے رہے وہ مسلمان ہیں۔ مثلاًقرآنکے مطابق حضرتابراہیم علیہ السلامبھی مسلمان تھے۔ مگر آج کل مسلمان سے مراد اسے لیا جاتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر عمل کرتا ہو اور یقین رکھتا ہو۔ کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان انبیا کے آخر میں آئے ہیں اور آخری قانون پر عمل ہوتی باقیہ خود بخود منسوخ ہو جاتے ہے۔پہلے پہل جو لوگ مسلمان ہوئے وہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اس طریقہ سے کوئی بھی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ جب کوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا رسول مان لے تو اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ ان کی ہر بات پر ایمان رکھے اور عمل کرنے کی کوشش کرے۔اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے مفہوم ""کہ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرے۔مثلاً انھوں نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور یہ کہ وہ خدا کے آخری رسول ہیں تو اس بات پر ایمان رکھنا اسلام کے فرائض میں سے ہے۔اگر کوئی نافرمانی کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔اسلام کے بنیادی عقائد جن پر مسلمانوں کے کسی فرقہ میں کوئیاختلافنہیں، درج ذیل ہیں• اچھی اور بری تقدیر پر ایمان کہ جو کچھ بھی اس کائنات میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے۔
+اوپر دی گئی چیزوں پر ایمان رکھنے والے کو مسلمان کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اختلافات فروعی و سیاسی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ ��لمبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+290,مسیحی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%DB%8C%D8%AD%DB%8C,"مسیحی، وہ شخص جوابراہیمی،توحیدیاوریسوع مسیحکی زندگی اور تعلیمات پر مبنی مذہب کی پیروی کرتا ہے۔ لفظ ""مسیحی"" یسوع کے مکمل نام یسوع مسیح کے ""مسیح"" سے ماخوذ ہے اور یہ مسیح + ی کا مرکب ہے۔ مسیحیوں کواہلِ اسلامیسوع کے اسلامی نامعیسیٰکی نسبت ""عیسائی""کہتے ہیں۔ حالانکہ عیسی علیہ السلام پر ہر ایمان رکھنے والا ہر انسان عیسائی کہلانا چاہیے ۔ مگر مسیحی خود کو عیسائی کہلانا معیوب سمجھتے ہیں۔ مسیحییسوعکوتثلیتکا ایک لازمی جز قرار دیتے ہیں اورمسیحیتمیں ان کی تعظیمخدا کے روحانی بیٹےکے طور پر کی جاتی ہے اور مسیحیت میں یسوع کو خدائی درجہ حاصل ہے۔کاتھولک مسیحیاورراسخ العقیدہ مسیحیدونوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں۔"
+291,نور الدین زنگی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D9%88%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%B2%D9%86%DA%AF%DB%8C,"نور الدین ابو القاسم محمود ابن عماد الدین زنگیزنگی سلطنتکے بانیعماد الدین زنگیکا بیٹا تھا جس نے تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا۔ نور الدین فروری1118ءمیں پیدا ہوا اور1146ءسے1174ءتک 28 سال حکومت کی۔اس نے مسیحیوں سےبیت المقدسواپس لینے کے لیے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے گرد و نواح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ شروع میں نور الدین کا دار الحکومتحلبتھا۔549ھمیں اس نےدمشقپر قبضہ کرکے اسے دار الحکومت قرار دیا۔ اس نے صلیبی ریاستانطاکیہپر حملے کرکے کئی قلعوں پر قبضہ کر لیا اور بعد ازاں ریاستایڈیساپر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کی عیسا ئیوں کی کوشش کو بھی ناکام بنا دیا۔دوسری صلیبی جنگکے دوراندمشقپر قبضہ کرنے کی کوششوں کو بھیسیف الدین غازیاورمعین الدینکی مدد سے ناکام بنا دیں اوربیت المقدسسے مسیحیوں کو نکالنے کی راہ ہموار کردی۔دوسری صلیبی جنگمیں فتح کی بدولت ہی مسلمانتیسری صلیبی جنگمیں فتح یاب ہوکر بیت المقدس واپس لینے میں کامیاب ہوئے۔ اس زمانے میںمصرمیںفاطمیحکومت قائم تھی لیکن اب وہ بالکل کمزور ہو گئی تھی اور مصر چونکہفلسطینسے ملا ہوا تھا اس لیے مسیحی اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ دیکھ کر نور الدین نے ایک فوج بھیج کر564ءمیں مصر پر بھی قبضہ کر لیا اور فاطمی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔یہ واقعہمدینہکی تاریخ کی تقریباً تمام کتب میں موجود ہے۔ اس کا ذکر شیخ محمد عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمہ نے بھی اپنی کتاب ""تاریخ مدینہ"" میں تین بڑی سازشوں کے ساتھ کیا ہے جس میں سے یہ واقعہ سب سے مشہور ہے۔واقعہ پیش خدمت ہے-سمہودی کے قول کے مطابق مسیحیوں نے یہ سازش 557 ھ میں مرتب کی۔ اس وقت شام کے بادشاہ کا نام سلطان نور الدین زنگی تھا اور اس کے مشیر کا نامجمال الدیناصفہانی تھا۔ ایک رات نمازِ تہجّد کے بعد سلطان نور الدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ ""مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔"" سلطان ہڑبڑا کر اٹھا۔ وضو کیا' نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ خواب دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینہ روانہ ہوجائیں۔ "" اگلے روز سلطان نے بیس مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینہ کے لیے کوچ کیا اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گیا۔ سلطان نے روضہٴ رسول پر حاضری دی ��ور مسجدِ نبوی میں بیٹھ گیا۔ اعلان کیا کہ اہل مدینہمسجد نبویمیں پہنچ جائیں جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا۔ لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا رہا۔ اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ ""کیا مدینہ کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے۔؟"" جواب اثبات میں تھا۔ سلطان نے پھر پوچھا۔ ""کیا تمھیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟"" اس بار حاضرین نے کہا۔ ""سوائے دو آدمیوں کے۔ "" راز تقریباً فاش ہو چکا تھا۔.......... سلطان نے پوچھا۔ ""وہ کون ہیں اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے۔؟"" بتایا گیا کہ یہمراکشکے صوم و صلوٰة کے پابند دو متقی باشندے ہیں۔ دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجدِ قبا جاتے ہیں۔ فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کسی کا دیا نہیں لیتے۔ سلطان نے کہا۔ ""سبحان اللہ !"" اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔ جب انھیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انھوں نے کہا۔ ""الحمد للہ ! ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔ "" جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا۔ ""تم کون ہو۔.؟ یہاں کیوں آئے ہو؟"" انھوں نے کہا ""ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔حجکے لیے آئے تھے اور اب روضہٴ رسول کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ "" سلطان نے سختی سے کہا۔ ""کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟"" اب وہ چپ رہے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ یہ کہاں رہ رہے ہیں؟"" بتایا گیا کہ روضہٴ نبوی کے بالکل نزدیک ایک مکان میں جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا۔ سلطان فوراً اٹھا اور انھیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہو گیا۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔ نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔ سلطان نے گرج کر کہا۔ ""کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟؟؟"" ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ مسیحی ہیں اور ان کے حکمراں نے انھیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پرحجازبھیجا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اقدس روضہٴ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے انھوں نے حج کا بہانہ کیا اور اس کے بعد روضہٴ رسول سے نزدیک ترین جو مکان کرائے پر مل سکتا تھا' وہ لے کر اپنا مذموم کام شروع کر دیا۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے جس کا رخ روضہٴ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل میں تھی کہ ایک رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی جیسے زلزلہ آ گیا ہو اور اب جب کہ ان کا کام پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان نہ جانے کیسے مدینے پہنچ گئے۔ سلطان ان کی گفتگو سنتے جاتے اور روتے جاتے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے کہ ""میرا نصیب !!! کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لیے اس غلام کو چنا گیا"" سلطان نور الدین زنگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کر دیا جائے اور روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بدبخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ مذکورہ بالا واقعہ558ھ(مطابق 1142ء) کا ہے۔. سلطان نے روضہ مبارک کے قریب ایک چبوترابھی بنوایا تاکہ اس پر ان قبور کی حفاظت کے لیے ہروقت پاسبان رہیں۔ یہ چبوترا اب بھی موجود ہے اور باب جبریل سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب ہے۔ بعض زائرین اسے مقام صفہ سمجھتے ہیں حالانکہ مقاماصحاب صفہمسجد نبوی کے اندر تھا جب کہ چبوترا اُس وقت کی مسجد کی چاردیواری سے باہر تھا۔ مقام اصحاب صفہ کے تعین کے لیے استونہ عائشہ سے شمال کو چلئے۔ (یعنی قبلہ کی سمت کے خلاف) پانچویں ستوں کے قریب مقام اصحاب صفہ ہے۔مصرپر قبضہ کرنے کے بعد نور الدین نے بیت المقدس پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ بیت المقدس کیمسجد عمرمیں رکھنے کے لیے اس نے اعلیٰ درجے کا منبر تیار کروایا۔ اس کی خواہش تھی کہفتح بیت المقدسکے بعد وہ اس منبر کو اپنے ہاتھوں سے رکھے گا لیکن خدا کو یہ منظور نہ تھا۔ نور الدین ابھی حملے کی تیاریاں ہی کر رہا تھا کہ زنگی کوحشاشیننے زہر دیا[حوالہ درکار]جس سے ان کے گلے میں سوزش پیدا هوگئی جو کے ان کی موت کا باعث بنی۔ 15 مئی 1174ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ انتقال کے وقت نور الدین کی عمر 58 سال تھی۔نور الدین بہادری میں اپنے باپ کی طرح تھا۔ ایک مرتبہ جنگ میں اسے دشمنوں کی صف میں بار بار گھستے دیکھ کر اس کے ایک مصاحب قطب الدین نے کہا : ”اے ہمارے بادشاہ! اپنے آپ کو امتحان میں نہ ڈالئے اگر آپ مارے گئے تو دشمن اس ملک کو فتح کر لیں گے اور مسلمانوں کی حالت تباہ ہو جائے گی“۔ نور الدین نے یہ بات سنی تو اس پر بہت ناراض ہوا اور کہا : ”قطب الدین! زبان کو روکو، تم اللہ کے حضور گستاخی کر رہے ہو۔ مجھ سے پہلے اس دین اور ملک کا محافظ اللہ کے سوا کون تھا؟“۔
+نور الدین نے شریعت کی خود پابندی کی اور اپنے ساتھیوں کو بھی پابند بنایا۔ انھیں دیکھ کر دوسروں نے تقلید کی جس کی وجہ سے عوام میں اسلام پر عمل کرنے جذبہ پیدا ہو گیا اور لوگ خلاف شرع کاموں کے ذکر سے بھی شرمانے لگی۔نور الدین صرف ایک فاتح نہیں تھا بلکہ ایک شفیق حکمران اور علم پرور بادشاہ تھا۔ اس نے سلطنت میں مدرسوں اور ہسپتالوں کا جال بچھا دیا۔ اس کے انصاف کے قصے دور دور تک مشہور تھے۔ وہ بڑی ذاتی زندگی گزارتا تھا،بیت المالکا روپیہ کبھی ذاتی خرچ میں نہیں لایا۔مال غنیمتسے اس نے چند دکانیں خرید لیں تھیں جن کے کرائے سے وہ اپنا خرچ پورا کرتا تھا۔ اس نے اپنے لیے بڑے بڑے محل تعمیر نہیں کیے بلکہ بیت المال کا روپیہ مدرسوں، شفاخانوں اور مسافر خانوں کے قائم کرنے اور رفاہ عامہ کے دیگر کاموں میں صرف کرتا۔ دمشق میں اس نے ایک شاندار شفاخانہ قائم کیا تھا جس کی دنیا میں مثال نہ تھی۔ اس میں مریضوں کو دوا بھی مفت دی جاتی تھی اور کھانے اور رہنے کا خرچ بھی حکومت کی طرف سے ادا کیا جاتا تھا۔ نور الدین نے تمام ناجائز ٹیکس موقوف کردیے تھے۔ وہ مظلوموں کی شکایت خود سنتا اور اس کی تفتیش کرتا تھا۔
+نور الدین کی ان خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے اس زمانے کے ایک مورخابن اثیرنے لکھا ہے کہ: ”میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا لیکنخلفائے راشدیناور عمر بنعبد العزیزکے سوا نور الدین سے بہتر فرمانروا میری نظر سے نہیں گذرا۔“"
+292,جہاد,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%DB%81%D8%A7%D8%AF,"جہادسے مراد کسی نیک کام میں انتہائی طاقت و کوشش صرف کرنا اور ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کرنا ہے۔امامراغب اصفہانیجہاد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اَلْجِهَادُ والْمُجَاهَدَةُ : اِسْتِرَاغُ الْوُسْعِ فِيْ مُدَافَعَةِ العُدُوِّ. (راغب الصفهانی، المفردات : 101)ترجمہ: دشمن کے مقابلہ و مدافعت میں فوراً اپنی پوری قوت و طاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔جہاں دوسری جنگوں میں دنیا دار قوموں کے دل گوناگوں دنیاوی اور نجی اغراض و مقاصد سے لبریز ہوتے ہیں۔ کہیں ملک گیری کی ہوس کارپرداز ہوتی ہے، کہیں مال و دولت اکٹھا کرنے کی حرص کا غلبہ ہوتا ہے تو کہیں نام و نمود اور شہرت و نام وری کی آرزو زمزمہ پرداز ہوتی ہے وہاں مومن کا جہاد فی سبیل اللہ خالصتاَ ایک للہیٰ عمل ہے۔ مجاہد کا دل ذاتی اغراض سے پاک اور صرف رضائے الہیٰ کی تمنا لیے ہوتا ہے۔ اسے نہ مال و دولت سے غرض ہوتی ہے نہ غنیمت کی آرزو، نہ جاہ و جلال کا عارضہ لاحق ہوتا ہے ،نہ نام و نمود کی ہوس۔ وہ فقط کفر و باطل کے قلعے کو مسمار کرکے اور طاغوتی قوتوں کو مٹا کر خدا کی زمین پر خداکی حکومت قائم کرنے کے لیے ہی اپناتن من دھن کی بازی لگاتا ہے۔ وہ اس عارضی ٹھکانے کو ظلم و ستم سے پاک کرنے کی تمنا میں ہی جنگ و جدل کی صعوبتوں کو لبیک کہتا ہے اور قربانیوں پر قربانیاں دیتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ یا تو جام شہادت پی کر واصل بحق ہو جاتا ہے یا فتح مند ہو کر اس خاکدان کو انوار الٰہی سے منور کر دیتا ہے۔
+اللہ کے وجود پر یقین کرنا تو اس قدر مشکل نہیں۔ اللہ کی اس ساری کائنات کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ باور کرلے کہ اس کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں البتہ قیامت پر یقین پیدا کرنا ایمان ہی کی دولت سے ممکن ہو سکتا ہے اورایمان اللہ کی دین ہے جسے چاہے دے، اس میں شک نہیں کہ اس کائنات اور اس کے اصولوں کو بغور دیکھنے سے قیامت کا وجود یقینی طور پر نظر آ سکتا ہے مگر یہ علم بھی اسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، جس کا سینہ ایمان کی روشنی سے منور ہو۔ تاہم قیامت کا یقین ہی تو ہے جو انسان کو گناہوں سے باز رکھتا ہے اور نیکی پر مائل کرتا ہے اور اسی قیامت کے یقین کے سبب ایک سپاہی شہادت کی طلب میں موت کی آغوش کو اپنی بہترین پناہ تصور کرتا ہے اور ایک دانائے راز سمجھتا ہے کہ وہ خدا جس نے اس کائنات کو عدل پر پیدا کیا، یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے گناہوں اور اپنی نیکیوں کا بدلہ نہ دیا جائے اور یہ بدلہ موت کے بعد قیامت میں ہی دیا جا سکتا ہے، اس زندگی میں تو دکھ اور خوشی عمل کی بنا پر بعض اوقات نہیں حاصل ہوتے۔ بعض بدکردار دندناتے پھرتے ہیں اور بعض نیکوکار رنج و مصائب میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
+اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ’’ جو کوئی محنت کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے محنت کرتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ سارے عالم سے بے نیاز ہے ‘‘۔ ( العنکبوت 6 )۔ آدمی جہاد کرے یا کوئی دوسرا نیک عمل کرے ،اس میں سراسر اس کی اپنی بھلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو بہت بڑا غنی ہے اور انسان تو جہاں ایک طرف عمل کا پابند ہے دوسری طرف اللہ کے فضل کا بھی محتاج ہے اور حق بات تو یہ ہے کہ انسان کو عمل کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہمیں دو سبق حاصل ہوتے ہیں پہلا یہ کہ عمل کے بغیر کچھ نہیں ملتا البتہ فضل خداوندی کامعاملہ اس سے مستثنیٰ ہے، دوسرا یہ کہ محتاج اللہ نہیں بلکہ محتاج بندہ ہے اور جو محتاج ہوتا ہے وہ اپنی حاجت کے حصول کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ساتھ فرما دیا۔ ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کیے
+،ہم ان کے گناہ ان سے دور کرکے رہیں گے اور ہم ان کو ان کے اعمال کا زیادہ اچھا بدلہ دے کر رہیں گے۔ (العنکبوت 7 ) تو گویا نیک کام کرنے سے آدمی کے گناہ بھی دھلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نیکی کا بدلہ استحقاق سے بھی زیادہ دیتے ہیں۔
+ساری تجارتو ں سے بہترین تجارت جہاد ہے۔ جہاد کرنے والا جہاد کے بدلے اللہ کی مغفرت اور جنت خریدتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’اے ایمان والو! میں تم کو ایسی سوداگری بتاؤں جو تمھیں ایک دردناک عذاب سے بچائے۔ اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں مال اور جان سے لڑو اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔ وہ تمھارے گناہ بخشے گا اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور باغوں کے اندر ستھرے مکان ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے او ر ایک اور چیز بھی جسے تم بہت چاہتے ہو اور وہ ہے اللہ کی طرف سے مدد عنقریب اور خوشی سنا دے ایمان والوں کو، اے ایمان والو! تم اسی طرح اللہ کے مددگار ہو جاؤ۔ جس طرح کہ عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا کون ہے جو اللہ کی راہ میں میری مدد کرے گا تو انھوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ ( الصف 10 تا 14)۔
+جہاد کے ظاہری فائدے یا تکالیف تو ہر آدمی کو نظر آ سکتے ہیں لیکن جہاد کے حقیقی فائدے باطنی ہیں جن کا تعلق آخرت سے ہے اور جو نظر نہیں آتے مگر اس آدمی کو نظر آ سکتے ہیں جس کا ایمان کامل ہو اور آخرت پر اس کا یقین ہو ۔شریعتاسلامی کی اصطلاح میں ’’دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصول رضائے الٰہی کے لیے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔‘‘جہاد کے عناصر ترکیبی اوراخلاق کی اہمیت:
+صلح اور امن و امان اگرچہ بہترین چیزیں ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ شر پسند افراد اور شر پسند قومیں صلح جو افراد اور صلح جو قوموں کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ صلح کے حصول کے دو ہی طریقے ہیں ایک تو یہ کہ ایک دوسرے کے آگے جھک جائے اور اس طرح فساد کا خطرہ ٹل جائے دوسرا یہ کہ صلح جو فتنہ پسند کا مقابلہ کرے۔ پہلی صورت میں فساد کا خطرہ ٹل جانا ایک مشکل امر ہے جیسا کہ دنیا کے طور طریقے بتا رہے ہیں دوسری صورت مقابلے کی ہے لیکن مقابلہ کرنے والوں میں بھی اگر ایک فریق ظاہرا کمزور اور دوسرا طاقت ور ہو تو جنگ کے ٹل جانے کا امکان بہت ہی کم ہے۔ طاقت ور کمزور کی کمزوری کے پیش نظر جنگ برپا کرنے میں جری ہو گا اس لیے چاہیے کہ حتی الوسع بڑھ کر جنگی تیاری کی جائے تاکہ طاقت ور کو حملہ کرنے کی جرات نہ ہو اور اس طرح جنگ کا خطرہ ٹل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قران حکیم میں فرمایا۔ ’’ اے مسلمانو! ان سے مقابلہ کے لیے جس قدر بھی تم سے ہو سکے قوت کے سامان اور پلے ہوئے مضبوط گھوڑے تیار رکھو تاکہ تمھارا رعب چھایا رہے۔ تمھیں کیا خبر تمھارے اور اللہ کے دشمن کہاں کہاں ہیں۔ (الانفال60 )اگر اللہ چاہے تو کافروں کو چشم زدن میں عذاب الٰہی سے تباہ کرکے رکھ دے لیکن جدال و قتال کا سلسلہ اس لیے مقرر کیا کہ مسلمانوں کو آزمائے اور انھیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے اور قربانیاں دینے کا موقع بہم پہنچائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’کہ جنگ کے موقعے پر کافروں کو قتل کرنے سے باک نہ کرو، ان کے بڑے بڑے شریروں کو کیفر کردار تک پہنچا دو اور ان کے جتھے توڑ دو تاکہ ان کا غرور ٹوٹے اور شاید ایمان کی طرف متوجہ ہوں۔ تمھاری قربانی ضائع نہ ہونے دی جائے گی بلکہ تمھیں طرح طرح کے انعاموں سے نوازا جائے گا لیکن جب کفار تمھارے قیدی ہو جائیں تو ان میں سے فقط ان آدمیوں کو قتل کرو جن کا جرم ایسا ہو کہ قابل معافی نہ ہو سکے یا جن کا زندہ چھوڑ دینا مزید فتنے کا باعث ہو ورنہ قیدیوں کو قتل مت کرو بلکہ یاتو انھیں فدیہ لے کر چھوڑ دو یا بغیرفدیہ لیے محض احسان کرکے آزاد کر دو اور اپنے اخلاق کریمانہ سے ان کو متاثر کرو شاید کہ وہ اسلام کی خوبیوں کو سمجھیں اور کفر و شرک کو چھوڑ کر دین حق کی طرف مائل ہوں اور یہی اسلامی جہاد کا اصلی مقصود ہے‘‘۔
+اپنے نفس کی اصلاح جہاد سے مقدم ہے اور یہ تقدیم اس لیے ہے کہ جب تک آدمی آدمی نہ بن جائے اور اپنی تمام خواہشات اور شہوات کو مغلوب کرکے اللہ کا نہ ہو رہے۔ اس وقت تک وہ نہ تو جہاد فی سبیل اللہ کی حقیقت سمجھ سکتا ہے اور نہ ٹھیک طرح سے جہاد ہی کر سکتا ہے۔ اصلاح نفس ہو جائے گی تو انسان جہاد میں نہ تو مال و دولت یا لوٹ مار کے لالچ میں نکلے گا نہ اپنی بہادری کی دھاک بٹھا کر شہرت حاصل کرنے کی غرض سے بلکہ وہ ٹھیک اپنے اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور اس کے دین کی سربلندی کی غرض سے تلوار اٹھائے گا۔ اس طرح اگر شہید ہو گا تو اللہ کے ہاں شہادت کا مرتبہ پائے گا اور جو غازی ہو گا تو خدا کی زمین کو ظلم وستم اور کفر و باطل سے پاک کرنے کی سعی کرے گا نیز جنگ میں جو مشکلات اور مصائب ہوتے ہیں انھیں صبر و تحمل سے برداشت کرے گا اور موت کا خوف دل میں نہ رکھے گا اور کمانڈر کا حکم د ل و جان سے مانے گا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہترین سلوک کرے گا۔ اصلاح نفس سے عاری آدمی ان سب باتوں کے خلاف کرے گا اور خود اپنے لیے اور دوسروں کے لیے وبال جان بن کر اجتماعی شکست کا باعث ہو گا۔
+جنگ کا فیصلہ کرنے میں جن عوامل کا قطعی ہاتھ ہے مثلا ڈسپلن، تدبیر، شجاعت ،استقامت اور جنگی مہارت۔ یہ تمام کے تمام اخلاقی قوت کا نتیجہ ہیں تعداد اور اسلحہ اگرچہ ظاہرا دو بڑے عنصر نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے اور جنگی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک یہ دونوں عنصر کبھی فیصلہ کن عنصر ثابت نہیں ہوئے۔ قرون اولیٰ کے مسلما نوں کو جب یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ غنیم ایک بہت بڑا لشکر جرار اور بے پناہ ساز و سامان اور اسلحہ لے کے آ رہا ہے تو انھوں نے نہایت اطمینان سے کہہ دیا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور واقعی اللہ ہی کافی ثابت ہوا۔ مٹھی بھر مسلمان نہایت بے سروسامانی کی حالت میں جہاں بھی گئے وہاں فتح و کامیابی نے ان کے قدم چومے اور دشمن نے اپنا تمام ساز و ساما ن چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی۔ اس لیے ہر وہ فوج جو فتح و آبرو مندی کو اپنا شعار بنانا چاہے وہ اخلاقی قوتوں کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی جائے اور اخلاقی قوتوں کا سرچشمہ دین متین ہے جس نے اللہ کے دین کو مضبوطی سے اپنایا اس نے ایک بہت بڑے اور مضبوط قلعے میں پناہ لی ۔جہاد کو مسلسل عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے اس کی درج ذیل اقسام ہیں:یہ وہ جہاد ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ کفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور دنیا رشد و ہدایت کے نور سے معمور ہو جائے۔جہاد بالعمل کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔ اس جہاد میں قول کی بجائے عمل اور گفتار کی بجائے کردار کی قوت سے معا��رے میں انقلاب برپا کرنا مقصود ہے۔ جہاد بالعمل ایک مسلمان کے لیے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان احکام کے مطابق بسرکرنے کا نام ہے۔اپنے مال کو دین کی سر بلندی کی خاطر اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں۔جہاد بالنفس بندۂ مومن کے لیے نفسانی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ کا نام ہے۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے۔ شیطان براہ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہو جائے تو انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔کوئی فوج خواہ کتنی ہی تربیت یافتہ اور بہترین ہتھیاروں سے لیس کیوں نہ ہو اور اعداد و شمار میں ریت کے ذروں سے بھی بڑھ کر کیوں نہ ہو۔ جب تک اس کے سپاہی جرات اور شجاعت کے وصف سے متصف نہ ہوں گے کامیابی کی بہت کم امید ہے۔ اس کے مقابلے میں گنتی میں کم اور ادنیٰ ہتھیاروں سے لیس فوج کے سپاہی اگر جری اور شجاع ہوں گے تو ان سے کامیابی اور کامرانی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بہادر قومیں عموما بہت ساری خوبیوں کی مالک ہوتی ہیں۔ انھیں اپنے وعدے کا پاس ہوتا ہے۔ وہ مہمان کی قدرومنزلت کو سمجھتی ہیں۔ وہ شرافت اور نجابت کے تقاضوں کو جانتی ہیں۔ وہ بے عزتی، بے ؔ آبروئی اور بے غیرتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتی ہیں۔ وہ اگرچہ کینہ توز ہوتی ہیں مگر دشمنی میں بھی شرف کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں اور دشمن کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی قائل نہیں ہوتیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شجاعت اور سخاوت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ بہادر آدمی لازما سخی ہوتا ہے کیونکہ میدان جنگ میں اپنی جان پیش کر دینا بھی سخاوت ہے۔
+اگر دو فوجیں برابر کی ہوں اور جنگ کا فیصلہ نہ ہوتا ہو تو اس تعطل کو ختم کرکے فیصلہ کن بات کرنے والی بات جوش کی زبان سے ادا ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ایک فوج مسلسل لڑائی کرتے کرتے تھکن سے چور ہو جاتی ہے۔ سپاہیوں کے بازو شل اور حوصلے پست ہو جاتے ہیں تو جوش ہی ایک ایسی چیز ہے جو تھکے ہوئے بازووں کو نئے سرے سے طاقت عطا کرتا ہے۔ افسردہ دلوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑا دیتا ہے۔ تھکی ہاری فوج آن کی آن میں سرگرم پیکار ہو جاتی ہے اور ایسا ایک بھر پور حملہ عام طور پر فیصلہ کن ہو تا ہے کیونکہ مخالف فوج بھی اسی طرح تھک کر چور ہو چکی ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایسی حالت میں ایک شخص کے جوش و خروش نے جنگ کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے۔جنگ یرموکمیں ایک بار جب مسیحی مسلمانوں کو دھکیل کر خیموں تک لے آئے تو خیمہ میں بیٹھی ہوئی مسلمان عورتوں نے خیموں کی چوبیں اکھاڑ کر دشمن پر حملہ کر دیا۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کو اتنا متاثر کیا کہ وہ جوش و غضب میں دشمن پر ٹوٹ پڑے اور پھر کبھی ان کو اپنے خیموں کے قریب پھٹکنے نہ دیا ۔
+تاریخ اسلامی جوش جہاد کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ حضرتابوعبیدہ ابن الجراحکے سامنے ایک جنگ میں آپ کا باپ آیا مگر آپ نے پروا نہ کی اور جوش ایمانی میں اپنے باپ کو قتل کر دیا۔جنگ موتہمیں جب تین ہزار مسلمانوں نے اپنے آپ کو دشمن کے علاقے میں ایک لاکھ فوج کے مقابل میں دیکھا تو مجلس مشاورت قائم کی کہ آنحضور کو حالات سے آگاہ کیا جائے مگر عبد اللہ ابن رواحہؓ جو ایک آّتش بیانخطیبتھے۔ ایسی تقریر کی کہ سب مقابلے پر آمادہ ہو گئے۔ جنگ بدر کے لیے جب آنحضرت ﷺ مجاہدوں کا انتخاب فرما رہے تھے تو ایک بچے کو دیکھا جو اپنی ایڑیاں اٹھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اونچا ہے۔ آپ ﷺ��ے اسے چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کرنا چاہا مگر وہ بضد تھا۔ لہذا آپ ﷺنے اجازت فرما دی۔ اس کے ساتھ ایک اور لڑکا کھڑا تھا۔ آپ ﷺنے اسے اجازت نہ دی تو وہ رونے لگا اور عرض کیا کہ مجھے اس دوسرے لڑکے سے کشتی لڑوایئے۔ جب کشتی ہوئی تو اس نے پہلے لڑکے کو پچھاڑ ڈالا اور اس طرح جہاد میں جانے کی اجازت حاصل کی۔ یہی وہ دونوں لڑکے تھے جنھوں نے ابوجہل کو قتل کیا اور خود شہید ہو گئے ۔
+جنگی جوش اگر لڑائی کے وقت اگر شجاعت کی حدوں سے متجاوز ہو جائے تو اسے تہور کا نام دیا جاتا ہے۔ اس حالت میں مجاہد کو قطعا نہ تو اپنے بچاؤ کا خیال ہوتا ہے نہ زخم یا موت کا سوال۔ وہ شدت جوش میں ؔ آگے بڑھتا ہے اور دشمن پر ہر چیز سے بے پروا ہو کر غضبناک شیرنی کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے۔ تہور ایک ایسی کیفیت ہے کہ بعض اوقات ان ہونی باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور ناممکنات کا دائرہ بھی سمٹ کر ممکنات میں آ جاتا ہے۔ صاحب تہور پر اس وقت ایک وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے اور وہ اس حالت میں وہ کچھ کر گزرتا ہے کہ عام حالت میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خیبر کے جس سنگین دروازے کو تن تنہا ہاتھ ڈال کر اکھاڑا اور اپنے سر کے اوپر سے پیچھے پھینک دیااس کا وزن ایک سو بتیس من تھا اور جسے ؔ آٹھ مضبوط آدمی مل کر بھی اٹھانا تو درکنار زمین سے اچک تک نہ سکے۔ کیپٹن سرور شہید، یونس شہید اور میجر طفیل شہید کے کارنامے تہور کے تحت آتے ہیں۔ میجر عزیز بھٹی شہید کا کارنامہ تہور کے ساتھ استقلال اور استقامت کا ایک نادر الوجود مرقع ہے۔ جواں سال شہیدراشد منہاسکی تہور میں ڈوبی ہوئی بے مثال قربانی اس کی معصومیت کے ساتھ دلوں میں محبت کی کسک پیدا کرتی ہے ۔
+تہور کے معنے سخت جوش کے ہیں حتیٰ کہ آدمی ایسی کیفیت میں ہر انجام سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ تاریخ اسلامی ایسی مثالوں سے پر ہے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا تہور خیبر کے روز مشہور ہے۔ جب حضرت علیؓ قلعے کی طرف بڑھے تو آپؓ نے قلعہ کے دروازے کو ہاتھ ڈالے اور اسے اکھاڑ کر اپنے سر کے اوپر سے پیچھے اچھال دیا۔ اس دروازے کا وزن ایک سو بتیس من تھا۔ آٹھ قوی آدمی اسے زمین سے اچک نہ سکتے تھے۔ پھر خیبر کا مشہور پہلوان مرحب یہ رجز پڑھتا ہوا آپؓ کے مقابل ہوا:۔
+قد علمت خیبرانی مرحب
+شاک السلاح بظل مجرب
+اذا الحروب اقبلت تلھب
+’’ خیبر کو معلوم ہے۔ کہ میں مرحب ہوں جو زبردست ہتھیار چلانے والا بہادر اور آزمودہ کار ہے۔ جب جنگ پیش آتی ہے۔ تو بھڑک اٹھتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مقابلے میں رجز پڑھا:۔
+اذالزی سمتنی امی حیدرہ
+کلیث غا بات کریہہ المنظرہ
+اکیلہم بالصاع کیل السندرہ
+’’ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدرہ (شیر کابچہ) رکھا۔ جنگ کے شیروں کی طرح ہیبتناک ہوں۔ جن کو سندرہ کے پیمانے سے تولتا ہوں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مرحب پر تلوار سے وار کیا۔ مرحب دو حصوں سے چر کر جا گرا۔یہ جہاد میدان جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں کے خلاف اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے جب دشمن سے آپ کی جان مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں۔ اگر کوئی کفر کے خلاف جنگ کرتا ہواشہیدہو جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ حقیقت میں وہ زندہ ہے۔ ارشاد باری تعالٰیٰ ہے:وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَاور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمھی�� (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔جہاد بالقتال کا حکم نبوت کےمدنی دورمیں نازل ہوا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے قریش اور مسلمانوں میںبدرکے مقام پرغزوہہوا، جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ كيونكہ جہاد ميں جان لی اور دی جاتی ہے اور جان لينا ہميشہ سے الہامی شريعتوں ميں ممنوع رہا ہے۔۔یہ فقرہ یہاں لکھا پایا گیا لیکن یہ درست نہیں کیونکہ جب
+حضرت موسیٰ 1400 قبل مسیح میں بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر نکلے تھے۔ صحرائے سینا میں جبل طور کے پاس پڑاؤ کے زمانے میں آپ کو تورات عطا کی گئی۔ وہاں سے پھر شمال مشرق کی طرف کوچ کرنے اور فلسطین پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا گیا۔ جہاد کے اس حکم سے انکار کی پاداش میں بنی اسرائیل کو صحرا نوردی کی سزا ملی۔ اسی دوران میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں کا یکے بعد دیگرے انتقال ہو گیا۔ صحرا نوردی کے دوران پروان چڑھنے والی نسل بہادر اور جفاکش تھی۔ انھوں نے حضرت موسیٰ کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون کی سرکردگی میں جہاد کیا جس کے نتیجے میںفلسطینفتح ہو گیا۔۔تو یہ درست نہیں کہجن سے جنگ کی جائے، انھیں جنگ کی اجازت دی گئی، اِس لیے کہ اُن پر ظلم ہوا ہے اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اِس بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔جہاد بالقتال کے لیے کچھ بنیادی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے، جن کے بغیر جہاد انسانیت کے لیے محض فتنہ و فساد کا باعث بنتا ہے، جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ جہاد کی بنیادی شرائط میں درج ذیل شامل ہیں:جہاد اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام الناس کو فردا فردا، جتھوں یا تنظیمیوں کی صورت میں جہاد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کی سخت تلقین فرمائی ہے۔ کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرنے کے لیے فرمایا۔ ’’ اے نبی ﷺ! آپﷺ جہاد کیجئے کافروں سے اور منافقوں سے اور ان پر سختی کیجئے، ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہہ ہے ‘‘۔ ( التحریم 9) اوراہل کتابکے خلاف جہاد کے لیے فرمایا۔ ’’ اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ روز آخرت پر نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام ٹھہرائی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں، اس حال میں کہ وہ زیردست ہو کر رہیں ‘‘۔ (التوبہ29) اور عامتہ المسلمین سے فرمایا ہے۔ ’’ اے ایمان والو! اپناتحفظ کرواور پھر دستہ دستہ کوچ کرو یا اکٹھے ہو کر‘‘۔ ( النساء 71 ) اور نبی کریم ﷺ سے فرمایا۔ ’’ اے نبی ﷺ! آپ مسلمانوں کو جہاد کے لیے آمادہ کرتے رہیں، عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے اور اللہ بڑے ہی زور والا ہے اور بڑی سزا دینے والا ہے۔ (النساء84 )۔ فرمایا۔ ’’ اے مسلمانو! اگر تم دنیاوی زندگی کی محبت میں محو ہو کر جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تمھیں ایک دردناک سزا دے گا اور تمھارے بدلے کوئی اور قوم پیدا کر دے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے ۔
+جہاد اس لیے کیا جاتا ہے کہ کفار کا زور ٹوٹ جائے اور وہ اسلامی ممالک پر چڑھ دوڑنے کی ہمت نہ پائیں۔ کفار خدانخواستہ اگر اسلامی ممالک پرحملہ کرکے غالب آ جائیں توجہاں مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے خاک میں مل جانے کا خدشہ ہے وہاں خود اسلام کو خطرہ لاحق ہے لیکن انسانی طبیعت بالعموم آرام اور عیش کوشی کی طرف راغب رہتی ہے اور جنگ و جدل کی صعوبتوں سے کنارہ کش رہنا چاہتی ہے۔ موت کا خ��ف بھی دلوں میں جاگزین ہوتا ہے اور اپنی پیاری چیزیں چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا مگر دفاع سے غفلت جہاں ایک طرف آزادی کی نعمت سے محروم کر دیتی ہے وہاں اخلاقی پاکیزگی اور علو ہمتی جیسی صفات سے بھی معرا کر دیتی ہے، اس لیے ہر کمانڈر اور ہر حاکم کایہ فرض ہے کہ وہ عامتہ المسلمین کو جہاد کی ترغیب دیتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو فرمایا ’’ مسلمانوں کو قتال فی سبیل اللہ پر آمادہ کرتے رہی ئے۔ عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے‘‘۔ (النساء 84)
+جہاں دوسرے مذاہب نے رہبانیت اور ترکِ دنیا پر زور دیا ہے وہاں اسلام کی ساری تعلیم ایک پاکباز، سپاہیانہ معاشرے میں زندگی گزارنے کے متعلق ہے۔ اسلام کے تمام عقائید اسی روش کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ خود مسلمان قوم کو ایک سرسری نظر سے دیکھنے سے ہی سپاہیانہ صفات اور سپاہیانہ اخلاق مثلا جرات، شجاعت، سخاوت، اولوالعزمی، صبر و رضا، ہمت و برداشت نظرآتے ہیں حتیٰ کہ مسلمان اپنے اس روبہ زوال دور میں بھی جہاں تک کہ ان مندرجہ بالاصفات کاتعلق ہے ،روئے زمین کی ساری قوموں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ جہاں تک جنگی تربیت کا تعلق ہے، مسلمان کی زندگی کا ہر پہلو ایک تربیت یافتہ سپاہی کی زندگی کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے۔ اسلام کے سارے ارکان اسی فوجی تربیت کے اصول پر جاری و ساری ہیں۔ مسلمان کی روز مرہ کی زندگی اور زمانہ جنگ کی زندگی میں سرمو فرق نہیں۔ مسلمان ایک پیدائشی سپاہی ہے اور تھوڑی سی تربیت اسے دنیا کا بہترین سپاہی بنا دیتی ہے ۔
+برائی کو روکنا ہر فرد مومن کا فرض ہے کیونکہ جس قسم میں برائی کو روکنے کا جذبہ مفقود ہوجاتا ہے وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے اور وہ لوگ بھی جو نیک اس قوم میں ہوتے ہیں بدوں کے ساتھ محض اس لیے تباہی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ انھوں نے برائی کے کام اپنی آنکھوں سے دیکھے مگر منع نہ کیا۔بنی اسرائیلپر جن وجوہات کی بنا پر لعنت کی گئی، ان میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک وجہ قران حکیم میں یہ بھی بتائی ہے کہ وہ برائی کوروکتے نہ تھے۔ بدی کو روکنے کے تین طریقے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بتائے یعنی ہاتھ سے روکنا، زبان سے روکنا، دل میں برا سمجھنا مگر یہ آخری درجہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ اللہ عام لوگوں پر خاص لوگوں کے عمل کے باعث اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک کہ ان میں یہ عیب پیدا نہ ہو جائے کہ اپنے سامنے برے اعمال ہوتے دیکھیں اور انھیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرنے لگتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ عام او ر خاص سب پر عذاب نازل کرتا ہے‘‘۔ ( مسند آحمد) اسی طرح آپ ﷺ نے جابر سلطان کے سامنے حق بات کہنے کو جہاد اکبر فرمایا۔ مسلمانوں کی جنگ نظریاتی جنگ ہوتی ہے وہ نہ تو ہوس ملک گیری کے جذبے سے مغلوب ہو کر جنگ برپا کرتے ہیں نہ اس میں ان کی کسی ذاتی انتقامی جذبے کو دخل ہوتا ہے۔ مسلمان کی جنگ اللہ کی جنگ ہے۔ شیطان کے خلاف رحمان کی جنگ ہے۔ کفر و بے دینی کے خلاف دین و حق کی جنگ ہے۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی جنگ ہے غرض کہ خدا کی زمین پر خدا کی حکومت کے قیام کی جنگ ہے۔ جب کوئی قوم خدا کی زمین پر اس قدر فساد میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اس کو سبق پڑھانا ضروری ہو جاتا ہے تو ایسی قوم پر اللہ تعالیٰ مسلمان قوم کو مسلط کر دیتا ہے تاکہ مسلمان قوم ظلم کے ان اثرات کوخدا کے نور سے مٹا دے جو اس ظالم قوم نے اپنے فتنہ و فساد سے پھیلا رکھے ہوتے ہیں۔ یہودیوں، مسیحیوں ہندووں وغیرہ پر اللہ نے مسلمانو�� کو اسی نظریے کی بنا پر مسلط کیا تھا مگر فرما دیا کہ اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا اوروہ ایسے لوگ ہیں جن کو اگر اللہ زمین پر حکومت دے تو نماز قائم کریں، زکوۃ دیں ،نیک کام کا حکم دیں اور بدی سے روکیں ۔جہاد میں مقابلے کے وقت مجاہدین کو قرانی ہدایات کے بارے میں اللہ تعالیٰ قران حکیم میں فرماتے ہیں ۔
+’’ اے ایمان والو! جب تمھارا مقابلہ کسی جماعت سے ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ فلاح پاؤ اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے رہو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ کم ہمت ہو جاؤ گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرتے رہو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ان لوگوں کی مثل نہ ہو جاؤ جواپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور دکھلاوے کے لیے نکلے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے حالانکہ ان کے اعمال اللہ کی دسترس سے باہر نہ تھے اور جب شیطان نے ان کے اعمال انھیں خوشنما کرکے دکھائے اور کہا کہ آج کوئی بھی تم پر غالب آنے والا نہیں اور میں تمھارا حامی ہوں، پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو شیطان الٹے پاؤں بھاگا اور کہنے لگا۔ میں تم سے بری الذمہ ہوں۔ میں وہ دیکھ رہا ہوں جوتم نہیں دیکھ سکتے۔ میں تو خدا سے ڈرتا ہوں اور اللہ شدید سزا دیتے ہیں ۔( الانفال 45 تا 48 )۔
+’’ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانھم بنیان مرصوص‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ اللہ تو ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں اسی طرح مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔( الصف 3 )۔ اللہ تعالیٰ نے اس تشبیہ میں بہت سی باتوں کو یکجا کر دیا ہے۔ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح لڑنے والے سپاہی جن باتوں کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے وہ فقط بہادری نہیں بلکہ ڈسپلن، باہمی محبت و موافقت، ایمان اور کئی ایک اور اچھی باتوں کا مظاہرہ بھی کر رہے ہوں گے۔ ترکوں کے متعلق مشہور ہے کہ جب 1914 ء کیجنگ عظیممیں انھوں نے انگریزی فوج کوکوت العمارہکے میدان میں گھیرے میں لیا تو انھوں نے لمبی لمبی زنجیروں سے قطار در قطار اپنے آپ کو جکڑ لیا۔ چھ ماہ کے مسلسل محاصرے کے بعد انگریز جرنیل نے ہتھیار ڈال دیے۔ روداد اس محاصرے کی بڑی خوفناک ہے۔
+’’ہاتھ تلوار پربھروسہ اللہ پر‘‘۔ یہ ایک باریک بات ہے مگر اللہ جسے چاہے سمجھا دے ،ہاتھ تلوار پراور بھروسا اللہ پر کے معنی یہ ہیں کہ اللہ پر بھروسا کرنے کے لیے ذرائع سے کلی طور پر قطع نظر کرکے اللہ کو آزمائش میں نہ ڈالنا۔ یعنی جہاں انسان کے لیے ذرائع کا حصول ممکن ہووہاں بھی ان ذرائع کواللہ پر بھروسا کرکے نظر اندار کر دینا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی آنحضور ﷺکے پاس آیا۔ تو آپ ﷺنے پوچھا۔ اونٹنی کہاں چھوڑی۔ تواس نے کہا۔ اللہ کے بھروسے پر باہر چھوڑ آیا ہوں۔ تو آپ ﷺنے فرمایا۔ پہلے اونٹنی کا گھٹنا باندھ پھر اللہ پر بھروسا کر۔ اس کے مقابلے میں دوسری مثال یہ ہے کہ انسان ذرائع سے بے بس و مجبور ہو اور اللہ پر بھروسا رکھے۔ جس طرح ایک بار آنحضرت ﷺصحرا میں کسی درخت کے سائے میں آرام فرما رہے تھے اور تلوار آپ ﷺنے درخت سے لٹکا رکھی تھی۔ دفعتہ ایک کافر آیا اور آپﷺ کی تلوار قبضے میں کرکے تلوار سونت کرکھڑا ہو گیا۔ آپ ﷺکی آنکھ کھلی تو کافر نے کہا۔ محمدﷺ! اب آپ کو میرے ہاتھ سے بچانے والا کون ہے؟تو آپ ﷺنے بے دریغ فرمایا۔ ’’میرا اللہ ‘‘۔ یہ سن کر کافر پر ایسی دہشت طاری ہوئی۔ کہ تلوار ہاتھ سے گر گئی۔ آپ ﷺنے تلوار اٹھالی ��ور فرمایا۔ اب تو بتا۔ تجھے میرے ہاتھ سے بچانے والا کون ہے؟۔ کافر فورا ایمان لے آیا۔
+رسول اللہ ﷺکے زمانے میں خندق کھودتے تھے۔ آج کل مورچے کھودتے ہیں۔ اصولا خندق اور مورچے میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں حفاظت کے لیے کھودی جاتی ہیں۔ مورچہ کھودتے وقت عموما سپاہیوں میں ایک خاص قسم کا جذبہ نمودار ہوتا ہے۔ جنگ خندق میں جب مدینہ کے گرد خندق کھودی جا رہی تھی تو مہاجرین و انصار خندق کھودتے۔ اپنی پیٹھ پر مٹی لادتے اوریہ کہتے جاتے۔ کہ ’’ ہم وہ ہیں جنھوں نے محمد صلعم سے جہاد اسلامی کی بیعت کی ہے۔ جب تک زندہ ہیں مسلمان رہیں گے ‘‘۔ اور رسول اللہ ﷺان کو جواب دیے جاتے۔ ’’ اے میرے اللہ آخرت کی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں۔ پس تو مہاجرین اور انصار میں برکت عطا فرما‘‘۔ رسول اللہ ﷺپتھر اٹھاتے جاتے اور فرماتے جاتے۔ لو لا ما اہتدیتنا۔’’ ہدائت اگر نہ کرتا۔ تونہ ملتی ہم کو راہ حق ‘‘۔ جنگ احزاب کے روز رسول اللہ ﷺمٹی اٹھاتے۔ مٹی سے آپ ﷺکے پیٹ کارنگ چھپ گیا تھا اور آپ ﷺ فرماتے جاتے تھے۔ ’’ اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے اورنہ نماز پڑھتے۔ پس تو ہم پر اطمینان نازل فرما اور جب ہم دشمن سے مقابلہ کریں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ بے شک ان لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے۔ جب یہ کوئی فساد کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی بات میں نہیں آتے ‘‘۔اگر کوئیکافرجنگ کے دوران موت کے خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے کیونکہ اسلام جنگ و جدل کا نہیں بلکہ امن و اصلاح کا دین ہے۔ احادیث میں تو یہاں تک تاکید ملتی ہے کہ اگر کوئی کافر سر پر لٹکتی تلوار دیکھ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے قتل سے ہاتھ روک لینا ضروری ہے۔ایک مرتبہ ایکصحابیایک کافر کو قتل کرنے ہی والے تھے کہ اس نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا، مگر صحابی نے اس کے کلمے کی پروا نہ کی اور اسے قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت الفاظ میں اس قتل کی مذمت کی اور صحابی کے اس قول پر کہ اس کافر نے محض جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا، ارشاد فرمایا:أفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ؟ (مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب تحريم قتل الکافر بعد أن قال لا إله إلا اﷲ، 1 : 96، رقم : 96)ترجمہ : کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس مقتول کے ورثاء کو پوری دیت ادا کرنے کا حکم فرمایا۔دشمن پر پینترے بدل بدل کر وار کرتے رہو اور اسے سنبھلنے کی مہلت نہ دو اور اگر کبھی خدانخواستہ تمھیں چشم زخم بھی لگ جائے تو ہمت نہ ہارو اور بد دل نہ ہو جاؤ۔ کیونکہ دشمن نے بھی اس مقابلے میں کافی نقصان اٹھایا ہو گا اور اس کا بھی جوڑ جوڑ درد کر رہا ہو گا۔ دشمن پر اس شدت سے بوجھ ڈالو اور اتنا بھر پور حملہ کرو اور اس طرح پئے در پئے حملے کرو کہ حوصلہ چھوڑ دے اور بوکھلا جائے۔ مسلمانوں کے شکست کھا کر دوبارہ جنگ پر آمادگی ظاہر کرنے کو اللہ تعالیٰ نے بہت پسند کیا ہے چنانچہ فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول ﷺ کے کہنے کو مان لیا بعد اس کے کہ ان کو چشم زخم لگ چکا تھا ان میں سے جو نیک اور متقی ہیں ان کے لیے اجر عظیم ہے۔ یہ واقع جنگ احد کا ہے جس میں مسلمانوں کو چشم زخم لگا۔ اور پھر تعاقب کے متعلق فرمایا ’’ مخالف قوم کے تعاقب میں ہمت نہ ہارو اگر تمھیں دکھ پہنچا تو وہ بھی دکھ اٹھائے ہوئے ہیں جیسے تم دکھ اٹھائے ہوئے ہو اور تم اللہ سے وہ امید لگائے ہوئے ہو جو وہ نہیں رکھتے ‘‘۔ یعنی تم کو تو اللہ کی نصرت اور آخرت کی بہتری کی توقع ہے اور تمھارے دل مضبوط ہیں حالانکہ وہ تو اس بات سے عاری ہیں ۔
+حتی الوسع اور بغیر شدید جنگی ضرورت کے دشمن کی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ تعمیر بہر حال تخریب سے اچھی ہے۔ ہاں البتہ اگر وہ املاک دشمن کے لیے فخر و غرور یا کفر و ظلم کا باعث ہو رہی ہوں اور یہ فخر و غروراور یہ کفر و ظلم اس شدت کا ہو کہ بغیر ان املاک کے ضائع کیے اس کاٹوٹنا محال ہو تو پھر ان املاک کو ضائع کر دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسا تو فقط نہایت سنگین حالات اور شدید جذبہء دینی ہی کی صورت میں ہو سکتا ہے اور چونکہ اس کا معیار مقرر کرنا مشکل ہے اس لیے آنحضورﷺ نے اور آپ ﷺ کے بعدحضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی مسلمان لشکروں کو دشمن کی املاک کوضائع کرنے سے منع فرمایا اوریہی طریق کار بعد میں آنے والے خلفائے راشدہؓ کے دور میں رہا البتہ ایسی چیزیں جن کو مسلمان خود استعمال نہ کر سکتے ہوں اور یہ ڈر ہو کہ وہ دشمن کے لیے جنگی تقویت کا باعث ہوں گی تو ان کے ضائع کر دینے میں ہرج نہیں۔
+جنگ خیبر میں صلح ہو جانے کے بعد جب اسلامی فوج کے بعض نئے رنگروٹ بے قابو ہو گئے اور انھوں نے غارت گری شروع کر دی تو یہودیوں کا سردار رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کرخت لہجہ میں آپ ﷺ کو مخاطب کرکے بولا۔ اے محمد ؑ! کیا تم کو زیبا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کرو ہمارے پھل کھا جاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فورا ابن عوفؓ کوحکم دیا کہ لشکر میں اجتمعو اللصلوۃ کی منادی کریں۔ جب تمام اہل لشکر جمع ہو گئے تو حضور ﷺ کھڑ ے ہوئے اور فرمایا۔ ’’ کیا تم میں سے کوئی شخص تخت غرور پر بیٹھا یہ سمجھ رہا ہے کہ اللہ نے سوائے ان چیزوں کے جو قران حکیم میں حرام کی گئی ہیں کوئی اور چیز حرام نہیں کی۔ خدا کی قسم!میں جو کچھ تم کو نصیحت کرتا ہوں اور جو امر و نہی کے احکا م دیتا ہوں وہ بھی قران کی طرح یا اس سے زیادہ ہیں۔ اللہ نے تمھارے لیے یہ جائز نہیں کیا ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں بلا اجازت گھس جاؤ۔ ان کی عورتوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جاؤ حالانکہ ان پر جو کچھ واجب تھا وہ تمھیں دے چکے ‘‘۔ ایک دفعہ سفر جہاد میں کچھ لوگوں نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا۔ آپ ﷺکو خبر ہوئی تو دیگچیاں الٹ دیں اور فرمایا۔ ’’لوٹ کھسوٹ کا مال مردار سے بہتر نہیں ‘‘۔
+فوجوں کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا، کھیتوں کو تباہ کرنا، بستیوں میں قتل عام کرنا اورآتش زنیکرنا، جنگ کے معمولات میں سے ہے مگر اسلام کی رو سے یہ سب کچھ فساد میں شامل ہے اور سختی کے ساتھ اسے ناجائز قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ جب وہ حاکم بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرے مگراللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ‘‘ ( البقرۃ 25 ) بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ’’ راستے میں دودھ دینے والے جانور مل جائیں تو ان کا دودھ دوہ کر پینا بھی جائز نہیں تاوقتیکہ ان کے مالکوں سے اجازت نہ لی جائے ‘‘۔ البتہ ضرورت کے وقت اس قدر اجازت دی گئی ہے کہ با آواز بلند تین مرتبہ پکارو تاکہ اگر کوئی مالک ہو تو آ جائے اور جب کوئی نہ آئے تو پی لو۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے شام و عراق کی جانب فوجیں بھیجتے ہوئے جو ہدایات دی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ بستیوں کو ویران نہ کرنا اور فصلوں کو خراب نہ کرنا ۔
+اسلام ��نیا میں آسودگی، آسانی اور فارغ البالی دیکھنا چاہتا ہے۔ دنیا کوتباہی اور بربادی کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ دنیا کی تعمیر بہر حال دنیا کی زبوں حالی سے بہتر ہے۔ اسی اصول کے ماتحت جنگ میں بھی مال و منال اور فصل و نسل کی تباہی سے حتی الوسع گریز و اجتناب کا سبق دیا گیا ہے۔ کوئی بھی مفید چیز اس وقت تک تباہ نہ کی جائے جب تک کہ کسی دینی، اخلاقی، سماجی یا جنگی مصلحت کا تقاضا نہ ہو۔ بنو نضیر کے محاصرے کے دوران بعض مسلمانوں نے کھجور کی ایک ادنی قسم کے درختوں کو اکھیڑنا شروع کیا توبنو نضیر( جو ایک یہودی قبیلہ تھا ) نے آنحضور ﷺ کو کہلا بھیجاکہ آپ ﷺ کا مذہب یہ اجازت دیتا ہے کہ درختوں کو کاٹا جائے تو اس پر آنحضور ﷺ اور مسلمان متفکر ہوئے مگر اللہ نے وحی کے ذریعے فرمادیا کہ جو لینہ (معمولی کھجور) کے درخت تم نے کاٹے وہ اللہ کے اذن سے تھا یعنی کاٹنے والوں کے سامنے جنگی مصلحت تھی لیکن اس کے بعد اس عمل کو ممنوع قرار دے دیا گیا ۔
+اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ اور جن اہل کتاب نے ان (کافروں) کی مدد کی تھی۔ (اللہ نے ) انھیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں تمھارا رعب بٹھا دیا پھر بعض کو تم قتل کرنے لگے اور بعض کو قید کر لیا اور تمھیں مالک بنا دیا۔ ان کی زمین کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے مال کا اور اس زمین کا بھی جس پر تم نے اب تک قدم نہیں رکھا ہے اور اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ ( الاحزاب 26۔ 27 ) اہل کتاب سے مراد یہاں یہود بنی قریظہ ہیں جو حوالیء مدینہ میں اپنے بڑے بڑے اور مضبوط قلعوں اور گڑھیوں میں قلعہ بند رہا کرتے تھے اور اس وقت تک مسلمانوں سے معاہدہ کیے ہوئے ان کے حلیف تھے بعد کو عہد شکنی کرکے قتل و اسارت دونوں کے مستحق پائے۔ اللہ تعالی نے یہ جو فرمایا ہے کہ اس زمین کا بھی جس پر تم نے اب تک قدم نہیں رکھا ہے یہ ایک پیشینگوئی ہے جواللہ تعالیٰ نے فرما دی۔ یہ اشارہ ہے قبائل یہود کی ساری زمینوں اور جائیدادوں کی طرف جو بالآخر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اور ان لفظوں کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ قیامت تک جو علاقہ بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔ سب اس میں داخل ہے ۔"
+293,بیت المقدس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DB%8C%D8%AA_%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%82%D8%AF%D8%B3,"بیت المقدس(عبرانی:בֵּית־הַמִּקְדָּשׁ،نقحر:بئیت־ہَمِقْدَش) سے مرادہیکل سلیمانیہے جو قدیمالقدسمیں واقع تھا جو موجودہمسجد اقصٰیاورقبۃ الصخرۃکا مقام ہے۔ ""بیت المقدس""سے مراد وہ ""مبارک گھر"" یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہوں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی ق م میں جبرومیوںنے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو انھوں نے اسےایلیاکا نام دیا تھا۔
+اب یہاں پر یہودیوں کی دھوکے سے قائم کی گئی ناجائز ریاست کا قبضہ ہے۔قبلہ اول اور عالم اسلام[مردہ ربط]| ایک اہم کالمقرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقی��ا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+295,1187ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1187%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+296,یورپ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE,"یورپیافرنگستان(انگریزی: Europe) دنیا کے سات روایتی براعظموں میں سے ایک ہے تاہمجغرافیہدان اسے حقیقیبراعظمنہیں سمجھتے اور اسےیوریشیاکا مغربیجزیرہ نماقرار دیتے ہیں۔ اصطلاحی طور پرکوہ یورالکے مغرب میں واقع یوریشیا کا تمام علاقہ یورپ یا فرنگستان کہلاتا ہے۔یورپ کے شمال میںبحر منجمد شمالی، مغرب میںبحر اوقیانوس، جنوب میںبحیرہ روماور جنوب مشرق میں بحیرہ روم اوربحیرہ اسودکو ملانے والے آبی راستے اورکوہ قفقازہیں۔ مشرق میں کوہ یورال اوربحیرہ قزوینیورپ اورایشیاکو تقسیم کرتے ہیں۔فرنگستانرقبےکے لحاظ سےآسٹریلیاکو چھوڑ کر دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کا رقبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر ہے جو زمین کے کل رقبے کا صرفدوفیصد بنتا ہے۔ یورپ سے بھی چھوٹا واحد براعظمآسٹریلیاہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ تیسرا سب سے بڑا براعظم ہے جس کی آبادی 71 کروڑ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 11 فیصد بنتا ہے۔Within the above-mentioned states are severalدرحقیقتindependent countries withمحدود تسلیم شدہ ریاستوں کی فہرست۔ None of them are members of the UN:Several dependencies and similar territories with broad autonomy are also found within or in close proximity to Europe. This includes Åland (aفن لینڈ کے علاقہ جات)، two constituent countries of the Kingdom of Denmark (other than Denmark itself)، threeتاج توابع، and twoبرطانوی سمندر پار علاقے۔ Svalbard is also included due to its unique status within Norway, although it is not autonomous. Not included are the threeمملکت متحدہ کے ممالکwith devolved powers and the twoپرتگال کے خود مختار علاقہ جات، which despite having a unique degree of autonomy, are not largely self-governing in matters other than international affairs. Areas with little more than a unique tax status, such asHeligolandand theجزائر کناری، are also not included for this reason."
+297,بیت المقدس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DB%8C%D8%AA_%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%82%D8%AF%D8%B3,"بیت المقدس(عبرانی:בֵּית־הַמִּקְדָּשׁ،نقحر:بئیت־ہَمِقْدَش) سے مرادہیکل سلیمانیہے جو قدیمالقدسمیں واقع تھا جو موجودہمسجد اقصٰیاورقبۃ الصخرۃکا مقام ہے۔ ""بیت المقدس""سے مراد وہ ""مبارک گھر"" یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہوں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی ق م میں جبرومیوںنے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو انھوں نے اسےایلیاکا نام دیا تھا۔
+اب یہاں پر یہودیوں کی دھوکے سے قائم کی گئی ناجائز ریاست کا قبضہ ہے۔قبلہ اول اور عالم اسلام[مردہ ربط]| ایک اہم کالمقرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•��مت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+298,1193ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1193%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+299,دمشق,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D9%85%D8%B4%D9%82,"دمشق(عربی:دِمَشْق)سوریہکادارالحکومتاوردنیاکے قدیم ترین شہروں میں سے ایک۔ اسے الشام بھی کہا جاتا ہے۔ سطح سمندر سے 2260 فٹ کی بلندی پر آباد ہے۔ اس کے چاروں طرف باغات اور مرغزار ہیں۔ جن کے گرد پہاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ زمانہ قدیم میں یہ شہر علی الترتیب آرمینی، آشوری اور اہل فارس کے زیر تسلط رہا۔ 333 ق م میں اسےسکندر اعظمنے تسخیر کیا اور 62 ق م میں یہرومی سلطنتکا صوبائی مرکز بنا۔635ء خلافتعمر فاروقرَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ میں اس شہر پراسلامی پرچملہرایا۔ 661ء تا 741ءخلافت امویہکا صدر مقام رہا۔عباسیوںنے بر سر اقتدار آنے کے بعدبغدادکو دار الخلافہ بنایا لیکن دمشق کی اہمیت پھر بھی باقی رہی۔صلیبی جنگوںکے دوران یہ شہر کافی عرصہ میدان کارزار بنا رہا۔ 1260ء میںہلاکو خاننے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ایک سو سال بعد اسےامیر تیمورنے فتح کیا۔ 1516ء میںعثمانی ترکاس پر قابض ہوئے۔ جبشامفرانسکی تولیت میں دیا گیا تو شہرحلب(Aleppo) کے ساتھ دمشق بھی ملک کا دار الحکومت رہا۔ 1946ء میں آزاد شام کا دار الحکومت بنا۔
+اس شہر کو یہ فخر حاصل ہے کہ تین عظیم اسلامی فاتحیننور الدین زنگی،صلاح الدین ایوبیاوررکن الدین بیبرسکی آخری آرام گاہیں یہاں موجود ہیں۔ دمشق دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے جو مسلسل آباد ہے۔"
+300,کرد,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D8%B1%D8%AF,کردکی اصط��احکردستانکے باشندوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ لوگ زیادہ ترایران،ترکی،عراقاورشاممیں رہتے ہیں۔کرد تین سو سالقبل مسیحسے ایران سے شام تک پھیلے ہوئے اس علاقہ میں آباد ہے جسے کرد کردستان کہتے ہیں۔ ساتویں صدی میں کرد مشرف بہ اسلام ہوئے تھے اور انہی میں سےصلاح الدین ایوبیابھرے تھے جنھوں نے صلیبی جنگوں میں اپنی فتوحات سے بڑا نام پیدا کیا۔پہلی عالم گیر جنگ سے پہلے کرد اس علاقہ میںسلطنت عثمانیہکے تحت خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے تھے سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعدمشرق وسطیمیں کئی نئی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں لیکن آزاد خود مختار مملکت کے بارے میں کردوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا حالانکہ انیس سو بیس کے سیورے کے معاہدہ میں جس کے تحت عراق شام اورکویتکی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں کردوں کی ایک آزاد مملکت کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ترکی میںمصطفیٰ کمال اتاترککے برسرِاقتدار آنے کے بعد ترکی نے اور اس کے ساتھ ایران اور عراق نے کردوں کی آزاد مملکت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ گو شمالی عراق میں کردوں کی آبادی ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن سب سے زیادہ تعداد ان کی ترکی میں ہے جہاں یہ ایک کروڑ اسی لاکھ کے قریب بتائے جاتے ہیں۔ شام میں ان کی تعداد اٹھائیس لاکھ ہے اور ایران میں اڑتالیس لاکھ کے قریب ہیں۔ ایران میں کردوں کی اکثریت آذربائی جان اور ہمدان کے علاقہ میں آباد ہے جسے ایرانی کردستان کہا جاتا ہے، کرد اسے مشرقی کردستان کہتے ہیں۔ایران میں کردوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ سترہویں صدی سے شروع ہوا تھا جب شاہ عباس نے کردوں کو بڑے پیمانہ پر زبردستی خراسان میں منتقل کر دیا۔ پھر انیس سو چھیالیس میں قاضی محمد کی قیادت میں بغاوت ہوئی اور کردوں نے مہا آباد جمہوریہ کے نام سے ایک الگ مملکت قائم کی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ قاضی محمد کو آخر کار کھلے عام پھانسی دی گئی۔رضا شاہ پہلوی کے دور میں کردوں کی زبان پر پابندی عائد کی گئی۔ اور سن اناسی کے اسلامی انقلاب کے بعدآیت اللہ خمینینے کردوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور بڑے پیمانے پر کرد علاقوں میں فوجی کارروائی کی گئی، آخر کار کردوں کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے۔ادھر شمالی عراق میں کردوں نے سن انیس سو ساٹھ سے انیس سو پچھتر تک مصطفیٰ برزانی کی قیادت میں بغاوت کی جس کے نتیجہ میں انھیںخود مختاریحاصل ہوئی لیکن انیس سو اکانوے میں کردوں کی بغاوت کے بعدصدام حسینکی حکومت نے اس علاقہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور کردوں پر سخت مظالم توڑے۔عراق میں گو صدام حسین کے زوال کے بعد کردوں کو نئے آئین کے تحت خود مختاری حاصل ہو گئی تھی اور ان کی علاقائی پارلیمنٹ بھی تسلیم کر لی گئی تھی۔ عراق کی جنگ کے بعد امریکیوں نے ان کے تیل سے مالا مال علاقہ کی وجہ سے ان پر دست شفقت رکھا تھا لیکن نہ جانے پھرکیوں ہاتھ کھینچ لیا۔ پچھلے دنوں کردوں نے اپنی آزاد خود مختار مملکت کے قیام کے لیے ریفرینڈم کا بھی انعقاد کیا تھا جسے عراقی حکومت نے مسترد کر دیا اور فوج کشی کر کے کردوں کی آزادی کے سارے خواب چکنا چور کر دئے۔یہی وجہ ہے کہ کردوں کی تاریخ ایران اور عراق میں بغاوتوں سے عبارت ہے۔ ترکی میں کردوں نے انیس سو پچیس میں شیخ سعید کی قیادت میں بغاوت کی تھی جس کے بعد ترکی کی حکومت نے کردوں کے خلاف نہایت سخت گیر پالیسی اختیار کی اور ان کی زبان اور ثقافت ختم کرکے پہاڑی ترک قرار دیا۔ پہاڑی ترک قرار دے کر انھیں ترک معاشرہ میں ضم کرنے کی مہم شروع کردی۔1978ء ��یں ترکی کے کردوں نے جب آزادی اور خود مختاری کی تحریک شروع کی تو بڑے پیمانہ پر ترکی کی حکومت اور کردوں کے درمیان معرکہ آرائی بھڑک اٹھی ۔ اس تحریک میں علحدگی پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی PKK پیش پیش تھی۔ یہ تحریک ترکی کی معیشت کے لیے بے حد تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس دوران ترکی کی معیشت کو 450 ارب ڈالر کا خسارہ ہوا۔ آخر کار اس تحریک کے قائد عبد اللہ اوجلان نے 2015ء میں تحریک ختم کرنے کا اعلان کیااور یہ معرکہ آرائی ختم ہوئی۔کردستان کے علاقہ کے باہر پوری دنیا میں ایک کروڑ سے زیادہ کرد پھیلے ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر وہ ہیں جنھوں نے ترکی، عراق اور ایران میں ظلم و ستم سے فرار ہو کر پناہ لی ہے۔ ان کردوں کا کہنا ہے کہ یہ کس قدر حیرت اور تاسف کی بات ہے کہ ان کے کرد قائد صلاح الدیں ایوبی نے تو ایران سے لے کرشمالی افریقہتک ایک بڑی تعداد میں ملکوں کو آزادی کی نعمت سے سرشار کیا، لیکن ان کی قوم ابھی تک اپنی آزادی کے لیے تڑپ رہی ہے۔
+301,ترک,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%B1%DA%A9,"ترکایک قدیم قوم ہے جو وسطی ایشیا اور ترکی میں آباد ہے۔ یہ لوگترکی زباناور اس کی قریبی زبانیں بولتے ہیں۔ آج کل ان کی زیادہ آبادیترکیہ،ازبکستان،ترکمانستاناورکرغیزستانمیں رہتی ہے۔قازقستانکی بھی کچھ آبادی ترکی النسل ہے۔This list includesمنحصر علاقہwithin theirخود مختار ریاستوں کی فہرست(including uninhabited territories), but does not include claims onانٹارکٹکا. EEZ+TIA is exclusive economic zone (EEZ) plusفہرست ممالک بلحاظ رقبہ(TIA) which includes land and internal waters.ترک قوم دنیا کے مختلف مقامات پر آباد ہے۔ ذیل کی جدول میں ترک آبادی، ممالک اورمردم شماریدی گئی ہے۔ (ملین میں) :"
+302,عرب قوم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%B1%D8%A8_%D9%82%D9%88%D9%85,"خطہ عرب کے لیے دیکھیےجزیرہ نمائے عربــعرب جسے عرب لوگ بھی کہتے ہیں ایکنسلی گروہاورقومہے جو بنیادی طور پرمغربی ایشیا،شمالی افریقہ،قرن افریقااورمغربی بحر ہند کے جزیروں(بشمولاتحاد القمری) میںعرب دنیامیں آباد ہے۔قرآن،توریتاوربائبلکے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب حضرتنوحعلیہ السلام کے صاحبزادےسامکی اولاد میں سے ہیں۔عربوں کو تین طبقوں میں تقسیم کیا گیا ہے:یہ عرب کے وہ پرانے باشندے ہیں جن کا اب نام و نشان نہیں رہا۔ ان میں عاد، ثمود، جدیس، طسم، عمالقہ، اُ میم، جُرہم اور جاسم شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر اللہ سبحانہ و تعالٰیٰ کے عذاب کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے ۔یہ قدیم عرب لوگ ہیں جو اس ملک میں آباد تھے.. ان میں قوم عاد و ثمود اوران کے علاوہ عمالقہ ' طسم ' جدیس ' امیم وغیرہ بھی اہم ہیں.. ان لوگوں نے عراق سے لے کر شام اور مصر تک سلطنتیں قائم کرلی تھیں.. بابل اور اشور کی سلطنتوں اور قدیم تمدن کے بانی یہی لوگ تھے..یہ قومیں کیسے صفحہ ھستی سے مٹ گئیں اس کے متعلق تاریخ ہمیں تفصیل سے کچھ بتانے سے قاصر ہے.. لیکن اب بابل ' مصر ' یمن اور عراق کے آثار قدیمہ سے انکشافات ھورھے ہیں اور کتابیں لکھی جارھی ہیں.. جبکہ قوم عاد و ثمود کے حوالے سے قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ یہ قومیں اللہ کی نافرمانی اور سرکشی میں جب حد سے بڑھ گئیں تو ان کو عذاب الہی نے گھیر لیا اور یہ نیست و نابود ھوگئیں..یہ یمن اور اس کے قرب و جوار کے باشندے ہیں اوربنو قحطانکہلاتے ہیں۔ بنو جرہم اور بنو یعرب انہی کی شاخیں ہیں۔ بنو یعرب میں سے عبد ِ شمس جو سبائی کے نام سے مشہور ہے یمن کے تمام قبیلوں کا جد امجد ہے۔ اسی نے یمن کا مشہور شہر معارب بسایا تھا اور وہاں تین پہاڑیوں کے درمیان میں ایک بہت بڑا بند بان��ھا تھا۔ اس بند میں بہت سے چشموں کا پانی آ کر جما ہوتا تھا جس سے بلند مقامات کے کھیتوں اور باغوں کو سیراب کیا جاتا تھا۔یہ بند کچھ مدت بعد کمزور ہو کر ٹوٹ گیا تھا جس سے سارے ملک میں بہت بڑا سیلاب آ گیا تھا اس سیلاب کا ذکر قرآن کریم میں بھی آ یا ہے اور عرب کی کہانیوں اور شعروں میں بھی جا بجا موجود ہے۔ اس سیلاب سے تباہ ہو کر یمن کے اکثر خاندان دوسرے مختلف مقامات پر جا بسے تھے۔عرب عاربہ کو بنو قحطان بھی کہا جاتا ہے.. یہ حضرت نوح علیہ سلام کے بیٹے سام بن نوح کی اولاد سے ہیں اور یہ لوگ قدیم عرب (عاد ثمود وغیرہ) کی تباھی اور جزیرہ نما عرب سے مٹ جانے کے بعد یہاں آباد ھوئے..قحطان حضرت نوح علیہ سلام کا پوتا تھا جس کے نام پر یہ لوگ بنو قحطان کہلائے.. پہلے پہل یہ لوگ یمن کے علاقے میں قیام پزیر ھوئے.. مشہور ملکہ سبا یعنی حضرت بلقیس کا تعلق بھی بنو قحطان کی ایک شاخ سے تھا.. پھر ایک دور آیا کہ بنو قحطان کو سرزمین عرب کے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی بھی کرنا پڑی.. اس کی ایک وجہ تووہ مشہور سیلاب ہے جو ""مارب بند "" ٹوٹ جانے کی وجہ سے آیا جس کے نتیجے میں ان لوگوں کو جان بچانے کے لیے دوسرے علاقوں کا رخ کرنا پڑا.. اس سیلاب کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے..اور دوسری وجہ یہ کہ جب ان کی آبادی پھیلی تو مجبورا"" ان کے مختلف قبائل کو یمن سے نکل کر اپنے لیے نئے علاقے ڈھونڈنا پڑے.. جس کے نتیجے میں یہ لوگ جزیرہ نما عرب کے طول و عرض میں پھیل گئے.. جبکہ کچھ قبائل شام و ایران اور عرب کے سرحدی علاقوں کی طرف بھی نکل گئے اور وھاں اپنی آبادیاں قائم کیں.. جبکہ ایک قبیلہ بنو جرھممکہکی طرف جا نکلا اور زم زم کے چشمے کی وجہ سے حضرت ابراھیم علیہ سلام کی زوجہ حضرت ھاجرہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے وھاں آباد ھوگیا..بنو قحطان کا ہی ایک قبیلہ آزد کا سردار ثعلبہ اپنے قبیلہ کے ساتھیثرب(مدینہ ) کی طرف آیا اور یہاں جو چند خاندان بنیاسرائیلکے رھتے تھے انھیں مغلوب کر لیا.. قلعے بنائے اور نخلستان لگائے.. اسی کی اولاد سے اوس اور خزرج مدینہ کے دو مشہور قبیلے تھے جن کا تاریخ اسلام میں بہت اونچا مقام ہے۔قحطانی عرب کا اصل گہوارہ ملک یمن تھا۔ یہیں ان کے خاندان اور قبیلے مختلف شاخوں میں پھوٹے، پھیلے اور بڑھے۔ ان میں سے دو قبیلوں نے بڑیشہرتحاصل کی۔(الف)حمیر۔ ۔ جس کی مشہور شاخیں زید الجمہور، قضاعہ اور سجا سک ہیں۔(ب) کہلان۔ ۔ جن کی مشہور شاخیں ہمدان، انمار، طی، مذجج، کندہ، لخم، جذام، ازد، اوس، خزرج اور اولاد جفہ ہیں، جنھوں نے آگے چل کر ملک شام کے اطراف میں بادشاہت قائم کی اور آل غسّان کے نام سے مشہور ہوئے۔عام کہلانی قبائل نے بعد میں یمن چھوڑ دیا اور جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں پھیل گئے۔ ان کے عمومی ترک وطن کا واقعہ سیل عرم سے کسی قدر پہلے اس وقت پیش آیا جب رومیوں نے مصر و شام پر قبضہ کر کے اہل یمن کی تجارت کے بحری راستے پر اپنا تسلّط جما لیا اور برّی شاہراہ کی سہولیات غارت کر کے اپنا دباؤ اس قدر بڑھا دیا کے کہلانیوں کی تجارت تباہ ہو کر رہ گئی۔ کچھ عجب نہیں کہ کہلانی اور حمیری خاندانوں میں چشمک بھی رہی ہو اور یہ بھی کہلانیوں کے ترک وطن کا مؤثر سبب بنی ہو۔ اس کا اشارہ اس سے بھی ملتا ہے کہ کہلانی قبائل نے تو ترک وطن کیا لیکن حمیری قبائل اپنی جگہ برقرار رہے۔جن کہلانی قبائل نے ترک وطن کیا ان کی چار قسمیں کی جا سکتی ہیں۔1۔ ازد۔ ۔ انھوں نے اپنے سردار عمران بن عمرو مزیقیاء کے مشورے پر ترک وطن کیا۔ پہلے تو یہ یمن ہی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے اور حالات کا پتہ لگانے کے لیے آگے آگے ہراول دستوں کو بھیجتے رہے لیکن آخر کار شمال کا رخ کیا اور پھر مختلف شاخیں گھومتے گھماتے مختلف جگہ دائمی طور پر سکونت پزیر ہو گئیں۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ثعلبہ بن عمرو: اس نے اولاًحجازکا رخ کیا اور ثعلبیہ اور ذی وقار کے درمیان اقامت اختیار کی۔ جب اس کی اولاد بڑی ہو گئی اور خاندان مضبوط ہو گیا تو مدینہ کی طرف کوچ کیا اور اسی کو اپنا وطن بنا لیا۔ اسی ثعلبہ کی نسل سے اوس اور خزرج ہیں جو ثعلبہ کی صاحبزادے حارثہ کے بیٹے ہیں۔حارثہ بن عمرو: یعنی خزاعہ اور اس کی اولاد۔ یہ لوگ پہلے سرزمین حجاز میں گردش کرتے ہوئے مرّا الظہران میں خیمہ زن ہوئے، پھر حرم پر دھاوا بول دیا اور بنو جرہم کو نکال کر خود مکہ میں بو دو باش اختیار کر لی۔عمران بن عمرو: اس نے اور اس کی اولاد نے عمان میں سکونت اختیار کی اس لیے یہ لوگ ازد عمان کہلاتے ہیں۔نصر بن ازد: اس سے تعلق رکھنے والے قبائل نےتہامہمیں قیام کیا۔ یہ لوگ ازد شنوءۃ کہلاتے ہیں۔جفنہ بن عمرو: اس نے ملک شام کا رخ کیا اور اپنی اولاد سمیت وہیں متوطن ہو گیا۔ یہی شخص غسّانی بادشاہوں کا جدّ اعلیٰ ہے۔ انھیں آل غسّان اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے شام منتقل ہونے سے پہلے حجاز میں غسّان نامی ایک چشمے پر کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔2- لخم و جذام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انھی لخمیوں میں نصر بن ربیعہ تھا جو حیرہ کے شاہان آل منذر کا جدّ اعلیٰ ہے۔3- بنو طی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس قبیلے نے بنو ازد کے ترک وطن کے بعد شمال کا رخ کیا اور اجاء اور سلمیٰ نامی دو پہاڑیوں کے اطراف میں مستقل طور پر سکونت پزیر ہو گیا۔ یہاں تک کے یہ دونوں پہاڑیاں قبیلہ طی کی نسبت سے مشہور ہو گئیں۔4- کندہ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ پہلے بحرین۔ ۔ موجودہ الاحساء۔ ۔ میں خیمہ زن ہوئے، لیکن مجبوراً وہاں سے دستکش ہو کر حضر الموت گئے مگر وہاں بھی امان نہ ملی اور آخرکار نجد میں ڈیرے ڈالنے پڑے۔ یہاں ان لوگوں نے ایک عظیم الشّان حکومت کی داغ بیل ڈالی، مگر یہ حکومت پائیدار ثابت نہیں ہوئی اور اس کے آثار جلد ہی ناپید ہو گئے۔کہلان کے علاوہ حمیر کا بھی صرف ایک قبیلہ قضاعہ ایسا ہے۔ ۔ اور اس کا حمیری ہونا بھی مختلف فیہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے یمن سے ترک وطن کر کے حدود عراق میں بادیۃ السماوہ کے اندر بود و باش اختیار کی۔ (1)یہ حجاز اور نجد وغیرہ کے باشندے ہیں اور حضرتاسماعیل علیہ السلامکی اولاد میں ہیں۔ ان میں بہت سے قبیلے ہیں جن میں، ربیعہ اور مُضَر مشہور ہیں۔ مُضَر ہی کی ایک شاخ قریش بھی ہے جس میں نبی عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تعلق ہے۔ عربِ مستعربہ کو،بنو عدنانبھی کہتے ہیں۔سرزمین عرب پر سب سے آخر میں آباد ھونے والے بنو اسمائیل تھے.. انہی کو عرب مستعربہ بھی کہا جاتا ہے.. حضرت ابراھیم علیہ سلام نے اللہ کے حکم پر اپنی زوجہ حضرت ھاجرہ اور شیرخوار بیٹے حضرت اسمائیل علیہ سلام کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں لا بسایا.. اور خود واپس چلے گئے..یاد رہے کہ اس وقت نہ مکہ کی آبادی تھی اور نہ خانہ کعبہ کا وجود.. خانہ کعبہ ویسے تو حضرت آدم علیہ سلام کے وقت تعمیر ھوا مگر خانوادہ ابراھیم علیہ سلام کی ھجرت کے وقت وہ تعمیر معدوم ھوچکی تھی اور پھر بعد میں جب حضرت اسمائیل علیہ سلام کی عمر 15 سال کی تھی تو حضرت ابراھیم علیہ سلام مکہ تشریف لائے تھے اور ان دونوں باپ بیٹے نے مل کر اللہ کے حکم پر اور حضرتجبرائیلعلیہ سلام کی راھنمائی اور نگرانی میںخانہ کعبہکو انہی بنیادوں پر ازسر نو تعمیر کیا جن پر کبھی حضرتآدمعلیہ سلام نے بنایا تھااسلام میں اس امر کی تشریح تو نہیں کی گئی کہ عرب کون ہے تاہمقرآنمجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے:""کسی عربی کو عجمی (غیر عرب) پر برتری حاصل نہیں لیکن تقوی کی بدولت""
+حضرتمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی احادیث سے علم ہوتا ہے کہ وہ شخص عربی ہے جو عربی زبان بولتا ہے۔جینیاتی طور پر عربی وہ شخص ہے جس کے آبا و اجدادجزیرہ نما عربیاصحرائے شاممیں رہتے تھے۔سیاسی طور پر وہ شخص عربی کہلاتا ہے جو کسی ایسے ملک کا باشندہ ہے جہاں عربیقومی زبانہے یا ملکعرب لیگکا رکن ہے۔عربوں کی اکثریت کا مذہباسلامہے اورمسیحیاقلیت میں ہیں جبکہ عربیہودیبھی پائے جاتے ہیں۔ عرب مسلمانسنی،شیعہ،علویاسماعیلیاور دیگر فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ عرب مسیحی مشرق گرجوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں کوپٹک، میرونائٹ، گریک آرتھوڈوکس اور گریک کیتھولک شامل ہیں۔ظہور اسلام سے قبل اکثر عرب بت پرستی کرتے تھے اور ان کے بڑے بتوں میں ہبل، لات، منات اور عزی شامل تھے۔ چند قبائل مسیحیت اور یہودیت کو مانتے تھے تاہم چند حنیف بھی تھے جو توحید کے قائل تھے۔آج کل عربوں کی اکثریت سنی اسلام کو مانتی ہے اور شیعہبحرین، جنوبیعراق،سعودی عربسے ملحق علاقوں، جنوبیلبنان،شامکے علاقوں، شمالییمن، جنوبیایراناوراومانکے باطنی علاقوں میں ہیں۔"
+304,بازنطیوم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%B2%D9%86%D8%B7%DB%8C%D9%88%D9%85,"بازنطیومیابوزنطہیابیزنطہیابیزانطیون(انگریزی: Byzantium / Byzantion) (قدیم یونانی: Βυζάντιον،Byzántion) ایکقدیم یونانینوآبادیتھی جو بعد میںقسطنطنیہاور پھراستنبولبنی۔بیزاس(انگریزی: Byzas)
+(قدیم یونانی: Βύζας,Býzas)یونانی اساطیرمیں ایک کردار ہے جسےبازنطیوم(قدیم یونانی: Βυζάντιον,Byzántion) کا بانی تصور کیا جاتا ہے"
+305,قسطنطنیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%B3%D8%B7%D9%86%D8%B7%D9%86%DB%8C%DB%81,"قسطنطنیہ(Constantinople) سن330ءسے395ءتک رومی سلطنت اور395ءسے1453ءتکبازنطینی سلطنتکادارالحکومترہا اور1453ءمیںفتح قسطنطنیہکے بعد سے1923ءتکسلطنت عثمانیہکا دار الخلافہ رہا۔فتح قسطنطنیہکے بعدسلطان محمد فاتحنے اس شہر کا نام اسلام بول رکھا مگر ترکوں کو اسلام بول بولنے میں مشکل ہوتی تھی تو وہ اسے استنبول کہتے تھے اس وجہ سے اس کا نام استنبول پڑا۔ شہریورپاورایشیاکے سنگم پرشاخ زریںاوربحیرہ مرمرہکے کنارے واقع ہے اورقرون وسطیمیں یورپ کا سب سے بڑا اور امیر ترین شہر تھا۔ اس زمانے میں قسطنطنیہ کو Vasileousa Polis یعنی شہروں کی ملکہ کہا جاتا تھا۔تاریخ میں قسطنطنیہ نے کئی نام اختیار کیے جن میں سے بازنطین، نیو روم (نووا روما)، قسطنطنیہ اور استنبول مشہور ہیں۔ شہر کا سب سے پہلا نام بازنطین ہے، یہ نام اسے میگارا باشندوں نے تقریباً600 ق-م میں اس کے قیام کے وقت دیا تھا۔ شہر کا موجودہ نام استنبول ہے۔667 قبل مسیح میںیونانکی توسیع کے ابتدائی ایام میں شہر کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس وقت شہر کو اس کے بانی بائزاس کے نام پر بازنطین کا نام دیا گیا۔ 11 مئی 330ء کوقسطنطینکی جانب سے اسی مقام پر نئے شہر کی تعمیر کے بعد اسے قسطنطنیہ کا نام دیا گیا۔363ء سے رومی سلطنت کے دو حصوں میں تقسیم کے باعث قسطنطنیہ کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا۔ 376ء میںجنگ ادرنہمیں رومی افواج کی گوتھ کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعدتھیوڈوسسنے شہر کو 60 فٹ بلند تین فصیلوں میں بند کر دیا۔ اس فصیل کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بارود کی ایجاد تک اسے توڑا نہ جاسکا۔ تھی��ڈوسس نے27فروری 425ء میں شہر میں ایک جامعہ بھی قائم کیا۔7ویں صدی میں آوارز اور بعد ازاں بلغار قبائل نےبلقانکے بڑے حصے کو تہس نہس کر دیا اور مغرب سے قسطنطنیہ کے لیے بڑا خطرہ بن گئے۔ اسی وقت مشرق میںساسانیوںنےمصر،فلسطین،شاماورآرمینیاپر قبضہ کر لیا۔ اس مو قع پرہرقلنے اقتدار پر قبضہ کرکے سلطنت کو یونانی رنگ دینا شروع کیا اور لاطینی کی جگہ یونانیقومی زبانقرار پائی۔ ہرقل نےساسانی سلطنتکے خلاف تاریخی مہم کا آغاز کیا اور انھیں عظیم شکست دی اور 627ءمیں تمام علاقے واپس لے لیے۔اسی دوراناسلامقبول کرنے والےعربوںکی طاقت ابھری جس نےفارسمیں ساسانی سلطنت کا خاتمہ کرنے کے بعدبازنطینی سلطنتسےبین النہرین(میسوپوٹیمیا)، شام، مصر اور افریقہ کے علاقے چھین لیے۔عربوں نے دو مرتبہ 674ءاور 717ءمیں قسطنطنیہ کا ناکام محاصرہ کیا۔ دوسرا محاصرہ زمینی اور سمندری دونوں راستوں سے کیا گیا۔ اس میں ناکامی سے قسطنطنیہ کونئی زندگی ملی اور مسیحی اسے اسلام کے خلاف مسیحیت کی فتح تصور کرتے ہیں۔گیارہویں صدیکے بازنطینی سلطنت بتدریج زوال کی جانب گامزن رہی خصوصاًجنگ ملازکردمیںسلجوقیحکمرانالپ ارسلانکے ہاتھوں حیران کن شکست کے بعد رومی فرمانروارومانوس چہارمکو گرفتار کر لیا گیا اور چند شرائط پر رہا کر دیا گیا۔ واپسی پر رومانوس کو قتل کر دیا گیا اور نئے حکمران مائیکل ہفتم ڈوکاس نے سلجوقیوں کو خراج دینے سے انکار کر دیا۔ جس کے جواب میں ترک افواج نے چڑھائی کرتے ہوئےاناطولیہکا بڑا حصہ فتح کر لیا اوربازنطینی سلطنتکو 30 ہزار مربع میل رقبے سے محروم کر دیا۔صلیبی جنگ کے دوران 13اپریل 1204ءکو صلیبی افواج نے اپنے ہی شہر قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا اور شہر کو شدید نقصان پہنچایا۔ 1261ءمیں بازنطینی افواج نے مائیکل ہشتم پیلولوگس کی زیر نگرانی لاطینی حکمران بالڈوین ثانی سے قسطنطنیہ واپس حاصل کر لیا۔مکمل مضمون کے لیے دیکھیےفتح قسطنطنیہ29مئی 1453ءکو سلطنت عثمانیہ کے فرمانرواسلطان محمد فاتحکے ہاتھوں بازنطینی سلطنت کے ساتھ قسطنطین یازدہم کی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا اور قسطنطنیہ ملت اسلامیہ کے قلب کے طور پر ابھرا۔ شہر کے مرکزی گرجےایاصوفیہکو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا اور شہر میں مسیحیوں کو پرامن طور پر رہنے کی کھلی اجازت دی گئی۔ فتح قسطنطنیہ تاریخ اسلام کا ایک سنہری باب ہے جبکہ مسیحی اسے ""سقوط قسطنطنیہ"" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔شہر 470 سال تکسلطنت عثمانیہکا دار الحکومت رہا اور 1923ءمیںمصطفی کمال اتاترکنےانقرہکو نئیترک جمہوریہکا دار الحکومت قرار دیا اور قسطنطنیہ کا ناماستنبولرکھ دیا گیا۔قسطنطنیہ کے یادگار تعمیراتآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ pallasweb.com(Error: unknown archive URL)ایاصوفیہ کی کاشی کارینقشہ، دلچسپ مقامات کی نشان دہی کے ساتھآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ istan-bul.org(Error: unknown archive URL)"
+306,ترکیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%8C,"ترکیہ[ا]رسمی طور پرجمہوریہ ترکیہ[ب]بنیادی طور پرمغربی ایشیامیںاناطولیہمیں ایک ملک ہے، جس کا ایک چھوٹا حصہجنوب مشرقی یورپمیںمشرقی تھریسکہلاتا ہے۔
+اس کی سرحد شمال میںبحیرہ اسودسے ملتی ہے۔ مشرق میںجارجیا،آرمینیا،آذربائیجاناور جنوب میںایران،عراق،سوریہ، اوربحیرہ روم(اورقبرص)؛ اور مغرب میںبحیرہ ایجیئن،یوناناوربلغاریہسے ملتی ہے۔
+ترکیہ 85 ملین سے زیادہ لوگوں کا گھر ہے۔ زیادہ تر نسلی ترک ہیں، جبکہ نسلی کرد سب سے بڑی نسلی اقلیت ہیں۔[4]سرکاری طور پر ایک سیکولر ریاس��، ترکیہ میںمسلماکثریتی آبادی ہے۔انقرہترکیہ کادار الحکومتاور دوسرا بڑاشہرہے۔استنبولاس کا سب سے بڑا شہر ہے، اور اس کا اقتصادی اور مالیاتی مرکز، نیزیورپکا بھی سب سے بڑا شہر ہے۔ دیگر بڑے شہروں میںازمیر،بورصہاورانطالیہشامل ہیں۔انسانیرہائش کا آغازبالائی قدیم سنگی دوراواخر میں ہوا تھا۔گوبیکلی تپہجیسے اہم سنگی دور مقامات کا گھر اور کچھ قدیم ترین کاشتکاری والے علاقے، موجودہ ترکیہ میں مختلف قدیم لوگ آباد تھے۔[11][12][13]حتییوںکواناطولیہکے لوگوں نے ضم کر لیا تھا۔[14][15]کلاسیکی اناطولیہمیںسکندر اعظمکی فتوحات کے بعد ثقافتی ہیلنائزیشن میں تبدیل ہوا؛[16][17]سلجوق ترکوں نےگیارہویں صدیمیںاناطولیہکی طرف ہجرت شروع کر دی، جس سےترک سازیکا عمل شروع ہوا۔[17][18]سلاجقہ رومنے1243ءمیںمنگولحملے تکاناطولیہپر حکومت کی، جب یہ ترکی کی سلطنتوں میں بٹ گئی۔[19]1299ءمیں شروع ہو کر،عثمانیوںنےسلطنتوںکو متحد کیا اور توسیع کی۔محمد فاتحنے1453ءمیںاستنبولکو فتح کیا۔سلیم اولاورسلیمان اولکے دور میں،سلطنت عثمانیہایک عالمی طاقت بن گئی۔[20][21]1789ءکے بعد سے، سلطنت نے بڑی تبدیلی،اصلاحاتاور مرکزیت دیکھی جب کہ اس کے علاقے میںکمیواقع ہوئی۔[22][23]انیسویں صدیاوربیسویں صدیکے اوائل میں، عثمانی تخفیف اورروسی سلطنتکے دورانمسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستمکے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا اوربلقان،قفقازاورکریمیاسے جدید دور کے ترکیہ میں بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی۔[24]تین پاشاوںکے کنٹرول میں،سلطنت عثمانیہ1914ءمیںپہلی جنگ عظیممیں داخل ہوئی، جس کے دوران عثمانی حکومت نے اپنے آرمینیائی، یونانی اور آشوری رعایا کے خلاف نسل کشی کی۔[25][26][27]عثمانی شکست کے بعد،ترک جنگ آزادیکے نتیجے میں سلطنت کے خاتمے اورمعاہدہ لوزانپر دستخط ہوئے۔
+جمہوریہ کا اعلان29 اکتوبر1923ءکو کیا گیا تھا، جو ملک کے پہلے صدرمصطفٰی کمال اتاترککی طرف سے شروع کی گئی اصلاحات پر مبنی تھا۔دوسری جنگ عظیمکے بیشتر دوران ترکیہ غیر جانبدار رہا،[28]لیکنکوریا جنگکی میں شامل رہا۔1960ءاور1980ءمیں بغاوتوں نے کثیر جماعتی نظام کی منتقلی میں خلل ڈالا۔[29]ترکیہ ایکاعلیٰ متوسط آمدنیوالا اورابھرتاہوا ملک ہے۔ اس کی معیشت برائے نام کے لحاظ سےدنیا کی 18 ویںسب سے بڑی اورمساوی قوت خریدکے مطابقخام ملکی پیداوارکے لحاظ سے 11 ویں سب سے بڑی ہے۔ یہ ایکوحدانیصدارتی جمہوریہ ہے۔ ترکیہانجمن اقتصادی تعاون و ترقی،جی 20، اورترک ریاستوں کی تنظیمکا بانی رکن ہے۔ جغرافیائی طور پر اہم مقام کے ساتھ، ترکی ایک علاقائی طاقت ہے[30]اورنیٹوکا ابتدائی رکن ہے۔یورپی یونینامیدوار، ترکیہیورپی یونینکسٹمز یونین،یورپ کی کونسل،تنظیم تعاون اسلامی، اورترک سوئےکا حصہ ہے۔ترکیہ میں ساحلی میدان، ایک اعلیٰ مرکزیسطح مرتفعاور مختلف پہاڑی سلسلے ہیں۔ اس کیآب و ہوامعتدل ہے اور اندرونی حصے میں سخت حالات ہیں۔[31]تینحیاتی تنوع علاقہکا گھر، ترکیہ اکثر زلزلوں کا شکار رہتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔[32]ترکیہ اکثر زلزلوں کا شکار رہتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔[33][34]ترکیہ میں وفاقی صحت کی دیکھ بھال، تعلیم تک بڑھتی ہوئی رسائی،[35]اور بڑھتی ہوئی جدت پسندی ہے۔[36]یہ ایک سرکردہٹی وی موادبرآمد کنندہ ہے۔[37]21 یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات، 30 یونیسکو کے غیر محسوس ثقافتی ورثے کے نوشتہ جات، v اور ایک بھرپ��ر اور متنوع کھانوں کے ساتھ،[38]ترکیہ دنیا کاپانچواںسب سے زیادہ دیکھا جانے والا ملک ہے۔تورچیا، جس کا مطلب ہے ""ترکوں کی سرزمین""،اناطولیہکے لیےبارہویں صدیکے آخر تک یورپی متن میں استعمال ہونا شروع ہو گیا تھا۔[39][40][41]ترکی زبانوںمیں ایک لفظ کے طور پر، ترک کا مطلب ہو سکتا ہے ""مضبوط، طاقت، پکا ہوا"" یا ""پھلتا ہوا، پوری طاقت میں""۔[42]اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے جیسے کسی پھل کے لیے پکا ہوا ہو یا کسی شخص کے لیے ""زندگی کے عروج میں، جوان اور جوش""۔[43]ایک نسلی نام کے طور پر،اشتقاقیاتابھی تک نامعلوم ہے.[44]چھٹی صدیمیں چینی جیسی زبانوں میں استعمال کے علاوہ،[45]ترک زبانوں میں ترک (𐱅𐰇𐰺𐰜 tür̲k̲ یا 𐱅𐰇𐰼𐰚 türk/tẄrk) کا سب سے قدیم تذکرہ ترک زبان دوسریخانیتسے آتا ہے۔[46]وسطی انگریزیترکیے (Turkye) کے استعمال کا ثبوتجیفری چوسرکی دی بک آف ڈچس ( 1369ء) میں ملتا ہے۔
+جدید ہجے ترکی (Turkey) کم از کم1719ءکا ہے۔[47]ترکیہ کا نامسلطنت عثمانیہکی تعریف کے لیے متعدد بین الاقوامی معاہدوں کے متن میں استعمال ہوا ہے۔[48]الیگزینڈروپول کے معاہدے کے ساتھ، نامترکیہ(Türkiye) پہلی بار بین الاقوامی دستاویزات میں داخل ہوا۔1921ءمیںامارت افغانستانکے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں،سلطنت عثمانیہکے نام کی طرح ڈیولٹ-آئی الیائی-ای ترکئیے ('بہترین ترک ریاست') کا استعمال کیا گیا تھا۔[49]دسویں صدیمیںبازنطینیذرائع میں، تورکیا (یونانی زبان): Τουρκία) دوقرون وسطیکی ریاستوں کی تعریف کے لیے استعمال کیا گیا تھا:مجارستان(مغربی تورکیا)؛ اورخزر(مشرقی تورکیا)۔[50][51]سلطنت مملوکاپنی ترک نژاد حکمران اشرافیہ کے ساتھ، ""دولت ترکیا"" کہلاتی تھی۔[52]ترکستان، جس کا مطلب ""ترکوں کی سرزمین"" بھی ہے،وسط ایشیاکے ایک تاریخی خطے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔[53]دسمبر2021ءمیں صدررجب طیب ایردواننےترکیہ (Türkiye)کو برآمدات کے لیے اور بین الاقوامی اداروں اور دیگر ممالک کے ساتھ حکومتی رابطے میں استعمال کرنے پر زور دیا۔[54][55]اس کی وجہ یہ تھی کہترکیہ (Türkiye)""ترک قوم کی ثقافت، تہذیب اور اقدار کی بہترین انداز میں نمائندگی اور اظہار کرتا ہے""۔[54]مئی2022ءمیں ترک حکومت نےاقوام متحدہاور دیگر بین الاقوامی تنظیموں سے انگریزی میں سرکاری طور پر (Türkiye) استعمال کرنے کی درخواست کی۔اقوام متحدہنے اتفاق کیا۔[56][57][58]ترکیہ کی تاریخاس سرزمین کی تاریخ ہے جو آج جمہوریہ ترکیہ کی تشکیل کرتی ہے اور اس میںاناطولیہ، مشرقی تھریس اورگریٹرکردستاناورآرمینیا کےکچھ حصے شامل ہیں۔ترکیہکی تاریخ، جمیل کببا کی تاریخ کے طور پر سمجھی جاتی ہے جس خطے میں اب جمہوریہ ترکیہ کا علاقہ تشکیل پاتا ہے،اناطولیہ(ترکیہ کا ایشیائی حصہ) اور مشرقی تھریس (ترکیہ کا یورپی حصہ) دونوں کی تاریخ بھی شامل ہے۔[59][60]موجودہ ترکیہ میںبالائی قدیم سنگی دورکےانسانآباد رہے ہیں اور اس میں دنیا کے قدیمنیا سنگی دورکے مقامات موجود ہیں۔[63][64]گوبیکلی تپہکی عمر 12,000 سال کے قریب ہے۔[63]اناطولیہکے کچھ حصوں میں زرخیز ہلال شامل ہے، جو کہ زراعت کی اصل ہے۔[65]نیا سنگی دورکےاناطولیہکے کسانایراناوروادی اردنکے کسانوں سے جینیاتی طور پر مختلف تھے اور کھیتی باڑی کویورپمیں پھیلاتے تھے۔[66]دیگر اہمنیا سنگی دورمقامات میںچاتالہویوکاورآلاجا ہوئیوکشامل ہیں۔ .[67]ٹرائےکی ابتدائی پرتیںتانبے کا دورکی ہیں۔[67]یہ معلوم نہیں ہے کہٹرائے کی جنگتاریخی واقعات پر مبنی ہے۔[68]ٹرائے کی موخربرنجی دورکی پرتیںایلیاڈکی کہانی سے زیادہ ملتی ہیں۔[69]اناطولیہکے تاریخی ریکارڈ کا آغاز تقریباً 2000قبل مسیحکی مٹی کی تختیاں سے ہوتا ہے جو جدید دور کےکولتپہمیں پائی جاتی ہیں۔[70]یہ تختیاں ایکآشوریتجارتی کالونی سے تعلق رکھتی تھیں۔[70]اس وقتاناطولیہکی زبانوں میں ہیتیان، ہوریان،حتی،لووی، اورپالائیشامل تھے۔[71]ہتیان اناطولیہ کی مقامی زبان تھی، جس کا جدید دور کا کوئی معروف تعلق نہیں تھا۔[72]حورین زبان شمالیسوریہ[71]میں استعمال ہوتی تھی۔پالائی،لووی، اورحتیزبانیںہند یورپی زبانوں[73]کے اناطولیہ ذیلی گروپ میں شامل تھیں،[74]کے ساتھحتی""سب سے قدیم تصدیق شدہ ہند-یورپی زبان"" تھی۔ہند یورپی زبانوںکی ابتدا نامعلوم ہے۔[75]یہ اناطولیہ کی مقامی ہو سکتی ہیں[76]یا غیر مقامی۔[77]حتیحکمرانوں کی جگہ آہستہ آہستہحتی سلطنتکے حکمرانوں نے لے لی۔[70]حتی سلطنتوسطیاناطولیہکی ایک بڑی سلطنت تھی، جس کادار الحکومتہاتوساتھا۔[70]یہاناطولیہمیںپالااورلوویکے ساتھ تقریباً 1700 اور 1200قبل مسیحکے درمیان موجود تھی۔[70]جیسے جیسےحتی سلطنتٹوٹ رہی تھی، ہند-یورپی لوگوں کی مزید لہریںجنوب مشرقی یورپسے ہجرت کر گئیں، جس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔[78]تقریباً 750قبل مسیح،فریجیاقائم ہو چکا تھا، جس کے دو مراکزگوردیوناور جدید دور کےقیصریمیں تھے۔[79]فریجیاکے لوگ ایکہند یورپی زبانبولتے تھے، لیکن یہ اناطولیائی زبانوں کے بجائےیونانی زبانکے قریب تھی۔[73]فریجیاکے لوگوں نےاناطولیہکو نو-حتی اوراورارتوکے ساتھ اشتراک کیا۔اورارتوکادار الحکومتوان جھیلکے آس پاس تھا۔[79]اورارتواکثراشوریہکے ساتھ تنازع میں رہتا تھا،[80]لیکنساتویں صدی ق ممیںماداورسکوتیکے حملوں سے گرا۔[79]جب کیمیریوں نے حملہ کیا توفریجیاتقریباً 650قبل مسیحختم ہو گیا۔[81]ان کی جگہکاریائیوں،لیکیائیوںاورلیڈیائیوںنے لے لی۔[81]ان تینوں ثقافتوں کو ""اناطولیہ کے ہٹیائی شہروں کی قدیم، مقامی ثقافت کا اعادہ سمجھا جا سکتا ہے""۔[81]کاریامغربیاناطولیہکا ایک خطہ تھا جو ساحل کے ساتھ وسطایونیاسے جنوب میںلیکیااور مشرق میںفریجیاتک پھیلا ہوا تھا۔لیکیاکلاسیکی اناطولیہمیں 15-14 ویں صدیقبل مسیح(بطور لوکا) سے 546قبل مسیحتک ایک تاریخی خطہ تھا۔لیڈیاآہنی دورمیںاناطولیہمیں ترکیہ کے علاقہ میں واقع ایک ریاست تھی۔[82]1200قبل مسیحسے پہلےاناطولیہمیںیونانی اساطیربولنے والی چار بستیاں تھیں جن میںملطبھی شامل تھا۔[84]تقریباً 1000قبل مسیحمیںیونانیوںنےاناطولیہکے مغربی ساحل کی طرف ہجرت شروع کر دی۔[85]ان مشرقی یونانی بستیوں نےقدیم یونانیتہذیب کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا؛[79][86]پولس (شہری ریاست)میںملط،افسس،ہالیکارناسوس،سمیرنا(ابازمیر) اوربازنطیوم(اباستنبول)، مؤخر الذکر کی بنیاد ساتویں صدیقبل مسیحمیںمیگاراکے نوآبادیات نے رکھی تھی۔ .[87]ان بستیوں کو مخصوص یونانی گروہوں کے بعدآئیولس،ایونیااور ڈورس کے طور پر گروپ کیا گیا تھا جنہوں نے انہیں آباد کیا۔[88]بحیرہ ایجیئنکے کنارےیونانیشہر تجارت کے ساتھ ترقی کرتے رہے، اور قابل ذکر سائنسی اور علمی کارنامے دیکھے۔[89]ملطسےتھالیزاوراناکسی میندر) نے آئیونی سکول آف فلسفہ کی بنیاد رکھی، اس طرح عقلیت پسندی اور مغربی فلسفے کی بنیاد رکھی۔[90]کورش اعظمنے 547قبل مسیحمیں مشرقیاناطولیہپر حملہ کیا، اورہخامنشی سلطنتبالآخر مغربیاناطولیہمیں پھیل گئی۔[81]مشرق میں، آرمینیائی صوبہہخامنشی سلطنتکا حصہ تھا۔[79]فارس-یونانی جنگوںکے بعد،اناطولیہبحیرہ ایجیئنساحل کییونانیشہر ریاستوں نے دوبارہ آزادی حاصل کر لی، لیکن زیادہ تر اندرونی حصہہخامنشی سلطنتکا حصہ رہا۔[81]شمال مغربی ترکیہ میںمملکت ادروسیپانچویں صدی ق ممیں موجود تھی۔[92]قدیم دنیا کے سات عجائبات عالممیں سے دو،افسسمیںمعبد آرتمیساورموسولس کا مزار،اناطولیہمیں واقع تھے۔[93]334قبل مسیحاور 333قبل مسیحمیںسکندر اعظمکی فتوحات کے بعد،ہخامنشی سلطنتکا خاتمہ ہوا اوراناطولیہمقدونیائی سلطنتکا حصہ بن گیا۔[81]اس کی وجہ سے اناطولیہ کے اندرونی حصے میں ثقافتی یکسانیت اوریونانیت اختیاریمیں اضافہ ہوا، جو کچھ جگہوں پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔[13]سکندر اعظمکی موت کے بعد، اناطولیہ کے بڑے حصوں پرسلوقی سلطنتنے حکومت کی، جبکہبحیرہ مرمرہاوربحیرہ اسودکے علاقوں میں مقامی اناطولیائی ریاستیں ابھریں۔ مشرقی اناطولیہ میں،مملکت آرمینیانمودار ہوئی۔تیسری صدی ق ممیںکلٹوںنے وسطی اناطولیہ پر حملہ کیا اور تقریباً 200 سال تک اس علاقے میں ایک بڑے نسلی گروہ کے طور پر جاری رکھا۔ وہ گلتیوں کے نام سے جانے جاتے تھے۔[94]جبمملکت پیرگاموننےسلوقی سلطنتکے ساتھ اپنے تنازع میں مدد کی درخواست کی تورومی جمہوریہنےدوسری صدی ق ممیںاناطولیہمیں مداخلت کی۔
+بغیر وارث کے،مملکت پیرگامونکا بادشاہ مملکت چھوڑ کررومچلا گیا، جسےایشیارومی صوبے کے طور پر ضم کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اناطولیہ میں رومی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔[95]مملکت پونٹسکے ساتھ ایشیائی ویسپرز کے قتل عام، اورمہردادی جنگوںکے بعد، روم فتحیاب ہوا۔[96][97][98]ْپہلی صدی قبل مسیحکے آس پاس،رومی جمہوریہنےپونٹساور بِیوتھینیا کے کچھ حصوں کو پھیلایا، جبکہ باقی اناطولیائی ریاستوں کو رومی تابع میں تبدیل کر دیا۔[99]سلطنت اشکانیانکے ساتھ کئیی تنازعات پیدا ہوئے، امن اور جنگوں میں بدل ہوتی رہیں۔[100]اعمال رسلکے مطابق، ابتدائیمسیحیکلیسیانےاناطولیہمیںسینٹ پالکی کوششوں کی وجہ سے نمایاں ترقی کی۔[101]اناطولیہ میں سینٹ پال کے خطوط قدیم ترینعیسائی ادبپر مشتمل ہیں۔[102]ماورائے بائبلروایاتکے مطابق،عروج مریمافسسمیں ہوا، جہاں حوارییوحنابھی موجود تھے۔ ایرینیئس ""افسس کی کلیسیا کے بارے میں لکھتا ہے، جس کی بنیادسینٹ پالنے رکھی تھی،یوحناکے ساتھترائیانکے زمانے تک جاری رہا۔""[103]بازنطینی سلطنت، جسےمشرقی رومی سلطنتبھی کہا جاتا ہے، قدیم دور اورقرون وسطیکے دورانقسطنطنیہمیں مرکزرومی سلطنتکا تسلسل تھا۔[105]سلطنت کا مشرقی نصف حصہ ان حالات سے بچ گیا جوپانچویں صدیمیںمغربکے زوال کا سبب بنی، اور1453ءمیںسلطنت عثمانیہکےفتح قسطنطنیہتک برقرار رہی۔
+اپنے زیادہ تر وجود کے دوران، سلطنتبحیرہ رومکی دنیا میں سب سے طاقتور اقتصادی، ثقافتی اور فوجی قوت رہی۔بازنطینی سلطنتکی اصطلاح صرف سلطنت کے خاتمے کے بعد وضع کی گئی تھی۔ اس کے شہری سیاست کو ""رومی سلطنت"" اور خود کو رومی کہتے ہیں۔
+سامراجی نشست کےرومسےبازنطیوممنتقل ہونے کی وجہ سے،مسیحیتکو ریاستی مذہب کے طور پر اپنانا،[106][107][108]اورلاطینی زبانکی بجائےوسطی یونانیزبان کی بالادستی کی وجہ سے، پہلے کی رومی سلطنت اور بعد میں بازنطینی سلطنت کے درمیان، جدید مورخین ایک امتیازی مقام بنا رہے ہیں۔[109]بازنطینی سلطنتکے ابتدائی دور میں،اناطولیہکے ساحلی علاقےیونانی زبانبولنے والے تھے۔ مقامی لوگوں کے علاوہ، اندرونیاناطولیہمیںگوتھ،کلٹ، فارسی اوریہودجیسے متنوع گروہ تھے۔
+اندرونی اناطولیہ کو ""بھارییونانیتزدہ"" ک��ا گیا تھا۔[110]اناطولی زبانیںبالآخریونانیت اختیاریکے بعد معدوم ہو گئیں۔[111]ابتدائی مسیحیتکی کئیی کلیسیائی کونسلیں موجودہ ترکیہ کے شہروں میں منعقد ہوئیں، جن میںپہلی نیقیہ کونسل(ازنیق) بھی شامل ہے325ءمیں (جس کے نتیجے میں پہلا یکساںمسیحینظریہ سامنے آیا، جسےنیکیائی عقیدہکہا جاتا ہے،381ءمیںقسطنطنیہکی پہلی کونسل،431ءمیںافسسکی کونسل، اور451ءمیںخلقیدونکی کونسل منعقد ہوئی۔[112]مورخین اور ماہرین لسانیات کے مطابق پروٹوترک زبانکی ابتدا وسطیمشرقی ایشیامیں ہوئی۔[113]ابتدائی طور پر، پروٹوترک زبانیںبولنے والے ممکنہ طور پر شکاری اور کسان دونوں تھے۔ وہ بعد میںخانہ بدوشچرواہے بن گئے۔[114]ابتدائی اورقرون وسطیکےترکگروہوں نےمشرقی ایشیائیاور مغربی یوریشیائی دونوں طرح کی جسمانی ظاہری شکلوں اور جینیاتی ماخذ کی ایک وسیع رینج کی نمائش کی، جس کا ایک حصہ ہمسایہ لوگوں جیسےایرانی، منگول، ٹوچاری،اورالی، اور ینیسیائی لوگوں کے ساتھ طویل مدتی رابطے کے ذریعے تھا۔[115]نویں صدیاوردسویں صدیعیسوی کے دوران،اوغوز ترکایک ترک گروہ تھا جوبحیرہ قزویناوربحیرہ ارالکے میدانوں میں رہتا تھا۔[116]جزوی طور پرقپچاق، قبیلہکے دباؤ کی وجہ سے، اوغوزسطح مرتفع ایراناورماورا النہرمیں ہجرت کر گئے۔[116]وہ اس علاقے میںایرانیبولنے والے گروہوں کے ساتھ گھل مل گئے اوراسلامقبول کر لیا۔[116]اوغوز ترکوںکوترکمانکے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔[116]سلجوق خاندانکی ابتدااوغوز ترکوںکی کنیک شاخ سے ہوئی جواوغوز یابغو ریاستمیں رہائش پذیر تھے۔[117]1040ءمیں سلجوقوں نے دندانقان کی جنگ میںسلطنت غزنویہکو شکست دی اور گریٹرخراسانمیںسلجوقی سلطنتقائم کی۔[118]بغداد،خلافت عباسیہکادارالخلافہاوراسلامی دنیا کا مرکز،1055ءمیں سلجوقوں نے لے لیا تھا۔[119]سلطنت میں فن، ثقافت اور سیاسی روایات میںخراسانیروایات کے کردار کو دیکھتے ہوئے، سلجوقی دور کو ""ترک، فارسی اور اسلامی اثرات"" کے مرکب کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔[120]گیارہویں صدیکے نصف آخر میں، سلجوق ترکوں نےقرون وسطیٰکےآرمینیااوراناطولیہمیں گھسنا شروع کیا۔[119]اس وقت،اناطولیہایک متنوع اور زیادہ تریونانی زبانبولنے والا خطہ تھا جو پہلےیونانیت اختیاریہونے کے بعد تھا۔[121][17][110]سلجوق ترکوں نے1071ءمیںجنگ ملازکردمیں بازنطینیوں کو شکست دی، اور بعد میں سلطنتسلاجقہ رومقائم کی۔[122]اس دور میں ترک امارات بھی تھیں جیسےدانشمند شاہی سلسلہ۔[123]سلجوق کی آمد نےاناطولیہمیںترک سازیکا آغاز کیا؛[17][124]وہاں ترک/ترک ہجرتیں، شادیاں اوراسلامقبول کرنے جیسی تبدیلیاں ہوئیں۔[125][126]تبدیلی میں کئی صدیاں لگیں اور بتدریج ہوا۔[127][128]اسلامیتصوفاحکامات کے ارکان، جیسے کہسلسلہ مولویہنےاناطولیہکے متنوع لوگوں کیاشاعت اسلاممیں کردار ادا کیا۔[129][130]تیرہویں صدیمیں،ترکہجرتکی دوسری اہم لہر آئی، جب لوگمنگول سلطنتکی توسیع کی وجہ سے علاقے سے بھاگ گئے۔[131][132]سلجوق سلطنت رومکو1243ءمیں کوس داغ کی جنگ میںمنگولکے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہچودہویں صدیکے آغاز تک غائب ہو گئی،[133][134]اور اس کی جگہ مختلف ترک امارات نے لے لی۔[19][135]سوغوتکے آس پاس کی علاقے میں،عثمانی بیلیککی بنیادچودہویں صدیکے اوائل میںعثمان اولنے رکھی تھی۔[136]عثمانی تاریخ نگاروں کے مطابق، عثمان کا تعلقاوغوز ترکوںکےقائی قبیلہسے تھا۔[137]عثمانیوں نےاناطولیہمیں قریبی ترک بیلیکوں (ریاستوں) کو جوڑنا شروع کیا اور یہ سلسلہبلقانتک پھیل گیا۔[138]محمد فاتحنے29 مئی1453ءکوبازنطینی سلطنتکےدار الحکومتقسطنطنیہپر قبضہ کر کےبازنطینی سلطنتکے خلاف عثمانی فتح مکمل کی۔[139]سلیم اولنےاناطولیہکو عثمانی حکومت کے تحت متحد کیا۔اناطولیہاوربلقانمیں عثمانیوں کے مختلف مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل جانے کے بعد ترک کاری جاری رہی۔[137]عثمانی سلطنتسلیم اولاورسلیمان اعظمکے دور میں ایک عالمی طاقت تھی۔[20][21]سولہویںاورسترہویںصدیوں میںسفاردی یہودیہسپانیہسے بے دخلی کے بعدسلطنت عثمانیہمیں چلے گئے۔[140]اٹھارہویں صدیکے دوسرے نصف سے،سلطنت عثمانیہ کا زوالشروع ہوا۔1839ءمیںمحمود دومکی طرف سے شروع کی گئیتنظیمات[141]اصلاحات کا مقصد عثمانی ریاست کو اس پیش رفت کے مطابق جدید بنانا تھا جو مغربییورپمیں ہوئی تھی۔[142]1876ءکا عثمانی آئین مسلم ریاستوں میں پہلا تھا، لیکن مختصر مدت کے لیے تھا۔[143]جیسے جیسے سلطنت بتدریج سائز، فوجی طاقت اور دولت میں سکڑتی گئی۔ خاص طور پر1875ءمیں عثمانی معاشی بحران اور ڈیفالٹ کے بعد جس کی وجہ سےبلقانکے صوبوں میں بغاوتیں ہوئیں جوروس ترک جنگ (1877-1878)پر منتج ہوئیں؛ بہت سےبلقانکےمسلماناناطولیہمیں سلطنت کے مرکز کی طرف ہجرت کر گئے،[144]اورادیگی قومکے ساتھ قفقاز پرروسی فتحسے فرار ہو گئے۔
+کچھ اندازوں کے مطابق، موجودہروسکے علاقے میںچرکسی نسل کشی[145][146]کے دوران 800,000 مسلمچرکسیہلاک ہوئے، جن میں سے بچ جانے والوں نےسلطنت عثمانیہمیں پناہ لی، اور موجودہ ترکیہ کے صوبوں میں آباد ہونا شروع ہوئے۔[147]سلطنت عثمانیہ کے زوالکے نتیجے میں اس کے مختلف رعایا کے لوگوں میں قوم پرستانہ جذبات میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں نسلی کشیدگی میں اضافہ ہوا جو کبھی کبھار تشدد کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جیسا کہآرمینیائی باشندوںکاحمیدیہ قتل عام، جس نے 300,000 جانیں لے لیں۔[148]پہلی بلقان جنگ(1912ء–1913ء) میں یورپ کے عثمانی علاقے (روم ایلی) کھو گئے۔[151]دوسری بلقان جنگ(1913ء) میں عثمانیوں نےیورپکے کچھ علاقے جیسےادرنہکو واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔انیسویں صدیاوربیسویں صدیکے اوائل میں، عثمانی عقوبت کے دوران اورروسی سلطنتمیں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے نتیجے میں 5 ملین اموات ہوئیں،[152][153]بلقانمیں 3 ملین سے زیادہ؛[154]ہلاک ہونے والوں میں ترک بھی شامل ہیں۔[153]پانچ سے سات یا سات سے نو ملین مہاجرینبلقان،قفقاز،کریمیا، اوربحیرہ رومجزیروں سے جدید دور کے ترکیہ میں منتقل ہوئے،[155]سلطنت عثمانیہکا مرکز اناطولیہ میں منتقل ہوا۔[156]یہودیوںکی ایک چھوٹی سی تعداد کے علاوہ، پناہ گزینوں کی اکثریتمسلمانتھی۔ وہ ترک اور غیر ترک دونوں ہی لوگ تھے، جیسےادیگی قوماورکریمیائی تاتار۔[157][158]پال موجز نے بلقان کی جنگوں کو ایک ""غیر تسلیم شدہ نسل کشی"" قرار دیا ہے، جہاں متعدد فریق متاثرین اور مجرم دونوں تھے۔[159]1913ءکی بغاوت کے بعد،تین پاشاوںنے عثمانی حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا۔سلطنت عثمانیہپہلی جنگ عظیممیںمرکزی طاقتوںکی طرف سے داخل ہوئی اور بالآخر اسے شکست ہوئی۔[160]جنگ کے دوران، سلطنت کی آرمینیائی رعایا کوآرمینیائی نسل کشیکے حصے کے طور پر شام بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں، ایک اندازے کے مطابق 600,000[161]سے لے کر 1 ملین سے زیادہ،[161]یا 1.5 ملین[162][163][164]آرمینیائیمارے گئے۔
+ترک حکومت نے ان واقعات کو نسل کشی[25][165]کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ آرمینیائی باشندوں کو مشرقی جنگ کے علاقے سے صرف ""منتقل"" کیا گیا تھا۔[166]سلطنت کے دیگر اقلیتی گروہوں جیسے کہآشوریوںاوریونانیوںکے خلاف بھی نسل کشی کی مہمیں چلائی گئیں۔[167][168][169]1918ءمیںمعاہدۂ مدروسکی جنگ بندی کے بعد، فاتحاتحادی طاقتوںنے1920ءکےمعاہدہ سیورےکے ذریعےسلطنت عثمانیہکی تقسیم کی کوشش کی۔[170]معاہدہ سیورے[171]پہلی جنگ عظیمکے بعد10 اگست1920ءکواتحادی طاقتوںاورسلطنت عثمانیہکے درمیان طے پانے والا امن معاہدہ تھا۔ اس معاہدے پر عثمانی سلطنت نے دستخط کر دیے تھے لیکن اسے ترکیہ کی جمہوری تحریک نے مسترد کر دیا اور اس معاہدے پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔مصطفیٰ کمال اتاترک[172]کی زیر قیادت اس تحریک نے معاہدے کے بعد ترکیہ کی جنگ آزادی کا اعلان کر دیا اورقسطنطنیہ(موجودہاستنبول) میں بادشاہت کو ختم کرکے ترکی کو جمہوریہ بنا دیا۔پہلی جنگ عظیمکے بعداتحادیوںکےاستنبول(1918ء) اورازمیر(1919ء) پر قبضے نےترک قومی تحریککی شروعات کی۔مصطفٰی کمال اتاترککی قیادت میں، ایک فوجی کمانڈر جس نےجنگ گیلی پولیکے دوران خود کو ممتاز کیا تھا،ترک جنگ آزادی(1919ء-1923ء)معاہدہ سیورے(1920ء) کی شرائط کو منسوخ کرنے کے مقصد سے لڑی گئی۔[173]ترکی کی عبوریحکومت عظیم قومی ایوان،انقرہمیں، جس نے خود کو23 اپریل1920ءکو ملک کی قانونی حکومت قرار دیا تھا،ترکیہ قومی اسمبلینے پرانی سلطنت عثمانیہ سے نیا جمہوری سیاسی نظام، قانونی منتقلی کو باقاعدہ بنانا شروع کیا۔انقرہحکومت مسلح اور سفارتی جدوجہد میں مصروف ہے۔ 1921ء-1923ء میں آرمینیائی، یونانی، فرانسیسی اور برطانوی فوجوں کو نکال باہر کیا گیا تھا۔[174][175][176][177]انقرہ حکومت کی فوجی پیش قدمی اور سفارتی کامیابی کے نتیجے میں11 اکتوبر1922ءکومودانیا کی جنگ بندی[178]پر دستخط ہوئے۔1 نومبر1922ءکوانقرہمیں ترک پارلیمنٹ نے باضابطہ طور پر سلطنت کو ختم کر دیا، اس طرح 623 سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔24 جولائی1923ءکامعاہدہ لوزانجس نےمعاہدہ سیورےکی جگہ لے لی،[170][173]نےسلطنت عثمانیہکی جانشین ریاست کے طور پر نئی ترک ریاست کی خودمختاری کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا۔4 اکتوبر1923ءکو ترکیہ پر اتحادی افواج کا قبضہاستنبولسے آخری اتحادی افواج کے انخلا کے ساتھ ختم ہوا۔
+ترک جمہوریہ کا سرکاری طور پر29 اکتوبر1923ءکو ملک کے نئےدار الحکومتانقرہمیں اعلان کیا گیا۔[179]لوزان کنونشن نےیوناناور ترکیہ کے درمیان آبادی کا تبادلہ طے کیا۔[180]مصطفیٰ کمال اتاترکجمہوریہ کے پہلےصدربنے اور بہت سی اصلاحات متعارف کروائیں۔
+ان اصلاحات کا مقصد پرانی مذہب پر مبنی اورکثیر نسلیعثمانی بادشاہت کو ایک ترکقومی ریاستمیں تبدیل کرنا ہے جو ایک سیکولر آئین کے تحت پارلیمانی جمہوریہ کے طور پر چلائی جائے گی۔[181]1934ءکے کنیت کے قانون کے ساتھ،ترکیہ قومی اسمبلینےمصطفیٰ کمالکو اعزازی کنیتاتاترک(ترکوں کا باپ) سے نوازا۔[173]اتاترک کی اصلاحات نے کچھکرداور زازا قبائل میں عدم اطمینان کا باعث بنا جس کی وجہ سے1925ء[182]میںشیخ سعید بغاوتاور1937ءمیں درسم بغاوت ہوئی۔[183]عصمت انونو1938ءمیںمصطفیٰ کمال اتاترککی موت کے بعد ملک کے دوسرے صدر بنے۔1939ءمیںریاست ہتاینے ریفرنڈم کے ذریعے ترکیہ میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا۔[184]دوسری جنگ عظیمکے بیشتر دوران ترکیہ غیر جانبدار رہا لیکن23 فروری1945ءکودوسری جنگ عظیم کے اتحادیکی طرف سے جنگ میں داخل ہوا۔[185]اسی سال کے آخر میں، ترکیہاقوام متحدہکا چارٹر ممبر بن گیا۔[186]1950ءمیں ترکیہیورپ کی کونسلکا رکن بنا۔کوریا جنگمیںاقوام متحدہافواج کے حصے کے طور پر لڑنے کے بعد، ترکیہ نے1952ءمیںنیٹو(تنظیم معاہدہ شمالی اوقیانوس) میں شمولیت اختیار کی،بحیرہ روممیں سوویت کی توسیع کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار بن گیا۔1960ءاور1980ءمیں فوجی بغاوتوں کے ساتھ ساتھ1971ءاور1997ءمیں فوجی یادداشتوں کے ذریعے ملک کی کثیر الجماعتی جمہوریت کی طرف منتقلی میں خلل پڑا۔[187][188]1960ءاوربیسویں صدیکے اختتام کے درمیان، ترکیہ کی سیاست میں جن نمایاں رہنماوں نے متعدد انتخابی فتوحات حاصل کیں وہسلیمان دمیرل،بلند اجوداورتورگوت اوزالتھے۔تانسو چیلر1993ءمیں ترکیہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ ترکیہ نے1995ءمیںیورپی یونین کسٹمز یونینمیں شمولیت اختیار کی اور2005ءمیںیورپی یونینکے ساتھ الحاق کی بات چیت کا آغاز کیا۔[189]کسٹمز یونین نے ترکیہ کے مینوفیکچرنگ سیکٹر پر ایک اہم اثر ڈالا۔[190][191]2014ءمیں وزیر اعظمرجب طیب ایردواننے ترکیہ کے پہلے براہ راست صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔[192]15 جولائی2016ءکوترکیہ میں ناکام فوجی بغاوتنے حکومت کو ہٹانے کی کوشش کی۔[193]2017ءمیں ریفرنڈم کے ساتھ، پارلیمانی جمہوریہ کی جگہ ایک ایگزیکٹو صدارتی نظام نے لے لی تھی۔
+وزیراعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا، اور اس کے اختیارات اور فرائضصدر ترکیہکو منتقل کر دیے گئے۔
+ریفرنڈم کے دن، جب ووٹنگ ابھی جاری تھی، سپریم الیکٹورل کونسل نے ایک قاعدہ ختم کر دیا جس کے تحت ہر بیلٹ پر ایک سرکاری ڈاک ٹکٹ ہونا ضروری تھا۔[194]حزب اختلاف کی جماعتوں نے دعویٰ کیا کہ 25 لاکھ بیلٹ بغیر ٹکٹ کے درست تسلیم کیے گئے۔[194]عوامی نظم و نسق کے لحاظ سے ترکیہ کا ایکوحدانی ریاستڈھانچہ ہے، اورصوبےانقرہمیں مرکزی حکومت کے ماتحت ہیں۔
+صوبوں کے مراکز میں حکومت کی نمائندگی صوبے کے گورنر (والی) کرتے ہیں اور قصبوں میں گورنرز (کیماکم) کرتے ہیں۔
+دیگر اعلیٰ عوامی عہدیداروں کا تقرر بھی مرکزی حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے، سوائے ان میئروں کے جنہیں حلقہ کار منتخب کرتے ہیں۔[195]ترک بلدیات میں بلدیاتی امور پر فیصلہ سازی کے لیے مقامی قانون ساز ادارے ہیں۔انتظامی مقاصد کے لیے ترکی کو 81صوبوںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر صوبہ مختلف تعداد میں اضلاع میں منقسم ہے۔ صوبائی گورنر صوبہ کے مرکزی ضلع میں ہوتا ہے۔ مرکزی ضلع کا نام عام طور پر صوبے کے نام پر ہوتا ہے۔ صوبہ مقرر کردہ گورنر کے زیر انتظام ہوتا ہے۔سلطنت عثمانیہاور ابتدائی ترک جمہوریہ میں متعلقہ اکائیولایتتھی۔ ہر صوبے کواضلاعمیں تقسیم کیا گیا ہے کل 973 اضلاع ہیں۔29 اکتوبر 1923ء کوسلطنت عثمانیہکےخاتمےاور جمہوریہ ترکی کے باضابطہ قیام کے بعد انتظامی نظام میں تبدیلیاں کی گئیں۔ دو سال بعدصوبہ اردھان،بےاوغلو،چاتالجا،تونجیلی،عرگانی،گلیبولو، جنک،قوزان،اولتو،موش،سیورکاوراسکودارکے صوبوں کو اضلاع میں تبدیل کر دیا گیا۔[196][197]1927ء میںدوغوبایزیدکو ایک ضلع میں تبدیل کر دیا گیا اورصوبہ آغریسے منسلک کر دیا گیا۔[198]1929ء میںموشدوبارہ صوبہ بن گیا اورصوبہ بتلیسایک ضلع بن گیا۔[196]چار سال بعد، یہ تعداد چھپن تک گر گئی جبآق سرائے،صوبہ عثمانیہ،حکاریاورشبین قرہ حصاراضلاع بن گئے،مرسیناورسیلیفکےکو ملایا گیا اورصوبہ مرسین[B]کے نام سے ایک نیا صوبہ تشکیل دیا گیا اورصوبہ آرتویناورصوبہ ریزہکو ملا کر ایک نیا صوبہ کوروہ تشکیل دیا گیا تھا۔[196]1936ء میں،ریزہ،تونجیلیاورحکاریدوبارہ صوبے بن گئے اور اسی سال ڈرسم کا نام بدل کرتونجیلیرکھ دیا گیا۔ 1939ء میںریاست ھتایترکی کے ساتھ الحاق کرکے ایک صوبہ بن گیا۔[196][199]1953ء میں، یہ فیصلہ ک��ا گیا کہصوبہ عشاقایک صوبہ بنے گا اورصوبہ قر شہرایک ضلع بنے گا۔ 1954ء میںصوبہ آدیامان،صوبہ نو شہراورصوبہ سقاریہکو صوبائی حیثیت حاصل ہوئی۔[196]ہر صوبے کواضلاعمیں تقسیم کیا گیا ہے کل 973 اضلاع ہیں۔[200]زیادہ تر صوبوں کا وہی نام ہے جو ان کے متعلقہ صوبائیدار الحکومتکے اضلاع کا ہے۔ تاہم، بہت سے شہری صوبوں کو، جنہیں عظیم بلدیہ کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، میں متعدد اضلاع پر مشتمل ایک مرکز ہے، جیسے کہصوبہ انقرہکا صوبائی دار الحکومت،انقرہ شہر، نو الگ الگ اضلاع پر مشتمل ہے۔ترکیہ سات علاقوں اور 21 ذیلی علاقوں میں منقسم ہے۔ جنہیں1941ءمیں سب سے پہلی جغرافیائی کانگریس میں بیان کیا گیا ہے۔ علاقے جغرافیائی، آبادیاتی اور اقتصادی مقاصد کے تناظر میں وضع کیے گئے ہیں اور یہ انتظامی تقسیم نہیں ہیں۔ علاقوں کی سرحدیں انتظامی صوبوں کی سرحدوں کے ساتھ متراکب نہیں ہیں۔[201]ترکیہ ایک کثیر الجماعتی نظام کے اندر ایکصدارتی جمہوریہہے۔[202]موجودہآئین1982ءمیں اپنایا گیا تھا۔[203]ترکیہ کے وحدانی نظام میں، شہری حکومت کےتین درجوں کے تابعہیں: قومی، صوبائی اور مقامی۔مقامی حکومتکے فرائض عام طور پرمیونسپل حکومتوںاور اضلاع کے درمیان تقسیم ہوتے ہیں، جس میں ایگزیکٹو اور قانون ساز عہدیداروں کو ضلع کے لحاظ سے شہریوں کے کثرت رائے سے منتخب کیا جاتا ہے۔
+حکومت تین شاخوں پر مشتمل ہے: پہلیقانون سازشاخ ہے، جوترکیہ قومی اسمبلیہے؛[204]دوسری ایگزیکٹو برانچ ہے، جوصدر ترکیہہے۔[205]اور تیسری عدالتی شاخ ہے، جس میں آئینی عدالت، عدالت کی عدالت اور عدالتی تنازعات شامل ہیں۔[206][5]ترکیہ کی سیاست تیزی سے جمہوری پسماندگی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جسے ایک مسابقتی آمرانہ نظام قرار دیا جا رہا ہے۔[207][208]پارلیمان کے 600 ووٹنگ ممبران ہیں، ہر ایک پانچ سال کی مدت کے لیے ایک حلقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ پارلیمانی نشستیں صوبوں میںآبادی کے تناسب سے تقسیمکی جاتی ہیں۔صدرکا انتخاببراہ راست انتخاباتسے ہوتا ہے اور پانچ سال کی مدت کے لیے کرتا ہے۔[209]صدرپانچ سال کی دو مدتوں کے بعد دوبارہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا، جب تک کہ پارلیمان دوسری مدت کے دوران صدارتی انتخابات کی قبل از وقت تجدید نہ کرے۔ پارلیمنٹ کے انتخابات اور صدارتی انتخابات ایک ہی دن ہوتے ہیں۔[210]آئینی عدالت 15 ارکان پر مشتمل ہے۔ ایک رکن 12 سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتا ہے اور اسے دوبارہ منتخب نہیں کیا جا سکتا۔ آئینی عدالت کے ارکان 65 سال سے زائد عمر کے ہونے پر ریٹائر ہونے کے پابند ہیں۔[211]ترکیہ میں انتخابات حکومت کے چھ کاموں کے لیے ہوتے ہیں: صدارتی انتخابات (قومی)، پارلیمانی انتخابات (قومی)،میونسپلٹی میئر(مقامی)، ضلعی میئرز (مقامی)، صوبائی یا میونسپل کونسل کے اراکین (مقامی) اورمختار(مقامی)۔
+انتخابات کے علاوہ،ریفرنڈمبھی کبھی کبھار منعقد ہوتے ہیں۔ ہر ترک شہری جو 18 سال کا ہو گیا ہے اسےووٹڈالنے اور انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہونے کا حق حاصل ہے۔1934ءسے ترکیہ بھر میں دونوں جنسوں کے لیے یونیورسل ووٹنگ لاگو ہے۔
+ترکیہ میں، مقامی اور عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے، جو عام طور پر 80% سے زیادہ ہے۔[212]آئینی عدالتسیاسی جماعتوںکی عوامی مالی اعانت کو ختم کر سکتی ہے کہ وہ سیکولر مخالف یا دہشت گردی سے تعلق رکھتی ہے، یا ان کے وجود پر مکمل پابندی لگا سکتی ہے۔[213][214]قومی سطح پر سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابی حد سات فیصد ووٹ ہے۔[215]چھوٹی جماعتیں دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر انتخابی دہلیز سے بچ سکتی ہیں۔آزاد امیدوارانتخابی حد سے مشروط نہیں ہیں۔ترکیہ کے سیاسی میدان کے دائیں جانبسیاسی طیف، ڈیموکریٹ پارٹی، جسٹس پارٹی، مادر لینڈ پارٹی، اورجسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹیجیسی جماعتیں ترکی کی سب سے مقبول سیاسی جماعتیں بن گئیں۔ متعدد انتخابات جیت کر۔ ترکدائیں بازوکی پارٹیاں زیادہ امکان رکھتی ہیں کہ وہ سیاسی نظریات کے اصولوں کو قبول کریں جیسےقدامت پرستی،قوم پرستییا اسلامیت۔[216]سیاسی طیفکی طرف،جمہوریت خلق پارٹی, سوشل ڈیموکریٹک پاپولسٹ پارٹی اورڈیموکریٹک لیفٹ پارٹیجیسی جماعتوں نے ایک بار سب سے زیادہ انتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔بائیں بازوکی جماعتیںسوشلزم،کمالزمیاسیکولرازمکے اصولوں کو اپنانے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں۔[217]صدررجب طیب اردوغان،ترکیہ کے صدارتی انتخابات، 2023ءکے فاتح ہیں،[218][219]اس وقتسربراہ ریاستاورسربراہ حکومتکے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔اوزگور اوزلمرکزی قائد حزب اختلاف ہیں۔نعمان کورتولموشترکیہ قومی اسمبلیکے اسپیکر ہیں۔2023ءکے پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں ترکیہ کی 28 ویں پارلیمنٹ ہوئی، جس میںجسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹیکے لیے 268 نشستیں،ریپبلکن پیپلز پارٹیکے لیے 169 نشستیں، پارٹی آف گرینز اینڈ دی لیفٹ فیوچر کے لیے 61 نشستیں،حرکت ملی پارٹی، 43 سیٹیںایی پارٹی، 5 سیٹیںنیو ویلفیئر پارٹیاور 4 سیٹیںورکرز پارٹی آف ترکیکے لیے 50 نشستیں تھیں۔[220]اگلے پارلیمانی انتخابات2028ءمیں ہونے والے ہیں۔جمہوریہ کے قیام کے ساتھ، ترکیہ نےشریعتسے ماخوذ عثمانی قانون کی جگہ ایک شہری قانون کا قانونی نظام اپنایا۔ سول کوڈ، جو1926ءمیں اپنایا گیا تھا،1907ءکے سوئس سول کوڈ[221][222][223]اور1911ءکے سوئس ضابطہ ذمہ داریوں پر مبنی تھا۔[224][225]اگرچہ2002ءمیں اس میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں، لیکن اس نے اصل ضابطہ کی بنیاد کو برقرار رکھا ہے۔ضابطہ تعزیراتجو اصل میں اطالوی ضابطہ فوجداری پر مبنی ہے، کو2005ءمیں ایک ضابطہ سے تبدیل کیا گیا جس کے اصول جرمن پینل کوڈ اور عام طور پر جرمن قانون سے ملتے جلتے ہیں۔[226]انتظامی قانون فرانسیسی مساوی پر مبنی ہے اور طریقہ کار کا قانون عام طور پر سوئس، جرمن اور فرانسیسی قانونی نظاموں کے اثر کو ظاہر کرتا ہے۔[227][228][229]اسلامی اصول قانونی نظام میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔[230]ترکیہ میں قانون کا نفاذ کئی ایجنسیاں وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار میں کرتی ہیں۔ یہ ایجنسیاں جنرل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی، جینڈرمیری جنرل کمانڈ اور کوسٹ گارڈ کمانڈ ہیں۔[231]جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹیاوررجب طیب ایردوانکی حکومت کے سالوں میں، خاص طور پر2013ءکے بعد سے، ترکیہ کی عدلیہ کی آزادی اور سالمیت کو ترکیہ کے اندر اور باہر دونوں اداروں، اراکین پارلیمنٹ اور صحافیوں کی طرف سے سیاست کی وجہ سے شکوک و شبہات کا سامنا ہے۔ ججوں اور پراسیکیوٹرز کی ترقی اور عوامی ڈیوٹی کے حصول میں مداخلت ان میں شامل ہیں۔[232][233][234]اس کے روایتی مغربی رجحان کے مطابق،یورپکے ساتھ تعلقات ہمیشہ ترکیہ کی خارجہ پالیسی کا مرکزی حصہ رہے ہیں۔
+ترکیہ1950ءمیںیورپ کی کونسلکے ابتدائی ارکان میں سے ایک بنا۔ ترکیہ نے1987ءمیںیورپین اکنامک کمیونٹیکی مکمل رکنیت کے لیے درخواست دی،1995ءمیںیورپی یونین کسٹمز یونینمیں شمولیت اختیار کی اور2005ءمیںیورپی یونینکے ساتھ الحاق کے مذاکرات کا آغاز کیا۔[235][236]13 مارچ2019ءکو ہونے والے ایک غیر پابند ووٹ میں،یورپی پارلیماننے انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے،یورپی یونینکی حکومتوں سے ترکیہ کے ساتھیورپی یونینکے الحاق کے مذاکرات کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن مذاکرات، مؤثر طریقے سے2018ءسے روکے گئے،2023ءتک فعال رہے۔[237]ترکیہ کی خارجہ پالیسی کا دوسرا واضح پہلوریاست ہائے متحدہکے ساتھ ملک کا دیرینہ تزویراتی اتحاد رہا ہے۔[238][239]1947ءمیں ٹرومین نظریے نےسرد جنگکے دوران ترکیہ اوریونانکی سلامتی کی ضمانت دینے کے امریکی ارادوں کی نشاندہی کی اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر امریکی فوجی اور اقتصادی مدد حاصل ہوئی۔1948ءمیں دونوں ممالک کو یورپی معیشتوں کی تعمیر نو کے لیےمارشل پلاناورانجمن اقتصادی تعاون و ترقیمیں شامل کیا گیا تھا۔[240]سرد جنگکے دورانسوویت یونینکی طرف سے درپیش مشترکہ خطرے کی وجہ سے1952ءمیں ترکیہ نےنیٹوکی رکنیت حاصل کی، جس سےریاست ہائے متحدہکے ساتھ قریبی دوطرفہ تعلقات کو یقینی بنایا گیا۔
+اس کے بعد، ترکیہ نےریاستہائے متحدہکی سیاسی، اقتصادی اور سفارتی حمایت سے فائدہ اٹھایا، بشمول اہم مسائل جیسے کہ ملک کییورپی یونینمیں شمولیت کی بولی۔[241]سرد جنگکے بعد کے ماحول میں، ترکیہ کی جغرافیائی اہمیتمشرق وسطی،قفقازاوربلقانکی قربت کی طرف منتقل ہو گئی۔[242]1991ءمیںسوویت یونینکی ترک ریاستوں کی آزادی، جس کے ساتھ ترکی مشترکہ ثقافتی، تاریخی اورلسانیورثے میں شریک ہے، نے ترکیہ کو اپنے اقتصادی اور سیاسی تعلقات کووسط ایشیاتک بڑھانے کی اجازت دی۔[243]ترک ثقافت کی بین الاقوامی تنظیم(ترک سوئے)1993ءمیں قائم کی گئی تھی، اورترک ریاستوں کی تنظیم(او ٹی ایس)2009ءمیں قائم ہوئی تھی۔جماعت انصاف و ترقی(اے کے پی) حکومت کے تحت، ترکیہ کی معیشت نے تیزی سے ترقی کی ہے اور اس ملک کا اثر و رسوخمشرق وسطیٰمیں ایک اسٹریٹجک گہرائی کے نظریے کی بنیاد پر بڑھا ہے، جسے نو-عثمانیت بھی کہا جاتا ہے۔[244][245]دسمبر2010ءمیںعرب بہارکے بعد، متاثرہ ممالک میں بعض سیاسی مخالف گروپوں کی حمایت کے لیے حکومت کی طرف سے کیے گئے انتخاب نےسوری خانہ جنگیکے آغاز کے بعد اورمصریصدر محمد مرسی کیمعزولیکے بعد سے کچھ عرب ریاستوں، جیسے ترکیہ کے پڑوسیسوریہکے ساتھ تناؤ پیدا کر دیا ہے۔[246][247]2022ءتک ترکیہ کاسوریہیامصرمیں کوئی سفیر نہیں ہے،[248]لیکن دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔[249][250][251][252][253]اسرائیلکے ساتھسفارتی تعلقاتبھی2010ءمیں غزہ فلوتیلا کے حملے کے بعد منقطع ہو گئے تھے لیکن جون2016ءمیں ایک معاہدے کے بعد معمول پر آ گئے تھے۔[254]ان سیاسی اختلافات نےمشرقی بحیرہ روممیں ترکیہ کو چند اتحادیوں کے ساتھ چھوڑ دیا ہے، جہاں حال ہی میںقدرتی گیسکے بڑے ذخیرے دریافت ہوئے ہیں۔[255][256]یوناناورقبرصکے ساتھ ترکیہ کی سمندری حدود اورمشرقی بحیرہ روممیں سوراخ کرنے کے حقوق پر تنازع ہے۔[257][258]2016ءمیںروسکے ساتھ مفاہمت کے بعد ترکیہ نےسوریہمیں تنازع کے حل کے حوالے سے اپنے موقف پر نظر ثانی کی۔[259][260][261]جنوری2018ءمیں،ترکیہ کی فوجاور ترکیہ کی حمایت یافتہ فورسز، بشمول سوری قومی فوج،[262]نےسوریہمیں ایک آپریشن شروع کیا جس کا مقصد امریکی حمایت یافتہ وائی پی جی (جسے ترکی کالعدم پی کے کے کی شاخ سمجھتا ہے)[263][264]کوعفرینکے انکلیو سے بے دخل کرنا ہے۔[265][266]ترکیہ نےعراقی کردستانمیں بھی فضائی حملے کیے ہیں جس سے ترکیہ اورعراقکے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں کیونکہ مؤخر الذکر نے ان حملوں کو اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے اور شہریوں کو ہلاک کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔[267][268]ترک مسلح افواججنرل اسٹاف،ترک زمینی افواج،ترک بحریہاورترک فضائیہپر مشتمل ہیں۔
+چیف آف جنرل اسٹاف کا تقرر صدر کرتا ہے۔ صدر قومی سلامتی کے معاملات اور ملک کے دفاع کے لیے مسلح افواج کی مناسب تیاری کے لیے پارلیمنٹ کو ذمہ دار ہے۔ تاہم جنگ کا اعلان کرنے اورترک مسلح افواجکو بیرونی ممالک میں تعینات کرنے یا غیر ملکی مسلح افواج کو ترکیہ میں تعینات کرنے کی اجازت دینے کا اختیار صرف اور صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے۔[272]جینڈرمیری جنرل کمانڈ اور کوسٹ گارڈ کمانڈ وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ ہر فٹ مرد ترک شہری کے لیے ضروری ہے کہ وہ تین ہفتوں سے لے کر ایک سال تک فوج میں خدمات انجام دے، جو کہ تعلیم اور ملازمت کے مقام پر منحصر ہے۔[273]ترکی ایماندارانہ اعتراض کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی فوجی خدمات کا سویلین متبادل پیش کرتا ہے۔[274]امریکی مسلح افواجکے بعد، ترکیہ کے پاسنیٹومیں دوسری سب سے بڑی کھڑی فوجی طاقت ہے، فروری2022ءتک اندازے کے مطابق 890,700 فوجی اہلکار ہیں۔[283]ترکیہنیٹوکے ان پانچ رکن ممالک میں سے ایک ہے جوبیلجیم،جرمنی،اطالیہاورنیدرلینڈزکے ساتھ مل کر اتحاد کی جوہری اشتراک کی پالیسی کا حصہ ہیں۔[284]کل 90 بی61 ایٹمی بم انجرلک ایئر بیس پر رکھے گئے ہیں، جن میں سے 40 جوہری تنازع کی صورت میںترک فضائیہکے استعمال کے لیے مختص کیے گئے ہیں، لیکن ان کے استعمال کے لیے نیٹو کی منظوری درکار ہے۔[285]ترک مسلح افواجکی بیرون ملک نسبتاً کافی فوجی موجودگی ہے،[286]البانیا،[287]عراق،[288]قطر،[289]اورصومالیہ[290]میں فوجی اڈے ہیں۔
+یہ ملک1974ءسےشمالی قبرصمیں 36,000 فوجیوں کی ایک فورس کو بھی برقرار رکھتا ہے۔[291]ترکیہ نے کوریائی جنگ کے بعد سےاقوام متحدہاورنیٹوکے تحت بین الاقوامی مشنوں میں حصہ لیا ہے، جس میںصومالیہ،یوگوسلاویہاورقرن افریقامیں امن مشن بھی شامل ہیں۔
+اس نے پہلیخلیجی جنگمیں اتحادی افواج کی حمایت کی،افغانستانمیں بین الاقوامی سیکورٹی اسسٹنس فورس میں فوجی اہلکاروں کا حصہ ڈالا، اورکوسووہفورس، یورو کارپس اوریورپی یونینکے جنگی گروپوں میں سرگرم رہا۔[292][293]2016ءتک ترکیہ نے شمالیعراقمیںپیشمرگہفورسز اور صومالی مسلح افواج کی حفاظت اور تربیت میں مدد کی ہے۔[294][295]ترکیہ کاانسانی حقوقکا ریکارڈ بہت زیادہ تنازعات اور بین الاقوامی مذمت کا موضوع رہا ہے۔1959ءاور2011ءکے درمیانانسانی حقوقکی یورپی عدالت نے کردوں کے حقوق،خواتین کے حقوق،ایل جی بی ٹی حقوقاور میڈیا کی آزادی جیسے مسائل پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ترکیہ کے خلاف 2,400 سے زیادہ فیصلے سنائے ہیں۔[297][298]ترکیہ کا انسانی حقوق کا ریکارڈیورپی یونینمیں ملک کی رکنیت کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔[299]1970ءکی دہائی کے آخری نصف میں، ترکیہ انتہائی بائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کے عسکریت پسند گروپوں کے درمیان سیاسی تشدد کا شکار ہوا، جس کا اختتام1980ءکی فوجی بغاوت پر ہوا۔[300]کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے، جسے ترکیہ،ریاست ہائے متحدہ،[301]اوریورپی یونین[302]نے ایکدہشت گردتنظیم قرار دیا ہے) کی بنیادعبداللہ اوجلانکی سربراہی میں کرد عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے1978ءمیں رکھی تھی۔ مارکسی-لیننسٹ نظریہ پر مبنی ایک آزاد کرد ریاست کی بنیاد کے خواہاں ہیں۔[303]پی کے کے کی طرف سے اس کی ابتدائی وجہ ترکیپ میں کردوں پر ظلم تھا۔[304][305]ایک بڑے پیمانے پرشورش1984ءمیں شروع ہوئی، جب پی کے کے نے کرد بغاوت کا اعلان کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پی کے کے نے اپنے مطالبات کو ترکیہ کے اندر نسلی کردوں کے مساوی حقوق اور صوبائی خودمختاری میں تبدیل کر دیا۔[306][307][308][309]1980ءکے بعد سے ترک پارلیمان نے اپنے ارکان سے استثنیٰ کو استغاثہ سے چھین لیا، جن میں 44 نمائندے بھی شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر کرد نواز جماعتوں کے تھے۔[310]2013ءمیں وسیع پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے، جوتقسیم گیزی پارککو منہدم کرنے کے منصوبے سے شروع ہوئے لیکن جلد ہی عام حکومت مخالف اختلاف کی شکل اختیار کر گئے۔[311]20 مئی2016ءکو ترک پارلیمنٹ نے اپنے تقریباً ایک چوتھائی ارکان سے استثنیٰ کا حق چھین لیا، جن میں کرد نوازپیپلز ڈیموکریٹک پارٹیاور مرکزی اپوزیشنجمہوریت خلق پارٹیکے 101 اراکین شامل ہیں۔[312][313]2020ءتک،2016ءمیں بغاوت کی ناکام کوشش کا جواب دینے کے بہانے،[314][315]حکام نے 90,000 سے زیادہ ترک شہریوں کو گرفتار یا قید کیا تھا۔[316]صحافیوں کو تحفظ دینے کی کمیٹیکے مطابق،جماعت انصاف و ترقیحکومت نے میڈیا کی آزادی پر کریک ڈاؤن کیا ہے۔[317][318]بہت سے صحافیوں کو ""دہشت گردی"" اور ""ریاست مخالف سرگرمیوں"" کے الزامات کا استعمال کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے۔[319][320]2020ءمیںصحافیوں کو تحفظ دینے کی کمیٹینے ترکیہ میں جیل میں بند 18 صحافیوں کی نشاندہی کی (جس میں ترکیہ کا سب سے پرانا اخبار ""جمہوریہ"" کا ادارتی عملہ بھی شامل ہے)۔[321]ترکیہ میں1858ءسےدور تنظیماتکے بعد سےہم جنس پرستسرگرمیوں کو جرم قرار دیا گیا ہے۔[323]جنیوا کنونشنکے تحت1951ءسےایل جی بی ٹیلوگوں کو ترکیہ میں پناہ حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔[324]تاہم ترکیہ میںایل جی بی ٹیلوگوں کو امتیازی سلوک، ایذا رسانی اور یہاں تک کہ تشدد کا سامنا ہے۔[325]ترک حکام نے بہت سے امتیازی سلوک کیے ہیں۔[326][327][328]ان کے باوجود، ترکیہ میںایل جی بی ٹیکی قبولیت بڑھ رہی ہے۔2016ءمیں کیے گئے ایک سروے میں، 33 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ایل جی بی ٹی لوگوں کو مساوی حقوق ملنے چاہئیں، جو2020ءمیں بڑھ کر 45 فیصد ہو گئے۔2018ءمیں ایک اور سروے سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ہم جنس پرست پڑوسی نہیں چاہتے ہیں ان کا تناسب 55 فیصد سے کم ہو گیا ہے۔2018ءسے2019ءمیں 47 فیصد تھا۔[329][330]2015ءکے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ 27% ترک عوام ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دینے کے حق میں تھے اور 19% نے اس کی بجائےسول یونینزکی حمایت کی۔[331]2003ءمیں جب سالانہ استنبول پرائیڈ کا افتتاح ہوا تو ترکیہ پہلا مسلم اکثریتی ملک بن گیا جس نےہم جنس پرستوںکے لیے پرائیڈ مارچ کا انعقاد کیا۔[332]2015ءکے بعد سے،تقسیم چوکاورشارع استقلال(جہاںتقسیم گیزی پارکمیں احتجاج ہوا تھا) پر پریڈ کو سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے، حکومتی اجازت سے انکار کر دیا گیا ہے، لیکن ہر سال سیکڑوں افراد نے پابندی کی خلاف ورزی کی ہے۔[322]ناقدین نے دعویٰ کیا ہے کہ پابندی دراصلنظریاتیتھی۔[322]ترکیہ 783,562 مربع کلومیٹر (302,535 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے۔[333]ترکیہ کے آبنائے اوربحیرہ مرمرہکے درمیان، ترکیہمغربی ایشیااورجنوب مشرقی یورپکو پلاتا ہے۔[334]ترکیہ کاایشیائیحصہ اس کی سطح کا 97 فیصد احاطہ کرتا ہے، اور اسے اکثراناطولیہکہا جاتا ہے۔[335]اناطولیہکی مشرقی حدود کی ایک اور تعریفبحیرہ اسودسےخلیج اسکندرونتک ایک غلط لکیر ہے۔[336]مشرقی تھریس، ترکیہ کا یورپی حصہ، تقریباً 10% آبادی پر مشتمل ہے اور سطح کے رقبے کے 3% پر محیط ہے۔[337]یہ ملک تین اطراف سے سمندروں سے گھرا ہوا ہے: مغ��ب میںبحیرہ ایجیئن، شمال میںبحیرہ اسوداور جنوب میںبحیرہ رومواقع ہیں۔[338]ترکیہ کی سرحد مشرق میںجارجیا،آرمینیا،آذربائیجاناورایرانسے ملتی ہے۔[338]جنوب میں اس کی سرحدسوریہاورعراقسے ملتی ہے۔[339]شمال میں اس کاتھریسیعلاقہیوناناوربلغاریہسے متصل ہے۔[338]ترکیہ کو ""سات بڑے علاقوں"" میں تقسیم کیا گیا ہے:ایجیئن،بحیرہ اسود،وسطی اناطولیہ،مشرقی اناطولیہ،مرمرہ،بحیرہ روم،جنوب مشرقی اناطولیہ[338]ایک عمومی رجحان کے طور پر، اندرون ملک اناطولیائی سطح مرتفع مشرق کی طرف بڑھتے ہی تیزی سے ناہموار ہوتا جاتا ہے۔[340]پہاڑی سلسلوں میں شمال میںکوروغلواورپونٹکپہاڑی سلسلے اور جنوب میںسلسلہ کوہ طوروسواقع پے۔
+جھیلوں کا علاقہ ترکیہ کی سب سے بڑی جھیلوں پر مشتمل ہے جیسے کہجھیل بےشہراورجھیل اغیردیر۔[341]جغرافیہ دانوں نے مشرقی اناطولیائی سطح مرتفع، ایرانی سطح مرتفع اور آرمینیائی سطح مرتفع کی اصطلاحات کا استعمال اس پہاڑی علاقے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کیا ہے جہاںعرب تختیاور یوریشین ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں مل جاتی ہیں۔مشرقی اناطولیہ علاقہمیں کوہارارات، ترکیہ کا بلند ترین مقام 5,137 میٹر (16,854 فٹ)،[342]اور ملک کی سب سے بڑیوان جھیلپر مشتمل ہے۔[343]مشرقی ترکیہدریائے فرات،دریائے دجلہاوردریائے ارسجیسے دریاؤں کا گھر ہے۔جنوب مشرقی اناطولیہ علاقہمیںجزیرہ فراتکے شمالی میدانی علاقے شامل ہیں۔[344]ترکیہ میں اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔[33]تقریباً پوری آبادی ان علاقوں میں رہتی ہے جہاں زلزلے کے خطرات کی سطح مختلف ہوتی ہے، جس میں تقریباً 70 فیصد سب سے زیادہ یا دوسرے سب سے زیادہ زلزلے والے علاقوں میں رہتے ہیں۔[345][346]اناطولیائی پلیٹ شمال کی طرف شمالی اناطولیائی فالٹ زون سے متصل ہے۔ مشرقی اناتولین فالٹ زون اور مشرق میں بٹلیس-زگروس تصادم کا زون؛ جنوب میں ہیلینک اورقبرصکے سبڈکشن زونز؛ اور مغرب میں ایجین توسیعی زون واقع ہیں۔[347]1999ءازمیتاور 1999ءدوزجہکے زلزلوں کے بعد، شمالیاناطولیہکے فالٹ زون کی سرگرمی کو ""ترکیہ میں سب سے زیادہ خطرناک قدرتی خطرات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے""۔[348]ترکیہ، شام کے زلزلے 2023ءمعاصر ترکیہ کی تاریخ میں سب سے مہلک ترین تھے۔[349]ترکیہ کا بعض اوقاتچلیسے موازنہ کیا جاتا ہے، ایک ایسا ملک جس کیزلزلوںکی ترقی کی سطح ایک جیسی ہے۔[350][351][352]تینقدیم دنیابراعظموں کے درمیان زمینی، سمندری اور ہوائی راستوں کے سنگم پر ترکیہ کی پوزیشن اور اس کے جغرافیائی خطوں میں رہائش گاہوں کی قسم نے کافی انواع کا تنوع اور ایک متحرک ماحولیاتی نظام پیدا کیا ہے۔[353]دنیا میںحیاتی تنوع علاقہجات کے 36 ہاٹ سپاٹ میں سے 3 ترکیہ میں شامل ہیں۔۔[32]یہبحیرہ روم، ایرانی-اناتولی، اورقفقازکے ہاٹ سپاٹ ہیں۔[32]اکیسویں صدیمیں حیاتیاتی تنوع کو درپیش خطرات میں ترکیہ میں موسمیاتی تبدیلیوں سے صحرا بندی بھی شامل ہے۔[354]ترکیہ کے جنگلات ترکیہ کےشاہ بلوطکا گھر ہیں۔ پلاٹینس (میدان) کی نسل کی سب سے زیادہ پائی جانے والی انواعچنارہے۔
+ترک دیودار (پینس بروٹیا) زیادہ تر ترکیہ اور دیگر مشرقیبحیرہ رومکے ممالک میں پایا جاتا ہے۔گل لالہکی کئیی جنگلی انواعاناطولیہسے ہیں، اور یہ پھول پہلی بارمغربی یورپمیںسولہویں صدیمیںسلطنت عثمانیہسے لی گئی نسلوں کے ساتھ متعارف کرایا گیا تھا۔[355][356]ترکیہ میں 40 قومی پارک، 189 قدرتی پارک، 31 فطرت کے تحفظ علاقے، 80 جنگلی حیات کے تحفظ کے علاقے اور 109 قدرتی یادگاریں ہیں جیسے کہگیلی پولی ج��یرہ نما تاریخی قومی پارک،کوہ نمرود قومی پارک،قدیم ٹرائے قومی پارک، اولوڈینیز فطرتی پارک اور پولونزکی فطرتی پارک۔[357]شمالی اناطولیائی مخروطی اور پرنپاتی جنگلات ایک ماحولیاتی خطہ ہے جو شمالی ترکیہ کےسلسلہ کوہ پونٹککے بیشتر حصے پر محیط ہے، جب کہقفقازکے مخلوط جنگلات رینج کے مشرقی سرے تک پھیلے ہوئے ہیں۔
+یہ خطہ یوروایشیائی جنگلی حیات کا گھر ہے جیسےیوریشیائی چڑی مار،سنہری عقاب، ایسٹرن امپیریل ایگل، کم دھبے والا عقاب، قفقازی بلیک گراؤس، ریڈ فرنٹڈ سیرین، اور وال کریپر۔[358]ترکیہ کے شمال مشرقی اور جنوب مشرقی علاقوں میںاناطولی تیندوااب بھی بہت کم تعداد میں پایا جاتا ہے۔[359][360]یوریشین لنکس، یورپی جنگلی بلی اورکرکلدیگرخاندان گربہنسلیں ہیں جو ترکیہ کے جنگلات میں پائی جاتی ہیں۔بحیرہ قزوین شیرجو اب معدوم ہو چکا ہے،بیسویں صدیکے نصف آخر تک ترکیہ کے انتہائی مشرقی علاقوں میں رہتا تھا۔[359][361]انقرہ کے مشہور گھریلو جانوروں میںترک انگورہ بلی،انگورہ خرگوشاورانگورہ بکریشامل ہیں۔ اورصوبہ وانکی وان بلی شامل ہیں۔
+کتے کی قومی نسلیں کنگال (اناطولی شیفرڈ)، ملاکلی اور اکباس ہیں۔[362]ترکیہ کے ساحلی علاقوں میں جوبحیرہ ایجیئناوربحیرہ رومسے متصل ہے ایکمعتدل آب و ہوابحیرہ روم کی آب و ہوا ہے، گرم، خشک گرمیاں اور ہلکی سے ٹھنڈی، گیلی سردیوں کے ساتھ ہے۔[364]بحیرہ اسودسے متصل ساحلی علاقوں میں گرم، گیلی گرمیاں اور ٹھنڈی سے سرد، گیلی سردیوں کے ساتھ معتدل سمندریآب و ہواہے۔[364]ترکیہ کےبحیرہ اسودکے ساحل پر سب سے زیادہبارشہوتی ہے اور یہ ترکیہ کا واحد خطہ ہے جہاں سال بھر زیادہ بارش ہوتی ہے۔[364]بحیرہ اسودکے ساحل کے مشرقی حصے میں سالانہ اوسطاً 2,200 ملی میٹر (87 انچ) بارش ہوتی ہے جو ملک میں سب سے زیادہ بارش ہے۔[364]بحیرہ مرمرہسے متصل ساحلی علاقے، جوبحیرہ ایجیئناوربحیرہ اسودکو جوڑتا ہے، معتدلبحیرہ رومکی آب و ہوا اور معتدل سمندری آب و ہوا کے درمیان ایک عبوری آب و ہوا ہے جس میں گرم سے گرم، اعتدال پسند خشک گرمیاں اور ٹھنڈی سے سرد، گیلی سردیوں کا موسم ہے۔[364]بحیرہ مرمرہاوربحیرہ اسودکے ساحلی علاقوں پر تقریباً ہرموسم سرمامیں برف پڑتی ہے لیکن عام طور پر چند دنوں سے زیادہ نہیں پگھلتی ہے۔[364]تاہمبحیرہ ایجیئنکے ساحلی علاقوں میں برف بہت کم اوربحیرہ رومکے ساحلی علاقوں میں بہت کم ہوتی ہے۔[364]اناطولیائی سطح مرتفع پر سردیاں خاص طور پر شدید ہوتی ہیں۔
+شمال مشرقی اناطولیہ میں −30 سے −40 °س (−22 سے −40 ° ف) کا درجہ حرارت پایا جاتا ہے، اور برف سال کے کم از کم 120 دن تک زمین پر پڑی رہتی ہے، اور پورے سال کے دوران سمندر کی چوٹیوں پر بلند ترین پہاڑوں پر موجود رہتی ہے۔
+وسطی اناطولیہ میں درجہ حرارت −20 °س (−4 °ف) سے نیچے گر سکتا ہے جب کہ پہاڑ اس سے بھی زیادہ سرد ہیں۔[364]سماجی اقتصادی، آب و ہوا اور جغرافیائی عوامل کی وجہ سے ترکی موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔[34]یہ دس میں سے نو آب و ہوا کے خطرے کے طول و عرض پر لاگو ہوتا ہے، جیسے کہ ""خوشحالی کے لیے اوسط سالانہ خطرہ""۔[34]انجمن اقتصادی تعاون و ترقیوسطی دس میں سے دو ہے۔[34]کمزوری کو کم کرنے کے لیے جامع اور تیز رفتار ترقی کی ضرورت ہے۔[365]ترکیہ کا مقصد 2053ء تک خالص صفر اخراج کو حاصل کرنا ہے۔[366]آب و ہوا کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، لیکن اس کے نتیجے میں خالص اقتصادی فوائد بھی ہوں گے، بڑے پیمانے پر ایندھن کی کم درآمدات اور فضائی آلودگی کو کم کرنے سے بہتر صحت کی وجہ سے۔[367]ترکیہ ایکبالائی متوسطآمدنی والا ملک اور ایکابھرتی ہوئی مارکیٹہے۔[346][374]او ای سی ڈیاورجی 20کا ایک بانی رکن،یہ خام ملکی پیداوار کے لحاظ سے اٹھارہویںسب سے بڑی معیشت اور،گیارہویں سب سے بڑی معیشتبلحاظمساوی قوت خرید-جی ڈی پی کو ایڈجسٹ کئے جانے کے مظابق ہے۔
+اسےنئے صنعتی ممالکمیں درجہ بند کیا گیا ہے۔
+خدمات کیجی ڈی پیکی اکثریت ہے، جبکہ صنعت کا حصہ 30% سے زیادہ ہے۔[375]زراعت کا حصہ تقریباً 7% ہے۔[375]بین الاقوامی مالیاتی فنڈکے تخمینے کے مطابق،مساوی قوت خریدکی طرف سے ترکیہ کی فی کسجی ڈی پی2023ءمیں 42,064امریکی ڈالرہے، جبکہ اس کی برائے نامجی ڈی پیفی کس 12,849امریکی ڈالرہے۔[375]براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاریترکیہ میں2007ءمیں 22.05 بلین ڈالر کی بلندی تھی اور2022ءمیں گر کر 13.09 بلین ڈالر رہ گئی۔[376]ممکنہ ترقی دیرپا ساختی اور میکرو رکاوٹوں کی وجہ سے کمزور پڑ جاتی ہے، جیسے پیداواری ترقی کی سست شرح اور اعلی افراط زر ہوتا ہے۔[346]ترکیہ ایک متنوع معیشت ہے۔ اہم صنعتوں میں آٹوموبائل، الیکٹرانکس، ٹیکسٹائل، تعمیرات، اسٹیل، کان کنی، اور فوڈ پروسیسنگ شامل ہیں۔[375]یہ ایکبڑا زرعی پیداواری ملکہے۔[381]ترکیہ خام سٹیل کی پیداوار میںآٹھویں نمبرپر, اور موٹر گاڑیوں کی پیداوار میںتیرہویں نمبرپر، بحری جہاز کی تعمیر (بلحاظ ٹن وزن)، اور دنیا میں سالانہ صنعتی روبوٹ کی تنصیب میں بھی نمایاں مقام رکھتا ہے۔[382]ترکیہ کی آٹوموٹو کمپنیوں میں ٹی ای ایم ایس اے، اوٹوکر، بی ایم سی اورٹوگشامل ہیں۔ٹوگترکیہ کی پہلی آل الیکٹرک گاڑیوں کی کمپنی ہے۔ آرچیلک، ویسٹل، اور بیکو کنزیومر الیکٹرانکس کے بڑے مینوفیکچررز ہیں۔[383]آرچیلک دنیا میں گھریلو سامان کے سب سے بڑے پروڈیوسر میں سے ایک ہے۔[384]2022ءمیں ترکیہ ٹاپ 250 کی فہرست میں بین الاقوامی کنٹریکٹرز کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔[385]ٹیکسٹائل کی برآمدات کے لحاظ سے بھی یہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔[386]ترکش ایئرلائنزدنیا کی سب سے بڑی ایئر لائنزمیں سے ایک ہے۔[387]2007ءاور2021ءکے درمیان،مساوی قوت خریدسے کم آبادی کا حصہ-6.85امریکی ڈالرفی دن بین الاقوامیخط غربت20% سے کم ہو کر 7.6% ہو گیا ہے۔[346]2023ءمیں 13.9% آبادی قومی خطرے سے متعلقخط غربتسے نیچے تھی۔[389]2021ءمیں یوروسٹیٹ کی تعریف کا استعمال کرتے ہوئے، 34% آبادی غربت یا سماجی اخراج کے خطرے میں تھی۔[390]ترکیہ میں2022ءمیں بے روزگاری کی شرح 10.4 فیصد تھی۔[391]2021ءمیں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ کل ڈسپوزایبل آمدنی کا 47% سب سے اوپر 20% آمدنی والے افراد کو موصول ہوا، جب کہ سب سے کم 20% کو صرف 6% ملا۔[392]ترکیہ کیجی ڈی پیمیںسیاحتکا حصہ تقریباً 8% ہے۔[393]2022ءمیں ترکیہ 50.5 ملین غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ بین الاقوامی سیاحوں کی آمد کی تعداد میںدنیا میں پانچویں نمبرپر ہے۔[394]ترکیہ میں21 یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے مقاماتاور 84 عالمی ثقافتی ورثے کی عارضی فہرست میں شامل ہیں۔[395]ترکیہ 519بلیو فلیگ ساحل سمندروںکا گھر ہے، جو دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔[396]یورو مانیٹر انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابقاستنبولدنیا کا سب سے زیادہ دیکھنے والا شہر ہے جہاں2023ءمیں 20.2 ملین سے زائد غیر ملکی سیاح آئے۔[388]انطالیہنےپیرساورنیویارک شہرکو پیچھے چھوڑ کر 16.5 ملین سے زیادہ غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ دنیا کا چوتھا سب سے زیادہ دیکھنے والا شہر بن گیا ہے۔[388]ترکیہ دنیا میں بجلی پیدا کرنے والاسولہواں بڑا ملک ہے۔
+ترکیہ کی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، گزشتہ دہائی میں قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔[398][399]اس نے2019ءمیں اپنی بجلی کا 43.8 فیصد ایسے ذرائع سے پیدا کیا۔[400]ترکیہ دنیا میں جیوتھرمل پاور پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک بھی ہے۔[401]ترکیہ کا پہلا نیوکلیئر پاور سٹیشن، اکویو، اپنے انرجی مکس کے تنوع میں اضافہ کرے گا۔[402]جب کل حتمی کھپت کی بات آتی ہے تو، رکاز ایندھن اب بھی ایک بڑا کردار ادا کرتے ہیں، جو کہ 73 فیصد ہے۔[403]ترکیہ کےگرین ہاؤسگیسوں کے اخراج کی ایک بڑی وجہ توانائی کے نظام میں کوئلے کا بڑا حصہ ہے۔[404]2017ءتک جبکہ حکومت نے کم کاربن توانائی کی منتقلی میں سرمایہ کاری کی تھی، رکاز ایندھن کو اب بھی سبسڈی دی گئی۔[405]2053ء تک ترکیہ کا مقصد خالص صفر اخراج کرنا ہے۔[366]ترکیہ نے گیس اور تیل کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہوئے اپنی توانائی کی فراہمی کی حفاظت کو اولین ترجیح دی ہے۔[402]ترکیہ کے توانائی کی فراہمی کے اہم ذرائعروس،مغربی ایشیااوروسط ایشیاہیں۔[406]حال ہی میں دریافت ہونے والی ساکریا گیس فیلڈ میں گیس کی پیداوار2023ءمیں شروع ہوئی۔
+مکمل طور پر فعال ہونے پر، یہ مقامی طور پر درکار قدرتی گیس کا تقریباً 30 فیصد فراہم کرے گا۔[407][408]ترکیہ کا مقصد علاقائی توانائی کی نقل و حمل کا مرکز بننا ہے۔[409]ملک میں تیل اور گیس کی کئی پائپ لائنیں پھیلی ہوئی ہیں، بشمول بلیو اسٹریم، ترک اسٹریم، اور باکو-تبلیسی-سیہان پائپ لائنز۔[409]2023ءتک ترکیہ کے پاس 3,726 کلومیٹر طویلشاہراہیں(اوتویول) اور 29,373 کلومیٹرمنقسمشاہراہیں ہیں۔[410]متعدد پل اور سرنگیں ترکیہ کے ایشیائی اور یورپی اطراف کو جوڑتی ہیں۔ آبنائےدر دانیالپر1915ء چناق قلعہ پلدنیا کا سب سے لمبا معلق پل ہے۔[411]مرمرائیاوریوریشیا سرنگآبنائے باسفورسکے تحتاستنبولکے دونوں اطراف کو جوڑتا ہے۔[412]عثمان غازی پلخلیج ازمیتکے شمالی اور جنوبی ساحلوں کو ملاتا ہے۔[413]ترک ریاستی ریلوےروایتی اور تیز رفتار دونوں ٹرینیں چلاتی ہے، حکومت دونوں کو توسیع دے رہی ہے۔[414]تیز رفتار ریل لائنوں میںانقرہ-استنبول ہائی سپیڈ ریلوے، انقرہ-قونیا ہائی سپیڈ ریلوے، اور انقرہ-سیواس ہائی سپیڈ ریلوے شامل ہیں۔[415]استنبول میٹرو2019ءمیں تقریباً 704 ملین سالانہ سواریوں کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا سب وے نیٹ ورک ہے۔[416]2024ءتک ترکیہ میں 115 ہوائی اڈے ہیں۔[417]استنبول ہوائی اڈادنیا کے 10 مصروف ترینہوائی اڈوں میں سے ایک ہے ترکیہ کا مقصد نقل و حمل کا مرکز بننا ہے۔[418][419]یہ مختلف راستوں کا حصہ ہے جوایشیااوریورپکو ملاتے ہیں، بشمول مڈل کوریڈور۔[419]2024ءمیں ترکیہ،عراق،متحدہ عرب امارات، اورقطرنے عراقی بندرگاہوں کی سہولیات کو سڑک اور ریل رابطوں کے ذریعے ترکیہ سے جوڑنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔[420]تحقیق اور ترقی پر ترکیہ کاجی ڈی پیکے حصہ کے طور پر خرچ2000ءمیں 0.47% سے بڑھ کر2021ءمیں 1.40% ہو گیا ہے۔[421]ترکیہ سائنسی اور تکنیکی جرائد میں مضامین کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں 16ویں اور نیچر انڈیکس میں 35ویں نمبر پر ہے۔[422][423]ترکیہ کا پیٹنٹ آفس مجموعی طور پر پیٹنٹ ایپلی کیشنز میں دنیا بھر میں 21 ویں اور صنعتی ڈیزائن ایپلی کیشنز میں تیسرے نمبر پر ہے۔
+ترکیہ کے پیٹنٹ آفس میں درخواست دہندگان کی اکثریت ترک باشندوں کی ہے۔ عالمی سطح پر تمام پیٹنٹ دفاتر میں، ترکیہ کے رہائشی مجموعی طور پرپیٹنٹ کی درخواستوں کے لیے 21 وی�� نمبرپر ہیں۔[424]2023ءمیں ترکیہاشاریہ عالمی اختراعمیں دنیا میں 39 ویں اور اپنے بالائی متوسط آمدنی والے گروپ میں چوتھے نمبر پر تھا۔[425]یہ ان ممالک میں سے ایک تھا جس میں گزشتہ دہائی میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔[36]توبی تاکفنڈنگ اور تحقیق کے لیے اہم ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔[426][427]ترکیہ کا خلائی پروگرام ایک قومی سیٹلائٹ لانچ سسٹم تیار کرنے اور خلائی تحقیق، فلکیات اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن میں صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔[427]گوک ترک پروگرام کے تحت، ترک خلائی نظام، انضمام اور ٹیسٹ سینٹر بنایا گیا تھا۔[428]ترکیہ کا پہلامواصلاتی سیارچہجو مقامی طور پر تیار کیا گیا ہے، ترک سیٹ 6اے،2024ءمیں لانچ کیا جائے گا۔[429]ایک منصوبہ بندپارٹیکل ایکسلریٹرمرکز کے ایک حصے کے طور پر، تارلا نامی ایک الیکٹران ایکسلریٹر2024ءمیں فعال ہو گیا تھا۔[430][431]ہارس شو آئی لینڈ پر انٹارکٹک ریسرچ سٹیشن کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔[432]ترکیہ کوبغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیوںمیں ایک اہم طاقت سمجھا جاتا ہے۔[433]اسیلسن، ٹرکش ایرو اسپیس انڈسٹریز، روکسان، اور اسفات دنیا کی 100 اعلیٰ دفاعی کمپنیوں میں شامل ہیں۔[434]ترکیہ کی دفاعی کمپنیاں اپنے بجٹ کا بڑا حصہ تحقیق اور ترقی پر خرچ کرتی ہیں۔[435]اسیلسن کوانٹم ٹیکنالوجی میں تحقیق میں بھی سرمایہ کاری کرتا ہے۔[436]ایڈریس بیسڈ پاپولیشن ریکارڈنگ سسٹم کے مطابق، ملک کی آبادی2023ءمیں 85,372,377 تھی، جس میں عارضی تحفظ کے تحتسوری مہاجرینکو چھوڑ کر۔[7]93% صوبے اورضلعی مراکزمیں رہتے ہیں۔[7]15-64 اور 0-14 عمر کے گروپوں کے اندر لوگ بالترتیب کل آبادی کے 68.3% اور 21.4% کے مساوی تھے۔ 65 سال یا اس سے زیادہ عمر والے 10.2 فیصد بنے۔[7]1950ءاور2020ءکے درمیان ترکیہ کی آبادی چار گنا سے زیادہ 20.9 ملین سے بڑھ کر 83.6 ملین ہو گئی؛ [401] تاہم،2023ءمیں آبادی میں اضافے کی شرح 0.1 فیصد تھی۔[438]2023ءمیں کلپیدائشی شرحفی عورت 1.51 بچے تھی، جو کہ فی عورت 2.10 کی تبدیلی کی شرح سے کم تھی۔[7]2018ءکے صحت کے سروے میں، مثالی بچوں کی تعداد فی عورت 2.8 بچے تھی، جو بڑھ کر فی شادی شدہ عورت 3 ہوگئی۔ .[439][440]ترکیہ کےآئینکا آرٹیکل 66 ترک کی تعریف کسی ایسے شخص کے طور پر کرتا ہے جو شہری ہو۔ ایک اندازے کے مطابق ترکیہ میں کم از کم 47 نسلی گروہ موجود ہیں۔[444]آبادی کے نسلی اختلاط سے متعلق قابل اعتماد ڈیٹا دستیاب نہیں ہے کیونکہمردم شماریکے اعداد و شمار میں1965ءکی ترک مردم شماری کے بعد نسل کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔[445]ورلڈ فیکٹ بک(کتاب حقائق عالم) کے مطابق، ملک کے 70-75% شہری ترک نژاد ہیں۔[446]ایک سروے کی بنیاد پر، کونڈا کا تخمینہ2006ءمیں 76% تھا، 78% بالغ شہریوں نے اپنے نسلی پس منظر کو ترک کے طور پر خود شناخت کیا۔[4]2021ءمیں ایک سروے میں 77 فیصد بالغ شہریوں کی نشاندہی کی گئی۔[447][448]کرد سب سے بڑی نسلی اقلیت ہیں۔[449]آبادی کے 12 سے 20% تک کے تخمینے کے ساتھ،[450]ان کی صحیح تعداد متنازع رہتی ہے۔[449]1990ءکے ایک مطالعے کے مطابق، کرد آبادی کا تقریباً 12 فیصد ہیں۔[451]صوبہ آغری،صوبہ باتمان،صوبہ بینگول،صوبہ بتلیس،صوبہ دیار بکر،صوبہ حکاری،صوبہ اغدیر،صوبہ ماردین،صوبہ موش،صوبہ سعرد،صوبہ شرناق،صوبہ تونجیلیاورصوبہ وان; میں قریب اکثریتصوبہ شانلی اورفہ(47%); اور اس میں ایک بڑی اقلیتصوبہ قارص(20%)، صوبوں میں کردوں کی اکثریت ہے۔[452]مزید برآں، اندرونی ہجرت کے نتیجے میں کرد باشندے وسطی اور مغربی ترکیہ کے تمام بڑے شہروں میں آباد ہوئے ہیں۔استنبولمیں ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ کرد آباد ہیں، جو اسے دنیا کا سب سے بڑا کرد آبادی والا شہر بناتا ہے۔[453]2021ءمیں ایک سروے میں 19% بالغ شہریوں کی شناخت نسلی کرد کے طور پر ہوئی۔[454][455]کچھ لوگ متعدد نسلی شناخت رکھتے ہیں، جیسے کہ ترک اور کرد۔[448]2006ءمیں ایک اندازے کے مطابق 2.7 ملین نسلی ترک اور کرد نسلی شادیوں سے متعلق تھے۔[456]ورلڈ فیکٹ بککے مطابق، غیر کرد نسلی اقلیتیں آبادی کا 7-12٪ ہیں۔[4]2006ءمیں کونڈا نے اندازہ لگایا کہ غیر کرد اور غیر زازا نسلی اقلیتیں آبادی کا 8.2% ہیں؛ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے عام وضاحتیں دیں جیسے کہ ترک شہری، دوسرےترکپس منظر والے لوگ ،عرب، اور دیگر۔[447]2021ءمیں ایک سروے میں 4% بالغ شہریوں کی شناخت غیر نسلی ترک یا غیر نسلی کرد کے طور پر کی گئی۔[448]آئینی عدالت کے مطابق، ترکیہ میں صرف چار سرکاری طور پر تسلیم شدہ اقلیتیں ہیں: تین غیر مسلم اقلیتیں جومعاہدہ لوزانمیں تسلیم کی گئی ہیں (آرمینیائی، یونانی، اور یہودی[پ]) اور بلغاریائی ہیں۔[ت][460][461][462]2013ءمیںانقرہ13 ویں سرکٹ ایڈمنسٹریٹو کورٹ نے فیصلہ دیا کہ لوزان معاہدے کی اقلیتی شقوں کا اطلاق ترکیہ اورسریانی زبانمیں آشوریوں پر بھی ہونا چاہیے۔[463][464][465]دیگر غیر تسلیم شدہ نسلی گروہوں میں البانیائی، بوسنیاکس، سرکیشین، جارجیائی،لاز، پوماکس، اوررومینیشامل ہیں۔[466][467][468]دفتری زبانترکی زبانہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والیترک زبانہے۔[469][470]اسےمادری زبانکے طور پر 85%[471][472]سے 90%[473]تک بولی جاتی ہے۔ کرد بولنے والے سب سے بڑی لسانی اقلیت ہیں۔[473]ایک سروے کے مطابق 13% آبادی کرد یازازاکی زبانکو پہلی زبان کے طور پر بولتی ہے۔[471]دیگر اقلیتی زبانوں میںعربی زبان،قفقاز کی زبانیں، اورگاگاؤز زبانشامل ہیں۔[473]سرکاری طور پر تسلیم شدہ اقلیتوںآرمینیائی زبان,بلغاری زبان,یونانی زبان,عبرانی زبان,[ٹ][457][460][461][462]اورسریانی زبان[464][465]کے لسانی حقوق کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
+ترکیہ میں متعدد زبانیں خطرے سے دوچار ہیں۔ترکیہ میں امیگریشن وہ عمل ہے جس کے ذریعے لوگ ملک میں رہنے کے لیے ترکیہ منتقل ہوتے ہیں۔سلطنت عثمانیہکی تحلیل کے بعد اور ترکیہ کی جنگ آزادی کے بعد، ترک (ترک) اور بلقان (بلقان ترک، البانی، بوسنیا، پومکس)، قفقاز (ابخازیوں، اجاریوں، سرکاشیوں، چیچن)، کریمیا (کریمیائی تاتار ڈائیسپورا) اور کریٹ (کریٹن ترک) نے موجودہ ترکیہ میں پناہ لی اور ملک کی بنیادی خصوصیات کو ڈھالا۔[7]ترکی کی طرف امیگریشن کے رجحانات آج بھی جاری ہیں، اگرچہ محرکات زیادہ متنوع ہیں اور عام طور پر عالمی امیگریشن کی نقل و حرکت کے نمونوں کے مطابق ہوتے ہیں - مثال کے طور پر ترکیہ کو آس پاس کے ممالک جیسے آرمینیا، مالدووا، جارجیا، سے بہت سے معاشی تارکین وطن آتے ہیں۔[476]ایران، اور آذربائیجان، بلکہ وسطی ایشیا، یوکرین اور روس سے بھی۔[477]2010 کی دہائی کے دوران ترکیہ کے تارکین وطن کے بحران نے بڑی تعداد میں لوگوں کو ترکی آنے کا دیکھا، خاص طور پرسوری خانہ جنگیسے فرار ہونے والے ہیں۔[478]نومبر2020ءمیں ترکیہ میں 3.6 ملین سوری پناہ گزین تھے؛[479]ان میںسوریہکے دیگر نسلی گروہ شامل تھے، جیسے سوری کرد[480]اورشامی ترکمانشامل ہیں۔[481]اگست2023ءتک ان مہاجرین کی تعداد 3.3 ملین بتائی گئی تھی۔ سال کے آغاز سے اب تک سوریوں کی تعداد میں تقریباً 200,000 افراد کی کمی واقع ہوئی ہے۔[482]حکومت نومبر2023ءتک 238 ہزار سوریوں کو شہریت دے چکی ہے۔[483]مئی2023ءتکیوکرینپر2022ءکے روسی حملے کے تقریباً 96,000یوکرینیمہاجرین نے ترکیہ میں پناہ مانگی ہے۔[484]2022ءمیں، تقریباً 100,000روسیشہریوں نے ترکیہ ہجرت کی، جو ترکیہ منتقل ہونے والے غیر ملکیوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آئے، یعنی2021ءسے 218 فیصد زیادہ اضافہ ہوا۔[485]ترکیہ ایکسیکولر ریاستہے جس کا کوئیسرکاری مذہبنہیں؛ آئینمذہبی آزادیاور ضمیر کی آزادی فراہم کرتا ہے۔[488][489]ورلڈ فیکٹ بک(کتاب حقائق عالم) کے مطابق،مسلمانآبادی کا 99.8 فیصد ہیں، جن میں سے زیادہ تراہل سنتہیں۔[4]ایک سروے کی بنیاد پر،2006ءمیں مسلمانوں کے لیے کونڈا کا تخمینہ 99.4% تھا۔[490]اقلیتی حقوق گروپ انٹرنیشنل کے مطابق،علویوںکے حصہ کا تخمینہ 10% سے 40% آبادی کے درمیان ہے۔[491]کونڈا کا تخمینہ2006ءمیں 5% تھا۔[490]2021ءمیں کیے گئے ایک سروے میں 4% بالغ شہریوں کی شناختعلویکے طور پر ہوئی جبکہ 88% کی شناختسنیکے طور پر ہوئی۔[448]جدید دور کے ترکیہ میں غیر مسلموں کی شرح1914ءمیں 19.1% تھی، لیکن1927ءمیں گر کر 2.5% رہ گئی۔[492]ورلڈ فیکٹ بککے مطابق فی الحال غیر مسلم آبادی کا 0.2% ہیں۔[4]2006ءمیں کونڈا کا تخمینہ غیر اسلامی مذاہب کے لوگوں کے لیے 0.18% تھا۔[490]کچھ غیر مسلم برادریوں میں آرمینیائی، آشوری، بلغاریائی آرتھوڈوکس،کیتھولک، کلڈین،یونانی،یہودیاورپروٹسٹنٹہیں۔[493]ترکیہ مسلم اکثریتی ممالک میں سب سے زیادہیہودی برادریہے۔[494]اس وقت ترکیہ میں 439گرجا گھراور عبادت گاہیں ہیں۔2006ءمیں کونڈا کا تخمینہ ان لوگوں کے لیے 0.47% تھا جن کا کوئی مذہب نہیں تھا۔[490]کونڈا کے مطابق، بالغ شہریوں کا حصہ جن کی شناخت کافر کے طور پر ہوئی ہے2011ءمیں 2 فیصد سے بڑھ کر2021ءمیں 6 فیصد ہو گئی۔[448]موبائل ریسرچ2020ءکے سروے نے پایا کہجنریشن زیڈکا 28.5% غیر مذہبی کے طور پر شناخت کرتا ہے۔[495][496]گزشتہ 20 سالوں میں، ترکیہ نے تعلیم کے معیار کو بہتر کیا ہے اور تعلیم تک رسائی بڑھانے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔[499]2011ءسے2021ءتک تعلیم تک رسائی میں بہتری میں ""اپر سیکنڈری غیر ترتیری یا ترتیری تعلیم میں 25-34 سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیمی حصول میں سب سے بڑا اضافہ"" اور پری اسکول کے اداروں کا چار گنا اضافہ شامل ہے۔[35]پروگرام برائے بین الاقوامی طالب علم تعینکے نتائج تعلیمی معیار میں بہتری کی نشاندہی کرتے ہیں۔[35]او ای سی ڈی ممالک کے ساتھ اب بھی خلا ہے۔ اہم چیلنجوں میں مختلف اسکولوں کے طلبہ کے نتائج میں فرق، دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان فرق، پری پرائمری تعلیم تک رسائی، اور سوری پناہ گزینوں کے طلبہ کی آمد شامل ہیں۔[35]وزارت قومی تعلیم قبل ثلاثی تعلیم کی ذمہ دار ہے۔[501]لازمی تعلیم سرکاری اسکولوں میں مفت ہے اور 12 سال تک رہتی ہے، اسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔[502][499]ترکیہ میں 208 یونیورسٹیاں ہیں۔[427]طلباء کو ان کے وائی کے ایس نتائج اور ان کی ترجیحات کی بنیاد پر، پیمائش، انتخاب اور تقرری مرکز کے ذریعے یونیورسٹیوں میں رکھا جاتا ہے۔[503]تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں ہائر ایجوکیشن بورڈ (ترکی زبان: Yükseköğretim Kurulu) کے کنٹرول میں ہیں۔2016ءسے ترکیہ کےصدربراہ راست تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے تمام ریکٹروں کی تقرری کرتے ہیں۔[504]2024ءٹائمز ہائر ایجوکیشن رینکنگ کے مطابق سرفہرست یونیورسٹیاںکوچ یونیورسٹی،مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی،سابانجی یونیورسٹیاوراستنبول ٹیکنیکل یونیورسٹیتھیں۔[505]عالمی یونیورسٹیوں کی اکیڈمک رینکنگ کے مطابق سرفہرستاستنبول یونیورسٹی،یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزاورحاجت تپہ یونیورسٹیتھیں۔[506]ترکی ایراسمس+ پروگرام کا رکن ہے۔[507]ترکیہ حالیہ برسوں میں غیر ملکی طلبا کا مرکز بن گیا ہے،2016ءمیں 795,962 غیر ملکی طلبا ملک میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔[508]2021ءمیں ترکیہ اسکالرشپس، ایک حکومتی مالی امداد سے چلنے والے پروگرام کو 178 ممالک میں متوقع طلبا سے 165,000 درخواستیں موصول ہوئیں۔[509][510][511]ترکیہ اسکالرشپس ترکیہ کی حکومت کی طرف سے فنڈ ایک بین الاقوامی اسکالرشپ پروگرام ہے۔[512][513][514]اسکالرشپ کے متعدد زمرے پروگرام کا حصہ ہیں۔ اگرچہ دنیا کے تقریباً ہر حصے کے امیدواروں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے اعلیٰ درجے کھلے ہیں، انڈرگریجویٹ اسکالرشپ کی علاقائی طور پر تعریف کی جاتی ہے اور ان میں صرف واضح طور پر ذکر کردہ ممالک شامل ہیں۔ گریجویٹ سطح کے اسکالرشپ میں علی کوسو سائنس اور ٹیکنالوجی گریجویٹ اسکالرشپ اور ابنی ہالڈون سوشل سائنسز گریجویٹ اسکالرشپ شامل ہیں۔[515]طالب علم کو ترکیہ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک سال کے اندر اپنے ملک واپس جانا ہوگا۔ وہ لوگ جنہیں ترکیہ میں کام کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور ترکیہ کو مطلوبہ اہل افرادی قوت کے دائرہ کار میں کام کا اجازت نامہ دیا گیا ہے، وہ اس مضمون کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔[516]وزارت صحت2003ءسے صحت عامہ کا ایک عالمگیر نظام چلا رہی ہے۔[518]یونیورسل ہیلتھ انشورنس کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی مالی اعانت آجروں پر ٹیکس سرچارج سے ہوتی ہے، جو فی الحال 5% ہے۔[518]پبلک سیکٹر کی فنڈنگ تقریباً 75.2% صحت کے اخراجات کا احاطہ کرتی ہے۔[518]عالمی صحت کی دیکھ بھال کے باوجود،2018ءمیں صحت پر مجموعی اخراجات جی ڈی پی کے حصہ کے طور پر او ای سی ڈی ممالک میں جی ڈی پی کے 6.3 فیصد پر سب سے کم تھے، جبکہ او ای سی ڈی کی اوسط 9.3 فیصد تھی۔[518]ملک میں کئی پرائیویٹ ہسپتال ہیں۔[519]حکومت نے2013ءسے کئی ہسپتالوں کے احاطے، جنہیں سٹی ہسپتال کہا جاتا ہے، کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے۔[519]ترکی صحت کی سیاحت کے لیے سرفہرست 10 مقامات میں سے ایک ہے۔[520]اوسط عمر متوقع 78.6 سال ہے (75.9 مردوں کے لیے اور 81.3 خواتین کے لیے)، اس کے مقابلے میںیورپی یونینکی اوسط 81 سال ہے۔[518]ترکیہ میںموٹاپےکی اعلی شرح ہے، اس کی 29.5% بالغ آبادی کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) ویلیو 30 یا اس سے اوپر ہے۔[521]فضائی آلودگیجلد موت کی ایک بڑی وجہ ہے۔[522]ترکیہ میں طبی سیاحت کا کافی کاروبار ہے،2018ءکے پہلے چھ مہینوں میں تقریباً 178 ہزار سیاح صحت کے مقاصد کے لیے تشریف لائے۔ 67% نے پرائیویٹ اسپتال، 24% سرکاری اسپتال اور 9% یونیورسٹی کے اسپتالوں کا استعمال کیا۔
+بین الاقوامی صحت سیاحت اور سیاحوں کی صحت سے متعلق ضابطہ13 جولائی2017ءکو نافذ ہوا۔ یہ صرف ان لوگوں پر لاگو ہوتا ہے جو خاص طور پر علاج کے لیے آتے ہیں۔[524]انیسویں صدیمیںسلطنت عثمانیہمیں ترکیہ کی شناخت پر بحث ہوئی، جس میں تین اہم نظریات تھے: ترک ازم، اسلامیت اور مغربیت۔[525]یورپیااسلامکے علاوہ ترکیہ کی ثقافت بھیاناطولیہکی مقامی ثقافتوں سے متاثر تھی۔[526]جمہوریہ کے قیام کے بعد،کمالزمنے ترک ثقافت پر زور دیا، ""اسلام کو ذاتی یقین کا معاملہ"" بنانے کی کوشش کی، اور جدیدیت کی پیروی کی۔[527]اس وقت ترکیہ میں مختلف مقامی ثقافتیں ہیں۔موسیقی،لوک رقص، یاکبابجیسی چیزیں مقامی علاقے کی شناخت کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔
+ترکیہ کی ایک قومی ثقافت بھی ہے، جیسے کہ ""قومی فلمی ستارے، راک بینڈ، فیشن کے رجحانات، اور ساکر اور باسکٹ بال لیگ""۔[528]عثمانی منی ایچر کا تعلق فارسی منی ایچر روایت سے ہے اور اسی طرحچینی پینٹنگکے انداز اور تکنیک سے بھی متاثر ہے۔ الفاظ تصویر یا نقش عثمانی ترکیہ میں منی ایچر پینٹنگ کے فن کی تعریف کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ فنکاروں نے جن اسٹوڈیوز میں کام کیا انہیں نقاشین کہا جاتا تھا۔[529]نقطہ نظر کی تفہیم قریبی یورپینشاۃ ثانیہکی مصوری کی روایت سے مختلف تھی، اور جس منظر کی تصویر کشی کی گئی تھی اس میں اکثر ایک تصویر میں مختلف اوقات اور جگہیں شامل ہوتی تھیں۔ انہوں نے اس کتاب کے سیاق و سباق کی قریب سے پیروی کی جس میں انہیں شامل کیا گیا تھا، آرٹ کے اسٹینڈ اکیلے کاموں سے زیادہ عکاسی۔ سولہویں صدی کے فنکارنقاش عثماناورمتراکجی نصوحاس دور کے نمایاں ترین فنکاروں میں سے ہیں۔ترکیہ کی مصوری، مغربی معنوں میں،انیسویں صدیکے وسط سے فعال طور پر تیار ہوئی۔ پینٹنگ کے پہلے اسباق1793ءمیں جو اباستنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی(اس وقت امپیریل ملٹری انجینئرنگ اسکول) میں طے کیے گئے تھے، زیادہ تر تکنیکی مقاصد کے لیے تھے۔[530]انیسویں صدیکے آخر میں، ترکیہ کی مصوری میں، خاص طور پرعثمان حمدی بیگکے ساتھ، مغربی معنوں میں انسانی شخصیت قائم کی جا رہی تھی۔ عصری رجحانات میں سےتاثریتبعد میںخلیل پاشاکے ساتھ نمودار ہوئی۔انیسویں صدیکے دیگر اہم ترک مصوروں میںفریق ابراہیم پاشا،عثمان نوری پاشا،شکر احمد پاشا، اورخوجہ علی ریاضتھے۔[531]قالین اور ٹیپسٹری بُنائی ایک روایتی ترک فن ہے جس کی جڑیں قبل ازاسلامکے زمانے میں ہیں۔ اپنی طویل تاریخ کے دوران، ترکیہ میںقالیناور ٹیپسٹری بُننے کے فن اور دستکاری نے متعدد ثقافتی روایات کو مربوط کیا ہے۔
+ترک طرز کے نمونوں کے علاوہ جو مروجہ ہیں، فارسی اوربازنطینینمونوں کے نشانات کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ آرمینیائی، قفقازی اور کرد قالین کے ڈیزائن میں استعمال ہونے والے نمونوں کے ساتھ بھی مماثلتیں ہیں۔وسط ایشیامیںاسلامکی آمد اوراسلامی فنونکی ترقی نےقرون وسطیٰکے دور میں ترکیہ کے نمونوں کو بھی متاثر کیا۔
+اس طرح ترکیہ کے قالینوں اور ٹیپسٹریوں میں استعمال ہونے والے ڈیزائنوں، نقشوں اور زیورات کی تاریخ ترکوں کی سیاسی اور نسلی تاریخ اوراناطولیہکے ثقافتی تنوع کی عکاسی کرتی ہے۔
+تاہم سائنسی کوششیں ناکام رہیں، ابھی تک، کسی خاص ڈیزائن کو کسی مخصوص نسلی، علاقائی، یا یہاں تک کہ خانہ بدوش بمقابلہ گاؤں کی روایت سے منسوب کرنے سے قاصر ہے۔[532]ترکیہ کی پینٹنگ1960ءکی دہائی سے مسلسل ترقی کرتی رہی ہے، ترقی کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ، جس کا ثبوت بہت سے نئے فنکاروں نے بہت سے مختلف انداز میں دکھایا ہے۔
+سیاہ قلم گروپ1960ءمیںانقرہمیں قائم ہوا۔ وہچودہویں صدیاورپندرہویں صدیکے اوائل کے مصور سیاہ قلم سے متاثر ہوئے۔[533]سلطنت عثمانیہاوراسلامی دنیاکے ساتھ ساتھیورپکے درمیان تعامل نے جدید دور کے ترکموسیقیاور ادبی فنون میں ترک، اسلامی اور یورپی روایات کے امتزاج میں اہم کردار ادا کیا۔[534]زیادہ تر عثمانی دور میںترک ادب،فارسی ادباورعربی ادبسے بہت زیادہ متاثر تھا۔[535]انیسویں صدیکیتنظیماتاصلاحات نے پہلے سے نامعلوم مغربی انواع کو متعارف کرایا، بنیادی طور پرناولاور مختصر کہانی۔تنظیماتکے دور میں بہت سے مصنفین نے بیک وقت کئی اصناف میں لکھا: مثال کے طور پر، شاعرنامق کمالنے بھی1876ءکا ناول انتباہ (بیداری) لکھا، جب کہ صحافی سیناسی نے1860ءمیں لکھا، پہلا جدید ترکی ڈراما، ایک ایکٹ کامیڈی (شاعر کی شادی) تھا۔ جدیدترک ادبکی زیادہ تر جڑیں1896ءاور1923ءکے درمیان قائم ہوئیں۔[536]بیسویں صدیکی ترک شاعری میں جدت کا پہلا بنیادی قدم ناظم حکمت نے اٹھایا،[537]جس نےآزاد نظمکا انداز متعارف کرایا۔
+ترکشاعریمیں ایک اور انقلاب1941ءمیں اورہان ویلی، اوکتے رفعت اور ملیح سیودیت کی قیادت میں گیرپ تحریک[538]کے ساتھ آیا۔ترکی میں ثقافتی اثرات کی آمیزش کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے، مثال کے طور پر،2006ءکاادب کا نوبل انعامحاصل کرنے والےاورخان پاموککے ناولوں میں ""تصادم اور ثقافتوں کے باہمی ربط کی نئی علامتوں"" کی شکل میں نظر آیا۔[539]ترک تھیٹر کی ابتدا قدیم کافر رسموں اور زبانی داستانوں سے ہوئی ہے۔[540]ہزاروں سال پہلے اناطولیہ کے باشندوں کی رسومات کے دوران پیش کیے جانے والے رقص، موسیقی اور گانے وہ عناصر ہیں جن سے پہلے شوز کا آغاز ہوا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، قدیم رسومات، خرافات، داستانیں اور کہانیاں تھیٹر کے شوز میں تبدیل ہوئیں۔گیارہویں صدیسے شروع ہونے والیسلجوقترکوں کی روایاتاناطولیہکے مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل گئیں اور متنوع ثقافتوں کے درمیان تعامل نے نئے ڈراموں کی راہ ہموار کی۔[540][541]مدحکہانی سنانے والےقصہ گوتھے جنہوں نے عثمانی دور میں سامعین کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔[540]قرہ غوز اور حاجی وادروایتی ترک پتلی تماشے کے مرکزی کردار ہیں، جو عثمانی دور میں مقبول ہوئے اور پھرسلطنت عثمانیہکے بیشتر نسلی گروہوں میں پھیل گئے۔[542]ترک موسیقی کو مختلف طریقوں سے بیان کیا جا سکتا ہے، جس میں ""عالمی سطح پر مارکیٹ کی جانے والی پاپ موسیقی جس میں تھوڑا سا مقامی رنگ ڈالا گیا ہے"" سے لے کر ایک ایسی رسم تک شامل ہے جس میںاناطولیہکی مختلف تہذیبوں کی ہزاروں سال کی میراث شامل ہے۔[543]ترکیہ کے بہت سے شہروں اور قصبوں میں مقامی موسیقی کے متحرک مناظر ہیں جو کہ بدلے میں متعدد علاقائی موسیقی کے انداز کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود، مغربی موسیقی کے انداز جیسےپاپ موسیقیاور کانٹو نے1970ءاور1980ءکی دہائی کے آخر میںعربی زبانمیں مقبولیت کھو دی۔ یہ1990ءکی دہائی کے آغاز میں ایک کھلنے والی معیشت اور معاشرے کے نتیجے میں دوبارہ مقبول ہوا۔پاپ موسیقیکی پھر سے بڑھتی ہوئی مقبولیت نے کئی بین الاقوامی ترک پاپ اسٹارز کو جنم دیا جیسےاجدا پیکان،سزن آکسو، ایرول ایوگین، ایم ایف او، ترکان، سرتاب ایرنر، تیومان، کینان ڈوگولو، لیونٹ یوکسل اور ہانڈے ینر شامل ہیں۔
+بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ ترکجازاوربلوزموسیقاروں اور کمپوزروں میں احمد ارتیگن[544](اٹلانٹک ریکارڈز کے بانی اور صدر)، نوکھیت رواکان اور کریم گورسیو شامل ہیں۔ترکیہ بے شمارنئے سنگی دوربستیوں کا گھر ہے، جیسےچاتالہویوک[546][547]کانسی کے دورسے، اہم تعمیراتی باقیات میںآلاجا ہوئیوکاورٹرائےکی دوسری تہہ شامل ہیں۔[548]قدیم یونانی اور قدیمرومی فن تعمیرکی مختلف مثالیں ہیں، خاص طور پرایجیئن علاقہمیں پھیلی ہوئی ہیں۔[549]بازنطینی فن تعمیرچوتھی صدیعیسوی کا ہے۔ اس کی بہترین مثالآیا صوفیہہے۔
+بازنطینی طرز تعمیراستنبولکی فتح کے بعد ترقی کرتا رہا، جیسا کہ بازنطینی احیا فن تعمیر طور پر۔[550]سلجوق سلطنت روماور ترکیہ کی سلطنتوں کے دور میں، ایک الگ فن تعمیر ابھرا، جس نے بازنطینی اور آرمینیائی فن تعمیرات کومغربی ایشیااوروسط ایشیامیں پائے جانے والے تعمیراتی طرز کے ساتھ شامل کیا۔[551]سلجوق فن تعمیر میں اکثر پتھروں اور اینٹوں کا استعمال کیا جاتا تھا، اور متعددکارواں سرائے،مدارساورمزارتیار کیے جاتے تھے۔[552]عثمانی طرز تعمیرشمال مغربیاناطولیہاورتھریسمیں ابھرا۔ ابتدائی عثمانی فن تعمیر نے ""روایتی اناطولیائی اسلامی فن تعمیر کو مقامی تعمیراتی مواد اور تکنیکوں کے ساتھ ملایا""۔[553]استنبولکی فتح کے بعد،سولہویں صدیاورسترہویں صدیمیں کلاسیکی عثمانی فن تعمیر کا ظہور ہوا۔[554]کلاسیکی دور کا سب سے اہممعمار سنان پاشاہے، جس کے بڑے کاموں میںشہزادہ مسجد،جامع سلیمانیہ، اورسلیمیہ مسجد، ادرنہشامل ہیں۔[555]اٹھارہویں صدیکے آغاز میں،عثمانی فن تعمیریورپی عناصر سے متاثر ہوا، جس کے نتیجے میں عثمانیباروکطرز کی ترقی ہوئی۔[556]انیسویں صدیمیں یورپی اثر و رسوخ جاری رہا۔ مثال میں بالیان خاندان کے کام شامل ہیں جیسے کہ نو باروک طرز کادولماباغچہ محل۔[557]دولماباغچہ محلترکیo کے شہراستنبولمیں واقع ایک تاریخی شاہی محل ہے جو1853ءسے1922ءتکسلطنت عثمانیہکا انتظامی مرکز تھا۔عثمانی فن تعمیرکا آخری دور پہلی قومی تعمیراتی تحریک پر مشتمل ہے جس میںمحمد وداد تیکاورمعمار کمال الدینکے کام شامل ہیں۔[558]1918ءسے ترکیہ کے فن تعمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔1918ءسے1950ءتک، پہلے میں پہلی قومی تعمیراتی تحریک کا دور شامل ہے، جو جدید طرز تعمیر میں تبدیل ہوا۔
+جدید اور یادگار عمارتوں کو عوامی عمارتوں کے لیے ترجیح دی گئی، جب کہ ""ترک ہاؤس"" قسم کی مقامی فن تعمیر نے نجی مکانات کو متاثر کیا۔1950ءسے1980ءتک، دوسرے حصے میں شہری کاری، جدیدیت اور بین الاقوامی کاری شامل ہے۔ رہائشی مکانات کے لیے، ""مضبوط کنکریٹ، سلیب بلاک، درمیانے درجے کے اپارٹمنٹس"" رائج ہو گئے۔1980ءسے، تیسرے حصے کی تعریف صارفین کی عادات اور بین الاقوامی رجحانات، جیسے شاپنگ مالز اور آفس ٹاورز سے ہوتی ہے۔ ""ترک ہاؤس اسٹائل"" کے ساتھ لگژری رہائش گاہوں کی مانگ رہی ہے۔[559]اکیسویں صدیمیں، شہری تجدید کے منصوبے ایک رجحان بن چکے ہیں۔[560]قدرتی آفات جیسے زلزلوں کے خلاف لچک شہری تجدید کے منصوبوں کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔[561]ترکیہ کے عمارتی اسٹاک کا تقریباً ایک تہائی، جو کہ 6.7 ملین یونٹس کے برابر ہے، کا اندازہ خطرناک اور شہری تجدید کی ضرورت ہے۔[562]ترک پکوانزیادہ ترعثمانی پکوانکا ورثہ ہے،[565][566]جس میں ترک، بازنطینی، بلقان، آرمینیائی، جارجیائی، کرد، عرب اور فارسی پکوانوں کے عناصر شامل ہیں۔
+اسےبحیرہ روم،مشرق وسطیٰ،وسط ایشیائی،بلقاناورمشرقی یورپیکھانوں کے فیوژن اور تطہیر کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔[565][566][567]یورپ،ایشیااوربحیرہ رومکے درمیان ملک کی پوزیشن نے ترکوں کو بڑے تجارتی راستوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں مدد کی، اور ایک مثالی زمین کی تزئین اورآب و ہوانے پودوں اور جانوروں کو پنپنے کی اجازت دی۔ترک پکوانپندرہویں صدیکے وسط تک اچھی طرح سے قائم ہو چکا تھا، جس نےسلطنت عثمانیہکےکلاسیکی دورکا آغاز کیا۔دہیسلاد؛میزے؛مچھلیاور سمندری غذا؛ انکوائری، ابلی ہوئی یا ابلی ہوئی گوشت کی اقسام؛زیتون کے تیلسے پکی ہوئی سبزیاں یا بھرے اور لپیٹے ہوئے سبزیاں؛ اور مشروبات جیسےشربت،عیراناور راکی ترکیہ کے بنیادی اشیا بن گئے۔
+سلطنت نے اپنے زمینی اور آبی راستوں کو پوریدنیاسے غیر ملکی اجزا درآمد کرنے کے لیے استعمال کیا۔سولہویں صدیکے آخر تک، عثمانی دربار نے 1,400 سے زیادہ باورچیوں کو رکھا اور کھانے کی تازگی کو کنٹرول کرنے والے قوانین منظور کیے۔1923ءمیں جمہوریہ کے قیام کے بعد سے، غیر ملک�� کھانے جیسے کہ فرانسیسی ہالینڈائز ساس اور مغربیفاسٹ فوڈنے جدیدترک پکوانمیں اپنا راستہ بنا لیا ہے۔میزےشامی،ترک، بلقان، آرمینیائی، کرد، اور یونانی کھانوں میں اشتہا آور چھوٹے پکوانوں کا انتخاب ہے۔ یہ ہسپانوی تاپس اوراطالویاینٹی پیسٹی سے ملتا جلتا ہے۔[568]حلومیبکریوں اوربھیڑکےدودھسے بنا، ایک نیم سخت قبرصیپنیرہے۔[569][570][571][572][573][574]چونکہ اس کا نقطہ پگھلاؤ بہت زیادہ ہے اس لیے اسے آسانی سے تلا اور بھونا جا سکتا ہے۔ حلومیقبرص،یونان، ترکیہ اورمشرق وسطیمیں بہت مقبول ہے۔شیش کبابگرلگوشتکے ٹکڑے پر مشتمل معروف پکوان ہے۔[575]یہشاشلکنامی ایک ڈش کے مترادف کے طور پر بنائی جاتی ہے۔جوقفقاز کےعلاقے میں بہت ذوق و شوق سے بنائی جاتی ہے۔[576]لوگ زیادہ تر اسے دعوتوں اور تقریبات میں تیار کرواتے ہیں۔
+یہکباب کیبہت سی اقسام میں سے ایک ہے ،مشرق وسطیمیں شروع ہونے والے گوشت کے پکوان کی ایک قسم ہے۔جسے بعد میں سبزیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
+یہ روایتی طور پربھیڑ کے گوشت سے تیار کی جاتی ہے[577]لیکن مختلف قسم کے گوشت، مرغی یا مچھلی سے بھی تیار کی جاتی ہے۔[578]ترکی میں، شیش کباب اور اس کے ساتھ پیش کی جانے والی سبزیاں الگ سے پکائی جاتی ہیں ۔[579]۔ اس ڈش کی سجاوٹ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔آشور[580]یا نوح کی پڈنگ ایک ترک میٹھی ڈش ہے جس میں اناج، پھل، خشک پھل اور گری دار میوے شامل ہوتے ہیں۔ ترکی میں یہ پورا سال بنایا جاتا ہے اور خاص طور پر محرم میں[581]بطور خاص دس محرم کے دن، کیونکہ دس محرم کے دن کو عربی میں ""'عاشور"" کہا جاتا ہے جس کا مطلب عربی میں ""دسواں"" کے ہیں۔
+ایشورے ان ترکی میٹھوں میں سے ایک ہے جس میں کسی جانور کی مصنوعات شامل نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہ ہے کہ ہر قسم کے تشدد اور خون و خرابا کی مخالفت ہے۔ ترکی میں ایلیویز اس پڈنگ کو فروغ دینے کے لیے اہم گروپ ہیں۔ خصوصی طور پر اسے دس محرم کو پکایا جاتا ہے ۔
+روایتی طور پر، ایشورے کو بڑی مقدار میں بنایا جاتا ہے اور اپنے دوستوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں، ساتھیوں، ہم جماعتوں کو بنا مذہب کی تفریق کیے محبت اور امن کے پیغام کے طور پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ سرد مہینوں کے دوران اسے بنایا اور کھایا جاتا ہے۔ یہ ایک کیلوریز سے بھرپور طاقتور غذا ہے اس لیے اس سے پورا سال لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔راحت الحلقومنشاستے اورچینیکے جیل پر مبنی کنفیکشن کا ایک خاندان ہے۔ پریمیم قسمیں زیادہ تر کٹی ہوئیکھجور، پستے، ہیزلنٹس یااخروٹپر مشتمل ہوتی ہیں جو جیل سے بندھے ہوئے ہیں۔ روایتی قسمیں اکثر گلاب کے پانی، مسٹک گم، برگاموٹ اورنج یا لیموں کے ساتھ ذائقہ دار ہوتی ہیں۔پیتا[582]یونانیمیں اور اس کے علاوہ اسے عربی روٹی یا شامی روٹی بھی کہا جاتا ہے[583][584][585]گندم کے آٹا سے پکی ہوئی ایک نرم، خمیریمسطح روٹیہے، جس کا آغازمغربی ایشیا[585][586]میں ممکنہ طور پربین النہرینمیں 2500 ق م میں ہوا۔[587]ترکیہ میں تمام کھیلوں میں سب سے زیادہ مقبولایسوسی ایشن فٹ بالہے۔[588]ترکیہ کی سرفہرست ٹیموں میںفینربچے ایس کے،گالاتاسرے ایف سیاور بیشکتاش شامل ہیں۔2000ءمیں،گالاتاسرے ایف سییوئیفا کپ اور یوئیفا سپر کپ جیتا۔ دو سال بعد،ترکیہ قومی فٹ بال ٹیمجاپاناورجنوبی کوریامیں2002ء فیفا عالمی کپفائنلز میں تیسرے نمبر پر رہی، جب کہ2008ءمیں، قومی ٹیم2002ء فیفا عالمی کپکے مقابلے کے سیمی فائنل میں پہنچی۔دیگر مرکزی دھارے کے کھیل جیسےباسکٹ بالاوروالی بالبھی مقبول ہیں۔[589]مردوں کی قومی باس��ٹ بال ٹیم اور خواتین کی قومی باسکٹ بال ٹیم کامیاب رہی ہیں۔ انادولو ایفیس ایس کے. بین الاقوامی مقابلوں میں سب سے کامیاب ترک باسکٹ بال کلب ہے۔[590][591]فینربچے ایس کےمسلسل تین سیزن (2015ء–2016ء، 2016ء–2017ء اور 2017ء–2018ء) میں یورو لیگ کے فائنل میں پہنچی،2017ءمیں یورپی چیمپئن بنی۔2013-14ء یورو لیگ ویمن باسکٹ بال چیمپئن شپ کا فائنل ترکیہ کی دو ٹیموںگالاتاسرےاورفینربچےکے درمیان کھیلا گیا اور گالاتاسرے نے جیتا۔[592]فینربچے نے 2022–23ء اور 2023–24ء سیزن میں لگاتار دو یورولیگ جیتنے کے بعد 2023ء ایف آئی بی اے یورپ سپر کپ خواتین جیتا۔خواتین کی قومی والی بال ٹیم کئی تمغے جیت چکی ہے۔[593]خواتین کے والی بال کلب، یعنیوقف بینک ایس کے،فینربچےاور اجنزجبشے، نے متعدد یورپی چیمپئن شپ ٹائٹل اور تمغے جیتے ہیں۔وقف بینک ایس کےترکیہ کا ایک پیشہ وروالی بالکلب ہے جواستنبول، ترکیہ میں واقع ہے۔1986ءمیں قائم کیا گیا، وقف بینک ایس کے اس وقت دنیا کی خواتین کی بہترین والی بال ٹیموں میں سے ایک ہے،[594][595]ترکیہ کا روایتی قومی کھیل عثمانی دور سےروغنی کشتی(تیلکشتی) رہا ہے۔[596]صوبہ ادرنہنے1361ءسے سالانہ کرکپنارروغنی کشتیٹورنامنٹ کی میزبانی کی ہے، جو اسے دنیا کا سب سے طویل مسلسل منعقد ہونے والا کھیلوں کا مقابلہ بناتا ہے۔[597][598]انیسویں صدیاوربیسویں صدیکے اوائل میں، خوجا یوسف، نور اللہ حسن اور کزیلجکلی محمود جیسے آئل ریسلنگ چیمپئنز نے عالمی ہیوی ویٹ ریسلنگ چیمپئن شپ کے ٹائٹل جیت کریورپاورشمالی امریکامیں بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔
+ایف آئی ایل اے کے زیر انتظام بین الاقوامی ریسلنگ اسٹائلز جیسے فری اسٹائل ریسلنگ اور گریکو رومن ریسلنگ بھی مقبول ہیں، جن میں بہت سے یورپی، عالمی اور اولمپک چیمپئن شپ ٹائٹل ترک پہلوانوں نے انفرادی طور پر اور قومی ٹیم کے طور پر جیتے ہیں۔[599]سیکڑوںٹیلی ویژنچینلز، ہزاروں مقامی اور قومیریڈیو اسٹیشن، کئیی درجناخبارات، ایک پیداواری اور منافع بخش قومیسنیمااوربراڈ بینڈکی تیز رفتار انٹرنیٹ کا استعمال ترکیہ میں ایک متحرک میڈیا انڈسٹری کو تشکیل دیتا ہے۔[600][601]ٹی وی کے ناظرین کی اکثریت عوامی نشریاتی ادارےترک ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشن(ٹی آر ٹی) کے درمیان مشترک ہے،ٹی آر ٹییاترک ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشنترکی کا ""عوامی نشریات "" ہے جس کا قیام یکم مئی 1964 میں عمل میں آیا۔ 5 مئی 1927 کو اپنی نشریات کا آغاز کرنے والا ریڈیو کا ادارہ بھی اسی تاریخ سے ٹی آر ٹی کے ساتھ منسلک ہو گیا۔
+دیگر نیٹ ورک طرز کے چینلز جیسے کنال ڈی، شو ٹی وی، اے ٹی وی اور اسٹار ٹی وی عام دیکھے جاتے ہیں۔
+براڈکاسٹ میڈیا کی رسائی بہت زیادہ ہے کیونکہ سیٹلائٹ ڈشز اور کیبل سسٹم وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں۔[602]ریڈیو اور ٹیلی ویژن سپریم کونسل (آر ٹی یو کے) نشریاتی ذرائع ابلاغ کی نگرانی کرنے والا سرکاری ادارہ ہے۔[602][603]گردش کے لحاظ سے، سب سے زیادہ مقبول اخبارات پوسٹا،حریت، سوزکو، صباح اور ہیبرترک ہیں۔[604]فیلیز اکین,فاطمہ گیرک,حولیا کوچیغیت, اورترکان شورائےترک سنیما کے اپنے دور کی نمائندگی کرتے ہیں۔[605]ترک ہدایت کار جیسےمتین ایرکسان,نوری بلگے جیلان,یلماز گونئی,زکی دمیرکوبوزاورفرزان اوزپیتیکمتعدد بین الاقوامی ایوارڈز جیسے پالم ڈی آر اور گولڈن بیئر جیتے۔[606]ترک ٹیلی ویژن ڈرامے ترکیہ کی سرحدوں سے باہر تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں اور منافع اور عوامی رابطوں کے لحاظ سے ملک کی سب سے اہم برآمدات میں شامل ہیں۔[607]گزشتہ دہائی کے دورانمشرق وسطیکی ٹیلی ویژن مارکیٹ کو صاف کرنے کے بعد،2016ءمیں ایک درجن سے زیادہجنوبی امریکااوروسطی امریکاممالک میں ترک شوز نشر ہو چکے ہیں۔[608][609]ترکیہ آج ٹیلی ویژن سیریز کا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔[610][611][612]عمومیسیاحتحکومتمعیشتلوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+307,شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%B1,شہريک بڑی انسانی بستی کو کہتے ہیں۔ ایک بڑی آبادیوالیبستی جہاں عمارتیں، دکانیں اور سڑکیں وغیرہ بکثرت ہوں، جہاں کی صحت تعلیم اور تعمیرات وغیرہ کی انتظامیہ یا بلدیہ (میونسپل کارپوریشن) موجود ہو۔
+308,یوریشیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7,"یوریشیایااوراسیا(انگریزی: Eurasia) ایک عظیم قطعہ زمین ہے، جو 54,00,000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ خطہیورپاورایشیانامی براعظموں میں تقسیم ہے۔ یوریشیا عام طور پر ایشیا اور یورپ کے درمیان موجود ایک خاص خطے کا نام ہے۔یورپی روایتی طور پر یورپ اور ایشیا کو دو الگ براعظم تصور کرتے ہیں، جوبحیرہ ایجیئن،درہ دانیال،آبنائے باسفورس،بحیرہ اسود،کوہ قفقاز،بحیرہ کیسپیئن،دریائے یورالاورکوہ یورالکے ذریعے ایک دوسرے سے الگ ہیں، لیکن بعضجغرافیہ دانیورپ اور ایشیا کو ایک ہی براعظم قرار دیتے ہیں، جسے یوریشیا کہا جاتا ہے۔"
+309,بحیرہ مرمرہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%AD%DB%8C%D8%B1%DB%81_%D9%85%D8%B1%D9%85%D8%B1%DB%81,"بحیرہ مرمرہ(Sea of Marmara یا Marmara Sea)
+(ترکی زبان:Marmara Denizi،یونانی:Θάλασσα του Μαρμαρά)یورپاورایشیاکے درمیان ایک سمندر ہے جوبحیرہ ایجیئنکوبحیرہ اسودسے ملاتا ہے اورترکیکے ایشیائی و یورپی علاقوں کو جدا کرتا ہے۔آبنائے باسفورساسےبحیرہ اسوداوردرہ دانیالاسےبحیرہ ایجیئنسے منسلک کرتا ہے۔ آبنائے باسفورساستنبولشہر کو دو براعظموں میں تقسیم کرتی ہے۔بحیرہ مرمرہ کا رقبہ 11 ہزار 350 مربع کلومیٹر ہے۔"
+310,بحیرہ اسود,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%AD%DB%8C%D8%B1%DB%81_%D8%A7%D8%B3%D9%88%D8%AF,"بحیرہ اسودیابحیره سیاهجنوب مشرقی یورپاوراناطولیہکے درمیان واقع ایکجسم آبہے، جسے اسلامی تاریخ کی کتابوں میں بحیرۂ بنطس لکھا گیا ہے۔ بحیرہ اسود دراصل انگریزی نام Black Sea کا عربی ترجمہ ہے۔ یہ سمندر درحقیقتبحر اوقیانوساورمشرقی یورپکے درمیان واقع ہے اوربحیرہ رومکے ذریعے اس سے جڑا ہوا ہے۔ اسی طرح یہ سمندرآبنائے باسفورساوربحیرہ مرمرہکے ذریعےبحیرہ رومسے اورآبنائے کرچکے ذریعےبحیرہ ازوفسے بھی منسلک ہے۔یہ بحیرہ 4 لاکھ 22 ہزار مربعکلومیٹررقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 2210میٹرہے۔ بحیرہ اسود میں گرنے والا سب سے اہم دریاجرمنیسے نکلنے والادریائے ڈینیوبہے، جو دس ممالک سے گزرنے کے بعدرومانیہکے ساحل پر بحیرہ اسود میں جا گرتا ہے۔بحیرہ اسود کے ساحلی ممالک میںترکی،بلغاریہ،رومانیہ،یوکرین،روساورجارجیاشامل ہیں۔یوکرینکی خود مختار جمہوریہکریمیابھی اسی کے ساحل پر واقع ہے۔ترکی کا شہراستنبولبحیرہ اسود کے کنارے واقع اہم ترین شہر ہے۔بحیرہ اسودایشیااوریورپکے درمیانبحیرہ رومکے علاقے کا ایک آبی ذخیرہ ہے۔ بحیرہ اسودبلقانکے شمال،مشرقی یورپیمیدان کے جنوب،قفقازکے مغرب اوراناطولیہکے شمال میں واقع ہے۔ اس کے اردگردبلغاریہ،جارجیا،رومانیہ،روس،ترکیہاوریوکرینواقع ہیں۔ بحیرہ اسود میں کئی بڑے دریا جیسا کہڈینیوب، ڈنیپر اورڈونگرتے ہیں۔ اگرچہ اس بحیرہ کے گرد محض 6 ممالک واقع ہیں مگر اس میں گرنے والے ��ریا 24 ممالک سے گذر کر آتے ہیں۔بحیرہ اسود کا کل رقبہ 4،36،400 مربع کلومیٹر (ماسوائےبحیرہ ازوف)، زیادہ سے زیادہ گہرائی 2،212 میٹر جبکہ پانی کی مقدار 5،47،000 مکعب کلومیٹر مانی جاتی ہے۔ زیادہ تر ساحل کافی ڈھلوان ہیں۔ اس کے جنوب میں پونٹیک پہاڑی سلسلہ ہے، مشرق میں کوہ قفقاز، شمال میںکریمیائیپہاڑ اور مغرب میں کوہ بلقان کا سلسلہ ختم ہوتا ہے۔ سطح مرتفع دوبروجہ کافی شمال میں ہے۔ مشرق سے مغرب زیادہ سے زیادہ لمبائی 1،175 کلومیٹر ہے۔ اس کے ساحل پر واقع اہم شہر بورگس، ورنا، کونسٹاٹا،اوڈیسہ،سواستوپول،نوووروسیسک،سوچی،باتومی،ترابزوناورصامسونہیں۔بحیرہ اسود میں پانی کا مثبت بہاؤ ہے اور ہر سال 300 مکعب کلومیٹر پانی اس سے نکل کرباسفورساوردرِ دانیالکے ذریعےبحیرہ ایجیئنکو جاتا ہے۔ عین اسی وقت اس پانی کے نیچے زیادہ کثیف اور زیادہ نمکین پانی بحیرہ ایجیئن سے بحیرہ اسود کو آتا ہے۔ اس طرح گہرے پانی کی ایک ایسی تہ مستقل قائم رہتی ہے جہاںآکیسجننہیں پائی جاتی اور اسی وجہ سے بحیرہ اسود میں ڈوبنے والے قدیم بحری جہازوں کا ملبہ اچھی حالت میں موجود ہے۔بحیرہ اسود کا پانی در دانیال، باسفورس اور پھر بحیرہ ایجیئن سے ہوتا ہوا بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔ بحیرہ اسود باسفورس کی مدد سےبحیرہ مرمرہسے جڑا ہے جو آگے درہ دانیال کے واسطے ایجیئن سے جڑتا ہے۔ شمال میںآبنائے کرچاسےبحیرہ ازوفسے جوڑتی ہے۔جغرافیائی ادوار میں پانی کی سطح کم و بیش ہوتی رہی ہے۔ اس وجہ سے اس کے بعض کم گہرے حصے کبھی خشکی تو کبھی زیرِ آب ہوتے رہے ہیں۔ جب پانی کی سطح ایک خاص حد سے بلند ہو تو دیگر آبی ذخائر سے اس کا رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک رابطے ترک آبنائے کی وجہ سے بحیرہ اسود کھلے سمندر سے جا ملتا ہے۔ جب ایسا رابطہ نہ ہو تو بحیرہ اسودبحیرہ کیسپیئنکی مانند خشکی سے گھرا رہتا ہے۔ حالیہ دور میں بحیرہ اسود میں پانی کی سطح نسبتاً بلند ہے اور پانیبحیرہ رومسے بدلتا رہتا ہے۔ بحیرہ اسود میں سطح سے نیچے چلنے والا دریا یا بہاؤ نمکین نوعیت کا ہے جو خلیج باسفورس کی طرف سے بہتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا بہاؤ ہے جو دیکھا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اس میں نقل و حمل کے حوالے سے بحث ہوتی رہتی ہے۔موجودہ دور میں اس کے رائج ناموں کا مفہوم سیاہ سمندر یا بحیرہ اسود بنتا ہے۔بحیرہ اسود کا قدیم ترین نام جو دریافت ہوا ہے، وہ بحیرہ زالپا ہے جوحتیوںاور پھر ان کے فاتحین ہیتیوں نے دیا تھا۔یونانی نام کے بارے مانا جاتا ہے کہ یہ ایرانی لفظ ""گہری رنگت"" سے نکلا ہے۔اسٹرابوکی کتاب جیوگرافیکا میں بحیرہ اسود کو ""سمندر"" کہا جاتا تھا۔اس نے یہ بھی لکھا کہ جنوبی ساحل پر آباد پنتوس کے باسی اسے نامہربان سمندر کہتے تھے کہ اس میں کشتی رانی کافی مشکل تھی اور جگہ جگہ بربر قبائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بعد ازاں اسے بدل کر مہربان سمندر کر دیا گیا۔بحیرہ اسود کو پانی کے گہرے رنگ یا موسمی حالات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے مختلف حصوں کی مختلف رنگت مختلف سمتوں کی نشان دہی کرتی ہے مثال کے طور پر شمال میں سیاہ یا گہرے رنگ کا پانی ہے، جنوبی پانی کا رنگ سرخ، مغرب میں سفید اور مشرق میں سبز یا ہلکا نیلا ہے۔ اس لیے سیاہ سمندر یا بحیرہ اسود شمالی سمندر کو کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ نام شاید شمالی اور جنوبی علاقوں کے درمیان رہنے والے افراد نے دیا ہوگا۔ اُس دور میں یہاں ہخامنشی سلطنت قائم تھی۔زرتشتمذہب کی کتاب بندھشن کبیر میں بحیرہ اسود کو سیابن کہا جاتا ہے۔ 10ویں صدی میںفارسیکتاب حدود العالم میں اسے دریائے گرز (جارجین سمندر) کہا گیا۔سلطنت عثمانیہکے دور میں اسے بحرِ سیاہ کہا جاتا تھا جو فارسی اورعربیسے مشتق ہے۔بین الاقوامی آب نگاری تنظیمکے مطابق بحیرہ اسود کی حدود کچھ یوں ہیں:شمال مغرب میں۔بحیرہ مرمرہکی شمال مشرقی حد (خلیج رومیلی اور خلیج اناطولی کو ملانے والی لکیر)۔ خلیج کرچ میں۔ خلیج تاکیل اور خلیک پناگیا کو ملانے والی لکیر۔بحیرہ اسود کے اردگرد کا علاقہ مجموعی طور پر بحیرہ اسود کا علاقہ کہلاتا ہے۔ اس علاقے کا شمالی حصہ چرنوزم کی پٹی میں آتا ہے جو انتہائی زرخیر مٹی پر مشتمل ہے۔ یہ پٹی مشرقیکروشیا(سلووینیا) سے ہوتی دریائے ڈینیوب کے چلتی ہوئی سربیا، شمالیبلغاریہ، جنوبیرومانیہ، شمال مشرقییوکرینسے لے کر جنوبیروسمیںسائبیریاتک پھیلی ہے۔بحیرہ اسود میں گرنے والے سب سے بڑے دریا ڈینیوب، ڈنیئپر اور ڈون ہیں۔بحیرہ اسود میں گرنے والے دریا 20 لاکھ مربع کلومیٹر کے طاس اور ان ممالک سے گذر کر آتے ہیں:بحیرہ اسود میں پائے جانے والے مختلف جزائر بلغاریہ، رومانیہ، ترکی اور یوکرین کی ملکیت ہیں۔بحیرہ اسود کے علاقے میں عارضی موسمی تبدیلیاں عام ہیں جو شمالی بحر اوقیانوس سے متاثر ہوتی ہیں۔بحیرہ اسود کی دو مختلف تہ ہیں جو مغربی اور مشرقی کہلاتی ہیں۔ دونوں کے درمیان ایک اونچی رکاوٹ ہے۔ بحیرہ اسود دو حصوں پر مشتمل ہے: مغربی اور مشرقی۔ جزیرہ نماکریمیاسے جزیروں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو بحیرہ اسود کو دو حصوں میں بانٹتا ہے۔میسینیان عہد میں قریبی بحیرہ روم میں نمکیات کا بحران واقع ہوا اور پانی کی سطح گری مگر بحیرہ روم خشک نہ ہوا۔ یوریشین اور افریقی پلیٹوں کا تصادم ہوا اور اناطولی بلاک شمال کو سرک گیا۔ انہی تبدیلیوں کی وجہ سے بحیرہ اسود وقفے وقفے سے دنیا کے سمندری نظام سے منقطع ہوتا رہا۔بحیرہ اسود کے طاس کے شمالی سرے پر ایک بڑا چھجا ہے جو 190 کلومیٹر چوڑا ہے۔ جنوبی سرا ترکیہ اور مشرقی سرا جارجیا میں واقع ہے مگر ان کی چوڑائی شاید ہی 20 کلومیٹر سے زیادہ ہو۔ اس میں جگہ جگہ کھائیاں واقع ہیں۔ کریمیا کے جزیرہ نما پریالٹاکے جنوب میں بحیرہ اسود کی انتہائی گہرائی 2،212 میٹر ہے۔بحیرہ اسود دنیا میں پانی کا ایسا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جس میں پانی کی مختلف تہیں ایک دوسرے میں حل نہیں ہوتیں۔ بالائی سطح اور گہرائی کا پانی ایک دوسرے میں نہیں گھلتا اور نچلی تہ میں آکسیجن نہیں ہوتی۔اس کا سبب بحیرہ اسود کی تہ کا جغرافیہ ہے۔بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کا پانی ایک دوسرے کو آتا جاتا ہے اور یہ تبادلہ آبنائے باسفورس اور در دانیال کے راستے ہوتا ہے۔ بحیرہ روم سے آنے والا پانی زیادہ کھارا اور بھاری ہوتا ہے۔ سو بحیرہ اسود میں آنے والا بھاری اور نمکین پانی نیچے سے آتا ہے جبکہ بحیرہ اسود سے بحیرہ مرمرہ کو پانی بالائی تہ سے جاتا ہے۔ گریگ (2002) کی تحقیق کے مطابق 16،000 مکعب میٹر فی سیکنڈ یا 500 مکعب کلومیٹر سالانہ پانی بحیرہ اسود سے باہر جاتا ہے جبکہ آنے والے پانی کی مقدار 11،000 مکعب میٹر فی سیکنڈ یا 350 معکب کلومیٹر سالانہ ہے۔بحیرہ اسود میں پانی کی آمد و رفت کچھ یوں ہے:· آمد: 900 مکعب کلومیٹر سالانہo دریاؤں سے آمد: 370 مکعب کلومیٹر سالانہo بارش اور برف سے آمد: 180 مکعب کلومیٹر سالانہo باسفورس سے آمد: 350 معکب کلومیٹر سالانہ· اخراج: 900 مکعب کلومیٹر سالانہo آبی بخارات: 400 مکعب کلومیٹر سالانہ (1970 کی دہائی سے کافی کمی واقع ہو چکی ہے)o باسفورس کو اخراج: 500 مکعب کلومیٹر سالانہاوسط سطحی گردش سائیکلونک ہے یعنی بحیرہ اسود کا تمام پانی محور پر گردش کرتا ہے جس کی انتہائی رفتار 50 تا 100 سینٹی میٹر فی سیکنڈ ہے۔سطح سے 50 تا 100 میٹر نیچے نمکین پانی کی تہ ہے جو بالائی اور نچلی تہ کو ملنے سے روکتی ہے۔ یہ تہ سرد اور نمکین پانی سے بنی ہے۔بحیرہ اسود کے پانی کی تہ میں بہنے والا دریا نمکین پانی کا ہے جو آبنائے باسفورس سے بحیرہ اسود میں داخل ہوتا ہے۔ اس دریا کو یکم اگست 2010 کویونیورسٹی آف لیڈزکی جانب سے دریافت کیا گیا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا دریافت ہونے والا پہلا دریا ہے۔گہرائی میںآکسیجننہ ہونے کی وجہ سےنامیاتیمواد اور بحری جہاز وغیرہ کے ڈھانچے اچھی طرح محفوظ رہتے ہیں۔ وقفے وقفے سے مختصر وقت کے لیے الجی کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے۔ فائٹوپلانکٹن سالانہ بڑھوتری کے دورانناساکی کھینچی تصاویر میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے بحری آثار کا شعبہ بحیرہ اسود میں دلچسپی رکھتا ہے کہ قدیم زمانے کے بحری جہازوں کے ڈھانچے محفوظ حالت میں موجود ہیں۔سائنسی نمونوں سے پتہ چلا ہے کہ اگر بحیرہ اسود میںشہاب ثاقبگرے تو اس سے پیدا ہونے والےہائیڈروجن سلفائڈکے بادلوں سے اس کے ساحلی علاقوں کے باشندوں کی صحت اور جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔کئی ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ طوفانِ بادوباراں میں جھیل کے کئی حصوں سے شعلے اٹھتے دیکھے گئے تھے۔ شایدآسمانی بجلیگرنے سے پانی سے نکلنے والی آتش گیر گیس کو آگ لگی ہوگی۔بحیرہ اسود کے کھارے پانی اور غذائی اجزا کی کثرت کی وجہ سے ایسے ماحول میں رہنے والے جانداروں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ اس میں ماحولیاتی نظام کی مختلف سطحیں کام کرتی ہیں۔ بنیادی سطح پر الجی ہے جس میں ڈائیٹام اور ڈائنوفلیجلیٹس شامل ہیں اور یہ اپنی خوراک خود پیدا کرتے ہیں۔ بحیرہ اسود میں گرنے والے دریا بہت بڑی مقدار میں معدنیات اور غذائی اجزا اپنے ساتھ لاتے ہیں مگر ان اجزا کا پھیلاؤ یکساں نہیں ہوتا۔سردیوں میں تیز ہواؤں کی وجہ سے معدنیات اور غذائی اجزا اوپر نیچے ہوتے ہیں جبکہ گرمیوں میں بلند درجہ حرارت بھی اپنا اثر ڈالتا ہے۔ دن کی طوالت اور دھوپ کی مقدار بھیضیائی تالیفوالے جانداروں پر اثر ڈالتی ہے۔زیبرا سیپ بحیرہ اسود اوربحیرہ کیسپیئنکی مقامی سیپ ہے۔ اسے حادثاتی طور پر دنیا کے مختلف حصوں میں متعارف کرایا گیا جہاں اس نے حملہ آور نسل کا درجہ اختیار کر لیا۔عام کارپ مچھلی کا اصل علاقہ بحیرہ اسود، بحیرہ کیسپیئن اوربحیرہ ارالتک پھیلا ہے۔ زیبرا سیپ کی مانند یہ مچھلی جب دوسرے علاقے میں جاتی ہے تو وہاں حملہ آور شمار ہوتی ہے۔راؤنڈ گوبی نامی مچھلی بھی بحیرہ کیسپیئن اور بحیرہ اسود کی مقامی مچھلی ہے۔ یہ مچھلی زیبرا سیپ کھاتی ہے۔ جب اسے عظیم امریکی جھیلوں میں متعارف کرایا گیا تو اس نے حملہ آور نسل کا روپ دھار لیا۔آبی پستانیہ جانوروں میں یہاں بندرگاہی پورپوئس اور دو اقسام کیڈولفنپائی جاتی ہیں مگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ تینوں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کی نسلوں سے فرق ہیں اور بحیرہ اسود، بحیرہ ازوف اور اکثر رات کے وقت ترک آبناؤں تک محدود ہیں۔ کرائیمیا کے پل کی تعمیر سے یہاں غذائی اجزا کی بہتات ہوئی ہے اور دیگر جانوروں کے علاوہ 1،000 سے زیادہ ڈولفن بھی آ گئی ہیں۔ کچھ ذرائع کے مطابق اس پل کی تعمیر سے ماحول کو خطرات لاحق ہوئے ہیں۔بحیرہ روم کی راہب سگ ماہی کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ سگ ماہی ماضی میں بحیرہ اسود میں عام ملتا تھا مگر 1997 سے بحیرہ اسود کے طاس میں ناپید ہو چکے ہیں۔سگ ماہی کی کئی اقسام، بحریاودبلاؤ،بیلوگا وھیلوغیرہ کو بحیرہ اسود میں لایا گیا جو بعد میں کسی نہ کسی وجہ سے قید سے نکل بھاگے۔ ان میں سے بھورا سگ ماہی اور بیلوگا وھیل اب یہاں پوری طرح قدم جما چکے ہیں۔بحیرہ مرمرہ اور آبنائے باسفورس میں عظیم سفید شارک اور درہ دانیال میں باسکنگشارکبھی دیکھی گئی ہے مگر یہ واضح نہیں کہ یہ شارکیں بحیرہ اسود اور بحیرہ ازوف کے طاس تک بھی جاتی ہیں یا نہیں۔1960 کی دہائی سے بحیرہ اسودکے ساحلوں پر صنعتی ترقی تیز ہو رہی ہے اور یہاں ایک بڑابندبھی باندھا گیا ہے۔ اس وجہ سے پانی کی کیمیا پر فرق پڑا ہے اور ساحلی علاقوں میں ایک قسم کی فائٹو پلانکٹن کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔اس کا ضمنی اثر یہ ہوا کہ پانی کی گہرائی میں روشنی نہ پہنچنے کے سببنباتاتمرنے لگیں اور پانی میں آکسیجن کی مقدار بہت کم ہو گئی جو بحری جانوروں کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔بڑی نباتات کی کمی کے علاوہ ضرورت سے زائد ماہی گیری نے بھی نقصان پہنچایا۔ کہیں سلیکا کی کمی ہوئی تو کہیں کیلشیم کی۔ نتیجتاً پانی کی تیزابیت پر فرق پڑا۔1990 کی دہائی میں یورپی یونین نے ایروس 21 مشق شروع کی جس کی وجہ سے بحیرہ اسود کا ماحول کچھ بہتر ہوا۔ اس دوران نائٹروجن اور فاسفورس کی مقدار میں کمی دیکھنے میں آئی جس کی مقدار 1989 میں سب سے زیادہ تھی۔ سلوواکیہ، ہنگری، رومانیہ اور بلغاریہ نےیورپی یونینکی رکنیت کی شرائط کے تحت آلودہ پانی کی صفائی کے پلانٹ لگائے جس کی وجہ سے بھی بحیرہ اسود میں گرنے والی آلودگی کی مقدار میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔در دانیال اور باسفورس کی دو آبناؤں کی مدد سے بحیرہ اسود عالمی سمندروں سے جڑا ہے۔ درہ دانیال 55 میٹر گہری اور باسفورس 36 میٹر گہری ہے۔ پچھلے برفانی عہد کے دوران سمندروں کی سطح آج سے تقریباً 100 میٹر نیچے تھی۔اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ برفانی دور کے بعد بحیرہ اسود میں پانی کی سطح کافی نیچی تھی۔ بعض محققین کے خیال میں بحیرہ اسود اس دور میں خشکی سے گھری میٹھے پانی کی جھیل تھی۔پچھلے برفانی دور کے بعد بحیرہ اسود اور بحیرہ ایجیئن میں پانی کی سطحیں بڑھتے ہوئے اس حد تک پہنچیں کہ دونوں کا پانی ایک دوسرے سے مل گیا۔ اس بارے حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔ ایک امکان یہ ہے کہ بحیرہ اسود پہلے بھرا اور اس کا اضافی پانی باسفورس کے ذریعے بحیرہ روم کو پہنچا۔بحیرہ اسود کے سیلاب کے بارے ایک نظریہ موجود ہے کہ 5600 ق م میں بحیرہ روم میں پانی کی مقدار تیزی سے بڑھی اور یہ پانی بحیرہ اسود تک پہنچ گیا۔ یہ نظریہ پہلے دی نیویارک ٹائمز میں دسمبر 1996 میں اور فوراً ایک تعلیمی مجلے میں شائع ہوا۔ ان واقعات کے بارے اتنا اتفاق تو ہے کہ یہ واقعات اسی ترتیب سے پیش آئے مگر ان کے وقوع پزیر ہونے کے دورانیے، تواریخ اور شدت کے بارے اتفاق نہیں پایا جاتا۔ کچھ لوگوں نے اسے ماضی بعید کے عالمگیر سیلاب سے جوڑنے کی کوشش کی۔بحیرہ اسود پرحیثیون، کاریائی، کولخیس، تراکیان،یونانی،ہخامنشی،کیمری،سکوتی،رومی،بازنطینی،گوتھس،ہن، پنونین،سلاو، وارنگیان،صلیبی، وینیس،جینوا، بلغاریہ،تاتاراورعثمانی ترکقابض رہے۔ان طاقتووں کی باہمی جنگوں اور بحیرہ اسود کی گہرائی میں آکسیجن نہ ہونے کے سبب یہاں ڈوبنے والے سبھی بحری جہاز اچھی طرح محفوظ رہے ��یں۔ اس وجہ سے ماہرینِ آثار اس علاقے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔قدیم دنیا میں بحیرہ اسود کو معروف گزرگاہ کی حیثیت حاصل تھی۔ اس کے مغرب میں بلقان، شمال میں یوریشین سٹیپ (گھاس کے کھلے میدان)، مشرق میں قفقاز اور وسطی ایشیا، جنوب میںایشیائے کوچکاورمیسوپوٹامیہجبکہ جنوب مغرب میںیونانواقع ہے۔بحیرہ اسود کے مشرقی سرے پر کولخیس (موجودہ جارجیا) ہے جو قدیم یونان کی معلوم دنیا کا ایک سرا تھا۔بحیرہ اسود میں یونانی موجودگی کا آغاز 9ویں صدی ق م میں ہوا جب بحیرہ اسود کے جنوبی کنارے پر ان کی آبادیاں قائم ہونے لگیں۔ یہاں اگنے والے غلے کی خاطر دور دراز سے تاجر آنے لگے۔ 500 ق م تک بحیرہ اسود کے سبھی ساحلوں پر یونانی بستیاں آباد ہو چکی تھیں اور سارا بحیرہ اسود بحیرہ روم کے علاقے سے جڑ چکا تھا۔ یونانیوں نے اپنے بانیپولسسے قریبی ثقافتی رابطے برقرار رکھے مگر ان بستیوں نے اپنی یونانی ثقافت بھی بنانا شروع کر دی جسے آج پونٹک یا بنطیون کہا جاتا ہے۔1479 میں جب جمہوریہ جینوا نے کرایمیائی جزیرہ نما پر اپنا قبضہ کھویا تو پانچ سال میں ہی عثمانی بحریہ نے اس علاقے پر قبضہ جما لیا۔ پھر بحیرہ اسود کریمیا اور عثمانی اناطولیہ کے درمیان غلاموں کی تجارت کا اہم راستہ بن گیا۔18ویں صدی کے اواخر میں شاہی روس بحیرہ اسود کی اہم بحری طاقت بن گیا اورنووو روسیااور کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ عثمانی انتظام کے خلاف شاہی روسی بحیرہ نے کام شروع کیا اور انقلاب فرانس کے بعد عثمانیوں نے برآمدی قوانین نرم کر دیے۔1853 تا 1856 تک جاری رہنے والیجنگِ کریمیاکے دورانفرانسیسی،برطانویاور روس کے نکولس اول کی بحری افواج کے درمیان کئی لڑائیاں ہوئیں۔ 2 مارچ 1855 کو نکولس اول کی وفات کے بعد الیگزنڈر دومزاربنا۔ 15 جنوری 1856 کو نئے زار نےمعاہدہ پیرس(1856) کے تحت انتہائی ہتک آمیز شرائط پر جنگ ختم کر دی اور بحیرہ اسود کوبحیرہ بالٹککی مانند غیر فوجی علاقہ بنا دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت روس کو بحیرہ اسود پر موجود جنگی بحری جہازوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔بحیرہ اسودپہلی جنگِ عظیم(1914 تا 1918) کے دوران بحری لڑائیوں کا مرکز رہا اوردوسری عالمی جنگکے دوران 1941 تا 1945 یہاں کئی بحری اور زمینی لڑائیاں لڑی گئیں۔نازیوںنےسواستوپولتباہ کر دیا۔ سوویت بحری اڈا دنیا کے مضبوط ترین بحری اڈوں میں سے اک تھا۔ اس کے جغرافیہ اور محل وقوع کے باعث خشکی سے اس پر حملہ انتہائی دشوار تھا۔ زیرِ آب چٹانوں کی وجہ سے ساحل پر لنگرانداز ہونا بھی دشوار تھا۔ سوویت بحریہ نے ان فطری دفاعی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر بندرگاہ کو جدید بنایا اور 180 ملی میٹر اور 305 ملی میٹر کی خصوصی بھاریتوپیںلگائیں جو خشکی اور سمندر، دونوں جگہ استعمال ہو سکتی تھیں۔ توپوں کے دفاع کے لیے خاص کنکریٹ اور 8ء9 انچ موٹی دھاتی چادریں استعمال کی گئیں۔یوکرائن پر روس کے حملے کے دوران جزیرہ سنیک پر لڑائی شروع ہوئی۔ 24 فروری 2022 کو دو روسی جنگی بحری جہازوں نے حملہ کر کے اس جزیرے پر قبضہ کر لیا۔ پھر یوکرین نے اس پر بھاری بمباری کی۔ 30 جون 2022 کو یوکرین نے جزیرہ واپس لینے کا اعلان کیا۔6 مئی 2022 کو یوکرین نے روسی جنگی بحری جہاز ماسکووا کو ڈبو دیا۔29 اپریل 2022 کو روسیآبدوزوںنے کیلیبر کروز مزائلوں سے یوکرینی شہروں پر حملے کیے۔ یہ نئے میزائل اتنے کارگر ثابت ہوئے کہروسی وزیرِ دفاعشوئیگو نے اعلان کیا کہ ان میزائلوں کو دیگر جنگی جہازوں پر نصب کرنے کی تیاری شروع ہو گئی ہے۔14 مارچ 2023 کی صبح کو ��وسی سو 27 جنگی جہاز نے امریکی ایم کیو 9 ریپر ڈرون کو نقصان پہنچایا اور ڈرون بحیرہ اسود میں گر کر تباہ ہو گیا۔ 5 مئی 2023 کو دن 1:20 بجے روسی سو 35 نےپولستانیایل 140 ٹربولیٹ کو روکنے کی کوشش کی جو ""معمول کی گشت"" پر تھا۔ یہ واقعہ رومانیہ کی سرحد سے 60 کلومیٹر دور بین الاقوامی پانیوں میں پیش آیا اور پولش جہاز کا عملہ جہاز پر قابو نہ رکھ سکا اور اس کی بلندی کم ہوئی۔بحیرہ اسود ایشیا اور یورپ کے درمیان اٹل رابطہ ہے۔ اس کی بندرگاہوں اور ماہی گیری کے علاوہ یہاں تیل اور قدرتی گیس کی دریافت اور سیاح تکو بھی کافی اہمیت حاصل ہے۔نیٹوکے مطابق بحیرہ اسود قانونی اور غیر قانونی اشیا (منشیات، تابکار مادوں اور جعلی اشیا) کی غیر قانونی تجارت (سمگلنگ) کی منتقلی کا اہم راستہ ہے جس کی آمدنی سےدہشت گردیکو فروغ مل سکتا ہے۔2013 کے ایک مطالعے کے مطابق بحیرہ اسود پر کم از کم 30 تجارتیبندرگاہیںاور 2،400تجارتی بحری جہازکام کر رہے ہیں۔ترک تجارتی بحری جہاز ہر سال 3 لاکھ ٹن انچووی قسم کی مچھلی پکڑتے ہیں۔ زیادہ تر ماہی گیری موسم سرما میں ہوتی ہے اور نومبر سے دسمبر کے دوران یہ مچھلی پکڑی جاتی ہے۔1980 کی دہائی میںسوویت یونیننے بحیرہ اسود کے مغربی حصے میں خام تیل کے لیے کنویں کھودنا شروع کیے۔ آزادی کے بعد یوکرین نے اپنے خصوصی معاشی علاقے میں یہ تلاش مزید تیز کر دی اور بین الاقوامی تیل کمپنیوں کو بھی اس کی دعوت دی۔ بہت بڑے ذخائر کی دریافت کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری بہت بڑھ گئی۔ 2011 میں خصوصی معاشی علاقوں کی حدبندی کی وجہ سے رومانیہ اور یوکرین میں چپقلش پیدا ہو گئی جسے عالمی عدالت نے دور کیا۔بحیرہ اسود میں پائے جانے والے تیل اور گیس کے ذخائر کی دریافت ابھی نامکمل ہے۔ 2017 تک 20 کنویں کام کر رہے تھے۔ جب سے بحیرہ اسود بنا، اس میں آنے والے گاد اور غذائی اجزا کی کثرت کی وجہ سے یہاں تیل اور گیس کے ذخائر بننے لگے تھے۔ یہ ذخائر ہر جگہ یکساں نہیں اور بلغاریہ کی سرحد کے پاس یہ ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بحیرہ اسود کے مغربی کنارے پر رومانیہ کے قریب کافی زیادہ ذخائر دریافت ہوئے ہیں جبکہ مشرقی سے نہ ہونے کے برابر۔اگست 2020 میں ترکیہ نے 320 ارب مکعب میٹرقدرتی گیسدریافت کی جو بحیرہ اسود میں دریافت ہونے والا قدرتی گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ 2023 میں گیس کی پیداوار شروع ہونے کی توقع ہے۔ اس کے قریب ہی رومانیہ نے بھی قدرتی گیس دریافت کی ہے۔سرد جنگ کے بعد بحیرہ اسود میںسیاحتکی مانگ بہت بڑھی ہے۔اوڈیسہ(یوکرین)،صامسون(ترکی)،وارنا(بلغاریہ)، کونسٹانٹا (رومانیہ)،سواستوپول(روس اور یوکرین کے درمیان متنازع)،سوچی(روس)،طربزون(ترکیہ)،نوووروسیسک(روس)، برگس (بلغاریہ)، اوردو (ترکیہ)، باتومی (جارجیا)۔1936 کے مانٹریکس معاہدے کے تحت بحیرہ اسود اور بحیرہ روم میں تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کی اجازت ہے۔ تاہم انھیں ملانے والی آبناؤں پر ترکیہ کو پورا اختیار ہے۔ جنگی جہاز صرف اس صورت میں گذر سکتے ہیں جب وہ بحیرہ اسود کے کسی ملک سے تعلق رکھتے ہوں۔ دیگر ملکوں کے فوجی جہاز صرف اس صورت میں گذر سکتے ہیں جب وہ ملک ترکیہ کے ساتھ حالتِ جنگ میں نہ ہو اور انھیں بحیرہ اسود میں محدود مدت تک رکنے کی اجازت ہوتی ہے۔ 1982 میں مانٹریکس معاہدے میں ترمیم کے بعد اب ترکیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جنگ اور امن، کسی بھی وقت ان آبناؤں میں آمد و رفت کو بند کر سکتا ہے۔مانٹریکس معاہدہ بحیرہ اسود، بحیرہ روم اور بحیرہ ایجیئن میں بحری جہازوں کی آمد و رفت اور بحیرہ اسود سے ہٹ کر دیگر ممالک کی بحریہ کے جہازوں سے متعلق ہے۔بحیرہ اسود میں روسی بحری جہازوں کا مرکز سواستوپول ہے۔7 نومبر 1941 کو جرمن جنگی جہاز نے سوویت طبی جہازآرمینیاکو ڈبو دیا جو کریمیا سے شہریوں اور زخمی فوجیوں کو منتقل کر رہا تھا۔ اندازہ ہے کہ اس واقعے میں 5،000 سے 7،000 افراد مارے گئے اور اسے مہلک ترین بحری حادثات میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔ محض 8 افراد زندہ بچے۔دسمبر 2018 کوآبنائے کرچکا واقعہ ہوا جس میں بحیرہ اسود میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے یوکرینی بحری جہازوں پر روسی بحریہ اور ساحلی محافظوں نے قبضہ کر لیا۔"
+311,آبنائے,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D8%A8%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%92,آبنائے(Strait) عام طور پر ایک قدرتی طور پر تشکیل شدہ جسم آب ہے جو دو بڑے جہاز رانی کے قابل اجسام آب کو ملاتی ہے۔
+312,آبنائے باسفورس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D8%A8%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D8%A8%D8%A7%D8%B3%D9%81%D9%88%D8%B1%D8%B3,"باسفورس (انگریزی: Bosporus، Bosphorus, ترک: İstanbul Boğazı) ایکآبنائےہے جوترکیکے یورپی حصے (روم ایلی) اور ایشیائی حصے (اناطولیہ) کو جدا کرکےیورپاورایشیاکے درمیان سرحد قائم کرتی ہے۔ اسآبنائےکوآبنائے استنبولبھی کہا جاتا ہے۔ یہ بین الاقوامی جہاز رانی کے لیے استعمال ہونے والی دنیا کی سب سے تنگآبنائےہے جوبحیرہ اسودکوبحیرہ مرمرہسے ملاتی ہے (واضح رہے کہ بحیرہ مرمرہدرہ دانیالکے ذریعےبحیرہ ایجیئنسے منسلک ہے جوبحیرہ رومسے ملا ہوا ہے)۔استنبولی باشندے اسے صرف Boğaz کہتے ہیں جبکہ Boğaziçi کی اصطلاحآبنائےکے ساتھ ساتھ واقعاستنبولکے علاقوں کے لیے استعمال ہوتی ہےیہآبنائےتقریباً 30کلومیٹر طویل ہے اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی شمالی داخلی راستے پر 3 ہزار 700 میٹر ہے اور کم از کم چوڑائی کنڈیلی اور اشیان کے مقام پر 700 میٹر اور اینادولوحسان اور رومیلی حسان کے مقام پر 750 میٹر ہے۔آبنائےکی گہرائی 36 سے 124 میٹر ہے۔اس آبنائے کے دونوں طرف 13 ملین سے زیادہ آبادی والے شہراستنبولکی گنجان آبادی واقع ہے۔آبنائے باسفورس پر دو پل قائم ہیں۔ 1973ء میں مکمل ہونے والا پہلا پل ”باسفورس پل“ 1074 میٹر طویل ہے۔ دوسرا پل ”فاتح سلطان محمد پل“ 1090 میٹر طویل ہے اور 1988ء میں مکمل ہوا۔ یہ پہلے پل سے تقریباً 5 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ حکومت ترکی کی جانب سے نشان زدہ 7 میں سے ایک مقام پر تیسرا پل بھی تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس پل کے مقام کو صیغہ راز میں رکھا گیا ہے تاکہ زمینوں کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو۔مرمرے نامی ایک اور گذر گاہ زیر تعمیر ہے جو 2008ء میں مکمل ہوگی۔ یہ 13.7 کلومیٹر طویل ریلوے سرنگ ہوگی جوآبنائےکے نیچے 55 میٹر گہرائی سے گذرے گی۔شاندار محل وقوع کے باعث باسفورس کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور اس پر قبضے کے لیے جدید تاریخ میں کئی جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں جن میں 1877ء کی روس ترک جنگ اور 1915ء میںپہلی جنگ عظیمکے دوران اتحادی قوتوں کادرہ دانیالبھی حملہ بھی شامل ہیں۔ قدیم تاریخ میں اس کے محل وقوع کی اہمیت کے باعث ہی رومی شہنشاہ قسطنطین نے اس کے کنارےقسطنطنیہکا شہر آباد کیا جو بعد ازاں1453ءمیںعثمانیترکوں نےفتحکیا۔"
+313,ایشیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7,"ایشیایاآسیا(فارسی، عربی)دنیا کے سات براعظموں میں سے ایک سب سے بڑا اور زیادہ آبادی والابراعظمہے۔ یہ زمین کے کل رقبے کا 8.6 فیصد، کل بری علاقے کا 29.4 فیصد اور کل آبادی کے 60 فیصد حصے کا حامل ہے۔ یہاں پر دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی آباد ہےایشیا روایتی طور پر یوریشیا کا حصہ ہے جس کا مغربی حصہ یورپ ہے۔ ایشیانہر سوئزکے مشرق،کوہ یورالکے مشرق اورکوہ قفقاز،یعنی ہمالیہ قراقرم اور کوہ ہندوکشبحیرہ قزویناوربحیرہ اسودکے جنوب میں واقع ہے۔قرون وسطیٰسے قبلیورپی ایشیاکو براعظم نہیں سمجھتے تھے تاہمقرون وسطیٰمیںیورپکینشاۃ ثانیہکے وقت تین براعظموں کا نظریہ ختم ہو گیا اور ایشیا کو بطور براعظم تسلیم کر لیا گیا۔افریقہاور ایشیا کے درمیانسوئزاوربحیرہ قلزمکو سرحد قرار دیا گیا جبکہیورپاور ایشیا کے درمیان سرحددرہ دانیال،بحیرہ مرمرہ،باسفورس،بحیرہ احمر،کوہ قفقاز،بحیرہ قزوین،دریائے یورالاورکوہ یورالسےبحیرہ کارہتک پہنچتی ہے۔عام طور پر ماہر ارضیات و طبعیجغرافیہ دانایشیا اور یورپ کو الگ براعظم تصور نہیں کرتے اور ایک ہی عظیم قطعہ زمین کا حصہ قرار دیتے ہیں۔جغرافیہمیں دو مکتب فکر ہیں ایک تاریخی حوالہ جات کے تحت یورپ اور ایشیا کو الگ براعظم قرار دیتا ہے جبکہ دوسرا یورپ کے لیے براعظم اور ایشیا کے لیے خطے کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ تنازعایشیا بحرالکاہلخطے پر بھی کھڑا ہوتا ہے جہاں موجود جزائر میں سے چندبراعظم آسٹریلیاکا حصہ مانے جاتے ہیں جبکہ چند ایشیا میں تسلیم کیے جاتے ہیں اس لیے ایشیا کی حدود کا درست تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ایشیا دنیا کا سب سے بڑا بر اعظم ہے۔ جہاں دنیا کا سب سے اونچا، سب سے نیچا اور سب سے سرد ترین مقام پایا جاتا ہے (ماؤنٹ ایورسٹدنیا کی بلند ترین چوٹی، مغرب کی جانببحیرہ مردارسطح سمندر سے سب سے نچلا مقام اور شمالیسائبیریاکے مقامات)۔ ایشیا میں کسی بھی براعظم سے زیادہ افراد رہائش پزیر ہیں جن میں سے ایک اعشاریہ چار ارب آبادیچیناور ایک اعشاریہ تین ارببھارتمیں آباد ہے۔براعظم کا شمالی حصہ قدیم پہاڑوں اورسطح ہائے مرتفعپر مشتمل ہے جبکہ وسطی علاقہکوہ ہمالیہاورسطح مرتفع تبتنے گھیرا ہوا ہے۔ہمالیہدنیا کے دیگر پہاڑی سلسلوں کی نسبت زیادہ قدیم نہیں اور اب بھی یہ اونچائی کی جانب رواں ہے۔ یہ سلسلہ تب تشکیل پایا جببرصغیرایشیا سے ٹکرایا۔جنوب مشرقی ایشیامیں ہزاروں جزائر ہیں جہاںآتش فشانوںکا پھٹنا اورزلزلےآنے روز کا معمول ہیں۔ ان جزائر میں کئی جزائرآتش فشانوںپر واقع ہیں۔ ان زلزلوں میں سب سے زیادہ خوفناکدسمبر2005ءمیںبحر ہندمیں آنے والا زیر آب زلزلہ تھا جس سے پیدا ہونے والی لہروں ""سونامی"" نےبحر ہندکے گرد بسنے والے ممالک کے لاکھوں نفوس نگل لیے۔جنوب مشرقی ایشیامیںمنطقہ حارہکے جنگلات بھی بڑی تعداد میں واقع ہیں خصوصاًتھائی لینڈ،بورنیوکے جزائر،سلاویسی،جاوااورسماٹراکے جنگلات مشہور ہیں۔ایشیا میں دنیا کے کئی مشہورصحرابھی واقع ہیں جن میںصحرائے عرب(ربع الخالی)،صحرائے شام،دشت کویر،دشت لوط،تھر،تھل،کراکم،ٹکلا مکان،گوبیدنیا کے عظیم صحراؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ایشیا میں دنیا کے کئی بڑی دریا بھی واقع ہیں جن میںدریائے زرد،یانگزے،سندھ،گنگا،جمنا،برہم پترا،اراوتی،میکانگ،فرات،دجلہ،جیحوں،سیحوں،ارتش،اوب،لینادنیا کے عظیم دریاؤں میں سے ہیں۔جھیلوں میںجھیل قزوینجسے اس کے عظیم حجم کے باعثبحیرہ قزوینبھی کہا جاتا ہے، دنیا کی سب سے بڑیجھیلہے۔ علاوہ ازیںجھیل ارال(بحیرہ ارال)،جھیل بالکش،جھیل بیکال،جھیل وان،جھیل ارمیہدنیا بھر میں جانی جاتی ہیں۔جزیرہسماٹرا،بورنیواورنیو گنیدنیا کے بڑے جزائر میں شمار ہوتے ہیں جبکہ دنیا کے بڑے جزیرہ نمااناطولیہاورعرببھی یہیں واقع ہیں۔ایشیا مختلف تہذیبوں کا مسکن ہے، یہاں کی زمین، لوگوں اور روایتوں میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔سوویت یونینکے ٹوٹنے سے یہاںقازقستان,تاجکستان،ترکمانستاناورکرغزستانکی نئی ریاستیں وجود میں آئیں۔ جنوب مغرب کے بیشتر ممالک کے عواممسلمانہیں لیکن قومیت اور مسالک کی بنیادوں پر تقسیم ہیں۔بھارتدنیا کی سب سے بڑیجمہوریتہے جبکہچیندنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی و عسکری قوت ہے۔براعظم کی بیشتر آبادی عظیم دریاؤں کے کناروں پر آباد ہے جس کی وجہ یہاں کی بیشتر آبادی کا ذریعۂ معاشزراعتہونا ہے۔گنگا،سندھ،برہم پتر،زرد،یانگزےاور دیگر دریاؤں کے ارد گرد کے علاقے انتہائی گنجان آباد ہیں۔ دوسری جانبمعدنیدولت کے حصول کے لیے لوگ ایسے علاقوں میں بھی رہائش پزیر ہیں جہاں آبادی بہت کم ہے مثلاً تیل کی تلاش کے لیے عرب کے صحرا اورسائبیریاکے سرد میدان۔براعظم ایشیا کے صحرا اور پہاڑی علاقے تقریباً غیر آباد ہیں خصوصاًروسمیںکثافتآبادی بہت کم ہے۔جاپاناوربھارتدنیا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں سے ایک ہیں۔چیندنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد چین میں رہتا ہے جبکہبھارتمیں بھی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور وہ جلدچینکو پیچھے چھوڑ دے گا۔جہاں یہاں کی تہذیبوں کی تنوع میں پایا جاتا ہے وہیں عوام کے معیار زندگی میں بھی بہت زیادہ تفریق پائی جاتی ہے۔ ایک طرف جاپان اورمشرقی وسطیٰ کیخلیجیریاستوں کے عوام طرز زندگی کے اعلیٰ معیار اپنائے ہوئے ہیں وہیں دنیا کے چند غریب ترین ممالک بھی ایشیا میں ہی پائے جاتے ہیں جن میںشمالی کوریا،برما،یمن،افغانستاناورلاؤسقابل ذکر ہیں۔ ایشیا کی غریب ممالک کی معیشت کوخانہ جنگیوں،قحط،سیلاب، قدرتی آفات اورزراعتکے لیے جدید طریقۂ کار اختیار نہ کرنے کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ایشیا کی بیشتر آبادی کا ذریعۂ معاشزراعتہے اور چند ممالک میں تو صنعتیں بہت ہی کم ہیں۔مشرقی چیناورروسمیں بھاری صنعتیں قائم ہیں لیکن سب سے صنعتی پیداوار کے لحاظ سےجاپانسرفہرست ہے۔ جاپانبرقیو جدید ٹیکنالوجی کی صنعت میں عالمی قائد سمجھا جاتا ہے جبکہتائیوان،جنوبی کوریااورسنگاپوربھی برقی مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ حالیہ سالوں میں تائیوان اورملائیشیاکی معیشتوں نے بڑی ترقی کی ہے اور انھیں ""ایشین ٹائیگرز"" کہا جاتا ہے۔ایشیا کی زمین کا بیشتر حصہ بانجھ مٹی یا سخت یا خشک موسم کے باعث ناقابل کاشت ہے جیسےسطح مرتفع تبت،سائبیریااورجزیرہ نما عربکا بیشتر حصہ کاشت کے قابل نہیں۔ براعظم کی سب سے زیادہ زرخیز زمینیںچین،ہندوستاناورپاکستانمیں دریاؤں کے ساتھ ساتھ واقع ہیں جہاںچاولکاشت کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نقد فصلیں بھی کاشت کی جاتی ہیں جیسے جنوبمغربی ایشیامیںکھجوریں،جنوب مشرقی ایشیامیںربڑ، بھارت، چین اورسری لنکامیںچائےاورجنوب مشرقی ایشیاکے جزائر میںناریل۔ کھجوریں جزیرہ نما عرب اور ملحقہ علاقوں کی اہم نقد فصل ہے جہاں یہ زمانۂ قدیم سے کاشت ہوتی ہے۔شمالی ایشیاوسط ایشیاجنوب مغربی ایشیاجنوبی ایشیامشرقی ایشیاجنوب مشرقی ایشیادوسرے براعظم"
+314,یورپ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE,"یورپیافرنگستان(انگریزی: Europe) دنیا کے سات روایتی براعظموں میں سے ایک ہے تاہمجغرافیہدان اسے حقیقیبراعظمنہیں سمجھتے اور اسےیوریشیاکا مغربیجزیرہ نماقرار دیتے ہیں۔ اصطلاحی طور پرکوہ یورالکے مغرب میں واقع یوریشیا کا تمام علاقہ یورپ یا فرنگستان کہلاتا ہے۔یورپ کے شمال میںبحر منجمد شمالی، مغرب میںبحر اوقیانوس، جنوب میںبحیرہ روماور جنوب مشرق میں بحیرہ روم اوربحیرہ اسودکو ملانے والے آبی راستے اورکوہ قفقازہیں۔ مشرق میں کوہ یورال اوربحیرہ قزوینیورپ اورایشیاکو تقسیم کرتے ہیں۔فرنگستانرقبےکے لحاظ سےآسٹریلیاکو چھوڑ کر دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کا رقبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر ہے جو زمین کے کل رقبے کا صرفدوفیصد بنتا ہے۔ یورپ سے بھی چھوٹا واحد براعظمآسٹریلیاہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ تیسرا سب سے بڑا براعظم ہے جس کی آبادی 71 کروڑ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 11 فیصد بنتا ہے۔Within the above-mentioned states are severalدرحقیقتindependent countries withمحدود تسلیم شدہ ریاستوں کی فہرست۔ None of them are members of the UN:Several dependencies and similar territories with broad autonomy are also found within or in close proximity to Europe. This includes Åland (aفن لینڈ کے علاقہ جات)، two constituent countries of the Kingdom of Denmark (other than Denmark itself)، threeتاج توابع، and twoبرطانوی سمندر پار علاقے۔ Svalbard is also included due to its unique status within Norway, although it is not autonomous. Not included are the threeمملکت متحدہ کے ممالکwith devolved powers and the twoپرتگال کے خود مختار علاقہ جات، which despite having a unique degree of autonomy, are not largely self-governing in matters other than international affairs. Areas with little more than a unique tax status, such asHeligolandand theجزائر کناری، are also not included for this reason."
+315,بلقان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D9%84%D9%82%D8%A7%D9%86,بلقان(balkans) جنوب مشرقی یورپ کے خطے کا تاریخی و جغرافیائی نام ہے۔ اس علاقے کا رقبہ 5 لاکھ 50 ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی تقریبا 55 ملین ہے۔ اس خطے کو یہ نامکوہ بلقانکے پہاڑی سلسلے پر دیا گیا جوبلغاریہکے وسط سے مشرقیسربیاتک جاتا ہے۔اسے اکثر جزیرہ نما بلقان بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے تین جانب سمندر ہے جن میں مشرق میںبحیرہ اسوداور جنوب اور مغرب میںبحیرہ رومکی شاخیں (بحیرہ ایڈریاٹک،بحیرہ آیونین،بحیرہ ایجیئناوربحیرہ مرمرہ) ہیں۔جنوب مشرقی یورپبحیرہ ہائےایجین،ایڈریاٹکاوراسودکے ساحلوں سے شروع ہوکروسطی یورپتک پھیلا ہوا علاقہ ہے۔قدیم یونان یورپی تہذیب کی جائے پیدائش ہے جس کے آثار آج بھی ماضی کی انسانی عظمت کے گواہ ہیں۔علاوہ ازیں1990ءکی دہائی کے اوائل تک البانیہ اور بلغاریہ اشتراکی اقتدار کے زیر اثر رہے اور خطے کا بقیہ علاقہ اشتراکی ریاستوں کے اتحاد یوگوسلاویہ کا حصہ تھا جو 1991ء میں خانہ جنگی کے نتیجے میں اب کئی حصوں میں منقسم ہو گیا ہے۔جنوب مشرقی یورپ کا بیشتر علاقہ پہاڑی ہے جن میں سلسلہ ہائے کوہ جنوب مغرب سے شمال مشرق کی جانب ہیں۔دینارک الپسڈیلماٹین ساحلکے ساتھ ساتھ چلتا جاتا ہے جبکہکوہ پنڈسیونان میں اسی طرح ساحل کے ساتھ پھیلا ہوا ہے۔بحیرہ ایجیئنمیں قدیم پہاڑی سلسلے کے ڈوبنے سے کئی جزائر وجود میں آئے جوبحیرہ ایجیئنکہلاتے ہیں۔جزیرہ نما بلقان جنوب مشرقی یورپ کا ایک علاقہ ہے جو تین طرف سے پانی سے گھرا ہوا ہے۔بحیرہ ایڈریاٹکاس کے مغرب میں،بحیرہ روم(بشمولبحیرہ ایجیئن) اوربحیرہ مرمرہاس کےجنوبمیں اوربحیرہ اسوداس کے مشرق میں واقع ہیں۔علاقے جن کی سرحدیں جزیرہ نما بلقان میں جزوی یا مکمل طور پر موجود ہیں :علاقے جو زیادہ تر جزیرہ نما بلقان کے باہر واقع ہیں :بلقان مندرجہ ذیل علاقوں پر مشتمل ہے :[3]یونان کی بیشتر آبادی شہری ہے اور ملک کے 50 فیصد سے زائد باشندےایتھنزاورسالونیکامیں رہتے ہیں۔ بلغاریہ میں بھی آبادی کی اکثریت شہروں میں رہتی ہے جبکہ البانیہ اورمقدونیہمیں تقریباً نصف آبادی د��ہی ہے۔ بوسنیا و ہرزیگووینا، سربیا، مونٹی نیگرو اور کروشیا کے افراد خانہ جنگی کے بعد نسلی بنیادوں پر منقسم ہو کر اب الگ الگ رہتے ہیں۔یونان اور بحیرہ ایجین میں اس کے جزائر سیاحت کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ علاوہ ازیں بحیرہ اسود کے ساحلی علاقوں میں بھی سیاحت فروغ پا رہی ہے۔یوگوسلاویہکی خانہ جنگی کے باعث وہاں کی دیگر صنعتوں کے ساتھ سیاحت کو بھی شدید دھچکا پہنچا لیکن اب یہ دوبارہ اہم صنعت بنتی جا رہی ہے۔ کیمیائی، مہندسی اور جہاز سازی کی صنعتیں اب بھی بلغاریہ کی آمدنی کا اہم ذریعہ ہیں۔صنعتی و ذرائع نقل و حمل کے دھوئیں کے باعث ایتھنز اورزغربشہر کی فضا آلودہ ہو رہی ہے۔ ایتھنز میں آلودگی کا مسئلہ اس قدر شدت اختیار کر گیا ہے کہ وہاں خاص طور پر ایسے دن منائے جاتے ہیں جن دنوں میں گاڑی چلانا منع ہوتا ہے جبکہ اس فضائی آلودگی سے شہر کے آثار قدیمہ کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ بلغاریہ، یونان اور مقدونیہ زلزلے کی متحرک پٹی پر واقع ہیں۔ بڑے زلزلے1953ءمیںجزائر آیونیناور1963ءمیں مقدونیہ کے دارالحکومپاسکوپےکو شدید متاثر کر چکے ہیں۔ بلغاریہ کاکوزلوڈے جوہری توانائی مرکززلزلے کی اسی پٹی پر واقع ہے۔
+316,آبنائے باسفورس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D8%A8%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D8%A8%D8%A7%D8%B3%D9%81%D9%88%D8%B1%D8%B3,"باسفورس (انگریزی: Bosporus، Bosphorus, ترک: İstanbul Boğazı) ایکآبنائےہے جوترکیکے یورپی حصے (روم ایلی) اور ایشیائی حصے (اناطولیہ) کو جدا کرکےیورپاورایشیاکے درمیان سرحد قائم کرتی ہے۔ اسآبنائےکوآبنائے استنبولبھی کہا جاتا ہے۔ یہ بین الاقوامی جہاز رانی کے لیے استعمال ہونے والی دنیا کی سب سے تنگآبنائےہے جوبحیرہ اسودکوبحیرہ مرمرہسے ملاتی ہے (واضح رہے کہ بحیرہ مرمرہدرہ دانیالکے ذریعےبحیرہ ایجیئنسے منسلک ہے جوبحیرہ رومسے ملا ہوا ہے)۔استنبولی باشندے اسے صرف Boğaz کہتے ہیں جبکہ Boğaziçi کی اصطلاحآبنائےکے ساتھ ساتھ واقعاستنبولکے علاقوں کے لیے استعمال ہوتی ہےیہآبنائےتقریباً 30کلومیٹر طویل ہے اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی شمالی داخلی راستے پر 3 ہزار 700 میٹر ہے اور کم از کم چوڑائی کنڈیلی اور اشیان کے مقام پر 700 میٹر اور اینادولوحسان اور رومیلی حسان کے مقام پر 750 میٹر ہے۔آبنائےکی گہرائی 36 سے 124 میٹر ہے۔اس آبنائے کے دونوں طرف 13 ملین سے زیادہ آبادی والے شہراستنبولکی گنجان آبادی واقع ہے۔آبنائے باسفورس پر دو پل قائم ہیں۔ 1973ء میں مکمل ہونے والا پہلا پل ”باسفورس پل“ 1074 میٹر طویل ہے۔ دوسرا پل ”فاتح سلطان محمد پل“ 1090 میٹر طویل ہے اور 1988ء میں مکمل ہوا۔ یہ پہلے پل سے تقریباً 5 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ حکومت ترکی کی جانب سے نشان زدہ 7 میں سے ایک مقام پر تیسرا پل بھی تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس پل کے مقام کو صیغہ راز میں رکھا گیا ہے تاکہ زمینوں کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو۔مرمرے نامی ایک اور گذر گاہ زیر تعمیر ہے جو 2008ء میں مکمل ہوگی۔ یہ 13.7 کلومیٹر طویل ریلوے سرنگ ہوگی جوآبنائےکے نیچے 55 میٹر گہرائی سے گذرے گی۔شاندار محل وقوع کے باعث باسفورس کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور اس پر قبضے کے لیے جدید تاریخ میں کئی جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں جن میں 1877ء کی روس ترک جنگ اور 1915ء میںپہلی جنگ عظیمکے دوران اتحادی قوتوں کادرہ دانیالبھی حملہ بھی شامل ہیں۔ قدیم تاریخ میں اس کے محل وقوع کی اہمیت کے باعث ہی رومی شہنشاہ قسطنطین نے اس کے کنارےقسطنطنیہکا شہر آباد کیا جو بعد ازاں1453ءمیںعثمانیترکوں نےفتحکیا۔"
+317,اناطولیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%B7%D9%88%D9%84%DB%8C%DB%81,"اناطولیہمغربی ایشیاکا ایکجزیرہ نماہے۔اردومیں انگریزی اثرات کے باعث اناطولیہ کی اصطلاح رائج ہے لیکن ترک باشندے اسے اناضول یا اناضولو (ترک: Anadolu) کہتے ہیں ۔[1]ترکیکا بیشتر حصہ اسی جزیرہ نما پر مشتمل ہے۔ اناطولیہ کولاطینینامایشیائے کوچک(انگریزی: Asia minor) سے بھی پکارا جاتا ہے۔یہ اصطلاحیونانیلفظ Aνατολή (اناطولے) یا Ανατολία (اناطولیہ) سے نکلی ہے جس کا مطلب طلوع آفتاب یا مشرق ہے۔عموما اناطولیہ کا علاقہخلیج اسکندرونسے تا حد نظربحر اسودتک مانا جاتا ہے۔[4]جدید میریم ویبسٹر لغت میں اناطولیہ کی یہی تعریف لکھی گئی ہے۔[5]اس حساب سے اناطولیہ مشرق میںآرمینیائی پٹھاراوردریائے فراتکے جنوب مشرق کی طرف مڑ کربین النہرینمیں داخلے سے قبل کا تک علاقہ ہے۔[6]جنوب مشرق میںسوریہکی اورنوٹ گھاٹی تک پھیلا ہے۔[6]آرمینیائی قتل عامکے بعد آرمینیا کا نام بدل کر جدید ترکی حکومت نےمشرقہ اناطولیہ علاقہکر دیا۔[7][8]مشرقی اناطولیہ کا بلند ترینپہاڑسوفان(4058 میٹر) اورارارات(5123 میٹر) ہیں۔[9]دریائے فرات،اراس دریا،کاراسواورمورات دریاآرمینیا کوکنوبی قفقازسے جوڑتے ہیں۔[10]اناطولیہ میں انسانی زندگی کا آغازقدیم سنگی دورمیں ہوا۔[11]جدید سنگی دورمیں اناطولیہہند یورپی زبانوںکا وطن تھا۔حالانکہ ماہرین لسانیات ہند یورپی زبانوں کا جائے تخلیق بحر اسود کے علاقے کو بتاتے ہیں۔ البتہ یہ مسلّم ہے کہ ہند یورپی زبانوں کی پہلے کی زباناناطولیائی زباناناطولیہ میں 19ویں صدی قبل مسیح سے ہی بولی جاتی رہی ہے اور دونوں زبانوں کا آپس میں کچھ تعلق ضرور ہے۔
+تاریخ عالم میں اس خطے کو کافی اہمیت حاصل ہے اور یہیونانی،رومی،کرد،بازنطینی،سلجوقاورترکباشندوں کا وطن رہا ہے۔ آج یہاں کا سب سے بڑا نسلی گروہ ترک ہے گو یہ ترکوں کا اصلی وطن نہیں بلکہسلجوقاورعثمانیعہد میں یہ ترکوں کا علاقہ بن گیا۔
+اسے ایشیائی ترکی بھی کہتے ہیں۔ ایشیائے کوچک میں زیادہ علاقہ اناطولیہ کیسطح مرتفعکا ہے۔ شمال اور جنوب میں یونٹک اور طورس کےکوہستانہیں۔ جو مشرق میں آرمینیا کے پہاڑوں سے جا ملتے ہیں۔ شمال میں بحیرہ اسود کا سخت پتھریلا ساحل ہے۔ جنوبی ساحل میں بڑی بڑی خلیجیں ہیں۔ لیکن مغربی ساحل کافی کٹا پھٹا ہے اور اس کے بالمقابل کئی چھوٹے بڑے جزائر ہیں۔ اناطولیہ کاعلاقہ خشک ہے۔ جس میں کہیں کہیں پانی کی نمکین جھیلیں ہیں، یہاں اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔ ساحلی علاقے خطہ روم کی آب و ہوا کی وجہ سے سرسبز و شاداب ہیں۔"
+318,ترکیہ کی میٹروپولیٹن بلدیات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%8C_%DA%A9%DB%8C_%D9%85%DB%8C%D9%B9%D8%B1%D9%88%D9%BE%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%B9%D9%86_%D8%A8%D9%84%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D8%AA,یہترکیہ کی میٹروپولیٹن بلدیات(Metropolitan municipalities in Turkey) کی ایک فہرست ہے۔ترکیہکے 81 صوبے ہیں۔ 81 صوبائی مراکز میں سے 30 میٹروپولیٹن بلدیات (ترکی: büyükşehir belediyeleri) کہلاتے ہیں۔[1]
+319,دنیا کے سب سے بڑے شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7_%DA%A9%DB%92_%D8%B3%D8%A8_%D8%B3%DB%92_%D8%A8%DA%91%DB%92_%D8%B4%DB%81%D8%B1,یہ فہرستدنیا کے سب سے بڑے شہرہے۔
+320,شہروں کی فہرست بلحاظ آبادی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%B1%D9%88%DA%BA_%DA%A9%DB%8C_%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA_%D8%A8%D9%84%D8%AD%D8%A7%D8%B8_%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF%DB%8C,یہفہرست شہر بلحاظ آبادیہے۔فہرست شہر بلحاظ کثافت آبادی
+321,یورپ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE,"یورپیافرنگستان(انگریزی: Europe) دنیا کے سات روایتی براعظموں میں سے ایک ہے تاہمجغرافیہدان اسے حقیقیبراعظمنہیں سمجھتے اور اس��یوریشیاکا مغربیجزیرہ نماقرار دیتے ہیں۔ اصطلاحی طور پرکوہ یورالکے مغرب میں واقع یوریشیا کا تمام علاقہ یورپ یا فرنگستان کہلاتا ہے۔یورپ کے شمال میںبحر منجمد شمالی، مغرب میںبحر اوقیانوس، جنوب میںبحیرہ روماور جنوب مشرق میں بحیرہ روم اوربحیرہ اسودکو ملانے والے آبی راستے اورکوہ قفقازہیں۔ مشرق میں کوہ یورال اوربحیرہ قزوینیورپ اورایشیاکو تقسیم کرتے ہیں۔فرنگستانرقبےکے لحاظ سےآسٹریلیاکو چھوڑ کر دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کا رقبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر ہے جو زمین کے کل رقبے کا صرفدوفیصد بنتا ہے۔ یورپ سے بھی چھوٹا واحد براعظمآسٹریلیاہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ تیسرا سب سے بڑا براعظم ہے جس کی آبادی 71 کروڑ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 11 فیصد بنتا ہے۔Within the above-mentioned states are severalدرحقیقتindependent countries withمحدود تسلیم شدہ ریاستوں کی فہرست۔ None of them are members of the UN:Several dependencies and similar territories with broad autonomy are also found within or in close proximity to Europe. This includes Åland (aفن لینڈ کے علاقہ جات)، two constituent countries of the Kingdom of Denmark (other than Denmark itself)، threeتاج توابع، and twoبرطانوی سمندر پار علاقے۔ Svalbard is also included due to its unique status within Norway, although it is not autonomous. Not included are the threeمملکت متحدہ کے ممالکwith devolved powers and the twoپرتگال کے خود مختار علاقہ جات، which despite having a unique degree of autonomy, are not largely self-governing in matters other than international affairs. Areas with little more than a unique tax status, such asHeligolandand theجزائر کناری، are also not included for this reason."
+322,یورپ کے بڑے شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE_%DA%A9%DB%92_%D8%A8%DA%91%DB%92_%D8%B4%DB%81%D8%B1,یہ فہرستیورپ کے بڑے شہربلحاظ آبادی ہے۔
+323,سرائے بورنو,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D8%A8%D9%88%D8%B1%D9%86%D9%88,سرائے بورنو(انگریزی: Sarayburnu) (ترکی زبان:Sarayburnu، لفظی معنیراس محل)استنبولمیںبحیرہ مرمرہکوشاخ زریںسے جدا کرنے والا محلہ ہے۔ اس میں مشہور زمانہتوپ قاپی محلاورگل خانہ پارکواقع ہیں۔ اسے1985ءمیںیونیسکوکےعالمی ثقافتی ورثہمیں شامل کیا گیا۔[1]
+324,600 ق م,https://ur.wikipedia.org/wiki/600_%D9%82_%D9%85,600 ق م(انگریزی: 600 BC)قبل مسیحمیں ایک سال ہے۔
+325,بازنطیوم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%B2%D9%86%D8%B7%DB%8C%D9%88%D9%85,"بازنطیومیابوزنطہیابیزنطہیابیزانطیون(انگریزی: Byzantium / Byzantion) (قدیم یونانی: Βυζάντιον،Byzántion) ایکقدیم یونانینوآبادیتھی جو بعد میںقسطنطنیہاور پھراستنبولبنی۔بیزاس(انگریزی: Byzas)
+(قدیم یونانی: Βύζας,Býzas)یونانی اساطیرمیں ایک کردار ہے جسےبازنطیوم(قدیم یونانی: Βυζάντιον,Byzántion) کا بانی تصور کیا جاتا ہے"
+326,330ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/330%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+327,قسطنطنیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%B3%D8%B7%D9%86%D8%B7%D9%86%DB%8C%DB%81,"قسطنطنیہ(Constantinople) سن330ءسے395ءتک رومی سلطنت اور395ءسے1453ءتکبازنطینی سلطنتکادارالحکومترہا اور1453ءمیںفتح قسطنطنیہکے بعد سے1923ءتکسلطنت عثمانیہکا دار الخلافہ رہا۔فتح قسطنطنیہکے بعدسلطان محمد فاتحنے اس شہر کا نام اسلام بول رکھا مگر ترکوں کو اسلام بول بولنے میں مشکل ہوتی تھی تو وہ اسے استنبول کہتے تھے اس وجہ سے اس کا نام استنبول پڑا۔ شہریورپاورایشیاکے سنگم پرشاخ زریںاوربحیرہ مرمرہکے کنارے واقع ہے اورقرون وسطیمیں یورپ کا سب سے بڑا اور امیر ترین شہر تھا۔ اس زمانے میں قسطنطنیہ کو Vasileousa Polis یعنی شہروں کی ملکہ کہا جاتا تھا۔تاریخ میں قسطنطنیہ نے کئی نام اختیار کیے جن میں سے بازنطین، نیو روم (نووا روما)، قسطنطنیہ اور استنبول مشہور ہیں۔ شہر کا سب سے پہلا نام بازنطین ہے، یہ نام اسے میگارا باشندوں نے تقریباً600 ق-م میں اس کے قیام کے وقت دیا تھا۔ شہر کا موجودہ نام استنبول ہے۔667 قبل مسیح میںیونانکی توسیع کے ابتدائی ایام میں شہر کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس وقت شہر کو اس کے بانی بائزاس کے نام پر بازنطین کا نام دیا گیا۔ 11 مئی 330ء کوقسطنطینکی جانب سے اسی مقام پر نئے شہر کی تعمیر کے بعد اسے قسطنطنیہ کا نام دیا گیا۔363ء سے رومی سلطنت کے دو حصوں میں تقسیم کے باعث قسطنطنیہ کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا۔ 376ء میںجنگ ادرنہمیں رومی افواج کی گوتھ کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعدتھیوڈوسسنے شہر کو 60 فٹ بلند تین فصیلوں میں بند کر دیا۔ اس فصیل کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بارود کی ایجاد تک اسے توڑا نہ جاسکا۔ تھیوڈوسس نے27فروری 425ء میں شہر میں ایک جامعہ بھی قائم کیا۔7ویں صدی میں آوارز اور بعد ازاں بلغار قبائل نےبلقانکے بڑے حصے کو تہس نہس کر دیا اور مغرب سے قسطنطنیہ کے لیے بڑا خطرہ بن گئے۔ اسی وقت مشرق میںساسانیوںنےمصر،فلسطین،شاماورآرمینیاپر قبضہ کر لیا۔ اس مو قع پرہرقلنے اقتدار پر قبضہ کرکے سلطنت کو یونانی رنگ دینا شروع کیا اور لاطینی کی جگہ یونانیقومی زبانقرار پائی۔ ہرقل نےساسانی سلطنتکے خلاف تاریخی مہم کا آغاز کیا اور انھیں عظیم شکست دی اور 627ءمیں تمام علاقے واپس لے لیے۔اسی دوراناسلامقبول کرنے والےعربوںکی طاقت ابھری جس نےفارسمیں ساسانی سلطنت کا خاتمہ کرنے کے بعدبازنطینی سلطنتسےبین النہرین(میسوپوٹیمیا)، شام، مصر اور افریقہ کے علاقے چھین لیے۔عربوں نے دو مرتبہ 674ءاور 717ءمیں قسطنطنیہ کا ناکام محاصرہ کیا۔ دوسرا محاصرہ زمینی اور سمندری دونوں راستوں سے کیا گیا۔ اس میں ناکامی سے قسطنطنیہ کونئی زندگی ملی اور مسیحی اسے اسلام کے خلاف مسیحیت کی فتح تصور کرتے ہیں۔گیارہویں صدیکے بازنطینی سلطنت بتدریج زوال کی جانب گامزن رہی خصوصاًجنگ ملازکردمیںسلجوقیحکمرانالپ ارسلانکے ہاتھوں حیران کن شکست کے بعد رومی فرمانروارومانوس چہارمکو گرفتار کر لیا گیا اور چند شرائط پر رہا کر دیا گیا۔ واپسی پر رومانوس کو قتل کر دیا گیا اور نئے حکمران مائیکل ہفتم ڈوکاس نے سلجوقیوں کو خراج دینے سے انکار کر دیا۔ جس کے جواب میں ترک افواج نے چڑھائی کرتے ہوئےاناطولیہکا بڑا حصہ فتح کر لیا اوربازنطینی سلطنتکو 30 ہزار مربع میل رقبے سے محروم کر دیا۔صلیبی جنگ کے دوران 13اپریل 1204ءکو صلیبی افواج نے اپنے ہی شہر قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا اور شہر کو شدید نقصان پہنچایا۔ 1261ءمیں بازنطینی افواج نے مائیکل ہشتم پیلولوگس کی زیر نگرانی لاطینی حکمران بالڈوین ثانی سے قسطنطنیہ واپس حاصل کر لیا۔مکمل مضمون کے لیے دیکھیےفتح قسطنطنیہ29مئی 1453ءکو سلطنت عثمانیہ کے فرمانرواسلطان محمد فاتحکے ہاتھوں بازنطینی سلطنت کے ساتھ قسطنطین یازدہم کی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا اور قسطنطنیہ ملت اسلامیہ کے قلب کے طور پر ابھرا۔ شہر کے مرکزی گرجےایاصوفیہکو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا اور شہر میں مسیحیوں کو پرامن طور پر رہنے کی کھلی اجازت دی گئی۔ فتح قسطنطنیہ تاریخ اسلام کا ایک سنہری باب ہے جبکہ مسیحی اسے ""سقوط قسطنطنیہ"" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔شہر 470 سال تکسلطنت عثمانیہکا دار الحکومت رہا اور 1923ءمیںمصطفی کمال اتاترکنےانقرہکو نئیترک جمہوریہکا دار الحکومت قرار دیا اور قسطنطنیہ کا ناماستنبولرکھ دیا گیا۔قسطنطنیہ کے یادگار تعمیراتآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ pallasweb.com(Error: unknown archive URL)ایاصوفیہ کی کاشی کارینقشہ، دلچسپ مقامات کی نشان دہی کے ساتھآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ istan-bul.org(Error: unknown archive URL)"
+328,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+329,رومی سلطنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D9%88%D9%85%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA,"میدیولانم(286–402,مغربی رومی سلطنت)Augusta Treverorumسرمیومراوینا(402–476، مغربی)نیکومیڈیا(286–330,بازنطینی سلطنت)سلطنتِ رومایارومی سلطنت، زمانۂ قدیم کی ایک سلطنت، جس کا دار الحکومترومتھا۔ اس سلطنت کا پہلا بادشاہآگسٹس سیزرتھا جو 27 قبل مسیح میں تخت پر بیٹھا۔ اس سے قبل روم ایک جمہوریہ تھا جوجولیس سیزراورپومپئکی خانہ جنگی اورگائس ماریئساورسولاکے تنازعات کے باعث کمزور پڑ گئی تھی۔کئی موجودہ ممالک بشمولانگلستان،اسپین،فرانس،اٹلی،یونان،ترکیاورمصراس عظیم سلطنت کا حصہ تھے۔ رومی سلطنت کی زبانلاطینیاوریونانیتھی۔مغربی رومی سلطنت500 سال تک قائم رہی جبکہ مشرقی یعنیبازنطینی سلطنت، جس میںیوناناورترکیشامل تھے، ایک ہزار سال تک موجود رہی۔ مشرقی سلطنت کا دار الحکومتقسطنطنیہتھا۔مغربی رومی سلطنت4 ستمبر476ءکو جرمنوں کے ہاتھوں تباہ ہو گئی جبکہبازنطینی سلطنت29 مئی1453ءمیںعثمانیوںکے ہاتھوںفتح قسطنطنیہکے ساتھ ختم کردی۔اپنے عروج کے دور میں رومی سلطنت 5،900،000 مربع کلومیٹر (2،300،000 مربع میل) پر پھیلی ہوئی تھی۔ مغربی تہذیب کی ثقافت، قانون، ٹیکنالوجی، فنون، زبان، مذاہب، طرز حکومت، افواج اور طرز تعمیر میں آج بھی رومی سلطنت کی جھلک نظر آتی ہے۔رومی سلطنت کی تاریخ یورپی اقوام کے لیے آج بھی انتہائی دلچسپی کا باعث ہے۔ وہ ان رومی بادشاہوں اور جنرلوں کی تعریف اور توصیف کرتے ہیں کہ جنھوں نے حملہ کرکے قبائل کو غیر مہذب اور وحشی قرار دے کر ان کا قتل عام کیا، ان کو غلام بنایا اور ان کی لوٹی ہوئی دولت سے اپنے محلات، مندر اور عمارتیں بنائیں۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ ان کے ہمسایہ قبائل جو امن و امان کی زندگی گزار رہے تھے اور جو اپنے قبائلی رسم و رواج پر عمل پیرا تھے، وہ غیر مہذب جب کہ حملہ آور جنھوں نے ان پر بغیر کسی اشتعال کے حملہ کیا اور ان کے مال و اسباب کو لوٹا، وہ مہذب اور قابل تعریف ٹھہرائے گئے۔
+یورپ کی اقوام نے رومیوں سے کئی ریاستی ادارے وراثت میں پاکر انھیں اختیار کیا جیسے سینیٹ، اسمبلیاں، قانون، ووٹنگ سسٹم اور ویٹو کی طاقت استعمال کرنے کا طریقہ، اس کے علاوہ رومی سلطنت کی تاریخ کو یاد رکھنے کے لیے مختلف موضوعات پر فلمیں بنائی گئیں۔ ڈرامے سٹیج کیے گئے۔ مصوری اور مجسمہ سازی میں ان کی تعریف کے اہم واقعات افراد اور ان کے کردار کو محفوظ کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں رومی تاریخ پر کتابیں لکھی گئیں۔ آثار قدیمہ نے ان کی پرانی عمارتوں اور یادگاروں کو دریافت کرکے نئی زندگی دی۔ تاریخی ناولوں کے ذریعے عام لوگوں میں ان کو مقبول بنایا گیا۔رومی سلطنت کے زوال کے بعد 800 عیسوی میں اس کے احیا کی کوشش کی گئی۔ جب کارولینجین (Carolingian) خاندان کا حکمراں شارلیمن (Charlemagne) ہوا تو پوپ نے اس کی تاج پوشی کی۔ اس کے بعد وہ ہولی رومن ایمپرر کہلایا۔ یورپ کے سیاسی اتار چڑھائو میں یہ ادارہ قائم رہا اور وولیٹر نے طنزاً اس کے بارے میں کہا کہ یہ نہ تو ہولی ہے، نہ رومن ہے اور نہ ایمپرر۔ بالآخر نپولین نے 1806 عیسوی میں اس کا خاتمہ کیا۔جب یورپ کے لوگوں نے تاریخ میں رومی سلطنت کی ٹوٹ پھوٹ کے بارے میں پڑھا تو
+انھیں اس پر حیرت ہوئی کہ ایک طاقتور مال اور دولت سے بھرپور مشرق اور مغرب میں پھیلی ہوئی یہ سلطنت کیونکر زوال کا شکار ہوئی، کیونکہ اس کی ایک وجہ تو انھیں سلطنت کی تقسیم میں نظر آئی۔ مغربی رومی سلطنت پوپ کی سربراہی میں کیتھولک فرقے پر قائم تھی جب کہ مشرقی سلطنت بازنطینی ہو گئی اور اس نے (Orthodox) عیسائیت کو اپنالیا۔ اس تقسیم نے دونوں میں رقابت اور تضاد کو پیدا کیا۔
+مؤرخوں نے رومی سلطنت کے عروج کی تاریخ کے بعد اس پر توجہ دی کہ وہ کون سی وجوہ تھیں کہ جن کے باعث رومی سلطنت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ اگرچہ اس موضوع پر مؤرخوں نے لکھا ہے مگر یہاں ہم ان دو ابتدائی مؤرخوں کا ذکر کریں گے، جنھوں نے اس کے زوال کی جانب نشان دہی کی، اہم وجہ سیاست کا غیر مستحکم ہونا بتایا۔ ��ب ریاست کا تسلط کمزور ہوا تو اس کے ساتھ ہی سماجی اور معاشی بحرانوں کی ابتدا ہوئی، جس نے انتشاروں کو پیدا کیا، جس نے سلطنت کو غیر محفوظ بنایا۔دوسرا اہم مورخ Edwin Gibbon تھا جس نے رومی ہسٹر کے کھنڈر دیکھ کر اس کی کھوئی ہوئی عظمت سے متاثر ہوکر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس کے زوال کی تاریخ لکھے۔ یہاں خاص بات یہ کہ اس نے رومی
+سلطنت کے عروج کو نظر انداز کیا اور ان وجوہ کی نشان دہی کی کہ جو اس کے زوال کا باعث ہوئیں، جیسے فوج کا سیاست میں آنا اور اپنی مرضی کے حکمران منتخب کرنا، رومی شہنشاہوں کا یکے بعد دیگرے قتل ہونا، غلاموں کی تعداد کا لڑنا جو گھریلوں کاموں سے لے کر زراعت اور جنگ میں مصروف رکھے جاتے تھے۔ سرحدوں پر قبائلی حملوں کی وجہ سے زراعت کا تباہ ہونا، بے روزگار کسانوں کا شہروں میں آنا، بڑھتی آبادی کی وجہ سے شہر میں صفائی کا نہ ہونا، بیماریوں کا پھیلنا، عوامی جھگڑے اور فسادات کی وجہ سے شہروں کا غیر محفوظ ہونا اور امرا کا دیہات کی جانب حویلیوں میں منتقل ہونا۔ان وجوہ کے علاوہ زوال کے جس اہم پہلو کی جانب گبنن نے توجہ دلائی ہے وہ یہ کہ جب رومی معاشرہ عیسائی ہوا تو اس نے اس کے کردار کو بدل کر رکھ دیا۔ جب رومی پیگن یا غیر عیسائی تھے اور اس وقت ان میں جنگی جذبہ تھا۔ بہادری اور جرأت تھی اور میدان جنگ میں جان دینے پر تیار تھے، لیکن عیسائی ہونے کے بعد ان کا یہ جنگی جذبہ ختم ہو گیا، کیونکہ عیسائیت امن کی تعلیم دیتی تھی اور جنگ کے خلاف تھی، دوسری اہم تبدیلی یہ آئی کہ پوری رومی سلطنت میں خانقاہوں کی بنیاد پڑی، جہاں ایک بڑی تعداد میں بطور راہب داخل ہوتے تھے اور عہد کرتے تھے کہ وہ اپنی زندگی عبادت کے لیے وقف کر دیں گے۔ اس نے ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو پیداواری عمل میں شریک نہ تھا اور جو معاشرے پر معاشی بوجھ بن گیا تھا۔ جب تک رومی معاشرہ پیگن تھا، اس نے فلسفہ، ادب، آرٹ اور مجسمہ سازی کو پیدا کیا، اس کے تعلیمی اداروں میں فلسفے کی تعلیم دی جاتی تھی، جو زمینی ترقی کے لیے لازمی تھی، لیکن جب معاشرے پر عیسائیت کا غلبہ ہوا تو اس نے تمام
+پیگن اداروں کو بند کر دیا۔ فلسفے کی تعلیم ممنوع قرار پائی۔ پیگن فلسفیوں کا استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے پورے معاشرے پر چرچ کا تسلط ہو گیا اور فنونِ لطیفہ کے لیے یہ لازم ہوا کہ وہ مذہبی دائرے میں رہتے ہوئے تخلیق کریں، اس تبدیلی نے رومی معاشرے کو مذہبی طور پر انتہا پسند بنادیا اور روشن خیالی کے تمام دروازے بند کردیے۔تو اس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک جانب رومی معاشرہ زمینی طور پر بنجر اور شکستہ ہو گیا۔ دوسری طرف اس کی افواج اس قابل نہ رہیں کہ وہ بار بیرین قبائل سے اپنا دفاع کرسکیں۔ چنانچہ 410 عیسوی میں ویزوگوتھ شہر روم پر قابض ہوئے اور مغربی رومی ایمپائر کا خاتمہ کر دیا۔ ایک وقت میں شکست کھانے والے شہر میں فاتح بن کر آئے۔ مشرقی رومی ایمپائر نے ایک طویل عرصے کی سیاسی ٹوٹ پھوٹ کے بعد 1453 عیسوی میں ترکوں کے ہاتھوں شکست کھائی اور یوں رومی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔
+جدید زمانے میں یورپی اقوام نے بھی اسی رومی ماڈل کو اختیار کیا، خود کو مہذب کہا، ایشیا اور افریقا کے جن ملکوں پر قبضہ کیا، ان کو غیر مہذب کہہ کر ناصرف ان کا قتل عام کیا بلکہ ان کی دولت کو بھی لوٹا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ میں اس روایت کو تبدیل کیا جائے اور ہر اس حملہ آور کو جس نے اپنی فوجی طاقت اور ٹیکنالوجی کی مدد سے دوسرے ملکوں پر قبضہ کیا، انھیں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جائے۔ درحقیقت حملہ آور ظالم اور غیر مہذب تھے، جنھوں نے پُرامن اور مہذب قوموں کو شکست دے کر اپنی انتہا پسندی اور تشدد کا اظہار کیا۔ ان کے ان جرائم کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے، تاکہ مہذب اور غیر مہذب کے پردے میں جو جرائم ہوئے ہیں، ان کی حقیقت معلوم ہو سکے۔[5]"
+330,بازنطینی سلطنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%B2%D9%86%D8%B7%DB%8C%D9%86%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA,"مشرقی سلطنتروم۔چوتھی صدیعیسوی میں سلطنت روم دو حصوں، مغربی اور مشرقی میں تقسیم ہو گئی۔ مشرقی حصہ اپنے دار الحکومت بازنطین کے نام پر بازنطینی سلطنت کہلایا۔ (330ءمیں بازنطینی شہنشاہقسطنطیننے بازنطیم کا نام اپنے نام پرقسطنطنیہرکھ دیا اور1930ءمیںترکیحکومت نے بدل کراستنبولکر دیا۔بازنطینی سلطنت میںشام،ایشیائے کوچک،مصر،تھریساوریونانکے ممالک شامل تھے۔پانچویں صدیعیسوی میںبلقانکے سلاؤ قبائل اورجرمنیکے ونڈال قوموں نےقسطنطنیہپر کئی حملے کیے۔چھٹی صدیعیسوی اس کے عروج کا زمانہ تھا۔ خصوصاًشہنشاہ جسٹینینکا دور حکومت لیکنساتویں صدیمیں یہ زوال پزیر ہوئی اور شمالی اطالیہ کے میدان لمبارڈی میں بسنے والوں، ایرانیوں اور عربوں نے اس پر پے درپے حملے کیے جس کے باعث یہاں طوائف الملوکی اور انتشار کا دور دورہ رہا۔ ساتویں صدی کے اختتام پر شمالیافریقا،مصر،شام،فلسطیناورقبرصوغیرہ عربوں نے قبضے میں چلے گئے اور بازنطینی سلطنت حقیقت میں یونانی سلطنت بن کر رہ گئی۔ آخر 1453ء میں سلطنت عثمانیہ کے فرمانرواسلطان محمد فاتحکی افواج نےقسطنطنیہفتح کر لیا اور آخری بازنطینی بادشاہ قسطنطین یاز دہم مارا گیا۔فتح قسطنطنیہسے زمانہ وسطی کا خاتمہ اوریورپمیںنشاۃ ثانیہکا آغاز ہوا۔اس عنوان کے لیے مزید پڑھیں،فہرست قیصر بازنطینی روم=== رومن سلطنت کی تقسیم ===شانداردیکھیےلاطینی سلطنت۔قدیم باز نطینی سلطنت کے تمام ایشیائی ممالک پر عثمانی قابض ہو گئے تھے، لہٰذا یورپ میں بھی صرف قسطنطنیہ اور اس کے مضافات اس میں شامل ہونا باقی تھے، سلطنت عثمانیہ، قسطنطنیہ کی فتح کے بغیر ادھوری تھی,
+ایک اُربان (Urban) نامی توپ خانے کا ماہر تھا بھاگ کر سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں چلا آیا، اس نے سلطان کو ایک بہترین توپ بنا کر دی، جس کے سنگی گولوں کا قطر ڈھائی فٹ تھا،[1]26 ربیع الاول 857ھ بہ مطابق 6 اپریل 1453 ء کو زبردست محاصرہ کے آغاز کر دیا گیا مسلسل انتھک محنت اور جان فشانی کے بعد 29 مئی 1453 ء 20 جمادی الاول کو بلاخر قسطنطنیہ فتحیاب ہوا۔قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔1453 ہی وہ سال ہے جسے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد ثابت ہو گیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد فصیلیں کسی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔شہر پر ترکوں کے قبضے کے بعد یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں یونانی بولنے والے شہری بھاگ کر یورپ اور خاص طور پر اٹلی کے مختلف شہروں میں جا بسے۔ اس وقت یورپ 'تاریک دور' سے گذر رہا تھا اورقدیم یونانیتہذیب سے کٹا ہوا تھا۔ لیکن اس تمام عرصے میں قسطنطنیہ میں یونانی زبان اور ثقافت بڑی حد تک برقرار رہی تھی۔ یہاں پہنچنے والے مہاجروں کے پاس ہیرے جواہرات سے بیش قیمت خزانہ تھا۔ارسطو،افلاطون، بطلیموس، جالینوس اور دوسرے حکما و علما کے اصلیونانی زبانکے نسخے۔ان سب نے یورپ میں قدیم یونانی علوم کے احیا میں زبردست کردار ادا کیا اور مورخین کے مطابق انھی کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا جس نے آنے والی صدیوں میں یورپ کو باقی دنیا سے سبقت لینے میں مدد دی جو آج بھی برقرار ہے۔تاہم نوجوان سلطان محمد کو، جسے آج دنیا سلطان محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے، 29 مئی کی صبح جو شہر نظر آیا یہ وہ شہر نہیں تھا جس کی شان و شوکت کے افسانے اس نے بچپن سے سن رکھے تھے۔ طویل انحطاط کے بعد بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی اور قسطنطنیہ، جو صدیوں تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے مالدار شہر رہا تھا، اب اس کی آبادی سکڑ کر چند ہزار رہ گئی تھی اور شہر کے کئی حصے ویرانی کے سبب ایک دوسرے سے کٹ ہو کر الگ الگ دیہات میں تبدیل ہو گئے تھے۔کہا جاتا ہے کہ نوجوان سلطان نے شہر کی حالتِ زار دیکھ کر شیخ سعدی سے منسوب یہ شعر پڑھا:بوم نوبت میزند بر طارم افراسیاب ۔۔۔ پرده داری میکند در قصر قیصر عنکبوت(اُلو افراسیاب کے میناروں پر نوبت بجائے جاتا ہے ۔۔۔ قیصر کے محل پر مکڑی نے جالے بن لیے ہیں)قسطنطنیہ کا قدیم نام بازنطین تھا۔ لیکن جب 330 عیسوی میں رومن شہنشاہ کونسٹینٹائن اول نے اپنا دار الحکومت روم سے یہاں منتقل کیا تو شہر کا نام بدل کر اپنے نام کی مناسبت سے کونسٹینٹینوپل کر دیا، (جو عربوں کے ہاں پہنچ 'قسطنطنیہ' بن گیا)۔ مغرب میں رومن امپائر کے خاتمے کے بعد یہ سلطنت قسطنطنیہ میں برقرار رہی اور چوتھی تا 13ویں صدی تک اس شہر نے ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ اس دوران دنیا کا کوئی اور شہر اس کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان شروع ہی سے اس شہر کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے آئے تھے۔چنانچہ اس مقصد کے حصول کی خاطر چند ابتدائی کوششوں کیناکامیکے بعد 674 میں ایک زبردست بحری بیڑا تیار کر کے قسطنطنیہ کی سمت روانہ کیا۔ اس بیڑے نے شہر کے باہر ڈیرے ڈال دیے اور اگلے چار سال تک متواتر فصیلیں عبور کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔آخر 678 میں بازنطینی بحری جہاز شہر سے باہر نکلے اور انھوں نے حملہ آور عربوں پر حملہ کر دیا۔ اس بار ان کے پاس ایک زبردست ہتھیار تھا، جسے ’آتشِ یونانی‘ یا گریک فائر کہا جاتا ہے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک فارمولا آج تک معلوم نہیں ہو سکا، تاہم یہ ایک ایسا آتش گیر مادہ تھا جسے تیروں کی مدد سے پھینکا جاتا تھا اور یہ کشتیوں اور جہازوں سے چپک جاتا تھا۔ مزید یہ کہ پانی ڈالنے سے اس کی آگ مزید بھڑک جاتی تھی۔عرب اس آفت کے مقابلے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے تمام بحری بیڑا آتش زار کا منظر پیش کرنے لگا۔ سپاہیوں نے پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی پناہ نہیں ملی کیوں کہ آتشِ یونانی پانی کی سطح پر گر کر بھی جلتی رہتی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے پورے بحرِ مرمرہ نے آگ پکڑ لی ہے۔عربوں کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ واپسی میں ایک ہولناک سمندری طوفان نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور سینکڑوں کشتیوں میں سے ایک آدھ ہی بچ کر لوٹنے میں کامیاب ہو سکی۔اسی محاصرے کے دوران مشہور صحابیابو ایوب انصارینے بھی اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ ان کا مقبرہ آج بھی شہر کی فصیل کے باہر ہے۔ سلطان محمد فاتح نے یہاں ایک مسجد بنا دی تھی جسے ترک مقدس مقام مانتے ہیں۔اس کے بعد 717 میں بنو امیہ کے امیرسلیمان بن عبدالملکنے بہتر تیاری کے ساتھ ایک بار پھر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، لیکن اس کا بھی انجام اچھا نہیں ہوا اور دو ہزار کے قریب جنگی کشتیوں میں سے صرف پانچ بچ کر واپس آنے میں کامیاب ہو سکیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد چھ صدیوں تک مسلمانوں نے دوبارہ قسطنطنیہ کا رخ نہیں کیا، حتیٰ کہ سلطان محمد فاتح نے بالآخر شہر پر اپنا جھنڈا لہرا کر سارے پرانے بدلے چکا دیے۔شہر پر قبضہ جمانے کے بعد سلطان نے اپنا دار الحکومت ادرنہ سے قسطنطنیہ منتقل کر دیا اور خود اپنے لیے قیصرِ روم کا لقب منتخب کیا۔ آنے والے عشروں میں اس شہر نے وہ عروج دیکھا جس نے ایک بار پھر ماضی کی عظمت کی یادیں تازہ کر دیں۔سلطان نے اپنی سلطنت میں حکم نامہ بھیجا: 'جو کوئی چاہے، وہ آ جائے، اسے شہر میں گھر اور باغ ملیں گے۔' صرف یہی نہیں، اس نے یورپ سے بھی لوگوں کو قسطنطنیہ آنے کی دعوت دی تاکہ شہر پھر سے آباد ہو جائے۔اس کے علاوہ اس نے شہر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی ازسرِ نو تعمیر کی، پرانی نہروں کی مرمت کی اور نکاسی کا نظام قائم کیا۔ اس نے بڑے پیمانے پر نئی تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع کیا جس کی سب سے بڑی مثال توپ کاپی محل اور گرینڈ بازار ہے۔ جلد ہی طرح طرح کے دست کار، کاریگر، تاجر، خطاط، مصور، سنار اور دوسرے ہنرمند شہر کا رخ کرنے لگے۔سلطان فاتح نے ہاجیہ صوفیہ کو چرچ سے مسجد بنا دیا، لیکن انھوں نے شہر کے دوسرے بڑے گرجا ’کلیسائے حواریان‘ کو یونانی آرتھوڈاکس فرقے کے پاس ہی رہنے دیا اور یہ فرقہ ایک ادارے کی صورت میں آج بھی قائم و دائم ہے۔
+سلطان فاتح کے بیٹے سلیم کے دور میں عثمانی سلطنت نے خلافت کا درجہ اختیار کر لیا اور قسطنطنیہ اس کا دار الخلافہ اور تمام سنی مسلمانوں کا مرکزی شہر قرار پایا۔سلطان فاتح کے پوتے سلیمان عالیشان کے دور میں قسطنطنیہ نے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ یہ وہی سلیمان ہیں جنھیں مشہور ترکی ڈرامے 'میرا سلطان' میں دکھایا گیا ہے۔ سلیمان عالیشان کی ملکہ خرم سلطان نے مشہورمعمارسنان کی خدمات حاصل کیں جس نے ملکہ کے لیے ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا۔ سنان کی دوسری مشہور تعمیرات میں سلیمانیہ مسجد، خرم سلطان حمام، خسرو پاشا مسجد، شہزادہ مسجد اور دوسری عمارتیں شامل ہیں۔یورپ پر سقوطِ قسطنطنیہ کا بڑا گہرا اثر ہوا اور وہاں اس سلسلے میں کتابیں اور نظمیں لکھی گئیں اور متعدد پینٹنگز بنائی گئیں اور یہ واقعہ ان کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا۔
+یہی وجہ ہے کہ یورپ کبھی اسے بھول نہیں سکا۔ نیٹو کا اہم حصہ ہونے کے باوجود یورپی یونین ترکی کو قبول کرنے لیت و لعل سے کام لیتی ہے جس کی وجوہات صدیوں پرانی ہیں۔
+یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن سمجھا جاتا ہے۔ 29 مئی 1453 کو جمعرات کا دن تھا۔"
+331,لاطینی سلطنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%84%D8%A7%D8%B7%DB%8C%D9%86%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA,لاطینی سلطنت(انگریزی: Latin Empire) جسےقسطنطنیہ کی لاطینی سلطنت(انگریزی: Latin Empire of Constantinople) بھی کہا جاتا ہے ایکجاگیردارانہصلیبی ریاستتھی جوچوتھی صلیبی جنگکے نتیجے میںبازنطینی سلطنتسے حاصل ہونے والی زمین پر قائم ہوئی۔
+332,پالایولوگوس شاہی سلسلہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D8%A7%D9%84%DB%8C%D9%88%D9%84%D9%88%D8%AC%DB%8C_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86,پالایولوگوس شاہی سلسلہ(انگریزی: Palaiologos)بازنطینی سلطنتکا ایکشاہی خاندانتھا۔
+334,رومی سلطنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D9%88%D9%85%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA,"میدیولانم(286–402,مغربی رومی سلطنت)Augusta Treverorumسرمیومراوینا(402–476، مغربی)نیکومیڈیا(286–330,بازنطینی سلطنت)سلطنتِ رومایارومی سلطنت، زمانۂ قدیم کی ایک سلطنت، جس کا دار الحکومترومتھا۔ اس سلطنت کا پہلا بادشاہآگسٹس سیزرتھا جو 27 قبل مسیح میں تخت پر بیٹھا۔ اس سے قبل روم ایک جمہوریہ تھا جوجولیس سیزراورپومپئکی خانہ جنگی اورگائس ماریئساورسولاکے تنازعات کے باعث کمزور پڑ گئی تھی۔کئی موجودہ ممالک بشمولانگلستان،اسپین،فرانس،اٹلی،یونان،ترکیاورمصراس عظیم سلطنت کا حصہ تھے۔ رومی سلطنت کی زبانلاطینیاوریونانیتھی۔مغربی رومی سلطنت500 سال تک قائم رہی جبکہ مشرقی یعنیبازنطینی سلطنت، جس میںیوناناورترکیشامل تھے، ایک ہزار سال تک موجود رہی۔ مشرقی سلطنت کا دار الحکومتقسطنطنیہتھا۔مغربی رومی سلطنت4 ستمبر476ءکو جرمنوں کے ہاتھوں تباہ ہو گئی جبکہبازنطینی سلطنت29 مئی1453ءمیںعثمانیوںکے ہاتھوںفتح قسطنطنیہکے ساتھ ختم کردی۔اپنے عروج کے دور میں رومی سلطنت 5،900،000 مربع کلومیٹر (2،300،000 مربع میل) پر پھیلی ہوئی تھی۔ مغربی تہذیب کی ثقافت، قانون، ٹیکنالوجی، فنون، زبان، مذاہب، طرز حکومت، افواج اور طرز تعمیر میں آج بھی رومی سلطنت کی جھلک نظر آتی ہے۔رومی سلطنت کی تاریخ یورپی اقوام کے لیے آج بھی انتہائی دلچسپی کا باعث ہے۔ وہ ان رومی بادشاہوں اور جنرلوں کی تعریف اور توصیف کرتے ہیں کہ جنھوں نے حملہ کرکے قبائل کو غیر مہذب اور وحشی قرار دے کر ان کا قتل عام کیا، ان کو غلام بنایا اور ان کی لوٹی ہوئی دولت سے اپنے محلات، مندر اور عمارتیں بنائیں۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ ان کے ہمسایہ قبائل جو امن و امان کی زندگی گزار رہے تھے اور جو اپنے قبائلی رسم و رواج پر عمل پیرا تھے، وہ غیر مہذب جب کہ حملہ آور جنھوں نے ان پر بغیر کسی اشتعال کے حملہ کیا اور ان کے مال و اسباب کو لوٹا، وہ مہذب اور قابل تعریف ٹھہرائے گئے۔
+یورپ کی اقوام نے رومیوں سے کئی ریاستی ادارے وراثت میں پاکر انھیں اختیار کیا جیسے سینیٹ، اسمبلیاں، قانون، ووٹنگ سسٹم اور ویٹو کی طاقت استعمال کرنے کا طریقہ، اس کے علاوہ رومی سلطنت کی تاریخ کو یاد رکھنے کے لیے مختلف موضوعات پر فلمیں بنائی گئیں۔ ڈرامے سٹیج کیے گئے۔ مصوری اور مجسمہ سازی میں ان کی تعریف کے اہم واقعات افراد اور ان کے کردار کو محفوظ کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں رومی تاریخ پر کتابیں لکھی گئیں۔ آثار قدیمہ نے ان کی پرانی عمارتوں اور یادگاروں کو دریافت کرکے نئی زندگی دی۔ تاریخی ناولوں کے ذریعے عام لوگوں میں ان کو مقبول بنایا گیا۔رومی سلطنت کے زوال کے بعد 800 عیسوی میں اس کے احیا کی کوشش کی گئی۔ جب کارولینجین (Carolingian) خاندان کا حکمراں شارلیمن (Charlemagne) ہوا تو پوپ نے اس کی تاج پوشی کی۔ اس کے بعد وہ ہولی رومن ایمپرر کہلایا۔ یورپ کے سیاسی اتار چڑھائو میں یہ ادارہ قائم رہا اور وولیٹر نے طنزاً اس کے بارے میں کہا کہ یہ نہ تو ہولی ہے، نہ رومن ہے اور نہ ایمپرر۔ بالآخر نپولین نے 1806 عیسوی میں اس کا خاتمہ کیا۔جب یورپ کے لوگوں نے تاریخ میں رومی سلطنت کی ٹوٹ پھوٹ کے بارے میں پڑھا تو
+انھیں اس پر حیرت ہوئی کہ ایک طاقتور مال اور دولت سے بھرپور مشرق اور مغرب میں پھیلی ہوئی یہ سلطنت کیونکر زوال کا شکار ہوئی، کیو��کہ اس کی ایک وجہ تو انھیں سلطنت کی تقسیم میں نظر آئی۔ مغربی رومی سلطنت پوپ کی سربراہی میں کیتھولک فرقے پر قائم تھی جب کہ مشرقی سلطنت بازنطینی ہو گئی اور اس نے (Orthodox) عیسائیت کو اپنالیا۔ اس تقسیم نے دونوں میں رقابت اور تضاد کو پیدا کیا۔
+مؤرخوں نے رومی سلطنت کے عروج کی تاریخ کے بعد اس پر توجہ دی کہ وہ کون سی وجوہ تھیں کہ جن کے باعث رومی سلطنت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ اگرچہ اس موضوع پر مؤرخوں نے لکھا ہے مگر یہاں ہم ان دو ابتدائی مؤرخوں کا ذکر کریں گے، جنھوں نے اس کے زوال کی جانب نشان دہی کی، اہم وجہ سیاست کا غیر مستحکم ہونا بتایا۔ جب ریاست کا تسلط کمزور ہوا تو اس کے ساتھ ہی سماجی اور معاشی بحرانوں کی ابتدا ہوئی، جس نے انتشاروں کو پیدا کیا، جس نے سلطنت کو غیر محفوظ بنایا۔دوسرا اہم مورخ Edwin Gibbon تھا جس نے رومی ہسٹر کے کھنڈر دیکھ کر اس کی کھوئی ہوئی عظمت سے متاثر ہوکر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس کے زوال کی تاریخ لکھے۔ یہاں خاص بات یہ کہ اس نے رومی
+سلطنت کے عروج کو نظر انداز کیا اور ان وجوہ کی نشان دہی کی کہ جو اس کے زوال کا باعث ہوئیں، جیسے فوج کا سیاست میں آنا اور اپنی مرضی کے حکمران منتخب کرنا، رومی شہنشاہوں کا یکے بعد دیگرے قتل ہونا، غلاموں کی تعداد کا لڑنا جو گھریلوں کاموں سے لے کر زراعت اور جنگ میں مصروف رکھے جاتے تھے۔ سرحدوں پر قبائلی حملوں کی وجہ سے زراعت کا تباہ ہونا، بے روزگار کسانوں کا شہروں میں آنا، بڑھتی آبادی کی وجہ سے شہر میں صفائی کا نہ ہونا، بیماریوں کا پھیلنا، عوامی جھگڑے اور فسادات کی وجہ سے شہروں کا غیر محفوظ ہونا اور امرا کا دیہات کی جانب حویلیوں میں منتقل ہونا۔ان وجوہ کے علاوہ زوال کے جس اہم پہلو کی جانب گبنن نے توجہ دلائی ہے وہ یہ کہ جب رومی معاشرہ عیسائی ہوا تو اس نے اس کے کردار کو بدل کر رکھ دیا۔ جب رومی پیگن یا غیر عیسائی تھے اور اس وقت ان میں جنگی جذبہ تھا۔ بہادری اور جرأت تھی اور میدان جنگ میں جان دینے پر تیار تھے، لیکن عیسائی ہونے کے بعد ان کا یہ جنگی جذبہ ختم ہو گیا، کیونکہ عیسائیت امن کی تعلیم دیتی تھی اور جنگ کے خلاف تھی، دوسری اہم تبدیلی یہ آئی کہ پوری رومی سلطنت میں خانقاہوں کی بنیاد پڑی، جہاں ایک بڑی تعداد میں بطور راہب داخل ہوتے تھے اور عہد کرتے تھے کہ وہ اپنی زندگی عبادت کے لیے وقف کر دیں گے۔ اس نے ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو پیداواری عمل میں شریک نہ تھا اور جو معاشرے پر معاشی بوجھ بن گیا تھا۔ جب تک رومی معاشرہ پیگن تھا، اس نے فلسفہ، ادب، آرٹ اور مجسمہ سازی کو پیدا کیا، اس کے تعلیمی اداروں میں فلسفے کی تعلیم دی جاتی تھی، جو زمینی ترقی کے لیے لازمی تھی، لیکن جب معاشرے پر عیسائیت کا غلبہ ہوا تو اس نے تمام
+پیگن اداروں کو بند کر دیا۔ فلسفے کی تعلیم ممنوع قرار پائی۔ پیگن فلسفیوں کا استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے پورے معاشرے پر چرچ کا تسلط ہو گیا اور فنونِ لطیفہ کے لیے یہ لازم ہوا کہ وہ مذہبی دائرے میں رہتے ہوئے تخلیق کریں، اس تبدیلی نے رومی معاشرے کو مذہبی طور پر انتہا پسند بنادیا اور روشن خیالی کے تمام دروازے بند کردیے۔تو اس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک جانب رومی معاشرہ زمینی طور پر بنجر اور شکستہ ہو گیا۔ دوسری طرف اس کی افواج اس قابل نہ رہیں کہ وہ بار بیرین قبائل سے اپنا دفاع کرسکیں۔ چنانچہ 410 عیسوی میں ویزوگوتھ شہر روم پر قابض ہوئے اور مغربی رومی ایمپائر کا خاتمہ کر دیا۔ ایک وقت میں شکست کھانے والے شہر میں ��اتح بن کر آئے۔ مشرقی رومی ایمپائر نے ایک طویل عرصے کی سیاسی ٹوٹ پھوٹ کے بعد 1453 عیسوی میں ترکوں کے ہاتھوں شکست کھائی اور یوں رومی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔
+جدید زمانے میں یورپی اقوام نے بھی اسی رومی ماڈل کو اختیار کیا، خود کو مہذب کہا، ایشیا اور افریقا کے جن ملکوں پر قبضہ کیا، ان کو غیر مہذب کہہ کر ناصرف ان کا قتل عام کیا بلکہ ان کی دولت کو بھی لوٹا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ میں اس روایت کو تبدیل کیا جائے اور ہر اس حملہ آور کو جس نے اپنی فوجی طاقت اور ٹیکنالوجی کی مدد سے دوسرے ملکوں پر قبضہ کیا، انھیں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جائے۔ درحقیقت حملہ آور ظالم اور غیر مہذب تھے، جنھوں نے پُرامن اور مہذب قوموں کو شکست دے کر اپنی انتہا پسندی اور تشدد کا اظہار کیا۔ ان کے ان جرائم کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے، تاکہ مہذب اور غیر مہذب کے پردے میں جو جرائم ہوئے ہیں، ان کی حقیقت معلوم ہو سکے۔[5]"
+335,بازنطینی سلطنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%B2%D9%86%D8%B7%DB%8C%D9%86%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA,"مشرقی سلطنتروم۔چوتھی صدیعیسوی میں سلطنت روم دو حصوں، مغربی اور مشرقی میں تقسیم ہو گئی۔ مشرقی حصہ اپنے دار الحکومت بازنطین کے نام پر بازنطینی سلطنت کہلایا۔ (330ءمیں بازنطینی شہنشاہقسطنطیننے بازنطیم کا نام اپنے نام پرقسطنطنیہرکھ دیا اور1930ءمیںترکیحکومت نے بدل کراستنبولکر دیا۔بازنطینی سلطنت میںشام،ایشیائے کوچک،مصر،تھریساوریونانکے ممالک شامل تھے۔پانچویں صدیعیسوی میںبلقانکے سلاؤ قبائل اورجرمنیکے ونڈال قوموں نےقسطنطنیہپر کئی حملے کیے۔چھٹی صدیعیسوی اس کے عروج کا زمانہ تھا۔ خصوصاًشہنشاہ جسٹینینکا دور حکومت لیکنساتویں صدیمیں یہ زوال پزیر ہوئی اور شمالی اطالیہ کے میدان لمبارڈی میں بسنے والوں، ایرانیوں اور عربوں نے اس پر پے درپے حملے کیے جس کے باعث یہاں طوائف الملوکی اور انتشار کا دور دورہ رہا۔ ساتویں صدی کے اختتام پر شمالیافریقا،مصر،شام،فلسطیناورقبرصوغیرہ عربوں نے قبضے میں چلے گئے اور بازنطینی سلطنت حقیقت میں یونانی سلطنت بن کر رہ گئی۔ آخر 1453ء میں سلطنت عثمانیہ کے فرمانرواسلطان محمد فاتحکی افواج نےقسطنطنیہفتح کر لیا اور آخری بازنطینی بادشاہ قسطنطین یاز دہم مارا گیا۔فتح قسطنطنیہسے زمانہ وسطی کا خاتمہ اوریورپمیںنشاۃ ثانیہکا آغاز ہوا۔اس عنوان کے لیے مزید پڑھیں،فہرست قیصر بازنطینی روم=== رومن سلطنت کی تقسیم ===شانداردیکھیےلاطینی سلطنت۔قدیم باز نطینی سلطنت کے تمام ایشیائی ممالک پر عثمانی قابض ہو گئے تھے، لہٰذا یورپ میں بھی صرف قسطنطنیہ اور اس کے مضافات اس میں شامل ہونا باقی تھے، سلطنت عثمانیہ، قسطنطنیہ کی فتح کے بغیر ادھوری تھی,
+ایک اُربان (Urban) نامی توپ خانے کا ماہر تھا بھاگ کر سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں چلا آیا، اس نے سلطان کو ایک بہترین توپ بنا کر دی، جس کے سنگی گولوں کا قطر ڈھائی فٹ تھا،[1]26 ربیع الاول 857ھ بہ مطابق 6 اپریل 1453 ء کو زبردست محاصرہ کے آغاز کر دیا گیا مسلسل انتھک محنت اور جان فشانی کے بعد 29 مئی 1453 ء 20 جمادی الاول کو بلاخر قسطنطنیہ فتحیاب ہوا۔قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔1453 ہی وہ سال ہے جسے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد ثابت ہو گیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد فصیلیں کسی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔شہر پر ترکوں کے قبضے کے بعد یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں یونانی بولنے والے شہری بھاگ کر یورپ اور خاص طور پر اٹلی کے مختلف شہروں میں جا بسے۔ اس وقت یورپ 'تاریک دور' سے گذر رہا تھا اورقدیم یونانیتہذیب سے کٹا ہوا تھا۔ لیکن اس تمام عرصے میں قسطنطنیہ میں یونانی زبان اور ثقافت بڑی حد تک برقرار رہی تھی۔ یہاں پہنچنے والے مہاجروں کے پاس ہیرے جواہرات سے بیش قیمت خزانہ تھا۔ارسطو،افلاطون، بطلیموس، جالینوس اور دوسرے حکما و علما کے اصلیونانی زبانکے نسخے۔ان سب نے یورپ میں قدیم یونانی علوم کے احیا میں زبردست کردار ادا کیا اور مورخین کے مطابق انھی کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا جس نے آنے والی صدیوں میں یورپ کو باقی دنیا سے سبقت لینے میں مدد دی جو آج بھی برقرار ہے۔تاہم نوجوان سلطان محمد کو، جسے آج دنیا سلطان محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے، 29 مئی کی صبح جو شہر نظر آیا یہ وہ شہر نہیں تھا جس کی شان و شوکت کے افسانے اس نے بچپن سے سن رکھے تھے۔ طویل انحطاط کے بعد بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی اور قسطنطنیہ، جو صدیوں تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے مالدار شہر رہا تھا، اب اس کی آبادی سکڑ کر چند ہزار رہ گئی تھی اور شہر کے کئی حصے ویرانی کے سبب ایک دوسرے سے کٹ ہو کر الگ الگ دیہات میں تبدیل ہو گئے تھے۔کہا جاتا ہے کہ نوجوان سلطان نے شہر کی حالتِ زار دیکھ کر شیخ سعدی سے منسوب یہ شعر پڑھا:بوم نوبت میزند بر طارم افراسیاب ۔۔۔ پرده داری میکند در قصر قیصر عنکبوت(اُلو افراسیاب کے میناروں پر نوبت بجائے جاتا ہے ۔۔۔ قیصر کے محل پر مکڑی نے جالے بن لیے ہیں)قسطنطنیہ کا قدیم نام بازنطین تھا۔ لیکن جب 330 عیسوی میں رومن شہنشاہ کونسٹینٹائن اول نے اپنا دار الحکومت روم سے یہاں منتقل کیا تو شہر کا نام بدل کر اپنے نام کی مناسبت سے کونسٹینٹینوپل کر دیا، (جو عربوں کے ہاں پہنچ 'قسطنطنیہ' بن گیا)۔ مغرب میں رومن امپائر کے خاتمے کے بعد یہ سلطنت قسطنطنیہ میں برقرار رہی اور چوتھی تا 13ویں صدی تک اس شہر نے ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ اس دوران دنیا کا کوئی اور شہر اس کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان شروع ہی سے اس شہر کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے آئے تھے۔چنانچہ اس مقصد کے حصول کی خاطر چند ابتدائی کوششوں کیناکامیکے بعد 674 میں ایک زبردست بحری بیڑا تیار کر کے قسطنطنیہ کی سمت روانہ کیا۔ اس بیڑے نے شہر کے باہر ڈیرے ڈال دیے اور اگلے چار سال تک متواتر فصیلیں عبور کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔آخر 678 میں بازنطینی بحری جہاز شہر سے باہر نکلے اور انھوں نے حملہ آور عربوں پر حملہ کر دیا۔ اس بار ان کے پاس ایک زبردست ہتھیار تھا، جسے ’آتشِ یونانی‘ یا گریک فائر کہا جاتا ہے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک فارمولا آج تک معلوم نہیں ہو سکا، تاہم یہ ایک ایسا آتش گیر مادہ تھا جسے تیروں کی مدد سے پھینکا جاتا تھا اور یہ کشتیوں اور جہازوں سے چپک جاتا تھا۔ مزید یہ کہ پانی ڈالنے سے اس کی آگ مزید بھڑک جاتی تھی۔عرب اس آفت کے مقابلے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے تمام بحری بیڑا آتش زار کا منظر پیش کرنے لگا۔ سپاہیوں نے پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی پناہ نہیں ملی کیوں کہ آتشِ یونانی پانی کی سطح پر گر کر بھی جلتی رہتی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے پورے بحرِ مرمرہ نے آگ پکڑ لی ہے۔عربوں کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ واپسی میں ایک ہولناک سمندری طوفان نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور سینکڑوں کشتیوں میں سے ایک آدھ ہی بچ کر لوٹنے میں کامیاب ہو سکی۔اسی محاصرے کے دوران مشہور صحابیابو ایوب انصارینے بھی اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ ان کا مقبرہ آج بھی شہر کی فصیل کے باہر ہے۔ سلطان محمد فاتح نے یہاں ایک مسجد بنا دی تھی جسے ترک مقدس مقام مانتے ہیں۔اس کے بعد 717 میں بنو امیہ کے امیرسلیمان بن عبدالملکنے بہتر تیاری کے ساتھ ایک بار پھر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، لیکن اس کا بھی انجام اچھا نہیں ہوا اور دو ہزار کے قریب جنگی کشتیوں میں سے صرف پانچ بچ کر واپس آنے میں کامیاب ہو سکیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد چھ صدیوں تک مسلمانوں نے دوبارہ قسطنطنیہ کا رخ نہیں کیا، حتیٰ کہ سلطان محمد فاتح نے بالآخر شہر پر اپنا جھنڈا لہرا کر سارے پرانے بدلے چکا دیے۔شہر پر قبضہ جمانے کے بعد سلطان نے اپنا دار الحکومت ادرنہ سے قسطنطنیہ منتقل کر دیا اور خود اپنے لیے قیصرِ روم کا لقب منتخب کیا۔ آنے والے عشروں میں اس شہر نے وہ عروج دیکھا جس نے ایک بار پھر ماضی کی عظمت کی یادیں تازہ کر دیں۔سلطان نے اپنی سلطنت میں حکم نامہ بھیجا: 'جو کوئی چاہے، وہ آ جائے، اسے شہر میں گھر اور باغ ملیں گے۔' صرف یہی نہیں، اس نے یورپ سے بھی لوگوں کو قسطنطنیہ آنے کی دعوت دی تاکہ شہر پھر سے آباد ہو جائے۔اس کے علاوہ اس نے شہر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی ازسرِ نو تعمیر کی، پرانی نہروں کی مرمت کی اور نکاسی کا نظام قائم کیا۔ اس نے بڑے پیمانے پر نئی تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع کیا جس کی سب سے بڑی مثال توپ کاپی محل اور گرینڈ بازار ہے۔ جلد ہی طرح طرح کے دست کار، کاریگر، تاجر، خطاط، مصور، سنار اور دوسرے ہنرمند شہر کا رخ کرنے لگے۔سلطان فاتح نے ہاجیہ صوفیہ کو چرچ سے مسجد بنا دیا، لیکن انھوں نے شہر کے دوسرے بڑے گرجا ’کلیسائے حواریان‘ کو یونانی آرتھوڈاکس فرقے کے پاس ہی رہنے دیا اور یہ فرقہ ایک ادارے کی صورت میں آج بھی قائم و دائم ہے۔
+سلطان فاتح کے بیٹے سلیم کے دور میں عثمانی سلطنت نے خلافت کا درجہ اختیار کر لیا اور قسطنطنیہ اس کا دار الخلافہ اور تمام سنی مسلمانوں کا مرکزی شہر قرار پایا۔سلطان فاتح کے پوتے سلیمان عالیشان کے دور میں قسطنطنیہ نے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ یہ وہی سلیمان ہیں جنھیں مشہور ترکی ڈرامے 'میرا سلطان' میں دکھایا گیا ہے۔ سلیمان عالیشان کی ملکہ خرم سلطان نے مشہورمعمارسنان کی خدمات حاصل کیں جس نے ملکہ کے لیے ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا۔ سنان کی دوسری مشہور تعمیرات میں سلیمانیہ مسجد، خرم سلطان حمام، خسرو پاشا مسجد، شہزادہ مسجد اور دوسری عمارتیں شامل ہیں۔یورپ پر سقوطِ قسطنطنیہ کا بڑا گہرا اثر ہوا اور وہاں اس سلسلے میں کتابیں اور نظمیں لکھی گئیں اور متعدد پینٹنگز بنائی گئیں اور یہ واقعہ ان کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا۔
+یہی وجہ ہے کہ یورپ کبھی اسے بھول نہیں سکا۔ نیٹو کا اہم حصہ ہونے کے باوجود یورپی یونین ترکی کو قبول کرنے لیت و لعل سے کام لیتی ہے جس کی وجوہات صدیوں پرانی ہیں۔
+یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن سمجھا جاتا ہے۔ 29 مئی 1453 کو جمعرات کا دن تھا۔"
+336,مسیحیت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%DB%8C%D8%AD%DB%8C%D8%AA,"مَسِیحِیَّتایکتثلیثکا عقیدہ رکھنے والا مذہب ہے، جویسوعکومسیح،خدا کا بیٹااور خدا کا ایک اقنوم مانتا ہے۔ اور اسے بھی عین اسی طرح خدا مانتا ہے، جیسے خدا اورروح القدسکو۔ جنہیں بالترتیبباپ،بیٹااورروح القدسکا نام دیا جاتا ہے۔
+مسیحیوں کے ابتدا تین فرقے تھے۔ یعقوبیہ، نسطوریہ اور ملکانیہ۔ یہ تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ
+تین ایک ہے اور ایک تین ہے۔
+اب، ابن اور روح القدس۔
+اب عین ابن ہے اور ابن عین اب ہے۔
+اسی طرح دوسرے کئی عقائد بھی ہیں۔
+اپنے پیروکاروں کی تعداد کی اعتبار سے مسیحیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔[4]2019ء میںرومی کاتھولک،مشرقی راسخ الاعتقاداورپروٹسٹنٹگروہوں کی تعداد 2.4 ارب تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین میں بسنے والے تقریباً ہر تین افراد میں سے کسی نہ کسی ایک کا تعلق مسیحیت سے ہے۔ ظاہری بات ہے کہ اتنے زیادہ لوگوں پر مشتمل مذہب میں عقائد و وظائف کی وسیع تعداد ہوگی۔ عمومی لحاظ سے مسیحیوں میںیسوع ناصریکی انفرادیت کے بارے میں عقیدہ مشترک ہے کہ وہ خدا کے بیٹے تھے اور انھوں نے اپنی صلیبی موت کے ذریعہ انسانیت کاکفارہادا کیا اور اپنی موت کے تیسرے دن ہی قبر سےجی اٹھے۔مسیحی لوگمذہب میں داخلے کے لیےبپتسمہپر عقیدہ رکھتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ ایمان لانے والے کے پاس ایک زندگی ہے جس میں اُسےحیات بعد الموتکے لیے اپنی تقدیر کے متعلق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اس تقدیر میں عموماً جنت کی ابدی رحمت یا جہنم کا دائمی عذاب شامل ہے۔مسیحیت میں کئی فرقے ہیں، جن میں دو بڑے فرقے ہیں کاتھولک اور پروٹسٹنٹ۔[5]پپچھلے 100 سالوں میں سب سے تیزی سے بڑھنے والا گروپ وہ ہیں جو ہولی اسپرٹ موومنٹ کے اندر ہیں (روح القدسخدا کی روح ہے)۔یہ تحریک بنیادی طور پر Pentecostal-Charismatics پر مشتمل ہے،جو پروٹسٹنٹ اور کیتھولک دونوں کے اندر ہیں۔یہ تحریک خدا کی طرف سے بہت سے معجزاتی، مافوق الفطرت اور روحانی انکشافات کو دیکھتی ہے۔یہ تحریک مستقبل میں بھی بڑھنے کا امکان ہے۔مسیحیت مذہب پہلی صدیعیسویمیں وجود میں آیا۔یسوع مسیحجن کو اسلامی دنیاعیسیٰ ابن مریمکے نام سے پکارتی ہے، ان کوتثلیثکا ایک جزو یعنی خدا ماننے والے مسیحی کہلاتے ہیں۔ لیکن کچھ فرقے یسوع کو خدا نہیں مانتے وہ انھیں ایک نبی یا عام انسان مانتے ہیں۔مسیحیت میں تین خداؤں کا عقیدہ بہت عام ہے جسےتثلیتبھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر مسیحی کہتے ہیںباپ،بیٹا،روح القدسایک ہے اور وہ اپنے آپ کو موحدین (ایک خدا کے ماننے والے) کہتے ہیں۔ اور اسےتوحیدفی التثلیث کا نام دیتے ہیں۔مسیحیت ایک سامی مذہب ہے۔ یہ تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں اس کے لگ بھگ دو ارب پیروکار ہیں۔[4]مسیحییسوع مسیحپر اعتقاد رکھتے ہیں۔ مقدس بائبل مسیحیوں کی مقدس کتاب ہے۔بائبل مسیحیت کی مقدس کتاب ہے۔ بائبل کے دوحصے ہیں، عہد نامہ قدیم (عتیق) اورعہد نامہ جدید۔ساکرامنٹ لاطینی زبان کا لفظ ہے اور اِس سے مُراد وہ کام ہیں جویسوع مسیحنے ازخود کیے اور کرنے کا حکم صادر فرمایا[6]۔ اسی لیے مسیحیت کا پروٹسٹنٹ فرقہبپتسمہاور پاک شراکت/یوخرست کو ساکرامنٹ مانتا ہے[7]جبکہرومن کاتھولکسات ساکرامنٹ بالترتیببپتسمہ، استحکام، پاک شراکت/یوخرست، اعتراف، بیماروں کی مالش، پاک خدم�� اور پاک نکاح کا قائل ہے[8]۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+337,1453ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1453%D8%A1,<<< پانچویں دہائی <<<-چھٹی دہائی->>> ساتویں دہائی >>>
+338,فتح قسطنطنیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D8%AA%D8%AD_%D9%82%D8%B3%D8%B7%D9%86%D8%B7%D9%86%DB%8C%DB%81,"قسطنطنیہ29 مئی 1453ء کوسلطنت عثمانیہکے ہاتھوں فتح ہوا۔ صدیوں تک مسلم حکمرانوں کی کوشش کے باوجود دنیا کے اس عظیم الشان شہر کی فتح عثمانی سلطانمحمد ثانیکے حصے میں آئی جو فتح کے بعدسلطان محمد فاتحکہلائے۔سلطان محمد فاتحنے اجلاس کے دوران میں اپنے درباریوں پر جوقسطنطنیہکو فتح کرنے کا متفقہ فیصلہ کرچکے تھے یہ واضح کیا کہ رومی سلطنت، عثمانی تخت و تاج کے دعویداروں کو پناہ دیتی رہی تھی اور اس طرح مسلسل خانہ جنگیوں کا باعث بنی اس امر کو بھی زیر بحث لایاگیا کہ یہرومی سلطنتہی تھی جوجنگیں چھیڑنے میں پیش پیش تھی۔ قسطنطنیہ کو سلونیکا کی طرح مغربی کیتھولکس کے حوالے کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ عثمانی سلطنت کبھی مکمل طور پر خود مختار نہ ہو سکے گی۔ قسطنطنیہ کا محاصرہ 6 اپریل سے 29 مئی 1453ء تک کل 54 دن جاری رہا۔رومیقیصرPalaeologus IXXI کی مدد کے لیےہنگریکی تیاریوں اوروینسکی بحریہ کی روانگی کی خبریں آچکی تھیں۔سلطان محمد فاتحنے حملے کا حکم دیا۔ عثمانی بحری بیڑے کی مداخلت روکنے کے لیے دشمن نے قسطنطنیہ کے ساحل پر باڑھ لگوا دی۔ محمد نے اپنے جہازوں کو شہر کی دوسری جانب لے جانے کا حکم دیا محمدکی افواج صحرا کے ذریعے جو اب تک ناقابل رسائی تصور کیا جاتا تھا اپنے جہازوں سمیت قسطنطنیہ کے پچھلے دروازوں پر پہنچ گئیں قسطنطنیہ فتح ہو گیا یونانیوں کو قسطنطنیہ واپس آنے کی اجازت دی گئی جو فتح کے بعد ہرجانہ اداکرنے لگے اور انھیں ایک خاص مدت کے لیے محاصل سے چھوٹ دی گئی۔ فتح کے اگلے روز قسطنطنیہ کے بڑے وزیر چینڈرلے کو برطرف کرکے گرفتار کرلیاگیا اور اس کی جگہ اس کے حریف زاگانوز کو تعینات کر دیا گیا قسطنطنیہ کی فتح نےسلطان محمد فاتحکو راتوں رات مسلم دنیا کا مشہور ترین سلطان بنادیا۔قدیم باز نطینی سلطنت کے تمام ایشیائی ممالک پر عثمانی قابض ہو گئے تھے، لہٰذا یورپ میں بھی صرف قسطنطنیہ اور اس کے مضافات اس میں شامل ہونا باقی تھے، سلطنت عثمانیہ، قسطنطنیہ کی فتح کے بغیر ادھوری تھی،
+ایک اُربان (Urban) نامی توپ خانے کا ماہر تھا بھاگ کر سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں چلا آیا، اس نے سلطان کو ایک بہترین توپ بنا کر دی، جس کے سنگی گولوں کا قطر ڈھائی فٹ تھا،[1]26 ربیع الاول 857ھ بہ مطابق 6 اپریل 1453 ء کو زبردست محاصرہ کے آغاز کر دیا گیا مسلسل انتھک محنت اور جان فشانی کے بعد 29 مئی 1453 ء 20 جمادی الاول کو بلاخر قسطنطنیہ فتحیاب ہوا۔قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔1453 ہی وہ سال ہے جسے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد ثابت ہو ��یا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد فصیلیں کسی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔شہر پر ترکوں کے قبضے کے بعد یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں یونانی بولنے والے شہری بھاگ کر یورپ اور خاص طور پر اٹلی کے مختلف شہروں میں جا بسے۔ اس وقت یورپ 'تاریک دور' سے گذر رہا تھا اور قدیم یونانی تہذیب سے کٹا ہوا تھا۔ لیکن اس تمام عرصے میں قسطنطنیہ میں یونانی زبان اور ثقافت بڑی حد تک برقرار رہی تھی۔ یہاں پہنچنے والے مہاجروں کے پاس ہیرے جواہرات سے بیش قیمت خزانہ تھا۔ارسطو،افلاطون، بطلیموس، جالینوس اور دوسرے حکما و علما کے اصلیونانی زبانکے نسخے۔ان سب نے یورپ میں قدیم یونانی علوم کے احیا میں زبردست کردار ادا کیا اور مورخین کے مطابق انھی کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا جس نے آنے والی صدیوں میں یورپ کو باقی دنیا سے سبقت لینے میں مدد دی جو آج بھی برقرار ہے۔تاہم نوجوان سلطان محمد کو، جسے آج دنیا سلطان محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے، 29 مئی کی صبح جو شہر نظر آیا یہ وہ شہر نہیں تھا جس کی شان و شوکت کے افسانے اس نے بچپن سے سن رکھے تھے۔ طویل انحطاط کے بعد بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی اور قسطنطنیہ، جو صدیوں تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے مالدار شہر رہا تھا، اب اس کی آبادی سکڑ کر چند ہزار رہ گئی تھی اور شہر کے کئی حصے ویرانی کے سبب ایک دوسرے سے کٹ ہو کر الگ الگ دیہات میں تبدیل ہو گئے تھے۔کہا جاتا ہے کہ نوجوان سلطان نے شہر کی حالتِ زار دیکھ کر شیخ سعدی سے منسوب یہ شعر پڑھا:بوم نوبت میزند بر طارم افراسیاب۔۔۔ پردہ داری میکند در قصر قیصر عنکبوت(اُلو افراسیاب کے میناروں پر نوبت بجائے جاتا ہے۔۔۔ قیصر کے محل پر مکڑی نے جالے بن لیے ہیں)قسطنطنیہ کا قدیم نام بازنطین تھا۔ لیکن جب 330 عیسوی میں رومی قیصر کونسٹینٹائن اول نے اپنا دار الحکومت روم سے یہاں منتقل کیا تو شہر کا نام بدل کر اپنے نام کی مناسبت سے کونسٹینٹینوپل کر دیا، (جو عربوں کے ہاں پہنچ 'قسطنطنیہ' بن گیا)۔ مغرب میں رومن امپائر کے خاتمے کے بعد یہسلطنت قسطنطنیہمیں برقرار رہی اور چوتھی تا 13ویں صدی تک اس شہر نے ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ اس دوران میں دنیا کا کوئی اور شہر اس کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان شروع ہی سے اس شہر کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے آئے تھے۔چنانچہ اس مقصد کے حصول کی خاطر چند ابتدائی کوششوں کی ناکامی کے بعد 674 میں ایک زبردست بحری بیڑا تیار کر کے قسطنطنیہ کی سمت روانہ کیا۔ اس بیڑے نے شہر کے باہر ڈیرے ڈال دیے اور اگلے چار سال تک متواتر فصیلیں عبور کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔آخر 678 میں بازنطینی بحری جہاز شہر سے باہر نکلے اور انھوں نے حملہ آور عربوں پر حملہ کر دیا۔ اس بار ان کے پاس ایک زبردست ہتھیار تھا، جسے ’آتشِ یونانی‘ یا گریک فائر کہا جاتا ہے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک فارمولا آج تک معلوم نہیں ہو سکا، تاہم یہ ایک ایسا آتش گیر مادہ تھا جسے تیروں کی مدد سے پھینکا جاتا تھا اور یہ کشتیوں اور جہازوں سے چپک جاتا تھا۔ مزید یہ کہ پانی ڈالنے سے اس کی آگ مزید بھڑک جاتی تھی۔عرب اس آفت کے مقابلے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے تمام بحری بیڑا آتش زار کا منظر پیش کرنے لگا۔ سپاہیوں نے پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی پناہ نہیں ملی کیوں کہ آتشِ یونانی پانی کی سطح پر گر کر بھی جلتی رہتی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے پورے بحرِ مرمرہ نے آگ پکڑ لی ہے۔عربوں کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ واپسی میں ایک ہولناک سمندری طوفان نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور سینکڑوں کشتیوں میں سے ایک آدھ ہی بچ کر لوٹنے میں کامیاب ہو سکی۔اسی محاصرے کے دوران مشہور صحابیابو ایوب انصارینے بھی اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ ان کا مقبرہ آج بھی شہر کی فصیل کے باہر ہے۔ سلطان محمد فاتح نے یہاں ایک مسجد بنا دی تھی جسے ترک مقدس مقام مانتے ہیں۔اس کے بعد 717 میں بنو امیہ کے امیرسلیمان بن عبدالملکنے بہتر تیاری کے ساتھ ایک بار پھر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، لیکن اس کا بھی انجام اچھا نہیں ہوا اور دو ہزار کے قریب جنگی کشتیوں میں سے صرف پانچ بچ کر واپس آنے میں کامیاب ہو سکیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد چھ صدیوں تک مسلمانوں نے دوبارہ قسطنطنیہ کا رخ نہیں کیا، حتیٰ کہ سلطان محمد فاتح نے بالآخر شہر پر اپنا جھنڈا لہرا کر سارے پرانے بدلے چکا دیے۔شہر پر قبضہ جمانے کے بعد سلطان نے اپنا دار الحکومتادرنہسے قسطنطنیہ منتقل کر دیا اور خود اپنے لیے قیصرِ روم کا لقب منتخب کیا۔ آنے والے عشروں میں اس شہر نے وہ عروج دیکھا جس نے ایک بار پھر ماضی کی عظمت کی یادیں تازہ کر دیں۔سلطان نے اپنی سلطنت میں حکم نامہ بھیجا: 'جو کوئی چاہے، وہ آ جائے، اسے شہر میں گھر اور باغ ملیں گے۔' صرف یہی نہیں، اس نے یورپ سے بھی لوگوں کو قسطنطنیہ آنے کی دعوت دی تاکہ شہر پھر سے آباد ہو جائے۔اس کے علاوہ اس نے شہر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی ازسرِ نو تعمیر کی، پرانی نہروں کی مرمت کی اور نکاسی کا نظام قائم کیا۔ اس نے بڑے پیمانے پر نئی تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع کیا جس کی سب سے بڑی مثال توپ کاپی محل اور گرینڈ بازار ہے۔ جلد ہی طرح طرح کے دست کار، کاریگر، تاجر، خطاط، مصور، سنار اور دوسرے ہنرمند شہر کا رخ کرنے لگے۔سلطان فاتح نے ہاجیہ صوفیہ کو چرچ سے مسجد بنا دیا، لیکن انھوں نے شہر کے دوسرے بڑے گرجا ’کلیسائے حواریان‘ کو یونانی آرتھوڈاکس فرقے کے پاس ہی رہنے دیا اور یہ فرقہ ایک ادارے کی صورت میں آج بھی قائم و دائم ہے۔
+سلطان فاتح کے بیٹے سلیم کے دور میں عثمانی سلطنت نے خلافت کا درجہ اختیار کر لیا اور قسطنطنیہ اس کا دار الخلافہ اور تمام سنی مسلمانوں کا مرکزی شہر قرار پایا۔سلطان فاتح کے پوتے سلیمان عالیشان کے دور میں قسطنطنیہ نے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ یہ وہی سلیمان ہیں جنھیں مشہور ترکی ڈرامے 'میرا سلطان' میں دکھایا گیا ہے۔ سلیمان عالیشان کی ملکہ خرم سلطان نے مشہورمعمارسنان کی خدمات حاصل کیں جس نے ملکہ کے لیے ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا۔ سنان کی دوسری مشہور تعمیرات میں سلیمانیہ مسجد، خرم سلطان حمام، خسرو پاشا مسجد، شہزادہ مسجد اور دوسری عمارتیں شامل ہیں۔یورپ پر سقوطِ قسطنطنیہ کا بڑا گہرا اثر ہوا اور وہاں اس سلسلے میں کتابیں اور نظمیں لکھی گئیں اور متعدد پینٹنگز بنائی گئیں اور یہ واقعہ ان کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا۔
+یہی وجہ ہے کہ یورپ کبھی اسے بھول نہیں سکا۔ نیٹو کا اہم حصہ ہونے کے باوجود یورپی یونین ترکی کو قبول کرنے لیت و لعل سے کام لیتی ہے جس کی وجوہات صدیوں پرانی ہیں۔"
+339,خلافت عثمانیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81%D8%AA_%D8%B9%D8%AB%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C%DB%81,خلافت عثمانیہسلطنت عثمانیہکے عثمانی خاندان کو مصر کیخلافت عباسیہسے یہ ذمہ داری وراثت میں ملی۔فتح قسطنطنیہکے بعدسلطان محمد فاتحخلافت کا دعوی کیا۔ اس کے پوتےسلیم اولکی فتوحات اسلامی مقدس زمینوں تک وسیع ہو گئیں اور عثمانی خلافت کے علم بردار بن گئے۔فہرست خلفاء
+340,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%84%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81%DB%81,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+341,قسطنطنیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%B3%D8%B7%D9%86%D8%B7%D9%86%DB%8C%DB%81,"قسطنطنیہ(Constantinople) سن330ءسے395ءتک رومی سلطنت اور395ءسے1453ءتکبازنطینی سلطنتکادارالحکومترہا اور1453ءمیںفتح قسطنطنیہکے بعد سے1923ءتکسلطنت عثمانیہکا دار الخلافہ رہا۔فتح قسطنطنیہکے بعدسلطان محمد فاتحنے اس شہر کا نام اسلام بول رکھا مگر ترکوں کو اسلام بول بولنے میں مشکل ہوتی تھی تو وہ اسے استنبول کہتے تھے اس وجہ سے اس کا نام استنبول پڑا۔ شہریورپاورایشیاکے سنگم پرشاخ زریںاوربحیرہ مرمرہکے کنارے واقع ہے اورقرون وسطیمیں یورپ کا سب سے بڑا اور امیر ترین شہر تھا۔ اس زمانے میں قسطنطنیہ کو Vasileousa Polis یعنی شہروں کی ملکہ کہا جاتا تھا۔تاریخ میں قسطنطنیہ نے کئی نام اختیار کیے جن میں سے بازنطین، نیو روم (نووا روما)، قسطنطنیہ اور استنبول مشہور ہیں۔ شہر کا سب سے پہلا نام بازنطین ہے، یہ نام اسے میگارا باشندوں نے تقریباً600 ق-م میں اس کے قیام کے وقت دیا تھا۔ شہر کا موجودہ نام استنبول ہے۔667 قبل مسیح میںیونانکی توسیع کے ابتدائی ایام میں شہر کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس وقت شہر کو اس کے بانی بائزاس کے نام پر بازنطین کا نام دیا گیا۔ 11 مئی 330ء کوقسطنطینکی جانب سے اسی مقام پر نئے شہر کی تعمیر کے بعد اسے قسطنطنیہ کا نام دیا گیا۔363ء سے رومی سلطنت کے دو حصوں میں تقسیم کے باعث قسطنطنیہ کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا۔ 376ء میںجنگ ادرنہمیں رومی افواج کی گوتھ کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعدتھیوڈوسسنے شہر کو 60 فٹ بلند تین فصیلوں میں بند کر دیا۔ اس فصیل کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بارود کی ایجاد تک اسے توڑا نہ جاسکا۔ تھیوڈوسس نے27فروری 425ء میں شہر میں ایک جامعہ بھی قائم کیا۔7ویں صدی میں آوارز اور بعد ازاں بلغار قبائل نےبلقانکے بڑے حصے کو تہس نہس کر دیا اور مغرب سے قسطنطنیہ کے لیے بڑا خطرہ بن گئے۔ اسی وقت مشرق میںساسانیوںنےمصر،فلسطین،شاماورآرمینیاپر قبضہ کر لیا۔ اس مو قع پرہرقلنے اقتدار پر قبضہ کرکے سلطنت کو یونانی رنگ دینا شروع کیا اور لاطینی کی جگہ یونانیقومی زبانقرار پائی۔ ہرقل نےساسانی سلطنتکے خلاف تاریخی مہم کا آغاز کیا اور انھیں عظیم شکست دی اور 627ءمیں تمام علاقے واپس لے لیے۔اسی دوراناسلامقبول کرنے والےعربوںکی طاقت ابھری جس نےفارسمیں ساسانی سلطنت کا خاتمہ کرنے کے بعدبازنطینی سلطنتسےبین النہرین(میسوپوٹیمیا)، شام، مصر اور افریقہ کے علاقے چھین لیے۔عربوں نے دو مرتبہ 674ءاور 717ءمیں قسطنطنیہ کا ناکام محاصرہ کیا۔ دوسرا محاصرہ زمینی اور سمندری دونوں راستوں سے کیا گیا۔ اس میں ناکامی سے قسطنطنیہ کونئی زندگی ملی اور مسیحی اسے اسلام کے خلاف مسیحیت کی فتح تصور کرتے ہیں۔گیارہویں صدیکے بازنطینی سلطنت بتدریج زوال کی جانب گامزن رہی خصوصاًجنگ ملازکردمیںسلجوقیحکمرانالپ ارسلانکے ہاتھوں حیران کن شکست کے بعد رومی فرمانروارومانوس چہارمکو گرفتار کر لیا گیا اور چند شرائط پر رہا کر دیا گیا۔ واپسی پر رومانوس کو قتل کر دیا گیا اور نئے حکمران مائیکل ہفتم ڈوکاس نے سلجوقیوں کو خراج دینے سے انکار کر دیا۔ جس کے جواب میں ترک افواج نے چڑھائی کرتے ہوئےاناطولیہکا بڑا حصہ فتح کر لیا اوربازنطینی سلطنتکو 30 ہزار مربع میل رقبے سے محروم کر دیا۔صلیبی جنگ کے دوران 13اپریل 1204ءکو صلیبی افواج نے اپنے ہی شہر قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا اور شہر کو شدید نقصان پہنچایا۔ 1261ءمیں بازنطینی افواج نے مائیکل ہشتم پیلولوگس کی زیر نگرانی لاطینی حکمران بالڈوین ثانی سے قسطنطنیہ واپس حاصل کر لیا۔مکمل مضمون کے لیے دیکھیےفتح قسطنطنیہ29مئی 1453ءکو سلطنت عثمانیہ کے فرمانرواسلطان محمد فاتحکے ہاتھوں بازنطینی سلطنت کے ساتھ قسطنطین یازدہم کی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا اور قسطنطنیہ ملت اسلامیہ کے قلب کے طور پر ابھرا۔ شہر کے مرکزی گرجےایاصوفیہکو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا اور شہر میں مسیحیوں کو پرامن طور پر رہنے کی کھلی اجازت دی گئی۔ فتح قسطنطنیہ تاریخ اسلام کا ایک سنہری باب ہے جبکہ مسیحی اسے ""سقوط قسطنطنیہ"" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔شہر 470 سال تکسلطنت عثمانیہکا دار الحکومت رہا اور 1923ءمیںمصطفی کمال اتاترکنےانقرہکو نئیترک جمہوریہکا دار الحکومت قرار دیا اور قسطنطنیہ کا ناماستنبولرکھ دیا گیا۔قسطنطنیہ کے یادگار تعمیراتآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ pallasweb.com(Error: unknown archive URL)ایاصوفیہ کی کاشی کارینقشہ، دلچسپ مقامات کی نشان دہی کے ساتھآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ istan-bul.org(Error: unknown archive URL)"
+342,1923ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1923%D8%A1,<<< دوسری دہائی <<<تیسری دہائی>>> چوتھی دہائی>>>
+344,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+346,حسن ابن علی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%D8%B3%D9%86_%D8%A7%D8%A8%D9%86_%D8%B9%D9%84%DB%8C,"حسن بن علی بن ابی طالب(621ء–670ء) 15رمضان 3 ہجری کی شب کومدینہ منورہمیں سورہ کوثر کی پہلی ��فسیر بن کر صحنعلی المرتضیٰؓو خاتون جنت حضرتفاطمہ زہرا ؓمیں تشریف لائے رسولِ خداؐ کے لیے امام حسنؓ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی کیونکہ جبمکہ مکرمہمیںرسو ل کریمؐ کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔ مشرکین کو جواب کے لیے قرآن مجید میںسورۃ الکوثرنازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپؐ نہیں ہوںگے بلکہ آپؐ کا دشمن ہوگا۔دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرور کونین حضرت محمد مصطفیؐ کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرتفاطمہ زہراؓیعنی امام حسن ؓ وحسینؓ کو قرار دیا گیا۔حضرتعمر ابن خطابؓ اور حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہرسول اللہؐ نے فرمایا’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہؓ کے ،میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں‘‘حضرتعمرؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب (اولاد فاطمہ )اور رشتہ کے[16]۔نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کے لیے بھی رسول خدا امام حسن و حسین ؓ کو اپنے فرزندان کے طور پر ساتھ لے کر گئے جس پر قرآن کی آیت گواہ ہے۔بحارالانور میں ہے کہ جب امام حسن ؓ سرور کائنات کی خدمت میں لائے گئے توآنحضرتنے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسنؓ اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعاکی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا ولادت کے ساتویں دن سرکار کائناتؐ نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی[17]۔ اس کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرتعلیؓسے پوچھا۔ــ’’ آپ نے اس بچہ کا کوئی نام بھی رکھا؟‘‘امیر المومنین ؓنے عرض کی ۔’’آپؐ پر سبقت میں کیسے کر سکتا تھا۔‘‘پیغمبر ؐ نے فرمایا ’’ میں بھی خدا پر کیسے سبقت کر سکتا ہوں‘‘چند ہی لمحوں کے بعد جبرائیل ؑ پیغمبر ؐ کی خدمت میں وحی لے کر آگئے اور کہا ’’ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ اس بچہ کا نام حسن ؓ رکھیے۔تاریخ خمیس میں یہ مسئلہ تفصیلاً مذکور ہے۔ ماہرین علم الانساب بیان کرتے ہیں کہ خداوند عالم نے خاتون جنت حضرتفاطمہ زہراؓکے دونوں شاہزادوں کانام انظار عالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسیننام سے کوئی موسوم نہ ہوا تھا۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ کے ساتھ امام حسن ؓسے زیادہ مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔حضرت امام حسن ؓ رسول کریمؐ سے چہرے سے سینے تک اور امامحسینؓ سینے سے قدموں تک رسول ؐکی شبیہہ تھے۔خداکی وحی کے بغیر کوئی کام اور کلام نہ کرنے والے رسول خدا ؐکی نواسوں سے محبت اور اللہ کے نزدیک مقام کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے ۔ روایت ہے کہرسول کریمؐ نماز عشاء ادا کرنے کے لیے باہر تشریف لائے اور آپؐ اس وقت حضرت امام حسن اور امامحسینؓکو گود میں اٹھائے ہوئے تھے۔ آپؐ اس وقت آگے بڑھے (نماز کی امامت فرمانے کے لیے) اور ان کو زمین پر بٹھلایا۔پھر نماز کے واسطے تکبیر فرمائی۔ آپ ؐ نے نماز کے درمیان ایک سجدہ میں تاخیر فرمائی تو میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ صاحب زادے (یعنی رسول کریم ؐ کے نواسے) آپ ؐ کی پشت مبارک پر ہیں اور اس وقت آپؐ حالت سجدہ میں ہیں۔ پھر میں سجدہ میں چلا گی�� جس وقت آپؐ نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐآپؐ نے نماز کے دوران ایک سجدہ ادا فرمانے میں تاخیر کیوں فرمائی۔آپؐ نے فرمایا ایسی کوئی بات نہ تھی میرے نواسے مجھ پر سوار ہوئے تو مجھ کو (برا) محسوس ہوا کہ میں جلدی اٹھ کھڑا ہوں اور اس کی مراد (کھیلنے کی خواہش) مکمل نہ ہو۔[18]۔آنحضرت ایک دن محو خطبہ تھے کہ حسنین آ گئے اور حسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پر گر پڑے، یہ دیکھ کرآنحضرتؐنے خطبہ ترک کر دیا اور منبر سے اتر کر انھیں آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پر تشریف لے جا کر خطبہ شروع فرمایا[19]حضرتبراء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ؐ نے حضرت حسن بن علیؓ کو اپنے مبارک کندھے پر اٹھایا ہوا تھا اور آپؐ فرما رہے تھے،اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اس سے محبت فرما۔ (بخاری، مسلم) اہل بیت سے آپ کو سب سے پیا را کون ہے؟ فرمایا ، حسن اور حسینؓ۔ آپؐ حضرتفاطمہؓ سے فرمایا کرتے ، میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلاؤ۔ پھرآپ ؐدونوں کو سونگھا کرتے اور انھیں اپنے ساتھ لپٹا لیا کرتے۔ (ترمذی)حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے فرمایا، حسن اور حسینؓ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں۔[20]حضرتابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کا ارشاد ہے ،جس نے ان دونوں یعنی حسن وحسینؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔[21]حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول کریمؓ نے فرمایا،کیا میں تمھیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے نانا نانی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمھیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟کیا میں تمھیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے ماں باپ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ وہ حسن اور حسینؓ ہیں[22]سیدہفاطمہؓسے روایت ہے کہ وہ حضرت حسن اور حضرتحسینؓکو رسول کریم ؐکے مرضْ الوصال کے دوران آپؐ کی خدمت میں لائیں اور عرض کی، یارسول اللہ ؐ! انھیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا، حسن میری ہیبت اور سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرات اور سخاوت کا وارث ہے۔[23]امام حسن مجتبیٰؓ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خداؐ کا زمانہ دیکھا اورآنحضرتؐکی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرمؐکی رحلت کے بعد جو حضرتفاطمہ زہراؓکی شہادت سے تین سے چھ مہینے پہلے ہوئی آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔فرزند رسول امام حسن مجتبیٰؓ اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد امامت کے درجے پر فائز ہوئے اس کے ساتھ خلافت اسلامیہ پر بھی متمکن ہوئے اور تقریباً چھ ماہ تک آپر امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالا۔آپ کا عہد بھی خلفائے راشدین میں شمار کیا جاتا ہے۔امام زین العابدین ؓفرماتے ہیں کہ امام حسنؓزبردست عابد، بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایاپیدل فرمایا، کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثریاد خداوندی میں گریہ کرتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے توآپ کے چہرہ کارنگ زرد ہوجا یاکرتا تھا اورجب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتے تھے[24]۔ امام شافعیؒ لکھتے ہیں کہ امام حسن ؓ نے اکثراپناسارامال راہ خدامیں تقسیم کردیاہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایا ہے وہ عظیم و پرہیزگار تھے۔
+امام حسن کے والد بزرگوار امیر المومنین حضرتعلیعلیہ السلام نے 21 رمضان کو شہادت پائی اس وقت امام حسن ��ی عمر 37 سال چھ یوم کی تھی۔ حضرت علی کی تکفین و تدفین کے بعد عبد اللہ ابن عباس کی تحریک سے قیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن کی بیعت کی اوران کے بعدتمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعداد چالیس ہزار تھی یہ واقعہ 21 رمضان40ھیوم جمعہ کاہے( ابن اثیر) ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی . سب نے انتہائی خوشی اور رضا مندی کے ساتھبیعتکی آپ نے مستقبل کے حالات کا صحیح اندازہ کرتے ہوئے اسی وقت لوگوں سے صاف صاف یہ شرط کردی کہ ’’اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہوگی او راگر میں جنگ کروں تو تمھیں میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہوگی ‘‘سب نے اس شرط کو قبول کر لیا . آپ نے انتظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا .لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور تو آپ تخت حکومت کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ امام حسنؓ ؓؑ کا واحد مقصد حکم خدا اور حکم رسول کی پابندی کا اجرا چاہیے تھا امام حسن ؑ نے دین خدا کی سربلندی ،فتنہوفساد کا سر کچلنے ،کتاب خدا اور سنت رسول پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے اپنے نانارسول خدا ؐ کی صلح حدیبیہ کی تاسی میں تخت حکومت کو ٹھوکر مار کر جو تاریخی صلح کی وہ اسلام کی تاریخ کا ایسا ناقابل فراموش با ب ہے جس کی نظیر نہیں ملتی ۔
+امام حسنؓ اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نشین ہو گئے تھے ، لیکن حق کے مرکزاور تعلیمات محمدی ؐ کے سرچشمہ امام حسن ؓکا قائم رہنا دشمنان دین کو کب گوارا تھا اسی لیےجعدہ بنت اشعثکو انعام و اکرام کا لالچ دے کر نواسہ رسول ؐ امام حسن کو زہر دے کرے شہید کر دیا گیا[25]رسول کے پیارے نواسے امام حسن ؑ نے 28 صفر50ھکو جام شہادت نوش کیا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے ۔[26][27][28][29][30][31][32][33]حسن بنعلی بن ابی طالببنعبد المطلببنہاشمبنعبد منافبنقصیبنکلاببنمرۃبنکعببنلؤی بن غالببنفھر بن مالکبنکنانہ بن خزیمہبنمدرکہ بن الیاسبنمضر بن نزارمعد بن عدنانہے ۔آپرضی اللہ تعالیٰ عنہکی والدہ محترمہ کا سیدہفاطمہ الزہراءسلام اللہ علیہا بن رسول اللہمحمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلمبنعبد اللہ بن عبدالمطلببنہاشم بن عبد منافبنقصی بن کلاببنمرۃ بن کعببنلؤی بن غالببنفھر بن مالکبنکنانہ بن خزیمہبنمدرکہ بن الیاسبنمضر بن نزاربنمعد بن عدنانہے ۔[34]سنہ ہجری کے تیسرے سالرمضان المبارککے مہینہ میں معدنِ نبوت کا یہ گوہر شب چراغ استغنا وبے نیازی کی اقلیم کا تاجدار، صلح و مسالمت کی پرسکون مملکت کا شہنشاہ، عرشِ خلافت کا مسند نشین، دوشِ نبوت کا سوار، فتنہ و فساد کا بیخ کن ،سردارِ دو عالم کی بشارت کا پورا کرنے والا،امتِ مسلمہکا محسنِ اعظم، نور افزائے عالمِ وجود ہوا،آنحضرتﷺکو ولادت باسعادت کی خبر ہوئی تو حضرتفاطمہؓکے گھر تشریف لائے،اور فرمایا :میرے بچے کو دکھانا، کیا نام رکھا گیا، عرض کیا گیا، حرب، فرمایا نہیں ،اس کا نام حسنؓ ہے ، پیدائش کے ساتویں دنعقیقہکیا اور دو مینڈھوں کی قربانی کر کے سر کے بال اتروائے اور ان کے ہم وزن چاندی خیرات کی ۔[35][ْ 1]آنحضرتﷺکو حضرت حسنؓ کے ساتھ جو غیر معمولی محبت تھی وہ کم خوش قسمتوں کے حصّہ میں آئی ہوگی، آپ نے بڑے نازو نعم سے ان کیپرورشفرمائی کبھی آغوشِ شفقت میں لیے ہوئے نکلتے ،کبھی دوشِ مبارک پر سوار کیے ہوئے برآمد ہوتے ان کی ادنی ادنی تکلیف پربے قرار ہو جاتے، بغیر حسنؓ کو دیکھے ہوئے نہ رہا جاتا تھا، ان کو دیکھنے کے لیے روزانہفاطمہ زہراؓکے گھر تشریف لے جاتے تھے،حضرت حسنؓ اورحسینؓبھی آپ سے بیحد مانوس ہو گئے تھے ،کبھی نماز کی حالت میں پشتِ مبارک پر چڑھ کے بیٹھ جاتے کبھی رکوع میں ٹانگوں کے درمیان گھس جاتے کبھی ریش مبارک سے کھیلتے،غرض طر ح طرح کی شوخیاں کرتے،جان نثار نانا نہایت پیار اور محبت سے ان طفلانہ شوخیوں کو برداشت کرتے اور کبھی تادیباً بھی نہ جھڑکتے ؛بلکہ ہنس دیا کرتے تھے،ابھی حضرت حسنؓ آٹھ ہی سال کے تھے کہ یہ بابرکت سایہ سر سے اٹھ گیا۔،[36][37]اس کے بعد حضرتابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ مسند نشین خلافت ہوئے،آپ بھی ذاتِ نبویﷺکے تعلق کی وجہ سے حضرت حسن علیہ السلام کے ساتھ بڑی محبت فرماتے تھے ، ایک مرتبہ حضرتابوبکرؓ صدیقعصر کی نماز پڑھ کر نکلے، حضرتعلی بن ابی طالبرضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ساتھ تھے ،راستہ میں حضرت حسنؓ کھیل رہے تھے،حضرتابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے اٹھا کر کندھے پر بٹھا لیا اور فرمانے لگے، قسم ہے یہنبی کریمﷺکے مشابہ ہےعلیرضی اللہ عنہ کے مشابہ نہیں ہے، حضرتعلیؓیہ سن کر ہنسنے لگے۔[38][39]حضرتعمر فاروقرضی اللہ تعالیٰ عنہنے بھی اپنے زمانہ میں دونوں بھائیوں کے ساتھ ایسا ہی محبت آمیز برتاؤ رکھا، چنانچہ جب آپ رضی اللہ عنہ نے کبار صحابہؓ کرام کے وظائف مقرر کیے، تو گو حضرت حسنؓ اس صف میں نہ آتے تھے،لیکن آپ کا بھی پانچ ہزار ماہانہ مقرر فرمایا۔[40][41]حضرتعثمانؓ بن عفاننے بھی اپنے زمانہ میں ایسا ہی شفقت آمیز طرزِ عمل رکھا صدیقی اور فاروقی دور میں حضرت حسنؓ اپنی کمسنی کے باعث کسی کام میں حصہ نہ لے سکتے تھے، حضرتعثمانکے عہد میں پورے جوان ہو چکے تھے؛چنانچہ اسی زمانہ سے آپ کی عملی زندگی کا آغاز ہوتا ہے ، اس سلسلہ میں سب سے اول طبرستان کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے، یہ فوج کشیسعید بن العاصکی ماتحتی میں ہوئی تھی۔[42]اس کے بعد جب حضرتعثمانؓ بن عفانکے خلاف فتنہ اٹھا اور باغیوں نے قصِر خلافت کا محاصرہ کر لیا، تو حسنؓ نے اپنے والد بزرگوار کو یہ مفید مشورہ دیا کہ آپ محاصرہ اٹھنے تک کے لیےمدینہسے باہر چلے جائیے، کیونکہ اگر آپ کی موجودگی میںعثمانؓشہید کر دیے گئے تو لوگ آپ کو مطعون کریں گے اور ان کی شہادت کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے ؛لیکن باغی حضرتعلیؓکی نقل و حرکت کی برابر نگرانی کر رہے تھے،اس لیے حضرتعلیؓاس مفید مشورہ پر عمل پیرا نہ ہو سکے۔[43]البتہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرتعثمان بن عفانرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حفاظت کے لیے بھیج دیا؛ چنانچہ انھوں نے اور ان کے دوسرے ساتھیوں نے اس خطرہ کی حالت میں نہایت شجاعت و بہادری کے ساتھ حملہ آوروں کی مدافعت کی اور باغیوں کو اندر گھسنے سے روک رکھا، اس مدافعت میں خود بھی بہت زخمی ہوئے ، سارا بدن خون سے رنگین ہو گیا؛ لیکن حفاظت کی یہ تمام تدبیریں ناکام ثابت ہوئیں اور باغی چھت پر چڑھ کر اندر گھس گئے اور حضرتعثمانؓکو شہید کر دیا، حضرتعلیؓ بن ابی طالبکو شہادت کی خبر ہوئی توآپ نے جوش غضب میں حضرت حسنؓ کو طمانچہ مارا کہ تم نے کیسی حفاظت کی کہ باغیوں نے اندر گھس کرعثمانؓکو شہید کر ڈالا۔[44][45][46]حضرتعثمانؓ بن عفانکی شہادت کے بعد جب مسندِ خلافت خالی ہو گئی اورمسلمانوں کی نگاہِ انتخاب حضرتعلی بن ابی طالبرضی اللہ عنہ پر پڑی اور انھوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہی تو حضرت حسنؓ نے غایبِ عاقبت اندیشی سے والد بزرگوار کو یہ مشورہ دیا کہ جب تک تمام ممالک اسلامیہ کے لوگ آپ سے خلافت کی درخواست نہ کریں اس وقت تک آپ اسے قبول نہ فرمائیے، لیکن حضرتعلیؓ بن ابی طالبنے فرمایا کہ خلیفہ کا انتخاب صرف مہاجرین وانصار کا حق ہے،جب وہ کسی کو خلیفہ تسلیم کر لیں،تو پھر تمام ممالک اسلامیہ پر اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے، بیعت کے لیے تمام دنیا کے مسلمانوں کے مشورہ کی شرط نہیں ہے اور خلافت قبو ل کرلی۔[47][48][49]حضرتعلیرضی اللہ عنہ کی بیعت کے بعد جب حضرتعائشہؓ،طلحہاورزبیررضوان اللہ علیہم حضرتعثمانؓ بن عفانکے قصاص میں ان کے قاتلوں سے بدلہ لینے کے لیے نکلے تو پھر حضرت حسنؓ نے حضرتعلیرضی اللہ تعالیٰ عنہکی خدمت میں عرض کیا کہ آپمدینہلوٹ چلئے اور کچھ دنوں کے لیے خانہ نشین ہوجائیے ؛لیکن حضرتعلیؓکی رائے میں ان حالات میںمدینہلوٹنا اور خانہ نشین ہوجانا،اُمت کے ساتھ فریب تھا اور اس سے اُمت اسلامیہ میں مزید افتراق وانشقاق کا اندیشہ تھا اس لیے واپس نہ ہوئے۔[50]،[51]یہ وہ وقت تھا کہ حضرتطلحہؓاورزبیرؓوغیرہ حضرتعثمانؓ بن عفانکے قصاص کے لیے نکل چکے تھے، اس لیے حضرتعلیرضی اللہ عنہ نے بھی مقابلہ کی تیاریاں شروع کر دیں ، جب آپ بالکل آمادہ ہو گئے ، تو حضرت حسنؓ کو بھی چار و ناچار آپ کی حمایت میں نکلنا پڑا چنانچہ والد بزرگوار کے حکم کے مطابق حضرتعمار بن یاسررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ اہلکوفہکو ان کی امداد پر آمادہ کرنے کے لیےکوفہتشریف لے گئے انھی ایام میں حضرتابو موسٰی اشعریرضی اللہ عنہ مسلمانوں کو خانہ جنگی اورفتنہ و فساد سے روکنے کے لیےکوفہآئے ہوئے تھے اور جامع مسجد کوفہ میں تقریر کر رہے تھے کہ برادران کوفہ تم لوگ عرب کی بنیاد بن جاؤ،تاکہ مظلوم اور خوفزدہ تمھارے دامن میں پناہ لیں لوگو فتنہ اٹھتے وقت پہچان نہیں پڑتا ؛بلکہ مشتبہ رہتا ہے فرو ہونے کے بعد اس کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے ،معلوم نہیں یہ فتنہ کہاں سے اٹھا ہے اور کس نے اٹھایا ہے،اس لیے تم لوگ اپنی تلواریں نیام میں کرلو، نیزہ کے پھل نکال ڈالو،کمانوں کے چلے کاٹ دو اور گھروں کے اندرونی حصہ میں بیٹھ جاؤ، لوگو!فتنہ کے زمانے میں سونے والا کھڑے ہونے والے سے اورکھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہے حضرت حسنؓ نے مسجد پہنچ کر یہ تقریر سنی تو حضرتابوموسیٰ اشعریرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روک دیا اور فرمایا تم یہاں سے نکل جاؤ اور جہاں جی میں آئے چلے جاؤ اورخود منبر پر چڑھ کر اہل کوفہ کو حضرتعلیؓکی امداد پر ابھارا؛ چنانچہ آپ کی دعوت اورحجر بن عدی کندیکی تقریر پر 9650 کوفی حضرتعلیؓکا ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے،حضرت حسنؓ ان سب کو لے کر مقام ذی قار میں حضرتعلیؓسے مل گئے اور جنگ کے فیصلہ تک برابر ساتھ رہے۔[52]جمل کے بعد صفین کا قیامت خیز معرکہ ہوا اس میں بھی آپ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ تھے اور التوائے جنگ پر جو عہد نامہ مرتب ہوا تھا اس میں شاہد تھے۔[53][54][55][56][57]خلافت کے پانچویں سالعبدالرحمن ابن ملجمنے حضرتعلیؓ بن ابی طالبپر قاتلانہ حملہ کیا زخم کاری تھا اس لیے نقل وحرکت سے معذور ہو گئے؛چنانچہ جمعہ کی امامت حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تفویض فرمائی، اس جمعہ میں آپ نے ذیل کا خطبہ دیا:
+""خدا نے جس نبی کو مبعوث کیا اس کو ایک ذات، ایک قبیلہ اور ایک گھر عنایت فرمایا، اس ذات کی قسم جس نےمحمدﷺکو مبعوث کیا جو شخص ہم اہل بیت کا کوئی حق تلف کرے گا خدا اس اتلافِ حق کے بقدر اس شخص کا حق گھٹا دے گا""۔[58]حضرتعلیؓ بن ابی طالبکا زخم نہایت کاری تھا، جب بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو بعض ہوا خواہوں نے آپ سے حضرت حسنؓ کی آیندہ جانشینی اورخلافت کے بارہ میں سوال کیا آپ نے فرمایا""نہ میں حکم دیتا ہوں اور نہ روکتا ہوں""[59]زخمی ہونے کے تیسرے دن حضرتعلیؓجنت الفردوس کو سدھارے حضرت حسنینؓ اور آل جعفرؓ نے غسل دیا، حضرت حسنؓ نے نمازجنازہ پڑھائی اور نمازِ فجر کے قبل آپ کا جسدِ خاکی مقام رؓہ میں جامع مسجد کے متصل سپرد خاک کیا گیا ۔[60][46]،[61]حضرتعلیؓ بن ابی طالبکی وفات کے بعدامیر معاویہرضی اللہ تعالیٰ عنہکے مقبوضہ علاقہ کے علاوہ باقی سارے ملک کی نظریں حضرت حسنؓ کی طرف تھیں چنانچہ والد بزرگوار کی تدفین سے فراغت کے بعد آپ جامع مسجد تشریف لائے، مسلمانوں نے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھائے آپ نے ان سے بیعت لی اور بیعت کے بعد حسب ذیل تقریر ارشاد فرمائی:[62]لوگو! کل تم سے ایک ایسا شخص بچھڑا ہے کہ نہ اگلے اس سے بڑھ سکے اورنہ پچھلے اس کو پاسکیں گے،رسول اللہ ﷺ اس کو اپنا علم مرحمت فرما کر لڑائیوں میں بھیجتے تھے وہ کبھی کسی جنگ سے ناکام نہیں لوٹا۔
+میکائیلؑ اورجبرائیلؑ چپ وراست اس کے جلو میں ہوتے تھے اس نے ساتھ سودرہم کے سوا جو اس کی مقررہ تنخواہ سے بچ رہے تھے،سونے چاندی کا کوئی ذرہ نہیں چھوڑا ہے یہ درہم بھی ایک خادم خریدنے کے لیے جمع کیے تھے،[63]اس بیعت اورتقریر کے بعدا ٓپ مسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہوئے۔[64]جنابامیرؓ علی المرتضیٰرضی اللہ عنہ اورامیر معاویہؓمیں بہت قدیم اختلاف چلا آرہا تھا،امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی حیات ہی میں عالمِ اسلامی پرحکومت کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے، لیکن جناب امیرؓ علی المرتضیٰ کی زندگی میں یہ خواب منتِ کشِ تعبیر نہ ہوا، آپ کی وفات کے بعد امیر معاویہؓ کا یہ جذبہ دفعۃ نہایت شدت کے ساتھ ابھر آیا،امیر معاویہؓکو یہ معلوم تھا کہ حسنؓ صلح پسند ہیں اور جنگ و جدال وہ دل سے ناپسند کرتے ہیں اور واقعہ بھی یہی تھا کہ حضرت حسنؓ کو قتل وخونریزی سے شدید نفرت تھی اور اس قیمت پر وہ خلافت لینے پر آمادہ نہ تھے؛چنانچہ آپ نے پہلے ہی یہ طے کر لیا تھا کہ اگر اس کی نوبت آئی توامیر معاویہؓسے اپنے لیے کچھ مقرر کرا کے خلافت سے دست بردار ہو جائیں گے۔[65])امیر معاویہؓ کو ان حالات کا پورا اندازہ تھا اس لیے حضرتعلی بن ابی طالبرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد ہی انھوں نے فوجی پیش قدمی شروع کردی اور پہلے عبد اللہ بن عامر کریز کو مقدمہ الجیش کے طور پر آگے روانہ کر دیا ، یہ انبار ہوتے ہوئےمدائنکی طرف بڑھے۔[66][67][68]حضرت حسنؓ اس وقتکوفہمیں تھے آپ کوعبد اللہ بن عامرکی پیش قدمی کی خبر ہوئی تو آپ بھی مقابلہ کے لیےکوفہسےمدائنکی طرف بڑھے، ساباط پہنچ کر اپنی فوج میں کمزوری اورجنگ سے پہلو تہی کے آثار دیکھے اس لیے اسی مقام پر رک کر حسبِ ذیل تقریر کی:""میں کسی مسلمان کے لیے اپنے دل میں کینہ نہیں رکھتا اور تمھارے لیے بھی وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں،تمھارے سامنے ایک رائے پیش کرتا ہوں، امید ہے کہ اسے مسترد نہ کروگے جس اتحاد و یکجہتی کو تم ناپسند کرتے ہو وہ اس تفرقہ اور اختلاف سے کہیں افضل و بہتر ہے،جسے تم چاہتے ہو میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے اکثر اشخاص جنگ سے پہلو تہی کر رہے ہیں اور لڑنے سے بزدلی دکھا رہے ہیں میں تم لوگوں کو تمھاری مرضی کے خلاف مجبور کرنا نہیں چاہتا""
+یہ خیالات سن کر لوگ سناٹے میں آگئے اورایک دوسرے کا منہ تکنے لگے،اگرچہ کچھ لوگ جنگ سے پہلو تہی کر رہے تھے تاہم بہت سے خارجی عقائد کے لوگ جو آپ کے ساتھ تھے وہمعاویہؓسے لڑنا فرض عین سمجھتے تھے، انھوں نے جب یہ رنگ دیکھا تو حضرتعلیؓکی طرح حضرت حسنؓ کو بھی برا بھلا کہنے لگے اوران کی تحقیر کرنی شروع ک��دی اور جس مصلیٰ پر آپ تشریف فرماتے تھے حملہ کرکے اسے چھین لیا اور پیراہن مبارک کھسوٹ کر گلے سے چادر کھینچ لی حضرت حسنؓ نے یہ برہمی دیکھی تو گھوڑے پر سوار ہو گئے اور ربیعہ و ہمدان کو آواز دی انھوں نے بڑھ کر خارجیوں کے نرغہ سے چھڑایا اورآپ سیدھے مدائن روانہ ہو گئے راستہ میں جراح بن قبیصہ خارجی حملہ کی تاک میں چھپا ہوا تھا، حضرت حسنؓ جیسے ہی اس کے قریب سے ہوکر گذرے اس نے حملہ کرکے زانوئے مبارک زخمی کر دیا،عبد اللہ بن خطلاور عبد اللہ بن ظبیان نے جو امام کے ساتھ تھے جراح کو پکڑ کر اس کا کام تمام کر دیا اورحضرت حسنؓمدائنجاکر قصر ابیض میں قیام پزیر ہو گئے اور زخم بھرنے تک ٹھہرے رہے،شفایاب ہونے کے بعد پھر عبد اللہ بن عامرکے مقابلہ کے لیے تیار ہو گئے اس دوران میںامیر معاویہؓبھی انبار پہنچ چکے تھے اور قیس بن عامر کو جو حضرت حسنؓ کی طرف سے یہاں متعین تھے گھیرلیا تھا ادھرمعاویہؓنے قیس کا محاصرہ کیا دوسری طرف حضرت حسنؓ اور عبد اللہ ابن عامر بالمقابل آگئے،عبد اللہ اس موقع پر یہ چال چلا کہ حضرت حسنؓ کی فوج کو مخاطب کرکے کہا کہ عراقیو! میں خود جنگ نہیں کرنا چاہتا،میری حیثیت صرفمعاویہؓکےمقدمۃ الجیشکی ہے اور وہ شامی فوجیں لے کر خود انبار تک پہنچ چکے ہیں، اس لیے حسنؓ کو میرا سلام کہہ دو اور میری جانب سے یہ پیام پہنچا دوکہ ان کو اپنی ذات اور اپنی جماعت کی قسم جنگ ملتوی کر دیں عبد اللہ بن عامر کا یہ افسوں کار گر ہو گیا،حضرت حسنؓ کے ہمراہیوں نے اس کا پیام سنا تو انھوں نے جنگ کرنا مناسب نہ سمجھا اور پیچھے ہٹنے لگے، حضرت حسنؓ نے اسے محسوس کیا،تو وہ پھرمدائنلوٹ گئے۔[36][51]:249.[69][70]آپ کےمدائنچلے آنے کے بعد عبد اللہ بن عامر کو موقع مل گیا اس نے بڑھ کر مدائن میں گھیر لیا حضرت حسنؓ پہلے ہی سےامیر معاویہؓسے صلح کرنے پر آمادہ تھے اپنے ساتھیوں کی بزدلی اور کمزوری کا تجربہ کرنے کے بعد جنگ کا خیال بالکل ترک کر دیا اور چند شرائط پرامیر معاویہؓکے حق میں خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیا اوریہ شرائط عبد اللہ بن عامر کے ذریعہ سےامیر معاویہؓکے پاس بھجوا دیے جو حسب ذیل ہیں:(1)کوئی عراقی محض بغض وکینہ کی وجہ سے نہ پکڑا جائے گا(2) بلا استثناء سب کو امان دی جائے گی(3) عراقیوں کے ہفوات کو انگیز کیا جائے گا(4)یہ ہواز کا کل خراج حسنؓ کے لیے مخصوص کر دیا جائے گا۔(5) حسینؓ کو دو لاکھ سالانہ علاحدہ دیا جائے گا ۔(6)بنی ہاشم کو صلات و عطایا میں بنی عبد شمس (بنی امیہ) پر ترجیح دی جائے گی۔عبد اللہ بن عامر نے یہ شرائط امیر معاویہ کے پاس بھیجوادیئے،انھوں نے بلا کسی ترمیم کے یہ تمام شرطیں منظور کر لیں اور اپنے قلم سے ان کی منظوری لکھ کر اپنی مہر ثبت کرکے معززین وعمائد کی شہادتیں لکھوا کر حضرت حسنؓ کے پاس بھیجوا دیا۔
+(یہ تمام حالات اخبار الطوال وینوری ،230 تا 232 سے ماخوذ ہیں، ابن اثیر کا بیان اس سے کسی قدر مختلف ہے اس کی روایت کے مطابق صورت واقعہ ہے جس وقت امام حسنؓ نے اپنے شرائطامیر معاویہؓکے سامنے پیش کرنے کے لیے بھیجے تھے،اسی دوران میںامیر معاویہؓنے بھی ایک سادہ کاغذ پر مہر لگا کر حسنؓ کے پاس بھیجا تھا کہ اس پر وہ جو شرائط چاہیں تحریر کر دیں سب منظور کرلی جائیں گی اس کاغذ کے بھیجنے کے بعد امیر معاویہؓ کے پاس حسنؓ کے شرائط والا کاغذ پہنچا امیر معاویہ نے اس کو روکے رکھا حسنؓ کو جب امیر معاویہؓ کا مہر کردہ سادہ کاغذ ملا تو انھوں نے اس میں بہت سی ایسی شرطیں جو پہلے مطالبہ میں نہ تھیں بڑھا دیں لیکن امیر معاویہؓ نے انھیں تسلیم نہیں کیا اورصرف انہی شرائط کو مانا جسے حسنؓ پہلے بھیج چکے تھے[71]دست برداری کے بعد حضرت حسنؓ نے قیس بن سعد انصاری کو جو مقدمۃ الجیش کے ساتھ شامیوں کے مقابلہ پر مامور تھے اس کی اطلاع دی اورجملہ امور امیر معاویہ ؓ کے حوالہ کرکے مدائن چلے آنے کا حکم دیا قیس کو یہ فرمان ملا تو انھوں نے فوج کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس کے بعد ہمارے لیے صرف دو صورتیں ہیں یا تو بلا امام کے جنگ جاری رکھیں یا امیر معاویہ کی اطاعت قبول کر لیں، ان کے دستہ میں بھی کچھ کمزور لوگ موجود تھے جنھوں نے امیر معاویہؓ کی اطاعت قبول کرلی اور قیس حضرت حسنؓ کے حکم کے مطابق آپ کے پاس مدائن چلے آئے اوران کے مدائن آنے کے بعد حضرت حسنؓ کوفہ تشریف لے گئے امیر معاویہؓ یہاں آکر آپ سے ملے اور دونوں میں صلح نامہ کے شرائط کی زبانی بھی تصدیق و توثیق ہو گئی۔[72]اوپر جو شرطیں اخبار الطوال سے نقل کی گئی ہیں، ان کے علاوہ عام طور پر ایک یہ شرط بہت مشہور ہے کہ امیر معاویہؓ کے بعد حسن خلیفہ ہوں گے ؛لیکن یہ شرط مروج الذہب مسعودی اخبار الطوال دینوری، یعقوبی ،طبری اور ابن اثیر وغیرہ کسی میں بھی نہیں ہے، البتہ علامہ ابن عبد البر نے استیعاب میں لکھا ہے کہ علما کا یہ بیان ہے کہ حسنؓ صرف معاویہؓ کی زندگی ہی تک کے لیے ان کے حق میں دست بردار ہوئے تھے[73]لیکن ابن عبد البر کا یہ بیان خود محل نظر ہے اس لیے کہ جو واقعہ کسی مستند تاریخ میں نہیں ملتا اس کو علما کا بیان کیسے کہا جا سکتا ہے ممکن ہے ان کے عہد کے علما کی یہ رائے رہی ہو لیکن تاریخوں سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی،خود طبری نے بھی جو اپنی تاریخ میں ہر قسم کی رطب دیا بس روایتیں نقل کردیتا ہے،اس شرط کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے اور آئندہ واقعات سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی اس شرط کے نہ ہونے کا سب سے بڑاثبوت یہ ہے کہ حضرت حسنؓ کی وفات کے بعد جب امیر معاویہؓ یزید کی بیعت لینے کے لیے مدینہ گئے اور ابن زبیرؓ، حسینؓ اور عبد الرحمن بن ابی بکرؓ وغیرہ کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا، تو ان بزرگوں نے اس کے خلاف ہر طرح کے دلائل دیے ،ابن زبیرؓ نے کہا کہ یہ طریقہ خلفائے راشدینؓ کے انتخابی طریقہ کے خلاف ہے، اس لیے ہم اسے منظور نہیں کرسکتے،عبد الرحمن بن ابی بکرؓ نے کہا یہ قیصر وکسریٰ کی سنت ہے، لیکن کسی نے بھی یہ دلیل نہیں دی کہ حسنؓ صرف تمھارے حق میں دست بردار ہوئے تھے،اس لیے یزید کو ولیعہد نہیں بنایا جا سکتا ظاہر ہے کہ اگر ان بزرگوں کو اس قسم کی شرط کا علم ہوتا تو وہ دوسرے دلائل کے ساتھ اسے بھی یزید کی ولی عہدی کی مخالفت میں ضرور پیش کرتے پھر امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد جب حضرت حسینؓ یزید کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے تو آپ نے اپنے دعویٰ کی تائید اور یزید کی مخالفت میں بہت سی تقریریں کیں اور ان تقریروں میں یزید کی مخالفت کے اسباب بیان کیے لیکن کسی تقریر میں بھی آپ نے یہ دعویٰ نہیں فرمایا کہ چونکہ میرے بھائی حسنؓ صرف امیر معاویہؓ کے حق میں دستبردار ہوئے تھے اور وہ امیر معاویہؓ کی زندگی میں وفات پاچکے تھے اس لیے اصول توارث کی رو سے ان کی جانشینی کا حق مجھے یا حسنؓ کی اولاد کو پہنچتا ہے؛حالانکہ یزید کی حکومت کے خلاف دلائل میں یہ بڑی قوی دلیل تھی لیکن حضرت حسینؓ نے اس کی طرف اشارہ بھی نہیں فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ہی سرے سے غلط ہے، باقی رہا یہ سوال کہ پھر بعض ارباب سیر نے اسے کیوں نقل کیا ہے، اس کا جواب ان لوگوں کے لیے بہت آسان ہے جو بن امیہ اور بنی ہاشم کی اختلافی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک حامی دوسرے کے متعلق ایسی روایتیں گھڑ دیتے ہیں جس سے دوسرے کے دامن پر کوئی دھبہ آتا ہو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر معاویہؓ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف صف آرا ہوکر اور پھر اپنے بعد یزید کو ولی عہد بنا کر اسلامی خلافت ختم کرکے تاریخ اسلام میں نہایت بری مثال قائم کی،لیکن اس غلطی کو محض اس کی حد تک محدود رکھنا چاہیے تھا مگر ان کے مخالفوں نے اس پر بس نہیں کیا ؛بلکہ ان کے خلاف ہر طرح کے بہتان تراش کر تاریخوں میں شامل کر دیے اوپر کی شرط بھی اسی بہتان کی ایک کڑی ہے، ہمارے نزدیک اس شرط کی ایزاد سے امیر معاویہؓ کے اشارہ سے حضرت حسنؓ کو زہر دینے والی روایت کی توثیق مقصود ہے جس کا ذکر آئندہ آئے گا اس لیے کہ جب بطور مقدمہ کے اسے تسلیم کر لیا جائے کہ حسنؓ صرف معاویہؓ کی زندگی تک کے لیے خلافت سے دستبردار ہوئے تھے اور امیر ویہؓ اپنے خاندان میں حکومت چاہتے تھے تو پھر ان دونوں مقدمات سے یہ کھلا ہوا نتیجہ نکل آتا ہے کہ حسنؓ کوامیر معاویہؓہی نے زہر دلوایا تھا اور یہ ایسا مکروہ الزام ہے جس سے امیر معاویہؓ کی اخلاقی تصویر نہایت بد نما ہوجاتی ہے اوروہ ہمیشہ کے لیے مورد طعن بن جاتے ہیں۔[74][75]،[76][77].[77][78]حضرت حسنؓ اورامیر معاویہؓکی مصالحت کے بعدعمرو بن العاصؓنے جوامیر معاویہ ؓکے ہمراہ تھے ان سے کہا کہ مناسب یہ ہے کہ مجمع عام میں حسنؓ سے دستبرداری کا اعلان کرا دو، تاکہ لوگ خود ان کی زبان سے اس کو سن لیں ، مگرامیر معاویہؓمزید حجت مناسب نہ سمجھتے تھے،اس لیے پہلے اس پر آمادہ نہ ہوئے مگر جب عمرو بن العاصؓ نے بہت زیادہ اصرار کیا تو انھوں نے حضرت حسنؓ سے درخواست کی کہ وہ برسر عام دستبرداری کا اعلان کر دیں،امیر معاویہؓ کی اس فرمایش پر حضرت حسنؓ نے مجمع عام میں حسب ذیل تقریر فرمائی:اما بعد لوگو خدا نے ہمارے اگلوں سے تمھاری ہدایت اور پچھلوں سے تمھاری خونریزی کرائی دانائیوں میں بہتر دانائی تقویٰ اور کمزوریوں میں سب سے بڑی کمزوری بد اعمالیاں ہیں،یہ امر (خلافت) جو ہمارے اور امیر معاویہؓ کے درمیان متنازع فیہ ہے یا وہ اس کے حقدار ہیں یا میں دونوں صورتوں میں محمد ﷺ کی امت کی اصلاح اور تم لوگوں کی خونریزی سے بچنے کے لیے میں اس سے دستبردار ہوتا ہوں پھر معاویہؓ کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا یہ خلافت تمھارے لیے فتنہ اور چند روزہ سرمایہ ہے یہ سن کرامیر معاویہؓنے کہا بس کیجئے،اس قدر کافی ہے اورعمرو بن العاصؓسے کہا تم مجھے یہی سنوانا چاہتے تھے۔[79]اس خاتم الفتن دست برداری کے بعد حضرت حسنؓ اپنے اہل و عیال کو لے کر مدینۃ الرسول چلے گئے،اس طرحآنحضرتﷺکی یہ پیشین گوئی پوری ہو گئی کہ میرا یہ بیٹا سید ہے خدا اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے فرقوں میں صلح کرائے گا۔
+بااختلاف روایت آپ کی مدت خلافت ساڑھے پانچ مہینے یا چھ مہینے سے کچھ زیادہ یا سات مہینے سے کچھ زیادہ تھی،آپ کی بیعت خلافت کی تاریخ تو متعین ہے مگر دستبرداری کی تاریخ میں بڑا اختلاف ہے ، بعضربیع الاول41ھبعضربیع الثانیاور بعضجمادی الاولبتاتے ہیں،اسی اعتبار سے مدت خلافت میں بھی اختلاف ہو گیا ہے۔[80][81][82][83]حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی دستبرداری سے آپ کے خاص حامیوں اور حضرتعلیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فدائیوں کو بڑا صدمہ پہنچا، اس میں شک نہیں کہ حضرت حسنؓ کے کچھ آدمیوں نے جن پر شامیوں کا مخفی جادو چل گیا تھا کمزوری دکھائی تھی، لیکن ان کے علاوہ ہزاروں فدایان علیؓ اس وقت بھی سربکف جان دینے کے لیے آمادہ تھے خود قیس بن سعد جو حضرت حسنؓ کےمقدمۃ الجیشکے کماندار تھے،حضرت حسنؓ کے حکم پر حضرتمعاویہؓکا مقابلہ چھوڑ کر مدائن تو چلے آئے تھے؛ لیکن دستبردای کے بعد کسی طرح امیر معاویہ کی خلافت تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے اوران سے مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ تن آمادہ تھے اور اپنی ہم خیال جماعت سے جنگ کے لیے بیعت بھی لے لی تھی،لیکن آخر میں امیر معاویہؓ نے ان کے تمام مطالبات مان کر صلح کرلی۔[84][85]دستبرداری کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ آخری لمحہ حیات تک اپنے جد بزرگوار کے جوار میں خاموشی وسکون کی زندگی بسر کرتے رہے50ھمیں کسی نے آپ کو زہر دے دیا (زہر کے متعلق عام طور پر غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے کہ امیر معاویہؓ کے اشارہ سے دیا گیا تھا، جو سراسر غلط ہے ) سم قاتل تھا ،قلب وجگر کے ٹکڑے کٹ کٹ کر گرنے لگے،جب حالت زیادہ نازک ہوئی اور زندگی سے مایوس ہو گئے،تو حضرت حسینؓ کو بلا کر ان سے واقعہ بیان کیا، انھوں نے زہر دینے والے کا نام پوچھا، فرمایا:نام پوچھ کر کیا کرو گے؟ عرض کیا قتل کروں گا، فرمایا: اگر میرا خیال صحیح ہے تو خدا بہتر بدلہ لینے والا ہے اور اگر غلط ہے تو میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے اور زہر دینے والے کا نام بتانے سے انکار کر دیا،حضرت حسن کو اپنے نانا کے پہلو میں دفن ہونے کی بڑی تمنا تھی، اس لیے اپنی محترم نانی حضرت عائشہؓ صدیقہ سے حجرہ نبوی میں دفن ہونے کی اجازت چاہی، انھوں نے خوشی کے ساتھ اجازت دے دی ،اجازت ملنے کے بعد بھی احتیاطا ًفرمایا کہ میرے مرنے کے بعد دوبارہ اجازت لینا ممکن ہے میری زندگی میں مروت سے اجازت دے دی ہو، اگر دوبارہ اجازت مل جائے تو روضۂ نبویﷺ میں دفن کرنا، مجھے خطرہ ہے کہ اس میں بنی اُمیہ مزاحم ہوں گے اگر مزاحمت کی صورت پیش آئے تو اصرار نہ کرنا اورجنت البقیع الغرقدکے گور غریبان میں دفن کر دینا۔[86]زہر کھانے کے تیسرے دن ضروری وصیتوں کے بعد باختلاف روایت ربیع الاول 49ھ یا50ھمیں اس بوریہ نشین مسندِ بے نیازی نے اس دنیائے دنی کو خیرباد کہا انا للہ وانا الیہ راجعون، وفات کے وقت 47 یا 48 سال کی عمر تھی۔[87][88][89][90]وفات کے بعد حضرتحسینرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصیت کے مطابق دوبارہ حضرتعائشہؓسے اجازت مانگی ، آپ نے پھر فراخدلی کے ساتھ مرحمت فرمائی(اس موقع پر بھی حرم نبویﷺ کے دشمنوں نے ایک روایت مشہور کردی ہے کہ حضرتعائشہؓ صدیقہنے اجازت نہیں دی اور حضرت حسنؓ کے روضہ نبوی ﷺ میں دفن ہونے میں مزاحم ہوئیں مگر یہ روایت بھی امیر معاویہؓ کے شرائط کی طرح حضرت عائشہؓ کو بد نام کرنے کے لیے گھڑی گئی ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں) لیکن حضرت حسنؓ کا خطرہ بالکل صحیح نکلا، مروان کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے کہا کہ حسنؓ کسی طرح روضۂ نبوی میں دفن نہیں کیے جا سکتے، ان لوگوں نےعثمانؓ بن عفانکو تو یہاں دفن نہ ہونے دیا اورحسنؓ کو دفن کرنا چاہتے ہیں، یہ کسی طرح نہیں ہو سکتا حضرت حسینؓ نے مقابلہ کرنا چاہا، مروان بھی لڑنے پر آمادہ ہو گیا اورقریب تھا کہ پھر ایک مرتبہ مدینہ کی زمین مسلمانوں کے خون سے لالہ زار بن جائے کہ اتنے میں مشہور صحابی حضرتابوہریرہؓپہنچ گئے اور چلائے کہ یہ کیا ظلم ہے کہ ابن رسول اللہ ﷺ کو اس کے نانا کے پہلو میں دفن کرنے سے روکا جاتا ہے،پھر حسینؓ سے کہا کہ اس کے لیے کشت وخون سے کیا فائدہ،حسنؓ کی وصیت بھول گئے کہ اگر خونریزی کا خطرہ ہو تو عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا اس پر حضرت حسینؓ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اوربنی امیہ اوربنی ہاشم میں جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی اس کے بعدسعید بن العاصؓعامل مدینہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور لاش مبارک جنت البیقیع میں حضرت فاطمہ زہراؓ کے پہلو میں سپرد خاک کی گئی۔[91]حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا روضہ نبوی ﷺ کی بجائے بقیع کے گور غریباں میں دفن کیا جانا بھی آپ کے روحانی تصرف کا نتیجہ تھا جس پیکر صلح واشتی نے زندگی میں مسلمانوں کے خون کی قیمت پر دنیاوی جاہ و حشم حاصل کرنا پسند نہ کیا اور خونریزی سے بچنے کے لیے سلطنت وحکومت جیسی چیز کو ٹھکرا کر عزلت نشینی کی زندگی اختیار کی اس کے جسدِ خاکی نے مرنے کے بعد بھی یہ کرشمہ دکھایا کہ روضۂ نبوی ﷺ کے مقابلہ میں بقیع کے گور غریباں میں دفن ہوا ،لیکن حرم نبویﷺ میں مسلمانوں کا خون نہ گرنے دیا ،ورنہ اس قیمت پر جد امجد کے پہلو میں جگہ ملنی بہت آسان تھی۔[92][93][94][95][96]حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی رحلت معمولی واقعہ نہ تھا ؛بلکہ صلح و مسالمت کا ماتم تھا حلم و عفو کا ماتم تھا،صبر و تحمل کا ماتم تھا، استغناء وبے نیازی کا ماتم تھا، خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ کا ماتم تھا، اس لیے آپ کی وفات پر مدینہ میں گھر گھر صفِ ماتم بچھ گئی،بازار بند ہو گئے گلیوں میں سناٹا چھا گیا، بنی ہاشم کی عورتوں نے ایک مہینہ تک سوگ منایا ،حضرتابوہریرہؓمسجد میں فریاد وفغاں کرتے تھے اور پکار پکار کر کہتے تھے کہ لوگو! آج خوب رولو کہرسول اللہصل اللہ علیہ وآلہ وسلمکا محبوب دنیا سے اٹھ گیا۔[97]جنازہ میں انسانوں کا اتنا ہجوم تھا کہ اس سے پہلے مدینہ میں کم دیکھنے میں آیا تھا،ثعلبہ بن ابی مالک جو مٹی میں شریک تھے راوی ہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازہ میں اتنا ازدحام تھا کہ اگر سوئی جیسی مہین چیز بھی پھینکی جاتی تو کثرت ازدحام سے زمین پر نہ گرتی۔[98][99][100]حضرت حسن ابن علی رضی اللہ عنہ صورت وسیرت دونوں میںآنحضرتﷺسے مشابہ تھے خصوصا ًصورت میں بالکل ہم شبیہ تھے۔[101][102]روایتوں میں ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے نہایت کثرت کے ساتھ شادیاں کیں اور اسی کثرت کے ساتھ طلاقیں دیں طلاقوں کی کثرت کی وجہ سے لوگ آپ کو ‘‘مطلاق’’ کہنے لگے تھے، بعض روایتوں سے آپ کی ازواج کی تعداد نو ے (90) تک پہنچ جاتی ہے،لیکن یہ روایتیں مبالغہ آمیز ہیں اس کی تردید اس سے بھی ہوتی ہے کہ آپ کے کل دس اولادیں تھیں اوریہ تعداد شادیوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے ،اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شادیوں کی کثرت کی روایت مبالغہ سے خالی نہیں ہیں تاہم اس قدر مسلم ہے کہ عام رواج سے زیادہ شادیاں کیں اس کثرت ازدواج وطلاق کو دیکھ کر حضرتعلیؓنے کوفہ میں اعلان کر دیا تھا کہ انھیں کوئی اپنی لڑکی نہ دے ؛لیکن عام مسلمانوں میں خانوادہ نبویﷺسے رشتہ پیدا کرنے کا شوق اتنا غالب تھا کہ حضرتعلیؓکی اس مخالفت کا کوئی اثر نہ ہوا اور ایک ہمدانی نے برملا کہا کہ ہم ضرور لڑکی دیں گے زیادہ سے زیادہ یہی نہ ہوگا کہ جو عورت انھیں پسند ہوگی اسے رکھیں گے ورنہ طلاق دیدیں گے۔[103][104].[105]لیکن جب تک کوئی عورت آپ کے حبالۂ عقد میں رہتی تھی اس سے بڑی محبت اور اس کی بڑی قدر افزائی فرماتے تھے؛چنانچہ جب ناگزیر اسباب کی بنا پر کسی عورت سے قطع تعلق کرتے تھے،تو آپ کے حسن سلوک اور محبت کی یاد برابر اس کے دل میں رہتی تھی ایک مرتبہ ایک فزاری اور ایک اسدی عورت کو رجعی طلاق دی اوران کی ولد ہی کے لیے دس دس ہزار نقد اور ایک مشکیزہ شہد بھیجا اورغلام کو ہدایت کردی کہ اس کے جواب میں وہ جو کچھ کہیں اس کو یاد رکھنا فزاری عورت کو جب یہ خطیر رقم ملی تو اس نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلی اور بارک اللہ فیہ وجزاہ خیرا کہا لیکن جب اسدی عورت کو ملی تویہ تحفہ دیکھ کر اس کے دل پر چوٹ لگی اور بے اختیار یہ حسرت بھرا فراقیہ مصرع زبان سے نکل گیا:
+متاع قلیل من حبیب مفارق
+جدا ہونے والے دوست کے مقابلہ میں یہ متاع حقیر ہے
+غلام نے آکر یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے اسدی عورت سے رجعت کرلی۔[106]،[107]حضرتؑ کی ازواج، اولاد اور داماد کے سلسلہ میں مختلف شیعہ و سنی معتبر کتابوں میں ذیل کی صورت میں تذکرہ ملتا ہے:1۔ خولہ بنت منظور بن زیاد فزاری: ان سے 2 فرزند متولد ہوئے، ایک کا نام» محمد الاکبر « ہے جس کی بنا پر ہی آپ کی کنیت » ابو محمد« ہے اور دوسرے فرزند »حسن مثنیٰ« کے نام سے موسوم ہیں جوروز عاشورکربلامیں زخمی ہوئے تھے۔2۔ ام کلثوم بنت فضل بن عباس بن عبد المطلب: جن کے بطن سے 4 اولاد جس میں 3 بیٹے اور ایک بیٹی متولد ہوئیں جو » محمد الاصغر، جعفر، حمزہ« اور »فاطمہ« ہیں۔3۔ ام بشیر بنت ابو مسعود عقبہ بن عمر انصا ری خز رجی: ان سے 3 فرزند یعنی 1 بیٹا اور 2 بیٹی متولد ہوئے جن کے نام »زید « اور »ام الحسن و ام الخیر« ہیں۔4۔ جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی : اس ملعونہ نے امام کو زہر سے شہید کیا، ابو بکر کی بہن کی بیٹی یعنی بھانجی تھی نیز اشعث بن قیس کندی رشتہ میں ابو بکر کے بہنوئی لگتے ہیں ان سے متولد ہونے والی اولاد 2 ہوتی ہیں جن کا نام »اسماعیل اور یعقوب« تھا۔5۔ زینب بنت سُبیَع بن عبد اللہ[108]۔ ان کے بطن سے 1 بیٹا ہی متولد ہوا ہے جن کا نام »عبد اللہ الاصغر« تھا۔6۔ ام اسحاق بنت طلحہ بن عبید اللہ تیمی: ان سے بھی 1 بیٹا ہی متولد ہوا ہے جن کا نام »طلحہ« رکھا گیا تھا۔7۔ کنیز یعنی ام ولد بنام قیلہ: اس کنیز سے 3 بیٹے »قاسم، عبد اللہ اور ابو بکر «[109]نامی متولد ہوئے ہیں نیز یہ تینوں ہی کربلا کے میدان میں امام حسینؑ کی تحریک عاشورا میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔8۔ کنیز یعنی ام ولد ظمیاء: ان کے بطن سے بھی 3 اولاد یعنی 2 بیٹے اور 1 بیٹی متولد ہوتے ہیں جن کے نام »حسین الاثرم، عبد الرحمن« اور »ام سلمہ« ہیں۔9۔ ایک کنیز یعنی ام ولد: ان کے بطن سے بھی 1 بیٹا ہی جن کا نام» عمرو« ہوتا ہے متولد ہوئے۔10۔ ایک کنیز یعنی ام ولد بنام صافیہ: ان کے بطن سے بھی 1 بیٹی متولد ہوئی ہے جنہیں »ام عبد الرحمن یا ام عبد اللہ» کہا جاتا ہے اور یہی معظمہ امام محمد باقرؑ کی مادر گرامی ہیں۔مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں ہمیں اولاد میں بیٹوں کی تعداد 16 قرار پاتی ہے اور بیٹیوں کی تعداد 5 ہی افراد پر مشتمل اور 6 ازواج اور 4 کنیزیں یعنی ام ولد پر خاندان تشکیل پاتا ہے۔بعض مورخین نے تو آنحضرتؑ کی ازواج میں »«ہند اور عائشہ خثعمیہ» کے نام درج کیے ہیں ممکن ہے کہ آنحضرتؑ کی مزید زوجات بھی ہو ں مگر تاریخ کی کتابوں میں بہت زیادہ تلاش و جستجو کے باوجود 18 ازواج سے زائد نام نہیں مل سکے۔بعض ازواج کے نام تو کتابوں میں درج نہیں ہیں مگر صرف»« فلاں قبیلہ» کی ایک خاتون کے عنوان سے تذکرہ ملتا ہے۔ ہم انھیں مختصرا ذیل میں تحریر کر رہے ہیں:1۔ ہند بنت عبد الرحمٰن بن ابی بکر[110]؛ یا حَفصہ[111]2۔ بنی ثقیف کے خاندان کی ایک خاتون[112]3۔ قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون4۔ ہند بنت سہیل بن عمرو[113]5۔ علقمہ بن زرارہ کے خاندان کی ایک خاتون۔[114]6۔ قبیلہ عمرو بن ابراہیم یا اہیم منقری کی ایک خاتون[115]7۔ قبیلہ بنی شیبان کے ہمام بن مرہ کی ایک خاتون[116][117]8۔ خولہ بنت منظور بن زیاد فزاری، حسن مثنیٰ کی ماں ہیں۔[118]9۔ ام اسحاق بنت طلحہ بن عبیداللہ تیمی[119]10۔ ام بشیر بنت ابو مسعود عقبہ بن عمر انصاری خزرجی[120]11۔ جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی[121][122]12۔ ام کلثوم بنت فضل بن عباس بن عبد المطلب[123]13۔ نفیلہ ام ولد یا رملہ ،جناب قاسم بن حسنؑ کی ماں ہیں۔[124]14۔ زینب بنت سُبیَع بن عبد اللہ[125][126]15۔ عائشہ خثعمیہ[127][128]16۔ ام رباب بنت امرء القیس بن عدی17۔ صافیہ، ام ولد18۔ شہر بانودامادوں کی تعدادامام حسنؑ کی ازواج کی تعداد تاریخ اور روایات کی کتابوں میں درج ذیل ہیں:1۔ 70 بیویاں تھیں۔[129]2۔ 250 یا 300 ازواج تھیں۔[130]3۔ 90 زوجات تھیں۔[131]4۔ 50 بیویاں تھیں۔[132]اتنی بڑی تعداد میں ازواج کا تذکرہ کرنے کے باوجود کم از کم یہی مقام و محل ہے کہ ان کی بیٹیوں کی تعداد بھی 50 عدد تو ہونا ہی چاہیے اور اسی کے اعتبار سے دامادوں کے ناموں کا بھی تذکرہ ہونا ہی چاہیے تھا لیکن ہمیں کتابوں میں تلاش بسیار کے بعد صرف 3 دامادوں کا ہی تذکرہ نام بنام ملتا ہے جنہیں ہم ذیل میں رقم کر رہے ہیں:1۔ ام عبد اللہ فاطمہ بنت حسنؑ کے شوہرامام زین العابدین2۔ امّ الحسن بنت حسن ؑکے شوہرعبداللہ بن زیبر3۔ امّ سلمہ بنت حسن ؑکے شوہرعمرو بن منذران بیویوں سے آٹھ لڑکے تھے، حسن خولہ بنت منظور کے بطن سے، زید ام بشیر بنت ابو مسعود انصاریؓ کے بطن سے اور عمر، قاسم، ابوبکر، عبد الرحمن، طلحہ اور عبید اللہ مختلف بیویوں سے تھے۔ابن قتیبہ نے کل تعداد چھ لکھی ہے جن میں دو لڑکیاں بھی ہیں، ام حسن اورام اسحق۔[133].[134][135].[136]حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساری عمر نہایت فراغت ؛بلکہ عیش کے ساتھ زندگی بسر کی حضرتعمرؓنے جب صحابہؓ کرام کے وظائف مقرر کیے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پانچ ہزار ماہوار مقرر کیا،توآپ کے ساتھ حضرت حسنؓ کا بھی جو اگرچہ اس زمرہ میں نہ آتے تھےرسول اللہﷺکی قرابت کے لحاظ سے پانچ ہزار ماہوار مقرر فرمایا جو انھیں برابر ملتا رہا ،[137]حضرتعثمان بن عفانرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بھی یہ وظائف برابر جاری رہے،حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرتعلیؓخود ہی خلیفہ مقرر ہوئے آپ کی شہادت کے بعدامیر معاویہؓکے حق میں دست برداری کے وقت ہواز کا پورا خراج اپنے لیے مخصوص کرالیا تھا، اس لیے شروع سے آخرتک آپ نے بڑی راحت و آرام کی زندگی بسر فرمائی۔[138]،[139]آنحضرتﷺکی وفات کے وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عمر آٹھ سال سے زیادہ نہ تھی ظاہر ہے کہ اتنی سی عمر میں براہِ راست فیضانِ نبوی سے زیادہ بہرہ یاب ہونے کا کیا موقع مل سکتا ہے تاہم آپ جس خانوادہ کے چشم و چراغ تھے اورجس باپ کے آغوش میں تربیت پائی تھی وہ علوم مذہبی کا سر چشمہ اور علم و حمل کا مجمع البحرین تھا اس لیے قدرۃ اس آفتابِ علم کے پرتو سے حسنؓ بھی مستفید ہوئے ؛ چنانچہآنحضرتﷺکی وفات کے بعدمدینہمیں جو جماعت علم و افتاء کے منصب پر فائز تھی اس میں ایک آپ کی ذاتِ گرامی بھی تھی البتہ آپ کے فتاویٰ کی تعداد بہت کم ہے۔
+فضائل و مناقب:آپ کے فضل و کمال کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ خاندان نبوت کے چشم و چراغ ہیں، شیر خدا اور سیدۂ کائنات کے نور نظر ہیں اور نبوی تعلیم و تربیت نے آپ کے اخلاق و کردار اور شخصیت کو اس قدر نکھارا تھا کہ اس کی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔حدیث اور سیرت کی کتابوں میں ایسی روایات کثرت کے ساتھ موجود ہیں جن میں آپ کی عظمت و رفعت جلی حرفوں میں ثبت ہے۔ کچھ روایات ذیل میں ملاحظہ ہوں:آپ سے سرکار صلی اللہ علیہ و سلم کہ محبت: حضرت اسامہ بن زید رضی الل�� عنہ کا بیان ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے اور حسن کو گود میں لیتے اور یوں دعا کرتے""اے میرے اللہ بلا شبہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، لہذا تو بھی انھیں محبوب رکھ۔[140]آپ سردار ہیں:حضرت ابو بکرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر جلوہ افروز تھے جبکہ حسن آپ کے پہلو میں کھڑا تھا جو کبھی لوگوں کو دیکھتا اور کبھی آپ کو، اتنے میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ""بے شک میرا یہ بیٹا سردار ہے، امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔[141]1: حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حسن کو گود میں لے کر فرمایا"" میرے والد کی قسم، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ہمشکل ہے، علی کا ہمشکل نہیں ،یہ سن کر سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم مسکرانے لگے۔[142]2:امام زھری علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی ر سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشابہ نہ تھا۔[143]منفرد نام: حضرت مفضل فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو پوشیدہ رکھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فرزندوں کے وہ نام رکھے۔[144]کتنا اچھا سوار: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حسن کو اپنے مبارک کندھے پر لے کر باہر نکلے، یہ دیکھ کر ایک شخص نے کہا""اے لڑکے کتنی اچھی سواری ہے! تو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ""اور کتنا اچھا سوار ہے!""[145]آپ جنتی نوجوانوں کے سردار:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا""حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں""[146]آپ ریحانۃ الرسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں:پیارے آقا حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ حسن اور حسین میرے دنیا کے دو پھول ہیں۔[147]حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے محبوب ترین: حضور علیہ الصلوۃ و السلام سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! آپ کے اہل بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ""حسن اور حسین"" اور سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرماتے کہ میرے دونوں صاحبزادوں کو بلا کر لاؤ پھر ان دونوں کو سونگھتے اور اپنے جسم اطہر سے چمٹا لیتے۔[148][149][150][151][152]،[153].[154]آپ کی مرویات کی تعداد کل تیرہ ہے اور ان میں سے بھی زیادہ تر حضرتعلیؓاور ہند سے مروی ہیں،[155]آپ کے زمرۂ رواۃ میں حضرتعائشہؓ صدیقہ،حسن بن حسنؓ،عبد اللہ،ابو جعفرؓ ،جبیر بن نضیر،عکرمہ،محمد بن سیریناور سفیان بن لیل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔[156][157]مذہبی علوم کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کو اس زمانہ کے مروجہ فنون میں بھی درک تھا خطابت اورشاعری اس زمانہ کے بڑے کمالات تھے،حضرت حسنؓ عرب کے اخطب الخطباء کے فرزند تھے،اس لیے خطابت آپ کو ورثے میں ملی تھی اور آپ میں بچپن ہی سے خطابت کا مادہ تھا، اس زمانہ میں ایک مرتبہ حضرتعلیؓنے آپ سے کہا کہ تم خطبہ دو، میں اس کو سنوں، حضرت حسنؓ نے کہا ،آپ کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے حجاب معلوم ہوتا ہے،یہ سن کر حضرتعلیؓآڑ میں چلے گئے اور حضرت حسنؓ نے کھڑے ہو کر نہایت فصیح و بلیغ خطبہ دیا، حضرت علیؓ نے سن کر فرمایا کیوں نہ ہو بیٹے میں باپ کا اثر ہوتا ہی ہے[158]خطابت کا یہ کمال عمر کے ساتھ ساتھ اور ترقی کرتا گیا اور آپ کے خطبات فصاحت و بلاغت کے ساتھ اخلاق و حکمت اور پند وموعظت کا دفتر ہیں، حضرت علیؓ کی وفات کے بعد آپ نے متعدد خطبات دیے ہیں ان میں سے ایک نمونۃً نقل کیا جاتا ہے،اس سے آپ کی خطابت کا پورا اندازہ ہوگا۔[159]فقال بعد حمد الله عز وجل: إنا والله ما ثنانا عن أهل الشام شك ولا ندم، وإنما كنا نقاتل أهل الشام بالسلامة والصبر، فسلبت السلامة بالعداوة، والصبر بالجزع، وكنتم في منتدبكم إلى صفين ودينكم أمام دنياكم، فأصبحتم اليوم ودنياكم أمام دينكم، ألا وإنا لكم كما كنا، ولستم لنا كما كنتم، ألا وقد أصبحتم بين قتيلين: قتيل بصفين تبكون له، وقتيل بالنهروان تطلبون بثأره، فأما الباقي فخاذل، وأما الباكي فثائر، ألا وإن معاوية دعانا إلى أمر ليس فيه عز ولا نصفة، فإن أردتم الموت رددناه عليه، وحاكمناه إلى الله عز وجل بظبا السيوف، وإن أردتم الحياة قبلناه وأخذنا لكم الرضا[160]حمد الہی کے بعد آپ نے یہ تقریر کی کہ ہم کسی شک و شبہ یا شرم و ندامت کی وجہ سے شامیوں کے مقابل سے نہیں لوٹ آئے ؛بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ پہلے ہم شامیوں سے صاف دلی اور صبر کے ساتھ جنگ کرتے تھے؛ لیکن اب وہ حالت باقی نہیں رہی صاف دلی کی جگہ عداوت نے اورصبر وثبات کی جگہ بے چینی نے لے لی ،صفین میں جب تم لوگ بلائے گئے تھے تو تمھارا دین تمھاری دنیا پر مقدم تھا اور اب حالت اس کے برعکس ہے ہم اب بھی تمھارے لیے ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے؛ لیکن تم ہمارے لیے ویسے نہیں رہے جیسے پہلے تھے، ہاں اب تمھارے سامنے دو قسم کے مقتول ہیں ایک صفین کے مقتول جن کے لیے تم رو رہے ہو دوسرے نہروان کے مقتول جن کا تم بدلہ لینا چاہتے ہو؛ لیکن رونے والا بدلہ پاگیا اورباقی ناکام رہے گا ،معاویہؓہمیں ایسے امر کی طرف بلاتے ہیں جو عزت اور انصاف دونوں کے خلاف ہے پس اب اس کا فیصلہ تمھاری رائے پر ہے اگر تم موت چاہتے ہو تو ہم اس کومعاویہؓہی کی طرف لوٹا دیں اور تلواروں کی دھار کے ذریعہ سے خدا سے اس کا فیصلہ چاہیں اور اگر تم زندگی چاہتے ہو تو ہم اسے بھی منظور کریں اور تمھارے لیے رضا حاصل کریں۔[161][162][163][164][165]شعر و شاعری کا بھی آپ ستھر امذاق رکھتے تھے اور خود بھی کبھی کبھی شعر کہتے تھے؛ لیکن جس میں مبالغہ اور خرافات کی بجائے اخلاقی اور حکیمانہ خیالات ہوتے، ابن رشیق نے کتاب العمدہ میں آپ کا ایک شعر اس واقعہ کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ خضاب لگا کر باہر نکلے اور ارشاد فرمایا:[166]نسو داعلاھا ونابی اصولھا فلیت الذی یسورمنھا ھوالاصل
+شعر و شاعری کا بھی آپ ستھر امذاق رکھتے تھے اور خود بھی کبھی کبھی شعر کہتے تھے؛ لیکن جس میں مبالغہ اور خرافات کی بجائے اخلاقی اور حکیمانہ خیالات ہوتے، ابن رشیق نے کتاب العمدہ میں آپ کا ایک شعر اس واقعہ کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ خضاب لگا کر باہر نکلے اور ارشاد فرمایا:[167][168][169]ان کے علاوہ تاریخوں میں بکثرت آپ کے حکیمانہ مقولے ملتے ہیں جن میں ہر مقولہ بجائے خود دفتر نکات ہے ان میں سے بعض مقولے یہاں پر نقل کیے جاتے ہیں ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ زندگی بسر کرنے کے اعتبار سے سب سے اچھی زندگی کون بسر کرتا ہے؟ فرمایا جو اپنی زندگی میں دوسروں کو بھی شریک کرے، پھر پوچھا سب سے بری زندگی کس کی ہے؟ فرمایا جس کے ساتھ کوئی دوسرا زندگی نہ بسر کرسکے، فرماتے تھے کہ ضرورت کا پورا نہ ہونا اس سے کہیں بہتر ہے کہ اس کے لیے کسی نااہل کی طرف رجوع کیا جائے، ایک شخص نے آپ سے کہا مجھ کو موت سے بہت ڈر معلوم ہوتا ہے فرمایا اس لیے کہ تم نے اپنا مال پیچھے چھوڑ دیا اگر اس کو آگے بھیج دیا ہوتا تو اس تک پہنچنے کے لیے خوفزدہ ہونے کی بجائے مسرور ہوتے ،فرماتے تھے کہ ‘‘مکارم اخلاق دس ہیں، زبان کی سچائی،جنگ کے وقت حملہ کی شدت ،سائل کو دینا، حسن خلق، احسان کا بدلہ دینا،صلۂ رحم، پڑوسی کی حفاظت وحمایت، حق دار کی حق شناسی، مہمان نوازی اوران سب سے بڑھ کر شرم وحیا، امیر معاویہؓ اکثر آپ سے اخلاقی اصطلاحوں کی تشریح کراتے تھے اورحکومت کے بارہ میں مشورہ لیا کرتے تھے،ایک مرتبہ ان سے کہا ابو محمد! آج تک مجھ سے تین باتوں کے معنی کسی نے نہیں بتائے، آپ نے فرمایا کونسی باتیں،معاویہؓنے کہا مروۃ ،کرم اور بہادری، آپ نے جواب دیا مروۃ کہتے ہیں انسان کو اپنے مذہب کی اصلاح کرنا اپنے مال کی دیکھ بھال اور نگرانی کرنا اوراسے برمحل صرف کرنا، سلام زیادہ کرنا،لوگوں میں محبوبیت حاصل کرنا اور کرم کہتے ہیں مانگنے سے پہلے دینا،احسان و سلوک کرنا، برمحل کھلانا پلانا، بہادری کہتے ہیں پڑوسی کی طرف سے مدافعت کرنا، آڑے وقتوں میں اس کی حمایت وامداد کرنا اور مصیبت کے وقت صبر کرنا، اسی طریقہ سے ایک مرتبہامیر معاویہؓنے ان سے پوچھا کہ حکومت میں ہم پر کیا فرائض ہیں، فرمایا جوسلیمان بن داؤدنے بتائے ہیں،امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا بتائے ہیں،فرمایا انھوں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ تم کو معلوم ہے بادشاہ پر ملک داری کے کیا فرائض ہیں جس سے اس کو نقصان نہ پہنچے، ظاہر و باطن میں خدا کا خوف کرے ،غصہ اور خوشی دونوں میں عدل وانصاف کرے، فقر اور دولتمندی دونوں حالتوں میں میانہ روی قائم رکھے، زبردستی نہ کسی کا مال غصب کرے اور نہ اس کو بے جا صرف کرے، جب تک وہ ان چیزوں پر عمل کرتا رہے گا اس وقت تک اس کو دنیا میں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔[170][171]شبیہ رسول حضرت حسنؓ کا لقب تھا یہ مشابہت محض ظاہری اعضا و جوارح تک محدود نہ تھی؛بلکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات باطنی اور معنوی لحاظ سے بھی اسوۂ نبویﷺکا نمونہ تھی،یوں تو آپ تمام مکارم اخلاق کا پیکر مجسم تھے؛ لیکن زہد ورع دنیاوی جاہ وچشم سے بے نیازی اور بے تعلقی آپ کا ایسا خاص اور امتیازی وصف تھا جس میں آپ کا کوئی حریف نہیں۔،[172]درحقیقت جس استغنا اور بے نیازی کا ظہور آپ کی ذات گرامی سے ہوا وہ نوعِ انسانی کے لیے ایک معجزہ ہے عموماً قصر سلطنت کی تعمیر انسانی خون سے ہوتی ہے،لیکن حضرت حسنؓ نے ایک ملتی ہوئی عظیم الشان سلطنت کو محض چند انسانوں کے خون کی خاطر چھوڑ دیا غالباً تاریخ ایسی مثالیں کم پیش کرسکتی ہے ، اگر شیخین کے بعد کی اسلامی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس کا صفحہ صفحہ مسلمانوں کے خون سے رنگین نظر آئے گا اورابھی تک عرب کی زمین مسلمانوں کا خون چاہتی تھی؛ لیکن یہ فخر صرف حضرت حسنؓ کی ذات کے لیے مقدر ہو چکا تھا کہ وہ سلطنت و حکومت کو ٹھکرا کر امت مسلمہ کو تباہی سے بچائیں اورآنحضرتﷺکی اس پیشین گوئی کو پورا فرمائیں گے، ""ان ابنی ھذا سید یصلح اللہ بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین""میرا یہ لڑکا سید ہے اور خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا یا الخلافۃ بعدی ثٰلثون میرے بعد خلافت تیس برس تک رہے گی، حساب سے یہ مدت ٹھیک حضرت حسنؓ کی دست برداری کے وقت پوری ہوتی ہے۔[173][174]بعض ظاہر بینوں کو یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ حضرت حسنؓ نے اپنی فوج کی کمزوری سے مجبور ہو کرامیر معاویہؓ سے صلح کر لی اور کچھ واقعات بھی اس خیال کی تائید میں مل جاتے ہ��ں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ نے یہ جلیل القدر منصب محض مسلمانوں کی خونریزی سے بچنے کے لیے ترک نہیں کیا ،گویہ صحیح ہے جس فوج کو لے کر آپ مقابلہ کے لیے نکلے تھے ،اس میں کچھ منافق بھی تھے، جنھوں نے عین موقع پر کمزوری دکھائی مگر اس فوج میں بہت سے خارجی العقیدہ بھی تھے، جو آپ کی حمایت میںامیر معاویہؓسے لڑنا فرض عین سمجھتے تھے ؛ چنانچہ جب انھوں نے مصالحت کا رنگ دیکھا تو آپ کی تکفیر کرنے لگے۔[175]خود عراق میں چالیس بیالیس ہزار کوفی جنھوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی آپ کے ایک اشارہ پر سر کٹانے کے لیے تیار تھے[176]عراقتو عراق سارا عرب آپ کے قبضہ میں تھا ، مصالحت وغیرہ کے بعد ایک مرتبہ بعض لوگوں نے آپ کو خلافت کی خواہش سے متہم کیا، آپ نے فرمایا کہ عرب کے سر میرے قبضہ میں تھے جس سے میں صلح کرتا اس سے وہ بھی کرتے اور جس سے میں جنگ کرتا اس سے وہ لڑتے ؛لیکن اس کے باوجود میں نے خلافت کو خالصۃً للہ اورامت محمدی کی خونریزی سے بچنے کے لیے چھوڑا۔[177]خود آپ کی فوج میں ان چند منافقوں کے علاوہ جنھوں نے بعض مخفی اثرات سے عین وقت پر دھوکا دیا تھا،باقی پوری فوج کٹنے مرنے پر آمادہ تھی، ابو عریق راوی ہیں کہ ہم بارہ ہزار آدمی حضرت حسنؓ کےمقدمۃ الجیشمیں کٹنے اور مرنے کے لیے تیار تھے اور شامیوں کی خون آشامی کے لیے ہماری تلواروں کی دھار وں سے خون ٹپک رہا تھا، جب ہم لوگوں کو صلح کی خبر معلوم ہوئی تو شدت غضب ورنج سے معلوم ہوتا تھا کہ ہماری کمر ٹوٹ گئی ،صلح کے بعد جب حسنؓ کوفہ آئے تو ہماری جماعت کے ایک شخص ابو عامر سفیان نے غصہ میں کہا ""السلام علیک یا مذلل المومنین"" مسلمانوں کے رسوا کرنے والے السلام علیک،اس طنزیہ اور گستاخانہ سلام پر اس صبر وتحمل کے پیکر نے جواب دیا، ابو عامر ایسا نہ کہو میں نے مسلمانوں کو رسوا نہیں کیا البتہ ملک گیری کی ہوس میں مسلمانوں کی خونریزی پسند نہیں کی۔[178]امام نوویلکھتے ہیں کہ چالیس ہزار سے زیادہ آدمیوں نے حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور وہ سات مہینہ حجاز، یمن، عراق اور خراسان وغیرہ پر حکمران رہے اس کے بعدمعاویہؓشام سے ان کے مقابلہ کو نکلے جب دونوں قریب ہوئے تو حضرت حسنؓ کو اندازہ ہوا کہ جب تک مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کام نہ آجائے گی اس وقت تک کسی فریق کا غلبہ پانا مشکل ہے، اس لیے چند شرائط پر آپ امیر معاویہؓ کے حق میں دست بردار ہو گئے اور اس طرح رسول اللہ ﷺ کا یہ معجزہ ظاہر ہو گیا کہ میرا یہ لڑکا سید ہے اور خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں صلح کرائے گا۔
+شیعان علیؓ اس صلح کو جس نظر سے دیکھتے تھے اور اس کے بارہ میں ان کے جو جذبات تھے ان کا اندازہ ان خطابات سے ہو سکتا ہے جس سے وہ اس سردار خلد برین کو مخاطب کرتے تھے ""مذل المومنین"" مسلمانوں کو رسوا کرنے والے ""مسود وجوہ المسلمین"" مسلمانوں کو روسیاہ کرنے والے، ""عارالمومنین"" ننگ مسلمین یہ وہ خطابات تھے جن سے حضرت حسنؓ کو خطاب کیا جاتا تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام لوگ صلح اور دستبرداری کو کس درجہ ناپسند کرتے تھے۔واقعہ یہ ہے کہ حضرت حسنؓ ایسے امن پسند،صلح جو نرم خو تھے کہ انھوں نے اول یوم ہی سے ارادہ کر لیا تھا کہ اگر بلا کسی خونریزی کے انھیں ان کی جگہ مل گئی تو لے لیں گے ورنہ اس کے لیے مسلمانوں کا خون نہ بہائیں گے، طبری کا بیان ہے کہ حسنؓ کے ساتھ چالیس ہزار آدمی تھے،لیکن آپ جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے ؛بلکہ آپ کا خیال تھا کہامیر معاویہؓسے کچھ مقرر کرا کے دستبردار ہو جائیں۔
+چنانچہ جس وقت آپ نے عراقیوں سے بیعت لی تھی،اسی وقت اس عزم کو اشارۃ ظاہر فرمادیا تھا، زہری لکھتے ہیں کہ امام حسنؓ نے اہلِ عراق سے بیعت لیتے وقت یہ شرط کرلی تھی کہ تم کو پورے طور سے میری اطاعت کرنی ہوگی ،یعنی جس سے میں لڑوں گا اس سے لڑنا ہوگااور جس سے صلح کروں گا اس سے صلح کرنی پڑیگی اس شرط سے عراقی اسی وقت کھٹک گئے تھے کہ آپ آئندہ جنگ و جدال ختم کر دیں گے ؛چنانچہ اسی وقت ان لوگوں نے آپس میں کہا تھا کہ ہمارے خیال کے آدمی نہیں اور لڑنا نہیں چاہتے، اس کے چند روز بعد آپ کو زخمی کر دیا گیا۔حضرت حسنؓ نے اپنے گھر والوں پر بھی یہ خیال ظاہر فرما دیا تھا ،ابن جعفر کا بیان ہے کہ صلح کے قبل میں ایک دن حسنؓ کے پاس بیٹھا تھا جب چلنے کا ارادہ سے اٹھا تو انھوں نے میرا دامن کھینچ کر بٹھا لیا، اورکہا میں نے ایک رائے قائم کی ہے امید ہے کہ تم بھی اس سے اتفاق کرو گے،ابن جعفر نے پوچھا کونسی رائے ہے؟ فرمایا میں خلافت سے دستبردار ہوکر مدینہ جانا چاہتا ہوں کیونکہ فتنہ برابر بڑھتا جاتا ہے ،خون کی ندیاں بہہ چکی ہیں،عزیز کو عزیز کا پاس نہیں ہے،قطع رحم کی گرم بازاری ہے، راستے خطرناک ہو رہے ہیں، سرحدیں بے کار ہو گئی ہیں،ابن جعفرؓ نے جواب دیا، خدا آپ کو امت محمدی کی خیر خواہی کے صلہ میں جزائے خیر دے،اس کے بعد آپ نے حسینؓ کے سامنے یہ رائے ظاہر کی،انھوں نے کہا، خدا را علیؓ کو قبر میں جھٹلا کر معاویہؓ کی سچائی کا اعتراف نہ کیجئے، آپ نے یہ سن کر حسینؓ کو ڈانٹا کہ تم شروع سے آخرتک برابر میری ہر رائے کی مخالفت کرتے چلے آ رہے ہو،خدا کی قسم میں طے کرچکا ہوں کہ تم کو فاطمہؓ کے گھر میں بند کرکے اپنا ارادہ پورا کروں گا، حسینؓ نے بھائی کا لہجہ درشت دیکھا تو عرض کیا آپ علیؓ کی اولاد اکبر اور میرے خلیفہ ہیں،جو رائے آپ کی ہوگی وہی میری ہوگی،جیسا مناسب فرمائے کیجئے اس کے بعد آپ نے دستبرداری کا اعلان کیا۔[179]ان واقعات سے معلوم ہو گیا ہوگا کہ خلافت سے دستبرداری میں فوج کی کمزوری وغیرہ کا چنداں سوال نہ تھا؛بلکہ آپ کو اس کا یقین ہو گیا تھا کہ بغیر ہزاروں مسلمانوں کے خاک وخون میں تڑپے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا اور جنگ جمل سے لے کر برابر مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہتی چلی آرہی ہیں، اس لیے آپ نے اسے روکنے کے لیے خلافت کو خیر باد کہہ کر مدینہ کی عزلت نشینی اختیار فرمائی:فجزاہ اللہ عن المسلمین خیر الجزاء[180][181]،[182][183]ذہب کی بنیاد صحت عقائد پر ہے، اس میں فتور پیدا ہونے سے مذہب کی پوری عمارت متزلزل ہو جاتی ہے،حضرت حسنؓ کو عقیدہ کی درستی اور اس کی اصلاح کا ہمیشہ خیال رہا اس بارہ میں آپ نہایت سختی سے کام لیتے تھے شیعیان علی میں ایک جماعت کا عقیدہ تھا کہ حضرت علیؓ نے عام انسانوں کی طرح وفات نہیں پائی، اوروہ قیامت سے پہلے ہی زندہ ہو جائیں گے ، حضرت حسنؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو فرمایا، یہ لوگ جھوٹے ہیں،خدا کی قسم ایسے لوگ کبھی شیعہ نہیں ہو سکتے اگر ہم کو یقین ہوتا کہ آپ عنقریب ظاہر ہوں گے تو نہ ان کی میراث تقسیم کرتے نہ ان کی عورتوں کا عقد ثانی کرتے۔[184][185].[186]عبادت الہی آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا اور وقت کا بڑا حصہ آپ اس میں صرف فرماتے تھے۔امیر معاویہؓنے ایک شخص سے آپ کے حالات دریافت کیے اس نے بتایا کہ فجر کی نماز کے بعد سے طلوع آفتاب تک مصلیٰ پر بیٹھے رہتے ہیں، پھر ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اورآنے جانے والوں سے ملتے ہیں دن چڑھے چاشت پڑھ کر امہات المومنین کے پاس سلام کرنے کو جاتے ہیں،پھر گھر ہوکر مسجد چل�� آتے ہیں۔[187]مکہکے زمانہ قیام میں معمول تھا کہ عصر کی نماز خانہ کعبہ میں باجماعت ادا کرتے تھے نماز کے بعد طواف میں مشغول ہو جاتے ،ابو سعید راوی ہیں کہ حسنؓ و حسینؓ نے امام کے ساتھ نماز پڑھی،پھرحجر اسودکو بوسہ دے کر طواف کے سات پھیرے کیے اور دو رکعت نماز پڑھی لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ دونوں خانوادہ نبوی کے چشم و چراغ ہیں تو شاقانِ جمال چاروں طرف سے پروانہ وار ٹوٹ پڑے اور بھیڑ کی وجہ سے راستہ رک گیا حضرتحسینؓاس ہجوم میں گھر گئے، حضرت حسنؓ نے ایک ،رکانی کی مدد سے انھیں ہجوم سے چھڑایا ، ایک تختی پر سورہ کہف لکھوائی تھی روزانہ سوتے وقت اسے تلاوت فرماتے اور بیویوں کے پاس ساتھ لے جاتے ۔[188]ہر طرح کی سواریاں رکھتے ہوئے پا پیادہ حج کرتے تھےامام نوویؓلکھتے ہیں کہ امام حسنؓ نے متعدد حج پا پیادہ کیے ،فرماتے تھے کہ مجھے خدا سے حجاب معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ملوں اور اس کے گھر پا پیادہ نہ گیا ہوں۔[189][190][191]صدقہ وخیرات اور فیاضی و سیر چشمی آپ کا خاندانی وصف تھا لیکن جس فیاضی سے آپ خدا کی راہ میں اپنی دولت اور مال و متاع لٹاتے تھے اس کی مثالیں کم ملیں گی، تین مرتبہ اپنے کل مال کا آدھا حصہ خدا کی راہ میں دے دیا اور تنصیف میں اتنی شدت کی کہ دو جوتوں میں سے ایک جوتا بھی خیرات کر دیا۔[192]ایک مرتبہ ایک شخص بیٹھا ہوا دس ہزار درہم کے لیے دعا کر رہا تھا، آپ نے سن لیا گھر جاکر اس کے پاس دس ہزار نقد بھیجوا دیے[193]آپ کی اس فیاضی سے دوست ودشمن یکساں فائدہ اٹھاتے تھے ،ایک مرتبہ ایک شخص مدینہ آیا، یہ حضرت علیؓ کا دشمن تھا اس کے پاس زاد راہ اور سواری نہ تھی، اس نے مدینہ والوں سے سوال کیا کسی نے کہا یہاں حسنؓ سے بڑھ کر کوئی فیاض نہیں ان کے پاس جاؤ ؛چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے سواری اور زادراہ دونوں کا انتظام کرا دیا لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ نے ایسے شخص کے ساتھ کیوں سلوک کیا جو آپ اور آپ کے والد بزرگوار دونوں سے بغض رکھتا ہے فرمایا کیا اپنی آبرو نہ بچاؤں۔[194]لیکن آپ کی دولت سے وہی لوگ متمتع ہوتے تھے جو درحقیقت اس کے مستحق ہوتے ایک مرتبہ آپ نے ایک بڑی رقم فقرا اور مساکین کے لیے جمع کی ،حضرت علی نے اس کی تقسیم کا اعلان کر دیا لوگ سمجھے کہ اعلان صلائے عام ہے، اس لیے جوق درجوق جمع ہونے لگے،آدمیوں کی یہ بھیڑ دیکھ کر حضرت حسنؓ نے اعلان کیا کہ یہ رقم صرف فقراء و مساکین کے لیے ہے اس اعلان پر تقریبا آدھے آدمی چھٹ گئے اور سب سے پہلیاشعث بن قیسنے حصہ پایا۔[195][190][196].[197]اس فیاضی کے ساتھ آپ حد درجہ خوش خلق بھی تھے، اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کی حاجت پوری فرماتے تھے،ایک مرتبہ ایک شخص حضرت حسینؓ کے پاس اپنی کوئی ضرورت لے کر گیا، آپ معتکف تھے،اس لیے معذرت کر دی، یہاں سے جواب پاکر وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ، آپ بھی متعکف تھے مگر اعتکاف سے نکل کر اس کی حاجت پوری کر دی ،لوگوں نے کہا حسینؓ نے تو اس شخص سے اعتکاف کا عذر کیا تھا فرمایا خدا کی راہ میں کسی بھائی کی حاجت پوری کر دینا میرے نزدیک ایک مہینہ کے اعتکاف سے بہتر ہے۔[198]ایک دن آپ طواف کر رہے تھے ،اسی حالت میں ایک شخص نے آپ کو اپنی کسی ضرورت کے لیے ساتھ لیجانا چاہا ،آپ طواف چھوڑ کر اس کے ساتھ ہو گئے اور جب اس کی ضرورت پوری کرکے واپس ہوئے تو کسی حاسد نے اعتراض کیا کہ آپ طواف چھوڑ کر اس کے ساتھ چلے گئے؟ فرمایاآنحضرتصل اللہ علیہ وآلہ وسلمکا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جاتا ہے اور اس کی ضرورت پو��ی ہو جاتی ہے تو جانے والے کو ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب ملتا ہے اور اگر نہیں پوری ہوتی تو بھی ایک عمرہ کا ایسی صورت میں کسی طرح نہ جاتا، میں نے طواف کی بجائے پورے ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب حاصل کیا اور پھر واپس ہوکر طواف بھی پورا کیا۔[199].[200]آنحضرتﷺنے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ ""حسنؓ کو میرا علم اور میری صورت ملی ہے،حضرت حسنؓ کی ذات اس ارشاد گرامی کی مجسم تصدیق تھی جو دستبرداری کے حالات میں اوپر گذر چکا ہے کہ نا آشنائے حقیقت آپ کو کن کن نازیبا کلمات سے خطاب کرتے تھے کوئی مذلل المومنین"" کوئی ""مسود وجوہ المومنین ""کوئی ""عارالمومنین"" کہتا لیکن اس پیکر علم کی جبین پر شکن نہ پڑتی اورنہایت نرمی سے جواب دیتا کہ میں ایسا نہیں ہوں، البتہ ملک کی طمع میں مسلمانوں کی خونریزی نہیں پسند کی۔مروان جمعہ کے دن منبر پر چڑھ کر برسر عام حضرت علیؓ پر شب وشتم کرتا تھا،حضرت حسنؓ اس کی گستاخیوں کو اپنے کانوں سے سنتے اور خاموشی کے سوا کوئی جواب نہ دیتے، ایک مرتبہ اس نے ایک شخص کو زبانی نہایت فحش باتیں کہلا بھیجیں،آپ نے سن کر صرف اس قدر جواب دیا کہ اس سے کہہ دینا کہ خدا کی قسم میں تم کو گالی دے کر تم پر سے دشنام دہی کا داغ نہ مٹاؤں گا،ایک دن ہم تم دونوں خدا کے حضور میں حاضر ہوں گے،اگر تم سچے ہو تو خدا تمھیں تمھاری سچائی کا بدلہ دیگا، اوراگر جھوٹے ہو تو وہ بڑا منتقم ہے، ایک مرتبہ حضرت حسنؓ اور مروان میں کچھ گفتگو ہورہی تھی،مروان نے رُودر رُو نہایت درشت کلمات استعمال کیے ؛لیکن آپ سُن کر خاموشی سے پی گئے۔
+اس غیر معمولی ضبط وتحمل سے مروان جیسے شقی اور سنگدل پر بھی اثر تھا؛چنانچہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے جنازہ پر روتا تھا،حضرت حسینؓ نے کہا اب کیوں روتے ہو، تم نے ان کے ساتھ کیا کیا نہ کیا اس نے پہاڑ کی طرف اشارہ کرکے کہا میں نے جو کچھ کیا وہ اس سے زیادہ حلیم وبرد بار کے ساتھ کیا۔[201]آپ کی زبان کبھی کسی تلخ اورفحش کلمہ سے آلودہ نہیں ہوئی ،انتہائی غصہ کی حالت میں بھی وہ ""رغف انفہ"" یعنی تیری ناک خاک آلود ہو ،اس سے زیادہ نہ کہتے تھے جو عربی زبان میں بہت معمولی بات ہے،امیر معاویہؓکا بیان ہے کہ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سب سے زیادہ سخت کلامی کا نمونہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ان میں اورعمرو بن عثمانؓمیں ایک زمین کے بارہ میں جھگڑا ہو گیا، انھوں نے ایک مفاہمت کی صورت پیش کی،مگر عمرو اس پر رضا مند نہ ہوئے، ان کے انکار پر حسنؓ کو غصہ آگیا اور انھوں نے جھلا کر کہا""لیس لہ عندنا الامار غف انفہ""۔.[202][203]یوں تو حضرت حسنین ؓ کی ذات گرامی مجمع الفضائل تھی،لیکنآنحضرتﷺکی غیر معمولی محبت وشفقت آپ کی فضیلت کا نمایاں باب ہے،کتب احادیث وسیر کے ابواب الفضائل ان دونوں کے فضائل سے بھرے ہوئے ہیں، ان میں سے کچھ فضائل نقل کیے جاتے ہیں،؛چنانچہآنحضرتﷺکو دونوں بھائیوں کے ساتھ یکساں محبت تھی،اس لیے بعض امتیازی اور انفرادی فضائل کے علاوہ عموماً اور بیشتر دونوں کے فضائل اس طرح مشترک ہیں کہ ان دونوں کا جدا کرکے لکھنا مشکل ہے،اس لیے دونوں کے فضائل لکھ دیے جاتے ہیں۔آنحضرتﷺکو اپنے تمام اہل بیت میں حضرت حسنینؓ سے بہت زیادہ محبت تھی،حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ اہل بیت میں مجھ کو حسنؓ و حسینؓ سب سے زیادہ محبوب ہیں۔[204]آپ خدا سے بھی اپنے ان محبوبوں کے ساتھ محبت کرنے کی دعا فرماتے تھے، حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قینقاع کے بازار سے لوٹا تو آپ فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے اور پوچھا، بچے کہاں ہیں؟تھوڑی دیر میں دونوں دوڑتے ہوئے آئے اور رسول اللہ ﷺ سے چمٹ گئے آپ نے فرمایا، خدایا میں ان کو محبوب رکھتا ہوں اس لیے تو بھی انھیں محبوب رکھ اور ان کے محبوب رکھنے والے کو بھی محبوب رکھ۔[205]دوسری روایت میں ان کا بیان ہے کہ اس شخص (حسنؓ) کو اس وقت سے میں محبوب رکھتا ہوں، جب سے میں نے ان کو رسول اللہ ﷺ کی گود میں دیکھا، یہ ریش مبارک میں انگلیاں ڈال رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ اپنی زبان ان کے منہ میں دے کر فرماتے تھے کہ خدایا میں ان کو محبوب رکھتا ہوں ،اس لیے تو بھی محبوب رکھ۔[206]عبادت کے موقع پر بھی حسنؓ وحسین کو دیکھ کر ضبط نہ کرسکتے تھے،ابو ہریرہروایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے سامنے خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں حسنؓ و حسینؓ سرخ قمیض پہنے ہوئے خراماں خراماں آتے ہوئے دکھائی دیے انھیں دیکھ کر رسول اللہ ﷺ منبر سے اتر آئے اور دونوں کو اٹھا کر اپنے سامنے بٹھا لیا اور فرمایا خدا نے سچ کہا ہے کہ تمھارا مال اور تمھاری اولاد فتنہ ہیں،ان دونوں بچوں کو خراماں خراماں آتے ہوئے دیکھ کر میں ضبط نہ کرسکا اور خطبہ توڑ کر ان کو اٹھا لیا۔[207]حسنؓ وحسینؓ نماز پڑہنے کی حالت میں آپ کے ساتھ طفلانہ شوخیاں کرتے تھے؛ لیکن آپ نہ انھیں روکتے تھے اورنہ ان کی شوخیوں پر خفا ہوتے تھے؛بلکہ ان کی طفلانہ اداؤں کو پورا کرنے میں امداد دیتے تھے، آنحضرتﷺ نماز پڑہتے وقت رکوع میں جاتے تو حسنؓ و حسینؓ دونوں ٹانگوں کے اندر گھس جاتے آپ ان دونوں کے نکلنے کے لیے ٹانگیں پھیلا کر راستہ بنادیتے[208]آپ سجدہ میں ہوتے تو دونوں جست کرکے پشت مبارک پر بیٹھ جاتے،آپ اس وقت تک سجدہ سے سر نہ اٹھاتے جب تک دونوں خود سے نہ اتر جائے۔[209]دوش مبارک پر سوار کرکے کھلانے کے لیے نکلتے،ایک مرتبہ آپ حسنؓ کو کندھے پر لے کر نکلے ،ایک شخص نے دیکھ کر کہا، میاں صاحبزادے کیا اچھی سواری ہے،آنحضرت ﷺ نے فرمایا، سوار بھی تو کتنا اچھا ہے۔[210]کبھی کبھی دونوں کو چادر میں چھپائے ہوئے باہر تشریف لاتے ،اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ شب کو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک ضرورت سے گیا آپ کوئی چیز چادر میں چھپائے ہوئے تشریف لائے،میں اپنی ضرورت پوری کرچکا تو پوچھا آپ چادر میں کیا چھپائے ہیں؟ آپ نے چادر ہٹادی تو اس میں سے حسؓن وحسینؓ برآمد ہوئے آپ نے فرمایا یہ دونوں میرے بچے اور میری لڑکی کے لڑکے ہیں خدایا میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں۔
+نبوت کی حیثیت کو چھوڑ کر جہاں تک رسول اللہ ﷺ کی بشری حیثیت کا تعلق ہے،حسنؓ و حسینؓ کی ذات گویا ذات محمد ﷺ کا جزو تھی ،یعلیؓ بن مرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں، جو شخص حسینؓ کو دوست رکھتا ہے خدا اس کو دوست رکھتا ہے، حسینؓ اسباط کے ایک سبط ہیں۔
+حسن ؓ وحسینؓ کو آپ اپنے جنت کے گل خندان فرماتے تھے،ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ حسنؓ و حسینؓ میرے جنت کے دو پھول ہیں۔
+حسنؓ وحسینؓنوجوانانِ جنت کے سردار ہیں، حذیفہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مغرب او ر عشا کی نماز پڑھی،عشا کی نماز کے بعدآنحضرتﷺ تشریف لے چلے میں بھی پیچھے ہولیا، میری آواز سن کر آپ نے فرمایا، کون؟حذیفہ! میں نے عرض کیا، جی،فرمایا خدا تمھاری اور تمھاری ماں کی مغفرت کرے، تمھاری کوئی ضرورت ہے،دیکھو ابھی یہ فرشتہ نازل ہوا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہ آیا تھا،اس کو خد�� نے اجازت دی ہے کہ وہ مجھے سلام کہے اور مجھے بشارت دے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا جنت کی عورتوں کی اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔[211]،[212]ان مشترک فضائل کے علاوہ حضرت حسنؓ کے کچھ امتیازی فضائل الگ ہیں، جو انھیں حضرت حسینؓ سے ممتاز کرتے ہیں، ان فضائل میں سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہآنحضرتﷺنے ان کے متعلق پیشن گوئی فرمائی تھی کہ میرا یہ بیٹا سید ہے،خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا،امیر معاویہؓسے صلح کے وقت حضرت حسنؓ نے اس پیشین گوئی کی عملی تصدیق فرمائی ایک موقع پر فرمایا کہ حسنؓ کو میرا علم عطا ہوا ہے۔[213][88]لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+348,کشف المحجوب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D8%B4%D9%81_%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AD%D8%AC%D9%88%D8%A8,"کشف المحجوبسید ابو الحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ حضرتداتا گنج بخشکیروحانیتوتصوفکے موضوع پر لکھی ہوئی شہرہ آفاق تصنیف ہے جو فارسی میں لکھی گئی اب اس کے کئی تراجم دستیاب ہیں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ مسلک صوفیہ میں اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں۔[1]شیخ محمد اکرام مرحوم تاریخ ملی میں ”علی ہجویری لاہوری ” کے تحت عنوان لکھتے ہیںتصوفپیر کرم شاہ الازہریکشف المحجوب(مترجم: فضل الدین گوہر) کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
+یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تصنیف کی قدر و قیمت کا اندازہ اس کے مصنف سے لگایا جاتا ہے۔ جس کتاب کا مصنف اللہ تعالٰی کا برگزیدہ نبدہ، عارف کامل، عالم ربانی حضرت ابو الحسن علی بن عثمان ہجویری الجلابی رحمۃ اللہ علیہ جیسی فقید المثال ہستی ہو، اس کتاب کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ہر زمانہ کے اہل علم اور ارباب طریقت وحقیقت نے اس کتاب کی عظمت اور افادیت کا اعتراف کیا ہے،
+سلطان المشائخ نظام الحق والدینحضرت محبوب الہینے اس کتاب کے بارے میںفوائد الفوادمیں ارشاد فرمایا:
+"" اگر کسی کا پیر نہ ہو تو ایسا شخص جب اس کتاب کا مطالعہ کرے گا تو اس کو پیر کامل، مل جائیگا""
+مفتی غلام سرور لاہوریخزینہ الاصفیامیں لکھتے ہیں:
+""شیخ علی ہجویری کی بہت سی تصانیف ہیں اور ان میں سب سے زیادہ مشہور و معروف کتاب کشف المحجوب ہے۔ اور کسی کی مجال نہیں کہ اس پر کوئی اعتراض کر سکے یا تنقید کر سکے۔ علم تصوف میں یہ پہلی تصنیف ہے جو فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔""
+حضرت مولانا جامی قدس سرہ ""نفحات الانس"" میں لکھتے ہیں:
+""یہ کتاب فن تصوف کی معتبر اور مشہور کتب میں سے ہے۔ آپ نے اس کتاب میں بے شمار لطائف و حقائق کو جمع کر دیا ہے۔""آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے: نفس کو اس کی خواہش سے دور رکھنا حقیقت کے دروازے کی چابی ہے۔"
+349,جنوبی ایشیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%A8%DB%8C_%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7,"جنوبی ایشیابراعظمایشیاکے جنوبی علاقوں کو کہا جاتا ہے جوبرصغیر پاک و ہنداور ان سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ (مغرب سے مشرق کی جانب)مغربی ایشیا،وسط ایشیا،مشرقی ایشیااورجنوب مشرقی ایشیاکے درمیان واقع ہے۔جس کے ایک طرف دنیا کا تیسرا بڑا سمندری حصہبحر ہندہے۔اور دوسری جانب قدرتی طور پر بلند ترین دنیا کی چھت تصور کیا جانے والا پہاڑی سلسلہ ہمالیہ جو نیپال سے لے کر بشمول پاکستان اور وسط ایشیا تک چلا جاتا ہے یہ ایک طویل ترین قدر خلیج بھی ہے۔جو برصغیر اور چائنہ کو الگ کرتی ہے
+جنوبی ایشیا جن ممالک پر مشتمل ہے : ان میںعلاوہ ازیں ثقافتی وجوہات کی بنا پر کبھی کبھارتبت(��وامی جمہوریۂ چین) کو بھی جنوبی ایشیا میں شمار کیا جاتا ہے[6][7]برصغیر کی اصطلاح اس علاقے کے لیے استعمال ہوتی ہے جوہندی پرتپر قائم ہے جس کے شمال میںیوریشین پرتہے۔ جبکہ سیاسی اصطلاح کے طور پر یہ نامبرصغیرکے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس میں ہندی پرت کے باہر کے علاقے بھی شامل کیے جاتے ہیں خصوصاًافغانستانجس کے اپنے پڑوسیپاکستانکے ساتھ سیاسی، سماجی و نسلی (پشتون) طور پر قدیم تعلقات ہیں۔ جبکہ پاکستان میںدریائے سندھکے مغرب میں واقع علاقے تاریخی وجوہات کی بنا پر کبھی کبھاروسط ایشیامیں شمار کیے جاتے ہیں۔ جس کی ایک مثالبلوچستانہے جو ہندی پرت پر قائم نہیں بلکہسطع مرتفع ایرانکے کناروں پر واقع ہے۔چونکہ جنوبی ایشیا تاریخ میں ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے اس لیے یہاں کی ثقافت بھی مختلف قوموں کے ملاپ سے بنی ہے۔ تاہم اکثریتہندو متاوراسلامپر ایمان رکھتی ہے اس لیے جنوب ایشیائی ثقافت پر دونوں مذاہب کی گہری چھاپ ہے۔جنوبی ایشیا دنیا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ تقریباًً 1.6 ارب افراد یہاں رہتے ہیں جو دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ علاقے میں آبادی کی کثافت 305 افراد فی مربع کلومیٹر ہے جو دنیا بھر کی اوسط کثافت سے 7 گنا زیادہ ہے۔اپنی زرخیزی کے باعث یہ علاقہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے لیکن اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ دیگر اقوام کی یہ حکومتیں ہی اس سرزمین کے ماضی کو عظیم بناتی ہیں۔ ماضی کی کئی حکومتوں خصوصاً وسط ایشیا کے مغلوں نے اس خطے کی ثقافت، مذہب اور روایتوں پر بہت اثر ڈالا ہے۔ اور ان کے عظیم دور کی جھلک آج بھی برصغیر کے چپے چپے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کے دور حکومت میں یہ علاقہ دنیا بھر میں ""سونے کی چڑیا"" کے طور پر مشہور ہو گیا۔زمانہ ہائے قدیم میںدریائے سندھ کی تہذیبدنیا کی ترقی یافتہ ترینتہذیبوںمیں سے ایک تھی جو آج سے تقریباًً 5 ہزار سال قبل قائم تھی۔بعد ازاں یورپی نو آبادیاتی دور میں یہ خطہبرطانیہکے قبضے میں آگیا جبکہ چند چھوٹے علاقوں پرپرتگال،ہالینڈاورفرانسکا قبضہ بھی رہا۔ بہرحال1940ءکی دہائی کے اواخر میں خطہ آزاد ہو گیا۔سر زمین جنوبی ایشیا جہاں کئی متضاد ثقافتوں اور تہذیبوں کا گہوارہ ہے وہیں جغرافیائی طور پر بھی گوناگوں خصوصیات کی حامل سر زمین ہے۔ شمال میں حالیہ کی بلند ترین چوٹیوں سے جنوب میں عظیم میدانوں، غیر آباد وسیع صحراؤں اور منطقہ حارہ کے گھنے جنگلات اورناریلکے درختوں سے سجے ساحلوں تک ہر علاقہ اس سرزمین کی رنگا رنگی میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔جغرافیائی و سیاسی طور پر بنگلہ دیش، بھارت، بھوٹان، پاکستان، سری لنکا اور نیپال کو جنوبی ایشیا کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جو آپس میں علاقائی تعاون کی ایک تنظیم ""سارک"" کے بندھن میں بندھے ہیں۔ حال ہی میں افغانستان کو بھی اس تنظیم کا رکن بنایا گیا ہے۔جنوبی ایشیا کے شمال میں ایک عظیم سلسلہکوہ ہمالیہہے جو برف سے ڈھکی ایک عظیم دیوار کی طرح ایستادہ ہے اور اسے براعظم ایشیا کے دیگر علاقوں سے جدا کرتا ہے۔ ہمالیہ نقشے میں ایک کمان کی طرح نظر آتا ہے۔دریائے سندھ،گنگااوربرہم پتراکے عظیم زرخیز میدان اور ڈیلٹائی علاقے ان پہاڑی علاقوں کو جزیرہ نما سے الگ کرتے ہیں۔ وسط میںدکن کی عظیم سطح مرتفعہے جس کے دونوں جانب ساحلوں کے ساتھ ساتھمشرقی گھاٹاورمغربی گھاٹنامی دو پہاڑی سلسلے ہیں۔دوسری جانب بنگلہ دیش کا بیشتر حصہ دریائے برہم پترا اور گنگا کے عظیم ڈیل��ائی علاقے پر واقع ہے۔ گرمائیمون سونمیں موسمی بارشوں اور ہمالیہ سے پگھلنے والے پانی کے باعث ان دریاؤں میں سیلاب آ جاتے ہیں جس کے باعث بنگلہ دیش کئی مرتبہ زبردست سیلابوں کا نشانہ بنا جن میں لاکھوں افراد موت کا نشانہ بنے۔کیونکہ جنوبی ایشیا کی آبادی کی اکثریت کا ذریعہ معاشزراعتہے اس لیے دریاؤں کے زر خیز میدان، پہاڑی وادیاں اور ساحلی علاقے انتہائی گنجان آباد ہیں لیکن اب دیہات سے شہروں کو ہجرت کے رحجان میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی بڑی وجہ شہروں میں روزگار کی فراہمی ہے۔ اس کے باعث شہروں میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں، خصوصاً رہائش کی مطلوبہ سہولیات نہ ہونے کے باعث آبادی کی بڑی تعداد کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہے جہاں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات تک موجود نہیں ہوتیں۔ممبئی،کولکتااورکراچیخطے کے سب سے بڑے شہر ہیں۔جنوبی ایشیا کی 60 فیصد آبادی کا روزگارزراعتسے وابستہ ہے لیکن اس کے باوجود خطے میں صرف اتنی فصل ہی کاشت ہو پاتی ہے جو ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کر سکے بلکہ کئی مرتبہ تو ان ممالک کو بیرون ممالک سے غذائی اجناس درآمد بھی کرنا پڑتی ہیں۔ اس کی اہم وجہ زراعت کے قدیم روایتی طریقوں کا استعمال اور جدید طریقوں تک عدم رسائی ہے۔ بنیادی طور پر اجناس کاشت کی جاتی ہیں جن میں مشرق اور مغرب کے ان علاقوں میںچاولکاشت کیا جاتا ہے جہاں پانی وافر مقدار میں موجود ہے جبکہ سطح مرتفع دکن پرباجرہ، شمالی علاقوں میںگندمکاشت کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیںچائےاورپٹ سناہم نقد فصلیں ہیں۔حالیہ چند سالوں میں بھارت انتہائی تیزی سے صنعتی ترقی کر رہا ہے جس میں خصوصاً کاریں، ہوائی جہاز، کیمیا، غذائی اور مشروبات قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان میں پارچہ بافی، کان کنی، بنکاری اور قالین سازی کی صنعتیں معروف ہیں جبکہ بھارت، مالدیپ، سری لنکا اور پاکستان میں سیاحت بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ چھوٹے پیمانے پر گھریلو صنعتیں بھی مقامی آبادی کی ضروریات پوری کرتی ہیں لیکن ان صنعتوں میں تیار ہونے والی چند اشیا خصوصاً ریشمی و سوتی کپڑے، ملبوسات، چمڑے کی اشیاء اور زیورات بیرون ملک برآمد بھی کیے جاتے ہیں۔جنوبی ایشیاہند-یورپی زبانیںبولی جاتی ہیں جن میں سےاردو،ہندی،بنگلہ،پشتواور فارسی قومی و دفتری زبانیں ہیں۔خطے میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے کئی لہجے ہیں۔"
+351,اہل سنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%86%DB%8C,"اہلسنت و الجماعت(أهل السنة والجماعة)مسلمانوں میں پیدا ہو جانے والے دو بڑے فرقوں میں سے ایک ہے، جسے عرف عام میں سنی مکتب فکر بھی کہا جاتا ہے۔[1]مسلمانوں کی اکثریت اسیفرقےسے تعلق رکھتی ہے۔اہل سنتوہ لوگ ہیں جو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت پر ایمان رکھتے ہیں، تمامصحابہ کرامکو احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب صحابی بالخصوصخلفائے راشدینبرحق ہیں اور ان کا زمانہ ملت اسلامیہ کا بہترین اور درخشاں دور ہے۔ ان کے نزدیکخلافتپر کوئی بھی مومن فائز ہو سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو۔ ان کے نزدیک خلیفہ جمہور کی رائے سے منتخب ہونا چاہیے۔ وہ خدا کی طرف سے مامور نہیں ہوتا، وہ خلافت کے موروثی نظریے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیکابوبکر صدیقصحابہ میں فضیلت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور پھر خلافت کی ترتیب سے حضرتعمر فاروق، حضرتعثمان غنیاور حضرتعلی بن ابی طالب۔خانداناہل بیتکو بھی سنی بڑی احترام و عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سنی عقیدہ کے مطابق سوائے پیغمبروں کے کوئی انسان معصوم نہیں۔ اہل سنت مکتب فکر مذہب میں اعتدال اور میانہ روی پر زور دیتا ہے۔ اہل سنت کے ہاں بالعموم چارفقہشافعی،مالکی،حنفیاورحنبلیرائج ہیں۔مضامین بسلسلہاسلام:توحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل و انبیاءایمان بالیوم الآخرایمانو بالقدرمُحمَّد رسول اللہانبیاء وصالحینخُلفائے راشدین(ابو بکر الصدیق•عُمر بن الخطاب(عُثمان بن عفَّان•علی بن ابی طالب((حسن بن علی•عمر بن عبد العزیز(صحابہامہات المؤمنینائمہ اربعہ(ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس(مُحمَّد بن اِدریس شافعی•احمد بن حنبل(القرآن الكريمسنت نبویہ•اجماع اقوال العلماءقیاس•اجتہادحنفی•مالکیشافعی•حنبلیظاہریہ•اوزاعیہاللیثیہسلفیہ•اشعریہماتریدیہ•صوفیاہل حدیثمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•القدس شریفمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد النبوی•مسجد اقصیٰاسلامی سنی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی سنی فتوحاتمکہ•شام•عراق•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عید الاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہنیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء و معراجوہابیاخوان المسلمون•دعوت سلفیہدیوبندی•بریلویمودودیہ•حزب التحریرتنظیم القاعدہصحیح البخاری•صحیح مسلمسنن النسائی•سُنن ابی داؤدسُنن الترمذی•سنن الدارمیسنن ابن ماجہ•موطأ امام مالکشیعہ سنی تعلقاتکتب اہل سنتاہل سنت میں مہدیباب:اسلامجیسا کہ ابتدائیہ میں مذکور ہوا کہ اہل السنت و الجماعت ہر ان تمام افراد کو کہا جاتا ہے کہ جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوں اور صحابہ کرام کا احترام کرتے ہوں۔ اس نام کی وجہ تسمیہ ان کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ اہل سنت کہنے کی وجہ تو یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو سنت پر چلنے والا مانتے ہیں اور جماعت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جو حق (سچائی) پر جمع ہوئے اور تفرقات میں نہیں پڑے۔آج اکیسویں صدی کی ابتدا پر مسلمانوں میں تفرقہ بازی کی ابتدا ہوئے قریب قریب 1400 سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔۔[2]632ءمیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے شروع ہونے والی مسلمانوں کی تفرقہ بازی کی اس داستان کو اگر پیچیدہ تاریخی و معاشرتی وجوہات و واقعات کی طوالت سے صرف نظر کرتے ہوئے مختصر بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان میںأهل السنة والجماعةیعنی سنی اورالشيعة الامامية الاثنا العشريةیعنی شیعہ تفرقے کی تشکیل کا آغاز نفسیاتی طور پر، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین اور امت کے لیے خلیفہ کا تعین کرنے کے وقت سے ہو چکا تھا۔ اس انتخاب پر جن لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ خود محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی جانشین کی جانب اشارہ نہیں کیا اس لیے جو بھی متقی اور کامل مومن ہو وہ خلیفہ بن سکتا ہے، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک ساتھی اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے والےابو بکرکے حق میں فیصلہ ہوا اور 632ء تا634ءکی مدت کے لیے وہ خلیفہ رہے، اسی عمل پیرا ہونے والوں کی نسبت سے اس گروہ یا تفرقے کو اہل السنۃ یا سنی کہا گیا۔اس وقت کچھ لوگوں کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعدعلی بن ابی طالبکی ولایت کا بار ہا اعلان کیا تھا اور امامت خدا کی طرف سے ��دیعت کی جاتی ہے۔ پھرعمرکا انتخاب بطور خلیفۂ دوم (634ءتا644ء) کر لیا گیا اور علی بن ابی طالب کی حمایت کرنے والے افراد کینفسیاتمیں وہ حمایت اور شدت اختیار کر گئی، اگر تفصیل سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ وہ عرصہ تھا کہ گو ابھی شیعہ و سنی تفرقے بازی کھل کر تو سامنے نہیں آئی تھی لیکن تیسرے خلیفہعثمانکے انتخاب (644ءتا656ء) پر بہرحال ایک جماعت اپنی وضع قطع اختیار کر چکی تھی جس کا خیال تھا کہ چونکہ علی بن ابی طالب، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصلی جانشین تھے لہذا ان کو ناانصافی کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس جماعت سے ہی اس تفرقے نے جنم لیا جسےشيعة علیاور مختصراً شیعہ کہا جاتا ہے۔
+=== خلافت راشدہ کا اختتام ===حئثیح
+کوئیساتویں صدیکے میان سے امت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ایک پرتشدد اور افراتفری کا دور شروع ہوا جس کی شدت و تمازتعثمانکی شہادت پر اپنے عروج پر پہنچی؛ اب خلافت راشدہ کا اختتام قریب قریب تھا کہ جب علی بن ابی طالب خلیفہ کے منصب پر آئے (656ءتا661ء)۔ لوگ فتنۂ مقتلِ عثمان پر نالاں تھے اور علی بن ابی طالب پر شدید دباؤ ان کے قاتلوں کیگرفتاریکے لیے ڈال رہے تھے جس میںناکامیکا ایک خمیازہ امت کو656ءکے اواخر میںجنگ جملکی صورت میں دیکھا نصیب ہوا؛ پھرعائشہکے حامیوں کی شکست کے بعددمشقکے حاکم امیر معاویہ نے علی بن ابی طالب کی بیعت سے انکار اور عثمان کے قصاص کا مطالبہ کر دیا، فیصلے کے لیے میدان جنگ چنا گیا اور657ءمیںجنگ صفینکا واقعہ ہوا جس میں علی بن ابی طالب کو فتح نہیں ہوئی۔ معاویہ کی حاکمیتمصر،حجازاوریمنکے علاقوں پر قائم ہو گئی۔661ءمیںعبد الرحمن بن ملجمکی تلوار سے حملے میں علی بن ابی طالب شہید ہوئے۔ یہاں سے، علی بن ابی طالب کے حامیوں اور ابتدائیییی سنی تاریخدانوں کے مطابق،حسن ابن علیکا عہد شروع ہوا۔"
+353,پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پاکستان (رسمی نام:اسلامی جمہوریۂ پاکستان- انگریزی میں: PAKISTAN)جنوبی ایشیاکے شمال مغربوسطی ایشیااورمغربی ایشیاکے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختاراسلامیملکہے۔ یہ دنیا کاپانچواںسب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کیدوسریسب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کاتینتیسواں(33) بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کےجنوبمیں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جوبحیرہ عربسے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميںبھارت، شمال مشرق ميںچیناور مغرب ميںافغانستاناورايرانواقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگواخان راہداریتاجکستانسے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدودعمانکے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم تریندنیامیں وہ علاقے تھے جن میںموہنجوداڑواورانڈس سولائیزیشنمہر گڑھٹیکسلاپراچین سنسکرت دوراور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسےقندھاراتہذیبو تمدن تھی۔ اس علاقے پرپراچین راجپوتایرانییونانیعرب،بدھ مت،سکھ،مغل،ہن سفیداورترکحملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسےچندر گپت موریا،ہخامنشی سلطنتعربوں کیخلافت امویہ،مغلیہ سلطنت،درانی سلطنت،سکھ سلطنتاوربرطانوی راجکا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعدمحمد علی جناحکی قیادت میںتحریک پاکستانکامیاب ہوئی اور14 اگست1947ءکوہندوستانکے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اورخودمختاراسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین1956ءمیں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.1971ءمیں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملکبنگلہ دیشبن گیا۔پاکستانوفاقیپارلیمانیجمہوری ریاستکے تحت چلتا ہے۔ اس کےپانچ صوبے ہیں اور کچھ علاقے وفاقی حکومتکے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کیفوجدنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسریایٹمی طاقتہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 42https://www.worlddata.info/asia/pakistan/economy.phpویں نمبر پر ہے۔پاکستان کی تاریخفوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سے جھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملکمؤتمر عالم اسلامی،اقوام متحدہ،دولت مشترکہ ممالک،سارک،ترقی پذیر 8،اقتصادی تعاون تنظیمجیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔[7]پاکستان کے لفظی معنیپاک لوگوں کی سر زمینہے، پاک کےاردواورفارسیمیں معنی خالص اور صاف کے ہیں اورستانکا مطلب زمین یا وطن کا ہے-1933ءمیںچودھری رحمت علینے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہاب یا کبھی نہیںشائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔لفظپاکستاناس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔پپنجاب،اخیبر پختونخوا(افغانیہ)،ککشمیر،سسندھ،تانبلوچستان۔711ءمیںامویخلیفہولید بن عبدالملککے دور میںمحمد بن قاسمبرصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوںبرصغیر(موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑیعربریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کادار الحکومتدمشق، زبانعربیاور مذہباسلامتھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پرعربدنیاسے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اورجنوبی ایشیاکی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔سن1947ءسے پہلےبھارت، پاکستان اوربنگلہ دیشبرطانویکالونیاں تھیں اوربرّصغیرکے نام سے جانے جاتے تھے۔ہندوستان کی آزادی(انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران میںہندوستانکےمسلمانوںنے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ ""پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ"" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحتتحریک پاکستانوجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادتمحمد علی جناحنے کی۔14 اگست1947ءکو پاکستان وجود میں آیا۔تقسیمبرصغیر پاک و ہندکے دوران میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اوربھارتکے درمیان میں1948ءاور1965ءمیںکشمیرکے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریابھارتکے زیر انتظامکشمیرسے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو1960ءمیںانڈیاکے ساتھسندھ طاس معاہدہکرنا پڑا، جس کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاؤں،ستلج،بیاساورراویسے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہدریائے سندھ،چناباورجہلمپر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔1947ءسے لے کر1948ءتک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہبھارتنے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ریاست بہاولپورکے نوابصادق محمد خان پنجمنے اس وقت پاکستان کی مالی مدد کی۔پاکستا�� بطور برطانوی ڈامنینئن آزاد ہوا تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور پہلےوزیر اعظملیاقت علی خان تھے۔ پاکستان کی عبوری حکومت ١١ اگست ١٩٤٧ کو تشکیل دی گئی تھی۔ 1948 میں قائد اعظم ٹی بی سے وفات پا گئے۔1951ءمیں پستول کی گولی کا شانہ بنا کر[لیاقت علی خان]] کو شہید کر دیا گیا۔1951ءسے1958ءتک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔1956ءمیں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ1958ءمیں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیمجنرل ایوبکے دور آمریت میں بنائے گئے۔جنرل ایوبکے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکنمشرقی پاکستاندور ہوتا گیا۔1963ءمیں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگرمشرقی پاکستانکے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ایوب خانعوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علاحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انھوں نے حکومت اپنے فوجی پیش روجنرل یحییٰ خانکے حوالے کر دی۔1971ءکے عام انتخابات میںمشرقی پاکستانسے عوامی لیگ کی واضحکامیابیکے باوجود فوجی حکمرانیحییٰ خاننے اقتدار کی منتقلی کی بجائےمشرقی پاکستانمیں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہہندوستاننے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکاردسمبر1971ءمیںسقوط ڈھاکہہو گیا اورمشرقی پاکستانایک علاحدہ ملکبنگلہ دیشکی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔1972ءسے لے کر1977ءتک پاکستان میںپاکستان پیپلز پارٹیکی حکومت تھی۔ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے صدراور بعد ازاںوزیر اعظمرہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں1977ءمیں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔اگلا دور1977ءتا1988ءمارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمرانجنرل ضیا الحقتھے۔افغانستانمیں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں1985ءکے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے1988ءمیںضیاءالحقنے برطرف کر دیا-1988ءمیںصدر مملکتکا طیارہ گر گیا اورضیاءالحقکے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سےجمہوریتکا آغاز ہو گیا۔اس کے بعد1988ءمیں انتخابات ہوئے اوربينظير بھٹوکی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدرغلام اسحاق خاننے حکومت کو برطرف کر دیا۔1990ءمیںنواز شریفکی قیادت میںآئی جے آئیاور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔1993ءمیں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔اگلے انتخابات1993ءمیں ہوئے اور ان میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس وقت پاکستان کے صدرفاروق احمد خان لغاریتھے۔ صدر فاروق احمد خان لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔1997ءمیں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میںمسلم لیگ ناور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1999ءمیں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکتپرويز مشرفبنے اور2001ءمیں ہونے والے انتخابات کے بعدوزیر اعظمظفر اللہ خان جمالیبنے۔2004ءمیں جنرل مشرف نےشوکت عزیزکووزیر اعظمبنانے کا فيصلہ کیا۔ مختصر عرصہ کے لیےچوہدرى شجاعت حسيننےوزیراعظمکی ذمہ داریاں سر انجام دیں اورشوکت عزیزکےقومی اسمبلیکے ارکان منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔شوکت عزیزقومی اسمبلیکی مدت15 نومبر2007ءکو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16نومبر2007ءکو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔فروری2008ءمیں الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نےیوسف رضا گیلانیکو وزیر اعظم نامزد کیا، جنھوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔22 جون2012ءکویوسف رضا گیلانیکی نااہلی کے بعدراجہ پرویز اشرفنئے وزیر اعظم بنے۔مئی2013ءمیں عام انتحابات ہوئے جس میںپاکستان مسلم لیگ نایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کے تیسرے بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک اور وزیر اعظمنوازشریفکوپانامالیکسفیصلے میں تا حیات نا اہل قرار دے کر برطرف کر دیا اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کےشاہد خاقان عباسینئے وزیر اعظم بن گئے۔ 17 اگست 2018ء کوعمران خان176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔پاکستان کا اعلیٰ اساسی قانونآئین پاکستانکہلاتا ہے۔ آئین، پاکستان کا وہ اعلیٰقانونہے جو ریاست پاکستان کے اندر تمام اہم چیزوں اور فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔ ملک میں چار مرتبہمارشل لالگا جس سے دو مرتبہ آئین معطل ہوا، ایک مرتبہ1956ءکا آئین اور دوسری مرتبہ1962ءکا آئین۔1972ءمیںمشرقی پاکستانمیں مخالفین نے سازشیں کی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھ گئی جس کی نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اورمشرقی پاکستانبنگلہ دیش کے نام ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ اس وقت غور کیا گیا تو ملک ٹوٹنے کی بہت سے وجوہات تھیں۔ اسی بنا پر1973ءکا آئین بنایا گیا۔آئین بنانے کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور آئین میں ہر شعبے اور اہم امور کے لیے اصول بنے، آئین میں ریاست کی تمام بڑے فیصلوں کے لیے قوانین بنائے گئے، حکومت اور ریاست کا پورا تشکیل بیان کیا گیا۔ مسودہ تیار ہونے کے بعد اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔پاکستانی سیاست کی بنیاد کوآئین پاکستاننے قائم کیا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان ایکجمہوریاورقومی ریاستہے۔ آئین پاکستان نے ایک وفاق اور اس کے ماتحت صوبائی حکومتیں قائم کی ہیں۔ آئین کا پہلا آرٹیکل بیان کرتا ہے کہ ""مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریت ہوگا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا""۔پاکستان کی مختلف علاقہ جات کے متعلق آئین پاکستان کا دوسرا آرٹیکل بیان کرتا ہے:پاکستان کے علاقے مندرجہ ذیل پر مشتمل ہوں گے:آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کوئی واضح حیثیت تو بیان نہیں کی گئی لیکن2009ءمیںقومی اسمبلیسے ایک اور بل منظور ہوا جس نے واضح طور پر گلگت بلتستان کو نیم-صوبے کا درجہ دیا اور یہاں باقاعدہ صوبائی حکومت کو قائم کیا گیا، جس کے تمام بنیادی شاخ (اسمبلی، عدلیہ، وزارتیں، وغیرہ) قائم کیے گئے۔[9]آئین نے مزید ملک میں دو قانون ساز ایوان قائم کیے ایکقومی اسمبلیاور دوسراسینٹ۔ قومی اسمبلی کی بنیاد آبادی کے لحاظ سے ہے یعنی جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں زیادہ نشستیں رکھی جائے گی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو براہ راست عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں۔ جب��ہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کے نشستیں دیے گئے ہیں چاہے صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سینٹ کے ارکان کو سینیٹر کہا جاتا ہے اور ان سینیٹرز کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے ووٹ سے منتخب کر سکتے ہیں۔کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کا سلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور، دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے، ایک نقطہ ذہن نشین کر لیں کہخارجہ پالیسیمیں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سےانڈونیشیاکے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایکایٹمی طاقتہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاص ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔پاکستان کی دفاع کا ذمہ ملک کے مسلح افواج پر ہے جس کی بنیادی طور پر تین شاخیں ہیں:1947ءمیںقیام پاکستانسے پہلے پاک عسکریہ، ہندوستانی فوج کا حصہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کےتاج برطانیہکے زیر اثرپہلی جنگ عظیماوردوسری جنگ عظیممیں بھی حصہ لیا ہے۔ تقسیمبرصغیرکے بعد ہندوستانی فوج پاکستان اوربھارتمیں بالترتیب 36% اور 64% کے تناسب میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت اعلان ہوا کہ کوئی بھی فوجی جس بھی فوج میں جانا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔ اس وقت بہت سے مسلمان فوجی، پاک عسکریہ میں شامل ہو گئے۔ تقسیم کے وقت بھارت میں 16 آرڈیننس فیکٹریاں تھیں جبکہ پاکستان میں ایک بھی نہیں تھی۔ اب پاکستان کافی حد تک دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہو گیا ہے۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔ فوج اداروں میںپاک فوج،پاک فضائیہاورپاک بحریہشامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میںفرنٹیئر کانسٹبلری،سرحد کور،پاکستان رینجرزشامل ہیں۔ پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنیپنجاباورسندھمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس لیے اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنیپنجاب رینجرزاورسندھ رینجرز۔ اسی طرحسرحد کوراورفرنٹیئر کانسٹبلریکو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہخیبر پختونخوااوربلوچستانمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی ادارے کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائی گئی ہیں جن میںخیبر پختونخواپولیس،پنجابپولیس،سندھپولیس،بلوچستانپولیس،آزاد کشمیرپولیس اورگلگت بلتستانپولیس شامل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے، اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سر انجام دینا ہے اسی طرحموٹروےپولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔تحقیقات کے لیے وفاقی ادارۂ تحقیقات (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی مخابراتی ادارے (جیسےآئی ایس آئی، وغیرہ) موجود ہیں۔پاکستان ميں 5 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نےگلگت بلتستانکو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔
+صوبہ جات کی تقسیمیکم جولائی1970ءکو کی گئی۔صوبہ بلوچستانکا کل رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2011ءمیں آبادی 79 لاکھ 14 ہزار تھی۔صوبہ پنجابکا کل رقبہ 205,344 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2013ءمیں آبادی 10 کروڑ 10لاکھ تھی۔صوبہ خیبر پختونخواکا کل رقبہ 74,521 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ تھی۔صوبہ سندھکا کل رقبہ 140,914 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 4 کروڑ 24 لاکھ تھی۔گلگت بلتستان(سابق شمالی علاقہ جات) کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2008ء میں آبادی 18 لاکھ تھی۔جغرافیائی طور پر پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ پاکستان کاجغرافیہاور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیںجانوراورپرندےایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 796,095 مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقےپہاڑیہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریادریائے سندھہے۔ یہدریاپاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گذر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکنبلوچستانکاسبیعلاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اورشمالی علاقہ جاتمیں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادیزراعتکے شعبے سے منسلک ہے۔پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے، زمینی سرحد میں سے 2,430 کلومیٹر سرحدافغانستانکے ساتھ، 523 کلومیٹرچینکے ساتھ، 2,912بھارتکے ساتھ اور 909ایرانکے ساتھ لگا ہوا ہے۔پاکستان دنيا کا ايک ترقی پزیر ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات ميں فوج كى مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کوتعلیمسے محروم رکھنے کینفسیاتیاور خود غرضانہفطرت(تاکہبیگاراورسستے پڑاؤ (Labor Camp)قائم رکھے جاسکیں)، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيلیے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلےپاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعتپر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا[حوالہ درکار]۔ اِس وقت پاکستان کیمعيشتمستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے[حوالہ درکار]۔کراچی سٹاک ایکسچینجکےکے ايس سی انڈکسگزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے[حوالہ درکار]۔پاکستانآبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصداہل تشیع، 77 فيصداہل سنتاور تقریباً 3 فيصد ديگرفقہسے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ایک فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانیمسیحیمذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب وسرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔پاکستان کیقومی زباناردوہے، جبکہ زيادہ تر دفتری کامانگريزیميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اردو پاکستان کی عوامی و قومیزبانہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئی اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميںپنجابی،سرائیکی،سندھی،گجراتی،بلوچی،براہوی، پہاڑی،پشتواورہندکوزبانیں قابلِ ذکر ہيں۔پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پٹھان، بلوچی اورمہاجر قومہيں، ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مابین فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميںدراوڑ،آريا،ہن،ايرانی،يونانی،عرب،ترکاورمنگوللوگوں کی رياستوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھموسماورآب و ہواکا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايکاسلامی تہذيبکا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسيقی ملتی ہے۔کلاسيکی موسيقی،نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک، ان سب کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميںقوالیکا مرکز سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے جا رہے ہيں۔ يہ امرا اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جگہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکاؤاسلاماور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔پاکستانيوں کی بڑی تعدادامريکہ،برطانيہ،آسٹريليا،کینیڈااورمشرق وسطیميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہتسرمايہ کاریبھی کی ہے۔پاکستان کا سب سے پسنديدہکھيلکرکٹ ہے۔ پاکستان کیکرکٹٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميںہاکیبھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کےشمالی علاقہ جاتكے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدائش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھیلی جاتی ہے۔پاکستان میں سب سے عام لباسشلوار قمیضہے جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوںبلوچستان،پنجاب،سندھاورخیبر پختونخواسمیتقبائلی علاقہ جات،گلگت بلتستاناورآزاد کشمیرمیں پہنا جاتا ہے۔ تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمالاسکول،کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ اور ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔شیروانیکا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔پاکستانی خواتین میں بھی شلوار قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔پاکستان میں بہت سے ذرائع ابلاغ موجود ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔اس سے پہلےپی ٹی ویملک کا واحد چینل نیٹ ورک ہوتا تھا اور حکومت پاکستان اس نیٹ ورک کو چلا رہی تھی۔2002ءکے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 50 سے بھی زیادہ صرف نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نیوز، انٹرٹینمنٹ، ہیلتھ، ایجوکیشن، علاقائی اور بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتے ہیں تاہم ملک کے علاقائی زبانوں (پشتو،پنجابی،سندھی،بلوچی،کشمیری،سرائیکیوغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔پی ٹی وی ورلڈپاکستان کا پہلاانگریزیچینل ہے۔اردو فلم انڈسٹریلالی وڈکی صدر مقاماتلاہور،کراچیاورپشاورمیں واقع ہے۔ لالی وڈ نے اب تک بہت سے فلمیں ریلیز کی ہیں اور کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے عام اردو ڈراما سیریلز ہیں جو مختلف چینلز پر چلائے جاتے ہیں۔پاکستان کے فن تعمیرات ان مختلف عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مختلف ادوار میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔وادئ سندھ کی تہذیبکے شروع ہونے کے ساتھ ہی جو 3500قبل مسیحتھا، موجودہ پاکستان کے علاقے میں شہری ثقافت کا ارتقا ہوا جس میں بڑی عمارتیں تھیں جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے بعدگندھاراطرز کا بدھ طرز تعمیر آیا جس میں قدیمیونانکے اجزاء بھی شامل تہے۔ اس کے بقایا جاتگندھاراکے صدر مقامٹیکسلامیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان میں مغل اور انگریزی طرز تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں۔آزادی کے بعد کا فن تعمیر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی نئیحاصلکی گئی آزادی اور شناخت کو فن تعمیر کے ذریعے سے ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان خود کو جدید عمارتوں میں ظاہر کرتا ہے مثلاًفیصل مسجدجو وفاقی دار الحکومتاسلام آبادمیں واقع ہے اس مسجد کو1960ءمیں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں جیسےمینارپاکستان، سفید ماربل سے بنا مزار قائد اعظم۔ یہ عمارتیں نئی ریاست کی خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ملکی دار الخلافہ اسلام آباد میں موجود قومی یادگار تہذیب، آزادی اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔پاکستان میں اس وقت چھ (6) جگہیں ایسی ہیں جنہیں عالمی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال2012ءمیں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت1970ءکے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی ج�� یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس،پشاور،کراچی،لاہور،سواتاورراولپنڈیتھیں۔ اس ملک کی حامل کشش جگہوں میں موہنجو داڑو،ٹیکسلااورہڑپہجیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لے کرکوہ ہمالیہکے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کےشمالی علاقہ جاتمیں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اورچترالکی وادیاں جو ایک چھوٹی سی غیر مسلم سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کوسکندر اعظمکی اولاد سے بتاتے ہیں۔پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقاملاہورمیں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسےبادشاہی مسجد، شالیمار باغ،مقبرہ جہانگیراورقلعہ لاہورشامل ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ (5) لاکھ سیاح آتے تھے۔ تاہم سال2008ءسے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورت حال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔اکتوبر2006ءمیںکشمیرکے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی کی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقاماتٹیکسلا،لاہور،شاہراہ قراقرم، کریم آباد اورجھیل سیف الملوکتہے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سےوادئ سندھ کی تہذیبکے موہنجو داڑو اورہڑپہجیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔پاکستانی کھانے جنوبی ایشیا کے مختلف علاقائی کھانوں کا حسین امتزاج ہیں۔ پاکستانی کھانوں میں شمالی ھندوستانی،وسط ایشیائیاور مشرق وسطیٰ کے کھانے شامل ہیں لیکن یہاں کے کھانوں میں گوشت کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میںاشیائے خور و نوش کے نامبہت آسان ہیں۔پاکستان میں ایک علاقے کے کھانے دوسرے علاقے کے کھانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں جس سے اس ملک کی ثقافتی اور لسانی تنوع جھلکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کھانے مصالحے دار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیا کے کھانوں کی خاصیت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے کھانے مثلاً خیبر پختونخوا، بلوچستان، قبائیلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور کشمیر کے کھانے بھی اپنی اپنی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بھی مختلف علاقائی رنگ غالب ہوتے ہیں۔پاکستان میں کھیلے جانے والے بیشتر کھیلوں کا آغازبرطانیہمیں ہوا اور برطانویوں نے انھیںہندوستانمیں متعارف کرایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس نے 1960ء، 1968ء اور 1984ء میں کھیلے گئے اولمپک کھیلوں میں تین سونے کے طمغے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ بھی چار بار جیتا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ 1971ء، 1978ء، 1982ء اور 1994ء میں جیتا ہے۔ تاہم، کرکٹ پاکستان کا سب سے زیادہ مشہور کھیل ہے۔ پاکستان کرکٹ کے ٹیم، جنہیں شاہین کہا جاتا ہے، نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ 1999ءمیں شاھین دوسرے نمبر پر رہے۔ اور 1987ء اور 1996ء میں عالمی کپ کے مقابلے جزوی طور پر پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان ٹی 20 قسم کے کھیل کے پہلے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے جو سال 2007ء میںجنوبی افریقامیں کھیلا گیا تھا۔ اور سال 2009ء میں اسی قسم کے کھیل میں پہلے نمبر پر رہے اور عالمی کپ جیتا جوبرطانیہمیں کھیلا گیا تھا۔ سال 2009ء کے مارچ کے مہینے میں دہشت گردوں نےسری لنکاکے کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا جو پاکستان کے دورے پرلاہورمیں موجود تھی اور اسی کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ تاہم چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد مئی 2015ء میں عالمی کرکٹ پاکستان میں اس وقت بحال ہوئی جب زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ تمام مقابلے سخت حفاظتی حصار میںلاہورمیں ہوئے اور تمام مقابلوں کے لیے ٹکٹ سارے بک چکے تھے اور کرسیاں ساری بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس نے دوسری ٹیموں کے آنے کے لیے بھی راہ ہموار کر لی۔
+ورزشی کھیلوں میں عبد الخالق نے سال 1954ء اور سال 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس نے 35 سونے کے طمغے اور 15 عالمیچاندیاور پیتل کے طمغے پاکستان کے لیے حاصل کیے۔اسکواشمیں پاکستان کے شہرپشاورسے تعلق رکھنے والے کھلاڑیجہانگیر خانہیں جن کو عالمی معیار کا کھلاڑی اور کھیلوں کی تاریخ میں عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے اور ساتھ ہی جانشیر خان ہیں جنھوں نے عالمیاسکواشکے مقابلوں میں کئی بار پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج درمیانے سے لے کر اعلیٰ طبقے کے ليے مخصوص ہے۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں اپنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی حالت ابتر ہے۔ریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔چاند اور ستارہ جو روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
+چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔
+شیلڈ کے اردگرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔
+علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔پاکستان کی زیادہ تر آبادی ملک کی وسطی علاقوں میں ہے، ملک کے جنوب میں زیادہ آباد مقامات اکثردریائے سندھکے آس پاس پر واقع ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی والا علاقہکراچیہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔پاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کامانگریزیزبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہاردوپاکستان کی قومی زبان ہے۔پاکستان کی صوبائی زبانوں میںپنجابیصوبہ پنجاب،پشتوصوبہ خیبر پختونخوا،سندھیصوبہ سندھ،بلوچیصوبہ بلوچستاناورشیناصوبہ گلگت بلتستانمیں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔[13]پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں،آیر،سرائیکی زبان،بدیشی،باگڑی،بلتی،بٹیری،بھایا،براہوی،بروشسکی،چلیسو،دامیڑی،دیہواری،دھاتکی،ڈوماکی،فارسی،دری،گواربتی،گھیرا،گوریا،گوورو،گجراتی،گوجری،گرگلا،ہزاراگی،ہندکو،جدگلی،جنداوڑا،کبوترا،کچھی،کالامی،کالاشہ،کلکوٹی،کامویری،کشمیری،کاٹی،کھیترانی،کھوار،انڈس کوہستانی،کولی(تین لہجے)،لہندالاسی،لوارکی،مارواڑی،میمنی،اوڈ،اورمڑی،پوٹھواری،پھالولہ،سانسی،ساوی،شینا(دو لہجے)،توروالی،اوشوجو،واگھری،وخی،وانیسیاوریدغہشامل ہیں۔[14]ان زبانوں میں بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں- ي سرا سنکے عمران خان سب سے اچھا ہے2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+354,داتا دربار,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%AA%D8%A7_%D8%AF%D8%B1%D8%A8%D8%A7%D8%B1,داتا دربارلاہور،پاکستانکا بہت مشہور دربار یا مزار ہے جو تقریباً ایک ہزار سال سے موجود ہے۔ یہ سید علی بن عثمان الجلابی الھجویری الغزنوی (سید علی ہجویریالمعروفداتا گنج بخش) کا مزار ہے۔ اس مزار کولاہورکی ایک پہچان سمجھا جاتا ہے۔جامعہ ہجویریہجو ایک مسجد و مدرسہ ہے، اسی مزار کے ساتھ منسلک ہے۔ جتنی بڑی تعداد میں نمازی اس مسجد میں باقاعدہ نماز ادا کرتے ہیں، پوری دنیا کی (حرمین شریفین کے بعد) مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد کے حوالے سے اول فہرست میں رکھا جا سکتا ہے۔داتا دربار مسجدابو الحسن علی ابن عثمان امام جلابی هجویری غزنوی یا ابو القاسم حسن علی هجویری (عربی : علی بن عثمان الجلابی الهجویری الغزنوی) (کبھی کبھی هجویری ہجے)، داتا گنج بخش(فارسی / اردو : داتا گنج بخش) یا داتا صاحب کے نام سے بھی مشہور ہیں، گیارہویں صدی کے دوران میں ایک فارسی صوفی اور عالم تھے۔ انھوں نے کافی حد تک اسلام کے جنوبی ایشیا میں پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ غزنوی عہد (990ء) کے ابتدائی ایام میںغزنی(افغانستان) میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کی سب سے مشہور کتابکشف المحجوبہے۔ آپ نے حصول علم کی لیے بہت سے ممالک کا سفر کیا۔ آپ اپنی عمر کی آخری حصے میں لاہور تشریف لائے اور اسلام کی اشاعت کا کام کیا۔ آپ کے ہاتھوں بیشمار لوگ مسلمان ہوئے۔ آپ نے1077ءمیں لاہور (پنجاب، پاکستان) میں ہی وفات پائی۔آپ کا مزار لاہور میں آج بھی زائرین کے لیے انوار و تجلیات کا مرکز ہے اور بہت سے لوگ آپ کے وسیلہ سے اللہ کا قرب اور اللہ سے اپنی مشکلات کا حل پاتے ہیں۔فہرست مزارات و مقابر، پاکستانسانچہ:لاہور میٹرو
+355,جنوبی ایشیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%A8%DB%8C_%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7,"جنوبی ایشیابراعظمایشیاکے جنوبی علاقوں کو کہا جاتا ہے جوبرصغیر پاک و ہنداور ان سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ (مغرب سے مشرق کی جانب)مغربی ایشیا،وسط ایشیا،مشرقی ایشیااورجنوب مشرقی ایشیاکے درمیان واقع ہے۔جس کے ایک طرف دنیا ��ا تیسرا بڑا سمندری حصہبحر ہندہے۔اور دوسری جانب قدرتی طور پر بلند ترین دنیا کی چھت تصور کیا جانے والا پہاڑی سلسلہ ہمالیہ جو نیپال سے لے کر بشمول پاکستان اور وسط ایشیا تک چلا جاتا ہے یہ ایک طویل ترین قدر خلیج بھی ہے۔جو برصغیر اور چائنہ کو الگ کرتی ہے
+جنوبی ایشیا جن ممالک پر مشتمل ہے : ان میںعلاوہ ازیں ثقافتی وجوہات کی بنا پر کبھی کبھارتبت(عوامی جمہوریۂ چین) کو بھی جنوبی ایشیا میں شمار کیا جاتا ہے[6][7]برصغیر کی اصطلاح اس علاقے کے لیے استعمال ہوتی ہے جوہندی پرتپر قائم ہے جس کے شمال میںیوریشین پرتہے۔ جبکہ سیاسی اصطلاح کے طور پر یہ نامبرصغیرکے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس میں ہندی پرت کے باہر کے علاقے بھی شامل کیے جاتے ہیں خصوصاًافغانستانجس کے اپنے پڑوسیپاکستانکے ساتھ سیاسی، سماجی و نسلی (پشتون) طور پر قدیم تعلقات ہیں۔ جبکہ پاکستان میںدریائے سندھکے مغرب میں واقع علاقے تاریخی وجوہات کی بنا پر کبھی کبھاروسط ایشیامیں شمار کیے جاتے ہیں۔ جس کی ایک مثالبلوچستانہے جو ہندی پرت پر قائم نہیں بلکہسطع مرتفع ایرانکے کناروں پر واقع ہے۔چونکہ جنوبی ایشیا تاریخ میں ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے اس لیے یہاں کی ثقافت بھی مختلف قوموں کے ملاپ سے بنی ہے۔ تاہم اکثریتہندو متاوراسلامپر ایمان رکھتی ہے اس لیے جنوب ایشیائی ثقافت پر دونوں مذاہب کی گہری چھاپ ہے۔جنوبی ایشیا دنیا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ تقریباًً 1.6 ارب افراد یہاں رہتے ہیں جو دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ علاقے میں آبادی کی کثافت 305 افراد فی مربع کلومیٹر ہے جو دنیا بھر کی اوسط کثافت سے 7 گنا زیادہ ہے۔اپنی زرخیزی کے باعث یہ علاقہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے لیکن اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ دیگر اقوام کی یہ حکومتیں ہی اس سرزمین کے ماضی کو عظیم بناتی ہیں۔ ماضی کی کئی حکومتوں خصوصاً وسط ایشیا کے مغلوں نے اس خطے کی ثقافت، مذہب اور روایتوں پر بہت اثر ڈالا ہے۔ اور ان کے عظیم دور کی جھلک آج بھی برصغیر کے چپے چپے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کے دور حکومت میں یہ علاقہ دنیا بھر میں ""سونے کی چڑیا"" کے طور پر مشہور ہو گیا۔زمانہ ہائے قدیم میںدریائے سندھ کی تہذیبدنیا کی ترقی یافتہ ترینتہذیبوںمیں سے ایک تھی جو آج سے تقریباًً 5 ہزار سال قبل قائم تھی۔بعد ازاں یورپی نو آبادیاتی دور میں یہ خطہبرطانیہکے قبضے میں آگیا جبکہ چند چھوٹے علاقوں پرپرتگال،ہالینڈاورفرانسکا قبضہ بھی رہا۔ بہرحال1940ءکی دہائی کے اواخر میں خطہ آزاد ہو گیا۔سر زمین جنوبی ایشیا جہاں کئی متضاد ثقافتوں اور تہذیبوں کا گہوارہ ہے وہیں جغرافیائی طور پر بھی گوناگوں خصوصیات کی حامل سر زمین ہے۔ شمال میں حالیہ کی بلند ترین چوٹیوں سے جنوب میں عظیم میدانوں، غیر آباد وسیع صحراؤں اور منطقہ حارہ کے گھنے جنگلات اورناریلکے درختوں سے سجے ساحلوں تک ہر علاقہ اس سرزمین کی رنگا رنگی میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔جغرافیائی و سیاسی طور پر بنگلہ دیش، بھارت، بھوٹان، پاکستان، سری لنکا اور نیپال کو جنوبی ایشیا کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جو آپس میں علاقائی تعاون کی ایک تنظیم ""سارک"" کے بندھن میں بندھے ہیں۔ حال ہی میں افغانستان کو بھی اس تنظیم کا رکن بنایا گیا ہے۔جنوبی ایشیا کے شمال میں ایک عظیم سلسلہکوہ ہمالیہہے جو برف سے ڈھکی ایک عظیم دیوار کی طرح ایستادہ ہے اور اسے براعظم ایشیا کے دیگر علاقوں سے جدا کرتا ہے۔ ہمالیہ نقشے میں ایک کمان کی طرح نظر آتا ہے۔دریائے سندھ،گنگااوربرہم پتراکے عظیم زرخیز میدان اور ڈیلٹائی علاقے ان پہاڑی علاقوں کو جزیرہ نما سے الگ کرتے ہیں۔ وسط میںدکن کی عظیم سطح مرتفعہے جس کے دونوں جانب ساحلوں کے ساتھ ساتھمشرقی گھاٹاورمغربی گھاٹنامی دو پہاڑی سلسلے ہیں۔دوسری جانب بنگلہ دیش کا بیشتر حصہ دریائے برہم پترا اور گنگا کے عظیم ڈیلٹائی علاقے پر واقع ہے۔ گرمائیمون سونمیں موسمی بارشوں اور ہمالیہ سے پگھلنے والے پانی کے باعث ان دریاؤں میں سیلاب آ جاتے ہیں جس کے باعث بنگلہ دیش کئی مرتبہ زبردست سیلابوں کا نشانہ بنا جن میں لاکھوں افراد موت کا نشانہ بنے۔کیونکہ جنوبی ایشیا کی آبادی کی اکثریت کا ذریعہ معاشزراعتہے اس لیے دریاؤں کے زر خیز میدان، پہاڑی وادیاں اور ساحلی علاقے انتہائی گنجان آباد ہیں لیکن اب دیہات سے شہروں کو ہجرت کے رحجان میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی بڑی وجہ شہروں میں روزگار کی فراہمی ہے۔ اس کے باعث شہروں میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں، خصوصاً رہائش کی مطلوبہ سہولیات نہ ہونے کے باعث آبادی کی بڑی تعداد کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہے جہاں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات تک موجود نہیں ہوتیں۔ممبئی،کولکتااورکراچیخطے کے سب سے بڑے شہر ہیں۔جنوبی ایشیا کی 60 فیصد آبادی کا روزگارزراعتسے وابستہ ہے لیکن اس کے باوجود خطے میں صرف اتنی فصل ہی کاشت ہو پاتی ہے جو ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کر سکے بلکہ کئی مرتبہ تو ان ممالک کو بیرون ممالک سے غذائی اجناس درآمد بھی کرنا پڑتی ہیں۔ اس کی اہم وجہ زراعت کے قدیم روایتی طریقوں کا استعمال اور جدید طریقوں تک عدم رسائی ہے۔ بنیادی طور پر اجناس کاشت کی جاتی ہیں جن میں مشرق اور مغرب کے ان علاقوں میںچاولکاشت کیا جاتا ہے جہاں پانی وافر مقدار میں موجود ہے جبکہ سطح مرتفع دکن پرباجرہ، شمالی علاقوں میںگندمکاشت کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیںچائےاورپٹ سناہم نقد فصلیں ہیں۔حالیہ چند سالوں میں بھارت انتہائی تیزی سے صنعتی ترقی کر رہا ہے جس میں خصوصاً کاریں، ہوائی جہاز، کیمیا، غذائی اور مشروبات قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان میں پارچہ بافی، کان کنی، بنکاری اور قالین سازی کی صنعتیں معروف ہیں جبکہ بھارت، مالدیپ، سری لنکا اور پاکستان میں سیاحت بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ چھوٹے پیمانے پر گھریلو صنعتیں بھی مقامی آبادی کی ضروریات پوری کرتی ہیں لیکن ان صنعتوں میں تیار ہونے والی چند اشیا خصوصاً ریشمی و سوتی کپڑے، ملبوسات، چمڑے کی اشیاء اور زیورات بیرون ملک برآمد بھی کیے جاتے ہیں۔جنوبی ایشیاہند-یورپی زبانیںبولی جاتی ہیں جن میں سےاردو،ہندی،بنگلہ،پشتواور فارسی قومی و دفتری زبانیں ہیں۔خطے میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے کئی لہجے ہیں۔"
+356,حکومت پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,باب سیاستحکومت پاکستان(انگریزی: Government of Pakistan) وفاقی پارلیمانی نظام ہے۔[1]جس میںصدر پاکستانکا انتخاب عوام کی بجائے منتخب پارلیمان کرتا ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستانکا سربراہ صدر مملکت ہے جو پاکستان کی افواج کاکمانڈر انچیفبھی ہوتا ہے۔وزیر اعظمجو انتظامی امور کاسربراہہوتا ہے، پارلیمانی اکثریت سے منتخب کیا جاتا ہے۔صدر پاکستاناور وزیر اعظم کا انتخاب اور تعیناتی بالکل جدا پہلو رکھتے ہیں اور ان کے دورحکومتکا آئینی طور پر آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔6ستمبر2008ءکو پاکستان کے الیکٹورل کالج جوایوان بالا(سینٹ)،ایوان زیریں(نیشنل اسمبلی) چاروں صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ عام طور پر وزیر اعظم ایوان زیریں کی اکثریتی جماعت سے تعلق رکھتا ہے اور ملک کا انتظام کابینہ کی مدد سے چلاتا ہے جو مجلس شوریٰ کے دونوں ایوانوں بالا اور زیریں سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی ارکان اور صوبائی اسمبلی کی ارکان عوام ووٹوں کی ذریعے منتخب کرتے ہیں۔ وزیر اعظم اور صدر اس پارٹی کے منتخب ہوتے ہیں جن کے سب سے زیادہ ارکان یا امیدواران ووٹجیتچکے ہوں اور باقی پارٹیوں کے نسبت زیادہ نشستیں حاصل کی ہوں۔اسپیکربھی اکثریتی پارٹی کا منتخب ہوتا ہے، تاہماپوزیشنپارٹیوں کو بھی بڑے عہدے دیے جا سکتے ہیں۔ ایک آزاد اور جمہوری پارلیمانی نظام میں اسپیکر ایک آزاد امیدوار بھی ہو سکتا ہے اور اپوزیشن سے بھی منتخب کیا جا سکتا ہے۔ ایک آزاد امیدوار وہ ہوتا ہے جس نے کسی پارٹی کی ٹکٹ پر (نشست پر) الیکشن نہ لڑا ہو۔پارلیمانی نظام میں دو جماعتیں اہمیت کی حامل ہوتی ہے ایک وہ جماعت جو تمام جماعتوں سے زیادہنشستیںحاصل کرلے اس کو اکثریتی یا حکومتی جماعت کہا جاتا ہے اور دوسری وہ جماعت جو دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ نشتیں حاصل کرے اسےاپوزیشنپارٹی کہا جاتا ہے مثلاً پاکستان میں 2018ء کے انتخابات میںپاکستان تحریک انصافکی سب سے زیادہ نشستیں تھیں تو اس نے حکومت بنا لی اور دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ ن تھی جو اپوزیشن میں کھڑی ہوئی۔آئین پاکستانوفاق اور صوبائی حکومت کی تشکیل کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل90 سے 100 تک وفاقی حکومت کی ساخت جبکہ 129 سے لے کر 140 تک کے آرٹیکلز صوبائی حکومتوں کی ساخت بیان کرتے ہیں۔آرٹیکل 90 کے مطابق:اسی طرح صوبائی حکومتوں کے بارے میں آرٹیکل 129 بیان کرتا ہے:
+357,عرس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%B1%D8%B3,عرسایکصوفیبزرگ کی برسی ہے، جو عام طور پرولیکی درگاہ (مزاریا مقبرہ) پر منعقد ہوتی ہے۔ زیادہ تر صوفی احکامات جیسےنقشبندیہ،سہروردیہ،چشتیہ،قادریہوغیرہ میں عرس کا تصور موجود ہے اور جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ عقیدت مند اپنے اولیاء کو خدا سے محبت کرنے والے، محبوب کہتے ہیں۔عرس کی رسومات عام طور پر مزار کے متولی یا سلسلۂ عالیہ کے موجودہ شیخ ادا کرتے ہیں۔ عرس کی تقریباتحمداورنعتسے شروع ہوتی ہے اور بہت سے معاملات میں مذہبی موسیقیقوالیبھی شامل ہوتی ہے۔ اس جشن میں کھانوں کے نمونے، بازار اور مختلف قسم کی دکانیں بھی شامل ہوتی ہیں۔[1]
+358,مسلمان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86,"بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلام�� عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاممسلمان(عربی:مسلم، مسلمة)، (فارسی: مسلمان)، (انگریزی:Muslim) سے مراد وہ شخص ہے جو دینِاسلامپر یقین رکھتا ہو۔ اسلام کا لغوی معنیاللہکے سامنے سرتسلیم خم کرنا۔[1]اگرچہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق اسلام خدا کا دین ہے اور یہ دینحضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے بھی موجود تھا اور جو لوگ اللہ کے دین پر عمل کرتے رہے وہ مسلمان ہیں۔ مثلاًقرآنکے مطابق حضرتابراہیم علیہ السلامبھی مسلمان تھے۔ مگر آج کل مسلمان سے مراد اسے لیا جاتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر عمل کرتا ہو اور یقین رکھتا ہو۔ کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان انبیا کے آخر میں آئے ہیں اور آخری قانون پر عمل ہوتی باقیہ خود بخود منسوخ ہو جاتے ہے۔پہلے پہل جو لوگ مسلمان ہوئے وہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اس طریقہ سے کوئی بھی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ جب کوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا رسول مان لے تو اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ ان کی ہر بات پر ایمان رکھے اور عمل کرنے کی کوشش کرے۔اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے مفہوم ""کہ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرے۔مثلاً انھوں نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور یہ کہ وہ خدا کے آخری رسول ہیں تو اس بات پر ایمان رکھنا اسلام کے فرائض میں سے ہے۔اگر کوئی نافرمانی کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔اسلام کے بنیادی عقائد جن پر مسلمانوں کے کسی فرقہ میں کوئیاختلافنہیں، درج ذیل ہیں• اچھی اور بری تقدیر پر ایمان کہ جو کچھ بھی اس کائنات میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے۔
+اوپر دی گئی چیزوں پر ایمان رکھنے والے کو مسلمان کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اختلافات فروعی و سیاسی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیف��ر(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہی��•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+359,ذوالحجہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B0%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AC%DB%81,اسلامی تقویم26 ذو الحجہاسلامی تقویمکا بارھواں اور آخری مہینہ ہے۔56ھ–24 ذوالحجہمیلاد مسعود سیدہ معصومہ حضرتسکینہعلیہ السلامباغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا چالیس یا انچاس دن تک محاصرہ کر کے 12 ذوالحج 35 ہجری بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ آپ نے 82 سال کی عمر پائی۔حضرت عبد اللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی:اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔آپ انتہائی سخی ہونے کی وجہ سے غنی کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ کو یہ عظیم اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو بیٹیوں کے شوہر تھے۔ آپ اپنی صفت حیا کے حوالے سے فرشتوں میں بھی مشہور تھے۔ حضرت عثمان غنی ان دس صحابہ کی جماعت کا بھی حصہ ہیں جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری سنا دی تھی
+360,سعودی عرب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C_%D8%B9%D8%B1%D8%A8,"مسیحیت4.4 فیصدہندو مت1.1 فیصدبدھ مت0.3 فیصدسعودی عربیاسعودی عربیہ(رسمی نام : المملكة سعودیہ العربیہ)مغربی ایشیاکا ایک ملک ہے۔ یہجزیرہ نما عربکے بڑے حصے پر محیط ہے، جو اسےایشیاکا پانچواں سب سے بڑا، عرب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مغربی ایشیا اورمشرق وسطیکا سب سے بڑا ملک بناتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب میںبحیرہ احمرسے ملتی ہے۔ شمال میںاردن،عراقاورکویت؛ مشرق میںخلیج فارس،قطراورمتحدہ عرب امارات؛ جنوب مشرق میںعمان؛ اور جنوب میںیمن۔بحرینمشرقی ساحل سے دور ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ شمال مغرب میںخلیج عقبہسعودی عرب کومصراوراسرائیلسے الگ کرتی ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے پاس بحیرہ احمر اور خلیج فارس دونوں کے ساتھ ساحل ہے اور اس کا زیادہ تر علاقہ خشک صحرا، نشیبی، میدان اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہرریاضہے۔ یہ ملکمکہاورمدینہکا گھر ہے، جواسلامکے دو مقدس ترین شہر ہیں۔قبل از اسلام کا جزیرہ نما عرب، وہ علاقہ جس پر موجودہ سعودی عرب مشتمل ہے، کئی قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں کا مقام تھا۔ سعودی عرب میں قبل از تاریخ انسانی سرگرمیوں کے کچھ ے ابتدائی نشانات پائے جاتے ہیں۔ دین اسلام چھٹی صدی عیسوی (571ء) میں ابھر کر سامنے آیا اور جزیرہ نما عرب کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر پھیل گیا۔جدید دور کے سعودی عرب کا علاقہ پہلے بنیادی طور پر چار الگ الگ تاریخی علاقوں پر مشتمل تھا:حجاز،نجداور مشرقی عرب کے کچھ حصے (الاحساء) اور جنوبی عرب (عسیر)۔ مملکتِ سعودی عرب کی بنیادشاہ عبدالعزیز(مغرب میں ابن سعود کے نام سے مشہور) نے 1932 میں رکھی تھی۔ انھوں نے سنہ 1902ء میں اپن�� خاندان کے آبائی علاقے ریاض پر قبضے کے ساتھ فتوحات کے سلسلے کے ذریعے چاروں خطوں کو ایک ریاست میں متحد کیا۔ سعودی عرب اس کے بعد سے ایک مطلق العنانبادشاہترہا ہے، جہاں سیاسی فیصلے بادشاہ، وزراء کی کونسل اور ملک کے روایتی اشرافیہ کے درمیان مشاورت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔سنی اسلامکے اندر انتہائی قدامت پسندوہابیمذہبی تحریک کو سنہ 2000ء کی دہائی تک ""سعودی ثقافت کی ایک اہم خصوصیت"" کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ سنہ 2016ء میں، سعودی عرب کی حکومت نے انتہائی قدامت پسند وہابی مذہبی اشرافیہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور اخلاقی پولیس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے اقدامات کیے، سماجی ترقی کو بڑھانے اور بحال کرنے اور مزید مضبوط اور موثر معاشرہ بنانے کی کوشش میںسعودی وژن 2030ءکے اقتصادی پروگرام کا آغاز کیا۔ اپنے بنیادی قانون میں، سعودی عرب خود کو ایک خود مختار عرب اسلامی ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے جس میں اسلام کو سرکاری مذہب،عربیکو سرکاری زبان اور ریاض دار الحکومت کہا جاتا ہے۔پیٹرولیمسنہ 1938ء میں دریافت ہوا اور اس کے بعد مشرقی صوبے میں کئی دیگر دریافتیں ہوئیں۔ سعودی عرب اس کے بعد سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک (امریکاکے بعد) اور دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ یہاں دنیا کے دوسرے سب سے بڑے تیل کے ذخائر اور چوتھے بڑے گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ مملکت کوعالمی بینککی اعلی آمدنی والی معیشت کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے اور یہ واحد عرب ملک ہے جوجی20بڑی معیشتوں کا حصہ ہے۔ ریاست کو مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جن میںیمنی خانہ جنگیمیں اس کا کردار، اسلامی دہشت گردی کی مبینہ سرپرستی اور اس کا انسانی حقوق کا خراب ریکارڈ، بشمول سزائے موت کا ضرورت سے زیادہ اور اکثر ماورائے عدالت شامل ہے۔سعودی عرب کو علاقائی اور درمیانی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ سعودی معیشت مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی ہے۔ عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی اٹھارویں سب سے بڑی معیشت اور فی کس پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی سترویں بڑی معیشت ہے۔ ایک بہت ہی اعلیٰ انسانی ترقی کے اشاریہ والے ملک کے طور پر، یہ مفت اعلی تعلیم، ٹیکس فری آمدنی اور مفت آفاقی نظامِ صحت پیش کرتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کی تیسری بڑی تارکین وطن کی آبادی کا مرکز ہے۔ اس کی آبادی دنیا کی سب سے نوجوان آبادی میں سے ایک بھی ہے، اس کی 32.2 ملین کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد 25 سال سے کم عمر کا ہے۔خلیج تعاون کونسلکا رکن ہونے کے علاوہ سعودی عربتنظیمِ اقوام متحدہ،تنظیمِ تعاونِ اسلامی،عرب لیگ، عرب تنظیم برائے ہوائی نقل و حمل اورتیل برآمد کرنے والے ممالکِ کی تنظیم، اوپیککا ایک فعال اور بانی رکن ہے۔شمال مغرب میں اس کی سرحداردن، شمال میںعراقاور شمال مشرق میںکویت،قطر،اوربحریناور مشرق میںمتحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میںسلطنت عمان، جنوب میںیمنسے ملی ہوئی ہے جبکہخلیج فارساس کے شمال مشرق اوربحیرہ قلزماس کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاںاسلامکے دو مقدس ترین مقاماتمکہ مکرمہاورمدینہ منورہموجود ہیں۔سعودی ریاست کا ظہور تقریباً1750ءمیں عرب کے وسط سے شروع ہوا، جب ایک مقامی رہنمامحمد بن سعودمعروف اسلامی شخصیت اورمحمد بن عبدالوہابکے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔اگلے ڈیڑھ سو سال میںآل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا، جس کے دوران میںجزیرہ ن��ا عربپر تسلط کے لیے ان کےمصر،سلطنت عثمانیہاور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیامشاہ عبدالعزیز السعودکے ہاتھوں عمل میں آیا۔1902ءمیں، عبد العزیز نے حریف آل رشید سےریاضشہر چھین لیا اور اسےآل سعودکادار الحکومتقرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے1913ءسے1926ءکے دوران میںالاحساء،قطیف،نجدکے باقی علاقوں اورحجاز(جس میںمکہ مکرمہاورمدینہ منورہکے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کر لیا۔8 جنوری1926ءکو،عبدالعزیز ابن سعودحجاز کےبادشاہقرار پائے۔29 جنوری1927ءکو، انھوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔20 مئی1927ءکو،معاہدہ جدہکے مطابقبرطانیہنے تمام مقبوضہ علاقوں (جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے) پرعبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کر لیا۔1932ءمیں،برطانیہکی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔مارچ1938ءمیں، تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔حالیہ نام ""سعودی"" تقریباً 1727ء میں موجود سعودیہ کے وسط, ریاض میں آل سعود کی حکومت بنانے سے شروع ہوا.جب ایک مقامی رہنما ""محمد بن سعود"" معروف اسلامی شخصیت اور وہابیت یاسلفی تحریککے بانیمحمد بن عبد الوہابکے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ اس وقت یہ علاقہ 'سلطنت عثمانیہ' کے کنٹرول میں تھا.1805, 1806ء میں آل سعود نے مکہ مدینہ کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ 1818ء میں سلطنت عثمانیہ کی فوجوں نے ان سے سارا علاقہ واپس لے لیا۔ 1824ء میں سعود فیملی نے نجد کے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔اسی دوران ایک نئی طاقت آل رشید سامنے آئی۔ نئی طاقت آل رشید و آل سعود میں آپس کی جنگیں جاری رہیں۔ اور آل رشید نے آل سعود کو 1892 میں حتمی شکست دے کر علاقہ چھوڑ کر کویت میں جلاوطنی پہ مجبور کر دیا۔حجاز یعنی مکہ مدینہ میں عثمانیہ حکومت کے حکم پر داخل ہوئی مصری فوجیں 1840 میں علاقے سے نکل گئیں۔ اور شریف مکہ نے کنٹرول سنبھال لیا. ترکی نے برائے نام حکمرانی ساتھ آل سعود و آل رشید و شریف مکہ فیملی سمیت کئی قبائل کو اندرونی خود مختاری دی ہوئی تھی۔1902 میں آل سعود کے شاہ عبد العزیز کویت سے
+جلاوطنی سے واپس آئے اور سعودی اخوان تحریک, وہابی تحریک اور دیگر کی مدد کے ساتھ 1906 میں آل رشید کو شکست دے کر علاقے سے نکال دیا اور
+عثمانیہ سلطنت نے انھیں تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد مرکزی علاقہ سے ہٹ کر خلیج فارس کے ساتھ کے علاقہ الاحسا پہ قبضہ کر لیا۔
+عبدالعزیز جنہیں ابن سعود بھی کہا جاتا تھا۔ نے ""عرب بغاوت"" سے دوری رکھی۔ اور آل رشید ساتھ مقابلے پہ فوکس رکھا۔ پھر 1920 میں عسیر علاقہ پہ قبضہ کیا۔ 1921 میں آل رشید کو مکمل دیس نکالا دے دیا۔شریف مکہ حسین بن علی نےانگریزمیکموہن ساتھ عثمانیہ سلطنت خلاف ساز باز کرکے متحدہ عرب ریاست بنانے کی سازش کی۔ اس میں لارنس آف عربیہ کا بھی رول رہا۔1914 میں جنگ عظیم اول شروع ہو چکی تھی۔ جس میں سلطنت عثمانیہ, جرمن سلطنت اور آسٹرو-ہنگروی سلطنت ایک طرف تھے اور روس, فرانس اور برطانیہ وغیرہ دوسری طرف۔1916 میں سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کے لیے تمام عرب علاقے,شام,یمن,اردن اور موجودہ سعودیہ پہ مشتمل متحدہ عرب ریاست کے قیام اور سلطنت عثمانیہ سے آزادی کا خواب دکھایا گیا۔ برطانوی فوجوں کی مدد سے عرب باغی فوجوں نے مکہ, مدینہ, اردن اور پھردمشقفتح کر لیا۔2016 سے 2018 کے دوران دمشق میں شام کی عرب کنگڈم قائم کرکے شریف مکہ کا بیٹا فیصل بادشاہ بنادیا گیا۔ لیکن پھر سائیکس معاہدے مطابق عرب علاقے سوائے سعودیہ کے, فرانس اور برطانیہ نے آپس میں تقسیم کرلیے۔ حجاز (مکہ اور مدینہ) کو شریف مکہ کے حوالے کیا گیا۔آل سعود اور شریف مکہ, دونوں برطانوی رابطے میں اور امداد لینے والے تھے۔ شریف مکہ کو حجاز کا بادشاہ تسلیم کیا گیا۔ لیکن بعد میں, 1924 میں اسے برطانیہ کی طرف سے چھوڑ دیا گیا۔1925 میں عبدالعزیز نے حجاز پہ قبضہ کرکے خود کو شاہ حجاز ڈیکلیئر کیا۔ پھر شاہ نجد بنے۔ پھر 1932 میں دونوں بادشاہتوں(نجد اور حجاز) کو ضم کر کے سعودی عرب کا نام دیا گیا.حجاز کی فتح بعد, سعودی اخوان برطانوی مقبوضہ اردن, عراق اور کویت کی طرف بڑھنا چاہتے تھے تاکہ اپنا مسلک وہاں بھی نافذ کریں لیکن عبدالعزیز اردن اور عراق وغیرہ برطانوی قبضے میں ہونے کی وجہ سے برطانیہ سے لڑائی مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ اس پر اختلافات ہوئے تو اخوان نے بغاوت کردی لیکن وہ سختی سے کچل دی گئی۔ اور پھر سعودی حکومت استحکام حاصل کرتی چلی گئی.لارنس نے پہلی جنگ عظیم شروع بعد خود کو بطور رضاکار پیش کیا اسے مصر میں پوسٹ کیا گیا. وہاں سے وہ عراق اور سعودی عرب مشنز پہ جاتا رہا اور اوپر ذکر کردہ عثمانی سلطنت کے خلاف عرب بغاوت اور متحدہ عرب ریاست (بشمول شام,اردن,یمن,نجد اور حجاز) کی سازش میں شامل ہوا اور دوسرے انگریز افسروں ساتھ برطانیہ کے رابطہ افسر کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ شریف مکہ کے بیٹے فیصل جو بعد میں شاہِ شام بنا, کے ساتھ نزدیکی معرکوں میں شامل رہا اور دمشق کی فتح میں ہم رکاب رہا۔ اس کے رول کو صحافی تھامس نے سنسنی خیزی کے ساتھ پیش کیا۔سعودی عرب عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت سمجھی جاتی ہے۔ اس مملکت کے بانی یوں تو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود ہیں جو15 جنوری1877ءکو پیدا ہوئے تھے مگر اس سلطنت کے قیام کی جدوجہد کا آغاز 18 ویں صدی میں ہوا تھا جب1725ءمیں آل سعود کے سربراہامیر سعود بن محمد بن مقرنکی وفات ہوئی۔اس زمانے میںنجدمیں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں اور ہر ریاست کا الگ الگ حکمران ہوتا تھا۔ امیر سعود بن محمد کے چار صاحبزادے تھے جنھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ نجد میں سعودی سلطنت قائم کریں گے۔امیر سعود بن محمد کے سب سے بڑے صاحبزادے کا ناممحمد بن سعودتھا۔ وہدرعیہکے حکمران بنے اور انھوں نےشیخمحمد بن عبدالوہابکی مدد سے درعیہ میں اپنی حکومت قائم کی اور آہستہ آہستہ اسے مستحکم کرنا شروع کیا۔محمد بن سعود اور شیخ محمد عبد الوہاب کے درمیان 1745ء میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے عہد کیا کہ اگر کسی وقت محمد بن سعودنجد و حجازمیں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہاں شیخ محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کو رائج کریں گے۔1765ء میں شہزادہ محمد اور 1791ء میں شیخ محمد بن عبد الوہاب کی وفات ہو گئی۔ اس وقت تک جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقے پر آل سعود کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔شہزادہ محمد کے بعد امام عبد العزیز علاقے کے حکمران بنے مگر 1803ء میں انھیں قتل کر دیا گیا۔امامعبدالعزیزکے بعد ان کے بیٹےسعودحکمران بنے جو 1814ء میں وفات پا گئے۔سعود کے بیٹے عبد اللہ ایک بڑے عالم دین بھی تھے۔ ان کے دور حکمرانی میں ان کے علاقے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور درعیہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔امام عبد اللہ قیدی بنا لیے گئے اور انھیںاستنبوللے جا کر سزائے موت دے دی گئی۔مگر جلد ہی ان کے بھائیمشاری بن سعوداپنی حکومت واپس لینے میں کامیاب ہو گئے مگر وہ زیادہ عرصے تک حکمرانی نہ کر سکے اور ان کا علاقہ دوبارہسلطنت عثمانیہکے قبضے میں چلا گیا۔اس کے بعد اُن کا بھتیجا شہزادہترکی بن عبداللہریاضپر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا، جس پر وہ 1824ء سے 1835ء تک بر سر اقتدار رہے۔اگلی کئی دہائیوں تکآل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا اورجزیرہ نما عربپر تسلط کے لیےمصرسلطنت عثمانیہاور دیگر عرب قبائل میں تصادم ہوتے رہے۔ آل سعود کے ایک حکمرانامام عبدالرحمنتھے، جو 1889ء میںبیعتلینے میں کامیاب ہوئے۔امام عبد الرحمن کے بیٹےشہزادہ عبدالعزیزایک مہم جُو شخصیت تھے اور1900ءمیں انھوں نے اپنے والد کی زندگی میں ہی ان کی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لینے اور اسے وسعت دینے کی کوششیں شروع کر دیں1902ء میں انھوں نے ریاض شہر پر قبضہ کیا اور اسے آل سعود کا دار الحکومت قرار دیا۔اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نےالاحسائی،قطیفاورنجدکے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا۔سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میںحجازپر (جس میںمکہ مکرمہاورمدینہ منورہکے علاقے شامل تھے) شریف مکہ حسین کی حکمرانی تھی، جنھوں نے 5 جون 1916ء کو ترکی کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔حسین کو نہ صرف عربوں کے مختلف قبائل کی بلکہ برطانیہ کی تائید بھی حاصل تھی۔7 جون 1916 کو شریف مکہ حسین نے حجاز کی آزادی کا اعلان کیا۔21 جون کو مکہ پر ان کا قبضہ مکمل ہوا اور 29 اکتوبر کو انھوں نے پورے عرب کا حکمران ہونے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے تمام عربوں کو دعوت دی کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔ 15 دسمبر 1916ء کو حکومت برطانیہ نے حسین کو شاہ حجاز تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔اسی دوران امیر عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے مشرقی عرب کا ایک بڑا حصہ مسخر کر لیا اور 26 دسمبر 1915ء کو برطانیہ کے ساتھ دوستی کا ایک معاہدہ بھی کر لیا۔5 ستمبر 1924ء کو انھوں نے حجاز کو بھی فتح کر لیا۔عوام نے امیر عبد العزیز کا ساتھ دیا اور شریف مکہ شاہ حسین نے حکومت سے دست بردار ہو کر اپنے بیٹے علی کو شاہ حجاز بنا دیا۔ مگر امیر عبد العزیز کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے باعث انھیں بھی اپنا تخت چھوڑنا پڑا۔13 اکتوبر 1924 کو شاہ عبد العزیز نے مکہ معظمہ پر بھی قبضہ کر لیا۔5 دسمبر 1925ء کو انھوں نے مدینہ کا اقتدار حاصل کر لیا۔ 19 نومبر 1925ء کو شریف مکہ علی نے اقتدار سے مکمل دستبرداری کا اعلان کیا اور یوں جدہ پر بھی آل سعود کا قبضہ ہو گیا۔ آٹھ جنوری 1926ء کو شاہ حجاز عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے ایک خصوصی تقریب میں مملکت نجد و حجاز کے مکمل اختیارات سنبھالنے کا اعلان کر دیا۔20 مئی 1927ء کو برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں پر جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے عبد العزیز ابن سعود کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا۔ 23 ستمبر 1932ء کو شاہ عبد العزیز ابن سعود نے مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے ’المملکتہ العربیتہ السعودیہ‘ رکھنے کا اعلان کر دیا۔شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود نے جلد ہی اپنی مملکت کو اسلامی رنگ میں ڈھال دیا۔دوسری جانب ان کی خوش قسمتی سے سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کی نشان دہی ہوئی۔ سنہ 1933ء میں شاہ عبد العزیز نے کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا۔ابتدائی چند برس جدوجہد میں بسر ہوئے مگر 1938ء میں جب کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ماہرین ناکام ہو کر ملک لوٹنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک کنویں سے خزانہ ابل پڑا اور اتنا تیل نکلا جس پر وہ ماہرین خود بھی دنگ رہ گئے۔یہ واقعہ نہ صرف سعودی حکمرانوں اور کیلیفورنیا کمپنی کے لیے حیران کُن تھا بلکہ پورے جزیرہ نما عرب کے لیے ایک معجزہ تھا۔ تیل کی دریافت نے سعودی عرب کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔9 نومبر 1953ء کو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود وفات پا گئے۔سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہآل سعودکی بادشاہت ہے۔1992ءمیں اختیار کیے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہعبدالعزیز ابن سعودکی اولاد حکمرانی کرے گی اورقرآن پاکملک کا آئین اورشریعتحکومت کی بنیاد ہے۔ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں البتہ2005ءمیں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان،علماءاور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہیے۔ سعودی عرب دنیا بھر میںمساجداورقرآناسکولوں کے قیام کے ذریعےاسلامکی ترویج کرتی ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علما کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پرشریعت اسلامیسے مطابقت رکھتی ہو۔ عدالتشرعی نظامکی پابند ہیں جن کےقاضیوںکا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔سعودی عرب کو انتظامی لحاظ سے تیرہ علاقوں یا صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کوعربیزبان میں مناطق (عربی واحد:منطقہ) کہتے ہیں۔ سعودی نقشہ میں صوبے نمبر زد ہیں اور خانہ معلومات میں ان کے بارے میں معلومات درج کی گئي ہیں۔مملکت سعودی عربجزیرہ نمائے عربکے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔متحدہ عرب امارات،اوماناوریمنکے ساتھ منسلک ملک کی سرحدوں کا بڑا حصہ غیر متعین ہے اس لیے ملک کا عین درست رقبہ اب بھی نامعلوم ہے۔ سعودی حکومت کے اندازوں کے مطابق مملکت کا رقبہ 22 لاکھ 17 ہزار 949 مربع کلومیٹر (8 لاکھ 56ہزار 356 مربع میل) ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق ملک کا رقبہ 19 لاکھ 60ہزار 582 مربع کلومیٹر (7 لاکھ 56 ہزار 934 مربع میل) اور 22 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر (8 لاکھ 64 ہزار 869 مربع میل) کے درمیان میں ہے تاہم دونوں صورتوں میں سعودی عرب رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 15 بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔مملکت جغرافیہ مختلف نوعیت کا ہے۔ مغربی ساحلی علاقے (التہامہ) سے زمین سطح سمندر سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور ایک طویل پہاڑی سلسلے (جبل الحجاز) تک جاملتی ہے جس کے بعد سطع مرتفع ہیں۔ جنوب مغربی عسیر خطے میں پہاڑوں کی بلندی 3 ہزار میٹر (9 ہزار 840 فٹ) تک ہے اور یہ ملک کے سب سے زیادہ سرسبز اور خوشگوار موسم کا حامل علاقہ ہے۔ یہاں طائف اور ابہا جیسے تفریحی مقامات قائم ہیں۔ خلیج فارس کے ساتھ ساتھ قائم مشرقی علاقہ بنیادی طور پر پتھریلا اور ریتیلا ہے۔ معروف علاقہ ”ربع الخالی“ ملک کے جنوبی خطے میں ہے اور صحرائی علاقے کے باعث ادھر آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔مملکت کا تقریباً تمام حصہ صحرائی و نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے اور صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے۔ بڑی آبادیاں صرف مشرقی اور مغربی ساحلوں اور حفوف اور بریدہ جیسے نخلستانوں میں موجود ہیں۔ سعودی عرب میں سال بھر بہنے والا کوئی دریا یا جھیل موجود نہیں۔سعودی عرب کا موسم مجموعی طور پر شدید گرم اور خشک ہے۔ یہ دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت کا 50 ڈگری سینٹی گریڈ (120 ڈگری فارن ہائیٹ) سے بھی اوپر جانا معمول کی بات ہے۔ موسم سرما میں بلند پہاڑی علاقوں میں کبھی کبھار برف پڑ جاتی ہے تاہم مستقل بنیادوں پربرف بارینہیں ہوتی۔ موسم سرما کا اوسط درجہ حرارت 8 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ (47 سے 68 ڈگری فارن ہائیٹ) ہے۔ موسم گرما میں اوسط درجہ حرارت 27 سے 43 ڈگری سینٹی گریڈ (81 سے 109 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ وسط صحرائی علاقوں میں گرمیوں میں بھی رات کے وقت موسم سرد ہوجاتا ہے۔سعودی عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے تاہم کبھی کبھار موسلا دھار بارش سے وادیوں میں زبردست سیلاب آجاتے ہیں۔ دار الحکومت ریاض میں سالانہ بارش 100 ملی میٹر (4 انچ) ہے جو جنوری سے مئی کے درمیان میں ہوتی ہے۔ جدہ میں نومبر اور جنوری کے درمیان میں 54 ملی میٹر (2.1 انچ) بارش ہوتی ہے۔2005ء کے مطابق سعودی عرب کی آبادی 26 اعشاریہ 4 ملین ہے جس میں 5 اعشاریہ 6 ملین غیر ملکی آبادی بھی شامل ہے۔ 1960ء کی دہائی تک مملکت کی آبادی کی اکثریت خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش تھی لیکن معیشت اور شہروں میں تیزی سے ترقی کی بدولت اب ملک کی 95 فیصد آبادی مستحکم ہے۔ شرح پیدائش 29 اعشاریہ 56 فی ایک ہزار افراد ہے جبکہ شرح اموات صرف 2 اعشاریہ 62 فی ایک ہزار افراد ہے۔چند شہروں اور نخلستانوں میں آبادی کی کثافت ایک ہزار افراد فی مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔تقریباً 80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں۔ مزید برآں چند جنوبی اور مشرق افریقی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو چند سو سال قبل اولاً غلام بنا کر یہاں لائے گئے تھے۔ سعودی عرب میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن بھی مقیم ہیں جن میںبھارتکے 14 لاکھ،بنگلہ دیشکے 10 لاکھ،پاکستانکے 9 لاکھ،فلپائنکے 8 لاکھ اورمصرکے 7 لاکھ 50 ہزار باشندے شامل ہیں۔ قریبی ممالک کے عرب باشندوں کی بڑی تعداد میں مملکت میں برسرروزگار ہے۔ سعودی عرب میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ باشندے بھی قیام پزیر ہیں۔1932ء میں مملکت سعودی عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی اور شہری علاقوں میں مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہورہی تھیں۔ ان مدارس میں اسلامی اور دینی تعلیم سکھائی جاتی تھی تاہم گذشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک قومی تعلیمی نظام کا حامل ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے قبل سے لے کر جامعہ کی سطح تک مفت تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی تجربہ و شعبہ جات میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام تعلیم کا بنیادی خاصہ ہے۔ سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے مدارس اور اسکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔سعودی عرب میں باقاعدہ بنیادی تعلیم کا آغاز 1930ء کی دہائی میں ہوا۔ 1945ء میں شاہ عزیز السعود نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لیے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد 1951ء میں مملکت کے 226 اسکولوں میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے۔ 1954ء میں وزارت تعلیم کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ مہروز بن عزیز بنے۔ سعودی عرب کی پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسٹی 1957ء میں ریاض میں قائم ہوئی۔آج سعودی عرب کا قومی سرکاری تعلیمی نظام 8 جماعت، 24 ہزار سے زائد اسکولوں اور ہزاروں کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے۔ اس نظام کے تحت ہر طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مملکت کے سرکاری میزانیہ کا 24 فیصد سے زائد تعلیم کے لیے مختص ہے۔ سعودی ��رب میں طالب علموں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جن میںامریکا،کینیڈا،برطانیہ،آسٹریلیا،جاپان،ملائیشیاجرمنیاور دیگر ممالک شامل ہیں۔سعودی عرب کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی فہرستملک بھر میں ایک بہترین نقل وحمل کا نظام قائم ہے۔ سعودی عرب حکومت ماضی میں ضلحی نظام کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے کیوں کہ وہاں پیٹرول کی قیمت باقی دنیا کے مقابلے میں سب کم رہی ہے۔ فروری 2018ء میں اعلان کیا گیا کہ، سعودی عرب کی چار اہم موٹر ویز پر رفتار میں بہتری لائی جائے گی اور اسے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پہنچا دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں مکہ مدینہ،شاعز- دمام اور آخر میں ریاض طائف موٹر ویز شامل ہیں۔[15]ملک میں ایک ترقی یافتہ بحری نقل و حمل کا نظام ہے جو بنیادی طور پرپیٹروکیمیکلکی نقل و حمل کی سہولت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔سعودی پورٹ اتھارتیان بحری کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے، یہ ادارہ ملک میں بندرگاہوں کے انتظام کا ذمہ دار ہے۔ شاہراہوں و ہوائی سفر پر زیادہ انحصار کرنے کے نتیجے میں، سعودی عرب میں ریل نقل و حمل میں دوسرے ذرائع کی طرح سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ البتہ، اب ملک کے ریلوے کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔سعودی عرب کا سب سے مقبول کھیلفٹ بالہے۔ سعودی عربگرمائی اولمپکس،والی بال،باسکٹ بالاور دیگر کھیلوں میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس میں شرکت کرتا ہے۔ قومی فٹ بال مسلسل 4 مرتبہ ورلڈ کپ اور 6 مرتبہ ایشین کپ کے لیے کوالیفائی کرنے کے باعث عالمی سطح پرجانی جاتی ہے۔ سعودی عرب تین مرتبہ ایشین چمپئن رہ چکا ہے اور دو مرتبہ فائنل میں شکست کھاگیا۔ سعودی عرب کے چند معروف فٹ بال کھلاڑیوں میںماجد عبداللہ،سامي الجابراورياسر القحطانيشامل ہیں۔اسلامسعودی عرب کا سرکاری مذہب ہے اور اس کا قانون تمام شہریوں کے مسلمان ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے۔[16]اسلام کے سوا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو کھلے عام عبادت منع ہے۔[17][18]سعودی عرب شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی غیر مسلم کو اسلام قبول ضروری ہے۔[19]سعوی عرب کے نفاذشریعتاور اس کےانسانی حقوقمتعلقہ قوانین پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔[20][21]سعودی ثقافت کی بنیاد مذہباسلامہے۔ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ ہر روز دنیا بھر کے مسلمان 5 مرتبہ مکہ مکرمہ میں قائمخانہ کعبہکی جانب رخ کرکےنمازپڑھتے ہیں۔ سعودی عرب میں ہفتہ وار تعطیلجمعہکو ہوتی ہے۔قرآن مجیدسعودی عرب کا آئین اور شریعت اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔سعودی عرب کے معروف ترین لوک رسم قومی رقصارضیٰہے۔ تلواروں کے ساتھ کیا جانے والا یہ رقص قدیمبدویروایات کا حصہ ہے۔ حجاز کیالسہبالوک موسیقی کی جڑیں قرون وسطیٰ کے عرباندلسسے جاملتی ہیں۔سعودی عرب کا لباس باشندوں کے زمین، ماضی اور اسلام سے تعلق کا عکاس ہے۔ روایتی طور پر مرد ٹخنے تک کی لمبائی کی اونی یا سوتی قمیض پہنتے ہیں جوثوبکہلاتی ہے جس کے ساتھ سر پرشماغیاغطرہکا استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں کا لباس قبائلی موتیوں، سکوں، دھاتی دھاگوں اور دیگر اشیاء سے مزین ہوتا ہے۔ سعودی خواتین گھر سے باہرعبایہاورنقابکا استعمال کرتی ہیں۔اسلام میںشرابنوشی اورسورکے گوشت کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے اور اس پر سعودی عرب میں سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ سعودی روٹیخبزکا تقریباً تمام کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بھنی ہوئی بھیڑ�� مرغی، فلافل، شورمہ اور فول بھی دیگر مشہور کھانوں میں شامل ہیں۔ روایتی قہوہ خانے ہر جگہ موجود ہیں تاہم اب ان کی جگہ بڑے کیفے لے رہے ہیں۔ بغیر دودھ کی سیاہ عربی چائے کا استعمال ہر جگہ کیا جاتا ہے۔سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہمظہراناورراس تنورہمیں قائم نجی آبادیوں میں تھیٹر قائم ہیں تاہم یہ فلموں کے نمائش کی بجائے مقامی موسیقی اور فنون پیش کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ حال ہی میں بچوں اور عورتوں کے لیے عربی کارٹون پیش کرنے کے لیے سینمائوں کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔حاشیہ"
+361,مکہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DA%A9%DB%81_%D9%85%DA%A9%D8%B1%D9%85%DB%81,"مکہیامکہ مکرمہ(عربی:مَكَّةُ الْمُكَرّمَةْ) تاریخی خطہحجازمیںسعودی عربکےصوبہ مکہکا دار الحکومت[5]اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ شہر کی آبادی 2004ء کے مطابق 12 لاکھ 94 ہزار 167 ہے۔ مکہجدہسے 73 کلومیٹر دوروادی فارانمیں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہبحیرہ احمرسے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔[6]یہ شہراسلامکا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقامبیت اللہیہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کاحجکرنا فرض ہے ۔.[7][8]انگریزیزبان میں Mecca کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں حکومتسعودی عربنے شہر کا انگریزی نام Mecca سے بدل کر Makkah کر دیا۔[9]معروف مؤرخابن خلدونکے مطابق مکہ پہلے بکہ کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم مؤرخین کے درمیان اس امر پر اختلاف ہے:ابراہیم النخعینے بکہ کو کعبہ اور مکہ کو شہر سے منسوب کیا جبکہامام ُزہریبھی اسی کے حامی ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بکہ میں استعمال ہونے والابدونوں آوازوں کے درمیان قربت کے باعث بعد ازاںممیں تبدیل ہو گیا۔ مکہ کو”ام القری“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔.[10]مسجد حرامکے اندر قائمخانۂ کعبہحضرت ابراہیماورحضرت اسماعیلعلیهم السلامنے تعمیر کیا۔ مؤرخین کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا مرکز تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ مکہ جنوبی عرب سے شمال میںرومیوبازنطینیسلطنتوں کے لیے زمینی راستے پر تھا اورہندوستانکے مصالحہ جاتبحیرہ عرباوربحر ہندکے راستے سے یہیں سے گزرتے تھے۔[11][12]کعبة اللهکی تعمیری تاریخ عہد ابراہیم اور اسماعیلعلیهم السلامسے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہر میں نبی آخر الزماںمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمپیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اور یہاں پ رہی مسجدحرامواقع ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :”اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے“ (آل عمران:96 )570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانرواابرہہساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے، اپنے سردارعبدالمطلبکی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ہزاروں پرندے جنہیں عام طور پر ابابیل کا نام دیا جاتا ہے چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے نمودار ہوئے اور انھوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکرمنیٰکے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالٰی کے حکم سے تباہ و برباد ہو گیا اللہ تعالٰی نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :""کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کی سازش و مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو انھیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے، پس انھیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا""(سورة الفیل)یہ وہی سال تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا۔ آپ پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اورتبلیغاسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کر گئے۔بالآخر 10رمضانالمبارک8ھبمطابق 630ء میں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے۔ مدینہ ہجرت کر کے جانے کے بعد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کوفتح مکہکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام اہلیان شہر کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔خلافتاسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جوکعبة اللهسے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔مکہ کبھی ملت اسلامیہ کادارالخلافہنہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دار الخلافہمدینہتھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔خلافت راشدہکے زمانے میں بھی مدینہ ہی دار الخلافہ رہا اور پھر حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں پہلےکوفہاور اس کے خاتمے کے بعددمشقاور بعد ازاںبغدادمنتقل ہو گیا۔مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔ سنہ 1926ء میںسعودیوںنے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کوسعودی عربمیں شامل کر لیا۔[13][14]جنوری، 2022 ء سے مکہ شہر کے مئیر صالح الترکی ہیں۔[15]جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم عمارات ختم ہو چکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔[16]مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے۔ حالیہ سالوں میں ماہذوالحجہمیں 20 سے 30 لاکھ مسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمانعمرےکی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔شہر مکہ میں بنیادی حیثیتبیت اللہکو حاصل ہے جومسجد حراممیں واقع ہے۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گردطوافکرتے ہیں،حجر اسودکو بوسہ دیتے ہیں اورزمزمکے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیںصفااورمروہکی پہاڑیوں کے درمیانسعیاورمنیٰمیںشیطان کو کنکریاں مارنے کا عملبھی کیا جاتا ہے۔ حج کے دورانمیدان عرفاتمیں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ ��ہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکےنمازادا کرتے ہیں۔غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔سعودی عرب کے دوسرے شہروں کے برعکس مکہ کا موسم سردیوں میں بھی نسبتاً گرم رہتا ہے۔ سردیوں میں رات کا درجہ حرارت 17سینٹی گریڈاور دوپہر کے وقت 25 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور دوپہر کو درجہ حرارت عام طور پر 40سینٹی گریڈسے اوپر چلا جاتا ہے جبکہ رات کو بھی 30 درجے تک رہتا ہے۔ نومبر سے جنوری کے درمیان عموماً ہلکی بارشیں ہوتی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+362,عبادت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%A8%D8%A7%D8%AF%D8%AA,عبادتکا متبادلپرستشہے جوفارسی زبانکالفظہے جس کے معانی ہیں عبادت کرنا۔ مختلفمذاہبمیں عبادت کا مختلف تصور ہے۔ الہامی مذاہب اللہ کی عبادت کرتے ہیں جبکہ مشرک مذاہب ظاہری اجسام کی۔
+363,مناسک حج,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%86%D8%A7%D8%B3%DA%A9_%D8%AD%D8%AC,
+365,بلوغ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%BA,"بلوغکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کا نفسیاتی وجود جنم لے رہا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب لڑکا یا لڑکی کے بچپن کا دور ختم ہوتا ہے اور جوانی کے آثار رونما ہوتے ہیں۔ اسی دور میں لڑکوں کو فطری طور پر ڈاڑھی اور مونچھ آتے ہیں اور عظو مطلب (لن)یا(نفس) لمبا ہونا شروع ہوتا ہے اور اس کے اردگربال آجا تے ہیں یا ذیر ناف بال کہ لیں اور بغلوں میں بال آجاتے ہیں اور سینے پر بھی اور رات
+کو گندے خواب آتے ہیں جس کی وجہ سے عظو سے
+منی کا اخراج ہوتا ہے اورگندے خیال آتے ہیں لڑکیوں میںحیضشروع ہوتا ہے،پستانابھر آتے ہیں۔بالکل اس نومولود کی طرح جو نومہینے ماں کے پیٹ میںارتقاءکے مراحل طے کرنے کے بعد اس دنیا میں آتا ہے اور کچھ بنیادی ضروریات ہوتی ہیں اسی طرح نکاح یا جنس مخالف سے قربت کسی نوجوان کی ایک نفسیاتی ضرورت ہے۔انسانوں ہی طرح یہی ضروریات جانوروں میں بھی ہوتے ہیں۔ تاہم ان کے اختلاط میںشادیکا تصور نہیں ہوتا۔ صرف مباشرت کی حاجت کی تکمیل اور اولاد کا حصول مطلوب ہوتا ہے۔ انسانوں میں عام طور سے شادی بیاہ ہی سے مردوزن کے تعلق قائم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پائیدار رشتے اور خاندانی اقدار کا تصور بھی انسانوں میں ہی ہوتا ہے۔[1]"
+366,فرض,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D8%B1%D8%B6,☆بسلسلہ شرعی علوم☆علم فقہفروعاصولقواعدادلہمدارسباب فقہفقہ العبادات•طہارت•نماز•زکات•روزہ•حجو عمرہ•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•اصولعلم اصول فقہ•ادلہ الفقہ•الاحکام الشرعیہ•فرض•فرض کفایہ•المسنون•المکروہ•الحرام•سنہ مؤکدہ•المباح•الصحہ والبطلان•الالفاظ•الکتاب•السنہ•الاجماع•القیاس•الاجتہاد•قول الصحابی•القواعد فقہیہ•الامور بمقاصدہا•زمرہ•فروع الفقہ•فقہ العبادات•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•فقہ الصیام•فقہ الزکاۃ•فقہ مقارن•فقہ القرآن•فقہ الحدیث•فقہ الاولویات•فقہ•فقہ المریض•فقہ النفس•فقہ السلوک•فقہ السیرہ•فقہی مدارس کی تاسیس•فقہاء الصحابہ•فقہاء التابعین•مذاہب فقہیہ•الائمہ الاربعہ•ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس•محمد بن ادریس الشافعی•احمد بن حنبل•ائمہ مذاہب•سفیان الثوری•اللیث بن سعد•الاوزاعی•داود الظاہری•زید بن علی•المذہب الحنفی•المذہب المالکی•المذہب الشافعی•المذہب الظاہری•المذہب الزیدی•مذاہب آل البیت•مذہب الامامیہ•مذہب الاباضیہ•فقہاء•اصطلاحات فقہیہ•مراتب الفقہاء•مراتب الاجتہاد•مجتہد مطلق•مجتہد مستقل•فتوى•مفتی•کتب فقہ•کتب اصول الفقہ•الاحکام السلطانیہ•مقادیر شرعیہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•علم التفسیرعلم الحدیثعلم الفقہعلم التوحیدالعلوم الشرعیہ المساعدہعلوم اللغہ العربیہعلم اصول الفقہالمناہج العلمیہالبحوث العلمیَّہعلوم القرآن•علوم الحدیث•الاشباہ والنظائر•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ العبادات•طہارت•نماز•الزکات•الصیام•الحجوالعمرہ•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•الاصولعلم اصول الفقہ•ادلہ الفقہ•الاحکام الشرعیہ•فرض•فرض کفایہ•المسنون•المکروہ•الحرام•سنہ مؤکدہ•المباح•الصحہ والبطلان•الالفاظ•الکتاب•السنہ•الاجماع•القیاس•الاجتہاد•قول الصحابی•القواعد الفقہیہ•الامور بمقاصدہا•تصنیف•دراسات فقہیہفروع الفقہ•فقہ العبادات•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•فقہ الصیام•فقہ الزکاہ•فقہ مقارن•فقہ القرآن•فقہ الحدیث•فقہ الاولویات•فقہ•فقہ المریض•فقہ النفس•فقہ السلوک•فقہ السیرہ•تاسیس المدارس الفقہیہ•فقہاء الصحابہ•فقہاء التابعین•مذاہب فقہیہ•الائمہ الاربعہ•ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس•محمد بن ادریس الشافعی•احمد بن حنبل•ائمہ مذاہب•سفیان الثوری•اللیث بن سعد•الاوزاعی•داود الظاہری•زید بن علی•المذہب الحنفی•المذہب المالکی•المذہب الشافعی•المذہب الظاہری•المذہب الزیدی•مذاہب آل البیت•مذہب ��لامامیہ•مذہب الاباضیہ•فقہاء•مصطلحات فقہیہ•مراتب الفقہاء•مراتب الاجتہاد•مجتہد مطلق•مجتہد مستقل•فتوى•مفتی•کتب فقہ•کتب اصول الفقہ•الاحکام السلطانیہ•مقادیر شرعیہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•اعلامکتب فقہ•کتب اصول الفقہ•[[:زمرہ:|کتب]]•اعلام•العلوم الاسلامیہالتاریخ الاسلامیالمذاہب الاربعہالمذاہب الفقہیہباب اسلامی علومفرض: وہ کام جس کا کرنا ضروری ہو اور اس کا ترک کرنا لازماً منع ہو اس کا ثبوت بھی قطعی ہو اور اس کے فعل کے لزوم پر دلالت بھی قطعی ہو، اس کا انکار کفر اور اور اس کا ترک کرنے والا عذاب کا مستحق ہو خواہ دائما ترک کیا جائے یا احیاناً (کبھی کبھی)[1]شریعتاسلامی کی اصطلاح میں فرض وہ حکم شرعی ہوتا جودلیل قطعی(قرآنی حکم اورحدیث متواتر) سے ثابت ہو، یعنی ایسی دلیل جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ وہ حکم جو قطعی اور یقینی دلیل سے ثابت ہو اور اس میں میں کوئی دوسرا احتمال نہ ہو اس کا منکر کافر ہوتا اور بغیر عذر چھوڑنے والا فاسق ہوتا ہے[2]جودلیل قطعی سے ثابت ہویعنی ایسی دلیل جس میں کوئی شُبہ نہ ہو۔[3]مثلانماز،روزہ،حجاورزکوٰۃ۔ وہ بنیادی ارکان ہیں جن کا ادا کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور ادا کرنے والاثوابکا مستحق ہوتا ہے۔ قرآن مجید قطعی الثبوت ہے اور اس کی لزوم پر دلالت بھی قطعی ہے کیونکہ نماز اور زکوۃ کا تارک عذاب کا مستحق ہے۔اسلامی فقہ میں فرض کی اصطلاححرامکے بالعکس ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان کی فرضیت کا انکار کرے تو وہکافرہو جاتا ہے جبکہ بلاشرعی عذرترک کرنے والافاسقاور سزا کا مستحق ہوتا ہے۔بلحاظتکلیففرض کی دو قسم ہے:اکثر فقہا واجب کو بھی فرض ہی کے معنی میں لیتے ہیں۔ تاہمحنفیفقہا کے نزدیک واجب کا لفظ ان امور کے لیے آتا ہے جو فرض اورمستحبکے درمیان ہوں۔
+367,قرآن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86_%D9%85%D9%82%D8%AF%D8%B3,"قرآن کریم،قرآن مجیدیاقرآن شریف(عربی:القرآن الكريم) دیناسلامکی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہماسلام کے پیروکاروںکا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے[1][2]اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلاممحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمپر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتےحضرت جبرائیل علیہ السلاملاتے تھے[3]جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے[4][5][6]، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کیتلاوتعبادت ہے۔[7]اورصحف ابراہیم،زبور[8]اورتوراتوانجیل[9][10]کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کیفصاحتوبلاغتکے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔[11][12][13][14][15][16][17]نیزعربی زبانوادباور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن ک�� خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاًسیبویہ،ابو الاسود الدؤلیاورخلیل بن احمدفراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔گو کہ نزول قرآن سے قبل عربی زبان کا ادب خاصا وسیع اور اس کا دامن الفاظ و تراکیب اور تشبیہات و استعارات سے لبریز تھا لیکن وہ متحد نہیں تھی۔ قرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے عربی زبان کو ایک بنیاد پر متحد کیا[18]اور حسن کلام، روانی، فصاحت و بلاغت اور اعجاز و بیان کے ایسے شہ پارے پیش کیے جنہیں دیکھ کر فصحائے عرب ششدر تھے۔[19]نیز قرآن نے عربی زبان کو مٹنے سے بھی بچایا، جیسا کہ بہت سیسامی زبانیںوقت کے گزرنے کے ساتھ ناپید یا زوال پزیر ہو گئیں جبکہ عربی زبان گزرتے وقتوں کے ساتھ مزید مالا مال ہوتی رہی اور قدیم و جدید تمام تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ رکھا۔[20][21][22][23]قرآن میں کل 114سورتیںہیں جن میں سے 87مکہمیں نازل ہوئیں اور وہ مکی سورتیں کہلاتی ہیں اور 27مدینہمیں نازل ہوئیں اور مدنی سورتیں کہلاتی ہیں ۔[24]مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ قرآن کو اللہ نےجبریلفرشتہ کے ذریعہ پیغمبر محمد پر تقریباً 23 برس کے عرصہ میں اتارا۔ نزول قرآن کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب پیغمبر محمد چالیس برس کے تھے اور ان کی وفات سنہ 11ھ بمطابق 632ء تک جاری رہا۔ نیز مسلمان یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وفات نبوی کے بعد صحابہ نے اسے مکمل اہتمام و حفاظت کے ساتھ منتقل کیا اور اس کی آیتیں محکمات کا درجہ رکھتی ہیں،[25][26]نیز قرآن تاقیامتقابل عمل اور ہر دور کے حالات کا حل پیش کرتا ہے۔[27]قرآن کا سب سے پہلا ترجمہسلمان فارسینے کیا۔ یہسورۃ الفاتحہکا فارسی میں ترجمہ تھا۔ قرآن کو دنیا کی ایسی واحد کتاب کی بھی حیثیت حاصل ہے جو لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو زبانی یاد ہے اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، جسے مسلمان روز ہرنمازمیں بھی پڑھتے ہیں اور انفرادی طور پر تلاوت بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں مسلمان ہر سالرمضانکے مہینہ میںتراویحکی نماز میں کم از کم ایک بار پورا قرآن با جماعت سنتے ہیں۔ قرآن نے مسلمانوں کی عام زندگی، عقائد و نظریات، فلسفہ اسلامی، اسلامی سیاسیات، معاشیات، اخلاقیات اور علوم و فنون کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔وفات نبوی کے بعدعمر بن خطابکی تجویز پر، خلیفہ اولابو بکر صدیقکے حکم سے اورزید بن ثابتانصاری کی سربراہی میں قرآن کومصحفکی شکل میں یکجا کیا گیا۔ عمر بن خطاب کی وفات کے بعد یہ نسخہ ام المومنینحفصہ بنت عمرکے پاس محفوظ رہا۔ خلیفہ سومعثمان بن عفاننے جب لہجوں کے اختلاف کی بنا پر قرات میں اختلاف دیکھا تو حفصہ سےقریشکے لہجہ میں تحریر شدہ اُس نسخہ کے نقل کی اجازت چاہی تاکہ اسے معیار بنایا جائے۔ اجازت ملنے کے بعد انھوں نے مصحف کی متعدد نقلیں تیار کرکے پورےعالم اسلاممیں بھیج دیں اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اس مصحف کی پیروی کریں۔ ان نسخوں میں سے ایک نسخہ انھوں نے اپنے پاس بھی رکھا۔ یہ تمام نسخے اب مصحف عثمانی کہلاتے ہیں۔[28]بیشتر محققین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ تمام نسخے ابو بکر کے تیار کردہ نسخہ کی ہو بہو نقل تھے، ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی۔[29][30]مسلمانوں کے مطابق قرآن پیغمبر محمد کامعجزہہے اور اس کی آیتیں تمام انسانوں کے سامنے یہ چیلنج پیش کرتی ہیں کہ کوئی اس کے مثل نہیں بنا سکتا،[31]نیز یہ قرآن پیغمبر محمد کی نبوت کی دلیل[32]اور صحف آدم سے ��روع ہونے والے اور صحف ابراہیم، تورات، زبور اور انجیل تک آسمانی پیغام کا یہ سلسلہ قرآن پر ختم ہوا۔[33]قرآن کی تشریحات کو اسلامی اصطلاح میںتفسیرکہا جاتا ہے جو مختلف زبانوں میں کی جاتی رہی ہیں۔قرآنی تراجمدنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ جبکہ صرفاردو زبانمیں تراجم قرآن کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔قرآن میں لفظقرآنقریباً 70 دفعہ آیا ہے اور متعدّد معانی میں استعمال ہوا ہے۔ یہعربی زبانکے فعلقرأکامصدرہے جس کے معنی ہیں ’’اُس نے پڑھا ‘‘ یا ’’اُس نے تلاوت کی‘‘۔سریانی زبانمیں اس کے مساوی (ܩܪܝܢܐ) qeryānā کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’صحیفہ پڑھنا‘‘ یا ’’سبق‘‘۔۔[34]اگرچہ کئی مغربی عالم اس لفظ کو سریانی زبان سے ماخوذ سمجھتے ہیں، مگر اکثر مسلمان علما اس کی اصل خود لفظقرأکو ہی قرار دیتے ہیں[35]بہرحال محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت تک یہ ایک عربی اصطلاح بن چکی تھی[35]۔ لفظقرآنکا ایک اہم مطلب ’’تلاوت کرنا‘‘ ہے جیسا کہ اس ابتدائی قرآنی آیت میں بیان ہوا ہے: ’’یقیناً اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔[36]دوسری آیات میںقرآنکا مطلب ’’ایک خاص حصّہ جس کی تلاوت (محمد نے ) کی ‘‘کے بھی ہیں۔نمازمیں تلاوت کے اس مطلب کا کئی مقامات پر ذکر آیا ہے جیسا کہ اس آیت میں:’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو‘‘۔[37]جب دوسرے صحائف جیسا کہتوراتاورانجیلکے ساتھ یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب ’’تدوین شدہ صحیفہ‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔اس اصطلاح سے ملتے جلتے کئیمترادفبھی قرآن میں کئی مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ ہر مترادف کا اپنا ایک خاص مطلب ہے مگر بعض مخصوص سیاق و سباق میں ان کا استعمال لفظقرآنکے مساوی ہو جاتا ہے مثلا ًکتاب(بمعنی کتاب)،آیۃ(بمعنی نشان) اورسورۃ(بمعنی صحیفہ)۔ آخری دو مذکورہ اصطلاحات ’’وحی کے مخصوص حصّوں‘‘ کے مطلب میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ بیشتر اوقات جب یہ الفاظ ’’ال‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو ان کا مطلب ’’وحی‘ ‘ کا ہوتا ہے جو وقفہ وقفہ سے نازل کی گئی ہو ۔[38][39]بعض مزید ایسے الفاظ یہ ہیں:ذکر(بمعنی یاد دہانی) اورحکمۃ(بمعنی دانائی)۔قرآن اپنے آپ کوالفرقان(حق اور باطل کے درمیان میں فرق کرنے والا)،امّ الکتاب،ہدٰی(راہنمائی)،حکمۃ(دانائی)،ذکر(یاد دہانی) اورتنزیل(وحی یا اونچے مقام سے نیچے بھیجی جانے والی چیز) بیان کرتا ہے۔ ایک اور اصطلاحالکتاببھی ہے، اگرچہ یہ عربی زبان میں دوسرے صحائف مثلاً تورات اور انجیل کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ قرآن سےاسم صفت’’قرآنی‘‘ ہے۔مصحفکی اصطلاح اکثر مخصوص قرآنی مسوّدات کے لیے استعمال ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ اصطلاح قرآن میں گذشتہ کتابوں کے لیے بھی استعمال ہوئی ہے۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجیدآخری آسمانی کتابہے جو پیغمبرمحمدپر نازل ہوئی اور اس کا پڑھنا، سننا اور اس پر عمل کرنا موجب تقرب الہی اور باعث اطمینان قلب ہے۔ بیشتر مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ قرآن ان کیتہذیبو تمدن اور معاشرت کی بنیاد ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس سے رہنمائی حاصل کرنا لازمی ہے۔ ڈاکٹر وصفی عاشور ابو زید لکھتے ہیں:[40]مسلمانوں کے نزدیک کوئی مسلمان قرآن سے مستغنی نہیں ہو سکتا، یہی کتاب اس کا سرمایہ زندگی، سرمہ بصیرت اور رہبر کامل ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کی ہر شے اس کتاب سے مربوط ہے، اسی سے ان کے عقائد ماخوذ ہیں، یہی ان کیعبادتوںکا تعارف کراتی اور رضائے الہی کے حصول میں مددگ��ر بنتی ہے۔ نیز اخلاق و معاملات میں جن امور کی رہنمائی درکار ہے وہ سب اس میں موجود ہیں۔ جو مسلمان اس کتاب پر عمل نہیں کرتے وہ گمراہ ہیں اور ان کا انجام تاریک ہے۔[41]جیسا کہ حسب ذیل آیتوں اور احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ اسرا میں ہے:
+سورہ طہ میں ہے:
+نیزعبد الرحمن دارمینےعلی بن ابی طالبکی روایت نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ:[42]چنانچہ قرآن میںعقائدکا مفصل تذکرہ،عباداتمثلاً روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ کے احکام، نیز خرید و فروخت، نکاح و طلاق، وراثت و تجارت کے احکام بھی درج ہیں۔ اخلاق و آداب کا بھی مفصل ذکر ہے۔[43]متعدد علما و مفسرین نے ""احکام قرآن"" کے موضوع پر بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں فقہی احکام سے متعلق آیتوں کو یکجا کیا اور عبادات و معاملات میں ان آیتوں سے مستنبط شدہ احکام کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے تاکہ احکام قرآن سے شناسائی میں سہولت ہو۔ مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ سابقہ آسمانی کتابوں میں امور زندگی کے متعلق جو ہدایات اور رہنمائی موجود تھیں، قرآن ان سب پر مشتمل ہے۔ وہسورہ مائدہکی درج ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں:
+سورہ مائدہمفسرین کا کہنا ہے کہ قرآن سابقہ کتابوںزبور،توراتاورانجیلکے تمام مضامین پر مشتمل ہے اور اخلاق و معاملات کے بہت سے امور میں ان کتابوں سے زیادہ رہنمائی فراہم کرتا ہے۔[44]قرآن وہ کتاب ہے جو سابقہ کتابوں کی تمام حق باتوں کا حکم کرتا اور ان پر عمل کرنے پر ابھارتا ہے۔ اس کتاب میں گذشتہ قوموں، امتوں اور انبیا و رسولوں کی حکایتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ تاہم اس میں فروعی احکام مذکور نہیں، محض کلیات کا احاطہ کیا گیا ہے جو یہ ہیں: تحفظ دین، تحفظ ذات، تحفظ عقل، تحفظ نسب اور تحفظ مال۔[45]علاوہ ازیں مسلمان یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن کی بعض آیتیں اہمیت و فضیلت میں زیادہ ہیں، بعض آیتیں انھیںحسداورشیطانکے وسوسوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔ جو آیتیں فضیلت میں ممتاز ہیں ان میںآیت الکرسی،سورہ بقرہکی آیت نمبر 255 اوراہل تشیعکے یہاں سورہ بقرہ کی آیت 255، 256 اور 257 قابل ذکر ہیں، ان کا پڑھنامستحبخیال کیا جاتا ہے۔[46][47][48][49][50][51]علمائے اسلام کا کہنا ہے کہاللہ کے ناموں اور صفاتپر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی عظمت بڑھ گئی، ان کا پڑھنا شیطان اور اس کے تسلط سے گھر اور انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔[52][53]اسی طرح ایکسورہ فلقبھی ہے جسے مسلمان غیر محسوس برائیوں اور آفتوں سے بچنے کے لیے پڑھتے ہیں۔[54]سورہ ناسبھی شیطان کے شر و فتن سے بچنے کے لیے پڑھی جاتی ہے۔[55]علمائے اسلام کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختلاف ہے کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا بتدریج اترا۔ بعض آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج نزول کو بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ اس اختلاف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے کیے گئے جو حسب ذیل ہیں:بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌفِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ[ا]إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ[ب]،إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[پ]۔درج ذیل حدیثیں بھی اس کی دلیل ہیں:عبد اللہ بن عباسسے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ""قرآن کو لوح محفوظ سے نکال کر آسمان دنیا کے ایک مقام بیت العزت پر اتارا گیا، جہاں سے جبریل پیغمبر پر لے جایا کرتے تھے""۔[57]ابو شامہ مقدسی نے اپنی کتابالمرشد والوجيز عن هذا النزولمیں لکھا ہے: ""علما کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں ایک ہ�� رات کو مکمل نازل ہوا اور جبریل نے اسے یاد کر لیا۔ کلام الہی کی ہیبت سے آسمان والے غش کھا گئے، جب جبریل کا ان پر سے گذر ہوا تو انھیں ہوش آیا اور کہنے لگے:وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ[ت]۔ بعد ازاں جبرئیل نے کاتب فرشتوں کو اس کا املا کرایا، چنانچہ قرآن میں مذکور ہے:بِأَيْدِي سَفَرَةٍ[ٹ][58]بتدریج نزول قرآن کی مقدار کا تذکرہاحادیثمیں ملتا ہے کہ جب جتنی ضرورت ہوتی اتنا نازل ہوتا۔ نیز تاریخ قرآن کو دو ادوار میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور عہد نبوی کا جس میں قرآن کاوحیکے ذریعہ نزول ہوا اور دوسرا دورخلفائے راشدینکا جس میں قرآن کو ایکمصحفمیں یکجا کرکے محفوظ کر دیا گیا۔اسلامی روایات کے مطابقمحمّدپرپہلی وحیغار حرامیں اُس وقت نازل ہوئی جب آپ تنہائی میں عبادات کے لیے وہاں گئے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ سلسلہوحی23 برس کے عرصہ تک جاری رہا۔احادیثاور اسلامیتاریخکے مطابقہجرت مدینہکے بعد جب محمد نے وہاں ایک آزاد اسلامی معاشرہ قائم کر لیا تو آپ نے اپنےصحابہکو قرآن کی تلاوت اور اس کے روزمرّہ نازل ہونے والے احکام کو یاد کرنے اور دوسروں کو سکھانے کا حکم دیا۔ روایات میں یہ بھی ذکر موجود ہے کہجنگ بدرکے بعدجبقریشکے کئی لوگ مسلمانوں کے ہاتھ قیدی بن گئے تو اُن میں سے کئی نے مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے بدلے اپنی آزادی حاصل کی۔ اسی طرح آہستہ آہستہ کئی مسلمان خواندہ ہونے لگے۔ قرآن کو پتھروں، ہڈیوں اور کھجور کے پتّوں پر لکھا جانے لگا۔ اکثر سورتیں ابتدائی مسلمانوں کے زیراستعمال تھیں کیونکہ ان کا ذکرسنّیاورشیعہدونوں روایات میں ملتا ہے۔ جیسا کہ محمد کا قرآن کوتبلیغکے لیے استعمال کرنا، دعا ؤں میں اس کا پڑھا جانا اور انداز تلاوت کے بیان میں ان کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم، 632 عیسوی میں محمد کی وفات کے وقت ابھی قرآن ایک کتاب کی شکل میں موجود نہ تھا۔ تمام علما اس بات پر متّفق ہیں کہ محمد خود وحی کی کتابت نہیں کرتے تھے۔صحیح بخاریمیں محمد کی وحی کی کیفیات کا حال یوں درج ہے کہ ’’بسا اوقات (وحی) گھنٹی کے بجنے کی طرح نازل ہوتی ہے‘‘ اورعائشہسے روایت ہے کہ، ’’میں نے ایک بہت سرد دن میں حضور پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا اور (جب وحی ختم ہوئی تو) آپ کے ماتھے سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے۔‘‘قرآن کے بیان کے مطابق محمد پر پہلی وحی ایک کشف کے ساتھ نازل ہوئی۔ وحی نازل کرنے والی ہستی کا بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے’’مضبوط طاقتوں والا‘‘، وہ جو ’’بلند ترین اُفق پر تھا۔ پھر وہ نزدیک ہوا۔ پھر وہ نیچے اُتر آیا۔ پس وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیایا اُس سے بھی قریب تر‘‘۔ ویلچ (Welch) جو ایک اسلامی سکالر ہیں، Encyclopaedia of Islam میں لکھتے ہیں کی وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وحی کے نزول کے وقت محمد کی کیفیات کی جو ظاہری شکل بیان کی گئی ہے وہ درست ہو سکتی ہے کیونکہ وہ وحی کے نزول کے بعد کافی پریشان ہو گئے تھے۔ ویلچ کے مطابق، وحی کے موقع پر محمد کو ہلا دینے والے جھٹکے اُن کے گرد لوگوں کے لیے اس بات کا ثبوت واقع ہوئے ہوں گے کہ محمد کی وحی کا مبدا واقعیمافوق الفطرتہے۔ تاہم، محمد کے ناقدین ان مشاہدات کی بنا پر اُن کو مجنون، کاہن اور جادوگر قرار دیتے تھے کیونکہقدیم عربمیں کئی ایسے لوگ اس طرح کے تجربات کے مدّعی تھے۔ ویلچ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ اس طرح کے مشاہدات محمد کے ابتدائی دعوٰی نبوت سے پہلے کے ہیں یا بعد کے ۔قرآن محمد کو اُمّی قرار دیتا ہے جس کا عام طور پر ’’ان پڑھ‘‘ مطلب لیا جاتا ہے مگر اس کا مطلب دراصل کچھ پیچیدہ ہے۔ قرون وسطیٰ کے مفسّرین جیسا کہطبریکے مطابق اس اصطلاح کے دو مطالب ہیں:پہلا تو یہ کہ عمومی طور پر لکھنے اور پڑھنے کا قابل نہ ہونا جبکہ دوسرا یہ کہ گذشتہ کتب اور صحائف سے لاعلم ہونا (اگرچہ اکثر مفسّرین پہلے مطلب کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں)۔ اس کے علاوہ، محمد کا ناخواندہ ہونا آپ کی نبوّت کی صداقت کی ایک دلیل سمجھا جاتا تھا۔ جیسا کہامامفخر الدّین رازیکہتے ہیں کہ، اگر محمد لکھنے پڑھنے پر پوری مہارت رکھتے ہوتے تو اُن پر یہ شبہ کیا جا سکتا تھا کہ انھوں نے اپنے آبا و اجداد کی کتب پڑھی ہوں گی۔ کچھ عالم جیسا کہواٹدوسرے معنی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔خلفائے راشدینکے عہد میں جمع قرآن کے متعلق دو نقطہ نظر ہیں، پہلا نقطہ نظراہل سنتکا ہے اور دوسراامامیہاہل تشیعکا۔ اہل سنت کا متفقہ نقطہ نظر یہ ہے کہابو بکر صدیقکے عہد میں قرآن کو یکجا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کیا گیا اور عہد عثمان میں اسی مصحف کو باضابطہ نسخہ قرار دے کر بقیہ نسخوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔[59]جبکہ اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہعلی ابن ابی طالبنے وفات نبوی کے بعد مکمل قرآن کو ایک مصحف میں جمع کیا تھا[60]اور ان کی ترتیب عثمانی مصحف کی ترتیب سے مختلف تھی لیکن بایں ہمہ انھوں نے اس مصحف پر اعتراض نہیں کیا اور اپنے مرتب کردہ مصحف کو اپنے پاس محفوظ رکھا۔ اہل تشیع کا کہنا ہے کہ علی بن ابی طالب کے مصحف کے چند امتیازات تھے، مثلاً وہ ترتیب نزولی پر تھا یعنی منسوخ آیتوں کو ناسخ آیتوں سے پہلے اورمکی سورتوںکومدنی سورتوںسے پہلے درج کیا گیا تھا۔[61]اس کے حاشیے پر آیت کی مناسبت سے اہم تشریحات وغیرہ لکھی گئی تھیں[62]اور تفصیل کے ساتھ آیتوں کا شان نزول اور مقام نزول بھی مذکور تھا۔ چنانچہ اسی ضمن میںجعفر صادقکا قول ہے: ""فرمان رسول ہے: اگر قرآن کو لوگ اس طرح پڑھیں جس طرح نازل ہوا ہے تو کبھی اختلاف نہ ہو""۔[63]عہد صدیقی میں جمع قرآن کی روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ جمع قرآن کی کارروائیجنگ یمامہکے بعد شروع ہوئی۔ جنگ یمامہ میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی تو عمر بن خطاب ابو بکر صدیق کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ حفاظ صحابہ کی وفات سے قبل قرآن کو یکجا کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ ابو بکر صدیق نےزید بن ثابتکو اس کی ذمہ داری دی کیونکہ وہ اس کے اہل بھی تھے اور عہد نبوی میں کاتب قرآن اورحافظ قرآنبھی تھے۔ علاوہ ازیں زید بن ثابت کی فہم و فراست، ذہانت و فطانت اور سچائی و امانت داری مشہور تھی۔ زید بن ثابت نے کاغذ کے ٹکڑوں، ہڈیوں اور چمڑوں کو اکٹھا کرکے اور حفاظ سے مل کر جمع قرآن کا آغاز کیا، اس پورے عمل میں ابو بکر، عمر اور بڑے صحابہ ان کی معاونت اور نگرانی کر رہے تھے۔ قرآن کو ہر غلطی سے محفوظ رکھنے کے لیے ابو بکر و عمر نے یہ طریقہ کار وضع کیا کہ صحابہ محض اپنے حافظہ اور سننے پر اکتفا نہ کریں بلکہ قرآن کا تتبع کریں، نیز ہر آیت کو دو ماخذ سے لیا جائے، پہلا عہد نبوی میں لکھا ہوا اور دوسرا سینوں میں محفوظ۔ چنانچہ کسی آیت کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک اس پر دو عادل گواہ اس کی گواہی نہ دے دیں کہ یہ آیت عہد نبوی میں لکھی گئی تھی۔[64]جمع قرآن کی کارروائی جاری رہی اورسورہ توبہکی آخری آیتوں پر اختتام کو پہنچی جوابو خزیمہ انصاریکے پاس ملیں۔ مکمل ہو جانے کے بعد یہ نسخہ ابو بکر صدیق کے پاس رہا، پھر عمر بن خطاب کے پاس اور بعد ازاں ان کی بیٹیحفصہ بنت عمرکے پاس محفوظ رہا۔[65]تمام علما کا اس پر اتفاق ہے کہ عہد صدیقی میں جمع قرآن سے قبل صحابہ کے پاس اپنے ذاتی مصحف موجود تھے جن میں انھوں نے قرآن یا اس کا کچھ حصہ اکٹھا کر رکھا تھا لیکن یہ انفرادی کاوشیں تھیں اور انھیں یکجا کرنے میں تلاش، تواتر اور اجماع صحابہ کا اس درجہ لحاظ نہیں رکھا گیا تھا جیسا عہد صدیقی میں ملحوظ رہا۔عمر بن خطاب کی شہادت کے بعد عثمان بن عفان خلیفہ بنے اور سنہ650ءتک اسلامسرزمین شام،مصر،عراقوایراناورشمالی افریقاکے کچھ خطوں تک جا پہنچا۔ اہل سنت و الجماعت کے مصادر میں لکھا ہے کہ عثمان بن عفانآرمینیااورآذربائیجانپر لشکر کشی کی تیاری کر رہے تھے کہ اسی اثنا میںحذیفہ بن یمانان کے پاس پہنچے اور یہ عرض گزاری: ""امیر المومنین! اس امت کو سنبھا لیے، قبل اس کے کہ ان میں بھی کتاب اللہ کے سلسلہ میں ایسا ہی اختلاف رونما ہو جیسا یہود و نصاریٰ کے یہاں ہوا""۔ حذیفہ بن یمان نے بتایا کہ تلاوت قرآن میں عراقیوں اور شامیوں میں کیسا اختلاف برپا ہے اور ہر ایک اپنے طرز قرات کو درست سمجھ رہا ہے۔[66]یہ سن کر عثمان بن عفان نے فوراً حفصہ بن عمر کے پاس قاصد بھیجا اور ان سے عہد ابو بکر کا مصحف طلب کیا۔ پھر زید بن ثابت،عبد اللہ ابن زبیر،سعید بن العاصاور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا کہ وہ اس کی متعدد نقلیں تیار کریں۔ روایت میں لکھا ہے کہ عثمان نے ان سے کہا: ""اگر کسی جگہ تم میں اختلاف ہو جائے تو اسےقریش کے لہجہمیں لکھنا، کیونکہ قرآن انہی کے لہجہ ميں نازل ہوا ہے""۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ان حضرات نے نقلیں تیار کر لیں تو عثمان بن عفان نے اصل مصحف حفصہ کو لوٹا دیا اور اس کی نقلیں سارے عالم اسلام میں بھیج دیں اور حکم دیا کہ اس کے سوا بقیہ تمام نسخے نذر آتش کر دیے جائیں۔[67][68]چنانچہ اس کے بعد تمام نسخے ختم ہو گئے اور یہی نسخہ باقی رہا جو مصحف عثمانی کہلاتا ہے اور اب تک دنیا بھر میں یہی رائج چلا آرہا ہے۔اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پیغمبر محمد اپنی زندگی میں حفظ قرآن کا خاصا اہتمام کرتے تھے اور سب سے پہلے انھوں نے جمع قرآن کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ پیغمبر کی نگرانی ہی میں تمام آیتوں اور سورتوں کو مرتب کیا گیا۔[69]اہل تشیع کے بڑے علما مثلاًسید ابو القاسم خوئیوغیرہ نے اہل سنت کی کتابوں میں مذکور روایتوں (جن میں سر فہرستصحیح بخاریکی روایت ہے) کا دقت نظر سے جائزہ لے کر ان کے تعارض اور اختلاف کو واضح کیا اور ساتھ ہی اہل سنت کی کتابوں میں درج ان روایتوں کو بھی پیش کیا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کو عہد نبوی میں جمع کر لیا گیا تھا۔ مثلاًطبرانیاورابن عساکرشعبی سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا: ""چھ انصاری صحابہ نے عہد نبوی میں قرآن کو یکجا کر لیا تھا، ابی بن کعب، زید بن ثابت، معاذ بن جبل، ابو الدردا، سعد بن عبید اور ابو زید""۔[70]اس روایت کو پیش کرنے کے بعد ابو القاسم خوئی نے لکھا ہے کہ ان روایتوں میں لفظ ""جمع"" کے معنیٰ مکمل قرآن کو محفوظ کر لینے کے ہیں اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان چند افراد نے مختلف جگہوں سے قرآن کو اکٹھا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کر لیا تھا۔[71]عہد عثمانی میں نقل مصحف کی کارروائی کے متعلق خوئی کہتے ہیں کہ اس جمع سے مراد تمام مسلمانوں کو ایک مصحف پر متحد کرنا تھا چنانچہ انھوں نے اس کے سوا تمام مصاحف کو جلانے کا حکم جاری کیا تھا اور مسلمانوں کو اختلاف قرات سے حکماً منع کیا۔[72]قرآن ایک بڑی کتاب ہے۔ اس کی تقسیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی میں فرما چکے تھے اور یہ رہنمائی کر چکے تھے کہ کس آیت کو کس سورت میں کہاں رکھنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن کے بے شمار حافظ تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمشعباناوررمضانکے مہینوں میں قرآن کئی دفعہختمکرتے تھے جو ظاہر ہے کہ کسی ترتیب کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ آج تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکی۔ پہلی صدیہجریکے لکھے ہوئے قرآن جوترکیکے عجائب گھر توپ کاپی میں ہیں یاایرانکے شہرمشھدمیں امامعلی رضا علیہ السلامکے روضہ کے عجائب گھر میں ہیں، ان میں بعینہ یہی قرآن خطِ کوفی میں دیکھا جا سکتا ہے جو آج جدید طباعت کے بعد ہمارے سامنے ہے۔ اسے سات منزلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور تقسیم سیپاروں کے حساب سے ہے۔ سیپارہ کا لفظی مطلب تیس ٹکروں کا ہے یعنی اس میں تیس سیپارے ہیں۔ ایک اور تقسیم سورتوں کی ہے۔ قرآن میں 114 سورتیں ہیں جن میں سے کچھ بڑی اور کچھ چھوٹی ہیں۔ سب سے بڑی سورت سورۃ البقرہ ہے۔ سورتوں کے اندر مضمون کو آیات کی صورت میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ قرآن میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہیں۔ نیچے اس تقسیم کو پیش کیا گیا ہے۔مدرجہ بالا تقاسيم ميں سے سورتوں اور آيات كی تقسيم توقيفی ہے۔ يہ اللہ تعالٰی كے نبی نے الہامی راہنمائی ميں أپنی حيات مباركہ ميں كر دی تھی۔ اور اسی صورت ميں محفوظ ہے۔ ركوع پاروں اور منازل ميں تقسيم بعد كے لوگوں نے حفاظ، قاريوں اور عام مسلمانوں كی متعين ايام ميں ختم كرنے كے پيش نظر كی ہے۔ ركوع ميں تقسيم كے سوا دونوں تقسيميں مضمون كے بجائے مقدار كے تحت كی گئی ہيں۔
+موجودہ زمانے ميں برصغير پاك و ہند كے بعض اہل علم نے نظم قرآن پر بہت كام كيا ہے اور اس اعتبار سے بھی قرآن كو مضامين اور ترتيب كے اعتبار سے ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔ حميد الدين فراہی، امين احسن اصلاحی اور جاويد احمد غامدی كا كام اس سلسلہ ميں بہت نماياں ہے۔ ان علما نے قرآن كی سورتوں كو سات ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔
+ان كے كام كا خلاصہ جاويد احمد غامدی كے الفاظ ميں يہ ہے:قرآن کے اِن ساتوں ابواب میں سے ہر باب ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔
+پہلا باب فاتحہ سے شروع ہوتا اورمائدہ پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں فاتحہ مکی اور باقی چار مدنی ہیں۔
+دوسرا باب انعام اور اعراف ،دو مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور دو مدنی سورتوں،انفال اور توبہ پر ختم ہوتا ہے۔
+تیسرے باب میں یونس سے مومنون تک پہلی چودہ سورتیں مکی ہیں اور آخر میں ایک سورۂ نور ہے جو مدنی ہے۔
+چوتھا باب فرقان سے شروع ہوتا ہے ،احزاب پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں پہلی آٹھ سورتیں مکی اور آخر میں ایک، یعنی احزاب مدنی ہے۔
+پانچواں باب سبا سے شروع ہوتا ہے ،حجرات پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں تیرہ سورتیں مکی اور آخر میں تین مدنی ہیں۔
+چھٹا باب ق سے شروع ہو کر تحریم پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں سات مکی اور اِس کے بعد دس مدنی ہیں۔
+ساتواں باب ملک سے شروع ہو کر ناس پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں آخری سورتیں دو ،یعنی معوذتین مدنی اور باقی سب مکی ہیں۔
+اِن میں سے ہر باب کا ایک موضوع ہے اور اُس میں سورتیں اِسی موضوع کی رعایت سے ترتیب دی گئی ہیں۔
+پہلے باب کا موضوع یہود و نصاریٰ پر اتمام حجت ،اُن کی جگہ بنی اسمٰعیل میں سے ایک نئی امت کی تاسیس، اُس کا تزکیہ و تطہیر اور اُس کے ساتھ خدا کا آخری عہدو پیمان ہے۔
+دوسرے باب میں مشرکین عرب پر اتمام حجت ،مسلمانوں کے تزکیہ و تطہیر اور خدا کی آخری دینونت کا بیان ہے۔
+تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے باب کا موضوع ایک ہی ہے اور وہ انذار و بشارت اور تزکیہ و تطہیر ہے۔ساتویں اور آخری باب کا موضوع قریش کے سرداروں کو انذار قیامت ،اُن پر اتمام حجت، اِس کے نتیجے میں انھیں عذاب کی وعید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سرزمین عرب میں غلبۂ حق کی بشارت ہے۔ اِسے ہم مختصر طریقے پر محض انذار و بشارت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔[74]قران کا اسلوب شعری ونثری اسلوب سے الگ ہے بایں طور پر کہ کسی بھی سورت میں کوئی مقدمہ، کوئی خاص موضوع یا خاتمہ نہیں ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات ایک آیت میں ایک موضوع ہوتا ہے جو اس کے بعد یا پہلی آیت سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔[75]اسی لیے قران کی کوئی آیت اپنی ما قبل آیت کا خاتمہ نہیں ہوتی ہے اور نہ اپنیما بعد کا مقدمہ ہوتی ہے۔[76]صحابہ کراماورتابعینمیں قران میں اجتہاد سے کام لیتے ہوئے اسے 30 برابر حصوں میں منقسم کر دیا تاکہ تلاوت کرنے میں آسانی ہو اوررمضانمیں رومیہ ایک پارہ کی تلاوت کی جا سکے۔ یہ ایک اجتہادی عمل ہے جس پر مسلمان مستحب سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ بعد ازاں ہر پارے کو نصفین میں تقسیم کیا اور ہر نصف کو ربعین میں۔قران 114 سورتوں پر مشتمل ہے جو طوالت میں یکسر مختلف ہیں۔[77][78]پھر یہ سورتیں آیا مکی ہیں یا مدنی ہیں۔مکی سورہوہ کہلاتی ہے جوہجرت مدینہسے قبل نازل ہوئی۔ ان سورتوں میں عموما عقیدہ، توحید اور اس کی دلائل کے مضمون شامل ہیں۔ یہ کل 86 سورتیں ہیں۔[77]مدنی سورہوہ ہے جو ہجرت مدینہ کے بعدمدینہ منورہمیں نازل ہوئی۔ ان سورتوں میں عموما شریعت، احکام اورحلالوحرامکے مضمون موجود ہیں۔ یہ کل 28 سورتیں ہیں۔[77]تلاوت کی آسانی کے لیے علما نے ان سورتوں کی 3 اقسام کی ہیں۔ طوال مفصل یعنیسورہ بقرہ، وآل عمران، والنساء، والمائدہ، والانعام، والاعراف، وبراءة۔ وسميت بالطوال لطولها، والطوال جمع طولى۔[79]۔ اوساط مفصل جو طوال مفصل، یہ وہ سورتیں ہیں جن میں تقریباً 100 آیتیں ہیں۔[79]تیسری قسم ہے قصار مفصل جس میں تمام چھوٹی سورتیں شامل ہیں جو اوساط مفصل میں نہیں ہیں۔[79]قرآن کی زبان فصیح عربی ہے جسے آج بھی ادبی مقام حاصل ہے اور باوجودیکہ عربی کے کئی لہجے (مصری، مراکشی، لبنانی، کویتی وغیرہ) پیدا ہو چکے ہیں، قرآن کی زبان کو ابھی تک عربی کے لیے ایک معیار کی حیثیت حاصل ہے۔ عربی کے بڑے بڑے عالم جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں قرآن کی فصیح، جامع اور انسانی نفسیات سے قریب زبان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اتنی بڑی کتاب ہونے کے باوجود اس میں کوئی گرامر کی غلطی بھی موجود نہیں۔ بلکہ عربی حروف ابجد کے لحاظ سے اگر ابجد کے اعداد کو مدِ نظر رکھا جائے تو قرآن میں ایک جدید تحقیق کے مطابق جو ڈاکٹر راشد الخلیفہ نے کمپیوٹر (کمپیوٹر) پر کی ہے، قرآن میں باقاعدہ ایک حسابی نظام موجود ہے جو کسی انسان کے بس میں نہیں۔ قرآن میں قصے بھی ہیں اورتاریخی واقعاتبھی، فلسفہ بھی ملے گا اورمنطقبھی، پیچیدہ سائنسی باتیں بھی ہیں اور عام انسان کی زندگی گذارنے کے طریقے بھی۔ جب قرآن نازل ہوا اس وقت جو عربی رائج تھی وہ بڑی فصیح تھی اور اس زمانے میں شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل تھی لھٰذا یہ ممکن نہیں کہ قرآن میں کوئی غلطی ہوتی اور دشمن اس کے بارے میں بات نہ کرتے۔ بلکہ قرآن کا دعوہ تھا کہ اس جیسی ایک آیت بھی بنا کر دکھا دیں مگر اس زمانے کے لوگ جو اپنی زبان کی فصاحت اور جامعیت کی وجہ سے دوسروں کو عجمی (گوں گا) کہتے تھے، اس بات میں کامیاب نہ ہو سکے۔قرآن مجید کی پہلی آیت :قرآن مجید کی آخری آیت :حروف مقطعات(عربی: مقطعات، حواميم، فواتح) قرآن مجید کی بعض آیات کے شروع میں آتے ہیں اور الگ الگ پڑھے جاتے ہیں، ان کوآیات مقطعاتاور ان حروف کوحروف مقطعاتکہا جاتا ہے، مثلاًالم۔ یہ قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں آتے ہیں۔ یہ کل چودہ حروف ہیںا، ل، م، ص، ر، ک، ہ، ی، ع، س، ج، ق، ن۔ مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ ان کا حقیقی مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ مقطعات کا لفظی مطلب قطع شدہ، ٹکڑے، کترنیں کے ہیں۔ بعض علما کے مطابق یہ عربی الفاظ کے اختصارات ہیں اور بعض علما کے مطابق یہ کچھ رمز (code) ہیں۔[82]یہ حروف 29 سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر ہیں اورسورۃ الشوریٰ( سورۃ کا شمار: 42) کی دوسری آیت کے طور پر بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ ایک سے پانچ حروف پر مشتمل 30 جوڑ (combinations) ہیں۔ جو 29 سورتوں کے شروع میں قرآن میں ملتے ہیں۔انٹرنیٹ کی ترقی سے جہاں مواد کو لوگوں تک پہنچانا آسان ہو گیا ہے وہاں قرآن کے بارے میں ویب سائٹوں کی بہتات ہے جس میں سے کچھ تو درست مواد فراہم کرتے ہیں مگر بیشتر غلطیوں سے پاک نہیں۔ اس میں کچھ تو قرآن کو یونیکوڈ میں لکھنے کی مشکلات ہیں مگر کچھ اسلام کے خلاف کام کرنے والوں کا کام ہے جس میں قرآن کے عربی متن اور اس کے ترجمہ کو بدل کر رکھا گیا ہے۔ جس کا عام قاری اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ صرف ایسی سائٹس کی طرف رجوع کریں جن کے بارے میں یقین ہو کہ وہ درست یا تصدیق شدہ ہیں۔
+اس کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا مرکزی ادارہ بنایا جائے جس میں تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں کے نمائندے اور ماہرین شامل ہوں اور ماہرین کسی بھی قرآنیویب سائٹکی تصدیق کر سکیں اور اسے ایک سرٹیفیکیٹ جاری کر سکیں جو ان کی ویب گاہ پر لگائی جائے۔ جو کم از کم عربی متن کی تصدیق کرے جیساپاکستانمیں چھپے ہوئے قرآن کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ اس کی تصدیق کہ کوئی قرآنی ویب گاہ مصدقہ ہے کہ نہیں، اس مرکزی ادارہ کی ویب گاہ سے ہو سکے۔ چونکہ انٹرنیٹ پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اس لیے لوگوں کی اپنی کوشش ہوگی کہ وہ اس مرکزی ادارہ کی تصدق شدہ ویب گاہ کا استعمال کریں۔ تا حال ایسا کوئی ادارہ نہیں مگر مستقبل میں یہ نہائت ضروری ہوگا۔قرآن کے تراجم دنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں اور کیے جا رہے ہیں۔ بڑی زبانوں میں تراجم قرآن ایک سے زائد لوگوں نے مختلف ادوار میں کیے ہیں۔ قرآن کے یورپی اور دیگر کئی زبانوں میں غیر مسلمان افراد نے بھی ترجمہ کیا ہے۔ اسی طرح کچھ تراجم بنا عربی متن کے بھی شائع کیے گئے ہیں، جبکہ رومن رسم الخط میں بھی مختلف وجوہات کی بنا پر تراجم ہوئے ہیں۔قرآن کے الفاظ کو ان کے حروف کو زبان سے درست مخارج سے ادا کرنے کا علم، تجوید کہلاتا ہے۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (م��یم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) ���کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدارلوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+369,ارکان اسلام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D9%86_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85,بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاماسلام کے ارکانانھیں ارکان الدین بھی کہا جاتا ہے۔ دین اسلام میں یہ ارکان بنیادی اصول ہیں۔ انھیں فرائض بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ذکر حدیث جبریل میں واضح طور پر کیا گیا ہے۔[1][2][3][4]شہادہ، یعنی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں۔[5]اس بات کی گواہی دینا اور زندگی میں اپنانا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے۔ یہ کلمہ یوں ہے لَا إِلٰهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله، کلمہ شہادہ یا کلمئہ توحید بھی کہتے ہیں۔ اگر کوئی اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اس کو بھی اس کلمئہ توحید کا اقرار کرنا پڑے گا۔[6]صلواۃ عربی اصطلاح ہے، ��ماز فارسی اور اردو صورت۔ دین اسلام میں نماز دوسرا رکن ہے۔ نماز عبادت کی صورت ہے۔ نماز روزانہ پانچ وقت کی فرض ہیںزکوٰۃ، اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ اس کا اہم اصول اللہ کی عطا کی نعمتوں کو خالص کرنا ہے۔ اس کی ادائگی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس کا اہم مقصد غیر مساوات کو ختم کرنا معاشی مساوات کو برقرار رکھنا۔[7][8]زکوٰۃ کے پانچ اصول مانے جاتے ہیں :صوم یا روزہ تیسرا رکن ہے۔ جس کی تاکید قرآن میں واضح طور پر ملتی ہے۔ روزے تین قسم کے ہیں۔ پہلا ماہ رمضان کے ۔[10]دوسری قسم کے معافی مانگنے کے۔ ان دونوں کا ذکر سورۃ البقریٰ میں ہے۔[11]تیسری قسم کا روزہ تقویٰ کا، جس کا ذکر الاہذب میں ہے۔[12][13]حج، پانچواں رکن ہے۔ ہر وہ مسلمان، جو قابل ہو اُس پر فرض کیا گیا رکن ہے۔اسلامی تقویمکے آخری مہیناذوالحجہمیں ادا کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس حج کی ادائگی کے لیے مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔[14]مسلکاہل تشیعارکان اسلام کو فروع دین کہتے ہیں یعنی فروع دین اسلام کے عملی احکام کو کہا جاتا ہے جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کا شرعی وظیفہ ہے۔ شیعہ نطقہ نگاہ سے فروع دین دس ہیں: نماز، روزہ، خمس، زکوۃ، حج، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تَوَلّی اورتبرا۔[15]
+372,ذوالحجہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B0%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AC%DB%81,اسلامی تقویم26 ذو الحجہاسلامی تقویمکا بارھواں اور آخری مہینہ ہے۔56ھ–24 ذوالحجہمیلاد مسعود سیدہ معصومہ حضرتسکینہعلیہ السلامباغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا چالیس یا انچاس دن تک محاصرہ کر کے 12 ذوالحج 35 ہجری بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ آپ نے 82 سال کی عمر پائی۔حضرت عبد اللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی:اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔آپ انتہائی سخی ہونے کی وجہ سے غنی کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ کو یہ عظیم اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو بیٹیوں کے شوہر تھے۔ آپ اپنی صفت حیا کے حوالے سے فرشتوں میں بھی مشہور تھے۔ حضرت عثمان غنی ان دس صحابہ کی جماعت کا بھی حصہ ہیں جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری سنا دی تھی
+373,میقات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%82%D8%A7%D8%AA_%D8%AD%D8%AC,"میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سےحجیاعمرہپر جانے والے لوگاحرامباندھتے ہیں یا جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہوتا ہے۔ پانچ مقامِ میقاتحضرت محمدنے متعین کر دیے تھے جبکہ چھٹا میقاتبھارتاورمشرق بعیدسے آنے والےزائرینکے لیے بعد میں متعین کیا گیا۔ اہلمکہکے لیےمیقاتان کا اپنا گھر یامسجد الحرامہے۔میقات کے چھ مقامات درجِ ذیل ہیں۔تھامس پیٹرک ہوگز (1994)۔ڈکشنری آف اسلام۔شکاگو: قاضی پبلیکیشنسزامریکہ۔ISBN0-935782-70-2{{Subst:Nul|<==do not change this line, it will set the date automatically}}"
+374,احرام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%AD%D8%B1%D8%A7%D9%85,وہ دو سفید چادریں جن کو مخصوص انداز میں مسلمان مرد دورانحجیاعمرہبطور لباس استعمال کرتے ہیں۔ ایک چادر بطورتہبنداور دوسری کو کندھے پر اوڑھ لیا جاتا ہے، جیسے بکل مارتے ہیں۔[1]احرام کےلغوی معنیہیں : حرام کرنا، کیوں کہ احرام کی حالت میں بعضحلالکام بھیحرامہو جاتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں حج یا عمرہ کی نیت سےمکہشہر میں مقاممیقاتسے پہلے صرف دو چادروں سے جسم کو ڈھانپ لینے کو احرام کہتے ہیں۔ احرام والے مرد کو محرم کہتے ہیں۔
+375,خانہ کعبہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D8%B9%D8%A8%DB%81,"خانہ کعبہ، کعبہ یا بیت اللہ (عربی:الكعبة المشرًفة، البيت العتيق یا البيت الحرام)مسجد حرامکے وسط میں واقع ایک عمارت ہے، جومسلمانوںکاقبلہہے، جس کی طرف رخ کرکے وہ عبادت کیا کرتے ہیں۔ یہ دیناسلامکا مقدس ترین مقام ہے۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کاحجکرنا فرض ہے۔ابراہیمکاقائم کردہ بیت اللہ بغیر چھت کے ایک مستطیل نما عمارت تھی جس کے دونوں طرف دروازے کھلے تھے جو سطح زمین کے برابر تھے جن سے ہر خاص و عام کو گذرنے کی اجازت تھی۔ اس کی تعمیر میں 5 پہاڑوں کے پتھر استعمال ہوئے تھے جبکہ اس کی بنیادوں میں آج بھی وہی پتھر ہیں جوابراہیمنے رکھے تھے۔ خانہ خدا کا یہ انداز صدیوں تک رہا تاوقتیکہ قریش نے 604ء میں اپنے مالی مفادات کے تحفظ کے لیے اس میں تبدیلی کردی کیونکہ زائرین جو نذر و نیاز اندر رکھتے تھے وہ چوری ہوجاتی تھیں۔امام مسلم رحمہ اللہ تعالٰی نے عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے حدیث بیان فرمائی ہے کہ :""عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ بیت اللہ کا ہی حصہ ہے؟تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں!، عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا کہ اسے پھر بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کيا گيا؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا کہ تیری قوم کے پاس خرچہ کے لیے رقم کم پڑ گئی تھی ۔میں نے کہا کہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری قوم نے اسے اونچا اس لیے کیا تا کہ وہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل کریں اورجسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں ۔اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تو میں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا""۔قریشنے بیت اللہ کے شمال کی طرف تین ہاتھ جگہ چھوڑ کر عمارت کومکعب نما(یعنی کعبہ) بنادیا تھا۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ روپے پیسے کی کمی تھی کیونکہ حق و حلال کی کمائی سے بیت اللہ کی تعمیر کرنی تھی اور یہ کمائی غالباً ہر دور میں کم رہی ہے لیکن انھوں سے اس پر چھت بھی ڈال دی تاکہ اوپر سے بھی محفوظ رہی، مغربی دروازہ بند کر دیا گیا جبکہ مشرقی دروازے کو زمین سے اتنا اونچا کر دیا گہ کہ صرف خواص ہی قریش کی اجازت سے اندر جاسکیں۔ اللہ کے گھر کو بڑا سا دروازہ اور تالا بھی لگادیا گیا جو مقتدر حلقوں کے مزاج اور سوچ کے عین مطابق تھا۔ حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم (جو اس تعمیر میں شامل تھے اور حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنے کا مشہور زمانہ واقعہ بھی رونما ہوا تھا) کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کو ابراہیمی تعمیر کے مطابق ہی بنایا جائے۔عبد اللہ بن زبیر(جو عائشہ ا کے بھانجے تھے اور امام حسین کی شہادت کے بطور احتجاجیزید بن معاویہسے بغاوت کرتے ہوئے مکہ میں اپنیخود مختاریکا اعلان کیا تھا) نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے685ءمیں بیت اللہ کو دوبارہ ابراہیمی طرز پر تعمیر کروایا تھا مگرحجاج بن یوسفنے693ءمیں انھیں شکست دی تو دوبارہ قریشی طرز پر تعمیر کرادیا جسے بعد ازاں تمام مسلمان حکمرانوں نے برقرار رکھا۔خانہ کعبہ کے اندر تین ستون اور دو چھتیں ہیں۔ باب کعبہ کے متوازی ایک اور دروازہ تھا دیوار میں نشان نظر آتا ہے یہاں نبی پاک صلی اللہ وسلم نماز ادا کیا کرتے تھے۔ کعبہ کے اندر رکن ع��اقی کے پاس باب توبہ ہے جو المونیم کی 50 سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ چھت پر سوا میٹر کا شیشے کا ایک حصہ ہے جو قدرتی روشنی اندر پہنچاتا ہے۔ کعبہ کے اندرسنگ مرمرکے پتھروں سے تعمیر ہوئی ہے اور قیمتی پردے لٹکے ہوئے ہیں جبکہ قدیم ہدایات پر مبنی ایک صندوق بھی اندر رکھا ہوا ہے۔کعبہ کی موجودہ عمارت کی آخری بار 1996ءمیں تعمیر کی گئی تھی اور اس کی بنیادوں کو نئے سرے سے بھرا گیا تھا۔ کعبہ کی سطح مطاف سے تقریباً دو میٹر بلند ہے جبکہ یہ عمارت 14 میٹر اونچی ہے۔ کعبہ کی دیواریں ایک میٹر سے زیادہ چوڑی ہیں جبکہ اس کی شمال کی طرف نصف دائرے میں جوجگہ ہے اسے حطیم کہتے ہیں اس میں تعمیری ابراہیمی کی تین میٹر جگہ کے علاوہ وہ مقام بھی شامل ہے جو ابراہیم نے ہاجرہ اوراسماعیلکے رہنے کے لیے بنایا تھا جسے باب اسماعیل کہا جاتا ہے۔حطیمجسےحجر اسماعیلبھی کہا جاتا ہے، خانہ کعبہ کے شمال کی سمت ایک دیوار ہے جس کے باہر سےطوافکیا جاتا ہے۔ اس دیوار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خانہ کعبہ میں شامل تھی۔ حطیم کی چوڑائی 30 اِنچ (90 سینٹی میٹر) ہے اور اونچائی1.5 میٹر (4.9 فُٹ) ہے۔خانہ کعبہ سے تقریباً سوا 13 میٹر مشرق کی جانبمقام ابراہیمقائم ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت ابراہیمنے اپنے قد سے اونچی دیوار قائم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا تاکہ وہ اس پر اونچے ہوکر دیوار تعمیر کریں۔1967ءسے پہلے اس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب سونے کی ایک جالی میں بند ہے۔ اس مقام کو مصلے کا درجہ حاصل ہے اور امام کعبہ اسی کی طرف سے کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاتے ہیں۔ طواف کے بعد یہاں دورکعتنفل پڑھنے کا حکم ہے۔کعبہ کے جنوب مشرقی رکن پر نصب تقریباً اڑھائی فٹقطرکے چاندی میں مڑھے ہوئے مختلف شکلوں کے 8 چھوٹے چھوٹے سیاہ پتھر ہیں جن کے بارے میں اسلامی عقیدہ ہے کہ تعمیری ابراہیمی کے وقت جنت سے جبریل لائے تھے اور بعد ازاں تعمیر قریش کے دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس جگہ نصب کیا تھا اور ایک بہت بڑے فساد سے قوم کو بچایا۔ جسے بعد میں چاندی میں مڑھ دیا گیا۔ کعبہ شریف کا طواف بھی حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اور ہر چکر پر اگر ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دینا چاہیے ورنہ دور سے ہی ہاتھ کے اشارے سے بوسہ دیا جا سکتا ہے۔ حج کے دنوں میں ہر کسی کو اس مقدس پتھر کو بوسہ دینا یا استلام کرنا ممکن ہوپاتا۔مسجد حرام میں کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کے فاصلے پر تہ خانے میں آب زمزم کا کنواں ہے جو ابراہیم اور ہاجرہ کے شیر خوار بیٹے اسماعیل کی پیاس بجھانے کے بہانے اللہ تعالٰیٰ نے تقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے بے آب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو وقت کے ساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے اشارہ خداوندی سے دوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ آب زمزم کا سب سے بڑا دہانہ حجر اسود کے پاس ہے جبکہ اذان کی جگہ کے علاوہ صفا و مروہ کے مختلف مقامات سے بھی نکلتا ہے۔ 1953ءتک تمام کنوئوں سے پانی ڈول کے ذریعے نکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زمزم کا پانیمسجد نبویمیں بھی عام ملتا ہے اور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔کعبہشریف میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک دروازہ ہے جسے باب کعبہ کہا جاتا ہے۔ باب کعبہ زمین یا حرم کے فرش سے 2.13 میٹر اوپر ہے۔ یہ دروازہ کعبہ شریف کے شمال-مشرقی دیوار پر موجود ہے اور اس کے قریب ترین دہانے پرحجر اسودنصب ہے جہاں سے طواف کی ابتدا کی جاتی ہے۔ 1942ء سے پہلے پہلے باب کعبہ کس نے تیار کیا اور کیسے تیار کیا اس کا تاریخ میں زیادہ تذکرہ نہیں ملتا۔ تاہم 1942ء میں ابراہیم بدر نے چاندی کا بنایا تھا،اس کے بعد 1979ء میں ابراہیم بدر کے بیٹےاحمد بن ابراہیم بدرنے خانہ کعبہ کا سنہرہ دروازہ بنایا۔ یہ سنہرہ دراوزہ تقریباََ 300 کلوگرام سونے سے تیار کیا گیا تھا۔رکن یمانیخانہ کعبہ کے جنوب مغربی کونے کو کہتے ہیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنےفرمایا:رکن یمانی اور حجر اسود دونوںجنتکے دروازے ہیں۔[1]ترجمہ:عبد اللہ بن عمرفرماتے ہیں کہ رکن یمانی پر دوفرشتےہیں جو وہاں سے گزرنے والے کی دعا پر آمین کہتے ہیں اورحجر اسودپر تو بے شمار فرشتے ہوتے ہیں“۔[2]اثنا عشری دو گروہوں میں منقسم ہیں:اورحجر اسودکو اس لیےبوسہدیا جاتا اورمسکیا جاتا ہے تا کہ اسعہدکو جومیثاقمیں ان لوگوں سے لیا گیا تھااللہکی بارگاہ میں ادا کر دیا جائے۔اور حجر اسود کو اس کےرکنمیں رکھا گیا جہاں وہ اس وقت ہے کسی دوسرے رکن میں اس لیے نہیں رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت میثاق کیا تھا اس کو اسی جگہ رکھا تھا۔اورکوہ صفاسے اس رکن کا استقبال جس میں حجر اسود ہےتکبیرکے ساتھ کرنے کیسنتاس لیے جاری ہو گئی کہ جبآدمنے کوہ صفا سے دیکھا کہ حجر اسود اس رکن میں رکھا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تمجید کرنے لگے۔اور میثاق کو حجر اسود میں اس لیے رکھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اورمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کینبوتاورعلیکیوصایتکا میثاق کیا توملائکہکے جوڑ جوڑ کانپنے لگے۔ اور سب سے پہلے اقرار میں جس نے جلدی کی یہی حجر اسود تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو منتخب کیا اور وہ میثاق اس کےمنہمیں ڈال دیا۔ اب وہقیامتکے دن آئے گا تو اس کی بولتی ہوئیزباناور دیکھنے والیآنکھہو گی اور وہ ہر اس شخص کی گواہی دے گا جس نے یہاں آ کر اس میثاق کو ادا کیا۔اور حجر اسود کوجنتسے اس لیے نکال کر بھیجا گیا تا کہ آدم جو عہد و میثاق میں سے بھول گئے ہوں انھیں یاد دلا دے۔ اورحرمکے حدود جو تھے وہ وہی ہیں ان میں نہ کچھ کم ہوئے نہ زیادہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے پاس ایکسرخ یاقوتنازل فرمایا تھا اس کو انھوں نے بیت اللہ کی جگہ رکھا تھا اور اس کاطوافکرتے تھے جس کی ضَوانِ نشانات تک پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اِن نشانات تک حرم قرار دے دیا۔اور حجر اسود کو مس اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس میں سارے خلائق کے عہد و میثاق ودیعتہیں اوردودھسے بھی زیادہسفیدتھا مگربنی آدمکے گناہوں نے اس کوسیاہبنا دیا اگر ایام جاہلیت کے گندے اورنجسلوگ اس کو مس نہ کرتے تو یہ ایسا ہوتا کہ جوبیماربھی اس کو مس کرتا وہ اچھا ہو جاتا۔[8]اوررکن شامیجاڑےگرمیمیں متحرک رہتا ہے اس لیے کہ اس کے نیچےہواقیدہے اور خانہ کعبہ اتنا بلند ہو گیا کہ اس پرسیڑھیلگا کر جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جبحجاجنے خانہ کعبہ کو منہدم کیا تو لوگ اس کیمٹیاٹھا اٹھا کر لے گئے اور پھر جب لوگوں نے اس کی دوبارہ تعمیر کا ارادہ کیا تو ایکسانپنمودار ہوا جس نے لوگوں کو تعمیر سے روک دیا جب حجاج آیا تو اسے لوگوں نے بتایا اس نےامام علی بن الحسینسے اس کے متعلق رجوع کیا تو آپ نے فرمایا تم لوگوں کو حکم دو کہ جو شخص یہاں سے جو کچھ لے گیا ہے وہ سب لا کر یہاں واپس ڈال جائے۔ چنانچہ جب اس کی دیواریں بلند ہو گئیں تو آپ نے حکم دیا کہ اس ک�� ساری مٹی اس میں ڈال دی جائے اس لیے خانہ کعبہ اتنا بلند ہو گیا کہ اس میں سیڑھی لگا کر جاتے ہیں۔ اور لوگ اس چہار دیواری سے باہر خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اس کے اندر سے نہیں کرتے اس لیے کہاسماعیلکی مادر گرامی چہار دیواری کے اندردفنہیں اور اس میں ان کیقبرہے اس لیے باہر سے طواف کرتے ہیں تا کہ ان کی قبر پاؤں تلے روندی نہ جائے۔[10]اور اس چہار دیواری میں خانہ کعبہ کا کوئی جزناخنکے ایک تراشے کے برابر بھی نہیں ہے۔[11]قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدارسانچہ:شیعہ اسلام میں مقدس ترین مقامات"
+376,طواف قدوم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B7%D9%88%D8%A7%D9%81_%D9%82%D8%AF%D9%88%D9%85,طوافِ قدومافتتاحیطوافکو طواف قدوم کہتے ہیں۔میقاتکے باہر سے آنے والامکہ معظمہمیں حاضر ہو کر سب میں پہلا جو طواف کرے اُسے طواف قدوم کہتے ہیں۔ طواف قدوممفرد(حج افراد کرنے والا)اور قارِن (حج قران کرنے والا)کے لیے سنت ہے، متمتّع (حج تمتع کرنے والا)کے لیے نہیں۔[1]
+377,منیٰ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%86%DB%8C,مِنیٰحج کے موقع پر آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر تمام حجاج منیٰ میں قیام کرتے ہیںسانچہ:شیعہ اسلام میں مقدس ترین مقامات
+378,یوم ترویہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%85_%D8%A7%D9%84%D8%AA%D8%B1%D9%88%DB%8C%DB%81,آٹھویں ذی الحجہ کو یوم الترویہ کہا جاتا ہے۔[1]اس کے لغوی معنی سیراب کرنے اور پانی فراہم کرنے کے ہیں اسےیوم النقلہبھی کہتے ہیں کیونکہ اس دن حجاج منی کی طرف کوچ کرتے ہیں۔[2]خواب میںابراہیم علیہ السلامکو حکم دیا گیا کہ اپنے فرزنداسمعیل علیہ السلامکو ذبح کریں۔ اس حکم کی صورت یہ ہوئی کہ ذی الحجہ کی آٹھویں تاری�� کی شب میں انھوں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ نے اپنے بیٹے اسمعیل کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ صبح کو اٹھے تو سوچ میں پڑ گئے (کہ کیا یہ حکم خداوندی تھا) صبح سے شام تک اسی سوچ میں رہے کہ یہ خواب رحمانی ہے یا شیطانی، اسی لیے ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو یوم الترویہ (سوچ کا دن) کہا جاتا ہے۔[3]دوسری وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قدیم زمانے میں جب حجاج آٹھ ذی الحجہ کومنیجاتے تھے تو وہاں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کو تکلیف ہوتی تھی، چنانچہ منی روانگی سے قبل مکہ سےزمزمکا پانی بھر لیتے تھے اور پھر منی جاتے تھے۔ چنانچہ اس دن کا نام یوم الترویہ (پانی بھرنے کا دن) پڑ گیا۔
+379,عرفات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%B1%D9%81%D8%A7%D8%AA,مقام عرفہیاعرفات،مکہ مکرمہکے جنوب مشرق میںجبل رحمتکے دامن میں واقع ہے۔ جہاںوقوف عرفاتجیساحجکا بنیادی رکن ادا کیا جاتا ہے۔ یہ میدان مکے سے تقریباً 20کلومیٹرکے فاصلے پر ہے۔عرفات سال کے 354 دن غیر آباد رہتا ہے اور صرف ایک دن کے 8 سے 10 گھنٹوں کے لیے (9 ذی الحج) ایک عظیم الشان شہر بنتا ہے۔ یہ 9ذی الحجکیصبحآباد ہوتا ہے حاجى يهاں دو نمازيں ادا کرتے ہیں اور غروب آفتاب کے ساتھ ہی اس کی تمام آبادی رخصت ہو جاتی ہے اور حجاج ایک رات کے لیےمزدلفہمیں قیام کرتے ہیں۔دور جاہلیتمیںقریشنےحرمسے متعلق دیگر بدعات کے علاوہ مناسک حج سے وقوف عرفات کو بھی خارج کر دیا تھا۔ قبل از اسلام دیگر لوگ تو عرفات تک جاتے تھے لیکن قریشمزدلفہسے آگے نہ بڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اہل حرم ہیں اس لیے حرم کی حدود سے باہر نہیں نکلیں گے لیکننبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمحجۃ الوداعکے موقع پر ارشاد خداوندی کے تحت عام لوگوں کے ساتھ خود بھی عرفات تک گئے۔[1]سانچہ:شیعہ اسلام میں مقدس ترین مقامات
+380,یوم عرفہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%85_%D8%B9%D8%B1%D9%81%DB%81,"9 ذی الحج کویوم عرفہکہتے ہیں غیر حاجی کے لیے اس دن روزے کی فضیلت ہے[1]میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنا منع ہے اور دوسری جگہوں میں اس دن روزہ رکھنا کار ثواب ہے اور عیدین میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔
+ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا :[2]ابو قتادہسے روایت کیا کہ رسول اﷲﷺسے یوم عرفہ کے بارے دریافت کیا گیا تو فرمایا یہ سال گذشتہ اور آئندہ کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے[3]علامہ شرنبلالی نے لکھا ہے کہحدیث صحیحمیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یوم عرفہ افضل الایام ہے اور جب یہ دن جمعہ کا ہو تو یہ ستر حجوں سے افضل ہے۔[4]عرفہ کو عرفہ اس لیے کہا جاتا ہے کہابراہیم علیہ السلامنے جبرائیل علیہ السلام کو اس سوال کے جواب مین فرمایا کہ : ھل عرفت ما رائیتک ؟ قال نعم عرفتُ ! (کیا تم جان گئے جو میں نے سکھایا؟ فرمایا : ہاں میں جان گیا ) اور یہ گفتگو عرفات کے میدان پر ہوئی۔ اس لیے عرفات کا وجہ تسمیہ بھی یہی ہے۔[5]جبل عرفات[6]گرینائٹ سے بنی ایک پہاڑی ہے جومکہسے 20 کلومیٹر (12 میل) جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہجبل رحمتکے پٹھار پر واقع ہے۔ اس کی کل اونچائی 70 میٹر (230 فٹ) ہے۔اسلامیروایات کے مطابق یہی وہ پہاڑی ہے جہاں پیغمر اسلاممحمد بن عبد اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کھڑے ہو کرخطبہ حجۃ الوداعدیا تھا۔ یہ خطبہ حضور نےحجکے بعد دیا تھا جو موجود مسلمانوں اور صحابہ کرام کے لیے ایک وداعی خطبہ تھا۔ جس میں آپ نے اس دنیا سے پردہ فرمانے کا بھی تذکرہ کیا تھا۔[7]ام المؤمنينحضرتعائشہ بنت ابی بکرکی ایکحدیثصحیح مسلممیں مذکور ��ے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:[8]غیر حجاج کے لیے یوم عرفہ کا روزہ بہت ثواب کا باعث ہے اور اس کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔"
+381,سعی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B9%DB%8C_(%D8%AD%D8%AC),حج و عمرہسے متعلق ایک اسلامی اصطلاح، دوران حجصفااورمروہپہاڑوں پر چڑھنے اورمخصوص انداز میں ان کے درمیان سات چکر لگانے کو سعی کہا جاتا ہے۔صفا و مروہکے درمیان جگہ جہاں سعی کی جاتی ہے اسےمسعیکہتے ہیں۔آئمہ ثلاثہکے نزدیک یہ حج کا رکن ہے۔حجوعمرہمیں سعی کے بعد حاجی یا عمرہ کرنے والاحلق و تقصیرکراتا ہے۔ اس کے بعد وہ احرام کھول دیتا ہے۔حاجی یا عمرہ کرنے والا، صفا کی طرف سے مروہ تک جائے، یہ ایک چکر ہو گا، اب مروہ سے صفا کی طرف واپس آئے تو یہ دوسرا چکر ہو گیا، اسی طرح سات چکر پورے کیے جاتے ہیں، اس طرح آخری چکر مروہ پر ختم ہو گا۔[1]اگر کوئی غلطی سے یا کسی دوسری وجہ سے مروہ کی طرف سے صفا کی جانب سعی کرے تو تب اس کو آٹھ چکر لگانے ہوں گے تب، اس کی سعی کے سات چکر مانے جاتے ہیں، کیونکہ پہلا چکر صفا سے مروہ کی جانب ہے، مروہ سے شروع کرنے والے کا پہلا چکر شمار نہیں کیا جاتا۔[2][3]
+382,عید الاضحی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B6%D8%AD%DB%8C,"عید الاضحیٰمسلمانوں کا تہوار ہے۔ عید الاضحیٰذوالحجہکی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ اس دن مسلمان کعبۃ اللہ کا حج بھی کرتے ہیں۔ مسلمان دو طرح کی عید مناتے ہیں۔ ایک کوعید الفطراور دوسری کو عید الاضحیٰ کہا جاتا ہے۔انس بن مالک فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں لوگوں نے سال میں دو دنکھیل کودکے لیے مقرر کر رکھے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبمدینہ منورہتشریف لائے تو ارشاد فرمایا تم لوگوں کے کھیلنے کودنے کے لیے دو دن مقرر تھے اللہ تعالیٰ نے انھیں ان سے بہتر دنوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ یعنی عیدالفطر اور عید الاضحیٰ۔[1]عید الاضحی کو دس ذی الحجہ کے دن منایا جاتا ہے اور یہ دونوں عیدوں میں افضل عید ہے اور حج کے مکمل ہونے کے بعد آتی ہے۔ جب مسلمان حج مکمل کرلیتے ہیں تو اللہ تعالٰی انھیں معاف کر دیتا ہے۔
+اس لیے حج کی تکمیل یوم عرفہ میں وقوف عرفہ پر ہوتی ہے جو حج کاایک عظیم رکن ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
+یوم عرفہ آگ سے آزادی کا دن ہے جس میں اللہ تعالٰی ہر شخص کوآگ سے آزادی دیتے ہیںعرفاتمیں وقوف کرنے والے اور دوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی آزادی ملتی ہے۔
+1 - یہ دن اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے بہترین دن ہے : حافظابن قیمرحمہ اللہ تعالٰی نے زاد المعاد ( 1 / 54 ) میں کہتے ہیں :
+[اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے افضل اور بہتر دن یوم النحر ( عیدالاضحی ) کا دن ہے اوروہ حج اکبروالا دن ہے۔
+( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : یقینا یوم النحر اللہ تعالٰی کے ہاں بہترین دن ہے )[2]2 – یہ حج اکبر والا دن ہے :
+ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حج کے دوران میں جوانہوں نے کیا تھایوم النحر( عید الاضحی ) والے دن جمرات کے درمیان میں کھڑے ہوکرفرمانے لگے یہ حج اکبر والا دن ہے۔[3]نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
+یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں۔[4]تواللہ تعالٰی نے وہ لہولعب کے دو دن ذکر وشکراورمغفرت درگزر میں بدل دیے، تواس طرح مومن کے لیے دنیا میں تین عیدیں ہیں :
+عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا یہ عید کا دن ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا فرمایا۔ سو ! جو جمعہ کے لیے آنا چاہے تو غسل کرلے اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگا لے اور تم پر مسواک (بھی) لازم ہے۔[5]رمضانجو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے تیسرا رکن ہیں، جب مسلمان رمضان کے روزے مکمل کرتا ہے تواللہ تعالٰی نے ان کے روزے مکمل کرنے پر عید مشروع کی ہے جس میں وہ اللہ تعالٰی کا شکرادا اوراللہ تعالٰی کاذکر کرنے کے لیے جمع ہوتے اوراس کی اس طرح بڑائی بیان کرتے ہیں جس پرانہیں اللہ تعالٰی نے ہدایت نصیب فرمائی ہے اوراس عید میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں پرصدقہ فطر ( فطرانہ ) اورنماز عید مشروع کی ہے۔"
+383,حلق و قصر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%D9%84%D9%82_%D9%88_%D9%82%D8%B5%D8%B1_(%D8%AD%D8%AC),حلق اور قصر(تقصیر)،حجوعمرہسے متعلقہ دو اسلامی اصطلاحات ہیں۔ حاجی جب تمام فرائض (ارکان حج) سے فارغ ہو جاتا ہے۔ تو آخر پر مرد اپنے پورے سر کے بال مُونڈاتے ہیں یا سر کے ایک چوتھائی حصے کے بال کم از کم ایک پور (ایک انچ جتنا) کٹواتے ہیں۔ یہ ہر مرد حاجی پرواجبہے۔ خواتین کے لیے صرف تقصیر کا حکم ہے، وہ طرف سر کے ایک چوتھائی حصے کے بال کم از کم ایک پور (ایک انچ جتنا) کٹواتی ہیں۔حلق و تقصیر سے متعلق فقہی احکام
+384,رمی جمار,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D9%85%DB%8C_%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B1,رمی جماریا رمیحجسے متعلقہ ایک اسلامی اصطلاح ہے۔ مسلمان دوران حج تین علامتی شیطانوں کو کنکر مارتے ہیں۔ یہ حج کا ایک رکن ہے۔ دس، گیارہ اور بارہذوالحجہکو یہ عمل کیا جاتا ہے، اس میں ہر حاجی پر لازم ہے کہ تین شیطانوں کو سات سات کنکر ترتیب وار مارے۔ یہ عمل اسلام میں نبیابراہیم علیہ السلامکی سنت کے طور پر جاری ہے۔ بعض حالات میں تیرہذوالحجہکو بھی پتھر مارنے ضروری ہو جاتے ہیں۔رمی کا طریقہ اور احتیاطیں
+385,جمرات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%85%D8%B1%DB%81_%D8%B9%D9%82%D8%A8%DB%81,"حجاجِ کرام دس گیارہ اور بارہ تاریخ کو پتھر کے جن تین ستونوں کو باری باری کنکر مارتے ہیں ان کو ” جمرات “ یاجمار کہا جاتا ہے۔ یہ شعائر اللہ میں سے ہیں یہ منی میں تین مشہور مقام ہیں جہاں اب دیوار کی شکل میں بڑے بڑے ستون بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم،نبی اکرمﷺ کے طریقہ اور حضرتابراہیم علیہ السلامکی اتباع میں ان تین جگہوں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔جمار جمرہ کی جمع ہے،عربی میں جمرہ چھوٹے کنکر یا سنگریزے کو کہتے ہیں مگر حج کے موقع پر ان سنگریزوں کو جمرہ کہا جاتا ہے جو دسویں،گیارھویں،بارہویں بلکہ تیرھویں ذی الحجہ کو تین ستونوں پر مارے جاتے ہیں،پھر خود ان ستونوں کو جمرہ کہا جانے لگاجنہیں یہ کنکر مارے جاتے ہیں کیونکہ وہاں ان کنکروں کا اجتماع ہوتا ہے۔ بعض لغت والے کہتے ہیں کہ اجمار کے معنی ہیں جلدی کر نا،تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ جن حجاج کے کنکر قبول ہوجاتے ہیں وہ غائب کر دیے جاتے ہیں صرف غیر مقبول کنکر ہی وہاں رہتے ہیں ورنہ وہاں ہر سال کنکر یوں کے پہاڑ لگ جایا کرتے۔ اشعۃ المعات میں لکھا ہے کہ ان مقامات میں آدم علیہ السلام نے ابلیس کو کنکر مارے تھے جس سے وہ تیزی سے دوڑ گیا تھا یہ انہی کی نقل ہے،بعض روایات میں ہے کہ یہاں اسمعیل علیہ السلام نے شیطان کو کنکر مارے تھے،بہرحال یہ فعل بھی بزرگوں کی نقل ہے۔[1]پہلا جمرہ جو منی سے قریب جمرہ اولیٰ کہلاتا ہے اس ستون کا نام جمرہ اولٰی بھی ہے اور جمرہ دنیا بھی کیونکہ مسجد حنیف سے قریب ہے،اسی کے قریب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حج میں قیام فرمایا تھاگیارھویں اوربارھویں کو تینوں جمروں کی رمی ہ��تی ہے مگر زوال کے بعدبیچ کا جمرہ وسطی کہلاتا ہے گیارھویں بارھویں کو تینوں جمروں کی رمی ہوگی مگر زوال کے بعداخیر کا مکہ معظمہ سے قریب ہے جمرۃ العقبہ۔ یا جمرۃ العقبٰی کہلاتا ہے،دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرہ عقبہ کی رمی ہوتی ہے اور زوال سے پہلے ہوتی ہے
+عقبہ منیٰ شریف کے ایک حصہ کا نام ہے،جمرہ عقبہ اس ستون کا نام ہے جو اسی جگہ واقع ہے۔ حضور انور حج کے زمانہ میں منٰی شریف میں باہر سے آنے والوں کو تبلیغ فرمایا کرتے تھے۔ یوم عقبہ سے مراد ہے عقبہ کے میدان میں تبلیغ کا دن،عقبہ پہاڑ کے راستہ کو کہتے ہیں،چونکہ یہ جگہ دو پہاڑوں کے بیچ میں ہے اسی لیے اس کو عقبہ کہا جاتا ہے۔(مرقات)یا عقب بمعنی پیچھے ہے یہاں کا جمرہ پہلے دو جمروں کے پیچھے واقع ہے لہذا یہ ستون جمرہ عقبہ کہلاتا ہے اور یہ جگہ عقبہ۔[2]منیمیں وہ تین ستون جنہیں حاجی کنکر مارتے ہیںمسجد خیفکے قریب جو ستون ہے اسے جمرۃ الاولیٰ کہتے ہیں درمیان والے کو جمرۃ الوسطیٰ کہتے ہیں اورآخری کوجمرۃ الاخریٰ ( جمرہ عقبہ یا جمرہ عقبہ کبری )کہتے ہیں۔[3]"
+386,طواف افاضہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B7%D9%88%D8%A7%D9%81_%D8%A7%D9%81%D8%A7%D8%B6%DB%81,طواف افاضہطواف زیارتکا ہی نام ہے۔ یہ حج کا رکن ہے۔ اس کا وقت10 ذوالحجہکیصبح صادقسے بارہ12 ذوالحجہکےغروب آفتابتک ہے مگر دس10 ذو الحجہ کو کرنا افضل ہے۔[1]عرفات سے واپسی میں جو طواف کیا جاتا ہے اس کا نامطواف زیارتہے اور اس طواف کوطواف افاضہبھی کہتے ہیں[2]اسی کوطواف رکنطواف حجاورطواف فرضبھی کہا جاتا ہے[3]
+387,ایام تشریق,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D8%A7%D9%85_%D8%AA%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D9%82,"ایا م تشریقعید الاضحیکے بعد کے تین دن یعنیذوالحجۃکی گیارہوریں، بارہویں اور تیرہویں تاریخیں۔عيد الاضحى كے بعد والے تين روز ايام تشريق كہلاتے ہيں اور انہيں ايام تشريق اس ليے كہا جاتا ہے كہ: لوگ ان ايام ميں گوشت خشك كرنے كے ليے دھوپ ميں ركھتے ہيں، تا كہ اس ميں تعفن پيدا نہ ہو اور بعد ميں اسے استعمال كيا جا سكے،انھیںایام معدوادتبھی کہا جاتا ہے ان کو معدودات کمی کے سبب سے فرمایا ہے[1]ان تين ايام كے متعلق رسول كريم ﷺ كا فرمان ہے :
+سیدہ نبیشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تشریق کے دن کھانے اور پینے کے دن ہیں۔[2]چنانچہ اگر ايسا ہى ہے يعنى اگر ان ايام كو شرعى طور پر كھانے پينے اور اللہ كا ذكر كرنے كے ليے خاص كيا گيا ہے۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایامِ تشریق کو ایام ’’اکل وشرب‘‘ یعنی کھانے پینے کے دن فرمایا ہے اور اسی لیے ان ایام میں روزہ رکھنا حرام ہے اور جب عید کے بعد تین دن ان سب احکام میں ایک حیثیت رکھتے ہیں، یعنی یہی تین دِنایامِ منیٰ،ایامِ رمیاورایامِ تشریقہیں۔مسنونطریقہ یہ ہے کہ تیرہویں تاریخ کوزوالتکمنیٰمیں قیام کیا جائے تاہم بارہویں کو بھی واپسی جائز ہے۔
+عبد اللہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی مگر اس کے لیے جس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو۔[3]"
+388,طواف وداع,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B7%D9%88%D8%A7%D9%81_%D9%88%D8%AF%D8%A7%D8%B9,طوافکی ایک قسم، اسے طوافِ رخصت بھی کہا جاتا ہے۔ حاجی اور عمرہ کرنے والے کے لیے اس کا الگ الگ حکم ہے۔ آفاقی کے لیے طواف زیارت کے فوراً بعد طوافِ رخصت کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ ہرطواف مطلقاً طواف کی نیت سے بھی ادا ہوجاتا ہے۔ اگر روانگی سے قَبل طواف زیارت کے بعد اگر کوئی نفلی طَواف کر لیا ہے تو طواف رخصت ادا ہو چکا۔[1]
+389,مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AE%D8%AF%D9%88%D9%85_%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%DB%81%D8%A7%D8%B4%D9%85_%D9%B9%DA%BE%D9%B9%D9%88%DB%8C,شیخ الاسلاممخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی(پیدائش:19 نومبر1692ء— وفات:11 فروری1761ء)اٹھارہویں صدی عیسویمیںسندھکے علم و ادب کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ عظیممحدث، یگانۂ روزگارفقیہمحدث،مفسر، سیرت نگار اور قادر الکلامشاعرتھے۔ ان کی تصانیف و تالیفاتعربی،فارسیاورسندھیزبانوں میں ہیں۔ انھوں نےقرآن،تفسیر، سیرت،حدیث،فقہ،قواعد، عقائد،ارکان اسلامیعنینماز،روزہ،حج،زکوٰۃسمیت کئی اسلامی موضوعات پر کتب تحریر و تالیف کیں، کتب کی تعداد بعض محققین کے اندازے کے مطابق 300 ہے اور بعض کے مطابق 150 سے زیادہ ہے۔ ان کی گراں قدر تصانیفمصرکیجامعہ الازہرکے نصاب میں شامل ہیں۔ کلہوڑا دور کے حاکمِ سندھ میاں غلام شاہ کلہوڑا نے انھیںٹھٹہکاقاضی القضاۃ(چیف جسٹس) مقرر کیا۔ انھوں نے بدعات اور غیر شرعی رسومات کے خاتمے کے لیے حاکم وقت سے حکم نامے جارے کرائے۔ ان کی وعظ، تقریروں اور درس و تدریس متاثر ہو کر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔[1]ان کے مخطوطات کی بڑی تعدادبھارت،سعودی عرب،ترکی،پاکستان،برطانیہاور یورپ کے بہت سے ممالک کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔پاکستانخصوصاًسندھاور بیرونِ پاکستان میں ان کی کتب کے مخطوطات کی دریافت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی بروز بدھ10 ربیع الاول1104ھ[2](بمطابق19 نومبر،1692ء) کومیر پور بٹھورو،ٹھٹہ،سندھ(موجودہپاکستان) میں مخدوم عبد الغفور ٹھٹوی کے گھر میں پیدا ہوئے۔[3][4][5][6]مخدوم محمد ہاشم کے والد مخدوم عبد الغفور ٹھٹوی، جو خود بھی ایک عالم تھے، پہلےسیہونمیں رہائش پزیر تھے۔ بعد ازاں گردشِ زمانہ کی وجہ سےٹھٹہکے علاقےمیر پور بٹھورومیں آباد ہو گئے۔ مخدوم محمد ہاشم ذات کے پنہور تھے اور ان کا نسب عرب قبیلے بنو حارث یعنیحارث بن عبد المطلبسے جا ملتا ہے[7]۔ اس قبیلے کے کچھ افراد جہاد کی غرض سےمحمد بن قاسمکے ساتھپہلی صدی ہجریمیںسندھآئے تھے اور ان میں سے کچھ افراد نے تبلیغِ اسلام کو فروغ دینے کے لیے یہیں سکونت اختیار کرلی تھی۔ انھیں سے مخدوم محمد ہاشم کے آبائے کرام کا نسب جا ملتا ہے۔[6]مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی کا تعلق علمی گھرانے سے تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مخدوم عبد الغفور ٹھٹوی سے حاصل کی۔ یہیں حفظِ قرآن مکمل کیا اور فارسی، صرف و نحو، فقہ کی تعلیم بھی اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم کےٹھٹہشہر کا رخ کیا جو اس وقت علم و ادب کے حوالے سے تمام دنیا میں مشہور تھا۔ یہاں انھوں نے مخدوم محمد سعید ٹھٹوی سے عربی کی تعلیم حاصل کی۔ پھرمخدوم ضیاء الدین ٹھٹویسے علم حدیث کی تعلیم حاصل کی اور یوں صرف 9 برس کی عمر میںفارسیاورعربیعلوم کے مطالعوں کی تکمیل کی۔ اسی دوران میں1113ھ/1702ءمیں مخدوم ہاشم کے والد بزرگوار مخدوم عبد الغفورٹھٹوی وفات پاگئے۔ مخدوم ہاشم کو1135ھ/1722ءمیںحجازِ مقدسکے سفر کے دوران میں تحصیلِ علم کا موقع ملا اور انھوں نےحجکی سعادت حاصل کرنے کے علاوہمکہاورمدینہ منورہکے مشہور علما اور محدثین سےعلم حدیث،فقہ، عقائد اورتفسیرکا علم حاصل کیا اور سندیں حاصل کیں[8]۔ مخدوم ہاشم کےسندھکے مشہور اساتذہ میں ان کے والد مخدوم عبد الغفور ٹھٹوی، مخدوم محمد سعید ٹھٹوی،مخدوم ضیاء الدین ٹھٹوی، مخدوم رحمت اللہ ٹھٹوی اور مخدوم محمد معین ٹھٹوی کے نام سرِ فہرست ہیں[9]۔ اس کے علاوہ مخدوم ہاشم نے سفر حرمین کے دوران میں جن اساتذہ کرام سے علم حاصل کیا ان میں ش��خ عبد القادر حنفی صدیقی مکی (متوفی1138ھ/1726ء)، شیخ عبد بن علی مصری (متوفی1140ھ/1728ء)، شیخ ابو طاہر محمد مدنی (متوفی1145ھ/1733ء) اور شیخ علی بن عبد المالک دراوی (متوفی1145ھ/1733ء) شامل تھے۔[10]مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی نے تحصیلِ علم کے بعد بٹھورو کے نزدیکی گاؤں بہرام پور میں سکونت اختیار کی اور وہاں کے لوگوں کو دین اسلام کی اشاعت، ترویج کے لیے وعظ اور تقریرروں کا سلسلہ شروع کیا مگر وہاں کے لوگوں کو مخدوم ہاشم کے وعظ و تقریروں کی اہمیت کا اندازہ نہ ہوا، اسی لیے مخدوم صاحب دل برداشتہ ہو کر بہرام پور سےٹھٹہشہر میں آ گئے اور یہاں اگر محلہ میں جامع خسرو (دابگراں والی مسجد) کے قریب دار العلوم ہاشمیہ کے نام سے مدرسے کا بنیاد رکھا، جہاں انھوں نے حسب خواہش دین اسلام کی اشاعت و ترویج، تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔[11]ہاشمی مسجد مخدوم محمد ہاشم کے محلہ میں واقع تھی۔ اسی مسجد میں مخدوم صاحب نے اپنی بہت سی لازوال تصانیف مکمل کیں۔ اسی مسجد سے انھوں نے دین اسلام کے فروغ اور استقامت کے لیےسندھکے حکمرانوں کے نام خطوط لکھے۔ اسی مسجد میں انھوں نے فقہی مسائل پر فتاویٰ جاری کیں۔ مخدوم صاحب کا دستور تھا کہ وہ دن کے تیسرے پہر درسِ حدیث دیتے تھے۔ مخدوم صاحب کے بعد ان کے فرزند مخدوم عبد اللطیف ان کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے اور درس و تدریس کے ساتھ وعظ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ یہ مسجدتالپوروںکے عہد تک قائم رہی۔[12]جامع خسرو کودابگراں والی مسجدبھی کہا جاتا تھا کیوں کہ یہ مسجد دابگراں کے محلہ میں واقع تھی۔ یہ دوسری مسجد ہے، جس میں مخدوم محمد ہاشم ہرجمعہکی صبح وعظ کیا کرتے تھے۔ مخدوم صاحب کے بعد ان کے فرزند مخدوم عبد اللطیف ٹھٹوی نے اپنے والد بزرگوار کے طریقہ کار کو جاری رکھا۔ اب نہ یہ محلہ موجود ہے اور نہ مکین، اس لیے یہ مسجد زبوں حالی کا شکار ہو گئی ہے۔[13]مخدوم محمد ہاشم نےٹھٹہمیں رائج بدعات اور غیر اسلامی رسومات کو بند کرانے کے لیے حاکمِ سندھ میاں غلام شاہ کلہوڑا سے ایک حکم نامہ جاری کرایا تھا۔ اس حکم نامہ کے اجرا کے بعدٹھٹہسے بری رسومات، بدعات، عورتوں کا قبروں پر جانا وغیرہ کا کسی حد تک خاتمہ ہو گیا۔ کچھ لوگوں نے میاں غلام شاہ کلہوڑا کو مخدوم صاحب کے خلاف ورغلانے کی کوشش کی لیکن اس کا نتیجہ ان سازشی لوگوں کے خلاف نکلا اور میاں غلام شاہ نے مخدوم صاحب کو ٹھٹہ کاقاضی القضاۃ(چیف جسٹس) کے عہدے پر فائز کر کے ہمیشہ کے لیے مخالفین کی طاقت کو ختم کر دیا۔[14]مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی کا پہلا سفر کم سنی میں بٹھورو سےٹھٹہبسلسلہ حصول تعلیم تھا۔[15]دوسرا اور اہم سفرحرمین شریفینتھا جو حج کا فریضہ ادا کرنے کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کا حصول تھا۔ مخدوم محمد ہاشم نے یہ سفر1135ھ/1723ءکو 31 سال کی عمر میں کیا۔ اس سفر میں انھوں نےحجکی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھعلمِ حدیث،تفسیر، قواعد،فقہاور قراََت کی تعلیم حاصل کی۔ انگریزمستشرق، مہم جو،مترجم، ماہر لسانیات اور جاسوسرچرڈ فرانسس برٹن(1821ء/1890ء) کے مطابقاس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخدوم محمد ہاشم کے سفر خالصتاً علمی اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے تھے۔[16]مخدوم محمد ہاشم حرمین شریفین کے سفر سے واپسی پر مرشد کی تلاش میں سورت بندر کا سفر اختیار کیا اور سید سعد اللہ شاہ قادری سورتی سلونی (متوفی27 جمادی الاول1138ھ/3 مارچ1726ء) کے پاس حاضر ہوئے،سلسلہ قادریہمیں بیعت ہوئے اور خلافت کا خرقہ حاصل کیا۔[17]مخدوم محمد ہاشم نےبھٹ شاہکے بہت سے سفر کیے ا��رشاہ عبد اللطیف بھٹائیسے ملاقاتیں کیں۔[17]مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی نےمٹیاریکا سفر بھی اختیار کیا اور سید رکن الدین متعلوی جو اپنے وقت کے کامل ولی اور نہایت سخی بزرگ تھے، ان مسجد میں نماز ادا کی جس کے مطلق یہ روایت مشہور ہے کہ جو اس مسجد میں نمازِ پنجگانہ ادا کرے گا اس کو قیامت کے دن شفاعت نصیب ہوگی۔[18]شہرکھڑا،ریاست خیرپورمیں واقع ایک چھوٹا شہر ہے۔ یہ شہر قدیم عرصے سے علمی مرکز رہا ہے۔ یہاں مخدوموں کا خاندان آباد ہے۔ اس خاندان کے نسب کا سلسلہ تحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے چچاحضرت عباس بن عبد المطلبسے جا ملتا ہے۔ اس خاندان سے مخدوم اسد اللہ شاہ (متوفی966ھ/1559ء)،جلال الدین اکبرکے دور میں سندھ کےقاضی القضاۃ(چیف جسٹس) مقرر ہوئے تھے۔ کلہوڑا دور میں اس خاندان کے مخدوم عبد الرحمان شہید کُھڑائی ایک مشہور بزرگ و عالم گذرے ہیں، مخدوم محمد ہاشم اس بزرگ کے ہم عصر اور گہرے دوست تھے۔ روایت ہے کہ مخدوم محمد ہاشم نے شہرکھڑاکا سفر بھی کیا اور مخدوم عبد الرحمان شہید سے ملاقات کی۔[19]مخدوم محمد ہاشم کا آبائی وطنسیہونتھاجس کی وجہ سے ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ وہلعل شہباز قلندرکی مزار پر بھی آئے، اس دور میں نماز کے وقت بھی دھمال جاری رہتا تھا۔ مخدوم محمد ہاشم کی کوششوں سے نماز کے اوقات میں دھمال پر پابندی لگی، یہ پابندی ابھی تک تک جاری ہے۔[20]مخدوم محمد ہاشم کے عہد میں جن علمی شخصیات اور علمائے کرام نے اپنے وقت میں تاریخ کے صفحات پر اپنے اپنے علمی نشانات ثبت کر گئے، ان میں چند کے نام ذیل میں ہیں[21]:مخدوم محمد ہاشم نے حصولِ علم کے بعد روحانی تعلیم و تربیت اور اکتساب فیض کے لیے مرشدِ کامل کی تلاش شروع کی، جس کے نتیجے میں اس زمانے کی مشہور روحانی شخصیتمخدوم ابو القاسم نقشبندی ٹھٹویکی خدمت میں حاضر ہوئے اور مریدی میں قبول کرنے کی درخواست کی لیکن مخدوم ابو القاسم نقشبندی ٹھٹوی نے مخدوم ہاشم کو سلسلہ قادریہ کی معروف شخصیت سید سعد اللہ شاہ قادری سلونی سورتی (متوفی27 جمادی الاول1138ھ/31 جنوری1726ء) کی جانب رجوع کرنے کا حکم فرمایا، لہٰذا مخدوم محمد ہاشم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہاں1123ھسے1124ھتک قیام کیا، بعد ازاں سید سعد اللہ سلونی نے مخدوم محمد ہاشم کوسلسلہ قادریہکا خرقہ پہناتے ہوئے اجازت و خلافت سے نوازا۔[22]مخدوم محمد ہاشم کو اللہ نے دو فرزند عطا کیے:مخدوم عبد الرحمان ٹھٹویمخدوم محمد ہاشم کے بڑے فرزند تھے۔ ان کی ولادت16 شوال1131ھبمطابق1 ستمبر،1719ءمیں ہوئی۔ والد کے مریدین بیرونِ سندھکاٹھیاواڑاورکچھمیں بھی پھیلے ہوئے تھے۔ اس لیے مخدوم عبد الرحمانسندھسے باہر مریدوں کو ہدایت اور تلقین کرنے کے لیے جاتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ مریدوں کے پاسکاٹھیاواڑگئے ہوئے تھے، وہیں بروز ہفتہ5 ربیع الاول1181ھبمطابق1 اگست،1767ءکو 51 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔[23]میر علی شیر قانع ٹھٹوی کے مطابق انھوں نےجوناگڑھمیں وفات پائی۔[24]مخدوم عبد اللطیف ٹھٹوی، مخدوم محمد ہاشم کے چھوٹے فرزند تھے۔ ان کی ولادت بروز پیر14 شعبان1144ھبمطابق11 فروری،1732ءمیں ہوئی۔ قرآن کے حافظ، حدیث اور فقہ کے جید علما میں شمار ہوتے تھے۔ انھوں نے والد کے کام کو سنبھالا اور ان کے جانشیں ہوئے۔1187ھمیں والیٔ سندھ میاں سرفراز کلہوڑا کے لشکر میں منصبِ قضا پر مامور ہوئے۔[25]وہ بروز منگل17 ذوالقعدہ1189ھبمطابق9 جنوری،1776ءمیں 45 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ مکلی ٹھٹہ میں اپنے والد کی مزار کے پاس مدفون ہوئے۔[26]مخدوم م��مد ہاشم ٹھٹوی عظیم عالم دین اور کثیر التصانیف مصنف تھے۔ انھوں نے ایک اندازے کے مطابق 300 کتبفقہ، اسماء الرجال،قواعد،تفسیر،قرآن، سیرت النبی،علم عروض،ارکان اسلام،حدیثاور بہت سے اسلامی موضوعات پرعربی،فارسی،سندھیزبانوں میں تصنیف و تالیف کیں۔[27]مخدوم محمد ہاشم کی تمام کتب کا احاطہ تو ممکن نہیں البتہ ان میں سے کچھ دستیاب کتب کی تفصیل دی جا رہی ہے:رباعیمخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی بروز بدھ6 رجب،1174ھ(بمطابق11 فروری،1761ء) کوٹھٹہ،سندھمیں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ وہٹھٹہکے مشہورمکلی قبرستانمیں آسودۂ خاک ہیں۔[4][24][28][29]
+390,1104ھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/1104%DA%BE,
+391,1692ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1692%D8%A1,<<< نویں دہائی <<<آخری دہائی>>> اٹھارویں صدی کی پہلی دہائی >>>
+392,1174ھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/1174%DA%BE,
+393,1761ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1761%D8%A1,<<< چھٹی دہائی <<<ساتویں دہائی>>> آٹھویں دہائی>>>
+394,سندھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%86%D8%AF%DA%BE,"سندھ(سندھی:سنڌ)پاکستانکےچارصوبوںمیں سے ایک صوبہ ہے، جو برِصغیر کے قدیم ترینتہذیبیورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ سندھ پاکستان کا جنوب مشرقی حصہ ہے۔ سندھ کی صوبائی زبانسندھیاور صوبائی دار الحکومتکراچیہے۔سندھ کو باب الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔لفظ ’’سندھ‘‘ دراصل دریائے سندھ ہی سے مستعار ہے، جوسنسکرتلفظ ’’سندھو‘‘ کی موجودہ شکل ہے۔ذیلی منطقہ حارہ میں واقع ہونے کی وجہ سے سندھ کی عمومی آب و ہوا، گرم اور خشک ہے جبکہ ساحلی علاقوں کا موسم قدرے مرطوب ہے۔ تاہم، گرمیوں (بالخصوص مئی۔ جون) میں موسم سخت گرم اور سردیوں (بالخصوص دسمبر۔ جنوری) میں موسم انتہاہی سرد رہتا ہے۔ سندھ کا علاقہ جیکب آباد اپنے ریکارڈ درجہ حرارت کی وجہ سے مشہور ہے۔ جولائی اور اگست کے ماہ مون سون کے موسم ہیں۔ سندھ میں اوسطاًسالانہسات انچ بارش ہوتی ہے۔ یہ بات کم ہی افراد جانتے ہیں کہ سندھ کے شمال میں کوہ کھیرتھرکے بعض علاقے سطح سمندر سے 6000 ہزار فٹ بلند ہیں اور موسمِ سرما میں اکثر یہاںبرف باریہوتی ہے۔زمانہ قدیم سندھ اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموے ہوئے ہے۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراڑوی آبادکاروں سے قبل یہاں(7000 ق م) مختلف قبائل آباد تھے۔ دراڑویوں نے تقریباً 4000 ق م میں وادئ سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔موہن جوداڑوکے کھنڈر بتاتے ہیں کہ دراڑوی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشتکاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے۔ جنھوں نے پانچ ہزار سال قبل (3000 ق م) وادئ سندھ کو علمی، فنی اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔ وادئ سندھ کے دامن میں کئی شہری مراکز قائم تھے، جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ موجودہ گرڈ سسٹم کے قاعدے کے مطابق آباد ان شہروں میںشاہرایںپختہ تھیں اور نکاسی و فراہمئ آب کا زیرِ زمین نظام موجود تھا۔ مگر پھر کسی ناقابلِ دریافت وجہ سے وادئ سندھ کے یہ عظیم مراکز تباہی سے دوچار ہو گئے۔ موہن جو داڑو اور دیگر دراڑوی مراکز کی تباہی کی کیا وجوہات تھیں، اس پر محققین میںاختلافپایا جاتا ہے۔ بعض اسے قدرتی آفات اور سیلاب قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض محققین کے نزدیک وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ سے آریاوں کی فوجی یلغار نے یہ تہذیب نیست و نابود کردی۔ آریاوں نے یہاں ہند۔ آریائی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو دریائے سرسوتی اوردریائے گنگاکے کناروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب 1500 ق م میں اپنے عروج پر تھی۔ ہند۔ آریائی تہذیب (ویدک سویلایزیشن 1700-500 ق م) نےہندوستانکےمذہب، رسوم، معاشرت و رہن سہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔سندھ: کلہوڑا دور کا فنِ تعمیر[1]برِصغیر کے فن و ثقافت، خاص طور پر فنِ تعمیر کے ضمن میں محققین کی یہ شکایت عام ہے کہ علاقائی رجحانات پر نہ تو ریسرچ کی جاتی ہے اور نہ اِن نادر و نایاب نقوش کا کوئی مستند ریکارڈ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے۔
+اس شکایت کے ازالے کی خاطر آج سے تین برس پہلے سندھی ثقافت کے امین ادارے سندھ آرکائیوز نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کی جِسے ماہرین فنِ تعمیر کے علاوہ تاریخ کے طلبہ نے بھی بہت سراہا اور بے چینی سے اس منصوبے کے نتائج کا انتظار کرنے لگے۔حال ہی میں اس سلسلے کا تحقیقی مواد ایک کتاب کی شکل میں منظرِ عام پر آیا ہے جس کے مولّف ہیںسیدحاکم علی شاہ بخاری ہیں۔ مواد کی ترتیب و پیشکش میں انھیں سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر غلام محمد لاکھو اور ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کی مدد اور بھر پور تعاون حاصل رہا ہے۔ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ ورثہ دو طرح کا ہوتا ہے: مرئی اور غیر مرئی۔ مرئی اشیا وہ ہیں جنہیں ہم ٹھوس شکل میں اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں مثلاً فنِ تعمیر، مصوری، صنم تراشی، نقاشی، کندہ کاری، زر دوزی وغیرہ، جبکہ غیر مرئی ثقافتی ورثے میں شعر و ادب وغیرہ آتے ہیں۔ ٹھوس شکل میں نظر آنے والا ثقافتی ورثہ خود بخود محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر قدیم رومن آثار، یونانی کھنڈر، پراچین بھارت کے مندر اورجنوبی امریکامیں قبلِ مسیح کے تاریخی آثار کو بے رحم فطرت کے مقابل بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہوتا تو آج ہمیں قدماء کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوتا۔سندھی تہذیب کی بہت سی تاریخی نشانیاں موسمی شداید کی نذر ہو کر ہمیشہ کے لیے نابود ہو چُکی ہیں، لیکن جو آثار ابھی موجود ہیں اُن کو ریکارڈ پر لانا اور اُن کے تحفظ کی جدو جہد کرنا، سندھ آرکائیوز کے مقاصد میں شامل ہے اور اس غرض سے کئی تحقیقی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ایسے ہی ایک ریسرچ پراجیکٹ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔پاک و ہند کے فنِ تعمیر پر یوں تو گذشتہ دو صدیوں سے کام ہو رہا ہے لیکن یہ محققین یورپ سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کی تمام تر عرق ریزی کے باوجود یہ نکتہ اُن پر عیاں نہ ہو سکا کہ وہہندوستانیفنِ تعمیر کو یورپ کے روائیتی کلاسیکی پیمانوں سے ناپ رہے ہیں۔ اس سقم کا احساس پہلی بار 1920 کی دہائی میں ہوا لیکن تب تک ثقافتی مطالعے کے ضمن میں کئی اور نظری مسائل سر اُٹھا چُکے تھے، مثلاً یہی کہ ایک دور کے طرزِ تعمیر کو دوسرے دور سے ممیّز کرنے کے لیے ہم ایک واضح خطِ تقسیم کیسے کھینچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور ہر کیا ہم سلطنت دور کے فنِ تعمیر کو ایک لکیر کھینچ کر مغلیہ دور کے فنِ تعمیر سے الگ کر سکتے ہیں؟زیرِ نظر کتاب میں یہ مسئلہ مغلیہ اور کلہوڑا دور کے خطِ امتیاز کی صورت میں نظر آتا ہے، کیونکہ تاریخی طور پر جب کلہوڑا دور کا سورج طلوع ہو رہا تھا تو سلطنتِ مغلیہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا لیکن ادب، آرٹ، کلچر اور تہذیب کی تقسیم دو ٹوک انداز میں نہیں ہو سکتی کیونکہ ایک دور کے اثرات اگلے دور کے انداز دُور تک مار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سندھ ارکائیوز کے ڈائریکٹر اقبال نفیس خان کی مدد سے مصنف حاکم علی شاہ بخاری نے اس پراجیکٹ کا قریب سے مطالعہ کیا اور ایک ایسی کتاب تحریر کی جو نہ صرف اسکالروں بلکہ عام قارئین کے لیے بھی دلچسپی کا باعث بنے اور کلہوڑا دور کے حوال�� سے پڑھنے والوں کے ذہن میں سندھ کے قدیم اور جدید طرزِ تعمیر کی مختلف جہتوں کو روشن کرے۔گڑھی کے مقام پر میاں نصیر محمد کیمسجدجو امتدادِ زمانہ سے کھنڈر میں تبدیل ہوچُکی تھی، لیکن حال ہی میں اس کی تعمیرِ نو ہوئی ہے۔کلہوڑا دور کے فنِ تعمیر پر بڑی تختی کے ایک سو ستائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب سندھ آرکائیوز نے خود شائع کی ہے۔ مختلف عمارتوں کی رنگین اور سیاہ و سفید تصاویر حاصل کرنے کے لیے کراچی کے جوان سال فوٹو گرافر وقار اشرف کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ طالب علموں کی قوتِ خرید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کتاب کی قیمت صرف 400 روپے مقرر کی گئی ہے جو کتاب پر آنے والی اصل لاگت سے بہت کم محسوس ہوتی ہے۔موجودہ سندھ، انتظامی لحاظ سے مندرجہ ذیل 23 ضلعوں میں منقسم ہے۔سندھ کا دار الحکومتکراچیہے۔ سندھ کے کراچی سمیت دیگر بڑے شہر درج ذیل ہیں۔کراچیحیدرآبادحیدرآباد، سندھسکھرسندھی قبائل"
+395,ٹھٹہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%B9%DA%BE%D9%B9%DB%81,"ٹھٹہ شہر(سندھی:ٺٽو،انگریزی:Thatta)پاکستانکےصوبہ سندھمیںدریائے سندھکے کنارے آباد ایک قدیمی اور تاریخی شہر ہے۔قرونِ وسطیٰکے زمانے میں ٹھٹہسندھکا دار الحکومت رہا ہے۔326 قبل مسیحمیںسکندر اعظم کی ہندوستان آمد اور ہندوستان پر لشکر کشیکے آثار یہاں ایک جزیرہ پر ملتے ہیں۔ٹھٹہ چونکہ تاریخی شہر ہے، اِسی لیےاقوام متحدہکے ادارہیونیسکونے ٹھٹہ کے متعدد تاریخی آثار و مقابر کو اپنےعالمی ثقافتی ورثہ کی فہرستمیں شامل کر رکھا ہے۔ٹھٹہ شہر کے اطراف و اکناف میں متعدد مقامات پر قدیم تاریخی نوادرات دریافت ہوئے ہیں جن سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ ٹھٹہ شہر زمانہقبل مسیحسے آباد رہا ہے۔ہندوستانمیں مسلم حکومت کے قیام کے بعد ٹھٹہ شہر علم و ہنر کا مرکز بن گیا۔چودہویں صدی عیسویمیںسندھمیںسما سلطنتکے حکمرانوں نے سرکاری طور پر ٹھٹہ کو دوبارہ آباد کیا اور شہر کی حیثیت سے نئی طرز پر بسایا اور دار الحکومت قرار دیا۔سلطنت مغلیہکے عہد تک ٹھٹہ ترقی یافتہ اور متحرک شہر تھا مگربرطانوی راجکے دورانکراچیکی اُبھرتی ہوئی حیثیت نے اس شہر کو شدید نقصان پہنچایا اور بالآخرکراچیمیں بندرگاہوں کے قیام کے بعد اِس شہر کی حیثیت محض تاریخ کے صفحات کی زینت بنتی چلی گئی۔ٹھٹہ کا شاندار ماضی یہاں کی تاریخی و قدیمی عمارات، مقابراور مساجد ہیں جن میں سےشاہجہانی مسجداورمکلی کا عظیم ترین قدیمی قبرستاننمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ معلوم تاریخ و شواہد کے مطابق ٹھٹہ کی تاریخ دو ہزار قبل مسیح سے بھی قدیم ہے۔فارسیاورعربیکتب میں اِس شہر کا نامتھتہیاتتہلکھا ہوا ملتا ہے جوالبتہکا ہم قافیہ ہے۔ مصنف بستان السیاحۃ نے اِسے ’’البتہ‘‘ کا ہم قافیہ ہی مراد لیا ہے[1]۔ لیکن اِس ہم قافیہ بے معنی لفظ سے ٹھٹہ کی وجہ تسمیہ ناقابل فہم ہے بلکہ مصنفتحفۃ الکرامکی رائے متذکرہ بالا رائے سے کہیں بہتر ہے ۔سندھکے نامور محقق اور کثیر الجہت شخصیتمیر علی شیر قانع ٹھٹوینے اپنی تصنیفتحفۃ الکرام(سالِ تصنیف:1767ء) میں ٹھٹہ کے نام کی وجہ یوں بیان کی ہے کہ: ’’اِس وقت (1181ھمطابق1767ء) ٹھٹے کی وجہ تسمیہ کے بارے میں دو باتیں مشہور ہیں: کچھ کہتے ہیں کہ یہ ’’تہ تہ‘‘ یعنی ’’ نشیبی نشیبی‘‘ کی خصوصیت سے منسوب ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ یہ ’’ٹھٹ‘‘ کے لفظ سے موسوم ہے جو سندھیوں کی اصطلاح میں ’’لوگوں کے جمع ہونے کے مقام‘‘ کے معنی رکھتا ہے۔ مخفی نہ رہے کہ یہ سرزمین جیسا کہ تواریخ سے معلوم ہوتا ہے، قدیم زمانے میں بھی ٹھٹے کے ��ام سے پکاری جاتی تھی اور چونکہسندھکے بالائی حصہ کو عام لوگ ’’سیرو‘‘ کہتے ہیں اور اِس نشیبی حصہ کو ’’لاڑ‘‘ (یعنی نشیب یا ڈھال) کہا جاتا ہے، اِس لیے (یہی رعایت) ٹھٹے کی وجہ تسمیہ کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے۔[2]مصنفتحفۃ الکرامکے بیانِ مذکور سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ1181ھمطابق1767ءتک اِس شہر کو ٹھٹہ کے نام سے ہی پکارا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ یہسلطنت مغلیہکا عہدِ زوال ہے جبکہایسٹ انڈیا کمپنیبنگالمیں اپنے قدم جماچکی تھی۔
+ماہر آثارِ قدیمہاحمد حسن دانی(متوفی2009ء) کے مطابق ٹھٹہسندھی زبانکے دو اَلفاظٹھٹویاٹھٹسے مشتق ہوا ہے جن کے معانی ہیں: ’’دریاء کے کنارے آباد ہونا‘‘[3]۔سندھکی عوام اِس شہر کو عموماًٹھٹہ نگریا محضنگرکے نام سے بھی پکارتی ہے۔موجودہ ٹھٹہ شہر کوہِ مکلی کے دامن میں قدیم شہر کے کھنڈر پر آباد ہے ۔ موجودہ شہرسما سلطنتکے عہد میں سنہ900ھمطابق1495ءمیں دوبارہ آباد کیا گیا تھا۔ ٹھٹہ شہرپاکستانکے صوبہسندھمیںضلع ٹھٹہمیں واقع ہے۔ٹھٹہ شہر کا طول بلد 67 درجہ 55 دقیقہ 28 ثانیہ اور عرض بلد 24 درجہ 44 دقیقہ 46 ثانیہ ہے۔اردو دائرہ معارف اسلامیہکے مقالہ نگار نے ٹھٹہ شہر کا طول بلد 68 درجہ اور عرض بلد 24 درجہ 44 دقیقہ لکھا ہے۔ آج کلدریائے سندھٹھٹہ سے تقریباً چھ میل مشرق کی سمت میں بہتا ہے اور چار پانچ میل نیچے جا کر دو شاخوں میں منقسم ہوجاتا ہے، مگر1758ءتکدریائے سندھٹھٹہ کے جنوب میں بہتا تھا اور اِس کی ایک شاخ ٹھٹہ کے مغرب میں بہتی تھی۔[4][5]ٹھٹہکراچیسے 102 کلومیٹر مشرق ،بدینسے 110 کلومیٹر مغرب،سجاولسے 27 کلومیٹر مغرب،حیدرآبادسے 101 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ٹھٹہ کا ذِکرشمس سراج عفیفنے اپنی تصنیفتاریخ فیروز شاہیمیں کیا ہے۔ اِس سے قبل ٹھٹہ کا ذِکر کسی تاریخی کتاب میں نہیں ملتا۔تاریخ فیروز شاہیمیں اِس شہر کا تذکرہ747ھاور748ھمطابق1347ءکے وقائع میں آیا ہے[6]۔ اِس تاریخی ثبوت کے پیش نظر میجر جنرل Malcolm Robert Haig نے قیاس کیا ہے کہ1340ءکے لگ بھگ یہ شہر دوبارہ آباد ہوا ہوگا۔[7]ٹھٹہ کی تحریری تاریخ1347ءسے قبل کی کتب میں موجود نہیں، البتہ قدیمی کھنڈر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شہر دو ہزارقبل مسیحسے بھی قبل آباد تھا کیونکہسکندر اعظمکی یہاں آمد سے متعلق تاریخی شہادت سے قطعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سنہ326 قبل مسیحمیں بھی یہ شہر آباد تھا تاہم حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا موجود ہ شہر ہی ٹھٹہ وہ مقام تھا یا وہ قدیمی کھنڈر تھے جن پر دوبارہ شہر آباد ہوا۔سکندر اعظمکے عہدِ حکمرانی میں موجودہسندھکا تمام علاقہپاطالین(Patalene) کے نام سے پکارا جاتا تھا جس کا مصری جغرافیہ نگاربطلیموسنے اپنی ’’جغرافیہ‘‘ نامی کتاب اور یونانیمؤرخاسٹرابونے اپنی تصنیف ’’Geography‘‘ میں شامل بحث کیا ہے۔لیکن دونوں مؤرخین کے تذکرۂسندھمیں ٹھٹہ نام کا کوئی شہر نہیں ملتا۔ اِس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اُن دِنوں ٹھٹہ کے موجودہ مقام پر اِتنی آبادی نہیں ہوگی جو ایک شہر کی تعریف کے لیے ہو۔بطلیموساوراسٹرابوکےسندھسے متعلق ٹھٹہ کا تذکرہ نہ کرنا اِس بات کا ہے کہسکندر اعظمٹھٹہ کبھی نہیں آیا۔ متذکرۂ بالا تاریخی شواہد سےسکندر اعظمکی ٹھٹہ میں آمد مشکوک ہوجاتی ہے کیونکہبطلیموسکا زمانہ100ءسے170ءتک اوراسٹرابوکا زمانہ 64 قبل مسیح سے24ءتک کا ہے جوسکندر اعظمکے قریب تین سو برس بعد کا زمانہ ہے۔قدیم زمانے میں یہاں (ٹھٹہ) کی زمین سمندر کے پانی سے چھپی ہوئی تھی۔ایک مدت گذرنے پر سمندر کا پانی واپس ہو گیا اور خشک میدان نکل آیا۔ اِس کے بعد شہراروڑکے برباد ہونے اوردریائے سندھکےسیہون(سیوستان) کی طرف رخ بدلنے کی وجہ سے یہ زمین پھر غرقاب ہو گئی۔ پھر جب شہر محمد طور سومرہ سرداروں سمیت ویران ہو گیا توسما سلطنتکے حکمران نظام الدین جام نندو نے دوبارہ ٹھٹہ شہر کی ازسر نو تعمیر کروائی۔1336ءمیںسندھکےسما حکمرانوںکے زوال کے بعدسما خاندانکی حکمرانی شروع ہوئی تو انھوں نے کوہِ مکلی کے دامن میں ایک شہر بسایا جس کا نام ’’ساموئی‘‘ رکھا۔ یہسما سلطنتکے حکمرانوں کا پہلا دار الحکومت تھا۔ بعد ازاں انھوں نے کوہِ مکلی سے چھ میل جنوب کی سمت میں کوہِ مکلی کے پشتے پر قلعہ تغلق آباد تعمیر کیا (یا غالباً کسی قدیمی قلعہ کی مرمت و تجدید کی)، جسے اب کَلا کوٹ کہتے ہیں۔ اِسی قلعہ کو انھوں نے پایہ تخت بنالیا۔ تقریباً900ھمطابق1495ءکےلگ بھگسما سلطنتکے حکمران نظام الدین المعروف بہ جام نندو نے ساموئی اور کلا کوٹ کے درمیانی علاقہ میں ٹھٹہ کے نام سے دوبارہ آباد کیا اور دار الحکومت یہیں منتقل کر لیا۔[8]صاحبتحفۃ الکرامکے بیان کے مطابق ٹھٹہ کی ازسر نو تعمیر و بنیاد میں نظام الدین جام نندو نے نجومیوں سے مدد لی تھی اور کہا تھا کہ:’’ ایک نیا شہر (بطور دار الحکومت) آباد کرنے کے لیے ایک ایسا قطعہ اراضی منتخب کیا جائے جو مسرت بخش ہو، جس کے باشندے کم و بیش آرام پسند ہوں، ہمیشہ سیر و تفریح میں زندگی گزاریں اور اُن کی فطرت میں کمال و لیاقت کی خوبی شامل ہو۔ چنانچہ اِنہی اوصاف و خصوصیات کے پیش نظر سرزمین ٹھٹہ کا اِنتخاب عمل میں لایا گیا ۔ جس کے مشرق میں کچھ باغات تھے اور وسط شہر میں میر بحر (ملاح) رہا کرتے تھے‘‘۔[9]موجودہ ٹھٹہ شہر کوہِ مکلی کے دامن میں قدیم شہر کے کھنڈر پر آباد ہے ۔سندھکی سیاسی تاریخ میں ٹھٹہ کا تذکرہ بارہا آیا ہے۔ ٹھٹہ اور اِس کے نواح میں عرب فاتحین پہلی بار اُموی خلیفہعبد الملک بن مروانکے دور میں وارد ہوئے اورمحمد بن قاسمنےاَروڑکی مہم کے لیے ٹھٹہ ہی کے قریبدریائے سندھکو پار کیا۔ یہ علاقہ پہلےاُموی خلافتاور بعد ازاںخلافت عباسیہکے عاملین کے ماتحت رہا۔سلطنت غزنویہکے نامور حکمرانسلطانمحمود غزنوینے1026ءمیںعباسی خلیفہالقادر باللہ العباسیکے عاملوں کوملتاناوراُچسے نکال باہر کیا۔1026ءمیں غزنوی وزیر عبد الرزّاق نےسلطانمحمود غزنویکے حکم کے مطابق ٹھٹہ اورسیوستانکے نواحی علاقوں اور اقوام کو زیر کر لیا اور عربوں کوسندھسے مار بھگایا۔ ٹھٹہ پر غزنوی خاندان کا قبضہ1183ءتک رہا جو مجموعی طور پر157 سال کا عرصہ ہے۔[10]1183ءمیں ٹھٹہ پر سے غزنوی اِقتدار ختم ہوا تو ٹھٹہ کی بے امنی کا دور شروع ہو گیا۔ یہ دور بہت ہی پرآشوب تھا۔ اِس دور کی بے امنی کی بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ ٹھٹہ کے حکام اور عوام‘ دونوں نے ہیسیاستمیں حصہ لینا شروع کر دیا تھا مثلاًتغلق خاندانکے عہدِ حکومت میں ہندو رعایا اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگی۔1320ءمیں جبسلطانغیاث الدین تغلقملتانسےدہلیگیا تو اُسی وقتسومرہ قومنے بغاوت کردی اور ٹھٹہ پر تسلط قائم کر لیا۔ اِس کے بعدمارچ1351ءکو جبسلطانمحمد شاہ تغلقنے ٹھٹہ کے قریب وفات پائی تو گجرات کے حاکم ’’طَغِی‘‘ نےقوم سومرہاور جاریجہ سے ساز باز کرکےسلطانفیروز شاہ تغلقکے خلاف بغاوت کردی اورسلطانفیروز شاہ تغلقسے ٹھٹہ کے قریب جنگ کی۔1370ءمیں حاکم ٹھٹہ جام خیر الدین نے بھی بغاوت کردی۔ چنانچہ پے در پے بغاوتوں کے نتیجے میںسلطانفیروز شاہ تغلقکو ٹ��ٹہ میں آنا ہی پڑا۔ جام خیر الدین قلعہ بند ہو گیا، چونکہ موسم لشکرکشی کے لیے سازگار نہ تھا۔اِس لیے سلطان گجرات کی جانب بڑھ گیا۔واپسی پر جب ٹھٹہ آیا تو جام خیر الدین نے معافی طلب کرلی۔سلطانفیروز شاہ تغلقنے اُس کے فرزند جام جُونہ کو ٹھٹہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ یہ واقعہ1375ءکا ہے ۔[11]تغلق خاندانکی حکمرانی کے دوران ہیسندھمیںسما سلطنتقائم ہوئی۔1336ءمیںجام انارنےسما سلطنتکی داغ بیل ڈالی تو ٹھٹہ کے سیاسی و اخلاقی حالات بدستور ناگفتہ بہ تھے[12]۔ اِسی طرح1406ءمیں جام علی شیر جو دانا و بہادر حکمران تصور کیا جاتا تھا، کو اُس کے بھائیوں نے دغا سے قتل کروا دیا۔ اِس زمانہ میں سلطان علی شاہ میران خاں بن سلطان سکندر بت شکن(813ھ–813ھ) نے ٹھٹہ فتح کر لیا[13]اور جام کَرَن بن تَماچِی کو حاکم ٹھٹہ مقرر کر دیا۔مگر عوام نے دوسرے ہی روز جام کَرَن کو قتل کرڈالا۔1508ءمیںجام فیروزبن جام نظام الدین کی حکمرانی قائم ہوئی تو عوام نے جام صلاح الدین کو خط لکھا کہجام فیروزحکومت کے لائق نہیں، ہم تمھیں ٹھٹہ کی حکومت پیش کرتے ہیں۔1512ءمیں جام صلاح الدین نےسلطنت گجراتکے بادشاہسلطانمظفر شاہ دؤمکی مدد سے ٹھٹہ پر قبضہ کر لیا۔لیکن جام صلاح الدین کی حکمرانی چند روزہ ہی ثابت ہوئی اور آٹھ مہینے کی حکومت کے بعد1513ءمیںجام فیروزشاہ بیگ ارغونکی مدد سے اُسے ٹھٹہ میں شکست دینے میں کامیاب ہو گیا۔جام فیروزدوبارہ ٹھٹہ کا حاکم ہو گیا اور1527ءتک حاکم ٹھٹہ رہا۔[14][15]تغلق خاندانکے بعد ٹھٹہ کے خود مختار حکمرانوں کا دَور شروع ہوا۔ یہ حکمران ’’جام‘‘ کہلاتے تھے۔ جام نِندو یعنی جام نظام الدین بن بانہبینہ کا عہد زریں ترین عہد تھا۔جام نظام الدین دومیعنی جام نِندو نیک اور علم دوست حکمران تھا۔ شیراز سے ملاجلال الدین دوانینے اپنے دو فاضل شاگردوں‘ میر شمس الدین اور میر معین کو ٹھٹہ بھیجا مگر خود ملاجلال الدین دوانیراستے میں ہی اِنتقال کرگئے اور یہ دونوں شاگرد ٹھٹہ میں ہی مقیم ہو گئے۔جام نِندو نے ٹھٹہ سے چوروں اور ڈاکوؤں کا خاتمہ کروایا۔[16]1509ءمیںجام نظام الدین دومیعنی جام نِندوکی وفات ہوئی توشاہ بیگ ارغون‘ حاکمبھکرنے ٹھٹہ پر لشکرکشی شروع کردی۔شاہ بیگ ارغوننے1508ءمیں ٹھٹہ پر پہلا حملہ اور1521ءمیں دوسرا حملہ کیا۔ دوسرے حملے کے دوران وہ مکملاً ٹھٹہ پر قابض ہو گیا۔اِن حملوں سےسما خاندان کے جام حکمرانوںکی حکومت ختم ہو گئی اورشاہ بیگ ارغونحکمران بن بیٹھا۔ وہ چاہتا تھا کہسندھکے علاوہگجراتکا علاقہ بھی اُس کے ہاتھ آ جائے کیونکہ وہ جانتا تھا کہکابل کا مغل حکمران بابرہندوستان پر حملہ کرنے کو تیار ہے اور اُسے وہبھکرسے نکال باہر کرے گا۔ اِسی لیےشاہ بیگ ارغوناپنے لیے کوئی اور علاقہ تجویز کر رہا تھا مگر اِسی اثناء میں1524ءمیں وہ انتقال کرگیا اور یہ خواب محض خواب ہی رہ گیا۔ اُس کے اِنتقال کے بعد اُس کے بیٹے میرزا شاہ حسین (930ھ–961ھ) نے اپنی سیاسی بصیرت و تدبر اور استقلال کے باعث مغل بادشاہوں کاسندھمیں اِقتدار قائم نہ ہونے دیا۔البتہبابر نامہکے اِقتباسات سے پتا چلتا ہے کہ میرزا شاہ حسین اورمغل شہنشاہ بابرکے مابین تعلقات قائم ہو گئے تھے کیونکہ میرزا شاہ حسین کی درخواست پرشہنشاہ بابرنے1527ءمیںآگرہسے گنجفہ[17]بھجوایا تھا۔[18]ٹھٹہ (سندھ) پرشاہ بیگ ارغوناور اُس کے خاندان کی حکومت1520ءسے1554ءتک قائم رہی۔ اِس دورانعربیاورسندھیکو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل رہی۔1554ءمیںارغون خاندانکا ٹھٹہ اور اُس کے قرب و ج��ار میں اقتدار کمزور پڑنا شروع ہوا توترخان خاندانبرسر اِقتدار آگیا۔ جنھوں نے 38 سال تکسندھپر حکومت کی۔ نواب میرزا عیسیٰ خاں ترخان کے عہدِ حکمرانی میں ماہ ِربیع الثانی963ھمطابقمارچ1556ءمیں پرتگالیوں نے جمعہ کے دن ٹھٹہ پر دھاوا بول دیا۔لوگ نمازِ جمعہ اداء کر رہے تھے کہ پرتگالیوں نے شہر کو لوٹ کر مکانات کو آگ لگا دی۔ میرزا عیسیٰ خاں اُس وقتبھکرمیں تھا۔ اُسے خبر ملی تو فوراً ٹھٹہ پہنچا۔اُس نے شہر کی ایک فصیلدریائے سندھکے ساتھ ساتھ تعمیر کروائی اور ایک نہر کھدوا کر شہر کے اندر لایا۔ نیا قلعہ ’’شاہ بندر‘‘ بھی تعمیر کروایا۔[19]1526ءمیں جبکابلکے مغل حکمرانظہیر الدین محمد بابرنے ہندوستان پر لشکرکشی کی تو اُس وقت تک سندھ پر مقامی حکمرانوں کی حکومت قائم تھی۔ اوائل عہد میں مغلوں کی توجہسندھکی جانب مبذول نہ ہوئی البتہ اِس دورانسما حکمران،ارغون حکمراناورترخان حکمراننے حکومت کی۔1540ءکے عشرہ میں جبمغل شہنشاہہمایوںشیر شاہ سوریسے شکست کھا کر پناہ کی تلاش میں نکلا تو وہلاہورسے ہوتا ہوابھکرآیا اوربھکرسے مایوسی کی حالت میں ٹھٹہ پہنچا مگر حسین میرزا ارغون‘ والی ٔ ٹھٹہ نےہمایوںکے خلاف بر سر پیکار ہو گیا اور جنگ کی اور لشکر ہمایوں میں غلہ پہنچنا بند کروا دیا۔ ناچارمغل شہنشاہیہاں سے رخصت ہوا اورجودھ پورکی جانب چلا گیا۔[20]1590ءاور1591ءکے دورانمغل شہنشاہجلال الدین اکبرکے حکم پروزیر خانِ خاناںنےسندھپر لشکرکشی کی۔اِس لشکرکشی میںترخان خاندانکو شکست ِ فاش ہوئی اور ٹھٹہ ترخانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔خاندانِ مغلیہکے مقرر کردہ نوابوں نے یہاں حکومت کی جنہیں اُن کی قابلیت کے مطابق چار ہزاری، پنج ہزاری یا ہفت ہزاری کا منصب عطاء کیا جاتا تھا۔مرزا غازی بیگ ترخانکومغل شہنشاہجلال الدین اکبراور بعد ازاںنور الدین جہانگیرکے دربار سے بھی حاکمسندھمقرر کیا گیا۔مغل شہنشاہجہانگیرکے عہد حکومت میں1614ءمیںسندھکو ایک الگ صوبہ قرار دے دیا گیا اور ٹھٹہ اِس کا صدرِ مقام قرار پایا۔1591ءسے1701ءتکسندھسلطنت مغلیہکے صوبہ کی حیثیت سے رہا اور ٹھٹہ اِس کا صدر ِ مقام تھا۔نواب سردار خان کے عہدِ حکومت میں ٹھٹہ میں قحط اور طاعون پھیلا۔ کہا جاتا ہے کہ اِس سے تقریباً نصف شہر غیر آباد ہو گیا۔ نواب حفیظ اللہ خان نے نیا قلعہ تعمیر کروانا شروع کیا مگر وہ نامکمل ہی رہ گیا۔[21]ماہِ صفر1069ھمطابقنومبر1658ءمیں جبمغل شہنشاہاورنگزیب عالمگیردارا شکوہکے تعاقب میں تھا اور مغل فوجدارا شکوہکو تلاش کرتی پھر رہی تھی تودارا شکوہٹھٹہ میں آ پہنچا مگر تعاقب میں مغل فوج تھی، اِس لیےدارا شکوہناچار حالت کے باعثگجراتکی طرف فرار ہو گیا۔[22]1701ءمیںسندھمیںکلہوڑا خاندانکی حکومت قائم ہوئی توسندھتب تک خود مختار کلہوڑا حکمرانوں کی تحویل میں تھا جنھوں نے مغلوں کے رُوبہ زوال ہوتے ہوئے اِقتدار سے جلد ہی اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا۔1150ھمطابق1737ءمیںکلہوڑا حکمرانمیاں نور محمد کلہوڑونےمغل شہنشاہمحمد شاہکے عہدِ حکومت میں مغل حکومت سے لے لیا اور اپنی خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئےسندھپر حاکم بن بیٹھا۔1738ءمیں جبنادر شاہنے ہندوستان پر لشکرکشی کا اِرادہ کیا تومیاں نور محمد کلہوڑوٹھٹہ سے فرار ہوکرعمر کوٹچلا گیا مگرنادر شاہکے فوجیوں نے گرفتار کر لیا۔جبنادر شاہدہلیمیں داخل ہوا تومیاں نور محمد کلہوڑونے اُس کے قتل کے واسطے چند افراد متعین کیے مگر یہ راز فاش ہو گیا اورنادر شاہکے ہندوستان سے چلے جانے کے بعدسندھپر سے غیر ملکی حملہ آوروں کا خدشہ ختم ہوا۔ٹھٹہ مدتِ دراز سے تجارت کا اہم مرکز رہا ہے۔سلطنت مغلیہکے زمانہ میں تجارت میں ٹھٹہ کی برابری ہندوستان کا کوئی شہر نہ کرسکتا تھا۔ اُس زمانے میںملتاناوربھکرسے اَموال و اثقال براہِدریائے سندھکشتیوں میں ٹھٹہ لاتے تھے اور مسافر بلکہ لشکر بھی خشکی کے راستے پر، جہاں جنگل اور پانی کی دستیابی کی دشواری تھی، وہاںدریائے سندھکے راستے کو ترجیح دی جاتی تھی۔1758ءتک ٹھٹہ تجارت کا مرکز بن چکا تھا۔ ٹھٹہ سےبھکرتک کشتیوں کی آمد و رفت کا تانتا بندھا رہتا تھا[23]۔1591ءمیں جبخانِ خاناںنے ٹھٹہ پر لشکر کشی کی تو بار بار لشکر کو غلہ کشتیوں کے ذریعہلاہورسے وہاں تک پہنچایا گیا۔[24]1614ءکے قریب قریب پرتگیزیلاہورسے کشتیوں میں سواریاں اور مال بھر کر ٹھٹہ لاتے تھے اور وہاں سے مال کوایرانبھیجتے تھے[25]۔ سیاح فوسٹر نے لکھا ہے کہلاہورسے براہِدریائے سندھتک ایک مہینہ کا سفر تھا اور بالعکس دو مہینے کا؛ مگر بقول سیاح فنچ نے لکھا ہے کہلاہورسے ٹھٹہ براہِدریائے سندھچالیس دن کی راہ پر ہے، بہت سی کشتیاں ساٹھ ٹن اور اُس سے زائد وزن کی برسات کے بعدملتان، سیت پور (ضلع مظفر گڑھ) اوربھکراورروہڑیکے راستے چلتی تھیں۔ کوہستانِ چنبہ سے لکڑی براستہدریائے سندھوزیر آباداور وہاں سے کشتی ہائے چوب میں اُسےبھکراور ٹھٹہ پہنچاتے تھے۔[26][27]ٹھٹھہ کے بازاروں میں مرزائی بازار، گودڑی بازار، گوا بازار، غلہ بازار، بازار امیر بیگ اور بازار قصاباں مشہور ہیں ،مشہور سیاحابن بطوطہاگرچہ اِس علاقے سے براستہدریائے سندھگذرا ہے مگر وہ شاید ٹھٹہ میں نہیں اُترا اور اِسی لیے اُس نے ٹھٹہ کا حال نہیں لکھا۔1615ءمیں سر تھامس رو کے پادری چیپلن ٹیری نے اِسے زرخیز اور خوشگوار مقام بتلایا ہے۔1665ءاور1666ءکے درمیانی عرصہ میں اطالوی سیاح تراورنیے (Travernier) نے بھی ٹھٹہ کو دیکھا اور یہاں سے گذرتے ہوئے مشاہدہ کیا ہے۔اُس کی رائے تھی کہ : یہاں کی تجارت اب رُو بہ انحطاط ہے کیونکہ دریا (دریائے سندھ) کا دہانہ زیادہ خطرناک ہو چکا ہے اور جا بجاء جوہڑ بن رہے ہیں۔1699ءمیں الیگزینڈر ہملٹن (Alexander Hamilton) ٹھٹہ سے گذرا، اُس کے اندازے کے مطابق شہر تین میل لمبا اور نصف میل چوڑا تھا اور اُس وقت آبادی 80 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔[28]ٹھٹہ کے نوادرات میں جامع مسجد (جسےشاہجہانی مسجداوربادشاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے) جو مغل بادشاہشاہجہاننے49-1647ءکے درمیان تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں 93 گنبدہیں اور اس مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی آواز بغیر کسیمواصلاتی آلہکے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ مقبروں میں یہاں سب سے بڑا اور قابلِ دید مقبرہعیسیٰ خان ترخانکا ہے جو1644ءمیں انتقال کر گیا تھا۔ عیسیٰ خان ترخان نے یہ مقبرہ اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروا لیا تھا۔ مقبرے کی تعمیر مکمل ہوتے ہیں، عیسٰی خان نے مقبرے کو بنانے والے ہنرمند کے ہاتھ کٹوا دیے تھے تاکہ کوئی دوسرا بادشاہ اس طرح کا مقبرہ نہ بنوا سکے۔[29]عیسیٰ خان کے مقبرے کے علاوہ یہاں مرزا جانی بیگ، مرزا تغرل بیگ اور دیوان شرفاء خان کے مقبرے بھی نہایت مشہور ہیں۔
+اس کے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا اور قدیم قبرستانمکلیبھی ٹھٹہ کے قریب واقع ہے۔ یہ قبرستان جس میں لاکھوں قبو رہیں تقریباً آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علما، فلسفی اور جرنیل ابدی نیند سو رہے ہیں۔ یہاں کی قبروں کی خاص بات اُن کے دیدہ زیب خدوخال اور نقش و نگار ہیں جو نہ صرف اہلِ قبر کے زمانے کی نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اُس وقت کی تہذیب، ثقافت اور ہنرمندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں موجود قبریں تاریخی اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ پہلاسمابادشاہوں کا دور جو (1520ء - 1352ء) تک رہا اور دوسراترخانبادشاہوں کا دور جو (1592ء - 1556ء) تک رہا۔ ان عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔ ان قبروں پر کی گئینقاشیاورکشیدہ کاریکا کام اپنی مثال آپ ہے۔ یہ قبرستان تاریخ کا وہ ورثہ ہے جو قوموں کے مٹنے کے بعد بھی اُن کی عظمت و ہنر کا پتہ دیتا ہے۔ اس کو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں لوگ اس قبرستان میں آتے ہیں۔"
+396,اٹھارہویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%B9%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<سترہویں صدی <<<اٹھارہویں صدی>>> انیسویں صدی>>>
+397,محدث,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D8%AF%D8%AB,"احادیثکی جانچ پڑتال اور ترتیب دینے والے عالم کومحدثکہا جاتا ہے۔حدیث کا علم جاننے والا، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا راوی یا عالم،فقیہ، اخبار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف، حدیث و سنت کا ماننے والا۔نیا پیدا کیا ہوا؛ (فقہ) وہ نئی شے یا بات جس کا ثبوت نہ کتاب اللہ، نہ سنت رسولۖ اور نہاجماعامت سے مل سکے،بدعت۔
+ٹوٹا ہوا نیز وہ آدمی بے وضو ہو جائے، وہ شخص جس کا وضو کسی وجہ سے ٹوٹ جائے۔[1]محدثین کی تعداد تو بلا مبالغہ لاکھوں میں ہے لیکن ان میں سے بعض حضرات ایسے ہیں[2]جنھوں نے اس فن میں اہم ترین کارنامے سر انجام دیے ہیں ان میں سے چندکا مختصر تعارف یہاں ہم تمام ائمہ کا ذکر نہیں کر رہے بلکہ صرف انہی کا تذکرہ کر رہے ہیں جن کا کام تاریخی نوعیت کا ہے۔(194-256ھ/810-870ء)
+آپ فن حدیث کے مشہور ترین امام ہیں اور اپنی کتابصحیح بخاریکے لیے مشہور ہیں۔ ازبکستان کے شہر بخارامیں پیدا ہوئے۔ بہت سے شہروں سے احادیث اکٹھی کیں۔ صحیح کے علاوہ آپ نے فن رجال، تاریخ اور اخلاقیات سے متعلق کتابیں تصنیف کیں۔ معاصر علما کے تعصب کے باعث آپ کو بخارا سے نکلنا پڑا۔ سمرقند میں آپ کی وفات ہوئی۔[3](204-261ھ/820-875ء)
+آپ کا تعلق ازبکستان کے شہر نیشا پور سے تھا۔ اپنے زمانے کے مشہور ترین محدثین سے احادیث حاصل کیں جن میں احمد بن حنبل اور بخاری جسے محدثین شامل تھے۔ آپ""صحیح مسلم""کے مصنف ہیں جو صحیح بخاری کے بعد حدیث کا اعلی ترین مجموعہ ہے۔(209-279ھ/824-892ء)
+آپ حدیث کی مشہور کتاب جامع ترمذی کے مصنف ہیں۔ ازبکستان کے شہر ترمذ سے تعلق رکھتے تھے۔(80-150ھ/699-767ء)
+آپ فقہ کے مشہور امام ہیں۔ آپ کا اصل میدان قرآن اور حدیث کی بنیاد پر عملی زندگی کا لائحہ عمل تیا ر کرنا تھا۔کوفہسے تعلق رکھتے تھے۔ صحابی رسول سیدنا انس سے ملاقات کے باعث آپ کا شمارتابعینمیں ہوتا ہے۔ بہت بڑے تاجر بھی تھے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود کے شاگرد کے شاگرد حماد سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کے شاگردوں میں ابویوسف اور محمد بن حسن شیبا نی کو شہرت نصیب ہوئی۔ آپ کا فقہی مسلک پورےعالم اسلام میں پھیلا ہوا ہے۔(93-179ھ/712-795ء)
+مدینہ کے مشہور امام ہیں۔ حدیث اور فقہ کے ماہر تھے۔ مؤطاکے مصنف ہیں جو حدیث اور فقہ کی قدیم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔ آپ کو بھی بادشاہ کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے کے باعث تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔(118-181ھ/736-797ء)
+حدیث اور فقہ کے مشہور امام ہیں-۔ آپ نے اخلاقیات، تزکیہ نفس،جہاداور تعمیر شخصیت سے متعلق کئی کتب لکھیں۔(107-198ھ/725-814ء)
+کوفہ کے رہنے والے تھے مگر مکہ میں مقیم رہے۔ آپ کا شمار اہلحجازکے بڑے علما میں ہوتا ہے۔ امامشافعیآپ کا تقابل امام مالک سے کیا کرتے تھے۔(150-204ھ/767-820ء)
+حدیث اور فقہ کے مشہور امام ہیں۔ آپ کا تعلقفلسطینسے تھا۔ مکہ میں بچپن گزارا۔ مالک بن انس اور سفیا ن بن عینیہ کے شاگرد ہوئے۔بغداداور یمن میں وقت گزارا۔ آخر عمر میں سرکاری ملازمت سے استعفی دے کر مصر میں مقیم ہوئے اورقاہرہمیں وفات پائی۔(159-233ھ/775-848ء)
+جرح و تعدیل میں راویوں کو قابل اعتماد قرار دینے یا نہ دینے کے فن کے امام ہیں۔ بغداد کے رہنے والے تھے۔ جرح و تعدیل کے علاوہ احادیث کے جامع بھی تھے۔(164-241ھ/780-855ء)
+آپ حدیث اور فقہ کے مشہور امام ہیں-۔ آپ کا تعلقعراقکے دار الحکومت بغداد سے تھا۔ امام شافعی کے شاگرد ہوئے۔ اپنی جرات کے باعث بادشاہ متوکل نے انھیں شدید تشدد کا نشانہ بنوایا۔ آپ کے شاگردوں میں بخاری و مسلم شامل تھے۔(240-327ھ/854-938ء)
+جرح و تعدیل کے مشہور امام ہیں(۔ ایران کے شہر رے سے تعلق رکھتے تھے۔ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔(384-458ھ/994-1066ء)
+حدیث کے ائمہ میں سے تھے۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ""سنن الکبری"" ہے جو احکام سے متعلق احادیث کے سب سے بڑے مجموعوں میں سے ایک ہے۔ آپ کا تعلق ازبکستان کے علاقے نیشا پور سے تھا۔ اس کے بعد بغداد، کوفہ اور مکہ میں بھی رہے۔(392-463ھ/1002-1071ء)
+آپ علوم حدیث کو مرتب کرنے والوں میں نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ آپ کا تعلق کوفہ کے قریب ایک گاؤں سے تھا۔ عالم اسلام کے مختلف شہروں میں علم کی تلاش میں نکلے۔ آخر میں بغداد میں رہائش اختیار کی۔ علوم حدیث میں آپ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔(368-464ھ/978-1071ء)
+آپ کا تعلق اسپن میںقرطبہسے تھا۔ اسماء الرجال، حدیث اور فقہ کے امام تھے۔ موطاء مالک کی بہت بڑی شرح کے مصنف ہیں۔ صحابہ کرام م کے سوانح حیات پر لکھی گئی ""الاستیعاب"" کے مصنف بھی آپ ہی ہیں۔(541-600ھ/1146-1203ء)
+آپ کا تعلقدمشقسے ہے۔ بعد میں مصر کے شہر اسکندریہ اور ایران کے شہر اصفہان میں مقیم رہے۔ حدیث کی چھ مشہور کتابوں کے رجال پر آپ نے تحقیق کر کے ایک ضخیم کتاب ""الاکمال"" تصنیف کی ہے۔(555-630ھ/1160-1230ء)عراقکے شہر موصل میں مقیم رہے۔ علوم الحدیث میں انھوں نے غیر معمولی اضافے کیے ہیں جن میں اسماء الرجال پر غیر معمولی کام شامل ہے۔ آپ کو شہرت صحابہ کرام کی زندگیوں پر لکھی گئی کتاب 'اسد الغابہ"" سے حاصل ہوئی۔(849-911ھ/1445-1505ء)
+سینکڑ وں کتابوں کے مصنف ہیں۔ مصر کے شہر اسیوط میں پیدا ہوئے۔ آپ نے حدیث کی دستیاب تمام کتابوں کو اکٹھا کر کے جامع الکبیر تیار کی۔ علوم القرآن اور علوم الحدیث کو منظم صورت میں پیش کیا۔ بعد کے دور کے علما میں آپ کا مقام غیر معمولی ہے۔"
+398,فقیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D9%82%DB%8C%DB%81,"☆بسلسلہ شرعی علوم☆علم فقہفروعاصولقواعدادلہمدارسباب فقہفقہ العبادات•طہارت•نماز•زکات•روزہ•حجو عمرہ•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•اصولعلم اصول فقہ•ادلہ الفقہ•الاحکام الشرعیہ•فرض•فرض کفایہ•المسنون•المکروہ•الحرام•سنہ مؤکدہ•المباح•الصحہ والبطلان•الالفاظ•الکتاب•السنہ•الاجماع•القیاس•الاجتہاد•قول الصحابی•القواعد فقہیہ•الامور بمقاصدہا•زمرہ•فروع الفقہ•فقہ العبادات•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•فقہ الصیام•فقہ الزکاۃ•فقہ مقارن•فقہ القرآن•فقہ الحدیث•فقہ الاولویات•فقہ•فقہ المریض•فقہ النفس•فقہ السلوک•فقہ السیرہ•فقہی مدارس کی تاسیس•فقہاء الصحابہ•فقہاء التابعین•مذاہب فقہیہ•الائمہ الاربعہ•ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس•محمد بن ادریس الشافعی•احمد بن حنبل•ائمہ مذاہب•سفیان الثوری•اللیث بن سعد•الاوزاعی•داود الظاہری•زید بن علی•المذہب الحنفی•المذہب المالکی•المذہب الشافعی•المذہب الظاہری•المذہب الزیدی•مذاہب آل البیت•مذہب الامامیہ•مذہب الاباضیہ•فقہاء•اصطلاحات فقہیہ•مراتب الفقہاء•مراتب الاجتہاد•مجتہد مطلق•مجتہد مستقل•فتوى•مفتی•کتب فقہ•کتب اصول الفقہ•الاحکام السلطانیہ•مقادیر شرعیہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•علم التفسیرعلم الحدیثعلم الفقہعلم التوحیدالعلوم الشرعیہ المساعدہعلوم اللغہ العربیہعلم اصول الفقہالمناہج العلمیہالبحوث العلمیَّہعلوم القرآن•علوم الحدیث•الاشباہ والنظائر•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ العبادات•طہارت•نماز•الزکات•الصیام•الحجوالعمرہ•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•الاصولعلم اصول الفقہ•ادلہ الفقہ•الاحکام الشرعیہ•فرض•فرض کفایہ•المسنون•المکروہ•الحرام•سنہ مؤکدہ•المباح•الصحہ والبطلان•الالفاظ•الکتاب•السنہ•الاجماع•القیاس•الاجتہاد•قول الصحابی•القواعد الفقہیہ•الامور بمقاصدہا•تصنیف•دراسات فقہیہفروع الفقہ•فقہ العبادات•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•فقہ الصیام•فقہ الزکاہ•فقہ مقارن•فقہ القرآن•فقہ الحدیث•فقہ الاولویات•فقہ•فقہ المریض•فقہ النفس•فقہ السلوک•فقہ السیرہ•تاسیس المدارس الفقہیہ•فقہاء الصحابہ•فقہاء التابعین•مذاہب فقہیہ•الائمہ الاربعہ•ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس•محمد بن ادریس الشافعی•احمد بن حنبل•ائمہ مذاہب•سفیان الثوری•اللیث بن سعد•الاوزاعی•داود الظاہری•زید بن علی•المذہب الحنفی•المذہب المالکی•المذہب الشافعی•المذہب الظاہری•المذہب الزیدی•مذاہب آل البیت•مذہب الامامیہ•مذہب الاباضیہ•فقہاء•مصطلحات فقہیہ•مراتب الفقہاء•مراتب الاجتہاد•مجتہد مطلق•مجتہد مستقل•فتوى•مفتی•کتب فقہ•کتب اصول الفقہ•الاحکام السلطانیہ•مقادیر شرعیہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•اعلامکتب فقہ•کتب اصول الفقہ•[[:زمرہ:|کتب]]•اعلام•العلوم الاسلامیہالتاریخ الاسلامیالمذاہب الاربعہالمذاہب الفقہیہباب اسلامی علومفقیہفقہ(سمجھ) رکھنے والے کو کہتے ہیں۔ اس کی جمعفقہاہے۔فقہ کا اصلی لغوی معنی ہے سمجھنا۔ اور سمجھ والے کو فقیہ کہا جاتا ہےقاموسمیں ہے : فقہ بکسر فاء کسی چیز کو جاننا سمجھنا۔ چونکہ (تمام علوم میں) علم دین کو فضیلت حاصل ہے‘ اس لیے فقہ کا لفظ (اصطلاح میں) علم دین کے لیے مخصوص کر لیا گیا۔
+فقیہ وہ نہیں جسے صرففقہکی جزئیات یاد ہوں، بلکہ فقیہ سے مراد وہ شخص ہے جو مبادی یعنی (اصول)فقہکا ماہر ہو، جسے حکم کے استخراج (استنباط) کرنے کا ملکہ (اہلیت) حاصل ہو۔ [مسلم الثبوت : 2/362]
+بعض نے کہا : معلوم کے ذریعے سے نامعلوم کو حاصل کرنا فقہ ہے یعنی علم استدلالی کے لیے یہ لفظ خاص ہے‘ اس صورت میں لفظ علم عام اور لفظ فقہ خاص ہوگا۔ اللہ نے فرمایا ہے : فَمَا لھآؤُلاآءِ الْقَوْمِ لاَ یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًاان لوگوں کو کیا ہو گیا کہ بات سمجھ بھی نہیں سکتے۔ یعنی بات کے مضمون کا استنباط نہیں کرتے (بات کے مغز کو نہیں سمجھتے)۔*راول شیر خان کی تعریف*قرآن و حدیث کے مبادی و اصول کو سامنے رکھ کر فروع اور جزوی چیزوں کو اپنی مجتہادانہ بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے روز مرہ کے مسائل کو اخذ کرنے کا نام ""فقہ"" ہے۔امام ابو حنیفہنے فرمایا : نفس کے ضرر رساں اور فائدہ بخش امور کو جاننا فقہ ہے (خواہ فکر و عقیدہ کے لحاظ سے ہو یا قول و عمل کے اعتبار سے۔ اصول کا علم ہو یا فروع کا) فروع دین کے علم کو خصوصیت کے ساتھ فقہ کہنااصطلاحجدید ہے (قرن اول میں یہ خصوصیت نہیں تھی)۔[1]غلامِ ابو حنیفہ راول شیر خان کی تعریفِ فقہ’’(فقہ)شریعتکے وہ فروعی احکام جاننے کا نام ہے جو تفصیلی دلائل سے ماخوذ ہوں۔‘‘فقیہ وہ ہوتا ہے، جواللہکے احکام اور دین کے مسائل کو قرآن کی آیتوں اور روایات سے سمجھتے ہوئے ان سےاستدلالکرے یعنی دلیل لائے اور جو بھی مسئلہ پیش آئے اس میںدیناور مذہب کے نظریہ کو پہچان سکے اور اسے بیان کر سکے۔ دین شناسی کے اس مقام تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک شخص ایک لمبا عرصہ تک دینی علمی مراکز (جیسے حوزہ علمیہ) میں ان علوم کو حاصل کرے جو دین کے مسائل میں ماہر ہونے میں اس کی مدد کر سکیں ۔جو اس درجہ اور مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اسلامی مسائل کو عقلی و نقلیاستدلالکے ذریعہ سمجھ جائے، اسےمجتہداور ” فقیہ “ کہتے ہیں اور علم اور فہمفقہکے اس درجہ اور مرتبہ کواجتہادکھتے ہیں ۔فِقہ افضل ترین علوم ہے۔ حدیث شریف میں ہے سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس کے لیے بہتری چاہتا ہے اس کو دین میں فقیہ بناتا ہے، میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ دینے والا(بخاری و مسلم) حدیث میں ہے ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے۔ (ترمذی) فقه احکام دین کے علم کو کہتے ہیں، فِقہِ مُصطلَح اس کا صحیح مصداق ہے۔[2]علامہابن نجیممصری فقہ کی تعریف ان الفاظ میں فرماتے ہیں: جاننا چاہیے کہ علم شریعت میں فقہ خاص قسم کی واقفیت کا نام ہے اور وہ خاص قسم کی واقفیت یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے معانی ومطالب، ان کے اشارات وکنایات، دلالات ومضمرات اور صحیح مراد کا علم و ادراک ہو اور جس شخص کو یہ علم حاصل ہواسی کا نامفقیہہے۔[3]عام طور پر ہر شخص کسی بھی امر میں اس امر کا علم رکھنے والے بلکہ اس امر کے ماہر شخص کی طرف رجوع کرتا ہے۔ مثلاً بیماری میں ڈاکٹر، مکان کی تعمیر میں انجینئر اور مستری اور مشینری کے خراب ہو جانے کی صورت میں، اس کا علم اور مہارت رکھنے والے مکینک شخص کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ اگر انسان خود دین میں ماہر نہ ہو اور اس کا علم نہ رکھتا ہو، تو اپنا دینی فریضہ جاننے اوراس پر عمل کرنے کے لیے فقہا کی طرف رجوع کرے اور ان سے معلوم کرے۔ شریعت کے مسائل میں شرعی دلیلوں کی بنیاد پرمجتہدکی نظر کو فتویٰ کہتے ہیں اور لوگوں کا فقہا کی طرف رجوع کرنا اور ان کے فتوے پر عمل کرنا ”تقلید“ کہلاتا ہے۔"
+399,شاعر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1,شاعرشعر گوئی کرنے والے شخص کو شاعر کہتے ہیں۔اس کی جمع شعرا ہے۔شاعریایک صنف ہے جس میں لکھنے والا لفظوں کا چناؤ کر کے اسے اشعار میں ڈھال لیتا ہے۔ شاعر کی مونث شاعرہ ہوتی ہے۔شعر گوئی کرنے والی خاتون کوشاعرہکہتے ہیں۔ اس کی جمع شاعرات ہے۔شاعر وہ ہوتا ہے جو تخیل یا حقیقت یا دونوں کے امتزاج میں ایک یا ایک سے زیادہ مضامین کے منفرد خیالات کے سریلی، تخلیقی، ردھم آمیز لہجے کو پہنچا کر قاری کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے اور موہ لے۔اردو زبان کی مشہور شاعرات کی فہرست درج ذیل ہے:[1]٭احمد سہیل(پیدائش 1953)- (سُرمئی دستخط - 2012)]
+400,ٹھٹہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%B9%DA%BE%D9%B9%DB%81,"ٹھٹہ شہر(سندھی:ٺٽو،انگریزی:Thatta)پاکستانکےصوبہ سندھمیںدریائے سندھکے کنارے آباد ایک قدیمی اور تاریخی شہر ہے۔قرونِ وسطیٰکے زمانے میں ٹھٹہسندھکا دار الحکومت رہا ہے۔326 قبل مسیحمیںسکندر اعظم کی ہندوستان آمد اور ہندوستان پر لشکر کشیکے آثار یہاں ایک جزیرہ پر ملتے ہیں۔ٹھٹہ چونکہ تاریخی شہر ہے، اِسی لیےاقوام متحدہکے ادارہیونیسکونے ٹھٹہ کے متعدد تاریخی آثار و مقابر کو اپنےعالمی ثقافتی ورثہ کی فہرستمیں شامل کر رکھا ہے۔ٹھٹہ شہر کے اطراف و اکناف میں متعدد مقامات پر قدیم تاریخی نوادرات دریافت ہوئے ہیں جن سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ ٹھٹہ شہر زمانہقبل مسیحسے آباد رہا ہے۔ہندوستانمیں مسلم حکومت کے قیام کے بعد ٹھٹہ شہر علم و ہنر کا مرکز بن گیا۔چودہویں صدی عیسویمیںسندھمیںسما سلطنتکے حکمرانوں نے سرکاری طور پر ٹھٹہ کو دوبارہ آباد کیا اور شہر کی حیثیت سے نئی طرز پر بسایا اور دار الحکومت قرار دیا۔سلطنت مغلیہکے عہد تک ٹھٹہ ترقی یافتہ اور متحرک شہر تھا مگربرطانوی راجکے دورانکراچیکی اُبھرتی ہوئی حیثیت نے اس شہر کو شدید نقصان پہنچایا اور بالآخرکراچیمیں بندرگاہوں کے قیام کے بعد اِس شہر کی حیثیت محض تاریخ کے صفحات کی زینت بنتی چلی گئی۔ٹھٹہ کا شاندار ماضی یہاں کی تاریخی و قدیمی عمارات، مقابراور مساجد ہیں جن میں سےشاہجہانی مسجداورمکلی کا عظیم ترین قدیمی قبرستاننمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ معلوم تاریخ و شواہد کے مطابق ٹھٹہ کی تاریخ دو ہزار قبل مسیح سے بھی قدیم ہے۔فارسیاورعربیکتب میں اِس شہر کا نامتھتہیاتتہلکھا ہوا ملتا ہے جوالبتہکا ہم قافیہ ہے۔ مصنف بستان السیاحۃ نے اِسے ’’البتہ‘‘ کا ہم قافیہ ہی مراد لیا ہے[1]۔ لیکن اِس ہم قافیہ بے معنی لفظ سے ٹھٹہ کی وجہ تسمیہ ناقابل فہم ہے بلکہ مصنفتحفۃ الکرامکی رائے متذکرہ بالا رائے سے کہیں بہتر ہے ۔سندھکے نامور محقق اور کثیر الجہت شخصیتمیر علی شیر قانع ٹھٹوینے اپنی تصنیفتحفۃ الکرام(سالِ تصنیف:1767ء) میں ٹھٹہ کے نام کی وجہ یوں بیان کی ہے کہ: ’’اِس وقت (1181ھمطابق1767ء) ٹھٹے کی وجہ تسمیہ کے بارے میں دو باتیں مشہور ہیں: کچھ کہتے ہیں کہ یہ ’’تہ تہ‘‘ یعنی ’’ نشیبی نشیبی‘‘ کی خصوصیت سے منسوب ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ یہ ’’ٹھٹ‘‘ کے لفظ سے موسوم ہے جو سندھیوں کی اصطلاح میں ’’لوگوں کے جمع ہونے کے مقام‘‘ کے معنی رکھتا ہے۔ مخفی نہ رہے کہ یہ سرزمین جیسا کہ تواریخ سے معلوم ہوتا ہے، قدیم زمانے میں بھی ٹھٹے کے نام سے پکاری جاتی تھی اور چونکہسندھکے بالائی حصہ کو عام لوگ ’’سیرو‘‘ کہتے ہیں اور اِس نشیبی حصہ کو ’’لاڑ‘‘ (یعنی نشیب یا ڈھال) کہا جاتا ہے، اِس لیے (یہی رعایت) ٹھٹے کی وجہ تسمیہ کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے۔[2]مصنفتحفۃ الکرامکے بیانِ مذکور سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ1181ھمطابق1767ءتک اِس شہر کو ٹھٹہ کے نام سے ہی پکارا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ یہسلطنت مغلیہکا عہدِ زوال ہے جبکہایسٹ انڈیا کمپنیبنگالمیں اپنے قدم جماچکی تھی۔
+ماہر آثارِ قدیمہاحمد حسن دانی(متوفی2009ء) کے مطابق ٹھٹہسندھی زبانکے دو اَلفاظٹھٹویاٹھٹسے مشتق ہوا ہے جن کے معانی ہیں: ’’دریاء کے کنارے آباد ہونا‘‘[3]۔سندھکی عوام اِس شہر کو عموماًٹھٹہ نگریا محضنگرکے نام سے بھی پکارتی ہے۔موجودہ ٹھٹہ شہر کوہِ مکلی کے دامن میں قدیم شہر کے کھنڈر پر آباد ہے ۔ موجودہ شہرسما سلطنتکے عہد میں سنہ900ھمطابق1495ءمیں دوبارہ آباد کیا گیا تھا۔ ٹھٹہ شہرپاکستانکے صوبہسندھمیںضلع ٹھٹہمیں واقع ہے۔ٹھٹہ شہر کا طول بلد 67 درجہ 55 دقیقہ 28 ثانیہ اور عرض بلد 24 درجہ 44 دقیقہ 46 ثانیہ ہے۔اردو دا��رہ معارف اسلامیہکے مقالہ نگار نے ٹھٹہ شہر کا طول بلد 68 درجہ اور عرض بلد 24 درجہ 44 دقیقہ لکھا ہے۔ آج کلدریائے سندھٹھٹہ سے تقریباً چھ میل مشرق کی سمت میں بہتا ہے اور چار پانچ میل نیچے جا کر دو شاخوں میں منقسم ہوجاتا ہے، مگر1758ءتکدریائے سندھٹھٹہ کے جنوب میں بہتا تھا اور اِس کی ایک شاخ ٹھٹہ کے مغرب میں بہتی تھی۔[4][5]ٹھٹہکراچیسے 102 کلومیٹر مشرق ،بدینسے 110 کلومیٹر مغرب،سجاولسے 27 کلومیٹر مغرب،حیدرآبادسے 101 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ٹھٹہ کا ذِکرشمس سراج عفیفنے اپنی تصنیفتاریخ فیروز شاہیمیں کیا ہے۔ اِس سے قبل ٹھٹہ کا ذِکر کسی تاریخی کتاب میں نہیں ملتا۔تاریخ فیروز شاہیمیں اِس شہر کا تذکرہ747ھاور748ھمطابق1347ءکے وقائع میں آیا ہے[6]۔ اِس تاریخی ثبوت کے پیش نظر میجر جنرل Malcolm Robert Haig نے قیاس کیا ہے کہ1340ءکے لگ بھگ یہ شہر دوبارہ آباد ہوا ہوگا۔[7]ٹھٹہ کی تحریری تاریخ1347ءسے قبل کی کتب میں موجود نہیں، البتہ قدیمی کھنڈر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شہر دو ہزارقبل مسیحسے بھی قبل آباد تھا کیونکہسکندر اعظمکی یہاں آمد سے متعلق تاریخی شہادت سے قطعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سنہ326 قبل مسیحمیں بھی یہ شہر آباد تھا تاہم حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا موجود ہ شہر ہی ٹھٹہ وہ مقام تھا یا وہ قدیمی کھنڈر تھے جن پر دوبارہ شہر آباد ہوا۔سکندر اعظمکے عہدِ حکمرانی میں موجودہسندھکا تمام علاقہپاطالین(Patalene) کے نام سے پکارا جاتا تھا جس کا مصری جغرافیہ نگاربطلیموسنے اپنی ’’جغرافیہ‘‘ نامی کتاب اور یونانیمؤرخاسٹرابونے اپنی تصنیف ’’Geography‘‘ میں شامل بحث کیا ہے۔لیکن دونوں مؤرخین کے تذکرۂسندھمیں ٹھٹہ نام کا کوئی شہر نہیں ملتا۔ اِس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اُن دِنوں ٹھٹہ کے موجودہ مقام پر اِتنی آبادی نہیں ہوگی جو ایک شہر کی تعریف کے لیے ہو۔بطلیموساوراسٹرابوکےسندھسے متعلق ٹھٹہ کا تذکرہ نہ کرنا اِس بات کا ہے کہسکندر اعظمٹھٹہ کبھی نہیں آیا۔ متذکرۂ بالا تاریخی شواہد سےسکندر اعظمکی ٹھٹہ میں آمد مشکوک ہوجاتی ہے کیونکہبطلیموسکا زمانہ100ءسے170ءتک اوراسٹرابوکا زمانہ 64 قبل مسیح سے24ءتک کا ہے جوسکندر اعظمکے قریب تین سو برس بعد کا زمانہ ہے۔قدیم زمانے میں یہاں (ٹھٹہ) کی زمین سمندر کے پانی سے چھپی ہوئی تھی۔ایک مدت گذرنے پر سمندر کا پانی واپس ہو گیا اور خشک میدان نکل آیا۔ اِس کے بعد شہراروڑکے برباد ہونے اوردریائے سندھکےسیہون(سیوستان) کی طرف رخ بدلنے کی وجہ سے یہ زمین پھر غرقاب ہو گئی۔ پھر جب شہر محمد طور سومرہ سرداروں سمیت ویران ہو گیا توسما سلطنتکے حکمران نظام الدین جام نندو نے دوبارہ ٹھٹہ شہر کی ازسر نو تعمیر کروائی۔1336ءمیںسندھکےسما حکمرانوںکے زوال کے بعدسما خاندانکی حکمرانی شروع ہوئی تو انھوں نے کوہِ مکلی کے دامن میں ایک شہر بسایا جس کا نام ’’ساموئی‘‘ رکھا۔ یہسما سلطنتکے حکمرانوں کا پہلا دار الحکومت تھا۔ بعد ازاں انھوں نے کوہِ مکلی سے چھ میل جنوب کی سمت میں کوہِ مکلی کے پشتے پر قلعہ تغلق آباد تعمیر کیا (یا غالباً کسی قدیمی قلعہ کی مرمت و تجدید کی)، جسے اب کَلا کوٹ کہتے ہیں۔ اِسی قلعہ کو انھوں نے پایہ تخت بنالیا۔ تقریباً900ھمطابق1495ءکےلگ بھگسما سلطنتکے حکمران نظام الدین المعروف بہ جام نندو نے ساموئی اور کلا کوٹ کے درمیانی علاقہ میں ٹھٹہ کے نام سے دوبارہ آباد کیا اور دار الحکومت یہیں منتقل کر لیا۔[8]صاحبتحفۃ الکرامکے ب��ان کے مطابق ٹھٹہ کی ازسر نو تعمیر و بنیاد میں نظام الدین جام نندو نے نجومیوں سے مدد لی تھی اور کہا تھا کہ:’’ ایک نیا شہر (بطور دار الحکومت) آباد کرنے کے لیے ایک ایسا قطعہ اراضی منتخب کیا جائے جو مسرت بخش ہو، جس کے باشندے کم و بیش آرام پسند ہوں، ہمیشہ سیر و تفریح میں زندگی گزاریں اور اُن کی فطرت میں کمال و لیاقت کی خوبی شامل ہو۔ چنانچہ اِنہی اوصاف و خصوصیات کے پیش نظر سرزمین ٹھٹہ کا اِنتخاب عمل میں لایا گیا ۔ جس کے مشرق میں کچھ باغات تھے اور وسط شہر میں میر بحر (ملاح) رہا کرتے تھے‘‘۔[9]موجودہ ٹھٹہ شہر کوہِ مکلی کے دامن میں قدیم شہر کے کھنڈر پر آباد ہے ۔سندھکی سیاسی تاریخ میں ٹھٹہ کا تذکرہ بارہا آیا ہے۔ ٹھٹہ اور اِس کے نواح میں عرب فاتحین پہلی بار اُموی خلیفہعبد الملک بن مروانکے دور میں وارد ہوئے اورمحمد بن قاسمنےاَروڑکی مہم کے لیے ٹھٹہ ہی کے قریبدریائے سندھکو پار کیا۔ یہ علاقہ پہلےاُموی خلافتاور بعد ازاںخلافت عباسیہکے عاملین کے ماتحت رہا۔سلطنت غزنویہکے نامور حکمرانسلطانمحمود غزنوینے1026ءمیںعباسی خلیفہالقادر باللہ العباسیکے عاملوں کوملتاناوراُچسے نکال باہر کیا۔1026ءمیں غزنوی وزیر عبد الرزّاق نےسلطانمحمود غزنویکے حکم کے مطابق ٹھٹہ اورسیوستانکے نواحی علاقوں اور اقوام کو زیر کر لیا اور عربوں کوسندھسے مار بھگایا۔ ٹھٹہ پر غزنوی خاندان کا قبضہ1183ءتک رہا جو مجموعی طور پر157 سال کا عرصہ ہے۔[10]1183ءمیں ٹھٹہ پر سے غزنوی اِقتدار ختم ہوا تو ٹھٹہ کی بے امنی کا دور شروع ہو گیا۔ یہ دور بہت ہی پرآشوب تھا۔ اِس دور کی بے امنی کی بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ ٹھٹہ کے حکام اور عوام‘ دونوں نے ہیسیاستمیں حصہ لینا شروع کر دیا تھا مثلاًتغلق خاندانکے عہدِ حکومت میں ہندو رعایا اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگی۔1320ءمیں جبسلطانغیاث الدین تغلقملتانسےدہلیگیا تو اُسی وقتسومرہ قومنے بغاوت کردی اور ٹھٹہ پر تسلط قائم کر لیا۔ اِس کے بعدمارچ1351ءکو جبسلطانمحمد شاہ تغلقنے ٹھٹہ کے قریب وفات پائی تو گجرات کے حاکم ’’طَغِی‘‘ نےقوم سومرہاور جاریجہ سے ساز باز کرکےسلطانفیروز شاہ تغلقکے خلاف بغاوت کردی اورسلطانفیروز شاہ تغلقسے ٹھٹہ کے قریب جنگ کی۔1370ءمیں حاکم ٹھٹہ جام خیر الدین نے بھی بغاوت کردی۔ چنانچہ پے در پے بغاوتوں کے نتیجے میںسلطانفیروز شاہ تغلقکو ٹھٹہ میں آنا ہی پڑا۔ جام خیر الدین قلعہ بند ہو گیا، چونکہ موسم لشکرکشی کے لیے سازگار نہ تھا۔اِس لیے سلطان گجرات کی جانب بڑھ گیا۔واپسی پر جب ٹھٹہ آیا تو جام خیر الدین نے معافی طلب کرلی۔سلطانفیروز شاہ تغلقنے اُس کے فرزند جام جُونہ کو ٹھٹہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ یہ واقعہ1375ءکا ہے ۔[11]تغلق خاندانکی حکمرانی کے دوران ہیسندھمیںسما سلطنتقائم ہوئی۔1336ءمیںجام انارنےسما سلطنتکی داغ بیل ڈالی تو ٹھٹہ کے سیاسی و اخلاقی حالات بدستور ناگفتہ بہ تھے[12]۔ اِسی طرح1406ءمیں جام علی شیر جو دانا و بہادر حکمران تصور کیا جاتا تھا، کو اُس کے بھائیوں نے دغا سے قتل کروا دیا۔ اِس زمانہ میں سلطان علی شاہ میران خاں بن سلطان سکندر بت شکن(813ھ–813ھ) نے ٹھٹہ فتح کر لیا[13]اور جام کَرَن بن تَماچِی کو حاکم ٹھٹہ مقرر کر دیا۔مگر عوام نے دوسرے ہی روز جام کَرَن کو قتل کرڈالا۔1508ءمیںجام فیروزبن جام نظام الدین کی حکمرانی قائم ہوئی تو عوام نے جام صلاح الدین کو خط لکھا کہجام فیروزحکومت کے لائق نہیں، ہم تمھیں ٹھٹہ کی حکومت پیش کرتے ہیں۔1512ءمیں جام صلاح الدی�� نےسلطنت گجراتکے بادشاہسلطانمظفر شاہ دؤمکی مدد سے ٹھٹہ پر قبضہ کر لیا۔لیکن جام صلاح الدین کی حکمرانی چند روزہ ہی ثابت ہوئی اور آٹھ مہینے کی حکومت کے بعد1513ءمیںجام فیروزشاہ بیگ ارغونکی مدد سے اُسے ٹھٹہ میں شکست دینے میں کامیاب ہو گیا۔جام فیروزدوبارہ ٹھٹہ کا حاکم ہو گیا اور1527ءتک حاکم ٹھٹہ رہا۔[14][15]تغلق خاندانکے بعد ٹھٹہ کے خود مختار حکمرانوں کا دَور شروع ہوا۔ یہ حکمران ’’جام‘‘ کہلاتے تھے۔ جام نِندو یعنی جام نظام الدین بن بانہبینہ کا عہد زریں ترین عہد تھا۔جام نظام الدین دومیعنی جام نِندو نیک اور علم دوست حکمران تھا۔ شیراز سے ملاجلال الدین دوانینے اپنے دو فاضل شاگردوں‘ میر شمس الدین اور میر معین کو ٹھٹہ بھیجا مگر خود ملاجلال الدین دوانیراستے میں ہی اِنتقال کرگئے اور یہ دونوں شاگرد ٹھٹہ میں ہی مقیم ہو گئے۔جام نِندو نے ٹھٹہ سے چوروں اور ڈاکوؤں کا خاتمہ کروایا۔[16]1509ءمیںجام نظام الدین دومیعنی جام نِندوکی وفات ہوئی توشاہ بیگ ارغون‘ حاکمبھکرنے ٹھٹہ پر لشکرکشی شروع کردی۔شاہ بیگ ارغوننے1508ءمیں ٹھٹہ پر پہلا حملہ اور1521ءمیں دوسرا حملہ کیا۔ دوسرے حملے کے دوران وہ مکملاً ٹھٹہ پر قابض ہو گیا۔اِن حملوں سےسما خاندان کے جام حکمرانوںکی حکومت ختم ہو گئی اورشاہ بیگ ارغونحکمران بن بیٹھا۔ وہ چاہتا تھا کہسندھکے علاوہگجراتکا علاقہ بھی اُس کے ہاتھ آ جائے کیونکہ وہ جانتا تھا کہکابل کا مغل حکمران بابرہندوستان پر حملہ کرنے کو تیار ہے اور اُسے وہبھکرسے نکال باہر کرے گا۔ اِسی لیےشاہ بیگ ارغوناپنے لیے کوئی اور علاقہ تجویز کر رہا تھا مگر اِسی اثناء میں1524ءمیں وہ انتقال کرگیا اور یہ خواب محض خواب ہی رہ گیا۔ اُس کے اِنتقال کے بعد اُس کے بیٹے میرزا شاہ حسین (930ھ–961ھ) نے اپنی سیاسی بصیرت و تدبر اور استقلال کے باعث مغل بادشاہوں کاسندھمیں اِقتدار قائم نہ ہونے دیا۔البتہبابر نامہکے اِقتباسات سے پتا چلتا ہے کہ میرزا شاہ حسین اورمغل شہنشاہ بابرکے مابین تعلقات قائم ہو گئے تھے کیونکہ میرزا شاہ حسین کی درخواست پرشہنشاہ بابرنے1527ءمیںآگرہسے گنجفہ[17]بھجوایا تھا۔[18]ٹھٹہ (سندھ) پرشاہ بیگ ارغوناور اُس کے خاندان کی حکومت1520ءسے1554ءتک قائم رہی۔ اِس دورانعربیاورسندھیکو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل رہی۔1554ءمیںارغون خاندانکا ٹھٹہ اور اُس کے قرب و جوار میں اقتدار کمزور پڑنا شروع ہوا توترخان خاندانبرسر اِقتدار آگیا۔ جنھوں نے 38 سال تکسندھپر حکومت کی۔ نواب میرزا عیسیٰ خاں ترخان کے عہدِ حکمرانی میں ماہ ِربیع الثانی963ھمطابقمارچ1556ءمیں پرتگالیوں نے جمعہ کے دن ٹھٹہ پر دھاوا بول دیا۔لوگ نمازِ جمعہ اداء کر رہے تھے کہ پرتگالیوں نے شہر کو لوٹ کر مکانات کو آگ لگا دی۔ میرزا عیسیٰ خاں اُس وقتبھکرمیں تھا۔ اُسے خبر ملی تو فوراً ٹھٹہ پہنچا۔اُس نے شہر کی ایک فصیلدریائے سندھکے ساتھ ساتھ تعمیر کروائی اور ایک نہر کھدوا کر شہر کے اندر لایا۔ نیا قلعہ ’’شاہ بندر‘‘ بھی تعمیر کروایا۔[19]1526ءمیں جبکابلکے مغل حکمرانظہیر الدین محمد بابرنے ہندوستان پر لشکرکشی کی تو اُس وقت تک سندھ پر مقامی حکمرانوں کی حکومت قائم تھی۔ اوائل عہد میں مغلوں کی توجہسندھکی جانب مبذول نہ ہوئی البتہ اِس دورانسما حکمران،ارغون حکمراناورترخان حکمراننے حکومت کی۔1540ءکے عشرہ میں جبمغل شہنشاہہمایوںشیر شاہ سوریسے شکست کھا کر پناہ کی تلاش میں نکلا تو وہلاہورسے ہوتا ہوابھکرآیا اوربھکرسے مایوسی کی حا��ت میں ٹھٹہ پہنچا مگر حسین میرزا ارغون‘ والی ٔ ٹھٹہ نےہمایوںکے خلاف بر سر پیکار ہو گیا اور جنگ کی اور لشکر ہمایوں میں غلہ پہنچنا بند کروا دیا۔ ناچارمغل شہنشاہیہاں سے رخصت ہوا اورجودھ پورکی جانب چلا گیا۔[20]1590ءاور1591ءکے دورانمغل شہنشاہجلال الدین اکبرکے حکم پروزیر خانِ خاناںنےسندھپر لشکرکشی کی۔اِس لشکرکشی میںترخان خاندانکو شکست ِ فاش ہوئی اور ٹھٹہ ترخانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔خاندانِ مغلیہکے مقرر کردہ نوابوں نے یہاں حکومت کی جنہیں اُن کی قابلیت کے مطابق چار ہزاری، پنج ہزاری یا ہفت ہزاری کا منصب عطاء کیا جاتا تھا۔مرزا غازی بیگ ترخانکومغل شہنشاہجلال الدین اکبراور بعد ازاںنور الدین جہانگیرکے دربار سے بھی حاکمسندھمقرر کیا گیا۔مغل شہنشاہجہانگیرکے عہد حکومت میں1614ءمیںسندھکو ایک الگ صوبہ قرار دے دیا گیا اور ٹھٹہ اِس کا صدرِ مقام قرار پایا۔1591ءسے1701ءتکسندھسلطنت مغلیہکے صوبہ کی حیثیت سے رہا اور ٹھٹہ اِس کا صدر ِ مقام تھا۔نواب سردار خان کے عہدِ حکومت میں ٹھٹہ میں قحط اور طاعون پھیلا۔ کہا جاتا ہے کہ اِس سے تقریباً نصف شہر غیر آباد ہو گیا۔ نواب حفیظ اللہ خان نے نیا قلعہ تعمیر کروانا شروع کیا مگر وہ نامکمل ہی رہ گیا۔[21]ماہِ صفر1069ھمطابقنومبر1658ءمیں جبمغل شہنشاہاورنگزیب عالمگیردارا شکوہکے تعاقب میں تھا اور مغل فوجدارا شکوہکو تلاش کرتی پھر رہی تھی تودارا شکوہٹھٹہ میں آ پہنچا مگر تعاقب میں مغل فوج تھی، اِس لیےدارا شکوہناچار حالت کے باعثگجراتکی طرف فرار ہو گیا۔[22]1701ءمیںسندھمیںکلہوڑا خاندانکی حکومت قائم ہوئی توسندھتب تک خود مختار کلہوڑا حکمرانوں کی تحویل میں تھا جنھوں نے مغلوں کے رُوبہ زوال ہوتے ہوئے اِقتدار سے جلد ہی اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا۔1150ھمطابق1737ءمیںکلہوڑا حکمرانمیاں نور محمد کلہوڑونےمغل شہنشاہمحمد شاہکے عہدِ حکومت میں مغل حکومت سے لے لیا اور اپنی خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئےسندھپر حاکم بن بیٹھا۔1738ءمیں جبنادر شاہنے ہندوستان پر لشکرکشی کا اِرادہ کیا تومیاں نور محمد کلہوڑوٹھٹہ سے فرار ہوکرعمر کوٹچلا گیا مگرنادر شاہکے فوجیوں نے گرفتار کر لیا۔جبنادر شاہدہلیمیں داخل ہوا تومیاں نور محمد کلہوڑونے اُس کے قتل کے واسطے چند افراد متعین کیے مگر یہ راز فاش ہو گیا اورنادر شاہکے ہندوستان سے چلے جانے کے بعدسندھپر سے غیر ملکی حملہ آوروں کا خدشہ ختم ہوا۔ٹھٹہ مدتِ دراز سے تجارت کا اہم مرکز رہا ہے۔سلطنت مغلیہکے زمانہ میں تجارت میں ٹھٹہ کی برابری ہندوستان کا کوئی شہر نہ کرسکتا تھا۔ اُس زمانے میںملتاناوربھکرسے اَموال و اثقال براہِدریائے سندھکشتیوں میں ٹھٹہ لاتے تھے اور مسافر بلکہ لشکر بھی خشکی کے راستے پر، جہاں جنگل اور پانی کی دستیابی کی دشواری تھی، وہاںدریائے سندھکے راستے کو ترجیح دی جاتی تھی۔1758ءتک ٹھٹہ تجارت کا مرکز بن چکا تھا۔ ٹھٹہ سےبھکرتک کشتیوں کی آمد و رفت کا تانتا بندھا رہتا تھا[23]۔1591ءمیں جبخانِ خاناںنے ٹھٹہ پر لشکر کشی کی تو بار بار لشکر کو غلہ کشتیوں کے ذریعہلاہورسے وہاں تک پہنچایا گیا۔[24]1614ءکے قریب قریب پرتگیزیلاہورسے کشتیوں میں سواریاں اور مال بھر کر ٹھٹہ لاتے تھے اور وہاں سے مال کوایرانبھیجتے تھے[25]۔ سیاح فوسٹر نے لکھا ہے کہلاہورسے براہِدریائے سندھتک ایک مہینہ کا سفر تھا اور بالعکس دو مہینے کا؛ مگر بقول سیاح فنچ نے لکھا ہے کہلاہورسے ٹھٹہ براہِدریائے سندھچالیس دن کی راہ پر ہے، بہت سی کشتیاں ساٹھ ٹن اور اُس سے زائد وزن کی برسات کے بعدملتان، سیت پور (ضلع مظفر گڑھ) اوربھکراورروہڑیکے راستے چلتی تھیں۔ کوہستانِ چنبہ سے لکڑی براستہدریائے سندھوزیر آباداور وہاں سے کشتی ہائے چوب میں اُسےبھکراور ٹھٹہ پہنچاتے تھے۔[26][27]ٹھٹھہ کے بازاروں میں مرزائی بازار، گودڑی بازار، گوا بازار، غلہ بازار، بازار امیر بیگ اور بازار قصاباں مشہور ہیں ،مشہور سیاحابن بطوطہاگرچہ اِس علاقے سے براستہدریائے سندھگذرا ہے مگر وہ شاید ٹھٹہ میں نہیں اُترا اور اِسی لیے اُس نے ٹھٹہ کا حال نہیں لکھا۔1615ءمیں سر تھامس رو کے پادری چیپلن ٹیری نے اِسے زرخیز اور خوشگوار مقام بتلایا ہے۔1665ءاور1666ءکے درمیانی عرصہ میں اطالوی سیاح تراورنیے (Travernier) نے بھی ٹھٹہ کو دیکھا اور یہاں سے گذرتے ہوئے مشاہدہ کیا ہے۔اُس کی رائے تھی کہ : یہاں کی تجارت اب رُو بہ انحطاط ہے کیونکہ دریا (دریائے سندھ) کا دہانہ زیادہ خطرناک ہو چکا ہے اور جا بجاء جوہڑ بن رہے ہیں۔1699ءمیں الیگزینڈر ہملٹن (Alexander Hamilton) ٹھٹہ سے گذرا، اُس کے اندازے کے مطابق شہر تین میل لمبا اور نصف میل چوڑا تھا اور اُس وقت آبادی 80 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔[28]ٹھٹہ کے نوادرات میں جامع مسجد (جسےشاہجہانی مسجداوربادشاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے) جو مغل بادشاہشاہجہاننے49-1647ءکے درمیان تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں 93 گنبدہیں اور اس مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی آواز بغیر کسیمواصلاتی آلہکے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ مقبروں میں یہاں سب سے بڑا اور قابلِ دید مقبرہعیسیٰ خان ترخانکا ہے جو1644ءمیں انتقال کر گیا تھا۔ عیسیٰ خان ترخان نے یہ مقبرہ اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروا لیا تھا۔ مقبرے کی تعمیر مکمل ہوتے ہیں، عیسٰی خان نے مقبرے کو بنانے والے ہنرمند کے ہاتھ کٹوا دیے تھے تاکہ کوئی دوسرا بادشاہ اس طرح کا مقبرہ نہ بنوا سکے۔[29]عیسیٰ خان کے مقبرے کے علاوہ یہاں مرزا جانی بیگ، مرزا تغرل بیگ اور دیوان شرفاء خان کے مقبرے بھی نہایت مشہور ہیں۔
+اس کے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا اور قدیم قبرستانمکلیبھی ٹھٹہ کے قریب واقع ہے۔ یہ قبرستان جس میں لاکھوں قبو رہیں تقریباً آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علما، فلسفی اور جرنیل ابدی نیند سو رہے ہیں۔ یہاں کی قبروں کی خاص بات اُن کے دیدہ زیب خدوخال اور نقش و نگار ہیں جو نہ صرف اہلِ قبر کے زمانے کی نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اُس وقت کی تہذیب، ثقافت اور ہنرمندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں موجود قبریں تاریخی اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ پہلاسمابادشاہوں کا دور جو (1520ء - 1352ء) تک رہا اور دوسراترخانبادشاہوں کا دور جو (1592ء - 1556ء) تک رہا۔ ان عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔ ان قبروں پر کی گئینقاشیاورکشیدہ کاریکا کام اپنی مثال آپ ہے۔ یہ قبرستان تاریخ کا وہ ورثہ ہے جو قوموں کے مٹنے کے بعد بھی اُن کی عظمت و ہنر کا پتہ دیتا ہے۔ اس کو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں لوگ اس قبرستان میں آتے ہیں۔"
+401,قاضی القضاۃ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A7%D8%B6%DB%8C_%D8%A7%D9%84%D9%82%D8%B6%D8%A7%DB%83,فقہ اسلامی کی اصطلاح میں چیف جسٹس کو قاضی القضاۃ کہا جاتا ہے۔امام ابویوسفتاریخ اسلام میں پہلے شخص ہیں جنہیں قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) بنایا گیا۔
+402,عربی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%B1%D8%A8%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,الجزائر: المجلس الأعلى للغة العربیة بالجزا��ر ()سوڈان: مجمع اللغة العربية بالخرطوم (عربی زبان اکادمی،خرطوم)عراق: المجمع العلمي العراقي فيبغداد(عراقی سائنس اکادمی)تونس: مؤسسة بيت الحكمةسوریہ: مجمع اللغة العربية بدمشقلیبیا: مجمع اللغة العربية الليبيمصر: مجمع اللغة العربية بالقاهرةالمغرب: عربی زبان اکادمیاسرائیل: مجمع اللغة العربية في حيفا[3]عربی(عربی:العربية)سامی زبانوںمیں سب سے بڑی زبان ہے اورعبرانیاور آرامی زبانوں سے بہت ملتی ہے۔ جدید عربی کلاسیکی یا فصیح عربی کی تھوڑی سی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فصیح عربی قدیم زمانے سے ہی بہت ترقی یافتہ شکل میں تھی اورقرآنکی زبان ہونے کی وجہ سے زندہ ہے۔ فصیح عربی اور بولے جانے والی عربی میں بہت فرق نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے بولے جانے والیاردواورادبی اردومیں فرق ہے۔ عربی زبان نےاسلامکی ترقی کی وجہ سے مسلمانوں کی دوسری زبانوں مثلاًاردو،فارسی،ترکیوغیرہ پر بڑا اثر ڈالا ہے اور ان زبانوں میں عربی کے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ عربی کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کی حیثیت حاصل ہے اور تمام دنیا کےمسلمانقرآنپڑھنے کی وجہ سے عربی حروف اور الفاظ سے مانوس ہیں۔ تاریخ میں عربی زبان کی اہمیّت کے سبب بہت سے مغربی زبانوں میں بھی اِس کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔عربی کے کئی لہجے آج کل پائے جاتے ہیں مثلاً مصری، شامی، عراقی،حجازیوغیرہ۔ مگر تمام لہجے میں بولنے والے ایک دوسرے کی بات بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور لہجے کے علاوہ فرق نسبتاً معمولی ہے۔ یہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے اور اس میںھمزہ سمیت29حروف تہجی ہیںجنہیںحروف ابجدکہا جاتا ہے۔عربی کی وسعت فصاحت و بلاغت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ حروف تہجی میں سے کوئی سے تین حروف کسی بھی ترتیب سے ملا لیے جائیں تو ایک بامعنی لفظ بن جاتا ہے۔عرب قدیم زمانے میں سامی زبانوں کی وسیع اقسام پر فخر کرتا تھا۔ جنوب مغرب میں، مختلفوسطی سامی زبانیںبولی جاتی تھیں جوقدیم جنوبی عربیخاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اس سے باہر تھیں (مثلاً جنوبی ثامودی)۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جدید جنوبی عربی زبانوں (غیر مرکزی سامی زبانوں) کے آبا و اجداد بھی اُس وقت جنوبی عرب میں بولے جاتے تھے۔ شمال کی طرف، شمالی حجاز کے نخلستانوں میں،دادانیاورتیمائیکو نوشتی زبان کے طور پر کچھ وقار حاصل تھا۔ نَجد اور مغربی عرب کے کچھ حصوں میں، ایک زبان جو علما کے نزدیک ثمودی جیم کے نام سے مشہور ہے۔ مشرقی عرب میں، قدیم جنوبی عربی سے ماخوذ ایک رسم الخط میں تحریریں ایک زبان کی تصدیق کرتی ہیں جسےحسائیکہا جاتا ہے۔ آخر میں، عرب کی شمال مغربی سرحد پر، مختلف زبانیں جو علما کے نزدیک ثمودی ب، ثمودک د،سفائیہاورحسمائیہکے نام سے مشہور ہیں۔ آخری دو، عربی کی بعد کی شکلوں کے ساتھ اہم خط تفریقِ لسانی کا اشتراک کرتی ہیں، مفکرین کو یہ نظریہ پیش کرنے کو کہتی ہیں کہ صفاتی اور حسمائی دراصل عربی کی ابتدائی شکلیں ہیں اور انھیں پرانی عربی سمجھا جانا چاہیے۔عربی درج ذیل ممالک میں سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے:یہ درج ذیل ممالک کیقومی زبانبھی ہے:
+403,فارسی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D8%A7%D8%B1%D8%B3%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,"فارسی/پارسیایکہند-یورپی زبانہے جوایران،افغانستاناورتاجکستانمیں بولی جاتی ہے۔ فارسی کوایران،افغانستاناورتاجکستانمیںدفتری زبانکی حیثیت حاصل ہے۔ایران،افغانستان،تاجکستاناورازبکستانمیں تقریباً12کروڑافراد فارسی زبان کو سمجھ اور بول سکتے ہیں۔فارسیعالمِ اِسلاماو�� مغربی دُنیا کے لیےادباورسائنسمیں حصہ ڈالنے کا ایک ذریعہ رہی ہے۔ ہمسایہ زبانوں مثلاًاُردوپر اِس کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ تاہمعربیپر اِس کا اثر و رُسوخ کم رہا ہے۔ اور پشتو زبان کو تو مبالغہ کے طور پر فارسی کی دوسری شکل قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ دونوں کےقواعدزیادہ تر ایک جیسے ہیں۔برطانوی استعمار سے پہلے فارسی کوبرّصغیرمیں دوسری زبان کا درجہ حاصل تھا؛ اِس نےجنوبی ایشیاءمیں تعلیمی اور ثقافتی زبان کا امتیاز حاصل کیا اورمُغلدورِ حکومت میں یہ سرکاری زبان بنی اور1835ءمیں اس کی سرکاری حیثیت اور دفتری رواج ختم کر دیا گیا۔1843ءسےبرصغیرمیںانگریزیصرف تجارت میں استعمال ہونے لگی۔ فارسی زبان کا اِس خطہ میں تاریخی رُسوخہندوستانیاور دوسری کئی زبانوں پر اس کے اثر سے لگایا جا سکتا ہے۔ خصوصاًاُردوزبان، فارسی اور دوسری زبانوں جیسےعربیاورتُرکیکے اثر و رُسوخ کا نتیجہ ہے، جومُغل دورِ حکومتمیں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان ہے۔ فارسی زبان ہندوستان کیتہذیبو تمدن کا ایک اہم حصہ رہی ہے اور اکبرشاہکے دور میں ترجمے کا ایک شعبہ قائم ہوا تھا، جہاں فارسی کی نادر و نایاب کتابوں کا سنسکرت زبان میں اورسنسکرتکی کتابوں کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا جاتا تھا۔ایران میں سرکاری زبان فارسی ہے، ایران میں مزید سات زبانیں سرکاری طور پر تسلیم شدہ علاقائی زبانیں ہیں: آذربائیجانی ، کوردی ، لوری، مازندرانی ، گیلکی ، بلوچی اور عربی.[15][16][17][18][19]اشتقاقی طور پر، فارسی اصطلاح فارسی زبان کی ابتدائی شکل پارسی (مشرق فارسی میں پارسک) سے ماخوذ ہے۔ اسی عمل میں، درمیانی فارسی اسم پارس(""فارس"") جدید نام فارس میں ارتقا کرگیا۔[20]صوتیاتی تبدیلی /پ/ سے /ف/ میں قرون وسطی میں عربی کے زیرِاثر کی وجہ سے ہے، کیوں کہ معیاری عربی میں صوتیہ /پ/ کی کمی کی وجہ سے ہے۔[21][22][23][24]یہ لفظ آج بھی ایران والے اپنی زبان کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ خصوصاً اسے ایرانی فارسی یا مغربی فارسی کہا جاتا ہے۔[25][26]افغانستانکی معیاری فارسی کو 1958 سے سرکاری طور پر دری کا نام دیا گیا ہے۔ اسے درجہ بندے کے لحاظ سے افغان فارسی بھی کہا جاتا ہے، یہ پشتو کے ساتھ افغانستان کی دو سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ دری کی اصطلاح، جس کا مطلب ہے ""عدالت کی""، اصل میں دار الخلافہ میں ساسانی سلطنت کے دربار میں استعمال ہونے والی فارسی کی مختلف اقسام کا حوالہ دیا گیا، جو سلطنت کے شمال مشرق میں پھیلی ہوئی تھی اور آہستہ آہستہ پارتھیا (پارتھیان) کے سابقہ ایرانی لہجوں جگہ لے لی۔ )[50][51]تاجک فارسی (форси́и тоҷикӣ́, forsi-i tojikī)، تاجکستان کی معیاری فارسی، کو سوویت اتحاد کے زمانے سے ہی سرکاری طور پر تاجک (тоҷикӣ, tojikī) کے طور پر نام زد کیا گیا ہے۔[15] یہ عام طور پر وسطی ایشیا میں بولی جانے والی فارسی کی اقسام کو دیا جانے والا نام ہے۔[52]اہل علم خصوصاً پاکستانی مدارس میں بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے۔ اسکول و کالجز میں بھی اس کا نصاب میں تھوڑا بہت درجہ رکھا گیا ہے۔ مفکر پاکستانعلامہ محمد اقبالکی مشہور شاعری کا بہت زیادہ حصہ فارسی زبان میں ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کی جانب سےعلامہاقبال کو فارسی شاعری کے ساتھ لگاؤ کی وجہ سے محبت میں اپنا قومی شاعر قرار دلوانے کی کوشش پرپاکستانکی جانب سے اپنا قومیشاعربرقرار رکھا جانا ہے۔پاکستانمیں فارسی کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ تاہم بد قسمتی ہے جب سےانگریزی زباننےپاکستانمیں2001ءکے بعد زور پکڑا تو دیگر زبانوں کے ساتھ فارسی زبان سے بھی لگاؤ ماند پڑ گیا۔ تاہم علما و دینی مدارس سے وابستہ لوگ تو اس سے عشق کی حد تک جنون رکھتے ہیں۔ علما کو اس زبان پر زبردست عبور حاصل ہے۔فارسی،ایرانی زبانوںکےمغربی گروہسے تعلق رکھتی ہے جوہند-یورپیزبانوں کی ایک شاخ ہے اورفاعل-مفعول-فعلقسم کی ہے۔ عام خیال کے برعکس یہ سامی زبان نہیں ہے۔[27]"
+404,سندھی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,"سندھی زبانہند آریائیگروہ کیزباناورجنوبی ایشیاءکے علاقہسندھکی زبان ہے جوپاکستانکا صوبہ ہے۔ پاکستان میں سندھی بولنے والوں کی تعداد تقریبن چار کروڑ اوربھارتمیں تقریباً 70 لاکھ ہے اور سندھی کوپاکستاناوربھارتدونوں ملکوں میںقومی زبانکا درجہ حاصل ہے۔ اگرچہ سندھیہند آریائیگروہ کی زبان ہے لیکن اس میںدراوڑیاثرات بھی پائے جاتے ہیں، جو اس کو خاص انفرادیت اور اہمیت دیتا ہے۔ سندھی بولنے والے زیادہ افرادپاکستانکے صوبہسندھمیں ہیں اور بقیہدنیاکے باقی حصوں میں خاص کربھارتکے کئی حصوں میں آباد ہیں جو1947ءمیںتقسیم ہندکے بعدسندھسےہجرتکر کےبھارتگئے اور وہاں آباد ہو گئے۔ سندھی عام طور پر ترمیم شدہعربیرسم الخطمیں لکھی جاتی ہے۔ حکومتبھارتنے1948ءمیں عربی رسم الخط کی جگہدیوناگریرسم الخطکواردو، سندھی، جیسی زبانوں کے لیے بھارت میں رائج کیا۔سندھیجنوبمشرقیپاکستانکے اسکولوں میں پہلیزبانکے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ سندھی وسیعذخیرہ الفاظکی وجہ سے محررین اور مصنفین کو راغب کرتی ہے جس کی وجہ سےادباورشاعریکا ایک وسیع ذخیرہ رکھتی ہے۔ سندھی کے کئی لہجےپاکستانکے باقی صوبوںپنجاب،بلوچستان،سرحدکے کئی علاقوں اوربھارتکی ریاستگجراتاورراجستھانمیں بولے جاتے ہیںسندھی بولی کے علاقے کے بنیاد پر بہت سارے قدیم لہجے ہیں:1. لاسی لہجہ: یہ لہجہ لسبیلہ اور بلوچستان میں بولا جاتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی سندھی سبی تک اور مکران وگوادرتک دوسری بڑی زبان ہے۔2. لاڑی لہجہ: یہ لہجہ لاڑھ میں حیدرآباد اور نیچےٹھٹہ, بدين اور ملير کراچي تک بولا جاتا ہے۔ یہ سندھی کا مستند لہجہ ہے جس میں آج کل کتاب لکھے جاتے ہیں اور سندھی میڈیا بھی اسی لہجے کو اپناتی ہے ميمني لھجہ بھي اسي سے نکلا ہے۔3. کچھی لہجہ: یہ لہجہ کچھ گجرات میں بولا جاتا ہے اور کچھیوں کی بڑی تعداد کراچی میں صدیوں سے آباد ہے سندھی زبان کے عظیم شاعر شاھعبدالطيف بھٹائینے خود کچھ بھونجھ گجرات میںشاعریکی ہے۔4. ميمنی يا کاٹھياواڑھی لہجہ: یہ لہجہ کاٹھیاواڑ گجرات میں بولا جاتا ہے۔ ميمٹی یا کاٹھیاواڑی سننے کے بعد آپ کو لگے گا کہ وہ ٹوٹی پھوٹی سندھی میں بات کر رہے ہے ميمنی یا کاٹھیاواڑی بولنے والے لوگ پانج صدیاں پہلے کاروبار کے لیے ٹھٹھہ سے گجرات گئے تھے تو ان کی سندھی زبان کو میمنی کا نام دیا گیا۔5. تھری يا ڈاھٹکی لہجہ: یہ لہجہ تھرپارکر اور راجستھان میں بولا جاتا ہے۔ تاريخی طور پر تھر اور راجستھان سندھو تہذیب کے مضبوط حصے ہے۔6. وچولی یا اترادی لہجہ: یہ لہجہ اتر یا اپر سندھ میں نوشہروفيروز سےلاڑکانہ،سکھراور کافی علاقوں میں بولا جاتا ہے۔7. سرو يا سرائیکی لہجہ: یہ لہجہ سندھ اور پنجاب میں ملتان سے لے کربہاولپورتک بولا جاتا ہے۔ تاريخی طور پرملتانخود سندھ کا حصہ تھا۔8. خوجکی لہجہ: یہ لہجہ بھی قدیم لہجہ ہے، جس کو اسماعیلیداعیوںنے ملتان، منصورہ اور گجرات میں بنا کے مذہبی گیتگنانلکھے جو آج کل پوری دنیا ��ےاسماعیلیپڑھتے ہیں۔9. جدگالی لہجہ: يہ لہجہ ايران اور بلوچستان میں بولا جاتا ہے۔ یہ لہجہ سننے کے بعد آپ کو لگے گا کہ یہ سندھی زبان کا ايک لہجہ ہے۔10. سواحلی کچھی لہجہ: يہ لہجہمشرقی افریقاکے ملکوں میں بولا جاتا ہے جو افریقا کیسواحلی زباناور سندھی کے کچھی لہجے کا ملغوبہ ہے،کچھکے لوگوں نے 18ويں صدی میں افریقا کی طرف ہجرت کی تھی جن کو اب سواحلی کچھی بولا جاتا ہےتنزانیہ،کینیامیں سواحلی کچھی لہجہ بولنے والوں کی اکثریت ہے۔صرف کینیا میں 55000 تک سواحلی کچھی بولنے والے سندھی آباد ہے۔سندھی چودھویں صدی عیسوی سے اٹھارویں صدی عیسوی تک تعلیم و تدریس کی مشہور زبان رہی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جبشاہ عبداللطیف بھٹائیاور کئی دوسرے شعرا نے سندھی زبان میں اپناصوفیانہکلام لکھا اورانساناورخداکے درمیان رشتے کی وضاحت کی۔قرآنکا پہلا ترجمہ سندھی میں کیا گیا، جوبارہویں صدیعیسوی یا اس سے پہلے،قرآنکا پہلا ترجمہ ہے۔پاکستان کے صوبہ سندھ میں بولی جانے والی اکثریتی زبان ’’سندھی‘‘ ہے۔وادیٔ سندھکی قدیم تہذیب سے اندازہ لگا کر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سندھی زبان سندھ میں آریاؤں بلکہ دراوڑوں سے پہلے کی زبان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے سندھی زبان کو اس خطے کی اصلی زبان بتایا اور اسے پروٹو ڈراویڈین قرار دیا، یعنی دراوڑوں سے پہلے کی زبان۔ یہ دعویٰ کرنے والوں میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، ڈاکٹر غلام علی الانا اور سراج الحق میمن وغیرہ شامل ہیں۔ بعض مستشرقین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ’’سندھی‘‘ دراوڑی زبان سے تعلق رکھتی ہے۔ دیگر قدیم زبانوں مثلاًسنسکرت، عربی وغیرہ سے بھی سندھی کا بہت قریبی تعلق رہا ہے۔ڈاکٹر غلام حیدر سندھی نے لکھا ہے کہ میں نے سندھی زبان کے نقوش معلوم کرنے کے لیے جب سوات اور شمالی علاقہ جات کا دورہ کیا، تو پتا چلا کہ سوات کالام میں بولی جانے والی زبان گاؤری اور دیگر زبانوں کا سندھی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ دورانِ تحقیق یہ بھی معلوم ہوا کہ خالص سندھی سات اصوات ان وادیوں میں بولی جانے والی زبانوں میں ابھی تک موجود ہیں۔ یہ بات بھی تحقیق میں سامنے آئی ہے کہ کالامی یا گاؤری زبان اور سندھی میں تذکیر و تانیث، جمع واحد، حروفِ جار اور اسم صفت کی ترتیب و تراکیب وغیرہ میں بھی کافی مشابہت نظر آتی ہے۔ڈاکٹر غلام حیدر سندھی لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ ان کی آپس میں لسانی قربت اور وہ تاریخی تعلق ہے جو مدتوں پہلے سندھی اور ان وادیوں میں بولی جانے والی زبانوں کے درمیان رہا ہوگا۔ سندھی زبان میں باونحروف تہجیہیں۔ ان میں بارہ ایسے ہیں جو تلفظ کی حد تک سندھی، اردو، پنجابی اور سرائکی میں مشترک ہیں، مگر لکھنے میں ان کی اشکال مختلف ہیں۔جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ سندھی ایک قدیم زبان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھی ادب بھی قدیم ہے۔ سندھی لوک ادب کے علاوہ سندھی زبان میں شاعری اور نثر کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ سندھی لوک داستانوں میں لیلا چنیسر اور عمر ماروی کی داستانیں بہت مشہور ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بہت کم لوگ ایسے ملیں گے کہ سندھی شاعری میں “شاہ عبد اللطیف بھٹائی” اور “سچل سرمست” کے ناموں سے ناواقف ہوں۔سندھی میں مختلف رسم الخط ہیں جن میں سے تین رسم الخط موجودہ دور میں استعمال میں ہیں، جن میں دو رسم الخط مشہور ہیں۔پاکستانمیں سندھی ترمیم شدہ عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، سندھی کے عربی رسم الخط لکھنے والےابو الحسن سندھیہیں سندھی میں کل 52 حروف تہجی ہیں۔ عربی حروف کے علاوہ اس میں دوسرے آریائی حروف بھی شامل ہیں۔ اس رسم الخط کیانیسویں صدیمیںہندوستانکےبرطانوی دور حکومتمیں حوصلہ افزائی کی گئی۔بھارت میں معیاری عربی رسم الخط کے علاوہ دیوناگری رسم الخط بھی رائج ہے، 1948ء سے رائج کیا گیا۔رومن سندھی آج کل موبائیل انباکس میں میسیج میں استعمال ہوتی ہے۔ رومن سندھی اسکرپٹ (رسم الخط) کے سب سے بڑے داعی مصنفحلیم بروہیمرحوم تھے۔For further reading:سانچہ:InterwikiSindhi phrasebook سفری راہنمامنجانبویکی سفرسندھی قبائل"
+405,فقہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D9%82%DB%81,"☆بسلسلہ شرعی علوم☆علم فقہفروعاصولقواعدادلہمدارسباب فقہفقہ العبادات•طہارت•نماز•زکات•روزہ•حجو عمرہ•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•اصولعلم اصول فقہ•ادلہ الفقہ•الاحکام الشرعیہ•فرض•فرض کفایہ•المسنون•المکروہ•الحرام•سنہ مؤکدہ•المباح•الصحہ والبطلان•الالفاظ•الکتاب•السنہ•الاجماع•القیاس•الاجتہاد•قول الصحابی•القواعد فقہیہ•الامور بمقاصدہا•زمرہ•فروع الفقہ•فقہ العبادات•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•فقہ الصیام•فقہ الزکاۃ•فقہ مقارن•فقہ القرآن•فقہ الحدیث•فقہ الاولویات•فقہ•فقہ المریض•فقہ النفس•فقہ السلوک•فقہ السیرہ•فقہی مدارس کی تاسیس•فقہاء الصحابہ•فقہاء التابعین•مذاہب فقہیہ•الائمہ الاربعہ•ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس•محمد بن ادریس الشافعی•احمد بن حنبل•ائمہ مذاہب•سفیان الثوری•اللیث بن سعد•الاوزاعی•داود الظاہری•زید بن علی•المذہب الحنفی•المذہب المالکی•المذہب الشافعی•المذہب الظاہری•المذہب الزیدی•مذاہب آل البیت•مذہب الامامیہ•مذہب الاباضیہ•فقہاء•اصطلاحات فقہیہ•مراتب الفقہاء•مراتب الاجتہاد•مجتہد مطلق•مجتہد مستقل•فتوى•مفتی•کتب فقہ•کتب اصول الفقہ•الاحکام السلطانیہ•مقادیر شرعیہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•علم التفسیرعلم الحدیثعلم الفقہعلم التوحیدالعلوم الشرعیہ المساعدہعلوم اللغہ العربیہعلم اصول الفقہالمناہج العلمیہالبحوث العلمیَّہعلوم القرآن•علوم الحدیث•الاشباہ والنظائر•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ العبادات•طہارت•نماز•الزکات•الصیام•الحجوالعمرہ•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•الاصولعلم اصول الفقہ•ادلہ الفقہ•الاحکام الشرعیہ•فرض•فرض کفایہ•المسنون•المکروہ•الحرام•سنہ مؤکدہ•المباح•الصحہ والبطلان•الالفاظ•الکتاب•السنہ•الاجماع•القیاس•الاجتہاد•قول الصحابی•القواعد الفقہیہ•الامور بمقاصدہا•تصنیف•دراسات فقہیہفروع الفقہ•فقہ العبادات•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•فقہ الصیام•فقہ الزکاہ•فقہ مقارن•فقہ القرآن•فقہ الحدیث•فقہ الاولویات•فقہ•فقہ المریض•فقہ النفس•فقہ السلوک•فقہ السیرہ•تاسیس المدارس الفقہیہ•فقہاء الصحابہ•فقہاء التابعین•مذاہب فقہیہ•الائمہ الاربعہ•ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس•محمد بن ادریس الشافعی•احمد بن حنبل•ائمہ مذاہب•سفیان الثوری•اللیث بن سعد•الاوزاعی•داود الظاہری•زید بن علی•المذہب الحنفی•المذہب المالکی•المذہب الشافعی•المذہب الظاہری•المذہب الزیدی•مذاہب آل البیت•مذہب الامامیہ•مذہب الاباضیہ•فقہاء•مصطلحات فقہیہ•مراتب الفقہاء•مراتب الاجتہاد•مجتہد مطلق•مجتہد مستقل•فتوى•مفتی•کتب فقہ•کتب اصول الفقہ•الاحکام السلطانیہ•مقادیر شرعیہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•اعلامکتب فقہ•کتب اصول الفقہ•[[:زمرہ:|کتب]]•اعلام•العلوم الاسلامیہالتاریخ الاسلامیالمذاہب الاربعہالمذاہب الفقہیہباب اسلامی علومفقہ سے مراد ایسا علم جس میں اُن شرعی احکام سے بحث ہوتی ہو جن کا تعلق عمل سے ہے اور جن کو تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جاتا ہے۔ فقہشریعتاسلامی کی ایک اہم اصطلاح ہے۔فقہ کا لغوی معنی ہے : ’’کسی شے کا جاننا اور اُس کی معرفت و فہم حاصل کرنا۔‘‘قرآن حکیم میں درج ذیل مواقع پر یہ فقہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے :اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ ""دین کی تعلیم فقہ"" (سمجھ) حاصل کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ بھی محتاط ہو جاتے۔وہ بولے، اے شعیب! تمھاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔’’آپ فرما دیں (حقیقۃً) سب کچھ اللہ کی طرف سے (ہوتا) ہے۔ پس اس قوم کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتےo‘‘تو اُن کے دلوں پر مُہر لگا دی گئی سو وہ (کچھ) نہیں سمجھتے۔حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی فقہ کا لفظ سمجھ بوجھ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ معاویہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایامَنْ يُرِدِ اﷲُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ۔[1]اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔نیزآپﷺنے ارشاد فرمایا:
+""فَقِيهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ""۔[2]ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے بھاری ہوتا ہے۔کیونکہ عابد کی عبادت بلا بصیرت ہوتی ہے، اس لیے شیطان کو اسے گمراہی کے گڑھے میں دھکیلنا اور شکوک وشبہات کے جال میں پھانسنا بہت آسان ہوتا ہے؛ جب کہ فقیہ اس کی سازشوں اور چالوں سے واقف ہوتا ہے اور وہ اس کے دامِ فریب میں عام طور پر نہیں آتا ہے،صاحب الاشباہ والنظائر نے فقہ کی عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
+اسی لیے شرعی اصطلاح میں ""فقہ"" کا لفظ علمِ دین قران کریم کا علم حاصل کرنے کے لیے مخصوص ہے۔[3]امام ابو حنیفہ فقہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :الفقہ : معرفة النفس، مَالَهَا وما عليها۔[4]فقہ نفس کے حقوق اور فرائض اور واجبات جاننے کا نام ہے۔
+بالعموم فقہا کرام فقہ کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :العلم بالأحکام الشرعية العملية من أدلتها التفضيلية۔[5]احکام فرعیہ شرعیہ عملیہ کو تفصیلی دلائل سے جاننے کا نام فقہ ہے۔""شرعی احکام"" سے مکلف کے افعال پر شریعت کی جانب سے جو حکم اور صفت مرتب ہوتی ہے وہ مراد ہے، جیسے کسی عمل کا فرض، واجب،مستحبیامباح یا اسی طرح حرام ومکروہ ہونا اور تفصیلی دلائل کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ کس دلیل شرعی پر مبنی ہے، کتاب اللہ پر، سنت رسول پر، اجماع پر یا قیاس وغیرہ پر؛ اسی طرح حکم اور دلیل کے درمیان میں ارتباط کو جاننا بھی فقہ میں شامل ہے۔علامہابن خلدوننے فقہ کی تعریف میں لکھا ہے:افعال مکلفین کی بابت اس حیثیت سے احکام الہٰی کے جاننے کا نام فقہ ہے کہ وہ واجب ہیں یامحظور، ممنوع وحرام، مستحب اور مباح ہیں یامکروہ۔[6]لیکن کیوں۔مکرو ہے کیسے مکرو ہے جب اللہ پاک خد فرما رہے ہیں کے اے ایمان والوں کیا تم نہی جانتے کے میں نے تمھارے لیے قران مجید سے کھلی کھلی دلیلیں چھوڑ رکھی ہیں کیا تم کوفرعونکے بارے میں۔اج سے 1400سو یا 1423 سال پہلے ہی سے فرما دیا گیاہوا نہی ہے فقہ مومن کا لقب ہے اور اللہ پاک نے انسان کو غلتی کرنے والا انسان بی کہا ہے لیکن مافی کی اجازت بی دے ہے سرف سود کہانے والوں کی کوئی مافی نہی حقوق اللہ میں جوعبادتیں کرنے والیں ہیں یاں جو نہی کم عبادت گزار ہیں ان سب میں سود کھانے والوں کے لیے جنگ کا ذیکر آیا ہے قرآن کریم میں اور کسی گناہ کے بارے میں جنگ کا نہی کہا اللہ نے یہ سب تعلیم والے عالم جانتے ہیں تو پھر وہ خد اپنی دلیلیں کیوں بناتے ہیں کیا وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہی کر رہے ایسہ کہنے سے اللہ تعالیٰ نے تو ہر انسان کے لیے الیدا الہدا سب کچھفرانسدیا ہوا ہے اور حدیث نبی میں بی یہ ہی بات ساف صاف سابت ہے کے سود کی اجازت نہیں کسی بھی طرہاں اور ناہی سود کی اجازت توریتزبورانجیلمیں ہی اللہ اکبر اللہ نے نہی دی کسی بھی مذہب میں سود کی اجازت نہیں دی ہمارےخدا نے تو پھر یہ سب کچھ سود کے کارو بار کیوںمندرجہ بالا تعریفات واضح کرتی ہیں کہ فقۂ اسلامی سے مراد ایسا علم و فہم ہے، جس کے ذریعے قرآن و حدیث کے معانی و اشارات کا علم ہو جائے اور احکامات کی مخصوص دلائل کے ذریعے معرفت حاصل ہو، جیسے نماز کی فرضیت کا علماَقِيْمُو الصَّلٰوۃکے ذریعے حاصل ہوا، زکوٰۃ کی فرضیت کا علماٰتُوا الزَّکٰوۃَکے ذریعے حاصل ہوا۔مکلّف آدمی کا کردار ہے جس کے احکام سے اس علم میں بحث ہوتی ہے، مثلاً انسان کے کسی کیردار کا صحیح، سے مراد عدل پسند اور شرعی فرض اور واجب، سنت ومستحب، یاحلال وحرام ہونا وغیرہ۔۔۔۔۔[7]سعادت دارین کی کامیابی اور علم فقہ کے ذریعہ شرعی احکام کے مطابق عمل کرنے کی قدرت۔[8]فقیہ(انگریزی: Jurist) اس پیشہ ور کو کہتے ہیں جو قانون کا مطالعہ کرتا ہے یا دوسری صورت میں قانون سے متعلق کوئی رائے تیار کرتا ہے، جو بعد میں صلح و مشورہ کے کام دیتی ہے یا نیا قانون نافذ کرنے میں کام آتی ہے-انسان کی مکمل زندگی میں عقائد، خاس دو ہیں اور دو سے ذیادا ہیں
+حقوق اللہ عبادات،
+حقوق الباب معاملات اور معاشرت وغیرہ سے متعلق شرعی احکام و مسائل ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں قرآن، حدیث اور صحابہ وغیرہ کے اقوال میں بکھرے پڑے ہیں، اب ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں ہر مسئلہ بلاواسطہ قرآن، حدیث اور آثار صحابہ وغیرہ سے خود ہی تلاش کرلوں گا یہ ایک ممکن اور بے حد ضروری ہے اس لیے ناممکن کچھ نہی اس کی وجوہات بہت ساری ہیں مثلاً:جنوں نے اپنی بادشاہی دنیاہ اللہ کی رضا کے لیے چھوڑی کیوں کے وہ سرف امن پسند اور سیرت نبی سے پیار کرنے والے ہیں اب ان کو بی کچھ اومتے مسلمہ کے عالم کی رے اپنی اپنی ہے لیکن انسان کی سوچ سے اللہ کے احکامات اور نظام تو نہی چینج ہوتے اس لیے ہر انسان کا یہ فرض ہے کے وہ یہ دیکھے اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ۔[9]اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ہر شخصقرآنوحدیثسے بغیر کسی واسطے کے کوئی مسئلہ اپنے لیے تجویز نہیں کرتا تھا بلکہ جو عالم صحابہ کرام تھے ان سے مسئلہ معلوم کرکے عمل کیا کرتا تھا اسی طرح ہر زمانہ میں ہوتا رہا۔
+بہرحال بعض حضرات ہر زمانے میں ایسے رہے جوقرآنوحدیثکے علوم میں ماہر، فہم و بصیرت میں اعلیٰ، تقویٰ اور طہارت میں فائق اور حافظہ و ذکاوت میں اوقع تھے لوگ ان ہی سے مسائل معلوم کرکے عمل کرتے اور اپنی فہم و بصیرت پر بالکل اعتماد نہیں کرتے اور اگر ہر کوئی خود ہی اپنے مسئلہ کوقرآنوحدیثمیں تلاش کرنے لگے تو گویا ایسا ہی ہو جائے گا جیسے کہ ہر شخص اپنے مرض کا علاج خود ہی طبی کتابوں میں تلاش کرلے ڈاکٹر وغیرہ کی اس کو ضرورت ہی نہیں اگر ایسا ہوا تو کیا ہر مریض اپنے مرض کا علاج ان كتابوں ميں تلاش کر پائے گا؟ ہرگز نہيں؛ بالکل اسی طرح دینی و شرعی مسئلہ کو سمجھیں کہ اس کا حل ہر کوئی نہیں کر سکتا۔
+بہرحال جو لوگ قرآن و حدیث کو مکمل طور پر سمجھے ہیں اور اپنی مکمل زندگی کو مسائل کے حل کرنے اور قرآن و حدیث کے مطابق اس کو ڈھالنے میں وقف کر دیا اور ہر مسئلہ کا جواب قرآن و حدیث اور اس کے مطابق اصول کی روشنی میں بتایا ان میں مقبول چار حضرات کے مکاتب فکر ہوئے ہیں جن کے نام یہ ہیں، امامابو حنیفہامام شافعی،امام مالکاورامام احمد بن حنبل، ان حضرات کے بعد ان کے شاگرد حضرات ہر ایک کا مسئلہقرآنوحدیثاور ان حضرات کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق بتلایا کرتے تھے اسی طرح یہی معمول اب تک چلا آیا اور آئندہ بھی چلتا رہے گا۔
+ان چاروں حضرات نے مسائل کے حل کرنے میں جو طرز عمل اختیار فرمایا وہ اس طرح ہے۔صاحب الاشباہ والنظائر نے فقہ کی عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
+""الفقۃ أشرف العلوم قدراً وأعظمھا أجرا وأتمھا عائدۃ وأعمھا فائدۃ وأعلاھا مرتبہ یملا العیون نوراً والقلوب سروراً والصدور انشراحاً""۔[10]علم فقہ تمام علوم میں قدرومنزلت کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہے اور اجر کے اعتبار سے بھی اس کا مرتبہ اونچا ہے، علم فقہ اپنے مقام ورتبہ کے اعتبار سے بھی بہت بلند ہے اور وہ آنکھوں کو نور اور جلا بخشتا ہے، دل کو سکون اور فرحت بخشتا ہے اور اس سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے۔
+اور صاحب درمختار نے علم فقہ کی عظمت کا یوں تذکرہ کیا ہے۔
+""وخیرعلوم علم فقہ ؛لانہ یکون الی العلوم توسلاً ؛فان فقیھا واحداً متورعاً علی الف ذی زھد تفضل واعتلیٰ، تفقہ فان الفقہ افضل قائد الی البر والتقوی وأعدل قاصد وکن مستفیدا کل یوم زیادۃ من الفقہ واسبح فی بحور الفوائد""۔[11]تمام علوم میں قدرومنزلت اور مقام ورتبہ کے اعتبار سے سب سے بہتر علم فقہ ہے، اس لیے کہ علم فقہ تمام علوم تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے، اسی وجہ سے ایک متقی فقیہ ہزار عابدوں پر بھاری ہوتا ہے، علم فقہ کو حاصل کرنا چاہیے، اس لیے کہ علم فقہ نیکی اور تقویٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ہردن علم فقہ سے مستفید ہوتے رہنا چاہیے، اس کے سمندر میں غوطہ زنی کرنا چاہیے۔مکی زندگی میں قرآن کا خاص موضوع دعوتِ ایمان اور اصلاحِ عقیدہ تھا، ہاں بعض اُصولی احکام اور بعض متفق علیہ برائیوں کی مذمت سے متعلق ہدایاتِ زندگی میں بھی دی گئیں، جیسے قتل ناحق کی ممانعت،[12]لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی مذمت (التکویر:)، زناکی حرمت (المؤمنون)، یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کی ممانعت اور ناپ تول کو درست رکھنے کی ہدایات[13]غیر اللہ پر جانور یا نذر کی ممانعت،[14]ان ہی جانوروں کا گوشت کھانے کی اجازت جن پر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو،[15]عبادات میں بالاتفاق ""نماز"" مکی زندگی میں فرض ہو چکی تھی اور زکوٰۃ کے بارے میں اختلاف ہے؛ لیکن زکوٰۃ کا ذکر مکی آیات میں بھی ملتا ہے؛ ممکن ہے کہ مکہ میں اجمالی حکم دیا گیا ہو اور مدنی زندگی میں اس کی تنفیذ عمل میں آئی ہو، عملی زندگی سے متعلق احکام عام طور پر مدنی زندگی میں ہی دیے گئے ہیں۔قرآن کا طرزِ بیان فقہی اور قانونی کتابوں جیسا نہیں ہے کہ ایک موضوع سے متعلق تمام مسائل ایک ہی جگہ ذکر کر دیے گئے ہوں؛ بلکہ قرآن میں حسب ضرورت ایک موضوع سے متعلق احکام مختلف مقامات پر آیا کرتے ہیں اور فقہی احکام کے ساتھ ترغیبات و ت رہیبات اور ان احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں پر بھی روشنی ڈالی جا��ی ہے؛ تاکہ انسان کو اس کے تقاضے پر عمل کرنے کی رغبت ہو؛ کیونکہ قرآن مجید کا اصل مقصد ہدایت ہے۔""قُلْ إِنَّمَاأَنَابَشَرٌ مِثْلُكُمْ""۔[16]کہدو کہ میں تمھاری طرح کا ایک بشر ہوں۔۔.۔اس حیثیت سے آپﷺ نے جو بات فرمائی ہو، اس کی حیثیت حکم شرعی کی نہیں ہوگی؛ جیسا کہ آپ نے ابتداً اہلِ مدینہ کو کھجور میں ""تابیر"" یعنی کھجور کے مادہ درخت میں نر درخت کے ایک خاص حصہ کو ڈالنے سے منع فرمایا تھا؛ لیکن جب اس کی وجہ سے پیداوار گھٹ گئی تو آپﷺ نے اپنی ہدایت کو واپس لے لیا اور فرمایا:
+""أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ""۔تم زیادہ جانتے ہوں اپنے دنیوی معاملہ کو[17]لیکن یہ فرق کرنا بہت دشوار ہے کہ آپ کے کون سے احکام بشری حیثیت سے تھے، اس لیے جب تک اس پر کوئی واضح دلیل موجود نہ ہو، آپ کے تمام فرمودات اور معمولات کی حیثیت شرعی ہی ہوگی۔""فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى""۔[18]دیکھیے! یہاں حضورﷺ نےاجتہادوقیاسسے کام لیا ہے؛ البتہ اگر آپ سےاجتہادمیں لغزش ہوجاتی تو اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے متنبہ کر دیا جاتا؛ چنانچہغزوۂ بدرکے قیدیوں کے سلسلہ میں آپﷺ نے فدیہ لے کر رہا کردینے کا فیصلہ فرمایا، اس فیصلہ پر اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی (الانعام:67،68) اسی طرح غزوۂ تبوک کے موقع سے آپ نے پیچھے رہ جانے والے منافقین کی معذرت اپنے اجتہاد سے قبول کی اور اس پر اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے تنبیہ ہوئی۔[19]پس آپﷺ نےاجتہادبھی فرمایا ہے، فرق یہ ہے کہ اگر آپ سےاجتہادمیں کوئی لغزش ہوجاتی تو آپﷺ کو اس پر تنبیہ فرمادیا جاتا؛ اس لیے آپﷺ کااجتہادبھی نص کے حکم میں ہے۔""وممن حكم باجتهادہ""۔[20]رسول اللہﷺ کی عدم موجودگی میں صحابہؓ کےاجتہادکے اور بھی متعدد واقعات موجود ہیں۔زمانۂ جاہلیت منہ میں ایک طریقہ ""نکاح شغار"" کا تھا، دو مرد ایک دوسرے سے اپنی محرم خاتون کا نکاح کرتے تھے اور ایک نکاح کو دوسرے کے لیے مہر ٹھہراتے تھے، رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا؛ اسی کو نکاحِ شغار کہا جاتا تھا۔[22]والد کی وفات کے بعد لڑکا سوتیلی ماں سے اپنا نکاح کرلیتا تھا؛ اگر وہ خود نکاح نہ کرتا تو اسے یہ حق ہوتا کہ کسی اور سے نکاح کر دے اور مہر وصول کرلے یا اسے نکاح کرنے سے روک دے؛ یہاں تک کہ اس کی موت ہو جائے اور یہ اس کے مال کا وارث ہو جائے (احکام القرآن للجصاص:1/106،202) قرآن نے اس طریقہ کی مذمت فرمائی اور اس سے منع کر دیا۔[23]نکاح میں دو بہنوں کو جمع کیا جاتا تھا اور غیر محدود تعداد ازدواج کی اجازت تھی؛ یہاں تک کہ جب غیلان ثقفی مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں، قرآن نے دو بہنوں کو جمع کرنے اور چار سے زیادہ نکاح کرنے کو منع فرمادیا۔
+زمانۂ جاہلیت میں منھ بولے بیٹے اور بیٹی کوبھی اپنی اولاد کا درجہ دیا جاتا تھا، نکاح کے معاملہ میں بھی اور میراث کے معاملہ میں بھی، اللہ تعالٰیٰ نے اس کی تردید فرمائی: ""وَمَاجَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ""
+(الأحزاب:4)زمانۂ جاہلیتمیں عورت کے مہر پر ولی قبضہ کرلیتا تھا، قرآن مجید نے کہا کہ عورت کا مہر عورت کو دیا جائے ""وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً""[24]طلاق کی کوئی تعداد متعین نہ تھی، جتنی چاہتے طلاق دیتے جاتے اور عورت کو نکاح سے آزاد بھی نہ ہونے دیتے[25]قرآن نے طلاق کو تین تک محدود کر دیا۔[26]""ایلا"" سال دوسال کا بھی ہوا کرتا تھا، جو ظاہر ہے کہ عورت کے لیے نہایت ہی تکلیف دہ بات تھی، قرآن مجید نے چار ماہ کی مدت مقرر کردی کہ اگر قسم کھا کر اس سے زیادہ بیوی سے بے تعلق رہے تو طلاق واقع ہو جائے گی۔[27]ظہار یعنی بیوی کو محرم کے کسی عضو حرام سے تشبیہ دینے کو طلاق تصور کیا جاتا تھا[28]قرآن نے اسے طلاق تو قرار نہیں دیا؛ لیکن اس پر کفارہ واجب قرار دیا۔[29]عدت سال بھر ہوا کرتی تھی، قرآن نے وضع حمل اور غیر حاملہ کے لیے وفات کی صورت میں چار ماہ دس دن اور طلاق کی صورت میں جوان عورت کے لیے تین حیض اور دوسروں کے لیے تین ماہ قرار دی۔
+اسلام سے پہلے وارث اور غیر وارث دونوں کے لیے جتنے مال کی چاہے وصیت کرسکتے تھے، اسلام نے وارث کے لیے وصیت کو غیر معتبر قرار دیا اور وصیت کی مقدار ایک تہائی تک محدود کر دیا۔[30]میراث کا قانون بڑا ظالمانہ تھا، صرف ان مردوں کو جو جنگ میں لڑنے کے قابل ہوتے، انھیں میراث دی جاتی تھی اور نابالغوں کے لیے میراث میں حصہ نہیں تھا، اسلام نے عورتوں اور نابالغ بچوں کو حق میراث عطا کیا۔
+عرب سود کو درست سمجھتے تھے، اسلام نے نہایت سختی کے ساتھ اس کو منع کر دیا۔
+مال رہن کا قرض دینے والا مالک ہوجاتا تھا؛ اگر مقروض نے وقت پر قرض ادا نہیں کیا، اسلام نے اس بات کی تو اجازت دی کہ اگر مقروض قرض ادا نہیں کرے تو بعض صورتوں میں مال کو فروخت کرکے اپنا قرض وصول کرلے اور باقی پیسہ واپس کر دے؛ لیکن یہ درست نہیں کہ پورے مال رہن کا مالک ہو جائے۔[31]زمانۂ جاہلیت میں ایک طریقہ یہ تھا کہ خرید و فروحت کے درمیان میں اگر بیچی جانے والی شے کو چھوڑدیا یا اس پر کنکری پھینک دی تو اس کے ذمہ اس کا خریدنا لازم ہو گیا، جس کو منابذہ، ملامسہ، بیع حصاۃ کہا کرتے تھے، رسول اللہﷺ نے اس طریقہ پرخرید و فروختکو منع فرمایا[32]بیع ملامسہ وغیرہ کی بعض اور تعریفیں بھی کی گئی ہیں جسے بیع کے لفظ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
+لوگ کسی سامان کی قیمت کو بڑھانے کے لیے مصنوعی طور پر بولی لگادیتے تھے، اس کو""نجش"" کہتے ہیں، آپﷺ نے اس کوبھی منع فرمایا۔قتل اور جسمانی تعدی میں لوگ صرف قاتل اور ظالم ہی سے بدلہ نہیں لیتے تھے؛ بلکہ اس کے متعلقین اور پورے قبیلہ کو مجرم کا درجہ دیتے تھے، قرآن نے اس کو منع کیا اور صرف مجرم کو سزاوار ٹھہرایا۔
+حج میں قریش مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے اور اسے اپنے لیے باعثِ ہتک سمجھتے تھے، قرآن مجید نے سبھوں کو عرفات جانے کا حکم دیا[33]بلکہ وقوفِ عرفہ کو حج کارکنِ اعظم قرار دیا گیا۔
+پس زمانۂ جاہلیت کے بہت سے احکام میں شریعتِ اسلامی نے اصلاح کی اور جو رواجات عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھے، ان کو کالعدم قرار دے دیا۔یہ عہد 11/ہجری سے شروع ہوکر 40/ہجری پرختم ہوتا ہے۔""جب کتاب اللہ میں کوئی حکم پاؤ تو اس کے مطابق فیصلہ کرو، کسی اور طرف توجہ نہ کرو؛ اگر کوئی ایسا معاملہ سامنے آئے کہ کتاب اللہ میں اس کا حکم نہ ہو، تو رسول اللہﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کرو؛ اگر کتاب اللہ میں نہ ملے اور نہ سنتِ رسول میں، تو جس بات پر لوگوں کااجماعہو اس کے مطابق فیصلہ کرو، نہ کتاب اللہ میں ہو، نہ سنتِ رسول میں اور نہ تم سے پہلوں نے اس سلسلہ میں کوئی رائے ظاہر کی ہو، تو اگر تماجتہادکرنا چاہو تواجتہادکے لیے آگے بڑھو اور اس سے پیچھے ہٹنا چاہو، تو پیچھے ہٹ جاؤ اور اس کو میں تمھارے حق میں بہتر ہی سمجھتا ہوں""۔[34]عمر اور عبد اللہ بن مسعودکے نزدیک بیوہ حاملہ عورت کی عدت ولادت تک تھی اور غیر حاملہ کی چار مہینے دس روز، علی اورعبد اللہ بن عباسکا نقطہ نظر یہ تھا کہ ولادت اور چار ماہ دس دنوں میں سے جو مدت طویل ہو وہ عدتِ وفات ہوگی۔
+عمر اور عبد اللہ بن مسعودکے نزدیک مطلقہ عورت کی عدت تیسرے حیض کے غسل کے بعد پوری ہوتی تھی اورزید بن ثابتکے نزدیک تیسرا حیض شروع ہوتے ہی عدت پوری ہوجاتی تھی، ابوبکر اورعبد اللہ بن عباسکی رائے یہ تھی کہ باپ کی طرح دادا بھی سگے بھائیوں کو میراث سے محروم کر دے گا، عمر، علی اورزید بن ثابتکو اس سے اختلاف تھا۔
+ایک بڑا اختلافعراقو شام کی فتوحات کے وقت پیدا ہوا، عبد الرحمن بن عوف اورعمار بن یاسر کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مالِ غنیمت کے عام اُصول کے مطابق اسے مجاہدین پر تقسیم کر دیا جائے اور عمر، عثمان اورعلی وغیرہ کی رائے تھی کہ اسےبیت المالکی ملکیت میں رکھا جائے؛ تاکہ تمام مسلمانوں کو اس سے نفع پہنچے اور طویل بحث و مباحثہ کے بعد اسی پرفیصلہ ہوا۔
+عثمانِ غنی کا فتویٰ یہ تھا کہ خلع حاصل کرنے والی عورت پر عدت واجب نہیں، صرف فراغتِ رحم کو جاننے کے لیے ایک حیض گذارنا ضروری ہوگا، دوسرے صحابہ مکمل عدت گذارنے کو واجب قرار دیتے تھے۔
+اس طرح کے بیسیوں اختلاف عہدِ صحابہ میں موجود تھے، کتبِ فقہ اور خاص کر شروحِ حدیث ان کی تفصیلات سے بھری پڑی ہیں اور موجودہ دور کے معروف صاحب علم ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے صحابہ کی موسوعات کو جمع کرنے کا کام شروع کیا ہے، اس سے مختلف صحابہ کی فقہ اور ان کا فقہی ذوق اور منہجاستنباطواضح طور پرسامنے آتا ہے۔اس وقت تک شراب نوشی کی کوئی سزا متعین نہیں تھی، عمرنے اس سلسلہ میں اکابر صحابہ سے مشورہ کیا، علی نے فرمایا کہ جب کوئی شخص شراب پیتا ہے تو نشہ میں مبتلا ہوتا ہے؛ پھر نشہ کی حالت میں ہذیان گوئی شروع کرتا ہے اور اس میں لوگوں پر بہتان تراشی بھی کر گزرتا ہے؛ اس لیے جو سزا تہمت اندازی (قذف) کی ہے، یعنی اسی (80) کوڑے، وہی سزا شراب نوشی پر بھی دے دی جانی چاہیے؛ چنانچہ اسی پر فیصلہ ہوا (مؤطا امام مالک، حدیث نمبر:709) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے بھی اسی (80) کوڑے کا مشورہ دیا تھا۔
+اگر کوئی شخص لفظ بتہ کے ذریعہ طلاق دے، تو اس میں ایک طلاق کا معنی بھی ہو سکتا ہے اور تین طلاق کا بھی؛ چنانچہ ہوتا یہ تھا کہ طلاق دینے والے کی نیت کے مطابق فیصلہ کیا جاتا تھا، حضرت عمرؓ کا احساس یہ تھا کہ بعض لوگ اس گنجائش سے غلط فائدہ اُٹھاتے ہیں اور غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ میرینیتایک طلاق کی تھی، اس لیے انھوں نے اس کے تین طلاق ہونے کا فیصلہ فرمایا۔
+رسول اللہﷺ سے نمازِ تراویح کی رکعات کی تعداد صحیح طور پرثابت نہیں ہے؛ کیونکہ آپ نے اس نماز کے واجب ہوجانے کے اندیشے سے دو تین شب کے علاوہ صحابہؓ کے سامنے یہ نماز ادا نہیں فرمائی، مختلف لوگ تنہا تنہا پڑھ لیتے تھے، حضرت عمرؓ نے ایک جماعت بنادی، ان پر حضرت ابی بن کعبؓ کو امام مقرر کیا اور تراویح کی بیس رکعتیں مقرر فرمادیں، جو آج تک متوارثاً چلا آ رہا ہے۔حضرت عمرؓ کے دور میں ایک شدید قحط پڑا کہ لوگ اضطرار کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے، اس زمانہ میں حضرت عمرؓ نے چوری کی سزا موقوف فرمادی؛ اسی طرح حضرت حاطب بن بلتعہ کے غلاموں نے قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کی اُونٹنی چوری کرلی، آپؓ نے ان غلاموں کے ہاتھ نہیں کاٹے، حضرت عمرؓ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اس وقت لوگ حالتِ اضطرار میں ہیں اور اضطراری حالت میں چوری کرنے سے حد جاری نہیں ہوگی؛ کیونکہ انسان اختیاری افعال کے بارے میں جواب دہ ہے، نہ کہ اضطراری افعال کے بارے میں۔
+حضورﷺ نے بھٹکی ہوئی اُونٹنی کو پکڑنے سے منع فرمایا؛ کیونکہ وہ خود اپنی حفاظت کرسکتی ہے؛ یہاں تک ک�� اُس کا مالک اُس کو پالے، حضرت ابوبکر و عمرؓ کے دور میں اسی پر عمل رہا؛ لیکن حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے زمانہ میں ایسی اُونٹنی کو پکڑلینے اور بیچ کراس کی قیمت کو محفوظ رکھنے کا حکم دیا تآنکہ اس کا مالک آجائے
+(شرح الزرقانی علی المؤطا لمالک:3/129) کیونکہ اخلاقی انحطاط کی وجہ سے اس بات کا اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ بدقماش لوگ ایسی اونٹنی کو پکڑلیں؛ گویا منشا اونٹنی کی حفاظت تھا، طریقہ کار، زمانہ کے حالات کے لحاظ سے بدل گیا۔
+اسی طرح اگر کوئی شخصی مرضِ وفات میں اپنی بیوی کو طلاق بائن دے دے، تو شریعت کے عمومی اُصول کا تقاضا تو یہی تھا کہ مطلقہ کو اس مرد سے میراث نہ ملے؛ لیکن چونکہ اس کو بعض غیر منصف مزاج لوگ بیوی کو میراث سے محروم کرنے کا ذریعہ بناسکتے تھے، اس لیے صحابہ نے ظلم کے سد باب کی غرض سے ایسی مطلقہ کو بھی مستحق میراث قرار دیا، حضرت عثمان غنیؓ کا خیال تو یہ تھا کہ اگر عدت ختم ہونے کے بعد شوہر کی موت ہو، تب بھی عورت وارث ہوگی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ عدت کے اندر شوہر کی وفات کی صورت میں عورت کو میراث ملے گی۔
+اسی طرح امن و امان اور حفاظتِ جان کی مصلحت کے پیشِ نظر حضرت علیؓ کے مشورہ پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص کے قتل میں ایک جماعت شریک ہو تو تمام شرکاء قتل کیے جائیں گے۔""والرأی مشترک فلم ینقص ماقال علی وزید""۔[36](الف)قرآن وحدیث کے کسی لفظ میں ایک سے زیادہ معنوں کا احتمال، جیسے قرآن نے تین ""قرؤ"" کوعدت قرار دیا ہے ""قرأ"" کے معنی حیض کے بھی ہیں اور طہر کے بھی؛ چنانچہ حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم نے اس سے حیض کا معنی مراد لیا اور حضرت عائشہ، حضرت زید بن ثابتؓ نے طہر کا۔(ب)بعض احادیث ایک صحابی تک پہنچی اور دوسرے تک نہیں پہنچی، جیسے جدہ کی میراث کے سلسلہ میں حضرت ابوبکرؓ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ آپﷺ نے اسے چھٹا حصہ دیا ہے، حضرت مغیرہ بن شعبہ اور محمد بن مسلم نے شہادت دی کہ حضورﷺ نے دادی کو چھٹا حصہ دیا ہے؛ چنانچہ اسی پر فیصلہ ہوا۔(ج)بعض دفعہ حضورﷺ کے کسی عمل کا مقصد و منشا متعین کرنے میں اختلافِ رائے ہوتا تھا، جیسے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ طواف میں رمل کا عمل آپ نے مشرکین کی تردید کے لیے فرمایا، جو کہتے تھے کہ مدینہ کے بخار نے مسلمانوں کو کمزور کرکے رکھ دیا ہے، یہ آپ کی مستقل سنت نہیں، دوسرے صحابہ اس کو مستقل قرار دیتے تھے یا حج میں منی سے مکہ لوٹتے ہوئے وادی ابطح میں توقف، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت عائشہؓ اسے سنت نہیں سمجھتے تھے اور اس کو حضور کا ایک طبعی فعل قرار دیتے تھے کہ اس کا مقصد آرام کرنا تھا؛ لیکن دوسرے صحابہؓ اسے سنت قرار دیتے تھے۔
+جن مسائل میں کوئی نص موجود نہ ہوتی اوراجتہادسے کام لیا جاتا، ان میں نقطہ نظر کا اختلاف پیدا ہوتا، مثلاً اگر کوئی مرد کسی عورت سے عدت کے درمیان میں نکاح کرلے، تو حضرت عمرؓ بطورِ سرزنش اس عورت کو ہمیشہ کے لیے اس مرد پر حرام قرار دیتے تھے اور حضرت علیؓ کی رائے یہ تھی کہ دونوں میں تفریق کردی جائے اور سرزنش کی جائے؛ لیکن اس کی وجہ سے ان دونوں مرد و عورت کے درمیان میں دائمی حرمت پیدا نہیں ہوگی؛ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کا طریقہ یہ تھا کہ بیت المال میں جو کچھ آتا، اسے تمام مسلمانوں پر مساوی تقسیم فرماتے اور حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ میں برابر تقسیم کرنے کی بجائے لوگوں کے درجہ و مقام اور اسلام کے لیے ان کی خدمات کو سامنے رکھ کر ت��سیم کرنا شروع کیا۔حضرت فاطمہؓ بنت قیس نے روایت کیا کہ مطلقہ بائنہ عدت میں نہ نفقہ کی حق دار ہے، نہ رہائش کی، حضرت عمرؓ نے سنا تو اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میں ایک عورت کی بات پر نہ معلوم کہ اس نے یاد رکھا یا بھول گئی، کتاب اللہ اور سنتِ رسول کو نہیں چھوڑ سکتاــــــ حضرت عمرؓ کو خیال تھا کہ یہ فاطمہ بنت قیس کا وہم ہو سکتا ہے؛ کیونکہ قرآن (الطلاق:1) میں مطلقہ کے لیے رہائش فراہم کرنے کی ہدایت موجود ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے روایت کیا کہ مردہ کو اس کے لوگوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، حضرت عائشہؓ نے اس پر نکیر فرمائی اور کہا کہ یہ قرآن کے حکم ""وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى"" (فاطر:18) یعنی""ایک شخص پردوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں ہوگا"" کے خلاف ہے۔حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کیا کہ جنازہ کو اُٹھانے والے پر وضو واجب ہے، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے سوال کیا کہ کیا سوکھی ہوئی لکڑیوں کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ پھر تو گرم پانی سے غسل کیا جائے تو اس سے بھی وضو واجب ہو جائے گا؟ اس طرح کی بہت سی مثالیں صحابہ کے درمیان میں باہمی مناقشات کی پائی جاتی ہیں، جن سے ظاہر ہے کہ مسائل شرعیہ کو اخذ کرنے کے سلسلہ میں دونوں طرح کا ذوق پایا جاتا تھا اور یہی ذوق بعد کو فقہا مجتہدین تک منتقل ہوا اور اس کی وجہ سے الگ الگ دبستانِ فقہ وجود میں آئے۔بیس صحابہؓ متوسطین میں شمار کیے گئے ہیں، جن سے بہت زیادہ نہیں؛ لیکن مناسب تعداد میں فتاویٰ منقول ہیں اور بقول ابنِ قیمؒ ان کے فتاویٰ کو ایک چھوٹے جزء میں جمع کیا جا سکتا ہے، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت اُم سلمہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ وغیرہ اسی گروہ میں ہیں، بقیہ صحابہ وہ ہیں جن سے ایک دو مسئلہ میں فتویٰ دینا منقول ہے، ان کی تعداد (125) ہے؛ اسی گروہ میں حضرت حسن و حسین، سیدۃالنساء حضرت فاطمہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت اُم حبیبہؓ، حضرت میمونہؓ، حضرت بلالؓ، حضرت عباد اور حضرت اُمِ ایمن ؓ وغیرہ ہیں۔[38]یہ مرحلہ حضرت معاویہؓ کی امارت سے شروع ہوتا ہے اور بنواُمیہ کی حکومت کے خاتمہ کے قریبی زمانہ تک کا احاطہ کرتا ہے، اس عہد میں بھی بنیادی طور پراجتہادواستنباط کا وہی منہج رہا جوصحابہ نے اختیار کیا تھاــــ اس عہد کی چند خصوصیات قابل ذکر ہیں:(اعلام الموقعین:1/21 اور اس کے بعد، فصل:الائمۃ الذین نشر والدین والفقہ)اصحاب الرائی اور اصحاب الحدیث کے درمیان میں دواُمور میں نمایاں فرق تھا، ایک یہ کہ اصحاب الحدیث کسی حدیث کوقبول اور رد کرنے میں محض سند کی تحقیق کوکافی سمجھتے تھے اور خارجی وسائل سے کام نہیں لیتے تھے، اصحاب الرائے اُصولِ روایت کے ساتھ اُصولِ درایت کوبھی ملحوظ رکھتے تھے، وہ حدیث کوسند کے علاوہ اس طور پر بھی پرکھتے تھے کہ وہ قرآن کے مضمون سے ہم آہنگ ہے یااس سے متعارض؟ دین کے مسلمہ اُصول اور مقاصد کے موافق ہے یانہیں؟ دوسری مشہور حدیثوں سے متاعرض تونہیں ہے؟ صحابہ کا اس حدیث پرعمل تھا یانہیں؟ اور نہیں تھاتواس کے اسباب کیا ہو سکتے ہیںـــــــ حقیقت یہ ہے کہ اصحاب الرائی کا منہج زیادہ درست بھی تھا اور دشوار بھی؛ دوسرا فرق یہ تھا کہ اصحاب الحدیث ان مسائل سے آگے نہیں بڑھتے تھے جوحدیث میں مذکور ہوں؛ یہاں تک کہ بعض اوقات کوئی مسئلہ پیش آجاتا اور ان سے اس سلسلہ میں رائے دریافت کی جاتی؛ اگرحدیث میں اس کا ذکر نہیں ہوتا تووہ جواب دینے سے انکار کرجاتے اور لوگ ان رہنمائی سے محروم رہتے، ایک صاحبسالم بن عبد اللہبن عمرؓ کے پاس آئے اور ایک مسئلہ دریافت کیا؛ انھوں نے نے کہا کہ میں نے اس سلسلہ میں کوئی حدیث نہیں سنی، استفسار کرنے والے نے کہا کہ آپ اپنی رائے بتائیں؛ انھوں نے انکار کیا، اس نے دوبارہ استفسار کیا اور کہا کہ میں آپ کی رائے پرراضی ہوں، سالم نے کہا کہ اگراپنی رائے بتاؤں توہو سکتا ہے کہ تم چلے جاؤ اس کے بعد میری رائے بدل جائے اور میں تم کونہ پاؤں۔(تاریخ الفقہ الاسلامی، للشیخ محمد علی السایس:77)یہ واقعہ ایک طرف ان کے احتیاط کی دلیل ہے؛ لیکن سوال ہے کہ کیا ایسی احتیاط سے اُمت کی رہنمائی کا حق ادا ہو سکتا ہے؟ اصحاب الرائی نہ صرف یہ کہ جن مسائل میں نص موجود نہ ہوتی، ان میں مصالح شریعت کوسامنے رکھتے ہوئے اجتہاد کرتے؛ بلکہ جومسائل ابھی وجود میں نہیں آئے؛ لیکن ان کے واقع ہونے کا امکان ہے، ان کے بارے میں بھی پیشگی تیاری کے طور پرغور کرتے اور اپنی رائے کا اظہار کرتے، اسی کو ""فقہ تقدیری"" کہتے ہیں، اصحاب حدیث اصحاب الرائی کے اس طرزِ عمل پرطعنہ دیتے تھے؛ لیکن آج اسی فقہ تقدیری کا نتیجہ ہے کہ نئے مسائل کوحل کرنے میں قدیم ترین فقہی ذخیرہ سے مدد مل رہی ہے۔
+اس وضاحت سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اصحاب الرائی کا کام بمقابلہ اصحاب الحدیث کے زیادہ دُشوار تھا؛ اسی لیے متقدمین کے یہاں ""اصحاب الرائی"" میں سے ہونا ایک قابل تعریف بات تھی اور مدح سمجھی جاتی تھی، بعد کوجن لوگوں نے اس حقیقت کونہیں سمجھا؛ انھوں نے رائے سے مراد ایسی رائے کوسمجھا جوقرآن وحدیث کے مقابلہ خودرائی پرمبنی ہو، یہ کھلی ہوئی غلط فہمی اور ناسمجھی ہے۔حجازکا اصحاب الحدیث کا مرکز بننا اور عراق کا اصحاب الرائی کا مرکز بننا کوئی اتفاقی امر نہیں تھا، اس کے چند بنیادی اسباب تھے، اوّل یہ کہ حجاز عرب تہذیب کا مرکز تھا، عرب اپنی سادہ زندگی کے لیے مشہور رہے ہیں، ان کی تہذیب میں بھی یہی سادگی رچی بسی تھی، عراق ہمیشہ سے دُنیا کی عظیم تہذیبوں کا مرکز رہا ہے اور زندگی میں تکلفات وتعیشات اس تہذیب کا جزوتھا؛ پھرمسلمانوں کے زیرنگین آنے کے بعد یہ علاقہ عربی اور عجمی تہذیب کا سنگم بن گیا تھا؛ اس لیے بمقابلہ حجاز کے یہاں مسائل زیادہ پیدا ہوتے تھے اور دین کے عمومی مقاصد ومصالح کوسامنے رکھ کراجتہاد سے کام لینا پڑتا تھا؛ یہاں کے فقہا اگرعلمائے اصحاب حدیث کی طرح منصوص مسائل کے آگے سوچنے کوتیار ہی نہ ہوتے توآخر اُمت کی رہنمائی کا فرض کیوں کرادا ہوتا؟۔
+دوسرے دبستانِ حجاز پرحضرت عبد اللہ بن عمرؓ وغیرہ صحابہ کی چھاپ تھی، جن کا ذوق ظاہر نص پرقناعت کرنے کا تھااور عراق کے استاذ اول حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جیسے فقہا تھے، جن پراصحاب الرائی کے طریقہ اجتہاد کا غلبہ تھا، اس لیے دونوں جگہ بعد کے علما پران صحابہ کے اندرازِ فکر کی چھاپ گھری ہوتی چلی گئی۔
+تیسرے اکثرفرقِ باطلہ کا مرکز عراق ہی تھا، یہ لوگ اپنی فکر کی اشاعت کے لیے حدیثیں وضع کیا کرتے تھے، اس لیے علماِ عراق تحقیق حدیث میں اُصول روایت کے ساتھ ساتھ اُصولِ درایت سے کام لیتے تھے، اس کے برخلاف علما حجاز کووضع حدیث کے اس فنتہ سے نسبتاً کم سابقہ تھا۔مدینہ:اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت ابوہریرہؓ، سعید بن مسیبؓ،عروہ بن زبیر، ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام، امامزین العابدینعلی بن حسین، عبد اللہ بن مسعود، سالم بن عبد اللہ بن عمر،سلیمان بن یسار، قاسم بن محمدبن ابوبکر، نافع مولیٰ عبد اللہ بن عمر، محمدبن مسلمابن شہاب زہری، امام ابوجعفر محمدباقر، ابوالزنادعبد اللہ بن ذکوان، یحییٰ بن سعید انصاری، ربیعۃ الرائے رضی اللہ عنہم اجمعین۔
+مکہ:حضرت عبد اللہ بن عباس، امام مجاہد، عکرمہ، عطاء بن ابی رباح۔
+کوفہ:علقمہ، نخعی، مسروق، عبید ۃ بن عمروسلمانی، اسود بن یزید نخعی، قاضی شریح، ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر، عامر بن شراحیل شعبی رحمہم اللہ۔
+بصرہ:حضرتانس بن مالکانصاریؓ، ابوالعالیہ، رفیع بن مہران، حسن بن ابی الحسن یسار، ابوالثعثاء، جابر بن زید، محمدبن سیرین، قتادہ رحمہم اللہ۔
+شام: عبد الرحمن بن غانم، ابوادریس خولانی، مکحول، قبیصہ بن ذویب، رجاء بن حیوٰہ، حضرت عمربن عبد العزیز رحمہم اللہ۔
+مصر:حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاصؓ، مرثد بن عبد اللہ بن البزی، یزید بن ابی حبیب رحمہم اللہ۔
+یمنل:طاؤس بن کیسان، وہب بن منبہ صنعانی، یحییٰ بن ابی کثیر۔
+چوتھا مرحلہـــــــ اوائل دوسری صدی تانصف چوتھی صدی
+تدوین فقہ کا چوتھا مرحلہ جوعباسی دور کی ابتدا سے شروع ہوکر چوتھی صدی ہجری کے وسط تک محیط ہے، نہایت اہم ہے اور اسے نہ صرف فقہ اسلامی بلکہ تمام ہی اسلامی وعربی علوم وفنون کا سنہرا دور کہہ سکتے ہیں، فقہ اور فقہ سے متعلق جوعلوم ہیں ان کے علاوہ اسی عہد میںتفسیر قرآنکے فن کوکمال حاصل ہوا اورتفسیر طبریجیسی عظیم الشان تفسیر وجود میں آئی، جوآج تک کتبِ تفسیر کا نہایت اہم مرجع ہے؛ اسی عہد میں عربی زبان کے قواعد مرتب ہوئے؛ اسی دور میں عباسی خلفاء کی خواہش پریونانی علوم،منطقاورفلسفہوغیرہ عربی زبان میں منتقل کیا گیا اور اس کوبنیاد بناکر مسلمان محققین نے بڑے بڑے سائنسی کارنامے انجام دیے اور علم و تحقیق کی دنیا میں اپنی فتح مندی کے علم نصب کیے اور فقہ کے لیے تویہ دور نہایت ہی اہم ہے۔یہ تدوین تین مرحلوں میں انجام پائی، پہلے مرحلہ میں حضورﷺ کی احادیث اور صحابہؓ کے فتاویٰ اور فیصلے؛ بلکہ کہیں کہیں تابعین کے فتاویٰ بھی ملے جلے جمع کیے گئے، امام ابویوسفؒ اور امام محمد رحمہ اللہ کیکتاب الآثاراور امام مالک رحمہ اللہ کی مؤطا میں آج بھی اس طریقہ ترتیب کوملاحظہ کیا جا سکتا ہے؛ پھردوسری صدی ہجری کے آخر میں مسانید کا طریقہ مروج ہوا کہ راوی پنی تمام مرویات کوصحابہؓ کے ناموں کی ترتیب سے جمع کرتا اور حدیث کے مضامین وموضوعات سے قطع نظر ایک صحابی کی تمام مرویات ایک جگہ ذکر کی جاتیں، اس سلسلہ کی سب سے ممتاز کتاب ""مسندامام احمد بن حنبل"" ہے؛ لیکن ان میں صحیح ومستند اور ضعیف ونامعتبر دونوں طرح کی روایتیں مذکور ہوتیں؛ چنانچہتیسری صدیہجری میں دواُمور کی رعایت کے ساتھ کتب حدیث مرتب کی گئیں، ایک یہ کہ ان کی ترتیب مضمون کے اعتبار سے ہو اور فقہی ابواب کی ترتیب پرروایتیں جمع کی جائیں، دوسرے یہ کہ نقل حدیث میں صحیح وضعیف کا فرق ملحوظ رکھا جائے اور اپنے گمان کے مطابق صحیح روایتیں نقل کی جائیں، صحاحِ ستہ؛ اسی دور کی یادگاریں ہیں، جن کوکتبِ حدیث میں خاص طور پرقبولِ عام اور شہرت ودوام حاصل ہوا۔
+اس وقت جوکتبِ حدیث موجود ہیں، ان میں امام ابویوسف رحمہ اللہ کی کتاب الآثار، امام مالک رحمہ اللہ کی مؤطا اور امام محمد رحمہ اللہ کی مؤطا اور کتاب الآثار سب سے قدیم کتابیں ہیں، باقی بہت سی کتابیں وہ ہیں کہ ان کے مصنفین کی نسبت سے تاریخ کی کتابوں میں ان کا ذکر ملتا ہے؛ لیکن اب دستیاب نہیں ہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مسندگوایک قدیم ترین مسند ہے؛ لیکن یہ ان کے تلامذہ کی جمع کی ہوئی ہے نہ کہ خود امام صاحب رحمہ اللہ کی۔یہ نہایت اہم کتاب ہے اور ابتدائی دور کی تالیف ہونے کے لحاظ سے نہایت جامع، واضح اور مدلل تالیف ہے، جس میں قرآن مجید کے بیان کے اُصول، سنت کی اہمیت اور قرآن سے اس کا ربط، ناسخ ومنسوخ، علل حدیث، خبرواحد کی حجیت، اجماع، قیاس، اجتہاد، استحسان اور فقہی اختلافِ رائے کی حیثیت پرگفتگو کی گئی ہے، امام شافعیؒ نے اس کتاب میںاستحسانپربہت شدید تنقید کی ہے او ران کا یہی لب ولہجہ ""کتاب الام"" میں بھی پایا جاتا ہے؛ لیکن یہ تنقید زیادہ ترغلط فہمیـــــــ اوراگراس تنقید کا نشانہ حنفیہ ہوں توـــــــ حنفیہ کے نقطۂ نظر سے ناواقفیت پرمبنی ہے۔# اس دور میں فقہی اصطلاحات کا ظہور ہوا اور احکام میں فرض، واجب، سنت، مباح اور مستحب جیسی اصطلاحات نے رواج پایا، تابعین کے عہد میں عام طور پر ایسی اصطلاحات قائم نہیں تھیں؛ بلکہ شریعت میں جن باتوں کا حکم دیا گیا، لوگ بلاتفریق اس پرعمل کرتے تھے اور جن باتوں سے منع کیا گیا، بلاکسی فرق کے ان سے اجتناب کرتے تھے۔یہ ان کے علمی ذوق ہی کی بات تھی کہ ہارون رشید قاضی ابویوسف سے حکومت کے مالیاتی قوانین کے موضوع پرتالیف کا طلب گار ہوتا ہے اور اسی خواہش کے نتیجہ میں ان کی معروف مقبول تالیف ""کتاب الخراج"" وجود میں آتی ہے اور یہ بھی خلفاء کی علم پروری ہی ہے کہ ان کے عہد میں بغداد ہرفن کے علما وماہرین کا مرکز وملجا بن جاتا ہے، اس حوصلہ افزائی اور علمی پزیرائی نے علما کواپنے اپنے فن کوپایہ کمال تک پہنچانے کا حوصلہ دیا۔
+دوسرا سبب عالم اسلام کی وسعت تھی، اب مسلمانوں کی حکومت یورپ میں اسپین سے لے کرایشیاء میںمشرق بعیدچین تک تھی، مختلف قوموں، مختلف تہذیبیں، مختلف لسانی گروہ اور محتلف صلاحیتوں کے لوگ عالم اسلام کے سایہ میں تھے اور ان میں بڑی تعداد نومسلموں کی تھی؛ اس لیے لوگوں کی طرف سے سوالات کی کثرت تھی اور اس نسبت سے فقہی اجتہادات کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع ترہوتا گیا؛ اسی عہد میں بڑے بلند پایہ، عالی ہمت اور اپنی ذہانت وفطانت کے اعتبار سے محیرالعقول علما وفقہا پیدا ہوئے؛ کیونکہ اس عہد میں اسی درجہ کے اہلِ علم کی ضرورت تھی؛ پھران میں سے بعض بلند پایہ فقہا نے مستقل دبستانِ فقہ کی بنیاد رکھی اور ان سے علمی تاثر کی وجہ سے اہلِ علم کی ایک تعداد ان کے ساتھ ہو گئی اور اس نے ان کے علوم کی اشاعت وتدوین اور تائید وتقویت کے ذریعہ مستقل فقہی مدارس کووجود بخشا، ان شخصیتوں میں سب سے ممتاز شخصیتیں ائمہ اربعہ کی ہیں۔""مَنْ أَرَادَ الْفِقْهَ فَهُوَعِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ""۔[39]اس کا اعتراف تمام ہی منصف مزاج علما نے کیا ہے، حافظ جلال الدین سیوطیؒ، شافعیؒ فرماتے ہیں:
+""إنہ اوّل من دون علم الشریعۃ ورتبہا ابوابا ثم تبعہ مالک ابن انس فی ترتیب الموطا ولم یسبق أباحنیفۃ احد""۔[40]ترجمہ:امام ابوحنیفہؒ پہلے شخص ہیں؛ جنھوں نے علم شریعت کی تدوین کی اور اسے باب وار مرتب کیا؛ پھرمؤطا کی ترتیب میں امام مالکؒ نے انھیں کی پیروی کی، امام ابوحنیفہؒ سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا۔علامہ ابن حجرمکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
+""إِنَّهُ أَوَّلُ من دون عِلْم الْفِقْهَ وَرَتَّبَهُ أَبْوَابًا وَكُتُبًا عَلَى نَحْوِ مَاھُوَعَلَيْهِ الْيَوْمَ، وَتَبِعَهُ مَالِكٌ فِي مُؤَطائہ""۔[41]ترجمہ:امام ابوحنیفہؒ پہلے شخص ہیں؛ جنھوں نے علم فقہ کومدون کیا اور کتاب اور باب پر اس کومرتب فرمایا، جیسا کہ آج موجود ہے اور امام مالک نے اپنی مؤطا میں انھیں کی اتباع کی ہے۔پھر اہم بات یہ ہے کہ امام صاحبؒ نے دوسرے فقہا کی طرح انفرادی طور پر اپنی آراء مرتب نہیں کی؛ بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح شورائی انداز اختیار کیا؛ چنانچہ علامہ موفق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
+""فوضع ابوحنیفۃ مذہبہ شوریٰ بینہم لم یستمد بنفسہ دونہم""۔[42]ترجمہ:امام ابوحنیفہ نے اپنا مذہب شورائی رکھا، وہ شرکاءِ شوریٰ کوچھوڑکر تنہا اپنی رائے مسلط نہیں کرتے۔
+اس کا نتیجہ تھا کہ بعض اوقات ایک مسئلہ پرایک ماہ یااس سے زیادہ بحث ومباحثہ کا سلسلہ جاری رہتا تھا؛چنانچہ موفق رحمہ اللہ ہی رقم طراز ہیں:
+""کان یلقی مسئلۃ مسئلۃ یقلبہم ویسمع ماعندہم ویقول ماعندہ ویناظرہم شہراً اواکثر من ذالک حتی یستقر احدا لأقوال فیہا""۔[42]ترجمہ:امام صاحب ایک ایک مسئلہ پیش کرتے، ان کے خیالات کا جائزہ لیتے اور ان کی بھی باتیں سنتے، اپنے خیالات پیش کرتے اور بعض اوقات ایک ماہ یااس سے زیادہ تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری رکھتے؛ یہاں تک کہ کوئی ایک قول متعین ہوجاتا۔اس مجلس تدوین میں جو مسائل مرتب ہوئے اور جوزیرِ بحث آئے ان کی تعداد کیا تھی؟ اس سلسلہ میں تذکرہ نگاروں کے مختلف بیانات ملتے ہیں، مسانید امام ابوحنیفہؒ کے جامع علامہ خوارزمی نے تراسی ہزار کی تعداد لکھی ہے، جس میں اڑتیس ہزار کا تعلق عبادات سے تھا اور باقی کا معاملات سے۔[43]بعض حضرات نے 6/لاکھ اور بعضوں نے 12/لاکھ سے بھی زیادہ بتائی ہے، مشہور محقق مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ اس تعداد میں ان مسائل کوبھی شامل کر لیا گیا ہے، جوامام کے مقرر کیے ہوئے اُصول وکلیات کی روشنی میں مستنبط کیے گئے تھے۔[44]پس اگر تراسی ہزار مسائل ہی اس مجلس تدوین کے مستنبط کیے ہوئے مانے جائیں تویہ کیا کم ہے؟ عام طور پریہ بات نقل کی جاتی ہے کہ اس مجلس میں اپنے عہد کے چالیس ممتاز علما شامل تھے؛ لیکن ان کے سنین وفات اور امام صاحبؒ سے وابستگی کے زمانہ کو دیکھتے ہوئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ سارے لوگ شروع سے آخر تک اس کام میں شریک نہیں رہے؛ بلکہ مختلف ارکان نے مختلف ادوار میں کارِتدوین میں ہاتھ بٹایا اور ان میں بعض وہ تھے جنھوں نے آخری زمانہ میں اس کام میں شرکت کی، عام طور پر شرکاء مجلس کا نام ایک جگہ نہیں ملتا ہے، مفتی عزیز الرحمن اور ڈاکٹر محمد میاں صدیقی نے ان ناموں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے ان ہی کے حوالہ سے اسے نقل کیا ہے، نام اس طرح ہیں:امام ابویوسف(متوفی:182ھ)محمد بن حسن شیبانی(متوفی:189ھ)حسن بن زیاد(متوفی:204ھ) زفر بن ہذیل(متوفی:158ھ)مالک بن مغول (متوفی:159ھ) داؤد طائی (متوفی:160ھ)مندل بن علی (متوفی:168ھ) نصر بن عبد الکریم(متوفی:169ھ)عمرو بن میمون(متوفی:171ھ) حبان بن علی (متوفی:172ھ)ابوعصمہ(متوفی:173ھ) زہیر بن معاویہ (متوفی:173ھ)قاسم بن معن (متوفی:175ھ) حماد بن ابی حنیفہ (متوفی:176ھ)ہیاج بن بطام (متوفی:177ھ) شریک بن عبد اللہ (متوفی:178ھ)عافیہ بن یزید (متوفی:181ھ)عبد اللہ بن مبارک(متوفی:181ھ)نوح بن دراج(متوفی:182ھ) ہشیم بن بشیر سلمی (متوفی:183ھ)ابوسعید یحییٰ بن زکریا(متوفی:184ھ) فضیل بن عیاض (متوفی:157ھ)اسد بن عمرو(متوفی:188ھ) علی بن مسہر(متوفی:189ھ)یوسف بن خالد(متوفی:189ھ) عبد اللہ بن ادریس(متوفی:192ھ)فضل بن موسیٰ(متوفی:192ھ) حفص بن غیاث(متوفی:194ھ)وکیع بن جراح(متوفی:197ھ) یحییٰ بن سعید القطان(متوفی:198ھ)شعیب بن اسحاق(متوفی:198ھ) ابوحفص بن عبد الرحمن(متوفی:199ھ)ابومطیع بلخی(متوفی:199ھ) خالد بن سلیمان(متوفی:199ھ)عبد الحمید(متوفی:203ھ) ابوعاصم النبیل(متوفی:212ھ)مکی بن ابراہیم(متوفی:215ھ) حماد بن دلیل (متوفی:215ھ)ہشام بن یوسف(متوفی:197ھ)امام اوزاعی:
+ان کا پورا نام ابوعمرعبدالرحمن بن محمدؒ ہے، یمن کے قبیلہ ذی الکاع کی ایک شاخ اوزاع تھی؛ اسی نسبت سے اوزاعی کہلائے، 88ھ میں شام میں پیدا ہوئے سنہ157ھ میں وفات پائی، حدیث کے بڑے عالم تھے، اصحاب حدیث کے گروہ سے تعلق تھا اور قیاس سے اجتناب کرتے تھے، شام اور اندلس کے علاقہ میں ان کے مذہب کوقبولیت حاصل ہوئی؛ لیکن جلد ہی ان کے متبعین ناپید ہو گئے۔[45]سفیان ثوری:
+ابو عبد اللہ سفیان بن سعید ثوریؒ سنہ97ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور سنہ161ھ میں بصرہ میں وفات پائی، فقہ اور حدیث دونوں پرنظر تھی، عام طور پر ان کی آراء سے قریب ہوتی ہیں، ابتدا امام صاحب سے چشمک تھی؛ پھربعد کوغلط فہمی دور ہو گئی اور امام ابوحنیفہؒ کے قدرداں ہو گئے۔لیث بن سعدؒ:
+یہ مصرمیں پیدا ہوئے اور وہیں سنہ175ھ میں وفات پائی، کہا جاتا ہے کہ تفقہ میں ان کا درجہ امام مالکؒ اور شافعیؒ سے کم نہیں تھا، خود امام شافعیؒ ان کوامام مالکؒ سے زیادہ فقیہ قرار دیتے تھے؛ لیکن ان کے مذہب کوزیادہ رواج حاصل نہیں ہو سکا اور جلد ہی ختم ہو گیا۔داؤد ظاہریؒ:
+ان کا پورا نام ابو سلیمان داؤد بن علی اصفہانی ہے سنہ200ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور سنہ270ھ میں وفات پائی، ابتدامیں فقہ شافعیؒ کے متبع تھے، بعد میں پھراپنے مسلک کی بنیاد رکھی، ظاہر نص پرعمل کرنے میں غلو تھا اور اسی غلو کی وجہ سے بعض آراء حد معقولیت سے گذرجاتی ہیں، داؤد ظاہریؒ نے بہت سی کتابیں بھی تالیف کی ہیں، اسمکتب فکرکی نمائندہ شخصیت علامہ ابن حزمؒ اندلسی (متوفی:456ھ) ہیں؛ جنھوں نے اپنی معروف کتاب ""المحلیٰ"" لکھ کر اصحاب ظواہر کی فکر کی آراء کومحفوظ کر دیا ہے، ابن حزمؒ ہی کی کتاب ""الاحکام فی اصول الاحکام"" بھی ہے، جس میں اصحاب ظواہر کے اُصولِ فقہ مدون ہیں، پانچویں صدی ہجری تک یہ مذہب پایا جاتا تھا (تاریخ التشریع الاسلامی لحضرمی:180) ابنِ خلدون نے لکھا ہے کہآٹھویں صدیہجری تک بھی یہ مذہب باقی تھا؛ پھراس کا نام ونشان مٹ گیا، موجودہ دور میں سلفیت کواسی دبستانِ فقہ کا حیاء قرار دیا جا سکتا ہے۔ابن جریر طبریؒ:
+ابوجعفر محمدبن جریر طبریؒ سنہ224ھ میں طبرستان یں پیدا ہوئے سنہ310ھ میں وفات پائی؛ انھوں نے فقہ حنفی، فقہ مالکی اور فقہ شافعی تینوں کوحاصل کیا؛ لیکن کسی کی تقلید نہیں کی اور خود اجتہاد کیا، تفسیرطبری اور تاریخ طبری ان کی معروف کتابیں ہیں، جوبعد کے اہلِ علم کے لیے اولین مرجع کا درجہ رکھتی ہیں؛ اسی طرح فقہی اختلافات پر ""کتاب اختلافات الفقہا"" چھپ چکی ہے، ختم ہوجانے والے مذاہب میں اسی کوزیادہ دنوں تک زندگی حاصل رہی اور پانچویں صدی کے نصف تک بہت سے لوگ اس فقہ پرعمل تھے۔[46]فقہ کی تدوین و ترتیب کا چوتھا مرحلہ چوتھی صدی ہجری کے اوائل سے شروع ہوتا ہے اور656ھمیں سقوطِ بغداد پر ختم ہوتا ہے، جبچنگیز خانکے پوتےہلاکو خاننے عالمِ اسلامی کے دار الخلافہ بغداد پر غلبہ حاصل کیا، آخری عباسی خلیفہ کو نہایت بے دردی سے قتل کر دیا اور ایسی خوں آشامی اور ہلاکت خیزی کا ثبوت دیا کہ انسانیت سوزی اور قتل و غارت گری کی تاریخ میں کم ہی اس کی مثال مل سکے گی۔اس عہد کی خصوصیات اس طرح ہیں:(الف) بہت سے ایسے لوگ دعویٰ اجتہاد کرنے لگے جو حقیقت میں اس منصب کے اہل نہیں تھے اور وہاجتہادکوقرآنوحدیثسے انحراف کا چور دروازہ بنانے لگے، اس لیے دین کے تحفظ اور دفع فساد کے لیے اس زمانہ کے بالغ نظر اور محتاط علما نے ضروری سمجھا کہ موجودہ حالات میں باب اجتہاد کو بند کر دیا جائے اور اُمت کو ان آوارہ خیالوں کے فتنہ سے بچایا جائے۔(ب) ائمہ مجتہدین کی سعی و محنت سے فقہ اسلامی کی ترتیب و تدوین پایہ کمال کو پہنچ چکی تھی اور ان کی مساعی کی وجہ سے لوگوں کے لیے ہر طرح کے مسائل کا حل موجود تھا؛ اس لیے گذشتہ ادوار میں جس درجہ اجتہاد و استنباط کی ضرورت تھی اب اتنی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی اور یہ اللہ تعالٰیٰ کا قدرتی نظام ہے کہ جب کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے تو اس طرف لوگوں کی توجہ بھی کم ہوجاتی ہے۔(ج) بعض مجتہدین کو من جانب اللہ لائق تلامذہ اور لائق ماہرین و متبعین ہاتھ آئے اور انھوں نے اسمجتہدکی آراء و افکار کو نہایت بہتر طور پر مرتب کر دیا، اس کی وجہ سے لوگوں میں ان کے اجتہادات کے تئیں قبولِ عام کا رحجان پیدا ہو گیا اور اس طرح ایک مستقل دبستانِ فقہ کی تشکیل عمل میں آگئی، جن فقہا کو ایسے لائق شاگرد میسر نہیں آئے، ان کی فقہ باضابطہ طور پر مدون نہیں ہو پائی اور آہستہ آہستہ علمی زندگی سے اس کا رشتہ کٹ گیا، اس کی واضح مثال امام اوزاعیؒ اور لیث بن سعدؒ ہیں، جن کو ان کے معاصرین تفقہ کے اعتبار سے بعض ائمہ متبوعین سے بھی فائق قرار دیتے تھے؛ لیکن آج کتابوں میں چند مسائل سے متعلق ان کی آراء مل جاتی ہیں اور بس۔(د) صحابہ اور تابعین کے عہد میں کسی کو قاضی بنایا جاتا تو اسے ہدایت دی جاتی کہ وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول کو اصل بنائے اور اگر کتاب وسنتمیں حکم نہ ملے تواجتہادسے کام لے، اس سلسلہ میں وہ خط جو حضرت عمرؓ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا تھا حدیث و فقہ اور قضاء سے متعلق اکثر کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، بعد کے ادوار میں یوں ہوا کہ بعض قضاۃ حقاجتہادکو جور و زیادتی اور کسی فریق کے حق میں طرف داری کا ذریعہ بنانے لگے، اس پس منظر میں حکومتیں جب کسی کو قاضی مقرر کرتیں تو ان کو پابند کردیتیں کہ فلاں مذہب کے مطابق فیصلہ کیا کریں؛ تاکہ فیصلوں میں یکسانی رہے اور جانب داری کی گنجائش باقی نہ رہے؛ چنانچہ عباسی خلفاء عام طور پر فقہ حنفی پر قاضی مقرر کیا کرتے؛ اسی طرح ترکوں نے بھی عہدۂ قضاء کو احناف کے لیے مخصوص رکھا؛صلاح الدین ایوبیرحمہ اللہ نے مصر میں اور سلطان محمودسبکتگینرحمہ اللہ اورنظام الملک طوسینے مشرقی علاقہ کی عدالتوں کو فقہ شافعی کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم دیا، یہ بھیتقلیدِشخصی کی ترویج کا ایک اہم سبب بنا۔(ہ)تقلیدپر انحصار کا ایک سبب علمی انحطاط بھی تھا، اللہ تعالٰیٰ کا نظام یہ ہے کہ ہر عہد میں اس عہد کی ضرورت کے مطابق افراد پیدا ہوتے ہیں اور ضرورت جوں جوں کم ہوتی جاتی ہے؛ اس طرح کے افراد بھی کم ہوتے جاتے ہیں؛ یہی دیکھیے کہ روایتِ حدیث کے دور میں کیسے قوی الحفظ محدثین پائے جاتے تھے؛ جنھیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں حدیثیں یاد ہوتی تھیں اور سند و متن صفحہ ذہن پر اس طرح نقش ہوجاتا تھا کہ گویا وہ پتھر پر کندہ کر دیے گئے ہیں؛ لیکن تدوین حدیث کا کام مکمل ہونے کے بعد پھر اس صلاحیت کے لوگ پیدا نہیں ہو سکے، زمانۂ جاہلیت میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہیں تھا، تو لوگوں کو شاعروں کی پوری پوری دیوان نوکِ زبان ہوتی تھیں اور اس طرح جاہلیت کا ادب محفوظ ہو سکا، بعد کے ادوار میں ایسی مثالیں شاذ و نادر ہی مل سکیں؛ اسی طرح جب تک شریعتِ اسلامی کے ایک مکمل نظامِ حیات کی ترتیب و تدوین اور زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق مسائل کے حل کی ضرورت تھی اور اس ضرورت کو پوری کرنے کے لیےمجتہدانہبصیرت مطلوب تھی،اجتہادیصلاحیتوں کے لوگ پیدا ہوتے رہے، جب اس کی ضرورت کم ہو گئی تو اس نسبت سے ایسے افراد کی پیدائش بھی کم ہو گئی۔چونکہ عوام میں فقہ حنفی اور فقہ شافعی کو زیادہ رسوخ حاصل تھا؛ اس لیے معرکے بھی انھیں دونوں مکاتب فکر کے درمیان میں نسبتاً گرم ہوتے تھے اور اپنے مسلک کی ترویج کے لیے بعض اوقات بہت ہی پست حرکات کی جاتی تھیں، سلطان محمود سبکتگین اصل میںحنفیتھا اور کچھ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا، ایکشافعیعالم نے اس کو متاثر کرنے کے لیے اس کے سامنے بے ترتیبی کے ساتھ جیسے تیسے وضو کیا، پھر جلدی جلدی نماز پڑھی اور سلام پھیرنے سے پہلے قصداً وضو توڑنے کا ارتکاب کیا اور بادشاہ سے کہا کہ یہامام ابوحنیفہرحمہ اللہ کی نماز ہے؛ پھر اچھی طرح وضو کیا اور بہتر طریقہ پر نماز ادا کی اور بادشاہ سے کہا کہ یہامام شافعیرحمہ اللہ کی نماز ہے؛ چنانچہ سلطان محمود نے اس واقعہ سے متاثر ہوکر شافعیت کو اختیار کر لیا اور نقل کرنے والوں کے بہ قول اس حرکت کا ارتکاب کرنے والا کوئی عامی نہیں تھا؛ بلکہ یہ تھے ممتاز شافعیفقیہقفال شاشی۔
+(تاریخ الفقہ الاسلامی، محمدعلی سائس:132)اب یہ فقہی تعصبات ہی کا حصہ ہے کہ ہمارے کتابوں میں یہ بحث ملتی ہے کہحنفیشافعیاورشافعیحنفیکے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ رسول اللہﷺ نے تو فاجر کے پیچھے بھی نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی اور صحابہ نے توحجاج بن یوسفکے پیچھے بھی نماز ادا فرمائی؛ لیکن متأخرین کے ہاں یہ ایک سوال بن گیا، احکامِ نماز میں جو اختلافِ رائے مثلاً احناف اور شوافع کے درمیان میں پایا جاتا ہے، یہ صحابہ کے درمیان میں بھی تھا اور تابعین و ائمہمجتہدینکے زمانہ میں بھی تھا؛ لیکن وہ بے تکلف ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا کرتے رہے اور یہ بات ان کے یہاں چنداں قابل اعتناء نہیں تھی۔اسی طرح احناف کے یہاں یہ بحث ملتی ہے کہ شوافع سے نکاح دُرست ہے یا نہیں؟ اور ""انا مؤمن انشاء اللہ"" (انشاء اللہ میں مؤمن ہوں) کہنے کی وجہ سے کیا ان کو مسلمان سمجھا جائے گا؟ یہاں تک کہ بعض لوگوں نے لکھ دیا کہ ان کے ساتھاہل کتابکا سا معاملہ کیا جائےــــــ یہ کس قدر تعصب انگیز اور مزاجِ دین کے مغائر باتیں ہیں؟ سلفِ صالحین کے زمانہ میں مناظرہ ایک طرح کا تبادلہ خیال ہوتا تھا، جس میں ایک دوسرے کا پورا احترام ملحوظ رکھا جاتا اور جو بات صحیح نظر آتی تھی اسے لوگ قبول کرتے تھے؛ لیکن اس دور میں مناظرہ کے نام پر مجادلہ اور باہمی سب و شتم کا سلسلہ شروع ہوا، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بادشاہوں اور رئیسوں کے دربار اور بڑی بڑی مسجدیں مناظرہ کا اکھاڑہ بن گئی تھیں اور بہت سے جاہل فرماں روا، جیسے مرغوں اور جانوروں کا مقابلہ کراتے اور تماشا دیکھتے تھے؛ اسی طرح علما سے مناظرہ کرا کر ان سے لطف لیا جاتا تھا؛ اسی لیے اس عہد کے بہت سےحنفیاورشافعیعلما کے حالات میں خاص طور سے اس کا ذکر ملے گا کہ یہ مذہب مخالف کے فلاں عالم سے مناظرہ کرتے تھے اور یہ کہ مناظرہ میں ان کو بڑا کمال حاصل تھا۔ # اس عہد میں مقلد علما نے دو اہم کام کیے، ایک تو اپنے دبستانِ فقہ کی آراء کے لیے دلائل کی تلاش اوراستنباط؛ کیونکہ اصحاب مذہب سے بہت سے مسائل میں صرف ان کی رائے ملتی تھی اور اس رائے پر دلیل منقول نہیں تھی؛ لہٰذا کچھ تو علمی اور تحقیقی ضرورت اور کچھ مناظروں کی گرم بازاری اور فریق مخالف کی جواب دہی کے پس منظر میں نصوص اور عقل و قیاس سے مذہب کی آراء پر دلیل فراہم کی گئیں؛ دوسرا کام ایک ہی مذہب فقہی کی حدود میں مختلف آراء کے درمیان میں ترجیح کا ہوا، یہ ترجیح کی ضرورت دو موقعوں پر پیش آتی ہے، ایک اس وقت جب امام سے مختلف راویوں نے الگ الگ رائے نقل کی ہو، اس صورت میں راوی کے استناد و اعتبار کے لحاظ سے ترجیح دی جاتی ہے کہ کونسی نقل زیادہ دُرست ہے؟ اسی بنا پر حنفیہ کے یہاں ظاہر روایت کو نوادر پر، مالکیہ کے ہاں ابن قاسم کی روایت کو ابن وھب، ابن ماجشون اور اسد ابن فرات کی روایت پر اور شوافع کے یہاں ربیع ابن سلیمان کی روایت کو مزنی کی روایت پر مقدم رکھا جاتا ہے، دوسرے اُس وقت جبامامسے ایک سے زیادہ اقوال صحیح و مستند طریقہ پر ثابت ہوں؛ ایسی صورت میںامامکے اصولاستنباطاور کتاب وسنتاورقیاسسے موافقت اور ہم آہنگی کی بنیاد پر بعض اقوال کو ترجیح دی جاتی ہے؛ اس لیے ان میں اختلاف رائے کا پیدا ہونا فطری ہے؛ اسی لیے ایک ہی مذہب کے مختلف مصنفین کے نزدیک اقوال وآراء کی ترجیح میں خاصا اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔اس دور کا ایک قابل ذکر کام ائمہمجتہدینکے اقوال کی تشریح و توضیح بھی ہے، یعنی مجمل احکام کی توضیح، بعض مطلق اقوال سے متعلق شرائط و قیود کا بیان اور آراء کی تنقیح ـــــ اس طرح اس عہد میں ائمہ متبوعین کے مذاہب کی تنظیم و تدوین اور توضیح و تائید کا بڑا اہم کام انجام پایا ہے۔امام ابو الحسنعبيد اللہ بن الحسین بن دلال الكرخی(260ھ۔340ھ)امام ابوبکرجصاصرازی (م370ھ)ابوجعفر محمدبن عبد اللہبلخیھندوانی (م362ھ)ابواللیثنصر بن محمدسمرقندی، امام الھدیٰ (م373ھ)ابو عبد اللہ یوسف بن محمدجرجانی(م398ھ)ابو الحسن احمدقدوری(م427ھ)ابو زید عبد اللہدبوسی، سمرقندی (م400ھ)ابو عبد اللہ حسینصیمری(م436ھ)ابوبکر خواہر زادہ بخاری (م433ھ)شمس الائمہ عبد العزیزحلوانی(م418ھ)شمس الائمہ محمد بن احمدسرخسیصاحب المبسوط (م483ھ)ابو عبد اللہ محمد بن علی دامغانی (م400ھ۔478ھ)علی بن محمدبزدوی(م483ھ)شمس الائمہ بکر بن محمدزربخری(427۔512ھ)ابو اسحاق ابراہیم بن اسماعیل صفار (574ھ)طاہر بن احمد بخاری (م542ھ)ظہیر الدینعبد الرشیدوالوالجی (م540ھ)ملک العلماء ابوبکرابن مسعودکاسانی(م587ھ)فخر الدین حسن اوز جندیقاضی خان(م592ھ)علی ابن ابی بکر مرغینانی صاحب ہدایہ (م593ھ)بکر بن علاقشیری (م314ھ)ابوبکر بن عبد اللہ المعیطی (م367ھ)یوسف بن عمر بن عبد البر (م380ھ)ابو محمد عبد اللہ بن اُبی زید قیروانی (م386ھ)ابوبکر محمد بن عبد اللہ أبھری (م395ھ)قاضی عبد الوھاب بغدادی (م422ھ)ابو القاسم عبد الرحمنحضرمی(م440ھ)ابوالولید سلیمانباجی(م494ھ)ابو الحسن علی لخمی (م498ھ)ابوالولید محمدبن رشدقرطبی(م525ھ)ابو عبد اللہ محمد تمیمی (م526ھ)ابوبکر محمد بن عربی صاحب احکام القرآن (م536ھ)ابوالفضل قاضی عیاضی (م541ھ)محمد بن احمد بن محمدبن ارشد'دبیز متن'صاحب ہدایۃ المجتہد (م595ھ)یہ اُوپر ذکر کیے گئےابنِ رشد'دبیز متن'صاحب کتاب المقدمات کے پوتے ہیں، اس لیے ""ابن رشد الحفید"" کہلاتے ہیں۔عبد اللہ بن نجم سعدی (م610ھ)ابواسحاق ابراہیم مروزی (م240ھ) ابو علی حسین، المعروف بابن ابی ہریرہ (م345ھ)قاضی ابوحامد مروزی (362ھ) محمدبن اسماعیل قفال کبیرشاشی (م365ھ)ابو القاسم عبد العزیزدارکی (375ھ) ابو القاسم عبد الواحد یعمری (386ھ)ابوعلی حسین سنجی (403ھ) ابو حامد ابن محمداسفرائنی (م408ھ)عبد اللہ ابن احمدقفال صغیر (م417ھ) ابو اسحاق ابراہیم اسفرائنی (م418ھ)ابوالطیب طاہرطبری (م450ھ) ابو الحسن علیماوردی(350ھ)ابوعاصم محمدمروزی (م458ھ) ابو اسحاق ابراہیم شیرازی (م476ھ)ابونصر محمدبن صباغ (م477ھ) امام الحرمین ابوالمعالی عبد الملک جوینی (م487ھ)حجۃ الاسلام ابوحامد محمدعزالی (450۔505ھ) ابو القاسم عبد الکریم رافعی (م623ھ)محی الدین ابوزکریا نووی (م631ھ)یہ عہد بھی بنیادی طور پر پہلے ہی عہد کے مماثل ہے، جس میں مختلف مسالک کے اہل علم نے اپنے مذہب فقہی کی خدمت کی، مختلف مذاہب سے متعلق متون اور متون پر مبنی شروح و حدیث کی ترتیب عمل میں آئی، فتاویٰ مرتب ہوئے، فتاویٰ سے مراد دو طرح کی تحریریں ہیں، ایک متاخرین کے اجتہادات، دوسرے مستفتیوں کے سوالات کے جوابات اسی طرح علمی اعتبار سے اس دور کی خصوصیات کو تین نکتوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔اوّل: یہ کہ گذشتہ ادوار میں علما کے درمیان میں باہمی ارتباط اور افادۂ و استفادہ کا دائرہ بہت وسیع تھا، خاص کرحجکا موسم ایک ایسی بڑی درسگاہ کی شکل اختیار کرلیتا تھا، جس میں پوری دنیا کے اہلِ علم ایک دوسرے سے کسب فیض کرتے تھے اور ان کی آراء اور علوم سے فائدہ اُٹھاتے تھے؛ لیکن مذہبی تصلب اور مسلمان آبادیوں کی مختلف مملکتوں میں تقسیم وغیرہ کی وجہ سے اب افادہ و استفادہ کا یہ عالمی مزاج محدود ہو گیا اور ایک ملک اور ایک علاقہ کے علما ایک دوسرے سے استفادہ پر اکتفاء کرنے لگے۔دوسرے: متقدمین کی کتابوں میں طرزِ گفتگومجتہدانہہوا کرتا ہے، متأخرین کے یہاں زیادہ سے زیادہ جزئیات کو جمع کرنے کا اہتمام پیدا ہوا، اس دور میں متقدمین کی کتابوں سے اہلِ علم کا رشتہ کمزور ہو گیا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جزئیات کی کثرت سے آدمی مسائل کا حافظ ہو سکتا ہے؛ لیکن اس میں تفقہ کی شان پیدا نہیں ہو سکتی۔تیسرے: متقدمین کے یہاں طریقہ تالیف سادہ، سلیس اور واضح ہوا کرتا تھا، عبارت سہل ہوا کرتی تھی اور اصل توجہ فن اور مضمون پر ہوتی تھی؛ لیکن متاخرین کے یہاں الفاظ کی کفایت اور مختصر نویسی کمال ٹھہرا؛ یہاں تک کہ عبارتیں چیستاں بن گئی؛ پھر کئی کئی مصنفین نے اس کی عقدہ کشائی میں اپنا زورِ قلم صرف کیا، حاشیے، شرحیں؛ پھر ان شرحوں پر حواشی اور کبھی ان شروح پر شروح، نتیجہ یہ ہوا کہ فن سے توجہ ہٹ گئی اور غیر متعلق اُمور پر محنتیں صرف ہونے لگیں، اس اختصار نویسی کا نمونہ علامہ نسفی کی ""کنزالدقائق""زکریا انصاریکی ""منہج الطلاب"" اور مالکیہ میں ""مختصرخلیل"" میں دیکھی جا سکتی ہے، خاص کر مالکیہ کے یہاں مسائل کی تعبیر میں اور بی زیادہ اغلاق پایا جاتا ہے۔اِس صورتِ حال نے فقہی ارتقا کے راستے روک دیے اور زیادہ تر متون کی مختصرات اور پھر ان مختصرات پر شروح و حواشی کا کام ہوتا رہا؛ ہیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی گراں قدر تالیفات بھی اسی عہد کی یادگار ہیں؛ خاص کردسویں صدیہجری کے اوائل تک متعدد صاحب نظر اہل علم پیدا ہوئے، جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے:ابو البرکات عبد اللہ بن احمدنسفی (م710ھ) ابومحمدعثمان فخر الدین زیلعی (م743ھ)محمدبن عبد الواحد کمال الدین ابن ھمام (م761ھ) محمدبن احمد بدرالدین عینی (م762۔ 855ھ)زین العابدین ابن نجیم مصری (م969ھ) شمس الدین محمدبن امیرالحاج حلبی (م879ھ)حافظ سیف الدین قطلوبغا (م798۔881ھ) عمر بن ابراہیم ابن نجیم، صاحب النہرالفائق (م1005ھ)ابو ضیاء خلیل کردی (م776ھ) ابو الحسن نور الدین اجھوری (م967۔1066ھ)محمدبن عبد اللہ قریشی (م111ھ) نور الدین عدوی (م112ھ)تقی الدین سبکی(م683۔752ھ)شیخ الاسلامزکریا انصاری(م626۔692ھ)شہاب الدین ابن حجر ہیثمی (م909۔995ھ)تقی الدین احمد بن تیمیہ (م661۔728ھ) شمس الدینابن قیمجوزی (م691۔751ھ)فقہ اسلامی کے ارتقا کے سلسلہ میں جدید دور کا نقطہ آغازتیرہویں صدیہجری کے اواخر کو قرار دیا جا سکتا ہے، جب خلافتِ عثمانیہ کے حکم پر ""مجلۃ الاحکام العدلیۃ"" کی ترتیب عمل میں آئی، اس عہد میں فقہ اسلامی کی خدمت کا ایک رحجان پیدا ہوا ہے اور اس سلسلہ میں جو کاوشیں ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں، وہ یہ ہیں:مقلدین کے بقول یہ غلو پسند فرقہ برصغیر میں اپنی نسبت شیخ محمدبن عبد الوھاب نجدی اور عرب علما سے کرتا ہے؛ لیکن بقول مقلدین شیخ نجدی نے خود اپنے آپ کوحنبلیقرار دیا ہے اور عام عرب علما و محققین ایسی تنگ نظری اور تعصب میں مبتلا نہیں ہیں جو اس فرقہ کا امتیاز ہے، بقول مقلدین خود ہندوستان میں اس مکتبِ فکر کے بزرگوں نواب صدیق حسن خان، ثناء اللہ امرتسری، مولانا عبد اللہ غزنوی وغیرہ کے یہاں اس طرح کا غلو نہیں ملتا، مقلدین کے بقولبرصغیرمیں غیر مقلدین کی جو نئی نسل نشو و نما پا رہی ہے افسوس کہ ان کی اکثریت اس وقت اُمت میں تفریق و انتشار کی نقیب و ترجمان بنی ہوئی ہے۔اوّل فقہی مضامین کو دفعہ وار جدید قانونی کتابوں کے انداز پرمرتب کرنا کہ اس سے لوگوں کے لیے استفادہ آسان ہوجاتا ہے اور عدالتوں کے لیے یہ باب ممکن ہوتی ہے کہ وہ اس قانون کو اپنے لیے نشانِ راہ بنائے، اس کی ابتدا ""مجلۃ الاحکام"" سے ہوئی حکومتِ عثمانیہ ترکی نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے، وزیر انصاف کی صدارت میں اکابر فقہا کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور انھیں حکم دیا کہفقہ حنفیکے مطابق نکاح، تجارت اور تمام معاملات کے احکام کو دفعہ وار مرتبہ کریں، 1285ھ مطابق 1869ء میں یہ کام شروع ہوا اور سات سال کی محنت کے بعد 1293ھ مطابق 1876ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا؛ پھرشعبان1293ھ کو حکومت کے حکم سے اس کی تنفیذ عمل میں آئی، اس مجموعہ کے شروع میں فقہ، اس کی اقسام اور نوے قواعد پر مشتمل مقدمہ ہے، یہ مجموعہ سولہ مرکزی عنوانات اور اس کے تحت مختلف ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب کے شروع میں اس باب سے متعلق فقہی اصطلاحات نقل کی گئی ہیں، کل دفعات (1851) ہیں، یہ مجموعہفقہ حنفیکے راجح اقوال پر مبنی ہے؛ البتہ بعض مسائل میں احوالِ زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے ضعیف اقوال کو بھی قبول کیا گیا ہے۔اس کے بعد مختلف مسلم ممالک میں حکومت کی زیرنگرانی احوالِ شخصیہ سے متعلق مجموعہ قوانین کی ترتیب عمل میں آئی، یہ مجموعے کسی ایک فقہ پر مبنی نہیں تھے؛ بلکہ ان میں مختلف مذاہب سے استفادہ کیا گیا تھا؛ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مختلف ممالک میں یورپ کے اثر سے قانونِ شریعت میں ناقابلِ قبول تبدیلیاں کردی گئی ہیں، جیسے تعدادِ ازدواج کا مسئلہ، احکامِ طلاق، میراث میں مرد و عورت کے درمیان میں فرق، وغیرہ؛ اسی طرح مجموعہ قوانین کی ترتیب کی بہت ہی قابل قدر انفرادی کوششیں بھی عمل میں آئی ہیں، اس سلسلہ میںفقیہمحمد قدری پاشاہ کی ""مرشدالحیران لمعرفۃ احوال الانسان""فقہ حنفیکے مطابق احوالِ شخصیہ، وقف اور معاملات سے متعلق احکام پر مشتمل ہے اور جس کی دفعات (1045) ہیں، شیخ ابو زہرہ کی ""الاحوال الشخصیۃ"" (جس میں کسی ایک مذہب کی پابندی نہیں کی گئی) اور شیخ احمد بن عبد اللہ قاری کی ""مجلۃ الاحکام الشرعیۃ علی مذہب الامام احمد بن حنبل شیبانی"" (جومجلۃ الاحکام کے طرز پرفقہ حنبلیکے نقطہ نظر سے معاملات کے احکامات کا مجموعہ ہے، 2384 دفعات پرمشتمل ہے) نیز جرم و سزا کے اسلامی قانون سے متعلق ڈاکٹر عبد القادر عودہ شہید کی ""التشریع الجنائی الاسلامی"" (2/حصے، 984 دفعات) خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، عالم عرب میں اس طرح کی اور بھی بہت سی کوششیں ہوئی ہیں، جس نے عام لوگوں کے لیے استفادہ کو آسان کر دیا ہے۔برصغیر میں اس سلسلہ میں جو کوشش ہوئی ہیں ان میں ڈاکٹر تنزیل الرحمن کی مجموعہ قوانین اسلام اور ہندوستان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر نگرانی پرسنل لا سے متعلق مجموعہ قوانین (جوغالباً 6/جلدوں پرمشتمل ہے) نہایت اہم ہے، یہ دونوں مجموعے بنیادی طور پرفقہ حنفیکے لحاظ سے مرتب کیے گئے ہیں؛ البتہ بعض مسائل میں دوسرے دبستانِ فقہ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے؛ اسی سلسلہ کی ایک اہم کوشش اسلام کے عدالتی قوانین سے متعلق قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی اسلامی عدالت ہے جو 740/دفعات پر مشتمل ہے اور اُردو زبان میں اس موضوع پر منفرد کتاب ہے، اس کا عربی ترجمہ بھی بیروت سے شائع ہو چکا ہے۔موجودہ دور میں مختلف علوم کی انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنے کا رحجان عالمی سطح پر اور ہر زبان میں بڑھ رہا ہے، بحمدللہ فقہ اسلامی میں بھی اس سلسلہ میں متعدد کوششیں کی گئی ہیں؛ چنانچہ جب مشہور اسلامی مؤلف اور داعی ڈاکٹر مصطفٰی سباعیدمشقیونیورسٹی میں ""کلیۃ الشریعۃ"" کے صدر شعبہ بنے تو فقہ اسلامی کی ""دائرۃ المعارف"" کی ترتیب کا منصوبہ پیش کیا اور 1956ھ میں حکومتِ شام نے اسے منظور کر لیا، اس مقصد کے لیے ڈاکٹر مصطفٰی سباعی، ڈاکٹر احمد سمان، ڈاکٹر مصطفٰی زرقاء، ڈاکٹر معروف دوالیبی اور ڈاکٹر یوسف العش جیسے ممتاز اصحاب تحقیق پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی اور کام چار مراحل پر تقسیم کیا گیا، جن میں پہلا مرحلہ موسوعہ میں آنے والے فقہی موضوعات کی تعیین و ترتیب تھی، افسوس کہ طویل عرصہ گذرجانے کے باوجود اس کا پہلا مرحلہ ہی تشنہ تکمیل ہے۔1958ء میں جب مصر و شام کا اتحاد ہوا تو مشترکہ طور پر مصر اور شام نے مل کر اس موسوعہ کی ترتیب کا ذمہ لیا؛ لیکن یہ اتحاد جلد ہی 1961ء میں ٹوٹ گیا؛ چنانچہ 1962ء میں حکومتِ مصر نے ازسرنو اس کی منصوبہ سازی کی اور ایک مضحکہ خیز بات یہ ہوئی کہ جمال عبد الناصر جیسے دین بیزار شخص کی طرف منسوب کرکے اس کا نام ""موسوعۃ جمال عبد الناصر فی الفقہ الاسلامی"" رکھ دیا گیا، موسوعۃ کے لیے مقررہ یہ کمیٹی کام کر رہی ہے اور اب تک اس کی پندرہ سولہ جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں، اس موسوعۃ میں حنفیہ، مالکیہ، شوافع، حنابلہ اور ظاہریہ کے علاوہ امامیہ، زیدیہ اور اباضیہ فرقوں کے نقطہ نظر کو بھی ضروری دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اُصولِ فقہ اور قواعدِ فقہ کو بھی شامل رکھا گیا ہے۔اسی طرح کی ایک اور کوشش ""جمعیۃ الدراسات الاسلامیۃ قاھرہ"" نے شیخ محمد ابوزہرہ کی صدارت میں شروع کی تھی، جس میں مذکورہ آٹھوں مذاہب کا نقطہ نظر جمع کرنا پیش نظر ہے؛ لیکن غالباً یہ کوشش منظر عام پر نہیں آسکی ہے۔اس سلسلہ کی سب سے کامبیاب اور نتیجہ خیز کوشش وزارتِ اوقاف کویت کی طرف سے ہوئی ہے، جس نے 1966ء میں ""الموسوعۃ الفقہیہ"" کے منصوبہ کو منظوری دی اور اس مقصد کے لیے فقہی موسوعہ کا تصور پیش کرنے والی پہلی شخصیت ڈاکٹر زرقاء کی حدمات حاصل کیں، اس موسوعہ میں بھیحنفی،شافعی،مالکی،حنبلی، ظاہری، زیدی، اثناء عشری اور اباضی نقاط نظر کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، یہ عظیم الشان کام پینتالیس جلدوں میں مکمل ہو چکا ہے اور واقعہ ہے کہ اس موضوع پر ایک تاریخی علمی کام ہوا ہے، جو یقیناً فقہ اسلامی کینشاۃ ثانیہکا حصہ ہے، مقامِ مسرت ہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے اس موسوعہ کو اُردو کا جامہ پہنایا ہے، تادمِ تحریر چالیس جلدوں کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے اور اس وقت نظرِثانی اور مراجعت کے آخری مراحل میں ہے، دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت کو آسان فرمائے اور اُردو دنیا کو اس عظیم علمی ذخیرہ کے ذریعہ شاد کام کرے۔انسائیکلوپیڈیائی کاوشوں میں ڈاکٹر رواس قلعہ جی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انھوں نے عہدِ صحابہ اور عہدِ تابعین کے ان فقہا کی آراء کو یکجا، منضبط اور مرتب کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جن کے اقوال مختلف کتابوں میں بکھرے ہوئے تھے اور سلف کا ایک بہت بڑا علمی اور فقہی ورثہ لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہوتا جا رہا تھا، ڈاکٹر رواس نے الف بائی ترتیب سے عمر، علی، عبد اللہ بن مسعود، عائشہ، عبد اللہ بن عمر، حسن بصری اور ابراہیم نخعی وغیرہ کی فقہ کو جمع کیا ہے اور اس طرح اہلِ علم کی نئی نسل کو ابتدائی دور کے فقہا کے اجتہادات سے مربوط کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ہندوستان کے علما نے بھی اس سمت میں کوششیں کی ہیں،دار العلوم ندوۃ العلماءنے مجلس تحقیقاتِ شرعیہ اور جمعیۃ علماءِ ہند نے ""ادارۃ المباحث الفقہیۃ"" کواسی مقصد کے تحت قائم کیا تھا، پاکستان میںمفتی محمد شفیعاورمحمد یوسفبنوری وغیرہ نے ""مجلس تحقیق مسائل حاضرہ"" کی بنیاد رکھی تھی، ان مجالس نے وقتا فوقتا اجتماعات منعقد کیے ہیں اور متعدد مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے؛ لیکن مسائل کی رفتار کے اعتبار سے کام آگے نہیں بڑھ سکا؛ کیونکہ ان اداروں کی حیثیت ضمنی تھی اور جن تنظیموں اور اداروں کے تحت یہ رکھا گیا تھا، ان کے کام کا دائرہ خود بہت وسیع ہے۔اسی پس منطر میں 1889ء میں قاضی مجاہد الاسلامی قاسمی نے اسلامک فقہ اکیڈمی کی بنیاد رکھی، اکیڈیمی نے اب تک 15سیمینار کیے ہیں اور ان سیمیناروں میں پچاس سے زیادہ مسائل زیربحث آئے ہیں، ان سیمیناروں میں پیش کیے جانے والے مقالات کی 20/سے زیادہ ضخیم جلدیں طبع ہوکر منظرعام پر آچکی ہیں، اس کے علاوہ فقہی تحقیق اور نئی نسل کو صحیح خطوط پر تربیت کے سلسلہ میں اکیڈیمی نے نہایت اہم اور ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔اور ظاہر ہے کہ بہت سی کتابیں نایاب ہوجانے یا ان تک رسائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ بھی گئی ہوں گی؛ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس موضوع پر اُردو زبان میں کم و بیش ڈیڑھ ہزار تالیفات موجود ہیں اور یقیناً یہ اُردو زبان کی بڑی سعادت اور اس کے لیے تمغا افتخار ہے، سنہ2000ء تک کے جائزہ کے مطابق 1247/ کتابیں موجود ہیں۔"
+406,قرآن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86,"قرآن کریم،قرآن مجیدیاقرآن شریف(عربی:القرآن الكريم) دیناسلامکی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہماسلام کے پیروکاروںکا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے[1][2]اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلاممحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمپر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتےحضرت جبرائیل علیہ السلاملاتے تھے[3]جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے[4][5][6]، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کیتلاوتعبادت ہے۔[7]اورصحف ابراہیم،زبور[8]اورتوراتوانجیل[9][10]کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کیفصاحتوبلاغتکے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔[11][12][13][14][15][16][17]نیزعربی زبانوادباور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاًسیبویہ،ابو الاسود الدؤلیاورخلیل بن احمدفراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔گو کہ نزول قرآن سے قبل عربی زبان کا ادب خاصا وسیع اور اس کا دامن الفاظ و تراکیب اور تشبیہات و استعارات سے لبریز تھا لیکن وہ متحد نہیں تھی۔ قرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے عربی زبان کو ایک بنیاد پر متحد کیا[18]اور حسن کلام، روانی، فصاحت و بلاغت اور اعجاز و بیان کے ایسے شہ پارے پیش کیے جنہیں دیکھ کر فصحائے عرب ششدر تھے۔[19]نیز قرآن نے عربی زبان کو مٹنے سے بھی بچایا، جیسا کہ بہت سیسامی زبانیںوقت کے گزرنے کے ساتھ ناپید یا زوال پزیر ہو گئیں جبکہ عربی زبان گزرتے وقتوں کے ساتھ مزید مالا مال ہوتی رہی اور قدیم و جدید تمام تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ رکھا۔[20][21][22][23]قرآن میں کل 114سورتیںہیں جن میں سے 87مکہمیں نازل ہوئیں اور وہ مکی سورتیں کہلاتی ہیں اور 27مدینہمیں نازل ہوئیں اور مدنی سورتیں کہلاتی ہیں ۔[24]مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ قرآن کو اللہ نےجبریلفرشتہ کے ذریعہ پیغمبر محمد پر تقریباً 23 برس کے عرصہ میں اتارا۔ نزول قرآن کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب پیغمبر محمد چالیس برس کے تھے اور ان کی وفات سنہ 11ھ بمطابق 632ء تک جاری رہا۔ نیز مسلمان یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وفات نبوی کے بعد صحابہ نے اسے مکمل اہتمام و حفاظت کے ساتھ منتقل کیا اور اس کی آیتیں محکمات کا درجہ رکھتی ہیں،[25][26]نیز قرآن تاقیامتقابل عمل اور ہر دور کے حالات کا حل پیش کرتا ہے۔[27]قرآن کا سب سے پہلا ترجمہسلمان فارسینے کیا۔ یہسورۃ الفاتحہکا فارسی میں ترجمہ تھا۔ قرآن کو دنیا کی ایسی واحد کتاب کی بھی حیثیت حاصل ہے جو لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو زبانی یاد ہے اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، جسے مسلمان روز ہرنمازمیں بھی پڑھتے ہیں اور انفرادی طور پر تلاوت بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں مسلمان ہر سالرمضانکے مہینہ میںتراویحکی نماز میں کم از کم ایک بار پورا قرآن با جماعت سنتے ہیں۔ قرآن نے مسلمانوں کی عام زندگی، عقائد و نظریات، فلسفہ اسلامی، اسلامی سیاسیات، معاشیات، اخلاقیات اور علوم و فنون کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔وفات نبوی کے بعدعمر بن خطابکی تجویز پر، خلیفہ اولابو بکر صدیقکے حکم سے اورزید بن ثابتانصاری کی سربراہی میں قرآن کومصحفکی شکل میں یکجا کیا گیا۔ عمر بن خطاب کی وفات کے بعد یہ نسخہ ام المومنینحفصہ بنت عمرکے پاس محفوظ رہا۔ خلیفہ سومعثمان بن عفاننے جب لہجوں کے اختلاف کی بنا پر قرات میں اختلاف دیکھا تو حفصہ سےقریشکے لہجہ میں تحریر شدہ اُس نسخہ کے نقل کی اجازت چاہی تاکہ اسے معیار بنایا جائے۔ اجازت ملنے کے بعد انھوں نے مصحف کی متعدد نقلیں تیار کرکے پورےعالم اسلاممیں بھیج دیں اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اس مصحف کی پیروی کریں۔ ان نسخوں میں سے ایک نسخہ انھوں نے اپنے پاس بھی رکھا۔ یہ تمام نسخے اب مصحف عثمانی کہلاتے ہیں۔[28]بیشتر محققین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ تمام نسخے ابو بکر کے تیار کردہ نسخہ کی ہو بہو نقل تھے، ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی۔[29][30]مسلمانوں کے مطابق قرآن پیغمبر محمد کامعجزہہے اور اس کی آیتیں تمام انسانوں کے سامنے یہ چیلنج پیش کرتی ہیں کہ کوئی اس کے مثل نہیں بنا سکتا،[31]نیز یہ قرآن پیغمبر محمد کی نبوت کی دلیل[32]اور صحف آدم سے شروع ہونے والے اور صحف ابراہیم، تورات، زبور اور انجیل تک آسمانی پیغام کا یہ سلسلہ قرآن پر ختم ہوا۔[33]قرآن کی تشریحات کو اسلامی اصطلاح میںتفسیرکہا جاتا ہے جو مختلف زبانوں میں کی جاتی رہی ہیں۔قرآنی تراجمدنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ جبکہ صرفاردو زبانمیں تراجم قرآن کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔قرآن میں لفظقرآنقریباً 70 دفعہ آیا ہے اور متعدّد معانی میں استعمال ہوا ہے۔ یہعربی زبانکے فعلقرأکامصدرہے جس کے معنی ہیں ’’اُس نے پڑھا ‘‘ یا ’’اُس نے تلاوت کی‘‘۔سریانی زبانمیں اس کے مساوی (ܩܪܝܢܐ) qeryānā کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’صحیفہ پڑھنا‘‘ یا ’’سبق‘‘۔۔[34]اگرچہ کئی مغربی عالم اس لفظ کو سریانی زبان سے ماخوذ سمجھتے ہیں، مگر اکثر مسلمان علما اس کی اصل خود لفظقرأکو ہی قرار دیتے ہیں[35]بہرحال محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت تک یہ ایک عربی اصطلاح بن چکی تھی[35]۔ لفظقرآنکا ایک اہم مطلب ’’تلاوت کرنا‘‘ ہے جیسا کہ اس ابتدائی قرآنی آیت میں بیان ہوا ہے: ’’یقیناً اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔[36]دوسری آیات میںقرآنکا مطلب ’’ایک خاص حصّہ جس کی تلاوت (محمد نے ) کی ‘‘کے بھی ہیں۔نمازمیں تلاوت کے اس مطلب کا کئی مقامات پر ذکر آیا ہے جیسا کہ اس آیت میں:’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو‘‘۔[37]جب دوسرے صحائف جیسا کہتوراتاورانجیلکے ساتھ یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب ’’تدوین شدہ صحیفہ‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔اس اصطلاح سے ملتے جلتے کئیمترادفبھی قرآن میں کئی مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ ہر مترادف کا اپنا ایک خاص مطلب ہے مگر بعض مخصوص سیاق و سباق میں ان کا استعمال لفظقرآنکے مساوی ہو جاتا ہے مثلا ًکتاب(بمعنی کتاب)،آیۃ(بمعنی نشان) اورسورۃ(بمعنی صحیفہ)۔ آخری دو مذکورہ اصطلاحات ’’وحی کے مخصوص حصّوں‘‘ کے مطلب میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ بیشتر اوقات جب یہ الفاظ ’’ال‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو ان کا مطلب ’’وحی‘ ‘ کا ہوتا ہے جو وقفہ وقفہ سے نازل کی گئی ہو ۔[38][39]بعض مزید ایسے الفاظ یہ ہیں:ذکر(بمعنی یاد دہانی) اورحکمۃ(بمعنی دانائی)۔قرآن اپنے آپ کوالفرقان(حق اور باطل کے درمیان میں فرق کرنے والا)،امّ الکتاب،ہدٰی(راہنمائی)،حکمۃ(دانائی)،ذکر(یاد دہانی) اورتنزیل(وحی یا اونچے مقام سے نیچے بھیجی جانے والی چیز) بیان کرتا ہے۔ ایک اور اصطلاحالکتاببھی ہے، اگرچہ یہ عربی زبان میں دوسرے صحائف مثلاً تورات اور انجیل کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ قرآن سےاسم صفت’’قرآنی‘‘ ہے۔مصحفکی اصطلاح اکثر مخصوص قرآنی مسوّدات کے لیے استعمال ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ اصطلاح قرآن میں گذشتہ کتابوں کے لیے بھی استعمال ہوئی ہے۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجیدآخری آسمانی کتابہے جو پیغمبرمحمدپر نازل ہوئی اور اس کا پڑھنا، سننا اور اس پر عمل کرنا موجب تقرب الہی اور باعث اطمینان قلب ہے۔ بیشتر مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ قرآن ان کیتہذیبو تمدن اور معاشرت کی بنیاد ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس سے رہنمائی حاصل کرنا لازمی ہے۔ ڈاکٹر وصفی عاشور ابو زید لکھتے ہیں:[40]مسلمانوں کے نزدیک کوئی مسلمان قرآن سے مستغنی نہیں ہو سکتا، یہی کتاب اس کا سرمایہ زندگی، سرمہ بصیرت اور رہبر کامل ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کی ہر شے اس کتاب سے مربوط ہے، اسی سے ان کے عقائد ماخوذ ہیں، یہی ان کیعبادتوںکا تعارف کراتی اور رضائے الہی کے حصول میں مددگار بنتی ہے۔ نیز اخلاق و معاملات میں جن امور کی رہنمائی درکار ہے وہ سب اس میں موجود ہیں۔ جو مسلمان اس کتاب پر عمل نہیں کرتے وہ گمراہ ہیں اور ان کا انجام تاریک ہے۔[41]جیسا کہ حسب ذیل آیتوں اور احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ اسرا میں ہے:
+سورہ طہ میں ہے:
+نیزعبد الرحمن دارمینےعلی بن ابی طالبکی روایت نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ:[42]چنانچہ قرآن میںعقائدکا مفصل تذکرہ،عباداتمثلاً روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ کے احکام، نیز خرید و فروخت، نکاح و طلاق، وراثت و تجارت کے احکام بھی درج ہیں۔ اخلاق و آداب کا بھی مفصل ذکر ہے۔[43]متعدد علما و مفسرین نے ""احکام قرآن"" کے موضوع پر بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں فقہی احکام سے متعلق آیتوں کو یکجا کیا اور عبادات و معاملات میں ان آیتوں سے مستنبط شدہ احکام کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے تاکہ احکام قرآن سے شناسائی میں سہولت ہو۔ مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ سابقہ آسمانی کتابوں میں امور زندگی کے متعلق جو ہدایات اور رہنمائی موجود تھیں، قرآن ان سب پر مشتمل ہے۔ وہسورہ مائدہکی درج ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں:
+سورہ مائدہمفسرین کا کہنا ہے کہ قرآن سابقہ کتابوںزبور،توراتاورانجیلکے تمام مضامین پر مشتمل ہے اور اخلاق و معاملات کے بہت سے امور میں ان کتابوں سے زیادہ رہنمائی فراہم کرتا ہے۔[44]قرآن وہ کتاب ہے جو سابقہ کتابوں کی تمام حق باتوں کا حکم کرتا اور ان پر عمل کرنے پر ابھارتا ہے۔ اس کتاب میں گذشتہ قوموں، امتوں اور انبیا و رسولوں کی حکایتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ تاہم اس میں فروعی احکام مذکور نہیں، محض کلیات کا احاطہ کیا گیا ہے جو یہ ہیں: تحفظ دین، تحفظ ذات، تحفظ عقل، تحفظ نسب اور تحفظ مال۔[45]علاوہ ازیں مسلمان یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن کی بعض آیتیں اہمیت و فضیلت میں زیادہ ہیں، بعض آیتیں انھیںحسداورشیطانکے وسوسوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔ جو آیتیں فضیلت میں ممتاز ہیں ان میںآیت الکرسی،سورہ بقرہکی آیت نمبر 255 اوراہل تشیعکے یہاں سورہ بقرہ کی آیت 255، 256 اور 257 قابل ذکر ہیں، ان کا پڑھنامستحبخیال کیا جاتا ہے۔[46][47][48][49][50][51]علمائے اسلام کا کہنا ہے کہاللہ کے ناموں اور صفاتپر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی عظمت بڑھ گئی، ان کا پڑھنا شیطان اور اس کے تسلط سے گھر اور انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔[52][53]اسی طرح ایکسورہ فلقبھی ہے جسے مسلمان غیر محسوس برائیوں اور آفتوں سے بچنے کے لیے پڑھتے ہیں۔[54]سورہ ناسبھی شیطان کے شر و فتن سے بچنے کے لیے پڑھی جاتی ہے۔[55]علمائے اسلام کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختلاف ہے کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا بتدریج اترا۔ بعض آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج نزول کو بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ اس اختلاف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے کیے گئے جو حسب ذیل ہیں:بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌفِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ[ا]إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ[ب]،إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[پ]۔درج ذیل حدیثیں بھی اس کی دلیل ہیں:عبد اللہ بن عباسسے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ""قرآن کو لوح محفوظ سے نکال کر آسمان دنیا کے ایک مقام بیت العزت پر اتارا گیا، جہاں سے جبریل پیغمبر پر لے جایا کرتے تھے""۔[57]ابو شامہ مقدسی نے اپنی کتابالمرشد والوجيز عن هذا النزولمیں لکھا ہے: ""علما کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں ایک ہی رات کو مکمل نازل ہوا اور جبریل نے اسے یاد کر لیا۔ کلام الہی کی ہیبت سے آسمان والے غش کھا گئے، جب جبریل کا ان پر سے گذر ہوا تو انھیں ہوش آیا اور کہنے لگے:وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ[ت]۔ بعد ازاں جبرئیل نے کاتب فرشتوں کو اس کا املا کرایا، چنانچہ قرآن میں مذکور ہے:بِأَيْدِي سَفَرَةٍ[ٹ][58]بتدریج نزول قرآن کی مقدار کا تذکرہاحادیثمیں ملتا ہے کہ جب جتنی ضرورت ہوتی اتنا نازل ہوتا۔ نیز تاریخ قرآن کو دو ادوار میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور عہد نبوی کا جس میں قرآن کاوحیکے ذریعہ نزول ہوا اور دوسرا دورخلفائے راشدینکا جس میں قرآن کو ایکمصحفمیں یکجا کرکے محفوظ کر دیا گیا۔اسلامی روایات کے مطابقمحمّدپرپہلی وحیغار حرامیں اُس وقت نازل ہوئی جب آپ تنہائی میں عبادات کے لیے وہاں گئے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ سلسلہوحی23 برس کے عرصہ تک جاری رہا۔احادیثاور اسلامیتاریخکے مطابقہجرت مدینہکے بعد جب محمد نے وہاں ایک آزاد اسلامی معاشرہ قائم کر لیا تو آپ نے اپنےصحابہکو قرآن کی تلاوت اور اس کے روزمرّہ نازل ہونے والے احکام کو یاد کرنے اور دوسروں کو سکھانے کا حکم دیا۔ روایات میں یہ بھی ذکر موجود ہے کہجنگ بدرکے بعدجبقریشکے کئی لوگ مسلمانوں کے ہاتھ قیدی بن گئے تو اُن میں سے کئی نے مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے بدلے اپنی آزادی حاصل کی۔ اسی طرح آہستہ آہستہ کئی مسلمان خواندہ ہونے لگے۔ قرآن کو پتھروں، ہڈیوں اور کھجور کے پتّوں پر لکھا جانے لگا۔ اکثر سورتیں ابتدائی مسلمانوں کے زیراستعمال تھیں کیونکہ ان کا ذکرسنّیاورشیعہدونوں روایات میں ملتا ہے۔ جیسا کہ محمد کا قرآن کوتبلیغکے لیے استعمال کرنا، دعا ؤں میں اس کا پڑھا جانا اور انداز تلاوت کے بیان میں ان کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم، 632 عیسوی میں محمد کی وفات کے وقت ابھی قرآن ایک کتاب کی شکل میں موجود نہ تھا۔ تمام علما اس بات پر متّفق ہیں کہ محمد خود وحی کی کتابت نہیں کرتے تھے۔صحیح بخاریمیں محمد کی وحی کی کیفیات کا حال یوں درج ہے کہ ’’بسا اوقات (وحی) گھنٹی کے بجنے کی طرح نازل ہوتی ہے‘‘ اورعائشہسے روایت ہے کہ، ’’میں نے ایک بہت سرد دن میں حضور پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا اور (جب وحی ختم ہوئی تو) آپ کے ماتھے سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے۔‘‘قرآن کے بیان کے مطابق محمد پر پہلی وحی ایک کشف کے ساتھ نازل ہوئی۔ وحی نازل کرنے والی ہستی کا بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے’’مضبوط طاقتوں والا‘‘، وہ جو ’’بلند ترین اُفق پر تھا۔ پھر وہ نزدیک ہوا۔ پھر وہ نیچے اُتر آیا۔ پس وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیایا اُس سے بھی قریب تر‘‘۔ ویلچ (Welch) جو ایک اسلامی سکالر ہیں، Encyclopaedia of Islam میں لکھتے ہیں کی وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وحی کے نزول کے وقت محمد کی کیفیات کی جو ظاہری شکل بیان کی گئی ہے وہ درست ہو سکتی ہے کیونکہ وہ وحی کے نزول کے بعد کافی پریشان ہو گئے تھے۔ ویلچ کے مطابق، وحی کے موقع پر محمد کو ہلا دینے والے جھٹکے اُن کے گرد لوگوں کے لیے اس بات کا ثبوت واقع ہوئے ہوں گے کہ محمد کی وحی کا مبدا واقعیمافوق الفطرتہے۔ تاہم، محمد کے ناقدین ان مشاہدات کی بنا پر اُن کو مجنون، کاہن اور جادوگر قرار دیتے تھے کیونکہقدیم عربمیں کئی ایسے لوگ اس طرح کے تجربات کے مدّعی تھے۔ ویلچ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ اس طرح کے مشاہدات محمد کے ابتدائی دعوٰی نبوت سے پہلے کے ہیں یا بعد کے ۔قرآن محمد کو اُمّی قرار دیتا ہے جس کا عام طور پر ’’ان پڑھ‘‘ مطلب لیا جاتا ہے مگر اس کا مطلب دراصل کچھ پیچیدہ ہے۔ قرون وسطیٰ کے مفسّرین جیسا کہطبریکے مطابق اس اصطلاح کے دو مطالب ہیں:پہلا تو یہ کہ عمومی طور پر لکھنے اور پڑھنے کا قابل نہ ہونا جبکہ دوسرا یہ کہ گذشتہ کتب اور صحائف سے لاعلم ہونا (اگرچہ اکثر مفسّرین پہلے مطلب کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں)۔ اس کے علاوہ، محمد کا ناخواندہ ہونا آپ کی نبوّت کی صداقت کی ایک دلیل سمجھا جاتا تھا۔ جیسا کہامامفخر الدّین رازیکہتے ہیں کہ، اگر محمد لکھنے پڑھنے پر پوری مہارت رکھتے ہوتے تو اُن پر یہ شبہ کیا جا سکتا تھا کہ انھوں نے اپنے آبا و اجداد کی کتب پڑھی ہوں گی۔ کچھ عالم جیسا کہواٹدوسرے معنی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔خلفائے راشدینکے عہد میں جمع قرآن کے متعلق دو نقطہ نظر ہیں، پہلا نقطہ نظراہل سنتکا ہے اور دوسراامامیہاہل تشیعکا۔ اہل سنت کا متفقہ نقطہ نظر یہ ہے کہابو بکر صدیقکے عہد میں قرآن کو یکجا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کیا گیا اور عہد عثمان میں اسی مصحف کو باضابطہ نسخہ قرار دے کر بقیہ نسخوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔[59]جبکہ اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہعلی ابن ابی طالبنے وفات نبوی کے بعد مکمل قرآن کو ایک مصحف میں جمع کیا تھا[60]اور ان کی ترتیب عثمانی مصحف کی ترتیب سے مختلف تھی لیکن بایں ہمہ انھوں نے اس مصحف پر اعتراض نہیں کیا اور اپنے مرتب کردہ مصحف کو اپنے پاس محفوظ رکھا۔ اہل تشیع کا کہنا ہے کہ علی بن ابی طالب کے مصحف کے چند امتیازات تھے، مثلاً وہ ترتیب نزولی پر تھا یعنی منسوخ آیتوں کو ناسخ آیتوں سے پہلے اورمکی سورتوںکومدنی سورتوںسے پہلے درج کیا گیا تھا۔[61]اس کے حاشیے پر آیت کی مناسبت سے اہم تشریحات وغیرہ لکھی گئی تھیں[62]اور تفصیل کے ساتھ آیتوں کا شان نزول اور مقام نزول بھی مذکور تھا۔ چنانچہ اسی ضمن میںجعفر صادقکا قول ہے: ""فرمان رسول ہے: اگر قرآن کو لوگ اس طرح پڑھیں جس طرح نازل ہوا ہے تو کبھی اختلاف نہ ہو""۔[63]عہد صدیقی میں جمع قرآن کی روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ جمع قرآن کی کارروائیجنگ یمامہکے بعد شروع ہوئی۔ جنگ یمامہ میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی تو عمر بن خطاب ابو بکر صدیق کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ حفاظ صحابہ کی وفات سے قبل قرآن کو یکجا کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ ابو بکر صدیق نےزید بن ثابتکو اس کی ذمہ داری دی کیونکہ وہ اس کے اہل بھی تھے اور عہد نبوی میں کاتب قرآن اورحافظ قرآنبھی تھے۔ علاوہ ازیں زید بن ثابت کی فہم و فراست، ذہانت و فطانت اور سچائی و امانت داری مشہور تھی۔ زید بن ثابت نے کاغذ کے ٹکڑوں، ہڈیوں اور چمڑوں کو اکٹھا کرکے اور حفاظ سے مل کر جمع قرآن کا آغاز کیا، اس پورے عمل میں ابو بکر، عمر اور بڑے صحابہ ان کی معاونت اور نگرانی کر رہے تھے۔ قرآن کو ہر غلطی سے محفوظ رکھنے کے لیے ابو بکر و عمر نے یہ طریقہ کار وضع کیا کہ صحابہ محض اپنے حافظہ اور سننے پر اکتفا نہ کریں بلکہ قرآن کا تتبع کریں، نیز ہر آیت کو دو ماخذ سے لیا جائے، پہلا عہد نبوی میں لکھا ہوا اور دوسرا سینوں میں محفوظ۔ چنانچہ کسی آیت کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک اس پر دو عادل گواہ اس کی گواہی نہ دے دیں کہ یہ آیت عہد نبوی میں لکھی گئی تھی۔[64]جمع قرآن کی کارروائی جاری رہی اورسورہ توبہکی آخری آیتوں پر اختتام کو پہنچی جوابو خزیمہ انصاریکے پاس ملیں۔ مکمل ہو جانے کے بعد یہ نسخہ ابو بکر صدیق کے پاس رہا، پھر عمر بن خطاب کے پاس اور بعد ازاں ان کی بیٹیحفصہ بنت عمرکے پاس محفوظ رہا۔[65]تمام علما کا اس پر اتفاق ہے کہ عہد صدیقی میں جمع قرآن سے قبل صحابہ کے پاس اپنے ذاتی مصحف موجود تھے جن میں انھوں نے قرآن یا اس کا کچھ حصہ اکٹھا کر رکھا تھا لیکن یہ انفرادی کاوشیں تھیں اور انھیں یکجا کرنے میں تلاش، تواتر اور اجماع صحابہ کا اس درجہ لحاظ نہیں رکھا گیا تھا جیسا عہد صدیقی میں ملحوظ رہا۔عمر بن خطاب کی شہادت کے بعد عثمان بن عفان خلیفہ بنے اور سنہ650ءتک اسلامسرزمین شام،مصر،عراقوایراناورشمالی افریقاکے کچھ خطوں تک جا پہنچا۔ اہل سنت و الجماعت کے مصادر میں لکھا ہے کہ عثمان بن عفانآرمینیااورآذربائیجانپر لشکر کشی کی تیاری کر رہے تھے کہ اسی اثنا میںحذیفہ بن یمانان کے پاس پہنچے اور یہ عرض گزاری: ""امیر المومنین! اس امت کو سنبھا لیے، قبل اس کے کہ ان میں بھی کتاب اللہ کے سلسلہ میں ایسا ہی اختلاف رونما ہو جیسا یہود و نصاریٰ کے یہاں ہوا""۔ حذیفہ بن یمان نے بتایا کہ تلاوت قرآن میں عراقیوں اور شامیوں میں کیسا اختلاف برپا ہے اور ہر ایک اپنے طرز قرات کو درست سمجھ رہا ہے۔[66]یہ سن کر عثمان بن عفان نے فوراً حفصہ بن عمر کے پاس قاصد بھیجا اور ان سے عہد ابو بکر کا مصحف طلب کیا۔ پھر زید بن ثابت،عبد اللہ ابن زبیر،سعید بن العاصاور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا کہ وہ اس کی متعدد نقلیں تیار کریں۔ روایت میں لکھا ہے کہ عثمان نے ان سے کہا: ""اگر کسی جگہ تم میں اختلاف ہو جائے تو اسےقریش کے لہجہمیں لکھنا، کیونکہ قرآن انہی کے لہجہ ميں نازل ہوا ہے""۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ان حضرات نے نقلیں تیار کر لیں تو عثمان بن عفان نے اصل مصحف حفصہ کو لوٹا دیا اور اس کی نقلیں سارے عالم اسلام میں بھیج دیں اور حکم دیا کہ اس کے سوا بقیہ تمام نسخے نذر آتش کر دیے جائیں۔[67][68]چنانچہ اس کے بعد تمام نسخے ختم ہو گئے اور یہی نسخہ باقی رہا جو مصحف عثمانی کہلاتا ہے اور اب تک دنیا بھر میں یہی رائج چلا آرہا ہے۔اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پیغمبر محمد اپنی زندگی میں حفظ قرآن کا خاصا اہتمام کرتے تھے اور سب سے پہلے انھوں نے جمع قرآن کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ پیغمبر کی نگرانی ہی میں تمام آیتوں اور سورتوں کو مرتب کیا گیا۔[69]اہل تشیع کے بڑے علما مثلاًسید ابو القاسم خوئیوغیرہ نے اہل سنت کی کتابوں میں مذکور روایتوں (جن میں سر فہرستصحیح بخاریکی روایت ہے) کا دقت نظر سے جائزہ لے کر ان کے تعارض اور اختلاف کو واضح کیا اور ساتھ ہی اہل سنت کی کتابوں میں درج ان روایتوں کو بھی پیش کیا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کو عہد نبوی میں جمع کر لیا گیا تھا۔ مثلاًطبرانیاورابن عساکرشعبی سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا: ""چھ انصاری صحابہ نے عہد نبوی میں قرآن کو یکجا کر لیا تھا، ابی بن کعب، زید بن ثابت، معاذ بن جبل، ابو الدردا، سعد بن عبید اور ابو زید""۔[70]اس روایت کو پیش کرنے کے بعد ابو القاسم خوئی نے لکھا ہے کہ ان روایتوں میں لفظ ""جمع"" کے معنیٰ مکمل قرآن کو محفوظ کر لینے کے ہیں اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان چند افراد نے مختلف جگہوں سے قرآن کو اکٹھا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کر لیا تھا۔[71]عہد عثمانی میں نقل مصحف کی کارروائی کے متعلق خوئی کہتے ہیں کہ اس جمع سے مراد تمام مسلمانوں کو ایک مصحف پر متحد کرنا تھا چنانچہ انھوں نے اس کے سوا تمام مصاحف کو جلانے کا حکم جاری کیا تھا اور مسلمانوں کو اختلاف قرات سے حکماً منع کیا۔[72]قرآن ایک بڑی کتاب ہے۔ اس کی تقسیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی میں فرما چکے تھے اور یہ رہنمائی کر چکے تھے کہ کس آیت کو کس سورت میں کہاں رکھنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن کے بے شمار حافظ تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمشعباناوررمضانکے مہینوں میں قرآن کئی دفعہختمکرتے تھے جو ظاہر ہے کہ کسی ترتیب کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ آج تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکی۔ پہلی صدیہجریکے لکھے ہوئے قرآن جوترکیکے عجائب گھر توپ کاپی میں ہیں یاایرانکے شہرمشھدمیں امامعلی رضا علیہ السلامکے روضہ کے عجائب گھر میں ہیں، ان میں بعینہ یہی قرآن خطِ کوفی میں دیکھا جا سکتا ہے جو آج جدید طباعت کے بعد ہمارے سامنے ہے۔ اسے سات منزلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور تقسیم سیپاروں کے حساب سے ہے۔ سیپارہ کا لفظی مطلب تیس ٹکروں کا ہے یعنی اس میں تیس سیپارے ہیں۔ ایک اور تقسیم سورتوں کی ہے۔ قرآن میں 114 سورتیں ہیں جن میں سے کچھ بڑی اور کچھ چھوٹی ہیں۔ سب سے بڑی سورت سورۃ البقرہ ہے۔ سورتوں کے اندر مضمون کو آیات کی صورت میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ قرآن میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہیں۔ نیچے اس تقسیم کو پیش کیا گیا ہے۔مدرجہ بالا تقاسيم ميں سے سورتوں اور آيات كی تقسيم توقيفی ہے۔ يہ اللہ تعالٰی كے نبی نے الہامی راہنمائی ميں أپنی حيات مباركہ ميں كر دی تھی۔ اور اسی صورت ميں محفوظ ہے۔ ركوع پاروں اور منازل ميں تقسيم بعد كے لوگوں نے حفاظ، قاريوں اور عام مسلمانوں كی متعين ايام ميں ختم كرنے كے پيش نظر كی ہے۔ ركوع ميں تقسيم كے سوا دونوں تقسيميں مضمون كے بجائے مقدار كے تحت كی گئی ہيں۔
+موجودہ زمانے ميں برصغير پاك و ہند كے بعض اہل علم نے نظم قرآن پر بہت كام كيا ہے اور اس اعتبار سے بھی قرآن كو مضامين اور ترتيب كے اعتبار سے ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔ حميد الدين فراہی، امين احسن اصلاحی اور جاويد احمد غامدی كا كام اس سلسلہ ميں بہت نماياں ہے۔ ان علما نے قرآن كی سورتوں كو سات ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔
+ان كے كام كا خلاصہ جاويد احمد غامدی كے الفاظ ميں يہ ہے:قرآن کے اِن ساتوں ابواب میں سے ہر باب ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔
+پہلا باب فاتحہ سے شروع ہوتا اورمائدہ پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں فاتحہ مکی اور باقی چار مدنی ہیں۔
+دوسرا باب انعام اور اعراف ،دو مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور دو مدنی سورتوں،انفال اور توبہ پر ختم ہوتا ہے۔
+تیسرے باب میں یونس سے مومنون تک پہلی چودہ سورتیں مکی ہیں اور آخر میں ایک سورۂ نور ہے جو مدنی ہے۔
+چوتھا باب فرقان سے شروع ہوتا ہے ،احزاب پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں پہلی آٹھ سورتیں مکی اور آخر میں ایک، یعنی احزاب مدنی ہے۔
+پانچواں باب سبا سے شروع ہوتا ہے ،حجرات پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں تیرہ سورتیں مکی اور آخر میں تین مدنی ہیں۔
+چھٹا باب ق سے شروع ہو کر تحریم پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں سات مکی اور اِس کے بعد دس مدنی ہیں۔
+ساتواں باب ملک سے شروع ہو کر ناس پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں آخری سورتیں دو ،یعنی معوذتین مدنی اور باقی سب مکی ہیں۔
+اِن میں سے ہر باب کا ایک موضوع ہے اور اُس میں سورتیں اِسی موضوع کی رعایت سے ترتیب دی گئی ہیں۔
+پہلے باب کا موضوع یہود و نصاریٰ پر اتمام حجت ،اُن کی جگہ بنی اسمٰعیل میں سے ایک نئی امت کی تاسیس، اُس کا تزکیہ و تطہیر اور اُس کے ساتھ خدا کا آخری عہدو پیمان ہے۔
+دوسرے باب میں مشرکین عرب پر اتمام حجت ،مسلمانوں کے تزکیہ و تطہیر اور خدا کی آخری دینونت کا بیان ہے۔
+تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے باب کا موضوع ایک ہی ہے اور وہ انذار و بشارت اور تزکیہ و تطہیر ہے۔ساتویں اور آخری باب کا موضوع قریش کے سرداروں کو انذار قیامت ،اُن پر اتمام حجت، اِس کے نتیجے میں انھیں عذاب کی وعید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سرزمین عرب میں غلبۂ حق کی بشارت ہے۔ اِسے ہم مختصر طریقے پر محض انذار و بشارت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔[74]قران کا اسلوب شعری ونثری اسلوب سے الگ ہے بایں طور پر کہ کسی بھی سورت میں کوئی مقدمہ، کوئی خاص موضوع یا خاتمہ نہیں ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات ایک آیت میں ایک موضوع ہوتا ہے جو اس کے بعد یا پہلی آیت سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔[75]اسی لیے قران کی کوئی آیت اپنی ما قبل آیت کا خاتمہ نہیں ہوتی ہے اور نہ اپنیما بعد کا مقدمہ ہوتی ہے۔[76]صحابہ کراماورتابعینمیں قران میں اجتہاد سے کام لیتے ہوئے اسے 30 برابر حصوں میں منقسم کر دیا تاکہ تلاوت کرنے میں آسانی ہو اوررمضانمیں رومیہ ایک پارہ کی تلاوت کی جا سکے۔ یہ ایک اجتہادی عمل ہے جس پر مسلمان مستحب سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ بعد ازاں ہر پارے کو نصفین میں تقسیم کیا اور ہر نصف کو ربعین میں۔قران 114 سورتوں پر مشتمل ہے جو طوالت میں یکسر مختلف ہیں۔[77][78]پھر یہ سورتیں آیا مکی ہیں یا مدنی ہیں۔مکی سورہوہ کہلاتی ہے جوہجرت مدینہسے قبل نازل ہوئی۔ ان سورتوں میں عموما عقیدہ، توحید اور اس کی دلائل کے مضمون شامل ہیں۔ یہ کل 86 سورتیں ہیں۔[77]مدنی سورہوہ ہے جو ہجرت مدینہ کے بعدمدینہ منورہمیں نازل ہوئی۔ ان سورتوں میں عموما شریعت، احکام اورحلالوحرامکے مضمون موجود ہیں۔ یہ کل 28 سورتیں ہیں۔[77]تلاوت کی آسانی کے لیے علما نے ان سورتوں کی 3 اقسام کی ہیں۔ طوال مفصل یعنیسورہ بقرہ، وآل عمران، والنساء، والمائدہ، والانعام، والاعراف، وبراءة۔ وسميت بالطوال لطولها، والطوال جمع طولى۔[79]۔ اوساط مفصل جو طوال مفصل، یہ وہ سورتیں ہیں جن میں تقریباً 100 آیتیں ہیں۔[79]تیسری قسم ہے قصار مفصل جس میں تمام چھوٹی سورتیں شامل ہیں جو اوساط مفصل میں نہیں ہیں۔[79]قرآن کی زبان فصیح عربی ہے جسے آج بھی ادبی مقام حاصل ہے اور باوجودیکہ عربی کے کئی لہجے (مصری، مراکشی، لبنانی، کویتی وغیرہ) پیدا ہو چکے ہیں، قرآن کی زبان کو ابھی تک عربی کے لیے ایک معیار کی حیثیت حاصل ہے۔ عربی کے بڑے بڑے عالم جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں قرآن کی فصیح، جامع اور انسانی نفسیات سے قریب زبان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اتنی بڑی کتاب ہونے کے باوجود اس میں کوئی گرامر کی غلطی بھی موجود نہیں۔ بلکہ عربی حروف ابجد کے لحاظ سے اگر ابجد کے اعداد کو مدِ نظر رکھا جائے تو قرآن میں ایک جدید تحقیق کے مطابق جو ڈاکٹر راشد الخلیفہ نے کمپیوٹر (کمپیوٹر) پر کی ہے، قرآن میں باقاعدہ ایک حسابی نظام موجود ہے جو کسی انسان کے بس میں نہیں۔ قرآن میں قصے بھی ہیں اورتاریخی واقعاتبھی، فلسفہ بھی ملے گا اورمنطقبھی، پیچیدہ سائنسی باتیں بھی ہیں اور عام انسان کی زندگی گذارنے کے طریقے بھی۔ جب قرآن نازل ہوا اس وقت جو عربی رائج تھی وہ بڑی فصیح تھی اور اس زمانے میں شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل تھی لھٰذا یہ ممکن نہیں کہ قرآن میں کوئی غلطی ہوتی اور دشمن اس کے بارے میں بات نہ کرتے۔ بلکہ قرآن کا دعوہ تھا کہ اس جیسی ایک آیت بھی بنا کر دکھا دیں مگر اس زمانے کے لوگ جو اپنی زبان کی فصاحت اور جامعیت کی وجہ سے دوسروں کو عجمی (گوں گا) کہتے تھے، اس بات میں کامیاب نہ ہو سکے۔قرآن مجید کی پہلی آیت :قرآن مجید کی آخری آیت :حروف مقطعات(عربی: مقطعات، حواميم، فواتح) قرآن مجید کی بعض آیات کے شروع میں آتے ہیں اور الگ الگ پڑھے جاتے ہیں، ان کوآیات مقطعاتاور ان حروف کوحروف مقطعاتکہا جاتا ہے، مثلاًالم۔ یہ قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں آتے ہیں۔ یہ کل چودہ حروف ہیںا، ل، م، ص، ر، ک، ہ، ی، ع، س، ج، ق، ن۔ مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ ان کا حقیقی مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ مقطعات کا لفظی مطلب قطع شدہ، ٹکڑے، کترنیں کے ہیں۔ بعض علما کے مطابق یہ عربی الفاظ کے اختصارات ہیں اور بعض علما کے مطابق یہ کچھ رمز (code) ہیں۔[82]یہ حروف 29 سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر ہیں اورسورۃ الشوریٰ( سورۃ کا شمار: 42) کی دوسری آیت کے طور پر بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ ایک سے پانچ حروف پر مشتمل 30 جوڑ (combinations) ہیں۔ جو 29 سورتوں کے شروع میں قرآن میں ملتے ہیں۔انٹرنیٹ کی ترقی سے جہاں مواد کو لوگوں تک پہنچانا آسان ہو گیا ہے وہاں قرآن کے بارے میں ویب سائٹوں کی بہتات ہے جس میں سے کچھ تو درست مواد فراہم کرتے ہیں مگر بیشتر غلطیوں سے پاک نہیں۔ اس میں کچھ تو قرآن کو یونیکوڈ میں لکھنے کی مشکلات ہیں مگر کچھ اسلام کے خلاف کام کرنے والوں کا کام ہے جس میں قرآن کے عربی متن اور اس کے ترجمہ کو بدل کر رکھا گیا ہے۔ جس کا عام قاری اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ صرف ایسی سائٹس کی طرف رجوع کریں جن کے بارے میں یقین ہو کہ وہ درست یا تصدیق شدہ ہیں۔
+اس کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا مرکزی ادارہ بنایا جائے جس میں تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں کے نمائندے اور ماہرین شامل ہوں اور ماہرین کسی بھی قرآنیویب سائٹکی تصدیق کر سکیں اور اسے ایک سرٹیفیکیٹ جاری کر سکیں جو ان کی ویب گاہ پر لگائی جائے۔ جو کم از کم عربی متن کی تصدیق کرے جیساپاکستانمیں چھپے ہوئے قرآن کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ اس کی تصدیق کہ کوئی قرآنی ویب گاہ مصدقہ ہے کہ نہیں، اس مرکزی ادارہ کی ویب گاہ سے ہو سکے۔ چونکہ انٹرنیٹ پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اس لیے لوگوں کی اپنی کوشش ہوگی کہ وہ اس مرکزی ادارہ کی تصدق شدہ ویب گاہ کا استعمال کریں۔ تا حال ایسا کوئی ادارہ نہیں مگر مستقبل میں یہ نہائت ضروری ہوگا۔قرآن کے تراجم دنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں اور کیے جا رہے ہیں۔ بڑی زبانوں میں تراجم قرآن ایک سے زائد لوگوں نے مختلف ادوار میں کیے ہیں۔ قرآن کے یورپی اور دیگر کئی زبانوں میں غیر مسلمان افراد نے بھی ترجمہ کیا ہے۔ اسی طرح کچھ تراجم بنا عربی متن کے بھی شائع کیے گئے ہیں، جب��ہ رومن رسم الخط میں بھی مختلف وجوہات کی بنا پر تراجم ہوئے ہیں۔قرآن کے الفاظ کو ان کے حروف کو زبان سے درست مخارج سے ادا کرنے کا علم، تجوید کہلاتا ہے۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدارلوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+407,تفسیر قرآن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D9%81%D8%B3%DB%8C%D8%B1_%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86,"لفظ تفسیرعربی زبانکا لفظ ہے جس کا [مادہمعینی] فسر ہے۔ یہ باب تفصیل کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں واضح کرنا، کھول کر بیان کرنا، وضاحت کرنا، مراد بتانا اور بے حجاب کرنا ہے۔قرآنکی تشریح و وضاحت کے علم کو تفسیر کہتے ہیں اور تفسیر کرنے والے کومفسر۔[1][2]اسی عربی لفظ فسر سے، اردو زبان میں، تفسیر کے ساتھ ساتھ ديگر متعلقہ الفاظ بھی بنائے جاتے ہیں جیسے؛ مُفسَر، مُفَسِّر اور مُفَسّر وغیرہ[3]ایک اردو لغت میں [ مُفسَر]، [ مُفَسِّر][4]اور [ مُفَسّــَر] کا اندراج۔[5]تفسیر کی جمع تفاسیر کی جاتی ہے اور مفسر کی جمع مفسرین آتی ہے۔تفسیر کا مادہ ف-س-ر=فسر ہے اور اس مادہ سے جو الفاظ بنتے ہیں۔ ان سے بالعموم شرح و ایضاح کے معنی شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ فَسّرَ (ماضی) کے مصدری معنی ہیں:واضح کرنا، تشریح کرنا، مراد بتانا، پردا ہٹانا۔ جبکہ اسی سے تفسیر ہے کیونکہ اس میں بھی عبارت کھول کر معانی کی وضاحت کی جاتی ہے۔وہ علم جس سے قرآن کو سمجھا جاتا ہے۔ اس علم سے قرآن کے معانی کا بیان، اس کے استخراج کا بیان، اس کے احکام کا استخراج معلوم کیا جاتا ہے۔ اور اس سلسلے میں لغت، نحو، صرف، معانی و بیان وغیرہ سے مدد لی جاتی ہے۔ اس میںاسباب نزول،ناسخ و منسوخسے بھی مدد لی جاتی ہے۔ علامہ امبہانی کہتے ہیں: تفسیر اصطلاح علما میں قرآن کریم کے معانی اور اس کی مراد کو واضح کرنے اور بیان کرنے کو کہتے ہیں، خواہ باعتبار حل الفاظ مشکل ہو یا باعتبار معنی ظاہر ہو یا خفی اور تاویل کلام تام اور جملوں کا مفہوم متعین کرنے کو کہتے ہیں۔
+امامماتریدیکے نزدیک: تفسیر اس یقین کا نام ہے کہ لفظ سے یہی مراد اور اس قدر یقین ہو کہ خدا کو شاہد ٹھہرا کر کہا جائے کا خدا نے یہی مراد لیا ہے۔ اور تاویل یہ ہے کہ چند احتمالات میں سے کسی ایک کو یقین اور شہادت الہی کے بغیر ترجیح دی جائے۔
+امام ابو نصر القشیری کہتے ہیں کہ تفسیر موقوف ہے سماع اور اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر۔ علامہ ابو طالب شعلبی کہتے ہیں: تفسیر کے معنی لفظ کی وضع کا بیان کر دینا ہے، خواہ وہ حقیقت ہویا مجاز، مثلا صراط کے معنی راستہ، صیب کے معنی بارش اور کفر کے معنی انکار۔قرآن میں جو بیان کیا گيا ہے اور صحیح سنت میں اس کی تعین کیا گیا ہے اس کو ظاہر کرنا تفسیر ہے۔ جو بیان ظاہر کے مطابق ہو وہ تفسیر ہے۔علامة شیخ عثیمین کہتے ہے کہ تفسیر سے مراد قرآن پاک کا معانی کو بیان کر نا ہے “بيان معانى القرآن الكريم"" أصول في التفسير، المؤلف: محمد بن صالح العثيمين، ص23۔تاویل کا مادہ ا-و-ل=اول ہے۔ اس کے لغوی معنی تعبیر بتانا، کل بتانا۔ بیان حقیقت، اپنی اصل کی طرف لوٹنے کے ہیں۔ مرجع اور جائے بازگشت کو موؤل کہتے ہیں۔ کسی شے کو فعل ہو علم اس کی اصل کی طرف لوٹانے کا نام تاویل ہے۔ قرآن اور کلام عرب میں یہ لفظ بیان حقیقت، تفسیر، توضیح معانی، تبیین کے مترادف استعمال ہوا ہے۔ یعنی قرآن میں تاویل و تفسیر ایہم معنی استعمال ہوا ہے۔ چوتھی صدی ہجری سے پہلے تک تاویل و تفسیر کا ایک ہی معنی لیا جاتا رہا ہے۔ اور اسی (تفسیر) کے مترادف کے طور پر تاویل کا لفظ مستعمل رہا۔ پھر اس میں شروع شروع میں تھوڑا فرق پایا جاتا تھا، عام طور پر علما ان دونوں لفظموں کے مفہوم میں یہ فرق کیا کرتے تھے کہ: تاویل کا استعمال جملوں اور معانی کی توضیح کے لیے استعمال کرتے اور تفسیر کا لفظ مشکل الفاظ اور مفردات کی تشریح کے لیے، مگر یہ تمام علما کے نزدیک مسلم نہیں تھا۔پھر جب بعد میں علوم اسلامیہ کی باقاعدہ ترتیب و تدوین عام ہو گئی۔ تو تفسیر و تاویل کے اصطلاحی معانی بھی مقرر ہوئے اور دونوں میں واضح فرق کیا جانے لگا۔ اور فنی و اصطلاحی حیثیت سے تفسیر و تاویل الگ الگ چیزیں ہو گیئں۔
+{اس{قرآنیات}کو اسان بناو اور قران مجید کا ایک معنی ہے تحقیق کرو یہ قران مجید میں تماری بہتری اور کامیابی ہے}علامہ زرکشی نے اس کی مختصر تعریف یوں نقل کی ہے:
+""ھُوَعِلْمٌ یُعْرَفُ بِہٖ فَھْمُ کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ عَلیٰ نَبِیِّہَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَیَانُ مَعَانِیْہِ وَاسْتَخْرَاج أَحْکَامِہٖ وَحِکَمِہٖ""۔[6]وہ ایسا علم ہے جس سے قرآن کریم کی سمجھ حاصل ہو اور اس کے معانی کی وضاحت اور اس کے احکام اور حکمتوں کو نکالا جاسکے۔
+علامہ آلوسی تعریف میں مزید عموم پیدا کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
+""ھُوَعِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ كَيْفِيَّةِ النُّطْقِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ، وَمَدْلُوْلَاتِهَا، وَأَحْكَامِهَا الْإِفْرَادِيَّةِ وَالتَّرْكِيْبِيَّةِ، وَمَعَانِيْهَا الَّتِيْ تُحْمَلُ عَلَيْهَا حَالَۃِ التَّرْكِيْبِ، وَتَتِمَّاتُ لِذَلِك""۔[7]وہ علم ہے جس میں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور اُن معانی سے بحث کی جاتی ہو جو ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ و منسوخ اور شان نزول اور غیرواضح مضمون کی وضاحت میں بیان کیا جائے۔اس تعریف کی روشنی میں علمِ تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے :وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریات:21)اور تم اپنی جانوں میں غور کرو کیا تم نہیں دیکھتے۔غور فرمائیے اس مختصر سے جملے کی تشریح و تفصیل میں پورا علم الابدان (Physiology) اور پورا علمِ نفسیات (Psychology) سماجاتا ہے اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی تخلیقی حکمت بالغہ کے جن اسرار کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ سب پورے ہو گئے ہیں؛ چنانچہ تفسیر کے اس ذیلی جز میں عقل و تدبر، تجربات و مشاہدات کے ذریعے انتہائی متنوع مضامین شامل ہیں۔[8]چونکہ ہرکام کی ایک اصل ہوتی ہے اور اصول کے ساتھ ہونے والے کام کو کام کہا جاتا ہے، بے اصولی تو کسی بھی شعبہ میں اچھی نہیں سمجھی جاتی؛ اسی اصول پر تفسیر کے اصول بھی ہیں؛ تاکہ اس میں دلچسپی پیدا ہو، اب ایک بات ضروری طور پر یہ رہ جاتی ہے کہ وہ کیا ذرائع اور طریقے ہیں جن کی بنیاد پر قرآن کریم کی تفسیر کی جاسکے، یقیناً ہم کو اس کے لیے حق سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے رہبری کی گئی ہے؛ چنانچہ فرمایا:
+""ھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ""۔(آل عمران:7)اے رسول!وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے اورکچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔
+گویا اس آیت کی رو سے آیات کی اولین تقسیم دوطرح پر کی گئی ہے۔
+حسنا کا معنی کیا ہےآیات محکماتآیات متشابہات؛ پھرمتشابہات دوقسم پر ہیں:جو لفظ بھی سمجھ سے باہر ہو جیسے حروف مقطعاتلفظ تو سمجھ میں آتے ہوں؛ لیکن مفہوم ان کا قابل فہم نہ ہو۔
+پھرآیاتِ محکمات کو مفسرین نے دوطرح پر تقسیم کیا ہے:یعنی وہ ذارئع جن سے قرآن کریم کی تفسیر معلوم ہو سکتی ہے، یہ تقریباً چھ قسم کی بتلائی گئی ہیں:ہرایک کی تھوڑی سی تفصیل ضروری مثالوں سے ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:اختصار کی غرض سے اس کی صرف تین مثالیں پیش کی جاتی ہیں:سورۃ الفاتحہ کو ہی لیجئے، اِس کی دونوں آیتیں اس طرح ہیں:
+""اهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِالْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ""۔(الفاتحۃ:6،7)ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما، ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے۔
+جن پر انعام کیا گیا ہے اس کی تفسیر""سورۃالنساء"" کی درجِ ذیل آیت میں کی گئی ہے:
+""وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا""۔ (النساء:69)اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین، شہداءاور صالحین اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔""فَتَلَـقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِoاِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ""۔ (البقرۃ:37)پھر آدمؑ نے اپنے پروردگار سے (توبہ کے )کچھ الفاظ سیکھ لیے(جن کے ذریعہ انھوں نے توبہ مانگی)چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی، بے ��ک وہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
+اس آیت میں کلمات کا تذکرہ ہے مگر وہ کلمات کیا تھے؟ دوسری آیت میں اس کی تفسیرموجود ہے:
+""قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا، وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ""۔(الاعراف:23)دونوں بول اٹھے کہ:اے ہمارے پروردگار!ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گذرے ہیں اور اگرآپ نے ہمیں معاف نہ فرمایااور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔ اللہ ہم۔پر رحم فرما میں تیری پاک کلام پڑی ہے میں بہت بھٹکا ہوا تھا میرے اللہ مجے اپنی اس حدایت کے رستے پر چلنے کی توفیک عطا فرما اور باقی سب امیر المومنین پر بی حدایت پہچانے کی توفیق عطافرما میرے اللہ میں اس تیری دنیاہ کو محبت والے رستے پر چل کر عدل اور انصاف سے بھر دینہ چاہتہ ہوں۔اے اللہ میری مدد فرما آمین ثم آمین""سورۃ الانعام"" کی آیت نازل ہوئی:
+""الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولِٰئکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ""۔(الانعام:82)جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انھوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہ دیا، امن وچین تو بس انھی کا حق ہے اور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔
+توصحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس سے ( کسی نہ کسی طرح کا) ظلم صادر نہ ہوا ہو، تو اللہ نے ظلم کی تفسیر ومراد کو واضح کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی:
+"" إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ""۔(لقمان:13)کہ شرک ظلم عظیم ہے۔
+یعنی آیت بالا میں ایمان کے ساتھ جس ظلم کا تذکرہ آیا ہے وہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔[9]تفسیر القرآن بالقرآن کے موضوع پرایک گرانقدر کتابمدینہ منورہکے ایک عالم شیخ محمد امین بن محمد مختار کی تالیف ہے جو ""اضواء البیان فی ایضاح القرآن بالقرآن"" کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔قرآن پاک کی تفسیررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں کرنا تفسیر القرآن بالحدیث والسیرۃ کہلاتا ہے، خود قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقوال وافعال اور عملی زندگی سے آیات قرآنیہ کی تفسیر وتشریح فرمائیں۔
+(النحل:44)تو جس طرح اللہ تعالی نے انسانی زندگی کو بندگی بنانے کے لیے اپنے احکامات کو قرآن حکیم کی شکل میں نازل فرمایا، اسی طرح ان احکامات پر عمل آوری کے لیے آپ ﷺکے پوری عملی زندگی کو در حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر بناکر مبعوث فرمایا، جو کچھ احکامات قرآن کریم کی شکل میں نازل کیے گئے ان پر سب سے پہلے آپ ہی نے عمل کرکے دکھلایا اور ان احکامات خدا وندی کو عملی جامہ پہناکر دنیا کے سامنے پیش کرنا یہ آپ کی خصوصیات میں سے ایک نمایا خصوصیت ہے، خواہ وہ حکم ایمان، توحید، نماز، روزہ، زکوۃ، حج، صدقہ وخیرات، جنگ وجدال، ایثار وقربانی، عزم واستقلال، صبر و شکر سے تعلق رکھتا ہو یا حسن معاشرت وحسن اخلاق سے، ان سب میں قرآن مجید کی سب سے پہلی وعمدہ عملی تفسیر نمونہ وآئیڈیل کے طور پر آنحضرت ﷺ ہی کی ذات اقدس میں ملے گی، اس میں بھی دو قسم کی تفسیر ہے ایک تفسیرتو وہ قرآن پاک کے مجمل الفاظ وآیات کی تفسیر وتوضیح ہے جن کی مراد خدا وندی واضح نہیں تو ان کی مراد واجمال کی تفصیل کو زبان رسالت مآب ﷺ نے واضح فرمادیا اور دوسری قسم عملی تفسیر کی ہے، یعنی قرآنحکیمکی وہ آیات جن میں واضح احکامات دئے گئے ہیں جن کا تعلق عملی زندگی کے پورے شعبۂ حیات سے ہے، خواہ وہ عقائد، عبادات، معاملات کی رو سے ہوں یا حسن معاشرت وحسن اخلاق کی رو سے اس میں بھی آپ نہ وہ کمال درجہ کی عبد یت اور اطاعت وفرمانبرداری کی ایسی بے مثال وبے نظیر عملی تفسیر وتصویر امت کے سامنے پیش فرمائی جس طرح کلام اللہ تمام انسانی کلاموں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے اسی طرح آپ کی عملی زندگی کا ہر قول وفعل بھی تمام انسانی زندگیوں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے، دوسری قسم کی مثالیں کتب سیر، کتب مغازی، کتب تاریخ، کتب دلائل اور کتب شمائل میں بکثرت ملیں گے؛ بلکہ یہ کتابیں تو آپ ہی کی عملی تفسیر پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں جن کی مثالوں کو یہاں ذکر نہیں کیا جا رہا ہے اگر دیکھنا چاہیں تو ہمارے ہوم پیج کے عنوان""سیرت طیبہ"" میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں اور پہلی قسم کی مثالیں کتب احادیث وتفسیر میں بکثرت ملیں گی ان میں سے بغرض اختصار صرف تین مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:سورۂ بقرہ کی آیت شریفہ:
+""وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ""۔(البقرۃ:187)
+اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر واضح (نہ) ہو جائے۔
+آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیط ابیض اور خیط اسود کی مراد کو اپنے ارشاد مبارک سے واضح فرمایا :
+"" إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَار""۔[10]کہ خیط ابیض سے مرادصبح صادقاور خیط اسود سے مرادصبح کاذبہے۔سورہ نور کی آیت:
+""اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ، وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ""۔ (النور:2)زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرددونوں کو سوسو کوڑے لگاؤاور اگر تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ میں ان پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پرغالب نہ آئے اور یہ بھی چاہیے کہ مؤمنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے۔ظاہر ہے کہ اس آیت سے زانیہ اور زانی کی سزامیں سو کوڑے مارنے کاذکر ہے، اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا کوئی فرق نہیں کیا گیا؛اس کی تفسیر احادیثِ پاک سے واضح ہوتی ہے کہ غیر شادی شدہ کو کوڑوں کی سزا دی جائے گی جیسا کے بخاری شریف میں ہے:
+""عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَمَرَ فِيمَنْ زَنَى وَلَمْ يُحْصَنْ بِجَلْدِ مِائَةٍ وَتَغْرِيبِ عَامٍ""۔[11]زید بن خالد سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے غیر شادی شدہ زنا کرنے والوں کو سو کوڑے مارنے کا اور ایک سال کے لیے وطن سے نکالنے کاحکم دیا۔اور شادی شدہ مرد وعورت کو سنگسار کیا جائے گا:
+""الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَازَنَيَا فَارُجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ، رَجَمَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهٗ""۔[12]شادی شدہ مرد وعورت جب زنا کے مرتکب ہوں تو ان کو رجم کرو، یعنی سنگسار کردو، راوی کہتے ہیں کہ خود حضور ﷺ نے اپنی زندگی میں ایسی سزادی ہے اور بعد میں ہم نے بھی ایسی سزا دی ہے۔قرآن کی تفسیر حدیث سے کرنے کی مثال میں یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے:
+""غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ��َاالضَّالِّیْنَ""۔ (الفاتحۃ:7)نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔
+قرآن پاک میں المغضوب اور الضال کا مصداق متعین نہیں کیا گیا ہے ؛لیکن ان دونوں کا مصداق متعین کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
+""إِنَّ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ أَلْيَهُوْدُ وَإِنَّ الضَّالِّيْنَ النَّصَارَىٰ""۔[13]جن پر غضب نازل ہوا اس سے مراد یہود ہیں اور جو راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اس سے مراد نصاری ہیں۔
+اس طرح کی بے شمار مثالیں کتب احادیث میں بکثرت موجود ہیں اور اس نقطۂ نظر سے بھی کئی تفاسیر لکھی گئی ہیں، اُن میں سے چند تفاسیر یہ ہیں۔حضرات صحابہ چونکہ بجا طور پر خیر امت کہلانے کے مستحق ہیں جنھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست قرآن کریم کی تعلیم و تربیت حاصل کی، ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کر دیں کہ قرآن کریم اوراس کی تفسیر وتاویل کو بلاواسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کریں، اہل زبان ہونے کے باوجود ان کو صرفزبان دانیپر بھروسا نہ تھا؛ چنانچہ بعضے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سبقاً سبقاً قرآن کریم کو پڑھا، مشہور تابعی ابوعبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں:
+""حَدَّثَنَا الَّذِيْنَ كَانُوْا يَقْرَؤَوْنَ الْقُرَآنَ كَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَغَيْرِهِمَا أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا تَعَلَّمُوْا مِنَ النَّبِيِّﷺ عَشَرَ آيَاتِ لَمْ يَتَجَاوَزُوْهَا حَتَّى يَعْلَمُوْا مَافِيْهَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ""۔[14]صحابہ میں سے جو قرآن کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا کرتے تھے، مثلاًعثمان بن عفان، عبد اللہ بن مسعود وغیرہ انھوں نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیتیں سیکھتے تو ان آیتوں سے آگے نہ بڑھتے جب تک ان آیتوں کی تمام علمی وعملی باتوں کو نہ جان لیتے۔یہ ہے حضرات صحابہ کا براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم و تربیت کا سیکھنا کہ جتنا سیکھتے اتنا عمل کا بھی اہتمام فرماتے شاید اسی وجہ سے مسند احمد میں انس کا یہ اثرمنقول ہے:
+""كَانَ الرَّجُلُ إِذَاقَرَأ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ جَدَّ فِيْنَا""۔[15]یعنی جب کوئی شخص سورۃ بقرہ وآل عمران کو پڑھ لیتا تووہ ہماری نظروں میں بہت ہی عزت والا سمجھا جاتا اور موطا مالک کی روایت میں ہے:
+""أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مَكَثَ عَلَى سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثَمَانِيَ سِنِينَ يَتَعَلَّمُهَا""۔[16]عبد اللہ ابنِ عمر کو سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے۔
+یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ابن عمر اتنے کمزور ذہن والے تھے کہ سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے، جبکہ موجودہ دور میں کمزور سے کمزورطالب علماتنے عرصہ سے کم میں پورا قرآن کریم حفظ کرلیتا ہے، دراصل بات یہ تھی کہ آٹھ سال کی مدت ابن عمر کو سورۂ بقرہ کے الفاظ اور اس کی تفسیر وتاویل اور اس کے متعلقات کے ساتھ حاصل کرنے میں لگی، اس کی تائیدابن مسعودکے اس اثر سے ہوتی ہے جس کو ابن کثیر نے نقل کیا ہے:
+""والذي لا إلہ غيرہ، ما نزلت آية من، كتاب اللہ إلا وأنا أعلم فيمن نزلت؟ وأين نزلت؟ ولو أعلم أحد اأعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایا لاتیتہ""۔[17]قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس بارے میں اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی شخص ایسی معلومات مجھ سے زیادہ رکھتا ہے اور سواریاں اس شخص تک پہنچاسکتی ہیں تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔یہ چند نمونے ہیں حضرات صحابہ کی جانفشانی اور ان کی محنت کے جو تفسیر قرآن کے سلسلہ میں پیش کیے گئے، یوں تو بہت سی آیات کی تفسیر حضرات صحابہ کے اقوال سے ثابت ہیں ان میں سے کچھ برائے نمونہ پیش ہیں۔ایک دفعہ ابن عمرؓ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور درج ذیل آیت کی تفسیر دریافت کی:
+""أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا""۔(الانبیاء:30)
+کیا کفار نے دیکھا نہیں کہ آسمان وزمین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔
+ابن عمرنے اس سے فرمایا کہ تم ابن عباس کے پاس جاؤ اور ان سے اس کی تفسیر معلوم کرو اور وہ جو تفسیر بتائیں وہ مجھے بھی بتاتے جانا، وہ شخص ابن عباس ke پاس پہنچااور درج بالا آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
+آسمان خشک تھے ان سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بانجھ تھی اس سے کچھ اُگتا نہیں تھا، بارش کے طفیل یہ پودے اگانے لگی؛گویا آسمان کا فتق(پھٹنا)بارش کے ساتھ ہے اور زمین کا پھل پودے اگانے سے۔ اس شخص نے ابن عمر کو جب یہ تفسیر بتائی تو انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی جانب سے ان کو خصوصی علم عطا ہوا ہے۔[18]"" وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ، وَاَحْسِنُوْا، اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِـنِیْنَ""۔(البقرۃ:195)
+اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں اور نیکی کرو، بے شک اللہ تعالی دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو۔
+اس آیت کی تشریح میں مفسرین نےابوایوب انصاریکا ارشاد نقل کیا ہے کہ:
+""التھلکۃ الاقامۃ فی الاھل والمال وترک الجھاد""۔(تفسیر ابن کثیر، تحت قولہ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ)""التھلکۃ ""سے مراد گھر اور مال کیمصروفیاتمیں لگا رہنا اور جہاد کو چھوڑ بیٹھنا ہے۔ عام مفسرین نے اپنی اپنی تفاسیر میں اس تفسیر کو خاص طور سے نقل کیا ہے۔علامہ طبری روایت کرتے ہیں کہ عمرنے صحابہ سے درج ذیل آیت کے متعلق دریافت کیا :
+""أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ""۔(البقرۃ:266)کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں (اور)اس کو اس باغ میں اور بھی ہر طرح کے پھل حاصل ہوں اور بڑھاپے نے اسے آپکڑا ہواور اس کے بچے ابھی کمزور ہوں، اتنے میں ایک آگ سے بھرا بگولا آکر اس کو اپنی زد میں لے لے اور پورا باغ جل کر رہ جائے۔کوئی بھی اس کا شافی جواب نہ دے سکے، ابن عباس نے عرض کیا کہ میرے دل میں ایک بات آ رہی ہے، عمر نے فرمایا کہ آپ بلا جھجک برملا بیان کیجیے، ابن عباس نے فرمایا:
+""اللہ تعالی نے اس آیت میں ایک مثال بیان کی ہے فرمایا :کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ عمر بھر نیکی کا کام کرتا رہے اور جب اس کا آخری وقت آئے جب کے نیکیوں کی اسے زیادہ ضرورت ہوتو بُرا کام کرکے سب نیکیوں کو برباد کر دے""۔[19]ایک اہم بات اس بارے میں اہل اصول نے بتلائی ہے کہ جن صحابہ کے تفسیری اقوال میں صحیح وسقیم ہر طرح کی روایتیں ملتی ہیں تو ان اقوال کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کیے جانے سے پہلے اصول ِحدیث کے اعتبار سے ان کی جانچ ضروری ہے۔
+2۔ نیز دوسرے یہ کہ حضرات صحابہ کے اقوال تفسیر اسی وقت حجت، دلیل سمجھے جائیں گے جبکہ آپﷺ سے آیت شریفہ کی کوئی صریح تفسیر مستند طور پر ثابت نہ ہو؛چنانچہ اگر آپ ﷺ سے تفسیر منقول ہو تو پھر صحابہ سے اقوال محض اس تفسیر کی تائید شمار کیے جائنگے اور اگر آپ ﷺ کے معارض کوئی قول صحابی ہوتو اس کو قبول نہ کیا جائے گا۔
+3۔ تیسرے یہ کہ صحابہ کے اقوال تفسیر میں اگر تعارض اور ٹکراؤ ہو تو جہاں تک ہو سکے ان کے اقوال میں مطابقت پیداکی جائے گی اگر مطابقت نہ ہو سکے تو پھر مجتہد کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ دلائل کی روشنی میں جس صحابی رضی اللہ عنہ کا قول مضبوط ہے اس کو اختیار کرلے۔[20]اس موضوع پر مستقل کتاب، تنویرالمقباس فی[21]/ تفسیر ابن عباس]""ہے اور اس کے علاوہ دیگر کتب تفاسیر میں صحابہ کی تفسیری روایات مذکور ہیں۔واضح ہونا چاہیے کہ تابعین سے مراد تمام ہی تابعین نہیں ہیں؛ بلکہ وہ حضرات تابعین جنھوں نے حضرات صحابہ کی صحبت اٹھائی ہواور ان کی صحبت سے علمی استفادہ کیا ہو، اہل علم میں اس بات پربھی اختلاف ہے کہ تفسیر قرآن کے بارے میں اقوال تابعین حجت ہیں یا نہیں، اس معاملہ میں علامہ ابن کثیر نے بہت ہی معتدل بات لکھی ہے کہ اگر کوئی تابعی کسی صحابی سے تفسیر نقل کر رہے ہوں تو اس کا حکم صحابی کی تفسیر جیسا ہوگا اور اگر خود تابعی اپنا قول بیان کریں تو دیکھا جائے گا کہ دوسرے کسی تابعی کا قول ان کے خلاف تو نہیں اگر خلاف میں کوئی قول ہو تو پھر اس تابعی کے قول کو حجت نہیں قرار دیا جائے گا؛ بلکہ ایسی آیات کی تفسیر کے لیے قرآن کی دوسری آیتیں احادیث نبویہ آثارصحابہ اورلغت عرب جیسے دوسرے دلائل پر غور کرکے فیصلہ کیا جائے گا، ہاں اگر تابعین کے درمیان میں کوئی اختلاف نہ ہوتو ان کے تفسیری اقوال کو بلاشبہ حجت اورواجب الاتباع قراردیا جائے گا۔[22]جب تابعین کے اقوال پر تفسیر کی جا سکتی ہے تو اس کے کچھ نمونے بھی ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں :ارشاد باری تعالی ہے:
+""وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ، رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا، ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ""۔(التوبہ:100)اور جولوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مددکرنے والے اور جو ان کے پیروہوئے نیکی کے ساتھ اللہ تعالی راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور اللہ نے تیار کررکھا ہے ان کے واسطے ایسے باغات کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں رہا کریں ان میں وہ ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی۔
+اس آیت شریفہ میں حضرات صحابہ کے مختلف درجاتِ فضیلت بیان کیے گئے ہیں ایک سابقین اولین کا، دوسرے ان کے بعد والوں کا، اب سابقین اولین کون ہیں، اس میں مفسرین کے مختلف اقوال نقل کیے جاتے ہیں، کبار تابعین سعید بن المسیب، ابن سیرین اور قتادہ کا یہ قول ہے کہ اس سے مراد وہ صحابہ ہیں جنھوں نے دونوں قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور عطاء بن ابی رباح کا یہ قول ہے کہ سابقین اولین سے مرادبدرمیں شریک ہونے والے صحابہ ہیں اورشعبی نے فرمایا کہ وہ جو حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شامل رہے۔[23]اس آیت میں تابعین کے مختلف اقوال سامنے آئے، مفسرین نے کسی قول کو رد نہیں کیااور ان کے درمیان میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
+"" اَلتَّائِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّائِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنََ""۔ (التوبہ:112)توبہ کرنے والے، اللہ کی بندگی کرنے والے، اس کی حمد کرنے والے، روزے رکھنے والے،رکوعمیں جھکنے والے،سجدہگزارنے والے، نیکی کی تلقین کرنے والے، برائی سے روکنے والے اوراللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے(اے پیغمبر )ایسے مؤمنوں کو خوشخبری دے دو۔آیت میں ایک لفظ ""أَلسَّائِحُوْنَ"" آیا ہے، جس کا مطلب جمہور مفسرین کے ہاں""صَائِمُوْنَ""یعنی روزہ دار مراد ہیں اور عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی سائحین کا لفظ آیا ہے وہاں صائمین مراد ہیں، عکرمہ جو کبارِ تابعین میں سے ہیں انھوں نے کہا سیاحت کرنے والوں سے مرادطالب علم ہیں جو علم کی طلب میں ملکوں میں پھرتے ہیں۔[24]اس تفسیر کو مفسرین نے رد نہیں کیا ہے اگرچہ عکرمہ اس تفسیر میں منفرد ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے: ""اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ(التوبہ:60)صدقات تو صرف غریبوں کے لیے ہیں۔۔الخ۔
+اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے غنی اور فقیر کے درمیان میں فرق کو واضح کیا ہے، غنی سے متعلقامام ابو حنیفہنے فرمایا کہ غنی وہ شخص ہے جس کے پاس اصلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بقدر نصاب زکوۃ مال باقی رہے۔[25]عام مفسرین نے امامابو حنیفہکے ذکر کردہ تعریف غنی کو اپنی تفاسیر میں بلا کسی نکیر کے ذکر فرمایا ہے۔اس موضوع پر بھی بہت سی تفاسیرلکھی گئی ہیں؛ چنانچہ علامہ نیشاپوری کی تفسیر""غرائب القرآن اور رغائب الفرقان"" قابل ذکر ہے اور علامہ نسفی کی مدارک التزیل بھی قابل ذکر ہے اور علامہ آلوسی کیروح المعانیبھی ایک وقیع تفسیر ہے۔
+نیز اردو تفاسیر میںمفتی محمد شفیعصاحب کی تفسیرمعارف القرآنآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ islamicbookslibrary.wordpress.com(Error: unknown archive URL)بھی اہم تفاسیر میں سے ایک ہے۔لغت عرب کو تفسیر کا ماخذ ماننے میں اگرچہ اہل علم کے یہاں اختلاف ہے، جیسے کہ امام محمد نے لغۃ عرب سے قرآن کی تفسیر کو مکروہ قراردیا ہے[26]کیونکہ؛ عربی زبان ایک وسیع زبان ہے اور بعض اوقات ایک لفظ کئی معانی پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک جملے کے بھی متعدد اور کئی مفہوم ہو سکتے ہیں تو ایسے مواقع پر صرف لغت عرب کو بنیاد بناکر ان میں سے کوئی ایک مفہوم متعین کرنا تفسیر میں مغالطہ کا سبب بن سکتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو مکروہ بھی کہا گیا ہے مگر محققین کا کہنا ہے کہ مغالطہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ لغت کے کثیر الاستعمال معانی کو چھوڑکر انتہائی قلیل الاستعمال معنی مراد لیے جائیں اس لیے ایسی جگہ جہاں قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین میں سے کوئی صراحت نہ ملے تو آیت کی تفسیر لغت عرب کے عام محاورات(جن کا چل چلاؤہو) کے مطابق کی جائے گی۔ایک مرتبہ خلیفہ ثانی عمر فاروق نے صحابہ کرام سے درج ذیل آیت کے معنی دریافت کیے:
+""أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ""۔(النحل:47)یا انھیں اس طرح گرفت میں لے کہ وہ دھیرے دھیرے گھٹتے چلے جائیں۔
+یہ سن کر قبیلہ بنو ھذیل کا ایک شخص کھڑا ہوکر کہنے لگاکہ ہماری زبان میں""تخوف""کمی اور نقصان کو کہتے ہیں، امیر المؤمنین عمر نے پوچھا عربی اشعار میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے؟اس نے کہا جی ہاں اور فوراً یہ شعر پڑھ دیا:ترجمہ:کجاوہ کی رسی اونٹنی کے کوہان کے بال کو کم کرتی رہتی ہے، جیسا کہ لوہا کشتی کی لکڑی کو کم کرتا رہتا ہے۔یہ سن کر عمرنے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا اپنے دیوان کو تھامے رکھو، صحابہ نے عرض کیا دیوان سے کیا مراد ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا جاہلی شاعری، اس میں قرآن کی تفسیر اور تمھاری زبان کے معانی موجود ہیں۔[27]علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ ابن عباس صحن کعبہ میں تشریف فرما تھے سوال کرنے والوں کا ایک ہجوم تھادو آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ سے تفسیر قرآن کے متعلق کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں، ابن عباس نے فرمایا دل کھول کر پوچھیے، انھوں نے پوچھا کہ آپ اس آیت باری تعالی کی تفسیر بتائیے:
+""عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ""۔ (المعارج:37)دائیں بائیں حلقے باندھے ہوں گے۔
+ابن عباس نے فرمایا عزین کے معنی ہیں ساتھیوں کے حلقے، انھوں نے پھر سوال کیا کہ کیا اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں؟ ابن عباس نے فرمایا :جی ہاں پھر آپ نے عبید بن الابرص کا شعر پڑھا
+فَجَاؤُا يُهْرَعُوْنَ إِلَيْهِ حَتً
+يَكُوْنُوْا حَوْلَ مِنْبَرِهِ عِزِيْنًاوہ لوگ اس کی طرف بھاگتے ہوئے آتے ہیں
+اس کے منبر کے گرد حلقہ باندھ لیتے ہیں[28]دیکھیے یہاں ابن عباس نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب کی مدد سے کی ہے۔اُسی صاحب نے آپ سے درج ذیل آیت کی تفسیردریافت کی:
+""وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ""۔ (المائدۃ:35)اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔
+ابن عباس نے فرمایا کہ وسیلہ حاجت اور ضرورت کو کہتے ہیں اس نے پوچھا کہ اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں:آپ ﷺ نے فرمایا کیا آپ نے عنترۃ نامی شاعر کا شعر نہیں سناہے؟پھر شعر پڑھا:
+إنَّ الرِّجَالَ لَهُمْ إِلَيْكِ وَسِيلَةٌ إِنْ يَأْخُذُوكِ، تكَحَّلِي وتَخَضَّبي[29]اس شعر میں وسیلہ کا لفظ حاجت وضرورت کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ ابن عباسؓ نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب سے کی ہے۔
+اس نقطۂ نظر سے بہت سی تفاسیر لکھی گئی ہیں، ان میں تفسیر خازن جس کا اصل نام ""لباب التاویل فی معانی التنزیل(2)السراج المنیر فی الاعانۃ علی معرفۃ بعض معانی کلام ربنا الحکیم الخبیر، للخطیبشربینی""قابل ذکر ہیں۔عقل سلیم جس کی اہمیت وضرورت سے کسی کو انکار نہیں، دنیا کے ہر کام میں اس کی اہمیت ہوتی ہے اور پچھلے مآخذ سے فائدہ اٹھانا بغیر عقل سلیم کے معتبر نہیں اس ماخذ کو علاحدہ لکھنے کی ضرورت محض اس لیے پڑتی ہے کہ قرآن کریم کے معارف ومسائل، اسرارورموز یقینا ًایک بحر بیکراں ہیں اور پچھلے مآخذ سے ان کو ایک حد تک سمجھا جا سکتا ہے ؛لیکن کسی نے بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ قرآن کریم کے اسرار ومعارف کی انتہا ہو گئی اور مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی، یہ بات خود قرآن کریم کی صریح آیتوں کے خلاف ہوگی، فرمان خدا وندی ہے:
+""قُلْ لَّوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ، الخ""۔ (الکہف:109)کہہ دو کہ اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر روشنائی بن جائے، تو میرے رب کی باتیں ختم نہیں ہوں گی کہ اس سے پہلے سمندر ختم ہو چکا ہوگا، چاہے اس سمندر کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم ویسا ہی ایک سمندر کیوں نہ لے آئیں۔گویا اس آیت میں وضاحت ہے کہ ساری مخلوق مل کر بھی کلمات الہی کا احاطہ کرنا چاہے تو ممکن نہیں سارا سامان تسوید ختم ہوجائیگا اور لامتناہی کسی طرح بھی متناہیوں کی گرفت میں نہ آسکے گا، متناہی صفات والے لا متنا ہی صفات والی ہستی کو کیونکر اپنی گرفت میں لاسکتے ہیں اور یقیناً قرآن کریم بھی صفات باری میں سے ایک ہے لہذا عقل سلیم کے ذریعہ ان حقائق اور اسرار پر غور و فکر کا دروازہ قیامت تک کھلاہوا رہے گا اور جس شخص کو بھی اللہ تعالی نے علم و عقل اور خشیت و تقوی اور رجوع الی اللہ کی صفات سے مالا مال کیا وہ تدبیرکے ذریعہ نئے نئے حقائق تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؛چنانچہ ہر دور کے مفسرین کی تفسریں اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ اور نبی اکرمﷺ کی دعاجو ابن عباس کے لیے تھی:""اَللّٰھُمَّ عِلْمُہٗ الْکِتَابَ وَفقہُ فِی الدِّیْنِ""۔[30]ترجمہ: اے اللہ ان کو تاویل یعنی تفسیر قرآن اور دین کی سمجھ عطا فرما۔
+یہ دعا بھی اشارہ کرتی ہے کہ اس باب میں راہیں کھلی ہیں البتہ اہل علم نے اس معاملہ میں یہ اصول ضرور بتلایا ہے کہ عقل سلیم کے ذریعہ مستنبط ہونے والے وہی مسائل اور معارف معتبر ہوں گے جو سابق مآخذ سے متصادم نہ ہوں، یعنی ان سے نہ ٹکراتے ہوں، اصول شرعیہ کے خلاف کوئی نکتہ آفرینی کی جائے تو اس کی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی۔
+ہم کو ایمان رکھنا چاہیے کہ کل کائنات خدا کی بنائی ہوئی اور اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، لہذاقرآن کریم کی بعض آیتوں سے اگرکوئی ڈاکٹریا سائنس داں معلومات کو اخذ کرتا ہے اور وہ معلومات مذکورہ اصولوں سے متصادم نہ ہوں توایسی تفسیر بھی قابل اعتبار ہوگی۔""لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَايَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثاً وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَo أَوْيُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَاناً وَإِنَاثاً وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيماً إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ"" (الشوری:49،50)سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ جس کوچاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے یا پھر ان کو ملاکر لڑکے بھی دیتا ہے اورلڑکیاں بھی اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنادیتا ہے، یقیناً وہ علم کا بھی مالک ہے قدرت کا بھی مالک۔
+بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس آیت میں خنثیٰ(ایسا شخص جو نہ مرد ہو نہ عورت) کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؛لیکن ابن العربیؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ ایسا کہنا عقل کے خلاف بات ہے اس لیے کہ اللہ نے آیت کے ابتدا ہی میں فرمادیا""يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ""وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، لہذااس میں خنثیٰ بھی شامل ہے۔[31]موسی جب کوہ طور پر تیس دن کے لیے تشریف لے گئے تھے اور انھیں چالیس یوم تک وہاں رہنا پڑا تھاتو ان کے غائبانہ ان کی قوم نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی تھی اس واقعہ سے متعلق ایک حصہ کو قرآن پاک نے یوں بیان کیا ہے :
+""وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا""۔ (الاعراف:148)موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کے بعد زیورات سے ایک بچھڑا بنالیا۔
+اس آیت کی تفسیر میں علامہ تستری لکھتے ہیں کہ بچھڑے سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی محبت میں گرفتار ہوکر انسان اللہ سے منہ موڑلے ؛مثلاً اہل واولاد اور مال وغیرہ انسان تمام خواہشات کو ختم کر دے جس طرح بچھڑے کے پجاری اس سے اسی حالت میں چھٹکارا پاسکتے ہیں جب وہ اپنی جانوں کو تلف کر دیں۔[32]یہ تفسیر بھی عقل سلیم کی روشنی میں کی جانے والی تفسیر کے قبیل سے ہے اور یہ اصول شرعیہ کے مخالف بھی نہیں ہے۔قرآن پاک نےابراہیم علیہ السلامکا واقعہ ذکر کیا ہے جس میں اللہ تعالی نے ان کو اپنے لخت جگر حضرتاسماعیل علیہ السلامکو ذبح کرنے کا حکم دیا تھا قرآن پاک میں یوں ہے:
+""وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ""۔(الصافات:107)اور اس کے عوض ہم نے ایک بڑا جانور دے دیا۔
+اس کی تفسیر میں علامہ تستری لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ بتقاضائے بشریت اپنے بیٹے سے محبت کرتے تھے اس لیے اللہ تعالی نے آزمائش کے طور پر اس کو ذبح کرنے کا حکم دیا، منشأ خدا وندی دراصل یہ نہ تھا کہ ابراھیمؑ بیٹے کو ذبح کرڈالیں؛ بلکہ مقصود یہ تھا کہ غیر اللہ کی محبت کو دل سے نکال دیا جائے، جب یہ بات پوری ہو گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی عادت سے باز آ گئے تو اسماعیل کے عوض ذبح عظیم عطا ہوئی۔[33]یہ تفسیر بھی اسی قبیل سے ہے اور اصول شرعیہ کے معارض بھی نہیں ہے اس لیے اس کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
+اس عنوان پر تفسیر یں بھی لکھی گئی ہیں، علامہ ابوالسعودکی""ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم"" اور"" تفسیر التستری""قابل ذکر ہیں۔قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں، ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں، جنت ودوزخ کا تذکرہ اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں وغیرہ جس کو ہر عربی داں شخص سمجھ سکتا ہے؛بلکہ مستند ترجمہ کی مدد سے اپنیمادری زبانمیں بھی ان آیات کو سمجھ سکتا ہے، ان آیات کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
+""وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر""۔ٍ (القمر:17)اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے؛ اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟۔
+دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام وقوانین، عقائد اور علمی مضامین پر مشتمل ہیں، اس قسم کی آیتوں کو پوری طرح سمجھنے اوران سے احکام ومسائل مستنبط کرنے کے لیے علم تفسیرکاجانناضروری ہے، صرف عربی زبان کا سمجھنااس کے لیے کافی نہیں ہے، صحابہ کرامؓ اہل عرب ہونے کے باوجودایسی آیتوں کی تفسیر اللہ کے رسولﷺسے معلوم کیا کرتے تھے، اس کی تفصیلی مثالیں اس مقالہ میں آچکی ہیں؛یہاں سمجھنے کے لیے ایک مثال پر اکتفا کیا جا رہا ہے، روزوں سے متعلق جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
+""وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ""۔(البقرۃ:187)اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے میں تمھیں فرق معلوم ہونے لگے۔
+اس آیت کو سننے کے بعدعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ(67ھ) نے سفید اورسیاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے؛ تاکہ جب دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے وہ اپنے روزے کی ابتدا کر لیا کریں؛اسی طرح اور ایک روایت میں سہل بن سعد(951ھ) کہتے ہیں:کچھ لوگ جنھوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں پاؤں سے سفید اورسیاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر سحری کھاتے رہتے؛یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس میں ممتاز نہ ہوجائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سمجھا یا کہ یہاں سفید اورسیاہ دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اورشب کی سیاہی ہے۔[34]الغرض!قرآن کریم کی تفسیر کرنے کے لیے علم تفسیر کا جاننا ضروری ہے، کسی بھی آیت کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے والا غلطی پر ہے، خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا، قرآن کریم کی تفسیرسمجھنے کے لیے مستند تفاسیر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور علما سے استفادہ کرنا چاہیے، اس مضمون کے آخر میں مستنداردو تفاسیر کے نام ذکر کیے گئے ہیں، درج ذیل احادیث میں تفسیر قرآن کی باریکی کا اندازہ ہوتا ہے :""مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْ��َدَهُ مِنْ النَّارِ""۔
+جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
+""مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ""۔
+جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔[35]علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ بعض غلو پسند لوگوں نے اس حدیث سے یہ مطلب سمجھا کہ قرآن کریم کے بارے میں کوئی بات فکر ورائے کی بنیا دپر کہنا جائز نہیں؛ یہاں تک کہ اجتہاد کے ذریعے قرآن کریم سے ایسے معانی بھی مستنبط نہیں کیے جا سکتے جو اصول شرعیہ کے مطابق ہوں؛ لیکن یہ خیال درست نہیں؛ کیونکہ خود قرآن کریم نے تدبر اور استنباط کو جا بجا مستحسن قرار دیا ہے اور اگر فکر وتدبر پر بالکل پابندی لگادی جائے توقرآن وسنت سے شرعی احکام وقونین مستنبط کرنے کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا ؛لہٰذا اس حدیث کا مطلب ہر قسم کی رائے پر پابندی لگانا نہیں ہے۔[36]چنانچہ اس بات پر جمہور علما متفق ہیں کہ خود قرآن وسنت کے دوسرے دلائل کی روشنی میں اس حدیث کا منشا یہ ہر گز نہیں ہے کہ معاملہ میں غور و فکر اور عقل ورائے کو بالکل استعمال نہیں کیا جا سکتا ؛بلکہ اس کا اصل منشا یہ ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کے لیے جو اصول اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ ہیں ان کو نظر انداز کرکے جو تفسیر محض رائے کی بنیاد پر کی جائے وہ ناجائز ہوگی اور اگر اس طرح تفسیر کے معاملہ میں دخل دے کر کوئی شخص اتفاقاً کسی صحیح نتیجہ پر پہنچ جائے تو وہ خطا کار ہے، اب اصول تفسیر کو نظر انداز کرنے کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً:
+1۔ جو شخص تفسیر قرآن کے بارے میں گفتگو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ محض اپنی رائے کے بل بوتے پر تفسیر شروع کر دے۔
+2۔ کسی آیت کی کوئی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ وتابعین سے ثابت ہو اور وہ اسے نظر انداز کرکے محض اپنی عقل سے کوئی معنی بیان کرنے لگے۔
+3۔ جن آیات میں صحابہ کرام وتابعین سے کوئی صر یح تفسیر منقول نہیں ان میں لغت اور زبان و ادب کے اصولوں کو پامال کرکے کوئی تشریح بیان کرے۔
+4۔ قرآن وسنت سے براہ راست احکام وقوانین مستنبط کرنے کے لیے اجتہاد کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور پھر بھی اجتہاد شروع کر دے
+5۔ قرآن کریم کے متشابہ آیات (جن کے بارے میں قرآن نے خود کہے دیا ہے کہ ان کی سو فیصد صحیح مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا) ان کی جزم ووثوق کے ساتھ کوئی تفسیر بیان کرے اور اس پر مصر ہو۔ 6۔ قرآن کریم کی ایسی تفسیر بیان کرے جس سے اسلام کے دوسرے اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ عقائد یا احکام مجروح ہوتے ہوں
+7۔ تفسیر کے معاملہ میں جہاں عقل وفکر کا استعمال جائز ہے وہاں کسی قطعی دلیل کے بغیر اپنی ذاتی رائے کو یقینی طور پر درست اور دوسرے مجتہدین کی آراء کو یقینی طور سے باطل قرار دے۔
+یہ تمام صورتیں اس تفسیر بالرائے کی ہیں جن سے مذکورہ بالا حدیث میں منع کیا گیا ہے؛ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ان تمام صورتوں کو اس مختصر جملے میں سمیٹ دیا گیا ہے :
+من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من لنار
+(ترمذی، باب ماجاء یفسر القرآن، حدیث نمبر:2874)جو شخص قرآن کریم کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
+البتہ تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر میں کسی ایسی رائے کا اظہار کیا جائے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہے؛ البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن وسنت کے وسیع وعمیق علم اور اسلامی علوم میں مہارت کے بغیر ممکن نہیں اور علما نے اس کے لیے بھی کچھ کار آمد اصول مقرر فرمائے ہیں جواصول فقہاور اصول تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کا ایک نہایت مفید خلاصہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ""الب رہان فی علوم القرآن کی نوع 41 میں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان (صفحہ:164۔170)بیان فرمایا ہے، یہ پوری بحث نہایت قابل قدر ہے ؛لیکن چونکہ عربی زبان وعلوم کی مہارت کے بغیر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا، اس لیے اس کا ترجمہ یہاں نقل کرنا بے فائدہ ہے جو عربی داں حضرات چاہیں وہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔سابقہ تمام تفصیل سے یہ ثابت ہواکہ تفسیر قرآن مجید کے لیے کچھ ضروری علوم ہوتے ہیں جن کے بغیر تفسیر کرنا ایسا ہے جیسے بغیر آلات کے صناعی کرنا کہ جیسے کوئی بھی فن بغیر آلاتِ ضروریہ کے نہیں آتا ایسے ہی ہر علم کا بھی یہی مسئلہ ہے؛ چنانچہ مفسرین اوراہل علم نے ضروری علوم کی تفصیل یوں بتلائی ہے:علم لغت، صرف ونحو، معانی، بیان، بدیع، عربی ادب، علم کلام، منطق، حکمت وفلسفہ، علم عقائد، علم تفسیر، پھر اس میں درجات اہل علم کے ہاں مانے گئے ہیں، چنانچہ ابتدائی لغت وصرف نحو ادب یہ عربی زبان سیکھنے اور اس کی باریکیوں کو جاننے کے لیے ہیں؛ کیونکہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا نیز معانی بیان وبدیع وغیرہ اس کی رعنایوں کو سمجھنے ک لیے اورمنطقحکمت وفلسفہ کلام، دوسری زبانوں سے مستعا رعلوم کے ذریعہ جو گمراہیاں آ سکتی ہیں اس کے دفع کے لیے، پھر علم تفسیر کے اندر بھی کئی تفصیلات بتلائی گئی ہے؛ مثلا وحی اوراس کی ضرورت کو سمجھنا پھر وحی کی اقسام مثلاً، وحی قلبی، وحی ملکی، پھر وحی کی مختلف شکلیں جیسے صلصلۃ الجرس اورفرشتے کاانسانی شکل میں آنا، رویائے صادقہ، نفث فی الروع، پھر وحی متلو وغیر متلو، پھر قرآن کریم کے نزول کے متعلق تفصیلات اورسورتوں کی تدوین مکی ومدنی ہونے کے اعتبار سے نیز بعض مدنی سورتوں میں مکی آیتیں اوربعض مکی سورتوں میں مدنی آیتیں کونسی ہیں اس کا استقصاء پھر قرآن کریم سات حروف پر نازل ہونے کا کیا مطلب ہے؛ پھر ناسخ و منسوخ آیتوں کی تفصیلات، سبعہ احرف سے کیا مراد ہے اورحفاظت قرآن اورجمع قرآن کی تفصیلات پھر اس کے اندر دیے ہوئے علامات وقف کی تفصیلات اوراسی میں پاروں کی تقسیم اوراس کے اعراب وحرکات سے متعلق تفصیلات پھر قرآن کریم میں جو مضامین ذکرکئے گئے ہیں، مثلا عقائد، واقعات اورایام اللہ وانعم اللہ، پھر آیات مقطعات و متشابھات ومحکمات وغیرہ کی تفصیلات، بہرحال یہ تو چندضروری علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ان کی تفصیل میں جائیں تو بہت وقت لگ جائے۔جب اہم مفسرین کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے قرن اول یعنی صحابہ و تابعین کا ذکر ضروری ہوتا ہے۔
+لہٰذا سب سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اہم مفسرین کے نام آتے ہیں اور ان میں سے بھی پہلے عبد اللہ بن عباسؓ ہیں جو مفسر اول کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے جو تفسیر فی زمانہ منظر عام پر آئی ہے تنویر المقباس فیتفسیر ابن عباسآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ islamicbookslibrary.wordpress.com(Error: unknown archive URL)حتی کہ اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا؛ لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں مانی گئی ہے ؛کیونکہ یہ کتاب ""محمد بن مروان السّدّی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ""کی سند سے مروی ہے اور اس سلسلہ سند کو محدثین نے سلسلۃ الکذب قرار دیا ہے۔ (دیکھیے الاتقان:188/2)بہرحال قرن اول کے مفسرین میں پہلا نام عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے تاریخ وفات سنہ68ھ۔دوسرا نامعلی بن ابی طالبوفات سنہ40ھ۔
+پہلے تین خلفاء کی نسبت علی سے تفسیری روایات زیادہ مروی ہیں؛ چنانچہ علامہ ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علیؓ نے اپنے خطبے میں یوں فرمایا کہ لوگو! مجھ سے کتاب اللہ کے بارے میں سوالات کیا کرو؛ کیونکہ قسم خدا کی قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں مجھے معلوم نہ ہو کہ یہ آیت رات کو نازل ہوئی یا دن میں میدان میں اتری یا پہاڑ پر۔(الاتقان:187/2)تیسرا نام عبد اللہ بن مسعود متوفی سنہ32ھ۔
+ان کی بھی کئی روایات تفسیر میں منقول ہیں؛ بلکہ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں زیادہ منقول ہیں۔چوتھا نام ابی بن کعب رضی اللہ عنہ متوفی سنہ39ھ۔ابی بن کعباُن صحابہ میں سے ہیں جو تفسیر اور علم قرأت میں مشہور ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا، اَقْرَأُ کُمْ اُبَیْ ابْنُ کَعْبٍ، تم میں سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔
+(تذکرۃ الحفاظللذھبی:38/2)
+ابی بن کعب کی علمی وقعت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ معمر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
+""عَامَّۃُ عِلْمِ ابنِ عَبَّاسٍ مِنْ ثَلٰثَہٍ، عُمَر وَ عَلِی وَ اُبَیْ بنُ کَعبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ""۔(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:38/2)
+عبد اللہ بن عباس کے بیشتر علوم تین حضرات سے ماخوذ ہیں، عمر و علی و ابی بن کعبان حضرات صحابہ کے علاوہ اور بھی کچھ نام تفسیر کے سلسلہ میں منقول ہیں مثلاً زید بن ثابتؓ،معاذ بن جبل، عبد اللہ بن عمرو،عبد اللہ بن عمر، عائشہ، جابر، ابو موسیٰ اشعری، انس اور ابو ھریرہ۔حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے چونکہ مختلف علاقوں اورمقامات میں پھیل کر قرآن کریم کی خدمت کا سلسلہ شروع کیا، جس کی وجہ سے تابعین کی ایک بڑی جماعت اس کام کے لیے تیار ہوئی، جس نے علم تفسیر کو محفوظ رکھنے میں نمایاں خدمات انجام دیں، ان میں سے کچھ برائے تعارف پیش کیے جاتے ہیں:مفسرین نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے کئی نقطۂ نظر سے تفسیریں لکھی ہیں؛ مثلاًادبی، عقلی اور کلامی وغیرہ، بعض نے تفسیر بالماثور بھی لکھی، بعض نے تفسیر اشاری یعنی صوفیانہ انداز پر تفسیرلکھی، غرض مختلف نقاط نظر سے قرآن کی خدمت کی گئی ہے۔تفسیر بالماثور میں اہم تفاسیر تفسیر طبری، تفسیر بحرالعلوم ازسمر قندی، الکشف والبیان عن تفسیر القرآن از ثعالبی، معالم التنزیل ازبغوی، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب لابن عطیہ، تفسیر ابن کثیر، الدر المنثور فی تفسیر الماثور ازسیوطی، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن ازثعالبی- خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔تفسیر بالرائے کے نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں مفاتیح الغیب ازرازی، انوارالتنزیل واسرار التاویل ازبیضاوی، مدارک التنزیل وحقائق التاویل فی معانی التنزیل از خازن، غرائب القرآن ورغائب الفرقان از نیسا پوری، تفسیر جلالین، السراج المنیراز خطیب شربینی، روح المعانی از آلوسی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔صوفیانہ نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی تفاسیر میں تفسیر ابن عربی، تفسیر فیضی، تفسیر القرآن العظیم از تستری، حقائق التفسیر ازسلمی، عرائس البیان فی حقائق القرآن وغیرہ ہیں۔فقہی نقطہ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں احکام القرآن ازکیاہراسی، احکام القرآن ازابن العربی، الجامع لاحکام القرآن از قرطبی، کنزا لعرفان فی فقہ القرآن، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن للتھانوی اور اردو میں ایک مختصر سی کتاب مولانا عبد المالک صاحب کاندھلوی کی فقہ القرآن کے نام سے آئی ہے۔چند اردو تفاسیر:قرآن مجید کے نزول سے قبل دیگر آسمانی کتابیں مثلاًتوراتوانجیلوغیرہ نازل ہو چکی تھی اور نزولِ قرآن کے زمانہ میںاہل کتابکی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو قرآن میں بیان کردہ انبیا کرام کے واقعات کو اپنی کتابوں کے حوالہ سے بھی پیش کرتے تھے اوربعض اوقات من گھڑت حکایات بھی نقل کردیتے ؛لیکن اس سلسلہ میں نبی کریمﷺ نہایت قیمتی اصول بیان فرمائے جو آگے پیش کیے جائیں گے تو آئیے قرآن کریم میں اسرائیلیات کی حیثیت اوران کا مقام و مرتبہ کیا ہے، اس کو فرامین رسول کی روشنی میں اور علمائے امت کی تحریروں کے آئینہ میں ملاحظہ کرتے ہیں:اسرائیلی روایات کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:""{{ }}الاسرائیلیات: الاخبار المنقولۃ عنبنی اسرائیلمن الیھود وھو الاکثر اومن النصاری""۔
+(قسم التفسیر واصولہ:1/47[37])اسرائیلیات وہ باتیں جو بنی اسرائیل یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یا نصاریٰ سے۔شیخ الاسلاممفتیمحمد تقی عثمانیمدظلہ نے رقم فرمایا کہ:""اسرائیلیات یا اسرائیلی روایات ان روایات کو کہتے ہیں جو یہودیوں یا مسیحیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے بعض براہِ راستبائبلیا تالمود سے لی گئی ہیں بعض منشاءاوران کی شروح سے اوربعض وہ زبانی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئی ہیں اور عرب کے یہود ونصاری میں معروف ومشہور تھیں""۔
+(علوم القرآن:345)جب قرآن مجید نازل ہونے لگا اوراس میں حضرات انبیا کرام کے واقعات اوران کی قوموں کے احوال بیان کیے جانے لگے تو اہل کتاب یہود ونصاری اپنیعبرانی زبانمیں موجود کتابوں سے جو تحریف شدہ تھے اس سے واقعات عربی میں حضرات صحابہ کرام ؓسے بیان کرتے تھے جب اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان اہل کتاب کے بیان کردہ واقعات کی نہ تصدیق کرو اورنہ تکذیب ؛بلکہ کہو کہ جو کچھ اللہ تعالی نے نازل کیا ہے ہمارا اس پر ایمان ہے؛چنانچہابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ:
+""كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا""۔
+(بخاری، بَاب:قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا، حدیث نمبر:4125)اہل کتاب تورات عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو اور کہو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں۔
+علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ (المتوفی:853 ھ) حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ نہ تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب یہ اس وجہ سے ہے کہ جن باتوں کی وہ خبر دے رہے ہیں وہ سچ اورجھوٹ دونوں کا احتمال رکھتی ہیں، اگر فی الواقع وہ سچ ہوں اور تم ان کی تکذیب کردویا اگر وہ جھوٹ ہوں اور تم اس کی تصدیق کردو تو دونوں اعتبار سے حرج اور تنگی میں پڑجانے کا اندیشہ ہے اس لیے ان کی بیان کردہ باتوں کو سن کر نہ تصدیق کی جائے نہ تکذیب؛ تاکہ فتنہ میں نہ پڑو۔
+(فتح الباری، حدیث نمبر:4125،شاملہ)دومتعارض حدیثوں کا جواب:
+اسرائیلیات کے عنوان میں دوحدیثیں ہیں ایک جو ابھی اوپر مذکور ہوئی دوسری حدیث ہے کہ:
+""حَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ""۔
+(ابو داؤد، بَاب الْحَدِيثِ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، حدیث نمبر:3177)اس حدیث سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ بنی اسرائیل کے بیان کردہ واقعات وغیرہ کے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ پہلی روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ بنی اسرائیل کے بیان کردہ واقعات پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے چہ جائیکہ ان کو بیان کیا جائے بظاہر دوحدیثوں میں باہم تعارض دکھائی دے رہا ہے، اس کا جواب دیتے ہوئے علامہمحمد حسینالذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو بنی اسرائیل سے بیان کرنے کی اجازت نظر آتی ہے وہ وہ واقعات اور عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات ہیں جن کے بارے میں معلوم بھی ہو کہ وہ سچ ہیں توان کو بیان کیا جا سکتا ہے اورپہلی حدیث میں توقف ہے کہ ان کے بیان کرنے میں احتیاط کی جائے تاکہ سچ اور جھوٹ میں اختلاط نہ ہو جائے اوراس خلط ملط کے نتیجہ میں حرج میں نہ پڑ جائے، خلاصہ یہ ہے کہ دوسری حدیث عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات کی اباحت پردلالت کرتی ہے اورپہلی حدیث ان مضامین کے بارے میں توقف پردلالت کرتی ہے جن میں عبرت ونصیحت سے ہٹ کر دیگر مضامین ہوں؛اس طرح کوئی بھی حدیث متعارض نہیں۔اس سلسلہ میں تقریباً علمائے امت نے ایک ہی جواب دیا، الفاظ وتعبیرات اگر چہ مختلف ہیں؛ لیکن حکم ایک ہی ہے، آگے ہم مختلف علما کرام کی تحریریں پیش کریں گے، سب سے پہلے شیخ الاسلام مفتیمحمد تقیعثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انھوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ:#پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہو چکی ہے مثلا:فرعونکا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔#دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہو چکا ہے، مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ)بت پرستیمیں مبتلا ہو گئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔#تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
+""لا تصدقوھا ولاتکذبوھا""۔
+اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جا سکتی ہے اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔
+(علوم القرآن:364)یہی بات علامہ محمد حسینی ذہبیؒ اور علامہ ابن تیمیہؒ وغیرہ نے بھی کہی ہے۔
+(التفسیر و المفسرون للذھبی، باب ثانیا:الااسرائیلیات:4/14)مسند الہند امام شاہولی اللہمحدث دہلویؒ (المتوفی:1176) نے نہایت اختصار کے ساتھ مگر جامع بات لکھی ہے کہ تفسیر میں اسرائیلی روایتوں کو بیان کرنا دراصل یہ بھی ایک سازش ہے جبکہ یہ قاعدہ مسلم ہے کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ ان کی تکذیب کرو؛ لہٰذا اس قاعدہ کی بنیاد پر دوباتیں نہایت ضروری ہیں:#جب حدیث میں قرآن کریم کے اشارہ کی تفصیل موجود ہو تو اسرائیلی روایات کو تفسیر میں نقل نہیں کرن�� چاہیے۔#قرآن کریم میں جس واقعہ کی طرف اشارہ آیا ہو اس کی تفصیل ضرورت کے بقدر ہی بیان کرنی چاہیے تاکہ قرآن کریم کی گواہی سے اس کی تصدیق ہو کیونکہ یہ بھی قاعدہ ہے کہ ضروری بات بقدر ضرورت مانی جاتی ہے۔
+(الفوزالکبیر مع شرح الخیر الکثیر:453)""وَجَاءُوْ عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ""۔
+(یوسف:18)اوریوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگاکر لے آئے۔#اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہیوسف علیہ السلامکے بھائیوں نے اپنے والد کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے کہ حضرت یوسف کو ایک بھیڑیے نے ہی کھا لیا ہے، ایک بھیڑیے کو باندھ کر حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب کے پاس لے آئے اور کہا کہ: ابا جان! یہی وہ بھیڑیا ہے جو ہماری بکریوں کے ریوڑ میں آتا رہتا ہے اور ان کو چیرتا پھاڑتا ہے، ہمارا خیال ہے کہ اسی نے ہمارے بھائی یوسف کا خون کیا ہے، بحضرت یعقوب نے بھیڑیے سے کہا قریب آؤ، قریب آؤ، وہ قریب آ گیا، اس سے کہا تم نے میرے بیٹے کو مار کر تکلیف پہنچائی اور مسلسل غم میں مبتلا کر دیا ہے، پھر حضرت یعقوب نے اللہ سے دعا کی کہا اللہ! تو اس کو گویائی دے، اللہ نے اس کو بولنا سکھا دیا، بھیڑیے نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنایا ہے، نہ میں نے اس کا گوشت کھایا نہ میں نے اس کی کھال ادھیڑی ہے، نہ میں نے اس کا ایک بال اکھیڑا ہے، قسم خدا کی آپ کے لڑکے سے میرا کوئی سروکار نہیں، میں ایک پردیسی بھیڑیا ہوں میں مصر کے اطراف سے اپنے ایک بھائی کی تلاش میں آیا ہوا ہوں، میں اس کی جستجو میں تھا کہ آپ کے لڑکوں نے میرا شکار کر لیا، ہم لوگوں پر انبیا اور رسولوں کا گوشت حرام کر دیا گیا ہے۔الخ۔
+(تفسیر ثعلبی:4/21)""فَاَلْقٰہَا فَاِذَا ہِىَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی""۔
+(طٰہٰ:20)انھوں نے اسے پھینک دیا، وہ اچانک ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گئی۔ اس آیت کے سلسلہ میں وہب بن منبہ کی ایک روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت موسی نے جب عصا کو زمین پر ڈالا تو دیکھا کہ وہ ایک عظیم الجثہ اژدہا بن گیا، لوگ حیرت و استعجاب اور خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، اژدہا اِدھر اُدھر رینگ رہا ہے، جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو، اژدہا رینگتا ہوا پہاڑ کی چٹانوں کے پاس پہنچ گیا تو بھوکے اونٹ کی طرح بیتابی کے ساتھ پوری چٹان نگل گیا، جب وہ اپنا منہ بڑے سے بڑے تناور درخت کی جڑوں پر لگا دیتا تھا تو اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتا تھا، اس کی دونوں آنکھیں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح تھیں؛ اس کے بال نیزوں کی طرح تھے۔الخ۔
+(تفسیر ابن کثیر:5/279)""أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْك""۔
+(البقرۃ:258)کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار( کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیمؑ سے بحث کرنے لگا؟ اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت میں نمرود کے بارے میں اس طرح لکھا ہوا ہے: ایک مچھر نمرود کی ناک میں گس گیا اور اس کی ناک میں چار سو سال تک بھنبھناتا رہا، اس مچھر کی اذیت کی وجہ سے نمرود انتہائی بے چین رہتا تھا اور مستقل عذاب میں مبتلا تھا اور جب تکلیف کی شدت اور بے چینی بڑھ جاتی تھی تو لوہے کی سلاخ سے یا ہتھوڑے سے اس کے سر کو ٹھونکا جاتا تھا جس سے مچھر کی اذیت کچھ ہلکی پڑتی تھی، اسی عذاب میں نمرود چار سو سال زندہ رہا پھر اسی اذیت کی وجہ سے مر گیا۔
+(تفسیر ابن کثیر:1/313)یہ تینوں روایتیں اسرائیلی خرافات میں سے ہیں، جیسا کے علما امت نے اس کی تصریح کی ہے۔(تفسیروں میں اسرائیلی روایات:444)قرآن کریم جو اللہ تبارک وتعالی کا عظیم ترین اور مقدس ترین کلام ہے اور رسول کریمﷺ کا حیرت انگیز ابدی و دائمی معجزہ ہے، جو ساری انسانیت کے لیے نسخہ ہدایت اوردستور حیات بنا کر نازل کیا گیا، جس سے مردہ دلوں کی مسیحائی ہوئی اورگم گشتہ راہ لوگوں کومنزلِ مقصود کا پتہ ملا، جس کی علمی، ادبی حلاوتوں، روحانی راحتوں اور معانی و مفاہیم کے بے پناہ وسعتوں نے ہر زمانہ کے انسانوں کو متاثر کیا اورقلب و نظر کی دنیا میں انقلاب کا ذریعہ ہے، سب سے بڑا اعجاز اس کلام مبارک کا یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے جو اس دنیا میں ازل سے کسی اورکتاب یا صحیفہ آسمانی کو نصیب نہیں ہوا اور علوم و معارف کے اس گنجینۂ گراں مایہ کی حفاظت اورخدمت کے لیے انسانوں ہی میں سے مختلف علوم کے مختلف افراد کا انتخاب فرمایا؛ چنانچہ الفاظ قرآنی کے لیے حفاظِ کرام کوسعادت حفظِ قرآن بخشی اور مرادِ ربانی منشائے نبوی کی صحیح تعیین و تشریح کے لیے حضرات مفسرین کو منتخب کیا؛ چنانچہ مفسرین کرام نے اپنی خداداد ذہانت اور تمام تر صلاحیت کو اس کلام الہٰی کی غواصی میں لگادیا؛ لیکن آج کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ تمام تر موتیوں اورعلم وحکمت کے جواہر پاروں کو اکٹھا کیا جاس کا، یہ کلام ایک بحر بیکراں ہے جس کی مختلف زبانوں میں علمائے امت نے اپنی صبح و شام کی محنتوں کا محور بنایا۔ آج انہی علما کرام اور مفسرین عظام کی کوششوں اور کاوشوں کا ثمرہ ہے کہ مختلف زبانوں میں قرآن کی تفسیر موجود ہے، ذیل میں ہم صرف تفسیر قرآن کی مختلف کتابوں کے نام مع اسمائے مصنفین و سنہ وفات پیش ہیں، جو شروع سے لے کر آج تک امت میں مقبول و متداول ہیں اور لاتعداد انسان ان کتابوں سے استفادہ کر رہے ہیں، پہلے عربی تفاسیر کے نام بعد ازاں اردو کتب تفاسیر رقم کی جا رہی ہیں۔عہد صحابہ اوراس کے بعد کے ادوار میں بھی تفسیر قرآن کے ماخذ کے طور پر یہودونصاریٰ رہے ہیں؛ کیونکہ قرآن کریم بعض مسائل میں عموماً اورقصص انبیا اور اقوام سابقہ کے کوائف واحوال میں خصوصاً تورات کے ساتھ ہم آہنگ ہے، اسی طرح قرآن کریم کے بعض بیانات انجیل سے بھی ملتے ہیں؛ مثلاً حضرتعیسیٰ علیہ السلامکی ولادت کا واقعہ اوران کے معجزات وغیرہ۔
+البتہ قرآن کریم نے جو طرز و منہاج اختیار کیا ہے وہ تورات وانجیل کے اسلوب بیان سے بڑی حد تک مختلف ہے، قرآن کریم کسی واقعہ کی جزئیات وتفصیلات بیان نہیں کرتا، بلکہ واقعہ کے صرف اسی جز پر اکتفاء کرتا ہے جو عبرت وموعظت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہوتا ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ تفصیلی واقعہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام اوربعد کے ادوار میں تابعین اورتبع تابعینحضرات اہل کتاب کے ان اہل علم سے جو حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے قرآن میں ذکر کردہ واقعات کی تفصیل کے واسطے رجوع کیا کرتے تھے، اسرائیلی روایات کا مدار وانحصار زیادہ تر حسب ذیل چار راویوں پر ہے:
+عبد اللہ بن سلامؓ، کعب احبار، وھب بن منبہ، عبد الملک بن عبد العزیزابن جریج، جہاں تک عبد اللہ بن سلام کی بات ہے تو آپ کے علم و فضل میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور ثقاہت و عدالت میں آپ اہل علم صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، آپ ؓ کے بارے میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں،امام بخاریؒ اورامام مسلمؒ اوردیگر محدثین نے آپ کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔
+کعب احبار بھی ثقہ راویوں میں سے ہیں، ا نہوں نےزمانہ جاہلیتکا زمانہ پایا اورخلافت صدیقی یا فاروقی میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ خلافت فاروقی میں آپ کے اسلام لانے کی بات مشہور تر ہے۔[38]آپ کے ثقہ اورعادل ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ اپنی جلالت قدر اورعلمی عظمت کے باوجود آپ سے استفادہ کرتے تھے، امام مسلمؒ نےصحیح مسلممیں کتاب الایمان کے آخر میں کعب سے متعدد روایات نقل کی ہیں، اسی طرح ابوداؤد، ترمذی اورنسائی نے بھی آپ سے روایت کی ہیں؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کعب احبار ان سب محدثین کے نزدیک ثقہ راوی ہیں۔اسی طرح وھب بن منبہ کی جمہور محدثین اورخصوصاً امام بخاری ؒ نے توثیق و تعدیل کی ہے، ان کے زہد وتقوی کے بارے میں بڑے بلند کلمات ذکر کیے ہیں، فی نفسہ یہ بڑے مضبوط راوی ہیں ؛البتہ بہت سے لوگوں نے ان کی علمی شہرت وعظمت سے غلط فائدہ اٹھایا کہ بہت سی غلط باتوں کو ان کی طرف منسوب کرکے اپنے قد کو اونچا کیا اورلوگوں نے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ابن جریج اصلاً رومی تھے، مکہ کے محدثین میں سے تھے، عہد تابعین میں اسرائیلی روایات کے مرکز ومحور تھے، تفسیر طبری میں نصاری سے متعلق آیات کی تفسیر کا مدار انہی پر ہے، ان کے بارے میں علما کے خیالات مختلف ہیں، بعض نے توثیق کی ہے تو بعض نے تضعیف بھی کی ہے، بکثرت علما آپ کو مدلس قرار دیتے ہیں اورآپ کی مرویات پر اعتماد نہیں کرتے، مگر بایں ہمہ امام احمد بن حنبلؒ ان کوعلم کا خزانہ قرار دیتے ہیں؛ بہرحال ابن جریج سے منقول تفسیری روایات کو حزم واحتیاط کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔کوئی ایسی کتاب جس میں خاص اسرائیلی(اہل کتاب کی) روایات کے جمع کرنے پر توجہ دی گئی ہوایسی توکوئی تفسیر نہیں ہے؛ البتہ آیات کی تفسیر میں عموماً کتب تفاسیر میں اسرائیلی روایات بھی ذکر کی گئی ہیں، جس کا علم راوی کو دیکھ کر یا پھر ان کی بیان کردہ باتوں کو اصول شرعیہ کی روشنی میں پرکھ کر معلوم کیا جا سکتا ہے، مولانا اسیر ادروی صاحب کی ایک کتاب اردو میں"" تفسیروں میں اسرائیلی روایات"" کے نام سے آچکی ہے، جس کے مقدمہ میں اسرائیلی روایات سے متعلق عمدہ بحث اکٹھا کردی ہے اورپھر جو اسرائیلی روایات ان کو معلوم ہوسکیں ان پر الگ الگ کلام کیا ہے اورمعتبر تفاسیر سے ان کا اسرائیلی روایات کے قبیل سے ہونا بھی ظاہر کیاہے، تفصیل کے لیے اسی کتاب کی طرف رجوع کیا جائے۔
+یہاں پر چند عربی اور اردو تفاسیرکے نام لکھے جا رہے ہیں اور اردومیں صرف مستند تفاسیر کے نام لکھے گئے ہیں۔""نسخ"" کے لغوی معنی ہیں مٹانا، ازالہ کرنا، اوراصطلاح میں اس کی تعریف یہ ہے :
+رَفْعُ الْحُکْمِ الشَّرَعِیِّ بِدَلِیْلٍ شَرَعِیٍّ(مناہل العرفان:ماھو النسخ2/176)""کسی حکم شرعی کو کسی شرعی دلیل سے ختم کردینا""
+مطلب یہ ہے کہ بعض مرتبہ اللہ تعالی کسی زمانے کے حالات کے مناسب ایک شرعی حکم نافذ فرماتا ہے پھر کسی دوسرے زمانے میں اپنی حکمت بالغہ کے پیش نظر اس حکم کو ختم کرکے اس جگہ کوئی نیا حکم عطا فرمادیتا ہے اس عمل کو نسخ کہا جاتا ہے اور اس طرح جو پرانا حکم ختم کیا جاتا ہے اس کومنسوخ اور جو نیا حکم آتا ہے اسے ناسخ کہتے ہیں۔ نسخ کا مطلب رائے کی تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ ہر زمانے میں اس دور کے مناسب احکام دینا ہوتا ہے، ناسخ کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ منسوخ کو غلط قرار دے؛بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے حکم کی مدت نفاذ متعین کر دے اور یہ بتادے کہ پہلا حکم جتنے زمانے تک نافذ رہا اس زمانے کے لحاظ تووہی مناسب تھا لیکن اب حالات کی تبدیلی کی بنا پر ایک نئے حکم کی ضرورت ہے، جو شخص بھی سلامتِ فکر کے ساتھ غور کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تبدیلی حکمت الہٰیہ کے عین مطابق ہے، حکیم وہ نہیں جو ہر قسم کے حالات میں ایک ہی نسخہ پلاتا رہے بلکہ حکیم وہ ہے جو مریض اور مرض کے بدلتے ہوئے حالات پر بالغ نظری کے ساتھ غور کرکے نسخہ میں ان کے مطابق تبدیلیاں کرتا رہے۔متقدمین کی اصطلاح میں نسخ کا مفہوم بہت وسیع تھا، اسی لیے انھوں نے منسوخ آیات کی تعداد بہت زیادہ بتائی ہے لیکن علامہجلال الدین سیوطیرحمہ اللہ نے متأخرین کی اصطلاح کے مطابق لکھا ہے کہ پورے قرآن میں کل انیس آیتیں منسوخ ہیں۔
+(الاتقان، علامہ سیوطی:2،22)پھر آخری دور میںشاہ ولی اللہصاحب محدث دہلویؒ نے ان انیس آیتوں پر مفصل تبصرہ کرکے صرف پانچ آیتوں میں نسخ تسلیم کیا ہے اور باقی آیات میں ان تفسیروں کو ترجیح دی ہے جن کے مطابق انھیں منسوخ ماننا نہیں پڑتا ان میں سے اکثر آیتوں کے بارے میں شاہ صاحب کی توجیہات نہایت معقول اور قابل قبول ہیں لیکن بعض توجیہات سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، جن پانچ آیات کو انھوں نے منسوخ تسلیم کیا ہے وہ یہ ہیں :#کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْن۔
+(البقرۃ: 180)جب تم میں سے کسی کے سامنے موت حاضر ہو جائے اگر وہ مال چھوڑ رہا ہو تو اس پر والدین اور اقرباء کے لیے وصیت بالمعروف کرنا فرض قرار دیدیا گیا ہے، یہ حکم متقیوں پر لازم ہے۔ یہ آیت اس زمانے میں لازم تھی جب میراث کے احکام نہیں آئے تھے اور اس میں ہر شخص کے ذمے یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے ترکہ کے بارے میں وصیت کرکے جائے کہ اس کے والدین یا دوسرے رشتہ دار کو کتنا کتنا مال تقسیم کیا جائے؟بعد میں آیات میراث یعنی یوصیکم اللہ فی اولادکم، الخ (النساء:11) نے اس کو منسوخ کر دیا اور اللہ تعالی نے تمام رشتہ داروں میں ترکے کی تقسیم کا ایک ضابطہ خود متعین کر دیا اب کسی شخص پر مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض نہیں رہا۔
+سورہ ٔ انفال میں ارشاد ہے :
+إِنْ یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُونَ۔
+(الأنفال:65)اگر تم میں سے بیس آدمی استقامت رکھنے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے کیونکہ یہ کافر ایسے لوگ ہیں جو صحیح سمجھ نہیں رکھتے۔یہ آیت اگرچہ بظاہر ایک خبر ہے لیکن معنی کے لحاظ سے ایک حکم ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنے سے دس گنازائددشمن کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں یہ حکم اگلی آیت کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا :
+اَلآنَ خَفَّفَ اللّہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْْنِ بِإِذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔
+(الأنفال:66)اب اللہ نے تمھارے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اللہ کو علمٹ ہے کہ (اب)تم میں کچھ کمزوری ہے پس اب اگر تم میں سے ایک ہزار افراد استقامت رکھنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب ہوں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے سا��ھ ہے۔ اس آیت نہ پہلی آیت کے حکم میں تبدیلی پیدا کردی اور دس گنے دشمن کی بجائے دوگنے کی حد مقرر کردی کہ اس حد تک راہ فرار اختیار کرنا جائز نہیں۔ تیسری آیت جسے شاہ صاحب نے منسوخ قرار دیا ہے سورۂ احزاب کی یہ آیت ہے :
+لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُہُن۔
+(الاحزاب:52)(اے نبی )آپ کے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہحلالہے کہ ان(موجودہ ازواج) کو بدل کر دوسری عورتوں سے نکاح کریں خواہ ان کا آپ کا حسن پسند آئے۔اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید نکاح کرنے سے منع فرمادیا گیا تھا بعد میں یہ حکم منسوخ کر دیا گیا اور اس کی ناسخ آیت وہ ہے جو قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں مذکور بالا آیت سے پہلے مذکور ہے یعنی:
+""یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْتَ أُجُورَہُنَّ""۔
+(الاحزاب:50)(اے نبی) ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ ازواج حلال کردی ہیں جنھیں آپ نے ان کا مہر دے دیا ہو۔شاہ صاحب وغیرہ کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ سابقہ ممانعت منسوخ ہو گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں نسخ یقینی نہیں ہے’ بلکہ اس کی وہ تفسیر بھی بڑی حد تک بے تکلف اور سادہ ہے جو حافظ ابن جریر نے اختیار کی ہے یعنی یہ کہ یہ دونوں آیتیں اپنی موجودہ ترتیب کے مطابق ہی نازل ہوئی ہیں:
+یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ۔
+(الاحزاب:50)والی آیت میں اللہ تعالی نے کچھ مخصوص عورتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ نکاح آپ کے لیے حلال ہے پھر اگلی آیت لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْد(احزاب:) میں ارشاد فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ دوسری عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں۔
+(تفسیر ابن جریر)یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیْْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً ذَلِکَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَأَطْہَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔
+(المجادلہ: 12)اے ایمان والو جب تم کو رسول سے سرگوشی کرنی ہو تو سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ کر دیا کرو یہ تمھارے لیے باعث خیر وہ طہارت ہے پھر اگر تمھارے پاس (صدقہ کرنے کے لیے) کچھ نہ ہوتو اللہ تعالی بخشنے والا اور مہربان ہے، یہ آیت اگلی آیت سے منسوخ ہو گئی۔أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللہُ عَلَیْْکُمْ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَأَطِیْعُوا اللہ وَرَسُولَہُ۔
+(المجادلہ:13)کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقات پیش کرو پس جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تمھاری توبہ قبول کرلی (اب)نماز قائم رکھو اور زکوۃ ادا کرتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو""اس طرح سرگوشی سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم منسوخ قرار دیا گیا۔ پانچویں آیت سورۂ مزمل کی مندرجہ ذیل آیات ہے :# یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ#قُمِ اللَّیْْلَ إِلَّا قَلِیْلاً#نِصْفَہُ أَوِ انقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً
+اے مزمل(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں)رات کو (تہجد میں) کھڑے رہی ے مگر تھوڑا سا حصہ آدھی رات یا اس میں سے بھی کچھ کم کردیجیے""اس آیت میں رات کے کم از کم آدھے حصہ میںتہجدکی نماز کا حکم دیا گیا تھا، بعد میں اگلی آیتوں نے اس میں آسانی پیدا کرکے سابقہ حکم منسوخ کر دیا وہ آیتیں یہ ہیں:عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوہ�� فَتَابَ عَلَیْْکُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ :الخ
+(المزمل: 20)""اللہ کو معلوم ہے کہ تم (آئند)ہے اس حکم کی پابندی نہیں کرسکوگے اس لیے اللہ نے تمھیں معاف کر دیا پس تم( اب) قرآن کا اتنا حصہ پڑھ لیا کرو جو تمھارے لیے آسا ن ہو۔
+شاہ صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ تہجد کا حکم واجب تو پہلے بھی نہیں تھا؛ لیکن پہلے اس میں زیادہ تاکید بھی اور اس وقت بھی زیادہ وسیع تھا بعد میں تاکید بھی کم ہو گئی اور وقت کی اتنی پابندی بھی نہ رہی۔یہ ہیں وہ پانچ آیتیں جن میں شاہ صاحب کے قول کے مطابق نسخ ہوا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ پانچ مثالیں صرف اسصورت کی ہیں جس میں ناسخ اور منسوخ دونوں قرآن کریم کے اندر موجود ہیں اس کے علاوہ ایسی مثالیں قرآن کریم میں باتفاق بہت سی ہیں جن میں ناسخ تو قرآن کریم میں موجود ہے لیکن منسوخ موجود نہیں ہے مثلاًتحویل قبلہکی آیات وغیرہ۔
+(علوم القرآن:172)لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+408,سیرت النبی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%DB%8C%D8%B1%D8%AA_%D8%A7%D9%84%D9%86%D8%A8%DB%8C,رجوعِ مکرر از:
+410,قواعد,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D9%88%D8%A7%D8%B9%D8%AF,قواعدعربی زبان کے لفظقاعدہسے نکلا ہے جس کا مطلب ’’ترتیب و نظام دینا‘‘ ہے۔ قواعد یا گرامر، کسی بھی زبان کو بولنے کے انداز و چالگفتگوکو ادا کرنے کا طریقہ ہوتا ہے۔ قواعد ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایک زبان کو کس طرح بولا جائے یعنی کس طرح اور کہاں کہاں کون کونسے الفاظوں کا استعمال کیا جائے۔لسانیاتمیں، قواعد کسی بھی قدرتی زبان کے ڈھانچہ جاتی قوانین ہیں جو الفاظ، فقرے اور جملے کی تشکیل کنٹرول کرتے ہیں۔ اساصطلاحسے اس کا مطالعہ بھی مراد لی جاتی ہے۔ اور اس میںصَرف،نحو، صوتیات، معنویات وغیرہ شامل ہیں ۔مختصر یہ کہ ان قاعدوں اور اصولوں کا مجموعہ جو ہمیں ایک زبان کی مرتبت بتاتی ہے۔
+411,ارکان اسلام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D9%86_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85,بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاماسلام کے ارکانانھیں ارکان الدین بھی کہا جاتا ہے۔ دین اسلام میں یہ ارکان بنیادی اصول ہیں۔ انھیں فرائض بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ذکر حدیث جبریل میں واضح طور پر کیا گیا ہے۔[1][2][3][4]شہادہ، یعنی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں۔[5]اس بات کی گواہی دینا اور زندگی میں اپنانا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے۔ یہ کلمہ یوں ہے لَا إِلٰهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله، کلمہ شہادہ یا کلمئہ توحید بھی کہتے ہیں۔ اگر کوئی اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اس کو بھی اس کلمئہ توحید کا اقرار کرنا پڑے گا۔[6]صلواۃ عربی اصطلاح ہے، نماز فارسی اور اردو صورت۔ دین اسلام میں نماز دوسرا رکن ہے۔ نماز عبادت کی صورت ہے۔ نماز روزانہ پانچ وقت کی فرض ہیںزکوٰۃ، اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ اس کا اہم اصول اللہ کی عطا کی نعمتوں کو خالص کرنا ہے۔ اس کی ادائگی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس کا اہم مقصد غیر مساوات کو ختم کرنا معاشی مساوات کو برقرار رکھنا۔[7][8]زکوٰۃ کے پانچ اصول مانے جاتے ہیں :صوم یا روزہ تیسرا رکن ہے۔ جس کی تاکید قرآن میں واضح طور پر ملتی ہے۔ روزے تین قسم کے ہیں۔ پہلا ماہ رمضان کے ۔[10]دوسری قسم کے معافی مانگنے کے۔ ان دونوں کا ذکر سورۃ البقریٰ میں ہے۔[11]تیسری قسم کا روزہ تقویٰ کا، جس کا ذکر الاہذب میں ہے۔[12][13]حج، پانچواں رکن ہے۔ ہر وہ مسلمان، جو قابل ہو اُس پر فرض کیا گیا رکن ہے۔اسلامی تقویمکے آخری مہیناذوالحجہمیں ادا کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس حج کی ادائگی کے لیے مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔[14]مسلکاہل تشیعارکان اسلام کو فروع دین کہتے ہیں یعنی فروع دین اسلام کے عملی احکام کو کہا جاتا ہے جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کا شرعی وظیفہ ہے۔ شیعہ نطقہ نگاہ سے فروع دین دس ہیں: نماز، روزہ، خمس، زکوۃ، حج، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تَوَلّی اورتبرا۔[15]
+412,مصر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B5%D8%B1,"عرب جمہوریہ مصریامصر،جمهوريةمصرالعربية(قبطی زبان:Ⲭⲏⲙⲓ Khēmi)، بر اعظمافریقاکے شمال مغرب اور بر اعظمایشیاکےسنائیجزیرہ نما میں واقع ایک ملک ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلومیٹر ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو شمال مشرق میںغزہ پٹیاوراسرائیل، مشرق میںخلیج عقبہاوربحیرہ احمر، جنوب میںسوڈان، مغرب میںلیبیااور شمال میںبحیرہ رومہیں۔ خلیج عقبہ کے اس طرفاردن، بحر احمر کے اس طرفسعودی عرباور بحیرہ روم کے دوسری جانبیونان،ترکیاورقبرصہیں حالانکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مصر کی زمینی سرحد نہیں ملتی ہے۔کسی بھی ملک کے مقابلے میں مصر کی تاریخ سب سے پرانی اور طویل ہے اور اس کی تاریخی ابتدا 6 تا 4 ملنیا قبل مسیح مانی جاتی ہے۔ مصر کوگہوارہ ثقافتبھی مانا جاتا ہے۔قدیم مصرمیں کتب، زراعت، شہرکاری، تنظیم اور مرکزی حکومت کے آثار ملتے ہیں۔[5]مصر میں دنیا کے قدیم ترین یادگار عمارتیں موجود ہیں جو مصر کی قدیم وراثت، تہذیب، فن اور ثقافت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میںاہرامات جیزہ،ابوالہول،ممفس، مصر،طیبہاوروادی ملوکشامل ہیں۔ ان مقامات پر اکثر سائنداں اور محققین تحقیق میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور مصر کی قدیم روایات اور تاریخی حقائق سے آشکارا کرتے ہیں۔ مصر کی قدیم تہذیب ہی وہاں کی قومی علامت ہے جسے بعد میںیونانی قوم،فارس،قدیم روم،عرب قوم، ترکی عثمانی اور دیگر اقوام نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم مصرمسیحیتکا ایک بڑا مرکز تھا لیکن 7ویں صدی میںمسلمانوںنے یہاں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور مصر مکمل طور سے مسلم اکثریت ملک بن گیا مگر عیسائی بھی وہاں موجود رہے گوکہ اقلیت میں تھے۔سولہویں صدی تا بیسویں صدی کے آغاز تک مصر پر بیرونی طاقتوں نے حکومت کی۔ شروع میںسلطنت عثمانیہاور بعد میںسلطنت برطانیہنے مصر کو اپنی حکومت ��ا حصہ بنایا۔ جدید مصر کا آغاز 1922ء سے ہوا جب مصر کو برطانیہ سے آزادی ملی مگر آزادی کے بعد وہاں بادشاہت قائم ہو گئی۔ البتہ اب بھی وہاں برطانوی فوج کا غلبہ تھا اور کئی مصریوں کا کہنا ہے کہ بادشاہت دراصل برطانیہ کی ایک چال تھی تاکہ مصر ان کی کالونی کا حصہ بنا رہے۔مصری انقلاب، 1952ءمیں مصریوں نے برطانوی فوج اور افسروں کو اپنے ملک سے بھگادیا اور اس طرح مصر سے برطانیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ برطانوینہر سوئزکا قومیا لیا گیا اورشاہ فاروق اولکو مع اہل خانہ ملک بدر کر دیا گیا۔ اس طرح مصر ایکجمہوریملک بن گیا۔ 1958ء میںجمہوریہ سوریہکے ساتھ مل کرمتحدہ عرب جمہوریہکی بنیاد ڈالی گئی مگر 1961ء میں اسے تحلیل کرنا پرا۔بیسویں صدیکے نصف آخر میں مصر میں سماجی اور مذہبی اتار چڑھاو دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو گئی اور اسی دوران میں1948ءمیںاسرائیل کے ساتھ تنازع، 1956ء میںسوئز بحران، 1967ء میں چھروزہ جنگاور 1973ء میںجنگ یوم کپورجیسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ مصر نے 1967ء تکغزہ پٹیپر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1978ء میں مصر نےکیمپ ڈیوڈ معاہدہپر دستخط کیے اور غزہ پٹی سے اپنا قبضہ واپس لے لیا اور ساتھ ہی ساتھاسرائیلکو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ملک میں بدستور سیاسی ہنگامہ جاری رہا اور بے امنی کا دور دورہ رہا۔ 2011ء میں پھر ایک انقلاب برپا ہوا اور مصر کی سیاست میں زبردست تبدیلی آئی۔ اسی دوران مصر دہشت گردی کی زد میں رہا اور معاشی مسائل سے بھی دوچار رہا۔ مصر کی موجودہ حکومتبین صدارتی جمہوریہہے اور مصر کے موجودہ صدرعبدالفتاح السیسیہیں۔ سیاست میں انھیں آمر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔مصر کاسرکاری مذہباسلامہے اورسرکاری زبانعربیہے۔[6]مصر کی کل آبادی تقریباً 95 ملین ہے اور اس طرح یہشمالی افریقا،مشرق وسطیاورعرب دنیاکا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔نائیجیریااورایتھوپیاکے بعد بر اعظمافریقاکا تیسرا بڑا آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر میں بلحاظ آبادی اس کا نمبر 15واں ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادیدریائے نیلکے کنارے پر بسی ہوئی ہے۔ ملک یا زیادہ تر زمینی حصہصحرائے اعظمپر مشتمل ہے جو تقریباً ناقابل آباد ہے۔ کثیر آبادی والے علاقوں میںقاہرہ،اسکندریہاور دریائے نیل کے جزیرے ہیں۔مصر کیخود مختار ریاستشمالی افریقا، مشرق وسطی اورعالم اسلاممیں ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مصر ایک اوسط درجہ کی طاقتور حکومت ہے۔[7]مصر کی معیشتمشرق وسطی کی بڑی معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے اور اکیسویں صدی میں اس کےدنیا کی بڑی معیشتوںمیں شمار ہونے کا امکان ہے۔ 2016ء میںجنوبی افریقاکو پیچھے چھوڑتے ہوئے مصرنائیجیریاکے بعد افریقا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا۔[8][9]مصر مندرجہ ذیل تنظیموں کا بانی/شرک بانی اور رکن ہے؛مصر (بکسر المیم)Miṣr"" (عربی تلفظ:[mesˤɾ]; ""مِصر"") is theکلاسیکی عربیخالصکلاسیکی عربیکا لفظ ہے اورقرآنمیں بھی اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ اس کا یہی نام زماہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ البتہمصری عربیمیںMaṣr"" (مصری عربی تلفظ:[mɑsˤɾ];مَصر) (بفتح المیم) کہتے ہیں۔[10]قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَ��ْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین��رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+413,جامعہ الازہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D8%A7%D9%85%D8%B9%DB%81_%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B2%DB%81%D8%B1,"جامعہ الازہر(/ˈɑːzhɑːr/AHZ-har;عربی:جامعة الأزهر (الشريف)،بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ:[ˈɡæmʕet elˈʔɑzhɑɾ eʃʃæˈɾiːf]، ""(معزز) جامعہ الازہر"")قاہرہ،مصرمیں ایکعوامی یونیورسٹیہے۔قاہرہ المعزمیںالازہر مسجدکے ساتھ وابستہ یہ مصر کی سب سے قدیم ترین سند دینے والی یونیورسٹی ہے اوراسلامیاتسیکھنے کے لیے سب سے مشہور یونیورسٹی کے طور پر مشہور ہے۔[2][3]اعلی تعلیم کے علاوہ الازہر تقریباً 20 لاکھ طلبہ والے اسکولوں کے قومی نیٹ ورک کی نگرانی کرتا ہے۔[4]1996ء تک مصر میں 4،000 سے زیادہ تدریسی ادارے اس یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔[5]دولت فاطمیہکے ذریعہ 970ء یا 972ء میں اسلامی تعلیم کے ایک مرکز کی حیثیت سے قائم کیا گیا۔ یہاںقرآنوشریعتکے ساتھ ساتھمنطق،نحو و صرف،بلاغتاور اسلامیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ آج یہ دنیا بھر میںعربی ادباوراسلامیاتکا مرکزی ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔[6]1961ء میں اس کے نصاب میں اضافی غیر مذہبی مضامین شامل کردیے گئے۔[7]اس کی لائبریری کو صرفدار الكتب والوثائق القوميةکے لیے مصر میں اہم سمجھا جاتا ہے۔[حوالہ درکار]الازہر مطبوعات کے تحفظ اور ان کی آن لائن (""الازہر آن لائن پراجیکٹ"") کو شائع کرنے کے لیے تاکہ آخرکار لائبریری کے پورے نایاب مخطوطات کے مجموعہ تک آن لائن رسائی شائع کی جاسکے ، جس میں تقریباً سات لاکھ صفحات پر مشتمل مواد شامل ہے، مئی 2005ء میں الازہر نے دبئی کے انفارمیشن ٹکنالوجی انٹرپرائز ، آئی ٹی ایجوکیشن پروجیکٹ (ITEP) کی شراکت میںمحمد بن راشد آل مکتومپراجیکٹکا آغاز کیا۔[8][9]فاطمی حکومت کے چوتھے خلیفہ’’المعز الدین اللہ‘‘شمالی افریقہسےبحر اوقیانوستک کیریاستکودولت فاطمیہکے تحت لانے کے بعدمصرکی طرف متوجہ ہوئے، چنانچہ انھوں نے مصر کو اپنی حکومت کے تحت لانے کے لیے ’’جوہر صقلی‘‘ کو ایک ہزار فوج کا رئیس بناکر اس کی طرف روانہ کر دیا، اس کے ہاتھوں فاطمی حکومت کو 17؍شعبان358ھمطابق 969ء میں مصر پر فتح حاصل ہوئی، مصر کی نئی راجدھانی کے لیے ’’جوہر صقلی‘‘ ہی نے ایک مسجد قائم کی اور اس کا نام ’’جامع القاہرۃ‘‘ رکھا، کچھ صدی کے بعد یہ مسجد ’’جامع القاہرۃ‘‘ کی بجائے ’’الجامع الازہر‘‘ کے نام سے مشہور و معروف ہوئی،اس مسجد کی بنیاد24 جمادی الاولی359ھمطابقاپریل970ءمیں رکھی گئی اور7 رمضان361ھمطابق23 جون972ءمیں پایہ تکمیل کو پہنچی،فاطمی حکومت کے دور 969ء سے 1170ء تک تشیع افکار و تعلیمات غالب رہیں، مگر جب 1171ء میں مصر کی باگ و دوڑ سلطانصلاح الدین ایوبیکے ہاتھ میں آئی، تواہل سنتو جماعت کے افکار و عقائد غالب ہوئے۔یہ مسجد اپنی گونا گوں دینی و ملی خدمات کی بدولت جامعہ کی شکل اختیار کر گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ جامعہ ’’جامعہ ازہر شریف‘‘ کے نام سے پوری دنیا میں مشہور و معروف ہو گیا، آج یہ جامعہعالم اسلامکی وہ عظیم درس گاہ ہے جس میں دینی اور دنیوی تمام علوم کی تعلیم دی جاتی ہے، دینی تعلیم کے لیے جامعہ ازہر شریف کو عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کا مرجع مانا جاتا ہے۔ اس وقت ازہر کے طلبہ کی ٹوٹل تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہے[حوالہ درکار]جس میں تقریباً 50 ہزار غیر ملکی طلبہ ہیں۔ جن کا تعلق 100 سے زائد ممالک سے ہے ،ان طلبہ کیتعلیم و تربیتکے لیے 6 ہزار سے زائد فقط مصر میں ازہر کے معاہد(انسٹیٹیوٹس) اور اسکولز عالم وجود میں آئے۔جامعہ ازہر میں تعلیم سے متعلق تمام شعبہ جات کی تعداد تقریباً 70 ہیں۔ یہاں پر عصر حاضر کی عالمی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے جتنے شعبے ہیں وہ سب جامعہ ازہر میں بوجہ اکمل موجود ہیں ، یعنی میڈیکل، انجنیرنگ، ںسائنس اور دینی تمام قسم کے شعبے اور تخصصات مثلا تفسیر اور علوم قرآن ،حدیث اور علوم حدیث،، فقہ اور اصولفقہ،کلام اور عقیدہ، دعوہ ، اسلامی معاشیات ،بینکاری،تجارت،عربی زبان و ادب ،تصوف،تربیت،سیرت، قراءت و تجوید، افتاء ، فکر جدید اور مطالعہ غرب ،استشراق و تبشیر ،تقابل ادیان اور اسلامی ثقافت و حضارت وغیرہ سب کے سب تخصصات بحمد اللہ تعالی جامعہ ازہر میں موجود ہیں۔
+مصری طلبہ کے لیے حضانہ یعنی نرسری 2 سال، پرائمری 6 سال اور ثانویہ یعنی ہائی اسکول 3 سال، اس کے بعد کلیہ یعنی بی اے 4 سال (بی اے کچھ کلیات میں 5 سال کا بھی ہے) پھر ماجستر یعنی ایم اے 4 سال جس کے اخیر کے 2 سال میں 400 ؍500 صفحہ کا رسالہ لکھوایا جاتا ہے، اس کے بعد پی ایچ ڈی کم از کم 3 سال کی ہوتی ہے اس میں بھی کسی موضوع پر رسالہ لکھوایا جاتا ہے ۔غیر ملکی طلبہ کے لیے نرسری اور پرائمری تو نہیں ہے، البتہ ان کے لیے ایک اضافی شعبہ ’’ معھد الدراسات الخاصۃ للغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بہا‘‘ اور’’ مرکز تعلیم اللغۃ العربیۃ للوافدین‘‘ ہے، جس میں غیر ملکی طلبہ(جو مصر میں بغیر کسی معادلہ کے تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں) شروع میںعربی زبانسیکھنے کے لیے داخل ہوتے ہیں، باقی ان کے دوسرے مراحل بھی مصری طلبہ ہی کی طرح ہوتے ہیں ، ہاں ایک بات اوران سے مختلف ہوتی ہے وہ یہ کہ وافدین کو کلیہ کے مرحلہ میں ہر سال کم از کم ایک پارہ حفظ کرکے اس کا تحریری و تقریری امتحان دینا لازمی ہوتا ہے، مگر مصر ی طلبہ کا معاملہ وافدین سے مختلف ہوتا ہے، ان کو ہر سال ساڑھے سات پارے حفظ کرکے اس کا تحریری و تقریری امتحان دینا ضروری ہوتا ہے، اس طرح مصری طلبہ کلیہ کے مرحلہ میں ہیحافظ قرآنہو جاتے ہیں، یہ جامعہ ازہر کا تمام اسلامی جامعات کے درمیان خاص وصف اور طرئہ ا��تیاز ہے،اس کے علاوہ جامعہ ازہر میں سہ ماہی ’’دورہ تدریبیہ‘‘ جسے ’’ ائمہ کورس‘‘ بھی کہتے ہیں، ملک اور بیرون ملک کے لیے مسلسل پورے سال رواں دواں رہتا ہے ،اس میں تمام اسلامی مضامین ،اسلامی معاشیات و اقتصاد ،کمپیوٹر،انٹرنیٹ اور دیگر تمام اسلامی موضوعات پر لیکچرز ہوتے ہیں ، ہم یہاں پر مرحلہ ثانویہ(ہائی اسکول)، کلیات(بی اے)، ماجستیر(ایم اے) اور دکتوراہ(پی ایچ ڈی) کا تفصیلی منہج پیش کر تے ہیں:مرحلئہ ثانویہ (ہائی اسکول):مرحلہء ثانویہ (ہائی اسکول)میں یہ مواد ومضامین پڑھائے جاتے ہیں:(1)الفقہ (2) التفسیر (3) الحدیث ( 4) القرآن الکریم (5) التوحید (6) التجوید (7) النحو( 8) الصرف (9) البلاغۃ (10) الادب والنصوص (11) الانشاء (12) التاریخ (13) الجغرافیا (14) اللغۃ الاجنبیۃ ، انگریزی یا فرنسی ،(15)المطالعۃ والنصوص (16)المحفوظات ۔ اس کے علاوہ سائنس ،معاشرتی علوم ،علم الاجتماع ، العروض والقوافی پرائمری کے مرحلہ ہی میں پڑھا دئے جاتے ہیں،تفصیلی نصاب
+1:کلیہ اصول الدین(بی اے) کے پہلے سال میں یہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں:پہلے سال کے مضامین: (1)تاریخ السنۃ النبویۃ(2) علوم القرآن(3) نظم اسلامیۃ (4) نحو وصرف (5) منطق قدیم(6) فقہ (7) تفسیر تحلیلی (8) حدیث تحلیلی (9) توحید(10) اصول دعوۃ(11) تصوف (12) ملل ونحل(13) علوم حدیث(14) قصص قرآن کریم(15) لغۃ اوروبیۃ انجلیزی یا فرنسی (16) حفظ قرآن کریم ۔دوسرے سال کے مضامین:(1) منطق قدیم(2) فلسفۃ عامۃ (3) علوم قرآن (4) علوم حدیث (5) خطابۃ (6) شبھات حو الحدیث (7) فقہ(8) تفسیر تحلیلی(9) توحید (10) نظم اسلامیۃ(11) اخلاق اسلامیۃ(12) تیارات فکریۃ(13) ادب وبلاغۃ (14)شبھات حول القرآن(15) لغۃ اوروبیۃ انگلش یا فرنچ(16)حفظ قرآن کریم ۔ ان دو سالوں کے بعد کلیہ اصول الدین کے تخصص کی چار فرعیں نکلتی ہیں جن کے منہج کی تفاصیل مندرجہ ذیل ہیں:(1) تفسیر وعلوم قرآن میں تخصص:تیسرے سال شعبہ تفسیر وعلوم قرآن کے مواد:(1) التفسیر التحلیلی (2) التفسیر الموضوعی(3) مناھج المفسرین (4) علوم القرآن (5) السیرۃ التحلیلیۃ من الکتاب والسنۃ (6) الحدیث (7) الدخیل فی التفسیر(8) التوحید (9) الخطابۃ (10) علم الرجال ومناھج المحدثین (11) التیارات الفکریۃ المعاصرۃ (12) الفقہ (13) اللغۃ الاوروبیۃ انگلش یا فرنچ (14)حفظ قرآن کریم (15) ذ خائر تفسیر (16) تدوین قرآن(17) شبھات حول القرآن والرد علیہا ۔چوتھے سال شعبہ تفسیر وعلوم قرآن کے مضامین :
+(1)التفسیر التحلیلی(2) الدخیل فی التفسیر (3) قاعۃ البحث (4) مناھج المفسرین(5) السیرۃ التحلیلیۃ من الکتاب والسنۃ (6) الاستشراق والتبشیر(7) اصول الفقہ(8) اللغۃ الاوروبیۃ انگلش یا فرنچ (9) الفلسفۃ الاسلامیۃ (10) الحدیث الموضوعی (11) التفسیر الموضوعی(12) علوم القرآن (13) الحدیث التحلیلی (14)حفظ القرآن الکریم ۔(2) علوم حدیث میں تخصص :تیسرے سال شعبہ علوم حدیث کے مواد :(1)تخریج (2) توحید (3) سیرۃ تحلیلیۃ(4) دراسۃ الاسانید (5) مناھج المفسرین (6) خطابۃ(7) حدیث تحلیلی (8) حدیث موضوعی(9) تصوف(10) مصطلح الحدیث(11) شبھات حول السنۃ النبویۃ(12) مناھج المحدثین (13) تفسیر موضوعی(14) وسائل تبلیغ الدعوۃ (15) قضایا فقھیۃ معاصرۃ (جدید فقھی مسائل ) (16) حفظ قرآن کریم ۔چوتھے سال شعبہ علوم حدیث کے مضامین :(1)مناھج الدعوۃ (2)تفسیر موضوعی(3) مناھج المحدثین (4) علل الحدیث (5) توحید (6) مختلف الحدیث و مشکلہ(7) حدیث تحلیلی (8) حدیث موضوعی (9) مصطلح الحدیث (10) دفع الشبھات حول الحدیث (11) تخریج (12) سیرۃ (13) دخیل فی التفسیر(14) استشراق والتبشیر(15) ملل و نحل(16)اصول فقہ(17) حفظ قرآن کریم ۔(3) ��قیدہ وفلسفہمیں تخصص:تیسرے سال شعبئہ عقیدہ و فلسفہ کے مواد:(1)توحید (2)فلسفہ اسلامیۃ(3) فلسفۃ یونانیۃ(4) منطق حدیث و مناہج بحث(5) ملل و نحل(6) تیارات فکریۃ(7) اخلاق فلسفیۃ(8) تصوف(9) فرق اسلامیۃ(10) علم نفس(11) خطابۃ(12) وسائل تبلیغ الدعوۃ(13) تفسیر موضوعی(14) مناہج مفسرین(15) حدیث موضوعی(16) مناہج محدثین(17) قضایا فقہیۃ معاصرۃ(18) القرآن الکریم ۔چوتھے سال شعبئہ عقیدہ و فلسفہ کے مضامین:(1)توحید (2)فلسفۃ اسلامیۃ (3)نصوص قرآنیۃ وفلسفیۃ (4)الفلسفۃ الاوربیۃ الحدیثۃ و المعاصرۃ (5)فلسفۃ اوربییۃ فی العصور الوسطی (6)تیارات فکریۃ (7)تصوف اسلامی (8)استشراق و تبشیر (9)تفسیر موضوعی (10)مناہج مفسرین (11)مناہج محدیثین (12)تخریج حدیث (13)علم اجتماع (14)مناہج دعوۃ (15)اصول فقہ (16)القرآن الکریم ۔(4) دعوہ اسلامیہ میں تخصص:تیسرے سال شعبئہ دعوہ وثقافہ اسلامیہ کے مضامین :(1) اصول الدعوۃ(2) الخطابۃ(3) الاستشراق والتبشیر(4) الثقافۃ الاسلامیۃ(5) التفسیر الموضوعی (6) الحدیث الموضوعی(7) التوحید (8) الحضارۃ الاسلامیۃ(9) اللغۃ العربیۃ(10) تاریخ الدعوۃ(11) وسائل تبلیغ الدعوۃ (12) مقارنۃ الادیان(13) مناھج المفسرین (14) علم الرجال(15) الفقہ(16)حاضر العالم الاسلامی (17) اللغۃ الاوروبیۃ(18) حفظ القرآن الکریم ۔چوتھے سال شعبئہ دعوہ وثقافہ اسلامیہ کے مواد :(1)الخطابۃ(2) التیارات الفکریۃ(3) تاریخ الدعوۃ(4) اللغۃ العربیۃ(5) الثقافۃ الاسلامیۃ(6) الاستشراق والتبشیر(7) الحدیث الموضوعی(8) التفسیر الموضوعی(9) مناھج الدعوۃ(10) الدعوۃ فی العصر الحدیث (11) اصول الفقہ(12) اللغۃ الاوروبیۃ(13) القرآن الکریم حفظ تحریری وشفوی(14) الفلسفۃ الاسلامیۃ(15) الفقہ(16) التخریج (17) الدخیل فی التفسیر (18) مناھج البحث العلمی(19) مقارنۃ الادیان ۔دراسات علیا : (ایم اے، وپی ایچ ڈی):ایم اے و پی ایچ ڈی کے ابتدائی دو سال میں تقریبا کلیہ کے تخصص والے ہی مواد ہوتے ہیں البتہ بحثیں مختلف ہوتی ہیں، اس میں مطالعہ ،بحث اور مصادر و مراجع کی طرف کثرت سے رجوع اور محنت و مشقت کلیہ سے بہت زیادہ مطلوب ہوتی ہے ،ایم اے کا دو سال پاس کرنے کے بعد ایم اے کا مقالہ کسی خاص موضوع پر لکھنا ہوتا ہے ،اس کی مدت کم از کم دو سال ہوتی ہے جسے ’’ رسالۃ التخصص الماجستیر‘‘ کہتے ہیں،پاک و ہند میں اسے ایم فل کا درجہ دیا جا تا ہے ،اس کے بعد پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’رسالۃ العالمیۃ الدکتوراۃ‘‘ لکھنا ہوتا ہے جس کی مدت کم از کم تین سال ہوتی ہے ،تقریبا تمام کلیات کے دراسات علیا کا یہی طریقئہ کار ہوتا ہے۔دراسات علیا (ایم اے،وپی ایچ ڈی)شعبہ علوم حدیث کے پہلے سال کے مضامین :(1) تفسیر (2) علل الحدیث (3) مصطلح الحدیث(4) حدیث تحلیلی (5) حدیث موضوعی(6) مناھج بحث (7) الجرح والتعدیل (8) تخریج (9) لغۃ انجلیزیۃ(10) حفظ قرآن کریم ۔دوسرے سال کے مضامین: (1) رجال الحدیث(2) حدیث تحلیلی (3) دفاع عن السنۃ (4) تفسیر تحلیلی (5) حدیث موضوعی(6) تحقیق تراث (7) تخریج و دراسۃ الاسانید(8) مصطلح الحدیث (9) لغۃ انجلیزیۃ (10) حفظ قرآن کریم ۔ان دو سالوں کے بعد کم سے کم دو سال کے اندر کسی موضوع پر رسالہ لکھنا ہوگا، اس کے بعد پی ایچ ڈی میں تین سال کے اندر کسی موضوع پر رسالہ لکھنا ہوگا۔2؛ کلیہ لغہ عربیہ(بی اے )کلیہ لغہ عربیہ شعبہ عامہ کے مضامین :پہلے سال کے مضامین: (1) القرآن الکریم(2) النحو (3) علم اللغۃ (4) قاعۃ البحث (5) البلاغۃ(6) علم الاصوات والتجوید (7) تاریخ الادب العربی(8) النصوص الادبیۃ(9) التفسیر (10) العروض والقوافی (11) الصرف(12) اللغۃ الاوروبیۃ(13) فن کتابۃ المقال(14) عبادات ( الفقہ)۔دوسرے سال کے مضامین: (1) القرآن الکریم (2) النحو(3) قاعۃ البحث (4) البلاغۃ(5) المعاجم اللغویۃ(6) الصرف (7) تاریخ الادب العربی(8) النصوص الادبیۃ(9) اوزان الشعر وموسیقاہ(10) تاریخ العالم الاسلامی (11) التفسیر (12) معاملات (الفقہ) (13) اللغۃ الاوروبیۃ ۔تیسرے سال کے مضامین: (1) القرآن الکریم (2) النحو(3) قاعۃ البحث(4) البلاغۃ(5) الصرف (6) تاریخ الادب العربی (7) النصوص الادبیۃ(8) الادب المقارن (9) النقد الادبی(10) اللھجات والقراء ات (11) تاریخ الادب الاندلسی ونصوصہ(12) اسرۃ و میراث ( الفقہ)(13) الحدیث (14) اللغۃ الاوروبیۃ۔چوتھے سال کے مضامین: (1) القرآن الکریم(2) النحو(3) قاعۃ البحث(4) البلاغۃ(5) فقہ اللغۃ (6) تاریخ الادب العربی (7) النصوص الادبیۃ (8) الصرف(9) النقد الادبی (10) الادب الاسلامی (11) الحدیث الشریف (12) اصول الفقہ (13) اللغۃ الاوروبیۃ(14) علم الدلالۃ (15) کتب الصرف والنحو والبلاغۃ والادب ، کا تعارف شامل ہے ۔عربی زبان و ادب میں مہارت اور تخصص کے لیے بنیادی طور پر نحوصرف بلاغت اور پھر انشاء پر عبور ضروری ہے ،مذکورہ مضامین جب اچھی طرح سے پڑھے جائیں تو یہ سب مسئلہ حل ہوجائے گا،عربی زبان بولنے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ،محادثہ اور گفتگوکا ماحول ہونا ضروری ہے، مصر میں بہت سارے سینٹر ہیں اگر اس میں داخلہ لے لیا جائے تو عربی زبان بولنے میں یہ سینٹر کافی معاون ثابت ہوں گے۔(بی اے )کلیہ دراسات اسلامیہ عربیہ کے مضامین :پہلے سال کے مضامین: (1) القرآن الکریم (2) التفسیر وعلوم القرآن(3) توحید (4) فقہ مذہبی(العبادات)(5) نحو وصرف (6) اصول الفقہ(6) بلاغۃ(7) العروض والقافیۃ(8) التجوید (9) تاریخ التشریع (10) الادب الجاھلی والاسلامی والنقد(11) اللغۃ الاجنبیۃ(12) مختارات الحدیث (13) علوم الحدیث (14) تاریخ الدولۃ الامویۃ والحضارۃ الاسلامیۃ ۔دوسرے سال کے مضامین : (1) القرآن الکریم (2) التفسیر (3) التوحید(4) فقہ مذہبی (الحدود)(5) اصول الفقہ(6) نحو و صرف (7) البلاغۃ(8) المنطق (9)تاریخ الدولۃ العباسیۃ(10) المعاجم والھجات العربیۃ(11) الادب والنقد (12) الحدیث الشریف (13) اللغۃ الاجنبیۃ ۔تیسرے سال کے مضامین: (1) القرآن الکریم(2) التفسیر (3) توحید (4) اصول الفقہ(5) فقہ مذہبی (المعاملات)(6) النحو والصرف(7) البلاغۃ(8) دراسات عربیۃ فی النصوص(9) التیارات الفکریۃ(8) الفلسفۃ والتصوف (9) فقہ اللغۃ والاصوات (10) التربیۃ و علم النفس (11) اللغۃ الاجنبیۃ (12) قاعۃ البحث(13) الحدیث الشریف (14) الادب والنقد(15) قاعۃ البحث فی اصول الفقہ والفقہ والتفسیر ۔چوتھے سال کے مضامین: (1) القرآن الکریم(2) توحید (3) التفسیر (4) اصول الفقہ(5) الفقہ المقارن(6) النحو و الصرف(7) البلاغۃ (8) دراسات عربیۃ فی نصوص(9) تیارات فکریۃ(10) الحدیث الشریف (11) احوال شخصیۃ(12) ادب حدیث ونقد(13) قاعۃ البحث فی دراسات عربیۃ (14) مناھج وطرق التدریس ۔کلیہ دعوہ اسلامیہ(بی اے):(بی اے )کلیہ دعوہ اسلامیہ کے مضامین :پہلے سال کے مضامین: (1) الملل والنحل (2) الفرق الاسلامیۃ(3) الثقافۃ الاسلامیۃ (4) التصوف(5) السیرۃ النبویۃ(6) التفسیر(سورۃ النور) (7)علوم القرآن(8) الحدیث الشریف(9) علوم الحدیث (10) النشاط الثقافی(11) اللغۃ العربیۃ (12) مناھج الدعوۃ(13) انگلش یا فرنچ (14) علم النفس(15) خطابۃ (16) قرآن(حفظ)(17) تجوید (18) العقیدۃ(19) اصول الدعوۃ(20) رکائز الدعوۃ(21) الفقہ ۔دوسرے سال کے مضامین : (1) الملل والنحل (2) الدعوۃ (3) النظم الاسلامیۃ(4) خطابۃ(5) الحدیث الشریف (6) علوم الحدیث (7)التفسیر(سورۃ لقمان) (8) علوم التفسیر (9) النشاط الثقا��ی(10) اللغۃ العربیۃ(11) مناھج الدعوۃ(12) حیاۃ الصحابۃ(13) العقیدۃ(14) التصوف(15) الفرق الاسلامیۃ (16) انگریزی /فرینچ(17) قرآن کریم (حفظ) (18) التجوید(19) وسائل الدعو ۃ(20) الفقہ ۔تیسرے سال کے مضامین :(1) حضارۃ الدین (2) الخطابۃ(3) التفسیر(سورۃ المائدۃ) (4) علوم التفسیر (5) الفقہ(6) انگریزی/فرینچ (7) اللغۃ العربیۃ(8) النشاط الثقافی (9) مناھج البحث العلمی (10) تاریخ الدعوۃ(11) الحدیث الشریف (12) الملل والنحل (13) الاستشراق والتبشیر(14) تیارات اسلامیۃ فکریۃ(15) قرآن کریم(حفظ)(16) التجوید(17) علوم الحدیث (18) النظم الاسلامیۃ ۔چوتھے سال کے مضامین: (1) النظم السیاسی (2) النظم المالی(3) الدعوۃ(4) الملل والنحل (5) انگریزی تکلم(6) الحدیث الشریف (7)علوم الحدیث (8) اصول الفقہ(9) اللغۃ العربیۃ(10) تیارات اسلامیۃ(11) الملل والنحل (12) اخلاق اسلامیۃ(13) التفسیر (14) علوم التفسیر (15) حاضر العالم الاسلامی (16) اللغۃ الاوروبیۃ(17) قرآن کریم (حفظ) (18) تجوید (19) اعجاز العلمی فی القرآن الکریم۔کلیہ شریعہ اسلامیہ(بی اے):کلیہ شریعہ اسلامیہ(بی اے ) کے مضامین :پہلے سال کے مضامین:(1) الفقہ(2) علوم الحدیث (3) تاریخ التشریع الاسلامی (4) اللغۃ العربیۃ(5) اللغۃ الاجنبیۃ(6) تفسیر آیات الاحکام (7) الفقہ المقارن(8) اصول الفقہ (9) التوحید (10) حفظ القرآن الکریم (11) قضایا فقھیۃ معاصرۃ (جدید فقھی مسائل) (12) قاعۃ البحث ۔دوسرے سال کے مضامین: (1) الفقہ المقارن (2) اصول الفقہ(3) التوحید (4) اللغۃ العربیۃ(5) تفسیر آیات الاحکام(6) لغۃ اجنبیۃ (7) الحدیث الشریف (8) الفقہ(9) قضایا فقھیۃ معاصرۃ (جدید فقھی مسائل )(10) احوال شخصیۃ (11)حفظ القرآن الکریم (12) قاعۃ البحث ۔تیسرے سال کے مضامین : (1)الفقہ(2) منھج الدعوۃ (3) الفقہ المقارن (4) احوال شخصیۃ (5) تفسیر آیات الاحکام (6) لغۃ اجنبیۃ (7)الحدیث الشریف (8) اصول الفقہ(9) اللغۃ العربیۃ (10) قضایا فقھیۃ معاصرۃ (جدید فقھی مسائل)(11) حفظ القرآن الکریم (12)قاعۃ البحث ۔چوتھے سال کے مضامین: (1) التفسیر (2) قواعد الفقہ(3) اللغۃ العربیۃ(4) لغۃ اجنبیۃ (5) الفقہ(6) احادیث احکام (7) الفقہ المقارن(8) اصول الفقہ(9)حفظ القرآن الکریم(10) قضایا فقھیۃ معاصرۃ (جدید فقھی مسائل)(11) البحث ۔دراسات علیا (ایم اے)فقہ مقارن کے بعض اہم مضامین: (1)القرآن الکریم،(2) النظریات العامۃ فی المعاملات فی الفقہ الاسلامی(3)فقہ الکتاب والسنۃ (البیوع)(4)،الفقہ الاسلامی المقارن بالقانون الوضعی فی الشرکات(5)نظام الاسرۃ(6) اصول الفقہ (اثر القواعد الاصولیۃ)(7)الفقہ الاسلامی المقارن بالقانون الوضعی فی المعاملات (الاجارۃ)(8)فقہ الکتاب والسنۃ (عقود الولایات)(9)الفقہ الاسلامی المقارن بالقانون الوضعی فی عقود التوثیقات(10)دراسۃ احد المجتھدین (11)ضوابط الاجتھاد (12) اللغۃ الاجنبیۃ ۔دراسات علیا(ایم اے) اصول فقہ کے بعض اہم مضامین:(1) اثر القواعد الاصولیہ (الحکم الشرعی وانواعہ،الامر والنھی،البطلان والفساد،التکلیف)کتاب التمھید فی تخریج الفروع علی الاصول للاسنوی الشافعی اور مفتاح الوصول الی بنا الفروع علی الاصول للتلمسانی المالکی،(2)تاریخ علم اصول الفقہ ،منھج الائمۃ الاربعۃ فی الاستنباط ،(3)مقاصد الشریعۃ (الموافقات للشاطبی،الفروق للقرافی،مقاصد الشریعۃ لطاھر بن عاشور (4)اصول الفقہ المقارن (الحنفی ) التوضیح علی التنقیح،فواتح الرحموت شرح مسلم۔شعبہ تجوید و قراء ت :شبرا مصر کے معھد القراء ات میں دو سال عام تجوید کے بارے میں کتابیں پڑھائی جاتی ہیں،پھر تین سال عالیہ اور تین سال کے تخصص کا مرحلہ طے کرنا ہوتا ہے، اس طرح یہ آٹھ سال کا تجوید و قراء ت کا کورس ہے ،اس کے علاوہ کلیۃ القرآن الکریم طنطا میں(بی اے ) چار سال، دراسات علیا (ایم اے ) چار سال اور(پی ایچ ڈی ) یعنی ڈاکٹریٹ تین سال کروایا جاتا ہے ۔کتب خانہکتب خانہ جامعہ الازہرایک عظیمکتب خانہہے جو مسلمانوں کے لیے اور پوری دنیا کے لیے علم کا ڈھیروں خزانہ محفوظ کیے ہوئے ہے۔"
+415,سعودی عرب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C_%D8%B9%D8%B1%D8%A8,"مسیحیت4.4 فیصدہندو مت1.1 فیصدبدھ مت0.3 فیصدسعودی عربیاسعودی عربیہ(رسمی نام : المملكة سعودیہ العربیہ)مغربی ایشیاکا ایک ملک ہے۔ یہجزیرہ نما عربکے بڑے حصے پر محیط ہے، جو اسےایشیاکا پانچواں سب سے بڑا، عرب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مغربی ایشیا اورمشرق وسطیکا سب سے بڑا ملک بناتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب میںبحیرہ احمرسے ملتی ہے۔ شمال میںاردن،عراقاورکویت؛ مشرق میںخلیج فارس،قطراورمتحدہ عرب امارات؛ جنوب مشرق میںعمان؛ اور جنوب میںیمن۔بحرینمشرقی ساحل سے دور ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ شمال مغرب میںخلیج عقبہسعودی عرب کومصراوراسرائیلسے الگ کرتی ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے پاس بحیرہ احمر اور خلیج فارس دونوں کے ساتھ ساحل ہے اور اس کا زیادہ تر علاقہ خشک صحرا، نشیبی، میدان اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہرریاضہے۔ یہ ملکمکہاورمدینہکا گھر ہے، جواسلامکے دو مقدس ترین شہر ہیں۔قبل از اسلام کا جزیرہ نما عرب، وہ علاقہ جس پر موجودہ سعودی عرب مشتمل ہے، کئی قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں کا مقام تھا۔ سعودی عرب میں قبل از تاریخ انسانی سرگرمیوں کے کچھ ے ابتدائی نشانات پائے جاتے ہیں۔ دین اسلام چھٹی صدی عیسوی (571ء) میں ابھر کر سامنے آیا اور جزیرہ نما عرب کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر پھیل گیا۔جدید دور کے سعودی عرب کا علاقہ پہلے بنیادی طور پر چار الگ الگ تاریخی علاقوں پر مشتمل تھا:حجاز،نجداور مشرقی عرب کے کچھ حصے (الاحساء) اور جنوبی عرب (عسیر)۔ مملکتِ سعودی عرب کی بنیادشاہ عبدالعزیز(مغرب میں ابن سعود کے نام سے مشہور) نے 1932 میں رکھی تھی۔ انھوں نے سنہ 1902ء میں اپنے خاندان کے آبائی علاقے ریاض پر قبضے کے ساتھ فتوحات کے سلسلے کے ذریعے چاروں خطوں کو ایک ریاست میں متحد کیا۔ سعودی عرب اس کے بعد سے ایک مطلق العنانبادشاہترہا ہے، جہاں سیاسی فیصلے بادشاہ، وزراء کی کونسل اور ملک کے روایتی اشرافیہ کے درمیان مشاورت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔سنی اسلامکے اندر انتہائی قدامت پسندوہابیمذہبی تحریک کو سنہ 2000ء کی دہائی تک ""سعودی ثقافت کی ایک اہم خصوصیت"" کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ سنہ 2016ء میں، سعودی عرب کی حکومت نے انتہائی قدامت پسند وہابی مذہبی اشرافیہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور اخلاقی پولیس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے اقدامات کیے، سماجی ترقی کو بڑھانے اور بحال کرنے اور مزید مضبوط اور موثر معاشرہ بنانے کی کوشش میںسعودی وژن 2030ءکے اقتصادی پروگرام کا آغاز کیا۔ اپنے بنیادی قانون میں، سعودی عرب خود کو ایک خود مختار عرب اسلامی ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے جس میں اسلام کو سرکاری مذہب،عربیکو سرکاری زبان اور ریاض دار الحکومت کہا جاتا ہے۔پیٹرولیمسنہ 1938ء میں دریافت ہوا اور اس کے بعد مشرقی صوبے میں کئی دیگر دریافتیں ہوئیں۔ سعودی عرب اس کے بعد سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک (امریکاکے بعد) اور دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ یہاں دنیا کے دوسرے سب سے بڑے تیل کے ذخائر اور چوتھے بڑے گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ مملکت کوعالمی بینککی اعلی آمدنی والی معیشت کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے اور یہ واحد عرب ملک ہے جوجی20بڑی معیشتوں کا حصہ ہے۔ ریاست کو مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جن میںیمنی خانہ جنگیمیں اس کا کردار، اسلامی دہشت گردی کی مبینہ سرپرستی اور اس کا انسانی حقوق کا خراب ریکارڈ، بشمول سزائے موت کا ضرورت سے زیادہ اور اکثر ماورائے عدالت شامل ہے۔سعودی عرب کو علاقائی اور درمیانی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ سعودی معیشت مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی ہے۔ عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی اٹھارویں سب سے بڑی معیشت اور فی کس پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی سترویں بڑی معیشت ہے۔ ایک بہت ہی اعلیٰ انسانی ترقی کے اشاریہ والے ملک کے طور پر، یہ مفت اعلی تعلیم، ٹیکس فری آمدنی اور مفت آفاقی نظامِ صحت پیش کرتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کی تیسری بڑی تارکین وطن کی آبادی کا مرکز ہے۔ اس کی آبادی دنیا کی سب سے نوجوان آبادی میں سے ایک بھی ہے، اس کی 32.2 ملین کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد 25 سال سے کم عمر کا ہے۔خلیج تعاون کونسلکا رکن ہونے کے علاوہ سعودی عربتنظیمِ اقوام متحدہ،تنظیمِ تعاونِ اسلامی،عرب لیگ، عرب تنظیم برائے ہوائی نقل و حمل اورتیل برآمد کرنے والے ممالکِ کی تنظیم، اوپیککا ایک فعال اور بانی رکن ہے۔شمال مغرب میں اس کی سرحداردن، شمال میںعراقاور شمال مشرق میںکویت،قطر،اوربحریناور مشرق میںمتحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میںسلطنت عمان، جنوب میںیمنسے ملی ہوئی ہے جبکہخلیج فارساس کے شمال مشرق اوربحیرہ قلزماس کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاںاسلامکے دو مقدس ترین مقاماتمکہ مکرمہاورمدینہ منورہموجود ہیں۔سعودی ریاست کا ظہور تقریباً1750ءمیں عرب کے وسط سے شروع ہوا، جب ایک مقامی رہنمامحمد بن سعودمعروف اسلامی شخصیت اورمحمد بن عبدالوہابکے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔اگلے ڈیڑھ سو سال میںآل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا، جس کے دوران میںجزیرہ نما عربپر تسلط کے لیے ان کےمصر،سلطنت عثمانیہاور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیامشاہ عبدالعزیز السعودکے ہاتھوں عمل میں آیا۔1902ءمیں، عبد العزیز نے حریف آل رشید سےریاضشہر چھین لیا اور اسےآل سعودکادار الحکومتقرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے1913ءسے1926ءکے دوران میںالاحساء،قطیف،نجدکے باقی علاقوں اورحجاز(جس میںمکہ مکرمہاورمدینہ منورہکے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کر لیا۔8 جنوری1926ءکو،عبدالعزیز ابن سعودحجاز کےبادشاہقرار پائے۔29 جنوری1927ءکو، انھوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔20 مئی1927ءکو،معاہدہ جدہکے مطابقبرطانیہنے تمام مقبوضہ علاقوں (جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے) پرعبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کر لیا۔1932ءمیں،برطانیہکی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔مارچ1938ءمیں، تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔حالیہ نام ""سعودی"" تقریباً 1727ء میں موجود سعودیہ کے وسط, ریاض میں آل سعود کی حکومت بنانے سے شروع ہوا.جب ایک مقامی رہنما ""محمد بن سعود"" معروف اسلامی شخصیت اور وہابیت یاسلفی تحریککے بانیمحم�� بن عبد الوہابکے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ اس وقت یہ علاقہ 'سلطنت عثمانیہ' کے کنٹرول میں تھا.1805, 1806ء میں آل سعود نے مکہ مدینہ کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ 1818ء میں سلطنت عثمانیہ کی فوجوں نے ان سے سارا علاقہ واپس لے لیا۔ 1824ء میں سعود فیملی نے نجد کے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔اسی دوران ایک نئی طاقت آل رشید سامنے آئی۔ نئی طاقت آل رشید و آل سعود میں آپس کی جنگیں جاری رہیں۔ اور آل رشید نے آل سعود کو 1892 میں حتمی شکست دے کر علاقہ چھوڑ کر کویت میں جلاوطنی پہ مجبور کر دیا۔حجاز یعنی مکہ مدینہ میں عثمانیہ حکومت کے حکم پر داخل ہوئی مصری فوجیں 1840 میں علاقے سے نکل گئیں۔ اور شریف مکہ نے کنٹرول سنبھال لیا. ترکی نے برائے نام حکمرانی ساتھ آل سعود و آل رشید و شریف مکہ فیملی سمیت کئی قبائل کو اندرونی خود مختاری دی ہوئی تھی۔1902 میں آل سعود کے شاہ عبد العزیز کویت سے
+جلاوطنی سے واپس آئے اور سعودی اخوان تحریک, وہابی تحریک اور دیگر کی مدد کے ساتھ 1906 میں آل رشید کو شکست دے کر علاقے سے نکال دیا اور
+عثمانیہ سلطنت نے انھیں تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد مرکزی علاقہ سے ہٹ کر خلیج فارس کے ساتھ کے علاقہ الاحسا پہ قبضہ کر لیا۔
+عبدالعزیز جنہیں ابن سعود بھی کہا جاتا تھا۔ نے ""عرب بغاوت"" سے دوری رکھی۔ اور آل رشید ساتھ مقابلے پہ فوکس رکھا۔ پھر 1920 میں عسیر علاقہ پہ قبضہ کیا۔ 1921 میں آل رشید کو مکمل دیس نکالا دے دیا۔شریف مکہ حسین بن علی نےانگریزمیکموہن ساتھ عثمانیہ سلطنت خلاف ساز باز کرکے متحدہ عرب ریاست بنانے کی سازش کی۔ اس میں لارنس آف عربیہ کا بھی رول رہا۔1914 میں جنگ عظیم اول شروع ہو چکی تھی۔ جس میں سلطنت عثمانیہ, جرمن سلطنت اور آسٹرو-ہنگروی سلطنت ایک طرف تھے اور روس, فرانس اور برطانیہ وغیرہ دوسری طرف۔1916 میں سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کے لیے تمام عرب علاقے,شام,یمن,اردن اور موجودہ سعودیہ پہ مشتمل متحدہ عرب ریاست کے قیام اور سلطنت عثمانیہ سے آزادی کا خواب دکھایا گیا۔ برطانوی فوجوں کی مدد سے عرب باغی فوجوں نے مکہ, مدینہ, اردن اور پھردمشقفتح کر لیا۔2016 سے 2018 کے دوران دمشق میں شام کی عرب کنگڈم قائم کرکے شریف مکہ کا بیٹا فیصل بادشاہ بنادیا گیا۔ لیکن پھر سائیکس معاہدے مطابق عرب علاقے سوائے سعودیہ کے, فرانس اور برطانیہ نے آپس میں تقسیم کرلیے۔ حجاز (مکہ اور مدینہ) کو شریف مکہ کے حوالے کیا گیا۔آل سعود اور شریف مکہ, دونوں برطانوی رابطے میں اور امداد لینے والے تھے۔ شریف مکہ کو حجاز کا بادشاہ تسلیم کیا گیا۔ لیکن بعد میں, 1924 میں اسے برطانیہ کی طرف سے چھوڑ دیا گیا۔1925 میں عبدالعزیز نے حجاز پہ قبضہ کرکے خود کو شاہ حجاز ڈیکلیئر کیا۔ پھر شاہ نجد بنے۔ پھر 1932 میں دونوں بادشاہتوں(نجد اور حجاز) کو ضم کر کے سعودی عرب کا نام دیا گیا.حجاز کی فتح بعد, سعودی اخوان برطانوی مقبوضہ اردن, عراق اور کویت کی طرف بڑھنا چاہتے تھے تاکہ اپنا مسلک وہاں بھی نافذ کریں لیکن عبدالعزیز اردن اور عراق وغیرہ برطانوی قبضے میں ہونے کی وجہ سے برطانیہ سے لڑائی مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ اس پر اختلافات ہوئے تو اخوان نے بغاوت کردی لیکن وہ سختی سے کچل دی گئی۔ اور پھر سعودی حکومت استحکام حاصل کرتی چلی گئی.لارنس نے پہلی جنگ عظیم شروع بعد خود کو بطور رضاکار پیش کیا اسے مصر میں پوسٹ کیا گیا. وہاں سے وہ عراق اور سعودی عرب مشنز پہ جاتا رہا اور اوپر ذکر کردہ عثمانی سلطنت کے خلاف عرب بغاوت اور متحدہ عر�� ریاست (بشمول شام,اردن,یمن,نجد اور حجاز) کی سازش میں شامل ہوا اور دوسرے انگریز افسروں ساتھ برطانیہ کے رابطہ افسر کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ شریف مکہ کے بیٹے فیصل جو بعد میں شاہِ شام بنا, کے ساتھ نزدیکی معرکوں میں شامل رہا اور دمشق کی فتح میں ہم رکاب رہا۔ اس کے رول کو صحافی تھامس نے سنسنی خیزی کے ساتھ پیش کیا۔سعودی عرب عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت سمجھی جاتی ہے۔ اس مملکت کے بانی یوں تو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود ہیں جو15 جنوری1877ءکو پیدا ہوئے تھے مگر اس سلطنت کے قیام کی جدوجہد کا آغاز 18 ویں صدی میں ہوا تھا جب1725ءمیں آل سعود کے سربراہامیر سعود بن محمد بن مقرنکی وفات ہوئی۔اس زمانے میںنجدمیں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں اور ہر ریاست کا الگ الگ حکمران ہوتا تھا۔ امیر سعود بن محمد کے چار صاحبزادے تھے جنھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ نجد میں سعودی سلطنت قائم کریں گے۔امیر سعود بن محمد کے سب سے بڑے صاحبزادے کا ناممحمد بن سعودتھا۔ وہدرعیہکے حکمران بنے اور انھوں نےشیخمحمد بن عبدالوہابکی مدد سے درعیہ میں اپنی حکومت قائم کی اور آہستہ آہستہ اسے مستحکم کرنا شروع کیا۔محمد بن سعود اور شیخ محمد عبد الوہاب کے درمیان 1745ء میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے عہد کیا کہ اگر کسی وقت محمد بن سعودنجد و حجازمیں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہاں شیخ محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کو رائج کریں گے۔1765ء میں شہزادہ محمد اور 1791ء میں شیخ محمد بن عبد الوہاب کی وفات ہو گئی۔ اس وقت تک جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقے پر آل سعود کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔شہزادہ محمد کے بعد امام عبد العزیز علاقے کے حکمران بنے مگر 1803ء میں انھیں قتل کر دیا گیا۔امامعبدالعزیزکے بعد ان کے بیٹےسعودحکمران بنے جو 1814ء میں وفات پا گئے۔سعود کے بیٹے عبد اللہ ایک بڑے عالم دین بھی تھے۔ ان کے دور حکمرانی میں ان کے علاقے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور درعیہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔امام عبد اللہ قیدی بنا لیے گئے اور انھیںاستنبوللے جا کر سزائے موت دے دی گئی۔مگر جلد ہی ان کے بھائیمشاری بن سعوداپنی حکومت واپس لینے میں کامیاب ہو گئے مگر وہ زیادہ عرصے تک حکمرانی نہ کر سکے اور ان کا علاقہ دوبارہسلطنت عثمانیہکے قبضے میں چلا گیا۔اس کے بعد اُن کا بھتیجا شہزادہترکی بن عبداللہریاضپر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا، جس پر وہ 1824ء سے 1835ء تک بر سر اقتدار رہے۔اگلی کئی دہائیوں تکآل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا اورجزیرہ نما عربپر تسلط کے لیےمصرسلطنت عثمانیہاور دیگر عرب قبائل میں تصادم ہوتے رہے۔ آل سعود کے ایک حکمرانامام عبدالرحمنتھے، جو 1889ء میںبیعتلینے میں کامیاب ہوئے۔امام عبد الرحمن کے بیٹےشہزادہ عبدالعزیزایک مہم جُو شخصیت تھے اور1900ءمیں انھوں نے اپنے والد کی زندگی میں ہی ان کی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لینے اور اسے وسعت دینے کی کوششیں شروع کر دیں1902ء میں انھوں نے ریاض شہر پر قبضہ کیا اور اسے آل سعود کا دار الحکومت قرار دیا۔اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نےالاحسائی،قطیفاورنجدکے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا۔سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میںحجازپر (جس میںمکہ مکرمہاورمدینہ منورہکے علاقے شامل تھے) شریف مکہ حسین کی حکمرانی تھی، جنھوں نے 5 جون 1916ء کو ترکی کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔حسین کو نہ صرف عربوں کے مختلف قبائل کی بلکہ برطانیہ کی تائید بھی حاصل تھی۔7 جون 1916 کو شریف مکہ حسین نے حجاز کی آزادی کا اعلان کیا۔21 جون کو مکہ پر ان کا قبضہ مکمل ہوا اور 29 اکتوبر کو انھوں نے پورے عرب کا حکمران ہونے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے تمام عربوں کو دعوت دی کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔ 15 دسمبر 1916ء کو حکومت برطانیہ نے حسین کو شاہ حجاز تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔اسی دوران امیر عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے مشرقی عرب کا ایک بڑا حصہ مسخر کر لیا اور 26 دسمبر 1915ء کو برطانیہ کے ساتھ دوستی کا ایک معاہدہ بھی کر لیا۔5 ستمبر 1924ء کو انھوں نے حجاز کو بھی فتح کر لیا۔عوام نے امیر عبد العزیز کا ساتھ دیا اور شریف مکہ شاہ حسین نے حکومت سے دست بردار ہو کر اپنے بیٹے علی کو شاہ حجاز بنا دیا۔ مگر امیر عبد العزیز کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے باعث انھیں بھی اپنا تخت چھوڑنا پڑا۔13 اکتوبر 1924 کو شاہ عبد العزیز نے مکہ معظمہ پر بھی قبضہ کر لیا۔5 دسمبر 1925ء کو انھوں نے مدینہ کا اقتدار حاصل کر لیا۔ 19 نومبر 1925ء کو شریف مکہ علی نے اقتدار سے مکمل دستبرداری کا اعلان کیا اور یوں جدہ پر بھی آل سعود کا قبضہ ہو گیا۔ آٹھ جنوری 1926ء کو شاہ حجاز عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے ایک خصوصی تقریب میں مملکت نجد و حجاز کے مکمل اختیارات سنبھالنے کا اعلان کر دیا۔20 مئی 1927ء کو برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں پر جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے عبد العزیز ابن سعود کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا۔ 23 ستمبر 1932ء کو شاہ عبد العزیز ابن سعود نے مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے ’المملکتہ العربیتہ السعودیہ‘ رکھنے کا اعلان کر دیا۔شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود نے جلد ہی اپنی مملکت کو اسلامی رنگ میں ڈھال دیا۔دوسری جانب ان کی خوش قسمتی سے سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کی نشان دہی ہوئی۔ سنہ 1933ء میں شاہ عبد العزیز نے کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا۔ابتدائی چند برس جدوجہد میں بسر ہوئے مگر 1938ء میں جب کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ماہرین ناکام ہو کر ملک لوٹنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک کنویں سے خزانہ ابل پڑا اور اتنا تیل نکلا جس پر وہ ماہرین خود بھی دنگ رہ گئے۔یہ واقعہ نہ صرف سعودی حکمرانوں اور کیلیفورنیا کمپنی کے لیے حیران کُن تھا بلکہ پورے جزیرہ نما عرب کے لیے ایک معجزہ تھا۔ تیل کی دریافت نے سعودی عرب کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔9 نومبر 1953ء کو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود وفات پا گئے۔سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہآل سعودکی بادشاہت ہے۔1992ءمیں اختیار کیے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہعبدالعزیز ابن سعودکی اولاد حکمرانی کرے گی اورقرآن پاکملک کا آئین اورشریعتحکومت کی بنیاد ہے۔ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں البتہ2005ءمیں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان،علماءاور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہیے۔ سعودی عرب دنیا بھر میںمساجداورقرآناسکولوں کے قیام کے ذریعےاسلامکی ترویج کرتی ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علما کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پرشریعت اسلامیسے مطابقت رکھتی ہو۔ عدال��شرعی نظامکی پابند ہیں جن کےقاضیوںکا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔سعودی عرب کو انتظامی لحاظ سے تیرہ علاقوں یا صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کوعربیزبان میں مناطق (عربی واحد:منطقہ) کہتے ہیں۔ سعودی نقشہ میں صوبے نمبر زد ہیں اور خانہ معلومات میں ان کے بارے میں معلومات درج کی گئي ہیں۔مملکت سعودی عربجزیرہ نمائے عربکے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔متحدہ عرب امارات،اوماناوریمنکے ساتھ منسلک ملک کی سرحدوں کا بڑا حصہ غیر متعین ہے اس لیے ملک کا عین درست رقبہ اب بھی نامعلوم ہے۔ سعودی حکومت کے اندازوں کے مطابق مملکت کا رقبہ 22 لاکھ 17 ہزار 949 مربع کلومیٹر (8 لاکھ 56ہزار 356 مربع میل) ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق ملک کا رقبہ 19 لاکھ 60ہزار 582 مربع کلومیٹر (7 لاکھ 56 ہزار 934 مربع میل) اور 22 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر (8 لاکھ 64 ہزار 869 مربع میل) کے درمیان میں ہے تاہم دونوں صورتوں میں سعودی عرب رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 15 بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔مملکت جغرافیہ مختلف نوعیت کا ہے۔ مغربی ساحلی علاقے (التہامہ) سے زمین سطح سمندر سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور ایک طویل پہاڑی سلسلے (جبل الحجاز) تک جاملتی ہے جس کے بعد سطع مرتفع ہیں۔ جنوب مغربی عسیر خطے میں پہاڑوں کی بلندی 3 ہزار میٹر (9 ہزار 840 فٹ) تک ہے اور یہ ملک کے سب سے زیادہ سرسبز اور خوشگوار موسم کا حامل علاقہ ہے۔ یہاں طائف اور ابہا جیسے تفریحی مقامات قائم ہیں۔ خلیج فارس کے ساتھ ساتھ قائم مشرقی علاقہ بنیادی طور پر پتھریلا اور ریتیلا ہے۔ معروف علاقہ ”ربع الخالی“ ملک کے جنوبی خطے میں ہے اور صحرائی علاقے کے باعث ادھر آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔مملکت کا تقریباً تمام حصہ صحرائی و نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے اور صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے۔ بڑی آبادیاں صرف مشرقی اور مغربی ساحلوں اور حفوف اور بریدہ جیسے نخلستانوں میں موجود ہیں۔ سعودی عرب میں سال بھر بہنے والا کوئی دریا یا جھیل موجود نہیں۔سعودی عرب کا موسم مجموعی طور پر شدید گرم اور خشک ہے۔ یہ دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت کا 50 ڈگری سینٹی گریڈ (120 ڈگری فارن ہائیٹ) سے بھی اوپر جانا معمول کی بات ہے۔ موسم سرما میں بلند پہاڑی علاقوں میں کبھی کبھار برف پڑ جاتی ہے تاہم مستقل بنیادوں پربرف بارینہیں ہوتی۔ موسم سرما کا اوسط درجہ حرارت 8 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ (47 سے 68 ڈگری فارن ہائیٹ) ہے۔ موسم گرما میں اوسط درجہ حرارت 27 سے 43 ڈگری سینٹی گریڈ (81 سے 109 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ وسط صحرائی علاقوں میں گرمیوں میں بھی رات کے وقت موسم سرد ہوجاتا ہے۔سعودی عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے تاہم کبھی کبھار موسلا دھار بارش سے وادیوں میں زبردست سیلاب آجاتے ہیں۔ دار الحکومت ریاض میں سالانہ بارش 100 ملی میٹر (4 انچ) ہے جو جنوری سے مئی کے درمیان میں ہوتی ہے۔ جدہ میں نومبر اور جنوری کے درمیان میں 54 ملی میٹر (2.1 انچ) بارش ہوتی ہے۔2005ء کے مطابق سعودی عرب کی آبادی 26 اعشاریہ 4 ملین ہے جس میں 5 اعشاریہ 6 ملین غیر ملکی آبادی بھی شامل ہے۔ 1960ء کی دہائی تک مملکت کی آبادی کی اکثریت خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش تھی لیکن معیشت اور شہروں میں تیزی سے ترقی کی بدولت اب ملک کی 95 فیصد آبادی مستحکم ہے۔ شرح پیدائش 29 اعشاریہ 56 فی ایک ہزار افراد ہے جبکہ شرح اموات صرف 2 اعشاریہ 62 فی ایک ہزار افراد ہے۔چند شہروں اور نخلستانوں میں آبادی کی کثافت ایک ہزار افراد فی مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔تقریباً 80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں۔ مزید برآں چند جنوبی اور مشرق افریقی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو چند سو سال قبل اولاً غلام بنا کر یہاں لائے گئے تھے۔ سعودی عرب میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن بھی مقیم ہیں جن میںبھارتکے 14 لاکھ،بنگلہ دیشکے 10 لاکھ،پاکستانکے 9 لاکھ،فلپائنکے 8 لاکھ اورمصرکے 7 لاکھ 50 ہزار باشندے شامل ہیں۔ قریبی ممالک کے عرب باشندوں کی بڑی تعداد میں مملکت میں برسرروزگار ہے۔ سعودی عرب میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ باشندے بھی قیام پزیر ہیں۔1932ء میں مملکت سعودی عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی اور شہری علاقوں میں مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہورہی تھیں۔ ان مدارس میں اسلامی اور دینی تعلیم سکھائی جاتی تھی تاہم گذشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک قومی تعلیمی نظام کا حامل ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے قبل سے لے کر جامعہ کی سطح تک مفت تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی تجربہ و شعبہ جات میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام تعلیم کا بنیادی خاصہ ہے۔ سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے مدارس اور اسکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔سعودی عرب میں باقاعدہ بنیادی تعلیم کا آغاز 1930ء کی دہائی میں ہوا۔ 1945ء میں شاہ عزیز السعود نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لیے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد 1951ء میں مملکت کے 226 اسکولوں میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے۔ 1954ء میں وزارت تعلیم کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ مہروز بن عزیز بنے۔ سعودی عرب کی پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسٹی 1957ء میں ریاض میں قائم ہوئی۔آج سعودی عرب کا قومی سرکاری تعلیمی نظام 8 جماعت، 24 ہزار سے زائد اسکولوں اور ہزاروں کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے۔ اس نظام کے تحت ہر طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مملکت کے سرکاری میزانیہ کا 24 فیصد سے زائد تعلیم کے لیے مختص ہے۔ سعودی عرب میں طالب علموں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جن میںامریکا،کینیڈا،برطانیہ،آسٹریلیا،جاپان،ملائیشیاجرمنیاور دیگر ممالک شامل ہیں۔سعودی عرب کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی فہرستملک بھر میں ایک بہترین نقل وحمل کا نظام قائم ہے۔ سعودی عرب حکومت ماضی میں ضلحی نظام کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے کیوں کہ وہاں پیٹرول کی قیمت باقی دنیا کے مقابلے میں سب کم رہی ہے۔ فروری 2018ء میں اعلان کیا گیا کہ، سعودی عرب کی چار اہم موٹر ویز پر رفتار میں بہتری لائی جائے گی اور اسے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پہنچا دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں مکہ مدینہ،شاعز- دمام اور آخر میں ریاض طائف موٹر ویز شامل ہیں۔[15]ملک میں ایک ترقی یافتہ بحری نقل و حمل کا نظام ہے جو بنیادی طور پرپیٹروکیمیکلکی نقل و حمل کی سہولت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔سعودی پورٹ اتھارتیان بحری کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے، یہ ادارہ ملک میں بندرگاہوں کے انتظام کا ذمہ دار ہے۔ شاہراہوں و ہوائی سفر پر زیادہ انحصار کرنے کے نتیجے میں، سعودی عرب میں ریل نقل و حمل میں دوسرے ذرائع کی طرح سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ البتہ، اب ملک کے ریلوے کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔سعودی عرب کا سب سے مقبول کھیلفٹ بالہے۔ سعودی عربگرمائی اولمپکس،والی بال،باسکٹ بالاور دیگر کھیلوں میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس میں شرکت کرتا ہے۔ قومی فٹ بال مسلسل 4 مرتبہ ورلڈ کپ اور 6 مرتبہ ایشین کپ کے لیے کوالیفائی کرنے کے باعث عالمی سطح پرجانی جاتی ہے۔ سعودی عرب تین مرتبہ ایشین چمپئن رہ چکا ہے اور دو مرتبہ فائنل میں شکست کھاگیا۔ سعودی عرب کے چند معروف فٹ بال کھلاڑیوں میںماجد عبداللہ،سامي الجابراورياسر القحطانيشامل ہیں۔اسلامسعودی عرب کا سرکاری مذہب ہے اور اس کا قانون تمام شہریوں کے مسلمان ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے۔[16]اسلام کے سوا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو کھلے عام عبادت منع ہے۔[17][18]سعودی عرب شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی غیر مسلم کو اسلام قبول ضروری ہے۔[19]سعوی عرب کے نفاذشریعتاور اس کےانسانی حقوقمتعلقہ قوانین پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔[20][21]سعودی ثقافت کی بنیاد مذہباسلامہے۔ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ ہر روز دنیا بھر کے مسلمان 5 مرتبہ مکہ مکرمہ میں قائمخانہ کعبہکی جانب رخ کرکےنمازپڑھتے ہیں۔ سعودی عرب میں ہفتہ وار تعطیلجمعہکو ہوتی ہے۔قرآن مجیدسعودی عرب کا آئین اور شریعت اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔سعودی عرب کے معروف ترین لوک رسم قومی رقصارضیٰہے۔ تلواروں کے ساتھ کیا جانے والا یہ رقص قدیمبدویروایات کا حصہ ہے۔ حجاز کیالسہبالوک موسیقی کی جڑیں قرون وسطیٰ کے عرباندلسسے جاملتی ہیں۔سعودی عرب کا لباس باشندوں کے زمین، ماضی اور اسلام سے تعلق کا عکاس ہے۔ روایتی طور پر مرد ٹخنے تک کی لمبائی کی اونی یا سوتی قمیض پہنتے ہیں جوثوبکہلاتی ہے جس کے ساتھ سر پرشماغیاغطرہکا استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں کا لباس قبائلی موتیوں، سکوں، دھاتی دھاگوں اور دیگر اشیاء سے مزین ہوتا ہے۔ سعودی خواتین گھر سے باہرعبایہاورنقابکا استعمال کرتی ہیں۔اسلام میںشرابنوشی اورسورکے گوشت کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے اور اس پر سعودی عرب میں سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ سعودی روٹیخبزکا تقریباً تمام کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بھنی ہوئی بھیڑ، مرغی، فلافل، شورمہ اور فول بھی دیگر مشہور کھانوں میں شامل ہیں۔ روایتی قہوہ خانے ہر جگہ موجود ہیں تاہم اب ان کی جگہ بڑے کیفے لے رہے ہیں۔ بغیر دودھ کی سیاہ عربی چائے کا استعمال ہر جگہ کیا جاتا ہے۔سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہمظہراناورراس تنورہمیں قائم نجی آبادیوں میں تھیٹر قائم ہیں تاہم یہ فلموں کے نمائش کی بجائے مقامی موسیقی اور فنون پیش کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ حال ہی میں بچوں اور عورتوں کے لیے عربی کارٹون پیش کرنے کے لیے سینمائوں کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔حاشیہ"
+416,ترکیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%8C,"ترکیہ[ا]رسمی طور پرجمہوریہ ترکیہ[ب]بنیادی طور پرمغربی ایشیامیںاناطولیہمیں ایک ملک ہے، جس کا ایک چھوٹا حصہجنوب مشرقی یورپمیںمشرقی تھریسکہلاتا ہے۔
+اس کی سرحد شمال میںبحیرہ اسودسے ملتی ہے۔ مشرق میںجارجیا،آرمینیا،آذربائیجاناور جنوب میںایران،عراق،سوریہ، اوربحیرہ روم(اورقبرص)؛ اور مغرب میںبحیرہ ایجیئن،یوناناوربلغاریہسے ملتی ہے۔
+ترکیہ 85 ملین سے زیادہ لوگوں کا گھر ہے۔ زیادہ تر نسلی ترک ہیں، جبکہ نسلی کرد سب سے بڑی نسلی اقلیت ہیں۔[4]سرکاری طور پر ایک سیکولر ریاست، ترکیہ میںمسلماکثریتی آبادی ہے۔انقرہترکیہ کادار الحکومتاور دوسرا بڑاشہرہے۔استنبولاس کا سب سے بڑا شہر ہے، اور اس کا اقتصادی اور مالیاتی مرکز، نیزیورپکا بھی سب سے بڑا شہر ہے۔ دیگر بڑے شہروں میںازمیر،بورصہاورانطالیہشامل ہیں۔انسانیرہائش کا آغازبالائی قدیم سنگی دوراواخر میں ہوا تھا۔گوبیکلی تپہجیسے اہم سنگی دور مقامات کا گھر اور کچھ قدیم ترین کاشتکاری والے علاقے، موجودہ ترکیہ میں مختلف قدیم لوگ آباد تھے۔[11][12][13]حتییوںکواناطولیہکے لوگوں نے ضم کر لیا تھا۔[14][15]کلاسیکی اناطولیہمیںسکندر اعظمکی فتوحات کے بعد ثقافتی ہیلنائزیشن میں تبدیل ہوا؛[16][17]سلجوق ترکوں نےگیارہویں صدیمیںاناطولیہکی طرف ہجرت شروع کر دی، جس سےترک سازیکا عمل شروع ہوا۔[17][18]سلاجقہ رومنے1243ءمیںمنگولحملے تکاناطولیہپر حکومت کی، جب یہ ترکی کی سلطنتوں میں بٹ گئی۔[19]1299ءمیں شروع ہو کر،عثمانیوںنےسلطنتوںکو متحد کیا اور توسیع کی۔محمد فاتحنے1453ءمیںاستنبولکو فتح کیا۔سلیم اولاورسلیمان اولکے دور میں،سلطنت عثمانیہایک عالمی طاقت بن گئی۔[20][21]1789ءکے بعد سے، سلطنت نے بڑی تبدیلی،اصلاحاتاور مرکزیت دیکھی جب کہ اس کے علاقے میںکمیواقع ہوئی۔[22][23]انیسویں صدیاوربیسویں صدیکے اوائل میں، عثمانی تخفیف اورروسی سلطنتکے دورانمسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستمکے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا اوربلقان،قفقازاورکریمیاسے جدید دور کے ترکیہ میں بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی۔[24]تین پاشاوںکے کنٹرول میں،سلطنت عثمانیہ1914ءمیںپہلی جنگ عظیممیں داخل ہوئی، جس کے دوران عثمانی حکومت نے اپنے آرمینیائی، یونانی اور آشوری رعایا کے خلاف نسل کشی کی۔[25][26][27]عثمانی شکست کے بعد،ترک جنگ آزادیکے نتیجے میں سلطنت کے خاتمے اورمعاہدہ لوزانپر دستخط ہوئے۔
+جمہوریہ کا اعلان29 اکتوبر1923ءکو کیا گیا تھا، جو ملک کے پہلے صدرمصطفٰی کمال اتاترککی طرف سے شروع کی گئی اصلاحات پر مبنی تھا۔دوسری جنگ عظیمکے بیشتر دوران ترکیہ غیر جانبدار رہا،[28]لیکنکوریا جنگکی میں شامل رہا۔1960ءاور1980ءمیں بغاوتوں نے کثیر جماعتی نظام کی منتقلی میں خلل ڈالا۔[29]ترکیہ ایکاعلیٰ متوسط آمدنیوالا اورابھرتاہوا ملک ہے۔ اس کی معیشت برائے نام کے لحاظ سےدنیا کی 18 ویںسب سے بڑی اورمساوی قوت خریدکے مطابقخام ملکی پیداوارکے لحاظ سے 11 ویں سب سے بڑی ہے۔ یہ ایکوحدانیصدارتی جمہوریہ ہے۔ ترکیہانجمن اقتصادی تعاون و ترقی،جی 20، اورترک ریاستوں کی تنظیمکا بانی رکن ہے۔ جغرافیائی طور پر اہم مقام کے ساتھ، ترکی ایک علاقائی طاقت ہے[30]اورنیٹوکا ابتدائی رکن ہے۔یورپی یونینامیدوار، ترکیہیورپی یونینکسٹمز یونین،یورپ کی کونسل،تنظیم تعاون اسلامی، اورترک سوئےکا حصہ ہے۔ترکیہ میں ساحلی میدان، ایک اعلیٰ مرکزیسطح مرتفعاور مختلف پہاڑی سلسلے ہیں۔ اس کیآب و ہوامعتدل ہے اور اندرونی حصے میں سخت حالات ہیں۔[31]تینحیاتی تنوع علاقہکا گھر، ترکیہ اکثر زلزلوں کا شکار رہتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔[32]ترکیہ اکثر زلزلوں کا شکار رہتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔[33][34]ترکیہ میں وفاقی صحت کی دیکھ بھال، تعلیم تک بڑھتی ہوئی رسائی،[35]اور بڑھتی ہوئی جدت پسندی ہے۔[36]یہ ایک سرکردہٹی وی موادبرآمد کنندہ ہے۔[37]21 یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات، 30 یونیسکو کے غیر محسوس ثقافتی ورثے کے نوشتہ جات، v اور ایک بھرپور اور متنوع کھانوں کے ساتھ،[38]ترکیہ دنیا کاپانچواںسب سے زیادہ دیکھا ج��نے والا ملک ہے۔تورچیا، جس کا مطلب ہے ""ترکوں کی سرزمین""،اناطولیہکے لیےبارہویں صدیکے آخر تک یورپی متن میں استعمال ہونا شروع ہو گیا تھا۔[39][40][41]ترکی زبانوںمیں ایک لفظ کے طور پر، ترک کا مطلب ہو سکتا ہے ""مضبوط، طاقت، پکا ہوا"" یا ""پھلتا ہوا، پوری طاقت میں""۔[42]اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے جیسے کسی پھل کے لیے پکا ہوا ہو یا کسی شخص کے لیے ""زندگی کے عروج میں، جوان اور جوش""۔[43]ایک نسلی نام کے طور پر،اشتقاقیاتابھی تک نامعلوم ہے.[44]چھٹی صدیمیں چینی جیسی زبانوں میں استعمال کے علاوہ،[45]ترک زبانوں میں ترک (𐱅𐰇𐰺𐰜 tür̲k̲ یا 𐱅𐰇𐰼𐰚 türk/tẄrk) کا سب سے قدیم تذکرہ ترک زبان دوسریخانیتسے آتا ہے۔[46]وسطی انگریزیترکیے (Turkye) کے استعمال کا ثبوتجیفری چوسرکی دی بک آف ڈچس ( 1369ء) میں ملتا ہے۔
+جدید ہجے ترکی (Turkey) کم از کم1719ءکا ہے۔[47]ترکیہ کا نامسلطنت عثمانیہکی تعریف کے لیے متعدد بین الاقوامی معاہدوں کے متن میں استعمال ہوا ہے۔[48]الیگزینڈروپول کے معاہدے کے ساتھ، نامترکیہ(Türkiye) پہلی بار بین الاقوامی دستاویزات میں داخل ہوا۔1921ءمیںامارت افغانستانکے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں،سلطنت عثمانیہکے نام کی طرح ڈیولٹ-آئی الیائی-ای ترکئیے ('بہترین ترک ریاست') کا استعمال کیا گیا تھا۔[49]دسویں صدیمیںبازنطینیذرائع میں، تورکیا (یونانی زبان): Τουρκία) دوقرون وسطیکی ریاستوں کی تعریف کے لیے استعمال کیا گیا تھا:مجارستان(مغربی تورکیا)؛ اورخزر(مشرقی تورکیا)۔[50][51]سلطنت مملوکاپنی ترک نژاد حکمران اشرافیہ کے ساتھ، ""دولت ترکیا"" کہلاتی تھی۔[52]ترکستان، جس کا مطلب ""ترکوں کی سرزمین"" بھی ہے،وسط ایشیاکے ایک تاریخی خطے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔[53]دسمبر2021ءمیں صدررجب طیب ایردواننےترکیہ (Türkiye)کو برآمدات کے لیے اور بین الاقوامی اداروں اور دیگر ممالک کے ساتھ حکومتی رابطے میں استعمال کرنے پر زور دیا۔[54][55]اس کی وجہ یہ تھی کہترکیہ (Türkiye)""ترک قوم کی ثقافت، تہذیب اور اقدار کی بہترین انداز میں نمائندگی اور اظہار کرتا ہے""۔[54]مئی2022ءمیں ترک حکومت نےاقوام متحدہاور دیگر بین الاقوامی تنظیموں سے انگریزی میں سرکاری طور پر (Türkiye) استعمال کرنے کی درخواست کی۔اقوام متحدہنے اتفاق کیا۔[56][57][58]ترکیہ کی تاریخاس سرزمین کی تاریخ ہے جو آج جمہوریہ ترکیہ کی تشکیل کرتی ہے اور اس میںاناطولیہ، مشرقی تھریس اورگریٹرکردستاناورآرمینیا کےکچھ حصے شامل ہیں۔ترکیہکی تاریخ، جمیل کببا کی تاریخ کے طور پر سمجھی جاتی ہے جس خطے میں اب جمہوریہ ترکیہ کا علاقہ تشکیل پاتا ہے،اناطولیہ(ترکیہ کا ایشیائی حصہ) اور مشرقی تھریس (ترکیہ کا یورپی حصہ) دونوں کی تاریخ بھی شامل ہے۔[59][60]موجودہ ترکیہ میںبالائی قدیم سنگی دورکےانسانآباد رہے ہیں اور اس میں دنیا کے قدیمنیا سنگی دورکے مقامات موجود ہیں۔[63][64]گوبیکلی تپہکی عمر 12,000 سال کے قریب ہے۔[63]اناطولیہکے کچھ حصوں میں زرخیز ہلال شامل ہے، جو کہ زراعت کی اصل ہے۔[65]نیا سنگی دورکےاناطولیہکے کسانایراناوروادی اردنکے کسانوں سے جینیاتی طور پر مختلف تھے اور کھیتی باڑی کویورپمیں پھیلاتے تھے۔[66]دیگر اہمنیا سنگی دورمقامات میںچاتالہویوکاورآلاجا ہوئیوکشامل ہیں۔ .[67]ٹرائےکی ابتدائی پرتیںتانبے کا دورکی ہیں۔[67]یہ معلوم نہیں ہے کہٹرائے کی جنگتاریخی واقعات پر مبنی ہے۔[68]ٹرائے کی موخربرنجی دورکی پرتیںایلیاڈکی کہانی سے زیادہ ملتی ہیں۔[69]اناطولیہکے تاریخی ریکارڈ کا آغاز تقریباً 2000قبل مسیحکی ��ٹی کی تختیاں سے ہوتا ہے جو جدید دور کےکولتپہمیں پائی جاتی ہیں۔[70]یہ تختیاں ایکآشوریتجارتی کالونی سے تعلق رکھتی تھیں۔[70]اس وقتاناطولیہکی زبانوں میں ہیتیان، ہوریان،حتی،لووی، اورپالائیشامل تھے۔[71]ہتیان اناطولیہ کی مقامی زبان تھی، جس کا جدید دور کا کوئی معروف تعلق نہیں تھا۔[72]حورین زبان شمالیسوریہ[71]میں استعمال ہوتی تھی۔پالائی،لووی، اورحتیزبانیںہند یورپی زبانوں[73]کے اناطولیہ ذیلی گروپ میں شامل تھیں،[74]کے ساتھحتی""سب سے قدیم تصدیق شدہ ہند-یورپی زبان"" تھی۔ہند یورپی زبانوںکی ابتدا نامعلوم ہے۔[75]یہ اناطولیہ کی مقامی ہو سکتی ہیں[76]یا غیر مقامی۔[77]حتیحکمرانوں کی جگہ آہستہ آہستہحتی سلطنتکے حکمرانوں نے لے لی۔[70]حتی سلطنتوسطیاناطولیہکی ایک بڑی سلطنت تھی، جس کادار الحکومتہاتوساتھا۔[70]یہاناطولیہمیںپالااورلوویکے ساتھ تقریباً 1700 اور 1200قبل مسیحکے درمیان موجود تھی۔[70]جیسے جیسےحتی سلطنتٹوٹ رہی تھی، ہند-یورپی لوگوں کی مزید لہریںجنوب مشرقی یورپسے ہجرت کر گئیں، جس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔[78]تقریباً 750قبل مسیح،فریجیاقائم ہو چکا تھا، جس کے دو مراکزگوردیوناور جدید دور کےقیصریمیں تھے۔[79]فریجیاکے لوگ ایکہند یورپی زبانبولتے تھے، لیکن یہ اناطولیائی زبانوں کے بجائےیونانی زبانکے قریب تھی۔[73]فریجیاکے لوگوں نےاناطولیہکو نو-حتی اوراورارتوکے ساتھ اشتراک کیا۔اورارتوکادار الحکومتوان جھیلکے آس پاس تھا۔[79]اورارتواکثراشوریہکے ساتھ تنازع میں رہتا تھا،[80]لیکنساتویں صدی ق ممیںماداورسکوتیکے حملوں سے گرا۔[79]جب کیمیریوں نے حملہ کیا توفریجیاتقریباً 650قبل مسیحختم ہو گیا۔[81]ان کی جگہکاریائیوں،لیکیائیوںاورلیڈیائیوںنے لے لی۔[81]ان تینوں ثقافتوں کو ""اناطولیہ کے ہٹیائی شہروں کی قدیم، مقامی ثقافت کا اعادہ سمجھا جا سکتا ہے""۔[81]کاریامغربیاناطولیہکا ایک خطہ تھا جو ساحل کے ساتھ وسطایونیاسے جنوب میںلیکیااور مشرق میںفریجیاتک پھیلا ہوا تھا۔لیکیاکلاسیکی اناطولیہمیں 15-14 ویں صدیقبل مسیح(بطور لوکا) سے 546قبل مسیحتک ایک تاریخی خطہ تھا۔لیڈیاآہنی دورمیںاناطولیہمیں ترکیہ کے علاقہ میں واقع ایک ریاست تھی۔[82]1200قبل مسیحسے پہلےاناطولیہمیںیونانی اساطیربولنے والی چار بستیاں تھیں جن میںملطبھی شامل تھا۔[84]تقریباً 1000قبل مسیحمیںیونانیوںنےاناطولیہکے مغربی ساحل کی طرف ہجرت شروع کر دی۔[85]ان مشرقی یونانی بستیوں نےقدیم یونانیتہذیب کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا؛[79][86]پولس (شہری ریاست)میںملط،افسس،ہالیکارناسوس،سمیرنا(ابازمیر) اوربازنطیوم(اباستنبول)، مؤخر الذکر کی بنیاد ساتویں صدیقبل مسیحمیںمیگاراکے نوآبادیات نے رکھی تھی۔ .[87]ان بستیوں کو مخصوص یونانی گروہوں کے بعدآئیولس،ایونیااور ڈورس کے طور پر گروپ کیا گیا تھا جنہوں نے انہیں آباد کیا۔[88]بحیرہ ایجیئنکے کنارےیونانیشہر تجارت کے ساتھ ترقی کرتے رہے، اور قابل ذکر سائنسی اور علمی کارنامے دیکھے۔[89]ملطسےتھالیزاوراناکسی میندر) نے آئیونی سکول آف فلسفہ کی بنیاد رکھی، اس طرح عقلیت پسندی اور مغربی فلسفے کی بنیاد رکھی۔[90]کورش اعظمنے 547قبل مسیحمیں مشرقیاناطولیہپر حملہ کیا، اورہخامنشی سلطنتبالآخر مغربیاناطولیہمیں پھیل گئی۔[81]مشرق میں، آرمینیائی صوبہہخامنشی سلطنتکا حصہ تھا۔[79]فارس-یونانی جنگوںکے بعد،اناطولیہبحیرہ ایجیئنساحل کییونانیشہر ریاستوں نے دوبارہ آزادی حاصل کر لی، لیکن زیادہ تر اندرونی حصہہخ��منشی سلطنتکا حصہ رہا۔[81]شمال مغربی ترکیہ میںمملکت ادروسیپانچویں صدی ق ممیں موجود تھی۔[92]قدیم دنیا کے سات عجائبات عالممیں سے دو،افسسمیںمعبد آرتمیساورموسولس کا مزار،اناطولیہمیں واقع تھے۔[93]334قبل مسیحاور 333قبل مسیحمیںسکندر اعظمکی فتوحات کے بعد،ہخامنشی سلطنتکا خاتمہ ہوا اوراناطولیہمقدونیائی سلطنتکا حصہ بن گیا۔[81]اس کی وجہ سے اناطولیہ کے اندرونی حصے میں ثقافتی یکسانیت اوریونانیت اختیاریمیں اضافہ ہوا، جو کچھ جگہوں پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔[13]سکندر اعظمکی موت کے بعد، اناطولیہ کے بڑے حصوں پرسلوقی سلطنتنے حکومت کی، جبکہبحیرہ مرمرہاوربحیرہ اسودکے علاقوں میں مقامی اناطولیائی ریاستیں ابھریں۔ مشرقی اناطولیہ میں،مملکت آرمینیانمودار ہوئی۔تیسری صدی ق ممیںکلٹوںنے وسطی اناطولیہ پر حملہ کیا اور تقریباً 200 سال تک اس علاقے میں ایک بڑے نسلی گروہ کے طور پر جاری رکھا۔ وہ گلتیوں کے نام سے جانے جاتے تھے۔[94]جبمملکت پیرگاموننےسلوقی سلطنتکے ساتھ اپنے تنازع میں مدد کی درخواست کی تورومی جمہوریہنےدوسری صدی ق ممیںاناطولیہمیں مداخلت کی۔
+بغیر وارث کے،مملکت پیرگامونکا بادشاہ مملکت چھوڑ کررومچلا گیا، جسےایشیارومی صوبے کے طور پر ضم کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اناطولیہ میں رومی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔[95]مملکت پونٹسکے ساتھ ایشیائی ویسپرز کے قتل عام، اورمہردادی جنگوںکے بعد، روم فتحیاب ہوا۔[96][97][98]ْپہلی صدی قبل مسیحکے آس پاس،رومی جمہوریہنےپونٹساور بِیوتھینیا کے کچھ حصوں کو پھیلایا، جبکہ باقی اناطولیائی ریاستوں کو رومی تابع میں تبدیل کر دیا۔[99]سلطنت اشکانیانکے ساتھ کئیی تنازعات پیدا ہوئے، امن اور جنگوں میں بدل ہوتی رہیں۔[100]اعمال رسلکے مطابق، ابتدائیمسیحیکلیسیانےاناطولیہمیںسینٹ پالکی کوششوں کی وجہ سے نمایاں ترقی کی۔[101]اناطولیہ میں سینٹ پال کے خطوط قدیم ترینعیسائی ادبپر مشتمل ہیں۔[102]ماورائے بائبلروایاتکے مطابق،عروج مریمافسسمیں ہوا، جہاں حوارییوحنابھی موجود تھے۔ ایرینیئس ""افسس کی کلیسیا کے بارے میں لکھتا ہے، جس کی بنیادسینٹ پالنے رکھی تھی،یوحناکے ساتھترائیانکے زمانے تک جاری رہا۔""[103]بازنطینی سلطنت، جسےمشرقی رومی سلطنتبھی کہا جاتا ہے، قدیم دور اورقرون وسطیکے دورانقسطنطنیہمیں مرکزرومی سلطنتکا تسلسل تھا۔[105]سلطنت کا مشرقی نصف حصہ ان حالات سے بچ گیا جوپانچویں صدیمیںمغربکے زوال کا سبب بنی، اور1453ءمیںسلطنت عثمانیہکےفتح قسطنطنیہتک برقرار رہی۔
+اپنے زیادہ تر وجود کے دوران، سلطنتبحیرہ رومکی دنیا میں سب سے طاقتور اقتصادی، ثقافتی اور فوجی قوت رہی۔بازنطینی سلطنتکی اصطلاح صرف سلطنت کے خاتمے کے بعد وضع کی گئی تھی۔ اس کے شہری سیاست کو ""رومی سلطنت"" اور خود کو رومی کہتے ہیں۔
+سامراجی نشست کےرومسےبازنطیوممنتقل ہونے کی وجہ سے،مسیحیتکو ریاستی مذہب کے طور پر اپنانا،[106][107][108]اورلاطینی زبانکی بجائےوسطی یونانیزبان کی بالادستی کی وجہ سے، پہلے کی رومی سلطنت اور بعد میں بازنطینی سلطنت کے درمیان، جدید مورخین ایک امتیازی مقام بنا رہے ہیں۔[109]بازنطینی سلطنتکے ابتدائی دور میں،اناطولیہکے ساحلی علاقےیونانی زبانبولنے والے تھے۔ مقامی لوگوں کے علاوہ، اندرونیاناطولیہمیںگوتھ،کلٹ، فارسی اوریہودجیسے متنوع گروہ تھے۔
+اندرونی اناطولیہ کو ""بھارییونانیتزدہ"" کیا گیا تھا۔[110]اناطولی زبانیںبالآخریونانیت اختیاریکے بعد معدوم ہو گئی��۔[111]ابتدائی مسیحیتکی کئیی کلیسیائی کونسلیں موجودہ ترکیہ کے شہروں میں منعقد ہوئیں، جن میںپہلی نیقیہ کونسل(ازنیق) بھی شامل ہے325ءمیں (جس کے نتیجے میں پہلا یکساںمسیحینظریہ سامنے آیا، جسےنیکیائی عقیدہکہا جاتا ہے،381ءمیںقسطنطنیہکی پہلی کونسل،431ءمیںافسسکی کونسل، اور451ءمیںخلقیدونکی کونسل منعقد ہوئی۔[112]مورخین اور ماہرین لسانیات کے مطابق پروٹوترک زبانکی ابتدا وسطیمشرقی ایشیامیں ہوئی۔[113]ابتدائی طور پر، پروٹوترک زبانیںبولنے والے ممکنہ طور پر شکاری اور کسان دونوں تھے۔ وہ بعد میںخانہ بدوشچرواہے بن گئے۔[114]ابتدائی اورقرون وسطیکےترکگروہوں نےمشرقی ایشیائیاور مغربی یوریشیائی دونوں طرح کی جسمانی ظاہری شکلوں اور جینیاتی ماخذ کی ایک وسیع رینج کی نمائش کی، جس کا ایک حصہ ہمسایہ لوگوں جیسےایرانی، منگول، ٹوچاری،اورالی، اور ینیسیائی لوگوں کے ساتھ طویل مدتی رابطے کے ذریعے تھا۔[115]نویں صدیاوردسویں صدیعیسوی کے دوران،اوغوز ترکایک ترک گروہ تھا جوبحیرہ قزویناوربحیرہ ارالکے میدانوں میں رہتا تھا۔[116]جزوی طور پرقپچاق، قبیلہکے دباؤ کی وجہ سے، اوغوزسطح مرتفع ایراناورماورا النہرمیں ہجرت کر گئے۔[116]وہ اس علاقے میںایرانیبولنے والے گروہوں کے ساتھ گھل مل گئے اوراسلامقبول کر لیا۔[116]اوغوز ترکوںکوترکمانکے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔[116]سلجوق خاندانکی ابتدااوغوز ترکوںکی کنیک شاخ سے ہوئی جواوغوز یابغو ریاستمیں رہائش پذیر تھے۔[117]1040ءمیں سلجوقوں نے دندانقان کی جنگ میںسلطنت غزنویہکو شکست دی اور گریٹرخراسانمیںسلجوقی سلطنتقائم کی۔[118]بغداد،خلافت عباسیہکادارالخلافہاوراسلامی دنیا کا مرکز،1055ءمیں سلجوقوں نے لے لیا تھا۔[119]سلطنت میں فن، ثقافت اور سیاسی روایات میںخراسانیروایات کے کردار کو دیکھتے ہوئے، سلجوقی دور کو ""ترک، فارسی اور اسلامی اثرات"" کے مرکب کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔[120]گیارہویں صدیکے نصف آخر میں، سلجوق ترکوں نےقرون وسطیٰکےآرمینیااوراناطولیہمیں گھسنا شروع کیا۔[119]اس وقت،اناطولیہایک متنوع اور زیادہ تریونانی زبانبولنے والا خطہ تھا جو پہلےیونانیت اختیاریہونے کے بعد تھا۔[121][17][110]سلجوق ترکوں نے1071ءمیںجنگ ملازکردمیں بازنطینیوں کو شکست دی، اور بعد میں سلطنتسلاجقہ رومقائم کی۔[122]اس دور میں ترک امارات بھی تھیں جیسےدانشمند شاہی سلسلہ۔[123]سلجوق کی آمد نےاناطولیہمیںترک سازیکا آغاز کیا؛[17][124]وہاں ترک/ترک ہجرتیں، شادیاں اوراسلامقبول کرنے جیسی تبدیلیاں ہوئیں۔[125][126]تبدیلی میں کئی صدیاں لگیں اور بتدریج ہوا۔[127][128]اسلامیتصوفاحکامات کے ارکان، جیسے کہسلسلہ مولویہنےاناطولیہکے متنوع لوگوں کیاشاعت اسلاممیں کردار ادا کیا۔[129][130]تیرہویں صدیمیں،ترکہجرتکی دوسری اہم لہر آئی، جب لوگمنگول سلطنتکی توسیع کی وجہ سے علاقے سے بھاگ گئے۔[131][132]سلجوق سلطنت رومکو1243ءمیں کوس داغ کی جنگ میںمنگولکے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہچودہویں صدیکے آغاز تک غائب ہو گئی،[133][134]اور اس کی جگہ مختلف ترک امارات نے لے لی۔[19][135]سوغوتکے آس پاس کی علاقے میں،عثمانی بیلیککی بنیادچودہویں صدیکے اوائل میںعثمان اولنے رکھی تھی۔[136]عثمانی تاریخ نگاروں کے مطابق، عثمان کا تعلقاوغوز ترکوںکےقائی قبیلہسے تھا۔[137]عثمانیوں نےاناطولیہمیں قریبی ترک بیلیکوں (ریاستوں) کو جوڑنا شروع کیا اور یہ سلسلہبلقانتک پھیل گیا۔[138]محمد فاتحنے29 مئی1453ءکوبازنطینی سلطنتکےدار الحکومتقسطنطنیہپر ق��ضہ کر کےبازنطینی سلطنتکے خلاف عثمانی فتح مکمل کی۔[139]سلیم اولنےاناطولیہکو عثمانی حکومت کے تحت متحد کیا۔اناطولیہاوربلقانمیں عثمانیوں کے مختلف مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل جانے کے بعد ترک کاری جاری رہی۔[137]عثمانی سلطنتسلیم اولاورسلیمان اعظمکے دور میں ایک عالمی طاقت تھی۔[20][21]سولہویںاورسترہویںصدیوں میںسفاردی یہودیہسپانیہسے بے دخلی کے بعدسلطنت عثمانیہمیں چلے گئے۔[140]اٹھارہویں صدیکے دوسرے نصف سے،سلطنت عثمانیہ کا زوالشروع ہوا۔1839ءمیںمحمود دومکی طرف سے شروع کی گئیتنظیمات[141]اصلاحات کا مقصد عثمانی ریاست کو اس پیش رفت کے مطابق جدید بنانا تھا جو مغربییورپمیں ہوئی تھی۔[142]1876ءکا عثمانی آئین مسلم ریاستوں میں پہلا تھا، لیکن مختصر مدت کے لیے تھا۔[143]جیسے جیسے سلطنت بتدریج سائز، فوجی طاقت اور دولت میں سکڑتی گئی۔ خاص طور پر1875ءمیں عثمانی معاشی بحران اور ڈیفالٹ کے بعد جس کی وجہ سےبلقانکے صوبوں میں بغاوتیں ہوئیں جوروس ترک جنگ (1877-1878)پر منتج ہوئیں؛ بہت سےبلقانکےمسلماناناطولیہمیں سلطنت کے مرکز کی طرف ہجرت کر گئے،[144]اورادیگی قومکے ساتھ قفقاز پرروسی فتحسے فرار ہو گئے۔
+کچھ اندازوں کے مطابق، موجودہروسکے علاقے میںچرکسی نسل کشی[145][146]کے دوران 800,000 مسلمچرکسیہلاک ہوئے، جن میں سے بچ جانے والوں نےسلطنت عثمانیہمیں پناہ لی، اور موجودہ ترکیہ کے صوبوں میں آباد ہونا شروع ہوئے۔[147]سلطنت عثمانیہ کے زوالکے نتیجے میں اس کے مختلف رعایا کے لوگوں میں قوم پرستانہ جذبات میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں نسلی کشیدگی میں اضافہ ہوا جو کبھی کبھار تشدد کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جیسا کہآرمینیائی باشندوںکاحمیدیہ قتل عام، جس نے 300,000 جانیں لے لیں۔[148]پہلی بلقان جنگ(1912ء–1913ء) میں یورپ کے عثمانی علاقے (روم ایلی) کھو گئے۔[151]دوسری بلقان جنگ(1913ء) میں عثمانیوں نےیورپکے کچھ علاقے جیسےادرنہکو واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔انیسویں صدیاوربیسویں صدیکے اوائل میں، عثمانی عقوبت کے دوران اورروسی سلطنتمیں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے نتیجے میں 5 ملین اموات ہوئیں،[152][153]بلقانمیں 3 ملین سے زیادہ؛[154]ہلاک ہونے والوں میں ترک بھی شامل ہیں۔[153]پانچ سے سات یا سات سے نو ملین مہاجرینبلقان،قفقاز،کریمیا، اوربحیرہ رومجزیروں سے جدید دور کے ترکیہ میں منتقل ہوئے،[155]سلطنت عثمانیہکا مرکز اناطولیہ میں منتقل ہوا۔[156]یہودیوںکی ایک چھوٹی سی تعداد کے علاوہ، پناہ گزینوں کی اکثریتمسلمانتھی۔ وہ ترک اور غیر ترک دونوں ہی لوگ تھے، جیسےادیگی قوماورکریمیائی تاتار۔[157][158]پال موجز نے بلقان کی جنگوں کو ایک ""غیر تسلیم شدہ نسل کشی"" قرار دیا ہے، جہاں متعدد فریق متاثرین اور مجرم دونوں تھے۔[159]1913ءکی بغاوت کے بعد،تین پاشاوںنے عثمانی حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا۔سلطنت عثمانیہپہلی جنگ عظیممیںمرکزی طاقتوںکی طرف سے داخل ہوئی اور بالآخر اسے شکست ہوئی۔[160]جنگ کے دوران، سلطنت کی آرمینیائی رعایا کوآرمینیائی نسل کشیکے حصے کے طور پر شام بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں، ایک اندازے کے مطابق 600,000[161]سے لے کر 1 ملین سے زیادہ،[161]یا 1.5 ملین[162][163][164]آرمینیائیمارے گئے۔
+ترک حکومت نے ان واقعات کو نسل کشی[25][165]کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ آرمینیائی باشندوں کو مشرقی جنگ کے علاقے سے صرف ""منتقل"" کیا گیا تھا۔[166]سلطنت کے دیگر اقلیتی گروہوں جیسے کہآشوریوںاوریونانیوںکے خلاف بھی نسل کشی کی مہمیں چل��ئی گئیں۔[167][168][169]1918ءمیںمعاہدۂ مدروسکی جنگ بندی کے بعد، فاتحاتحادی طاقتوںنے1920ءکےمعاہدہ سیورےکے ذریعےسلطنت عثمانیہکی تقسیم کی کوشش کی۔[170]معاہدہ سیورے[171]پہلی جنگ عظیمکے بعد10 اگست1920ءکواتحادی طاقتوںاورسلطنت عثمانیہکے درمیان طے پانے والا امن معاہدہ تھا۔ اس معاہدے پر عثمانی سلطنت نے دستخط کر دیے تھے لیکن اسے ترکیہ کی جمہوری تحریک نے مسترد کر دیا اور اس معاہدے پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔مصطفیٰ کمال اتاترک[172]کی زیر قیادت اس تحریک نے معاہدے کے بعد ترکیہ کی جنگ آزادی کا اعلان کر دیا اورقسطنطنیہ(موجودہاستنبول) میں بادشاہت کو ختم کرکے ترکی کو جمہوریہ بنا دیا۔پہلی جنگ عظیمکے بعداتحادیوںکےاستنبول(1918ء) اورازمیر(1919ء) پر قبضے نےترک قومی تحریککی شروعات کی۔مصطفٰی کمال اتاترککی قیادت میں، ایک فوجی کمانڈر جس نےجنگ گیلی پولیکے دوران خود کو ممتاز کیا تھا،ترک جنگ آزادی(1919ء-1923ء)معاہدہ سیورے(1920ء) کی شرائط کو منسوخ کرنے کے مقصد سے لڑی گئی۔[173]ترکی کی عبوریحکومت عظیم قومی ایوان،انقرہمیں، جس نے خود کو23 اپریل1920ءکو ملک کی قانونی حکومت قرار دیا تھا،ترکیہ قومی اسمبلینے پرانی سلطنت عثمانیہ سے نیا جمہوری سیاسی نظام، قانونی منتقلی کو باقاعدہ بنانا شروع کیا۔انقرہحکومت مسلح اور سفارتی جدوجہد میں مصروف ہے۔ 1921ء-1923ء میں آرمینیائی، یونانی، فرانسیسی اور برطانوی فوجوں کو نکال باہر کیا گیا تھا۔[174][175][176][177]انقرہ حکومت کی فوجی پیش قدمی اور سفارتی کامیابی کے نتیجے میں11 اکتوبر1922ءکومودانیا کی جنگ بندی[178]پر دستخط ہوئے۔1 نومبر1922ءکوانقرہمیں ترک پارلیمنٹ نے باضابطہ طور پر سلطنت کو ختم کر دیا، اس طرح 623 سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔24 جولائی1923ءکامعاہدہ لوزانجس نےمعاہدہ سیورےکی جگہ لے لی،[170][173]نےسلطنت عثمانیہکی جانشین ریاست کے طور پر نئی ترک ریاست کی خودمختاری کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا۔4 اکتوبر1923ءکو ترکیہ پر اتحادی افواج کا قبضہاستنبولسے آخری اتحادی افواج کے انخلا کے ساتھ ختم ہوا۔
+ترک جمہوریہ کا سرکاری طور پر29 اکتوبر1923ءکو ملک کے نئےدار الحکومتانقرہمیں اعلان کیا گیا۔[179]لوزان کنونشن نےیوناناور ترکیہ کے درمیان آبادی کا تبادلہ طے کیا۔[180]مصطفیٰ کمال اتاترکجمہوریہ کے پہلےصدربنے اور بہت سی اصلاحات متعارف کروائیں۔
+ان اصلاحات کا مقصد پرانی مذہب پر مبنی اورکثیر نسلیعثمانی بادشاہت کو ایک ترکقومی ریاستمیں تبدیل کرنا ہے جو ایک سیکولر آئین کے تحت پارلیمانی جمہوریہ کے طور پر چلائی جائے گی۔[181]1934ءکے کنیت کے قانون کے ساتھ،ترکیہ قومی اسمبلینےمصطفیٰ کمالکو اعزازی کنیتاتاترک(ترکوں کا باپ) سے نوازا۔[173]اتاترک کی اصلاحات نے کچھکرداور زازا قبائل میں عدم اطمینان کا باعث بنا جس کی وجہ سے1925ء[182]میںشیخ سعید بغاوتاور1937ءمیں درسم بغاوت ہوئی۔[183]عصمت انونو1938ءمیںمصطفیٰ کمال اتاترککی موت کے بعد ملک کے دوسرے صدر بنے۔1939ءمیںریاست ہتاینے ریفرنڈم کے ذریعے ترکیہ میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا۔[184]دوسری جنگ عظیمکے بیشتر دوران ترکیہ غیر جانبدار رہا لیکن23 فروری1945ءکودوسری جنگ عظیم کے اتحادیکی طرف سے جنگ میں داخل ہوا۔[185]اسی سال کے آخر میں، ترکیہاقوام متحدہکا چارٹر ممبر بن گیا۔[186]1950ءمیں ترکیہیورپ کی کونسلکا رکن بنا۔کوریا جنگمیںاقوام متحدہافواج کے حصے کے طور پر لڑنے کے بعد، ترکیہ نے1952ءمیںنیٹو(تنظیم معاہدہ شمالی اوقیانوس) میں شمولیت اختیار کی،بحیرہ روممیں سوویت کی توسیع کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار بن گیا۔1960ءاور1980ءمیں فوجی بغاوتوں کے ساتھ ساتھ1971ءاور1997ءمیں فوجی یادداشتوں کے ذریعے ملک کی کثیر الجماعتی جمہوریت کی طرف منتقلی میں خلل پڑا۔[187][188]1960ءاوربیسویں صدیکے اختتام کے درمیان، ترکیہ کی سیاست میں جن نمایاں رہنماوں نے متعدد انتخابی فتوحات حاصل کیں وہسلیمان دمیرل،بلند اجوداورتورگوت اوزالتھے۔تانسو چیلر1993ءمیں ترکیہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ ترکیہ نے1995ءمیںیورپی یونین کسٹمز یونینمیں شمولیت اختیار کی اور2005ءمیںیورپی یونینکے ساتھ الحاق کی بات چیت کا آغاز کیا۔[189]کسٹمز یونین نے ترکیہ کے مینوفیکچرنگ سیکٹر پر ایک اہم اثر ڈالا۔[190][191]2014ءمیں وزیر اعظمرجب طیب ایردواننے ترکیہ کے پہلے براہ راست صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔[192]15 جولائی2016ءکوترکیہ میں ناکام فوجی بغاوتنے حکومت کو ہٹانے کی کوشش کی۔[193]2017ءمیں ریفرنڈم کے ساتھ، پارلیمانی جمہوریہ کی جگہ ایک ایگزیکٹو صدارتی نظام نے لے لی تھی۔
+وزیراعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا، اور اس کے اختیارات اور فرائضصدر ترکیہکو منتقل کر دیے گئے۔
+ریفرنڈم کے دن، جب ووٹنگ ابھی جاری تھی، سپریم الیکٹورل کونسل نے ایک قاعدہ ختم کر دیا جس کے تحت ہر بیلٹ پر ایک سرکاری ڈاک ٹکٹ ہونا ضروری تھا۔[194]حزب اختلاف کی جماعتوں نے دعویٰ کیا کہ 25 لاکھ بیلٹ بغیر ٹکٹ کے درست تسلیم کیے گئے۔[194]عوامی نظم و نسق کے لحاظ سے ترکیہ کا ایکوحدانی ریاستڈھانچہ ہے، اورصوبےانقرہمیں مرکزی حکومت کے ماتحت ہیں۔
+صوبوں کے مراکز میں حکومت کی نمائندگی صوبے کے گورنر (والی) کرتے ہیں اور قصبوں میں گورنرز (کیماکم) کرتے ہیں۔
+دیگر اعلیٰ عوامی عہدیداروں کا تقرر بھی مرکزی حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے، سوائے ان میئروں کے جنہیں حلقہ کار منتخب کرتے ہیں۔[195]ترک بلدیات میں بلدیاتی امور پر فیصلہ سازی کے لیے مقامی قانون ساز ادارے ہیں۔انتظامی مقاصد کے لیے ترکی کو 81صوبوںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر صوبہ مختلف تعداد میں اضلاع میں منقسم ہے۔ صوبائی گورنر صوبہ کے مرکزی ضلع میں ہوتا ہے۔ مرکزی ضلع کا نام عام طور پر صوبے کے نام پر ہوتا ہے۔ صوبہ مقرر کردہ گورنر کے زیر انتظام ہوتا ہے۔سلطنت عثمانیہاور ابتدائی ترک جمہوریہ میں متعلقہ اکائیولایتتھی۔ ہر صوبے کواضلاعمیں تقسیم کیا گیا ہے کل 973 اضلاع ہیں۔29 اکتوبر 1923ء کوسلطنت عثمانیہکےخاتمےاور جمہوریہ ترکی کے باضابطہ قیام کے بعد انتظامی نظام میں تبدیلیاں کی گئیں۔ دو سال بعدصوبہ اردھان،بےاوغلو،چاتالجا،تونجیلی،عرگانی،گلیبولو، جنک،قوزان،اولتو،موش،سیورکاوراسکودارکے صوبوں کو اضلاع میں تبدیل کر دیا گیا۔[196][197]1927ء میںدوغوبایزیدکو ایک ضلع میں تبدیل کر دیا گیا اورصوبہ آغریسے منسلک کر دیا گیا۔[198]1929ء میںموشدوبارہ صوبہ بن گیا اورصوبہ بتلیسایک ضلع بن گیا۔[196]چار سال بعد، یہ تعداد چھپن تک گر گئی جبآق سرائے،صوبہ عثمانیہ،حکاریاورشبین قرہ حصاراضلاع بن گئے،مرسیناورسیلیفکےکو ملایا گیا اورصوبہ مرسین[B]کے نام سے ایک نیا صوبہ تشکیل دیا گیا اورصوبہ آرتویناورصوبہ ریزہکو ملا کر ایک نیا صوبہ کوروہ تشکیل دیا گیا تھا۔[196]1936ء میں،ریزہ،تونجیلیاورحکاریدوبارہ صوبے بن گئے اور اسی سال ڈرسم کا نام بدل کرتونجیلیرکھ دیا گیا۔ 1939ء میںریاست ھتایترکی کے ساتھ الحاق کرکے ایک صوبہ بن گیا۔[196][199]1953ء میں، یہ فیصلہ کیا گیا کہصوبہ عشاقایک صوبہ بنے گا اورصوبہ قر شہرایک ضلع بنے گا۔ 1954ء میںصوبہ آدیامان،صوبہ نو شہراورصوبہ سقاریہکو صوبائی حیثیت حاصل ہوئی۔[196]ہر صوبے کواضلاعمیں تقسیم کیا گیا ہے کل 973 اضلاع ہیں۔[200]زیادہ تر صوبوں کا وہی نام ہے جو ان کے متعلقہ صوبائیدار الحکومتکے اضلاع کا ہے۔ تاہم، بہت سے شہری صوبوں کو، جنہیں عظیم بلدیہ کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، میں متعدد اضلاع پر مشتمل ایک مرکز ہے، جیسے کہصوبہ انقرہکا صوبائی دار الحکومت،انقرہ شہر، نو الگ الگ اضلاع پر مشتمل ہے۔ترکیہ سات علاقوں اور 21 ذیلی علاقوں میں منقسم ہے۔ جنہیں1941ءمیں سب سے پہلی جغرافیائی کانگریس میں بیان کیا گیا ہے۔ علاقے جغرافیائی، آبادیاتی اور اقتصادی مقاصد کے تناظر میں وضع کیے گئے ہیں اور یہ انتظامی تقسیم نہیں ہیں۔ علاقوں کی سرحدیں انتظامی صوبوں کی سرحدوں کے ساتھ متراکب نہیں ہیں۔[201]ترکیہ ایک کثیر الجماعتی نظام کے اندر ایکصدارتی جمہوریہہے۔[202]موجودہآئین1982ءمیں اپنایا گیا تھا۔[203]ترکیہ کے وحدانی نظام میں، شہری حکومت کےتین درجوں کے تابعہیں: قومی، صوبائی اور مقامی۔مقامی حکومتکے فرائض عام طور پرمیونسپل حکومتوںاور اضلاع کے درمیان تقسیم ہوتے ہیں، جس میں ایگزیکٹو اور قانون ساز عہدیداروں کو ضلع کے لحاظ سے شہریوں کے کثرت رائے سے منتخب کیا جاتا ہے۔
+حکومت تین شاخوں پر مشتمل ہے: پہلیقانون سازشاخ ہے، جوترکیہ قومی اسمبلیہے؛[204]دوسری ایگزیکٹو برانچ ہے، جوصدر ترکیہہے۔[205]اور تیسری عدالتی شاخ ہے، جس میں آئینی عدالت، عدالت کی عدالت اور عدالتی تنازعات شامل ہیں۔[206][5]ترکیہ کی سیاست تیزی سے جمہوری پسماندگی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جسے ایک مسابقتی آمرانہ نظام قرار دیا جا رہا ہے۔[207][208]پارلیمان کے 600 ووٹنگ ممبران ہیں، ہر ایک پانچ سال کی مدت کے لیے ایک حلقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ پارلیمانی نشستیں صوبوں میںآبادی کے تناسب سے تقسیمکی جاتی ہیں۔صدرکا انتخاببراہ راست انتخاباتسے ہوتا ہے اور پانچ سال کی مدت کے لیے کرتا ہے۔[209]صدرپانچ سال کی دو مدتوں کے بعد دوبارہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا، جب تک کہ پارلیمان دوسری مدت کے دوران صدارتی انتخابات کی قبل از وقت تجدید نہ کرے۔ پارلیمنٹ کے انتخابات اور صدارتی انتخابات ایک ہی دن ہوتے ہیں۔[210]آئینی عدالت 15 ارکان پر مشتمل ہے۔ ایک رکن 12 سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتا ہے اور اسے دوبارہ منتخب نہیں کیا جا سکتا۔ آئینی عدالت کے ارکان 65 سال سے زائد عمر کے ہونے پر ریٹائر ہونے کے پابند ہیں۔[211]ترکیہ میں انتخابات حکومت کے چھ کاموں کے لیے ہوتے ہیں: صدارتی انتخابات (قومی)، پارلیمانی انتخابات (قومی)،میونسپلٹی میئر(مقامی)، ضلعی میئرز (مقامی)، صوبائی یا میونسپل کونسل کے اراکین (مقامی) اورمختار(مقامی)۔
+انتخابات کے علاوہ،ریفرنڈمبھی کبھی کبھار منعقد ہوتے ہیں۔ ہر ترک شہری جو 18 سال کا ہو گیا ہے اسےووٹڈالنے اور انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہونے کا حق حاصل ہے۔1934ءسے ترکیہ بھر میں دونوں جنسوں کے لیے یونیورسل ووٹنگ لاگو ہے۔
+ترکیہ میں، مقامی اور عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے، جو عام طور پر 80% سے زیادہ ہے۔[212]آئینی عدالتسیاسی جماعتوںکی عوامی مالی اعانت کو ختم کر سکتی ہے کہ وہ سیکولر مخالف یا دہشت گردی سے تعلق رکھتی ہے، یا ان کے وجود پر مکمل پابندی لگا سکتی ہے۔[213][214]قومی سطح پر سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابی حد سات فیصد ووٹ ہے۔[215]چھوٹی جماعتیں دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر انتخابی دہلیز سے بچ سکتی ہیں۔آزاد امیدوارانتخابی حد سے مشروط نہیں ہیں۔ترکیہ کے سیاسی میدان کے دائیں جانبسیاسی طیف، ڈیموکریٹ پارٹی، جسٹس پارٹی، مادر لینڈ پارٹی، اورجسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹیجیسی جماعتیں ترکی کی سب سے مقبول سیاسی جماعتیں بن گئیں۔ متعدد انتخابات جیت کر۔ ترکدائیں بازوکی پارٹیاں زیادہ امکان رکھتی ہیں کہ وہ سیاسی نظریات کے اصولوں کو قبول کریں جیسےقدامت پرستی،قوم پرستییا اسلامیت۔[216]سیاسی طیفکی طرف،جمہوریت خلق پارٹی, سوشل ڈیموکریٹک پاپولسٹ پارٹی اورڈیموکریٹک لیفٹ پارٹیجیسی جماعتوں نے ایک بار سب سے زیادہ انتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔بائیں بازوکی جماعتیںسوشلزم،کمالزمیاسیکولرازمکے اصولوں کو اپنانے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں۔[217]صدررجب طیب اردوغان،ترکیہ کے صدارتی انتخابات، 2023ءکے فاتح ہیں،[218][219]اس وقتسربراہ ریاستاورسربراہ حکومتکے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔اوزگور اوزلمرکزی قائد حزب اختلاف ہیں۔نعمان کورتولموشترکیہ قومی اسمبلیکے اسپیکر ہیں۔2023ءکے پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں ترکیہ کی 28 ویں پارلیمنٹ ہوئی، جس میںجسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹیکے لیے 268 نشستیں،ریپبلکن پیپلز پارٹیکے لیے 169 نشستیں، پارٹی آف گرینز اینڈ دی لیفٹ فیوچر کے لیے 61 نشستیں،حرکت ملی پارٹی، 43 سیٹیںایی پارٹی، 5 سیٹیںنیو ویلفیئر پارٹیاور 4 سیٹیںورکرز پارٹی آف ترکیکے لیے 50 نشستیں تھیں۔[220]اگلے پارلیمانی انتخابات2028ءمیں ہونے والے ہیں۔جمہوریہ کے قیام کے ساتھ، ترکیہ نےشریعتسے ماخوذ عثمانی قانون کی جگہ ایک شہری قانون کا قانونی نظام اپنایا۔ سول کوڈ، جو1926ءمیں اپنایا گیا تھا،1907ءکے سوئس سول کوڈ[221][222][223]اور1911ءکے سوئس ضابطہ ذمہ داریوں پر مبنی تھا۔[224][225]اگرچہ2002ءمیں اس میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں، لیکن اس نے اصل ضابطہ کی بنیاد کو برقرار رکھا ہے۔ضابطہ تعزیراتجو اصل میں اطالوی ضابطہ فوجداری پر مبنی ہے، کو2005ءمیں ایک ضابطہ سے تبدیل کیا گیا جس کے اصول جرمن پینل کوڈ اور عام طور پر جرمن قانون سے ملتے جلتے ہیں۔[226]انتظامی قانون فرانسیسی مساوی پر مبنی ہے اور طریقہ کار کا قانون عام طور پر سوئس، جرمن اور فرانسیسی قانونی نظاموں کے اثر کو ظاہر کرتا ہے۔[227][228][229]اسلامی اصول قانونی نظام میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔[230]ترکیہ میں قانون کا نفاذ کئی ایجنسیاں وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار میں کرتی ہیں۔ یہ ایجنسیاں جنرل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی، جینڈرمیری جنرل کمانڈ اور کوسٹ گارڈ کمانڈ ہیں۔[231]جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹیاوررجب طیب ایردوانکی حکومت کے سالوں میں، خاص طور پر2013ءکے بعد سے، ترکیہ کی عدلیہ کی آزادی اور سالمیت کو ترکیہ کے اندر اور باہر دونوں اداروں، اراکین پارلیمنٹ اور صحافیوں کی طرف سے سیاست کی وجہ سے شکوک و شبہات کا سامنا ہے۔ ججوں اور پراسیکیوٹرز کی ترقی اور عوامی ڈیوٹی کے حصول میں مداخلت ان میں شامل ہیں۔[232][233][234]اس کے روایتی مغربی رجحان کے مطابق،یورپکے ساتھ تعلقات ہمیشہ ترکیہ کی خارجہ پالیسی کا مرکزی حصہ رہے ہیں۔
+ترکیہ1950ءمیںیورپ کی کونسلکے ابتدائی ارکان میں سے ایک بنا۔ ترکیہ نے1987ءمیںیورپین اکنامک کمیونٹیکی مکمل رکنیت کے لیے درخواست دی،1995ءمیںیورپی یونین کسٹمز یونینمیں شمولیت اختیار کی اور2005ءمیںیورپی یونینکے ساتھ الحاق کے مذاکرات کا آغاز کیا۔[235][236]13 مارچ2019ءکو ہونے والے ایک غیر پابند ووٹ میں،یورپی پارلیماننے انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی ��ی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے،یورپی یونینکی حکومتوں سے ترکیہ کے ساتھیورپی یونینکے الحاق کے مذاکرات کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن مذاکرات، مؤثر طریقے سے2018ءسے روکے گئے،2023ءتک فعال رہے۔[237]ترکیہ کی خارجہ پالیسی کا دوسرا واضح پہلوریاست ہائے متحدہکے ساتھ ملک کا دیرینہ تزویراتی اتحاد رہا ہے۔[238][239]1947ءمیں ٹرومین نظریے نےسرد جنگکے دوران ترکیہ اوریونانکی سلامتی کی ضمانت دینے کے امریکی ارادوں کی نشاندہی کی اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر امریکی فوجی اور اقتصادی مدد حاصل ہوئی۔1948ءمیں دونوں ممالک کو یورپی معیشتوں کی تعمیر نو کے لیےمارشل پلاناورانجمن اقتصادی تعاون و ترقیمیں شامل کیا گیا تھا۔[240]سرد جنگکے دورانسوویت یونینکی طرف سے درپیش مشترکہ خطرے کی وجہ سے1952ءمیں ترکیہ نےنیٹوکی رکنیت حاصل کی، جس سےریاست ہائے متحدہکے ساتھ قریبی دوطرفہ تعلقات کو یقینی بنایا گیا۔
+اس کے بعد، ترکیہ نےریاستہائے متحدہکی سیاسی، اقتصادی اور سفارتی حمایت سے فائدہ اٹھایا، بشمول اہم مسائل جیسے کہ ملک کییورپی یونینمیں شمولیت کی بولی۔[241]سرد جنگکے بعد کے ماحول میں، ترکیہ کی جغرافیائی اہمیتمشرق وسطی،قفقازاوربلقانکی قربت کی طرف منتقل ہو گئی۔[242]1991ءمیںسوویت یونینکی ترک ریاستوں کی آزادی، جس کے ساتھ ترکی مشترکہ ثقافتی، تاریخی اورلسانیورثے میں شریک ہے، نے ترکیہ کو اپنے اقتصادی اور سیاسی تعلقات کووسط ایشیاتک بڑھانے کی اجازت دی۔[243]ترک ثقافت کی بین الاقوامی تنظیم(ترک سوئے)1993ءمیں قائم کی گئی تھی، اورترک ریاستوں کی تنظیم(او ٹی ایس)2009ءمیں قائم ہوئی تھی۔جماعت انصاف و ترقی(اے کے پی) حکومت کے تحت، ترکیہ کی معیشت نے تیزی سے ترقی کی ہے اور اس ملک کا اثر و رسوخمشرق وسطیٰمیں ایک اسٹریٹجک گہرائی کے نظریے کی بنیاد پر بڑھا ہے، جسے نو-عثمانیت بھی کہا جاتا ہے۔[244][245]دسمبر2010ءمیںعرب بہارکے بعد، متاثرہ ممالک میں بعض سیاسی مخالف گروپوں کی حمایت کے لیے حکومت کی طرف سے کیے گئے انتخاب نےسوری خانہ جنگیکے آغاز کے بعد اورمصریصدر محمد مرسی کیمعزولیکے بعد سے کچھ عرب ریاستوں، جیسے ترکیہ کے پڑوسیسوریہکے ساتھ تناؤ پیدا کر دیا ہے۔[246][247]2022ءتک ترکیہ کاسوریہیامصرمیں کوئی سفیر نہیں ہے،[248]لیکن دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔[249][250][251][252][253]اسرائیلکے ساتھسفارتی تعلقاتبھی2010ءمیں غزہ فلوتیلا کے حملے کے بعد منقطع ہو گئے تھے لیکن جون2016ءمیں ایک معاہدے کے بعد معمول پر آ گئے تھے۔[254]ان سیاسی اختلافات نےمشرقی بحیرہ روممیں ترکیہ کو چند اتحادیوں کے ساتھ چھوڑ دیا ہے، جہاں حال ہی میںقدرتی گیسکے بڑے ذخیرے دریافت ہوئے ہیں۔[255][256]یوناناورقبرصکے ساتھ ترکیہ کی سمندری حدود اورمشرقی بحیرہ روممیں سوراخ کرنے کے حقوق پر تنازع ہے۔[257][258]2016ءمیںروسکے ساتھ مفاہمت کے بعد ترکیہ نےسوریہمیں تنازع کے حل کے حوالے سے اپنے موقف پر نظر ثانی کی۔[259][260][261]جنوری2018ءمیں،ترکیہ کی فوجاور ترکیہ کی حمایت یافتہ فورسز، بشمول سوری قومی فوج،[262]نےسوریہمیں ایک آپریشن شروع کیا جس کا مقصد امریکی حمایت یافتہ وائی پی جی (جسے ترکی کالعدم پی کے کے کی شاخ سمجھتا ہے)[263][264]کوعفرینکے انکلیو سے بے دخل کرنا ہے۔[265][266]ترکیہ نےعراقی کردستانمیں بھی فضائی حملے کیے ہیں جس سے ترکیہ اورعراقکے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں کیونکہ مؤخر الذکر نے ان حملوں کو اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے اور شہریوں کو ہلاک کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔[267][268]ترک مسلح افواججنرل اسٹاف،ترک زمینی افواج،ترک بحریہاورترک فضائیہپر مشتمل ہیں۔
+چیف آف جنرل اسٹاف کا تقرر صدر کرتا ہے۔ صدر قومی سلامتی کے معاملات اور ملک کے دفاع کے لیے مسلح افواج کی مناسب تیاری کے لیے پارلیمنٹ کو ذمہ دار ہے۔ تاہم جنگ کا اعلان کرنے اورترک مسلح افواجکو بیرونی ممالک میں تعینات کرنے یا غیر ملکی مسلح افواج کو ترکیہ میں تعینات کرنے کی اجازت دینے کا اختیار صرف اور صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے۔[272]جینڈرمیری جنرل کمانڈ اور کوسٹ گارڈ کمانڈ وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ ہر فٹ مرد ترک شہری کے لیے ضروری ہے کہ وہ تین ہفتوں سے لے کر ایک سال تک فوج میں خدمات انجام دے، جو کہ تعلیم اور ملازمت کے مقام پر منحصر ہے۔[273]ترکی ایماندارانہ اعتراض کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی فوجی خدمات کا سویلین متبادل پیش کرتا ہے۔[274]امریکی مسلح افواجکے بعد، ترکیہ کے پاسنیٹومیں دوسری سب سے بڑی کھڑی فوجی طاقت ہے، فروری2022ءتک اندازے کے مطابق 890,700 فوجی اہلکار ہیں۔[283]ترکیہنیٹوکے ان پانچ رکن ممالک میں سے ایک ہے جوبیلجیم،جرمنی،اطالیہاورنیدرلینڈزکے ساتھ مل کر اتحاد کی جوہری اشتراک کی پالیسی کا حصہ ہیں۔[284]کل 90 بی61 ایٹمی بم انجرلک ایئر بیس پر رکھے گئے ہیں، جن میں سے 40 جوہری تنازع کی صورت میںترک فضائیہکے استعمال کے لیے مختص کیے گئے ہیں، لیکن ان کے استعمال کے لیے نیٹو کی منظوری درکار ہے۔[285]ترک مسلح افواجکی بیرون ملک نسبتاً کافی فوجی موجودگی ہے،[286]البانیا،[287]عراق،[288]قطر،[289]اورصومالیہ[290]میں فوجی اڈے ہیں۔
+یہ ملک1974ءسےشمالی قبرصمیں 36,000 فوجیوں کی ایک فورس کو بھی برقرار رکھتا ہے۔[291]ترکیہ نے کوریائی جنگ کے بعد سےاقوام متحدہاورنیٹوکے تحت بین الاقوامی مشنوں میں حصہ لیا ہے، جس میںصومالیہ،یوگوسلاویہاورقرن افریقامیں امن مشن بھی شامل ہیں۔
+اس نے پہلیخلیجی جنگمیں اتحادی افواج کی حمایت کی،افغانستانمیں بین الاقوامی سیکورٹی اسسٹنس فورس میں فوجی اہلکاروں کا حصہ ڈالا، اورکوسووہفورس، یورو کارپس اوریورپی یونینکے جنگی گروپوں میں سرگرم رہا۔[292][293]2016ءتک ترکیہ نے شمالیعراقمیںپیشمرگہفورسز اور صومالی مسلح افواج کی حفاظت اور تربیت میں مدد کی ہے۔[294][295]ترکیہ کاانسانی حقوقکا ریکارڈ بہت زیادہ تنازعات اور بین الاقوامی مذمت کا موضوع رہا ہے۔1959ءاور2011ءکے درمیانانسانی حقوقکی یورپی عدالت نے کردوں کے حقوق،خواتین کے حقوق،ایل جی بی ٹی حقوقاور میڈیا کی آزادی جیسے مسائل پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ترکیہ کے خلاف 2,400 سے زیادہ فیصلے سنائے ہیں۔[297][298]ترکیہ کا انسانی حقوق کا ریکارڈیورپی یونینمیں ملک کی رکنیت کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔[299]1970ءکی دہائی کے آخری نصف میں، ترکیہ انتہائی بائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کے عسکریت پسند گروپوں کے درمیان سیاسی تشدد کا شکار ہوا، جس کا اختتام1980ءکی فوجی بغاوت پر ہوا۔[300]کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے، جسے ترکیہ،ریاست ہائے متحدہ،[301]اوریورپی یونین[302]نے ایکدہشت گردتنظیم قرار دیا ہے) کی بنیادعبداللہ اوجلانکی سربراہی میں کرد عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے1978ءمیں رکھی تھی۔ مارکسی-لیننسٹ نظریہ پر مبنی ایک آزاد کرد ریاست کی بنیاد کے خواہاں ہیں۔[303]پی کے کے کی طرف سے اس کی ابتدائی وجہ ترکیپ میں کردوں پر ظلم تھا۔[304][305]ایک بڑے پیمانے پرشورش1984ءمیں شروع ہوئی، جب پی کے کے نے کرد بغاوت کا اعلان کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پی کے کے نے اپنے مطالبات کو ترکیہ کے اندر نسلی کردوں کے مساوی حقوق اور صوبائی خودمختاری میں تبدیل کر دیا۔[306][307][308][309]1980ءکے بعد سے ترک پارلیمان نے اپنے ارکان سے استثنیٰ کو استغاثہ سے چھین لیا، جن میں 44 نمائندے بھی شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر کرد نواز جماعتوں کے تھے۔[310]2013ءمیں وسیع پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے، جوتقسیم گیزی پارککو منہدم کرنے کے منصوبے سے شروع ہوئے لیکن جلد ہی عام حکومت مخالف اختلاف کی شکل اختیار کر گئے۔[311]20 مئی2016ءکو ترک پارلیمنٹ نے اپنے تقریباً ایک چوتھائی ارکان سے استثنیٰ کا حق چھین لیا، جن میں کرد نوازپیپلز ڈیموکریٹک پارٹیاور مرکزی اپوزیشنجمہوریت خلق پارٹیکے 101 اراکین شامل ہیں۔[312][313]2020ءتک،2016ءمیں بغاوت کی ناکام کوشش کا جواب دینے کے بہانے،[314][315]حکام نے 90,000 سے زیادہ ترک شہریوں کو گرفتار یا قید کیا تھا۔[316]صحافیوں کو تحفظ دینے کی کمیٹیکے مطابق،جماعت انصاف و ترقیحکومت نے میڈیا کی آزادی پر کریک ڈاؤن کیا ہے۔[317][318]بہت سے صحافیوں کو ""دہشت گردی"" اور ""ریاست مخالف سرگرمیوں"" کے الزامات کا استعمال کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے۔[319][320]2020ءمیںصحافیوں کو تحفظ دینے کی کمیٹینے ترکیہ میں جیل میں بند 18 صحافیوں کی نشاندہی کی (جس میں ترکیہ کا سب سے پرانا اخبار ""جمہوریہ"" کا ادارتی عملہ بھی شامل ہے)۔[321]ترکیہ میں1858ءسےدور تنظیماتکے بعد سےہم جنس پرستسرگرمیوں کو جرم قرار دیا گیا ہے۔[323]جنیوا کنونشنکے تحت1951ءسےایل جی بی ٹیلوگوں کو ترکیہ میں پناہ حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔[324]تاہم ترکیہ میںایل جی بی ٹیلوگوں کو امتیازی سلوک، ایذا رسانی اور یہاں تک کہ تشدد کا سامنا ہے۔[325]ترک حکام نے بہت سے امتیازی سلوک کیے ہیں۔[326][327][328]ان کے باوجود، ترکیہ میںایل جی بی ٹیکی قبولیت بڑھ رہی ہے۔2016ءمیں کیے گئے ایک سروے میں، 33 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ایل جی بی ٹی لوگوں کو مساوی حقوق ملنے چاہئیں، جو2020ءمیں بڑھ کر 45 فیصد ہو گئے۔2018ءمیں ایک اور سروے سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ہم جنس پرست پڑوسی نہیں چاہتے ہیں ان کا تناسب 55 فیصد سے کم ہو گیا ہے۔2018ءسے2019ءمیں 47 فیصد تھا۔[329][330]2015ءکے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ 27% ترک عوام ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دینے کے حق میں تھے اور 19% نے اس کی بجائےسول یونینزکی حمایت کی۔[331]2003ءمیں جب سالانہ استنبول پرائیڈ کا افتتاح ہوا تو ترکیہ پہلا مسلم اکثریتی ملک بن گیا جس نےہم جنس پرستوںکے لیے پرائیڈ مارچ کا انعقاد کیا۔[332]2015ءکے بعد سے،تقسیم چوکاورشارع استقلال(جہاںتقسیم گیزی پارکمیں احتجاج ہوا تھا) پر پریڈ کو سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے، حکومتی اجازت سے انکار کر دیا گیا ہے، لیکن ہر سال سیکڑوں افراد نے پابندی کی خلاف ورزی کی ہے۔[322]ناقدین نے دعویٰ کیا ہے کہ پابندی دراصلنظریاتیتھی۔[322]ترکیہ 783,562 مربع کلومیٹر (302,535 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے۔[333]ترکیہ کے آبنائے اوربحیرہ مرمرہکے درمیان، ترکیہمغربی ایشیااورجنوب مشرقی یورپکو پلاتا ہے۔[334]ترکیہ کاایشیائیحصہ اس کی سطح کا 97 فیصد احاطہ کرتا ہے، اور اسے اکثراناطولیہکہا جاتا ہے۔[335]اناطولیہکی مشرقی حدود کی ایک اور تعریفبحیرہ اسودسےخلیج اسکندرونتک ایک غلط لکیر ہے۔[336]مشرقی تھریس، ترکیہ کا یورپی حصہ، تقریباً 10% آبادی پر مشتمل ہے اور سطح کے رقبے کے 3% پر محیط ہے۔[337]یہ ملک تین اطراف سے سمندروں سے گھرا ہوا ہے: مغرب میںبحیرہ ایجیئن، شمال میںبحیرہ اسوداور جنوب میںبحیرہ رومواقع ہیں۔[338]ترکیہ کی سرحد مشرق میںجارجیا،آرمینیا،آذربائیجاناورایرانسے ملتی ہے۔[338]جنوب میں اس کی سرحدسوریہاورعراقسے ملتی ہے۔[339]شمال میں اس کاتھریسیعلاقہیوناناوربلغاریہسے متصل ہے۔[338]ترکیہ کو ""سات بڑے علاقوں"" میں تقسیم کیا گیا ہے:ایجیئن،بحیرہ اسود،وسطی اناطولیہ،مشرقی اناطولیہ،مرمرہ،بحیرہ روم،جنوب مشرقی اناطولیہ[338]ایک عمومی رجحان کے طور پر، اندرون ملک اناطولیائی سطح مرتفع مشرق کی طرف بڑھتے ہی تیزی سے ناہموار ہوتا جاتا ہے۔[340]پہاڑی سلسلوں میں شمال میںکوروغلواورپونٹکپہاڑی سلسلے اور جنوب میںسلسلہ کوہ طوروسواقع پے۔
+جھیلوں کا علاقہ ترکیہ کی سب سے بڑی جھیلوں پر مشتمل ہے جیسے کہجھیل بےشہراورجھیل اغیردیر۔[341]جغرافیہ دانوں نے مشرقی اناطولیائی سطح مرتفع، ایرانی سطح مرتفع اور آرمینیائی سطح مرتفع کی اصطلاحات کا استعمال اس پہاڑی علاقے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کیا ہے جہاںعرب تختیاور یوریشین ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں مل جاتی ہیں۔مشرقی اناطولیہ علاقہمیں کوہارارات، ترکیہ کا بلند ترین مقام 5,137 میٹر (16,854 فٹ)،[342]اور ملک کی سب سے بڑیوان جھیلپر مشتمل ہے۔[343]مشرقی ترکیہدریائے فرات،دریائے دجلہاوردریائے ارسجیسے دریاؤں کا گھر ہے۔جنوب مشرقی اناطولیہ علاقہمیںجزیرہ فراتکے شمالی میدانی علاقے شامل ہیں۔[344]ترکیہ میں اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔[33]تقریباً پوری آبادی ان علاقوں میں رہتی ہے جہاں زلزلے کے خطرات کی سطح مختلف ہوتی ہے، جس میں تقریباً 70 فیصد سب سے زیادہ یا دوسرے سب سے زیادہ زلزلے والے علاقوں میں رہتے ہیں۔[345][346]اناطولیائی پلیٹ شمال کی طرف شمالی اناطولیائی فالٹ زون سے متصل ہے۔ مشرقی اناتولین فالٹ زون اور مشرق میں بٹلیس-زگروس تصادم کا زون؛ جنوب میں ہیلینک اورقبرصکے سبڈکشن زونز؛ اور مغرب میں ایجین توسیعی زون واقع ہیں۔[347]1999ءازمیتاور 1999ءدوزجہکے زلزلوں کے بعد، شمالیاناطولیہکے فالٹ زون کی سرگرمی کو ""ترکیہ میں سب سے زیادہ خطرناک قدرتی خطرات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے""۔[348]ترکیہ، شام کے زلزلے 2023ءمعاصر ترکیہ کی تاریخ میں سب سے مہلک ترین تھے۔[349]ترکیہ کا بعض اوقاتچلیسے موازنہ کیا جاتا ہے، ایک ایسا ملک جس کیزلزلوںکی ترقی کی سطح ایک جیسی ہے۔[350][351][352]تینقدیم دنیابراعظموں کے درمیان زمینی، سمندری اور ہوائی راستوں کے سنگم پر ترکیہ کی پوزیشن اور اس کے جغرافیائی خطوں میں رہائش گاہوں کی قسم نے کافی انواع کا تنوع اور ایک متحرک ماحولیاتی نظام پیدا کیا ہے۔[353]دنیا میںحیاتی تنوع علاقہجات کے 36 ہاٹ سپاٹ میں سے 3 ترکیہ میں شامل ہیں۔۔[32]یہبحیرہ روم، ایرانی-اناتولی، اورقفقازکے ہاٹ سپاٹ ہیں۔[32]اکیسویں صدیمیں حیاتیاتی تنوع کو درپیش خطرات میں ترکیہ میں موسمیاتی تبدیلیوں سے صحرا بندی بھی شامل ہے۔[354]ترکیہ کے جنگلات ترکیہ کےشاہ بلوطکا گھر ہیں۔ پلاٹینس (میدان) کی نسل کی سب سے زیادہ پائی جانے والی انواعچنارہے۔
+ترک دیودار (پینس بروٹیا) زیادہ تر ترکیہ اور دیگر مشرقیبحیرہ رومکے ممالک میں پایا جاتا ہے۔گل لالہکی کئیی جنگلی انواعاناطولیہسے ہیں، اور یہ پھول پہلی بارمغربی یورپمیںسولہویں صدیمیںسلطنت عثمانیہسے لی گئی نسلوں کے ساتھ متعارف کرایا گیا تھا۔[355][356]ترکیہ میں 40 قومی پارک، 189 قدرتی پارک، 31 فطرت کے تحفظ علاقے، 80 جنگلی حیات کے تحفظ کے علاقے اور 109 قدرتی یادگاریں ہیں جیسے کہگیلی پولی جزیرہ نما تاریخی قومی پارک،کوہ نمرود قومی پارک،قدیم ٹرائے قومی پارک، ا��لوڈینیز فطرتی پارک اور پولونزکی فطرتی پارک۔[357]شمالی اناطولیائی مخروطی اور پرنپاتی جنگلات ایک ماحولیاتی خطہ ہے جو شمالی ترکیہ کےسلسلہ کوہ پونٹککے بیشتر حصے پر محیط ہے، جب کہقفقازکے مخلوط جنگلات رینج کے مشرقی سرے تک پھیلے ہوئے ہیں۔
+یہ خطہ یوروایشیائی جنگلی حیات کا گھر ہے جیسےیوریشیائی چڑی مار،سنہری عقاب، ایسٹرن امپیریل ایگل، کم دھبے والا عقاب، قفقازی بلیک گراؤس، ریڈ فرنٹڈ سیرین، اور وال کریپر۔[358]ترکیہ کے شمال مشرقی اور جنوب مشرقی علاقوں میںاناطولی تیندوااب بھی بہت کم تعداد میں پایا جاتا ہے۔[359][360]یوریشین لنکس، یورپی جنگلی بلی اورکرکلدیگرخاندان گربہنسلیں ہیں جو ترکیہ کے جنگلات میں پائی جاتی ہیں۔بحیرہ قزوین شیرجو اب معدوم ہو چکا ہے،بیسویں صدیکے نصف آخر تک ترکیہ کے انتہائی مشرقی علاقوں میں رہتا تھا۔[359][361]انقرہ کے مشہور گھریلو جانوروں میںترک انگورہ بلی،انگورہ خرگوشاورانگورہ بکریشامل ہیں۔ اورصوبہ وانکی وان بلی شامل ہیں۔
+کتے کی قومی نسلیں کنگال (اناطولی شیفرڈ)، ملاکلی اور اکباس ہیں۔[362]ترکیہ کے ساحلی علاقوں میں جوبحیرہ ایجیئناوربحیرہ رومسے متصل ہے ایکمعتدل آب و ہوابحیرہ روم کی آب و ہوا ہے، گرم، خشک گرمیاں اور ہلکی سے ٹھنڈی، گیلی سردیوں کے ساتھ ہے۔[364]بحیرہ اسودسے متصل ساحلی علاقوں میں گرم، گیلی گرمیاں اور ٹھنڈی سے سرد، گیلی سردیوں کے ساتھ معتدل سمندریآب و ہواہے۔[364]ترکیہ کےبحیرہ اسودکے ساحل پر سب سے زیادہبارشہوتی ہے اور یہ ترکیہ کا واحد خطہ ہے جہاں سال بھر زیادہ بارش ہوتی ہے۔[364]بحیرہ اسودکے ساحل کے مشرقی حصے میں سالانہ اوسطاً 2,200 ملی میٹر (87 انچ) بارش ہوتی ہے جو ملک میں سب سے زیادہ بارش ہے۔[364]بحیرہ مرمرہسے متصل ساحلی علاقے، جوبحیرہ ایجیئناوربحیرہ اسودکو جوڑتا ہے، معتدلبحیرہ رومکی آب و ہوا اور معتدل سمندری آب و ہوا کے درمیان ایک عبوری آب و ہوا ہے جس میں گرم سے گرم، اعتدال پسند خشک گرمیاں اور ٹھنڈی سے سرد، گیلی سردیوں کا موسم ہے۔[364]بحیرہ مرمرہاوربحیرہ اسودکے ساحلی علاقوں پر تقریباً ہرموسم سرمامیں برف پڑتی ہے لیکن عام طور پر چند دنوں سے زیادہ نہیں پگھلتی ہے۔[364]تاہمبحیرہ ایجیئنکے ساحلی علاقوں میں برف بہت کم اوربحیرہ رومکے ساحلی علاقوں میں بہت کم ہوتی ہے۔[364]اناطولیائی سطح مرتفع پر سردیاں خاص طور پر شدید ہوتی ہیں۔
+شمال مشرقی اناطولیہ میں −30 سے −40 °س (−22 سے −40 ° ف) کا درجہ حرارت پایا جاتا ہے، اور برف سال کے کم از کم 120 دن تک زمین پر پڑی رہتی ہے، اور پورے سال کے دوران سمندر کی چوٹیوں پر بلند ترین پہاڑوں پر موجود رہتی ہے۔
+وسطی اناطولیہ میں درجہ حرارت −20 °س (−4 °ف) سے نیچے گر سکتا ہے جب کہ پہاڑ اس سے بھی زیادہ سرد ہیں۔[364]سماجی اقتصادی، آب و ہوا اور جغرافیائی عوامل کی وجہ سے ترکی موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔[34]یہ دس میں سے نو آب و ہوا کے خطرے کے طول و عرض پر لاگو ہوتا ہے، جیسے کہ ""خوشحالی کے لیے اوسط سالانہ خطرہ""۔[34]انجمن اقتصادی تعاون و ترقیوسطی دس میں سے دو ہے۔[34]کمزوری کو کم کرنے کے لیے جامع اور تیز رفتار ترقی کی ضرورت ہے۔[365]ترکیہ کا مقصد 2053ء تک خالص صفر اخراج کو حاصل کرنا ہے۔[366]آب و ہوا کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، لیکن اس کے نتیجے میں خالص اقتصادی فوائد بھی ہوں گے، بڑے پیمانے پر ایندھن کی کم درآمدات اور فضائی آلودگی کو کم کرنے سے بہتر صحت کی وجہ سے۔[367]ترکیہ ایکبالائی متوسطآمدنی والا ملک اور ایکابھرتی ہوئی مارکیٹہے۔[346][374]او ای سی ڈیاورجی 20کا ایک بانی رکن،یہ خام ملکی پیداوار کے لحاظ سے اٹھارہویںسب سے بڑی معیشت اور،گیارہویں سب سے بڑی معیشتبلحاظمساوی قوت خرید-جی ڈی پی کو ایڈجسٹ کئے جانے کے مظابق ہے۔
+اسےنئے صنعتی ممالکمیں درجہ بند کیا گیا ہے۔
+خدمات کیجی ڈی پیکی اکثریت ہے، جبکہ صنعت کا حصہ 30% سے زیادہ ہے۔[375]زراعت کا حصہ تقریباً 7% ہے۔[375]بین الاقوامی مالیاتی فنڈکے تخمینے کے مطابق،مساوی قوت خریدکی طرف سے ترکیہ کی فی کسجی ڈی پی2023ءمیں 42,064امریکی ڈالرہے، جبکہ اس کی برائے نامجی ڈی پیفی کس 12,849امریکی ڈالرہے۔[375]براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاریترکیہ میں2007ءمیں 22.05 بلین ڈالر کی بلندی تھی اور2022ءمیں گر کر 13.09 بلین ڈالر رہ گئی۔[376]ممکنہ ترقی دیرپا ساختی اور میکرو رکاوٹوں کی وجہ سے کمزور پڑ جاتی ہے، جیسے پیداواری ترقی کی سست شرح اور اعلی افراط زر ہوتا ہے۔[346]ترکیہ ایک متنوع معیشت ہے۔ اہم صنعتوں میں آٹوموبائل، الیکٹرانکس، ٹیکسٹائل، تعمیرات، اسٹیل، کان کنی، اور فوڈ پروسیسنگ شامل ہیں۔[375]یہ ایکبڑا زرعی پیداواری ملکہے۔[381]ترکیہ خام سٹیل کی پیداوار میںآٹھویں نمبرپر, اور موٹر گاڑیوں کی پیداوار میںتیرہویں نمبرپر، بحری جہاز کی تعمیر (بلحاظ ٹن وزن)، اور دنیا میں سالانہ صنعتی روبوٹ کی تنصیب میں بھی نمایاں مقام رکھتا ہے۔[382]ترکیہ کی آٹوموٹو کمپنیوں میں ٹی ای ایم ایس اے، اوٹوکر، بی ایم سی اورٹوگشامل ہیں۔ٹوگترکیہ کی پہلی آل الیکٹرک گاڑیوں کی کمپنی ہے۔ آرچیلک، ویسٹل، اور بیکو کنزیومر الیکٹرانکس کے بڑے مینوفیکچررز ہیں۔[383]آرچیلک دنیا میں گھریلو سامان کے سب سے بڑے پروڈیوسر میں سے ایک ہے۔[384]2022ءمیں ترکیہ ٹاپ 250 کی فہرست میں بین الاقوامی کنٹریکٹرز کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔[385]ٹیکسٹائل کی برآمدات کے لحاظ سے بھی یہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔[386]ترکش ایئرلائنزدنیا کی سب سے بڑی ایئر لائنزمیں سے ایک ہے۔[387]2007ءاور2021ءکے درمیان،مساوی قوت خریدسے کم آبادی کا حصہ-6.85امریکی ڈالرفی دن بین الاقوامیخط غربت20% سے کم ہو کر 7.6% ہو گیا ہے۔[346]2023ءمیں 13.9% آبادی قومی خطرے سے متعلقخط غربتسے نیچے تھی۔[389]2021ءمیں یوروسٹیٹ کی تعریف کا استعمال کرتے ہوئے، 34% آبادی غربت یا سماجی اخراج کے خطرے میں تھی۔[390]ترکیہ میں2022ءمیں بے روزگاری کی شرح 10.4 فیصد تھی۔[391]2021ءمیں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ کل ڈسپوزایبل آمدنی کا 47% سب سے اوپر 20% آمدنی والے افراد کو موصول ہوا، جب کہ سب سے کم 20% کو صرف 6% ملا۔[392]ترکیہ کیجی ڈی پیمیںسیاحتکا حصہ تقریباً 8% ہے۔[393]2022ءمیں ترکیہ 50.5 ملین غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ بین الاقوامی سیاحوں کی آمد کی تعداد میںدنیا میں پانچویں نمبرپر ہے۔[394]ترکیہ میں21 یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے مقاماتاور 84 عالمی ثقافتی ورثے کی عارضی فہرست میں شامل ہیں۔[395]ترکیہ 519بلیو فلیگ ساحل سمندروںکا گھر ہے، جو دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔[396]یورو مانیٹر انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابقاستنبولدنیا کا سب سے زیادہ دیکھنے والا شہر ہے جہاں2023ءمیں 20.2 ملین سے زائد غیر ملکی سیاح آئے۔[388]انطالیہنےپیرساورنیویارک شہرکو پیچھے چھوڑ کر 16.5 ملین سے زیادہ غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ دنیا کا چوتھا سب سے زیادہ دیکھنے والا شہر بن گیا ہے۔[388]ترکیہ دنیا میں بجلی پیدا کرنے والاسولہواں بڑا ملک ہے۔
+ترکیہ کی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت میں نمایاں ا��افہ ہوا ہے، گزشتہ دہائی میں قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔[398][399]اس نے2019ءمیں اپنی بجلی کا 43.8 فیصد ایسے ذرائع سے پیدا کیا۔[400]ترکیہ دنیا میں جیوتھرمل پاور پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک بھی ہے۔[401]ترکیہ کا پہلا نیوکلیئر پاور سٹیشن، اکویو، اپنے انرجی مکس کے تنوع میں اضافہ کرے گا۔[402]جب کل حتمی کھپت کی بات آتی ہے تو، رکاز ایندھن اب بھی ایک بڑا کردار ادا کرتے ہیں، جو کہ 73 فیصد ہے۔[403]ترکیہ کےگرین ہاؤسگیسوں کے اخراج کی ایک بڑی وجہ توانائی کے نظام میں کوئلے کا بڑا حصہ ہے۔[404]2017ءتک جبکہ حکومت نے کم کاربن توانائی کی منتقلی میں سرمایہ کاری کی تھی، رکاز ایندھن کو اب بھی سبسڈی دی گئی۔[405]2053ء تک ترکیہ کا مقصد خالص صفر اخراج کرنا ہے۔[366]ترکیہ نے گیس اور تیل کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہوئے اپنی توانائی کی فراہمی کی حفاظت کو اولین ترجیح دی ہے۔[402]ترکیہ کے توانائی کی فراہمی کے اہم ذرائعروس،مغربی ایشیااوروسط ایشیاہیں۔[406]حال ہی میں دریافت ہونے والی ساکریا گیس فیلڈ میں گیس کی پیداوار2023ءمیں شروع ہوئی۔
+مکمل طور پر فعال ہونے پر، یہ مقامی طور پر درکار قدرتی گیس کا تقریباً 30 فیصد فراہم کرے گا۔[407][408]ترکیہ کا مقصد علاقائی توانائی کی نقل و حمل کا مرکز بننا ہے۔[409]ملک میں تیل اور گیس کی کئی پائپ لائنیں پھیلی ہوئی ہیں، بشمول بلیو اسٹریم، ترک اسٹریم، اور باکو-تبلیسی-سیہان پائپ لائنز۔[409]2023ءتک ترکیہ کے پاس 3,726 کلومیٹر طویلشاہراہیں(اوتویول) اور 29,373 کلومیٹرمنقسمشاہراہیں ہیں۔[410]متعدد پل اور سرنگیں ترکیہ کے ایشیائی اور یورپی اطراف کو جوڑتی ہیں۔ آبنائےدر دانیالپر1915ء چناق قلعہ پلدنیا کا سب سے لمبا معلق پل ہے۔[411]مرمرائیاوریوریشیا سرنگآبنائے باسفورسکے تحتاستنبولکے دونوں اطراف کو جوڑتا ہے۔[412]عثمان غازی پلخلیج ازمیتکے شمالی اور جنوبی ساحلوں کو ملاتا ہے۔[413]ترک ریاستی ریلوےروایتی اور تیز رفتار دونوں ٹرینیں چلاتی ہے، حکومت دونوں کو توسیع دے رہی ہے۔[414]تیز رفتار ریل لائنوں میںانقرہ-استنبول ہائی سپیڈ ریلوے، انقرہ-قونیا ہائی سپیڈ ریلوے، اور انقرہ-سیواس ہائی سپیڈ ریلوے شامل ہیں۔[415]استنبول میٹرو2019ءمیں تقریباً 704 ملین سالانہ سواریوں کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا سب وے نیٹ ورک ہے۔[416]2024ءتک ترکیہ میں 115 ہوائی اڈے ہیں۔[417]استنبول ہوائی اڈادنیا کے 10 مصروف ترینہوائی اڈوں میں سے ایک ہے ترکیہ کا مقصد نقل و حمل کا مرکز بننا ہے۔[418][419]یہ مختلف راستوں کا حصہ ہے جوایشیااوریورپکو ملاتے ہیں، بشمول مڈل کوریڈور۔[419]2024ءمیں ترکیہ،عراق،متحدہ عرب امارات، اورقطرنے عراقی بندرگاہوں کی سہولیات کو سڑک اور ریل رابطوں کے ذریعے ترکیہ سے جوڑنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔[420]تحقیق اور ترقی پر ترکیہ کاجی ڈی پیکے حصہ کے طور پر خرچ2000ءمیں 0.47% سے بڑھ کر2021ءمیں 1.40% ہو گیا ہے۔[421]ترکیہ سائنسی اور تکنیکی جرائد میں مضامین کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں 16ویں اور نیچر انڈیکس میں 35ویں نمبر پر ہے۔[422][423]ترکیہ کا پیٹنٹ آفس مجموعی طور پر پیٹنٹ ایپلی کیشنز میں دنیا بھر میں 21 ویں اور صنعتی ڈیزائن ایپلی کیشنز میں تیسرے نمبر پر ہے۔
+ترکیہ کے پیٹنٹ آفس میں درخواست دہندگان کی اکثریت ترک باشندوں کی ہے۔ عالمی سطح پر تمام پیٹنٹ دفاتر میں، ترکیہ کے رہائشی مجموعی طور پرپیٹنٹ کی درخواستوں کے لیے 21 ویں نمبرپر ہیں۔[424]2023ءمیں ترکیہاشاریہ عالمی اختراعمیں دنیا میں 39 ویں اور اپنے بالائی متوسط آمدنی والے گروپ میں چوتھے نمبر پر تھا۔[425]یہ ان ممالک میں سے ایک تھا جس میں گزشتہ دہائی میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔[36]توبی تاکفنڈنگ اور تحقیق کے لیے اہم ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔[426][427]ترکیہ کا خلائی پروگرام ایک قومی سیٹلائٹ لانچ سسٹم تیار کرنے اور خلائی تحقیق، فلکیات اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن میں صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔[427]گوک ترک پروگرام کے تحت، ترک خلائی نظام، انضمام اور ٹیسٹ سینٹر بنایا گیا تھا۔[428]ترکیہ کا پہلامواصلاتی سیارچہجو مقامی طور پر تیار کیا گیا ہے، ترک سیٹ 6اے،2024ءمیں لانچ کیا جائے گا۔[429]ایک منصوبہ بندپارٹیکل ایکسلریٹرمرکز کے ایک حصے کے طور پر، تارلا نامی ایک الیکٹران ایکسلریٹر2024ءمیں فعال ہو گیا تھا۔[430][431]ہارس شو آئی لینڈ پر انٹارکٹک ریسرچ سٹیشن کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔[432]ترکیہ کوبغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیوںمیں ایک اہم طاقت سمجھا جاتا ہے۔[433]اسیلسن، ٹرکش ایرو اسپیس انڈسٹریز، روکسان، اور اسفات دنیا کی 100 اعلیٰ دفاعی کمپنیوں میں شامل ہیں۔[434]ترکیہ کی دفاعی کمپنیاں اپنے بجٹ کا بڑا حصہ تحقیق اور ترقی پر خرچ کرتی ہیں۔[435]اسیلسن کوانٹم ٹیکنالوجی میں تحقیق میں بھی سرمایہ کاری کرتا ہے۔[436]ایڈریس بیسڈ پاپولیشن ریکارڈنگ سسٹم کے مطابق، ملک کی آبادی2023ءمیں 85,372,377 تھی، جس میں عارضی تحفظ کے تحتسوری مہاجرینکو چھوڑ کر۔[7]93% صوبے اورضلعی مراکزمیں رہتے ہیں۔[7]15-64 اور 0-14 عمر کے گروپوں کے اندر لوگ بالترتیب کل آبادی کے 68.3% اور 21.4% کے مساوی تھے۔ 65 سال یا اس سے زیادہ عمر والے 10.2 فیصد بنے۔[7]1950ءاور2020ءکے درمیان ترکیہ کی آبادی چار گنا سے زیادہ 20.9 ملین سے بڑھ کر 83.6 ملین ہو گئی؛ [401] تاہم،2023ءمیں آبادی میں اضافے کی شرح 0.1 فیصد تھی۔[438]2023ءمیں کلپیدائشی شرحفی عورت 1.51 بچے تھی، جو کہ فی عورت 2.10 کی تبدیلی کی شرح سے کم تھی۔[7]2018ءکے صحت کے سروے میں، مثالی بچوں کی تعداد فی عورت 2.8 بچے تھی، جو بڑھ کر فی شادی شدہ عورت 3 ہوگئی۔ .[439][440]ترکیہ کےآئینکا آرٹیکل 66 ترک کی تعریف کسی ایسے شخص کے طور پر کرتا ہے جو شہری ہو۔ ایک اندازے کے مطابق ترکیہ میں کم از کم 47 نسلی گروہ موجود ہیں۔[444]آبادی کے نسلی اختلاط سے متعلق قابل اعتماد ڈیٹا دستیاب نہیں ہے کیونکہمردم شماریکے اعداد و شمار میں1965ءکی ترک مردم شماری کے بعد نسل کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔[445]ورلڈ فیکٹ بک(کتاب حقائق عالم) کے مطابق، ملک کے 70-75% شہری ترک نژاد ہیں۔[446]ایک سروے کی بنیاد پر، کونڈا کا تخمینہ2006ءمیں 76% تھا، 78% بالغ شہریوں نے اپنے نسلی پس منظر کو ترک کے طور پر خود شناخت کیا۔[4]2021ءمیں ایک سروے میں 77 فیصد بالغ شہریوں کی نشاندہی کی گئی۔[447][448]کرد سب سے بڑی نسلی اقلیت ہیں۔[449]آبادی کے 12 سے 20% تک کے تخمینے کے ساتھ،[450]ان کی صحیح تعداد متنازع رہتی ہے۔[449]1990ءکے ایک مطالعے کے مطابق، کرد آبادی کا تقریباً 12 فیصد ہیں۔[451]صوبہ آغری،صوبہ باتمان،صوبہ بینگول،صوبہ بتلیس،صوبہ دیار بکر،صوبہ حکاری،صوبہ اغدیر،صوبہ ماردین،صوبہ موش،صوبہ سعرد،صوبہ شرناق،صوبہ تونجیلیاورصوبہ وان; میں قریب اکثریتصوبہ شانلی اورفہ(47%); اور اس میں ایک بڑی اقلیتصوبہ قارص(20%)، صوبوں میں کردوں کی اکثریت ہے۔[452]مزید برآں، اندرونی ہجرت کے نتیجے میں کرد باشندے وسطی اور مغربی ترکیہ کے تمام بڑے شہروں میں آباد ہوئے ہیں۔استنبولمیں ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ کرد آباد ہیں، جو اسے دنیا کا سب سے بڑا کرد آبادی والا شہر بناتا ہے۔[453]2021ءمیں ایک سروے میں 19% بالغ شہریوں کی شناخت نسلی کرد کے طور پر ہوئی۔[454][455]کچھ لوگ متعدد نسلی شناخت رکھتے ہیں، جیسے کہ ترک اور کرد۔[448]2006ءمیں ایک اندازے کے مطابق 2.7 ملین نسلی ترک اور کرد نسلی شادیوں سے متعلق تھے۔[456]ورلڈ فیکٹ بککے مطابق، غیر کرد نسلی اقلیتیں آبادی کا 7-12٪ ہیں۔[4]2006ءمیں کونڈا نے اندازہ لگایا کہ غیر کرد اور غیر زازا نسلی اقلیتیں آبادی کا 8.2% ہیں؛ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے عام وضاحتیں دیں جیسے کہ ترک شہری، دوسرےترکپس منظر والے لوگ ،عرب، اور دیگر۔[447]2021ءمیں ایک سروے میں 4% بالغ شہریوں کی شناخت غیر نسلی ترک یا غیر نسلی کرد کے طور پر کی گئی۔[448]آئینی عدالت کے مطابق، ترکیہ میں صرف چار سرکاری طور پر تسلیم شدہ اقلیتیں ہیں: تین غیر مسلم اقلیتیں جومعاہدہ لوزانمیں تسلیم کی گئی ہیں (آرمینیائی، یونانی، اور یہودی[پ]) اور بلغاریائی ہیں۔[ت][460][461][462]2013ءمیںانقرہ13 ویں سرکٹ ایڈمنسٹریٹو کورٹ نے فیصلہ دیا کہ لوزان معاہدے کی اقلیتی شقوں کا اطلاق ترکیہ اورسریانی زبانمیں آشوریوں پر بھی ہونا چاہیے۔[463][464][465]دیگر غیر تسلیم شدہ نسلی گروہوں میں البانیائی، بوسنیاکس، سرکیشین، جارجیائی،لاز، پوماکس، اوررومینیشامل ہیں۔[466][467][468]دفتری زبانترکی زبانہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والیترک زبانہے۔[469][470]اسےمادری زبانکے طور پر 85%[471][472]سے 90%[473]تک بولی جاتی ہے۔ کرد بولنے والے سب سے بڑی لسانی اقلیت ہیں۔[473]ایک سروے کے مطابق 13% آبادی کرد یازازاکی زبانکو پہلی زبان کے طور پر بولتی ہے۔[471]دیگر اقلیتی زبانوں میںعربی زبان،قفقاز کی زبانیں، اورگاگاؤز زبانشامل ہیں۔[473]سرکاری طور پر تسلیم شدہ اقلیتوںآرمینیائی زبان,بلغاری زبان,یونانی زبان,عبرانی زبان,[ٹ][457][460][461][462]اورسریانی زبان[464][465]کے لسانی حقوق کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
+ترکیہ میں متعدد زبانیں خطرے سے دوچار ہیں۔ترکیہ میں امیگریشن وہ عمل ہے جس کے ذریعے لوگ ملک میں رہنے کے لیے ترکیہ منتقل ہوتے ہیں۔سلطنت عثمانیہکی تحلیل کے بعد اور ترکیہ کی جنگ آزادی کے بعد، ترک (ترک) اور بلقان (بلقان ترک، البانی، بوسنیا، پومکس)، قفقاز (ابخازیوں، اجاریوں، سرکاشیوں، چیچن)، کریمیا (کریمیائی تاتار ڈائیسپورا) اور کریٹ (کریٹن ترک) نے موجودہ ترکیہ میں پناہ لی اور ملک کی بنیادی خصوصیات کو ڈھالا۔[7]ترکی کی طرف امیگریشن کے رجحانات آج بھی جاری ہیں، اگرچہ محرکات زیادہ متنوع ہیں اور عام طور پر عالمی امیگریشن کی نقل و حرکت کے نمونوں کے مطابق ہوتے ہیں - مثال کے طور پر ترکیہ کو آس پاس کے ممالک جیسے آرمینیا، مالدووا، جارجیا، سے بہت سے معاشی تارکین وطن آتے ہیں۔[476]ایران، اور آذربائیجان، بلکہ وسطی ایشیا، یوکرین اور روس سے بھی۔[477]2010 کی دہائی کے دوران ترکیہ کے تارکین وطن کے بحران نے بڑی تعداد میں لوگوں کو ترکی آنے کا دیکھا، خاص طور پرسوری خانہ جنگیسے فرار ہونے والے ہیں۔[478]نومبر2020ءمیں ترکیہ میں 3.6 ملین سوری پناہ گزین تھے؛[479]ان میںسوریہکے دیگر نسلی گروہ شامل تھے، جیسے سوری کرد[480]اورشامی ترکمانشامل ہیں۔[481]اگست2023ءتک ان مہاجرین کی تعداد 3.3 ملین بتائی گئی تھی۔ سال کے آغاز سے اب تک سوریوں کی تعداد میں تقریباً 200,000 افراد کی کمی واقع ہوئی ہے۔[482]حکومت نومبر2023ءتک 238 ہزار سوریوں کو شہریت دے چکی ہے۔[483]مئی2023ءتکیوکرینپر2022ءکے روسی حملے کے تقریباً 96,000یوکرینیمہاجرین نے ترکیہ میں پناہ مانگی ہے۔[484]2022ءمیں، تقریباً 100,000روسیشہریوں نے ترکیہ ہجرت کی، جو ترکیہ منتقل ہونے والے غیر ملکیوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آئے، یعنی2021ءسے 218 فیصد زیادہ اضافہ ہوا۔[485]ترکیہ ایکسیکولر ریاستہے جس کا کوئیسرکاری مذہبنہیں؛ آئینمذہبی آزادیاور ضمیر کی آزادی فراہم کرتا ہے۔[488][489]ورلڈ فیکٹ بک(کتاب حقائق عالم) کے مطابق،مسلمانآبادی کا 99.8 فیصد ہیں، جن میں سے زیادہ تراہل سنتہیں۔[4]ایک سروے کی بنیاد پر،2006ءمیں مسلمانوں کے لیے کونڈا کا تخمینہ 99.4% تھا۔[490]اقلیتی حقوق گروپ انٹرنیشنل کے مطابق،علویوںکے حصہ کا تخمینہ 10% سے 40% آبادی کے درمیان ہے۔[491]کونڈا کا تخمینہ2006ءمیں 5% تھا۔[490]2021ءمیں کیے گئے ایک سروے میں 4% بالغ شہریوں کی شناختعلویکے طور پر ہوئی جبکہ 88% کی شناختسنیکے طور پر ہوئی۔[448]جدید دور کے ترکیہ میں غیر مسلموں کی شرح1914ءمیں 19.1% تھی، لیکن1927ءمیں گر کر 2.5% رہ گئی۔[492]ورلڈ فیکٹ بککے مطابق فی الحال غیر مسلم آبادی کا 0.2% ہیں۔[4]2006ءمیں کونڈا کا تخمینہ غیر اسلامی مذاہب کے لوگوں کے لیے 0.18% تھا۔[490]کچھ غیر مسلم برادریوں میں آرمینیائی، آشوری، بلغاریائی آرتھوڈوکس،کیتھولک، کلڈین،یونانی،یہودیاورپروٹسٹنٹہیں۔[493]ترکیہ مسلم اکثریتی ممالک میں سب سے زیادہیہودی برادریہے۔[494]اس وقت ترکیہ میں 439گرجا گھراور عبادت گاہیں ہیں۔2006ءمیں کونڈا کا تخمینہ ان لوگوں کے لیے 0.47% تھا جن کا کوئی مذہب نہیں تھا۔[490]کونڈا کے مطابق، بالغ شہریوں کا حصہ جن کی شناخت کافر کے طور پر ہوئی ہے2011ءمیں 2 فیصد سے بڑھ کر2021ءمیں 6 فیصد ہو گئی۔[448]موبائل ریسرچ2020ءکے سروے نے پایا کہجنریشن زیڈکا 28.5% غیر مذہبی کے طور پر شناخت کرتا ہے۔[495][496]گزشتہ 20 سالوں میں، ترکیہ نے تعلیم کے معیار کو بہتر کیا ہے اور تعلیم تک رسائی بڑھانے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔[499]2011ءسے2021ءتک تعلیم تک رسائی میں بہتری میں ""اپر سیکنڈری غیر ترتیری یا ترتیری تعلیم میں 25-34 سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیمی حصول میں سب سے بڑا اضافہ"" اور پری اسکول کے اداروں کا چار گنا اضافہ شامل ہے۔[35]پروگرام برائے بین الاقوامی طالب علم تعینکے نتائج تعلیمی معیار میں بہتری کی نشاندہی کرتے ہیں۔[35]او ای سی ڈی ممالک کے ساتھ اب بھی خلا ہے۔ اہم چیلنجوں میں مختلف اسکولوں کے طلبہ کے نتائج میں فرق، دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان فرق، پری پرائمری تعلیم تک رسائی، اور سوری پناہ گزینوں کے طلبہ کی آمد شامل ہیں۔[35]وزارت قومی تعلیم قبل ثلاثی تعلیم کی ذمہ دار ہے۔[501]لازمی تعلیم سرکاری اسکولوں میں مفت ہے اور 12 سال تک رہتی ہے، اسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔[502][499]ترکیہ میں 208 یونیورسٹیاں ہیں۔[427]طلباء کو ان کے وائی کے ایس نتائج اور ان کی ترجیحات کی بنیاد پر، پیمائش، انتخاب اور تقرری مرکز کے ذریعے یونیورسٹیوں میں رکھا جاتا ہے۔[503]تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں ہائر ایجوکیشن بورڈ (ترکی زبان: Yükseköğretim Kurulu) کے کنٹرول میں ہیں۔2016ءسے ترکیہ کےصدربراہ راست تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے تمام ریکٹروں کی تقرری کرتے ہیں۔[504]2024ءٹائمز ہائر ایجوکیشن رینکنگ کے مطابق سرفہرست یونیورسٹیاںکوچ یونیورسٹی،مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی،سابانجی یونیورسٹیاوراستنبول ٹیکنیکل یونیورسٹیتھیں۔[505]عالمی یونیورسٹیوں کی اکیڈمک رینکنگ کے مطابق سرفہرستاستنبول یونیورسٹی،یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزاورحاجت تپہ یونیورسٹیتھیں۔[506]ترکی ایراسمس+ پروگرام کا رکن ہے۔[507]ترکیہ حالیہ برسوں میں غیر ملکی طلبا کا مرکز بن گیا ہے،2016ءمیں 795,962 غیر ملکی طلبا ملک میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔[508]2021ءمیں ترکیہ اسکالرشپس، ایک حکومتی مالی امداد سے چلنے والے پروگرام کو 178 ممالک میں متوقع طلبا سے 165,000 درخواستیں موصول ہوئیں۔[509][510][511]ترکیہ اسکالرشپس ترکیہ کی حکومت کی طرف سے فنڈ ایک بین الاقوامی اسکالرشپ پروگرام ہے۔[512][513][514]اسکالرشپ کے متعدد زمرے پروگرام کا حصہ ہیں۔ اگرچہ دنیا کے تقریباً ہر حصے کے امیدواروں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے اعلیٰ درجے کھلے ہیں، انڈرگریجویٹ اسکالرشپ کی علاقائی طور پر تعریف کی جاتی ہے اور ان میں صرف واضح طور پر ذکر کردہ ممالک شامل ہیں۔ گریجویٹ سطح کے اسکالرشپ میں علی کوسو سائنس اور ٹیکنالوجی گریجویٹ اسکالرشپ اور ابنی ہالڈون سوشل سائنسز گریجویٹ اسکالرشپ شامل ہیں۔[515]طالب علم کو ترکیہ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک سال کے اندر اپنے ملک واپس جانا ہوگا۔ وہ لوگ جنہیں ترکیہ میں کام کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور ترکیہ کو مطلوبہ اہل افرادی قوت کے دائرہ کار میں کام کا اجازت نامہ دیا گیا ہے، وہ اس مضمون کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔[516]وزارت صحت2003ءسے صحت عامہ کا ایک عالمگیر نظام چلا رہی ہے۔[518]یونیورسل ہیلتھ انشورنس کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی مالی اعانت آجروں پر ٹیکس سرچارج سے ہوتی ہے، جو فی الحال 5% ہے۔[518]پبلک سیکٹر کی فنڈنگ تقریباً 75.2% صحت کے اخراجات کا احاطہ کرتی ہے۔[518]عالمی صحت کی دیکھ بھال کے باوجود،2018ءمیں صحت پر مجموعی اخراجات جی ڈی پی کے حصہ کے طور پر او ای سی ڈی ممالک میں جی ڈی پی کے 6.3 فیصد پر سب سے کم تھے، جبکہ او ای سی ڈی کی اوسط 9.3 فیصد تھی۔[518]ملک میں کئی پرائیویٹ ہسپتال ہیں۔[519]حکومت نے2013ءسے کئی ہسپتالوں کے احاطے، جنہیں سٹی ہسپتال کہا جاتا ہے، کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے۔[519]ترکی صحت کی سیاحت کے لیے سرفہرست 10 مقامات میں سے ایک ہے۔[520]اوسط عمر متوقع 78.6 سال ہے (75.9 مردوں کے لیے اور 81.3 خواتین کے لیے)، اس کے مقابلے میںیورپی یونینکی اوسط 81 سال ہے۔[518]ترکیہ میںموٹاپےکی اعلی شرح ہے، اس کی 29.5% بالغ آبادی کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) ویلیو 30 یا اس سے اوپر ہے۔[521]فضائی آلودگیجلد موت کی ایک بڑی وجہ ہے۔[522]ترکیہ میں طبی سیاحت کا کافی کاروبار ہے،2018ءکے پہلے چھ مہینوں میں تقریباً 178 ہزار سیاح صحت کے مقاصد کے لیے تشریف لائے۔ 67% نے پرائیویٹ اسپتال، 24% سرکاری اسپتال اور 9% یونیورسٹی کے اسپتالوں کا استعمال کیا۔
+بین الاقوامی صحت سیاحت اور سیاحوں کی صحت سے متعلق ضابطہ13 جولائی2017ءکو نافذ ہوا۔ یہ صرف ان لوگوں پر لاگو ہوتا ہے جو خاص طور پر علاج کے لیے آتے ہیں۔[524]انیسویں صدیمیںسلطنت عثمانیہمیں ترکیہ کی شناخت پر بحث ہوئی، جس میں تین اہم نظریات تھے: ترک ازم، اسلامیت اور مغربیت۔[525]یورپیااسلامکے علاوہ ترکیہ کی ثقافت بھیاناطولیہکی مقامی ثقافتوں سے متاثر تھی۔[526]جمہوریہ کے قیام کے بعد،کمالزمنے ترک ثقافت پر زور دیا، ""اسلام کو ذاتی یقین کا معاملہ"" بنانے کی کوشش کی، اور جدیدیت کی پیروی کی۔[527]اس وقت ترکیہ میں مختلف مقامی ثقافتیں ہیں۔موسیقی،لوک رقص، یاکبابجیسی چیزیں مقامی علاقے کی شناخت کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔
+ترکیہ کی ایک قومی ثقافت بھی ہے، جیسے کہ ""قومی فلمی ستارے، راک بینڈ، فیشن کے رجحانات، اور ساکر اور باسکٹ بال لیگ""۔[528]عثمانی منی ایچر کا تعلق فارسی منی ایچر روایت سے ہے اور اسی طرحچینی پینٹنگکے انداز اور تکنیک سے بھی متاثر ہے۔ الفاظ تصویر یا نقش ��ثمانی ترکیہ میں منی ایچر پینٹنگ کے فن کی تعریف کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ فنکاروں نے جن اسٹوڈیوز میں کام کیا انہیں نقاشین کہا جاتا تھا۔[529]نقطہ نظر کی تفہیم قریبی یورپینشاۃ ثانیہکی مصوری کی روایت سے مختلف تھی، اور جس منظر کی تصویر کشی کی گئی تھی اس میں اکثر ایک تصویر میں مختلف اوقات اور جگہیں شامل ہوتی تھیں۔ انہوں نے اس کتاب کے سیاق و سباق کی قریب سے پیروی کی جس میں انہیں شامل کیا گیا تھا، آرٹ کے اسٹینڈ اکیلے کاموں سے زیادہ عکاسی۔ سولہویں صدی کے فنکارنقاش عثماناورمتراکجی نصوحاس دور کے نمایاں ترین فنکاروں میں سے ہیں۔ترکیہ کی مصوری، مغربی معنوں میں،انیسویں صدیکے وسط سے فعال طور پر تیار ہوئی۔ پینٹنگ کے پہلے اسباق1793ءمیں جو اباستنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی(اس وقت امپیریل ملٹری انجینئرنگ اسکول) میں طے کیے گئے تھے، زیادہ تر تکنیکی مقاصد کے لیے تھے۔[530]انیسویں صدیکے آخر میں، ترکیہ کی مصوری میں، خاص طور پرعثمان حمدی بیگکے ساتھ، مغربی معنوں میں انسانی شخصیت قائم کی جا رہی تھی۔ عصری رجحانات میں سےتاثریتبعد میںخلیل پاشاکے ساتھ نمودار ہوئی۔انیسویں صدیکے دیگر اہم ترک مصوروں میںفریق ابراہیم پاشا،عثمان نوری پاشا،شکر احمد پاشا، اورخوجہ علی ریاضتھے۔[531]قالین اور ٹیپسٹری بُنائی ایک روایتی ترک فن ہے جس کی جڑیں قبل ازاسلامکے زمانے میں ہیں۔ اپنی طویل تاریخ کے دوران، ترکیہ میںقالیناور ٹیپسٹری بُننے کے فن اور دستکاری نے متعدد ثقافتی روایات کو مربوط کیا ہے۔
+ترک طرز کے نمونوں کے علاوہ جو مروجہ ہیں، فارسی اوربازنطینینمونوں کے نشانات کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ آرمینیائی، قفقازی اور کرد قالین کے ڈیزائن میں استعمال ہونے والے نمونوں کے ساتھ بھی مماثلتیں ہیں۔وسط ایشیامیںاسلامکی آمد اوراسلامی فنونکی ترقی نےقرون وسطیٰکے دور میں ترکیہ کے نمونوں کو بھی متاثر کیا۔
+اس طرح ترکیہ کے قالینوں اور ٹیپسٹریوں میں استعمال ہونے والے ڈیزائنوں، نقشوں اور زیورات کی تاریخ ترکوں کی سیاسی اور نسلی تاریخ اوراناطولیہکے ثقافتی تنوع کی عکاسی کرتی ہے۔
+تاہم سائنسی کوششیں ناکام رہیں، ابھی تک، کسی خاص ڈیزائن کو کسی مخصوص نسلی، علاقائی، یا یہاں تک کہ خانہ بدوش بمقابلہ گاؤں کی روایت سے منسوب کرنے سے قاصر ہے۔[532]ترکیہ کی پینٹنگ1960ءکی دہائی سے مسلسل ترقی کرتی رہی ہے، ترقی کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ، جس کا ثبوت بہت سے نئے فنکاروں نے بہت سے مختلف انداز میں دکھایا ہے۔
+سیاہ قلم گروپ1960ءمیںانقرہمیں قائم ہوا۔ وہچودہویں صدیاورپندرہویں صدیکے اوائل کے مصور سیاہ قلم سے متاثر ہوئے۔[533]سلطنت عثمانیہاوراسلامی دنیاکے ساتھ ساتھیورپکے درمیان تعامل نے جدید دور کے ترکموسیقیاور ادبی فنون میں ترک، اسلامی اور یورپی روایات کے امتزاج میں اہم کردار ادا کیا۔[534]زیادہ تر عثمانی دور میںترک ادب،فارسی ادباورعربی ادبسے بہت زیادہ متاثر تھا۔[535]انیسویں صدیکیتنظیماتاصلاحات نے پہلے سے نامعلوم مغربی انواع کو متعارف کرایا، بنیادی طور پرناولاور مختصر کہانی۔تنظیماتکے دور میں بہت سے مصنفین نے بیک وقت کئی اصناف میں لکھا: مثال کے طور پر، شاعرنامق کمالنے بھی1876ءکا ناول انتباہ (بیداری) لکھا، جب کہ صحافی سیناسی نے1860ءمیں لکھا، پہلا جدید ترکی ڈراما، ایک ایکٹ کامیڈی (شاعر کی شادی) تھا۔ جدیدترک ادبکی زیادہ تر جڑیں1896ءاور1923ءکے درمیان قائم ہوئیں۔[536]بیسویں صدیکی ترک شاعری میں جدت کا پہل�� بنیادی قدم ناظم حکمت نے اٹھایا،[537]جس نےآزاد نظمکا انداز متعارف کرایا۔
+ترکشاعریمیں ایک اور انقلاب1941ءمیں اورہان ویلی، اوکتے رفعت اور ملیح سیودیت کی قیادت میں گیرپ تحریک[538]کے ساتھ آیا۔ترکی میں ثقافتی اثرات کی آمیزش کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے، مثال کے طور پر،2006ءکاادب کا نوبل انعامحاصل کرنے والےاورخان پاموککے ناولوں میں ""تصادم اور ثقافتوں کے باہمی ربط کی نئی علامتوں"" کی شکل میں نظر آیا۔[539]ترک تھیٹر کی ابتدا قدیم کافر رسموں اور زبانی داستانوں سے ہوئی ہے۔[540]ہزاروں سال پہلے اناطولیہ کے باشندوں کی رسومات کے دوران پیش کیے جانے والے رقص، موسیقی اور گانے وہ عناصر ہیں جن سے پہلے شوز کا آغاز ہوا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، قدیم رسومات، خرافات، داستانیں اور کہانیاں تھیٹر کے شوز میں تبدیل ہوئیں۔گیارہویں صدیسے شروع ہونے والیسلجوقترکوں کی روایاتاناطولیہکے مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل گئیں اور متنوع ثقافتوں کے درمیان تعامل نے نئے ڈراموں کی راہ ہموار کی۔[540][541]مدحکہانی سنانے والےقصہ گوتھے جنہوں نے عثمانی دور میں سامعین کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔[540]قرہ غوز اور حاجی وادروایتی ترک پتلی تماشے کے مرکزی کردار ہیں، جو عثمانی دور میں مقبول ہوئے اور پھرسلطنت عثمانیہکے بیشتر نسلی گروہوں میں پھیل گئے۔[542]ترک موسیقی کو مختلف طریقوں سے بیان کیا جا سکتا ہے، جس میں ""عالمی سطح پر مارکیٹ کی جانے والی پاپ موسیقی جس میں تھوڑا سا مقامی رنگ ڈالا گیا ہے"" سے لے کر ایک ایسی رسم تک شامل ہے جس میںاناطولیہکی مختلف تہذیبوں کی ہزاروں سال کی میراث شامل ہے۔[543]ترکیہ کے بہت سے شہروں اور قصبوں میں مقامی موسیقی کے متحرک مناظر ہیں جو کہ بدلے میں متعدد علاقائی موسیقی کے انداز کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود، مغربی موسیقی کے انداز جیسےپاپ موسیقیاور کانٹو نے1970ءاور1980ءکی دہائی کے آخر میںعربی زبانمیں مقبولیت کھو دی۔ یہ1990ءکی دہائی کے آغاز میں ایک کھلنے والی معیشت اور معاشرے کے نتیجے میں دوبارہ مقبول ہوا۔پاپ موسیقیکی پھر سے بڑھتی ہوئی مقبولیت نے کئی بین الاقوامی ترک پاپ اسٹارز کو جنم دیا جیسےاجدا پیکان،سزن آکسو، ایرول ایوگین، ایم ایف او، ترکان، سرتاب ایرنر، تیومان، کینان ڈوگولو، لیونٹ یوکسل اور ہانڈے ینر شامل ہیں۔
+بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ ترکجازاوربلوزموسیقاروں اور کمپوزروں میں احمد ارتیگن[544](اٹلانٹک ریکارڈز کے بانی اور صدر)، نوکھیت رواکان اور کریم گورسیو شامل ہیں۔ترکیہ بے شمارنئے سنگی دوربستیوں کا گھر ہے، جیسےچاتالہویوک[546][547]کانسی کے دورسے، اہم تعمیراتی باقیات میںآلاجا ہوئیوکاورٹرائےکی دوسری تہہ شامل ہیں۔[548]قدیم یونانی اور قدیمرومی فن تعمیرکی مختلف مثالیں ہیں، خاص طور پرایجیئن علاقہمیں پھیلی ہوئی ہیں۔[549]بازنطینی فن تعمیرچوتھی صدیعیسوی کا ہے۔ اس کی بہترین مثالآیا صوفیہہے۔
+بازنطینی طرز تعمیراستنبولکی فتح کے بعد ترقی کرتا رہا، جیسا کہ بازنطینی احیا فن تعمیر طور پر۔[550]سلجوق سلطنت روماور ترکیہ کی سلطنتوں کے دور میں، ایک الگ فن تعمیر ابھرا، جس نے بازنطینی اور آرمینیائی فن تعمیرات کومغربی ایشیااوروسط ایشیامیں پائے جانے والے تعمیراتی طرز کے ساتھ شامل کیا۔[551]سلجوق فن تعمیر میں اکثر پتھروں اور اینٹوں کا استعمال کیا جاتا تھا، اور متعددکارواں سرائے،مدارساورمزارتیار کیے جاتے تھے۔[552]عثمانی طرز تعمیرشمال مغربیاناطولیہاورتھریسمیں ابھرا۔ ابتدائی عثمانی فن تعمیر نے ""روایتی اناطولیائی اسلامی فن تعمیر کو مقامی تعمیراتی مواد اور تکنیکوں کے ساتھ ملایا""۔[553]استنبولکی فتح کے بعد،سولہویں صدیاورسترہویں صدیمیں کلاسیکی عثمانی فن تعمیر کا ظہور ہوا۔[554]کلاسیکی دور کا سب سے اہممعمار سنان پاشاہے، جس کے بڑے کاموں میںشہزادہ مسجد،جامع سلیمانیہ، اورسلیمیہ مسجد، ادرنہشامل ہیں۔[555]اٹھارہویں صدیکے آغاز میں،عثمانی فن تعمیریورپی عناصر سے متاثر ہوا، جس کے نتیجے میں عثمانیباروکطرز کی ترقی ہوئی۔[556]انیسویں صدیمیں یورپی اثر و رسوخ جاری رہا۔ مثال میں بالیان خاندان کے کام شامل ہیں جیسے کہ نو باروک طرز کادولماباغچہ محل۔[557]دولماباغچہ محلترکیo کے شہراستنبولمیں واقع ایک تاریخی شاہی محل ہے جو1853ءسے1922ءتکسلطنت عثمانیہکا انتظامی مرکز تھا۔عثمانی فن تعمیرکا آخری دور پہلی قومی تعمیراتی تحریک پر مشتمل ہے جس میںمحمد وداد تیکاورمعمار کمال الدینکے کام شامل ہیں۔[558]1918ءسے ترکیہ کے فن تعمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔1918ءسے1950ءتک، پہلے میں پہلی قومی تعمیراتی تحریک کا دور شامل ہے، جو جدید طرز تعمیر میں تبدیل ہوا۔
+جدید اور یادگار عمارتوں کو عوامی عمارتوں کے لیے ترجیح دی گئی، جب کہ ""ترک ہاؤس"" قسم کی مقامی فن تعمیر نے نجی مکانات کو متاثر کیا۔1950ءسے1980ءتک، دوسرے حصے میں شہری کاری، جدیدیت اور بین الاقوامی کاری شامل ہے۔ رہائشی مکانات کے لیے، ""مضبوط کنکریٹ، سلیب بلاک، درمیانے درجے کے اپارٹمنٹس"" رائج ہو گئے۔1980ءسے، تیسرے حصے کی تعریف صارفین کی عادات اور بین الاقوامی رجحانات، جیسے شاپنگ مالز اور آفس ٹاورز سے ہوتی ہے۔ ""ترک ہاؤس اسٹائل"" کے ساتھ لگژری رہائش گاہوں کی مانگ رہی ہے۔[559]اکیسویں صدیمیں، شہری تجدید کے منصوبے ایک رجحان بن چکے ہیں۔[560]قدرتی آفات جیسے زلزلوں کے خلاف لچک شہری تجدید کے منصوبوں کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔[561]ترکیہ کے عمارتی اسٹاک کا تقریباً ایک تہائی، جو کہ 6.7 ملین یونٹس کے برابر ہے، کا اندازہ خطرناک اور شہری تجدید کی ضرورت ہے۔[562]ترک پکوانزیادہ ترعثمانی پکوانکا ورثہ ہے،[565][566]جس میں ترک، بازنطینی، بلقان، آرمینیائی، جارجیائی، کرد، عرب اور فارسی پکوانوں کے عناصر شامل ہیں۔
+اسےبحیرہ روم،مشرق وسطیٰ،وسط ایشیائی،بلقاناورمشرقی یورپیکھانوں کے فیوژن اور تطہیر کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔[565][566][567]یورپ،ایشیااوربحیرہ رومکے درمیان ملک کی پوزیشن نے ترکوں کو بڑے تجارتی راستوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں مدد کی، اور ایک مثالی زمین کی تزئین اورآب و ہوانے پودوں اور جانوروں کو پنپنے کی اجازت دی۔ترک پکوانپندرہویں صدیکے وسط تک اچھی طرح سے قائم ہو چکا تھا، جس نےسلطنت عثمانیہکےکلاسیکی دورکا آغاز کیا۔دہیسلاد؛میزے؛مچھلیاور سمندری غذا؛ انکوائری، ابلی ہوئی یا ابلی ہوئی گوشت کی اقسام؛زیتون کے تیلسے پکی ہوئی سبزیاں یا بھرے اور لپیٹے ہوئے سبزیاں؛ اور مشروبات جیسےشربت،عیراناور راکی ترکیہ کے بنیادی اشیا بن گئے۔
+سلطنت نے اپنے زمینی اور آبی راستوں کو پوریدنیاسے غیر ملکی اجزا درآمد کرنے کے لیے استعمال کیا۔سولہویں صدیکے آخر تک، عثمانی دربار نے 1,400 سے زیادہ باورچیوں کو رکھا اور کھانے کی تازگی کو کنٹرول کرنے والے قوانین منظور کیے۔1923ءمیں جمہوریہ کے قیام کے بعد سے، غیر ملکی کھانے جیسے کہ فرانسیسی ہالینڈائز ساس اور مغربیفاسٹ فوڈنے جدیدترک پک��انمیں اپنا راستہ بنا لیا ہے۔میزےشامی،ترک، بلقان، آرمینیائی، کرد، اور یونانی کھانوں میں اشتہا آور چھوٹے پکوانوں کا انتخاب ہے۔ یہ ہسپانوی تاپس اوراطالویاینٹی پیسٹی سے ملتا جلتا ہے۔[568]حلومیبکریوں اوربھیڑکےدودھسے بنا، ایک نیم سخت قبرصیپنیرہے۔[569][570][571][572][573][574]چونکہ اس کا نقطہ پگھلاؤ بہت زیادہ ہے اس لیے اسے آسانی سے تلا اور بھونا جا سکتا ہے۔ حلومیقبرص،یونان، ترکیہ اورمشرق وسطیمیں بہت مقبول ہے۔شیش کبابگرلگوشتکے ٹکڑے پر مشتمل معروف پکوان ہے۔[575]یہشاشلکنامی ایک ڈش کے مترادف کے طور پر بنائی جاتی ہے۔جوقفقاز کےعلاقے میں بہت ذوق و شوق سے بنائی جاتی ہے۔[576]لوگ زیادہ تر اسے دعوتوں اور تقریبات میں تیار کرواتے ہیں۔
+یہکباب کیبہت سی اقسام میں سے ایک ہے ،مشرق وسطیمیں شروع ہونے والے گوشت کے پکوان کی ایک قسم ہے۔جسے بعد میں سبزیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
+یہ روایتی طور پربھیڑ کے گوشت سے تیار کی جاتی ہے[577]لیکن مختلف قسم کے گوشت، مرغی یا مچھلی سے بھی تیار کی جاتی ہے۔[578]ترکی میں، شیش کباب اور اس کے ساتھ پیش کی جانے والی سبزیاں الگ سے پکائی جاتی ہیں ۔[579]۔ اس ڈش کی سجاوٹ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔آشور[580]یا نوح کی پڈنگ ایک ترک میٹھی ڈش ہے جس میں اناج، پھل، خشک پھل اور گری دار میوے شامل ہوتے ہیں۔ ترکی میں یہ پورا سال بنایا جاتا ہے اور خاص طور پر محرم میں[581]بطور خاص دس محرم کے دن، کیونکہ دس محرم کے دن کو عربی میں ""'عاشور"" کہا جاتا ہے جس کا مطلب عربی میں ""دسواں"" کے ہیں۔
+ایشورے ان ترکی میٹھوں میں سے ایک ہے جس میں کسی جانور کی مصنوعات شامل نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہ ہے کہ ہر قسم کے تشدد اور خون و خرابا کی مخالفت ہے۔ ترکی میں ایلیویز اس پڈنگ کو فروغ دینے کے لیے اہم گروپ ہیں۔ خصوصی طور پر اسے دس محرم کو پکایا جاتا ہے ۔
+روایتی طور پر، ایشورے کو بڑی مقدار میں بنایا جاتا ہے اور اپنے دوستوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں، ساتھیوں، ہم جماعتوں کو بنا مذہب کی تفریق کیے محبت اور امن کے پیغام کے طور پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ سرد مہینوں کے دوران اسے بنایا اور کھایا جاتا ہے۔ یہ ایک کیلوریز سے بھرپور طاقتور غذا ہے اس لیے اس سے پورا سال لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔راحت الحلقومنشاستے اورچینیکے جیل پر مبنی کنفیکشن کا ایک خاندان ہے۔ پریمیم قسمیں زیادہ تر کٹی ہوئیکھجور، پستے، ہیزلنٹس یااخروٹپر مشتمل ہوتی ہیں جو جیل سے بندھے ہوئے ہیں۔ روایتی قسمیں اکثر گلاب کے پانی، مسٹک گم، برگاموٹ اورنج یا لیموں کے ساتھ ذائقہ دار ہوتی ہیں۔پیتا[582]یونانیمیں اور اس کے علاوہ اسے عربی روٹی یا شامی روٹی بھی کہا جاتا ہے[583][584][585]گندم کے آٹا سے پکی ہوئی ایک نرم، خمیریمسطح روٹیہے، جس کا آغازمغربی ایشیا[585][586]میں ممکنہ طور پربین النہرینمیں 2500 ق م میں ہوا۔[587]ترکیہ میں تمام کھیلوں میں سب سے زیادہ مقبولایسوسی ایشن فٹ بالہے۔[588]ترکیہ کی سرفہرست ٹیموں میںفینربچے ایس کے،گالاتاسرے ایف سیاور بیشکتاش شامل ہیں۔2000ءمیں،گالاتاسرے ایف سییوئیفا کپ اور یوئیفا سپر کپ جیتا۔ دو سال بعد،ترکیہ قومی فٹ بال ٹیمجاپاناورجنوبی کوریامیں2002ء فیفا عالمی کپفائنلز میں تیسرے نمبر پر رہی، جب کہ2008ءمیں، قومی ٹیم2002ء فیفا عالمی کپکے مقابلے کے سیمی فائنل میں پہنچی۔دیگر مرکزی دھارے کے کھیل جیسےباسکٹ بالاوروالی بالبھی مقبول ہیں۔[589]مردوں کی قومی باسکٹ بال ٹیم اور خواتین کی قومی باسکٹ بال ٹیم کامیاب رہی ہیں۔ انادولو ایفیس ایس کے. بین الاقوامی مقابلوں میں سب سے کامیاب ترک باسکٹ بال کلب ہے۔[590][591]فینربچے ایس کےمسلسل تین سیزن (2015ء–2016ء، 2016ء–2017ء اور 2017ء–2018ء) میں یورو لیگ کے فائنل میں پہنچی،2017ءمیں یورپی چیمپئن بنی۔2013-14ء یورو لیگ ویمن باسکٹ بال چیمپئن شپ کا فائنل ترکیہ کی دو ٹیموںگالاتاسرےاورفینربچےکے درمیان کھیلا گیا اور گالاتاسرے نے جیتا۔[592]فینربچے نے 2022–23ء اور 2023–24ء سیزن میں لگاتار دو یورولیگ جیتنے کے بعد 2023ء ایف آئی بی اے یورپ سپر کپ خواتین جیتا۔خواتین کی قومی والی بال ٹیم کئی تمغے جیت چکی ہے۔[593]خواتین کے والی بال کلب، یعنیوقف بینک ایس کے،فینربچےاور اجنزجبشے، نے متعدد یورپی چیمپئن شپ ٹائٹل اور تمغے جیتے ہیں۔وقف بینک ایس کےترکیہ کا ایک پیشہ وروالی بالکلب ہے جواستنبول، ترکیہ میں واقع ہے۔1986ءمیں قائم کیا گیا، وقف بینک ایس کے اس وقت دنیا کی خواتین کی بہترین والی بال ٹیموں میں سے ایک ہے،[594][595]ترکیہ کا روایتی قومی کھیل عثمانی دور سےروغنی کشتی(تیلکشتی) رہا ہے۔[596]صوبہ ادرنہنے1361ءسے سالانہ کرکپنارروغنی کشتیٹورنامنٹ کی میزبانی کی ہے، جو اسے دنیا کا سب سے طویل مسلسل منعقد ہونے والا کھیلوں کا مقابلہ بناتا ہے۔[597][598]انیسویں صدیاوربیسویں صدیکے اوائل میں، خوجا یوسف، نور اللہ حسن اور کزیلجکلی محمود جیسے آئل ریسلنگ چیمپئنز نے عالمی ہیوی ویٹ ریسلنگ چیمپئن شپ کے ٹائٹل جیت کریورپاورشمالی امریکامیں بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔
+ایف آئی ایل اے کے زیر انتظام بین الاقوامی ریسلنگ اسٹائلز جیسے فری اسٹائل ریسلنگ اور گریکو رومن ریسلنگ بھی مقبول ہیں، جن میں بہت سے یورپی، عالمی اور اولمپک چیمپئن شپ ٹائٹل ترک پہلوانوں نے انفرادی طور پر اور قومی ٹیم کے طور پر جیتے ہیں۔[599]سیکڑوںٹیلی ویژنچینلز، ہزاروں مقامی اور قومیریڈیو اسٹیشن، کئیی درجناخبارات، ایک پیداواری اور منافع بخش قومیسنیمااوربراڈ بینڈکی تیز رفتار انٹرنیٹ کا استعمال ترکیہ میں ایک متحرک میڈیا انڈسٹری کو تشکیل دیتا ہے۔[600][601]ٹی وی کے ناظرین کی اکثریت عوامی نشریاتی ادارےترک ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشن(ٹی آر ٹی) کے درمیان مشترک ہے،ٹی آر ٹییاترک ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشنترکی کا ""عوامی نشریات "" ہے جس کا قیام یکم مئی 1964 میں عمل میں آیا۔ 5 مئی 1927 کو اپنی نشریات کا آغاز کرنے والا ریڈیو کا ادارہ بھی اسی تاریخ سے ٹی آر ٹی کے ساتھ منسلک ہو گیا۔
+دیگر نیٹ ورک طرز کے چینلز جیسے کنال ڈی، شو ٹی وی، اے ٹی وی اور اسٹار ٹی وی عام دیکھے جاتے ہیں۔
+براڈکاسٹ میڈیا کی رسائی بہت زیادہ ہے کیونکہ سیٹلائٹ ڈشز اور کیبل سسٹم وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں۔[602]ریڈیو اور ٹیلی ویژن سپریم کونسل (آر ٹی یو کے) نشریاتی ذرائع ابلاغ کی نگرانی کرنے والا سرکاری ادارہ ہے۔[602][603]گردش کے لحاظ سے، سب سے زیادہ مقبول اخبارات پوسٹا،حریت، سوزکو، صباح اور ہیبرترک ہیں۔[604]فیلیز اکین,فاطمہ گیرک,حولیا کوچیغیت, اورترکان شورائےترک سنیما کے اپنے دور کی نمائندگی کرتے ہیں۔[605]ترک ہدایت کار جیسےمتین ایرکسان,نوری بلگے جیلان,یلماز گونئی,زکی دمیرکوبوزاورفرزان اوزپیتیکمتعدد بین الاقوامی ایوارڈز جیسے پالم ڈی آر اور گولڈن بیئر جیتے۔[606]ترک ٹیلی ویژن ڈرامے ترکیہ کی سرحدوں سے باہر تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں اور منافع اور عوامی رابطوں کے لحاظ سے ملک کی سب سے اہم برآمدات میں شامل ہیں۔[607]گزشتہ دہائی کے دورانمشرق وسطیکی ٹیلی ویژن مارکیٹ کو صاف کرنے ک�� بعد،2016ءمیں ایک درجن سے زیادہجنوبی امریکااوروسطی امریکاممالک میں ترک شوز نشر ہو چکے ہیں۔[608][609]ترکیہ آج ٹیلی ویژن سیریز کا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔[610][611][612]عمومیسیاحتحکومتمعیشتلوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+417,پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پاکستان (رسمی نام:اسلامی جمہوریۂ پاکستان- انگریزی میں: PAKISTAN)جنوبی ایشیاکے شمال مغربوسطی ایشیااورمغربی ایشیاکے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختاراسلامیملکہے۔ یہ دنیا کاپانچواںسب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کیدوسریسب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کاتینتیسواں(33) بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کےجنوبمیں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جوبحیرہ عربسے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميںبھارت، شمال مشرق ميںچیناور مغرب ميںافغانستاناورايرانواقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگواخان راہداریتاجکستانسے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدودعمانکے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم تریندنیامیں وہ علاقے تھے جن میںموہنجوداڑواورانڈس سولائیزیشنمہر گڑھٹیکسلاپراچین سنسکرت دوراور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسےقندھاراتہذیبو تمدن تھی۔ اس علاقے پرپراچین راجپوتایرانییونانیعرب،بدھ مت،سکھ،مغل،ہن سفیداورترکحملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسےچندر گپت موریا،ہخامنشی سلطنتعربوں کیخلافت امویہ،مغلیہ سلطنت،درانی سلطنت،سکھ سلطنتاوربرطانوی راجکا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعدمحمد علی جناحکی قیادت میںتحریک پاکستانکامیاب ہوئی اور14 اگست1947ءکوہندوستانکے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اورخودمختاراسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین1956ءمیں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.1971ءمیں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملکبنگلہ دیشبن گیا۔پاکستانوفاقیپارلیمانیجمہوری ریاستکے تحت چلتا ہے۔ اس کےپانچ صوبے ہیں اور کچھ علاقے وفاقی حکومتکے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کیفوجدنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسریایٹمی طاقتہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 42https://www.worlddata.info/asia/pakistan/economy.phpویں نمبر پر ہے۔پاکستان کی تاریخفوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سے جھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملکمؤتمر عالم اسلامی،اقوام متحدہ،دولت مشترکہ ممالک،سارک،ترقی پذیر 8،اقتصادی تعاون تنظیمجیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔[7]پاکستان کے لفظی معنیپاک لوگوں کی سر زمینہے، پاک کےاردواورفارسیمیں معنی خالص اور صاف کے ہیں اورستانکا مطلب زمین یا وطن کا ہے-1933ءمیںچودھری رحمت علینے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہاب یا کبھی نہیںشائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔لفظپاکستاناس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔پپنجاب،اخیبر پختونخوا(افغانیہ)،ککشمیر،سسندھ،تانبلوچستان۔711ءمیںامویخلیفہولید بن عبدالملککے دور میںمحمد بن قاسمبرصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوںبرصغیر(موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑیعربریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کادار الحکومتدمشق، زبانعربیاور مذہباسلامتھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پرعربدنیاسے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اورجنوبی ایشیاکی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔سن1947ءسے پہلےبھارت، پاکستان اوربنگلہ دیشبرطانویکالونیاں تھیں اوربرّصغیرکے نام سے جانے جاتے تھے۔ہندوستان کی آزادی(انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران میںہندوستانکےمسلمانوںنے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ ""پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ"" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحتتحریک پاکستانوجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادتمحمد علی جناحنے کی۔14 اگست1947ءکو پاکستان وجود میں آیا۔تقسیمبرصغیر پاک و ہندکے دوران میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اوربھارتکے درمیان میں1948ءاور1965ءمیںکشمیرکے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریابھارتکے زیر انتظامکشمیرسے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو1960ءمیںانڈیاکے ساتھسندھ طاس معاہدہکرنا پڑا، جس کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاؤں،ستلج،بیاساورراویسے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہدریائے سندھ،چناباورجہلمپر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔1947ءسے لے کر1948ءتک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہبھارتنے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ریاست بہاولپورکے نوابصادق محمد خان پنجمنے اس وقت پاکستان کی مالی مدد کی۔پاکستان بطور برطانوی ڈامنینئن آزاد ہوا تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور پہلےوزیر اعظملیاقت علی خان تھے۔ پاکستان کی عبوری حکومت ١١ اگست ١٩٤٧ کو تشکیل دی گئی تھی۔ 1948 میں قائد اعظم ٹی بی سے وفات پا گئے۔1951ءمیں پستول کی گولی کا شانہ بنا کر[لیاقت علی خان]] کو شہید کر دیا گیا۔1951ءسے1958ءتک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔1956ءمیں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ1958ءمیں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیمجنرل ایوبکے دور آمریت میں بنائے گئے۔جنرل ایوبکے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکنمشرقی پاکستاندور ہوتا گیا۔1963ءمیں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگرمشرقی پاکستانکے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ایوب خانعوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علاحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انھوں نے حکومت اپنے فوجی پیش روجنرل یحییٰ خانکے حوالے کر دی۔1971ءکے عام انتخابات میںمشرقی پاکستانسے عوامی لیگ کی واضحکامیابیکے باوجود فوجی حکمرانیحییٰ خاننے اقتدار کی منتقلی کی بجائےمشرقی پاکستانمیں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہہندوستاننے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکاردسمبر1971ءمیںسقوط ڈھاکہہو گیا اورمشرقی پاکستانایک علاحدہ ملکبنگلہ دیشکی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔1972ءسے لے کر1977ءتک پاکستان می��پاکستان پیپلز پارٹیکی حکومت تھی۔ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے صدراور بعد ازاںوزیر اعظمرہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں1977ءمیں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔اگلا دور1977ءتا1988ءمارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمرانجنرل ضیا الحقتھے۔افغانستانمیں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں1985ءکے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے1988ءمیںضیاءالحقنے برطرف کر دیا-1988ءمیںصدر مملکتکا طیارہ گر گیا اورضیاءالحقکے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سےجمہوریتکا آغاز ہو گیا۔اس کے بعد1988ءمیں انتخابات ہوئے اوربينظير بھٹوکی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدرغلام اسحاق خاننے حکومت کو برطرف کر دیا۔1990ءمیںنواز شریفکی قیادت میںآئی جے آئیاور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔1993ءمیں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔اگلے انتخابات1993ءمیں ہوئے اور ان میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس وقت پاکستان کے صدرفاروق احمد خان لغاریتھے۔ صدر فاروق احمد خان لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔1997ءمیں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میںمسلم لیگ ناور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1999ءمیں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکتپرويز مشرفبنے اور2001ءمیں ہونے والے انتخابات کے بعدوزیر اعظمظفر اللہ خان جمالیبنے۔2004ءمیں جنرل مشرف نےشوکت عزیزکووزیر اعظمبنانے کا فيصلہ کیا۔ مختصر عرصہ کے لیےچوہدرى شجاعت حسيننےوزیراعظمکی ذمہ داریاں سر انجام دیں اورشوکت عزیزکےقومی اسمبلیکے ارکان منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔شوکت عزیزقومی اسمبلیکی مدت15 نومبر2007ءکو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16نومبر2007ءکو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔فروری2008ءمیں الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نےیوسف رضا گیلانیکو وزیر اعظم نامزد کیا، جنھوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔22 جون2012ءکویوسف رضا گیلانیکی نااہلی کے بعدراجہ پرویز اشرفنئے وزیر اعظم بنے۔مئی2013ءمیں عام انتحابات ہوئے جس میںپاکستان مسلم لیگ نایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کے تیسرے بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک اور وزیر اعظمنوازشریفکوپانامالیکسفیصلے میں تا حیات نا اہل قرار دے کر برطرف کر دیا اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کےشاہد خاقان عباسینئے وزیر اعظم بن گئے۔ 17 اگست 2018ء کوعمران خان176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔پاکستان کا اعلیٰ اساسی قانونآئین پاکستانکہلاتا ہے۔ آئین، پاکستان کا وہ اعلیٰقانونہے جو ریاست پاکستان کے اندر تمام اہم چیزوں اور فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔ ملک میں چار مرتبہمارشل لالگا جس سے دو مرتبہ آئ��ن معطل ہوا، ایک مرتبہ1956ءکا آئین اور دوسری مرتبہ1962ءکا آئین۔1972ءمیںمشرقی پاکستانمیں مخالفین نے سازشیں کی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھ گئی جس کی نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اورمشرقی پاکستانبنگلہ دیش کے نام ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ اس وقت غور کیا گیا تو ملک ٹوٹنے کی بہت سے وجوہات تھیں۔ اسی بنا پر1973ءکا آئین بنایا گیا۔آئین بنانے کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور آئین میں ہر شعبے اور اہم امور کے لیے اصول بنے، آئین میں ریاست کی تمام بڑے فیصلوں کے لیے قوانین بنائے گئے، حکومت اور ریاست کا پورا تشکیل بیان کیا گیا۔ مسودہ تیار ہونے کے بعد اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔پاکستانی سیاست کی بنیاد کوآئین پاکستاننے قائم کیا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان ایکجمہوریاورقومی ریاستہے۔ آئین پاکستان نے ایک وفاق اور اس کے ماتحت صوبائی حکومتیں قائم کی ہیں۔ آئین کا پہلا آرٹیکل بیان کرتا ہے کہ ""مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریت ہوگا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا""۔پاکستان کی مختلف علاقہ جات کے متعلق آئین پاکستان کا دوسرا آرٹیکل بیان کرتا ہے:پاکستان کے علاقے مندرجہ ذیل پر مشتمل ہوں گے:آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کوئی واضح حیثیت تو بیان نہیں کی گئی لیکن2009ءمیںقومی اسمبلیسے ایک اور بل منظور ہوا جس نے واضح طور پر گلگت بلتستان کو نیم-صوبے کا درجہ دیا اور یہاں باقاعدہ صوبائی حکومت کو قائم کیا گیا، جس کے تمام بنیادی شاخ (اسمبلی، عدلیہ، وزارتیں، وغیرہ) قائم کیے گئے۔[9]آئین نے مزید ملک میں دو قانون ساز ایوان قائم کیے ایکقومی اسمبلیاور دوسراسینٹ۔ قومی اسمبلی کی بنیاد آبادی کے لحاظ سے ہے یعنی جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں زیادہ نشستیں رکھی جائے گی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو براہ راست عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کے نشستیں دیے گئے ہیں چاہے صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سینٹ کے ارکان کو سینیٹر کہا جاتا ہے اور ان سینیٹرز کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے ووٹ سے منتخب کر سکتے ہیں۔کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کا سلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور، دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے، ایک نقطہ ذہن نشین کر لیں کہخارجہ پالیسیمیں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سےانڈونیشیاکے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایکایٹمی طاقتہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاص ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔پاکستان کی دفاع کا ذمہ ملک کے مسلح افواج پر ہے جس کی بنیادی طور پر تین شاخیں ہیں:1947ءمیںقیام پاکستانسے پہلے پاک عسکریہ، ہندوستانی فوج کا حصہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کےتاج برطانیہکے زیر اثرپہلی جنگ عظیماوردوسری جنگ عظیممیں بھی حصہ لیا ہے۔ تقسیمبرصغیرکے بعد ہندوستانی فوج پاکستان اوربھارتمیں بالترتیب 36% اور 64% کے تناسب میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت اعلان ہوا کہ کوئی بھی فوجی جس بھی فوج میں جانا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔ اس وقت بہت سے مسلمان ��وجی، پاک عسکریہ میں شامل ہو گئے۔ تقسیم کے وقت بھارت میں 16 آرڈیننس فیکٹریاں تھیں جبکہ پاکستان میں ایک بھی نہیں تھی۔ اب پاکستان کافی حد تک دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہو گیا ہے۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔ فوج اداروں میںپاک فوج،پاک فضائیہاورپاک بحریہشامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میںفرنٹیئر کانسٹبلری،سرحد کور،پاکستان رینجرزشامل ہیں۔ پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنیپنجاباورسندھمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس لیے اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنیپنجاب رینجرزاورسندھ رینجرز۔ اسی طرحسرحد کوراورفرنٹیئر کانسٹبلریکو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہخیبر پختونخوااوربلوچستانمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی ادارے کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائی گئی ہیں جن میںخیبر پختونخواپولیس،پنجابپولیس،سندھپولیس،بلوچستانپولیس،آزاد کشمیرپولیس اورگلگت بلتستانپولیس شامل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے، اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سر انجام دینا ہے اسی طرحموٹروےپولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔تحقیقات کے لیے وفاقی ادارۂ تحقیقات (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی مخابراتی ادارے (جیسےآئی ایس آئی، وغیرہ) موجود ہیں۔پاکستان ميں 5 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نےگلگت بلتستانکو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔
+صوبہ جات کی تقسیمیکم جولائی1970ءکو کی گئی۔صوبہ بلوچستانکا کل رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2011ءمیں آبادی 79 لاکھ 14 ہزار تھی۔صوبہ پنجابکا کل رقبہ 205,344 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2013ءمیں آبادی 10 کروڑ 10لاکھ تھی۔صوبہ خیبر پختونخواکا کل رقبہ 74,521 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ تھی۔صوبہ سندھکا کل رقبہ 140,914 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 4 کروڑ 24 لاکھ تھی۔گلگت بلتستان(سابق شمالی علاقہ جات) کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2008ء میں آبادی 18 لاکھ تھی۔جغرافیائی طور پر پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ پاکستان کاجغرافیہاور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیںجانوراورپرندےایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 796,095 مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقےپہاڑیہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریادریائے سندھہے۔ یہدریاپاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گذر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکنبلوچستانکاسبیعلاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اورشمالی علاقہ جاتمیں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادیزراعتکے شعبے سے منسلک ہے۔پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے، زمینی سرحد میں سے 2,430 کلومیٹر سرحدافغانستانکے ساتھ، 523 کلومیٹرچینکے ساتھ، 2,912بھارتکے ساتھ اور 909ایرانکے ساتھ لگا ہوا ہے۔پاکستان دنيا کا ايک ترقی پزیر ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات ميں فوج كى مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کوتعلیمسے محروم رکھنے کینفسیاتیاور خود غرضانہفطرت(تاکہبیگاراورسستے پڑاؤ (Labor Camp)قائم رکھے جاسکیں)، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيلیے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلےپاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعتپر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا[حوالہ درکار]۔ اِس وقت پاکستان کیمعيشتمستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے[حوالہ درکار]۔کراچی سٹاک ایکسچینجکےکے ايس سی انڈکسگزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے[حوالہ درکار]۔پاکستانآبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصداہل تشیع، 77 فيصداہل سنتاور تقریباً 3 فيصد ديگرفقہسے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ایک فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانیمسیحیمذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب وسرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔پاکستان کیقومی زباناردوہے، جبکہ زيادہ تر دفتری کامانگريزیميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اردو پاکستان کی عوامی و قومیزبانہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئی اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميںپنجابی،سرائیکی،سندھی،گجراتی،بلوچی،براہوی، پہاڑی،پشتواورہندکوزبانیں قابلِ ذکر ہيں۔پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پٹھان، بلوچی اورمہاجر قومہيں، ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مابین فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميںدراوڑ،آريا،ہن،ايرانی،يونانی،عرب،ترکاورمنگوللوگوں کی ر��استوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھموسماورآب و ہواکا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايکاسلامی تہذيبکا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسيقی ملتی ہے۔کلاسيکی موسيقی،نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک، ان سب کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميںقوالیکا مرکز سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے جا رہے ہيں۔ يہ امرا اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جگہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکاؤاسلاماور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔پاکستانيوں کی بڑی تعدادامريکہ،برطانيہ،آسٹريليا،کینیڈااورمشرق وسطیميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہتسرمايہ کاریبھی کی ہے۔پاکستان کا سب سے پسنديدہکھيلکرکٹ ہے۔ پاکستان کیکرکٹٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميںہاکیبھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کےشمالی علاقہ جاتكے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدائش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھیلی جاتی ہے۔پاکستان میں سب سے عام لباسشلوار قمیضہے جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوںبلوچستان،پنجاب،سندھاورخیبر پختونخواسمیتقبائلی علاقہ جات،گلگت بلتستاناورآزاد کشمیرمیں پہنا جاتا ہے۔ تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمالاسکول،کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ اور ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔شیروانیکا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔پاکستانی خواتین میں بھی شلوار قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔پاکستان میں بہت سے ذرائع ابلاغ موجود ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔اس سے پہلےپی ٹی ویملک کا واحد چینل نیٹ ورک ہوتا تھا اور حکومت پاکستان اس نیٹ ورک کو چلا رہی تھی۔2002ءکے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 50 سے بھی زیادہ صرف نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نیوز، انٹرٹینمنٹ، ہیلتھ، ایجوکیشن، علاقائی اور بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتے ہیں تاہم ملک کے علاقائی زبانوں (پشتو،پنجابی،سندھی،بلوچی،کشمیری،سرائیکیوغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔پی ٹی وی ورلڈپاکست��ن کا پہلاانگریزیچینل ہے۔اردو فلم انڈسٹریلالی وڈکی صدر مقاماتلاہور،کراچیاورپشاورمیں واقع ہے۔ لالی وڈ نے اب تک بہت سے فلمیں ریلیز کی ہیں اور کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے عام اردو ڈراما سیریلز ہیں جو مختلف چینلز پر چلائے جاتے ہیں۔پاکستان کے فن تعمیرات ان مختلف عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مختلف ادوار میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔وادئ سندھ کی تہذیبکے شروع ہونے کے ساتھ ہی جو 3500قبل مسیحتھا، موجودہ پاکستان کے علاقے میں شہری ثقافت کا ارتقا ہوا جس میں بڑی عمارتیں تھیں جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے بعدگندھاراطرز کا بدھ طرز تعمیر آیا جس میں قدیمیونانکے اجزاء بھی شامل تہے۔ اس کے بقایا جاتگندھاراکے صدر مقامٹیکسلامیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان میں مغل اور انگریزی طرز تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں۔آزادی کے بعد کا فن تعمیر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی نئیحاصلکی گئی آزادی اور شناخت کو فن تعمیر کے ذریعے سے ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان خود کو جدید عمارتوں میں ظاہر کرتا ہے مثلاًفیصل مسجدجو وفاقی دار الحکومتاسلام آبادمیں واقع ہے اس مسجد کو1960ءمیں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں جیسےمینارپاکستان، سفید ماربل سے بنا مزار قائد اعظم۔ یہ عمارتیں نئی ریاست کی خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ملکی دار الخلافہ اسلام آباد میں موجود قومی یادگار تہذیب، آزادی اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔پاکستان میں اس وقت چھ (6) جگہیں ایسی ہیں جنہیں عالمی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال2012ءمیں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت1970ءکے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس،پشاور،کراچی،لاہور،سواتاورراولپنڈیتھیں۔ اس ملک کی حامل کشش جگہوں میں موہنجو داڑو،ٹیکسلااورہڑپہجیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لے کرکوہ ہمالیہکے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کےشمالی علاقہ جاتمیں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اورچترالکی وادیاں جو ایک چھوٹی سی غیر مسلم سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کوسکندر اعظمکی اولاد سے بتاتے ہیں۔پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقاملاہورمیں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسےبادشاہی مسجد، شالیمار باغ،مقبرہ جہانگیراورقلعہ لاہورشامل ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ (5) لاکھ سیاح آتے تھے۔ تاہم سال2008ءسے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورت حال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔اکتوبر2006ءمیںکشمیرکے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی کی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقاماتٹیکسلا،لاہور،شاہراہ قراقرم، کریم آباد اورجھیل سیف الملوکتہے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا�� سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سےوادئ سندھ کی تہذیبکے موہنجو داڑو اورہڑپہجیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔پاکستانی کھانے جنوبی ایشیا کے مختلف علاقائی کھانوں کا حسین امتزاج ہیں۔ پاکستانی کھانوں میں شمالی ھندوستانی،وسط ایشیائیاور مشرق وسطیٰ کے کھانے شامل ہیں لیکن یہاں کے کھانوں میں گوشت کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میںاشیائے خور و نوش کے نامبہت آسان ہیں۔پاکستان میں ایک علاقے کے کھانے دوسرے علاقے کے کھانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں جس سے اس ملک کی ثقافتی اور لسانی تنوع جھلکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کھانے مصالحے دار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیا کے کھانوں کی خاصیت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے کھانے مثلاً خیبر پختونخوا، بلوچستان، قبائیلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور کشمیر کے کھانے بھی اپنی اپنی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بھی مختلف علاقائی رنگ غالب ہوتے ہیں۔پاکستان میں کھیلے جانے والے بیشتر کھیلوں کا آغازبرطانیہمیں ہوا اور برطانویوں نے انھیںہندوستانمیں متعارف کرایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس نے 1960ء، 1968ء اور 1984ء میں کھیلے گئے اولمپک کھیلوں میں تین سونے کے طمغے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ بھی چار بار جیتا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ 1971ء، 1978ء، 1982ء اور 1994ء میں جیتا ہے۔ تاہم، کرکٹ پاکستان کا سب سے زیادہ مشہور کھیل ہے۔ پاکستان کرکٹ کے ٹیم، جنہیں شاہین کہا جاتا ہے، نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ 1999ءمیں شاھین دوسرے نمبر پر رہے۔ اور 1987ء اور 1996ء میں عالمی کپ کے مقابلے جزوی طور پر پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان ٹی 20 قسم کے کھیل کے پہلے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے جو سال 2007ء میںجنوبی افریقامیں کھیلا گیا تھا۔ اور سال 2009ء میں اسی قسم کے کھیل میں پہلے نمبر پر رہے اور عالمی کپ جیتا جوبرطانیہمیں کھیلا گیا تھا۔ سال 2009ء کے مارچ کے مہینے میں دہشت گردوں نےسری لنکاکے کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا جو پاکستان کے دورے پرلاہورمیں موجود تھی اور اسی کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ تاہم چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد مئی 2015ء میں عالمی کرکٹ پاکستان میں اس وقت بحال ہوئی جب زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ تمام مقابلے سخت حفاظتی حصار میںلاہورمیں ہوئے اور تمام مقابلوں کے لیے ٹکٹ سارے بک چکے تھے اور کرسیاں ساری بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس نے دوسری ٹیموں کے آنے کے لیے بھی راہ ہموار کر لی۔
+ورزشی کھیلوں میں عبد الخالق نے سال 1954ء اور سال 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس نے 35 سونے کے طمغے اور 15 عالمیچاندیاور پیتل کے طمغے پاکستان کے لیے حاصل کیے۔اسکواشمیں پاکستان کے شہرپشاورسے تعلق رکھنے والے کھلاڑیجہانگیر خانہیں جن کو عالمی معیار کا کھلاڑی اور کھیلوں کی تاریخ میں عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے اور ساتھ ہی جانشیر خان ہیں جنھوں نے عالمیاسکواشکے مقابلوں میں کئی بار پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج درمیانے سے لے کر اعلیٰ طبقے کے ليے مخصوص ہے۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں ��پنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی حالت ابتر ہے۔ریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔چاند اور ستارہ جو روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
+چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔
+شیلڈ کے اردگرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔
+علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔پاکستان کی زیادہ تر آبادی ملک کی وسطی علاقوں میں ہے، ملک کے جنوب میں زیادہ آباد مقامات اکثردریائے سندھکے آس پاس پر واقع ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی والا علاقہکراچیہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔پاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کامانگریزیزبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہاردوپاکستان کی قومی زبان ہے۔پاکستان کی صوبائی زبانوں میںپنجابیصوبہ پنجاب،پشتوصوبہ خیبر پختونخوا،سندھیصوبہ سندھ،بلوچیصوبہ بلوچستاناورشیناصوبہ گلگت بلتستانمیں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔[13]پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں،آیر،سرائیکی زبان،بدیشی،باگڑی،بلتی،بٹیری،بھایا،براہوی،بروشسکی،چلیسو،دامیڑی،دیہواری،دھاتکی،ڈوماکی،فارسی،دری،گواربتی،گھیرا،گوریا،گوورو،گجراتی،گوجری،گرگلا،ہزاراگی،ہندکو،جدگلی،جنداوڑا،کبوترا،کچھی،کالامی،کالاشہ،کلکوٹی،کامویری،کشمیری،کاٹی،کھیترانی،کھوار،انڈس کوہستانی،کولی(تین لہجے)،لہندالاسی،لوارکی،مارواڑی،میمنی،اوڈ،اورمڑی،پوٹھواری،پھالولہ،سانسی،ساوی،شینا(دو لہجے)،توروالی،اوشوجو،واگھری،وخی،وانیسیاوریدغہشامل ہیں۔[14]ان زبانوں میں بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں- ي سرا سنکے عمران خان سب سے اچھا ہے2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+418,مملکت متحدہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%85%D9%84%DA%A9%D8%AA_%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%AF%DB%81,"مملکت متحدہ برطانیہ عظمیٰ و شمالی آئرستان(United Kingdom of Great Britain and Northern Ireland)، جسے عام طور پرمملکت متحدہ(United Kingdom) یابرطانیہ(Britain) کے طور پر جانا جاتا ہے، شمال مغربییورپکا ایک ملک ہے۔ یہ جزیرہ برطانیہ اورشمالی آئرلینڈکے علاوہ ملحقہ سمندر کے مختلف جزائر پر پھیلا ہوا ہے۔برطانیہ کے چاروں طرفبحر اوقیانوساور اس کے ذیلی بحیرے ہیں جن میںبحیرہ شمال،رودباد انگلستان،بحیرہ سیلٹکاوربحیرہ آئرششامل ہیں۔برطانیہچینل سرنگکے ذریعےفرانسسے منسلک ہے جورودباد انگلستانکے نیچے سے گذرتی ہے جبکہشمالی آئرلینڈجمہوریہ آئرلینڈکے ساتھ ملتا ہے۔در حقیقتمملکت برطانیہایک سیاسی اتحاد ہے جو 4 ممالکانگلستان،اسکاٹ لینڈ،ویلزاورشمالی آئرلینڈسے مل کر بنا ہے۔ ان کے علاوہ دنیا بھر میں برطانیہ کے دیگر کئی مقبوضات بھی ہیں جن میںبرمودا،جبل الطارقیاجبرالٹر،مونٹسیرٹاورسینٹ ہلینابھی شامل ہیں۔برطانیہ ایک آئینی بادشاہت ہے جو دولت مشترکہ کے 16 ممالک کی طرح شہنشاہچارلس سومکو اپنا حکمران تصور کرتی ہے۔برطانیہ جی 8 کا رکن اور انتہائیترقی یافتہ ملکہے۔ اس کی معیشت دنیا کی پانچویں اوریورپکی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جس کا اندازہ 2.2 کھرب امریکی ڈالرز ہے۔ برطانیہ آبادی کے لحاظ سےیورپی یونینکا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی 60.2 ملین ہے۔ برطانیہشمالی اوقیانوسی معاہدہ(نیٹو) اوراقوام متحدہکا بانی رکن اورسلامتی کونسلکا مستقل رکن ہے۔ برطانیہ دنیا کی بڑیجوہری طاقتوںمیں سے ایک ہے۔ یہیورپی یونینکا بھی رکن ہے۔سلطنت برطانیہ کے خاتمے کے باوجودانگریزی زبانکے عالمی استعمال اوردولت مشترکہکے باعث برطانیہ کے اثرات ابھی بھی دنیا پر باقی ہیں۔برطانیہیورپکے ان ممالک میں سے ہے جن کی تاریخ بہت زرخیز ہے۔ کرو-میگنونز، جو قدیم برطانیہ بناتے تھے اس کا تصفیہ تقریباً 30,000 سال قبل شروع ہونے والی لہروں میں ہوا تھا۔ علاقے کے ما قبل تاریخ دور کے اختتام تک، خیال کیا جاتا ہے کہ آبادی کا زیادہ تر تعلق انسولر سیلٹک کہلانے والی ثقافت سے تھا، جس میں بریٹونک برطانیہ اور گیلک آئرلینڈ شامل ہیں۔ بریٹن قبائل کی وجہ سے ان جزائر کا نام برطانیہ پڑ گیا جویورپاور دیگر خطوں سے ہجرت کرکے برطانیہ میں آباد ہوئے۔ ان بریٹنوں کی اکثریت آج بھیویلزکے علاقے میں مقیم ہے ان بریٹنوں کے مذہبی رہنماؤں کو ڈروئدا کہا جاتا تھا۔قبل مسیحکے رومی حکمرانآگستسکے زمانے میں جزائر برطانیہ پر رومی حکومت کا قبضہ تھا اگرچہ کہ برطانیہ میں اس دور میں رہنے والے تمدن کے اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ نہ تھے مگر پھر بھی وہ رومہتہذیبکا حصہ تصور کیے جاتے ہیں۔117ءمیںھیڈرینکو روم کی سینٹ نے روم کا بادشاہ بنوایا۔اس دور میں ہیڈرین نے خصوصی طور پر برطانیہ پر توجہ دی۔ برطانیہ کی قدیم سڑکوں کی تعمیر ھیڈرین کے دور ہی میں ہوئی تھی اور قلعہ بندی کا آغاز بھی ہیڈرین کے دور ہی میں شروع ہوا جس کے بعد طویل مدت تک برطانیہرومی سلطنت کا صوبہبنا رہا اسی دور میں وسطی ایشیائی ممالک اور روس اور دیگر خطوں سے یورپ کی جانب خونخوار قبیلوں کی ہجرت کا آغاز ہوا جن میں اہم ترین قبیلےجرمن،ھن،مشرقی گاتھ، ایلارک، ونڈال، مغربی گاتھ،فرینکاورلمبارڈشامل ہیں۔ ان خونخوار اور لڑاکا قبائل نے جن کی اکثریت وسطی ایشیا اور روس سے ہجرت کرکے یورپ میں داخل ہوئی تھی یورپ میں جنگ و جدل کی فضا قائم کردی یہ لڑاکا قبائل جو وحشیانہ زندگی کے خوگر تھے جلد ہی یورپ کی فضاؤں میں داخل ہو کر یورپ کی زندگی میں رچ بس گئے اور انھو�� نے اپنے آبائی مذاہب کو چھوڑ کر یورپی مذہبمسیحیتکو اپنا لیا۔ ان جنگجو قبائل میں سےگاتھجو کے مشرقی اور مغربی گاتھوں میں تقسیم تھے انتہائی لڑاکا اور جنگجو تھے۔ گاتھوں کی لڑائیوں کی وجہ سے یورپ کی سب سے مضبوط سلطنت زوال سے دوچار ہوئی جب کے یورپ کے بیشتر علاقے پر گاتھوں نے بذور شمشیر قبضہ کر لیا، گاتھوں کے حملے کی وجہ سےرومجس کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب تھا تباہ و برباد ہو گیا۔ گاتھوں کے حملے ہی کی وجہ سےقسطنطیننے اپنادار الحکومترومکی جگہقسطنطنیہکو بنایا۔ مگر جلد ہی گاتھ مسیحی مذہب سے متاثر ہو گئے۔ اس کے ساتھ وہیورپکے بیشتر حصوں پر قابض ہوتے چلے گئے جس کی وجہ سے نوبت یہ ہو چکی تھی کہ اگرچہ گاتھ مسیحی ہو چکے تھے مگر اس کے باوجودیورپکے تمدن یافتہ اور سابق حکمراں گاتھوں کو اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتے تھے۔ گاتھوں کے اقتدار کے دور میں اگرچہ کےیورپمیں کسی حد تک استحکام رہا مگر اس طرح نہیں جس طرح رومی حکومت کے دور میں رہا۔جزائر برطانیہ بھی ان حملہ آووروں کے حملوں سے بری طرح سے متاثر ہوا ایک جانب رومی حکومت کی گرفت کمزور ہوئی تو دوسری جانب علاقائی حکومتیں قائم ہوتی چلی گئیں جو چھوٹے چھوٹے علاقوں پر مشتمل تھیں ان حکومتوں کو تاریخ میں حکومت ہفتگانہ کہا جاتا ہے اسی زمانے میں برطانیہ میں مسیحیت کیتبلیغہوئی اور برطانیہ کے مختلف علاقےبت پرستیسے مسیحیت کی آغوش میں چلے گئے اسی دوران میںآٹھویں صدیمیں برطانیہ پرڈنمارککے رہنے والےڈین قبائلنے حملے کرنا شروع کردیے۔ حملوں کا مقصد برطانیہ پر قبضہ کرنا تھا۔ ٹھیک اسی زمانے میںناروےمیں بسنے والے جنگجووائیکنگنے بھی برطانیہ پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کرنا شروع کردیے۔ وائیکنگ یورپ کی تاریخ کی انتہائی جنگجو قوم تھی جس نے تمام یورپ میں اپنی وحشیانہ اور جنگجویانہ سرگرمیوں سے دہشت قائم کر رکھی تھی۔اس زمانے میں برطانیہ کا بادشاہ ایلفرڈ بہت بہادر تھا، جسے ایلفرڈ اعظم بھی کہا جاتا ہے، نے ان وائی کنگ حملہ آوروں کے خلاف طویل ترین جنگیں لڑیں اور بڑی بہادری کے ساتھ وائیکنگ کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں وائیکنگ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ مگر اس کے باوجودایلفرڈ اعظمنے جو صلح کا معاہدہ وائی کنگ کے ساتھ کیا، اس معاہدے میں حکمتِ عملی کے تحتدریائے ٹیمزسے اوپر کے علاقے جس میں شمالی و مشرقی انگلستان کا ایک وسیع علاقہ ان وائیکنگ کے حوالے کیا اور باقی حصہ بدستور ایلفرڈ اعظم کے قبضے میں رہا۔
+ایلفرڈ اعظم کے بعد اس کی اولاد حکمران رہی یہاں تک کہدسویں صدیکے آخر میںڈنمارککے بادشاہ نے حملہ کیا اور اس خاندان کا ایک فرد باقاعدہ انگلستان کا بادشاہ بن گیا۔ مگر اس کی حکومت کا خاتمہ اس کی موت کے بعد جلد ہی ہو گیا کیونکہ اس کی اولاد میں سے کوئی بھی حکمرانی کے قابل نہیں نکلا۔ لہٰذا1042ءمیں اس حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور ایلفرڈ اعظم کی اولاد میں ایڈورڈ کو انگلستان کا بادشاہ بنایا گیا۔ مگر ایڈورڈ لاولد انتقال کرگیا جس کی موت کے بعد انگلستان میں تخت کے دو دعویداروں ھیرلڈ اور ولیم کے درمیان میں جنگ ہوئی جس میں ھیرلڈ مارا گیا اور ولیم انگلستان کا بادشاہ بنا۔ واضح رہے کہ ولیم ایڈورڈ کا رشتے دار تھا مگر چونکہ اس کا تعلق نارمنڈی سے تھا اس لیے اس کی حکومت کو نارمنوں کی حکومت تصور کیا جاتا ہے۔جنگ ھیسٹینگز کے بعد انگلستان پر نارمنوں کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ ولیم اول نے انگلستان پر بڑی ہی فراست کے ساتھ حکومت کی۔ قدیم ج��گیر دارانہ نظام بدستور قائم رکھا گیا، مگر اس کے باوجود ولیم کا ان جاگیرداروں پر بہت مضبوط کنٹرول تھا۔ اس کے احکامات تھے کہ کوئی بھی جاگیردار اس کی اجازت کے بغیر کوئی قلعہ تعمیر نہیں کر سکتا۔ بڑے بڑے مذہبی عہدے داروں کا تقرر بادشاہ کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ 1087ء میں ولیم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ولیم ثانی بادشاہ بنا مگر لوگ اس سے بہت ناراض تھے جس کی وجہ سے ولیم ثانی1100ءمیں مارا گیا۔ جس کے بعد اس کا بیٹا ہنری اول تخت نشین ہوا، جس کے عہد میں تجارت کو بہت ہی فروغ حاصل ہوا۔ ہنری کے دور میں ہی انگریز تاجر برطانیہ سے باہر نکلے اور تجارت کے میدان میں دیگر یورپی اقوام کے مقابلہ میں جدوجہد شروع کی۔ہنری اول کی وفات کے بعد اس کا نواسہ ہنری دوم کے نام سے انگلستان کا بادشاہ بنا۔پلانٹیجنیٹ(Plantagenet) خاندان سے تعلق رکھنے والا ہنری دوم، ہنری اول کی بیٹی مٹیلڈا کا بیٹا تھا۔ مٹیلڈا کی شادی آنجو (Angou) کے نواب جیوفرے کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس خاندان کا نشان ایک جھاڑی تھا اس لیے اس کوخاندان پلانٹیجنیٹ(Plantagenet) کہا جاتا ہے۔ ہنری دوم کے بعد انگلستان میں جب تک اس خاندان کی حکومت قائم رہی اس حکومت کو پلانٹیجنیٹ (Plantagenet) کا دور کہا گیا۔ ہنری دوم کے دور میں انگلستان کے نظام کو بہتر بنایا گیا۔ جو علاقے اس سے قبل انگلستان کے بادشاہوں کے ہاتھ سے نکل گئے تھے ان علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا۔ اس کے علاوہ ہنری نے عدالتی اصلاحات کی، مالیات کے محکمے کو ازسر نو منظم کیا، تجارت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے۔ اس کا سب سے یادگار قدم جو آج بھی ہنری دوم کی یاد دلاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد 1209ء میں رکھی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا رچرڈ بادشاہ بنا، تاریخ میں اس بادشاہ کورچرڈ شیردلکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ رچرڈ شیر دل تیسری صلیبی جنگ میں خود شامل ہوا تھا جس کے بعد اس کی بہن کی شادی سلطان ایوبی کے بھائی کے ساتھ ہوئی۔سن1272ءمیں ہنری کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا ایڈورڈ انگلستان کا بادشاہ بنا جسے ایڈورڈ اول کہا گیا جو انگلستان کی تاریخ کا انتہائی قابل اور مدبر بادشاہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے زمانے میں ویلز کی بغاوت کا خاتمہ ہوا، اسکاٹ لینڈ بھی انگلستان کے ساتھ شامل ہوا، اگرچہ یہ شمولت رسمی ہی تھی مگر اس کے باوجود اسکاٹ لینڈ پر انگلستان کا جھنڈا لہرایا گیا۔ اس کے ساتھ انگلستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جو اہم ترین فیصلہ ایڈورڈ اول نے کیا وہ یہ تھا کہ1290ءمیں اس نے انگلستان کی حدود سے یہودیوں کو نکل جانے کے احکامات دیے۔1295ءمیں ایک نمائندہ پارلیمنٹ بلوائی جس میں، بشپ، ایبٹ، بڑے بڑے امیر، نامور جنگجو اور مختلف قبائلی سرداروں نے شرکت کی۔ اس نمائندہ اجلاس میں پہلی بار میگنا کارٹا کی تصدیق کردی گئی اور اس کے ساتھ میگنا کارٹا میں ایک دفعہ مزید بڑھائی گئی کہ بادشاہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی غیر جاگیردار محصول نافذ نہیں کرے گا۔ ایڈورڈ کے دور کی ایک خوبی یہ ہے کہ متوسط طبقے سے بادشاہ باقاعدہ رابطہ قائم رکھتا تھا اور ان کی تجاویز سنتا تھا اور ان پر عمل درآمد بھی کرواتا تھا۔ بادشاہ کا یہ قدم انگلستان میں جمہوریت کو قائم رکھنے میں بہت مدد گار ثابت ہوا۔ اس کے ساتھ عدالتوں کی اصلاح بھی کی گئی، عدالتوں کی کارکردگی کے بارے میں ایک سوالنامہ شائع کیا جاتا تھا جس میں تمام عدالتی کارروائی کی تفصیل درج ہوتی تھی۔رچرڈ کی وفات کے ساتھ ہی برطانیہ میںخاندان لنکاسٹرکا آغاز ہو گیا، جس کا بانیہنری سومتھا، جو ڈیوک آف لنکاسٹر کا بیٹا تھا۔ ہنری سوم کے دور میں برطانیہ میں بہت سے کام ہوئے، مگر ہنری کے دور میں بہت سے امرا نے بغاوت کی۔فرانسنے بھی باغی سرداروں کی امداد میں اپنی فوج بھیجی۔ مگر1413ءمیں ہنری وفات پاگیا جس کے بعد اس کا بیٹاہنری پنجمکے لقب سے بادشاہ بنا ہنری پنجم بہت ہی لائق بادشا ہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے برگنڈی کے ڈیوک کیساتھ صلح کرکے فرانس کے تخت و تاج کا دعویٰ کر دیا اور فرانس کے خلاف لڑائی شرع کردی۔ جس کے بعد ہنری کی افواج نے ایجن کورٹ کے مقام پرفرانسکو شکست دیدی اور نارمنڈی کے علاقے کو فتح کر لیا۔1420ءمیں صلح نامے کے نتیجے میں فرانس کے ولی عہد کو سلطنت سے محروم کرکے اعلان کر دیا گیا کہ ہنری پنجم ہی فرانس کا آئندہ بادشاہ ہو گا۔ مگر ہنری1422ءمیں اچانک وفات پاگیا ہنری پنجم کی وفات کے بعد اس کے نو ماہ کے بیٹے کوہنری ششمکے لقب سے بادشاہ بنایا گیا۔ اس کے تین چچاؤں نے بادشاہ کے سرپرست کی حیثیت اختیار کی ایک چچا فرانس میں نائب السلطنت بن گیا دوسرا انگلستان میں نائب سلطنت بنا، مگر ان ہی دنوں فرانس میں بغاوت کی ابتدا ہو گئی، یہ بغاوت مشہور و معروفجون آف آرکنے شروع کی، جس کے نتیجے میں فرانس میں انگلستان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔1437ءمیں ہنری بالغ ہو گیا لیکن وہ اچھا حکمران ثابت نہیں ہو سکا۔ اس کے دور میں بد نظمی ہی رہی کبھی کوئی نواب فوج جمع کرکے کنٹرول کرلیتا کبھی کوئی۔ ان حالات میں ڈیوک آف یارک کے پوتے نے بادشاہ کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ اس طرح ایک ہی خاندان کی دو شاخوں کے درمیان میں خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی۔ یارک اور لنکاسٹر خاندانوں کے درمیان میں ہونے والی اس جنگ میں ابتدا میں یارک نے شاہی فوج کو شکست دے کر بادشاہ کو گرفتار کر لیا۔ مگر بادشاہ کی ماں اور ہنری پنجم کی بیوہ نے فوج جمع کرکے ڈیوک آف یارک کی افواج کو شکست دیدی۔ جنگ میں ڈیوک آف یارک مارا گیا مگر جنوبی انگلستان کے لوگوں کی حمایت سے ڈیوک آف یارک کے بیٹے ایڈورڈ نے شاہی افواج کو شکست دینا شروع کردی جس کے نتیجے میں جلد ہی لنکاسٹر خاندان شکست کھا گیا اور1461ءمیںخاندان یورککی حکمرانی کی ابتدا ہو گئی۔ 1465ء میں ہنری ششم گرفتار ہو گیا جس کو ٹاؤر میں بند کر دیا گیا جہاں اس نے اپنی زندگی کے آخری دنخاندان پلانٹیجنیٹ(Plantagenet) کے آخری بادشاہ رچرڈ کی مانند گزارے۔پانچویں صدیعیسوی میں مسیحی راہبوں کے ذریعہآئرلینڈمیں مسیحیت پھیلی۔ اس سے قبل یہاں پر بت پرستی رائج تھی۔ مسیحیت پھیلنے کے تین سو برس بعد تک آئیر لینڈ میں مسیحی رہبانیت کے تحت ہی نظام کام کرتا رہا۔ مگر آٹھویں صدی کے بعد جو صورتِ حال انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کی اوپر بتائی گئی ہے اس سے ملتی جلتی صورت حالآئرلینڈکی ہو گئی، جہاں یورپ کے دیگر علاقوں کے مختلف قبائل آکر حملہ کرتے اور قبضہ کرلیتے تھے۔ مگر پھر سنہ 1171ء میں انگلستان کے نارمن بادشاہ ہنری دوم نےپوپکے فرمان کے مطابقآئرلینڈپر حملہ کرکے قبضہ کر لیا اور یوں وہاں انگلستان کی حکومت قائم ہو گئی۔اسی طرحاسکاٹ لینڈکی بھی صورت یہ تھی کہپانچویں صدیمیں اسکاٹ لینڈ چار حصوں میں تقسیم تھا۔ چھوٹے چھوٹے قبائلی سردار اپنی اپنی راجدھانی کے سردار بن کر بیٹھ گئے تھے۔ پانچویں صدی عیسوی میں اسکاٹ لینڈ کے لوگوں نے انگلستان کی حکومت کا خاتمہ کرکے اپنی مقامی حکومت قائم کرلی۔ مگر یہاں بھی اسی طرح کی صورت حال تھی کےاسکینڈینیویاکے ممالک کے لوگ اسکاٹ لینڈ پر حملہ آور ہوتے اور کبھی کسی علاقے پر قبضہ کرلیتے اور کبھی کسی علاقے پر۔ مگر پھر ان کو احساس ہوا اور1034ءمیں تمام اسکاٹ لینڈ ایک حکومت کے جھنڈے تلے آ گیا۔1199ءمیں رچرڈ کی وفات کے بعداس کا بھائیجانبادشاہ بنا۔ برطانیہ کی تاریخ میں کنگ جان سے زیادہ اچھا بادشاہ کسی کو نہیں جانا جاتا ہے۔ کنگ جان کوئی زیادہ کامیاب باشاہ نہیں تھا۔ اس کے دور میں ایک جانب تو پوپ کے ساتھ کشمکش کا آغاز ہوا اور دوسری جانب امیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ لڑائیاں ہوئیں جس کی وجہ سے انگلستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا۔ مگر تاریخ میں کنگ جان کا نام اس اعتبار سے زیادہ مشہور ہے کہ اس کے دور میں اس جمہوریت کی ابتدا ہوئی جس کی وجہ سے آج برطانیہ کا نام قوموں میں سر بلند ہے۔ کنگ جان نے1214ءمیں اس دستاویز پر دستخط کیے جو تاریخ میںمیگنا کارٹایعنی منشور کبیر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ہی منشور انگلستان میں جمہوریت کی سنگ بنیاد تصور کیا جاتاہے۔ جان کے دور میں انگلستان میں پوپ کا عمل دخل زیادہ بڑھ گیا تھا۔ جان کے لیے ضروری تھا کہ پوپ کو خوش رکھنے کے لیے باقاعدہ نذرانے بھیجتا رہے جس سے معیشت بہت متاثر ہوئی اور اس کے نتیجے میں انگلستان مختلف شورشوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔1216ءمیں جان نے وفات پائی۔ جان کے بعد اس کا بیٹاہنری سومکے نام سے نو برس کی عمر میں انگلستان کا بادشاہ بنا۔ مگر اس کی خوش نصیبی یہ رہی کہ ایک انتہائی قابل شخص ولیم مارشل جو اس کے باپ جان کا ساتھی تھا ہنری سوم کا نائب السلطنت بنا۔ ولیم مارشل انتہائی قابل اور وفادار تھا۔ اس نے انتہائی قابلیت اور ذہانت کے ساتھ کار مملکت چلائے۔ جس کی وجہ سے انگلستان میں نو سالہ بادشاہ کی موجودگی میں کسی بھی طرح کی بے امنی اور بد انتظامی نہیں ہو سکی۔ مگر جلد ہی ولیم مارشل کی وفات کے بعد انتظامی معاملات بگڑنے لگے۔ ایک جانب پوپ انگریزی کلیساؤں سے چندے کی رقم کا مطالبہ کرتا تھا اور دوسری جانب پوپ کی طرف سے مختلف مذہبی مطالبات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے تھے۔ پھر ویلز میں بغاوت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ انگلستان اورفرانسکے درمیان میں جنگ بھی شروع ہو گئی۔ حالانکہ ہنری کی شادی فرانس کی شہزادی کے ساتھ ہوئی تھی مگر اس کے باوجود انگلستان اورفرانسکے درمیان میں جنگ ہوئی۔ پوپ کی جانب سے انگلستان میں مداخلت کا سلسلہ بھی جاری ہی رہا۔ ایک جانب تو پوپ نے اپنے مصارف کے لیے مستقل دباؤ ڈالنا شروع کیا جس کی انتہائی صورت یہ تھی کہ انگلستان کی پوری آمدنی کا ایک تہائی حصہ پوپ کے حوالے کیا جانے لگا۔ جس کے نتیجے میں عوام ناراض ہونے لگے اور امرا کی ایک کمیٹی جو 24 اراکین پر مشتمل تھی، نے اصلاحی اسکیم پیش کردی۔ ہنری نے اس اسکیم کو توڑنے کی بہت کوشش کی مگر اس میں اس کوکامیابینہیں ہوئی۔ اس طرح خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا جس میں بادشاہ کے بہنوئی سائمن ڈی مانفرٹ (Siman de Monfort) نے اصلاحی گروہ کی سرداری قبول کرلی۔ بادشاہ کو شکست ہوئی اور سائمن نے پورا انتظامی کاروبار سنبھال لیا۔ بادشاہ نے مشورے کے لیے جو مجلس بنا رکھی تھی اسے پہلے مجلس کبیر (Great Council) کہا جاتا تھا مگر1240ءمیں اس کا نام پارلیمنٹ رکھا گیا، جو آج تک جاری ہے۔1925ءمیں سائمن نے ایک نمائندہ پارلیمنٹ بلوائی۔ بادشاہ کا بڑا بیٹا، ایڈورڈ جو پہلے اصلاحی پارٹی کے ساتھ تھا ان امیروں کے ساتھ مل گیا، جو بادشاہ کے طرف دار تھے۔ اس نے سائمن کو شکست دی۔ اب اقتدار دوبارہ ہنری کے ہاتھ میں آ گیا لیکن اس و��ت بھی وہ برائے نام بادشاہ تھا کیونکہ تمام اقتدار ایڈورڈ کے ہاتھ میں ہی تھا۔ایڈورڈ کا دور اس اعتبار سے بھی بہت اہم ہے کہ اس دور میں آئیرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ انگلستان کا حصہ بنے جو گریٹ برٹین کی ابتدا تھی اس کے ساتھ ایڈورڈ نے جو اہم ترین کام انجام دیا وہ یہ کہ1209ءمیں بننے والیآکسفورڈ یونیورسٹیکی جانب بھرپور توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہو سکا آکسفورڈ یونیورسٹی اس وقت دنیا کی سب سے قدیم یونیورسٹی شمار کی جاتی ہے جہاں سے کروڑوں طالب علم اس وقت اپنی تعلیم کو مکمل کرکے دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں۔یہ وہ دور تھا جب منگولوں نےچنگیز خانکی سربراہی میں منگولیا سے نکل کر بیرونی دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دے کر تہلکہ مچا دیا تھا منگولوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں نے عالمِاسلامکے اہم ترین اور طاقتور ریاستوںسمرقندوبخارااوربغدادکو روند کراور تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا وہیں ان ہی منگولوں نے ایک جانب تمام روس دوسری جانبپولینڈ،جرمنی،آسٹریا،بلغاریہ،ترکی،رومانیہپر قبضہ جمالیا تھا یورپ میں موجود مسیحیت کی سب سے بڑی روحانی شخصیت پوپ نے منگولوں کے حملے کو عذابِ خداوندی قرار دیا اور یورپ کے تمام بادشاہوں کو اس عذابِ خداوندی کا مقابلہ کرنے کے لیے یکجا ہونے کی دعوت دی مگر جلد ہی منگولوں کے پہلے بادشاہچنگیز خانکے مر جانے کے بعدایشیامیں مسلمانوں کے ہاتھوں پہلی شکست کھانے کے بعد منگولوں کی قوت تتر بتر ہونے لگی جس کے نتیجے میں ان کے طوفانی حملوں کا زور یورپ میں ختم ہو گیا اور یورپی ریاستوں نے ایک ایک کرکے منگولوں سے آزادی حاصل کرنا شروع کردی اس صورت حال کے اثرات برطانیہ پر بھی پڑے ایک جانب منگولوں کے ہاتھوں شکست کھانے والے قبائل پناہ لینے کے لیے برطانیہ کی جانب رخ کرنے لگے دوسری جانب برطانیہ میں اعلیٰ ترین صنعت کار اور تاجر آنے لگے یورپ کے اجڑنے کے ساتھ برطانیہ کے بسنے کا عمل بھی جاری ہوا اسے انگریز قوم کی خوبی ہی کہا جائے گا کہ انگریزوں نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اور ایسا قومی ماحول تشکیل دیا جس کے نتیجے میں قومی ترقی کے امکانات وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے گئے۔ایڈورڈ اولکی وفات کے بعد اس کے بیٹےایڈورڈ دومکے نام سے تخت نشین ہوا وہ زیادہ قابل نہ تھا اس لیے امیروں کا کنٹرول ایڈورڈ دوم پر تھا جس کی وجہ سے نہ تو ایڈورڈ دوم پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی کام کر سکتا تھا اور نہ ہی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اعلانِ جنگ کر سکتا تھا اس کے دور میں اسکاٹ لینڈ کے باغیوں نے شاہی فوج کو شکست دیدی جس کے نتیجے میں اسکاٹ لینڈ آزاد ہو گیا ایڈورڈ کی شکست کے نتائج اس کو اس طرح سے بھگتنا پڑے کہ1327ءمیں اسے تاج و تخت سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا گیا آٹھ ماہ کی قید کے بعد اسے قتل کر دیا گیا جس کے بعدایڈورڈ سومپندرہ سال کی عمر میں بادشاہ بنایا گیا مگر جلد ہی اس نے تمام معاملات اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کردیے۔1330ءمیں اس نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور1337ءمیں فرانس کے خلاف جنگ شروع کی جو سو سال تک جاری رہی اس لیے اس جنگ کوصد سالہ جنگبھی کہا جاتا ہے ایڈورڈ سوم کے دور میں انتظامی معاملات درست ہو گئے ا سی کے عہد میں پارلیمنٹ کا آغاز ہوا دارلعوام اور دار الامرا کا آغاز ہوا مگر1348ءمیں خونی پلیگ پھیلی جس کی وجہ سے نصف آبادی موت کا شکار ہو گئی اسی دور میں مسیحیت کی اصلاحی تحریک کا آغاز بھی ہوا اس تحریک کے بانیجان وکلفکا کہنا تھا کہ ہر شخص کسی کی وساطت کے بغیر خدا سے براہ راست رشتہ قائم رکھ سکتا ہے اور کلیساؤں کے ساتھ اوقاف رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، نیز پادریوں نے شادی نہ کرنے کا جو سلسلہ قائم کررکھا ہے وہ غلط ہے، پادریوں نے دولت جمع کرنے کا جو سلسلہ قائم کررکھا ہے وہ غلط ہے۔ اس طرح جان وکلف نے پوپ اور پادریوں کے تمام اقتدار کا خاتمہ کر دیا جان وکلف نے1372ءمیںبائبلکا مکمل انگریزی ترجمہ کیا۔ اپنے ان خیالات کی وجہ سے جان وکلف کو آخری دور میں بہت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔دوسری جانب بڑھاپے کی وجہ سے ایڈورڈ بالکل ہی ناکارہ ہو گیا اس کا بڑا بیٹا بھی بیمار تھا اس وجہ سے برطانیہ کا نظام بگڑ گیا اس کے بیٹے نے حالات کو بہت درست کرنے کی کوشش کی مگر وہ1376ءمیں وفات پاگیا اس کا بیٹارچرڈ سومتخت نشین ہوا جو تخت نشین کے وقت صرف دس سال کا تھا اس کا چچا جان جو لینکاسٹر کا ڈیوک تھا بادشاہ کی سرپرست مجلس کا سربراہ بنایا گیا اس کے دور میں فرانس کے ساتھ از سر نو جنگ چھڑ گئی جس میںفلینڈرسکا علاقہ چھن گیا۔ اس وقت روپے کی سخت ضرورت پڑی جو محصول لگا کر حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اس کی وجہ سے برطانیہ میں بے چینی بڑھنے لگی جس کی وجہ سے بعض مقامات پر تشدد کے واقعات بھی پیش آئے۔ بڑے بڑے زمینداروں کی جانب سے کسانوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے نتیجے میں کسانوں کی جانب سے بغاوت ہو گئی۔ جاگیرداروں کے مراکز جلادئے گئے، بڑے بڑے زمیندار اور قانون داں اس بغاوت میں مار دیے گئے۔ انگلستان کے مشرقی اور جنوبی حصے سے ایک بہت بڑا ہجوم دو سرداروں ویٹ ٹائیلر اور پول ٹاکس کی قیادت میں لندن کی جانب روانہ ہوا۔ ہجوم کے بڑے بڑے مطالبات یہ تھے کہ زمینداروں نے کسانوں پر جو ناواجب ٹیکس لگائے ہوئے ہیں وہ منسوخ کر دئے جائیں، کلیساؤں کے اوقاف چھین لیے جائیں اور شکار کے تمام قوانین ختم کردئے جائیں۔ بادشاہ نے ہجوم سے ملاقات کرکے ان کے ساتھ ہوشیاری کے ساتھ مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں ہجوم واپس ہو گیا۔ اس دوران میں ویٹ ٹائیلر مارا گیا اس کے بعد رچرڈ نے خومختار بننے کی کوشش کی پارلیمنٹ نے اس کے اس اقدام کی مخالفت کی اسی دوران میں ڈیوک آف لنکاسٹر کا بیٹا آئیر لینڈ سے آ گیا اس نے رچرڈ کے تمام اختیارات خود لے کر رچرڈ کو بادشاہت سے دستبردار کرکے اور رچرڈ کو ٹاؤر میں قید کر دیا جہاں رچرڈ نے1400ءمیں وفات پائی۔خاندان یورککی حکمرانی برطانیہ کے عوام کے لیے نئی صبح بن کرطلوع ہواعوام مسلسل ہونے والی خانہ جنگی سے بے زار آچکے تھے۔انگریزی اصلاحات نےسولہویں صدیمیں سیاسی، آئینی، سماجی اور ثقافتی تبدیلی کا آغاز کیا اور چرچ آف انگلینڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مزید برآں، اس نے انگلینڈ کے لیے ایک قومی شناخت کی وضاحت کی اور آہستہ آہستہ، لیکن گہرے طور پر، لوگوں کے مذہبی عقائد کو بدل دیا۔ ویلز کو مکمل طور پر برطانیہ کی بادشاہی میں شامل کر لیا گیا اور آئرلینڈ کو انگلش تاج کے ساتھ ذاتی اتحاد میں ایک مملکت کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ اور باقی حصہ جس میں شمالی آئرلینڈ بننا تھا، آزاد کیتھولک گیلک اشرافیہ کی زمینیں ضبط کر لی گئیں اور انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے پروٹسٹنٹ آبادکاروں کو دے دی گئیں۔1603 میں، انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی سلطنتیں ایک ذاتی اتحاد میں متحد ہوئیں جب اسکاٹس کے بادشاہ جیمز ششم نے انگلینڈ اور آئرلینڈ کے تاج وراثت میں حاصل کیے اور اپنے دربار کو ایڈنبرا سے لندن منتقل کر دیا۔ اس کے باوجود ہر ملک ایک الگ سیاسی وج��د رہا اور اپنے الگ الگ سیاسی، قانونی اور مذہبی اداروں کو برقرار رکھا۔ 17ویں صدی کے وسط میں، تینوں مملکتیں متصل جنگوں کی ایک سیریز میں شامل تھیں (بشمول انگریزی خانہ جنگی) جس کی وجہ سے بادشاہت کا عارضی طور پر تختہ الٹ دیا گیا اور انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ پر مشتمل دولت مشترکہ کی جمہوریہ رہ گئی۔اگرچہ بادشاہت بحال کر دی گئی، 1688 کے شاندار انقلاب اور اس کے بعد کے بل آف رائٹس 1689 کے ساتھ ساتھ اسکاٹ لینڈ میں کلیم آف رائٹ ایکٹ 1689 نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یورپ کے باقی حصوں کے برعکس، شاہی مطلق العنانیت نہیں ہوگی۔ کیتھولک سے تعلق رکھنے والا کبھی بھی تخت پر نہیں بیٹھ سکتا۔ برطانوی آئین آئینی بادشاہت اور پارلیمانی نظام کی بنیاد پر تیار ہوگا۔ 1660ء میں رائل سوسائٹی کے قیام کے ساتھ، سائنس کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس عرصے کے دوران، خاص طور پر انگلستان میں، بحری طاقت کی ترقی اور دریافت کے سفروں میں دلچسپی بیرون ملک مقیم کالونیوں کے حصول اور آباد کاری کا باعث بنی، خاص طور پر شمالی امریکا اور کیریبین میں۔اگرچہ 1606، 1667 اور 1689 میں برطانیہ کے اندر دو ریاستوں کو متحد کرنے کی پچھلی کوششیں ناکام ثابت ہوئی تھیں، لیکن 1705 میں شروع کی گئی کوشش کے نتیجے میں 1706 کے اتحاد کے معاہدے پر دونوں پارلیمانوں نے اتفاق کیا اور اس کی توثیق کی۔ یکم مئی 1707 کو، برطانیہ کی بادشاہی قائم ہوئی، جو یونین 1707 کے ایکٹ کے نتیجے میں ہوئی۔ 18ویں صدی میں، کابینہ کی حکومت رابرٹ والپول کے تحت تیار ہوئی، جو عملی طور پر پہلےوزیر اعظم(1721–1742) تھے۔ جیکبائٹ بغاوتوں کی ایک سیریز نے پروٹسٹنٹ ہاؤس آف ہینوور کو تخت سے ہٹانے اور کیتھولک ہاؤس آف اسٹورٹ کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ جیکبائٹس کو بالآخر 1746ء میں کلوڈن کی جنگ میں شکست ہوئی، جس کے بعد سکاٹش ہائی لینڈرز کے قبیلے کے سرداروں کی جاگیردارانہ آزادی کو منسوخ کر کے زبردستی اسکاٹ لینڈ میں ضم کر دیا گیا۔ شمالی امریکا میں برطانوی کالونیاں جو امریکی جنگ آزادی میں ٹوٹ گئیں وہ ریاستہائے متحدہ بن گئیں، جسے برطانیہ نے 1783 میں تسلیم کیا۔برطانوی راجیا سلطنت برطانیہ کو ’’سرکارِ انگلشیہ‘‘ بھی کہا جاتا تھا، خصوصاً 1857ء سے1947ءکے دوران میں جببرصغیرمکمل طور پر سلطنت برطانیہ کا حصہ تھا۔گریٹ برٹین یا متحدہ برطانیہ کی ابتدا ہوئیکرام ویل اور اس کا بیٹا رچرڈ کرام ویل ڈکٹیٹر بنے 1649تا1712برطانیہ کا کل رقبہ تقریباً 244,820 مربع کلومیٹر (94,530 مربع میل) ہے۔ یہ ملک برطانوی جزائر کے بڑے حصے پر قابض ہے اور اس میں برطانیہ کا جزیرہ، آئرلینڈ کے جزیرے کا شمال مشرقی ایک چھٹا حصہ اور ارد گرد کے کچھ چھوٹے جزائر شامل ہیں۔ یہ شمالی بحر اوقیانوس اور بحیرہ شمالی کے درمیان واقع ہے جس کے ساتھ جنوب مشرقی ساحل شمالی فرانس کے ساحل سے 22 میل (35 کلومیٹر) کے اندر آتا ہے، جہاں سے اسے انگریزی چینل کے ذریعے الگ کیا گیا ہے۔لندن میں رائل گرین وچ آبزرویٹری کو 1884 میں بین الاقوامی میریڈیئن کانفرنس میں پرائم میریڈیئن کے ڈیفائننگ پوائنٹ کے طور پر چنا گیا تھا۔ یونائیٹڈ کنگڈم عرض البلد 49° اور 61° شمال اور عرض البلد 9° مغرب اور 2° مشرق کے درمیان واقع ہے۔ شمالی آئرلینڈ جمہوریہ آئرلینڈ کے ساتھ 224 میل (360 کلومیٹر) زمینی سرحد کا اشتراک کرتا ہے۔ برطانیہ کی ساحلی پٹی 11,073 میل (17,820 کلومیٹر) لمبی ہے۔ یہ چینل ٹنل کے ذریعے براعظم یورپ سے منسلک ہے، جو 31 میل (50 کلومیٹر) (24 میل:38 کلومیٹر) پانی کے اندر) دن��ا کی سب سے طویل زیر آب سرنگ ہے۔ برطانیہ چار زمینی ماحولیاتی خطوں پر مشتمل ہے: سیلٹک broadleaf جنگلات ، انگلش لو لینڈ ساحلی جنگلات، شمالی بحر اوقیانوس کے نم ملے جلے جنگلات اور کیلیڈون جنگلات۔ 2023 میں برطانیہ میں جنگلات کا رقبہ 3.25 ملین ہیکٹر ہونے کا تخمینہ ہے، یہ برطانیہ کے کل رقبہ کا 13% ہے۔برطانیہ آئینی راجشاہی کے تحت ریاست ہے۔ملکہ ایلزبتھ دومپندرہ دیگردولت مشترکہ ریاستوںکا فرمانروا ہونے کے علاوہ برطنیہ کا صدر ملک ہے۔ فرمانروا کو مشورہ دینے کا، حوصلہ دینے کا اور انتباہ دینے کا حق ہے۔ برطانیہ دنیا کے ان چار ممالک میں سے ایک ہے جن کی کوئی تدوین شدہ آئین نہ ہو۔ لہٰذا برطانیہ کا آئین زیادہ تر الگ الگ تحریری ذرائع پر مشتمل ہے، بشمول تحریری قانون، منصف ساختہ نظائری قانون اور بین الاقوامی معاہدے، آئینی رواجوں کے ساتھ۔ چونکہ عام تحریری قانون اور آئینی قانون میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، برطانوی پارلیمان آئینی اصلاح کر سکتا ہے صرف پارلیمانی قانون جاری کرنے سے اور لہٰذا آئین کی تقریباً کوئی بھی تحریری یا غیر تحریر شدہ عنصر کو منسوخ کرنے کی سیاسی اقتدار رکھتا ہے۔ تاہم کوئی پارلیمان ایسا قانون جاری نہیں کر سکتا جو آئندہ پارلیمان بدل نہ سکیں۔برطانیہ کی ویسٹ مِنسٹر نظام پر مبنی پارلیمانی حکومت ہے جس کی دنیا بھر میںتقلیدکیا گیا ہے: برطانوی سامراج کا ایک ورثہ۔ برطانیہ کا پارلیمان جو ویسٹمِنسٹر محل میں ملتا ہے اس کے دو ایوان ہیں؛ ایک منتخب ہاؤس آف کامَنز (ایوانِ زیریں) اور مقررہ ہاؤس آف لارڈز (ایوانِ بالا)۔ تمام مسوداتِ قانون جو جاری کیے جاتے ہیں انھیں قانون بنانے سے پہلے شاہی منظوری دی جاتی ہے۔برطانوی حکومت کے سربراہ، وزیرِ اعظم کا عہدہ وہ رکنِ پارلیمان رکھتا ہے جس کو ہاؤس آف کامنز کے سب سے زیادہ ارکان کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہاؤس آف کامنز میں جس سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل ہو جاتی ہے، برطانوی وزیر اعظم اسی جماعت سے ہی چنا جاتا ہے۔ منتخب وزیر اعظم اس اکثریتی سیاسی جماعت کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ ملک میں وزیر اعظم کا عہدہ خالی ہونے پر بادشاہ ہاؤس آف کامنز میں اکثریتی سیاسی جماعت کے سربراہ کو حکومت بنانے کے لیے کہتا ہے۔ پھر وہ اکثریتی جماعت کا سربراہ ہاؤس آف کامنز سے ووٹ لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ بادشاہ سے ملاقات کرتا ہے اور اپنی حکومت کی ترجیحات اور پالیسیوں سے آگاہ کرتا ہےکابینہ عام طور پر دونوں ایوانوں میں سے وزیرِ اعظم کے جماعت کے ارکان سے چنا جاتا ہے اور زیادہ تر حصہ ہاؤس آف کامنز سے، جسے وہ ذمہ دار ہیں۔ وزیرِ اعظم اور کابینہ عاملانہ اقتدار رکھتے ہیں۔ ہاؤس آف کامنز کے انتخابات کے لیے، برطانیہ 650 حلقۂ انتخابوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جن میں سے ہر ایک ایک ہی رکنِ پارلیمان انتخاب کرتا ہے۔ عام انتخابات فرمانروا مقرر کرتا ہے وزیرِ اعظم کے مشورے پر۔1911ءاور1949ءکے پارلیمانی قانون لازمی بناتے ہیں کہ نئے انتخابات پچھلے والوں کے بعد پانچ سال ختم ہونے سے پہلے مقرر ہوں۔برطانیہ میں تین سب سے بڑے سیاسی جماعتیں ہیںکنزرویٹو پارٹی، لیبر پارٹی اورلبرل ڈیموکریٹس۔عیسائیت کی شکلیں 1,400 سال سے زیادہ عرصے سے برطانیہ کی مذہبی زندگی پر حاوی رہی ہیں۔ اگرچہ شہریوں کی اکثریت اب بھی بہت سے سروے میں عیسائیت کے ساتھ شناخت کرتی ہے، 20ویں صدی کے وسط سے چرچ میں باقاعدگی سے حاضری ڈرامائی طور پر گر گئی ہے، جب کہ امیگریشن اور آبادیاتی تبدیلی نے دیگر ��قائد، خاص طور پر اسلام کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ مبصرین نے برطانیہ کو ایک کثیر العقیدہ، سیکولرائزڈ یا بعد از مسیحی معاشرے کے طور پر مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ 2001 کی مردم شماری میں، تمام جواب دہندگان میں سے 71.6 فیصد نے اشارہ کیا کہ وہ عیسائی ہیں، جن میں اگلا سب سے بڑا عقیدہ ہے اسلام (2.8 فیصد)، ہندومت (1.0 فیصد)،سکھ مت(0.6 فیصد)،یہودیت(0.5 فیصد) ,بدھ مت(0.3 فیصد) اور دیگر تمام مذاہب (0.3 فیصد)۔ جواب دہندگان میں سے، 15 فیصد نے کہا کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے اور مزید 7 فیصد نے مذہبی ترجیح بیان نہیں کی۔ 2007 میں ایک ٹیئرفنڈ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ دس میں سے صرف ایک برطانوی درحقیقت ہفتہ وار چرچ میں آتا ہے۔ 2001 اور 2011 کی مردم شماری کے درمیان، عیسائی کے طور پر شناخت کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 12 فیصد کمی واقع ہوئی، جب کہ ان لوگوں کی فیصد جو کوئی مذہبی وابستگی نہیں بتاتے تھے دگنی ہو گئی۔ یہ دیگر اہم مذہبی گروہوں میں ترقی کے برعکس ہے، مسلمانوں کی تعداد میں سب سے زیادہ فرق سے کل تقریباً 5 فیصد تک اضافہ ہوا۔ مسلمانوں کی آبادی 2001 میں 1.6 ملین سے بڑھ کر 2011 میں 2.7 ملین ہو گئی ہے، جس سے یہ برطانیہ میں دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروہ بن گیا ہے۔"
+419,پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پاکستان (رسمی نام:اسلامی جمہوریۂ پاکستان- انگریزی میں: PAKISTAN)جنوبی ایشیاکے شمال مغربوسطی ایشیااورمغربی ایشیاکے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختاراسلامیملکہے۔ یہ دنیا کاپانچواںسب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کیدوسریسب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کاتینتیسواں(33) بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کےجنوبمیں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جوبحیرہ عربسے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميںبھارت، شمال مشرق ميںچیناور مغرب ميںافغانستاناورايرانواقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگواخان راہداریتاجکستانسے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدودعمانکے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم تریندنیامیں وہ علاقے تھے جن میںموہنجوداڑواورانڈس سولائیزیشنمہر گڑھٹیکسلاپراچین سنسکرت دوراور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسےقندھاراتہذیبو تمدن تھی۔ اس علاقے پرپراچین راجپوتایرانییونانیعرب،بدھ مت،سکھ،مغل،ہن سفیداورترکحملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسےچندر گپت موریا،ہخامنشی سلطنتعربوں کیخلافت امویہ،مغلیہ سلطنت،درانی سلطنت،سکھ سلطنتاوربرطانوی راجکا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعدمحمد علی جناحکی قیادت میںتحریک پاکستانکامیاب ہوئی اور14 اگست1947ءکوہندوستانکے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اورخودمختاراسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین1956ءمیں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.1971ءمیں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملکبنگلہ دیشبن گیا۔پاکستانوفاقیپارلیمانیجمہوری ریاستکے تحت چلتا ہے۔ اس کےپانچ صوبے ہیں اور کچھ علاقے وفاقی حکومتکے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کیفوجدنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسریایٹمی طاقتہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 42https://www.worlddata.info/asia/pakistan/economy.phpویں نمبر پر ہے۔پاکستان کی تاریخفوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سے جھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملکمؤتمر عالم اسلامی،اقوام متحدہ،دولت مشترکہ ممالک،سارک،ترقی پذیر 8،اقتصادی تعاون تنظیمجیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔[7]پاکستان کے لفظی معنیپاک لوگوں کی سر زمینہے، پاک کےاردواورفارسیمیں معنی خالص اور صاف کے ہیں اورستانکا مطلب زمین یا وطن کا ہے-1933ءمیںچودھری رحمت علینے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہاب یا کبھی نہیںشائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔لفظپاکستاناس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔پپنجاب،اخیبر پختونخوا(افغانیہ)،ککشمیر،سسندھ،تانبلوچستان۔711ءمیںامویخلیفہولید بن عبدالملککے دور میںمحمد بن قاسمبرصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوںبرصغیر(موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑیعربریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کادار الحکومتدمشق، زبانعربیاور مذہباسلامتھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پرعربدنیاسے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اورجنوبی ایشیاکی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔سن1947ءسے پہلےبھارت، پاکستان اوربنگلہ دیشبرطانویکالونیاں تھیں اوربرّصغیرکے نام سے جانے جاتے تھے۔ہندوستان کی آزادی(انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران میںہندوستانکےمسلمانوںنے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ ""پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ"" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحتتحریک پاکستانوجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادتمحمد علی جناحنے کی۔14 اگست1947ءکو پاکستان وجود میں آیا۔تقسیمبرصغیر پاک و ہندکے دوران میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اوربھارتکے درمیان میں1948ءاور1965ءمیںکشمیرکے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریابھارتکے زیر انتظامکشمیرسے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو1960ءمیںانڈیاکے ساتھسندھ طاس معاہدہکرنا پڑا، جس کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاؤں،ستلج،بیاساورراویسے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہدریائے سندھ،چناباورجہلمپر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔1947ءسے لے کر1948ءتک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہبھارتنے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ریاست بہاولپورکے نوابصادق محمد خان پنجمنے اس وقت پاکستان کی مالی مدد کی۔پاکستان بطور برطانوی ڈامنینئن آزاد ہوا تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور پہلےوزیر اعظملیاقت علی خان تھے۔ پاکستان کی عبوری حکومت ١١ اگست ١٩٤٧ کو تشکیل دی گئی تھی۔ 1948 میں قائد اعظم ٹی بی سے وفات پا گئے۔1951ءمیں پستول کی گولی کا شانہ بنا کر[لیاقت علی خان]] کو شہید کر دیا گیا۔1951ءسے1958ءتک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔1956ءمیں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ1958ءمیں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔پاکستان میں موجود تم��م بڑے آبی ڈیمجنرل ایوبکے دور آمریت میں بنائے گئے۔جنرل ایوبکے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکنمشرقی پاکستاندور ہوتا گیا۔1963ءمیں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگرمشرقی پاکستانکے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ایوب خانعوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علاحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انھوں نے حکومت اپنے فوجی پیش روجنرل یحییٰ خانکے حوالے کر دی۔1971ءکے عام انتخابات میںمشرقی پاکستانسے عوامی لیگ کی واضحکامیابیکے باوجود فوجی حکمرانیحییٰ خاننے اقتدار کی منتقلی کی بجائےمشرقی پاکستانمیں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہہندوستاننے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکاردسمبر1971ءمیںسقوط ڈھاکہہو گیا اورمشرقی پاکستانایک علاحدہ ملکبنگلہ دیشکی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔1972ءسے لے کر1977ءتک پاکستان میںپاکستان پیپلز پارٹیکی حکومت تھی۔ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے صدراور بعد ازاںوزیر اعظمرہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں1977ءمیں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔اگلا دور1977ءتا1988ءمارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمرانجنرل ضیا الحقتھے۔افغانستانمیں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں1985ءکے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے1988ءمیںضیاءالحقنے برطرف کر دیا-1988ءمیںصدر مملکتکا طیارہ گر گیا اورضیاءالحقکے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سےجمہوریتکا آغاز ہو گیا۔اس کے بعد1988ءمیں انتخابات ہوئے اوربينظير بھٹوکی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدرغلام اسحاق خاننے حکومت کو برطرف کر دیا۔1990ءمیںنواز شریفکی قیادت میںآئی جے آئیاور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔1993ءمیں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔اگلے انتخابات1993ءمیں ہوئے اور ان میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس وقت پاکستان کے صدرفاروق احمد خان لغاریتھے۔ صدر فاروق احمد خان لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔1997ءمیں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میںمسلم لیگ ناور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1999ءمیں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکتپرويز مشرفبنے اور2001ءمیں ہونے والے انتخابات کے بعدوزیر اعظمظفر اللہ خان جمالیبنے۔2004ءمیں جنرل مشرف نےشوکت عزیزکووزیر اعظمبنانے کا فيصلہ کیا۔ مختصر عرصہ کے لیےچوہدرى شجاعت حسيننےوزیراعظمکی ذمہ داریاں سر انجام دیں اورشوکت عزیزکےقومی اسمبلیکے ارکان منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔شوکت عزیزقومی اسمبلیکی مدت15 نومبر2007ءکو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16نومبر2007ءکو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔فروری2008ءمیں الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نےیوسف رضا گیلانیکو وزیر اعظم نامزد کیا، جنھوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔22 جون2012ءکویوسف رضا گیلانیکی نااہلی کے بعدراجہ پرویز اشرفنئے وزیر اعظم بنے۔مئی2013ءمیں عام انتحابات ہوئے جس میںپاکستان مسلم لیگ نایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کے تیسرے بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک اور وزیر اعظمنوازشریفکوپانامالیکسفیصلے میں تا حیات نا اہل قرار دے کر برطرف کر دیا اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کےشاہد خاقان عباسینئے وزیر اعظم بن گئے۔ 17 اگست 2018ء کوعمران خان176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔پاکستان کا اعلیٰ اساسی قانونآئین پاکستانکہلاتا ہے۔ آئین، پاکستان کا وہ اعلیٰقانونہے جو ریاست پاکستان کے اندر تمام اہم چیزوں اور فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔ ملک میں چار مرتبہمارشل لالگا جس سے دو مرتبہ آئین معطل ہوا، ایک مرتبہ1956ءکا آئین اور دوسری مرتبہ1962ءکا آئین۔1972ءمیںمشرقی پاکستانمیں مخالفین نے سازشیں کی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھ گئی جس کی نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اورمشرقی پاکستانبنگلہ دیش کے نام ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ اس وقت غور کیا گیا تو ملک ٹوٹنے کی بہت سے وجوہات تھیں۔ اسی بنا پر1973ءکا آئین بنایا گیا۔آئین بنانے کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور آئین میں ہر شعبے اور اہم امور کے لیے اصول بنے، آئین میں ریاست کی تمام بڑے فیصلوں کے لیے قوانین بنائے گئے، حکومت اور ریاست کا پورا تشکیل بیان کیا گیا۔ مسودہ تیار ہونے کے بعد اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔پاکستانی سیاست کی بنیاد کوآئین پاکستاننے قائم کیا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان ایکجمہوریاورقومی ریاستہے۔ آئین پاکستان نے ایک وفاق اور اس کے ماتحت صوبائی حکومتیں قائم کی ہیں۔ آئین کا پہلا آرٹیکل بیان کرتا ہے کہ ""مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریت ہوگا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا""۔پاکستان کی مختلف علاقہ جات کے متعلق آئین پاکستان کا دوسرا آرٹیکل بیان کرتا ہے:پاکستان کے علاقے مندرجہ ذیل پر مشتمل ہوں گے:آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کوئی واضح حیثیت تو بیان نہیں کی گئی لیکن2009ءمیںقومی اسمبلیسے ایک اور بل منظور ہوا جس نے واضح طور پر گلگت بلتستان کو نیم-صوبے کا درجہ دیا اور یہاں باقاعدہ صوبائی حکومت کو قائم کیا گیا، جس کے تمام بنیادی شاخ (اسمبلی، عدلیہ، وزارتیں، وغیرہ) قائم کیے گئے۔[9]آئین نے مزید ملک میں دو قانون ساز ایوان قائم کیے ایکقومی اسمبلیاور دوسراسینٹ۔ قومی اسمبلی کی بنیاد آبادی کے لحاظ سے ہے یعنی جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں زیادہ نشستیں رکھی جائے گی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو براہ راست عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کے نشستیں دیے گئے ہیں چاہے صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سینٹ کے ارکان کو سینیٹر کہا جاتا ہے اور ان سینیٹرز کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے ووٹ سے منتخب کر سکتے ہیں۔کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کا سلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور، دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے، ایک نقطہ ذہن نشین کر لیں کہخارجہ پالیسیمیں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سےانڈونیشیاکے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایکایٹمی طاقتہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاص ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔پاکستان کی دفاع کا ذمہ ملک کے مسلح افواج پر ہے جس کی بنیادی طور پر تین شاخیں ہیں:1947ءمیںقیام پاکستانسے پہلے پاک عسکریہ، ہندوستانی فوج کا حصہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کےتاج برطانیہکے زیر اثرپہلی جنگ عظیماوردوسری جنگ عظیممیں بھی حصہ لیا ہے۔ تقسیمبرصغیرکے بعد ہندوستانی فوج پاکستان اوربھارتمیں بالترتیب 36% اور 64% کے تناسب میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت اعلان ہوا کہ کوئی بھی فوجی جس بھی فوج میں جانا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔ اس وقت بہت سے مسلمان فوجی، پاک عسکریہ میں شامل ہو گئے۔ تقسیم کے وقت بھارت میں 16 آرڈیننس فیکٹریاں تھیں جبکہ پاکستان میں ایک بھی نہیں تھی۔ اب پاکستان کافی حد تک دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہو گیا ہے۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔ فوج اداروں میںپاک فوج،پاک فضائیہاورپاک بحریہشامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میںفرنٹیئر کانسٹبلری،سرحد کور،پاکستان رینجرزشامل ہیں۔ پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنیپنجاباورسندھمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس لیے اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنیپنجاب رینجرزاورسندھ رینجرز۔ اسی طرحسرحد کوراورفرنٹیئر کانسٹبلریکو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہخیبر پختونخوااوربلوچستانمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی ادارے کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائی گئی ہیں جن میںخیبر پختونخواپولیس،پنجابپولیس،سندھپولیس،بلوچستانپولیس،آزاد کشمیرپولیس اورگلگت بلتستانپولیس شامل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے، اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سر انجام دینا ہے اسی طرحموٹروےپولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔تحقیقات کے لیے وفاقی ادارۂ تحقیقات (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی مخابراتی ادارے (جیسےآئی ایس آئی، وغیرہ) موجود ہیں۔پاکستان ميں 5 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نےگلگت بلتستانکو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔
+صوبہ جات کی تقسیمیکم جولائی1970ءکو کی گئی۔صوبہ بلوچستانکا کل رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2011ءمیں آبادی 79 لاکھ 14 ہزار تھی۔صوبہ پنجابکا کل رقبہ 205,344 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2013ءمیں آبادی 10 کروڑ 10لاکھ تھی۔صوبہ خیبر پختونخواکا کل رقبہ 74,521 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ تھی۔صوبہ سندھکا کل رقبہ 140,914 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 4 کروڑ 24 لاکھ تھی۔گلگت بلتستان(سابق شمالی علاقہ جات) کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2008ء میں آبادی 18 لاکھ تھی۔جغرافیائی طور پر پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ پاکستان کاجغرافیہاور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیںجانوراورپرندےایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 796,095 مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقےپہاڑیہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریادریائے سندھہے۔ یہدریاپاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گذر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکنبلوچستانکاسبیعلاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اورشمالی علاقہ جاتمیں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادیزراعتکے شعبے سے منسلک ہے۔پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے، زمینی سرحد میں سے 2,430 کلومیٹر سرحدافغانستانکے ساتھ، 523 کلومیٹرچینکے ساتھ، 2,912بھارتکے ساتھ اور 909ایرانکے ساتھ لگا ہوا ہے۔پاکستان دنيا کا ايک ترقی پزیر ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات ميں فوج كى مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کوتعلیمسے محروم رکھنے کینفسیاتیاور خود غرضانہفطرت(تاکہبیگاراورسستے پڑاؤ (Labor Camp)قائم رکھے جاسکیں)، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيلیے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلےپاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعتپر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا[حوالہ درکار]۔ اِس وقت پاکستان کیمعيشتمستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے[حوالہ درکار]۔کراچی سٹاک ایکسچینجکےکے ايس سی انڈکسگزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے[حوالہ درکار]۔پاکستانآبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصداہل تشیع، 77 فيصداہل سنتاور تقریباً 3 فيصد ديگرفقہسے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ایک فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانیمسیحیمذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب وسرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔پاکستان کیقومی زباناردوہے، جبکہ زيادہ تر دفتری کامانگريزیميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اردو پاکستان کی عوامی و قومیزبانہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئی اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميںپنجابی،سرائیکی،سندھی،گجراتی،بلوچی،براہوی، پہاڑی،پشتواورہندکوزبانیں قابلِ ذکر ہيں۔پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پٹھان، بلوچی اورمہاجر قومہيں، ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مابین فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميںدراوڑ،آريا،ہن،ايرانی،يونانی،عرب،ترکاورمنگوللوگوں کی رياستوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھموسماورآب و ہواکا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايکاسلامی تہذيبکا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسيقی ملتی ہے۔کلاسيکی موسيقی،نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک، ان سب کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميںقوالیکا مرکز سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے جا رہے ہيں۔ يہ امرا اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جگہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکاؤاسلاماور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔پاکستانيوں کی بڑی تعدادامريکہ،برطانيہ،آسٹريليا،کینیڈااورمشرق وسطیميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہتسرمايہ کاریبھی کی ہے۔پاکستان کا سب سے پسنديدہکھيلکرکٹ ہے۔ پاکستان کیکرکٹٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميںہاکیبھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کےشمالی علاقہ جاتكے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدائش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھیلی جاتی ہے۔پاکستان میں سب سے عام لباسشلوار قمیضہے جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوںبلوچستان،پنجاب،سندھاورخیبر پختونخواسمیتقبائلی علاقہ جات،گلگت بلتستاناورآزاد کشمیرمیں پہنا جاتا ہے۔ تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمالاسکول،کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ اور ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔شیروانیکا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔پاکستانی خواتین میں بھی شلوار قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔پاکستان میں بہت سے ذرائع ابلاغ موجود ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔اس سے پہلےپی ٹی ویملک کا واحد چینل نیٹ ورک ہوتا تھا اور حکومت پاکستان اس نیٹ ورک کو چلا رہی تھی۔2002ءکے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 50 سے بھی زیادہ صرف نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نیوز، انٹرٹینمنٹ، ہیلتھ، ایجوکیشن، علاقائی اور بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتے ہیں تاہم ملک کے علاقائی زبانوں (پشتو،پنجابی،سندھی،بلوچی،کشمیری،سرائیکیوغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔پی ٹی وی ورلڈپاکستان کا پہلاانگریزیچینل ہے۔اردو فلم انڈسٹریلالی وڈکی صدر مقاماتلاہور،کراچیاورپشاورمیں واقع ہے۔ لالی وڈ نے اب تک بہت سے فلمیں ریلیز کی ہیں اور کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے عام اردو ڈراما سیریلز ہیں جو مختلف چینلز پر چلائے جاتے ہیں۔پاکستان کے فن تعمیرات ان مختلف عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مختلف ادوار میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔وادئ سندھ کی تہذیبکے شروع ہونے کے ساتھ ہی جو 3500قبل مسیحتھا، موجودہ پاکستان کے علاقے میں شہری ثقافت کا ارتقا ہوا جس میں بڑی عمارتیں تھیں جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے بعدگندھاراطرز کا بدھ طرز تعمیر آیا جس میں قدیمیونانکے اجزاء بھی شامل تہے۔ اس کے بقایا جاتگندھاراکے صدر مقامٹیکسلامیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان میں مغل اور انگریزی طرز تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں۔آزادی کے بعد کا فن تعمیر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی نئیحاصلکی گئی آزادی اور شناخت کو فن تعمیر کے ذریعے سے ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان خود کو جدید عمارتوں میں ظاہر کرتا ہے مثلاًفیصل مسجدجو وفاقی دار الحکومتاسلام آبادمیں واقع ہے اس مسجد کو1960ءمیں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں جیسےمینارپاکستان، سفید ماربل سے بنا مزار قائد اعظم۔ یہ عمارتیں نئی ریاست کی خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ملکی دار الخلافہ اسلام آباد میں موجود قومی یادگار تہذیب، آزادی اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔پاکستان میں اس وقت چھ (6) جگہیں ایسی ہیں جنہیں عالمی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال2012ءمیں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت1970ءکے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس،پشاور،کراچی،لاہور،سواتاورراولپنڈیتھیں۔ اس ملک کی حامل کشش جگہوں میں موہنجو داڑو،ٹیکسلااورہڑپہجیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لے کرکوہ ہمالیہکے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کےشمالی علاقہ جاتمیں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اورچترالکی وادیاں جو ایک چھوٹی سی غیر مسلم سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود ک��سکندر اعظمکی اولاد سے بتاتے ہیں۔پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقاملاہورمیں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسےبادشاہی مسجد، شالیمار باغ،مقبرہ جہانگیراورقلعہ لاہورشامل ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ (5) لاکھ سیاح آتے تھے۔ تاہم سال2008ءسے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورت حال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔اکتوبر2006ءمیںکشمیرکے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی کی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقاماتٹیکسلا،لاہور،شاہراہ قراقرم، کریم آباد اورجھیل سیف الملوکتہے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سےوادئ سندھ کی تہذیبکے موہنجو داڑو اورہڑپہجیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔پاکستانی کھانے جنوبی ایشیا کے مختلف علاقائی کھانوں کا حسین امتزاج ہیں۔ پاکستانی کھانوں میں شمالی ھندوستانی،وسط ایشیائیاور مشرق وسطیٰ کے کھانے شامل ہیں لیکن یہاں کے کھانوں میں گوشت کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میںاشیائے خور و نوش کے نامبہت آسان ہیں۔پاکستان میں ایک علاقے کے کھانے دوسرے علاقے کے کھانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں جس سے اس ملک کی ثقافتی اور لسانی تنوع جھلکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کھانے مصالحے دار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیا کے کھانوں کی خاصیت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے کھانے مثلاً خیبر پختونخوا، بلوچستان، قبائیلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور کشمیر کے کھانے بھی اپنی اپنی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بھی مختلف علاقائی رنگ غالب ہوتے ہیں۔پاکستان میں کھیلے جانے والے بیشتر کھیلوں کا آغازبرطانیہمیں ہوا اور برطانویوں نے انھیںہندوستانمیں متعارف کرایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس نے 1960ء، 1968ء اور 1984ء میں کھیلے گئے اولمپک کھیلوں میں تین سونے کے طمغے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ بھی چار بار جیتا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ 1971ء، 1978ء، 1982ء اور 1994ء میں جیتا ہے۔ تاہم، کرکٹ پاکستان کا سب سے زیادہ مشہور کھیل ہے۔ پاکستان کرکٹ کے ٹیم، جنہیں شاہین کہا جاتا ہے، نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ 1999ءمیں شاھین دوسرے نمبر پر رہے۔ اور 1987ء اور 1996ء میں عالمی کپ کے مقابلے جزوی طور پر پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان ٹی 20 قسم کے کھیل کے پہلے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے جو سال 2007ء میںجنوبی افریقامیں کھیلا گیا تھا۔ اور سال 2009ء میں اسی قسم کے کھیل میں پہلے نمبر پر رہے اور عالمی کپ جیتا جوبرطانیہمیں کھیلا گیا تھا۔ سال 2009ء کے مارچ کے مہینے میں دہشت گردوں نےسری لنکاکے کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا جو پاکستان کے دورے پرلاہورمیں موجود تھی اور اسی کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ تاہم چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد مئی 2015ء میں عالمی کرکٹ پاکستان میں اس وقت بحال ہوئی جب زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ تمام مقابلے سخت حفاظتی حصار میںلاہورمیں ہوئے اور تمام مقابلوں کے لیے ٹکٹ سارے بک چکے تھے اور کرسیاں ساری بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس نے دوسری ٹیموں کے آنے کے لیے بھی راہ ہموار کر لی۔
+ورزشی کھیلوں میں عبد الخالق نے سال 1954ء اور سال 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس نے 35 سونے کے طمغے اور 15 عالمیچاندیاور پیتل کے طمغے پاکستان کے لیے حاصل کیے۔اسکواشمیں پاکستان کے شہرپشاورسے تعلق رکھنے والے کھلاڑیجہانگیر خانہیں جن کو عالمی معیار کا کھلاڑی اور کھیلوں کی تاریخ میں عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے اور ساتھ ہی جانشیر خان ہیں جنھوں نے عالمیاسکواشکے مقابلوں میں کئی بار پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج درمیانے سے لے کر اعلیٰ طبقے کے ليے مخصوص ہے۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں اپنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی حالت ابتر ہے۔ریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔چاند اور ستارہ جو روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
+چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔
+شیلڈ کے اردگرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔
+علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔پاکستان کی زیادہ تر آبادی ملک کی وسطی علاقوں میں ہے، ملک کے جنوب میں زیادہ آباد مقامات اکثردریائے سندھکے آس پاس پر واقع ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی والا علاقہکراچیہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔پاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کامانگریزیزبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہاردوپاکستان کی قومی زبان ہے۔پاکستان کی صوبائی زبانوں میںپنجابیصوبہ پنجاب،پشتوصوبہ خیبر پختونخوا،سندھیصوبہ سندھ،بلوچیصوبہ بلوچستاناورشیناصوبہ گلگت بلتستانمیں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔[13]پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں،آیر،سرائیکی زبان،بدیشی،باگڑی،بلتی،بٹیری،بھایا،براہوی،بروشسکی،چلیسو،دامیڑی،دیہواری،دھاتکی،ڈوماکی،فارسی،دری،گواربتی،گھیرا،گوریا،گوورو،گجراتی،گوجری،گرگلا،ہزاراگی،ہندکو،جدگلی،جنداوڑا،کبوترا،کچھی،کالامی،کالاشہ،کلکوٹی،کامویری،کشمیری،کاٹی،کھیترانی،کھوار،انڈس کوہستانی،کولی(تین لہجے)،لہندالاسی،لوارکی،مارواڑی،میمنی،اوڈ،اورمڑی،پوٹھواری،پھالولہ،سانسی،ساوی،شینا(دو لہجے)،توروالی،اوشوجو،واگھری،وخی،وانیسیاوریدغہشامل ہیں۔[14]ان زبانوں میں بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکست��ن کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں- ي سرا سنکے عمران خان سب سے اچھا ہے2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+420,سندھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%86%D8%AF%DA%BE,"سندھ(سندھی:سنڌ)پاکستانکےچارصوبوںمیں سے ایک صوبہ ہے، جو برِصغیر کے قدیم ترینتہذیبیورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ سندھ پاکستان کا جنوب مشرقی حصہ ہے۔ سندھ کی صوبائی زبانسندھیاور صوبائی دار الحکومتکراچیہے۔سندھ کو باب الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔لفظ ’’سندھ‘‘ دراصل دریائے سندھ ہی سے مستعار ہے، جوسنسکرتلفظ ’’سندھو‘‘ کی موجودہ شکل ہے۔ذیلی منطقہ حارہ میں واقع ہونے کی وجہ سے سندھ کی عمومی آب و ہوا، گرم اور خشک ہے جبکہ ساحلی علاقوں کا موسم قدرے مرطوب ہے۔ تاہم، گرمیوں (بالخصوص مئی۔ جون) میں موسم سخت گرم اور سردیوں (بالخصوص دسمبر۔ جنوری) میں موسم انتہاہی سرد رہتا ہے۔ سندھ کا علاقہ جیکب آباد اپنے ریکارڈ درجہ حرارت کی وجہ سے مشہور ہے۔ جولائی اور اگست کے ماہ مون سون کے موسم ہیں۔ سندھ میں اوسطاًسالانہسات انچ بارش ہوتی ہے۔ یہ بات کم ہی افراد جانتے ہیں کہ سندھ کے شمال میں کوہ کھیرتھرکے بعض علاقے سطح سمندر سے 6000 ہزار فٹ بلند ہیں اور موسمِ سرما میں اکثر یہاںبرف باریہوتی ہے۔زمانہ قدیم سندھ اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموے ہوئے ہے۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراڑوی آبادکاروں سے قبل یہاں(7000 ق م) مختلف قبائل آباد تھے۔ دراڑویوں نے تقریباً 4000 ق م میں وادئ سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔موہن جوداڑوکے کھنڈر بتاتے ہیں کہ دراڑوی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشتکاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے۔ جنھوں نے پانچ ہزار سال قبل (3000 ق م) وادئ سندھ کو علمی، فنی اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔ وادئ سندھ کے دامن میں کئی شہری مراکز قائم تھے، جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ موجودہ گرڈ سسٹم کے قاعدے کے مطابق آباد ان شہروں میںشاہرایںپختہ تھیں اور نکاسی و فراہمئ آب کا زیرِ زمین نظام موجود تھا۔ مگر پھر کسی ناقابلِ دریافت وجہ سے وادئ سندھ کے یہ عظیم مراکز تباہی سے دوچار ہو گئے۔ موہن جو داڑو اور دیگر دراڑوی مراکز کی تباہی کی کیا وجوہات تھیں، اس پر محققین میںاختلافپایا جاتا ہے۔ بعض اسے قدرتی آفات اور سیلاب قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض محققین کے نزدیک وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ سے آریاوں کی فوجی یلغار نے یہ تہذیب نیست و نابود کردی۔ آریاوں نے یہاں ہند۔ آریائی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو دریائے سرسوتی اوردریائے گنگاکے کناروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب 1500 ق م میں اپنے عروج پر تھی۔ ہند۔ آریائی تہذیب (ویدک سویلایزیشن 1700-500 ق م) نےہندوستانکےمذہب، ر��وم، معاشرت و رہن سہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔سندھ: کلہوڑا دور کا فنِ تعمیر[1]برِصغیر کے فن و ثقافت، خاص طور پر فنِ تعمیر کے ضمن میں محققین کی یہ شکایت عام ہے کہ علاقائی رجحانات پر نہ تو ریسرچ کی جاتی ہے اور نہ اِن نادر و نایاب نقوش کا کوئی مستند ریکارڈ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے۔
+اس شکایت کے ازالے کی خاطر آج سے تین برس پہلے سندھی ثقافت کے امین ادارے سندھ آرکائیوز نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کی جِسے ماہرین فنِ تعمیر کے علاوہ تاریخ کے طلبہ نے بھی بہت سراہا اور بے چینی سے اس منصوبے کے نتائج کا انتظار کرنے لگے۔حال ہی میں اس سلسلے کا تحقیقی مواد ایک کتاب کی شکل میں منظرِ عام پر آیا ہے جس کے مولّف ہیںسیدحاکم علی شاہ بخاری ہیں۔ مواد کی ترتیب و پیشکش میں انھیں سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر غلام محمد لاکھو اور ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کی مدد اور بھر پور تعاون حاصل رہا ہے۔ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ ورثہ دو طرح کا ہوتا ہے: مرئی اور غیر مرئی۔ مرئی اشیا وہ ہیں جنہیں ہم ٹھوس شکل میں اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں مثلاً فنِ تعمیر، مصوری، صنم تراشی، نقاشی، کندہ کاری، زر دوزی وغیرہ، جبکہ غیر مرئی ثقافتی ورثے میں شعر و ادب وغیرہ آتے ہیں۔ ٹھوس شکل میں نظر آنے والا ثقافتی ورثہ خود بخود محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر قدیم رومن آثار، یونانی کھنڈر، پراچین بھارت کے مندر اورجنوبی امریکامیں قبلِ مسیح کے تاریخی آثار کو بے رحم فطرت کے مقابل بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہوتا تو آج ہمیں قدماء کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوتا۔سندھی تہذیب کی بہت سی تاریخی نشانیاں موسمی شداید کی نذر ہو کر ہمیشہ کے لیے نابود ہو چُکی ہیں، لیکن جو آثار ابھی موجود ہیں اُن کو ریکارڈ پر لانا اور اُن کے تحفظ کی جدو جہد کرنا، سندھ آرکائیوز کے مقاصد میں شامل ہے اور اس غرض سے کئی تحقیقی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ایسے ہی ایک ریسرچ پراجیکٹ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔پاک و ہند کے فنِ تعمیر پر یوں تو گذشتہ دو صدیوں سے کام ہو رہا ہے لیکن یہ محققین یورپ سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کی تمام تر عرق ریزی کے باوجود یہ نکتہ اُن پر عیاں نہ ہو سکا کہ وہہندوستانیفنِ تعمیر کو یورپ کے روائیتی کلاسیکی پیمانوں سے ناپ رہے ہیں۔ اس سقم کا احساس پہلی بار 1920 کی دہائی میں ہوا لیکن تب تک ثقافتی مطالعے کے ضمن میں کئی اور نظری مسائل سر اُٹھا چُکے تھے، مثلاً یہی کہ ایک دور کے طرزِ تعمیر کو دوسرے دور سے ممیّز کرنے کے لیے ہم ایک واضح خطِ تقسیم کیسے کھینچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور ہر کیا ہم سلطنت دور کے فنِ تعمیر کو ایک لکیر کھینچ کر مغلیہ دور کے فنِ تعمیر سے الگ کر سکتے ہیں؟زیرِ نظر کتاب میں یہ مسئلہ مغلیہ اور کلہوڑا دور کے خطِ امتیاز کی صورت میں نظر آتا ہے، کیونکہ تاریخی طور پر جب کلہوڑا دور کا سورج طلوع ہو رہا تھا تو سلطنتِ مغلیہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا لیکن ادب، آرٹ، کلچر اور تہذیب کی تقسیم دو ٹوک انداز میں نہیں ہو سکتی کیونکہ ایک دور کے اثرات اگلے دور کے انداز دُور تک مار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سندھ ارکائیوز کے ڈائریکٹر اقبال نفیس خان کی مدد سے مصنف حاکم علی شاہ بخاری نے اس پراجیکٹ کا قریب سے مطالعہ کیا اور ایک ایسی کتاب تحریر کی جو نہ صرف اسکالروں بلکہ عام قارئین کے لیے بھی دلچسپی کا باعث بنے اور کلہوڑا دور کے حوالے سے پڑھنے والوں کے ذہن میں سندھ کے قدیم اور جدید طرزِ تعمیر کی مختلف جہتوں کو روشن کرے۔گڑھی کے مقام پر میاں نصیر محمد کیمسجدجو امتدادِ زمانہ سے کھنڈر میں تبدیل ہوچُکی تھی، لیکن حال ہی میں اس کی تعمیرِ نو ہوئی ہے۔کلہوڑا دور کے فنِ تعمیر پر بڑی تختی کے ایک سو ستائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب سندھ آرکائیوز نے خود شائع کی ہے۔ مختلف عمارتوں کی رنگین اور سیاہ و سفید تصاویر حاصل کرنے کے لیے کراچی کے جوان سال فوٹو گرافر وقار اشرف کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ طالب علموں کی قوتِ خرید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کتاب کی قیمت صرف 400 روپے مقرر کی گئی ہے جو کتاب پر آنے والی اصل لاگت سے بہت کم محسوس ہوتی ہے۔موجودہ سندھ، انتظامی لحاظ سے مندرجہ ذیل 23 ضلعوں میں منقسم ہے۔سندھ کا دار الحکومتکراچیہے۔ سندھ کے کراچی سمیت دیگر بڑے شہر درج ذیل ہیں۔کراچیحیدرآبادحیدرآباد، سندھسکھرسندھی قبائل"
+421,تاریخی خطہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DB%8C_%D8%AE%D8%B7%DB%81,تاریخی خطہیاتاریخی علاقہایسا جغرافیائی خظہ ہے جو بعض وقتوں میں موجودہ سرحدوں سے قطع نظر ثقافتی، نسلی، لسانی یا سیاسی بنیادوں پر ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ انھیں معاصر سیاسی، معاشی یا معاشرتی حوالے سے ماورا مخصوص ثقافتوں کے سماجی مطالعہ اور تجزیہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔[1]
+422,حجاز,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%D8%AC%D8%A7%D8%B2,شمال مغربیسعودی عربکا ایک علاقہ جوبحیرہ قلزمکے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مربع میل ہے۔مکہاورمدینہکے شہر اسی علاقے میں واقع ہیں۔ قدیم و جدید عرب تہذیب کا گہوارہ ہے۔ 1913ء تکسلطنت عثمانیہکے زیر تسلط رہا۔ 1932ء میںنجدو حجاز کے اتحاد سےسلطنت سعودیوجود میں آئی۔[1]خطہ حجاز بحیرہ احمر کے قریب واقع ہے۔ یہ خطہ گہرے رنگ کی ریت کی وجہ سے مشہور ہے۔ حجاز مقدس سروات کے پہاڑی سلاسل پر مشتمل ہے جو نجد کو تہاما سے علاحدہ کرتا ہے۔
+423,تہامہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%DB%81%D8%A7%D9%85%DB%81,"تہامہ(انگریزی: Tihamah;عربی:تهامة)عربکےبحیرہ احمرکے ساحلی میدان مراد ہیں جوخلیج عقبہسےآبنائے باب المندبتک پھیلے ہوئے ہیں۔[1]The Red Sea coastal plain is constricted throughout its length, attaining its greatest widths, 40 to 50 miles, south of Medina and south of Mecca. The name Tihāmah, used for the whole plain, is sometimes subdivided into Tihāmat Al-Ḥijāz and Tihāmat ʿAsīr."
+424,بحیرہ احمر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%AD%DB%8C%D8%B1%DB%81_%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%B1,"بحیرہ احمر(Red Sea) یابحیرہ قلزمبحر ہندکی ایک خلیج ہے۔ یہ آبنائےباب المندباورخلیج عدنکے ذریعے بحر ہند سے منسلک ہے۔ اس کے شمال میں جزیرہ نمائےسینا،خلیج عقبہاورخلیج سوئزواقع ہیں جونہر سوئزسے ملی ہوئی ہے۔ 19 ویں صدی تک یورپی اسے خلیج عرب بھی کہتے تھے۔بحیرہ احمر ایک لاکھ 74 ہزار مربع میل (4 لاکھ 50 ہزار مربع کلومیٹر) پر پھیلا ہوا ہے۔ خلیج ایک ہزار 200 میل (ایک ہزار 900 کلومیٹر) طویل اور زیادہ سے زیادہ 190 میل (300 کلومیٹر) چوڑی ہے۔ بحیرہ احمر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 8 ہزار 200 فٹ (2 ہزار 500 میٹر) جبکہ اوسط گہرائی ایک ہزار 640 فٹ (500 میٹر) ہے۔بحیرہ احمر کا پانی دنیا کے نمکین ترین پانیوں میں سے ایک ہے۔ شدید گرم موسم کے باعث آبی بخارات بننے کے عمل میں تیزی اور ہوا کے دباؤ کے باعث بحیرہ احمر میں نمکیات 36 سے 38 فیصد ہیں۔اس سمندر میں ایک ہزار سے زائد بے مہرہ حیاتیاتی اقسام اور 200 اقسام کے نرم اور سخت مونگے پائے جاتے ہیں۔
+بحیرہ احمر دنیا کے تمام سمندروں میں گرم ترین سمندر ہے۔بحیرہ احمرعربینام البحر الاحمرلاطینینام Mare Erythraeumيونانینام Ερυθρά Θάλασσα کا ترجمہ ہے۔
+جسےانگريزیمیں Red Sea کہتے ہیں۔ اور اردو ميں اسكا مطلب سرخ سمندر ہے۔اس کا نام سمندری پانی کے رنگ کو ظاہر نہیں کرتا کیونکہ اس کا پانی سرخ رنگ کا نہیں بلکہ سطح آب پر مختلف موسموں میں سرخ رنگ کے سائنو بیکٹیریا ٹرائیکو ڈیسمیئم ایریٹریم کے باعث اس کا نام بحیرہ احمر پڑا۔تاریخ میں پہلی بار بحیرہ احمر میں سفر کی کوشش مصریوں نے کی۔بائبلمیں موسیٰ کی کہانی میں ایک کنیز کے بیٹے کی جانب سے اسرائیلیوں کو آزادی دلانے کے لیے بحیرہ احمر کو عبور کرنے کی کوششوں کا ذکر ہے۔ یورپیوں نے 15 ویں صدی میں بحیرہ احمر میں پہلی بار دلچسپی کااظہار کیا۔ 1798ءمیں فرانسیسی جنرلنپولینبوناپارٹ نےمصرپر حملہ کرکے بحیرہ احمر پر قبضہ کر لیا۔ انجینئر جے پی لیپیر نے بحیرہ احمر اوربحیرہ رومکو ملانے کے لیے نہر کی تعمیر کی، جس کا منصوبہ عثمانیوں نے بنایا تھا مگر اسے بنا نہ سکے تھے۔نہر سوئزکو نومبر 1869ءمیں کھولا گیا۔ اس وقتبرطانیہ،فرانساوراٹلینے مشترکہ طور پر نہر میں تجارتی مقامات سنبھالے۔جنگ عظیم اولکے بعد یہ مقامات بتدریج ختم ہو گئے۔دوسری جنگ عظیمکے بعدامریکہاورسوویت یونیننے اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان 6 روزہ جنگ کے باعث نہر سوئز 1967ءسے 1975ءتک بند رہی۔بحیرہ احمر کا ساحل مندرجہ ذیل ممالک سے ملتا ہے :بحیرہ احمر کے ساحلوں پر مندرجہ ذیل شہر اور قصبے واقعہ ہیں :"
+425,شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%B1,شہريک بڑی انسانی بستی کو کہتے ہیں۔ ایک بڑی آبادیوالیبستی جہاں عمارتیں، دکانیں اور سڑکیں وغیرہ بکثرت ہوں، جہاں کی صحت تعلیم اور تعمیرات وغیرہ کی انتظامیہ یا بلدیہ (میونسپل کارپوریشن) موجود ہو۔
+426,سعودی عرب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C_%D8%B9%D8%B1%D8%A8,"مسیحیت4.4 فیصدہندو مت1.1 فیصدبدھ مت0.3 فیصدسعودی عربیاسعودی عربیہ(رسمی نام : المملكة سعودیہ العربیہ)مغربی ایشیاکا ایک ملک ہے۔ یہجزیرہ نما عربکے بڑے حصے پر محیط ہے، جو اسےایشیاکا پانچواں سب سے بڑا، عرب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مغربی ایشیا اورمشرق وسطیکا سب سے بڑا ملک بناتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب میںبحیرہ احمرسے ملتی ہے۔ شمال میںاردن،عراقاورکویت؛ مشرق میںخلیج فارس،قطراورمتحدہ عرب امارات؛ جنوب مشرق میںعمان؛ اور جنوب میںیمن۔بحرینمشرقی ساحل سے دور ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ شمال مغرب میںخلیج عقبہسعودی عرب کومصراوراسرائیلسے الگ کرتی ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے پاس بحیرہ احمر اور خلیج فارس دونوں کے ساتھ ساحل ہے اور اس کا زیادہ تر علاقہ خشک صحرا، نشیبی، میدان اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہرریاضہے۔ یہ ملکمکہاورمدینہکا گھر ہے، جواسلامکے دو مقدس ترین شہر ہیں۔قبل از اسلام کا جزیرہ نما عرب، وہ علاقہ جس پر موجودہ سعودی عرب مشتمل ہے، کئی قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں کا مقام تھا۔ سعودی عرب میں قبل از تاریخ انسانی سرگرمیوں کے کچھ ے ابتدائی نشانات پائے جاتے ہیں۔ دین اسلام چھٹی صدی عیسوی (571ء) میں ابھر کر سامنے آیا اور جزیرہ نما عرب کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر پھیل گیا۔جدید دور کے سعودی عرب کا علاقہ پہلے بنیادی طور پر چار الگ الگ تاریخی علاقوں پر مشتمل تھا:حجاز،نجداور مشرقی عرب کے کچھ حصے (الاحساء) اور جنوبی عرب (عسیر)۔ مملکتِ سعودی عرب کی بنیادشاہ عبدالعزیز(مغرب میں ابن سعود کے نام سے مشہور) نے 1932 میں رکھی تھی۔ انھوں نے سنہ 1902ء میں اپنے خاندان کے آبائی علاقے ریا�� پر قبضے کے ساتھ فتوحات کے سلسلے کے ذریعے چاروں خطوں کو ایک ریاست میں متحد کیا۔ سعودی عرب اس کے بعد سے ایک مطلق العنانبادشاہترہا ہے، جہاں سیاسی فیصلے بادشاہ، وزراء کی کونسل اور ملک کے روایتی اشرافیہ کے درمیان مشاورت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔سنی اسلامکے اندر انتہائی قدامت پسندوہابیمذہبی تحریک کو سنہ 2000ء کی دہائی تک ""سعودی ثقافت کی ایک اہم خصوصیت"" کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ سنہ 2016ء میں، سعودی عرب کی حکومت نے انتہائی قدامت پسند وہابی مذہبی اشرافیہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور اخلاقی پولیس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے اقدامات کیے، سماجی ترقی کو بڑھانے اور بحال کرنے اور مزید مضبوط اور موثر معاشرہ بنانے کی کوشش میںسعودی وژن 2030ءکے اقتصادی پروگرام کا آغاز کیا۔ اپنے بنیادی قانون میں، سعودی عرب خود کو ایک خود مختار عرب اسلامی ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے جس میں اسلام کو سرکاری مذہب،عربیکو سرکاری زبان اور ریاض دار الحکومت کہا جاتا ہے۔پیٹرولیمسنہ 1938ء میں دریافت ہوا اور اس کے بعد مشرقی صوبے میں کئی دیگر دریافتیں ہوئیں۔ سعودی عرب اس کے بعد سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک (امریکاکے بعد) اور دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ یہاں دنیا کے دوسرے سب سے بڑے تیل کے ذخائر اور چوتھے بڑے گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ مملکت کوعالمی بینککی اعلی آمدنی والی معیشت کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے اور یہ واحد عرب ملک ہے جوجی20بڑی معیشتوں کا حصہ ہے۔ ریاست کو مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جن میںیمنی خانہ جنگیمیں اس کا کردار، اسلامی دہشت گردی کی مبینہ سرپرستی اور اس کا انسانی حقوق کا خراب ریکارڈ، بشمول سزائے موت کا ضرورت سے زیادہ اور اکثر ماورائے عدالت شامل ہے۔سعودی عرب کو علاقائی اور درمیانی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ سعودی معیشت مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی ہے۔ عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی اٹھارویں سب سے بڑی معیشت اور فی کس پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی سترویں بڑی معیشت ہے۔ ایک بہت ہی اعلیٰ انسانی ترقی کے اشاریہ والے ملک کے طور پر، یہ مفت اعلی تعلیم، ٹیکس فری آمدنی اور مفت آفاقی نظامِ صحت پیش کرتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کی تیسری بڑی تارکین وطن کی آبادی کا مرکز ہے۔ اس کی آبادی دنیا کی سب سے نوجوان آبادی میں سے ایک بھی ہے، اس کی 32.2 ملین کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد 25 سال سے کم عمر کا ہے۔خلیج تعاون کونسلکا رکن ہونے کے علاوہ سعودی عربتنظیمِ اقوام متحدہ،تنظیمِ تعاونِ اسلامی،عرب لیگ، عرب تنظیم برائے ہوائی نقل و حمل اورتیل برآمد کرنے والے ممالکِ کی تنظیم، اوپیککا ایک فعال اور بانی رکن ہے۔شمال مغرب میں اس کی سرحداردن، شمال میںعراقاور شمال مشرق میںکویت،قطر،اوربحریناور مشرق میںمتحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میںسلطنت عمان، جنوب میںیمنسے ملی ہوئی ہے جبکہخلیج فارساس کے شمال مشرق اوربحیرہ قلزماس کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاںاسلامکے دو مقدس ترین مقاماتمکہ مکرمہاورمدینہ منورہموجود ہیں۔سعودی ریاست کا ظہور تقریباً1750ءمیں عرب کے وسط سے شروع ہوا، جب ایک مقامی رہنمامحمد بن سعودمعروف اسلامی شخصیت اورمحمد بن عبدالوہابکے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔اگلے ڈیڑھ سو سال میںآل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا، جس کے دوران میںجزیرہ نما عربپر تسلط کے لیے ان کےمصر،سلطنت عثمانیہاور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیامشاہ عبدالعزیز السعودکے ہاتھوں عمل میں آیا۔1902ءمیں، عبد العزیز نے حریف آل رشید سےریاضشہر چھین لیا اور اسےآل سعودکادار الحکومتقرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے1913ءسے1926ءکے دوران میںالاحساء،قطیف،نجدکے باقی علاقوں اورحجاز(جس میںمکہ مکرمہاورمدینہ منورہکے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کر لیا۔8 جنوری1926ءکو،عبدالعزیز ابن سعودحجاز کےبادشاہقرار پائے۔29 جنوری1927ءکو، انھوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔20 مئی1927ءکو،معاہدہ جدہکے مطابقبرطانیہنے تمام مقبوضہ علاقوں (جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے) پرعبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کر لیا۔1932ءمیں،برطانیہکی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔مارچ1938ءمیں، تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔حالیہ نام ""سعودی"" تقریباً 1727ء میں موجود سعودیہ کے وسط, ریاض میں آل سعود کی حکومت بنانے سے شروع ہوا.جب ایک مقامی رہنما ""محمد بن سعود"" معروف اسلامی شخصیت اور وہابیت یاسلفی تحریککے بانیمحمد بن عبد الوہابکے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ اس وقت یہ علاقہ 'سلطنت عثمانیہ' کے کنٹرول میں تھا.1805, 1806ء میں آل سعود نے مکہ مدینہ کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ 1818ء میں سلطنت عثمانیہ کی فوجوں نے ان سے سارا علاقہ واپس لے لیا۔ 1824ء میں سعود فیملی نے نجد کے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔اسی دوران ایک نئی طاقت آل رشید سامنے آئی۔ نئی طاقت آل رشید و آل سعود میں آپس کی جنگیں جاری رہیں۔ اور آل رشید نے آل سعود کو 1892 میں حتمی شکست دے کر علاقہ چھوڑ کر کویت میں جلاوطنی پہ مجبور کر دیا۔حجاز یعنی مکہ مدینہ میں عثمانیہ حکومت کے حکم پر داخل ہوئی مصری فوجیں 1840 میں علاقے سے نکل گئیں۔ اور شریف مکہ نے کنٹرول سنبھال لیا. ترکی نے برائے نام حکمرانی ساتھ آل سعود و آل رشید و شریف مکہ فیملی سمیت کئی قبائل کو اندرونی خود مختاری دی ہوئی تھی۔1902 میں آل سعود کے شاہ عبد العزیز کویت سے
+جلاوطنی سے واپس آئے اور سعودی اخوان تحریک, وہابی تحریک اور دیگر کی مدد کے ساتھ 1906 میں آل رشید کو شکست دے کر علاقے سے نکال دیا اور
+عثمانیہ سلطنت نے انھیں تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد مرکزی علاقہ سے ہٹ کر خلیج فارس کے ساتھ کے علاقہ الاحسا پہ قبضہ کر لیا۔
+عبدالعزیز جنہیں ابن سعود بھی کہا جاتا تھا۔ نے ""عرب بغاوت"" سے دوری رکھی۔ اور آل رشید ساتھ مقابلے پہ فوکس رکھا۔ پھر 1920 میں عسیر علاقہ پہ قبضہ کیا۔ 1921 میں آل رشید کو مکمل دیس نکالا دے دیا۔شریف مکہ حسین بن علی نےانگریزمیکموہن ساتھ عثمانیہ سلطنت خلاف ساز باز کرکے متحدہ عرب ریاست بنانے کی سازش کی۔ اس میں لارنس آف عربیہ کا بھی رول رہا۔1914 میں جنگ عظیم اول شروع ہو چکی تھی۔ جس میں سلطنت عثمانیہ, جرمن سلطنت اور آسٹرو-ہنگروی سلطنت ایک طرف تھے اور روس, فرانس اور برطانیہ وغیرہ دوسری طرف۔1916 میں سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کے لیے تمام عرب علاقے,شام,یمن,اردن اور موجودہ سعودیہ پہ مشتمل متحدہ عرب ریاست کے قیام اور سلطنت عثمانیہ سے آزادی کا خواب دکھایا گیا۔ برطانوی فوجوں کی مدد سے عرب باغی فوجوں نے مکہ, مدینہ, اردن اور پھردمشقفتح کر لیا۔2016 سے 2018 کے دوران دمشق میں شام کی عرب کنگڈم قائم کرکے شر��ف مکہ کا بیٹا فیصل بادشاہ بنادیا گیا۔ لیکن پھر سائیکس معاہدے مطابق عرب علاقے سوائے سعودیہ کے, فرانس اور برطانیہ نے آپس میں تقسیم کرلیے۔ حجاز (مکہ اور مدینہ) کو شریف مکہ کے حوالے کیا گیا۔آل سعود اور شریف مکہ, دونوں برطانوی رابطے میں اور امداد لینے والے تھے۔ شریف مکہ کو حجاز کا بادشاہ تسلیم کیا گیا۔ لیکن بعد میں, 1924 میں اسے برطانیہ کی طرف سے چھوڑ دیا گیا۔1925 میں عبدالعزیز نے حجاز پہ قبضہ کرکے خود کو شاہ حجاز ڈیکلیئر کیا۔ پھر شاہ نجد بنے۔ پھر 1932 میں دونوں بادشاہتوں(نجد اور حجاز) کو ضم کر کے سعودی عرب کا نام دیا گیا.حجاز کی فتح بعد, سعودی اخوان برطانوی مقبوضہ اردن, عراق اور کویت کی طرف بڑھنا چاہتے تھے تاکہ اپنا مسلک وہاں بھی نافذ کریں لیکن عبدالعزیز اردن اور عراق وغیرہ برطانوی قبضے میں ہونے کی وجہ سے برطانیہ سے لڑائی مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ اس پر اختلافات ہوئے تو اخوان نے بغاوت کردی لیکن وہ سختی سے کچل دی گئی۔ اور پھر سعودی حکومت استحکام حاصل کرتی چلی گئی.لارنس نے پہلی جنگ عظیم شروع بعد خود کو بطور رضاکار پیش کیا اسے مصر میں پوسٹ کیا گیا. وہاں سے وہ عراق اور سعودی عرب مشنز پہ جاتا رہا اور اوپر ذکر کردہ عثمانی سلطنت کے خلاف عرب بغاوت اور متحدہ عرب ریاست (بشمول شام,اردن,یمن,نجد اور حجاز) کی سازش میں شامل ہوا اور دوسرے انگریز افسروں ساتھ برطانیہ کے رابطہ افسر کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ شریف مکہ کے بیٹے فیصل جو بعد میں شاہِ شام بنا, کے ساتھ نزدیکی معرکوں میں شامل رہا اور دمشق کی فتح میں ہم رکاب رہا۔ اس کے رول کو صحافی تھامس نے سنسنی خیزی کے ساتھ پیش کیا۔سعودی عرب عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت سمجھی جاتی ہے۔ اس مملکت کے بانی یوں تو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود ہیں جو15 جنوری1877ءکو پیدا ہوئے تھے مگر اس سلطنت کے قیام کی جدوجہد کا آغاز 18 ویں صدی میں ہوا تھا جب1725ءمیں آل سعود کے سربراہامیر سعود بن محمد بن مقرنکی وفات ہوئی۔اس زمانے میںنجدمیں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں اور ہر ریاست کا الگ الگ حکمران ہوتا تھا۔ امیر سعود بن محمد کے چار صاحبزادے تھے جنھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ نجد میں سعودی سلطنت قائم کریں گے۔امیر سعود بن محمد کے سب سے بڑے صاحبزادے کا ناممحمد بن سعودتھا۔ وہدرعیہکے حکمران بنے اور انھوں نےشیخمحمد بن عبدالوہابکی مدد سے درعیہ میں اپنی حکومت قائم کی اور آہستہ آہستہ اسے مستحکم کرنا شروع کیا۔محمد بن سعود اور شیخ محمد عبد الوہاب کے درمیان 1745ء میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے عہد کیا کہ اگر کسی وقت محمد بن سعودنجد و حجازمیں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہاں شیخ محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کو رائج کریں گے۔1765ء میں شہزادہ محمد اور 1791ء میں شیخ محمد بن عبد الوہاب کی وفات ہو گئی۔ اس وقت تک جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقے پر آل سعود کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔شہزادہ محمد کے بعد امام عبد العزیز علاقے کے حکمران بنے مگر 1803ء میں انھیں قتل کر دیا گیا۔امامعبدالعزیزکے بعد ان کے بیٹےسعودحکمران بنے جو 1814ء میں وفات پا گئے۔سعود کے بیٹے عبد اللہ ایک بڑے عالم دین بھی تھے۔ ان کے دور حکمرانی میں ان کے علاقے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور درعیہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔امام عبد اللہ قیدی بنا لیے گئے اور انھیںاستنبوللے جا کر سزائے موت دے دی گئی۔مگر جلد ہی ان کے بھائیمشاری بن سعوداپنی حکومت واپس لینے می�� کامیاب ہو گئے مگر وہ زیادہ عرصے تک حکمرانی نہ کر سکے اور ان کا علاقہ دوبارہسلطنت عثمانیہکے قبضے میں چلا گیا۔اس کے بعد اُن کا بھتیجا شہزادہترکی بن عبداللہریاضپر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا، جس پر وہ 1824ء سے 1835ء تک بر سر اقتدار رہے۔اگلی کئی دہائیوں تکآل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا اورجزیرہ نما عربپر تسلط کے لیےمصرسلطنت عثمانیہاور دیگر عرب قبائل میں تصادم ہوتے رہے۔ آل سعود کے ایک حکمرانامام عبدالرحمنتھے، جو 1889ء میںبیعتلینے میں کامیاب ہوئے۔امام عبد الرحمن کے بیٹےشہزادہ عبدالعزیزایک مہم جُو شخصیت تھے اور1900ءمیں انھوں نے اپنے والد کی زندگی میں ہی ان کی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لینے اور اسے وسعت دینے کی کوششیں شروع کر دیں1902ء میں انھوں نے ریاض شہر پر قبضہ کیا اور اسے آل سعود کا دار الحکومت قرار دیا۔اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نےالاحسائی،قطیفاورنجدکے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا۔سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میںحجازپر (جس میںمکہ مکرمہاورمدینہ منورہکے علاقے شامل تھے) شریف مکہ حسین کی حکمرانی تھی، جنھوں نے 5 جون 1916ء کو ترکی کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔حسین کو نہ صرف عربوں کے مختلف قبائل کی بلکہ برطانیہ کی تائید بھی حاصل تھی۔7 جون 1916 کو شریف مکہ حسین نے حجاز کی آزادی کا اعلان کیا۔21 جون کو مکہ پر ان کا قبضہ مکمل ہوا اور 29 اکتوبر کو انھوں نے پورے عرب کا حکمران ہونے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے تمام عربوں کو دعوت دی کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔ 15 دسمبر 1916ء کو حکومت برطانیہ نے حسین کو شاہ حجاز تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔اسی دوران امیر عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے مشرقی عرب کا ایک بڑا حصہ مسخر کر لیا اور 26 دسمبر 1915ء کو برطانیہ کے ساتھ دوستی کا ایک معاہدہ بھی کر لیا۔5 ستمبر 1924ء کو انھوں نے حجاز کو بھی فتح کر لیا۔عوام نے امیر عبد العزیز کا ساتھ دیا اور شریف مکہ شاہ حسین نے حکومت سے دست بردار ہو کر اپنے بیٹے علی کو شاہ حجاز بنا دیا۔ مگر امیر عبد العزیز کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے باعث انھیں بھی اپنا تخت چھوڑنا پڑا۔13 اکتوبر 1924 کو شاہ عبد العزیز نے مکہ معظمہ پر بھی قبضہ کر لیا۔5 دسمبر 1925ء کو انھوں نے مدینہ کا اقتدار حاصل کر لیا۔ 19 نومبر 1925ء کو شریف مکہ علی نے اقتدار سے مکمل دستبرداری کا اعلان کیا اور یوں جدہ پر بھی آل سعود کا قبضہ ہو گیا۔ آٹھ جنوری 1926ء کو شاہ حجاز عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے ایک خصوصی تقریب میں مملکت نجد و حجاز کے مکمل اختیارات سنبھالنے کا اعلان کر دیا۔20 مئی 1927ء کو برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں پر جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے عبد العزیز ابن سعود کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا۔ 23 ستمبر 1932ء کو شاہ عبد العزیز ابن سعود نے مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے ’المملکتہ العربیتہ السعودیہ‘ رکھنے کا اعلان کر دیا۔شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود نے جلد ہی اپنی مملکت کو اسلامی رنگ میں ڈھال دیا۔دوسری جانب ان کی خوش قسمتی سے سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کی نشان دہی ہوئی۔ سنہ 1933ء میں شاہ عبد العزیز نے کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا۔ابتدائی چند برس جدوجہد میں بسر ہوئے مگر 1938ء میں جب کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ماہرین ناکام ہو کر ملک لوٹنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک کنویں سے خزانہ ابل پڑا اور اتنا تیل نکلا جس پر وہ ماہرین خود بھی دنگ رہ گئے۔یہ واقعہ نہ صرف سعودی حکمرانوں اور کیلیفورنیا کمپنی کے لیے حیران کُن تھا بلکہ پورے جزیرہ نما عرب کے لیے ایک معجزہ تھا۔ تیل کی دریافت نے سعودی عرب کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔9 نومبر 1953ء کو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود وفات پا گئے۔سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہآل سعودکی بادشاہت ہے۔1992ءمیں اختیار کیے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہعبدالعزیز ابن سعودکی اولاد حکمرانی کرے گی اورقرآن پاکملک کا آئین اورشریعتحکومت کی بنیاد ہے۔ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں البتہ2005ءمیں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان،علماءاور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہیے۔ سعودی عرب دنیا بھر میںمساجداورقرآناسکولوں کے قیام کے ذریعےاسلامکی ترویج کرتی ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علما کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پرشریعت اسلامیسے مطابقت رکھتی ہو۔ عدالتشرعی نظامکی پابند ہیں جن کےقاضیوںکا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔سعودی عرب کو انتظامی لحاظ سے تیرہ علاقوں یا صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کوعربیزبان میں مناطق (عربی واحد:منطقہ) کہتے ہیں۔ سعودی نقشہ میں صوبے نمبر زد ہیں اور خانہ معلومات میں ان کے بارے میں معلومات درج کی گئي ہیں۔مملکت سعودی عربجزیرہ نمائے عربکے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔متحدہ عرب امارات،اوماناوریمنکے ساتھ منسلک ملک کی سرحدوں کا بڑا حصہ غیر متعین ہے اس لیے ملک کا عین درست رقبہ اب بھی نامعلوم ہے۔ سعودی حکومت کے اندازوں کے مطابق مملکت کا رقبہ 22 لاکھ 17 ہزار 949 مربع کلومیٹر (8 لاکھ 56ہزار 356 مربع میل) ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق ملک کا رقبہ 19 لاکھ 60ہزار 582 مربع کلومیٹر (7 لاکھ 56 ہزار 934 مربع میل) اور 22 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر (8 لاکھ 64 ہزار 869 مربع میل) کے درمیان میں ہے تاہم دونوں صورتوں میں سعودی عرب رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 15 بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔مملکت جغرافیہ مختلف نوعیت کا ہے۔ مغربی ساحلی علاقے (التہامہ) سے زمین سطح سمندر سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور ایک طویل پہاڑی سلسلے (جبل الحجاز) تک جاملتی ہے جس کے بعد سطع مرتفع ہیں۔ جنوب مغربی عسیر خطے میں پہاڑوں کی بلندی 3 ہزار میٹر (9 ہزار 840 فٹ) تک ہے اور یہ ملک کے سب سے زیادہ سرسبز اور خوشگوار موسم کا حامل علاقہ ہے۔ یہاں طائف اور ابہا جیسے تفریحی مقامات قائم ہیں۔ خلیج فارس کے ساتھ ساتھ قائم مشرقی علاقہ بنیادی طور پر پتھریلا اور ریتیلا ہے۔ معروف علاقہ ”ربع الخالی“ ملک کے جنوبی خطے میں ہے اور صحرائی علاقے کے باعث ادھر آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔مملکت کا تقریباً تمام حصہ صحرائی و نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے اور صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے۔ بڑی آبادیاں صرف مشرقی اور مغربی ساحلوں اور حفوف اور بریدہ جیسے نخلستانوں میں موجود ہیں۔ سعودی عرب میں سال بھر بہنے والا کوئی دریا یا جھیل موجود نہیں۔سعودی عرب کا موسم مجموعی طور پر شدید گرم اور خشک ہے۔ یہ دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت کا 50 ڈگری سینٹی گریڈ (120 ڈگری فارن ��ائیٹ) سے بھی اوپر جانا معمول کی بات ہے۔ موسم سرما میں بلند پہاڑی علاقوں میں کبھی کبھار برف پڑ جاتی ہے تاہم مستقل بنیادوں پربرف بارینہیں ہوتی۔ موسم سرما کا اوسط درجہ حرارت 8 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ (47 سے 68 ڈگری فارن ہائیٹ) ہے۔ موسم گرما میں اوسط درجہ حرارت 27 سے 43 ڈگری سینٹی گریڈ (81 سے 109 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ وسط صحرائی علاقوں میں گرمیوں میں بھی رات کے وقت موسم سرد ہوجاتا ہے۔سعودی عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے تاہم کبھی کبھار موسلا دھار بارش سے وادیوں میں زبردست سیلاب آجاتے ہیں۔ دار الحکومت ریاض میں سالانہ بارش 100 ملی میٹر (4 انچ) ہے جو جنوری سے مئی کے درمیان میں ہوتی ہے۔ جدہ میں نومبر اور جنوری کے درمیان میں 54 ملی میٹر (2.1 انچ) بارش ہوتی ہے۔2005ء کے مطابق سعودی عرب کی آبادی 26 اعشاریہ 4 ملین ہے جس میں 5 اعشاریہ 6 ملین غیر ملکی آبادی بھی شامل ہے۔ 1960ء کی دہائی تک مملکت کی آبادی کی اکثریت خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش تھی لیکن معیشت اور شہروں میں تیزی سے ترقی کی بدولت اب ملک کی 95 فیصد آبادی مستحکم ہے۔ شرح پیدائش 29 اعشاریہ 56 فی ایک ہزار افراد ہے جبکہ شرح اموات صرف 2 اعشاریہ 62 فی ایک ہزار افراد ہے۔چند شہروں اور نخلستانوں میں آبادی کی کثافت ایک ہزار افراد فی مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔تقریباً 80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں۔ مزید برآں چند جنوبی اور مشرق افریقی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو چند سو سال قبل اولاً غلام بنا کر یہاں لائے گئے تھے۔ سعودی عرب میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن بھی مقیم ہیں جن میںبھارتکے 14 لاکھ،بنگلہ دیشکے 10 لاکھ،پاکستانکے 9 لاکھ،فلپائنکے 8 لاکھ اورمصرکے 7 لاکھ 50 ہزار باشندے شامل ہیں۔ قریبی ممالک کے عرب باشندوں کی بڑی تعداد میں مملکت میں برسرروزگار ہے۔ سعودی عرب میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ باشندے بھی قیام پزیر ہیں۔1932ء میں مملکت سعودی عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی اور شہری علاقوں میں مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہورہی تھیں۔ ان مدارس میں اسلامی اور دینی تعلیم سکھائی جاتی تھی تاہم گذشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک قومی تعلیمی نظام کا حامل ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے قبل سے لے کر جامعہ کی سطح تک مفت تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی تجربہ و شعبہ جات میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام تعلیم کا بنیادی خاصہ ہے۔ سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے مدارس اور اسکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔سعودی عرب میں باقاعدہ بنیادی تعلیم کا آغاز 1930ء کی دہائی میں ہوا۔ 1945ء میں شاہ عزیز السعود نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لیے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد 1951ء میں مملکت کے 226 اسکولوں میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے۔ 1954ء میں وزارت تعلیم کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ مہروز بن عزیز بنے۔ سعودی عرب کی پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسٹی 1957ء میں ریاض میں قائم ہوئی۔آج سعودی عرب کا قومی سرکاری تعلیمی نظام 8 جماعت، 24 ہزار سے زائد اسکولوں اور ہزاروں کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے۔ اس نظام کے تحت ہر طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مملکت کے سرکاری میزانیہ کا 24 فیصد سے زائد تعلیم کے لیے مختص ہے۔ سعودی عرب میں طالب علموں کو اسکال��شپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جن میںامریکا،کینیڈا،برطانیہ،آسٹریلیا،جاپان،ملائیشیاجرمنیاور دیگر ممالک شامل ہیں۔سعودی عرب کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی فہرستملک بھر میں ایک بہترین نقل وحمل کا نظام قائم ہے۔ سعودی عرب حکومت ماضی میں ضلحی نظام کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے کیوں کہ وہاں پیٹرول کی قیمت باقی دنیا کے مقابلے میں سب کم رہی ہے۔ فروری 2018ء میں اعلان کیا گیا کہ، سعودی عرب کی چار اہم موٹر ویز پر رفتار میں بہتری لائی جائے گی اور اسے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پہنچا دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں مکہ مدینہ،شاعز- دمام اور آخر میں ریاض طائف موٹر ویز شامل ہیں۔[15]ملک میں ایک ترقی یافتہ بحری نقل و حمل کا نظام ہے جو بنیادی طور پرپیٹروکیمیکلکی نقل و حمل کی سہولت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔سعودی پورٹ اتھارتیان بحری کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے، یہ ادارہ ملک میں بندرگاہوں کے انتظام کا ذمہ دار ہے۔ شاہراہوں و ہوائی سفر پر زیادہ انحصار کرنے کے نتیجے میں، سعودی عرب میں ریل نقل و حمل میں دوسرے ذرائع کی طرح سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ البتہ، اب ملک کے ریلوے کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔سعودی عرب کا سب سے مقبول کھیلفٹ بالہے۔ سعودی عربگرمائی اولمپکس،والی بال،باسکٹ بالاور دیگر کھیلوں میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس میں شرکت کرتا ہے۔ قومی فٹ بال مسلسل 4 مرتبہ ورلڈ کپ اور 6 مرتبہ ایشین کپ کے لیے کوالیفائی کرنے کے باعث عالمی سطح پرجانی جاتی ہے۔ سعودی عرب تین مرتبہ ایشین چمپئن رہ چکا ہے اور دو مرتبہ فائنل میں شکست کھاگیا۔ سعودی عرب کے چند معروف فٹ بال کھلاڑیوں میںماجد عبداللہ،سامي الجابراورياسر القحطانيشامل ہیں۔اسلامسعودی عرب کا سرکاری مذہب ہے اور اس کا قانون تمام شہریوں کے مسلمان ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے۔[16]اسلام کے سوا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو کھلے عام عبادت منع ہے۔[17][18]سعودی عرب شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی غیر مسلم کو اسلام قبول ضروری ہے۔[19]سعوی عرب کے نفاذشریعتاور اس کےانسانی حقوقمتعلقہ قوانین پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔[20][21]سعودی ثقافت کی بنیاد مذہباسلامہے۔ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ ہر روز دنیا بھر کے مسلمان 5 مرتبہ مکہ مکرمہ میں قائمخانہ کعبہکی جانب رخ کرکےنمازپڑھتے ہیں۔ سعودی عرب میں ہفتہ وار تعطیلجمعہکو ہوتی ہے۔قرآن مجیدسعودی عرب کا آئین اور شریعت اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔سعودی عرب کے معروف ترین لوک رسم قومی رقصارضیٰہے۔ تلواروں کے ساتھ کیا جانے والا یہ رقص قدیمبدویروایات کا حصہ ہے۔ حجاز کیالسہبالوک موسیقی کی جڑیں قرون وسطیٰ کے عرباندلسسے جاملتی ہیں۔سعودی عرب کا لباس باشندوں کے زمین، ماضی اور اسلام سے تعلق کا عکاس ہے۔ روایتی طور پر مرد ٹخنے تک کی لمبائی کی اونی یا سوتی قمیض پہنتے ہیں جوثوبکہلاتی ہے جس کے ساتھ سر پرشماغیاغطرہکا استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں کا لباس قبائلی موتیوں، سکوں، دھاتی دھاگوں اور دیگر اشیاء سے مزین ہوتا ہے۔ سعودی خواتین گھر سے باہرعبایہاورنقابکا استعمال کرتی ہیں۔اسلام میںشرابنوشی اورسورکے گوشت کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے اور اس پر سعودی عرب میں سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ سعودی روٹیخبزکا تقریباً تمام کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بھنی ہوئی بھیڑ، مرغی، فلافل، شورمہ اور فو�� بھی دیگر مشہور کھانوں میں شامل ہیں۔ روایتی قہوہ خانے ہر جگہ موجود ہیں تاہم اب ان کی جگہ بڑے کیفے لے رہے ہیں۔ بغیر دودھ کی سیاہ عربی چائے کا استعمال ہر جگہ کیا جاتا ہے۔سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہمظہراناورراس تنورہمیں قائم نجی آبادیوں میں تھیٹر قائم ہیں تاہم یہ فلموں کے نمائش کی بجائے مقامی موسیقی اور فنون پیش کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ حال ہی میں بچوں اور عورتوں کے لیے عربی کارٹون پیش کرنے کے لیے سینمائوں کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔حاشیہ"
+427,المکہ علاقہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%84%D9%85%DA%A9%DB%81_%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%DB%81,المکہ علاقہیامنطقہ المکہ(انگریزی: Makkah Region; (عربی:منطقة مكة المكرمة))سعودی عربکا قدیم اور مقدس ترین صوبہ ہے جس کے شمال میںالمدینہ عالقہہے اور جنوب میںعسیر علاقہواقع ہے۔ اس علاقہ میں مسلمانوں کا مقدس ترین جگہ یعنی شہرِمکہموجود ہے۔سعودی عرب کے علاقہ جات
+428,بحیرہ احمر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%AD%DB%8C%D8%B1%DB%81_%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%B1,"بحیرہ احمر(Red Sea) یابحیرہ قلزمبحر ہندکی ایک خلیج ہے۔ یہ آبنائےباب المندباورخلیج عدنکے ذریعے بحر ہند سے منسلک ہے۔ اس کے شمال میں جزیرہ نمائےسینا،خلیج عقبہاورخلیج سوئزواقع ہیں جونہر سوئزسے ملی ہوئی ہے۔ 19 ویں صدی تک یورپی اسے خلیج عرب بھی کہتے تھے۔بحیرہ احمر ایک لاکھ 74 ہزار مربع میل (4 لاکھ 50 ہزار مربع کلومیٹر) پر پھیلا ہوا ہے۔ خلیج ایک ہزار 200 میل (ایک ہزار 900 کلومیٹر) طویل اور زیادہ سے زیادہ 190 میل (300 کلومیٹر) چوڑی ہے۔ بحیرہ احمر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 8 ہزار 200 فٹ (2 ہزار 500 میٹر) جبکہ اوسط گہرائی ایک ہزار 640 فٹ (500 میٹر) ہے۔بحیرہ احمر کا پانی دنیا کے نمکین ترین پانیوں میں سے ایک ہے۔ شدید گرم موسم کے باعث آبی بخارات بننے کے عمل میں تیزی اور ہوا کے دباؤ کے باعث بحیرہ احمر میں نمکیات 36 سے 38 فیصد ہیں۔اس سمندر میں ایک ہزار سے زائد بے مہرہ حیاتیاتی اقسام اور 200 اقسام کے نرم اور سخت مونگے پائے جاتے ہیں۔
+بحیرہ احمر دنیا کے تمام سمندروں میں گرم ترین سمندر ہے۔بحیرہ احمرعربینام البحر الاحمرلاطینینام Mare Erythraeumيونانینام Ερυθρά Θάλασσα کا ترجمہ ہے۔
+جسےانگريزیمیں Red Sea کہتے ہیں۔ اور اردو ميں اسكا مطلب سرخ سمندر ہے۔اس کا نام سمندری پانی کے رنگ کو ظاہر نہیں کرتا کیونکہ اس کا پانی سرخ رنگ کا نہیں بلکہ سطح آب پر مختلف موسموں میں سرخ رنگ کے سائنو بیکٹیریا ٹرائیکو ڈیسمیئم ایریٹریم کے باعث اس کا نام بحیرہ احمر پڑا۔تاریخ میں پہلی بار بحیرہ احمر میں سفر کی کوشش مصریوں نے کی۔بائبلمیں موسیٰ کی کہانی میں ایک کنیز کے بیٹے کی جانب سے اسرائیلیوں کو آزادی دلانے کے لیے بحیرہ احمر کو عبور کرنے کی کوششوں کا ذکر ہے۔ یورپیوں نے 15 ویں صدی میں بحیرہ احمر میں پہلی بار دلچسپی کااظہار کیا۔ 1798ءمیں فرانسیسی جنرلنپولینبوناپارٹ نےمصرپر حملہ کرکے بحیرہ احمر پر قبضہ کر لیا۔ انجینئر جے پی لیپیر نے بحیرہ احمر اوربحیرہ رومکو ملانے کے لیے نہر کی تعمیر کی، جس کا منصوبہ عثمانیوں نے بنایا تھا مگر اسے بنا نہ سکے تھے۔نہر سوئزکو نومبر 1869ءمیں کھولا گیا۔ اس وقتبرطانیہ،فرانساوراٹلینے مشترکہ طور پر نہر میں تجارتی مقامات سنبھالے۔جنگ عظیم اولکے بعد یہ مقامات بتدریج ختم ہو گئے۔دوسری جنگ عظیمکے بعدامریکہاورسوویت یونیننے اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان 6 روزہ جنگ کے باعث نہر سوئز 1967ءسے 1975ءتک بند رہی۔بحیرہ احمر کا ساحل مندرجہ ذیل ممالک سے ملتا ہے :بحیرہ احمر کے ساحلوں پر مندرجہ ذیل شہر اور قصبے واقعہ ہیں :"
+429,بندرگاہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D9%86%D8%AF%D8%B1%DA%AF%D8%A7%DB%81,بندرگاہ،بحری جہازوںکو وصول کرنے اور کھیپ کو منتقل کرنے کی ایک سہولت ہے۔بندرگاہ عموماًبحر،سمندر،دریایاجھیلکے کنارے واقع ہوتی ہے۔ بندرگاہوں پر کھیپ کے لیے ضروری ساز و سامان اورآلاتموجود ہوتے ہیں۔
+430,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+431,ریاض,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B6,"ریاضمملکتسعودی عربکادار الحکومتاور سب سے بڑاشہرہے جو علاقہنجدکےصوبہ الریاضمیں واقع ہے۔2005ء، سعودی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ریاض شہر کی آبادی بیالیس لاکھ ساٹھ ہزار ہے جو سعودی عرب کی کل آبادی کا 20فیصدہے۔Riyadh(/riːˈjɑːd/,[3]عربی:الرياض,lit.: 'The Gardens'[ar.riˈjaːdˤ]Najdipronunciation:[er.rɪˈjɑːðˤ]), formerly known asHajr al-Yamamah,[4]is the capital and largest city ofSaudi Arabia.[5]It is also the capital of theRiyadh Provinceand the centre of theRiyadh Governorate.It is thelargest cityon theArabian Peninsula, and is situated in the center of thean-Nafuddesert, on the eastern part of theNajdplateau. The city sits at an average of 600 میٹر (2,000 فٹ) above sea level,[6]and receives around 5 milliontouristseach year, making it theforty-ninthmost visited city in the world and the 6th in theMiddle East. Riyadh had a population of 7.0 million people in 2022, making it themost-populous cityin Saudi Arabia,3rd most populousin theMiddle East, and the38th most populousinAsia.[7]اسلام سے پہلے کے ادوار میں یہ علاقہہجارکے نام سے آباد تھا۔ علاقہ موسمی ندیوں سے سراب ہوتا ہے اور کئی علاقوں میں زیر زمین پانی تک رسائی ممکن ہے۔ تاریخی اعتبار سے علاقہ باغیچوں اورکھجورکے لیے مشہور تھا اور ریاض کے معنے بھی باغ کے ہیں۔ موجودہ نام شروع میں صرف چند علاقوں کے لیے استعمال کیا گیا جہاں باغات تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سارا علاقہ ہی اسی نام سے جانا جانے لگا۔اٹھارویں صدی عیسوی تک ریاض، سعودی ریاست کا حصہ تھا جس کا دار الحکومت درعیہ تھا۔1818ءمیں ترکوں کے ہاتھوں درعیہ کی تباہی کے بعد ریاض کو دار الحکومت بنایا گیا۔1902ءسےعبدالعزیز بن عبدالرحمن السعودنے تعمیر نو شروع کی اور ریاضدار الحکومتکے ساتھ1932ءمیں جدیدسعودی عربکی بنیاد ڈالی۔ سفارتی دار الخلافہ1982ءتک جدہ ہی رہا۔1960ءمیں شہر کی آبادی جو پچاس ہزار نفوس پر مشتمل تھی اب بڑھ کر پنتالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جس کی وجہ سے شہر کو کئی تکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ شہر کی منصوبہ بندی آبادی بڑھنے کی اتنی تیز رفتار کو مدنظر رکھ کر نہیں کی گئی تھی۔کسی دور کا ایک چھوٹا قصبہ اب دنیا کے بڑے شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ آبادی میں پہلا بڑا اضافہ1950ءمیں تیل کی دولت کے استعمال کی شروعات سے ہوا جب قدیم حصوں کو گرا کر جدیدصنعتیتعمیرات کا آغاز کیا گیا۔ آج ریاض دنیا کے تیزی سے بڑھتے شہروں میں سے ایک ہے۔شہر کو 17 انتظامی میونسپلٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو مرکزی ریاض میونسپلٹی اورریاض ڈویلپمنٹ اتھارٹیکے تحت کام کرتی ہیں جس کا سربراہ صوبہ ریاض کاگورنرہوتا ہے۔ ہر میونسپلٹی اپنے علاقہ کے انتظامات کی زمہ دار ہے اور ان میں سے ہے علاقہ اپنی سی خصوصیات رکھتا ہے۔ ان میں سے چند ایک اہم علاقہ درج ذیل ہیں۔ریاض چونکہریگستانمیں ہے اور دنیا کی وسطی علاقوں میں سے ہے اس لیے یہاں سورج زیادہ پڑتا ہے اورگرمی زیادہ ہوتی ہے۔ ریاض میں گرمی کا موسم سب سے زیادہ مدّت تک رہتا ہے تاہم سردی بھی بہت سخت ہوتی ہے لیکن سردی کا موسم کم عرصے تک رہتا ہے۔ ریاض کے موسمیات کا تفصیل اس طبول میں ملاحظہ کیجئے :ریاض شہر کی آبادی 1935 میں 40 ہزار تھی اور1949 میں 83 ہزار تک پہنچی۔ شہر کی آبادی کہیں دہائیوں میں تیزی سے بڑھتی گئی 1960 میں آبادی 5 ملین سے تجاوز کرگئی۔tayyab1993bc@yahoo.comسانچہ:عرب ممالک کے دار الحکومت"
+432,سعودی عرب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C_%D8%B9%D8%B1%D8%A8,"مسیحیت4.4 فیصدہندو مت1.1 فیصدبدھ مت0.3 فیصدسعودی عربیاسعودی عربیہ(رسمی نام : المملكة سعودیہ العربیہ)مغربی ایشیاکا ایک ملک ہے۔ یہجزیرہ نما عربکے بڑے حصے پر محیط ہے، جو اسےایشیاکا پانچواں سب سے بڑا، عرب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مغربی ایشیا اورمشرق وسطیکا سب سے بڑا ملک بناتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب میںبحیرہ احمرسے ملتی ہے۔ شمال میںاردن،عراقاورکویت؛ مشرق میںخل��ج فارس،قطراورمتحدہ عرب امارات؛ جنوب مشرق میںعمان؛ اور جنوب میںیمن۔بحرینمشرقی ساحل سے دور ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ شمال مغرب میںخلیج عقبہسعودی عرب کومصراوراسرائیلسے الگ کرتی ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے پاس بحیرہ احمر اور خلیج فارس دونوں کے ساتھ ساحل ہے اور اس کا زیادہ تر علاقہ خشک صحرا، نشیبی، میدان اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہرریاضہے۔ یہ ملکمکہاورمدینہکا گھر ہے، جواسلامکے دو مقدس ترین شہر ہیں۔قبل از اسلام کا جزیرہ نما عرب، وہ علاقہ جس پر موجودہ سعودی عرب مشتمل ہے، کئی قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں کا مقام تھا۔ سعودی عرب میں قبل از تاریخ انسانی سرگرمیوں کے کچھ ے ابتدائی نشانات پائے جاتے ہیں۔ دین اسلام چھٹی صدی عیسوی (571ء) میں ابھر کر سامنے آیا اور جزیرہ نما عرب کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر پھیل گیا۔جدید دور کے سعودی عرب کا علاقہ پہلے بنیادی طور پر چار الگ الگ تاریخی علاقوں پر مشتمل تھا:حجاز،نجداور مشرقی عرب کے کچھ حصے (الاحساء) اور جنوبی عرب (عسیر)۔ مملکتِ سعودی عرب کی بنیادشاہ عبدالعزیز(مغرب میں ابن سعود کے نام سے مشہور) نے 1932 میں رکھی تھی۔ انھوں نے سنہ 1902ء میں اپنے خاندان کے آبائی علاقے ریاض پر قبضے کے ساتھ فتوحات کے سلسلے کے ذریعے چاروں خطوں کو ایک ریاست میں متحد کیا۔ سعودی عرب اس کے بعد سے ایک مطلق العنانبادشاہترہا ہے، جہاں سیاسی فیصلے بادشاہ، وزراء کی کونسل اور ملک کے روایتی اشرافیہ کے درمیان مشاورت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔سنی اسلامکے اندر انتہائی قدامت پسندوہابیمذہبی تحریک کو سنہ 2000ء کی دہائی تک ""سعودی ثقافت کی ایک اہم خصوصیت"" کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ سنہ 2016ء میں، سعودی عرب کی حکومت نے انتہائی قدامت پسند وہابی مذہبی اشرافیہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور اخلاقی پولیس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے اقدامات کیے، سماجی ترقی کو بڑھانے اور بحال کرنے اور مزید مضبوط اور موثر معاشرہ بنانے کی کوشش میںسعودی وژن 2030ءکے اقتصادی پروگرام کا آغاز کیا۔ اپنے بنیادی قانون میں، سعودی عرب خود کو ایک خود مختار عرب اسلامی ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے جس میں اسلام کو سرکاری مذہب،عربیکو سرکاری زبان اور ریاض دار الحکومت کہا جاتا ہے۔پیٹرولیمسنہ 1938ء میں دریافت ہوا اور اس کے بعد مشرقی صوبے میں کئی دیگر دریافتیں ہوئیں۔ سعودی عرب اس کے بعد سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک (امریکاکے بعد) اور دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ یہاں دنیا کے دوسرے سب سے بڑے تیل کے ذخائر اور چوتھے بڑے گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ مملکت کوعالمی بینککی اعلی آمدنی والی معیشت کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے اور یہ واحد عرب ملک ہے جوجی20بڑی معیشتوں کا حصہ ہے۔ ریاست کو مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جن میںیمنی خانہ جنگیمیں اس کا کردار، اسلامی دہشت گردی کی مبینہ سرپرستی اور اس کا انسانی حقوق کا خراب ریکارڈ، بشمول سزائے موت کا ضرورت سے زیادہ اور اکثر ماورائے عدالت شامل ہے۔سعودی عرب کو علاقائی اور درمیانی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ سعودی معیشت مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی ہے۔ عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی اٹھارویں سب سے بڑی معیشت اور فی کس پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی سترویں بڑی معیشت ہے۔ ایک بہت ہی اعلیٰ انسانی ترقی کے اشاریہ والے ملک کے طور پر، یہ مفت اعلی تعلیم، ٹیکس فری آمدنی ��ور مفت آفاقی نظامِ صحت پیش کرتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کی تیسری بڑی تارکین وطن کی آبادی کا مرکز ہے۔ اس کی آبادی دنیا کی سب سے نوجوان آبادی میں سے ایک بھی ہے، اس کی 32.2 ملین کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد 25 سال سے کم عمر کا ہے۔خلیج تعاون کونسلکا رکن ہونے کے علاوہ سعودی عربتنظیمِ اقوام متحدہ،تنظیمِ تعاونِ اسلامی،عرب لیگ، عرب تنظیم برائے ہوائی نقل و حمل اورتیل برآمد کرنے والے ممالکِ کی تنظیم، اوپیککا ایک فعال اور بانی رکن ہے۔شمال مغرب میں اس کی سرحداردن، شمال میںعراقاور شمال مشرق میںکویت،قطر،اوربحریناور مشرق میںمتحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میںسلطنت عمان، جنوب میںیمنسے ملی ہوئی ہے جبکہخلیج فارساس کے شمال مشرق اوربحیرہ قلزماس کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاںاسلامکے دو مقدس ترین مقاماتمکہ مکرمہاورمدینہ منورہموجود ہیں۔سعودی ریاست کا ظہور تقریباً1750ءمیں عرب کے وسط سے شروع ہوا، جب ایک مقامی رہنمامحمد بن سعودمعروف اسلامی شخصیت اورمحمد بن عبدالوہابکے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔اگلے ڈیڑھ سو سال میںآل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا، جس کے دوران میںجزیرہ نما عربپر تسلط کے لیے ان کےمصر،سلطنت عثمانیہاور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیامشاہ عبدالعزیز السعودکے ہاتھوں عمل میں آیا۔1902ءمیں، عبد العزیز نے حریف آل رشید سےریاضشہر چھین لیا اور اسےآل سعودکادار الحکومتقرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے1913ءسے1926ءکے دوران میںالاحساء،قطیف،نجدکے باقی علاقوں اورحجاز(جس میںمکہ مکرمہاورمدینہ منورہکے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کر لیا۔8 جنوری1926ءکو،عبدالعزیز ابن سعودحجاز کےبادشاہقرار پائے۔29 جنوری1927ءکو، انھوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔20 مئی1927ءکو،معاہدہ جدہکے مطابقبرطانیہنے تمام مقبوضہ علاقوں (جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے) پرعبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کر لیا۔1932ءمیں،برطانیہکی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔مارچ1938ءمیں، تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔حالیہ نام ""سعودی"" تقریباً 1727ء میں موجود سعودیہ کے وسط, ریاض میں آل سعود کی حکومت بنانے سے شروع ہوا.جب ایک مقامی رہنما ""محمد بن سعود"" معروف اسلامی شخصیت اور وہابیت یاسلفی تحریککے بانیمحمد بن عبد الوہابکے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ اس وقت یہ علاقہ 'سلطنت عثمانیہ' کے کنٹرول میں تھا.1805, 1806ء میں آل سعود نے مکہ مدینہ کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ 1818ء میں سلطنت عثمانیہ کی فوجوں نے ان سے سارا علاقہ واپس لے لیا۔ 1824ء میں سعود فیملی نے نجد کے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔اسی دوران ایک نئی طاقت آل رشید سامنے آئی۔ نئی طاقت آل رشید و آل سعود میں آپس کی جنگیں جاری رہیں۔ اور آل رشید نے آل سعود کو 1892 میں حتمی شکست دے کر علاقہ چھوڑ کر کویت میں جلاوطنی پہ مجبور کر دیا۔حجاز یعنی مکہ مدینہ میں عثمانیہ حکومت کے حکم پر داخل ہوئی مصری فوجیں 1840 میں علاقے سے نکل گئیں۔ اور شریف مکہ نے کنٹرول سنبھال لیا. ترکی نے برائے نام حکمرانی ساتھ آل سعود و آل رشید و شریف مکہ فیملی سمیت کئی قبائل کو اندرونی خود مختاری دی ہوئی تھی۔1902 میں آل سعود کے شاہ عبد العزیز کویت سے
+جلاوطنی سے واپس آئے اور سعودی اخوان تحریک, وہابی تحریک اور دیگر کی مدد کے ساتھ 1906 میں آل رشید کو شکست دے کر علاقے سے نکال دیا اور
+عثمانیہ سلطنت نے انھیں تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد مرکزی علاقہ سے ہٹ کر خلیج فارس کے ساتھ کے علاقہ الاحسا پہ قبضہ کر لیا۔
+عبدالعزیز جنہیں ابن سعود بھی کہا جاتا تھا۔ نے ""عرب بغاوت"" سے دوری رکھی۔ اور آل رشید ساتھ مقابلے پہ فوکس رکھا۔ پھر 1920 میں عسیر علاقہ پہ قبضہ کیا۔ 1921 میں آل رشید کو مکمل دیس نکالا دے دیا۔شریف مکہ حسین بن علی نےانگریزمیکموہن ساتھ عثمانیہ سلطنت خلاف ساز باز کرکے متحدہ عرب ریاست بنانے کی سازش کی۔ اس میں لارنس آف عربیہ کا بھی رول رہا۔1914 میں جنگ عظیم اول شروع ہو چکی تھی۔ جس میں سلطنت عثمانیہ, جرمن سلطنت اور آسٹرو-ہنگروی سلطنت ایک طرف تھے اور روس, فرانس اور برطانیہ وغیرہ دوسری طرف۔1916 میں سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کے لیے تمام عرب علاقے,شام,یمن,اردن اور موجودہ سعودیہ پہ مشتمل متحدہ عرب ریاست کے قیام اور سلطنت عثمانیہ سے آزادی کا خواب دکھایا گیا۔ برطانوی فوجوں کی مدد سے عرب باغی فوجوں نے مکہ, مدینہ, اردن اور پھردمشقفتح کر لیا۔2016 سے 2018 کے دوران دمشق میں شام کی عرب کنگڈم قائم کرکے شریف مکہ کا بیٹا فیصل بادشاہ بنادیا گیا۔ لیکن پھر سائیکس معاہدے مطابق عرب علاقے سوائے سعودیہ کے, فرانس اور برطانیہ نے آپس میں تقسیم کرلیے۔ حجاز (مکہ اور مدینہ) کو شریف مکہ کے حوالے کیا گیا۔آل سعود اور شریف مکہ, دونوں برطانوی رابطے میں اور امداد لینے والے تھے۔ شریف مکہ کو حجاز کا بادشاہ تسلیم کیا گیا۔ لیکن بعد میں, 1924 میں اسے برطانیہ کی طرف سے چھوڑ دیا گیا۔1925 میں عبدالعزیز نے حجاز پہ قبضہ کرکے خود کو شاہ حجاز ڈیکلیئر کیا۔ پھر شاہ نجد بنے۔ پھر 1932 میں دونوں بادشاہتوں(نجد اور حجاز) کو ضم کر کے سعودی عرب کا نام دیا گیا.حجاز کی فتح بعد, سعودی اخوان برطانوی مقبوضہ اردن, عراق اور کویت کی طرف بڑھنا چاہتے تھے تاکہ اپنا مسلک وہاں بھی نافذ کریں لیکن عبدالعزیز اردن اور عراق وغیرہ برطانوی قبضے میں ہونے کی وجہ سے برطانیہ سے لڑائی مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ اس پر اختلافات ہوئے تو اخوان نے بغاوت کردی لیکن وہ سختی سے کچل دی گئی۔ اور پھر سعودی حکومت استحکام حاصل کرتی چلی گئی.لارنس نے پہلی جنگ عظیم شروع بعد خود کو بطور رضاکار پیش کیا اسے مصر میں پوسٹ کیا گیا. وہاں سے وہ عراق اور سعودی عرب مشنز پہ جاتا رہا اور اوپر ذکر کردہ عثمانی سلطنت کے خلاف عرب بغاوت اور متحدہ عرب ریاست (بشمول شام,اردن,یمن,نجد اور حجاز) کی سازش میں شامل ہوا اور دوسرے انگریز افسروں ساتھ برطانیہ کے رابطہ افسر کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ شریف مکہ کے بیٹے فیصل جو بعد میں شاہِ شام بنا, کے ساتھ نزدیکی معرکوں میں شامل رہا اور دمشق کی فتح میں ہم رکاب رہا۔ اس کے رول کو صحافی تھامس نے سنسنی خیزی کے ساتھ پیش کیا۔سعودی عرب عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت سمجھی جاتی ہے۔ اس مملکت کے بانی یوں تو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود ہیں جو15 جنوری1877ءکو پیدا ہوئے تھے مگر اس سلطنت کے قیام کی جدوجہد کا آغاز 18 ویں صدی میں ہوا تھا جب1725ءمیں آل سعود کے سربراہامیر سعود بن محمد بن مقرنکی وفات ہوئی۔اس زمانے میںنجدمیں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں اور ہر ریاست کا الگ الگ حکمران ہوتا تھا۔ امیر سعود بن محمد کے چار صاحبزادے تھے جنھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ نجد میں سعودی سلطنت قائم کریں گے۔امیر سعود بن محمد کے سب سے بڑے صاحبزادے کا ناممحمد بن سعودتھا۔ وہدرعیہکے حکمران بنے اور انھوں نےشیخمحمد بن عبدالوہابکی مدد سے درعیہ میں اپنی حکومت قائم کی اور آہستہ آہستہ اسے مستحکم کرنا شروع کیا۔محمد بن سعود اور شیخ محمد عبد الوہاب کے درمیان 1745ء میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے عہد کیا کہ اگر کسی وقت محمد بن سعودنجد و حجازمیں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہاں شیخ محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کو رائج کریں گے۔1765ء میں شہزادہ محمد اور 1791ء میں شیخ محمد بن عبد الوہاب کی وفات ہو گئی۔ اس وقت تک جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقے پر آل سعود کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔شہزادہ محمد کے بعد امام عبد العزیز علاقے کے حکمران بنے مگر 1803ء میں انھیں قتل کر دیا گیا۔امامعبدالعزیزکے بعد ان کے بیٹےسعودحکمران بنے جو 1814ء میں وفات پا گئے۔سعود کے بیٹے عبد اللہ ایک بڑے عالم دین بھی تھے۔ ان کے دور حکمرانی میں ان کے علاقے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور درعیہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔امام عبد اللہ قیدی بنا لیے گئے اور انھیںاستنبوللے جا کر سزائے موت دے دی گئی۔مگر جلد ہی ان کے بھائیمشاری بن سعوداپنی حکومت واپس لینے میں کامیاب ہو گئے مگر وہ زیادہ عرصے تک حکمرانی نہ کر سکے اور ان کا علاقہ دوبارہسلطنت عثمانیہکے قبضے میں چلا گیا۔اس کے بعد اُن کا بھتیجا شہزادہترکی بن عبداللہریاضپر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا، جس پر وہ 1824ء سے 1835ء تک بر سر اقتدار رہے۔اگلی کئی دہائیوں تکآل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا اورجزیرہ نما عربپر تسلط کے لیےمصرسلطنت عثمانیہاور دیگر عرب قبائل میں تصادم ہوتے رہے۔ آل سعود کے ایک حکمرانامام عبدالرحمنتھے، جو 1889ء میںبیعتلینے میں کامیاب ہوئے۔امام عبد الرحمن کے بیٹےشہزادہ عبدالعزیزایک مہم جُو شخصیت تھے اور1900ءمیں انھوں نے اپنے والد کی زندگی میں ہی ان کی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لینے اور اسے وسعت دینے کی کوششیں شروع کر دیں1902ء میں انھوں نے ریاض شہر پر قبضہ کیا اور اسے آل سعود کا دار الحکومت قرار دیا۔اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نےالاحسائی،قطیفاورنجدکے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا۔سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میںحجازپر (جس میںمکہ مکرمہاورمدینہ منورہکے علاقے شامل تھے) شریف مکہ حسین کی حکمرانی تھی، جنھوں نے 5 جون 1916ء کو ترکی کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔حسین کو نہ صرف عربوں کے مختلف قبائل کی بلکہ برطانیہ کی تائید بھی حاصل تھی۔7 جون 1916 کو شریف مکہ حسین نے حجاز کی آزادی کا اعلان کیا۔21 جون کو مکہ پر ان کا قبضہ مکمل ہوا اور 29 اکتوبر کو انھوں نے پورے عرب کا حکمران ہونے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے تمام عربوں کو دعوت دی کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔ 15 دسمبر 1916ء کو حکومت برطانیہ نے حسین کو شاہ حجاز تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔اسی دوران امیر عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے مشرقی عرب کا ایک بڑا حصہ مسخر کر لیا اور 26 دسمبر 1915ء کو برطانیہ کے ساتھ دوستی کا ایک معاہدہ بھی کر لیا۔5 ستمبر 1924ء کو انھوں نے حجاز کو بھی فتح کر لیا۔عوام نے امیر عبد العزیز کا ساتھ دیا اور شریف مکہ شاہ حسین نے حکومت سے دست بردار ہو کر اپنے بیٹے علی کو شاہ حجاز بنا دیا۔ مگر امیر عبد العزیز کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے باعث انھیں بھی اپنا تخت چھوڑنا پڑا۔13 اکتوبر 1924 کو شاہ عبد العزیز نے مکہ معظمہ پر بھی قبضہ کر لیا۔5 دسمبر 1925ء کو انھوں نے مدینہ کا اقتدار حاصل کر لیا۔ 19 نومبر 1925ء کو شریف مکہ علی نے اقتدار سے مکمل دستبرداری کا اعلان کیا اور یوں جدہ پر بھی آل سعود کا قبضہ ہو گیا۔ آٹھ جنوری 1926ء کو شاہ حجاز عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے ایک خصوصی تقریب میں مملکت نجد و حجاز کے مکمل اختیارات سنبھالنے کا اعلان کر دیا۔20 مئی 1927ء کو برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں پر جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے عبد العزیز ابن سعود کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا۔ 23 ستمبر 1932ء کو شاہ عبد العزیز ابن سعود نے مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے ’المملکتہ العربیتہ السعودیہ‘ رکھنے کا اعلان کر دیا۔شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود نے جلد ہی اپنی مملکت کو اسلامی رنگ میں ڈھال دیا۔دوسری جانب ان کی خوش قسمتی سے سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کی نشان دہی ہوئی۔ سنہ 1933ء میں شاہ عبد العزیز نے کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا۔ابتدائی چند برس جدوجہد میں بسر ہوئے مگر 1938ء میں جب کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ماہرین ناکام ہو کر ملک لوٹنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک کنویں سے خزانہ ابل پڑا اور اتنا تیل نکلا جس پر وہ ماہرین خود بھی دنگ رہ گئے۔یہ واقعہ نہ صرف سعودی حکمرانوں اور کیلیفورنیا کمپنی کے لیے حیران کُن تھا بلکہ پورے جزیرہ نما عرب کے لیے ایک معجزہ تھا۔ تیل کی دریافت نے سعودی عرب کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔9 نومبر 1953ء کو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود وفات پا گئے۔سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہآل سعودکی بادشاہت ہے۔1992ءمیں اختیار کیے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہعبدالعزیز ابن سعودکی اولاد حکمرانی کرے گی اورقرآن پاکملک کا آئین اورشریعتحکومت کی بنیاد ہے۔ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں البتہ2005ءمیں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان،علماءاور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہیے۔ سعودی عرب دنیا بھر میںمساجداورقرآناسکولوں کے قیام کے ذریعےاسلامکی ترویج کرتی ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علما کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پرشریعت اسلامیسے مطابقت رکھتی ہو۔ عدالتشرعی نظامکی پابند ہیں جن کےقاضیوںکا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔سعودی عرب کو انتظامی لحاظ سے تیرہ علاقوں یا صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کوعربیزبان میں مناطق (عربی واحد:منطقہ) کہتے ہیں۔ سعودی نقشہ میں صوبے نمبر زد ہیں اور خانہ معلومات میں ان کے بارے میں معلومات درج کی گئي ہیں۔مملکت سعودی عربجزیرہ نمائے عربکے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔متحدہ عرب امارات،اوماناوریمنکے ساتھ منسلک ملک کی سرحدوں کا بڑا حصہ غیر متعین ہے اس لیے ملک کا عین درست رقبہ اب بھی نامعلوم ہے۔ سعودی حکومت کے اندازوں کے مطابق مملکت کا رقبہ 22 لاکھ 17 ہزار 949 مربع کلومیٹر (8 لاکھ 56ہزار 356 مربع میل) ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق ملک کا رقبہ 19 لاکھ 60ہزار 582 مربع کلومیٹر (7 لاکھ 56 ہزار 934 مربع میل) اور 22 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر (8 لاکھ 64 ہزار 869 مربع میل) کے در��یان میں ہے تاہم دونوں صورتوں میں سعودی عرب رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 15 بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔مملکت جغرافیہ مختلف نوعیت کا ہے۔ مغربی ساحلی علاقے (التہامہ) سے زمین سطح سمندر سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور ایک طویل پہاڑی سلسلے (جبل الحجاز) تک جاملتی ہے جس کے بعد سطع مرتفع ہیں۔ جنوب مغربی عسیر خطے میں پہاڑوں کی بلندی 3 ہزار میٹر (9 ہزار 840 فٹ) تک ہے اور یہ ملک کے سب سے زیادہ سرسبز اور خوشگوار موسم کا حامل علاقہ ہے۔ یہاں طائف اور ابہا جیسے تفریحی مقامات قائم ہیں۔ خلیج فارس کے ساتھ ساتھ قائم مشرقی علاقہ بنیادی طور پر پتھریلا اور ریتیلا ہے۔ معروف علاقہ ”ربع الخالی“ ملک کے جنوبی خطے میں ہے اور صحرائی علاقے کے باعث ادھر آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔مملکت کا تقریباً تمام حصہ صحرائی و نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے اور صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے۔ بڑی آبادیاں صرف مشرقی اور مغربی ساحلوں اور حفوف اور بریدہ جیسے نخلستانوں میں موجود ہیں۔ سعودی عرب میں سال بھر بہنے والا کوئی دریا یا جھیل موجود نہیں۔سعودی عرب کا موسم مجموعی طور پر شدید گرم اور خشک ہے۔ یہ دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت کا 50 ڈگری سینٹی گریڈ (120 ڈگری فارن ہائیٹ) سے بھی اوپر جانا معمول کی بات ہے۔ موسم سرما میں بلند پہاڑی علاقوں میں کبھی کبھار برف پڑ جاتی ہے تاہم مستقل بنیادوں پربرف بارینہیں ہوتی۔ موسم سرما کا اوسط درجہ حرارت 8 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ (47 سے 68 ڈگری فارن ہائیٹ) ہے۔ موسم گرما میں اوسط درجہ حرارت 27 سے 43 ڈگری سینٹی گریڈ (81 سے 109 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ وسط صحرائی علاقوں میں گرمیوں میں بھی رات کے وقت موسم سرد ہوجاتا ہے۔سعودی عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے تاہم کبھی کبھار موسلا دھار بارش سے وادیوں میں زبردست سیلاب آجاتے ہیں۔ دار الحکومت ریاض میں سالانہ بارش 100 ملی میٹر (4 انچ) ہے جو جنوری سے مئی کے درمیان میں ہوتی ہے۔ جدہ میں نومبر اور جنوری کے درمیان میں 54 ملی میٹر (2.1 انچ) بارش ہوتی ہے۔2005ء کے مطابق سعودی عرب کی آبادی 26 اعشاریہ 4 ملین ہے جس میں 5 اعشاریہ 6 ملین غیر ملکی آبادی بھی شامل ہے۔ 1960ء کی دہائی تک مملکت کی آبادی کی اکثریت خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش تھی لیکن معیشت اور شہروں میں تیزی سے ترقی کی بدولت اب ملک کی 95 فیصد آبادی مستحکم ہے۔ شرح پیدائش 29 اعشاریہ 56 فی ایک ہزار افراد ہے جبکہ شرح اموات صرف 2 اعشاریہ 62 فی ایک ہزار افراد ہے۔چند شہروں اور نخلستانوں میں آبادی کی کثافت ایک ہزار افراد فی مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔تقریباً 80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں۔ مزید برآں چند جنوبی اور مشرق افریقی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو چند سو سال قبل اولاً غلام بنا کر یہاں لائے گئے تھے۔ سعودی عرب میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن بھی مقیم ہیں جن میںبھارتکے 14 لاکھ،بنگلہ دیشکے 10 لاکھ،پاکستانکے 9 لاکھ،فلپائنکے 8 لاکھ اورمصرکے 7 لاکھ 50 ہزار باشندے شامل ہیں۔ قریبی ممالک کے عرب باشندوں کی بڑی تعداد میں مملکت میں برسرروزگار ہے۔ سعودی عرب میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ باشندے بھی قیام پزیر ہیں۔1932ء میں مملکت سعودی عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی اور شہری علاقوں میں مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہورہی تھیں۔ ان مدارس میں اسلامی اور دینی تعلیم سکھائی جاتی تھی تاہم گذشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک قومی تعلیمی نظام کا حامل ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے قبل سے لے کر جامعہ کی سطح تک مفت تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی تجربہ و شعبہ جات میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام تعلیم کا بنیادی خاصہ ہے۔ سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے مدارس اور اسکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔سعودی عرب میں باقاعدہ بنیادی تعلیم کا آغاز 1930ء کی دہائی میں ہوا۔ 1945ء میں شاہ عزیز السعود نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لیے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد 1951ء میں مملکت کے 226 اسکولوں میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے۔ 1954ء میں وزارت تعلیم کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ مہروز بن عزیز بنے۔ سعودی عرب کی پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسٹی 1957ء میں ریاض میں قائم ہوئی۔آج سعودی عرب کا قومی سرکاری تعلیمی نظام 8 جماعت، 24 ہزار سے زائد اسکولوں اور ہزاروں کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے۔ اس نظام کے تحت ہر طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مملکت کے سرکاری میزانیہ کا 24 فیصد سے زائد تعلیم کے لیے مختص ہے۔ سعودی عرب میں طالب علموں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جن میںامریکا،کینیڈا،برطانیہ،آسٹریلیا،جاپان،ملائیشیاجرمنیاور دیگر ممالک شامل ہیں۔سعودی عرب کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی فہرستملک بھر میں ایک بہترین نقل وحمل کا نظام قائم ہے۔ سعودی عرب حکومت ماضی میں ضلحی نظام کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے کیوں کہ وہاں پیٹرول کی قیمت باقی دنیا کے مقابلے میں سب کم رہی ہے۔ فروری 2018ء میں اعلان کیا گیا کہ، سعودی عرب کی چار اہم موٹر ویز پر رفتار میں بہتری لائی جائے گی اور اسے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پہنچا دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں مکہ مدینہ،شاعز- دمام اور آخر میں ریاض طائف موٹر ویز شامل ہیں۔[15]ملک میں ایک ترقی یافتہ بحری نقل و حمل کا نظام ہے جو بنیادی طور پرپیٹروکیمیکلکی نقل و حمل کی سہولت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔سعودی پورٹ اتھارتیان بحری کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے، یہ ادارہ ملک میں بندرگاہوں کے انتظام کا ذمہ دار ہے۔ شاہراہوں و ہوائی سفر پر زیادہ انحصار کرنے کے نتیجے میں، سعودی عرب میں ریل نقل و حمل میں دوسرے ذرائع کی طرح سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ البتہ، اب ملک کے ریلوے کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔سعودی عرب کا سب سے مقبول کھیلفٹ بالہے۔ سعودی عربگرمائی اولمپکس،والی بال،باسکٹ بالاور دیگر کھیلوں میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس میں شرکت کرتا ہے۔ قومی فٹ بال مسلسل 4 مرتبہ ورلڈ کپ اور 6 مرتبہ ایشین کپ کے لیے کوالیفائی کرنے کے باعث عالمی سطح پرجانی جاتی ہے۔ سعودی عرب تین مرتبہ ایشین چمپئن رہ چکا ہے اور دو مرتبہ فائنل میں شکست کھاگیا۔ سعودی عرب کے چند معروف فٹ بال کھلاڑیوں میںماجد عبداللہ،سامي الجابراورياسر القحطانيشامل ہیں۔اسلامسعودی عرب کا سرکاری مذہب ہے اور اس کا قانون تمام شہریوں کے مسلمان ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے۔[16]اسلام کے سوا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو کھلے عام عبادت منع ہے۔[17][18]سعودی عرب شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی غیر مسلم کو اسلام قبول ضروری ہے۔[19]سعوی عرب کے نفاذشریعتاور اس کےانسانی حقوقمتعلقہ قوانین پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔[20][21]سعودی ثقافت کی بنی��د مذہباسلامہے۔ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ ہر روز دنیا بھر کے مسلمان 5 مرتبہ مکہ مکرمہ میں قائمخانہ کعبہکی جانب رخ کرکےنمازپڑھتے ہیں۔ سعودی عرب میں ہفتہ وار تعطیلجمعہکو ہوتی ہے۔قرآن مجیدسعودی عرب کا آئین اور شریعت اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔سعودی عرب کے معروف ترین لوک رسم قومی رقصارضیٰہے۔ تلواروں کے ساتھ کیا جانے والا یہ رقص قدیمبدویروایات کا حصہ ہے۔ حجاز کیالسہبالوک موسیقی کی جڑیں قرون وسطیٰ کے عرباندلسسے جاملتی ہیں۔سعودی عرب کا لباس باشندوں کے زمین، ماضی اور اسلام سے تعلق کا عکاس ہے۔ روایتی طور پر مرد ٹخنے تک کی لمبائی کی اونی یا سوتی قمیض پہنتے ہیں جوثوبکہلاتی ہے جس کے ساتھ سر پرشماغیاغطرہکا استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں کا لباس قبائلی موتیوں، سکوں، دھاتی دھاگوں اور دیگر اشیاء سے مزین ہوتا ہے۔ سعودی خواتین گھر سے باہرعبایہاورنقابکا استعمال کرتی ہیں۔اسلام میںشرابنوشی اورسورکے گوشت کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے اور اس پر سعودی عرب میں سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ سعودی روٹیخبزکا تقریباً تمام کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بھنی ہوئی بھیڑ، مرغی، فلافل، شورمہ اور فول بھی دیگر مشہور کھانوں میں شامل ہیں۔ روایتی قہوہ خانے ہر جگہ موجود ہیں تاہم اب ان کی جگہ بڑے کیفے لے رہے ہیں۔ بغیر دودھ کی سیاہ عربی چائے کا استعمال ہر جگہ کیا جاتا ہے۔سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہمظہراناورراس تنورہمیں قائم نجی آبادیوں میں تھیٹر قائم ہیں تاہم یہ فلموں کے نمائش کی بجائے مقامی موسیقی اور فنون پیش کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ حال ہی میں بچوں اور عورتوں کے لیے عربی کارٹون پیش کرنے کے لیے سینمائوں کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔حاشیہ"
+434,مکہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DA%A9%DB%81_%D9%85%DA%A9%D8%B1%D9%85%DB%81,"مکہیامکہ مکرمہ(عربی:مَكَّةُ الْمُكَرّمَةْ) تاریخی خطہحجازمیںسعودی عربکےصوبہ مکہکا دار الحکومت[5]اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ شہر کی آبادی 2004ء کے مطابق 12 لاکھ 94 ہزار 167 ہے۔ مکہجدہسے 73 کلومیٹر دوروادی فارانمیں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہبحیرہ احمرسے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔[6]یہ شہراسلامکا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقامبیت اللہیہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کاحجکرنا فرض ہے ۔.[7][8]انگریزیزبان میں Mecca کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں حکومتسعودی عربنے شہر کا انگریزی نام Mecca سے بدل کر Makkah کر دیا۔[9]معروف مؤرخابن خلدونکے مطابق مکہ پہلے بکہ کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم مؤرخین کے درمیان اس امر پر اختلاف ہے:ابراہیم النخعینے بکہ کو کعبہ اور مکہ کو شہر سے منسوب کیا جبکہامام ُزہریبھی اسی کے حامی ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بکہ میں استعمال ہونے والابدونوں آوازوں کے درمیان قربت کے باعث بعد ازاںممیں تبدیل ہو گیا۔ مکہ کو”ام القری“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔.[10]مسجد حرامکے اندر قائمخانۂ کعبہحضرت ابراہیماورحضرت اسماعیلعلیهم السلامنے تعمیر کیا۔ مؤرخین کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا مرکز تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ مکہ جنوبی عرب سے شمال میںرومیوبازنطینیسلطنتوں کے لیے زمینی راستے پر تھا اورہندوستانکے مصالحہ جاتبحیرہ عرباوربحر ہندکے راستے سے یہیں سے گزرتے تھے۔[11][12]کعبة اللهکی تعمیری تاریخ عہد ابراہیم اور اسماعیلعلیهم السلامسے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہر میں نبی آخر الزماںمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمپیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اور یہاں پ رہی مسجدحرامواقع ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :”اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے“ (آل عمران:96 )570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانرواابرہہساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے، اپنے سردارعبدالمطلبکی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ہزاروں پرندے جنہیں عام طور پر ابابیل کا نام دیا جاتا ہے چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے نمودار ہوئے اور انھوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکرمنیٰکے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالٰی کے حکم سے تباہ و برباد ہو گیا اللہ تعالٰی نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :""کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کی سازش و مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو انھیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے، پس انھیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا""(سورة الفیل)یہ وہی سال تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا۔ آپ پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اورتبلیغاسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کر گئے۔بالآخر 10رمضانالمبارک8ھبمطابق 630ء میں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے۔ مدینہ ہجرت کر کے جانے کے بعد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کوفتح مکہکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام اہلیان شہر کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔خلافتاسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جوکعبة اللهسے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔مکہ کبھی ملت اسلامیہ کادارالخلافہنہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دار الخلافہمدینہتھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔خلافت راشدہکے زمانے میں بھی مدینہ ہی دار الخلافہ رہا اور پھر حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں پہلےکوفہاور اس کے خاتمے کے بعددمشقاور بعد ازاںبغدادمنتقل ہو گیا۔مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہ��تے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔ سنہ 1926ء میںسعودیوںنے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کوسعودی عربمیں شامل کر لیا۔[13][14]جنوری، 2022 ء سے مکہ شہر کے مئیر صالح الترکی ہیں۔[15]جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم عمارات ختم ہو چکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔[16]مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے۔ حالیہ سالوں میں ماہذوالحجہمیں 20 سے 30 لاکھ مسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمانعمرےکی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔شہر مکہ میں بنیادی حیثیتبیت اللہکو حاصل ہے جومسجد حراممیں واقع ہے۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گردطوافکرتے ہیں،حجر اسودکو بوسہ دیتے ہیں اورزمزمکے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیںصفااورمروہکی پہاڑیوں کے درمیانسعیاورمنیٰمیںشیطان کو کنکریاں مارنے کا عملبھی کیا جاتا ہے۔ حج کے دورانمیدان عرفاتمیں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکےنمازادا کرتے ہیں۔غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔سعودی عرب کے دوسرے شہروں کے برعکس مکہ کا موسم سردیوں میں بھی نسبتاً گرم رہتا ہے۔ سردیوں میں رات کا درجہ حرارت 17سینٹی گریڈاور دوپہر کے وقت 25 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور دوپہر کو درجہ حرارت عام طور پر 40سینٹی گریڈسے اوپر چلا جاتا ہے جبکہ رات کو بھی 30 درجے تک رہتا ہے۔ نومبر سے جنوری کے درمیان عموماً ہلکی بارشیں ہوتی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+435,مسجد الحرام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%D8%AC%D8%AF_%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B1%D8%A7%D9%85,"بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاممسجد حرامجزیرہ نما عربکے شہرمکہمکرمہ میں واقع ہے جو سطح سمندر سے 330 میٹر کی بلندی پر واقع ہے، مسجد حرام کی تعمیری تاریخ عہد حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام سے تعلق رکھتی ہے۔ مسجد حرام کے درمیان میںبیت اللہواقع ہے جس کی طرف رخ کر کے دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ نماز ادا کرتے ہیں۔
+بیرونی و اندرونی مقام عبادات کو ملا کر مسجد حرام کا کل رقبہ 40 لاکھ 8 ہزار 20 مربع میٹر ہے اور حج کے دوران میں اس میں 40 لاکھ 20 ہزار افراد سماسکتے ہیں۔دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ مسجد حرام میں قائمخانہ کعبہکی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں جبکہ یہ دنیا کا واحد مقام ہے جس کا حج کیا جاتا ہے۔ یہ زمین پر قائم ہونے والی پہلیمسجدہے۔صحیح مسلممیں حضرت ابوذر سے حدیث مروی ہے کہ :
+ابوذر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوپوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مسجد حرام، میں نے کہا کہ اس کے بعد کون سی؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مسجد اقصیٰ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان میں کتنی مدت کا فرق ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : چالیس برسکعبہ جو مشرق و مغرب میں سب مسلمانوں کا قبلہ ہے مسجد حرام کے تقریباً وسط میں قائم ہے جس کی بلندی تقریباً 15 میٹر ہے اور وہ ایک چوکور حجرہ کی شکل میں بنایا گیا ہے جسےحضرت ابراہیمعلیہ السلام نے اللہ کے حکم سے بنایا۔
+اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :اورجبکہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کردی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اورمیرے گھر ��و طواف قیام رکوع کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا ( الحج آیت 26 )۔وہب بن منبہکا کہنا ہے : کعبہ کو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا پھر ان کے بعد عمالقہ نے اور پھر جرہم اور ان کے بعدقصی بن کلابنے بنایا اور پھر قریش کی تعمیر تومعروف ہی ہے۔قریشکعبہ کی تعمیر وادی کے پتھروں سے کرنے کے لیے ان پتھروں کو اپنے کندھوں پراٹھا کر لاتے اور بیت اللہ کی بلندی 20 ہاتھ رکھی، کعبہ کی تعمیر اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کے نزول کا درمیانی وقفہ 5 برس اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مکہ سے نکل کرمدینہ جانے اور کعبہ کی تعمیر کی درمیانی مدت 15 برس تھی۔جب قریشی قبائل اس کی بنیادیں اٹھا کرحجر اسودتک پہنچے تو ان میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ اسے کون اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھے گا حتی کہ لڑائی تک جا پہنچے تو وہ کہنے لگے کہ چلو ہم کسی کو اپنا منصف بنائیں۔ کسی نے مشورہ دیا کہ صبح جو سب سے پہلے یہاں داخل ہوگا وہ حجر اسود نصب کرے گا۔ اس پر سب کا اتفاق ہو گیا۔سب سے پہلے مسجد میں داخل ہونے والے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی تھے جو اس وقت نوجوان تھے اور انھوں نے اپنے کندھوں پر دھاری دار چادر ڈال رکھی تھی تو قریش نے انھیں اپنا فیصل مان لیا، تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کپڑا منگوا کر حجر اسود اس میں رکھا اور ہر قبیلے کے سردار کو چادر کے کونے پکڑ کر اٹھانے کا حکم دیا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجر اسود کواپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اس کی جگہ پر نصب کر دیا۔مسجد حرام کی پہلی چار دیواری عمر فاروق نے 639ء میں بنائی تھی جبکہ 777ء میں مہدی کے دور میں مسجد کی تاریخ کی اس وقت کی سب سے بڑی توسیع ہوئی تھی جس کے گرد 1576ء میں عثمانی ترکوں نے سفید گنبدوں والے برآمدے بنائے تھے جو اکیسویں صدی تک موجود تھے۔
+یہ چار دیواری بنانے کا سبب یہ تھا کہ لوگوں نے مکانات بنا کر بیت اللہ کو تنگ کر دیا اوراپنے گھروں کو اس کے بالکل قریب کر دیا توعمر بن خطابکہنے لگے :
+بلاشبہ کعبہ اللہ تعالٰی کا گھر ہے اورپھر گھر کے لیے صحن کا ہونا ضروری ہے تو عمر بن خطاب نے ان گھروں کوخرید کر منہدم کر کے اسے بیت اللہ میں شامل کر دیا۔
+تو اس طرح مسجد کے اردگرد قد سے چھوٹی دیوار بنا دی گئی جس پر چراغ رکھے جاتے تھے، اس کے بعدحضرت عثماننے بھی کچھ اورگھر خریدے جس کی قیمت بھی بہت زیاد ادا کی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عثمان ہے وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مسجد کی توسیع کرتے وقت ایک ستون والے مکان بنائے۔حضرت ابن زبیرنے مسجد کی توسیع نہیں بلکہ اس کی مرمت وغیرہ کروائی اوراس میں دروازے زیادہ کیے اور پتھر کے ستون بنائے اور اس کی تزئین و آرائش کی۔عبدالملک بن مرواننے مسجد کی چاردیواری اونچی کروائی اورسمندر کے راستے مصر سے ستون جدہ بھیجے اورجدہسے اسے ریڑھی پر رکھ کر مکہ مکرمہ پہنچایا اورحجاج بن یوسفکوحکم دیا کہ وہ اسے وہاں لگائے۔
+جبولید بن عبدالملکمسند پربیٹھا تو اس نے کعبہ کے تزئین میں اضافہ کیا اور پرنالہ اورچھت میں کچھ تبدیلی کی، اوراسی طرحمنصوراور اس کے بیٹےمہدینے بھی مسجد کی تزئین و آرائش کی۔
+آج کل مسجد کے کل 112 چھوٹے بڑے دروازے ہیں جن میں سب سے پہلا اور مرکزی دروازہسعودی عربکے پہلے فرمانرواشاہ عبدالعزیزکے نام پر موسوم ہے جس نے تیل کی دولت دریافت ہونے کے بعد حاصل ہونے والی مالی آسودگی اور ذرائع آمد و رفت مثلاً ہوائی جہازوں وغیرہ کی ایجاد سے ہونے والی آسانیوں سے حاجیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافے کے بعد مسجد حرام میں تعمیر و توسیع کا ارادہ کیا تھا۔
+اس کے انتقال کے بعد شاہ سعود کے دور میں مسجد کی تاریخ کی سب سے بڑی تعمیر شروع ہوئی اور سابق ترکی تعمیر کے برآمدوں کے پیچھے دو منزلہ عمارت بنی۔ اس تعمیر میں مختلف دروازے بنائے گئے تو مسجد کے جنوب کی طرف سے چار میں سے پہلا اور بڑا دروازہ بنایا گیا جس کا نامباب عبدالعزیزرکھا گیا۔ دوسرا بڑا دروازہباب الفتحہے جو شمال مشرق میں مروہ کے قریب ہے جہاں 12 جنوری 630ء کوفتح مکہکے دن اسلامی لشکر نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیر قیادت مسجد حرام میں داخل ہوا۔ تیسرا بڑا دروازہباب العمرہہے جو شمال مغرب کی طرف ہے اور جہاں سے نبی پاک صلی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپریل 629ء میں عمرے کی سعادت حاصل کی تھی جبکہ چوتھا بڑا دروازہباب فہدہے جو مغرب کی سمت ہے۔ ان کے علاوہ مختلف واقعات اور مقامات کی یاد میں مسجد کے دیگر دروازوں کے نام رکھے گئے ہیں۔
+شاہ فہد بن عبد العزیز کے زمانے میں تاریخ کی سب سے بڑی توسیع 1993ء میں مکمل ہوئی۔
+مسجد حرام میں کچھ دینی آثار بھی ہیں، جن میںمقام ابراہیموہ پتھر ہے جس پرابراہیم علیہ السلام کھڑے ہو کر بیت اللہ کی دیواریں تعمیر کرتے رہے اور اسی طرح مسجد میںزمزمکا کنواں بھی ہے جو ایسا چشمہ ہے جسے اللہ تعالٰی نےحضرت اسماعیلعلیہ السلام اور ان کی والدہہاجرہکے لیے نکالاتھا۔
+اور اسی طرح یہ بھی نہیں بھولا جا سکتا کہ اس میں حجر اسود اوررکن یمانیبھی ہے جوجنتکے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں جیسا کہامام ترمذیاور امام احمد نے حدیث بیان کی ہے :
+حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا :
+بلاشبہ حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہیں اللہ تعالٰی نے ان کے نور اور روشنی کو ختم کر دیا ہے اگراللہ تعالٰی اس روشنی کو ختم نہ کرتا تو مشرق و مغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا۔سنن ترمذیحدیث نمبر ( 804 )۔مسجد حرام سے ملحقصفااورمروہکی پہاڑیاں بھی ہیں، اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :
+صفا اورمروہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہیں اس لیے بیت اللہ کا حج وعمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں، اپنی خوشی سے بھلائی کرنے والوں کا اللہ تعالٰی قدر دان ہے اور انھیں خوب جاننے والا ہے (البقرہ 158)۔اورمسجد حرام کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالٰی نے اسے امن کا گہوارہ بنایا ہے اوراس میں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر ہے، فرمان باری تعالٰی ہے :
+ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ثواب اورامن وامان کی جگہ بنائی، تم مقام ابراہیم کوجائے نماز مقرر کرلو، ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھرکو طواف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو (البقرہ 125 )۔اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
+جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں مقام ابراہیم ہے اس میں جو آجائے امن والا ہو جاتا ہے، اللہ تعالٰی نے ان لوگوں پر جواس کی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھرکا حج فرض کر دیا ہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالٰی ( اس سے بلکہ ) تمام دنیا سے بے پروا ہے ( آل عمران 97 )اسلام کے ابتدائی زمانے میں مسجد آج کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھی۔عثمانیدور میں مسجد تقریباً موجودہ صحن کے رقبے تک پھیل گئی۔ سب سے عظیم توسیع سعودی دور حکومت میں ہوئی جس میں مسجد کو دور جدید کے معیارات کے مطابق بنایا گیا اور ایئر کنڈیشنر اور برقی سیڑھیاں بھی نصب کی گئیں۔ اس وقت مسجد کی تین سے زیادہ منزلیں ہیں جن میں ہزاروں نمازی عبادت کرسکتے ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّ��•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدارسانچہ:شیعہ اسلام میں مقدس ترین مقامات"
+436,مدینہ منورہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AF%DB%8C%D9%86%DB%81_%D9%85%D9%86%D9%88%D8%B1%DB%81,"The Prophetic Cityالمدينة النبويةپاک زمینبسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاممدینہیامدینہ منورہ(عربی:اَلْمَدِينَة اَلْمَنَوَّرَة)، مغربیسعودی عربکےحجازکے علاقے میںصوبہ مدینہکا دار الحکومت ہے۔اسلامکے مقدس ترین شہروں میں سے ایک ہے، 2022ء کی تخمینہ شدہ آبادی 1,411,599 ہے،[2]جو اسے ملک کا چوتھا سب سے زیادہ آبادی والا شہر بناتا ہے۔[3]آبادی کا تقریباً 58.5% سعودی شہری ہیں اور 41.5% غیر ملکی ہیں۔ ملک کے مغربی علاقوں میں صوبہ مدینہ کے مرکز میں واقع یہ شہر 589 مربع کلومیٹر (227 مربع میل) میں تقسیم ہے۔ جن میں سے 293 مربع کلومیٹر (113 مربع میل) شہر کا شہری علاقہ بناتا ہے، جبکہ باقی حصہ حجاز کے پہاڑوں، خالی وادیوں، زرعی جگہوں اور پرانے غیر فعال آتش فشاں کے زیر قبضہ ہے۔مدینہ کو عام طور پر "" اسلامی ثقافت اور تہذیب کا گہوارہ"" سمجھا جاتا ہے۔[4]اس شہر کو اسلامی روایت کے تین اہم شہروں میں دوسرا مقدس ترین سمجھا جاتا ہے، بالترتیبمکہ، مدینہ اوریروشلم۔المسجد النبوی(بعد میں مسجد نبوی) اسلام میں اہمیت کی حامل ہے اور آخری اسلامی پیغمبرمحمدکی تدفین کی جگہ بھی ہے، یہ مسجد 622 عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔ مسلمان عام طور پر اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ان کے روضہ پر جاتے ہیں جسے زیارت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسلام کی آمد سے پہلے اس شہر کا اصل نامیثرب(عربی: يَثْرِب) تھا اور قرآن میں پارہ 33 (الاحزاب، شعاع) میں اس نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس کا ناممدینہ النبی(پیغمبر کا شہر) رکھ دیا گیا اور بعد میں اسے آسان اور مختصر کرنے سے پہلےالمدینہ المنورہ(روشنی والا شہر) رکھ دیا گیا۔ اس کے جدید نام، مدینہ ( شہر)، جس سے اردو زبان میں ""شہر"" کا ہجے ماخوذ ہے۔ سعودی سڑک کے اشاروں پر مدینہ اور المدینہ المنورہ استعمال کرتے ہیں۔حضرت محمدکیمکہسے آمد سے پہلے یہ شہر 1500 سال سے زیادہ عرصے پہلے موجود تھا،[5]جسےہجرتکہتے ہیں۔ مدینہ حضرت محمد کی قیادت میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مسلم خلافت کا دار الحکومت تھا، جو اس کی کارروائیوں کی بنیاد اور اسلام کے گہوارہ کے طور پر کام کر رہا تھا۔حضرت محمدکی امت جو مدینہ کے شہریوں ( انصار ) پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی حضرت محمد کے ساتھ ہجرت کرنے والوں ( مہاجرین ) پر مشتمل ہے، جنہیں اجتماعی طور پر صحابہ کے نام سے جانا جاتا تھا، نے بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل کیا۔ مدینہ تین نمایاں مساجد کا گھر ہے، یعنیمسجد نبوی،مسجد قبااورمسجد القبلتین، مسجد قبا اسلام کی قدیم ترین مسجد ہے۔ قرآن کا ایک بڑا حصہ پہلے کی مکی سورتوں کے برعکس مدینہ میں نازل ہوا تھا۔[6][7]حجازکی طرح، مدینہ نے اپنے نسبتاً مختصر وجود میں طاقت کے متعدد تبادلے دیکھے ہیں۔ اس علاقے پر یہودی-عرب قبائل (پانچویں صدیعیسوی تک)،اوساورخزرج(اسلام کی آمد تک)،حضرت محمداورخلفائے راشدین(622-660)،اموی(660-749)،عباسیوںکے زیر انتظام رہے ہیں۔ (749–1254)،مصر کے مملوک(1254–1517)،عثمانی(1517–1805)،پہلی سعودی ریاست(1805–1811)،محمد علی پاشا(1811–1840)، دوسری بار عثمانی 1840–1918)،ہاشمیوںکے ماتحتمکہ کی شریفیت(1918–1925) اور آخر کار موجودہ سعودی مملکت (1925–موجودہ) کے ہاتھ میں ہے۔حجکے لیے آنے کے علاوہ، سیاح شہر کی دیگر نمایاں مساجد اور تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں جوجبل احد،البقیع قبرستاناور سات مساجد جیسی مذہبی اہمیت کی حامل ہیں۔ سعودی حکومت نے مدینہ اور مکہ میں متعدد تاریخی عمارتوں اور آثار قدیمہ کے مقامات کو بھی تباہ کیا ہے۔[8]اسلام کی آمد سے پہلے یہ شہر یثرب (عربی: يَثْرِب) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ نامقرآنکیسورہالاحزاب(پارہ) 33 کی آیت نمبر 13 میں بھی درج ہے۔ اور اس طرح شہر کا نامغزوہ خندقتک جانا جاتا ہے۔ اسلامی روایت کے مطابق، محمد نے بعد میں اس شہر کو اس نام سے پکارنے سے منع کیا۔ تبدیلی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ لغت میں یثرب کے معنی ""ملامت، فساد اور خرابی"" ہیں۔[9]جنگ کے کچھ عرصے بعد،حضرت محمدنے شہر کا نام بدل کر طیبہ (عربی: طَيْبَة) رکھا۔ مدینہ منورہ کو طابہ بھی کہا جاتا تھا۔ طابہ اور طیب ہم معنی الفاظ ہیں ،، لفظی معنیپاککے ہے۔ ایک حدیث میں بھی ذکر ملتا ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:""اللہ تعالیٰ نے اس شہر کا نام طابہ رکھا ہے۔""[10][11]مدینہ: مدینہ عربی لفظ ہے جس کا لفظی مطلبشہرہے۔[11]مدینہ کئی ممتاز مقامات اور نشانیوں کا گھر ہے، جن میں سے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا روضہ اور زیادہ تر مساجد ہیں جنہیں تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ ان میں مذکورہ بالا تین مساجد شامل ہیں،مسجد الفتح(جسے مسجد الخندق بھی کہا جاتا ہے)، سات مساجد،جنت البقیعجہاں بہت سی مشہور اسلامی شخصیات کی قبریں واقع ہیں۔[14]براہ راستمسجد نبویکے جنوب مشرق میں، احد پہاڑ، احد کی معرکہ آرائی کا مقام[15][16][17]اورشاہ فہد گلوریئس قرآن پرنٹنگ کمپلیکسہیں[18]جہاں جدید ترین قرآنی مصحف چھاپے جاتے ہیں۔[19]مدینہ ہجرت سے کم از کم 1500 سال پہلے یا تقریباً 9ویں صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔ چوتھی صدی عیسوی تک، عرب قبائل نےیمنسے تجاوز کرنا شروع کر دیا اور تین ممتاز یہودی قبائل تھے جوحضرت محمدکے زمانے کے آس پاس شہر میں آباد تھے:بنو قینقاع،بنو قریظہاوربنو نضیر۔[20]ابن خردادبہ نے بعد میں بتایا کہ حجاز میں سلطنت فارس کے تسلط کے دوران، بنو قریظہ نے فارسی شاہ کے لیے ٹیکس وصول کرنے والوں کے طور پر کام کیا۔[21]دو نئےعرب قبائل،بنو اوساورخزرجکی آمد کے بعد صورت حال بدل گئی، جنہیں بنو خزرج بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے تو یہ قبائل اس علاقے پر حکمرانی کرنے والے یہودی قبائل کے ساتھ مل گئے لیکن بعد میں بغاوت کر کے خود مختار ہو گئے۔[22]پانچویں صدیکے آخر میں،یہودیحکمرانوں سے شہر کا کنٹرول دو عرب قبائلبنو اوساوربنو خزرجنے چھین لیا۔ یہودیوں کا قتل عام کیا، اور بالآخر مدینہ پر غلبہ حاصل کر لیا۔ بعد میں بنو اوس اور بنو خزرج ایک دوسرے کے مخالف ہو گئے اور 622ء میںحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ تک، وہ 120 سال تک لڑتے رہے اور قسم کھا کر دشمن بن گئے۔بنو نضیراوربنو قریظہاوس کے ساتھ اتحادی تھے جب کہبنو قینقاعنے خزرج کا ساتھ دیا۔ انھوں نے کل چار جنگیں لڑیں۔ ان کی آخری اور سب سے خونریز جنگ بعث کی لڑائی تھی، جوحضرت محمدکی آمد سے چند سال پہلے لڑی گئی تھی۔ لڑائی کا نتیجہ بے نتیجہ نکلا اور جھگڑا جاری رہا۔ خزرج کے ایک سردارعبداللہ بن ابینے جنگ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ عدل اور امن کے لیے شہرت رکھتا تھا۔ وہحضرت محمدکی آمد سے پہلے شہر کے سب سے معزز باشندے تھے۔ جاری تنازع کو حل کرنے کے لیے، یثرب کے متعلقہ باشندوں نے مکہ سے باہر ایک مقامعقبہمیں حضرت محمد سے خفیہ ملاقات کی، انھیں اور ان کے مومنین کے چھوٹے گروہ کو شہر آنے کی دعوت دی، جہاں حضرت محمد گروہوں کے درمیان ثالث کی خدمات انجام دے سکتے تھے۔ اپنے عقیدے پر آزادانہ عمل کریں۔[23]622ء میں،حضرت محمداور ایک اندازے کے مطابق 70 مکہ کے مہاجرین نے یثرب کی طرف ہجرت کی،[24]یہ ایک ایسا واقعہ جس نے شہر کے مذہبی اور سیاسی منظر نامے کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ اوس اور خزرج قبائل کے درمیان دیرینہ دشمنی ختم ہو گئی کیونکہ دونوں عرب قبائل میں سے بہت سے اور کچھ مقامی یہودیوں نے مذہباسلامکو قبول کر لیا۔ حضرت محمد، جو اپنی پردادی کے ذریعے خزرج سے منسلک تھے، شہر کے رہنما کے طور پر متفق ہوئے تھے۔ یثرب کے مقامی باشندے جنھوں نے اسلام قبول کیا تھا، انصار (""محافظ"" یا ""مددگار"") کہلاتے تھے۔[حوالہ درکار]علاقے کی تمام جماعتوں نے مدینہ کے آئین پر اتفاق کیا، حضرت محمد کی قیادت میں تمام فریقوں کو باہمی تعاون کا عہد کیا۔ یمنی یہودی ذرائع میں،حضرت محمداور یہودی رعایا کے درمیان ایک معاہدہ تیار کیا گیا تھا، جسے کتاب دمت النبی کے نام سے جانا جاتا ہے، جو 3 ہجری (625) میں لکھی گئی تھی اور جس نے عرب میں رہنے والے یہودیوں کو سبت کا دن منانے کی آزادی دی تھی۔ انھیں اپنے سرپرستوں کو سالانہجزیہدینا تھا۔[25][26]غزوہ بدر17 رمضان2 ہجریبمطابق13 مارچ624ءکومحمد بن عبد اللہکی قیادت میںمسلمانوںاورابو جہلکی قیادت میںمکہکے قبیلہقریشاور دیگر عربوں کے درمیاں میں مدینہ میں جنوب مغرب میںبدرنامی مقام پر ہوا۔ اسےغزوہ بدر کبریبھی کہتے ہیں۔[27][28]قریشمکہ نے مدینہ کی اس اسلامی ریاست پر حملہ کرنے کا اس لیے بھی فیصلہ کیا کہ ان کا وہ قافلۂ تجارت جومکہسےشامکی طرف گیا ہوا تھا، مسلمانوں کی زد میں تھا۔[29]اس قافلے کے ہمراہ اہل مکہ کے تقریباً پچاس ہزار دینار تھے۔[30]اس کا اندازہ ہمیں اس واقعہ سے ہوتا ہے کہبنو اوسکے مشہور سردارسعد بن معاذجب طواف کعبہ کے لیے گئے توابوجہلنےخانہ کعبہکے دروازے پر انھیں روکا اور کہا تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ہم تمھیں اطمینان کے ساتھ مکے میںطوافکرنے دیں؟ اگر تمامیہ بن خلفکے مہمان نہ ہوتے تو یہاں سے زندہ نہیں جا سکتے تھے۔ یہ سن کرسعد بن معاذنے جواب دیا کہ خدا کی قسم! اگر تم نے مجھے روکا تو میں شام میں تمھاری تجارت منقطع کر دوں گا۔[31]چنانچہ 17 رمضان سنہ 2ھ کو انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں مسلمانوں نے اپنے جوش ایمانی کے ساتھ خدائی غیبی نصرت سے تین سو تیرہ کی نفر کے ساتھ ایک ہزار نفر کے لشکرِ کفار کو شکست دی۔[32]سنہ 625ھ میں،[34][35]ابو سفیان بن حرب، مکہ کے ایک سردار نے، جس نے بعد میں اسلام قبول کیا، مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف مکہ کی فوج کی قیادت کی۔ ان کے مقابلے میں حضرت محمد نے ایک اندازے کے مطابق 1,000 فوجیوں کا لشکر تیار کیا، لیکن جیسے ہی فوج میدان جنگ کے قریب پہنچی،عبداللہ بن ابیکے ماتحت 300 آدمی پیچھے ہٹ گئے، جس سے مسلم فوج کے حوصلے کو شدید دھچکا لگا۔ حضرت محمد نے اپنی اب کی 700 مضبوط فوج کے ساتھ مارچ جاری رکھا اور 50 تیر اندازوں کے ایک گروپ کو ایک چھوٹی پہاڑی پر چڑھنے کا حکم دیا، جسے اب جبل الرمّہ (تیراندازوں کی پہاڑی) کہا جاتا ہے تاکہ مکہ کے گھڑسواروں پر نظر رکھی جا سکے اور عقبی حصے کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ مسلمانوں نے ثابت قدمی سے کفار مکہ کا مقابلہ کیا جس سے مکہ والوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔ سامنے والے تیر اندازوں سے مزید دور دھکیل دیا گیا اور جنگ کو مسلمانوں کی فتح دیکھ کر پہاڑی والے تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم ایک چھوٹی جماعت پیچھے رہ گئی۔ باقی لوگوں سے کہتے رہے کہ حضرت محمد کے حکم کی نافرمانی نہ کریں۔[حوالہ درکار]چوٹی کو خالی دیکھ کر کہ تیر انداز پہاڑی سے اترنے لگے ہیں،خالد بن ولیدنے اپنے ساتھیوں کو پہاڑی پر گھات لگانے کا حکم دیا۔ انھوں نے پہاڑی پر کھڑے چند فوجیوں کو شکست دے کر مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی۔ جس میں مسلمانوں کو بھاری نقصان پہنچا اور حضرت محمد بھی زخمی ہوئے۔[36]بنی نضیر فلسطین کے باشندے تھے۔132ءمیں رومیوں کی سخت روی کی وجہ سے یہودیوں کے چند قبائل جن میں بنی نضیر اوربنو قریظہشامل تھےفلسطینکو چھوڑ کریثربمیں آکر آباد ہو گئے۔ بنی نضیر مدینہ میں قباء کے قریب مشرقی جانب آکر آباد ہو گئے تھے۔ اس وقت مدینہ میں عرب قبائل میں سے بنی اوس اور بنی خزرج ممتاز قبائل تھے یہ دونوں یہودی قبائل بنی نضیر کے خزرج اور بنو قریظہ اوس کے حلیف بن گئے۔ اور بنی اوس اور بنی خزرج کی باہمی لڑائیوں میں اول الذکر کا ساتھ دیتے رہے۔ جب نبی کریم ہجرت کرکےمدینہ منورہتشریف فرما ہوئے تو آپ نے ہر دو عرب قبائل اور مہاجرین کو ملا کر ایک برادری بنائی اور مسلم معاشرہ اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا۔ لیکن یہودی قبائل اور خاص کر بنی نضیر ہمیشہ منافقانہ رویہ اختیار کیے رہے۔ یہاں تک کہ 4 ھ میں انھوں نے رسول کریم کے قتل کی سازش کی جس کا بروقت آپ کو علم ہو گیا۔ جس پر آپ نےربیع الاول4ھمیں انھیں الٹی میٹم دے دیا۔ کہ پندرہ دن کے اندر اندر یہاں سے نکل جائیں۔ لیکن جب انھوں نے لڑائی کی ٹھان لی تو مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر لیا جس پر وہ ملک شام اور خیبر کی طرف نکل گئے۔ بنی نضیر کو یہ گھمنڈ تھا کہ یہودی اور عرب قبائل کی مدد سے وہ مسلمانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ لیکن خدائی طاقت کے سامنے بہت جلد ان کو ہار مان کر اپنی بستی کو چھوڑ کر چلے جانا پڑا[37]یہودیوں کا ایک قبیلہ جومدینہمنورہ کے نواح میں آباد تھا۔ یہ لوگ بار بار مسلمانوں سے عہد باندھتے اور پھر توڑ دیتے ایک موقع پر انھوں نے حضور کے قتل کی سازش بھی کی لیکن بروقت مطلع ہو جانے پر آپ صاف بچ گئے۔بنو نضیرکی وعدہ خلافیوں اور سازشوں سے تنگ آکر آپ نے ان کے قلعے کا محاصرہ کر لیا جو پندرہ دن تک جاری رہا۔ بالآخر 4ھ میں بنو نضیر نے صلح کے لیے التجا کی۔ قرار پایا کہ وہ مدینہ خالی کر دیں۔ اور جو مال اسباب اٹھا کر لے جا سکتے ہوں لے جائیں۔ بنو نضیر یہاں سے اٹھ کرخیبرمیں جا بسے۔ انہی لوگوں نےقریشکو ایک بار پھر مدینے پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا۔ جس میں قریش کے علاوہ دوسرے قبیلے بھی شریک ہوئے۔[38]627ء میںابو سفیاننے مدینہ کی طرف ایک اور فوج کی قیادت کی۔[39][40]اپنے ارادوں کو جانتے ہوئے،حضرت محمدنے شہر کے شمالی حصے کے دفاع کے لیے تجاویز طلب کیں، کیونکہ مشرق اور مغرب آتش فشاں چٹانوں سے محفوظ تھے اور جنوب میں کھجوروں کا باغ تھا۔سلمان فارسی، ایک فارسی صحابی جو ساسانی جنگی حربوں سے واقف تھے، نے شہر کی حفاظت کے لیے خندق کھودنے کا مشورہ دیا اور حضرت محمد نے اسے قبول کر لیا۔ اس کے بعد کے محاصرے کو خندق کی لڑائی اور کنفیڈریٹس کی لڑائی کے نام سے جانا گیا۔ ایک ماہ کے طویل محاصرے اور مختلف جھڑپوں کے بعد، سخت سردی کی وجہ سے مکہ والے پھر سے پیچھے ہٹ گئے۔[حوالہ درکار]محاصرے کے دوران ابو سفیان نےبنو قریظہکے یہودی قبیلے سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، تاکہ مسلمان محافظوں پر حملہ کیا جائے اور محافظوں کو مؤثر طریقے سے گھیر لیا جائے۔ تاہم اس کا مسلمانوں کو پتہ چل گیا اور ناکام بنا دیا۔ یہ مدینہ کے آئین کی خلاف ورزی تھی اور مکہ کے انخلاء کے بعد حضرت محمد نے فوراً قریظہ کے خلاف مارچ کیا اور ان کے مضبوط قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ یہودی افواج نے بالآخر ہتھیار ڈال دیے۔ اوس کے کچھ ارکان نے اپنے پرانے اتحادیوں کی طرف سے بات چیت کی اور حضرت محمد ان کے ایک سردار جس نے اسلام قبول کر لیا تھا،سعد بن معاذکو جج مقرر کرنے پر رضامند ہو گئے۔ سعد نے یہودی قانون کے مطابق فیصلہ دیا کہ قبیلے کے تمام مرد ارکان کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے جیسا کہ پرانے عہد نامہ میں غداری کے لیے کتاب استثنیٰ میں بیان کیا گیا تھا۔ اس کارروائی کا تصور ایک دفاعی اقدام کے طور پر کیا گیا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مسلم کمیونٹی مدینہ میں اپنی بقاء کے لیے پراعتماد ہو سکے۔[41]ہجرتکے بعد کے دس سالوں میں، مدینہ میں ایک مقام مقرر کیا جہاں پر حضرت محمد اور مسلم فوج نے حملے کی تیاری کی اور یہیں سے انھوں نےمکہکی طرف سفر شروع کیا، 630ء میں بغیر جنگ کے مکہ میں داخل ہوئے۔ حضرت محمد کے مکہ سے قبائلی تعلق کے باوجود، اسلام میں مکہ کی اہمیت بڑھ گئی، اسلامی دنیا کے مرکز کے طور پرکعبہکی اہمیت،نمازکی سمت (قبلہ) کے طور پر اور اسلامیحجکے طور پر۔ مدینہ کی طرف واپس آگئے جو کچھ سالوں تک اسلام کا سب سے اہم شہر اور ابتدائیخلافت راشدہکی کارروائیوں کا مرکز رہا۔[26]اس شہر کا نام مدینۃ النبی پیغمبر کا شہر) حضرت محمد کی نبوت کے اعزاز میں رکھا گیا ہے اور اسی شہر میں ان کی تدفین ہوئی۔[42]پہلے تین خلفاءابوبکر صدیق،عمر فاروقاورعثمان غنیکے دور میں، مدینہ تیزی سے بڑھتی ہوئی مسلم سلطنت کا دار الحکومت تھا۔عثمان بن عفانکے دور میں، تیسرے خلیفہ، مشرکوں کی ایک جماعت نے، ان کے بعض سیاسی فیصلوں سے ناراض ہو کر، 656ء میں مدینہ پر حملہ کر کے انھیں مسجد میں شہید کر دیا۔ چوتھے خلیفہ حضرت علی نے خلافت کا دار الخلافہ مدینہ سےعراقمیںکوفہمیں تبدیل کر دیا کیونکہ وہ زیادہ تزویراتی مقام پر تھے۔ اس کے بعد سے، مدینہ کی اہمیت کم ہوتی گئی، سیاسی طاقت سے زیادہ مذہبی اہمیت کی جگہ بن گئی۔ حضرت علی کے دور حکومت میں اور اس کے بعد مدینہ نے بہت کم معاشی ترقی دیکھی۔[حوالہ درکار]تقریباً آٹھ سال کی ہجرت کے بعد مسلمان فاتح کے طور پرمکہواپس آنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکنفتح مکہاور اسلامی ریاست کے تحت مکہ میں داخل ہونے کے باوجود، پیغمبر محمد نے مدینہ کو اپنا صدر مقام بنایا، اور یہ نئی اسلامی ریاست کا دار الحکومت بن گیا۔ رسول اللہ مدینہ میں رہے یہاں تک کہ ربیع الاول سنہ 11 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی۔[43]مدینہ منورہ کیمسجد نبویکی حدود جنوب میں کوہ عیر، شمال میں جبل ثور، مشرق میں الحرہ الشرقیہ اور مغرب میں الحرہ الغربیہ کے درمیان کے علاقے میں واقع ہیں۔[44]حرم کی حدود سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں شکار کرنا، درخت کاٹنا اور غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔[45]حضرت علیکے بیٹےحسننےمعاویہ اول،ابو سفیانکے بیٹے کو اقتدار سونپنے کے بعد، معاویہ نے حضرت علی کے دار الحکومتکوفہکی طرف کوچ کیا اور مقامیعراقیوںکی بیعت حاصل کی۔ یہ اموی خلافت کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ معاویہ کے گورنروں نے مدینہ کا خاص خیال رکھا اور عین زرقا کے چشمے کو ایک منصوبے کے ساتھ کھودا جس میں آبپاشی کے مقاصد کے لیے زیر زمین نالیوں کی تخلیق شامل تھی۔ کچھ واڑیوں میں ڈیم بنائے گئے اور اس کے نتیجے میں زرعی عروج نے معیشت کو مضبوط کیا۔[حوالہ درکار]679ء میں دوسرے فتنے کے دوران بے امنی کے دور کے بعد،حسین بن علیکوکربلامیں شہید کر دیا گیا اور یزید نے اگلے تین سال تک غیر منظم کنٹرول سنبھال لیا۔ 682ء میں عبد اللہ بن الزبیر نے خود کو مکہ کا خلیفہ قرار دیا اور مدینہ کے لوگوں نے ان کی بیعت کی۔ اس کی وجہ سے شہر کے لیے معاشی بدحالی کا آٹھ سال طویل عرصہ گذر گیا۔ 692ء میں، امویوں نے دوبارہ اقتدار حاصل کیا اور مدینہ نے اپنی بڑی اقتصادی ترقی کے دوسرے دور کا تجربہ کیا۔ تجارت میں بہتری آئی اور زیادہ لوگ شہر میں منتقل ہوئے۔وادی العقیقکے کنارے اب ہریالی سے سرسبز تھے۔ امن اور خوش حالی کا یہ دورعمر بن عبدالعزیزکے دور حکومت میں آیا، جنہیں بہت سے لوگ راشدین کا پانچواں خلیفہ شمار کرتے ہیں۔[26]عبد الباسط اے بدر نے اپنی کتاب مدینہ منورہ، شہر: تاریخ اور نشانات میں اس دور کو تین الگ الگ مراحل میں تقسیم کیا ہے:[26]بدر 749ء اور 974ء کے درمیانی عرصے کو امن اور سیاسی انتشار کے درمیان دھکیلنے کے طور پر بیان کرتا ہے، جب کہ مدینہ عباسیوں کی بیعت کرتا رہا۔ 974ء سے 1151ء تک اہل مدینہ شریف فاطمیوں کے ساتھ رابطے میں رہے، حالانکہ دونوں کے درمیان سیاسی موقف ہنگامہ خیز رہا اور عام بیعت سے زیادہ نہ تھا۔ 1151ء کے بعد سے، مدینہ نےزنگیوںکی بیعت کی اورامیر نورالدین زنگینے زائرین کے زیر استعمال سڑکوں کی دیکھ بھال کی اور پانی کے ذرائع اور گلیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے فنڈ فراہم کیا۔ جب اس نے 1162ء میں مدینہ کا دورہ کیا تو اس نے ایک نئی دیوار کی تعمیر کا حکم دیا جو شہر کی پرانی دیوار کے باہر نئے شہری علاقوں کو گھیرے ہوئے تھی۔ زنگی کی جانشینایوبی خاندانکے بانیصلاح الدین ایوبینے کی، جس نے مدینہ کے شریف قاسم بن مہنہ کی حمایت کی اور حجاج کی طرف سے ادا کیے جانے والے ٹیکسوں میں کمی کرتے ہوئے شہر کی ترقی کے لیے بہت زیادہ فنڈ فراہم کیا۔ اس نے انبدوںکو بھی مالی امداد فراہم کی جو ان راستوں پر رہتے تھے جو حجاج کرام اپنے سفر میں ان کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ بعد میں آنے والے عباسیوں نے بھی شہر کے اخراجات پورے کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب کہ مدینہ اس عرصے کے دوران عباسیوں کے ساتھ باضابطہ طور پر اتحادی تھا، انھوں نے زینگیوں اور ایوبیوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے۔ تاریخی شہر نے ایک بیضوی شکل بنائی، جس کے چاروں طرف ایک مضبوط دیوار تھی، 30 تا 40 فٹ (9.1 تا 12.2 میٹر) اونچا، اس دور سے ملنا اور ٹاوروں سے جڑا ہوا تھا۔ اس کے چار دروازوں میں سے، باب السلام (""امن کا دروازہ"")، اس کی خوبصورتی کے لیے مشہور تھا۔ شہر کی فصیلوں سے پرے، مغرب اور جنوب میں نواحی علاقے تھے جن میں کم مکانات، صحن اور باغات تھے۔[46]عباسیوں کے ساتھ ایک وحشیانہ طویل کشمکش کے بعد، قاہرہ کی مملوک سلطنت نے مصری گورنری پر قبضہ کر لیا اور مؤثر طریقے سے مدینہ کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ 1256ء میں، مدینہ کو حرات راحتآتش فشاںکے علاقے سے لاوے کا خطرہ تھا لیکن لاوا شمال کی طرف مڑنے کے بعد جلنے سے بچ گیا۔[26][47][48]مملوک کے دور حکومت میںمسجد نبویکو دو بار آگ لگ گئی۔ ایک بار 1256ء میں جب ذخیرہ میں آگ لگ گئی جس سے پوری مسجد جل گئی اور دوسری بار 1481ء میں جب مسجد پر آسمانی بجلی گر گئی۔ یہ دور مدینہ میں علمی سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ بھی ہوا،ابن فرحون،الحافظ زین الدین العراقی،ال سخاویاور دیگر جیسے علما شہر میں آباد ہوئے۔گنبد خضریٰکی تعمیر 1297ء میں مملوک سلطانالمنصور قلاون الصالحینے کی۔[حوالہ درکار]1517ء میں، پہلاعثمانی دورسلیم اولکی مملوک مصر کی فتح سے شروع ہوا۔ اس نے مدینہ کو اپنے علاقے میں شامل کر لیا اور انھوں نے مدینہ کو پیسہ اور امداد کی بارش کرنے کی روایت کو جاری رکھا۔ 1532ء میں،سلیمان اولنے شہر کے ارد گرد ایک محفوظ قلعہ تعمیر کیا اور شہر کی حفاظت کے لیے ایک عثمانی بٹالین سے مسلح ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا۔ یہ وہ دور بھی ہے جس میں مسجد نبوی کی بہت سی جدید خصوصیات تعمیر کی گئیں حالانکہ ابھی تک اسے سبز رنگ نہیں دیا گیا تھا۔[49]ان مضافات میں دیواریں اور دروازے بھی تھے۔ عثمانی سلاطین نےمسجد نبویمیں گہری دلچسپی لی اور اسے اپنی ترجیحات کے مطابق بار بار ڈیزائن کیا۔جیسے ہی عثمانیوں کا اپنے علاقے پر قبضہ ڈھیلا پڑا، اہلیان مدینہ نے 1805ء میں پہلیسعودی ریاستکے بانیسعود بن عبدالعزیزسے اتحاد کا وعدہ کیا، جنھوں نے جلد ہی شہر پر قبضہ کر لیا۔ 1811ء میں، عثمانی کمانڈر اور مصر کے ولیمحمد علی پاشانے اپنے دو بیٹوں میں سے ہر ایک کے ماتحت دو فوجوں کو مدینہ پر قبضہ کرنے کا حکم دیا، پہلی فوج، بڑے توسن پاشا کے ماتحت، مدینہ پر قبضہ کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن دوسری، ابراہیم پاشا کی کمان میں ایک بڑی فوج، ایک شدید مزاحمتی تحریک سے لڑنے کے بعد کامیاب ہو گئی۔[26]اپنے سعودی دشمنوں کو شکست دینے کے بعد،محمد علی پاشانے مدینہ کی حکمرانی سنبھال لی اور اگرچہ اس نے باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان نہیں کیا، لیکن اس کی حکمرانی نے نیم خود مختار انداز اختیار کیا۔ محمد علی کے بیٹے، ٹوسن اور ابراہیم شہر کے حکمران بن گئے۔ ابراہیم نے شہر کی دیواروں اور مسجد نبوی کی تزئین و آرائش کی۔ اس نے ضرورت مندوں میں خوراک اور خیرات تقسیم کرنے کے لیے ایک عظیم الشان رزق تقسیم کرنے والا مرکز (تقیہ) قائم کیا اور مدینہ امن اور سلامتی کا دور گزارا۔ 1840ء میں، محمد علی نے اپنی فوجوں کو شہر سے باہر منتقل کر دیا اور باضابطہ طور پر شہر کو وسطی عثمانی کمانڈ کے حوالے کر دیا۔[26]1844ء میںمحمد علی پاشاکی رخصتی کے چار سال بعد، داؤد پاشا کو عثمانی سلطان کے ماتحت مدینہ کے گورنر کا عہدہ دیا گیا۔ داؤد سلطانعبدالمجید اولکے حکم پر مسجد نبوی کی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا گیا تھا۔ جبعبدالحمید ثانینے اقتدار سنبھالا تو اس نے کئی جدید عجائبات کے ساتھ مدینہ کو صحرا سے باہر کھڑا کر دیا، جن میں ریڈیو کمیونیکیشن اسٹیشن، مسجد نبوی اور اس کے قریبی علاقوں کے لیےبجلی گھر، مدینہ اورقسطنطنیہکے درمیان ٹیلی گراف لائن اورحجاز ریلوےجودمشقسے مدینہ تک چلتی ہے جس کی منصوبہ بندی مکہ تک توسیع ہے۔ ایک دہائی کے اندر شہر کی آبادی چھلانگ لگا کر 80,000 تک پہنچ گئی۔ اس وقت کے آس پاس، مدینہ ایک نئے خطرے کا شکار ہونا شروع ہو گیا، جنوب میںمکہ کی ہاشمی شریفیت۔پہلی جنگ عظیمکے دوران اور اس کے بعد مدینہ نے اپنی تاریخ کا سب سے طویل محاصرہ دیکھا۔[26]مکہ کے شریفحسین ابن علینےجنگ عظیم اولکے وسط میں 6 جون 1916ء کو مدینہ پر حملہ کیا۔ چار دن بعد، حسین نے مدینہ کو 3 سالہ تلخ محاصرے میں اپنے قبضے میں لے لیا، جس کے دوران لوگوں کو خوراک کی قلت، وسیع بیماری اور بڑے پیمانے پر ہجرت کا سامنا کرنا پڑا۔ مدینہ کے گورنرفخری پاشانے 10 جون 1916ء سےمدینہ کے محاصرےکے دوران سختی کے ساتھ قائم رکھا اور ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اورمدروس کی جنگ بندیکے بعد مزید 72 دن تک رہا، یہاں تک کہ اسے اپنے ہی آدمیوں نے گرفتار کر لیا اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ شریفیت 10 جنوری 1919ء کو حسین نے بڑی حد تکانگریزوںکے ساتھ اتحاد کی وجہ سے جنگ جیتی۔[26][50]اس کے بعد ہونے والی لوٹ مار اور تباہی کی توقع میں، فخری پاشا نے خفیہ طور پرحضرت محمدکے مقدس آثار عثمانی دار الحکومتاستنبولبھیجے۔[51]1920ء تک، انگریزوں نے مدینہ کو ""مکہ سے زیادہ خود کفیل"" قرار دیا۔[52]عظیم جنگ کے بعد، مکہ کے شریف،سید حسین ابن علیکو ایک آزادحجازکا بادشاہ قرار دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد، مدینہ کے لوگوں نے 1924ء میں خفیہ طور پرابن سعودکے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور ان کے بیٹے شہزادہمحمد بن عبد العزیزنے 5 دسمبر 1925ء کو حجاز کی سعودی فتح کے ایک حصے کے طور پر مدینہ کو فتح کیا، جس نے سعودی عرب کی جدید مملکت میں پورےحجازکو شامل کرنے کا راستہ بنا۔[53][54][55]مملکت سعودی عربنے شہر کی توسیع اور سابقہ مقامات کو مسمار کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کی جواسلامی اصولوںاوراسلامی قانونکی خلاف ورزی کرتی ہیں جیسےبقیع میں مقبرے۔ آج کل، یہ شہر زیادہ تر صرف مذہبی اہمیت رکھتا ہے اور مکہ کی طرح،مسجد نبویکے ارد گرد بہت سے ہوٹلوں کو بنایا گیا، جومسجد الحرامکے برعکس، زیر زمین پارکنگ سے لیس ہے۔ پرانے شہر کی دیواریں تباہ کر دی گئی ہیں اور ان کی جگہ ان تین رنگ روڈ کو بنایا گیا ہے جو آج مدینہ کو گھیرے ہوئے ہیں، جن کا نام شاہ فیصل روڈ، شاہ عبد اللہ روڈ اور شاہ خالد روڈ رکھا گیا ہے۔ مکہ کے چار رنگ روڑ کے مقابلے مدینہ کے رنگ روڈوں پر مجموعی طور پر کم ٹریفک نظر آتی ہے۔[56][57][58][59]ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ، جس کا نامشہزادہ محمد بن عبدالعزیز ہوائی اڈاہے، اب شہر کی خدمت کرتا ہے اور ہائی وے 340 پر واقع ہے، جسے مقامی طور پر اولڈ قاسم روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ شہر ابسعودی عربکی دو بڑی شاہراہوں کے سنگم پر واقع ہے، شاہراہ 60، جسے قاسم – مدینہ ہائی وے کے نام سے جانا جاتا ہے، اور شاہراہ 15 جو شہر کو جنوب میںمکہاورتبوکسے ملاتی ہے۔ شمال میں اور آگے، جسے محمد کے سفر کے بعد الحجرہ ہائی وے یا الحجرہ روڈ کہا جاتا ہے۔[حوالہ درکار]پرانا عثمانی ریلوے کا نظام ان کے علاقے سے نکلنے کے بعد بند کر دیا گیا تھا اور پرانے ریلوے سٹیشن کو اب ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس شہر نے حال ہی میں اپنے اورمکہکے درمیان نقل و حمل کا ایک اور طریقہ دیکھا ہے،حرمین تیز رفتار ریلوےلائن دونوں شہروں کوشاہ عبداللہ اقتصادی شہرکے قریبرابغسے ذریعے جوڑتی ہے۔شاہ عبد العزیز بین الاقوامی ہوائی اڈااورجدہ3 گھنٹے سے کم کی مسافت پر ہیں۔[حوالہ درکار]اگرچہ پرانے شہر کا مقدس مرکز غیر مسلموں کے لیے محدود ہے، لیکن خود مدینہ کاحرمعلاقہمکہسے بہت چھوٹا ہے اور مدینہ میں حال ہی میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ دیگر قومیتوں کے تارکین وطن کارکنان، جن میں عام طور پرجنوبی ایشیالوگ اورمجلس تعاون برائے خلیجی عرب ممالککے دوسرے ممالک کے لوگ ہیں، تقریباً تمام تاریخی شہر سعودی دور میں منہدم ہو چکے ہیں۔ دوبارہ تعمیر شدہ شہر وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئیمسجد نبویپر مرکوز ہے۔[حوالہ درکار]المدينہ علاقہسعودی عربکےمغربی علاقہ جاتمیں سے ایک ہے، جس کادار الحکومتمدینہ منورہ ہے۔ شہر کے نواحی علاقہ جات مندرجہ ذیل ہیں:[حوالہ درکار]سعودی عربمیں اکثر لوگوہابیتکو اپنے مذہبی نظریے کے طور پر برقرار رکھتا ہے، جو تاریخی یا مذہبی مقامات کی کسی بھی تعظیم کے خلاف ہے اس خوف سے کہ یہشرککو جنم دے سکتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، سعودی حکمرانی کے تحت، مدینہ کو کافی تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا۔[8][60]ناقدین نے اسے ""سعودی توڑ پھوڑ"" قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ 50 سالوں میں مدینہ اور مکہ میںحضرت محمد، ان کے خ��ندان یا ساتھیوں سے منسلک 300 تاریخی مقامات کو منہدم کیا گیا تھا۔[61]اس کی سب سے مشہور مثالجنت البقیع کا انہدامہے۔[8]مدینہحجازکے علاقے میں واقع ہے جو صحرائے نفود اوربحیرہ احمرکے درمیان 200 کلومیٹر (120 میل) چوڑی پٹی ہے۔[26]ریاضسے تقریباً 720 کلومیٹر (450 میل) شمال مغرب میں واقع ہے جو سعودی صحرا کے مرکز میں ہے، یہ شہر سعودی عرب کے مغربی ساحل سے 250 کلومیٹر (160 میل) دور ہے اور سطح سمندر سے اوپر تقریباً 620 میٹر (2,030 فٹ) کی بلندی پر ہے۔ یہ 39º36' طول البلد مشرق اور 24º28' عرض البلد شمال پر واقع ہے۔ یہ تقریباً 589 مربع کلومیٹر (227 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے۔ شہر کو بارہ اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں سے 7 کو شہری اضلاع کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے، جبکہ دیگر 5 کو مضافاتی کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے۔[حوالہ درکار]حجاز کے علاقے کے بیشتر شہروں کی طرح مدینہ بھی بہت بلندی پر واقع ہے۔ مکہ سے تقریباً تین گنا بلند یہ شہر سطح سمندر سے اوپر 620 میٹر (2,030 فٹ) پر واقع ہے۔ کوہ احد مدینہ کی بلند ترین چوٹی ہے اور اس کی اونچائی 1,077 میٹر (3,533 فٹ) ہے۔[حوالہ درکار]مدینہ ایک صحرائینخلستانہے جوحجاز کے پہاڑوںاورآتش فشاںپہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ مدینہ کے آس پاس کی مٹی زیادہ تر بیسالٹ پر مشتمل ہے، جب کہ پہاڑیاں، خاص طور پر شہر کے جنوب میں نمایاں ہیں، آتش فشاں راکھ ہیں جو پیلوزوک دور کے پہلے ارضیاتی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ کئی مشہور پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، جن میں خاص طور پر جبل الحجاج (مغرب میں حجاج کا پہاڑ)، شمال مغرب میں سلع پہاڑ، جنوب میں جبل العیر یا کاروان پہاڑ اورجبل احدشامل ہیں۔ شمال کی طرف یہ شہر وادی العقل،وادی العقیقاور وادی الحمد کی تین وادیوں کے سہ رخی مقام پر ایک ہموار پہاڑی سطح مرتفع پر واقع ہے، اس وجہ سے، خشک ویران پہاڑی علاقے کے درمیان چند سبز علاقے ہیں۔[26]مدینہ کی مٹی گاد، گاد اور بجری کی ریت سے بنی ہے، شہر کے جنوب میں پرانے چٹانوں کی موجودگی کی وجہ سے ریت نہیں ہے، جو عام کٹاؤ کی وجہ سے گاد میں بدل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کے جنوب کو اس کے شمال کی نسبت زراعت کے لیے سب سے مؤثر علاقہ بنا دیا گیا۔ شہر کے قلب میں زیادہ تر شہری علاقہ بھاری ساخت والی مٹی پر واقع ہے۔ مندرجہ ذیل جدول مدینہ میں مٹی کی اقسام کو ظاہر کرتا ہے۔[62]مدینہ میں بہت سے پہاڑ موجود ہیں، اور مدینہ کے سب سے نمایاں پہاڑ درج ذیل ہیں:مدینہ میں بہت سی مشہور وادیاں شامل ہیں جن میں سے نمایاں وادیاں درج ذیل ہیں:کوپن آب و ہوا کی درجہ بندی کے تحت، مدینہ ایک گرم صحرائی آب و ہوا والے علاقے (BWh) میں آتا ہے۔ گرمیاں انتہائی گرم اور خشک ہوتی ہیں اور دن کے وقت درجہ حرارت کا اوسط تقریباً 43 سینٹی گریڈ (109 فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ اور راتیں تقریباً 29 سینٹی گریڈ (84 فارن ہائیٹ) ہوتی ہیں۔ جون اور ستمبر کے درمیان 45 سینٹی گریڈ (113 فارن ہائیٹ) سے زیادہ درجہ حرارت غیر معمولی نہیں ہے۔ سردیاں ہلکی ہوتی ہیں، رات میں درجہ حرارت 8 سینٹی گریڈ (46 فارن ہائیٹ) سے دن میں 25 سینٹی گریڈ (77 فارن ہائیٹ) تک ہوتا ہے۔ بہت کم بارش ہوتی ہے، جو تقریباً مکمل طور پر نومبر اور مئی کے درمیان ہوتی ہے۔ گرمیوں میں، ہوا شمال مغربی ہوتی ہے، جبکہ موسم بہار اور سردیوں میں، جنوب مغربی ہوتی ہے۔ایک مذہبی مقام کے طور پر مدینہ کی اہمیت دو مساجد،مسجد قباءاورمسجد نبویکی موجودگی سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ دونوں مساجدمحمد بن عبد اللہنے خود بنوائی تھیں۔ اسلامی صحیفے م��ینہ کے تقدس پر زور دیتے ہیں۔[74]مدینہ کا ذکرقرآنمیں متعدد بار آیا ہے۔ دو مثالیںسورہ توبہ(آیت 101) اورسورہ الحشر(آیت 8) ہیں۔مدنی سورتیںعام طور پر اپنے مکی ہم منصبوں سے لمبی ہوتی ہیں اور تعداد میں بھی بڑی ہیں۔محمد بن اسماعیل بخارینےصحیح بخاریمیں درج کیا ہے کہانس بن مالکنےمحمد بن عبد اللہکا قول نقل کیا ہے:مدینہ اس جگہ سے اس تک حرم ہے۔ اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ بدعت کی جائے اور نہ اس میں کوئی گناہ کیا جائے اور جو کوئی اس میں بدعت پیدا کرے یا گناہ (برے کام) کرے تو اس پر خدا، فرشتوں اور سب کی لعنت ہو گی۔مدینہ میں بہت سی مساجد شامل ہیں، جن میں سے کچھ آثار قدیمہ اور قدیم ہیں اور کچھ جدید ہیں اور شہر کی چند نمایاں مساجد درج ذیل ہیں:مسجد نبوی: یہ مسجد دنیا کی سب سے بڑیمساجدمیں سے ایک ہے اوراسلامکا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ تاریخ میں مسجد نبوی میں کئی بار توسیع کی گئی،خلفائے راشدیناور اموی ریاست،عباسیپھرعثمانیاور آخر کار سعودی ریاست کے دور میں توسیع ہوئیں، سعودی دور میں اس کی سب سے بڑی توسیع1994ءمیں ہوئی تھی۔ مسجد نبویجزیرہ نما عربمیں پہلی جگہ ہے جسے1327 ہجریبمطابق1909ءمیں برقی چراغوں کے استعمال سے روشن کیا گیا تھا۔[75]عمر بن عبد العزیزکی طرف سے91 ہجریمیں توسیع کے بعد،عائشہ کا کمرہمسجد کے ساتھ شامل کیا گیا۔[76](جو اس وقت ""محترم پیغمبر کے حجرے"" کے نام سے جانا جاتا ہے، جو مسجد کے جنوب مشرقی کونے میں واقع ہے) جس میں نبی اکرمحضرت محمد،حضرت ابوبکراورحضرت عمرکو دفن کیا گیا تھا،[77]اور اس پرسبز گنبدبنایا گیا تھا، یہ مسجد نبوی کے سب سے نمایاں نشانیوں میں سے ایک ہے۔ مسجد نبوی نے سیاسی اور سماجی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا، کیونکہ یہ ایک سماجی مرکز، عدالت اور مذہبی درسگاہ کے طور پر کام کرتی تھی۔ مسجد نبوی مدینہ منورہ مرکز میں واقع ہے، جس کے ارد گرد بہت سے ہوٹل اور پرانے بازار ہیں۔ جو لوگ یہاںحجیاعمرہکرتے ہیں وہ نبیکریم صلی اللہ علیہ وسلمکی قبر کی بھی زیارت کرتے ہیں۔[78]مسجد قباء:تاریخ اسلام کی پہلیمسجد[79]جو مدینہ منورہ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بستیقباءمیں واقع ہے۔محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلماورحضرت ابوبکر8ربیع الاول13 نبوی بروز دو شنبہ بمطابق 23ستمبر622ءکویثربکی اس بیرونی بستی میں پہنچے اور 14 روز یہاں قیام کیا اور اسی دوران اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ان کے بعد مسلمانوں نے گذشتہ ادوار میں مسجد کے فن تعمیر میں دلچسپی لی، چنانچہعثمان بن عفاننے اس کی تجدید کی، پھرولید بن عبدالملککے دور میںعمر بن عبدالعزیزاور ان کے بعد کے خلفاء نے اس کی توسیع جاری رکھی اور اس کی تعمیر کی تجدید کی۔سلطان قایتبائینے اس کی توسیع کی، پھر عثمانی سلطانمحمود دوماور ان کے بیٹے سلطانعبدالمجید اولنے اس کی پیروی کی، یہاں تک کہ آخری توسیع سعودی ریاست کے دور میں ہوئی۔[80]مسجد قبلتين:مدینہ منورہ کے محلہ بنو سلمہ میں واقع[81]ایک مسجد جہاں 2ھ میں نماز کے دورانتحویل قبلہکا حکم آیا اور حضرتمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلماورصحابہ کرامنے نماز کے دوران اپنا رخبیت المقدسسےکعبےکی جانب پھیرا۔ کیونکہ ایک نماز دو مختلف قبلوں کی جانب رخ کر کے پڑھی گئی اس لیے اس مسجد کو ""مسجد قبلتین""یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ مسجدبئر رومہکے قریب واقع ہے۔ مسجد کا داخلی حصہ قبہ دار ہے جبکہ خارجی حصے کی محراب شمال کی طرف ہے۔عثمانیسلطانسلیمان اعظمنے1543ءمیں اس کی تعمیر نو کرائی۔اس کی م��جودہ تعمیر و توسیعسعودیشاہفہد بن عبدالعزیزکے دور میں مکمل ہوئی۔ اس نئی عمارت کی دو منزلیں ہیں جبکہمیناروںاورگنبدوںکی تعداد بھی دو، دو ہے۔ مسجد کا مجموعی رقبہ 3920 مربعمیٹرہے۔ حالیہ تعمیر نو پر 3 کروڑ 97 لاکھ ریال خرچ ہوئے۔سات مساجد:یہ مدینہ آنے والوں کی طرف سے دیکھنے والے اہم ترین مقامات میں سے ایک ہے، یہ چھوٹی چھوٹی مساجد کا ایک گروپ ہے، جن کی اصل تعداد سات نہیں بلکہ چھ ہے، لیکن یہ اس نام سے مشہور ہوئی، کچھ لوگوں نےمسجد قبلتینکو شامل کرنے کی وجہ سے۔ یہ مساجد، کیونکہ جو بھی اس کی زیارت کرتا ہے وہ بھی اسی سفر میں اس مسجد کی زیارت کرتا ہے، اس لیے اس کی تعداد سات ہو جاتی ہے۔[82]یہ چھوٹی مساجدکوہ سلعکے مغربی جانب اس خندق کے ایک حصے پر واقع ہیں جسے مسلمانوں نے مدینہ کے دفاع کے لیےرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کھودا تھا جبقریشاور ان کے اتحادی قبائل نے پانچویں سال وہاں پیش قدمی کی تھی۔ ہجرہ۔ ایک گنبد جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا گیا تھا۔مسجد فتح:یہ سات مساجد میں سے سب سے بڑی مسجد ہے جو کوہ سلع کی مغربی ڈھلوان پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنائی گئی تھی۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا تھا کہجنگ الاحزابکے دوران یہرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے لیے عبادت گاہ تھی۔مسجد سجدہ:اسے ابوزر غفاری مسجد بھی کہا جاتا ہے اور یہمسجد نبویکے شمالی جانب واقع ہے، اس کا نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس میںرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں طویل سجدہ کیا تھا۔[83]مسجد الغمامہ:یہ وہ مقام ہے جہاںنبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں عید کی نماز ادا کی تھی۔[84]یہ وہ آخری جگہ تھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 631ء میں عید کی نماز پڑھی تھی۔مسجد نبویکے قریب ہونے کے باوجود وہاں نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ اسے مدینہ کی آثار قدیمہ اور تاریخی مساجد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔مسجد الانباریہ:، جسے حمیدیہ مسجد بھی کہا جاتا ہے، مدینہ میں عثمانی ترکوں کی تعمیر کردہ ایک مسجد ہے، جو آج کل سعودی عرب کا حصہ ہے۔ اس کا نام الانباریہ گیٹ کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کے آگے مسجد واقع تھی۔مسجد ذوالحلیفہ: یہ مسجدوادی العقیقکے مغربی جانب اس علاقے میں واقع ہے جسے ""ابیار علی"" کہا جاتا ہے۔ کچھ اسے ابیار علی مسجد - یا علی کا کنواں کہتے ہیں اور یہمسجد نبویسے تقریباً چودہ کلومیٹر دور ہے۔یہاں مدینے والے احرام باندھتے ہیں۔جنت البقیع: یہ پیغمبر اسلام کے زمانے سے مدینہ کے لوگوں کے لیے مرکزی قبرستان ہے[85]اور یہ مسجد نبوی کی موجودہ عمارت کے قریب ترین تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ اس کی دیوار کے جنوب مشرقی حصے کی طرف واقع ہے۔ پڑوسی زمینیں تھیں۔ اس کے ساتھ منسلک کیا گیا اور اس کے گرد سنگ مرمر سے ڈھکی ایک نئی اونچی دیوار بنائی گئی۔ قبرستان آج بھی استعمال میں ہے۔اس کا موجودہ رقبہ ایک لاکھ اسی ہزار مربع میٹر ہے۔[85]اس میں شہر کے ہزاروں لوگوں کی باقیات ہیں اور وہ لوگ جو ہمسایہ اور زائرین تھے جو وہاں فوت ہوئے تھے یا جن کی میتیں گذشتہ زمانوں میں منتقل کی گئی تھیں، خاص طور پر معزز صحابہ کی، کہا جاتا ہے کہ اس میں دس ہزار صحابہ کو دفن کیا گیا تھا۔ اس میں ذوالنورینعثمان بن عفانبھی شامل ہیں، جو خلفائے راشدین میں سے تیسرے اور اہل ایمان کی مائیں، پیغمبر اسلام کی ازواج مطہرات، خدیجہ اور میمونہ کے علاوہ، ان کی بیٹیفاطمہ الزہرا، ان کے بیٹےابراہیم، ان کے چچاعباس بن عبد المطلب، ان کی خالہ صفیہ، ان کی اہلیہعائشہ بنت ابوبکر، ان کے نواسے الحسن ابن علیکے علاوہعلی ابن حسین،محمد باقراورجعفر صادقکو بھی وہیں دفن کیا گیا۔[86]2018ء تک، ریکارڈ شدہ آبادی 2,188,138 تھی، جس کی شرح نمو 2.32% تھی۔[87]دنیا بھر سےمسلمانوںکی منزل ہونے کے ناطے، مدینہ میں حکومت کے سخت قوانین کے باوجودحجیاعمرہکرنے کے بعد غیر قانونی ہجرت دیکھنے میں آتی ہے۔ تاہم، مرکزی حج کمشنر شہزادہ خالد بن فیصل نے بتایا کہ 2018ء میں غیر قانونی قیام کرنے والے زائرین کی تعداد میں 29 فیصد کمی آئی ہے۔[88]سعودی عرب کے بیشتر شہروں کی طرح، مدینہ منورہ میں بھی مسلم آبادی کی اکثریت ہے۔مختلف مکاتب فکر کےسنی(حنفی،مالکی،شافعیاورحنبلی) کی اکثریت ہے، جب کہ مدینہ اور اس کے آس پاس ایک نمایاںشیعہاقلیت ہے، جیسے نخاویلا۔مکہاور مدینہ دو ایسے شہر ہیں جہاں غیر مسلموں کی رہائش پر پابندی ہے۔مکہکی طرح، مدینہ ایک ثقافتی ماحول کی نمائش کرتا ہے، ایک ایسا شہر جہاں کئیقومیتوںاورثقافتوںکے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ اس سے صرفشاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکسکوقرآنکی طباعت میں مدد ملتی ہے۔ اسے1985ءمیں قائم کیا گیا، دنیا میںقرآنکا سب سے بڑا ناشر، یہ تقریباً 1100 افراد کو ملازمت دیتا ہے اور کئی زبانوں میں 361 مختلف اشاعتیں شائع کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہر سال دنیا بھر سے 400,000 سے زیادہ لوگ اس کمپلیکس کا دورہ کرتے ہیں۔[89][90]سہولت کے دورے کے اختتام پر ہر آنے والے کو قرآن کا مفت نسخہ تحفے میں دیا جاتا ہے۔[90]المدینہ عجائب گھر میں شہر کے ثقافتی اور تاریخی ورثے سے متعلق کئی نمائشیں ہیں جن میں مختلف آثار قدیمہ کے ذخیرے، بصری گیلریاں اور پرانے شہر کی نایاب تصاویر ہیں۔[91]اس میںحجاز ریلوے عجائب گھربھی شامل ہے۔ دار المدینہ عجائب گھر2011ءمیں کھولا گیا اور یہ مدینہ کی تاریخ سے پردہ اٹھاتا ہے جو شہر کے تعمیراتی اور شہری ورثے میں مہارت رکھتا ہے۔[92]محمد بن عبد اللہکے زمانے سے کوئی آثار قدیمہ یا فن تعمیر نہیں ہے، سوائے چند پتھروں کے دفاعی میناروں کے باقیات کے[93]قرآنکی نمائش میں قرآن کے نایاب نسخے رکھے گئے ہیں، اس کے ساتھ دیگر نمائشیں جومسجد نبویکو گھیرے ہوئے ہیں[94]مدینہ آرٹس سینٹر، جو2018ءمیں قائم کیا گیا تھا اور ایم ایم ڈی اے کے ثقافتی ونگ کے زیر انتظام ہے، جدید اور عصری فنون پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اس مرکز کا مقصد فنون لطیفہ کو بڑھانا اور معاشرے کی فنکارانہ اور ثقافتی تحریک کو تقویت دینا، تمام گروہوں اور عمروں کے فنکاروں کو بااختیار بنانا ہے۔ فروری2020ءتکسماجی فاصلہ گیریکے اقدامات اورکرفیوکے نفاذ سے پہلے، اس نے ہفتہ وار ورکشاپس اور مباحثوں کے ساتھ ساتھ 13 سے زیادہ گروپ اور سولو آرٹ گیلریوں کا انعقاد کیا۔ یہ مرکز کنگ فہد پارک میںمسجد قباءکے قریب 8,200 مربع میٹر (88,000 مربع فٹ) کے رقبے پر واقع ہے۔[95]2018ءمیں ایم ایم ڈی اے نےعربی خطاطیاور مشہور عربی خطاطوں کو منانے کے لیے ایک سالانہ فورم، مدینہ فورم آف عربی کیلیگرافی کا آغاز کیا۔ اس تقریب میں عربی خطاطی کے بارے میں گفتگو، اور 10 ممالک کے 50 عربی خطاطوں کے کام کو دکھانے کے لیے ایک گیلری شامل ہے۔ دار القلم مرکز برائے عربی خطاطی حجاز ریلوے میوزیم کے بالکل سامنے مسجد نبوی کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اپریل2020ءمیں یہ اعلان کیا گیا کہ اس مرکز کا نام بدل کر شہزادہ محمد بن سلمان سنٹر فار عربی کیلیگرافی رکھ دیا گیا، اور وزارت ثقافت کے زیر اہتمام ""عربی خطاطی کے سال"" کے ساتھ مل کر عربی خطاطوں کے لیے ایک بین الاقوامی مرکز میں اپ گریڈ کیا گیا۔[96]ایم ایم ڈی اے کلچرل ونگ کی جانب سے شروع کیے گئے دیگر پروجیکٹوں میں مدینہ فورم آف لائیو اسکلپچر کا انعقاد قبا اسکوائر پر کیا گیا جس میں 11 ممالک کے 16مجسمہ سازشامل ہیں۔ اس فورم کا مقصدمجسمہ سازیکو منانا ہے کیونکہ یہ ایک قدیم فن ہے، اور نوجوان فنکاروں کو اس فن کی طرف راغب کرنا ہے۔[97]تاریخی طور پر مدینہ کی معیشتکھجورکی فروخت اور دیگر زرعی سرگرمیوں پر منحصر تھی۔ 1920ء تک، اس علاقے میں دیگرسبزیوںکے ساتھ کھجور کی 139 اقسام کاشت کی جا رہی تھیں۔[98]مذہبی سیاحت مدینہ کی معیشت میں ایک بڑا حصہ ادا کرتی ہے، اسلام کا دوسرا مقدس ترین شہر ہونے کی وجہ سے اور بہت سے تاریخی اسلامی مقامات کا حامل ہے، یہ 7 لاکھوں سے زیادہ سالانہ زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے جوحجکے موسم میں حج اور سال بھرعمرہکرنے آتے ہیں۔[99]مدینہ کے دو صنعتی علاقے ہیں، بڑا ایک 2003ء میں قائم کیا گیا تھا جس کا کل رقبہ 10,000,000 مربع میٹر تھا اور اس کا انتظام سعودی اتھارٹی برائے صنعتی شہروں اور ٹیکنالوجی زونز (MODON) کے زیر انتظام تھا۔ یہ 50 پر واقع ہے۔ یہ پرنس محمد بن عبد العزیز بین الاقوامی ہوائی اڈے سے 50 کلومیٹر اور یانبو کمرشل پورٹ سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس میں 236 فیکٹریاں ہیں، جو پیٹرولیم مصنوعات، تعمیراتی مواد، کھانے پینے کی مصنوعات اور بہت سی دوسری مصنوعات تیار کرتی ہیں۔[100]نالج اکنامک سٹی (KEC) سعودی عرب کی مشترکہ اسٹاک کمپنی ہے جس کی بنیاد 2010ء میں رکھی گئی تھی۔ یہ رئیل اسٹیٹ کی ترقی اور علم پر مبنی صنعتوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ یہ منصوبہ زیر تکمیل ہے اور توقع ہے کہ اس کی تکمیل سے مدینہ میں ملازمتوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔[101]معرفت الاقتصاد شہر، مدینہایکسعودی عربکی مشترکہ اسٹاک کمپنی ہے جس کی بنیاد2010ءمیں رکھی گئی تھی۔ یہ رئیل اسٹیٹ کی ترقی اور علم پر مبنی صنعتوں پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔[102]یہ منصوبہ زیر تکمیل ہے اور اس کی تکمیل سے مدینہ میں ملازمتوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ متوقع ہے۔[103]وزارت تعلیمالمدینہ صوبہمیں تعلیم کا گورننگ باڈی ہے اور یہ پورے صوبے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے بالترتیب 724 اور 773 سرکاری اسکول چلاتی ہے۔[104]طیبہ ہائی اسکول سعودی عرب کے سب سے قابل ذکر اسکولوں میں سے ایک ہے۔ 1942ء میں قائم کیا گیا، یہ اس وقت ملک کا دوسرا سب سے بڑا اسکول تھا۔ سعودی وزراء اور سرکاری افسران اس ہائی اسکول سے گریجویشن کر چکے ہیں۔[105]جامعہ طیبہایک عوامی یونیورسٹی ہے جو صوبے کے رہائشیوں کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہے، اس کے 28 کالج ہیں جن میں سے 16 مدینہ میں ہیں۔ یہ 89 تعلیمی پروگرام پیش کرتا ہے اور 2020ء تک اس کی تعداد 69210 طلبہ کی ہے۔[106]اسلامی یونیورسٹی، جو 1961ء میں قائم ہوئی، خطے کا سب سے قدیم اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہے، جس میں تقریباً 22000 طلبہ داخلہ لیتے ہیں۔ یہشریعت،قرآن، اصول دین،حدیثاورعربی زبانمیں میجرز پیش کرتا ہے۔[107]یونیورسٹیبیچلر آف آرٹسکی ڈگریاں اورماسٹرزاورڈاکٹریٹکی ڈگریاں بھی پیش کرتی ہے۔ داخلہ مسلمانوں کے لیے اسکالرشپ پروگراموں کی بنیاد پر کھلا ہے جو رہائش اور رہنے کے اخراجات فراہم کرتے ہیں۔ 2012ء میں، یونیورسٹی نے کالج آف سائنس قائم کر کے اپنے پروگراموں کو بڑھایا، جوانجینئرنگاورکمپیوٹر سائنسکے بڑے شعبے پیش کرتا ہے۔[108]المدینہ ک��لج آف ٹیکنالوجی، جوٹی وی ٹی سی(TVTC) کے زیر انتظام ہے،الیکٹریکل انجینئرنگ،مکینیکل انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنسز اور الیکٹرانک سائنسز سمیت متعدد ڈگری پروگرام پیش کرتا ہے۔[109][110]مدینہ کی پرنس مقرن یونیورسٹی،[111]عرب اوپن یونیورسٹی[112]اور الریان کالج شامل ہیں۔[113]مدینہ میںشہزادہ محمد بن عبدالعزیز ہوائی اڈاہے جو ہائی وے 340 کے قریب واقع ہے۔ یہ گھریلو پروازیں ہینڈل کرتا ہے، جبکہ اس نے مشرق وسطیٰ میں علاقائی مقامات کے لیے بین الاقوامی خدمات کا شیڈول بنایا ہے۔ یہسعودی عربکا چوتھا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے جہاں پر 2018ء میں 8,144,790 مسافروں نے سفر کیا۔[114]10 ستمبر 2015ء کو انجینئرنگ نیوز ریکارڈ کے تیسرے سالانہ گلوبل بہترین منصوبے مقابلے میں ہوائی اڈے کے منصوبہ کو دنیا کا بہترین قرار دیا گیا تھا۔ ہوائی اڈے نے (MENA) خطے میں توانائی اور ماحولیاتی ڈیزائن میں پہلی قیادت (LEED) گولڈ سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا۔[115]ہوائی اڈے پرحجکے دوران مسافروں کی زیادہ تعداد آتی ہے۔2015ء میں، ایم ایم ڈی اے (MMDA) نے دارب السنۃ (سنت پاتھ) منصوبے کا اعلان کیا، جس کا مقصدمسجد قباکومسجد نبویسے جوڑنے والی 3 کلومیٹر (1.9 میل) قباء روڈ کو تیار اور تبدیل کرنا ہے۔ پیدل چلنے والوں کے لیے پوری سڑک کو ہموار کرنا اور زائرین کو خدمات کی سہولیات فراہم کرنا۔ اس منصوبے کا مقصد سنت کو بحال کرنا بھی ہے جہاںحضرت محمدہر ہفتہ کی دوپہر کو اپنے گھر (مسجد نبوی) سے قبا تک پیدل چلتے تھے۔[116]مدینہ شہر دو اہم ترین سعودی شاہراہوں ہائی وے 60 اور ہائی وے 15 کے سنگم پر واقع ہے۔ ہائی وے 15 مدینہ کو جنوب میںمکہسے اور شمال میںتبوکاوراردنکو جوڑتی ہے۔ ہائی وے 60 شہر کوینبعسے جوڑتی ہے، جو مغرب میںبحیرہ احمرپر واقع ایک بندرگاہی شہر اور مشرق میںالقصیمہے۔ شہر کو تین رنگ روڈ فراہم کیے جاتے ہیں: شاہ فیصل روڈ، ایک 5 کلومیٹر کا رنگ روڈ جو مسجد نبوی اور شہر کے مرکز کے علاقے کو گھیرے ہوئے ہے، شاہ عبد اللہ روڈ، ایک 27 کلومیٹر سڑک جو زیادہ تر شہری مدینہ کو گھیرتی ہے اور شاہ خالد روڈ ہے۔ سب سے بڑی رنگ روڈ جو پورے شہر اور کچھ دیہی علاقوں کو 60 کلومیٹر سڑکوں کے ساتھ گھیرے ہوئے ہے۔مدینہ میں شاہراہوں کا ایک نیٹ ورک ہے جو اسے مملکت کے باقی شہروں اور علاقوں سے جوڑتا ہے۔[117]مدینہ میں بس ٹرانسپورٹ کا نظام المدینہ ریجن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 2012ء میں قائم کیا تھا اور اسے سپٹکو (SAPTCO) چلاتا ہے۔ نئے قائم کردہ بس سسٹم میں 10 لائنیں شامل ہیں جو شہر کے مختلف علاقوں کومسجد نبویاور شہر کے مرکز سے جوڑتی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 20,000 مسافروں کو خدمات فراہم کرتی ہیں۔[118][119]2017ء میں، محکمے نے مدینہ سیاحتی بس سروس کا آغاز کیا۔ کھلی ٹاپ بسیں مسافروں کو دن بھر دو لائنوں اور 11 مقامات کے ساتھ سیر و تفریح کے سفر پر لے جاتی ہیں، جن میں مسجد نبوی،مسجد قبااورمسجد قبلتینشامل ہیں اور 8 مختلف زبانوں کے ساتھ آڈیو ٹور گائیڈنس پیش کرتی ہیں۔ 2019ء کے آخر تک، محکمے نے 15بی آر ٹیلائنوں کے ساتھ بس نیٹ ورک کو بڑھانے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا۔ یہ منصوبہ 2023ء میں مکمل ہونا تھا۔ 2015ء میں، محکمے نے مدینہ میں پبلک ٹرانسپورٹیشن ماسٹر پلان میں توسیع کے لیے تین لائنوں پر مشتملمدینہ میٹرومنصوبے کا اعلان کیا۔[120]حجاز ریلوےایکنیرو گیج(1,050 ملی میٹر/3 فٹ5 11⁄32ٹریک گیج) کی ریلوے لائن تھی، جودمشقسےمدینہتک جاتی تھی۔[121]اصل منصوبہ میں لائن کومکہتک جانا تھا لیکنپہلی جنگ عظیمکے شروع ہون�� کی وجہ سے یہمدینہ منورہسے آگے نہ جا سکی۔ یہ عثمانی ریلوے نیٹ ورک کا ایک حصہ تھی جس کا مقصداستنبولسےدمشقکی لائن کو آگے تک پھیلانا تھا۔
+منصوبہ کا مقصدسلطنت عثمانیہسے حجاج کرام کو سفری سہولت فراہم کرنا تھا۔
+ایک اور اہم وجہ یہ تھی کہ دور دراز عرب صوبوں کی اقتصادی اور سیاسی انضمام کو عثمانی ریاست میں بہتر بنانا اور فوجی افواج کی نقل و حمل کو سہولت فراہم کرنا تھا۔[122]سعودی حکومت نے تاریخی عثمانی ریلوے کو بند کر دیا اور مدینہ منورہ سمیت ریلوے سٹیشنوں کو عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا گیا۔حرمین تیز رفتار ریلوے(HHR) 2018ء میں عمل میں آئی، جو مدینہ اور مکہ کو ملاتی ہے اور تین اسٹیشنوں سے گزرتی ہے:جدہ،شاہ عبد العزیز بین الاقوامی ہوائی اڈااورشاہ عبداللہ اقتصادی شہر۔[123]یہ 444 کلومیٹر (276 میل) کے ساتھ ساتھ 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے اور اس کی سالانہ گنجائش 60 ملین مسافروں کی ہے۔[124]"
+438,مدینہ منورہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AF%DB%8C%D9%86%DB%81_%D9%85%D9%86%D9%88%D8%B1%DB%81,"The Prophetic Cityالمدينة النبويةپاک زمینبسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاممدینہیامدینہ منورہ(عربی:اَلْمَدِينَة اَلْمَنَوَّرَة)، مغربیسعودی عربکےحجازکے علاقے میںصوبہ مدینہکا دار الحکومت ہے۔اسلامکے مقدس ترین شہروں میں سے ایک ہے، 2022ء کی تخمینہ شدہ آبادی 1,411,599 ہے،[2]جو اسے ملک کا چوتھا سب سے زیادہ آبادی والا شہر بناتا ہے۔[3]آبادی کا تقریباً 58.5% سعودی شہری ہیں اور 41.5% غیر ملکی ہیں۔ ملک کے مغربی علاقوں میں صوبہ مدینہ کے مرکز میں واقع یہ شہر 589 مربع کلومیٹر (227 مربع میل) میں تقسیم ہے۔ جن میں سے 293 مربع کلومیٹر (113 مربع میل) شہر کا شہری علاقہ بناتا ہے، جبکہ باقی حصہ حجاز کے پہاڑوں، خالی وادیوں، زرعی جگہوں اور پرانے غیر فعال آتش فشاں کے زیر قبضہ ہے۔مدینہ کو عام طور پر "" اسلامی ثقافت اور تہذیب کا گہوارہ"" سمجھا جاتا ہے۔[4]اس شہر کو اسلامی روایت کے تین اہم شہروں میں دوسرا مقدس ترین سمجھا جاتا ہے، بالترتیبمکہ، مدینہ اوریروشلم۔المسجد النبوی(بعد میں مسجد نبوی) اسلام میں اہمیت کی حامل ہے اور آخری اسلامی پیغمبرمحمدکی تدفین کی جگہ بھی ہے، یہ مسجد 622 عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔ مسلمان عام طور پر اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ان کے روضہ پر جاتے ہیں جسے زیارت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسلام کی آمد سے پہلے اس شہر کا اصل نامیثرب(عربی: يَثْرِب) تھا اور قرآن میں پارہ 33 (الاحزاب، شعاع) میں اس نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس کا ناممدینہ النبی(پیغمبر کا شہر) رکھ دیا گیا اور بعد میں اسے آسان اور مختصر کرنے سے پہلےالمدینہ المنورہ(روشنی والا شہر) رکھ دیا گیا۔ اس کے جدید نام، مدینہ ( شہر)، جس سے اردو زبان میں ""شہر"" کا ہجے ماخوذ ہے۔ سعودی سڑک کے اشاروں پر مدینہ اور المدینہ المنورہ استعمال کرتے ہیں۔حضرت محمدکیمکہسے آمد سے پہلے یہ شہر 1500 سال سے زیادہ عرصے پہلے موجود تھا،[5]جسےہجرتکہتے ہیں۔ مدینہ حضرت محمد کی قیادت میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مسلم خلافت کا دار الحکومت تھا، جو اس کی کارروائیوں کی بنیاد اور اسلام کے گہوارہ کے طور پر کام کر رہا تھا۔حضرت محمدکی امت جو مدینہ کے شہریوں ( انصار ) پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی حضرت محمد کے ساتھ ہجرت کرنے والوں ( مہاجرین ) پر مشتمل ہے، جنہیں اجتماعی طور پر صحابہ کے نام سے جانا جاتا تھا، نے بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل کیا۔ مدینہ تین نمایاں مساجد کا گھر ہے، یعنیمسجد نبوی،مسجد قبااورمسجد القبلتین، مسجد قبا اسلام کی قدیم ترین مسجد ہے۔ قرآن کا ایک بڑا حصہ پہلے کی مکی سورتوں کے برعکس مدینہ میں نازل ہوا تھا۔[6][7]حجازکی طرح، مدینہ نے اپنے نسبتاً مختصر وجود میں طاقت کے متعدد تبادلے دیکھے ہیں۔ اس علاقے پر یہودی-عرب قبائل (پانچویں صدیعیسوی تک)،اوساورخزرج(اسلام کی آمد تک)،حضرت محمداورخلفائے راشدین(622-660)،اموی(660-749)،عباسیوںکے زیر انتظام رہے ہیں۔ (749–1254)،مصر کے مملوک(1254–1517)،عثمانی(1517–1805)،پہلی سعودی ریاست(1805–1811)،محمد علی پاشا(1811–1840)، دوسری بار عثمانی 1840–1918)،ہاشمیوںکے ماتحتمکہ کی شریفیت(1918–1925) اور آخر کار موجودہ سعودی مملکت (1925–موجودہ) کے ہاتھ میں ہے۔حجکے لیے آنے کے علاوہ، سیاح شہر کی دیگر نمایاں مساجد اور تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں جوجبل احد،البقیع قبرستاناور سات مساجد جیسی مذہبی اہمیت کی حامل ہیں۔ سعودی حکومت نے مدینہ اور مکہ میں متعدد تاریخی عمارتوں اور آثار قدیمہ کے مقامات کو بھی تباہ کیا ہے۔[8]اسلام کی آمد سے پہلے یہ شہر یثرب (عربی: يَثْرِب) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ نامقرآنکیسورہالاحزاب(پارہ) 33 کی آیت نمبر 13 میں بھی درج ہے۔ اور اس طرح شہر کا نامغزوہ خندقتک جانا جاتا ہے۔ اسلامی روایت کے مطابق، محمد نے بعد میں اس شہر کو اس نام سے پکارنے سے منع کیا۔ تبدیلی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ لغت میں یثرب کے معنی ""ملامت، فساد اور خرابی"" ہیں۔[9]جنگ کے کچھ عرصے بعد،حضرت محمدنے شہر کا نام بدل کر طیبہ (عربی: طَيْبَة) رکھا۔ مدینہ منورہ کو طابہ بھی کہا جاتا تھا۔ طابہ اور طیب ہم معنی الفاظ ہیں ،، لفظی معنیپاککے ہے۔ ایک حدیث میں بھی ذکر ملتا ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:""اللہ تعالیٰ نے اس شہر کا نام طابہ رکھا ہے۔""[10][11]مدینہ: مدینہ عربی لفظ ہے جس کا لفظی مطلبشہرہے۔[11]مدینہ کئی ممتاز مقامات اور نشانیوں کا گھر ہے، جن میں سے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا روضہ اور زیادہ تر مساجد ہیں جنہیں تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ ان میں مذکورہ بالا تین مساجد شامل ہیں،مسجد الفتح(جسے مسجد الخندق بھی کہا جاتا ہے)، سات مساجد،جنت البقیعجہاں بہت سی مشہور اسلامی شخصیات کی قبریں واقع ہیں۔[14]براہ راستمسجد نبویکے جنوب مشرق میں، احد پہا��، احد کی معرکہ آرائی کا مقام[15][16][17]اورشاہ فہد گلوریئس قرآن پرنٹنگ کمپلیکسہیں[18]جہاں جدید ترین قرآنی مصحف چھاپے جاتے ہیں۔[19]مدینہ ہجرت سے کم از کم 1500 سال پہلے یا تقریباً 9ویں صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔ چوتھی صدی عیسوی تک، عرب قبائل نےیمنسے تجاوز کرنا شروع کر دیا اور تین ممتاز یہودی قبائل تھے جوحضرت محمدکے زمانے کے آس پاس شہر میں آباد تھے:بنو قینقاع،بنو قریظہاوربنو نضیر۔[20]ابن خردادبہ نے بعد میں بتایا کہ حجاز میں سلطنت فارس کے تسلط کے دوران، بنو قریظہ نے فارسی شاہ کے لیے ٹیکس وصول کرنے والوں کے طور پر کام کیا۔[21]دو نئےعرب قبائل،بنو اوساورخزرجکی آمد کے بعد صورت حال بدل گئی، جنہیں بنو خزرج بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے تو یہ قبائل اس علاقے پر حکمرانی کرنے والے یہودی قبائل کے ساتھ مل گئے لیکن بعد میں بغاوت کر کے خود مختار ہو گئے۔[22]پانچویں صدیکے آخر میں،یہودیحکمرانوں سے شہر کا کنٹرول دو عرب قبائلبنو اوساوربنو خزرجنے چھین لیا۔ یہودیوں کا قتل عام کیا، اور بالآخر مدینہ پر غلبہ حاصل کر لیا۔ بعد میں بنو اوس اور بنو خزرج ایک دوسرے کے مخالف ہو گئے اور 622ء میںحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ تک، وہ 120 سال تک لڑتے رہے اور قسم کھا کر دشمن بن گئے۔بنو نضیراوربنو قریظہاوس کے ساتھ اتحادی تھے جب کہبنو قینقاعنے خزرج کا ساتھ دیا۔ انھوں نے کل چار جنگیں لڑیں۔ ان کی آخری اور سب سے خونریز جنگ بعث کی لڑائی تھی، جوحضرت محمدکی آمد سے چند سال پہلے لڑی گئی تھی۔ لڑائی کا نتیجہ بے نتیجہ نکلا اور جھگڑا جاری رہا۔ خزرج کے ایک سردارعبداللہ بن ابینے جنگ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ عدل اور امن کے لیے شہرت رکھتا تھا۔ وہحضرت محمدکی آمد سے پہلے شہر کے سب سے معزز باشندے تھے۔ جاری تنازع کو حل کرنے کے لیے، یثرب کے متعلقہ باشندوں نے مکہ سے باہر ایک مقامعقبہمیں حضرت محمد سے خفیہ ملاقات کی، انھیں اور ان کے مومنین کے چھوٹے گروہ کو شہر آنے کی دعوت دی، جہاں حضرت محمد گروہوں کے درمیان ثالث کی خدمات انجام دے سکتے تھے۔ اپنے عقیدے پر آزادانہ عمل کریں۔[23]622ء میں،حضرت محمداور ایک اندازے کے مطابق 70 مکہ کے مہاجرین نے یثرب کی طرف ہجرت کی،[24]یہ ایک ایسا واقعہ جس نے شہر کے مذہبی اور سیاسی منظر نامے کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ اوس اور خزرج قبائل کے درمیان دیرینہ دشمنی ختم ہو گئی کیونکہ دونوں عرب قبائل میں سے بہت سے اور کچھ مقامی یہودیوں نے مذہباسلامکو قبول کر لیا۔ حضرت محمد، جو اپنی پردادی کے ذریعے خزرج سے منسلک تھے، شہر کے رہنما کے طور پر متفق ہوئے تھے۔ یثرب کے مقامی باشندے جنھوں نے اسلام قبول کیا تھا، انصار (""محافظ"" یا ""مددگار"") کہلاتے تھے۔[حوالہ درکار]علاقے کی تمام جماعتوں نے مدینہ کے آئین پر اتفاق کیا، حضرت محمد کی قیادت میں تمام فریقوں کو باہمی تعاون کا عہد کیا۔ یمنی یہودی ذرائع میں،حضرت محمداور یہودی رعایا کے درمیان ایک معاہدہ تیار کیا گیا تھا، جسے کتاب دمت النبی کے نام سے جانا جاتا ہے، جو 3 ہجری (625) میں لکھی گئی تھی اور جس نے عرب میں رہنے والے یہودیوں کو سبت کا دن منانے کی آزادی دی تھی۔ انھیں اپنے سرپرستوں کو سالانہجزیہدینا تھا۔[25][26]غزوہ بدر17 رمضان2 ہجریبمطابق13 مارچ624ءکومحمد بن عبد اللہکی قیادت میںمسلمانوںاورابو جہلکی قیادت میںمکہکے قبیلہقریشاور دیگر عربوں کے درمیاں میں مدینہ میں جنوب مغرب میںبدرنامی مقام پر ہوا۔ اسےغزوہ بدر کبریبھی کہتے ہیں۔[27][28]قریشمکہ نے مدینہ کی اس اسلامی ریاست پر حملہ کرنے کا اس لیے بھی فیصلہ کیا کہ ان کا وہ قافلۂ تجارت جومکہسےشامکی طرف گیا ہوا تھا، مسلمانوں کی زد میں تھا۔[29]اس قافلے کے ہمراہ اہل مکہ کے تقریباً پچاس ہزار دینار تھے۔[30]اس کا اندازہ ہمیں اس واقعہ سے ہوتا ہے کہبنو اوسکے مشہور سردارسعد بن معاذجب طواف کعبہ کے لیے گئے توابوجہلنےخانہ کعبہکے دروازے پر انھیں روکا اور کہا تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ہم تمھیں اطمینان کے ساتھ مکے میںطوافکرنے دیں؟ اگر تمامیہ بن خلفکے مہمان نہ ہوتے تو یہاں سے زندہ نہیں جا سکتے تھے۔ یہ سن کرسعد بن معاذنے جواب دیا کہ خدا کی قسم! اگر تم نے مجھے روکا تو میں شام میں تمھاری تجارت منقطع کر دوں گا۔[31]چنانچہ 17 رمضان سنہ 2ھ کو انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں مسلمانوں نے اپنے جوش ایمانی کے ساتھ خدائی غیبی نصرت سے تین سو تیرہ کی نفر کے ساتھ ایک ہزار نفر کے لشکرِ کفار کو شکست دی۔[32]سنہ 625ھ میں،[34][35]ابو سفیان بن حرب، مکہ کے ایک سردار نے، جس نے بعد میں اسلام قبول کیا، مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف مکہ کی فوج کی قیادت کی۔ ان کے مقابلے میں حضرت محمد نے ایک اندازے کے مطابق 1,000 فوجیوں کا لشکر تیار کیا، لیکن جیسے ہی فوج میدان جنگ کے قریب پہنچی،عبداللہ بن ابیکے ماتحت 300 آدمی پیچھے ہٹ گئے، جس سے مسلم فوج کے حوصلے کو شدید دھچکا لگا۔ حضرت محمد نے اپنی اب کی 700 مضبوط فوج کے ساتھ مارچ جاری رکھا اور 50 تیر اندازوں کے ایک گروپ کو ایک چھوٹی پہاڑی پر چڑھنے کا حکم دیا، جسے اب جبل الرمّہ (تیراندازوں کی پہاڑی) کہا جاتا ہے تاکہ مکہ کے گھڑسواروں پر نظر رکھی جا سکے اور عقبی حصے کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ مسلمانوں نے ثابت قدمی سے کفار مکہ کا مقابلہ کیا جس سے مکہ والوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔ سامنے والے تیر اندازوں سے مزید دور دھکیل دیا گیا اور جنگ کو مسلمانوں کی فتح دیکھ کر پہاڑی والے تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم ایک چھوٹی جماعت پیچھے رہ گئی۔ باقی لوگوں سے کہتے رہے کہ حضرت محمد کے حکم کی نافرمانی نہ کریں۔[حوالہ درکار]چوٹی کو خالی دیکھ کر کہ تیر انداز پہاڑی سے اترنے لگے ہیں،خالد بن ولیدنے اپنے ساتھیوں کو پہاڑی پر گھات لگانے کا حکم دیا۔ انھوں نے پہاڑی پر کھڑے چند فوجیوں کو شکست دے کر مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی۔ جس میں مسلمانوں کو بھاری نقصان پہنچا اور حضرت محمد بھی زخمی ہوئے۔[36]بنی نضیر فلسطین کے باشندے تھے۔132ءمیں رومیوں کی سخت روی کی وجہ سے یہودیوں کے چند قبائل جن میں بنی نضیر اوربنو قریظہشامل تھےفلسطینکو چھوڑ کریثربمیں آکر آباد ہو گئے۔ بنی نضیر مدینہ میں قباء کے قریب مشرقی جانب آکر آباد ہو گئے تھے۔ اس وقت مدینہ میں عرب قبائل میں سے بنی اوس اور بنی خزرج ممتاز قبائل تھے یہ دونوں یہودی قبائل بنی نضیر کے خزرج اور بنو قریظہ اوس کے حلیف بن گئے۔ اور بنی اوس اور بنی خزرج کی باہمی لڑائیوں میں اول الذکر کا ساتھ دیتے رہے۔ جب نبی کریم ہجرت کرکےمدینہ منورہتشریف فرما ہوئے تو آپ نے ہر دو عرب قبائل اور مہاجرین کو ملا کر ایک برادری بنائی اور مسلم معاشرہ اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا۔ لیکن یہودی قبائل اور خاص کر بنی نضیر ہمیشہ منافقانہ رویہ اختیار کیے رہے۔ یہاں تک کہ 4 ھ میں انھوں نے رسول کریم کے قتل کی سازش کی جس کا بروقت آپ کو علم ہو گیا۔ جس پر آپ نےربیع الاو��4ھمیں انھیں الٹی میٹم دے دیا۔ کہ پندرہ دن کے اندر اندر یہاں سے نکل جائیں۔ لیکن جب انھوں نے لڑائی کی ٹھان لی تو مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر لیا جس پر وہ ملک شام اور خیبر کی طرف نکل گئے۔ بنی نضیر کو یہ گھمنڈ تھا کہ یہودی اور عرب قبائل کی مدد سے وہ مسلمانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ لیکن خدائی طاقت کے سامنے بہت جلد ان کو ہار مان کر اپنی بستی کو چھوڑ کر چلے جانا پڑا[37]یہودیوں کا ایک قبیلہ جومدینہمنورہ کے نواح میں آباد تھا۔ یہ لوگ بار بار مسلمانوں سے عہد باندھتے اور پھر توڑ دیتے ایک موقع پر انھوں نے حضور کے قتل کی سازش بھی کی لیکن بروقت مطلع ہو جانے پر آپ صاف بچ گئے۔بنو نضیرکی وعدہ خلافیوں اور سازشوں سے تنگ آکر آپ نے ان کے قلعے کا محاصرہ کر لیا جو پندرہ دن تک جاری رہا۔ بالآخر 4ھ میں بنو نضیر نے صلح کے لیے التجا کی۔ قرار پایا کہ وہ مدینہ خالی کر دیں۔ اور جو مال اسباب اٹھا کر لے جا سکتے ہوں لے جائیں۔ بنو نضیر یہاں سے اٹھ کرخیبرمیں جا بسے۔ انہی لوگوں نےقریشکو ایک بار پھر مدینے پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا۔ جس میں قریش کے علاوہ دوسرے قبیلے بھی شریک ہوئے۔[38]627ء میںابو سفیاننے مدینہ کی طرف ایک اور فوج کی قیادت کی۔[39][40]اپنے ارادوں کو جانتے ہوئے،حضرت محمدنے شہر کے شمالی حصے کے دفاع کے لیے تجاویز طلب کیں، کیونکہ مشرق اور مغرب آتش فشاں چٹانوں سے محفوظ تھے اور جنوب میں کھجوروں کا باغ تھا۔سلمان فارسی، ایک فارسی صحابی جو ساسانی جنگی حربوں سے واقف تھے، نے شہر کی حفاظت کے لیے خندق کھودنے کا مشورہ دیا اور حضرت محمد نے اسے قبول کر لیا۔ اس کے بعد کے محاصرے کو خندق کی لڑائی اور کنفیڈریٹس کی لڑائی کے نام سے جانا گیا۔ ایک ماہ کے طویل محاصرے اور مختلف جھڑپوں کے بعد، سخت سردی کی وجہ سے مکہ والے پھر سے پیچھے ہٹ گئے۔[حوالہ درکار]محاصرے کے دوران ابو سفیان نےبنو قریظہکے یہودی قبیلے سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، تاکہ مسلمان محافظوں پر حملہ کیا جائے اور محافظوں کو مؤثر طریقے سے گھیر لیا جائے۔ تاہم اس کا مسلمانوں کو پتہ چل گیا اور ناکام بنا دیا۔ یہ مدینہ کے آئین کی خلاف ورزی تھی اور مکہ کے انخلاء کے بعد حضرت محمد نے فوراً قریظہ کے خلاف مارچ کیا اور ان کے مضبوط قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ یہودی افواج نے بالآخر ہتھیار ڈال دیے۔ اوس کے کچھ ارکان نے اپنے پرانے اتحادیوں کی طرف سے بات چیت کی اور حضرت محمد ان کے ایک سردار جس نے اسلام قبول کر لیا تھا،سعد بن معاذکو جج مقرر کرنے پر رضامند ہو گئے۔ سعد نے یہودی قانون کے مطابق فیصلہ دیا کہ قبیلے کے تمام مرد ارکان کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے جیسا کہ پرانے عہد نامہ میں غداری کے لیے کتاب استثنیٰ میں بیان کیا گیا تھا۔ اس کارروائی کا تصور ایک دفاعی اقدام کے طور پر کیا گیا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مسلم کمیونٹی مدینہ میں اپنی بقاء کے لیے پراعتماد ہو سکے۔[41]ہجرتکے بعد کے دس سالوں میں، مدینہ میں ایک مقام مقرر کیا جہاں پر حضرت محمد اور مسلم فوج نے حملے کی تیاری کی اور یہیں سے انھوں نےمکہکی طرف سفر شروع کیا، 630ء میں بغیر جنگ کے مکہ میں داخل ہوئے۔ حضرت محمد کے مکہ سے قبائلی تعلق کے باوجود، اسلام میں مکہ کی اہمیت بڑھ گئی، اسلامی دنیا کے مرکز کے طور پرکعبہکی اہمیت،نمازکی سمت (قبلہ) کے طور پر اور اسلامیحجکے طور پر۔ مدینہ کی طرف واپس آگئے جو کچھ سالوں تک اسلام کا سب سے اہم شہر اور ابتدائیخلافت راشدہکی کارروائیوں کا مرکز رہا۔[26]اس شہر کا نام مدینۃ النبی پیغمبر کا شہر) حضرت محمد کی نبوت کے اعزاز میں رکھا گیا ہے اور اسی شہر میں ان کی تدفین ہوئی۔[42]پہلے تین خلفاءابوبکر صدیق،عمر فاروقاورعثمان غنیکے دور میں، مدینہ تیزی سے بڑھتی ہوئی مسلم سلطنت کا دار الحکومت تھا۔عثمان بن عفانکے دور میں، تیسرے خلیفہ، مشرکوں کی ایک جماعت نے، ان کے بعض سیاسی فیصلوں سے ناراض ہو کر، 656ء میں مدینہ پر حملہ کر کے انھیں مسجد میں شہید کر دیا۔ چوتھے خلیفہ حضرت علی نے خلافت کا دار الخلافہ مدینہ سےعراقمیںکوفہمیں تبدیل کر دیا کیونکہ وہ زیادہ تزویراتی مقام پر تھے۔ اس کے بعد سے، مدینہ کی اہمیت کم ہوتی گئی، سیاسی طاقت سے زیادہ مذہبی اہمیت کی جگہ بن گئی۔ حضرت علی کے دور حکومت میں اور اس کے بعد مدینہ نے بہت کم معاشی ترقی دیکھی۔[حوالہ درکار]تقریباً آٹھ سال کی ہجرت کے بعد مسلمان فاتح کے طور پرمکہواپس آنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکنفتح مکہاور اسلامی ریاست کے تحت مکہ میں داخل ہونے کے باوجود، پیغمبر محمد نے مدینہ کو اپنا صدر مقام بنایا، اور یہ نئی اسلامی ریاست کا دار الحکومت بن گیا۔ رسول اللہ مدینہ میں رہے یہاں تک کہ ربیع الاول سنہ 11 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی۔[43]مدینہ منورہ کیمسجد نبویکی حدود جنوب میں کوہ عیر، شمال میں جبل ثور، مشرق میں الحرہ الشرقیہ اور مغرب میں الحرہ الغربیہ کے درمیان کے علاقے میں واقع ہیں۔[44]حرم کی حدود سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں شکار کرنا، درخت کاٹنا اور غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔[45]حضرت علیکے بیٹےحسننےمعاویہ اول،ابو سفیانکے بیٹے کو اقتدار سونپنے کے بعد، معاویہ نے حضرت علی کے دار الحکومتکوفہکی طرف کوچ کیا اور مقامیعراقیوںکی بیعت حاصل کی۔ یہ اموی خلافت کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ معاویہ کے گورنروں نے مدینہ کا خاص خیال رکھا اور عین زرقا کے چشمے کو ایک منصوبے کے ساتھ کھودا جس میں آبپاشی کے مقاصد کے لیے زیر زمین نالیوں کی تخلیق شامل تھی۔ کچھ واڑیوں میں ڈیم بنائے گئے اور اس کے نتیجے میں زرعی عروج نے معیشت کو مضبوط کیا۔[حوالہ درکار]679ء میں دوسرے فتنے کے دوران بے امنی کے دور کے بعد،حسین بن علیکوکربلامیں شہید کر دیا گیا اور یزید نے اگلے تین سال تک غیر منظم کنٹرول سنبھال لیا۔ 682ء میں عبد اللہ بن الزبیر نے خود کو مکہ کا خلیفہ قرار دیا اور مدینہ کے لوگوں نے ان کی بیعت کی۔ اس کی وجہ سے شہر کے لیے معاشی بدحالی کا آٹھ سال طویل عرصہ گذر گیا۔ 692ء میں، امویوں نے دوبارہ اقتدار حاصل کیا اور مدینہ نے اپنی بڑی اقتصادی ترقی کے دوسرے دور کا تجربہ کیا۔ تجارت میں بہتری آئی اور زیادہ لوگ شہر میں منتقل ہوئے۔وادی العقیقکے کنارے اب ہریالی سے سرسبز تھے۔ امن اور خوش حالی کا یہ دورعمر بن عبدالعزیزکے دور حکومت میں آیا، جنہیں بہت سے لوگ راشدین کا پانچواں خلیفہ شمار کرتے ہیں۔[26]عبد الباسط اے بدر نے اپنی کتاب مدینہ منورہ، شہر: تاریخ اور نشانات میں اس دور کو تین الگ الگ مراحل میں تقسیم کیا ہے:[26]بدر 749ء اور 974ء کے درمیانی عرصے کو امن اور سیاسی انتشار کے درمیان دھکیلنے کے طور پر بیان کرتا ہے، جب کہ مدینہ عباسیوں کی بیعت کرتا رہا۔ 974ء سے 1151ء تک اہل مدینہ شریف فاطمیوں کے ساتھ رابطے میں رہے، حالانکہ دونوں کے درمیان سیاسی موقف ہنگامہ خیز رہا اور عام بیعت سے زیادہ نہ تھا۔ 1151ء کے بعد سے، مدینہ نےزنگیوںکی بیعت کی اورامیر نورالدین زنگینے زائرین کے زیر استعمال سڑکوں ک�� دیکھ بھال کی اور پانی کے ذرائع اور گلیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے فنڈ فراہم کیا۔ جب اس نے 1162ء میں مدینہ کا دورہ کیا تو اس نے ایک نئی دیوار کی تعمیر کا حکم دیا جو شہر کی پرانی دیوار کے باہر نئے شہری علاقوں کو گھیرے ہوئے تھی۔ زنگی کی جانشینایوبی خاندانکے بانیصلاح الدین ایوبینے کی، جس نے مدینہ کے شریف قاسم بن مہنہ کی حمایت کی اور حجاج کی طرف سے ادا کیے جانے والے ٹیکسوں میں کمی کرتے ہوئے شہر کی ترقی کے لیے بہت زیادہ فنڈ فراہم کیا۔ اس نے انبدوںکو بھی مالی امداد فراہم کی جو ان راستوں پر رہتے تھے جو حجاج کرام اپنے سفر میں ان کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ بعد میں آنے والے عباسیوں نے بھی شہر کے اخراجات پورے کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب کہ مدینہ اس عرصے کے دوران عباسیوں کے ساتھ باضابطہ طور پر اتحادی تھا، انھوں نے زینگیوں اور ایوبیوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے۔ تاریخی شہر نے ایک بیضوی شکل بنائی، جس کے چاروں طرف ایک مضبوط دیوار تھی، 30 تا 40 فٹ (9.1 تا 12.2 میٹر) اونچا، اس دور سے ملنا اور ٹاوروں سے جڑا ہوا تھا۔ اس کے چار دروازوں میں سے، باب السلام (""امن کا دروازہ"")، اس کی خوبصورتی کے لیے مشہور تھا۔ شہر کی فصیلوں سے پرے، مغرب اور جنوب میں نواحی علاقے تھے جن میں کم مکانات، صحن اور باغات تھے۔[46]عباسیوں کے ساتھ ایک وحشیانہ طویل کشمکش کے بعد، قاہرہ کی مملوک سلطنت نے مصری گورنری پر قبضہ کر لیا اور مؤثر طریقے سے مدینہ کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ 1256ء میں، مدینہ کو حرات راحتآتش فشاںکے علاقے سے لاوے کا خطرہ تھا لیکن لاوا شمال کی طرف مڑنے کے بعد جلنے سے بچ گیا۔[26][47][48]مملوک کے دور حکومت میںمسجد نبویکو دو بار آگ لگ گئی۔ ایک بار 1256ء میں جب ذخیرہ میں آگ لگ گئی جس سے پوری مسجد جل گئی اور دوسری بار 1481ء میں جب مسجد پر آسمانی بجلی گر گئی۔ یہ دور مدینہ میں علمی سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ بھی ہوا،ابن فرحون،الحافظ زین الدین العراقی،ال سخاویاور دیگر جیسے علما شہر میں آباد ہوئے۔گنبد خضریٰکی تعمیر 1297ء میں مملوک سلطانالمنصور قلاون الصالحینے کی۔[حوالہ درکار]1517ء میں، پہلاعثمانی دورسلیم اولکی مملوک مصر کی فتح سے شروع ہوا۔ اس نے مدینہ کو اپنے علاقے میں شامل کر لیا اور انھوں نے مدینہ کو پیسہ اور امداد کی بارش کرنے کی روایت کو جاری رکھا۔ 1532ء میں،سلیمان اولنے شہر کے ارد گرد ایک محفوظ قلعہ تعمیر کیا اور شہر کی حفاظت کے لیے ایک عثمانی بٹالین سے مسلح ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا۔ یہ وہ دور بھی ہے جس میں مسجد نبوی کی بہت سی جدید خصوصیات تعمیر کی گئیں حالانکہ ابھی تک اسے سبز رنگ نہیں دیا گیا تھا۔[49]ان مضافات میں دیواریں اور دروازے بھی تھے۔ عثمانی سلاطین نےمسجد نبویمیں گہری دلچسپی لی اور اسے اپنی ترجیحات کے مطابق بار بار ڈیزائن کیا۔جیسے ہی عثمانیوں کا اپنے علاقے پر قبضہ ڈھیلا پڑا، اہلیان مدینہ نے 1805ء میں پہلیسعودی ریاستکے بانیسعود بن عبدالعزیزسے اتحاد کا وعدہ کیا، جنھوں نے جلد ہی شہر پر قبضہ کر لیا۔ 1811ء میں، عثمانی کمانڈر اور مصر کے ولیمحمد علی پاشانے اپنے دو بیٹوں میں سے ہر ایک کے ماتحت دو فوجوں کو مدینہ پر قبضہ کرنے کا حکم دیا، پہلی فوج، بڑے توسن پاشا کے ماتحت، مدینہ پر قبضہ کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن دوسری، ابراہیم پاشا کی کمان میں ایک بڑی فوج، ایک شدید مزاحمتی تحریک سے لڑنے کے بعد کامیاب ہو گئی۔[26]اپنے سعودی دشمنوں کو شکست دینے کے بعد،محمد علی پاشانے مدینہ کی حکمرانی سنبھال لی اور اگرچہ اس نے باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان نہیں کیا، لیکن اس کی حکمرانی نے نیم خود مختار انداز اختیار کیا۔ محمد علی کے بیٹے، ٹوسن اور ابراہیم شہر کے حکمران بن گئے۔ ابراہیم نے شہر کی دیواروں اور مسجد نبوی کی تزئین و آرائش کی۔ اس نے ضرورت مندوں میں خوراک اور خیرات تقسیم کرنے کے لیے ایک عظیم الشان رزق تقسیم کرنے والا مرکز (تقیہ) قائم کیا اور مدینہ امن اور سلامتی کا دور گزارا۔ 1840ء میں، محمد علی نے اپنی فوجوں کو شہر سے باہر منتقل کر دیا اور باضابطہ طور پر شہر کو وسطی عثمانی کمانڈ کے حوالے کر دیا۔[26]1844ء میںمحمد علی پاشاکی رخصتی کے چار سال بعد، داؤد پاشا کو عثمانی سلطان کے ماتحت مدینہ کے گورنر کا عہدہ دیا گیا۔ داؤد سلطانعبدالمجید اولکے حکم پر مسجد نبوی کی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا گیا تھا۔ جبعبدالحمید ثانینے اقتدار سنبھالا تو اس نے کئی جدید عجائبات کے ساتھ مدینہ کو صحرا سے باہر کھڑا کر دیا، جن میں ریڈیو کمیونیکیشن اسٹیشن، مسجد نبوی اور اس کے قریبی علاقوں کے لیےبجلی گھر، مدینہ اورقسطنطنیہکے درمیان ٹیلی گراف لائن اورحجاز ریلوےجودمشقسے مدینہ تک چلتی ہے جس کی منصوبہ بندی مکہ تک توسیع ہے۔ ایک دہائی کے اندر شہر کی آبادی چھلانگ لگا کر 80,000 تک پہنچ گئی۔ اس وقت کے آس پاس، مدینہ ایک نئے خطرے کا شکار ہونا شروع ہو گیا، جنوب میںمکہ کی ہاشمی شریفیت۔پہلی جنگ عظیمکے دوران اور اس کے بعد مدینہ نے اپنی تاریخ کا سب سے طویل محاصرہ دیکھا۔[26]مکہ کے شریفحسین ابن علینےجنگ عظیم اولکے وسط میں 6 جون 1916ء کو مدینہ پر حملہ کیا۔ چار دن بعد، حسین نے مدینہ کو 3 سالہ تلخ محاصرے میں اپنے قبضے میں لے لیا، جس کے دوران لوگوں کو خوراک کی قلت، وسیع بیماری اور بڑے پیمانے پر ہجرت کا سامنا کرنا پڑا۔ مدینہ کے گورنرفخری پاشانے 10 جون 1916ء سےمدینہ کے محاصرےکے دوران سختی کے ساتھ قائم رکھا اور ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اورمدروس کی جنگ بندیکے بعد مزید 72 دن تک رہا، یہاں تک کہ اسے اپنے ہی آدمیوں نے گرفتار کر لیا اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ شریفیت 10 جنوری 1919ء کو حسین نے بڑی حد تکانگریزوںکے ساتھ اتحاد کی وجہ سے جنگ جیتی۔[26][50]اس کے بعد ہونے والی لوٹ مار اور تباہی کی توقع میں، فخری پاشا نے خفیہ طور پرحضرت محمدکے مقدس آثار عثمانی دار الحکومتاستنبولبھیجے۔[51]1920ء تک، انگریزوں نے مدینہ کو ""مکہ سے زیادہ خود کفیل"" قرار دیا۔[52]عظیم جنگ کے بعد، مکہ کے شریف،سید حسین ابن علیکو ایک آزادحجازکا بادشاہ قرار دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد، مدینہ کے لوگوں نے 1924ء میں خفیہ طور پرابن سعودکے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور ان کے بیٹے شہزادہمحمد بن عبد العزیزنے 5 دسمبر 1925ء کو حجاز کی سعودی فتح کے ایک حصے کے طور پر مدینہ کو فتح کیا، جس نے سعودی عرب کی جدید مملکت میں پورےحجازکو شامل کرنے کا راستہ بنا۔[53][54][55]مملکت سعودی عربنے شہر کی توسیع اور سابقہ مقامات کو مسمار کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کی جواسلامی اصولوںاوراسلامی قانونکی خلاف ورزی کرتی ہیں جیسےبقیع میں مقبرے۔ آج کل، یہ شہر زیادہ تر صرف مذہبی اہمیت رکھتا ہے اور مکہ کی طرح،مسجد نبویکے ارد گرد بہت سے ہوٹلوں کو بنایا گیا، جومسجد الحرامکے برعکس، زیر زمین پارکنگ سے لیس ہے۔ پرانے شہر کی دیواریں تباہ کر دی گئی ہیں اور ان کی جگہ ان تین رنگ روڈ کو بنایا گیا ہے جو آج مدینہ کو گھیرے ہوئے ہیں، جن کا نام شاہ فیصل روڈ، شاہ عبد اللہ روڈ اور شاہ خالد روڈ ر��ھا گیا ہے۔ مکہ کے چار رنگ روڑ کے مقابلے مدینہ کے رنگ روڈوں پر مجموعی طور پر کم ٹریفک نظر آتی ہے۔[56][57][58][59]ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ، جس کا نامشہزادہ محمد بن عبدالعزیز ہوائی اڈاہے، اب شہر کی خدمت کرتا ہے اور ہائی وے 340 پر واقع ہے، جسے مقامی طور پر اولڈ قاسم روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ شہر ابسعودی عربکی دو بڑی شاہراہوں کے سنگم پر واقع ہے، شاہراہ 60، جسے قاسم – مدینہ ہائی وے کے نام سے جانا جاتا ہے، اور شاہراہ 15 جو شہر کو جنوب میںمکہاورتبوکسے ملاتی ہے۔ شمال میں اور آگے، جسے محمد کے سفر کے بعد الحجرہ ہائی وے یا الحجرہ روڈ کہا جاتا ہے۔[حوالہ درکار]پرانا عثمانی ریلوے کا نظام ان کے علاقے سے نکلنے کے بعد بند کر دیا گیا تھا اور پرانے ریلوے سٹیشن کو اب ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس شہر نے حال ہی میں اپنے اورمکہکے درمیان نقل و حمل کا ایک اور طریقہ دیکھا ہے،حرمین تیز رفتار ریلوےلائن دونوں شہروں کوشاہ عبداللہ اقتصادی شہرکے قریبرابغسے ذریعے جوڑتی ہے۔شاہ عبد العزیز بین الاقوامی ہوائی اڈااورجدہ3 گھنٹے سے کم کی مسافت پر ہیں۔[حوالہ درکار]اگرچہ پرانے شہر کا مقدس مرکز غیر مسلموں کے لیے محدود ہے، لیکن خود مدینہ کاحرمعلاقہمکہسے بہت چھوٹا ہے اور مدینہ میں حال ہی میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ دیگر قومیتوں کے تارکین وطن کارکنان، جن میں عام طور پرجنوبی ایشیالوگ اورمجلس تعاون برائے خلیجی عرب ممالککے دوسرے ممالک کے لوگ ہیں، تقریباً تمام تاریخی شہر سعودی دور میں منہدم ہو چکے ہیں۔ دوبارہ تعمیر شدہ شہر وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئیمسجد نبویپر مرکوز ہے۔[حوالہ درکار]المدينہ علاقہسعودی عربکےمغربی علاقہ جاتمیں سے ایک ہے، جس کادار الحکومتمدینہ منورہ ہے۔ شہر کے نواحی علاقہ جات مندرجہ ذیل ہیں:[حوالہ درکار]سعودی عربمیں اکثر لوگوہابیتکو اپنے مذہبی نظریے کے طور پر برقرار رکھتا ہے، جو تاریخی یا مذہبی مقامات کی کسی بھی تعظیم کے خلاف ہے اس خوف سے کہ یہشرککو جنم دے سکتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، سعودی حکمرانی کے تحت، مدینہ کو کافی تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا۔[8][60]ناقدین نے اسے ""سعودی توڑ پھوڑ"" قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ 50 سالوں میں مدینہ اور مکہ میںحضرت محمد، ان کے خاندان یا ساتھیوں سے منسلک 300 تاریخی مقامات کو منہدم کیا گیا تھا۔[61]اس کی سب سے مشہور مثالجنت البقیع کا انہدامہے۔[8]مدینہحجازکے علاقے میں واقع ہے جو صحرائے نفود اوربحیرہ احمرکے درمیان 200 کلومیٹر (120 میل) چوڑی پٹی ہے۔[26]ریاضسے تقریباً 720 کلومیٹر (450 میل) شمال مغرب میں واقع ہے جو سعودی صحرا کے مرکز میں ہے، یہ شہر سعودی عرب کے مغربی ساحل سے 250 کلومیٹر (160 میل) دور ہے اور سطح سمندر سے اوپر تقریباً 620 میٹر (2,030 فٹ) کی بلندی پر ہے۔ یہ 39º36' طول البلد مشرق اور 24º28' عرض البلد شمال پر واقع ہے۔ یہ تقریباً 589 مربع کلومیٹر (227 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے۔ شہر کو بارہ اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں سے 7 کو شہری اضلاع کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے، جبکہ دیگر 5 کو مضافاتی کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے۔[حوالہ درکار]حجاز کے علاقے کے بیشتر شہروں کی طرح مدینہ بھی بہت بلندی پر واقع ہے۔ مکہ سے تقریباً تین گنا بلند یہ شہر سطح سمندر سے اوپر 620 میٹر (2,030 فٹ) پر واقع ہے۔ کوہ احد مدینہ کی بلند ترین چوٹی ہے اور اس کی اونچائی 1,077 میٹر (3,533 فٹ) ہے۔[حوالہ درکار]مدینہ ایک صحرائینخلستانہے جوحجاز کے پہاڑوںاورآتش فشاںپہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ مدینہ کے آس پاس کی مٹی زیادہ تر بیسالٹ پر مشتمل ہے، جب کہ پہاڑیاں، خاص طور پر شہر کے جنوب میں نمایاں ہیں، آتش فشاں راکھ ہیں جو پیلوزوک دور کے پہلے ارضیاتی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ کئی مشہور پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، جن میں خاص طور پر جبل الحجاج (مغرب میں حجاج کا پہاڑ)، شمال مغرب میں سلع پہاڑ، جنوب میں جبل العیر یا کاروان پہاڑ اورجبل احدشامل ہیں۔ شمال کی طرف یہ شہر وادی العقل،وادی العقیقاور وادی الحمد کی تین وادیوں کے سہ رخی مقام پر ایک ہموار پہاڑی سطح مرتفع پر واقع ہے، اس وجہ سے، خشک ویران پہاڑی علاقے کے درمیان چند سبز علاقے ہیں۔[26]مدینہ کی مٹی گاد، گاد اور بجری کی ریت سے بنی ہے، شہر کے جنوب میں پرانے چٹانوں کی موجودگی کی وجہ سے ریت نہیں ہے، جو عام کٹاؤ کی وجہ سے گاد میں بدل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کے جنوب کو اس کے شمال کی نسبت زراعت کے لیے سب سے مؤثر علاقہ بنا دیا گیا۔ شہر کے قلب میں زیادہ تر شہری علاقہ بھاری ساخت والی مٹی پر واقع ہے۔ مندرجہ ذیل جدول مدینہ میں مٹی کی اقسام کو ظاہر کرتا ہے۔[62]مدینہ میں بہت سے پہاڑ موجود ہیں، اور مدینہ کے سب سے نمایاں پہاڑ درج ذیل ہیں:مدینہ میں بہت سی مشہور وادیاں شامل ہیں جن میں سے نمایاں وادیاں درج ذیل ہیں:کوپن آب و ہوا کی درجہ بندی کے تحت، مدینہ ایک گرم صحرائی آب و ہوا والے علاقے (BWh) میں آتا ہے۔ گرمیاں انتہائی گرم اور خشک ہوتی ہیں اور دن کے وقت درجہ حرارت کا اوسط تقریباً 43 سینٹی گریڈ (109 فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ اور راتیں تقریباً 29 سینٹی گریڈ (84 فارن ہائیٹ) ہوتی ہیں۔ جون اور ستمبر کے درمیان 45 سینٹی گریڈ (113 فارن ہائیٹ) سے زیادہ درجہ حرارت غیر معمولی نہیں ہے۔ سردیاں ہلکی ہوتی ہیں، رات میں درجہ حرارت 8 سینٹی گریڈ (46 فارن ہائیٹ) سے دن میں 25 سینٹی گریڈ (77 فارن ہائیٹ) تک ہوتا ہے۔ بہت کم بارش ہوتی ہے، جو تقریباً مکمل طور پر نومبر اور مئی کے درمیان ہوتی ہے۔ گرمیوں میں، ہوا شمال مغربی ہوتی ہے، جبکہ موسم بہار اور سردیوں میں، جنوب مغربی ہوتی ہے۔ایک مذہبی مقام کے طور پر مدینہ کی اہمیت دو مساجد،مسجد قباءاورمسجد نبویکی موجودگی سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ دونوں مساجدمحمد بن عبد اللہنے خود بنوائی تھیں۔ اسلامی صحیفے مدینہ کے تقدس پر زور دیتے ہیں۔[74]مدینہ کا ذکرقرآنمیں متعدد بار آیا ہے۔ دو مثالیںسورہ توبہ(آیت 101) اورسورہ الحشر(آیت 8) ہیں۔مدنی سورتیںعام طور پر اپنے مکی ہم منصبوں سے لمبی ہوتی ہیں اور تعداد میں بھی بڑی ہیں۔محمد بن اسماعیل بخارینےصحیح بخاریمیں درج کیا ہے کہانس بن مالکنےمحمد بن عبد اللہکا قول نقل کیا ہے:مدینہ اس جگہ سے اس تک حرم ہے۔ اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ بدعت کی جائے اور نہ اس میں کوئی گناہ کیا جائے اور جو کوئی اس میں بدعت پیدا کرے یا گناہ (برے کام) کرے تو اس پر خدا، فرشتوں اور سب کی لعنت ہو گی۔مدینہ میں بہت سی مساجد شامل ہیں، جن میں سے کچھ آثار قدیمہ اور قدیم ہیں اور کچھ جدید ہیں اور شہر کی چند نمایاں مساجد درج ذیل ہیں:مسجد نبوی: یہ مسجد دنیا کی سب سے بڑیمساجدمیں سے ایک ہے اوراسلامکا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ تاریخ میں مسجد نبوی میں کئی بار توسیع کی گئی،خلفائے راشدیناور اموی ریاست،عباسیپھرعثمانیاور آخر کار سعودی ریاست کے دور میں توسیع ہوئیں، سعودی دور میں اس کی سب سے بڑی تو��یع1994ءمیں ہوئی تھی۔ مسجد نبویجزیرہ نما عربمیں پہلی جگہ ہے جسے1327 ہجریبمطابق1909ءمیں برقی چراغوں کے استعمال سے روشن کیا گیا تھا۔[75]عمر بن عبد العزیزکی طرف سے91 ہجریمیں توسیع کے بعد،عائشہ کا کمرہمسجد کے ساتھ شامل کیا گیا۔[76](جو اس وقت ""محترم پیغمبر کے حجرے"" کے نام سے جانا جاتا ہے، جو مسجد کے جنوب مشرقی کونے میں واقع ہے) جس میں نبی اکرمحضرت محمد،حضرت ابوبکراورحضرت عمرکو دفن کیا گیا تھا،[77]اور اس پرسبز گنبدبنایا گیا تھا، یہ مسجد نبوی کے سب سے نمایاں نشانیوں میں سے ایک ہے۔ مسجد نبوی نے سیاسی اور سماجی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا، کیونکہ یہ ایک سماجی مرکز، عدالت اور مذہبی درسگاہ کے طور پر کام کرتی تھی۔ مسجد نبوی مدینہ منورہ مرکز میں واقع ہے، جس کے ارد گرد بہت سے ہوٹل اور پرانے بازار ہیں۔ جو لوگ یہاںحجیاعمرہکرتے ہیں وہ نبیکریم صلی اللہ علیہ وسلمکی قبر کی بھی زیارت کرتے ہیں۔[78]مسجد قباء:تاریخ اسلام کی پہلیمسجد[79]جو مدینہ منورہ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بستیقباءمیں واقع ہے۔محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلماورحضرت ابوبکر8ربیع الاول13 نبوی بروز دو شنبہ بمطابق 23ستمبر622ءکویثربکی اس بیرونی بستی میں پہنچے اور 14 روز یہاں قیام کیا اور اسی دوران اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ان کے بعد مسلمانوں نے گذشتہ ادوار میں مسجد کے فن تعمیر میں دلچسپی لی، چنانچہعثمان بن عفاننے اس کی تجدید کی، پھرولید بن عبدالملککے دور میںعمر بن عبدالعزیزاور ان کے بعد کے خلفاء نے اس کی توسیع جاری رکھی اور اس کی تعمیر کی تجدید کی۔سلطان قایتبائینے اس کی توسیع کی، پھر عثمانی سلطانمحمود دوماور ان کے بیٹے سلطانعبدالمجید اولنے اس کی پیروی کی، یہاں تک کہ آخری توسیع سعودی ریاست کے دور میں ہوئی۔[80]مسجد قبلتين:مدینہ منورہ کے محلہ بنو سلمہ میں واقع[81]ایک مسجد جہاں 2ھ میں نماز کے دورانتحویل قبلہکا حکم آیا اور حضرتمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلماورصحابہ کرامنے نماز کے دوران اپنا رخبیت المقدسسےکعبےکی جانب پھیرا۔ کیونکہ ایک نماز دو مختلف قبلوں کی جانب رخ کر کے پڑھی گئی اس لیے اس مسجد کو ""مسجد قبلتین""یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ مسجدبئر رومہکے قریب واقع ہے۔ مسجد کا داخلی حصہ قبہ دار ہے جبکہ خارجی حصے کی محراب شمال کی طرف ہے۔عثمانیسلطانسلیمان اعظمنے1543ءمیں اس کی تعمیر نو کرائی۔اس کی موجودہ تعمیر و توسیعسعودیشاہفہد بن عبدالعزیزکے دور میں مکمل ہوئی۔ اس نئی عمارت کی دو منزلیں ہیں جبکہمیناروںاورگنبدوںکی تعداد بھی دو، دو ہے۔ مسجد کا مجموعی رقبہ 3920 مربعمیٹرہے۔ حالیہ تعمیر نو پر 3 کروڑ 97 لاکھ ریال خرچ ہوئے۔سات مساجد:یہ مدینہ آنے والوں کی طرف سے دیکھنے والے اہم ترین مقامات میں سے ایک ہے، یہ چھوٹی چھوٹی مساجد کا ایک گروپ ہے، جن کی اصل تعداد سات نہیں بلکہ چھ ہے، لیکن یہ اس نام سے مشہور ہوئی، کچھ لوگوں نےمسجد قبلتینکو شامل کرنے کی وجہ سے۔ یہ مساجد، کیونکہ جو بھی اس کی زیارت کرتا ہے وہ بھی اسی سفر میں اس مسجد کی زیارت کرتا ہے، اس لیے اس کی تعداد سات ہو جاتی ہے۔[82]یہ چھوٹی مساجدکوہ سلعکے مغربی جانب اس خندق کے ایک حصے پر واقع ہیں جسے مسلمانوں نے مدینہ کے دفاع کے لیےرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کھودا تھا جبقریشاور ان کے اتحادی قبائل نے پانچویں سال وہاں پیش قدمی کی تھی۔ ہجرہ۔ ایک گنبد جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا گیا تھا۔مسجد فتح:یہ سات مساجد میں سے سب سے بڑی مسجد ہے جو کوہ سلع کی مغربی ڈھلوان پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنائی گئی تھی۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا تھا کہجنگ الاحزابکے دوران یہرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے لیے عبادت گاہ تھی۔مسجد سجدہ:اسے ابوزر غفاری مسجد بھی کہا جاتا ہے اور یہمسجد نبویکے شمالی جانب واقع ہے، اس کا نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس میںرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں طویل سجدہ کیا تھا۔[83]مسجد الغمامہ:یہ وہ مقام ہے جہاںنبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں عید کی نماز ادا کی تھی۔[84]یہ وہ آخری جگہ تھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 631ء میں عید کی نماز پڑھی تھی۔مسجد نبویکے قریب ہونے کے باوجود وہاں نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ اسے مدینہ کی آثار قدیمہ اور تاریخی مساجد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔مسجد الانباریہ:، جسے حمیدیہ مسجد بھی کہا جاتا ہے، مدینہ میں عثمانی ترکوں کی تعمیر کردہ ایک مسجد ہے، جو آج کل سعودی عرب کا حصہ ہے۔ اس کا نام الانباریہ گیٹ کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کے آگے مسجد واقع تھی۔مسجد ذوالحلیفہ: یہ مسجدوادی العقیقکے مغربی جانب اس علاقے میں واقع ہے جسے ""ابیار علی"" کہا جاتا ہے۔ کچھ اسے ابیار علی مسجد - یا علی کا کنواں کہتے ہیں اور یہمسجد نبویسے تقریباً چودہ کلومیٹر دور ہے۔یہاں مدینے والے احرام باندھتے ہیں۔جنت البقیع: یہ پیغمبر اسلام کے زمانے سے مدینہ کے لوگوں کے لیے مرکزی قبرستان ہے[85]اور یہ مسجد نبوی کی موجودہ عمارت کے قریب ترین تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ اس کی دیوار کے جنوب مشرقی حصے کی طرف واقع ہے۔ پڑوسی زمینیں تھیں۔ اس کے ساتھ منسلک کیا گیا اور اس کے گرد سنگ مرمر سے ڈھکی ایک نئی اونچی دیوار بنائی گئی۔ قبرستان آج بھی استعمال میں ہے۔اس کا موجودہ رقبہ ایک لاکھ اسی ہزار مربع میٹر ہے۔[85]اس میں شہر کے ہزاروں لوگوں کی باقیات ہیں اور وہ لوگ جو ہمسایہ اور زائرین تھے جو وہاں فوت ہوئے تھے یا جن کی میتیں گذشتہ زمانوں میں منتقل کی گئی تھیں، خاص طور پر معزز صحابہ کی، کہا جاتا ہے کہ اس میں دس ہزار صحابہ کو دفن کیا گیا تھا۔ اس میں ذوالنورینعثمان بن عفانبھی شامل ہیں، جو خلفائے راشدین میں سے تیسرے اور اہل ایمان کی مائیں، پیغمبر اسلام کی ازواج مطہرات، خدیجہ اور میمونہ کے علاوہ، ان کی بیٹیفاطمہ الزہرا، ان کے بیٹےابراہیم، ان کے چچاعباس بن عبد المطلب، ان کی خالہ صفیہ، ان کی اہلیہعائشہ بنت ابوبکر، ان کے نواسے الحسن ابن علیکے علاوہعلی ابن حسین،محمد باقراورجعفر صادقکو بھی وہیں دفن کیا گیا۔[86]2018ء تک، ریکارڈ شدہ آبادی 2,188,138 تھی، جس کی شرح نمو 2.32% تھی۔[87]دنیا بھر سےمسلمانوںکی منزل ہونے کے ناطے، مدینہ میں حکومت کے سخت قوانین کے باوجودحجیاعمرہکرنے کے بعد غیر قانونی ہجرت دیکھنے میں آتی ہے۔ تاہم، مرکزی حج کمشنر شہزادہ خالد بن فیصل نے بتایا کہ 2018ء میں غیر قانونی قیام کرنے والے زائرین کی تعداد میں 29 فیصد کمی آئی ہے۔[88]سعودی عرب کے بیشتر شہروں کی طرح، مدینہ منورہ میں بھی مسلم آبادی کی اکثریت ہے۔مختلف مکاتب فکر کےسنی(حنفی،مالکی،شافعیاورحنبلی) کی اکثریت ہے، جب کہ مدینہ اور اس کے آس پاس ایک نمایاںشیعہاقلیت ہے، جیسے نخاویلا۔مکہاور مدینہ دو ایسے شہر ہیں جہاں غیر مسلموں کی رہائش پر پابندی ہے۔مکہکی طرح، مدینہ ایک ثقافتی ماحول کی نمائش کرتا ہے، ایک ایسا شہر جہاں کئیقومیتوںاورثقافتوںکے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ اس سے صرفشاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکسکوقرآنکی طباعت میں مدد ملتی ہے۔ اسے1985ءمیں قائم کیا گیا، دنیا میںقرآنکا سب سے بڑا ناشر، یہ تقریباً 1100 افراد کو ملازمت دیتا ہے اور کئی زبانوں میں 361 مختلف اشاعتیں شائع کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہر سال دنیا بھر سے 400,000 سے زیادہ لوگ اس کمپلیکس کا دورہ کرتے ہیں۔[89][90]سہولت کے دورے کے اختتام پر ہر آنے والے کو قرآن کا مفت نسخہ تحفے میں دیا جاتا ہے۔[90]المدینہ عجائب گھر میں شہر کے ثقافتی اور تاریخی ورثے سے متعلق کئی نمائشیں ہیں جن میں مختلف آثار قدیمہ کے ذخیرے، بصری گیلریاں اور پرانے شہر کی نایاب تصاویر ہیں۔[91]اس میںحجاز ریلوے عجائب گھربھی شامل ہے۔ دار المدینہ عجائب گھر2011ءمیں کھولا گیا اور یہ مدینہ کی تاریخ سے پردہ اٹھاتا ہے جو شہر کے تعمیراتی اور شہری ورثے میں مہارت رکھتا ہے۔[92]محمد بن عبد اللہکے زمانے سے کوئی آثار قدیمہ یا فن تعمیر نہیں ہے، سوائے چند پتھروں کے دفاعی میناروں کے باقیات کے[93]قرآنکی نمائش میں قرآن کے نایاب نسخے رکھے گئے ہیں، اس کے ساتھ دیگر نمائشیں جومسجد نبویکو گھیرے ہوئے ہیں[94]مدینہ آرٹس سینٹر، جو2018ءمیں قائم کیا گیا تھا اور ایم ایم ڈی اے کے ثقافتی ونگ کے زیر انتظام ہے، جدید اور عصری فنون پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اس مرکز کا مقصد فنون لطیفہ کو بڑھانا اور معاشرے کی فنکارانہ اور ثقافتی تحریک کو تقویت دینا، تمام گروہوں اور عمروں کے فنکاروں کو بااختیار بنانا ہے۔ فروری2020ءتکسماجی فاصلہ گیریکے اقدامات اورکرفیوکے نفاذ سے پہلے، اس نے ہفتہ وار ورکشاپس اور مباحثوں کے ساتھ ساتھ 13 سے زیادہ گروپ اور سولو آرٹ گیلریوں کا انعقاد کیا۔ یہ مرکز کنگ فہد پارک میںمسجد قباءکے قریب 8,200 مربع میٹر (88,000 مربع فٹ) کے رقبے پر واقع ہے۔[95]2018ءمیں ایم ایم ڈی اے نےعربی خطاطیاور مشہور عربی خطاطوں کو منانے کے لیے ایک سالانہ فورم، مدینہ فورم آف عربی کیلیگرافی کا آغاز کیا۔ اس تقریب میں عربی خطاطی کے بارے میں گفتگو، اور 10 ممالک کے 50 عربی خطاطوں کے کام کو دکھانے کے لیے ایک گیلری شامل ہے۔ دار القلم مرکز برائے عربی خطاطی حجاز ریلوے میوزیم کے بالکل سامنے مسجد نبوی کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اپریل2020ءمیں یہ اعلان کیا گیا کہ اس مرکز کا نام بدل کر شہزادہ محمد بن سلمان سنٹر فار عربی کیلیگرافی رکھ دیا گیا، اور وزارت ثقافت کے زیر اہتمام ""عربی خطاطی کے سال"" کے ساتھ مل کر عربی خطاطوں کے لیے ایک بین الاقوامی مرکز میں اپ گریڈ کیا گیا۔[96]ایم ایم ڈی اے کلچرل ونگ کی جانب سے شروع کیے گئے دیگر پروجیکٹوں میں مدینہ فورم آف لائیو اسکلپچر کا انعقاد قبا اسکوائر پر کیا گیا جس میں 11 ممالک کے 16مجسمہ سازشامل ہیں۔ اس فورم کا مقصدمجسمہ سازیکو منانا ہے کیونکہ یہ ایک قدیم فن ہے، اور نوجوان فنکاروں کو اس فن کی طرف راغب کرنا ہے۔[97]تاریخی طور پر مدینہ کی معیشتکھجورکی فروخت اور دیگر زرعی سرگرمیوں پر منحصر تھی۔ 1920ء تک، اس علاقے میں دیگرسبزیوںکے ساتھ کھجور کی 139 اقسام کاشت کی جا رہی تھیں۔[98]مذہبی سیاحت مدینہ کی معیشت میں ایک بڑا حصہ ادا کرتی ہے، اسلام کا دوسرا مقدس ترین شہر ہونے کی وجہ سے اور بہت سے تاریخی اسلامی مقامات کا حامل ہے، یہ 7 لاکھوں سے زیادہ سالانہ زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے جوحجکے موسم میں حج اور سال بھرعمرہکرنے آتے ہیں۔[99]مدینہ کے دو صنعتی علاقے ہیں، بڑا ایک 2003ء میں قائم کیا گیا تھا جس کا کل رقبہ 10,000,000 مربع میٹر تھا اور اس کا انتظام سعودی اتھارٹی برائے صنعتی شہروں اور ٹیکنالوجی زونز (MODON) کے زیر انتظام تھا۔ یہ 50 پر واقع ہے۔ یہ پرنس محمد بن عبد العزیز بین الاقوامی ہوائی اڈے سے 50 کلومیٹر اور یانبو کمرشل پورٹ سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس میں 236 فیکٹریاں ہیں، جو پیٹرولیم مصنوعات، تعمیراتی مواد، کھانے پینے کی مصنوعات اور بہت سی دوسری مصنوعات تیار کرتی ہیں۔[100]نالج اکنامک سٹی (KEC) سعودی عرب کی مشترکہ اسٹاک کمپنی ہے جس کی بنیاد 2010ء میں رکھی گئی تھی۔ یہ رئیل اسٹیٹ کی ترقی اور علم پر مبنی صنعتوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ یہ منصوبہ زیر تکمیل ہے اور توقع ہے کہ اس کی تکمیل سے مدینہ میں ملازمتوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔[101]معرفت الاقتصاد شہر، مدینہایکسعودی عربکی مشترکہ اسٹاک کمپنی ہے جس کی بنیاد2010ءمیں رکھی گئی تھی۔ یہ رئیل اسٹیٹ کی ترقی اور علم پر مبنی صنعتوں پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔[102]یہ منصوبہ زیر تکمیل ہے اور اس کی تکمیل سے مدینہ میں ملازمتوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ متوقع ہے۔[103]وزارت تعلیمالمدینہ صوبہمیں تعلیم کا گورننگ باڈی ہے اور یہ پورے صوبے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے بالترتیب 724 اور 773 سرکاری اسکول چلاتی ہے۔[104]طیبہ ہائی اسکول سعودی عرب کے سب سے قابل ذکر اسکولوں میں سے ایک ہے۔ 1942ء میں قائم کیا گیا، یہ اس وقت ملک کا دوسرا سب سے بڑا اسکول تھا۔ سعودی وزراء اور سرکاری افسران اس ہائی اسکول سے گریجویشن کر چکے ہیں۔[105]جامعہ طیبہایک عوامی یونیورسٹی ہے جو صوبے کے رہائشیوں کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہے، اس کے 28 کالج ہیں جن میں سے 16 مدینہ میں ہیں۔ یہ 89 تعلیمی پروگرام پیش کرتا ہے اور 2020ء تک اس کی تعداد 69210 طلبہ کی ہے۔[106]اسلامی یونیورسٹی، جو 1961ء میں قائم ہوئی، خطے کا سب سے قدیم اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہے، جس میں تقریباً 22000 طلبہ داخلہ لیتے ہیں۔ یہشریعت،قرآن، اصول دین،حدیثاورعربی زبانمیں میجرز پیش کرتا ہے۔[107]یونیورسٹیبیچلر آف آرٹسکی ڈگریاں اورماسٹرزاورڈاکٹریٹکی ڈگریاں بھی پیش کرتی ہے۔ داخلہ مسلمانوں کے لیے اسکالرشپ پروگراموں کی بنیاد پر کھلا ہے جو رہائش اور رہنے کے اخراجات فراہم کرتے ہیں۔ 2012ء میں، یونیورسٹی نے کالج آف سائنس قائم کر کے اپنے پروگراموں کو بڑھایا، جوانجینئرنگاورکمپیوٹر سائنسکے بڑے شعبے پیش کرتا ہے۔[108]المدینہ کالج آف ٹیکنالوجی، جوٹی وی ٹی سی(TVTC) کے زیر انتظام ہے،الیکٹریکل انجینئرنگ،مکینیکل انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنسز اور الیکٹرانک سائنسز سمیت متعدد ڈگری پروگرام پیش کرتا ہے۔[109][110]مدینہ کی پرنس مقرن یونیورسٹی،[111]عرب اوپن یونیورسٹی[112]اور الریان کالج شامل ہیں۔[113]مدینہ میںشہزادہ محمد بن عبدالعزیز ہوائی اڈاہے جو ہائی وے 340 کے قریب واقع ہے۔ یہ گھریلو پروازیں ہینڈل کرتا ہے، جبکہ اس نے مشرق وسطیٰ میں علاقائی مقامات کے لیے بین الاقوامی خدمات کا شیڈول بنایا ہے۔ یہسعودی عربکا چوتھا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے جہاں پر 2018ء میں 8,144,790 مسافروں نے سفر کیا۔[114]10 ستمبر 2015ء کو انجینئرنگ نیوز ریکارڈ کے تیسرے سالانہ گلوبل بہترین منصوبے مقابلے میں ہوائی اڈے کے منصوبہ کو دنیا کا بہترین قرار دیا گیا تھا۔ ہوائی اڈے نے (MENA) خطے میں توانائی اور ماحولیاتی ڈیزائن میں پہلی قیادت (LEED) گولڈ سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا۔[115]ہوائی اڈے پرحجکے دوران مسافروں کی زیادہ تعداد آتی ہے۔2015ء میں، ایم ایم ڈی اے (MMDA) نے دارب السنۃ (سنت پات��) منصوبے کا اعلان کیا، جس کا مقصدمسجد قباکومسجد نبویسے جوڑنے والی 3 کلومیٹر (1.9 میل) قباء روڈ کو تیار اور تبدیل کرنا ہے۔ پیدل چلنے والوں کے لیے پوری سڑک کو ہموار کرنا اور زائرین کو خدمات کی سہولیات فراہم کرنا۔ اس منصوبے کا مقصد سنت کو بحال کرنا بھی ہے جہاںحضرت محمدہر ہفتہ کی دوپہر کو اپنے گھر (مسجد نبوی) سے قبا تک پیدل چلتے تھے۔[116]مدینہ شہر دو اہم ترین سعودی شاہراہوں ہائی وے 60 اور ہائی وے 15 کے سنگم پر واقع ہے۔ ہائی وے 15 مدینہ کو جنوب میںمکہسے اور شمال میںتبوکاوراردنکو جوڑتی ہے۔ ہائی وے 60 شہر کوینبعسے جوڑتی ہے، جو مغرب میںبحیرہ احمرپر واقع ایک بندرگاہی شہر اور مشرق میںالقصیمہے۔ شہر کو تین رنگ روڈ فراہم کیے جاتے ہیں: شاہ فیصل روڈ، ایک 5 کلومیٹر کا رنگ روڈ جو مسجد نبوی اور شہر کے مرکز کے علاقے کو گھیرے ہوئے ہے، شاہ عبد اللہ روڈ، ایک 27 کلومیٹر سڑک جو زیادہ تر شہری مدینہ کو گھیرتی ہے اور شاہ خالد روڈ ہے۔ سب سے بڑی رنگ روڈ جو پورے شہر اور کچھ دیہی علاقوں کو 60 کلومیٹر سڑکوں کے ساتھ گھیرے ہوئے ہے۔مدینہ میں شاہراہوں کا ایک نیٹ ورک ہے جو اسے مملکت کے باقی شہروں اور علاقوں سے جوڑتا ہے۔[117]مدینہ میں بس ٹرانسپورٹ کا نظام المدینہ ریجن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 2012ء میں قائم کیا تھا اور اسے سپٹکو (SAPTCO) چلاتا ہے۔ نئے قائم کردہ بس سسٹم میں 10 لائنیں شامل ہیں جو شہر کے مختلف علاقوں کومسجد نبویاور شہر کے مرکز سے جوڑتی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 20,000 مسافروں کو خدمات فراہم کرتی ہیں۔[118][119]2017ء میں، محکمے نے مدینہ سیاحتی بس سروس کا آغاز کیا۔ کھلی ٹاپ بسیں مسافروں کو دن بھر دو لائنوں اور 11 مقامات کے ساتھ سیر و تفریح کے سفر پر لے جاتی ہیں، جن میں مسجد نبوی،مسجد قبااورمسجد قبلتینشامل ہیں اور 8 مختلف زبانوں کے ساتھ آڈیو ٹور گائیڈنس پیش کرتی ہیں۔ 2019ء کے آخر تک، محکمے نے 15بی آر ٹیلائنوں کے ساتھ بس نیٹ ورک کو بڑھانے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا۔ یہ منصوبہ 2023ء میں مکمل ہونا تھا۔ 2015ء میں، محکمے نے مدینہ میں پبلک ٹرانسپورٹیشن ماسٹر پلان میں توسیع کے لیے تین لائنوں پر مشتملمدینہ میٹرومنصوبے کا اعلان کیا۔[120]حجاز ریلوےایکنیرو گیج(1,050 ملی میٹر/3 فٹ5 11⁄32ٹریک گیج) کی ریلوے لائن تھی، جودمشقسےمدینہتک جاتی تھی۔[121]اصل منصوبہ میں لائن کومکہتک جانا تھا لیکنپہلی جنگ عظیمکے شروع ہونے کی وجہ سے یہمدینہ منورہسے آگے نہ جا سکی۔ یہ عثمانی ریلوے نیٹ ورک کا ایک حصہ تھی جس کا مقصداستنبولسےدمشقکی لائن کو آگے تک پھیلانا تھا۔
+منصوبہ کا مقصدسلطنت عثمانیہسے حجاج کرام کو سفری سہولت فراہم کرنا تھا۔
+ایک اور اہم وجہ یہ تھی کہ دور دراز عرب صوبوں کی اقتصادی اور سیاسی انضمام کو عثمانی ریاست میں بہتر بنانا اور فوجی افواج کی نقل و حمل کو سہولت فراہم کرنا تھا۔[122]سعودی حکومت نے تاریخی عثمانی ریلوے کو بند کر دیا اور مدینہ منورہ سمیت ریلوے سٹیشنوں کو عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا گیا۔حرمین تیز رفتار ریلوے(HHR) 2018ء میں عمل میں آئی، جو مدینہ اور مکہ کو ملاتی ہے اور تین اسٹیشنوں سے گزرتی ہے:جدہ،شاہ عبد العزیز بین الاقوامی ہوائی اڈااورشاہ عبداللہ اقتصادی شہر۔[123]یہ 444 کلومیٹر (276 میل) کے ساتھ ساتھ 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے اور اس کی سالانہ گنجائش 60 ملین مسافروں کی ہے۔[124]"
+439,شہزادہ محمد بن عبدالعزیز ہوائی اڈا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%81_%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%A8%D9%86_%D8%B9%D8%A8%D8%AF%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B2%DB%8C%D8%B2_%DB%81%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C_%D8%A7%DA%88%D8%A7,شہزادہ محمد بن عبد العزیز ہوائی اڈا(عربی: مطار الأمير محمد بن عبد العزيز الدولي)سعودی عربکا ایکہوائی اڈاجوالمدينہ علاقہمیں واقع ہے۔[1]
+440,شاہ عبد العزیز بین الاقوامی ہوائی اڈا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%D8%A7%DB%81_%D8%B9%D8%A8%D8%AF_%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B2%DB%8C%D8%B2_%D8%A8%DB%8C%D9%86_%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C_%DB%81%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C_%D8%A7%DA%88%D8%A7,"شاہ عبد العزیز بین الاقوامی ہوائی اڈا(King Abdulaziz International Airport - KAIA)
+(عربی:مطار الملك عبدالعزيز الدولي) (آئی اے ٹی اے:JED،آئی سی اے او:OEJN)جدہکے شمال میں 19 کلومیٹر کے فاصلے پر ایکبین الاقوامی ہوائی اڈاہے۔ اس کا نامشاہ عبد العزیز آل سعودکے نام سے منسوب ہے جس کا افتتاح1981ءمیں ہوا۔ یہسعودی عربکا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے۔ موجودہ ہوائی اڈے کے تین ٹرمینل ہیں:اصل میں یہ ٹرمینل صرفسعودی عربین ایئر لائنزکے لیے مختص تھا تاہم2007ءمیں شمالی ٹرمینل پر زیادہ بوجھ کی وجہ سے کچھ اورایئرلائنزبھی یہاں منتقل کر دی گئیں جن میںفلائی ناس،کینیا ائیرویز،گارودا انڈونیشیااورکوریا ایئرشامل ہیں۔ماسوائے وہایئرلائنزجن کا ذکر جنوبی ٹرمینل میں کیا گیا ہے باقی تمام بین الاقومی پروازیں شمالی ٹرمینل پر آتی ہیں۔یہ ٹرمینل حجاج اور عمرہ زائرین کے لیے مخصوص ہے۔ حج کے دنوں میں کئی خصوصی پروازیں چلائی جاتی ہیں جن کے مسافر یہاں اترتے ہیں۔ دیگر بین الاقوامی پروازوں پر سے حجاج اور عمرہ زائرین کو یہاں اتار لیا جاتا ہے جبکہ باقی مسافروں کو جنوبی یا شمالی ٹرمینل کے جایا جاتا ہے۔نیا شاہ عبد العزیز بین الاقوامی ہوائی اڈا تین مراحل میں ستمبر 2006ء میں شروع ہوا اور اس کی مجوزہ تکمیل 2018ء میں قرار دی گئی ہے۔[3]2018ء میں یہاں سے کچھ اندون ملک پروازیں چلائی جا رہی ہیں[4]جبکہ دیگر پروازوں کے لیے2019ءکی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔[5]یہ منصوبہ ہوائی اڈے کی سالانہ صلاحیت کو 13 ملین سے بڑھا 80 ملین مسافروں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہحرمین تیز رفتار ریل منصوبہکو بھی اس سے منسلک کیا گیا ہے جس سے حجاج اور زائرین کو ریل کے ذریعےمکہاورمدینہ منورہمنتقل کیا جائے گا۔ موجودہ دور میں اس کے لیے بسیں استعمال کی جاتی ہیں۔نوٹس^1These flights may include a stop between Jeddah and the listed destination. However, the airlines do not have rights to transport passengers solely between Jeddah and the intermediate stop.^2Citilink's charter flights toسوکارنو-ہاتا بین الاقوامی ہوائی اڈاare served viaMedanandچھترپتی شیواجی مہاراج بین الاقوامی ہوائی اڈا."
+441,جدہ اسلامی بندرگاہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D8%AF%DB%81_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C_%D8%A8%D9%86%D8%AF%D8%B1%DA%AF%D8%A7%DB%81,جدہ اسلامی بندرگاہ(انگریزی: Jeddah Islamic Port) بین الاقوامی شپنگ کے وسط میں واقع ایک اہمبندرگاہہے۔ یہعرب ممالککی سب سے بڑی اور مصروف ترین بندر گاہ ہے۔جدہ کی بندرگاہ کو تاریخی شہرت حاصل ہے ، کیونکہ یہ بندرگاہ 646 عیسوی میں راشدین خلیفہعثمان بن عفانکے دور میں قائم کی گئی تھی اور شاہ عبد العزیز کے دور میں یہ بندرگاہ مملکت کی برآمدات اور درآمدات کے لیے پہلی بندرگاہ بن گیا اور بحیرہ احمر میں پہلا برآمدی مقام بن گیا ، جس کے ذریعے اب 75 فیصد سمندری تجارت اور منتقلی سعودی بندرگاہوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور یہبحیرہ احمرکی بندرگاہوں میں پہلے نمبر پر ہے۔21°31′01″N39°13′09″E / 21.51694°N 39.21917°E /21.51694; 39.21917
+442,بحیرہ احمر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%AD%DB%8C%D8%B1%DB%81_%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%B1,"بحیرہ احمر(Red Sea) یابحیرہ قلزمبحر ہندکی ایک خلیج ہے۔ یہ آبنائےباب المندباورخلیج عدنکے ذریعے بحر ہند سے منسلک ہے۔ اس کے شمال میں جزیرہ نمائےسینا،خلیج عقبہاورخلیج سوئزواقع ہیں جونہر سوئزسے ملی ہوئی ہے۔ 19 ویں صدی تک یورپی اسے خلیج عرب بھی کہتے تھے۔بحیرہ احمر ایک لاکھ 74 ہزار مربع میل (4 لاکھ 50 ہزار مربع کلومیٹر) پر پھیلا ہوا ہے۔ خلیج ایک ہزار 200 میل (ایک ہزار 900 کلومیٹر) طویل اور زیادہ سے زیادہ 190 میل (300 کلومیٹر) چوڑی ہے۔ بحیرہ احمر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 8 ہزار 200 فٹ (2 ہزار 500 میٹر) جبکہ اوسط گہرائی ایک ہزار 640 فٹ (500 میٹر) ہے۔بحیرہ احمر کا پانی دنیا کے نمکین ترین پانیوں میں سے ایک ہے۔ شدید گرم موسم کے باعث آبی بخارات بننے کے عمل میں تیزی اور ہوا کے دباؤ کے باعث بحیرہ احمر میں نمکیات 36 سے 38 فیصد ہیں۔اس سمندر میں ایک ہزار سے زائد بے مہرہ حیاتیاتی اقسام اور 200 اقسام کے نرم اور سخت مونگے پائے جاتے ہیں۔
+بحیرہ احمر دنیا کے تمام سمندروں میں گرم ترین سمندر ہے۔بحیرہ احمرعربینام البحر الاحمرلاطینینام Mare Erythraeumيونانینام Ερυθρά Θάλασσα کا ترجمہ ہے۔
+جسےانگريزیمیں Red Sea کہتے ہیں۔ اور اردو ميں اسكا مطلب سرخ سمندر ہے۔اس کا نام سمندری پانی کے رنگ کو ظاہر نہیں کرتا کیونکہ اس کا پانی سرخ رنگ کا نہیں بلکہ سطح آب پر مختلف موسموں میں سرخ رنگ کے سائنو بیکٹیریا ٹرائیکو ڈیسمیئم ایریٹریم کے باعث اس کا نام بحیرہ احمر پڑا۔تاریخ میں پہلی بار بحیرہ احمر میں سفر کی کوشش مصریوں نے کی۔بائبلمیں موسیٰ کی کہانی میں ایک کنیز کے بیٹے کی جانب سے اسرائیلیوں کو آزادی دلانے کے لیے بحیرہ احمر کو عبور کرنے کی کوششوں کا ذکر ہے۔ یورپیوں نے 15 ویں صدی میں بحیرہ احمر میں پہلی بار دلچسپی کااظہار کیا۔ 1798ءمیں فرانسیسی جنرلنپولینبوناپارٹ نےمصرپر حملہ کرکے بحیرہ احمر پر قبضہ کر لیا۔ انجینئر جے پی لیپیر نے بحیرہ احمر اوربحیرہ رومکو ملانے کے لیے نہر کی تعمیر کی، جس کا منصوبہ عثمانیوں نے بنایا تھا مگر اسے بنا نہ سکے تھے۔نہر سوئزکو نومبر 1869ءمیں کھولا گیا۔ اس وقتبرطانیہ،فرانساوراٹلینے مشترکہ طور پر نہر میں تجارتی مقامات سنبھالے۔جنگ عظیم اولکے بعد یہ مقامات بتدریج ختم ہو گئے۔دوسری جنگ عظیمکے بعدامریکہاورسوویت یونیننے اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان 6 روزہ جنگ کے باعث نہر سوئز 1967ءسے 1975ءتک بند رہی۔بحیرہ احمر کا ساحل مندرجہ ذیل ممالک سے ملتا ہے :بحیرہ احمر کے ساحلوں پر مندرجہ ذیل شہر اور قصبے واقعہ ہیں :"
+443,ماہی گیری,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%A7%DB%81%DB%8C_%DA%AF%DB%8C%D8%B1%DB%8C,ماہی گیری(انگریزی: fishing)ماہی(مچھلی) مچھلی پکڑنے کی سرگرمی ماہی گیری کہلاتی ہے۔
+444,خدا کے نام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%AF%D8%A7_%DA%A9%DB%92_%D9%86%D8%A7%D9%85,"خدا کے نام ہر مذہب میں اور ہر زبان میں الگ الگ ہیں، خدا کی صفات ذاتی اور عام طور پر ہر مذہب اور زبان میں مماثلت کی حامل ہیں کہ وہ خالق ہے، مالک، ہے رزق دینے والا، گناہ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا اور دعا سننے والا۔ پھر بھی مختلف مذاہب میں خدا کی کچھ خصوصیات الگ ہیں دوسرے مذہب سے، جس وجہ سے اس مذہب میں خدا کا کچھ ناموں کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو باقی مذہب میں ملتا ہے۔ جیسے مسیحیت میں صلیبی موت کے عقیدے نے مسیح کو اکلوتا، بیٹا، روح القدس کا نام دیا گیا ہے۔ جبکہ اسلام میں خدا کے ناموں میں واحد ہے، جس کا معنی ہے کہ وہ صرف ایک ہے، اس کا کوئی بیٹا نہیں۔ مسیحیت،یہودیتمیں خدا کو یہوداہ، ایلوہیم، ایل، وہ، میں جو ہوں سو میں ہوں، جیسے نام بھی دیے گئے۔
+زبانوں کے فرق سے انسانوں نے اس مالک الملک ہستی کو کہیں اللہ، کہیں ایشور، کہیں گاڈ، کہیں یہوداہ، کہیں اہور امزدا، کہیں زیوس، کہیں یزداں، کہیں آمن، کہیں پان کو اور کہیں تاؤ کا نام دیا۔ دنیا بھر کے مذہب میں مختلف زبانوں میں اس ہستی کے لیے بیسیوں نام پائے جاتے ہیں۔مسلمان خدا کے لیےاللہکا نام استعمال کرتے ہیں، اللہعربی زبانکا لفظ ہے۔ مسلمان اللہ کو تمام جہانوں کا خالق، مالک اور رب مانتے ہیں۔ اسلام میں اللہ کی ذات کے ساتھ جو خصوصیات منسلک ہیں ان سےتوحیدیتکا اظہار ہوتا ہے اورشرکوکفرکی نفی کی جاتی ہے۔ یہ نامقرآنمیں کئی مقامات پر خدا کے لیے آیا ہے۔نام خدااللہمسلمانوں کی ثقافت کا حصہ ہے، مساجد، مزارات، جامعات، کتب، ٹوپیاں، قبروں کے کتبات، گھروں کے آرائشی سامان وغیرہ پر لفظ اللہ کو مختلف انداز میں لکھا جاتا ہے، جیسے خطاطی کہا جاتا ہے۔اللہکے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہاللہکے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انھیںأسماء اللہ الحسنىکہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشترقرآنمیں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ :هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ /هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ/هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُعموماً روایات میںاللہکے جو 99 صفاتی نام اسمائے الہٰیہ بتائے جاتے ہیں، ان کااردوترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔مسلمانوں میں اسمائے الہٰیہ کی ایک تعداد 99 مشہور ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھیقرآن مجیداور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کردہاحادیثمیں دیگر بہت سے نام بھی ملتے ہیں۔ایسے کچھ نام ذیل میں ہیں۔اوپر دئے گئے اللہ کے معروف ننانوئے نام رسول اللہﷺ کی اس حدیث سے ماخذ ہیںمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث میں مزید سینکڑوں اسمائے الہٰیہ ملتے ہیں۔ مثلاًاَلْحَیِیُّ، السِّتِّیْرُ، الْحَنَّانُ، الْمَنَّانُ، الْمُسْتَعَانُ، العلام، المحسن، الجمیل، المولی، النصیرالسید، المسعر، الطیب، الوتر، الکریم، الاکرم، الشافی، الاعلیٰ، المبین، العالم، غافرالذنب، قابل التوب، شدیدالعقاب، ذی الطول، الجواد، الطیف، الرفیق، اھل التقوی، اھل المغفر، خیرالحافظ، خیر الراحمین، نعم المولی، نعم النصیر، نعم الماھدون، الظاھر، المبارک، فعال لما یرید، ذوالعرش المجید، القریب، القائم، الاعز، السبوحالقاھر، الغالب، الکافی، الصالح، مقلب القلوب۔وغیرہ۔۔۔۔ اُن میں سے چند اسمائے الہٰیہ یہاں پیش کیے جا رہے ہیں جو طبرانی، ترمذی، بخاری، مسلم، ابن ماجہ، ابن حیان، ابن خزیمہ، حاکم، صادق، حافظ ابن حجر اور دیگر روایت کردہ احادیث میں مذکور ہیں۔[66]۔ بلاشبہ اللہ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے، وہی تنگی کرنے والا، وسعت دینے والا، روزی رساں ہے۔[67][68][69]اللہ انتہائی حیاء والا اور پردہ پوش ہے، حیاء اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔[70][71][72]تم زمانے کو برا مت کہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خود زمانہ ہے۔[73][74][75](نوٹ: بعض علما اسے اسماء ��یں شمار نہیں کرتے)۔اللہ احسان کرنے والاہے اور احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔[76][77][78]اے دلوں کو پھيرنے والے ميرے دل کو اپنے دين پرثابت قدم رکھ۔[79][80][81][82]اور مزید دیکھیے[83]بلاشبہ تمھارا رب بہت حیا والا اور سخی ہے۔ بندہ جب اس کی طرف اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ انھیں خالی لوٹا دے۔[84][85][86]ایک بندہ جہنم میں ہزار سال تک فریاد کرتے ہوئے کہے گا، یاحنان یا منان، تو اللہ جبرائیل کو حکم دیں گے جا میرے اس بندے کو میرے پاس لے کر آ۔۔.۔[87][88][89]جب قیصر ہلاک ہو جائے گا تو پھر اس کے بعد کوئی قیصر نہیں پیدا ہو گا اور جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں پیدا ہو گا اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ان کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے۔۔.۔[90][91]تحقیق کے مطابق حضرت آدم کے بعدسریانی زبانمیں اللہ کے لیے جو اسم منسوب کیا وہ دیوہ، کا لیوہ تھا۔ حضرت نوح کے زمانے میں اللہ کو پہچاننے کے لیے جو اسم استعمال ہوتا تھا وہ اللہ اور الاللہ کے ہم معنی تھا پھر حضرت نوح کے بعد تمخاہ اور تمخیا اپنالیا گیا اور حضرتابراہیم علیہ السلامسے صدیوں پہلے اللہ اور الاللہ کو اسمِ الٰہی قرار دیا گیا۔فونیقی زبانمیں خدا کو ایلون (Elon یا Elion) کہتے تھے۔ جو اِمتداد زمانہ کے باعث اہرامک میں الہٰ، آشوری میں ایلو اور عبرانی میں ایل (عبرانی: אל) میں تبدیل ہو گیا۔ حضرت ابراہیم نے ایل کو اسمِ الٰہی فرمایا۔توریتمیں سب سے زیادہ جو اسم استعمال ہوا ہے وہ ایلوہم اور یہووا ہے۔توریتمیں یہووا 6823 مرتبہ اور ایلوہم 156 مرتبہ آیا ہے اور کئی بار یہووا ایلوہم ایک ساتھ بھی ملتا ہے۔ یہوواہ کے لغوی معنی ”وہ رب“ یا ”وہ ذات“ کے ہیں۔ عربی میں یہ لفظ یاہُوَ یعنی ”وہ“ اور لفظ ایلوہ عربی میں اللہ کی صورت اختیار کرگیا۔ توریت میں درجعبرانی زبانکے کئی اسمائے الہٰیہ عربی میں منتقل ہوئے جیسے شلوم (سلام) اور اُخُد (احد)، علیون (اعلیٰ)، حئ (الحئ)، ماکوم (قیوم)، ملیکنو (مالک)، مالک یا مالکم (مالک الملک) توریت میں ایک نام ادونائی (میرے رب) بھی آیا ہے جو کنعانی لفظ ”ادو“ سے ماخذ ہے جس کے معنی ہیں رب۔ اس کے علاوہ حضرت موسیٰ نے ایل الوہی اسرائیل (اسرائیل کا خدا)، بعل (مالک)، زِلگوسر (ربِ عرشِ عظیم) جبکہ حضرت ایوب نے ایلوہا اور حضرت دانیال نے الٰہ کو اسم الٰہی قرار دیا۔
+توریت میں اس کے علاوہ جو اسمائے الہٰیہ درج ہیں ہم یہاں آپ کے سامنے اُن کے معنی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ ایل علیون (رب الاعلیٰ)، ایل شیدائی (قادر المطلق)، ایل حئی (الحئی)، ماکوم (قے وم)، ایل اولام (الآخر)، ایل روئی (البصیر)، ایل جبرُ (القدیر)، ادونائی (ربّی)، یہوواہ تزیوت (رب الافواج، رب العالمین)، شلوم (سلام)، ایموت (الحق)، اوینو (رب)، ملیکنو (الملک)، راع (المھیمن اور المقیت)، مالک یا مالِکم (مالک الملک) اس کے علاوہ اہیا اسراہیا (وہ میں ہوں)، نِسی (سایہ فگن)، رافا (شفیع)، جیراہ (وہاب)۔مَیں نے خُداوند سے کہا ہے تُو ہیربہے۔ تیرے سِوا میری بھلائی نہیں۔[102]یقِیناًتُوپوشِیدہ خُداہے۔[117]تُو اُن کے آگے سِجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عِبادت کرنا کیونکہ مَیں خُداوند تیرا خُداغیُور خُداہُوں۔[126]مسیح جن کو اسلامی دنیا عیٰسی علیہ السلام کے نام سے نبی مانتی ہے، انھوں نے اور ان کے حواریوں نے انجیل میں خدا کو کئی ناموں سے پکارا ہے۔ سب سے زیادہ جو نام انجیل میں ملتا ہے، وہ ہے تھیوس (جس کے معنی وہی ہیں جو ایل کے ہیں یعنی خدا) اور دوسرا اِسم ک��ریوس Kuriou جس کے وہی معنی ہیں جو یہوواہ کے ہیں یعنی ”وہ“ اس کے علاوہ انجیل میں موجود چندیونانی زبانکے اسمائے الہٰیہ یہ ہیں۔ایکہی خُداوند ہے۔ ایک ہی اِیمان۔ ایک ہی بپتِسمہ۔[137]یِسُو ع نے جواب دِیا کہ اوّل یہ ہے اَے اِسرا ئیل سُن۔ خُداوند ہمارا خُداایکہی خُداوند ہے۔[138]اُس وقت یِسُو ع نے کہا اَےباپآسمان اور زمِین کے خُداوند مَیں تیری حمد کرتا ہُوں کہ تُو نے یہ باتیں داناؤں اور عقلمندوں سے چُھپائِیں اور بچّوں پر ظاہِر کِیں۔[139]اور خُداوندرُوحہے اور جہاں کہِیں خُداوند کا رُوح ہے وہاں آزادی ہے۔[140]جو مُحبّت نہیں رکھتا وہ خُدا کو نہیں جانتا کیونکہ خُدا مُحبّت ہے۔[141]خُدا مُحبّت ہے اور جو مُحبّت میں قائِم رہتا ہے وہ خُدا میں قائِم رہتا ہے اور خُدا اُس میں قائِم رہتا ہے۔[142]مَیں نے سَیر کرتے اور تُمہارے معبُودوں پر غَور کرتے وقت ایک اَیسی قُربان گاہ بھی پائی جِس پر لِکھا تھا کہنامعلُومخُدا کے لِئے۔ پس جِس کو تُم بغَیر معلُوم کِئے پُوجتے ہو مَیں تُم کو اُسی کی خبر دیتا ہُوں۔[143]خُداوند خُدا جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے یعنی قادِرِ مُطلق فرماتا ہے کہ مَیںالفا اور اومیگاہُوں۔[144]مَیں الفااور اومیگا۔اَوّل و آخِر۔ اِبتدا و اِنتہا ہُوں۔[145]پِھر اُس نے مُجھ سے کہا یہ باتیں پُوری ہو گئیِیں۔ مَیں الفااور اومیگا یعنیاِبتدا اور اِنتِہاہُوں۔ مَیں پیاسے کو آبِ حیات کے چشمہ سے مُفت پِلاؤُں گا۔[146]اور یہ کہا کہ اَے خُداوند خُدا۔قادِرِ مُطلِق! جو ہے اور جو تھا۔ ہم تیرا شُکر کرتے ہیں کیونکہ تُو نے اپنی بڑی قُدرت کو ہاتھ میں لے کر بادشاہی کی۔[147]آواز سُنی کہ ہلّلُویاہ! اِس لِئے کہ خُداوند ہمارا خُداقادِرِ مُطلِقبادشاہی کرتا ہے۔[148]اور رات دِن بغَیر آرام لِئے یہ کہتے رہتے ہیں کہقدُّ وس۔ قدُّوس۔ قدُّوس۔ خُداوند خُدا قادِرِ مُطلق
+جو تھا اور جو ہے اور جو آنے والا ہے۔[149]اَے مالِک! اَے قدُّوس وبرحق! تُو کب تک اِنصاف نہ کرے گا اور زمِین کے رہنے والوں سے ہمارے خُون کا بدلہ نہ لے گا؟۔[150]اَے خُداوند خُدا ! قادِرِ مُطلق! تیرے کام بڑے اور عجِیب ہیں۔ اَےازلی بادشاہ! تیری راہیں راست اور درُست ہیں۔[151]مگر اِس وقت ظاہِر ہو کر خُدایِ اَزلی کے حُکم کے مُطابِق نبِیوں کی کِتابوں کے زرِیعہ سے سب قَوموں کو بتایا گیا تاکہ وہ اِیمان کے تابِع ہو جائیں۔[152]اہل ہند کو کرشن جی نے ایشور کے ہزار نام بتائے ہیں[153]۔مہا بھارتکے انوشاسنہ پروا باب میںایشورکے الہامی ناموں کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔ اسے ہندی میں وِشنو سہستر نمہ (ہندی: विष्णु सहस्त्र नाम) یعنی وشنو کے ہزار نام کہتے ہیں۔ یہ نام مہا بھارت کے اس باب میں ایک سو آٹھ چھندو (جملوں) پر مشتمل ہیں۔مہا بھارت کے مطابق مشہور یودھا بھیشم، جو كروكشیتر کی لڑائی میں موت کے بستر پر تھے تو انھوں نےبھگوانوشنو کے یہ ہزار نام يدھشٹر کو بتائے تھے۔یہ ہر نام بھگوان وشنو کی ان گنت عظمت اور قوت کو ظاہر کرتے ہیں۔
+یہ ہندو مذہب کے سب سے مقدس اور عام طور پر جاپ کرنے والے نام ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ہندومت میں بھی ایشور (یعنی اللہ) کے کئی صفاتی نام ہیں۔ جن میں تین صفت اوّلین ہیں ایک برھما (خالق)، وشنو (رب) اور شیو (قہّار) برھما (خالق) کے ناموں میں یہ نام ہیں:سکھ مذہب میں خدا کے تصور کے حوالے سے مول منترا سکھوں کے بنیادی عقائد کا مجموعہ اور اس کو ان کی مذہبی کتاب گروگرنتھ صاحب کے شروع میں بیان کیا
+سریگرنتھ صاحبکی جلد اول ""جپُ جی کا پہلا"" منتر اس طرح ہے۔ੴ ਸਤਿ ਨਾਮੁ ਕਰਤਾ ਪੁਰਖੁ ਨਿਰਭਉ ਨਿਰਵੈਰੁ ਅਕਾਲ ਮੂਰਤਿ ਅਜੂਨੀ ਸੈਭੰ ਗੁਰ ਪ੍ਰਸਾਦਿ ॥صرف ایک خدا کا وجود ہے۔ جو حقیقتا پیدا کرنے والا ہے وہ خوف اور نفرت سے عاری ہے، جسے موت نہیں، وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا۔ وہ خود سے وجود رکھنے والا عظیم اور رحیم ہے۔[155]سکھ مت میں ایک ہی رب اعلیٰ ہے۔ وہ ایک غیر واضح اور مبہم صورت میں موجود ہے۔ جس کے ایک اونکار (یا اومکارا )کہاجاتا ہے۔
+سکھ مت کی کتاب گرنتھ میں بابا گرونانک فرماتے ہیں :سکھ مت میں مزید ملتا ہے۔کرتار( خالق)، صاحب(بادشاہ)، اکال(ابدی)، سنت نام (پاک نام)، پروردگار(محبت سے پرورش کرنے والا)، رحیم( رحم کرنے والا(، کریم( خیر خواہ)۔
+سکھ مذہب میں ایک خدا کے لیے واہے گرو (ایک سچا خدا ) کے الفاظ بھی آتے ہیں۔
+سکھ مت میں ایک اور منتر جو گوروگو بند سنگھ جپ جی میں فرماتے ہیں (سکھوں کے یہاں گوروگوبند سنگھ کے جپ جی کی وہی اہمیت ہے جو گورو نانک کے جیپوجی کی ہے )پارسی مذہب کے بانی زرتشت نے خالق کائنات کو اہر مزد کے نام سے پُکارا ہے۔ اہورا کے معنی مالک اور مزدا کے معنی دانا ہیں یعنی ”دانا مالک“۔
+زرتشت کی کتاب یاسنا (یسن)میں خدا کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں:stûtô garô vahmêñg ahurâi mazdâi ashâicâ vahishtâi dademahicâ cîshmahicâ âcâ âvaêdayamahî۔
+vohû xshathrem tôi mazdâ ahurâ apaêmâ vîspâ ýavê، huxshathrastû-nê nâ-vâ nâirî-vâ xshaêtâ ubôyô anghvô hâtãm hudâstemâ(ترجمہ: حمد و ثنائے مدح خدائے دانا (اہور مزدا) کے لیے جو بہتر راہ دکھانے والا ہے۔ ہماری خدمات ہماری نسبت ہمارا اقرار تیرے لیے ہے۔ اور تیری اچھی سلطنت میں اے خدا (اہورمزدا) ہمیں ہمیشہ کے لیے داخل کر دے۔ تُو ہی ہمارا حقیقی بادشاہ ہے۔ ہمارا ہر مرد اور ہر عورت تیری ہی عبادت (اطاعت) کرتا ہے کیونکہ تُو بہت مہربان ہے تمام عالمین کے لیے۔)[156]زرتشت کی کتاب دساتیر میں خدا کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیںاس کے علاوہ سمیرام اسپ ہاسیمرا ہردار (خدا ایک ہے اور اس کی احدیت ذاتی ہے)، ہمتا ندارد (اس کا کوئی ہم پلہ نہیں)، ہیچ چیز باونما ند (وہ بے مثال ہے)، ہستی وہمر (ہر شے کو ہست کرنے والا)، امپیر شاد (لافانی)، وہومیتو (عقلِ کُل)، خشاوریا (نعمتوں کا مالک)، اشاد ہست (حقیقت اعلیٰ)، ارمائتی (دین دار)، ہورواتاد (قوی)، چوک (پاک)، ہرمزد (روح اعلیٰ)، دادا (منصف)، پرورتار (محافظ) اور نیزان (سب سے قوی) نام مشہور ہیں۔ آوستا، گتھا اور یسن کے مطابق اہورمزدا کی کئی ایک صفات ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں: خالق، بہت قوت، بہت عظمت والا، داتا ”ہدائی”، سخی”سپینٹا”اوستائی زبان میں اہر مزد کے علاوہ ان کے لیے اہرمزد کے کئی نام ملتے ہیں جن میں 101 مشہور ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں:چین کے سب سے با اثر مذاہب دو ہیںکنفیوشس متاورتاؤ مت۔.۔. لیکن ان دونوں مذاہب کے بارے میں بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ابتداءمیں یہ کوئی باقاعدہ مذہب نہیں تھا بلکہ اخلاقیات کا ایک ضابطہ تھا جس نے رفتہ رفتہ مذہب کی صو رت اختیار کر لی۔ کنفیوشش مت اور تاؤ مت کی ہیت مذہب سے زیادہ اخلاقیفلسفہکی ہے اس لے اس میں خدا کا تصور موجود نہیں۔ البتہ ایک خالق اور مالک ہستی کا تصور ہمیشہ سے ہی چین میں موجود ہے۔ قدیم چین کے لوگ کثرت پسند تھے اور اپنے اجداد کی ارواح کی پرستش کرتے تھے یا پھر مظاہرفطرت چاند سورج وغیرہ کی۔ کائنات کی تخلیق کے بنیادی اصول کی وضاحت کے لیے قدیم چینی مفکرین نے ین اور یانگ کے تصورات کا استعمال کیا۔ ین فطرت کی منفی قوت اور یانگ فطرت کی مثبت قوت کو کہا جاتا ہے۔سب سے پہلے خالق ہستی کے لیے تیان 天 یعنی آسمان کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا، اُس وقت اسے دوسرے قدرتی مظاہر کی طرح بطور آسمان ہی پوجا جاتا تھا۔
+بعد میں شینگ سلطنت 1600قبل مسیحکی قدیم ترین تحاریر میں خدا کے لیے شنگ ٹی 上帝 (یا شنگ ڈی) کا نام ملتا ہے جس کے معنی حاکمِ اعلیٰ کے ہیں۔
+زھو سلطنت (1000 قبل مسیح) کے عہد میں چینی مذاہب میں ایک نام پانکُو یا پانگُو 盘古 (قدیم وجود) بھی ملتا ہے، جسے کائنات کی اولین ہستی اور سب چیزوں کا خالق کہا جاتا ہے۔چوتھی صدیقبل مسیح میں شنگ ڈی کے ساتھ ساتھ تیان لفظ بھی استعمال ہونے لگا۔ اس دور کے چینی فلسفی موزی لکھتے ہیں:پہلی صدی عیسوی میں یہ مان للیا گیا کہ تیان اور شنگ ڈی ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں اس دور کے چینی مفکر اور کنفیوشش مت کے اسکالر زینگ ژوان Zheng Xuan لکھتے ہیں ‘‘شنگ ٹی دراصل تیان کا ہی دوسرا نام ہے۔’’[158]چینی مذاہب میں کنفیوشش مت، تاؤ مت اوربدھ متکی تحریروں کی تشریحات سے بعض اصطلاحات کو تبدیل کرکے خدا کے لیے استعمال کیا گیا۔ جن میں زیادہ تر میں تیان یعنی آسمان لفظ سے مرکب کیے گئے، مثلاً ہوانگ تیان شنگ ڈی 玄天上帝(شہنشاہِ آسمان خداوند)، ژوان تیان شنگ ڈی 玄天上帝(گہرے آسمانوں والا خدا)، شینگ تیان (عظیم آسمان )۔ اس کے علاوہ تیان شین (آسمانی خدا)اور تیان ژیان (لازوال) بھی شامل ہیں لیکن یہ لفظ شین انگریزی god کا متبادل ہے جو عموماًدیوتاؤںیا ایک سے زیادہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، جبکہ واحد خدا God کے لیے ڈی帝 کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔چین میں جب باہر سے دوسرے مذاہب داخل ہوئے اور کئی چینی لوگوں اسلام، مسیحیت، یہودیت اور دیگر مذاہب کو اپنایا تو ان مذاہب کے خدا کا تصور اور نام بھی انھوں نے اپنی زبان میں ڈال لیا۔ تقریباً 635ء میں چین میں فارس کے نسطوری مسیحیوں نے مسیحیت کا پر چار کیا جسے انھوں نے جِنگ جیاؤ 景教 (روشن تعلیمات ) کا نام دیا۔ خدا کے لیے انھوں نے زھین زھو真主 (سچا مالک) اور تیان زھو 天主(آسمانی مالک ) کا نام استعمال کیا۔
+تیان زھو (آسمانی مالک ) کا نام بعد میں کیتھولک مسیحیوں نے بھی استعمال کیا جبکہ پروٹسٹن مسیحیوں نے شنگ ڈی (حاکم اعلیٰ ) کے لفظ کو ہی اپنایا۔
+اسلام کی آمد پر چینی مسلمانوں نے زھین زھو真主 (سچا مالک) کا لفظ ہی استعمال کیا ساتھ ہی لفظ اللہ کے لیے متبادل لفظ اَین لا安拉 (پُرامن سہارا) اور لفظ خدا کے لیے متبادل لفظ ہُودا 湖大(عظیم جھیل ) استعمال آج بھیشمالی چینکے مسلم آبادیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔شنتو مت جاپان کا ایک اہم ترین مذہب ہے۔ شنتو چینی زبان کا لفظ (شین تو 神道) ہے جس کے معانی خدا کا راستہ کے ہے۔ شین جو دراصل خدا کے لیے استعمال ہونے والی چینی اصطلاح ہے، اسی لفظ کو جاپانی میں کامی بھی کہا جاتا ہے۔ شنتو مذہب کا باقاعدہ آغاز تین سو سال قبل مسیح میں ہوا۔ شنتو مت میں ارواحیت اور قدرتی مظاہر کی پرستش کا خاصہ عمل دخل ہے۔ اس میں کامی کی عبادت کی جاتی ہے، کامیかみ کو عام طور پر لفظ خدا کا ترجمہ سمجھ کر استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ اسلامی تصور خدا سے قدرے مختلف اور تقریباً وحدت الوجود کی طرح ہے۔ اس کی بنیادی تعلیمات کے مطابق انسان خدا کی مرضی سے فرار حاصل نہیں کر سکتا، خدا کامی عظیم روح ہے، جو مقدس ہے اور قابل عبادت ہے اور قدرتی طور پر ہر شے میں موجود ہے، ہر جاندار و بے جان مقدس چیز کامی کا درجہ پاجاتی ہے۔انگریزی سے اخذ لفظ God کے متبادل کے لیے جاپانی لفظ گاڈ ゴッド استمال کیا ��اتا ہے۔دنیا کے دیگر ممالک اور زبانوں میں خدا کو جن ناموں سے پکارا جاتا ہے وہ یہ ہیں۔ فارسی میں خدا (خود آنے والا)، انگریزی میں God، سائوتھ افریقہ اور ہالینڈ میں Got، جرمن میں Gott، ڈینش، سویڈش اورناروےمیں Gudd، پرتگالی میں Deus، فرنچ میں Dieu، اٹلی میں Dio، اسپینی میں Dies، اسکاٹِش اور آئرش میں Dia، ویلش میں Duw، ایتھوپیا میں املاک، زرتشت نے اہورا مزدا (دانا مالک) کو اسمِ الٰہی قرار دیا۔ اس کے علاوہ یزداں، ہرمزد، پرورتار اور کئی اسم الہٰیہ کا بھی ذکر کیا ہے۔
+چین میں پان کو، بدھ مت میں ایسانا اور ٹاؤمت میں ٹاؤ، شنٹوازم میں کامی، کنفیوشس ازم میں شنگٹی ہے۔دنیا کا کوئی بھی شخص جب بھی کبھی خدا کو پکارے گا تو اُسے اپنیمادری زبانمیں ہی پکارے گا۔ عربی بولنے والا اللہ کہے گا، فارسی اور اردو جاننے والا خدا، ہندی ایشور، سندھی الکھ، عبرانی الوہم، ڈچ، ہنگری اور انگریز اسے God کہہ کر پکاریں گے، اسپرانتو زبان میں اِسی واحد اور یکتا ہستی کے لیے دی Di کے الفاظ ہیں، نارویجن، ڈینش اور سویڈش میں گڈ Gud، اٹالین میں دایو Dio، لاطینی اور اسپینی میں Deus اور Dios، فرنچ میں ڈیو Dieu، جرمن میں گٹGott، فینش میں جمالہ، جاپانی میں کامی، پالی میں ایسانا، چینی میں پان کو، ایتھوپیائی میں املاک، اس کے علاوہ ٹائو، یزداں، اہورمزدا، ایل، الہ، زیوس، یہواہ کے الفاظ بھی اسی خالقِ کائنات کے لیے ہی مختص ہیں۔مسلمان صوفیا کرام،اولیاء اللہاور بزرگانِ دین نے بھی اللہ کو کئی ناموں سے پکارا ہے، مثلاً سیدناجعفر صادقنے منعم (نعمت عطا کرنے والا)، منان (احسان کرنے والا)، وتر (ایک یگانہ)، نعم المولیٰ (سچا ساتھی)، فرد (یکتا)، فعال لمایرید (جو چاہتا ہے وہ کر سکتا ہے)، سریع (جلدی کرنے والا)، متفضل (بزرگی والا) اور معین (اعانت کرنے والا) کو بطور اسمِ الٰہی تحریر کیا۔
+شیخ ابن عربی، عبد الکریم اور الجبلی نے الاعماءکو اسم الٰہی کہا غوث اعظم شیخعبد القادر جیلانینے سرو بالا (محبوب)، سلطان (بادشاہ)، صدرِ جنت (جنت کا مالک)، رفیق (دوست)، مونس (ساتھی)، بے چوں (بے مثال)، جملہ منم (سب کچھ میں ہی ہوں)، جزمن یک زرّہ نیست (میرے بغیر ایک زرّہ نہیں)، پے دائی (ظاہر)، پنہاں (باطن)کے الفاظ بطور اسمِ الٰہی پیش کیے۔
+خواجہمعین الدین چشتینے خدا (خود آنے والا)، ہستئ مطلق(آزاد ہستی) جبکہ مولانا جلال الدین رومی نے بادشاہِ حقیقی، مصلحی (صلاح کرنے والا)، سلطانِ سخن (کلام کا بادشاہ)، خورشید (نور، آفتاب)، لایزال (لازوال)، یکے (اکیلا)، محی عظم رمیم (مردہ ہڈیوں میں جان ڈالنے والا) کو بطور اسمائے الہٰیہ تحریر فرمایا۔بابابلھے شاہنے پنجابی اورفارسی زبانکے الفاظ شوہ (خدا)، وہیا (وہی)، لاانتہا، ہمہ دان(سب جاننے والا)، قادر مطلق (ہر شے پر قادر)، بے چون (بے مادہ)، نر وید (خداوند)، اِکلا (اکیلا)، اِک، احد (ایک)، سوہنا یار (پیارا ساتھی) کو اللہتعالیٰ کے صفاتی ناموں کے طور پر استعمال کیا شاہ عبد اللطیف بھٹائی نےسندھی زبانکے الفاظ راول (محبوب)، ڈاٹر (داتا)، سجن (پیارا)، ھِک (ایک)، جوڑیاں جوڑ جہان (خالق کائنات)، دھڑیں(دینے والا)، صاحب (مالک) کے ذریعے خدا کو مخاطب کیا حضرت شاہولی اللہنے توریت میں درج اسم الٰہی ”اہیا اشراہیا“ کو بھی اپنی کتاب میں تحریر فرمایا اور اس کے معنی ”الحئ القیوم“ بتائے ہیں حضرت بابا فرید نے اپنے اشعار میں اللہ اور رب کے ساتھ سائیں (خدا، محبوب)، شَوہ (مالک)، ننڈھڑا (صمد)، وڈ (بڑا)، صاحب سچے (سچا مالک)، صاحب سدا (مہربان مالک)، کھسم (مالک، رب)، دھنی (مالک)، کنت (رب) کو بھی بطور اسمِ الٰہی بیان کیا ہے
+شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت باباتاج الدینناگپوری نے بھی اللہتعالیٰ کے کئی اسم اپنے ہندی اشعار میں بیان فرمائے ہیں۔ بابا تاج الدین شاعری میں اپنا تخلص ”داس ملوکا“ کرتے تھے۔ داس کے معنی بندہ اور ملوکا کے معنی خدا کے ہیں۔ ملوکا کے علاوہ بابا تاج الدین نے داتا (پرورش کرنے والا)، رام (خدا)، پربھو (عبادت کے لائق) اور کرتا (قادر کریم) کو بھی اپنی شاعری میں اللہ کے صفاتی نام کے بطور استعمال کیا ہے
+عظیم روحانی سائنس دان ابدال حق حضور قلندر بابا اولیائ نے اپنی شہرئہ آفاق تصنیف ”لوح وقلم“ میں 134 اسمائے الہٰیہ تحریر فرمائے ہیں، جن میں سے چند ہم یہاں نقل کر رہے ہیں، یہ وہ اسماءہیں جو معروف 99 اسماءکے علاوہ ہیں عدیل (انصاف کرنے والا)، معبود (عبادت کے لائق)، راشد (رہنما)، منعم (نعمت عطا کرنے والا)، شافی (شفا دینے والا)، کلیم (گفتگو کرنے والا)، خلیل (دوست)، نذیر (ڈرانے والا)، بشیر (خوشخبری دینے والا)، ناصر (مدد کرنے والا)، مختار(اختیار دینے والا)، قاسم (بانٹنے والا)، محسن (احسان کرنے والا)، مشیر (مشورہ دینے والا)، واقع (قائم)، وقیع (بھاری بھرکم)، امین (امانت دار)، جواد (سخی، فیاض)، طیب (پاکیزہ)، طاہر (مقدس)، کامل (غیر ناقص)، صبوح (پاک)، محمود (قابلِ تعریف)، حامد (تعریف کرنے والا) اور شاہد (حاضر)حضرتاحمد رضا خانبریلوی سے منسوب اوراد و وظائف پر مبنی کتاب شمع شبستانِ رضا (حصہ دوم ) میں اللہ کے معروف 99 اسماء کے علاوہ بھی کئی اسماء درج ہیں۔ جن میں درج ذیل اسم بھی شامل ہیں:رب، معطی، دیّان، بصیر، اکبر، دافع، دلیل، دائم، قدیم، شافی، حنان، منان۔ سریع، مقیم، سبوح، حافظ، ستار، صانع، مسب الاسباب، احکم الحاکمین، محتسب، کافی، دافی، عادل، ثابت، زکی، معظم، نصیر، متکلم، سبحان، قدیر، محمود، صدق، نقی، نقصّ، قائم، الہ، مخفی، برھان، سلطان، سلٰم، حامد، شاہد، جمیل، مالک، ملیک، حاکم، عالم، اعلیٰ، وحید، معیز، معین، مستسبن، قریب
+[شمع شبستانِ رضا، حصہ دوم صفحہ 41 تا 43]معروف روحانی اسکالر اور اللہ کے دوست حضرتخواجہ شمس الدین عظیمینے اللہ کو لاانتہا لامحدود، لازوال ہستی، نگراں ذات، محیطِ کُل، غیبُ الغیب، دوست، وجودِ مدرک، ماوراءُ لماوراء، حقیقت، وراءُ الوراء، حقیقت مطلقہ، غیر متغیر ہستی، ماوراء الماورائی ہستی کے ناموں سے پکارا ہے۔سائیں باجھوں آپنے ویدن کہیئے کِسسوائے خدا کے کسی اور کی طرف منہ نہ کرتے[159]میتھوں ہور نہ کوئی سیاناں ؛ بلھّا شوہ کیہڑا ہے کون
+بلھّا کیہ جاناں میں کوننہ مجھے تیرے ے سوا کوئی سمجھدار لگتا ہے، بلھے شاہ کون کس کا محبوب ہے،
+بلھے شاہ کیا جانوں میں کون ہوں۔[160]جاں میں ماری ہے اڈی مل پئیا ہے وہیئاتیرے عشق نچایا کر تھیا تھیاجیسے ہی میں نے اڑان بھری میں نے اس کو پالیا،تیرے عشق نے مجھے نچایا کرکے تھیا تھیا۔[161]رنگا رنگ پیدائش اس دی انت حسابوں باہررنگا رنگ مخلوقات اس کی، جس کی تعداد حسابوں سے باہر ہے۔
+۔[162]سر بھریا بھی چلسی ٹہکے کنول اِکلیہ تالاب بھی سوکھ جائے کا رہ جائے گا شان دکھاتا کنول اکیلا
+۔[163]تانگھ آوے ودھدی سک آوے چڑھدیانتظاربھی دم بدم اورذوق و شوق بھی بڑھ رہا ہے
+۔[164]جے جاناں شَوہ ننڈھڑا تھوڑا مان کریںاگر جانتا کہ خدا بے نیاز ہے، تو تھوڑا اور کی مانگ کرتا
+۔[165]ایہہ ہمارا جیونا، تُوں صاحِب سچّے ویکھیہی ہماری زندگی ہے، تو سچے مالک دیکھ
+۔[166]کَون سو ویسو ہَوں کِری جِت وَس آوے ��نتہیاؤ نہ کہیں ٹھاہیں، مانک سبھ امَولویںایسی ہستی جس کی کوئی حد نہ ہو، جس کی کوئی مثال نہ ہو، ظاہر و باطن کی کوئی شے اس سے مشابہ نہیں، سب اُس کے محتاج ہیں، اُسے کسی کی احتیاج نہیں، دنیا کی ساری زبانوں کے سارے الفاظ مل کر بھی اُس ہستی کا احاطہ نہیں کرسکتے ایسی لازوال ہستی کو سمجھنے اور اُس کا عرفان حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ محدود طرزِفکر کے دائرے سے باہر نکل کر سوچا جائے۔مذکورہ بیانات کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت ہمارے ذہن پر منکشف ہوتی ہے کہ بالفرض اگر ہم اللہ کی لامحدود صفات کا تذکرہ کرتے ہیں تو اِس لامحدودیت کے تذکرے سے بھی ہماری محدودیت ہی اُجاگر ہوتی ہے۔ فی الواقع انسان کا شعور اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا احاطہ کرسکے۔ انسان کی لامحدود نگاہ بھی اللہ کے سامنے محدود ہے۔ انسان کا اللہ کو پہچاننا فقط اُس کی اپنی استعداد کی حد تک ہے۔ اللہ تعالیٰ آخری الہامی کتاب قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:[1]قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+445,مسیحیت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%DB%8C%D8%AD%DB%8C%D8%AA,"مَسِیحِیَّتایکتثلیثکا عقیدہ رکھنے والا مذہب ہے، جویسوعکومسیح،خدا کا بیٹااور خدا کا ایک اقنوم مانتا ہے۔ اور اسے بھی عین اسی طرح خدا مانتا ہے، جیسے خدا اورروح القدسکو۔ جنہیں بالترتیبباپ،بیٹااورروح القدسکا نام دیا جاتا ہے۔
+مسیحیوں کے ابتدا تین فرقے تھے۔ یعقوبیہ، نسطوریہ اور ملکانیہ۔ یہ تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ
+تین ایک ہے اور ایک تین ہے۔
+اب، ابن اور روح القدس۔
+اب عین ابن ہے اور ابن عین اب ہے۔
+اسی طرح دوسرے کئی عقائ�� بھی ہیں۔
+اپنے پیروکاروں کی تعداد کی اعتبار سے مسیحیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔[4]2019ء میںرومی کاتھولک،مشرقی راسخ الاعتقاداورپروٹسٹنٹگروہوں کی تعداد 2.4 ارب تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین میں بسنے والے تقریباً ہر تین افراد میں سے کسی نہ کسی ایک کا تعلق مسیحیت سے ہے۔ ظاہری بات ہے کہ اتنے زیادہ لوگوں پر مشتمل مذہب میں عقائد و وظائف کی وسیع تعداد ہوگی۔ عمومی لحاظ سے مسیحیوں میںیسوع ناصریکی انفرادیت کے بارے میں عقیدہ مشترک ہے کہ وہ خدا کے بیٹے تھے اور انھوں نے اپنی صلیبی موت کے ذریعہ انسانیت کاکفارہادا کیا اور اپنی موت کے تیسرے دن ہی قبر سےجی اٹھے۔مسیحی لوگمذہب میں داخلے کے لیےبپتسمہپر عقیدہ رکھتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ ایمان لانے والے کے پاس ایک زندگی ہے جس میں اُسےحیات بعد الموتکے لیے اپنی تقدیر کے متعلق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اس تقدیر میں عموماً جنت کی ابدی رحمت یا جہنم کا دائمی عذاب شامل ہے۔مسیحیت میں کئی فرقے ہیں، جن میں دو بڑے فرقے ہیں کاتھولک اور پروٹسٹنٹ۔[5]پپچھلے 100 سالوں میں سب سے تیزی سے بڑھنے والا گروپ وہ ہیں جو ہولی اسپرٹ موومنٹ کے اندر ہیں (روح القدسخدا کی روح ہے)۔یہ تحریک بنیادی طور پر Pentecostal-Charismatics پر مشتمل ہے،جو پروٹسٹنٹ اور کیتھولک دونوں کے اندر ہیں۔یہ تحریک خدا کی طرف سے بہت سے معجزاتی، مافوق الفطرت اور روحانی انکشافات کو دیکھتی ہے۔یہ تحریک مستقبل میں بھی بڑھنے کا امکان ہے۔مسیحیت مذہب پہلی صدیعیسویمیں وجود میں آیا۔یسوع مسیحجن کو اسلامی دنیاعیسیٰ ابن مریمکے نام سے پکارتی ہے، ان کوتثلیثکا ایک جزو یعنی خدا ماننے والے مسیحی کہلاتے ہیں۔ لیکن کچھ فرقے یسوع کو خدا نہیں مانتے وہ انھیں ایک نبی یا عام انسان مانتے ہیں۔مسیحیت میں تین خداؤں کا عقیدہ بہت عام ہے جسےتثلیتبھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر مسیحی کہتے ہیںباپ،بیٹا،روح القدسایک ہے اور وہ اپنے آپ کو موحدین (ایک خدا کے ماننے والے) کہتے ہیں۔ اور اسےتوحیدفی التثلیث کا نام دیتے ہیں۔مسیحیت ایک سامی مذہب ہے۔ یہ تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں اس کے لگ بھگ دو ارب پیروکار ہیں۔[4]مسیحییسوع مسیحپر اعتقاد رکھتے ہیں۔ مقدس بائبل مسیحیوں کی مقدس کتاب ہے۔بائبل مسیحیت کی مقدس کتاب ہے۔ بائبل کے دوحصے ہیں، عہد نامہ قدیم (عتیق) اورعہد نامہ جدید۔ساکرامنٹ لاطینی زبان کا لفظ ہے اور اِس سے مُراد وہ کام ہیں جویسوع مسیحنے ازخود کیے اور کرنے کا حکم صادر فرمایا[6]۔ اسی لیے مسیحیت کا پروٹسٹنٹ فرقہبپتسمہاور پاک شراکت/یوخرست کو ساکرامنٹ مانتا ہے[7]جبکہرومن کاتھولکسات ساکرامنٹ بالترتیببپتسمہ، استحکام، پاک شراکت/یوخرست، اعتراف، بیماروں کی مالش، پاک خدمت اور پاک نکاح کا قائل ہے[8]۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+446,مسیح,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%DB%8C%D8%AD,مسیحیامسیحابطور نجات دہندہ کا تصورابراہیمی ادیانمیں ایسے نجات دہندہ کے طور پرلیا جاتا ہے جو لوگوں کو مصیبتوں سے نجات دلائے گا اور دنیا میں اُن لوگوں کے مذہب کو سربلند کرے گا۔ مسیحا کا تصور، یہودیوں، مسیحیوں، احمدیوں اور مسلمانوں ہاں موجود ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لفظ سیاحت سے نکلا ہے لیکن مسیحعبرانی زبانکا لفظ ہے، جہاں سے یہ دوسری زبانوں میں آیا۔یہودی اپنے نجات دہندہ کا آخری معلوم نامیَبُل، یُوبِلیاہُبَلبتاتے ہیں اور اس کا لقب ان کے ہاںمسیحایامَسِیّاہے۔مسیحیوں میںیسوعمسیح کو اُن کا نجات دہندہ سمجھ�� جاتا ہے، بائبل میں یسوع مسیح کو یہودیوں کا بادشاہ لکھا گیا ہے۔ انھیں ہی وہ مسیح مانا گیا ہے جس کا یہودی انتظار کر رہے تھے۔ مزید یسوع مسیح کے متعلق اُن کا یہ تصور ہے کہ انھوں نے انسانوں کے گناہوں کا کفارہ اپنی جان دے کر کیا، اس لیے بھی وہ انسانیت کے نجات دہندہ ہیں۔اسلام میں سیدناعیسیٰ بن مریمکومسیحمانا جاتا ہے۔
+448,لکھنؤ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A4,"لکھنؤ(ہندی:लखनऊ)بھارتکی سب سے زیادہ آبادی والیریاستاتر پردیشکادار الحکومت،اوراردوکا قدیم گہوارہ ہے نیز اسے مشرقی تہذیب و تمدن کی آماجگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر میںضلع لکھنؤاور لکھنؤ منڈل کا انتظامی صدر دفتر موجود ہے۔ لکھنؤ شہر اپنی نزاکت، تہذیب و تمدن، کثیر الثقافتی خوبیوں،دسہریآمکے باغوں اور چکن کی کڑھائی کے کام کے لیے معروف ہے۔ سنہ2006ءمیں، اس کی آبادی 2،541،101 اور شرح خواندگی 68.63 فیصد تھی۔حکومت ہندکی2001ءکی مردم شماری، سماجی اقتصادی اشاریہ اور بنیادی سہولت اشاریہ کے مطابقضلع لکھنؤاقلیتوں کی گنجان آبادی والا ضلع ہے۔کانپورکے بعد یہ شہراتر پردیشکا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔ شہر کے درمیان میںدریائے گومتیبہتا ہے جو لکھنؤ کیثقافتکا بھی ایک حصہ ہے۔لکھنؤ اس خطے میں واقع ہے جسے ماضی میںاودھکہا جاتا تھا۔ لکھنؤ ہمیشہ سے ایک کثیر الثقافتی شہر رہا ہے۔ یہاں کے حکمرانوں اور نوابوں نے انسانی آداب، خوبصورت باغات،شاعری،موسیقیاور دیگرفنون لطیفہکی خوب پزیرائی کی۔ لکھنؤ نوابوں کا شہر بھی کہلاتا ہے نیز اسے مشرق کا سنہری شہر اور شیراز ہند بھی کہتے ہیں۔ آج کا لکھنؤ ایک ترقی پزیر شہر ہے جس میں اقتصادی ترقی دکھائی دیتی ہے اور یہ بھارت کے تیزی سے بڑھ رہے بالائی غیر میٹرو پندرہ شہروں میں سے ایک ہے۔[8]لکھنؤہندیاوراردوادبکے مراکز میں سے ایک ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ اردو بولتے ہیں۔ یہاں کا لکھنوی انداز گفتگو مشہور زمانہ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ہندی اورانگریزیزبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔قدیم دور میں لکھنؤمملکت کوسلکا حصہ تھا۔ قدیم ہندو روایتوں کے مطابق یہ یہرامکی وراثت تھی جسے انھوں نے اپنے بھائیلکشمنکے لیے وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ اس کو لكشماوتی، لكشم پور یا لکھن پور کے نام سے جانا گیا، جو بعد میں بدل کر لکھنؤ ہو گیا۔[9]یہاں سےایودھیا80 میل کی دوری پر واقع ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اس شہر کا نام ""لكھن اهير"" جو ""لكھن قلعہ"" کے اہم فنکار تھے، کے نام پر رکھا گیا۔ تاہمدلتلوگوں کا ماننا ہے کہ ""لکھن پاسی"" جو علاقے کا دلت حکمران تھا یہ اس کے نام سے منسوب ہے، جسے ""لکھن پور"" کہا جاتا تھا جوگیارہویں صدیمیں بگڑ کر لکھنؤ ہو گیا۔[10][11]ایک اور مفروضہ کے تحت شہر کا نام دولت کیہندودیویلکشمیکے نام پر ہے جو اصل میں ""لکشمناوتی"" سے ""لکشمناوت"" اور آخر کار لکھنؤ ہو گیا۔[12]1350ءکے بعد سےسلطنت دہلی،سلطنت جونپور،مغلیہ سلطنتاورنواب اودھ،برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنیاوربرطانوی راجکے تحت لکھنؤاودھکا حصہ رہا ہے۔جنگ آزادی ہند 1857ءکے دوران میں لکھنؤ بڑے مراکز میں سے ایک تھا۔تحریک آزادی ہندمیں بھی یہ ایک اہم شمالی ہندوستانی شہر کے طور پر ابھرا۔1719ءتکاودھمغلیہ سلطنتکا ایک صوبہ تھا جس کا گورنربرہان الملک سعادت علی خانتھا جس نے لکھنؤ کے قریبفیض آبادکو اپنا مرکز بنایا۔[14]تقریباًچوراسیسال (1394ء سے 1478ء)اودھسلطنت جونپورکا حصہ رہا۔1555ءکے لگ بگمغلشہنشاہہمایوںنے اسےمغلیہ سلطنتمیں شامل کیا۔ شہنشاہجہانگیرنے اسے ایک پسند��دہ شاہی افسر شیخ عبد الرحیم کو بطور ریاست عطا کیا۔ اس کے بعد یہ اس کی اولاد ""شیخ زادوں"" کے زیر رہا۔[15]اودھکےنوابوںنے لکھنؤ کو اپنادار الحکومتبنایا۔ شہر شمالی ہندوستان کا ثقافتی دار الحکومت بنا۔ اس وقت کے نواب، عیاش اور شاہانہ طرز زندگی کے لیے مشہور ہوئے جو فن کے قدردان و سرپرست تھے۔ ان کے دور میں موسیقی اور رقص کو فروغ ملا، اس کے علاوہ انھوں نے متعدد یادگاریں بھی تعمیر کیں۔[16]ان میںبڑا امام باڑا،چھوٹا امام باڑااوررومی دروازہقابلِ ذکر ہیں۔ نوابوں کی خاص میراث میں خطے کی ہندو مسلم ثقافت کے میل جول کوگنگا جمنی تہذیبکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[17]مغلیہ سلطنتکے زوال کے بعد علاقے میں کئی خود مختار ریاستیں قائم ہوئیں۔اودھکے تیسرےنوابشجاع الدولہکینواب بنگالکیمیر قاسمکی مدد کرنے پر انگریزوں سے ٹھن گئی۔بکسر کی لڑائیمیں تقریباً شکست کھانے کے بعد بھاری تاوان کے علاوہ ریاست کچھ حصے بھی انگریزوں کے حوالے کرنا پڑے۔[18]لکھنؤ کے موجودہ شکل کی بنیاداودھکے چوتھےنوابآصف الدولہنے1775ءمیں رکھی۔ اس نےدار الحکومتفیض آبادسے لکھنؤ منتقل کیا اور اس کو ترقی دی۔[19]لیکن بعد کے نواب نااہل ثابت ہوئے۔ ان نوابوں کی نااہلی کے نتیجے میں آگے چل کرلارڈ ڈلہوزینے اودھ کو بغیر جنگ کیے ہی حاصل کر کےسلطنت برطانیہمیں ملا لیا۔1850ءمیں اودھ کے آخری نوابواجد علی شاہنے برطانوی تابعداری قبول کر لی۔
+اس معاہدے نے مؤثر طریقے سے ریاست اودھ کوایسٹ انڈیا کمپنیکا جاگیر بنا دیا، حالانکہ یہ 1819ء تکمغلیہ سلطنتکا حصہ بنی رہی۔ 1801ء کا معاہدہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے ایک فائدہ مند انتظام ثابت ہوا کیونکہ انھیں اودھ کی حکومت تک رسائی حاصل ہوئی۔ خطہ کے وسیع خزانے، کم شرحوں پر قرضوں کے لیے بار بار ان میں کھدائی۔ اس کے علاوہ، اودھ کی مسلح افواج کو چلانے سے حاصل ہونے والی آمدنی نے انھیں مفید منافع دیا جب کہ یہ علاقہ ایک بفر ریاست کے طور پر کام کرتا تھا۔ نواب رسمی بادشاہ تھے، شوخ و شوکت میں مصروف رہتے تھے۔ تاہم انیسویں صدی کے وسط تک، انگریز اس انتظام سے بے چین ہو گئے تھے اور انھوں نے اودھ پر براہ راست کنٹرول کا مطالبہ کیا۔[20]1856ء میںایسٹ انڈیا کمپنینے پہلے اپنی فوجیں سرحد پر منتقل کیں، پھر مبینہ بد انتظامی کی وجہ سے ریاست کا الحاق کر لیا۔ اودھ کو ایک چیف کمشنر - سرہنری منٹگمری لارنسکے تحت رکھا گیا تھا۔ اس وقت کے نوابواجد علی شاہکو جیل میں ڈال دیا گیا، پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نےکلکتہکو جلاوطن کر دیا۔[21]جنگ آزادی ہند 1857ءکے بعد اس کے 14 سالہ بیٹےبرجیس قدر، جن کی والدہبیگم حضرت محلتھیں، کو حکمران بنایا گیا۔ بغاوت کی شکست کے بعد، بیگم حضرت محل اور دیگر باغی رہنماؤں نےنیپالمیں پناہ مانگی۔[22]لکھنؤجنگ آزادی ہند 1857ءکے بڑے مراکز میں سے ایک تھا اور اس نےتحریک آزادی ہندمیں فعال طور پر حصہ لیا، جو شمالی ہندوستان کے ایک اہم شہر کے طور پر ابھرا۔ جنگ آزادی کے دوران میں (جسے ہندوستان کی آزادی کی پہلی جنگ اور ہندوستانی بغاوت بھی کہا جاتا ہے)،ایسٹ انڈیا کمپنیکے فوجیوں کی اکثریت اودھ کے لوگوں اور شرافت دونوں سے بھرتی کی گئی تھی۔
+باغیوں (برطانوی نقطہ نظر سے) نے ریاست پر قبضہ کر لیا اور انگریزوں کو اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے میں 18 ماہ لگے۔ اس عرصے کے دوران، لکھنؤ میںریزیڈینسیپر قائم گیریژن کامحاصرہکے دوران میں باغی افواج نے محاصرہ کر لیا تھا۔ محاصرہ کو سب سے پہلے سرہینری ہیولاکاور سر جیمز آ��ٹرام کی کمان میں فوجوں نے چھٹکارا دلایا، اس کے بعد سر کولن کیمبل کی قیادت میں ایک مضبوط فورس نے۔ آج ریزیڈنسی اور شہید اسمارک کے کھنڈر 1857ء کے واقعات میں لکھنؤ کے کردار کی بصیرت پیش کرتے ہیں۔[23]بغاوت ختم ہونے کے بعد،ریاست اودھایک چیف کمشنر کے تحت برطانوی حکومت میں واپس آ گئی۔ 1877ء میں شمال مغربی صوبوں کے لیفٹیننٹ گورنر اور اودھ کے چیف کمشنر کے دفاتر کو ملایا گیا۔ پھر 1802ء میںآگرہ اور اودھ کے متحدہ صوبےکے قیام کے ساتھ چیف کمشنر کا خطاب ختم کر دیا گیا، حالانکہ اودھ نے اپنی سابقہ آزادی کے کچھ نشانات ابھی تک برقرار رکھے ہوئے ہیں۔[24]تحریک خلافتکو لکھنؤ میں حمایت کا ایک فعال اڈا حاصل تھا، جس نے برطانوی حکومت کے خلاف متحدہ مخالفت پیدا کی۔ 1901ء میں 1775ء سے اودھ کا دار الحکومت رہنے کے بعد، 264,049 کی آبادی کے ساتھ لکھنؤ کوآگرہ اور اودھکے نو تشکیل شدہ متحدہ صوبوں میں ضم کر دیا گیا۔[25]1920ء میں صوبائی حکومت کی نشستالٰہ آبادسے لکھنؤ منتقل ہو گئی۔ 1947ء میںتحریک آزادی ہندکے بعد، متحدہ صوبوں کو ریاست اترپردیش میں دوبارہ منظم کیا گیا اور لکھنؤ اس کادار الحکومترہا۔[26]لکھنؤ ہندوستان کی تاریخ کے کچھ اہم لمحات کا گواہ ہے۔انڈین نیشنل کانگریسکے 1916ء کے اجلاس کے دوران میںموہن داس گاندھی،جواہر لعل نہرواورمحمد علی جناحکی پہلی ملاقات ہے،میثاق لکھنؤپر دستخط کیے گئے اور صرف اسی سیشن کے دوران میںاینی بیسنٹکی کوششوں سے اعتدال پسند اور انتہا پسند اکٹھے ہوئے۔کاکوری ڈکیتیجس میںرام پرساد بسمل،اشفاق اللہ خان،راجندر لہری، روشن سنگھ اور دیگر شامل تھے، جس کے بعد کاکوری مقدمہ چلا جس نے ملک کا تصور بھی لکھنؤ کر لیا۔[27]ثقافتی طور پر، لکھنؤ میں بھیطوائفوںکی روایت رہی ہے،[28]جس میں مشہور ثقافت اسے افسانویامراؤ جان ادامیں کشید کرتی ہے۔دریائے گومتیلکھنؤ کی اہم جغرافیائی خصوصیات میں سے ہے۔ لکھنؤ میںسندھ و گنگ کا میدانواقع ہے اور بہت سے دیہی قصبوں اور دیہاتوں سے گھرا ہوا ہے جن میںملیح آباد،کاکوری، موہن لال گنج،گوسین گنج، لکھنؤ، چینہٹ اوراتونجاشامل ہیں۔ مشرق میںضلع بارہ بنکیاورضلع بہرائچ، مغرب میںاناؤ ضلع، جنوب میںرائے بریلی ضلعجبکہ شمال میںضلع سیتاپوراورہردوئی ضلعواقع ہیں۔[29]لکھنؤ کی آب و ہوا مرطوب ذیلی استوائی ہے، فروری کے وسط نومبر تک خشک سردی، اواخر مارچ سے جون تک موسم خشک گرم ہوتا ہے۔ برسات کا موسم جولائی سے ستمبر کے وسط تک ہوتا ہے۔
+موسم سرما میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 25 ° س (77 ° ف) اور کم سے کم 7 ° س (45 ° ف) ہوتا ہے۔[30]دسمبر کے وسط سے جنوری کے آخر تک دھند کافی عام ہے۔ کبھی کبھار، لکھنؤ میںشملہاورمسوری، اتراکھنڈجیسے مقامات کے مقابلے میں سردیوں کے موسم زیادہ ہوتے ہیں جوسلسلہ کوہ ہمالیہمیں کافی بلندی پر واقع ہیں۔ 2012-2013ء کے غیر معمولی سردی کے موسم میں، لکھنؤ میں مسلسل دو دن درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے ریکارڈ کیا گیا اور کم از کم درجہ حرارت نقطہ انجماد کے ارد گرد ایک ہفتہ سے زیادہ رہا۔ گرمیاں بہت گرم ہوتی ہیں اور درجہ حرارت 40 سے 45 ° C (104 سے 113 ° F) کی حد میں بڑھ جاتا ہے، اوسط زیادہ سے زیادہ 30 سیلسیس میں ہوتا ہے۔لکھنؤ ڈویژنجو چھ اضلاع پر مشتمل ہے اور اس کی سربراہی لکھنؤ کے ڈویژنل کمشنر کرتے ہیں، جو اعلیٰ سنیارٹی کےآئی اے ایسافسر ہیں، کمشنر ڈویژن میں مقامی حکومتی اداروں (بشمول میونسپل کارپوریشنز) کا سربراہ ہوتا ہے، جو اپنے ڈویژن میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا انچارج ہے اور ڈویژن میں امن و امان کو برقرار رکھنے کا بھی ذمہ دار ہے۔[33][34][35][36][37]لکھنؤ کا ضلع مجسٹریٹ نے ڈویژنل کمشنر کو رپورٹ کرتا۔ موجودہ کمشنر مکیش میشرم ہیں۔[38][39]لکھنؤ کی ضلعی انتظامیہضلع لکھنؤکے مجسٹریٹ کی سربراہی میں ہے، جو ایکآئی اے ایسافسر ہے۔ ڈی ایم مرکزی حکومت کے لیے جائداد کے ریکارڈ اور محصولات کی وصولی کا انچارج ہے اور شہر میں ہونے والےانتخاباتکی نگرانی کرتا ہے۔ ضلع میں پانچتحصیلیںہیں، ویز صدر، موہن لال گنج، بخشی کا تالاب، ملیح آباد اور سروجنی نگر، ہر ایک سب ڈویژنل مجسٹریٹ کی سربراہی میں ہے۔[40]موجودہ ڈی ایم ابھیشیک پرکاش ہیں۔[38][39][40]ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی مدد ایک چیف ڈیولپمنٹ آفیسر (سی ڈی او)، آٹھ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس (اے ڈی ایم) فنانس/ریونیو، ایسٹ، ویسٹ ٹرانس گومتی، ایگزیکٹو، لینڈ ایکوزیشن-1، لینڈ ایکوزیشن-2، سول سپلائی)، ایک سٹی مجسٹریٹ (سی ایم) اور سات ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ (اے سی ایم) ہیں۔[40]لکھنؤ میونسپل کارپوریشنشہر میں شہری سرگرمیوں کی نگرانی کرتی ہے۔ شہر کی پہلی میونسپل باڈی 1862ء سے شروع ہوئی جب میونسپل بورڈ کا قیام عمل میں آیا۔[41]پہلے ہندوستانی میئر،سيد نبی اللہ، 1917ء میں یوپی میونسپلٹی ایکٹ، 1916ء کے نفاذ کے بعد منتخب ہوئے۔ بھیرو دت سنوال منتظم بنے۔ 1959ء میں یوپی میونسپلٹی ایکٹ، 1916ء کو اترپردیش میونسپل کارپوریشن ایکٹ، 1959ء سے بدل دیا گیا اورلکھنؤ میونسپل کارپوریشنکا قیام 1960ء میں راج کمار شریواستو کے میئر کے ساتھ کیا گیا۔[42]کارپوریشن کا سربراہ میئر ہوتا ہے، لیکن کارپوریشن کا ایگزیکٹو اور انتظامیہ میونسپل کمشنر کی ذمہ داری ہے، جوحکومت اتر پردیشکی طرف سے مقرر کردہانڈین ایڈمنسٹریٹو سروسزکا اعلیٰ سینیارٹی کا افسر (آئی اے ایس) ہے۔ آخری میونسپل الیکشن 2017ء میں ہوا جببھارتیہ جنتا پارٹیکی سنیوکتا بھاٹیہ لکھنؤ کی پہلی خاتون میئر بنیں۔[43]بھارتیہ جنتا پارٹی نے کونسلر کی 57 نشستیں حاصل کیں،سماجوادی پارٹینے 31 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، آزاد امیدواروں نے 14 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اورانڈین نیشنل کانگریسنے 8 نشستیں حاصل کیں۔[44]اجے کمار دویدی، ایکآئی اے ایسافسر، 17 اگست 2020ء سے موجودہ میونسپل کمشنر ہیں۔[45]اترپردیش میونسپل کارپوریشن ایکٹ، 1959ء وارڈ کمیٹیوں کے قیام کے لیے دفعات دیتا ہے، لیکن وہ ابھی تک تشکیل نہیں دی گئی ہیں۔[46]لکھنؤ میونسپل کارپوریشنکے لیے آمدنی پیدا کرنے کے ذرائع میں پراپرٹی ٹیکس، ایس ڈبلیو ایم کے لیے یوزر چارجز، جرمانے، میونسپل پراپرٹیز سے کرایہ، پانی ذخیرہ کرنے سے حاصل ہونے والی آمدنی، پانی کی ترسیل، نکاسی اور صفائی، گرانٹ اور خدمات جیسے پیدائش اور موت کے سرٹیفکیٹس کے چارجز شامل ہیں۔[47][48]میونسپل کارپوریشن میں درج ذیل انتظامی محکمے ہیں: محکمہ صحت، محکمہ ہاؤس ٹیکس، محکمہ انجینئری، محکمہ پارک، محکمہ اشتہارات، محکمہ اکاؤنٹنگ، محکمہ جائداد۔[49]مختلف سیاسی جماعتوں کے 12 منتخب کونسلروں پر مشتمل ایک ایگزیکٹو کمیٹی (کارکرنی کمیٹی) بھی ہے، جو کارپوریشن کے پالیسی معاملات پر فیصلہ کرتی ہے۔[50]پولیس کمشنریٹ سسٹم 14 جنوری 2020ء کو لکھنؤ میں متعارف کرایا گیا تھا۔ ضلعی پولیس کی سربراہی پولیس کمشنر (سی پی) کرتے ہیں، جو اے ڈی جی پی رینک کے آئی پی ایس افسر ہیں اور اس کی مدد دو جوائنٹ کمشنر آف پولیس (آئی جی رینک) کرتے ہیں اور پانچ ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ایس پی رینک)۔ لکھنؤ کو پانچ زونوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک کا سربراہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس ہوتا ہے۔ دو جوائنٹ کمشنرز میں سے ایک امن و امان کی دیکھ بھال کرتا ہے، دوسرا جرم۔ لکھنؤ شہر کے موجودہ پولیس کمشنر آئی پی ایس ایس بی شروڈکر ہیں۔[51]ضلعی پولیس ہائی ٹیکنالوجی کنٹرول رومز کے ذریعے شہریوں کا مشاہدہ کرتی ہے اور تمام اہم سڑکوں اور چوراہوں کی سی سی ٹی وی اور ڈرون کیمروں کی مدد سے نگرانی کی جاتی ہے۔[52]کالی مرچ چھڑکنے والے ڈرون کی مدد سے ہجوم کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔[53]لکھنؤ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے شہر کی سڑکوں اور تینوں مقامات پر 10,000 سے زیادہ سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں، جس سے لکھنؤ ایسا کرنے والا ملک کا پہلا شہر بن گیا ہے۔[54]لکھنؤ ماڈرن پولیس کنٹرول روم (مختصر طور پر ایم سی آر)بھارتکا سب سے بڑا 'ڈائل 112' سروس سینٹر ہے جس میں ریاست بھر سے 300 کمیونیکیشن افسران اور 200 ڈسپیچ افسران پولیس کی مدد کے لیے پہنچتے ہیں۔[55]اسےبھارتکا سب سے ہائی ٹیک پولیس کنٹرول روم کہا جاتا ہے۔[56]لکھنؤ 1090 ویمن پاور لائن کا مرکز بھی ہے، جو ایک کال سینٹر پر مبنی سروس ہے جو چھیڑ چھاڑ سے نمٹنے کے لیے ہے۔ ایک مربوط 'ڈائل 112' کنٹرول روم کی عمارت بھی وہاں ہے جس میں دنیا کا سب سے بڑا جدید پولیس ایمرجنسی رسپانس سسٹم (پی ای آر ایس) ہے۔[57]لکھنؤ میںالہ آباد ہائی کورٹکا ایک بنچ ہے۔ اس کے علاوہ لکھنؤ میں ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ، پانچ سی بی آئی کورٹ، ایک فیملی کورٹ اور دو ریلوے کورٹ ہیں۔ ہائی کورٹ بنچ کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اور سی بی آئی کی عدالتیں قیصر باغ میں واقع ہیں اور ریلوے عدالتیں چارباغ میں ہیں۔[58]1 مئی 1963ء سے لکھنؤبھارتی فوجکی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر رہا ہے، جس سے پہلے یہ مشرقی کمان کا ہیڈ کوارٹر تھا۔[59]لکھنؤ میںنیشنل انویسٹیگیشن ایجنسیکا ایک برانچ آفس بھی ہے جوبھارتمیں دہشت گردانہ سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے ذمہ دار ہے۔[60]یہ نکسل اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے پانچ ریاستوںبہار،مدھیہ پردیش،اتراکھنڈ،جھارکھنڈاورچھتیس گڑھکی نگرانی کرتا ہے۔[61]شہر میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی نگرانی لکھنؤ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کرتی ہے، جوحکومت اتر پردیشکے ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ کے تحت آتی ہے۔ لکھنؤ کا ڈویژنل کمشنر ایل ڈی اے کے سابقہ چیئرمین کے طور پر کام کرتا ہے، جب کہ ایک وائس چیئرمین، حکومت کی طرف سے مقرر کردہآئی اے ایسافسر، اتھارٹی کے روزمرہ کے معاملات کو دیکھتا ہے۔ لکھنؤ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے موجودہ وائس چیئرمین آئی اے ایس اکشے ترپاٹھی ہیں۔[62][63]ایل ڈی اے نے لکھنؤ کا ماسٹر پلان 2031ء تیار کیا۔[64]حکومت اتر پردیشکی نشست کے طور پر،لکھنؤاتر پردیش ودھان سبھاکا مقام ہے،الہ آباد ہائی کورٹکا ایک بنچ اور متعدد سرکاری محکمے اور ایجنسیاں ہیں۔[65]راج ناتھ سنگھ، مرکزیوزیر دفاع،بھارتیہ جنتا پارٹیسے ہیں، لکھنؤ لوک سبھا حلقہ سےرکن پارلیمانہیں۔[66]کوشل کشور[67]موہن لال گنج (لوک سبھا حلقہ) سے ممبر پارلیمنٹ ہیں، جو لکھنؤ کا دوسرا لوک سبھا حلقہ ہے۔[68][69][70]لوک سبھا حلقہ کے علاوہ، لکھنؤ شہر کے اندر نو ودھان سبھا حلقے ہیں:مدھیانچل پاور ڈسٹری بیوشن کارپوریشن لمیٹڈ، جسے مدھیانچل ودیوت وترن نگم بھی کہا جاتا ہے، لکھنؤ میں بجلی کی فراہمی کا ذمہ دار ہے۔ یہ اترپردیش پاور کارپوریشن لمیٹڈ کے تحت ہے۔[71][72]آگ کی حفاظت کی خدمات اترپردیش فائر سروس کے ذریعہ فراہم کی جاتی ہیں، جو ریاستی حکومت کے تحت ہے۔
+جل نگم پانی کی فراہمی، سیوریج لائنوں اور طوفان کے پانی کی نالیوں کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور دیکھ بھال کے لیے ذمہ دار ہے۔[73]جل سنستھان پانی کی فراہمی اور پانی اور سیوریج کنکشن فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔[74]لکھنؤ میونسپل کارپوریشنلکھنؤ کے ٹھوس کچرے کے انتظام کی ذمہ دار ہے۔[75][76]لکھنؤ میں شہری ہم بستگی کی آبادی 1981ء ایک ملین تھی۔2001ءکی مردم شماری کے تخمینے کے مطابق یہ 2.24 ملین تک بڑھ گئی۔ ان میں 60،000 افراد لکھنؤ چھاؤنی میں جبکہ 2.18 ملین لکھنؤ شہر میں آباد ہیں۔[80]بھارت میں مردم شماری، 2011ءکی عارضی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ شہر کی آبادی 2,815,601 تھی، جس میں 1,470,133 مرد اور 1,345,468 خواتین تھیں۔[81][78]یہ 2001ء کے اعداد و شمار کے مقابلے میں 25.36 فیصد کا اضافہ تھا۔1991ء اور 2001ء کے درمیان، آبادی میں 32.03 فیصد اضافہ ہوا، جو 1981ء اور 1991ء کے درمیان میں رجسٹرڈ 37.14 فیصد سے نمایاں طور پر کم ہے۔[82]ابتدائی عارضی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2011ء میں آبادی کی کثافت 1,815 باشندے فی مربع کلومیٹر (4,700/مربع میل) تھی، جبکہ 2001ء میں یہ تعداد 1,443 تھی۔[82]چونکہضلع لکھنؤکا کل رقبہ صرف 2,528 مربع کلومیٹر (976 مربع میل) ہے، آبادی کی کثافت ریاستی سطح پر ریکارڈ کیے گئے 690 باشندوں فی مربع کلومیٹر (1,800/مربع میل) سے کہیں زیادہ تھی۔
+ریاست کےدرج شیڈول کاسٹکی آبادی کل آبادی کا 21.3% ہے، جو ریاست کی اوسط 21.15% سے زیادہ ہے۔[83][84]لکھنؤ شہر میں جنس کا تناسب 2011ء میں 915 خواتین فی 1000 مردوں پر تھا، 2001ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار 888 کے مقابلے میں۔ مردم شماری 2011ء کے ڈائریکٹوریٹ کے مطابق بھارت میں اوسط قومی جنسی تناسب 940 ہے۔[81]شہر میں 2011ء میں کل خواندگی کی سطح 84.72% تھی جبکہ مجموعی طور پر اترپردیش کے لیے یہ شرح 67.68% تھی۔[81]2001ء میں یہی اعداد و شمار 75.98 فیصد اور 56.27 فیصد تھے۔ لکھنؤ شہر میں کل خواندہ آبادی 2,147,564 تھی جن میں سے 1,161,250 مرد اور 986,314 خواتین تھیں۔[81][85]اس حقیقت کے باوجود کہ ضلع میں کام میں حصہ لینے کی مجموعی شرح (32.24%) ریاستی اوسط (23.7%) سے زیادہ ہے، لکھنؤ میں خواتین کی شرح صرف 5.6% پر بہت کم ہے اور یہ 1991ء کے اعداد و شمار کے مقابلے میں 5.9% کمی کو ظاہر کرتی ہے۔[86][87]چارقومی شاہراہیںلکھنؤ کےحضرت گنجچوراہے سے شروع ہوتی ہیں، جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:[88]شہر میں عوامی نقل و حمل کے لیے ٹیکسیاں، میٹرو بس، سائیکل رکشے اور آٹو رکشے دستیاب ہیں۔لکھنؤ شہر کی بس سروساترپردیش اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشنکے زیر انتظام ہے۔ اس میں 9،500 کے مجموعی بیڑے سے 300 سی این جی بسوں موجود ہیں۔ شہر میں تقریباً 35 روٹ ہیں۔[89]چار بس ڈپوگومتی نگر، چار باغ، اموسی، دوبگگا میں موجود ہیں۔[90]بین ریاستی بسیوں کا اڈابھیم راؤ رام جی امبیڈکربین ریاستی بس ٹرمینل لکھنؤ سے دیگر ریاستوں کو بس خدمات فراہم کرتا ہے جونیشنل ہائی وے 25پر واقع ہے۔ جبکہقیصر باغمیں بھی ایک چھوٹا بس اڈا موجود ہے۔اتر پردیشکے شہروںالٰہ آباد،وارانسی،جے پور،آگرہ،دہلی،گورکھپورکے لیےاترپردیش اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشنبس سروس فراہم کرتا ہے، جبکہ دیگر ریاستوں کے لیے بین ریاستی بس سروسجے پور،نئی دہلی،گوالیار،بھرت پور، راجستھان،سنگرولی،فرید آباد،گرو گرام،دوسہ،اجمیر،دہرہ دوناورہردوارکے لیے دستیاب ہے۔[91]لکھنؤ شہر کے کئی علاقوں میں متعدد ریلوے اسٹیشن موجود ہیں۔ جن میں اہملکھنؤ جنکشن ریلوے اسٹیشناورلکھنؤ جنکشن ریلوے اسٹیشنہیں۔ لکھنؤ شہر ایک اہم جنکشن ہے جو ملک اور ریاست کے شہروں کو ملاتا ہے مثلاًنئی ��ہلی،ممبئی،کولکاتا،چندی گڑھ،امرتسر،جموں،چینائی،حیدرآباد، دکن،بنگلور،احمد آباد،پونے،اندور،بھوپال،گوالیار،جبل پور،جے پوراورسیوان۔[92]اس سے پہلے میٹر گیج خدمات عیش باغ سے شروع ہوئی تھیں اور لکھنؤ شہر، ڈالی گنج اور محب اللہ پور سے جڑی تھیں۔ اب تمام سٹیشنوں کو براڈ گیج میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تمام اسٹیشن شہر کی حدود میں واقع ہیں اور بس سروسز اور دیگر پبلک روڈ ٹرانسپورٹ سے اچھی طرح سے جڑے ہوئے ہیں۔ مضافاتی اسٹیشنوں میں بخشی کا تالاب اور کاکوری شامل ہیں۔ لکھنؤ-کانپور مضافاتی ریلوے کا آغاز 1867ء میں لکھنؤ اور کانپور کے درمیان میں سفر کرنے والے مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس سروس پر چلنے والی ٹرینیں بھی شہر کے مختلف مقامات پر متعدد اسٹیشنوں پر رکتی ہیں جو مضافاتی ریل نیٹ ورک بناتی ہیں۔
+شہر میں کل چودہ ریلوے اسٹیشن ہیں جوبراڈ گیجاورمیٹر گیجسے دیگر اسٹیشنوں سے منسلک ہیں۔[93]چودھری چرن سنگھ بین الاقوامی ہوائی اڈےکے ذریعے لکھنؤنئی دہلی،پٹنہ،کولکاتا،ممبئی،بنگلور،احمد آباد،حیدرآباد،چینائی،گوہاٹیاور ملک کے دیگر بڑے شہروں سے براہ راست منسکک ہے۔
+چھوٹے ہوائی اڈے کے زمرے میں ہوائی اڈے کو دنیا کا دوسرا بہترین درجہ دیا گیا ہے۔[94]ہوائی اڈا ہر موسم میں آپریشنز کے لیے موزوں ہے اور 14 طیاروں تک پارکنگ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس وقتایئر انڈیا،ایئر انڈیا ایکسپریس،گو ایئر، انڈیگو،سعودی ایئر لائنز،فلائی دبئی،عمان ایئراور وستارا لکھنؤ اور وہاں سے اندرون ملک اور بین الاقوامی پروازیں چلاتے ہیں۔
+اس کے علاوہ یہاں سے بین الاقوامی پروازیںابوظبی،دبئی،مسقط،شارجہ،سنگاپور،بینکاک،دماماورجدہجاتی ہیں۔[95]ہوائی اڈے کی منصوبہ بند توسیع سےایئربس اے380جمبو جیٹ ہوائی اڈے پر اترنے کی اجازت دے گا۔ ناگارجن کنسٹرکشن کمپنی (این سی سی) نے لکھنؤ ہوائی اڈے پر نئے ٹرمینل کی تعمیر شروع کر دی ہے جس کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے دسمبر 2021ء تک مکمل ہونے کی امید ہے۔[96]رن وے کی توسیع کا بھی منصوبہ ہے۔ یہ بھارت کا دسواں مصروف ترین ہوائی اڈا ہے، جواتر پردیشکا مصروف ترین اورشمالی بھارتکا دوسرا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے۔لکھنؤ میٹروایکعاجلانہ نقل و حملہے جس نے اپنا کام 6 ستمبر 2017ء سے شروع کیا تھا۔ لکھنؤ میٹرو سسٹم دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے تعمیر کیا جانے والا میٹرو سسٹم ہے۔[97]لکھنؤ میٹرواتر پردیشکےشہرلکھنؤ میں تعمیر کیا جانے والا کثیر نقل حمل (ماس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم) کا ایک نظام ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز27 ستمبر 2014ء کو ہوا۔[98]فروری میں وزیر اعلیٰاکھلیش یادونے ریاستی دار الحکومت کے لیے میٹرو ریل سسٹم قائم کرنے کی منظوری دی۔ اسے دو راہداریوں میں تقسیم کیا گیا ہے، شمال-جنوبی کوریڈور جو منشیپولیا کو سی سی ایس انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے جوڑتا ہے اور چارباغ ریلوے اسٹیشن کو وسنت کنج سے جوڑنے والا مشرقی-مغرب کوریڈور۔ یہ ریاست کا سب سے مہنگا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ہوگا لیکن شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کو کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر نقل و حمل کا تیز ترین ذریعہ فراہم کرے گا۔ پہلے مرحلے کی تعمیر مارچ 2017ء تک مکمل ہو جائے گی۔ میٹرو ریل پراجیکٹ کی تکمیل اترپردیش حکومت کا بنیادی مقصد ہے جس کی سربراہی اس وقت وزیر اعلیٰیوگی آدتیہ ناتھکر رہے ہیں۔[99]5 ستمبر 2017ء کو وزیر داخلہراج ناتھ سنگھاور وزیر اعلیٰیوگی آدتیہ ناتھنےلکھنؤ میٹروکوہری جھنڈیدکھائی۔[100]��کھنؤاتر پردیشکا سب سے زیادہ سائیکل دوستانہ شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں سائیکل سواری کے لیے خاص راستے موجود ہیں۔ایمسٹرڈیمکی طرز پر اسے زیادہ سائیکل دوستانہ بنانے کے لیے نئی سائیکل راہیں شہر میں تعمیر کی جا رہی ہیں، جہاں سائیکل کرائے پر لینے کی سہولیات بھی موجود ہیں۔[101][102]2015ءمیں لکھنؤ میںلکھنؤ سائکلتھون(The Lucknow Cyclothon) نامی ایک قومی سطح سائیکلنگ ایونٹ کی میزبانی بھی کی۔[103]ساڑھے چار کلومیٹر (2.8 میل) ٹریک کالیداس مارگ پر ایک گولف کلب کے ساتھ لا-مارٹینیئر کالج روڈ کو گھیرے ہوئے ہے، جہاں وزیر اعلیٰ رہتے ہیں اور وکرمادتیہ مارگ، جس میں حکمراں پارٹی کا دفتر ہے۔ سائیکل سواروں کے لیے مختص چار میٹر (13 فٹ) لین فٹ پاتھ اور مین روڈ سے الگ ہے۔ایمسٹرڈیمسے متاثر طور پر، شہر میں نئے سائیکل ٹریکس بنائے جائیں گے تاکہ اسے مزید سائیکل دوست بنایا جا سکے، جس میں بائیک کرایہ پر لینا جیسی سہولیات بھی کام کر رہی ہیں۔[104][105]حکومت اترپردیش کی جانب سے زیر تعمیر سائیکل ٹریک نیٹ ورک لکھنؤ کو بھارت کا سب سے بڑا سائیکل نیٹ ورک والا شہر بنانے کے لیے تیار ہے۔[106]لکھنؤ کی عمارتیں مختلف طرز تعمیر کی ہیں جن میں برطانوی اور مغلیہ دور کی تعمیرات بہت شاندار ہیں۔ ان عمارتوں میں سے آدھی سے زیادہ شہر کے پرانے حصے میں واقع ہیں۔ اترپردیش کا محکمہ سیاحت مقبول یادگاروں کو سیاحوں کے لیے ایک ""ثقافتی ورثہ واک"" کے طور پر منظم کرتا ہے۔[107]موجودہ فن تعمیر میں، مذہبی عمارات جیسے امام بارگاہ، مساجد اور دیگراسلامیمزارات کے ساتھ ساتھ سیکولر ڈھانچے جیسے بند باغات،بارہ دریاور محلات کے احاطے ہیں۔[108]حسین آباد میں واقعبڑا امام باڑہ(آصفی مسجد) ایک عظیم الشان عمارت ہے جسے 1784ء میں لکھنؤ کے اس وقت کے نوابآصف الدولہنے تعمیر کیا تھا۔ یہ اصل میں مہلک قحط سے متاثرہ لوگوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، جس نے اسی سال پورےاتر پردیشکو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔[109]یہایشیاکا سب سے بڑا ہال ہے جس میں لکڑی، لوہے یا پتھر کے شہتیر سے کوئی بیرونی مدد حاصل نہیں ہے۔[110]یادگار کی تعمیر کے دوران میں تقریباً 22,000 مزدوروں کی ضرورت تھی۔[111]18 میٹر (60 فٹ) اونچارومی دروازہ، جسے نواب آصف الدولہ (دور 1775ء–1797ء) نے 1784ء میں تعمیر کیا تھا، لکھنؤ شہر کے داخلی دروازے کے طور پر کام کرتا تھا۔ اسے ٹرکش گیٹ وے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کیونکہ یہ غلطی سےقسطنطنیہکے گیٹ وے سے مماثل سمجھا جاتا تھا۔ یہ عمارت عظیم امام باڑہ کا مغربی دروازہ فراہم کرتی ہے اور اسے شاہانہ سجاوٹ سے مزین کیا گیا ہے۔[112]لکھنؤ کے تاریخی علاقوں میں فن تعمیر کے مختلف انداز دیکھے جا سکتے ہیں۔لکھنؤ یونیورسٹییورپی طرز سے ایک بہت بڑا الہام دکھاتی ہے جب کہ انڈو-سراسینک بحالی فن تعمیر اترپردیش ودھان سبھا کی عمارت اورلکھنؤ چارباغ ریلوے اسٹیشنمیں نمایاں طور پر موجود ہے۔دلکشا کوٹھیایک محل کی باقیات ہے جسے برطانوی باشندے میجر گور اوسلی نے 1800ء کے لگ بھگ تعمیر کیا تھا اور اس میں انگریزی باروک فن تعمیر کی نمائش کی گئی ہے۔ اس نےنواب اودھکے لیے شکار کی جگہ اور موسم گرما کے سیرگاہ کے طور پر کام کیا۔[113]چھتر منزل، جواودھ کے حکمرانوں اور ان کی بیویوںکے لیے محل کے طور پر کام کرتی تھی، اس کے اوپر چھتری نما گنبد ہے اور اس کا نام چھتر اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کا نام ""چھتری"" کا ہندی لفظ ہے۔ چھتر منزل کے سامنے نواببرہان الملک سعادت علی خانکی طرف سے 1789ء اور 1814ء کے درمیان میں بنوایا گیا 'لال بارادری' ہے۔ یہ شاہی درباروں کی تاجپوشی کے موقع پر ایک تخت خانے کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس عمارت کو اب ایک میوزیم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں ان مردوں کے نازک طریقے سے بنائے گئے پورٹریٹ ہیں جنھوں نے سلطنت اودھ کے انتظام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔مخلوط طرز تعمیر کی ایک اور مثاللا مارٹنیری لکھنؤہے، جو ہندوستانی اور یورپی خیالات کے امتزاج کو ظاہر کرتا ہے۔[114]اسے میجر جنرل کلاڈ مارٹن نے بنایا تھا جولیوںمیں پیدا ہوئے تھے اور 13 ستمبر 1800ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے تھے۔ اصل میں ""کانسٹینٹیا"" کا نام دیا گیا، عمارت کی چھتیں گنبد والی ہیں اور تعمیر کے لیے لکڑی کے شہتیر کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔[115]کالج کی عمارت میںگوتھک فن تعمیرکی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔لکھنؤ کیآصفی مسجد(بڑا امام باڑہ) اپنی تعمیراتی خصوصیت کے طور پر والٹڈ ہالوں کی نمائش کرتا ہے۔بڑا امام باڑہ،چھوٹا امام باڑااوررومی دروازہشہر کے نوابی مرکب مغلائی اور ترکی طرز تعمیر کے ثبوت میں کھڑے ہیں جبکہلا مارٹنیری لکھنؤہند-یورپی طرز کی گواہی دیتا ہے۔ یہاں تک کہ نئی عمارتوں کو خصوصیت کے گنبد اور ستونوں کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے اور رات کے وقت یہ روشن یادگاریں شہر کی اہم توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔[116]شہر کے مرکزی خریداری علاقےحضرت گنجکے آس پاس پرانے اور جدید فن تعمیر کا امتزاج ہے۔ اس میں ایک پرانے اور خستہ حال پولیس اسٹیشن کی جگہ ایک کثیر سطح کی پارکنگ ہے جو راہداریوں کو کنکروں والے راستوں تک پھیلانے کے لیے راستہ بناتی ہے، جو پیازوں، سبزہ زاروں اور لوہے کے بنے ہوئے اور کاسٹ آئرن لیمپ پوسٹس سے مزین ہے، جووکٹوریائی دورکی یاد دلاتا ہے۔[117]لکھنؤ اپنی وراثت میں ملی ثقافت کو جدید طرز زندگی کے ساتھ بڑی خوبصورتی کے ساتھ ملائے ہوئے ہے۔ بھارت کے اہم شہروں میں گنے جانے والے لکھنؤ کی ثقافت میں جذبات کی گرماہٹ کے ساتھ اعلیٰ احساس اور محبت بھی شامل ہے۔ لکھنؤ کے معاشرے میں نوابوں کے وقت سے ہیپہلے آپ!والا انداز رچا بسا ہے۔ وقت کے ساتھ ہر طرف جدیدیت کا دور دورہ ہے تاہم اب بھی شہر کی آبادی کا ایک حصہ اپنی تہذیب کو سنبھالے ہوئے ہے۔ تہذیب یہاں دو بڑے مذاہب کے لوگوں کو ایک ثقافت سے باندھے ہوئے ہے۔ یہ ثقافت یہاں کےنوابوںکے دور سے چلی آ رہی ہے۔ لکھنویپانیہاں کی ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہے جس کے بغیر لکھنؤ نامکمل لگتا ہے۔
+لکھنؤ کے رہنے والے اپنے آپ کو لکھنوی کہتے ہیں۔[118]یہ عالمگیریت کے پگھلنے والے برتن کی بھی نمائندگی کرتا ہے جہاں نواب کی ثقافت کی وراثت شہر کی ہندی زبان کے روایتی الفاظ میں جھلکتی رہتی ہے اور ساتھ ہی یہاں جدیدیت کے بہتر راستے بھی موجود ہیں۔لکھنؤ اپنےغرارہکے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ خواتین کا ایک روایتی لباس ہے جواودھکےنوابوںسے شروع ہوا ہے۔[119]اس پر زری اورزردوزیکے ساتھ گوٹا (گھٹنے کے حصے پر آرائشی فیتے) کے ساتھ کڑھائی کی گئی ہے۔ یہ لباس 24 میٹر (26 گز) سے زیادہ کپڑے سے بنایا گیا ہے، زیادہ تر ریشم، بروکیڈ اور کمخواب کا ہوتا ہے۔چکن، یہاں کی کڑاہی کا بہترین نمونہ ہے اور لکھنوی زردوزی یہاں کی چھوٹی صنعت ہے جو کرتے اور ساڑیوں جیسے کپڑوں پر اپنا فن دکھاتے ہیں۔ اس صنعت کا زیادہ تر حصہ پرانے لکھنؤ کے چوک علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کے بازار چکن کڑاہی کی دکانوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس ماہر اور مشہور کاریگروں میں استاد فیاض خاں اور حسن مرزا صاحب تھے۔لکھنؤ میںہندیاوراردودونوں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن اردو کو یہاں صدیوں سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ جبدہلیحالات اچھے نہ رہے تو بہت سے شاعروں نے لکھنؤ کا رخ کیا۔ تب سےاردو شاعریکے دو ٹھکانے ہو گئے، دہلی اور لکھنؤ۔ جبکہ دہلی صوفی شاعری اور لکھنؤ غزل، عیش و آرام اور عشقیہ شاعری کا مرکز بنا۔ نوابوں کے دورے میں اردو کی خصوصی نشو و نما ہوئی اور یہ بھارت کی تہذیب والی زبان کے طور پر ابھری۔ یہاں کے مشہور شاعروں میںحیدرعلی آتش،عامر مینائی،مرزا محمد ہادی رسوا،مصحفی،انشا،صفی لکھنوی،مير تقی میرشامل ہیں۔ لکھنؤشیعہثقافت کے دنیا کے عظیم شہروں میں سے ایک ہے۔میر انیساورمرزا دبیراردومرثیہگوئی کے لیے مشہور ہیں۔مشہور ہندوستانی رقصکتھکنے یہیں ترقی پائی۔اودھکے آخری نوابواجد علی شاہکتھککے بڑے پرستاروں میں سے تھے۔ لکھنؤ مشہور غزل گلوکاہبیگم اخترکا بھی شہر رہا ہے۔ وہ غزل گائکی میں معروف تھیں اور اسے نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
+لکھنؤ کیبھاتكھڈے موسیقی یونیورسٹیکا نام یہاں کے عظیم موسیقار پنڈت وشنو نارائن بھاتكھڈے کے نام پر رکھا ہوا ہے۔سری لنکا،نیپال، بہت سے ایشیائی ممالک اور دنیا بھر سے طالبعلم یہاں رقص اور موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ لکھنؤ نے کئی گلوکار دیے ہیں جن میں سے نوشاد علی، طلعت محمود، انوپ جلوٹا اور بابا سہگل انتہائی اہم ہیں۔ لکھنؤ شہر برطانوی پاپ گلوکار كلف رچرڈ کا جائے پیدائش بھی ہے۔لکھنؤ ہندی فلمی صنعت کا شروع سے ہی مرکز رہا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ لکھنوی رابطے کے بغیر، بالی ووڈ کبھی اس بلندی پر نہیں آ پاتا جہاں وہ اب موجود ہے۔اودھسے بہتاسکرپٹ مصنف اور نغمہ نگار ہیں، جیسےمجروح سلطان پوری،کیفی اعظمی،جاوید اختر، علی رضا،وجاہت مرزا(مدر انڈیااور گنگا جمنا کے مصنف)، امرت لال ناگر،علی سردار جعفریاور کے پی سکسینہ جنھوں نے بھارتی فلم کو بلندی پر پہنچایا۔ لکھنؤ پر بہت سی مشہور فلمیں بنی ہیں جیسے ششی کپور کی جنون، مظفر علی کیامرا ؤ جاناور گمن، ستیہ جیت رائے کی شطرنج کے کھلاڑی اور اسماعیل مرچنٹ کی شیکسپیئر والا کی بھی جزوی شوٹنگ یہیں ہوئی تھی۔بہو بیگم، محبوب کی مہندی، میرے حضور، چودھویں کاچاند، پاکیزہ، میں میری بیوی اور وہ، سحر، انور اور بہت سی ہندی فلمیں یا تو لکھنؤ میں بنی ہیں یا ان کا پس منظر لکھنؤ کا ہے۔ غدر فلم میں بھی پاکستان کے مناظر لکھنؤ میں فلمائے گئے ہیں۔ اس میں لال پل، لکھنؤ اورلا مارٹينير کالجکے مناظر ہیں۔اودھکے علاقے کی اپنی ایک الگ خاص پہچان نوابی پکوان ہیں۔ اس میں مختلف طرح کیبریانی،کباب،قورما،نہاری،كلچے،شیر مال،زردہ،رومالی روٹیاوروركی پراٹھااورروٹیاںوغیرہ،کاکوری کباب،گلاوٹی کباب،پتیلی کباب،بوٹی کباب،گھٹوا کباباورشامی کباباہم ہیں۔ شہر میں بہت سی جگہ یہ پکوان ملیں گے۔ یہ تمام طرح کے اور تمام بجٹ کے ہوں گے۔ جہاں ایک طرف1805ءمیں قائم کردہ رام آسرے حلوائی کی مکھن گلوری مشہور ہے، وہیں اکبری گیٹ پر ملنے والے حاجی مراد علی کے ٹنڈے کے کباب بھی کم مشہور نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر نوابی پكوانوں جیسےدمپخت،لچھے دار پیازاورسبز چٹنیکے ساتھسیخ کباباوررومالی روٹیکا بھی جواب نہیں ہے۔ لکھنؤ کیچاٹہندوستان کی بہترین چاٹ میں سے ایک ہے اور کھانے کے آخر میں مشہور عالم لکھنؤ کےپانجن کا کوئی ثانی نہیں ہے۔لکھنؤ میں روٹیوں کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایسی ہی روٹیاں یہاں کے ایک پرانے بازار می�� آج بھی ملتی ہیں، بلکہ یہ بازار روٹیوں کا بازار ہی ہے۔ اکبری گیٹ سے نکھاس چوکی کے پیچھے تک یہ بازار ہے، جہاںشیر مال،نان،خمیری روٹی،رومالی روٹی،كلچہجیسی کئی دیگر طرح کی روٹیاں مل جائیں گی۔ پرانے لکھنؤ کے اس روٹی بازار میں مختلف قسم کی روٹیوں کی تقریباً 15 دکانیں ہیں جہاں صبح نو سے رات نو بجے تک گرم روٹی خریدی جا سکتی ہے۔ بہت سے پرانے نامی ہوٹل بھی اس گلی کے قریب ہیں، جہاں آپ کی من پسند روٹی کے ساتھ گوشت کے پکوان بھی ملتے ہیں۔عام ہندوستانی تہوار مثلاًکرسمس،دیوالی،درگا پوجا،عید الفطر،عید الاضحی،ہولی،رکشا بندھن،دسہرا[120]یہاں جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ دیگر تہوار یا جلوسوں میں سے کچھ یہ ہیں:لکھنؤ فیسٹیول ہر سالاتر پردیشکے فن اور ثقافت کو ظاہر کرنے اور سیاحت کو فروغ دینے کے منظم کیا جاتا ہے۔[121][122]2013ءکے بعد یہ ہر سال نومبر کے مہینے میں منعقد کیا جانے والا ایک سالانہ ادبی میلا میں ہے۔[123]لکھنؤاہل تشیعکا گڑھ ہے اور بھارت میں شیعہ ثقافت کے نمونے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مسلمانوںاسلامی تقویمکے پہلے مہینےمحرماورعاشوراحسین ابن علیکی یاد میں مناتے ہیں۔[124]اہل تشیعکے گیارہویںامامحسن بن علی عسکریکی وفات کے سوگ میں 8ربیع الاولکو مذہبی جلوس کی صورت میں منایا جاتا ہے۔[125]بڑا منگلیاہنومان جینتیایک تہوار ہے جوہنومانکی پیدائش کی خوشی میں مئی کے مہینے میں پرانا مندر میں منایا جاتا ہے۔لکھنؤ کوایل جی کارپوریشناورآئی ایم آر بی انٹرنیشنلکے سروے کے مطابقچندی گڑھکے بعد ""بھارت کا دوسرا سب سے خوش شہر"" قرار دیا گیا ہے۔ اسنئی دہلی،بنگلوراورچینائیسمیتبھارتکے دیگر میٹروپولیٹن علاقوں کے مقابلے میں لکھنؤ خوراک، ٹرانزٹ اور مجموعی طور پر شہری سکون میں بہتر پایا گیا ہے۔[126][127]لکھنؤ شمالی بھارت کی ایک اہم مارکیٹ اور کمرشل شہر ہی نہیں، بلکہ مصنوعات اور خدمات کا ابھرتا ہوا مرکز بھی بنتا جا رہا ہے۔ اترپردیش ریاست کے دار الحکومت ہونے کی وجہ سے یہاں سرکاری اور نجی سیکٹر انٹرپرائز بہت زیادہ ہیں۔ لکھنؤ شہری ہم بستگی میں بڑی صنعتوں میں ایئروناٹکس، مشینی اوزار، کیمیکلز، فرنیچر اور چکن کڑھائی شامل ہیں۔[128]لکھنؤ بھارت کے سب سے زیادہخام ملکی پیداواروالی شہروں میں سے ایک ہے۔[129]لکھنؤ سافٹ ویئر اور آئی ٹی کا ایک بڑھتا ہوا آئی ٹی مرکز ہے اور شہر میں آئی ٹی کمپنیاں موجود ہیں۔ ٹاٹا کنسلٹنسی سروسزگومتی نگرمیں بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔[130]بہت سے مقامیآزاد مصدرٹیکنالوجی کمپنیاں بھی موجود ہیں۔[131]شہر میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے بھارتی حکومت 200 کروڑ روپے (2000 ملین روپے) مختص کیے ہیں تا کہ شہر میں ایک ٹیکسٹائل کے کاروبار کا کلسٹر قائم کیا جا سکے۔[132]اسوچیم پلیسمنٹ پیٹرن کے ذریعہ کیے گئے ایک مطالعہ کے مطابق لکھنؤ بھارت میں ملازمت پیدا کرنے والے دس سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔[133]لکھنؤ کی معیشت پہلے ترتیری شعبے پر مبنی تھی اور افرادی قوت کی اکثریت سرکاری ملازمین کے طور پر ملازم تھی۔ بڑے پیمانے پر صنعتی ادارےشمالی بھارتکے دیگر ریاستی دارالحکومتوں جیسےنئی دہلیکے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
+معیشت آئی ٹی، مینوفیکچرنگ اور پروسیسنگ اور میڈیکل/بائیو ٹیکنالوجی کے شعبوں کے تعاون سے ترقی کر رہی ہے۔ سی آئی آئی جیسے کاروبار کو فروغ دینے والے اداروں نے شہر میں اپنے سروس سینٹرز قائم کیے ہیں۔[134]اہم برآمدی اشیاءسنگ مرمرکی ��صنوعات، دستکاری، آرٹ کے ٹکڑے، جواہرات، زیورات، ٹیکسٹائل، الیکٹرانکس، سافٹ ویئر مصنوعات، کمپیوٹر، ہارڈویئر مصنوعات، ملبوسات، پیتل کی مصنوعات، ریشم، چمڑے کی اشیاء، شیشے کی اشیاء اور کیمیکلز ہیں۔ لکھنؤ نے بجلی کی فراہمی، سڑکوں، ایکسپریس وے اور تعلیمی منصوبوں جیسے شعبوں میں پبلک پرائیویٹ شراکت داری کو فروغ دیا ہے۔[135]لکھنؤ کئی ممتاز تعلیمی اور تحقیقی اداروں کا گھر ہے جن میںانڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ لکھنؤ(آئی آئی ایم-ایل)،انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لکھنؤ(آئی آئی آئی ٹی-ایل)،سنٹرل ڈرگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(سی ڈی آر آئی)،انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹاکسیولوجی ریسرچ،نیشنل بوٹینیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(این بی آر آئی)،انسٹی ٹیوٹ آف انجینئری اینڈ ٹیکنالوجی(آئی ای ٹی)،ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نیشنل لا یونیورسٹی(آر ایم ایل این ایل یو)،انسٹی ٹیوٹ آف ہوٹل مینجمنٹ، لکھنؤ(آئی ایچ ایم)،سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(ایس جی پی جی آئی)،ڈاکٹر رام منوہر لوہیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزاورکنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی(کے جی ایم یو) شامل ہیں۔[136]لکھنؤ یونیورسٹیسے منسلک نیشنل پی جی کالج (این پی جی سی) کو 2014ء میںقومی مجلس برائے تشخیص و اعتمادنے ملک میں رسمی تعلیم فراہم کرنے والے دوسرے بہترین کالج کے طور پر درجہ دیا تھا۔[137]شہر کے تعلیمی اداروں میں سات یونیورسٹیاں شامل ہیں جن میںلکھنؤ یونیورسٹی، ایکبابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی، ایکٹیکنیکل یونیورسٹی (اتر پردیش ٹیکنیکل یونیورسٹی)، ایکلا یونیورسٹی(آر ایم ایل این ایل یو)، ایکاسلامی یونیورسٹی(ڈی یو این یو) اور بہت سے پولی ٹیکنک، انجینئری انسٹی ٹیوٹ اور صنعتی تربیتی ادارے ہیں۔[138]ریاست کی دیگر تحقیقی تنظیموں میںسنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیسنل اینڈ آرومیٹک پلانٹس،سینٹرل فوڈ ٹیکنولوجیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹاور سنٹرل گلاس اینڈ سیرامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔[139][140]اترپردیش کے کچھ بڑے اسکول لکھنؤ میں واقع ہیں جن میںدہلی پبلک اسکول سوسائٹیکی شاخیں ایلڈیکو، اندرا نگر میں ہیں۔ لکھنؤ انٹرنیشنل پبلک اسکول، سٹی مونٹیسوری اسکول، کولون تالقدارس کالج، سینٹینئل ہائر سیکنڈری اسکول، سینٹ فرانسس کالج، لوریٹو کانونٹ لکھنؤ، سینٹ میری کانونٹ انٹر کالج، کیندریہ ودیالیہ، لکھنؤ پبلک اسکول لکھنؤ، سٹیلا مارس انٹر کالج، سیٹھ ایم آر جے پوریا اسکول،کیتھیڈرلاسکول، میری گارڈنرز کانوینٹ اسکول، ماڈرن اسکول، ایمیٹی انٹرنیشنل اسکول، سینٹ ایگنس، آرمی پبلک اسکول، ماؤنٹ کارمل کالج، اسٹڈی ہال، کرائسٹ چرچ کالج، رانی لکشمی بائی اسکول اور سینٹرل اکیڈمی شامل ہیں۔سٹی مونٹیسوری اسکول، جس کی 20 سے زائد شاخیں شہر بھر میں پھیلی ہوئی ہیں، دنیا کا واحد اسکول ہے جسےیونیسکوانعام برائے امن تعلیم سے نوازا گیا ہے۔[141]سی ایم ایس کے پاس 40,000 سے زیادہ طلبہ کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا اسکول ہونے کاگنیز ورلڈ ریکارڈزبھی ہے۔[142]اسکول کا شمار بھارت کے سرفہرست اسکولوں میں ہوتا ہے۔[143]لا مارٹنیری لکھنؤ، جسے 1845ء میں قائم کیا گیا تھا، دنیا کا واحد اسکول ہے جسے جنگی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔[144]یہ ہندوستان کے قدیم ترین اسکولوں میں سے ایک ہے، جو اکثر ملک کے دس بڑے اسکولوں میں شمار ہوتا ہے۔[145][146]لکھنؤ میںگرو گوبند سنگھ اسپورٹس کالجکے نام سے ایک اسپورٹس کالج بھی ہے۔لکھنؤ تاریخی طور پر صحافت کا ایک اہم مرکز رہا ہے��بھارتکے پہلےوزیر اعظمپنڈت جواہر لال نہروکادوسری جنگ عظیمسے قبل شروع کیا جانے والادی نیشنل ہیرالڈلکھنؤ سے ہی شائع ہوتا تھا۔شہر کے اہم انگریزی اخباروں میں دی ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز، دی پائنیر اور انڈین ایکسپریس شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے روزنامے انگریزی، ہندی اور اردو زبانوں میں بھی شائع ہوتے ہیں۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا اور یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا کے دفتر شہر میں موجود ہیں اور ملک کے تمام اہم اخباروں کے صحافی لکھنؤ میں موجود رہتے ہیں۔لکھنؤ کاہندی فلم انڈسٹریپر اثر رہا ہے جیسا کہ شاعر، مکالمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر کے پی سکسینہ، سریش چندر شکلا کی پیدائش 10 فروری 1954ء[147]کو بالی ووڈ اور بنگالی فلموں کے تجربہ کار اداکار پہاڑی سانیال کے ساتھ ہوئی۔ جو شہر کے معروف سانیال خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔[148][149]کئی فلموں نے لکھنؤ کو اپنے پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے جن میںششی کپورکی جنون، مظفر علی کیامراؤ جاناور گمن،ستیہ جیت رائےکی شترنج کے کھلاڑی شامل ہیں۔اسماعیل مرچنٹکا شیکسپیئر والا، پی اے اے اور شیلیندر پانڈے کا جے ڈی بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔[150][151][152]فلم غدر میں: ایک پریم کتھا میں لکھنؤ کوپاکستانکی تصویر کشی کے لیے استعمال کیا گیا تھا،[153]جس میں لال پل، تاج ہوٹل اوررومی دروازہکو تنو ویڈس منو میں استعمال کیا گیا تھا۔[154]آل انڈیا ریڈیو کے ابتدائی اسٹیشنوں میں سے لکھنؤ میں قائم کیے گئے۔ یہاں میڈیم ویوز پر نشریات کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ایف ایم نشریات بھی2000ءمیں شروع کی گئیں۔ شہر میں مندرجہ ذیل ریڈیو اسٹیشن چل رہے ہیں۔[155]شہر میں انٹرنیٹ کے لیے براڈ بینڈ انٹرنیٹ اور ویڈیو کانفرینسنگ کی سہولت دستیاب ہیں۔ گھریلو صارفین اور کارپوریٹ صارفین کے لیے اچھی رفتار کا براڈبینڈ انٹرنیٹ کنکشن دستیاب ہوتا ہے۔ شہر میں بہت سے انٹرنیٹ کیفے بھی موجود ہیں۔لکھنؤ بھارتی بیڈمنٹن ایسوسی ایشن کا ہیڈ کوارٹر ہے۔گومتی نگرمیں واقع ہے۔ یہ1934ءمیں قائم کیا گیا تھا اور1936ءسے ہندوستان میں قومی سطح کے ٹورنامنٹ کا انعقاد کراتا ہے۔ جونیئر سطح کے بیڈمنٹن کھلاڑیوں لکھنؤ میں ان کی تربیت کے بعد ا بنگلور بھیجا جاتا ہے۔[156][157]دہائیوں سے لکھنؤ عظیم الشانشیش محل کرکٹ ٹورنامنٹکی میزبانی کر رہا ہے۔ موجودہ دور میں کرکٹ، فٹ بال، بیڈمنٹن، گالف اور ہاکی شہر کے سب سے زیادہ مقبول کھیل ہیں۔ سید مودی گراں پری منعقدہ ایک بین الاقوامی بیڈمنٹن مقابلہ ہے۔کھیلوں کا مرکزی مرکزکے ڈی سنگھ بابو اسٹیڈیم، لکھنؤہے، جس میں ایک سوئمنگ پول اور انڈور گیمز کمپلیکس بھی ہے۔ کے ڈی ایس بی اسٹیڈیم کو ایکانا اسٹیڈیم کی طرز پر تیار کرنے کا منصوبہ ہے۔ کے ڈی ایس بی اسٹیڈیم کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ری ڈیزائن اور اپ گریڈ کرنے کے لیے 2 ارب روپے کے فنڈز درکار ہیں۔ دیگر اسٹیڈیم ہیں دھیان چند آسٹروٹرف اسٹیڈیم، محمد شاہد سنتھیٹک ہاکی اسٹیڈیم، ناردرن انڈیا انجینئری کالج میں ڈاکٹر اکھلیش داس گپتا اسٹیڈیم،[158]بابو بنارسی داس یوپی بیڈمنٹن اکیڈمی، چارباغ، مہانگر، چوک اور انٹیگرل یونیورسٹی کے قریب اسپورٹس کالج شامل ہیں۔ستمبر 2017ء میں،ایکانا انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیمکو عوام کے لیے کھول دیا گیا کیونکہ اس نے 2017–18ء دلیپ ٹرافی کی میزبانی کی تھی۔ 6 نومبر 2018ء کوایکانا انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیمنےبھارت قومی کرکٹ ٹیماورویسٹ انڈیزکرکٹ ٹیمکے درمیان میں اپنے پہلے ٹی 20 بین الاقوامی میچ کی میزبانی کی۔
+یہکولکاتاکےایڈن گارڈنزاوراحمد آبادکےنریندرا مودی اسٹیڈیمکے بعد صلاحیت کے لحاظ سے بھارت کا تیسرا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم ہے۔[159][160]کئی دہائیوں تک لکھنؤ شیش محل کرکٹ ٹورنامنٹ کی میزبانی کرتا رہا۔لکھنؤ بیڈمنٹن ایسوسی ایشن آف انڈیا کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ گومتی نگر میں واقع، یہ 1934ء میں قائم ہوا اور 1936ء سے ہندوستان میں قومی سطح کے ٹورنامنٹ منعقد کر رہا ہے۔ سید مودی گراں پری یہاں منعقد ہونے والا ایک بین الاقوامی بیڈمنٹن مقابلہ ہے۔ جونیئر سطح کے بیڈمنٹن کھلاڑی لکھنؤ میں اپنی تربیت حاصل کرتے ہیں جس کے بعد انھیںبنگلوربھیج دیا جاتا ہے۔[161][162]لکھنؤ چھاؤنی میں لکھنؤ ریس کورس 28.42 ہیکٹر (0.2842 کلومیٹر2؛ 70.22 ایکڑ) پر پھیلا ہوا ہے۔ کورس کا 3.2 کلومیٹر (2.0 میل) طویل ریس ٹریک بھارت میں سب سے لمبا ہے۔[163]لکھنؤ گالف کلب لا مارٹنیئر کالج کے وسیع و عریض سبزہ زار پر ہے۔اس شہر نے کئی قومی اور عالمی سطح کی کھیلوں کی شخصیات پیدا کی ہیں۔ لکھنؤ اسپورٹس ہاسٹل نے بین الاقوامی سطح کے کرکٹرزمحمد کیف،پیوش چاولہ،سریش رائنا، گیانیندر پانڈے،پراوین کماراورآر پی سنگھپیدا کیے ہیں۔ دیگر قابل ذکر کھیلوں کی شخصیات میں ہاکی اولمپئن کے ڈی سنگھ، جمن لال شرما،محمد شاہداور غوث محمد، ٹینس کھلاڑی جو ومبلڈن کے کوارٹر فائنل تک پہنچنے والے پہلے بھارتی بنے۔[164]اکتوبر 2021ء میں لکھنؤ میں مقیم ایکانڈین پریمیئر لیگفرنچائز کو باضابطہ طور پر تشکیل دیا گیا اور بعد میں اسےلکھنؤ سپر جائنٹسکا نام دیا گیا۔ یہ اپنے ہوم میچبھارت رتن شری اٹل بہاری واجپائی ایکانا کرکٹ اسٹیڈیممیں کھیلے گا۔شہر اور ارد گرد بہت قابل دید مقامات موجود ہیں۔ ان میں تاریخی مقامات، باغ، تفریح مقامات اور شاپنگ مال وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں کئی امام باڑے ہیں، ان میںبڑا امام باڑہاورچھوٹا امام باڑاکافی اہم ہیں۔ مشہور بڑے امام باڑے کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت ہے۔ اس امام باڑے کی تعمیرنواب آصف الدولہنے1784ءمیں کرواائی تھی۔ یہ بہت بڑا گنبد نما ہال ہے جو 50 میٹر طویل اور 15 میٹر بلند ہے۔ یہاں ایک منفرد بھول بھلیاں بھی موجود ہیں۔ اس امام باڑے میں ایکآصفی مسجدبھی ہے۔ مسجد کے احاطے کے صحن میں دو اونچے مينار ہیں۔ اس کے علاوہچھوٹا امام باڑاجس کا اصلی نامحسین آباد امام باڑاہے جسے1838ءمیںریاست اودھکے تیسرے نوابمحمد علی شاہنے تعمیر کروایا تھا۔سعادت علی خانکا مقبرہبیگم حضرت محلپارک کے قریب واقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی خورشید زیدی کا مقبرہ بھی ہے۔ یہ مقبرہ اودھ فن تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔ مقبرہ کی شاندار چھت اور گنبد اس کی خاصیت ہیں۔بڑے امام باڑےکے باہر ہیرومی دروازہہے۔ جامع مسجد حسین آباد امام باڑے کے مغربی سمت واقع ہے۔ اس مسجد کی تعمیر محمد شاہ نے شروع کی لیکن 1840ء میں اس کی موت کے بعد اس کی بیوی نے اسے مکمل کروایا۔ موتی محلدریائے گومتیکے کنارے پر بنی تین عمارتوں میں سے اہم ہے۔ اسےسعادت علی خاںنے بنوایا تھا۔لکھنؤ ریزیڈینسی کی باقیات برطانوی دور کی واضح تصویر دکھاتے ہیں۔جنگ آزادی ہند 1857ءکے وقت یہ ریزیڈینسیبرطانوی ایسٹ انڈیا کمپنیکے ایجنٹ کے گھر تھا۔ یہ تاریخی عمارتحضرت گنجکے علاقے میں گورنر کی رہائش گاہ کے قریب ہے۔ لکھنؤ کاگھنٹہ گھربھارت کا سب سے گھنٹہ گھر ہے۔کوکریل فارست ایک پکنک کی جگہ ہے۔ یہاں مگر مچھوں اور کچھوں کی ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔ بنارسی باغ میں واقع ایک چڑیا گھر ہے، جس کا اصل نام پرنس آف ویلز وائل�� لائف ریزرو ہے۔ مقامی لوگ اس چڑیا گھر کو بنارسی باغ کہتے ہیں۔ اس باغ میں ایکعجائب گھربھی ہے۔ان کے علاوہرومی دروازہ، چھتر منزل، ہاتھی پارک، بدھ پارک، نیبو پارک میرین ڈرائیو اور اندرا گاندھی برج بھی قابل دید ہیں۔لکھنؤ میں جنگل کا علاقہ 4.66 فیصد ہے۔ لکھنؤ روایتی طور پر لکھنویآم(خاص طور پردسہریآم)، خربوزہ اور قریبی علاقوں میں اگائے جا رہے اناج کی منڈی رہا ہے۔ یہاں کے مشہور ملیح آبادیدسہریآم کو جغرافیائی اشارے کا خصوصی قانونی درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ ایک مختلف ذائقہ اور مہک کی وجہ دسہری آم کی دنیا بھر میں خاص پہچان بنی ہوئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملیح آبادی دسہری آم تقریباً 6،253 ہیکٹر پر اگائے جاتے ہیں اور ان کی پیداوار 9 5،6583 9 ٹن ہے۔گنے کے کھیت اور چینی کی ملیں بھی قریب ہی واقع ہیں۔ ان کی وجہ موہن میکنس بريوری جیسی کمپنیاں یہاں اپنی ملیں لگانے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ موہن میکنس کا یونٹ 1855 میں قائم ہوا تھا۔ یہایشیاکی پہلی تجارتی بريوری تھی۔[165]لکھنؤ چڑیا گھر ملک میں سب سے قدیم چڑیا گھروں میں سے ایک ہے جسے1921ءمیں قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایشیا اور دیگر براعظموں سے جانوروں کے ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ شہر بھی ایک نباتیات باغ بھی ہے۔[166]اس میں اترپردیش اسٹیٹ میوزیم بھی واقع ہے۔[167]• شفيق شاہ پوری(اجریاوں)لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+450,بھارت کی ریاستیں اور یونین علاقے,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA_%DA%A9%DB%8C_%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA%DB%8C%DA%BA_%D8%A7%D9%88%D8%B1_%D8%B9%D9%85%D9%84%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%A7%DA%BA,||}بھارتایک وفاقی اتحاد ہے جس میں کل 29وفاقی ریاستیںاور 7یونین علاقہ جاتہیں۔ اس طرح کل تعداد 36 ہوئی۔ یہ ریاستیں اور یونین علاقےاضلاعمیں منقسم ہوتے ہیں اور اس طرحبھارت کی انتظامی تقسیمبنتی چلی جاتی ہے۔آئین ہندتمام ریاستوں اور یونین علاقوں میں انتظامی اور قانونی اختیارات تقسیم کرتا ہے اور مرکز اور ریاست کے مابین منقسم ہوتے ہیں۔[1]برصغیرپر کئی خاندانوں نے حکومت کی ہے اور ہندوستان کی تاریخ نے متعدد عظیم الشان سلطنتیں دیکھی ہیں۔ ہر حکومت نے اپنی الگ پالیسی اپنائی اور اپنے حساب سے ملک کی انتظامی تقسیم کی۔[2][3][4][5][6][7][8][9][10][11][12][excessive citations]برطانوی راجمیں انتظامی تقسیم کے ساتھ زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی اور ملک کو نوابی ریاستوں میں منقسم رہنے دیا جنہیں وہ پروونس یا ریاست کہتے تھے۔ یہ تمام ریاستیں براہ راست حکومت برطانیہ کے زیر نگیں تھے۔آزادی کے بعد 1950ء تک زیادہ تر نوابی ریاستیں بھارت میں ضم کرلی گئیں۔ کئی پہلے کی ریاستیں انہی جغرافیائی حالت پر بحال رہیں جبکہ کچھ نئی ریاستیں یا صوبے بنائے گئے جیسےراجپوتانہ،ہماچل پردیش،مدھیہ بھارتاوروندھیا پردیش۔ ان کو مزید ریاستوں میں منقسم کیا گیا۔ کچھ نوابی ریاستیں مستقل ریاست بن گئی جیسےریاست میسور،ریاست حیدر آباد،ریاست بھوپالاورریاست بلاس پور۔نیاآئین ہند26 جنوری 1950ء کو نافذ العمل ہوا جس میں بھارت کو آزاد، جمہوری ملک قرار دیا گیا۔ نیا جمہوری ملک ریاستوں کا اتحاد قرار پایا۔[13]نئے آئین میں تین طرح کی ریاستوں کے درمیان میں تفریق کی گئی ہے۔1954ء میںفرانسیسی علاقہپدوچیری ضلعکوپدوچیرییونین علاقہ بنایا گیا۔ اس میںکاراتکالاورماہےکو بھی ضم کیا گیا۔[14]1 اکتوبر 1953ء کوریاست مدراسکےتیلگو زبانکے علاقوں پر مشتملآندھرا پردیشبنایا گیا۔[15]اس کے بعد حکومت ہند نے 1956ء میں ایک ایکٹ منظور کیا جس کے رو سے کئی نئی ریاستیں وجود میں آئیں اور متعدد کی سرحدیں تبدیل ہوئیں۔[16][17]
+451,اتر پردیش,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%AA%D8%B1_%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4,اترپردیش(ہندی:उत्तर प्रदेश) بلحاظ آبادی،بھارتکی سب سے بڑی اور رقبے کے اعتبار سے پانچویں بڑی ریاست ہے۔اترپردیشدریائے گنگاکے انتہائی زرخیز اور گنجان آباد میدانوں پر پھیلی ہوئی ریاست ہے۔ اس کی سرحدیںنیپالکے علاوہ بھارت کی ریاستوںاتر انچل،ہماچل پردیش،ہریانہ،دہلی،راجستھان،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ،جھاڑکھنڈاوربہارسے ملتی ہیں۔اترپردیش کا انتظامی و قانونیدار الحکومتلکھنؤہے جبکہ اعلیٰ عدالتالہ آبادمیں قائم ہے۔اترپردیش قدیم اور قرون وسطی بھارت کی طاقتور سلطنتوں کا گھر تھا۔ ریاست کے دو بڑے دریاؤں،گنگااوردریائے جمنا،الٰہ آبادمیں ملتے ہیں اور پھر گنگا مشرق کی طرف مڑ جاتا ہے۔ ریاست میں کئی تاریخی، قدرتی اور مذہبی سیاحتی مقامات ہیں، جیسا کہ،آگرہ،وارانسی،رائے بریلی،کوسامبی،کانپور،بلیا،شراوستی ضلع،گورکھپور،اناؤ،چوری چورامیں واقعگورکھپور،کشی نگر،لکھنؤ،جھانسی،الٰہ آباد،بدایوں،میرٹھ،متھرا،جونپور، اترپردیشاورمظفر نگر۔جدید انسانشکاری ہجوم کی صورت اترپردیش میں رہے ہیں[6][7][8]یہ تقریباً[9]85 اور 73 ہزار سال پہلے یہاں رہے۔ اس کے علاوہ اترپردیش سے ماقبل تاریخ کے درمیانے اور اعلا قدیم حجری دور کے 21–31 ہزار سال پہلے کے[10]اوروسطی حجری دور/خرد حجری دورhunter-gathererکی آبادکاری کے نشانات،پرتاپگڑھکے قریب ملے ہیں، جو 10550–9550 قبل مسیح قدیم ہیں۔ آثار میں ایسے گاؤں بھی ملے ہیں جن میں پالتو مویشی، بھیڑیں اور بکریاں اور زراعت کا ثبوت ملتا ہے جو 6000 قبل مسیح سے شروع ہو کر آہستہ آہستہ 4000 تا 1500 قبل مسیح میںویدک دورکیوادیٔ سندھ کی تہذیباورہڑپہ تہذیبکے آغاز تک جاتا ہے ; جولوہے کے زمانےکی توسیع ہے۔[11][12][13]اترپردیش بھارت کے شعبہ زراعت میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں ہر پانچ فروخت ہونے والے ٹریکٹروں میں سے ایک اس ریاست میں بکتا ہے۔[14]2010-11 میں اترپردیش میں ہر وقت سے زیادہ یعنی 47.55 میٹریک ٹن غلے کی پیداوار درج کی جو پچھلے سال سے 10 فی صد اضافہ تھا۔ 2010-11 میں ریاست میں پورے ملک کے غلے کا پانچواں حصہ اگا تھا۔ ریاست میں ملک کے کل چاول کا 13 فی صد، گیہوں کا 35 فی صد، دالوں کا 13 فی صد اور موٹے اناج کا 8 فی صد اگا تھا۔ ۔[15]Uttar Pradesh سفری راہنمامنجانبویکی سفرسانچہ:Hydrography of Uttar Pradeshلوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+452,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+453,اردو,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88,"اُردُو،برصغیرپاک و ہند کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہپاکستانکی قومی اوررابطہ عامہ کی زبانہے، جبکہبھارتکی چھ ریاستوں کیدفتری زبانکا درجہ رکھتی ہے۔آئین ہندکے مطابق اسے 22 دفتری شناخت شدہ زبانوں میں شامل کیا جا چکا ہے۔
+2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطورمادری زبانبھارت میں 5.01 فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے ہی بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59 فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔
+اردو تاریخی طور پرہندوستانکیمسلمآبادی سے جڑی ہے۔[8]زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسےفارسیکی بجائےانگریزیکے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اورجموں و کشمیرمیں اسے 1846ء اورپنجابمیں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہخلیجی،یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پرجنوبی ایشیاءسے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔[9]نیپالمیں، اردو ایک رجسٹرڈ علاقائی بولی ہے[10]اورجنوبی افریقہمیں یہ آئین میں ایک محفوظ زبان ہے۔ یہافغانستاناوربنگلہ دیشمیں اقلیتی زبان کے طور پر بھی بولی جاتی ہے، جس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔1837ء میں، اردوبرطانوی ایسٹ انڈیا کمپنیکی سرکاری زبان بن گئی،کمپنی کے دورمیں پورے شمالی ہندوستان میں فارسی کی جگہ لی گئی۔ فارسی اس وقت تک مختلفہند-اسلامی سلطنتوںکی درباری زبان کے طور پر کام کرتی تھی۔[11]یورپی نوآبادیاتی دورمیں مذہبی، سماجی اور سیاسی عوامل پیدا ہوئے جنھوں نے اردو اورہندیکے درمیان فرق کیا، جس کی وجہ سےہندی-اردو تنازعہ شروع ہوا۔اٹھارویں صدی میں اردو ایک ادبی زبان بن گئی اور اس کی دو معیاری شکلیںدہلیاورلکھنؤمیں وجود میں آئیں۔ 1947ء میںتقسیم ہند کےبعد سے پاکستانی شہرکراچیمیں ایک تیسرا معیار پیدا ہوا ہے۔[12][13]دکنی، ایک پرانی اردو کی شکل ہے جودکنمیں استعمال ہوتی تھی، سولہویں صدی تکدکن سلاطینکی درباری زبان بن گئی۔[14][13]اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردونستعلیقرسم الخط میں لکھی جاتی ہے اورعربیو فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ہندی زباندیوناگریرسم الخط میں لکھی جاتی ہے اورسنسکرتالفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو زبان سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اردو زباندنیاکی نئی زبانوں میں سے ہونے کے باوجود اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہادبرکھتی ہے۔ خاص کر جنوب ایشیائی زبانوں میں اردو اپنیشاعریکے حوالے سے جانی جاتی ہے۔اردوکا نام سب سے پہلے شاعرغلام ہمدانی مصحفینے 1780ء کے آس پاسہندوستانی زبانکے لیے استعمال کیا تھا۔[15]حالانکہ اس نے خود بھی اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیےہندویاصطلاح استعمال کی تھی۔[16]اردوکا مطلبترک زبانمیں فوج ہے۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں، اسےزبانِ اُرْدُوئے مُعَلّٰیکے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کا مطلببلند کیمپ کی زبان ہے۔[17][18][19]پہلے اسے ہندوی، ہندی، ہندوستانی اورریختہکے نام سے جانا جاتا تھا۔[15][20]اردوہندی زبانکی طرح فارسی، عربی، ترک زبان کی ایک قسم ہے۔[21][22]یہشورسینی زبان(یہ زبان وسطی ہند آریائی زبان تھی جو موجودہ کئی زبانوں کی بنیاد سمجھی جاتی ہے، ان میںپنجابی زبانبھی شامل ہے) کی ذیلی قسم کے طور پر اپ بھرنش سےقرون وسطٰی(چھٹی سے تیرھویں صدی) کے درمیان وجود میں آئی۔[23][24]تیرھویں صدی سے انیسویں صدی کے آخر تک اردو زبان کو بیک وقتہندی،[25]ہندوستانیاورہندویکہا جاتا تھا۔[26]اگرچہ لفظ اردو بذات خود ترک زبان کے لفظ اوردو (لشکر، فوج) یا اوردا سے نکلا ہے، اسی سے انگریزی لفظhordeکا ظہور ہوا، تاہم ترک زبان سے اردو میں کم ہی الفاظ آئے ہیں۔ عرب اور ترک الفاظ اردو میں پہنچ کر فارسی قسم کے بن گئے ہیں، جیسے ة کو اکثر اوقات ہ میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً عربی تائے مربوطہ (ة) کو (ہ) یا (ت) میں بدل دیا جاتا ہے۔بھلے آج کے دور میںاردوکو ایک مستقل زبان کی شناخت حاصل ہے لیکن عظیم اردو قلمکار اُنیسویں صدی کی کچھ ابتدائی دہائیوں تک اردو زبان کوہندییاہندویکی شکل میں ظاہر کرتے رہے ہیں۔[27]جیسے غلام حمدان مصحفی نے اپنی ایک
+شاعری میں لکھا ہے: -اب ہیںاشعارِ ہندویکا رواج""[28]اور شاعرمير تقی میرنے کہا ہے:آیا نہیں یہ لفظ توہندیزبان کے بیچ[29]اردو زبان کو ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ منصوب کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے کئی نظریات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ممتاز محققحافظ محمود شیرانیکے نزدیک یہ زبانمحمود غزنویکے حملہ ہندوستان کے ادوار میںپنجابمیں پیدا ہوئی، جب فارسی بولنے والے سپاہی پنجاب میں بس گئے، نیز ان کے نزدیک یہ فارسی متکلمین دہلی فتح کرنے سے قبل دو سو سال تک وہیں آباد رہے، یوں پنجابی اور فارسی زبانوں کے اختلاط نے اردو کو جنم دیا، پھر ایک آدھ صدی بعد جب اس نئی زبان کا آدھا گندھا خمیر دہلی پہنچا تب وہاں اس نے مکمل زبان کی صورت اختیار کی، اس حوالے سے انھوں نے پنجابی اور اردو زبان میں کئی مماثلتیں بھی پیش کی ہیں۔ شیرانی کے اسی نظریہ کوپنجاب میں اردونامی مقالے میں لکھا گیا، جس نے اردو زبان دانوں میں کافیشہرتپائی اور اسی کو دیکھ کر بہت سے محققین نے اردو کے آغاز کو مسلمانوں کی آمد سے جوڑنا شروع کر دیا، اس طرح ""دکن میں اردو""، ""گجراتمیں اردو""، ""سندھمیں اردو""، ""بنگالمیں اردو ""حتیٰ کہ ""بلوچستانمیں اردو"" کے نظریات بھی سامنے آنے لگے۔ (حقیقتاً شیرانی سے قبل بھی سنیت کمار چترجی،محی الدین قادری زورجیسے بعض محققین اردو پنجابی تعلق کے بارے میں ایسے خیالات رکھتے تھے، البتہ اسے ثابت کرنے میں وہ دوسروں سے بازی لے گئے) حافظ شیرانی کے نظریہ کی مخالفت کرنے والوں میںمسعود حسین خاناور سبزواری جیسے محققین شامل ہیں، جنھوں نے ان کے نظریے کو غلط ثابت کیا۔برطانوی راجمیں فارسی کی بجائے ہندوستانی کو فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا اور ہندو مسلم دونوں اس پر عمل کرتے تھے۔ لفظ اردو کو شاعرغلام ہمدانی مصحفینے 1780ء کے آس پاس سب سے پہلے استعمال کیا تھا۔ انھوں نے خود اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیےہندویلفظ بھی استعمال کیا۔[30]تیرہویں سے اٹھارویں صدی تک اردو کو عام طور پرہندیہی کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ اسی طرح اس زبان کے کئی دوسرے نام بھی تھے، جیسے ہندوی، ریختہ یا دہلوی۔ اردو اسی طرح علاقائی زبان بنی رہی، پھر 1837ء میں فارسی کی بجائے اسے انگریزی کے ساتھ دفتری زبان کا درجہ دیا گیا۔ اردو زبان کو برطانوی دور میں انگریزوں نے ترقی دی، تاکہ فارسی کی اہمیت کو ختم کیا جا سکے۔ اس وجہ سے شمال مشرقی ہندوستان کے ہندوؤں میں تحریک اٹھی کہ فارسی رسم الخط کی بجائے اس زبان کو مقامی دیوناگریرسم الخطمیں لکھا جانا چاہیے۔ نتیجتاً ہندوستانی کی نئی قسم ہندی کی ایجاد ہوئی اور اس نے 1881ء میںبہارمیں نافذ ہندوستانی کی جگہ لے لی۔ اس طرح اس مسئلہ نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہندوستانی کو دو زبانوں اردو (برائے مسلم) اور ہندی (برائے ہندو) میں تقسیم کر دیا۔ اور اسی فرق نے بعد میں ہندوستان کو دو حصوں بھارت اور پاکستان میں تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا (اگرچہ تقسیم سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے ہندو شعرا و مصنفین اردو زبان سے جڑے رہے، جن میں معروفمنشی پریم چند،گلزار،گوپی چند نارنگاور آزاد وغیرہ شامل ہیں۔)ہندوستان کے دہلی کے علاقے میں مقامی زبانکھوری بولیتھی، جس کی ابتدائی شکلپرانی ہندی(یا ہندوی) کے نام سے جانی جاتی ہے۔[31][32][33][34]اس کا تعلق وسطی ہند آریائی زبانوں کے مغربی ہندی زبان سے ہے۔[35][36][37]دہلی جیسے شہروں میں،قدیم ہندیاورفارسیکا اثر و رسوخ تھا اور اسے ""ہندوی"" اور بعد میں ""ہندوستانی"" بھی کہا جانے لگا۔[38][39][40][41][42]ہندوی کی ایک ابتدائی ادبی روایت کی بنیادامیر خسرونے تیرھویں صدی کے آخر میں رکھی تھی۔[43][44][45][46]دکن کی فتح کے بعد اور اس کے بعد عظیم مسلم خاندانوں کی جنوب میں ہجرت کے بعد، زبان کی ایک شکلقرون وسطی کے ہندوستانمیں شاعری کے طور پر پروان چڑھی۔[47]اور اسے دکنی کے ن��م سے جانا جاتا ہے، جس میںتیلگو زباناورمراٹھی زبانکے الفاظ شامل ہیں۔[48][49][50]تیرھویں صدی سے اٹھارویں صدی کے آخر تک جو زبان اب اردو کے نام سے جانی جاتی ہے اسےہندی،[51]ہندوی،ہندوستانی،[52]دہلوی،[53]لاہوریاورلشکریکہا جاتا تھا۔[54]دہلی سلطنت نےفارسی کوہندوستان میں اپنی سرکاری زبان کے طور پر قائم کیا، یہ پالیسیمغل سلطنتکی طرف سے جاری رہی، جس نے سولہویں سے اٹھارویں صدی تک شمالیجنوبی ایشیاکے بیشتر حصوں میں توسیع کی اور ہندوستانی پرفارسیاثر کو مضبوط کیا۔[55][56]خان آرزو کے نوادر الفاز کے مطابق، ""زبانِ اردو شاہی""[57]کوعالمگیرکے زمانے میں خاص اہمیت حاصل تھی۔ 1700ء کی دہائی کے اوائل میںاورنگزیب عالمگیرکے دورِ حکومت کے اختتام تک، دہلی کے آس پاس کی عام زبان کوزبانِ اردوکہا جانے لگا،[58]یہ نامترک زبانکے لفظاوردو(فوج) یااورداسے ماخوذ ہے اور کہا جاتا ہے۔ ""کیمپ کی زبان"" کے طور پر پیدا ہوا ہے یازبانِ اردوکا مطلب ہے: ""اونچے کیمپوں کی زبان""[59]یا مقامی طور پر ""لشکری زبان"" کا مطلب ہے ""فوج کی زبان""؛[60]اگرچہاردوکی اصطلاح مختلف ہے۔ اس وقت کے معنی[61]یہ ریکارڈ کیا گیا ہے کہ اورنگزیب عالمگیر ہندوی زبان میں بولتا تھا، جو غالباً فارسی زبان میں تھی، کیونکہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ہندوی اس دور میں فارسی رسم الخط میں لکھی گئی تھی۔[62]اس عرصے کے دوران اردو کو ""مورس"" کہا جاتا تھا، جس کا مطلب صرف مسلمان تھا،[63]یورپی مصنفین نے[64]جان اوونگٹن نے 1689ء میں لکھا:[65]موروں کی زبان ہندوستان کے قدیم اصلی باشندوں سے مختلف ہے لیکن اپنے کرداروں کے لیے ان غیر قوموں کی پابند ہے۔ کیونکہ اگرچہمورز بولیاپنے لیے مخصوص ہے، پھر بھی اس کے اظہار کے لیے خطوط سے محروم ہے۔ اور اس لیے، اپنی مادری زبان میں اپنی تمام تحریروں میں، وہ اپنے خطوط ہیتھنز یا فارسیوں یا دیگر اقوام سے مستعار لیتے ہیں۔1715 میں ریختہ میں ایک مکمل ادبی دیوان نواب صدرالدین خان نے لکھا۔[66]ایک اردو فارسی لغت خان آرزو نے 1751ء میںاحمد شاہ بہادرکے دور میں لکھی تھی۔[67]اردوکا نام سب سے پہلے شاعرغلام ہمدانی مصحفینے 1780ء کے آس پاس متعارف کرایا تھا[68]ایک ادبی زبان کے طور پر اردو نے درباری، اشرافیہ کے ماحول میں شکل اختیار کی۔[69]جبکہ اردو نے مقامی ہندوستانی بولی کھڑ بولی کی گرامر اور بنیادی ہند آریائی الفاظ کو برقرار رکھا، اس نےنستعلیقتحریری نظام کو اپنایا[70][71]– جسے فارسی خطاطی کے انداز کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔[72]اردو زبان کی پوری تاریخ میں، اردو کو کئی دوسرے ناموں سے بھی جانا گیا ہے: ہندی، ہندوی، ریختہ، اردو-ملا،دکھینی، مورس اوردہلویوغیرہ۔ 1773 میں سوئس فرانسیسی سپاہی اینٹون پولیئر نے نوٹ کیا کہ انگریزوں نے اردو کے لیے ""مورس"" کا نام استعمال کرنا پسند کیا:[73]مجھےہندوستان کی عام زبان کے بارے میں گہرا علم ہے، جسے انگریزمورسکہتے ہیں اور اس سرزمین کے باشندے ہیں ۔اشرف جہانگیر سمنانیجیسے صوفی مصنفین کی کئی تخلیقات نے اردو زبان کے لیے اسی طرح کے نام استعمال کیے ہیں۔ شاہعبدالقادر رائے پوریپہلے شخص تھے جنھوں نے قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا۔[74]شاہ جہاںکے زمانے میں دار الحکومت کو دہلی منتقل کر دیا گیا اور اس کا نامشاہجہان آبادرکھا گیا اور اس قصبے کے بازار کا نام اردوئے معلیٰ رکھا گیا۔[75][76]نوآبادیاتی انتظامیہ میں اردو کو معیاری بنانے سے پہلے، برطانوی افسران اکثر اس زبان کو ""مُور"" کہتے تھے۔جان گلکرسٹبرطانوی ہند��ستان میں پہلے شخص تھے جنھوں نے اردو پر ایک منظم مطالعہ شروع کیا اور ""ہندوستانی"" کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی جسے یورپیوں کی اکثریت ""مُور"" کہتی تھی۔[77]بعد میں برطانوی پالیسیوں کے ذریعےنوآبادیاتی ہندوستانمیں اردو کو فروغ دیا گیا تاکہ فارسی پر سابقہ زور کا مقابلہ کیا جا سکے۔ نوآبادیاتی ہندوستان میں، ""انیسویں صدی میںمتحدہ صوبوںمیں عام مسلمان اور ہندو یکساں طور پر ایک ہی زبان بولتے تھے، یعنی ہندوستانی، خواہ اس نام سے پکارا جائے یا ہندی، اردو یابرجیااودھیجیسی علاقائی بولیوں میں سے ایک۔""[78]مسلم برادریوں کے اشراف کے ساتھ ساتھ ہندو اشراف کی ایک اقلیت، جیسا کہ ہندو نسل کےمنشی،[79]نے عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں فارسی عربی رسم الخط میں زبان لکھی، حالانکہ ہندو بعض ادبیات میں دیوناگری رسم الخط کو استعمال کرتے رہے۔ اور مذہبی سیاق و سباق۔[78][80]انیسویں صدی کے آخر تک، لوگ اردو اور ہندی کو دو الگ الگ زبانوں کے طور پر نہیں دیکھتے تھے، حالانکہ شہری علاقوں میں، معیاری ہندستانی زبان کو تیزی سے اردو کہا جاتا تھا اور فارسی عربی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ اردو اور انگریزی نے 1837ء میں ہندوستان کے شمالی حصوں میں فارسی کو سرکاری زبانوں کے طور پر بدل دیا[81]نوآبادیاتی ہندوستانی اسلامی اسکولوں میں، مسلمانوں کوہند اسلامی تہذیبکی زبانوں کے طور پر فارسی اور عربی پڑھائی جاتی تھی۔ انگریزوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں خواندگی کو فروغ دینے اور انھیں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کرنے کے لیے ان سرکاری تعلیمی اداروں میں فارسی عربی رسم الخط میں لکھی ہوئی اردو پڑھانا شروع کی اور اس وقت کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں اردو کو بطور خاص نظر آنے لگا۔[78]شمال مغربی ہندوستان میں ہندوؤں نے،آریہ سماجکے تحت فارسی عربی رسم الخط کے استعمال کے خلاف احتجاج کیا اور دلیل دی کہ زبان کو مقامیدیوناگریرسم الخط میں لکھا جانا چاہیے،[82]جس نے دیوناگری میں لکھی گئی ہندی کے استعمال کو جنم دیا۔ انجمن اسلامیہ لاہور[82]دیوناگری رسم الخط میں ہندی اور فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی گئی اردو نے مسلمانوں کے لیے ""اردو"" اور ہندوؤں کے لیے ""ہندی"" کی فرقہ وارانہ تقسیم قائم کی، یہ تقسیمنوآبادیاتی ہندوستانکی تقسیم کے بعد ہندوستان میں تقسیم ہو گئی۔ پاکستان کیآزادیکے بعد (حالانکہ ایسے ہندو شاعر ہیں جو اردو میں لکھتے رہتے ہیں، جن میںگوپی چند نارنگاورگلزار) تھے۔[83][84]اردو کوبمبئی پریزیڈنسی،بنگال،صوبہ اڑیسہ،[85]اورریاست حیدرآبادکے نوآبادیاتی ہندوستانی مصنفین کے لیے بطور ادبی ذریعہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔[86]1973 میں، اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔[87]1979 میںافغانستان پر سوویت یونین کے حملےاور اس کے بعد لاکھوںافغان مہاجرینکی آمد کے بعد جو کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں،[88]نے بھی ہندی-اردو میں عبور حاصل کر لیا ۔ ہندوستانی میڈیا خاص طور پر ہندی-اردوبالی ووڈفلمیں اور گانے اردو زبان میں ہوتے ہیں۔[89][90]اردو کوپراکرتاورسنسکرتکے مقامی الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہندی کو فارسی کے الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے - نئی لغت بنیادی طور پر فارسی اور عربی سے اردو کے لیے اور سنسکرت سے ہندی سے نکالی گئی ہے۔[91][92]انگریزی نے ایک مشترکہ سرکاری زبان کے طور پر دونوں پر بہت زیادہ اثر ڈالا ہے۔ بروس (2021ء) کے مطابق، اٹھارویں صدی سے اردو ��ے انگریزی الفاظ کو ڈھال لیا ہے۔[93]پاکستان میں 1947ء میں اپنی آزادی کے بعد سے ایک اردو کی ہائپر فارسائزیشن کی طرف ایک تحریک ابھری جو ہندوستان میں ابھرنے والی ہائپر سنسکرت زدہ ہندی کی طرح ""مصنوعی"" ہے۔[94]ہندی کے بڑھتے ہوئے سنسکرتائزیشن سے کچھ حد تک اردو کی ہائپر فارسائزیشن کی حوصلہ افزائی ہوئی۔[95]پاکستان میں روزمرہ کی بنیاد پر بولی جانے والی اردو کا انداز غیر جانبدار ہندستانی کے مشابہ ہے جو برصغیر کے شمالی حصے کیزبانہے۔[96][97]1977 کے بعد سے،[98]صحافیخشونت سنگھجیسے کچھ مبصرین نے اردو کو ""مرتی ہوئی زبان"" قرار دیا ہے، حالانکہ دیگر، جیسے کہ ہندوستانی شاعر اور مصنفگلزار(جو دونوں ممالک میں مقبول ہیں، نے اس تشخیص سے اختلاف کیا اور کہا کہ اردو ہندوستان میں ""سب سے زندہ زبان ہے اور وقت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے""۔[99][100][101][98][102][103][104]یہ رجحان دیگر زبانوں کے بولنے والوں کے مقابلے میں مقامی اردو بولنے والوں کی نسبتاً اور مطلق تعداد میں کمی سے متعلق ہے۔[105][106]اردو کے فارسی عربی رسم الخط، اردو ذخیرہ الفاظ اور گرامر کے بارے میں کم ہوتی ہوئی (جدید) علم؛[105][107]اردو سے اور ادب کے ترجمے اور نقل کا کردار۔[105]اردو کی بدلتی ثقافتی تصویر اور اردو بولنے والوں کے ساتھ منسلک سماجی و اقتصادی حیثیت (جس سے دونوں ممالک میں خاص طور پر ان کے روزگار کے مواقع پر منفی اثر پڑتا ہے)،[107][105]اردو کیقانونیحیثیت اورحقیقیسیاسی حیثیت،[107]اردو کو تعلیم کی زبان کے طور پر کتنا استعمال کیا جاتا ہے اور طلبہ نے اعلیٰ تعلیم میں اس کا انتخاب کیا ہے،[107][105][106][104]اور کس طرح اردو کی دیکھ بھال اور ترقی کو حکومتوں اور این جی اوز کی مالی اور ادارہ جاتی مدد حاصل ہے۔[107][105]ہندوستان میں، اگرچہ اردو صرف مسلمانوں کے ذریعہ استعمال نہیں کی جاتی ہے اور نہ کبھی ہوتی ہے (اور ہندی کبھی خصوصی طور پر ہندوؤں کے ذریعہ نہیں)،[104][108]جاریہندی-اردو تنازعہاور دونوں مذاہب کے ساتھ ہر زبان کی جدید ثقافتی وابستگی کی وجہ سے بہت کم اضافہ ہوا ہے۔ ہندو اردو استعمال کرتے ہیں۔[104][108]20ویں صدی میں، ہندوستانی مسلمانوں نے بتدریج اجتماعی طور پر اردو کو اپنانا شروع کیا[108](مثال کے طور پر، 'بہارکی آزادی کے بعد کی مسلم سیاست نے اردو زبان کے ارد گرد ایک متحرک دیکھا جو اقلیتوں کو بااختیار بنانے کے آلے کے طور پر خاص طور پر کمزور سماجی و اقتصادی پس منظر سے آنے والی ہے'۔[105])، لیکن 21 ویں صدی کے اوائل میں ہندوستانی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے سماجی و اقتصادی عوامل کی وجہ سے ہندی کو تبدیل کرنا شروع کیا، جیسے کہ ہندوستان کے بیشتر حصوں میں اردو کو تدریسی زبان کے طور پر چھوڑ دیا گیا،[106][105][104]ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 2001ء اور 2011ء کے درمیان 1.5 فیصد کم ہوئی (اس وقت 5.08 ملین اردو بولنے والے تھے)، خاص طور پر سب سے زیادہ اردو بولنے والی ریاستوںاتر پردیش(c. 8% سے 5%) اور بہار (c. 11.5% سے 8.5%)، حالانکہ ان دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کی تعداد میں اسی عرصے میں اضافہ ہوا ہے۔[106]اگرچہ 21 ویں صدی کے اوائل کے ہندوستانی پاپ کلچر میں اردو اب بھی بہت نمایاں ہے،بالی ووڈ[103]سے لے کر سوشل میڈیا تک، اردو رسم الخط اور اردو میں کتابوں کی اشاعت میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔[105]چونکہ پاکستانی حکومت نے تقسیم کے وقت اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا، اس لیے ہندوستانی ریاست اور کچھ مذہبی قوم پرستوں نے جزوی طور پر اردو کو ایک 'غیر ملکی' زبان کے طور پر دیکھنا شروع کر دی��۔[102]ہندوستان میں اردو کے حامی اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ اسے دیوناگری اورلاطینی رسم الخط(رومن اردو) میں لکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔[104][109][105]وولہ بھائی آفتاب نے دلیل دی کہ اردو اصل میں روشن خیالی، ترقی اور آزادی کی ایک بہترین اشرافیہ زبان ہے، جس نے تحریک آزادی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔[110]لیکن1947ء کی تقسیمکے بعد، جب اسے پاکستان کی قومی زبان کے طور پر منتخب کیا گیا، تو اسے بنیادی طور پر بنگالی سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا (جو کل آبادی کا 56 فیصد بولی جاتی ہے، زیادہ ترمشرقی پاکستانمیں۔ آزادی کے حامی دونوں اشرافیہ جنھوں نے پاکستان میںمسلم لیگاور ہندوستان میں ہندو اکثریتیکانگریس پارٹیکی قیادت کی تھی، برطانوی نوآبادیاتی دور میں انگریزی میں تعلیم حاصل کی گئی تھی اور انگریزی میں کام کرتے رہے اور اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں بھیجتے رہے۔[110]اگرچہ پاکستان میں اشرافیہ نے مختلف درجات کے ساتھ تعلیم کی اردوائزیشن کی کوششیں کی ہیں، لیکن سیاست، قانونی نظام،فوجاورمعیشتکو اردو میں کرنے کے لیے کوئی بھی کامیاب کوشش نہیں کی گئی۔[110]یہاں تک کہجنرل ضیاء الحقکی حکومت (1977-1988)، جو ایک متوسط پنجابی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ابتدائی طور پر پاکستانی معاشرے کی تیز اور مکمل اردوائزیشن کی بھرپور حمایت کرتے تھے (انھیں 'سرپرست اردو' کا اعزازی خطاب دیا گیا تھا۔[110]1960ء کی دہائی سے، اردو پاکستان میں اردو زبان مذہبی اسلام پسندی اور سیاسی قومی قدامت پرستی (اور آخر کار نچلے اور نچلے متوسط طبقے، علاقائی زبانوں جیسے کہ پنجابی، سندھی اور بلوچی) کے ساتھ منسلک رہی ہے، جبکہ انگریزی۔ بین الاقوامی سطح پر سیکولر اور ترقی پسند بائیں بازو (اور آخر کار بالائی اور اعلیٰ متوسط طبقے) سے وابستہ رہی۔[110]ہندوستان اور پاکستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 100 ملین سے زیادہ ہے۔2011ء کی مردم شماریکے مطابق ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 50.8 ملین تھی (کل آبادی کا 4.34%)۔[111][112]2006 میں پاکستان میں تقریباً 16 ملین[113]برطانیہ،سعودی عرب، امریکا اوربنگلہ دیشمیں بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ تاہم، اردو زبان بہت وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے، جو دنیا میںمینڈارن چینیاورانگریزیکے بعد تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔[114]نحو(گرامر)، اردو اور ہندی کے بنیادی الفاظ بنیادی طور پر یکساں ہیں - اس طرح ماہر لسانیات انھیں عام طور پر ایک زبان کے طور پر شمار کرتے ہیں، جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ انھیں سماجی و سیاسی وجوہات کی بنا پر دو مختلف زبانوں کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔[115]دوسری زبانوں کے ساتھ تعامل کی وجہ سے، اردو جہاں کہیں بھی بولی جاتی ہے، بشمول پاکستان میں مقامی ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اردو میں تبدیلیاں آئی ہیں اور اس نے علاقائی زبانوں کے بہت سے الفاظ کو شامل کیا ہے۔ اسی طرح، ہندوستان میں بولی جانے والی اردو کو کئی بولیوں میں بھی پہچانا جا سکتا ہے جیسے کہلکھنؤاوردہلیکی معیاری اردو کے ساتھ ساتھ جنوبی ہندوستان کیدکنیبولی وغیرہ۔[116][117]اردو کیہندیسے مماثلت کی وجہ سے، دونوں زبانوں کے بولنے والے آسانی سے ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔[118]اردو پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے،[119]لیکن پاکستان کی صرف 7 فیصد آبادی اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر بولتی ہے۔[120]پاکستان میں پچیس سال سے زائد عرصے تک رہنے والے مختلف نسلی (جیسےپشتون،تاجک،ازبک،ہزارویاورترکمان) کے تقریباً تیس لاکھ افغان مہاجرین میں سے زیادہ تر اردو زبان بولتے ہیں۔[121][122]یہ مدرسوں میں اعلیٰ ثانوی جماعتوں تک لازمی مضمون کی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اِس نے ایسے کروڑوں اُردو بولنے والے پیدا کر دیے ہیں، جن کی مادری زبانپنجابی،پشتو،سندھی،بلوچی،کشمیری،براہوی،سرائیکیاورچترالیوغیرہ میں سے کوئی ایک ہوتی ہے۔ پاکستان میں اردو میں بہت سے اخبارات شائع ہوتے ہیں جن میںروزنامہ جنگ،روزنامہ نوائے وقتاورروزنامہ ملتشامل ہیں۔ پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا ویب سائٹس جیسا کہ ڈیلی پاکستان اوراردو پوائنٹاردو زبان میں مواد فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی خطہ اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر استعمال نہیں کرتا۔ پاکستان کیپنجابی اشرافیہنے اردو کومادری زبانکے طور پر اپنایا ہے اور وہ اردو بولنے والے کے ساتھ ساتھ پنجابی شناخت دونوں سے پہچانے جاتے ہیں۔[123][124]اردو کو 1947ء میں پاکستان کی نئی ریاست کے لیے اتحاد کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ یہپاکستان کے تمام صوبوں/علاقوںمیں لکھی، بولی اور استعمال کی جاتی ہے۔[125]انگریزی اور اردو دونوں میڈیم اسکولوں میں ہائر سیکنڈری اسکول تک اردو کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، جس نے لاکھوں دوسری زبان کے بولنے والوں کو اردو سکھائی۔[126]جبکہ کچھ اردو الفاظ کو پاکستان کی علاقائی زبانوں نے بھی ضم کر لیا ہے۔[127][128]8 ستمبر2015ءبروز منگل کوپاکستانکیسپریم کورٹنے متعلقہ حکام کو فوری طور پر سرکاری دفاتر میں اردو بطور سرکاری زبان کے نفاذ کے لیے حکم دے رکھا ہے۔[129]بھارتمیں، اردو ان جگہوں پر بولی جاتی ہے جہاں بڑی مسلم اقلیتیں یا شہر ہیں جو ماضی میں مسلم سلطنتوں کے علاقے تھے۔ ان میںاتر پردیش،مدھیہ پردیش،بہار،تلنگانہ،آندھرا پردیش،مہاراشٹرا(مراٹھواڑہاور کونکنی)،کرناٹکاورحیدرآباد،لکھنؤ،دہلی،ملیرکوٹلہ،بریلی،میرٹھ،سہارنپور،مظفر نگر،روڑکی،موراآباد،اعظم گڑھ،بجنور،نجیب آباد،رام پور،علی گڑھ،الہ آباد،گورکھپور،آگرہ،فیروز آباد،کانپور،بدایوں،بھوپال،حیدرآباد،اورنگ آباد،سمستی پور،[130]بنگلور،کولکاتا،میسور،پٹنہ،دربھنگہ،مدھوا،سمبھوانی،گانو پورسہرسہ،سپول،مظفر پور،نالندہ،مونگیر،بھاگلپور،ارریہ،گلبرگہ،پربھنی،ناندیڑ،مالیگاؤں،بیدر،اجمیراوراحمد آبادجیسے شہر شامل ہیں۔[131]بھارت کے تقریباً 800 اضلاع میں ایک بہت بڑی تعداد میں اردو بولنے والی اقلیت میں ہیں۔ارریہ ضلع،بہارمیں، اردو بولنے والوں کی کثرت ہے اورحیدرآباد ضلع، تلنگانہ(43.35 فیصد تلگو بولنے والے اور 43.24 فیصد اردو بولنے والے) میں تقریباً کثرت ہے۔کچھ بھارتی مسلم اسکول (مدرسہ) اردو کو پہلی زبان کے طور پر پڑھاتے ہیں اور ان کا اپنا نصاب اور امتحانات ہوتے ہیں۔ درحقیقتبالی ووڈفلموں کی زبان میں فارسی اور عربی الفاظ کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے اور اس طرح اسے ایک لحاظ سے ""اردو"" سمجھا جاتا ہے،[132]خاص طور پر گانوں میں۔[133]بھارت میں 3,000 سے زیادہ اردو اشاعتیں ہیں جن میں 405 روزانہ اردو اخبارات بھی شامل ہیں۔[134]اخبارات جیسے کہنشاط نیوز اردو،سہارا اردو،روزنامہ سالار،ہندوستان ایکسپریس،روزنامہ پاسبان،روزنامہ سیاست،روزنامہ منصفاورانقلاببنگلور، مالیگاؤں، میسور، حیدرآباد اورممبئیمیں شائع اور تقسیم کیے جاتے ہیں۔[135]جنوبی ایشیا سے باہر، یہخلیج فارس کےممالک کے بڑے شہری مراکز میں نقل مکانی کرنے والے جنوب ایشیائی کارکنوں کی بڑی تعداد کے ذریعہ بولی جاتی ہ��۔برطانیہ،ریاستہائے متحدہ امریکہ،کینیڈا،جرمنی،نیوزی لینڈ،ناروےاورآسٹریلیاکے بڑے شہری مراکز میں بڑی تعداد میں تارکین وطن اور ان کے بچے بھی اردو بولتے ہیں۔[136]عربی کے ساتھ ساتھ،کاتالونیامیں سب سے زیادہ بولنے والے تارکین وطن کی زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔[137]اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہتعلیم، اَدب، دفتر، عدالت، وسیط اور دینی اِداروں میں مستعمل ہے۔ یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ ہے۔اردو پاکستان میں واحد قومی زبان ہے اور پاکستان کی دو سرکاری زبانوں میں سے ایک (انگریزی کے ساتھ)۔[138]یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، جبکہ ریاستی زبانیں (مختلف خطوں میں بولی جانے والی زبانیں)صوبائی زبانیںہیں، حالانکہ صرف 7.57 فیصد پاکستانی اپنی پہلی زبان کے طور پر اردو بولتے ہیں۔[139]اس کی سرکاری حیثیت کا مطلب یہ ہے کہ اردو دوسری یا تیسری زبان کے طور پر پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ یہتعلیم،ادب، دفتر اور عدالت کے کاروبار میں استعمال ہوتا ہے،[140]حالانکہ عملی طور پر حکومت کے اعلیٰ عہدوں میں اردو کی بجائے انگریزی استعمال ہوتی ہے۔[141]پاکستانی آئینکے آرٹیکل 251(1) میں کہا گیا ہے کہ اردو کو حکومت کی واحد زبان کے طور پر لاگو کیا جائے، حالانکہ پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر انگریزی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان ہے۔[142]اردوبھارتمیں سرکاری طور پر تسلیم شدہ زبانوں میں سے ایک ہے اور اسےبھارتی ریاستوںآندھرا پردیش،اتر پردیش،بہار،جھارکھنڈ،مغربی بنگال،تلنگانہاور قومی دار الحکومتدہلیمیں""اضافی سرکاری زبان""کا درجہ بھی حاصل ہے۔[143]جموں و کشمیرکی پانچ سرکاری زبانوں میں سے ایک کے طور پر بھی ہے۔[144]بھارت نے 1969ء میں اردو کے فروغ کے لیے سرکاری بیورو قائم کیا، حالانکہ سنٹرل ہندی ڈائریکٹوریٹ اس سے قبل 1960ء میں قائم کیا گیا تھا اور ہندی کی ترویج کے لیے بہتر مالی امداد اور زیادہ ترقی دی گئی ہے،[145]جب کہ فروغ سے اردو کی حیثیت کو نقصان پہنچا ہے۔[146]اردو کی نجی بھارتی تنظیمیں جیسے انجمنِ طریقت اردو، دینی علمی کونسل اور اردو مصحف دستہ اردو کے استعمال اور تحفظ کو فروغ دیتی ہیں، انجمن نے کامیابی کے ساتھ ایک مہم کا آغاز کیا جس نے 1970ء کی دہائی میں بہار کی سرکاری زبان کے طور پر اردو کو دوبارہ متعارف کرایا۔[145]سابقہجموں و کشمیر ریاستمیں، کشمیر کے آئین کے سیکشن 145 میں کہا گیا ہے: ""ریاست کی سرکاری زبان اردو ہوگی لیکن انگریزی زبان جب تک قانون سازی کے ذریعہ دوسری صورت میں فراہم نہیں کرتی، ریاست کے تمام سرکاری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہے گی۔ وہ ریاست جس کے لیے اسے آئین کے آغاز سے فوراً پہلے استعمال کیا جا رہا تھا۔[147]اردو میں چند تسلیم شدہ بولیاں ہیں، جن میںدکھنی، ڈھاکیہ،ریختہاور ماڈرن ورناکولر اردو (دہلی کے علاقے کیکوروی بولیبولی پر مبنی) شامل ہیں۔دکنی،جنوبی ہندوستانکے علاقےدکنمیں بولی جاتی ہے۔ یہمراٹھیاورکوکنی زبانکے الفاظ کے مرکب کے ساتھ ساتھ عربی،فارسیاورچغتائیکے الفاظ کے مرکب سے الگ ہے جو اردو کی معیاری بولی میں نہیں ملتی۔ دکھنیمہاراشٹر،تلنگانہ،آندھرا پردیشاورکرناٹککے تمام حصوں میں بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ اردو ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرح پڑھی اور لکھی جاتی ہے۔ ان ریاستوں میں اردو کے کئی روزنامے اور کئی ماہانہ رسائل شائع ہوتے ہیں۔ڈھاکیہ اردوبنگلہ دیشکے پر��نے ڈھاکہ شہر کی ایک بولی ہے جومغل دورسے شروع ہوتی ہے۔ تاہم، اس کی مقبولیت، یہاں تک کہ مقامی بولنے والوں میں بھی، 20ویں صدی میںبنگالی زبان کی تحریککے بعد سے بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسے بنگلہ دیش کی حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوںکی بولی جانے والی اردو اس بولی سے مختلف ہے۔اردو کی وہ بولیاں جن کی شناخت کی گئی ہے، یہ ہیں:پاکستان میں اردو پرپشتو،پنجابی،سرائیکی،بلوچی،سندھیزبانوں کا اثر پایا جاتا ہے، مقامی زبانوں کے اثر کی وجہ سے اردو کےحروف تہجیعربی اور فارسی سے زیادہ ہیں، بنیادی طور پر پاکستان کی اردو پر فارسی اور عربی کا اثر نمایاں محسوس کیا جا سکتا ہے۔معیاری اردو کا اکثرمعیاری ہندیسےموازنہ کیا جاتاہے۔[148]اردو اور ہندی دونوں، جو ایک ہی زبان،ہندوستانیکے بنیادی الفاظ اورگرامر کااشتراک کرتے ہیں۔[149][150][151][152]مذہبی انجمنوں کے علاوہ، اختلافات زیادہ ترمعیاری شکلوںتک ہی محدود ہیں: معیاری اردو روایتی طور پرفارسی حروف تہجیکےنستعلیق اندازمیں لکھی جاتی ہے اور فنی اور ادبی الفاظ کے ماخذ کے طور پر فارسی اور عربی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے،[153]جبکہ معیاری ہندی روایتی طور پردیوناگریمیں لکھی جاتی ہے اورسنسکرتسے عبارت ہے۔[154]تاہم، دونوں مقامیسنسکرتاورپراکرتسے ماخوذ الفاظ کی بنیادی ذخیرہ الفاظ اورعربیاور فارسی کے الفاظ کی ایک خاصی مقدار کا اشتراک کرتے ہیں، ماہرین لسانیات کے اتفاق کے ساتھ کہ وہ ایک ہی زبان کی دو معیاری شکلیں ہیں[155]اور فرق پر غور کریں۔ سماجی لسانی ہونا؛[156]کچھ ان کی الگ الگ درجہ بندی کرتے ہیں۔[157]دونوں زبانوں کو اکثر ایک زبان (ہندوستانی یا ہندی-اردو) سمجھا جاتا ہے جس میں فارسی سے لے کر سنسکرت کے الفاظ تک کے تسلسل میں بولی جاتی ہے،[158]لیکن اب وہ سیاست کی وجہ سے الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مختلف ہیں۔[159]پرانی اردو لغات میں سنسکرت کے زیادہ تر الفاظ اب ہندی میں موجود ہیں۔[160]صوتیاتی سطح پر، دونوں زبانوں کے بولنے والے اپنے الفاظ کے انتخاب کی فارسی-عربی یا سنسکرت کی اصل سے اکثر واقف ہوتے ہیں، جو ان الفاظ کے تلفظ کو متاثر کرتا ہے۔[161]اردو بولنے والے اکثر سنسکرت کے الفاظ میں پائے جانے والے حرفوں کے جھرمٹ کو توڑنے کے لیے حرف داخل کرتے ہیں، لیکن عربی اور فارسی کے الفاظ میں ان کا صحیح تلفظ کریں گے۔[162]برٹش انڈیا کی تقسیمکے بعد سے مذہبی قوم پرستی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں، ہندی اور اردو دونوں کے مقامی بولنے والے اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ الگ الگ زبانیں ہیں۔درج ذیل فہرست میں کچھ ممالک میں اردو بولنے والوں کی تعداد دکھائی گئی ہے۔یہ مضمون اردو زبان پر مضامین کا تسلسل ہےاصناف ادبنثری ادباردو زبانباب(زبان)سید احمد دہلوی، انیسویں صدی کے ایکلغت نگارجنھوں نےفرہنگِ آصفیہ[182]اردو لغت مرتب کی، اندازہ لگایا کہ 75% اردو الفاظ کی جڑیںسنسکرتاورپراکرتمیں ہیں،[183][184][185]اور تقریباً اردو کے 99% فعل کی جڑیں سنسکرت اور پراکرت میں ہیں۔[186][187]اردو نے فارسی سے الفاظ مستعار لیے ہیں اور کچھ حد تکعربیفارسی کے ذریعے،[188]تقریباً 25%[183][184][185][189]اردو کی ذخیرہ الفاظ کا 30% تک۔[190]چیپل ہل میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائناکے ماہر لسانیات افروز تاج کی طرف سے بیان کردہ جدول اسی طرح ادبی اردو میں سنسکرت سے ماخوذ الفاظ کے فارسی ادھار کی مقدار کو 1:3 کے تناسب پر مشتمل بیان کرتا ہے۔[185]""فارسیائزیشن کی طرف رجحان"" 18ویں صدی میں اردو شاعروں کے دہلی اسکول سے شروع ہوا، حالانکہ دیگر مصنفین، جیسےمیراجی، نے زبان کی سنسکرت شکل میں لکھا۔[191]1947 کے بعد سے پاکستان میں ہائپر فارسائزیشن کی طرف پیش قدمی جاری ہے، جسے ملک کے بیشتر مصنفین نے اپنایا ہے۔[192]اس طرح، کچھ اردو عبارتیں 70% فارسی-عربی قرضوں پر مشتمل ہو سکتی ہیں جس طرح کچھ فارسی متن میں 70% عربی الفاظ ہو سکتے ہیں۔[193]کچھ پاکستانی اردو بولنے والوں نے ہندوستانی تفریح کی نمائش کے نتیجے میں ہندی الفاظ کو اپنی تقریر میں شامل کیا ہے۔ ہندوستان میں ہندی سے اردو اتنی نہیں بدل گئی جتنی پاکستان میں ہے۔[194]اردو میں زیادہ تر مستعار الفاظ اسم اور صفت ہیں۔[195]عربی اصل کے بہت سے الفاظ فارسی کے ذریعے اختیار کیے گئے ہیں،[196]اور عربی کے مقابلے میں مختلف تلفظ اور معنی اور استعمال کی باریکیاں ہیں۔پرتگالیوںسے ادھار کی تعداد بھی کم ہے۔ اردو میں مستعار پرتگالی الفاظ کے لیے کچھ مثالیںچابی(""chave"": key)،گرجا(""igreja"": church)،کمرہ(""cámara"": room)،قمیض(""camisa"": shirt) ہیں۔[197]اگرچہاردوکا لفظترکی کےلفظordu(army) یاordaسے ماخوذ ہے، جس سے انگریزیhordeبھی ماخوذ ہے،[198]اردو میں ترک ادھار کم سے کم ہے[199]اور اردو کا تعلق جینیاتی طور پر بھیترک زبانوںسے نہیں ہے۔چغتائیاور عربی سے نکلنے والے اردو الفاظ فارسی سے مستعار لیے گئے تھے اور اس لیے یہ اصل الفاظ کے فارسی نسخے ہیں۔ مثال کے طور پر، عربیta' marbuta(ةاسمیں تبدیلیاں (ه> ) یاte(ت)۔[200][note 1]بہر حال، عام خیال کے برخلاف، اردو نےترکی زبانسے نہیں لیا، بلکہچغتائیسے لیا، جو وسطی ایشیا کی ایکترک زبان ہے۔ اردو اور ترکی دونوں عربی اور فارسی سے مستعار ہیں، اس لیے بہت سے اردو اور ترکی الفاظ کے تلفظ میں مماثلت ہے۔اردو کو اس کے کم باضابطہ رجسٹر میںrek̤h̤tah(ریختہ،[reːxtaː]) کہا گیا ہے، جس کا مطلب ہے ""کھردرا مرکب""۔ اردو کے زیادہ باضابطہ رجسٹر کو بعض اوقاتzabān-i Urdū-yi muʿallá(زبانِ اُردُوئے معلّٰى[zəbaːn eː ʊrdu eː moəllaː])، ""بلند کیمپ کی زبان"" کہا جاتا ہے، جس کا حوالہ دیتے ہوئےلشکری زبانفوج[201]میں مقامی یالاشری کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ʃkəɾiləʃkəɾi: zɑ:bɑ:n])[202]یا صرفلشکری۔[203]اردو میں استعمال ہونے والے لفظ کیتشبیہات، زیادہ تر حصے کے لیے، فیصلہ کرتی ہیں کہ کسی کی بات کتنی شائستہ یا بہتر ہے۔ مثال کے طور پر، اردو بولنے والےپانیاورآبآبکے درمیان فرق کریں گے، دونوں کے معنی ""پانی"" کے ہیں: سابقہ بول چال میں استعمال ہوتا ہے اوراسکیسنسکرتکی اصل ہے، جب کہ مؤخر الذکرفارسینژاد ہونے کی وجہ سے رسمی اور شاعرانہ طور پر استعمال ہوتا ہے۔اگر کوئی لفظ فارسی یا عربی زبان کا ہو تو تقریر کی سطح زیادہ رسمی اور عظیم تر سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح، اگر فارسی یا عربی گرامر کی تعمیرات، جیسے کہ اِضافات ، کو اردو میں استعمال کیا جائے، تو تقریر کی سطح بھی زیادہ رسمی اور عظیم تر سمجھی جاتی ہے۔ اگر کوئی لفظسنسکرتسے وراثت میں ملا ہے تو تقریر کی سطح کو زیادہ بول چال اور ذاتی سمجھا جاتا ہے۔[204]اردو کا تحریری نظامفارسی حروف تہجیکی توسیع ہے جو دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے اور یہ نظام خودعربی حروف تہجیکی توسیع ہے۔ اردو کا تعلق فارسی خطاطی کےنستعلیق طرزسے ہے، جب کہ عربی عام طور پرناسخیارقہ کےانداز میں لکھی جاتی ہے۔نستعلیق کوٹائپ سیٹ کرنا بدنام زمانہ مشکل ہے، لہٰذا1980ءکی دہائی کے آخر تک اردو اخبارات کو خطاطی کے ماہروں کے ہاتھ سے لکھا جاتا تھا، جنہیںکاتبیاخُوشنویسکہا جاتا تھا۔ ایک ہاتھ سے لکھا ہوا اردو اخبار،دی مسلمان، اب بھیچنئیمیں روزانہ شائع ہوتا ہے۔[205]اردو کی ایک انتہائی فارسی اور تکنیکی شکل بنگال اور شمال مغربی صوبوں اور اودھ میں برطانوی انتظامیہ کی قانونی عدالتوں کیزبانیتھی۔ 19ویں صدی کے آخر تک، اردو کے اس رجسٹر میں تمام کارروائیاں اور عدالتی لین دین سرکاری طور پر فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔1880ءمیں، نوآبادیاتی ہندوستان میں بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر سر ایشلے ایڈن نے بنگال کی عدالتوں میں فارسی حروف تہجی کے استعمال کو ختم کر دیا اور اردو اور ہندی دونوں کے لیے استعمال ہونے والی مقبول رسم الخط کیتھی کے خصوصی استعمال کا حکم دیا۔صوبہ بہارمیں عدالتی زبان اردو تھی جو کیتھی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔[206][207][208][209]کیتھی کا اردو اور ہندی کے ساتھ تعلق بالآخر ان زبانوں اور ان کے رسم الخط کے درمیان سیاسی مقابلے کے باعث ختم ہو گیا، جس میں فارسی رسم الخط کو یقینی طور پر اردو سے جوڑا گیا تھا۔حال ہی میں ہندوستان میں، اردو بولنے والوں نے اردو رسالوں کی اشاعت کے لیےدیوناگری کواپنایا ہے اور دیوناگری میں اردو کو دیوناگری میں ہندی سے الگ نشان زد کرنے کے لیے نئی حکمت عملیوں کو اختراع کیا ہے۔ ایسے ناشرین نے اردو الفاظ کی فارسی عربی تشبیہات کی نمائندگی کرنے کے مقصد سے دیوناگری میں نئی آرتھوگرافک خصوصیات متعارف کروائی ہیں۔ ایک مثال ہندی آرتھوگرافک قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے،ع('عین) کے سیاق و سباق کی نقل کرنے کے لیے حرفی علامات کے ساتھ ا (دیوناگریa) کا استعمال ہے۔ اردو پبلشرز کے لیے، دیوناگری کا استعمال انھیں زیادہ سامعین فراہم کرتا ہے، جب کہ آرتھوگرافک تبدیلیاں انھیں اردو کی ایک الگ شناخت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔بنگالکے کچھ شاعروں، یعنیقاضی نذر الاسلام، نے تاریخی طور پر بنگالی رسم الخط کو اردو شاعری لکھنے کے لیے استعمال کیا ہے جیسےپریم نگر کا ٹھکانہ کرلےاورمیرا بیٹی کی خیلہ، نیز دو لسانی بنگالی اردو نظمیں جیسےالگا کورو گو کھوپر بندھن،جبوکر چھولونااورمیرا دل بیت کیا۔[210][211][212]ڈھاکہ اردو اردو کی ایک بول چال کی غیر معیاری بولی ہے جو عام طور پر نہیں لکھی جاتی تھی۔ تاہم، بولی کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے والی تنظیموں نے بولی کو بنگالی رسم الخط میں نقل کرنا شروع کر دیا ہے۔[note 2][213]اردو ادب نے حالیہ صدیوں میں حقیقی مقام پایا، اس سے کئی صدیوں پہلے تک سلاطین دہلی پر فارسی کا غلبہ تھا۔ فارسی کی جگہ اردو نے بڑی آسانی سے پالی اور یہاں تک کہ لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ فارسی کبھی سرکاری زبان تھی بھی کہ نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اردو کے مصنفین اور فنکار ہیں۔اردو زبان میںاسلامی ادباورشریعتکی کئی تصانیف ہیں۔ اس میں تفسیر القران، قرآنی تراجم،احادیث،فقہ،تاریخ اسلام،روحانیتاورصوفی طریقہکے بے شمار کتب دستیاب ہیں۔ عربی اور فارسی کی کئی کلاسیکی کتب کے بھی تراجم اردو میں ہیں۔ ساتھ ساتھ کئی اہم، مقبول، معروف اسلامی ادبی کتب کا خزینہ اردو میں دستیاب ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پنڈت روپ چند جوشی نے اٹھارویں صدی میں ایک کتاب لکھی، جس کا نام لال کتاب ہے۔ اس کا موضوع فالنامہ ہے۔ یہ کتاب برہمنوں کے اُن خاندانوں میں جہاں اردو عام زبان تھی، کافی مشہور کتاب مانی گئی۔غیر مذہبی ادب کو پھر سے دو اشکال میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک فکشن ہے تو دوسرا غیر فکشن۔ادب کی دوسری قسم نظم ہے۔ نظم کے معنی موتی پرونا ہے۔ یعنی کلام کو ایک ترتیب وار ہیئت کے ساتھ پیش کریں تو وہ صنف نظم کہلاتی ہے۔ اس ادب کو اردو نظمی ادب کہتے ہیں۔ لیکن آج کل اس کو اردو شاعری یا شاعری کے نام سے بھی جانا جانے لگا ہے۔جنوبی ایشیامیں اردو ایک اہم زبان ہے۔ بالخصوص نظم میں اردو کے مقابلہ میں دوسری زبان نہیں۔ اردو کی روایات میں کئی اصناف ہیں جن میںغزلنمایاں ترین حیثیت کی حامل ہے۔نظمی اردو (اردو شاعری) میں ذیل کے اصناف ہیں:"
+454,ضلع لکھنؤ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A4_%D8%B6%D9%84%D8%B9,"لکھنؤ ضلع(انگریزی: Lucknow district)بھارتکا ایکضلعجواتر پردیشمیں واقع ہے۔[1]لکھنؤ ضلع کی مجموعی آبادی 4,588,455 افراد پر مشتمل ہے۔"
+455,دسہری,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%B3%DB%81%D8%B1%DB%8C,دسہری(Dasheri)آمکی ایک قسم ہے جوپاکستان،نیپال،شمالی ہندمیں اگائی جاتی ہے۔ اس کی سب سے زیادہ پیداوارملیح آبادٰٰٰٰلکھنؤ،اتر پردیشمیں ہوتی ہے۔
+456,آم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D9%85,"آمآمایک کھانے کے قابل پتھر کا پھل ہے جو اشنکٹبندیی درخت Mangifera indica سے پیدا ہوتا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی ابتدا شمال مغربیمیانمار، بنگلہ دیش اور شمال مشرقی ہندوستان کے درمیان کے علاقے سے ہوئی ہ M. indica قدیم زمانے سے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں کاشت کی جاتی رہی ہے جس کے نتیجے میں آم کی دو اقسام ہیں: ""انڈین قسم"" اور ""جنوب مشرقی ایشیائی قسم""۔ منگیفیرا کی نسل میں دیگر انواع بھی کھانے کے قابل پھل پیدا کرتی ہیں جنہیں ""آم"" بھی کہا جاتا ہے، جن کی اکثریت ملیشیائی ماحولیات میں پائی جاتی ہے۔دنیا بھر میں آم کی کئی سو اقسام پائی جاتی ہیں۔ کھیتی پر منحصر ہے، آم کا پھل سائز، شکل، مٹھاس، جلد کا رنگ اور گوشت کے رنگ میں مختلف ہوتا ہے جو ہلکا پیلا، سنہرا، سبز یا نارنجی ہو سکتا ہے۔ آم ہندوستان، پاکستان اور فلپائن کا قومی پھل ہے،جبکہ آم کا درخت بنگلہ دیش کا قومی درخت ہےآمدنیا کے چند پسندیدہپھلوںمیں سے ایک ہے۔ اس کا آبائی وطن جنوبیایشیااور جنوب مشرقی ایشیا ہے۔ لیکن یہ دنیا کے تماماستوائیعلاقوں میں ہوتا ہے۔ اس کاگوداکھایا جاتا ہے۔برصغیرمیں اسپھلکی خوب پیداوار ہے، اسی لیے اسےبھارتاورپاکستانکاقومی پھلمانا جاتا ہے۔لفظآمکے بارے میں یہ رائے عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ یہ اصل میںسنسکرتلفظآمْرَنسے ماخوذ ہے۔اس کی کئی اقسام ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔رقبۂ کاشتکے لحاظ سے 12 سب سے بڑے پیداواری ممالک یہ ہیں،آم ایک اچھا تغذیہ ہے۔ اس کے مشروبات بھی عام ہیں۔ علاوہ اس کے، کچے آم سے، چٹنیاں،اچاراور آمچور بھی بنایے جاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق آم انسانی صحت کے لیے مفید ہے اور یہ دل اور معدے کے امراض کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ آم کے استعمال سے خون بننے میں مدد ملتی ہے۔ اور اس سے پیٹ کی بیماریاں ختم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ اس کا جوس پینے سے جسم میں طاقت آتی ہے۔ اور یہ جسم کو طاقت پہنچاتا ہے۔[2][3]سانچہ:فہرستیں ملکی زراعت"
+457,2011ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/2011%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+458,حکومت ہند,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA_%DB%81%D9%86%D8%AF,حکومت ہند(انگریزی: Government of India)بھارتکی29 ریاستوں اور 7 مرکزی زیرِ اقتدار علاقوںکے وفاق پر مشتمل حکومت جوآئین ہندکے مطابق قائم شدہ حکمراں ادارہ ہے۔ اسے سرکاری طور پر وفاقی حکومت (Union Government)، نیز مرکزی حکومت (Central Government) بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا دار الحکومتنئی دہلیہے۔دستورِ ہند کیتمہیدمیں بھارت کوخود مختار،اشتراکی،مذہبی طور پر غیر جانبدارانہاورجمہوریم��ک قرار دیا گیا ہے۔
+459,2001ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/2001%D8%A1,"حماد مصطفیٰمارچ2001میںشمالی پنجاب,میانوالیکے ایکزرعی گھرانےمیں پیدا ہوا اورگورنمنٹ ڈگری کالجمیانوالیسےICSمکمل کرنے کے بعدمنہاج یونیورسٹیلاہورسےBS Mass Comکر رہا ہے۔پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!"
+460,ضلع لکھنؤ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A4_%D8%B6%D9%84%D8%B9,"لکھنؤ ضلع(انگریزی: Lucknow district)بھارتکا ایکضلعجواتر پردیشمیں واقع ہے۔[1]لکھنؤ ضلع کی مجموعی آبادی 4,588,455 افراد پر مشتمل ہے۔"
+461,کان پور,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%BE%D9%88%D8%B1,کانپوربھارتکی ریاستاتر پردیشکا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہ شہردریائے گنگاکے کنارے واقع ہے۔ اس کے علاوہاتر پردیشکا اہم تجارتی مرکز ہے۔
+462,اتر پردیش,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%AA%D8%B1_%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4,اترپردیش(ہندی:उत्तर प्रदेश) بلحاظ آبادی،بھارتکی سب سے بڑی اور رقبے کے اعتبار سے پانچویں بڑی ریاست ہے۔اترپردیشدریائے گنگاکے انتہائی زرخیز اور گنجان آباد میدانوں پر پھیلی ہوئی ریاست ہے۔ اس کی سرحدیںنیپالکے علاوہ بھارت کی ریاستوںاتر انچل،ہماچل پردیش،ہریانہ،دہلی،راجستھان،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ،جھاڑکھنڈاوربہارسے ملتی ہیں۔اترپردیش کا انتظامی و قانونیدار الحکومتلکھنؤہے جبکہ اعلیٰ عدالتالہ آبادمیں قائم ہے۔اترپردیش قدیم اور قرون وسطی بھارت کی طاقتور سلطنتوں کا گھر تھا۔ ریاست کے دو بڑے دریاؤں،گنگااوردریائے جمنا،الٰہ آبادمیں ملتے ہیں اور پھر گنگا مشرق کی طرف مڑ جاتا ہے۔ ریاست میں کئی تاریخی، قدرتی اور مذہبی سیاحتی مقامات ہیں، جیسا کہ،آگرہ،وارانسی،رائے بریلی،کوسامبی،کانپور،بلیا،شراوستی ضلع،گورکھپور،اناؤ،چوری چورامیں واقعگورکھپور،کشی نگر،لکھنؤ،جھانسی،الٰہ آباد،بدایوں،میرٹھ،متھرا،جونپور، اترپردیشاورمظفر نگر۔جدید انسانشکاری ہجوم کی صورت اترپردیش میں رہے ہیں[6][7][8]یہ تقریباً[9]85 اور 73 ہزار سال پہلے یہاں رہے۔ اس کے علاوہ اترپردیش سے ماقبل تاریخ کے درمیانے اور اعلا قدیم حجری دور کے 21–31 ہزار سال پہلے کے[10]اوروسطی حجری دور/خرد حجری دورhunter-gathererکی آبادکاری کے نشانات،پرتاپگڑھکے قریب ملے ہیں، جو 10550–9550 قبل مسیح قدیم ہیں۔ آثار میں ایسے گاؤں بھی ملے ہیں جن میں پالتو مویشی، بھیڑیں اور بکریاں اور زراعت کا ثبوت ملتا ہے جو 6000 قبل مسیح سے شروع ہو کر آہستہ آہستہ 4000 تا 1500 قبل مسیح میںویدک دورکیوادیٔ سندھ کی تہذیباورہڑپہ تہذیبکے آغاز تک جاتا ہے ; جولوہے کے زمانےکی توسیع ہے۔[11][12][13]اترپردیش بھارت کے شعبہ زراعت میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں ہر پانچ فروخت ہونے والے ٹریکٹروں میں سے ایک اس ریاست میں بکتا ہے۔[14]2010-11 میں اترپردیش میں ہر وقت سے زیادہ یعنی 47.55 میٹریک ٹن غلے کی پیداوار درج کی جو پچھلے سال سے 10 فی صد اضافہ تھا۔ 2010-11 میں ریاست میں پورے ملک کے غلے کا پانچواں حصہ اگا تھا۔ ریاست میں ملک کے کل چاول کا 13 فی صد، گیہوں کا 35 فی صد، دالوں کا 13 فی صد اور موٹے اناج کا 8 فی صد اگا تھا۔ ۔[15]Uttar Pradesh سفری راہنمامنجانبویکی سفرسانچہ:Hydrography of Uttar Pradeshلوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+463,دریائے گومتی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%A6%DB%92_%DA%AF%D9%88%D9%85%D8%AA%DB%8C,"دریائے گومتی(Gomti, Gumti یا Gomati River)
+(ہندی:गोमती)دریائے گنگاکا ایک معاوندریاہے۔"
+464,اودھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%88%D8%AF%DA%BE,"اودھ(Awadh)
+(ہندی:अव��،نیپالی:अबध،اردو:اودھتلفظ:(معاونت·معلومات)) ایک تاریخی علاقہ ہے جو موجودہبھارتکیریاستاتر پردیشمیں واقع ہے۔1722ءمیں،ریاست اودھکے دور میں اس کادار الحکومتفیض آبادتھا اور اس کے پہلےنوابسعادت خاں برہان الملکتھے۔فیض آبادکے بعد، اس کادار الحکومتلکھنؤمنتقل ہو گیا جواتر پردیشکا موجودہدار الحکومتبھی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا انتظامی علاقہنیپال گنجموجودہنیپالکے صوبےتھاروہٹکادار الحکومتہے۔1857ء سے پہلے کی جس تہذیب کو ہم اودھ کی تہذیب کا نام دیتے ہیں وہ دراصل بیت السّلطنت لکھنؤ کی تہذیب تھی۔ لکھنؤ کے قریب ترین شہر بھی اپنے تہذیبی خدوخال کے اعتبار سے لکھنؤ سے مختلف تھے۔ شجاع الدولہ کے عہد تک اودھ کے حکمرانوں کا مستقر فیض آباد تھا اور لکھنؤ فراموشی کی دھند میں صاف نظر نہ آتا تھا لیکن شجاع الدولہ کے فرزند آصف الدولہ نے فیض آباد کو چھوڑ کر لکھنؤ کو دار الحکومت بنا لیا۔(1) اُس وقت سے لکھنؤ کی ترقی اور خوش حالی کا دور شروع ہوا۔ دہلی میںمغلیہ سلطنتتو دم توڑ رہی تھی اور اُس عظیم شہر کا مستقبل بہت تاریک اور پُر خطر نظر آ رہا تھا۔ لکھنؤ کو عروج کی طرف بڑھتے دیکھ کر دہلی اور دوسرے مقامات کے اہلِ کمال اور معزّزین نے لکھنؤ کا رخ کیا اور اس شہر کو مختلف حیثیتوں سے مالامال کیا۔اسّی برس تک لکھنؤ کے چراغ کی لو تیز سے تیز تر ہوتی رہی۔ آخر واجد علی شاہ کے عہد میں انتزاعِ سلطنت (1856ء) کے بعد سے اس کی روشنی مدّہم پڑنے لگی۔ اربابِ کمال لکھنؤ چھوڑ کر دوسرے قدردانوں کی تلاش میں نکل گئے اور دیکھتے دیکھتے لکھنؤ پر زوال آ گیا۔آصف الدولہ اور ان کے جانشین سعادت علی خاں کے زمانے تک اودھ مغل سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔ یہاں کے حکمراں سلطنتِ مغلیہ کی طرف سے اس پر حکومت کرتے تھے اور مغل بادشاہ کے نائب کی حیثیت سے ان کا لقب ""نواب وزیر"" تھا۔ اصولاً انھیں مغل بادشاہ کی چشم و ابرو کے اشارے پر چلنا چاہیے تھا، لیکن اب یہ نیابت فقط برائے نام تھی۔ حقیقتاً اودھ کے حکمراں خود کو دہلی سے آئے ہوئے احکام اور ہدایات کا پابند نہیں سمجھتے تھے۔ اس صورتِ حال کے ذمے دار ایک حد تک ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز عہدے دار تھے جو نواب وزیر اور بادشاہِ دہلی کے درمیان حائل ہو گئے تھے اور پورے ہندوستان پر حکومت کرنے کا خاموش تہیہ کر چکے تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ نہایت منظم اور مکمل منصوبے بنا کر ان پر بڑی ہوشیاری کے ساتھ عمل کر رہے تھے اور بادشاہ اور نواب کے درمیان بڑھتی ہوئی بے تعلقی انھیں منصوبوں کا ایک جُز تھی۔دہلی اب بھی ہندوستان کا دار السلطنت اور مغل بادشاہ اب بھی ہندوستان کا شہنشاہ تھا، لیکن اب اُس کی حیثیت شاہِ شطرنج سے زیادہ نہ تھی۔ دہلی کی مرکزیت ختم ہو چکی تھی اور مغلوں کی بادشاہت ختم ہو رہی تھی۔ اس تنزل کا سبب انگریزوں کے دخل در معقولات کے علاوہ یہ بھی تھا کہ خود مغل حکمران وہ خون کھو چکے تھے جو تیمورِ گاگان سے لے کر بابر اور بابر سے لے کر اورنگ زیب کی رگوں میں دوڑتا رہا تھا۔ مغلانِ اعظم کے جانشین بزم پر رزم کو قربان کر چکے تھے۔ ان کی فعالیت ختم ہو چکی تھی اور ان کی جنبشیں کٹھ پتلیوں کی طرح تھیں جن کی ڈوریاں انگریزوں، سیّدوں، مرہٹوں اور جاٹوں روہیلوں، سبھی کے ہاتھوں میں آتی رہتی تھیں اور ان کے بازیگروں میں اپنے فن کے سب سے زیادہ ماہر انگریز تھے جو دھیرے دھیرے پورے ملک کی سیاست پر چھاتے جا رہے تھے۔آصف الدولہ کے عہد تک اودھ پر بھی انگریزوں کی نظریں پڑنے لگی تھیں۔ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری تھا کہ وہ نواب وزیر کو اپنے قابو میں لائیں۔ یہ مقصد تین طریقوں سے حاصل ہو سکتا تھا: نواب کو اپنا ممنون کر کے ، محتاج بنا کر یا اپنے سے مرعوب کر کے۔ انھوں نے پہلی صورت کو مصلحتِ وقت سمجھ کر آصف الدولہ کو ان کی ماں بہو بیگم صاحبہ کی کثیر دولت دلوا دی۔ آصف الدولہ انگریزوں کے ممنونِ احسان ہوئے اور اخلاقاً ان سے دوستی نبھانے اور مختلف طریقوں سے ان کی مدد کرنے پر مجبور ہو گئے۔آصف الدولہ کے بعد سعادت علی خاں پر بھی یہی حربہ کامیابی کے ساتھ آزمایا گیا۔ آصف الدولہ کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے وزیر علی نے مسندِ نیابت پر بیٹھنے کا قصد کیا۔ لیکن انگریزوں نے اُن کو ہٹا کر(2) شجاع الدولہ کے بیٹے سعادت علی خاں کو مسند نشیں کیا۔ یوں سعادت علی خاں کا اقتدار بھی انگریزوں کی بدولت قرار پایا اور خود ایک جوہرِ قابل ہونے کے باوجود انھیں انگریزوں کی مرضی کا پابند ہونا پڑا۔سعادت علی خاں کے بیٹے غازی الدین حیدر نے نیابت ملنے کے بعد 1818ء میں ""ابوالمظفر، معزالدین، شاہِ زمن، غازی الدین حیدر، بادشاہ غازی"" کا خطاب اختیار کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اب اودھ صوبے سے ملک بن گیا اور مغلیہ سلطنت سے اس کا برائے نام تعلّق بھی ختم ہو گیا۔ اِس انقلاب کے پسِ پردہ بھی انگریزوں کی حکمت عملی تھی اور یہ اقدام انھیں کے تعاون سے کامیاب ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اودھ کا ہر بادشاہ شاہِ شطرنج تھا۔ ملک اودھ میں انگریزوں کی حیثیت شریکِ غالب کی ہو گئی اور اب سیاسی اور ملکی معاملات کا کیا ذکر، بڑی حد تک اپنے نجی معاملات میں بھی اودھ کا بادشاہ ان کی دخل اندازیاں روکنے پر قادر نہ رہا۔انگریزوں کی ریشہ دوانیوں سے قطع نظر، اودھ کے نظامِ سلطنت میں خود بھی کمزوریاں تھیں۔ وقتاً فوقتاً ایسے عمّال بر سرِ اقتدار آ جاتے تھے جو اپنے عہدے کے اہل نہیں ہوتے تھے اور محض سفارشوں اور تعلقات کے بل پر منصب حاصل کر کے نظم و نسق کو زیر و زبر کرتے رہتے تھے۔سلطنتِ اودھ انگریزوں کے ہاتھ میں ایک کھلونے کی طرح آ گئی۔ انھیں اس پر قابض ہوتے وقت معمولی مزاحمت کا سامنا بھی نہ کرنا پڑا۔ البتہ اس کے دوسرے سال 1857ء میں جب ملک کے دوسرے حصوں میں جنگ اور انقلاب کے شعلے بھڑک اٹھے تو لکھنؤ بھی ان کی لپیٹ میں آ کر ایک بڑے محاذِ جنگ میں تبدیل ہو گیا۔ بیلی گارد (ریذیڈنسی)، عالم باغ اور سکندر باغ وغیرہ کے معرکوں میں مقامی سپاہیوں نے شجاعت اور جاں بازی کے کارنامے دکھائے اور دشمن تک سے داد وصول کی۔ لیکن انگریزوں کی منظّم فوجوں اور لاجواب حربی لیاقت کے آگے اور کبھی اپنے ہی غدّار ساتھیوں کی بدولت، جیت نہ سکے۔ اس طرح آزادی کی یہ پہلی جدوجہد پورے ہندوستان کی طرح لکھنؤ میں بھی ناکامی پر ختم ہوئی۔آصف الدولہ نے فیض آباد کی بجائے لکھنؤ کو اپنی سلطنت کا مستقر بنایا اور اچانک لکھنؤ شمالی ہند کا مرکزِ نظر بن گیا۔ آصف الدولہ کی دل آویز شخصیت، بے اندازہ فیّاضی، علم دوستی اور اہلِ ہنر کی قدردانی نے بہت جلد لکھنؤ کو مرجعِ خلائق بنا دیا۔ جس وقت دہلی کی سلطنت کا چراغ بجھ رہا تھا، لکھنؤ کے چراغ کی لو اونچی ہو رہی تھی۔ تاریخ اور ادبیات کے واقف خوب جانتے ہیں کہ اُس زمانے میں دہلی کے کتنے با کمالوں نے لکھنؤ کو آ بسایا۔ گردشِ زمانہ نے دہلی کے چراغ کا بچاکھچا روغن لکھنؤ کے کنول میں انڈیل دیا اور دہلی ہی نہیں، ہندوستان بھر سے قدردانی اور معاش کے طلبگاروں نے کھنچ کھنچ کر لکھنؤ آنا شروع کر دیا۔ یو�� لکھنؤ کی تہذیب کی تشکیل ہوئی۔ اس تشکیل کی رفتار نہایت تیز تھی اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ لکھنؤ کی تہذیب تقریباً یک لخت معرضِ وجود میں آ گئی۔ اس کے پسِ پشت صدیوں اور قرنوں کے تجربات و حوادث کارفرما نہیں تھے۔ چند سال کے اندر اس تہذیب نے اپنی ارتقائی منزلیں طے کر لیں اور پھر بہت تیزی کے ساتھ ثقافت اور معاشرت کے لحاظ سے ایک واضح اور منفرد شکل اختیار کر کے اپنے عروج کی انتہائی منزل تک پہنچ گئی۔ یہ ارتقائی منزلیں آصف الدولہ اور سعادت علی خاں کے دورِ نیابت میں طے ہوئیں، غازی الدین حیدر (1813ء تا 1827ء) اور نصیرالدین حیدر (1827ء تا 1837ء) کے دورِ بادشاہت تک لکھنؤ کی تہذیب اپنی آخری بلندیوں کو چھونے لگی تھی۔ اس عہد کا ایک خاکہ ہمارے سامنے مرزا رجب علی بیگ سرور نے ""فسانۂ عجائب"" کے دیباچے میں پیش کر دیا ہے جس کی تصدیق سرور کے ایک دہلوی ہم عصر کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔"
+465,ہندی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%81%D9%86%D8%AF%DB%8C,"ہندیبھارتمیں بولی جانے والی زبان ہے جس کے ماخد وہی ہیں جواردوکے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندی اور اردوہندوستانی زبانسے نکلے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہندی کا جھکاؤ سنسکرت کی طرف بہت زیادہ ہے۔ اردو عام طور پرہندیہیں۔ ہندی کی پراتن کھوپڑی اپبھرانشہ ہے، جو کے شَوراسینی پراکرت کی قسم ہے۔ اردو کو عرب دیشوں میں ہندی زبان مانا جاتا ہے، کیوں کہ وہاں زیادہ تر ہندوستانیوں نے اپنی زبان کوہندی زبانقرار کیا ہے۔ ہندی کی زیادہ سنسکرِت مند ریجسٹر کوآدھُنِک مانک ہندی(دیوناگری: आधुनिक मानक हिन्दी) کہا جاتا ہے۔[1]کئی دوسرے مقامی رسومِ خطاَआइईउ_________________________وینجن (صیحیح حروف):۔کَ कکھَ खگَ गگھَ घاَنْگَ ङ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔چَ चچھَ छجَ जجھَ झنِیاں ञ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ٹَ टٹھَ ठڈَ डڈھَ ढاَنْڑَ ण۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔تَ तتھَ थدَ दدھَ ध
+ُ
+نَ न۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔پَ पپھَ फبَ बبھَ भمَ म۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔یَ यرَ रلَ लوَ वشَ शششَ षسَ۔ ثَ सہَ۔ ھَ۔ حَ ह_____________________لفظِ ہندی اُردو زبان کے پُرانے ناموں میں سے ایک ہے۔ اس لفظ کا معنیٰ ہند سے متعلّق ہے۔ جدید معیاری ہندی 19 ویں صدی کے اوائل میں اُردو کے ڈھانچے میں سے عربی اور فارسی کے الفاظ نکال کر یا کم کرکے بنائی گئی۔ انگریزوں کی نفسیاتی پالیسی 'بانٹ کر حکومت کرنا' کے تحت اُردو زبان سے اُردو-فارسی الفاظ نکال کر ان کی جگہسنسکرتکے الفاظ رکھنے سے ہندی زبان وجود میں آئی۔ اسی طرحہندوستانی زبانموجودہ دور میںاردوبن گئی اور ایک نئی رقم کی ہندی زباندیوناگری رسمِ خطکے ساتھ بنائی گئی انگریزی زمانے میں۔ برصغیر کے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اردو ایک نئی زبان ہے اور اس کے مقابلے میں ہندی ایک قدیم زبان ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اردو اگرچہ بہت پرانی زبان نہیں ہے بلکہ ہندی بالکل ایک نئی زبان ہے اور اس کے وجود میں آئے ہوئے مشکل سے دو سو سال ہوئے ہیں۔ پرانے وقتوں میں ہندوؤں کی زبانسنسکرتتھی، لیکن یہ زبان کسی کو بولنے نہیں دی جاتی تھی، کیونکہ یہ ان کے خداؤں کی زبان تھی، نتیجہ سنسکرت ختم ہونے لگی، ہندوؤں نے اپنی زبان بچا نے کے لیے۔ اردو کو ہندی بنا لیا. اور اس میں سے اردو-فارسی الفاظ ہٹا کر اس کی جگہ سنسکرت کے کچھ الفاظ ملا نے سے ہندی زبان وجود میں آئی۔[7]انیس ویں صدی کے آخر میں ، ہندی کو اردو سے الگ ہندوستانی کی ایک معیاری شکل کے طور پر مزید ترقی دینے کی تحریک کا ��غاز ہوا۔ 1881 میں ،بہارنے ہندی کو اپنی واحد سرکاری زبان کے طور پر قبول کیا، اردو کی جگہ لے لی اور اس طرح ہندی کو اپنانے والیبھارتکی پہلی ریاست بن گئی۔جب انگریز برصغیر میں آئے تو ان کو جس زبان سے واسطہ پڑا وہ اردو تھی جسے وہ ہندوستانی کہتے تھے۔ انھوں نے ابتدا میں عدالتی اوردفتری زبانفارسی رکھی۔ مگر اردو کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اردو کو رائج کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیوں کہ یہ طبقہ اسی کو اپنی بول چال میں استعمال کرتا تھا۔ اس میں مذہب کی بنا پر کوئی امتیاز نہیں تھا اور ہندو ومسلمانسب اسے اِرقام کرتے اور پڑھتے تھے۔ جسے انگریز ہندوستانیe Anti-Jargonist; a short and familiar introduction to the Hindoostanee Language, with an extensive Vocabulary کہتے تھے۔ جس کے بارے میں گلکرسٹ نے اپنی کتاب میں ہندوستان میں مقبول عام زبان اِرقام کرتا ہے اور یہ کہتا ہے مقامی سطح پر بعض بولیاں ضرور رائج ہیں لیکن وہ چھوٹے چھوٹے علاقوں تک محدود ہیں۔ رابطہ کی زبان کے طور یا اسے لنگوافرنیکا کہہ سکتے ہیں پورے شمالی ہندوستان میں پنجاب تا بہار اردو رائج تھی۔ سنیتی چٹرجی اپنی کتاب Indo Aryan and Habdi اِرقام کرتے ہیں کہانیسویں صدیسے اردو ہندوؤں کی خاص توجہ کا خاص مرکز بن گئی تھی۔ کیوں کہ یہ عدالتوں کی زبان تھی اور اسکولوں میں اس زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔ جس کے پڑھنے سےقانون،طب، انجینئری وغیرہ پیشوں کی راہیں کھلتی تھیں۔۔ شمالی ہندوستان میں یونیورسٹیوں کے قائم ہونے سے پہلے جو کچھ بھی تعلیم دستیاب تھی وہ اردو کے ذریعہ ممکن تھی۔ ہندوؤں کو جب ہندستانی نثر کی ضرورت ہوئی تو انھوں نے پنجاب سے لے کر بہار تک اسکولوں اور کالجوں میں اردو کو اپنایا۔ پنجاب، یوپی اور بہار کی عدالتوں میں مشکل سے ایسا کلرک ملتا تھا جو ناگری میں عرضی دعویٰ یا کوئی دستاویز اِرقام کر سکے۔ کیوں کہ بیشتر تعلیم یافتہ ہندو اردو پڑھتے تھے۔ اس وقت سے پہلے ہندی اپنا وجود نہیں رکھتی تھی۔ سنسکرت اور کچھ مقامی زبانیں دیو ناگری میں استعمال ہوتی تھی۔ عدالتوں اور دفتروں میں ناگری میں درخواستیں اِرقام کرنے والے محرر نہیں ملتے تھے۔1800ء میں فورٹ ولیم کی ڈاغ بیل ڈالی گئی کہ برطانوی اہلکاروں کو اردو زبان سیکھائی یا جائے۔ جان گلکرسٹ جس نے اردو کی بیش بہا خدمت کی ہے نے 1803ء میں للوجی نے کو پریم ساگر دیوناگری رسم الخط میں اِرقام کرنے کو کہا گیا اور اس نے فورٹ ولیم کے احاطے میں ایک نئی زبان کی بنیاد رکھ دی۔ فورٹ ولیم کے باہر بھی کچھ ہندو کھڑی بولی میں دیوناگری میں اِرقام کرنے کا تجربہ کرنے لگے اور عربی فارسی کے الفاظ نکال کر سنسکرت کے الفاظ استعمال کرنے لگے۔ سنیتی کمار چٹرجی نے اس زبان کو سنسکرتی ہندی کا نام دیا۔جارج اے گریرسن نے ہندی کی للوجی کی نثری تصنیف لال چندرکا کے دیباچے میں اِرقام کرتا ہے کہ اس زبان کابھارتمیں اس سے پہلے پتہ نہیں تھا۔ اس لیے للوجی نے جب پریم ساگر اِرقام کی تو وہ بالکل ایک نئی بھاشا گھڑ رہے تھے۔ اپنی ایک اور تصنیف لسانی جائزہ میں اِرقام کرتا ہے کہ ہندی بالائی ہندوستان کے ہندوؤں کی نثری زبان ہے جو اردو استعمال نہیں کرتے ہیں۔ یہ زمانہ حال کی پیداوار ہے اور اس کا رواج گذشتہ صدی کے آغاز سے انگریزوں کے زیر اثر شروع ہوا۔ جب کوئی ہندو نثر اِرقام کرتا تھا تو وہ اردو استعمال کرتا تھا تو اپنی بولی اودھی۔ بندیلی، برج بھاکا وغیرہ اِرقام کرتا تھا۔ للوجی نے ڈاکٹر گلکرسٹ کے جوش ڈالانے پر معروف کتاب پریم ساگر اِرقام کرکہ سب کچھ بدل ڈالا۔ جہاں تک ��س نثری کا تعلق ہے یہ عملاًاردومیں اِرقام کی گئی ہے اور اس میں عربی، فارسی الفاظوں کی جگہ ہند آریائی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ آر ڈبلیو فریزر بھی ’لٹریری ہسٹری آف انڈیا‘ میں اِرقام کیا ہے کہ جدید ہندی بھاشاہ کو دو پنڈتوں للو لال اور سدل مشر کی اختراع سمجھنا چاہیے۔ ایک اور انگریز مصنف اپنی کتاب ’ہندی کی تاریخ‘ میں اِرقام کرتا ہے کہ جدید ہندی اردو میں سےعربیالفاظ خارج کرکے ان کی جگہ سنسکرت یا ہند کے خالص ہندوستانی نژاد الفاظ رکھ دیے گئے۔ وہ مزید اِرقام کرتا ہے کہ للوجی لال ایک برہمن تھے۔ جن کے خاندان کا تعلقگجراتسے۔ لیکن وہ عرصہ دراز سے شمالی ہند میں سکونیت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی ہدایت پر انھوں نے سدل مشر کے ساتھ مل کر جدید اعلیٰ ہندی کی تخلیق کی۔ للوجی کی ہندی درحقیقت ایک نئی ادبی زبان تھی۔ یہ اعلیٰ ہندی یا معیاری ہندی ایک نئی ادبی زبان تھی اور یہ زبان بعد میں کافی مقبول ہوئی۔1804ء کو جان گلکرسٹ فورٹ ولیم کالج سے مستعفی ہو گئے اور 1808ء میں ولیم ٹلیر کا تقرر ہوا۔ انھوں نے ہی دیوناگری رسم الخط اِرقام کی جانے والی زبان کے لیے ہندی کا لفظ اپنی ایک رپوٹ 1812ء کو کالج کی کونسل کو پیش کی گئی استعمال کیا۔ ورنہ اس سے پہلے ہندی فارسی رسم الخط میں اِرقام کی جانے والی زبان کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ولیم ٹیلر کے جانے کے بعد 1823ء آئے جو تھے ہندوستانی شعبہ کے سربراہ مگر خود کو ہندی کے پروفیسر کہتے اور اِرقام کرتے تھے۔ اسی زمانے میں لفٹنٹ ڈی رڈیل کالج کی کونسل کے سیکٹریری بنے۔ وہ بھی اردو کے سخت خلاف تھے اور اردو کو ایک مغلوں کی رائج کردہ بدیسی زبان کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ تین چوتھائی آبادی اس زبان کو نہیں سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے فورٹ ولیم کالج کی سفارش پر گورنر جنرل ایسٹ انڈیا کمپنی میں بھرتی ہونے والے نئے ملازمین کو بجائے ہندوستانی کے برج بھاشا کی تعلیم دیے جانے کی منظوری دی۔ حقیقت میں نہ صرف فورٹ ولیم کالج بلکہ انگریزی بھی اردو کے خلاف معاندانہ روش اختیا کرلی تھی۔ فورٹ ولیم کالج میں ہندی کا شعبہ قائم نہیں تھا اور نہ کوئی ملازم تھا یہاں۔ کیوں کہ اس وقت تک ہندی کوئی زبان نہیں تھی۔ للوجی کو بھی بھاکا منشی کی حثیت سے تقریری ہوئی تھی۔برطانیوی احکام کی رپوٹوں سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے نصف اول تک ہندی کو اہمیت حاصل نہیں تھی لیکن وہ اردو کے مقابلے میں ہندی کو آگے بڑھانے کے درپے تھے۔ سر جارج ابراہم گریزسن جس نے ہندوستانی لسانیات پر ایک کتاب اِرقام کی جس سے ہندی کا زبردست حمایتی اور اس کی ترقی و ترویح کے لیے کام کیا۔ یہ ناگری پرچارنی سبھا کا رکن بھی تھا۔ بقول حکیم چند نیر کے اس نے یوپی میں عدالتوں اور دفتروں میں ہندی کو اردو کے برابر کا درجہ دینے میں اہم رول ادا کیا۔رفتہ رفتہ سب بدل گیا اور انگریز احکام کی کوششیں رنگ لائیں۔ اردو اور اس کے رسم الخط کے خلاف ہندوؤں کی جارحانہ سرگرمیاں اور تحریکیں زور پکڑتی گئیں۔ ہندوؤں کی سماجی و اصلاحی تحریکیں نیر احیاء پرست تنظیمیں اردو کی مخالفت اور سنسکرت آمیز ہندی اور ناگری رسم الخط کے پرچار کے لیے کھل کر سامنے آگئیں۔ اس کے لیے فرقہ وارانہ جذبات و رجحانات کو ہوا دے کر ہندی اردو کشمکش پیدا کی گئی۔ اس کی زرد میں پورا شمالی ہندوستان آگیا۔ برہمو سماج جو بنگال کی سماجی تحریک تھی لیکن اس نے ہندی کے پرچار کا کام نہایت تندہی سے انجام دیا۔ دوسری طرف پنجاب میں1857ء میں آریہ سماج کے نام سے ایک سماجی تنظم قائم ہوئی۔ جو درحقیقت میں ہندوؤں کی ایک احیاء پرست تنظیم تھی۔ اس کا مقصد ہندوؤں کی اصلاح کے علاوہ ہندی زبان کا پرچار شامل تھا۔ جس کے رہنما سوامی دیانند سرسوتی نے آریا سماجیوں کے لیے ہندی جاننا لازمی قرار دے دیا تھا۔ پنجاب کے ایک اور سماجی کارکن شردھا رام پھلواری اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے اردو کے خلاف زہر اگلتے تھے۔ چنانچہ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد نے اردو یعنی مسلمانی پربھاوا اور بھاشا کو چھوڑ کر ہندی بھاشا اور ہندو دھرم کیے ان پرتی شردھا کرنا سیکھا۔ یہ بات شتی کنٹھ مشر پھلوری اِرقام کرتے ہیں اور ان مزید اِرقام کیا ہے کہ پنجاب کی ہندو آبادی نے مسلم اثرات اور کو تَرک کرکے ہندی زبان اور مذہب کے لیے ایمان و عقیدت پیدا کرنا سیکھا۔ آریہ سماجی رہمنا لالا لاجپت رائے نے اعتراف کیا کہ آریہ سماج سے وابستگی سے پہلے وہ ہندی سے نابلد تھے۔ اس کے بعد انھوں نے پنجاب میں ہندی کے فروغ میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا۔ اس سے پنجاب میں فرقہ وارنہ فضا پیدا ہو گئی اور پنجابی ہندو جو اردو لکھتے پڑھتے تھے ہندی کی طرف مائل ہو گئے۔ہندی جو اردو کے بطن سے پیدا ہوئی ہے وہ اب بہت سے ہندی ادیب اردو کو ہندی کی شیلے یعنی اسلوب کہتے ہیں۔ وہ یہ حقیقت بھول گئے کہ کھڑی بولی میں انیسویں صدی سے پہلے نثری ادب کی کوئی روایت نہیں تھی۔ یہ بات ہندی کے ممتاز ادیب دھیر ورما اور بہت سے ہندی ادیبوں نے کہی ہے۔ بشتر ہندو ادیب کھڑی بولی اور اردو کو ایک ہی سمجھتے تھے اور وہ اس زبان میں شاعری کے حق میں نہ تھے اور ان کا خیال ہے تھا وہشاعریاردو کہلائے گی۔ للوجی نے اردو کو بنیاد بنا کر اس میں سے عربی فارسی کے الفاظ نکال کر اس کی جگہ سنسکرت کے الظاظ رکھ کر اسے دیوناگری میں اِرقام کرکہ ایک نئی زبان اختراع کی۔ اس میں جو لسانی طریقہ کار استعمال کیا تھا وو ایک نئی زبان کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس لیے بھار تیندر ہریش چندر نے اپنی کتاب ہندی بھاشا میں للوجی کی کھڑی بولی ہندی کو نئی بھاشا کہتا ہے۔للو جی کی اس کی وجہ سے لسانی افتراق اور علحیدیگی کی بنیاد پڑی اور اردو کے بنیادی دھارے سے ہٹ کر ایک علاحدہ زبان کی تعمیر و تشکیل عمل میں آئی جس کے لیے دیوناگری رسم الخط اختیار کیا گیا۔ اس سے پہلے سنسکرت اور چند بولیوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس لسانی افتراق اور لسانی علاحدگی پسندی کو انیسویں صدی کی ابتدا میں ہندو احیا پرست تنظیوں اور ناگری پرچارنی سبھا نے خوب ہوا دی۔ چنانچہ اس نے بہت جلد ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ ہندی تحریک کو جارحانہ انداز میں چلایا گیا اور اسے مذہب اور قومیت سے جوڑ دیا گیا۔ چنانچہ 1885ء کے آس پاس ہندی کے پرجوش حامیوں کا نعرہ تھا۔جپو نتر ایک زبانہندی ہندو ہندستانچٹرجی اپنی کتاب ہند آریائی اور ہندی میں اِرقام کرتے ہیں کہ قوم پرستانہ اور وطن پرستانہ مزاج رکھنے والے اور سنسکرت سے محبت کرنے واہے ہندو سوچ سمجھ کر اس کی جانب مائل ہونے لگے۔ اس سلسلے میں انھیں بنگال اور پنجاب میں آریہ سماج سے بہت مدد ملی۔ دھیرے دھیرے ہندو یہ محسوس کرنے لگے کہ ناگری رسم الخط کا احیاء بہت ضروری ہے۔ 1890ء میں ناگری پرچارنی سبھا کا قیام عمل میں آیا اور ایک نئے عہد کی ہندی کی حقیقی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ ۔اور کانگریس کے ممتاز رہمنا پنڈت مدن موہن مالویہ کی قیادت میں ہندوؤں کی ایک تنظیم ہند سماج 0881 میں قائم ہوئی۔ اس نے ہندی اور ناگری رسم الخط کے پرچار کی ذمہ دار سنبھال لی۔ اس تنظیم نے یوپی کی حکومت اور حکومت ہند کو ہندی کے حق میں عرضداشتیں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا اور 1884ء میں الہ آباد میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ہند کو سرکاری دفتروں اور عدالتوں رائج کرنے کے پرگراموں پر غور و فکر کیا۔ یہ تنظیم اردو کی مخالفت میں اور ہندی کے حق میں جلسہ، مذاکرات منعقد کرتے رہے۔ 1894ء میں پنڈت مالویہ بنارس کی ناگری پرچارنی سبھا سے منسلک ہو گئے۔انفرادی اور اجتماعی سطح پر اردو کی مخالفت اور ہندی کو نشلزم اور ہندو ازم سے جوڑنے کا سلسلہ جاری رہا۔ انیسویں صدی کی آخری چھوتھائی میں پرتاب نارائن مشر کا دیا ہوا نعرہ ’ہندی، ہندو، ہندوستان’اسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ پرتاب نارائن مشر، سوامی دیانند سرسوتی، شردھا رام پھلوری، لالا لاجپت رائے، پندت موہن مالویہ، ایودھیا پرساد کھتری، بابو شیو پرساد اور بھار تیندو ہریش چند ہندی کے پرچار اردو کے خلاف جدو جہد کرتے رہے۔ انھوں نے اس کے لیے ہندی آندولن کی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ اردو کو ہندی کا ایک روپ مانتے تھے اور مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اردو دیوناگری میں اِرقام کرنا شروع کر دیں۔یوں ہندی جس کا آغاز اردو میں عربی و فارسی الفاظ کی جگہ سنسکرت کے الفاظ سے ہوا تھا اور ہندی کو سنسکرت آمیز بنانے کا رجحان جلد ہی پروان چڑھا اس میں آگرے کے راجا لکشمن سنگھ پیش پیش تھے۔ انھوں نے کئی سنسکرت کی کتابوں کے ترجمہ کیے۔ راجا لکشمن سنگھ نے کالی داس کی سنسکرت تصنیف رگھواش کا ہندی ترجمہ جو 1878ء شائع کیا اس کے دپباچے میں اِرقام کیا ہندی اور اردو دو مختلف زبانیں ہیں۔ ہندو ہندی بولے اور مسلمان فاری۔ ہندی میں سنسکرت کے الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں اور اردو میں عربی اور فارسی ہے۔ اس لیے یہ ہندوؤں کی زبان نہیں ہے۔ نیز سرکاری اور تعلیمی سطح پر ہندی کے نفاذ کی تحریک کا آغاز کیا گیا۔ اس تحریک میں بنارس کے راجا بابو شیو پرساد سرکاری دفتروں اور عدالتوں کا نفاذ چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے انگریز حکومت کو ایک میمورنڈم پیش کیا۔ جس میں اردو کو مسلمانوں سے منسوب کرکے اردو اور مسلمانوں کو ہدف ملامت بنایا گیا۔ جس میں یہ اِرقام کیا گیا تھا کہ مسلم حکمرانوں نے اس بات کی قطعی زحمت نہ کی کہ وہ ہندوستانی زبانیں سیکھتے۔ بلکہ انھوں نے ہندوؤں کو فارسی سیکھنے پر مجبور کیا۔ نیز ہندی کہی جانے والی بولیوں میں فارسی اور عربی کے الفاظ داخل کرکے ایک نئی شکل قائم کی جو اردو یا نیم فارسی کہلائی۔ اس طرح کی لسانی پالیسی وضع کی کہ ایک غیر ملکی زبان اور فارسی رسم الخط کو عوام الناس پر جبرم تھوپ دیا گیا ہے۔ اس پالیسی سے تمام ہندوؤں کو نیم مسلمان بنانے اور ہندو قومیت کو نیست و نابود کرنے کی کوشش ہے۔ حکومت سے استدا ہے کہ وہ فارسی رسم الخط کو ختم کرکے ہندی نافذ کرے۔ اس سے ہندو قومیت بازیاب ہوگی۔ بھار تیندو ہریش چندر جو خود بھی اردو کے شاعر تھے اور رسا تخلص کرتے تھے۔ اس کے باوجو اپنی تحریروں میں اردو کا مزاق و تضحیک کرتے تھے۔اس تحریک میں ہندی کو ہندتو اور ہندی قومیت سے جوڑ دیا گیا تھا۔ ہندی کو ہندی تہذیب کی علامت اور اردو کو اس کا رقیب بناکر پیش کیا گیا۔ بقول کرسٹوفر کنگ ہندی تحریک ہندوستان کی آزادی سے قبل کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر فرقہ وارنہ بیداری کو بڑھاوا دینے کے عمل کا حصہ بن چکی تھی۔ اس عمل سے نسلی گروہ فرقوں اور قوموں میں بٹ گیا اور انجام کار1947ءمیںپاکستانکا قیام عمل میں آیا۔وہ مزید اِرقام کرتا ہے کہ اس تقسیم کا دوسرا رخ 1860ء میں سامنے آیا جب بعض ہندوؤں نے یہ کہنا شروع کیا کہ کوئی شخص ایک اچھا ہندو اور اردو کا وکیل بھی ہو ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔ ہندو، ہندو اور ہندوستان جسے نعروں نے اپنی انتہا کو پہنچادیا۔ ان کے نذدیک ہندی نہ بولنے والوں کے لیے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ ہم اس عمل جس میں اردو کو سنسکرتیا بنائے جانے کا نام دیں گے۔ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ اردو میں پیشہ ورانہ مہارت رکھتا تھا۔ اس میں کایستھ، کھتری اور کشمیری برہمنوں کے اردو سے نہایت گہرے رابط تھے۔ سرکاری ملازمتوں پر انہی کا غلبہ تھا۔ اس لیے سرسید احمد خان نے بابو شوپرشاد کی تحریک پر کہا اردو نہ رہی تو ہندو مسلمانوں کے درمیان اتفاق نہیں رہ سکتا ہے۔ اس دور میں اردو پر برابر حملے جاری تھے اور اسے کبھی غیر ملکی اور کبھی مسلمانی بھاشا کہہ کر ہندوؤں کو اردو سے دور کرنے کی مہم جاری تھی۔ یہاں تک انتہا پسند ہندوؤں نے اسے طوائفوں کی زبان کہنا شروع کر دیا۔ اس کے نہ صرف لسانی بلکہ سماجی، سیاسی اور تہذیبی منظر نامے پر دور رس نتائج مرتب ہوئے۔انیسویں صدی کے آخر میں ہندی تحریک میں شدت اور اس نے جارحانہ رخ اختیار کر لیا۔ ایک نئی تنظیم ناگری پرچانی سبھا کا 1893ء بنارس میں عمل میں لایا گیا۔ جس کو بڑے بڑے ہندو راجاؤں اور رئیسوں کی سرپرستی اور ہمدردی حاصل ہوئی۔ اس نے عدالتوں اور دفتروں میں ہندی اور ناگری رسم الخط کے نفاذ کو اپنا مقصد بنایا۔ چنانچہ1895ءمیں اودھ کے گورنر بنارس آئے تو ان کی خدمت ایک وفد بھیجا گیا۔ جس میں اجودھیا کہ مہاراجا پرتاب نارائن سنگھ سربراہ اور پنڈت موہن مالویہ، سر سندر لال، راجا ماڑا اور راجا آوا گڑھ وغیرہ شامل تھے۔ اس وفد نے ہندی کو تعلیمی اداروں، عدالتوں اور دفتروں میں رائج کرنے کی استدعا کی گئی اس کے بعد گورنر جب1898ءالہ آباد آئے تو وہاں بھی سبھا کا ایک وفد ملا جس نے ہندی کو سرکاری اور سطح پر رائج کرنے کے لیے میکڈانل کی خدمت میں ساٹھ ہر دستخطوں سے ایک یاداشت پیش کی۔ پنڈت مالویہ نے 1897ء میں ایک کتاب Court Character and Primary Education in the N w P and Oudh شائع کی جس میں اردو رسم الخط کی خامیوں کو بیان کرتے ہوئے ہندی اور دیو ناگری کی پرزور وکالت کی۔اگر دیکھا جائے تو پوری انیسویں صدی اردو مخالف جذبات و رجحانات اور معصبانہ نظریات سے پر نظر آتی ہے۔ ٹھیک ایک سو سال بعد یوپی کے گونر سر اینٹونی میکڈانل نے شمال مغربی صوبہ جات اور اودھ میں عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں ناگری رسم الخط کو جاری کیے جانے کا حکم صادر کیا۔ اردو مخالفوں میں ہندوؤں کے ساتھ انگریزی حکومت کی بے مہری اور مخالفانہ روش کا شکار ہو گئی۔ اس پر مسلمانوں نے سخت احتجاج کیا، مگر ان کی نہیں سنی گئی اور انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔ سرسید نے انگریزوں کی اسی روش کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا اور بالآخر یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ ہندو اردو کو مسلمانوں کی زبان کہنے لگے۔سر میکڈونل کا رویہ اردو کے ساتھ انتہائی مخالفانہ تھا اور وہ دیوناگری اور ہندی کے حامی تھے۔ اس سے پہلے انھوں نے بہار میں ہندی کو رائج کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جنانچہ 81 اپریل1900ء انھوں نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کی رو سے عدالتوں اور سرکاری دفتروں میں اردو کے ساتھ دیوناگری رسم الخط اور ہندی جاری کر دیا۔گورنر کے اس فیصلے سے اردو داں خاص کر مسلمانوں میں سخت بے چینی پھیلی اور جگہ جگہ اس کے خلاف احتجاجی جلسے منعقد کیے گئے۔ نواب محسن المک جو علی گڑھ کالج کے جنرل سکیٹری تھے ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور اس جلسے کی کارروائی کی نقل حکومت کو بھیجی گئی۔ گورنر اس پر سخت برہم ہوا اور اسے اپنی گورنمٹ کی پالیسی پر ایک حملہ سمجھا۔جب مسلم رہنماؤں کے وفد نے گورنر سے ملنے کی کوشش کی تو گورنر نے ملنے سے انکار کر دیا۔لکھنؤمیں ایک شاندار احتجاجی جلسہ نواب محسن المک کی صدارت میں ہوا۔ جب اس کی اطلاع گورنر کو ملی تو وہ علی گڑھ آیا اور کالج کے ٹرسٹیوں کو جمع کرکے ان جلسوں پر اپنی سخت ناراضی کا اظہار کیا۔ اس نے یہ بھی الزام لگایا کہ کالج سے طلبہ ایجی ٹیشن کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ اس نے ڈھمکی دی اگر یہی طریقہ جاری رہا تو کالج کو حکومتی امداد بند کردی جائے گی۔ اس کی وجہ سے نواب محسن المک نے اپنے کو کالج کی ٹرسٹی سے علحیدہ کر لیا۔وقت کے ساتھ زبان کی تلخی اتنی بڑھتی گئی اور اردو سے مراد مسلمانوں کی زبان اور ہندی سے مراد ہندوؤں کی زبان لی جانے لگی اور ہندو و مسلم جو الگ الگ مذہب کے باوجود ایک ثقافت رکھتے تھے ان کے درمیان ڈراریں پڑگئیں۔ جو بالآخر تقسیم کا باعث بنی۔ آج بھارت کی سرکاری زبان پاکستان کی طرح انگریزی ہے۔ مگر وہاں کی قومی زبان ہندی ہے، جب کہ پاکستان کیقومی زباناردو ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت میں عام بولنے والی زبان ہندی ہے؟۔ اس سوال کے جواب کے لیے ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے ہمارے یہاں اردو میڈیم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کی اکثریت ان لوگوں کی جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ لیکن بھارت میں ہندی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں میں دوسروں زبان بولنے کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ زبان شمالی ہند میں ہی ادبی، سیاسی اور مذہب میں استعمال کی جاتی ہے اور دوسرے علاقہ میں رہنے والے اپنی اپنی زبانیں استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہندی نہ فلموں، ٹی وی ڈراموں اور گیتوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس زبان کا تعلق ہندی سے کم اور اردو سے زیادہ قریبی رشتہ ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہندی زبان میں ف، خ، ق، ز وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔ جب کہ عام لوگ پھر بھی فارسی عربی الفاظوں کو بولتے ہیں اور یہ فلموں، ٹی وی ڈراموں اور گیتوں ان کا استعمال عام ہے۔ہندوؤں کی شاعری سے دلچسپی کم رہی ہے۔ مقامی زبانوں میں کچھ شعرا کے نام ملتے ہیں مثلاً برج بھاکا یا بنگلہ یا پنجابی میں۔ ویدک اور دوسرے گرنتھ بھی منظوم اِرقام کیے گئے مگر اس کی باوجود ہندو شاعری میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ مگر اردو کے ہندو شعرا میں بڑے نامی گرامی شعرا گذرے ہیں۔ شاید اردو کا مزاج ایسا رہا کہ وہ لوگوں کو شاعری میں دلچسپی لینے پر مجبور کردیتی ہے۔ اس طرح مقامی زبانوں میں مسلم شعرا کی تعداد ہندوؤ سے کم نہیں ہوگی۔ ہندوؤں میں کلاسیکل ہمیشہ موسیقی مقبول رہی ہے۔ کیوں کہ اسے مذہبی تقدس رہا ہے۔ ان کے مذہب میں رقص اور گیت کو عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ اس لیے گھر گھر میں اس چرچا رہا ہے۔ اس کے باوجود ان کے گیت بھجن یا لوک گیتوں تک محدود رہے ہیں۔ غزل جو اردو کی مقبول ترین اصناف ہے وہ ہندوؤں میں نہایت پسند کی جاتی ہے۔ بھارت میں ہر دور میں ایسے گلوکار ملتے ہیں جو اردو بول نہیں سکتے ہیں۔ مگر اردو غزل اور گیت نہایت خوبصورت گاتے ہیں اور گیتوں کی طرح غزلوں کو نہایت پسند کیا جاتا رہا ہے۔ بہت سے ہندو گلوکاروں نےشہرتمحض غزل کی گائیگی سے حاصل کی۔تاریخی طور پر ،برصغیرکے شمالی ہند میں بولی جانے والی زبان کو ہندی کہا جاتا تھا۔مغلدور کے دوران ، ہندی زبان فارسی اور عربی الفاظ کے ساتھ گھل مل گئی۔ غیر ملکی اس زبان کو اردو کہتے ہیں جس کا مطلب لشکر ہے کیونکہ ہندی بولنے والے لوگ مقامی ہندوستانی تھے۔ اردوعربی رسم الخطمیں اِرقام کی جانے والی ہندی زبان کے سوا کچھ نہیں ہے۔پاکستان میں فلمیں دیکھی جاتی ہیں مگر اس شوق یا ذوق سے نہیں جیسا کہ بھارت میں۔ وہاں پر فلمیں فلاپ بھی ہوجاتی ہیں مگر اپنی لاگت نکال لیتی ہیں۔ اس لیے وہاں تجربات بھی ہوتے رہے ہیں اور ہر زبان میں فلمیں کثیر تعداد میں بنائی جاتی رہی ہیں۔مرزا خلیل احمد۔ ایک بھاشاہ جو مسترد کردی گئیعبد الستار دلوی۔ دو زبانیں دو ادبگیان چند جین۔ ایک بھاشا دو لکھاوت"
+466,اردو,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88,"اُردُو،برصغیرپاک و ہند کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہپاکستانکی قومی اوررابطہ عامہ کی زبانہے، جبکہبھارتکی چھ ریاستوں کیدفتری زبانکا درجہ رکھتی ہے۔آئین ہندکے مطابق اسے 22 دفتری شناخت شدہ زبانوں میں شامل کیا جا چکا ہے۔
+2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطورمادری زبانبھارت میں 5.01 فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے ہی بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59 فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔
+اردو تاریخی طور پرہندوستانکیمسلمآبادی سے جڑی ہے۔[8]زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسےفارسیکی بجائےانگریزیکے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اورجموں و کشمیرمیں اسے 1846ء اورپنجابمیں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہخلیجی،یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پرجنوبی ایشیاءسے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔[9]نیپالمیں، اردو ایک رجسٹرڈ علاقائی بولی ہے[10]اورجنوبی افریقہمیں یہ آئین میں ایک محفوظ زبان ہے۔ یہافغانستاناوربنگلہ دیشمیں اقلیتی زبان کے طور پر بھی بولی جاتی ہے، جس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔1837ء میں، اردوبرطانوی ایسٹ انڈیا کمپنیکی سرکاری زبان بن گئی،کمپنی کے دورمیں پورے شمالی ہندوستان میں فارسی کی جگہ لی گئی۔ فارسی اس وقت تک مختلفہند-اسلامی سلطنتوںکی درباری زبان کے طور پر کام کرتی تھی۔[11]یورپی نوآبادیاتی دورمیں مذہبی، سماجی اور سیاسی عوامل پیدا ہوئے جنھوں نے اردو اورہندیکے درمیان فرق کیا، جس کی وجہ سےہندی-اردو تنازعہ شروع ہوا۔اٹھارویں صدی میں اردو ایک ادبی زبان بن گئی اور اس کی دو معیاری شکلیںدہلیاورلکھنؤمیں وجود میں آئیں۔ 1947ء میںتقسیم ہند کےبعد سے پاکستانی شہرکراچیمیں ایک تیسرا معیار پیدا ہوا ہے۔[12][13]دکنی، ایک پرانی اردو کی شکل ہے جودکنمیں استعمال ہوتی تھی، سولہویں صدی تکدکن سلاطینکی درباری زبان بن گئی۔[14][13]اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردونستعلیقرسم الخط میں لکھی جاتی ہے اورعربیو فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ہندی زباندیوناگریرسم الخط میں لکھی جاتی ہے اورسنسکرتالفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو زبان سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اردو زباندنیاکی نئی زبانوں میں سے ہونے کے باوجود اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہادبرکھتی ہے۔ خاص کر جنوب ایشیائی زبانوں میں اردو اپنیشاعریکے حوالے سے جانی جاتی ہے۔اردوکا نام سب سے پہلے شاعرغلام ہمدانی مصحفینے 1780ء کے آس پاسہندوستانی زبانکے لیے استعمال کیا تھا۔[15]حالانکہ اس نے خود بھی اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیےہندویاصطلاح استعمال کی تھی۔[16]اردوکا مطلبترک زبانمیں فوج ہے۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں، اسےزبانِ اُرْدُوئے مُعَلّٰیکے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کا مطلببلند کیمپ کی زبان ہے۔[17][18][19]پہلے اسے ہندوی، ہندی، ہندوستانی اورریختہکے نام سے جانا جاتا تھا۔[15][20]اردوہندی زبانکی طرح فارسی، عربی، ترک زبان کی ایک قسم ہے۔[21][22]یہشورسینی زبان(یہ زبان وسطی ہند آریائی زبان تھی جو موجودہ کئی زبانوں کی بنیاد سمجھی جاتی ہے، ان میںپنجابی زبانبھی شامل ہے) کی ذیلی قسم کے طور پر اپ بھرنش سےقرون وسطٰی(چھٹی سے تیرھویں صدی) کے درمیان وجود میں آئی۔[23][24]تیرھویں صدی سے انیسویں صدی کے آخر تک اردو زبان کو بیک وقتہندی،[25]ہندوستانیاورہندویکہا جاتا تھا۔[26]اگرچہ لفظ اردو بذات خود ترک زبان کے لفظ اوردو (لشکر، فوج) یا اوردا سے نکلا ہے، اسی سے انگریزی لفظhordeکا ظہور ہوا، تاہم ترک زبان سے اردو میں کم ہی الفاظ آئے ہیں۔ عرب اور ترک الفاظ اردو میں پہنچ کر فارسی قسم کے بن گئے ہیں، جیسے ة کو اکثر اوقات ہ میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً عربی تائے مربوطہ (ة) کو (ہ) یا (ت) میں بدل دیا جاتا ہے۔بھلے آج کے دور میںاردوکو ایک مستقل زبان کی شناخت حاصل ہے لیکن عظیم اردو قلمکار اُنیسویں صدی کی کچھ ابتدائی دہائیوں تک اردو زبان کوہندییاہندویکی شکل میں ظاہر کرتے رہے ہیں۔[27]جیسے غلام حمدان مصحفی نے اپنی ایک
+شاعری میں لکھا ہے: -اب ہیںاشعارِ ہندویکا رواج""[28]اور شاعرمير تقی میرنے کہا ہے:آیا نہیں یہ لفظ توہندیزبان کے بیچ[29]اردو زبان کو ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ منصوب کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے کئی نظریات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ممتاز محققحافظ محمود شیرانیکے نزدیک یہ زبانمحمود غزنویکے حملہ ہندوستان کے ادوار میںپنجابمیں پیدا ہوئی، جب فارسی بولنے والے سپاہی پنجاب میں بس گئے، نیز ان کے نزدیک یہ فارسی متکلمین دہلی فتح کرنے سے قبل دو سو سال تک وہیں آباد رہے، یوں پنجابی اور فارسی زبانوں کے اختلاط نے اردو کو جنم دیا، پھر ایک آدھ صدی بعد جب اس نئی زبان کا آدھا گندھا خمیر دہلی پہنچا تب وہاں اس نے مکمل زبان کی صورت اختیار کی، اس حوالے سے انھوں نے پنجابی اور اردو زبان میں کئی مماثلتیں بھی پیش کی ہیں۔ شیرانی کے اسی نظریہ کوپنجاب میں اردونامی مقالے میں لکھا گیا، جس نے اردو زبان دانوں میں کافیشہرتپائی اور اسی کو دیکھ کر بہت سے محققین نے اردو کے آغاز کو مسلمانوں کی آمد سے جوڑنا شروع کر دیا، اس طرح ""دکن میں اردو""، ""گجراتمیں اردو""، ""سندھمیں اردو""، ""بنگالمیں اردو ""حتیٰ کہ ""بلوچستانمیں اردو"" کے نظریات بھی سامنے آنے لگے۔ (حقیقتاً شیرانی سے قبل بھی سنیت کمار چترجی،محی الدین قادری زورجیسے بعض محققین اردو پنجابی تعلق کے بارے میں ایسے خیالات رکھتے تھے، البتہ اسے ثابت کرنے میں وہ دوسروں سے بازی لے گئے) حافظ شیرانی کے نظریہ کی مخالفت کرنے والوں میںمسعود حسین خاناور سبزواری جیسے محققین شامل ہیں، جنھوں نے ان کے نظریے کو غلط ثابت کیا۔برطانوی راجمیں فارسی کی بجائے ہندوستانی کو فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا اور ہندو مسلم دونوں اس پر عمل کرتے تھے۔ لفظ اردو کو شاعرغلام ہمدانی مصحفینے 1780ء کے آس پاس سب سے پہلے استعمال کیا تھا۔ انھوں نے خود اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیےہندویلفظ بھی استعمال کیا۔[30]تیرہویں سے اٹھارویں صدی تک اردو کو عام طور پرہندیہی کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ اسی طرح اس زبان کے کئی دوسرے نام بھی تھے، جیسے ہندوی، ریختہ یا دہلوی۔ اردو اسی طرح علاقائی زبان بنی رہی، پھر 1837ء میں فارسی کی بجائے اسے انگریزی کے ساتھ دفتری زبان کا درجہ دیا گیا۔ اردو زبان کو برطانوی دور میں انگریزوں نے ترقی دی، تاکہ فارسی کی اہمیت کو ختم کیا جا سکے۔ اس وجہ سے شمال مشرقی ہندوستان کے ہندوؤں میں تحریک اٹھی کہ فارسی رسم الخط کی بجائے اس زبان کو مقامی دیوناگریرسم الخطمیں لکھا جانا چاہیے۔ نتیجتاً ہندوستانی کی نئی قسم ہندی کی ایجاد ہوئی اور اس نے 1881ء میںبہارمیں نافذ ہندوستانی کی جگہ لے لی۔ اس طرح اس مسئلہ نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہندوستانی کو دو زبانوں اردو (برائے مسلم) اور ہندی (برائے ہندو) میں تقسیم کر دیا۔ اور اسی فرق نے بعد میں ہندوستان کو دو حصوں بھارت اور پاکستان میں تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا (اگرچہ تقسیم سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے ہندو شعرا و مصنفین اردو زبان سے جڑے رہے، جن میں معروفمنشی پریم چند،گلزار،گوپی چند نارنگاور آزاد وغیرہ شامل ہیں۔)ہندوستان کے دہلی کے علاقے میں مقامی زبانکھوری بولیتھی، جس کی ابتدائی شکلپرانی ہندی(یا ہندوی) کے نام سے جانی جاتی ہے۔[31][32][33][34]اس کا تعلق وسطی ہند آریائی زبانوں کے مغربی ہندی زبان سے ہے۔[35][36][37]دہلی جیسے شہروں میں،قدیم ہندیاورفارسیکا اثر و رسوخ تھا اور اسے ""ہندوی"" اور بعد میں ""ہندوستانی"" بھی کہا جانے لگا۔[38][39][40][41][42]ہندوی کی ایک ابتدائی ادبی روایت کی بنیادامیر خسرونے تیرھویں صدی کے آخر میں رکھی تھی۔[43][44][45][46]دکن کی فتح کے بعد اور اس کے بعد عظیم مسلم خاندانوں کی جنوب میں ہجرت کے بعد، زبان کی ایک شکلقرون وسطی کے ہندوستانمیں شاعری کے طور پر پروان چڑھی۔[47]اور اسے دکنی کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میںتیلگو زباناورمراٹھی زبانکے الفاظ شامل ہیں۔[48][49][50]تیرھویں صدی سے اٹھارویں صدی کے آخر تک جو زبان اب اردو کے نام سے جانی جاتی ہے اسےہندی،[51]ہندوی،ہندوستانی،[52]دہلوی،[53]لاہوریاورلشکریکہا جاتا تھا۔[54]دہلی سلطنت نےفارسی کوہندوستان میں اپنی سرکاری زبان کے طور پر قائم کیا، یہ پالیسیمغل سلطنتکی طرف سے جاری رہی، جس نے سولہویں سے اٹھارویں صدی تک شمالیجنوبی ایشیاکے بیشتر حصوں میں توسیع کی اور ہندوستانی پرفارسیاثر کو مضبوط کیا۔[55][56]خان آرزو کے نوادر الفاز کے مطابق، ""زبانِ اردو شاہی""[57]کوعالمگیرکے زمانے میں خاص اہمیت حاصل تھی۔ 1700ء کی دہائی کے اوائل میںاورنگزیب عالمگیرکے دورِ حکومت کے اختتام تک، دہلی کے آس پاس کی عام زبان کوزبانِ اردوکہا جانے لگا،[58]یہ نامترک زبانکے لفظاوردو(فوج) یااورداسے ماخوذ ہے اور کہا جاتا ہے۔ ""کیمپ کی زبان"" کے طور پر پیدا ہوا ہے یازبانِ اردوکا مطلب ہے: ""اونچے کیمپوں کی زبان""[59]یا مقامی طور پر ""لشکری زبان"" کا مطلب ہے ""فوج کی زبان""؛[60]اگرچہاردوکی اصطلاح مختلف ہے۔ اس وقت کے معنی[61]یہ ریکارڈ کیا گیا ہے کہ اورنگزیب عالمگیر ہندوی زبان میں بولتا تھا، جو غالباً فارسی زبان میں تھی، کیونکہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ہندوی اس دور میں فارسی رسم الخط میں لکھی گئی تھی۔[62]اس عرصے کے دوران اردو کو ""مورس"" کہا جاتا تھا، جس کا مطلب صرف مسلمان تھا،[63]یورپی مصنفین نے[64]جان اوونگٹن نے 1689ء میں لکھا:[65]موروں کی زبان ہندوستان کے قدیم اصلی باشندوں سے مختلف ہے لیکن اپنے کرداروں کے لیے ان غیر قوموں کی پابند ہے۔ کیونکہ اگرچہمورز بولیاپنے لیے مخصوص ہے، پھر بھی اس کے اظہار کے لیے خطوط سے محروم ہے۔ اور اس لیے، اپنی مادری زبان میں اپنی تمام تحریروں میں، وہ اپنے خطوط ہیتھنز یا فارسیوں یا دیگر اقوام سے مستعار لیتے ہیں۔1715 میں ریختہ میں ایک مکمل ادبی دیوان نواب صدرالدین خان نے لکھا۔[66]ایک اردو فارسی لغت خان آرزو نے 1751ء میںاحمد شاہ بہادرکے دور میں لکھی تھی۔[67]اردوکا نام سب سے پہلے شاعرغلام ہمدانی مصحفینے 1780ء کے آس پاس متعارف کرایا تھا[68]ایک ادبی زبان کے طور پر اردو نے درباری، اشرافیہ کے ماحول میں شکل اختیار کی۔[69]جبکہ اردو نے مقامی ہندوستانی بولی کھڑ بولی کی گرامر اور بنیادی ہند آریائی الفاظ کو برقرار رکھا، اس نےنستعلیقتحریری نظام کو اپنایا[70][71]– جسے فارسی خطاطی کے انداز کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔[72]اردو زبان کی پوری تاریخ میں، اردو کو کئی دوسرے ناموں سے بھی جانا گیا ہے: ہندی، ہندوی، ریختہ، اردو-ملا،دکھینی، مورس اوردہلویوغیرہ۔ 1773 میں سوئس فرانسیسی سپاہی اینٹون پولیئر نے نوٹ کیا کہ انگریزوں نے اردو کے لیے ""مورس"" کا نام استعمال کرنا پسند کیا:[73]مجھےہندوستان کی عام زبان کے بارے میں گہرا علم ہے، جسے انگریزمورسکہتے ہیں اور اس سرزمین کے باشندے ہیں ۔اشرف جہانگیر سمنانیجیسے صوفی مصنفین کی کئی تخلیقات نے اردو زبان کے لیے اسی طرح کے نام استعمال کیے ہیں۔ شاہعبدالقادر رائے پوریپہلے شخص تھے جنھوں نے قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا۔[74]شاہ جہاںکے زمانے میں دار الحکومت کو دہلی منتقل کر دیا گیا اور اس کا نامشاہجہان آبادرکھا گیا اور اس قصبے کے بازار کا نام اردوئے معلیٰ رکھا گیا۔[75][76]نوآبادیاتی انتظامیہ میں اردو کو معیاری بنانے سے پہلے، برطانوی افسران اکثر اس زبان کو ""مُور"" کہتے تھے۔جان گلکرسٹبرطانوی ہندوستان میں پہلے شخص تھے جنھوں نے اردو پر ایک منظم مطالعہ شروع کیا اور ""ہندوستانی"" کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی جسے یورپیوں کی اکثریت ""مُور"" کہتی تھی۔[77]بعد میں برطانوی پالیسیوں کے ذریعےنوآبادیاتی ہندوستانمیں اردو کو فروغ دیا گیا تاکہ فارسی پر سابقہ زور کا مقابلہ کیا جا سکے۔ نوآبادیاتی ہندوستان میں، ""انیسویں صدی میںمتحدہ صوبوںمیں عام مسلمان اور ہندو یکساں طور پر ایک ہی زبان بولتے تھے، یعنی ہندوستانی، خواہ اس نام سے پکارا جائے یا ہندی، اردو یابرجیااودھیجیسی علاقائی بولیوں میں سے ایک۔""[78]مسلم برادریوں کے اشراف کے ساتھ ساتھ ہندو اشراف کی ایک اقلیت، جیسا کہ ہندو نسل کےمنشی،[79]نے عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں فارسی عربی رسم الخط میں زبان لکھی، حالانکہ ہندو بعض ادبیات میں دیوناگری رسم الخط کو استعمال کرتے رہے۔ اور مذہبی سیاق و سباق۔[78][80]انیسویں صدی کے آخر تک، لوگ اردو اور ہندی کو دو الگ الگ زبانوں کے طور پر نہیں دیکھتے تھے، حالانکہ شہری علاقوں میں، معیاری ہندستانی زبان کو تیزی سے اردو کہا جاتا تھا اور فارسی عربی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ اردو اور انگریزی نے 1837ء میں ہندوستان کے شمالی حصوں میں فارسی کو سرکاری زبانوں کے طور پر بدل دیا[81]نوآبادیاتی ہندوستانی اسلامی اسکولوں میں، مسلمانوں کوہند اسلامی تہذیبکی زبانوں کے طور پر فارسی اور عربی پڑھائی جاتی تھی۔ انگریزوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں خواندگی کو فروغ دینے اور انھیں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کرنے کے لیے ان سرکاری تعلیمی اداروں میں فارسی عربی رسم الخط میں لکھی ہوئی اردو پڑھانا شروع کی اور اس وقت کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں اردو کو بطور خاص نظر آنے لگا۔[78]شمال مغربی ہندوستان میں ہندوؤں نے،آریہ سماجکے تحت فارسی عربی رسم الخط کے استعمال کے خلاف احتجاج کیا اور دلیل دی کہ زبان کو مقامیدیوناگریرسم الخط میں لکھا جانا چاہیے،[82]جس نے دیوناگری میں لکھی گئی ہندی کے استعمال کو جنم دیا۔ انجمن اسلامیہ لاہور[82]دیوناگری رسم الخط میں ہندی اور فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی گئی اردو نے مسلمانوں کے لیے ""اردو"" اور ہندوؤں کے لیے ""ہندی"" کی فرقہ وارانہ تقسیم قائم کی، یہ تقسیمنوآبادیاتی ہندوستانکی تقسیم کے بعد ہندوستان میں تقسیم ہو گئی۔ پاکستان کیآزادیکے بعد (حالانکہ ایسے ہندو شاعر ہیں جو اردو میں لکھتے رہتے ہیں، جن میںگوپی چند نارنگاورگلزار) تھے۔[83][84]اردو کوبمبئی پریزیڈنسی،بنگال،صوبہ اڑیسہ،[85]اورریاست حیدرآبادکے نوآبادیاتی ہندوستانی مصنفین کے لیے بطور ادبی ذریعہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔[86]1973 میں، اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔[87]1979 میںافغانستان پر سوویت یونین کے حملےاور اس کے بعد لاکھوںافغان مہاجرینکی آمد کے بعد جو کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں،[88]نے بھی ہندی-اردو میں عبور حاصل کر لیا ۔ ہندوستانی میڈیا خاص طور پر ہندی-اردوبالی ووڈفلمیں اور گانے اردو زبان میں ہوتے ہیں۔[89][90]اردو کوپراکرتاورسنسکرتکے مقامی الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہندی کو فارسی کے الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے - نئی لغت بنیادی طور پر فارسی اور عربی سے اردو کے لیے اور سنسکرت سے ہندی سے نکالی گئی ہے۔[91][92]انگریزی نے ایک مشترکہ سرکاری زبان کے طور پر دونوں پر بہت زیادہ اثر ڈالا ہے۔ بروس (2021ء) کے مطابق، اٹھارویں صدی سے اردو نے انگریزی الفاظ کو ڈھال لیا ہے۔[93]پاکستان میں 1947ء میں اپنی آزادی کے بعد سے ایک اردو کی ہائپر فارسائزیشن کی طرف ایک تحریک ابھری جو ہندوستان میں ابھرنے والی ہائپر سنسکرت زدہ ہندی کی طرح ""مصنوعی"" ہے۔[94]ہندی کے بڑھتے ہوئے سنسکرتائزیشن سے کچھ حد تک اردو کی ہائپر فارسائزیشن کی حوصلہ افزائی ہوئی۔[95]پاکستان میں روزمرہ کی بنیاد پر بولی جانے والی اردو کا انداز غیر جانبدار ہندستانی کے مشابہ ہے جو برصغیر کے شمالی حصے کیزبانہے۔[96][97]1977 کے بعد سے،[98]صحافیخشونت سنگھجیسے کچھ مبصرین نے اردو کو ""مرتی ہوئی زبان"" قرار دیا ہے، حالانکہ دیگر، جیسے کہ ہندوستانی شاعر اور مصنفگلزار(جو دونوں ممالک میں مقبول ہیں، نے اس تشخیص سے اختلاف کیا اور کہا کہ اردو ہندوستان میں ""سب سے زندہ زبان ہے اور وقت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے""۔[99][100][101][98][102][103][104]یہ رجحان دیگر زبانوں کے بولنے والوں کے مقابلے میں مقامی اردو بولنے والوں کی نسبتاً اور مطلق تعداد میں کمی سے متعلق ہے۔[105][106]اردو کے فارسی عربی رسم الخط، اردو ذخیرہ الفاظ اور گرامر کے بارے میں کم ہوتی ہوئی (جدید) علم؛[105][107]اردو سے اور ادب کے ترجمے اور نقل کا کردار۔[105]اردو کی بدلتی ثقافتی تصویر اور اردو بولنے والوں کے ساتھ منسلک سماجی و اقتصادی حیثیت (جس سے دونوں ممالک میں خاص طور پر ان کے روزگار کے مواقع پر منفی اثر پڑتا ہے)،[107][105]اردو کیقانونیحیثیت اورحقیقیسیاسی حیثیت،[107]اردو کو تعلیم کی زبان کے طور پر کتنا استعمال کیا جاتا ہے اور طلبہ نے اعلیٰ تعلیم میں اس کا انتخاب کیا ہے،[107][105][106][104]اور کس طرح اردو کی دیکھ بھال اور ترقی کو حکومتوں اور این جی اوز کی مالی اور ادارہ جاتی مدد حاصل ہے۔[107][105]ہندوستان میں، اگرچہ اردو صرف مسلمانوں کے ذریعہ استعمال نہیں کی جاتی ہے اور نہ کبھی ہوتی ہے (اور ہندی کبھی خصوصی طور پر ہندوؤں کے ذریعہ نہیں)،[104][108]جاریہندی-اردو تنازعہاور دونوں مذاہب کے ساتھ ہر زبان کی جدید ثقافتی وابستگی کی وجہ سے بہت کم اضافہ ہوا ہے۔ ہندو اردو استعمال کرتے ہیں۔[104][108]20ویں صدی میں، ہندوستانی مسلمانوں نے بتدریج اجتماعی طور پر اردو کو اپنانا شروع کیا[108](مثال کے طور پر، 'بہارکی آزادی کے بعد کی مسلم سیاست نے اردو زبان کے ارد گرد ایک متحرک دیکھا جو اقلیتوں کو بااختیار بنانے کے آلے کے طور پر خاص طور پر کمزور سماجی و اقتصادی پس منظر سے آنے والی ہے'۔[105])، لیکن 21 ویں صدی کے اوائل میں ہندوستانی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے سماجی و اقتصادی عوامل کی وجہ سے ہندی کو تبدیل کرنا شروع کیا، جیسے کہ ہندوستان کے بیشتر حصوں میں اردو کو تدریسی زبان کے طور پر چھوڑ دیا گیا،[106][105][104]ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 2001ء اور 2011ء کے درمیان 1.5 فیصد کم ہوئی (اس وقت 5.08 ملین اردو بولنے والے تھے)، خاص طور پر سب سے زیادہ اردو بولنے والی ریاستوںاتر پردیش(c. 8% سے 5%) اور بہار (c. 11.5% سے 8.5%)، حالانکہ ان دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کی تعداد میں اسی عرصے میں اضافہ ہوا ہے۔[106]اگرچہ 21 ویں صدی کے اوائل کے ہندوستانی پاپ کلچر میں اردو اب بھی بہت نمایاں ہے،بالی ووڈ[103]سے لے کر سوشل میڈیا تک، اردو رسم الخط اور اردو میں کتابوں کی اشاعت میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔[105]چونکہ پاکستانی حکومت نے تقسیم کے وقت اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا، اس لیے ہندوستانی ریاست اور کچھ مذہبی قوم پرستوں نے جزوی طور پر اردو کو ایک 'غیر ملکی' زبان کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔[102]ہندوستان میں اردو کے حامی اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ اسے دیوناگری اورلاطینی رسم الخط(رومن اردو) میں لکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔[104][109][105]وولہ بھائی آفتاب نے دلیل دی کہ اردو اصل میں روشن خیالی، ترقی اور آزادی کی ایک بہترین اشرافیہ زبان ہے، جس نے تحریک آزادی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔[110]لیکن1947ء کی تقسیمکے بعد، جب اسے پاکستان کی قومی زبان کے طور پر منتخب کیا گیا، تو اسے بنیادی طور پر بنگالی سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا (جو کل آبادی کا 56 فیصد بولی جاتی ہے، زیادہ ترمشرقی پاکستانمیں۔ آزادی کے حامی دونوں اشرافیہ جنھوں نے پاکستان میںمسلم لیگاور ہندوستان میں ہندو اکثریتیکانگریس پارٹیکی قیادت کی تھی، برطانوی نوآبادیاتی دور میں انگریزی میں تعلیم حاصل کی گئی تھی اور انگریزی میں کام کرتے رہے اور اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں بھیجتے رہے۔[110]اگرچہ پاکستان میں اشرافیہ نے مختلف درجات کے ساتھ تعلیم کی اردوائزیشن کی کوششیں کی ہیں، لیکن سیاست، قانونی نظام،فوجاورمعیشتکو اردو میں کرنے کے لیے کوئی بھی کامیاب کوشش نہیں کی گئی۔[110]یہاں تک کہجنرل ضیاء الحقکی ��کومت (1977-1988)، جو ایک متوسط پنجابی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ابتدائی طور پر پاکستانی معاشرے کی تیز اور مکمل اردوائزیشن کی بھرپور حمایت کرتے تھے (انھیں 'سرپرست اردو' کا اعزازی خطاب دیا گیا تھا۔[110]1960ء کی دہائی سے، اردو پاکستان میں اردو زبان مذہبی اسلام پسندی اور سیاسی قومی قدامت پرستی (اور آخر کار نچلے اور نچلے متوسط طبقے، علاقائی زبانوں جیسے کہ پنجابی، سندھی اور بلوچی) کے ساتھ منسلک رہی ہے، جبکہ انگریزی۔ بین الاقوامی سطح پر سیکولر اور ترقی پسند بائیں بازو (اور آخر کار بالائی اور اعلیٰ متوسط طبقے) سے وابستہ رہی۔[110]ہندوستان اور پاکستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 100 ملین سے زیادہ ہے۔2011ء کی مردم شماریکے مطابق ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 50.8 ملین تھی (کل آبادی کا 4.34%)۔[111][112]2006 میں پاکستان میں تقریباً 16 ملین[113]برطانیہ،سعودی عرب، امریکا اوربنگلہ دیشمیں بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ تاہم، اردو زبان بہت وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے، جو دنیا میںمینڈارن چینیاورانگریزیکے بعد تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔[114]نحو(گرامر)، اردو اور ہندی کے بنیادی الفاظ بنیادی طور پر یکساں ہیں - اس طرح ماہر لسانیات انھیں عام طور پر ایک زبان کے طور پر شمار کرتے ہیں، جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ انھیں سماجی و سیاسی وجوہات کی بنا پر دو مختلف زبانوں کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔[115]دوسری زبانوں کے ساتھ تعامل کی وجہ سے، اردو جہاں کہیں بھی بولی جاتی ہے، بشمول پاکستان میں مقامی ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اردو میں تبدیلیاں آئی ہیں اور اس نے علاقائی زبانوں کے بہت سے الفاظ کو شامل کیا ہے۔ اسی طرح، ہندوستان میں بولی جانے والی اردو کو کئی بولیوں میں بھی پہچانا جا سکتا ہے جیسے کہلکھنؤاوردہلیکی معیاری اردو کے ساتھ ساتھ جنوبی ہندوستان کیدکنیبولی وغیرہ۔[116][117]اردو کیہندیسے مماثلت کی وجہ سے، دونوں زبانوں کے بولنے والے آسانی سے ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔[118]اردو پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے،[119]لیکن پاکستان کی صرف 7 فیصد آبادی اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر بولتی ہے۔[120]پاکستان میں پچیس سال سے زائد عرصے تک رہنے والے مختلف نسلی (جیسےپشتون،تاجک،ازبک،ہزارویاورترکمان) کے تقریباً تیس لاکھ افغان مہاجرین میں سے زیادہ تر اردو زبان بولتے ہیں۔[121][122]یہ مدرسوں میں اعلیٰ ثانوی جماعتوں تک لازمی مضمون کی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اِس نے ایسے کروڑوں اُردو بولنے والے پیدا کر دیے ہیں، جن کی مادری زبانپنجابی،پشتو،سندھی،بلوچی،کشمیری،براہوی،سرائیکیاورچترالیوغیرہ میں سے کوئی ایک ہوتی ہے۔ پاکستان میں اردو میں بہت سے اخبارات شائع ہوتے ہیں جن میںروزنامہ جنگ،روزنامہ نوائے وقتاورروزنامہ ملتشامل ہیں۔ پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا ویب سائٹس جیسا کہ ڈیلی پاکستان اوراردو پوائنٹاردو زبان میں مواد فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی خطہ اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر استعمال نہیں کرتا۔ پاکستان کیپنجابی اشرافیہنے اردو کومادری زبانکے طور پر اپنایا ہے اور وہ اردو بولنے والے کے ساتھ ساتھ پنجابی شناخت دونوں سے پہچانے جاتے ہیں۔[123][124]اردو کو 1947ء میں پاکستان کی نئی ریاست کے لیے اتحاد کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ یہپاکستان کے تمام صوبوں/علاقوںمیں لکھی، بولی اور استعمال کی جاتی ہے۔[125]انگریزی اور اردو دونوں میڈیم اسکولوں میں ہائر سیکنڈری اسکول تک اردو کو ل��زمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، جس نے لاکھوں دوسری زبان کے بولنے والوں کو اردو سکھائی۔[126]جبکہ کچھ اردو الفاظ کو پاکستان کی علاقائی زبانوں نے بھی ضم کر لیا ہے۔[127][128]8 ستمبر2015ءبروز منگل کوپاکستانکیسپریم کورٹنے متعلقہ حکام کو فوری طور پر سرکاری دفاتر میں اردو بطور سرکاری زبان کے نفاذ کے لیے حکم دے رکھا ہے۔[129]بھارتمیں، اردو ان جگہوں پر بولی جاتی ہے جہاں بڑی مسلم اقلیتیں یا شہر ہیں جو ماضی میں مسلم سلطنتوں کے علاقے تھے۔ ان میںاتر پردیش،مدھیہ پردیش،بہار،تلنگانہ،آندھرا پردیش،مہاراشٹرا(مراٹھواڑہاور کونکنی)،کرناٹکاورحیدرآباد،لکھنؤ،دہلی،ملیرکوٹلہ،بریلی،میرٹھ،سہارنپور،مظفر نگر،روڑکی،موراآباد،اعظم گڑھ،بجنور،نجیب آباد،رام پور،علی گڑھ،الہ آباد،گورکھپور،آگرہ،فیروز آباد،کانپور،بدایوں،بھوپال،حیدرآباد،اورنگ آباد،سمستی پور،[130]بنگلور،کولکاتا،میسور،پٹنہ،دربھنگہ،مدھوا،سمبھوانی،گانو پورسہرسہ،سپول،مظفر پور،نالندہ،مونگیر،بھاگلپور،ارریہ،گلبرگہ،پربھنی،ناندیڑ،مالیگاؤں،بیدر،اجمیراوراحمد آبادجیسے شہر شامل ہیں۔[131]بھارت کے تقریباً 800 اضلاع میں ایک بہت بڑی تعداد میں اردو بولنے والی اقلیت میں ہیں۔ارریہ ضلع،بہارمیں، اردو بولنے والوں کی کثرت ہے اورحیدرآباد ضلع، تلنگانہ(43.35 فیصد تلگو بولنے والے اور 43.24 فیصد اردو بولنے والے) میں تقریباً کثرت ہے۔کچھ بھارتی مسلم اسکول (مدرسہ) اردو کو پہلی زبان کے طور پر پڑھاتے ہیں اور ان کا اپنا نصاب اور امتحانات ہوتے ہیں۔ درحقیقتبالی ووڈفلموں کی زبان میں فارسی اور عربی الفاظ کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے اور اس طرح اسے ایک لحاظ سے ""اردو"" سمجھا جاتا ہے،[132]خاص طور پر گانوں میں۔[133]بھارت میں 3,000 سے زیادہ اردو اشاعتیں ہیں جن میں 405 روزانہ اردو اخبارات بھی شامل ہیں۔[134]اخبارات جیسے کہنشاط نیوز اردو،سہارا اردو،روزنامہ سالار،ہندوستان ایکسپریس،روزنامہ پاسبان،روزنامہ سیاست،روزنامہ منصفاورانقلاببنگلور، مالیگاؤں، میسور، حیدرآباد اورممبئیمیں شائع اور تقسیم کیے جاتے ہیں۔[135]جنوبی ایشیا سے باہر، یہخلیج فارس کےممالک کے بڑے شہری مراکز میں نقل مکانی کرنے والے جنوب ایشیائی کارکنوں کی بڑی تعداد کے ذریعہ بولی جاتی ہے۔برطانیہ،ریاستہائے متحدہ امریکہ،کینیڈا،جرمنی،نیوزی لینڈ،ناروےاورآسٹریلیاکے بڑے شہری مراکز میں بڑی تعداد میں تارکین وطن اور ان کے بچے بھی اردو بولتے ہیں۔[136]عربی کے ساتھ ساتھ،کاتالونیامیں سب سے زیادہ بولنے والے تارکین وطن کی زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔[137]اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہتعلیم، اَدب، دفتر، عدالت، وسیط اور دینی اِداروں میں مستعمل ہے۔ یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ ہے۔اردو پاکستان میں واحد قومی زبان ہے اور پاکستان کی دو سرکاری زبانوں میں سے ایک (انگریزی کے ساتھ)۔[138]یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، جبکہ ریاستی زبانیں (مختلف خطوں میں بولی جانے والی زبانیں)صوبائی زبانیںہیں، حالانکہ صرف 7.57 فیصد پاکستانی اپنی پہلی زبان کے طور پر اردو بولتے ہیں۔[139]اس کی سرکاری حیثیت کا مطلب یہ ہے کہ اردو دوسری یا تیسری زبان کے طور پر پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ یہتعلیم،ادب، دفتر اور عدالت کے کاروبار میں استعمال ہوتا ہے،[140]حالانکہ عملی طور پر حکومت کے اعلیٰ عہدوں میں اردو کی بجائے ��نگریزی استعمال ہوتی ہے۔[141]پاکستانی آئینکے آرٹیکل 251(1) میں کہا گیا ہے کہ اردو کو حکومت کی واحد زبان کے طور پر لاگو کیا جائے، حالانکہ پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر انگریزی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان ہے۔[142]اردوبھارتمیں سرکاری طور پر تسلیم شدہ زبانوں میں سے ایک ہے اور اسےبھارتی ریاستوںآندھرا پردیش،اتر پردیش،بہار،جھارکھنڈ،مغربی بنگال،تلنگانہاور قومی دار الحکومتدہلیمیں""اضافی سرکاری زبان""کا درجہ بھی حاصل ہے۔[143]جموں و کشمیرکی پانچ سرکاری زبانوں میں سے ایک کے طور پر بھی ہے۔[144]بھارت نے 1969ء میں اردو کے فروغ کے لیے سرکاری بیورو قائم کیا، حالانکہ سنٹرل ہندی ڈائریکٹوریٹ اس سے قبل 1960ء میں قائم کیا گیا تھا اور ہندی کی ترویج کے لیے بہتر مالی امداد اور زیادہ ترقی دی گئی ہے،[145]جب کہ فروغ سے اردو کی حیثیت کو نقصان پہنچا ہے۔[146]اردو کی نجی بھارتی تنظیمیں جیسے انجمنِ طریقت اردو، دینی علمی کونسل اور اردو مصحف دستہ اردو کے استعمال اور تحفظ کو فروغ دیتی ہیں، انجمن نے کامیابی کے ساتھ ایک مہم کا آغاز کیا جس نے 1970ء کی دہائی میں بہار کی سرکاری زبان کے طور پر اردو کو دوبارہ متعارف کرایا۔[145]سابقہجموں و کشمیر ریاستمیں، کشمیر کے آئین کے سیکشن 145 میں کہا گیا ہے: ""ریاست کی سرکاری زبان اردو ہوگی لیکن انگریزی زبان جب تک قانون سازی کے ذریعہ دوسری صورت میں فراہم نہیں کرتی، ریاست کے تمام سرکاری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہے گی۔ وہ ریاست جس کے لیے اسے آئین کے آغاز سے فوراً پہلے استعمال کیا جا رہا تھا۔[147]اردو میں چند تسلیم شدہ بولیاں ہیں، جن میںدکھنی، ڈھاکیہ،ریختہاور ماڈرن ورناکولر اردو (دہلی کے علاقے کیکوروی بولیبولی پر مبنی) شامل ہیں۔دکنی،جنوبی ہندوستانکے علاقےدکنمیں بولی جاتی ہے۔ یہمراٹھیاورکوکنی زبانکے الفاظ کے مرکب کے ساتھ ساتھ عربی،فارسیاورچغتائیکے الفاظ کے مرکب سے الگ ہے جو اردو کی معیاری بولی میں نہیں ملتی۔ دکھنیمہاراشٹر،تلنگانہ،آندھرا پردیشاورکرناٹککے تمام حصوں میں بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ اردو ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرح پڑھی اور لکھی جاتی ہے۔ ان ریاستوں میں اردو کے کئی روزنامے اور کئی ماہانہ رسائل شائع ہوتے ہیں۔ڈھاکیہ اردوبنگلہ دیشکے پرانے ڈھاکہ شہر کی ایک بولی ہے جومغل دورسے شروع ہوتی ہے۔ تاہم، اس کی مقبولیت، یہاں تک کہ مقامی بولنے والوں میں بھی، 20ویں صدی میںبنگالی زبان کی تحریککے بعد سے بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسے بنگلہ دیش کی حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوںکی بولی جانے والی اردو اس بولی سے مختلف ہے۔اردو کی وہ بولیاں جن کی شناخت کی گئی ہے، یہ ہیں:پاکستان میں اردو پرپشتو،پنجابی،سرائیکی،بلوچی،سندھیزبانوں کا اثر پایا جاتا ہے، مقامی زبانوں کے اثر کی وجہ سے اردو کےحروف تہجیعربی اور فارسی سے زیادہ ہیں، بنیادی طور پر پاکستان کی اردو پر فارسی اور عربی کا اثر نمایاں محسوس کیا جا سکتا ہے۔معیاری اردو کا اکثرمعیاری ہندیسےموازنہ کیا جاتاہے۔[148]اردو اور ہندی دونوں، جو ایک ہی زبان،ہندوستانیکے بنیادی الفاظ اورگرامر کااشتراک کرتے ہیں۔[149][150][151][152]مذہبی انجمنوں کے علاوہ، اختلافات زیادہ ترمعیاری شکلوںتک ہی محدود ہیں: معیاری اردو روایتی طور پرفارسی حروف تہجیکےنستعلیق اندازمیں لکھی جاتی ہے اور فنی اور ادبی الفاظ کے ماخذ کے طور پر فارسی اور عربی پر بہت زیادہ انح��ار کرتی ہے،[153]جبکہ معیاری ہندی روایتی طور پردیوناگریمیں لکھی جاتی ہے اورسنسکرتسے عبارت ہے۔[154]تاہم، دونوں مقامیسنسکرتاورپراکرتسے ماخوذ الفاظ کی بنیادی ذخیرہ الفاظ اورعربیاور فارسی کے الفاظ کی ایک خاصی مقدار کا اشتراک کرتے ہیں، ماہرین لسانیات کے اتفاق کے ساتھ کہ وہ ایک ہی زبان کی دو معیاری شکلیں ہیں[155]اور فرق پر غور کریں۔ سماجی لسانی ہونا؛[156]کچھ ان کی الگ الگ درجہ بندی کرتے ہیں۔[157]دونوں زبانوں کو اکثر ایک زبان (ہندوستانی یا ہندی-اردو) سمجھا جاتا ہے جس میں فارسی سے لے کر سنسکرت کے الفاظ تک کے تسلسل میں بولی جاتی ہے،[158]لیکن اب وہ سیاست کی وجہ سے الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مختلف ہیں۔[159]پرانی اردو لغات میں سنسکرت کے زیادہ تر الفاظ اب ہندی میں موجود ہیں۔[160]صوتیاتی سطح پر، دونوں زبانوں کے بولنے والے اپنے الفاظ کے انتخاب کی فارسی-عربی یا سنسکرت کی اصل سے اکثر واقف ہوتے ہیں، جو ان الفاظ کے تلفظ کو متاثر کرتا ہے۔[161]اردو بولنے والے اکثر سنسکرت کے الفاظ میں پائے جانے والے حرفوں کے جھرمٹ کو توڑنے کے لیے حرف داخل کرتے ہیں، لیکن عربی اور فارسی کے الفاظ میں ان کا صحیح تلفظ کریں گے۔[162]برٹش انڈیا کی تقسیمکے بعد سے مذہبی قوم پرستی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں، ہندی اور اردو دونوں کے مقامی بولنے والے اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ الگ الگ زبانیں ہیں۔درج ذیل فہرست میں کچھ ممالک میں اردو بولنے والوں کی تعداد دکھائی گئی ہے۔یہ مضمون اردو زبان پر مضامین کا تسلسل ہےاصناف ادبنثری ادباردو زبانباب(زبان)سید احمد دہلوی، انیسویں صدی کے ایکلغت نگارجنھوں نےفرہنگِ آصفیہ[182]اردو لغت مرتب کی، اندازہ لگایا کہ 75% اردو الفاظ کی جڑیںسنسکرتاورپراکرتمیں ہیں،[183][184][185]اور تقریباً اردو کے 99% فعل کی جڑیں سنسکرت اور پراکرت میں ہیں۔[186][187]اردو نے فارسی سے الفاظ مستعار لیے ہیں اور کچھ حد تکعربیفارسی کے ذریعے،[188]تقریباً 25%[183][184][185][189]اردو کی ذخیرہ الفاظ کا 30% تک۔[190]چیپل ہل میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائناکے ماہر لسانیات افروز تاج کی طرف سے بیان کردہ جدول اسی طرح ادبی اردو میں سنسکرت سے ماخوذ الفاظ کے فارسی ادھار کی مقدار کو 1:3 کے تناسب پر مشتمل بیان کرتا ہے۔[185]""فارسیائزیشن کی طرف رجحان"" 18ویں صدی میں اردو شاعروں کے دہلی اسکول سے شروع ہوا، حالانکہ دیگر مصنفین، جیسےمیراجی، نے زبان کی سنسکرت شکل میں لکھا۔[191]1947 کے بعد سے پاکستان میں ہائپر فارسائزیشن کی طرف پیش قدمی جاری ہے، جسے ملک کے بیشتر مصنفین نے اپنایا ہے۔[192]اس طرح، کچھ اردو عبارتیں 70% فارسی-عربی قرضوں پر مشتمل ہو سکتی ہیں جس طرح کچھ فارسی متن میں 70% عربی الفاظ ہو سکتے ہیں۔[193]کچھ پاکستانی اردو بولنے والوں نے ہندوستانی تفریح کی نمائش کے نتیجے میں ہندی الفاظ کو اپنی تقریر میں شامل کیا ہے۔ ہندوستان میں ہندی سے اردو اتنی نہیں بدل گئی جتنی پاکستان میں ہے۔[194]اردو میں زیادہ تر مستعار الفاظ اسم اور صفت ہیں۔[195]عربی اصل کے بہت سے الفاظ فارسی کے ذریعے اختیار کیے گئے ہیں،[196]اور عربی کے مقابلے میں مختلف تلفظ اور معنی اور استعمال کی باریکیاں ہیں۔پرتگالیوںسے ادھار کی تعداد بھی کم ہے۔ اردو میں مستعار پرتگالی الفاظ کے لیے کچھ مثالیںچابی(""chave"": key)،گرجا(""igreja"": church)،کمرہ(""cámara"": room)،قمیض(""camisa"": shirt) ہیں۔[197]اگرچہاردوکا لفظترکی کےلفظordu(army) یاordaسے ماخوذ ہے، جس سے انگریزیhordeبھی ماخوذ ہے،[198]اردو میں ترک ادھار کم سے کم ہے[199]اور اردو کا تعلق جینیاتی طور پر بھیترک زبانوںسے نہیں ہے۔چغتائیاور عربی سے نکلنے والے اردو الفاظ فارسی سے مستعار لیے گئے تھے اور اس لیے یہ اصل الفاظ کے فارسی نسخے ہیں۔ مثال کے طور پر، عربیta' marbuta(ةاسمیں تبدیلیاں (ه> ) یاte(ت)۔[200][note 1]بہر حال، عام خیال کے برخلاف، اردو نےترکی زبانسے نہیں لیا، بلکہچغتائیسے لیا، جو وسطی ایشیا کی ایکترک زبان ہے۔ اردو اور ترکی دونوں عربی اور فارسی سے مستعار ہیں، اس لیے بہت سے اردو اور ترکی الفاظ کے تلفظ میں مماثلت ہے۔اردو کو اس کے کم باضابطہ رجسٹر میںrek̤h̤tah(ریختہ،[reːxtaː]) کہا گیا ہے، جس کا مطلب ہے ""کھردرا مرکب""۔ اردو کے زیادہ باضابطہ رجسٹر کو بعض اوقاتzabān-i Urdū-yi muʿallá(زبانِ اُردُوئے معلّٰى[zəbaːn eː ʊrdu eː moəllaː])، ""بلند کیمپ کی زبان"" کہا جاتا ہے، جس کا حوالہ دیتے ہوئےلشکری زبانفوج[201]میں مقامی یالاشری کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ʃkəɾiləʃkəɾi: zɑ:bɑ:n])[202]یا صرفلشکری۔[203]اردو میں استعمال ہونے والے لفظ کیتشبیہات، زیادہ تر حصے کے لیے، فیصلہ کرتی ہیں کہ کسی کی بات کتنی شائستہ یا بہتر ہے۔ مثال کے طور پر، اردو بولنے والےپانیاورآبآبکے درمیان فرق کریں گے، دونوں کے معنی ""پانی"" کے ہیں: سابقہ بول چال میں استعمال ہوتا ہے اوراسکیسنسکرتکی اصل ہے، جب کہ مؤخر الذکرفارسینژاد ہونے کی وجہ سے رسمی اور شاعرانہ طور پر استعمال ہوتا ہے۔اگر کوئی لفظ فارسی یا عربی زبان کا ہو تو تقریر کی سطح زیادہ رسمی اور عظیم تر سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح، اگر فارسی یا عربی گرامر کی تعمیرات، جیسے کہ اِضافات ، کو اردو میں استعمال کیا جائے، تو تقریر کی سطح بھی زیادہ رسمی اور عظیم تر سمجھی جاتی ہے۔ اگر کوئی لفظسنسکرتسے وراثت میں ملا ہے تو تقریر کی سطح کو زیادہ بول چال اور ذاتی سمجھا جاتا ہے۔[204]اردو کا تحریری نظامفارسی حروف تہجیکی توسیع ہے جو دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے اور یہ نظام خودعربی حروف تہجیکی توسیع ہے۔ اردو کا تعلق فارسی خطاطی کےنستعلیق طرزسے ہے، جب کہ عربی عام طور پرناسخیارقہ کےانداز میں لکھی جاتی ہے۔نستعلیق کوٹائپ سیٹ کرنا بدنام زمانہ مشکل ہے، لہٰذا1980ءکی دہائی کے آخر تک اردو اخبارات کو خطاطی کے ماہروں کے ہاتھ سے لکھا جاتا تھا، جنہیںکاتبیاخُوشنویسکہا جاتا تھا۔ ایک ہاتھ سے لکھا ہوا اردو اخبار،دی مسلمان، اب بھیچنئیمیں روزانہ شائع ہوتا ہے۔[205]اردو کی ایک انتہائی فارسی اور تکنیکی شکل بنگال اور شمال مغربی صوبوں اور اودھ میں برطانوی انتظامیہ کی قانونی عدالتوں کیزبانیتھی۔ 19ویں صدی کے آخر تک، اردو کے اس رجسٹر میں تمام کارروائیاں اور عدالتی لین دین سرکاری طور پر فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔1880ءمیں، نوآبادیاتی ہندوستان میں بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر سر ایشلے ایڈن نے بنگال کی عدالتوں میں فارسی حروف تہجی کے استعمال کو ختم کر دیا اور اردو اور ہندی دونوں کے لیے استعمال ہونے والی مقبول رسم الخط کیتھی کے خصوصی استعمال کا حکم دیا۔صوبہ بہارمیں عدالتی زبان اردو تھی جو کیتھی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔[206][207][208][209]کیتھی کا اردو اور ہندی کے ساتھ تعلق بالآخر ان زبانوں اور ان کے رسم الخط کے درمیان سیاسی مقابلے کے باعث ختم ہو گیا، جس میں فارسی رسم الخط کو یقینی طور پر اردو سے جوڑا گیا تھا۔حال ہی میں ہندوستان میں، اردو بولنے والوں نے اردو رسالوں کی اشاعت کے لیےدیوناگری کواپنایا ہے اور دیوناگری میں اردو کو دیوناگری میں ہندی سے الگ نشان ز�� کرنے کے لیے نئی حکمت عملیوں کو اختراع کیا ہے۔ ایسے ناشرین نے اردو الفاظ کی فارسی عربی تشبیہات کی نمائندگی کرنے کے مقصد سے دیوناگری میں نئی آرتھوگرافک خصوصیات متعارف کروائی ہیں۔ ایک مثال ہندی آرتھوگرافک قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے،ع('عین) کے سیاق و سباق کی نقل کرنے کے لیے حرفی علامات کے ساتھ ا (دیوناگریa) کا استعمال ہے۔ اردو پبلشرز کے لیے، دیوناگری کا استعمال انھیں زیادہ سامعین فراہم کرتا ہے، جب کہ آرتھوگرافک تبدیلیاں انھیں اردو کی ایک الگ شناخت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔بنگالکے کچھ شاعروں، یعنیقاضی نذر الاسلام، نے تاریخی طور پر بنگالی رسم الخط کو اردو شاعری لکھنے کے لیے استعمال کیا ہے جیسےپریم نگر کا ٹھکانہ کرلےاورمیرا بیٹی کی خیلہ، نیز دو لسانی بنگالی اردو نظمیں جیسےالگا کورو گو کھوپر بندھن،جبوکر چھولونااورمیرا دل بیت کیا۔[210][211][212]ڈھاکہ اردو اردو کی ایک بول چال کی غیر معیاری بولی ہے جو عام طور پر نہیں لکھی جاتی تھی۔ تاہم، بولی کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے والی تنظیموں نے بولی کو بنگالی رسم الخط میں نقل کرنا شروع کر دیا ہے۔[note 2][213]اردو ادب نے حالیہ صدیوں میں حقیقی مقام پایا، اس سے کئی صدیوں پہلے تک سلاطین دہلی پر فارسی کا غلبہ تھا۔ فارسی کی جگہ اردو نے بڑی آسانی سے پالی اور یہاں تک کہ لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ فارسی کبھی سرکاری زبان تھی بھی کہ نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اردو کے مصنفین اور فنکار ہیں۔اردو زبان میںاسلامی ادباورشریعتکی کئی تصانیف ہیں۔ اس میں تفسیر القران، قرآنی تراجم،احادیث،فقہ،تاریخ اسلام،روحانیتاورصوفی طریقہکے بے شمار کتب دستیاب ہیں۔ عربی اور فارسی کی کئی کلاسیکی کتب کے بھی تراجم اردو میں ہیں۔ ساتھ ساتھ کئی اہم، مقبول، معروف اسلامی ادبی کتب کا خزینہ اردو میں دستیاب ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پنڈت روپ چند جوشی نے اٹھارویں صدی میں ایک کتاب لکھی، جس کا نام لال کتاب ہے۔ اس کا موضوع فالنامہ ہے۔ یہ کتاب برہمنوں کے اُن خاندانوں میں جہاں اردو عام زبان تھی، کافی مشہور کتاب مانی گئی۔غیر مذہبی ادب کو پھر سے دو اشکال میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک فکشن ہے تو دوسرا غیر فکشن۔ادب کی دوسری قسم نظم ہے۔ نظم کے معنی موتی پرونا ہے۔ یعنی کلام کو ایک ترتیب وار ہیئت کے ساتھ پیش کریں تو وہ صنف نظم کہلاتی ہے۔ اس ادب کو اردو نظمی ادب کہتے ہیں۔ لیکن آج کل اس کو اردو شاعری یا شاعری کے نام سے بھی جانا جانے لگا ہے۔جنوبی ایشیامیں اردو ایک اہم زبان ہے۔ بالخصوص نظم میں اردو کے مقابلہ میں دوسری زبان نہیں۔ اردو کی روایات میں کئی اصناف ہیں جن میںغزلنمایاں ترین حیثیت کی حامل ہے۔نظمی اردو (اردو شاعری) میں ذیل کے اصناف ہیں:"
+467,ادب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%AF%D8%A8,"ادب(literature) عربی زبان کا لفظ ہے اور مختلف النوع مفہوم کا حامل ہے۔ ظہور اسلام سے قبلعربی زبانمیں ضیافت اور مہمانی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں ایک اور مفہوم بھی شامل ہوا جسے ہم مجموعی لحاظ سے شائستگی کہہ سکتے ہیں۔ عربوں کے نزدیک مہان نوازی لازمہ شرافت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ شائستگی، سلیقہ اور حسن سلوک بھی ادب کے معنوں میں داخل ہوئے۔ جو مہمان داری میں شائستہ ہوگا وہ عام زندگی میں بھی شائستہ ہوگا اس سے ادب کے لفظ میں شائستگی بھی آگئی۔ اس میں خوش بیانی بھی شامل ہے۔ اسلام سے قبل خوش بیانی کو اعلٰی ادب کہا جاتا تھا۔ گھلاوٹ، گداز، نرمی اور شائستگی یہ سب چیزیں ادب کا جزو بن گئیں۔ بنو امیہ کے زمانے میں بصرے اور کوفے میں زبان کے سرمایہ تحریر کو مزید فروغ حاصل ہوا۔ اسی زمانے میں گرامر اور صرف ونحو کی کتب اِرقام کی گئیں تاکہ ادب میں صحت اندازبیان قائم رہے۔ جدید دور میں ادب کے معنی مخصوص قرار دیے گئے۔ ادب کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تخیل اور جذبات ہوں ورنہ ہر تحریری کارنامہ ادب کہلا سکتا ہے۔خواہش تخلیق انسان کی فطرت ہے۔ اسی جبلی خواہش سے آرٹ پیدا ہوتا ہے۔ آرٹ اور دوسرے علوم میں یہی فرق ہے کہ اس میں کوئی مادی نفع مقصد نہیں ہوتا۔ یہ بے غرض مسرت ہے۔ ادب آرٹ کی ایک شاخ ہے جسے ""فن لطیف"" بھی کہہ سکتے ہیں۔میتھو آرنلڈکے نزدیک وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، ادب کہلاتا ہے۔کارڈ ڈینل نیومینکہتا ہے ""انسانی افکار، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے ادب کہلاتا ہے ""۔نارمن جودککہتا ہے کہ ""ادب مراد ہے اس تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔ """
+468,انگریزی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,"انگریزی(English)انگلستاناورامریکاسمیت دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر بولی جانے والی زبان ہے، جو متعدد ممالک میںبنیادی زبانکے طور پر بولی جاتی ہے، جبکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں ثانوی یاسرکاری زبانکی حیثیت رکھتی ہے۔ انگریزیدنیامیں سب سے زیادہ پڑھی اور سمجھی جانے والی زبان ہے، جبکہ عمومی طور پر یہ دنیا بھر میں رابطے کی زبان سمجھی جاتی ہے۔مادری زبان کے طور پردنیاکی سب سے بڑی زبانجدید چینیہے، جسے 70 کروڑ افراد بولتے ہیں، اس کے بعد انگریزی ہے جو اکثر لوگ ثانوی یا رابطے کی زبان کے طور پر بولتے ہیں، جس کی بدولت دنیا بھر میں انگریزی بولنے والے افراد کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے۔دنیا بھر میں تقریباً 35 کروڑ 40 لاکھ افراد کی ماں بولی زبان انگریزی ہے، جبکہ ثانوی زبان کی حیثیت سے انگریزی بولنے والوں کی تعداد 15 کروڑ سے ڈیڑھ ارب کے درمیان میں ہے۔پاکستان،انڈیااوربنگلہ دیشمیں یہ زبان آہستہ آہستہ وسعت پکڑ رہی ہے۔
+انگریزی زبان پاکستان اور بھارت کیسرکاری زبانبھی ہے۔انگریزیمواصلات،تعلیم،کاروبار،ہوا بازی، تفریحات،سفارت کاریاورانٹرنیٹمیں سب سے موزوںبین الاقوامیزبان ہے۔ یہ1945ء،میںاقوام متحدہکے قیام سے اب تک اس کی باضابطہ زبانوں میں سے ایک ہے۔انگریزی بنیادی طور پر ایک مغربی جرمینک زبان ہے، جو قدیم انگلش سے بنی ہے۔سلطنتِ برطانیہکی سرحدوں میں توسیع کے ساتھ ساتھ یہ زبان بھی انگلستان سے نکل کرامریکا،کینیڈا،آسٹریلیا،نیوزی لینڈسمیت دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی اور آجبرطانیہکی سابق نو آبادیوں میں سے اکثر میں یہ سرکاری زبان کے طور پر رائج ہے۔پاکستان،گھانا،بھارت،نائجیریا،جنوبی افریقا،کینیا،یوگینڈااورفلپائنبھی انگریزی بطور سرکاری زبان کی فہرست میں شامل ہیں۔سلطنتِ برطانیہ کی وسیع سرحدوں کے باوجود انگریزیبیسویں صدیتک دنیا میں رابطے کی زبان نہیں تھی، بلکہ اسے یہ مقامدوسری جنگ عظیممیں امریکا کی فتح اور دنیا بھر میں امریکی ثقافت کی ترویج کے ذریعے حاصل ہوا، خصوصاً ذرائع مواصلات میں تیز ترقی انگریزی زبان کی ترویج کا سب سے بڑا سبب بنی۔5.Fruits name[مردہ ربط]"
+469,ننجا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D9%86%D8%AC%D8%A7,"ننجا(忍者) یاشنوبی(忍び)نوابی دور کے جاپانمیںخفیہ کارندےیا قاتل ہوتے تھے۔ ننجا کے کاموں میںجاسوسی،سبوتاژ، دشمن کی صفوں میں گھسنا، قتل اورگوریلا جنگیںشامل تھیں۔[1]یہ کارروائیاںسامورائیسے کمتر درجے کی سمجھی جاتی تھیں کیونکہ سامورائی لڑائی اور عزت کے حوالے سے انتہائی سخت اصولوں کی پابندی کرتے تھے۔[2]شنوبی جاسوسوں اور قاتلوں کے خصوصی تربیت یافتہ جتھوں کا ظہورپندرہویں صدیمیں ہوا تاہم اس سے ایک سے تین صدیاں قبل بھی ایسے افراد کا وجود ممکن تھا۔[3]سینگوکو دورمیں (پندرہویںسےسترہویں صدیتک) کرائے کے قاتل اور جاسوس جوایگا صوبےاورکوگادیہات[4]سے ملحقہ علاقوں میں سرگرم ہو گئے اور اسی علاقے کے قبائل کے پاس ننجا کے بارے میں زیادہ تر معلومات ہیں۔توکوگاوا شوگون شاہیکے تحتجاپانکے اتحاد کے بعد (سترہویں صدی میں) ننجا گمنامی کا شکار ہو گئے۔[5]شنوبی ہدایات کا زیادہ تر حصہ چینی فوجی فلسفے سے لیا گیا ہے جنہیں سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں لکھا گیا جس میںبانسینشوکائیسب سے اہم ہے۔[6]1868ءمیںبحالی میجیکے بعد شنوبی کو قصے کہانیوں میں بہت اہمیت دی گئی۔ ننجا کے بارے بہت سی غلط باتیں مشہور ہو گئیں تھیں مثلاﹰ وہ غائب ہو سکتے تھے، پانی پر چل سکتے تھے اور قدرتی عناصر کو قابو میں کر سکتے تھے۔ چنانچہ اُس دور کے ننجا کے بارے میں بیشتر معلوماتسینگوکو دورکی بجائے تخیل کی مدد سے اخذ کی گئی ہیں۔ننجا دوکانجی(چینی زبان کے حروف جو جاپانی حروفِ تہجی کا حصہ بن چکے ہیں) کو اونیومی انداز سے پڑھنے کا طریقہ ہے۔ اصل لفظ شنوبی ہے جو بذاتِ خود شینوبی نو مونو کی مختصر شکل ہے۔[7]لفظ شنوبی پہلے پہلآٹھویں صدیکے اواخر پر لکھی گئی ایک نظم میں ملتا ہے۔ شنوبی سے مراد چھپنا، گھات لگانا وغیرہ تھا جس کی وجہ سے اسے خفیہ پن اور نظروں سے اوجھل ہونے سے منسلک کر دیا گیا۔ مونو کا مطلب شخص ہے۔تاریخی طور پر ننجا کا لفظ عام استعمال میں نہیں ملتا تاہم مقامی طور پر مختلف انداز سے ان کا تذکرہ کیا جاتا تھا۔ ان میں مونومی (دیکھنے والا)، نوکی زارو (چھت پر طوطا)، کُوسا (گھاس) اور ایگا مونو (ایگا والا) شامل ہیں۔[8]تاریخی دستاویزات میں تقریباً ہمیشہ ہی شنوبی استعمال ہوتا آیا ہے۔خواتین ننجا کے لیے کونویچی کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کُو، نو اور ایچی لکیروں کا مجموعہ ہے جو جاپانی زبان میں عورت کا لفظ لکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔مغرب میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد شنوبی کی بجائے ننجا زیادہ مشہور ہوا کہ شاید اہلِ مغرب کے لیے یہ لفظ بولنا آسان تھا۔ انگریزی میں ننجا کی جمع کو ننجا (جاپانی زبانمیں واحد اور جمع کا فرق نہیں ہوتا) یا ننجاز (انگریزی میں جمع) سے ظاہر کیا جاتا ہے۔[9]عام کہانیوں کو چھوڑ کر ننجا کے متعلق تاریخی حقائق کم ملتے ہیں۔ مؤرخسٹیفن ٹرنبلکے مطابق ننجا عموماً نچلی ذاتوں سے بھرتی کیے جاتے تھے جس کی وجہ سے انھیں ادب سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ لہذا یہ داستانیں عموماً امیرسامورائیپر ہوتی تھیں کہ ان کے بارے میں لوگ زیادہ متجسس ہوتے تھے۔ ایک مؤرخ کیوشی واتاتانی کے خیال میں ننجا کو خفیہ رہنے کی تربیت دی جاتی تھی جس کی وجہ سے ان کے بارے میں کم معلومات دستیاب ہیں:ننجوتسوتکنیک دراصل شنوبی نو جوتسو اور شنوبی جوتسو پر مشتمل ہوتی تھیں اور ان کا مقصد اپنے مخالف کو اپنے وجود سے بھی بے خبر رکھنا ہوتا تھا اور اس لیے انھیں خصوصی تربیت دی جاتی تھی۔[10]ننجا کو بسا اوقات چوتھی صدی کے شہزادےیاماتو تاکیروسے بھی جوڑا جاتا ہے۔[11]کوجیکی کے مطابق جوان شہزادے یاماتو نے دوشیزہ کا بھیس بدل کر کماسو قبیلے کے دو سردار مار ڈالے تھے۔[1][12]تاہم یہ جاپانی تاریخ کے بالکل اوائل کا ذکر ہے اور اسے بعد میں شنوبی سے جوڑنا مناسب نہیں۔ جاسوسی کے بارے پہلا تذکرہ ہمیں شہزادہ شوٹوکو کے رکھے گئے جاسوس ملازمین سے ملتا ہے جوچھٹی صدیمیں تھا۔ تاہم پرانے دور میں بھی ایسی باتیں بری سمجھی جاتی تھیں اوردسویں صدیکے شومونی کے مطابق ایک جاسوس لڑکے کو جاسوسی کی پاداش میں قتل کر دیا گیا تھا۔[13]چودہویں صدیسے ہمیں جنگی تاریخ میں تربیت یافتہ شنوبی کا تذکرہ ملتا ہے کہ ایک اعلیٰ تربیت یافتہ مگر گمنام شنوبی نے ایک قلعے کو آگ لگا کر تباہ کر دیا تھا۔[11][14]پندرہویں صدیمیںجاسوسیکے لیے باقاعدہ تربیت دی جانے لگی۔[3]اس دور میں شنوبی کا لفظ متعارف ہوا اور اس سے مراد خفیہ گروہ کے ہرکارے ہوتے تھے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ شنوبی کا نام سینگوکو دور میں خفیہ سپاہیوں کو دیا جانے لگا۔ بعد میں ہدایات نامے چینی فوجی حکمتِ عملی کی بنیاد پر لکھے جانے لگے۔پندرہویں صدیمیں ننجا کرائے کے قاتل کے طور ابھرے اور انھیں جاسوسی، لوٹ مار، بلوائی اور دہشت گردی کے لیے بھرتی کیا جاتا تھا۔ سیمورائی لڑائی میں سخت اصولوں کے پابند تھے اور منصفانہ لڑائی اور ڈوئل کے قائل تھے۔ چنانچہ ایسے افراد کی ضرورت پیش آئی جو بوقتِ ضرورت ایسے کام کر سکتے ہوں جو عام فوجیوں کے لیے نامناسب سمجھے جاتے تھے۔ سینگوکو دور میں شنوبی کے کئی مختلف کام واضح ہو چکے تھے جن میں جاسوسی، نگرانی، شب خون اور فسادی شامل تھے۔[15]ننجا خاندان بڑے گروہوں میں منقسم ہو گئے تھے اور ہر ایک اپنے علاقے مخصوص کر چکا تھا اور ان میں حفظِ مراتب قائم ہو گیا تھا۔ جونین یعنی افسرِ اعلیٰ نہ صرف اپنے گروہ کی نمائندگی کرتا بلکہ کرائے کے لیے بندے بھی مہیا کرتا۔ اس کے بعد چونن یعنی دلال ہوتا تھا اور جونن کا نائب ہوتا تھا۔ سب سے نیچے جینن ہوتا تھا جسے نچلا آدمی کہتے تھے اور اصل کام یہی کرتا تھا اور اسے نچلی ذاتوں سے بھرتی کیا جاتا تھا۔[16]ایگا اور کوگا قبائل سے مرادایگا صوبےمیں آباد خاندان تھے اور یہ پاس والےکوگاعلاقے (موجودہمیہ پریفیکچر) تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان علاقوں میں اولین ننجا کی تربیت والے گاؤں ظاہر ہوئے۔[17]دور افتادہ اور ناقابلِ رسائی کی وجہ سے یہاں ننجا رازداری سے تیار ہوئے۔ تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقے ننجا کے ظہور سے متعلق ہیں۔ننجا کے حوالے سے ایگا میں کوائی آکی نو کامی خاندان شنوبی صلاحیتوں کی وجہ سے کافی مشہور تھا جس کی وجہ سے ایگا مشہور ہوا اور دوسرا انداز کوگا کہلایا۔[18]تاہم ان علاقوں والے ننجا اور کرائے کے قاتل یا معاوضے پر جاسوسی کے لیے بھرتی کیے گئے سیمورائی میں فرق اہم ہے۔ ایگا اور کوگا قبائل پیشہ ور ننجا کو ان کے کردار کے حوالے سے تربیت دیتے تھے۔[15]انہی پیشہ ور ننجا کو1485ءتا1581ءباقاعدہ ملازم رکھا جاتا رہا تھا۔[15]1581ءمیںاودا نوبوناگانے ایگا صوبے پر حملہ کر کے ان منظم قبائل کو ملیا میٹ کر دیا۔[19]باقی بچنے والے افراد میں سے کچھ کی پہاڑوں میں چھپ گئے تو کچھ نے ٹوکوگاوا کے سامنے خود کو پیش کیا اور قدر پائی۔[20]کچھ افراد بشمول ہتوری ہنزو ٹوکوگاوا کے محافظ بھی بنے۔[21]اوکی ہزاما کی1560ءوالی جنگ کے بعد ٹؤکوگاوا نے 80 کوگا ننجا کے گروہ نے ٹومو سوکی ساڈا کی قیادت میں بھرتی کیا۔ ان کے ذمے اماگاوا قبیلے کی ایک بیرونی چوکی پر حملہ کرنا تھا۔ اس کی تفصیل ہمیں میکاوا گو فوڈوکی سے ملتی ہے کہ کیسے کوگا ننجا اس قلعے میں چھپ کر گھسے اور اس کے میناروں کو آگ لگا دی اور اہلِ قلعہ کو اور 200 فوجیوں کو بھی قتل کیا۔[22]کوگا ننجا نے1600ءمیں سیکی گاہارا کی جنگ میں بھی کردار ادا کیا تھا جہاں کئی سو کوگا نے ٹوری موٹو ٹاڈا کی قیادت میں فوشیمی قلعے کا دفاع کیا تھا۔[23]ٹوکوگاوا کی فتح کے بعد ایگا ننجا ایڈو قلعے کے اندرونی احاطے کے محافظ مقرر ہوئے اور کوگا نے بیرونی احاطے کی پولیس کا کام شروع کر دیا۔1614ءکی سرمائی مہم جو اوساکا کے محاصرے سے شروع ہوئی، ننجا پھر متحرک دکھائی دیے۔ میورا یومون نامی ننجا جو ایگا علاقے سے بھرتی کیا گیا شنوبی تھا، نے اوساکا قلعے کو دس ننجا بھیجے تاکہ مخالف کمانداروں کے درمیان میں لڑائی کرائی جا سکے۔ بعد ازاں گرمائی مہم میں تنوجی کی جنگ میں عام فوجیوں کے ساتھ ساتھ کرائے کے ننجا بھی شامل ہوئے۔ .[24]شمابارا بغاوت(1637ء–1638ء) کے دوران میں ننجا کو آخری بار عام جنگ میں دیکھا گیا۔ .[25]اس جنگ میں مسیحی باغیوں نے ہارا قلعے میں پناہ لی تو ان کے خلاف جنگ میں کوگا ننجا کو بھرتی کیا گیا۔ اس بارے لکھی گئی ایک دستاویز میں درج ہے کہ کوگا کے بندے جو اومی صوبے سے تھے، اپنی شناخت چھپا کر ہر رات جب چاہتے، قلعے میں داخل ہو جاتے۔[26]کوگا کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ قلعے کی ساخت کا جائزہ لیں اور دفاعی خندق کی گہرائی، چوڑائی اور طوالت کا اندازہ لگائیں، سڑکوں کی حالت، دیوار کی اوناچئی اور دیگر تفصیلات کا جائزہ لیں۔[26]جب محاصرے کے کماندار کو اندازہ ہوا کہ قلعے کی رسد کم ہو رہی ہوگی تو اس نے کمک روکنے کا حکم دے دیا۔ کوگا نے دشمن کی رسد کے تھیلوں پر قبضۃ کر لیا اور رات کو قلعے میں خفیہ رمز کی مدد سے داخل ہونے لگے۔[27]چند دن بعد پھر حکم ملا کہ دشمن کی رسد کو دیکھا جائے۔ اگرچہ ننجا کو بتا دیا گیا تھا کہ واپسی کے امکانات بہت کم ہیں، مگر بہت سے ننجا نے رضاکارانہ طور پر ہامی بھری۔[28]محاصرہ جاری رہا اور خوراک کی کمی کی وجہ سے دشمن کو گھاس اور کائی پر گزارا کرنا پڑا۔ اس دوران میں وہ حملے کرتے رہے اور آخرکار شکست کھا گئے۔ہارا قلعے پر قبضے کے بعد شمابارا بغاوت کا خاتمہ ہو گیا اور جاپان میں مسیحیت زیرِ زمین چلی گئی۔ جنگوں میں ننجا کی شراکت کے بارے ہمیں یہ آخری تحریر ملتی ہے۔[29]اٹھارویں صدیکے اوائل میں ٹوکوگاوا یوشیمونے نے جاسوس اور خفیہ ادارہ اونیوابان قائم کیا۔ اس ادارے کے اراکین سرکاری افسران کے بارے معلومات جمع کرتے تھے۔[30]انھیں بعد میں ننجا کے ساتھ خلط ملط کیا گیا۔[31]تاہم دونوں کے مابین تعلق سے متعلق کوئی دستاویز نہیں ملتی۔فوجی مؤرخ ہناوا ہوکینوچی کے مطابق:
+ننجا بھیس بدل کر دشمن کے علاقے کا جائزہ لیتے تھے اور دشمن کی صفوں میں خلا کی تاک میں رہتے تھے اور دشمن کے قلعوں میں گھس کرآتش زنیکرنے کے علاوہ قتل بھی کرتے تھے۔[32]ننجا خفیہ فوجی اور کرائے کے قاتل تھے۔ ان کا بنیادی کردارجاسوسیاورسبوتاژسے متعلق تھا مگرقتلبھی کرتے تھے۔ جنگ کے دوران میں ننجا کو دشمن کو الجھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔[33]ننجا کا اصل کامجاسوسیتھا۔ روپ بدل کر ننجا نہ صرف دشمن کی سرزمین اور عمارتوں کی معلومات جمع کرتے بلکہ خفیہ رموز اور گفت و شنید کے بارے بھی سن گن لیتے۔[34]ننجاسبوتاژکے لیے آتش زنی کا عام استعمال کرتے تھے جو دشمن کے خیموں اور قلعوں میں لگائی جاتی تھی۔[35]1558ءمیں روکاکو یوشی کاٹا نے ننجا کے ایک گروہ کو ساوایاما قلعے کو آگ لگانے کے لیے بھرتی کیا۔ بھیس بدل کر 49 ننجا قلعے میں گھس گئے۔ انھوں نے دشمن کی خاندانی علامت چاند والے ا��ک لالٹین کو چوری کیا اور اس کی نقلیں تیار کرنا شروع کر دیں۔ پھر ان نقلی لالٹینوں کو اٹھائے یہ لوگ بہ آسانی قلعے میں گھس گئے اور آگ لگا دی اور ان کی فوج کو فتح حاصل ہوئی۔[36]شنوبی کرائے کے قاتل ہونے کی وجہ سے1561ءمیں کیزاوا ناگاماسا نے تین ایگا ننجا ملازم رکھے اور مائی بارا قلعے کی فتح کو روانہ ہوا۔ روکاکو یوشی ٹاکا اس وقت نشانہ تھا جبکہ کچھ سال قبل اس نے یہ قلعہ اسی طرح ننجا بھرتی کر کے فتح کیا تھا۔ تاہم شنوبی احکامات سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ سو جب منصوبے کے مطابق حملہ نہ شروع ہوا تو ایگا لوگوں نے اپنے کمانداروں سے کہا کہ وہ چونکہ شنوبی علاقے سے نہیں، سو وہ ان کی تکنیک سے ناواقف ہوں گے۔ پھر انھوں نے ساتھ چھوڑ دینے کی دھمکی دے کر اپنی بات منوائی۔ سو آگ لگائی گئی اور ناگاماسا کی فوج نے بعجلت اور گڑبڑ کے بعد قلعے فتح کر لیا۔[37]قتل کی کوششوں کا نشانہ بہت سی مشہور شخصیات رہی ہیں۔ اُس دور کے بہت سے مشہور افراد کا قتل بھی ننجا سے منسوب ہے مگر ان کے خفیہ کام کی نوعیت کی وجہ سے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔[38]بعد میں جب ننجا اعلان کرتے تو یہ کہنا دشوار ہوتا کہ آیا یہ کرائے کے قاتل تھے یا کہ اس کام کے لیے خصوصی تربیت یافتہ افراد۔ایک جنگی سرداراودا نوبوناگاکی بدنامی کی وجہ سے اس پر کئی حملے ہوئے۔1571ءمیں کوگا ننجا اسے مارنے کے لیے بھرتی کیا گیا۔ اس نے دو بندوقوں سے نوبوناگا پر گولیاں چلائیں مگر کاری زخم نہ آئے کہ نوبوناگا نے ڈھال پہنی ہوئی تھی۔[39]ننجا فرار ہو گیا مگر چار سال بعد پکڑا گیا اور تشدد کر کے اسے ہلاک کیا گیا۔1573ءمیں مانابے روکورو نے قلعے میں گھسنے اور نوبوناگا کو قتل کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا اور گرفتاری پر خودکشی کر لی۔ اس کی لاش کو سرِ عام رکھ دیا گیا۔[39]اوسوگی کنشن اچیگو صوبے کا سربراہ تھا جس کے بارے مشہور ہے کہ اسے ننجا نے قتل کیا تھا۔[40]ننجا کو روکنے کے لیے کئی طریقے اپنائے جاتے تھے۔ قتل سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی تھیں مثلاً بیت الخلا اور کھوکھلے فرش میں بھی ہتھیار چھپا کر رکھے جاتے تھے۔[41]عمارتیں بناتے وقت ان میں پھندے اور گھنٹیاں وغیرہ چھپا دی جاتی تھیں۔[42]جاپانی قلعے اس طرح سے بنائے جاتے تھے کہ ان میں گھومنا مشکل ہوتا تھا۔ جگہ جگہ دیواروں میں سوراخ ہوتے اور خفیہ جگہیں رکھی جاتیں جہاں سے نگرانی کا کام آسان ہوتا۔ فرش اس طرح بنائے جاتے کہ وہ فولادی چولوں پر رکھے جاتے اور ذرا سی حرکت پر کافی شور پیدا ہوتا۔[43]صحن میں بجری بچھائی جاتی جس پر چلتے ہوئے آہٹ پیدا ہوتی۔ اس کے علاوہ عمارتیں ایک دوسرے سے فاصلے پر بنائی جاتیں تاکہ آگ کو روکنا آسان ہو۔[44]موجودہ دور میں ننجا کی تربیت کوننجوتسوکہا جاتا ہے مگر ماضی میں یہ جاسوسی اور جدوجہد کی مختلف تکنیک اور مختلف ناموں سے مل کر بنتی تھی۔ننجا کی باقاعدہ تربیتپندرہویں صدیکے وسط سے تب شروع ہوئی جب کئی سیمورائی خاندانوں نے خفیہ جنگی تکنیکوں جیسا کہ جاسوسی اور قتل وغیرہ پر توجہ مرکوز کی۔[45]سیمورائی کی طرح ننجا بھی پیدا ہوتے ہی اس کام پر لگ جاتے تھے اور ہر خاندان اپنے راز کو نسل در نسل خفیہ رکھتا تھا۔[46]سیمورائی کی طرح ننجا بھی بچپن سے تربیت پاتے تھے۔ عاممارشل آرٹسسے ہٹ کر نوجوانوں کو جدوجہد اور بقا کے علاوہ سکاؤٹنگ کی تکنیکیں بھی سکھائی جاتیں اور زہر اور دھماکا خیز مادوں کے بارے بھی بتایا جاتا۔[47]جسمانی تربیت بھی لازمی تھی جس میں طویل دوڑ، درخت یا دیوار پر چڑھنا، خفیہ رہ کر چلنا یا تیرنا شامل تھیں۔[48]اگر بھیس بدلنا ضروری ہوتا تو متعلقہ شعبے کی بنیادی معلومات بھی مہیا کی جاتیں۔[47]ایک جگہ بنیادی طبی معلومات بھی مہیا کرنے کا تذکرہ ہے۔[49]ایگا اور کوگا قبائل کے زوال کے بعد تربیت یافتہ ننجا کی بھرتی کا کام رک گیا اور مقامی سرداروں تربیت خود دینا پڑی۔[50]شنوبی کو باقاعدہ پیشہ سمجھا جاتا تھا۔موجودہ دور میںننجوتسوسکھانے والے ادارے1970ءکی دہائی سے شروع ہوئے۔ تاہم ان کی اصلیت کے بارے کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ننجا ہمیشہ تنہا کام نہیں کرتے تھے۔ گروہ کی شکل میں کام کی تکنیکیں بھی دکھائی دیتی ہیں جیسے دیوار پر چڑھنا ہو تو کیسے ایک ننجا دوسرے کو کمر پر اٹھا کر بلند کرے گا وغیرہ۔[51]اس کے علاوہ کارروائی کے دوران میں خفیہ رموز کا استعمال ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ دھوکا دینے کے لیے دشمن جیسا لباس پہن کر بھی حملہ کیا جاتا تھا۔[22]اوساکا کے محاصرے کے دوران میں جب پسپائی اختیار کی گئی تو ننجا نے حسبِ حکم پیچھے سے اپنی فوج پر گولیاں چلائیں تاکہ انھیں ایسا لگے کہ دشمن دوسری جانب آ گیا ہے اور وہ مڑ کر پھر حملہ کریں۔ بعد میں مجمع منتشر کرنے کے لیے یہ تکنیک استعمال ہوئی۔[24]ان تکنیکوں کا بنیادی مقصد چھپنا اور بچاؤ کے طریقے اختیار کرنا تھا۔ ان کی کچھ مثالیں درج ہیں:ننجا کو سکھائے جانے والے مارشل آرٹس کو شب خون اور تنگ جگہ کے حوالے سے مخصوص کر دیا جاتا تھا۔ ننجا کی جاسوسی کا مقصد اپنے سے طاقتور اور بڑے دشمن کو ناکارہ کرنا اور ناکام رہنے پر فرار ہونا تھا۔ننجا بھیس بدلنے کے ماہر ہوتے تھے اور بوقتِ ضرورت پجاری، شعبدہ باز، نجومی اور تاجر وغیرہ کا بہروپ بدل سکتے تھے۔[53]بوکے میوموکوشو (Buke Myōmokushō) لکھتا ہے کہ:شنوبی مونومی لوگ خفیہ طریقے سے استعمال کرتے تھے، ان کے فرائض میں پہاڑوں پر لکڑہاروں کے بھیس میں جانا اور دشمن کے علاقے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا۔ وہ خاص طور پر بھیس بدل کر سفت کرنے میں ماہر تھے۔[34]ننجا کئی اقسام کے ہتھیار اور آلات استعمال کرتے تھے جن میں سے کچھ عام دستیاب ہوتے تو کچھ خصوصی طور پر تیار کیے جاتے جن میں دیوار یا درخت پر چڑھنے کے آلات، لمبے ہونے والے نیزے، راکٹ سے چلنے والے تیر اور تہ ہونے والے چھوٹی کشتیاں شامل ہیں۔سترہویں صدیکی کتاببانسینشوکائیمیں ان خصوص آلات کی ایک وسیع رینج بیان کی گئی ہے۔[54]عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ننجا سر تا پا سیاہ لبادے میں ملبوس ہوتے تھے۔ تاہم اصل ننجا عام افراد جیسا لباس پہنتے تھے۔[55]ان کے لباس سیمورائی سے مماثل مگر ڈھیلے نہیں ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ بڑا رومال بھی ان کے پاس ہوتا جو کبھی منہ چھپانے کے کام آتا تو کبھی بیلٹ تو کبھی دیوار پر چڑھنے میں مدد دیتا۔[32]اس کے علاوہ ننجا کے استعمال میں آنے والے دیگر اجزائے لباس جیسا کہ ڈھال، زرہ بکتر وغیرہ کے بارے سو فیصد یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔[56]جاسوسی اور دشمن کی صفوں میں گھسنے کی خاطر ننجا کے پاس بہت سارے اوزار ہوتے تھے۔ رسیاں اور آنکڑے عام طور پر بیلٹ سے لٹکے ہوتے تھے۔[54]تہ ہونے والی سیڑھی کا بھی تذکرہ ملتا ہے جس کے دونوں سروں مڑے ہوئے ہوتے تھے۔[57]اس کے علاوہ ہاتھوں اور پیروں میں اوپر چڑھنے کے لیے مددگار چیزیں چڑھائی جاتی تھیں۔[58]اس کے علاوہ چھینی، سوراخ کرنے والے آلات وغیرہ بھی عام تھے۔دیواروں میں سوراخ کے لیے نوکیلے بھاری اوزار ہوتے تھے۔ چاقو اور چھوٹی آریاں بھی استعمال ہوتی تھیں۔ دیوار کے پار سے آواز سننے کے لیے بھی دستی آلے ہمراہ ہوتے تھے۔[59]ننجا کے لیے پانی پر چلنے کے لیے لکڑی سے بنے چوڑے جوتے بھی ہوتے تھے۔[60]ننجا کو زیرِ آب رکنے میں مدد دینے کے لیے مشکیں اور دیگر نالیاں بھی استعمال ہوتی تھیں۔[61]ننجا عموماً بہت کم آلات سے کافی زیادہ کام کرنے کے قابل ہوتے تھے۔[62]اگرچہ چھوٹیتلواریںاور خنجر بکثرت استعمال ہوتے تھے مگر ننجا کا پسندیدہہتھیارکاتاناتھا جو پیٹھ پر رکھی جاتی تھی۔[63]یہ تلوار لڑائی کے علاوہ بھی بہت جگہ کام آتی تھی مثلاً تاریکی میں اس کی نیام سے راستہ ٹٹولنے کا کام لیا جاتا تھا۔[64]اس تلوار کو دیوار سے ٹیک لگا کر اس کی مدد سے چڑھنے میں مدد لی جاتی تھی۔[65]اس کے علاوہ تلوار کو نیام میں رکھتے ہوئے اس میںمردچیں،مٹی،ریتیا لوہ چون بھر دیا جاتا تھا تاکہتلوارنکالتے وقت یہ چیزیں نکل کر دشمن کیآنکھوںمیں جا پڑیں۔کاتاناسے قبل سیدھی تلواریں مستعمل تھیں۔[66]ترشول، کانٹے، چاقو اور ستارہ نما طشتریاں مجموعی طور پرشوریکنکہلاتی تھیں۔ یہ ہتھیار ننجا کے علاوہ بھی دیگر لوگ استعمال کرتے تھے[67]اور انھیں کسی بھی سمت پھینکا جا سکتا تھا۔[68]کمان کی مدد سے تیزی سے تیر چلائے جا سکتے تھے اور بعض ننجا کی کمانیں معمول سے چھوٹی ہوتی تھیں۔[69]زنجیر اور درانتی بھی ننجا کے پاس ہوتی تھیں۔[70]اس میں زنجیر کے ایک جانب وزنی گولہ جبکہ دوسری جانب درانتی ہوتی تھی اسےکوساریگاماکہتے ہیں۔ درانتی وغیرہ پکڑے جانے پر ننجا بطور مالی انھیں اپنے اوزار ظاہر کرتے تھے۔جاپان میںتیرہویں صدیمیں منگولوں کے حملے کے ساتھ ہی بارود بھیچینسے پہنچ گیا تھا۔[71]بعد میں ننجا نے دستی بم وغیرہ بنانے شروع کر دیے[61]تاکہ اس سے زہریلی گیس یا دھویں کے علاوہ دھاتی چیزیں بھی پھینکی جا سکتی تھیں۔[51]عام ہتھیاروں کے علاوہ ننجا کے پاس اور بھی بہت سے ہتھیار ہوتے تھے جن میں زہر،[54]گوکھرو، چوبی تلوار،[72]بارودی سرنگیں،[73]بلو گن، زہریلے تیر، تیزاب پھینکنے والی نلکیاں اور آتشیں اسلحہ[61]شامل ہے۔ فرار میں مدد کے لیے انڈے کے چھلکے میں بھرا سفوف بھی اہم تھا۔[74]مافوق الفطرت صلاحیتں اکثر ننجا سے منسوب کی جاتی ہیں۔ بعض روایات میں ہوا میں اڑنا، غائب ہونا، چہرہ بدل لینا، ایک سے کئی انسان بن جانا، جانوروں پر حکم چلانا اور پانچ روایتی عناصر پر قابو پانا بھی ننجا سے منسوب ملتے ہیں۔[50]روایتی عناصر پر قابو پانا کسی حد تک ممکن ہے جیسا کہ آگ جلانا وغیرہ۔[75]تاہم یہ ننجا کی پسپائی یا فرار کو چھپانے کے لیے ہوتی تھی۔پتنگ کی مدد سے ہوا میں اڑنا فرضی روایات ہیں کہ ننجا اس طرح اڑ کر دشمن کی صفوں میں اتر جاتے یا ان پر بم وغیرہ مارتے۔[42]حقیقت محض اتنی ہے کہ جنگوں کے دوران میں پتنگ سے پیغام رسانی کا کام لیا جاتا تھا۔[76][77]کوجی کیری ایک ایسی مشق تھی جس کو دہرانے سے ننجا کومافوق الفطرتکام کرنے کی صلاحیت مل جاتی تھی۔کوجیتاؤ متسے نکلی تھی کہ وہاں بھی نو الفاظ کو مخصوص ترتیب سے دہرانے سے جادو وغیرہ منسوب کیا جاتا تھا۔[78]چینمیںبدھ متکا بھی اس پر اثر ہے اور یہ نو الفاظ بدھ مت کے دیوتاؤں سے متعلق ہیں۔[79]کوجی کی جاپان میں آمد شاید بدھ مت کے ساتھ ہوئی تھ جہاں شوگینڈو میں یہ خوب پھلی پھولی۔[80]یہاں بھی کوجی کے الفاظ بدھ مت کے دیوتاؤں، تاؤ مت کی دیو مالا اور پھر شنٹو کامی سے منسوب ہوئے۔[81]مدرا جو مختلف بدھ افراد ہاتھوں کے اشاروں سے ادا کرتے ہیں۔[82]شوگینڈو کے یامابوشی نے اسے اپنایا اور یہ روحانی، شفا اور جادو اتارنے کے عمل میں استعمال ہوتے تھے۔[83]یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ان سے ہونے والے اثرات میں جادو ٹونا اہم تھا۔[84]جاپانی تاریخ میں بہت سارے مشہور افراد کو ننجا کہا گیا ہے مگر ان کی تصدیق آسان نہیں۔ مگر اہم مشہور شخصیات جو ننجا کہلاتی رہی ہیں، میں سے چند ایک درجِ ذیل ہیں:ایڈو دور میں ننجا کو مقبول ثقافت میں شامل کیا گیا اور ننجا سے متعلق داستانیں وجود میں آئیں۔ یہ داستانیں عموماً کسی تاریخی شخصیت سے منسوب کی جاتی تھیں۔[90]ننجا جاپانی اور مغربی مقبول میڈیا کی کئی قسموں میں شامل ہے جس میں کتابیں (کؤگا ننپوچؤ)، ٹیلی ویژن (ننجا واریر،پاور رینجرز ننجا سٹورماورپاور رینجرز ننجا سٹیل)، فلمیں (یو اونلی لیو ٹوائس،ننجا اسیسن،دی لاسٹ سمورائی)، طنز (ریئل الٹیمیٹ پاور)، ویڈیو گیمز (تینچو، دی لاسٹ ننجا، شنوبی، مورٹل کامبیٹ)،اینیمے(ناروٹو)،مانگا(باسیلیسک) کامک (ٹین ایج میوٹینٹ ننجا ٹرٹلز، جی ائی جو، آ رئیل امریکن ہیرو) شامل ہیں۔لوا خطا ماڈیول:Authority_control میں 306 سطر پر: attempt to call field '_showMessage' (a nil value)۔"
+470,تاریخ جاپان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE_%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86,"جاپانی مجموعہ الجزائرپر پہلیانسانیآبادیزمانہ قبل از تاریخسے موجود ہے۔ جاپانی جزیرہ نما کے پہلے انسانی باشندوں کا سراغ تقریباً 38000 - 39,000 سال قبل پیلیولتھک سے ملا ہے۔ جومون دور، جس کا نام اس کی ہڈی کے نشان والے مٹی کے برتنوں کے نام پر رکھا گیا تھا، اس کے بعد پہلے ہزار سال قبل مسیح میں یایوئی دور تھا جب ایشیا سے نئی ایجادات متعارف کرائی گئیں۔ اس عرصے کے دوران، جاپان کا پہلا معروف تحریری حوالہ پہلی صدی عیسوی میں چینی کتاب ہان میں درج کیا گیا تھا۔ تیسری صدی قبل مسیح کے آس پاس، براعظم سے یایوئی لوگوں نے جاپانی جزیرہ نما میں ہجرت کی اور لوہے کی ٹیکنالوجی اور زرعی تہذیب کو متعارف کرایا۔ چونکہ ان کی زرعی تہذیب تھی، اس لیے یایوئی کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی اور بالآخر جاپانی جزیرے کے مقامی باشندے، جو شکار جمع کرنے والے جاپانی باشندوں پر غالب آگئے۔چوتھی اور نویں صدیوں کے درمیان، جاپان کی بہت سی سلطنتیں اور قبائل بتدریج ایک مرکزی حکومت کے تحت متحد ہو گئے، جو برائے نام جاپان کے شہنشاہ کے زیر کنٹرول تھے۔ اس وقت قائم ہونے والا شاہی خاندان آج تک جاری ہے، اگرچہ تقریباً مکمل طور پر رسمی کردار میں ہے۔ سن 794 میں، ہیان-کیو (جدید کیوٹو) میں ایک نیا شاہی دار الحکومت قائم کیا گیا، جس نے ہیان دور کے آغاز کو نشان زد کیا، جو سن 1185 تک جاری رہا۔ ہیان دور کو کلاسیکی جاپانی ثقافت کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت اور اس کے بعد سے جاپانی مذہبی زندگی مقامی شنٹو طریقوں اوربدھ متکا مرکب تھی۔اگلی صدیوں کے دوران، شاہی گھرانے کی طاقت میں کمی آئی، جو پہلے شہری اشرافیہ کے عظیم قبیلوں, خاص طور پر فوجیوارا اور پھر سامورائی کے فوجی قبیلوں اور ان کی فوجوں تک پہنچ گئی۔ ميناموٹو نو يوريٹومو کے تحت ميناموٹو کا قبیلہ 1180-1185 کی جينپي جنگ سے جیت کر ابھرا، اپنے حریف فوجی قبیلے، ٹائرا کو شکست دے کر اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد، يوريٹومو نے کاماکورا میں اپنا دار الحکومت قائم کیا اور شوگن کا لقب اختیار کیا۔ 1274 اور 1281 میں، کاماکورا شوگنیٹ نے دو منگول حملوں کا مقابلہ کیا، لیکن 1333 میں اسے شوگنیٹ کے حریف دعویدار نے گرادیا، جس سے موروماچی دور شروع ہوا۔ اس عرصے کے دوران، دائمی نامی علاقائی جنگجو شوگن کی قیمت پر طاقت میں بڑھے۔ بالآخر، جاپان خانہ جنگی کے دور میں داخل ہوا۔ 16ویں صدی کے آخر میں، جاپان کو ممتاز ڊئميو اودا نوبوناگا اور اس کے جانشین، ٹويوٹومي هائيڊيوشي کی قیادت میں دوبارہ متحد کیا گیا۔ 1598 میں ٹويوٹومي کی موت کے بعد، ٹوکوگاوا آئياسو اقتدار میں آیا اور اسے شہنشاہ نے شوگن مقرر کیا۔ ٹوکوگاوا شوگنیٹ، جس نے ایڈو (جدید ٹوکیو) سے حکومت کی، ایک خوش حال اور پرامن دور کی صدارت کی جسے ایڈو دور (1600-1868) کہا جاتا ہے۔ ٹوکوگاوا شوگنیٹ نے جاپانی معاشرے پر ایک سخت طبقاتی نظام نافذ کیا اور بیرونی دنیا سے تقریباً تمام رابطہ منقطع کر دیا۔پرتگال اور جاپان کا رابطہ 1543 میں ہوا، جب پرتگالی جنوبی جزیرہ نما میں اتر کر جاپان پہنچنے والے پہلے یورپی بن گئے۔ جاپان پر ان کا نمایاں اثر پڑا، یہاں تک کہ اس ابتدائی محدود تعامل میں، جاپانی جنگ میں آتشیں اسلحے کو متعارف کرایا۔ 1853-1854 میں امریکی پیری مہم نے جاپان کی تنہائی کو مزید مکمل طور پر ختم کر دیا۔ اس نے شوگنیٹ کے زوال اور 1868 میں بوشین جنگ کے دوران شہنشاہ کی اقتدار کی واپسی میں اہم کردار ادا کیا۔ میجی دور کی نئی قومی قیادت نے الگ تھلگ جاگیردار جزیرہ نما ملک کو ایک ایسی سلطنت میں تبدیل کر دیا جو مغربی ماڈلز کی قریب سے پیروی کرتی ہے۔ اگرچہ تائیشی دور (1912-1926) کے دوران جمہوریت نے ترقی کی اور جدید شہری ثقافت کو فروغ دیا، لیکن جاپان کی طاقتور فوج کو زبردست خود مختاری حاصل تھی اور اس نے 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں جاپان کے سویلین لیڈروں کو زیر کر دیا۔ جاپانی فوج نے 1931 میں منچوریا پر حملہ کیا اور 1937 سے یہ تنازع چین کے ساتھ ایک طویل جنگ میں بدل گیا۔ 1941 میں پرل ہاربر پر جاپان کا حملہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ جنگ کا باعث بنا۔ جاپان کی افواج جلد ہی حد سے زیادہ بڑھ گئیں، لیکن اتحادی افواج کے فضائی حملوں کے باوجود فوج نے آگے بڑھ کر آبادی کے مراکز کو شدید نقصان پہنچایا۔ شہنشاہ ہیروہیتو نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹمی دھماکوں اور منچوریا پر سوویت حملے کے بعد، 15 اگست 1945 کو جاپان کے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا۔اتحادیوں نے 1952 تک جاپان پر قبضہ کیا، اس دوران 1947 میں ایک نیا آئین نافذ کیا گیا جس نے جاپان کو آئینی بادشاہت میں تبدیل کر دیا۔ 1955 کے بعد، جاپان نے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی حکمرانی میں بہت زیادہ اقتصادی ترقی کا لطف اٹھایا اور ایک عالمی اقتصادی پاور ہاؤس بن گیا۔ 1990 کی دہائی کی کھوئی ہوئی دہائی کے بعد سے، جاپانی اقتصادی ترقی سست پڑی ہے۔"
+471,خفیہ کارندہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D9%81%DB%8C%DB%81_%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D9%86%D8%AF%DB%81,خُفیہ کارِندہیاخُفیہ وکیلSecret Agent
+472,جاسوسی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D8%A7%D8%B3%D9%88%D8%B3%DB%8C,"جاسوسی(انگریزی:Espionage- colloquially, spying) کسی کے بارے میں اس کی اجازت کے بغیر خفیہ یا رازدارانہ معلومات حاصل کرنا ہے۔[1]لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+473,سبوتاژ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%A8%D9%88%D8%AA%D8%A7%DA%98,سبوتاژ(sabotage) جان بوجھ کر توڑ پھوڑ، شرارت انگیزی، خلل اندازی، چلتے ہوئے کام میں رکاوٹ ڈالنا، کام خراب کرنا ہے۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+474,گوریلا جنگ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%84%D8%A7_%D8%AC%D9%86%DA%AF,"گوریلا جنگیا چھاپہ مار جنگ (عربی:حرب العصابات،فارسی: چریک، انگریزی: Guerrilla warfare) ایسی جنگ ہے جو عموماً ایک چھوٹی مگر متحرک طاقت کسی بڑی مگر کم متحرک روایتی طاقت یا فوج کے خلاف لڑی جاتی ہے۔ اس کا ترجمہ اردو میں گوریلا جنگ ہ�� کیا جاتا ہے مگر اس جنگ کا گوریلوں سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہہسپانوی زبانکے لفظ Guerrilla سے نکلا ہے جس کا ترجمہچھاپہ مارہے۔
+ایسی جنگ میں عام طور پر چھپ چھپ کر حملے کر کے نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اس میں حتی الوسع کھلی لڑائی نہیں کی جاتی۔ اس لیے اسے ہسپانوی میں چھوٹی جنگ یا Guerrilla کہا جاتا تھا جس سے اس کا نام پڑا۔ یہ اصطلاح پہلی مرتبہ ہسپانوی چھاپہ ماروں اور فرانس کے درمیان 1814ء میں جنگ کے دوران استعمال ہوئی تھی۔
+مشہور انقلابی رہنماچی گویرانے اپنی کتاب میں لکھا کہ گوریلا افواج ایک مرکزہ کی مانند ہوتے ہیں جن کی بنیاد عوام میں ہوتی ہے۔ انھیں اس بڑی فوج کے مقابلے میں صرف کم اسلحہ رکھنے کی بنیاد پر کم تر نہیں سمجھنا چاہیے جس سے وہ جنگ کرتے ہیں۔ یہ جنگ وہ لوگ کرتے ہیں جن کے پاس کم وسائل و اسلحہ مگر اسے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔[1]انقلابی و چھاپہ مار جنگ دراصل ایکمسلسلہہے جس میں ایک طرف چھوٹے پیمانے پر حملے، گھاتیں (چھپ کر حملہ) اور دھاوے بولے جاتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں اس مرحلے میں چھاپہ ماروں کو شدت پسند، آزادی پسند یا دہشت گرد بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں اوپر کی سطح پر منظم و مربوط سیاسی و فوجی حربہ کار موجود ہوتے ہیں۔ اور نچلی سطح پر چھوٹی اکائیاں ہوتی ہیں جو حملوں، دھاووں اور گھاتوں میں مصروف ہوتے ہیں اور انتہائی متحرک ہوتے ہیں۔
+دوسرے مرحلے میں جنگ کا دائرہ پھیل جاتا ہے اور ایک مربوط جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے اگرچہ طاقت و وسائل ایک بڑی مقابل فوج کے مقابلے میں کم ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کی مثالیںچینمیں ماؤزے تنگ کی جنگ، ویتنام میں امریکی افواج کے خلاف جنگ اور کسی حد تک فلسطینیوں کی 1970 اور 1980ء کی دہائیوں میںاسرائیلکے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں اورافغانستانوعراقمیں امریکی و اتحادی افواج کے خلاف کارروائیاں شامل ہیں۔ یاد رہے کہ دونوں مرحلوں پر صرف عمومی جنگ نہیں ہوتی بلکہ تشہیر اور نشر و اشاعت کے مختلف ذرائع کی مدد بھی لی جاتی ہے کیونکہ عوام کی حمایت انتہائی ضروری ہوتی ہے۔
+اس قسم کی جنگ میں یا تو عام شہری استعمال کیے جاتے ہیں یا باقاعدہ فوجی جن کو فوج سے الگ رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے لڑنے کے مقاصد اور طریقے یکساں ہوتے ہیں۔ٗاستنزاف•چھاپہ مار جنگ•عسکری نقل و حرکتناکہ بندی•ہمہ گیر جنگ•مورچہ بند جنگمعاشی•عظیم حکمت عملی•عسکری کارروائیاںدستے•عہدے•اکائیاںآلات•ضروریات•خط رسدمعرکے•قائدین•کارروائیاںناکہ بندیاں•مصنفین•جنگیںجنگی جرائم•اسلحہ"
+475,سامورائی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%A7%D9%85%D9%88%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C,سامورائی(انگریزی: Samurai; (جاپانی:侍))جاپانیقرون وسطیاور ابتدائی جدید تاریخ میںفوجیاشرافیہ اور افسرذاتتھی۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+476,سینگوکو دور,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%DB%8C%D9%86%DA%AF%D9%88%DA%A9%D9%88_%D8%AF%D9%88%D8%B1,"سینگوکو دورانگریزی:Sengoku period(جاپانی: 戦国時代،Sengoku jidai؟، ""Age of Warring States"";جنگجو ریاستوں کا دورعیسوی1467 –عیسوی 1603)جاپانی تاریخ میں ایک سماجی انقلاب، سیاسی سازشوں اور مسلسل عسکری تنازع کا دور ہے۔ یہجاپانکی 136 سالہخانہ جنگیسمجھا جا سکتا ہے۔بالآخر 1600ء میں ایک جنگی لاٹتوکوگاوا ائیاسونے اپنے تمام حریفوں کو جنگ میں شکست دے کر جاپانی پائے تختایدومیں عسکری حکومت قائم کیا جس کا آمر کوشوگونکہلایا جاتا تھا۔ جاپان میںعسکری آمریتآئندہ دو صدیوں کے لیے قائم رہا جس کوتوکوگاوا شوگون شاہیکہلایا گیا۔"
+477,پندرہ��یں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D9%86%D8%AF%D8%B1%DB%81%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<چودہویں صدی <<<پندرہویں صدی>>> سولہویں صدی>>>
+478,سترہویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%AA%D8%B1%DB%81%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<سولہویں صدی <<<سترہویں صدی>>> اٹھارویں صدی>>>
+479,ایگا صوبہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%DA%AF%D8%A7_%D8%B5%D9%88%D8%A8%DB%81,ایگا صوبہ(انگریزی:Iga Province)(جاپانی: 伊賀国،نقل حرفی: Iga no kuni؟)جاپانکا ایکصوبہتھا کو کہ موجودہمیہ پریفیکچرکے مغربی حصے میں واقع ہے۔
+480,کوکا، شیگا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D9%88%DA%A9%D8%A7%D8%8C_%D8%B4%DB%8C%DA%AF%D8%A7,کوکا(انگریزی:Kōka)(جاپانی: 甲賀市،نقل حرفی: Kōka-shi؟)جاپانکےشیگا پریفیکچرجنوبی حصے میں واقع ایکشہرہے۔لوا خطا ماڈیول:Authority_control میں 306 سطر پر: attempt to call field '_showMessage' (a nil value)۔
+481,توکوگاوا شوگون شاہی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D9%88%DA%A9%D9%88%DA%AF%D8%A7%D9%88%D8%A7_%D8%B4%D9%88%DA%AF%D9%88%D9%86_%D8%B4%D8%A7%DB%81%DB%8C,توکوگاوا شوگون شاہی(انگریزی: Tokugawa shogunate; (جاپانی:徳川幕府)) جسےتوکوگاوا باکوفو(انگریزی: Tokugawa bakufu; (جاپانی:徳川幕府)) اورادو باکوفو(انگریزی: Edo bakufu; (جاپانی:江戸幕府)) بھی کہا جاتا ہے آخری جاگیردارانہ جاپانی فوجی حکومت تھی جو1600ءاور1868ءکے درمیان قائم رہی۔[1]حکومت کا سربراہشوگونہوتا تھا[2]جو توکوگاوا قبیلے کا رکن ہوتا تھا۔[3]
+483,1868ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1868%D8%A1,<<< چھٹی دہائی <<<ساتویں دہائی>>> آٹھویں دہائی>>>
+484,بحالی میجی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%AD%D8%A7%D9%84%DB%8C_%D9%85%DB%8C%D8%AC%DB%8C,بحالی میجیجاپانمیں جاپانیفغفورمیجیکے1868ءمیں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کو کہتے ہیں۔
+485,سینگوکو دور,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%DB%8C%D9%86%DA%AF%D9%88%DA%A9%D9%88_%D8%AF%D9%88%D8%B1,"سینگوکو دورانگریزی:Sengoku period(جاپانی: 戦国時代،Sengoku jidai؟، ""Age of Warring States"";جنگجو ریاستوں کا دورعیسوی1467 –عیسوی 1603)جاپانی تاریخ میں ایک سماجی انقلاب، سیاسی سازشوں اور مسلسل عسکری تنازع کا دور ہے۔ یہجاپانکی 136 سالہخانہ جنگیسمجھا جا سکتا ہے۔بالآخر 1600ء میں ایک جنگی لاٹتوکوگاوا ائیاسونے اپنے تمام حریفوں کو جنگ میں شکست دے کر جاپانی پائے تختایدومیں عسکری حکومت قائم کیا جس کا آمر کوشوگونکہلایا جاتا تھا۔ جاپان میںعسکری آمریتآئندہ دو صدیوں کے لیے قائم رہا جس کوتوکوگاوا شوگون شاہیکہلایا گیا۔"
+486,یونانی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%86%D8%A7%D9%86%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,"یونانی زبان(جدید یونانی:ελληνικά[eliniˈka]،elliniká, ""یونانی"",ελληνική γλώσσα[eliniˈci ˈɣlosa](سنیے)،ellinikí glóssa, ""یونانی زبان"")یونانکی زبان ہے، جو دنیا کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔ اس کا تعلقہند یورپی زبانوںسے ہے۔ یہ زبان سائنس اور مغربی ثقافت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئی۔ اس کے علاوہانگریزی زبانپر بھی اس کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔ چونکہ سائنسی علوم میںیونانی قوموںنے بہت اہم کردار ادا کیا ہے اس لیے آج کل کی جدیدطبمیں زیادہ تر یونانی الفاظ ہی مستعمل ہیں۔"
+487,قبرص,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5,"قبرص(انگریزی: Cyprus; تلفظ:/ˈsaɪprəs/(سنیے);یونانی:Κύπρος،نقحر:Kýprosیونانی تلفظ :[ˈcipros];ترکی زبان:Kıbrısترکی تلفظ:[ˈkɯbɾɯs])، رسمی طور پر جمہوریہ قبرص (یونانی:Κυπριακή Δημοκρατία،نقحر:Kypriakí Demokratía;ترکی زبان:Kıbrıs Cumhuriyeti) مشرقیبحیرہ رومکا ایک جزیرہ اور ملک ہے جواناطولیہ(ایشیائے کوچک) کے جنوب میں واقع ہے۔ جمہوریہ قبرص 6 اضلاع میں تقسیم ہے جبکہ ملک کا دار الحکومتنکوسیاہے۔ 1913ء میں برطانوی نو آبادیاتی بننے والا قبرص 1960ء میںبرطانیہسے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ 11 سال تک فسا��ات کے بعد 1964ء میںاقوام متحدہکی امن فوج تعینات کی گئی جس کے بعد جزیرے کایونانکے ساتھ الحاق کیا گیا جس پرترکینے 1974ء میں جزیرے پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں شمالی قبرص میں ترکوں کی حکومت قائم ہو گئی جسےترک جمہوریۂ شمالی قبرصکہا گیا۔ تاہم اسےاقوام متحدہتسلیم نہیں کرتی۔ شمالی قبرص اور قبرص ایک خط کے ذریعے منقسم ہیں جسے ""خط ِسبز"" کہا جاتا ہے۔ شمالی قبرص کو صرف ترکی کی حکومت تسلیم کرتی ہے۔ جمہوریہ قبرص یکم مئی 2004ء کویورپی یونینکا رکن بنا۔قبرص 395ء میںرومی سلطنتکی تقسیم کے بعدبازنطینی سلطنتکا حصہ بنا اورامیر معاویہکے دور میں اسے مسلمانوں نے فتح کر لیا۔تیسری صلیبی جنگکے دوران 1191ء میںانگلستانکےشاہرچرڈ اول(رچرڈ شیر دل) نے اسے فتح کر لیا اورمملکت قبرصکی بنیاد رکھی۔1489ء میںجمہوریہ وینسنے جزیرے کا کنٹرول سنبھال لیا جبکہ 1571ء میں لالہ مصطفی کی زیر قیادتعثمانیفوج نے جزيرہ فتح کر لیا۔قبرصبحیرہ رومکاساردینیااورصقلیہکے بعد تیسرا سب سے بڑا (بلحاظ علاقہ اور آبادی) جزیرہ ہے۔یہ 240 کلومیٹر (149 میل) طویل اور وسیع ترین مقام پر 100 کلومیٹر (62 میل) چوڑا ہے۔ترکیاس کےشمالمیں 75 کلومیٹر (47 میل) کے فاصلے پر ہے۔ دیگر ہمسایہ ممالکمشرقمیںشاماورلبنانہیں (بالترتیب 105 کلومیٹر (65 میل) اور 108 کلومیٹر (67 میل))،اسرائیلجنوب مشرقی میں 200 کلومیٹر (124 میل)،مصرجنوبمیں 380 کلومیٹر (236 میل)،جزیرہ روڈس400 کلومیٹر (249 میل) اوریونانسے 800 کلومیٹر (497 میل) کے فاصلے پر واقع ہیں۔جغرافیائی سیاسی طور پر جزیرے کو چار اہم حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے،جمہوریہ قبرصجزیرے کے دو تہائی جنوبی حصہ (59.74٪) پر واقع ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرصشمالی تہائی حصہ (34.85٪) پر واقع ہے۔ اوراقوام متحدہکے زیر ِنگرانی خطِ سبز جزیرے کو دو الگ حصوں میں تقسیم کرتی ہے اور ایک بفر زون بناتی ہے جو جزیرے کے کل رقبہ کا 2،67٪ کا احاطہ کرتا ہے۔ آخر میں برطانوی حاکمیت کے تحت دو فوجی اڈے جزیرے پر واقع ہیں:ایکروتیری و دیکیلیاباقی 2،74٪ پر واقع ہیں۔جامعہ قبرص(University of Cyprus)جامعہ طرزیات قبرص(Cyprus University of Technology)مفتوح جامعہ قبرص(Open University of Cyprus)جامعہ فریڈرک(Frederick University)جامعہ نیکوسیا(University of Nicosia)یورپی جامعہ قبرص(European University of Cyprus)جامعہ نیاپولس(Neapolis University)بین الاقوامی جامعہ قبرص(Cyprus International University)جمہوریہ قبرص کے چھ اضلاع ہیں- جن کے دارالحکومتوں کے نام مشترک ہیں-نیکوسیالیماسوللارناکاپافوسآئیا ناپاپولسسلامیسٹروڈوس سلسلہ کوہ"
+488,شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%B1,شہريک بڑی انسانی بستی کو کہتے ہیں۔ ایک بڑی آبادیوالیبستی جہاں عمارتیں، دکانیں اور سڑکیں وغیرہ بکثرت ہوں، جہاں کی صحت تعلیم اور تعمیرات وغیرہ کی انتظامیہ یا بلدیہ (میونسپل کارپوریشن) موجود ہو۔
+489,میساوریا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D8%B3%D8%A7%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%A7,"میساوریا(انگریزی: Mesaoria)
+(یونانی:Μεσαορία,ترکی زبان:Mesarya)جزیرہقبرصکے شمال وسطی حصے پر واقع ایک وسیع میدانی علاقہ ہے۔"
+490,پیدیوس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%DB%8C%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%B3,"پیدیوس(انگریزی: Pedieos)
+(دیگر نامPediaiosیاPediaeusیاPithkias;یونانی: Πεδιαίος/Πηθκιάς,ترکی:Kanlı Dere)قبرصکا طویل تریندریاہے۔ یہسلسلہ کوہ ٹروڈوسسے نکلتا ہے اور شامل مشرق میںمیساوریاسے بہتے ہوئےنکوسیاسے بھی گزرتا ہے۔ یہ قدیم قبرصی شہرسلامیسکے قریبخلیج فاماگوستامیں گرتا ہے۔نیکوسیا سے گزرتے ہوئے دریا کے کناروں کے 18 کلومیٹر حصے کو پیدل چلنے والوں کے لیے راستوں میں ت��دیل کر دیا گیا ہے۔[1]دریا پر دو بند بنائے گئے ہیں۔تاماسوسکے مقام پر بڑا بند بنایا گیا ہے جس کی تعمیر2002ءمیں ہوئی۔[2]"
+491,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+492,یورپی یونین کی رکن ریاست,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE%DB%8C_%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%86_%DA%A9%DB%8C_%D8%B1%DA%A9%D9%86_%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA,یورپی یونین28 رکن ریاستوں پر مشتمل ہے۔علاقائی اکائیاں تسمیہ برائے شماریات
+493,دسویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%B3%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<نویں صدی <<<دسویں صدی>>> گیارہویں صدی>>>
+494,قبرص,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5,"قبرص(انگریزی: Cyprus; تلفظ:/ˈsaɪprəs/(سنیے);یونانی:Κύπρος،نقحر:Kýprosیونانی تلفظ :[ˈcipros];ترکی زبان:Kıbrısترکی تلفظ:[ˈkɯbɾɯs])، رسمی طور پر جمہور��ہ قبرص (یونانی:Κυπριακή Δημοκρατία،نقحر:Kypriakí Demokratía;ترکی زبان:Kıbrıs Cumhuriyeti) مشرقیبحیرہ رومکا ایک جزیرہ اور ملک ہے جواناطولیہ(ایشیائے کوچک) کے جنوب میں واقع ہے۔ جمہوریہ قبرص 6 اضلاع میں تقسیم ہے جبکہ ملک کا دار الحکومتنکوسیاہے۔ 1913ء میں برطانوی نو آبادیاتی بننے والا قبرص 1960ء میںبرطانیہسے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ 11 سال تک فسادات کے بعد 1964ء میںاقوام متحدہکی امن فوج تعینات کی گئی جس کے بعد جزیرے کایونانکے ساتھ الحاق کیا گیا جس پرترکینے 1974ء میں جزیرے پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں شمالی قبرص میں ترکوں کی حکومت قائم ہو گئی جسےترک جمہوریۂ شمالی قبرصکہا گیا۔ تاہم اسےاقوام متحدہتسلیم نہیں کرتی۔ شمالی قبرص اور قبرص ایک خط کے ذریعے منقسم ہیں جسے ""خط ِسبز"" کہا جاتا ہے۔ شمالی قبرص کو صرف ترکی کی حکومت تسلیم کرتی ہے۔ جمہوریہ قبرص یکم مئی 2004ء کویورپی یونینکا رکن بنا۔قبرص 395ء میںرومی سلطنتکی تقسیم کے بعدبازنطینی سلطنتکا حصہ بنا اورامیر معاویہکے دور میں اسے مسلمانوں نے فتح کر لیا۔تیسری صلیبی جنگکے دوران 1191ء میںانگلستانکےشاہرچرڈ اول(رچرڈ شیر دل) نے اسے فتح کر لیا اورمملکت قبرصکی بنیاد رکھی۔1489ء میںجمہوریہ وینسنے جزیرے کا کنٹرول سنبھال لیا جبکہ 1571ء میں لالہ مصطفی کی زیر قیادتعثمانیفوج نے جزيرہ فتح کر لیا۔قبرصبحیرہ رومکاساردینیااورصقلیہکے بعد تیسرا سب سے بڑا (بلحاظ علاقہ اور آبادی) جزیرہ ہے۔یہ 240 کلومیٹر (149 میل) طویل اور وسیع ترین مقام پر 100 کلومیٹر (62 میل) چوڑا ہے۔ترکیاس کےشمالمیں 75 کلومیٹر (47 میل) کے فاصلے پر ہے۔ دیگر ہمسایہ ممالکمشرقمیںشاماورلبنانہیں (بالترتیب 105 کلومیٹر (65 میل) اور 108 کلومیٹر (67 میل))،اسرائیلجنوب مشرقی میں 200 کلومیٹر (124 میل)،مصرجنوبمیں 380 کلومیٹر (236 میل)،جزیرہ روڈس400 کلومیٹر (249 میل) اوریونانسے 800 کلومیٹر (497 میل) کے فاصلے پر واقع ہیں۔جغرافیائی سیاسی طور پر جزیرے کو چار اہم حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے،جمہوریہ قبرصجزیرے کے دو تہائی جنوبی حصہ (59.74٪) پر واقع ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرصشمالی تہائی حصہ (34.85٪) پر واقع ہے۔ اوراقوام متحدہکے زیر ِنگرانی خطِ سبز جزیرے کو دو الگ حصوں میں تقسیم کرتی ہے اور ایک بفر زون بناتی ہے جو جزیرے کے کل رقبہ کا 2،67٪ کا احاطہ کرتا ہے۔ آخر میں برطانوی حاکمیت کے تحت دو فوجی اڈے جزیرے پر واقع ہیں:ایکروتیری و دیکیلیاباقی 2،74٪ پر واقع ہیں۔جامعہ قبرص(University of Cyprus)جامعہ طرزیات قبرص(Cyprus University of Technology)مفتوح جامعہ قبرص(Open University of Cyprus)جامعہ فریڈرک(Frederick University)جامعہ نیکوسیا(University of Nicosia)یورپی جامعہ قبرص(European University of Cyprus)جامعہ نیاپولس(Neapolis University)بین الاقوامی جامعہ قبرص(Cyprus International University)جمہوریہ قبرص کے چھ اضلاع ہیں- جن کے دارالحکومتوں کے نام مشترک ہیں-نیکوسیالیماسوللارناکاپافوسآئیا ناپاپولسسلامیسٹروڈوس سلسلہ کوہ"
+495,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکوم�� سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+496,قبرص بحران (1955–64ء),https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5_%D8%A8%D8%AD%D8%B1%D8%A7%D9%86_(1955%E2%80%9364%D8%A1),یونانی قبرصی فوجی اور سیاسی فتح[1][2][3][4][5]56 ہلاک (جون–اگست 1958)[9]174 ہلاک (1963–64)[10]53 ہلاک (جون–اگست 1958)[9]364 ہلاک (1963–64)[10]قبرص بحران(انگریزی: Cyprus crisis)قبرصمیں سیاسی اور پرتشدد تنازع کا دور تھا جسےقبرصی تنازع(انگریزی: Cyprus dispute) اورایوکا دور(انگریزی: EOKA period)[11]کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ1955ءسے1964ءتک یونانی اور ترکی قبرصیوں کے درمیان میں تھا۔
+497,ترک قبرصی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%B1%DA%A9_%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5%DB%8C,ترک قبرصی(انگریزی: Turkish Cypriots) (ترکی زبان:Kıbrıs TürkleriیاKıbrıslı Türkler;یونانی:Τουρκοκύπριοι)قبرصکی نسلیترکآبادی ہے۔
+498,یونانی قبرصی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%86%D8%A7%D9%86%DB%8C_%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5%DB%8C,"یونانی قبرصی(انگریزی: Greek Cypriots) (یونانی:Ελληνοκύπριοι,ترکی زبان:Kıbrıs Rumları یا Kıbrıs Yunanları)قبرصکی نسلییونانیآبادی ہے۔[1][2][3][4]"
+499,1974ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1974%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+500,قبرص میں اقوام متحدہ بفر زون,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85_%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%AF%DB%81_%D8%A8%D9%81%D8%B1_%D8%B2%D9%88%D9%86,قبرص میں اقوام متحدہ بفر زون(انگریزی: United Nations Buffer Zone in Cyprus)ترک جمہوریہ شمالی قبرصاورجمہوریہ قبرصکے درمیان قبرص میںاقوام متحدہکی سلامتی فورس کے زیر انتطام ایکخط اخضرہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص اور جمہوریہ قبرص کے بیچ تنازع کے حل کی کئی کوششیں کی جا چکی ہیں۔ ان کوششوں میں بفر زون میں ملاقاتیں بھی شامل ہیں، جیسے کہ شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کے صدرمصطفیٰ عاکنجیاور قبرصی یونانی انتظامیہ کے سربراہنیکوس اناستاسیاادیسکا اس مسئلہ قبرص کے حل کے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی بفر زون میںستمبر2018ءمیں ملاقات کرنا اور مذاکرات کا ایک سنجیدہ دور رکھنا۔[1]
+501,قبرص,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81_%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5,"قبرص(انگریزی: Cyprus; تلفظ:/ˈsaɪprəs/(سنیے);یونانی:Κύπρος،نقحر:Kýprosیونانی تلفظ :[ˈcipros];ترکی زبان:Kıbrısترکی تلفظ:[ˈkɯbɾɯs])، رسمی طور پر جمہوریہ قبرص (یونانی:Κυπριακή Δημοκρατία،نقحر:Kypriakí Demokratía;ترکی زبان:Kıbrıs Cumhuriyeti) مشرقیبحیرہ رومکا ایک جزیرہ اور ملک ہے جواناطولیہ(ایشیائے کوچک) کے جنوب میں واقع ہے۔ جمہوریہ قبرص 6 اضلاع میں تقسیم ہے جبکہ ملک کا دار الحکومتنکوسیاہے۔ 1913ء میں برطانوی نو آبادیاتی بننے والا قبرص 1960ء میںبرطانیہسے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ 11 سال تک فسادات کے بعد 1964ء میںاقوام متحدہکی امن فوج تعینات کی گئی جس کے بعد جزیرے کایونانکے ساتھ الحاق کیا گیا جس پرترکینے 1974ء میں جزیرے پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں شمالی قبرص میں ترکوں کی حکومت قائم ہو گئی جسےترک جمہوریۂ شمالی قبرصکہا گیا۔ تاہم اسےاقوام متحدہتسلیم نہیں کرتی۔ شمالی قبرص اور قبرص ایک خط کے ذریعے منقسم ہیں جسے ""خط ِسبز"" کہا جاتا ہے۔ شمالی قبرص کو صرف ترکی کی حکومت تسلیم کرتی ہے۔ جمہوریہ قبرص یکم مئی 2004ء کویورپی یونینکا رکن بنا۔قبرص 395ء میںرومی سلطنتکی تقسیم کے بعدبازنطینی سلطنتکا حصہ بنا اورامیر معاویہکے دور میں اسے مسلمانوں نے فتح کر لیا۔تیسری صلیبی جنگکے دوران 1191ء میںانگلستانکےشاہرچرڈ اول(رچرڈ شیر دل) نے اسے فتح کر لیا اورمملکت قبرصکی بنیاد رکھی۔1489ء میںجمہوریہ وینسنے جزیرے کا کنٹرول سنبھال لیا جبکہ 1571ء میں لالہ مصطفی کی زیر قیادتعثمانیفوج نے جزيرہ فتح کر لیا۔قبرصبحیرہ رومکاساردینیااورصقلیہکے بعد تیسرا سب سے بڑا (بلحاظ علاقہ اور آبادی) جزیرہ ہے۔یہ 240 کلومیٹر (149 میل) طویل اور وسیع ترین مقام پر 100 کلومیٹر (62 میل) چوڑا ہے۔ترکیاس کےشمالمیں 75 کلومیٹر (47 میل) کے فاصلے پر ہے۔ دیگر ہمسایہ ممالکمشرقمیںشاماورلبنانہیں (بالترتیب 105 کلومیٹر (65 میل) اور 108 کلومیٹر (67 میل))،اسرائیلجنوب مشرقی میں 200 کلومیٹر (124 میل)،مصرجنوبمیں 380 کلومیٹر (236 میل)،جزیرہ روڈس400 کلومیٹر (249 میل) اوریونانسے 800 کلومیٹر (497 میل) کے فاصلے پر واقع ہیں۔جغرافیائی سیاسی طور پر جزیرے کو چار اہم حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے،جمہوریہ قبرصجزیرے کے دو تہائی جنوبی حصہ (59.74٪) پر واقع ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرصشمالی تہائی حصہ (34.85٪) پر واقع ہے۔ اوراقوام متحدہکے زیر ِنگرانی خطِ سبز جزیرے کو دو الگ حصوں میں تقسیم کرتی ہے اور ایک بفر زون بناتی ہے جو جزیرے کے کل رقبہ کا 2،67٪ کا احاطہ کرتا ہے۔ آخر میں برطانوی حاکمیت کے تحت دو فوجی اڈے جزیرے پر واقع ہیں:ایکروتیری و دیکیلیاباقی 2،74٪ پر واقع ہیں۔جامعہ قبرص(University of Cyprus)جامعہ طرزیات قبرص(Cyprus University of Technology)مفتوح جامعہ قبرص(Open University of Cyprus)جامعہ فریڈرک(Frederick University)جامعہ نیکوسیا(University of Nicosia)یورپی جامعہ قبرص(European University of Cyprus)جامعہ نیاپولس(Neapolis University)بین الاقوامی جامعہ قبرص(Cyprus International University)جمہوریہ قبرص کے چھ اضلاع ہیں- جن کے دارالحکومتوں کے نام مشترک ہیں-نیکوسیالیماسوللارناکاپافوسآئیا ناپاپولسسلامیسٹروڈوس سلسلہ کوہ"
+502,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+503,شمالی قبرص,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C_%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5,"ترک جمہوریہ شمالی قبرص(ترکی زبان: Kuzey Kıbrıs Türk Cumhuriyeti, KKTC،انگریزی: Turkish Republic of Northern Cyprus)قبرصکے شمالی علاقوں میں واقع ایک ریاست ہے جسے صرفترکیہتسلیم کرتا ہے۔اقوام متحدہپورے جزیرہ قبرص پرجمہوریہ قبرصکا اختیار تسلیم کرتا ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص یونانی قبرصی قبضے کے نو سال بعد1983ءمیں قائم ہوئی۔ تھوڑے عرصے تک رہنے والا یہ قبض�� یونانی فوجی دستوں کی حمایت سے ای او کے اے-بی کے حامیوں نے کیا تھا جو1967ءسے1974ءتک قائم رہا۔ بعد ازاں قبرص میں ترکی کی فوجی مداخلت کے باعث یہ ریاست تشکیل پائی۔ اس وقت سے آج تک علاقے میں ترکی کی افواج کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے قیام سے قبل یہ علاقہ ""ترک وفاقی ریاست شمالی قبرص"" کہلاتی تھی۔ریاست کی آبادی 265،000 ہے اور یہ 3،355 مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی تقریباً تمام آبادی ترکی زبان بولنے والے نسلاً ترک باشندوں پر مشتمل ہے۔ علاقے کی آبادی تین برادریوں میں منقسم ہے، ایک اصلی ترک قبرصی، دوسرے وہ ترک باشندے جن کے شادیوں کے ذریعے یہاں کے قبرصیوں سے تعلقات بنے اور تیسرےاناطولیہسے ہجرت کر کے آنے والے ترک باشندے، علاوہ ازیں کچھکردآبادی بھی یہاں موجود ہے۔ 33 ہزار ماہر فوجیوں کی صورت میں یہاں ترکوں کی بڑی آبادی ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص میںنکوسیاشہر کا شمالی حصہ بھی شامل ہے جودارالحکومتہے۔1963ءکے بعد یہاں کی کثیر آبادی ہجرت کر گئی۔ اکثریت نےبرطانیہکا رخ کیا جبکہ بڑی تعداد نے ترکی میں بھی رہائش اختیار کی۔ اس ہجرت کی وجہ عالمی سطح پر تسلیم نہ کی جانے کے باعث ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی خراب اقتصادی صورت حال تھی۔ ریاست کو دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص اور جمہوریہ قبرص کے درمیان کا علاقہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہے۔جمہوریہ قبرص کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب یہاں کی آبادی کے اصرار کے باوجود برطانیہ نے قبرص کے یونان کے ساتھ الحاق کو منظور نہ کیا اور اس کی بجائے مکمل خود مختاری دینے کی پیشکش کی اور اس طرح یہ جزیرہ برطانیہ سے آزاد ہو گیا۔ جزیرے پر رہنے والی قبرصی اور ترک دونوں برادریوں کو نئی جمہوریہ کو چلانے کے لیے بلایا گیا۔ کیونکہ جمہوریہ قبرص کے آئین کے مطابق کوئی ترک قبرصی صدر اور کوئی یونانی قبرصی نائب صدر نہیں بن سکتا اس لیے سیاسی تجزیہ نگاروں نے ابتدا ہی میں ان خدشات کا اظہار کیا کہ جمہوریہ قبرص میں کوئی مسئلہ پیدا ہونے والا ہے۔ دونوں اقوام کو حکومتی ایوانوں اور سرکاری ملازمتوں میں مخصوص تعداد میں نمائندگی دی گئی۔ آئین کے مطابق ایوان نمائندگان میں 70 فیصد یونانی قبرصی اور 30 فیصد ترک قبرصی ہوں گے۔ دیگر معاملات میں بھی اسی طرح تناسب مقرر کیا گیا جیسے افواج اور سرکاری ملازمتوں میں یہ تناسب بالترتیب 60 اور 40 تھا۔1960ءکے معاہدہ ضمانت کے تحت یونان، ترکی اور برطانیہ جمہوریہ کی ضامن قوتیں تھیں۔دسمبر1963ءمیں قبرص کی حکومت کا اس وقت خاتمہ ہو گیا جب ترک قبرصیوں نے اس میں شرکت سے دستبرداری اختیار کرلی۔ کسی بھی متفقہ فیصلے تک پہنچنے کے لیے دونوں برادریوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث تین سال کے لیے قانونی معاملات رکے رہے۔ اس تنازع کو مزید ہوا اس وقت ملی جب جمہوریہ قبرص کے آئین میں ترمیم کی 13 تجاویز دی گئی۔ ترک قبرصیوں نے ان کی شدید مخالفت کی اور انھوں نے ریاست کے شریک بانی کی بجائے خود کو اقلیت قرار دیا۔ انھوں نے ترامیم کو یونان کے ساتھ الحاق کی جانب اہم قدم قرار دیا۔21 دسمبر1963ءکو ترک قبرصیوں اور وزارت داخلہ کے سادہ اہلکاروں میں ملبوس اہلکاروں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں دو ترک قبرصی اور ایک یونانی قبرصی پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں اقوام کے درمیان جنگی صورت پیدا ہو گئی اور یونانی قبرصیوں نے یونان کی شہ پر ترک قبرصیوں کے خلاف ""جدوجہد"" کا آغاز کر دیا۔ان فسادات میں 191 ترک اور 133 یونانی قبرصی مارے گئے جبکہ 209 ترک اور 41 یونانی لاپتہ ہوئے۔ ترک قبرصیوں کے علاقوں کو مکمل طور پر لوٹ لیا گیا اور وہ اپنی ہی سرزمین پر مہاجرین کی صورت میں خیموں میں رہنے پر مجبورہو گئے۔ اگلے 11 سال تک ان کی زندگی کا انحصار اس غذا اور دواؤں پر ہوتا تھا جو ترکی کی جانب سے آتی تھیں۔1972ءسے1974ءتک قبرص میں اقوام متحدہ کی افواج کے چیف آف اسٹاف بریگیڈیئرفرانسس ہینکے مطابق “ترک قبرصیوں کو مکمل طور پر محصور کر دیا گیا اور یونانی قبرصیوں پر مشتمل انتظامیہ نے ان کی برادری کے 56 ہزار اراکین کا بھرپور استحصال کیا اور انھیں بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم کر دیا۔""15 جولائی1974ءکو یونان کی فوجی دستوں کی شہ پر قبرص میں ایک اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ صدرمیکاریوسکو عہدے سے معزول قرار دے کر ان کی جگہ ای او کے اے کے جنگجو اور رکن پارلیماننکولس سیمپسنکو نیا صدر بنا دیا گیا۔ ترکی نے اسے1960ءکے معاہدہ ضمانت کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کو جائز قرار دیا اور یوں20 جولائی1974ءکو قبرص پر حملہ کر دیا۔ قبرص میں ترک آبادی کو بچانے کے لیے ترکی کا یہ اقدام بہت ضروری تھا۔ ترک افواج نے جزیرے کے 37 فیصد حصے پر قبضہ کر لیااور یوں یونانی قبرصیوں کی بڑی آبادی کو بھی اپنے گھروں سے محروم ہونا پڑا۔ ایک لاکھ 95 ہزار یونانی قبرصی جزیرے کے جنوبی جانب جبکہ 50 ہزار ترک قبرصی جزیرے کی شمالی جانب ہجرت کر گئے۔ جنگی صورت حال کے خاتمے تک ہزاروں ترک اور یونانی قبرصیوں لاپتہ ہو گئے۔1975ءمیں ترک وفاقی ریاست شمالی قبرص کا قیام جزیرہ قبرص پر ترک قبرصیوں کی ریاست کی حیثیت سے عالمی سطح پر شناخت حاصل کرنے کے لیے پہلا قدم تھا۔ جسے جمہوریہ قبرص، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہ کیا۔ یونانی قبرصی قیادت کے ساتھ آٹھ سال کے ناکام مذاکرات کے بعد شمالی قبرص نے15 نومبر1983ءکو اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور یوں ترک جمہوریہ شمالی قبرص معرض وجود میں آیا۔ تاہم آج تک ترکی کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک اسے تسلیم نہیں کرتا۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے انتخابی نظام کے مطابق پانچ سال کے لیے صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ قانون ساز ادارہ “مجلس جمہوریہ“ (ترکی زبان: جمہوریت مجلسی) ہے جس کے اراکین پانچ انتخابی حلقہ جات کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔فروری2005ءکے انتخابات میں تصفیہ امن اور قبرص کے اتحاد کی حامی جماعتریپلکن ترکش پارٹیسب سے بڑی پارلیمانی جماعت کی صورت میں سامنے آئی تاہم اسے واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی معیشت کا اہم حصہ ملازمت، تجارت، سیاحت اور تعلیم ہے جبکہزراعتاور ساخت گری کی چھوٹی معیشت بھی موجود ہے۔ معیشت آزاد-مارکیٹ کی بنیاد پر کام کرتی ہے لیکن نجی و حکومتی سرمایہ کاری کی کمی، کثیر محصول اور ماہر کاریگروں کی کمی کے باعث اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے باوجود ترک قبرصی معیشت نے2003ءاور2004ءمیں متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس میںشرح نموبالترتیب 9.6 اور 11.4 فیصد رہی۔ شرح نمو میں اس تیزی کی وجہترک لیرامیں استحکام اور تعلیم اور تعمیرات کے شعبہ جات میں ہونے والا تیزی تھی۔جنوریسےاگست2003ءکے درمیان ترک جمہوریہ شمالی قبرص آنے والے سیاحوں کی تعداد 286،901 تھی۔دوسری جانب فی کس آمدنی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو2002ءمیں 4،409امریکی ڈالرکے مقابلے میں2005ءمیں 10،248 امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔بین الاقوامی برادری، سوائے ترکی کے، ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی بلکہ پورے جزیرے پر جمہوریہ قبرص کا اقتدار مانتی ہے۔ اقوام متحدہ اپنی متعدد قراردادوں میں ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔اسلامی کانفرنس کی تنظیمنے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو رائے دہندہ ریاست کی حیثیت دی ہے اور وہ تنظیم میں مبصر کی حیثیت سے شامل ہے۔پاکستان،قطراورگیمبیاسمیت دیگر کئی اقوام بھی ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو تسلیم کرنے کے لیے مثبت خیالات کا اظہار کر چکی ہیں۔اقوام متحدہ کےعنان منصوبہپراپریل2004ءمیں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حوالے سے عالمی برادری کے رویے میں کچھ بہتری آئی ہے۔قبرص کےیورپی اتحادکا حصہ بننے کے بعد یورپی اتحاد ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو ایسے علاقے کو متنازع علاقے کے طور پر تسلیم کرتا ہے جس کا مسئلہ حل کیا جانا باقی ہے۔ اوریورپی پارلیمانمیں قبرص کے لیے مختص کی گئي نشستیں بھی پورے جزیرے کے حوالے سے دی گئی ہیں۔ اس اعتبار سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے باشندے یورپی اتحاد کا حصہ قرار پائے لیکن اس کے باوجود 2004ء میں ہونے والے انتخابات میں انھوں نے اپنا حق رائے دہی بہت کم استعمال کیا۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں 18 سے سے 40 سال کی عمر تک کے 2 ہزار ترک قبرصی مردوں پر مشتمل ایک دفاعی فوج موجود ہے۔ یہ فوج 40 ہزار ترک بری فوج کے اراکین کی مدد کرتی ہے جس کی 11 ویں کور دو ڈویژن کے ہمراہ جزیرے پر موجود ہے۔متنازع علاقہ ہونے کی حیثيت سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں ترک افواج کی موجودگی کو مختلف افراد مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ یونانی قبرصی اسے ایک غاصب و قابض فوج سمجھتے ہیں جبکہ ترک قبرصی اسے اپنے نجات دہندہ اور محافظ گردانتے ہیں۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص ترکی کی عسکری و اقتصادی حمایت پر بہت زيادہ انحصار کرتا ہے۔ وہنئے ترک لیراکو اپنی کرنسی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی تمام برآمدات و درآمدات ترکی کے ذریعے ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی ٹیلی فون بات چیت بھی ترکی کے ڈائلنگ کوڈ کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ ویب پر ترک جمہوریہ شمالی قبرص ترک کا دوسری سطح کا ڈومین .nc.tr استعمال کرتا ہے اور بین الاقوامی پوسٹل یونین کی جانب سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو الگ علاقہ تسلیم کیے جانے سے انکار کے باعث خطوط بھی بذریعہمرسین، ترکی بھیجے جانے چاہئیں۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص سے براہ راست پروازیں بھی جمہوریہ قبرص کی جانب سے منع ہیں۔ گچیت کالے اور ارجان کے ہوائی اڈے بھی صرف ترکی اور آذربائیجان کے لیے کھلے ہیں۔ 1974ء سے جمہوریہ قبرص نے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی تمام بندرگاہوں کو بند قرار دے رکھا ہے۔ لیکن ترکی اعلان کی مخالفت کرتا ہے اور ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں مندرج تمام بحری جہازترکیکی تمام بحری بندرگاہوں تک مفت رسائی رکھتے ہیں۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حقیقی باشندے یا وہ افراد جن کے پاسپورٹ پر ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی مہر لگی ہو ممکنہ طور پر جمہوریہ قبرص یا یونان کے سفر سے محروم ہو جاتے تھے لیکن یورپی اتحاد میں جمہوریہ قبرص کی شمولیت کے بعد ان پابندیوں میں کچھ نرمی آ گئی ہے اور اس حوالے سےایتھنزاور انقرہ کے مابین برف بھی پگھلی ہے اور جب سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص نے پاسپورٹ داخلے کی مہر ثبت کرنا چھوڑی ہے تب سے جمہوریہ قبرص نکوسیا میں گرین لائن کے پار جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔ارجان ہوائی اڈا (نکوسیا –مرکزی ہوائی اڈا)
+گاچیت کالے ہوائی اڈا (غازی مغوسا/فیماگوستا)
+الکر کارتر ہوائی اڈا (گرنے/کائیرینیا)
+پنارباشی ہوائی اڈا (گرنے/کائیرینیا)
+ٹوپل ہوائی اڈا (گوزیل یورد/مورفو)
+بندرگاہ گرنے
+بندرگاہ غازي موغاسا/فیماگوستا"
+504,شمالی قبرص,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%B1%DA%A9_%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81_%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C_%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5,"ترک جمہوریہ شمالی قبرص(ترکی زبان: Kuzey Kıbrıs Türk Cumhuriyeti, KKTC،انگریزی: Turkish Republic of Northern Cyprus)قبرصکے شمالی علاقوں میں واقع ایک ریاست ہے جسے صرفترکیہتسلیم کرتا ہے۔اقوام متحدہپورے جزیرہ قبرص پرجمہوریہ قبرصکا اختیار تسلیم کرتا ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص یونانی قبرصی قبضے کے نو سال بعد1983ءمیں قائم ہوئی۔ تھوڑے عرصے تک رہنے والا یہ قبضہ یونانی فوجی دستوں کی حمایت سے ای او کے اے-بی کے حامیوں نے کیا تھا جو1967ءسے1974ءتک قائم رہا۔ بعد ازاں قبرص میں ترکی کی فوجی مداخلت کے باعث یہ ریاست تشکیل پائی۔ اس وقت سے آج تک علاقے میں ترکی کی افواج کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے قیام سے قبل یہ علاقہ ""ترک وفاقی ریاست شمالی قبرص"" کہلاتی تھی۔ریاست کی آبادی 265،000 ہے اور یہ 3،355 مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی تقریباً تمام آبادی ترکی زبان بولنے والے نسلاً ترک باشندوں پر مشتمل ہے۔ علاقے کی آبادی تین برادریوں میں منقسم ہے، ایک اصلی ترک قبرصی، دوسرے وہ ترک باشندے جن کے شادیوں کے ذریعے یہاں کے قبرصیوں سے تعلقات بنے اور تیسرےاناطولیہسے ہجرت کر کے آنے والے ترک باشندے، علاوہ ازیں کچھکردآبادی بھی یہاں موجود ہے۔ 33 ہزار ماہر فوجیوں کی صورت میں یہاں ترکوں کی بڑی آبادی ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص میںنکوسیاشہر کا شمالی حصہ بھی شامل ہے جودارالحکومتہے۔1963ءکے بعد یہاں کی کثیر آبادی ہجرت کر گئی۔ اکثریت نےبرطانیہکا رخ کیا جبکہ بڑی تعداد نے ترکی میں بھی رہائش اختیار کی۔ اس ہجرت کی وجہ عالمی سطح پر تسلیم نہ کی جانے کے باعث ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی خراب اقتصادی صورت حال تھی۔ ریاست کو دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص اور جمہوریہ قبرص کے درمیان کا علاقہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہے۔جمہوریہ قبرص کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب یہاں کی آبادی کے اصرار کے باوجود برطانیہ نے قبرص کے یونان کے ساتھ الحاق کو منظور نہ کیا اور اس کی بجائے مکمل خود مختاری دینے کی پیشکش کی اور اس طرح یہ جزیرہ برطانیہ سے آزاد ہو گیا۔ جزیرے پر رہنے والی قبرصی اور ترک دونوں برادریوں کو نئی جمہوریہ کو چلانے کے لیے بلایا گیا۔ کیونکہ جمہوریہ قبرص کے آئین کے مطابق کوئی ترک قبرصی صدر اور کوئی یونانی قبرصی نائب صدر نہیں بن سکتا اس لیے سیاسی تجزیہ نگاروں نے ابتدا ہی میں ان خدشات کا اظہار کیا کہ جمہوریہ قبرص میں کوئی مسئلہ پیدا ہونے والا ہے۔ دونوں اقوام کو حکومتی ایوانوں اور سرکاری ملازمتوں میں مخصوص تعداد میں نمائندگی دی گئی۔ آئین کے مطابق ایوان نمائندگان میں 70 فیصد یونانی قبرصی اور 30 فیصد ترک قبرصی ہوں گے۔ دیگر معاملات میں بھی اسی طرح تناسب مقرر کیا گیا جیسے افواج اور سرکاری ملازمتوں میں یہ تناسب بالترتیب 60 اور 40 تھا۔1960ءکے معاہدہ ضمانت کے تحت یونان، ترکی اور برطانیہ جمہوریہ کی ضامن قوتیں تھیں۔دسمبر1963ءمیں قبرص کی حکومت کا اس وقت خاتمہ ہو گیا جب ترک قبرصیوں نے اس میں شرکت سے دستبرداری اخ��یار کرلی۔ کسی بھی متفقہ فیصلے تک پہنچنے کے لیے دونوں برادریوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث تین سال کے لیے قانونی معاملات رکے رہے۔ اس تنازع کو مزید ہوا اس وقت ملی جب جمہوریہ قبرص کے آئین میں ترمیم کی 13 تجاویز دی گئی۔ ترک قبرصیوں نے ان کی شدید مخالفت کی اور انھوں نے ریاست کے شریک بانی کی بجائے خود کو اقلیت قرار دیا۔ انھوں نے ترامیم کو یونان کے ساتھ الحاق کی جانب اہم قدم قرار دیا۔21 دسمبر1963ءکو ترک قبرصیوں اور وزارت داخلہ کے سادہ اہلکاروں میں ملبوس اہلکاروں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں دو ترک قبرصی اور ایک یونانی قبرصی پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں اقوام کے درمیان جنگی صورت پیدا ہو گئی اور یونانی قبرصیوں نے یونان کی شہ پر ترک قبرصیوں کے خلاف ""جدوجہد"" کا آغاز کر دیا۔ان فسادات میں 191 ترک اور 133 یونانی قبرصی مارے گئے جبکہ 209 ترک اور 41 یونانی لاپتہ ہوئے۔ ترک قبرصیوں کے علاقوں کو مکمل طور پر لوٹ لیا گیا اور وہ اپنی ہی سرزمین پر مہاجرین کی صورت میں خیموں میں رہنے پر مجبورہو گئے۔ اگلے 11 سال تک ان کی زندگی کا انحصار اس غذا اور دواؤں پر ہوتا تھا جو ترکی کی جانب سے آتی تھیں۔1972ءسے1974ءتک قبرص میں اقوام متحدہ کی افواج کے چیف آف اسٹاف بریگیڈیئرفرانسس ہینکے مطابق “ترک قبرصیوں کو مکمل طور پر محصور کر دیا گیا اور یونانی قبرصیوں پر مشتمل انتظامیہ نے ان کی برادری کے 56 ہزار اراکین کا بھرپور استحصال کیا اور انھیں بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم کر دیا۔""15 جولائی1974ءکو یونان کی فوجی دستوں کی شہ پر قبرص میں ایک اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ صدرمیکاریوسکو عہدے سے معزول قرار دے کر ان کی جگہ ای او کے اے کے جنگجو اور رکن پارلیماننکولس سیمپسنکو نیا صدر بنا دیا گیا۔ ترکی نے اسے1960ءکے معاہدہ ضمانت کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کو جائز قرار دیا اور یوں20 جولائی1974ءکو قبرص پر حملہ کر دیا۔ قبرص میں ترک آبادی کو بچانے کے لیے ترکی کا یہ اقدام بہت ضروری تھا۔ ترک افواج نے جزیرے کے 37 فیصد حصے پر قبضہ کر لیااور یوں یونانی قبرصیوں کی بڑی آبادی کو بھی اپنے گھروں سے محروم ہونا پڑا۔ ایک لاکھ 95 ہزار یونانی قبرصی جزیرے کے جنوبی جانب جبکہ 50 ہزار ترک قبرصی جزیرے کی شمالی جانب ہجرت کر گئے۔ جنگی صورت حال کے خاتمے تک ہزاروں ترک اور یونانی قبرصیوں لاپتہ ہو گئے۔1975ءمیں ترک وفاقی ریاست شمالی قبرص کا قیام جزیرہ قبرص پر ترک قبرصیوں کی ریاست کی حیثیت سے عالمی سطح پر شناخت حاصل کرنے کے لیے پہلا قدم تھا۔ جسے جمہوریہ قبرص، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہ کیا۔ یونانی قبرصی قیادت کے ساتھ آٹھ سال کے ناکام مذاکرات کے بعد شمالی قبرص نے15 نومبر1983ءکو اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور یوں ترک جمہوریہ شمالی قبرص معرض وجود میں آیا۔ تاہم آج تک ترکی کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک اسے تسلیم نہیں کرتا۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے انتخابی نظام کے مطابق پانچ سال کے لیے صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ قانون ساز ادارہ “مجلس جمہوریہ“ (ترکی زبان: جمہوریت مجلسی) ہے جس کے اراکین پانچ انتخابی حلقہ جات کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔فروری2005ءکے انتخابات میں تصفیہ امن اور قبرص کے اتحاد کی حامی جماعتریپلکن ترکش پارٹیسب سے بڑی پارلیمانی جماعت کی صورت میں سامنے آئی تاہم اسے واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی معیشت کا اہم حصہ ملازمت، تجارت، سیاحت اور تعلیم ہے جبکہزراعتاور ساخت گری کی چھوٹی معیشت بھی موجود ہے۔ معیشت آزاد-مارکیٹ کی بنیاد پر کام کرتی ہے لیکن نجی و حکومتی سرمایہ کاری کی کمی، کثیر محصول اور ماہر کاریگروں کی کمی کے باعث اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے باوجود ترک قبرصی معیشت نے2003ءاور2004ءمیں متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس میںشرح نموبالترتیب 9.6 اور 11.4 فیصد رہی۔ شرح نمو میں اس تیزی کی وجہترک لیرامیں استحکام اور تعلیم اور تعمیرات کے شعبہ جات میں ہونے والا تیزی تھی۔جنوریسےاگست2003ءکے درمیان ترک جمہوریہ شمالی قبرص آنے والے سیاحوں کی تعداد 286،901 تھی۔دوسری جانب فی کس آمدنی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو2002ءمیں 4،409امریکی ڈالرکے مقابلے میں2005ءمیں 10،248 امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔بین الاقوامی برادری، سوائے ترکی کے، ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی بلکہ پورے جزیرے پر جمہوریہ قبرص کا اقتدار مانتی ہے۔ اقوام متحدہ اپنی متعدد قراردادوں میں ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔اسلامی کانفرنس کی تنظیمنے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو رائے دہندہ ریاست کی حیثیت دی ہے اور وہ تنظیم میں مبصر کی حیثیت سے شامل ہے۔پاکستان،قطراورگیمبیاسمیت دیگر کئی اقوام بھی ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو تسلیم کرنے کے لیے مثبت خیالات کا اظہار کر چکی ہیں۔اقوام متحدہ کےعنان منصوبہپراپریل2004ءمیں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حوالے سے عالمی برادری کے رویے میں کچھ بہتری آئی ہے۔قبرص کےیورپی اتحادکا حصہ بننے کے بعد یورپی اتحاد ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو ایسے علاقے کو متنازع علاقے کے طور پر تسلیم کرتا ہے جس کا مسئلہ حل کیا جانا باقی ہے۔ اوریورپی پارلیمانمیں قبرص کے لیے مختص کی گئي نشستیں بھی پورے جزیرے کے حوالے سے دی گئی ہیں۔ اس اعتبار سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے باشندے یورپی اتحاد کا حصہ قرار پائے لیکن اس کے باوجود 2004ء میں ہونے والے انتخابات میں انھوں نے اپنا حق رائے دہی بہت کم استعمال کیا۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں 18 سے سے 40 سال کی عمر تک کے 2 ہزار ترک قبرصی مردوں پر مشتمل ایک دفاعی فوج موجود ہے۔ یہ فوج 40 ہزار ترک بری فوج کے اراکین کی مدد کرتی ہے جس کی 11 ویں کور دو ڈویژن کے ہمراہ جزیرے پر موجود ہے۔متنازع علاقہ ہونے کی حیثيت سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں ترک افواج کی موجودگی کو مختلف افراد مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ یونانی قبرصی اسے ایک غاصب و قابض فوج سمجھتے ہیں جبکہ ترک قبرصی اسے اپنے نجات دہندہ اور محافظ گردانتے ہیں۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص ترکی کی عسکری و اقتصادی حمایت پر بہت زيادہ انحصار کرتا ہے۔ وہنئے ترک لیراکو اپنی کرنسی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی تمام برآمدات و درآمدات ترکی کے ذریعے ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی ٹیلی فون بات چیت بھی ترکی کے ڈائلنگ کوڈ کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ ویب پر ترک جمہوریہ شمالی قبرص ترک کا دوسری سطح کا ڈومین .nc.tr استعمال کرتا ہے اور بین الاقوامی پوسٹل یونین کی جانب سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو الگ علاقہ تسلیم کیے جانے سے انکار کے باعث خطوط بھی بذریعہمرسین، ترکی بھیجے جانے چاہئیں۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص سے براہ راست پروازیں بھی جمہوریہ قبرص کی جانب سے منع ہیں۔ گچیت کالے اور ارجان کے ہوائی اڈے بھی صرف ترکی اور آذربائیجان کے لیے کھلے ہیں۔ 1974ء سے جمہوریہ قبرص نے ترک جمہو��یہ شمالی قبرص کی تمام بندرگاہوں کو بند قرار دے رکھا ہے۔ لیکن ترکی اعلان کی مخالفت کرتا ہے اور ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں مندرج تمام بحری جہازترکیکی تمام بحری بندرگاہوں تک مفت رسائی رکھتے ہیں۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حقیقی باشندے یا وہ افراد جن کے پاسپورٹ پر ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی مہر لگی ہو ممکنہ طور پر جمہوریہ قبرص یا یونان کے سفر سے محروم ہو جاتے تھے لیکن یورپی اتحاد میں جمہوریہ قبرص کی شمولیت کے بعد ان پابندیوں میں کچھ نرمی آ گئی ہے اور اس حوالے سےایتھنزاور انقرہ کے مابین برف بھی پگھلی ہے اور جب سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص نے پاسپورٹ داخلے کی مہر ثبت کرنا چھوڑی ہے تب سے جمہوریہ قبرص نکوسیا میں گرین لائن کے پار جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔ارجان ہوائی اڈا (نکوسیا –مرکزی ہوائی اڈا)
+گاچیت کالے ہوائی اڈا (غازی مغوسا/فیماگوستا)
+الکر کارتر ہوائی اڈا (گرنے/کائیرینیا)
+پنارباشی ہوائی اڈا (گرنے/کائیرینیا)
+ٹوپل ہوائی اڈا (گوزیل یورد/مورفو)
+بندرگاہ گرنے
+بندرگاہ غازي موغاسا/فیماگوستا"
+505,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+506,بین الاقوامی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DB%8C%D9%86_%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C,بین الاقوامی(International) زیادہ تر کا مطلب کوئی کمپنی، زبان یا تنظیم جس میں ایک سے زیادہملکشامل ہوں۔ لفظ بین الاقوامی ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جس میں ایک سے زیادہ اقوام یا ممالک یا عام طور پر قومی حدود سے باہر کے کوئی دیگر ادارے یا تنظیمیں ملوث ہوں۔ مثال کے طور پربین الاقوامی قانونایک سے زیادہ ممالک بلکہ زمین پر ہر جگہ لاگو کیا جاتا ہے۔
+507,2018ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/2018%D8%A1,"نقص اظہار: «ء» کا غیر معروف تلفظ۔2018ء(MMXVIII)
+تھاعیسوی تقویمکاپير کو شروع ہونے والاایکعام سالہے جوعام زمانہ(عیسوی) اورقبل مسیح(ق م) کی تعین کاری کے مطابق 2018 واں سال،3 ہزاریہکا 18 واں سال ہے،21 صدیکا 18 واں سال اور2010ء کی دہائیکا 9 واں سال ہے۔"
+508,طاقت خرید,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D9%88%D8%AA_%D8%AE%D8%B1%DB%8C%D8%AF,طاقت خریدیا (قوت خرید) سے مراداجناس/خدمات کیتعدادہے جو کسی ایکائی پیسے سے خریدی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کی1960ءمیں ایک سو روپیہ سے کسی جنس کی مقدار خرید سکتے تھے، وہ آج کی تعداد سے کہیں زیادہ رہی ہو گی تو کہا جائے گا کہ1950ءمیں اس شخص کی طاقت خرید زیادہ تھی۔
+509,دیوار برلن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%B1_%D8%A8%D8%B1%D9%84%D9%86,دیوار برلن(جرمن زبان: Berliner Mauer) ایک رکاوٹی دیوار تھی جوعوامی جمہوریہ جرمنی(مشرقی جرمنی) نےمغربی برلنکے گرد تعمیر کی تھی، تاکہ اسے مشرقی جرمنی بشمولمشرقی برلنسے جدا کیا جا سکے۔ یہمشرقیومغربی جرمنیکے درمیان حد بندی بھی مقرر کرتی تھی۔ یہ دیوارمغربی یورپاورمشرقی اتحادکے درمیان 'آہنی پردہ' کی علامت تھی۔دیوار کی تعمیر سے قبل 35 لاکھ مشرقی جرمن باشندے مشرقی اتحادکی ہجرت پر پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مغربی جرمنی ہجرت کر گئے، جن کی بڑی اکثریت نے مشرقی سے مغربی برلن کی راہ اختیار کی۔1961ءسے1989ءتک اپنے وجود کے دوران دیوار نے اس طرح کی ہجرتوں کو روکے رکھا اور ربع صدی سے زائد عرصے تک مشرقی جرمنی کو مغربی جرمنی سے جدا کیے رکھا۔[1]دیوار کو عبور کرنے سے روکنے کے لیے اس پر کئی رکاوٹیں لگائی گئیں جس کے نتیجے میں دیوار عبور کرنے کی کوشش کرنے والے 5 ہزار افراد میں سے 98 سے 200 تک اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔مشرقی اتحاد میں انقلابی لہر کے دوران چند ہفتوں کی بے امنی کے بعد مشرقی جرمنی کی حکومت نے9 نومبر1989ءکو اعلان کیا کہ مشرقی جرمنی کے تمام شہری مغربی جرمنی اور مغربی برلن جا سکتے ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی مشرقی جرمنی کے باشندوں کی بڑی تعداد دیوار پھلانگ کر مغربی جرمنی جا پہنچی جہاں مغربی جرمنی کے باشندوں نے ان کا بھرپور خیرمقدم کیا۔ اگلے چند ہفتوں میں پرجوش عوام نے دیوار پر دھاوا بول دیا اور اس کے مختلف حصوں کو توڑ ڈالا؛ بعد ازاں صنعتی آلات کے ذریعے دیوار کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔دیوار برلن کے خاتمے نےجرمن اتحاد مکرر(German reunification) کی راہ ہموار کی جو بالآخر3 اکتوبر1990ءکو باضابطہ طور پر مکمل ہوا۔
+510,یونانی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%86%D8%A7%D9%86%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,"ی��نانی زبان(جدید یونانی:ελληνικά[eliniˈka]،elliniká, ""یونانی"",ελληνική γλώσσα[eliniˈci ˈɣlosa](سنیے)،ellinikí glóssa, ""یونانی زبان"")یونانکی زبان ہے، جو دنیا کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔ اس کا تعلقہند یورپی زبانوںسے ہے۔ یہ زبان سائنس اور مغربی ثقافت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئی۔ اس کے علاوہانگریزی زبانپر بھی اس کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔ چونکہ سائنسی علوم میںیونانی قوموںنے بہت اہم کردار ادا کیا ہے اس لیے آج کل کی جدیدطبمیں زیادہ تر یونانی الفاظ ہی مستعمل ہیں۔"
+511,قبرص,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5,"قبرص(انگریزی: Cyprus; تلفظ:/ˈsaɪprəs/(سنیے);یونانی:Κύπρος،نقحر:Kýprosیونانی تلفظ :[ˈcipros];ترکی زبان:Kıbrısترکی تلفظ:[ˈkɯbɾɯs])، رسمی طور پر جمہوریہ قبرص (یونانی:Κυπριακή Δημοκρατία،نقحر:Kypriakí Demokratía;ترکی زبان:Kıbrıs Cumhuriyeti) مشرقیبحیرہ رومکا ایک جزیرہ اور ملک ہے جواناطولیہ(ایشیائے کوچک) کے جنوب میں واقع ہے۔ جمہوریہ قبرص 6 اضلاع میں تقسیم ہے جبکہ ملک کا دار الحکومتنکوسیاہے۔ 1913ء میں برطانوی نو آبادیاتی بننے والا قبرص 1960ء میںبرطانیہسے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ 11 سال تک فسادات کے بعد 1964ء میںاقوام متحدہکی امن فوج تعینات کی گئی جس کے بعد جزیرے کایونانکے ساتھ الحاق کیا گیا جس پرترکینے 1974ء میں جزیرے پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں شمالی قبرص میں ترکوں کی حکومت قائم ہو گئی جسےترک جمہوریۂ شمالی قبرصکہا گیا۔ تاہم اسےاقوام متحدہتسلیم نہیں کرتی۔ شمالی قبرص اور قبرص ایک خط کے ذریعے منقسم ہیں جسے ""خط ِسبز"" کہا جاتا ہے۔ شمالی قبرص کو صرف ترکی کی حکومت تسلیم کرتی ہے۔ جمہوریہ قبرص یکم مئی 2004ء کویورپی یونینکا رکن بنا۔قبرص 395ء میںرومی سلطنتکی تقسیم کے بعدبازنطینی سلطنتکا حصہ بنا اورامیر معاویہکے دور میں اسے مسلمانوں نے فتح کر لیا۔تیسری صلیبی جنگکے دوران 1191ء میںانگلستانکےشاہرچرڈ اول(رچرڈ شیر دل) نے اسے فتح کر لیا اورمملکت قبرصکی بنیاد رکھی۔1489ء میںجمہوریہ وینسنے جزیرے کا کنٹرول سنبھال لیا جبکہ 1571ء میں لالہ مصطفی کی زیر قیادتعثمانیفوج نے جزيرہ فتح کر لیا۔قبرصبحیرہ رومکاساردینیااورصقلیہکے بعد تیسرا سب سے بڑا (بلحاظ علاقہ اور آبادی) جزیرہ ہے۔یہ 240 کلومیٹر (149 میل) طویل اور وسیع ترین مقام پر 100 کلومیٹر (62 میل) چوڑا ہے۔ترکیاس کےشمالمیں 75 کلومیٹر (47 میل) کے فاصلے پر ہے۔ دیگر ہمسایہ ممالکمشرقمیںشاماورلبنانہیں (بالترتیب 105 کلومیٹر (65 میل) اور 108 کلومیٹر (67 میل))،اسرائیلجنوب مشرقی میں 200 کلومیٹر (124 میل)،مصرجنوبمیں 380 کلومیٹر (236 میل)،جزیرہ روڈس400 کلومیٹر (249 میل) اوریونانسے 800 کلومیٹر (497 میل) کے فاصلے پر واقع ہیں۔جغرافیائی سیاسی طور پر جزیرے کو چار اہم حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے،جمہوریہ قبرصجزیرے کے دو تہائی جنوبی حصہ (59.74٪) پر واقع ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرصشمالی تہائی حصہ (34.85٪) پر واقع ہے۔ اوراقوام متحدہکے زیر ِنگرانی خطِ سبز جزیرے کو دو الگ حصوں میں تقسیم کرتی ہے اور ایک بفر زون بناتی ہے جو جزیرے کے کل رقبہ کا 2،67٪ کا احاطہ کرتا ہے۔ آخر میں برطانوی حاکمیت کے تحت دو فوجی اڈے جزیرے پر واقع ہیں:ایکروتیری و دیکیلیاباقی 2،74٪ پر واقع ہیں۔جامعہ قبرص(University of Cyprus)جامعہ طرزیات قبرص(Cyprus University of Technology)مفتوح جامعہ قبرص(Open University of Cyprus)جامعہ فریڈرک(Frederick University)جامعہ نیکوسیا(University of Nicosia)یورپی جامعہ قبرص(European University of Cyprus)جامعہ نیاپولس(Neapolis University)بین الاقوامی جامعہ قبرص(Cyprus International University)جمہوریہ قبرص کے چھ اضلاع ہیں- جن کے دارالحکومتوں کے نام مشترک ہیں-نیکوسیالیماسوللارناکاپافوسآئیا ناپاپولسسلامیسٹروڈوس سلسلہ کوہ"
+512,شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%B1,شہريک بڑی انسانی بستی کو کہتے ہیں۔ ایک بڑی آبادیوالیبستی جہاں عمارتیں، دکانیں اور سڑکیں وغیرہ بکثرت ہوں، جہاں کی صحت تعلیم اور تعمیرات وغیرہ کی انتظامیہ یا بلدیہ (میونسپل کارپوریشن) موجود ہو۔
+513,میساوریا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D8%B3%D8%A7%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%A7,"میساوریا(انگریزی: Mesaoria)
+(یونانی:Μεσαορία,ترکی زبان:Mesarya)جزیرہقبرصکے شمال وسطی حصے پر واقع ایک وسیع میدانی علاقہ ہے۔"
+514,پیدیوس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%DB%8C%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%B3,"پیدیوس(انگریزی: Pedieos)
+(دیگر نامPediaiosیاPediaeusیاPithkias;یونانی: Πεδιαίος/Πηθκιάς,ترکی:Kanlı Dere)قبرصکا طویل تریندریاہے۔ یہسلسلہ کوہ ٹروڈوسسے نکلتا ہے اور شامل مشرق میںمیساوریاسے بہتے ہوئےنکوسیاسے بھی گزرتا ہے۔ یہ قدیم قبرصی شہرسلامیسکے قریبخلیج فاماگوستامیں گرتا ہے۔نیکوسیا سے گزرتے ہوئے دریا کے کناروں کے 18 کلومیٹر حصے کو پیدل چلنے والوں کے لیے راستوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔[1]دریا پر دو بند بنائے گئے ہیں۔تاماسوسکے مقام پر بڑا بند بنایا گیا ہے جس کی تعمیر2002ءمیں ہوئی۔[2]"
+515,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+516,یورپی یونین کی رکن ریاست,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE%DB%8C_%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%86_%DA%A9%DB%8C_%D8%B1%DA%A9%D9%86_%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA,یورپی یونین28 رکن ریاستوں پر مشتمل ہے۔علاقائی اکائیاں تسمیہ برائے شماریات
+517,دسویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%B3%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<نویں صدی <<<دسویں صدی>>> گیارہویں صدی>>>
+518,قبرص,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5,"قبرص(انگریزی: Cyprus; تلفظ:/ˈsaɪprəs/(سنیے);یونانی:Κύπρος،نقحر:Kýprosیونانی تلفظ :[ˈcipros];ترکی زبان:Kıbrısترکی تلفظ:[ˈkɯbɾɯs])، رسمی طور پر جمہوریہ قبرص (یونانی:Κυπριακή Δημοκρατία،نقحر:Kypriakí Demokratía;ترکی زبان:Kıbrıs Cumhuriyeti) مشرقیبحیرہ رومکا ایک جزیرہ اور ملک ہے جواناطولیہ(ایشیائے کوچک) کے جنوب میں واقع ہے۔ جمہوریہ قبرص 6 اضلاع میں تقسیم ہے جبکہ ملک کا دار الحکومتنکوسیاہے۔ 1913ء میں برطانوی نو آبادیاتی بننے والا قبرص 1960ء میںبرطانیہسے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ 11 سال تک فسادات کے بعد 1964ء میںاقوام متحدہکی امن فوج تعینات کی گئی جس کے بعد جزیرے کایونانکے ساتھ الحاق کیا گیا جس پرترکینے 1974ء میں جزیرے پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں شمالی قبرص میں ترکوں کی حکومت قائم ہو گئی جسےترک جمہوریۂ شمالی قبرصکہا گیا۔ تاہم اسےاقوام متحدہتسلیم نہیں کرتی۔ شمالی قبرص اور قبرص ایک خط کے ذریعے منقسم ہیں جسے ""خط ِسبز"" کہا جاتا ہے۔ شمالی قبرص کو صرف ترکی کی حکومت تسلیم کرتی ہے۔ جمہوریہ قبرص یکم مئی 2004ء کویورپی یونینکا رکن بنا۔قبرص 395ء میںرومی سلطنتکی تقسیم کے بعدبازنطینی سلطنتکا حصہ بنا اورامیر معاویہکے دور میں اسے مسلمانوں نے فتح کر لیا۔تیسری صلیبی جنگکے دوران 1191ء میںانگلستانکےشاہرچرڈ اول(رچرڈ شیر دل) نے اسے فتح کر لیا اورمملکت قبرصکی بنیاد رکھی۔1489ء میںجمہوریہ وینسنے جزیرے کا کنٹرول سنبھال لیا جبکہ 1571ء میں لالہ مصطفی کی زیر قیادتعثمانیفوج نے جزيرہ فتح کر لیا۔قبرصبحیرہ رومکاساردینیااورصقلیہکے بعد تیسرا سب سے بڑا (بلحاظ علاقہ اور آبادی) جزیرہ ہے۔یہ 240 کلومیٹر (149 میل) طویل اور وسیع ترین مقام پر 100 کلومیٹر (62 میل) چوڑا ہے۔ترکیاس کےشمالمیں 75 کلومیٹر (47 میل) کے فاصلے پر ہے۔ دیگر ہمسایہ ممالکمشرقمیںشاماورلبنانہیں (بالترتیب 105 کلومیٹر (65 میل) اور 108 کلومیٹر (67 میل))،اسرائیلجنوب مشرقی میں 200 کلومیٹر (124 میل)،مصرجنوبمیں 380 کلومیٹر (236 میل)،جزیرہ روڈس400 کلومیٹر (249 میل) اوریونانسے 800 کلومیٹر (497 میل) کے فاصلے پر واقع ہیں۔جغرافیائی سیاسی طور پر جزیرے کو چار اہم حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے،جمہوریہ قبرصجزیرے کے دو تہائی جنوبی حصہ (59.74٪) پر واقع ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرصشمالی تہائی حصہ (34.85٪) پر واقع ہے۔ اوراقوام متحدہکے زیر ِنگرانی خطِ سبز جزیرے کو دو الگ حصوں میں تقسیم کرتی ہے اور ایک بفر زون بناتی ہے جو جزیرے کے کل رقبہ کا 2،67٪ کا احاطہ کرتا ہے۔ آخر میں برطانوی حاکمیت کے تحت دو فوجی اڈے جزیرے پر واقع ہیں:ایکروتیری و دیکیلیاباقی 2،74٪ پر واقع ہیں۔جامعہ قبرص(University of Cyprus)جامعہ طرزیات قبرص(Cyprus University of Technology)مفتوح جامعہ قبرص(Open University of Cyprus)جامعہ فریڈرک(Frederick University)جامعہ نیکوسیا(University of Nicosia)یورپی جامعہ قبرص(European University of Cyprus)جامعہ نیاپولس(Neapolis University)بین الاقوامی جامعہ قبرص(Cyprus International University)جمہوریہ قبرص کے چھ اضلاع ہیں- جن کے دارالحکومتوں کے نام مشترک ہیں-نیکوسیالیماسوللارناکاپافوسآئیا ناپاپولسسلامیسٹروڈوس سلسلہ کوہ"
+519,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+520,قبرص بحران (1955–64ء),https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5_%D8%A8%D8%AD%D8%B1%D8%A7%D9%86_(1955%E2%80%9364%D8%A1),یونانی ��برصی فوجی اور سیاسی فتح[1][2][3][4][5]56 ہلاک (جون–اگست 1958)[9]174 ہلاک (1963–64)[10]53 ہلاک (جون–اگست 1958)[9]364 ہلاک (1963–64)[10]قبرص بحران(انگریزی: Cyprus crisis)قبرصمیں سیاسی اور پرتشدد تنازع کا دور تھا جسےقبرصی تنازع(انگریزی: Cyprus dispute) اورایوکا دور(انگریزی: EOKA period)[11]کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ1955ءسے1964ءتک یونانی اور ترکی قبرصیوں کے درمیان میں تھا۔
+521,ترک قبرصی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%B1%DA%A9_%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5%DB%8C,ترک قبرصی(انگریزی: Turkish Cypriots) (ترکی زبان:Kıbrıs TürkleriیاKıbrıslı Türkler;یونانی:Τουρκοκύπριοι)قبرصکی نسلیترکآبادی ہے۔
+522,یونانی قبرصی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%86%D8%A7%D9%86%DB%8C_%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5%DB%8C,"یونانی قبرصی(انگریزی: Greek Cypriots) (یونانی:Ελληνοκύπριοι,ترکی زبان:Kıbrıs Rumları یا Kıbrıs Yunanları)قبرصکی نسلییونانیآبادی ہے۔[1][2][3][4]"
+523,1974ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1974%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+524,قبرص میں اقوام متحدہ بفر زون,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85_%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%AF%DB%81_%D8%A8%D9%81%D8%B1_%D8%B2%D9%88%D9%86,قبرص میں اقوام متحدہ بفر زون(انگریزی: United Nations Buffer Zone in Cyprus)ترک جمہوریہ شمالی قبرصاورجمہوریہ قبرصکے درمیان قبرص میںاقوام متحدہکی سلامتی فورس کے زیر انتطام ایکخط اخضرہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص اور جمہوریہ قبرص کے بیچ تنازع کے حل کی کئی کوششیں کی جا چکی ہیں۔ ان کوششوں میں بفر زون میں ملاقاتیں بھی شامل ہیں، جیسے کہ شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کے صدرمصطفیٰ عاکنجیاور قبرصی یونانی انتظامیہ کے سربراہنیکوس اناستاسیاادیسکا اس مسئلہ قبرص کے حل کے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی بفر زون میںستمبر2018ءمیں ملاقات کرنا اور مذاکرات کا ایک سنجیدہ دور رکھنا۔[1]
+525,قبرص,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81_%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5,"قبرص(انگریزی: Cyprus; تلفظ:/ˈsaɪprəs/(سنیے);یونانی:Κύπρος،نقحر:Kýprosیونانی تلفظ :[ˈcipros];ترکی زبان:Kıbrısترکی تلفظ:[ˈkɯbɾɯs])، رسمی طور پر جمہوریہ قبرص (یونانی:Κυπριακή Δημοκρατία،نقحر:Kypriakí Demokratía;ترکی زبان:Kıbrıs Cumhuriyeti) مشرقیبحیرہ رومکا ایک جزیرہ اور ملک ہے جواناطولیہ(ایشیائے کوچک) کے جنوب میں واقع ہے۔ جمہوریہ قبرص 6 اضلاع میں تقسیم ہے جبکہ ملک کا دار الحکومتنکوسیاہے۔ 1913ء میں برطانوی نو آبادیاتی بننے والا قبرص 1960ء میںبرطانیہسے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ 11 سال تک فسادات کے بعد 1964ء میںاقوام متحدہکی امن فوج تعینات کی گئی جس کے بعد جزیرے کایونانکے ساتھ الحاق کیا گیا جس پرترکینے 1974ء میں جزیرے پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں شمالی قبرص میں ترکوں کی حکومت قائم ہو گئی جسےترک جمہوریۂ شمالی قبرصکہا گیا۔ تاہم اسےاقوام متحدہتسلیم نہیں کرتی۔ شمالی قبرص اور قبرص ایک خط کے ذریعے منقسم ہیں جسے ""خط ِسبز"" کہا جاتا ہے۔ شمالی قبرص کو صرف ترکی کی حکومت تسلیم کرتی ہے۔ جمہوریہ قبرص یکم مئی 2004ء کویورپی یونینکا رکن بنا۔قبرص 395ء میںرومی سلطنتکی تقسیم کے بعدبازنطینی سلطنتکا حصہ بنا اورامیر معاویہکے دور میں اسے مسلمانوں نے فتح کر لیا۔تیسری صلیبی جنگکے دوران 1191ء میںانگلستانکےشاہرچرڈ اول(رچرڈ شیر دل) نے اسے فتح کر لیا اورمملکت قبرصکی بنیاد رکھی۔1489ء میںجمہوریہ وینسنے جزیرے کا کنٹرول سنبھال لیا جبکہ 1571ء میں لالہ مصطفی کی زیر قیادتعثمانیفوج نے جزيرہ فتح کر لیا۔قبرصبحیرہ رومکاساردینیااورصقلیہکے بعد تیسرا سب سے بڑا (بلحاظ علاقہ اور آبادی) جزیرہ ہے۔یہ 240 کلومیٹر (149 میل) طویل اور و��یع ترین مقام پر 100 کلومیٹر (62 میل) چوڑا ہے۔ترکیاس کےشمالمیں 75 کلومیٹر (47 میل) کے فاصلے پر ہے۔ دیگر ہمسایہ ممالکمشرقمیںشاماورلبنانہیں (بالترتیب 105 کلومیٹر (65 میل) اور 108 کلومیٹر (67 میل))،اسرائیلجنوب مشرقی میں 200 کلومیٹر (124 میل)،مصرجنوبمیں 380 کلومیٹر (236 میل)،جزیرہ روڈس400 کلومیٹر (249 میل) اوریونانسے 800 کلومیٹر (497 میل) کے فاصلے پر واقع ہیں۔جغرافیائی سیاسی طور پر جزیرے کو چار اہم حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے،جمہوریہ قبرصجزیرے کے دو تہائی جنوبی حصہ (59.74٪) پر واقع ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرصشمالی تہائی حصہ (34.85٪) پر واقع ہے۔ اوراقوام متحدہکے زیر ِنگرانی خطِ سبز جزیرے کو دو الگ حصوں میں تقسیم کرتی ہے اور ایک بفر زون بناتی ہے جو جزیرے کے کل رقبہ کا 2،67٪ کا احاطہ کرتا ہے۔ آخر میں برطانوی حاکمیت کے تحت دو فوجی اڈے جزیرے پر واقع ہیں:ایکروتیری و دیکیلیاباقی 2،74٪ پر واقع ہیں۔جامعہ قبرص(University of Cyprus)جامعہ طرزیات قبرص(Cyprus University of Technology)مفتوح جامعہ قبرص(Open University of Cyprus)جامعہ فریڈرک(Frederick University)جامعہ نیکوسیا(University of Nicosia)یورپی جامعہ قبرص(European University of Cyprus)جامعہ نیاپولس(Neapolis University)بین الاقوامی جامعہ قبرص(Cyprus International University)جمہوریہ قبرص کے چھ اضلاع ہیں- جن کے دارالحکومتوں کے نام مشترک ہیں-نیکوسیالیماسوللارناکاپافوسآئیا ناپاپولسسلامیسٹروڈوس سلسلہ کوہ"
+526,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+527,شمالی قبرص,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C_%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5,"ترک جمہوریہ شمالی قبرص(ترکی زبان: Kuzey Kıbrıs Türk Cumhuriyeti, KKTC،انگریزی: Turkish Republic of Northern Cyprus)قبرصکے شمالی علاقوں میں واقع ایک ریاست ہے جسے صرفترکیہتسلیم کرتا ہے۔اقوام متحدہپورے جزیرہ قبرص پرجمہوریہ قبرصکا اختیار تسلیم کرتا ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص یونانی قبرصی قبضے کے نو سال بعد1983ءمیں قائم ہوئی۔ تھوڑے عرصے تک رہنے والا یہ قبضہ یونانی فوجی دستوں کی حمایت سے ای او کے اے-بی کے حامیوں نے کیا تھا جو1967ءسے1974ءتک قائم رہا۔ بعد ازاں قبرص میں ترکی کی فوجی مداخلت کے باعث یہ ریاست تشکیل پائی۔ اس وقت سے آج تک علاقے میں ترکی کی افواج کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے قیام سے قبل یہ علاقہ ""ترک وفاقی ریاست شمالی قبرص"" کہلاتی تھی۔ریاست کی آبادی 265،000 ہے اور یہ 3،355 مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی تقریباً تمام آبادی ترکی زبان بولنے والے نسلاً ترک باشندوں پر مشتمل ہے۔ علاقے کی آبادی تین برادریوں میں منقسم ہے، ایک اصلی ترک قبرصی، دوسرے وہ ترک باشندے جن کے شادیوں کے ذریعے یہاں کے قبرصیوں سے تعلقات بنے اور تیسرےاناطولیہسے ہجرت کر کے آنے والے ترک باشندے، علاوہ ازیں کچھکردآبادی بھی یہاں موجود ہے۔ 33 ہزار ماہر فوجیوں کی صورت میں یہاں ترکوں کی بڑی آبادی ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص میںنکوسیاشہر کا شمالی حصہ بھی شامل ہے جودارالحکومتہے۔1963ءکے بعد یہاں کی کثیر آبادی ہجرت کر گئی۔ اکثریت نےبرطانیہکا رخ کیا جبکہ بڑی تعداد نے ترکی میں بھی رہائش اختیار کی۔ اس ہجرت کی وجہ عالمی سطح پر تسلیم نہ کی جانے کے باعث ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی خراب اقتصادی صورت حال تھی۔ ریاست کو دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص اور جمہوریہ قبرص کے درمیان کا علاقہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہے۔جمہوریہ قبرص کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب یہاں کی آبادی کے اصرار کے باوجود برطانیہ نے قبرص کے یونان کے ساتھ الحاق کو منظور نہ کیا اور اس کی بجائے مکمل خود مختاری دینے کی پیشکش کی اور اس طرح یہ جزیرہ برطانیہ سے آزاد ہو گیا۔ جزیرے پر رہنے والی قبرصی اور ترک دونوں برادریوں کو نئی جمہوریہ کو چلانے کے لیے بلایا گیا۔ کیونکہ جمہوریہ قبرص کے آئین کے مطابق کوئی ترک قبرصی صدر اور کوئی یونانی قبرصی نائب صدر نہیں بن سکتا اس لیے سیاسی تجزیہ نگاروں نے ابتدا ہی میں ان خدشات کا اظہار کیا کہ جمہوریہ قبرص میں کوئی مسئلہ پیدا ہونے والا ہے۔ دونوں اقوام کو حکومتی ایوانوں اور سرکاری ملازمتوں میں مخصوص تعداد میں نمائندگی دی گئی۔ آئین کے مطابق ایوان نمائندگان میں 70 فیصد یونانی قبرصی اور 30 فیصد ترک قبرصی ہوں گے۔ دیگر معاملات میں بھی اسی طرح تناسب مقرر کیا گیا جیسے افواج اور سرکاری ملازمتوں میں یہ تناسب بالترتیب 60 اور 40 تھا۔1960ءکے معاہدہ ضمانت کے تحت یونان، ترکی اور برطانیہ جمہوریہ کی ضامن قوتیں تھیں۔دسمبر1963ءمیں قبرص کی حکومت کا اس وقت خاتمہ ہو گیا جب ترک قبرصیوں نے اس میں شرکت سے دستبرداری اختیار کرلی۔ کسی بھی متفقہ فیصلے تک پہنچنے کے لیے دونوں برادریوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث تین سال کے لیے قانونی معاملات رکے رہے۔ اس تنازع کو مزید ہوا اس وقت ملی جب جمہوریہ قبرص کے آئین میں ترمیم کی 13 تجاویز دی گئی۔ ترک قبرصیوں نے ان کی شدید مخالفت کی اور انھوں نے ریاست کے شریک بانی کی بجائے خود کو اقلیت قرار دیا۔ انھوں نے ترامیم کو یونان کے ساتھ الحاق کی جانب اہم قدم قرار دیا۔21 دسمبر1963ءکو ترک قبرصیوں اور وزارت داخلہ کے سادہ اہلکاروں میں ملبوس اہلکاروں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں دو ترک قبرصی اور ایک یونانی قبرصی پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں اقوام کے درمیان جنگی صورت پیدا ہو گئی اور یونانی قبرصیوں نے یونان کی شہ پر ترک قبرصیوں کے خلاف ""جدوجہد"" کا آغاز کر دیا۔ان فسادات میں 191 ترک اور 133 یونانی قبرصی مارے گئے جبکہ 209 ترک اور 41 یونانی لاپتہ ہوئے۔ ترک قبرصیوں کے علاقوں کو مکمل طور پر لوٹ لیا گیا اور وہ اپنی ہی سرزمین پر مہاجرین کی صورت میں خیموں میں رہنے پر مجبورہو گئے۔ اگلے 11 سال تک ان کی زندگی کا انحصار اس غذا اور دواؤں پر ہوتا تھا جو ترکی کی جانب سے آتی تھیں۔1972ءسے1974ءتک قبرص میں اقوام متحدہ کی افواج کے چیف آف اسٹاف بریگیڈیئرفرانسس ہینکے مطابق “ترک قبرصیوں کو مکمل طور پر محصور کر دیا گیا اور یونانی قبرصیوں پر مشتمل انتظامیہ نے ان کی برادری کے 56 ہزار اراکین کا بھرپور استحصال کیا اور انھیں بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم کر دیا۔""15 جولائی1974ءکو یونان کی فوجی دستوں کی شہ پر قبرص میں ایک اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ صدرمیکاریوسکو عہدے سے معزول قرار دے کر ان کی جگہ ای او کے اے کے جنگجو اور رکن پارلیماننکولس سیمپسنکو نیا صدر بنا دیا گیا۔ ترکی نے اسے1960ءکے معاہدہ ضمانت کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کو جائز قرار دیا اور یوں20 جولائی1974ءکو قبرص پر حملہ کر دیا۔ قبرص میں ترک آبادی کو بچانے کے لیے ترکی کا یہ اقدام بہت ضروری تھا۔ ترک افواج نے جزیرے کے 37 فیصد حصے پر قبضہ کر لیااور یوں یونانی قبرصیوں کی بڑی آبادی کو بھی اپنے گھروں سے محروم ہونا پڑا۔ ایک لاکھ 95 ہزار یونانی قبرصی جزیرے کے جنوبی جانب جبکہ 50 ہزار ترک قبرصی جزیرے کی شمالی جانب ہجرت کر گئے۔ جنگی صورت حال کے خاتمے تک ہزاروں ترک اور یونانی قبرصیوں لاپتہ ہو گئے۔1975ءمیں ترک وفاقی ریاست شمالی قبرص کا قیام جزیرہ قبرص پر ترک قبرصیوں کی ریاست کی حیثیت سے عالمی سطح پر شناخت حاصل کرنے کے لیے پہلا قدم تھا۔ جسے جمہوریہ قبرص، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہ کیا۔ یونانی قبرصی قیادت کے ساتھ آٹھ سال کے ناکام مذاکرات کے بعد شمالی قبرص نے15 نومبر1983ءکو اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور یوں ترک جمہوریہ شمالی قبرص معرض وجود میں آیا۔ تاہم آج تک ترکی کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک اسے تسلیم نہیں کرتا۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے انتخابی نظام کے مطابق پانچ سال کے لیے صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ قانون ساز ادارہ “مجلس جمہوریہ“ (ترکی زبان: جمہور��ت مجلسی) ہے جس کے اراکین پانچ انتخابی حلقہ جات کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔فروری2005ءکے انتخابات میں تصفیہ امن اور قبرص کے اتحاد کی حامی جماعتریپلکن ترکش پارٹیسب سے بڑی پارلیمانی جماعت کی صورت میں سامنے آئی تاہم اسے واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی معیشت کا اہم حصہ ملازمت، تجارت، سیاحت اور تعلیم ہے جبکہزراعتاور ساخت گری کی چھوٹی معیشت بھی موجود ہے۔ معیشت آزاد-مارکیٹ کی بنیاد پر کام کرتی ہے لیکن نجی و حکومتی سرمایہ کاری کی کمی، کثیر محصول اور ماہر کاریگروں کی کمی کے باعث اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے باوجود ترک قبرصی معیشت نے2003ءاور2004ءمیں متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس میںشرح نموبالترتیب 9.6 اور 11.4 فیصد رہی۔ شرح نمو میں اس تیزی کی وجہترک لیرامیں استحکام اور تعلیم اور تعمیرات کے شعبہ جات میں ہونے والا تیزی تھی۔جنوریسےاگست2003ءکے درمیان ترک جمہوریہ شمالی قبرص آنے والے سیاحوں کی تعداد 286،901 تھی۔دوسری جانب فی کس آمدنی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو2002ءمیں 4،409امریکی ڈالرکے مقابلے میں2005ءمیں 10،248 امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔بین الاقوامی برادری، سوائے ترکی کے، ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی بلکہ پورے جزیرے پر جمہوریہ قبرص کا اقتدار مانتی ہے۔ اقوام متحدہ اپنی متعدد قراردادوں میں ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔اسلامی کانفرنس کی تنظیمنے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو رائے دہندہ ریاست کی حیثیت دی ہے اور وہ تنظیم میں مبصر کی حیثیت سے شامل ہے۔پاکستان،قطراورگیمبیاسمیت دیگر کئی اقوام بھی ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو تسلیم کرنے کے لیے مثبت خیالات کا اظہار کر چکی ہیں۔اقوام متحدہ کےعنان منصوبہپراپریل2004ءمیں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حوالے سے عالمی برادری کے رویے میں کچھ بہتری آئی ہے۔قبرص کےیورپی اتحادکا حصہ بننے کے بعد یورپی اتحاد ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو ایسے علاقے کو متنازع علاقے کے طور پر تسلیم کرتا ہے جس کا مسئلہ حل کیا جانا باقی ہے۔ اوریورپی پارلیمانمیں قبرص کے لیے مختص کی گئي نشستیں بھی پورے جزیرے کے حوالے سے دی گئی ہیں۔ اس اعتبار سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے باشندے یورپی اتحاد کا حصہ قرار پائے لیکن اس کے باوجود 2004ء میں ہونے والے انتخابات میں انھوں نے اپنا حق رائے دہی بہت کم استعمال کیا۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں 18 سے سے 40 سال کی عمر تک کے 2 ہزار ترک قبرصی مردوں پر مشتمل ایک دفاعی فوج موجود ہے۔ یہ فوج 40 ہزار ترک بری فوج کے اراکین کی مدد کرتی ہے جس کی 11 ویں کور دو ڈویژن کے ہمراہ جزیرے پر موجود ہے۔متنازع علاقہ ہونے کی حیثيت سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں ترک افواج کی موجودگی کو مختلف افراد مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ یونانی قبرصی اسے ایک غاصب و قابض فوج سمجھتے ہیں جبکہ ترک قبرصی اسے اپنے نجات دہندہ اور محافظ گردانتے ہیں۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص ترکی کی عسکری و اقتصادی حمایت پر بہت زيادہ انحصار کرتا ہے۔ وہنئے ترک لیراکو اپنی کرنسی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی تمام برآمدات و درآمدات ترکی کے ذریعے ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی ٹیلی فون بات چیت بھی ترکی کے ڈائلنگ کوڈ کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ ویب پر ترک جمہوریہ شمالی قبرص ترک کا دوسری سطح کا ڈومین .nc.tr استعمال کرتا ہے اور بین الاقوامی پوسٹل یونین کی جانب سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو الگ علاقہ تسلیم کیے جانے سے انکار کے باعث خطوط بھی بذریعہمرسین، ترکی بھیجے جانے چاہئیں۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص سے براہ راست پروازیں بھی جمہوریہ قبرص کی جانب سے منع ہیں۔ گچیت کالے اور ارجان کے ہوائی اڈے بھی صرف ترکی اور آذربائیجان کے لیے کھلے ہیں۔ 1974ء سے جمہوریہ قبرص نے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی تمام بندرگاہوں کو بند قرار دے رکھا ہے۔ لیکن ترکی اعلان کی مخالفت کرتا ہے اور ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں مندرج تمام بحری جہازترکیکی تمام بحری بندرگاہوں تک مفت رسائی رکھتے ہیں۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حقیقی باشندے یا وہ افراد جن کے پاسپورٹ پر ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی مہر لگی ہو ممکنہ طور پر جمہوریہ قبرص یا یونان کے سفر سے محروم ہو جاتے تھے لیکن یورپی اتحاد میں جمہوریہ قبرص کی شمولیت کے بعد ان پابندیوں میں کچھ نرمی آ گئی ہے اور اس حوالے سےایتھنزاور انقرہ کے مابین برف بھی پگھلی ہے اور جب سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص نے پاسپورٹ داخلے کی مہر ثبت کرنا چھوڑی ہے تب سے جمہوریہ قبرص نکوسیا میں گرین لائن کے پار جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔ارجان ہوائی اڈا (نکوسیا –مرکزی ہوائی اڈا)
+گاچیت کالے ہوائی اڈا (غازی مغوسا/فیماگوستا)
+الکر کارتر ہوائی اڈا (گرنے/کائیرینیا)
+پنارباشی ہوائی اڈا (گرنے/کائیرینیا)
+ٹوپل ہوائی اڈا (گوزیل یورد/مورفو)
+بندرگاہ گرنے
+بندرگاہ غازي موغاسا/فیماگوستا"
+528,شمالی قبرص,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%B1%DA%A9_%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81_%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C_%D9%82%D8%A8%D8%B1%D8%B5,"ترک جمہوریہ شمالی قبرص(ترکی زبان: Kuzey Kıbrıs Türk Cumhuriyeti, KKTC،انگریزی: Turkish Republic of Northern Cyprus)قبرصکے شمالی علاقوں میں واقع ایک ریاست ہے جسے صرفترکیہتسلیم کرتا ہے۔اقوام متحدہپورے جزیرہ قبرص پرجمہوریہ قبرصکا اختیار تسلیم کرتا ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص یونانی قبرصی قبضے کے نو سال بعد1983ءمیں قائم ہوئی۔ تھوڑے عرصے تک رہنے والا یہ قبضہ یونانی فوجی دستوں کی حمایت سے ای او کے اے-بی کے حامیوں نے کیا تھا جو1967ءسے1974ءتک قائم رہا۔ بعد ازاں قبرص میں ترکی کی فوجی مداخلت کے باعث یہ ریاست تشکیل پائی۔ اس وقت سے آج تک علاقے میں ترکی کی افواج کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے قیام سے قبل یہ علاقہ ""ترک وفاقی ریاست شمالی قبرص"" کہلاتی تھی۔ریاست کی آبادی 265،000 ہے اور یہ 3،355 مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی تقریباً تمام آبادی ترکی زبان بولنے والے نسلاً ترک باشندوں پر مشتمل ہے۔ علاقے کی آبادی تین برادریوں میں منقسم ہے، ایک اصلی ترک قبرصی، دوسرے وہ ترک باشندے جن کے شادیوں کے ذریعے یہاں کے قبرصیوں سے تعلقات بنے اور تیسرےاناطولیہسے ہجرت کر کے آنے والے ترک باشندے، علاوہ ازیں کچھکردآبادی بھی یہاں موجود ہے۔ 33 ہزار ماہر فوجیوں کی صورت میں یہاں ترکوں کی بڑی آبادی ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص میںنکوسیاشہر کا شمالی حصہ بھی شامل ہے جودارالحکومتہے۔1963ءکے بعد یہاں کی کثیر آبادی ہجرت کر گئی۔ اکثریت نےبرطانیہکا رخ کیا جبکہ بڑی تعداد نے ترکی میں بھی رہائش اختیار کی۔ اس ہجرت کی وجہ عالمی سطح پر تسلیم نہ کی جانے کے باعث ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی خراب اقتصادی صورت حال تھی۔ ریاست کو دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص اور جمہوریہ قبرص کے درمیان کا علاقہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہے۔جمہوریہ قبرص کا قیام اس وقت ع��ل میں آیا جب یہاں کی آبادی کے اصرار کے باوجود برطانیہ نے قبرص کے یونان کے ساتھ الحاق کو منظور نہ کیا اور اس کی بجائے مکمل خود مختاری دینے کی پیشکش کی اور اس طرح یہ جزیرہ برطانیہ سے آزاد ہو گیا۔ جزیرے پر رہنے والی قبرصی اور ترک دونوں برادریوں کو نئی جمہوریہ کو چلانے کے لیے بلایا گیا۔ کیونکہ جمہوریہ قبرص کے آئین کے مطابق کوئی ترک قبرصی صدر اور کوئی یونانی قبرصی نائب صدر نہیں بن سکتا اس لیے سیاسی تجزیہ نگاروں نے ابتدا ہی میں ان خدشات کا اظہار کیا کہ جمہوریہ قبرص میں کوئی مسئلہ پیدا ہونے والا ہے۔ دونوں اقوام کو حکومتی ایوانوں اور سرکاری ملازمتوں میں مخصوص تعداد میں نمائندگی دی گئی۔ آئین کے مطابق ایوان نمائندگان میں 70 فیصد یونانی قبرصی اور 30 فیصد ترک قبرصی ہوں گے۔ دیگر معاملات میں بھی اسی طرح تناسب مقرر کیا گیا جیسے افواج اور سرکاری ملازمتوں میں یہ تناسب بالترتیب 60 اور 40 تھا۔1960ءکے معاہدہ ضمانت کے تحت یونان، ترکی اور برطانیہ جمہوریہ کی ضامن قوتیں تھیں۔دسمبر1963ءمیں قبرص کی حکومت کا اس وقت خاتمہ ہو گیا جب ترک قبرصیوں نے اس میں شرکت سے دستبرداری اختیار کرلی۔ کسی بھی متفقہ فیصلے تک پہنچنے کے لیے دونوں برادریوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث تین سال کے لیے قانونی معاملات رکے رہے۔ اس تنازع کو مزید ہوا اس وقت ملی جب جمہوریہ قبرص کے آئین میں ترمیم کی 13 تجاویز دی گئی۔ ترک قبرصیوں نے ان کی شدید مخالفت کی اور انھوں نے ریاست کے شریک بانی کی بجائے خود کو اقلیت قرار دیا۔ انھوں نے ترامیم کو یونان کے ساتھ الحاق کی جانب اہم قدم قرار دیا۔21 دسمبر1963ءکو ترک قبرصیوں اور وزارت داخلہ کے سادہ اہلکاروں میں ملبوس اہلکاروں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں دو ترک قبرصی اور ایک یونانی قبرصی پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں اقوام کے درمیان جنگی صورت پیدا ہو گئی اور یونانی قبرصیوں نے یونان کی شہ پر ترک قبرصیوں کے خلاف ""جدوجہد"" کا آغاز کر دیا۔ان فسادات میں 191 ترک اور 133 یونانی قبرصی مارے گئے جبکہ 209 ترک اور 41 یونانی لاپتہ ہوئے۔ ترک قبرصیوں کے علاقوں کو مکمل طور پر لوٹ لیا گیا اور وہ اپنی ہی سرزمین پر مہاجرین کی صورت میں خیموں میں رہنے پر مجبورہو گئے۔ اگلے 11 سال تک ان کی زندگی کا انحصار اس غذا اور دواؤں پر ہوتا تھا جو ترکی کی جانب سے آتی تھیں۔1972ءسے1974ءتک قبرص میں اقوام متحدہ کی افواج کے چیف آف اسٹاف بریگیڈیئرفرانسس ہینکے مطابق “ترک قبرصیوں کو مکمل طور پر محصور کر دیا گیا اور یونانی قبرصیوں پر مشتمل انتظامیہ نے ان کی برادری کے 56 ہزار اراکین کا بھرپور استحصال کیا اور انھیں بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم کر دیا۔""15 جولائی1974ءکو یونان کی فوجی دستوں کی شہ پر قبرص میں ایک اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ صدرمیکاریوسکو عہدے سے معزول قرار دے کر ان کی جگہ ای او کے اے کے جنگجو اور رکن پارلیماننکولس سیمپسنکو نیا صدر بنا دیا گیا۔ ترکی نے اسے1960ءکے معاہدہ ضمانت کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کو جائز قرار دیا اور یوں20 جولائی1974ءکو قبرص پر حملہ کر دیا۔ قبرص میں ترک آبادی کو بچانے کے لیے ترکی کا یہ اقدام بہت ضروری تھا۔ ترک افواج نے جزیرے کے 37 فیصد حصے پر قبضہ کر لیااور یوں یونانی قبرصیوں کی بڑی آبادی کو بھی اپنے گھروں سے محروم ہونا پڑا۔ ایک لاکھ 95 ہزار یونانی قبرصی جزیرے کے جنوبی جانب جبکہ 50 ہزار ترک قبرصی جزیرے کی شمالی جانب ہجرت کر گئے۔ جنگی صورت حال کے خاتمے تک ہزاروں ترک اور یونانی قبرصیوں لاپتہ ہو گئے۔1975ءمیں ترک وفاقی ریاست شمالی قبرص کا قیام جزیرہ قبرص پر ترک قبرصیوں کی ریاست کی حیثیت سے عالمی سطح پر شناخت حاصل کرنے کے لیے پہلا قدم تھا۔ جسے جمہوریہ قبرص، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہ کیا۔ یونانی قبرصی قیادت کے ساتھ آٹھ سال کے ناکام مذاکرات کے بعد شمالی قبرص نے15 نومبر1983ءکو اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور یوں ترک جمہوریہ شمالی قبرص معرض وجود میں آیا۔ تاہم آج تک ترکی کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک اسے تسلیم نہیں کرتا۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے انتخابی نظام کے مطابق پانچ سال کے لیے صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ قانون ساز ادارہ “مجلس جمہوریہ“ (ترکی زبان: جمہوریت مجلسی) ہے جس کے اراکین پانچ انتخابی حلقہ جات کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔فروری2005ءکے انتخابات میں تصفیہ امن اور قبرص کے اتحاد کی حامی جماعتریپلکن ترکش پارٹیسب سے بڑی پارلیمانی جماعت کی صورت میں سامنے آئی تاہم اسے واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی معیشت کا اہم حصہ ملازمت، تجارت، سیاحت اور تعلیم ہے جبکہزراعتاور ساخت گری کی چھوٹی معیشت بھی موجود ہے۔ معیشت آزاد-مارکیٹ کی بنیاد پر کام کرتی ہے لیکن نجی و حکومتی سرمایہ کاری کی کمی، کثیر محصول اور ماہر کاریگروں کی کمی کے باعث اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے باوجود ترک قبرصی معیشت نے2003ءاور2004ءمیں متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس میںشرح نموبالترتیب 9.6 اور 11.4 فیصد رہی۔ شرح نمو میں اس تیزی کی وجہترک لیرامیں استحکام اور تعلیم اور تعمیرات کے شعبہ جات میں ہونے والا تیزی تھی۔جنوریسےاگست2003ءکے درمیان ترک جمہوریہ شمالی قبرص آنے والے سیاحوں کی تعداد 286،901 تھی۔دوسری جانب فی کس آمدنی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو2002ءمیں 4،409امریکی ڈالرکے مقابلے میں2005ءمیں 10،248 امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔بین الاقوامی برادری، سوائے ترکی کے، ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی بلکہ پورے جزیرے پر جمہوریہ قبرص کا اقتدار مانتی ہے۔ اقوام متحدہ اپنی متعدد قراردادوں میں ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔اسلامی کانفرنس کی تنظیمنے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو رائے دہندہ ریاست کی حیثیت دی ہے اور وہ تنظیم میں مبصر کی حیثیت سے شامل ہے۔پاکستان،قطراورگیمبیاسمیت دیگر کئی اقوام بھی ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو تسلیم کرنے کے لیے مثبت خیالات کا اظہار کر چکی ہیں۔اقوام متحدہ کےعنان منصوبہپراپریل2004ءمیں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حوالے سے عالمی برادری کے رویے میں کچھ بہتری آئی ہے۔قبرص کےیورپی اتحادکا حصہ بننے کے بعد یورپی اتحاد ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو ایسے علاقے کو متنازع علاقے کے طور پر تسلیم کرتا ہے جس کا مسئلہ حل کیا جانا باقی ہے۔ اوریورپی پارلیمانمیں قبرص کے لیے مختص کی گئي نشستیں بھی پورے جزیرے کے حوالے سے دی گئی ہیں۔ اس اعتبار سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے باشندے یورپی اتحاد کا حصہ قرار پائے لیکن اس کے باوجود 2004ء میں ہونے والے انتخابات میں انھوں نے اپنا حق رائے دہی بہت کم استعمال کیا۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں 18 سے سے 40 سال کی عمر تک کے 2 ہزار ترک قبرصی مردوں پر مشتمل ایک دفاعی فوج موجود ہے۔ یہ فوج 40 ہزار ترک بری فوج کے اراکین کی مدد کرتی ہے جس کی 11 ویں کور دو ڈویژن کے ��مراہ جزیرے پر موجود ہے۔متنازع علاقہ ہونے کی حیثيت سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں ترک افواج کی موجودگی کو مختلف افراد مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ یونانی قبرصی اسے ایک غاصب و قابض فوج سمجھتے ہیں جبکہ ترک قبرصی اسے اپنے نجات دہندہ اور محافظ گردانتے ہیں۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص ترکی کی عسکری و اقتصادی حمایت پر بہت زيادہ انحصار کرتا ہے۔ وہنئے ترک لیراکو اپنی کرنسی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی تمام برآمدات و درآمدات ترکی کے ذریعے ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی ٹیلی فون بات چیت بھی ترکی کے ڈائلنگ کوڈ کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ ویب پر ترک جمہوریہ شمالی قبرص ترک کا دوسری سطح کا ڈومین .nc.tr استعمال کرتا ہے اور بین الاقوامی پوسٹل یونین کی جانب سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو الگ علاقہ تسلیم کیے جانے سے انکار کے باعث خطوط بھی بذریعہمرسین، ترکی بھیجے جانے چاہئیں۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص سے براہ راست پروازیں بھی جمہوریہ قبرص کی جانب سے منع ہیں۔ گچیت کالے اور ارجان کے ہوائی اڈے بھی صرف ترکی اور آذربائیجان کے لیے کھلے ہیں۔ 1974ء سے جمہوریہ قبرص نے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی تمام بندرگاہوں کو بند قرار دے رکھا ہے۔ لیکن ترکی اعلان کی مخالفت کرتا ہے اور ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں مندرج تمام بحری جہازترکیکی تمام بحری بندرگاہوں تک مفت رسائی رکھتے ہیں۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حقیقی باشندے یا وہ افراد جن کے پاسپورٹ پر ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی مہر لگی ہو ممکنہ طور پر جمہوریہ قبرص یا یونان کے سفر سے محروم ہو جاتے تھے لیکن یورپی اتحاد میں جمہوریہ قبرص کی شمولیت کے بعد ان پابندیوں میں کچھ نرمی آ گئی ہے اور اس حوالے سےایتھنزاور انقرہ کے مابین برف بھی پگھلی ہے اور جب سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص نے پاسپورٹ داخلے کی مہر ثبت کرنا چھوڑی ہے تب سے جمہوریہ قبرص نکوسیا میں گرین لائن کے پار جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔ارجان ہوائی اڈا (نکوسیا –مرکزی ہوائی اڈا)
+گاچیت کالے ہوائی اڈا (غازی مغوسا/فیماگوستا)
+الکر کارتر ہوائی اڈا (گرنے/کائیرینیا)
+پنارباشی ہوائی اڈا (گرنے/کائیرینیا)
+ٹوپل ہوائی اڈا (گوزیل یورد/مورفو)
+بندرگاہ گرنے
+بندرگاہ غازي موغاسا/فیماگوستا"
+529,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+530,بین الاقوامی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DB%8C%D9%86_%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C,بین الاقوامی(International) زیادہ تر کا مطلب کوئی کمپنی، زبان یا تنظیم جس میں ایک سے زیادہملکشامل ہوں۔ لفظ بین الاقوامی ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جس میں ایک سے زیادہ اقوام یا ممالک یا عام طور پر قومی حدود سے باہر کے کوئی دیگر ادارے یا تنظیمیں ملوث ہوں۔ مثال کے طور پربین الاقوامی قانونایک سے زیادہ ممالک بلکہ زمین پر ہر جگہ لاگو کیا جاتا ہے۔
+531,2018ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/2018%D8%A1,"نقص اظہار: «ء» کا غیر معروف تلفظ۔2018ء(MMXVIII)
+تھاعیسوی تقویمکاپير کو شروع ہونے والاایکعام سالہے جوعام زمانہ(عیسوی) اورقبل مسیح(ق م) کی تعین کاری کے مطابق 2018 واں سال،3 ہزاریہکا 18 واں سال ہے،21 صدیکا 18 واں سال اور2010ء کی دہائیکا 9 واں سال ہے۔"
+532,طاقت خرید,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D9%88%D8%AA_%D8%AE%D8%B1%DB%8C%D8%AF,طاقت خریدیا (قوت خرید) سے مراداجناس/خدمات کیتعدادہے جو کسی ایکائی پیسے سے خریدی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کی1960ءمیں ایک سو روپیہ سے کسی جنس کی مقدار خرید سکتے تھے، وہ آج کی تعداد سے کہیں زیادہ رہی ہو گی تو کہا جائے گا کہ1950ءمیں اس شخص کی طاقت خرید زیادہ تھی۔
+533,دیوار برلن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%B1_%D8%A8%D8%B1%D9%84%D9%86,دیوار برلن(جرمن زبان: Berliner Mauer) ایک رکاوٹی دیوار تھی جوعوامی جمہوریہ جرمنی(مشرقی جرمنی) نےمغربی برلنکے گرد تعمیر کی تھی، تاکہ اسے مشرقی جرمنی بشمولمشرقی برلنسے جدا کیا جا سکے۔ یہمشرقیومغربی جرمنیکے درمیان حد بندی بھی مقرر کرتی تھی۔ یہ دیوارمغربی یورپاورمشرقی اتحادکے درمیان 'آہنی پردہ' کی علامت تھی۔دیوار کی تعمیر سے قبل 35 لاکھ مشرقی جرمن باشندے مشرقی اتحادکی ہجرت پر پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مغربی جرمنی ہجرت کر گئے، جن کی بڑی اکثریت نے مشرقی سے مغربی برلن کی راہ اختیار کی۔1961ءسے1989ءتک اپنے وجود ��ے دوران دیوار نے اس طرح کی ہجرتوں کو روکے رکھا اور ربع صدی سے زائد عرصے تک مشرقی جرمنی کو مغربی جرمنی سے جدا کیے رکھا۔[1]دیوار کو عبور کرنے سے روکنے کے لیے اس پر کئی رکاوٹیں لگائی گئیں جس کے نتیجے میں دیوار عبور کرنے کی کوشش کرنے والے 5 ہزار افراد میں سے 98 سے 200 تک اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔مشرقی اتحاد میں انقلابی لہر کے دوران چند ہفتوں کی بے امنی کے بعد مشرقی جرمنی کی حکومت نے9 نومبر1989ءکو اعلان کیا کہ مشرقی جرمنی کے تمام شہری مغربی جرمنی اور مغربی برلن جا سکتے ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی مشرقی جرمنی کے باشندوں کی بڑی تعداد دیوار پھلانگ کر مغربی جرمنی جا پہنچی جہاں مغربی جرمنی کے باشندوں نے ان کا بھرپور خیرمقدم کیا۔ اگلے چند ہفتوں میں پرجوش عوام نے دیوار پر دھاوا بول دیا اور اس کے مختلف حصوں کو توڑ ڈالا؛ بعد ازاں صنعتی آلات کے ذریعے دیوار کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔دیوار برلن کے خاتمے نےجرمن اتحاد مکرر(German reunification) کی راہ ہموار کی جو بالآخر3 اکتوبر1990ءکو باضابطہ طور پر مکمل ہوا۔
+535,پاکستان کی انتظامی تقسیم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86_%DA%A9%DB%8C_%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%B8%D8%A7%D9%85%DB%8C_%D8%AA%D9%82%D8%B3%DB%8C%D9%85,باب سیاستپاکستان کو وفاقی دار الحکومت، چار صوبوں،آزاد کشمیراورگلگت و بلتستانمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو اس کے بڑے بڑے علاقے ہیں۔ سرکاری طور پر پاکستان کے چار صوبے اور ایک وفاقیدار الحکومتہے جس کے لیے آپ دیکھ سکتے ہیں:پاکستان کی انتظامی اکائیاں۔ مگر اس کے علاوہ چند علاقے ہیں جو ابھی باقاعدہ پاکستان میں شامل نہیں کیے جاتے اور ان کی آزاد حیثیت برقرار ہے جیسےآزاد کشمیر،قبائلی علاقےاورگلگت و بلتستان۔ لیکن اس کے باوجود یہ علاقے عملی طور پر پاکستان کے زیرِ اختیار ہیں چنانچہ انھیں پاکستان کا حصہ کہا جاتا ہے۔فاٹاپاکستان کے صوبوں کو اضلاع میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اگست 2000ء تک صوبوں کو ڈویژن اور ڈویژن کو اضلاع میں تقسیم کیا جاتا تھا مگر اگست 2000ء میں ڈویژن ختم کر دیے گئے اور اب صوبوں کو اضلاع میں تقسیم کیا جاتا ہے۔[1]پاکستان کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ویب گاہ (ویب گاہ)[1]کی معلومات (120مثلاً اضلاع) اور پاکستان کی وفاقی ادارہ برائے شماریات کے ویب گاہ[2]پر 14 نومبر 2009ء کو پائے جانے والی معلومات (مثلاً اضلاع کی تعداد 113) میں فرق تھا اور دونوں میں اضلاع کی تعداد اصل سے کم بتائی گئی تھی کیونکہ نئے اضلاع تشکیل پائے تھے۔ اسی طرح وزارتِ اطلاعات کے ویب گاہ پر گلگت و بلتستان کا تذکرہ نہیں حالانکہ گلگت و بلتستان میں انتخابات بھی ہو چکے ہیں اور اس کا آرڈیننس جاری ہوئے اب کئی ماہ ہو گئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نیچے دی گئی معلومات ان دونوں مواقع الجال (ویب سائٹس) کے مدد کے علاوہ دوسرے ذرائع بشمول انگریزی ویکیپیڈیا سے مرتب کی گئی ہیں۔پاکستان کو مختلف درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سب سے پہلا درجہوفاقہوتا ہے جو پوری ملک پر اختیار رکھتی ہے۔ دوسرا درجہصوبہہے جو ایک مخصوص صوبے میں مختار ہوتی ہے اور اس کو پھر مزید ڈیوژنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تیسراں درجہڈیوژنہوتا ہے جس کو پھر مزیدضلعوںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ چوتھا درجہ ضلع ہے جس کو مزید تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پانچواں درجہتحصیلہوتا ہے جس کو مزید یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ چھٹا درجہیونین کونسلہوتا ہے ۔جنوبی پنجاب(جنوبی پنجاب)-جنوبی پنجاب سیکرٹریٹذیل کی تصویر پاکستانی نظام حکومت کی چھ سطحوں کا تعین کرتی ہے۔
+536,پنجاب، پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%A8%D8%8C_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پنجابپاکستانکا ایک صوبہ ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پنجاب میں رہنے والے لوگپنجابیکہلاتے ہیں۔ پنجاب جنوب کی طرفسندھ، مغرب کی طرفخیبرپختونخوااوربلوچستان، شمال کی طرفکشمیراوراسلام آباداور مشرق کی طرف ہندوستانی پنجاب اورراجستھانسے ملتا ہے۔ پنجاب میں بولی جانے والی زبان بھی پنجابی کہلاتی ہے۔ پنجابی کے علاوہ وہاں کردستانی ،بلوچوں اورعربینژادوں کی کافی تعداد ہے۔ پنجاب کا دار الحکومتلاہورہے۔ پنجاب سب سے بڑا بارہ کروڑ آبادی والا صوبہ ہے۔پنجابفارسىزبان كے دو لفظوںپنجبمعنی پانچ(5) اورآببمعنی پانی سے مل کر بنا ہے۔ان پانچ درياؤں كے نام ہيں:پنجاب کا صوبائی دار الحکومت لاہور، پاکستان کا ایک ثقافتی، تاریخی اور اقتصادی مرکز ہے جہاں ملک کی سنیما صنعت اور اس کے فیشن کی صنعت ہے۔عید الفطر،عید الاضحی،شبِ براتاورعید میلاد النبیپنجاب کے علاوہ پورے پاکستان میں خاص تہوار ہیں اور پورے جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ ان تہواروں کے علاوہرمضانکا پورا مہینہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔
+مگر بسنت ایک ایسا تہوار ہے جو پنجاب سے منسلک ہے۔ یہ تہوار بہار کے موسم کو خوش آمدید کہنے کا ایک خاص طریقہ ہے۔ جس میں لوگپتنگاڑا کر اور پنجاب کے خاص کھانے بن ا کر اور کھا کراس تہوار کو مناتے ہیں۔ مگر بہت سے لوگ بسنت منانے کے خلاف ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے کئی معصوم لوگ اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔پنجاب رقبے کے لحاظ سےبلوچستانکے بعدپاکستانکا دوسرا بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ 205,346 مربع کلومیٹر (79,284 مربع میل) ہے۔ یہ پاکستان کے کل رقبے کا 25.8 فیصد ہے۔ صوبہ پنجاب کی سرحد جنوب میںسندھ، جنوب مغرب میںصوبہ بلوچستان، مغرب میںصوبہ خیبر پختونخواہاور شمال میںاسلام آباددار الحکومت اورآزاد کشمیرسے ملتی ہے۔ پنجاب کی سرحدیں شمال میںجموں و کشمیراور مشرق میںبھارتیریاستپنجاباورراجستھانسے ملتی ہیں۔دار الحکومت اور سب سے بڑا شہرلاہورہے جو پنجاب کے وسیع علاقے کا تاریخی دار الحکومت تھا۔ دیگر اہم شہروں میںفیصل آباد،راولپنڈی،گوجرانوالہ،سرگودھا،ملتان،سیالکوٹ،بہاولپور،گجرات،منڈی بہاؤالدین،شیخوپورہ،جہلماورساہیوالشامل ہیں۔ پنجاب کی جغرافیہ میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کے پانچوں بڑے دریاؤں کا گھر ہے۔ وہ پانچ دریا یہ ہیں:اس کے علاوہ اس خطے میںریگستانبھی موجود ہیں جو پاک بھارت سرحد کے قریب ہیں خاص طور پر بھارتی صوبےراجستھانکے پاس۔ دیگر ریگستانوں میںصحرائے تھلاورصحرائے چولستانشامل ہیں۔فروری سے پہلے پنجاب میں بہت سردی ہوتی ہے اور پھر اس مہینے سے موسم میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے اور موسم خوشگوار ہونے لگتا ہے۔ مارچ اور اپریل میں بہار کا موسم رہتا ہے اور پھر گرمیاں شروع ہونے لگتی ہیں۔گرمیوں کا موسم مئی سے شروع ہوتا ہے تو ستمبر کے وسط تک رہتا ہے۔ جون اور جولائی سب سے زیادہ گرم مہینے ہیں۔ سرکاری معلومات کے مطابق پنجاب میں C°46 تک درجہ حرارت ہوتا ہے مگر اخبارات کی معلومات کے مطابق پنجاب میں C°51 تک درجہ حرارت پہنچ جاتا ہے۔ سب سے زیادہ گرمی کا ریکارڈ ملتان میں جون کے مہینے میں قلمبند کیا گیا جب عطارد کا درجہ حرارت C°54 سے بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ برسات یا مونسون کا موسم بھی جون سے شروع ہو کر ستمبر تک رہتا ہے۔ ستمبر کے اواخر میں گرمی کا زور ٹوٹ جاتا ��ے اور پھر اکتوبر کے بعد پنجاب میں سردی کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں دسمبر اور جنوری میں شدید دھند پڑتی ہے، جس کے باعث ملکی و غیر ملکی آمد و رفت متاثر ہوتی ہے۔یہ صوبہپاکستانکی نصف سے زیادہ آبادی کا گھر ہے اور یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ذیلی قومی ادارہ ہے اورچیناوربھارتکے بعد سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے۔ پاکستان میں پنجاب میں غربت کی شرح سب سے کم ہے، حالانکہ صوبے کے شمالی اور جنوبی حصوں کے درمیان تقسیم موجود ہے۔ صوبے کے خوش حال شمالی حصے میں واقعضلع سیالکوٹمیں غربت کی شرح 5.63% ہے، جب کہ غریب ترین جنوبی میں واقعضلع راجن پورمیں غربت کی شرح 60.05% ہے۔پنجاب کی زبانیں(2017ء مردم شُماری)[1]پنجاب میں بولی جانے والی بڑی مادری زبانپنجابیہے، جو ملک میں بولی جانے والی سب سے بڑی زبان کی نمائندگی کرتی ہے۔ پنجابی کو پنجاب کی صوبائی زبان کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن قومی سطح پر پاکستان کے آئین میں اسے کوئی سرکاری سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پنجابی سے گہرا تعلق رکھنے والی کئی زبانیں اس خطے میں بولی جاتی ہیں۔ پنجاب کے جنوبی حصے میں اکثریتی زبانسرائیکیہے جبکہ شمال میںہندکواورپوٹھواری لہجہبولنے والے ہیں۔پشتوبھی پنجاب کے کچھ حصوں میں بولی جاتی ہے، خاص طور پراٹک،میانوالیاورراولپنڈیکے اضلاع میں۔پنجاب میں مذاہبِ (2017 مردم شُماری)[2][3]پنجاب (پاکستان) کی آبادی کا تخمینہ 110,012,942 ہے، جس میں 2017ء کی مردم شماری کے مطابق، 107,558,164 یعنی (92%)مسلمانہیں۔ سب سے بڑی غیر مسلم اقلیت عیسائی ہیں اور ان کی آبادی 2,068,233 یعنی (2.5%) ہے۔ ہندو تقریباً 220,024 افراد ہیں یعنی آبادی کا (0.8%)۔ دیگر اقلیتوں میں سکھ، پارسی اور بہائی شامل ہیں۔حکومت پنجاب،پاکستانکے وفاقی ڈھانچے میں ایک صوبائی حکومت ہے، جو صوبہ پنجاب کے دار الحکومتلاہورمیں واقع ہے۔وزیر اعلیٰ(سی ایم) کوپنجاب کی صوبائی اسمبلیمیں صوبائی حکومت کے سربراہ کے طور پر کام کرنے کے لیے منتخب کرتی ہے۔ موجودہ وزیر اعلیٰچوہدری پرویز الٰہیہیں جو 26 جولائی 2022ء کو قومی اسمبلی سے منتخب ہوئے۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی صوبہ پنجاب کے منتخب نمائندوں کی یک ایوانی مقننہ ہے جو پاکستان میں لاہور میں واقع ہے۔ یہ اسمبلیآئین پاکستانکے آرٹیکل 106 کے تحت قائم کی گئی تھی جس کی کل 371 نشستیں تھیں، جن میں سے 66 خواتین کے لیے اور آٹھ غیر مسلموں کے لیے مخصوص تھیں۔"
+537,پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پاکستان (رسمی نام:اسلامی جمہوریۂ پاکستان- انگریزی میں: PAKISTAN)جنوبی ایشیاکے شمال مغربوسطی ایشیااورمغربی ایشیاکے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختاراسلامیملکہے۔ یہ دنیا کاپانچواںسب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کیدوسریسب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کاتینتیسواں(33) بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کےجنوبمیں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جوبحیرہ عربسے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميںبھارت، شمال مشرق ميںچیناور مغرب ميںافغانستاناورايرانواقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگواخان راہداریتاجکستانسے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدودعمانکے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم تریندنیامیں وہ علاقے تھے جن میںموہنجوداڑواورانڈس سولائیزیشنمہر گڑھٹیکسلاپراچین سنسکرت دوراور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسےقندھاراتہذیبو تمدن تھی۔ اس علاقے پرپراچین راجپوتایرانییونانیعرب،بدھ مت،سکھ،مغل،ہن سفیداورترکحملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسےچندر گپت موریا،ہخامنشی سلطنتعربوں کیخلافت امویہ،مغلیہ سلطنت،درانی سلطنت،سکھ سلطنتاوربرطانوی راجکا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعدمحمد علی جناحکی قیادت میںتحریک پاکستانکامیاب ہوئی اور14 اگست1947ءکوہندوستانکے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اورخودمختاراسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین1956ءمیں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.1971ءمیں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملکبنگلہ دیشبن گیا۔پاکستانوفاقیپارلیمانیجمہوری ریاستکے تحت چلتا ہے۔ اس کےپانچ صوبے ہیں اور کچھ علاقے وفاقی حکومتکے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کیفوجدنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسریایٹمی طاقتہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 42https://www.worlddata.info/asia/pakistan/economy.phpویں نمبر پر ہے۔پاکستان کی تاریخفوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سے جھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملکمؤتمر عالم اسلامی،اقوام متحدہ،دولت مشترکہ ممالک،سارک،ترقی پذیر 8،اقتصادی تعاون تنظیمجیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔[7]پاکستان کے لفظی معنیپاک لوگوں کی سر زمینہے، پاک کےاردواورفارسیمیں معنی خالص اور صاف کے ہیں اورستانکا مطلب زمین یا وطن کا ہے-1933ءمیںچودھری رحمت علینے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہاب یا کبھی نہیںشائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔لفظپاکستاناس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔پپنجاب،اخیبر پختونخوا(افغانیہ)،ککشمیر،سسندھ،تانبلوچستان۔711ءمیںامویخلیفہولید بن عبدالملککے دور میںمحمد بن قاسمبرصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوںبرصغیر(موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑیعربریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کادار الحکومتدمشق، زبانعربیاور مذہباسلامتھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پرعربدنیاسے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اورجنوبی ایشیاکی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔سن1947ءسے پہلےبھارت، پاکستان اوربنگلہ دیشبرطانویکالونیاں تھیں اوربرّصغیرکے نام سے جانے جاتے تھے۔ہندوستان کی آزادی(انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران میںہندوستانکےمسلمانوںنے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ ""پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ"" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحتتحریک پاکستانوجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادتمحمد علی جناحنے کی۔14 اگست1947ءکو پاکستان وجود میں آیا۔تقسیمبرصغیر پاک و ہندکے دوران میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اوربھارتکے درمیان میں1948ءاور1965ءمیںکشمیرکے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریابھارتکے زیر انتظامکشمیرسے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو1960ءمیںانڈیاکے ساتھسندھ طاس معاہدہکرنا پڑا، جس کے تحت پاک��تان کو مشرقی دریاؤں،ستلج،بیاساورراویسے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہدریائے سندھ،چناباورجہلمپر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔1947ءسے لے کر1948ءتک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہبھارتنے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ریاست بہاولپورکے نوابصادق محمد خان پنجمنے اس وقت پاکستان کی مالی مدد کی۔پاکستان بطور برطانوی ڈامنینئن آزاد ہوا تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور پہلےوزیر اعظملیاقت علی خان تھے۔ پاکستان کی عبوری حکومت ١١ اگست ١٩٤٧ کو تشکیل دی گئی تھی۔ 1948 میں قائد اعظم ٹی بی سے وفات پا گئے۔1951ءمیں پستول کی گولی کا شانہ بنا کر[لیاقت علی خان]] کو شہید کر دیا گیا۔1951ءسے1958ءتک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔1956ءمیں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ1958ءمیں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیمجنرل ایوبکے دور آمریت میں بنائے گئے۔جنرل ایوبکے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکنمشرقی پاکستاندور ہوتا گیا۔1963ءمیں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگرمشرقی پاکستانکے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ایوب خانعوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علاحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انھوں نے حکومت اپنے فوجی پیش روجنرل یحییٰ خانکے حوالے کر دی۔1971ءکے عام انتخابات میںمشرقی پاکستانسے عوامی لیگ کی واضحکامیابیکے باوجود فوجی حکمرانیحییٰ خاننے اقتدار کی منتقلی کی بجائےمشرقی پاکستانمیں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہہندوستاننے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکاردسمبر1971ءمیںسقوط ڈھاکہہو گیا اورمشرقی پاکستانایک علاحدہ ملکبنگلہ دیشکی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔1972ءسے لے کر1977ءتک پاکستان میںپاکستان پیپلز پارٹیکی حکومت تھی۔ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے صدراور بعد ازاںوزیر اعظمرہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں1977ءمیں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔اگلا دور1977ءتا1988ءمارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمرانجنرل ضیا الحقتھے۔افغانستانمیں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں1985ءکے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے1988ءمیںضیاءالحقنے برطرف کر دیا-1988ءمیںصدر مملکتکا طیارہ گر گیا اورضیاءالحقکے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سےجمہوریتکا آغاز ہو گیا۔اس کے بعد1988ءمیں انتخابات ہوئے اوربينظير بھٹوکی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدرغلام اسحاق خاننے حکومت کو برطرف کر دیا۔1990ءمیںنواز شریفکی قیادت میںآئی جے آئیاور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔1993ءمیں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔اگلے انتخابات1993ءمیں ہوئے اور ان میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس وقت پاکستان کے صدرفاروق احمد خان لغاریتھے۔ صدر فاروق احمد خان لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔1997ءمیں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میںمسلم لیگ ناور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1999ءمیں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکتپرويز مشرفبنے اور2001ءمیں ہونے والے انتخابات کے بعدوزیر اعظمظفر اللہ خان جمالیبنے۔2004ءمیں جنرل مشرف نےشوکت عزیزکووزیر اعظمبنانے کا فيصلہ کیا۔ مختصر عرصہ کے لیےچوہدرى شجاعت حسيننےوزیراعظمکی ذمہ داریاں سر انجام دیں اورشوکت عزیزکےقومی اسمبلیکے ارکان منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔شوکت عزیزقومی اسمبلیکی مدت15 نومبر2007ءکو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16نومبر2007ءکو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔فروری2008ءمیں الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نےیوسف رضا گیلانیکو وزیر اعظم نامزد کیا، جنھوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔22 جون2012ءکویوسف رضا گیلانیکی نااہلی کے بعدراجہ پرویز اشرفنئے وزیر اعظم بنے۔مئی2013ءمیں عام انتحابات ہوئے جس میںپاکستان مسلم لیگ نایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کے تیسرے بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک اور وزیر اعظمنوازشریفکوپانامالیکسفیصلے میں تا حیات نا اہل قرار دے کر برطرف کر دیا اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کےشاہد خاقان عباسینئے وزیر اعظم بن گئے۔ 17 اگست 2018ء کوعمران خان176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔پاکستان کا اعلیٰ اساسی قانونآئین پاکستانکہلاتا ہے۔ آئین، پاکستان کا وہ اعلیٰقانونہے جو ریاست پاکستان کے اندر تمام اہم چیزوں اور فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔ ملک میں چار مرتبہمارشل لالگا جس سے دو مرتبہ آئین معطل ہوا، ایک مرتبہ1956ءکا آئین اور دوسری مرتبہ1962ءکا آئین۔1972ءمیںمشرقی پاکستانمیں مخالفین نے سازشیں کی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھ گئی جس کی نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اورمشرقی پاکستانبنگلہ دیش کے نام ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ اس وقت غور کیا گیا تو ملک ٹوٹنے کی بہت سے وجوہات تھیں۔ اسی بنا پر1973ءکا آئین بنایا گیا۔آئین بنانے کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور آئین میں ہر شعبے اور اہم امور کے لیے اصول بنے، آئین میں ریاست کی تمام بڑے فیصلوں کے لیے قوانین بنائے گئے، حکومت اور ریاست کا پورا تشکیل بیان کیا گیا۔ مسودہ تیار ہونے کے بعد اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔پاکستانی سیاست کی بنیاد کوآئین پاکستاننے قائم کیا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان ایکجمہوریاورقومی ریاستہے۔ آئین پاکستان نے ایک وفاق اور اس کے ماتحت صوبائی حکومتیں قائم کی ہیں۔ آئین کا پہلا آرٹیکل بیان کرتا ہے کہ ""مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریت ہوگا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا""۔پاکستان کی مختلف علاقہ جات کے متعلق آئین پاکستان کا دوسرا آرٹیکل بیان کرتا ہے:پاکستان کے علاقے مندرجہ ذیل پر مشتمل ہوں گے:آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کوئی واضح حیثیت تو بیان نہیں کی گئی لیکن2009ءمیںقومی اسمبلیسے ایک اور بل منظور ہوا جس نے واضح طور پر گلگت بلتستان کو نیم-صوبے کا درجہ دیا اور یہاں باقاعدہ صوبائی حکومت کو قائم کیا گیا، جس کے تمام بنیادی شاخ (اسمبلی، عدلیہ، وزارتیں، وغیرہ) قائم کیے گئے۔[9]آئین نے مزید ملک میں دو قانون ساز ایوان قائم کیے ایکقومی اسمبلیاور دوسراسینٹ۔ قومی اسمبلی کی بنیاد آبادی کے لحاظ سے ہے یعنی جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں زیادہ نشستیں رکھی جائے گی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو براہ راست عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کے نشستیں دیے گئے ہیں چاہے صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سینٹ کے ارکان کو سینیٹر کہا جاتا ہے اور ان سینیٹرز کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے ووٹ سے منتخب کر سکتے ہیں۔کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کا سلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور، دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے، ایک نقطہ ذہن نشین کر لیں کہخارجہ پالیسیمیں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سےانڈونیشیاکے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایکایٹمی طاقتہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاص ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔پاکستان کی دفاع کا ذمہ ملک کے مسلح افواج پر ہے جس کی بنیادی طور پر تین شاخیں ہیں:1947ءمیںقیام پاکستانسے پہلے پاک عسکریہ، ہندوستانی فوج کا حصہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کےتاج برطانیہکے زیر اثرپہلی جنگ عظیماوردوسری جنگ عظیممیں بھی حصہ لیا ہے۔ تقسیمبرصغیرکے بعد ہندوستانی فوج پاکستان اوربھارتمیں بالترتیب 36% اور 64% کے تناسب میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت اعلان ہوا کہ کوئی بھی فوجی جس بھی فوج میں جانا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔ اس وقت بہت سے مسلمان فوجی، پاک عسکریہ میں شامل ہو گئے۔ تقسیم کے وقت بھارت میں 16 آرڈیننس فیکٹریاں تھیں جبکہ پاکستان میں ایک بھی نہیں تھی۔ اب پاکستان کافی حد تک دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہو گیا ہے۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔ فوج اداروں میںپاک فوج،پاک فضائیہاورپاک بحریہشامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میںفرنٹیئر کانسٹبلری،سرحد کور،پاکستان رینجرزشامل ہیں۔ پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنیپنجاباورسندھمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس لیے اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنیپنجاب رینجرزاورسندھ رینجرز۔ اسی طرحسرحد کوراورفرنٹیئر کانسٹبلریکو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہخیبر پختونخوااوربلوچستانمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی ادارے کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائی گئی ہیں جن میںخیبر پختونخواپولیس،پنجابپولیس،سندھپولیس،بلوچستانپولیس،آزاد کشمیرپولیس اورگلگت بلتستانپولیس شا��ل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے، اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سر انجام دینا ہے اسی طرحموٹروےپولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔تحقیقات کے لیے وفاقی ادارۂ تحقیقات (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی مخابراتی ادارے (جیسےآئی ایس آئی، وغیرہ) موجود ہیں۔پاکستان ميں 5 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نےگلگت بلتستانکو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔
+صوبہ جات کی تقسیمیکم جولائی1970ءکو کی گئی۔صوبہ بلوچستانکا کل رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2011ءمیں آبادی 79 لاکھ 14 ہزار تھی۔صوبہ پنجابکا کل رقبہ 205,344 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2013ءمیں آبادی 10 کروڑ 10لاکھ تھی۔صوبہ خیبر پختونخواکا کل رقبہ 74,521 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ تھی۔صوبہ سندھکا کل رقبہ 140,914 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 4 کروڑ 24 لاکھ تھی۔گلگت بلتستان(سابق شمالی علاقہ جات) کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2008ء میں آبادی 18 لاکھ تھی۔جغرافیائی طور پر پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ پاکستان کاجغرافیہاور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیںجانوراورپرندےایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 796,095 مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقےپہاڑیہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریادریائے سندھہے۔ یہدریاپاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گذر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکنبلوچستانکاسبیعلاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اورشمالی علاقہ جاتمیں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادیزراعتکے شعبے سے منسلک ہے۔پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے، زمینی سرحد میں سے 2,430 کلومیٹر سرحدافغانستانکے ساتھ، 523 کلومیٹرچینکے ساتھ، 2,912بھارتکے ساتھ اور 909ایرانکے ساتھ لگا ہوا ہے۔پاکستان دنيا کا ايک ترقی پزیر ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات ميں فوج كى مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کوتعلیمسے محروم رکھنے کینفسیاتیاور خود غرضانہفطرت(تاکہبیگاراورسستے پڑاؤ (Labor Camp)قائم رکھے جاسکیں)، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيلیے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلےپاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعتپر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا[حوالہ درکار]۔ اِس وقت پاکستان کیمعيشتمستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے[حوالہ درکار]۔کراچی سٹاک ایکسچینجکےکے ايس سی انڈکسگزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے[حوالہ درکار]۔پاکستانآبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصداہل تشیع، 77 فيصداہل سنتاور تقریباً 3 فيصد ديگرفقہسے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ایک فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانیمسیحیمذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب وسرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔پاکستان کیقومی زباناردوہے، جبکہ زيادہ تر دفتری کامانگريزیميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اردو پاکستان کی عوامی و قومیزبانہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئی اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميںپنجابی،سرائیکی،سندھی،گجراتی،بلوچی،براہوی، پہاڑی،پشتواورہندکوزبانیں قابلِ ذکر ہيں۔پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پٹھان، بلوچی اورمہاجر قومہيں، ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مابین فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميںدراوڑ،آريا،ہن،ايرانی،يونانی،عرب،ترکاورمنگوللوگوں کی رياستوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھموسماورآب و ہواکا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايکاسلامی تہذيبکا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسيقی ملتی ہے۔کلاسيکی موسيقی،نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک، ان سب کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميںقوالیکا مرکز سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے جا رہے ہيں۔ يہ امرا اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جگہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکاؤاسلاماور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔پاکستانيوں کی بڑی تعدادامريکہ،برطانيہ،آسٹريليا،کینیڈااورمشرق وسطیميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہتسرمايہ کاریبھی کی ہے۔پاکستان کا سب سے پسنديدہکھيلکرکٹ ہے۔ پاکستان کیکرکٹٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميںہاکیبھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کےشمالی علاقہ جاتكے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدائش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھیلی جاتی ہے۔پاکستان میں سب سے عام لباسشلوار قمیضہے جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوںبلوچستان،پنجاب،سندھاورخیبر پختونخواسمیتقبائلی علاقہ جات،گلگت بلتستاناورآزاد کشمیرمیں پہنا جاتا ہے۔ تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمالاسکول،کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ اور ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔شیروانیکا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔پاکستانی خواتین میں بھی شلوار قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔پاکستان میں بہت سے ذرائع ابلاغ موجود ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔اس سے پہلےپی ٹی ویملک کا واحد چینل نیٹ ورک ہوتا تھا اور حکومت پاکستان اس نیٹ ورک کو چلا رہی تھی۔2002ءکے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 50 سے بھی زیادہ صرف نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نیوز، انٹرٹینمنٹ، ہیلتھ، ایجوکیشن، علاقائی اور بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتے ہیں تاہم ملک کے علاقائی زبانوں (پشتو،پنجابی،سندھی،بلوچی،کشمیری،سرائیکیوغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔پی ٹی وی ورلڈپاکستان کا پہلاانگریزیچینل ہے۔اردو فلم انڈسٹریلالی وڈکی صدر مقاماتلاہور،کراچیاورپشاورمیں واقع ہے۔ لالی وڈ نے اب تک بہت سے فلمیں ریلیز کی ہیں اور کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے عام اردو ڈراما سیریلز ہیں جو مختلف چینلز پر چلائے جاتے ہیں۔پاکستان کے فن تعمیرات ان مختلف عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مختلف ادوار میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔وادئ سندھ کی تہذیبکے شروع ہونے کے ساتھ ہی جو 3500قبل مسیحتھا، موجودہ پاکستان کے علاقے میں شہری ثقافت کا ارتقا ہوا جس میں بڑی عمارتیں تھیں جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے بعدگندھاراطرز کا بدھ طرز تعمیر آیا جس میں قدیمیونانکے اجزاء بھی شامل تہے۔ اس کے بقایا جاتگندھاراکے صدر مقامٹیکسلامیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان میں مغل اور انگریزی طرز تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں۔آزادی کے بعد کا فن تعمیر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی نئیحاصلکی گئی آزادی اور شناخت کو فن تعمیر کے ذریعے سے ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان خود کو جدید عمارتوں میں ظاہر کرتا ہے مثلاًفیصل مسجدجو وفاقی دار الحکومتاسلام آبادمیں واقع ہے اس مسجد کو1960ءمیں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں جیسےمینارپاکستان، سفید ماربل سے بنا مزار قائد اعظم۔ یہ عمارتیں نئی ریاست کی خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ملکی دار الخلافہ اسلام آباد میں موجود قومی یادگار تہذیب، آزادی اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔پاکستان میں اس وقت چھ (6) جگہیں ایسی ہیں جنہیں عالمی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال2012ءمیں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت1970ءکے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس،پشاور،کراچی،لاہور،سواتاورراولپنڈیتھیں۔ اس ملک کی حامل کشش جگہوں میں موہنجو داڑو،ٹیکسلااورہڑپہجیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لے کرکوہ ہمالیہکے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کےشمالی علاقہ جاتمیں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اورچترالکی وادیاں جو ایک چھوٹی سی غیر مسلم سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کوسکندر اعظمکی اولاد سے بتاتے ہیں۔پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقاملاہورمیں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسےبادشاہی مسجد، شالیمار باغ،مقبرہ جہانگیراورقلعہ لاہورشامل ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ (5) لاکھ سیاح آتے تھے۔ تاہم سال2008ءسے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورت حال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔اکتوبر2006ءمیںکشمیرکے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی کی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقاماتٹیکسلا،لاہور،شاہراہ قراقرم، کریم آباد اورجھیل سیف الملوکتہے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سےوادئ سندھ کی تہذیبکے موہنجو داڑو اورہڑپہجیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔پاکستانی کھانے جنوبی ایشیا کے مختلف علاقائی کھانوں کا حسین امتزاج ہیں۔ پاکستانی کھانوں میں شمالی ھندوستانی،وسط ایشیائیاور مشرق وسطیٰ کے کھانے شامل ہیں لیکن یہاں کے کھانوں میں گوشت کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میںاشیائے خور و نوش کے نامبہت آسان ہیں۔پاکستان میں ایک علاقے کے کھانے دوسرے علاقے کے کھانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں جس سے اس ملک کی ثقافتی اور لسانی تنوع جھلکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کھانے مصالحے دار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیا کے کھانوں کی خاصیت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے کھانے مثلاً خیبر پختونخوا، بلوچستان، قبائیلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور کشمیر کے کھانے بھی اپنی اپنی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بھی مختلف علاقائی رنگ غالب ہوتے ہیں۔پاکستان میں کھیلے جانے والے بیشتر کھیلوں کا آغازبرطانیہمیں ہوا اور برطانویوں نے انھیںہندوستانمیں متعارف کرایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس نے 1960ء، 1968ء اور 1984ء میں کھیلے گئے اولمپک کھیلوں میں تین سونے کے طمغے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ بھی چار بار جیتا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ 1971ء، 1978ء، 1982ء اور 1994ء میں جیتا ہے۔ تاہم، کرکٹ پاکستان کا سب سے زیادہ مشہور کھیل ہے۔ پاکستان کرکٹ کے ٹیم، جنہیں شاہین کہا جاتا ہے، نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ 1999ءمیں شاھین دوسرے نمبر پر رہے۔ اور 1987ء اور 1996ء میں عالمی کپ کے مقابلے جزوی طور پر پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان ٹی 20 قسم کے کھیل کے پہلے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے جو سال 2007ء میںجنوبی افریقامیں کھیلا گیا تھا۔ اور سال 2009ء میں اسی قسم کے کھیل میں پہلے نمبر پر رہے اور عالمی کپ جیتا جوبرطانیہمیں کھیلا گیا تھا۔ سال 2009ء کے مارچ کے مہینے میں دہشت گردوں نےسری لنکاکے کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا جو پاکستان کے دورے پرلاہورمیں موجود تھی اور اسی کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ تاہم چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد مئی 2015ء میں عالمی کرکٹ پاکستان میں اس وقت بحال ہوئی جب زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ تمام مقابلے سخت حفاظتی حصار میںلاہورمیں ہوئے اور تمام مقابلوں کے لیے ٹکٹ سارے بک چکے تھے اور کرسیاں ساری بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس نے دوسری ٹیموں کے آنے کے لیے بھی راہ ہموار کر لی۔
+ورزشی کھیلوں میں عبد الخالق نے سال 1954ء اور سال 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس نے 35 سونے کے طمغے اور 15 عالمیچاندیاور پیتل کے طمغے پاکستان کے لیے حاصل کیے۔اسکواشمیں پاکستان کے شہرپشاورسے تعلق رکھنے والے کھلاڑیجہانگیر خانہیں جن کو عالمی معیار کا کھلاڑی اور کھیلوں کی تاریخ میں عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے اور ساتھ ہی جانشیر خان ہیں جنھوں نے عالمیاسکواشکے مقابلوں میں کئی بار پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج درمیانے سے لے کر اعلیٰ طبقے کے ليے مخصوص ہے۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں اپنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی حالت ابتر ہے۔ریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔چاند اور ستارہ جو روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
+چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔
+شیلڈ کے اردگرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔
+علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔پاکستان کی زیادہ تر آبادی ملک کی وسطی علاقوں میں ہے، ملک کے جنوب میں زیادہ آباد مقامات اکثردریائے سندھکے آس پاس پر واقع ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی والا علاقہکراچیہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔پاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کامانگریزیزبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہاردوپاکستان کی قومی زبان ہے۔پاکستان کی صوبائی زبانوں میںپنجابیصوبہ پنجاب،پشتوصوبہ خیبر پختونخوا،سندھیصوبہ سندھ،بلوچیصوبہ بلوچستاناورشیناصوبہ گلگت بلتستانمیں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔[13]پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں،آیر،سرائیکی زبان،بدیشی،باگڑی،بلتی،بٹیری،بھایا،براہوی،بروشسکی،چلیسو،دامیڑی،دیہواری،دھاتکی،ڈوماکی،فارسی،دری،گواربتی،گھیرا،گوریا،گوورو،گجراتی،گوجری،گرگلا،ہزاراگی،ہندکو،جدگلی،جنداوڑا،کبوترا،کچھی،کالامی،کالاشہ،کلکوٹی،کامویری،کشمیری،کاٹی،کھیترانی،کھوار،انڈس کوہستانی،کولی(تین لہجے)،لہندالاسی،لوارکی،مارواڑی،میمنی،اوڈ،اورمڑی،پوٹھواری،پھالولہ،سانسی،ساوی،شینا(دو لہجے)،توروالی،اوشوجو،واگھری،وخی،وانیسیاوریدغہشامل ہیں۔[14]ان زبانوں میں بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں- ي سرا سنکے عمران خان سب سے اچھا ہے2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+538,پاکستان کے گنجان آباد شہروں کی فہرست,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86_%DA%A9%DB%92_%DA%AF%D9%86%D8%AC%D8%A7%D9%86_%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF_%D8%B4%DB%81%D8%B1,"یہپاکستان کی 2017ء کی مردم شماریکے مطابقپاکستانکے100سب سے زیادہ آبادی والےشہروںکی فہرست ہے۔ اس فہرست میں مردم شماری کا مجموعہ پاکستان کے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے لیےپاکستان بیورو آف شماریات[1]اورآزاد کشمیرکے اندر کے شہروں کے لیے آزاد جموں و کشمیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔[2]2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد کیپٹل ٹیریٹریمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء میں پچھلی مردم شماری کی طرح، گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔"
+539,شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%B1,شہريک بڑی انسانی بستی کو کہتے ہیں۔ ایک بڑی آبادیوالیبستی جہاں عمارتیں، دکانیں اور سڑکیں وغیرہ بکثرت ہوں، جہاں کی صحت تعلیم اور تعمیرات وغیرہ کی انتظامیہ یا بلدیہ (میونسپل کارپوریشن) موجود ہو۔
+540,دریائے راوی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D8%B1%D8%A7%D9%88%DB%8C,30°35′N71°49′E / 30.583°N 71.817°E /30.583; 71.817صوبہ پنجابمیںدریائے سندھاور اس کے معاوندریائے جہلم،دریائے چناب،دریائے راویاوردریائے ستلجبہتے ہیں۔ دریائے راویضلع کانگڑامیںدرہ روتنگ سے نکلتا ہے اور ساڑھے چار سو میل لمبا (720 کلومیٹر)ہے۔ پاکستانی پنجاب کا درالحکومتلاہوراسی دریا کے کنارے واقع ہے۔ دریائے راوی اور دریائے چناب کا درمیانہ علاقہ دوآبہ رچنا کہلاتا ہے۔ (دریائے راوی پہلے ایراوتی کہلاتا تھا۔)دریائے راوی کی بڑی بڑی نہریں یہ ہیں۔اپر باری دوآبمادھو پوربھارتسے نکلتی ہے۔ اس کی قصور برانچپاکستانکو سیراب کرتی ہے۔نہر لوئر باری دوآبکے ہیڈورکس بلوکی میں ہیں۔ یہ نہر اضلاع ملتان اور منٹگمری کو سیراب کرتی ہے۔ انہار ثلاثہ ان میں دریائے راوی، چناب اور جہلم کی تین نہریں اپر جہلم، اپر چناب اور لوئر باری دواب شامل ہیں۔ گنجی یار منٹگمری اور ملتان کو سیراب کرنے کے لیے راونی کا پانی کافی نہ تھا۔ چنانچہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے چناب کا پانی بلوکی کے مقام پر بذریعہ نہر اپرچناب دریائے راوی میں ڈالا گیا۔ اس سے نہر لوئر چناب کا پانی کم ہو گیا۔ اور گوجرانولہ شیخوپورہ،لائل پور(موجودہ نام فیصل آباد) اورجھنگکے اضلاع کے لیے پانی ناکافی ثابت ہونے لگا۔ چنانچہ منگلا کو نہر اپرجہلمکا پانی خانکی کے مقام پر دریائے چناب میں ڈال دیا گیا۔ اضلاع لائل پور، گوجرانولہ،ساہیوالاورملتانکی نہری آبادیاں انہار ثلاثہ کی بدولت ہی سیراب ہوتی ہیں ان میں اعلیٰ قسم کی گندم اور امریکن کپاس پیدا ہوتی ہے۔ دریائے راوی کے پرانے حصے کو راوی ضعیف بھی کہا جاتا ہے۔
+541,پاکستان کے گنجان آباد شہروں کی فہرست,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86_%DA%A9%DB%92_%DA%AF%D9%86%D8%AC%D8%A7%D9%86_%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF_%D8%B4%DB%81%D8%B1,"یہپاکستان کی 2017ء کی مردم شماریکے مطابقپاکستانکے100سب سے زیادہ آبادی والےشہروںکی فہرست ہے۔ اس فہرست میں مردم شماری کا مجموعہ پاکستان کے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے لیےپاکستان بیورو آف شماریات[1]اورآزاد کشمیرکے اندر کے شہروں کے لیے آزاد جموں و کشمیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔[2]2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد کیپٹل ٹیریٹریمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء میں پچھلی مردم شماری کی طرح، گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔"
+542,شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%B1,شہريک بڑی انسانی بستی کو کہتے ہیں۔ ایک بڑی آبادیوالیبستی جہاں عمارتیں، دکانیں اور سڑکیں وغیرہ بکثرت ہوں، جہاں کی صحت تعلیم اور تعمیرات وغیرہ کی انتظامیہ یا بلدیہ (میونسپل کارپوریشن) موجود ہو۔
+543,مغل,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%BA%D9%84,"مغلاردوزبان میںجنوبی ایشیاکے ایک قبیلہ یا ذات کا نام ہے، (فارسیوعربی:مغولاورانگریزی:Mughal or Mogol)؛بھارت،پاکستان،افغانستان،اوربنگلہ دیشسے متعلق ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو مغلوں نے مختلف ادوار میں وسط ایشیا سے حملوں کے دوران میں آباد کیے- دیگر قومیں جیسا کہترکاورایرانیتارکین وطن بھی یہاں آباد ہوئے۔قیات۔بورجگین۔ترک۔منگول۔تاتاری۔تیموری۔برلاس۔چغتائی۔قزلباش۔خان مغل۔کسرمغل۔دولی مغل۔تنولی۔قازق۔تغلق۔ازبک۔کمیک۔ترکمان۔توران۔چرکس۔چوغطہ۔ہن۔قفقاز۔گوک ترک۔اویغور۔آزری۔ملدیال۔جنہال۔خزر۔خلجی۔قپچاق۔تاجک۔عثمانی۔ایوبی۔غزنوی۔ایل خانی۔قارا خانی۔غوری۔سلجوقی۔خوارزمی۔چکرک۔ہزارہ قبائل۔تمام وہ لوگ جو مغل نسب کا دعویٰ کرتے ہیں، مختلف وسطی ایشیائی ترکی-مغول فوجوں کی اولادیں ہیں-چنگیز خانسےامیر تیموراورامیر تیمورسےظہیر الدین محمد بابرتک ایران اور جنوبی ایشیا پر حملے کے نتیجے میں یہ لوگ یہاں مقیم پزیر ہوئے-لیکنمغلکی اصطلاح ایک وسیع معنی ہو گیا ہے- Bernier، ایک فرانسیسی مسافر جو مغل شہنشاہاورنگزیبکے دور حکومت کے دوران میںہندوستانکا دورہ کیا تھا کے مطابق16th صدی میںمغللفظ مختلف گروہوں کی ایک بڑی تعداد کا احاطہ کرتا ہے- عام طور پر، بھارت کے تمام مرکزی ایشیائی تارکین وطن،ازبک،چغتائی،تاجک،قپچاق،برلاس،قازق،ترکمان،کرغزستان،اویغوریاافغاناورقفقازکے تارکین وطن کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔یہوشو پراجیکٹکے مطابق مغل قوم کی تعداد مختلف ممالک میں مندرجہ ذیل ہے؛سن آف دین محمدتاریخ مغلیہ از مرزا الیاس
+: چنگیز خان از علیم اللہ
+:رشتوں کی پہچان از مولوی محمد
+نصیر گریبان نامہ از عشمان انجم
+بحوالہ۔ تاریخ مغلیہ کشمیر از سردار بشیر احمد صدیقی"
+544,نورالدین جہانگیر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%AC%DB%81%D8%A7%D9%86%DA%AF%DB%8C%D8%B1,اکبر اعظمکے تین لڑکے تھے۔سلیم،مراداوردانیال(مغل خاندان)۔ مراد اور دانیال باپ کی زندگی ہی میں شراب نوشی کی وجہ سے مر چکے تھے۔ اکبر اعظم کی1605ءمیں وفات کے بعد شہزادہ سلیم نور الدین جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ اس نے کئی مفید اصلاحات نافذ کیں.1606ء میں اس کے سب سے بڑے بیٹے خسرو نے بغاوت کردی۔ اور آگرے سے نکل کر پنجاب تک جا پہنچا۔ جہانگیر نے اسے شکست دی۔ سکھوں کے گوروارجن دیوبھی جو خسرو کی مدد کر رہے تھے۔ شاہی عتاب میں آ گئے۔ شہنشاہ نے گوروارجن دیو کو قید کرکے بھاری جرمانہ عائد کر دیاجس کو گورو نے ادا کرنے سے معذرت کی۔گورو کو شاہی قلعہ لاہور میں قید میں ڈال دیا گیا ایک روز گورو نے فرمائش کی کہ وہدریائے راویمیں اشنان (غسل) کرنا چاہتے ہیں انھیں اس کی اجازت دے دی گئی غسل کے دوران گورو ارجن دیو نے دریا میں ڈبکی لگائی اور اس کے بعد وہ دکھائی نہ دیے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے دریائے راوی میں ڈوب کر خودکشی کرلی۔ جس مقام پر گورو نے دریامیں چھلانگ لگائی وہاں سکھوں نے ان کی سمادھی بنادی ہے۔ اس واقعہ سے مغلوں اور سکھوں کے درمیان نفرت کا آغاز ہواجس کے نتیجہ میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔1614ء میں شہزادہ خرم ’’شاہجہان‘‘ نےمیواڑکے راناامرسنگھکو شکست دی۔ 1620ء میںکانگڑہخود جہانگیر نے فتح کیا۔ 1622ء میںقندھارکا علاقہ ہاتھ سے نکل گیا۔ جہانگیر ہی کے زمانے میںانگریزسر ٹامس روسفیر کے ذریعے، پہلی بار ہندوستان میں تجارتی حقوق حاصل کرنے کی نیت سے آئے۔ 1623ء میں خرم نے بغاوت کردی۔ کیونکہ نورجہاں اپنے دامادشہریارکو ولی عہد بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخر 1625ء میں باپ اور بیٹے میں صلح ہو گئی۔بادشاہ جہانگیر اپنیتزک جہانگیریمیں لکھتے ہیں کہعطر گلابمیرے عہد حکومت میںملکہ نورجہاںکی والدہ نے ایجاد کیا تھا۔ جہانگیر مصوری اورفنون لطیفہکا بہت شوقین تھا۔ اس نے اپنے حالات ایک کتابتوزک ��ہانگیریمیں لکھے ہیں۔ اسے شکار سے بھی رغبت تھی۔ شراب نوشی کے باعث آخری دنوں میں بیمار رہتا تھا۔جہانگیر کی چہیتی بیوی نور جہاں امور سلطنت کے امور میں مداخلت کرتی تھی جس کی وجہ سے بہت سے امرا جہانگیری دربار سے بد ظن ہو گئے اور دربار میں کئی امرا کی آمدورفت بندہوگئی۔ نور جہاں چاہتی تھی کہ تختدہلیپر اس کا داماد شہزادہ شہریار رونق افروز ہو مگر دوسری طرف شہزادہ خرم بھی تخت کا طلب گار تھا اس لیے دو فریق بن گئے جس سے مغل امرا میں پھوٹ پڑ گئی ۔مغل افواج کا سپہ سالار مہابت خان تھا جو مغلوں کا وفادار خادم تھا۔ مگر اس کا جھکاؤ شہزادہ خرم کی طرف تھا جس سے نور جہان نے شہنشاہ جہانگیر کو اس کے خلاف کر دیا مہابت خان کو دربار میں طلب کرکے اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا اس کی بیٹی کا جہیز ضبط کر لیاگیا۔ جہانگیر جبکشمیرجا رہاتھا تو راستے میں مہابت خان نے بغاوت کردی مغل فوج اس کے ساتھ تھی اس لیے اس نے باآسانی جہانگیر کو قیدکرلیا ان حالات میں نور جہان اور اس کے بھائی آصف جاہ نے بھی خود کو مہابت خان کے حوالے کر دیا مہابت خان ایک بلند پایہ جرنیل تھا مگر سازشوں اور مکارانہ چالوں سے بے بہرہ تھا نور جہان نے چند دنوں میں مغل فوج کے بہت بڑے حصے کو اپنے ساتھ ملالیا جس سے مغل فوج میں پھوٹ پڑ گئی مہابت خان تنہا رہ گیا اس نے فرار ہو کر جان بچائی ۔مہابت خان کی قید سے رہائی پانے کے بعد جہانگیر زیادہ عرصہ زندہ نہ رہا گرمیوں کے موسم میں اس نے کشمیر میں قیام کیا کچھ عرصہ وہاں مقیم رہنے کے بعد 1627ء میںکشمیرسے واپس آتے وقت راستے ہی میں بھمبر کے مقام پر انتقال کیا۔ اس کی میت کو لاہور لایا گیا جہاں دریائے راوی کے کنارے باغ دلکشالاہورموجودہشاہدرہمیں دفن ہوا۔ یہ مقام ابمقبرہ جہانگیرکے نام سے مشہور ہے۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+545,ملکہ نورجہاں,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%84%DA%A9%DB%81_%D9%86%D9%88%D8%B1%D8%AC%DB%81%D8%A7%DA%BA,نور جہان 1577 میں قندہار (آج کے افغانستان) کے ایک معزز ایرانی گھرانے میں پیدا ہوئیں جنھوں نے صفوی دور میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے نتیجے میں اپنا ملک چھوڑ کر زیادہ روادار مغل سلطنت میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔اپنے والدین کے ملک اور اپنے نئے وطن کی مخلوط روایت میں پروان چڑھنے والی نور جہاں کی پہلے مغل حکومت کے ایک اہل کار شیرافگن سے سنہ 1594 میں شادی ہوئی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ مشرقی ہند کے امیر صوبے بنگال منتقل ہو گئیں۔ تاریخ میں نورجہاں کے متعلق بہت سی متضاد تحریریں بھی ملتی ہیں اور معتدل تحریریں بھی، تاریخ کی بعض کتب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جہانگیر کو نورجہاں پسند آگئی تھی اور اس نے نور جہاں کے شوہر کو ایک جنگ میں بھیج کر اپنے کارندوں کے ہاتھوں مروا دیا تھا ، اس کے ساتھ ہمیں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ جب ان کے شوہر پر جہانگیر کے خلاف سازش میں شامل ہونے کا شبہ پیدا ہوا تو بادشاہ نے بنگال کے گورنر کو اسے اپنے دربار آگرہ میں پیش کرنے حکم دیا۔ لیکن نور جہاں کا شوہر گورنر کے آدمیوں کے ساتھ تصادم میں مارا گیا۔نورجہاںبرصغیر کے شہنشاہجہانگیرکی ملکہ تھی۔ ان کا مزارلاہورکے نواح میںدریائے راویکے کنارے موجود ہے۔سکھدور میں جب لوٹ کھسوٹ کی گئی اور مقبروں اور قبرستانوں کو بھی نہ بخشا گیا ،اس دور میں سکھ مظالم کا شکار مقبرہ نورجہان بھی ہوا۔ جس تابوت میں ملکہ کو دفنایا گیا تھا وہ اکھاڑا گیا اور اس کے اوپر لگے ہیرے جواہرات پر خالصہ لٹیروں نے ہاتھ صاف ��یے۔ بعد ازاں مقبرہ کے ملازموں نے تابوت کو عین اسی جگہ کے نیچے جھاں وہ لٹکایا گیا تھا زمین میں دفن کر دیا۔۔ مندرجہ ذیل بیت اسی کا ہے جو اس کے مزار کی لوح پر لکھا گیا ہے۔ایک موقع پر جہانگیر نے یہ شعر کہا:نورجہان نے فوراً جواب دیا:سترہ سال کی عمر میں مہرالنسا کی شادی ایک بہادر ایرانی نوجوان علی قلی سے ہوئی، جنہیں جہانگیر کے عہد کے آغاز میں شیر افگن کے خطاب اور بردوان کی جاگیر سے نوازا گیا تھا۔ 1607 ء میں جہانگیر کے قاصدوں نے شیر افگن کو ایک جنگ میں مار ڈالا۔ مہرالنسا کو دہلی لایا گیا اور شہنشاہ کے شاہی حرم میں بھیج دیا گیا۔ یہاں وہ شہنشاہ اکبر کی بیوہ ملکہ رقیہ بیگم کی خدمت پر مامور کی گئیں۔بیوہ مہرالنسا کو جہانگیر کے حرم میں پناہ ملی جہاں دوسری خواتین نے ان پر اعتماد کرنا اور ان کی تعریف کرنا شروع کر دیا۔ نور جہاں نے جہانگیر سے سنہ 1611 میں شادی کی اور وہ اس کی 20 ویں اور آخری بیوی ہوئيں۔ مہرالنسا کو نوروز کے تہوار کے موقع پر پہلی بار جہانگیر نے دیکھا اوروہ ان کی خوبصورتی پر فریفتہ ہو گیا۔ جہانگیراور مہرالنسا 1611 میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ شادی کے بعد جہانگیر نے انھیں 'نورمحل' اور 'نور جہاں' کے لقب سے نوازا۔ 1613 ء میں نور جہاں کو 'بادشاہ بیگم' بنایا گیا۔ عمومی طور پر درباری ریکارڈ میں بہت کم خواتین کا ذکر کیا جاتا تھا لیکن سنہ 1614 کے بعد اپنے روزنامچے میں نور جہاں کے ساتھ اپنے مخصوص رشتے کا ذکر کرنا شروع کیا۔ اور انھوں نے نورجہاں کا توصیفی خاکہ پیش کیا کہ وہ حساس ساتھی ہیں، ایک شاندار خیال رکھنے والی ہیں، ایک ماہر مشورہ دینے والی، ایک اچھی شکاری، سفیر اور فن کی پرستار ہیں۔بہت سے تاريخ دانوں کا خیال ہے کہ جہانگیر شراب کی مریضانہ لت کا شکار تھا جسے حکومت پر توجہ دینے کی طاقت نہیں تھی اور اسی لیے اس نے اپنی حکومت کی عنان نور جہاں کے ہاتھوں میں سونپ دی تھی۔ لیکن اس میں مکمل صداقت نہیں ہے۔یہ سچ ہے کہ بادشاہ بلانوش تھا اور افیم کا دھواں اڑاتا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ اپنی بیگم سے بہت محبت کرتا تھا۔ لیکن یہ نور جہاں کے ایک اہم حکمراں بننے کی وجوہات نہیں ہیں۔ دراصل نور جہاں اور جہانگیر ایک دوسرے کو مکمل کرتے تھے اور بادشاہ اپنی بيگم کے شریک حکمراں ہونے کے بوجھ سے کبھی غیر مطمئن نہیں ہوا۔اس سلطنت کی واحد خاتون حکمران ہونے کے ناطے نور جہاں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی لوک کہانیوں میں ہر جگہ موجود ہیں۔ ان پر ناول لکھے گئے ہیں، فلمیں بنائی گئی ہیں اور ڈرامے بھی نشر کیے جا چکے ہیں۔وہ شاعرہ، ماہر شکاری اور ماہر فن تعمیر تھیں۔ اپنے والدین کے لیے انھوں نے آگرہ میں مقبرے کا جو ڈیزائن تیار کیا تھا اس کی جلوہ گری بعد میںتاج محلمیں نظر آتی ہے۔سنہ 1617 میں سونے اور چاندی کے سکوں پر جہانگیر کے نام کے ساتھ ان کا نام بھی کندہ ہونے لگا۔ دربار کے واقعہ نویس، غیر ملکی سفیر، تجار اور درباری جلد ہی ان کی اہمیت کو محسوس کرنے لگے۔ایک درباری نے ایک واقعہ بیان کیا کہ کس طرح انھوں نے مردوں کے لیے مخصوص شاہی بالاخانے پر آکر لوگوں کو حیران کر دیا۔ یہ ان کی حکم عدولی کی واحد مثال نہیں۔شکار کرنا ہو یا شاہی فرمان اور سکے جاری کرنا ہو، سرکاری عمارات ڈیزائن کرنا ہو یا غریب خواتین کی امداد کے کام کرنا ہو یا پسماندوں کی آواز اٹھانا ہو نور جہاں نے ایسی زندگی گزاری جو اس وقت کی خواتین کے لیے لیے غیر معمولی تھی۔انھوں نے بادشاہ کے قید کیے جانے کے بعد ان کو بچانے کے لیے فوج کی قیادت بھی کی جو ایسا ہمت والا کام تھا جس سے ان کا نام عوام کی یادداشت اور تاریخ میں نقش ہو کر رہ گیا ہے۔
+546,پران,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%B1%D8%A7%D9%86,"ہندو متکی مذہبی کتابوں میں سب سے بڑا درجہ ’’ویدوں‘‘ کا ہے جن کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ یہ ’’ایش وانی‘‘ یعنی خدا کا کلام ہے۔ ’’وید‘‘ چار ہیں:ان چار ویدوں کے علاوہاپنشد،پُراناسمرتیاںوغیرہ کو ان کی مذہبی کتابوں کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی کل تعداد ’’مترمشر‘‘ کے مطابق 57 ہے اور محقق ’’نیل کنڑ‘‘ کے مطابق 97 ہے۔ ایک دوسرے ہندو محقق ’’کملاکر‘‘ نے ان کی تعداد 131 بتائی ہے۔[1]انھی پُرانوں میں ایک مشہور پُران کا ناممتسیہ پرانہے۔ متسیہ کا مطلب مچھلی ہے۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ صرف ایک ہی دیوی ہے جسے ہندوستان کے مختلف حصوں میں الگ الگ ناموں سے جانا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ لوگوں نے انھیں مختلف دیویوں کے طور پر ماننا شروع کر دیا۔ بنگال کے علاقے کے لوگ اس ایک دیوی کو درگا کے نام سے پُکارتے تھے۔[2]ایک اور مشہور کتب وِشْنُو پُران میں صفات الٰہیہ حسب ذیل مذکور ہیں: ""مخلوق کو پیدا کرنے‘ پرورش کرنے اور تباہ کرنے کے میرے اوصاف کی وجہ سے ہے۔ میرے ہیبرہما،وشنو،شیوکے تین فرق ہوئے ‘حقیقتًا میری صورت ہمیشہ بغیر کسی شکل کے ایک رہی ہے۔""[3]"
+548,دسویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%B3%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<نویں صدی <<<دسویں صدی>>> گیارہویں صدی>>>
+549,گیارہویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DB%81%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<دسویں صدی <<<گیارہویں صدی>>> بارہویں صدی>>>
+550,محمود غزنوی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF_%D8%BA%D8%B2%D9%86%D9%88%DB%8C,"مسعود غزنوییمین الدولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگینالمعروفمحمود غزنوی(2 نومبر 971 ء - 30 اپریل 1030)سلطنت غزنویہکا پہلا آزاد حکمران تھا، اس نے 999 سے 1030 تک حکومت کی۔ ان کی موت کے وقت، اس کی سلطنت ایک وسیع فوجی سلطنت میں تبدیل ہو چکی تھی، جو شمال مغربیایرانسے لے کربرصغیرمیںپنجابتک،ماوراء النہرمیںخوارزماورمکرانتک پھیلی ہوئی تھی۔محمود نے اپنے پیش روسامانیوںکے بیوروکریٹک، سیاسی اور ثقافتی رواج کو جاری رکھا، جس نےشمالی ہندوستانمیں ایک فارسی ریاست کے لیے بنیاد قائم کرنے کا ثبوت دیا۔ اس کا دار الحکومتغزنیاسلامی دنیا کے ایک اہم ثقافتی، تجارتی اور فکری مرکز کی حیثیت سے تیار ہوا، اس نےبغدادکے اہم شہر کا تقریباً مقابلہ کیا۔ دار الحکومت میں بہت سی ممتاز شخصیات، جیسےالبیرونیاورفردوسیسے اپیل کی گئی۔وہ پہلا حکمران تھا جس نے سلطان (""اتھارٹی"") کا لقب اختیار کیا تھا، جس نے اس کی طاقت کی حد کی نشان دہی کرتے ہوئےخلافت عباسیہکے سرغنہ کے نظریاتی رابطے کا تحفظ کیا تھا۔ اپنے اقتدار کے دوران میں، اس نے سترہ باربرصغیر پاک و ہند(دریائے سندھکے مشرق) کے کچھ حصوں پر حملہ کیا اور فتح حاصل کی۔محمودزابلستان(موجودہافغانستان) کے علاقےغزنیمیں 2 نومبر971کو پیدا ہوا تھا۔ اس کے والد،سبکتگین، ایکترکغلام کماندار (غلمان) تھے جنھوں نے977میںغزنوی سلطنتکی بنیاد رکھی، جس پر انھوں نے سامانیوں کے ماتحت کی حیثیت سےخراساناورماوراء النہرپر حکمرانی کی۔ محمود کی والدہالپتگینکی بیٹی تھی۔ محمود کی ابتدائی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہے، وہ احمد میماندی کا اسکول کا ساتھی تھا، جو فارسی کا دار الحکومتزابلستانکا رہائشی تھا اور اس کا رضاعی بھائی تھا۔سلطان محمود غزنوی بہت بڑے عاشق رسول تھے۔نبی کری�� ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے اور قرآن و سنت کی پاسداری رکھنے والے عظیم حکمران تھے۔ امت مسلمہ سلطان محمود غزنوی کی اصطلاحات کو تا قیامت رشک کی نگاہوں سے دیکھتی رہے گی۔سبگتگیین نے کوساری جہاں نامی ایک عورت سے شادی کی اور ان کے بیٹےمحمود غزنویاوراسمعیل غزنویتھے، جو ایک کے بعد ایک اس کا جانشین ہوا۔ محمود غزنوی کے بیٹے مسعود غزنوی اور محمد غزنوی تھے جو محمود غزنوی کے بعد اس کے جانشین مقرر ہوئےمحمود غزنوی، بھی بعد میں سلطنت کے حکمران بنے۔ اس کی بہن، ستارِ مُعلّٰی کی شادی محمود بن عطاء اللہ علوی سے ہوئی، جسے غازی سالار ساہو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جس کا بیٹا غازی سید سالار مسعود تھا۔محمود کا ساتھیجارجیائیغلامملک ایازتھا اور اس سے ان کی محبت نے نظموں اور کہانیوں کو متاثر کیا۔994 میں محمود نےسامانیامیر،نوح دومکی مدد سے باغی فایق سےخراسانکو قبضہ کرنے میں اپنے والدسبکتگینکے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ اس عرصے کے دوران میں،سامانی سلطنتانتہائی غیر مستحکم ہو گئی، داخلی سیاسی لہروں میں تبدیلی کے ساتھ ہی مختلف گروہوں نے قابو پانے کے لیے جدوجہد کی، ان میں سب سے اہم ابو القاسم سمجوری، فائق، ابو علی، جنرل بختوزین نیز ہمسایہآل بویہاورقراخانیانشامل تھے۔سبکتگینکا انتقال 997 میں ہوا اور اس کے بعد ان کے بیٹےاسماعیل غزنویسلطنت غزنویہکا حکمران بنا۔سبکتگینکے زیادہ تجربہ کار اور بڑے محمود پر وارث کی حیثیت سے اسماعیل کی تقرری کے پیچھے کی وجہ معلوم نہیں۔ اس کی وجہ شایہ اسماعیل کی والدہسبکتگینکے بوڑھے مالکالپتگینکی بیٹی ہیں۔ محمود نے جلد ہی بغاوت کر دی اور اپنے دوسرے بھائیابوالظفر،لشکر گاہکے گورنر کی مدد سے، اس نے اگلے سال غزنی کی لڑائی میں اسماعیل کو شکست دی اورغزنوی سلطنتپر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس سال، 998 میں، اس کے بعد محمود نےبلخکا سفر کیا اور امیر ابو الحارث منصور بی۔ نور دوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کے بعد اس نے ابو الحسن اصفرینی کو اپنا وزیر مقرر کیا اور اس کے بعد مغرب سےغزنیسےقندھارکا علاقہ لینے کے لیے روانہ ہوا جس کے بعدلشکر گاہگیا، جہاں اس نے اسے ایک عسکری شہر میں تبدیل کر دیا۔جبسبکتگینکی وفات اگست 997ء میں ہوئی تو اس وقت سلطان محمود اپنے باپ کی طرح سےنیشاپورکا حاکم مقرر تھا اور سلطان کا بھائی اسماعیل جو باپ کی وفات کے موقع پر غزنی میں موجود تھا، نے اپنے تاج پوشی کا اعلان کر دیا۔ سلطان محمود نے پہلے خط کتابت کے ذریعے بھائی اسماعیل سے بات کرنے کی کوشش کی جب کوئی حل نہ نکلا تو 998ء میں غزنی پر حملہ کر دیا۔ اسماعیل کی حکومت ختم کرکے خود غزنی کی سلطنت سنبھال لی۔سلطان محمود جن کو اسلامی تاریخ کے چند عظیم جرنیلوں میں شامل کیاجاتا ہے، کی فوج کم و بیش ایک لاکھ تھی اور فوج میں عرب، غوری، سلجوق، افغان، مغل کے علاوہ دس سے پندرہ ہزار ہندو سپاہی بھی شامل تھے۔ ہندوستان سے جتنے بھی فوجی بھرتی کیے جاتے تھے۔ وہ بیشتر ہندو ہوتے تھے۔ ان کا کمانڈر بھی ہندوستانی ہوتا تھا جس کو سپہ سالار ہندوان کہا جاتا تھا ہندو فوجی افسروں میں چند ایک قابل زکر نام بیرپال، چک ناتھ، زناش، بجے راؤ اور سوھنی راؤ شامل تھے۔ عباسی خلیفہ نے 999ء میں سلطان محمود کویمین الدولہکا خطاب عطا کیا جس کی مناسبت سے سلطان محمود کے خاندان کی حکومت کویمینی سلطنتبھی کہا جاتا ہے۔ محمود غزنوی نے ہرات کے قریب صحرا کنارے ایک خاص شہر، ہاتھی نگر، تعمیر کیا کہ ان خطوں کی گرم آب و ہو�� ہندوستان کے موسموں سے مطابقت رکھتی تھی۔ پھر اس نے ہندوستان سے لائے ہوئے سینکڑوں ہاتھیوں کی پرورش اس شہر میں کی۔ ہاتھیوں کے ساتھ انھیں سدھارنے والے بھی ہندستان سے منگوائے گئے اور یوں ہاتھی اس شہر میں خوش وخرم ہو گئے۔ محمود ہربرس ان ہاتھیوں کی مدد سے ہندوستان پر حملہ آور ہوتا اور واپسی پر انھیں غزنی کی بجائےہراتکے قریب اس ہاتھی نگرمیں واپس بھیج دیتا تھا۔سلطان محمود غزنوی جس کی سب سے بڑی وجہ شہرت ہندوستان پر سترہ حملے ہیں، کی بنیادی وجہ جان لینا انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ پاکستان کے علاقے لاہور سے پشاور تک کا علاقہ ایک ہندو راجا جے پال کے زیر سلطنت تھا۔ جے پال اور سلطان محمود کے باپسبکتگینکی ایک جنگ پشاور اور جلال آباد کے علاقوں میں 986ء میں ہوئی تھی، جس میں جے پال کو شکست ہوئی اور سبکتگین کی سلطنت دریائے سندھ کے ساتھاٹکتک پھیل گئی تھی۔سلطان محمود نے حکومت سنبھالتے ہیپشاورتک کے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی مہمات کرکے اپنی سلطنت کو مضبوط کیا تو راجا جے پال جو پہلے ہی اپنی شکست کا بدلہ لینے کو بے تاب تھا، نے ایک بڑا لشکر تیار کیا اور غزنی پر حملے کے لیے نکل پڑا۔ 1001ء میں پشاور کے قریب راجا جے پال اور سلطان محمود کی فوجوں کا ٹکراؤ ہوا۔ راجا جے پال کو شکست ہوئی اور پورے خاندان سمیت گرفتار ہو گیا۔ مذاکرات اور ایک بھاری تاوان کے عوض رہائی کے بعد جے پال واپس لاہور آیا، چونکہ لڑائی سے پہلے جے پال اپنے اردگرد کے راجاؤں سے مدد لے کرگیا تھا اس لیے شکست کے بعد نہایت شرمندگی کی حالت میں اپنی حکومت بیٹےانندپالکے حوالے کرکے خود لاہور کے ایک دروازے کے پرانے برگد کے درخت کے پاس ایک بہت بڑی چتا جلائی اور جل مرا۔سلطان محمود غزنوی نے دوسرا حملہ جو 1004ء کو ہوا۔ بھنڈا یا بھیرہ جودریائے ستلجکے قریبی علاقوں پر مشتمل ریاست پر کیا جس کا راجا بجی راؤ تھا۔ تیسرا حملہملتانکے حاکم ابوالفتح کے خلاف 1006ء میں کیا لیکن راستے میں ہی دریائے سندھ کے کنارے جے پال کے بیٹے انند پال کے ساتھ مڈبھیڑ ہو گئی۔سخت جنگ کے بعد انند پال کو شکست ہوئی اور بعض روایات کے مطابق وہ کشمیر پناہ لینے کے لیے بھاگ گیا۔ انند پال کو شکست دینے کے بعد سلطان محمود نے ملتان کا رخ کیا اور ملتان کو فتح کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ملتان کا حاکم جے پال کے پوتے سکھ پال کو مقرر کیا جو اسلام قبول کرچکا تھا۔ جلد ہی سلطان محمود کو پھر ملتان جانا پڑا جہاں پر سکھ پال نے بغاوت کردی تھی۔ 1008ء میں سلطان نے سکھ پال کو شکست دے کر معزول کر دیا۔ اسی دوران میں انند پال جو شکست کھا کر کشمیر بھاگ گیا تھا، نے واپس آ کر ایک بار پھر سلطان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی انند پال نے اردگرد کے راجاؤں سے مدد لے کر ایک بہت بڑا لشکر اکٹھا کر دیا۔ 1008ء کے آخری دنوں میں ایک بار پھر دریائے سندھ کے قریب اٹک کے علاقے میں جنگ کا آغاز ہوا۔ خونریز جنگ کے بعد انند پال کو ایک بار پھر شکست ہوئی۔1009ء کے آخری مہینوں میں ایک بار پھر سلطان محمود نے ہندوستان پر حملہ کرکے پہلےنرائن پورکی ریاست کو فتح کیا اور پھر 1010ء میں ملتان کے گرد و نواح کے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کرلئے۔ 1014ء میں سلطان نے انند پال کے بیٹے لوجن پال کو موجودہکوہستانکے علاقے میں شکست دی اور مزید لوجن پال کی مدد کے لیے کشمیر سے آئے ہوئے ایک بڑے لشکر کو بھی شکست فاش سے دوچار کیا۔ 1015ء میں سلطان محمود نےکشمیرپر حملہ کیا اور لیکنبرف باریکے باعث راستے بند ہونے پر بغیر جنگ کے ہی واپس آنا پڑا۔ 1018ء میں سلطان محمود نے پہلی بار پنجاب کے پاردریائے جمناکے علاقے میں اپنی فوج کو اُتارا اور ہندوؤں کے مذہبی مقام متھرا کو فتح کرنے کے بعد ایک مشہور ریاستقنوجکا محاصرہ کر لیا۔ قنوج کے راجے نے سلطان سے صلح کا پیغام بھیجا اور سلطان کا باجگزار بننا قبول کر لیا۔ 1019ء میں قنوج کی ملحقہ ریاستکالنجرکے راجا گنڈا نے قنوج پر حملہ کرکے راجا کو قتل کر دیا اس کی خبر جب سلطان محمود تک پہنچی تو وہ اپنے مطیع راجے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے نکلا اور کالنجر پر حملہ کرکے اسے شکست فاش سے دوچار کیا۔ راجالوجن پالاورراجہ گنڈاجو سلطان محمود سے شکست خوردہ تھے۔ دونوں نے مشترکہ طور پر ایک بڑے حملے کی تیاری کی اور ایک بار پھر 1019ء میں ہی سلطان کو دوبارہ ان دونوں کی سرکوبی کے لیے ہندستان کا سفر کرنا پڑا۔ نتیجتاً دونوں راجاؤں کو شکست ہوئی اورہندوستانسے ہندو شاہی راجا کا خاتمہ ہو گیا۔سلطان محمود غزنوی 1020ء سے 1025ء کے درمیانی عرصے میں سلطنت کے شمالی مغربی حصے اوردریائے فراتکی وادیوں میں فتوحات میں مشغول رہا۔ اسی عرصہ میں سلطان محمود کو اپنے مخبروں سے یہ اطلاعات متواتر مل رہی تھیں کہ شمالی اور وسطی ہندوستان کی تمام ریاستیں سلطان سے شکست کھانے کے بعد بدلہ لینے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہیں اور اب کے بار ایک مشترکہ حملہ کی تیاری ہے اس کے لیے گجرات کے علاقے کاٹھیاوار میں ایک بہت ہی مشہور مندر سومنات کو مرکز بنایا گیا ہے۔سومناتسمندر کے کنارے ایک عظیم الشان مندر تھا، جسے پورے ہندوستان میں ہندوؤں کے درمیان میں ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ مندر میں موجود شیوا کے بت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شیوا بت کو غسل دینے کے لیے تازہ پانی روزانہ کی بنیاد پردریائے گنگاسے لایا جاتا تھا۔ جنگ کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں کہ سلطان نے پیشگی حملے کی تیاری کردی۔ غزنی سے سومنات تک فاصلہ تقریباً 2600 کلومیٹر بنتا ہے جس میں سے 500 کلومیٹر طویل مشکل ترینصحرائے چولستاناورراجستھانبھی پڑتا تھا۔اکتوبر 1025ء میں سلطان کی فوج تیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ غزنی سے روانہ ہوئی۔ تین مہینوں کی مسافت کے بعد جنوری 1026ء میں سومنات مندر کے قریب پڑاؤ ڈالا۔ ہندوستان کے طول و عرض سے مہاراجے اور رجواڑے اپنی اپنی فوج کے ساتھ مندر کی حفاظت کے لیے موجود تھے۔ جنگ کا آغاز ہوا اور ایک سخت مقابلے کے بعد سلطان محمود فتح یاب ہوا۔ مندر کو توڑ ڈالا گیا۔ یہی وہ مشہور جنگ ہے جس کی بنا پر بعض مورخین نے سلطان محمود کی ذات کو ایک لٹیرا مشہور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سومنات کے بعد سلطان محمود کی ہندوستان پر آخری لڑائی 1027ء میں ہوئی جو دریائے سندھ سےدریائے بیاسکے درمیانی علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔آخری دو تین سال سلطان محمود غزنوی بیمار بھی رہا اپنی آخری جنگی مہم 1029ء میں ایرانی علاقے رے میں انجام دی اوررےکے حاکمآل بویہکو شکست دی۔کہا جاتا ہے کہ دق اور سل کے مرض میں مبتلا ہوکر30 اپریل1030ءمیں 59 سال کی عمر میںغزنیمیں وفات پائی۔مزید جانیں۔آرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ readblog1.com(Error: unknown archive URL)"
+551,خطۂ پنجاب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%B7%DB%82_%D9%BE%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%A8,"پنجاب (شاہ مکھی پنجابی: پنجاب،گرمکھی پنجابی: ਪੰਜਾਬ) جسے پانچ دریاؤں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے،جنوبی ایشیاکا ایک جغرافیائی، ثقافتی، اور تاریخی خطہ ہے۔ یہ خاص طور پربرصغیر پاک و ہندکے شمال مغربی حصے میں واقع ہے، جو جدید دور کےمشرقی پاکستاناورشمال مغربی ہندوستانکے علاقوں پر مشتمل ہے۔ پنجاب کے بڑے شہرلاہور،فیصل آباد،راولپنڈی،گوجرانوالہ،ملتان،لدھیانہ،امرتسر،سیالکوٹ،چنڈی گڑھ،شملہ،جالندھر،پٹیالہ،گڑگاؤںاوربہاولپورہیں۔پنجاب پانچ دریاؤں کے کنارے آباد بستیوں پہ پھلا پھولا، جو قدیموادیٔ سندھ کی تہذیب(کم از کم 3000قبل مسیحمیں شروع ہوئی) کے آغاز میں قریب مشرق کے لیے ایک اہم راستے کے طور پر کام کرتا تھا، اس کے بعدہند آریاؤںکی ہجرت ہوئی۔ زراعت پنجاب کی اہم اقتصادی خصوصیت رہی ہے اور اس نےپنجابی ثقافتکی بنیاد رکھی۔ پنجاب ایک اہم زرعی خطے کے طور پر ابھرا، خاص طور پر 1960 کی دہائی کے وسط سے 1970 کی دہائی کے وسط کے دورانسبز انقلابکے بعد، اور اسے ""ہندوستان اور پاکستان دونوں کی بریڈ باسکٹ"" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔[1]پنجاب کی تاریخ تنازعات کا ایک تسلسل ہے، جس میں مقامی خاندانوں اور سلطنتوں کے عروج کا نشان ہے۔ چوتھی صدی قبل مسیح میںسکندر اعظمکے حملے کے بعد،چندرگپت موریانےموریا سلطنتقائم کرنے کے لیے پنجابی جمہوریہ کے ساتھ اتحاد کیا۔ ہند-یونانی سلطنت،کوشان سلطنت، اور ہند-سیتھیوں کے یکے بعد دیگرے دور حکومت ہوئے، لیکن بالآخر مشرقی پنجاب کےجن پدوںجیسےیودھیوں، تریگرتا سلطنت، اودمبروں، ارجنیانوں، اور کُنیندا سلطنت کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔فہرست ہم نام ریاستیں اور علاقے"
+552,احمد ایاز,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D8%A7%D8%B2,"سلطانمحمود غزنویکا محبوب غلام اور مشیر۔ پورا نام ابوالنجم ایاز۔ باوجود قرب سلطانی کے اس کی زندگی بڑی سادہ اور کفایت شعارانہ تھی۔ وہ زمانہ قرب سلطانی سے پیشتر کا مفلسانہ لباس بطور یادگار اپنے پاس صندوق میں محفوظ رکھتے رہتا اور جب کبھی اس یادگار کو ملاحظہ کرتا تو یاز قدر خود بشناس کہتا یعنی ایاز تو اپنی ماضی کی حیثیت کو بھول نہ جانا۔ مورخین کا خیال ہے کہوزیرآبادکے قریب (سوہدرہ) کا قصبہ اسی ایاز نے آباد کیا تھا۔ 1036ء کے لگ بھگلاہورکا صوبیدار مقرر ہوا۔ اور یہیں وفات پائی۔ اس کا مزار چوک رنگ محل میں ہے۔محمود غزنوی کے معروف غلام کا مقبرہ ان سے منسوب ہے، یہ مقبرہرنگ محلمشن ہائی اسکوللاہورکے سامنے چوک میں موجود ہے۔ایاز کو ایاس اور الیاس بھی لکھا گیا ہے۔ اس کے ابتدائی حالات کے متعلق مستند معلومات نہیں ملتیں. ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی نے ایاز کا سنہ پیدائش اندازہً373ھتحریر کیا ہے۔ ایاز سلطان کے دربار میں کیسے پہنچا اس کے متعلق بہت سی کہانیاں موجود ہیں۔ مجالس العشاق(بحوالہ نقوش) کے مطابق397ھمیں غلام فروشوں کی ایک جماعت نے سلطان کے لیے 120 غلام پیش کیے اب بعض کہتے ہیں کہ ایاز کو اس کی خوبصورتی کے باعث سب سے پہلے منتخب کیا گیا جبکہ بعض کے نزدیک اس کو کمزوری و بیماری کے باعث چھوڑ دیا گیا اور پھر ایاز کے زار و قطار رونے پر اس کو بھی لے لیا گیا۔ زلالی نے اپنی مثنوی (بحوالہ مآثر لاہور) محمود و ایاز میں ایاز کو کسی کشمیری بادشاہ کا بیٹا بتایا ہے جو لڑکپن میں گم جاتا ہے اور غلام بنا کر بیچا جاتا ہے, لیکن اس زمانے تک کشمیر میں کوئی مسلمان بادشاہ نہ تھا۔ اسی طرح ایاز کے آبائی علاقے کے متعلق اختلاف ہے۔ ایاز کو مختلف لوگوں نے ترک, روسی, منگول, افریقی,ترکمانی, ختنی, کشمیری وغیرہ لکھا ہے۔ایاز کی کنیت ابو النجم بتائی جاتی ہے۔ اس کے باقی خاندان کا تاریخ میں کوئی خاص ذکر نہیں بعض نے اس کی ایک بہن کو محمود کی بیوی بتایا ہے مگر مستند روایات میں ایسا کوئی تذکرہ موجود نہیں. بعض نے ��یماق یا اوئماق ایاز کے باپ کا نام اور بعض نے ایاز کے قبیلے کا نام بتایا ہے۔ دائر معارف اسلامیہ میں اس ضمن میں کہا گیا ہے"" ابن اثیر نے ""ابن اوئماق"" لکھ کر بظاہر بعد کے فارسی تاریخ نویسوں کو غلط راستے پر ڈالا اور ان کے بعض کاتبوں نے اسے ابن اسحاق بنا دیا.""ایاز محمود کا وفادار تھا۔ ایاز کوئی عام غلام نہیں تھا, جیسا کہ مورخ بیہقی ایاز کا تذکرہ اخص خواص آٹھ غلاموں میں کرتا ہے۔ ایاز محمود کے شاہی دستے کا سالار بھی تھا۔ ایاز کی محمود کے دربار میں حیثیت سے متعلق پروفیسر مشتاق احمد بھٹی نے اورینٹل کالج میگزین شمارہ نومبر 1943ء میں اپنے مضمون میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ نور احمد چشتی تو کہتے ہیں کہ محمود نے سومنات کا بت ایاز کے مشورے پر ہی توڑا. ایاز و محمود پر بہت سے شعرا نے لکھا ہے۔ ایاز سے متعلق فارسی ادب میں بہت سی حکایت موجود ہیں۔ زلالی, سعدی, عوفی,رومی,عطار, غقاری,عنصری,حافظ, فرخی, نظامی,جامی, وغیرہ نے ایاز پر لکھا ہے۔ شعرا کے قصائد کی بنا پر ہمارے بہت سے مورخین نے محمود و ایاز کو داستان عشق بنا دیا۔ اب اس معاملے میں ہر ایک نے اپنی کہانی تراش لی. شعر العجم میں مولانا شبلی نے لکھا ہے"" سلطان محمود کو ایاز سے جو محبت تھی اگرچہ حد سے متجاوز تھی لیکن ہوس کا شائبہ نہ تھا۔ ایک دن بزم عیش میں بادہ و جام کا دور تھا محمود خلاف عادت معمول سے زیادہ پی کر بدمست ہو گیا, اسی حالت میں ایاز پر نظر پڑی اس کی شکن در شکن زلفیں چہرہ پر بکھری ہوئی تھیں محمود نے بے اختیار اس کے گلے میں ہاتھ ڈال دیے, لیکن فوراً سنبھل گیا..."" اب مولانا نے محمود کی مے نوشی کے متعلق کوئی حوالہ نہیں لکھا لیکن انکا یہ بیان ایک شاعر کے قصے پر مبنی ہے۔ اس بیان پر بہت سے لوگوں نے جرح کی ہے ابن کثیر ,ابن خلدونو دیگر مورخین نے محمود کا جو کردار لکھا ہے اس میں یہ واقعہ ویسے بھی نہیں جچتا. اسی طرح محمود و فردوسی کے متلعق بھی کہانی بنا لی گئی ہے۔ایاز کو بانی لاہور اور لاہور کا پہلا حاکم بھی کہا جاتا ہے لیکن غزنوی دور میں لاہور کے اولین صوبہ داروں میں عبد اللہ فراتگین اور حاجب اریاروق کے نام بھی ملتے ہیں۔ ایاز لاہور میں کب آیا اس کے متلعق مورخین کا اختلاف ہے۔ صاحب تاریخ الامت, سجان رائے,سید لطیف,لوسی پیک,محمد ممتاز ارشد, گلاب سنگھ(پنجاب نوٹس اینڈ کویریزفروری 1884ءمیں), لاہور گزیٹیئر(1893ءمیں), محمد اکرام(آب کوثر میں) و دیگر کی رائے ہے کہ ایاز کو لاہور کا صوبہ دار یا منتظم محمود غزنوی نے فتح لاہور کے بعد خود بنایا. کہنیالال کا بیان ہے ""محمودغزنیچلا گیا اور یہ شہر چند سال ویران پڑا رہا. من بعد جب ملک ایاز بادشاہ کے حکم سے پنجاب کا حاکم بنا اور شہر بسایا.""ایاز نے محمود کی وفات کے بعد محمد کی بجاے مسعود کی حمایت کی تھی اس کے باعث ایاز مسعود کا بھی منظور نظر بن گیا۔مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایاز کو امیر مسعود کے عہد میں اس کے فرزند مجدود(کچھ لوگوں نے غلطی سے مسعود کے دوسرے فرزند مودود کا نام بھی لکھا ہے) کا اتالیق بنا کر تقریباً 426ھ یا427ھمیں لاہور بھیجا گیا۔ اس روایت کو مورخ فرشتہ, محمد دین فوق,سید ہاشمی فرید آبادی, ڈاکڑ خواجہ عابد نظامی, طاہر لاہوری ,پروفیسر مشتاق احمد بھٹی, ڈاکٹر محمد باقر, مفتی غلام سرور لاہوری,ڈاکٹر انجم رحمانی و دیگر نے درج کیا ہے۔ مورخ بیہقی اورمسعودیکے بیانات سے بھی اس روایت کی تائید ہوتی ہے مگر انھوں نے ایاز کا نام درج نہیں کیا. ایک قصے میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ محمود ای��ز کو لاہور سپرد کرنا چاہتا تھا مگر ایاز نے قبول نہیں کیا اسی طرح روایات میں موجود ہے کہ ایاز محمود کی وفات کے وقت اس کے پاس تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مجدود کی کم عمری کے باعث اصل طاقت ایاز کے ہی ہاتھ میں تھی مورخ فرشتہ کے بقول قاضی القضاۃ و سپہ سالار بھی ایاز کے ماتحت تھے۔ ایاز نے لاہور کو خوب ترقی دی.ایاز کب تک لاہور میں بر سر اقتدار رہا اس کی صحیح مدت معلوم نہیں کیونکہ اس کی سنہ وفات میں اختلاف ہے۔ مورخ فرشتہ نے لکھا433ھمیں مسعود کے قتل کے بعد مودود اور مجدود ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہوگے. مگر عید کے روز مجدود مردہ پایا گیا اور اس کے کچھ عرصہ بعد ایاز کا بھی انتقال ہو گیا۔ مولانا ذکاء اللہ و دیگر نے ایاز کا سنہ وفات یہی لکھا ہے۔ مفتی غلام سرور نے گنج تاریخ (بحوالہ پیر غلام دستگیر نامی) میں سنہ وفات434ھجبکہ اپنی دوسری کتاب حدیقتہ الاولیا میں450ھلکھا ہے۔ مستند کتب میں سے ابن اثیر نے سنہ وفات 449ھ تحریر کیا ہے اورطبقات ناصری کے انگریز مترجم ریورٹی نے بھی حاشیے پر سنہ وفات 449ھ لکھا ہے۔ محمد دین فوق اور ہاشمی فریدآبادی نے بھی اس کی تائید کی ہے اور پروفیسر مشتاق احمد بھٹی نے اپنے مضمون میں اس تاریخ کو ثابت کیا ہے۔ ایاز کے آخری دنوں کے متعلق مآثر لاہور میں درج ہے ""معلوم نہیں زندگی کے آخری سال جو بظاہر لاہور ہی میں گذرے کس طرح اور کن اشغال میں بسر ہوئے."" مفتی غلام سرور نے حدیقتہ الاولیاء میں لکھا ہے "" مودود نے ایاز کو واپس غزنی لے جانے کی بہت کوشش کی مگر اس نے منظور نہ کیا اور تارک الدنیا ہوکر صحبت فقر اختیار کی اور بزرگان لاہور سے سے فیض کامل حاصل کیا..."" کہا جاتا ہے کہ ایاز سلسلہ جنیدیہ میں بیعت ہوگے اور آپ کی کرامت بتائی جاتی ہے کے آپ نے ایک ہی دن میں لاہور کی فصیل اور قلعہ تعمیر کیا ( اولیاء کے تذکروں کے علاوہ یہ روایت سید لطیف اور لاہور گزیٹیئر 1893ء کے مرتبین نے بھی درج کی ہے).بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ مقبرہ ایاز کا نہیں. کچھ ایاز کا مقبرہ صوابی میں بتاتے ہیں(مگر کسی مستند کتاب میں ایسی کوئی روایت نہیں ملی). لاہور کے حوالے سے ایاز نام کے دو اور معروف لوگ بھی گذرے ہیں۔ دائر معارف اسلامیہ میں اس مسئلے کے متلعق کہا گیا ہے ""ایک ایاز عزالدین کبیر خانی تھے جو شمسی سلاطین دھلی کے زمانے میں لاہور کا حاکم تھا, لیکن اس کی وفات اُچ سندھ میں ہوئی اور دوسرے خواجہ ایاز شاھجانی مگر وہ گیارھویں/ستھرویں صدی کا آدمی تھا۔ غزنوی ایاز کے ساتھ اس کا التباس بعید از قیاس ہے."" ماضی میں ایاز کا مقبرہ کافی وسیع تھا۔ کہنیا لال لکھتے ہیں "" اس مزار کے ساتھ بہت بڑا احاطہ و باغیچہ و ملکیت تھی جو بسبب گزرنے عرصہ دراز کے جاتی رہی."" سید لطیف کا بیان ہے "" اس مزار کے ساتھ ملحقہ ایک بہت بڑا باغ سکھوں کی حکومت کے دوران ختم ہو گیا."" ماضی قریب میں نواز شریف نے بطور وزیر اعلی پنجاب مقبرہ ایاز دوبارہ تعمیر کروایا اور ساتھ ایک مسجد بھی. گو کہ یہ مقبرہ کوئی برا نہیں مگر شاید اس محسن لاہور کے شایان شان بھی نہیں. جب یہاں علی الصبح حاضری دی تو حیرت ہوئی کے مسجد کھلی تھی حالات کے باعث زیادہ تر مساجد نماز کے اوقات میں ہی کھلتی ہیں۔ مقبرہ کافی مشکل سے ملا کئی لوگوں سے پوچھا یہاں تک مقبرے و مسجد کے بالکل قریب موجود دکان دار بھی اس کے متعلق نہیں جانتے تھے شاید وجہ ہماری تاریخ سے عدم دلچسپی ہے۔ جس مقبرے کے متعلق ماضی کی کتب میں لکھا ہے کہ اہلیان لاہور بانی لاہور کی اس قبر کی خصوصی تعظیم کرتے ہیں آج کے جدید لاہوریے بانی لاہور کی اس قبر کو فراموش کرچکے ہیں،[1]آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نمازقبلہ رُو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجازایک ہی صف میں کھڑے ہو گئےمحمود و ایازنہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نوازبندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئےتیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئےحوالہ جات"
+553,شہاب الدین غوری,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%A7%D8%A8_%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%BA%D9%88%D8%B1%DB%8C,"معز الدین محمد بن سام(فارسی: معز الدین محمد بن سام)، (1144ء–15 مارچ،1206ء)، جوشہاب الدین غوریکے نام سے مشہور ہیں، موجودہ وسطیافغانستانکےغورمیں واقعغوری خاندانسے تعلق رکھنے والے ایک حکمران تھے۔ جنھوں نے1173ءسے1206ءتک حکومت کی۔ شہاب الدین غوری اور ان کے بھائیغیاث الدین محمد غورینے1203ءمیں اپنی وفات تکغوری سلطنتکے مغربی علاقے پر دار الحکومتفیروزکوہسے حکومت کی جبکہ شہاب الدین غوری نے غوری سلطنت کو مشرق کی طرف بڑھایا اوربرصغیر پاک و ہندمیں اسلامی حکمرانی کی بنیاد رکھی۔[1][2]غوری سلطنتکے جنوبی علاقے کے گورنر کی حیثیت سے اپنے ابتدائی دور کے دوران ، شہاب الدین غوری نے متعدد حملوں کے بعد اغوز ترکوں کو زیر کیا اورغزنیپر قبضہ کر لیا جہاں اسےغیاث الدین محمد غورینے ایک آزاد خود مختار کے طور پر قائم کیا۔ محمد غوری نے1175ءمیںدریائے سندھعبور کیا اور گومل درہ کے ذریعے اس کے قریب پہنچا اور ایک سال کے اندر کارماتھیوں سےملتاناوراوچپر قبضہ کر لیا۔[3]اس کے بعد ، شہاب الدین غوری نے اپنی فوج کو زیریں سندھ کے راستے سے صحرائے تھر کے ذریعے موجودہ گجرات میں داخل ہونے کی کوشش کی ، لیکن آخر میں مولاراجا کی سربراہی میں راجپوت سرداروں کے اتحاد نے کاسہراڈا میں کوہ ابو کے قریب راستہ روکا ، جس نے اسے مستقبل میں ہندوستانی میدانوں میں داخل ہونے کے لیے اپنا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ چنانچہ شہاب الدین غوری نے غزنویوں پر دباؤ ڈالا اور1186ءتک انھیں اکھاڑ پھینکا اور بالائی سندھ کے میدان کے ساتھ ساتھپنجاب، پاکستانکے بیشتر حصوں کو بھی فتح کر لیا۔ غزنویوں کو ان کے آخری گڑھ سے بے دخل کرنے کے بعددرہ خیبرکو بھی محفوظ بنایا ، جو شمالی ہندوستان میں حملہ آور فوجوں کے داخلے کا روایتی راستہ تھا۔[4]غوری سلطنت کو مزید مشرق کی طرف گنگا کے میدان تک پھیلاتے ہوئے ، غوری افواج کو فیصلہ کن رد عمل کا سامنا کرنا پڑا اور شہاب الدین غوری خود1191ءمیںترائنمیں چاہمان حکمرانپرتھوی راج چوہانکی قیادت میں راجپوت کنفیڈریسی کے ساتھ مصروفیت میں زخمی ہو گئے۔ شکست کے بعد محمد غوریخراسانواپس آ گیا اور ایک بڑی فوج کے ساتھ ہندوستان واپس آیا تاکہ اسی میدان جنگ میں فیصلہ کن فتح حاصل کی جاسکے[5]اس جنگ میں فتح کے بعد پرتھوی راج کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد انھوں نےہندوستانمیں اپنی موجودگی کو مشرق میںبنگالاوربہارکے شمالی علاقوں تک بڑھا دیا۔1203ءمیںغیاث الدین محمد غوریکی وفات کے بعد شہاب الدین غوریفیروزکوہکے تخت پر فائز ہوئے اور غوری سلطنت کے سب سے بڑے سلطان بن گئے۔[6]ہندوستان سے واپس جاتے ہوئے شہاب الدین غوری کو15 مارچ1206ءکو دھمیک کے مقام پردریائے سندھکے کنارے اسماعیلی شیعہ سفیروں نے اس وقت قتل کر دیا جب وہ شام کی نماز ادا کر رہے تھے۔[7][8]محمد غوری موجودہ مغربی وسطیافغانستانکے علاقےغورمیں غوری حکمران بہاء الدین سام اول کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ جنھوں نے1149ءمیں اپنی وفات سے قبل اپنے آبائی علاقے پر حکومت کی تھی۔ ان کا نام ��ختلف طور پر معز الدین بن بہاؤ الدین سام، شہاب الدین غوری، محمد غوری اور غور کے محمد کے طور پر ترجمہ کیا گیا ہے۔[9]طبقات ناصری کے مطابق ، ان کا پیدائشی نام ""محمد"" تھا جسے مقامی طور پر غوریوں نے ""حماد"" کہا ہے۔ غزنہ میں تاج پوشی کے بعد ، انھوں نے خود کو ""ملک شہاب الدین"" کے طور پر پیش کیا اورخراسانپر قبضے کے بعد ، انھوں نے ""معز الدین"" کا لقب اختیار کیا۔[10]ان واقعات میں محمد کی صحیح تاریخ پیدائش کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ محمد غوری، غیاث الدین سے تین سال اور چند ماہ چھوٹے تھے ، جو1140ءمیں پیدا ہوئے تھے۔ لہٰذا محمد غوری کی ولادت کا سال1144ءقرار دیا جا سکتا ہے۔[11]غیاث الدین محمد کی وفات کے بعد محمد غوری نے ""سلطان الاعظم"" کا لقب اختیار کیا جس کا مطلب ""عظیم ترین سلطان"" تھا۔[12]قطب مینارمیں ایک کالونی پر ان کے کچھ سنہری ٹکسالہندوستانمیں گردش کرتے ہیں۔ محمد کو ""سکندر الثانی"" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔[13]محمد غوری کے درباری انھیں اسلام کے داعی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور انھیں ""سلطان غازی"" (مقدس جنگجوؤں کا سلطان) قرار دیتے ہیں اور ان کی ہندوستانی مہمات کو اسلام کی فوج (لشکر اسلام) اور کافروں کی فوج کے درمیان مصروفیت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔[14]شہاب الدین غوری اور ان کے بھائی غیاث الدین دونوں کے ابتدائی سال مسلسل مشکلات میں گذرے۔ ان کے چچا علاء الدین حسین نے غزنہ میں اپنی مہم کے بعد ابتدائی طور پر انھیں سنجہ کا گورنر مقرر کیا۔ تاہم ، صوبے کی ان کی موثر انتظامیہ نے اسے ان کے عروج کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا اور اپنے اختیار کو ممکنہ چیلنج کو دیکھتے ہوئے ، اس نے اپنے بھتیجوں کو گرجستان کے قلعے میں قید کرنے کا حکم دیا۔[14]اگرچہ ، انھیں1161ءمیں اپنے والد کی موت کے بعد ان کے بیٹے سیف الدین محمد کو قید سے رہا کر دیا تھا۔[15][16]سیف الدین ، بعد میں بلخ کے خانہ بدوش اوغوز کے خلاف جنگ میں ہلاک ہو گئے۔[17][18]قید سے رہائی کے بعد ""تاریخ فرشتہ"" میں کہا گیا ہے کہ غوری بھائیوں کو سنجہ میں بحال کر دیا گیا تھا، حالانکہ ""طبقات ناصری"" کے پہلے بیان میں کہا گیا تھا کہ ان کی مالی حالت کی وجہ سے مشکلات جاری رہیں۔ اس طرح محمد غوری نے اپنے چچا فخر الدین مسعود کے دربار میں پناہ لی جنھوں نےبامیانکی سلطنت کو اپنے چچا علاؤ الدین حسین کا جانشین قرار دیا۔[19]بعد میں فخر الدین مسعود نے سید الدین کی وفات کے بعدغوری خاندانکے بڑے رکن کی حیثیت سے جانشینی کے لیے اپنا دعویٰ پیش کیا۔ محمد غوری نے فخر الدین کی بغاوت کو دبانے میں اپنے بھائی کی مدد کی جس نےبلخاورہراتکے سرداروں کے ساتھ اتحاد میں ایک بڑی فوج حاصل کی ، دونوں کو جنگ کے بعد پھانسی دے دی گئی ، حالانکہ فخر الدین کو1163ءمیں بامیان میں بحال کر دیا گیا تھا۔[20][21]مقامی غوری افسران اور ""مالکوں"" کی مدد سے ، اس کے بھائی نے 1163ء میں سیف الدین کے بعد تخت سنبھالا اور ابتدائی طور پر محمد غوری کو اپنے دربار میں ایک معمولی افسر کے طور پر رکھا ، جس کے نتیجے میں وہسیستانکے دربار میں سبکدوش ہو گیا۔[22][23]شہزادے کی حیثیت سے محمد غوری کی ابتدائی مہمات کے دوران ، اسے اوغوز قبائل کو زیر کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جن کی طاقت اور اثر و رسوخ کم ہونا شروع ہوا تھا ، حالانکہ وہ اب بھی وسیع علاقوں کو کنٹرول کر رہے تھے۔ اس نےقندھارکو ایک اڈے کے طور پر استعمال کیا اور اوغوز کی سلطنت پر متعدد بار حملہ کیا اور غیاث الدین کے ساتھ مل کر انھیں فیصلہ کن طور پر شکست دی اور1169ءمیں موجودہ مشرقی افغانستان کے کچھ دیگر علاقوں کے ساتھ غزنہ کو فتح کرکے اس فتح کو آگے بڑھایا۔[24]جلد ہی ، محمد غوری کی تاج پوشی1173ءمیں غزنہ میں ہوئی اور اس کا بھائی ٹرانسوکسانیا میں مغرب کی توسیع کے لیےفیروزکوہواپس آگیا۔ محمد نے غزنہ شہر کو ایک لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کیا تاکہ انڈس ڈیلٹا اور اس سے آگے علاقے کی فتح کی قیادت کی جاسکے۔1174ءمیں محمد غوری نے موجودہترکمانستانمیں سنکران کے اغوز کے خلاف ایک مہم کی قیادت کی اور انھیں زیر کر لیا۔[25][26]1175ءمیں ، محمد غوری نے غزنہ سے مارچ کیا اور سلجوقیوں کے ایک سابق جنرل کو شکست دینے کے بعد کاسموپولیٹن شہر ہرات اور پشانگ کے الحاق میں اپنے بھائی کی مدد کی۔[27]غوری بھائیوں نے موجودہ ایران میں پیش قدمی کی اور سیستان کے نصری خاندان کو اپنے زیر تسلط لایا جس کے حکمران تاج الدین سوم حرب بن محمد بن نصر نے غوریوں کی بالادستی کو تسلیم کیا اور بعد میں اپنی فوجیں کئی بار بھیجی اور ان کی جنگوں میں غوریوں کی مدد کی۔ اس کے بعد ، غیاث الدین نے بلخ اور خراسان میں ہرات سے ملحقہ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔[28][21]شہاب الدین محمد غوری کا تعلق افغان سور قبیلے سے تھا۔
+سیف الدین ثانی کے انتقال کے بعد غیاث الدین غوریسلطنت غوریہکے تخت پر بیٹھا اور اس نے 567ھ بمطابق 1173ء میںغزنیکو مستقل طور پر فتح کرکے شہاب الدین محمد غوری جس کا اصل نام معز الدین محمد غوری ہے[29]غزنی میں تخت پر بٹھایا۔ غیاث الدین نے اس دورانہراتاوربلخبھی فتح کرلئے اور ہرات کو اپنا دار الحکومت بنایا۔[30]سلطان شہاب الدین غوری اگرچہ اپنے بھائی کا نائب تھا لیکن اس نے غزنی میں ایک آزاد حکمران کی حیثیت سے حکومت کی اورپاکستاناور شمالی ہندوستان کو فتح کرکے تاریخ میں مستقل مقام پیدا کر لیا۔ 598ھ میں اپنے بھائی کے انتقال کے بعد وہ پوری غوری سلطنت کا حکمران بن گیا۔[31]شہاب الدین محمد غوری کی فوجی کارروائیاں موجودہ پاکستان کے علاقے سے شروع ہوئیں اور وہ مشہور عالمدرہ خیبرکی بجائےدرہ گوملسےپاکستانمیں داخل ہوا۔ اس نے سب سے پہلےملتاناوراوچپر حملے کیے جو غزنویوں کے زوال کے بعد ایک بار پھراسماعیلیفرقے کا گڑھ بن گئے تھے۔ یہ اسماعیلی ایک طرفمصرکےفاطمیخلفاء کے ساتھ اور دوسری طرفہندوستانکے ہندوؤں سے قریبی تعلق قائم کیے ہوئے تھے۔ غور کے حکمران عام مسلمانوں کی طرح عباسی خلافت کو تسلیم کرتے تھے اور اسماعیلیوں کی سرگرمیوں کو مسلمانوں کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ محمد غوری نے 571ھ بمطابق 1175ء میں ملتان اور اوچ دونوں فتح کرلئے اس کے بعد 575ھ بمطابق 1179ء میں محمد غوری نےپشاوراور 576ھ بمطابق 1182ء میںدیبلکو فتح کرکے غوری سلطنت کی حدود کوبحیرہ عربکے ساحل تک بڑھادیں۔[32]لاہوراس کے نواح کا علاقہ ابھی تک غزنوی خاندان کے قبضے میں تھا جن کی حکومت غزنی پر جہانسوز کے حملے کے بعد لاہور منتقل ہو گئی تھی۔
+شہاب الدین محمد غوری نے582ھبمطابق 1186ء میں لاہور پر قبضہ کرکے غزنوی خاندان کی حکومت کو بالکل ختم کردی۔غوری بھائیوں نے غیاث الدین محمد کے ساتھ مل کر مغربی وسطی افغانستان میں واقع اپنے دار الحکومتفیروزکوہسے خوارزمیوں کے ساتھ ایک طویل لڑائی میں حصہ لیا ، جبکہ غور کے محمد نے اپنے دار الحکومت غزنہ سے مشرق کی طرف غوری علاقوں کو ہندوستانی میدانوں میں پھیلا دیا۔[33]ہندوستانی میدانی علاقوں میں مہمات اور گنگا کے میدان میں منافع بخش ہندو مندروں کو مسمار کرنے ��ے نکالی گئی لوٹ مار نے محمد کو غزنہ میں ایک بہت بڑا خزانہ فراہم کیا جس کے مطابق تاریخ دان جوزجانی کے مطابق محمد کے کے پاس 60،000 کلوگرام (1500 من) زیورات شامل تھے۔[34]محمد غوری نےبرصغیر پاک و ہندمیں غور کی مہمات کا آغاز قرامتیوں (اسماعیلیوں کی ساتویں شاخ) کے خلاف کیا جنھوں نے محمود غزنوی کی موت کے فورا بعدملتانمیں اپنے قدم جما لیے جس نے وہاں ایک سنی گورنر مقرر کیا۔[35]محمد غوری نے1175ءمیں قرامطی حکمران خفیف کو شکست دی اور ملتان پر قبضہ کر لیا۔[36]یہ شکست ملتان میں قرامتی طاقت کے لیے موت کا جھٹکا ثابت ہوئی ، جس نے دوبارہ اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ دوبارہ حاصل نہیں کیا۔[37]ملتان کی فتح کے بعد ، محمد غوری نے اوچ پر قبضہ کیا جو دریائے چناب اور جہلم کے سنگم کے جنوب میں واقع تھا۔ اگرچہ اوچ میں ان کی مہم کا ذکر قریب قریب کے معاصر واقعات میں نہیں ملتا سوائے کامل فیط تاریخ کے ، حالانکہ اوچ میں ان کی مہم کے بارے میں متن میں تفصیل ممکنہ طور پر بھاٹی راجپوتوں سے وابستہ ایک افسانے کی وجہ سے دھندلی ہے۔ بہرحال ، بعد کے ایک مؤرخ فرشتہ نے اوچ فتح کے سال کو 1176 کے طور پر ذکر کیا۔ 1204ء میں غزوۂ اندخد میں ان کی وفات تک اسے ملک نصرالدین ایاتم کے ماتحت رکھا گیا۔ اس کے بعد اسے ناصر الدین قباچہ کے ماتحت رکھا گیا۔[38]اپنے ابتدائی حملوں کے دوران ، محمد غوری نے پنجاب سے گریز کیا اور اس کی بجائے دریائے سندھ کے وسط اور نچلے راستے سے متصل علاقوں پر توجہ مرکوز کی۔ لہٰذا، پنجاب میں غزنویوں کو شکست دینے اور شمالی ہندوستان کے لیے ایک متبادل راستہ کھولنے کے لیے محمد غوری نے جنوب میں انہیلواڑہ میں موجودہ گجرات کا رخ کیا۔[39]انہیلواڑہ میں داخل ہونے سے پہلے ، اس نے ناڈول کے قلعے (مارواڑ کے آس پاس) کا محاصرہ کیا اور کیرادو میں شیو مندر کو تباہ کرنے کے ساتھ کیلہنادیوا سے مختصر محاصرے کے بعد اس پر قبضہ کر لیا۔ مارواڑ کے جنوب میں خشک صحرائے تھر سے گزرنے کے بعد غوری فوج تھک گئی، جب وہ کوہ ابو پہنچے، جہاں انھیں گدراگھٹا کے پہاڑی درے میں سولنکی حکمران مولاراجا دوم نے مدد فراہم کی، جس کی مدد دوسرے راجپوت سرداروں نے بھی کی تھی، خاص طور پر نادولہ چاہمانہ حکمران کیلہنادیوا (جسے پہلے محمد نے ناڈول سے معزول کر دیا تھا)۔ جلور چاہمن حکمران کیرتی پالا اور اربودا پرمار حکمران دھاراورشا۔ جنگ کے دوران غوری فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا اور صحرا کے پار غزنی کی طرف پیچھے ہٹنا پڑا۔[40]اس شکست نے محمد غوری کو شمالی راستوں کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جنھوں نے شمالی ہندوستان میں مزید دراندازی کے لیے پنجاب اور شمال مغرب میں ایک مناسب حکومت بنانے پر توجہ مرکوز کی۔[41]1179ءمیں ، محمد غوری نےپشاورکو فتح کیا جس پر ممکنہ طور پر غزنویوں کی حکومت تھی۔[42]اس کے بعد محمد غوری نے مزید پیش قدمی کی اورلاہورکا محاصرہ کیا ، حالانکہ خسرو ملک نے غزنہ میں اپنی تحویل میں ایک غزنوی شہزادے (ملک شاہ) کو یرغمال بنا کر خراج تحسین بھیج کر اسے مزید کچھ سالوں تک لاہور کی سرحدوں کے ارد گرد رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔[43]1181ءمیں محمد غوری نے جنوب کی طرف چلتے ہوئےسندھکےبحیرہ عربکے ساحل پر واقع بندرگاہی شہردیبلکا رخ کیا۔[44]بعد کے سالوں میں ، اس نے موجودہپاکستانکے ارد گرد اپنی فتوحات کو وسعت اور مستحکم کیا اور لاہور اور دیہی علاقوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھسیالکوٹپر قبضہ کر لیا۔[45]خسرو ملک نے سیالکوٹ میں غوری گیریژن کو بے دخل کرنے کی ناکام کوشش محمد غوری نے لاہور پر آخری حملہ کیا اور اسے مختصر محاصرے کے بعد ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔[46]اس نے خسرو ملک کو گھرچستان کے قلعے میں قید کر دیا ، جس نے اس کی موجودگی کے لیے محفوظ طرز عمل کے اپنے ہی معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ خسرو ملک کو فیروزکوہ میں غیاث الدین محمد کے پاس بھیجا گیا جہاں اسے اور اس کے تمام رشتہ داروں کو 35 سے پہلے پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح ، غزنویوں کا سلسلہ نسب اور غوریوں کے ساتھ ان کی تاریخی جدوجہد کا خاتمہ ہوا۔[47][48]غزنویوں کو اکھاڑ پھینکنے کے بعد ، محمد غوری نے اب پنجاب کے بیشتر حصوں سمیت اسٹریٹجک سندھ طاس پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔[49][50]انھوں نے ملا سراج الدین کو ، جو پہلے اپنے والد کے دربار میں ایک اعلی درجے کے قاضی تھے ، ملتان کے انچارج کے ساتھ ساتھ نئے فتح شدہ غزنوی علاقوں میں عدالتی محکمے کا سربراہ مقرر کیا۔ ان کے بیٹے منہاج السراج (پیدائش 1193ء) نے بعد میں 1260ء میں طبقات ناصری کی تالیف کی جسے غوری خاندان اور دہلی سلطنت پر قرون وسطیٰ کے دور کا ایک یادگار کام سمجھا جاتا ہے تحریر کی۔[51][51]لاہور اور پاکستان کو فتح کرنے کے بعد شہاب الدین نےبھٹنڈہکو فتح کیا جو پہلےغزنوی سلطنتمیں شامل تھا لیکن اس وقتدہلیاوراجمیرکے ہندوراجہ پرتھوی راج چوہانکے قبضے میں تھا۔ پرتھوی راج نے جب یہ سنا کہ شہاب الدین نے بھٹنڈہ فتح کر لیا ہے تو وہ ایک زبردست فوج لے کر جس کی تعداد دو لاکھ تھی مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نکلا۔ دہلی کے شمال مغرب میںکرنالکے قریب ترائن یا تراوڑی کے میدان میں دونوں افواج میں خوب لڑائی ہوئی لیکن شہاب الدین کی فوج تھوڑی تھی، اس کو شکست ہوئی اور وہ بری طرح زخمی ہو گیا۔ اسی حالت میں ایک سپاہی اس کو بچا کر لے گیا۔ اس کے سپاہی اور جرنیل محمدغوری کوغائب دیکھ کر بددل ہو گئے اور میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔ محمد غوری کو زخمی حالت میں لاہور لایاگیا جہاں سے وہ غزنی پہنچا۔[52][53][54][55]جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر میں میں آکرتبلیغ شروع کی تو آس پاس کے لوگ مسلمان ہونا شروع ہو گئے اور اس بات کی خبر پورے علاقے میں پھیل گئی۔ آپ کے پاس راجپوتوں کی ٹولیاں آتیں اور آپ کا امتحان لینے کی کوشش کرتیں اور آپ کو یہاں سے نکالنے کی دھمکیاں بھی دی جاتیں ۔ جب پرتھوی راج چوھان کو اس کی خبر ملی تو وہ خوب آگ بگولا ہوا اور اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ آپ کو یہاں سے نکال دے لیکن آپ اپنی جگہ پر قائم رہے۔ جب حضرت معین الدین چشتی کے ہاتھوں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا تو وہ آپ کی جان کا دشمن بن گیا یہاں پر آپ قدرت کا کمال دیکھے کے ایک طرف فقیر جو بے سروسامان نہ کوئی ظاہری طاقت کے کیسے وقت کے ظالم اور طاقتور ترین بادشاہ کے سامنے ڈٹ گیا۔ اب پرتھوی راج بے ادبی پر اتر آیا تھا اس نے آپ کو قتل کرنے کی دھمکی دے دی حضرت معین الدین چشتی بھی جلال میں آگئے اور فرمایا کہ “ہم نے تجھ کو گرفتار کر کے مسلمان فوج کے حوالے کیا”۔ پہلے تو پرتھوی راج یہ سن کر حیران ہو گیا پھر قہقہہ لگا کر بولا کہ” کونسی فوج آئے گی مجھے گرفتار کرنے” اس کے طنزیہ سوال پر حضرت معین الدین چشتی نے صرف اتنا جواب دیا کہ ” اب جو ہوگا وہ تم خود دیکھ لوگے”۔ادھر سلطان کو ایک رات خواب میں ایک بزرگ کی زیارت ہوئی جو ان سے واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ ” میں نے ہندوستان تجھ کو دیا آکر اس پر قبضہ کرلو”۔ سلطان جب خواب سے بیدار ہوتے ہیں تو اس تعبیر کے بارے میں پریشان ہوجاتے ہیں ان کے وہم و گمان میں بھی نہ��ں تھا کہ وہ بھرپور تیاری کے بغیر ہندوستان پر ایک مرتبہ پھر حملہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے خواب کو نظر انداز کر دیا۔ مگر پھر متواتر سے خوابوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اب کی بار ان بزرگ کے لہجے میں سختی بھی آگئی۔سلطان نے بھی علما اور صاحب فراست لوگوں سے مشورے شروع کردیے ایک فقیر نے انھیں بتایا کہ ان بزرگ کی آمد ایک غیبی مدد کی طرف اشارہ ہے ان کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ ہندوستان جائیں ان کی فتح یقینی ہے۔ جب سلطان نے ان سے ان بزرگ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اب اس کی حقیقت فتح کے بعد ہی آشکار ہوگی۔ اس کے بعد سلطان نے فیصلہ کیا کہ یکسو ہو کر ہندوستان پر حملہ کی تیاری کی جائے اور جتنی فوج بھی تیار ہے اس کے ساتھ ہی ہندوستان پر یلغار کردی جائے۔[7]شہاب الدین کو اس شکست کا اتنا رنج ہوا کہ ایک سال تک اس نے عیش و آرام کی زندگی نہیں گزاری۔ اس نے اپنے جرنیلوں سے بات چیت تک ترک کردی بعض جرنیلوں کو اس نے سخت سزائیں دیں بالآخر اس نے تمام جر نیلوں کو تربیت یافتہ فوج تیار کرنے کاحکم دیا کچھ عرصہ بعد ایک بڑی فوج جس کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزارجمع کرلی، وہ اس فوج کو لے کر پچھلی شکست کا بدلہ لینے کے لیے دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ ادھر سے پرتھوی راج بھی بھارت کے ڈھائی سو راجاؤں کی مدد سے 3 لاکھ سے زائد فوج اور کئی ہزار جنگی ہاتھی لے کر روانہ ہوا۔ دونوں جرنیلوں کی افواج ایک بار پھر ترائن یا تراوڑی کے میدان میں آمنے سامنے ہوئیں۔ راجا پرتھوی راج چوہان نے محمد غوری کو خط لکھا اور نصیحت کی کہ اپنے سپاہیوں کے حال پر رحم کھاؤ اور انھیں لے کر غزنی واپس چلے جاؤ ہم تمھارا پیچھا نہیں کریں گے۔ لیکن شہاب الدین غوری نے نہایت متانت سے جواب دیا کہ وہ اپنے بھائی کے حکم کے مطابق عمل کرتاہے اس لیے بغیر جنگ کے واپسی ناممکن ہے۔ اگلے دن دونوں افواج کا آمنا سامنا ہواجنگ سورج طلوع ہونے سے پہلے شروع ہوئی جبکہ ظہر کے وقت تک ختم ہو گئی۔ شہاب الدین غوری کو فتح ہوئی اور پرتھوی راج کو شکست ہوئی اس نے میدان جنگ سے بھاگ کر جان بچائی مگر دریائے سرسوتی کے پاس سے گرفتار ہواسلطان محمد غوری کے حکم پر اسے قتل کر دیا گیا۔[56][57][58][56][59][60]اس جنگ کے دور رس نتائج برآمد ہوئے مسلمانوں کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ رہا اگرچہ قنوج اور انہلواڑہ کے راجاؤں نے اطاعت سے انکار کیا مگر شکست کھاکر مسلمانوں کے سامنے جھک گئے۔ اس طرح مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت ہندوستان میں قائم ہوئی جو 1857ء تک قائم رہی۔پرتھوی راج کو شکست دینے کے بعد شہاب الدین نےدہلیاوراجمیربھی فتح کر لیا اور اس کے سپہ سالار ملک محمد ابن بختیار خلجی نے آگے بڑھ کربہاراوربنگالکو زیر نگین کیا۔[61][62]اس طرح پورا شمالی ہندوستان اور پاکستان مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔ہندوستان اور بنگال میں مسلم اقتدار کے بانی اور ایک بیدار مغز حکمران کی حیثیت سے شہاب الدین کا پایہ بہت بلند ہے۔ اس کی فتوحات محمود غزنوی کی لشکر کشی کے مقابلے میں زیادہ مفید ثابت ہوئیں۔ وہ محمود کی طرح کسی علاقے کو فتح کرکے واپس نہیں جاتا تھا بلکہ اس کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیتا تھا۔ اس نے بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی مستقل حکومت قائم کردی اور اس طرح وہ کام مکمل کر دیا جو 500 سال قبلمحمد بن قاسمنے شروع کیا تھا۔[63][64][65][6]جب ایبک نے دہلی دوآب میں اور اس کے آس پاس غوری حکمرانی کو مستحکم کیا تو محمد غوری خود گنگا وادی میں مزید توسیع کرنے کے لیے ہندوستان واپس آیا۔ اس کے مطابق ،1194ءم��ں ، اس نے 50،000 گھڑ سواروں کی فوج کے ساتھ جمنا ندی کو عبور کیا اور جمنا کے قریب ایک جنگ میں گہڈاوالا بادشاہ جے چندر کی فوجوں کو شکست دی اور جے چندر مارا گیا۔1198ءمیں گہاڈاوالا کے دار الحکومتقنوجپر قبضہ کر لیا گیا۔ اس مہم کے دوران ، بدھ مت کے شہر سارناتھ کو بھی برخاست کر دیا گیا تھا۔[65][65]محمد غوری1196ءکے آس پاس موجودہ راجستھان کے ارد گرد اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے دوبارہ ہندوستانی سرحد پر واپس آیا۔ بیانہ کا علاقہ اس وقت جادون راجپوتوں کے قبضے میں تھا۔ محمد غوری نے قطب الدین ایبک کے ساتھ مل کر پیش قدمی کی اور تھانکر کا محاصرہ کیا جس کے حکمران کمار پال کو شکست ہوئی۔ محمد غوری نے اس قلعے کو اپنے سینئر غلام بہاؤ الدین تغرل کے ماتحت کر دیا ، جس نے بعد میں سلطان کوٹ قائم کیا اور اسے اپنے گڑھ کے طور پر استعمال کیا۔ تھانکر کی فتح کے بعد ، بہادر الدین ترغل نےگوالیارکے قلعے کو کم کر دیا جس کے پریہار کے سردار سلاخانپال نے ایک طویل محاصرے کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور غوری تسلط کو قبول کر لیا۔ محمد غوری کے قتل کے بعد ، تورغل نے خود کو بیانہ میں سلطان کے طور پر پیش کیا۔[66]1197ءمیںقطب الدین ایبکنے گجرات پر حملہ کیا اور بھیما دوم کو سروہی میں اچانک حملے کے بعد شکست دی اور اس کے بعد اس کے دار الحکومت انہیلوارہ کو تباہ کر دیا۔ اس طرح ، ایبک نے1178ءمیں اسی مقام پر محمد غوری کی شکست کا بدلہ لیا۔[67]محمد غوری نے مغرب میں خوارزمیوں کے خلاف مغرب میں توسیع کے لیے اپنے بھائی کی مدد جاری رکھی۔ دریں اثنا ، چوراسمیا کے معاملات میں ، سلطان شاہ کو اس کے بھائی علاء الدین ٹیکیش نے قارا خیتائی فوجوں کے ساتھ اتحاد میں شکست دی اور بعد میں دسمبر1172ءمیں خوارزم کے تخت پر فائز ہوئے۔ سلطان شاہ غوری بھائیوں کے پاس بھاگ گیا اور اپنے بھائی ٹیکیش کو نکالنے کے لیے ان سے مدد طلب کی۔[68]اگرچہ انھوں نے اسے اچھی طرح سے قبول کیا ، لیکن انھوں نے اسے ٹیکیش کے خلاف فوجی امداد دینے سے انکار کر دیا ، جس کے ساتھ اس وقت تک غوریوں کے اچھے تعلقات تھے۔خراسانمیں اپنی آزاد ریاست تشکیل دی اور اپنے گورنر بہاؤ الدین ترغل کے ساتھ غور کے علاقوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ لہٰذا غیاث الدین نے محمد غوری سے مدد مانگی جو اس وقت اپنی ہندوستانی مہمات میں مصروف تھا اور اپنی فوج کے ساتھ غزنہ سے روانہ ہوا۔ غوری جاگیردار: بامیان کے شمس الدین محمد اور ہرات کے تاج الدین نے خوارزمیوں کے خلاف اپنے اپنے دستوں کے ساتھ ان کا ساتھ دیا۔[69]غوری افواج نے مہینوں کی مہم کے بعد دریائے مرغاب کے کنارے سلطان شاہ کو فیصلہ کن شکست دی اور ہرات بہاؤ الدین ترغل کے اپنے گورنر کو پھانسی دے دی جبکہ سلطان شاہ مرو بھاگ گیا۔[70]غوریوں نے اپنی فتح کے بعد ہرات پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔[71]1200ءمیں ٹیکیش کا انتقال ہوا ، جس کے نتیجے میں خوارزم کے علاء الدین شاہ اور اس کے بھتیجے ہندو خان کے مابین جانشینی کے لیے مختصر مدت کے لیے جدوجہد ہوئی۔ غوری بھائیوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور جانشینی کے لیے خوارزمی خاندان میں افراتفری کے درمیان ، محمد غوری اور غیاث الدین نے حملہ کیا اور نیشاپور ، مرو اور طوس کے نخلستان شہروں پر قبضہ کر لیا اور گورگن تک پہنچ گئے۔ اس طرح غوریوں نے اپنی تاریخ میں پہلی بار خراسان کے زیادہ تر حصوں پر مختصر مدت کے لیے اپنا تسلط قائم کیا۔[72][73]تاہم ، ان کی کامیابی ایک قلیل مدتی معاملہ بن گئی کیونکہ علاؤ الدین نے اگست1200ءمیں تخت سنبھالا[74]اور جلد ہی1201ءتک اپنے کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔[75]غوریوں کے خلاف کامیابی کے باوجود ، علاؤ الدین نے محمد کے پاس سفارت کاری کے لیے ایک سفیر بھیجا ، شاید اس لیے کہ وہ غوریوں کے ساتھ امن قائم کرکے قارا خطیس کے تسلط پر قابو پانے پر توجہ مرکوز کرے۔ تاہم ، یہ کوشش ناکام ہو گئی اور محمد غوری نے اپنی افواج کے ساتھ نیشاپور پر دوبارہ مارچ کیا جس نے علاؤ الدین کو شہر کی دیواروں کے اندر خود کو بند کرنے پر مجبور کیا۔ محمد غوری نے ہرات کے ساتھ طوس پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور ملک کے فریق کو برطرف کر دیا۔[76]غیاث الدین محمد13 مارچ1203ءکوہراتمیں انتقال کر گئے، مہینوں کی علالت کے بعد جس نے مختصر طور پرشہاب الدین غوری کی توجہ موجودہ صورت حال سے ہٹا دی۔ اس طرح ، ہرات سے اس کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ، جہاں اس نے اپنے بھتیجے الپ غازی کو مقرر کیا ، خوارزمی افواج نے مرو پر قبضہ کر لیا اور وہاں غوری گورنر کرنگ کا سر قلم کر دیا۔[77]شہاب الدین غوری نے ، ممکنہ طور پر پوری خوارزمی سلطنت پر قبضہ کرنے کے لیے ، ہرات کی بجائے اپنے دار الحکومت گور گنج کا محاصرہ کیا ، جسے غیاث الدین کی موت کے بعد خوارزمیوں نے گھیر لیا تھا۔ علاؤ الدین غوریوں کی پیش قدمی پر پیچھے ہٹ گیا اور قارا خطائیوں سے مدد کی درخواست کی ، جنھوں نے خوارزمیوں کی مدد کے لیے ایک بڑی فوج بھیجی۔ شہاب الدین غوری ، قارا خیتائی افواج کے دباؤ کی وجہ سے محاصرہ ختم کرنے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔ تاہم ، فیروزکوہ جاتے ہوئے ان کا تعاقب کیا گیا اور 83 میں جنگ اندخد میں تانیکو اور عثمان بن ابراہیم کی سربراہی میں قارا خیتائی اور کارا خانید خانیت کی مشترکہ افواج نے فیصلہ کن شکست کھائی۔ قارا خیتائی جنرل تانیکو (تیانگو) کو بھاری تاوان ادا کرنے کے بعد اسے اپنے دار الحکومت واپس جانے کی اجازت دی گئی جس میں کئی ہاتھی اور سونے کے سکے شامل تھے۔ کے مطابق ، غور اور تانیکو کے شہاب الدین غوری کے مابین مذاکرات کا انتظام سمرقند کے عثمان بن ابراہیم نے کیا تھا جو نہیں چاہتے تھے کہ ""اسلام کے سلطان"" کو کافروں کے قبضے میں لیا جائے۔[78]شکست کے بعد ، غوریوں نے ہرات اور بلخ کے علاوہ خراسان کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول کھو دیا۔ اس طرح ، شہاب الدین غوری نے خوارزمیوں کے ساتھ سرد امن کے لیے اتفاق کیا۔[79][80][81]انخد کی تباہی اور اس کے بعد جنگ میں محمد غوری کی موت کی افواہوں کے بعد غوری سلطنت میں بڑے پیمانے پر بغاوتیں ہوئیں ، خاص طور پر ایبک بیگ ، حسین کھرمل اور غزنہ یلدیز کے گورنر کی طرف سے بھی کوشش کی گئی۔[82]محمد غوری نے سب سے پہلے غزنہ کی بجائے ملتان کی طرف مارچ کیا ، جہاں اس کے غلام جنرل ایبک بیگ (جس نے اسے جنگ اندخد میں بچایا تھا) نے غوری گورنر امیر داد حسن کو ایک ذاتی ملاقات میں قتل کر دیا اور محمد غوری کی طرف سے اسے ملتان کا نیا گورنر مقرر کرنے کا جعلی فرمان جاری کیا۔ محمد غوری نے ایبک بیگ کو فیصلہ کن طور پر شکست دی اور جنگ میں اسے پکڑ لیا۔ اس کے بعد ، اس نے غزنہ کی طرف مارچ کیا ، جہاں یلدیز نے پہلے بغاوت کی اور شہر پر قبضہ کر لیا۔[83]محمد غوری کی ایک بڑی فوج کی پیش قدمی پر ، ناگزیر شکست کی پیش گوئی کرتے ہوئے ، یلدیز اور اس کے اشرافیہ نے محمد غوری کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ، جس نے انھیں معاف کر دیا۔[84]اس طرح ، محمد غوری نے باغیوں کو دبانے کے بعد کامیابی سے اپنی سلطنت کو استحکام کی طرف بحال کیا اور اندھاخد میں شکست کا بدلہ لینے اور خراسان میں اپنے قبضے کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنی توجہ وسطی ایشیا کے معاملات کی طرف موڑ دی۔ اس کے مطابق ، جولائی 1205ء تک ، بلخ کے محمد کے گورنر نے موجودہ ازبکستان میں ترمذی کا محاصرہ کیا اور ایک مختصر محاصرے کے بعد شہر پر قبضہ کر لیا ، وہاں تعینات قارا خیتائی گیریژن کو تباہ کر دیا اور اسے اپنے بیٹے کے ماتحت کر دیا۔[85]اس کے بعد، محمد غوری نے وادی بامیان میں اپنے نائب بہاء الدین سام دوم کو حکم دیا کہ وہ دریائے آکسس کے پار ایک کشتی کا پل اور ایک قلعہ تعمیر کرے تاکہ ٹرانسوکسیانا میں اپنی فوجوں کی پیش قدمی کو آسان بنایا جاسکے۔[86]محمد غوری نے اپنے ہندوستانی فوجیوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ قارا خطیس کے خلاف مہم میں ان کے ساتھ شامل ہوں۔[87]جلد ہی ایک اور سیاسی بے امنی پھیل گئی جس نے محمد غوری کو دوبارہ پنجاب کی طرف موڑ دیا جہاں بالآخر اسے قتل کر دیا گیا۔[88]کھوکھر قبیلہ جس کا اثر و رسوخ زیریں سندھ سے سیوالک پہاڑیوں تک پھیلا ہوا تھا ، آمو دریا کے قریب محمد غوری کی شکست کے بعد پیدا ہوا اورلاہورکو لوٹنے کے ساتھ ساتھ لاہور اور غزنی کے مابین غوری مواصلاتی سلسلے میں خلل ڈال کر بغاوت کی۔ السراج کے مطابق ، کھوکھر خاندان مسلمانوں کے دشمن تھے اور ""پکڑے گئے ہر مسلمان کو اذیت دیتے تھے""۔[83]لہذا ، محمد غوری نے کھوکھروں کو زیر کرنے کے لیے اپنی آخری مہم کے لیے دسمبر1205ءمیں غزنہ سے مارچ کیا۔ بکن اور سرکھا کی قیادت میں کھوکھروں نے دریائے چناب اور جہلم کے درمیان کہیں جنگ کی پیش کش کی اور دوپہر تک بہادری سے لڑتے رہے لیکن محمد غوری نے التتمش کے ایک ریزرو دستے کے ساتھ پہنچنے کے ایک دن بعد یہ جنگ لڑی ، جسے محمد غوری پہلے جہلم کے کنارے تعینات کرتے تھے۔ محمد غوری نے اپنی فتح کے بعد بڑے پیمانے پر کھوکھروں کا قتل عام کیا۔ اس کی فوجوں نے جنگلوں کو بھی جلا دیا جہاں ان میں سے بہت سے لوگوں نے بھاگتے ہوئے پناہ لی۔[84][89]التمش کو کھوکھروں کے خلاف ان کی بہادری کا صلہ دیا گیا اور محمد غوری کی طرف سے خصوصی اعزاز کا لباس پیش کیا گیا۔ منہاج کے مطابق، انھوں نے التتمش کو بھی چھوڑ دیا، اس حقیقت کے باوجود کہ ان کے آقا ایبک جنھوں نے انھیں اصل میں خریدا تھا، اب بھی محمد غوری کے دوسرے سینئر غلاموں کے ساتھ غلام تھے جنہیں اس وقت تک غلام نہیں بنایا گیا تھا۔[90][91]شہاب الدین غوری کے زمانے میں غیر مسلموں کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔ دریائے جہلم اور سندھ کے درمیانکھوکھرنامی ایک قوم آباد تھی جن کے یہاں ایک مسلمان قید تھا۔ یہ مسلمان ان لوگوں کواسلامکی خوبیاں بیان کرتا رہتا تھا جسے وہ لوگ بڑی دلچسپی سے سنتے تھے۔ ایک دن ان کے سردار نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو تمھارا بادشاہ میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ مسلمان قیدی نے جواب دیا کہ اگر تو مسلمان ہو جاؤ تو میں یقین دلاتا ہوں کہ بادشاہ تمھارے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرے گا۔ کھوکھروں کے سردار نے جب یہ بات سنی تو اسلام لے آیا۔ مسلمان نے ایک خط کے ذریعے اپنی گفتگو کی اطلاع سلطان شہاب الدین کو دی۔ شہاب الدین نے اس کے جواب میں سردار کو انعام و اکرام سے نوازا اور علاقے کی جاگیر اس کو دے دی۔اس کے بعد اس کی قوم نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ اسلام قبول کرنے سے قبل کھوکھر بہت سی برائیوں میں مبتلا تھے جن میں ایک ”دختر کشی“ بھی تھی۔ یہ لوگ عہد جاہلیت کے عربوں کی طرح لڑکیوں کو قتل کردیتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد یہ بری رسم بھی ختم ہو گئی۔ پاکستان میں بل��چستان کے پہاڑی علاقوں کے پٹھان بھی اسی زمانے میں اسلام لائے ۔شام کی نماز پڑھتے ہوئے محمد کے قتل کی فنکارانہ وضاحت۔یہ وہ زمانہ تھا جبسلجوقیوںکے بعدخراساناورترکستانمیںخوارزم شاہیخاندان کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ غوریوں کی اس خاندان سے مسلسل لڑائیاں رہتی تھیں۔ غیاث الدین کے بعد شہاب الدین کے زمانے میں یہی لڑائیاں جاری رہیں۔ ان لڑائیوں کے سلسلے میں شہاب الدین 601ھ میںخوارزمتک پہنچ گیا لیکن وہاں اس کو شکست ہوئی اور یہ مشہور ہو گیا کہ محمد غوری جنگ ہار گیا۔[93]اس خبر کے پھیلنے پر پنجاب کے کھوکھروں نے بغاوت کردی۔[94]محمد غوری فوراً پنجاب آیا اور بغاوت فرو کی لیکن بغاوت فرو کرنے کے بعد جب وہ واپس جا رہا تھا تودریائے جہلمکے کنارے ایکاسماعیلیفدائی نے حملہ کرکے انھیں شہید کر دیا۔ ان کا مقبرہ ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں چکوال موڑ جی ٹی روڈ سے 17 کلومیٹر کے فاصلے پر چوہان گاؤں میں واقع ہے۔[95]شہاب الدین محمد غوری کی شہادت کے ساتھ غوری خاندان کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔ ہرات اور غزنی کے علاقوں پر خوارزم شاہ کی حکومت قائم ہو گئی اور برصغیر پاک و ہند میں محمد غوری کے وفادار غلام اور دہلی میں سلطان کے نائبقطب الدین ایبکنے ایک مستقل اسلامی حکومت یعنیسلطنت دہلیکوخاندان غلاماںکے زیر عصر قائم کرلی۔[96][97][98]شہاب الدین غوری کی اکلوتی اولاد ان کی بیٹی تھی جو ان کی اپنی زندگی میں ہی فوت ہو گئی تھی۔[99]میں ان کے اچانک قتل کے نتیجے میں ان کے غلاموں اور دیگر غوری اشرافیہ کے درمیان جانشینی کے لیے جدوجہد کا دور شروع ہوا۔ غزنہ اورفیروزکوہکے غوری اشرافیہ نے بامیان شاخ سے بہاء الدین سام دوم کی جانشینی کی حمایت کی ، حالانکہ اس کے ترک غلاموں نے غیاث الدین محمود کی حمایت کی جو اس کا بھتیجا اور اس کے بھائی غیاث الدین کا بیٹا تھا۔[100]بہرحال ، بہاء الدین 107 فروری 24 کو بیماری کی وجہ سےغزنیکی طرف مارچ کرتے ہوئے انتقال کر گئے۔[101]اس طرح1206ءمیں غور کے محمد کے بعد غیاث الدین محمود نے اقتدار سنبھالا، حالانکہ وادی گنگا میں ان کی زیادہ تر فتوحات ان کے ساتھیوںقطب الدین ایبک، تاج الدین یلدیز، بہاؤ الدین طغرل، ناصر الدین قباچہ اور محمد بختیار خلجی کی گرفت میں تھیں جنھوں نے اپنے معاملات میں غیاث الدین محمود سے مشکل سے مشورہ کیا تھا۔ اس کے باوجود، انھوں نے پھر بھی اسے کم سے کم خراج عقیدت پیش کیا۔[102]دور حکومت کے دوران ، محمود نے باضابطہ طور پر ایبک اور یلدیز کو ""منومشن"" بھی دیا۔[103]اس طرح غلامی سے آزاد ہونے اور محمود سے ""چتر"" کی سرمایہ کاری سے ، یلدیز نے 1206 میں خود کو غزنہ کے بادشاہ کے طور پر قائم کیا اور لاہور میں ایبک (جس نے 1208 میں آزادی کا اعلان کیا) نے دہلی سلطنت قائم کی۔[104]تاہم مورخ افتخار عالم خان کو شک تھا کہ ایبک نے خود کو ""سلطان"" کے طور پر پیش کیا ہے کیونکہ عددی شواہد سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی ہے۔[105]جلد ہی ، محمود کوخوارزمکے علاؤ الدین شاہ کی بالادستی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جس کی تصدیق عددی ثبوتوں سے ہوتی ہے جس میں اس نے علاء الدین کا نام ""خطبہ"" میں رکھنے کے ساتھ ساتھ 112 میں اپنے قتل تک رکھا۔[106]اس کے بعد ، خوارزمیوں نے غوری علاقوں میں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی ، حالانکہ یلدیز نے1213ءمیں انھیں واپس بھگا دیا اس سے پہلے کہ علاؤ الدین نے غوریوں کا خاتمہ کیا[107]اور1215ءمیں ضیاء الدین علی سےفیروزکوہپر قبضہ کر لیا ، جو یا تو اس کے قیدی (ایران میں جلا دیا گیا) یا جلاوطنی میںدہلیواپس چلا گیا۔ علاؤ الدین نے اسی سال بامیان لائن سے آخری غوری حکمران جلال الدین علی کو بھی شکست دی اور پھانسی دے دی۔ اس طرح ، 108 تک سنسابانی گھر کو خالی کر دیا گیا۔ یلدیز کو اسی وقت غزنی سے بھی گرا دیا گیا تھا جو بعد میں دہلی بھاگ گیا اور غور کے محمد کی غوری فتوحات کی جانشینی کے لیے اپنا دعویٰ پیش کیا۔ تاہم ، اسے شکست ہوئی اور 87 میں ترائن میں التتمش نے پھانسی دے دی۔[108][109]منہاج القرآن کے طبقات ناصری (1260ء) کے مطابق غور کے محمد نے اپنی زندگی میں جوش و خروش سے بہت سے غلام خریدے جو بعد میں منہاج کے مطابق دنیا بھر میں اپنی قابلیت کی وجہ سے مشہور ہو گئے۔ محمد نے ایک نوجوان قباچہ خریدا جسے غلامی میں فروخت کر دیا گیا تھا اور بعد میں غوری سلطان نے اسے اپنے عقیدے کے لیے کرمان اور سنجر کے ڈومین سے نوازا۔ اس نے اپنے غلاموں کو پیار سے پالا اور بعد کے دنوں میں اپنے غوری گھرانے سے مایوسی کے بعد انھیں اپنے بیٹوں اور جانشینوں کے طور پر دیکھا۔[110]مدبر کے ایک اور معاصر بیان کے مطابق جس نےقطب الدین ایبککی سرپرستی میں لکھا تھا ، نے بھی محمد کے لیے ہر ترک غلام (""بندگان"") کی اہمیت پر زور دیا۔[111]انھوں نے اپنے آقا کے اعتماد کو برداشت کرنے کے لیے ایبک کو مزید سزا دی۔ کے غلاموں نے گنگا جمنا دوآب میں غوریوں کی فتوحات کی توسیع اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا جب وہ خراسان کے امور میں مشغول تھے اور اس کے درمیان شمالی ہندوستان میں بھی اپنا اختیار قائم کیا جبکہ شہاب الدین غوری کو ان کے قتل تک ان کا سپریم آقا مانا جاتا تھا۔[112]شہاب الدین غوری نے بعد میں اپنے غلاموں کے خاندانوں کے درمیان اینڈوگیمی کے رواج کے مطابق ازدواجی اتحاد کا بھی اہتمام کیا۔ ان اتحادوں میں سے قابل ذکر تاج الدین یلدیز کی بیٹیوں کیقطب الدین ایبکاورناصر الدین قباچہسے شادیاں تھیں۔[113]مزید برآں، ایبک کی دو بیٹیوں کی شادی قباچہ سے ہوئی۔ ایبک نے بھی جاری رکھا ، جس نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے غلام التتمش سے کردی۔[114]مشہور روایات میں، جب ایک درباری نے افسوس کا اظہار کیا کہ سلطان (غور کے محمد) کا کوئی مرد وارث نہیں ہے، تو اس نے جواب دیا:""دوسرے بادشاہوں کے ایک بیٹا یا دو بیٹے ہو سکتے ہیں۔ میرے ہزاروں بیٹے ہیں، میرے ترک غلام ہیں جو میری سلطنتوں کے وارث ہوں گے اور جو میرے بعد ان علاقوں میں خطبہ جمعہ میں میرے نام کو محفوظ رکھنے کا خیال رکھیں گے۔[115]محمد غوری اور اس کے بڑے بھائی غیاث الدین محمد کے دور حکومت میں ، غوری مشرقی اسلامی دنیا کی ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرے۔ انھوں نے مختصر عرصے میں ایک ایسے علاقے پر حکمرانی کی جو مشرق سے مغرب تک 124 کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا۔ ان سالوں کے دوران ، ان کی سلطنت مشرقی موجودہایرانمیںنیشاپورسے موجودہہندوستانمیںبنارساوربنگالاور جنوب میں ہمالیہ کے دامن سےسندھ(پاکستان) تک پھیلی ہوئی تھی۔
+اندخد کی تباہی اورچنگیز خانکے عروج کے ساتھ ساتھ ان کے قتل کے ایک دہائی کے اندر اندر اندخد کی تباہی نےخراساناور فارس میں ان کی قلیل مدتی کامیابیوں کو وسطی ایشیا کے زیادہ اہم اسلامی بادشاہوں کے مقابلے میں کم نتیجہ خیز بنا دیا۔ اگرچہ ، محمد غوری ٹرانسوکسیانا میں اپنے ترک مخالفین کے خلاف زیادہ کامیاب نہیں تھے ، باوجود ،برصغیر پاک و ہندمیں ان کی کامیابی کے بہت اچھے نتائج تھے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں محمد اوفی کی کتاب'جوامی الحکیات' میں کہا گیا ہے کہ سلطان (محمد غور)ہرات��ے لے کرآسامتک تمام مساجد میں خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ راج سوم کی راجپوت افواج کے خلاف تارائن کی دوسری جنگ میں اس کی فیصلہ کن فتح نے پورے گنگا طاس کو ترک قبضے کے لیے کھول دیا اور بعد میںقطب الدین ایبککے ذریعہ دہلی سلطنت کا قیام عمل میں لایا گیا جسے اس کے غلام کمانڈر التتمش نے مزید مستحکم کیا۔ دہلی کی سلطنت واحد بڑی اسلامی ریاست بن گئی جو تیرہویں صدی کے دوران منگولوں کے ہاتھوں وسطی ایشیا میں ہونے والے قتل عام میں زندہ رہی۔[116][117][118][119]غزنویوں کی طرح غوری بھی خراسان کی اپنی رعایا میں غیر مقبول تھے۔ منہاج السراج کے مطابق محمد غوری نے اپنے لشکر کی توسیع کے لیے بھاری ٹیکس عائد کیے، لوٹ مار کی اور املاک پر قبضہ کر لیا، جو امام کے حرم کی حفاظت کے لیے وقف تھا۔ ان واقعات نے بالآخر لوگوں کو غوریوں کی طرف موڑ دیا جنھوں نے اس وقت جوابی کارروائی کی جب محمد غوری نے گرگنز کا محاصرہ کیا اور محصور خوارزمی شاہ کی فوجی حمایت کی جس کے نتیجے میں 70،000 کی فوج جمع ہوئی جس نے بالآخر محمد غوری کو محاصرے سے چھٹکارا حاصل کرنے اور قارا خیتائی افواج کے ہاتھوں گھیرے میں لینے سے پہلے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔[120][121]تاہم ، غور کا علاقہ ان کے دور حکومت میں خوش حال ہوا اور تعلیم اور ثقافت کا ایک اہم مرکز بن گیا۔ انھوں نے مولانا فخر الدین رازی جیسے مختلف علما کو بھی گرانٹ دی جنھوں نےغوری سلطنتکے پسماندہ علاقوں میں اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کی۔[118]1199ءکے آس پاس غزنہ میں محمد غوری کے دربار سے سکوں کی ترسیل، جو اسلامی دنیا کے عددی معیار کی تصدیق کرتی ہے، میں صرف عربی خطاطی تھی جس میں ان کے بھائی غیاث الدین محمد کا نام اور ان کا لقب شامل تھا، جبکہ سکے کے پچھلے حصے میں خلافت کے لقب کے ساتھ محمد غوری کا نام اور لقب درج تھا۔ اور غیاث الدین کی طرف سے جاری کردہ سکوں کا نمونہ 141 کے بعد تیزی سے تبدیل ہو گیا اور دونوں طرف قرآنی آیات کے ساتھ ایک اور زیادہ قدامت پسند مفکر بن گیا۔ اس سکے میں قدامت پسندی کی طرف بنیادی تبدیلی غالبا غیاث الدین اور محمد غوری کی جانب سے کرامیہ سےحنفیاورشافعیمکاتب فکر میں ان کے مکتب فکر کی تبدیلی کو فروغ دینے کے لیے ہے تاکہ وہ خود کو وسیع تر اسلامی دنیا کے عالمگیر نیٹ ورکس میں شامل کر سکیں اور اپنی پسماندہ اصل کو ختم کر سکیں۔[122][123]شمالی ہندوستان میں محمد غوری کے ذریعہ جاری کردہ سکے وزن اور دھاتی پاکیزگی کے ہندوستانی معیارکی پیروی کرتے تھے۔[124]بنگال کے علاوہہندوستانمیں غوری سکے فتح سے پہلے کے اسی نمونے پر چلتے رہے اور موجودہ ہندو مورتیوں کو سنسکرت میں لکھے گئے محمد غوری کے نام کے ساتھ جوڑا گیا ، جو شمالی ہندوستانی خواندہ اشرافیہ کی زبان ہے نہ کہ عربی میں۔[125]ہندوستان میں محمد غوری اور اس کے ساتھیوں کے ذریعہ بنائے گئے سکوں میں ایک طرف ہندو دیوتا لکشمی (چاہمنوں کے موجودہ نمونے پر مبنی) اور دوسری طرف ناگری رسم الخط میں محمد غوری کا نام سنسکرت میں لکھا ہوا تھا۔[126]اسی طرحدہلیمیں ، غوریوں کی فتح سے پہلے کے پیراڈائم پر جاری رہی جس میں نندی بیل اور ایک ""چاہمان گھڑ سوار"" کی تصویر کشی کی گئی تھی جس میں محمد غوری کے نام کو ""شری حمیرہ"" لکھا گیا تھا۔[127][128]"
+554,1186ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1186%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+555,خاندان غلاماں,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86_%D8%BA%D9%84%D8%A7%D9%85%D8%A7%DA%BA,خاندان غلاماں1206ء سے 1290ء تکہندوستانمیںسلطنت دہلیپر حکمران رہا۔ اس خاندان کا بانیقطب الدین ایبکتھا جوشہاب الدین غوریکی افواج کا جرنیل اور ہندوستان میںغوری سلطنتکے حصوں کا منتظم تھا۔1206ء میں غوری کی شہادت کے بعدقطب الدیننے غوری سلطنت کے ہندوستانی حصوں پر اپنی حکومت کا اعلان کر دیا۔ اس نے پہلےلاہورکو دار الحکومت قرار دیا جسے بعد ازاںدہلیمنتقل کر دیا گیا۔قطب 1210ء میں انتقال کرگیا جس کے بعد ایک ترک غلامالتتمشتخت پر بیٹھا۔ التتمش قطب الدین کا داماد تھا اور التتمش کے بعد آنے والے تقریبا تمام سلاطین اسی کی اولاد میں سے تھے جن میں اس کی بیٹیرضیہ سلطانہبھی شامل تھی۔سلطان ناصر الدین شاہکی افواج کے سپہ سالارغیاث الدین بلبننے ہندوستان کومنگولوںکے حملے سے بچانے کے لیے تاریخی کارنامے انجام دیے اور بعد ازاں تخت حاصل کیا۔خاندان غلاماں کی حکومت کا خاتمہخلجی خاندانکےجلال الدین فیروز خلجینے کیا جس نے محمد غوری کے دور میںبہاراوربنگالمیں استحکام حاصل کیا تھا۔خاندان غلاماں[مردہ ربط]
+556,1290ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1290%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+557,خلجی خاندان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D9%84%D8%AC%DB%8C_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86,"چوتھی صدی ہجری میںمسلمانجغرافیہ دانوں محمودکاشغری، رشید الدین اور ابوزید البلخی ترک قبائل کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ جو ترک قبائل بلاد اسلام کے قریبی ہمسائے تھے، ان میں ایک ترک قبیلہ قرلق،فارسی (خلج)، عربی (خلخ) تھا۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)نوشیروان نے ہنوں کے خلاف ترکوں سے مدد لی اور ان کی مدد سے ہنوں کو شکست دی۔ مگر جلد ہیافغانستانپر ترک چھاگئے۔کتاب الاغانیکے مطابق رود گرگان کے ترکوں نے ایرانیوں کی زبان و مذہب اختیار کر چکے تھے۔ وہ سانیوں دور میں ہی اس علاقے کو فتح کرچکے تھے۔ افغانستان میںدریائے ہلمندکے چڑھاؤ کے رخ پر ایک مرحلے کے فاصلے سے دریا کے اسی کنارے پر جس پر درتل تھا، شہر درغش آباد تھا اور درتل کے مغرب میں ایک مرحلے کے فاصلے پر بغنین اس علاقہ میں تھا۔ جہاں قبائل پشلنگ کے ترک آباد تھے۔ ان میں قبیلہ خلج بھی رہتا تھا۔ ان خلجی ترکوں نے بعد میں مغرب کی طرف نقل مکانی کی تھی۔ لیکنابن حوقلنے چوتھی (دسویں) صدی میں لکھتا ہے کہ یہ لوگ اپنی زندگی بہت قناعت سے زمینداری کرکے علاقہ میں بسر کرتے تھے اور وضح قطع ترکوں کی رکھتے تھے۔[2]خلجیافغانستانمیں ابتدئے اسلام سے ہی آباد تھے اور غالباً انھوں نے دوسرے افغان قبائل کے ساتھ اسلام چو تھی صدی ہجری میں اسلام قبول کیا تھا۔ کیوں کہ یہخوارزمشاہیوں اور غوریوں اور اس سے پہلے سلجوقیوں کے لشکر میں شامل رہے تھے۔ علاؤ الدین جہاں سوز نے سلطان سنجر کا مقابلہ کرنا چاہا تو عین لڑائی کے وقت یہ ترکوں اور خلجیوں نے علاؤ الدین جہاں کا ساتھ چھور کر یہ سلطان سنجر کے ساتھ جاملے۔ جس کی وجہ سے علاؤ الدین جہاں سوز کو شکست ہوئی اور وہ قید ہو گیا۔ اس طرح یہ سلطان مغزالدین محمد غوری کے لشکر میں شامل تھے اور ہند کی فتوحات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب سلطان محمد غوری ترائن کی لڑائی میں زخمی ہو گیا تو اس کو میدان جنگ سے بچالانے والا بھی ایک خلجی نوجوان تھا۔[3]خلجی سلطان محمد خوارزم کے لشکر میں بھی شامل تھے، اس نے سمرقند کی حفاظت کے لیے جو لشکر منگولوں کے مقابلے کے لیے چھوڑا تھا اس میں کثیر تعداد میں خلجی شامل تھے۔ خلجیوں نے خوارزم شاہیوں کے ساتھ مل کر منگولوں کے خلاف مزحمت کی تھی۔ 366ھ میں خلجیوں کے ایک گروہ جو سلطان محمد خلجی کے لشکری تھے اپنے سردار ملکخان محمدخلجی کی سرکردگی میں سندھ پر قابض ہو گئے، ناصرالدین قباچہ نے ان کے خلاف اقدام کیا اور انھیں نکال باہر کیا اور ان کا سردار ماراگیا۔[4]خلجیخاندان غلاماںکے لشکر میں بھی شامل رہے۔ بلکہ ترکوں کے لشکریوں کا غالب عنصر خلجی ہی تھے اور ان کی سرکردگی میں ہند میں وسیع فتوحات حاصل کیں۔ ان میں بختیار خلجی بہت مشہور ہوا، جس نے
+صرف دوسو آدمیوں کی مدد سے بنگال فتح کیا۔ اس طرح دوسرے خلجی سرداروں میں علی مردان خلجی، غرزالدین، محمد شیراں،میران شاہاور ملک جلال الدین بن خلج خان کے نام ملتے ہیں۔ آخر الذکر برصغیر میں خلجی سلطنت کا بانی تھا۔[5]931ء میں خلجی اچانک دہلی کے تخت پر قابض ہو گئے۔ خود اس پر دہلی کے امرا اور شہری بھی حیرت زدہ رہے گئے۔ نیا بادشاہ جلال الدین فیروز خلجی تھا۔ وہ کافی عرصہ تک دہلی میں داخلے کی ہمت نہیں
+کرسکا۔ اس خاندان کا سب سے مشہور بادشاہ علاؤ الدین خلجی تھا۔ جو جلاؤالدین فیروزکا بھتیجا اور داماد تھا۔ جو اپنے چچا کو قتل کرکے تخت پر بیٹھا تھا۔ یہ پہلاحکمران تھا جس نےجنوبی ہندکو فتح کیا۔ اس کے علاوہ یہ اپنی دور رس اصلاحات کی وجہ سے تاریخ میں مشہور ہوا۔ اس خاندان کا آخری حکمران اس کا بیٹا قطب الدین مبارک خلجی تھا جس کو اس کے نومسلم غلام خسرونے قتل کرکے اس خاندان کا خاتمہ کر دیا۔[6]1641ء میںمالوہکی حکمرانی خلجیوں نے حاصل کرلی۔ اس خاندان کا بانی محمود خلجی تھا۔ اس نے اپنےبرادر نسبتیکو زہر دے کر ہلاک کر دیا اور خود تخت پربیٹھ گیا۔ یہ ایک بیدار مغز بادشاہ تھا۔ اس کا سنتیس سالہ دور حکومت کا بیشتر حصہ گرد و نواع کی حکومتوں سے لڑنے اور سلطنت کی توسیع میں گذرا۔ اس خاندان کا آخر حکمرانباز بہادرتھا۔ اس کو اکبر کی فوجوں نے 1651ء میں تخت سے محروم کر دیا۔[7]ہندوستانکا ایکترک النسلحکمران خاندان جس نےافغانیرسم و رواج اورفارسیزبان اپنا لیا ہوا تھا۔مملوک سلاطینِ دہلیکے بعد 1290ء سے 1320ء تک خلجی بادشاہ ہندوستان پر حکمران رہے۔ خلجی خاندان کی بنیادجلال الدین خلجینے رکھی۔ اور اس کے بعد انکا بھتیجاعلاؤ الدین خلجیتخت نشین ہوا۔ جس کے قبضہ میں بعد ازاں پورا ہندوستان آیا۔ علاؤ الدین خلجی کے بعد اس کے جانشین نااہل ثابت ہوئے اور بالآخرتغلقوںکے ہاتھوں خاندان خلجی کا خاتمہ ہوا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ خلجیترکتھے۔ لیکن خلجی دراصل ایک افغان قبیلے غلجئی سے تعلق رکھتے تھے۔ اور یہی غلجئی نام ہندوستان میں خلجی کی صورت اختیار کر گیا۔اسلام کی امد نے ہندوستانی تہذیب میں ایک نئے طبقہ کو روشناس کرایا تھا، جب فوجی تصادم ختم ہوا تو سیاسی اور سماجی سرگرمیوں نے جگہ پائی، علاؤ الدین کے تخت نشین ہونے کے بعد تعمیرات کا کام جوش و خروش سے شروع ہوا، اس نے مسجد قوت الاسلام کی توسیع کرائی، مزید مساجد تعمیر کرائیں اور ایک نیا شہر آباد کیا۔جلال الدین نے کوشک لعل بنایا۔ علائی دروازہ علاؤ الدین کی تعمیر کرائی گئی شاندار عمارت ہے۔ یہ مسجد قوت الاسلام کا جنوبی دروازہ ہے۔امیر خسروکہتے ہیں کہ علائی دروازہ کی تعمیر کے بعد علاؤ الدین نے مسجد کی توسیع کرائی، نو دروازے رکھے ،خارالحکومت کے باہرمتھراکے مقام پر مسجد اور شیخ فرید کے الگ بھگ تعمیر کرائی، ایک دریا پر پل باندھا۔"
+559,سید خاندان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%DB%8C%D8%AF_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86,ؓملک خانداننے ہندوستان میں 1414 سے 1451 تکدہلی سلطنتپر حکومت کی ـ یہتغلق خاندانکو ہٹانے میں کامیابی کے بعد ہی آئے تھےـ۔ دہلی سلطنت کی مرکزی اتھارٹیامیر تیمورکے مسلسل حملے اور 1398 میں دلی کی مکمل تباہی کے بعد کمزور ہو گیا تھا۔ افراتفری کی ایک مدت کے بعد، جب کوئی مرکزی اتھارٹی کی بالا دستی کی ضرورت تھی تو، دہلی میں ملک خاندان نے طاقت حاصل کی۔ ان کی حکومت کی مدت 37 سال تھی۔[ملک خضر خان]]، تیمور کی طرف سےملتان(پنجاب) کے گورنر مقرر ہوئےـ خضر خان دہلی کی جانب 28 مئی، 1414 کو روانہ ہوا اوردولت خان لودھیکو ہٹا کر ملک خاندان کی بنیاد رکھی۔ لیکن اس نے بادشاہت کا اعلان نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کوتیموری سلطنتکا جاگیردار ظاہر کیا، ابتدائی طور پر تیمور کے اور اس کی موت کے بعد ان کے جانشینشاہ رخ، تیمور کے پوتے کے .اس خاندان کے آخری حکمران،ملک علاؤ الدین ابن محمد شاہنے رضاکارانہ طور پربہلول خان لودھیکے حق میں 19 اپریل، 1451 کودہلی سلطنتکے تخت کو چھوڑ دیا اور اس طرحبہلول خان لودھینےلودھی خاندانکی بنیاد رکھی۔
+560,لودھی سلطنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%84%D9%88%D8%AF%DA%BE%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA,لودھی سلطنت، دہلی کی آخری سلطنت تھی جو1451ءسے1526ءتک قائم رہی۔1412ءمیںسلطان ناصر الدین محمود شاہ تغلقکے انتقال کے بعدسلطنت دہلیمیں کئی سال تک ہنگامے رہے اورسیدوں کا خاندانمضبوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا[1]۔ لیکن1451ءمیںلاہوراور سرہند کےافغانصوبیداربہلول لودھی(1451ءتا1489ء) نےدہلیپر قبضہ کر کے ایک بار پھر مضبوط حکومت قائم کر دی جولودھی سلطنتکہلائی[حوالہ درکار]۔ اس نےجونپوربھی فتح کر لیا جہاں ایک آزاد حکومت قائم ہو گئی تھی[حوالہ درکار]۔دہلی کی یہ لودھی سلطنت اگرچہجونپورپٹودی سےملتانتک پھیلی ہوئی تھی،لیکن دہلی کی مرکزی حکومت کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھی۔ اس کی حیثیت سب مقامی حکومتوں کی طرح صرف ایک صوبائی حکومت کی تھی-لودھی خاندان میں سب سے زیادہ شہرتبہلولکے لڑکےسکندر لودھی(1489ءتا1517ء) کو حاصل ہے[حوالہ درکار]۔آگرہکے شہر کی بنیاد اس نے ڈالی۔ اس زمانے میں آگرہ کا نامسکندر آبادتھا۔ شہر آباد ہو جانے کے بعد سکندر لودھی نے دہلی کی بجائے آگرہ کو دار الحکومت بنا دیا لیکن پھر بعد میں دہلی منتقل کر لیا[حوالہ درکار]۔وہ سادہ طبیعت کا حامل تھا شاہی لباس میں تکلف پسند نہ کرتا تھا[حوالہ درکار]۔ انتظام مملکت اور رعایا کو خوش حالی کے لیے اقدامات میں مشغولیت، جاڑے میں کپڑے اور شالوں کی تقسیم اور محتاجوں کو کھانے کی فراہمی میں خوشی محسوس کرتا تھا[حوالہ درکار]۔ ہر چھ ماہ بعد محتاجوں اور مسکینوں کی فہرست اس کے سامنے پیش ہوتی اور وہ چھ ماہ کے لیے ان کے وظیفے جاری کرتا[حوالہ درکار]۔البتہ سکندر لودھی غصے کا تیز تھا جس کی وجہ سے وہ کبھی کبھیہندوؤںسے زیادتی کر جاتا تھا[حوالہ درکار]لیکن وہ وفادار ہندوؤں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرتا تھا۔[حوالہ درکار]سلطان کے زمانے میں ہندوؤں نے پہلی بارفارسیپڑھنا شروع کی اور اس نے ان ہندوؤں کو سرکاری ملازمتیں دیں۔ اس کے عہد میںسنسکرتکی کتابوں کا فارسی ترجمہ کیا گیا۔سکندر کے بعد اس کا بیٹاابراہیم لودھی(1517ءتا1526ء) تخت پر بیٹھا۔ انتہائی نا اہل حکمران تھا۔ اس کو دہلی کے قریبپانی پتکے میدان میںکابلکےمغلحکمرانظہیر الدین بابرکے ہاتھوں شکست ہو گئی اور اس طرح لودھی سلطنت کا خاتمہ ہوا اورمغلیہ سلطنتکی بنیاد پڑی۔ یہ فیصلہ کن جنگپانی پت کی پہلی لڑائیکہلاتی ہے۔
+562,برٹش میوزیم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%B1%D9%B9%D8%B4_%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%B2%DB%8C%D9%85,"برٹش میوزیمیابرطانوی عجائب گھرلندنکا شماردنیاکے چند اہم ترین عجائب گھروں میں ہوتا ہے۔ یہ انسانی ثقافت اور تاریخ پر ہے۔ اس عجائب گھر کی ابتدا 1753ء میں ہوئی۔
+اس میں دیکھنے کے لیے 1 کروڑ 30 لاکھ اشیا ہیں جو تمام براعظموں سے چوری کرکے یہاں لائي گئی ہیں۔
+1846 میں اس میوزیم میں کتابوں کی طباعت سے متعلق عہدے پر مشہور برطانوی شاعرکووینٹرے پیٹ مورنے 19 سال کی عمر میں ملازمت حاصل کی۔[3]"
+565,ارکان اسلام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D9%86_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85,بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاماسلام کے ارکانانھیں ارکان الدین بھی کہا جاتا ہے۔ دین اسلام میں یہ ارکان بنیادی اصول ہیں۔ انھیں فرائض بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ذکر حدیث جبریل میں واضح طور پر کیا گیا ہے۔[1][2][3][4]شہادہ، یعنی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں۔[5]اس بات کی گواہی دینا اور زندگی میں اپنانا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے۔ یہ کلمہ یوں ہے لَا إِلٰهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله، کلمہ شہادہ یا کلمئہ توحید بھی کہتے ہیں۔ اگر کوئی اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اس کو بھی اس کلمئہ توحید کا اقرار کرنا پڑے گا۔[6]صلواۃ عربی اصطلاح ہے، نماز فارسی اور اردو صورت۔ دین اسلام میں نماز دوسرا رکن ہے۔ نماز عبادت کی صورت ہے۔ نماز روزانہ پانچ وقت کی فرض ہیںزکوٰۃ، اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ اس کا اہم اصول اللہ کی عطا کی نعمتوں کو خالص کرنا ہے۔ اس کی ادائگی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس کا اہم مقصد غیر مساوات کو ختم کرنا معاشی مساوات کو برقرار رکھنا۔[7][8]زکوٰۃ کے پانچ اصول مانے جاتے ہیں :صوم یا روزہ تیسرا رکن ہے۔ جس کی تاکید قرآن میں واضح طور پر ملتی ہے۔ روزے تین قسم کے ہیں۔ پہلا ماہ رمضان کے ۔[10]دوسری قسم کے معافی مانگنے کے۔ ان دونوں کا ذکر سورۃ البقریٰ میں ہے۔[11]تیسری قسم کا روزہ تقویٰ کا، جس کا ذکر الاہذب میں ہے۔[12][13]حج، پانچواں رکن ہے۔ ہر وہ مسلمان، جو قابل ہو اُس پر فرض کیا گیا رکن ہے۔اسلامی تقویمکے آخری مہیناذوالحجہمیں ادا کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس حج کی ادائگی کے لیے مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔[14]مسلکاہل تشیعارکان اسلام کو فروع دین کہتے ہیں یعنی فروع دین اسلام کے عملی احکام کو کہا جاتا ہے جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کا شرعی وظیفہ ہے۔ شیعہ نطقہ نگاہ سے فروع دین دس ہیں: نماز، روزہ، خمس، زکوۃ، حج، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تَوَلّی اورتبرا۔[15]
+566,ذوالحجہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B0%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AC%DB%81,اسلامی تقویم26 ذو الحجہاسلامی تقویمکا بارھواں اور آخری مہینہ ہے۔56ھ–24 ذوالحجہمیلاد مسعود سیدہ معصومہ حضرتسکینہعلیہ السلامباغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا چالیس یا انچاس دن تک محاصرہ کر کے 12 ذوالحج 35 ہجری بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ آپ نے 82 سال کی عمر پائی۔حضرت عبد اللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی:اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔آپ انتہائی سخی ہونے کی وجہ سے غنی کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ کو یہ عظیم اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو بیٹیوں کے شوہر تھے۔ آپ اپنی صفت حیا کے حوالے سے فرشتوں میں بھی مشہور تھے۔ حضرت عثمان غنی ان دس صحابہ کی جماعت کا بھی حصہ ہیں جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری سنا دی تھی
+567,مکہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DA%A9%DB%81,"مکہیامکہ مکرمہ(عربی:مَكَّةُ الْمُكَرّمَةْ) تاریخی خطہحجازمیںسعودی عربکےصوبہ مکہکا دار الحکومت[5]اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ شہر کی آبادی 2004ء کے مطابق 12 لاکھ 94 ہزار 167 ہے۔ مکہجدہسے 73 کلومیٹر دوروادی فارانمیں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہبحیرہ احمرسے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔[6]یہ شہراسلامکا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقامبیت اللہیہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کاحجکرنا فرض ہے ۔.[7][8]انگریزیزبان میں Mecca کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں حکومتسعودی عربنے شہر کا انگریزی نام Mecca سے بدل کر Makkah کر دیا۔[9]معروف مؤرخابن خلدونکے مطابق مکہ پہلے بکہ کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم مؤرخین کے درمیان اس امر پر اختلاف ہے:ابراہیم النخعینے بکہ کو کعبہ اور مکہ کو شہر سے منسوب کیا جبکہامام ُزہریبھی اسی کے حامی ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بکہ میں استعمال ہونے والابدونوں آوازوں کے درمیان قربت کے باعث بعد ازاںممیں تبدیل ہو گیا۔ مکہ کو”ام القری“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔.[10]مسجد حرامکے اندر قائمخانۂ کعبہحضرت ابراہیماورحضرت اسماعیلعلیهم السلامنے تعمیر کیا۔ مؤرخین کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا مرکز تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ مکہ جنوبی عرب سے شمال میںرومیوبازنطینیسلطنتوں کے لیے زمینی راستے پر تھا اورہندوستانکے مصالحہ جاتبحیرہ عرباوربحر ہندکے راستے سے یہیں سے گزرتے تھے۔[11][12]کعبة اللهکی تعمیری تاریخ عہد ابراہیم اور اسماعیلعلیهم السلامسے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہر میں نبی آخر الزماںمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمپیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اور یہاں پ رہی مسجدحرامواقع ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :”اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے“ (آل عمران:96 )570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانرواابرہ��ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے، اپنے سردارعبدالمطلبکی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ہزاروں پرندے جنہیں عام طور پر ابابیل کا نام دیا جاتا ہے چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے نمودار ہوئے اور انھوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکرمنیٰکے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالٰی کے حکم سے تباہ و برباد ہو گیا اللہ تعالٰی نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :""کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کی سازش و مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو انھیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے، پس انھیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا""(سورة الفیل)یہ وہی سال تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا۔ آپ پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اورتبلیغاسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کر گئے۔بالآخر 10رمضانالمبارک8ھبمطابق 630ء میں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے۔ مدینہ ہجرت کر کے جانے کے بعد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کوفتح مکہکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام اہلیان شہر کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔خلافتاسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جوکعبة اللهسے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔مکہ کبھی ملت اسلامیہ کادارالخلافہنہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دار الخلافہمدینہتھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔خلافت راشدہکے زمانے میں بھی مدینہ ہی دار الخلافہ رہا اور پھر حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں پہلےکوفہاور اس کے خاتمے کے بعددمشقاور بعد ازاںبغدادمنتقل ہو گیا۔مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔ سنہ 1926ء میںسعودیوںنے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کوسعودی عربمیں شامل کر لیا۔[13][14]جنوری، 2022 ء سے مکہ شہر کے مئیر صالح الترکی ہیں۔[15]جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم عمارات ختم ہو چکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔[16]مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے۔ حالیہ سالوں میں ماہذوالحجہمیں 20 سے 30 لاکھ مسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمانع��رےکی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔شہر مکہ میں بنیادی حیثیتبیت اللہکو حاصل ہے جومسجد حراممیں واقع ہے۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گردطوافکرتے ہیں،حجر اسودکو بوسہ دیتے ہیں اورزمزمکے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیںصفااورمروہکی پہاڑیوں کے درمیانسعیاورمنیٰمیںشیطان کو کنکریاں مارنے کا عملبھی کیا جاتا ہے۔ حج کے دورانمیدان عرفاتمیں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکےنمازادا کرتے ہیں۔غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔سعودی عرب کے دوسرے شہروں کے برعکس مکہ کا موسم سردیوں میں بھی نسبتاً گرم رہتا ہے۔ سردیوں میں رات کا درجہ حرارت 17سینٹی گریڈاور دوپہر کے وقت 25 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور دوپہر کو درجہ حرارت عام طور پر 40سینٹی گریڈسے اوپر چلا جاتا ہے جبکہ رات کو بھی 30 درجے تک رہتا ہے۔ نومبر سے جنوری کے درمیان عموماً ہلکی بارشیں ہوتی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہ��م، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+568,خانہ کعبہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%A7%D9%86%DB%81_%DA%A9%D8%B9%D8%A8%DB%81,"خانہ کعبہ، کعبہ یا بیت اللہ (عربی:الكعبة المشرًفة، البيت العتيق یا البيت الحرام)مسجد حرامکے وسط میں واقع ایک عمارت ہے، جومسلمانوںکاقبلہہے، جس کی طرف رخ کرکے وہ عبادت کیا کرتے ہیں۔ یہ دیناسلامکا مقدس تر��ن مقام ہے۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کاحجکرنا فرض ہے۔ابراہیمکاقائم کردہ بیت اللہ بغیر چھت کے ایک مستطیل نما عمارت تھی جس کے دونوں طرف دروازے کھلے تھے جو سطح زمین کے برابر تھے جن سے ہر خاص و عام کو گذرنے کی اجازت تھی۔ اس کی تعمیر میں 5 پہاڑوں کے پتھر استعمال ہوئے تھے جبکہ اس کی بنیادوں میں آج بھی وہی پتھر ہیں جوابراہیمنے رکھے تھے۔ خانہ خدا کا یہ انداز صدیوں تک رہا تاوقتیکہ قریش نے 604ء میں اپنے مالی مفادات کے تحفظ کے لیے اس میں تبدیلی کردی کیونکہ زائرین جو نذر و نیاز اندر رکھتے تھے وہ چوری ہوجاتی تھیں۔امام مسلم رحمہ اللہ تعالٰی نے عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے حدیث بیان فرمائی ہے کہ :""عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ بیت اللہ کا ہی حصہ ہے؟تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں!، عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا کہ اسے پھر بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کيا گيا؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا کہ تیری قوم کے پاس خرچہ کے لیے رقم کم پڑ گئی تھی ۔میں نے کہا کہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری قوم نے اسے اونچا اس لیے کیا تا کہ وہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل کریں اورجسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں ۔اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تو میں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا""۔قریشنے بیت اللہ کے شمال کی طرف تین ہاتھ جگہ چھوڑ کر عمارت کومکعب نما(یعنی کعبہ) بنادیا تھا۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ روپے پیسے کی کمی تھی کیونکہ حق و حلال کی کمائی سے بیت اللہ کی تعمیر کرنی تھی اور یہ کمائی غالباً ہر دور میں کم رہی ہے لیکن انھوں سے اس پر چھت بھی ڈال دی تاکہ اوپر سے بھی محفوظ رہی، مغربی دروازہ بند کر دیا گیا جبکہ مشرقی دروازے کو زمین سے اتنا اونچا کر دیا گہ کہ صرف خواص ہی قریش کی اجازت سے اندر جاسکیں۔ اللہ کے گھر کو بڑا سا دروازہ اور تالا بھی لگادیا گیا جو مقتدر حلقوں کے مزاج اور سوچ کے عین مطابق تھا۔ حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم (جو اس تعمیر میں شامل تھے اور حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنے کا مشہور زمانہ واقعہ بھی رونما ہوا تھا) کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کو ابراہیمی تعمیر کے مطابق ہی بنایا جائے۔عبد اللہ بن زبیر(جو عائشہ ا کے بھانجے تھے اور امام حسین کی شہادت کے بطور احتجاجیزید بن معاویہسے بغاوت کرتے ہوئے مکہ میں اپنیخود مختاریکا اعلان کیا تھا) نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے685ءمیں بیت اللہ کو دوبارہ ابراہیمی طرز پر تعمیر کروایا تھا مگرحجاج بن یوسفنے693ءمیں انھیں شکست دی تو دوبارہ قریشی طرز پر تعمیر کرادیا جسے بعد ازاں تمام مسلمان حکمرانوں نے برقرار رکھا۔خانہ کعبہ کے اندر تین ستون اور دو چھتیں ہیں۔ باب کعبہ کے متوازی ایک اور دروازہ تھا دیوار میں نشان نظر آتا ہے یہاں نبی پاک صلی اللہ وسلم نماز ادا کیا کرتے تھے۔ کعبہ کے اندر رکن عراقی کے پاس باب توبہ ہے جو المونیم کی 50 سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ چھت پر سوا میٹر کا شیشے کا ایک حصہ ہے جو قدرتی روشنی اندر پہنچاتا ہے۔ کعبہ کے اندرسنگ مرمرکے پتھروں سے تعمیر ہوئی ہے اور قیمتی پردے لٹکے ہوئے ہیں جبکہ قدیم ہدایات پر مبنی ایک صندوق بھی اندر رکھا ہوا ہے۔کعبہ کی موجودہ عمارت کی آخری بار 1996ءمیں تعمیر کی گئی تھی اور اس کی بنیادوں کو نئے سرے سے بھرا گیا تھا۔ کعبہ کی سطح مطاف سے تقریباً دو میٹر بلند ہے جبکہ یہ عمارت 14 میٹر اونچی ہے۔ کعبہ کی دیواریں ایک میٹر سے زیادہ چوڑی ہیں جبکہ اس کی شمال کی طرف نصف دائرے میں جوجگہ ہے اسے حطیم کہتے ہیں اس میں تعمیری ابراہیمی کی تین میٹر جگہ کے علاوہ وہ مقام بھی شامل ہے جو ابراہیم نے ہاجرہ اوراسماعیلکے رہنے کے لیے بنایا تھا جسے باب اسماعیل کہا جاتا ہے۔حطیمجسےحجر اسماعیلبھی کہا جاتا ہے، خانہ کعبہ کے شمال کی سمت ایک دیوار ہے جس کے باہر سےطوافکیا جاتا ہے۔ اس دیوار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خانہ کعبہ میں شامل تھی۔ حطیم کی چوڑائی 30 اِنچ (90 سینٹی میٹر) ہے اور اونچائی1.5 میٹر (4.9 فُٹ) ہے۔خانہ کعبہ سے تقریباً سوا 13 میٹر مشرق کی جانبمقام ابراہیمقائم ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت ابراہیمنے اپنے قد سے اونچی دیوار قائم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا تاکہ وہ اس پر اونچے ہوکر دیوار تعمیر کریں۔1967ءسے پہلے اس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب سونے کی ایک جالی میں بند ہے۔ اس مقام کو مصلے کا درجہ حاصل ہے اور امام کعبہ اسی کی طرف سے کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاتے ہیں۔ طواف کے بعد یہاں دورکعتنفل پڑھنے کا حکم ہے۔کعبہ کے جنوب مشرقی رکن پر نصب تقریباً اڑھائی فٹقطرکے چاندی میں مڑھے ہوئے مختلف شکلوں کے 8 چھوٹے چھوٹے سیاہ پتھر ہیں جن کے بارے میں اسلامی عقیدہ ہے کہ تعمیری ابراہیمی کے وقت جنت سے جبریل لائے تھے اور بعد ازاں تعمیر قریش کے دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس جگہ نصب کیا تھا اور ایک بہت بڑے فساد سے قوم کو بچایا۔ جسے بعد میں چاندی میں مڑھ دیا گیا۔ کعبہ شریف کا طواف بھی حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اور ہر چکر پر اگر ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دینا چاہیے ورنہ دور سے ہی ہاتھ کے اشارے سے بوسہ دیا جا سکتا ہے۔ حج کے دنوں میں ہر کسی کو اس مقدس پتھر کو بوسہ دینا یا استلام کرنا ممکن ہوپاتا۔مسجد حرام میں کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کے فاصلے پر تہ خانے میں آب زمزم کا کنواں ہے جو ابراہیم اور ہاجرہ کے شیر خوار بیٹے اسماعیل کی پیاس بجھانے کے بہانے اللہ تعالٰیٰ نے تقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے بے آب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو وقت کے ساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے اشارہ خداوندی سے دوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ آب زمزم کا سب سے بڑا دہانہ حجر اسود کے پاس ہے جبکہ اذان کی جگہ کے علاوہ صفا و مروہ کے مختلف مقامات سے بھی نکلتا ہے۔ 1953ءتک تمام کنوئوں سے پانی ڈول کے ذریعے نکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زمزم کا پانیمسجد نبویمیں بھی عام ملتا ہے اور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔کعبہشریف میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک دروازہ ہے جسے باب کعبہ کہا جاتا ہے۔ باب کعبہ زمین یا حرم کے فرش سے 2.13 میٹر اوپر ہے۔ یہ دروازہ کعبہ شریف کے شمال-مشرقی دیوار پر موجود ہے اور اس کے قریب ترین دہانے پرحجر اسودنصب ہے جہاں سے طواف کی ابتدا کی جاتی ہے۔ 1942ء سے پہلے پہلے باب کعبہ کس نے تیار کیا اور کیسے تیار کیا اس کا تاریخ میں زیادہ تذکرہ نہیں ملتا۔ تاہم 1942ء میں ابراہیم ��در نے چاندی کا بنایا تھا،اس کے بعد 1979ء میں ابراہیم بدر کے بیٹےاحمد بن ابراہیم بدرنے خانہ کعبہ کا سنہرہ دروازہ بنایا۔ یہ سنہرہ دراوزہ تقریباََ 300 کلوگرام سونے سے تیار کیا گیا تھا۔رکن یمانیخانہ کعبہ کے جنوب مغربی کونے کو کہتے ہیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنےفرمایا:رکن یمانی اور حجر اسود دونوںجنتکے دروازے ہیں۔[1]ترجمہ:عبد اللہ بن عمرفرماتے ہیں کہ رکن یمانی پر دوفرشتےہیں جو وہاں سے گزرنے والے کی دعا پر آمین کہتے ہیں اورحجر اسودپر تو بے شمار فرشتے ہوتے ہیں“۔[2]اثنا عشری دو گروہوں میں منقسم ہیں:اورحجر اسودکو اس لیےبوسہدیا جاتا اورمسکیا جاتا ہے تا کہ اسعہدکو جومیثاقمیں ان لوگوں سے لیا گیا تھااللہکی بارگاہ میں ادا کر دیا جائے۔اور حجر اسود کو اس کےرکنمیں رکھا گیا جہاں وہ اس وقت ہے کسی دوسرے رکن میں اس لیے نہیں رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت میثاق کیا تھا اس کو اسی جگہ رکھا تھا۔اورکوہ صفاسے اس رکن کا استقبال جس میں حجر اسود ہےتکبیرکے ساتھ کرنے کیسنتاس لیے جاری ہو گئی کہ جبآدمنے کوہ صفا سے دیکھا کہ حجر اسود اس رکن میں رکھا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تمجید کرنے لگے۔اور میثاق کو حجر اسود میں اس لیے رکھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اورمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کینبوتاورعلیکیوصایتکا میثاق کیا توملائکہکے جوڑ جوڑ کانپنے لگے۔ اور سب سے پہلے اقرار میں جس نے جلدی کی یہی حجر اسود تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو منتخب کیا اور وہ میثاق اس کےمنہمیں ڈال دیا۔ اب وہقیامتکے دن آئے گا تو اس کی بولتی ہوئیزباناور دیکھنے والیآنکھہو گی اور وہ ہر اس شخص کی گواہی دے گا جس نے یہاں آ کر اس میثاق کو ادا کیا۔اور حجر اسود کوجنتسے اس لیے نکال کر بھیجا گیا تا کہ آدم جو عہد و میثاق میں سے بھول گئے ہوں انھیں یاد دلا دے۔ اورحرمکے حدود جو تھے وہ وہی ہیں ان میں نہ کچھ کم ہوئے نہ زیادہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے پاس ایکسرخ یاقوتنازل فرمایا تھا اس کو انھوں نے بیت اللہ کی جگہ رکھا تھا اور اس کاطوافکرتے تھے جس کی ضَوانِ نشانات تک پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اِن نشانات تک حرم قرار دے دیا۔اور حجر اسود کو مس اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس میں سارے خلائق کے عہد و میثاق ودیعتہیں اوردودھسے بھی زیادہسفیدتھا مگربنی آدمکے گناہوں نے اس کوسیاہبنا دیا اگر ایام جاہلیت کے گندے اورنجسلوگ اس کو مس نہ کرتے تو یہ ایسا ہوتا کہ جوبیماربھی اس کو مس کرتا وہ اچھا ہو جاتا۔[8]اوررکن شامیجاڑےگرمیمیں متحرک رہتا ہے اس لیے کہ اس کے نیچےہواقیدہے اور خانہ کعبہ اتنا بلند ہو گیا کہ اس پرسیڑھیلگا کر جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جبحجاجنے خانہ کعبہ کو منہدم کیا تو لوگ اس کیمٹیاٹھا اٹھا کر لے گئے اور پھر جب لوگوں نے اس کی دوبارہ تعمیر کا ارادہ کیا تو ایکسانپنمودار ہوا جس نے لوگوں کو تعمیر سے روک دیا جب حجاج آیا تو اسے لوگوں نے بتایا اس نےامام علی بن الحسینسے اس کے متعلق رجوع کیا تو آپ نے فرمایا تم لوگوں کو حکم دو کہ جو شخص یہاں سے جو کچھ لے گیا ہے وہ سب لا کر یہاں واپس ڈال جائے۔ چنانچہ جب اس کی دیواریں بلند ہو گئیں تو آپ نے حکم دیا کہ اس کی ساری مٹی اس میں ڈال دی جائے اس لیے خانہ کعبہ اتنا بلند ہو گیا کہ اس میں سیڑھی لگا کر جاتے ہیں۔ اور لوگ اس چہار دیواری سے باہر خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اس کے اندر سے نہیں کرتے اس لیے کہاسماعیلکی مادر گرامی چہار دیواری کے اندردفنہیں اور ��س میں ان کیقبرہے اس لیے باہر سے طواف کرتے ہیں تا کہ ان کی قبر پاؤں تلے روندی نہ جائے۔[10]اور اس چہار دیواری میں خانہ کعبہ کا کوئی جزناخنکے ایک تراشے کے برابر بھی نہیں ہے۔[11]قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآل��ہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدارسانچہ:شیعہ اسلام میں مقدس ترین مقامات"
+569,ناصر داوود خلیلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%B1_%D8%AF%D8%A7%D9%88%D9%88%D8%AF_%D8%AE%D9%84%DB%8C%D9%84%DB%8C,"سرناصر داوود خلیلی(انگریزی: Nasser Khalili) ( فارسی: ناصر داوود خلیلی، پیدائش 18 دسمبر 1945)لندنمیں مقیم ایک برطانوی-ایرانی اسکالر، کلکٹر اور مخیر ہیں۔ وہایرانمیں پیدا ہوئے اورکوئنز کالج، سٹی یونیورسٹی آف نیو یارکاوراسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندنمیں تعلیم حاصل کی، وہ ایک برطانوی شہری ہیں۔[6]ان کے نام آرٹ کے آٹھ مجموعے ہیں۔ — خلیلی مجموعے — ان میں سے ہر ایک کو اپنے شعبے میں سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ان مجموعوں میں کل 35,000 فن پارے ہیں اور اس میں اسلامی آرٹ کا سب سے بڑا نجی مجموعہ اور جاپانی شاہی خاندان کے مقابلے میں جاپانی آرٹ کا مجموعہ شامل ہے۔ انھوں نے مجموعوں کو محفوظ کرنے، تحقیق کرنے اور دستاویز کرنے پر لاکھوں پاؤنڈ خرچ کیے ہیں، انھوں نے اب تک کیٹلاگ اور تحقیق کی ستر سے زیادہ جلدیں شائع کی ہیں۔ مجموعوں سے تیار کردہ نمائشیں دنیا بھر کے اداروں میں نمودار ہوئی ہیں۔خلیلی نے سب سے پہلے 1970 کی دہائی کے دوران میں نیویارک شہر میں آرٹ ورک جمع کرنا شروع کیا، بعد میں 1980 کی دہائی میں برطانیہ میں جائداد میں سرمایہ کاری کی۔ جس سے ان کی تجارت میں کافی ترقی ہوئی اور ان کی دولت بڑحتی گئی۔انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ""آرٹ، کموڈٹیز اور رئیل اسٹیٹ کا کاروبار""۔ خلیلی کو لندن میں متعدد بڑی جائیدادوں کی خریداری اور تزئین و آرائش کے لیے جانا جاتا ہے۔اپنی فلاحی تنظیم، خلیلی فاؤنڈیشن کے ذریعے، وہ ابراہیمی مذاہب کے درمیان میں باہمی افہام و تفہیم اور مکالمے کو فروغ دینے کے لیے مختلف سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے عطیات نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامی فن میں ایک تحقیقی مرکز کے ساتھ ساتھ اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں اس مضمون میں پہلی یونیورسٹی چیئر کے قیام کے لیے فنڈ فراہم کیا۔ وہ تعلیمی مواد کی تخلیق اور تقسیم کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ اور اس نے اسلامی فن اور فن تعمیر کی تاریخ لکھی اور تقسیم کی ہے۔[7]"
+570,ناصر داوود خلیلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%B1_%D8%AF%D8%A7%D9%88%D9%88%D8%AF_%D8%AE%D9%84%DB%8C%D9%84%DB%8C,"سرناصر داوود خلیلی(انگریزی: Nasser Khalili) ( فارسی: ناصر داوود خلیلی، پیدائش 18 دسمبر 1945)لندنمیں مقیم ایک برطانوی-ایرانی اسکالر، کلکٹر اور مخیر ہیں۔ وہایرانمیں پیدا ہوئے اورکوئنز کالج، سٹی یونیورسٹی آف نیو یارکاوراسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندنمیں تعلیم حاصل کی، وہ ایک برطانوی شہری ہیں۔[6]ان کے نام آرٹ کے آٹھ مجموعے ہیں۔ — خلیلی مجموعے — ان میں سے ہر ایک کو اپنے شعبے میں سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ان مجموعوں میں کل 35,000 فن پارے ہیں اور اس میں اسلامی آرٹ کا سب سے بڑا نجی مجموعہ اور جاپانی شاہی خاندان کے مقابلے میں جاپانی آرٹ کا مجموعہ شامل ہے۔ انھوں نے مجموعوں کو محفوظ کرنے، تحقیق کرنے اور دستاویز کرنے پر لاکھوں پاؤنڈ خرچ کیے ہیں، انھوں نے اب تک کیٹلاگ اور تحقیق کی ستر سے زیادہ جلدیں شائع کی ہیں۔ مجموعوں سے تیار کردہ نمائشیں دنیا بھر کے اداروں میں نمودار ہوئی ہیں۔خلیلی نے سب سے پہلے 1970 کی دہائی کے دوران میں نیویارک شہر میں آرٹ ورک جمع کرنا شروع کیا، بعد میں 1980 کی دہائی میں برطانیہ میں جائداد میں سرمایہ کاری کی۔ جس سے ان کی تجارت میں کافی ترقی ہوئی اور ان کی دولت بڑحتی گئی۔انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ""آرٹ، کموڈٹیز اور رئیل اسٹیٹ کا کاروبار""۔ خلیلی کو لندن میں متعدد بڑی جائیدادوں کی خریداری اور تزئین و آرائش کے لیے جانا جاتا ہے۔اپنی فلاحی تنظیم، خلیلی فاؤنڈیشن کے ذریعے، وہ ابراہیمی مذاہب کے درمیان میں باہمی افہام و تفہیم اور مکالمے کو فروغ دینے کے لیے مختلف سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے عطیات نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامی فن میں ایک تحقیقی مرکز کے ساتھ ساتھ اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں اس مضمون میں پہلی یونیورسٹی چیئر کے قیام کے لیے فنڈ فراہم کیا۔ وہ تعلیمی مواد کی تخلیق اور تقسیم کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ اور اس نے اسلامی فن اور فن تعمیر کی تاریخ لکھی اور تقسیم کی ہے۔[7]"
+572,ایران,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86,"اسلامی جمہوریۂ ایران(عرف عام: ایران، سابق نام: فارس، موجودہ فارسی نام: جمهوری اسلامی ایران)مغربی ایشیاکا ایک ملک ہے، جومشرق وسطیمیں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میںآرمینیا،آذربائیجاناورترکمانستان، مشرق میںپاکستاناورافغانستاناور مغرب میںترکیاورعراق(کردستان علاقہ) سے ملتی ہیں۔ مزید برآںخلیج فارساورخلیج عمانواقع ہیں۔اسلامملک کا سرکاری مذہب اورفارسیملک کی قومی اور بین النسلی زبان ہے اور اس کے سکے کوریالکہتے ہیں۔ فارسوں، آذربائیجانی ترک، کردوں (کردستانی)، لروں (لرستانی)، بلوچی، گیلک & مازندرانی، خوزستانی عرب اور ترکمان ملک میں سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں۔ایران جغرافیائی اعتبار سے بہت اہم ہے قدرتی گیس، تیل اور قیمتی معدنیات اس کے دامن میں پوشیدہ ہیں۔
+رقبہ کے اعتبار سے دنیا میں 17ویں نمر پر شمار کیا جاتا ہے
+ایران دنیاکی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ملک کی تاریخ ہزاروںسالوںپر محیط ہے جو مدائن سلطنت 678 ق۔م سے لے کرصفوی اور پہلوی سلطنت تک پھیلی ہوئی ہے۔یہ ملک اپنےتہذیبتمدن کے اعتبار سے ایشیا میں تیسرے اور دنیا میں گیارہویں درجے پر قابض ہے۔یورپاورایشیاکے وسط میں ہونے کے باعث اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ ایراناقوام متحدہ، غیر وابستہ ممالک کی تحریک (نام)،اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کا بانی رکن ہے۔ تیل کے عظیم ذخائر کی بدولت بین الاقوامی سیاست میں ملک اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ لفظ ایران کا مطلبآریاؤںکی سرزمین ہے۔ریاست ایران 1648195 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ ایران کی کل آبادی 85 ملین ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ایران دنیا میں ستارہویں نمبر پر ہے۔ایرانمشرق وسطیمیں واقع ہے۔ اس کے شمال میںآرمینیا،آذربائیجان،ترکمانستاناوربحیرہ قزوین، مشرق میںافغانستاناورپاکستان، جنوب میںخلیج فارساورخلیج اومانجبکہ مغرب میںعراقاورترکیواقع ہیں۔ ملک کا وسطی و مشرقی علاقہ وسیع بے آب و گیاہ صحراؤں پر مشتمل ہے جن میں کہیں کہیں نخلستان ہیں۔ مغرب میں ترکی اور عراق کے ساتھ سرحدوں پر پہاڑی سلسلے ہیں۔ شمال میں بھیبحیرہ قزوینکے ارد گرد زرخیز پٹی کے ساتھ ساتھکوہ البرسواقع ہیں۔8 اپریلکی تاریخ ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے مناسبت رکھتی ہے۔ آج کا دن مقامی ٹیکنا لوجی کی بنیاد پر یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیاں شروع کیے جانے سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس بڑی سائنسیکامیابیکے اعلان کے بعد ایران کے ثقافتی انقلاب کی اعلیٰ کونسل کی منظوری اور ایران کے جوان دانشوروں کی قابل افتخار کوششوں کی قدردانی کے مقصد سے8 اپریلکی تاریخ کو ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے موسوم کیا گیا۔ جوہری ٹیکنالوجی کا اطلاق، ایٹم کے شگاف اور انھیں جوڑنے کی توانائی کے ذریعے قدرتی یورینیم کو افزودہ یورینیم میں تبدیل کرنے کی توانائی پر ہوتا ہے۔پرامن استعمال کے لیے مقامی جوہری ٹیکنالوجی، سائنسی اور صنعتی اعتبار سے قابل ذکر اہمیت کی حامل ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال صرف توانائی کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے ایرانی ماہرین کی جانب سے طبی اور تحقیقاتی امور میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ایران سنہ1958ءمیں آئی اے ای اے کا رکن بنا اور سنہ1968ءمیں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے۔
+حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیش رفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کے لیے 90 سے 95 فی صد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کے لیےیورینیمکو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔تہران کا یہ ایٹمی ری ایکٹر کینسر کی بیماری میں مبتلا بیماروں کے لیے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہیورینییمکے ایندھن کی ��رورت ہے جو دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے 20 فیصد افزودہیورینییمکا ایندھن دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جس کی ساری سرگرمیاں اٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں،یورینیمکی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی، فیوز یعنی پگھلانے والی مشین تیار کرنا ہے اور اس وقت ایران اس حوالے سے ٹیکنالوجی رکھنے والے دنیا کے پانچ ملکوں میں شامل ہے اور ایران مشرق وسطی کا واحد ملک ہے کہ اس سلسلے میں جس کی سرگرمیاں آئی اے ای اے کی نگرانی میں جاری ہیں۔توقع کی جاتی ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں جوہری دنیا، توانائی کی پیداوار میں جوہری شگاف سے اسے پگھلانے کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایران اس وقت اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھہ مشترکہ جوہری منصوبوں منجملہ یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی فیوز کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی توانائی رکھتا ہے اور اس نے یہ ٹیکنالوجی آئی اے ای اے کی زیر نگرانی ہی حاصل کی ہے مگر پھر بھی امریکا اور گنتی کے چند دیگر ممالک کہ جن سے ایران کی ترقی و پیشرفت برداشت نہیں ہوپا رہی ہے۔تہران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں۔ ایران کا بائیکاٹ۔ نفسیاتی جنگ۔ سیاسی دباؤ۔ فوجی حملے کی دھمکی۔ یہانتکہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہو چکی ہے۔پیرانشہرشہر 8000 سال کی تاریخ کے ساتھ ایران کا سب سے قدیم تہذیب ہے۔[5][6][7][8]تفصیلی مضمون کے لیے دیکھیں۔ایران کی صوبائی تقسیمایران کو انتظامی طور پر اکتیس صوبوں یااستانمیں تقسیم کیا گیا ہے۔موجودہ آئین1979ءکےانقلابکے بعد منظور کیا گیا جس کے مطابق ایران کو ایک اسلامی جمہوریہ اور اسلامی تعلیمات کو تمام سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا۔ مجموعی اختیارات رہبر معظم (سپریم لیڈر) کے پاس ہوتے ہیں۔ آج کلآیت اللہ علی خامنہ ایرہبر معظم ہیں۔ رہبر معظم کا انتخاب ماہرین کی ایک مجلس (مجلس خبرگان رہبری) کرتی ہے جس میں پورے ایران سے 86 علما منتخب کیے جاتے ہیں۔ رہبر معظم مسلح افواج کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے۔حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے جسے پورے ملک سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔ آئین کے تحت کوئی فرد دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ قانون سازی کے اختیارات مجلس کے پاس ہیں جو 290 منتخب اراکین پر مشتمل اور 4 سال کے لیے علاقوں اور مذہبی برادریوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مسیحیوں، زرتشتوں اور یہودیوں کے اپنے نمائندے مجلس میں شامل ہیں۔ مجلس کے منظور شدہ قوانین منظوری کے لیےشوریٰ نگہبانکے پاس بھیجے جاتے ہیں۔شوری نگہبان اس لحاظ سے مجل�� کے منظور کردہ قوانین کا جائزہ لیتی ہے کہ وہ آئین اور اسلامی قوانین کے مطابق ہیں۔ اس میں رہبر معظم کی جانب سے نامزد کردہ 6 مذہبی رہنما اور عدلیہ کے نامزد کردہ 6 قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں جن کی منظوری مجلس دیتی ہے۔ شوری نگہبان کو مجلس، مقامی کونسلوں، صدارت اور مجلس خبرگان کے امیدواروں کو ویٹو کردینے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔قانون سازی کے حوالے سے مجلس اور شوری نگہبان کے درمیان میں پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لیے1988ءمیں ""مجمع تشخیص مصلحت نظام"" (ایکسپیڈیئنسی کونسل) قائم کی گئی۔اگست1989ءسے یہ قومی پالیسی اور آئینی امور پر رہبر معظم کا مشیر ادارہ بن گئی۔ اس کے سربراہ سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ہیں اور اس میں حکومت کے تینوں شعبوں کے سربراہ اور شوری نگہبان کے مذہبی ارکان شامل ہیں۔ رہبر معظم تین سال کے لیے ارکان نامزد کرتا ہے۔مجلس کے بڑے گروہوں کو عموما ""اصلاح پسند"" اور ""قدامت پرست"" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس وقت مجلس میں ""آبادگاران"" کا اتحاد غالب ہے۔ یہ قدامت پرست ہیں۔1997ءمیں صدر خاتمی کے منتخب ہونے کے بعد ایران کے زیادہ تر ممالک سے تعلقات بہتر ہوئے۔1998ءمیںبرطانیہاور ایران کے تعلقات اس یقین دہانی پر بحال ہوئے کہ ایرانی حکومت کاسلمان رشدیکی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔1999ءمیںبرطانیہاور ایران نے سفارتکاروں کا تبادلہ کیا۔ایران اورامریکاکے تعلقات1980ءمیں ٹوٹے اور آج تک بحال نہیں ہوئے۔ جولائی2001ءمیںامریکانے ایران اورلیبیاپر پابندیوں کے قانون میں مزید 5 سال کے لیے توسیع کردی۔ جنوری 2002ء میں صدر بش نے ایران کو ""بدی کے محور"" (Axis of Evil) کا حصہ قرار دیا۔ اس وقت ایران مغربی طاقتوں کی جانب سے جوہری پروگرام، مبینہ دہشت گردی،مشرق وسطیکے امن کو خراب کرنے کے خواہش مند گروہوں کی مبینہ سرپرستی اور دیگر الزامات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے مغرب کی ریشہ دوانیوں امریکی سازشوں اور عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے ملت ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں کے بعد ہر سطح پر خود کفیل ہونے کا فیصلہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی، نانو ٹیکنا لوجی، کلوننگ اور میڈیکل کے ساتھ ساتھ ائرو اسپیس نیز دفاعی شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے جس کے بارے میں اختصار کے ساتھ کچھ مطالب قارئین کی معلومات افزائی کے لیے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔ائرواسپیسایٹمی ٹیکنالوجینانو ٹیکنا لوجیکلوننگمیڈیکلدفاعی1980ءکی دہائی میںایران عراق جنگکے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے تاہم عراق کے تنازعے پر ایران نے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کر دیا اگرچہ اس نے فوجی کارروائی پر تنقید کی لیکن اس نے اعلان کیا کہ وہ تنازعے سے باہر رہے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک مستحکم اور متحد عراق کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ ایران کاعراقکی عبوری حکومت کے ساتھ براہ راست دو طرف معاہدہ ہے۔ ایران بجلی کی فراہمی کے سلسلے میںعراقکی مدد کر رہا ہے۔30 نومبر2004ءکوعراقمیں سلامتی، عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور بیرونی عناصر کی مداخلت روکنے پر غور کے لیے ایران میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کی میزبانی ایرانی وزارت داخلہ نے کی۔ اس کانفرنس میںعراق،سعودی عرب،کویت،ترکی،اردناورمصرکے وزرائے داخلہ اور سیکورٹی حکام نے شرکت کی۔ایران افغان خانہ جنگی سے بھی متاثر ہو رہا ہے اور وہاں استحکام کے فروغ کا خواہاں نظر آ رہا ہے۔ ایران نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 5 سالوں میں 560 ملین ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے منشیات کے خلاف ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین رہائش پزیر ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔1979ءمیں انقلابِ اسلامی کے بعد سے ایران کا موقف یہ رہا ہے کہاسرائیلکا وجود غیر قانونی ہے۔ ایران اب بھی اسرائیل کی پرجوش مخالفت پر قائم ہے۔ وہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے اقدامات پر بھی اعتراضات کرتا رہتا ہے اور مبینہ طور پرفلسطیناورلبنانکے ان اسرائیل مخالف گروہوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ 2002ء میں ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اور فلسطین کو کوئی معاہدہ قابل قبول ہو تو ایران ایسے دو طرفہ معاہدے کو رد نہیں کرے گا۔ایران ایک متنوع ملک ہے جہاں بہت سےنسلی گروہپائے جاتے ہیں، ان میںفارسیبولنے والے سب سے زیادہ ہیں۔بیسویں صدیکے اواخر میں ایران کی آبادی تیزی سے بڑھی، 1956ء میں ایران کی آبادی صرف 19 ملین تھی جو 2009ء تک 79 ملین تک جاپہنچی۔ تاہم حالیہ چند سالوں میں ایران کی شرح پیدائش میں نمایا کمی آئی ہے 2012ء میں لیے گئے اندازے کے مطابق ایران کی شرح پیدائش 1.29 فیصد رہی۔ایران دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہیں جہاں پناہ گزینوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو زیادہ ترافغانستاناورعراقمیں جاری جنگوں کے باعث ایران آئے ہیں۔ ایرانی آئین کے مطابق حکومتِ وقت پر ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں جن میں جان و مال کا تحفظ، طبی سہولیات، معزور افراد کی دیگ بال، وغیرہ شامل ہیں اور ان چیزوں پر خرچہ بجٹ کے ذریعے حاصل کردہ ریونیو (سالانہ آمدنی) سے کیا جاتا ہے۔ملک کی اکثریت باشندےفارسی زبانبولتے ہیں جو اکثریتی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ایران کی سرکاری زبان بھی ہے۔ ایران میں بولے جانے والے زبانیں اکثرہند-ایرانی زبانیںہیں۔ اقلیتی زبانوں کی بات کی جائے تو ایران کے شمال مغرب میںآذربائجانی، شمال میں ترکمن اور مشرق میں پاکستانی سرحدوں کے قریب علاقے میںبلوچی زبانبولی جاتی ہے۔ایران میں 53 فیصد افراد کیفارسی، 16 فیصد کیآذربائجانی، 10 فیصد کیکردی، 7 کی فیصد گیلکی اور مزدارین، 7 فیصد کی لوری، 2 فیصد کی عربی اور 2 فیصد کیبلوچیمادری زبان ہے۔ تاہم ان تمام مادری زبانوں کا استعمال صرف بطور علاقائی زبان کیا جاتا ہے باقی ملک بحر میں فارسی ہی استعمال ہوتی ہے۔تاریخی طور پرزرتشتیتایران کا قدیم مذہب تھا خاص کرہخامنشی سلطنت،سلطنت اشکانیاناورساسانی سلطنتکے ادوار میں زرتشتیت ہی ایران کا سب سے بڑا مذہب تھا۔ 651ء کے لگ بگ مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا اور یہاں سے آتش پرستساسانی سلطنتکا سقوط ہو گیا، مسلم فتح کے بعد دھیرے دھیرے اسلام پھیلتا گیا۔ ایران میں لوگ 15ویں صدی تکسنیاسلام کے پیروکار تھے، تاہم 1501ء میںصفوی سلطنتقائم ہو گیا جس نے 16ویں صدی میں مقامی سنی مسلم آبادی کو دباؤ کے ذریعےاثنا عشریہ اہل تشیعمسلم میں تبدیل کیا۔[9]آجاثنا عشرہشیعہ اسلام ایران کا سرکاری مذہب ہے۔ ایران کی 90 فیصد آبادی شیعہ اسلام کے پیروکار ہے، 8 فیصد سنی اسلام اور باقی کے 2 فیصد غیر مسلم ہیں۔ایران انتہائی متحرک زلزلے کی پٹی پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں۔ 1991ء سے اب تک ملک میں ایک ہزار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے جاچکے ہیں جن سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 17 ہزار 600 جانیں ضائع ہوئیں۔ 2003ء میں جنوب مشرقی ایران میں شدید زلزلے نے تباہی مچادی۔ اس کی شدت ریکٹر اسک��ل پر 6.3 تھی اور اس نے قدیم قصبہ بام کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔سانچہ:جنوبی ایشیا کے ممالک"
+573,کوئنز کالج، سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D9%88%D8%A6%D9%86%D8%B2_%DA%A9%D8%A7%D9%84%D8%AC%D8%8C_%D8%B3%D9%B9%DB%8C_%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%B3%D9%B9%DB%8C_%D8%A2%D9%81_%D9%86%DB%8C%D9%88_%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DA%A9,کوئنز کالج(لاطینی: Queens College)ریاست ہائے متحدہکا ایکجامعہوریاستہائے متحدہ کا عوامی تعلیمی ادارہجوکوئینزمیں واقع ہے۔[2]
+574,اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B3%DA%A9%D9%88%D9%84_%D8%A2%D9%81_%D8%A7%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%86%D9%B9%D9%84_%D8%A7%DB%8C%D9%86%DA%88_%D8%A7%D9%81%D8%B1%DB%8C%D9%82%D9%86_%D8%B3%D9%B9%DA%88%DB%8C%D8%B2%D8%8C_%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%B3%D9%B9%DB%8C_%D8%A2%D9%81_%D9%84%D9%86%D8%AF%D9%86,"اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن(انگریزی: SOAS, University of London)مملکت متحدہکا ایکجامعہجولندنمیں واقع ہے۔[1]"
+575,مسلمان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86,"بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاممسلمان(عربی:مسلم، مسلمة)، (فارسی: مسلمان)، (انگریزی:Muslim) سے مراد وہ شخص ہے جو دینِاسلامپر یقین رکھتا ہو۔ اسلام کا لغوی معنیاللہکے سامنے سرتسلیم خم کرنا۔[1]اگرچہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق اسلام خدا کا دین ہے اور یہ دینحضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے بھی موجود تھا اور جو لوگ اللہ کے دین پر عمل کرتے رہے وہ مسلمان ہیں۔ مثلاًقرآنکے مطابق حضرتابراہیم علیہ السلامبھی مسلمان تھے۔ مگر آج کل مسلمان سے مراد اسے لیا جاتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر عمل کرتا ہو اور یقین رکھتا ہو۔ کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان انبیا کے آخر میں آئے ہیں اور آخری قانون پر عمل ہوتی باقیہ خود بخود منسوخ ہو جاتے ہے۔پہلے پہل جو لوگ مسلمان ہوئے وہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اس طریقہ سے کوئی بھی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ جب کوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا رسول مان لے تو اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ ان کی ہر بات پر ایمان رکھے اور عمل کرنے کی کوشش کرے۔اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے مفہوم ""کہ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرے۔مثلاً انھوں نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور یہ کہ وہ خدا کے آخری رسول ہیں تو اس بات پر ایمان رکھنا اسلام کے فرائض میں سے ہے۔اگر کوئی نافرمانی کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔اسلام کے بنیادی عقائد جن پر مسلمانوں کے کسی فرقہ میں کوئیاختلافنہیں، درج ذیل ہیں• اچھی اور بری تقدیر پر ایمان کہ جو کچھ بھی اس کائنات میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے۔
+اوپر دی گئی چیزوں پر ایمان رکھنے والے کو مسلمان کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اختلافات فروعی و سیاسی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+576,ذوالحجہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B0%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AC%DB%81,اسلامی تقویم26 ذو الحجہاسلامی تقویمکا بارھواں اور آخری مہینہ ہے۔56ھ–24 ذوالحجہمیلاد مسعود سیدہ معصومہ حضرتسکینہعلیہ السلامباغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا چالیس یا انچاس دن تک محاصرہ کر کے 12 ذوالحج 35 ہجری بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ آپ نے 82 سال کی عمر پائی۔حضرت عبد اللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی:اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔آپ انتہائی سخی ہونے کی وجہ سے غنی کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ کو یہ عظیم اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو بیٹیوں کے شوہر تھے۔ آپ اپنی صفت حیا کے حوالے سے فرشتوں میں بھی مشہور تھے۔ حضرت عثمان غنی ان دس صحابہ کی جماعت کا بھی حصہ ہیں جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری سنا دی تھی
+577,سعودی عرب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C_%D8%B9%D8%B1%D8%A8,"مسیحیت4.4 فیصدہندو مت1.1 فیصدبدھ مت0.3 فیصدسعودی عربیاسعودی عربیہ(رسمی نام : المملكة سعودیہ العربیہ)مغربی ایشیاکا ایک ملک ہے۔ یہجزیرہ نما عربکے بڑے حصے پر محیط ہے، جو اسےایشیاکا پانچواں سب سے بڑا، عرب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مغربی ایشیا اورمشرق وسطیکا سب سے بڑا ملک بناتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب میںبحیرہ احمرسے ملتی ہے۔ شمال میںاردن،عراقاورکویت؛ مشرق میںخلیج فارس،قطراورمتحدہ عرب امارات؛ جنوب مشرق میںعمان؛ اور جنوب میںیمن۔بحرینمشرقی ساحل سے دور ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ شمال مغرب میںخلیج عقبہسعودی عرب کومصراوراسرائیلسے الگ کرتی ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے پاس بحیرہ احمر اور خلیج فارس دونوں کے ساتھ ساحل ہے اور اس کا زیادہ تر علاقہ خشک صحرا، نشیبی، میدان اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہرریاضہے۔ یہ ملکمکہاورمدینہکا گھر ہے، جواسلامکے دو مقدس ترین شہر ہیں۔قبل از اسلام کا جزیرہ نما عرب، وہ علاقہ جس پر موجودہ سعودی عرب مشتمل ہے، کئی قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں کا مقام تھا۔ سعودی عرب میں قبل از تاریخ انسانی سرگرمیوں کے کچھ ے ابتدائی نشانات پائے جاتے ہیں۔ دین اسلام چھٹی صدی عیسوی (571ء) میں ابھر کر سامنے آیا اور جزیرہ نما عرب کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر پھیل گیا۔جدید دور کے سعودی عرب کا علاقہ پہلے بنیادی طور پر چار الگ الگ تاریخی علاقوں پر مشتمل تھا:حجاز،نجداور مشرقی عرب کے کچھ حصے (الاحساء) اور جنوبی عرب (عسیر)۔ مملکتِ سعودی عرب کی بنیادشاہ عبدالعزیز(مغرب میں ابن سعود کے نام سے مشہور) نے 1932 میں رکھی تھی۔ انھوں نے سنہ 1902ء میں اپنے خاندان کے آبائی علاقے ریاض پر قبضے کے ساتھ فتوحات کے سلسلے کے ذریعے چاروں خطوں کو ایک ریاست میں متحد کیا۔ سعودی عرب اس کے بعد سے ایک مطلق العنانبادشاہترہا ہے، جہاں سیاسی فیصلے بادشاہ، وزراء کی کونسل اور ملک کے روایتی اشرافیہ کے درمیان مشاورت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔سنی اسلامکے اندر انتہائی قدامت پسندوہابیمذہبی تحریک کو سنہ 2000ء کی دہائی تک ""سعودی ثقافت کی ایک اہم خصوصیت"" کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ سنہ 2016ء میں، سعودی عرب کی حکومت نے انتہائی قدامت پسند وہابی مذہبی اشرافیہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور اخلاقی پولیس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے اقدامات کیے، سماجی ترقی کو بڑھانے اور بحال کرنے اور مزید مضبوط اور موثر معاشرہ بنانے کی کوشش میںسعودی وژن 2030ءکے اقتصادی پروگرام کا آغاز کیا۔ اپنے بنیادی قانون میں، سعودی عرب خود کو ایک خود مختار عرب اسلامی ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے جس میں اسلام کو سرکاری مذہب،عربیکو سرکاری زبان اور ریاض دار الحکومت کہا جاتا ہے۔پیٹرولیمسنہ 1938ء میں دریافت ہوا اور اس کے بعد مشرقی صوبے میں کئی دیگر دریافتیں ہوئیں۔ سعودی عرب اس کے بعد سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک (امریکاکے بعد) اور دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ یہاں دنیا کے دوسرے سب سے بڑے تیل کے ذخائر اور چوتھے بڑے گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ مملکت کوعالمی بینککی اعلی آمدنی والی معیشت کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے اور یہ واحد عرب ملک ہے جوجی20بڑی م��یشتوں کا حصہ ہے۔ ریاست کو مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جن میںیمنی خانہ جنگیمیں اس کا کردار، اسلامی دہشت گردی کی مبینہ سرپرستی اور اس کا انسانی حقوق کا خراب ریکارڈ، بشمول سزائے موت کا ضرورت سے زیادہ اور اکثر ماورائے عدالت شامل ہے۔سعودی عرب کو علاقائی اور درمیانی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ سعودی معیشت مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی ہے۔ عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی اٹھارویں سب سے بڑی معیشت اور فی کس پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی سترویں بڑی معیشت ہے۔ ایک بہت ہی اعلیٰ انسانی ترقی کے اشاریہ والے ملک کے طور پر، یہ مفت اعلی تعلیم، ٹیکس فری آمدنی اور مفت آفاقی نظامِ صحت پیش کرتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کی تیسری بڑی تارکین وطن کی آبادی کا مرکز ہے۔ اس کی آبادی دنیا کی سب سے نوجوان آبادی میں سے ایک بھی ہے، اس کی 32.2 ملین کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد 25 سال سے کم عمر کا ہے۔خلیج تعاون کونسلکا رکن ہونے کے علاوہ سعودی عربتنظیمِ اقوام متحدہ،تنظیمِ تعاونِ اسلامی،عرب لیگ، عرب تنظیم برائے ہوائی نقل و حمل اورتیل برآمد کرنے والے ممالکِ کی تنظیم، اوپیککا ایک فعال اور بانی رکن ہے۔شمال مغرب میں اس کی سرحداردن، شمال میںعراقاور شمال مشرق میںکویت،قطر،اوربحریناور مشرق میںمتحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میںسلطنت عمان، جنوب میںیمنسے ملی ہوئی ہے جبکہخلیج فارساس کے شمال مشرق اوربحیرہ قلزماس کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاںاسلامکے دو مقدس ترین مقاماتمکہ مکرمہاورمدینہ منورہموجود ہیں۔سعودی ریاست کا ظہور تقریباً1750ءمیں عرب کے وسط سے شروع ہوا، جب ایک مقامی رہنمامحمد بن سعودمعروف اسلامی شخصیت اورمحمد بن عبدالوہابکے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔اگلے ڈیڑھ سو سال میںآل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا، جس کے دوران میںجزیرہ نما عربپر تسلط کے لیے ان کےمصر،سلطنت عثمانیہاور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیامشاہ عبدالعزیز السعودکے ہاتھوں عمل میں آیا۔1902ءمیں، عبد العزیز نے حریف آل رشید سےریاضشہر چھین لیا اور اسےآل سعودکادار الحکومتقرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے1913ءسے1926ءکے دوران میںالاحساء،قطیف،نجدکے باقی علاقوں اورحجاز(جس میںمکہ مکرمہاورمدینہ منورہکے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کر لیا۔8 جنوری1926ءکو،عبدالعزیز ابن سعودحجاز کےبادشاہقرار پائے۔29 جنوری1927ءکو، انھوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔20 مئی1927ءکو،معاہدہ جدہکے مطابقبرطانیہنے تمام مقبوضہ علاقوں (جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے) پرعبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کر لیا۔1932ءمیں،برطانیہکی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔مارچ1938ءمیں، تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔حالیہ نام ""سعودی"" تقریباً 1727ء میں موجود سعودیہ کے وسط, ریاض میں آل سعود کی حکومت بنانے سے شروع ہوا.جب ایک مقامی رہنما ""محمد بن سعود"" معروف اسلامی شخصیت اور وہابیت یاسلفی تحریککے بانیمحمد بن عبد الوہابکے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ اس وقت یہ علاقہ 'سلطنت عثمانیہ' کے کنٹرول میں تھا.1805, 1806ء میں آل سعود نے مکہ مدینہ کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ 1818ء میں سلطنت عثمانیہ کی فوجوں نے ان سے سارا علاقہ واپس لے لیا۔ 1824ء میں سعود فیملی نے نجد کے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔اسی دوران ایک نئی طاقت آل رشید سامنے آئی۔ نئی طاقت آل رشید و آل سعود میں آپس کی جنگیں جاری رہیں۔ اور آل رشید نے آل سعود کو 1892 میں حتمی شکست دے کر علاقہ چھوڑ کر کویت میں جلاوطنی پہ مجبور کر دیا۔حجاز یعنی مکہ مدینہ میں عثمانیہ حکومت کے حکم پر داخل ہوئی مصری فوجیں 1840 میں علاقے سے نکل گئیں۔ اور شریف مکہ نے کنٹرول سنبھال لیا. ترکی نے برائے نام حکمرانی ساتھ آل سعود و آل رشید و شریف مکہ فیملی سمیت کئی قبائل کو اندرونی خود مختاری دی ہوئی تھی۔1902 میں آل سعود کے شاہ عبد العزیز کویت سے
+جلاوطنی سے واپس آئے اور سعودی اخوان تحریک, وہابی تحریک اور دیگر کی مدد کے ساتھ 1906 میں آل رشید کو شکست دے کر علاقے سے نکال دیا اور
+عثمانیہ سلطنت نے انھیں تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد مرکزی علاقہ سے ہٹ کر خلیج فارس کے ساتھ کے علاقہ الاحسا پہ قبضہ کر لیا۔
+عبدالعزیز جنہیں ابن سعود بھی کہا جاتا تھا۔ نے ""عرب بغاوت"" سے دوری رکھی۔ اور آل رشید ساتھ مقابلے پہ فوکس رکھا۔ پھر 1920 میں عسیر علاقہ پہ قبضہ کیا۔ 1921 میں آل رشید کو مکمل دیس نکالا دے دیا۔شریف مکہ حسین بن علی نےانگریزمیکموہن ساتھ عثمانیہ سلطنت خلاف ساز باز کرکے متحدہ عرب ریاست بنانے کی سازش کی۔ اس میں لارنس آف عربیہ کا بھی رول رہا۔1914 میں جنگ عظیم اول شروع ہو چکی تھی۔ جس میں سلطنت عثمانیہ, جرمن سلطنت اور آسٹرو-ہنگروی سلطنت ایک طرف تھے اور روس, فرانس اور برطانیہ وغیرہ دوسری طرف۔1916 میں سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کے لیے تمام عرب علاقے,شام,یمن,اردن اور موجودہ سعودیہ پہ مشتمل متحدہ عرب ریاست کے قیام اور سلطنت عثمانیہ سے آزادی کا خواب دکھایا گیا۔ برطانوی فوجوں کی مدد سے عرب باغی فوجوں نے مکہ, مدینہ, اردن اور پھردمشقفتح کر لیا۔2016 سے 2018 کے دوران دمشق میں شام کی عرب کنگڈم قائم کرکے شریف مکہ کا بیٹا فیصل بادشاہ بنادیا گیا۔ لیکن پھر سائیکس معاہدے مطابق عرب علاقے سوائے سعودیہ کے, فرانس اور برطانیہ نے آپس میں تقسیم کرلیے۔ حجاز (مکہ اور مدینہ) کو شریف مکہ کے حوالے کیا گیا۔آل سعود اور شریف مکہ, دونوں برطانوی رابطے میں اور امداد لینے والے تھے۔ شریف مکہ کو حجاز کا بادشاہ تسلیم کیا گیا۔ لیکن بعد میں, 1924 میں اسے برطانیہ کی طرف سے چھوڑ دیا گیا۔1925 میں عبدالعزیز نے حجاز پہ قبضہ کرکے خود کو شاہ حجاز ڈیکلیئر کیا۔ پھر شاہ نجد بنے۔ پھر 1932 میں دونوں بادشاہتوں(نجد اور حجاز) کو ضم کر کے سعودی عرب کا نام دیا گیا.حجاز کی فتح بعد, سعودی اخوان برطانوی مقبوضہ اردن, عراق اور کویت کی طرف بڑھنا چاہتے تھے تاکہ اپنا مسلک وہاں بھی نافذ کریں لیکن عبدالعزیز اردن اور عراق وغیرہ برطانوی قبضے میں ہونے کی وجہ سے برطانیہ سے لڑائی مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ اس پر اختلافات ہوئے تو اخوان نے بغاوت کردی لیکن وہ سختی سے کچل دی گئی۔ اور پھر سعودی حکومت استحکام حاصل کرتی چلی گئی.لارنس نے پہلی جنگ عظیم شروع بعد خود کو بطور رضاکار پیش کیا اسے مصر میں پوسٹ کیا گیا. وہاں سے وہ عراق اور سعودی عرب مشنز پہ جاتا رہا اور اوپر ذکر کردہ عثمانی سلطنت کے خلاف عرب بغاوت اور متحدہ عرب ریاست (بشمول شام,اردن,یمن,نجد اور حجاز) کی سازش میں شامل ہوا اور دوسرے انگریز افسروں ساتھ برطانیہ کے رابطہ افسر کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ شریف مکہ کے بیٹے فیصل جو بعد میں شاہِ شام بنا, کے ساتھ ن��دیکی معرکوں میں شامل رہا اور دمشق کی فتح میں ہم رکاب رہا۔ اس کے رول کو صحافی تھامس نے سنسنی خیزی کے ساتھ پیش کیا۔سعودی عرب عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت سمجھی جاتی ہے۔ اس مملکت کے بانی یوں تو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود ہیں جو15 جنوری1877ءکو پیدا ہوئے تھے مگر اس سلطنت کے قیام کی جدوجہد کا آغاز 18 ویں صدی میں ہوا تھا جب1725ءمیں آل سعود کے سربراہامیر سعود بن محمد بن مقرنکی وفات ہوئی۔اس زمانے میںنجدمیں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں اور ہر ریاست کا الگ الگ حکمران ہوتا تھا۔ امیر سعود بن محمد کے چار صاحبزادے تھے جنھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ نجد میں سعودی سلطنت قائم کریں گے۔امیر سعود بن محمد کے سب سے بڑے صاحبزادے کا ناممحمد بن سعودتھا۔ وہدرعیہکے حکمران بنے اور انھوں نےشیخمحمد بن عبدالوہابکی مدد سے درعیہ میں اپنی حکومت قائم کی اور آہستہ آہستہ اسے مستحکم کرنا شروع کیا۔محمد بن سعود اور شیخ محمد عبد الوہاب کے درمیان 1745ء میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے عہد کیا کہ اگر کسی وقت محمد بن سعودنجد و حجازمیں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہاں شیخ محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کو رائج کریں گے۔1765ء میں شہزادہ محمد اور 1791ء میں شیخ محمد بن عبد الوہاب کی وفات ہو گئی۔ اس وقت تک جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقے پر آل سعود کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔شہزادہ محمد کے بعد امام عبد العزیز علاقے کے حکمران بنے مگر 1803ء میں انھیں قتل کر دیا گیا۔امامعبدالعزیزکے بعد ان کے بیٹےسعودحکمران بنے جو 1814ء میں وفات پا گئے۔سعود کے بیٹے عبد اللہ ایک بڑے عالم دین بھی تھے۔ ان کے دور حکمرانی میں ان کے علاقے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور درعیہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔امام عبد اللہ قیدی بنا لیے گئے اور انھیںاستنبوللے جا کر سزائے موت دے دی گئی۔مگر جلد ہی ان کے بھائیمشاری بن سعوداپنی حکومت واپس لینے میں کامیاب ہو گئے مگر وہ زیادہ عرصے تک حکمرانی نہ کر سکے اور ان کا علاقہ دوبارہسلطنت عثمانیہکے قبضے میں چلا گیا۔اس کے بعد اُن کا بھتیجا شہزادہترکی بن عبداللہریاضپر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا، جس پر وہ 1824ء سے 1835ء تک بر سر اقتدار رہے۔اگلی کئی دہائیوں تکآل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا اورجزیرہ نما عربپر تسلط کے لیےمصرسلطنت عثمانیہاور دیگر عرب قبائل میں تصادم ہوتے رہے۔ آل سعود کے ایک حکمرانامام عبدالرحمنتھے، جو 1889ء میںبیعتلینے میں کامیاب ہوئے۔امام عبد الرحمن کے بیٹےشہزادہ عبدالعزیزایک مہم جُو شخصیت تھے اور1900ءمیں انھوں نے اپنے والد کی زندگی میں ہی ان کی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لینے اور اسے وسعت دینے کی کوششیں شروع کر دیں1902ء میں انھوں نے ریاض شہر پر قبضہ کیا اور اسے آل سعود کا دار الحکومت قرار دیا۔اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نےالاحسائی،قطیفاورنجدکے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا۔سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میںحجازپر (جس میںمکہ مکرمہاورمدینہ منورہکے علاقے شامل تھے) شریف مکہ حسین کی حکمرانی تھی، جنھوں نے 5 جون 1916ء کو ترکی کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔حسین کو نہ صرف عربوں کے مختلف قبائل کی بلکہ برطانیہ کی تائید بھی حاصل تھی۔7 جون 1916 کو شریف مکہ حسین نے حجاز کی آزادی کا اعلان کیا۔21 جون کو مکہ پر ان کا قبضہ مکمل ہوا اور 29 اکتوبر کو انھوں نے پورے عرب کا حکمران ہونے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے تمام عربوں کو دعوت دی کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔ 15 دسمبر 1916ء کو حکومت برطانیہ نے حسین کو شاہ حجاز تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔اسی دوران امیر عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے مشرقی عرب کا ایک بڑا حصہ مسخر کر لیا اور 26 دسمبر 1915ء کو برطانیہ کے ساتھ دوستی کا ایک معاہدہ بھی کر لیا۔5 ستمبر 1924ء کو انھوں نے حجاز کو بھی فتح کر لیا۔عوام نے امیر عبد العزیز کا ساتھ دیا اور شریف مکہ شاہ حسین نے حکومت سے دست بردار ہو کر اپنے بیٹے علی کو شاہ حجاز بنا دیا۔ مگر امیر عبد العزیز کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے باعث انھیں بھی اپنا تخت چھوڑنا پڑا۔13 اکتوبر 1924 کو شاہ عبد العزیز نے مکہ معظمہ پر بھی قبضہ کر لیا۔5 دسمبر 1925ء کو انھوں نے مدینہ کا اقتدار حاصل کر لیا۔ 19 نومبر 1925ء کو شریف مکہ علی نے اقتدار سے مکمل دستبرداری کا اعلان کیا اور یوں جدہ پر بھی آل سعود کا قبضہ ہو گیا۔ آٹھ جنوری 1926ء کو شاہ حجاز عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے ایک خصوصی تقریب میں مملکت نجد و حجاز کے مکمل اختیارات سنبھالنے کا اعلان کر دیا۔20 مئی 1927ء کو برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں پر جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے عبد العزیز ابن سعود کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا۔ 23 ستمبر 1932ء کو شاہ عبد العزیز ابن سعود نے مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے ’المملکتہ العربیتہ السعودیہ‘ رکھنے کا اعلان کر دیا۔شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود نے جلد ہی اپنی مملکت کو اسلامی رنگ میں ڈھال دیا۔دوسری جانب ان کی خوش قسمتی سے سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کی نشان دہی ہوئی۔ سنہ 1933ء میں شاہ عبد العزیز نے کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا۔ابتدائی چند برس جدوجہد میں بسر ہوئے مگر 1938ء میں جب کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ماہرین ناکام ہو کر ملک لوٹنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک کنویں سے خزانہ ابل پڑا اور اتنا تیل نکلا جس پر وہ ماہرین خود بھی دنگ رہ گئے۔یہ واقعہ نہ صرف سعودی حکمرانوں اور کیلیفورنیا کمپنی کے لیے حیران کُن تھا بلکہ پورے جزیرہ نما عرب کے لیے ایک معجزہ تھا۔ تیل کی دریافت نے سعودی عرب کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔9 نومبر 1953ء کو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود وفات پا گئے۔سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہآل سعودکی بادشاہت ہے۔1992ءمیں اختیار کیے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہعبدالعزیز ابن سعودکی اولاد حکمرانی کرے گی اورقرآن پاکملک کا آئین اورشریعتحکومت کی بنیاد ہے۔ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں البتہ2005ءمیں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان،علماءاور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہیے۔ سعودی عرب دنیا بھر میںمساجداورقرآناسکولوں کے قیام کے ذریعےاسلامکی ترویج کرتی ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علما کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پرشریعت اسلامیسے مطابقت رکھتی ہو۔ عدالتشرعی نظامکی پابند ہیں جن کےقاضیوںکا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔سعودی عرب کو انتظامی لحاظ سے تیرہ علاقوں یا صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کوعربیزبان میں منا��ق (عربی واحد:منطقہ) کہتے ہیں۔ سعودی نقشہ میں صوبے نمبر زد ہیں اور خانہ معلومات میں ان کے بارے میں معلومات درج کی گئي ہیں۔مملکت سعودی عربجزیرہ نمائے عربکے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔متحدہ عرب امارات،اوماناوریمنکے ساتھ منسلک ملک کی سرحدوں کا بڑا حصہ غیر متعین ہے اس لیے ملک کا عین درست رقبہ اب بھی نامعلوم ہے۔ سعودی حکومت کے اندازوں کے مطابق مملکت کا رقبہ 22 لاکھ 17 ہزار 949 مربع کلومیٹر (8 لاکھ 56ہزار 356 مربع میل) ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق ملک کا رقبہ 19 لاکھ 60ہزار 582 مربع کلومیٹر (7 لاکھ 56 ہزار 934 مربع میل) اور 22 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر (8 لاکھ 64 ہزار 869 مربع میل) کے درمیان میں ہے تاہم دونوں صورتوں میں سعودی عرب رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 15 بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔مملکت جغرافیہ مختلف نوعیت کا ہے۔ مغربی ساحلی علاقے (التہامہ) سے زمین سطح سمندر سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور ایک طویل پہاڑی سلسلے (جبل الحجاز) تک جاملتی ہے جس کے بعد سطع مرتفع ہیں۔ جنوب مغربی عسیر خطے میں پہاڑوں کی بلندی 3 ہزار میٹر (9 ہزار 840 فٹ) تک ہے اور یہ ملک کے سب سے زیادہ سرسبز اور خوشگوار موسم کا حامل علاقہ ہے۔ یہاں طائف اور ابہا جیسے تفریحی مقامات قائم ہیں۔ خلیج فارس کے ساتھ ساتھ قائم مشرقی علاقہ بنیادی طور پر پتھریلا اور ریتیلا ہے۔ معروف علاقہ ”ربع الخالی“ ملک کے جنوبی خطے میں ہے اور صحرائی علاقے کے باعث ادھر آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔مملکت کا تقریباً تمام حصہ صحرائی و نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے اور صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے۔ بڑی آبادیاں صرف مشرقی اور مغربی ساحلوں اور حفوف اور بریدہ جیسے نخلستانوں میں موجود ہیں۔ سعودی عرب میں سال بھر بہنے والا کوئی دریا یا جھیل موجود نہیں۔سعودی عرب کا موسم مجموعی طور پر شدید گرم اور خشک ہے۔ یہ دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت کا 50 ڈگری سینٹی گریڈ (120 ڈگری فارن ہائیٹ) سے بھی اوپر جانا معمول کی بات ہے۔ موسم سرما میں بلند پہاڑی علاقوں میں کبھی کبھار برف پڑ جاتی ہے تاہم مستقل بنیادوں پربرف بارینہیں ہوتی۔ موسم سرما کا اوسط درجہ حرارت 8 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ (47 سے 68 ڈگری فارن ہائیٹ) ہے۔ موسم گرما میں اوسط درجہ حرارت 27 سے 43 ڈگری سینٹی گریڈ (81 سے 109 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ وسط صحرائی علاقوں میں گرمیوں میں بھی رات کے وقت موسم سرد ہوجاتا ہے۔سعودی عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے تاہم کبھی کبھار موسلا دھار بارش سے وادیوں میں زبردست سیلاب آجاتے ہیں۔ دار الحکومت ریاض میں سالانہ بارش 100 ملی میٹر (4 انچ) ہے جو جنوری سے مئی کے درمیان میں ہوتی ہے۔ جدہ میں نومبر اور جنوری کے درمیان میں 54 ملی میٹر (2.1 انچ) بارش ہوتی ہے۔2005ء کے مطابق سعودی عرب کی آبادی 26 اعشاریہ 4 ملین ہے جس میں 5 اعشاریہ 6 ملین غیر ملکی آبادی بھی شامل ہے۔ 1960ء کی دہائی تک مملکت کی آبادی کی اکثریت خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش تھی لیکن معیشت اور شہروں میں تیزی سے ترقی کی بدولت اب ملک کی 95 فیصد آبادی مستحکم ہے۔ شرح پیدائش 29 اعشاریہ 56 فی ایک ہزار افراد ہے جبکہ شرح اموات صرف 2 اعشاریہ 62 فی ایک ہزار افراد ہے۔چند شہروں اور نخلستانوں میں آبادی کی کثافت ایک ہزار افراد فی مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔تقریباً 80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں۔ مزید برآں چند جنوبی اور مشرق افریقی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو چند سو سال قبل اولاً غلام بنا کر یہاں لائے گئے تھے۔ سع��دی عرب میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن بھی مقیم ہیں جن میںبھارتکے 14 لاکھ،بنگلہ دیشکے 10 لاکھ،پاکستانکے 9 لاکھ،فلپائنکے 8 لاکھ اورمصرکے 7 لاکھ 50 ہزار باشندے شامل ہیں۔ قریبی ممالک کے عرب باشندوں کی بڑی تعداد میں مملکت میں برسرروزگار ہے۔ سعودی عرب میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ باشندے بھی قیام پزیر ہیں۔1932ء میں مملکت سعودی عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی اور شہری علاقوں میں مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہورہی تھیں۔ ان مدارس میں اسلامی اور دینی تعلیم سکھائی جاتی تھی تاہم گذشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک قومی تعلیمی نظام کا حامل ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے قبل سے لے کر جامعہ کی سطح تک مفت تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی تجربہ و شعبہ جات میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام تعلیم کا بنیادی خاصہ ہے۔ سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے مدارس اور اسکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔سعودی عرب میں باقاعدہ بنیادی تعلیم کا آغاز 1930ء کی دہائی میں ہوا۔ 1945ء میں شاہ عزیز السعود نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لیے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد 1951ء میں مملکت کے 226 اسکولوں میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے۔ 1954ء میں وزارت تعلیم کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ مہروز بن عزیز بنے۔ سعودی عرب کی پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسٹی 1957ء میں ریاض میں قائم ہوئی۔آج سعودی عرب کا قومی سرکاری تعلیمی نظام 8 جماعت، 24 ہزار سے زائد اسکولوں اور ہزاروں کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے۔ اس نظام کے تحت ہر طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مملکت کے سرکاری میزانیہ کا 24 فیصد سے زائد تعلیم کے لیے مختص ہے۔ سعودی عرب میں طالب علموں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جن میںامریکا،کینیڈا،برطانیہ،آسٹریلیا،جاپان،ملائیشیاجرمنیاور دیگر ممالک شامل ہیں۔سعودی عرب کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی فہرستملک بھر میں ایک بہترین نقل وحمل کا نظام قائم ہے۔ سعودی عرب حکومت ماضی میں ضلحی نظام کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے کیوں کہ وہاں پیٹرول کی قیمت باقی دنیا کے مقابلے میں سب کم رہی ہے۔ فروری 2018ء میں اعلان کیا گیا کہ، سعودی عرب کی چار اہم موٹر ویز پر رفتار میں بہتری لائی جائے گی اور اسے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پہنچا دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں مکہ مدینہ،شاعز- دمام اور آخر میں ریاض طائف موٹر ویز شامل ہیں۔[15]ملک میں ایک ترقی یافتہ بحری نقل و حمل کا نظام ہے جو بنیادی طور پرپیٹروکیمیکلکی نقل و حمل کی سہولت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔سعودی پورٹ اتھارتیان بحری کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے، یہ ادارہ ملک میں بندرگاہوں کے انتظام کا ذمہ دار ہے۔ شاہراہوں و ہوائی سفر پر زیادہ انحصار کرنے کے نتیجے میں، سعودی عرب میں ریل نقل و حمل میں دوسرے ذرائع کی طرح سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ البتہ، اب ملک کے ریلوے کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔سعودی عرب کا سب سے مقبول کھیلفٹ بالہے۔ سعودی عربگرمائی اولمپکس،والی بال،باسکٹ بالاور دیگر کھیلوں میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس میں شرکت کرتا ہے۔ قومی فٹ بال مسلسل 4 مرتبہ ورلڈ کپ اور 6 مرتبہ ایشین کپ کے لیے کوالیفائی ��رنے کے باعث عالمی سطح پرجانی جاتی ہے۔ سعودی عرب تین مرتبہ ایشین چمپئن رہ چکا ہے اور دو مرتبہ فائنل میں شکست کھاگیا۔ سعودی عرب کے چند معروف فٹ بال کھلاڑیوں میںماجد عبداللہ،سامي الجابراورياسر القحطانيشامل ہیں۔اسلامسعودی عرب کا سرکاری مذہب ہے اور اس کا قانون تمام شہریوں کے مسلمان ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے۔[16]اسلام کے سوا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو کھلے عام عبادت منع ہے۔[17][18]سعودی عرب شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی غیر مسلم کو اسلام قبول ضروری ہے۔[19]سعوی عرب کے نفاذشریعتاور اس کےانسانی حقوقمتعلقہ قوانین پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔[20][21]سعودی ثقافت کی بنیاد مذہباسلامہے۔ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ ہر روز دنیا بھر کے مسلمان 5 مرتبہ مکہ مکرمہ میں قائمخانہ کعبہکی جانب رخ کرکےنمازپڑھتے ہیں۔ سعودی عرب میں ہفتہ وار تعطیلجمعہکو ہوتی ہے۔قرآن مجیدسعودی عرب کا آئین اور شریعت اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔سعودی عرب کے معروف ترین لوک رسم قومی رقصارضیٰہے۔ تلواروں کے ساتھ کیا جانے والا یہ رقص قدیمبدویروایات کا حصہ ہے۔ حجاز کیالسہبالوک موسیقی کی جڑیں قرون وسطیٰ کے عرباندلسسے جاملتی ہیں۔سعودی عرب کا لباس باشندوں کے زمین، ماضی اور اسلام سے تعلق کا عکاس ہے۔ روایتی طور پر مرد ٹخنے تک کی لمبائی کی اونی یا سوتی قمیض پہنتے ہیں جوثوبکہلاتی ہے جس کے ساتھ سر پرشماغیاغطرہکا استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں کا لباس قبائلی موتیوں، سکوں، دھاتی دھاگوں اور دیگر اشیاء سے مزین ہوتا ہے۔ سعودی خواتین گھر سے باہرعبایہاورنقابکا استعمال کرتی ہیں۔اسلام میںشرابنوشی اورسورکے گوشت کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے اور اس پر سعودی عرب میں سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ سعودی روٹیخبزکا تقریباً تمام کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بھنی ہوئی بھیڑ، مرغی، فلافل، شورمہ اور فول بھی دیگر مشہور کھانوں میں شامل ہیں۔ روایتی قہوہ خانے ہر جگہ موجود ہیں تاہم اب ان کی جگہ بڑے کیفے لے رہے ہیں۔ بغیر دودھ کی سیاہ عربی چائے کا استعمال ہر جگہ کیا جاتا ہے۔سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہمظہراناورراس تنورہمیں قائم نجی آبادیوں میں تھیٹر قائم ہیں تاہم یہ فلموں کے نمائش کی بجائے مقامی موسیقی اور فنون پیش کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ حال ہی میں بچوں اور عورتوں کے لیے عربی کارٹون پیش کرنے کے لیے سینمائوں کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔حاشیہ"
+578,مکہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DA%A9%DB%81_%D9%85%DA%A9%D8%B1%D9%85%DB%81,"مکہیامکہ مکرمہ(عربی:مَكَّةُ الْمُكَرّمَةْ) تاریخی خطہحجازمیںسعودی عربکےصوبہ مکہکا دار الحکومت[5]اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ شہر کی آبادی 2004ء کے مطابق 12 لاکھ 94 ہزار 167 ہے۔ مکہجدہسے 73 کلومیٹر دوروادی فارانمیں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہبحیرہ احمرسے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔[6]یہ شہراسلامکا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقامبیت اللہیہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کاحجکرنا فرض ہے ۔.[7][8]انگریزیزبان میں Mecca کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں حکومتسعودی عربنے شہر کا انگریزی نام Mecca سے بدل کر Makkah کر دیا۔[9]معروف مؤرخابن خلدونکے مطابق مکہ پہلے بکہ کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم مؤرخین ک�� درمیان اس امر پر اختلاف ہے:ابراہیم النخعینے بکہ کو کعبہ اور مکہ کو شہر سے منسوب کیا جبکہامام ُزہریبھی اسی کے حامی ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بکہ میں استعمال ہونے والابدونوں آوازوں کے درمیان قربت کے باعث بعد ازاںممیں تبدیل ہو گیا۔ مکہ کو”ام القری“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔.[10]مسجد حرامکے اندر قائمخانۂ کعبہحضرت ابراہیماورحضرت اسماعیلعلیهم السلامنے تعمیر کیا۔ مؤرخین کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا مرکز تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ مکہ جنوبی عرب سے شمال میںرومیوبازنطینیسلطنتوں کے لیے زمینی راستے پر تھا اورہندوستانکے مصالحہ جاتبحیرہ عرباوربحر ہندکے راستے سے یہیں سے گزرتے تھے۔[11][12]کعبة اللهکی تعمیری تاریخ عہد ابراہیم اور اسماعیلعلیهم السلامسے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہر میں نبی آخر الزماںمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمپیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اور یہاں پ رہی مسجدحرامواقع ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :”اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے“ (آل عمران:96 )570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانرواابرہہساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے، اپنے سردارعبدالمطلبکی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ہزاروں پرندے جنہیں عام طور پر ابابیل کا نام دیا جاتا ہے چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے نمودار ہوئے اور انھوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکرمنیٰکے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالٰی کے حکم سے تباہ و برباد ہو گیا اللہ تعالٰی نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :""کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کی سازش و مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو انھیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے، پس انھیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا""(سورة الفیل)یہ وہی سال تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا۔ آپ پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اورتبلیغاسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کر گئے۔بالآخر 10رمضانالمبارک8ھبمطابق 630ء میں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے۔ مدینہ ہجرت کر کے جانے کے بعد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کوفتح مکہکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام اہلیان شہر کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔خلافتاسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جوکعبة اللهسے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔مکہ کبھی ملت اسلامیہ کادارالخلافہنہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دار الخلافہمدینہتھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔خلافت راشدہکے زمانے میں بھی مدینہ ہی دار الخلافہ رہا اور پھر حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں پہلےکوفہاور اس کے خاتمے کے بعددمشقاور بعد ازاںبغدادمنتقل ہو گیا۔مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔ سنہ 1926ء میںسعودیوںنے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کوسعودی عربمیں شامل کر لیا۔[13][14]جنوری، 2022 ء سے مکہ شہر کے مئیر صالح الترکی ہیں۔[15]جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم عمارات ختم ہو چکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔[16]مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے۔ حالیہ سالوں میں ماہذوالحجہمیں 20 سے 30 لاکھ مسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمانعمرےکی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔شہر مکہ میں بنیادی حیثیتبیت اللہکو حاصل ہے جومسجد حراممیں واقع ہے۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گردطوافکرتے ہیں،حجر اسودکو بوسہ دیتے ہیں اورزمزمکے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیںصفااورمروہکی پہاڑیوں کے درمیانسعیاورمنیٰمیںشیطان کو کنکریاں مارنے کا عملبھی کیا جاتا ہے۔ حج کے دورانمیدان عرفاتمیں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکےنمازادا کرتے ہیں۔غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔سعودی عرب کے دوسرے شہروں کے برعکس مکہ کا موسم سردیوں میں بھی نسبتاً گرم رہتا ہے۔ سردیوں میں رات کا درجہ حرارت 17سینٹی گریڈاور دوپہر کے وقت 25 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور دوپہر کو درجہ حرارت عام طور پر 40سینٹی گریڈسے اوپر چلا جاتا ہے جبکہ رات کو بھی 30 درجے تک رہتا ہے۔ نومبر سے جنوری کے درمیان عموماً ہلکی بارشیں ہوتی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•��ُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+579,عبادت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%A8%D8%A7%D8%AF%D8%AA,عبادتکا متبادلپرستشہے جوفارسی زبانکالفظہے جس کے معانی ہیں عبادت کرنا۔ مختلفمذاہبمیں عبادت کا مختلف تصور ہے۔ الہامی مذاہب اللہ کی عبادت کرتے ہیں جبکہ مشرک مذاہب ظاہری اجسام کی۔
+581,مناسک حج,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%86%D8%A7%D8%B3%DA%A9_%D8%AD%D8%AC,
+583,بلوغ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%BA,"بلوغکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کا نفسیاتی وجود جنم لے رہا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب لڑکا یا لڑکی کے بچپن کا دور ختم ہوتا ہے اور جوانی کے آثار رونما ہوتے ہیں۔ اسی دور میں لڑکوں کو فطری طور پر ڈاڑھی اور مونچھ آتے ہیں اور عظو مطلب (لن)یا(نفس) لمبا ہونا شروع ہوتا ہے اور اس کے اردگربال آجا تے ہیں یا ذیر ناف بال کہ لیں اور بغلوں میں بال آجاتے ہیں اور سینے پر بھی اور رات
+کو گندے خواب آتے ہیں جس کی وجہ سے عظو سے
+منی کا اخراج ہوتا ہے اورگندے خیال آتے ہیں لڑکیوں میںحیضشروع ہوتا ہے،پستانابھر آتے ہیں۔بالکل اس نومولود کی طرح جو نومہینے ماں کے پیٹ میںارتقاءکے مراحل طے کرنے کے بعد اس دنیا میں آتا ہے اور کچھ بنیادی ضروریات ہوتی ہیں اسی طرح نکاح یا جنس مخالف سے قربت کسی نوجوان کی ایک نفسیاتی ضرورت ہے۔انسانوں ہی طرح یہی ضروریات جانوروں میں بھی ہوتے ہیں۔ تاہم ان کے اختلاط میںشادیکا تصور نہیں ہوتا۔ صرف مباشرت کی حاجت کی تکمیل اور اولاد کا حصول مطلوب ہوتا ہے۔ انسانوں میں عام طور سے شادی بیاہ ہی سے مردوزن کے تعلق قائم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پائیدار رشتے اور خاندانی اقدار کا تصور بھی انسانوں میں ہی ہوتا ہے۔[1]"
+584,فرض,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D8%B1%D8%B6,☆بسلسلہ شرعی علوم☆علم فقہفروعاصولقواعدادلہمدارسباب فقہفقہ العبادات•طہارت•نماز•زکات•روزہ•حجو عمرہ•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•اصولعلم اصول فقہ•ادلہ الفقہ•الاحکام الشرعیہ•فرض•فرض کفایہ•المسنون•المکروہ•الحرام•سنہ مؤکدہ•المباح•الصحہ والبطلان•الالفاظ•الکتاب•السنہ•الاجماع•القیاس•الاجتہاد•قول الصحابی•القواعد فقہیہ•الامور بمقاصدہا•زمرہ•فروع الفقہ•فقہ العبادات•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•فقہ الصیام•فقہ الزکاۃ•فقہ مقارن•فقہ القرآن•فقہ الحدیث•فقہ الاولویات•فقہ•فقہ المریض•فقہ النفس•فقہ السلوک•فقہ السیرہ•فقہی مدارس کی تاسیس•فقہاء الصحابہ•فقہاء التابعین•مذاہب فقہیہ•الائمہ الاربعہ•ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس•محمد بن ادریس الشافعی•احمد بن حنبل•ائمہ مذاہب•سفیان الثوری•اللیث بن سعد•الاوزاعی•داود الظاہری•زید بن علی•المذہب الحنفی•المذہب المالکی•المذہب الشافعی•المذہب الظاہری•المذہب الزیدی•مذاہب آل البیت•مذہب الامامیہ•مذہب الاباضیہ•فقہاء•اصطلاحات فقہیہ•مراتب الفقہاء•مراتب الاجتہاد•مجتہد مطلق•مجتہد مستقل•فتوى•مفتی•کتب فقہ•کتب اصول الفقہ•الاحکام السلطانیہ•مقادیر شرعیہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•علم التفسیرعلم الحدیثعلم الفقہعلم التوحیدالعلوم الشرعیہ المساعدہعلوم اللغہ العربیہعلم اصول الفقہالمناہج العلمیہالبحوث العلمیَّہعلوم القرآن•علوم الحدیث•الاشباہ والنظائر•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ العبادات•طہارت•نماز•الزکات•الصیام•الحجوالعمرہ•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•الاصولعلم اصول الفقہ•ادلہ الفقہ•الاحکام الشرعیہ•فرض•فرض کفایہ•المسنون•المکروہ•الحرام•سنہ مؤکدہ•المباح•الصحہ والبطلان•الالفاظ•الکتاب•السنہ•الاجماع•القیاس•الاجتہاد•قول الصحابی•القواعد الفقہیہ•الامور بمقاصدہا•تصنیف•دراسات فقہیہفروع الفقہ•فقہ العبادات•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•فقہ الصیام•فقہ الزکاہ•فقہ مقارن•فقہ القرآن•فقہ الحدیث•فقہ الاولویات•فقہ•فقہ المریض•فقہ النفس•فقہ السلوک•فقہ السیرہ•تاسیس المدارس الفقہیہ•فقہاء الصحابہ•فقہاء التابعین•مذاہب فقہیہ•الائمہ الاربعہ•ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس•محمد بن ادریس الشافعی•احمد بن حنبل•ائمہ مذاہب•سفیان الثوری•اللیث بن سعد•الاوزاعی•داود الظاہری•زید بن علی•المذہب الحنفی•المذہب المالکی•المذہب الشافعی•المذہب الظاہری•المذہب الزیدی•مذاہب آل البیت•مذہب الامامیہ•مذہب الاباضیہ•فقہاء•مصطلحات فقہیہ•مراتب الفقہاء•مراتب الاجتہاد•مجتہد مطلق•مجتہد مستقل•فتوى•مفتی•کتب فقہ•کتب اصول الفقہ•الاحکام السلطانیہ•مقادیر شرعیہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•اعلامکتب فقہ•کتب اصول الفقہ•[[:زمرہ:|کتب]]•اعلام•العلوم الاسلامیہالتاریخ الاسلامیالمذاہب الاربعہالمذاہب الفقہیہباب اسلامی علومفرض: وہ کام جس کا کرنا ضروری ہو اور اس کا ترک کرنا لازماً منع ہو اس کا ثبوت بھی قطعی ہو اور اس کے فعل کے لزوم پر دلالت بھی قطعی ہو، اس کا انکار کفر اور اور اس کا ترک کرنے والا عذاب کا مستحق ہو خواہ دائما ترک کیا جائے یا احیاناً (کبھی کبھی)[1]شریعتاسلامی کی اصطلاح میں فرض وہ حکم شرعی ہوتا جودلیل قطعی(قرآنی حکم اورحدیث متواتر) سے ثابت ہو، یعنی ایسی دلیل جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ وہ حکم جو قطعی اور یقینی دلیل سے ثابت ہو اور اس میں میں کوئی دوسرا احتمال نہ ہو اس کا منکر کافر ہوتا اور بغیر عذر چھوڑنے والا فاسق ہوتا ہے[2]جودلیل قطعی سے ثابت ہویعنی ایسی دلیل جس میں کوئی شُبہ نہ ہو۔[3]مثلانماز،روزہ،حجاورزکوٰۃ۔ وہ بنیادی ارکان ہیں جن کا ادا کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور ادا کرنے والاثوابکا مستحق ہوتا ہے۔ قرآن مجید قطعی الثبوت ہے اور اس کی لزوم پر دلالت بھی قطعی ہے کیونکہ نماز اور زکوۃ کا تارک عذاب کا مستحق ہے۔اسلامی فقہ میں فرض کی اصطلاححرامکے بالعکس ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان کی فرضیت کا انکار کرے تو وہکافرہو جاتا ہے جبک�� بلاشرعی عذرترک کرنے والافاسقاور سزا کا مستحق ہوتا ہے۔بلحاظتکلیففرض کی دو قسم ہے:اکثر فقہا واجب کو بھی فرض ہی کے معنی میں لیتے ہیں۔ تاہمحنفیفقہا کے نزدیک واجب کا لفظ ان امور کے لیے آتا ہے جو فرض اورمستحبکے درمیان ہوں۔
+585,قرآن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86_%D9%85%D9%82%D8%AF%D8%B3,"قرآن کریم،قرآن مجیدیاقرآن شریف(عربی:القرآن الكريم) دیناسلامکی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہماسلام کے پیروکاروںکا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے[1][2]اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلاممحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمپر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتےحضرت جبرائیل علیہ السلاملاتے تھے[3]جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے[4][5][6]، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کیتلاوتعبادت ہے۔[7]اورصحف ابراہیم،زبور[8]اورتوراتوانجیل[9][10]کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کیفصاحتوبلاغتکے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔[11][12][13][14][15][16][17]نیزعربی زبانوادباور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاًسیبویہ،ابو الاسود الدؤلیاورخلیل بن احمدفراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔گو کہ نزول قرآن سے قبل عربی زبان کا ادب خاصا وسیع اور اس کا دامن الفاظ و تراکیب اور تشبیہات و استعارات سے لبریز تھا لیکن وہ متحد نہیں تھی۔ قرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے عربی زبان کو ایک بنیاد پر متحد کیا[18]اور حسن کلام، روانی، فصاحت و بلاغت اور اعجاز و بیان کے ایسے شہ پارے پیش کیے جنہیں دیکھ کر فصحائے عرب ششدر تھے۔[19]نیز قرآن نے عربی زبان کو مٹنے سے بھی بچایا، جیسا کہ بہت سیسامی زبانیںوقت کے گزرنے کے ساتھ ناپید یا زوال پزیر ہو گئیں جبکہ عربی زبان گزرتے وقتوں کے ساتھ مزید مالا مال ہوتی رہی اور قدیم و جدید تمام تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ رکھا۔[20][21][22][23]قرآن میں کل 114سورتیںہیں جن میں سے 87مکہمیں نازل ہوئیں اور وہ مکی سورتیں کہلاتی ہیں اور 27مدینہمیں نازل ہوئیں اور مدنی سورتیں کہلاتی ہیں ۔[24]مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ قرآن کو اللہ نےجبریلفرشتہ کے ذریعہ پیغمبر محمد پر تقریباً 23 برس کے عرصہ میں اتارا۔ نزول قرآن کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب پیغمبر محمد چالیس برس کے تھے اور ان کی وفات سنہ 11ھ بمطابق 632ء تک جاری رہا۔ نیز مسلمان یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وفات نبوی کے بعد صحابہ نے اسے مکمل اہتمام و حفاظت کے ساتھ منتقل کیا اور اس کی آیتیں محکمات کا درجہ رکھتی ہیں،[25][26]نیز قرآن تاقیامتقابل عمل اور ہر دور کے حالات کا حل پیش کرتا ہے۔[27]قرآن کا سب سے پہلا ترجمہسلمان فارسینے کیا۔ یہسورۃ الفاتحہکا فارسی میں ترجمہ تھا۔ قرآن کو دنیا کی ایسی واحد کتاب کی بھی حیثیت حاصل ہے جو لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو زبانی یاد ہے اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، جسے مسلمان روز ہرنمازمیں بھی پڑھتے ہیں اور انفرادی طور پر تلاوت بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں مسلمان ہر سالرمضانکے مہینہ میںتراویحکی نماز میں کم از کم ایک بار پورا قرآن با جماعت سنتے ہیں۔ قرآن نے مسلمانوں کی عام زندگی، عقائد و نظریات، فلسفہ اسلامی، اسلامی سیاسیات، معاشیات، اخلاقیات اور علوم و فنون کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔وفات نبوی کے بعدعمر بن خطابکی تجویز پر، خلیفہ اولابو بکر صدیقکے حکم سے اورزید بن ثابتانصاری کی سربراہی میں قرآن کومصحفکی شکل میں یکجا کیا گیا۔ عمر بن خطاب کی وفات کے بعد یہ نسخہ ام المومنینحفصہ بنت عمرکے پاس محفوظ رہا۔ خلیفہ سومعثمان بن عفاننے جب لہجوں کے اختلاف کی بنا پر قرات میں اختلاف دیکھا تو حفصہ سےقریشکے لہجہ میں تحریر شدہ اُس نسخہ کے نقل کی اجازت چاہی تاکہ اسے معیار بنایا جائے۔ اجازت ملنے کے بعد انھوں نے مصحف کی متعدد نقلیں تیار کرکے پورےعالم اسلاممیں بھیج دیں اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اس مصحف کی پیروی کریں۔ ان نسخوں میں سے ایک نسخہ انھوں نے اپنے پاس بھی رکھا۔ یہ تمام نسخے اب مصحف عثمانی کہلاتے ہیں۔[28]بیشتر محققین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ تمام نسخے ابو بکر کے تیار کردہ نسخہ کی ہو بہو نقل تھے، ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی۔[29][30]مسلمانوں کے مطابق قرآن پیغمبر محمد کامعجزہہے اور اس کی آیتیں تمام انسانوں کے سامنے یہ چیلنج پیش کرتی ہیں کہ کوئی اس کے مثل نہیں بنا سکتا،[31]نیز یہ قرآن پیغمبر محمد کی نبوت کی دلیل[32]اور صحف آدم سے شروع ہونے والے اور صحف ابراہیم، تورات، زبور اور انجیل تک آسمانی پیغام کا یہ سلسلہ قرآن پر ختم ہوا۔[33]قرآن کی تشریحات کو اسلامی اصطلاح میںتفسیرکہا جاتا ہے جو مختلف زبانوں میں کی جاتی رہی ہیں۔قرآنی تراجمدنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ جبکہ صرفاردو زبانمیں تراجم قرآن کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔قرآن میں لفظقرآنقریباً 70 دفعہ آیا ہے اور متعدّد معانی میں استعمال ہوا ہے۔ یہعربی زبانکے فعلقرأکامصدرہے جس کے معنی ہیں ’’اُس نے پڑھا ‘‘ یا ’’اُس نے تلاوت کی‘‘۔سریانی زبانمیں اس کے مساوی (ܩܪܝܢܐ) qeryānā کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’صحیفہ پڑھنا‘‘ یا ’’سبق‘‘۔۔[34]اگرچہ کئی مغربی عالم اس لفظ کو سریانی زبان سے ماخوذ سمجھتے ہیں، مگر اکثر مسلمان علما اس کی اصل خود لفظقرأکو ہی قرار دیتے ہیں[35]بہرحال محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت تک یہ ایک عربی اصطلاح بن چکی تھی[35]۔ لفظقرآنکا ایک اہم مطلب ’’تلاوت کرنا‘‘ ہے جیسا کہ اس ابتدائی قرآنی آیت میں بیان ہوا ہے: ’’یقیناً اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔[36]دوسری آیات میںقرآنکا مطلب ’’ایک خاص حصّہ جس کی تلاوت (محمد نے ) کی ‘‘کے بھی ہیں۔نمازمیں تلاوت کے اس مطلب کا کئی مقامات پر ذکر آیا ہے جیسا کہ اس آیت میں:’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو‘‘۔[37]جب دوسرے صحائف جیسا کہتوراتاورانجیلکے ساتھ یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب ’’تدوین شدہ صحیفہ‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔اس اصطلاح سے ملتے جلتے کئیمترادفبھی قرآن میں کئی مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ ہر مترادف کا اپنا ایک خاص مطلب ہے مگر بعض مخصوص سیاق و سباق میں ان کا استعمال لفظقرآنکے مساوی ہو جاتا ہے مثلا ًکتاب(بمعنی کتاب)،آیۃ(بمعنی نشان) اورسورۃ(بمعنی صحیفہ)۔ آخری دو مذکورہ اصطلاحات ’’وحی کے مخصوص حصّوں‘‘ کے مطلب میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ بیشتر اوقات جب یہ الفاظ ’’ال‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو ان کا مطلب ’’وحی‘ ‘ کا ہوتا ہے جو وقفہ وقفہ سے نازل کی گئی ہو ۔[38][39]بعض مزید ایسے الفاظ یہ ہیں:ذکر(بمعنی یاد دہانی) اورحکمۃ(بمعنی دانائی)۔قرآن اپنے آپ کوالفرقان(حق اور باطل کے درمیان میں فرق کرنے والا)،امّ الکتاب،ہدٰی(راہنمائی)،حکمۃ(دانائی)،ذکر(یاد دہانی) اورتنزیل(وحی یا اونچے مقام سے نیچے بھیجی جانے والی چیز) بیان کرتا ہے۔ ایک اور اصطلاحالکتاببھی ہے، اگرچہ یہ عربی زبان میں دوسرے صحائف مثلاً تورات اور انجیل کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ قرآن سےاسم صفت’’قرآنی‘‘ ہے۔مصحفکی اصطلاح اکثر مخصوص قرآنی مسوّدات کے لیے استعمال ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ اصطلاح قرآن میں گذشتہ کتابوں کے لیے بھی استعمال ہوئی ہے۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجیدآخری آسمانی کتابہے جو پیغمبرمحمدپر نازل ہوئی اور اس کا پڑھنا، سننا اور اس پر عمل کرنا موجب تقرب الہی اور باعث اطمینان قلب ہے۔ بیشتر مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ قرآن ان کیتہذیبو تمدن اور معاشرت کی بنیاد ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس سے رہنمائی حاصل کرنا لازمی ہے۔ ڈاکٹر وصفی عاشور ابو زید لکھتے ہیں:[40]مسلمانوں کے نزدیک کوئی مسلمان قرآن سے مستغنی نہیں ہو سکتا، یہی کتاب اس کا سرمایہ زندگی، سرمہ بصیرت اور رہبر کامل ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کی ہر شے اس کتاب سے مربوط ہے، اسی سے ان کے عقائد ماخوذ ہیں، یہی ان کیعبادتوںکا تعارف کراتی اور رضائے الہی کے حصول میں مددگار بنتی ہے۔ نیز اخلاق و معاملات میں جن امور کی رہنمائی درکار ہے وہ سب اس میں موجود ہیں۔ جو مسلمان اس کتاب پر عمل نہیں کرتے وہ گمراہ ہیں اور ان کا انجام تاریک ہے۔[41]جیسا کہ حسب ذیل آیتوں اور احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ اسرا میں ہے:
+سورہ طہ میں ہے:
+نیزعبد الرحمن دارمینےعلی بن ابی طالبکی روایت نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ:[42]چنانچہ قرآن میںعقائدکا مفصل تذکرہ،عباداتمثلاً روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ کے احکام، نیز خرید و فروخت، نکاح و طلاق، وراثت و تجارت کے احکام بھی درج ہیں۔ اخلاق و آداب کا بھی مفصل ذکر ہے۔[43]متعدد علما و مفسرین نے ""احکام قرآن"" کے موضوع پر بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں فقہی احکام سے متعلق آیتوں کو یکجا کیا اور عبادات و معاملات میں ان آیتوں سے مستنبط شدہ احکام کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے تاکہ احکام قرآن سے شناسائی میں سہولت ہو۔ مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ سابقہ آسمانی کتابوں میں امور زندگی کے متعلق جو ہدایات اور رہنمائی موجود تھیں، قرآن ان سب پر مشتمل ہے۔ وہسورہ مائدہکی درج ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں:
+سورہ مائدہمفسرین کا کہنا ہے کہ قرآن سابقہ کتابوںزبور،توراتاورانجیلکے تمام مضامین پر مشتمل ہے اور اخلاق و معاملات کے بہت سے امور میں ان کتابوں سے زیادہ رہنمائی فراہم کرتا ہے۔[44]قرآن وہ کتاب ہے جو سابقہ کتابوں کی تمام حق باتوں کا حکم کرتا اور ان پر عمل کرنے پر ابھارتا ہے۔ اس کتاب میں گذشتہ قوموں، امتوں اور انبیا و رسولوں کی حکایتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ تاہم اس میں فروعی احکام مذکور نہیں، محض کلیات کا احاطہ کیا گیا ہے جو یہ ہیں: تحفظ دین، تحفظ ذات، تحفظ عقل، تحفظ نسب اور تحفظ مال۔[45]علاوہ ازیں مسلمان یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن کی بعض آیتیں اہمیت و فضیلت میں زیادہ ہیں، بعض آیتیں انھیںحسداورشیطانکے وسوسوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔ جو آیتیں فضیلت میں ممتاز ہیں ان میںآیت الکرسی،سورہ بقرہکی آیت نمبر 255 اوراہل تشیعکے یہاں سورہ بقرہ کی آیت 255، 256 اور 257 قابل ذکر ہیں، ان کا پڑھنامستحبخیال کیا جاتا ہے۔[46][47][48][49][50][51]علمائے اسلام کا کہنا ہے کہاللہ کے ناموں اور صفاتپر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی عظمت بڑھ گئی، ان کا پڑھنا شیطان اور اس کے تسلط سے گھر اور انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔[52][53]اسی طرح ایکسورہ فلقبھی ہے جسے مسلمان غیر محسوس برائیوں اور آفتوں سے بچنے کے لیے پڑھتے ہیں۔[54]سورہ ناسبھی شیطان کے شر و فتن سے بچنے کے لیے پڑھی جاتی ہے۔[55]علمائے اسلام کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختلاف ہے کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا بتدریج اترا۔ بعض آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج نزول کو بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ اس اختلاف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے کیے گئے جو حسب ذیل ہیں:بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌفِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ[ا]إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ[ب]،إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[پ]۔درج ذیل حدیثیں بھی اس کی دلیل ہیں:عبد اللہ بن عباسسے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ""قرآن کو لوح محفوظ سے نکال کر آسمان دنیا کے ایک مقام بیت العزت پر اتارا گیا، جہاں سے جبریل پیغمبر پر لے جایا کرتے تھے""۔[57]ابو شامہ مقدسی نے اپنی کتابالمرشد والوجيز عن هذا النزولمیں لکھا ہے: ""علما کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں ایک ہی رات کو مکمل نازل ہوا اور جبریل نے اسے یاد کر لیا۔ کلام الہی کی ہیبت سے آسمان والے غش کھا گئے، جب جبریل کا ان پر سے گذر ہوا تو انھیں ہوش آیا اور کہنے لگے:وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ[ت]۔ بعد ازاں جبرئیل نے کاتب فرشتوں کو اس کا املا کرایا، چنانچہ قرآن میں مذکور ہے:بِأَيْدِي سَفَرَةٍ[ٹ][58]بتدریج نزول قرآن کی مقدار کا تذکرہاحادیثمیں ملتا ہے کہ جب جتنی ضرورت ہوتی اتنا نازل ہوتا۔ نیز تاریخ قرآن کو دو ادوار میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور عہد نبوی کا جس میں قرآن کاوحیکے ذریعہ نزول ہوا اور دوسرا دورخلفائے راشدینکا جس میں قرآن کو ایکمصحفمیں یکجا کرکے محفوظ کر دیا گیا۔اسلامی روایات کے مطابقمحمّدپرپہلی وحیغار حرامیں اُس وقت نازل ہوئی جب آپ تنہائی میں عبادات کے لیے وہاں گئے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ سلسلہوحی23 برس کے عرصہ تک جاری رہا۔احادیثاور اسلامیتاریخکے مطابقہجرت مدینہکے بعد جب محمد نے وہاں ایک آزاد اسلامی معاشرہ قائم کر لیا تو آپ نے اپنےصحابہکو قرآن کی تلاوت اور اس کے روزمرّہ نازل ہونے والے احکام کو یاد کرنے اور دوسروں کو سکھانے کا حکم دیا۔ روایات میں یہ بھی ذکر موجود ہے کہجنگ بدرکے بعدجبقریشکے کئی لوگ مسلمانوں کے ہاتھ قیدی بن گئے تو اُن میں سے کئی نے مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے بدلے اپنی آزادی ح��صل کی۔ اسی طرح آہستہ آہستہ کئی مسلمان خواندہ ہونے لگے۔ قرآن کو پتھروں، ہڈیوں اور کھجور کے پتّوں پر لکھا جانے لگا۔ اکثر سورتیں ابتدائی مسلمانوں کے زیراستعمال تھیں کیونکہ ان کا ذکرسنّیاورشیعہدونوں روایات میں ملتا ہے۔ جیسا کہ محمد کا قرآن کوتبلیغکے لیے استعمال کرنا، دعا ؤں میں اس کا پڑھا جانا اور انداز تلاوت کے بیان میں ان کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم، 632 عیسوی میں محمد کی وفات کے وقت ابھی قرآن ایک کتاب کی شکل میں موجود نہ تھا۔ تمام علما اس بات پر متّفق ہیں کہ محمد خود وحی کی کتابت نہیں کرتے تھے۔صحیح بخاریمیں محمد کی وحی کی کیفیات کا حال یوں درج ہے کہ ’’بسا اوقات (وحی) گھنٹی کے بجنے کی طرح نازل ہوتی ہے‘‘ اورعائشہسے روایت ہے کہ، ’’میں نے ایک بہت سرد دن میں حضور پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا اور (جب وحی ختم ہوئی تو) آپ کے ماتھے سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے۔‘‘قرآن کے بیان کے مطابق محمد پر پہلی وحی ایک کشف کے ساتھ نازل ہوئی۔ وحی نازل کرنے والی ہستی کا بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے’’مضبوط طاقتوں والا‘‘، وہ جو ’’بلند ترین اُفق پر تھا۔ پھر وہ نزدیک ہوا۔ پھر وہ نیچے اُتر آیا۔ پس وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیایا اُس سے بھی قریب تر‘‘۔ ویلچ (Welch) جو ایک اسلامی سکالر ہیں، Encyclopaedia of Islam میں لکھتے ہیں کی وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وحی کے نزول کے وقت محمد کی کیفیات کی جو ظاہری شکل بیان کی گئی ہے وہ درست ہو سکتی ہے کیونکہ وہ وحی کے نزول کے بعد کافی پریشان ہو گئے تھے۔ ویلچ کے مطابق، وحی کے موقع پر محمد کو ہلا دینے والے جھٹکے اُن کے گرد لوگوں کے لیے اس بات کا ثبوت واقع ہوئے ہوں گے کہ محمد کی وحی کا مبدا واقعیمافوق الفطرتہے۔ تاہم، محمد کے ناقدین ان مشاہدات کی بنا پر اُن کو مجنون، کاہن اور جادوگر قرار دیتے تھے کیونکہقدیم عربمیں کئی ایسے لوگ اس طرح کے تجربات کے مدّعی تھے۔ ویلچ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ اس طرح کے مشاہدات محمد کے ابتدائی دعوٰی نبوت سے پہلے کے ہیں یا بعد کے ۔قرآن محمد کو اُمّی قرار دیتا ہے جس کا عام طور پر ’’ان پڑھ‘‘ مطلب لیا جاتا ہے مگر اس کا مطلب دراصل کچھ پیچیدہ ہے۔ قرون وسطیٰ کے مفسّرین جیسا کہطبریکے مطابق اس اصطلاح کے دو مطالب ہیں:پہلا تو یہ کہ عمومی طور پر لکھنے اور پڑھنے کا قابل نہ ہونا جبکہ دوسرا یہ کہ گذشتہ کتب اور صحائف سے لاعلم ہونا (اگرچہ اکثر مفسّرین پہلے مطلب کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں)۔ اس کے علاوہ، محمد کا ناخواندہ ہونا آپ کی نبوّت کی صداقت کی ایک دلیل سمجھا جاتا تھا۔ جیسا کہامامفخر الدّین رازیکہتے ہیں کہ، اگر محمد لکھنے پڑھنے پر پوری مہارت رکھتے ہوتے تو اُن پر یہ شبہ کیا جا سکتا تھا کہ انھوں نے اپنے آبا و اجداد کی کتب پڑھی ہوں گی۔ کچھ عالم جیسا کہواٹدوسرے معنی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔خلفائے راشدینکے عہد میں جمع قرآن کے متعلق دو نقطہ نظر ہیں، پہلا نقطہ نظراہل سنتکا ہے اور دوسراامامیہاہل تشیعکا۔ اہل سنت کا متفقہ نقطہ نظر یہ ہے کہابو بکر صدیقکے عہد میں قرآن کو یکجا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کیا گیا اور عہد عثمان میں اسی مصحف کو باضابطہ نسخہ قرار دے کر بقیہ نسخوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔[59]جبکہ اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہعلی ابن ابی طالبنے وفات نبوی کے بعد مکمل قرآن کو ایک مصحف میں جمع کیا تھا[60]اور ان کی ترتیب عثمانی مصحف کی ترتیب سے مختلف تھی لیکن بایں ہمہ انھوں نے اس مصحف پر اعتراض نہیں کیا اور اپنے مرتب کردہ مصحف کو اپنے پاس محفوظ رکھا۔ اہل تشیع کا کہنا ہے کہ علی بن ابی طالب کے مصحف کے چند امتیازات تھے، مثلاً وہ ترتیب نزولی پر تھا یعنی منسوخ آیتوں کو ناسخ آیتوں سے پہلے اورمکی سورتوںکومدنی سورتوںسے پہلے درج کیا گیا تھا۔[61]اس کے حاشیے پر آیت کی مناسبت سے اہم تشریحات وغیرہ لکھی گئی تھیں[62]اور تفصیل کے ساتھ آیتوں کا شان نزول اور مقام نزول بھی مذکور تھا۔ چنانچہ اسی ضمن میںجعفر صادقکا قول ہے: ""فرمان رسول ہے: اگر قرآن کو لوگ اس طرح پڑھیں جس طرح نازل ہوا ہے تو کبھی اختلاف نہ ہو""۔[63]عہد صدیقی میں جمع قرآن کی روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ جمع قرآن کی کارروائیجنگ یمامہکے بعد شروع ہوئی۔ جنگ یمامہ میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی تو عمر بن خطاب ابو بکر صدیق کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ حفاظ صحابہ کی وفات سے قبل قرآن کو یکجا کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ ابو بکر صدیق نےزید بن ثابتکو اس کی ذمہ داری دی کیونکہ وہ اس کے اہل بھی تھے اور عہد نبوی میں کاتب قرآن اورحافظ قرآنبھی تھے۔ علاوہ ازیں زید بن ثابت کی فہم و فراست، ذہانت و فطانت اور سچائی و امانت داری مشہور تھی۔ زید بن ثابت نے کاغذ کے ٹکڑوں، ہڈیوں اور چمڑوں کو اکٹھا کرکے اور حفاظ سے مل کر جمع قرآن کا آغاز کیا، اس پورے عمل میں ابو بکر، عمر اور بڑے صحابہ ان کی معاونت اور نگرانی کر رہے تھے۔ قرآن کو ہر غلطی سے محفوظ رکھنے کے لیے ابو بکر و عمر نے یہ طریقہ کار وضع کیا کہ صحابہ محض اپنے حافظہ اور سننے پر اکتفا نہ کریں بلکہ قرآن کا تتبع کریں، نیز ہر آیت کو دو ماخذ سے لیا جائے، پہلا عہد نبوی میں لکھا ہوا اور دوسرا سینوں میں محفوظ۔ چنانچہ کسی آیت کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک اس پر دو عادل گواہ اس کی گواہی نہ دے دیں کہ یہ آیت عہد نبوی میں لکھی گئی تھی۔[64]جمع قرآن کی کارروائی جاری رہی اورسورہ توبہکی آخری آیتوں پر اختتام کو پہنچی جوابو خزیمہ انصاریکے پاس ملیں۔ مکمل ہو جانے کے بعد یہ نسخہ ابو بکر صدیق کے پاس رہا، پھر عمر بن خطاب کے پاس اور بعد ازاں ان کی بیٹیحفصہ بنت عمرکے پاس محفوظ رہا۔[65]تمام علما کا اس پر اتفاق ہے کہ عہد صدیقی میں جمع قرآن سے قبل صحابہ کے پاس اپنے ذاتی مصحف موجود تھے جن میں انھوں نے قرآن یا اس کا کچھ حصہ اکٹھا کر رکھا تھا لیکن یہ انفرادی کاوشیں تھیں اور انھیں یکجا کرنے میں تلاش، تواتر اور اجماع صحابہ کا اس درجہ لحاظ نہیں رکھا گیا تھا جیسا عہد صدیقی میں ملحوظ رہا۔عمر بن خطاب کی شہادت کے بعد عثمان بن عفان خلیفہ بنے اور سنہ650ءتک اسلامسرزمین شام،مصر،عراقوایراناورشمالی افریقاکے کچھ خطوں تک جا پہنچا۔ اہل سنت و الجماعت کے مصادر میں لکھا ہے کہ عثمان بن عفانآرمینیااورآذربائیجانپر لشکر کشی کی تیاری کر رہے تھے کہ اسی اثنا میںحذیفہ بن یمانان کے پاس پہنچے اور یہ عرض گزاری: ""امیر المومنین! اس امت کو سنبھا لیے، قبل اس کے کہ ان میں بھی کتاب اللہ کے سلسلہ میں ایسا ہی اختلاف رونما ہو جیسا یہود و نصاریٰ کے یہاں ہوا""۔ حذیفہ بن یمان نے بتایا کہ تلاوت قرآن میں عراقیوں اور شامیوں میں کیسا اختلاف برپا ہے اور ہر ایک اپنے طرز قرات کو درست سمجھ رہا ہے۔[66]یہ سن کر عثمان بن عفان نے فوراً حفصہ بن عمر کے پاس قاصد بھیجا اور ان سے عہد ابو بکر کا مصحف طلب کیا۔ پھر زید بن ثابت،عبد اللہ ابن زبیر،سعید بن العاصاور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا کہ وہ اس کی متعدد نقلیں تیار کریں۔ روایت میں لکھا ��ے کہ عثمان نے ان سے کہا: ""اگر کسی جگہ تم میں اختلاف ہو جائے تو اسےقریش کے لہجہمیں لکھنا، کیونکہ قرآن انہی کے لہجہ ميں نازل ہوا ہے""۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ان حضرات نے نقلیں تیار کر لیں تو عثمان بن عفان نے اصل مصحف حفصہ کو لوٹا دیا اور اس کی نقلیں سارے عالم اسلام میں بھیج دیں اور حکم دیا کہ اس کے سوا بقیہ تمام نسخے نذر آتش کر دیے جائیں۔[67][68]چنانچہ اس کے بعد تمام نسخے ختم ہو گئے اور یہی نسخہ باقی رہا جو مصحف عثمانی کہلاتا ہے اور اب تک دنیا بھر میں یہی رائج چلا آرہا ہے۔اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پیغمبر محمد اپنی زندگی میں حفظ قرآن کا خاصا اہتمام کرتے تھے اور سب سے پہلے انھوں نے جمع قرآن کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ پیغمبر کی نگرانی ہی میں تمام آیتوں اور سورتوں کو مرتب کیا گیا۔[69]اہل تشیع کے بڑے علما مثلاًسید ابو القاسم خوئیوغیرہ نے اہل سنت کی کتابوں میں مذکور روایتوں (جن میں سر فہرستصحیح بخاریکی روایت ہے) کا دقت نظر سے جائزہ لے کر ان کے تعارض اور اختلاف کو واضح کیا اور ساتھ ہی اہل سنت کی کتابوں میں درج ان روایتوں کو بھی پیش کیا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کو عہد نبوی میں جمع کر لیا گیا تھا۔ مثلاًطبرانیاورابن عساکرشعبی سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا: ""چھ انصاری صحابہ نے عہد نبوی میں قرآن کو یکجا کر لیا تھا، ابی بن کعب، زید بن ثابت، معاذ بن جبل، ابو الدردا، سعد بن عبید اور ابو زید""۔[70]اس روایت کو پیش کرنے کے بعد ابو القاسم خوئی نے لکھا ہے کہ ان روایتوں میں لفظ ""جمع"" کے معنیٰ مکمل قرآن کو محفوظ کر لینے کے ہیں اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان چند افراد نے مختلف جگہوں سے قرآن کو اکٹھا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کر لیا تھا۔[71]عہد عثمانی میں نقل مصحف کی کارروائی کے متعلق خوئی کہتے ہیں کہ اس جمع سے مراد تمام مسلمانوں کو ایک مصحف پر متحد کرنا تھا چنانچہ انھوں نے اس کے سوا تمام مصاحف کو جلانے کا حکم جاری کیا تھا اور مسلمانوں کو اختلاف قرات سے حکماً منع کیا۔[72]قرآن ایک بڑی کتاب ہے۔ اس کی تقسیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی میں فرما چکے تھے اور یہ رہنمائی کر چکے تھے کہ کس آیت کو کس سورت میں کہاں رکھنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن کے بے شمار حافظ تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمشعباناوررمضانکے مہینوں میں قرآن کئی دفعہختمکرتے تھے جو ظاہر ہے کہ کسی ترتیب کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ آج تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکی۔ پہلی صدیہجریکے لکھے ہوئے قرآن جوترکیکے عجائب گھر توپ کاپی میں ہیں یاایرانکے شہرمشھدمیں امامعلی رضا علیہ السلامکے روضہ کے عجائب گھر میں ہیں، ان میں بعینہ یہی قرآن خطِ کوفی میں دیکھا جا سکتا ہے جو آج جدید طباعت کے بعد ہمارے سامنے ہے۔ اسے سات منزلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور تقسیم سیپاروں کے حساب سے ہے۔ سیپارہ کا لفظی مطلب تیس ٹکروں کا ہے یعنی اس میں تیس سیپارے ہیں۔ ایک اور تقسیم سورتوں کی ہے۔ قرآن میں 114 سورتیں ہیں جن میں سے کچھ بڑی اور کچھ چھوٹی ہیں۔ سب سے بڑی سورت سورۃ البقرہ ہے۔ سورتوں کے اندر مضمون کو آیات کی صورت میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ قرآن میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہیں۔ نیچے اس تقسیم کو پیش کیا گیا ہے۔مدرجہ بالا تقاسيم ميں سے سورتوں اور آيات كی تقسيم توقيفی ہے۔ يہ اللہ تعالٰی كے نبی نے الہامی راہنمائی ميں أپنی حيات مباركہ ميں كر دی تھی�� اور اسی صورت ميں محفوظ ہے۔ ركوع پاروں اور منازل ميں تقسيم بعد كے لوگوں نے حفاظ، قاريوں اور عام مسلمانوں كی متعين ايام ميں ختم كرنے كے پيش نظر كی ہے۔ ركوع ميں تقسيم كے سوا دونوں تقسيميں مضمون كے بجائے مقدار كے تحت كی گئی ہيں۔
+موجودہ زمانے ميں برصغير پاك و ہند كے بعض اہل علم نے نظم قرآن پر بہت كام كيا ہے اور اس اعتبار سے بھی قرآن كو مضامين اور ترتيب كے اعتبار سے ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔ حميد الدين فراہی، امين احسن اصلاحی اور جاويد احمد غامدی كا كام اس سلسلہ ميں بہت نماياں ہے۔ ان علما نے قرآن كی سورتوں كو سات ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔
+ان كے كام كا خلاصہ جاويد احمد غامدی كے الفاظ ميں يہ ہے:قرآن کے اِن ساتوں ابواب میں سے ہر باب ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔
+پہلا باب فاتحہ سے شروع ہوتا اورمائدہ پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں فاتحہ مکی اور باقی چار مدنی ہیں۔
+دوسرا باب انعام اور اعراف ،دو مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور دو مدنی سورتوں،انفال اور توبہ پر ختم ہوتا ہے۔
+تیسرے باب میں یونس سے مومنون تک پہلی چودہ سورتیں مکی ہیں اور آخر میں ایک سورۂ نور ہے جو مدنی ہے۔
+چوتھا باب فرقان سے شروع ہوتا ہے ،احزاب پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں پہلی آٹھ سورتیں مکی اور آخر میں ایک، یعنی احزاب مدنی ہے۔
+پانچواں باب سبا سے شروع ہوتا ہے ،حجرات پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں تیرہ سورتیں مکی اور آخر میں تین مدنی ہیں۔
+چھٹا باب ق سے شروع ہو کر تحریم پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں سات مکی اور اِس کے بعد دس مدنی ہیں۔
+ساتواں باب ملک سے شروع ہو کر ناس پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں آخری سورتیں دو ،یعنی معوذتین مدنی اور باقی سب مکی ہیں۔
+اِن میں سے ہر باب کا ایک موضوع ہے اور اُس میں سورتیں اِسی موضوع کی رعایت سے ترتیب دی گئی ہیں۔
+پہلے باب کا موضوع یہود و نصاریٰ پر اتمام حجت ،اُن کی جگہ بنی اسمٰعیل میں سے ایک نئی امت کی تاسیس، اُس کا تزکیہ و تطہیر اور اُس کے ساتھ خدا کا آخری عہدو پیمان ہے۔
+دوسرے باب میں مشرکین عرب پر اتمام حجت ،مسلمانوں کے تزکیہ و تطہیر اور خدا کی آخری دینونت کا بیان ہے۔
+تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے باب کا موضوع ایک ہی ہے اور وہ انذار و بشارت اور تزکیہ و تطہیر ہے۔ساتویں اور آخری باب کا موضوع قریش کے سرداروں کو انذار قیامت ،اُن پر اتمام حجت، اِس کے نتیجے میں انھیں عذاب کی وعید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سرزمین عرب میں غلبۂ حق کی بشارت ہے۔ اِسے ہم مختصر طریقے پر محض انذار و بشارت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔[74]قران کا اسلوب شعری ونثری اسلوب سے الگ ہے بایں طور پر کہ کسی بھی سورت میں کوئی مقدمہ، کوئی خاص موضوع یا خاتمہ نہیں ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات ایک آیت میں ایک موضوع ہوتا ہے جو اس کے بعد یا پہلی آیت سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔[75]اسی لیے قران کی کوئی آیت اپنی ما قبل آیت کا خاتمہ نہیں ہوتی ہے اور نہ اپنیما بعد کا مقدمہ ہوتی ہے۔[76]صحابہ کراماورتابعینمیں قران میں اجتہاد سے کام لیتے ہوئے اسے 30 برابر حصوں میں منقسم کر دیا تاکہ تلاوت کرنے میں آسانی ہو اوررمضانمیں رومیہ ایک پارہ کی تلاوت کی جا سکے۔ یہ ایک اجتہادی عمل ہے جس پر مسلمان مستحب سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ بعد ازاں ہر پارے کو نصفین میں تقسیم کیا اور ہر نصف کو ربعین میں۔قران 114 سورتوں پر مشتمل ہے جو طوالت میں یکسر مختلف ہیں۔[77][78]پھر یہ سورتیں آیا مکی ہیں یا مدنی ہیں۔مکی سورہوہ کہلاتی ہے جوہجرت مدینہسے قبل نازل ہوئی۔ ان سورتوں میں عموما عقیدہ، توحید اور اس کی دلائل کے مضمون شامل ہیں۔ یہ کل 86 سورتیں ہیں۔[77]مدنی سورہوہ ہے جو ہجرت مدینہ کے بعدمدینہ منورہمیں نازل ہوئی۔ ان سورتوں میں عموما شریعت، احکام اورحلالوحرامکے مضمون موجود ہیں۔ یہ کل 28 سورتیں ہیں۔[77]تلاوت کی آسانی کے لیے علما نے ان سورتوں کی 3 اقسام کی ہیں۔ طوال مفصل یعنیسورہ بقرہ، وآل عمران، والنساء، والمائدہ، والانعام، والاعراف، وبراءة۔ وسميت بالطوال لطولها، والطوال جمع طولى۔[79]۔ اوساط مفصل جو طوال مفصل، یہ وہ سورتیں ہیں جن میں تقریباً 100 آیتیں ہیں۔[79]تیسری قسم ہے قصار مفصل جس میں تمام چھوٹی سورتیں شامل ہیں جو اوساط مفصل میں نہیں ہیں۔[79]قرآن کی زبان فصیح عربی ہے جسے آج بھی ادبی مقام حاصل ہے اور باوجودیکہ عربی کے کئی لہجے (مصری، مراکشی، لبنانی، کویتی وغیرہ) پیدا ہو چکے ہیں، قرآن کی زبان کو ابھی تک عربی کے لیے ایک معیار کی حیثیت حاصل ہے۔ عربی کے بڑے بڑے عالم جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں قرآن کی فصیح، جامع اور انسانی نفسیات سے قریب زبان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اتنی بڑی کتاب ہونے کے باوجود اس میں کوئی گرامر کی غلطی بھی موجود نہیں۔ بلکہ عربی حروف ابجد کے لحاظ سے اگر ابجد کے اعداد کو مدِ نظر رکھا جائے تو قرآن میں ایک جدید تحقیق کے مطابق جو ڈاکٹر راشد الخلیفہ نے کمپیوٹر (کمپیوٹر) پر کی ہے، قرآن میں باقاعدہ ایک حسابی نظام موجود ہے جو کسی انسان کے بس میں نہیں۔ قرآن میں قصے بھی ہیں اورتاریخی واقعاتبھی، فلسفہ بھی ملے گا اورمنطقبھی، پیچیدہ سائنسی باتیں بھی ہیں اور عام انسان کی زندگی گذارنے کے طریقے بھی۔ جب قرآن نازل ہوا اس وقت جو عربی رائج تھی وہ بڑی فصیح تھی اور اس زمانے میں شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل تھی لھٰذا یہ ممکن نہیں کہ قرآن میں کوئی غلطی ہوتی اور دشمن اس کے بارے میں بات نہ کرتے۔ بلکہ قرآن کا دعوہ تھا کہ اس جیسی ایک آیت بھی بنا کر دکھا دیں مگر اس زمانے کے لوگ جو اپنی زبان کی فصاحت اور جامعیت کی وجہ سے دوسروں کو عجمی (گوں گا) کہتے تھے، اس بات میں کامیاب نہ ہو سکے۔قرآن مجید کی پہلی آیت :قرآن مجید کی آخری آیت :حروف مقطعات(عربی: مقطعات، حواميم، فواتح) قرآن مجید کی بعض آیات کے شروع میں آتے ہیں اور الگ الگ پڑھے جاتے ہیں، ان کوآیات مقطعاتاور ان حروف کوحروف مقطعاتکہا جاتا ہے، مثلاًالم۔ یہ قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں آتے ہیں۔ یہ کل چودہ حروف ہیںا، ل، م، ص، ر، ک، ہ، ی، ع، س، ج، ق، ن۔ مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ ان کا حقیقی مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ مقطعات کا لفظی مطلب قطع شدہ، ٹکڑے، کترنیں کے ہیں۔ بعض علما کے مطابق یہ عربی الفاظ کے اختصارات ہیں اور بعض علما کے مطابق یہ کچھ رمز (code) ہیں۔[82]یہ حروف 29 سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر ہیں اورسورۃ الشوریٰ( سورۃ کا شمار: 42) کی دوسری آیت کے طور پر بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ ایک سے پانچ حروف پر مشتمل 30 جوڑ (combinations) ہیں۔ جو 29 سورتوں کے شروع میں قرآن میں ملتے ہیں۔انٹرنیٹ کی ترقی سے جہاں مواد کو لوگوں تک پہنچانا آسان ہو گیا ہے وہاں قرآن کے بارے میں ویب سائٹوں کی بہتات ہے جس میں سے کچھ تو درست مواد فراہم کرتے ہیں مگر بیشتر غلطیوں سے پاک نہیں۔ اس میں کچھ تو قرآن کو یونیکوڈ میں لکھنے کی مشکلات ہیں مگر کچھ اسلام کے خلاف کام کرنے والوں کا کام ہے جس میں قرآن کے عربی متن اور اس کے ترجمہ کو بدل کر رکھا گیا ہے۔ جس کا عام قاری اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ صرف ایسی سائٹس کی طرف رجوع کریں جن کے بارے میں یقین ہو کہ وہ درست یا تصدیق شدہ ہیں۔
+اس کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا مرکزی ادارہ بنایا جائے جس میں تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں کے نمائندے اور ماہرین شامل ہوں اور ماہرین کسی بھی قرآنیویب سائٹکی تصدیق کر سکیں اور اسے ایک سرٹیفیکیٹ جاری کر سکیں جو ان کی ویب گاہ پر لگائی جائے۔ جو کم از کم عربی متن کی تصدیق کرے جیساپاکستانمیں چھپے ہوئے قرآن کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ اس کی تصدیق کہ کوئی قرآنی ویب گاہ مصدقہ ہے کہ نہیں، اس مرکزی ادارہ کی ویب گاہ سے ہو سکے۔ چونکہ انٹرنیٹ پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اس لیے لوگوں کی اپنی کوشش ہوگی کہ وہ اس مرکزی ادارہ کی تصدق شدہ ویب گاہ کا استعمال کریں۔ تا حال ایسا کوئی ادارہ نہیں مگر مستقبل میں یہ نہائت ضروری ہوگا۔قرآن کے تراجم دنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں اور کیے جا رہے ہیں۔ بڑی زبانوں میں تراجم قرآن ایک سے زائد لوگوں نے مختلف ادوار میں کیے ہیں۔ قرآن کے یورپی اور دیگر کئی زبانوں میں غیر مسلمان افراد نے بھی ترجمہ کیا ہے۔ اسی طرح کچھ تراجم بنا عربی متن کے بھی شائع کیے گئے ہیں، جبکہ رومن رسم الخط میں بھی مختلف وجوہات کی بنا پر تراجم ہوئے ہیں۔قرآن کے الفاظ کو ان کے حروف کو زبان سے درست مخارج سے ادا کرنے کا علم، تجوید کہلاتا ہے۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) ��نت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدارلوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+587,ارکان اسلام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D9%86_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85,بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاماسلام کے ارکانانھیں ارکان الدین بھی کہا جاتا ہے۔ دین اسلام میں یہ ارکان بنیادی اصول ہیں۔ انھیں فرائض بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ذکر حدیث جبریل میں واضح طور پر کیا گیا ہے۔[1][2][3][4]شہادہ، یعنی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں۔[5]اس بات کی گواہی دینا اور زندگی میں اپنانا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے۔ یہ کلمہ یوں ہے لَا إِلٰهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله، کلمہ شہادہ یا کلمئہ توحید بھی کہتے ہیں۔ اگر کوئی اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اس کو بھی اس کلمئہ توحید کا اقرار کرنا پڑے گا۔[6]صلواۃ عربی اصطلاح ہے، نماز فارسی اور اردو صورت۔ دین اسلام میں نماز دوسرا رکن ہے۔ نماز عبادت کی صورت ہے۔ نماز روزانہ پانچ وقت کی فرض ہیںزکوٰۃ، اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ اس کا اہم اصول اللہ کی عطا کی نعمتوں کو خالص کرنا ہے۔ اس کی ادائگی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس کا اہم مقصد غیر مساوات کو ختم کرنا معاشی مساوات کو برقرار رکھنا۔[7][8]زکوٰۃ کے پانچ اصول مانے جاتے ہیں :صوم یا روزہ تیسرا رکن ہے۔ جس کی تاکید قرآن میں واضح طور پر ملتی ہے۔ روزے تین قسم کے ہیں۔ پہلا ماہ رمضان کے ۔[10]دوسری قسم کے معافی مانگنے کے۔ ان دونوں کا ذکر سورۃ البقریٰ میں ہے۔[11]تیسری قسم کا روزہ تقویٰ کا، جس کا ذکر الاہذب میں ہے۔[12][13]حج، پانچواں رکن ہے۔ ہر وہ مسلمان، جو قابل ہو اُس پر فرض کیا گیا رکن ہے۔اسلامی تقویمکے آخری مہیناذوالحجہمیں ادا کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس حج کی ادائگی کے لیے مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔[14]مسلکاہل تشیعارکان اسلام کو فروع دین کہتے ہیں یعنی فروع دین اسلام کے عملی احکام کو کہا جاتا ہے جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کا شرعی وظیفہ ہے۔ شیعہ نطقہ نگاہ سے فروع دین دس ہیں: نماز، روزہ، خمس، زکوۃ، حج، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تَوَلّی اورتبرا۔[15]
+590,ذوالحجہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B0%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AC%DB%81,اسلامی تقویم26 ذو الحجہاسلامی تقویمکا بارھواں اور آخری مہینہ ہے۔56ھ–24 ذوالحجہمیلاد مسعود سیدہ معصومہ حضرتسکینہعلیہ السلامباغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا چالیس یا انچاس دن تک محاصرہ کر کے 12 ذوالح�� 35 ہجری بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ آپ نے 82 سال کی عمر پائی۔حضرت عبد اللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی:اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔آپ انتہائی سخی ہونے کی وجہ سے غنی کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ کو یہ عظیم اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو بیٹیوں کے شوہر تھے۔ آپ اپنی صفت حیا کے حوالے سے فرشتوں میں بھی مشہور تھے۔ حضرت عثمان غنی ان دس صحابہ کی جماعت کا بھی حصہ ہیں جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری سنا دی تھی
+591,میقات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%82%D8%A7%D8%AA_%D8%AD%D8%AC,"میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سےحجیاعمرہپر جانے والے لوگاحرامباندھتے ہیں یا جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہوتا ہے۔ پانچ مقامِ میقاتحضرت محمدنے متعین کر دیے تھے جبکہ چھٹا میقاتبھارتاورمشرق بعیدسے آنے والےزائرینکے لیے بعد میں متعین کیا گیا۔ اہلمکہکے لیےمیقاتان کا اپنا گھر یامسجد الحرامہے۔میقات کے چھ مقامات درجِ ذیل ہیں۔تھامس پیٹرک ہوگز (1994)۔ڈکشنری آف اسلام۔شکاگو: قاضی پبلیکیشنسزامریکہ۔ISBN0-935782-70-2{{Subst:Nul|<==do not change this line, it will set the date automatically}}"
+592,احرام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%AD%D8%B1%D8%A7%D9%85,وہ دو سفید چادریں جن کو مخصوص انداز میں مسلمان مرد دورانحجیاعمرہبطور لباس استعمال کرتے ہیں۔ ایک چادر بطورتہبنداور دوسری کو کندھے پر اوڑھ لیا جاتا ہے، جیسے بکل مارتے ہیں۔[1]احرام کےلغوی معنیہیں : حرام کرنا، کیوں کہ احرام کی حالت میں بعضحلالکام بھیحرامہو جاتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں حج یا عمرہ کی نیت سےمکہشہر میں مقاممیقاتسے پہلے صرف دو چادروں سے جسم کو ڈھانپ لینے کو احرام کہتے ہیں۔ احرام والے مرد کو محرم کہتے ہیں۔
+593,خانہ کعبہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D8%B9%D8%A8%DB%81,"خانہ کعبہ، کعبہ یا بیت اللہ (عربی:الكعبة المشرًفة، البيت العتيق یا البيت الحرام)مسجد حرامکے وسط میں واقع ایک عمارت ہے، جومسلمانوںکاقبلہہے، جس کی طرف رخ کرکے وہ عبادت کیا کرتے ہیں۔ یہ دیناسلامکا مقدس ترین مقام ہے۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کاحجکرنا فرض ہے۔ابراہیمکاقائم کردہ بیت اللہ بغیر چھت کے ایک مستطیل نما عمارت تھی جس کے دونوں طرف دروازے کھلے تھے جو سطح زمین کے برابر تھے جن سے ہر خاص و عام کو گذرنے کی اجازت تھی۔ اس کی تعمیر میں 5 پہاڑوں کے پتھر استعمال ہوئے تھے جبکہ اس کی بنیادوں میں آج بھی وہی پتھر ہیں جوابراہیمنے رکھے تھے۔ خانہ خدا کا یہ انداز صدیوں تک رہا تاوقتیکہ قریش نے 604ء میں اپنے مالی مفادات کے تحفظ کے لیے اس میں تبدیلی کردی کیونکہ زائرین جو نذر و نیاز اندر رکھتے تھے وہ چوری ہوجاتی تھیں۔امام مسلم رحمہ اللہ تعالٰی نے عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے حدیث بیان فرمائی ہے کہ :""عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ بیت اللہ کا ہی حصہ ہے؟تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں!، عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا کہ اسے پھر بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کيا گيا؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا کہ تیری قوم کے پاس خرچہ کے لیے رقم کم پڑ گئی تھی ۔میں نے کہا کہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے؟ ��بی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری قوم نے اسے اونچا اس لیے کیا تا کہ وہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل کریں اورجسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں ۔اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تو میں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا""۔قریشنے بیت اللہ کے شمال کی طرف تین ہاتھ جگہ چھوڑ کر عمارت کومکعب نما(یعنی کعبہ) بنادیا تھا۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ روپے پیسے کی کمی تھی کیونکہ حق و حلال کی کمائی سے بیت اللہ کی تعمیر کرنی تھی اور یہ کمائی غالباً ہر دور میں کم رہی ہے لیکن انھوں سے اس پر چھت بھی ڈال دی تاکہ اوپر سے بھی محفوظ رہی، مغربی دروازہ بند کر دیا گیا جبکہ مشرقی دروازے کو زمین سے اتنا اونچا کر دیا گہ کہ صرف خواص ہی قریش کی اجازت سے اندر جاسکیں۔ اللہ کے گھر کو بڑا سا دروازہ اور تالا بھی لگادیا گیا جو مقتدر حلقوں کے مزاج اور سوچ کے عین مطابق تھا۔ حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم (جو اس تعمیر میں شامل تھے اور حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنے کا مشہور زمانہ واقعہ بھی رونما ہوا تھا) کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کو ابراہیمی تعمیر کے مطابق ہی بنایا جائے۔عبد اللہ بن زبیر(جو عائشہ ا کے بھانجے تھے اور امام حسین کی شہادت کے بطور احتجاجیزید بن معاویہسے بغاوت کرتے ہوئے مکہ میں اپنیخود مختاریکا اعلان کیا تھا) نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے685ءمیں بیت اللہ کو دوبارہ ابراہیمی طرز پر تعمیر کروایا تھا مگرحجاج بن یوسفنے693ءمیں انھیں شکست دی تو دوبارہ قریشی طرز پر تعمیر کرادیا جسے بعد ازاں تمام مسلمان حکمرانوں نے برقرار رکھا۔خانہ کعبہ کے اندر تین ستون اور دو چھتیں ہیں۔ باب کعبہ کے متوازی ایک اور دروازہ تھا دیوار میں نشان نظر آتا ہے یہاں نبی پاک صلی اللہ وسلم نماز ادا کیا کرتے تھے۔ کعبہ کے اندر رکن عراقی کے پاس باب توبہ ہے جو المونیم کی 50 سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ چھت پر سوا میٹر کا شیشے کا ایک حصہ ہے جو قدرتی روشنی اندر پہنچاتا ہے۔ کعبہ کے اندرسنگ مرمرکے پتھروں سے تعمیر ہوئی ہے اور قیمتی پردے لٹکے ہوئے ہیں جبکہ قدیم ہدایات پر مبنی ایک صندوق بھی اندر رکھا ہوا ہے۔کعبہ کی موجودہ عمارت کی آخری بار 1996ءمیں تعمیر کی گئی تھی اور اس کی بنیادوں کو نئے سرے سے بھرا گیا تھا۔ کعبہ کی سطح مطاف سے تقریباً دو میٹر بلند ہے جبکہ یہ عمارت 14 میٹر اونچی ہے۔ کعبہ کی دیواریں ایک میٹر سے زیادہ چوڑی ہیں جبکہ اس کی شمال کی طرف نصف دائرے میں جوجگہ ہے اسے حطیم کہتے ہیں اس میں تعمیری ابراہیمی کی تین میٹر جگہ کے علاوہ وہ مقام بھی شامل ہے جو ابراہیم نے ہاجرہ اوراسماعیلکے رہنے کے لیے بنایا تھا جسے باب اسماعیل کہا جاتا ہے۔حطیمجسےحجر اسماعیلبھی کہا جاتا ہے، خانہ کعبہ کے شمال کی سمت ایک دیوار ہے جس کے باہر سےطوافکیا جاتا ہے۔ اس دیوار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خانہ کعبہ میں شامل تھی۔ حطیم کی چوڑائی 30 اِنچ (90 سینٹی میٹر) ہے اور اونچائی1.5 میٹر (4.9 فُٹ) ہے۔خانہ کعبہ سے تقریباً سوا 13 میٹر مشرق کی جانبمقام ابراہیمقائم ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت ابراہیمنے اپنے قد سے اونچی دیوار قائم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا تاکہ وہ اس پر اونچے ہوکر دیوار تعمیر کریں۔1967ءسے پہلے اس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب سونے کی ایک جالی میں بند ہے۔ اس مقام کو مصلے کا درجہ حاصل ہے اور امام کع��ہ اسی کی طرف سے کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاتے ہیں۔ طواف کے بعد یہاں دورکعتنفل پڑھنے کا حکم ہے۔کعبہ کے جنوب مشرقی رکن پر نصب تقریباً اڑھائی فٹقطرکے چاندی میں مڑھے ہوئے مختلف شکلوں کے 8 چھوٹے چھوٹے سیاہ پتھر ہیں جن کے بارے میں اسلامی عقیدہ ہے کہ تعمیری ابراہیمی کے وقت جنت سے جبریل لائے تھے اور بعد ازاں تعمیر قریش کے دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس جگہ نصب کیا تھا اور ایک بہت بڑے فساد سے قوم کو بچایا۔ جسے بعد میں چاندی میں مڑھ دیا گیا۔ کعبہ شریف کا طواف بھی حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اور ہر چکر پر اگر ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دینا چاہیے ورنہ دور سے ہی ہاتھ کے اشارے سے بوسہ دیا جا سکتا ہے۔ حج کے دنوں میں ہر کسی کو اس مقدس پتھر کو بوسہ دینا یا استلام کرنا ممکن ہوپاتا۔مسجد حرام میں کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کے فاصلے پر تہ خانے میں آب زمزم کا کنواں ہے جو ابراہیم اور ہاجرہ کے شیر خوار بیٹے اسماعیل کی پیاس بجھانے کے بہانے اللہ تعالٰیٰ نے تقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے بے آب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو وقت کے ساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے اشارہ خداوندی سے دوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ آب زمزم کا سب سے بڑا دہانہ حجر اسود کے پاس ہے جبکہ اذان کی جگہ کے علاوہ صفا و مروہ کے مختلف مقامات سے بھی نکلتا ہے۔ 1953ءتک تمام کنوئوں سے پانی ڈول کے ذریعے نکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زمزم کا پانیمسجد نبویمیں بھی عام ملتا ہے اور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔کعبہشریف میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک دروازہ ہے جسے باب کعبہ کہا جاتا ہے۔ باب کعبہ زمین یا حرم کے فرش سے 2.13 میٹر اوپر ہے۔ یہ دروازہ کعبہ شریف کے شمال-مشرقی دیوار پر موجود ہے اور اس کے قریب ترین دہانے پرحجر اسودنصب ہے جہاں سے طواف کی ابتدا کی جاتی ہے۔ 1942ء سے پہلے پہلے باب کعبہ کس نے تیار کیا اور کیسے تیار کیا اس کا تاریخ میں زیادہ تذکرہ نہیں ملتا۔ تاہم 1942ء میں ابراہیم بدر نے چاندی کا بنایا تھا،اس کے بعد 1979ء میں ابراہیم بدر کے بیٹےاحمد بن ابراہیم بدرنے خانہ کعبہ کا سنہرہ دروازہ بنایا۔ یہ سنہرہ دراوزہ تقریباََ 300 کلوگرام سونے سے تیار کیا گیا تھا۔رکن یمانیخانہ کعبہ کے جنوب مغربی کونے کو کہتے ہیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنےفرمایا:رکن یمانی اور حجر اسود دونوںجنتکے دروازے ہیں۔[1]ترجمہ:عبد اللہ بن عمرفرماتے ہیں کہ رکن یمانی پر دوفرشتےہیں جو وہاں سے گزرنے والے کی دعا پر آمین کہتے ہیں اورحجر اسودپر تو بے شمار فرشتے ہوتے ہیں“۔[2]اثنا عشری دو گروہوں میں منقسم ہیں:اورحجر اسودکو اس لیےبوسہدیا جاتا اورمسکیا جاتا ہے تا کہ اسعہدکو جومیثاقمیں ان لوگوں سے لیا گیا تھااللہکی بارگاہ میں ادا کر دیا جائے۔اور حجر اسود کو اس کےرکنمیں رکھا گیا جہاں وہ اس وقت ہے کسی دوسرے رکن میں اس لیے نہیں رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت میثاق کیا تھا اس کو اسی جگہ رکھا تھا۔اورکوہ صفاسے اس رکن کا استقبال جس میں حجر اسود ہےتکبیرکے ساتھ کرنے کیسنتاس لیے جاری ہو گئی کہ جبآدمنے کوہ صفا سے دیکھا کہ حجر اسود اس رکن میں رکھا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تمجید کرنے لگے۔اور میثاق کو حجر اسود میں اس لیے رکھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اورمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کینبوتاورعلیکیوصایتکا میثاق کیا توملائکہکے جوڑ جوڑ کانپنے لگے۔ اور سب سے پہلے اقرار میں جس نے جلدی کی یہی حجر اسود تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو منتخب کیا اور وہ میثاق اس کےمنہمیں ڈال دیا۔ اب وہقیامتکے دن آئے گا تو اس کی بولتی ہوئیزباناور دیکھنے والیآنکھہو گی اور وہ ہر اس شخص کی گواہی دے گا جس نے یہاں آ کر اس میثاق کو ادا کیا۔اور حجر اسود کوجنتسے اس لیے نکال کر بھیجا گیا تا کہ آدم جو عہد و میثاق میں سے بھول گئے ہوں انھیں یاد دلا دے۔ اورحرمکے حدود جو تھے وہ وہی ہیں ان میں نہ کچھ کم ہوئے نہ زیادہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے پاس ایکسرخ یاقوتنازل فرمایا تھا اس کو انھوں نے بیت اللہ کی جگہ رکھا تھا اور اس کاطوافکرتے تھے جس کی ضَوانِ نشانات تک پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اِن نشانات تک حرم قرار دے دیا۔اور حجر اسود کو مس اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس میں سارے خلائق کے عہد و میثاق ودیعتہیں اوردودھسے بھی زیادہسفیدتھا مگربنی آدمکے گناہوں نے اس کوسیاہبنا دیا اگر ایام جاہلیت کے گندے اورنجسلوگ اس کو مس نہ کرتے تو یہ ایسا ہوتا کہ جوبیماربھی اس کو مس کرتا وہ اچھا ہو جاتا۔[8]اوررکن شامیجاڑےگرمیمیں متحرک رہتا ہے اس لیے کہ اس کے نیچےہواقیدہے اور خانہ کعبہ اتنا بلند ہو گیا کہ اس پرسیڑھیلگا کر جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جبحجاجنے خانہ کعبہ کو منہدم کیا تو لوگ اس کیمٹیاٹھا اٹھا کر لے گئے اور پھر جب لوگوں نے اس کی دوبارہ تعمیر کا ارادہ کیا تو ایکسانپنمودار ہوا جس نے لوگوں کو تعمیر سے روک دیا جب حجاج آیا تو اسے لوگوں نے بتایا اس نےامام علی بن الحسینسے اس کے متعلق رجوع کیا تو آپ نے فرمایا تم لوگوں کو حکم دو کہ جو شخص یہاں سے جو کچھ لے گیا ہے وہ سب لا کر یہاں واپس ڈال جائے۔ چنانچہ جب اس کی دیواریں بلند ہو گئیں تو آپ نے حکم دیا کہ اس کی ساری مٹی اس میں ڈال دی جائے اس لیے خانہ کعبہ اتنا بلند ہو گیا کہ اس میں سیڑھی لگا کر جاتے ہیں۔ اور لوگ اس چہار دیواری سے باہر خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اس کے اندر سے نہیں کرتے اس لیے کہاسماعیلکی مادر گرامی چہار دیواری کے اندردفنہیں اور اس میں ان کیقبرہے اس لیے باہر سے طواف کرتے ہیں تا کہ ان کی قبر پاؤں تلے روندی نہ جائے۔[10]اور اس چہار دیواری میں خانہ کعبہ کا کوئی جزناخنکے ایک تراشے کے برابر بھی نہیں ہے۔[11]قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)��مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدارسانچہ:شیعہ اسلام میں مقدس ترین مقامات"
+594,طواف قدوم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B7%D9%88%D8%A7%D9%81_%D9%82%D8%AF%D9%88%D9%85,طوافِ قدومافتتاحیطوافکو طواف قدوم کہتے ہیں۔میقاتکے باہر سے آنے والامکہ معظمہمیں حاضر ہو کر سب میں پہلا جو طواف کرے اُسے طواف قدوم کہتے ہیں۔ طواف قدوممفرد(حج افراد کرنے والا)اور قارِن (حج قران کرنے والا)کے لیے سنت ہے، متمتّع (حج تمتع کرنے والا)کے لیے نہیں۔[1]
+595,منیٰ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%86%DB%8C,مِنیٰحج کے موقع پر آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر تمام حجاج منیٰ میں قیام کرتے ہیںسانچہ:شیعہ اسلام میں مقدس ترین مقامات
+596,یوم ترویہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%85_%D8%A7%D9%84%D8%AA%D8%B1%D9%88%DB%8C%DB%81,آٹھویں ذی الحجہ کو یوم الترویہ کہا جاتا ہے۔[1]اس کے لغوی معنی سیراب کرنے اور پانی فراہم کرنے کے ہیں اسےیوم النقلہبھی کہتے ہیں کیونکہ اس دن حجاج منی کی طرف کوچ کرتے ہیں۔[2]خواب میںابراہیم علیہ السلامکو حکم دیا گیا کہ اپنے فرزنداسمعیل علیہ السلامکو ذبح کریں۔ اس حکم کی صورت یہ ہوئی کہ ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کی شب میں انھوں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ نے اپنے بیٹے اسمعیل کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ صبح کو اٹھے تو سوچ میں پڑ گئے (کہ کیا یہ حکم خداوندی تھا) صبح سے شام تک اسی سوچ میں رہے کہ یہ خواب رحمانی ہے یا شیطانی، اسی لیے ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو یوم الترویہ (سوچ کا دن) کہا جاتا ہے۔[3]دوسری وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قدیم زمانے میں جب حجاج آٹھ ذی الحجہ کومنیجاتے تھے تو وہاں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کو تکلیف ہوتی تھی، چنانچہ منی روانگی سے قبل مکہ سےزمزمکا پانی بھر لیتے تھے اور پھر منی جاتے تھے۔ چنانچہ اس دن کا نام یوم الترویہ (پانی بھرنے کا دن) پڑ گیا۔
+597,عرفات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%B1%D9%81%D8%A7%D8%AA,مقام عرفہیاعرفات،مکہ مکرمہکے جنوب مشرق میںجبل رحمتکے دامن میں واقع ہے۔ جہاںوقوف عرفاتجیساحجکا بنیادی رکن ادا کیا جاتا ہے۔ یہ میدان مکے سے تقریباً 20کلومیٹرکے فاصلے پر ہے۔عرفات سال کے 354 دن غیر آباد رہتا ہے اور صرف ایک دن کے 8 سے 10 گھنٹوں کے لیے (9 ذی الحج) ایک عظیم الشان شہر بنتا ہے۔ یہ 9ذی الحجکیصبحآباد ہوتا ہے حاجى يهاں دو نمازيں ادا کرتے ہیں اور غروب آفتاب کے ساتھ ہی اس کی تمام آبادی رخصت ہو جاتی ہے اور حجاج ایک رات کے لیےمزدلفہمیں قیام کرتے ہیں۔دور جاہلیتمیںقریشنےحرمسے متعلق دیگر بدعات کے علاوہ مناسک حج سے وقوف عرفات کو بھی خارج کر دیا تھا۔ قبل از اسلام دیگر لوگ تو عرفات تک جاتے تھے لیکن قریشمزدلفہسے آگے نہ بڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اہل حرم ہیں اس لیے حرم کی حدود سے باہر نہیں نکلیں گے لیکننبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمحجۃ الوداعکے موقع پر ارشاد خداوندی کے تحت عام لوگوں کے ساتھ خود بھی عرفات تک گئے۔[1]سانچہ:شیعہ اسلام میں مقدس ترین مقامات
+598,یوم عرفہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%85_%D8%B9%D8%B1%D9%81%DB%81,"9 ذی الحج کویوم عرفہکہتے ہیں غیر حاجی کے لیے اس دن روزے کی فضیلت ہے[1]میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنا منع ہے اور دوسری جگہوں میں اس دن روزہ رکھنا کار ثواب ہے اور عیدین میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔
+ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا :[2]ابو قتادہسے روایت کیا کہ رسول اﷲﷺسے یوم عرفہ کے بارے دریافت کیا گیا تو فرمایا یہ سال گذشتہ اور آئندہ کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے[3]علامہ شرنبلالی نے لکھا ہے کہحدیث صحیحمیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یوم عرفہ افضل الایام ہے اور جب یہ دن جمعہ کا ہو تو یہ ستر حجوں سے افضل ہے۔[4]عرفہ کو عرفہ اس لیے کہا جاتا ہے کہابراہیم علیہ السلامنے جبرائیل علیہ السلام کو اس سوال کے جواب مین فرمایا کہ : ھل عرفت ما رائیتک ؟ قال نعم عرفتُ ! (کیا تم جان گئے جو میں نے سکھایا؟ فرمایا : ہاں میں جان گیا ) اور یہ گفتگو عرفات کے میدان پر ہوئی۔ اس لیے عرفات کا وجہ تسمیہ بھی یہی ہے۔[5]جبل عرفات[6]گرینائٹ سے بنی ایک پہاڑی ہے جومکہسے 20 کلومیٹر (12 میل) جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہجبل رحمتکے پٹھار پر واقع ہے۔ اس کی کل اونچائی 70 میٹر (230 فٹ) ہے۔اسلامیروایات کے مطابق یہی وہ پہاڑی ہے جہاں پیغمر اسلاممحمد بن عبد اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کھڑے ہو کرخطبہ حجۃ الوداعدیا تھا۔ یہ خطبہ حضور نےحجکے بعد دیا تھا جو موجود مسلمانوں اور صحابہ کرام کے لیے ایک وداعی خطبہ تھا۔ جس میں آپ نے اس دنیا سے پردہ فرمانے کا بھی تذکرہ کیا تھا۔[7]ام المؤمنينحضرتعائشہ بنت ابی بکرکی ایکحدیثصحیح مسلممیں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:[8]غیر حجاج کے لیے یوم عرفہ کا روزہ بہت ثواب کا باعث ہے اور اس کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔"
+599,سعی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B9%DB%8C_(%D8%AD%D8%AC),حج و عمرہسے متعلق ایک اسلامی اصطلاح، دوران حجصفااورمروہپہاڑوں پر چڑھنے اورمخصوص انداز میں ان کے درمیان سات چکر لگانے کو سعی کہا جاتا ہے۔صفا و مروہکے درمیان جگہ جہاں سعی کی جاتی ہے اسےمسعیکہتے ہیں۔آئمہ ثلاثہکے نزدیک یہ حج کا رکن ہے۔حجوعمرہمیں سعی کے بعد حاجی یا عمرہ کرنے والاحلق و تقصیرکراتا ہے۔ اس کے بعد وہ احرام کھول دیتا ہے۔حاجی یا عمرہ کرنے والا، صفا کی طرف سے مروہ تک جائے، یہ ایک چکر ہو گا، اب مروہ سے صفا کی طرف واپس آئے تو یہ دوسرا چکر ہو گیا، اسی طرح سات چکر پورے کیے جاتے ہیں، اس طرح آخری چکر مروہ پر ختم ہو گا۔[1]اگر کوئی غلطی سے یا کسی دوسری وجہ سے مروہ کی طرف سے صفا کی جانب سعی کرے تو تب اس کو آٹھ چکر لگانے ہوں گے تب، اس کی سعی کے سات چکر مانے جاتے ہیں، کیونکہ پہلا چکر صفا سے مروہ کی جانب ہے، مروہ سے شروع کرنے والے کا پہلا چکر شمار نہیں کیا جاتا۔[2][3]
+600,عید الاضحی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B6%D8%AD%DB%8C,"عید الاضحیٰمسلمانوں کا تہوار ہے۔ عید الاضحیٰذوالحجہکی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ اس دن مسلمان کعبۃ اللہ کا حج بھی کرتے ہیں۔ مسلمان دو طرح کی عید مناتے ہیں۔ ایک کوعید الفطراور دوسری کو عید الاضحیٰ کہا جاتا ہے۔انس بن مالک فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں لوگوں نے سال میں دو دنکھیل کودکے لیے مقرر کر رکھے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبمدینہ منورہتشریف لائے تو ارشاد فرمایا تم لوگوں کے کھیلنے کودنے کے لیے دو دن مقرر تھے اللہ تعالیٰ نے انھیں ان سے بہتر دنوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ یعنی عیدالفطر اور عید الاضحیٰ۔[1]عید الاضحی کو دس ذی الحجہ کے دن منایا جاتا ہے اور یہ دونوں عیدوں میں افضل عید ہے اور حج کے مکمل ہونے کے بعد آتی ہے۔ جب مسلمان حج مکمل کرلیتے ہیں تو اللہ تعالٰی انھیں معاف کر دیتا ہے۔
+اس لیے حج کی تکمیل یوم عرفہ میں وقوف عرفہ پر ہوتی ہے جو حج کاایک عظیم رکن ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
+یوم عرفہ آگ سے آزادی کا دن ہے جس میں اللہ تعالٰی ہر شخص کوآگ سے آزادی دیتے ہیںعرفاتمیں وقوف کرنے والے اور دوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی آزادی ملتی ہے۔
+1 - یہ دن اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے بہترین دن ہے : حافظابن قیمرحمہ اللہ تعالٰی نے زاد المعاد ( 1 / 54 ) میں کہتے ہیں :
+[اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے افضل اور بہتر دن یوم النحر ( عیدالاضحی ) کا دن ہے اوروہ حج اکبروالا دن ہے۔
+( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : یقینا یوم النحر اللہ تعالٰی کے ہاں بہترین دن ہے )[2]2 – یہ حج اکبر والا دن ہے :
+ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حج کے دوران میں جوانہوں نے کیا تھایوم النحر( عید الاضحی ) والے دن جمرات کے درمیان میں کھڑے ہوکرفرمانے لگے یہ حج اکبر والا دن ہے۔[3]نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
+یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں۔[4]تواللہ تعالٰی نے وہ لہولعب کے دو دن ذکر وشکراورمغفرت درگزر میں بدل دیے، تواس طرح مومن کے لیے دنیا میں تین عیدیں ہیں :
+عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا یہ عید کا دن ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا فرمایا۔ سو ! جو جمعہ کے لیے آنا چاہے تو غسل کرلے اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگا لے اور تم پر مسواک (بھی) لازم ہے۔[5]رمضانجو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے تیسرا رکن ہیں، جب مسلمان رمضان کے روزے مکمل کرتا ہے تواللہ تعالٰی نے ان کے روزے مکمل کرنے پر عید مشروع کی ہے جس میں وہ اللہ تعالٰی کا شکرادا اوراللہ تعالٰی کاذکر کرنے کے لیے جمع ہوتے اوراس کی اس طرح بڑائی بیان کرتے ہیں جس پرانہیں اللہ تعالٰی نے ہدایت نصیب فرمائی ہے اوراس عید میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں پرصدقہ فطر ( فطرانہ ) اورنماز عید مشروع کی ہے۔"
+601,حلق و قصر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%D9%84%D9%82_%D9%88_%D9%82%D8%B5%D8%B1_(%D8%AD%D8%AC),حلق اور قصر(تقصیر)،حجوعمرہسے متعلقہ دو اسلامی اصطلاحات ہیں۔ حاجی جب تمام فرائض (ارکان حج) سے فارغ ہو جاتا ہے۔ تو آخر پر مرد اپنے پورے سر کے بال مُونڈاتے ہیں یا سر کے ایک چوتھائی حصے کے بال کم از کم ایک پور (ایک انچ جتنا) کٹواتے ہیں۔ یہ ہر مرد حاجی پرواجبہے۔ خواتین کے لیے صرف تقصیر کا حکم ہے، وہ طرف سر کے ایک چوتھائی حصے کے بال کم از کم ایک پور (ایک انچ جتنا) کٹواتی ہیں۔حلق و تقصیر سے متعلق فقہی احکام
+602,رمی جمار,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D9%85%DB%8C_%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B1,رمی جماریا رمیحجسے متعلقہ ایک اسلامی اصطلاح ہے۔ مسلمان دوران حج تین علامتی شیطانوں کو کنکر مارتے ہیں۔ یہ حج کا ایک رکن ہے۔ دس، گیارہ اور بارہذوالحجہکو یہ عمل کیا جاتا ہے، اس میں ہر حاجی پر لازم ہے کہ تین شیطانوں کو سات سات کنکر ترتیب وار مارے۔ یہ عمل اسلام میں نبیابراہیم علیہ السلامکی سنت کے طور پر جاری ہے۔ بعض حالات میں تیرہذوالحجہکو بھی پتھر مارنے ضروری ہو جاتے ہیں۔رمی کا طریقہ اور احتیاطیں
+603,جمرات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%85%D8%B1%DB%81_%D8%B9%D9%82%D8%A8%DB%81,"حجاجِ کرام دس گیارہ اور بارہ تاریخ کو پتھر کے جن تین ستونوں کو باری باری کنکر مارتے ہیں ان کو ” جمرات “ یاجمار کہا جاتا ہے۔ یہ شعائر اللہ میں سے ہیں یہ منی میں تین مشہور مقام ہیں جہاں اب دیوار کی شکل میں بڑے بڑے ستون بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم،نبی اکرمﷺ کے طریقہ اور حضرتابراہیم علیہ السلامکی اتباع میں ان تین جگہوں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔جمار جمرہ کی جمع ہے،عربی میں جمرہ چھوٹے کنکر یا سنگریزے کو کہتے ہیں مگر حج کے موقع پر ان سنگریزوں کو جمرہ کہا جاتا ہے جو دسویں،گیارھویں،بارہویں بلکہ تیرھویں ذی الحجہ کو تین ستونوں پر مارے جاتے ہیں،پھر خود ان ستونوں کو جمرہ کہا جانے لگاجنہیں یہ کنکر مارے جاتے ہیں کیونکہ وہاں ان کنکروں کا اجتماع ہوتا ہے۔ بعض لغت والے کہتے ہیں کہ اجمار کے معنی ہیں جلدی کر نا،تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ جن حجاج کے کنکر قبول ہوجاتے ہیں وہ غائب کر دیے جاتے ہیں صرف غیر مقبول کنکر ہی وہاں رہتے ہیں ورنہ وہاں ہر سال کنکر یوں کے پہاڑ لگ جایا کرتے۔ اشعۃ المعات میں لکھا ہے کہ ان مقامات میں آدم علیہ السلام نے ابلیس کو کنکر مارے تھے جس سے وہ تیزی سے دوڑ گیا تھا یہ انہی کی نقل ہے،بعض روایات میں ہے کہ یہاں اسمعیل علیہ السلام نے شیطان کو کنکر مارے تھے،بہرحال یہ فعل بھی بزرگوں کی نقل ہے۔[1]پہلا جمرہ جو منی سے قریب جمرہ اولیٰ کہلاتا ہے اس ستون کا نام جمرہ اولٰی بھی ہے اور جمرہ دنیا بھی کیونکہ مسجد حنیف سے قریب ہے،اسی کے قریب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حج میں قیام فرمایا تھاگیارھویں اوربارھویں کو تینوں جمروں کی رمی ہوتی ہے مگر زوال کے بعدبیچ کا جمرہ وسطی کہلاتا ہے گیارھویں بارھویں کو تینوں جمروں کی رمی ہوگی مگر زوال کے بعداخیر کا مکہ معظمہ سے قریب ہے جمرۃ العقبہ۔ یا جمرۃ العقبٰی کہلاتا ہے،دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرہ عقبہ کی رمی ہوتی ہے اور زوال سے پہلے ہوتی ہے
+عقبہ منیٰ شریف کے ایک حصہ کا نام ہے،جمرہ عقبہ اس ستون کا نام ہے جو اسی جگہ واقع ہے۔ حضور انور حج کے زمانہ میں منٰی شریف میں باہر سے آنے والوں کو تبلیغ فرمایا کرتے تھے۔ یوم عقبہ سے مراد ہے عقبہ کے میدان میں تبلیغ کا دن،عقبہ پہاڑ کے راستہ کو کہتے ہیں،چونکہ یہ جگہ دو پہاڑوں کے بیچ میں ہے اسی لیے اس کو عقبہ کہا جاتا ہے۔(مرقات)یا عقب بمعنی پیچھے ہے یہاں کا جمرہ پہلے دو جمروں کے پیچھے واقع ہے لہذا یہ ستون جمرہ عقبہ کہلاتا ہے اور یہ جگہ عقبہ۔[2]منیمیں وہ تین ستون جنہیں حاجی کنکر مارتے ہیںمسجد خیفکے قریب جو ستون ہے اسے جمرۃ الاولیٰ کہتے ہیں درمیان والے کو جمرۃ الوسطیٰ کہتے ہیں اورآخری کوجمرۃ الاخریٰ ( جمرہ عقبہ یا جمرہ عقبہ کبری )کہتے ہیں۔[3]"
+604,طواف افاضہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B7%D9%88%D8%A7%D9%81_%D8%A7%D9%81%D8%A7%D8%B6%DB%81,طواف افاضہطواف زیارتکا ہی نام ہے۔ یہ حج کا رکن ہے۔ اس کا وقت10 ذوالحجہکیصبح صادقسے بارہ12 ذوالحجہکےغروب آفتابتک ہے مگر دس10 ذو الحجہ کو کرنا افضل ہے۔[1]عرفات سے واپسی میں جو طواف کیا جاتا ہے اس کا نامطواف زیارتہے اور اس طواف کوطواف افاضہبھی کہتے ہیں[2]اسی کوطواف رکنطواف حجاورطواف فرضبھی کہا جاتا ہے[3]
+605,ایام تشریق,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D8%A7%D9%85_%D8%AA%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D9%82,"ایا م تشریقعید الاضحیکے بعد کے تین دن یعنیذوالحجۃکی گیارہوریں، بارہویں اور تیرہویں تاریخیں۔عيد الاضحى كے بعد والے تين روز ايام تشريق كہلاتے ہيں اور انہيں ايام تشريق اس ليے كہا جاتا ہے كہ: لوگ ان ايام ميں گوشت خشك كرنے كے ليے دھوپ ميں ركھتے ہيں، تا كہ اس ميں تعفن پيدا نہ ہو اور بعد ميں اسے استعمال كيا جا سكے،انھیںایام معدوادتبھی کہا جاتا ہے ان کو معدودات کمی کے سبب سے فرمایا ہے[1]ان تين ايام كے متعلق رسول كريم ﷺ كا فرمان ہے :
+سیدہ نبیشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تشریق کے دن کھانے اور پینے کے دن ہیں۔[2]چنانچہ اگر ايسا ہى ہے يعنى اگر ان ايام كو شرعى طور پر كھانے پينے اور اللہ كا ذكر كرنے كے ليے خاص كيا گيا ہے۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایامِ تشریق کو ایام ’’اکل وشرب‘‘ یعنی کھانے پینے کے دن فرمایا ہے اور اسی لیے ان ایام میں روزہ رکھنا حرام ہے اور جب عید کے بعد تین دن ان سب احکام میں ایک حیثیت رکھتے ہیں، یعنی یہی تین دِنایامِ منیٰ،ایامِ رمیاورایامِ تشریقہیں۔مسنونطریقہ یہ ہے کہ تیرہویں تاریخ کوزوالتکمنیٰمیں قیام کیا جائے تاہم بارہویں کو بھی واپسی جائز ہے۔
+عبد اللہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی مگر اس کے لیے جس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو۔[3]"
+606,طواف وداع,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B7%D9%88%D8%A7%D9%81_%D9%88%D8%AF%D8%A7%D8%B9,طوافکی ایک قسم، اسے طوافِ رخصت بھی کہا جاتا ہے۔ حاجی اور عمرہ کرنے والے کے لیے اس کا الگ الگ حکم ہے۔ آفاقی کے لیے طواف زیارت کے فوراً بعد طوافِ رخصت کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ ہرطواف مطلقاً طواف کی نیت سے بھی ادا ہوجاتا ہے۔ اگر روانگی سے قَبل طواف زیارت کے بعد اگر کوئی نفلی طَواف کر لیا ہے تو طواف رخصت ادا ہو چکا۔[1]
+607,سلیمان اول,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%84%DB%8C%D9%85%D8%A7%D9%86_%D8%A7%D9%88%D9%84,"سلیمان اول(المعروف سلیمان قانونی ، سلیمان اعظم اور سلیمان الیشان) (عثمانی ترکی زبان:سلطان سلیمان اول،ترکی زبان:I. Süleyman یا Kanunî Sultan Süleyman)سلطنت عثمانیہکے دسویں فرمانروا تھے جنھوں نے 1520ء سے 1566ء تک 46 سال تک حکمرانی کے فرائض انجام دیے۔ وہ بلاشبہسلطنت عثمانیہکے بلکہ اس وقت پوری دنیا کے سب سے عظیم حکمران تھے جنھوں نے اپنے بے مثل عدل و انصاف اور لاجواب انتظام کی بدولت پوری مملکت اسلامیہ کو خوش حالی اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ انھوں نے مملکت کے لیے قانون سازی کا جو خصوصی اہتمام کیا اس کی بنا پر ترک انھیںسلیمان القانونیکے لقب سے یاد کرتے ہیں جبکہ مغرب ان کی عظمت کا اس قدر معترف ہے کہ مغربی مصنفین انھیںسلیمان ذیشان ، سلیمان عالیشاناورسلیمان اعظم سلیمان دی گریٹیا سلیمان عالیشان اور سلیمان اعظم کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کی حکومت میں سرزمینحجاز،ترکی،مصر،الجزائر،عراق،کردستان،یمن،شام،بیت المقدس،خلیج فارساوربحیرہ رومکے ساحلی علاقے،یوناناور مشرقی و مغربیہنگریشامل تھے۔سلیمان 6 نومبر 1494ء (900ھ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدسلیم اولدولت عثمانیہکے نویں سلطان تھے جبکہ والدہ کا نامعائشہ حفصہ سلطانتھا۔سلیم اولنے 8 سال تک (918ھ تا 926ھ) حکومت کی تھی۔ سلیمان نے اپنے والد سے 16 سال تک جنگی فنون کی تربیت حاصل کی۔سلیم اولنے اپنے بیٹے کو دینی و دنیاوی تعلیم دلوانے کا بھی اہتمام کیا تھا۔ سلیمان کی انتظامی صلاحیتوں کو اس وقت جلا ملی جب انھیں مختل�� صوبوں میں حاکم مقرر کیا گیا۔ سب سے پہلے انھوں نے اپنے دادا سلطانبایزید ثانیکے زمانے میں کفہ کی سنجق (صوبے) میں حکمرانی کے فرائض انجام دیے۔ انھوں نے مغنیسیا،ادرنہاور صاروخان کی حکمرانی کی ذمہ داریاں بھی انجام دیں۔سلیم اولنے جبایرانپر حملہ کیا تو سلیمان ہی نائب کی حیثیت سےقسطنطنیہمیں موجود تھے۔سات سال کی عمر میں سلیمان کوسائنس،تاریخ،ادب،الہیاتاور جنگی فنون سیکھنے کے لیے توپ کاپی محل،قسطنطنیہمیں بھیجا گیا تھا۔ جوانی کے دور میں اس کی دوستیپارگلی ابرہیمسے ہو گئی تھی، جو ایک غلام تھا اور بعد ازاں اس کا سب سے بااعتماد مشیر بنا۔سلطان سلیمان چھبیس سال کی عمر میں تخت نشین ہوا،بایزید ثانیکے عہد میں جب اس کی عمر بہت کم تھی، وہ مختلف صوبوں کا حاکم رہ چکا تھا، پھر جبسلیم اولنےایرانپر حملہ کیا تو سلیمان کو نائبِ سلطنت کی حیثیت سےقسطنطنیہمیں چھوڑ گیا، اس کے بعد جنگِ مصر کے دوران میں وہادرنہکا حاکم تھا اور پھرسلیم اولکے عہد کے آخری دو سالوں میں ولایت صادر خان کا انتظام اسی کے سپرد تھا، چنانچہ جبسلیم اولکی وفات کے بعد وہ تخت پر آیا تو ایک کامیاب مدبر اور لائق فرمان روا کی شہرت حاصل کرچکا تھا، ذاتی عظمت میں وہ اپنے تمام پیش روؤں سے بڑا تھا اور فتوحات اور وسعتِ سلطنت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت لے گیا، اس عہد میںسلطنت عثمانیہاپنی انتہائی حد کمال تک پہنچ گئی، اس کی خانگی زندگی بالکل بے داغ تھی، وہ اپنے رحم و کرم کے لیے خاص طور پر مشہور تھا، انصاف اس کا مخصوص شیواہ تھا اور اس کی عدالت میں نسل، رنگ و مذہب کی کوئی تفریق نہ تھی، رعایا کی فلاح و بہبود اس کا مطمح نظر تھا، چنانچہ جب وہ تخت نشین ہوا تو تمام رعایا نے اس نوجوان سلطان کا جو اپنے اخلاق، شجاعت، انصاف، رحم دلی اور دانش مندی کی بنا پر حد درجہ ہر دل عزیز تھا، نہایت مسرت کے ساتھ استقبال کیا، اپنی حکومت کے پہلے ہی سال میں اس نے انصاف اور رحم دلی کی ایسی مثالیں پیش کیں جس سے اس کے آئندہ طرزِ عمل سے متعلق نہایت خوش آئند توقعات قائم کی جانے لگی۔ اس کے حکم سے سلطنت کے بعض اعلٰی حکام بددیانتی اور ظلم کے جرم میں گرفتار کیے گئے اور ان کو سخت سزائیں دی گئیں، ان واقعات کی خبریں تمام سلطنت میں پہنچیں اور رعایا کو اپنی جان و مال کی طرف سے اطمینان ہو گیا، سلیمان نے تمام صوبہ داروں کے پاس احکام بھیجے کہ رعایا کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی روا نہ رکھی جائے اور امیر وغریب، مسلم و غیر مسلم کے ساتھ یکساں طور پر انصاف کیا جائے، ان احکام کے نفاذ سے ہر طرف امن و امان قائم ہو گیا۔سلیمان اعظم کا عہدِ حکومت نہ صرف تاریخِ عثمانیہ بلکہ تاریخِ عالم کا ایک نہایت اہم دور ہے ،1520ء میںسلیم اولکے انتقال کے بعد عثمانی سلطنت کی باگ ڈور سلیمان اول کے ہاتھوں میں آئی اور یہیں سےدولت عثمانیہکے اس دور کا آغاز ہوتا ہے جو اپنی خوش حالی، استحکام اور وسعت کے اعتبار سے یادگار ہے۔ سلیمان نے اپنے 46 سالہ دور حکومت میںخلافت عثمانیہکو سیاسی برتری دلوانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے جو کوشش کی وہ بلاشبہ لائق صد تحسین ہے ان کا یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی بے حد ممتاز ہے کہ اس دور میں مسیحی و مغربی طاقتیں بیدار اور متحد ہو رہی تھیں،مغربی یورپکی سلطنتیں قرونِ وسطیٰ کے خلفشار سے نکل کر عہدِ جدید کی معرکہ آرائیوں کے لیے تیار ہو رہی تھیں،سلطنتِ عثمانیہاور ان کے درمیان چالیس سال سے کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی تھی،یورپمیںبایزید ثانیکی لڑائیاں چھوٹی چھوٹی مسیحی ریاستوں کے ساتھ محدود تھیں،سلیم اولکی توجہ تمام تر اسلامی سلطنتوں کی جانب مبذول رہی، اس مدت میںیورپکی سلطنتوں نے بہت نمایاں طور پر ترقی کر لی تھی،اسپینسے مورس کا اخراج ہو چکا تھا اور وہاں کی مختلف مسیحی ریاستیں متحد ہو کر ایک فرمان روا کے زیرِ حکومت آچکی تھیں،فرانساپنی خانہ جنگیوں کو ختم کرکے دوسرے ملکوں کی فتوحات کے لیے نکل چکا تھا،انگلستاناور سلطنتِآسٹریامیں بھی قوت و استحکام کی علامتیں ظاہر تھیں، من جملہ دیگر فنون کے فنِ حرب میں خصوصیت کے ساتھ بہت زیادہ ترقی ہو گئی تھی، باقاعدہ تنخواہ دار پیدل فوجیں بڑی تعداد میں رکھ لی گئیں تھیں، آتشیں اسلحوں کا استعمال کثرت سے کیا جارہا تھا، عیسائی سلطنتوں میں اپنی قوت کا احساس اور مسلمانوں سے تازہ مقابلے کا حوصلہ شدت سے پیدا تھا،یورپمذہبی جوش سے لبریز تھا اور باہمی عداوتوں کے باوجود تمام مسیحی سلطنتیںدولت عثمانیہکے مقابلے کے لیے آمادہ و مستعد تھیں اور بڑی بڑی شخصیات عثمانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آگئی تھیں مثلا شہنشاہچارلس پنجمجویورپکے نصف سے زائد حصے پر حکمران تھا جس میں موجودہاسپین،بیلجیئم،ہالینڈاورجرمنیشامل تھے، ادھرانگلستانمیں ملکہایلزبتھ اولحکمران تھی اورہنگریپر شاہ لوئی کا سکہ چل رہا تھا۔
+یہیورپکی بیداری کا زمانہ تھا۔فرانس،انگلستاناورآسٹریانے اپنے اختلافات ختم کر لیے تھے اور مسیحی طاقت متحد ہونے کی فکر میں تھیں۔دولت عثمانیہکے لیےچارلساور اس کے معاونین سے قوت آزمائی کرنا آسان نہ تھا، خصوصاً ایسی حالت میں کہایرانکی وسیع سلطنت دشمنی پر آمادہ تھی اورشامومصرمیں ہر وقت بغاوت کا خطرہ تھا، چنانچہ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے 26 سالہ دور حکومت میں سلیمان کسی نہ کسی جنگ یا مہم میں مصروف رہے اگرچہ درمیان میں مختصر وقفے بھی آئے لیکنجہادکا جو جذبہ سلیمان کے سینے میں موجزن تھا اس نے انھیں آخر وقت تک میدان عمل میں مصروف رکھا حتی کہ جنگ کے دوران ہی انھوں نےداعیاجل کو لبیک کہا۔ انھوں نے ذاتی طور پر 13 بڑی جنگوں میں شرکت کی جن میں سے تینایشیامیں اور 10یورپمیں لڑی گئی اور اس طرحسلطنت عثمانیہکی حدود میں 13 مرتبہ توسیع کی۔ اس میں شبہ نہیں کہسولہویں صدیمیں ترکوں کی عظیم الشان کامیابی کا سبب ان کی زبردست فوجی قوت اور اپنی قومی عظمت کا احساس تھا لیکن اس کامیابی کا اصل سبب یہ تھا کہ عنانِ سلطنت ایک ایسے فرمان روا کے ہاتھ میں تھی جودولت عثمانیہکا سب سے بڑا تاج دار اور اس وقت دنیا کا سب سے بڑا شہنشاہ تھا۔سلیم اولکے آخری دورِ حکومت میںسلطنت عثمانیہاور سلطنتہنگریکے درمیان آویزش پیدا ہو گئی تھی اور سرحدی علاقہ میں برابر چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں، اس خلش کو دور کرنے کے لیے سلیمان کوبلغراداور زباکز (Szabacez) کے سرحدی قلعوں کو فتح کرنا ضروری ہو گیا، ان قلعوں کی فتح سرحد کے استحکام کے لیے بھی ضروری تھی اوریورپمیں مزید فتوحات حاصل کرنے کے لیے بھی، چنانچہ سلیمان نےہنگریکے بادشاہ لوئی ثانی کے پاس اپنے سفیر بھیجے اور اس سے خراج کا مطالبہ کیا، لوئی نے اس مطالبہ کے جواب میںعثمانیسفراء کو قتل کرا دیا، سلیمان کو جب یہ خبر پہنچی تو وہ فوراًہنگریکی فتح کے لیے روانہ ہو گیا، اس کے فوجی سرداروں نے زباکر اور دوسرے قلعوں کا محاصرہ کرکے قبضہ کر لیا، اس کے بعد سلیمان خودبلغرادکی طرف بڑھا اور اس شہر کے گرد جس نےمحمد فاتحجیسے سلطان کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا، اپنے خیمے نصب کردئے، سات روز کی گولہ باری کے بعد 25 رمضان 927ھ (21 اگست 1521ء) کوبلغرادفتح ہو گیا، فتح کے بعد نہ قلعہ کے فوجی دستے کا قتلِ عام ہوا اور نہ شہر کے باشندے قتل کیے گئے، سلیمان نے وہاں کے سب سے بڑے گرجا میںنمازادا کی اورتثلیثکے اس عظیم الشانمعبدکو خدائے واحد کی پرستش کے لیے مخصوص کر دیا، اس کے بعد اس نےبلغرادمیں ایکترکیدستہ متعین کیا اور قلعہ کو ازسرِ نو مضبوط اور مستحکم کرکےقسطنطنیہواپس ہوا،بلغرادکے علاوہ سرحد کے دوسرے قلعوں پر بھیعثمانیوںنے قبضہ کر لیا اورہنگریمیں داخل ہونے کے تمام دروازے ان کے لیے کھل گئے۔بلغرادکی فتح کا ایک اثر یہ ہوا کہجمہوریہ وینسنے ازسرِنو اپنے کوسلطنتِ عثمانیہکا باج گزار تسلیم کر لیا اور جزائرقبرص(سائپرس) وزانطہ کا خراج دو چند کر دیا.رودوشکی فتح مختلف وجوہ سے ضروری تھی،بلغراداوررودوشیہی دو معرکے تھے جن میںسلطان محمد فاتحنے شکست کھائی تھی،بلغرادکی فتح نےسلطنت عثمانیہکے دامن سے ایک شکست کا داغ تو دھودیا، سلیمان کی عالی حوصلگی دوسرے دھبے کے دھونے کے لیے بے قرار تھی، علاوہ بریںرودوشکے جہاز بحر روم کے مشرقی حصہ میں اور مجمع الجزائر اوراناطولیہکے ساحلوں پر لوٹ مار مچائے رہتے تھے،رودوشکی فتح اس وجہ سے بھی ضروری تھی کہقسطنطنیہاورشامومصرکے درمیان جو تعلقات اب قائم ہو گئے تھے ان میں مبارزینِرودوشاپنے جہازوں کے ذریعے رخنہ انداز ہوتے رہتے تھے، ان اسباب کی بنا پر سلیمان نے اس جزیرہ پر قبضہ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا اور تین سو جہازوں کا عثمانی بیڑاقسطنطنیہسےرودوشکی جانب روانہ کیا، ساتھ ہی وہ خود بھی ایک لاکھ فوج لے کر ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل کی طرف بڑھا، بحری اور بری فوجوں کے جمع ہونے کی جگہ خلیج مارمریس قرار پائی، جو رودوش کے محاذ میں واقع ہے، 4 رمضان 928ھ (28 جولائی 1522ء) کو سلطانرودوشکے ساحل پر اترے اور 8 رمضان 928ھ (یکم اگست 1528ء) کورودوشکا محاصرہ شروع ہوا، جو تقریباً 5 ماہ تک جاری رہا۔رودوشکےراہبمبارزین نے نہایت شجاعت کے ساتھ مدافعت کی لیکن محاصرین کی قوت سے مجبور ہوکر بالآخر انھیں 6 صفر 929ھ (25 دسمبر 1522ء) کو ہتھیار ڈال دینے پڑے، سلیمان نے ان کے ساتھ جو مراعات برتیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی شجاعت کا کس درجہ قدردان تھا، اس نے مبارزین کو اجازت دے دی کہ بارہ روز کے اندر اپنے تمام اسلحوں اور سامانوں کو لے کر اپنے ہی جہازوں پررودوشسے چلے جائیں اور اگر ضرورت سمجھیں تو عثمانی جہازوں کو بھی کام میں لائیں،رودوشکے باشندوں کو سلطان کی رعایا بننے کے بعد پوری مذہبی آزادی دے دی گئی، سلطان نے صراحت کے ساتھ وعدہ کیا کہ ان کے کلیساؤں سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا، ان کے بچے والدین سے چھینے نہ جائیں گے اور پانچ سال تک ان سے کسی قسم کے ٹیکس یا محصول کا مطالبہ نہ ہوگا، سلیمان نے اپنی فوجیں قلعہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہٹالیں تاکہ مبارزین امن و سکون کے ساتھ قلعہ سے نکل جائیں لیکنینی چریباوجود سخت روک تھام کے بے قابو ہو گئے اور شہر میں داخل ہوکر تھوڑی دیر تک لوٹ مار کرتے رہے، تاہم اور تمام شرائیط سلیمان کی طرف سے نہایت دیانتداری کے ساتھ پورے کیے گئے، مبارزینِرودوشنے وہاں سے نکلنے کے بعد آٹھ سال تکجزیرہ کریٹمیں قیام کیا اور پھر مستقل طور پر جزیرہمالٹامیں جاکر آباد ہو گئے۔بلغراداوررودوشکی فتح کے بعدہنگری،سسلیاوراٹلیکے راستے سلیمان کے لیے کھل گئے لیکنمصرکی بغاوت اور ایشیائے کوچک کی شورش کے باعث اسے پہلےمشرقکی جانب متوجہ ہونا پڑا اور یورپین سلطنتوں کو دو سال کی مہلت مل گئی، احمد پاشا نے جو خیربے کے انتقال کے بعد 928ھ (1522ء) میںمصرکا حاکم مقرر تھا، علمِ بغاوت بلند کیا، اس بغاوت کو فرو کرنے کے لیے سلیمان نے ایک فوج مصر روانہ کی، احمد پاشا کو شکست ہوئی اور قتل کر دیا گیا، اس کے بعد سلیمان نے صدرِ اعظمابراہیم پاشاکو حکومتِمصرکے انتظام و استحکام کے لیے مامور کیا اور خود سلطنت کے داخلی انتظامات کی طرف متوجہ ہوا، 931ھ (1525ء) کے اوائل سرما میں وہ شکار کی غرض سےقسطنطنیہسےادرنہچلا گیا،رودوشکی فتح کو ڈیڑھ سال کی مدت گذر چکی تھی،ینی چریکو امن کا یہ زمانہ نہایت گراں گذر رہا تھا، چنانچہ سلیمان کی عدم موجودگی میں انھوں نےقسطنطنیہمیں بغاوت برپا کردی اور وزراء اور دوسرے بڑے بڑے عہدہ داروں کے مکانات لوٹ لیے، یہ خبر سن کر سلیمانادرنہسےقسطنطنیہلوٹا اور اس شورش کو فرو کرنے کی کوشش کی، اس نے باغیوں کے بعض سرداروں کو قتل کرادیا، دو کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا اور پھر عام سپاہیوں کو انعام و اکرام دے کر بغاوت کا خاتمہ کر دیا۔وزیرِ اعظمابراہیم پاشااس وقتمصرمیں تھا، سلیمان نے اسے واپس بلالیا اورہنگریکی مہم کی تیاری شروع کردی،ینی چریکی بغاوت سے اس کو تجربہ ہو گیا تھا کہ سلطنت کے امن کے لیے اس فوج کو جنگ میں مصروف رکھنا ضروری ہے،بلغرادکی فتح کے بعد سے اگرچہ کوئی بڑی جنگہنگریکے ساتھ پیش نہیں آئی تھی تاہم چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کا سلسلہ قائم تھا، علاوہ بریںفرانسس اولشاہِفرانسنے جسے شہنشاہ چارلس پنجم نے پیویا کی جنگ 1521ء میں شکست دے کر قید کر لیا تھا، سلیمان سےہنگریپر حملہ کرنے کی بہ منت استدعا کی تاکہ چارلس پنجم کو اپنی توجہفرانسسے ہٹاکرہنگریکی جانب مبذول کرنی پڑے، جس کی سرحدآسٹریاسے ملی ہوئی تھی، پھر اسی زمانہ میں شاہِایراننے شہنشاہ چارلس پنجم اور شاہِہنگریکے ساتھسلطنتِ عثمانیہکے خلاف ایک جارحانہ اور مدافعانہ اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی، ان وجوہ سے سلیمان نےہنگریپر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا، ایک لاکھ فوج اور تین سو توپوں کے ساتھ روانہ ہوا،قسطنطنیہسے روانہ ہونے کے پانچ ماہ بعد 20 ذی قعدہ 932ھ (28 اگست 1526ء) کو موباکز کے میدان میںہنگریکی فوج سے مقابلہ ہوا، عثمانی لشکر کو اپنی کثرتِ تعداد اور توپ خانوں کی بنا پر بہت کچھ فوقیت حاصل تھی، دو گھنٹہ سے کم ہی میں جنگ اور ساتھ ہیہنگریکی قسمت کا بھی فیصلہ ہو گیا، شاہ لوئی، اس کے آٹھ اسقف، اعیانِہنگریکی ایک بڑی تعداد اور چوبیس ہزار سپاہی مارے گئے، لوئی بھاگتا ہوا دریا میں ڈوب کر مرا، 30 ذی الحجہ 932ھ (10 ستمبر1526ء) کو سلیمانہنگریکے پایہ تخت بودابڈاپسٹپہنچا، باشدگانِ شہر نے ہتھیار ڈال کر دروازے کھول دئے،ہنگریکے جو امرا موباکز کی تباہی سے بچ گئے تھے انھوں نے سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوکر اطاعت کا حلف لیا، چوں کہ شاہ لوئی لاولد مرگیا تھا، اس لیے سلیمان کی تحریک سے ان امرا نےہنگریکے تخت کے لیے کانٹ زاپولیا (Count Zapulya) کا انتخاب کیا، جو ٹرانسلوینیا کا امیر اورہنگریکے اکابر میں تھا، اس کے چند دنوں بعد سلیمان کو اطلاع ملی کہ ایشیائے کوچک میں کچھ بغاوت کی صورتیں رونما ہو رہی ہیں، چنانچہ وہ فوراً بودا سےقسطنطنیہکی طرف روانہ ہو گیا،ہنگریکے بعض سرحدی قلعوں میںترکیدستے متعین کردئے گئے۔ہنگریکے تخت کے لیے زاپولیا کا انتخاب خانہ جنگی کا باعث ثابت ہوا، آرک بوک فرڈیننڈ جو شہنشاہ چارلس پنجم کا بھائی تھا اور جسے چارلس پنجم نےآسٹریاکی آرچ ڈچی منتقل کردی تھی، ایک صلح نامہ کی رو سے جو چارلس پنجم اور سابق شاہ لوئی کے درمیان ہو چکا تھا،ہنگریکے تخت کا دعوے دار ہوا، دوسری طرف زاپولیا اور اس کے حامیوں نے اپنی موافقت میںہنگریکا ایک قدیم قانون پیش کیا، جس کی رو سےہنگریکے باشندے کے علاوہ کوئی دوسرا شخص وہاں کا بادشاہ منتخب نہیں ہو سکتا تھا لیکن باوجود اس قانون کے مغربیہنگریکے امرا نے فرڈیننڈ کو منتخب کر لیا، اس کے بعد جنگ ناگزیر ہو گئی، فرڈیننڈ کے ساتھآسٹریاکی مدد شامل تھی، اس نے زاپولیا کو شکست دے کر ملک کے باہر بھگا دیا، زاپولیا نےپولینڈمیں پناہ لی اور وہاں سے سلیمان کی خدمت میں مدد کی درخواست بھیجی، یہ سن کر فرڈیننڈ نے بھی اپنا ایک سفیر سلیمان کے دربار میں بھیجا اور نہ صرفہنگریکے تخت کے لیے حمایت کی استدعا کی بلکہبلغراداورہنگریکے دوسرے شہروں کی واپسی کا بھی جوسلطنت عثمانیہمیں شامل ہو چکے تھے، مطالبہ کیا، سلیمان نے فرڈیننڈ کے مطالبہ سے برافروختہ ہو کر اس کے سفیر کو رخصت کر دیا اور زاپولیا کے سفیر کو اطمینان دلایا کہ وہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔10 مئی 1529ء کو سلیمانقسطنطنیہسے روانہ ہوا اور ڈھائی لاکھ فوج اور تین سو توپوں کے ساتھہنگریمیں داخل ہوکر 3 ستمبر 1529ء کو پایہ تخت بودا پہنچا اور اس کا محاصرہ کر لیا، چھ روز میں بودا فتح ہو گیا اور زاپولیا دوبارہ تخت پر بٹھا دیا گیا، اس کے بعد سلیمانآسٹریاکے مشہور دار السلطنتویاناکی طرف بڑھا۔زاپولیا کو اس کے عہدے پر بحال کیا اور فتنے کی جڑ کاٹنے کی غرض سےآسٹریاکا رخ کیا۔ 27 ستمبر کو دار الحکومتویاناکا محاصرہ شروع کیا۔ یہ محاصرہ طویل ہو گیا، موسم بہت خراب تھا، رسد کی کمی تھی، راستوں کی خرابی کی وجہ سے سلطان کو بڑی توپیںہنگریمیں ہی چھوڑنی پڑی تھیں، اس لیے یہ محاصرہ بے نتیجہ رہا اور سلطان کو واپس آنا پڑا لیکنیورپکے قلب تک مسلمانوں کے قدم پہنچنے کے باعث ان کی اہل یورپ پر بڑی دھاک بیٹھ گئی۔ تین سال بعد سلطان نے پھرآسٹریاکا رخ کیا لیکن صرف ایک مقام گونز کو فتح کرنے میں تین ماہ کا عرصہ لگ گیا وار وہاں سےآسٹریاکو فتح کرکے سلطان نومبر میںقسطنطنیہواپس پہنچ گئے اور پھرآسٹریاسے عارضی صلح ہو گئی۔سلیمان کا چھٹا بڑا حملہایرانکے خلاف تھا۔ سلطان کے وزیر اعظم ابراہیم نے 941ھ بمطابق جولائی 1534ء میںتبریزپر قبضہ کر لیا۔ ستمبر میں سلطان بذات خود اس شہر میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے۔ یہاں سے ترک فوج نےہمدانکے راستےبغدادکا رخ کیا۔ سلطان بغداد میں چار ماہ رہے پھر ایرانیوں نے چونکہ مفتوحہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا اس لیے ترک افواج نے ایک بار پھر ایران کا رخ کیا اورآذربائیجاناور دیگر کئی علاقے فتح کرلئے۔ 23رجب943ھ بمطابق 17 جنوری 1534ء کو سلطان واپسقسطنطنیہپہنچ گیا۔اس کے بعد سلطان چند سالوں تک مختلف چھوٹی بڑی مہمات میں مصروف رہے۔ ادھر فرڈیننڈ اور زاپولیا نے ہنگری کو ایک معاہدے کے تحت آپس میں تقسیم کر لیا تھا لیکن صرف ایک سال بعد زاپولیا کا انتقال ہو گیا تھا جس کے بعد فرڈیننڈ نے اپنی حریف طبیعت سے مجبور ہوکر پھر پورے ہنگری پر قبضہ جمانا چاہا، سلطان کو یہ اطلاعات ملیں تو انھوں نے ربیع الآخر 948ھ بمطابق اگست 1541ء میں ہنگری کا رخ کیا۔ شہر بوڈا اور دیگر کئی شہر فتح کیے اور انھیں اپنی مملکت میں شامل کر لیا اور صرف ٹرانسلوانیا کو زاپولیا کی بیوہ ملکہ ایزابیلا کے لیے چھوڑ دیا۔ دالپور، ہیکلوس، فونفکیرشن پر بھی مس��مانوں کا قبضہ ہو گیا۔ یہاں ترک دستے متعین کر دیے گئے۔ ہنگری کو سنجقوں میں تقسیم کر دیا گیا اور یہاں ترک گورنر مقرر کیے گئے۔1547ء میں شہنشاہ چارلس پنجم اور فرڈیننڈ نے سلطان سے سات سالہ صلح کرلی اور ہنگری اور ٹرانسلوانیا پر سلطان کا قبضہ ہو گیا۔ فرڈیننڈ نے ایک کثیر رقم سالانہ خراج دینے کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد چند سالوں میں سلطان نے ایران میں اندر تک حملے کیے۔بغداد،موصل،یریوان،آرمینیااوربین النہرین(میسوپوٹیمیا) کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ ادھرعدنپر قبضہ کیا اوربحیرہ روممیں اپنے طاقتور بحری بیڑے اورامیر البحرخیر الدین پاشا باربروساکے شاندار کارناموں کی بدولتالجزائر،طرابلساوربحیرہ ایجیئنکے متعدد جزیرے فتح کیے۔ اس زمانے میں بری قوت کے اعتبار سےایشیایایورپکی کوئی سلطنت دولت عثمانیہ کے برابر نہ تھی اور بحری لحاظ سے بھی اس کا شمار دنیا کی چند بڑی مملکتوں میں ہوتا تھا۔پارگلی ابراہیم پاشاجسےفرنگ ابراہیم پاشا(مغربی)،مقبول ابراہیم پاشاجوتوپ قاپی محلمیں اس کی موت کے بعدمقتول ابراہیم پاشاہو گیا۔ وہسلطنت عثمانیہکا پہلا وزیر اعظم تھا جسے سلیمان اول نے یہ مرتبہ عطا کیا۔ابراہیمپارگاکا پیدائشی مسیحی تھا جسے بچن میں ہی غلام بنا دیا گیا۔ وہ اور سلیمان اول بچپن سے ہی گہرے دوست بن گئے تھے۔ سلطان سلیمان نے1523ءوزیر اول پیری محمد پاشا کو جسے اس کے والدسلیم اولنے وزیر اول مقرر کیا تھا، تبدیل کر کے ابراہیم پاشا کووزیر اعظممقرر کیا۔ ابراہیم تیرہ سال تک اس عہدے پر فائز رہا۔ لیکن1536ءمیں سلطان نے ابراہیم پاشا کو سزائے موت کا حکم دیا اور اس کی جائداد بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔1520ءمیں سلیمان اول کے تخت نشین ہونے کے بعد اسے مختلف عہدے ملے، جس میں سب سے پہلے وہمصاحب خاصبنا۔سلیمان کی فوج کے ایک ماہر کماندار ہونے کے باوجد فارسیصفوی سلطنتکے خلاف جنگ میں وہ سلطان کی نظروں سے گر گیا۔عثمانی-صفوی جنگ (1532-55)کے دوران اس نے اپنے نام کے ساتھسلطانبھی شامل کر لیا، جسے سلیمان نے اپنے لیے سنگین توہین گردانا۔[5]اس کے علاوہ ابراہیم اور اس کے سابقہ ناصح سکندرچلبی کے مابین صفوی جنگ کے دوران بار بار فوجی قیادت اور پوزیشنوں پر جھڑپیں ہوئیں۔ ان واقعات کی بنا پر1536ءمیں اسے سزائے موت دی گئی ( سکندرچلبی کو ایک سال قبل1535ءمیں سزائے موت دے دی گئی)۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابراہیم پاشا سلیمان اول کی بیویخرم سلطانکی سازشوں کا شکار ہوا۔ ابراہیمشہزادہ مصطفیجوماہ دوراں سلطاناور سلیمان اول کا سب سے بڑا بیٹا تھا اور تخت کا ظاہری وارث بھی تھا کوسلطانبنانا چاہتا تھا مگرخرم سلطاناپنے بیٹے کوسلطانبنانا چاہتی تھی۔شہزادہ مصطفیکو6 اکتوبر،1553ءکو سلطان نے غداری کے جرم میں موت کی سزا سنائی، جس کے لیےخرم سلطاننے عرصے سے سازشوں کا جال بن رکھا تھا۔1565ء میں آسٹریا سے جنگ پھر شروع ہو گئی جس میں مسیحیوں نے کچھ کامیابیاں حاصل کیں۔ سلطان اس زمانے میں بیمار تھے انھیں گٹھیا کی شکایت تھی اس کے باوجود مردانہ وار افواج کی قیادت کے لیے نکل آئے۔ آسٹریا کے قلعہ سگتوار کا محاصرہ 2 اگست 1565ء کو شروع ہوا اور8 ستمبرتک جاری رہا اور قلعہ فتح ہو گیا اور اس وقت جب لشکر اسلام کامیابی کے پھریرے لہراتا ہوا قلعے میں داخل ہو رہا تھا لیکن سپاہی اس اندوہناک حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان کا محبوب سلطان اب ان کے درمیان نہیں بلکہ وہ 9 اور 10 صفر بمطابق 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی شب ہی انھیں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے ج�� ملا ہے۔ سلطان کی وفات کی خبر وزیر اعظمصوقوللی پاشانے دانستہ مخفی رکھی اور فتح کے بعد اسے عام کیا۔ فتح کے شادیانے فورا موقوف ہو گئے اور فضا سوگوار ہو گئی۔ سلطان کی میت واپس قسطنطنیہ لائی گئی جہاں خود ان کی تعمیر کردہ مسجد سلیمانیہ میں انھیں سپردخاک کیا گیا۔سلطان نے حکومت کے اداروں کا انتظام اس قدر عمدگی سے کیا کہ اسے مثالی انتظام کہا جا سکتا ہے۔ ان کا دور ایک جمہوری دور تھا۔ انھوں نے شاہی خاندان کے افراد کی بجائے وزیر اعظم صوقوللی پاشا کو نظم و نسق سونپ دیا تھا۔ انھوں نے قانون سازی کی طرف خصوصی توجہ دی، فوج کی نظم و تربیت، فوجی نظام جاگیرداری، زمینی جائداد کے قوانین، پولیس اور فوج کی خدمات کے عوض جاگیر وغیرہ دینے کا ضابطہ اور آئین مرتب کروایا۔ انھوں نے محصول کی مقدار خود مقرر کی تھی۔ قانون کی رو سے کاشتکار اراضی کا مالک تھا۔ کاشتکاروں کو میسر سہولیات کی وجہ سے ہنگری کے علاقوں میں مقیم اکثر مسیحی کاشتکار بھاگ کے مسلمانوں کے علاقے میں آباد ہو گئے۔ مختلف جرائم کے لیے سزائیں مقرر کی گئیں اور ان تمام قوانین کو بعد میں مجموعے کی شکل میں مرتب کیا گیا۔
+سلطان نے ملک بھر میں اشیائے صرف کی قیمتیں مقرر کیں،محکمۂ انسداد بے رحمی حیوانات بنوایا۔ سرکاری دفاتر میں ریکارڈ مرتب کروائے جو ""کوتکات"" کہلاتے تھے۔ انھوں نے آب رسانی کے نظام کو بھی بہت ترقی دی۔ قسطنطنیہ میں ایک بڑی نہر جاری کروائی اور مکہ مکرمہ کی پرانی نہروں کی مرمت کروائی۔ بڑے شہروں میں ہسپتال قائم کیے اور پل بنوائے۔ مکہ مکرمہ میں چاروں فقہی مذاہب کے لیے چار مدرسے قائم کیے۔ متعدد شہروں میں خوبصورت مساجد تعمیر کروائیں جن کے ساتھ مدارس بھی کام کرتے تھے۔1424ء میں سلطانمراد ثانیکے زمانے میںشیخ الاسلامکا عہدہ قائم ہوا تھا، سلطان سلیمان نے اسے برقرار رکھا اور یہ عہدہ دولت عثمانیہ میں 498 سال تک رہا اور اس پر 131 علما فائز ہوئے۔سلطان نے فوج کو بہتر بنانے کا خاص انتظام کیا ان کے پاس مستقل تنخواہ دار فوج 24 ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا لیکن جنگ کے موقع پر دو لاکھ سپاہی میدان میں لائے جا سکتے تھے۔ انھوں نے فوج کو محض انتقامی جذبے سے کبھی کسی مہم پر روانہ نہیں کیا۔ جب بھی فوج جنگ کے لیے روانہ ہونے لگتی تو اسے سختی سے تاکید کی جاتی کہ وہ عوام کی جان و مال کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔سلطان سلیمان ایک عظیم فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شاعر بھی تھے۔فن تعمیر وہ میدان ہے جس میں سلطان کے کارنامے آج بھی مستحکم صورت میں اپنی نوعیت اور جاہ و جلال کی داستاں بیان کر رہے ہیں۔ سلطان نے مفتی ابو السعود کے فتوے کی بنیاد پر کعبۃ اللہ کی از سر نو تعمیر کروائی۔ سلطان کی تعمیر نے ترک ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ہم سلیمان قانونی کو سلطنت عثمانیہ کاشاہجہاںکہہ سکتے ہیں۔ ان کے دور کے مشہور ترینمعمارسنان پاشاتھے۔ سلطان کے دور میں جو مساجد تعمیر ہوئیں ان میں بلند ترین مقامجامع سلیمانیہکا ہے جو 1550ء سے 1556ء کے درمیانی عرصے میں تعمیر ہوئی۔ یہ عظیم مسجد شہرقسطنطنیہ(موجودہاستنبول) کی سب سے اونچی پہاڑی پر تعمیر کی گئی اور آج بھی موجود ہے۔ سلطان کی قبر مسجد کے صحن میں موجود ہے اور وہیںسلیمان ثانیاور کئی دیگر عثمانی خواتین کی قبریں بھی ہیں۔ان تمام کارناموں اور خوبیوں کی وجہ سے سلیمان اعظم نے وہ بلند مقام حاصل کر لیا جوخلفائے راشدینیاعمر بن عبدالعزیزکا تھا بلکہ ہم انھیںنور الدین،صلاح الدیناوراورنگزیبجیسی ج��یل القدر ہستیوں کے مقابلے میں بھی ان سے بھی عظیم سلطان پیش کرسکتے۔،وہ ایک عظیم مطلق العانی حکمران تھے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرتا تھے، ہر معاملے کو عدالت میں پیش کرنا ضروری نہیں سمجھتا تھے۔ وہ ایک با اختیار عظیم سلطان ، خلیفہ اور شہنشاہ تھے۔سلطان سلیمان کا دل"
+609,حجاز,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%D8%AC%D8%A7%D8%B2,شمال مغربیسعودی عربکا ایک علاقہ جوبحیرہ قلزمکے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مربع میل ہے۔مکہاورمدینہکے شہر اسی علاقے میں واقع ہیں۔ قدیم و جدید عرب تہذیب کا گہوارہ ہے۔ 1913ء تکسلطنت عثمانیہکے زیر تسلط رہا۔ 1932ء میںنجدو حجاز کے اتحاد سےسلطنت سعودیوجود میں آئی۔[1]خطہ حجاز بحیرہ احمر کے قریب واقع ہے۔ یہ خطہ گہرے رنگ کی ریت کی وجہ سے مشہور ہے۔ حجاز مقدس سروات کے پہاڑی سلاسل پر مشتمل ہے جو نجد کو تہاما سے علاحدہ کرتا ہے۔
+610,ترکیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%8C,"ترکیہ[ا]رسمی طور پرجمہوریہ ترکیہ[ب]بنیادی طور پرمغربی ایشیامیںاناطولیہمیں ایک ملک ہے، جس کا ایک چھوٹا حصہجنوب مشرقی یورپمیںمشرقی تھریسکہلاتا ہے۔
+اس کی سرحد شمال میںبحیرہ اسودسے ملتی ہے۔ مشرق میںجارجیا،آرمینیا،آذربائیجاناور جنوب میںایران،عراق،سوریہ، اوربحیرہ روم(اورقبرص)؛ اور مغرب میںبحیرہ ایجیئن،یوناناوربلغاریہسے ملتی ہے۔
+ترکیہ 85 ملین سے زیادہ لوگوں کا گھر ہے۔ زیادہ تر نسلی ترک ہیں، جبکہ نسلی کرد سب سے بڑی نسلی اقلیت ہیں۔[4]سرکاری طور پر ایک سیکولر ریاست، ترکیہ میںمسلماکثریتی آبادی ہے۔انقرہترکیہ کادار الحکومتاور دوسرا بڑاشہرہے۔استنبولاس کا سب سے بڑا شہر ہے، اور اس کا اقتصادی اور مالیاتی مرکز، نیزیورپکا بھی سب سے بڑا شہر ہے۔ دیگر بڑے شہروں میںازمیر،بورصہاورانطالیہشامل ہیں۔انسانیرہائش کا آغازبالائی قدیم سنگی دوراواخر میں ہوا تھا۔گوبیکلی تپہجیسے اہم سنگی دور مقامات کا گھر اور کچھ قدیم ترین کاشتکاری والے علاقے، موجودہ ترکیہ میں مختلف قدیم لوگ آباد تھے۔[11][12][13]حتییوںکواناطولیہکے لوگوں نے ضم کر لیا تھا۔[14][15]کلاسیکی اناطولیہمیںسکندر اعظمکی فتوحات کے بعد ثقافتی ہیلنائزیشن میں تبدیل ہوا؛[16][17]سلجوق ترکوں نےگیارہویں صدیمیںاناطولیہکی طرف ہجرت شروع کر دی، جس سےترک سازیکا عمل شروع ہوا۔[17][18]سلاجقہ رومنے1243ءمیںمنگولحملے تکاناطولیہپر حکومت کی، جب یہ ترکی کی سلطنتوں میں بٹ گئی۔[19]1299ءمیں شروع ہو کر،عثمانیوںنےسلطنتوںکو متحد کیا اور توسیع کی۔محمد فاتحنے1453ءمیںاستنبولکو فتح کیا۔سلیم اولاورسلیمان اولکے دور میں،سلطنت عثمانیہایک عالمی طاقت بن گئی۔[20][21]1789ءکے بعد سے، سلطنت نے بڑی تبدیلی،اصلاحاتاور مرکزیت دیکھی جب کہ اس کے علاقے میںکمیواقع ہوئی۔[22][23]انیسویں صدیاوربیسویں صدیکے اوائل میں، عثمانی تخفیف اورروسی سلطنتکے دورانمسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستمکے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا اوربلقان،قفقازاورکریمیاسے جدید دور کے ترکیہ میں بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی۔[24]تین پاشاوںکے کنٹرول میں،سلطنت عثمانیہ1914ءمیںپہلی جنگ عظیممیں داخل ہوئی، جس کے دوران عثمانی حکومت نے اپنے آرمینیائی، یونانی اور آشوری رعایا کے خلاف نسل کشی کی۔[25][26][27]عثمانی شکست کے بعد،ترک جنگ آزادیکے نتیجے میں سلطنت کے خاتمے اورمعاہدہ لوزانپر دستخط ہوئے۔
+جمہوریہ کا اعلان29 اکتوبر1923ءکو کیا گیا تھا، جو ملک کے پہلے صدرمصطفٰی کمال اتاترککی طرف سے شروع کی گئی اصلاحات پر مبنی تھا۔دوسری جنگ عظیمکے بیشتر دوران ترکیہ غیر جانبدار رہا،[28]لیکنکوریا جنگکی میں شامل رہا۔1960ءاور1980ءمیں بغاوتوں نے کثیر جماعتی نظام کی منتقلی میں خلل ڈالا۔[29]ترکیہ ایکاعلیٰ متوسط آمدنیوالا اورابھرتاہوا ملک ہے۔ اس کی معیشت برائے نام کے لحاظ سےدنیا کی 18 ویںسب سے بڑی اورمساوی قوت خریدکے مطابقخام ملکی پیداوارکے لحاظ سے 11 ویں سب سے بڑی ہے۔ یہ ایکوحدانیصدارتی جمہوریہ ہے۔ ترکیہانجمن اقتصادی تعاون و ترقی،جی 20، اورترک ریاستوں کی تنظیمکا بانی رکن ہے۔ جغرافیائی طور پر اہم مقام کے ساتھ، ترکی ایک علاقائی طاقت ہے[30]اورنیٹوکا ابتدائی رکن ہے۔یورپی یونینامیدوار، ترکیہیورپی یونینکسٹمز یونین،یورپ کی کونسل،تنظیم تعاون اسلامی، اورترک سوئےکا حصہ ہے۔ترکیہ میں ساحلی میدان، ایک اعلیٰ مرکزیسطح مرتفعاور مختلف پہاڑی سلسلے ہیں۔ اس کیآب و ہوامعتدل ہے اور اندرونی حصے میں سخت حالات ہیں۔[31]تینحیاتی تنوع علاقہکا گھر، ترکیہ اکثر زلزلوں کا شکار رہتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔[32]ترکیہ اکثر زلزلوں کا شکار رہتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔[33][34]ترکیہ میں وفاقی صحت کی دیکھ بھال، تعلیم تک بڑھتی ہوئی رسائی،[35]اور بڑھتی ہوئی جدت پسندی ہے۔[36]یہ ایک سرکردہٹی وی موادبرآمد کنندہ ہے۔[37]21 یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات، 30 یونیسکو کے غیر محسوس ثقافتی ورثے کے نوشتہ جات، v اور ایک بھرپور اور متنوع کھانوں کے ساتھ،[38]ترکیہ دنیا کاپانچواںسب سے زیادہ دیکھا جانے والا ملک ہے۔تورچیا، جس کا مطلب ہے ""ترکوں کی سرزمین""،اناطولیہکے لیےبارہویں صدیکے آخر تک یورپی متن میں استعمال ہونا شروع ہو گیا تھا۔[39][40][41]ترکی زبانوںمیں ایک لفظ کے طور پر، ترک کا مطلب ہو سکتا ہے ""مضبوط، طاقت، پکا ہوا"" یا ""پھلتا ہوا، پوری طاقت میں""۔[42]اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے جیسے کسی پھل کے لیے پکا ہوا ہو یا کسی شخص کے لیے ""زندگی کے عروج میں، جوان اور جوش""۔[43]ایک نسلی نام کے طور پر،اشتقاقیاتابھی تک نامعلوم ہے.[44]چھٹی صدیمیں چینی جیسی زبانوں میں استعمال کے علاوہ،[45]ترک زبانوں میں ترک (𐱅𐰇𐰺𐰜 tür̲k̲ یا 𐱅𐰇𐰼𐰚 türk/tẄrk) کا سب سے قدیم تذکرہ ترک زبان دوسریخانیتسے آتا ہے۔[46]وسطی انگریزیترکیے (Turkye) کے استعمال کا ثبوتجیفری چوسرکی دی بک آف ڈچس ( 1369ء) میں ملتا ہے۔
+جدید ہجے ترکی (Turkey) کم از کم1719ءکا ہے۔[47]ترکیہ کا نامسلطنت عثمانیہکی تعریف کے لیے متعدد بین الاقوامی معاہدوں کے متن میں استعمال ہوا ہے۔[48]الیگزینڈروپول کے معاہدے کے ساتھ، نامترکیہ(Türkiye) پہلی بار بین الاقوامی دستاویزات میں داخل ہوا۔1921ءمیںامارت افغانستانکے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں،سلطنت عثمانیہکے نام کی طرح ڈیولٹ-آئی الیائی-ای ترکئیے ('بہترین ترک ریاست') کا استعمال کیا گیا تھا۔[49]دسویں صدیمیںبازنطینیذرائع میں، تورکیا (یونانی زبان): Τουρκία) دوقرون وسطیکی ریاستوں کی تعریف کے لیے استعمال کیا گیا تھا:مجارستان(مغربی تورکیا)؛ اورخزر(مشرقی تورکیا)۔[50][51]سلطنت مملوکاپنی ترک نژاد حکمران اشرافیہ کے ساتھ، ""دولت ترکیا"" کہلاتی تھی۔[52]ترکستان، جس کا مطلب ""ترکوں کی سرزمین"" بھی ہے،وسط ایشیاکے ایک تاریخی خطے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔[53]دسمبر2021ءمیں صدررجب طیب ایردواننےترکیہ (Türkiye)کو برآمدات کے لیے اور بین الاقوامی اداروں اور دیگر ممالک کے ساتھ حکومتی را��طے میں استعمال کرنے پر زور دیا۔[54][55]اس کی وجہ یہ تھی کہترکیہ (Türkiye)""ترک قوم کی ثقافت، تہذیب اور اقدار کی بہترین انداز میں نمائندگی اور اظہار کرتا ہے""۔[54]مئی2022ءمیں ترک حکومت نےاقوام متحدہاور دیگر بین الاقوامی تنظیموں سے انگریزی میں سرکاری طور پر (Türkiye) استعمال کرنے کی درخواست کی۔اقوام متحدہنے اتفاق کیا۔[56][57][58]ترکیہ کی تاریخاس سرزمین کی تاریخ ہے جو آج جمہوریہ ترکیہ کی تشکیل کرتی ہے اور اس میںاناطولیہ، مشرقی تھریس اورگریٹرکردستاناورآرمینیا کےکچھ حصے شامل ہیں۔ترکیہکی تاریخ، جمیل کببا کی تاریخ کے طور پر سمجھی جاتی ہے جس خطے میں اب جمہوریہ ترکیہ کا علاقہ تشکیل پاتا ہے،اناطولیہ(ترکیہ کا ایشیائی حصہ) اور مشرقی تھریس (ترکیہ کا یورپی حصہ) دونوں کی تاریخ بھی شامل ہے۔[59][60]موجودہ ترکیہ میںبالائی قدیم سنگی دورکےانسانآباد رہے ہیں اور اس میں دنیا کے قدیمنیا سنگی دورکے مقامات موجود ہیں۔[63][64]گوبیکلی تپہکی عمر 12,000 سال کے قریب ہے۔[63]اناطولیہکے کچھ حصوں میں زرخیز ہلال شامل ہے، جو کہ زراعت کی اصل ہے۔[65]نیا سنگی دورکےاناطولیہکے کسانایراناوروادی اردنکے کسانوں سے جینیاتی طور پر مختلف تھے اور کھیتی باڑی کویورپمیں پھیلاتے تھے۔[66]دیگر اہمنیا سنگی دورمقامات میںچاتالہویوکاورآلاجا ہوئیوکشامل ہیں۔ .[67]ٹرائےکی ابتدائی پرتیںتانبے کا دورکی ہیں۔[67]یہ معلوم نہیں ہے کہٹرائے کی جنگتاریخی واقعات پر مبنی ہے۔[68]ٹرائے کی موخربرنجی دورکی پرتیںایلیاڈکی کہانی سے زیادہ ملتی ہیں۔[69]اناطولیہکے تاریخی ریکارڈ کا آغاز تقریباً 2000قبل مسیحکی مٹی کی تختیاں سے ہوتا ہے جو جدید دور کےکولتپہمیں پائی جاتی ہیں۔[70]یہ تختیاں ایکآشوریتجارتی کالونی سے تعلق رکھتی تھیں۔[70]اس وقتاناطولیہکی زبانوں میں ہیتیان، ہوریان،حتی،لووی، اورپالائیشامل تھے۔[71]ہتیان اناطولیہ کی مقامی زبان تھی، جس کا جدید دور کا کوئی معروف تعلق نہیں تھا۔[72]حورین زبان شمالیسوریہ[71]میں استعمال ہوتی تھی۔پالائی،لووی، اورحتیزبانیںہند یورپی زبانوں[73]کے اناطولیہ ذیلی گروپ میں شامل تھیں،[74]کے ساتھحتی""سب سے قدیم تصدیق شدہ ہند-یورپی زبان"" تھی۔ہند یورپی زبانوںکی ابتدا نامعلوم ہے۔[75]یہ اناطولیہ کی مقامی ہو سکتی ہیں[76]یا غیر مقامی۔[77]حتیحکمرانوں کی جگہ آہستہ آہستہحتی سلطنتکے حکمرانوں نے لے لی۔[70]حتی سلطنتوسطیاناطولیہکی ایک بڑی سلطنت تھی، جس کادار الحکومتہاتوساتھا۔[70]یہاناطولیہمیںپالااورلوویکے ساتھ تقریباً 1700 اور 1200قبل مسیحکے درمیان موجود تھی۔[70]جیسے جیسےحتی سلطنتٹوٹ رہی تھی، ہند-یورپی لوگوں کی مزید لہریںجنوب مشرقی یورپسے ہجرت کر گئیں، جس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔[78]تقریباً 750قبل مسیح،فریجیاقائم ہو چکا تھا، جس کے دو مراکزگوردیوناور جدید دور کےقیصریمیں تھے۔[79]فریجیاکے لوگ ایکہند یورپی زبانبولتے تھے، لیکن یہ اناطولیائی زبانوں کے بجائےیونانی زبانکے قریب تھی۔[73]فریجیاکے لوگوں نےاناطولیہکو نو-حتی اوراورارتوکے ساتھ اشتراک کیا۔اورارتوکادار الحکومتوان جھیلکے آس پاس تھا۔[79]اورارتواکثراشوریہکے ساتھ تنازع میں رہتا تھا،[80]لیکنساتویں صدی ق ممیںماداورسکوتیکے حملوں سے گرا۔[79]جب کیمیریوں نے حملہ کیا توفریجیاتقریباً 650قبل مسیحختم ہو گیا۔[81]ان کی جگہکاریائیوں،لیکیائیوںاورلیڈیائیوںنے لے لی۔[81]ان تینوں ثقافتوں کو ""اناطولیہ کے ہٹیائی شہروں کی قدیم، مقامی ثقافت کا اعادہ سمجھا جا سکتا ہے""۔[81]کا��یامغربیاناطولیہکا ایک خطہ تھا جو ساحل کے ساتھ وسطایونیاسے جنوب میںلیکیااور مشرق میںفریجیاتک پھیلا ہوا تھا۔لیکیاکلاسیکی اناطولیہمیں 15-14 ویں صدیقبل مسیح(بطور لوکا) سے 546قبل مسیحتک ایک تاریخی خطہ تھا۔لیڈیاآہنی دورمیںاناطولیہمیں ترکیہ کے علاقہ میں واقع ایک ریاست تھی۔[82]1200قبل مسیحسے پہلےاناطولیہمیںیونانی اساطیربولنے والی چار بستیاں تھیں جن میںملطبھی شامل تھا۔[84]تقریباً 1000قبل مسیحمیںیونانیوںنےاناطولیہکے مغربی ساحل کی طرف ہجرت شروع کر دی۔[85]ان مشرقی یونانی بستیوں نےقدیم یونانیتہذیب کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا؛[79][86]پولس (شہری ریاست)میںملط،افسس،ہالیکارناسوس،سمیرنا(ابازمیر) اوربازنطیوم(اباستنبول)، مؤخر الذکر کی بنیاد ساتویں صدیقبل مسیحمیںمیگاراکے نوآبادیات نے رکھی تھی۔ .[87]ان بستیوں کو مخصوص یونانی گروہوں کے بعدآئیولس،ایونیااور ڈورس کے طور پر گروپ کیا گیا تھا جنہوں نے انہیں آباد کیا۔[88]بحیرہ ایجیئنکے کنارےیونانیشہر تجارت کے ساتھ ترقی کرتے رہے، اور قابل ذکر سائنسی اور علمی کارنامے دیکھے۔[89]ملطسےتھالیزاوراناکسی میندر) نے آئیونی سکول آف فلسفہ کی بنیاد رکھی، اس طرح عقلیت پسندی اور مغربی فلسفے کی بنیاد رکھی۔[90]کورش اعظمنے 547قبل مسیحمیں مشرقیاناطولیہپر حملہ کیا، اورہخامنشی سلطنتبالآخر مغربیاناطولیہمیں پھیل گئی۔[81]مشرق میں، آرمینیائی صوبہہخامنشی سلطنتکا حصہ تھا۔[79]فارس-یونانی جنگوںکے بعد،اناطولیہبحیرہ ایجیئنساحل کییونانیشہر ریاستوں نے دوبارہ آزادی حاصل کر لی، لیکن زیادہ تر اندرونی حصہہخامنشی سلطنتکا حصہ رہا۔[81]شمال مغربی ترکیہ میںمملکت ادروسیپانچویں صدی ق ممیں موجود تھی۔[92]قدیم دنیا کے سات عجائبات عالممیں سے دو،افسسمیںمعبد آرتمیساورموسولس کا مزار،اناطولیہمیں واقع تھے۔[93]334قبل مسیحاور 333قبل مسیحمیںسکندر اعظمکی فتوحات کے بعد،ہخامنشی سلطنتکا خاتمہ ہوا اوراناطولیہمقدونیائی سلطنتکا حصہ بن گیا۔[81]اس کی وجہ سے اناطولیہ کے اندرونی حصے میں ثقافتی یکسانیت اوریونانیت اختیاریمیں اضافہ ہوا، جو کچھ جگہوں پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔[13]سکندر اعظمکی موت کے بعد، اناطولیہ کے بڑے حصوں پرسلوقی سلطنتنے حکومت کی، جبکہبحیرہ مرمرہاوربحیرہ اسودکے علاقوں میں مقامی اناطولیائی ریاستیں ابھریں۔ مشرقی اناطولیہ میں،مملکت آرمینیانمودار ہوئی۔تیسری صدی ق ممیںکلٹوںنے وسطی اناطولیہ پر حملہ کیا اور تقریباً 200 سال تک اس علاقے میں ایک بڑے نسلی گروہ کے طور پر جاری رکھا۔ وہ گلتیوں کے نام سے جانے جاتے تھے۔[94]جبمملکت پیرگاموننےسلوقی سلطنتکے ساتھ اپنے تنازع میں مدد کی درخواست کی تورومی جمہوریہنےدوسری صدی ق ممیںاناطولیہمیں مداخلت کی۔
+بغیر وارث کے،مملکت پیرگامونکا بادشاہ مملکت چھوڑ کررومچلا گیا، جسےایشیارومی صوبے کے طور پر ضم کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اناطولیہ میں رومی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔[95]مملکت پونٹسکے ساتھ ایشیائی ویسپرز کے قتل عام، اورمہردادی جنگوںکے بعد، روم فتحیاب ہوا۔[96][97][98]ْپہلی صدی قبل مسیحکے آس پاس،رومی جمہوریہنےپونٹساور بِیوتھینیا کے کچھ حصوں کو پھیلایا، جبکہ باقی اناطولیائی ریاستوں کو رومی تابع میں تبدیل کر دیا۔[99]سلطنت اشکانیانکے ساتھ کئیی تنازعات پیدا ہوئے، امن اور جنگوں میں بدل ہوتی رہیں۔[100]اعمال رسلکے مطابق، ابتدائیمسیحیکلیسیانےاناطولیہمیںسینٹ پالکی کوششوں کی وجہ سے نمایاں تر��ی کی۔[101]اناطولیہ میں سینٹ پال کے خطوط قدیم ترینعیسائی ادبپر مشتمل ہیں۔[102]ماورائے بائبلروایاتکے مطابق،عروج مریمافسسمیں ہوا، جہاں حوارییوحنابھی موجود تھے۔ ایرینیئس ""افسس کی کلیسیا کے بارے میں لکھتا ہے، جس کی بنیادسینٹ پالنے رکھی تھی،یوحناکے ساتھترائیانکے زمانے تک جاری رہا۔""[103]بازنطینی سلطنت، جسےمشرقی رومی سلطنتبھی کہا جاتا ہے، قدیم دور اورقرون وسطیکے دورانقسطنطنیہمیں مرکزرومی سلطنتکا تسلسل تھا۔[105]سلطنت کا مشرقی نصف حصہ ان حالات سے بچ گیا جوپانچویں صدیمیںمغربکے زوال کا سبب بنی، اور1453ءمیںسلطنت عثمانیہکےفتح قسطنطنیہتک برقرار رہی۔
+اپنے زیادہ تر وجود کے دوران، سلطنتبحیرہ رومکی دنیا میں سب سے طاقتور اقتصادی، ثقافتی اور فوجی قوت رہی۔بازنطینی سلطنتکی اصطلاح صرف سلطنت کے خاتمے کے بعد وضع کی گئی تھی۔ اس کے شہری سیاست کو ""رومی سلطنت"" اور خود کو رومی کہتے ہیں۔
+سامراجی نشست کےرومسےبازنطیوممنتقل ہونے کی وجہ سے،مسیحیتکو ریاستی مذہب کے طور پر اپنانا،[106][107][108]اورلاطینی زبانکی بجائےوسطی یونانیزبان کی بالادستی کی وجہ سے، پہلے کی رومی سلطنت اور بعد میں بازنطینی سلطنت کے درمیان، جدید مورخین ایک امتیازی مقام بنا رہے ہیں۔[109]بازنطینی سلطنتکے ابتدائی دور میں،اناطولیہکے ساحلی علاقےیونانی زبانبولنے والے تھے۔ مقامی لوگوں کے علاوہ، اندرونیاناطولیہمیںگوتھ،کلٹ، فارسی اوریہودجیسے متنوع گروہ تھے۔
+اندرونی اناطولیہ کو ""بھارییونانیتزدہ"" کیا گیا تھا۔[110]اناطولی زبانیںبالآخریونانیت اختیاریکے بعد معدوم ہو گئیں۔[111]ابتدائی مسیحیتکی کئیی کلیسیائی کونسلیں موجودہ ترکیہ کے شہروں میں منعقد ہوئیں، جن میںپہلی نیقیہ کونسل(ازنیق) بھی شامل ہے325ءمیں (جس کے نتیجے میں پہلا یکساںمسیحینظریہ سامنے آیا، جسےنیکیائی عقیدہکہا جاتا ہے،381ءمیںقسطنطنیہکی پہلی کونسل،431ءمیںافسسکی کونسل، اور451ءمیںخلقیدونکی کونسل منعقد ہوئی۔[112]مورخین اور ماہرین لسانیات کے مطابق پروٹوترک زبانکی ابتدا وسطیمشرقی ایشیامیں ہوئی۔[113]ابتدائی طور پر، پروٹوترک زبانیںبولنے والے ممکنہ طور پر شکاری اور کسان دونوں تھے۔ وہ بعد میںخانہ بدوشچرواہے بن گئے۔[114]ابتدائی اورقرون وسطیکےترکگروہوں نےمشرقی ایشیائیاور مغربی یوریشیائی دونوں طرح کی جسمانی ظاہری شکلوں اور جینیاتی ماخذ کی ایک وسیع رینج کی نمائش کی، جس کا ایک حصہ ہمسایہ لوگوں جیسےایرانی، منگول، ٹوچاری،اورالی، اور ینیسیائی لوگوں کے ساتھ طویل مدتی رابطے کے ذریعے تھا۔[115]نویں صدیاوردسویں صدیعیسوی کے دوران،اوغوز ترکایک ترک گروہ تھا جوبحیرہ قزویناوربحیرہ ارالکے میدانوں میں رہتا تھا۔[116]جزوی طور پرقپچاق، قبیلہکے دباؤ کی وجہ سے، اوغوزسطح مرتفع ایراناورماورا النہرمیں ہجرت کر گئے۔[116]وہ اس علاقے میںایرانیبولنے والے گروہوں کے ساتھ گھل مل گئے اوراسلامقبول کر لیا۔[116]اوغوز ترکوںکوترکمانکے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔[116]سلجوق خاندانکی ابتدااوغوز ترکوںکی کنیک شاخ سے ہوئی جواوغوز یابغو ریاستمیں رہائش پذیر تھے۔[117]1040ءمیں سلجوقوں نے دندانقان کی جنگ میںسلطنت غزنویہکو شکست دی اور گریٹرخراسانمیںسلجوقی سلطنتقائم کی۔[118]بغداد،خلافت عباسیہکادارالخلافہاوراسلامی دنیا کا مرکز،1055ءمیں سلجوقوں نے لے لیا تھا۔[119]سلطنت میں فن، ثقافت اور سیاسی روایات میںخراسانیروایات کے کردار کو دیکھتے ہوئے، سلجوقی دور کو ""ترک، فارسی اور اسلامی اثرات"" کے مرکب کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔[120]گیارہویں صدیکے نصف آخر میں، سلجوق ترکوں نےقرون وسطیٰکےآرمینیااوراناطولیہمیں گھسنا شروع کیا۔[119]اس وقت،اناطولیہایک متنوع اور زیادہ تریونانی زبانبولنے والا خطہ تھا جو پہلےیونانیت اختیاریہونے کے بعد تھا۔[121][17][110]سلجوق ترکوں نے1071ءمیںجنگ ملازکردمیں بازنطینیوں کو شکست دی، اور بعد میں سلطنتسلاجقہ رومقائم کی۔[122]اس دور میں ترک امارات بھی تھیں جیسےدانشمند شاہی سلسلہ۔[123]سلجوق کی آمد نےاناطولیہمیںترک سازیکا آغاز کیا؛[17][124]وہاں ترک/ترک ہجرتیں، شادیاں اوراسلامقبول کرنے جیسی تبدیلیاں ہوئیں۔[125][126]تبدیلی میں کئی صدیاں لگیں اور بتدریج ہوا۔[127][128]اسلامیتصوفاحکامات کے ارکان، جیسے کہسلسلہ مولویہنےاناطولیہکے متنوع لوگوں کیاشاعت اسلاممیں کردار ادا کیا۔[129][130]تیرہویں صدیمیں،ترکہجرتکی دوسری اہم لہر آئی، جب لوگمنگول سلطنتکی توسیع کی وجہ سے علاقے سے بھاگ گئے۔[131][132]سلجوق سلطنت رومکو1243ءمیں کوس داغ کی جنگ میںمنگولکے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہچودہویں صدیکے آغاز تک غائب ہو گئی،[133][134]اور اس کی جگہ مختلف ترک امارات نے لے لی۔[19][135]سوغوتکے آس پاس کی علاقے میں،عثمانی بیلیککی بنیادچودہویں صدیکے اوائل میںعثمان اولنے رکھی تھی۔[136]عثمانی تاریخ نگاروں کے مطابق، عثمان کا تعلقاوغوز ترکوںکےقائی قبیلہسے تھا۔[137]عثمانیوں نےاناطولیہمیں قریبی ترک بیلیکوں (ریاستوں) کو جوڑنا شروع کیا اور یہ سلسلہبلقانتک پھیل گیا۔[138]محمد فاتحنے29 مئی1453ءکوبازنطینی سلطنتکےدار الحکومتقسطنطنیہپر قبضہ کر کےبازنطینی سلطنتکے خلاف عثمانی فتح مکمل کی۔[139]سلیم اولنےاناطولیہکو عثمانی حکومت کے تحت متحد کیا۔اناطولیہاوربلقانمیں عثمانیوں کے مختلف مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل جانے کے بعد ترک کاری جاری رہی۔[137]عثمانی سلطنتسلیم اولاورسلیمان اعظمکے دور میں ایک عالمی طاقت تھی۔[20][21]سولہویںاورسترہویںصدیوں میںسفاردی یہودیہسپانیہسے بے دخلی کے بعدسلطنت عثمانیہمیں چلے گئے۔[140]اٹھارہویں صدیکے دوسرے نصف سے،سلطنت عثمانیہ کا زوالشروع ہوا۔1839ءمیںمحمود دومکی طرف سے شروع کی گئیتنظیمات[141]اصلاحات کا مقصد عثمانی ریاست کو اس پیش رفت کے مطابق جدید بنانا تھا جو مغربییورپمیں ہوئی تھی۔[142]1876ءکا عثمانی آئین مسلم ریاستوں میں پہلا تھا، لیکن مختصر مدت کے لیے تھا۔[143]جیسے جیسے سلطنت بتدریج سائز، فوجی طاقت اور دولت میں سکڑتی گئی۔ خاص طور پر1875ءمیں عثمانی معاشی بحران اور ڈیفالٹ کے بعد جس کی وجہ سےبلقانکے صوبوں میں بغاوتیں ہوئیں جوروس ترک جنگ (1877-1878)پر منتج ہوئیں؛ بہت سےبلقانکےمسلماناناطولیہمیں سلطنت کے مرکز کی طرف ہجرت کر گئے،[144]اورادیگی قومکے ساتھ قفقاز پرروسی فتحسے فرار ہو گئے۔
+کچھ اندازوں کے مطابق، موجودہروسکے علاقے میںچرکسی نسل کشی[145][146]کے دوران 800,000 مسلمچرکسیہلاک ہوئے، جن میں سے بچ جانے والوں نےسلطنت عثمانیہمیں پناہ لی، اور موجودہ ترکیہ کے صوبوں میں آباد ہونا شروع ہوئے۔[147]سلطنت عثمانیہ کے زوالکے نتیجے میں اس کے مختلف رعایا کے لوگوں میں قوم پرستانہ جذبات میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں نسلی کشیدگی میں اضافہ ہوا جو کبھی کبھار تشدد کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جیسا کہآرمینیائی باشندوںکاحمیدیہ قتل عام، جس نے 300,000 جانیں لے لیں۔[148]پہلی بلقان جنگ(1912ء–1913ء) میں یورپ کے عثمانی علاقے (روم ایلی) کھو گئے۔[151]دوسری بلقان جنگ(1913ء) میں عثمانیوں نےیورپکے کچھ علاقے جیسےادرنہکو واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔انیسویں صدیاوربیسویں صدیکے اوائل میں، عثمانی عقوبت کے دوران اورروسی سلطنتمیں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے نتیجے میں 5 ملین اموات ہوئیں،[152][153]بلقانمیں 3 ملین سے زیادہ؛[154]ہلاک ہونے والوں میں ترک بھی شامل ہیں۔[153]پانچ سے سات یا سات سے نو ملین مہاجرینبلقان،قفقاز،کریمیا، اوربحیرہ رومجزیروں سے جدید دور کے ترکیہ میں منتقل ہوئے،[155]سلطنت عثمانیہکا مرکز اناطولیہ میں منتقل ہوا۔[156]یہودیوںکی ایک چھوٹی سی تعداد کے علاوہ، پناہ گزینوں کی اکثریتمسلمانتھی۔ وہ ترک اور غیر ترک دونوں ہی لوگ تھے، جیسےادیگی قوماورکریمیائی تاتار۔[157][158]پال موجز نے بلقان کی جنگوں کو ایک ""غیر تسلیم شدہ نسل کشی"" قرار دیا ہے، جہاں متعدد فریق متاثرین اور مجرم دونوں تھے۔[159]1913ءکی بغاوت کے بعد،تین پاشاوںنے عثمانی حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا۔سلطنت عثمانیہپہلی جنگ عظیممیںمرکزی طاقتوںکی طرف سے داخل ہوئی اور بالآخر اسے شکست ہوئی۔[160]جنگ کے دوران، سلطنت کی آرمینیائی رعایا کوآرمینیائی نسل کشیکے حصے کے طور پر شام بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں، ایک اندازے کے مطابق 600,000[161]سے لے کر 1 ملین سے زیادہ،[161]یا 1.5 ملین[162][163][164]آرمینیائیمارے گئے۔
+ترک حکومت نے ان واقعات کو نسل کشی[25][165]کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ آرمینیائی باشندوں کو مشرقی جنگ کے علاقے سے صرف ""منتقل"" کیا گیا تھا۔[166]سلطنت کے دیگر اقلیتی گروہوں جیسے کہآشوریوںاوریونانیوںکے خلاف بھی نسل کشی کی مہمیں چلائی گئیں۔[167][168][169]1918ءمیںمعاہدۂ مدروسکی جنگ بندی کے بعد، فاتحاتحادی طاقتوںنے1920ءکےمعاہدہ سیورےکے ذریعےسلطنت عثمانیہکی تقسیم کی کوشش کی۔[170]معاہدہ سیورے[171]پہلی جنگ عظیمکے بعد10 اگست1920ءکواتحادی طاقتوںاورسلطنت عثمانیہکے درمیان طے پانے والا امن معاہدہ تھا۔ اس معاہدے پر عثمانی سلطنت نے دستخط کر دیے تھے لیکن اسے ترکیہ کی جمہوری تحریک نے مسترد کر دیا اور اس معاہدے پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔مصطفیٰ کمال اتاترک[172]کی زیر قیادت اس تحریک نے معاہدے کے بعد ترکیہ کی جنگ آزادی کا اعلان کر دیا اورقسطنطنیہ(موجودہاستنبول) میں بادشاہت کو ختم کرکے ترکی کو جمہوریہ بنا دیا۔پہلی جنگ عظیمکے بعداتحادیوںکےاستنبول(1918ء) اورازمیر(1919ء) پر قبضے نےترک قومی تحریککی شروعات کی۔مصطفٰی کمال اتاترککی قیادت میں، ایک فوجی کمانڈر جس نےجنگ گیلی پولیکے دوران خود کو ممتاز کیا تھا،ترک جنگ آزادی(1919ء-1923ء)معاہدہ سیورے(1920ء) کی شرائط کو منسوخ کرنے کے مقصد سے لڑی گئی۔[173]ترکی کی عبوریحکومت عظیم قومی ایوان،انقرہمیں، جس نے خود کو23 اپریل1920ءکو ملک کی قانونی حکومت قرار دیا تھا،ترکیہ قومی اسمبلینے پرانی سلطنت عثمانیہ سے نیا جمہوری سیاسی نظام، قانونی منتقلی کو باقاعدہ بنانا شروع کیا۔انقرہحکومت مسلح اور سفارتی جدوجہد میں مصروف ہے۔ 1921ء-1923ء میں آرمینیائی، یونانی، فرانسیسی اور برطانوی فوجوں کو نکال باہر کیا گیا تھا۔[174][175][176][177]انقرہ حکومت کی فوجی پیش قدمی اور سفارتی کامیابی کے نتیجے میں11 اکتوبر1922ءکومودانیا کی جنگ بندی[178]پر دستخط ہوئے۔1 نومبر1922ءکوانقرہمیں ترک پارلیمنٹ نے باضابطہ طور پر سلطنت کو ختم کر دیا، اس طرح 623 سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔24 جولائی1923ءکامعاہدہ لوزانجس نےمعاہدہ سیورےکی جگہ لے لی،[170][173]نےسلطنت عثمانیہکی جانشین ریاست کے طور پر نئی ترک ریاست کی خودمختاری کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا۔4 اکتوبر1923ءکو ترکیہ پر اتحادی افواج کا قبضہاستنبولسے آخری اتحادی افواج کے انخلا کے ساتھ ختم ہوا۔
+ترک جمہوریہ کا سرکاری طور پر29 اکتوبر1923ءکو ملک کے نئےدار الحکومتانقرہمیں اعلان کیا گیا۔[179]لوزان کنونشن نےیوناناور ترکیہ کے درمیان آبادی کا تبادلہ طے کیا۔[180]مصطفیٰ کمال اتاترکجمہوریہ کے پہلےصدربنے اور بہت سی اصلاحات متعارف کروائیں۔
+ان اصلاحات کا مقصد پرانی مذہب پر مبنی اورکثیر نسلیعثمانی بادشاہت کو ایک ترکقومی ریاستمیں تبدیل کرنا ہے جو ایک سیکولر آئین کے تحت پارلیمانی جمہوریہ کے طور پر چلائی جائے گی۔[181]1934ءکے کنیت کے قانون کے ساتھ،ترکیہ قومی اسمبلینےمصطفیٰ کمالکو اعزازی کنیتاتاترک(ترکوں کا باپ) سے نوازا۔[173]اتاترک کی اصلاحات نے کچھکرداور زازا قبائل میں عدم اطمینان کا باعث بنا جس کی وجہ سے1925ء[182]میںشیخ سعید بغاوتاور1937ءمیں درسم بغاوت ہوئی۔[183]عصمت انونو1938ءمیںمصطفیٰ کمال اتاترککی موت کے بعد ملک کے دوسرے صدر بنے۔1939ءمیںریاست ہتاینے ریفرنڈم کے ذریعے ترکیہ میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا۔[184]دوسری جنگ عظیمکے بیشتر دوران ترکیہ غیر جانبدار رہا لیکن23 فروری1945ءکودوسری جنگ عظیم کے اتحادیکی طرف سے جنگ میں داخل ہوا۔[185]اسی سال کے آخر میں، ترکیہاقوام متحدہکا چارٹر ممبر بن گیا۔[186]1950ءمیں ترکیہیورپ کی کونسلکا رکن بنا۔کوریا جنگمیںاقوام متحدہافواج کے حصے کے طور پر لڑنے کے بعد، ترکیہ نے1952ءمیںنیٹو(تنظیم معاہدہ شمالی اوقیانوس) میں شمولیت اختیار کی،بحیرہ روممیں سوویت کی توسیع کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار بن گیا۔1960ءاور1980ءمیں فوجی بغاوتوں کے ساتھ ساتھ1971ءاور1997ءمیں فوجی یادداشتوں کے ذریعے ملک کی کثیر الجماعتی جمہوریت کی طرف منتقلی میں خلل پڑا۔[187][188]1960ءاوربیسویں صدیکے اختتام کے درمیان، ترکیہ کی سیاست میں جن نمایاں رہنماوں نے متعدد انتخابی فتوحات حاصل کیں وہسلیمان دمیرل،بلند اجوداورتورگوت اوزالتھے۔تانسو چیلر1993ءمیں ترکیہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ ترکیہ نے1995ءمیںیورپی یونین کسٹمز یونینمیں شمولیت اختیار کی اور2005ءمیںیورپی یونینکے ساتھ الحاق کی بات چیت کا آغاز کیا۔[189]کسٹمز یونین نے ترکیہ کے مینوفیکچرنگ سیکٹر پر ایک اہم اثر ڈالا۔[190][191]2014ءمیں وزیر اعظمرجب طیب ایردواننے ترکیہ کے پہلے براہ راست صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔[192]15 جولائی2016ءکوترکیہ میں ناکام فوجی بغاوتنے حکومت کو ہٹانے کی کوشش کی۔[193]2017ءمیں ریفرنڈم کے ساتھ، پارلیمانی جمہوریہ کی جگہ ایک ایگزیکٹو صدارتی نظام نے لے لی تھی۔
+وزیراعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا، اور اس کے اختیارات اور فرائضصدر ترکیہکو منتقل کر دیے گئے۔
+ریفرنڈم کے دن، جب ووٹنگ ابھی جاری تھی، سپریم الیکٹورل کونسل نے ایک قاعدہ ختم کر دیا جس کے تحت ہر بیلٹ پر ایک سرکاری ڈاک ٹکٹ ہونا ضروری تھا۔[194]حزب اختلاف کی جماعتوں نے دعویٰ کیا کہ 25 لاکھ بیلٹ بغیر ٹکٹ کے درست تسلیم کیے گئے۔[194]عوامی نظم و نسق کے لحاظ سے ترکیہ کا ایکوحدانی ریاستڈھانچہ ہے، اورصوبےانقرہمیں مرکزی حکومت کے ماتحت ہیں۔
+صوبوں کے مراکز میں حکومت کی نمائندگی صوبے کے گورنر (والی) کرتے ہیں اور قصبوں میں گورنرز (کیماکم) کرتے ہیں۔
+دیگر اعلیٰ عوامی عہدیداروں کا تقرر بھی مرکزی حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے، سوائے ان میئروں کے جنہیں حلقہ کار منتخب کرتے ہیں۔[195]ترک بلدیات میں بلدیاتی امور پر فیصلہ سازی کے لیے مقامی قانون ساز ادارے ہیں۔انتظامی مقاصد کے لیے ترکی کو 81صوبوںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر صوبہ مختلف تعداد میں اضلاع میں منقسم ہے۔ صوبائی گورنر صوبہ کے مرکزی ضلع میں ہوتا ہے۔ مرکزی ضلع کا نام عام طور پر صوبے کے نام پر ہوتا ہے۔ صوبہ مقرر کردہ گورنر کے زیر انتظام ہوتا ہے۔سلطنت عثمانیہاور ابتدائی ترک جمہوریہ میں متعلقہ اکائیولایتتھی۔ ہر صوبے کواضلاعمیں تقسیم کیا گیا ہے کل 973 اضلاع ہیں۔29 اکتوبر 1923ء کوسلطنت عثمانیہکےخاتمےاور جمہوریہ ترکی کے باضابطہ قیام کے بعد انتظامی نظام میں تبدیلیاں کی گئیں۔ دو سال بعدصوبہ اردھان،بےاوغلو،چاتالجا،تونجیلی،عرگانی،گلیبولو، جنک،قوزان،اولتو،موش،سیورکاوراسکودارکے صوبوں کو اضلاع میں تبدیل کر دیا گیا۔[196][197]1927ء میںدوغوبایزیدکو ایک ضلع میں تبدیل کر دیا گیا اورصوبہ آغریسے منسلک کر دیا گیا۔[198]1929ء میںموشدوبارہ صوبہ بن گیا اورصوبہ بتلیسایک ضلع بن گیا۔[196]چار سال بعد، یہ تعداد چھپن تک گر گئی جبآق سرائے،صوبہ عثمانیہ،حکاریاورشبین قرہ حصاراضلاع بن گئے،مرسیناورسیلیفکےکو ملایا گیا اورصوبہ مرسین[B]کے نام سے ایک نیا صوبہ تشکیل دیا گیا اورصوبہ آرتویناورصوبہ ریزہکو ملا کر ایک نیا صوبہ کوروہ تشکیل دیا گیا تھا۔[196]1936ء میں،ریزہ،تونجیلیاورحکاریدوبارہ صوبے بن گئے اور اسی سال ڈرسم کا نام بدل کرتونجیلیرکھ دیا گیا۔ 1939ء میںریاست ھتایترکی کے ساتھ الحاق کرکے ایک صوبہ بن گیا۔[196][199]1953ء میں، یہ فیصلہ کیا گیا کہصوبہ عشاقایک صوبہ بنے گا اورصوبہ قر شہرایک ضلع بنے گا۔ 1954ء میںصوبہ آدیامان،صوبہ نو شہراورصوبہ سقاریہکو صوبائی حیثیت حاصل ہوئی۔[196]ہر صوبے کواضلاعمیں تقسیم کیا گیا ہے کل 973 اضلاع ہیں۔[200]زیادہ تر صوبوں کا وہی نام ہے جو ان کے متعلقہ صوبائیدار الحکومتکے اضلاع کا ہے۔ تاہم، بہت سے شہری صوبوں کو، جنہیں عظیم بلدیہ کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، میں متعدد اضلاع پر مشتمل ایک مرکز ہے، جیسے کہصوبہ انقرہکا صوبائی دار الحکومت،انقرہ شہر، نو الگ الگ اضلاع پر مشتمل ہے۔ترکیہ سات علاقوں اور 21 ذیلی علاقوں میں منقسم ہے۔ جنہیں1941ءمیں سب سے پہلی جغرافیائی کانگریس میں بیان کیا گیا ہے۔ علاقے جغرافیائی، آبادیاتی اور اقتصادی مقاصد کے تناظر میں وضع کیے گئے ہیں اور یہ انتظامی تقسیم نہیں ہیں۔ علاقوں کی سرحدیں انتظامی صوبوں کی سرحدوں کے ساتھ متراکب نہیں ہیں۔[201]ترکیہ ایک کثیر الجماعتی نظام کے اندر ایکصدارتی جمہوریہہے۔[202]موجودہآئین1982ءمیں اپنایا گیا تھا۔[203]ترکیہ کے وحدانی نظام میں، شہری حکومت کےتین درجوں کے تابعہیں: قومی، صوبائی اور مقامی۔مقامی حکومتکے فرائض عام طور پرمیونسپل حکومتوںاور اضلاع کے درمیان تقسیم ہوتے ہیں، جس میں ایگزیکٹو اور قانون ساز عہدیداروں کو ضلع کے لحاظ سے شہریوں کے کثرت رائے سے منتخب کیا جاتا ہے۔
+حکومت تین شاخوں پر مشتمل ہے: پہلیقانون سازشاخ ہے، جوترکیہ قومی اسمبلیہے؛[204]دوسری ایگزیکٹو برانچ ہے، جوصدر ترکیہہے۔[205]اور تیسری عدالتی شاخ ہے، جس میں آئینی عدالت، عدالت کی عدالت اور عدالتی تنازعات شامل ہیں۔[206][5]ترکیہ کی سیاست تیزی سے جمہوری پسماندگی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جسے ایک مسابقتی آمرانہ نظام قرار دیا جا رہا ہے۔[207][208]پارلیمان کے 600 ووٹنگ ممبران ہیں، ہر ایک پانچ سال کی مدت کے لیے ایک حلقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ پارلیمانی نشستیں صوبوں میںآبادی کے تناسب سے تقسیمکی جاتی ہیں۔صدرکا انتخاببراہ راست انتخاباتسے ہوتا ہے اور پانچ سال کی مدت کے لیے کرتا ہے۔[209]صدرپانچ سال کی دو مدتوں کے بعد دوبارہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا، جب تک کہ پارلیمان دوسری مدت کے دوران صدارتی انتخابات کی قبل از وقت تجدید نہ کرے۔ پارلیمنٹ کے انتخابات اور صدارتی انتخابات ایک ہی دن ہوتے ہیں۔[210]آئینی عدالت 15 ارکان پر مشتمل ہے۔ ایک رکن 12 سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتا ہے اور اسے دوبارہ منتخب نہیں کیا جا سکتا۔ آئینی عدالت کے ارکان 65 سال سے زائد عمر کے ہونے پر ریٹائر ہونے کے پابند ہیں۔[211]ترکیہ میں انتخابات حکومت کے چھ کاموں کے لیے ہوتے ہیں: صدارتی انتخابات (قومی)، پارلیمانی انتخابات (قومی)،میونسپلٹی میئر(مقامی)، ضلعی میئرز (مقامی)، صوبائی یا میونسپل کونسل کے اراکین (مقامی) اورمختار(مقامی)۔
+انتخابات کے علاوہ،ریفرنڈمبھی کبھی کبھار منعقد ہوتے ہیں۔ ہر ترک شہری جو 18 سال کا ہو گیا ہے اسےووٹڈالنے اور انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہونے کا حق حاصل ہے۔1934ءسے ترکیہ بھر میں دونوں جنسوں کے لیے یونیورسل ووٹنگ لاگو ہے۔
+ترکیہ میں، مقامی اور عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے، جو عام طور پر 80% سے زیادہ ہے۔[212]آئینی عدالتسیاسی جماعتوںکی عوامی مالی اعانت کو ختم کر سکتی ہے کہ وہ سیکولر مخالف یا دہشت گردی سے تعلق رکھتی ہے، یا ان کے وجود پر مکمل پابندی لگا سکتی ہے۔[213][214]قومی سطح پر سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابی حد سات فیصد ووٹ ہے۔[215]چھوٹی جماعتیں دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر انتخابی دہلیز سے بچ سکتی ہیں۔آزاد امیدوارانتخابی حد سے مشروط نہیں ہیں۔ترکیہ کے سیاسی میدان کے دائیں جانبسیاسی طیف، ڈیموکریٹ پارٹی، جسٹس پارٹی، مادر لینڈ پارٹی، اورجسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹیجیسی جماعتیں ترکی کی سب سے مقبول سیاسی جماعتیں بن گئیں۔ متعدد انتخابات جیت کر۔ ترکدائیں بازوکی پارٹیاں زیادہ امکان رکھتی ہیں کہ وہ سیاسی نظریات کے اصولوں کو قبول کریں جیسےقدامت پرستی،قوم پرستییا اسلامیت۔[216]سیاسی طیفکی طرف،جمہوریت خلق پارٹی, سوشل ڈیموکریٹک پاپولسٹ پارٹی اورڈیموکریٹک لیفٹ پارٹیجیسی جماعتوں نے ایک بار سب سے زیادہ انتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔بائیں بازوکی جماعتیںسوشلزم،کمالزمیاسیکولرازمکے اصولوں کو اپنانے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں۔[217]صدررجب طیب اردوغان،ترکیہ کے صدارتی انتخابات، 2023ءکے فاتح ہیں،[218][219]اس وقتسربراہ ریاستاورسربراہ حکومتکے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔اوزگور اوزلمرکزی قائد حزب اختلاف ہیں۔نعمان کورتولموشترکیہ قومی اسمبلیکے اسپیکر ہیں۔2023ءکے پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں ترکیہ کی 28 ویں پارلیمنٹ ہوئی، جس میںجسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹیکے لیے 268 نشستیں،ریپبلکن پیپلز پارٹیکے لیے 169 نشستیں، پارٹی آف گرینز اینڈ دی لیفٹ فیوچر کے لیے 61 نشستیں،حرکت ملی پارٹی، 43 سیٹیںایی پارٹی، 5 سیٹیںنیو ویلفیئر پارٹیاور 4 سیٹیںورکرز پارٹی آف ترکیکے لیے 50 نشستیں تھیں۔[220]اگلے پارلیمانی انتخابات2028ءمیں ہونے والے ہیں۔جمہوریہ کے قیام کے ساتھ، ترکیہ نےشریعتسے ماخوذ عثمانی قانون کی جگہ ایک شہری قانون کا قانونی نظام اپنایا۔ سول کوڈ، جو1926ءمیں اپنایا گیا تھا،1907ءکے سوئس سول کوڈ[221][222][223]اور1911ءکے سوئس ضابطہ ذمہ داریوں پر مبنی تھا۔[224][225]اگرچہ2002ءمیں اس میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں، لیکن اس نے اصل ضابطہ کی بنیاد کو برقرار رکھا ہے۔ضابطہ تعزیراتجو اصل میں اطالوی ضابطہ فوجداری پر مبنی ہے، کو2005ءمیں ایک ضابطہ سے تبدیل کیا گیا جس کے اصول جرمن پینل کوڈ اور عام طور پر جرمن قانون سے ملتے جلتے ہیں۔[226]انتظامی قانون فرانسیسی مساوی پر مبنی ہے اور طریقہ کار کا قانون عام طور پر سوئس، جرمن اور فرانسیسی قانونی نظاموں کے اثر کو ظاہر کرتا ہے۔[227][228][229]اسلامی اصول قانونی نظام میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔[230]ترکیہ میں قانون کا نفاذ کئی ایجنسیاں وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار میں کرتی ہیں۔ یہ ایجنسیاں جنرل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی، جینڈرمیری جنرل کمانڈ اور کوسٹ گارڈ کمانڈ ہیں۔[231]جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹیاوررجب طیب ایردوانکی حکومت کے سالوں میں، خاص طور پر2013ءکے بعد سے، ترکیہ کی عدلیہ کی آزادی اور سالمیت کو ترکیہ کے اندر اور باہر دونوں اداروں، اراکین پارلیمنٹ اور صحافیوں کی طرف سے سیاست کی وجہ سے شکوک و شبہات کا سامنا ہے۔ ججوں اور پراسیکیوٹرز کی ترقی اور عوامی ڈیوٹی کے حصول میں مداخلت ان میں شامل ہیں۔[232][233][234]اس کے روایتی مغربی رجحان کے مطابق،یورپکے ساتھ تعلقات ہمیشہ ترکیہ کی خارجہ پالیسی کا مرکزی حصہ رہے ہیں۔
+ترکیہ1950ءمیںیورپ کی کونسلکے ابتدائی ارکان میں سے ایک بنا۔ ترکیہ نے1987ءمیںیورپین اکنامک کمیونٹیکی مکمل رکنیت کے لیے درخواست دی،1995ءمیںیورپی یونین کسٹمز یونینمیں شمولیت اختیار کی اور2005ءمیںیورپی یونینکے ساتھ الحاق کے مذاکرات کا آغاز کیا۔[235][236]13 مارچ2019ءکو ہونے والے ایک غیر پابند ووٹ میں،یورپی پارلیماننے انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے،یورپی یونینکی حکومتوں سے ترکیہ کے ساتھیورپی یونینکے الحاق کے مذاکرات کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن مذاکرات، مؤثر طریقے سے2018ءسے روکے گئے،2023ءتک فعال رہے۔[237]ترکیہ کی خارجہ پالیسی کا دوسرا واضح پہلوریاست ہائے متحدہکے ساتھ ملک کا دیرینہ تزویراتی اتحاد رہا ہے۔[238][239]1947ءمیں ٹرومین نظریے نےسرد جنگکے دوران ترکیہ اوریونانکی سلامتی کی ضمانت دینے کے امریکی ارادوں کی نشاندہی کی اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر امریکی فوجی اور اقتصادی مدد حاصل ہوئی۔1948ءمیں دونوں ممالک کو یورپی معیشتوں کی تعمیر نو کے لیےمارشل پلاناورانجمن اقتصادی تعاون و ترقیمیں شامل کیا گیا تھا۔[240]سرد جنگکے دورانسوویت یونینکی طرف سے درپیش مشترکہ خطرے کی وجہ سے1952ءمیں ترکیہ نےنیٹوکی رکنیت حاصل کی، جس سےریاست ہائے متحدہکے ساتھ قریبی دوطرفہ تعلقات کو یقینی بنایا گیا۔
+اس کے بعد، ترکیہ نےریاستہائے متحدہکی سیاسی، اقتصادی اور سفارتی حمایت سے فائدہ اٹھایا، بشمول اہم مسائل جیسے کہ ملک کییورپی یونینمیں شمولیت کی بولی۔[241]سرد جنگکے بعد کے ماحول میں، ترکیہ کی جغرافیائی اہمیتمشرق وسطی،قفقازاوربلقانکی قربت کی طرف منتقل ہو گئی۔[242]1991ءمیںسوویت یونینکی ترک ریاستوں کی آزادی، جس کے ساتھ ترکی مشترکہ ثقافتی، تاریخی اورلسانیورثے میں شریک ہے، نے ترکیہ کو اپنے اقتصادی اور سیاسی تعلقات کووسط ایشیاتک بڑھانے کی اجازت دی۔[243]ترک ثقافت کی بین الاقوامی تنظیم(ترک سوئے)1993ءمیں قائم کی گئی تھی، اورترک ریاستوں کی تنظیم(او ٹی ایس)2009ءمیں قائم ہوئی تھی۔جماعت انصاف و ترقی(اے کے پی) حکومت کے تحت، ترکیہ کی معیشت نے تیزی سے ترقی کی ہے اور اس ملک کا اثر و رسوخمشرق وسطیٰمیں ایک اسٹریٹجک گہرائی کے نظریے کی بنیاد پر بڑھا ہے، جسے نو-عثمانیت بھی کہا جاتا ہے۔[244][245]دسمبر2010ءمیںعرب بہارکے بعد، متاثرہ ممالک میں بعض سیاسی مخالف گروپوں کی حمایت کے لیے حکومت کی طرف سے کیے گئے انتخاب نےسوری خانہ جنگیکے آغاز کے بعد اورمصریصدر محمد مرسی کیمعزولیکے بعد سے کچھ عرب ریاستوں، جیسے ترکیہ کے پڑوسیسوریہکے ساتھ تناؤ پیدا کر دیا ہے۔[246][247]2022ءتک ترکیہ کاسوریہیامصرمیں کوئی سفیر نہیں ہے،[248]لیکن دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔[249][250][251][252][253]اسرائیلکے ساتھسفارتی تعلقاتبھی2010ءمیں غزہ فلوتیلا کے حملے کے بعد منقطع ہو گئے تھے لیکن جون2016ءمیں ایک معاہدے کے بعد معمول پر آ گئے تھے۔[254]ان سیاسی اختلافات نےمشرقی بحیرہ روممیں ترکیہ کو چند اتحادیوں کے ساتھ چھوڑ دیا ہے، جہاں حال ہی میںقدرتی گیسکے بڑے ذخیرے دریافت ہوئے ہیں۔[255][256]یوناناورقبرصکے ساتھ ترکیہ کی سمندری حدود اورمشرقی بحیرہ روممیں سوراخ کرنے کے حقوق پر تنازع ہے۔[257][258]2016ءمیںروسکے ساتھ مفاہمت کے بعد ترکیہ نےسوریہمیں تنازع کے حل کے حوالے سے اپنے موقف پر نظر ثانی کی۔[259][260][261]جنوری2018ءمیں،ترکیہ کی فوجاور ترکیہ کی حمایت یافتہ فورسز، بشمول سوری قومی فوج،[262]نےسوریہمیں ایک آپریشن شروع کیا جس کا مقصد امریکی حمایت یافتہ وائی پی جی (جسے ترکی کالعدم پی کے کے کی شاخ سمجھتا ہے)[263][264]کوعفرینکے انکلیو سے بے دخل کرنا ہے۔[265][266]ترکیہ نےعراقی کردستانمیں بھی فضائی حملے کیے ہیں جس سے ترکیہ اورعراقکے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں کیونکہ مؤخر الذکر نے ان حملوں کو اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے اور شہریوں کو ہلاک کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔[267][268]ترک مسلح افواججنرل اسٹاف،ترک زمینی افواج،ترک بحریہاورترک فضائیہپر مشتمل ہیں۔
+چیف آف جنرل اسٹاف کا تقرر صدر کرتا ہے۔ صدر قومی سلامتی کے معاملات اور ملک کے دفاع کے لیے مسلح افواج کی مناسب تیاری کے لیے پارلیمنٹ کو ذمہ دار ہے۔ تاہم جنگ کا اعلان کرنے اورترک مسلح افواجکو بیرونی ممالک میں تعینات کرنے یا غیر ملکی مسلح افواج کو ترکیہ میں تعینات کرنے کی اجازت دینے کا اختیار صرف اور صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے۔[272]جینڈرمیری جنرل کمانڈ اور کوسٹ گارڈ کمانڈ وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ ہر فٹ مرد ترک شہری کے لیے ضروری ہے کہ وہ تین ہفتوں سے لے کر ایک سال تک فوج میں خدمات انجام دے، جو کہ تعلیم اور ملازمت کے مقام پر منحصر ہے۔[273]ترکی ایماندارانہ اعتراض کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی فوجی خدمات کا سویلین متبادل پیش کرتا ہے۔[274]امریکی مسلح افواجکے بعد، ترکیہ کے پاسنیٹومیں دوسری سب سے بڑی کھڑی فوجی طاقت ہے، فروری2022ءتک اندازے کے مطابق 890,700 فوجی اہلکار ہیں۔[283]ترکیہنیٹوکے ان پانچ رکن ممالک میں سے ایک ہے جوبیلجیم،جرمنی،اطالیہاورنیدرلینڈزکے ساتھ مل کر اتحاد کی جوہری اشتراک کی پالیسی کا حصہ ہیں۔[284]کل 90 بی61 ایٹمی بم انجرلک ایئر بیس پر رکھے گئے ہیں، جن میں سے 40 جوہری تنازع کی صورت میںترک فضائیہکے استعمال کے لیے مختص کیے گئے ہیں، لیکن ان کے استعمال کے لیے نیٹو کی منظوری درکار ہے۔[285]ترک مسلح افواجکی بیرون ملک نسبتاً کافی فوجی موجودگی ہے،[286]البانیا،[287]عراق،[288]قطر،[289]اورصومالیہ[290]میں فوجی اڈے ہیں۔
+یہ ملک1974ءسےشمالی قبرصمیں 36,000 فوجیوں کی ایک فورس کو بھی برقرار رکھتا ہے۔[291]ترکیہ نے کوریائی جنگ کے بعد سےاقوام متحدہاورنیٹوکے تحت بین الاقوامی مشنوں میں حصہ لیا ہے، جس میںصومالیہ،یوگوسلاویہاورقرن افریقامیں امن مشن بھی شامل ہیں۔
+اس نے پہلیخلیجی جنگمیں اتحادی افواج کی حمایت کی،افغانستانمیں بین الاقوامی سیکورٹی اسسٹنس فورس میں فوجی اہلکاروں کا حصہ ڈالا، اورکوسووہفورس، یورو کارپس اوریورپی یونینکے جنگی گروپوں میں سرگرم رہا۔[292][293]2016ءتک ترکیہ نے شمالیعراقمیںپیشمرگہفورسز اور صومالی مسلح افواج کی حفاظت اور تربیت میں مدد کی ہے۔[294][295]ترکیہ کاانسانی حقوقکا ریکارڈ بہت زیادہ تنازعات اور بین الاقوامی مذمت کا موضوع رہا ہے۔1959ءاور2011ءکے درمیانانسانی حقوقکی یورپی عدالت نے کردوں کے حقوق،خواتین کے حقوق،ایل جی بی ٹی حقوقاور میڈیا کی آزادی جیسے مسائل پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ترکیہ کے خلاف 2,400 سے زیادہ فیصلے سنائے ہیں۔[297][298]ترکیہ کا انسانی حقوق کا ریکارڈیورپی یونینمیں ملک کی رکنیت کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔[299]1970ءکی دہائی کے آخری نصف میں، ترکیہ انتہائی بائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کے عسکریت پسند گروپوں کے درمیان سیاسی تشدد کا شکار ہوا، جس کا اختتام1980ءکی فوجی بغاوت پر ہوا۔[300]کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے، جسے ترکیہ،ریاست ہائے متحدہ،[301]اوریورپی یونین[302]نے ایکدہشت گردتنظیم قرار دیا ہے) کی بنیادعبداللہ اوجلانکی سربراہی میں کرد عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے1978ءمیں رکھی تھی۔ مارکسی-لیننسٹ نظریہ پر مبنی ایک آزاد کرد ریاست کی بنیاد کے خواہاں ہیں۔[303]پی کے کے کی طرف سے اس کی ابتدائی وجہ ترکیپ میں کردوں پر ظلم تھا۔[304][305]ایک بڑے پیمانے پرشورش1984ءمیں شروع ہوئی، جب پی کے کے نے کرد بغاوت کا اعلان کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پی کے کے نے اپنے مطالبات کو ترکیہ کے اندر نسلی کردوں کے مساوی حقوق اور صوبائی خودمختاری میں تبدیل کر دیا۔[306][307][308][309]1980ءکے بعد سے ترک پارلیمان نے اپنے ارکان سے استثنیٰ کو استغاثہ سے چھین لیا، جن میں 44 نمائندے بھی شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر کرد نواز جماعتوں کے تھے۔[310]2013ءمیں وسیع پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے، جوتقسیم گیزی پارککو منہدم کرنے کے منصوبے سے شروع ہوئے لیکن جلد ہی عام حکومت مخالف اختلاف کی شکل اختیار کر گئے۔[311]20 مئی2016ءکو ترک پارلیمنٹ نے اپنے تقریباً ایک چوتھائی ارکان سے استثنیٰ کا حق چھین لیا، جن میں کرد نوازپیپلز ڈیموکریٹک پارٹیاور مرکزی اپوزیشنجمہوریت خلق پارٹیکے 101 اراکین شامل ہیں۔[312][313]2020ءتک،2016ءمیں بغاوت کی ناکام کوشش کا جواب دینے کے بہانے،[314][315]حکام نے 90,000 سے زیادہ ترک شہریوں کو گرفتار یا قید کیا تھا۔[316]صحافیوں کو تحفظ دینے کی کمیٹیکے مطابق،جماعت انصاف و ترقیحکومت نے میڈیا کی آزادی پر کریک ڈاؤن کیا ہے۔[317][318]بہت سے صحافیوں کو ""دہشت گردی"" اور ""ریاست مخالف سرگرمیوں"" کے الزامات کا استعمال کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے۔[319][320]2020ءمیںصحافیوں کو تحفظ دینے کی کمیٹینے ترکیہ میں جیل میں بند 18 صحافیوں کی نشاندہی کی (جس میں ترکیہ کا سب سے پرانا اخبار ""جمہوریہ"" کا ادارتی عملہ بھی شامل ہے)۔[321]ترکیہ میں1858ءسےدور تنظیماتکے بعد سےہم جنس پرستسرگرمیوں کو جرم قرار دیا گیا ہے۔[323]جنیوا کنونشنکے تحت1951ءسےایل جی بی ٹیلوگوں کو ترکیہ میں پناہ حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔[324]تاہم ترکیہ میںایل جی بی ٹیلوگوں کو امتیازی سلوک، ایذا رسانی اور یہاں تک کہ تشدد کا سامنا ہے۔[325]ترک حکام نے بہت سے امتیازی سلوک کیے ہیں۔[326][327][328]ان کے باوجود، ترکیہ میںایل جی بی ٹیکی قبولیت بڑھ رہی ہے۔2016ءمیں کیے گئے ایک سروے میں، 33 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ایل جی بی ٹی لوگوں کو مساوی حقوق ملنے چاہئیں، جو2020ءمیں بڑھ کر 45 فیصد ہو گئے۔2018ءمیں ایک اور سروے سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ہم جنس پرست پڑوسی نہیں چاہتے ہیں ان کا تناسب 55 فیصد سے کم ہو گیا ہے۔2018ءسے2019ءمیں 47 فیصد تھا۔[329][330]2015ءکے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ 27% ترک عوام ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دینے کے حق میں تھے اور 19% نے اس کی بجائےسول یونینزکی حمایت کی۔[331]2003ءمیں جب سالانہ استنبول پرائیڈ کا افتتاح ہوا تو ترکیہ پہلا مسلم اکثریتی ملک بن گیا جس نےہم جنس پرستوںکے لیے پرائیڈ مارچ کا انعقاد کیا۔[332]2015ءکے بعد سے،تقسیم چوکاورشارع استقلال(جہاںتقسیم گیزی پارکمیں احتجاج ہوا تھا) پر پریڈ کو سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے، حکومتی اجازت سے انکار کر دیا گیا ہے، لیکن ہر سال سیکڑوں افراد نے پابندی کی خلاف ورزی کی ہے۔[322]ناقدین نے دعویٰ کیا ہے کہ پابندی دراصلنظریاتیتھی۔[322]ترکیہ 783,562 مربع کلومیٹر (302,535 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے۔[333]ترکیہ کے آبنائے اوربحیرہ مرمرہکے درمیان، ترکیہمغربی ایشیااورجنوب مشرقی یورپکو پلاتا ہے۔[334]ترکیہ کاایشیائیحصہ اس کی سطح کا 97 فیصد احاطہ کرتا ہے، اور اسے اکثراناطولیہکہا جاتا ہے۔[335]اناطولیہکی مشرقی حدود کی ایک اور تعریفبحیرہ اسودسےخلیج اسکندرونتک ایک غلط لکیر ہے۔[336]مشرقی تھریس، ترکیہ کا یورپی حصہ، تقریباً 10% آبادی پر مشتمل ہے اور سطح کے رقبے کے 3% پر محیط ہے۔[337]یہ ملک تین اطراف سے سمندروں سے گھرا ہوا ہے: مغرب میںبحیرہ ایجیئن، شمال میںبحیرہ اسوداور جنوب میںبحیرہ رومواقع ہیں۔[338]ترکیہ کی سرحد مشرق میںجارجیا،آرمینیا،آذربائیجاناورایرانسے ملتی ہے۔[338]جنوب میں اس کی سرحدسوریہاورعراقسے ملتی ہے۔[339]شمال میں اس کاتھریسیعلاقہیوناناوربلغاریہسے متصل ہے۔[338]ترکیہ کو ""سات بڑے علاقوں"" میں تقسیم کیا گیا ہے:ایجیئن،بحیرہ اسود،وسطی اناطولیہ،مشرقی اناطولیہ،مرمرہ،بحیرہ روم،جنوب مشرقی اناطولیہ[338]ایک عمومی رجحان کے طور پر، اندرون ملک اناطولیائی سطح مرتفع مشرق کی طرف بڑھتے ہی تیزی سے ناہموار ہوتا جاتا ہے۔[340]پہاڑی سلسلوں میں شمال میںکوروغلواورپونٹکپہاڑی سلسلے اور جنوب میںسلسلہ کوہ طوروسواقع پے۔
+جھیلوں کا علاقہ ترکیہ کی سب سے بڑی جھیلوں پر مشتمل ہے جیسے کہجھیل بےشہراورجھیل اغیردیر۔[341]جغرافیہ دانوں نے مشرقی اناطولیائی سطح مرتفع، ایرانی سطح مرتفع اور آرمینیائی سطح مرتفع کی اصطلاحات کا استعمال اس پہاڑی علاقے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کیا ہے جہاںعرب تختیاور یوریشین ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں مل جاتی ہیں۔مشرقی اناطولیہ علاقہمیں کوہارارات، ترکیہ کا بلند ترین مقام 5,137 میٹر (16,854 فٹ)،[342]اور ملک کی سب سے بڑیوان جھیلپر مشتمل ہے۔[343]مشرقی ترکیہدریائے فرات،دریائے دجلہاوردریائے ارسجیسے دریاؤں کا گھر ہے۔جنوب مشرقی اناطولیہ علاقہمیںجزیرہ فراتکے شمالی میدانی علاقے شامل ہیں۔[344]ترکیہ میں اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔[33]تقریباً پوری آبادی ان علاقوں میں رہتی ہے جہاں زلزلے کے خطرات کی سطح مختلف ہوتی ہے، جس میں تقریباً 70 فیصد سب سے زیادہ یا دوسرے سب سے زیادہ زلزلے والے علاقوں میں رہتے ہیں۔[345][346]اناطولیائی پلیٹ شمال کی طرف شمالی اناطولیائی فالٹ زون سے متصل ہے۔ مشرقی اناتولین فالٹ زون اور مشرق میں بٹلیس-زگروس تصادم کا زون؛ جنوب میں ہیلینک اورقبرصکے سبڈکشن زونز؛ اور مغرب میں ایجین توسیعی زون واقع ہیں۔[347]1999ءازمیتاور 1999ءدوزجہکے زلزلوں کے بعد، شمالیاناطولیہکے فالٹ زون کی سرگرمی کو ""ترکیہ میں سب سے زیادہ خطرناک قدرتی خطرات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے""۔[348]ترکیہ، شام کے زلزلے 2023ءمعاصر ترکیہ کی تاریخ میں سب سے مہلک ترین تھے۔[349]ترکیہ کا بعض اوقاتچلیسے موازنہ کیا جاتا ہے، ایک ایسا ملک جس کیزلزلوںکی ترقی کی سطح ایک جیسی ہے۔[350][351][352]تینقدیم دنیابراعظموں کے درمیان زمینی، سمندری اور ہوائی راستوں کے سنگم پر ترکیہ کی پوزیشن اور اس کے جغرافیائی خطوں میں رہائش گاہوں کی قسم نے کافی انواع کا تنوع اور ایک متحرک ماحولیاتی نظام پیدا کیا ہے۔[353]دنیا میںحیاتی تنوع علاقہجات کے 36 ہاٹ سپاٹ میں سے 3 ترکیہ میں شامل ہیں۔۔[32]یہبحیرہ روم، ایرانی-اناتولی، اورقفقازکے ہاٹ سپاٹ ہیں۔[32]اکیسویں صدیمیں حیاتیاتی تنوع کو درپیش خطرات میں ترکیہ میں موسمیاتی تبدیلیوں سے صحرا بندی بھی شامل ہے۔[354]ترکیہ کے جنگلات ترکیہ کےشاہ بلوطکا گھر ہیں۔ پلاٹینس (میدان) کی نسل کی سب سے زیادہ پائی جانے والی انواعچنارہے۔
+ترک دیودار (پینس بروٹیا) زیادہ تر ترکیہ اور دیگر مشرقیبحیرہ رومکے ممالک میں پایا جاتا ہے۔گل لالہکی کئیی جنگلی انواعاناطولیہسے ہیں، اور یہ پھول پہلی بارمغربی یورپمیںسولہویں صدیمیںسلطنت عثمانیہسے لی گئی نسلوں کے ساتھ متعارف کرایا گیا تھا۔[355][356]ترکیہ میں 40 قومی پارک، 189 قدرتی پارک، 31 فطرت کے تحفظ علاقے، 80 جنگلی حیات کے تحفظ کے علاقے اور 109 قدرتی یادگاریں ہیں جیسے کہگیلی پولی جزیرہ نما تاریخی قومی پارک،کوہ نمرود قومی پارک،قدیم ٹرائے قومی پارک، اولوڈینیز فطرتی پارک اور پولونزکی فطرتی پارک۔[357]شمالی اناطولیائی مخروطی اور پرنپاتی جنگلات ایک ماحولیاتی خطہ ہے جو شمالی ترکیہ کےسلسلہ کوہ پونٹککے بیشتر حصے پر محیط ہے، جب کہقفقازکے مخلوط جنگلات رینج کے مشرقی سرے تک پھیلے ہوئے ہیں۔
+یہ خطہ یوروایشیائی جنگلی حیات کا گھر ہے جیسےیوریشیائی چڑی مار،سنہری عقاب، ایسٹرن امپیریل ایگل، کم دھبے والا عقاب، قفقازی بلیک گراؤس، ریڈ فرنٹڈ سیرین، اور وال کریپر۔[358]ترکیہ کے شمال مشرقی اور جنوب مشرقی علاقوں میںاناطولی تیندوااب بھی بہت کم تعداد میں پایا جاتا ہے۔[359][360]یوریشین لنکس، یورپی جنگلی بلی اورکرکلدیگرخاندان گربہنسلیں ہیں جو ترکیہ کے جنگلات میں پائی جاتی ہیں۔بحیرہ قزوین شیرجو اب معدوم ہو چکا ہے،بیسویں صدیکے نصف آخر تک ترکیہ کے انتہائی مشرقی علاقوں میں رہتا تھا۔[359][361]انقرہ کے مشہور گھریلو جانوروں میںترک انگورہ بلی،انگورہ خرگوشاورانگورہ بکریشامل ہیں۔ اورصوبہ وانکی وان بلی شامل ہیں۔
+کتے کی قومی نسلیں کنگال (اناطولی شیفرڈ)، ملاکلی اور اکباس ہیں۔[362]ترکیہ کے ساحلی علاقوں میں جوبحیرہ ایجیئناوربحیرہ رومسے متصل ہے ایکمعتدل آب و ہوابحیرہ روم کی آب و ہوا ہے، گرم، خشک گرمیاں اور ہلکی سے ٹھنڈی، گیلی سردیوں کے ساتھ ہے۔[364]بحیرہ اسودسے متصل ساحلی علاقوں میں گرم، گیلی گرمیاں اور ٹھنڈی سے سرد، گیلی سردیوں کے ساتھ معتدل سمندریآب و ہواہے۔[364]ترکیہ کےبحیرہ اسودکے ساحل پر سب سے زیادہبارشہوتی ہے اور یہ ترکیہ کا واحد خطہ ہے جہاں سال بھر زیادہ بارش ہوتی ہے۔[364]بحیرہ اسودکے ساحل کے مشرقی حصے میں سالانہ اوسطاً 2,200 ملی میٹر (87 انچ) بارش ہوتی ہے جو ملک میں سب سے زیادہ بارش ہے۔[364]بحیرہ مرمرہسے متصل ساحلی علاقے، جوبحیرہ ایجیئناوربحیرہ اسودکو جوڑتا ہے، معتدلبحیرہ رومکی آب و ہوا اور معتدل سمندری آب و ہوا کے درمیان ایک عبوری آب و ہوا ہے جس میں گرم سے گرم، اعتدال پسند خشک گرمیاں اور ٹھنڈی سے سرد، گیلی سردیوں کا موسم ہے۔[364]بحیرہ مرمرہاوربحیرہ اسودکے ساحلی علاقوں پر تقریباً ہرموسم سرمامیں برف پڑتی ہے لیکن عام طور پر چند دنوں سے زیادہ نہیں پگھلتی ہے۔[364]تاہمبحیرہ ایجیئنکے ساحلی علاقوں میں برف بہت کم اوربحیرہ رومکے ساحلی علاقوں میں بہت کم ہوتی ہے۔[364]اناطولیائی سطح مرتفع پر سردیاں خاص طور پر شدید ہوتی ہیں۔
+شمال مشرقی اناطولیہ میں −30 سے −40 °س (−22 سے −40 ° ف) کا درجہ حرارت پایا جاتا ہے، اور برف سال کے کم از کم 120 دن تک زمین پر پڑی رہتی ہے، اور پورے سال کے دوران سمندر کی چوٹیوں پر بلند ترین پہاڑوں پر موجود رہتی ہے۔
+وسطی اناطولیہ میں درجہ حرارت −20 °س (−4 °ف) سے نیچے گر سکتا ہے جب کہ پہاڑ اس سے بھی زیادہ سرد ہیں۔[364]سماجی اقتصادی، آب و ہوا اور جغرافیائی عوامل کی وجہ سے ترکی موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔[34]یہ دس میں سے نو آب و ہوا کے خطرے کے طول و عرض پر لاگو ہوتا ہے، جیسے کہ ""خوشحالی کے لیے اوسط سالانہ خطرہ""۔[34]انجمن اقتصادی تعاون و ترقیوسطی دس میں سے دو ہے۔[34]کمزوری کو کم کرنے کے لیے جامع اور تیز رفتار ترقی کی ضرورت ہے۔[365]ترکیہ کا مقصد 2053ء تک خالص صفر اخراج کو حاصل کرنا ہے۔[366]آب و ہوا کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، لیکن اس کے نتیجے میں خالص اقتصادی فوائد بھی ہوں گے، بڑے پیمانے پر ایندھن کی کم درآمدات اور فضائی آلودگی کو کم کرنے سے بہتر صحت کی وجہ سے۔[367]ترکیہ ایکبالائی متوسطآمدنی والا ملک اور ایکابھرتی ہوئی مارکیٹہے۔[346][374]او ای سی ڈیاورجی 20کا ایک بانی رکن،یہ خام ملکی پیداوار کے لحاظ سے اٹھارہویںسب سے بڑی معیشت اور،گیارہویں سب سے بڑی معیشتبلحاظمساوی قوت خرید-جی ڈی پی کو ایڈجسٹ کئے جانے کے مظابق ہے۔
+اسےنئے صنعتی ممالکمیں درجہ بند کیا گیا ہے۔
+خدمات کیجی ڈی پیکی اکثریت ہے، جبکہ صنعت کا حصہ 30% سے زیادہ ہے۔[375]زراعت کا حصہ تقریباً 7% ہے۔[375]بین الاقوامی مالیاتی فنڈکے تخمینے کے مطابق،مساوی قوت خریدکی طرف سے ترکیہ کی فی کسجی ڈی پی2023ءمیں 42,064امریکی ڈالرہے، جبکہ اس کی برائے نامجی ڈی پیفی کس 12,849امریکی ڈالرہے۔[375]براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاریترکیہ میں2007ءمیں 22.05 بلین ڈالر کی بلندی تھی اور2022ءمیں گر کر 13.09 بلین ڈالر رہ گئی۔[376]ممکنہ ترقی دیرپا ساختی اور میکرو رکاوٹوں کی وجہ سے کمزور پڑ جاتی ہے، جیسے پیداواری ترقی کی سست شرح اور اعلی افراط زر ہوتا ہے۔[346]ترکیہ ایک متنوع معیشت ہے۔ اہم صنعتوں میں آٹوموبائل، الیکٹرانکس، ٹیکسٹائل، تعمیرات، اسٹیل، کان کنی، اور فوڈ پروسیسنگ شامل ہیں۔[375]یہ ایکبڑا زرعی پیداواری ملکہے۔[381]ترکیہ خام سٹیل کی پیداوار میںآٹھویں نمبرپر, اور موٹر گاڑیوں کی پیداوار میںتیرہویں نمبرپر، بحری جہاز کی تعمیر (بلحاظ ٹن وزن)، اور دنیا میں سالانہ صنعتی روبوٹ کی تنصیب میں بھی نمایاں مقام رکھتا ہے۔[382]ترکیہ کی آٹوموٹو کمپنیوں میں ٹی ای ایم ایس اے، اوٹوکر، بی ایم سی اورٹوگشامل ہیں۔ٹوگترکیہ کی پہلی آل الیکٹرک گاڑیوں کی کمپنی ہے۔ آرچیلک، ویسٹل، اور بیکو کنزیومر الیکٹرانکس کے بڑے مینوفیکچررز ہیں۔[383]آرچیلک دنیا میں گھریلو سامان کے سب سے بڑے پروڈیوسر میں سے ایک ہے۔[384]2022ءمیں ترکیہ ٹاپ 250 کی فہرست میں بین الاقوامی کنٹریکٹرز کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں دو��رے نمبر پر ہے۔[385]ٹیکسٹائل کی برآمدات کے لحاظ سے بھی یہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔[386]ترکش ایئرلائنزدنیا کی سب سے بڑی ایئر لائنزمیں سے ایک ہے۔[387]2007ءاور2021ءکے درمیان،مساوی قوت خریدسے کم آبادی کا حصہ-6.85امریکی ڈالرفی دن بین الاقوامیخط غربت20% سے کم ہو کر 7.6% ہو گیا ہے۔[346]2023ءمیں 13.9% آبادی قومی خطرے سے متعلقخط غربتسے نیچے تھی۔[389]2021ءمیں یوروسٹیٹ کی تعریف کا استعمال کرتے ہوئے، 34% آبادی غربت یا سماجی اخراج کے خطرے میں تھی۔[390]ترکیہ میں2022ءمیں بے روزگاری کی شرح 10.4 فیصد تھی۔[391]2021ءمیں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ کل ڈسپوزایبل آمدنی کا 47% سب سے اوپر 20% آمدنی والے افراد کو موصول ہوا، جب کہ سب سے کم 20% کو صرف 6% ملا۔[392]ترکیہ کیجی ڈی پیمیںسیاحتکا حصہ تقریباً 8% ہے۔[393]2022ءمیں ترکیہ 50.5 ملین غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ بین الاقوامی سیاحوں کی آمد کی تعداد میںدنیا میں پانچویں نمبرپر ہے۔[394]ترکیہ میں21 یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے مقاماتاور 84 عالمی ثقافتی ورثے کی عارضی فہرست میں شامل ہیں۔[395]ترکیہ 519بلیو فلیگ ساحل سمندروںکا گھر ہے، جو دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔[396]یورو مانیٹر انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابقاستنبولدنیا کا سب سے زیادہ دیکھنے والا شہر ہے جہاں2023ءمیں 20.2 ملین سے زائد غیر ملکی سیاح آئے۔[388]انطالیہنےپیرساورنیویارک شہرکو پیچھے چھوڑ کر 16.5 ملین سے زیادہ غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ دنیا کا چوتھا سب سے زیادہ دیکھنے والا شہر بن گیا ہے۔[388]ترکیہ دنیا میں بجلی پیدا کرنے والاسولہواں بڑا ملک ہے۔
+ترکیہ کی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، گزشتہ دہائی میں قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔[398][399]اس نے2019ءمیں اپنی بجلی کا 43.8 فیصد ایسے ذرائع سے پیدا کیا۔[400]ترکیہ دنیا میں جیوتھرمل پاور پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک بھی ہے۔[401]ترکیہ کا پہلا نیوکلیئر پاور سٹیشن، اکویو، اپنے انرجی مکس کے تنوع میں اضافہ کرے گا۔[402]جب کل حتمی کھپت کی بات آتی ہے تو، رکاز ایندھن اب بھی ایک بڑا کردار ادا کرتے ہیں، جو کہ 73 فیصد ہے۔[403]ترکیہ کےگرین ہاؤسگیسوں کے اخراج کی ایک بڑی وجہ توانائی کے نظام میں کوئلے کا بڑا حصہ ہے۔[404]2017ءتک جبکہ حکومت نے کم کاربن توانائی کی منتقلی میں سرمایہ کاری کی تھی، رکاز ایندھن کو اب بھی سبسڈی دی گئی۔[405]2053ء تک ترکیہ کا مقصد خالص صفر اخراج کرنا ہے۔[366]ترکیہ نے گیس اور تیل کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہوئے اپنی توانائی کی فراہمی کی حفاظت کو اولین ترجیح دی ہے۔[402]ترکیہ کے توانائی کی فراہمی کے اہم ذرائعروس،مغربی ایشیااوروسط ایشیاہیں۔[406]حال ہی میں دریافت ہونے والی ساکریا گیس فیلڈ میں گیس کی پیداوار2023ءمیں شروع ہوئی۔
+مکمل طور پر فعال ہونے پر، یہ مقامی طور پر درکار قدرتی گیس کا تقریباً 30 فیصد فراہم کرے گا۔[407][408]ترکیہ کا مقصد علاقائی توانائی کی نقل و حمل کا مرکز بننا ہے۔[409]ملک میں تیل اور گیس کی کئی پائپ لائنیں پھیلی ہوئی ہیں، بشمول بلیو اسٹریم، ترک اسٹریم، اور باکو-تبلیسی-سیہان پائپ لائنز۔[409]2023ءتک ترکیہ کے پاس 3,726 کلومیٹر طویلشاہراہیں(اوتویول) اور 29,373 کلومیٹرمنقسمشاہراہیں ہیں۔[410]متعدد پل اور سرنگیں ترکیہ کے ایشیائی اور یورپی اطراف کو جوڑتی ہیں۔ آبنائےدر دانیالپر1915ء چناق قلعہ پلدنیا کا سب سے لمبا معلق پل ہے۔[411]مرمرائیاوریوریشیا سرنگآبنائے باسفورسکے تحتاستنبولکے دونوں اطراف کو جوڑتا ہے۔[412]عثمان ��ازی پلخلیج ازمیتکے شمالی اور جنوبی ساحلوں کو ملاتا ہے۔[413]ترک ریاستی ریلوےروایتی اور تیز رفتار دونوں ٹرینیں چلاتی ہے، حکومت دونوں کو توسیع دے رہی ہے۔[414]تیز رفتار ریل لائنوں میںانقرہ-استنبول ہائی سپیڈ ریلوے، انقرہ-قونیا ہائی سپیڈ ریلوے، اور انقرہ-سیواس ہائی سپیڈ ریلوے شامل ہیں۔[415]استنبول میٹرو2019ءمیں تقریباً 704 ملین سالانہ سواریوں کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا سب وے نیٹ ورک ہے۔[416]2024ءتک ترکیہ میں 115 ہوائی اڈے ہیں۔[417]استنبول ہوائی اڈادنیا کے 10 مصروف ترینہوائی اڈوں میں سے ایک ہے ترکیہ کا مقصد نقل و حمل کا مرکز بننا ہے۔[418][419]یہ مختلف راستوں کا حصہ ہے جوایشیااوریورپکو ملاتے ہیں، بشمول مڈل کوریڈور۔[419]2024ءمیں ترکیہ،عراق،متحدہ عرب امارات، اورقطرنے عراقی بندرگاہوں کی سہولیات کو سڑک اور ریل رابطوں کے ذریعے ترکیہ سے جوڑنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔[420]تحقیق اور ترقی پر ترکیہ کاجی ڈی پیکے حصہ کے طور پر خرچ2000ءمیں 0.47% سے بڑھ کر2021ءمیں 1.40% ہو گیا ہے۔[421]ترکیہ سائنسی اور تکنیکی جرائد میں مضامین کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں 16ویں اور نیچر انڈیکس میں 35ویں نمبر پر ہے۔[422][423]ترکیہ کا پیٹنٹ آفس مجموعی طور پر پیٹنٹ ایپلی کیشنز میں دنیا بھر میں 21 ویں اور صنعتی ڈیزائن ایپلی کیشنز میں تیسرے نمبر پر ہے۔
+ترکیہ کے پیٹنٹ آفس میں درخواست دہندگان کی اکثریت ترک باشندوں کی ہے۔ عالمی سطح پر تمام پیٹنٹ دفاتر میں، ترکیہ کے رہائشی مجموعی طور پرپیٹنٹ کی درخواستوں کے لیے 21 ویں نمبرپر ہیں۔[424]2023ءمیں ترکیہاشاریہ عالمی اختراعمیں دنیا میں 39 ویں اور اپنے بالائی متوسط آمدنی والے گروپ میں چوتھے نمبر پر تھا۔[425]یہ ان ممالک میں سے ایک تھا جس میں گزشتہ دہائی میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔[36]توبی تاکفنڈنگ اور تحقیق کے لیے اہم ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔[426][427]ترکیہ کا خلائی پروگرام ایک قومی سیٹلائٹ لانچ سسٹم تیار کرنے اور خلائی تحقیق، فلکیات اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن میں صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔[427]گوک ترک پروگرام کے تحت، ترک خلائی نظام، انضمام اور ٹیسٹ سینٹر بنایا گیا تھا۔[428]ترکیہ کا پہلامواصلاتی سیارچہجو مقامی طور پر تیار کیا گیا ہے، ترک سیٹ 6اے،2024ءمیں لانچ کیا جائے گا۔[429]ایک منصوبہ بندپارٹیکل ایکسلریٹرمرکز کے ایک حصے کے طور پر، تارلا نامی ایک الیکٹران ایکسلریٹر2024ءمیں فعال ہو گیا تھا۔[430][431]ہارس شو آئی لینڈ پر انٹارکٹک ریسرچ سٹیشن کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔[432]ترکیہ کوبغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیوںمیں ایک اہم طاقت سمجھا جاتا ہے۔[433]اسیلسن، ٹرکش ایرو اسپیس انڈسٹریز، روکسان، اور اسفات دنیا کی 100 اعلیٰ دفاعی کمپنیوں میں شامل ہیں۔[434]ترکیہ کی دفاعی کمپنیاں اپنے بجٹ کا بڑا حصہ تحقیق اور ترقی پر خرچ کرتی ہیں۔[435]اسیلسن کوانٹم ٹیکنالوجی میں تحقیق میں بھی سرمایہ کاری کرتا ہے۔[436]ایڈریس بیسڈ پاپولیشن ریکارڈنگ سسٹم کے مطابق، ملک کی آبادی2023ءمیں 85,372,377 تھی، جس میں عارضی تحفظ کے تحتسوری مہاجرینکو چھوڑ کر۔[7]93% صوبے اورضلعی مراکزمیں رہتے ہیں۔[7]15-64 اور 0-14 عمر کے گروپوں کے اندر لوگ بالترتیب کل آبادی کے 68.3% اور 21.4% کے مساوی تھے۔ 65 سال یا اس سے زیادہ عمر والے 10.2 فیصد بنے۔[7]1950ءاور2020ءکے درمیان ترکیہ کی آبادی چار گنا سے زیادہ 20.9 ملین سے بڑھ کر 83.6 ملین ہو گئی؛ [401] تاہم،2023ءمیں آبادی میں اضافے کی شرح 0.1 فیصد تھی۔[438]2023ءمیں کلپیدائشی شرحفی عورت 1.51 بچے تھی، جو کہ فی عورت 2.10 کی تبدیلی کی شرح سے کم تھی۔[7]2018ءکے صحت کے سروے میں، مثالی بچوں کی تعداد فی عورت 2.8 بچے تھی، جو بڑھ کر فی شادی شدہ عورت 3 ہوگئی۔ .[439][440]ترکیہ کےآئینکا آرٹیکل 66 ترک کی تعریف کسی ایسے شخص کے طور پر کرتا ہے جو شہری ہو۔ ایک اندازے کے مطابق ترکیہ میں کم از کم 47 نسلی گروہ موجود ہیں۔[444]آبادی کے نسلی اختلاط سے متعلق قابل اعتماد ڈیٹا دستیاب نہیں ہے کیونکہمردم شماریکے اعداد و شمار میں1965ءکی ترک مردم شماری کے بعد نسل کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔[445]ورلڈ فیکٹ بک(کتاب حقائق عالم) کے مطابق، ملک کے 70-75% شہری ترک نژاد ہیں۔[446]ایک سروے کی بنیاد پر، کونڈا کا تخمینہ2006ءمیں 76% تھا، 78% بالغ شہریوں نے اپنے نسلی پس منظر کو ترک کے طور پر خود شناخت کیا۔[4]2021ءمیں ایک سروے میں 77 فیصد بالغ شہریوں کی نشاندہی کی گئی۔[447][448]کرد سب سے بڑی نسلی اقلیت ہیں۔[449]آبادی کے 12 سے 20% تک کے تخمینے کے ساتھ،[450]ان کی صحیح تعداد متنازع رہتی ہے۔[449]1990ءکے ایک مطالعے کے مطابق، کرد آبادی کا تقریباً 12 فیصد ہیں۔[451]صوبہ آغری،صوبہ باتمان،صوبہ بینگول،صوبہ بتلیس،صوبہ دیار بکر،صوبہ حکاری،صوبہ اغدیر،صوبہ ماردین،صوبہ موش،صوبہ سعرد،صوبہ شرناق،صوبہ تونجیلیاورصوبہ وان; میں قریب اکثریتصوبہ شانلی اورفہ(47%); اور اس میں ایک بڑی اقلیتصوبہ قارص(20%)، صوبوں میں کردوں کی اکثریت ہے۔[452]مزید برآں، اندرونی ہجرت کے نتیجے میں کرد باشندے وسطی اور مغربی ترکیہ کے تمام بڑے شہروں میں آباد ہوئے ہیں۔استنبولمیں ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ کرد آباد ہیں، جو اسے دنیا کا سب سے بڑا کرد آبادی والا شہر بناتا ہے۔[453]2021ءمیں ایک سروے میں 19% بالغ شہریوں کی شناخت نسلی کرد کے طور پر ہوئی۔[454][455]کچھ لوگ متعدد نسلی شناخت رکھتے ہیں، جیسے کہ ترک اور کرد۔[448]2006ءمیں ایک اندازے کے مطابق 2.7 ملین نسلی ترک اور کرد نسلی شادیوں سے متعلق تھے۔[456]ورلڈ فیکٹ بککے مطابق، غیر کرد نسلی اقلیتیں آبادی کا 7-12٪ ہیں۔[4]2006ءمیں کونڈا نے اندازہ لگایا کہ غیر کرد اور غیر زازا نسلی اقلیتیں آبادی کا 8.2% ہیں؛ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے عام وضاحتیں دیں جیسے کہ ترک شہری، دوسرےترکپس منظر والے لوگ ،عرب، اور دیگر۔[447]2021ءمیں ایک سروے میں 4% بالغ شہریوں کی شناخت غیر نسلی ترک یا غیر نسلی کرد کے طور پر کی گئی۔[448]آئینی عدالت کے مطابق، ترکیہ میں صرف چار سرکاری طور پر تسلیم شدہ اقلیتیں ہیں: تین غیر مسلم اقلیتیں جومعاہدہ لوزانمیں تسلیم کی گئی ہیں (آرمینیائی، یونانی، اور یہودی[پ]) اور بلغاریائی ہیں۔[ت][460][461][462]2013ءمیںانقرہ13 ویں سرکٹ ایڈمنسٹریٹو کورٹ نے فیصلہ دیا کہ لوزان معاہدے کی اقلیتی شقوں کا اطلاق ترکیہ اورسریانی زبانمیں آشوریوں پر بھی ہونا چاہیے۔[463][464][465]دیگر غیر تسلیم شدہ نسلی گروہوں میں البانیائی، بوسنیاکس، سرکیشین، جارجیائی،لاز، پوماکس، اوررومینیشامل ہیں۔[466][467][468]دفتری زبانترکی زبانہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والیترک زبانہے۔[469][470]اسےمادری زبانکے طور پر 85%[471][472]سے 90%[473]تک بولی جاتی ہے۔ کرد بولنے والے سب سے بڑی لسانی اقلیت ہیں۔[473]ایک سروے کے مطابق 13% آبادی کرد یازازاکی زبانکو پہلی زبان کے طور پر بولتی ہے۔[471]دیگر اقلیتی زبانوں میںعربی زبان،قفقاز کی زبانیں، اورگاگاؤز زبانشامل ہیں۔[473]سرکاری طور پر تسلیم شدہ اقلیتوںآرمینیائی زبان,بلغاری زبان,یونانی زبان,عبرانی زبان,[ٹ][457][460][461][462]اورسریانی زبان[464][465]کے لسانی حقوق کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کا تح��ظ کیا جاتا ہے۔
+ترکیہ میں متعدد زبانیں خطرے سے دوچار ہیں۔ترکیہ میں امیگریشن وہ عمل ہے جس کے ذریعے لوگ ملک میں رہنے کے لیے ترکیہ منتقل ہوتے ہیں۔سلطنت عثمانیہکی تحلیل کے بعد اور ترکیہ کی جنگ آزادی کے بعد، ترک (ترک) اور بلقان (بلقان ترک، البانی، بوسنیا، پومکس)، قفقاز (ابخازیوں، اجاریوں، سرکاشیوں، چیچن)، کریمیا (کریمیائی تاتار ڈائیسپورا) اور کریٹ (کریٹن ترک) نے موجودہ ترکیہ میں پناہ لی اور ملک کی بنیادی خصوصیات کو ڈھالا۔[7]ترکی کی طرف امیگریشن کے رجحانات آج بھی جاری ہیں، اگرچہ محرکات زیادہ متنوع ہیں اور عام طور پر عالمی امیگریشن کی نقل و حرکت کے نمونوں کے مطابق ہوتے ہیں - مثال کے طور پر ترکیہ کو آس پاس کے ممالک جیسے آرمینیا، مالدووا، جارجیا، سے بہت سے معاشی تارکین وطن آتے ہیں۔[476]ایران، اور آذربائیجان، بلکہ وسطی ایشیا، یوکرین اور روس سے بھی۔[477]2010 کی دہائی کے دوران ترکیہ کے تارکین وطن کے بحران نے بڑی تعداد میں لوگوں کو ترکی آنے کا دیکھا، خاص طور پرسوری خانہ جنگیسے فرار ہونے والے ہیں۔[478]نومبر2020ءمیں ترکیہ میں 3.6 ملین سوری پناہ گزین تھے؛[479]ان میںسوریہکے دیگر نسلی گروہ شامل تھے، جیسے سوری کرد[480]اورشامی ترکمانشامل ہیں۔[481]اگست2023ءتک ان مہاجرین کی تعداد 3.3 ملین بتائی گئی تھی۔ سال کے آغاز سے اب تک سوریوں کی تعداد میں تقریباً 200,000 افراد کی کمی واقع ہوئی ہے۔[482]حکومت نومبر2023ءتک 238 ہزار سوریوں کو شہریت دے چکی ہے۔[483]مئی2023ءتکیوکرینپر2022ءکے روسی حملے کے تقریباً 96,000یوکرینیمہاجرین نے ترکیہ میں پناہ مانگی ہے۔[484]2022ءمیں، تقریباً 100,000روسیشہریوں نے ترکیہ ہجرت کی، جو ترکیہ منتقل ہونے والے غیر ملکیوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آئے، یعنی2021ءسے 218 فیصد زیادہ اضافہ ہوا۔[485]ترکیہ ایکسیکولر ریاستہے جس کا کوئیسرکاری مذہبنہیں؛ آئینمذہبی آزادیاور ضمیر کی آزادی فراہم کرتا ہے۔[488][489]ورلڈ فیکٹ بک(کتاب حقائق عالم) کے مطابق،مسلمانآبادی کا 99.8 فیصد ہیں، جن میں سے زیادہ تراہل سنتہیں۔[4]ایک سروے کی بنیاد پر،2006ءمیں مسلمانوں کے لیے کونڈا کا تخمینہ 99.4% تھا۔[490]اقلیتی حقوق گروپ انٹرنیشنل کے مطابق،علویوںکے حصہ کا تخمینہ 10% سے 40% آبادی کے درمیان ہے۔[491]کونڈا کا تخمینہ2006ءمیں 5% تھا۔[490]2021ءمیں کیے گئے ایک سروے میں 4% بالغ شہریوں کی شناختعلویکے طور پر ہوئی جبکہ 88% کی شناختسنیکے طور پر ہوئی۔[448]جدید دور کے ترکیہ میں غیر مسلموں کی شرح1914ءمیں 19.1% تھی، لیکن1927ءمیں گر کر 2.5% رہ گئی۔[492]ورلڈ فیکٹ بککے مطابق فی الحال غیر مسلم آبادی کا 0.2% ہیں۔[4]2006ءمیں کونڈا کا تخمینہ غیر اسلامی مذاہب کے لوگوں کے لیے 0.18% تھا۔[490]کچھ غیر مسلم برادریوں میں آرمینیائی، آشوری، بلغاریائی آرتھوڈوکس،کیتھولک، کلڈین،یونانی،یہودیاورپروٹسٹنٹہیں۔[493]ترکیہ مسلم اکثریتی ممالک میں سب سے زیادہیہودی برادریہے۔[494]اس وقت ترکیہ میں 439گرجا گھراور عبادت گاہیں ہیں۔2006ءمیں کونڈا کا تخمینہ ان لوگوں کے لیے 0.47% تھا جن کا کوئی مذہب نہیں تھا۔[490]کونڈا کے مطابق، بالغ شہریوں کا حصہ جن کی شناخت کافر کے طور پر ہوئی ہے2011ءمیں 2 فیصد سے بڑھ کر2021ءمیں 6 فیصد ہو گئی۔[448]موبائل ریسرچ2020ءکے سروے نے پایا کہجنریشن زیڈکا 28.5% غیر مذہبی کے طور پر شناخت کرتا ہے۔[495][496]گزشتہ 20 سالوں میں، ترکیہ نے تعلیم کے معیار کو بہتر کیا ہے اور تعلیم تک رسائی بڑھانے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔[499]2011ءسے2021ءتک تعلیم تک رسائی میں بہتری میں ""اپر سیکنڈری غیر تر��یری یا ترتیری تعلیم میں 25-34 سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیمی حصول میں سب سے بڑا اضافہ"" اور پری اسکول کے اداروں کا چار گنا اضافہ شامل ہے۔[35]پروگرام برائے بین الاقوامی طالب علم تعینکے نتائج تعلیمی معیار میں بہتری کی نشاندہی کرتے ہیں۔[35]او ای سی ڈی ممالک کے ساتھ اب بھی خلا ہے۔ اہم چیلنجوں میں مختلف اسکولوں کے طلبہ کے نتائج میں فرق، دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان فرق، پری پرائمری تعلیم تک رسائی، اور سوری پناہ گزینوں کے طلبہ کی آمد شامل ہیں۔[35]وزارت قومی تعلیم قبل ثلاثی تعلیم کی ذمہ دار ہے۔[501]لازمی تعلیم سرکاری اسکولوں میں مفت ہے اور 12 سال تک رہتی ہے، اسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔[502][499]ترکیہ میں 208 یونیورسٹیاں ہیں۔[427]طلباء کو ان کے وائی کے ایس نتائج اور ان کی ترجیحات کی بنیاد پر، پیمائش، انتخاب اور تقرری مرکز کے ذریعے یونیورسٹیوں میں رکھا جاتا ہے۔[503]تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں ہائر ایجوکیشن بورڈ (ترکی زبان: Yükseköğretim Kurulu) کے کنٹرول میں ہیں۔2016ءسے ترکیہ کےصدربراہ راست تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے تمام ریکٹروں کی تقرری کرتے ہیں۔[504]2024ءٹائمز ہائر ایجوکیشن رینکنگ کے مطابق سرفہرست یونیورسٹیاںکوچ یونیورسٹی،مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی،سابانجی یونیورسٹیاوراستنبول ٹیکنیکل یونیورسٹیتھیں۔[505]عالمی یونیورسٹیوں کی اکیڈمک رینکنگ کے مطابق سرفہرستاستنبول یونیورسٹی،یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزاورحاجت تپہ یونیورسٹیتھیں۔[506]ترکی ایراسمس+ پروگرام کا رکن ہے۔[507]ترکیہ حالیہ برسوں میں غیر ملکی طلبا کا مرکز بن گیا ہے،2016ءمیں 795,962 غیر ملکی طلبا ملک میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔[508]2021ءمیں ترکیہ اسکالرشپس، ایک حکومتی مالی امداد سے چلنے والے پروگرام کو 178 ممالک میں متوقع طلبا سے 165,000 درخواستیں موصول ہوئیں۔[509][510][511]ترکیہ اسکالرشپس ترکیہ کی حکومت کی طرف سے فنڈ ایک بین الاقوامی اسکالرشپ پروگرام ہے۔[512][513][514]اسکالرشپ کے متعدد زمرے پروگرام کا حصہ ہیں۔ اگرچہ دنیا کے تقریباً ہر حصے کے امیدواروں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے اعلیٰ درجے کھلے ہیں، انڈرگریجویٹ اسکالرشپ کی علاقائی طور پر تعریف کی جاتی ہے اور ان میں صرف واضح طور پر ذکر کردہ ممالک شامل ہیں۔ گریجویٹ سطح کے اسکالرشپ میں علی کوسو سائنس اور ٹیکنالوجی گریجویٹ اسکالرشپ اور ابنی ہالڈون سوشل سائنسز گریجویٹ اسکالرشپ شامل ہیں۔[515]طالب علم کو ترکیہ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک سال کے اندر اپنے ملک واپس جانا ہوگا۔ وہ لوگ جنہیں ترکیہ میں کام کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور ترکیہ کو مطلوبہ اہل افرادی قوت کے دائرہ کار میں کام کا اجازت نامہ دیا گیا ہے، وہ اس مضمون کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔[516]وزارت صحت2003ءسے صحت عامہ کا ایک عالمگیر نظام چلا رہی ہے۔[518]یونیورسل ہیلتھ انشورنس کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی مالی اعانت آجروں پر ٹیکس سرچارج سے ہوتی ہے، جو فی الحال 5% ہے۔[518]پبلک سیکٹر کی فنڈنگ تقریباً 75.2% صحت کے اخراجات کا احاطہ کرتی ہے۔[518]عالمی صحت کی دیکھ بھال کے باوجود،2018ءمیں صحت پر مجموعی اخراجات جی ڈی پی کے حصہ کے طور پر او ای سی ڈی ممالک میں جی ڈی پی کے 6.3 فیصد پر سب سے کم تھے، جبکہ او ای سی ڈی کی اوسط 9.3 فیصد تھی۔[518]ملک میں کئی پرائیویٹ ہسپتال ہیں۔[519]حکومت نے2013ءسے کئی ہسپتالوں کے احاطے، جنہیں سٹی ہسپتال کہا جاتا ہے، کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے۔[519]ترکی صحت کی سیاحت کے لیے سرفہرست 10 مقامات میں سے ایک ہے۔[520]اوسط عمر متوقع 78.6 سال ہے (75.9 مردوں کے لیے اور 81.3 خواتین کے لیے)، اس کے مقابلے میںیورپی یونینکی اوسط 81 سال ہے۔[518]ترکیہ میںموٹاپےکی اعلی شرح ہے، اس کی 29.5% بالغ آبادی کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) ویلیو 30 یا اس سے اوپر ہے۔[521]فضائی آلودگیجلد موت کی ایک بڑی وجہ ہے۔[522]ترکیہ میں طبی سیاحت کا کافی کاروبار ہے،2018ءکے پہلے چھ مہینوں میں تقریباً 178 ہزار سیاح صحت کے مقاصد کے لیے تشریف لائے۔ 67% نے پرائیویٹ اسپتال، 24% سرکاری اسپتال اور 9% یونیورسٹی کے اسپتالوں کا استعمال کیا۔
+بین الاقوامی صحت سیاحت اور سیاحوں کی صحت سے متعلق ضابطہ13 جولائی2017ءکو نافذ ہوا۔ یہ صرف ان لوگوں پر لاگو ہوتا ہے جو خاص طور پر علاج کے لیے آتے ہیں۔[524]انیسویں صدیمیںسلطنت عثمانیہمیں ترکیہ کی شناخت پر بحث ہوئی، جس میں تین اہم نظریات تھے: ترک ازم، اسلامیت اور مغربیت۔[525]یورپیااسلامکے علاوہ ترکیہ کی ثقافت بھیاناطولیہکی مقامی ثقافتوں سے متاثر تھی۔[526]جمہوریہ کے قیام کے بعد،کمالزمنے ترک ثقافت پر زور دیا، ""اسلام کو ذاتی یقین کا معاملہ"" بنانے کی کوشش کی، اور جدیدیت کی پیروی کی۔[527]اس وقت ترکیہ میں مختلف مقامی ثقافتیں ہیں۔موسیقی،لوک رقص، یاکبابجیسی چیزیں مقامی علاقے کی شناخت کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔
+ترکیہ کی ایک قومی ثقافت بھی ہے، جیسے کہ ""قومی فلمی ستارے، راک بینڈ، فیشن کے رجحانات، اور ساکر اور باسکٹ بال لیگ""۔[528]عثمانی منی ایچر کا تعلق فارسی منی ایچر روایت سے ہے اور اسی طرحچینی پینٹنگکے انداز اور تکنیک سے بھی متاثر ہے۔ الفاظ تصویر یا نقش عثمانی ترکیہ میں منی ایچر پینٹنگ کے فن کی تعریف کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ فنکاروں نے جن اسٹوڈیوز میں کام کیا انہیں نقاشین کہا جاتا تھا۔[529]نقطہ نظر کی تفہیم قریبی یورپینشاۃ ثانیہکی مصوری کی روایت سے مختلف تھی، اور جس منظر کی تصویر کشی کی گئی تھی اس میں اکثر ایک تصویر میں مختلف اوقات اور جگہیں شامل ہوتی تھیں۔ انہوں نے اس کتاب کے سیاق و سباق کی قریب سے پیروی کی جس میں انہیں شامل کیا گیا تھا، آرٹ کے اسٹینڈ اکیلے کاموں سے زیادہ عکاسی۔ سولہویں صدی کے فنکارنقاش عثماناورمتراکجی نصوحاس دور کے نمایاں ترین فنکاروں میں سے ہیں۔ترکیہ کی مصوری، مغربی معنوں میں،انیسویں صدیکے وسط سے فعال طور پر تیار ہوئی۔ پینٹنگ کے پہلے اسباق1793ءمیں جو اباستنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی(اس وقت امپیریل ملٹری انجینئرنگ اسکول) میں طے کیے گئے تھے، زیادہ تر تکنیکی مقاصد کے لیے تھے۔[530]انیسویں صدیکے آخر میں، ترکیہ کی مصوری میں، خاص طور پرعثمان حمدی بیگکے ساتھ، مغربی معنوں میں انسانی شخصیت قائم کی جا رہی تھی۔ عصری رجحانات میں سےتاثریتبعد میںخلیل پاشاکے ساتھ نمودار ہوئی۔انیسویں صدیکے دیگر اہم ترک مصوروں میںفریق ابراہیم پاشا،عثمان نوری پاشا،شکر احمد پاشا، اورخوجہ علی ریاضتھے۔[531]قالین اور ٹیپسٹری بُنائی ایک روایتی ترک فن ہے جس کی جڑیں قبل ازاسلامکے زمانے میں ہیں۔ اپنی طویل تاریخ کے دوران، ترکیہ میںقالیناور ٹیپسٹری بُننے کے فن اور دستکاری نے متعدد ثقافتی روایات کو مربوط کیا ہے۔
+ترک طرز کے نمونوں کے علاوہ جو مروجہ ہیں، فارسی اوربازنطینینمونوں کے نشانات کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ آرمینیائی، قفقازی اور کرد قالین کے ڈیزائن میں استعمال ہونے والے نمونوں کے ساتھ بھی مماثلتیں ہیں۔وسط ایشیامیںاسلامکی آمد اوراسلامی فنونکی ترقی نےقرون وسطی��کے دور میں ترکیہ کے نمونوں کو بھی متاثر کیا۔
+اس طرح ترکیہ کے قالینوں اور ٹیپسٹریوں میں استعمال ہونے والے ڈیزائنوں، نقشوں اور زیورات کی تاریخ ترکوں کی سیاسی اور نسلی تاریخ اوراناطولیہکے ثقافتی تنوع کی عکاسی کرتی ہے۔
+تاہم سائنسی کوششیں ناکام رہیں، ابھی تک، کسی خاص ڈیزائن کو کسی مخصوص نسلی، علاقائی، یا یہاں تک کہ خانہ بدوش بمقابلہ گاؤں کی روایت سے منسوب کرنے سے قاصر ہے۔[532]ترکیہ کی پینٹنگ1960ءکی دہائی سے مسلسل ترقی کرتی رہی ہے، ترقی کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ، جس کا ثبوت بہت سے نئے فنکاروں نے بہت سے مختلف انداز میں دکھایا ہے۔
+سیاہ قلم گروپ1960ءمیںانقرہمیں قائم ہوا۔ وہچودہویں صدیاورپندرہویں صدیکے اوائل کے مصور سیاہ قلم سے متاثر ہوئے۔[533]سلطنت عثمانیہاوراسلامی دنیاکے ساتھ ساتھیورپکے درمیان تعامل نے جدید دور کے ترکموسیقیاور ادبی فنون میں ترک، اسلامی اور یورپی روایات کے امتزاج میں اہم کردار ادا کیا۔[534]زیادہ تر عثمانی دور میںترک ادب،فارسی ادباورعربی ادبسے بہت زیادہ متاثر تھا۔[535]انیسویں صدیکیتنظیماتاصلاحات نے پہلے سے نامعلوم مغربی انواع کو متعارف کرایا، بنیادی طور پرناولاور مختصر کہانی۔تنظیماتکے دور میں بہت سے مصنفین نے بیک وقت کئی اصناف میں لکھا: مثال کے طور پر، شاعرنامق کمالنے بھی1876ءکا ناول انتباہ (بیداری) لکھا، جب کہ صحافی سیناسی نے1860ءمیں لکھا، پہلا جدید ترکی ڈراما، ایک ایکٹ کامیڈی (شاعر کی شادی) تھا۔ جدیدترک ادبکی زیادہ تر جڑیں1896ءاور1923ءکے درمیان قائم ہوئیں۔[536]بیسویں صدیکی ترک شاعری میں جدت کا پہلا بنیادی قدم ناظم حکمت نے اٹھایا،[537]جس نےآزاد نظمکا انداز متعارف کرایا۔
+ترکشاعریمیں ایک اور انقلاب1941ءمیں اورہان ویلی، اوکتے رفعت اور ملیح سیودیت کی قیادت میں گیرپ تحریک[538]کے ساتھ آیا۔ترکی میں ثقافتی اثرات کی آمیزش کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے، مثال کے طور پر،2006ءکاادب کا نوبل انعامحاصل کرنے والےاورخان پاموککے ناولوں میں ""تصادم اور ثقافتوں کے باہمی ربط کی نئی علامتوں"" کی شکل میں نظر آیا۔[539]ترک تھیٹر کی ابتدا قدیم کافر رسموں اور زبانی داستانوں سے ہوئی ہے۔[540]ہزاروں سال پہلے اناطولیہ کے باشندوں کی رسومات کے دوران پیش کیے جانے والے رقص، موسیقی اور گانے وہ عناصر ہیں جن سے پہلے شوز کا آغاز ہوا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، قدیم رسومات، خرافات، داستانیں اور کہانیاں تھیٹر کے شوز میں تبدیل ہوئیں۔گیارہویں صدیسے شروع ہونے والیسلجوقترکوں کی روایاتاناطولیہکے مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل گئیں اور متنوع ثقافتوں کے درمیان تعامل نے نئے ڈراموں کی راہ ہموار کی۔[540][541]مدحکہانی سنانے والےقصہ گوتھے جنہوں نے عثمانی دور میں سامعین کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔[540]قرہ غوز اور حاجی وادروایتی ترک پتلی تماشے کے مرکزی کردار ہیں، جو عثمانی دور میں مقبول ہوئے اور پھرسلطنت عثمانیہکے بیشتر نسلی گروہوں میں پھیل گئے۔[542]ترک موسیقی کو مختلف طریقوں سے بیان کیا جا سکتا ہے، جس میں ""عالمی سطح پر مارکیٹ کی جانے والی پاپ موسیقی جس میں تھوڑا سا مقامی رنگ ڈالا گیا ہے"" سے لے کر ایک ایسی رسم تک شامل ہے جس میںاناطولیہکی مختلف تہذیبوں کی ہزاروں سال کی میراث شامل ہے۔[543]ترکیہ کے بہت سے شہروں اور قصبوں میں مقامی موسیقی کے متحرک مناظر ہیں جو کہ بدلے میں متعدد علاقائی موسیقی کے انداز کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود، مغربی موسیقی کے ا��داز جیسےپاپ موسیقیاور کانٹو نے1970ءاور1980ءکی دہائی کے آخر میںعربی زبانمیں مقبولیت کھو دی۔ یہ1990ءکی دہائی کے آغاز میں ایک کھلنے والی معیشت اور معاشرے کے نتیجے میں دوبارہ مقبول ہوا۔پاپ موسیقیکی پھر سے بڑھتی ہوئی مقبولیت نے کئی بین الاقوامی ترک پاپ اسٹارز کو جنم دیا جیسےاجدا پیکان،سزن آکسو، ایرول ایوگین، ایم ایف او، ترکان، سرتاب ایرنر، تیومان، کینان ڈوگولو، لیونٹ یوکسل اور ہانڈے ینر شامل ہیں۔
+بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ ترکجازاوربلوزموسیقاروں اور کمپوزروں میں احمد ارتیگن[544](اٹلانٹک ریکارڈز کے بانی اور صدر)، نوکھیت رواکان اور کریم گورسیو شامل ہیں۔ترکیہ بے شمارنئے سنگی دوربستیوں کا گھر ہے، جیسےچاتالہویوک[546][547]کانسی کے دورسے، اہم تعمیراتی باقیات میںآلاجا ہوئیوکاورٹرائےکی دوسری تہہ شامل ہیں۔[548]قدیم یونانی اور قدیمرومی فن تعمیرکی مختلف مثالیں ہیں، خاص طور پرایجیئن علاقہمیں پھیلی ہوئی ہیں۔[549]بازنطینی فن تعمیرچوتھی صدیعیسوی کا ہے۔ اس کی بہترین مثالآیا صوفیہہے۔
+بازنطینی طرز تعمیراستنبولکی فتح کے بعد ترقی کرتا رہا، جیسا کہ بازنطینی احیا فن تعمیر طور پر۔[550]سلجوق سلطنت روماور ترکیہ کی سلطنتوں کے دور میں، ایک الگ فن تعمیر ابھرا، جس نے بازنطینی اور آرمینیائی فن تعمیرات کومغربی ایشیااوروسط ایشیامیں پائے جانے والے تعمیراتی طرز کے ساتھ شامل کیا۔[551]سلجوق فن تعمیر میں اکثر پتھروں اور اینٹوں کا استعمال کیا جاتا تھا، اور متعددکارواں سرائے،مدارساورمزارتیار کیے جاتے تھے۔[552]عثمانی طرز تعمیرشمال مغربیاناطولیہاورتھریسمیں ابھرا۔ ابتدائی عثمانی فن تعمیر نے ""روایتی اناطولیائی اسلامی فن تعمیر کو مقامی تعمیراتی مواد اور تکنیکوں کے ساتھ ملایا""۔[553]استنبولکی فتح کے بعد،سولہویں صدیاورسترہویں صدیمیں کلاسیکی عثمانی فن تعمیر کا ظہور ہوا۔[554]کلاسیکی دور کا سب سے اہممعمار سنان پاشاہے، جس کے بڑے کاموں میںشہزادہ مسجد،جامع سلیمانیہ، اورسلیمیہ مسجد، ادرنہشامل ہیں۔[555]اٹھارہویں صدیکے آغاز میں،عثمانی فن تعمیریورپی عناصر سے متاثر ہوا، جس کے نتیجے میں عثمانیباروکطرز کی ترقی ہوئی۔[556]انیسویں صدیمیں یورپی اثر و رسوخ جاری رہا۔ مثال میں بالیان خاندان کے کام شامل ہیں جیسے کہ نو باروک طرز کادولماباغچہ محل۔[557]دولماباغچہ محلترکیo کے شہراستنبولمیں واقع ایک تاریخی شاہی محل ہے جو1853ءسے1922ءتکسلطنت عثمانیہکا انتظامی مرکز تھا۔عثمانی فن تعمیرکا آخری دور پہلی قومی تعمیراتی تحریک پر مشتمل ہے جس میںمحمد وداد تیکاورمعمار کمال الدینکے کام شامل ہیں۔[558]1918ءسے ترکیہ کے فن تعمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔1918ءسے1950ءتک، پہلے میں پہلی قومی تعمیراتی تحریک کا دور شامل ہے، جو جدید طرز تعمیر میں تبدیل ہوا۔
+جدید اور یادگار عمارتوں کو عوامی عمارتوں کے لیے ترجیح دی گئی، جب کہ ""ترک ہاؤس"" قسم کی مقامی فن تعمیر نے نجی مکانات کو متاثر کیا۔1950ءسے1980ءتک، دوسرے حصے میں شہری کاری، جدیدیت اور بین الاقوامی کاری شامل ہے۔ رہائشی مکانات کے لیے، ""مضبوط کنکریٹ، سلیب بلاک، درمیانے درجے کے اپارٹمنٹس"" رائج ہو گئے۔1980ءسے، تیسرے حصے کی تعریف صارفین کی عادات اور بین الاقوامی رجحانات، جیسے شاپنگ مالز اور آفس ٹاورز سے ہوتی ہے۔ ""ترک ہاؤس اسٹائل"" کے ساتھ لگژری رہائش گاہوں کی مانگ رہی ہے۔[559]اکیسویں صدیمیں، شہری تجدید کے منصوبے ایک رجحان بن چکے ہیں۔[560]قدرتی آفات جیسے زلزلوں کے خلاف لچک شہری تجدید کے منصوبوں کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔[561]ترکیہ کے عمارتی اسٹاک کا تقریباً ایک تہائی، جو کہ 6.7 ملین یونٹس کے برابر ہے، کا اندازہ خطرناک اور شہری تجدید کی ضرورت ہے۔[562]ترک پکوانزیادہ ترعثمانی پکوانکا ورثہ ہے،[565][566]جس میں ترک، بازنطینی، بلقان، آرمینیائی، جارجیائی، کرد، عرب اور فارسی پکوانوں کے عناصر شامل ہیں۔
+اسےبحیرہ روم،مشرق وسطیٰ،وسط ایشیائی،بلقاناورمشرقی یورپیکھانوں کے فیوژن اور تطہیر کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔[565][566][567]یورپ،ایشیااوربحیرہ رومکے درمیان ملک کی پوزیشن نے ترکوں کو بڑے تجارتی راستوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں مدد کی، اور ایک مثالی زمین کی تزئین اورآب و ہوانے پودوں اور جانوروں کو پنپنے کی اجازت دی۔ترک پکوانپندرہویں صدیکے وسط تک اچھی طرح سے قائم ہو چکا تھا، جس نےسلطنت عثمانیہکےکلاسیکی دورکا آغاز کیا۔دہیسلاد؛میزے؛مچھلیاور سمندری غذا؛ انکوائری، ابلی ہوئی یا ابلی ہوئی گوشت کی اقسام؛زیتون کے تیلسے پکی ہوئی سبزیاں یا بھرے اور لپیٹے ہوئے سبزیاں؛ اور مشروبات جیسےشربت،عیراناور راکی ترکیہ کے بنیادی اشیا بن گئے۔
+سلطنت نے اپنے زمینی اور آبی راستوں کو پوریدنیاسے غیر ملکی اجزا درآمد کرنے کے لیے استعمال کیا۔سولہویں صدیکے آخر تک، عثمانی دربار نے 1,400 سے زیادہ باورچیوں کو رکھا اور کھانے کی تازگی کو کنٹرول کرنے والے قوانین منظور کیے۔1923ءمیں جمہوریہ کے قیام کے بعد سے، غیر ملکی کھانے جیسے کہ فرانسیسی ہالینڈائز ساس اور مغربیفاسٹ فوڈنے جدیدترک پکوانمیں اپنا راستہ بنا لیا ہے۔میزےشامی،ترک، بلقان، آرمینیائی، کرد، اور یونانی کھانوں میں اشتہا آور چھوٹے پکوانوں کا انتخاب ہے۔ یہ ہسپانوی تاپس اوراطالویاینٹی پیسٹی سے ملتا جلتا ہے۔[568]حلومیبکریوں اوربھیڑکےدودھسے بنا، ایک نیم سخت قبرصیپنیرہے۔[569][570][571][572][573][574]چونکہ اس کا نقطہ پگھلاؤ بہت زیادہ ہے اس لیے اسے آسانی سے تلا اور بھونا جا سکتا ہے۔ حلومیقبرص،یونان، ترکیہ اورمشرق وسطیمیں بہت مقبول ہے۔شیش کبابگرلگوشتکے ٹکڑے پر مشتمل معروف پکوان ہے۔[575]یہشاشلکنامی ایک ڈش کے مترادف کے طور پر بنائی جاتی ہے۔جوقفقاز کےعلاقے میں بہت ذوق و شوق سے بنائی جاتی ہے۔[576]لوگ زیادہ تر اسے دعوتوں اور تقریبات میں تیار کرواتے ہیں۔
+یہکباب کیبہت سی اقسام میں سے ایک ہے ،مشرق وسطیمیں شروع ہونے والے گوشت کے پکوان کی ایک قسم ہے۔جسے بعد میں سبزیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
+یہ روایتی طور پربھیڑ کے گوشت سے تیار کی جاتی ہے[577]لیکن مختلف قسم کے گوشت، مرغی یا مچھلی سے بھی تیار کی جاتی ہے۔[578]ترکی میں، شیش کباب اور اس کے ساتھ پیش کی جانے والی سبزیاں الگ سے پکائی جاتی ہیں ۔[579]۔ اس ڈش کی سجاوٹ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔آشور[580]یا نوح کی پڈنگ ایک ترک میٹھی ڈش ہے جس میں اناج، پھل، خشک پھل اور گری دار میوے شامل ہوتے ہیں۔ ترکی میں یہ پورا سال بنایا جاتا ہے اور خاص طور پر محرم میں[581]بطور خاص دس محرم کے دن، کیونکہ دس محرم کے دن کو عربی میں ""'عاشور"" کہا جاتا ہے جس کا مطلب عربی میں ""دسواں"" کے ہیں۔
+ایشورے ان ترکی میٹھوں میں سے ایک ہے جس میں کسی جانور کی مصنوعات شامل نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہ ہے کہ ہر قسم کے تشدد اور خون و خرابا کی مخالفت ہے۔ ترکی میں ایلیویز اس پڈنگ کو فروغ دینے کے لیے اہم گروپ ہیں۔ خصوصی طور پر اسے دس محرم کو پکایا جاتا ہے ۔
+روایتی طور پ��، ایشورے کو بڑی مقدار میں بنایا جاتا ہے اور اپنے دوستوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں، ساتھیوں، ہم جماعتوں کو بنا مذہب کی تفریق کیے محبت اور امن کے پیغام کے طور پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ سرد مہینوں کے دوران اسے بنایا اور کھایا جاتا ہے۔ یہ ایک کیلوریز سے بھرپور طاقتور غذا ہے اس لیے اس سے پورا سال لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔راحت الحلقومنشاستے اورچینیکے جیل پر مبنی کنفیکشن کا ایک خاندان ہے۔ پریمیم قسمیں زیادہ تر کٹی ہوئیکھجور، پستے، ہیزلنٹس یااخروٹپر مشتمل ہوتی ہیں جو جیل سے بندھے ہوئے ہیں۔ روایتی قسمیں اکثر گلاب کے پانی، مسٹک گم، برگاموٹ اورنج یا لیموں کے ساتھ ذائقہ دار ہوتی ہیں۔پیتا[582]یونانیمیں اور اس کے علاوہ اسے عربی روٹی یا شامی روٹی بھی کہا جاتا ہے[583][584][585]گندم کے آٹا سے پکی ہوئی ایک نرم، خمیریمسطح روٹیہے، جس کا آغازمغربی ایشیا[585][586]میں ممکنہ طور پربین النہرینمیں 2500 ق م میں ہوا۔[587]ترکیہ میں تمام کھیلوں میں سب سے زیادہ مقبولایسوسی ایشن فٹ بالہے۔[588]ترکیہ کی سرفہرست ٹیموں میںفینربچے ایس کے،گالاتاسرے ایف سیاور بیشکتاش شامل ہیں۔2000ءمیں،گالاتاسرے ایف سییوئیفا کپ اور یوئیفا سپر کپ جیتا۔ دو سال بعد،ترکیہ قومی فٹ بال ٹیمجاپاناورجنوبی کوریامیں2002ء فیفا عالمی کپفائنلز میں تیسرے نمبر پر رہی، جب کہ2008ءمیں، قومی ٹیم2002ء فیفا عالمی کپکے مقابلے کے سیمی فائنل میں پہنچی۔دیگر مرکزی دھارے کے کھیل جیسےباسکٹ بالاوروالی بالبھی مقبول ہیں۔[589]مردوں کی قومی باسکٹ بال ٹیم اور خواتین کی قومی باسکٹ بال ٹیم کامیاب رہی ہیں۔ انادولو ایفیس ایس کے. بین الاقوامی مقابلوں میں سب سے کامیاب ترک باسکٹ بال کلب ہے۔[590][591]فینربچے ایس کےمسلسل تین سیزن (2015ء–2016ء، 2016ء–2017ء اور 2017ء–2018ء) میں یورو لیگ کے فائنل میں پہنچی،2017ءمیں یورپی چیمپئن بنی۔2013-14ء یورو لیگ ویمن باسکٹ بال چیمپئن شپ کا فائنل ترکیہ کی دو ٹیموںگالاتاسرےاورفینربچےکے درمیان کھیلا گیا اور گالاتاسرے نے جیتا۔[592]فینربچے نے 2022–23ء اور 2023–24ء سیزن میں لگاتار دو یورولیگ جیتنے کے بعد 2023ء ایف آئی بی اے یورپ سپر کپ خواتین جیتا۔خواتین کی قومی والی بال ٹیم کئی تمغے جیت چکی ہے۔[593]خواتین کے والی بال کلب، یعنیوقف بینک ایس کے،فینربچےاور اجنزجبشے، نے متعدد یورپی چیمپئن شپ ٹائٹل اور تمغے جیتے ہیں۔وقف بینک ایس کےترکیہ کا ایک پیشہ وروالی بالکلب ہے جواستنبول، ترکیہ میں واقع ہے۔1986ءمیں قائم کیا گیا، وقف بینک ایس کے اس وقت دنیا کی خواتین کی بہترین والی بال ٹیموں میں سے ایک ہے،[594][595]ترکیہ کا روایتی قومی کھیل عثمانی دور سےروغنی کشتی(تیلکشتی) رہا ہے۔[596]صوبہ ادرنہنے1361ءسے سالانہ کرکپنارروغنی کشتیٹورنامنٹ کی میزبانی کی ہے، جو اسے دنیا کا سب سے طویل مسلسل منعقد ہونے والا کھیلوں کا مقابلہ بناتا ہے۔[597][598]انیسویں صدیاوربیسویں صدیکے اوائل میں، خوجا یوسف، نور اللہ حسن اور کزیلجکلی محمود جیسے آئل ریسلنگ چیمپئنز نے عالمی ہیوی ویٹ ریسلنگ چیمپئن شپ کے ٹائٹل جیت کریورپاورشمالی امریکامیں بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔
+ایف آئی ایل اے کے زیر انتظام بین الاقوامی ریسلنگ اسٹائلز جیسے فری اسٹائل ریسلنگ اور گریکو رومن ریسلنگ بھی مقبول ہیں، جن میں بہت سے یورپی، عالمی اور اولمپک چیمپئن شپ ٹائٹل ترک پہلوانوں نے انفرادی طور پر اور قومی ٹیم کے طور پر جیتے ہیں۔[599]سیکڑوںٹیلی ویژنچینلز، ہزاروں مقامی اور قومیریڈیو اسٹیشن، کئیی ��رجناخبارات، ایک پیداواری اور منافع بخش قومیسنیمااوربراڈ بینڈکی تیز رفتار انٹرنیٹ کا استعمال ترکیہ میں ایک متحرک میڈیا انڈسٹری کو تشکیل دیتا ہے۔[600][601]ٹی وی کے ناظرین کی اکثریت عوامی نشریاتی ادارےترک ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشن(ٹی آر ٹی) کے درمیان مشترک ہے،ٹی آر ٹییاترک ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشنترکی کا ""عوامی نشریات "" ہے جس کا قیام یکم مئی 1964 میں عمل میں آیا۔ 5 مئی 1927 کو اپنی نشریات کا آغاز کرنے والا ریڈیو کا ادارہ بھی اسی تاریخ سے ٹی آر ٹی کے ساتھ منسلک ہو گیا۔
+دیگر نیٹ ورک طرز کے چینلز جیسے کنال ڈی، شو ٹی وی، اے ٹی وی اور اسٹار ٹی وی عام دیکھے جاتے ہیں۔
+براڈکاسٹ میڈیا کی رسائی بہت زیادہ ہے کیونکہ سیٹلائٹ ڈشز اور کیبل سسٹم وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں۔[602]ریڈیو اور ٹیلی ویژن سپریم کونسل (آر ٹی یو کے) نشریاتی ذرائع ابلاغ کی نگرانی کرنے والا سرکاری ادارہ ہے۔[602][603]گردش کے لحاظ سے، سب سے زیادہ مقبول اخبارات پوسٹا،حریت، سوزکو، صباح اور ہیبرترک ہیں۔[604]فیلیز اکین,فاطمہ گیرک,حولیا کوچیغیت, اورترکان شورائےترک سنیما کے اپنے دور کی نمائندگی کرتے ہیں۔[605]ترک ہدایت کار جیسےمتین ایرکسان,نوری بلگے جیلان,یلماز گونئی,زکی دمیرکوبوزاورفرزان اوزپیتیکمتعدد بین الاقوامی ایوارڈز جیسے پالم ڈی آر اور گولڈن بیئر جیتے۔[606]ترک ٹیلی ویژن ڈرامے ترکیہ کی سرحدوں سے باہر تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں اور منافع اور عوامی رابطوں کے لحاظ سے ملک کی سب سے اہم برآمدات میں شامل ہیں۔[607]گزشتہ دہائی کے دورانمشرق وسطیکی ٹیلی ویژن مارکیٹ کو صاف کرنے کے بعد،2016ءمیں ایک درجن سے زیادہجنوبی امریکااوروسطی امریکاممالک میں ترک شوز نشر ہو چکے ہیں۔[608][609]ترکیہ آج ٹیلی ویژن سیریز کا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔[610][611][612]عمومیسیاحتحکومتمعیشتلوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+611,مصر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B5%D8%B1,"عرب جمہوریہ مصریامصر،جمهوريةمصرالعربية(قبطی زبان:Ⲭⲏⲙⲓ Khēmi)، بر اعظمافریقاکے شمال مغرب اور بر اعظمایشیاکےسنائیجزیرہ نما میں واقع ایک ملک ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلومیٹر ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو شمال مشرق میںغزہ پٹیاوراسرائیل، مشرق میںخلیج عقبہاوربحیرہ احمر، جنوب میںسوڈان، مغرب میںلیبیااور شمال میںبحیرہ رومہیں۔ خلیج عقبہ کے اس طرفاردن، بحر احمر کے اس طرفسعودی عرباور بحیرہ روم کے دوسری جانبیونان،ترکیاورقبرصہیں حالانکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مصر کی زمینی سرحد نہیں ملتی ہے۔کسی بھی ملک کے مقابلے میں مصر کی تاریخ سب سے پرانی اور طویل ہے اور اس کی تاریخی ابتدا 6 تا 4 ملنیا قبل مسیح مانی جاتی ہے۔ مصر کوگہوارہ ثقافتبھی مانا جاتا ہے۔قدیم مصرمیں کتب، زراعت، شہرکاری، تنظیم اور مرکزی حکومت کے آثار ملتے ہیں۔[5]مصر میں دنیا کے قدیم ترین یادگار عمارتیں موجود ہیں جو مصر کی قدیم وراثت، تہذیب، فن اور ثقافت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میںاہرامات جیزہ،ابوالہول،ممفس، مصر،طیبہاوروادی ملوکشامل ہیں۔ ان مقامات پر اکثر سائنداں اور محققین تحقیق میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور مصر کی قدیم روایات اور تاریخی حقائق سے آشکارا کرتے ہیں۔ مصر کی قدیم تہذیب ہی وہاں کی قومی علامت ہے جسے بعد میںیونانی قوم،فارس،قدیم روم،عرب قوم، ترکی عثمانی اور دیگر اقوام نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم مصرمسیحیتکا ایک بڑا مرکز تھا لیکن 7ویں صدی میںمسلمانوںنے یہاں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور مصر مکمل طور سے مسلم اکثریت ملک بن گیا مگر عیسائی بھی وہاں موجود رہے گوکہ اقلیت میں تھے۔سولہویں صدی تا بیسویں صدی کے آغاز تک مصر پر بیرونی طاقتوں نے حکومت کی۔ شروع میںسلطنت عثمانیہاور بعد میںسلطنت برطانیہنے مصر کو اپنی حکومت کا حصہ بنایا۔ جدید مصر کا آغاز 1922ء سے ہوا جب مصر کو برطانیہ سے آزادی ملی مگر آزادی کے بعد وہاں بادشاہت قائم ہو گئی۔ البتہ اب بھی وہاں برطانوی فوج کا غلبہ تھا اور کئی مصریوں کا کہنا ہے کہ بادشاہت دراصل برطانیہ کی ایک چال تھی تاکہ مصر ان کی کالونی کا حصہ بنا رہے۔مصری انقلاب، 1952ءمیں مصریوں نے برطانوی فوج اور افسروں کو اپنے ملک سے بھگادیا اور اس طرح مصر سے برطانیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ برطانوینہر سوئزکا قومیا لیا گیا اورشاہ فاروق اولکو مع اہل خانہ ملک بدر کر دیا گیا۔ اس طرح مصر ایکجمہوریملک بن گیا۔ 1958ء میںجمہوریہ سوریہکے ساتھ مل کرمتحدہ عرب جمہوریہکی بنیاد ڈالی گئی مگر 1961ء میں اسے تحلیل کرنا پرا۔بیسویں صدیکے نصف آخر میں مصر میں سماجی اور مذہبی اتار چڑھاو دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو گئی اور اسی دوران میں1948ءمیںاسرائیل کے ساتھ تنازع، 1956ء میںسوئز بحران، 1967ء میں چھروزہ جنگاور 1973ء میںجنگ یوم کپورجیسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ مصر نے 1967ء تکغزہ پٹیپر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1978ء میں مصر نےکیمپ ڈیوڈ معاہدہپر دستخط کیے اور غزہ پٹی سے اپنا قبضہ واپس لے لیا اور ساتھ ہی ساتھاسرائیلکو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ملک میں بدستور سیاسی ہنگامہ جاری رہا اور بے امنی کا دور دورہ رہا۔ 2011ء میں پھر ایک انقلاب برپا ہوا اور مصر کی سیاست میں زبردست تبدیلی آئی۔ اسی دوران مصر دہشت گردی کی زد میں رہا اور معاشی مسائل سے بھی دوچار رہا۔ مصر کی موجودہ حکومتبین صدارتی جمہوریہہے اور مصر کے موجودہ صدرعبدالفتاح السیسیہیں۔ سیاست میں انھیں آمر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔مصر کاسرکاری مذہباسلامہے اورسرکاری زبانعربیہے۔[6]مصر کی کل آبادی تقریباً 95 ملین ہے اور اس طرح یہشمالی افریقا،مشرق وسطیاورعرب دنیاکا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔نائیجیریااورایتھوپیاکے بعد بر اعظمافریقاکا تیسرا بڑا آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر میں بلحاظ آبادی اس کا نمبر 15واں ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادیدریائے نیلکے کنارے پر بسی ہوئی ہے۔ ملک یا زیادہ تر زمینی حصہصحرائے اعظمپر مشتمل ہے جو تقریباً ناقابل آباد ہے۔ کثیر آبادی والے علاقوں میںقاہرہ،اسکندریہاور دریائے نیل کے جزیرے ہیں۔مصر کیخود مختار ریاستشمالی افریقا، مشرق وسطی اورعالم اسلاممیں ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مصر ایک اوسط درجہ کی طاقتور حکومت ہے۔[7]مصر کی معیشتمشرق وسطی کی بڑی معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے اور اکیسویں صدی میں اس کےدنیا کی بڑی معیشتوںمیں شمار ہونے کا امکان ہے۔ 2016ء میںجنوبی افریقاکو پیچھے چھوڑتے ہوئے مصرنائیجیریاکے بعد افریقا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا۔[8][9]مصر مندرجہ ذیل تنظیموں کا بانی/شرک بانی اور رکن ہے؛مصر (بکسر المیم)Miṣr"" (عربی تلفظ:[mesˤɾ]; ""مِصر"") is theکلاسیکی عربیخالصکلاسیکی عربیکا لفظ ہے اورقرآنمیں بھی اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ اس کا یہی نام زماہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ البتہمصری عربیمیںMaṣr"" (مصری عربی تلفظ:[mɑsˤɾ];مَصر) (بفتح المیم) کہتے ہیں۔[10]قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+612,الجزائر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%84%D8%AC%D8%B2%D8%A7%D8%A6%D8%B1,"الجزائر(عربی:الجزائر،انگریزی: Algeria) جسے انگریزی میں الجیریا بھی کہتے ہیں،شمالی افریقہمیں واقع ایک ملک ہے۔ رقبے کے اعتبار سےبحیرہ رومپر واقع سب سے بڑا، عرب دنیا اور افریقی براعظم میںسوڈانکے بعد سب سے بڑا ملک ہے۔ دنیا میں اس کا 11واں نمبر ہے۔الجزائر کے شمال مشرق میںتیونس، مغرب میںمراکش، جنوب مغرب میںمغربی صحارا،موریتانیااورمالیہیں۔ جنوب مشرق میںنائجرجبکہ شمال میںبحیرہ رومواقع ہیں۔ اس کا رقبہ تقریباً 24 لاکھمربع میلجبکہ آبادی 3 کروڑ 57 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ الجزائر کے دار الحکومت کا نام بھیالجزائرہے۔الجزائرعرب لیگ،اقوامِ متحدہاوراوپیککا رکن ہے۔ملک کا نام اس کے شہر الجزائر سے نکلا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ یہ لفظ ""جزائر بنی مازغان"" کی مختصر شکل ہے۔پرانے دور میں الجزائر کو سلطنتِ نومیڈیا کہا جاتا تھا۔ اس کے لوگ نومیڈین کہلاتے تھے۔ اس سلطنت کے تعلقات اس دور کےقدیم یوناناور رومن اقوام کے ساتھ تھے۔ اس علاقے کو زرخیز علاقے کے طور پر جانا جاتا تھا اور یہاں کے لوگ گھڑ سواری کے ماہر تھے۔شمالی افریقہ کے مقامی لوگ بالاخربربربنے۔1000 ق م میں قرطاجنہ قبائل نے ساحل کے ساتھ ساتھ آبادیاں بسانا شروع کر دیں۔ بربر قبائل نے موقع پا کر قرطاجنوں سے آزادی پا لی اور بربر ریاست کا قیام عمل میں آیا۔200 ق م میں اس علاقے پر رومن سلطنت نے قبضہ کر لیا۔ تاہم جب 476 عیسوی میں مغربی رومن ریاست کا زوال ہوا تو بربر پھر سے آزاد ہو گئے۔ بعد میں یہاں وندال قبائل نے قبضہ کر لیا جو بازنطینیوں کی آمد تک قائم رہا۔ بازنطینی یہاں 8ویں صدی عیسوی تک موجود رہے پھر عرب یہاں قابض ہو گئے۔بربر قبائل قرونِ وسطٰی کے دوران زیادہ تر مغرب کے علاقے پر قابض رہے۔ بربر قبائل بذاتِ خود کئی قبائل پر مشتمل تھے۔قرونِ وسطٰی میں مغرب، سوڈان، اٹلی، مالی، نائجر، سینیگال، مصر اور دیگر نزدیکی جزائر پر بربروں کے مختلف قبائلوں نے اپنی سلطنتیں قائم کیں۔ ابنِ خلدون نے ان قبائل کی کل تعداد 12 بیان کی ہے۔جبمسلمانعرب 7ویں صدی کے وسط میں یہاں پہنچے تو مقامی افراد کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا۔ عرب امیہ سلطنت کے 751 عیسوی میں زوال کے بعد بہت ساری مقامی بربر سلطنتیں قائم ہوئیں جن میں الغالبہ، الموحدون، عبد الودید، زیریون، رستمیوں، حمیدیوں اور فاطمی وغیرہ اہم ہیں۔ہسپانویوں کی شمالی افریقہ میں توسیع پسندوں نے کیتھولک بادشاہ اور ملکہ کی مدد سے آئبیرین کےجزیرہ نماپر قبضہ کر لیا۔ الجزائر کے ساحل پر بہت سارے قصبوں اور بیرونی چوکیوں پر ہسپانویوں نے قبضہ کر لیا۔ 15 جولائی 1510 کو الجزائر کے بادشاہ کو زبردستی ہسپانوی بادشاہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا گیا۔ بعد ازاں 1516 کو 1٫300 ترک سپاہیوں اور 16 بحری جہازوں کی مدد سے یہاں قبضہ کر کے الجزائر کوسلطنت عثمانیہسے ملا دیا گیا۔الجزائر کوخیرالدین بابروسااور اس کے بھائیعروجنے 1517 میںسلطنتِ عثمانیسے جوڑ دیا۔ سنہ 1541ء میں مقدس رومن سلطنت کے بادشاہ چارلس پنجم نے الجزائر پر 65 بحری جنگی جہازوں اور 23٫000 فوجیوں کی مدد سے حملہ کر دیا۔ اس فوج میں 2٫000 گھڑ سوار بھی شامل تھے۔ تاہم انھیں بدترین شکست ہوئی اور الجزائر کے رہنما حسن آغا کو قومی رہنما مان لیا گیا اور الجزائر بہت بڑی فوجی قوت بن کر ابھرا۔عثمانیوں نے الجزائر کی موجودہ سرحدیں شمال میں قائم کر دیں۔ عثمانی جہادیوں کے لیے الجزائر کے ساحل پڑاؤ کا کام کرنے لگے۔ 17ویں صدی میں عثمانیوں کے بحری جہازوں پر حملوں کی وجہ سے پہلی اور دوسری بربر جنگیں ہوئیں۔ دونوں اطراف کی فوجیں دشمنوں کو پکڑنے کے بعد غلام بنا دیتی تھیں۔ان لوگوں کے گہرے اثر و رسوخ کی بنا پر اس علاقے کو بربری ساحل کہا جاتا تھا۔ یہلوگاکثر یورپی ساحلوں پر حملہ کر کےمسیحیوںکو غلام بنا کرترکی،مصر،ایران، الجزائر اورمراکوکے بازاروں میں بیچ دیتے تھے۔ رابرٹ ڈیوس کے مطابق 16ویں سے 19ویں صدی کے دوران دس لاکھ سے ساڑھے بارہ لاکھ یورپیوں کو غلام بنا کر بیچا گیا۔ ان لوگوں کی اکثریتاٹلی،سپیناورپرتگالکی ساحلی بستیوں کے علاوہفرانس،انگلینڈ،آئرلینڈ،ہالینڈ،جرمنی،پولینڈ،روس،سکینڈے نیویا،آئس لینڈ،ہندوستان،جنوبی مشرقی ایشیااورشمالی امریکاسے پکڑی گئی تھی۔ان حملوں کا اثر تباہ کن تھا۔ فرانس، انگلینڈ اور سپین کے ہزاروں بحری جہاز تباہ ہوئے اور سپین اور اٹلی کے ساحلوں کا بہت بڑا حصہ غیر آباد ہو گیا۔ 19ویں صدی تک انہی بحری قزاقوں کی وجہ سے ساحلی علاقے غیر آباد رہے۔1609 سے 1616 تک انگلینڈ کے 466 تجارتی بحری جہاز تباہ ہوئے۔شمالی افریقہ کے شہروں پر طاعون کا بہت برا حملہ ہوا۔ اندازہ ہے کہ الجزائر ہی میں طاعون کی مختلف وباؤں سے 30٫000 سے 50٫000 شہری ہلاک ہوئے۔اپنے سفیر کی بے عزتی کے پیشِ نظر فرانسیسیوں نے 1830 میں حملہ کر کے الجزائر پر قبضہ کر لیا۔ تاہم یہ جنگ بہت طویل تھی اور بہت خون خرابا ہوا۔ 1830 سے 1872 تک مقامی آبادی جنگوں اور بیماریوں کی وجہ سے ایک تہائی کم ہو گئی۔1825 سے 1847 تک 50٫000 سے زیادہفرانسیسی الجزائرمنتقل ہوئے۔ تاہم یہ منتقلی بہت آہستگی سے ہوئی کیونکہ مقامی آبادی نے اس کے خلاف بہت جد و جہد کی۔قبضے کے بعد فرانس نے ہر ممکن کوشش کر کے الجزائر کو فرانس کا اٹوٹ انگ بنایا۔ فرانس، سپین، اٹلی اور مالٹا سے ہزاروں میں آبادکار الجزائر منتقل ہوئے اور الجزائر کے ساحلی میدانوں پر کاشتکاری کے علاوہ شہروں کے اہم حصوں پر بھی قابض ہو گئے۔ ان آبادکاروں کو حکومتِ فرانس کی پشت پناہی حاصل تھی۔19ویں صدی کے اواخر سے الجزائر میں آباد یورپی النسل افراد اور الجزائرئی یہودیوں کو فرانس کا شہری تسلیم کر لیا گیا۔الجزائر کی 1962 میں آزادی کے بعد یہاں یورپی النسل افراد کو کالے پیروں والے کہا جانے لگا کیونکہ آبادکار کالے بوٹ پہنتے تھے۔ تاہم یہ نام محض ہتک کے لیے لیا جاتا تھا۔ تاہم مسلمان الجزائرئی باشندوں کی بہت بڑی اکثریت کو بشمول پرانے فوجیوں کے، فرانسیسی شہریت اور ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا۔1954 میں نیشنل لبریشن فرنٹ نے الجزائر کی جنگِ آزادی شروع کی جو گوریلا جنگ تھی۔ اس جنگ کے اختتام پر صدر نے اپنے مشہور خطاب میں عوام سے کہا کہ ""میں نے آپ کی بات سمجھ لی ہے ""۔ عوام سمجھے کہ صدر نے الجزائر کے فرانس کا حصہ رہنے کے بارے اعلان کیا ہے۔ ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد بہت بھاری اکثریت سے عوام نے آزادی کا انتخاب کر لیا۔ دس لاکھ سے زیادہ افراد فرانس منتقل ہو گئے۔الجزائر کے پہلے صدر احمد بن بلا تھے جنہیں ان کے ہی معتمد اور سابقہ حلیف بومدین نے اقتدار سے ہٹا دیا۔ احمد بن بلا کے دور میں حکومت کا رحجان سوشلسٹ اور آمرانہ تھا۔ ان کے بعد یہ رحجان جاری رہا۔ تیل نکالنے کے پلانٹوں کو قومیا لیا گیا۔ اسی دور میں زراعت کو انفرادی سطح سے اجتماعی سطح پر لایا گیا اورصنعتی انقلابکی راہ ہموار ہوئی۔ تاہم اس کے نتیجے میں تیل پر انحصار بڑھ گیا اور 1980 کی دہائی میں تیل کی گرتی قیمتوں سے ملکی معیشت بیٹھ گئی۔الجزائر کے خارجہ تعلقات مغربی ہمسائے مراکو سے اچھے نہیں۔ اس کی وجوہات میں مراکو کا الجزائر کے کچھ علاقوں پر قبضہ اور الجزائر کی طرف سے مراکو کے علیحدگی پسندوں کی حمایت وغیرہ اہم ہیں۔
+الجزائر میں اختلافِ رائے کی گنجائش نہیں ہے اور حکومت زیادہ تر میڈیا پر قابض ہے۔ 1976 کے آئین کے تحت ایک کے سوا تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔1978 میں بومدین کا انتقال ہوا اور ان کے جانشین شاذلی بن جدید نسبتاً کھلے ذہن کے مالک تھے۔ ان کے دور میں افسرِ شاہی کا غلبہ ہوا اور رشوت ستانی عام ہو گئی۔جدت پسندی کی وجہ سے الجزائر کی آبادی کی خصوصیات میں کافی تبدیلیاں ہوئیں۔ دیہاتوں کی شکل و صورت بدلنے لگی اور شہروں کی طرف منتقلی کا رحجان بڑھ گیا۔ نت نئی صنعتیں قائم ہوئیں اور زراعت میں لوگوں کی توجہ کم ہو گئی۔ ملک بھر میں تعلیم عام ہو گئی اور شرحِ خواندگی 10 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد تک جا پہنچی۔ فی عورت بچوں کی اوسط 7 سے 8 ہو گئی۔1980 سے 1988 تکاسلامی جمہوریہایران کے خلاف عراق کے ڈکٹیٹرصدام حسینکی مسلط کردہ جنگ کے دوران الجزائر نے ایران کا ساتھ دیا اور امریکی ایما پر لڑی جانے والی اس جنگ کو عرب اور عجم یا شیعہ سنی کی جنگ قرار دینے کی مذموم کوشش کوناکام بنادیا۔ 80 کے عشرے میں ملک میں نوجوانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ نتیجتاً دو مختلف گروہ پیدا ہوئے۔ پہلے گروہ میں بربر بھی شامل تھے جو کمیونسٹ رحجان رکھتے تھے جبکہ دوسری طرف اسلام پسند تھے۔ دونوں گروہ ہی یک جماعتی قانون کے خلاف تھے لیکن ایک دوسرے سے بھی لڑتے رہے۔ تاہم انہی کے احتجا�� کے باعث 1988 میں بن جدید نے یک جماعتیقانونکو ختم کر دیا۔1991 میں الجزائر میں انتخابات منعقد ہونے تھے۔ دسمبر 1991 میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے انتخابات کا پہلا مرحلہ جیتا تو فوج نے مداخلت کی اور دوسرا مرحلہ منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد فوج نے اس وقت کے صدر بن جدید کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور مذہب کی بنیاد پر بننے والی ہرسیاسی جماعتکو کالعدم قرار دے دیا۔ سیاسی چپقلش پیدا ہوئی اورخانہ جنگیشروع ہو گئی۔1٫60٫000 سے زیادہ افراد 17 جنوری 1992 سے جون 2002 کے دوران مارے گئے۔ ان کی اکثریت شہریوں کی تھی۔ مبصرین کے بقول حکومت نے اپنی فوج اور غیر ملکیوں کی مدد سے شہریوں کو ہلاک کر کے ذمہ داری مختلف اسلامی گروہوں پر ڈال دی۔1995 میں انتخابات بحال ہوئے اور 1998 میں جنگ ختم ہو گئی۔ 27 اپریل 1999 کوعبد العزیزبوتفلیقہ کو فوج نے صدر چن لیا۔2002 تک زیادہ ترچھاپہ مارگروہ یا تو ختم کر دیے گئے تھے یا پھر ہتھیار ڈال کر عام معافی پا چکے تھے۔ تاہم کچھ علاقوں میں لڑائی اوردہشت گردیکی کارروائیاں جاری ہیں۔الجزائر کا زیادہ تر حصہ اب بحالی کی راہ پر چل رہا ہے اور ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ تیل اور قدرتی گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نئی حکومت کو ملکی ڈھانچے کی تعمیرِ نو میں مدد مل رہی ہے۔الجزائر کا زیادہ تر ساحلی علاقہ پتھریلا اور چٹانی ہے اور کہیں کہیں پہاڑ بھی ملتے ہیں۔ تاہم یہاں کئی قدرتی بندرگاہیں بھی موجود ہیں۔ ساحل سے لے کر اطلس التلی تک کا علاقہ زرخیز ہے۔ اطلس التلی کے بعد کا علاقہ گھاس کے وسیع و عریض میدانوں پر مشتمل ہے جوکوہ اطلسکے مشرقی حصے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے بعد صحرائے اعظم کا علاقہ ہے۔ہوگر کے پہاڑدراصل وسطی صحارا کے بلند علاقے ہیں جو دار الحکومت سے 1٫500 کلومیٹر جنوب میں ہیں۔ الجزائر، وہران، قسطنطین، تیزی وزو اور عنابہ بڑے شہر ہیں۔ جولائی، 2011ء میں سوڈان سےجنوبی سوڈانکی علیحدگی کے بعد الجزائر افریقہ کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔الجزائر کا موسم عموماً سال بھر گرم رہتا ہے۔ تاہمسورجغروب ہونے کے بعد خشک اور صاف ہوا سے گرمی جلد ہی ختم ہو جاتی ہے اور راتوں کودرجہ حرارتگر جاتا ہے۔ سرکاری طور پر سب سے زیادہ گرمی عین الصلاح میں پڑی جو 50.6 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کی گئی۔ بارش زیادہ تر ساحلی علاقوں میں ہوتی ہے اور بارش کی مقدار مغرب کے مقابلے میں مشرقی حصوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ شمال مشرقی الجزائر میں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ الجزائر میں ریت کی پہاڑیاں بھی پائی جاتی ہیں۔صدر ملک کا سربراہ ہوتا ہے جو پانچ سال کے لیے چنا جاتا ہے۔ 2008 کے قانون سے قبل ہر صدر زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہو سکتا تھا۔ 18 سال کی عمر میں ووٹ ڈالنے کا حق ملتا ہے۔ صدر وزراء کی کونسل اور ہائی سکیورٹی کونسل کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر وزیرِ اعظم کا تقرر کرتا ہے جو حکومت کے سربراہ کا کام کرتا ہے۔ وزیرِ اعظم وزراء کی کونسل کا تقرر کرتا ہے۔الجیریا کی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ایوانِ زیریںکو نیشنل پیپلز اسمبلی کہتے ہیں جس کے 380 اراکین ہوتے ہیں۔ ایوانِ بالا جسے کونسل آف نیشن کہتے ہیں کے 144 اراکین ہوتے ہیں۔ ایوانِ زیریں کے لیے ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔1976 کے آئین کے مطابق ملک میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں بنائی جا سکتی ہیں تاہم ان کی منظوری وزیرِ داخلہ سے ضروری ہوتی ہے۔ اس وقت ملک میں 40 سے زیادہ سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ آئین کے مطابق مذہب، زبان، نسل، جنس یا علاقائی بنیادوں پر سیاسی جماعت بنانا ممنوع ہے۔الجیریا کی فوج بری، بحری، ہوائی اور علاقائی ائیر ڈیفنس فوجوں پر مشتمل ہے۔ فوج کا سربراہ ملک کا صدر ہوتا ہے جس کے پاس ملکی وزیرِ دفاع کا عہدہ بھی ہوتا ہے۔کل فوجیوں کی تعداد 1٫47٫000 ہے۔ ریزرو فوجیوں کی تعداد 1٫50٫000 جبکہ نیم فوجیوں کی تعداد 1٫87٫000 ہے۔ 19 سے 30 سال تک کی عمر کے نوجوان مردوں کے لیے فوجی خدمات لازمی ہیں جو ڈیڑھ سال پر محیط ہوتی ہیں۔ اس میں چھ ماہ تربیت اور ایک سال شہری منصوبوں پر کام کرنا شامل ہے۔ 2006 کے تخمینے کے مطابق الجزائر اپنی فوج پر کل قومی آمدنی کا 2.7 فیصد سے 3.3 فیصد تک خرچ کرتا ہے۔الجزائر زیادہ تر روسی اور چینی ساخت کا اسلحہ استعمال کرتا ہے جو فوجی تجارت کے معاہدوں کے تحت خریدا جاتا ہے۔الجزائر کی ہوائی فوج نے 2007 میں روس سے 55 مگ 29 جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جو تقریباً دو ارب ڈالر مالیت کا ہے۔ اسی معاہدے کے تحت الجزائر روس کو پرانے جہاز بھی واپس کرے گا جو اس نے سابقہ سوویت یونین سے خریدے تھے۔ روس الجزائر کے لیے دو ڈیزل آبدوزیں بھی بنا رہا ہے۔اکتوبر 2009 میں مبینہ اسرائیلی پرزوں کو شامل کرنے کے امکان کے پیشِ نظر الجزائر نے فرانس سے ہونے والا فوجی معاہدہ ختم کر دیا ہے۔الجزائر میں 48 صوبے، 553 اضلاع اور 1٫541 بلدیات ہیں۔ ہر صوبے، ضلع اور بلدیہ کا نام عموماً اس کے سب سے بڑے شہر پر رکھا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق ہر صوبے کو کسی حد تک معاشی آزادی حاصل ہوتی ہے۔پیپلز پراونشل اسمبلی صوبے پر حکومت کرتی ہے۔ اس کا اپنا صدر ہوتا ہے جسے اسمبلی کے اراکین چنتے ہیں۔ اسمبلی کے اراکین کو 5 سال کی مدت کے لیے عام انتخابات سے چنا جاتا ہے۔ والی یعنی گورنر بھی ہر صوبے کے لیے الگ موجود ہوتا ہے۔ والی کو ملک کا صدر مقرر کرتا ہے۔معدنی تیل ملکی معیشت کے لیےریڑھ کی ہڈیکا درجہ رکھتا ہے اور کل قومی آمدنی کا 30 فیصد سے زیادہ پیدا کرتا ہے۔ تاہم یہ مقدار برآمدات کے 95 فیصد پر مشتمل ہے۔ تیل کے ذخائر کے حوالے سے الجزائر کا 14واں نمبر ہے۔ یہاں کل 11.8 ارب بیرل کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جا چکا ہے تاہم اصل مقدار اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ امریکی توانائی کے انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے محکمے کی 2005 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الجزائر میں 160 کھرب مکعب فٹ قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں جو دنیا بھر میں 8ویں نمبر پر آتے ہیں۔ معدنی تیل اور گیس کے علاوہ ملکی آمدنی 2003 سے 2007 تک 6 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھی ہے۔ بیرونی قرضے تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور حکومت نے تیل کی آمدنی سے فنڈ قائم کیا ہے۔ افراطِ زر کی شرح پورے خطے میں سب سے کم ہے اور 2003 سے 2007 تک محض 4 فیصد رہی ہے۔الجزائر کے معاشی اور مالی اشاریئے 1990 کی دہائی کے وسط سے بہتر ہونے لگے تھے۔ اس کی اہم وجہپیرس کلبکے قرضوں کیبین الاقوامی مالیاتی فنڈکی طرف سے ری شیڈیولنگ تھی۔ 2000 اور 2001 میں الجزائر کی آمدنی پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور حکومت کی سخت مالیاتی پالیسیوں سے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ اس سے تجارتی سرپلس اور فارن کرنسی میں اضافے کے علاوہ بیرونی قرضے میں کمی ہوئی۔تاہم حکومت کی جانب سے بیرونی اور ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں توانائی کے علاوہ دیگر منصوبوں میںسرمایہ کاریپر راغب کرنے سے بے روزگاری کی شرح کم نہیں ہوئی۔ 2001 میں الجزائر کی حکومت نے یورپی یونین سے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت مصنوعات کی قیمتیں کم اور کل تجارت بڑھ جائے گی۔ 2004 میں روس نے الجزائر کے ذمے 4.74 ارب ڈالر مالیت کا پرانا قرضہ مع��ف کرنے کا اعلان کیا۔ اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے الجزائر کے صدر نے روس سے 7.5 ارب ڈالر مالیت کے جنگی جہاز، فضائی دفاع کے آلات اور دیگر اسلحہ جات خریدنے کا اعلان کیا۔2006 میں الجزائر نے پیرس کلب کا 8 ارب ڈالر کا قرضہ قبل از وقت واپس کر دیا ہے جس سے ملکی معیشت بہتر ہوئی ہے اور اس کے بعد بیرونی قرضے محض 5 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے تھے۔الجزائر ہمیشہ سے ہی اپنی زرخیز زمین کے حوالے سے مشہور رہا ہے۔ کل آبادی کا چوتھائی حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔امریکا کی خانہ جنگی کے دوران یہاں کپاس کی کاشت بہت بڑھ گئی تھی۔ 20ویں صدی کے اوائل میں زراعت پر پھر سے زور دیا جانے لگا تھا۔ بونی کھجوروں کی بہت بڑی تعداد ان کے پتوں کے حصول کے لیے کاشت کی گئی ہے۔ زیتون اور تمباکو بھی کامیاب ترین فصلوں میں سے ہیں۔30٫000مربع کلومیٹرسے زیادہ رقبہ غلے کی پیداوار کے لیے مختص ہے۔ اطلس التلی کا علاقہ غلے کے لیے مخصوص ہے۔ دیگر فصلوں میں گندم، جو اور اوٹ اہم ترین ہیں۔ پھلوں بالخصوص رس دار پھلوں اور سبزیوں کی کاشت بھی عروج پر ہے اور بیرون ملک برآمد کیے جاتے ہیں۔ الجزائر کی برآمدات میں انجیر، کھجوریں اور کاک شامل ہیں۔2010 کے تخمینے کے مطابق الجزائر کی آبادی 3٫48٫95٫000 افراد پر مشتمل ہے جس میں 99 فیصد عرب یا بربر النسل ہیں۔ الجزائر کے 90 فیصد سے زیادہ باشندے شمالی ساحلی علاقوں پر رہتے ہیں۔ آبادی کا کچھ حصہ صحرائے صحارا میں بھی رہائش پزیر ہے۔ آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ 15 سال سے کم عمر ہے۔تقریباً 83 فیصد آبادی الجزائری عربی بولتی ہے جبکہ 15 فیصد کے قریب لوگ بربر لہجے کو اپناتے ہیں۔ فرانسیسی کو بھی بڑے پیمانے پر سمجھا جاتا ہے۔یورپی النسل افراد کل آبادی کا 1 فیصد سے بھی کم ہیں اور تقریباً تمام تر ہی بڑے شہروں میں رہتے ہیں۔آبادی کے مکانات اور صحت کی سہولیات کی کمی ملک کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے جو بہت بڑی تعداد میں آبادی کے شہروں کی طرف رخ کرنے سے پیدا ہوا ہے۔الجزائر کے وکلا میں سے 70 فیصد اور ججوں میں سے 60 فیصد خواتین ہیں۔ صحت کے شعبے میں بھی خواتین کیاجارہ داریہے۔ گھریلو آمدنی میں مردوں کی نسبت عورتوں کا حصہ بڑھ رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں 60 فیصد خواتین طالبات ہیں۔الجزائر کے عرب اکثریتی گروہ ہیں جبکہ بربر قبائل آبادی کا چوتھائی ہیں۔الجزائر کی سرکاری زبان عربی ہے جو 1963 کے آئین میں واضح کی گئی ہے۔ 8 مارچ 2002 کو آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے بربر زبان کو بھی ""قومی"" زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ عربی اوربربر زبانیںکل آبادی کا 99 فیصد سے زیادہ حصہ بولتا ہے۔ فرانسیسی کو سرکاری درجہ حاصل نہیں لیکن آبادی کی اکثریت فرانسیسی کو سمجھ اور بول سکتی ہے۔الجزائر کا عربی کے لیے اپنا لہجہ ہے جو 78 فیصد سے زیادہ افراد بولتے ہیں۔ 5 فیصد افراد عام عربی بولتے ہیں۔ تاہم سرکاری اور اہم مواقع پر عام عربی استعمال ہوتی ہے۔ بہت سارے بربر الجزائری عربی کو ثانوی زبان کے طور پر بولتے ہیں۔ عربی کو واحد سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔بربر زبان کو کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد حصہ بولتا ہے۔ آئین میں ہونے والی حالیہ ترمیم سے بربر کوقومی زبانتسلیم کیا گیا ہے۔فرانسیسی بطور غیر ملکی زبان کے سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے اور الجزائری باشندوں کی اکثریت اسے سمجھ اور بول سکتی ہے۔ تاہم روزمرہ استعمال میں نہیں آتی۔99 فیصد آبادی کا مذہب اسلام ہے۔ تقریباً سارے ہی افراد سنی العقیدہ مسلمان ہیں۔الجزائر میں اڑھائی لاکھ مسیحی بھی ہیں۔1960 کے عشرے تک الجزائر میں یہودیوں کی آبادی کافی تھی۔ تاہم بعد میں یہودی یہاں سے دیگر ملکوں کو منتقل ہو گئے۔2002 میں الجزائر میں ڈاکٹروں، نرسوں اور دندان سازوں کی تعداد آبادی کے اعتبار سے انتہائی کم تھی۔ پینے کے صاف پانی تک رسائی 92 فیصد شہری اور 80 فیصد دیہاتی افراد تک محدود تھی۔ عموماً غریبوں کو صحت کی سہولیات مفت مہیا کی جاتی ہیں۔6 سے 15 سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم لازمی ہے۔ بالغ آبادی کا 5 فیصد ان پڑھ ہے۔الجزائر میں 46 یونیورسٹیاں، 10 کالج اور 7 ادارے اعلٰی تعلیم دیتے ہیں۔ الجزائر میں تعلیمی نظام بنیادی، جنرل سیکنڈری اور ٹیکنیکل سیکنڈری اسکولوں پر مشتمل ہے۔بنیادی اسکول 9 سالہ تعلیم پر مشتمل ہوتا ہے۔جنرل سیکنڈری 3 سالہ ہوتا ہے۔ٹیکنیکل سیکنڈری 3 سالہ تعلیم پر مشتمل ہوتا ہے۔"
+614,کردستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D8%B1%D8%AF%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,مشرقی کردستانشمالی کردستانجنوبی کردستانمغربی کردستانکردستانمشرق وسطیکے ایک جغرافیائی و ثقافتی خطے کا نام ہے جس میں کرد نسل کے باشندوں کی اکثریت ہے۔ کردستان شمالی اور شمال مغربیبین النہرینسے ملحقہ علاقے شامل ہیں۔ کردستان کے علاقےترکی،شاماورعراقمیں تقسیم شدہ ہیں۔ کردستان کا ایک بڑا حصہ ایران میں بھی واقع ہے، خاص طور پر مغربی اور شمال مغربی ایران میں۔ کردستان کے لوگ ننانوے فی صدمسلمانہیں اوراسلامسے ان کی وابستگی بہت زیادہ ہے۔ایران میں ایک صوبہ ہے جسےصوبہ کردستانکہتے ہیں۔ تین اور صوبے ہیں جن میں کردوں کی اکثریت ہے، یعنی:صوبہ آذربائیجان غربی،صوبہ کرمانشاہاورصوبہ ایلام۔صوبہ ہمداناورصوبہ لورستانمیں بھی کردوں کی خاصی آبادی ہے۔ اگرچہ کرد ایران کے تمام صوبوں میں پائے جاتے ہیں،شمالی خراسانصوبے میں نسبتاً کردوں کی اکثریت ہے۔اگرچہ مغربیآذربائیجاناور کردستان صوبوں میں کردوں کی اکثریت سنی مسلمان ہیں، لیکن کرمانشاہ، ایلام، لورستان اور خراسان شمالی میں کردوں کی اکثریت شیعہ اسلام کے پیروکار ہیں۔18ویں صدی میں کرد باشندوں کا یہ علاقہصفویایراناورعثمانی سلطنتکے درمیان تقسیم ہو گیا۔ مگر کردستان کبھی تاریخ میں ایک علاحدہ ملک کے طور پر نہیں رہا۔ وجہ یہ کہ ماضی میں یہ تمام علاقہ ایک ہی خطے میں شمار ہوتا تھا۔پہلی جنگ عظیمسے قبل بیشتر کرد باشندے سلطنت عثمانیہ کے صوبہ کردستان کے رہائشی تھے۔ جنگ عظیم میں شکست اور سلطنت کے خاتمے کے بعد اتحادی افواج نے علاقے میں سرحدیں تشکیل دیتے ہوئے مختلف ممالک بنانے کا پروگرام بنایا اورمعاہدہ سیورےکے تحت اس میں کردستان بھی شامل تھا۔کمال اتاترککی جانب سے ان علاقوں کی دوبارہ فتح کے بعدمعاہدہ لوزانطے پایا جس کے تحت موجودہ ترکی کی سرحدیں متعین کی گئیں اور کرد باشندوں کی اپنی حکومت کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ دیگر کرد اکثریتی علاقےبرطانیہاورفرانسکے زیر قبضہعراقاورشاممیں شامل ہو گئے۔پہلی جنگ عظیمسے اب تک کردستان 4 ممالک میں تقسیم ہے جن میںعراق،ترکی،ایراناورشاماہم ممالک ہیں۔انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق کردستان کا رقبہ 74 ہزار مربع میل (191،660 مربع کلومیٹر) پر پھیلا ہوا ہے اور اس کے اہم ترین شہردیار باکراوروان(ترکی)،موصل،اربیلاورکرکوک(عراق) اورکرمانشاہ(ایران) شامل ہیں ۔[3]انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے مطابق کردستان کا رقبہترکیمیں 190،000،ایرانمیں 125،000،عراقمیں 65،000 اورشاممیں 12،000 مربع کلومیٹر ہے اس طرح کردستان کا کل رقبہ 392،000 مربع کلومیٹر بنتا ہے ۔[4]محتاط اندازے کے مطابق اس علاقے میں 40 ملین کرد باشندے رہائش پزیر ہے۔کوہ جودیاورکوہ اراراتیہاں کے اہم ترین پہاڑ اوردریائے دجلہودریائے فراتاہم ترین دریا ہیں۔جھیلوں میںجھیل وان(ترکی) اورجھیل ارمیہ(ایران) عالمی سطح پر معروف ہیں۔
+615,یمن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%85%D9%86,"جمہوریہ یمنیایمنمغربی ایشیامیں واقعمشرق وسطیٰکا ایک مسلم ملک ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کے جنوبی سرے پر واقع ہے اور اس کے شمال میںسعودی عرب، مشرق میںاومان، جنوب میںبحیرہ عرباور مغرب میںبحیرہ احمرواقع ہیں۔ اس کی سمندری حدیں اریٹیریا، جبوتی اور صومالیہ کے ساتھ ملتی ہیں۔ 555,000 مربع کلومیٹر (214,000 مربع میل) رقبے پر محیط ہے اور تقریباً 2,000 کلومیٹر (1,200 میل) کی ساحلی پٹی پر مشتمل یمن جزیرہ نما عرب پر دوسری سب سے بڑی عرب خود مختار ریاست ہے۔ یمن کادار الحکومتصنعاءہے اورعربیاس کیقومی زبانہے۔ یمن کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے، جن میں سے زياده تر عربی بولتے ہیں۔ سنہ 2023ء تک ملک کی آبادی کا تخمینہ 34.4 ملین ہے۔ یمنعرب لیگ،اقوام متحدہ،ناوابستہ تحریکاوراسلامی تعاون تنظیمکا رکن ہے۔قدیم زمانے میں، یمن سبائیوں کا گھر تھا، ایک تجارتی ریاست جس میں جدید دور کےایتھوپیااوراریٹیریاکے حصے شامل تھے۔ بعد میں سنہ 275ء عیسوی میں،حمیارائی بادشاہتیہودیتسے متاثر ہوئی۔عیسائیتچوتھی صدی میں پہنچی اور ساتویں صدی میںاسلامتیزی سے پھیل گیا، ابتدائی اسلامی فتوحات میں یمنی فوجوں نے اہم کردار ادا کیا۔ نویں اورسولہویں صدیکے درمیان مختلف خاندان ابھرے۔ اٹھارھویں صدی کے دوران، ملک کو عثمانی اور برطانوی سلطنتوں کے درمیان تقسیم کر دیا گیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، یمن کی متوکلائی سلطنت قائم ہوئی، جس کے بعد سنہ 1962ء میں یمن عرب جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا۔ جنوبی یمن سنہ 1967ء میں آزاد ہوا۔ سنہ 1990ء میں، دو یمنی ریاستوں نے متحد ہو کر جدید جمہوریہ یمن (جمہوریہ الیمانیہ) تشکیل دی۔صدر علی عبداللہ صالحنئی جمہوریہ کے پہلے صدر تھے اور وہ سنہ 2012ء میںعرب بہارکے نتیجے میں مستعفی ہو گئے۔سنہ 2011ء سے، یمن کو سیاسی بحران کا سامنا ہے، جس کی نشان دہی غربت، بے روزگاری، بدعنوانی اور صدر صالح کے یمن کے آئین میں ترمیم کرنے اور صدارتی مدت کی حد کو ختم کرنے کے خلاف سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں سے ہے۔ اس کے بعد، ملک ایک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا ہے جس میں متعدد ادارے حکمرانی کے لیے کوشاں ہیں، بشمول صدر ہادی کی حکومت (بعد میں صدارتی قیادت کونسل)،حوثی تحریککی سپریم پولیٹیکل کونسل اور علیحدگی پسند جنوبی تحریک کی جنوبی منتقلی کونسل۔ یہ جاری تنازع ایک شدید انسانی بحران کا باعث بنا ہے اور یمن کے لوگوں پر اس کے تباہ کن اثرات کے لیے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔ یمن کی انسانی صورت حال پر ڈرامائی طور پر بگڑتے ہوئے اثرات کے لیے جاری انسانی بحران اور تنازعات کو وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ""انسانی تباہی"" کی سطح تک پہنچ گیا ہے اور کچھ نے اسے نسل کشی کا نام بھی دیا ہے۔ یمن دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے، پائیدار ترقی کی راہ میں نمایاں رکاوٹوں کا سامنا ہےاقوام متحدہنے 2019 میں رپورٹ کیا کہ یمن میں انسانی امداد کی ضرورت میں سب سے زیادہ لوگ ہیں، جن کی تعداد تقریباً 24 ملین ہے، جو اس کی آبادی کا تقریباً 75 فیصد ہے۔ 2020 تک، یمن نازک حالت کے اشاریہ پر سب سے اونچے مقام پر ہے اور عالمی بھوک کے اشاریہ پر دوسرے نمبر پر ہے، جسے صرفوسطی افریقی جمہوریہنے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مزید برآں، اس کا انسانی ترقی کا انڈیکس تمام غیر افریقی ممالک میں سب سے کم ہے۔مشرق وسطیٰ میں یمن عربوں کی اصل سرزمین ہے۔ یمن قدیم دور میں تجارت کا ایک اہم مرکز تھا، جو مسالوں کی تجارت کے لیے مشہور تھا۔ یہ وہ قدیم سرزمین ہے جس میں سے ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پچاس یوم قبل ابرہہ نامی عیسائی بادشاہخانہ کعبہپر حملہ آور ہوا۔ حوالے کے لیے دیکھیے:الرحیق المختومازمولاناصفی الرحمن مبارکپورییامنات Yamnat کی اصطلاح کا تذکرہ پرانے جنوبی عربی نوشتہ جات میں دوسریحمیری بادشاہتکے بادشاہوں میں سے ایک کے عنوان پر کیا گیا تھا جسے شمر یحرش II کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح غالباً جزیرہ نما عرب کی جنوب مغربی ساحلی پٹی اورعدناورحضرموتکے درمیان جنوبی ساحل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تاریخی یمن میں موجودہ یمن کے مقابلے میں بہت بڑا علاقہ شامل تھا، جوجنوب مغربی سعودی عربمیںشمالی عسیرسے لے کرجنوبی عمانمیں ظوفر تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک تشبیہ یمن کو ymnt سے ماخوذ ہے، جس کا لفظی معنی ہے ""جنوبی عرب جزیرہ نما"" اور نمایاں طور پر دائیں طرف زمین کے تصور پر ادا کرتا ہے (حمیاری:𐩺𐩣𐩬)۔ دیگر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یمن کا تعلق یامن یا یم سے ہے، جس کا مطلب ہے ""خوش حالی"" یا ""برکت""، کیونکہ ملک کا زیادہ تر حصہ زرخیز ہے۔ رومیوں نے اسے صحرائی عربیہ Arabia deserta کے برخلاف زرخیز عربیہ Arabia Felixa (""خوش"" یا ""خوش قسمت"" عربیہ) کہا۔ لاطینی اور یونانی مصنفین نے قدیم یمن کو ""ہندوستان"" کہا، جو فارسیوں کے نام سے نکلا تھا۔یمن 7000 سال سے زیادہ عرصے سے اپنی تہذیبوں کے سنگم پر موجود ہے۔ ملک سبا کی ملکہ شیبا جیسی شخصیات کا گھر تھا جو بادشاہ سلیمان کے لیے تحائف کا ایک قافلہ لے کر آئی تھی۔ صدیوں سے، یہ موچا کی بندرگاہ میں برآمد کی جانے والی کافی کا بنیادی پیداکار بن گیا تھا۔ قدیم رومی اس علاقے کو عربیہ فیلکس یا زرخیز یا خوش الحال عرب کہتے تھے۔ ساتویں صدی میں اسلام قبول کرنے کے بعد، یمن اسلامی تعلیم کا مرکز بن گیا اور اس کا زیادہ تر فن تعمیر جدید دور تک زندہ رہا۔مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان اپنی طویل سمندری سرحد کے ساتھ، یمنجزیرہ نما عربکے مغرب میں تجارت کے لحاظ سے ایک اسٹریٹجک مقام کے ساتھ ثقافتوں کے سنگم پر طویل عرصے سے موجود ہے۔ 5000 قبل مسیح میںشمالی یمنکے پہاڑوں میں ان کے دور کے لیے بڑی بستیاں موجود تھیں۔سبائی بادشاہتکم از کمبارہویں صدیقبل مسیحمیں وجود میں آئی۔ جنوبی عرب میں چار بڑی سلطنتیں یا قبائلی کنفیڈریشنزسبا،حضرموت،قتاباناورمعنتھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچازاد بھائی حضرت علی علیہ السّلام کو سنہ 630ء کے قریب صنعاء اور اس کے گرد و نواح میں بھیجا۔ اس وقت یمن عرب کا سب سے ترقی یافتہ خطہ تھا۔ بنو ہمدان کنفیڈریشن سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا والی بنا کر بھیجا اور ساتھ ہی موجودہ دور کے طائز میں حضرت جنادہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور مختلف قبائلی رہنماؤں کو خط بھیجے۔ اس کی وجہ قبیلوں میں تقسیم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یمن میں مضبوط مرکزی اتھارٹی کا نہ ہونا تھا۔ حمیار سمیت بڑے قبائل نے 630-631ء کے ارد گرد ""وفود کے سال"" کے دوران وفود مدینہ بھیجے۔ سنہ 630ء سے پہلے کئی یمنیوں نے اسلام قبول کیا۔ اس دورانابلہ بن کعب العنسی (اسود عنسی)نے باقی ماندہ فارسیوں کو نکال دیا اور نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا کہ وہ رحمان کا نبی ہے۔ اسے فارسی نژاد یمنیحضرت فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہنے قتل کیا۔ عیسائی، جو بنیادی طور پر یہودیوں کے ساتھنجرانمیں مقیم تھے، جزیہ ادا کرنے پر راضی ہو گئے، حالانکہ کچھ یہودیوں نے اسلام بھی قبول کیا، جیسے حضرت وہب بن منبی اور کعب الاحبار رضی اللہ عنہ۔خلافتراشدہ کے دوران یمن مستحکم تھا۔ یمنی قبائل نےمصر،عراق،فارس،لیوانت (شام و فلسطین)،اناطولیہ،شمالی افریقہ،سسلیاوراندلسمیں اسلامی پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ شام میں آباد ہونے والے یمنی قبائل نےاموی حکومتکو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر مروان اول کے دور میں, کندا جیسے طاقتور یمنی قبائل مرج رہت کی جنگ کے دوران اس کے ساتھ تھے۔یمن تقریباً مکمل طور پر مغربی ایشیا میں ہے، جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے میں جو جزیرہ نما کو مشرقی افریقہ سے ملا رہا ہے، اس کی سرحد شمال میں سعودی عرب، جنوب اور مشرق میںعمان, مغرب میںبحیرہ احمر،خلیج عدناور گارڈافوئی چینل سے ملتی ہے۔ عرض البلد 12 اور 19 ° N اور طول البلد 42 اور 55 ° E کے درمیان ,یمن 15°N 48°E پر ہے اور اس کا سائز 555,000 مربع کلومیٹر (214,287 مربع میل) ہے۔ بحیرہ احمر کے متعدد جزائر، بشمول ہنیش جزائر، کامران اور پریم، نیز بحیرہ عرب میںسوکوترا، کا تعلق یمن سے ہے۔ ان میں سب سے بڑا سوکوترا ہے۔ بہت سے جزیرے آتش فشاں ہیں۔ مثال کے طور پر، جبل الطائر میں سنہ 2007ء میں اور اس سے پہلے سنہ 1883ء میں آتش فشاں پھٹا تھا۔ اگرچہ مین لینڈ یمن جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے میں ہے اور اس طرح ایشیا کا حصہ ہے اور اس کے جزائر ہنیش اور بحیرہ احمر میں پریم کا تعلق ایشیا سے ہے، مگر سوکوترا کا جزیرہ نما، جوصومالیہکےسینگکے مشرق میں واقع ہے اور ایشیا کے مقابلے افریقہ سے بہت قریب ہے، جغرافیائی اور جیو جغرافیائی طور پر افریقہ سے منسلک ہے۔ سوکوترا کا سامنا گارڈافوئی چینل اور صومالی سمندر سے ہے۔یمن ایک جمہوریہ ہے جس میں دو ایوان والی مقننہ ہے۔ سنہ 1991ء کے آئین کے تحت، ایک منتخب صدر، ایک منتخب 301 نشستوں والی اسمبلی اور ایک مقرر کردہ 111 رکنی شوریٰ کونسل طاقت میں حصہ لیتی ہے۔ صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہے اوروزیر اعظمحکومت کا سربراہ ہے۔ صنعاء میں، ایک سپریم پولیٹیکل کونسل (بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نہیں) حکومت بناتی ہے۔ سنہ 1991ء کا آئین یہ فراہم کرتا ہے کہ صدر کا انتخاب کم از کم دو امیدواروں میں سے مقبول ووٹ کے ذریعے کیا جائے جس کی پارلیمنٹ کے کم از کم 15 ارکان نے توثیق کی ہو۔وزیر اعظم، بدلے میں، صدر کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے اور پارلیمنٹ کے دو تہائی سے منظور ہونا ضروری ہے۔ صدارتی عہدے کی مدت سات سال ہے اور منتخب دفتر کی پارلیمانی مدت چھ سال ہے۔ حق رائے دہی 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے عالمگیر ہے، لیکن صرفمسلمانہی منتخب عہدہ پر فائز ہو سکتے ہیں۔صدر علی عبداللہ صالحسنہ 1999ء میں دوبارہ متحد یمن کے پہلے منتخب صدر بنے (حالانکہ وہ سنہ 1990ء سے متحدہ یمن کے صدر اور سنہ 1978ء سے شمالی یمن کے صدر تھے)۔ وہ ستمبر 2006ء میں دوبارہ عہدے کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ صالح کی فتح کو ایک ایسے انتخاب سے نشان زد کیا گیا تھا جس کے بارے میں بین الاقوامی مبصرین نے فیصلہ کیا تھا کہ ""جزوی طور پر آزاد"" تھا، حالانکہ انتخابات کے ساتھ تشدد، پریس کی آزادیوں کی خلاف ورزی اور دھوک�� دہی کے الزامات تھے۔ پارلیمانی انتخابات اپریل 2003ء میں ہوئے اور جنرل پیپلز کانگریس نے قطعی اکثریت برقرار رکھی۔ صالح سنہ 2011ء تک اپنی اقتدار کی نشست پر تقریباً بلا مقابلہ رہے، یہاں تک کہ سنہ 2011ء کےعرب بہارکے اثرات کے ساتھ مل کر انتخابات کے دوسرے دور کے انعقاد سے انکار پر مقامی مایوسی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ سنہ 2012ء میں، انھیں اقتدار سے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا، حالانکہ وہ یمنی سیاست میں ایک اہم عنصر رہے ہیں، سنہ 2010ء کی دہائی کے وسط میں حوثیوں کے قبضے کے دوران ان کے ساتھ اتحاد کیا۔آئین آزاد عدلیہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ سابقہ شمالی اور جنوبی قانونی ضابطوں کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ قانونی نظام میں علاحدہ عدالتیں اور صنعاء میں قائم سپریم کورٹ شامل ہیں۔شریعتقوانین کا بنیادی ماخذ ہے، جس میں بہت سے عدالتی مقدمات قانون کی مذہبی بنیاد کے مطابق زیر بحث آتے ہیں اور بہت سے جج مذہبی اسکالرز کے ساتھ ساتھ قانونی حکام بھی ہوتے ہیں۔ جیل اتھارٹی آرگنائزیشن ایکٹ، ریپبلکن فرمان نمبر۔ 48 (1981) اور جیل ایکٹ کے ضوابط، ملک کے جیل کے نظام کے انتظام کے لیےقانونیفریم ورک فراہم کرتے ہیں۔انڈیا کا یمن سے بہت اچھا رشتہ ہے یہاں کی خوبصورتی یہ ہے کہ یمن نے فلسطینوں کا ساتھ دیا اور اسرائیلی کتوں کے جہاز کو مار گرایا یہ بہت اچھا کام کیا ہےیمنیوں نے"
+616,سرزمین شام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B1%D8%B2%D9%85%DB%8C%D9%86_%D8%B4%D8%A7%D9%85,"شامیالیونت(انگریزی: The Levant)مشرق وسطٰیکے ایک بڑے علاقے کے لیے استعمال ہونے والی ایک غیر واضح تاریخی اصطلاح ہے۔ یہ علاقہ مغرب میںبحیرہ روم، مشرق میںصحرائے عربکے شمالی حصوں اور بالائیبین النہریناور شمال میںکوہ ثورکے درمیان واقع ہے۔ لیونت میںکوہ قفقاز،جزیرہ نما عربیااناطولیہکا کوئی حصہ شامل نہیں سمجھا جاتا۔یہ اصطلاحانگریزیمیں پہلی بار1497ءمیں استعمال ہوئی جس کا مطلب ""وینیٹیاکے مشرق میں بحیرہ روم کی سرزمین"" کو واضح کرنا تھا۔لیونتقرون وسطٰیکیفرانسیسی زبانکے لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب ""ابھرنا"" ہے اور اس ضمن میں اس خطے کو ابھرتے سورج کا علاقہ سمجھا جا سکتا ہے اور اسےعربیکے لفظ مشرق کا متبادل سمجھا جا سکتا ہے یعنی وہ علاقہ جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے۔19 ویں صدی کے سفرناموں میں یہ اصطلاحسلطنت عثمانیہکے زیر نگیں مشرقی علاقوں کے لیے استعمال ہونے لگی۔لیونتیائی باشندوں کی اصطلاح خاص طور پراطالویوںکے لیے استعمال ہوتی ہے خصوصاًوینساورجینووا،فرانسیسیاور دیگر جنوبی یورپی نسل کے باشندوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جوصلیبی جنگوں،بازنطینی سلطنتاورعثمانی سلطنتکے ادوار میںترکییابحیرہ رومکے مشرقی ساحلوں پر رہتے تھے۔ ان افراد کے آبا و اجداد دراصل بحیرہ روم کی بحری مملکتوں کے رہنے والے تاجر تھے۔1920ءسے1946ءتک فرانس کے زیر قبضہسوریہاورلبنانلیونت ریاستیں(بلاد شام) کہلاتے تھے۔آج کل لیونت کی اصطلاح ماہرینآثار قدیمہاورتاریخدان خطے کیقبل از تاریخ،قدیماورقرون وسطٰیکی تاریخ کے حوالے سے استعمال میں رہتی ہے خصوصاً جب وہ صلیبی جنگوں کا ذکر کرتے ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+617,بیت المقدس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DB%8C%D8%AA_%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%82%D8%AF%D8%B3,"بیت المقدس(عبرانی:בֵּית־הַמִּקְדָּשׁ،نقحر:بئیت־ہَمِقْدَش) سے مرادہیکل سلیمانیہے جو قدیمالقدسمیں واقع تھا جو موجودہمسجد اقصٰیاورقبۃ الصخرۃکا مقام ہے۔ ""بیت المقدس""سے مراد وہ ""مبارک گھر"" یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہوں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی ق م میں جبرومیوںنے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو انھوں نے اسےایلیاکا نام دیا تھا۔
+اب یہاں پر یہودیوں کی دھوکے سے قائم کی گئی ناجائز ریاست کا قبضہ ہے۔قبلہ اول اور عالم اسلام[مردہ ربط]| ایک اہم کالمقرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّ��د•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اس��ائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+618,خلیج فارس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D9%84%DB%8C%D8%AC_%D9%81%D8%A7%D8%B1%D8%B3,خلیج فارس(فارسی کھاڑی)جنوب مغربی ایشیامیںایراناورجزیرہ نما عربکے درمیان واقع خلیج ہے۔ یہ تجارتی نقطہ نظر سے دنیا کے اہم ترین آبی علاقوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہایران،عراقاور بعض عرب ریاستوں کوبحر ہندسے ملاتی ہے۔خلیج فارس 1980ء سے 1988ء کے درمیانایرانعراقجنگ کے باعث دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے تیل کے ذخائر پر حملے کیے۔ 1991ء میںجنگ خلیجکے موقع پر خلیج فارس ایک مرتبہ پھر جنگ کی زد میں آئی جب امریکا نےکویتپر عراق کے قبضے کو ختم کرنے کے لیے اتحادیوں کی مدد سے عراق پر حملہ کیا۔خلیج فارس مچھلیوں، شعب البحر اور موتیوں کی دولت سے مالا مال ہے لیکن گذشتہ تین دہائیوں میں جنگوں کے درمیان تیل کے ذخائر میں رساؤ کے باعث آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔2 لاکھ 33 ہزار مربع کلومیٹر کی خلیج فارسآبنائے ہرمزکے ذریعےخلیج اومانسے منسلک ہے۔ دریائےفراتودجلہخلیج فارس میں گرنے سے قبل شط العرب بناتے ہیں۔ 989 کلومیٹر طویل یہ خلیج ایران اورسعودی عربکو جدا کرتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کم از کم فاصلہ آبنائے ہرمز کے مقام پر 56 کلومیٹر ہے۔ خلیج میں پانی زیادہ گہرا نہیں اور زیادہ سے زیادہ گہرائی 90 میٹر، جبکہ اوسط گہرائی 50 میٹر ہے۔خلیج فارس کے ساحلوں کے ساتھ قائم ممالک میں ایران،عمان،متحدہ عرب امارات، سعودی عرب،قطر،بحرین،کویتاور عراق شامل ہیں۔ علاوہ ازیں خلیج میں کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی ہیں۔خلیج فارس اور اس کے ساحلی علاقے دنیا میں تیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اسی لیے تیل سے متعلقہ صنعتیں ہی خطے میں سبسے زيادہ ہیں۔ سمندر میں دنیا کی سب سے بڑی آئل فیلڈ السفانیہ خلیج میں ہی واقع ہیں۔ علاوہ ازیں قطر اور ایران میں گیس کے وسیع ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں۔ اس گیس کی بدولت قطر نے بڑی تعداد میں مائع قدرتی گیس (ایل این جی) اور پیٹروکیمیکل صنعتیں قائم کی ہیں۔نویں صدی عیسوی کےمسلممصنفیعقوبینے خلیج فارس کوبحیرہ فارسکے نام سے لکھا ہے اور اسےچینتک پہنچنے کے لیےسات سمندروںمیں سے ایک بتایا ہے۔
+619,بحیرہ روم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%AD%DB%8C%D8%B1%DB%81_%D8%B1%D9%88%D9%85,"بحیرۂ روم، جسے اردو میںبحیرۂ متوسطیابحیرۂ ابیضبھی کہا جاتا ہے، (انگریزی: Mediterranean Sea)افریقا،یورپ،اورایشیاکے درمیان ایک سمندر ہے، جو تقریبا چاروں طرف سے زمین میں گھرا ہوا ہے۔ یہ صرف وہاں سے کھلا ہے جہاںاسپیناورمراکشآمنے سامنے ہیں اور درمیان میں چندکلومیٹرکا سمندر ہے (دیکھیے :آبنائے جبل الطارق) بحیرہ روم کے شمال میں یورپ، جنوب میں افریقہ اور مشرق میں ایشیا موجود ہے۔ یہ 2.5 ملین مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، لیکن اسےبحر اوقیانوسسے منسلک کرنے والیآبنائے جبل الطارقصرف 14 کلومیٹر چوڑی ہے۔یہ بحیرہدرہ دانیالاورآبنائے باسفورسکے ذریعےبحیرہ مرمرہاوربحیرہ اسودسے بھی منسلک ہے۔نہر سوئزبحیرہ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر واقع ہے جو اسےبحیرہ قلزمسے منسلک کرتی ہے۔بحیرہ کے بڑے جزیروں میںقبرص،کریٹ،رہوڈز،سارڈینیا،کورسیکا،صقلیہ،مالٹا، ابیزا، ماجورکا اور منورکا شامل ہیں۔قدیم مصری بحیرہ روم کو واجد ور/واجد ویر/واجد اور کہتے ہیں۔قدیم یونانیبحیرہ روم کو صرف ἡ θάλασσα ( ہے ثالسّا؛ ""سمندر"") یا کبھی کبھی ἡ μεγάλη θάλασσα (ہے مَیگالے ثالسّا؛ ""عظیم سمندر"") ، ἡ ἡμετέρα θάλασσα (ہے َیمِیتے را ثالسّا؛ ""ہمارا سمندر"") کہا جاتا ہے یا
+ἡ θάλασσαα ἡ καθ'ἡμᾶς (ہے ثالسّا ہے کاث'ہے ماث؛ ""ہمارے آس پاس کا سمندر"")۔یہ زمانہ قدیم سے بحری ذرائع نقل و حمل کا مرکز رہا ہے۔ ترک اس سمندر کو Akdeniz (آق دینز) یعنی بحیرہ ابیض جبکہ عربی ""البحر الابيض المتوسط"" کہتے ہیں۔دیگر زبانوں میں بحیرہ روم کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں :بحیرہ روم کا ساحل 22 ممالک سے ملتا ہے جن میں مندرجہ ذیل ممالک شامل ہیں :یورپ(مغرب سے مشرق کی جانب)ایشیا(شمال سے جنوب کی جانب)افریقا(مشرق سے مغرب کی جانب)"
+620,یونان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%86%D8%A7%D9%86,یونانیاجمہوریہ ہیلینیہ(انگریزی: Hellenic Republic،یونانی:Ελληνική ΔημοκρατίαEllīnikī́ Dīmokratía[eliniˈci ðimokraˈti.a]) جنوب مشرقییورپمیںجزیرہ نما بلقانکے نشیب میں واقع ملک ہے۔ اس کی سرحدیں شمال میںالبانیا،مقدونیہ،اوربلغاریہاور مشرق میںترکیسے ملتی ہیں- مغرب میںبحیرہ ایونیاورجنوبمیںبحیرہ ایجینواقع ہے-یونان کوفنون لطیفہ کی ماںبھی کہا گیا ہے۔ یہاں سنگ مرمر افراط سے ملتا تھا لہذا فن تعمیر میں غیر معمولی ترقی کی۔جمہوریتکا تصور سب سے پہلے یونان میں قائم ہوا اور وہاں سے یہ طرز حکومت دنیا کے دوسرے ملکوں تک پہنچا۔ یونان میں ہر نوجوان کو اٹھارہ سال کی عمر میںایتھنزکیدیویکے حضور میں حلفِ وفاداری اٹھانا پڑتا تھا۔
+621,مجارستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AC%D8%A7%D8%B1%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,مجارستانیاہنگری(مجاری زبان: Magyarország اور انگریزی : Hungary،نقل حرفی: ہنگری)وسطی یورپکا ایک ملک ہے۔ اس کو کوئی سمندر نہیں لگتا اور اس کے اردگردآسٹریا،سلواکیہ،اوکراین،رومانیہ،کرویئشااورسلوانیہواقع ہیں۔ اس کا دار الحکومتبوداپستکہلاتا ہے جو مشہور دریادریائے ڈینیوبکے دونوں کناروں پر واقع ہے۔ اس پر مختلف اوقات میںرومن(چوتھی صدیعیسوی تک) اورمسلمان ترکوں(1526ءسے1699ءتک) کی حکومت بھی رہی ہے۔ ان حکومتوں کے علاوہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک یہ ایک بڑے اہم ملک کی صورت میںیورپکا مرکز رہا ہے۔انگریزی زبانمیں اس کا نام ہنگری ہے۔ انگریزی زبان کا حرف H دراصل لاطینی سے ماخوذ ہے اور لاطینی میں اس کا نام ہنگریا (Hungaria) ہے۔ کہا جاتا ہے کہاوارسے قبل یہاںہنآباد تھے اور تاریخی طور پر ہنگری نام H اسی سے منسوب ہے۔ ہنگری کے باقی حروفوسطی یونانیلفظ (Οὔγγροι) سے بنے ہیں جو پہلےلاطینیمیں اور بعد میں انگریزی میں آیا۔ یونانی کا لفظقدیم بلغاریلفظ (ągrinŭ) سے بنا ہے جوایغور-ترکلفظ اویغور سے بنا ہے جس کے معنیاویغورکا قبیلہ ہے۔ اس طرح اویغور ان تمام قبائل کو کہا جاتا ہے جوبلغا قبائلسے مل گئے اور ان لوگوں نے مجموعی طور پر اوار کے بعد ہنگری پر حکومت کی۔[4][5]مقامی زبان میں اس کا ناممجراورسیگ(Magyarország) ہے جو دو الفاظ کا مرکب ہےمجار(magyar) اورملک(ország)۔ در حقیقتمجارملک کے باشندوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ زیادہ درست طریقے سے یہ کچھ دیگر زبانوں میں ملک کے نام عکاسی کرتا ہے جیسےجدید ترکی زبان(Macaristan)،فارسی زبان(مجارستان)،آذری ترکی زبان(مجاریستان)اور دیگر زبانوں میںمجارستان(Magyaristan) یعنی مجاروں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اسی ترکیب کے مطابق عربی زبان میں اسےالمجرکہا جاتا ہے۔مجارکا لفظ سات بڑے نیم خانہ بدوش مقامی قبیلوںمجاریمیں سے ایک کے نام سے لیا گیا ہے۔[6][7][8]
+623,فقہی مذاہب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D9%82%DB%81%DB%8C_%D9%85%D8%B0%D8%A7%DB%81%D8%A8,مذہبیافقہی مذہبایکفقہی(اسلامی اصول قانون) مکتب فکر ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی 150 سالہ تاریخ کئی فقہی مذاہب تھے، جو رفتہ رفتہ ختم ہو گئے یا دوسرے مذاہب فقہ میں ضم ہو گئے۔عمان کا پیغام، 2005ء میں جن فقہی مذاہب کی توثیق کی گئی، جس کی تصدیق دنیا بھر کے جید علمائے اسلام نے کی، چاراہل سنتفقہی مکاتب فکر (حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی)، 2شیعہفقہی مکاتب فکر (فقہ جعفری،زیدیہ)،اباضیہمکتب فکر اورظاہریتمکتب فکر کو باضابطہ قابل قبول قرار دیا ہے۔[1]اہل سنت و جماعت کا سب سے پہلا فقہی مذہب جسے اہل علممذہب ابن عباسیافقہ عباسیہکے نام سے جانتے ہیں ہے۔اسی فقہ عباسیہ کے دو جلیل القدر فقہا ابوالعباس سفاح عباسی اور جعفر منصور عباسی نےخلافت عباسیہقائم کی۔اس کے علاوهاہل سنتاورسنیمکتب فکرسے تعلق رکھنے والے کچھ اورفقہی مذاہببھی تھے لیکن اب وه ناپید ہو چکے ہیں:دور جدید میں،صادق المہدی، سابقوزیر اعطم سوڈان، نے اسلام میں آٹھ قانونی مذاہب اور متغیر شاخیں تسلیم کی گئی ہیں جس کی تفصیل یہ ہے۔[2]عمان کا پیغام، کے تین نکات 200علماءجن کا تعلق 50 سے زائد ممالک سے ہے، اس میں آٹھ قانونی مذاہب کو تسلیم کیا گیا ہے۔[3]
+624,شافعی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%D8%A7%D9%81%D8%B9%DB%8C,"☆بسلسلہ شرعی علوم☆علم فقہفروعاصولقواعدادلہمدارسباب فقہفقہ العبادات•طہارت•نماز•زکات•روزہ•حجو عمرہ•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•اصولعلم اصول فقہ•ادلہ الفقہ•الاحکام الشرعیہ•فرض•فرض کفایہ•المسنون•المکروہ•الحرام•سنہ مؤکدہ•المباح•الصحہ والبطلان•الالفاظ•الکتاب•السنہ•الاجماع•القیاس•الاجتہاد•قول الصحابی•القواعد فقہیہ•الامور بمقاصدہا•زمرہ•فروع الفقہ•فقہ العبادات•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•فقہ الصیام•فقہ الزکاۃ•فقہ مقارن•فقہ القرآن•فقہ الحدیث•فقہ الاولویات•فقہ•فقہ المریض•فقہ النفس•فقہ السلوک•فقہ السیرہ•فقہی مدارس کی تاسیس•فقہاء الصحابہ•فقہاء التابعین•مذاہب فقہیہ•الائمہ الاربعہ•ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس•محمد بن ادریس الشافعی•احمد بن حنبل•ائمہ مذاہب•سفیان الثوری•اللیث بن سعد•الاوزاعی•داود الظاہری•زید بن علی•المذہب الحنفی•المذہب المالکی•المذہب الشافعی•المذہب الظاہری•المذہب الزیدی•مذاہب آل البیت•مذہب الامامیہ•مذہب الاباضیہ•فقہاء•اصطلاحات فقہیہ•مراتب الفقہاء•مراتب الاجتہاد•مجتہد مطلق•مجتہد مستقل•فتوى•مفتی•کتب فقہ•کتب اصول الفقہ•الاحکام السلطانیہ•مقادیر شرعیہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•علم التفسیرعلم الحدیثعلم الفقہعلم التوحیدالعلوم الشرعیہ المساعدہعلوم اللغہ العربیہعلم اصول الفقہالمناہج العلمیہالبحوث العلمیَّہعلوم القرآن•علوم الحدیث•الاشباہ والنظائر•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ•فقہ العبادات•طہارت•نماز•الزکات•الصیام•الحجوالعمرہ•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•الاصولعلم اصول الفقہ•ادلہ الفقہ•الاحکام الشرعیہ•فرض•فرض کفایہ•المسنون•المکروہ•الحرام•سنہ مؤکدہ•المباح•الصحہ والبطلان•الالفاظ•الکتاب•السنہ•الاجماع•القیاس•الاجتہاد•قول الصحابی•القواعد الفقہیہ•الامور بمقاصدہا•تصنیف•دراسات فقہیہفروع الفقہ•فقہ العبادات•فقہ المعاملات•فقہ المواریث•فقہ الصیام•فقہ الزکاہ•فقہ مقارن•فقہ القرآن•فقہ الحدیث•فقہ الاولویات•فقہ•فقہ المریض•فقہ النفس•فقہ السلوک•فقہ السیرہ•تاسیس المدارس الفقہیہ•فقہاء الصحابہ•فقہاء التابعین•مذاہب فقہیہ•الائمہ الاربعہ•ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس•محمد بن ادریس الشافعی•احمد بن حنبل•ائمہ مذاہب•سفیان الثوری•اللیث بن سعد•الاوزاعی•داود الظاہری•زید بن علی•المذہب الحنفی•المذہب المالکی•المذہب الشافعی•المذہب الظاہری•المذہب الزیدی•مذاہب آل البیت•مذہب الامامیہ•مذہب الاباضیہ•فقہاء•مصطلحات فقہیہ•مراتب الفقہاء•مراتب الاجتہاد•مجتہد مطلق•مجتہد مستقل•فتوى•مفتی•کتب فقہ•کتب اصول الفقہ•الاحکام السلطانیہ•مقادیر شرعیہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•قوالب فقہ•اعلامکتب فقہ•کتب اصول الفقہ•[[:زمرہ:|کتب]]•اعلام•العلوم الاسلامیہالتاریخ الاسلامیالمذاہب الاربعہالمذاہب الفقہیہباب اسلامی علومشریعتاسلامی کی اصطلاح میںامام شافعیکیفقہپر عمل کرنے والے مسلمان شوافع کہلاتے ہیں۔ فقہ شافعی اور فقہ مالکی کے ماننے والوں کی تعداد فقہ حنفی کے بعد سب سے زیادہ ہے اور آج کل ان کی اکثریتملائیشیا،انڈونیشیا،حجاز،مصروشاماور مشرقیافریقامیں ہے۔ فقہ حنفی کی طرح فقہ شافعی بھی کافی وسیع ہے۔ابن ادریس شافعی نے اپنیکتاب الرسالہلکھی جو اصول فقہ اور اصول حدیث کی اولین، نفیس اور اساسی کوشش قرار پائی۔ یہ اصول آج تک مسلمہ ہیں اور اصول فقہ میں بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔[1]امام شافعی نے احکام ومسائل میں استدلال کے چند درجات پر رائے دی ہے جس سے فقہ شافعی میں استدلال کی اصل حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔یہ آراء درج ذیل ہیں:یہ وہ کتب ہیں جن پر شافعی مسلک قائم ہے۔شافعی مذہب میں نماز کے افعال واجبات اور سنن میں منقسم ہیں، چنانچہ نماز کے واجبات پندرہ ہیں جیسا کہ خلیل نے اپنی مختصر میں شمار کیا ہے، کہتے ہیں: ""نماز اقوال و افعال کا مجموعہ ہے، چنانچہ تمام اقوال فرائض نہیں ہے سوائے تین کے: تکبیر تحریمہ کہنا، فاتحہ پڑھنا، سلام کہنا اور تمام افعال فرائض ہیں سوائے تین کے: تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرنا، تشہد کے لیے بیٹھنا، سلام داہنی طرف پھیرنا""۔ امام نووی جو شافعی ہیں انھوں نے اس طرح شمار کیا ہے: ارکان نماز اس کو تیرہ شمار کیا ہے: نیت، تکبیر تحریمہ، فرض نماز میں قادر شخص کا کھڑا ہونا، قرات، فاتحہ اور اس میں بسملہ پڑھنا، رکوع، اطمینان سے کھڑے ہونا، سجدہ کرنا، دونوں سجدوں کے درمیان میں اطمینان سے بیٹھنا، تشہد پڑھنا اور بیٹھنا، درود پڑھنا، سلام، ارکان کو ترتیب سے ادا کرنا۔[3]"
+625,اسلامی عہد زریں,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C_%D8%B9%DB%81%D8%AF_%D8%B2%D8%B1%DB%8C%DA%BA,"اسلامی عہد زریںسے مرادتاریخ(اور بطور خاص مغربی مصنفین کی کتب) میں اس عہد یا زمانے کی لی جاتی ہے جو آٹھویں صدی تا تیرہویں صدی عیسوی تک محیط ہے[1]جبکہ بعض مورخین و تاریخی ذرائع اسے پندرھویں[2]اور سولہویں[3]صدی تک قائم رکھتے ہیں۔ اسلامی دور عروج یا اسلام کے عہد زریں کو بعض اوقات (بطور خاص مغربی مصنفین کی اصطلاح میں) اسلامی نشاۃ ثانیہ یعنی Islamic renaissance کے نام سے جانا جاتا ہے ؛اردومیں اس کے ليے ایک اور لفظ عصرِ نہضہ یا عصرالنھضہ بھی اختیار کیا جاتا ہے جو نشاۃ ثانیہ کی نسبت بہتر ہے کیونکہ نشاۃ ثانیہ کو النھضہ بھی کہا جاتا ہے جبکہانگریزیمیں اس کے ليے renaissance کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ النھضہ کا لفظ نھض سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی قیام کرنا (یعنی اٹھ کھڑا ہونا)، بیدار ہونا، ابھرنا وغیرہ کے ہوتے ہیں جو انگریزی کلمہ renaissance میں پائے جاتے ہیں۔ فی الحقیقت انگریزی میں یہ لفظ دو الفاظ سے بنا ہے re بمعنی دوبارہ اور nasci بمعنی پیداہونے کے۔ اردو میں استعمال کیا جانے والا لفظ نشاۃ ثانیہ بھی گویاعربیزبان سے ہی آیا ہے مگر اس کے ساتھ ثانی کا لفظ آنے کی وجہ سے بعض اوقات انگریزی زبان سے تراجم اور مغرب میں مروج اصطلاحات کے متبادل کی صورت میں مبالغہ آمیز ہو سکتا ہے ؛ مثال کے طور پر Islamic renaissance مغربی مصنفین کے کتب میں آنے والا ایک ایسا لفظ ہے جس کو نشاۃ ثانیہ بھی کہنا اور ساتھ ساتھ اسلام کا ابتدائی زمانہ بھی کہنا ہو سکتا ہے کہ مذہب اسلام کے بنیادی تصور پر تو درست ہو مگر ایکتاریخیزمانے کے تصور میں مبہم ہو جاتا ہے۔ بعد اس تمہید یا انتباہ کے رقم یہ ہے کہ چونکہ نشاۃ ثانیہ کا لفظ ہی اردو میں زیادہ مستعمل ہے لہذا اس مضمون میں Islamic renaissance کی اصطلاح کے متبادل نھضۃ السلام اور یا اسلامی عصرنہضہ کے ساتھ ساتھ اسلامی نشاۃ ثانیہ بھی کو بھی اسی مفہوم میں درج کیا گیا ہے۔اسلامی ممالک پر کئی سو سال سے ناکارگی اور بیخبری میں رہنے کا الزام متعدد بار سامنے آتا رہا ہے[4]جس کی وجہ سے اسلامی نشاۃ ثانیہ پر کچھ تحریر کرنے سے قبل سب سے پہلا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ اس زمانے میں جس کو عروج اسلام کا دور کہا جاتا ہے ترقی کے خدوخال کیا تھے؟ یہ بات انسانیمعاشرےکینفسیاتسے مربوط ہے اورتاریخکے مطالعے سے عیاں ہے کہ جب کوئی قوم پسماندگی میں گرتی ہے تو نا صرف یہ کہ اس کا مستقبل بکھر جاتا ہے بلکہ اس کا ماضی بھی۔ اور یہی حال اسلامی دورعروج کے ساتھ پیش آیا[5]کہ ترقی اور سائنس میں اس کے دورعروج کے خدوخال بھی بکھر جانے کی وجہ سے عرصہ دراز تک اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ اسی عرصۂ دراز تک ایسے متعدد مورخین و مصنفین کہ جن کو ان بکھر جانے والے شواہد میں سے کچھ دستیاب ہوئے وہ پریقین انداز میں اسلامی دورعروج پر لکھتے بھی رہے ؛ جس کا اندازہ اس مضمون میں آنے والی مختلف کتب کے حوالہ جات سے ہوجاتا ہے۔اسلام کا عہد زریں یا اسلام کا سنہری دور؛ اسلامی دنیا یا اسلامی حکومت میں نشو و نما پانے والے ایک ایسے زمانے کو بیان کرتا ہے کہ جب اس میں بسنے والےانسانبالفاظ انکامعاشرہ؛ انسانیمعیار زندگیکے اعتبار سے اس زمانے میں موجود دیگر معاشروں یاتہذیبوںکی نسبت بہتر مقام تک پہنچا اور مختلف شعبہ ہائےزندگیمیں مجموعی طور پر ترقی حاصل کی۔ یہی وہ بنیادی پیمانہ ہوتا ہے کہ جو کسی بھی معاشرے یا تہذیب کے دور کو سنہری دور کہلانے کا مستحق قرار دیتا ہے ؛ برعکس کہ کسی ایک (یا چند) شعبہ جات زندگی میں بہتر کارکردگی اور دیگر شعبہ جات میں پسماندگی کا مظاہرہ، اس معاشرے میں بسنے والے انسانوں کیکیفیت حیات quality of lifeمیں بہتری نا ہونا اور معاشی حالت مستحکم نا ہونا چند ایسے اہم عوامل ہیں کہ جن کی موجودگی میں کسی بھی تہذیب یا معاشرے کے عہد کو سنہری یا زریں نہیں کہا جاتا۔ اسلامی عہد زریں سے مراد بھی ایک ایسے ہی زمانے کی ہے کہ جب اس معاشرے میںکیفیت حیاتبہتر ہوئی اور اس میں بس��ے والےمہندسین (engineers)،اطباءوحکماء،تاجر،علماءاور ماہرین حرب و حکومت اپنے اپنے متعلقہ شعبہ جات میں تحقیقات اور تخلیقات میں سرگرم رہے جس کی وجہ سے اس پورے معاشرے یا عہد کو مجموعی طور پر استحکام حاصل ہوا اور مزید ترقی کی راہیں ہموار ہوئیں۔ اور بمطابق ایک تاریخ نویس Howard R. Turner کے۔.۔.۔.۔ ""مسلم ہنرمندوں اور سائنسدانوں، شہزادوں اور مزدوروں نے یکجا ہو کر ایک ایسا منفرد تمدن تخلیق کیا جو ہر براعظم پر معاشروں کو بالواسطہ اور بلاواسطہ متاثر کر چکا ہے ""[6](اصل عبارت :""Muslim artists and scientists, princes and laborers together created a unique culture that has directly and indirectly influenced societies on every continent."")۔۔.۔.۔.۔ مغرب میں عام طور پر دو اقسام کے افکار رکھنے والے گروہ نظر آتے ہیں ایک وہ جو اسلامی دنیا میں ہونے والی تحقیقات اور سائنسی و دیگر علوم میں ترقی سے یکسر پردہ پوشی کی تگ و دو میں رہتے ہیں اور دوسرے وہ کہ جو یا تو اسلامی دور زریں میں ہونے والی تحقیقات و تخلیقات اور نئی ایجادات کا واضح اعتراف کرتے ہیں اور یا پھر کم از کم اتنا ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان سائنسدانوں، ریاضی دانوں اور علما نے دنیا میں اس وقت تک ہونے والی ترقی کی رکھوالی اور پرورش کی، خواہ وہچینسے ہو یایونانسے۔ Alison Abbott کے مطابق ""مغربی مورخین سائنس اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ یورپینشاۃ ثانیہکے علم میں آنے اور وسعت پانے سے قبل عرب دنیا قرون وسطی میں قدیم یونانی سائنسی علوم کی نگہبان تھی۔ لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس بارے میں تحقیق بہت کم کی گئی ہے کہ عربوں نے کس طرح ان سائنسی علوم کو ترقی دی اور کس طرح اس علم کو استعمال کیا[7]۔اسلامکی تعلیمات اختیار کرنے کے بعد اعرابی یا صحرا نوردعربمنظم ہو کر ساتویں صدی اور آٹھویں کے اوائل تک ایک وسیعخلافۃ الاسلامیہتشکیل دے چکے تھے اورحضرت ابوبکررَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی فتوحات (632ء) سے اسراع پا کرحضرت علیکرم اللہ وجہہ (661ء) تک قائم رہنے والیخلافت راشدہنے چند دہایوں میں اتنی وسعت اختیار کرلی کہ اس کا شماردنیاکی وسیع ترین حکومتوں میں کیا جانے لگا۔[8]۔ متعدد مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام کا سنہری دور دراصل اسی وقت سے شروع ہوا کہ جب محمد (ص) اور خلفائے راشدین کے دور حکومت میں عرب معاشرے کی پرانی اقدار و روایات تبدیل ہوئیں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی ؛ جیسےمعاشری سلامتی (social security)،خاندانکی ساخت اور باہم روابط کا تصور،غلامی،عورتوں کے حقوق، نسلی و لسانی اقلیتوں کا مقام اور ان کے حقوق جیسے تصورات میں اصلاح اور بہتری ہوئی جو گذشتہ کے تصورات سے یکسر مختلف تھی[9][10][11][12]۔عباسیوں(750ءتا1258ء) نےامویوں(660ءتا750ء) کیخلافتکا خاتمہ کیا اور اسلامی حکومت کا دار الخلافہ،دمشقسےبغدادکی جانب آگیا؛ متعدد تاریخ نویس اسی مقام سے شروع ہونے والے دور کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ تسلیم کرتے ہیں اور یہی وہ زمانہ بھی ہے جس میں سولہویں صدیں تکیورپکی سائنس پر چھائے رہنے والےمسلم سائنسدانجابر بن حیان(721ءتا815ء) نےسائنساور بطور خاص علمکیمیاءکی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا[13]۔ اس زمانے میںبغدادکو ایک عالمی علمی مرکز کی حثیت حاصل ہوئی اور یہاں اس ادارۂ تفکر و تحقیق کا قیام (830ءتا1258ء) عمل میں آیا جس کوبیت الحکمۃ (House of Wisdom)کے نام سے جانا جاتا ہے ؛ کوئی 500 سو سال سے زائد عرصہ تک مختلف سائنسی و دنیاوی علوم میں خدمات انجام دینے کے بعد یہ ادارہمنگولوںکے ایک سالارہلاکو خانکے ہاتھوںسقوط بغدادپر، خود اپنے انجام کو پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ہلاکت اور تباہی کے وقت دریا برد کی جانے والیکتابوںکی تعداد اس قدر تھی کہ ان کیروشنائیسےدریائے دجلہکاپانیچھ ماہ تک سیاہ رنگت اختیار کیے رہا (انگریزی ویکیپیڈیا[14]) مستند تاریخی[حوالہ درکار]۔"
+626,خلافت عباسیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81%D8%AA_%D8%B9%D8%A8%D8%A7%D8%B3%DB%8C%DB%81,"خلافت راشدہکے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنتخلافت عباسیہہے۔ خاندان عباسیہ کے دو بھائیوںالسفاحاورابو جعفر المنصورنے 750ء (132ھ) خلافت عباسیہ کو قائم کیا اور1258ء(656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافتبنو امیہکے خلاف ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔[4]خاندان عباسیہ نے دار الحکومتمصرسےبغدادمنتقل کیا اور دو صدیوں تک مکمل طور پر عروج حاصل کیے رکھا۔ زوال کے آغاز کے بعد مملکت کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی جن میںایرانمیں مقامی امرا نے اقتدار حاصل کیا اورالمغرباورافریقیہاغالبہاورفاطمیوںکے زیر اثر آ گئے۔عباسیوں کی حکومت کا خاتمہ1258ءمیںمنگولفاتحہلاکو خانکے حملے کے ذریعے ہوا۔ تاہم خلیفہ کی حیثیت سے ان کی حیثیت پھر بھی برقرار رہی اورمملوکسلطانملک الظاہر بیبرسنے خاندان عباسیہ کے ایک شہزادےابو القاسم احمدکے ہاتھ پر بیعت کرکے اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔ اس طرح خلافت بغداد سےقاہرہمنتقل ہو گئی تاہم یہ صرف ظاہری حیثیت کی خلافت تھی، تمام اختیارات مملوک سلاطین کو حاصل تھے۔عثمانیوںکے ہاتھوں مملوکوں کی شکست کے بعد عباسیوں کی اس ظاہری حیثیت کا بھی خاتمہ ہو گیا اور خلافت عباسیوں سے عثمانیوں میں منتقل ہو گئی۔ موجودہعراقمیںتکریتکے شمال مشرق میں رہنے والا العباسی قبیلہ اسی خاندان عباسیہ سے تعلق رکھتا ہے۔خاندان بنو امیہ کی حکومت کے دور ِ زوال میں سلطنت میں ہر جگہ شورش اور بغاوتیں شروع ہو گئی تھی جن میں سب سے خطرناک تحریکبنی ہاشمکی تھی۔ بنی ہاشم چونکہ اس خاندان سے تھے جس میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمہوئے ہیں اس لیے وہ خود کو خلافت کا بنی امیہ سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے۔بنی ہاشم میں بھی دو گروہ پیدا ہو گئے تھے۔ ایک وہ جوحضرت علیرضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد ان کی اولاد کو خلافت کا حقدار سمجھتا تھا۔ یہ گروہشیعان ِ علیکا طرفدار کہلاتا تھا۔ بعد میں اسی گروہ میں سے کچھ لوگوں نے شیعہ فرقے کی شکل اختیار کرلی اور وہاثنا عشریکہلائے۔دوسرا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس کی اولاد کو خلافت دلانا چاہتا تھا۔ شروع میں دونوں گروہوں نے مل کر بنو امیہ کی حکومت کے خلاف بغاوتیں کیں لیکن بعد میں عباسی گروہ غالب آ گیا۔بنو عباس کی دعوتعمر بن عبدالعزیزکے زمانے میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ہشامکے دور میں اس نے سند حاصل کرلی۔امام حسینرضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شیعان علی نے منصب امامت امام کے بیٹے حضرتزین العابدینکو پیش کیا لیکن جب انھوں نے قبول نہیں کیا تو شیعوں نے حضرت علی کے غیر فاطمی فرزندمحمد بن حنفیہکو امام بنا لیا اور اس طرح امامت کا منصب اہل بیت نبوی سےعلویشاخ میں منتقل ہو گیا۔ محمد بن حنفیہ کے بعد ان کے بیٹےابو ہاشم عبداللہجانشیں ہوئے اور ایران میں ان کی دعوت خفیہ انداز میں پھیلتی رہی۔100ھمیں ابو ہاشم نےشاممیں وفات پائی۔ اس وقت ان کے خاندان میں سے کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا۔ مشہور صحابی حضرتعبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہ کے پوتےمحمد بن علیقریب موجود تھے اس لیے ابو ہاشم نے ان کو جانشیں مقرر کرکے منصب امامت ان کے سپرد کر دیا اور اس طرحامامتعلویوں سے عباسیوں میں منتقل ہو گئی۔ بنی ہاشم کی یہ دعوتعمر بن عبد العزیزسے ہشام تک خفیہ رہی اورعراقاورخراسانکے بڑے حصے میں پھیل گئی۔126ھمیں محمد بن علی کا انتقال ہو گیا اور ان کے بڑے بیٹےابراہیم بن محمدان کے جانشیں ہوئے۔ ان کا مرکز شام میں ایک مقام حمیمہ تھا۔ ان کے دور میں تحریک نے بہت زور پکڑ لیا اور مشہور ایرانیابو مسلم خراسانیاسی زمانے میں عباسی تحریک کے حامی کی حیثیت سے داخل ہوا۔ اس نے ایک طرف عربوں کو آپس میں لڑایا اور دوسری طرف ایرانیوں کو عربوں کے خلاف ابھارا۔ اس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ محمد بن علی نے ابو مسلم کو ہدایت کی تھی کہ خراسان میں کوئی عربی بولنے والا زندہ نہ چھوڑا جائے۔مروانکے دور میں اس سازش کا انکشاف ہو گیا اور ابراہیم کو قتل کر دیا گیا۔ اب ابراہیم کا بھائیابو العباس عبداللہ بن علیجانشیں ہوا۔ اس نے بھی حکم دیا کہ خراسان میں کوئی عرب زندہ نہ چھوڑا جائے۔ اس نے ابراہیم کے غم میں سیاہ لباس اور سیاہ جھنڈا عباسیوں کا نشان قرار دیا۔عربی اور ایرانی ہمیشہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے اور جب ایران پر عربوں کا قبضہ ہوا تو خلفائے راشدین نے منصفانہ حکومت قائم کرکے اس نفرت کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن بنو امیہ کے حکمران خلفائے راشدین کے اصولوں پر نہ چلے۔ ایرانیوں کو بھی حکومت سے شکایت بڑھتی چلی گئی۔ وہ اب مسلمان ہو گئے تھے اور بحیثیتمسلمانعربوں کے برابر حقوق چاہتے تھے۔ جب ان کے برابری کا سلوک نہیں کیا گیا تو وہ بنو امیہ کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی فکر کرنے لگ گئے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے انھوں نے بنو ہاشم کا ساتھ دیا۔بنو امیہ کے زمانے میں عربوں اور ایرانیوں کے درمیان میں نفرتیں بڑھنے کے علاوہ خود عربوں کے اندر قبائلی عصبیت اور اختلافات بھی بہت بڑھ گئے تھے۔ یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ رنگ و نسل کے یہ اختلافات جن کو مٹانے کے لیے اسلام آیا تھا اتنی جلدی پھر سر اٹھانے لگے اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے لگا۔ اساختلافکی وجہ سے عربوں کی قوت کمزور ہو گئی اور بنو امیہ کا سب سے بڑا سہارا چونکہ عرب تھے اس لیے ان کی قوت کمزور ہونے سے بنو امیہ کی سلطنت بھی کمزور پڑ گئی۔اسلامی دنیا کی یہ حالت تھی کہ بنی ہاشم کے حامیوں نے ایرانیوں کی مدد سے خراسان میں بغاوت کردی۔ہشامکے نا اہل جانشین اس بغاوت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اس جدوجہد میں ایک ایرانی سردار ابو مسلم خراسانی سے بنی ہاشم کو بڑی مدد ملی۔ وہ بڑا متصعب، ظالم اور سفاک ایرانی تھا لیکن زبردست تنظیمی صلاحیتوں کا مالک تھا۔ بنی ہاشم کے یہ حامیماوراء النہراور ایران پر قبضہ کرنے کے بعد عراق میں داخل ہو گئے جہاں بنی امیہ کے آخری حکمران مروان بن محمد نےدریائے زابکے کنارے مقابلہ کیا لیکن ایسی شکست کھائی کہ راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ بعد میں مروان پکڑا گیا اور اس کو قتل کر دیا گیا۔ دار الخلافہدمشقپر بنی ہاشم کا قبضہ ہو گیا اور بنی ہاشم کی شاخ بنی عباس کی حکومت قائم ہو گئی۔خاندان عباسیہ نے 500 سال سے زائد عرصے تک حکومت کی جو ایک طویل دور ہے۔ اس طویل عہد میں عباسیوں کے کل 37 حکمران بر سر اقتدار آئے اور ان میں سے کئی قابل و صلاحیتوں کے مالک تھے۔عبد اللہ بن محمد المعروفابو العباس السفاحپہلا عباسی خلیفہ بنا۔ مو��خین نے اس کی عقل، تدبر اور اخلاق کی تعریف کی ہے۔اگرچہ پہلا خلیفہ ابو العباس تھا لیکن عباسیوں کا پہلا نامور حکمران اس کا بھائیابو جعفر المنصورتھا جو سفاح کے بعد تخت پر بیٹھا۔ اس نے 22 سال حکومت کی اور خلافت عباسیہ کی جڑوں کو مضبوط کیا۔ اس نےدریائے دجلہکے کنارے ایک نیا شہر آباد کرکے دار الحکومت وہاں منتقل کیا جوبغدادکے نام سے مشہور ہوا۔ اس نےابو مسلم خراسانیکے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے اسے قتل کرادیا۔منصور کے بعد اس کا بیٹا محمد مہدی مسندِ خلافت پر بیٹھا۔ وہ اپنی طبیعت اور مزاج میں باپ سے بہت مختلف تھا۔ نرم دل اور عیش پرست و رنگین مزاج تھا لیکن اس کے باوجود بد کردار نہیں تھا بلکہ ایک فرض شناس حکمران تھا۔ اس کا عہد امن و امان کا دور تھا۔اس کے زمانے میں مراکش میں ادریسی حکومت قائم ہوئ۔مہدی کے بعد اس کا لڑکاہادی(785-786) تخت خلافت پر بیٹھا لیکن سوا سال کی حکومت کے بعد اس کا انتقال ہو گیا اور اس کی جگہ اس کا بھائیہارونتخت نشین ہوا۔ عباسی خلفاء میں سب سے زيادہشہرتاسی ہارون الرشید نے حاصل کی۔ اس کے دور میں بغداد اپنے عروج پر پہنچ گیا اور یہ خوش حالی اور علم و فن کا زریں دور تھا۔ وہ متضاد اوصاف کا مالک تھا ایک طرف عیش پرستانہ زندگی کا حامل تھا تو دوسری طرف بڑا دیندار، پابند شریعت، علم دوست اور علما نواز بھی تھا۔ ایک سالحجکرتا اور ایک سالجہادمیں گذارتا۔ اس کے دور میںامام ابو حنیفہکے شاگردامام ابو یوسفکوقاضی القضاۃمقرر کیا گیا۔ اس نےبیت الحکمتکے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں کام کرنے والے عالموں اور مترجموں کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ اس کا دورخاندان برامکہکے ذکر کے بغیر ادھورا ہے جنھوں نے اپنی عقل و فراست سے ہارون کی سلطنت کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی دی۔ ہارون کو خاص طور پرجعفر برمکیسے بڑی محبت تھی جو اس کا قابل وزیر تھا۔ لیکن ہارون نے کسی بات پر اس سے ناراض ہو کر اسے قتل کر دیا۔ اس خاندان کے زوال کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہارون کو ان کے غیر معمولی اختیارات، اثرات اور مقبولیت کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ خلافت پر قابض نہ ہو جائیں۔ہارون رشید نے اپنے مرنے سے پہلے اپنی سلطنت کو اپنے دونوں بیٹوں امین اور مامون کے درمیان میں تقسیم کر دیا۔جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کے درمیان میں خانہ جنگی بھی ہوئ۔809 سے لے کر 813 تک امین حکومت کیا۔ہارون کے بعد اگر کسی اور عباسی خلیفہ کا عہد ہارون کے دور کا مقابلہ کر سکتا ہے تو وہمامون الرشیدکا دور ہے۔ وہ عادات و اطوار میں اپنے باپ کی طرح تھا بلکہ وہ ہارون سے بھی زیادہ نرم دل اور فیاض تھا۔ اس کے دور کا اہم واقعہ ""فتنۂ خلق قرآن"" ہے۔ مامون اس عقیدے کا قائل ہو گیا تھا کہ قرآن مخلوق ہے اور اس نظریے کو اس نے اسلام اور کفر کا پیمانہ سمجھ لیا اور علما کو مجبور کیا کہ وہ اس نظریے کو تسلیم کریں یا پھر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔مامون کا تو جلد انتقال ہو گیا لیکن اس کے دو جانشینوںمعتصم(833-842) اورواثق(842-847) کے زمانے میں خلق قرآن کے مسئلے کی وجہ سے علما خصوصاًامام احمد بن حنبلرحمت اللہ علیہ پر بہت سختیاں کی گئیں۔واثق باللہ (842-847) اور متوکل (847-861) عباسیوں کے عہد عروج کے آخری دو خلفاء تھے جن کے دور کی خاص بات سلطنت کی عسکری طاقت میں اضافہ تھا۔ تاہم متوکل کے بعد خلافت زوال کی جانب گامزن ہو گئی اور ان کی وسیع و عریض سلطنت کی حدود کم ہوتی چلی گئیں۔تمام عباسی دور کی عظمت و وقار مندرجہ بالا خ��فاء کی مرہون منت تھی۔ اس کے علاوہ بھی دیگر حکمران خوبیوں کے مالک تھے جن کی وجہ سے عہد عباسیہ کو تاریخ کا ایک نہایت شاندار دور کہا گیا ہے۔ خصوصاً علمی ادبی اورتہذیبو ثقافت کے حوالے سے یہ دور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس سے قبل خلفائے راشدین اور بنو امیہ میں فتوحات اور انتظام سلطنت کی طرف زیادہ توجہ دی گئی جس سے ان سرگرمیوں کی جانب توجہ کم رہی۔اس خاندان کے خلفاء کے اصلی کارنامے انتظام سلطنت اور خصوصی طور پر علمی و تمدنی ترقی کے میدان میں دکھائی دیتے ہیں۔ علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی ترقی اس دور میں اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی کہ اس کی دوسری مثال اندلس میں بنو امیہ کی حکومت کے علاوہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔ ان میں دینی اور دنیاوی علوم نقلیہ اور علوم عقلیہ دونوں ہی شامل تھے۔گوکہ اس خاندان کی حکومت کے دوران میں کئی انقلابات اور حوادث رونما ہوئے اور خلفاء کی قوت میں کمی بیشی ہوتی رہی۔ بعد کے خلفاء کا وقار مجروح ہوا لیکن بحیثیت مجموعی اس خاندان کی مرکزی حیثیت قائم رہی۔ اور اس دور میں جب عباسیوں کی حکومت کی حقیقی ساکھ ختم ہو گئی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا پھر بھی عالم اسلام کے کئی حکمران ان کے وفادار رہے۔ تاریخ کا یہ دور مذہبی، تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔بنو عباس کے زوال کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ ان کے حکمران نا اہل تھے بلکہ سب سے بڑی وجہ ترکوں کا عروج تھا جو معتصم کے زمانے سے اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہے تھے۔ اصل میں عباسیوں کو خلافت دلانے میں بڑا ہاتھ ایرانیوں کا تھا اور عباسیوں نے ذاتی مصلحت کے تحت ایرانیوں کے اثر و رسوخ کے کم کرنے کے لیے ترکوں کو آگے بڑھایا جو خود ان کے لیے نیک فال ثابت نہ ہوا۔متوکلکے بعد ترک امرا کا اقتدار اور بڑھ گیا اب وہ خلیفہ کا حکم سننے سے بھی انکار کرنے لگے۔ انھوں نے کئی خلفاء کو اتارا اور بعض کو قتل بھی کیا۔ اس طرح ترکوں نے مرکزی حکومت کو کمزور تو کر دیا لیکن خود کوئی مضبوط حکومت قائم نہ کرسکے۔ اور اس صورت حال میں کئی مقامی امرا نے اپنے اپنے علاقوں میں خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔ جن میں قابل ذکربنی بویہ،سامانیاورفاطمیحکومتیں ہیں۔زوال کے دور میںقرامطہکافتنہبھی رونما ہوا جنھوں نے 50 سال تک جنوبی عراق اور شام میں ظلم و ستم اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔دور زوال کے اچھے حکمرانوں میں قابل ذکرمہتدیتھا جس نے خلافت کو زيادہ سے زیادہ اسلامی رنگ دینے کی کوشش کی اور اسی کوشش کے نتیجے میں ترکوں اور اسلامی پابندیوں سے نالاں شاہی حکام اور امرا کی سازشوں کا نشانہ بن کر ترکوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ اس دور میں سب سے زیادہ خدمات انجام دینے کے حوالے سے قابل ذکرمعتضدہے جومعتمدکے بعد خلافت پر بیٹھا۔ اس نے ترکوں کا زور توڑا اور ایک وسیع علاقے پر دوبارہ امن و امان قائم کر دیا اور حکومت کی گرتی ہوئی عمارت کو سہارا دیا۔ اس کے بعد اس کے تین بیٹےمکتفی،معتضداورقاہر باللہتخت نشین ہوئے۔ جن میں مکتفی اور معتضد اچھے حکمران تھے لیکن اس کا جانشیںمقتدرتن آسان، عیش پرست اور شراب و کباب کا رسیا تھا اور بالآخر معزول کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔بنو عباسکیحکومتکے خلاف ایک بڑا خروجامام آفتاب بن حیدر علی بن عبدالغنیکا تھا، جنہونےعلویوںاور مسلمترکوںکے ایک منظم گروہ کے ساتھخراسانمیںبغاوتاختیار کی، جس کی وجہ سے بنو عباس کو سخت ترین نقصان اٹھانا پڑا۔حمکرانوں کی عیش پرستی، نااہلی اور امرا کی خود سری �� اخلاقی زوال کے نتیجے میں خلافت کی حدود پھر گھٹنا شروع ہوگئیں۔ اور بالآخر بنی بویہ کے ایک حکمرانمعز الدولہنے بغداد پر قبضہ کر لیا۔ عباسی خاندان بویہی قبضے سےسلجوقیوںکے زیر اثر آ گیا۔ یہ حالت دو سو سال تک رہی اس کے بعد عباسی خلفاء پھر آزاد ہو گئے لیکن ان کی حکومت عراق تک محدود رہی اور مزید سو سوا سو سال قائم رہنے کے بعد تاتاریوں کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔اس میں شک نہیں کہ بعد کے عباسی حکمرانوں نے اسلامی اقدار کے فروغ کے لیے کام کیا۔ اسلامی قانون کے نفاذ میں دلچسپی لی لیکن اس حکومت کی بھی بنیادی خرابی یہی تھی کہ وہ ملوکیت تھی۔ ان کے ہاتھوں جو انقلاب ہوا اس سے صرف حکمران ہی بدلے، طرز حکومت نہ بدلا۔ انھوں نے اموی دور کی کسی ایک خرابی کو بھی دور نہ کیا بلکہ ان تمام تغیرات کو جوں کا توں برقرار رکھا جو خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کے آ جانے سے اسلامی نظام میں رونما ہوئے۔ بادشاہی کا طرز وہی رہا جو بنی امیہ نے اختیار کیا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ بنی امیہ کے لیے قسطنطنیہ کے قیصر نمونہ تھے تو عباسی خلفاء کے لیے ایران کے کسریٰ[5]اس طرح عباسیوں کے 500 سالہ عہد کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:132ھ سے247ھتک یعنی ابو العباس السفاح سے متوکل تک، جس میں 10 حکمران بر سر اقتدار رہے۔ یہ حکمران غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ابو جعفر، مہدی، ہارون اور مامون جیسے عظیم و باصلاحیت حکمران اسی پہلے دور سے وابستہ تھے۔ اس دور میں تہذیب و ثقافت، علم و ادب اور صنعت و حرفت کی ترقی عروج پر رہی بلکہ اس کی ترقی دنیا کے لیے ایک مثال بن گئی۔ دوسرا پہلو اس دور میں عجمی عنصر کا عروج تھا۔ عربوں کے مقابلے میں عجمیوں نے اثر و رسوخ حاصل کیا۔ اس دور کے آخری خلفا نے عجمیوں کے بارے میں اپنی پالیسی بدل دی اور ترکوں کو عروج دیا۔ یہ پہلا دور ایک صدی تک رہا۔یہ 247ھ سے شروع ہوکر422ھتک دو صدیوں کا دور ہے۔ خلیفہ معتصم سے لے کر واثق باللہ تک یہ عرصہ خلافت عباسیہ کے دوسرے دور میں شمار کیا جاتا ہے جو زوال کا دور ہے، خلافت کمزور پڑ گئی سلطنت کے اختیارات ترکوں اور پھر امیر الامراء کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ ہر کام حتیٰ کہ خلفا کی نامزدگی بھی انہی کی مرضی سے ہوتی بلکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خلفا کو تخت پر بٹھانے اور اتارنے بھی لگے۔ اس دور میں آل بویہ نے عروج حاصل کیا اور ترکوں کی جگہ لی۔ قادر باللہ کے عہد میں سلجوقیوں نے قدم بڑھائے اور بغداد میں آل بویہ کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا کئی دیگر خود مختار ریاستیں مثلاًسامانیاورصفاریقائم ہیں جنھوں نے سلطنت میں دراڑیں پیدا کرکے اسے کمزور کر دیا۔تیسرا دور 422ھ سے656ھیعنی قادر باللہ سےمستعصم(آخری حکمران) تک ہے جو سلجوقیوں کے غلبے کا دور ہے۔ خلیفہ کی تمام حیثیت ختم ہو گئی۔ یہ عہد بغداد کی مرکزیت اور سیاسی وحدت کے مکمل خاتمے کا بھی دور ہے۔ تمام اختیارات سلجوقیوں کے ہاتھوں میں تھے اور آخر کار656ھمیںہلاکو خانکے حملے سے عباسیوں کے آخری تاجدارمستعصم باللہکے اقتدار کا خاتمہ کرکے عباسی خاندان کا چراغ بھی گل کر دیا تھا۔بحیثیت مجموعی ان تینوں ادوار میں سے ہر دور کی اپنی علاحدہ حیثیت ہے۔ آخری دور میں تمام تر کمزوریوں کے باوجود خلافت کا روحانی لبادہ اور خلیفہ کا مذہبی تقدس بہرحال برقرار رہا گوکہ سیاسی یکجہتی کا خاتمہ ہو گیا تھا لیکن مذہبی حیثیت موجود رہی۔ خود مختار ریاستوں کے قیام نے بغداد کی مرکزی حیثیت تو ختم کردی لیکن دنیائے اسلام کے کئی حکمران خلیفہ سے وفاداری کا ��م بھرتے تھے۔"
+627,بغداد,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%BA%D8%AF%D8%A7%D8%AF,بغدادعراقکا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ ماضی میںخلافت عباسیہکا مرکز تھا۔ اسے منگول لشکروں نے تاراج کیا۔ شہر کی آبادی ساٹھ لاکھ ہے جو اسے عراق کا سب سے بڑا اور عالم عرب کا آبادی کے لحاظ سےقاہرہکے بعد دوسرا بڑا شہر بناتی ہے۔ اس شہر میںشیخعبد القادر جیلانی، امام موسیٰ کاظم اوراماممحمد تقیکے مزارات بھی ہیں۔دجلہکے کنارے واقع جدید شہر کی تاریخ کم از کمآٹھویں صدیعیسوی سے منسوب ہے جب کہ آبادی اس سے بھی پہلے تھی۔ کسی دور میںدارالاسلاماور مسلم دنیا کا مرکز یہ شہر، 2003ء سے جاری عراق جنگ کی وجہ سے آج انتشار کا شکار ہے ۔
+628,مصر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B5%D8%B1,"عرب جمہوریہ مصریامصر،جمهوريةمصرالعربية(قبطی زبان:Ⲭⲏⲙⲓ Khēmi)، بر اعظمافریقاکے شمال مغرب اور بر اعظمایشیاکےسنائیجزیرہ نما میں واقع ایک ملک ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلومیٹر ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو شمال مشرق میںغزہ پٹیاوراسرائیل، مشرق میںخلیج عقبہاوربحیرہ احمر، جنوب میںسوڈان، مغرب میںلیبیااور شمال میںبحیرہ رومہیں۔ خلیج عقبہ کے اس طرفاردن، بحر احمر کے اس طرفسعودی عرباور بحیرہ روم کے دوسری جانبیونان،ترکیاورقبرصہیں حالانکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مصر کی زمینی سرحد نہیں ملتی ہے۔کسی بھی ملک کے مقابلے میں مصر کی تاریخ سب سے پرانی اور طویل ہے اور اس کی تاریخی ابتدا 6 تا 4 ملنیا قبل مسیح مانی جاتی ہے۔ مصر کوگہوارہ ثقافتبھی مانا جاتا ہے۔قدیم مصرمیں کتب، زراعت، شہرکاری، تنظیم اور مرکزی حکومت کے آثار ملتے ہیں۔[5]مصر میں دنیا کے قدیم ترین یادگار عمارتیں موجود ہیں جو مصر کی قدیم وراثت، تہذیب، فن اور ثقافت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میںاہرامات جیزہ،ابوالہول،ممفس، مصر،طیبہاوروادی ملوکشامل ہیں۔ ان مقامات پر اکثر سائنداں اور محققین تحقیق میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور مصر کی قدیم روایات اور تاریخی حقائق سے آشکارا کرتے ہیں۔ مصر کی قدیم تہذیب ہی وہاں کی قومی علامت ہے جسے بعد میںیونانی قوم،فارس،قدیم روم،عرب قوم، ترکی عثمانی اور دیگر اقوام نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم مصرمسیحیتکا ایک بڑا مرکز تھا لیکن 7ویں صدی میںمسلمانوںنے یہاں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور مصر مکمل طور سے مسلم اکثریت ملک بن گیا مگر عیسائی بھی وہاں موجود رہے گوکہ اقلیت میں تھے۔سولہویں صدی تا بیسویں صدی کے آغاز تک مصر پر بیرونی طاقتوں نے حکومت کی۔ شروع میںسلطنت عثمانیہاور بعد میںسلطنت برطانیہنے مصر کو اپنی حکومت کا حصہ بنایا۔ جدید مصر کا آغاز 1922ء سے ہوا جب مصر کو برطانیہ سے آزادی ملی مگر آزادی کے بعد وہاں بادشاہت قائم ہو گئی۔ البتہ اب بھی وہاں برطانوی فوج کا غلبہ تھا اور کئی مصریوں کا کہنا ہے کہ بادشاہت دراصل برطانیہ کی ایک چال تھی تاکہ مصر ان کی کالونی کا حصہ بنا رہے۔مصری انقلاب، 1952ءمیں مصریوں نے برطانوی فوج اور افسروں کو اپنے ملک سے بھگادیا اور اس طرح مصر سے برطانیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ برطانوینہر سوئزکا قومیا لیا گیا اورشاہ فاروق اولکو مع اہل خانہ ملک بدر کر دیا گیا۔ اس طرح مصر ایکجمہوریملک بن گیا۔ 1958ء میںجمہوریہ سوریہکے ساتھ مل کرمتحدہ عرب جمہوریہکی بنیاد ڈالی گئی مگر 1961ء میں اسے تحلیل کرنا پرا۔بیسویں صدیکے نصف آخر میں مصر میں سماجی اور مذہبی اتار چڑھاو دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو گئی اور اسی دوران میں1948ءمیںاسرائیل کے ساتھ تنازع، 1956ء میںسوئز بحران، 1967ء میں چھروزہ جنگاور 1973ء میںجنگ یوم کپورجیسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ مصر نے 1967ء تکغزہ پٹیپر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1978ء میں مصر نےکیمپ ڈیوڈ معاہدہپر دستخط کیے اور غزہ پٹی سے اپنا قبضہ واپس لے لیا اور ساتھ ہی ساتھاسرائیلکو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ملک میں بدستور سیاسی ہنگامہ جاری رہا اور بے امنی کا دور دورہ رہا۔ 2011ء میں پھر ایک انقلاب برپا ہوا اور مصر کی سیاست میں زبردست تبدیلی آئی۔ اسی دوران مصر دہشت گردی کی زد میں رہا اور معاشی مسائل سے بھی دوچار رہا۔ مصر کی موجودہ حکومتبین صدارتی جمہوریہہے اور مصر کے موجودہ صدرعبدالفتاح السیسیہیں۔ سیاست میں انھیں آمر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔مصر کاسرکاری مذہباسلامہے اورسرکاری زبانعربیہے۔[6]مصر کی کل آبادی تقریباً 95 ملین ہے اور اس طرح یہشمالی افریقا،مشرق وسطیاورعرب دنیاکا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔نائیجیریااورایتھوپیاکے بعد بر اعظمافریقاکا تیسرا بڑا آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر میں بلحاظ آبادی اس کا نمبر 15واں ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادیدریائے نیلکے کنارے پر بسی ہوئی ہے۔ ملک یا زیادہ تر زمینی حصہصحرائے اعظمپر مشتمل ہے جو تقریباً ناقابل آباد ہے۔ کثیر آبادی والے علاقوں میںقاہرہ،اسکندریہاور دریائے نیل کے جزیرے ہیں۔مصر کیخود مختار ریاستشمالی افریقا، مشرق وسطی اورعالم اسلاممیں ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مصر ایک اوسط درجہ کی طاقتور حکومت ہے۔[7]مصر کی معیشتمشرق وسطی کی بڑی معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے اور اکیسویں صدی میں اس کےدنیا کی بڑی معیشتوںمیں شمار ہونے کا امکان ہے۔ 2016ء میںجنوبی افریقاکو پیچھے چھوڑتے ہوئے مصرنائیجیریاکے بعد افریقا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا۔[8][9]مصر مندرجہ ذیل تنظیموں کا بانی/شرک بانی اور رکن ہے؛مصر (بکسر المیم)Miṣr"" (عربی تلفظ:[mesˤɾ]; ""مِصر"") is theکلاسیکی عربیخالصکلاسیکی عربیکا لفظ ہے اورقرآنمیں بھی اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ اس کا یہی نام زماہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ البتہمصری عربیمیںMaṣr"" (مصری عربی تلفظ:[mɑsˤɾ];مَصر) (بفتح المیم) کہتے ہیں۔[10]قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+629,150ھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/150%DA%BE,
+630,204ھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/204%DA%BE,
+631,مصر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B5%D8%B1,"عرب جمہوریہ مصریامصر،جمهوريةمصرالعربية(قبطی زبان:Ⲭⲏⲙⲓ Khēmi)، بر اعظمافریقاکے شمال مغرب اور بر اعظمایشیاکےسنائیجزیرہ نما میں واقع ایک ملک ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلومیٹر ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو شمال مشرق میںغزہ پٹیاوراسرائیل، مشرق میںخلیج عقبہاوربحیرہ احمر، جنوب میںسوڈان، مغرب میںلیبیااور شمال میںبحیرہ رومہیں۔ خلیج عقبہ کے اس طرفاردن، بحر احمر کے اس طرفسعودی عرباور بحیرہ روم کے دوسری جانبیونان،ترکیاورقبرصہیں حالانکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مصر کی زمینی سرحد نہیں ملتی ہے۔کسی بھی ملک کے مقابلے میں مصر کی تاریخ سب سے پرانی اور طویل ہے اور اس کی تاریخی ابتدا 6 تا 4 ملنیا قبل مسیح مانی جاتی ہے۔ مصر کوگہوارہ ثقافتبھی مانا جاتا ہے۔قدیم مصرمیں کتب، زراعت، شہرکاری، تنظیم اور مرکزی حکومت کے آثار ملتے ہیں۔[5]مصر میں دنیا کے قدیم ترین یادگار عمارتیں موجود ہیں جو مصر کی قدیم وراثت، تہذیب، فن اور ثقافت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میںاہرامات جیزہ،ابوالہول،ممفس، مصر،طیبہاوروادی ملوکشامل ہیں۔ ان مقامات پر اکثر سائنداں اور محققین تحقیق میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور مصر کی قدیم روایات اور تاریخی حقائق سے آشکارا کرتے ہیں۔ مصر کی قدیم تہذیب ہی وہاں کی قومی علامت ہے جسے بعد میںیونانی قوم،فارس،قدیم روم،عرب قوم، ترکی عثمانی اور دیگر اقوام نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم مصرمسیحیتکا ایک بڑا مرکز تھا لیکن 7ویں صدی میںمسلمانوںنے یہاں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور مصر مکمل طور سے مسلم اکثریت ملک بن گیا مگر عیسائی بھی وہاں موجود رہے گوکہ اقلیت میں تھے۔سولہویں صدی تا بیسویں صدی کے آغاز تک مصر پر بیرونی طاقتوں نے حکومت کی۔ شروع میںسلطنت عثمانیہاور بعد میںسلطنت برطانیہنے مصر کو اپنی حکومت کا حصہ بنایا۔ جدید مصر کا آغاز 1922ء سے ہوا جب مصر کو برطانیہ سے آزادی ملی مگر آزادی کے بعد وہاں بادشاہت قائم ہو گئی۔ البتہ اب بھی وہاں برطانوی فوج کا غلبہ تھا اور کئی مصریوں کا کہنا ہے کہ بادشاہت دراصل برطانیہ کی ایک چال تھی تاکہ مصر ان کی کالونی کا حصہ بنا رہے۔مصری انقلاب، 1952ءمیں مصریوں نے برطانوی فوج اور افسروں کو اپنے ملک سے بھگادیا اور اس طرح مصر سے برطانیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ برطانوینہر سوئزکا قومیا لیا گیا اورشاہ فاروق اولکو مع اہل خانہ ملک بدر کر دیا گیا۔ اس طرح مصر ایکجمہوریملک بن گیا۔ 1958ء میںجمہوریہ سوریہکے ساتھ مل کرمتحدہ عرب جمہوریہکی بنیاد ڈالی گئی مگر 1961ء میں اسے تحلیل کرنا پرا۔بیسویں صدیکے نصف آخر میں مصر میں سماجی اور مذہبی اتار چڑھاو دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو گئی اور اسی دوران میں1948ءمیںاسرائیل کے ساتھ تنازع، 1956ء میںسوئز بحران، 1967ء میں چھروزہ جنگاور 1973ء میںجنگ یوم کپورجیسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ مصر نے 1967ء تکغزہ پٹیپر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1978ء میں مصر نےکیمپ ڈیوڈ معاہدہپر دستخط کیے اور غزہ پٹی سے اپنا قبضہ واپس لے لیا اور ساتھ ہی ساتھاسرائیلکو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ملک میں بدستور سیاسی ہنگامہ جاری رہا اور بے امنی کا دور دورہ رہا۔ 2011ء میں پھر ایک انقلاب برپا ہوا اور مصر کی سیاست میں زبردست تبدیلی آئی۔ اسی دوران مصر دہشت گردی کی زد میں رہا اور معاشی مسائل سے بھی دوچار رہا۔ مصر کی موجودہ حکومتبین صدارتی جمہوریہہے اور مصر کے موجودہ صدرعبدالفتاح السیسیہیں۔ سیاست میں انھیں آمر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔مصر کاسرکاری مذہباسلامہے اورسرکاری زبانعربیہے۔[6]مصر کی کل آبادی تقریباً 95 ملین ہے اور اس طرح یہشمالی افریقا،مشرق وسطیاورعرب دنیاکا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔نائیجیریااورایتھوپیاکے بعد بر اعظمافریقاکا تیسرا بڑا آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر میں بلحاظ آبادی اس کا نمبر 15واں ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادیدریائے نیلکے کنارے پر بسی ہوئی ہے۔ ملک یا زیادہ تر زمینی حصہصحرائے اعظمپر مشتمل ہے جو تقریباً ناقابل آباد ہے۔ کثیر آبادی والے علاقوں میںقاہرہ،اسکندریہاور دریائے نیل کے جزیرے ہیں۔مصر کیخود مختار ریاستشمالی افریقا، مشرق وسطی اورعالم اسلاممیں ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مصر ایک اوسط درجہ کی طاقتور حکومت ہے۔[7]مصر کی معیشتمشرق وسطی کی بڑی معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے اور اکیسویں صدی میں اس کےدنیا کی بڑی معیشتوںمیں شمار ہونے کا امکان ہے۔ 2016ء میںجنوبی افریقاکو پیچھے چھوڑتے ہوئے مصرنائیجیریاکے بعد افریقا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا۔[8][9]مصر مندرجہ ذیل تنظیموں کا بانی/شرک بانی اور رکن ہے؛مصر (بکسر المیم)Miṣr"" (عربی تلفظ:[mesˤɾ]; ""مِصر"") is theکلاسیکی عربیخالصکلاسیکی عربیکا لفظ ہے اورقرآنمیں بھی اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ اس کا یہی نام زماہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ البتہمصری عربیمیںMaṣr"" (مصری عربی تلفظ:[mɑsˤɾ];مَصر) (بفتح المیم) کہتے ہیں۔[10]قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز ��صر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+634,ایتھوپیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D8%AA%DA%BE%D9%88%D9%BE%DB%8C%D8%A7,"ایتھوپیا، سرکاری طور پر فیڈرل ڈیموکریٹک ریپبلک آف ایتھوپیا، ایک لینڈ لاک ملک ہے۔مشرقی افریقہکےقرنافریقہ کے علاقے میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں شمال میںاریٹیریا، شمال مشرق میںجبوتی، مشرق اور جنوب مشرق میںصومالیہ، جنوب میںکینیا، مغرب میںجنوبی سوڈاناور شمال مغرب میںسوڈانسے ملتی ہیں۔ ایتھوپیا کا رقبہ 1,112,000 مربع کلومیٹر (472,000 مربع میل) ہے اور اس کی آبادی تقریباً گیارہ کروڑ پینسٹھ لاکھ ہے، جو اسے دنیا کا 13 واں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بناتا ہے۔نائیجیریاکے بعد افریقہ میں دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک اور زمین پر سب سے زیادہ آبادی والا لینڈ لاکڈ ملک ہے۔ قومی دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر،عدیس ابابا، مشرقی افریقی دراز سے کئی کلومیٹر مغرب میں واقع ہے جو ملک کو افریقی اور صومالی ٹیکٹونک پلیٹوں میں تقسیم کرتا ہے۔ایتھوپیا(جسے بعض اوقاتحبشبھی کہا جاتا ہے)براعظم افریقہکا ایک ملک ہے۔ تقریباً ایک ہزار سالقبل مسیحجنوبی عرب کے دو قبیلے جشات اور اقغران،بحیرہ احمرعبور کرکے موجودہ ایتھوپیا کے صوبے اریتریا میں جاکر آباد ہو گئے۔ مقامی باشندوں کے ساتھ ان کے اختلاط سے ایک نئی قوم وجود میں آئی جسے حبشان کے نام سے موسوم کیا گیا۔ بعد ازاں عرب اس تمام علاقے کو جو اب ایتھو پیا میں شامل ہے۔ حبشہ کہنے لگے۔"
+635,جبوتی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D8%A8%D9%88%D8%AA%DB%8C,"جبوتی(عربی:جيبوتي) سرکاری نامجمہوریہ جبوتیقرن افریقہکا ایک ملک ہے۔ جبوتیمشرقی افریقہمیں واقع ایک ملک ہے، جس کی سرحدیں شمال میںاریتریا، مغرب اور جنوب میںایتھوپیا، جنوب مشرق میںصومالیہ،بحیرہ احمراورخلیج عدنسے ملتی ہیں۔ صرف 23 ہزارمربع کلومیٹرمیں پھیلے اس ملک کی آبادی آٹھ لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ اس کا دار الحکومتجبوتی (شہر)ہے۔ ملک کی آبادی کا پانچواں حصہبین الاقوامیسطح پر خط افلاس کے نیچے یعنی 1.25 ڈالر فی دن سے کم آمدنی حاصل کرتا ہے۔جمہوریہ جبوتی نے فرانس سے اپنی آزادی 27 جون 1977 کو حاصل کی ـ سنہ 1977 سے پہلے جبوتی ""فرانسیسی صومالی لینڈ"" کا حصہ تھاـ یہاں کے خانہ بدوش قبیلوں نے شاعری اور کہانیوں میں ہزاروں سال کی تاریخ وقف کی ہوئی ہےـ جزیرہ نمائے عرب کی نزدیکی کی وجہ سےجبوتی میں اسلامباقی افریقہ سے پہلے آیاـجبوتی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے (94 فیصد) ـ ہر مسلمان ملک کی طرح جبوتی کے ہر شہر اور گاؤں میں مسجد ہوتی ہےـ اس کے علاوہ مزاروں پر جانے کی بھی روایت ہےـ ان میں سب سے مشہورشیخابو یزید کامزارہے جو گودا کی پہاڑوں میں واقع ہےـجبوتی کی سب سے بڑی اقلیتمسیحیتکے پیروکاروں کی ہےـ(Région d'Ali Sabieh)(Région d'Arta)(Région de Dikhil)(Ville de Djibouti)(Région de Tadjourah)"
+636,ساحل,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%A7%D8%AD%D9%84,ساحلایک نیم صحرائیجغرافیائیپٹی کا نا�� ہے جوبراعظمافریقامیں واقع ہے۔ یہسینیگالسےسوڈانتک پھیلی ہوئی ہے اورصحراۓ اعظمسےجنوبکی طرف واقع ہے۔ ساحلعربیزبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کنارہ یہصحراۓ اعظمکے کنارے واقع ہے اس لیے اسے ساحل کہا جاتا ہے، یہاں گھاس کے وسیع میدان ہیں۔حالیہ سالوں میں مسلسل قحط اور درختوں کی بے دریغ کٹائی سے ساحل کا بیشتر حصہ تیزی سےصحرامیں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔
+637,یمن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%85%D9%86,"جمہوریہ یمنیایمنمغربی ایشیامیں واقعمشرق وسطیٰکا ایک مسلم ملک ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کے جنوبی سرے پر واقع ہے اور اس کے شمال میںسعودی عرب، مشرق میںاومان، جنوب میںبحیرہ عرباور مغرب میںبحیرہ احمرواقع ہیں۔ اس کی سمندری حدیں اریٹیریا، جبوتی اور صومالیہ کے ساتھ ملتی ہیں۔ 555,000 مربع کلومیٹر (214,000 مربع میل) رقبے پر محیط ہے اور تقریباً 2,000 کلومیٹر (1,200 میل) کی ساحلی پٹی پر مشتمل یمن جزیرہ نما عرب پر دوسری سب سے بڑی عرب خود مختار ریاست ہے۔ یمن کادار الحکومتصنعاءہے اورعربیاس کیقومی زبانہے۔ یمن کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے، جن میں سے زياده تر عربی بولتے ہیں۔ سنہ 2023ء تک ملک کی آبادی کا تخمینہ 34.4 ملین ہے۔ یمنعرب لیگ،اقوام متحدہ،ناوابستہ تحریکاوراسلامی تعاون تنظیمکا رکن ہے۔قدیم زمانے میں، یمن سبائیوں کا گھر تھا، ایک تجارتی ریاست جس میں جدید دور کےایتھوپیااوراریٹیریاکے حصے شامل تھے۔ بعد میں سنہ 275ء عیسوی میں،حمیارائی بادشاہتیہودیتسے متاثر ہوئی۔عیسائیتچوتھی صدی میں پہنچی اور ساتویں صدی میںاسلامتیزی سے پھیل گیا، ابتدائی اسلامی فتوحات میں یمنی فوجوں نے اہم کردار ادا کیا۔ نویں اورسولہویں صدیکے درمیان مختلف خاندان ابھرے۔ اٹھارھویں صدی کے دوران، ملک کو عثمانی اور برطانوی سلطنتوں کے درمیان تقسیم کر دیا گیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، یمن کی متوکلائی سلطنت قائم ہوئی، جس کے بعد سنہ 1962ء میں یمن عرب جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا۔ جنوبی یمن سنہ 1967ء میں آزاد ہوا۔ سنہ 1990ء میں، دو یمنی ریاستوں نے متحد ہو کر جدید جمہوریہ یمن (جمہوریہ الیمانیہ) تشکیل دی۔صدر علی عبداللہ صالحنئی جمہوریہ کے پہلے صدر تھے اور وہ سنہ 2012ء میںعرب بہارکے نتیجے میں مستعفی ہو گئے۔سنہ 2011ء سے، یمن کو سیاسی بحران کا سامنا ہے، جس کی نشان دہی غربت، بے روزگاری، بدعنوانی اور صدر صالح کے یمن کے آئین میں ترمیم کرنے اور صدارتی مدت کی حد کو ختم کرنے کے خلاف سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں سے ہے۔ اس کے بعد، ملک ایک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا ہے جس میں متعدد ادارے حکمرانی کے لیے کوشاں ہیں، بشمول صدر ہادی کی حکومت (بعد میں صدارتی قیادت کونسل)،حوثی تحریککی سپریم پولیٹیکل کونسل اور علیحدگی پسند جنوبی تحریک کی جنوبی منتقلی کونسل۔ یہ جاری تنازع ایک شدید انسانی بحران کا باعث بنا ہے اور یمن کے لوگوں پر اس کے تباہ کن اثرات کے لیے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔ یمن کی انسانی صورت حال پر ڈرامائی طور پر بگڑتے ہوئے اثرات کے لیے جاری انسانی بحران اور تنازعات کو وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ""انسانی تباہی"" کی سطح تک پہنچ گیا ہے اور کچھ نے اسے نسل کشی کا نام بھی دیا ہے۔ یمن دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے، پائیدار ترقی کی راہ میں نمایاں رکاوٹوں کا سامنا ہےاقوام متحدہنے 2019 میں رپورٹ کیا کہ یمن میں انسانی امداد کی ضرورت میں سب سے زیادہ لوگ ہیں، جن کی تعداد تقریباً 24 ملین ہے، جو اس کی آبادی کا تقریباً 75 فیصد ہے۔ 2020 تک، یمن نازک حالت کے اشاریہ پر سب سے اونچے مقام پر ہے اور عالمی بھوک کے اشاریہ پر دوسرے نمبر پر ہے، جسے صرفوسطی افریقی جمہوریہنے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مزید برآں، اس کا انسانی ترقی کا انڈیکس تمام غیر افریقی ممالک میں سب سے کم ہے۔مشرق وسطیٰ میں یمن عربوں کی اصل سرزمین ہے۔ یمن قدیم دور میں تجارت کا ایک اہم مرکز تھا، جو مسالوں کی تجارت کے لیے مشہور تھا۔ یہ وہ قدیم سرزمین ہے جس میں سے ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پچاس یوم قبل ابرہہ نامی عیسائی بادشاہخانہ کعبہپر حملہ آور ہوا۔ حوالے کے لیے دیکھیے:الرحیق المختومازمولاناصفی الرحمن مبارکپورییامنات Yamnat کی اصطلاح کا تذکرہ پرانے جنوبی عربی نوشتہ جات میں دوسریحمیری بادشاہتکے بادشاہوں میں سے ایک کے عنوان پر کیا گیا تھا جسے شمر یحرش II کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح غالباً جزیرہ نما عرب کی جنوب مغربی ساحلی پٹی اورعدناورحضرموتکے درمیان جنوبی ساحل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تاریخی یمن میں موجودہ یمن کے مقابلے میں بہت بڑا علاقہ شامل تھا، جوجنوب مغربی سعودی عربمیںشمالی عسیرسے لے کرجنوبی عمانمیں ظوفر تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک تشبیہ یمن کو ymnt سے ماخوذ ہے، جس کا لفظی معنی ہے ""جنوبی عرب جزیرہ نما"" اور نمایاں طور پر دائیں طرف زمین کے تصور پر ادا کرتا ہے (حمیاری:𐩺𐩣𐩬)۔ دیگر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یمن کا تعلق یامن یا یم سے ہے، جس کا مطلب ہے ""خوش حالی"" یا ""برکت""، کیونکہ ملک کا زیادہ تر حصہ زرخیز ہے۔ رومیوں نے اسے صحرائی عربیہ Arabia deserta کے برخلاف زرخیز عربیہ Arabia Felixa (""خوش"" یا ""خوش قسمت"" عربیہ) کہا۔ لاطینی اور یونانی مصنفین نے قدیم یمن کو ""ہندوستان"" کہا، جو فارسیوں کے نام سے نکلا تھا۔یمن 7000 سال سے زیادہ عرصے سے اپنی تہذیبوں کے سنگم پر موجود ہے۔ ملک سبا کی ملکہ شیبا جیسی شخصیات کا گھر تھا جو بادشاہ سلیمان کے لیے تحائف کا ایک قافلہ لے کر آئی تھی۔ صدیوں سے، یہ موچا کی بندرگاہ میں برآمد کی جانے والی کافی کا بنیادی پیداکار بن گیا تھا۔ قدیم رومی اس علاقے کو عربیہ فیلکس یا زرخیز یا خوش الحال عرب کہتے تھے۔ ساتویں صدی میں اسلام قبول کرنے کے بعد، یمن اسلامی تعلیم کا مرکز بن گیا اور اس کا زیادہ تر فن تعمیر جدید دور تک زندہ رہا۔مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان اپنی طویل سمندری سرحد کے ساتھ، یمنجزیرہ نما عربکے مغرب میں تجارت کے لحاظ سے ایک اسٹریٹجک مقام کے ساتھ ثقافتوں کے سنگم پر طویل عرصے سے موجود ہے۔ 5000 قبل مسیح میںشمالی یمنکے پہاڑوں میں ان کے دور کے لیے بڑی بستیاں موجود تھیں۔سبائی بادشاہتکم از کمبارہویں صدیقبل مسیحمیں وجود میں آئی۔ جنوبی عرب میں چار بڑی سلطنتیں یا قبائلی کنفیڈریشنزسبا،حضرموت،قتاباناورمعنتھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچازاد بھائی حضرت علی علیہ السّلام کو سنہ 630ء کے قریب صنعاء اور اس کے گرد و نواح میں بھیجا۔ اس وقت یمن عرب کا سب سے ترقی یافتہ خطہ تھا۔ بنو ہمدان کنفیڈریشن سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا والی بنا کر بھیجا اور ساتھ ہی موجودہ دور کے طائز میں حضرت جنادہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور مختلف قبائلی رہنماؤں کو خط بھیجے۔ اس کی وجہ قبیلوں میں تقسیم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یمن میں مضبوط مرکزی اتھارٹی کا نہ ہونا تھا۔ حمیار سمیت بڑے قبائل نے 630-631ء کے ارد گرد ""وفود کے سال"" کے دوران وفود مدینہ بھیجے۔ سنہ 630ء سے پہلے کئی یمنیوں نے اسلام قبول کیا۔ اس دورانابلہ بن کعب العنسی (اسود عنسی)نے باقی ماندہ فارسیوں کو نکال دیا اور نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا کہ وہ رحمان کا نبی ہے۔ اسے فارسی نژاد یمنیحضرت فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہنے قتل کیا۔ عیسائی، جو بنیادی طور پر یہودیوں کے ساتھنجرانمیں مقیم تھے، جزیہ ادا کرنے پر راضی ہو گئے، حالانکہ کچھ یہودیوں نے اسلام بھی قبول کیا، جیسے حضرت وہب بن منبی اور کعب الاحبار رضی اللہ عنہ۔خلافتراشدہ کے دوران یمن مستحکم تھا۔ یمنی قبائل نےمصر،عراق،فارس،لیوانت (شام و فلسطین)،اناطولیہ،شمالی افریقہ،سسلیاوراندلسمیں اسلامی پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ شام میں آباد ہونے والے یمنی قبائل نےاموی حکومتکو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر مروان اول کے دور میں, کندا جیسے طاقتور یمنی قبائل مرج رہت کی جنگ کے دوران اس کے ساتھ تھے۔یمن تقریباً مکمل طور پر مغربی ایشیا میں ہے، جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے میں جو جزیرہ نما کو مشرقی افریقہ سے ملا رہا ہے، اس کی سرحد شمال میں سعودی عرب، جنوب اور مشرق میںعمان, مغرب میںبحیرہ احمر،خلیج عدناور گارڈافوئی چینل سے ملتی ہے۔ عرض البلد 12 اور 19 ° N اور طول البلد 42 اور 55 ° E کے درمیان ,یمن 15°N 48°E پر ہے اور اس کا سائز 555,000 مربع کلومیٹر (214,287 مربع میل) ہے۔ بحیرہ احمر کے متعدد جزائر، بشمول ہنیش جزائر، کامران اور پریم، نیز بحیرہ عرب میںسوکوترا، کا تعلق یمن سے ہے۔ ان میں سب سے بڑا سوکوترا ہے۔ بہت سے جزیرے آتش فشاں ہیں۔ مثال کے طور پر، جبل الطائر میں سنہ 2007ء میں اور اس سے پہلے سنہ 1883ء میں آتش فشاں پھٹا تھا۔ اگرچہ مین لینڈ یمن جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے میں ہے اور اس طرح ایشیا کا حصہ ہے اور اس کے جزائر ہنیش اور بحیرہ احمر میں پریم کا تعلق ایشیا سے ہے، مگر سوکوترا کا جزیرہ نما، جوصومالیہکےسینگکے مشرق میں واقع ہے اور ایشیا کے مقابلے افریقہ سے بہت قریب ہے، جغرافیائی اور جیو جغرافیائی طور پر افریقہ سے منسلک ہے۔ سوکوترا کا سامنا گارڈافوئی چینل اور صومالی سمندر سے ہے۔یمن ایک جمہوریہ ہے جس میں دو ایوان والی مقننہ ہے۔ سنہ 1991ء کے آئین کے تحت، ایک منتخب صدر، ایک منتخب 301 نشستوں والی اسمبلی اور ایک مقرر کردہ 111 رکنی شوریٰ کونسل طاقت میں حصہ لیتی ہے۔ صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہے اوروزیر اعظمحکومت کا سربراہ ہے۔ صنعاء میں، ایک سپریم پولیٹیکل کونسل (بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نہیں) حکومت بناتی ہے۔ سنہ 1991ء کا آئین یہ فراہم کرتا ہے کہ صدر کا انتخاب کم از کم دو امیدواروں میں سے مقبول ووٹ کے ذریعے کیا جائے جس کی پارلیمنٹ کے کم از کم 15 ارکان نے توثیق کی ہو۔وزیر اعظم، بدلے میں، صدر کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے اور پارلیمنٹ کے دو تہائی سے منظور ہونا ضروری ہے۔ صدارتی عہدے کی مدت سات سال ہے اور منتخب دفتر کی پارلیمانی مدت چھ سال ہے۔ حق رائے دہی 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے عالمگیر ہے، لیکن صرفمسلمانہی منتخب عہدہ پر فائز ہو سکتے ہیں۔صدر علی عبداللہ صالحسنہ 1999ء میں دوبارہ متحد یمن کے پہلے منتخب صدر بنے (حالانکہ وہ سنہ 1990ء سے متحدہ یمن کے صدر اور سنہ 1978ء سے شمالی یمن کے صدر تھے)۔ وہ ستمبر 2006ء میں دوبارہ عہدے کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ صالح کی فتح کو ایک ایسے انتخاب سے نشان زد کیا گیا تھا جس کے بار�� میں بین الاقوامی مبصرین نے فیصلہ کیا تھا کہ ""جزوی طور پر آزاد"" تھا، حالانکہ انتخابات کے ساتھ تشدد، پریس کی آزادیوں کی خلاف ورزی اور دھوکا دہی کے الزامات تھے۔ پارلیمانی انتخابات اپریل 2003ء میں ہوئے اور جنرل پیپلز کانگریس نے قطعی اکثریت برقرار رکھی۔ صالح سنہ 2011ء تک اپنی اقتدار کی نشست پر تقریباً بلا مقابلہ رہے، یہاں تک کہ سنہ 2011ء کےعرب بہارکے اثرات کے ساتھ مل کر انتخابات کے دوسرے دور کے انعقاد سے انکار پر مقامی مایوسی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ سنہ 2012ء میں، انھیں اقتدار سے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا، حالانکہ وہ یمنی سیاست میں ایک اہم عنصر رہے ہیں، سنہ 2010ء کی دہائی کے وسط میں حوثیوں کے قبضے کے دوران ان کے ساتھ اتحاد کیا۔آئین آزاد عدلیہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ سابقہ شمالی اور جنوبی قانونی ضابطوں کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ قانونی نظام میں علاحدہ عدالتیں اور صنعاء میں قائم سپریم کورٹ شامل ہیں۔شریعتقوانین کا بنیادی ماخذ ہے، جس میں بہت سے عدالتی مقدمات قانون کی مذہبی بنیاد کے مطابق زیر بحث آتے ہیں اور بہت سے جج مذہبی اسکالرز کے ساتھ ساتھ قانونی حکام بھی ہوتے ہیں۔ جیل اتھارٹی آرگنائزیشن ایکٹ، ریپبلکن فرمان نمبر۔ 48 (1981) اور جیل ایکٹ کے ضوابط، ملک کے جیل کے نظام کے انتظام کے لیےقانونیفریم ورک فراہم کرتے ہیں۔انڈیا کا یمن سے بہت اچھا رشتہ ہے یہاں کی خوبصورتی یہ ہے کہ یمن نے فلسطینوں کا ساتھ دیا اور اسرائیلی کتوں کے جہاز کو مار گرایا یہ بہت اچھا کام کیا ہےیمنیوں نے"
+638,مشرق وسطی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B4%D8%B1%D9%82_%D9%88%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%B0,"مشرق وسطیٰافریقہ۔یوریشیاکا ایک تاریخی و ثقافتی خطہ ہے جس کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے۔ اس خطے میں جنوب مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔
+مغربی دنیا میں مشرق وسطی کو عام طور پرعرباکثریتی ممالک سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ علاقے کی تمام ریاستوں کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ علاقے کی نسلی برادریوں میںافریقی،عرب،آرمینیائی،آذری،بربر،یونانی،یہودی،کرد،فارسی،تاجک،ترکاورترکمانشامل ہیں۔ خطے کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بلاشبہعربیہے جبکہ دیگر زبانوں میںآرمینیائی،آذری، بربر زبانیں،عبرانی، کرد،فارسی،ترکی،یونانیاوراردوشامل ہیں۔مشرق وسطی کی مغرب میں کی گئی تعریف کے مطابق جنوب مغربی ایشیا اورایرانسےمصرتک کا علاقہ مشرق وسطیٰ ہے۔ مصر مشرق وسطی کا حصہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ وہ جغرافیائی طور پر شمالی افریقہ میں ہے۔مقدرہ بین الاقوامی فضائی سفر (IATA) کی تیار کردہ مشرق وسطی کی تعریف کے تحتبحرین،مصر،ایران،عراق،اسرائیل،اردن،کویت،لبنان،فلسطین،اومان،قطر،سعودی عرب،سوڈان،شام،متحدہ عرب اماراتاوریمنمشرق وسطی کا حصہ ہیں۔مشرق وسطی اور اس سے منسلک اسلامی ممالک کے لیے عظیم مشرق وسطی کی سیاسی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس میں روایتی مشرق وسطی کے علاوہترکی،اسرائیل،افغانستاناورپاکستانبھی شامل ہیں۔یہ اصطلاح 2004ء میںجی 8کے اجلاس میںامریکہکے صدرجارج ڈبلیو بشنے استعمال کی تھی۔"
+639,داغستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%BA%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,جمہوریہ داغستان(Republic of Dagestan)روسکی ایکوفاقی جمہوریہہے۔ اس کادار الحکومتمخاچ قلعہہے۔ماخذ:روسی وفاقی ریاستی شماریاتی سروسخانیت عوار
+640,فلسطین,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%86,"رومیوں نے عیسائی مذہب قبول کرنے کے بعد یورپ اور شام میں یہودیوں پر زن��گی تنگ کردی تھی۔ انھیں در بدر کیا، ظلم کیے، ذلیل کرکے رکھا اور ان کا قتل کیا۔ جان بچانے اورچینسے جینے کے لیے یہودی ان علاقوں کی طرف رخ کرتے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔ رومیوں کے عیسائیت قبول کرنے کے بعد بیت المقدس سے یہودیوں کو نکالا گیا اور ان کی عبادت گاہیں تباہ کردی گئیں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کے دورِخلافتمیں بیت المقدس کی فتح کے بعد یہودیوں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت ملی۔15 ہجری (637ء) میں بیت المقدس فتح ہونے کے بعد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ نے یہودیوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دی، جبکہ اس سے پہلے عیسائیوں نے ان پر پابندی لگا رکھی تھی۔ عیسائیوں نے یہودیوں سے حد درجہ بغض کی وجہ سے اس چٹان، جس کے اوپر ""قبۃ الصخرۃ"" (Dome of Rock) بنا ہوا ہے، کو کچرے کے ڈھیر سے ڈھک دیا تھا۔ کیونکہ یہودی اس کو مقدس مانتے ہیں۔ اس چٹان کے اوپر سے کچرہ امیر المومنین عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا۔ مسلمانوں کے نزدیک اس کی اہمیت یہ ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی معراج والی رات، اس چٹان پر سے براق اوپر آسمانوں کو اڑا تھا۔پھر جب بھی صلیبی جنگ کے بعد عیسائی بیت المقدس پر قابض ہوئے تو مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد اور بعد میں طویل عرصہ تکسلطنت عثمانیہکے زمانے میں یہودی قلیل تعداد میں رہے، لیکن عیسائی ظلم و ستم اور ذلت و خواری والی زندگی سے بہتر حالت میں رہے۔انیسویں صدیمیں یورپ اور روس میں یہودیوں کے خلاف عیسائیوں میں شدید نفرت اور مظالم پھر سے ابھرے۔ ان حالات میں یہودیوں نے عیسائیوں کے ظلم سے تنگ آکر نقل مکانی کی۔جرمنی، مشرقی یورپ اور روس سے یہودی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہو گئے۔ ان کی بڑی تعداد امریکا، برطانیہ اور کچھ فلسطین میں آگئے۔اسی دوران میں صیہونیت (Zionism) کی تحریک نے جنم لیا۔ اس تحریک کا مقصد یہودیوں کے لیے اپنا ملک قائم کرنا تھا اور اس کے لیے انھوں نے فلسطین کو چُنا۔ یہ تحریک یورپ، امریکا اور فلسطین میں زور پکڑتی گئی اور یہودیوں نے بڑی تعداد میں فلسطین میں آباد ہونا شروع کر دیا اور یہاں زمینیں خریدنے لگنے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کا آخری زمانہ تھا۔پہلی جنگ عظیم (1914ء-1918ء) میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اور جب جرمنی ہار گیا تو برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا اور مختلف علاقے مختلف یورپی طاقتوں کے قبضے میں آگئے۔ فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایک اعلان کیا، جس کو اعلانِ بالفور (Balfour Declaration) کہا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ فلسطین میں برطانیہ آزاد یہودی ریاست قائم کرنے میں مدد کرے گا۔ برطانیہ نے ان کو وہاں آباد ہونے اور منظم کرنے میں مدد دی۔ جب فلسطین کے عرب مسلمانوں میں یہودیوں کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہونے لگے اور دونوں کے درمیان میں شدید جھڑپیں ہونے لگیں تو برطانیہ نے فلسطین سے جانے کا فیصلہ کیا اور اقوام متحدہ سے اس علاقہ کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کہا۔اقوام متحدہ نے1947ءمیں فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے : مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد تھی وہاں یہودیاسرائیلکی ریاست قائم کریں اور مشرقی علاقہ میں فلسطینی عرب مسلمانوں کی ریاست قائم ہوجائے۔ جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے۔ یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کر لیا جبکہ فلسطینی مسلمانوں اورعرب ممال��نے اپنے درمیان میں ایک یہودی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کر دیا۔یہودیوں نے 14 مئی1948ءکو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان میں جنگیں چھڑ گئیں۔ یہ جنگیں 1967ء تک چلیں۔ جنگ کی شروعات میں اسرائیل نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور فلسطین کے کچھ اور علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔ بقیہ فلسطین کے مختلف علاقوں پر مصر، شام، لبنان اور اردن کا قبضہ ہو گیا۔ بیت المقدس کا مشرقی علاقہ، جس میں حرم شریف اور مسجد اقصیٰ سمیت مقدس مقامات ہیں، اردن کے قبضے میں تھا۔ یہ صورت حال 1967ء تک قائم رہی۔ 1967ء کی عرب-اسرائیل جنگ کے اختتام پر اسرائیل کا پورے فلسطین پر قبضہ ہو گیا۔ مقدس مقامات تاریخ میں پہلی مرتبہ یہودیوں کے قبضہ میں آگئے۔تاریخ جس زمانہ میں لوگ ایک جگہ رہنے کی بجائے تلاش معاش میں چل پھر کر زندگی بسرکیا کرتے تھے۔ عربستان سے قبیلہسامکی ایک شاخ جوکنعانییافونیقیکہلاتی تھی، 2500قبل مسیحمیں یہاں آ کر آباد ہو گئی۔ پھر آج سے 4000سال پہلے یعنی لگ بھگ 2000 ق م میں حضرتابراہیمعلیہ السلام عراق کے شہرار(Ur) سے جو دریائےفراتکے کنارے آباد تھا ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔ حضرتابراہیم علیہ السلامنے اپنے ایک بیٹےاسحاقعلیہ السلام کو بیت المقدس میں، جبکہ دوسرے بیٹےاسمعٰیلعلیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام، کے بیٹے حضرتیعقوب علیہ السلامتھے جن کا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کی اولادبنی اسرائیلکہلائی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرتعیسیٰ علیہ السلاماور بہت سے دیگر پیغمبر اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اسی مناسبت سے یہ خطہ زمین پیغمبروں کی سرزمین کہلایا۔ان علاقوں میں عبرانی قومیت (Hebrews) کے لوگوں کی آمد کا نشان ولادت مسیح سے لگ بھگ 1100 سال قبل میں ملتا ہے۔ حضرت سیموئیل جو اللہ کے نبی تھے، پہلے اسرائیلی بادشاہ تھے۔ انھوں نے کافی عرصہ حکومت کی اور جب وہ بوڑھے ہو گئے تو انھوں نے اللہ کے حکم سےطالوتکو بادشاہ مقرر کیا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کے پارہ دوم میںسورہ بقرہکی آیات 247 تا 252 میں ملتا ہے۔حضرت طالوت علیہ السلام نے 1004 قبل مسیح سے 1020 قبل مسیح تک حکمرانی کی۔ اس دوران میں انھوں نے جنگ کر کےجالوت(Goliath) کو مغلوب کیا اور اس سےتابوت سکینہواپس لیا جس میں حضرتموسیٰ علیہ السلاماور حضرتہارون علیہ السلامکے تبرکات تھے۔حضرت طالوت علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے۔ انھوں نے پہلےالخلیل(Hebron) اور پھربیت المقدسمیں اپنادار الحکومتقائم کیا۔ بیت المقدس دنیا کا قدیم ترین شہر ہے۔ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں مقدس اور محترم ہے۔ اس شہر کا موجودہ نام ”یروشلم“ حضرت داؤد علیہ السلام نے رکھا تھا۔حضرت داؤدعلیہ السلام نے 1004 قبل مسیح سے 965 ق م تک 33 سال حکمرانی کی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے حضرتسلیمان علیہ السلامنے 965 ق م میں حکومت سنبھالی جو 926 قبل مسیح تک 39 سال قائم رہی۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اسرائیل کی متحدہ ریاست دو حصوںسامریہاوریہودیہمیں تقسیم ہو گئی۔ دونوں ریاستیں ایک عرصے تک باہم دست و گریبان رہیں۔598 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہبخت نصرنے حملہ کر کے یروشلم سمیت تمام علاقوں کو فتح کر لیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر بادشاہ اور ہزاروں شہریوں کو گرفتار کر کے بابل میں قید کر دیا۔ 539 قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل کو فتح کیا اور قیدیوں کو رہا کر کے لوٹا ہوا مال واپس یروشلم بھیج دیا۔332 قبل مسیح میںیروشلمپرسکندراعظمنے قبضہ کر لیا۔ 168 قبل مسیح میں یہاں ایک یہودی بادشاہت کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن اگلی صدی میں روما کی سلطنت نے اسے زیر نگین کر لیا۔ 135 قبل مسیح اور 70 قبل مسیح میں یہودی بغاوتوں کو کچل دیا گیا۔ اس زمانے میں اس خطے کا نام فلسطین پڑ گیا۔20 اگست636ءکو عرب فاتحین نے فلسطین کو فتح کر لیا۔ یہ قبضہ پرامن طریقہ سے عمل میں آیا۔ 463 سال تک یہاںعربی زباناور اسلام کا دور دورہ رہا۔ تاہم یہودی ایک اقلیت کی حیثیت سے موجود رہے۔ گیارہویں صدی کے بعد یہ علاقہ غیر عربسلجوق،مملوکاورعثمانیسلطنتوں کا حصہ رہا۔ 1189ءمیں سلطانصلاح الدین ایوبینے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد1917ءمیںبرطانیہنے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اوراعلان بالفورکے ذریعہ یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی 17 ویں صدی کے اواخر میں شروع ہو گئی۔1930ءتکنازی جرمنیکے یہودیوں پر مظالم کی وجہ سے اس میں بہت اضافہ ہو گیا۔ 1920ء، 1921 ء، 1929ءاور 1936 ءمیں عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور اِس علاقے میں آمد کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے لیکن یہ سلسلہ جاری رہا۔1947ءمیںاقوام متحدہکی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ءمیں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948ءکو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہ ہوا۔ عربوں نے تقسیم کو نامنظور کر دیا اور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کر دیا، تاہم وہ اسے ختم کرنے میں ناکام رہے۔ بلکہ اس حملے کی وجہ سے یہودی ریاست کے رقبے میں اور اضافہ ہو گیا۔1949ءمیںاسرائیلنے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کیے اس کے بعد اردن نے غرب اردن کے علاقے پر قبضہ کر لیا جب کہ مصر نےغزہ کی پٹیاپنی تحویل میں لے لی۔ تاہم ان دونوں عرب ممالک نے فلسطینیوں کواٹانومی سے محروم رکھا۔29 اکتوبر 1958ءکواسرائیلنے صحرائے سینا پر حملہ کر کے اسےمصرسے چھین لیا۔ اس حملے میں برطانیہ اورفرانسکی حکومتوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ 6 نومبرکو جنگ بندی عمل میں آئی۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان میں ایک عارضی صلح کا معاہدہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوا جو 19مئی 1967ءتک قائم رہا جب مصر کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے فوجی دستے واپس بلالیے گئے۔ مصری افواج نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور خلیج عقبہ میں اسرائیلی جہازوں کی آمد و رفت پر پابندی لگا دی۔5جون1967ءکو چھ روزہعرب اسرائیل جنگشروع ہو گئی۔ اسرائیلیوں نے غزہ کی پٹی کے علاوہ صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے مشرقی یروشلم کا علاقہ،شامکی گولان کی پہاڑیاں اور غرب اردن کا علاقہ بھی اپنے قبضہ میں کر لیا۔ 10 جون کو اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرا دی اور معاہدے پر دستخط ہو گئے۔6 اکتوبر1973ءکو یہودیوں کے مقدس دن ”یوم کپور“ کے موقع پر مصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شامیوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور نہر سویزعبور کر کےمصرپر حملہ آور ہو گیا۔ 24 اکتوبر 1973ءکو جنگ بندی عمل میں آئی اوراقوام متحدہکی امن فوج نے چارج سنبھال لیا۔ 18 جنوری 1974ء کواسرائیلنہر سویز کے مغربی کنارے سے واپس چلا گیا۔3 جولائی 1976ءکو اسرائیلی دستوں نےیوگنڈامیں انٹی بی (Entebe) کے ہوائی اڈے پر یلغار کر کے 103 یرغمالیوں کو آزاد کرا لیا جنہیں عرب اور جرمن شدت پسندوں نے اغواءکر لیا تھا۔نومبر 1977ءمیں مصر کے صدرانور الساداتنے اسرائیل کا دورہ کیا اور 26 مارچ 1979ءکو مصر اور اسرائیل نے ایک امن معاہدے پر دستخط کر کے 30 سالہ جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات قائم ہو گئے۔ (تین سال بعد 1982ءمیں اسرائیل نے مصر کو صحرائے سینا کا علاقہ واپس کر دیا۔)جولائی 1980ءمیں اسرائیل نےمشرقی یروشلمسمیت پورے یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت قراردیدیا۔ 7 جون 1981ءکو اسرائیلی جیٹ جہازوں نےبغدادکے قریب عراق کا ایک ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا۔ 6 جون 1982ءکو اسرائیلی فوج نےپی ایل اوکی مرکزیت کو تباہ کرنے کے لیے لبنان پر حملہ کر دیا۔ مغربی بیروت پر اسرائیل کی تباہ کن بمباری کے بعد پی ایل او نے شہر کو خالی کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اسی سال 14 ستمبر کو لبنان کے نومنتخب صدر بشیر جمائل کو قتل کر دیا گیا۔16 ستمبر 1982ء لبنان کے مسیحی شدت پسندوں نے اسرائیل کی مدد سے دو مہاجر کیمپوں میں گھس کر سینکڑوں فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس سفاکانہ کارروائی پر اسرائیل کو دنیا بھر میں شدید مذمت کا نشانہ بننا پڑا۔1989ءمیں انتفادہ کے زیر اہتمام فلسطینی حریت پسندوں نے زبردست عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا۔ 1991ءکے آغاز میں جنگ خلیج کے دوران میں عراق نے اسرائیل کو کئی سکڈ میزائلوں کا نشانہ بنایا۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حج�� الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+641,لبنان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%84%D8%A8%D9%86%D8%A7%D9%86,لبنانیاجمہوریہ لبنان(عربی:لُبْنَانLubnān)، سرکاری ناملبنانی جمہوریہ(عربی:الْجُمْهُورِيَّة اللُّبْنَانِيَّةal-Jumhūriyya l-Lubnāniyya)مغربی ایشیامیں مشرقی بحیرہ روم کا ایک اہمعربملک ہے۔ یہبحیرہ رومکے مشرقی کنارے پر ایک چھوٹا سا ملک ہے جو زیادہ تر پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے۔ اس کے شمال اور مشرق میںسوریہ، جنوب میںاسرائیلاور مغرب میںبحیرہ رومواقع ہے۔ یہ خوبصورت ملک اپنے خوشبودارسیبوں،دیودارکے قدیمدرختوںاورزیتونکے باغات کے لیے مشہور ہے۔ اس کے جھنڈے پر بھی دیودار کا درخت بنا ہوا ہے جو لبنان کا قومی نشان بھی ہے۔ لبنان ایکمسلماکثریتی ملک ہے مگرمسیحیدولت اور اقتدار پر قابض ہیں جو لبنان کی خانہ جنگی کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ 1932 کے بعد مردم شماری بھی نہیں ہونے دی گئی جس کے بعد ممکنہ طور پر مسلمانوں کو اقتدار میں زیادہ حصہ مل سکتا ہے۔ 1975 کی خانہ جنگی سے پہلے لبنان کو مشرق وسطیٰ کاپیرساورمشرق وسطیٰکاسوئٹزرلینڈکہا جاتا تھا۔ اس وقت لبنان کی بینکاری اور سیاحت اپنے عروج پر تھی۔لبنان کا تقریباً تمام علاقہ ساحل سمندر سے بہت قریب ہے اور قبل از تاریخ سے آباد رہا ہے۔ اس کی تاریخ بجا طور پر انسانی تاریخ کہلائی جا سکتی ہے۔ انسان کے لکھنے کا آغاز یہیں سے ہوا۔ پہلے پہل جہاز رانی بھی انھوں نے شروع کی۔ لبنان کے پہلے دور کے لوگفنیقیکہلاتے ہیں اور یہی فنیقی تھے جنھوں نے حروف ایجاد کیے۔ انھیںسامیبھی کہا جاتا ہے۔ یہاں بے شمار انبیا مبعوث ہوئے۔ کئی تہذیبوں نے جنم لیا۔ پچھلے کچھ سالوں میںبیروتکی تعمیر نو کے دوران میں جہاں بھی کھدائی کی جاتی تھی، کسی قدیم تہذیب کے آثار برامد ہو جاتے تھے۔ قدیم تہذیبوں کے آثاربیروت،صیدا،بعلبک،صوراورتریپولیسے ملتے ہیں۔ 3000 سال قبل فنیقی اپنے عروج پر تھے جو اعلیٰ درجے کے جہاز ران اور تاجر تھے۔ انھوں نے حروف کا استعمال شروع کیا جس کےحروف تہجیتھے۔ ان کی تجارتاسیریااوربابلکے ساتھ تھی۔ مگر تعلقات اچھے نہ تھے اور کئی دفعہ جنگ کی نوبت بھی آتی تھی۔ اس علاقے کوفارسوالوں نے کئی مرتبہ فتح کیا۔سکندر اعظمکی فوجوں نے اسے تاراج کیا۔ پہلی صدی عیسوی میں رومن افواج ان پر چڑھ دوڑیں۔ مسلمانوں نے بھی انھیں فتح کیا۔ جدید دور میںفرانسنے اس پر قبضہ کیا مگر یہ مکمل طور پر کسی کے قابو نہیں آئے لیکن انھوں نے ان تمام تہذیبوں سے بہت کچھ حاصل کیا۔ اسی کیے آج لبنان ایک ایسا ملک ہے جس میں آپ مختلف نسلوں اور مذاہب کے لوگ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ملکایشیاکے آخری سرے پریورپکے قریب واقع ہے اس لیے اسے ہم مختلفتہذیبوںکا مرقع کہہ سکتے ہیں۔ ایک بات جو ان میں برقرار ہے وہ ان کی آزادی سے محبت اور جنگجو ہونا ہے۔چونکہ یہ ایک دشوار پہاڑی علاقہ تھا اس لیے ہر دور میں اس میں حکومت وقت کے مخالفین پناہ لیتے تھے۔ کبھیمارونیمسیحی یہاں پناہ لیتے تھے تو کبھیدروزلوگ اسے اپنا گھر قرار دیتے تھے اور کبھیمسلمانشیعہاس میں حکومت وقت سے جان بچانے کے لیے پناہ لیتے تھے۔عثمانی سلطنتکے دور میں یورپی اقوام نے ایک معاہدہ کے تحت یہاںتبلیغکی اجازت لے لی تھی جوترکیخلافت نے دی تھی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ترکیخلافتکے زمانے ہی میں یہاں ایک آزاد مارونی مسیحی علاقہ قائم ہو گیا تھا۔ 1120–1697 کے دوران مان خاندان کی حکومت رہی جس نے اسےصلیبیوںسے بچائے رکھا۔ 1697–1842 کے دوران میں شہاب خاندان کی حکومت تھی۔ اس دوران میں اس علاقے کی تجارت میں بہت اضافہ ہوا۔ خاص طور پر ریشم کی تجارت یورپ سے ہوتی تھی۔ چونکہ اشیائے تجارت فرانس کی بندرگاہ مارسیلز (ماغسائی) کے راستے ہوتی تھی اس لیے آہستہ آہستہ اس علاقے میں فرانسیسی اثرورسوخ بڑھنا شروع ہو گیا۔فرانساوربرطانیہنے لبنان کے حکمران شہاب خاندان کے خلاف ایک طرف توترکیکو ابھارا اور دوسری طرف لبنان کے مارونی مسیحیوں، دروز اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانے کے لیے لبنان میں دولت خرچ کی حتیٰ کہ لبنان میں بغاوت اور خانہ جنگی پھوٹ پڑی۔ جس کا فائدہ عثمانیوں نے اٹھایا اور لبنان پر اپنا اقتدار مکمل طور پر قائم کر لیا مگر فرانس کے اثر کے ساتھ ساتھ۔ عثمانیوں نے لبنان کو مسیحی اور دروز ضلعوں میں تقسیم کر دیا۔ مگر خانہ جنگی کو ختم نہیں کیا جا سکا جس کی بنیادی وجہ فرانس کی مارونی مسیحیوں کی مسلسل امداد تھی۔پہلی جنگ عظیمکے بعد عثمانی خلافت ختم ہو گئی اور لبنان کے پانچوں اضلاع کوجمعیت الاقوامیا لیگ آف نیشنز (جو بعد میںاقوام متحدہبن گئی) نےفرانسکو سونپ دیا۔ فرانس نے حسب سابق مارونی مسیحیوں کو ہر معاملہ میں آگے رکھا۔ اس وقت لبنان میں مسلمان ستاون فیصد، مسیحی چالیس فیصد اور دروز تین فیصد تھے۔ اقتدار مسیحیوں کو سونپنے کے لیے فرانس نے مسیحیوں کو تو چالیس فیصد شمار کیا مگر مسلمانوں کو الگ الگ قوم (شیعہ اور سنی) کی حیثیت سے شمار کیا۔ یوں مسیحی چالیس فیصد، شیعہ مسلمان تیس فیصد اور سنی مسلمان ستائیس فیصد ٹھیرے۔ یہ اعداد و شمار 1932 کیمردم شماریکے مطابق ہیں جس کے بعد آج تک لبنان میں کوئی مردم شماری نہیں ہونے دی گئی کیونکہ ابمسلمانبڑی واضح اکثریت میں ہیں۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر فیصلہ ہوا کہ چونکہ مسیحی اکثریت میں ہیں اس لیے صدر مسیحی ہوگا۔ یاد رہے کہ لبنان کے قوانین کے مطابق صدر کے پاس ہی اصل طاقت ہوتی ہے۔وزیر اعظماور سپیکر سنی اور شیعہ مسلمان ہوں گے۔ لبنان نے 1943 میں فرانس سے آزادی حاصل کی جس وقت فرانس پر جرمنی نے قبضہ کر لیا تھا۔[4]لبنان بحیرہ روم کے کنارے واقع مشرق وسطیٰ کا ایک ملک ہے جس کا زیادہ حصہ سمندر کے کنارے کے قریب ہے۔ سردیوں میںدرجہ حرارتصفر درجہ سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے اور بعض اوقات شدیدبرف باریہوتی ہے اور پہاڑ اور درخت برف سے ڈھک جاتے ہیں۔ گرمیاں عام طور پر گرم اور خشک ہوتی ہیں۔ لبنان کا زیادہ علاقہ پہاڑی ہے۔ صرفوادی بقاعکا علاقہ میدانی ہے جہاں زراعت ہوتی ہے۔ اپنے ارد گرد کے ممالک کی نسبت لبنان میں بارش کی سالانہ اوسط زیادہ ہے جس کی وجہ سے وہ ایک سرسبزوشاداب ملک ہے۔ کسی زمانے میں وہاں دیودار کے گھنے جنگل تھے جو کسی حد تک اب بھی پائے جاتے ہیں۔ لبنان میں بعض درخت پانچ ہزار سال پرانے ہیں جن کو ایک قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ لبنان کے جنوب میں اسرائیل ہے جس کے ساتھ لبنانی سرحد 79 کلومیٹر ہے اور مشرق اور شمال میں شام واقع ہے جس کے ساتھ لبنانی سرحد 375 کلومیٹر ہے۔،[5]لبنان کی سرزمینزراعتکے لیے موزوں ہے مگر زراعت پر انحصار نہیں کرتی۔افرادی قوتکا صرف 12 فی صد زراعت سے متعلق ہے جوخام ملکی پیداوار(GDP) کا صرف 11.7 فی صد پیدا کرتے ہیں۔صنعتبھی لبنان کے لیے کبھی مناسب نہیں رہا کیونکہ اس کے پاسخام مالکی کمی ہے اور تیل کے لیے بھی دوسرےعرب ممالکپر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ صنعت کاخام ملکی پیداوارمیں حصہ 21 فی صد ہے جبکی وہ 26 فی صد افراد کوروزگارفراہم کرتا ہے۔ نتیجتاً لبنان نےاشیاءکی جگہخدماتکیپیداوارمیں بہت ترقی کی جیسےبینکاری،سیاحت،تعلیموغیرہ۔ خام ملکی پیداوار کا 67 فی صد پیدا کر کے یہ شعبہ 65 فی صد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ یہ شعبہ بڑا حساس ہے اور خراب ملکی اوربین الاقوامیصورت حال سے فوراً اثر قبول کرتا ہے۔ اس لیے 1975 تک تو لبنان نے بڑی ترقی کی۔ ساٹھ کی دہائی میں لبنان کے دار الحکومت بیروت کوایشیاکاپیرسکہا جاتا تھا۔ مگر 1975 کیخانہ جنگینے اس شعبہ کو برباد کر دیا۔ خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد کچھ عرصہ میں پھر لبنان نے زبردست ترقی کی مگر حالیہ لبنان۔ اسرائیلی جنگ (2006) نے پھر لبنان کی ترقی کے عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔لبنان ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ چند گھنٹے میں آپ ملک کے ایک سرے سے دوسرے تک جا سکتے ہیں مگر حقیقتاً لبنان مختلف قومیتوں اور نسلوں پر مشتمل ہے اور اکثر ان کے علاقے بھی الگ الگ ہیں۔ مثلاً جنوب کے علاقے میں نوے فی صد شیعہ رہتے ہیں، جبل لبنان میں سنی اور کچھ مسیحی ہیں اور بیروت ایک مشترکہ علاقہ ہے۔ لبنان کے چھ حصے ہیں جن کو محافظات کہا جاتا ہے۔ ہر محافظۃ (ہم اسے صوبہ کہہ سکتے ہیں) کو اقضيۃ (اضلاع) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر قضاء (ضلع) کو مختلف بلدیہ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان کی تفضیل کچھ اس طرح ہے۔بیروت کا کوئی قضاء یاضلع نہیں ہے بلکہ یہ خود ہیاس محافظۃ کا اکلوتا ضلع ہے۔لبنان کے مشہور شہروں میںبیروت،صور،صیدا،تریپولیاوربعلبکشامل ہیں۔ بیروت سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ تمام شہر انتہائی قدیم زمانے سے قائم ہیں۔ چونکہ لبنان ایک بڑا ملک نہیں اس لیے یہ شہر ایک دوسرے سے زیادہ فاصلہ پر نہیں ہیں۔لبنانی ثقافت بہت سی تہذیبوں کا مرقع ہے۔ ان میں فنیقی،اشوری، فارسی، یونانی، رومی، عرب، ترک، فرانسیسی اور خود پرانی لبنانی ثقافت شامل ہے۔ مسیحیت اور اسلام دونوں کے رسم و رواج نظر آتے ہیں۔ زبانوں میں نمایاںعربیمگر ساتھ ساتھآرمینیائی،فرانسیسیاورانگریزیکا اثر ہے۔ نوے فیصد سے زیادہ لوگ پڑے لکھے ہیں۔ لبنان کے کھانے بھی بہت مشہور ہیں۔ مسیحی آبادی میں ناچ گانے کا بھی رواج ہے جو مسلمانوں میں بھی پھیل رہا تھا مگرحزب اللہکی تبلیغ سے اب یہ پھیلاؤ رک چکا ہے۔ لبنان کی موسیقی عرب دنیا میں بہت مقبول تھی مگر اب اس کی جگہ مصری موسیقی اور فلم لے چکی ہے۔ آرٹ کے علاوہ لبنانی شاعری اور ادب بھی اچھا مقام رکھتی ہے۔ مشہور فلسفی اورشاعرجبران خلیل جبرانکا تعلق لبنان ہی سے تھا۔ اس کے علاوہ لبنان کتابوں کی طباعت میں بھیشہرترکھتا ہے۔ عرب دنیا میں چھپنے والی بیشتر کتابیں لبنانی ناشرین چھاپتے تھے اور اب مصر بھی اس مقام میں لبنان کے ساتھ شامل ہو گیا ہے۔لبنان میں 1932 کے بعد کوئی مردم شماری نہیں ہوئی۔ یہ مردم شماری فرانس نے شناختی کارڈ کی بنیاد پر کروائی تھی۔ بہت سے مسلمانوں اور دروز نے شناختی کارڈ نہیں بنوائے تھے کیونکہ ان کے خیال میں شناختی کارڈ بنوانے کا مطلب فرانس کے قبضے کو تسلیم کرنا تھا۔ اس بنیاد پر فیصلہ ہوا کہ صدر جس کے پاس اصل طاقت ہوتی ہے وہ مارونی مسیحی، نائب وزیر اعظم آرتھوڈوکس مسیحی، وزیر اعظم سنی مسلمان اور سپیکر شیعہ مسلمان ہو گا۔ اب مسلمانوں کی تعداد مسیحیوں کی نسبت بہت زیادہ ہو چکی ہے اس لیے صاحب اقتدار مسیحی مردم شماری نہیں ہونے دیتے۔ پارلیمنٹ کی سیٹیں حتیٰ کہ مختلف جامعات میں داخلے بھی اسی مردم شماری کے تحت ہوتے ہیں۔ لبنان میں شام کا اثر بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکا۔ شام کی فوج کافی عرصہ تک لبنان میں رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیل، امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے شور مچانا شروع کر دیا کہ شام اپنی فوج لبنان سے نکالے۔ جونہی شام نے اپنی فوج لبنان سے نکالی، اسرائیل نے دو فوجی رہا کروانے کا بہانہ کرکے 2006 میں لبنان پر حملہ کر دیا۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی اسرائیل اور لبنان کی تنظیمحزب اللہایک دوسرے کے فوجی قید کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل اور امریکا کا لبنان یا لبنان کے جنوبی حصہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ حزب اللہ نے ناکام بنا دیا۔ لبنان کے شیعہ اور سنی دونوں نے اتحاد قائم رکھا اور مغربی طاقتوں کی سازشوں کا شکار نہیں ہوئے۔ جنوبی لبنان پر قبضہ کرنے یا حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایران پر ممکنہ حملہ کے بعد حزب اللہ ردِ عمل کے طور پر اسرائیل کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ یاد رہے کہ ایران اور حزب اللہ کے بڑے گہرے تعلقات ہیں اور دوسری بات یہ کہ لبنان کی اپنی فوج نہ ہونے کے برابر ہے۔2006 کی لبنان۔اسرائیل جنگکے بعد فی الحال حزب اللہ کو غیر مسلح نہیں کیا جا سکا۔ اور وہ خطے میں ایک بڑی اور مقبول طاقت کے طور پر مانی جاتی ہے۔لبنان کا نظامِ حکومت انصاف پر مبنی نہیں ہے اس لیے یہ ایک قدرتی امر ہے کہ خانہ جنگی ہوگی۔ 1975 میں لبنان میں مسیحیوں اور مسلمانوں، جو نسبتاً غریب تھے، کے درمیان میں خانہ جنگی پھوٹ پڑی۔ یہ خانہ جنگی تقریباً پندرہ سال جاری رہی جس میں تقریباً دو لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اس دوران میں اسرائیل نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو دفعہ لبنان پر حملہ کیا اور سن 2000 تک جنوبی لبنان پر قابض رہا۔ 2000 میں حزب اللہ کے گوریلا حملوں کی وجہ سے اسرائیل کو جنوبی لبنان چھوڑنا پڑا مگر وہ تاحال مزارع شبعا (شبعا فارمز) پر قابض ہے۔ لبنان کی اس خانہ جنگی نے لبنان کی ترقی کو بہت متاثر کیا مگر عالمی قوتوں نے خانہ جنگی کا معاملہ ایسے حل کروایا کہ مسلمانوں کا کوئی مطالبہ نہ مانا گیا اور وہ صورت حال اب بھی موجود ہے جہ کسی بھی وقت خانہ جنگی کو ہوا دے سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مردم شماری کروائی جائے اور اس بنیاد پر ایک نیا نظامِ حکومت تشکیل دیا جائے جس میں تمام شہریوں کو ان کے جائز حقوق حاصل ہوں۔اسرائیل اور لبنان کے تعلقات ھمیشہ سے نازک چلے آ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسرائیل نے ان کے عرب فلسطینی بھائیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ دوسرے اسرائیل کی مذہبی کتابوں اور مستقبل کے منصوبوں میں لبنان کی سرزمین کو عظیم تر اسرائیل کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل نے ماضی میں لبنان پر کئی حملے کیے ہیں اور بیس سال تک جنوبی لبنان پر قبضہ بھی رکھا ہے۔ جنگ نہ ہونے کی صورت میں بی اسرائیلی جہاز اکثر لبنان پر غیر قانونی پرواز کرتے رہتے ہیں اور بمباری بھی کرتے ہیں۔ 16 ستمبر 1982 کو اسرائیلی کمانڈوز، جن کی سربراہیایریل شیرونکر رہا تھا، نے لبنان کے مارونی مسیحی ملیشیا کے ساتھ مل کر بیروت میں واقع صبرا وشاتيلا کے فلسطینی کیمپوں پر حملہ کر کے 5000 کے قریب فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ جس دوران یہ قتلِ عام جاری تھا، اسرائیلی فوج نے صبرا وشاتيلا کو گھیرے میں رکھا تاکہ کوئی بچہ یا عورت بھی بچ نہ سکے۔ کسی ملک میں آزادانہ گھس کر اس کے شہریوں یا مہمانوں کو نشانہ بنانے پر دنیا کی مغربی انسانی تنظیموں نے کوئی واویلا نہیں مچایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لبنان کی فوج نہ ہونے کہ برابر ہے۔ جولائی 2006 میں اسرائیل نے اس بہانے لبنان پر حملہ کر دیا کہ حزب اللہ نے اس کے دو فوجی قید کر لیے ہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی اسرائیل اور لبنان کی تنظیم حزب اللہ ایک دوسرے کے فوجی قید کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل اور امریکا کا لبنان یا لبنان کے جنوبی حصہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ حزب اللہ نے ناکام بنا دیا۔ یہ جنگ اکتوبر 2006 تک جاری رہی۔
+642,چیچنیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%86%DB%8C%DA%86%D9%86%DB%8C%D8%A7,"چیچن جمہوریہیاچیچان(انگریزی میں Chechen Republic ِ شیشانی زبان میں Нохчийн Республика, Noxçiyn Respublika) جسے چچنیا بھی کہا جاتا ہے اور شیشان بھی ، روس کے قبضہ میں ایک خطہ ہے جو آج کل اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ماخذ:روسی وفاقی ریاستی شماریاتی سروس"
+643,قفقاز,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D9%81%D9%82%D8%A7%D8%B2,جمہوریہ نگورنو کاراباخجارجیاآذربائیجانقفقاز،یورپاورایشیاکی سرحد پرجغرافیائیوسیاسیبنیاد پر مبنی ایک خطہ ہے، جوبحیرہ اسوداوربحیرہ قزوینکے درمیان واقع ہے-کوہ قافپہاڑی سلسلہایشیااوریورپکو جدا کرتا ہے۔ سیاسی اعتبار سے قفقاز کو شمالی اور جنوبی حصوں کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے-
+644,انڈونیشیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%DA%88%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7,"انڈونیشیا(انڈونیشیائی تلفظ: [in.ˈdo.nɛ.sja])، جسے سرکاری نام ریپبلک آف انڈونیشیا کے نام سے جانا جاتا ہے یا زیادہ مکمل طور پر انڈونیشیا کی وحدانی ریاست، جنوب مشرقی ایشیا کا ایک جزیرہ نما ہے جو خط استوا سے گزرتا ہے اور سرزمین براعظم ایشیا اور اوشیانا کے درمیان، اس لیے اسے ایک بین البراعظمی ملک کے ساتھ ساتھبحر الکاہلاور بحر ہند کے درمیان بھی جانا جاتا ہے۔انڈونیشیا کیقومی زبانبھاشا انڈونیشیاہے جس کی بنیاد مشرقی سماترا کی ایک بول چال کی ملایائی زبان پر ہے۔ یہ ملیشیا کے اکثر حصوں میں بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس پرعربیاورسنسکرتکی گہری چھاپ ہے۔ سنسکرت کے بے شمار الفاظ اس میں ملتے ہیں۔ یہ زبان کافی مقبول ہے اور ملک کو متحد کرنے میں اس سے خاصا کام لیا جارہا ہے۔ اب یہ زبان پورے انڈونیشیا میں سکھلائی جا رہی ہے۔ ابتدائی دو برسوں میں بچوں کو ان کی ماردری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے بعد ہر جگہ بھاشا انڈونیشیا میں تعلیم ہوتی ہے۔ 1972 میں انڈونیشیا اورملائیشیامیں ایک معاہدہ ہو گیا ہے جس کی رو سے الفاظ کا متفقہ تلفظ متعین کر لیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے دونوں ملکوں رسل و رسائل میں سہولت پیدا ہو گئی ہے۔ اسی کے ساتھ دونوں ملکوں کی ادبی وتہذیبیزندگی میں قریبی تعلق بھی پیدا ہو گیا ہے۔انڈونیشیا اور ملیشیا کی تہذیب اورادبپرہندوستانو سنسکرت، اسلامی و عربی اور ڈچ (ولندیزی) تہذیب اور ادب کا گہرا اثر ہے۔ ایک زمانہ میں ملایا اور موجودہ انڈونیشیا ایک وسیع سلطنت کا حصہ تھے۔گیارہویں صدیمیں یہ مہاراجاایرلنگا(Airlanga) کے تحت تھے۔ اس زمانہ میں یہ علاقہ کافی ترقی یافتہ تھا۔ ایک قومی ادب ترقی پا چکا تھا۔ جاوائی زبان میںشاعریہوتی تھی جس میں سنسکرت الفاظ کافی استعمال کیے جاتے تھے ساتھ ہی سنسکرت کی بحریں بھی استعمال ہوتی تھیں۔ جودہویں صدی عیسوی میںقبلائی خانکو مکمل شکست دینے کے بعدکیرتی راجس جے وردھنکی سرگردگی میں جاوا کی ایک مستحکم سلطنت، ""مجاپہت"" قائم ہوئی تو زندگی کے اور شعبوں کی طرح ادب نے بھی ترقی کرنی شروع کی[7]اس کی بنیاد مقامی بول چال کی زبان پر تھی اس عہد کی سب سے مشہور کتاب ناگراکرتاگاما (Nagarakretagama) ہے۔ یہ ایک طویل قصیدہ ہے جو راجا کی تعریف میں لکھا گیا تھا۔ اس میں اس دور کی جاوا کی زندگی کی جھلک بھی ملتی ہے۔ اس کا اسلوب اور بحریں جاوا کی ہیں لیکن سنسکرت الفاظ خاصی بڑی تعداد میں استعمال ہوئے ہیں۔انڈونیشیا اور ملایا میںہندواثر کے تحترامایناورمہابھارتکی منظوم نظمیں کافی مشہور ہو چکی ہیں اور ان پر مبنی ڈرامے اور غنائی کھیل اور تماشے کافی مقبول ہو رہے ہیں۔چودہویں صدیمیں راماین اور مہابھارت کو جاوی زبان میں منتقل کیا گیا۔ اسی زمانہ میں رومانی کہانیوں، حکایتوں کو بھی بہت فروغ ہوا۔ ساتھ ہی ملایائی، بالی اور سندانی بولیوں میں بھی ادب ترقی پانے لگا۔ اسلامی دور میں میں ملایا کا عروج ہوا اور پرانی کہانیوں نے نیا اسلامی روپ اختیار کر لیا۔ نئی کہانیاں ان زبانوں میں منتقل ہونے لگیں۔ امیر حمزہ کی داستانیں اورسکندر اعظمکی کارنامے نئے روپ میں پیش ہونے لگے۔فارسیاور عربی سےفقہ،اخلاقیاتاورتصوفوغیرہ کتابیں ملائی زبان میں منتقل ہونے لگیں۔ اس دور کے ملائی ادب کی سب سے اعلیٰ پایہ کی کتاب وقائع ملایا سجارہ ملایو (Malay Annals) ہے۔ اس میں سلطنت ملایا کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ جگہ جگہ اس دور کی عام زندگی کے کچھ نایاب مرقعے ملتے ہیں جن میں حقیقت پسندی، مزاح اور مبالغہ آرائی سب ہی کے نمونے موجود ہیں۔[8]اٹھارہویں صدیمیں ملایا کی آزادی ختم ہوئی اوربرطانیہکے تحت ملایائی سلطنتوں کا ایک وفاق قائم ہوا توا حکمراںسلطانباقی رہے اور کافی عرصہ تک سماج اور ادبی زندگی میں پرانی روایات بھی باقی رہیں۔ لیکن جزائر انڈونیشیا پر جب ڈچ حکمرانوں کا قبضہ ہو گیا تو ان کی سرکردگی میں مقامی زبان و ادب کو دبایا گیا اورڈچ زبانو ادب کو مسلط کر دیا گیا۔بیسویں صدیکے شروع تک جب قومی احساس بڑھتا،قوم پرستتحریکیں ابھرنے لگیں تو مقامی زبان اور ادب میں نئی روح پھونکنے کی کوشش شروع ہوئی اور ملائی (انڈونیشی) زبان میں کہانیاں،ناولاور نظمیں وغیرہ لکھی جانے لگیں۔1933ء تک مقامی ادب نے کافی ترقی کر لی۔ آزادی کے بعد انڈونیشی ادب نے تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے۔ اس دور کے شاعروں میں الانور ستار سیتو مورانگ قابل ذکر ہیں اور ناول نگاروں میں اننت توئر اور تقدیر علی سجا بھانا مشہور ہیں۔"
+645,ملائیشیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7,"ملائیشیایامالیزیہ(( [Malay: [malɛjsia )جنوب مشرقی ایشیامیں ایکمسلمملکہے۔ وفاقی آئینی بادشاہت تیرہ ریاستوں اور تین وفاقی علاقوں پر مشتمل ہے، جنہیںبحیرہ جنوبی چیننے دو علاقوں میں الگ کیا ہے:جزیرہ نما ملائیشیااورجزیرہ بورنیوپر مشرقی ملائیشیا کا علاقہ۔ جزیرہ نما ملائیشیا کی زمینی اور سمندری سرحدتھائی لینڈکے ساتھ اور سمندری سرحدیںسنگاپور،ویتناماورانڈونیشیاکے ساتھ ملتی ہیں۔ مشرقی ملائیشیابرونائیاور انڈونیشیا کے ساتھ زمینی اور سمندری سرحدوں کے ساتھ ساتھفلپائناور ویتنام کے ساتھ سمندری سرحدوں کا اشتراک کرتا ہے۔کوالالمپورقومیدار الحکومت، ملک کا سب سے بڑا شہر اور وفاقی حکومت کیقانونساز شاخ کی نشست ہے۔پتراجایاانتظامی مرکز ہے، جو دونوں انتظامی شاخوں (کابینہ، وفاقی وزارتیں اور وفاقی ایجنسیاں) اور وفاقی حکومت کی عدالتی شاخ کی نمائندگی کرتا ہے۔ کل رقبہ 330,803 مربع کلومیٹر (127,724 مربع میل) ہے۔ تین کروڑ بیس لاکھ (2023 کی مردم شماری) سے زیادہ آبادی کے ساتھ، یہ ملک دنیا کا 43 واں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ یہ ملک 17 میگا ڈائیورس ممالک میں سے ایک ہے اور متعدد مقامی انواع کا گھر ہے۔ تنجنگ پیائی براعظم یوریشیا کا سب سے جنوبی نقطہ ہے۔ یہ ملک استوائی خطے میں واقع ہے۔ اس ملک کی ابتدا ملائی سلطنتوں سے ہوئی ہے، جواٹھارہویں صدیسے، برطانوی آبنائے بستیوں کے محافظات کے ساتھ برطانوی سلطنت کے تابع ہو گئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، برطانوی ملایا، دیگر قریبی برطانوی اور امریکی کالونیوں کے ساتھ،سلطنت جاپانکے قبضے میں چلا گیا۔ تین سال کے قبضے کے بعد، جزیرہ نما ملائیشیا کو سنہ 1946ء میں ملائی یونین کے طور پر متحد کیا گیا اور پھر سنہ 1948ء میں ملائیشیا کی فیڈریشن کے طور پر اس کی تشکیل نو کی گئی۔ ملک نے 31 اگست 1957ء کو آزادی حاصل کی۔ 16 ستمبر 1963ء کو، آزاد ملایا نےشمالی بورنیو،ساراواکاور سنگاپور کو اپنے ساتھ ملا کر وفاق ملائیشیا کی تشکیل کی۔ اگست، 1965ء میں، سنگاپور نے وفاق سے علیحدگی اختیار کرلی اور ایک خود مختار ملک بن گیا۔یہ ملک کثیر النسلی اور کثیر الثقافتی ہے، جس کا اس کی سیاست پر نمایاں اثر پڑتا ہے۔ تقریباً نصف آبادی نسلی طور پرملائیہے اور دیگر چینی،ہندوستانیوںاور مقامی لوگوں کی اقلیتیں ہیں۔ سرکاری زبان ملائیشیائی ملائی ہے، جوملائی زبانکی ایک معیاری شکل ہے۔ انگریزی ایک فعال دوسری زبان بنی ہوئی ہے۔اسلامکو سرکاری مذہب کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے، آئین غیر مسلموں کو مذہب کی آزادی دیتا ہے۔ ملائیشیا ایک وفاقی پارلیمانی آئینی انتخابی بادشاہت ہے۔ حکومت ویسٹ منسٹر پارلیمانی نظام پر مبنی ہے اور قانونی نظام مشترکہ قانون پر مبنی ہے۔ ریاست کا سربراہ ایک منتخب بادشاہ ہوتا ہے، جسے ہر پانچ سال بعد نو ریاستی سلطانوں میں سے منتخب کیا جاتا ہے۔ حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے۔ ملائیشیا کے موجودہ بادشاہ یانگ دی پرتوان اگونگ عبد اللہ اوروزیر اعظمانور ابراہیم ہیں۔ وان جنیدی تنکو جعفر ایوان بالا کے صدر ہیں اور جوہری عبدل ایوان زیریں کے اسپیکر ہیں۔ تنکو میمون توان مات ملائیشیا کے چیف جسٹس ہیں۔ملاشیائی رینگتبطور کرنسی استعمال ہوتا ہیں۔آزادی کے بعد، مجموعی گھریلو پیداوار (GDP) تقریباً 50 سالوں میں اوسطاً 6.5 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھی۔ ملک کی معیشت روایتی طور پر اس کے قدرتی وسائل سے چلتی رہی ہے، لیکن یہ تجارت، سیاحت اور طبی سیاحت میں پھیل رہی ہے۔ ملک کی ایک نئی صنعتی مارکیٹ کی معیشت ہے، جو جنوب مشرقی ایشیا میں پانچویں اور دنیا میں 36 ویں سب سے بڑی ہے۔ یہ ملکاسلامی تعاون کی تنظیم (OIC)،اقوام متحدہ، مشرقی ایشیا سربراہی اجلاس (EAS) اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (ASEAN) کا رکن ہے اورغیر وابستہ تحریک (NAM)،دولت مشترکہاور ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (APEC) کا رکن ہے۔ اس کے مصلحتی مقام (strategic position) نے اس کو غیر ملکی اثرات سے متاثر کیا-ملائیشیا میں جدید انسانی رہائش کے شواہد 40,000 سال پرانے ہیں۔ جزیرہ نما ملایا میں، سب سے پہلے باشندوں کو نیگریٹو سمجھا جاتا ہے۔ ملائیشیا کے علاقوں نے 2000قبل مسیحسے 1000 عیسوی کے درمیان پتھرو کی سمندری تجارت میں حصہ لیا۔ ہندوستان اور چین سے تاجر اور آباد کار پہلی صدی عیسوی کے اوائل میں پہنچے، دوسری اورتیسری صدیمیں تجارتی بندرگاہیں اور ساحلی شہر قائم ہوئے۔ ان کی موجودگی کے نتیجے میں مقامی ثقافتوں پر مضبوط ہندوستانی اور چینی اثرات مرتب ہوئے اور جزیرہ نما ملائیشیا کے لوگوں نے ہندو مت اور بدھ مت کے مذاہب کو اپنا لیا۔سنسکرتکے نوشتہ جات چوتھی یا پانچویں صدی کے اوائل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ لینگکاسوکا کی بادشاہی دوسری صدی کے آس پاس جزیرہ نما مالائی کے شمالی علاقے میں پیدا ہوئی، جو تقریباً پندرھویں صدی تک قائم رہی۔ ساتویں اور تیرھویں صدی کے درمیان، جزیرہ نما جنوبی ملایا کا زیادہ تر حصہ سمندری سریویجیان سلطنت کا حصہ تھا۔ تیرھویں اور چودھویں صدی تک،ماجھاپاہت سلطنتنے سری وجے سے جزیرہ نما کے بیشتر حصے اور جزیرہ نما ملایا پر کامیابی سے کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ہندو متاوربدھ متکی ثقافتوں نے جوبھارتسے آئی تھیں یہاں اپنا غلبہ قائم کیا۔ اگرچہ مسلمانوں نے ملائیشیا میں ابتدائی طور پر دسويں صدی میں قدم رکھا تھا مگر چودھويں اور پندرھويں صدی میںاسلامسب سے پہلےجزیرہ نماملایا پر قائم ہوا۔ پندرھویں صدی کے اوائل میں، پرمیشورا، پرانے سری وجیان دربار سے منسلک سابق بادشاہت کے سنگاپور میں جلاوطن بادشاہ، نے ملاکا سلطنت کی بنیاد رکھی۔ راجا پرمیشورا نے اسلام قبول کر لیا اوراسکندر شاہنام اختیار کر لیا۔ ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا۔ ملاکا اس وقت کے دوران ایک اہم تجارتی مرکز تھا، جو ارد گرد کے علاقے سے تجارت کو راغب کرتا تھا۔ملائیشیا ایک کثیر النسل، کثیر ثقافتی سماج ہے۔ سب سے پہلے اس علاقے میں رہنے دیسی قبائل کے لوگ تھے جو اب بھی موجود ہیں۔ چینی اور بھارتی ثقافتی اثرات یہاں واضح نظر آتے ہیں- دیگر ثقافتی اثرات میں فارسی، عربی اور برطانوی ثقافتیں شامل ہیں۔سنہ 1971ء میں حکومت نے ایک ""قومی ثقافتی پالیسی"" بنائی جس کے مطابق ملائیشیا کی ثقافت کی بنیاد مقامی ہو جس میں اسلامی ثقافت کی جھلک نظر آتی ہو۔[9]جنوب مشرقی ایشیا میں واحد وفاقی ملک ہے۔ برطانوی دور کی وراثت، نظامِ حکومت ویسٹ منسٹر پارلیمانی نظام کا قریبی نمونہ ہے۔
+ملیشیا ایک وفاقی آئینی انتخابی بادشاہت ہے۔یانگ دی پرتوان آگونگریاست کا سربراہ جبکہ وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہے۔ شاہِ ملیشیا مالے ریاستوں کے نو موروثی بادشاہوں کے ذریعے باہمی طور پر پانچ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ دیگر چار ریاستیں، جن کے حاکم ’گورنر‘ ہیں، اس انتخاب میں شرکت نہیں کرتے۔ غیر رسمی معاہدے کے مطابق یہ نشست ان نو سلاطین کو باری باری دی جاتی ہے۔ 31 جنوری، 2019ء سے یہ تخت ریاست پہانگ کے سلطان عبداللّٰہ کے پاس ہے۔ 1994ء کو دستور میں کی جانے والی بڑی تبدیلیوں کے باعث وزراء اور ایوانِ بالا کے اراکین کے انتخاب میں بادشاہ کا کردار صرف رسمی رہ گیا ہے۔قانون ساز قوت وفاقی اور ریاستی مقننہ میں منقسم ہے۔ دو ایوانی وفاقی مقننہ ایوانِ زیریں (ایوانِ نمائندگان، دیوان رکیات) اور ایوانِ بالا (دیوان نگارا) پر مشتمل ہے۔ 222 رکنی ایوانِ نمائندگان یک-رکنی حلقہ جات سے زیادہ سے زیادہ پانچ سال کے لیے منتخب ہوتی ہی۔ جبکہ ایوانِ بالا کے تمام 70 اراکین 3 سالہ مدت کی نشست رکھتے ہیں۔ جن میں 26 اراکین 13 ریاستی مقننہ سے اور 44 اراکین وزیرِ اعظمِ ملیشیا کی تجویز پر بادشاہ نامزد کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کثیر جماعتی نظام کی پیروی کرتی ہے۔ حکومت فرسٹ پاسٹ دا پوسٹ نظام کے تحت چنی جاتی ہے۔انتظامی قوت وزیر اعظم ملیشیا کی سربراہی میں کابینہ کے پاس ہوتی ہے۔ ایوانِ نمائندگان کا رکن ہونا ضروری ہے۔ ایوانِ نمائندگان کی اکثریتی ارکان کی حمایت کے مطابق بادشاہ ہی وزیر اعظم بناتا ہے۔ کابینہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سے چنی جاتی ہے۔ وزیر اعظم کابینہ اور حکومت دونوں کا سربراہ ہوتا ہے۔ جو ایوان نمائندگان کے اعتماد تک برقرار رہتا ہے۔عدلیہ نظام میں ��ب سے بڑی عدالت ’وفاقی عدالت‘ ہے، جس کی پیروی ’اپیلیٹ کورٹ‘ اور مشرقی ملیشیا اور مغرب میں جزیرہ نما ملایا میں واقع ایک ایک اعلیٰ عدالت کرتی ہیں۔ مذہبی ذمہ داریوں اور خاندانی معاملات میں مسلمانوں کے لیے شرعی عدالتیں بھی کام کرتی ہیں۔ اغواء، قتل، دہشت گردی اور منشیات کی ترسیل پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ ہم جنس پرستی ملائشیا میں قابلِ تعزیر غیر قانونی فعل ہے۔ لیکن ملیشیا کو انسانی اور جنسی سمگلنگ کے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔ملیشیا 13 ریاستوں اور 3 وفاقی علاقوں کا وفاق ہے۔ جو 2 علاقوں میں منقسم ہے۔ مغرب میں جزیرہ نما ملایا ہے جہاں 11 ریاستیں اور 2 وفاقی علاقے ہیں۔ جبکہ مشرقی ملیشیا جزیرہ بورنیو میں ہے جہاں 2 ریاستیں اور 1 وفاقی علاقہ ہے۔ ہر ریاست ضلعوں میں منقسم ہے جو مزید ’مقیم‘ میں منقسم ہیں۔ ریاستصباحاورسراواکمیں ضلعوں کو ’ڈویژن‘ میں مجمع کیا گیا ہے۔ملاککے علاوہ ہر ریاست اپنا اعزازی نام رکھتی ہے۔جزیرہ نما ملایاوفاقی علاقے1.کوالالمپور، ولایہ پرسکوتوان2. پتراجایا، ولایہ پرسکوتوانمشرقی ملیشیا (جزیرہ بورنیو)ریاست12.صباح، نگری دی بوا بایو13.سراواک، بومی کِنیالنگوفاقی علاقہ3.لابوان، ولایہ پرسکوتونملائشیا کیمعیشتتیزی سے بڑھتی ہوئی اور نسبتا کھلی ریاستی پالیسی پر مبنی ہے-2011 تخمینے کے مطابق جی ڈی پی نمو 5.2 فیصد ہے۔دیکھیے:فہرست ملائیشیائی ریاستیں بلحاظ خام ملکی پیداوارملائیشیا کل زمین کے علاقے لحاظ سے 67واں سب سے بڑاملکہے- مغرب میں اس کی زمینی سرحدتھائی لینڈکے ساتھ ملتی ہے جبکہانڈونیشیااوربرونائی دارالسلاماس کے مشرق میں واقع ہیں- جنوب میں براستہ پلسنگاپورسے منسلک ہے -ویتنامکے ساتھ اس کی سمندری حدود ہیں۔ملائیشیا کے دو جدا حصے ہیں جن کے درميان جنوبی چین سمندر ہے-ملائیشیا کا آئین مذہب کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے جبکہ اسلام سرکاری مذہب ہے[10]مردم شماری 2010 کے اعداد و شمار کے مطابق:لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+646,سری لنکا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B1%DB%8C_%D9%84%D9%86%DA%A9%D8%A7,"سری لنکاجو پہلےسیلونکے نام سے جانا جاتا تھا، سرکاری طور پر،ڈیموکریٹک سوشلسٹ ریپبلک آف سری لنکا،جنوبی ایشیامیں ایکجزیرہ پر مشتمل ملکہے۔ یہبحر ہنداورخلیج بنگالکے جنوب مغرب میں اوربحیرہ عربکے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اسےبرصغیرسےخلیج مناراورآبنائے پالکسے الگ کیا گیا ہے۔ سری لنکا کیسمندری حدودبھارتاورمالدیپکے ساتھ مشترک ہیں۔سری جے وردھنے پورہ کوٹےاس کا قانون سازدار الحکومتہے اورکولمبوسب سے بڑا شہر اورمالی مرکزہے۔آج سری لنکا ایککثیر قومی ریاستہے، جو متنوع ثقافتوں، زبانوں اور نسلوں کا گھر ہے۔سنہالیملک کی اکثریتی آبادی ہیں۔تمل لوگ، جو ایک بڑے اقلیتی گروہ ہیں، نے بھی جزیرے کی تاریخ میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔سری لنکا کی دستاویزی تاریخ 3,000 سال پرانی ہے جس میں ماقبل تاریخ انسانی بستیوں کے شواہد موجود ہیں جو کم از کم 125,000 سال پہلے کی ہیں۔[5]اس کا ایک بھرپور ثقافتی ورثہ ہے۔ سری لنکا کی قدیم ترینبدھ متکی تحریریں، جنہیں اجتماعی طور پرپالی کیننکے نام سے جانا جاتا ہے،چوتھی بدھ مجلسکی تاریخ ہے، جو 29 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔[6][7]سری لنکا کے جغرافیائی محل وقوع اور گہری بندرگاہوں نے اسے قدیمشاہرہ ریشمکے ابتدائی دنوں سے لے کر آج کے نام نہادمیری ٹائم سلک روڈتک بڑی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔[8]چونکہ اس کے محل وقوع نے اسے ایک بڑا ت��ارتی مرکز بنا دیا ہے، یہ مشرق بعید کے باشندوں اور یورپیوں دونوں کے لیے پہلے سے ہیانورادھا پورہ دورکے نام سے جانا جاتا تھا۔ ملک کی پرتعیش اشیاء اور مصالحوں کی تجارت نے کئی ممالک کے تاجروں کو اپنی طرف متوجہ کیا، جس نے سری لنکا کی متنوع آبادی پیدا کرنے میں مدد کی۔ سولہویں صدی کا بحران جس میں جزیرے کے سمندری علاقوں اور اس کی منافع بخش بیرونی تجارت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور سری لنکا کا ایک حصہپرتگالیوں کی نوآبادیبن گیا۔سنہالی-پرتگالی جنگکے بعد،ولندیزی سلطنتاورمملکت کینڈینے ان علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کے بعدولندیزی نوآبادیپرسلطنت برطانیہنے قبضہ کر لیا، جس نے بعد میں اپنا کنٹرول پورے جزیرے پر بڑھادیا، (برطانوی سیلونسے 1815 سے 1948 تک)۔ سیاسی آزادی کے لیے ایک قومی تحریک بیسویں صدی کے اوائل میں اٹھی اور سنہ 1948ء میں، سیلون ایکماتحت ریاستبن گیا۔ سنہ 1972ء میں سری لنکا نےجمہوریہکا نام حاصل کیا۔ سری لنکا کی تازہ ترین تاریخ 26 سالہ خانہ جنگی سے متاثر ہوئی، جو سنہ 1983ء میں شروع ہوئی اور 2009ء میں فیصلہ کن طور پر ختم ہوئی، جبسری لنکا کی مسلح افواجنےتامل ٹائیگرزکو شکست دی۔[9]سری لنکا جنوبی ایشیا کا ایک جزیرہ جس کی شکل آنسو کے قطرے یا ناشپاتی کی شکل میں ہے، انڈین پلیٹ پر واقع، ایک بڑی ٹیکٹونک پلیٹ ہے جو پہلے ہند-آسٹریلیائی پلیٹ کا حصہ تھی۔ یہ بحر ہند میں خلیج بنگال کے جنوب مغرب میں، عرض البلد °5 اور °10 شمال اور طول البلد °79 اور °82 مشرق کے درمیان ہے۔ سری لنکا کو برصغیر پاک و ہند کے سرزمین والے حصے سے خلیج منار اور آبنائے پالک کے ذریعے الگ کیا گیا ہے۔ ہندو دیومالا کے مطابق ہندوستانی سرزمین اور سری لنکا کے درمیان ایک زمینی پل موجود تھا جو 1480ء تک پیدل گزرنے کے قابل تھا اب یہ صرف چونا کے پتھر کے ابھار کی ایک زنجیر ہے جو سطح سمندر سے اوپر باقی ہے۔ یہ حصے اب بھی ایک میٹر (تین فٹ) اتھلے ہیں اور کشتی رانی میں رکاوٹ ہیں۔ یہ جزیرہ زیادہ تر ہموار سے لے کر گھومتے ہوئے ساحلی میدانوں پر مشتمل ہے، جس میں پہاڑ صرف جنوبی وسطی حصے میں اٹھتے ہیں۔ سب سے اونچا مقام پدوروتالاگالا ہے، جو سطح سمندر سے 2,524 میٹر (8,281 فٹ) تک بلندی پر پہنچتا ہے۔سری لنکا میں 103 دریا ہیں۔ ان میں سب سے لمبا دریائے مہاویلی ہے، جو 335 کلومیٹر (208 میل) تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ آبی گزرگاہیں دس میٹر (33 فٹ) یا اس سے زیادہ کی 51 قدرتی آبشاروں کو جنم دیتی ہیں۔ سب سے اونچا بمبارکنڈہ آبشار ہے، جس کی اونچائی 263 میٹر (863 فٹ) ہے۔ سری لنکا کی ساحلی پٹی 1,585 کلومیٹر (985 میل) لمبی ہے۔ سری لنکا 200 ناٹیکل میل تک پھیلے ہوئے ایک خصوصی اقتصادی زون کا دعویٰ کرتا ہے، جو سری لنکا کے زمینی رقبے کا تقریباً 6.7 گنا ہے۔ ساحلی پٹی اور ملحقہ پانی انتہائی پیداواری سمندری ماحولیاتی نظام کی حمایت کرتے ہیں جیسے مرجان کی چٹانیں اور ساحلی اور ساحلی سمندری گھاس کے اتھلے بستر۔ سری لنکا میں 45 کھاڑیاں اور 40 جھیلیں ہیں۔ سری لنکا کا مینگروو ماحولیاتی نظام 7,000 ہیکٹر سے زیادہ پر پھیلا ہوا ہے اور اس نے سنہ 2004ء میں بحر ہند کے سونامی میں لہروں کی طاقت کو معتدل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ جزیرہ معدنیات سے مالا مال ہے جیسے کہ فیلڈ اسپار، گریفائٹ، سلیکا، کاولن، ابرک اور تھوریم۔ خلیج منار میں پیٹرولیم اور گیس کی موجودگی کی بھی تصدیق ہو چکی ہے اور اس کی بازیافت کی جانے والی مقدار کو نکالنے کا کام جاری ہے۔سانچہ:سری لنکا کے صوبے اور ضلعےسری لنکاکی آبادی مختلفمذاہبپر اعتقاد رکھتی ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق 70.2 فیصدتھراوڈا بدھ متہیں، 12.6 فیصدہندوہیں، 9.7 فیصدمسلمانہیں (سبھیاہل سنتہیں) اور 7.4%مسیحی(6.1%کاتھولک کلیسیااور 1.3% دیگر مسیحی فرقوں سے) ہیں۔ 2008ء کےگیلپ پولکے مطابق سری لنکاتیسرا کٹر مذہبی ملکتھا، جس میں 99 فیصد سری لنکن عوام نے مذہب کو اپنی زندگی کا اہم ترین جزو قرار دیا۔"
+647,مالدیپ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%BE,"مالدیپ(دیویہی:ދިވެހިރާއްޖެ،نقحر:دِویْہِرٰاجْے) باضابطہ نام جمہوریہ مالدیپ، جزائر پر مشتمل ایک ریاست ہے جوبحر ہندمیں واقع ہے۔ یہبھارتکے جزائرلکادیپکے جنوب میں،جبکہسری لنکاسے تقریباً سات سوکلومیٹر(435میل) جنوب مغرب میں واقع ہے۔ 26 مرجانی چٹانیں ایک ایسے خطے کو تشکیل دیتی ہیں جو 1192 چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے جن میں سے تقریباً 200 جزیرے ہی ایسے ہیں جن پر انسانی آبادی موجود ہے۔ مالدیپ کا دار الحکومتمالےہے جہاں پورے ملک کی 80 فیصد آبادی قیام پزیر ہے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ مسلمان ہیں۔مالدیپ کا مطلب غالباً ""پہاڑی جزیرے"" ہے (تاملمیں ملائی کا مطلب پہاڑ اور تیوو کا مطلب ""جزیرہ"" ہوتا ہے) یا پھر اس کا مطلب ""ہزاروں جزائر"" ہے۔ چند ماہرین کا ماننا ہے کہ مالدیپ کا لفظسنسکرتکے لفظ مالادیپوا سے نکلا جس کا مطلب ""جزائر کا گجرا"" یا ""جزائر کا ہار"" ہے یا پھر ""مہیلا دیپوا"" یعنی ""عورتوں کا جزیرہ"" سے نکلا ہے۔ چند ماہرین اسےعربیکے لفظ محل سے نکلا ہوا لفظ قرار دیتے ہیں۔ مالدیپ دو عربی لفظوں محل ذیبة سے ماخوذ ہے جس کا مطلب جزیروں کی جگہ ہے یہ نام اس کو ایک یمنی شخص نے دیا تھا۔1153ءمیںاسلامسے آشنا ہونے کے بعد یہ جزائر پرتگیزیوں (1558ء)، ولندیزیوں (1654ء) اور برطانویوں(1887ء) کی نو آبادی بنے۔1965ءمیں مالدیپ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور1968ءمیں اسےجمہوریہقرار دیا گیا۔ حالانکہ 40 برسوں میں محض چند دو افراد ہی صدور قرار پائے۔
+مالدیپ آبادی کے لحاظ سےایشیاکا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ یہ سب سے چھوٹا مسلم اکثریتی ملک بھی ہے۔ اسلام تقریباً تمام آبادی کا باضابطہ مذہب ہے جبکہ قومی و عام زباندیویہیہے، جو ہند یورپی زبانوں سے تعلق رکھتی ہے اور سری لنکا کی زبانسنہالیسے میل کھاتی ہے۔ملک میں صدارتی نظام حکومت موجود ہے۔ پارلیمنٹ صدر کو نامزد کرتی ہے اور عام شہری ووٹ دے کر اس کی توثیق کرتے ہیں۔ صدر چار سالوں کے لیے منتخب ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کو مجلس کہا جاتا ہے جس کے کل 54 ارکان ہوتے ہیں جن میں سے 8 کو صدر نامزد کرتا ہے باقی کو ووٹرز منتخب کرتے ہیں ہیں۔ 8 ارکان مالے سے منتخب ہوتے ہیں۔ دیگر 38 کو 19 اضلاع سے منتخب کیا جاتا ہے ۔سیاحتکے حوالے سے مالدیپ دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ ملکی معیشت سیاحت کے علاوہ ماہی گیری پر انحصار کرتی ہے۔ جہاز سازی، بنکاری اور ساخت گری کے شعبہ جات بھی اچھی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ جنوب ایشیائی ممالک میں مالدیپ دوسرے درجے پر سب سے زیادہ جی ڈی پی کا حامل ہے (3900امریکی ڈالرزبمطابق2002ء)۔ اس کے اہم تجارتی شراکت داروں میںبھارت،سری لنکا،تھائی لینڈ،ملائیشیااورانڈونیشیاشامل ہیں۔مالدیپ دنیا کا سب سے سپاٹ ترین ملک ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ زمینی سطح صرف 2.3میٹر(ساڑھے 7فٹ) ہے۔ گذشتہ ایک صدی میں سمندروں کی سطح میں 20 سینٹی میٹر (8 انچ) اضافہ ہوا ہے۔ سمندر کی سطح میں بڑھتے ہوئے اس اضافے نے مالدیپ کی بقا کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔2004ءمیں بحر ہند میں آنے والےسونامینے مالدیپ کو بھی لپیٹ میں لیا تھا اور ملک کے کئی علاقے سمندری پانی میں ڈوب گئے اور کئی افراد بے گھر ہو گئے اور 6 غیر ملکیوں سمیت 75 افراد ہلاک ہوئے۔مالدیوز میں گرم ٹراپیکل موسم ہوتا ہےـ اور گرمی کی شدت ہوتی ہے۔زیادہ تر یہاں دو موسم پائے جاتے ہیں،گرمیاوربرسات۔ یہاں سردی نہ ہونے کے برابر ہے۔"
+648,سنگاپور,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%BE%D9%88%D8%B1,"1°18′N103°48′E / 1.3°N 103.8°E /1.3; 103.8سنگا پورجنوب مشرقی ایشیامیں ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کا رقبہ 683 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی تقریباً 5,703,600 ہے۔ سنگاپور کے شمال ميں ملیشيا واقع ہے جو اس کا واحد پڑوسی ہے۔ سنگاپور کے مقامی لوگ تین قسموں کے ہیں، چینی، مالے اور تامل انڈین۔ اس کے علاوہ سنگاپور کی 36% آبادی تارکین وطن کی ہے، جو کے دنیا بھر سے آئے وہے ہیں۔ سنگاپور میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں انگریزی، چینی، مالے اور انگریزی شامل ہیں، تاہم انگریزی تقریباً ہر کوئی سمجھ لیتا ہے۔ سنگاپور ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور یہی وجہ ہے کے لوگ دنیا بھر سے اس کا رخ کرتے ہیں۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+650,میانمار,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%B1,"میانمارسرکاری طور پرجمہوریہاتحاد میانماراور عام طور پر مختصرمیانمار(/miɑːnˈmɑːr/(سنیے)mee-ahn-MAR،[4]/miˈɛnmɑːr/mee-EN-marیا/maɪˈænmɑːr/my-AN-mar(سب سے پہلے حرف پر زور کے ساتھ بھی);برمی تلفظ:[mjəmà])،[nb 1][5][6][7][8]ایکخود مختار ریاستہے جوجنوب مشرقی ایشیاکی سرحدبنگلہ دیش،بھارت،چین،لاؤساورتھائی لینڈکے ساتھ واقع ہے۔ ایک تہائی برما کا کل محیط جو 1,930 کلومیٹر (1,200 میل) ہے جوخلیج بنگالاوربحیرہ انڈمانکے ساتھ ساتھ ایک بلاتعطل ساحل بناتا ہے۔ برما کی2014 مردم شماریمیں انکشاف ہوا کہ برما کی آبادی توقع سے بہت کم ہے جو صرف 51 ملین ہے۔[9]برما 676,578 مربع کلومیٹر (261,227 مربع میل) حجم میں ہے۔ برما کا دار الحکومتنیپیداواور بڑا شہریانگونہے۔4 جنوری 1948ء میں برما برطانیہ سے آزاد ہوا۔ اس کے سات صوبے اور سات ڈویزن ہیں۔ شان٬ کایا٬ کچھین٬ ارکان٬ کرین٬ مون٬ چھین۔ ڈویزں یہ ہیں: مانڈلے٬ مگوے٬ پیگو٬ ایراودی٬ رنگون٬ تناسرم٬ اورسگائن۔
+تاریخی اعتبارسے سرزمین برما پہلے کئی ممالک پر مشتمل تھا۔ خاص برمی جو میانمار قبیلہ کے نام سے مشہور ہے جو مانڈلے اور اس کے اطراف میں رہتے ہیں وہنویں صدیعیسوی میں تبت چین سے یہاں پہنچے۔ گیارہویں صدی میں ان کو انوراٹھا نے متحد کیا۔ جنھوں نے پگان کو دار الحکومت بنایا اور بودھ مذہب کو درآمد کیا۔ جو آج ان کا قومی مذہب ہے۔ 1287ء میں جب قبلای خان نے برما پر حملہ کر دیا تو یہ ملک کئی حصوں میں منقسم ہو گیا جن پر شان قبیلہ کے افراد حکومت کرتے تھے یہاں تک کہ سولہویں صدی عیسوی میں ٹنگو خاندان کی حکومت قائم ہوئی۔ اٹھارویں صدی میں الونگ پھیہ نے موں قبیلہ کی شورش کو کچل دیا۔ جس کے بعد الونگ پھیہ نے ہندوستان پر لشکر کشی کرکے اپنی سلطنت کو وسعت دی۔
+1784ء میں میں برمی راجا بودھوپیہ نے ارکان پر حملہ کرکے قبضہ کر لیا۔ اس سے پہلے ارکان/اراکان ایک آزاد خود مختارملک تھا۔ 1826ء میں ارکان اور تناسرم برٹش انڈیا کے ماتحت آگیا۔ برما اس سے دست بردار ہو گیا۔ اس کے بعد دوسری اینگلو برمن وار 1852ء میں وسطی برما اور تیسری اینگلو برمن وار 1885ء میں بالائی برما اور1890ء میں شان اسٹیٹ پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔"
+651,تھائی لینڈ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D8%A6%DB%8C_%D9%84%DB%8C%D9%86%DA%88,"تھائى لینڈکے معنی ہیں ��زاد لوگوں کے رہنے کى جگہ اس ملک کا تاریخی نام سیام ہےـ یہ ملک تاریخ میں کبھى بھى کسى اور قوم کا غلام نہیں بنا۔بینکاکاس کادار الحکومتاور سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ اس کے شمال میںمیانمار(برما) اورلاؤسواقع ہیں اور مشرقی جانبکمبوڈیااور لاؤس، جنوبی طرف تھائی لینڈ اورملائیشیاکیخلیجواقع ہے اور مغرب میںانڈیمان سمندرواقع ہے۔ اس کی سمندری حدود جنوب مشرق میںویتنامجنوب مغرب میںانڈونیشیااوربھارتسے ملتی ہیں۔ اس کی آبادی سنہ 2022ء کی مردم شماری کے مطابق اندازہ 69,648,117 نفوس پر مشتمل ہے اور اس کا رقبہ 513,120 مربع کلومیٹر (198,120 مربع میل) ہے۔تھائی لوگوں نے چھٹی سے گیارھویں صدی عیسوی تکجنوب مغربی چینسےجنوب مشرقی ایشیاکی طرف ہجرت کی۔ ہندیائی ریاستوں جیسے کہ مون،کھمراورملائیریاستوں نے اس خطے پر حکومت کی اور تھائی ریاستوں سے جیسے کہایوتھیا، سوخوتھائی، لان نا اور نگونیانگ کی ریاستوں کے ساتھ مقابلہ کیا، جو آپس میں بھی ایک دوسرے کی حریف تھیں۔یورپی رابطہ سنہ 1511ء میں ایوتھیا کی ریاست میں پرتگالی سفارتی مشن کے ساتھ شروع ہوا، جو پندرھویں صدی کے آخر تک ایک علاقائی طاقت بن گئی۔ ایوتھیا اٹھارویں صدی کے دوران اپنے عروج پر پہنچ گئی یہاں تک کہ برمی-سیامی جنگ میں مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ تھاکسن نے جلد ہی بکھرے ہوئے علاقے کو دوبارہ متحد کیا اور تھونبری کی قلیل مدتی سلطنت قائم کی۔ 1782ء میں اس کی جگہ موجودہ چکری خاندان کے پہلے بادشاہ بدھا یودفا چولالوکے نے لے لی۔ایشیا میں مغربی سامراج کے پورے دور میں،سیامخطے کی واحد قوم رہی جس نے اپنے آپ کو غیر ملکی طاقتوں کی نوآبادیات بننے سے بچایا، حالانکہ اسے اکثر غیر مساوی معاہدوں کے ذریعے علاقائی، تجارتی اور قانونی مراعات دینے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ سیام کے نظام حکومت کو چولالونگکورن کے دور حکومت میں مرکزی بنایا گیا تھا اور اسے ایک جدید وحدانی مطلق بادشاہت میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں، سیام نے اتحادیوں کا ساتھ دیا اور یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا تاکہ غیر مساوی معاہدوں میں ترمیم کی جا سکے۔ سنہ 1932ء میں پرامن انقلاب کے بعد، یہ ایک آئینی بادشاہت بن گیا اور اس نے اپنا سرکاری نام تبدیل کر کے تھائی لینڈ رکھ لیا اور دوسری جنگ عظیم میںجاپانکا اتحادی بن گیا۔ سنہ 1950ء کی دہائی کے آخر میں، فیلڈ مارشل سریت تھانارت کے تحت ایک فوجی بغاوت نے سیاست میں بادشاہت کے تاریخی طور پر بااثر کردار کو بحال کیا۔ تھائی لینڈامریکہکا ایک بڑا اتحادی بن گیا اورسیٹوکے رکن کے طور پر خطے میں کمیونسٹ مخالف کردار ادا کیا۔ لیکن سنہ 1975ء سے کمیونسٹچیناور تھائی لینڈ کے دیگر پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔سنہ 1970ء کی دہائی کے وسط میں پارلیمانی جمہوریت کے مختصر دور کے علاوہ، تھائی لینڈ نے وقتاً فوقتاً جمہوریت اور فوجی حکمرانی کے درمیان رہا ہے۔ سنہ 2000ء کی دہائی سے، ملک تھاکسن شیناوترا کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان مسلسل تلخ سیاسی کشمکش میں پھنس گیا ہے، جس کے نتیجے میں دو بغاوتیں (2006ء اور 2014ء میں) ہوئیں۔ موجودہ آئین کے قیام کے ساتھ، تھائی عام انتخابات کے نتیجے میں ایک جمہوری حکومت قائم ہونے اور 2020-2021 میں بڑے جمہوریت نواز مظاہرے جس میں بادشاہت میں اصلاحات کے بے مثال مطالبات شامل تھے، 2019 سے، یہ برائے نام پارلیمانیآئینی بادشاہتکے طور پر موجود ہے۔ تاہم، آئین میں ساختی فوائد نے سیاست میں فوج کے مسلسل اثر و رسوخ کو یقینی بنایا ہے۔ تھائی لینڈ عالمی معاملات میں ایک درمیانی طاقت سمجھا جاتا ہے اورآسیانکا بانی رکن ہے اور انسانی ترقی کے اشاریہ میں بہت اونچا مقام رکھتا ہے۔ اس کے پاس جنوب مشرقی ایشیا میں دوسری سب سے بڑی معیشت ہے اور PPP کی طرف سے دنیا کی 24 ویں سب سے بڑی معیشت ہے اور جی ڈی پی فی کس کے حساب سے 85 ویں نمبر پر ہے۔ تھائی لینڈ کو ایک نئی صنعتی معیشت کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے اور 1990ء کے دہائی سے ایک اہم برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ جس میں مینوفیکچرنگ، زراعت اور سیاحت کو معیشت کے اہم حصوں کے طور پر رکھا گیا ہے۔تھائی لینڈ کئی الگ الگ جغرافیائی علاقوں پر مشتمل ہے، جو جزوی طور پر صوبائی گروپوں کے مطابق ہیں۔ ملک کا شمال تھائی ہائی لینڈز کا پہاڑی علاقہ ہے، جس کا سب سے اونچا مقام تھانون تھونگ چائی رینج میں ڈوئی انتھانون ہے جو سطح سمندر سے 2,565 میٹر (8,415 فٹ) بلندی پر ہے۔ شمال مشرق میں ایسان، خورات سطح مرتفع پر مشتمل ہے، جو مشرق میںدریائے میکونگسے متصل ہے۔ ملک کے مرکز میں بنیادی طور پر دریائے چاو فرایا کی وادی کے ہموار میدانوں کا غلبہ ہے، جوخلیج تھائی لینڈمیں گرتا ہے۔ جنوبی تھائی لینڈ کرا کے تنگ دہانے Kra Isthmus پر مشتمل ہے جوجزیرہ نما ملایاتک پھیلا ہوا ہے۔ سیاسی طور پر، چھ جغرافیائی علاقے ہیں جو آبادی، بنیادی وسائل، قدرتی خصوصیات اور سماجی اور اقتصادی ترقی کی سطح میں دوسروں سے مختلف ہیں۔ علاقوں کا تنوع تھائی لینڈ کی طبعی ترتیب کا سب سے واضح وصف ہے۔دریائے چاو فرایا اور دریائے میکونگ دیہی تھائی لینڈ کے ناگزیر پانی کے راستے ہیں۔ صنعتی پیمانے پر فصلوں کی پیداوار میں دریاؤں اور ان کی معاون ندیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ خلیج تھائی لینڈ 320,000 مربع کلومیٹر (124,000 مربع میل) پر محیط ہے اور دریائے چاو فرایا، ماے کلونگ، بنگ پاکونگ اور تاپی ندی اس میں گرتے ہے۔ یہ جنوبی علاقے اور کرا کے دہانے کے ساحلوں کے ساتھ صاف اتھلے پانیوں کی وجہ سے سیاحت کے شعبے میں کشش کا باعث ہے۔ خلیج تھائی لینڈ کا مشرقی ساحل تھائی لینڈ کا ایک صنعتی مرکز ہے جس میں ریاست کی سب سے بڑی گہرے پانی کی بندرگاہ ستاہپ Sattahip اور اس کی مصروف ترین تجارتی بندرگاہ لیم چابانگ Laem Chabang ہیں۔انڈمان سمندرکا ساحل ایک قیمتی قدرتی وسیلہ ہے کیونکہ یہاں پر مشہور اور پرتعیش ریزورٹس موجود ہیں۔ پھوکیٹ، کربی، رانونگ، پھانگ نگا اور ٹرانگ اور ان کے جزیرے، سبھی انڈمان کے ساحلوں پر ہیں اور سنہ 2004ء کے سونامی کے باوجود، وہ سیاحوں کے لیے کشش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔[لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+652,برونائی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%8C,"برونائی دارالسلام((مالے:Negara Brunei Darussalam)،جاوی:نڬارا بروني دارالسلام) براعظمایشیاکے مشرقی جانب،جزائر شرق الہندمیں واقع ایک مسلم ملک ہے۔ برونائی کو سرکاری طور پر دی نیشن آف برونائی، دی ایڈوب آف پیس کہا جاتا ہے۔ جنوبیبحیرہ چینکے ساحل کے علاوہ یہ پوری کی پوریملائیشیاکی ریاست ساراوک سے گھری ہوئی ہے۔ بورنیو کے جزیرے پر واقع یہ واحدخود مختار ریاستہے جبکہ باقی جزیرہانڈونیشیااورملائیشیاکا حصہ ہے۔ بورنیو کی کل آبادی جولائی 2012 میں 408786 نفوس پر مشتمل تھی۔برونائی یکم جنوری 1984 کوبرطانیہسے آزاد ہوا۔ 1999 سے 2008 کے دوران معاشی ترقی کی شرح 56 فیصد رہی جس کی وجہ سے برونائی اب صنعتی ریاست بن گئی ہے۔ اس کی دولت کا بڑا حصہ تیل اور قدرتی گیس کے ذخیروں سے آتا ہے۔ جنوب ایشیائی ریاستوں میںسنگا پورکے بعد برونائی انسانی ترقی کے اعشاریئے میں دوسرے نمبر پر آتا ہے اور اسےترقی یافتہ ملکمانا جاتا ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈکے مطابق برونائی میںفی کسقوت خرید دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈکے مطابق لیبیا کے علاوہ برونائی دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں قرضے قومی آمدنی کا صفر فیصد ہیں۔ فوربس کے مطابق برونائی 182 ممالک میں 5ویں امیر ترین ملک ہے۔977 عیسوی میں بورنیو کو پونی کہا جاتا تھا۔ 1225 میں چینی سرکاری نمائندہ چوا جو کوا نے اطلاع دی بورنیو کی حفاظت کے لیے 100 جنگی بحری جہاز تعینات ہیں۔14ویں صدی عیسوی میں پونی کو ماجاپاہٹ کی ذیلی ریاست بنا دیا گیا اور اسے سالانہ 60 کلو کافور خراج دینا پڑتا تھا۔ 1369 میں ثلث نے حملہ کر کے یہاں لوٹ مار کی اور خزانے اور سونے کو اپنے ساتھ لے گیا۔ ماجاپاہٹ کے جہازوں نے ثلث کو بھگا دیا لیکن پونی کا دفاع بہت کمزور ہو گیا۔ 1371 میں ایک چینی رپورٹ کے مطابق پونی بہت غریب ریاست تھی اور اس پر ماجاپاہٹ کا مکمل قبضہ تھا۔15ویں سے 17ویں صدی کے درمیان برونائی کی سلطنت اپنے عروج پر تھی اورشمالی بورنیوسے جنوبیفلپائنتک ان کی حکومت تھی۔ 16ویں صدی میں یہاں اسلام کی جڑیں مضبوط ہو چکی تھیں اور یہاں ایک بہت بڑی مسجد بنائی گیئ۔ 1578 میں ایکہسپانویسیاح الونسو بیلتران نے پانی کے اوپر پانچ منزلہ بلند جگہ بتائی۔یورپی اثرات کے باعث برونائی کی ریاست کمزور پڑنے لگی۔اسپیننے 1578 میں برونائی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔اسپینکی طرف سے 400ہسپانوی، 1500فلپائنیاور 300 بورنیو کے باشندے تھے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ایک بار دار الحکومت پر بھیہسپانویقبضہ ہو گیا۔ تاہم جلد ہی یہ قبضہ ختم ہو گیا اور ہسپانیوں کو بھگا دیا گیا۔ 1660 سے 1673 تکخانہ جنگیبھی رہی۔کئی مواقع پر برطانیوں نے برونائی کے معاملات میں مداخلت کی تھی۔ جولائی 1846 میںبرطانیہنے برونائی پر حملہ کر دیا۔ 1880 میں سلطان نےجیمز بروککو ساراوک کا علاقہ سونپ کر اسے راجا بنا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جیمز بروک کی مدد سے بادشاہ نے ایک مقامی بغاوت فرو کی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ بروک اور اس کے بھتیجوں نے مزید زمین بھی حاصل کرنے کی حکمت عملی جاری رکھی اور انھیں سفید راجا کہا جاتا تھا۔ سلطان ہاشم جلیل العالم اقامدین نے برطانیوں سے درخواست کی کہ وہ مزید قبضہ نہ کریں۔ 17 ستمبر 1888 کو ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت برونائی برطانوی منظوری کے بغیر اپنی سرزمین کسی غیر ملکی کو استعمال کے لیے نہیں دے سکتا تھا۔ تاہم ساراوک نے جب برونائی کے کچھ علاقے پر 1890 میں قبضہ کیا تو برطانیہ نے اس کے خلاف کوئی حرکت نہ کی حالانکہ یہ معاہدے کی صریح خلاف ورزی تھی۔ اس طرح برونائی کا رقبہ اس کی موجودہ حدود تک سکڑ گیا۔1906 کے معاہدے کے تحت برطانوی باشندے یہاں آباد ہونے لگے اور سلطان کو لازمی طور پر ان کو مشیر مقرر کرنا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ لوگ سلطان سے زیادہ بااختیار ہو گئے۔ تاہم یہ نظام 1959 میں ختم ہو گیا۔کئی ناکام کوششوں کے بعد 1929 میں تیل دریافت ہوا۔ 5 اپریل 1929 کو 297 میٹر کی گہرائی سے تیل نکلا۔ تیل اور گیس کی پیدوار سے برونائی کی زیادہ تر آمدنی آتی ہے۔جاپانیوں کے قبضے کے بعد انھوں نے سلطان احمد تاجدین سے برونائی پر حکومت کا معاہدہ کیا۔سلطان کا تخت برقرار رہا اور اسے جاپانیوں سے پینشن اور اعزازت دیے گئے۔برطانیہکو جاپانی حملے کا خدشہ تو تھا لیکن یورپ میں جنگ کی وجہ سے برونائی کا دفاع ممکن نہ ہو سکا۔قبضے کے دوران جاپانیوں نے اپنی زبان کو اسکولوں میں رائج کیا اور سرکاری افسران کو جاپانی سیکھنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ مقامی کرنسی کی جگہ دوسری کرنسی رائج کی گئی۔ 1943 میں معاشی بحران سے اس نئی کرنسی کی قدر ختم ہو گئی اور کوڑیوں کے بھاؤ ملنے لگی۔ اتحادی جہازوں نے بحری ناکہ بندی کر دی اور تجارت ختم ہو کر رہ گئی۔ خوراک، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کی قلت پیدا ہو گئی اور قحط اور بیماریوں سے شہری بری طرح متاثر ہوئے۔جاپانیوں نے برونائی میں بحری مستقر اور ہوائی اڈا بھی بنایا۔ بحری مستقر تو اتحادی بمباری سے تباہ ہو گیا لیکن ہوائی پٹی بچ گئی جس کی مرمت کر کے عوامی ائیرپورٹ بنا دیا گیا۔10 جون 1945 میں امریکی ہوائی اور بحری فوج کی مدد سےآسٹریلیاکی فوج نے حملہ کر کے بورنیو کو جاپان سے واپس لے لیا۔ جاپانیوں نے10 ستمبر1945 کو ہتھیار ڈال دیے۔برطانیہنےجاپانسے حکومت کا قبضہ لے لیا اور جولائی 1946 تک قابض رہے۔برطانیہکی فوجی حکومت نے برونائی میں حکومت بنائی جس میںآسٹریلیاکے فوجی شامل تھے۔ سویلین حکومت کو 6 جولائی 1945 کو اختیارات سونپ دیے گئے۔1959 میں نئے آئین کے مطابق برونائی کو خود مختار حکومت دے دی گئی جبکہ خارجہ امور، دفاع اور حفاظت کا ذمہبرطانیہکے پاس ہی رہا۔یکم جنوری 1984 کو برونائی نےبرطانیہسے آزادی حاصل کی۔ روایتی اعتبار سے قومی دن 23 فروری کو منایا جاتا ہے۔جولائی 1953 کو آئین بنانے کے لیے 7 رکنی کمیٹی بنائی گئی جس کے بنائے گئے آئین کے خاکے کوبرطانیہنے قبول کر لیا۔29 ستمبر 1959 کو بندر سری بیگوان میں آئین کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس کے اہم نکات درج ذیل ہیں :14 نومبر 1971کوسلطان حسن البلقیہ1959 کے آئین میں ترامیم کے بارے بات چیت کرنےلندنپہنچے۔ 23 نومبر 1971 کو ایک نیا معاہدہ طے ہوا جس کے اہم نکات یہ ہیں :اس معاہدے کے تحت برونائی میں تعینات ہونے والے گورکھا فوجی ابھی تک برونائی میں تعینات ہیں۔7 جنوری 1979 کو برونائی اور یونائیٹڈ کنگڈم کے درمیان معاہدہ ہوا جس کے تحت برونائی کوبین الاقوامیامور خود سنبھالنے ہوں گے اور آہستہ آہستہ برونائی پوری طرح آزاد ہو جائے گا اور برطانیہ بین الاقوامی امور میں مدد کرے گا۔مئی 1983 میںبرطانیہنے یہ اعلان کیا کہ یکم جنوری 1984 کو برونائی پوری طرح آزاد ہو جائے گا۔31 دسمبر 1983 کو ملک کے چاروں اضلاع کی مساجد میں اجتماعات ہوئے۔یکم جنوری 1984 کینصف شبکو سلطان نے آزادی کا اعلان پڑھ کر سنایا۔سیاسی نظام بنیادی طور پر مالے کی اسلامی بادشاہت کے اصول پر قائم ہے جس کے تین حصے ہیں۔ مالے ثقافت، مذہب اسلام اور بادشاہت کے زیر انتظام سیاسی ڈھانچہ۔ قانونی نظام برطانوی نظام عدل پر مشتمل ہے لیکن بعض صورتوں میں شرعی قوانین کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔برونائی کی اپنی پارلیمان ہے۔1979 تک خارجہ تعلقاتبرطانیہکی ذمہ داری تھے۔ اس کے بعد برونائی کی سفارتی ٹیم نے یہ کام سنبھال لیا ہے۔ آزادی کے بعد اس ٹیم کو باقاعدہ وزارت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔خارجہ پالیسیکے اہم اصول درج ذیل ہیں :برونائی جنوب مشرقی ایشیا کا ملک ہے اور اس کے دو حصے ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔ کل رقبہ 5765مربع کلومیٹرہے۔ اس کی 381 کلومیٹر لمبی سرحدملائیشیاسے ملتی ہے۔ علاقائی سمندری پانی کی حد 500 مربع کلومیٹر ہے اور 200بحری میلاس کے بحری معاشی علاقے شمار ہوتے ہیں۔برونائی کی کل آبادی 408000 نفوس پر مشتمل ہے۔ دار الحکومت بندر سری بیگوان میں ڈیڑھ لاکھ افراد بستے ہیں۔
+زیادہ تر برونائی رین ف��رسٹ پر مشتمل ہے۔برونائی کا موسم استوائی نوعیت کا ہے اور اوسط سالانہدرجہ حرارت26.1 ڈگری رہتا ہے۔برونائی ایک چھوٹی لیکن انتہائی امیر معیشت ہے جس میں ملکی اور بین الاقوامی شمولیت پائی جاتی ہے جسے حکومتی نگرانی، فلاحی اقدامات اور دیہاتی رواجوں سے سنبھالا جاتا ہے۔ خام تیل اور قدرتی گیس ملکی آمدنی کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ بناتے ہیں۔ برونائی روزانہ 167000 بیرل خام تیل پیدا کرتا ہے جو جنوب مشرقی ایشیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ 25 ملین مکعب میٹر قدرتی گیس بھی روز پیدا ہوتی ہے جس سے برونائی دنیا میں نواں بڑا قدرتی گیس پیدا کرنے والا ملک ہے۔برونائی کی آمدنی کا کچھ حصہ بیرون ملکسرمایہ کاریسے بھی آتا ہے۔ حکومت ہر طرح کی طبی سہولیات، چاول کی قیمت میں رعایت اور گھر مہیا کرتی ہے۔جولائی 2013 میں برونائی کی کل آبادی 415717 افراد پر مشتمل تھی جس میں سے 76 فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ اوسط زیادہ سے زیادہ عمر 77 سال سے زیادہ ہے۔ آبادی کا 66 فیصد سے زیادہ حصہ مالے ہے جبکہ چینی، مقامی اور دیگر نسلوں کے لوگ باقی آبادی کا حصہ ہیں۔برونائی کی سرکاری زبانمالےہے۔سرکاری طور پر برونائی کا مذہب اسلام ہے اور دو تہائی آبادی مسلمان ہے۔ دیگر مذاہب میںبدھ مت،مسیحیتوغیرہ شامل ہیں۔برونائی میںمالےثقافت پائی جاتی ہے اور اس پر اسلام کا گہرا اثر ہے۔شرعی ریاست ہونے کی وجہ سے شراب کیخرید و فروختاور استعمال ممنوع ہے۔ غیر ملکی اپنے استعمال کے لیے دوسرے ممالک سے محدود مقدار میں شراب لا سکتے ہیں۔برونائی کا میڈیا حکومت نواز ہے۔ حکومت اور بادشاہت پر تنقید کرنا ممکن نہیں ہے۔برونائی کی حکومت چھ ٹی وی چینل چلاتی ہے۔ ایک پرائیوٹ کمپنی کیبل ٹی وی چلاتی ہے اور ایک پرائیوٹ ریڈیو ایف ایم چینل بھی موجود ہے۔برونائی کے تین انفینٹری دستے ہیں جو ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ برونائی کی بحری فوج کے پاس کئیاجتہادقسم کی جنگی کشتیاں بھی موجود ہیں۔ ایک برطانوی فوجی مرکز بھی یہاں قائم ہے جس میں گورکھا فوجیوں کی تعداد 1500 ہے۔اہم آباد علاقے 2800 کلومیٹر طویل سڑکوں کی مدد سے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔برونائی تک زمینی، بحری اور فضائی، ہر طریقے سے پہنچا جا سکتا ہے۔ برونائی کا بین الاقوامی ہوائی اڈا ملک میں آمد کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ برونائی میں ایک بندرگاہ بھی ہے۔برونائی میں تقریباً ہر دو انسانوں کے لیے ایک کار موجود ہے اور یہ شرح دنیا میں بلند ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔برونائی میں چار سرکاری ہسپتال ہیں۔ اس کے علاوہ 16 مراکز صحت اور 10 کلینک بھی کام کرتے ہیں۔شہری ہر بار ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے محض ایک برونائی ڈالر ادا کرتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ملک میں علاج ممکن نہ ہو تو سرکاری خرچے پر مریض کو دوسرے ملک بھیجا جاتا ہے۔ 2011-12 میں کل 327 مریضوں کو حکومت کی طرف سےملائیشیااورسنگا پوربھیجا گیا اور اس پر 1 کروڑ 20 لاکھامریکی ڈالرکا خرچہ ہوا۔برونائی میں کوئی میڈیکل کالج نہیں اور ڈاکٹر بننے کے لیے طلبہ و طالبات کو ملک سے باہر جانا پڑتا ہے۔"
+653,فلپائن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D9%84%D9%BE%D8%A7%D8%A6%D9%86,"فلپائنیافیلیپین(فلیپینو زبان: Pilipinas)، باضابطہ نام جمہوریہ فلپائن (Republika ng Pilipinas)جنوب مشرقی ایشیامیں مالے مجمع الجزائر میں واقع ایک ملک ہے جس کادار الحکومتمنیلاہے۔یہ 7 ہزار 107 جزائر پر مشتمل ہے، جو مجمع الجزائر فلپائن کہلاتا ہے۔ اس کا کل زمینی رقبہ تقریبا 3 لاکھ مربع میل یا ایک لاکھ 16 ہزار مربع میل ہے۔ اس طرح یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 72 واں سب سے بڑا ملک ہے۔اس ملک کاناماسپینکےشاہفیلیپ کے نام پر ""جزائر فیلیپ"" (ہسپانوی: Las Islas Filipinas) تھا جو اسے روئے لوپیز دی ولیالوبوس نے دیا۔ ہسپانوی نو آبادیاتی دور1565ءمیں شروع ہوا جو1896ءمیں انقلاب فلپائن تک تین صدیوں پر محیط رہا۔1898ءمیں ہسپانوی-امریکی جنگ کے نتیجے میںامریکانے فلپائن پر قبضہ کر لیا جو پانچ دہائیوں تک برقرار رہا۔"
+654,رجب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D8%AC%D8%A8,اسلامی تقویمساتواں اسلامی مہینہ۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اس کو مقدس اور حرمت کا مہینہ سمجھا جاتا تھا۔ اسے رجب المرجب بھی کہا جاتا ہے۔ اس ماہ میں عمرہ کی رسم ادا کی جاتی تھی اور جنگ حرام سمجھی جاتی تھی۔قریشاورقیسکے قبیلہ میں ایک جنگ اسی مہینے میں ہوئی تھی جس کوجنگ فجار(فجور سے مشتق ہے) کہتے ہیں اس میںحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمبھی شریک ہوئے تھے لیکن آپ نے کسی پر تلوار نہیں چلائی۔ اہل اسلام اس مہینے کو اس واسطے متبرک سمجھتے ہیں کہ اسی ماہ کی ستائیسویں شب کو واقعہمعراجہوا۔ مسلمان 27 رجب کو واقعہ معراج کی تقریب مناتے ہیں۔ اسی مہینہ کی 13 تاریخ کو حضرتعلیرض کی ولادت بھی ہوئی۔
+655,150ھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/150%DA%BE,
+657,767ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/767%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+658,غزہ شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%BA%D8%B2%DB%81,"غزّہ(تلفظ:عربی:غَزَّة) جسےغزہ شہربھی کہا جاتا ہے،غزہ پٹیکے شمال میں واقع ایکفلسطینیشہرہے جو2023ء کی اسرائیل حماس جنگسے پہلے 2017ء میں 590,481 نفوس پر مشتملدولت فلسطینکا سب سے زیادہ آبادی والا شہر اورفلسطینیوںکی سب سے بڑی بستی تھی۔ غزہ شہربحیرہ رومکے مشرقی ساحل کے جنوبی کنارے پر اوریروشلمسے 78 کلومیٹر کی مسافت پر اس کے جنوب مغربی سمت پر آباد ہے۔ انتظامی لحاظ سے یہ شہرمحافظہ غزہکا مرکز بھی ہے۔ شہر کا کل رقبہ محض 56 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی بنیاد پر یہ گنجان آبادی والے شہروں میں سر فہرست سمجھا جاتا ہے۔2023ء اسرائیل-حماس جنگسے پہلے، یہدولت فلسطینکا سب سے زیادہ آبادی والا شہر تھا، لیکن جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔[14]کم از کمپندرہویں صدی ق مسے آباد[15]اس شہر غزہ پر اس کی پوری تاریخ میں مختلف قوموں اور سلطنتوں کا غلبہ رہا ہے۔قدیم مصریوںنے تقریباً 350 سال تک اس پر حکومت کی، اس کے بعدفلسطی قومنے اسے اپنےفلسطیاکا حصہ بنا لیا۔رومی سلطنتکے تحت غزہ نسبتاً مامون رہا اور اس زمانہ میں اس کیبندرگاہکو فروغ نصیب ہوا۔ 635 عیسوی میں یہ خطۂفلسطینکا وہ پہلا شہر بنا جسےخلافت راشدہ کی فوجنے فتح کیا اور اس کے بعد جلد ہی اس شہر نےاسلامی قانونکے ایک مرکز کی حیثیت سے ترقی کی۔ تاہم جب1099ءمیں یہاںصلیبی ریاستقائم ہوئی تو غزہ تباہ حال تھا۔ بعد کی صدیوں میںغزہکومنگولحملوں سے لے کر شدید سیلاب اورٹڈیوںکے غول تک کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔سولہویں صدیتک آتے آتے یہ شہر ایک گاؤں میں تبدیل ہو گیا اور اس دوران میں یہ شہرسلطنت عثمانیہکا حصہ بن گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے دور حکومت کے نصف اول میں رضوان خاندان غزہ پر حاکم تھا۔ اس وقت یہ شہر تجارت کا مرکز تھا اور یہاں امن و خوش حالی عام تھی۔ غزہ کی بلدیہ1893ءمیں قائم ہوئی۔[16]پہلی جنگ عظیمکے دوران میںغزہ ذیلی ضلعبرطانوی افواج کے قبضے میں چلا گیا اورانتداب فلسطینکا حصہ بن گیا۔ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میںمصرنے نو تشکیل شدہغزہ پٹیکے علاقے کا انتظام حاصل کیا اور شہر میں کئی اصلاحات کی گئیں۔ سنہ1967ءکیچھ روزہ جنگکے بعداسرائیلغزہپر قابض ہ��ا اور 1993ء میں اس شہر کو نئی تشکیل شدہفلسطینی قومی عملداریمیں منتقل کر دیا گیا۔ 2006ء کے انتخابات کے بعد کے مہینوں میں فتح اورحماسکے فلسطینی سیاسی دھڑوں کے درمیان مسلح تصادم شروع ہو گیا، جس کے نتیجے میں غزہ میں اقتدار پر قبضہ کر لیا گیا۔ اس کے بعدغزہ پٹیاسرائیل کی قیادت میں مصری حمایت یافتہ ناکہ بندی کا شکار تھی۔[17]اسرائیلنےجون2010ءمیں اشیائے ضروری کی اجازت دیتے ہوئے ناکہ بندی میں نرمی کی اورمصرنے2011ءمیںرفح سرحدی گذرگاہکو پیدل چلنے والوں کے لیے دوبارہ کھول دیا۔[17][18]غزہکی بنیادی اقتصادی سرگرمیاں یہاں موجود چھوٹے درجہ کی صنعتیں اور زراعت ہیں۔ تاہم ناکہ بندی اور بار بار ہونے والے تنازعات نے معیشت کو شدید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔[19]غزہ کے فلسطینی باشندوں کی اکثریتمسلمانہے جبکہمسیحیاقلیت بھی یہاں بستی ہے۔ غزہ کی آبادی بہت کم عمر ہے، جس میں تقریباً 75% کی عمر 25 سال سے کم ہے۔ یہ شہر فی الحال 14 رکنی میونسپل کونسل کے زیر انتظام ہے جوحماسکے زیر انتظام ہے۔مارچ 2024ء کے بعدآپریشن طوفان الاقصیٰکے موقع پ اسرائیلی فوج نےغزہ پٹیکے شمالی شہر اور آس پاس کے علاقوں کے بڑے حصوں پر بمباری کی، جس سے بہت سی عمارتیں اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا۔ تقریباً تمام مکین شہر چھوڑ چکے ہیں یا جنوبی غزہ کی طرف نقل مکانی کر گئے ہیں یا شدید بمباری کی زد میں آکر لقمۂ اجل ہو چکے ہیں۔ چنانچہ آبادی کے پرانے ریکارڈ یا تخمینہ اب پرانا ہو چکا ہے۔[20]""غزہ"" کا نام سب سے پہلےپندرہویں صدی ق ممیںمصرکےتحتمس سومکے فوجی ریکارڈ سے جانا جاتا ہے۔[21]جدید آشوری سلطنتکے ذرائع میں، آخریفلسطی قومدور کی عکاسی کرتے ہوئے، اسےہزاتکے نام سے جانا جاتا تھا۔[22]سامی زبانوںمیں شہر کے نام کے معنی ""شدید، مضبوط"" ہیں۔[23]اس شہر کاعبرانینامعزہ(עַזָּה) ہے۔ لفظ کے شروع میں آیان بائبل کے عبرانی میں ایک آواز والے فارینجیل فریکٹی کی نمائندگی کرتا ہے، لیکن جدید عبرانی میں، یہ خاموش ہے۔[24][23]شاہین کے مطابق،قدیم مصریوںنے اسے ""غزات"" (""قابل قدر شہر"") کہا اور مسلمان اکثر اسےہاشم بن عبد منافکے اعزاز میں، ""غزت ہاشم"" کے نام سے پکارتے ہیں جومحمد بن عبد اللہکے پڑدادا تھے، جو اسلامی روایت کے مطابق، شہر میں دفن ہیں۔[25]عربینام کے لیے دیگر مناسب عربی نقل حرفی غزہ یا عزّہ ہیں۔ اس کے مطابق، ""غزہ"" کو انگریزی میں گازہ (""Gazza"") کہا جا سکتا ہے۔غزہ کی رہائش کی تاریخ 5,000 سال پرانی ہے، جو اسے دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک بناتی ہے۔[26]شمالی افریقااورسر زمین شامکے درمیانبحیرہ رومکے ساحلی راستے پر واقع ہے، اپنی زیادہ تر تاریخ کے لیے اس نے جنوبیفلسطینکے ایک اہم علاقے کے طور پر کام کیا اوربحیرہ احمرسے گزرنے والے مصالحے کے تجارتی راستے پر ایک اہم رکنے کا مقام تھا۔[26][27]غزہکے علاقے میں آباد کاری کا تعلققدیم مصریقلعے سے ہے جو موجودہ غزہ کے جنوب میں واقعتل السکنمیںکنعانکے علاقے میں بنایا گیا تھا۔ یہ مقامبرنجی دورکے ابتدا میں زوال کا شکار رہی کیونکہمصرکے ساتھ اس کی تجارت میں تیزی سے کمی واقع ہوئی تھی۔[28]ایک اور شہری مرکز جسےتل العجولکے نام سے جانا جاتا ہے، وادی غزہ ندی کے کنارے پر بڑھنا شروع ہوا۔برنجی دورکے درمیانی دور کے دوران، ایک بحال شدہتل السکنفلسطین کا سب سے جنوبی علاقہ بن گیا، جو ایک قلعے کے طور پر کام کر رہا تھا۔ 1650قبل مسیحمیں جب کنعانی ہائکسوس نےمصرپر قبضہ کیا تو پہلےتل السکنکے کھنڈر پر ایک دوسرا شہر تیار ہوا۔ تاہم، اسےچودہویں صدیقبل مسیحمیں،برنجی دورکے اختتام پر ترک کر دیا گیا تھا۔[28]تحتمس سوم(دور حکومت 1479-1425 ق م) کے دور میں، یہ شہر سوری-مصری کارواں کے راستے پر ایک پڑاؤ بن گیا اورچودہویں صدی ق مکےمکتوبات عمارنہمیں اس کا ذکر ""عزاتی"" کے نام سے کیا گیا ہے۔""[29]غزہ نے بعد میںکنعانمیںمصرکے انتظامیدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔[30]غزہ 350 سال تکمصرکے کنٹرول میں رہا یہاں تک کہ اسےبارہویں صدی ق ممیںفلسطی قومنے فتح کر لیا۔[29]بارہویں صدی ق ممیں غزہفلسطیاکے ""پینٹاپولیس"" (پانچ شہر) کا حصہ بن گیا۔[29]فلسطیاکے پینٹاپولیس میں غزہ شہر،اشکلون،اشدود،عقرون،گاتھاوریافاشامل ہیں۔[31][32]عبرانی بائبلمیں ایویتیوں کا ذکر ہے جو ایک ایسے علاقے پر قابض تھے جو غزہ تک پھیلا ہوا تھا اور یہ کہ ان لوگوں کوکفتوریوںنے جزیرہکفتور(جدیدکریٹ) سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔[33]بعض علما کا قیاس ہے کہفلسطیقومکفتوریوںکی اولاد تھے۔عبرانی بائبلمیں بھیغزہکا ذکر اس جگہ کے طور پر کیا گیا ہے جہاںشمشون(سیمسن) کو قید کیا گیا تھا اور اس کی موت واقع ہوئی تھی۔[34]انبیاعاموساورصفنیاکے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے پیشن گوئی کی تھی کہغزہویران ہو جائے گا۔[35][36][37]بائبل کے بیانات کے مطابق، غزہگیارہویں صدی ق مکے اوائل میں بادشاہداؤدکے دور سےبنی اسرائیلکی حکمرانی میں گرا تھا۔[29]جب بائبل کے مطابقمملکت اسرائیلتقریباً 930قبل مسیحمیں تقسیم ہوئی، غزہ اسرائیل کی شمالی حصےمملکت اسرائیل (سامریہ)کا حصہ بن گیا۔
+جبمملکت اسرائیل730قبل مسیحکے لگ بھگتلگت پلاسر سوماورسارگون دومکے تحتجدید آشوری سلطنتکے قبضے میں آیا تو غزہآشوریوںکے زیر تسلط آ گیا۔[29]ساتویں صدی ق ممیں یہ دوبارہ مصری کنٹرول میں آ گیا، لیکنہخامنشی سلطنتکے دور (چھٹی صدی ق م-چوتھی صدی ق م) کے دوران اس نے ایک خاص آزادی حاصل کی اور ترقی کی۔[29]601/600قبل مسیحمیں بابل کے بادشاہبخت نصرکو مصری فوج نے فرعوننکوہ دومکے ماتحتغزہکے قریب مگدول میں شکست دی تھی؛[38]تاہم 568 قبل مسیح میں مصر پر حملہ کیا، اسے اپنی دوسری ناکام مہم کے دوران بخت نصر نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔[39]529قبل مسیحمیں،کمبوجیہ اولنے غزہ پر ناکام حملہ کیا اور بعد میں، تقریباً 520 قبل مسیح میں،یونانیوںنے غزہ میں تجارتی چوکی قائم کی۔ پہلے سکےایتھنزکے ماڈل پر 380قبل مسیحکے آس پاس بنائے گئے تھے۔[40]سکندر اعظمنےغزہ کا محاصرہکیا جو آخری شہر تھا جس نےمصرکے راستے میں اس کی فتح کے خلاف مزاحمت کی۔
+پانچ مہینے تک محاصرے کے بعد آخر کار 332قبل مسیحمیں اس پر قبضہ کر لیا۔[29]بتیس نامی ایکخواجہ سراکی قیادت میںعربکرائے کے فوجیوں کے ذریعے دفاع کیا گیا، غزہ نے دو ماہ تک محاصرے کا مقابلہ کیا، یہاں تک کہ طوفان نے اسے کمزور کر دیا۔۔
+محافظ، زیادہ تر مقامی عناصر، موت تک لڑتے رہے، خواتین اور بچوں کو اسیر بنا لیا گیا۔
+شہر کو پڑوسیبدوؤںنے دوبارہ آباد کیا،[41]جو سکندر کی حکمرانی کے ہمدرد تھے۔
+اس کے بعد اس نے شہر کوپولسیا ""شہر ریاست"" میں منظم کیا اوریونانیثقافت نے غزہ میں جڑ پکڑ لی جس نےعصر ہیلینستیسیکھنے اور فلسفہ کے فروغ پزیر مرکز کے طور پر شہرت حاصل کی۔[42][43]سب سے پہلے یہ بادشاہتبطلیموسی شاہی سلسلہسے تعلق رکھنے والی، یہ 200قبل مسیحکے بعدسلوقی سلطنتتک قائم رہی۔[29]سلوقی سلطنتکے زمانے میں،سلوقوس اولیا اس کے جانشینوں میں سے ایک نے غزہ کا نام بدل کرسلوقوسیارکھ دیا تاکہبطلیموسی مملکتکے خلاف ارد گرد کے ��لاقے کو کنٹرول کیا جا سکے۔[44]دیادوچی کی تیسری جنگ کے دوران،بطلیموس اول سوتیرنے 312قبل مسیحمیں غزہ کے قریب ایک جنگ میں مقدون کےدمیتریوس اول مقدونیکو شکست دی۔277قبل مسیحمیںبطلیموس دومکیانباطکے خلاف کامیاب مہم کے بعد غزہ کے بطلیموس قلعے نے گیرہ اورجنوبی عربکے ساتھ مصالحوں کی تجارت کا کنٹرول سنبھال لیا۔
+غزہ کو 96قبل مسیحمیںحشمونی سلطنتکے بادشاہالکساندر یانایوسکے ایک اور محاصرے کا سامنا کرنا پڑا جس نے شہر کو ""بالکل اکھاڑ پھینکا""، جس سے 500 سینیٹرز ہلاک ہو گئے جو حفاظت کے لیےاپالوکے مندر میں بھاگ گئے تھے۔پہلی صدی قبل مسیحاور اس صدی کے پہلے نصف میں، یہانباطکیبحیرہ رومبندرگاہ تھی، جن کے قافلےبترایاایلاتسے وہاںبحیرہ احمرپہنچے۔
+96قبل مسیحمیںحشمونی سلطنتکے بادشاہالکساندر یانایوسنے ایک سال تک شہر کا محاصرہ کیا، جس نے اس کے خلافبطلیموس نہم سوتیرکا ساتھ دیا۔[45]وہ باشندے جنھوں نےانباطبادشاہ اریتاس دوم سے مدد کی امید کی تھی، مارے گئے اور ان کے شہر کوالکساندر یانایوسنے تباہ کر دیا جب اریتاس ان کی مدد کو نہیں پہنچا تھا۔[29][46]یوسیفسلکھتے ہیں کہ غزہ کوانتیپاتر ادومیکی حکمرانی کے تحت دوبارہ آباد کیا گیا تھا، جس نے غزہ کے باشندوں،اشکلوناور ہمسایہشہروںکے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کیے تھے جب کہالکساندر یانایوسکے ذریعےادومکا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔[47]پومپیمیگنس کی کمان میں 63قبل مسیحمیںرومی سلطنتمیں شامل ہونے کے بعد دوبارہ تعمیر کیا گیا، غزہ پھر رومی صوبےیہوداکا حصہ بن گیا۔[29]اسے یہودی افواہہج نے 66 میں رومی حکمرانی کے خلاف بغاوت کے دوران نشانہ بنایا تھا اور اسے جزوی طور پر تباہ کر دیا گیا تھا۔[48]اس کے باوجود یہ ایک اہم شہر رہا، خاص طور پریروشلمکی تباہی کے بعد بھی۔[49]رومی دور کے دوران، غزہ ایک خوش حال شہر تھا اور اسے کئییی شہنشاہوں کی طرف سے گرانٹ اور توجہ حاصل تھی۔[29]500 رکنی سینیٹ نے غزہ پر حکومت کی اور مختلف قسم کےیونانی، رومی،فونیقی،یہودی،مصری،فارسیاوربدووںنے شہر کو آباد کیا۔ غزہ کیٹکسالنےدیوتاؤںاور شہنشاہوں کے مجسموں سے مزینسکےجاری کیے۔[43]130 عیسوی میں اپنے دورے کے دوران، شہنشاہہیدریاننے ذاتی طور پر غزہ کے نئے اسٹیڈیم میںکشتی،باکسنگاور تقریری مقابلوں کا افتتاح کیا، جواسکندریہسےدمشقتک مشہور ہوا۔
+شہر بہت سےپاگانیمندروں سے آراستہ تھا۔ بنیادی فرقہ مارناس کا ہے۔
+دیگر مندرزیوس،ہیلیوس،ایفرودیت،اپالو،ایتھینااور مقامیتوخےکے لیے وقف تھے۔[29]مسیحیت250 عیسوی میں پورےغزہمیں پھیلنا شروع ہوئی، بشمولمائیمہکی بندرگاہ میں۔[50][51][52][53]غزہ کےبشپکا پہلا ثبوتچوتھی صدیکے اوائل سے ہے، جب سینٹ سلوان نے اس حیثیت میں خدمات انجام دیں۔[54]تیسری صدیعیسوی میںرومی سلطنتکی تقسیم کے بعد، غزہمشرقی رومی سلطنتکے کنٹرول میں رہا جو بعد میںبازنطینی سلطنتبن گئی۔ یہ شہر خوش حال ہوا اور جنوبی فلسطین کا ایک اہم مرکز تھا۔[55]غزہ میں ایکمسیحیاسقفقائم کیا گیا۔396ءاور420ءکے درمیان سنتپورفیریوسکے تحت غزہ میںمسیحیتکی تبدیلی کو تیز کیا گیا۔402ءمیںتھیوڈوسیئس دومنے حکم دیا کہ شہر کے تمام آٹھپاگانیمندروں کو تباہ کر دیا جائے،[29]اور چار سال بعد ملکہایلیا یوڈوشیانے مارناس کے مندر کے کھنڈر کے اوپر ایکگرجا گھرکی تعمیر کا کام شروع کیا۔[56]اسی دور میں غزہ کےمسیحیفلسفی اینیاس نے اپنے آبائی شہر غزہ کو ""ایشیا کاایتھنز"" کہا۔[57]کھدائی کے مطابقچھٹی صدیمیںغزہم��ں ایک بڑی یہودی عبادت گاہ موجود تھی۔[58]638ءمیںعمرو ابن عاصکے ماتحتخلافت راشدہکی افواج نے غزہ پر قبضہ کر لیا،جنگ اجنادینکے بعد کے سالوں میں وسطیفلسطینمیںبازنطینی سلطنتاورخلافت راشدہبر سر پیکار رہے۔[59]تقریباً تین سال بعدعمرو ابن عاصکی افواج نے اس پر قبضہ کر لیا۔
+خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مقام ہے جہاںمحمد بن عبد اللہکے پرداداہاشم بن عبد منافکو دفن کیا گیا تھا، غزہ کو تباہ نہیں کیا گیا تھا اور شہر کی سختی کے باوجود عمرو کی فوج نے اس کے باشندوں پر حملہ نہیں کیا تھا۔ تاہم طویل مزاحمت لے بعد اس کی بازنطینی گیریژن کا قتل عام کیا گیا۔[60]مسلم عربوں کی آمد سے غزہ میں اہم تبدیلیاں آئیں۔ پہلے اس کے کچھگرجا گھروںکومساجدمیں تبدیل کر دیا گیا،
+جس میں غزہ کی موجودہ عظیممسجد عمری الکبیر(شہر کی قدیم ترینمسجد) بھی شامل ہے، جسے بعد میں سلطانبیبرسنے دوبارہ تعمیر کیا، جس نے اسےتیرہویں صدیمیں 20,000 سے زیادہمخطوطہپر مشتمل ایک بہت بڑی مخطوطہ لائبریری سے نوازا۔[60]آبادی کے ایک بڑے حصے نے تیزی سےاسلامقبول کر لیا،[61][62]اورعربیسرکاری زبان بن گئی۔[62]767ء میںمحمد بن ادریس شافعیغزہ میں پیدا ہوئے اور اپنا ابتدائی بچپن وہیں گزارا۔ اس نےشافعیمذہبی مکتب فکر کی بنیاد رکھی، جواہل سنتکے چار بڑےمکاتب فکرمیں سے ایک ہے۔[63]سلامتی، جو ابتدائی مسلم حکمرانی کے دوران اچھی طرح سے برقرار تھی، غزہ کی خوش حالی کی کلید تھی۔ اگرچہ اسلام میںشرابپر پابندی عائد تھی،یہوداورمسیحیبرادریوں کوشرابکی پیداوار برقرار رکھنے کی اجازت تھی اورانگور، جو شہر کی ایک بڑی نقد فصل ہے، بنیادی طور پرمصرکو برآمد کیا جاتا تھا۔[64]چونکہ اس کی سرحدصحراسے ملتی ہے، اس لیے غزہخانہ بدوشجنگجو گروپوں سے خطرے سے دوچار تھا۔[64]796ءمیں اس علاقے کےعربقبائل کے درمیان خانہ جنگی کے دوران اسے تباہ کر دیا گیا۔[65]تاہم،دسویں صدیتک، شہر کوعباسیوںنے دوبارہ تعمیر کر لیا تھا؛خلافت عباسیہکے دور حکومت میںیروشلمکےجغرافیہ دانشمس الدین مقدسینے غزہ کو ""صحرا کی سرحد پر مصر جانے والی شاہراہ پر واقع ایک بڑا شہر"" کے طور پر بیان کیا۔ ""[66]978ءمیںفاطمیوںنےدمشقکے ترک حکمران الپتاکین کے ساتھ ایک معاہدہ قائم کیا، جس کے تحتدولت فاطمیہغزہ اور اس کے جنوب میںمصرسمیت زمین کو کنٹرول کریں گے، جبکہ الپتاکین شہر کے شمال میں واقع علاقے کو کنٹرول کریں گے۔[67]خلافت امویہکے دور میں غزہ ایک معمولی انتظامی مرکز کے طور پر کام کرتا تھا۔[68]672ءمیں شہر میںزلزلہآیا لیکن اس کے اثرات کی کچھ تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ خلیفہ کے مقرر کردہ گورنروں کے تحت عیسائیوں اور یہودیوں پرجزیہلگایا جاتا تھا، تاہم ان کی عبادت اور تجارت جاری رہی، جیسا کہ بشپ ولیبالڈ کی تحریروں میں مذکور ہے، جس نے723ءمیں اس شہر کا دورہ کیا۔[69]اس کے باوجود شراب اور زیتون کی برآمدات میں کمی آئی اور فلسطین اور غزہ کی مجموعی خوش حالی کم ہو گئی۔[70]سال750ءمیں فلسطین میںخلافت امویہکا خاتمہ اورخلافت عباسیہکی آمد ہوئی، غزہ اسلامی قانون کی تحریر کا مرکز بن گیا۔[40]767ءمیںمحمد بن ادریس شافعیغزہ میں پیدا ہوئے اور اپنا ابتدائی بچپن وہیں گزارا۔ شافعی نےاہل سنتکے ممتازفقہ(قانون) میں سے ایک کی بنیاد رکھی، جس کا نام ان کے نام پرشافعیتھا۔[63]796ءمیں علاقے کے عرب قبائل نے خانہ جنگی کے دوران شہر کو ویران کر دیا تھا۔[65]فارسیجغرافیہ داناصطخریکے مطابق غزہ بظاہرنویں صدیمیں بحال ہوا جس نے لکھا ہے کہ وہا�� تاجر امیر ہوتے گئے ""کیونکہ یہ جگہحجازکے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی منڈی تھی۔""[71]ایک مسیحی مصنف نے867ءمیں لکھتے ہوئے اسے ""ہر چیز سے مالا مال"" قرار دیا۔[72]تاہمغزہ کی بندرگاہکبھی کبھار عرب حکمرانی کے تحت نظر انداز ہو جاتی ہے اور تجارت میں مجموعی طور پر کمی واقع ہوئی ہے کیونکہفلسطینکے حکمرانوں اوربدوڈاکوؤں کے درمیان لڑائی جھگڑے نے شہر کی طرف زمینی تجارتی راستوں میں خلل ڈالا تھا۔[73]868ءسے905ءتکطولونوںنے غزہ پر حکومت کی،[28]اور909ءکے آس پاسمصرکیدولت فاطمیہکا اثر بڑھنا شروع ہوا، جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ شہر کا زوال ہوا۔سنگترہکو اس علاقے میں متعارف کرایا گیا تھا، جو943ءمیںہندوستانسے آیا تھا۔[40]977ءمیں فاطمیوں نےسلجوق ترکوںکے ساتھ ایک معاہدہ قائم کیا، جس کے تحت فاطمیغزہاور اس کے جنوب میںمصرسمیت زمین کو کنٹرول کریں گے۔[74]985ءتک جب فاطمی دور حکومت میں،عربجغرافیہ دانشمس الدین مقدسینے غزہ کو ""صحرا کی سرحد پر مصر جانے والی شاہراہ پر واقع ایک بڑے شہر کے طور پر بیان کیا۔ یہاں ایک خوبصورت مسجد (مسجد عمری الکبیر) ہے، جو خلیفہعمر بن خطابکی یادگار بھی ہے۔""[75]عربی زبانکے شاعر سلیمان الغازی، جو بعد میں شہر کےبشپبھی بن گئے، نے بہت سی نظمیں لکھیں جو خلیفہحاکم بامراللہکے دور میں فلسطینیمسیحیوںکو درپیش مشکلات کو بیان کرتی ہیں۔[76]ایک اورشاعرابو اسحاق ابراہیم الغازی1049ءمیں اس شہر میں پیدا ہوئے۔[77]صلیبیوں نےپہلی صلیبی جنگمیں1100ءمیں غزہ فتح کیا اوربالدوین سوم، شاہ یروشلمنے1149ءمیںفرسان الہیکلکے لیے شہر میں ایک قلعہ تعمیر کیا۔[56]اس نے عظیممسجد عمری الکبیرکو بھی ایک گرجا گھر سینٹ جان کا کیتھیڈرل میں تبدیل کرایا۔[40]1154ءمیں عرب سیاحالادریسینے لکھا کہ غزہ ""آج بہت زیادہ آبادی والا اور صلیبیوں کے قبضے میں ہے۔""[78][79]ولیم صورینے تصدیق کی کہ1170ءمیں، ایک شہری آبادی کو قلعے کے باہر کے علاقے پر قبضہ کرنے اور کمیونٹی کے ارد گرد کمزور قلعہ بندی اور دروازے قائم کرنے پر آمادہ کیا گیا۔[56]اسی سالمملکت یروشلمکے بادشاہامالریک اولنے قریبیدیر البلحمیںصلاح الدین ایوبیکی قیادت میں مقیممصریایوبیافواج کے خلاف اس کی مدد کے لیے غزہ کےفرسان الہیکلکو واپس لے لیا۔1187ءمیں سلطانصلاح الدین ایوبیکی قیادت میںایوبیوںنے غزہ پر قبضہ کر لیا اور1191ءمیں شہر کی قلعہ بندیوں کو تباہ کر دیا۔رچرڈ اول شاہ انگلستاننے بظاہر1192ءمیں شہر کی بحالی کی، لیکن1193ءمیں مہینوں بعدمعاہدہ یافا 1192ءکے نتیجے میں دیواروں کو دوبارہ گرا دیا گیا۔[56]ایوبی حکمرانی1260ءمیں ختم ہوئی، جبمنگولوںنےہلاکو خانکے ماتحت غزہ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، جو اس کی جنوبی فتح بن گئی۔[62]جغرافیہ دانابو الفداءکے مطابق، غزہتیرہویں صدیکے اوائل میں ایک درمیانے درجے کا شہر تھا، جس میں باغات اور ایک سمندری ساحل تھا۔[80]ایوبیوں نے شجاعیہ محلہ تعمیر کیا جو پرانے شہر سے آگے غزہ کی پہلی توسیع ہے۔[81]ہلاکو خانکے ماتحتمنگولوںکے غزہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے بعد،1260ءمیںایوبیحکومت کا عملی طور پر خاتمہ ہوا۔
+منگولوں کے ہاتھوں غزہ کی تباہی کے بعد،مصرمیں مقیم مسلمان غلام سپاہیوں نے جنہیںبحری مملوککے نام سے جانا جاتا ہے، اس علاقے کا انتظام سنبھالنا شروع کیا۔1277ءمیں مملوکوں نے غزہ کو ایک صوبے کادار الحکومتبنایا جس کا نام مملکت غزہ (غزہ کی گورنری) تھا۔ یہ ضلع فلسطین کے ساحلی میدان کے ساتھ جنوب میںرفحسےقیصریہ بحریکے بالکل شمال تک اور مشرق میںسامرہکے پہاڑی علاقوں اورجبل الخلیلکی پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ صوبے کے دیگر بڑے شہروں میںقاقون،لداوررملہشامل تھے۔[62][82]ہلاکو خاننے منگول شہنشاہ کی موت کی وجہ سے واپس بلائے جانے کے بعد غزہ میں اپنی فوج چھوڑ دی اورمملوکجنرل الظاہربیبرسنے بعد میں منگولوں کو شہر سے باہر نکال دیا اور1260ءمیںبیت شیانکے قریب ہرود وادی میںعین جالوتکے مقام پرجنگ عین جالوتمیں انھیں دوبارہ شکست دی۔
+سلطانسیف الدین قطزکے قتل کے بعد میدان جنگ سے واپسی پر انھیںمصرکاسلطانقرار دیا گیا۔
+بیبرس1263ءاور1269ءکے درمیانصلیبی ریاستوںاور منگولوں کی باقیات کے خلاف اپنی مہمات کے دوران چھ بار غزہ سے گذرا۔[83]1294ءمیں ایک زلزلے نے غزہ کو تباہ کر دیا اور پانچ سال بعد منگولوں نے ایک بار پھر وہ سب کچھ تباہ کر دیا جو مملوکوں نے بحال کیا تھا۔[84][62]سوریجغرافیہ نگارشمس الدین انصارینے1300ءمیں غزہ کو ایک ""درختوں سے اتنا مالا مال شہر"" کے طور پر بیان کیا کہ یہ زمین پر پھیلے ہوئے بروکیڈ کے کپڑے کی طرح لگتا ہے۔[43]امیرسنجر الجولیکی گورنری کے تحت، غزہ ایک پھلتے پھولتے شہر میں تبدیل ہو گیا تھا اور مملوک دور کا زیادہ ترفن تعمیر1311ء-1320ء اور دوبارہ 1342ء کے درمیان ان کے دور حکومت سے تعلق رکھتا ہے۔[85][86]1348ءمیں بوبونیطاعونشہر میں پھیل گیا، جس سے اس کے زیادہ تر باشندے ہلاک ہو گئے اور1352ءمیں غزہ ایک تباہ کن سیلاب کا شکار ہوا، جو فلسطین کے اس بنجر حصے میں نایاب تھا۔[87]تاہم جبعربسیاحاورمصنفابن بطوطہنے1355ءمیں اس شہر کا دورہ کیا تو اس نے نوٹ کیا کہ یہ ""بڑا اور آبادی والا تھا اور اس میں بہت سی مساجد ہیں۔""[88]مملوکوں نےمساجد،اسلامیمدارس،ہسپتال،کارواں سرائےاور عوامی حمام بنا کر غزہ کے فن تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا۔[28]1516ءمیں غزہ - اس وقت، ایک غیر فعالبندرگاہ، تباہ شدہ عمارتوں اور تجارت میں کمی کے ساتھ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جس کوسلطنت عثمانیہمیں شامل کیا گیا تھا۔[87]عثمانی فوج نے چھوٹے پیمانے پر ہونے والی بغاوت کو تیزی سے اور مؤثر طریقے سے کچل دیا،[89]اور مقامی آبادی نے عام طور پرسنیمسلمانوں کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔[87]اس کے بعد شہر کوسنجق غزہکادار الحکومتبنایا گیا، جو بڑےصوبے دمشقکا حصہ تھا۔[90]رضوان خاندان، جسے گورنررضوان پاشاکے نام سے منسوب کیا گیا، غزہ پر حکومت کرنے والا پہلا خاندان تھا اور ایک صدی سے زائد عرصے تک شہر پر حکومت کرتا رہا۔[91]احمد پاشا ابن رضوانکے تحت، گورنر اور ممتاز اسلامی فقیہ خیر الدین الرملی کے درمیان شراکت داری کے نتیجے میں شہر ایک ثقافتی اور مذہبی مرکز بن گیا، جو قریبی قصبےرملہمیں مقیم تھے۔[92]1913ءمیں تھیوڈور ای ڈولنگ کی تحریر کے مطابق،1584ءمیں غزہ میں ایکسامریکمیونٹی موجود تھی۔ ان کی ایک بڑیکنیسہاور دو حمام تھے۔ ""ان میں سے ایک کا نام اب بھی ""سامریوں کا حمام"" ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہسولہویں صدیکے آغاز سے پہلے ہی سامریوں کو شہر سے نکال دیا گیا تھا۔[93]حسین پاشا کی حکومت کے دوران، آبادی اور قریبی بدو قبائل کے درمیان جھگڑے کو ڈرامائی طور پر کم کر دیا گیا، جس سے غزہ پرامن طور پر خوش حال ہو گیا۔ رضوان کے دور کو غزہ کے لیے سنہری دور کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، ایک ایسا وقت جب اس نے ""فلسطین کے مجازی دار الحکومت"" کے طور پر کام کیا۔[94][95]مسجد عمری الکبیرکو بحال کیا گیا اور چھ دیگر مساجد تعمیر کی گئیں، جبکہترکی حماماور بازار کے اسٹالز پھیل گئے۔[87]موسیٰ پاشا ابن حسنکی موت کے بعد، حسین کے جانشین،رضوانوںکی جگہ عثمانی حکام کو حکومت کرنے کے لیے مقرر کیا گیا۔ رضوان دور عثمانی حکومت کے دوران غزہ کا آخری سنہری دور تھا۔ خاندان کو عہدے سے ہٹانے کے بعد، شہر آہستہ آہستہ زوال پزیر ہوا۔[96]انیسویں صدیکے اوائل میں غزہ پر ثقافتی طور پر پڑوسیمصرکا غلبہ تھا۔ مصر کےمحمد علی پاشانے1832ءمیں غزہ فتح کیا۔[40]امریکی اسکالر ایڈورڈ رابنسن نے1838ءمیں اس شہر کا دورہ کیا، اسےیروشلمسے بڑا ایک ""گھنی آبادی والا"" شہر قرار دیا، اس کا پرانا شہر پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے، جب کہ اس کے مضافاتی علاقے قریبی میدان میں ہیں۔[97]مصراور شمالیسوریہکے درمیان کاروان کے راستے پر اس کی اسٹریٹجک پوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت، مقامی عرب قبائل اوروادی عربہاورمعانکےبدوؤںکے ساتھصابناورکپاسکی پیداوار کی وجہ سے اس شہر نے تجارت اور تجارت سے فائدہ اٹھایا۔[98]غزہ کےبازارسامان سئ اچھی طرح لدے ہوا کرتے تھے اور رابنسن نے انھیںیروشلمکے بازاروں سے ""بہت بہتر"" کے طور پر نوٹ کیا تھا۔[99]رابنسن نے نوٹ کیا کہ عملی طور پر غزہ کی قدیم تاریخ اور نوادرات کے تمام آثار مسلسل تنازعات اور قبضے کی وجہ سے غائب ہو چکے ہیں۔[100]انیسویں صدیکے وسط تک،غزہ کی بندرگاہکویافااورحیفاکی بندرگاہوں سے گرہن لگ گیا، لیکن اس نے اپنے ماہی گیری کے بیڑے کو برقرار رکھا۔[101]1839ءمیں گلٹی دارطاعوننے غزہ پر دوبارہ حملہ کیا اور یہ شہر، سیاسی اور اقتصادی استحکام سے محروم، جمود کی حالت میں چلا گیا۔1840ءمیں مصری اور عثمانی فوجیں غزہ کے باہر لڑیں۔
+عثمانیوں نے اس علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا، جس سے فلسطین پر مصری حکومت کا مؤثر طریقے سے خاتمہ ہو گیا۔ تاہم لڑائیوں نے غزہ میں مزید ہلاکتوں اور تباہی کو جنم دیا جب کہ شہر ابھی تک طاعون کے اثرات سے باہر آ رہا تھا۔[87]عثمانی دور کے اواخر میں غزہ میں ڈاکنگ کرنے والے برطانوی بحری جہازجوسے لدے ہوئے تھے، جو بنیادی طور پروہسکیکی پیداوار کے لیےاسکاٹ لینڈمیں مارکیٹنگ کے لیے تھے۔
+برطانوی قونصلر ایجنٹ کی غیر موجودگی کی وجہ سے، مالیاتی قیمت اور سامان کی مقدار کے بارے میں درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔[102]پہلی جنگ عظیمکے دوراناتحادی افواہجکی قیادت کرتے ہوئے، انگریزوں نے1917ءمیںغزہ کے تیسرا معرکےکے دوران شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا۔[87]جنگ کے بعدغزہکوتعہدی فلسطینمیں شامل کر لیا گیا۔[103]1930ءاور1940ءکی دہائیوں میں غزہ میں بڑی توسیع ہوئی۔ ساحل اور جنوبی اور مشرقی میدانی علاقوں کے ساتھ نئے محلے بنائے گئے تھے۔
+بین الاقوامی تنظیموں اور مشنری گروپوں نے اس تعمیر میں سے زیادہ تر فنڈنگ کی۔[101]1947ءکےاقوام متحدہکے تقسیم کے منصوبے میں،غزہکوفلسطینمیں ایکعرب ریاستکا حصہ بنانے کے لیے تفویض کیا گیا تھا لیکن1948ء کی عرب اسرائیلی جنگکے بعد اس پرمتحدہ عرب جمہوریہنے قبضہ کر لیا تھا۔
+1957ء میں غزہ کی بڑھتی ہوئی آبادی میں پناہ گزینوں کی آمد میں اضافہ ہوا جواسرائیلکے قبضے میں لیے گئے قریبی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے بھاگے یا بے دخل کیے گئے،مصری صدرجمال عبد الناصرنے غزہ میں متعدد اصلاحات کیں، جن میں تعلیمی مواقع اور سول سروسز کو بڑھانا، رہائش فراہم کرنا اور مقامی سکیورٹی فورسز کا قیام شامل تھا۔[104]1967ءکیچھ روزہ جنگمیںمصری فوجکی شکست کے بعداسرائیلنے غزہ پر قبضہ کر لیا تھا۔
+1970ء کی دہائی سے شہر میں فلسطینیوں اور اسرائیلی حکام کے درمیان اکثر تنازعات شروع ہوتے رہے ہیں۔ کشیدگی نے1987ءمی��انتفاضہ اولکو جنم دیا۔انتفاضہ اولدسمبر 1987ء سے شروع ہوئی اور سنہ 1991ء میں میڈرڈ کانفرنس تک جاری رہی۔ تاہم بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ بغاوت 1993ء میںاوسلو معاہدوںتک جاری رہی۔[105]اس بغاوت کے دوران غزہ تصادم کا مرکز تھا،[87]اور شہر کے معاشی حالات خراب ہوتے گئے۔[106]دوسرا انتفاضہجسےالاقصی انتفاضہبھی کہا جاتا ہے[107], اسرائیلی-فلسطینی تشدد کا ایک دور تھا، جسے فلسطینی اسرائیل کے خلاف بغاوت قرار دیتے ہیں
+قیاس کیا جاتا ہے کہ بے امنی کے عام محرکات 2000ءکیمپ ڈیوڈ معاہدہکی ناکامی پر مرکوز تھے، جس میں جولائی 2000ء میں اسرائیل-فلسطینی امن عمل پر حتمی معاہدے تک پہنچنے کی امید تھی۔[108]ستمبر1993ءمیںاسرائیلاورتنظیم آزادی فلسطین(پی ایل او) کے رہنماؤں نےاوسلو معاہدےپر دستخط کیے۔
+اس معاہدے میںغزہ کی پٹیاورمغربی کنارےکے شہراریحاکی فلسطینی انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا تھا، جو مئی 1994ء میں نافذ کیا گیا تھا۔
+اسرائیلی افواہج نے غزہ سے انخلا کرتے ہوئے ایک نئیفلسطینی قومی عملداری(پی این اے) کو شہر کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے اختیار دیا۔[44]یاسر عرفاتکی قیادت میںفلسطینی قومی عملدارینے غزہ کو اپنے پہلے صوبائی ہیڈ کوارٹر کے طور پر منتخب کیا۔
+نئی قائم ہونے والیفلسطینی قومی کونسلنے مارچ1996ءمیں غزہ میں اپنا افتتاحی اجلاس منعقد کیا۔[101]سنہ2005ءمیں اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے اپنی فوجیں ہٹا لی تھیں اور ہزاروں اسرائیلیوں کو نکال دیا تھا جو اس علاقے میں آباد تھے۔[109]اسرائیل کے انخلا کے بعد سے،حماساپنی حریف فلسطینی تنظیمفتح تحریککے ساتھ طاقت کی پرتشدد جدوجہد میں مصروف رہی ہے۔25 جنوری2006ءکوحماسنے فلسطینی قانون ساز کونسل،فلسطینی قومی عملداریکی مقننہ کے انتخابات میں حیرت انگیز فتح حاصل کی۔2007ءمیںحماسنےغزہ پٹیمیںفتحافواہج کا تختہ الٹ دیا اور حماس کے ارکان کو جواب میںمغربی کنارےمیںفلسطینی قومی کونسلکی حکومت سے برطرف کر دیا گیا۔ فی الحال حماس، جسے زیادہ تر مغربی ممالک ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، کا شہر اور پٹی پردرحقیقتکنٹرول ہے۔[110]مارچ2008ءمیں انسانی حقوق کے گروپوں کے ایک اتحاد نے الزام لگایا کہ شہر کی اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ میں انسانی صورت حال اس کے بدترین موڑ پر پہنچ گئی ہے جب سےاسرائیلنے1967ءکیچھ روزہ جنگمیں اس علاقے پر قبضہ کیا تھا،[111]اور یہ کہ اسرائیلی گنجان آباد علاقوں میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے والے فضائی حملوں میں اکثر راہگیر بھی مارے جاتے ہیں۔[109]2008ءمیںاسرائیلنےغزہ پر حملہشروع کیا۔[112]اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ حملے2005ءسےغزہ پٹیسےاسرائیلپر بار بار کیے جانے والے راکٹ اور مارٹر حملوں کے جواب میں کیے گئے ہیں، جب کہ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کی فوجی مداخلت اور غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کا جواب دے رہے ہیں۔ جنوری2009ءمیں اس تنازعے میں کم از کم 1,300 فلسطینی مارے گئے تھے۔[113][114]نومبر2012ءمیں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپوں کے درمیان ایک ہفتے کے تنازع کے بعد،21 نومبرکومصرکی ثالثی میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔[115]اقوام متحدہ اوچا کے مطابق2014ءاسرائیل-غزہ تنازع میں، 2,205 فلسطینی (کم از کم 1,483 شہریوں سمیت) اور 71 اسرائیلی (66 فوجیوں سمیت) اور اسرائیل میں ایک غیر ملکی شہری مارا گیا۔[116]نیو یارک ٹائمزکے ایک تجزیے کے مطابق، 20-29 سال کی عمر کے مرد، جن کے عسکریت پسند ہونے کا زیادہ امکان ہے، مرنے والوں کی تعداد میں سب سے زیادہ ��مائندگی کرتے ہیں۔[117]2021ء اسرائیل-فلسطین بحرانکے دوران، 13 منزلہ ہنادی ٹاور، جس میںحماسکا سیاسی دفتر تھا، اسرائیلی فضائی حملے سے تباہ ہو گیا تھا۔[118]2023ءمیںاسرائیل-حماس جنگکے دوران شہر کو دوبارہ نشانہ بنایا گیا۔2 نومبرکو غزہ شہر کا محاصرہ شروع ہوا۔[119]جنوری2024ءتک اسرائیل کی جارحیت نے شمالی غزہ میں 70-80% عمارتوں کو یا تو نقصان پہنچایا ہے یا تباہ کر دیا ہے۔[120][121]وسطی غزہسطح سمندرسے 14 میٹر (46 فٹ) بلندی کے ساتھ ایک نشیبی اور گول پہاڑی پر واقع ہے۔[122]جدید شہر کا زیادہ تر حصہ پہاڑی کے نیچے میدان کے ساتھ بنایا گیا ہے، خاص طور پر شمال اور مشرق کی طرف، جو غزہ کے مضافات کو تشکیل دیتا ہے۔ ساحل سمندر اور غزہ کی بندرگاہ شہر کے مرکز سے 3 کلومیٹر (1.9 میل) مغرب میں واقع ہے اور اس کے درمیان کی جگہ پوری طرح سے نشیبی پہاڑیوں پر بنی ہوئی ہے۔[97]غزہ پٹی41 کلومیٹر (25 میل) لمبی، 6 سے 12 کلومیٹر (3.7 سے 7.5 میل) چوڑی ہے اور اس کا کل رقبہ 365 کلومیٹر (141 مربع میل) ہے۔[123]اس کیاسرائیلکے ساتھ 51 کلومیٹر (32 میل) سرحد ہے اوررفحشہر کے قریبمصرکے ساتھ 11 کلومیٹر (7 میل)سرحدہے۔[124]آج شہر کا بلدیاتی دائرہ اختیار تقریباً 45 مربع کلومیٹر (17 مربع میل) پر مشتمل ہے۔[125]غزہیروشلمکے جنوب مغرب میں 78 کلومیٹر (48 میل)،تل ابیبکے جنوب میں 71 کلومیٹر (44 میل)[126]اوررفحکے شمال میں 30 کلومیٹر (19 میل)[127]کے فاصلے پر ہے۔
+آس پاس کے علاقوں میںبیت لاہیا،بیت حانوناورجبالیاشمال میں اور گاؤںالمغراقہ،بریجکافلسطینی پناہ گزین کیمپاور جنوب میںدیر البلحکا شہر شامل ہیں۔[128]غزہ کی آبادی پینے، زرعی استعمال اور گھریلو فراہمی کے واحد ذریعہ کے طور پر زیر زمین پانی پر منحصر ہے۔
+قریب ترین ندی جنوب میں وادی غزا ہے، جو ساحل کے ساتھ ابو معدین سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ سردیوں کے دوران تھوڑا سا پانی رکھتی ہے اور گرمیوں میں عملی طور پر پانی نہیں ہوتا۔[129]اس کا زیادہ تر پانی اسرائیل کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔[130]ساحل کے ساتھ غزہ ایکویفرغزہ پٹیمیں اہمزیر زمین آبی ذخیرہہے اور یہ زیادہ تروسط حیاتی دورکے ریت کے پتھروں پر مشتمل ہے۔غزہ پٹیکے بیشتر حصوں کی طرح غزہ بھی چوتھائی مٹی سے ڈھکا ہوا ہے۔ مٹی میں موجود مٹی کے معدنیات بہت سے نامیاتی اور غیر نامیاتی کیمیکلز کو جذب کرتے ہیں جس نے زمینی آلودگی کی حد کو جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔[129]غزہ کے جنوب مشرق میں ایک نمایاں پہاڑی جسے تل المنطار کہا جاتا ہے،سطح سمندرسے 270 فٹ (82 میٹر) بلندی پر ہے۔
+صدیوں سے اس کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ جگہ ہے جہاںشمشونفلسطی قومکے شہر کے دروازے لائے تھے۔
+اس پہاڑی پر ایک مسلممزارہے جو علی المنطار (""دیدبان علی"") کے نام سے مشہور ہے۔آس پاس کے درختوں کے ارد گرد پرانی مسلمانوں کی قبریں ہیں،[131]اور مقام کے دروازے کے لنٹل میںقرون وسطیکے دو عربی صحیفے ہیں۔[29]الفرقان محلے کو شہر کی ایک مسجد کے نام پرالفرقانکہا جاتا ہے۔[132][133]قدیم شہر غزہ کے مرکز کا اہم حصہ بناتا ہے۔ اسے تقریباً دو محلوں میں تقسیم کیا گیا ہے: شمالیدرج محلہ(جسے مسلم محلہ بھی کہا جاتا ہے) اور جنوبیزیتون محلہ(جس میں یہودی اور عیسائی محلے تھے۔) زیادہ تر ڈھانچےمملوکاور عثمانی دور کے ہیں اور کچھ پہلے کے ڈھانچے کے اوپر بنائے گئے تھے۔ قدیم شہر کا قدیم حصہ تقریباً 1.6 مربع کلومیٹر (0.62 مربع میل) ہے۔[101]قدیم شہر کے سات تاریخی دروازے تھے: باب عسقلان (عسقلانوں کا دروازہ)، باب الدارم (دیر البلاح کا دروازہ)، باب البحر (سمندر کا دروازہ)، باب مرناس (مرناس کا دروازہ) باب البلادیہ (قصبے کا دروازہ)، باب الخلیل (الخلیل کا دروازہ) اور باب المنطر (بتانے کا دروازہ)۔[134]غزہ کے قدیم شہر میں کچھ پرانی عمارتوں میں ابلاق طرز کی سجاوٹ کا استعمال کیا گیا ہے جس میں سرخ اور سفید چنائی کی باری باری پرتیں ہیں، جو مملوک دور میں رائج تھیں۔حمام السمراقدیم شہر کےزیتون محلہمیں واقعغزہمیں واحد فعال حمام (روایتی عوامی غسل خانہ) تھا۔ یہ گلی کی سطح سے 3 میٹر (9.8 فٹ) نیچے واقع تھا۔[135]یہ سلیم عبد اللہ الوزیر کی ملکیت تھی۔[136]یہ غسل خانہ دسمبر 2023ء میں اسرائیلی افواہہج کے فضائی حملے میں تباہ ہو گیا تھا۔
+اگرچہ غزہ میں قبل از اسلام دور کی افواہہہیں ہیں، حمام الثمرہ کی لابی میں ایک تختی یہ بتاتی کرتی ہے کہ حمام السمرا کو 1320ء میں شہر کےسلطنت مملوککے گورنرسنجر الجولینے بحال کیا تھا۔[136]یہ غزہ میں اصل پانچ میں سے واحد حمام ہے جو کام کر رہا ہے۔[135]1913ء میں تھیوڈور ای ڈولنگ کی تحریر کے مطابق، 1584ء میں، ایکسامریکمیونٹیغزہمیں موجود تھی اور اس کے پاس ایک بڑیعبادت گاہاور دو حمام تھے۔[137]سوق الذہبغزہکے قدیم محلے میں واقع ایک تنگ ڈھکی ہوئی گزرگاہ ہے۔ یہ تجارت اورسوناخریدنے کا مرکز اور غیر ملکی کرنسی کا مقام دونوں ہے۔[138]یہ بازارغزہکیعظیم مسجدکے جنوبی کنارے پر مرکزیشارع عمر مختارکے ساتھ واقع ہے۔،[139]۔
+مارکیٹ کو مرکزی سڑک کے اوپر ایک نوکیلی اور گہماؤ والی چھت کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے، جس کے دونوں طرف چھوٹی دکانیں لگی ہوئی ہیں جو خود ڈھکی ہوئی مرکزی سڑک کے کراس والٹس کے ذریعے چھت پر ہیں۔[140]قدیس پورفیریوس گرجا گھردولت فلسطینکے غزہ شہر میں ایکیونانی راسخ الاعتقاد کلیسیاکا گرجا گھر ہے۔
+اس کا تعلقیروشلمی راسخ الاعتقاد کلیسیاسے ہے اور یہ شہر کا سب سے قدیم فعال گرجا گھر ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا تیسرا قدیم ترین گرجا گھر ہے۔[141]غزہکے قدیم شہر کےزیتون محلہمیں واقع ہے، اس کا نام غزہ کےپانچویں صدیکےاسقفقدیسپورفیریوسکے نام پر رکھا گیا ہے، جن کا مقبرہ گرجا گھر کے شمال مشرقی کونے میں واقع ہے۔[26]مسجد عمری الکبیرجسے عظیم مسجد جے نام سے بھی جانا جاتا ہے،دولت فلسطینکی ایکمسجدجوغزہ پٹیمیں غزہ شہر کےدرج محلہواقع ہے۔[142]خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اصل میںفلسطیمندر تھا، اس جگہ کو بازنطینیوں نےپانچویں صدیمیں ایکگرجا گھربنانے کے لیے استعمال کیا تھا۔ساتویں صدیمیں مسلمانوں کی فتح کے بعد اسےمسجدمیں تبدیل کر دیا گیا۔دسویں صدیمیں ایک عرب جغرافیہ دانابن بطوطہنے ""خوبصورت"" کے طور پر بیان کیا، عظیم مسجد کا مینار1033ءمیں ایک زلزلے میں گر گیا تھا۔1149ءمیںصلیبیوںنے اسے ایک بڑےگرجا گھرمین تبدیل کر دیا۔1187ءمیںایوبیوںنے اسے زیادہ تر تباہ کر دیا تھا اور پھرتیرہویں صدیکے اوائل میںمملوکوںنے اسے ایکمسجدکے طور پر دوبارہ تعمیر کیا۔
+اسےمنگولوںنے1260ءمیں تباہ کر دیا تھا، پھر جلد ہی بحال کر دیا گیا۔ یہ صدی کے آخر میں آنے والے زلزلے سے تباہ ہو گیا تھا۔ عظیم مسجد کو تقریباً 300 سال بعدعثمانیوںنے دوبارہ بحال کیا۔پہلی جنگ عظیمکے دوران برطانوی بمباری کے بعد شدید نقصان پہنچا، مسجد کو1925ءمیں سپریم مسلم کونسل نے بحال کیا۔
+یہ7 دسمبر2023ءکو ایک اسرائیلی فضائی حملے سے دوبارہ تباہ ہو گیا، جس سے زیادہ تر ڈھانچہ منہدم ہو گیا اور مینار جزوی طور پر تباہ ہو گیا۔[143]قدیم شہر غزہ کے بنیادی حصے کا ایک بڑا حصہ ہے۔ یہ شمال میںدرج محلہ(جسے مسلم محلہ بھی کہا جاتا ہے) اور جنوب میںزیتونمحلہ پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر عمارتیں مملوک یا عثمانی دور کی ہیں اور کچھ پرانی عمارتوں کے اوپر بنائی گئی تھیں۔ قدیم شہر کا رقبہ تقریباً 1.6 مربع کلومیٹر (0.62 مربع میل) ہے۔ غزہ 13 محلوں پر مشتمل ہے،درج محلہاورصبرہمحلہ،رمالمحلہ پرانے شہر کے درمیان واقع ہے۔غزہ قدیم شہر سے باہر تیرہ اضلاع (حی) پر مشتمل ہے۔[144]شہر کے مرکز سے باہر غزہ کی پہلی توسیعشجاعیہکا ضلع تھا، جو ایوبی دور میں پرانے شہر کے بالکل مشرق اور جنوب مشرق میں ایک پہاڑی پر بنایا گیا تھا۔[145]شمال مشرق میں مملوک دور کا ضلعتفاحہے،[146]جو تقریباً مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہے اور اصل میں قدیم شہر کی دیواروں کے اندر واقع تھا۔[147]1930ء اور 1940ء کی دہائیوں کے دوران، ایک نیا رہائشی ضلع،رمال(جو اس وقت شمالی رمال اور جنوبی رمال کے اضلاع میں تقسیم ہے) شہر کے مرکز کے مغرب میں ریت کے ٹیلوں پر تعمیر کیا گیا تھا اور ضلعزیتون، غزہکی جنوبی اور جنوب مغربی سرحدوں کے ساتھ بنایا گیا تھا، جبکہشجاعیہکے جدیدہ (""نیا"") اور ترکمان محلے بالترتیب شمال مشرق اور جنوب مشرق میں الگ الگ اضلاع میں پھیل گئے۔[101][148]جدیدہ (جسے شجاعہ الکرد بھی کہا جاتا ہے) کا نامکردفوجی یونٹوں کے نام پر رکھا گیا تھا جو مملوک دور میں وہاں آباد ہوئے تھے، جبکہ ترکمان کا ناماوغوز ترکفوجی یونٹوں کے نام پر رکھا گیا تھا جو وہاں آباد ہوئے۔[145]رمالاور قدیم شہر کے درمیان کے علاقےصبرہاوردرجکے اضلاع بن گئے۔[146]شمال مغرب میںنصرکا ضلع ہے، جو 1950ء کی دہائی کے اوائل میں بنایا گیا تھا اور اس کا نام مصری صدرجمال عبد الناصرکے اعزاز میں رکھا گیا تھا۔[149]شیخ رضوانکا ضلع، جو 1970ء کی دہائی میں تیار ہوا، قدیم شہر کے شمال میں 3 کلومیٹر (1.9 میل) ہے اور اس کا نام شیخ رضوان کے نام پر رکھا گیا ہے — جن کا مقبرہ ضلع کے اندر واقع ہے۔[146][150]غزہ نےاسرائیلخط اخضرکی سرحد کے قریب القبہ گاؤں کے ساتھ ساتھ ساحل کے ساتھالشاطیکے فلسطینی پناہ گزین کیمپ کو بھی جذب کر لیا ہے،[128]اگرچہ مؤخر الذکر شہر کے میونسپل دائرہ اختیار کے تحت نہیں ہے۔
+1990ء کی دہائی کے آخر میں، پی این اے نےرمالکے جنوبی کنارے کے ساتھتل الہواکا زیادہ متمول محلہ بنایا۔[151]شہر کے جنوبی ساحل کے ساتھشیخ عجلینکا محلہ ہے۔[144]غزہ میں گرم نیم بنجر آب و ہوا ہےکوپن موسمی زمرہ بندی: بی ایس ایچ)،بحیرہ رومکی خصوصیات کے ساتھ، ہلکی برساتی سردیاں اور خشک گرم گرمیوں والی ہے۔[152]موسم بہارمارچیااپریلکے آس پاس آتا ہے اور گرم ترین مہینہاگستہوتا ہے، جس میں اوسطاً 31.7 °س (89.1 °ف) ہوتا ہے۔
+سب سے ٹھنڈا مہینہجنوریہے جس میں درجہ حرارت عام طور پر 18.3 °س (64.9 °ف) پر ہوتا ہے۔ بارش کم ہوتی ہے اور تقریباً صرفنومبراورمارچکے درمیان ہوتی ہے، سالانہ بارش تقریباً 395 ملی میٹر یا 15.6 انچ ہوتی ہے۔[153]1557ءمیں عثمانی ٹیکس ریکارڈ کے مطابق غزہ میں 2,477 مرد ٹیکس دہندگان تھے۔[165]1596ءکے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غزہ کی مسلم آبادی 456 گھرانوں، 115 بیچلر، 59 مذہبی افراد اور 19 معذور افراد پر مشتمل تھی۔ مسلم شخصیت کے علاوہ، عثمانی فوج میں 141 جندیان یا ""سپاہی"" تھے۔مسیحیوںمیں 294 گھرانے اور سات بیچلر تھے، جب کہ 73یہودیگھرانے اور آٹھسامریگھرانے تھے۔
+مجموعی طور پر، ایک اندازے کے مطابق 6,000 لوگ غزہ میں رہتے تھے، جو اسےیروشلماورصفدکے بعد عثمانی فلسطین کا تیسرا بڑا شہر بناتا ہے۔[155]1838ءمیں تقریباً 4,000مسلماناور 100مسیحیٹیکس دہند��ان تھے، جس کا مطلب تقریباً 15,000 یا 16,000 کی آبادی تھی جو اسے اس وقتیروشلمسے بڑا بناتی تھی۔مسیحیخاندانوں کی کل تعداد 57 تھی۔[98]پہلی جنگ عظیمشروع ہونے سے پہلے غزہ کی آبادی 42,000 تک پہنچ چکی تھی۔ تاہم غزہ میں1917ءمیںاتحادی افواجاور عثمانیوں اور ان کے جرمن اتحادیوں کے درمیان شدید لڑائیوں کے نتیجے میں آبادی میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی۔[157]مندرجہ ذیلمردم شماری، جو1922ءمیں برطانوی مینڈیٹ حکام کی طرف سے کی گئی تھی، آبادی میں تیزی سے کمی کو ظاہر کرتی ہے جو 17,480 رہائشیوں (16,722 مسلمان، 701 مسیحی، 54 یہودی اور تین میٹاویلے تھی۔[158]1931ءکیمردم شماریمیں 17,046 باشندوں (16,356 مسلمان، 689 مسیحی اور ایک یہودی) اور مضافاتی علاقوں میں 4,597 (4,561 مسلمان اور 36 مسیحی) کی فہرست دی گئی ہے۔[166]1938ءکے گاؤں کے اعدادوشمار غزہ کی آبادی 20,500 کے طور پر درج کرتے ہیں اور قریبی مضافاتی علاقوں میں 5,282 ہیں۔[167]1945ءکے گاؤں کے اعدادوشمار آبادی کو 34,250 (33,160 مسلمان، 1,010 مسیحی اور 80 یہودی) بتاتے ہیں۔[160]فلسطینی سینٹرل بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی سی بی ایس) کی1997ءکیمردم شماریکے مطابق، غزہ اور ملحقہالشاطیکیمپ کی آبادی 353,115 تھی، جن میں سے 50.9% مرد اور 49.1% خواتین تھیں۔
+غزہ کی آبادی بہت زیادہ نوجوان تھی جس کی نصف سے زیادہ عمریں بچپن سے 19 سال (60.8%) کے درمیان تھیں۔
+تقریباً 28.8% کی عمریں 20 سے 44 سال کے درمیان تھیں، 7.7% 45 اور 64 کے درمیان اور 3.9% کی عمریں 64 سال سے زیادہ تھیں۔[163]1948ء کی عرب اسرائیلی جنگکے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد میں غزہ کی آبادی میں اضافہ ہوا۔1967ءتک آبادی اس کے1948ءکے سائز سے تقریباً چھ گنا بڑھ چکی تھی۔[101]1997ءمیں غزہ کے 51.8 فیصد باشندے پناہ گزین یا ان کی اولاد تھے۔[168]اس وقت سے اب تک شہر کی آبادی میں2017ءمیں 590,481 تک اضافہ ہوتا رہا ہے، جو اسےفلسطینی علاقوںکا سب سے بڑا شہر بناتا ہے۔[164][169]غزہ شہر دنیا میں سب سے زیادہ مجموعی ترقی کی شرحوں میں سے ایک ہے۔ اس کی آبادی کی کثافت 9,982.69/کلومیٹر2 (26,424.76/مربع میل) نیویارک شہر (10,725.4/کلومیٹر2 – 27,778.7/مربع میل) کے مقابلے میں ہے، پیرس کی کثافت کا نصف (21,000/کلومیٹر2 – 55,000/مربع میل)۔[101][170]2007ءمیں غربت، بے روزگاری اور زندگی کے خراب حالات بڑے پیمانے پر تھے اور بہت سے باشندوں نےاقوام متحدہکی خوراک کی امداد حاصل کی۔[101][171]غزہ کی آبادی بہت زیادہمسلمانوںپر مشتمل ہے، جو زیادہ تراہل سنتفرقہ کی پیروی کرتے ہیں۔[101]فاطمی دورمیںاہل تشیعغزہ میں غالب تھا، لیکنصلاح الدین ایوبینے1187ءمیں شہر کو فتح کرنے کے بعد، اس نے سختی سےاہل سنتمذہبی اور تعلیمی پالیسی کو فروغ دیا، جو اس وقت ان کے عرب اور ترکی کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔[28]غزہ تقریباً 3,500 افراد پر مشتمل ایک چھوٹی فلسطینیمسیحیاقلیت کا گھر ہے۔[172]اکثریت قدیم شہر کےزیتونمحلے میں رہتی ہے اور ان کا تعلقیروشلمی راسخ الاعتقاد کلیسیا،کاتھولک کلیسیااوراصطباغی کلیسیاکے فرقوں سے ہے۔[173]1906ءمیں تقریباً 750مسیحیتھے جن میں سے 700 آرتھوڈوکس اور 50 رومن کیتھولک تھے۔[156]غزہ کییہودیبرادری تقریباً 3,000 سال پرانی تھی،[101]اور1481ءمیں وہاں ساٹھ یہودی گھرانے تھے۔
+ان میں سے زیادہ تر1929ءکے فلسطین فسادات کے بعد غزہ سے فرار ہو گئے، جب وہ پچاس خاندانوں پر مشتمل تھے۔[174]سمیع ہدوی کے زمینی اور آبادی کے سروے میں غزہ کی آبادی 34,250 تھی جس میں1945ءمیں 80 یہودی بھی شامل تھے۔[101][160]ان میں سے اکثر نے1948ءکی جنگ کے بعد ان کے اور عرب اکثریت کے درمیان باہمی ��دم اعتماد کی وجہ سے شہر چھوڑ دیا۔[175]آج، غزہ میں کوئی یہودی نہیں رہتے۔[176]اہم زرعی مصنوعات اسٹرابیری،لیموں،کھجور،زیتون،پھولاور مختلفسبزیاںہیں۔ آلودگی اور پانی کی زیادہ مانگ نے غزہ کی پٹی میں فارموں کی پیداواری صلاحیت کو کم کر دیا ہے۔[101]چھوٹے پیمانے کی صنعتوں میں پلاسٹک، تعمیراتی سامان، ٹیکسٹائل، فرنیچر، مٹی کے برتن، ٹائلیں، تانبے کے برتن اور قالین کی پیداوار شامل ہے۔ اوسلو معاہدے کے بعد سے، ہزاروں باشندوں کو سرکاری وزارتوں اور سیکورٹی سروسز،اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسیاور بین الاقوامی تنظیموں میں ملازمت دی گئی ہے۔[101]چھوٹی صنعتوں میں ٹیکسٹائل اور فوڈ پروسیسنگ بھی شامل ہیں۔ غزہ کے گلی بازاروں میں مختلف قسم کے سامان فروخت ہوتے ہیں جن میں قالین، مٹی کے برتن، اختر فرنیچر اور سوتی کپڑے شامل ہیں۔ اعلیٰ درجے کا غزہ مال جولائی 2010ء میں کھولا گیا۔[177][178]2008ء میں شائع ہونے والی انسانی حقوق اور ترقیاتی گروپوں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غزہ طویل مدتی معاشی جمود اور سنگین ترقی کے اشارے کا شکار ہے، جس کی شدت میں اسرائیلی اور مصری ناکہ بندیوں کی وجہ سے تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔[19]رپورٹ میں اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے متعدد اقتصادی اشاریوں کا حوالہ دیا گیا ہے: 2008ء میں، غزہ کے 95% صنعتی آپریشنز پیداوار اور برآمدی مسائل کے لیے رسائی کی کمی کی وجہ سے معطل ہو گئے تھے۔ 2009ء میں غزہ میں بے روزگاری 40 فیصد کے قریب تھی۔
+نجی شعبہ جو غزہ میں تمام ملازمتوں کا 53 فیصد پیدا کرتا ہے تباہ ہو گیا اور کاروبار دیوالیہ ہو گئے۔ جون 2005ء میں غزہ میں 3,900 کارخانوں میں 35,000 افراد کام کرتے تھے، دسمبر 2007 تک صرف 1,700 ابھی تک کام کر رہے تھے۔
+دسیوں ہزار مزدوروں کے کام سے باہر ہونے سے تعمیراتی صنعت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ زراعت کا شعبہ سخت متاثر ہوا، جس سے نقدی فصلوں پر انحصار کرنے والے تقریباً 40,000 کارکن متاثر ہوئے۔[19]ناکہ بندی کے دوران غزہ کی خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، گندم کے آٹے کی قیمت میں 34 فیصد،چاولمیں 21 فیصد اور بیبی پاؤڈر کی قیمتوں میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ 2007ء میں گھرانوں نے اپنی کل آمدنی کا اوسطاً 62% خوراک پر خرچ کیا، جبکہ 2004ء میں یہ 37% تھا۔ ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں،اونرواکی غذائی امداد پر انحصار کرنے والے خاندانوں کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہوا۔[19]2008ء میں 80% آبادی نے 2006ء میں 63% کے مقابلے 2008ء میں انسانی امداد پر انحصار کیا۔ 2009ء میں آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق، غزہ کو رہائش، تعلیمی سہولیات، صحت کی سہولیات اور انفراسٹرکچر کی شدید کمی کا سامنا ہے، اس کے ساتھ سیوریج کے ناکافی نظام نے حفظان صحت اور صحت عامہ کے مسائل میں اہم کردار ادا کیا۔[19]2010ء میں بندش کی پالیسی میں نمایاں نرمی کے بعد، غزہ کی معیشت نے ناکہ بندی کے عروج کے دوران خون کی کمی کی سطح سے خاطر خواہ بحالی دیکھنا شروع کی۔[179]2010ء کے پہلے 11 مہینوں میں غزہ کی معیشت میں 8 فیصد اضافہ ہوا۔[180]اقتصادی سرگرمیوں کو بڑی حد تک غیر ملکی امداد کے عطیات سے مدد ملتی ہے۔[180]غزہ میں متعدد ہوٹل ہیں جن میں فلسطین، گرینڈ پیلس، آدم، العمل، القدس، کلف، الدیرہ اور مرنا ہاؤس شامل ہیں۔
+تمام، سوائے فلسطین ہوٹل کے، ساحلیرمالضلع میں واقع ہیں۔اقوام متحدہکا اسی سڑک پر ایک بیچ کلب ہے۔
+غزہ سیاحوں کے لیے عمومی طور پر جگہ نہیں ہے اور ہوٹلوں میں رہنے والے زیادہ تر غیر ملکیصحافی، امدادی کارکن اوراقوام متحدہاوربین الاقوامی انجمن صلیب احمر و ہلال احمرکے اہلکار ہیں۔ اعلیٰ ترین ہوٹلوں میں القدس اور الدیرہ ہوٹل شامل ہیں۔[181]اگست 2020ء میں، غزہ میں فلسطینی تاجروں کی ایسوسی ایشن کے سربراہ، علی الحائق نے دی میڈیا لائن کو بتایا کہ ""غزہ کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے، خاص طور پر تازہ ترین کشیدگی کے درمیان، جہاں کریم شالوم کارگو کراسنگ کو بند کرنا اور داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ایندھن اور صنعتی مواد کی وجہ سے معاشی تباہی ہوئی،""
+ہائیک نے کہا کہ صنعتی شعبہ مکمل طور پر رک گیا ہے، جس سے ہزاروں کارکن بے روزگار ہو گئے ہیں، جس نے پہلے سے ہی تباہی کی صورت حال میں اضافہ کیا۔ ""غزہ میں پرائیویٹ سیکٹر تقریباً ختم ہو چکا ہے؛ ہمیں ایک سنگین تباہی کا سامنا ہے جو معاشی نظام کی معطلی کی وجہ سے سماجی مسائل سے ظاہر ہوتا ہے۔"" غزہ میں اقتصادی سرگرمیاں مکمل طور پر رک گئی ہیں،
+""لیکن آج، ہم پہلے سے موجود بحران اور برقی خدمات کے موجودہ تعطل کی وجہ سے [معاشی سرگرمیوں کو] مکمل طور پر روکنے کی بات کر رہے ہیں۔""[182]اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی ثقافت متعدد متنوع ثقافتوں اور مذاہب سے متاثر ہے جو فلسطین کے تاریخی خطے میں موجود ہیں۔لبنانی،سوریاوراردنیباشندوں کے ساتھ فلسطینی عربوں کا ثقافتی اور لسانی ورثہشامیعرب ثقافتکا لازمی حصہ ہے۔[183]رمالمیں واقع رشاد الشوا ثقافتی مرکز 1988ء میں مکمل ہوا اور اس کا نام اس کے بانی سابق میئررشاد الشواکے نام پر رکھا گیا۔[184]سہ رخی منصوبے کے ساتھ ایک دو منزلہ عمارت، ثقافتی مراکز تین اہم کام انجام دیتے ہیں: سالانہ تہواروں کے دوران بڑے اجتماعات کے لیے ایک میٹنگ کی جگہ، نمائشوں کے لیے جگہ اور ایک لائبریری موجود ہے۔[185]فرانسیسی ثقافتی مرکز غزہ میں فرانسیسی شراکت داری اور تعاون کی علامت ہے۔
+اس میں آرٹ کی نمائشیں، کنسرٹ، فلم کی نمائش اور دیگر سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ جب بھی ممکن ہو، فرانسیسی فنکاروں کو اپنے فن پاروں کی نمائش کے لیے مدعو کیا جاتا ہے اور زیادہ کثرت سےغزہ کی پٹیاورمغربی کنارےکےفلسطینیفنکاروں کو آرٹ کے مقابلوں میں شرکت کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔[186]1998ء میں قائم کیا گیا، آرٹس اینڈ کرافٹس ولیج بچوں کا ثقافتی مرکز ہے جس کا مقصد تخلیقی فن کی تمام شکلوں میں جامع، باقاعدہ اور متواتر دستاویزات کو فروغ دینا ہے۔ اس نے مختلف قومیتوں کے فنکاروں کے ایک طبقے کے ساتھ بڑے پیمانے پر بات چیت کی اور تخلیقی فن، سیرامکس، گرافکس، نقش و نگار اور دیگر کے لیے تقریباً 100 نمائشوں کا اہتمام کیا۔ غزہ کی پٹی کے تقریباً 10,000 بچوں نے آرٹس اینڈ کرافٹس ولیج سے استفادہ کیا ہے۔[187]غزہ تھیٹر، ناروے کے تعاون سے فنانس کیا گیا، 2004ء میں کھولا گیا۔[188]تھیٹر کوفلسطینی قومی عملداریسے زیادہ فنڈز نہیں ملتے، زیادہ تر غیر ملکی امدادی ایجنسیوں کے عطیات پر منحصر ہے۔
+اے ایم قطان فاؤنڈیشن، ایک فلسطینی آرٹس چیریٹی، نوجوان فنکارانہ صلاحیتوں کو فروغ دینے اور اساتذہ کو ڈراما کی مہارتیں فراہم کرنے کے لیے غزہ میں کئی ورکشاپس چلاتی ہے۔ غزہ تھیٹر فیسٹیول کا افتتاح 2005ء میں ہوا تھا۔[189]غزہ میوزیم آف آرکیالوجی، جس کی بنیاد جودت این خدری نے رکھی تھی، 2008ء کےموسم گرمامیں کھولا گیا۔عجائب گھرکے مجموعے میں ہزاروں اشیاء شامل ہیں، جن میں ایک مکمل چھاتی والیایفرودیتکا مجسمہ ایک ڈائیفانس گاؤن میں، دیگر قدیم دیوتاؤں کی تصاویر اور مینورہ کی خاصیت والے تیل کے لیمپ شامل ہیں۔[190]دبكہ ایک عرب لوک ��قص ہے جوسر زمین شامکے ممالک سے نکلا ہے۔[191]یہ فلسطینی ثقافت اورسر زمین شاممیں بہت سی دوسری ثقافتوں میں مقبول ہے اور بہت سے گروہ پوری دنیا میں رقص کرتے ہیں۔
+دبكہ کو مطابقت پزیر جمپنگ، سٹیمپنگ اور حرکت کے ذریعے نشان زد کیا گیا ہے، جو ٹیپ ڈانسنگ کی طرح ہے۔[192][193][194][195][196]دبكہ دائرے کے رقص اور لائن ڈانس کو یکجا کرتا ہے اور اسے شادیوں اور دیگر خوشی کے مواقع پر بڑے پیمانے پر پیش کیا جاتا ہے۔
+لکیر دائیں سے بائیں بنتی ہے اور دبكہ کا لیڈر لائن کو سر کرتا ہے، سامعین اور دوسرے رقاصوں کے درمیان باری باری ہوتا ہے۔دستکاری کی وسیع اقسام، جن میں سے بہت سے فلسطینی سینکڑوں سالوں سے تیار کر رہے ہیں، آج بھی تیار ہو رہے ہیں۔ فلسطینی دستکاریوں میں کڑھائی اور بُنائی، برتن سازی، صابن سازی، شیشہ سازی اور زیتون کی لکڑی اور موتی کی نقش و نگار شامل ہیں۔
+بالترتیب 2021ء اور 2022ء میںفلسطیناور دیگرعرب ریاستوںکی طرف سے مشترکہ نامزدگیوں کویونیسکوکی کھجور کے علم اور استعمال اور عربی خطاطی کے لیے غیر محسوس ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔[197][198]غزہ کے کھانے میں مصالحے اور مرچوں کے فراخدلانہ استعمال کی خصوصیت ہے۔ دیگر بڑے ذائقوں اور اجزا میں اجوائن، چقندر کے پتے، لہسن، زیرہ، دال، چنے، انار، کھٹا بیر اوراملیشامل ہیں۔
+بہت سے روایتی پکوان مٹی کے برتن میں پکائے جاتے ہیں، جو سبزیوں کے ذائقے اور ساخت کو محفوظ رکھتی ہے اور اس کے نتیجے میں نرم اور ملائمگوشتبنتا ہے۔
+روایتی طور پر زیادہ تر غزاوی پکوان موسمی ہوتے ہیں اور علاقے اور اس کے آس پاس کے دیہاتوں کے مقامی اجزا پر انحصار کرتے ہیں۔ غربت نے شہر کے بہت سے سادہ گوشت کے پکوانوں اور سٹو کا تعین کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، جیسے سالک و اداس (""چقندر کے پتے اور دال"") اور بسارا (خشک ملکھیا پتوں اور مرچوں کے ساتھ چھلکے ہوئے جلد کے بغیر فاوا پھلیاں)۔[199]سمندری غذا غزہ کی زندگی کا ایک اہم پہلو اور ایک مقامی غذا ہے،[200]سمندری غذا کی کچھ مشہور پکوانوں میں زیبدییت گمبری، لفظی طور پر، ""مٹی کے برتن میں جھینگا"" اور شٹا شامل ہیں جو کیکڑے ہیں جو سرخ گرم مرچ کے ڈپ سے بھرے ہوتے ہیں، پھر تندور میں سینکا ہوا.مچھلیکو لال مرچ، لہسن،مرچاور زیرہ ڈال کر مختلف مصالحوں سے میرینیٹ کرنے کے بعد یا تو تلا یا گرل کیا جاتا ہے۔
+یہ سیدیہ میں بھی ایک اہم جزو ہے،چاولجو کیریملائز پیاز کے ساتھ پکایا جاتا ہے،لہسنکے پورے لونگ کی فراخ مقدار، اچھی طرح سے میرین کی ہوئی تلی ہوئی مچھلی کے بڑے ٹکڑے اورہلدی،دارچینیاورزیرہجیسے مصالحے شامل ہیں۔[199]1948ءکے دور کے پناہ گزینوں میں سے بہت سے لوگ فلاحین (""کسان"") تھے جو موسمی کھانے کھاتے تھے۔سماقیہ، جو غزہ میں نہ صرف رمضان بلکہ سارا سال مقبول ہے، سماق، تحینہ اور پانی کا مرکب ہے جو چقندر کے پتے،گائےکےگوشتاور چنے کے ٹکڑوں کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔
+ڈش میں پسی ہوئی اجوائن کے بیج، مرچیں اور تلی ہوئی لہسن ڈال کر پیالوں میں پیش کیا جاتا ہے۔[199]مفتول ایک گندم پر مبنی ڈش ہے جس کا ذائقہ سوکھے کھٹے بیروں کے ساتھ ہوتا ہے جسےکسکسکی طرح پیش کیا جاتا ہے یا چھوٹی گیندوں کی شکل دی جاتی ہے اور اسے سٹو یا سوپ پر بھاپ دیا جاتا ہے۔[201]غزہ کے زیادہ تر ریستوراں ضلعرمالمیں واقع ہیں۔ الاندلس، جو مچھلی اور سمندری غذا میں مہارت رکھتا ہے، سیاحوں میں مقبول ہے، جیسا کہ السماق اور اعلی درجے کا روٹس کلب ہے۔[202]اطفالونہ غزہ کی بند��گاہ کے قریب ایک سجیلا ریستوراں ہے اور اس پر عملہ بہرے افراد کے ذریعہ چلایا جاتا ہے جس کا مقصد ایک ایسا معاشرہ بنانا ہے جو معذور افراد کو زیادہ قبول کرے۔[203]پورے قدیم شہر میں سڑکوں پر ایسے اسٹال ہیں جو پکی ہوئی پھلیاں، حمس، بھنے ہوئے آلو،فلافلاورکبابفروخت کرتے ہیں۔
+کافی ہاؤسز (قہوہ خانے) عربی کافی اور چائے پیش کرتے ہیں۔ غزہ کی معروف مٹھائی کی دکانیں، صقالہ اور عرفات، عام عرب میٹھے مصنوعات فروخت کرتی ہیں اور وحدا اسٹریٹ کے قریب واقع ہیں۔الکحلایک نایاب چیز ہے، جو صرفاقوام متحدہکے بیچ کلب میں پائی جاتی ہے۔[204]گوزے کی ابتدا غزہ سے ہوئی ہے۔ غزہ ثوب کے لیے کپڑا اکثر قریبیعسقلانمیں بُنا جاتا تھا۔
+سیاہ یا نیلے رنگ کے سوتی یا دھاری دار گلابی اور سبز کپڑے جوعسقلانمیں بنائے گئے تھے، 1960ء کی دہائی تک ساحلی میدانی دیہاتوں کے مہاجرینغزہ پٹیمیں بُنے جاتے رہے۔
+یہاں ثوبوں کی تنگ، تنگ، سیدھی آستینیں تھیں۔ ہیبرون میں لگائی جانے والی کڑھائی کی نسبت بہت کم گھنی تھی۔
+سب سے زیادہ مقبول شکلوں میں شامل ہیں: قینچی (مقس)، کنگھی (مشوت) اور مثلث (حجاب) اکثر پانچ، سات اور تین کے جھرمٹ میں ترتیب دیے جاتے ہیں، کیونکہ عربلوک کہانیوںنظر بدکے خلاف میں طاق اعداد کے استعمال کو مؤثر سمجھا جاتا ہے۔[205]1990ء کے قریب،حماساور دیگر اسلامی تحریکوں نے غزہ کی خواتین، خاص طور پر شہری اور تعلیم یافتہ خواتین کے درمیانحجاب(""سر پر اسکارف"") کے استعمال کو بڑھانے کی کوشش کی اور حجاب کے انداز متعارف ہونے کے بعد سے کلاس اور گروپ کی شناخت کے مطابق مختلف ہیں۔[206]فلسطین اسٹیڈیمغزہ پٹیپر غزہ شہر میں واقع ہے۔ یہ قومیاسٹیڈیماور فلسطین کی قومی فٹ بال ٹیم کا گھر ہے۔ اسٹیڈیم کی گنجائش تقریباً 10,000 ہے۔[207]اس پر اسرائیل نے یکم اپریل 2006ء کو براہ راست مرکز کے مقام پر بمباری کی تھی، جس سے اسٹیڈیم میں گڑھے بن جانے کی وجہ سے استعمال کے قابل نہیں تھا۔ فیفا نے اعلان کیا کہ وہ مرمت کے کام کو فنڈ دے گا۔[208][209][207]اس پر 19 نومبر2012ءکواسرائیلی دفاعی افواجنے آپریشن پلر آف کلاؤڈ کے حصے کے طور پر دوبارہ بمباری کی تھی۔
+اسٹیڈیم اور قریبی انڈور اسپورٹس ہال کو بڑا نقصان پہنچا اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر کے فٹ بال کھلاڑیوں نے دستخط شدہ پٹیشن جاری کی۔[210][211]غزہ میں کئی مقامی فٹ بال ٹیمیں ہیں جو غزہ پٹی لیگ میں شرکت کرتی ہیں۔
+ان میں خدمہ الشاطیہ (الشاطیکیمپ)، اتحاد الشجاعیہ (شجاعیہمحلہ)، غزہ اسپورٹس کلب اور الزیتون (زیتون محلہ) شامل ہیں۔[212]غزہ میراتھنغزہ پٹی،دولت فلسطینمیں ایکمیراتھنریس ہے جس کا اہتماماونروانے غزہ شہر میں بچوں کے لیےاونرواسمر گیمز کے پروگرام کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے کیا ہے۔
+مکمل میراتھن ریس (42.195 کلومیٹر، 26 میل 385 گز) کے علاوہ، ایک ہاف میراتھن ریس اور 10 کلومیٹر (6.21 میل) ریس بھی ہوتی ہے۔ بچے پورے میراتھن کورس میں ریلے میں 1 کلومیٹر (0.6 میل) سے 4 کلومیٹر (2.5 میل) کے درمیان کے مراحل چلاتے ہیں۔[213]یہ تقریب پہلی بار5 مئی2011ءکو منعقد ہوئی، جس میں 1,500 سے زیادہ شرکاء نے شرکت کی۔[214]2012ء میں غزہ نے پہلی بین الاقوامی میراتھن کا انعقاد کیا۔
+2013ء میں میراتھن 10 اپریل کو ہونے والی تھی، لیکن ""غزہ میں حکام کی طرف سے خواتین کو شرکت کی اجازت نہ دینے کے فیصلے"" کے بعد اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔[215]فیصل گھڑ سواری کلبدولت فلسطینکے غزہ شہر میں ایک گھڑ سواری کا کلب اور اعلیٰ درجے کا ریستوراں ہے۔
+جولائی 2010ء تک ��ہ کلبغزہ پٹیکا واحد گھڑ سوار کلب تھا۔ 2010ء تک رکنیت بڑھ رہی تھی، تقریباً 120 اراکین اور دوسرے لوگ کبھی کبھار اسباق یا کبھی کبھار سواری کے لیے آتے تھے۔[216]آج غزہ،محافظہ غزہکے انتظامیدار الحکومتکے طور پر کام کرتا ہے۔[217]اس میں کالعدمفلسطینی قانون ساز کونسلکی عمارت ہے۔
+غزہ کی پہلی میونسپل کونسل1893ءمیں علی خلیل الشوا کی سربراہی میں تشکیل دی گئی۔ تاہم، جدید میئر شپ1906ءمیں اپنے بیٹےسعید الشواکے ساتھ شروع ہوئی، جسے عثمانی حکام نے میئر مقرر کیا تھا۔[218]سعید الشوانے غزہ کے پہلے ہسپتال کی تعمیر، کئییی نئی مساجد اور اسکولوں، عظیم مسجد کی بحالی اور شہر میں جدید ہل متعارف کرانے کی نگرانی کی۔[219]1922ءمیں، برطانوی نوآبادیاتی سیکرٹریونسٹن چرچلنے درخواست کی کہ غزہتعہدی فلسطینکے تحت اپناآئینتیار کرے۔ تاہم فلسطینیوں نے اسے مسترد کر دیا تھا۔[220]24 جولائی1994ءکو پی این اے نے غزہ کوفلسطینی علاقہ جاتمیں پہلی سٹی کونسل کا اعلان کیا۔[221]2005، کے فلسطینی بلدیاتی انتخابات نہ غزہ میں ہوئے اور نہ ہیخان یونسیارفحمیں ہوئے۔
+اس کی بجائے،فتح تحریککے عہدیداروں نے انتخابات کے انعقاد کے لیے چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کا انتخاب کیا، یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ کم شہری علاقوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
+تاہم حریف جماعتحماسنے پہلے راؤنڈ کے لیے منتخب ہونے والی دس میونسپلٹیوں میں سے سات میں اکثریت حاصل کی اور ووٹر ٹرن آؤٹ تقریباً 80% رہا۔[222]2007ء میں دونوں جماعتوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں جس میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، بالآخرحماسنے شہر پر قبضہ کر لیا۔[223]عام طور پر فلسطینی بلدیات جن کی آبادی 20,000 سے زیادہ ہے اور جو انتظامی مراکز کے طور پر کام کرتی ہیں ان میں میئر سمیت پندرہ اراکین پر مشتمل میونسپل کونسلیں ہوتی ہیں۔ تاہم غزہ کی موجودہ میونسپل کونسل چودہ ارکان پر مشتمل ہے، جن میں حماس کے میئر نزار حجازی بھی شامل ہیں۔[224]پی سی بی ایس کے مطابق، 1997ء میں، غزہ کی 10 سال سے زیادہ عمر کی تقریباً 90 فیصد آبادی خواندہ تھی۔
+شہر کی آبادی میں سے، 140,848 اسکولوں میں (39.8% ابتدائی اسکول میں، 33.8% سیکنڈری اسکول میں اور 26.4% ہائی اسکول میں)۔ تقریباً 11,134 افراد نے بیچلر ڈپلومے یا اس سے زیادہ ڈپلومے حاصل کیے۔[225]2006ء میں غزہ میں 210 اسکول تھے۔ 151فلسطینی قومی عملداریکی وزارت تعلیم کے زیر انتظام، 46 کواقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسیچلا رہی تھی اور 13 نجی اسکول تھے۔ کل 154,251 طلبہ نے داخلہ لیا اور 5,877 اساتذہ کو ملازمت دی گئی۔[226]اس وقت زبوں حال معیشت نے غزہ کی پٹی میں تعلیم کو شدید متاثر کیا ہے۔
+ستمبر 2007ء میں، غزہ کی پٹی میںاونرواکے ایک سروے نے انکشاف کیا کہ اسکولوں کے گریڈ چار سے نو میں تقریباً ریاضی میں 90% تک ناکامی کی شرح کے ساتھ، 80% ناکامی کی شرح تھی۔
+جنوری 2008ء میںاقوام متحدہکےیونیسفنے اطلاع دی کہ غزہ کے اسکول ان کلاسز کو منسوخ کر رہے ہیں جن میں توانائی کی کھپت زیادہ تھی، جیسے کہانفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنس لیبز اور غیر نصابی سرگرمیاں۔[19]غزہ میں بہت سی یونیورسٹیاں ہیں۔ شہر کی چار اہم یونیورسٹیاںجامعہ الازہر غزہ،جامعہ القدس مفتوحہ،جامعہ الاقصیاورجامعہ اسلامیہ غزہہیں۔
+دس سہولیات پر مشتملجامعہ اسلامیہ غزہکی بنیاد تاجروں کے ایک گروپ نے1978ءمیں رکھی تھی اور اسے غزہ کی پہلی یونیورسٹی بنا دیا تھا۔
+اس میں 20,639 طلبہ کا اندراج تھا۔[227]جامعہ الازہر غزہعام طور پر سیکولر ہے اور اس کی بنیاد 1992ء میں رکھی گئی تھی۔جامعہ الاقصی1991ء میں قائم ہوئی تھی۔جامعہ القدس مفتوحہنے اپنا غزہ ایجوکیشنل ریجن کیمپس 1992ء میں شہر کے وسط میں ایک کرائے کی عمارت میں اصل میں 730 طلبہ کے ساتھ قائم کیا۔
+طلبہ کی تعداد میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے، اس نےنصر، غزہمیں پہلی یونیورسٹی کی ملکیتی عمارت تعمیر کی۔ 2006-07ء میں، اس میں 3,778 طلبہ کا اندراج تھا۔[228]غزہ کاعوامی کتب خانہشارع وحدہکے قریب واقع ہے اور اس میںعربی،انگریزیاورفرانسیسیزبانوں میں تقریباً 10,000 کتابوں کا ذخیرہ ہے۔ تقریباً 1,410 مربع میٹر (15,200 مربع فٹ) کا کل رقبہ، عمارت دو منزلوں اور ایک تہ خانے پر مشتمل ہے۔
+کتب خانے کو1996ءمیں غزہ کے میئر عون شاوا، میونسپلٹی آفڈنکرکاورعالمی بنککے تعاون کے بعد1999ءمیں کھولا گیا تھا۔
+کتب خانے کے بنیادی مقاصد معلومات کے ذرائع فراہم کرنا ہیں جو استفادہ کنندگان کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، دستیاب معلومات کے ذرائع تک رسائی کے لیے ضروری سہولیات فراہم کرنا اور مختلف ثقافتی پروگراموں جیسے ثقافتی پروگراموں، سیمینارز، لیکچرز، فلم پریزنٹیشنز، ویڈیوز، آرٹ اور کتابوں کی نمائشیں کا اہتمام کرنا ہے۔[229]غزہ کے اہم مقامات میں قدیم شہر میںمسجد عمری الکبیرشامل ہے۔ اصل میں ایک کافر مندر تھا، اسےبازنطینیوںکے ذریعہ ایکیونانیآرتھوڈوکسگرجا گھر،[230]پھرآٹھویں صدیمیں عربوں کے ذریعہ ایکمسجدکے طور پر مقدس بنایا گیا تھا۔صلیبیوںنے اسے ایکگرجا گھرمیں تبدیل کر دیا، لیکنمسلمانوںکی طرف سے غزہ کی فتح کے فوراً بعد اسے ایکمسجدکے طور پر دوبارہ قائم کر دیا گیا۔[147]یہغزہ پٹیمیں سب سے قدیم اور سب سے بڑیمسجدہے۔[231]قدیم شہر کی دیگر مساجد میںمملوکدور کیسید ہاشم مسجدبھی شامل ہے۔ یہغزہکی سب سے بڑی اور پرانی مساجد میں سے ایک ہے، جو قدیم شہر کےدرج محلہمیں الوہدہ اسٹریٹ کے قریب واقع ہے۔ہاشم بن عبد مناف،محمد بن عبد اللہکے دادا جو تجارتی سفر کے دورانغزہمیں انتقال کر گئے تھے، ان کیقبرمسلم روایات کے مطابق مسجد کے گنبد کے نیچے واقع ہے۔[232]قریب ہیمسجد کاتب الولایہبھی ہے جو 1334ٰء کی ہے۔مسجد کاتب الولایہقدیم شہر کےزیتون محلہمیں غزہ شہر میںشارع عمر مختارکے ساتھ واقع ایک چھوٹی تاریخیمسجدتھی۔[233][234]شجاعیہمیںمسجد ابن عثمانہے، جسےنابلسکے رہنے والے احمد بن عثمان نے 1402ء میں تعمیر کیا تھا۔جمعہکی مسجد کے طور پر خوبصورتی اور حیثیت کے لحاظ سے اسے غزہ کی عظیم مسجد کے بعد دوسرے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔[235][236]مسجد محکمہایکجامع مسجداورمدرسہتھا، جو1455ءمیں تعمیر کیا گیا تھا، جو2014ءکی غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو گیا تھا۔[237]یہمسجدغزہ شہر،فلسطینکے ضلعشجاعیہکے مرکزی مغربی دروازے کے قریب بغداد سٹریٹ کے ساتھ واقع تھی۔[238]مسجد ابن مروانغزہمیںمملوکدور کی مسجدتفاحمحلے میں ایک قبرستان کے درمیان ہے،[239]جو شہر کے باقی حصوں سے نسبتاً الگ تھلگ ہے۔[240]یہ 1324ء میں تعمیر کی گئی تھی اور اس میں علی ابن مروان کا مقبرہ بھی ہے۔[148]نامعلوم فوجی کا چوکرمالمیں واقع ایک یادگار ہے جو1948ءکی جنگ میں ہلاک ہونے والے ایک نامعلوم فلسطینی جنگجو کے لیے وقف ہے۔1967ءمیں یادگار کواسرائیلیافواہج نے مسمار کر دیا تھا اور ریت کا ایک ٹکڑا بنا دیا تھا،[241]جب تک کہناروےکی مالی امداد سے وہاں ایک عوامی باغ تعمیر نہیں کیا گیا تھا۔قصر الباشااصل میںمملوکدور کا ایک ولا جسےنپولیننے غزہ میں اپنے مختصر قیام کے دوران است��مال کیا تھا، پرانے شہر میں واقع ہے اور آج کل لڑکیوں کا اسکول ہے۔کامن ویلتھ غزہ جنگی قبرستان، جسے اکثر برطانوی جنگی قبرستان کہا جاتا ہے،پہلی جنگ عظیممیں ہلاک ہوئے اتحادی فوجیوں کی قبروں پر مشتمل ہے۔ یہ شہر کے مرکز سے 1.5 کلومیٹر (1 میل) شمال مشرق میں،تفاحضلع میں،شاہراہ صلاح الدینکے قریب واقع ہے۔[147][242]حمام السمراقدیم شہر کےزیتون محلہمیں واقع غزہ میں واحد فعال حمام (روایتی عوامی غسل خانہ) تھا۔ یہ گلی کی سطح سے 3 میٹر (9.8 فٹ) نیچے واقع تھا۔ یہ غسل خانہ دسمبر 2023ء میں اسرائیلی افواہج کے فضائی حملے میں تباہ ہو گیا تھا۔[135]محکمہ فلسطین برائے شماریات کی 1997ء کیمردم شماریکے مطابق غزہ کے 98.1 فیصد باشندےعوامی پانی کی فراہمیسے منسلک تھے جبکہ بقیہ نجی نظام استعمال کرتے تھے۔[243]تقریباً 87.6% پبلک سیوریج سسٹم سے جڑے ہوئے تھے اور 11.8% نے سیس پٹ کا استعمال کیا۔[244]غزہ کی ناکہ بندی نے شہر کی پانی کی سپلائی کو شدید طور پر روک دیا۔ پینے کے پانی کے لیے چھ اہم کنویں کام نہیں کر رہے تھے اور تقریباً 50% آبادی کے پاس مستقل بنیادوں پر پانی نہیں تھا۔
+میونسپلٹی نے دعویٰ کیا کہ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسے ""نمکین کنوؤں"" سے پانی پمپ کرنے پر مجبور کیا گیا۔
+روزانہ تقریباً 20 ملین لیٹر کچا سیوریج اور 40 ملین لیٹر جزوی طور پر ٹریٹ کیا ہوا پانیبحیرہ روممیں بہتا ہے اور غیر علاج شدہ سیوریج سے کیڑے مکوڑے اور چوہوں کی افزائش ہوتی ہے۔[245]ایک ""پانی سے محروم"" ملک کے طور پر، غزہ کا بہت زیادہ انحصار وادی غزہ کے پانی پر ہے۔
+غزہ کے آبی ذخائر کو غزہ کے اہم وسائل کے طور پر معیاری پانی کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم وادی غزا سے زیادہ تر پانییروشلمپہنچایا جاتا ہے۔[246]2002ء میں غزہ نے اپنا پاور پلانٹ چلانا شروع کیا جسے اینرون نے بنایا تھا۔[247]تاہم پاور پلانٹ کو 2006ء میںاسرائیلی ڈیفنس فورسزنے بمباری کرکے تباہ کر دیا تھا۔
+پاور پلانٹ کی تباہی سے قبلاسرائیلنے اسرائیل الیکٹرک کارپوریشن کے ذریعے غزہ کو اضافی بجلی فراہم کی تھی۔
+اس پلانٹ کو جزوی طور پر دسمبر 2007ء تک دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا،[248]تاہم اسرائیلی بجلی غزہ کو فروخت کرنا جاری ہے۔[249]سالڈ ویسٹ مینجمنٹ آج غزہ کے لوگوں کو درپیش کلیدی مجبوری مسائل میں سے ایک ہے۔
+یہ چیلنجز کئی عوامل سے منسوب ہیں۔ ماحولیاتی نظام میں سرمایہ کاری کی کمی، ماحولیاتی منصوبوں پر کم توجہ دی گئی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عدم موجودگی اور بحران کے انتظام کی طرف رجحان شامل ہیں۔ اس مسئلے کا ایک اہم پہلو اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ملبہ اور ملبہ کی بڑی مقدار ہے۔[250][251]مثال کے طور پر، آپریشن پروٹیکٹو ایج کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا پیمانہ بے مثال ہے۔
+غزہ پٹی کے تمام محافظات نے وسیع پیمانے پر فضائی بمباری، بحری گولہ باری اور توپ خانے سے فائرنگ کا مشاہدہ کیا، جس کے نتیجے میں کافی مقدار میں ملبہ بنا ہے۔
+حالیہ اعداد و شمار کے مطابق 2 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ پیدا ہوا۔ دو 13 منزلہ رہائشی عمارتوں سمیت تقریباً 10,000 مکانات زمین پر برابر کر دیے گئے۔
+غزہ میں بہت زیادہ ملبہ بکھرا پڑا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کوششوں اور اعلیٰ بجٹ کی ضرورت ہے۔
+زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اور 2008ء کی جنگ کے بعد یو این ای پی کے مطالعے کی بنیاد پر، ملبے کے پی اے ایچ ایس اور ممکنہ طور پر پولی کلورینیٹڈ بائفنائل، ڈائی آکسینز اور فران مرکبات سے آلودہ ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے۔[252]جنوری 2024ء میں اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے اہم آبی ذخائر البلاد اور رمال کو تباہ کر دیا۔[253]الشفا ہسپتالکی بنیاد 1940ء کی دہائی میں برطانوی مینڈیٹ حکومت نے ضلعرمالمیں رکھی تھی۔ فوجی بیرکوں میں واقع، یہ اصل میںبخارکی بیماریوں کے لیے قرنطینہ اور علاج فراہم کرتا تھا۔ جبمصرنے غزہ کا انتظام کیا تو اس اصل محکمہ کو منتقل کر دیا گیا اورالشفا ہسپتالشہر کا مرکزی ہسپتال بن گیا۔[254]جب1956ءکےسوئز بحرانمیںاسرائیلنےغزہ پٹیپر قبضہ کرنے کے بعد اس سے دستبرداری اختیار کی تومصری صدرجمال عبد الناصرنےالشفا ہسپتالکی توسیع اور بہتری کی۔ انھوں نے اسی نام سے ضلعنصرمیں دوسرا ہسپتال قائم کرنے کا بھی حکم دیا۔ 1957ء میں قرنطینہ اور بخار سے متعلق امراض کے ہسپتال کو دوبارہ بنایا گیا اور اسےناصر ہسپتالکا نام دیا گیا۔[149]آجالشفا ہسپتالغزہ کا سب سے بڑا میڈیکل کمپلیکس ہے۔[255]1950ء کی دہائی کے آخر میں، ایک نئی صحت انتظامیہ، بندر غزہ (""غزہ کا علاقہ"") قائم کیا گیا اور اس کی سربراہی حیدر عبدالشفیع نے کی۔ بندر غزہ نے سرکاری کلینک قائم کرنے کے لیے شہر بھر میں کئییی کمرے کرائے پر لیے جو ضروری علاج معالجہ فراہم کرتے تھے۔[149]اہلی عرب ہسپتال، جسے چرچ مشنری سوسائٹی (سی ایم ایس) نے 1907ء میں قائم کیا تھا،پہلی جنگ عظیممیں تباہ ہو گیا تھا۔[256]اسے جنگ کے بعد سی ایم ایس نے دوبارہ تعمیر کیا اور 1955ء میں جنوبی بپٹسٹ ہسپتال بن گیا۔[257][258]1982ء میںیروشلمکے ایپسکوپل ڈائیسیس نے قیادت سنبھالی اور اصل نام بحال کر دیا گیا۔[256]القدس ہسپتال،تل الہواکے محلے میں واقع ہے اور فلسطینہلال احمرسوسائٹی کے زیر انتظام ہے، غزہ کا دوسرا بڑا ہسپتال ہے۔[259]2007ء میں ہسپتالوں کو روزانہ 8-12 گھنٹے تک بجلی کی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا اور پاور جنریٹرز کے لیے درکار ڈیزل کی سپلائی کم تھی۔عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، طبی دیکھ بھال کے لیے غزہ سے باہر جانے کے لیے دیے گئے مریضوں کا تناسب جنوری 2007ء میں 89.3 فیصد سے کم ہو کر دسمبر 2007ء میں 64.3 فیصد رہ گیا۔[19]2010ء میں غزہ کے الدرہ ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نےیروشلمکے حداسہ میڈیکل سینٹر کے سسٹک فائبروسس کلینک میں تربیت کا ایک سال گزارا۔ ان کی غزہ واپسی پر، الدرہ میں ایک سسٹک فائبروسس سینٹر قائم کیا گیا، حالانکہ سب سے زیادہ سنگین کیسوں کو حداسہ کے حوالے کیا جاتا ہے۔[260]الرنتیسی ہسپتال بچوں کی دیکھ بھال فراہم کرتا ہے۔2007ئ میںاسرائیلکی قیادت میں اورمصرکی حمایت میںحماسکے قبضے کے بعدغزہ پٹیکے اندر اور باہر سامان اور لوگوں کی نقل و حرکت پر ناکہ بندی کر دی گئی ہے۔
+ناکہ بندی کا موجودہ بیان کردہ مقصد غزہ میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ کو روکنا ہے، حالانکہ پہلے بیان کیے گئے محرکات میں حماس پر معاشی دباؤ ڈالنا شامل ہے۔[261]انسانی حقوق کے گروپوں نے ناکہ بندی کو غیر قانونی اور اجتماعی سزا کی ایک شکل قرار دیا ہے کیونکہ اس سے ضروری سامان کی آمدورفت محدود ہوتی ہے، معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے اور غزہ کے باشندوں کی نقل و حرکت کی آزادی محدود ہوتی ہے۔[262][263]ناکہ بندی اور اس کے اثرات نے اس علاقے کو ""کھلی جیل"" کے طور پر بیان کیا ہے۔[264][265]اسرائیل نے 2005-2006ء میں شدت کی مختلف سطحوں پر غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کی، اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ بندشوں کی تاریخ 1991ء تک ہے۔[266][267][268][269][270]اسرائیل نے کہا کہ یہ ناکہ بندی خود کو فلسطینی سیاسی تشدد، راکٹ حملوں سے بچانے ��ور غزہ میں دوہرے استعمال کے سامان کو داخل ہونے سے روکنے کے لیے ضروری تھی۔[271]لیکن فلسطینی عوام نے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ مصری سرزمین کی سرحدوں پر سرنگیں بنانے میں پہل کی اور ان سرنگوں سے خوراک، تعمیراتی سامان، ہتھیار، بجلی کے آلات اور کاروں سمیت تمام ضروریات زندگی کے داخلے میں مدد ملی۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ پر جنگ شروع کرنے کے ایک سال بعد، انھوں نے کئی معاہدے اور جنگ بندی کی جس نے غزہ کی پٹی کی صورت حال کو پرسکون کرنے، رفح کراسنگ کو کھولنے اور مسافروں کو شہر میں داخل ہونے اور جانے کی اجازت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔[272]فلسطینی شہری اب بھی زندگی کی بلند قیمتوں کے بحران سے دوچار ہے۔ شہریوں کو فراہم کی جانے والی امداد کے علاوہ یہ صرف چند خاندانوں کو فراہم کی جاتی ہے ہر کسی کو نہیں۔ تاہم، غزہ کی پٹی کے باشندے مغربی کنارے کے مقابلے میں زیادہ آرام سے رہتے ہیں، سوائے ایندھن کی کمی کے بہانے بجلی کی مسلسل بندش کے۔غزہ قتل عام یا غزہ ہولوکاسٹ ایک اسرائیلی آپریشن ہے جو غزہ کی پٹی میں فروری 2008ئ میں پانچ دنوں کے دورانحماسکے ارکان کو اسرائیلی علاقے میں راکٹ داغنے کے بہانے سے ختم کیا گیا تھا۔ یہ نام اسرائیلی وزیر دفاعایہود باراککے بیان کے بعد سامنے آیا ہے کہ اسرائیلی افواج غزہ میں کیا کر رہی ہیں اسے ہولوکاسٹ یا نسل کشی یا غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی ہولوکاسٹ کے طور پر حماس تحریک کے ارکان کے ہاتھوں دو اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد عمل میں آیا۔ اسرائیلی افواج کے خلاف ان کی مزاحمت۔ عرب اور مسلم مصنفین، مفکرین اور سیاسی اور مذہبی شخصیات کی ایک بڑی تعداد نے اس نام کو اپنایا، کیونکہ وہ اسے آپریشن کے لیے ایک مناسب نام کے طور پر دیکھتے تھے، جس میں 26 بچوں سمیت 116 افراد مارے گئے تھے، ان کے علاوہ دیگر عام شہری بھی تھے۔ ہلاک یا زخمی. اسی دن اس نے غزہ میں فوجی آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسرائیلی ذرائع نے اعلان کیا کہ یہ پہلا مرحلہ ہے اور مستقبل قریب میں دیگر کارروائیاں بھی ہو سکتی ہیں۔[273]اسرائیل-حماس جنگکے دوران، اسرائیلی فوج نےغزہ پٹیکے زیادہ تر باشندوں کو اپنے گھر خالی کرنے کا حکم دیا، جس سے علاقے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور ایک وسیع تر انسانی بحران میں حصہ لیا۔[274][275][276]یہ 75 سالوں میں فلسطینیوں کی سب سے بڑی نقل مکانی ہے۔[277]فلسطینیوں نے انخلا کو ""دوسرینکبت"" قرار دیا ہے۔[278]پہلا انخلا کا حکم13 اکتوبر2023ءکو دیا گیا تھا، اس کے ایک ہفتے بعد جبحماسنے غزہ سے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔
+اسرائیلی حکام نے غزہ شہر سمیت وادی غزہ کے شمال میں رہنے والے 1.1 ملین غزہ کے باشندوں کو 24 گھنٹے کے اندر انخلا کے لیے کہا ہے۔[279]داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے انسانی حقوق پراقوام متحدہ کی خصوصی نمائندےپاؤلا گاویریا بیتانکر نے زبردستی انخلا کے حکم کو انسانیت کے خلاف جرم اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔[280][281][282][283][284]رشید کوسٹل روڈ غزہ کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور اسےغزہ کی پٹیکے باقی ماندہ ساحلی پٹی کے شمال اور جنوب سے جوڑتی ہے۔
+غزہ پٹی کی مرکزی شاہراہ،شاہراہ صلاح الدین(جدید ویا ماریس) غزہ شہر کے وسط سے گزرتی ہے، اسےدیر البلح،خان یونساور جنوب میںرفحاور شمال میںجبالیہاوربیت حانونسے جوڑتی ہے۔[285]اسرائیل میںشاہراہ صلاح الدینکی شمالی کراسنگایرز گزرگاہہے اورمصرجانے والیرفح سرحدی گزرگاہہے۔رفح سرحدی گزرگاہ��صراورفلسطینکیغزہ پٹیکے درمیان واحد سرحدی گزرگاہ ہے۔
+یہ مصر-فلسطین سرحد پر واقع ہے۔مصراوراسرائیلکے درمیان 2007ء کے معاہدے کے تحت، مصر گزرگاہ کو کنٹرول کرتا ہے لیکن رفح سرحدی گزرگاہ کے ذریعے درآمدات کے لیے اسرائیلی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔شارع عمر مختارغزہ شہر کی مرکزی سڑک ہے جو شمال-جنوب کی طرف چلتی ہے،شاہراہ صلاح الدینسے نکلتی ہے، جو رمال ساحلی پٹی اور پرانے شہر تک پھیلی ہوئی ہے جہاں یہسوق الذہبپر ختم ہوتی ہے۔[147]غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی سے پہلے،مغربی کنارےمیںرام اللہاورالخلیلکے لیے اجتماعی ٹیکسیوں کی باقاعدہ لائنیں موجود تھیں۔[286]پرائیویٹ کاروں کے علاوہ، غزہ سٹی کو ٹیکسیوں اور بسوں کے ذریعے خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔یاسر عرفات بین الاقوامی ہوائی اڈارفحکے قریب غزہ سے 40 کلومیٹر (25 میل) جنوب میں1998ءمیں کھولا گیا۔ یہ سہولت 24 نومبر 1998ء کو کھولی گئی اور الاقصی انتفاضہ کے دوران فروری 2001ء میں تمام مسافر پروازیں بند ہو گئیں۔
+2001ء اور 2002ء میںاسرائیلی ڈیفنس فورسزنے اس کے رن وے اور سہولیات کو نقصان پہنچایا تھا جس سے ہوائی اڈے کو ناقابل استعمال بنا دیا گیا تھا۔
+اگست2010ءمیں، ٹرمک ریمپ کو فلسطینیوں نے پتھروں اور ری سائیکل شدہ تعمیراتی سامان کی تلاش میں تباہ کر دیا تھا۔[287]اسرائیلمیںبن گوریون بین الاقوامی ہوائی اڈاشہر کے شمال مشرق میں تقریباً 75 کلومیٹر (47 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔لدشہر کے شمالی مضافات میں واقع یہاسرائیلکا مصروف ترینہوائی اڈاہے۔
+یہیروشلمکے شمال مغرب میں 45 کلومیٹر (28 میل) اورتل ابیبکے جنوب مشرق میں 20 کلومیٹر (12 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔[288]1973ءتک اسےلد ہوائی اڈاکے نام سے جانا جاتا تھا، اس کے بعد اس کا نامداوید بن گوریون(1886ء–1973ء) کے اعزاز میں رکھا گیا، جو پہلے اسرائیلی وزیر اعظم تھے۔غزہ کے مندرجہ ذیلجڑواں شہرہیں:لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+659,بلاد الشام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D9%84%D8%A7%D8%AF_%D8%A7%D9%84%D8%B4%D8%A7%D9%85,"بلاد الشام(Bilad al-Sham)
+(عربی:بلاد الشام)سرزمین شاممیںخلافت راشدہ،خلافت امویہاورخلافت عباسیہکے تحت ایک صوبہ تھا۔ اسےبازنطینی سلطنتسےجنگ یرموککے فیصلہ کن معرکے کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔"
+660,فلسطین,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%86,"رومیوں نے عیسائی مذہب قبول کرنے کے بعد یورپ اور شام میں یہودیوں پر زندگی تنگ کردی تھی۔ انھیں در بدر کیا، ظلم کیے، ذلیل کرکے رکھا اور ان کا قتل کیا۔ جان بچانے اورچینسے جینے کے لیے یہودی ان علاقوں کی طرف رخ کرتے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔ رومیوں کے عیسائیت قبول کرنے کے بعد بیت المقدس سے یہودیوں کو نکالا گیا اور ان کی عبادت گاہیں تباہ کردی گئیں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کے دورِخلافتمیں بیت المقدس کی فتح کے بعد یہودیوں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت ملی۔15 ہجری (637ء) میں بیت المقدس فتح ہونے کے بعد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ نے یہودیوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دی، جبکہ اس سے پہلے عیسائیوں نے ان پر پابندی لگا رکھی تھی۔ عیسائیوں نے یہودیوں سے حد درجہ بغض کی وجہ سے اس چٹان، جس کے اوپر ""قبۃ الصخرۃ"" (Dome of Rock) بنا ہوا ہے، کو کچرے کے ڈھیر سے ڈھک دیا تھا۔ کیونکہ یہودی اس کو مقدس مانتے ہیں۔ اس چٹان کے اوپر سے کچرہ امیر المومنین عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا۔ مسلمانوں کے نزدیک اس کی اہمیت یہ ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی معراج والی رات، اس چٹان پر سے ��راق اوپر آسمانوں کو اڑا تھا۔پھر جب بھی صلیبی جنگ کے بعد عیسائی بیت المقدس پر قابض ہوئے تو مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد اور بعد میں طویل عرصہ تکسلطنت عثمانیہکے زمانے میں یہودی قلیل تعداد میں رہے، لیکن عیسائی ظلم و ستم اور ذلت و خواری والی زندگی سے بہتر حالت میں رہے۔انیسویں صدیمیں یورپ اور روس میں یہودیوں کے خلاف عیسائیوں میں شدید نفرت اور مظالم پھر سے ابھرے۔ ان حالات میں یہودیوں نے عیسائیوں کے ظلم سے تنگ آکر نقل مکانی کی۔جرمنی، مشرقی یورپ اور روس سے یہودی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہو گئے۔ ان کی بڑی تعداد امریکا، برطانیہ اور کچھ فلسطین میں آگئے۔اسی دوران میں صیہونیت (Zionism) کی تحریک نے جنم لیا۔ اس تحریک کا مقصد یہودیوں کے لیے اپنا ملک قائم کرنا تھا اور اس کے لیے انھوں نے فلسطین کو چُنا۔ یہ تحریک یورپ، امریکا اور فلسطین میں زور پکڑتی گئی اور یہودیوں نے بڑی تعداد میں فلسطین میں آباد ہونا شروع کر دیا اور یہاں زمینیں خریدنے لگنے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کا آخری زمانہ تھا۔پہلی جنگ عظیم (1914ء-1918ء) میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اور جب جرمنی ہار گیا تو برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا اور مختلف علاقے مختلف یورپی طاقتوں کے قبضے میں آگئے۔ فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایک اعلان کیا، جس کو اعلانِ بالفور (Balfour Declaration) کہا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ فلسطین میں برطانیہ آزاد یہودی ریاست قائم کرنے میں مدد کرے گا۔ برطانیہ نے ان کو وہاں آباد ہونے اور منظم کرنے میں مدد دی۔ جب فلسطین کے عرب مسلمانوں میں یہودیوں کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہونے لگے اور دونوں کے درمیان میں شدید جھڑپیں ہونے لگیں تو برطانیہ نے فلسطین سے جانے کا فیصلہ کیا اور اقوام متحدہ سے اس علاقہ کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کہا۔اقوام متحدہ نے1947ءمیں فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے : مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد تھی وہاں یہودیاسرائیلکی ریاست قائم کریں اور مشرقی علاقہ میں فلسطینی عرب مسلمانوں کی ریاست قائم ہوجائے۔ جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے۔ یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کر لیا جبکہ فلسطینی مسلمانوں اورعرب ممالکنے اپنے درمیان میں ایک یہودی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کر دیا۔یہودیوں نے 14 مئی1948ءکو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان میں جنگیں چھڑ گئیں۔ یہ جنگیں 1967ء تک چلیں۔ جنگ کی شروعات میں اسرائیل نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور فلسطین کے کچھ اور علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔ بقیہ فلسطین کے مختلف علاقوں پر مصر، شام، لبنان اور اردن کا قبضہ ہو گیا۔ بیت المقدس کا مشرقی علاقہ، جس میں حرم شریف اور مسجد اقصیٰ سمیت مقدس مقامات ہیں، اردن کے قبضے میں تھا۔ یہ صورت حال 1967ء تک قائم رہی۔ 1967ء کی عرب-اسرائیل جنگ کے اختتام پر اسرائیل کا پورے فلسطین پر قبضہ ہو گیا۔ مقدس مقامات تاریخ میں پہلی مرتبہ یہودیوں کے قبضہ میں آگئے۔تاریخ جس زمانہ میں لوگ ایک جگہ رہنے کی بجائے تلاش معاش میں چل پھر کر زندگی بسرکیا کرتے تھے۔ عربستان سے قبیلہسامکی ایک شاخ جوکنعانییافونیقیکہلاتی تھی، 2500قبل مسیحمیں یہاں آ کر آباد ہو گئی۔ پھر آج سے 4000سال پہلے یعنی لگ بھگ 2000 ق م میں حضرتابراہیم��لیہ السلام عراق کے شہرار(Ur) سے جو دریائےفراتکے کنارے آباد تھا ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔ حضرتابراہیم علیہ السلامنے اپنے ایک بیٹےاسحاقعلیہ السلام کو بیت المقدس میں، جبکہ دوسرے بیٹےاسمعٰیلعلیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام، کے بیٹے حضرتیعقوب علیہ السلامتھے جن کا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کی اولادبنی اسرائیلکہلائی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرتعیسیٰ علیہ السلاماور بہت سے دیگر پیغمبر اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اسی مناسبت سے یہ خطہ زمین پیغمبروں کی سرزمین کہلایا۔ان علاقوں میں عبرانی قومیت (Hebrews) کے لوگوں کی آمد کا نشان ولادت مسیح سے لگ بھگ 1100 سال قبل میں ملتا ہے۔ حضرت سیموئیل جو اللہ کے نبی تھے، پہلے اسرائیلی بادشاہ تھے۔ انھوں نے کافی عرصہ حکومت کی اور جب وہ بوڑھے ہو گئے تو انھوں نے اللہ کے حکم سےطالوتکو بادشاہ مقرر کیا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کے پارہ دوم میںسورہ بقرہکی آیات 247 تا 252 میں ملتا ہے۔حضرت طالوت علیہ السلام نے 1004 قبل مسیح سے 1020 قبل مسیح تک حکمرانی کی۔ اس دوران میں انھوں نے جنگ کر کےجالوت(Goliath) کو مغلوب کیا اور اس سےتابوت سکینہواپس لیا جس میں حضرتموسیٰ علیہ السلاماور حضرتہارون علیہ السلامکے تبرکات تھے۔حضرت طالوت علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے۔ انھوں نے پہلےالخلیل(Hebron) اور پھربیت المقدسمیں اپنادار الحکومتقائم کیا۔ بیت المقدس دنیا کا قدیم ترین شہر ہے۔ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں مقدس اور محترم ہے۔ اس شہر کا موجودہ نام ”یروشلم“ حضرت داؤد علیہ السلام نے رکھا تھا۔حضرت داؤدعلیہ السلام نے 1004 قبل مسیح سے 965 ق م تک 33 سال حکمرانی کی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے حضرتسلیمان علیہ السلامنے 965 ق م میں حکومت سنبھالی جو 926 قبل مسیح تک 39 سال قائم رہی۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اسرائیل کی متحدہ ریاست دو حصوںسامریہاوریہودیہمیں تقسیم ہو گئی۔ دونوں ریاستیں ایک عرصے تک باہم دست و گریبان رہیں۔598 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہبخت نصرنے حملہ کر کے یروشلم سمیت تمام علاقوں کو فتح کر لیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر بادشاہ اور ہزاروں شہریوں کو گرفتار کر کے بابل میں قید کر دیا۔ 539 قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل کو فتح کیا اور قیدیوں کو رہا کر کے لوٹا ہوا مال واپس یروشلم بھیج دیا۔332 قبل مسیح میںیروشلمپرسکندراعظمنے قبضہ کر لیا۔ 168 قبل مسیح میں یہاں ایک یہودی بادشاہت کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن اگلی صدی میں روما کی سلطنت نے اسے زیر نگین کر لیا۔ 135 قبل مسیح اور 70 قبل مسیح میں یہودی بغاوتوں کو کچل دیا گیا۔ اس زمانے میں اس خطے کا نام فلسطین پڑ گیا۔20 اگست636ءکو عرب فاتحین نے فلسطین کو فتح کر لیا۔ یہ قبضہ پرامن طریقہ سے عمل میں آیا۔ 463 سال تک یہاںعربی زباناور اسلام کا دور دورہ رہا۔ تاہم یہودی ایک اقلیت کی حیثیت سے موجود رہے۔ گیارہویں صدی کے بعد یہ علاقہ غیر عربسلجوق،مملوکاورعثمانیسلطنتوں کا حصہ رہا۔ 1189ءمیں سلطانصلاح الدین ایوبینے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد1917ءمیںبرطانیہنے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا ��وراعلان بالفورکے ذریعہ یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی 17 ویں صدی کے اواخر میں شروع ہو گئی۔1930ءتکنازی جرمنیکے یہودیوں پر مظالم کی وجہ سے اس میں بہت اضافہ ہو گیا۔ 1920ء، 1921 ء، 1929ءاور 1936 ءمیں عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور اِس علاقے میں آمد کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے لیکن یہ سلسلہ جاری رہا۔1947ءمیںاقوام متحدہکی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ءمیں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948ءکو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہ ہوا۔ عربوں نے تقسیم کو نامنظور کر دیا اور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کر دیا، تاہم وہ اسے ختم کرنے میں ناکام رہے۔ بلکہ اس حملے کی وجہ سے یہودی ریاست کے رقبے میں اور اضافہ ہو گیا۔1949ءمیںاسرائیلنے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کیے اس کے بعد اردن نے غرب اردن کے علاقے پر قبضہ کر لیا جب کہ مصر نےغزہ کی پٹیاپنی تحویل میں لے لی۔ تاہم ان دونوں عرب ممالک نے فلسطینیوں کواٹانومی سے محروم رکھا۔29 اکتوبر 1958ءکواسرائیلنے صحرائے سینا پر حملہ کر کے اسےمصرسے چھین لیا۔ اس حملے میں برطانیہ اورفرانسکی حکومتوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ 6 نومبرکو جنگ بندی عمل میں آئی۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان میں ایک عارضی صلح کا معاہدہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوا جو 19مئی 1967ءتک قائم رہا جب مصر کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے فوجی دستے واپس بلالیے گئے۔ مصری افواج نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور خلیج عقبہ میں اسرائیلی جہازوں کی آمد و رفت پر پابندی لگا دی۔5جون1967ءکو چھ روزہعرب اسرائیل جنگشروع ہو گئی۔ اسرائیلیوں نے غزہ کی پٹی کے علاوہ صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے مشرقی یروشلم کا علاقہ،شامکی گولان کی پہاڑیاں اور غرب اردن کا علاقہ بھی اپنے قبضہ میں کر لیا۔ 10 جون کو اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرا دی اور معاہدے پر دستخط ہو گئے۔6 اکتوبر1973ءکو یہودیوں کے مقدس دن ”یوم کپور“ کے موقع پر مصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شامیوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور نہر سویزعبور کر کےمصرپر حملہ آور ہو گیا۔ 24 اکتوبر 1973ءکو جنگ بندی عمل میں آئی اوراقوام متحدہکی امن فوج نے چارج سنبھال لیا۔ 18 جنوری 1974ء کواسرائیلنہر سویز کے مغربی کنارے سے واپس چلا گیا۔3 جولائی 1976ءکو اسرائیلی دستوں نےیوگنڈامیں انٹی بی (Entebe) کے ہوائی اڈے پر یلغار کر کے 103 یرغمالیوں کو آزاد کرا لیا جنہیں عرب اور جرمن شدت پسندوں نے اغواءکر لیا تھا۔نومبر 1977ءمیں مصر کے صدرانور الساداتنے اسرائیل کا دورہ کیا اور 26 مارچ 1979ءکو مصر اور اسرائیل نے ایک امن معاہدے پر دستخط کر کے 30 سالہ جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات قائم ہو گئے۔ (تین سال بعد 1982ءمیں اسرائیل نے مصر کو صحرائے سینا کا علاقہ واپس کر دیا۔)جولائی 1980ءمیں اسرائیل نےمشرقی یروشلمسمیت پورے یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت قراردیدیا۔ 7 جون 1981ءکو اسرائیلی جیٹ جہازوں نےبغدادکے قریب عراق کا ایک ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا۔ 6 جون 1982ءکو اسرائیلی فوج نےپی ایل اوکی مرکزیت کو تباہ کرنے کے لیے لبنان پر حملہ کر دیا۔ مغربی بیروت پر اسرائیل کی تباہ کن بمباری کے بعد پی ایل او نے شہر کو خالی کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اسی سال 14 ستمبر کو لبنان کے نومنتخب صدر بشیر جمائل کو قتل کر دیا گیا۔16 ستمبر 1982ء لبنان کے مسیحی شدت پسندوں نے اسرائیل کی مدد سے دو مہاجر کیمپوں میں گھس کر سینکڑوں فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس سفاکانہ کارروائی پر اسرائیل کو دنیا بھر میں شدید مذمت کا نشانہ بننا پڑا۔1989ءمیں انتفادہ کے زیر اہتمام فلسطینی حریت پسندوں نے زبردست عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا۔ 1991ءکے آغاز میں جنگ خلیج کے دوران میں عراق نے اسرائیل کو کئی سکڈ میزائلوں کا نشانہ بنایا۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+662,150ھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/150%DA%BE,
+663,شام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%D8%A7%D9%85,
+664,غزہ شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%BA%D8%B2%DB%81,"غزّہ(تلفظ:عربی:غَزَّة) جسےغزہ شہربھی کہا جاتا ہے،غزہ پٹیکے شمال میں واقع ایکفلسطینیشہرہے جو2023ء کی اسرائیل حماس جنگسے پہلے 2017ء میں 590,481 نفوس پر مشتملدولت فلسطینکا سب سے زیادہ آبادی والا شہر اورفلسطینیوںکی سب سے بڑی بستی تھی۔ غزہ شہربحیرہ رومکے مشرقی ساحل کے جنوبی کنارے پر اوریروشلمسے 78 کلومیٹر کی مسافت پر اس کے جنوب مغربی سمت پر آباد ہے۔ انتظامی لحاظ سے یہ شہرمحافظہ غزہکا مرکز بھی ہے۔ شہر کا کل رقبہ محض 56 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی بنیاد پر یہ گنجان آبادی والے شہروں میں سر فہرست سمجھا جاتا ہے۔2023ء اسرائیل-حماس جنگسے پہلے، یہدولت فلسطینکا سب سے زیادہ آبادی والا شہر تھا، لیکن ��نگ کے دوران بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔[14]کم از کمپندرہویں صدی ق مسے آباد[15]اس شہر غزہ پر اس کی پوری تاریخ میں مختلف قوموں اور سلطنتوں کا غلبہ رہا ہے۔قدیم مصریوںنے تقریباً 350 سال تک اس پر حکومت کی، اس کے بعدفلسطی قومنے اسے اپنےفلسطیاکا حصہ بنا لیا۔رومی سلطنتکے تحت غزہ نسبتاً مامون رہا اور اس زمانہ میں اس کیبندرگاہکو فروغ نصیب ہوا۔ 635 عیسوی میں یہ خطۂفلسطینکا وہ پہلا شہر بنا جسےخلافت راشدہ کی فوجنے فتح کیا اور اس کے بعد جلد ہی اس شہر نےاسلامی قانونکے ایک مرکز کی حیثیت سے ترقی کی۔ تاہم جب1099ءمیں یہاںصلیبی ریاستقائم ہوئی تو غزہ تباہ حال تھا۔ بعد کی صدیوں میںغزہکومنگولحملوں سے لے کر شدید سیلاب اورٹڈیوںکے غول تک کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔سولہویں صدیتک آتے آتے یہ شہر ایک گاؤں میں تبدیل ہو گیا اور اس دوران میں یہ شہرسلطنت عثمانیہکا حصہ بن گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے دور حکومت کے نصف اول میں رضوان خاندان غزہ پر حاکم تھا۔ اس وقت یہ شہر تجارت کا مرکز تھا اور یہاں امن و خوش حالی عام تھی۔ غزہ کی بلدیہ1893ءمیں قائم ہوئی۔[16]پہلی جنگ عظیمکے دوران میںغزہ ذیلی ضلعبرطانوی افواج کے قبضے میں چلا گیا اورانتداب فلسطینکا حصہ بن گیا۔ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میںمصرنے نو تشکیل شدہغزہ پٹیکے علاقے کا انتظام حاصل کیا اور شہر میں کئی اصلاحات کی گئیں۔ سنہ1967ءکیچھ روزہ جنگکے بعداسرائیلغزہپر قابض ہوا اور 1993ء میں اس شہر کو نئی تشکیل شدہفلسطینی قومی عملداریمیں منتقل کر دیا گیا۔ 2006ء کے انتخابات کے بعد کے مہینوں میں فتح اورحماسکے فلسطینی سیاسی دھڑوں کے درمیان مسلح تصادم شروع ہو گیا، جس کے نتیجے میں غزہ میں اقتدار پر قبضہ کر لیا گیا۔ اس کے بعدغزہ پٹیاسرائیل کی قیادت میں مصری حمایت یافتہ ناکہ بندی کا شکار تھی۔[17]اسرائیلنےجون2010ءمیں اشیائے ضروری کی اجازت دیتے ہوئے ناکہ بندی میں نرمی کی اورمصرنے2011ءمیںرفح سرحدی گذرگاہکو پیدل چلنے والوں کے لیے دوبارہ کھول دیا۔[17][18]غزہکی بنیادی اقتصادی سرگرمیاں یہاں موجود چھوٹے درجہ کی صنعتیں اور زراعت ہیں۔ تاہم ناکہ بندی اور بار بار ہونے والے تنازعات نے معیشت کو شدید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔[19]غزہ کے فلسطینی باشندوں کی اکثریتمسلمانہے جبکہمسیحیاقلیت بھی یہاں بستی ہے۔ غزہ کی آبادی بہت کم عمر ہے، جس میں تقریباً 75% کی عمر 25 سال سے کم ہے۔ یہ شہر فی الحال 14 رکنی میونسپل کونسل کے زیر انتظام ہے جوحماسکے زیر انتظام ہے۔مارچ 2024ء کے بعدآپریشن طوفان الاقصیٰکے موقع پ اسرائیلی فوج نےغزہ پٹیکے شمالی شہر اور آس پاس کے علاقوں کے بڑے حصوں پر بمباری کی، جس سے بہت سی عمارتیں اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا۔ تقریباً تمام مکین شہر چھوڑ چکے ہیں یا جنوبی غزہ کی طرف نقل مکانی کر گئے ہیں یا شدید بمباری کی زد میں آکر لقمۂ اجل ہو چکے ہیں۔ چنانچہ آبادی کے پرانے ریکارڈ یا تخمینہ اب پرانا ہو چکا ہے۔[20]""غزہ"" کا نام سب سے پہلےپندرہویں صدی ق ممیںمصرکےتحتمس سومکے فوجی ریکارڈ سے جانا جاتا ہے۔[21]جدید آشوری سلطنتکے ذرائع میں، آخریفلسطی قومدور کی عکاسی کرتے ہوئے، اسےہزاتکے نام سے جانا جاتا تھا۔[22]سامی زبانوںمیں شہر کے نام کے معنی ""شدید، مضبوط"" ہیں۔[23]اس شہر کاعبرانینامعزہ(עַזָּה) ہے۔ لفظ کے شروع میں آیان بائبل کے عبرانی میں ایک آواز والے فارینجیل فریکٹی کی نمائندگی کرتا ہے، لیکن جدید عبرانی میں، یہ خاموش ہے۔[24][23]شاہین کے مطابق،قدیم مصریوںنے اسے ""غزات"" (""قابل قدر شہر"") کہا اور مسلمان اکثر اسےہاشم بن عبد منافکے اعزاز میں، ""غزت ہاشم"" کے نام سے پکارتے ہیں جومحمد بن عبد اللہکے پڑدادا تھے، جو اسلامی روایت کے مطابق، شہر میں دفن ہیں۔[25]عربینام کے لیے دیگر مناسب عربی نقل حرفی غزہ یا عزّہ ہیں۔ اس کے مطابق، ""غزہ"" کو انگریزی میں گازہ (""Gazza"") کہا جا سکتا ہے۔غزہ کی رہائش کی تاریخ 5,000 سال پرانی ہے، جو اسے دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک بناتی ہے۔[26]شمالی افریقااورسر زمین شامکے درمیانبحیرہ رومکے ساحلی راستے پر واقع ہے، اپنی زیادہ تر تاریخ کے لیے اس نے جنوبیفلسطینکے ایک اہم علاقے کے طور پر کام کیا اوربحیرہ احمرسے گزرنے والے مصالحے کے تجارتی راستے پر ایک اہم رکنے کا مقام تھا۔[26][27]غزہکے علاقے میں آباد کاری کا تعلققدیم مصریقلعے سے ہے جو موجودہ غزہ کے جنوب میں واقعتل السکنمیںکنعانکے علاقے میں بنایا گیا تھا۔ یہ مقامبرنجی دورکے ابتدا میں زوال کا شکار رہی کیونکہمصرکے ساتھ اس کی تجارت میں تیزی سے کمی واقع ہوئی تھی۔[28]ایک اور شہری مرکز جسےتل العجولکے نام سے جانا جاتا ہے، وادی غزہ ندی کے کنارے پر بڑھنا شروع ہوا۔برنجی دورکے درمیانی دور کے دوران، ایک بحال شدہتل السکنفلسطین کا سب سے جنوبی علاقہ بن گیا، جو ایک قلعے کے طور پر کام کر رہا تھا۔ 1650قبل مسیحمیں جب کنعانی ہائکسوس نےمصرپر قبضہ کیا تو پہلےتل السکنکے کھنڈر پر ایک دوسرا شہر تیار ہوا۔ تاہم، اسےچودہویں صدیقبل مسیحمیں،برنجی دورکے اختتام پر ترک کر دیا گیا تھا۔[28]تحتمس سوم(دور حکومت 1479-1425 ق م) کے دور میں، یہ شہر سوری-مصری کارواں کے راستے پر ایک پڑاؤ بن گیا اورچودہویں صدی ق مکےمکتوبات عمارنہمیں اس کا ذکر ""عزاتی"" کے نام سے کیا گیا ہے۔""[29]غزہ نے بعد میںکنعانمیںمصرکے انتظامیدار الحکومتکے طور پر کام کیا۔[30]غزہ 350 سال تکمصرکے کنٹرول میں رہا یہاں تک کہ اسےبارہویں صدی ق ممیںفلسطی قومنے فتح کر لیا۔[29]بارہویں صدی ق ممیں غزہفلسطیاکے ""پینٹاپولیس"" (پانچ شہر) کا حصہ بن گیا۔[29]فلسطیاکے پینٹاپولیس میں غزہ شہر،اشکلون،اشدود،عقرون،گاتھاوریافاشامل ہیں۔[31][32]عبرانی بائبلمیں ایویتیوں کا ذکر ہے جو ایک ایسے علاقے پر قابض تھے جو غزہ تک پھیلا ہوا تھا اور یہ کہ ان لوگوں کوکفتوریوںنے جزیرہکفتور(جدیدکریٹ) سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔[33]بعض علما کا قیاس ہے کہفلسطیقومکفتوریوںکی اولاد تھے۔عبرانی بائبلمیں بھیغزہکا ذکر اس جگہ کے طور پر کیا گیا ہے جہاںشمشون(سیمسن) کو قید کیا گیا تھا اور اس کی موت واقع ہوئی تھی۔[34]انبیاعاموساورصفنیاکے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے پیشن گوئی کی تھی کہغزہویران ہو جائے گا۔[35][36][37]بائبل کے بیانات کے مطابق، غزہگیارہویں صدی ق مکے اوائل میں بادشاہداؤدکے دور سےبنی اسرائیلکی حکمرانی میں گرا تھا۔[29]جب بائبل کے مطابقمملکت اسرائیلتقریباً 930قبل مسیحمیں تقسیم ہوئی، غزہ اسرائیل کی شمالی حصےمملکت اسرائیل (سامریہ)کا حصہ بن گیا۔
+جبمملکت اسرائیل730قبل مسیحکے لگ بھگتلگت پلاسر سوماورسارگون دومکے تحتجدید آشوری سلطنتکے قبضے میں آیا تو غزہآشوریوںکے زیر تسلط آ گیا۔[29]ساتویں صدی ق ممیں یہ دوبارہ مصری کنٹرول میں آ گیا، لیکنہخامنشی سلطنتکے دور (چھٹی صدی ق م-چوتھی صدی ق م) کے دوران اس نے ایک خاص آزادی حاصل کی اور ترقی کی۔[29]601/600قبل مسیحمیں بابل کے بادشاہبخت نصرکو مصری فوج نے فرعوننکوہ دومکے ماتحتغزہکے قریب مگدول میں شکست دی تھی؛[38]تاہم 568 قبل مسیح میں مصر پر حملہ کیا، اسے اپنی دوسری ناکام مہم کے دوران بخت نصر نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔[39]529قبل مسیحمیں،کمبوجیہ اولنے غزہ پر ناکام حملہ کیا اور بعد میں، تقریباً 520 قبل مسیح میں،یونانیوںنے غزہ میں تجارتی چوکی قائم کی۔ پہلے سکےایتھنزکے ماڈل پر 380قبل مسیحکے آس پاس بنائے گئے تھے۔[40]سکندر اعظمنےغزہ کا محاصرہکیا جو آخری شہر تھا جس نےمصرکے راستے میں اس کی فتح کے خلاف مزاحمت کی۔
+پانچ مہینے تک محاصرے کے بعد آخر کار 332قبل مسیحمیں اس پر قبضہ کر لیا۔[29]بتیس نامی ایکخواجہ سراکی قیادت میںعربکرائے کے فوجیوں کے ذریعے دفاع کیا گیا، غزہ نے دو ماہ تک محاصرے کا مقابلہ کیا، یہاں تک کہ طوفان نے اسے کمزور کر دیا۔۔
+محافظ، زیادہ تر مقامی عناصر، موت تک لڑتے رہے، خواتین اور بچوں کو اسیر بنا لیا گیا۔
+شہر کو پڑوسیبدوؤںنے دوبارہ آباد کیا،[41]جو سکندر کی حکمرانی کے ہمدرد تھے۔
+اس کے بعد اس نے شہر کوپولسیا ""شہر ریاست"" میں منظم کیا اوریونانیثقافت نے غزہ میں جڑ پکڑ لی جس نےعصر ہیلینستیسیکھنے اور فلسفہ کے فروغ پزیر مرکز کے طور پر شہرت حاصل کی۔[42][43]سب سے پہلے یہ بادشاہتبطلیموسی شاہی سلسلہسے تعلق رکھنے والی، یہ 200قبل مسیحکے بعدسلوقی سلطنتتک قائم رہی۔[29]سلوقی سلطنتکے زمانے میں،سلوقوس اولیا اس کے جانشینوں میں سے ایک نے غزہ کا نام بدل کرسلوقوسیارکھ دیا تاکہبطلیموسی مملکتکے خلاف ارد گرد کے علاقے کو کنٹرول کیا جا سکے۔[44]دیادوچی کی تیسری جنگ کے دوران،بطلیموس اول سوتیرنے 312قبل مسیحمیں غزہ کے قریب ایک جنگ میں مقدون کےدمیتریوس اول مقدونیکو شکست دی۔277قبل مسیحمیںبطلیموس دومکیانباطکے خلاف کامیاب مہم کے بعد غزہ کے بطلیموس قلعے نے گیرہ اورجنوبی عربکے ساتھ مصالحوں کی تجارت کا کنٹرول سنبھال لیا۔
+غزہ کو 96قبل مسیحمیںحشمونی سلطنتکے بادشاہالکساندر یانایوسکے ایک اور محاصرے کا سامنا کرنا پڑا جس نے شہر کو ""بالکل اکھاڑ پھینکا""، جس سے 500 سینیٹرز ہلاک ہو گئے جو حفاظت کے لیےاپالوکے مندر میں بھاگ گئے تھے۔پہلی صدی قبل مسیحاور اس صدی کے پہلے نصف میں، یہانباطکیبحیرہ رومبندرگاہ تھی، جن کے قافلےبترایاایلاتسے وہاںبحیرہ احمرپہنچے۔
+96قبل مسیحمیںحشمونی سلطنتکے بادشاہالکساندر یانایوسنے ایک سال تک شہر کا محاصرہ کیا، جس نے اس کے خلافبطلیموس نہم سوتیرکا ساتھ دیا۔[45]وہ باشندے جنھوں نےانباطبادشاہ اریتاس دوم سے مدد کی امید کی تھی، مارے گئے اور ان کے شہر کوالکساندر یانایوسنے تباہ کر دیا جب اریتاس ان کی مدد کو نہیں پہنچا تھا۔[29][46]یوسیفسلکھتے ہیں کہ غزہ کوانتیپاتر ادومیکی حکمرانی کے تحت دوبارہ آباد کیا گیا تھا، جس نے غزہ کے باشندوں،اشکلوناور ہمسایہشہروںکے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کیے تھے جب کہالکساندر یانایوسکے ذریعےادومکا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔[47]پومپیمیگنس کی کمان میں 63قبل مسیحمیںرومی سلطنتمیں شامل ہونے کے بعد دوبارہ تعمیر کیا گیا، غزہ پھر رومی صوبےیہوداکا حصہ بن گیا۔[29]اسے یہودی افواہہج نے 66 میں رومی حکمرانی کے خلاف بغاوت کے دوران نشانہ بنایا تھا اور اسے جزوی طور پر تباہ کر دیا گیا تھا۔[48]اس کے باوجود یہ ایک اہم شہر رہا، خاص طور پریروشلمکی تباہی کے بعد بھی۔[49]رومی دور کے دوران، غزہ ایک خوش حال شہر تھا اور اسے کئییی شہنشاہوں کی طرف سے گرانٹ اور توجہ حاصل تھی۔[29]500 رکنی سینیٹ نے غزہ پر حکومت کی اور مختلف قسم کےیونانی، رومی،فونیقی،یہودی،مصری،فارسیاوربدووںنے شہر کو آباد کیا۔ غزہ کیٹکسالنےدیوتاؤںاور شہنشاہوں کے مجسموں سے مزینسکےجاری کیے۔[43]130 عیسوی میں اپنے دورے کے دوران، شہنشاہہیدریاننے ذاتی طور پر غزہ کے نئے اسٹیڈیم میںکشتی،باکسنگاور تقریری مقابلوں کا افتتاح کیا، جواسکندریہسےدمشقتک مشہور ہوا۔
+شہر بہت سےپاگانیمندروں سے آراستہ تھا۔ بنیادی فرقہ مارناس کا ہے۔
+دیگر مندرزیوس،ہیلیوس،ایفرودیت،اپالو،ایتھینااور مقامیتوخےکے لیے وقف تھے۔[29]مسیحیت250 عیسوی میں پورےغزہمیں پھیلنا شروع ہوئی، بشمولمائیمہکی بندرگاہ میں۔[50][51][52][53]غزہ کےبشپکا پہلا ثبوتچوتھی صدیکے اوائل سے ہے، جب سینٹ سلوان نے اس حیثیت میں خدمات انجام دیں۔[54]تیسری صدیعیسوی میںرومی سلطنتکی تقسیم کے بعد، غزہمشرقی رومی سلطنتکے کنٹرول میں رہا جو بعد میںبازنطینی سلطنتبن گئی۔ یہ شہر خوش حال ہوا اور جنوبی فلسطین کا ایک اہم مرکز تھا۔[55]غزہ میں ایکمسیحیاسقفقائم کیا گیا۔396ءاور420ءکے درمیان سنتپورفیریوسکے تحت غزہ میںمسیحیتکی تبدیلی کو تیز کیا گیا۔402ءمیںتھیوڈوسیئس دومنے حکم دیا کہ شہر کے تمام آٹھپاگانیمندروں کو تباہ کر دیا جائے،[29]اور چار سال بعد ملکہایلیا یوڈوشیانے مارناس کے مندر کے کھنڈر کے اوپر ایکگرجا گھرکی تعمیر کا کام شروع کیا۔[56]اسی دور میں غزہ کےمسیحیفلسفی اینیاس نے اپنے آبائی شہر غزہ کو ""ایشیا کاایتھنز"" کہا۔[57]کھدائی کے مطابقچھٹی صدیمیںغزہمیں ایک بڑی یہودی عبادت گاہ موجود تھی۔[58]638ءمیںعمرو ابن عاصکے ماتحتخلافت راشدہکی افواج نے غزہ پر قبضہ کر لیا،جنگ اجنادینکے بعد کے سالوں میں وسطیفلسطینمیںبازنطینی سلطنتاورخلافت راشدہبر سر پیکار رہے۔[59]تقریباً تین سال بعدعمرو ابن عاصکی افواج نے اس پر قبضہ کر لیا۔
+خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مقام ہے جہاںمحمد بن عبد اللہکے پرداداہاشم بن عبد منافکو دفن کیا گیا تھا، غزہ کو تباہ نہیں کیا گیا تھا اور شہر کی سختی کے باوجود عمرو کی فوج نے اس کے باشندوں پر حملہ نہیں کیا تھا۔ تاہم طویل مزاحمت لے بعد اس کی بازنطینی گیریژن کا قتل عام کیا گیا۔[60]مسلم عربوں کی آمد سے غزہ میں اہم تبدیلیاں آئیں۔ پہلے اس کے کچھگرجا گھروںکومساجدمیں تبدیل کر دیا گیا،
+جس میں غزہ کی موجودہ عظیممسجد عمری الکبیر(شہر کی قدیم ترینمسجد) بھی شامل ہے، جسے بعد میں سلطانبیبرسنے دوبارہ تعمیر کیا، جس نے اسےتیرہویں صدیمیں 20,000 سے زیادہمخطوطہپر مشتمل ایک بہت بڑی مخطوطہ لائبریری سے نوازا۔[60]آبادی کے ایک بڑے حصے نے تیزی سےاسلامقبول کر لیا،[61][62]اورعربیسرکاری زبان بن گئی۔[62]767ء میںمحمد بن ادریس شافعیغزہ میں پیدا ہوئے اور اپنا ابتدائی بچپن وہیں گزارا۔ اس نےشافعیمذہبی مکتب فکر کی بنیاد رکھی، جواہل سنتکے چار بڑےمکاتب فکرمیں سے ایک ہے۔[63]سلامتی، جو ابتدائی مسلم حکمرانی کے دوران اچھی طرح سے برقرار تھی، غزہ کی خوش حالی کی کلید تھی۔ اگرچہ اسلام میںشرابپر پابندی عائد تھی،یہوداورمسیحیبرادریوں کوشرابکی پیداوار برقرار رکھنے کی اجازت تھی اورانگور، جو شہر کی ایک بڑی نقد فصل ہے، بنیادی طور پرمصرکو برآمد کیا جاتا تھا۔[64]چونکہ اس کی سرحدصحراسے ملتی ہے، اس لیے غزہخانہ بدوشجنگجو گروپوں سے خطرے سے دوچار تھا۔[64]796ءمیں اس علاقے کےعربقبائل کے درمیان خانہ جنگی کے دوران اسے تباہ کر دیا گیا۔[65]تاہم،دسویں صدیتک، شہر کوعباسیوںنے دوبارہ تعمیر کر لیا تھا؛خلافت عباسیہکے دور حکومت میںیروشلمکےجغرافیہ دانشمس ال��ین مقدسینے غزہ کو ""صحرا کی سرحد پر مصر جانے والی شاہراہ پر واقع ایک بڑا شہر"" کے طور پر بیان کیا۔ ""[66]978ءمیںفاطمیوںنےدمشقکے ترک حکمران الپتاکین کے ساتھ ایک معاہدہ قائم کیا، جس کے تحتدولت فاطمیہغزہ اور اس کے جنوب میںمصرسمیت زمین کو کنٹرول کریں گے، جبکہ الپتاکین شہر کے شمال میں واقع علاقے کو کنٹرول کریں گے۔[67]خلافت امویہکے دور میں غزہ ایک معمولی انتظامی مرکز کے طور پر کام کرتا تھا۔[68]672ءمیں شہر میںزلزلہآیا لیکن اس کے اثرات کی کچھ تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ خلیفہ کے مقرر کردہ گورنروں کے تحت عیسائیوں اور یہودیوں پرجزیہلگایا جاتا تھا، تاہم ان کی عبادت اور تجارت جاری رہی، جیسا کہ بشپ ولیبالڈ کی تحریروں میں مذکور ہے، جس نے723ءمیں اس شہر کا دورہ کیا۔[69]اس کے باوجود شراب اور زیتون کی برآمدات میں کمی آئی اور فلسطین اور غزہ کی مجموعی خوش حالی کم ہو گئی۔[70]سال750ءمیں فلسطین میںخلافت امویہکا خاتمہ اورخلافت عباسیہکی آمد ہوئی، غزہ اسلامی قانون کی تحریر کا مرکز بن گیا۔[40]767ءمیںمحمد بن ادریس شافعیغزہ میں پیدا ہوئے اور اپنا ابتدائی بچپن وہیں گزارا۔ شافعی نےاہل سنتکے ممتازفقہ(قانون) میں سے ایک کی بنیاد رکھی، جس کا نام ان کے نام پرشافعیتھا۔[63]796ءمیں علاقے کے عرب قبائل نے خانہ جنگی کے دوران شہر کو ویران کر دیا تھا۔[65]فارسیجغرافیہ داناصطخریکے مطابق غزہ بظاہرنویں صدیمیں بحال ہوا جس نے لکھا ہے کہ وہاں تاجر امیر ہوتے گئے ""کیونکہ یہ جگہحجازکے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی منڈی تھی۔""[71]ایک مسیحی مصنف نے867ءمیں لکھتے ہوئے اسے ""ہر چیز سے مالا مال"" قرار دیا۔[72]تاہمغزہ کی بندرگاہکبھی کبھار عرب حکمرانی کے تحت نظر انداز ہو جاتی ہے اور تجارت میں مجموعی طور پر کمی واقع ہوئی ہے کیونکہفلسطینکے حکمرانوں اوربدوڈاکوؤں کے درمیان لڑائی جھگڑے نے شہر کی طرف زمینی تجارتی راستوں میں خلل ڈالا تھا۔[73]868ءسے905ءتکطولونوںنے غزہ پر حکومت کی،[28]اور909ءکے آس پاسمصرکیدولت فاطمیہکا اثر بڑھنا شروع ہوا، جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ شہر کا زوال ہوا۔سنگترہکو اس علاقے میں متعارف کرایا گیا تھا، جو943ءمیںہندوستانسے آیا تھا۔[40]977ءمیں فاطمیوں نےسلجوق ترکوںکے ساتھ ایک معاہدہ قائم کیا، جس کے تحت فاطمیغزہاور اس کے جنوب میںمصرسمیت زمین کو کنٹرول کریں گے۔[74]985ءتک جب فاطمی دور حکومت میں،عربجغرافیہ دانشمس الدین مقدسینے غزہ کو ""صحرا کی سرحد پر مصر جانے والی شاہراہ پر واقع ایک بڑے شہر کے طور پر بیان کیا۔ یہاں ایک خوبصورت مسجد (مسجد عمری الکبیر) ہے، جو خلیفہعمر بن خطابکی یادگار بھی ہے۔""[75]عربی زبانکے شاعر سلیمان الغازی، جو بعد میں شہر کےبشپبھی بن گئے، نے بہت سی نظمیں لکھیں جو خلیفہحاکم بامراللہکے دور میں فلسطینیمسیحیوںکو درپیش مشکلات کو بیان کرتی ہیں۔[76]ایک اورشاعرابو اسحاق ابراہیم الغازی1049ءمیں اس شہر میں پیدا ہوئے۔[77]صلیبیوں نےپہلی صلیبی جنگمیں1100ءمیں غزہ فتح کیا اوربالدوین سوم، شاہ یروشلمنے1149ءمیںفرسان الہیکلکے لیے شہر میں ایک قلعہ تعمیر کیا۔[56]اس نے عظیممسجد عمری الکبیرکو بھی ایک گرجا گھر سینٹ جان کا کیتھیڈرل میں تبدیل کرایا۔[40]1154ءمیں عرب سیاحالادریسینے لکھا کہ غزہ ""آج بہت زیادہ آبادی والا اور صلیبیوں کے قبضے میں ہے۔""[78][79]ولیم صورینے تصدیق کی کہ1170ءمیں، ایک شہری آبادی کو قلعے کے باہر کے علاقے پر قبضہ کرنے اور کمیونٹی کے ارد گرد کمزور قلعہ بندی اور دروازے قائم کرنے پر آمادہ کیا گیا۔[56]اسی سالمملکت یروشلمکے بادشاہامالریک اولنے قریبیدیر البلحمیںصلاح الدین ایوبیکی قیادت میں مقیممصریایوبیافواج کے خلاف اس کی مدد کے لیے غزہ کےفرسان الہیکلکو واپس لے لیا۔1187ءمیں سلطانصلاح الدین ایوبیکی قیادت میںایوبیوںنے غزہ پر قبضہ کر لیا اور1191ءمیں شہر کی قلعہ بندیوں کو تباہ کر دیا۔رچرڈ اول شاہ انگلستاننے بظاہر1192ءمیں شہر کی بحالی کی، لیکن1193ءمیں مہینوں بعدمعاہدہ یافا 1192ءکے نتیجے میں دیواروں کو دوبارہ گرا دیا گیا۔[56]ایوبی حکمرانی1260ءمیں ختم ہوئی، جبمنگولوںنےہلاکو خانکے ماتحت غزہ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، جو اس کی جنوبی فتح بن گئی۔[62]جغرافیہ دانابو الفداءکے مطابق، غزہتیرہویں صدیکے اوائل میں ایک درمیانے درجے کا شہر تھا، جس میں باغات اور ایک سمندری ساحل تھا۔[80]ایوبیوں نے شجاعیہ محلہ تعمیر کیا جو پرانے شہر سے آگے غزہ کی پہلی توسیع ہے۔[81]ہلاکو خانکے ماتحتمنگولوںکے غزہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے بعد،1260ءمیںایوبیحکومت کا عملی طور پر خاتمہ ہوا۔
+منگولوں کے ہاتھوں غزہ کی تباہی کے بعد،مصرمیں مقیم مسلمان غلام سپاہیوں نے جنہیںبحری مملوککے نام سے جانا جاتا ہے، اس علاقے کا انتظام سنبھالنا شروع کیا۔1277ءمیں مملوکوں نے غزہ کو ایک صوبے کادار الحکومتبنایا جس کا نام مملکت غزہ (غزہ کی گورنری) تھا۔ یہ ضلع فلسطین کے ساحلی میدان کے ساتھ جنوب میںرفحسےقیصریہ بحریکے بالکل شمال تک اور مشرق میںسامرہکے پہاڑی علاقوں اورجبل الخلیلکی پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ صوبے کے دیگر بڑے شہروں میںقاقون،لداوررملہشامل تھے۔[62][82]ہلاکو خاننے منگول شہنشاہ کی موت کی وجہ سے واپس بلائے جانے کے بعد غزہ میں اپنی فوج چھوڑ دی اورمملوکجنرل الظاہربیبرسنے بعد میں منگولوں کو شہر سے باہر نکال دیا اور1260ءمیںبیت شیانکے قریب ہرود وادی میںعین جالوتکے مقام پرجنگ عین جالوتمیں انھیں دوبارہ شکست دی۔
+سلطانسیف الدین قطزکے قتل کے بعد میدان جنگ سے واپسی پر انھیںمصرکاسلطانقرار دیا گیا۔
+بیبرس1263ءاور1269ءکے درمیانصلیبی ریاستوںاور منگولوں کی باقیات کے خلاف اپنی مہمات کے دوران چھ بار غزہ سے گذرا۔[83]1294ءمیں ایک زلزلے نے غزہ کو تباہ کر دیا اور پانچ سال بعد منگولوں نے ایک بار پھر وہ سب کچھ تباہ کر دیا جو مملوکوں نے بحال کیا تھا۔[84][62]سوریجغرافیہ نگارشمس الدین انصارینے1300ءمیں غزہ کو ایک ""درختوں سے اتنا مالا مال شہر"" کے طور پر بیان کیا کہ یہ زمین پر پھیلے ہوئے بروکیڈ کے کپڑے کی طرح لگتا ہے۔[43]امیرسنجر الجولیکی گورنری کے تحت، غزہ ایک پھلتے پھولتے شہر میں تبدیل ہو گیا تھا اور مملوک دور کا زیادہ ترفن تعمیر1311ء-1320ء اور دوبارہ 1342ء کے درمیان ان کے دور حکومت سے تعلق رکھتا ہے۔[85][86]1348ءمیں بوبونیطاعونشہر میں پھیل گیا، جس سے اس کے زیادہ تر باشندے ہلاک ہو گئے اور1352ءمیں غزہ ایک تباہ کن سیلاب کا شکار ہوا، جو فلسطین کے اس بنجر حصے میں نایاب تھا۔[87]تاہم جبعربسیاحاورمصنفابن بطوطہنے1355ءمیں اس شہر کا دورہ کیا تو اس نے نوٹ کیا کہ یہ ""بڑا اور آبادی والا تھا اور اس میں بہت سی مساجد ہیں۔""[88]مملوکوں نےمساجد،اسلامیمدارس،ہسپتال،کارواں سرائےاور عوامی حمام بنا کر غزہ کے فن تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا۔[28]1516ءمیں غزہ - اس وقت، ایک غیر فعالبندرگاہ، تباہ شدہ عمارتوں اور تجارت میں کمی کے ساتھ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جس کوسلطنت عثمانیہمیں شامل کیا گیا تھا۔[87]عثمانی فوج نے چھوٹے پیمانے پر ہونے والی بغاوت کو تیزی سے اور مؤثر طریقے سے کچل دیا،[89]اور مقامی آبادی نے عام طور پرسنیمسلمانوں کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔[87]اس کے بعد شہر کوسنجق غزہکادار الحکومتبنایا گیا، جو بڑےصوبے دمشقکا حصہ تھا۔[90]رضوان خاندان، جسے گورنررضوان پاشاکے نام سے منسوب کیا گیا، غزہ پر حکومت کرنے والا پہلا خاندان تھا اور ایک صدی سے زائد عرصے تک شہر پر حکومت کرتا رہا۔[91]احمد پاشا ابن رضوانکے تحت، گورنر اور ممتاز اسلامی فقیہ خیر الدین الرملی کے درمیان شراکت داری کے نتیجے میں شہر ایک ثقافتی اور مذہبی مرکز بن گیا، جو قریبی قصبےرملہمیں مقیم تھے۔[92]1913ءمیں تھیوڈور ای ڈولنگ کی تحریر کے مطابق،1584ءمیں غزہ میں ایکسامریکمیونٹی موجود تھی۔ ان کی ایک بڑیکنیسہاور دو حمام تھے۔ ""ان میں سے ایک کا نام اب بھی ""سامریوں کا حمام"" ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہسولہویں صدیکے آغاز سے پہلے ہی سامریوں کو شہر سے نکال دیا گیا تھا۔[93]حسین پاشا کی حکومت کے دوران، آبادی اور قریبی بدو قبائل کے درمیان جھگڑے کو ڈرامائی طور پر کم کر دیا گیا، جس سے غزہ پرامن طور پر خوش حال ہو گیا۔ رضوان کے دور کو غزہ کے لیے سنہری دور کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، ایک ایسا وقت جب اس نے ""فلسطین کے مجازی دار الحکومت"" کے طور پر کام کیا۔[94][95]مسجد عمری الکبیرکو بحال کیا گیا اور چھ دیگر مساجد تعمیر کی گئیں، جبکہترکی حماماور بازار کے اسٹالز پھیل گئے۔[87]موسیٰ پاشا ابن حسنکی موت کے بعد، حسین کے جانشین،رضوانوںکی جگہ عثمانی حکام کو حکومت کرنے کے لیے مقرر کیا گیا۔ رضوان دور عثمانی حکومت کے دوران غزہ کا آخری سنہری دور تھا۔ خاندان کو عہدے سے ہٹانے کے بعد، شہر آہستہ آہستہ زوال پزیر ہوا۔[96]انیسویں صدیکے اوائل میں غزہ پر ثقافتی طور پر پڑوسیمصرکا غلبہ تھا۔ مصر کےمحمد علی پاشانے1832ءمیں غزہ فتح کیا۔[40]امریکی اسکالر ایڈورڈ رابنسن نے1838ءمیں اس شہر کا دورہ کیا، اسےیروشلمسے بڑا ایک ""گھنی آبادی والا"" شہر قرار دیا، اس کا پرانا شہر پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے، جب کہ اس کے مضافاتی علاقے قریبی میدان میں ہیں۔[97]مصراور شمالیسوریہکے درمیان کاروان کے راستے پر اس کی اسٹریٹجک پوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت، مقامی عرب قبائل اوروادی عربہاورمعانکےبدوؤںکے ساتھصابناورکپاسکی پیداوار کی وجہ سے اس شہر نے تجارت اور تجارت سے فائدہ اٹھایا۔[98]غزہ کےبازارسامان سئ اچھی طرح لدے ہوا کرتے تھے اور رابنسن نے انھیںیروشلمکے بازاروں سے ""بہت بہتر"" کے طور پر نوٹ کیا تھا۔[99]رابنسن نے نوٹ کیا کہ عملی طور پر غزہ کی قدیم تاریخ اور نوادرات کے تمام آثار مسلسل تنازعات اور قبضے کی وجہ سے غائب ہو چکے ہیں۔[100]انیسویں صدیکے وسط تک،غزہ کی بندرگاہکویافااورحیفاکی بندرگاہوں سے گرہن لگ گیا، لیکن اس نے اپنے ماہی گیری کے بیڑے کو برقرار رکھا۔[101]1839ءمیں گلٹی دارطاعوننے غزہ پر دوبارہ حملہ کیا اور یہ شہر، سیاسی اور اقتصادی استحکام سے محروم، جمود کی حالت میں چلا گیا۔1840ءمیں مصری اور عثمانی فوجیں غزہ کے باہر لڑیں۔
+عثمانیوں نے اس علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا، جس سے فلسطین پر مصری حکومت کا مؤثر طریقے سے خاتمہ ہو گیا۔ تاہم لڑائیوں نے غزہ میں مزید ہلاکتوں اور تباہی کو جنم دیا جب کہ شہر ابھی تک طاعون کے اثرات سے باہر آ رہا تھا۔[87]عثمانی دور کے اواخر میں غزہ میں ڈاکنگ کرنے والے برطانوی بحری جہازجوسے لدے ہوئے تھے، جو بنیادی طور پروہسکیکی پیداوار کے لیےاسکاٹ لینڈمیں مارکیٹنگ کے لیے تھے۔
+برطانوی قونصلر ایجنٹ کی غیر موجودگی کی وجہ سے، مالیاتی قیمت اور سامان کی مقدار کے بارے میں درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔[102]پہلی جنگ عظیمکے دوراناتحادی افواہجکی قیادت کرتے ہوئے، انگریزوں نے1917ءمیںغزہ کے تیسرا معرکےکے دوران شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا۔[87]جنگ کے بعدغزہکوتعہدی فلسطینمیں شامل کر لیا گیا۔[103]1930ءاور1940ءکی دہائیوں میں غزہ میں بڑی توسیع ہوئی۔ ساحل اور جنوبی اور مشرقی میدانی علاقوں کے ساتھ نئے محلے بنائے گئے تھے۔
+بین الاقوامی تنظیموں اور مشنری گروپوں نے اس تعمیر میں سے زیادہ تر فنڈنگ کی۔[101]1947ءکےاقوام متحدہکے تقسیم کے منصوبے میں،غزہکوفلسطینمیں ایکعرب ریاستکا حصہ بنانے کے لیے تفویض کیا گیا تھا لیکن1948ء کی عرب اسرائیلی جنگکے بعد اس پرمتحدہ عرب جمہوریہنے قبضہ کر لیا تھا۔
+1957ء میں غزہ کی بڑھتی ہوئی آبادی میں پناہ گزینوں کی آمد میں اضافہ ہوا جواسرائیلکے قبضے میں لیے گئے قریبی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے بھاگے یا بے دخل کیے گئے،مصری صدرجمال عبد الناصرنے غزہ میں متعدد اصلاحات کیں، جن میں تعلیمی مواقع اور سول سروسز کو بڑھانا، رہائش فراہم کرنا اور مقامی سکیورٹی فورسز کا قیام شامل تھا۔[104]1967ءکیچھ روزہ جنگمیںمصری فوجکی شکست کے بعداسرائیلنے غزہ پر قبضہ کر لیا تھا۔
+1970ء کی دہائی سے شہر میں فلسطینیوں اور اسرائیلی حکام کے درمیان اکثر تنازعات شروع ہوتے رہے ہیں۔ کشیدگی نے1987ءمیںانتفاضہ اولکو جنم دیا۔انتفاضہ اولدسمبر 1987ء سے شروع ہوئی اور سنہ 1991ء میں میڈرڈ کانفرنس تک جاری رہی۔ تاہم بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ بغاوت 1993ء میںاوسلو معاہدوںتک جاری رہی۔[105]اس بغاوت کے دوران غزہ تصادم کا مرکز تھا،[87]اور شہر کے معاشی حالات خراب ہوتے گئے۔[106]دوسرا انتفاضہجسےالاقصی انتفاضہبھی کہا جاتا ہے[107], اسرائیلی-فلسطینی تشدد کا ایک دور تھا، جسے فلسطینی اسرائیل کے خلاف بغاوت قرار دیتے ہیں
+قیاس کیا جاتا ہے کہ بے امنی کے عام محرکات 2000ءکیمپ ڈیوڈ معاہدہکی ناکامی پر مرکوز تھے، جس میں جولائی 2000ء میں اسرائیل-فلسطینی امن عمل پر حتمی معاہدے تک پہنچنے کی امید تھی۔[108]ستمبر1993ءمیںاسرائیلاورتنظیم آزادی فلسطین(پی ایل او) کے رہنماؤں نےاوسلو معاہدےپر دستخط کیے۔
+اس معاہدے میںغزہ کی پٹیاورمغربی کنارےکے شہراریحاکی فلسطینی انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا تھا، جو مئی 1994ء میں نافذ کیا گیا تھا۔
+اسرائیلی افواہج نے غزہ سے انخلا کرتے ہوئے ایک نئیفلسطینی قومی عملداری(پی این اے) کو شہر کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے اختیار دیا۔[44]یاسر عرفاتکی قیادت میںفلسطینی قومی عملدارینے غزہ کو اپنے پہلے صوبائی ہیڈ کوارٹر کے طور پر منتخب کیا۔
+نئی قائم ہونے والیفلسطینی قومی کونسلنے مارچ1996ءمیں غزہ میں اپنا افتتاحی اجلاس منعقد کیا۔[101]سنہ2005ءمیں اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے اپنی فوجیں ہٹا لی تھیں اور ہزاروں اسرائیلیوں کو نکال دیا تھا جو اس علاقے میں آباد تھے۔[109]اسرائیل کے انخلا کے بعد سے،حماساپنی حریف فلسطینی تنظیمفتح تحریککے ساتھ طاقت کی پرتشدد جدوجہد میں مصروف رہی ہے۔25 جنوری2006ءکوحماسنے فلسطینی قانون ساز کونسل،فلسطینی قومی عملداریکی مقننہ کے انتخابات میں حیرت انگیز فتح حاصل کی۔2007ءمیںحماسنےغزہ پٹیمیںفتحافواہج کا تختہ الٹ دیا اور حماس کے ارکان کو جواب میںمغربی کنارےمیںفلسطینی قومی کونسلکی حکومت سے برطرف کر دیا گیا۔ فی الحال حماس، جسے زیادہ تر مغربی ممالک ایک دہشت ��رد تنظیم کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، کا شہر اور پٹی پردرحقیقتکنٹرول ہے۔[110]مارچ2008ءمیں انسانی حقوق کے گروپوں کے ایک اتحاد نے الزام لگایا کہ شہر کی اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ میں انسانی صورت حال اس کے بدترین موڑ پر پہنچ گئی ہے جب سےاسرائیلنے1967ءکیچھ روزہ جنگمیں اس علاقے پر قبضہ کیا تھا،[111]اور یہ کہ اسرائیلی گنجان آباد علاقوں میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے والے فضائی حملوں میں اکثر راہگیر بھی مارے جاتے ہیں۔[109]2008ءمیںاسرائیلنےغزہ پر حملہشروع کیا۔[112]اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ حملے2005ءسےغزہ پٹیسےاسرائیلپر بار بار کیے جانے والے راکٹ اور مارٹر حملوں کے جواب میں کیے گئے ہیں، جب کہ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کی فوجی مداخلت اور غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کا جواب دے رہے ہیں۔ جنوری2009ءمیں اس تنازعے میں کم از کم 1,300 فلسطینی مارے گئے تھے۔[113][114]نومبر2012ءمیں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپوں کے درمیان ایک ہفتے کے تنازع کے بعد،21 نومبرکومصرکی ثالثی میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔[115]اقوام متحدہ اوچا کے مطابق2014ءاسرائیل-غزہ تنازع میں، 2,205 فلسطینی (کم از کم 1,483 شہریوں سمیت) اور 71 اسرائیلی (66 فوجیوں سمیت) اور اسرائیل میں ایک غیر ملکی شہری مارا گیا۔[116]نیو یارک ٹائمزکے ایک تجزیے کے مطابق، 20-29 سال کی عمر کے مرد، جن کے عسکریت پسند ہونے کا زیادہ امکان ہے، مرنے والوں کی تعداد میں سب سے زیادہ نمائندگی کرتے ہیں۔[117]2021ء اسرائیل-فلسطین بحرانکے دوران، 13 منزلہ ہنادی ٹاور، جس میںحماسکا سیاسی دفتر تھا، اسرائیلی فضائی حملے سے تباہ ہو گیا تھا۔[118]2023ءمیںاسرائیل-حماس جنگکے دوران شہر کو دوبارہ نشانہ بنایا گیا۔2 نومبرکو غزہ شہر کا محاصرہ شروع ہوا۔[119]جنوری2024ءتک اسرائیل کی جارحیت نے شمالی غزہ میں 70-80% عمارتوں کو یا تو نقصان پہنچایا ہے یا تباہ کر دیا ہے۔[120][121]وسطی غزہسطح سمندرسے 14 میٹر (46 فٹ) بلندی کے ساتھ ایک نشیبی اور گول پہاڑی پر واقع ہے۔[122]جدید شہر کا زیادہ تر حصہ پہاڑی کے نیچے میدان کے ساتھ بنایا گیا ہے، خاص طور پر شمال اور مشرق کی طرف، جو غزہ کے مضافات کو تشکیل دیتا ہے۔ ساحل سمندر اور غزہ کی بندرگاہ شہر کے مرکز سے 3 کلومیٹر (1.9 میل) مغرب میں واقع ہے اور اس کے درمیان کی جگہ پوری طرح سے نشیبی پہاڑیوں پر بنی ہوئی ہے۔[97]غزہ پٹی41 کلومیٹر (25 میل) لمبی، 6 سے 12 کلومیٹر (3.7 سے 7.5 میل) چوڑی ہے اور اس کا کل رقبہ 365 کلومیٹر (141 مربع میل) ہے۔[123]اس کیاسرائیلکے ساتھ 51 کلومیٹر (32 میل) سرحد ہے اوررفحشہر کے قریبمصرکے ساتھ 11 کلومیٹر (7 میل)سرحدہے۔[124]آج شہر کا بلدیاتی دائرہ اختیار تقریباً 45 مربع کلومیٹر (17 مربع میل) پر مشتمل ہے۔[125]غزہیروشلمکے جنوب مغرب میں 78 کلومیٹر (48 میل)،تل ابیبکے جنوب میں 71 کلومیٹر (44 میل)[126]اوررفحکے شمال میں 30 کلومیٹر (19 میل)[127]کے فاصلے پر ہے۔
+آس پاس کے علاقوں میںبیت لاہیا،بیت حانوناورجبالیاشمال میں اور گاؤںالمغراقہ،بریجکافلسطینی پناہ گزین کیمپاور جنوب میںدیر البلحکا شہر شامل ہیں۔[128]غزہ کی آبادی پینے، زرعی استعمال اور گھریلو فراہمی کے واحد ذریعہ کے طور پر زیر زمین پانی پر منحصر ہے۔
+قریب ترین ندی جنوب میں وادی غزا ہے، جو ساحل کے ساتھ ابو معدین سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ سردیوں کے دوران تھوڑا سا پانی رکھتی ہے اور گرمیوں میں عملی طور پر پانی نہیں ہوتا۔[129]اس کا زیادہ تر پانی اسرائیل کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔[130]ساحل کے ساتھ غزہ ایکویفرغزہ پٹیمیں اہمزیر ��مین آبی ذخیرہہے اور یہ زیادہ تروسط حیاتی دورکے ریت کے پتھروں پر مشتمل ہے۔غزہ پٹیکے بیشتر حصوں کی طرح غزہ بھی چوتھائی مٹی سے ڈھکا ہوا ہے۔ مٹی میں موجود مٹی کے معدنیات بہت سے نامیاتی اور غیر نامیاتی کیمیکلز کو جذب کرتے ہیں جس نے زمینی آلودگی کی حد کو جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔[129]غزہ کے جنوب مشرق میں ایک نمایاں پہاڑی جسے تل المنطار کہا جاتا ہے،سطح سمندرسے 270 فٹ (82 میٹر) بلندی پر ہے۔
+صدیوں سے اس کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ جگہ ہے جہاںشمشونفلسطی قومکے شہر کے دروازے لائے تھے۔
+اس پہاڑی پر ایک مسلممزارہے جو علی المنطار (""دیدبان علی"") کے نام سے مشہور ہے۔آس پاس کے درختوں کے ارد گرد پرانی مسلمانوں کی قبریں ہیں،[131]اور مقام کے دروازے کے لنٹل میںقرون وسطیکے دو عربی صحیفے ہیں۔[29]الفرقان محلے کو شہر کی ایک مسجد کے نام پرالفرقانکہا جاتا ہے۔[132][133]قدیم شہر غزہ کے مرکز کا اہم حصہ بناتا ہے۔ اسے تقریباً دو محلوں میں تقسیم کیا گیا ہے: شمالیدرج محلہ(جسے مسلم محلہ بھی کہا جاتا ہے) اور جنوبیزیتون محلہ(جس میں یہودی اور عیسائی محلے تھے۔) زیادہ تر ڈھانچےمملوکاور عثمانی دور کے ہیں اور کچھ پہلے کے ڈھانچے کے اوپر بنائے گئے تھے۔ قدیم شہر کا قدیم حصہ تقریباً 1.6 مربع کلومیٹر (0.62 مربع میل) ہے۔[101]قدیم شہر کے سات تاریخی دروازے تھے: باب عسقلان (عسقلانوں کا دروازہ)، باب الدارم (دیر البلاح کا دروازہ)، باب البحر (سمندر کا دروازہ)، باب مرناس (مرناس کا دروازہ) باب البلادیہ (قصبے کا دروازہ)، باب الخلیل (الخلیل کا دروازہ) اور باب المنطر (بتانے کا دروازہ)۔[134]غزہ کے قدیم شہر میں کچھ پرانی عمارتوں میں ابلاق طرز کی سجاوٹ کا استعمال کیا گیا ہے جس میں سرخ اور سفید چنائی کی باری باری پرتیں ہیں، جو مملوک دور میں رائج تھیں۔حمام السمراقدیم شہر کےزیتون محلہمیں واقعغزہمیں واحد فعال حمام (روایتی عوامی غسل خانہ) تھا۔ یہ گلی کی سطح سے 3 میٹر (9.8 فٹ) نیچے واقع تھا۔[135]یہ سلیم عبد اللہ الوزیر کی ملکیت تھی۔[136]یہ غسل خانہ دسمبر 2023ء میں اسرائیلی افواہہج کے فضائی حملے میں تباہ ہو گیا تھا۔
+اگرچہ غزہ میں قبل از اسلام دور کی افواہہہیں ہیں، حمام الثمرہ کی لابی میں ایک تختی یہ بتاتی کرتی ہے کہ حمام السمرا کو 1320ء میں شہر کےسلطنت مملوککے گورنرسنجر الجولینے بحال کیا تھا۔[136]یہ غزہ میں اصل پانچ میں سے واحد حمام ہے جو کام کر رہا ہے۔[135]1913ء میں تھیوڈور ای ڈولنگ کی تحریر کے مطابق، 1584ء میں، ایکسامریکمیونٹیغزہمیں موجود تھی اور اس کے پاس ایک بڑیعبادت گاہاور دو حمام تھے۔[137]سوق الذہبغزہکے قدیم محلے میں واقع ایک تنگ ڈھکی ہوئی گزرگاہ ہے۔ یہ تجارت اورسوناخریدنے کا مرکز اور غیر ملکی کرنسی کا مقام دونوں ہے۔[138]یہ بازارغزہکیعظیم مسجدکے جنوبی کنارے پر مرکزیشارع عمر مختارکے ساتھ واقع ہے۔،[139]۔
+مارکیٹ کو مرکزی سڑک کے اوپر ایک نوکیلی اور گہماؤ والی چھت کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے، جس کے دونوں طرف چھوٹی دکانیں لگی ہوئی ہیں جو خود ڈھکی ہوئی مرکزی سڑک کے کراس والٹس کے ذریعے چھت پر ہیں۔[140]قدیس پورفیریوس گرجا گھردولت فلسطینکے غزہ شہر میں ایکیونانی راسخ الاعتقاد کلیسیاکا گرجا گھر ہے۔
+اس کا تعلقیروشلمی راسخ الاعتقاد کلیسیاسے ہے اور یہ شہر کا سب سے قدیم فعال گرجا گھر ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا تیسرا قدیم ترین گرجا گھر ہے۔[141]غزہکے قدیم شہر کےزیتون محلہمیں واقع ہے، اس کا نام غزہ کےپانچویں صدیکےاسقفقدیسپ��رفیریوسکے نام پر رکھا گیا ہے، جن کا مقبرہ گرجا گھر کے شمال مشرقی کونے میں واقع ہے۔[26]مسجد عمری الکبیرجسے عظیم مسجد جے نام سے بھی جانا جاتا ہے،دولت فلسطینکی ایکمسجدجوغزہ پٹیمیں غزہ شہر کےدرج محلہواقع ہے۔[142]خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اصل میںفلسطیمندر تھا، اس جگہ کو بازنطینیوں نےپانچویں صدیمیں ایکگرجا گھربنانے کے لیے استعمال کیا تھا۔ساتویں صدیمیں مسلمانوں کی فتح کے بعد اسےمسجدمیں تبدیل کر دیا گیا۔دسویں صدیمیں ایک عرب جغرافیہ دانابن بطوطہنے ""خوبصورت"" کے طور پر بیان کیا، عظیم مسجد کا مینار1033ءمیں ایک زلزلے میں گر گیا تھا۔1149ءمیںصلیبیوںنے اسے ایک بڑےگرجا گھرمین تبدیل کر دیا۔1187ءمیںایوبیوںنے اسے زیادہ تر تباہ کر دیا تھا اور پھرتیرہویں صدیکے اوائل میںمملوکوںنے اسے ایکمسجدکے طور پر دوبارہ تعمیر کیا۔
+اسےمنگولوںنے1260ءمیں تباہ کر دیا تھا، پھر جلد ہی بحال کر دیا گیا۔ یہ صدی کے آخر میں آنے والے زلزلے سے تباہ ہو گیا تھا۔ عظیم مسجد کو تقریباً 300 سال بعدعثمانیوںنے دوبارہ بحال کیا۔پہلی جنگ عظیمکے دوران برطانوی بمباری کے بعد شدید نقصان پہنچا، مسجد کو1925ءمیں سپریم مسلم کونسل نے بحال کیا۔
+یہ7 دسمبر2023ءکو ایک اسرائیلی فضائی حملے سے دوبارہ تباہ ہو گیا، جس سے زیادہ تر ڈھانچہ منہدم ہو گیا اور مینار جزوی طور پر تباہ ہو گیا۔[143]قدیم شہر غزہ کے بنیادی حصے کا ایک بڑا حصہ ہے۔ یہ شمال میںدرج محلہ(جسے مسلم محلہ بھی کہا جاتا ہے) اور جنوب میںزیتونمحلہ پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر عمارتیں مملوک یا عثمانی دور کی ہیں اور کچھ پرانی عمارتوں کے اوپر بنائی گئی تھیں۔ قدیم شہر کا رقبہ تقریباً 1.6 مربع کلومیٹر (0.62 مربع میل) ہے۔ غزہ 13 محلوں پر مشتمل ہے،درج محلہاورصبرہمحلہ،رمالمحلہ پرانے شہر کے درمیان واقع ہے۔غزہ قدیم شہر سے باہر تیرہ اضلاع (حی) پر مشتمل ہے۔[144]شہر کے مرکز سے باہر غزہ کی پہلی توسیعشجاعیہکا ضلع تھا، جو ایوبی دور میں پرانے شہر کے بالکل مشرق اور جنوب مشرق میں ایک پہاڑی پر بنایا گیا تھا۔[145]شمال مشرق میں مملوک دور کا ضلعتفاحہے،[146]جو تقریباً مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہے اور اصل میں قدیم شہر کی دیواروں کے اندر واقع تھا۔[147]1930ء اور 1940ء کی دہائیوں کے دوران، ایک نیا رہائشی ضلع،رمال(جو اس وقت شمالی رمال اور جنوبی رمال کے اضلاع میں تقسیم ہے) شہر کے مرکز کے مغرب میں ریت کے ٹیلوں پر تعمیر کیا گیا تھا اور ضلعزیتون، غزہکی جنوبی اور جنوب مغربی سرحدوں کے ساتھ بنایا گیا تھا، جبکہشجاعیہکے جدیدہ (""نیا"") اور ترکمان محلے بالترتیب شمال مشرق اور جنوب مشرق میں الگ الگ اضلاع میں پھیل گئے۔[101][148]جدیدہ (جسے شجاعہ الکرد بھی کہا جاتا ہے) کا نامکردفوجی یونٹوں کے نام پر رکھا گیا تھا جو مملوک دور میں وہاں آباد ہوئے تھے، جبکہ ترکمان کا ناماوغوز ترکفوجی یونٹوں کے نام پر رکھا گیا تھا جو وہاں آباد ہوئے۔[145]رمالاور قدیم شہر کے درمیان کے علاقےصبرہاوردرجکے اضلاع بن گئے۔[146]شمال مغرب میںنصرکا ضلع ہے، جو 1950ء کی دہائی کے اوائل میں بنایا گیا تھا اور اس کا نام مصری صدرجمال عبد الناصرکے اعزاز میں رکھا گیا تھا۔[149]شیخ رضوانکا ضلع، جو 1970ء کی دہائی میں تیار ہوا، قدیم شہر کے شمال میں 3 کلومیٹر (1.9 میل) ہے اور اس کا نام شیخ رضوان کے نام پر رکھا گیا ہے — جن کا مقبرہ ضلع کے اندر واقع ہے۔[146][150]غزہ نےاسرائیلخط اخضرکی سرحد کے قریب القبہ گاؤں کے ساتھ ساتھ ساحل کے ساتھالشاطیکے فلسطینی پناہ گزین کیمپ کو بھی جذب کر لیا ہے،[128]اگرچہ مؤخر الذکر شہر کے میونسپل دائرہ اختیار کے تحت نہیں ہے۔
+1990ء کی دہائی کے آخر میں، پی این اے نےرمالکے جنوبی کنارے کے ساتھتل الہواکا زیادہ متمول محلہ بنایا۔[151]شہر کے جنوبی ساحل کے ساتھشیخ عجلینکا محلہ ہے۔[144]غزہ میں گرم نیم بنجر آب و ہوا ہےکوپن موسمی زمرہ بندی: بی ایس ایچ)،بحیرہ رومکی خصوصیات کے ساتھ، ہلکی برساتی سردیاں اور خشک گرم گرمیوں والی ہے۔[152]موسم بہارمارچیااپریلکے آس پاس آتا ہے اور گرم ترین مہینہاگستہوتا ہے، جس میں اوسطاً 31.7 °س (89.1 °ف) ہوتا ہے۔
+سب سے ٹھنڈا مہینہجنوریہے جس میں درجہ حرارت عام طور پر 18.3 °س (64.9 °ف) پر ہوتا ہے۔ بارش کم ہوتی ہے اور تقریباً صرفنومبراورمارچکے درمیان ہوتی ہے، سالانہ بارش تقریباً 395 ملی میٹر یا 15.6 انچ ہوتی ہے۔[153]1557ءمیں عثمانی ٹیکس ریکارڈ کے مطابق غزہ میں 2,477 مرد ٹیکس دہندگان تھے۔[165]1596ءکے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غزہ کی مسلم آبادی 456 گھرانوں، 115 بیچلر، 59 مذہبی افراد اور 19 معذور افراد پر مشتمل تھی۔ مسلم شخصیت کے علاوہ، عثمانی فوج میں 141 جندیان یا ""سپاہی"" تھے۔مسیحیوںمیں 294 گھرانے اور سات بیچلر تھے، جب کہ 73یہودیگھرانے اور آٹھسامریگھرانے تھے۔
+مجموعی طور پر، ایک اندازے کے مطابق 6,000 لوگ غزہ میں رہتے تھے، جو اسےیروشلماورصفدکے بعد عثمانی فلسطین کا تیسرا بڑا شہر بناتا ہے۔[155]1838ءمیں تقریباً 4,000مسلماناور 100مسیحیٹیکس دہندگان تھے، جس کا مطلب تقریباً 15,000 یا 16,000 کی آبادی تھی جو اسے اس وقتیروشلمسے بڑا بناتی تھی۔مسیحیخاندانوں کی کل تعداد 57 تھی۔[98]پہلی جنگ عظیمشروع ہونے سے پہلے غزہ کی آبادی 42,000 تک پہنچ چکی تھی۔ تاہم غزہ میں1917ءمیںاتحادی افواجاور عثمانیوں اور ان کے جرمن اتحادیوں کے درمیان شدید لڑائیوں کے نتیجے میں آبادی میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی۔[157]مندرجہ ذیلمردم شماری، جو1922ءمیں برطانوی مینڈیٹ حکام کی طرف سے کی گئی تھی، آبادی میں تیزی سے کمی کو ظاہر کرتی ہے جو 17,480 رہائشیوں (16,722 مسلمان، 701 مسیحی، 54 یہودی اور تین میٹاویلے تھی۔[158]1931ءکیمردم شماریمیں 17,046 باشندوں (16,356 مسلمان، 689 مسیحی اور ایک یہودی) اور مضافاتی علاقوں میں 4,597 (4,561 مسلمان اور 36 مسیحی) کی فہرست دی گئی ہے۔[166]1938ءکے گاؤں کے اعدادوشمار غزہ کی آبادی 20,500 کے طور پر درج کرتے ہیں اور قریبی مضافاتی علاقوں میں 5,282 ہیں۔[167]1945ءکے گاؤں کے اعدادوشمار آبادی کو 34,250 (33,160 مسلمان، 1,010 مسیحی اور 80 یہودی) بتاتے ہیں۔[160]فلسطینی سینٹرل بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی سی بی ایس) کی1997ءکیمردم شماریکے مطابق، غزہ اور ملحقہالشاطیکیمپ کی آبادی 353,115 تھی، جن میں سے 50.9% مرد اور 49.1% خواتین تھیں۔
+غزہ کی آبادی بہت زیادہ نوجوان تھی جس کی نصف سے زیادہ عمریں بچپن سے 19 سال (60.8%) کے درمیان تھیں۔
+تقریباً 28.8% کی عمریں 20 سے 44 سال کے درمیان تھیں، 7.7% 45 اور 64 کے درمیان اور 3.9% کی عمریں 64 سال سے زیادہ تھیں۔[163]1948ء کی عرب اسرائیلی جنگکے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد میں غزہ کی آبادی میں اضافہ ہوا۔1967ءتک آبادی اس کے1948ءکے سائز سے تقریباً چھ گنا بڑھ چکی تھی۔[101]1997ءمیں غزہ کے 51.8 فیصد باشندے پناہ گزین یا ان کی اولاد تھے۔[168]اس وقت سے اب تک شہر کی آبادی میں2017ءمیں 590,481 تک اضافہ ہوتا رہا ہے، جو اسےفلسطینی علاقوںکا سب سے بڑا شہر بناتا ہے۔[164][169]غزہ شہر دنیا میں سب سے زیادہ مجموعی ترقی کی شرحوں میں سے ایک ہے۔ اس کی آبادی کی کثافت 9,982.69/کلومیٹر2 (26,424.76/مربع میل) نیویارک شہر (10,725.4/کلومیٹر2 – 27,778.7/مربع میل) کے مقابلے میں ہے، پیرس کی کثافت کا نصف (21,000/کلومیٹر2 – 55,000/مربع میل)۔[101][170]2007ءمیں غربت، بے روزگاری اور زندگی کے خراب حالات بڑے پیمانے پر تھے اور بہت سے باشندوں نےاقوام متحدہکی خوراک کی امداد حاصل کی۔[101][171]غزہ کی آبادی بہت زیادہمسلمانوںپر مشتمل ہے، جو زیادہ تراہل سنتفرقہ کی پیروی کرتے ہیں۔[101]فاطمی دورمیںاہل تشیعغزہ میں غالب تھا، لیکنصلاح الدین ایوبینے1187ءمیں شہر کو فتح کرنے کے بعد، اس نے سختی سےاہل سنتمذہبی اور تعلیمی پالیسی کو فروغ دیا، جو اس وقت ان کے عرب اور ترکی کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔[28]غزہ تقریباً 3,500 افراد پر مشتمل ایک چھوٹی فلسطینیمسیحیاقلیت کا گھر ہے۔[172]اکثریت قدیم شہر کےزیتونمحلے میں رہتی ہے اور ان کا تعلقیروشلمی راسخ الاعتقاد کلیسیا،کاتھولک کلیسیااوراصطباغی کلیسیاکے فرقوں سے ہے۔[173]1906ءمیں تقریباً 750مسیحیتھے جن میں سے 700 آرتھوڈوکس اور 50 رومن کیتھولک تھے۔[156]غزہ کییہودیبرادری تقریباً 3,000 سال پرانی تھی،[101]اور1481ءمیں وہاں ساٹھ یہودی گھرانے تھے۔
+ان میں سے زیادہ تر1929ءکے فلسطین فسادات کے بعد غزہ سے فرار ہو گئے، جب وہ پچاس خاندانوں پر مشتمل تھے۔[174]سمیع ہدوی کے زمینی اور آبادی کے سروے میں غزہ کی آبادی 34,250 تھی جس میں1945ءمیں 80 یہودی بھی شامل تھے۔[101][160]ان میں سے اکثر نے1948ءکی جنگ کے بعد ان کے اور عرب اکثریت کے درمیان باہمی عدم اعتماد کی وجہ سے شہر چھوڑ دیا۔[175]آج، غزہ میں کوئی یہودی نہیں رہتے۔[176]اہم زرعی مصنوعات اسٹرابیری،لیموں،کھجور،زیتون،پھولاور مختلفسبزیاںہیں۔ آلودگی اور پانی کی زیادہ مانگ نے غزہ کی پٹی میں فارموں کی پیداواری صلاحیت کو کم کر دیا ہے۔[101]چھوٹے پیمانے کی صنعتوں میں پلاسٹک، تعمیراتی سامان، ٹیکسٹائل، فرنیچر، مٹی کے برتن، ٹائلیں، تانبے کے برتن اور قالین کی پیداوار شامل ہے۔ اوسلو معاہدے کے بعد سے، ہزاروں باشندوں کو سرکاری وزارتوں اور سیکورٹی سروسز،اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسیاور بین الاقوامی تنظیموں میں ملازمت دی گئی ہے۔[101]چھوٹی صنعتوں میں ٹیکسٹائل اور فوڈ پروسیسنگ بھی شامل ہیں۔ غزہ کے گلی بازاروں میں مختلف قسم کے سامان فروخت ہوتے ہیں جن میں قالین، مٹی کے برتن، اختر فرنیچر اور سوتی کپڑے شامل ہیں۔ اعلیٰ درجے کا غزہ مال جولائی 2010ء میں کھولا گیا۔[177][178]2008ء میں شائع ہونے والی انسانی حقوق اور ترقیاتی گروپوں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غزہ طویل مدتی معاشی جمود اور سنگین ترقی کے اشارے کا شکار ہے، جس کی شدت میں اسرائیلی اور مصری ناکہ بندیوں کی وجہ سے تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔[19]رپورٹ میں اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے متعدد اقتصادی اشاریوں کا حوالہ دیا گیا ہے: 2008ء میں، غزہ کے 95% صنعتی آپریشنز پیداوار اور برآمدی مسائل کے لیے رسائی کی کمی کی وجہ سے معطل ہو گئے تھے۔ 2009ء میں غزہ میں بے روزگاری 40 فیصد کے قریب تھی۔
+نجی شعبہ جو غزہ میں تمام ملازمتوں کا 53 فیصد پیدا کرتا ہے تباہ ہو گیا اور کاروبار دیوالیہ ہو گئے۔ جون 2005ء میں غزہ میں 3,900 کارخانوں میں 35,000 افراد کام کرتے تھے، دسمبر 2007 تک صرف 1,700 ابھی تک کام کر رہے تھے۔
+دسیوں ہزار مزدوروں کے کام سے باہر ہونے سے تعمیراتی صنعت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ زراعت کا شعبہ سخت متاثر ہوا، جس سے نقدی فصلوں پر انحصار کرنے والے تقریباً 40,000 کارکن متاثر ہوئے۔[19]ناکہ بندی کے دوران غزہ کی خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، گندم کے آٹے کی قیمت میں 34 فیصد،چاولمیں 21 فیصد اور بیبی پاؤڈر کی قیمتوں میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ 2007ء میں گھرانوں نے اپنی کل آمدنی کا اوسطاً 62% خوراک پر خرچ کیا، جبکہ 2004ء میں یہ 37% تھا۔ ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں،اونرواکی غذائی امداد پر انحصار کرنے والے خاندانوں کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہوا۔[19]2008ء میں 80% آبادی نے 2006ء میں 63% کے مقابلے 2008ء میں انسانی امداد پر انحصار کیا۔ 2009ء میں آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق، غزہ کو رہائش، تعلیمی سہولیات، صحت کی سہولیات اور انفراسٹرکچر کی شدید کمی کا سامنا ہے، اس کے ساتھ سیوریج کے ناکافی نظام نے حفظان صحت اور صحت عامہ کے مسائل میں اہم کردار ادا کیا۔[19]2010ء میں بندش کی پالیسی میں نمایاں نرمی کے بعد، غزہ کی معیشت نے ناکہ بندی کے عروج کے دوران خون کی کمی کی سطح سے خاطر خواہ بحالی دیکھنا شروع کی۔[179]2010ء کے پہلے 11 مہینوں میں غزہ کی معیشت میں 8 فیصد اضافہ ہوا۔[180]اقتصادی سرگرمیوں کو بڑی حد تک غیر ملکی امداد کے عطیات سے مدد ملتی ہے۔[180]غزہ میں متعدد ہوٹل ہیں جن میں فلسطین، گرینڈ پیلس، آدم، العمل، القدس، کلف، الدیرہ اور مرنا ہاؤس شامل ہیں۔
+تمام، سوائے فلسطین ہوٹل کے، ساحلیرمالضلع میں واقع ہیں۔اقوام متحدہکا اسی سڑک پر ایک بیچ کلب ہے۔
+غزہ سیاحوں کے لیے عمومی طور پر جگہ نہیں ہے اور ہوٹلوں میں رہنے والے زیادہ تر غیر ملکیصحافی، امدادی کارکن اوراقوام متحدہاوربین الاقوامی انجمن صلیب احمر و ہلال احمرکے اہلکار ہیں۔ اعلیٰ ترین ہوٹلوں میں القدس اور الدیرہ ہوٹل شامل ہیں۔[181]اگست 2020ء میں، غزہ میں فلسطینی تاجروں کی ایسوسی ایشن کے سربراہ، علی الحائق نے دی میڈیا لائن کو بتایا کہ ""غزہ کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے، خاص طور پر تازہ ترین کشیدگی کے درمیان، جہاں کریم شالوم کارگو کراسنگ کو بند کرنا اور داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ایندھن اور صنعتی مواد کی وجہ سے معاشی تباہی ہوئی،""
+ہائیک نے کہا کہ صنعتی شعبہ مکمل طور پر رک گیا ہے، جس سے ہزاروں کارکن بے روزگار ہو گئے ہیں، جس نے پہلے سے ہی تباہی کی صورت حال میں اضافہ کیا۔ ""غزہ میں پرائیویٹ سیکٹر تقریباً ختم ہو چکا ہے؛ ہمیں ایک سنگین تباہی کا سامنا ہے جو معاشی نظام کی معطلی کی وجہ سے سماجی مسائل سے ظاہر ہوتا ہے۔"" غزہ میں اقتصادی سرگرمیاں مکمل طور پر رک گئی ہیں،
+""لیکن آج، ہم پہلے سے موجود بحران اور برقی خدمات کے موجودہ تعطل کی وجہ سے [معاشی سرگرمیوں کو] مکمل طور پر روکنے کی بات کر رہے ہیں۔""[182]اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی ثقافت متعدد متنوع ثقافتوں اور مذاہب سے متاثر ہے جو فلسطین کے تاریخی خطے میں موجود ہیں۔لبنانی،سوریاوراردنیباشندوں کے ساتھ فلسطینی عربوں کا ثقافتی اور لسانی ورثہشامیعرب ثقافتکا لازمی حصہ ہے۔[183]رمالمیں واقع رشاد الشوا ثقافتی مرکز 1988ء میں مکمل ہوا اور اس کا نام اس کے بانی سابق میئررشاد الشواکے نام پر رکھا گیا۔[184]سہ رخی منصوبے کے ساتھ ایک دو منزلہ عمارت، ثقافتی مراکز تین اہم کام انجام دیتے ہیں: سالانہ تہواروں کے دوران بڑے اجتماعات کے لیے ایک میٹنگ کی جگہ، نمائشوں کے لیے جگہ اور ایک لائبریری موجود ہے۔[185]فرانسیسی ثقافتی مرکز غزہ میں فرانسیسی شراکت داری اور تعاون کی علامت ہے۔
+اس میں آرٹ کی نمائشیں، کنسرٹ، فلم کی نمائش اور دیگر سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ جب بھی ممکن ہو، فرانسیسی فنکاروں کو اپنے فن پاروں کی نمائش کے لیے مدعو کیا جاتا ہے اور زیادہ کثرت سے��زہ کی پٹیاورمغربی کنارےکےفلسطینیفنکاروں کو آرٹ کے مقابلوں میں شرکت کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔[186]1998ء میں قائم کیا گیا، آرٹس اینڈ کرافٹس ولیج بچوں کا ثقافتی مرکز ہے جس کا مقصد تخلیقی فن کی تمام شکلوں میں جامع، باقاعدہ اور متواتر دستاویزات کو فروغ دینا ہے۔ اس نے مختلف قومیتوں کے فنکاروں کے ایک طبقے کے ساتھ بڑے پیمانے پر بات چیت کی اور تخلیقی فن، سیرامکس، گرافکس، نقش و نگار اور دیگر کے لیے تقریباً 100 نمائشوں کا اہتمام کیا۔ غزہ کی پٹی کے تقریباً 10,000 بچوں نے آرٹس اینڈ کرافٹس ولیج سے استفادہ کیا ہے۔[187]غزہ تھیٹر، ناروے کے تعاون سے فنانس کیا گیا، 2004ء میں کھولا گیا۔[188]تھیٹر کوفلسطینی قومی عملداریسے زیادہ فنڈز نہیں ملتے، زیادہ تر غیر ملکی امدادی ایجنسیوں کے عطیات پر منحصر ہے۔
+اے ایم قطان فاؤنڈیشن، ایک فلسطینی آرٹس چیریٹی، نوجوان فنکارانہ صلاحیتوں کو فروغ دینے اور اساتذہ کو ڈراما کی مہارتیں فراہم کرنے کے لیے غزہ میں کئی ورکشاپس چلاتی ہے۔ غزہ تھیٹر فیسٹیول کا افتتاح 2005ء میں ہوا تھا۔[189]غزہ میوزیم آف آرکیالوجی، جس کی بنیاد جودت این خدری نے رکھی تھی، 2008ء کےموسم گرمامیں کھولا گیا۔عجائب گھرکے مجموعے میں ہزاروں اشیاء شامل ہیں، جن میں ایک مکمل چھاتی والیایفرودیتکا مجسمہ ایک ڈائیفانس گاؤن میں، دیگر قدیم دیوتاؤں کی تصاویر اور مینورہ کی خاصیت والے تیل کے لیمپ شامل ہیں۔[190]دبكہ ایک عرب لوک رقص ہے جوسر زمین شامکے ممالک سے نکلا ہے۔[191]یہ فلسطینی ثقافت اورسر زمین شاممیں بہت سی دوسری ثقافتوں میں مقبول ہے اور بہت سے گروہ پوری دنیا میں رقص کرتے ہیں۔
+دبكہ کو مطابقت پزیر جمپنگ، سٹیمپنگ اور حرکت کے ذریعے نشان زد کیا گیا ہے، جو ٹیپ ڈانسنگ کی طرح ہے۔[192][193][194][195][196]دبكہ دائرے کے رقص اور لائن ڈانس کو یکجا کرتا ہے اور اسے شادیوں اور دیگر خوشی کے مواقع پر بڑے پیمانے پر پیش کیا جاتا ہے۔
+لکیر دائیں سے بائیں بنتی ہے اور دبكہ کا لیڈر لائن کو سر کرتا ہے، سامعین اور دوسرے رقاصوں کے درمیان باری باری ہوتا ہے۔دستکاری کی وسیع اقسام، جن میں سے بہت سے فلسطینی سینکڑوں سالوں سے تیار کر رہے ہیں، آج بھی تیار ہو رہے ہیں۔ فلسطینی دستکاریوں میں کڑھائی اور بُنائی، برتن سازی، صابن سازی، شیشہ سازی اور زیتون کی لکڑی اور موتی کی نقش و نگار شامل ہیں۔
+بالترتیب 2021ء اور 2022ء میںفلسطیناور دیگرعرب ریاستوںکی طرف سے مشترکہ نامزدگیوں کویونیسکوکی کھجور کے علم اور استعمال اور عربی خطاطی کے لیے غیر محسوس ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔[197][198]غزہ کے کھانے میں مصالحے اور مرچوں کے فراخدلانہ استعمال کی خصوصیت ہے۔ دیگر بڑے ذائقوں اور اجزا میں اجوائن، چقندر کے پتے، لہسن، زیرہ، دال، چنے، انار، کھٹا بیر اوراملیشامل ہیں۔
+بہت سے روایتی پکوان مٹی کے برتن میں پکائے جاتے ہیں، جو سبزیوں کے ذائقے اور ساخت کو محفوظ رکھتی ہے اور اس کے نتیجے میں نرم اور ملائمگوشتبنتا ہے۔
+روایتی طور پر زیادہ تر غزاوی پکوان موسمی ہوتے ہیں اور علاقے اور اس کے آس پاس کے دیہاتوں کے مقامی اجزا پر انحصار کرتے ہیں۔ غربت نے شہر کے بہت سے سادہ گوشت کے پکوانوں اور سٹو کا تعین کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، جیسے سالک و اداس (""چقندر کے پتے اور دال"") اور بسارا (خشک ملکھیا پتوں اور مرچوں کے ساتھ چھلکے ہوئے جلد کے بغیر فاوا پھلیاں)۔[199]سمندری غذا غزہ کی زندگی کا ایک اہم پہلو اور ایک مقامی غذا ہے،[200]سمندری غذا کی کچھ مشہور پکوانوں میں زیبدییت گمبری، لفظی طور پر، ""مٹی کے برتن میں جھینگا"" اور شٹا شامل ہیں جو کیکڑے ہیں جو سرخ گرم مرچ کے ڈپ سے بھرے ہوتے ہیں، پھر تندور میں سینکا ہوا.مچھلیکو لال مرچ، لہسن،مرچاور زیرہ ڈال کر مختلف مصالحوں سے میرینیٹ کرنے کے بعد یا تو تلا یا گرل کیا جاتا ہے۔
+یہ سیدیہ میں بھی ایک اہم جزو ہے،چاولجو کیریملائز پیاز کے ساتھ پکایا جاتا ہے،لہسنکے پورے لونگ کی فراخ مقدار، اچھی طرح سے میرین کی ہوئی تلی ہوئی مچھلی کے بڑے ٹکڑے اورہلدی،دارچینیاورزیرہجیسے مصالحے شامل ہیں۔[199]1948ءکے دور کے پناہ گزینوں میں سے بہت سے لوگ فلاحین (""کسان"") تھے جو موسمی کھانے کھاتے تھے۔سماقیہ، جو غزہ میں نہ صرف رمضان بلکہ سارا سال مقبول ہے، سماق، تحینہ اور پانی کا مرکب ہے جو چقندر کے پتے،گائےکےگوشتاور چنے کے ٹکڑوں کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔
+ڈش میں پسی ہوئی اجوائن کے بیج، مرچیں اور تلی ہوئی لہسن ڈال کر پیالوں میں پیش کیا جاتا ہے۔[199]مفتول ایک گندم پر مبنی ڈش ہے جس کا ذائقہ سوکھے کھٹے بیروں کے ساتھ ہوتا ہے جسےکسکسکی طرح پیش کیا جاتا ہے یا چھوٹی گیندوں کی شکل دی جاتی ہے اور اسے سٹو یا سوپ پر بھاپ دیا جاتا ہے۔[201]غزہ کے زیادہ تر ریستوراں ضلعرمالمیں واقع ہیں۔ الاندلس، جو مچھلی اور سمندری غذا میں مہارت رکھتا ہے، سیاحوں میں مقبول ہے، جیسا کہ السماق اور اعلی درجے کا روٹس کلب ہے۔[202]اطفالونہ غزہ کی بندرگاہ کے قریب ایک سجیلا ریستوراں ہے اور اس پر عملہ بہرے افراد کے ذریعہ چلایا جاتا ہے جس کا مقصد ایک ایسا معاشرہ بنانا ہے جو معذور افراد کو زیادہ قبول کرے۔[203]پورے قدیم شہر میں سڑکوں پر ایسے اسٹال ہیں جو پکی ہوئی پھلیاں، حمس، بھنے ہوئے آلو،فلافلاورکبابفروخت کرتے ہیں۔
+کافی ہاؤسز (قہوہ خانے) عربی کافی اور چائے پیش کرتے ہیں۔ غزہ کی معروف مٹھائی کی دکانیں، صقالہ اور عرفات، عام عرب میٹھے مصنوعات فروخت کرتی ہیں اور وحدا اسٹریٹ کے قریب واقع ہیں۔الکحلایک نایاب چیز ہے، جو صرفاقوام متحدہکے بیچ کلب میں پائی جاتی ہے۔[204]گوزے کی ابتدا غزہ سے ہوئی ہے۔ غزہ ثوب کے لیے کپڑا اکثر قریبیعسقلانمیں بُنا جاتا تھا۔
+سیاہ یا نیلے رنگ کے سوتی یا دھاری دار گلابی اور سبز کپڑے جوعسقلانمیں بنائے گئے تھے، 1960ء کی دہائی تک ساحلی میدانی دیہاتوں کے مہاجرینغزہ پٹیمیں بُنے جاتے رہے۔
+یہاں ثوبوں کی تنگ، تنگ، سیدھی آستینیں تھیں۔ ہیبرون میں لگائی جانے والی کڑھائی کی نسبت بہت کم گھنی تھی۔
+سب سے زیادہ مقبول شکلوں میں شامل ہیں: قینچی (مقس)، کنگھی (مشوت) اور مثلث (حجاب) اکثر پانچ، سات اور تین کے جھرمٹ میں ترتیب دیے جاتے ہیں، کیونکہ عربلوک کہانیوںنظر بدکے خلاف میں طاق اعداد کے استعمال کو مؤثر سمجھا جاتا ہے۔[205]1990ء کے قریب،حماساور دیگر اسلامی تحریکوں نے غزہ کی خواتین، خاص طور پر شہری اور تعلیم یافتہ خواتین کے درمیانحجاب(""سر پر اسکارف"") کے استعمال کو بڑھانے کی کوشش کی اور حجاب کے انداز متعارف ہونے کے بعد سے کلاس اور گروپ کی شناخت کے مطابق مختلف ہیں۔[206]فلسطین اسٹیڈیمغزہ پٹیپر غزہ شہر میں واقع ہے۔ یہ قومیاسٹیڈیماور فلسطین کی قومی فٹ بال ٹیم کا گھر ہے۔ اسٹیڈیم کی گنجائش تقریباً 10,000 ہے۔[207]اس پر اسرائیل نے یکم اپریل 2006ء کو براہ راست مرکز کے مقام پر بمباری کی تھی، جس سے اسٹیڈیم میں گڑھے بن جانے کی وجہ سے استعمال کے قابل نہیں تھا۔ فیفا نے اعلان کیا کہ وہ مرمت کے کام کو فنڈ دے گا۔[208][209][207]��س پر 19 نومبر2012ءکواسرائیلی دفاعی افواجنے آپریشن پلر آف کلاؤڈ کے حصے کے طور پر دوبارہ بمباری کی تھی۔
+اسٹیڈیم اور قریبی انڈور اسپورٹس ہال کو بڑا نقصان پہنچا اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر کے فٹ بال کھلاڑیوں نے دستخط شدہ پٹیشن جاری کی۔[210][211]غزہ میں کئی مقامی فٹ بال ٹیمیں ہیں جو غزہ پٹی لیگ میں شرکت کرتی ہیں۔
+ان میں خدمہ الشاطیہ (الشاطیکیمپ)، اتحاد الشجاعیہ (شجاعیہمحلہ)، غزہ اسپورٹس کلب اور الزیتون (زیتون محلہ) شامل ہیں۔[212]غزہ میراتھنغزہ پٹی،دولت فلسطینمیں ایکمیراتھنریس ہے جس کا اہتماماونروانے غزہ شہر میں بچوں کے لیےاونرواسمر گیمز کے پروگرام کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے کیا ہے۔
+مکمل میراتھن ریس (42.195 کلومیٹر، 26 میل 385 گز) کے علاوہ، ایک ہاف میراتھن ریس اور 10 کلومیٹر (6.21 میل) ریس بھی ہوتی ہے۔ بچے پورے میراتھن کورس میں ریلے میں 1 کلومیٹر (0.6 میل) سے 4 کلومیٹر (2.5 میل) کے درمیان کے مراحل چلاتے ہیں۔[213]یہ تقریب پہلی بار5 مئی2011ءکو منعقد ہوئی، جس میں 1,500 سے زیادہ شرکاء نے شرکت کی۔[214]2012ء میں غزہ نے پہلی بین الاقوامی میراتھن کا انعقاد کیا۔
+2013ء میں میراتھن 10 اپریل کو ہونے والی تھی، لیکن ""غزہ میں حکام کی طرف سے خواتین کو شرکت کی اجازت نہ دینے کے فیصلے"" کے بعد اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔[215]فیصل گھڑ سواری کلبدولت فلسطینکے غزہ شہر میں ایک گھڑ سواری کا کلب اور اعلیٰ درجے کا ریستوراں ہے۔
+جولائی 2010ء تک یہ کلبغزہ پٹیکا واحد گھڑ سوار کلب تھا۔ 2010ء تک رکنیت بڑھ رہی تھی، تقریباً 120 اراکین اور دوسرے لوگ کبھی کبھار اسباق یا کبھی کبھار سواری کے لیے آتے تھے۔[216]آج غزہ،محافظہ غزہکے انتظامیدار الحکومتکے طور پر کام کرتا ہے۔[217]اس میں کالعدمفلسطینی قانون ساز کونسلکی عمارت ہے۔
+غزہ کی پہلی میونسپل کونسل1893ءمیں علی خلیل الشوا کی سربراہی میں تشکیل دی گئی۔ تاہم، جدید میئر شپ1906ءمیں اپنے بیٹےسعید الشواکے ساتھ شروع ہوئی، جسے عثمانی حکام نے میئر مقرر کیا تھا۔[218]سعید الشوانے غزہ کے پہلے ہسپتال کی تعمیر، کئییی نئی مساجد اور اسکولوں، عظیم مسجد کی بحالی اور شہر میں جدید ہل متعارف کرانے کی نگرانی کی۔[219]1922ءمیں، برطانوی نوآبادیاتی سیکرٹریونسٹن چرچلنے درخواست کی کہ غزہتعہدی فلسطینکے تحت اپناآئینتیار کرے۔ تاہم فلسطینیوں نے اسے مسترد کر دیا تھا۔[220]24 جولائی1994ءکو پی این اے نے غزہ کوفلسطینی علاقہ جاتمیں پہلی سٹی کونسل کا اعلان کیا۔[221]2005، کے فلسطینی بلدیاتی انتخابات نہ غزہ میں ہوئے اور نہ ہیخان یونسیارفحمیں ہوئے۔
+اس کی بجائے،فتح تحریککے عہدیداروں نے انتخابات کے انعقاد کے لیے چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کا انتخاب کیا، یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ کم شہری علاقوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
+تاہم حریف جماعتحماسنے پہلے راؤنڈ کے لیے منتخب ہونے والی دس میونسپلٹیوں میں سے سات میں اکثریت حاصل کی اور ووٹر ٹرن آؤٹ تقریباً 80% رہا۔[222]2007ء میں دونوں جماعتوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں جس میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، بالآخرحماسنے شہر پر قبضہ کر لیا۔[223]عام طور پر فلسطینی بلدیات جن کی آبادی 20,000 سے زیادہ ہے اور جو انتظامی مراکز کے طور پر کام کرتی ہیں ان میں میئر سمیت پندرہ اراکین پر مشتمل میونسپل کونسلیں ہوتی ہیں۔ تاہم غزہ کی موجودہ میونسپل کونسل چودہ ارکان پر مشتمل ہے، جن میں حماس کے میئر نزار حجازی بھی شامل ہیں۔[224]پی سی بی ایس کے مطابق، 1997ء میں، غزہ کی 10 سال سے زیادہ عمر کی تقریباً 90 فیصد آبادی خواندہ تھی۔
+شہر کی آبادی میں سے، 140,848 اسکولوں میں (39.8% ابتدائی اسکول میں، 33.8% سیکنڈری اسکول میں اور 26.4% ہائی اسکول میں)۔ تقریباً 11,134 افراد نے بیچلر ڈپلومے یا اس سے زیادہ ڈپلومے حاصل کیے۔[225]2006ء میں غزہ میں 210 اسکول تھے۔ 151فلسطینی قومی عملداریکی وزارت تعلیم کے زیر انتظام، 46 کواقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسیچلا رہی تھی اور 13 نجی اسکول تھے۔ کل 154,251 طلبہ نے داخلہ لیا اور 5,877 اساتذہ کو ملازمت دی گئی۔[226]اس وقت زبوں حال معیشت نے غزہ کی پٹی میں تعلیم کو شدید متاثر کیا ہے۔
+ستمبر 2007ء میں، غزہ کی پٹی میںاونرواکے ایک سروے نے انکشاف کیا کہ اسکولوں کے گریڈ چار سے نو میں تقریباً ریاضی میں 90% تک ناکامی کی شرح کے ساتھ، 80% ناکامی کی شرح تھی۔
+جنوری 2008ء میںاقوام متحدہکےیونیسفنے اطلاع دی کہ غزہ کے اسکول ان کلاسز کو منسوخ کر رہے ہیں جن میں توانائی کی کھپت زیادہ تھی، جیسے کہانفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنس لیبز اور غیر نصابی سرگرمیاں۔[19]غزہ میں بہت سی یونیورسٹیاں ہیں۔ شہر کی چار اہم یونیورسٹیاںجامعہ الازہر غزہ،جامعہ القدس مفتوحہ،جامعہ الاقصیاورجامعہ اسلامیہ غزہہیں۔
+دس سہولیات پر مشتملجامعہ اسلامیہ غزہکی بنیاد تاجروں کے ایک گروپ نے1978ءمیں رکھی تھی اور اسے غزہ کی پہلی یونیورسٹی بنا دیا تھا۔
+اس میں 20,639 طلبہ کا اندراج تھا۔[227]جامعہ الازہر غزہعام طور پر سیکولر ہے اور اس کی بنیاد 1992ء میں رکھی گئی تھی۔جامعہ الاقصی1991ء میں قائم ہوئی تھی۔جامعہ القدس مفتوحہنے اپنا غزہ ایجوکیشنل ریجن کیمپس 1992ء میں شہر کے وسط میں ایک کرائے کی عمارت میں اصل میں 730 طلبہ کے ساتھ قائم کیا۔
+طلبہ کی تعداد میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے، اس نےنصر، غزہمیں پہلی یونیورسٹی کی ملکیتی عمارت تعمیر کی۔ 2006-07ء میں، اس میں 3,778 طلبہ کا اندراج تھا۔[228]غزہ کاعوامی کتب خانہشارع وحدہکے قریب واقع ہے اور اس میںعربی،انگریزیاورفرانسیسیزبانوں میں تقریباً 10,000 کتابوں کا ذخیرہ ہے۔ تقریباً 1,410 مربع میٹر (15,200 مربع فٹ) کا کل رقبہ، عمارت دو منزلوں اور ایک تہ خانے پر مشتمل ہے۔
+کتب خانے کو1996ءمیں غزہ کے میئر عون شاوا، میونسپلٹی آفڈنکرکاورعالمی بنککے تعاون کے بعد1999ءمیں کھولا گیا تھا۔
+کتب خانے کے بنیادی مقاصد معلومات کے ذرائع فراہم کرنا ہیں جو استفادہ کنندگان کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، دستیاب معلومات کے ذرائع تک رسائی کے لیے ضروری سہولیات فراہم کرنا اور مختلف ثقافتی پروگراموں جیسے ثقافتی پروگراموں، سیمینارز، لیکچرز، فلم پریزنٹیشنز، ویڈیوز، آرٹ اور کتابوں کی نمائشیں کا اہتمام کرنا ہے۔[229]غزہ کے اہم مقامات میں قدیم شہر میںمسجد عمری الکبیرشامل ہے۔ اصل میں ایک کافر مندر تھا، اسےبازنطینیوںکے ذریعہ ایکیونانیآرتھوڈوکسگرجا گھر،[230]پھرآٹھویں صدیمیں عربوں کے ذریعہ ایکمسجدکے طور پر مقدس بنایا گیا تھا۔صلیبیوںنے اسے ایکگرجا گھرمیں تبدیل کر دیا، لیکنمسلمانوںکی طرف سے غزہ کی فتح کے فوراً بعد اسے ایکمسجدکے طور پر دوبارہ قائم کر دیا گیا۔[147]یہغزہ پٹیمیں سب سے قدیم اور سب سے بڑیمسجدہے۔[231]قدیم شہر کی دیگر مساجد میںمملوکدور کیسید ہاشم مسجدبھی شامل ہے۔ یہغزہکی سب سے بڑی اور پرانی مساجد میں سے ایک ہے، جو قدیم شہر کےدرج محلہمیں الوہدہ اسٹریٹ کے قریب واقع ہے۔ہاشم بن عبد مناف،محمد بن عبد اللہکے دادا جو تجارتی سفر کے دورانغزہمیں انتقال کر گئے تھے، ان کیقبرمسلم روایات کے مطابق مسجد کے گنبد کے نیچے واقع ہے۔[232]قریب ہیمسجد کاتب الولایہبھی ہے جو 1334ٰء کی ہے۔مسجد کاتب الولایہقدیم شہر کےزیتون محلہمیں غزہ شہر میںشارع عمر مختارکے ساتھ واقع ایک چھوٹی تاریخیمسجدتھی۔[233][234]شجاعیہمیںمسجد ابن عثمانہے، جسےنابلسکے رہنے والے احمد بن عثمان نے 1402ء میں تعمیر کیا تھا۔جمعہکی مسجد کے طور پر خوبصورتی اور حیثیت کے لحاظ سے اسے غزہ کی عظیم مسجد کے بعد دوسرے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔[235][236]مسجد محکمہایکجامع مسجداورمدرسہتھا، جو1455ءمیں تعمیر کیا گیا تھا، جو2014ءکی غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو گیا تھا۔[237]یہمسجدغزہ شہر،فلسطینکے ضلعشجاعیہکے مرکزی مغربی دروازے کے قریب بغداد سٹریٹ کے ساتھ واقع تھی۔[238]مسجد ابن مروانغزہمیںمملوکدور کی مسجدتفاحمحلے میں ایک قبرستان کے درمیان ہے،[239]جو شہر کے باقی حصوں سے نسبتاً الگ تھلگ ہے۔[240]یہ 1324ء میں تعمیر کی گئی تھی اور اس میں علی ابن مروان کا مقبرہ بھی ہے۔[148]نامعلوم فوجی کا چوکرمالمیں واقع ایک یادگار ہے جو1948ءکی جنگ میں ہلاک ہونے والے ایک نامعلوم فلسطینی جنگجو کے لیے وقف ہے۔1967ءمیں یادگار کواسرائیلیافواہج نے مسمار کر دیا تھا اور ریت کا ایک ٹکڑا بنا دیا تھا،[241]جب تک کہناروےکی مالی امداد سے وہاں ایک عوامی باغ تعمیر نہیں کیا گیا تھا۔قصر الباشااصل میںمملوکدور کا ایک ولا جسےنپولیننے غزہ میں اپنے مختصر قیام کے دوران استعمال کیا تھا، پرانے شہر میں واقع ہے اور آج کل لڑکیوں کا اسکول ہے۔کامن ویلتھ غزہ جنگی قبرستان، جسے اکثر برطانوی جنگی قبرستان کہا جاتا ہے،پہلی جنگ عظیممیں ہلاک ہوئے اتحادی فوجیوں کی قبروں پر مشتمل ہے۔ یہ شہر کے مرکز سے 1.5 کلومیٹر (1 میل) شمال مشرق میں،تفاحضلع میں،شاہراہ صلاح الدینکے قریب واقع ہے۔[147][242]حمام السمراقدیم شہر کےزیتون محلہمیں واقع غزہ میں واحد فعال حمام (روایتی عوامی غسل خانہ) تھا۔ یہ گلی کی سطح سے 3 میٹر (9.8 فٹ) نیچے واقع تھا۔ یہ غسل خانہ دسمبر 2023ء میں اسرائیلی افواہج کے فضائی حملے میں تباہ ہو گیا تھا۔[135]محکمہ فلسطین برائے شماریات کی 1997ء کیمردم شماریکے مطابق غزہ کے 98.1 فیصد باشندےعوامی پانی کی فراہمیسے منسلک تھے جبکہ بقیہ نجی نظام استعمال کرتے تھے۔[243]تقریباً 87.6% پبلک سیوریج سسٹم سے جڑے ہوئے تھے اور 11.8% نے سیس پٹ کا استعمال کیا۔[244]غزہ کی ناکہ بندی نے شہر کی پانی کی سپلائی کو شدید طور پر روک دیا۔ پینے کے پانی کے لیے چھ اہم کنویں کام نہیں کر رہے تھے اور تقریباً 50% آبادی کے پاس مستقل بنیادوں پر پانی نہیں تھا۔
+میونسپلٹی نے دعویٰ کیا کہ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسے ""نمکین کنوؤں"" سے پانی پمپ کرنے پر مجبور کیا گیا۔
+روزانہ تقریباً 20 ملین لیٹر کچا سیوریج اور 40 ملین لیٹر جزوی طور پر ٹریٹ کیا ہوا پانیبحیرہ روممیں بہتا ہے اور غیر علاج شدہ سیوریج سے کیڑے مکوڑے اور چوہوں کی افزائش ہوتی ہے۔[245]ایک ""پانی سے محروم"" ملک کے طور پر، غزہ کا بہت زیادہ انحصار وادی غزہ کے پانی پر ہے۔
+غزہ کے آبی ذخائر کو غزہ کے اہم وسائل کے طور پر معیاری پانی کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم وادی غزا سے زیادہ تر پانییروشلمپہنچایا جاتا ہے۔[246]2002ء میں غزہ نے اپنا پاور پلانٹ چلانا شروع کیا جسے اینرون نے بنایا تھا۔[247]تاہم پاور پلانٹ کو 2006ء میںاسرائیلی ڈیفنس فورسزنے بمباری کرکے تباہ کر دیا تھا۔
+پاور پلانٹ کی تباہی سے قبلاسرائیلنے اسرائیل الیکٹرک کارپوریشن کے ذ��یعے غزہ کو اضافی بجلی فراہم کی تھی۔
+اس پلانٹ کو جزوی طور پر دسمبر 2007ء تک دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا،[248]تاہم اسرائیلی بجلی غزہ کو فروخت کرنا جاری ہے۔[249]سالڈ ویسٹ مینجمنٹ آج غزہ کے لوگوں کو درپیش کلیدی مجبوری مسائل میں سے ایک ہے۔
+یہ چیلنجز کئی عوامل سے منسوب ہیں۔ ماحولیاتی نظام میں سرمایہ کاری کی کمی، ماحولیاتی منصوبوں پر کم توجہ دی گئی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عدم موجودگی اور بحران کے انتظام کی طرف رجحان شامل ہیں۔ اس مسئلے کا ایک اہم پہلو اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ملبہ اور ملبہ کی بڑی مقدار ہے۔[250][251]مثال کے طور پر، آپریشن پروٹیکٹو ایج کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا پیمانہ بے مثال ہے۔
+غزہ پٹی کے تمام محافظات نے وسیع پیمانے پر فضائی بمباری، بحری گولہ باری اور توپ خانے سے فائرنگ کا مشاہدہ کیا، جس کے نتیجے میں کافی مقدار میں ملبہ بنا ہے۔
+حالیہ اعداد و شمار کے مطابق 2 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ پیدا ہوا۔ دو 13 منزلہ رہائشی عمارتوں سمیت تقریباً 10,000 مکانات زمین پر برابر کر دیے گئے۔
+غزہ میں بہت زیادہ ملبہ بکھرا پڑا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کوششوں اور اعلیٰ بجٹ کی ضرورت ہے۔
+زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اور 2008ء کی جنگ کے بعد یو این ای پی کے مطالعے کی بنیاد پر، ملبے کے پی اے ایچ ایس اور ممکنہ طور پر پولی کلورینیٹڈ بائفنائل، ڈائی آکسینز اور فران مرکبات سے آلودہ ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے۔[252]جنوری 2024ء میں اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے اہم آبی ذخائر البلاد اور رمال کو تباہ کر دیا۔[253]الشفا ہسپتالکی بنیاد 1940ء کی دہائی میں برطانوی مینڈیٹ حکومت نے ضلعرمالمیں رکھی تھی۔ فوجی بیرکوں میں واقع، یہ اصل میںبخارکی بیماریوں کے لیے قرنطینہ اور علاج فراہم کرتا تھا۔ جبمصرنے غزہ کا انتظام کیا تو اس اصل محکمہ کو منتقل کر دیا گیا اورالشفا ہسپتالشہر کا مرکزی ہسپتال بن گیا۔[254]جب1956ءکےسوئز بحرانمیںاسرائیلنےغزہ پٹیپر قبضہ کرنے کے بعد اس سے دستبرداری اختیار کی تومصری صدرجمال عبد الناصرنےالشفا ہسپتالکی توسیع اور بہتری کی۔ انھوں نے اسی نام سے ضلعنصرمیں دوسرا ہسپتال قائم کرنے کا بھی حکم دیا۔ 1957ء میں قرنطینہ اور بخار سے متعلق امراض کے ہسپتال کو دوبارہ بنایا گیا اور اسےناصر ہسپتالکا نام دیا گیا۔[149]آجالشفا ہسپتالغزہ کا سب سے بڑا میڈیکل کمپلیکس ہے۔[255]1950ء کی دہائی کے آخر میں، ایک نئی صحت انتظامیہ، بندر غزہ (""غزہ کا علاقہ"") قائم کیا گیا اور اس کی سربراہی حیدر عبدالشفیع نے کی۔ بندر غزہ نے سرکاری کلینک قائم کرنے کے لیے شہر بھر میں کئییی کمرے کرائے پر لیے جو ضروری علاج معالجہ فراہم کرتے تھے۔[149]اہلی عرب ہسپتال، جسے چرچ مشنری سوسائٹی (سی ایم ایس) نے 1907ء میں قائم کیا تھا،پہلی جنگ عظیممیں تباہ ہو گیا تھا۔[256]اسے جنگ کے بعد سی ایم ایس نے دوبارہ تعمیر کیا اور 1955ء میں جنوبی بپٹسٹ ہسپتال بن گیا۔[257][258]1982ء میںیروشلمکے ایپسکوپل ڈائیسیس نے قیادت سنبھالی اور اصل نام بحال کر دیا گیا۔[256]القدس ہسپتال،تل الہواکے محلے میں واقع ہے اور فلسطینہلال احمرسوسائٹی کے زیر انتظام ہے، غزہ کا دوسرا بڑا ہسپتال ہے۔[259]2007ء میں ہسپتالوں کو روزانہ 8-12 گھنٹے تک بجلی کی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا اور پاور جنریٹرز کے لیے درکار ڈیزل کی سپلائی کم تھی۔عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، طبی دیکھ بھال کے لیے غزہ سے باہر جانے کے لیے دیے گئے مریضوں کا تناسب جنوری 2007ء میں 89.3 فیصد سے کم ہو کر دسمبر 2007ء میں 64.3 فیصد رہ گیا۔[19]2010ء میں غزہ کے الدرہ ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نےیروشلمکے حداسہ میڈیکل سینٹر کے سسٹک فائبروسس کلینک میں تربیت کا ایک سال گزارا۔ ان کی غزہ واپسی پر، الدرہ میں ایک سسٹک فائبروسس سینٹر قائم کیا گیا، حالانکہ سب سے زیادہ سنگین کیسوں کو حداسہ کے حوالے کیا جاتا ہے۔[260]الرنتیسی ہسپتال بچوں کی دیکھ بھال فراہم کرتا ہے۔2007ئ میںاسرائیلکی قیادت میں اورمصرکی حمایت میںحماسکے قبضے کے بعدغزہ پٹیکے اندر اور باہر سامان اور لوگوں کی نقل و حرکت پر ناکہ بندی کر دی گئی ہے۔
+ناکہ بندی کا موجودہ بیان کردہ مقصد غزہ میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ کو روکنا ہے، حالانکہ پہلے بیان کیے گئے محرکات میں حماس پر معاشی دباؤ ڈالنا شامل ہے۔[261]انسانی حقوق کے گروپوں نے ناکہ بندی کو غیر قانونی اور اجتماعی سزا کی ایک شکل قرار دیا ہے کیونکہ اس سے ضروری سامان کی آمدورفت محدود ہوتی ہے، معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے اور غزہ کے باشندوں کی نقل و حرکت کی آزادی محدود ہوتی ہے۔[262][263]ناکہ بندی اور اس کے اثرات نے اس علاقے کو ""کھلی جیل"" کے طور پر بیان کیا ہے۔[264][265]اسرائیل نے 2005-2006ء میں شدت کی مختلف سطحوں پر غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کی، اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ بندشوں کی تاریخ 1991ء تک ہے۔[266][267][268][269][270]اسرائیل نے کہا کہ یہ ناکہ بندی خود کو فلسطینی سیاسی تشدد، راکٹ حملوں سے بچانے اور غزہ میں دوہرے استعمال کے سامان کو داخل ہونے سے روکنے کے لیے ضروری تھی۔[271]لیکن فلسطینی عوام نے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ مصری سرزمین کی سرحدوں پر سرنگیں بنانے میں پہل کی اور ان سرنگوں سے خوراک، تعمیراتی سامان، ہتھیار، بجلی کے آلات اور کاروں سمیت تمام ضروریات زندگی کے داخلے میں مدد ملی۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ پر جنگ شروع کرنے کے ایک سال بعد، انھوں نے کئی معاہدے اور جنگ بندی کی جس نے غزہ کی پٹی کی صورت حال کو پرسکون کرنے، رفح کراسنگ کو کھولنے اور مسافروں کو شہر میں داخل ہونے اور جانے کی اجازت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔[272]فلسطینی شہری اب بھی زندگی کی بلند قیمتوں کے بحران سے دوچار ہے۔ شہریوں کو فراہم کی جانے والی امداد کے علاوہ یہ صرف چند خاندانوں کو فراہم کی جاتی ہے ہر کسی کو نہیں۔ تاہم، غزہ کی پٹی کے باشندے مغربی کنارے کے مقابلے میں زیادہ آرام سے رہتے ہیں، سوائے ایندھن کی کمی کے بہانے بجلی کی مسلسل بندش کے۔غزہ قتل عام یا غزہ ہولوکاسٹ ایک اسرائیلی آپریشن ہے جو غزہ کی پٹی میں فروری 2008ئ میں پانچ دنوں کے دورانحماسکے ارکان کو اسرائیلی علاقے میں راکٹ داغنے کے بہانے سے ختم کیا گیا تھا۔ یہ نام اسرائیلی وزیر دفاعایہود باراککے بیان کے بعد سامنے آیا ہے کہ اسرائیلی افواج غزہ میں کیا کر رہی ہیں اسے ہولوکاسٹ یا نسل کشی یا غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی ہولوکاسٹ کے طور پر حماس تحریک کے ارکان کے ہاتھوں دو اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد عمل میں آیا۔ اسرائیلی افواج کے خلاف ان کی مزاحمت۔ عرب اور مسلم مصنفین، مفکرین اور سیاسی اور مذہبی شخصیات کی ایک بڑی تعداد نے اس نام کو اپنایا، کیونکہ وہ اسے آپریشن کے لیے ایک مناسب نام کے طور پر دیکھتے تھے، جس میں 26 بچوں سمیت 116 افراد مارے گئے تھے، ان کے علاوہ دیگر عام شہری بھی تھے۔ ہلاک یا زخمی. اسی دن اس نے غزہ میں فوجی آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسرائیلی ذرائع نے اعلان کیا کہ یہ پہلا مرحلہ ہے اور مستقبل قریب میں دیگر کارروائیاں بھی ہو سکتی ہیں۔[273]اسرائیل-حماس جنگکے دوران، اسرائیلی فوج نےغزہ پٹیکے زیادہ تر باشندوں کو اپنے گھر خالی کرنے کا حکم دیا، جس سے علاقے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور ایک وسیع تر انسانی بحران میں حصہ لیا۔[274][275][276]یہ 75 سالوں میں فلسطینیوں کی سب سے بڑی نقل مکانی ہے۔[277]فلسطینیوں نے انخلا کو ""دوسرینکبت"" قرار دیا ہے۔[278]پہلا انخلا کا حکم13 اکتوبر2023ءکو دیا گیا تھا، اس کے ایک ہفتے بعد جبحماسنے غزہ سے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔
+اسرائیلی حکام نے غزہ شہر سمیت وادی غزہ کے شمال میں رہنے والے 1.1 ملین غزہ کے باشندوں کو 24 گھنٹے کے اندر انخلا کے لیے کہا ہے۔[279]داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے انسانی حقوق پراقوام متحدہ کی خصوصی نمائندےپاؤلا گاویریا بیتانکر نے زبردستی انخلا کے حکم کو انسانیت کے خلاف جرم اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔[280][281][282][283][284]رشید کوسٹل روڈ غزہ کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور اسےغزہ کی پٹیکے باقی ماندہ ساحلی پٹی کے شمال اور جنوب سے جوڑتی ہے۔
+غزہ پٹی کی مرکزی شاہراہ،شاہراہ صلاح الدین(جدید ویا ماریس) غزہ شہر کے وسط سے گزرتی ہے، اسےدیر البلح،خان یونساور جنوب میںرفحاور شمال میںجبالیہاوربیت حانونسے جوڑتی ہے۔[285]اسرائیل میںشاہراہ صلاح الدینکی شمالی کراسنگایرز گزرگاہہے اورمصرجانے والیرفح سرحدی گزرگاہہے۔رفح سرحدی گزرگاہمصراورفلسطینکیغزہ پٹیکے درمیان واحد سرحدی گزرگاہ ہے۔
+یہ مصر-فلسطین سرحد پر واقع ہے۔مصراوراسرائیلکے درمیان 2007ء کے معاہدے کے تحت، مصر گزرگاہ کو کنٹرول کرتا ہے لیکن رفح سرحدی گزرگاہ کے ذریعے درآمدات کے لیے اسرائیلی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔شارع عمر مختارغزہ شہر کی مرکزی سڑک ہے جو شمال-جنوب کی طرف چلتی ہے،شاہراہ صلاح الدینسے نکلتی ہے، جو رمال ساحلی پٹی اور پرانے شہر تک پھیلی ہوئی ہے جہاں یہسوق الذہبپر ختم ہوتی ہے۔[147]غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی سے پہلے،مغربی کنارےمیںرام اللہاورالخلیلکے لیے اجتماعی ٹیکسیوں کی باقاعدہ لائنیں موجود تھیں۔[286]پرائیویٹ کاروں کے علاوہ، غزہ سٹی کو ٹیکسیوں اور بسوں کے ذریعے خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔یاسر عرفات بین الاقوامی ہوائی اڈارفحکے قریب غزہ سے 40 کلومیٹر (25 میل) جنوب میں1998ءمیں کھولا گیا۔ یہ سہولت 24 نومبر 1998ء کو کھولی گئی اور الاقصی انتفاضہ کے دوران فروری 2001ء میں تمام مسافر پروازیں بند ہو گئیں۔
+2001ء اور 2002ء میںاسرائیلی ڈیفنس فورسزنے اس کے رن وے اور سہولیات کو نقصان پہنچایا تھا جس سے ہوائی اڈے کو ناقابل استعمال بنا دیا گیا تھا۔
+اگست2010ءمیں، ٹرمک ریمپ کو فلسطینیوں نے پتھروں اور ری سائیکل شدہ تعمیراتی سامان کی تلاش میں تباہ کر دیا تھا۔[287]اسرائیلمیںبن گوریون بین الاقوامی ہوائی اڈاشہر کے شمال مشرق میں تقریباً 75 کلومیٹر (47 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔لدشہر کے شمالی مضافات میں واقع یہاسرائیلکا مصروف ترینہوائی اڈاہے۔
+یہیروشلمکے شمال مغرب میں 45 کلومیٹر (28 میل) اورتل ابیبکے جنوب مشرق میں 20 کلومیٹر (12 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔[288]1973ءتک اسےلد ہوائی اڈاکے نام سے جانا جاتا تھا، اس کے بعد اس کا نامداوید بن گوریون(1886ء–1973ء) کے اعزاز میں رکھا گیا، جو پہلے اسرائیلی وزیر اعظم تھے۔غزہ کے مندرجہ ذیلجڑواں شہرہیں:لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+665,مکہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DA%A9%DB%81,"مکہیامکہ مکرمہ(عربی:مَكَّةُ الْمُكَرّمَةْ) تاریخی خطہحجازمیںسعودی عربکےصوبہ مکہکا دار الحکومت[5]اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ شہر کی آبادی 2004ء کے مطابق 12 لاکھ 94 ہزار 167 ہے۔ مکہجدہسے 73 کلومیٹر دوروادی فارانمیں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہبحیرہ احمرسے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔[6]یہ شہراسلامکا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقامبیت اللہیہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کاحجکرنا فرض ہے ۔.[7][8]انگریزیزبان میں Mecca کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں حکومتسعودی عربنے شہر کا انگریزی نام Mecca سے بدل کر Makkah کر دیا۔[9]معروف مؤرخابن خلدونکے مطابق مکہ پہلے بکہ کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم مؤرخین کے درمیان اس امر پر اختلاف ہے:ابراہیم النخعینے بکہ کو کعبہ اور مکہ کو شہر سے منسوب کیا جبکہامام ُزہریبھی اسی کے حامی ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بکہ میں استعمال ہونے والابدونوں آوازوں کے درمیان قربت کے باعث بعد ازاںممیں تبدیل ہو گیا۔ مکہ کو”ام القری“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔.[10]مسجد حرامکے اندر قائمخانۂ کعبہحضرت ابراہیماورحضرت اسماعیلعلیهم السلامنے تعمیر کیا۔ مؤرخین کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا مرکز تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ مکہ جنوبی عرب سے شمال میںرومیوبازنطینیسلطنتوں کے لیے زمینی راستے پر تھا اورہندوستانکے مصالحہ جاتبحیرہ عرباوربحر ہندکے راستے سے یہیں سے گزرتے تھے۔[11][12]کعبة اللهکی تعمیری تاریخ عہد ابراہیم اور اسماعیلعلیهم السلامسے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہر میں نبی آخر الزماںمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمپیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اور یہاں پ رہی مسجدحرامواقع ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :”اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے“ (آل عمران:96 )570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانرواابرہہساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے، اپنے سردارعبدالمطلبکی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ہزاروں پرندے جنہیں عام طور پر ابابیل کا نام دیا جاتا ہے چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے نمودار ہوئے اور انھوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکرمنیٰکے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالٰی کے حکم سے تباہ و برباد ہو گیا اللہ تعالٰی نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :""کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کی سازش و مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو انھیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے، پس انھیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا""(سورة الفیل)یہ وہی سال تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آل�� وسلم نے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا۔ آپ پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اورتبلیغاسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کر گئے۔بالآخر 10رمضانالمبارک8ھبمطابق 630ء میں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے۔ مدینہ ہجرت کر کے جانے کے بعد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کوفتح مکہکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام اہلیان شہر کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔خلافتاسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جوکعبة اللهسے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔مکہ کبھی ملت اسلامیہ کادارالخلافہنہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دار الخلافہمدینہتھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔خلافت راشدہکے زمانے میں بھی مدینہ ہی دار الخلافہ رہا اور پھر حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں پہلےکوفہاور اس کے خاتمے کے بعددمشقاور بعد ازاںبغدادمنتقل ہو گیا۔مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔ سنہ 1926ء میںسعودیوںنے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کوسعودی عربمیں شامل کر لیا۔[13][14]جنوری، 2022 ء سے مکہ شہر کے مئیر صالح الترکی ہیں۔[15]جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم عمارات ختم ہو چکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔[16]مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے۔ حالیہ سالوں میں ماہذوالحجہمیں 20 سے 30 لاکھ مسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمانعمرےکی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔شہر مکہ میں بنیادی حیثیتبیت اللہکو حاصل ہے جومسجد حراممیں واقع ہے۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گردطوافکرتے ہیں،حجر اسودکو بوسہ دیتے ہیں اورزمزمکے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیںصفااورمروہکی پہاڑیوں کے درمیانسعیاورمنیٰمیںشیطان کو کنکریاں مارنے کا عملبھی کیا جاتا ہے۔ حج کے دورانمیدان عرفاتمیں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکےنمازادا کرتے ہیں۔غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔سعودی عرب کے دوسرے شہروں کے برعکس مکہ کا موسم سردیوں میں بھی نسبتاً گرم رہتا ہے۔ سردیوں میں رات کا درجہ حرارت 17سینٹی گریڈاور دوپہر کے وقت 25 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور دوپہر کو درجہ حرارت عام طور پر 40سینٹی گریڈسے اوپر چلا جاتا ہے جبکہ رات کو بھی 30 درجے تک رہتا ہے۔ نومبر سے جنوری کے درمیان عموماً ہلکی بارشیں ہوتی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+666,152ھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/152%DA%BE,
+667,769ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/769%D8%A1,پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!
+668,مکہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DA%A9%DB%81,"مکہیامکہ مکرمہ(عربی:مَكَّةُ الْمُكَرّمَةْ) تاریخی خطہحجازمیںسعودی عربکےصوبہ مکہکا دار الحکومت[5]اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ شہر کی آبادی 2004ء کے مطابق 12 لاکھ 94 ہزار 167 ہے۔ مکہجدہسے 73 کلومیٹر دوروادی فارانمیں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہبحیرہ احمرسے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔[6]یہ شہراسلامکا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقامبیت اللہیہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کاحجکرنا فرض ہے ۔.[7][8]انگریزیزبان میں Mecca کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں حکومتسعودی عربنے شہر کا انگریزی نام Mecca سے بدل کر Makkah کر دیا۔[9]معروف مؤرخابن خلدونکے مطابق مکہ پہلے بکہ کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم مؤرخین کے درمیان اس امر پر اختلاف ہے:ابراہیم النخعینے بکہ کو کعبہ اور مکہ کو شہر سے منسوب کیا جبکہامام ُزہریبھی اسی کے حامی ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بکہ میں استعمال ہونے والابدونوں آوازوں کے درمیان قربت کے باعث بعد ازاںممیں تبدیل ہو گیا۔ مکہ کو”ام القری“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔.[10]مسجد حرامکے اندر قائمخانۂ کعبہحضرت ابراہیماورحضرت اسماعیلعلیهم السلامنے تعمیر کیا۔ مؤرخین کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا مرکز تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ مکہ جنوبی عرب سے شمال میںرومیوبازنطینیسلطنتوں کے لیے زمینی راستے پر تھا اورہندوستانکے مصالحہ جاتبحیرہ عرباوربحر ہندکے راستے سے یہیں سے گزرتے تھے۔[11][12]کعبة اللهکی تعمیری تاریخ عہد ابراہیم اور اسماعیلعلیهم السلامسے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہر میں نبی آخر الزماںمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمپیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اور یہاں پ رہی مسجدحرامواقع ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :”اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے“ (آل عمران:96 )570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانرواابرہہساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے، اپنے سردارعبدالمطلبکی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ہزاروں پرندے جنہیں عام طور پر ابابیل کا نام دیا جاتا ہے چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے نمودار ہوئے اور انھوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکرمنیٰکے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالٰی کے حکم سے تباہ و برباد ہو گیا اللہ تعالٰی نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :""کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کی سازش و مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو انھیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے، پس انھیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا""(سورة الفیل)یہ وہی سال تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا۔ آپ پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اورتبلیغاسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کر گئے۔بالآخر 10رمضانالمبارک8ھبمطابق 630ء میں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے۔ مدینہ ہجرت کر کے جانے کے بعد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کوفتح مکہکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام اہلیان شہر کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔خلافتاسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جوکعبة اللهسے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔مکہ کبھی ملت اسلامیہ کادارالخلافہنہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دار الخلافہمدینہتھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔خلافت راشدہکے زمانے میں بھی مدینہ ہی دار الخلافہ رہا اور پھر حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں پہلےکوفہاور اس کے خاتمے کے بعددمشقاور بعد ازاںبغدادمنتقل ہو گیا۔مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔ سنہ 1926ء میںسعودیوںنے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کوسعودی عربمیں شامل کر لیا۔[13][14]جنوری، 2022 ء سے مکہ شہر کے مئیر صالح الترکی ہیں۔[15]جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم عمارات ختم ہو چکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔[16]مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے۔ حالیہ سالوں میں ماہذوالحجہمیں 20 سے 30 لاکھ مسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمانعمرےکی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔شہر مکہ میں بنیادی حیثیتبیت اللہکو حاصل ہے جومسجد حراممیں واقع ہے۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گردطوافکرتے ہیں،حجر اسودکو بوسہ دیتے ہیں اورزمزمکے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیںصفااورمروہکی پہاڑیوں کے درمیانسعیاورمنیٰمیںشیطان کو کنکریاں مارنے کا عملبھی کیا جاتا ہے۔ حج کے دورانمیدان عرفاتمیں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکےنمازادا کرتے ہیں۔غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔سعودی عرب کے دوسرے شہروں کے برعکس مکہ کا موسم سردیوں میں بھی نسبتاً گرم رہتا ہے۔ سردیوں میں رات کا درجہ حرارت 17سینٹی گریڈاور دوپہر کے وقت 25 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور دوپہر کو درجہ حرارت عام طور پر 40سینٹی گریڈسے اوپر چلا جاتا ہے جبکہ رات کو بھی 30 درجے تک رہتا ہے۔ نومبر سے جنوری کے درمیان عموماً ہلکی بارشیں ہوتی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ ��بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+670,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+671,سترہویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%AA%D8%B1%DB%81%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<سولہویں صدی <<<سترہویں صدی>>> اٹھارویں صدی>>>
+672,فنانس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D9%86%D8%A7%D9%86%D8%B3,فنانس(Finance)(اردو۔۔۔۔)۔ زر(Moeny) اور اثاثہ جات(Asstets) کیمینجمنٹکو فنانس کہا جاتا ہے۔ مزید دیکھنےزمرہ فنانس
+673,سفارت کاری,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%81%D8%A7%D8%B1%D8%AA_%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C,ملکوں کے درمیاں تعلقات اور کاروبار وغیرہ کو باامن طریقے سے چلانے کے عمل کوسفارت کاریکہلاتی ہے۔ بین الاقوامی مذاکرات بہ آسانی حل کرنے کے طریقے اورسفارت کارکے اسلوبِ عمل بھیسفارت کاریسے عبارت ہے۔امن،جنگ،تجارت،تہذیب،معاشیات،اقتصادیاتوغیرہ میں ممالک کے درمیاںمعاہدےاورمفاہمتیںسفارتکاری ہی سے انجام پزیر ہو تی ہیں،
+674,تجاریات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%AA,کاروبارسے مراد منافع حاصل کرنے کے لیے کسی تنظیم کی قدر سازی (value-creating) سرگرمیاں ہوتی ہیں، جبکہتجاریاتسے مراد معیشت کا وہ پُورا نظام ہے جو کاروبار کے لیے ایک ماحول تشکیل دیتا ہے۔ اِس نظام میں، ملک میں فعال، قانونی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور تکنیکی نظامات شامل ہیں۔ یوں، تجاریات ایک ایسا نظام یا ماحول ہے جو معیشت یا ملک کے کاروباری تناظر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ہم اِس کی تعریف کاروبار کے جزء ثانی کے طور پر بھی کرسکتے ہیں جس میں پیداکاران (producers) سے صارفین تک اجناس کی منتقلی سے وابستہ تمام سرگرمیاں، افعال اور اِدارے شامل ہوتے ہیں۔تجاریات سے اصلاً خرید و فروخت کی تجریدی مفاہیم (abstract notions) مراد ہوتی ہیں، جبکہتجارتاشارہ کرتا ہے اجناس کی کسی خاص قسم کے تبادلے کی طرف (جیسا کہ کپڑے کی تجارت وغیرہ) یا تبادلے کے کسی خاص فعل کی طرف (مثلاً ’’بازارِ حصصپر تجارت‘‘)۔ تجاریات کا لفظ عموماً تجارت، بینکاری، تشہیر وغیرہ کا اِحاطہ کرتا ہے۔کاروبارسے مطلب ایک ایسی تنظیم کی ہو سکتی ہے جسے تصنیع یا تبادلے کے عمل میں لگنے کے لیے بنایا گیا ہو۔
+675,رواج,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%DB%8C%D8%B4%D9%86,رواج(fashion)، سے مراد ایسے انداز اور رسوم ہیں جو ایک خاص وقت پر رائج ہوں۔ عام استعمال میں رواج کی مثالپوشاکسے دی جاتی ہے، لیکن اِس اصطلاح کی معنی وسیع ہیں۔ کئی رواج کئی ثقافتوں میں ایک خاص وقت پر مقبول ہوتے ہیں۔
+676,سائنس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3,"ریاضیریاضیاتی منطقریاضی احصاءشمارندیاتطبیعیاتاطلاقی طبیعیات·جوہری طبیعیاتComputational physicsکثیف مادہ طبیعیاتتجرباتی طبیعیات·میکانیاتنویاتی طبیعیاتذراتی طبیعیات·شاکلی طبیعیاتمقداریہ میکانیاتٹھوس میکانیات·نظریاتی طبیعیاتحرحرکیات·درمائلتعمومی اضافیت·M-theoryخصوصی اضافیتکیمیاءAcid-base reaction theories·Alchemyتحلیلی کیمیاء·Astrochemistryحیاتی کیمیاء·CrystallographyEnvironmental chemistry·Food scienceارضی کیمیاء·Green chemistryغیرنامیاتی کیمیاء·اموادی علمسالماتی طبیعیات·نویاتی کیمیاءنامیاتی کیمیا·نوری کیمیاءطبیعی کیمیاء·RadiochemistrySolid-state chemistry·تجسیمی کیمیاSupramolecular chemistrySurface science·نظریاتی کیمیاءفلکیاتفلکی طبیعیات·علم الکائناتGalactic astronomy·Planetary geologyعلم السیارہ·نجمی فلکیاتزمینیاتکرۂ ہوائیات·بيئياتEnvironmental science·مساحیاتارضیات·شکلی جغرافیہارضی طبیعیات·گلیشیات·مائیاتغدیریات·علم معدنیات·محیطیاتPaleoclimatology·Palynologyطبیعی جغرافیہ·علم ترابعلم الخلاءحیاتیاتتشریح·حیاتیات خلا·حیاتی کیمیاءحیاتیاتی جغرافیہ·حیاتیاتی ہندسیات·حیاتی طبیعیاتحیاتی نفسیات·حیاتی طرزیاتنباتیات·خلوی حیاتیات·بقائی حیاتیات·Cryobiologyنشونمائی حیاتیاتبيئيات·Ethnobiologyار��قائی حیاتیاتوراثیاتضعیفیات·مناعیات·غدیریاتبحری حیاتیات·خرد حیاتیاتسالماتی حیاتیات·علم الاعصابحفریات·طفیلیات·فعلیاتاشعاعی حیاتیات·Soil biologyنظامیات·نظریاتی حیاتیاتسمومیات·حیوانیاتبشری شماریات·علم الآثارجرمیات·بشری شماریاتمعاشیات·تعلیمانسانی جغرافیہ·تاریخبین الاقوامی تعلقات·قانونلسانیات·سیاسیاتنفسیات·معاشریاتہندسیاتزرعی·ہوافضائی·طبی حیاتیکیمیائی·مدنی·شمارندیبرقیاتی·تحفظ آتشزدگی·وراثیIndustrial·Mechanical·MilitaryMining·Nuclear·Operations researchروبالیات·Softwareعلوم صحتحیاتیاتی ہندسیات·طب الاسنانوبائيات·نگہداشت صحت·طبتمریض·صیدلیہ·سماجی کامطب بیطاریApplied physics·مصنوعی ذہانتBioethics·Bioinformatics·Biomedical engineering·Biostatisticsعلم ادراک·شمارندگی لسانیاتCultural studies·CyberneticsEnvironmental science·Environmental social scienceEnvironmental studies·Ethnic studiesارتقائی نفسیات·Forestry·صحتLibrary science·منطقنظریاتی حیاتیات·ریاضیاتی طبیعیاتScientific modelling·Neural engineeringعلم الاعصاب·Science and technology studiesScience studies·Semiotics·معاشری حیاتیاتSystems theory·Transdisciplinarityاسلوب علمتاریخ سائنسفلسفۂ علمScience policyFringe scienceکاذب سائنسبنیادی طور پر توعلمیاسائنسایک منظمطریقۂ کارکے تحت کسی بات کو جاننے یا اس کاعلمحاصل کرنے کو کہا جاتا ہے، اس طرح کہ اس مطالعے کا طریقہ اور اس کے نتائج دونوں ہی بعد میں دوسرے دہرا سکتے ہوں یا ان کی تصدیق کرسکتے ہوں یعنی یوں کہـ لیں کہ وہ قابل تکرار (replicable) ہوں اور اردو میں اس کو علم ہی کہتے ہیں۔ فی الحال سائنس کا کوئی ایسا ترجمہ کرنے (یا اگر کیا گیا ہے تو اس کو عام کرنے) کی کوئی باضابطہ کوشش نہیں کی گئی ہے کہ جو اس کو دیگر علوم سے الگ کر سکے اس لیے اس مضمون میں علم اور سائنس متبادلات کے طور پر استعمال کیے گئے ہیں، لہذا یوں کہ سکتے ہیں کہ مطالعہ کر کے کسی چیز کے بارے میںجاننا(یا ایسی کوشش کرنا) یعنی علم ہی سائنس ہے۔ انگریزی میں سائنس کا لفظلاطینیکے scientia اور اسے قبلیونانیکے skhizein سے آیا ہے جس کے معنی الگ کرنا، چاک کرنا کے ہیں۔ مخصوص غیر فنونی علوم جو انسان سوچ بچار حساب کتاب اور مطالعہ کے ذریعہ حاصل کرتا ہے کہ لیے سائنس کے لفظ کا جدید استعمال سترہویں صدی کے اوائل سے سامنے آیا۔بعض اوقات مندرجہ بالا تعریف کے مطابق حاصل کیے گئے علم یا سائنس کوخالص علم (pure science)بھی کہا جاتا ہے تاکہ اس کو سائنسی اطلاقات کے علم یعنیاطلاقی علمسے الگ شناخت کیا جاسکے۔انسان کے سائنسی مطالعے کا سلسلہ زمانۂ قدیم سے جاری ہے (جس کی تفصیلتاریخ سائنسمیں آجائے گی) اور زمانے کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ اور بہتری ہوتی رہی ہے جس نے سائنس کو اس کی موجودہ شکل عطا کی۔ آنے والے سائنسدانوں نے ہمیشہ گذشتہ سائنسدانوں کے مشاہدات و تجربات کو سامنے رکھ کر ہی نئی پیشگوئیاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال سائنس قدیم ہو یا جدید، بنیادی ہو یا اطلاقی ایک اہم ترین عنصر جو اس سائنسی مطالعے میں شامل رہا ہے وہاسلوب علم یا سائنسی طریقۂ کارہی ہے۔ یہ بھی قابل غور بات ہے کہ اس سائنسی اسلوب میں بھی زمانے کے ساتھ ساتھ ترقی اور باریکیاں پیدا ہوتی رہی ہیں اور آج کوئی بھی سائنسی مطالعہ یا تجربہ اسلوب سائنس پر پورا اترے بغیر قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا۔سائنس اورفنیات (arts)کی تفریق کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ فنیات میں وہ شعبہ جات آجاتے ہیں جو انسان اپنی قدرتی ہنر مندی اور صلاحیت کے ذریعہ کرتا ہے اور سائنس میں وہ شعبہ جات آتے ہیں جن میں غور و فکر، تحقیق اور تجربات کر کے کسی شے کے بارے میں حقائق دریافت کیے جاتے ہیں۔ سائنس اور آرٹس کے درمیان یہ حدِ فاصل ناقابلِ عبور نہیں کہ جب کسی آرٹ یا فن کا مطالعہ منظم انداز میں ہو تو پھر یہ ابتدا میں درج تعریف کے مطابق اس آرٹ کی سائنس بن جاتا ہے۔سائنس کا لفظ 14ویں صدی سے درمیانی انگریزی میں ""جاننے کی حالت"" کے معنی میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ لفظ اینگلو-نارمن زبان سے بطور لاحقہcience-لیا گیا تھا، جو لاطینی لفظscientiaسے لیا گیا تھا، جس کا مطلب ہے ""علم، آگاہی، سمجھ""۔ یہ لاطینی لفظsciensکا ایک اسم مشتق ہے جس کا مطلب ہے ""جاننا"" اور بلا شبہ لاطینی لفظsciōسے ماخوذ ہے۔سائنس کے لفظ کی حتمی اصل کے لیے بہت سے مفروضے ہیں۔ مشیل ڈی وان، ڈچ ماہر لسانیات اور ہند-یورپی زبانوں کے ماہر, کے مطابق،sciōکی ابتدا پروٹو-اٹالک زبان میں لفظskije-یاskijo-سے ہو سکتی ہے جس کا مطلب ہے ""جاننا""، جس کی ابتدا پروٹو-انڈو-یورپی زبان کے لفظ skhio سے ہو سکتی ہے، جس کا مطلب ہے ""چھوڑنا""۔ماضی میں، سائنس اپنی لاطینی اصلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ""علم"" یا ""مطالعہ"" کا مترادف تھا۔ ایک شخص جس نے سائنسی تحقیق کی اسے ""فطری فلسفی"" یا ""سائنس کا آدمی"" کہا جاتا تھا۔ 1834 میں، ولیم وہیل نے میری سومرویل کی کتاب آن دی کنیکشن آف دی فزیکل سائنسز کے جائزے میں سائنس کی اصطلاح متعارف کرائی، اس کا سہرا ""ذہین شریف آدمی"" (ممکنہ طور پر خود) کو دیا۔قدرتی سائنس فطرت اور طبعی دنیا کا منظم علم ہے۔ ان کا مطالعہ کرنے والی بہت سی شاخیں ہیں۔ درحقیقت سائنس کا لفظ تقریباً ہمیشہ قدرتی علوم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کی تین اہم شاخیں ہیں: فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی وغیرہ۔سماجی سائنس انسانی معاشرے کی ساخت اور اس کے ارکان کی سرگرمیوں کا مطالعہ ہے۔ ان میں تاریخ، معاشیات، سماجیات وغیرہ شامل ہیں۔کٹوتی کا طریقہ ان مضامین کا ایک مجموعہ ہے جو منطق اور حساب کے اصولوں کوفلسفہاور سائنس کے مضامین پر لاگو کرتا ہے۔ اس میں ریاضی اور منطق شامل ہیں۔سائنس کے میدان کو عام طور پر دو بنیادی خطوط پر اسطوار کیا جاتا ہے ایک تو وہ جوفطریمظاہرات سے متعلق ہوتے ہیں اورعلوم فطریہ (natural sciences)کہلائے جاتے ہیں اور دوسرے وہ کہ جوانسانی سلوک (human behavior)اورمعاشرےسے تعلق رکھتے ہیں اورمعاشرتی علوم (social sciences)کہلاتے ہیں۔ سائنس کے ان دونوں ہی شعبہ جات کوتجربی (empirical)کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں میں ہی جو معلومات حاصل کی جاتی ہیں ان میں انسانی تجربات اور مظاہر فطرت کے بارے میں شواہدات کا ہونا لازمی قرار دیا جاتا ہے، یعنی ان معلومات کو ایسا ہونا چاہیے جو فردی نہ ہوں بلکہ بعد میں آنے والے سائنس دان یا علما بھی ان کی صحت کی تصدیق کر سکیں اور ان کو اپنے مستقبل کے تجربات میں استعمال بھی کرسکیں، ہاں یہ ہے کہ ایسا کرنے کے دوران میں (یعنی گذشتہ تجربی مشاہدات (سائنس) کی تصدیق کے دوران) وہی ماحول لازم ہو جس میں ان تجربات کو پیش کرنے والے نے کیا تھا۔سائنس کے مندرجہ بالا دو گروہوں (علوم فطریہ اور علوم معاشرہ) کے علاوہ ایک اور گروہ بھی ہے جو سائنس کے ان دونوں گروہوں سے مطابقت کے مقامات کے ساتھ ساتھ کچھ افتراقات بھی رکھتا ہے اور اس گروہ کوقیاسی علوم (formal science)کہا جاتا ہے جس میںریاضی (mathematics)،شمارندی علوم،نظریۂ اطلاعاتاوراحصاء (statistics)جیسے شعبہ جات شامل ہوتے ہیں۔اسلوب علم(scientific method) اصل سائنسی طریقۂ کار کو ہی کہتے ہیں جس میںفطرت (nature)کے اسرار و رموز اور مظاہر کو ایک قابل تکرار (replicable) انداز میں سمجھا جاتا ہے اور انکا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ پھر اس مطالعے کے بعد حاصل کردہ معلومات کی روشنی میںپیشگوئیاںکی جاتی ہیں جو مستقبل کی راہ اور مزید تحقیق کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں۔بعض اوقات کسی بھی ایک سائنسی مطالعے کے دوران میں عقلی طور پر کوئی ایک نتیجہ آنے کا امکان دوسرے کی نسبت زیادہ بھی ہو سکتا ہے لیکن ایسے مواقع پر اسلوب علم کی موجودگی کے باعث سائنس دان اس قدر باضمیر افراد کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی ذہنی لگاوٹ یا جذبے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سے تجربے یا اس کے نتیجے کو متاثر نہیں ہونے دیتے لہذا یہ اسلوب علم کی پیروی ہی ان کے کام کو قابل تکرار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ذاتی لگاوٹ اور کسی بھی تعصب کے رجحانات کو ختم کردینا اسلوب علم کا ایک پہلو ہے، ساتھ ہی یہتجربی نمونے (experimental design)میں بھی معاونت اور راہنمائی فراہم کرتا ہے اور ایک آخری پیمانے کے طور پر اس میںنظرِ ھمتا (peer review)کی موجودگی ؛ تجربہ، تجربے کے طریقۂ کار، استعمال کیے جانے والےآلاتوکیمیائیمرکباتاور حاصل شدہ نتائج تک ہر پہلو کو قابل اعتبار و تکرار بنانے میں نہایت اہمیت رکھتی ہے۔اسلوبات سائنس میں ایک بہت اہماوزار،نمونوں (models)کی تشکیل ہوتی ہے جو کسی تصور یا منصوبے کی تصویرکشی یا وضاحت کرتے ہیں۔ سائنس دان اس نمونے کی تعمیر، جانچ پڑتال اور صحت پر بہت توجہ دیتے ہیں کیونکہ اس کی مدد سے ہی اصل تجربات ممکن ہوتے ہیں اور اسی کی مدد سے ایسی سائنسی پیشگوئیاں کی جا سکتی ہیں جو قابل تکرار ہوں۔مفروضہ (hypothesis)اسلوبات سائنس میں ایک ایسی بات کو کہا جاتا ہے جس کو ابھی تک تائید کی ناقابل تردید تجربی شہادتیں بھی میسر نہ ہوئی ہوں اور دوسری جانب اس کے غلط ہونے کے بارے میں بھی کوئی گذشتہ حتمی تحقیق نا موجود ہو، ایسی صورت میں مفروضہ، نمونے کی تیاری میں مدد دیتا ہے۔نظریہ (theory)کو یوں بیان کرسکتے ہیں کہ یہ کئی مفروضات اور بیانات (اکثر عام طور پر مانے جانے والے) کا ایسا مجموعہ ہوتا ہے جن کو آپس میں منتطقی انداز میں جوڑا جا سکتا ہو یا جوڑا گیا ہو اور اس سے دیگر مظاہر فطرت کی وضاحت میں مدد حاصل ہوتی ہو، جیسےجوہری نظریہ۔طبیعی قانون (physical law)ایک ایسے سائنسی اصول کو کہا جاتا ہے کہ جو گذشتہ مفروضات کے بعد تجرباتی مراحل سے گذر چکا ہو اور اس کے حق میں ناقابل تردید تجربی (empirical) شواہد موجود ہونے کے ساتھ ساتھ قابل تکرار (replicable) شواہد بھی موجود ہوں۔سائنسی اسلوب میں ایک اور اہم پہلو اس میںتحریضی (inductive)کیفیت کا ہونا ہے، یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس دنیا کے کسی مظہر کے بارے میں کسی بات کی جانب مائل کرتی ہے یا یوں کہ لیں کے اس کی ترغیب دیتی ہے اور اس کو تجربے سے ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سائنس کبھی کوئی مطلق دعویٰ نہیں کرتی اور ہمیشہ نئے شواہد و حقائق کے لیے اپنے اندرتحریف (falsification)کی گنجائش رکھتی ہے۔ اور اس مقصد کے لیے اوپر بیان کردہ مُراجعۂ ثانی (peer review) نہایت اہم ہے جس کی خاطر تمام معلومات کادائرۂ عاممیں ہونا اور ہر کسی کی رسائی میں ہونا لازمی ہے۔ تاکہ نا صرف یہ کہنظر ثانی (review)کیا جاسکے بلکہ ساتھ ساتھ ہی کسی ایک سائنس دان کے تجربے کو اس کا کوئیھمتا(peer) دہرا کر اس کے قابل تکرار ہونے کا اندازہ کرسکے یا تصدیق کرسکے۔ ھمتا یا peer سے مراد یہاں ہم عصر سائنسدانوں سے ہے، یعنی کوئی ایسا سائنس دان جو اتنا ہی قابل ہو جتنا کہ تجربہ کرنے والا سائنس دان۔سائن�� اورریاضی (mathematics)آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور سائنس کا کوئی شعبہ ایسا نہیں (خواہ اس کا تعلقطبیعیاتسے ہو یا علمکیمیاءسے،حیاتیاتسے ہو یاوراثیاتسے ) جو ریاضی کی مدد کے بغیر چل سکتا ہو۔ جیسا کہ تعارف کے بیان میں ذکر آیا کہ عام طور پر ریاضی کو سائنس کے جس گروہ میں شامل کیا جاتا ہے اسےتشکیلی علومکہتے ہیں[1]، یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ بعض ذرائع ریاضی کوبنیادی یا خالص سائنسمیں بھی شمار کرتے ہیں[2][3]ریاضی کی ہر ایک شاخ ہی سائنس کے دیگر شعبہ جات میں کام آتی ہے جن میںاحصاء (statistics)،حسابان (calculus)سمیت ریاضی کی وہ شاخین بھی شامل ہیں جنہیں عام طور پر خالص ریاضی میں شمار کیا جاتا ہے مثال کے طور پرنظریۂ عدد (number theory)اوروضعیت (topology)وغیرہ۔جس طرح ایکطبیبایک سائنس دان بھی ہو سکتا ہے بالکل اسی طرح ایک ریاضی داں، بجا طور پر ایک سائنس دان ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ ان تمام تر اسلوب سائنس کی پیروی کر رہا ہوتا ہے جن کی مدد سے ہیسائنسی نمونے،تجربی نمونے،مفروضےاورسائنسی پیشگوئیاںممکن ہوتی ہیں۔فلسفۂ سائنس اصل میں سائنس کی بنیادوں، اس میں قائم مفروضات، اس کے تجربات کی حقیقت اور تجربات سے حاصل ہونے والے نتائج کی حقیقت اور ان نتائج یا سائنس کے اخلاقی کردار اور زندگی میں اس کے اطلاقات جیسے موضوعات سے بحث رکھتا ہے۔ اس کو بنیادی طور پر دو ذیلی شعبہ جات میں تقسیم کیا جاتا ہے، اول ؛علمیات یا معلوماتشناسیجس کو انگریزی میںepistemologyکہتے ہیں اور دوم ؛مابعد الطبیعیاتجسے انگریزی میںmetaphysicsکہا جاتا ہے۔ ان میں علمیات تو علم (سائنس) کی حیققت کی تلاش کو کہتے ہیں جبکہ مابعد الطبیعیات پھر اس حقیقت کی فطرت کا کھوج لگانے کو کہا جاتا ہے، ان کی مزید تفصیل کے لیے ان کے صفحات مخصوص ہیں۔ فلسفۂ سائنس وہ مقام ہے کہ جہاں اکثر سائنس اور ناسائنس کے مابین حدود معدوم ہی ہوجاتی ہیں۔فلسفۂ سائنس کے مطابق سائنس ایک ایسے تجزیات یا حقائق کا نام ہے کہ جنھوں نے شواہداتی بنیادوں پر ہماری حسوں کو تحریک دی ہو یعنی کسی بھی متعلقہ مظہرقدرتکو اس کے طبیعی شواہد کی بنا پر محسوس کیا گیا ہو۔ یہاںحس(مشاہدے) کا طبیعی یا فطری ہونا لازم ہے کیونکہ اگر کوئی چیز طبیعی کیفیات سے بلند ہو تو پھر اسے سائنس نہیںمافوق الفطرت (supernatural)کے زمرے میں رکھا جاتا ہے اور تصوراتی سمجھا جاتا ہے جب تک کہ اس کیانسانیسمجھ کے مطابق وجوہات اور اس کے وجود کی توجیہ کے بارے میں شواہد نا مل جائیں۔کئی راہنما اصولوں (جیسےتیغِ اوکام (Occam's razor)کا اصولِبخل (parsimony)) سے استفادے کہ بعد سائنسی نظریات کومنطقاور توجیہات کے پیمانوں سے تراشہ جاتا ہے اور پھر کانٹ چھانٹ کے بعد وہی نظریات (یا نظریہ) قابل قبول حیثیت میں قائم رہ جاتا ہے جس کے بارے میں سب سے واضع اور ٹھوس شواہد میسر آچکے ہوں۔سائنس کی تقسیم مندرجہ ذیل اہم شاخوں میں کی جاتی ہے جو مزید چھوٹی چھوٹی کلاسوں میں تقسیم ہیں۔"
+677,انیسویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%B3%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<اٹھارویں صدی <<<انیسویں صدی>>> بیسویں صدی>>>انیسویں صدی میں 321 سے زیادہ بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ ان میںنپولینکی جنگ،کریمیاکی جنگ،امریکاکی سِول وار، چین میںبوکسر کی جنگ، ہندوستان کیجنگ آزادیاورجنگ افیونشامل ہیں۔ان جنگوں میں سے 52 جنگیںیورپمیں لڑی گئیں۔ان سو برسوں میں برطانیہ جو اس وقت کی سُپر پاور تھا، 73 جنگوں میں شامل تھا۔فرانسنے 50 اوراسپیننے 44 جنگوں میں حصہ لیا۔چھ بڑی لڑائیوں میں برطانیہ اور فرانس اتحادی ��ھے۔ اسپین اور فرانس نو جنگوں میں اتحادی رہے۔ جبکہ برطانیہ اور اسپین سات مختلف جنگوں میں اتحادی تھے۔1803ء سے 1900ء کے درمیان برطانیہ اور فرانس آٹھ موقعوں پر ایک دوسرے کے خلاف لڑے۔ صرف 1815ء میں اسپین اور فرانس چار مرتبہ ایک دوسرے کے خلاف لڑے۔ اسی صدی میں برطانیہ اور اسپین 6 مرتبہ ایک دوسرے کے خلاف لڑے۔[1]
+678,دوسری جنگ عظیم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%86%DA%AF_%D8%B9%D8%B8%DB%8C%D9%85_%D8%AF%D9%88%D9%85,"جنگ عظیم دومیادوسری عالمی جنگایکعالمی تنازعہتھا جو 1939 سے 1945 تک جاری رہا۔دنیا کے ممالک کی اکثریت، بشمول تمام عظیم طاقتیں، دو مخالف فوجی اتحاد کے حصے کے طور پر لڑے: ""اتحادی"" اور ""محوری""۔ بہت سے شریک ممالک نے اس پوری جنگ میں تمام دستیاب اقتصادی، صنعتی اور سائنسی صلاحیتوں کو سرمایہ کاری کر کے شہری اور فوجی وسائل کے درمیان فرق کو کم کر دیا۔ ہوائی جہازوں نے ایک اہم کردار ادا کیا، جس نے آبادی کے مراکز پر اسٹریٹجک بمباری اور جنگ میں استعمال ہوئےصرف دو جوہری ہتھیاروںکی ترسیل کو قابل بنایا۔ یہ تاریخ کا اب تک کا سب سےمہلک تنازعتھا، جس کے نتیجے میں7 سے 8.5 کروڑ ہلاکتیںہوئیں۔ہولوکاسٹسمیتنسل کشی، بھوک، قتل عام اور بیماری کی وجہ سے لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ محور کی شکست کے نتیجے میں،جرمنی، آسٹریا اورجاپان پر قبضہکر لیا گیا اور جرمن اور جاپانی رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے چلائے گئے۔جنگ کے اسبابپر بحث ہوتی ہے۔ تعاون کرنے والے عوامل میں یورپ میں فاشزم کا عروج،ہسپانوی خانہ جنگی،دوسری چین-جاپانی جنگ،سوویت-جاپانی سرحدی تنازعاتاورپہلی جنگ عظیم کے بعدتناؤ شامل ہیں۔ دوسری جنگ عظیم عام طور پر 1 ستمبر 1939 کو شروع ہوئی ،ایسا سمجھا جاتاہے۔ جبایڈولف ہٹلرکے ماتحتنازی جرمنینےپولینڈ پر حملہکیا۔برطانیہاورفرانسنے 3 ستمبر کو جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ اگست 1939 کےمولوتوف - ربنٹروپ معاہدہکے تحت، جرمنی اورسوویت یونیننےپولینڈکو تقسیم کر دیا اورفن لینڈ، ایسٹونیا، لٹویا، لتھوانیااوررومانیہمیں اپنے ’’حلقہ اثر‘‘ کو نشان زد کر دیا۔1939 کے اواخر سے 1941 کے اوائل تک،مہماتاورمعاہدوںکی ایک سیریز میں، جرمنی نےاٹلی،جاپاناور دیگر ممالک کے ساتھ محور نامی فوجی اتحاد میںبراعظم یورپ کے بیشتر حصوںکو فتح یا کنٹرول میں لے لیا۔شمالیاورمشرقی افریقہمیں مہمات کے آغاز اور 1940 کے وسط میںفرانس کے زوالکے بعد، جنگ بنیادی طور پر یورپی محور ی طاقتوں اوربرطانوی سلطنتکے درمیان جاری رہی،بلقان میں جنگ،برطانیہ کی فضائی جنگ،بلٹز۔ برطانیہ کی اوربحر اوقیانوس کی جنگ۔ جون 1941 میں،جرمنینےسوویت یونین پر حملےمیں یورپی محور طاقتوں کی قیادت کرتے ہوئے،مشرقی محاذکھولا، جو تاریخ میںجنگ کا سب سے بڑا زمینی تھیٹرتھا۔جاپان کا مقصدمشرقی ایشیا اور ایشیائی بحرالکاہل پر غلبہحاصل کرنا تھا اور 1937 تکجمہوریہ چینکے ساتھ جنگ پر تھا۔ دسمبر 1941 میں، جاپان نے جنوبمشرقی ایشیا اور وسطی بحرالکاہلکے خلاف تقریباً بیک وقت حملوں کے ساتھ امریکی اور برطانوی علاقوں پر حملہ کیا، جس میںپرل ہاربر پر حملہبھی شامل تھا، جس کے نتیجے میں امریکا اور برطانیہ نے جاپان کے خلاف اعلان جنگ کیا۔یورپی محوری طاقتوں نے یکجہتی کے طور پر امریکہ کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔جاپان نے جلد ہی مغربی بحرالکاہل کا بیشتر حصہ فتح کر لیا، لیکن 1942 میںمڈ وے کی اہم جنگہارنے کے بعد اس کی پیش قدمی روک دی گئی۔ جرمنی اور اٹلی کوشمالی افریقہ میںاور سوویت یونین کےاسٹالن گراڈمیں شکست ہوئی۔ 1943 میں اہم دھچکے — بشمول مشرقی محاذ پر جرمن شکست،سسلیاوراطالوی سرزمینپر اتحادیوں کے حملے اور بحرالکاہل میں اتحادی افواج کی کارروائیوں نے محوری طاقتوں کو ان کی اقدام کی قیمت چکانی پڑی اور انھیں تمام محاذوں میں حکمت عملی سے پسپائی پر مجبور کر دیا۔ 1944 میں، مغربی اتحادیوں نےجرمنی کے زیر قبضہ فرانس پر حملہ کیا، جب کہ سوویت یونین نے اپنےعلاقائی نقصانات کو دوبارہ حاصلکیا اور جرمنی اور اس کے اتحادیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ 1944-1945 کے دوران، جاپان کو سرزمین ایشیا میں الٹ پھیر کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ اتحادیوں نےجاپانی بحریہکو معذور کر دیا اور مغربی بحر الکاہل کے اہم جزائر پر قبضہ کر لیا۔ یورپ میں جنگ کا اختتامجرمن مقبوضہ علاقوںکی آزادی؛ سوویت یونین اورمغربی اتحادیوں کی طرف سے جرمنی پر حملہ؛ سوویت فوجیوں کے ہاتھوںبرلن کے زوال؛ہٹلر کی خودکشی؛ اور جرمنی کے8 مئی 1945کوغیر مشروط ہتھیار ڈال دینےکے ساتھ ہوا۔پوٹسڈیم اعلامیہکی شرائط پر جاپان کے ہتھیار ڈالنے سے انکار کے بعد، امریکا نے 6 اگست کوہیروشیمااور 9 اگست کوناگاساکیپرایٹم بم گرایا۔جاپانی جزیرہ نما پر آنے والے حملے، مزید ایٹم بم دھماکوں کے امکان اورمنچوریا پر حملہ کرنے کے موقعپر سوویت یونین کے جاپان کے خلافاعلان کردہ جنگمیں داخلے کا سامنا کرتے ہوئے، جاپان نے 10 اگست کو ہتھیار ڈالنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا،2 ستمبر 1945کوہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخطکیے ۔دوسری جنگ عظیم نے دنیا کی سیاسی صف بندی اور سماجی ڈھانچے کو تبدیل کر دیا اور 20ویں صدی کے بقیہ حصے اور 21ویں صدی میں بین الاقوامی نظام کی بنیاد رکھی۔اقوام متحدہکا قیام بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے اور تنازعات کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا، جس میں فاتح عظیم طاقتیں - چین، فرانس، سوویت یونین، برطانیہ اور امریکا - اس کیسلامتی کونسلکےمستقل رکنبنے۔ سوویت یونین اور امریکا ،حریفسپر پاوربن کر ابھرے، جس نےسرد جنگکا آغاز کیا۔ یورپی تباہی کے نتیجے میں، اس کی عظیم طاقتوں کا اثر و رسوخ کم ہو گیا، جس سےافریقہاورایشیا کی غیر آبادکاریشروع ہو گئی۔ زیادہ تر ممالک جن کی صنعتوں کو نقصان پہنچا تھا وہمعاشی بحالی اور توسیعکی طرف بڑھ گئے۔جنگ عظیم کا بیج اسی وقت بو دیا گیا تھا جب معاہدہ ورسائی پر دستخط ہوئے تھے۔ لیکن اس کا باقاعدہ آغاز 1 ستمبر 1939ء کو پولینڈ پر جرمن حملے؛ اوراس کے دو دن بعد، 3 ستمبر 1939کو برطانیہ اور فرانس کے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کے ساتھ ہوا۔ 1918ء سے 1939ء تک کی یورپین تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ اس کا خواہاں تھا کہ ہٹلر زیادہ سے زیادہ طاقت پکڑ جائے۔ اسی غرض سے اس نے چیکو سلواکیہ کے حصے علاحدہ کیے اور پھر پورے چیکوسلواکیہ پر جرمنیوں کا قبضہ ہونے پر بھی برطانیہ خاموش رہا کہ ہٹلر کی حکومت مضبوط ہو جائے تاکہ وہ روس پر حملہ کرے۔ مگر جب ہٹلر نے روس پر حملہ کرنے کی بجائے پولینڈ پر حملہ کر دیا تو انگریز گھبرا اٹھے اور انھوں نے پولینڈ کی حمایت میں نازی جرمنی کے خلاف ہتھیار اٹھا دیے۔بحرالکاہل کی جنگ کے آغاز کی تاریخوں میں 7 جولائی 1937 کو دوسری چین-جاپانی جنگ کا آغاز یا اس سے قبل 19 ستمبر 1931 کو منچوریا پر جاپانی حملہ شامل ہے۔ برطانوی مؤرخ اے ،جے، پی، ٹائیلر کے مطابق، چین-جاپانی جنگ اور یورپ اور اس کی کالونیوں میں جنگ ایک ساتھ شروع ہوئی اور یہ دونوں جنگیں 1941 میں دوسری جنگ عظیم بن گئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے لیے دیگر نظریاتی آغاز کی تاریخوں میں 3 اکتوبر 1935 کو حبشہ پر اطالوی حملہ شامل ہے۔ برطانوی مؤرخ اینٹونی بیور دوسری جنگ عظیم کے آغاز کو خلخن گول کی لڑائیوں کے طور پر دیکھتے ہیں جو مئی سے ستمبر 1939 تک جاپان اور منگولیا اور سوویت یونین کی افواج کے درمیان لڑی گئی تھی۔ کچھ مؤرخ ہسپانوی خانہ جنگی کو دوسری جنگ عظیم کے آغاز یا پیش کش کے طور پر دیکھتے ہیں۔جنگ کے خاتمے کی صحیح تاریخ پر عالمی سطح پر اختلاف ہے۔ اس وقت عام طور پر یہ قبول کیا گیا تھا کہ جنگ 2 ستمبر 1945 کو جاپان کے رسمی ہتھیار ڈالنے کی بجائے 15 اگست 1945 (V-J ڈے) کی جنگ بندی کے ساتھ ختم ہوئی، جس سے ایشیا میں جنگ کا باضابطہ طور پر خاتمہ ہوا۔ 1951 میں جاپان اور اتحادیوں کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا۔1990 کے جرمنی کے مستقبل کے بارے میں ایک معاہدے نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی اجازت دی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کے بیشتر مسائل کو حل کیا۔ جاپان اور سوویت یونین کے درمیان کبھی بھی کسی رسمی امن معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے، حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی حالت 1956 کے سوویت-جاپانی مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے ختم ہو گئی تھی، جس نے ان کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات بھی بحال کر دیے تھے۔یکم ستمبر 1939ء کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔ 3 ستمبر برطانیہ اورفرانسنے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ 28 ستمبر جرمنی اورروسمیں پولینڈ کی تقسیم کے بارے میں معاہدہ ہوا۔ 30 نومبر کو روس نے فن لینڈ پر حملہ کر دیا۔فن لینڈپر حملے کے بعد جرمنی نے روس کو بھی اپنا دشمن بنا لیا9 اپریل 1940ء کو جرمنی نےڈنمارکپر قبضہ کر لیا۔ اور ناروے پر حملہ کیا۔ 10 مئی کو جرمنی نے بلیجیم، ہالینڈ اورلکسمبرگپر حملہ کیا۔ انہی دنوںچرچلوزیر اعظمبنا۔10 جون کواطالیہنےفرانسکے خلاف اعلان جنگ کیا۔ 13 جون جرمنی نے پیرس پر قبضہ کر لیا۔ 22 جون فرانس نے ہتھیار ڈال دیے۔ 27 ستمبر کوجرمنی، اطالیہ، جاپان کا سہ طاقتی معاہدہ ہوا۔14 اپریل 1941ء روس اورجاپاننے معاہدہ غیر جانبداری سامنے آیا۔ 22 جون کو روس پر جرمنی نے حملہ کر دیا۔ 25 تا 29 اگست برطانیہ اور روس کاایرانپر حملہ اور قبضہ ہوا۔ 7دسمبر کو جنگ میں اعلان کے بغیر جاپان نے شمولیت اختیار کی۔ 8 دسمبر کو جاپان نے امریکا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ 11 دسمبر کو جرمنی اور اطالیہ کی طرف سےامریکاکے خلاف اعلان جنگ کا ہوا۔
+جازی ملک بھی شامل تھا تب26 جولائی 1943ء میںمسولینیکی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اور وہ گرفتار ہوا۔9 ستمبر1943ء اطالیہ نے اتحادیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ مسولینی کو
+خود عوام نے چوک پر پھانسی دینے کے بعد لاش کو آگ لگادی۔جون 1944ء اتحادی جُیُوش سرزمین فرانس پر اتریں۔ فرانسیسی جیش نے جرمن جیش سے بری طرح شکست کھائی اور ہتھیار ڈال دیے۔ بعد میں سب موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ جرمنی کا زوال سٹالن گراڈ کی بھیانک جنگ سے شروع ہوا۔ جرمن جیش بلاشبہ کامیاب تھی لیکن سردی اوربرف بارینے ان کی شکست یقینی بنادی۔
+ہزاروں فوجی سردی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ سٹالن گرڈ کا قومی ہیرو Vasili Zaistov کو مانا جاتا ہے جو بہترین نشانہ باز تھے۔
+PONKA28 اپریل کو مسولینی کو اطالوی عوام نے پھانسی دے دی۔ 30 اپریل کوہٹلرنےخود کشیکر لی۔ 7 مئی کو جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے۔ 6 اگست کو جاپان کے شہرہیروشیماپر امریکا نےایٹم بمگرایا۔ 9 اگست کو جاپان کا دوسرا شہرناگا ساکیایٹم بم کا نشانہ بنا۔ 14 اگست کو جاپان نے ہتھیار ڈال دیے۔اس جنگ میں 61 ملکوں نے ��صہ لیا۔ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا 80 فیصد تھی۔ اور جُیُوش کی تعداد ایک ارب سے زائد۔ تقریباً 40 ملکوں کی سرزمین جنگ سے متاثر ہوئی۔ اور 5 کروڑ کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا۔ تقریباً 2 کروڑ روسی مارے گئے۔ اور اس سے اور کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ روس کے 1710000000 شہر اور قصبے۔ 70000 گاؤں اور 32000 کارخانے تباہ ہوئے۔پولینڈکے 600،000،یوگوسلاویہکے 1700000فرانسکے 600000برطانیہکے 375000 اورامریکاکے 405000 افراد کام آئے۔ تقریباً 6500000 جرمن موت کے گھات اترے اور 1600000 کے قریباٹلیاور جرمنی کے دوسرے حلیف ملکوں کے افراد مرے۔ جاپان کے 1900000 آدمی مارے گئے۔
+جنگ کا سب سے ظالمانہ پہلو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کا ایٹمی حملہ تھا۔ جاپان تقریباً جنگ ہار چکا تھا لیکن دنیا میں انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکے دار امریکا نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔اس جنگ کی وجہ سے جہاں کروڑوں انسانوں کو نقصان ہوا وہاں خوش قسمتی سےہندوستانکے لوگوں کو فائدہ ہوا آزادی بھی ملی کیونکہبرطانیہکی معیشت اس جنگ کی وجہ سے کافی کمزور ہو گئی تھی اور وہجنوبی ایشیاءکے کروڑوں لوگوں جو پہلے ہی بپھری ہوئی تھی کو سنبھال نہیں سکتا تھااور اس جنگ کی وجہ سےبھارتاور اورپاکستانکی آزادی کی راہ ہموار ہوئی۔ جنگ کے عالمی منظر نامے پر دوررس اثرات مرتب ہوئے۔ تاجبرطانیہکاسورجغروب ہوا اور جنگ کے بعد اسے اپنے کئی نوآبادیات میں سے نکلنا پڑا جس میںہندوستانبھی شامل تھا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی منظر نامے پر دو بڑی طاقتیں نمودار ہوئیں۔ روس اور امریکا۔ ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان میں سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ جس کی وجہ سے کئی چھوٹی جنگیں لڑی گئیں۔ جدید جمہوری ریاستیں اور کمیونسٹ ریاستیں اس جنگ کے بعد ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہوگئیں۔جنگ عظیم دوم"
+680,ایل-دو-فرانس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D9%84-%D8%AF%D9%88-%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3,"ایل-دو-فرانس(فرانسیسی: Île-de-France)فرانسکا ایکفرانس کے علاقےجومیٹروپولیٹن فرانسمیں واقع ہے۔[1]ایل-دو-فرانس کی مجموعی آبادی 12,005,077 افراد پر مشتمل ہے۔شہر ایل-دو-فرانس کے جڑواں شہروارساوبیروتہیں۔"
+681,فرانس کے علاقے,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3_%DA%A9%DB%92_%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%DB%92,فرانسکو 27 انتظامی علاقوں (Regions) ((فرانسیسی:région)،تلفظ:[ʁe.ʒjɔ̃]) میں تقسیم کیا ہے۔ جن میں سے 22 میٹروپولیٹن فرانس میں ہیں اور 5 سمندر پار ہیں۔Annexed by Germany fromفرانسیسی جرمن جنگ 1870-71to the end ofپہلی جنگ عظیمand briefly duringدوسری جنگ عظیم
+682,خام ملکی پیداوار,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%A7%D9%85_%D9%85%D9%84%DA%A9%DB%8C_%D9%BE%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D9%88%D8%A7%D8%B1,کسی مخصوص مدت (عموماً مالیاتی سال) کے دوران کسی ملک کی حدود میں پیدا ہونیوالی تماماشیاءاورخدماتکی بازار میں موجود قدر (مارکیٹ ویلیو) خام ملکی پیداوار (GDP - gross domestic product) کہلاتی ہے۔ یہ معاشی ترقی کا سب سے اہم شماریاتی اشاریہ ہے۔ اس میں وہ اشیاء اور خدمات شامل نہیں ہیں جو اس ملک کے شہری غیر ممالک میں پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہم اس میں وہ اشیاء اور خدمات شامل کر دیں جو اس ملک کے شہری غیر ممالک میں پیدا کرتے ہیں اور وہ پیداوار تفریق کریں جو غیر ملکی اس ملک میں کر رہے ہیں تو اسےخام قومی پیداوار(GNP - gross national product) کہتے ہیں۔
+683,یورو,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%88,یورویورپکے اکثر ممالک میں رائج کرنسی کا نام ہے۔ یہ 1999ء میں دنیاوی معیشت میں متعارف کیا گیا اور 2002ء میں سکوں اور نوٹوں کی شکل میں جاری کیا گیا۔ یورپی یونین کے تمام ممالک اس کرنسی کو اپنا سکتے ہیں اگر وہ کچھ مالیاتی شرائط کو پورا کر لیں۔ تمام ممبر ممالک کے لیے آخر کار اس کرنسی کو اپنانا لازمی ہے۔ 2004ء تکآسٹریا،بلجیم،فن لینڈ،فرانس،جرمنی،یونان(گریس)،آئرلینڈ،اٹلی،لکسمبرگ،نیدرلینڈ،پرتگالاورسپیناسے اپنا چکے ہیں۔یورو کرنسی 1، 2، 5، 10، 20، 50 سینٹ اور 1 اور 2 یورو کے سکوں اور 5، 10، 20، 50، 100، 200 اور 500 یورو کے نوٹوں پر مشتمل ہے۔کاغذی کرنسی
+684,یورپ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE,"یورپیافرنگستان(انگریزی: Europe) دنیا کے سات روایتی براعظموں میں سے ایک ہے تاہمجغرافیہدان اسے حقیقیبراعظمنہیں سمجھتے اور اسےیوریشیاکا مغربیجزیرہ نماقرار دیتے ہیں۔ اصطلاحی طور پرکوہ یورالکے مغرب میں واقع یوریشیا کا تمام علاقہ یورپ یا فرنگستان کہلاتا ہے۔یورپ کے شمال میںبحر منجمد شمالی، مغرب میںبحر اوقیانوس، جنوب میںبحیرہ روماور جنوب مشرق میں بحیرہ روم اوربحیرہ اسودکو ملانے والے آبی راستے اورکوہ قفقازہیں۔ مشرق میں کوہ یورال اوربحیرہ قزوینیورپ اورایشیاکو تقسیم کرتے ہیں۔فرنگستانرقبےکے لحاظ سےآسٹریلیاکو چھوڑ کر دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کا رقبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر ہے جو زمین کے کل رقبے کا صرفدوفیصد بنتا ہے۔ یورپ سے بھی چھوٹا واحد براعظمآسٹریلیاہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ تیسرا سب سے بڑا براعظم ہے جس کی آبادی 71 کروڑ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 11 فیصد بنتا ہے۔Within the above-mentioned states are severalدرحقیقتindependent countries withمحدود تسلیم شدہ ریاستوں کی فہرست۔ None of them are members of the UN:Several dependencies and similar territories with broad autonomy are also found within or in close proximity to Europe. This includes Åland (aفن لینڈ کے علاقہ جات)، two constituent countries of the Kingdom of Denmark (other than Denmark itself)، threeتاج توابع، and twoبرطانوی سمندر پار علاقے۔ Svalbard is also included due to its unique status within Norway, although it is not autonomous. Not included are the threeمملکت متحدہ کے ممالکwith devolved powers and the twoپرتگال کے خود مختار علاقہ جات، which despite having a unique degree of autonomy, are not largely self-governing in matters other than international affairs. Areas with little more than a unique tax status, such asHeligolandand theجزائر کناری، are also not included for this reason."
+688,10 محرم,https://ur.wikipedia.org/wiki/10_%D9%85%D8%AD%D8%B1%D9%85,سانچہ:تقویم 2/یکم تاریخاس دن یوم عاشور منایا جاتا ہے۔
+689,61ھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/61%DA%BE,
+691,کربلا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D8%B1%D8%A8%D9%84%D8%A7,"کربلا (عربی میں كربلاء)عراقکا ایک مشہور شہر ہے جوبغدادسے 100 کلومیٹر جنوب مغرب میں صوبہ کربلا میں واقع ہے۔ یہواقعۂ کربلااورحسین ابن علیکے روضہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے پرانے ناموں میں نینوا اور الغادریہ شامل ہیں۔ اس کی آبادی دس لاکھ کے قریب ہے جومحرماورصفرکے مہینوں میں زائرین کی وجہ سے بہت بڑھ جاتی ہے۔زیادہ تر زائرین ایران، کوردستان،آذربائیجان،بحرین، ہندوستان اور پاکستان سے آتے ہیں.فصل غلہ خاص کر فصل گندم کاٹ کر پچھوڑنے یعنی بھُوسا اڑا کر صاف کرنے کوکربلکہتے ہیں۔ کیچڑ میں بدقت اور آہستہ چل کر آنے کے لیے بھیمکربلاکہا جاتا ہے۔ جیسےجاء یمشی مکربلاً[3]یعنی وہ مٹی ملے ہوئے پانی (کیچڑ) میں بدقت چل کر آیا۔
+لفظ کربلا کی اصل سے متعلق کئی مختلف نظریات و تحقیقات پیش کی جاتی ہیں۔ عربی زبان کے یہ دونوں لفظ کربل اور كربلة تلفظ کے اعتبار سے یکساں ہیں، کربلاء (اردو میں ہمزہ کے بغیر) اسی سے مشتق بتایا جاتا ہے۔اسی مؤلف نے بطور مثال کربلت و غربلت کے الفاظ پر مشتمل یہ شعر پ��ش کیا ہے۔بعض نے کہا ہے کہ اس کا نامطفہے، یعنی سرسبز و شاداب جگہ۔ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے اور کربل نام ہے الحماض کی طرح کے پودوں کا چونکہ یہ قسم یہاں بکثرت اگتی تھی اس لیے بھی اس کا (کربلا کا) یہ نام پڑ گیا تھا۔
+اس کی ایک مثالابو دہیل الجمی نے ایک شعر (یہ شعر تھوڑے فرق سےسلیمان بن قتیبہسے بھی منسوب کیا جاتا ہے)
+میں کربلا کی جگہ طف کا نام استعمال کیا ہے۔اردووفارسی زبانوالے عام طور پر اسے دو الگ الگعربیالفاظ کرب اور بلا سے مرکب بتاتے ہیں،[8][9]عربی میںکربمصیبت اور دکھ کو کہتے ہیں،بلاعربی میں امتحان، آزمائش، دکھ، مصیبت اور نعمت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔یہعراقکا ایک امیر شہر ہے، جہاں پر مذہبی زائرین اور زرعی پیداوار سے کثیر دولت حاصل ہوتی ہے، خاص کرکھجورسے۔ یہ دو اضلاع پر مشتمل ہے، پرانا کربلا مذہبی مرکز اور نیا کربلا رہائشی علاقہ، جہاں اسلامی مدارس اور حکومتی عمارات ہیں۔پرانے شہر کے وسط میںمزارحسینیواقع ہے، جس میںمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے،فاطمۃ الزھراءوعلی بن ابی طالبکے بیٹےحضرت امام حسیندفن ہیں۔ اس مزار پر مسلمان کثرت سے زیارت کے لیے آتے ہیں، خاص طور پرمحرمکے مہینے میں کیوں کے اسی مہینے میںیوم عاشورہکو انھیں کربلا میںشہیدکیا گيا تھا۔ اوراربعینیعنیچہلم(کسی شخص کے وصال کا چالیس واں دن) پر زائریں کی تعداد 20 ملین تک پہنچ جاتی ہے۔ جو لوگوں کا دنیا بھر میں سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔[حوالہ درکار]ان میں ایک بڑی تعدادنجفسے 80 کلومیٹر کا فاصلہ کربلا کی طرف پیدل چل کر طے کرتی ہے۔ یہ لوگ چہلم سے ایک ہفتہ پہلے ہی نکل پڑتے ہیں، راستے میں سونے اور کھانے پینے کے مقامات بنائے گئے ہیں۔نجفسے کربلا تک کا راستہ لوگوں کے اس ہجوم کے سبب بند ہوتا ہے۔ کئی لوگ ہر سال اپنا سب کچھ ختم کر کے وفاداری کا عزم کرتے ہیں اور کچھ بوڑھے یہاں پر ہی اپنی موت کی تمنا کرتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ یہ مزار جنت کا ایک دروازہ ہے۔کربلا میں دوسری بڑی زیارت گاہجناب غازی عباس علمدارکا مزار ہے۔
+تیسری بڑی زیارت گاہالمخیمیعنی خیام گاہ ہے، اس مقام کے بارے ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سانحہ کربلا کے وقتحضرت امام حسیناور ان کےاہل بیتکے |خیمے تھے۔تاریخِ اسلام کا خون چکاں واقعہ جو 'سانحۂ کربلا' سے جانا جاتا ہے، یہیں پیش آیا۔ یہ واقعہ31 مئی680ءبمطابق10 محرم61 ھ کو ہوا ہے۔کربلا میں جو کچھ ترقی ہوئی ہے اس میں زیادہ تر فارسی قوم کا ہاتھ رہا ہے۔ مارچ 1991ء کو حملوں کے نتیجے میں شہر بری طرح برباد ہوا اور مزارِ حسین سمیت کئی مذہبی عمارتوں کو نقصان پہنچے۔ 1994ء کو پھر مزارِ حسین کی تعمیرِنو ہوئی۔[10]کربلا کی فضا ریگستانی علاقہ ہونے کے سبب شدید گرم ہے۔ گرمیاں خشک اور سردی شدید ہوتی ہے۔ اگر بارشں ہو تو عام طور پرنومبراوراپریلکے درمیان ہی ہوتی ہے۔ لیکن کوئی مہینا بھی برسات کا نہيں ہوتا۔اہل تشیععقیدہ رکھتے ہیں کہ، کربلا روئے زمین پر مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں ذیل کی روایات پیش کی جاتی ہیں:اللہ تعالیٰنے، میرے جدامام حسینکی قبر کی مٹی سے ہر کسی کے لیے ہر خوف اور بیماری کی دوا بنائی ہے۔[14]"
+692,شہید,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF,"شہید، اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ایذا رسائی کا شکار ہوا ہو اور ایمان کی تلقین ترک کرنے سے انکار پر ایک بیرونی فریق کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہو۔ مطالبات سے انکار کرنے پر ظالم کے ہاتھوںسزائے موتدیے گئے شخص کو شہید کہا جاتا ہے۔ دراصل شہید اس کو کہا جاتا ہے جن کو ان کے مذہبی عقیدہ کی وجہ سے قتل کیا گیا ہو۔اسلام میں شہید کا مرتبہ بہت بلند ہے اورقرآن مجیدکے مطابق شہید مرتے نہیں بلکہ زندہ ہیں اوراللہان کو رزق بھی دیتا ہے۔
+شہید کو احادیث نبوی کی روشنی میں سمجھیں:
+ابوہرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:ما تَعُدُّونَ الشَّہِیدَ فِیکُمْ؟
+تُم لوگ اپنے(مرنے والوں ) میں سے کِسے شہیدسمجھتے ہو؟
+صحابہ نے عرض کیا:یا رَسُولَ اللَّہِ من قُتِلَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ۔
+اے اللہ کے رسول جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا جاتا ہے (ہم اُسے شہید سمجھتے ہیں )،
+تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:انَّ شُہَدَاء َ اُمَّتِی اذًا لَقَلِیلٌ۔
+اگر ایسا ہو تو پھر تو میری اُمت کے شہید بہت کم ہوں گے ۔
+صحابہ نے عرض کِیا:فَمَنْ ہُمْ یا رَسُولَ اللَّہِ؟
+اے اللہ کے رسول تو پھر شہید(اور)کون ہیں؟
+تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:مَن قُتِلَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ مَاتَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ مَاتَ فی الطَّاعُونِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ مَاتَ فی الْبَطْنِ فَہُوَ شَہِیدٌ۔
+""جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا گیا وہ شہید ہے،اورجو اللہ کی راہ میں نکلا (اور کسی معرکہِ جِہاد میں شامل ہوئے بغیر مر گیا یا جو اللہ کے دِین کی کِسی بھی خِدمت کے لیے نکلا اور اُس دوران )مر گیا وہ بھی شہید ہے اور اور جو طاعون (کی بیماری )سے مر گیا وہ بھی شہید ہے، اورجو پیٹ (کی بیماری )سے مر گیا وہ بھی شہید ہے۔
+قال بن مِقْسَمٍ اَشْہَدُ علی اَبِیکَ فی ہذا الحدیث اَنَّہُ قال۔ عبید اللہ ابن مقسم نے یہ سُن کر سہیل کو جو اپنے والد سےابو ہریرہُ کے ذریعے روایت کر رہے تھے، کہا، میں اِس حدیث کی روایت میں تمھارے والد کی (اِس بات کی درستی)پرگواہ ہوں اور اِس حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: ""وَالْغَرِیق ُ شَہِیدٌ "" ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے۔شہید پانچ ہیں(1) مطعون اور(2)پیٹ کی بیماری سے مرنے والا اور(3) ڈوب کر مرنے والا اور(4) ملبے میں دب کر مرنے والا اور(5) اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔(صحیح مُسلم /کتاب الامارۃ)"
+693,اہل سنت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%81%D9%84_%D8%B3%D9%86%D8%AA_%D9%88_%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%AA,"اہلسنت و الجماعت(أهل السنة والجماعة)مسلمانوں میں پیدا ہو جانے والے دو بڑے فرقوں میں سے ایک ہے، جسے عرف عام میں سنی مکتب فکر بھی کہا جاتا ہے۔[1]مسلمانوں کی اکثریت اسیفرقےسے تعلق رکھتی ہے۔اہل سنتوہ لوگ ہیں جو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت پر ایمان رکھتے ہیں، تمامصحابہ کرامکو احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب صحابی بالخصوصخلفائے راشدینبرحق ہیں اور ان کا زمانہ ملت اسلامیہ کا بہترین اور درخشاں دور ہے۔ ان کے نزدیکخلافتپر کوئی بھی مومن فائز ہو سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو۔ ان کے نزدیک خلیفہ جمہور کی رائے سے منتخب ہونا چاہیے۔ وہ خدا کی طرف سے مامور نہیں ہوتا، وہ خلافت کے موروثی نظریے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیکابوبکر صدیقصحابہ میں فضیلت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور پھر خلافت کی ترتیب سے حضرتعمر فاروق، حضرتعثمان غنیاور حضرتعلی بن ابی طالب۔خانداناہل بیتکو بھی سنی بڑی احترام و عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سنی عقیدہ کے مطابق سوائے پیغمبروں کے کوئی انسان مع��وم نہیں۔ اہل سنت مکتب فکر مذہب میں اعتدال اور میانہ روی پر زور دیتا ہے۔ اہل سنت کے ہاں بالعموم چارفقہشافعی،مالکی،حنفیاورحنبلیرائج ہیں۔مضامین بسلسلہاسلام:توحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل و انبیاءایمان بالیوم الآخرایمانو بالقدرمُحمَّد رسول اللہانبیاء وصالحینخُلفائے راشدین(ابو بکر الصدیق•عُمر بن الخطاب(عُثمان بن عفَّان•علی بن ابی طالب((حسن بن علی•عمر بن عبد العزیز(صحابہامہات المؤمنینائمہ اربعہ(ابو حنیفہ النعمان•مالک بن انس(مُحمَّد بن اِدریس شافعی•احمد بن حنبل(القرآن الكريمسنت نبویہ•اجماع اقوال العلماءقیاس•اجتہادحنفی•مالکیشافعی•حنبلیظاہریہ•اوزاعیہاللیثیہسلفیہ•اشعریہماتریدیہ•صوفیاہل حدیثمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•القدس شریفمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد النبوی•مسجد اقصیٰاسلامی سنی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی سنی فتوحاتمکہ•شام•عراق•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عید الاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہنیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء و معراجوہابیاخوان المسلمون•دعوت سلفیہدیوبندی•بریلویمودودیہ•حزب التحریرتنظیم القاعدہصحیح البخاری•صحیح مسلمسنن النسائی•سُنن ابی داؤدسُنن الترمذی•سنن الدارمیسنن ابن ماجہ•موطأ امام مالکشیعہ سنی تعلقاتکتب اہل سنتاہل سنت میں مہدیباب:اسلامجیسا کہ ابتدائیہ میں مذکور ہوا کہ اہل السنت و الجماعت ہر ان تمام افراد کو کہا جاتا ہے کہ جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوں اور صحابہ کرام کا احترام کرتے ہوں۔ اس نام کی وجہ تسمیہ ان کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ اہل سنت کہنے کی وجہ تو یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو سنت پر چلنے والا مانتے ہیں اور جماعت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جو حق (سچائی) پر جمع ہوئے اور تفرقات میں نہیں پڑے۔آج اکیسویں صدی کی ابتدا پر مسلمانوں میں تفرقہ بازی کی ابتدا ہوئے قریب قریب 1400 سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔۔[2]632ءمیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے شروع ہونے والی مسلمانوں کی تفرقہ بازی کی اس داستان کو اگر پیچیدہ تاریخی و معاشرتی وجوہات و واقعات کی طوالت سے صرف نظر کرتے ہوئے مختصر بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان میںأهل السنة والجماعةیعنی سنی اورالشيعة الامامية الاثنا العشريةیعنی شیعہ تفرقے کی تشکیل کا آغاز نفسیاتی طور پر، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین اور امت کے لیے خلیفہ کا تعین کرنے کے وقت سے ہو چکا تھا۔ اس انتخاب پر جن لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ خود محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی جانشین کی جانب اشارہ نہیں کیا اس لیے جو بھی متقی اور کامل مومن ہو وہ خلیفہ بن سکتا ہے، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک ساتھی اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے والےابو بکرکے حق میں فیصلہ ہوا اور 632ء تا634ءکی مدت کے لیے وہ خلیفہ رہے، اسی عمل پیرا ہونے والوں کی نسبت سے اس گروہ یا تفرقے کو اہل السنۃ یا سنی کہا گیا۔اس وقت کچھ لوگوں کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعدعلی بن ابی طالبکی ولایت کا بار ہا اعلان کیا تھا اور امامت خدا کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے۔ پھرعمرکا انتخا�� بطور خلیفۂ دوم (634ءتا644ء) کر لیا گیا اور علی بن ابی طالب کی حمایت کرنے والے افراد کینفسیاتمیں وہ حمایت اور شدت اختیار کر گئی، اگر تفصیل سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ وہ عرصہ تھا کہ گو ابھی شیعہ و سنی تفرقے بازی کھل کر تو سامنے نہیں آئی تھی لیکن تیسرے خلیفہعثمانکے انتخاب (644ءتا656ء) پر بہرحال ایک جماعت اپنی وضع قطع اختیار کر چکی تھی جس کا خیال تھا کہ چونکہ علی بن ابی طالب، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصلی جانشین تھے لہذا ان کو ناانصافی کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس جماعت سے ہی اس تفرقے نے جنم لیا جسےشيعة علیاور مختصراً شیعہ کہا جاتا ہے۔
+=== خلافت راشدہ کا اختتام ===حئثیح
+کوئیساتویں صدیکے میان سے امت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ایک پرتشدد اور افراتفری کا دور شروع ہوا جس کی شدت و تمازتعثمانکی شہادت پر اپنے عروج پر پہنچی؛ اب خلافت راشدہ کا اختتام قریب قریب تھا کہ جب علی بن ابی طالب خلیفہ کے منصب پر آئے (656ءتا661ء)۔ لوگ فتنۂ مقتلِ عثمان پر نالاں تھے اور علی بن ابی طالب پر شدید دباؤ ان کے قاتلوں کیگرفتاریکے لیے ڈال رہے تھے جس میںناکامیکا ایک خمیازہ امت کو656ءکے اواخر میںجنگ جملکی صورت میں دیکھا نصیب ہوا؛ پھرعائشہکے حامیوں کی شکست کے بعددمشقکے حاکم امیر معاویہ نے علی بن ابی طالب کی بیعت سے انکار اور عثمان کے قصاص کا مطالبہ کر دیا، فیصلے کے لیے میدان جنگ چنا گیا اور657ءمیںجنگ صفینکا واقعہ ہوا جس میں علی بن ابی طالب کو فتح نہیں ہوئی۔ معاویہ کی حاکمیتمصر،حجازاوریمنکے علاقوں پر قائم ہو گئی۔661ءمیںعبد الرحمن بن ملجمکی تلوار سے حملے میں علی بن ابی طالب شہید ہوئے۔ یہاں سے، علی بن ابی طالب کے حامیوں اور ابتدائیییی سنی تاریخدانوں کے مطابق،حسن ابن علیکا عہد شروع ہوا۔"
+694,اہل تشیع,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%81%D9%84_%D8%AA%D8%B4%DB%8C%D8%B9,"مضامین بسلسلہاسلام:اہل تشیعتوحید اللہملائکہ پر ایمانآسمانی کتابوں پر ایمانرسل و انبیا پر ایمانیوم آخرت پر ایمانقضا و قدر پر ایماناحیاء ماہ مُحرَّم الحرامالتوسلعصمت ائمہاعتقاد غیبت مہدیعید الفطرعیدالاضحیعید میلاد النبیعاشورہاربعینعید غدیرعید مباہلہچہاردہ معصوم کے ایام شہادت و ولادتمحمد رسول اللہاہل بیت(علی بن ابی طالب•حسن ابن علی(حسین ابن علی•فاطمہ زہرا(ارکان اربعہانبیا و صالحینصحابہاثنا عشریہ•زیدیہاسماعیلیہ•نصیریہمقدس شہرمکہ•مدینہ منورہ•یروشلم•نجف•کربلا•مشہد•سامرا•کاظمین مقدس•قم•دمشقمقدس مقاماتمسجد الحرام•مسجد نبویمسجد اقصٰی•امام علی مسجدbr/>روضۂ امام حسین•سیدہ زینبشیعہ خلافتیں اور ریاستیںسلطنت ادریسیہ•سلطنت علویہبویہ سلطنت•سلطنت حمدانیہسلطنت فاطمیہ•قرہ قویونلوصفوی سلطنت•سلطنت زندیہقاجاری سلطنت•ایرانتاریخی واقعاتعید غدیر•پیغمبر اسلام کی جانشینی•مظلومیت زہراء•حرق الدار•فتنہ قتل عثمانجنگ جمل•جنگ صفین•معركة النهروانعام الجماعت•واقعہ کربلاقزلباشحزب اللہتحریک املجیش مہدیسپاہ پاسداران انقلاب اسلامیحوثینہج البلاغہ•كتب اربعہصحیفہ سجادیہ•وسائل الشیعہشیعہ سنی اختلافاہل تشیع کے نزدیک ائمہ کے بارے میں اختلافاتشیعہ میں مہدیمرجع تقلیدرسوم ائمہباب شیعہاہل تشیعیاشیعیت(عربی:شيعة) اسلام کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ اہل تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فقط حضرتعلی بن ابی طالبعلیہ السلام کی امامت و خلافت کے قائل ہیں اور صرف انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین اور پہلا معصوماماممانتے ہیں۔ شیعہ یا اہل تشیع نظریہ خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےدعوت ذوالعشیرہجوحدیث یوم الداریاحدیث العشیرہ والدارکے نام سے مشہور ہے اورخطبہحجۃ الوداعکے موقع پرمولائے کائنات علی بن ابی طالبکو اپنا حقیقی جانشین مقرر کر دیا تھا۔ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:تینوں دفعہعلی بن ابی طالبکھڑے ہوئے اور کہا کہتو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہاس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےحجۃ الوداعکے بعدغدیر خمکے علاقے میں ایک خطبہ میں فرمایا کہان کے علاوہ سینکڑوں آیات قرآن اور احادیث نبوی علی کی شان بیان کرتی ہیں۔شیعہ مسلمانوں کی آبادی کل مسلم آبادی کا 13-10 % فیصد ہےـ[9]مسلمانوں بلاخص اہل تشیع کی آبادی کے بارے میں کوئی یقینی اعداد و شمار میسر نہیں ہے۔ 2000ء کے اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں شیعہ آبادی 400 ملین یعنی 40 کروڑ ہے اور ان میں سے تقریبا 85٪ شیعہ اثنا عشری ہیں۔[10]مذکورہ اعداد و شمار موجودہ اکثر منابع کے مطابق ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں بعض دیگر اعداد و شمار اہل تشیع کی آباد کو مسلم آبادی کا 23 فیصد تک بتاتے ہیں۔[9]عربی زبان میں شیعہ کا لفظ دو معنی رکھتا ہے۔ پہلا کسی بات پر متفق ہونا اور دوسرا کسی شخص کا ساتھ دینا یا اس کی پیروی کرنا۔قرآنمیں کئی جگوں پر یہ لفظ اس طرح سے آیا ہے جیسےسورہ قصصکی آیت 15 میں حضرت موسی کے پیروان کو شیعہ موسی کہا گیا ہے
+اور شیعہ فرعون کے بارے میں بھی آیا ہے۔[11]اور دو اور جگہوں پر ابراہیم کو شیعہ نوح کہا گیا ہے۔[12]اسلام کی تاریخ میں شیعہ کا لفظ کسی شخص کے پیروان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت امیر معاویہ کے اختلافات کے زمانے میں ان کے حامیوں کو بالترتیب شیعانعلی ابن ابو طالبعلیہ السلام اور شیعانمعاویہ بن ابو سفیانکہا جاتا تھا[حوالہ درکار]۔ صرف لفظ شیعہ اگر بغیر تخصیص کے استعمال کیا جائے تو مراد شیعانِعلی ابن ابو طالبہوتی ہے، وہ گروہ جو ہراختلافمیں حضرتعلی ابن ابی طالبعلیہ السلام کا حامی تھا اور جو ان کی امامت بلا فصل کا عقیدہ رکھتا ہے۔اثنا عشریہ (یعنی بارہ امام)، اہل تشیع (یعنی شیعہ) کا سب سے بڑہ گروہ ماننا جاتا ہے۔ قریبا 85 فیصدشیعہاثنا عشریہ اہل تشیع ہیں۔[13]ایران،آذربائجان،لبنان،عراقاوربحرینمیں ان کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہیں۔ پاکستان میںاہل سنتکے بعد اثنا عشریہ اہل تشیع کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔دنیا بھر میں شیعوں کی آبادی 40کروڑ ہے یعنی؛ مسلمانوں کی ایک چوتھائی آبادی شیعوں پر مشتمل ہے۔[14]اثنا عشریہ کی اصطلاح انبارہ معصوم اماموںکی طرف اشارہ کرتی ہے جن کا سلسلہ حضرتمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد اور داماد امامعلی بن ابی طالبعلیہ السلام سے شروع ہوتا۔ یہ خلافت پر یقین نہیں رکھتے اور ان کا نظریہ نظامامامتہے۔ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرتمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ان کے جانشینبارہ معصوم امامہیں بلا فصل جانشین امامعلی بن ابی طالبعلیہ السلام ہیں اور کل بارہ امام ہیں۔ جن کا تذکرہ تمام مکاتب اسلام کی احادیث میں آتا ہے۔ تمام مسلمان ان ائمہ کو اللہ کے نیک بندے مانتے ہیں۔ تاہم اثنا عشریہ اہل تشیع ان ائمہ پر خاص اعتقاد یعنیعصمتکی وجہ سے خصوصیشہرترکھتے ہیں۔ ان بارہ ائمہ کے نا�� یہ ہیں :اثنا عشریہ اہل تشیع اور دوسرے مسلمانوں میں ان کے وجود کے دور اور ظہور کے طریقوں کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔اثنا عشریہ اہل تشیع کے دو گروہ ہیں۔1۔اخباری2۔اصولیچھٹے امامجعفر صادقعلیہ السلام کی وفات پر اہل تشیع کے دو گروہ ہو گئے۔ جس گروہ نے ان کے بیٹے اسماعیل کو، جو والد کی حیات میں ہی وفات پا گئے تھے، اگلا امام مانا وہاسماعیلیکہلائے۔ اس گروہ کے عقیدے کے مطابقاسماعیل ابن جعفران کے ساتویں امام ہیں۔ ان کا امامت کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔جس گروہ نےموسی کاظمعلیہ السلام کو اگلا امام مانا وہاثنا عشریکہلائے کیونکہ یہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔زیدیہ شیعہ یا زیدی شیعہ، اہل تشیع کا ایک فرقہ ہے جس میں حضرت امامسجادیا زین العابدین علیہ السلام کی امامت تک اثنا عشریہ اہل تشیع سے اتفاق پایا جاتا ہے۔ یہ فرقہ امام زین العابدین کے بعد اماممحمد باقرکی بجائے ان کے بھائی امامزید بن علیزین العابدین کی امامت کے قائل ہیں۔یمن میں ان کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہیں۔ وہ ائمہ جن کو زیدی معصوم سمجھتے ہیں :ان کے بعد زیدی شیعوں میں کوئی بھی ایسا فاطمی سید خواہ وہ امام حسن کے نسل سے ہوں یا امام حسین کے نسل سے امامت کا دعوی کر سکتا ہے۔ زیدی شیعوں کے نزدیکپنجتن پاککے علاوہ کوئیامام معصومنہیں،کیونکہ ان حضرات کیعصمتقرآنسے ثابت ہے۔ زیدیوں میں امامت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ یہ فرقہ اثنا عشری کی طرح امامت، توحید، نبوت اور معاد کے عقائد رکھتے ہیں تاہم ان کے ائمہ امام زین العابدین کے بعد اثنا عشری شیعوں سے مختلف ہیں۔ لیکن یہ فرقہ اثنا عشری کے اماموں کی بھی عزت کرتے ہیں اور ان کو ""امام علم"" مانتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ زیدی کتابوں میں امام باقر،امام جعفر صادق اور امام عسکری وغیرہ سے بھی روایات مروی ہیں۔”کیسانیہ“ ایک ایسے فرقہ کا نام ہے جوپہلی صدیہجری کے پچاس سال بعد شیعوں کے خلاف پیدا ہوا اور تقریباً ایک صدی تک چلتا رہا پھر بالکل ختم ہو گیا۔ کیونکہ اس کے بہت سے عقائد و نظریات کو اہل تشیع اور باقی فرقوں نے رد کر دیا۔یہ گروہ جناب ”محمد حنفیہ“ (حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے) کی امامت کا عقیدہ رکھتا تھا اور انھیں امیر المومنین کہتا تھا اور امام حسن اور امام حسین کے بعد چوتھا امام گمان کرتا تھا۔ ”محمد حنفیہ “حضرت علی امیر المومنینکے فرزند ارجمند تھے اور حضرت کی ان پر خاص توجہ ہوا کرتی تھی ان کی شہرت ”حنفیہ“اس جہت سے ہے کہ ان کی ماں ”خولہ“ کا تعلق ”بنی حنیفہ“ کے قبیلہ سے تھا امیر المومنین نے انھیں آزاد کیا تھا پھر اپنے ساتھ عقد نکاح پڑھا۔صرخیینیاصرخیشیعہ اسلاممیں ایک نیا مکتب فکر ہے جس کا بانیمحمود صرخیہے۔ جو ایک عراقی عالم دین ہے۔ صرخیین کے عقائد و نظریاتشیعہ اسلامکے خلاف ہیں مگر پھر بھی یہ لوگ اپنے آپ کو شیعہ قرار دیتے ہیں۔[15]عقائد و نظریاتآپ کے عقائد و نظریات بالکل ہی شیعہ اسلام کے خلاف ہیں۔ انھی وجوہات کی بنا پر آپ کو شیعیت سے خارج کیا جاتا ہے۔1) آپ کا دعویٰ ہیں کہ ہم توحید خالص کے قائل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ شیعہ اکثریت کے موجودہ رسومات اور اعمال کو شرکیہ قرار دیتے ہیں۔2) آپ خلفائے ثلاثہ سے محبت رکھتے ہیں خصوصا حضرت عمر رض کا کثرت سے ذکر کرتے ہیں۔خلفاء کے ناموں کے ساتھ بھی علیھم السلام لکھتے یا کہتے ہیں۔3) حضرت فاطمہ س کے گھر پر ہجوم نیز ان کی شہادت کو مجوسیوں کی بنائی ہوئی کہانی سمجھتے ہیں۔اور محسن نامی کسی فرزند ��ے وجود کو خیالی باتیں قرار دیتے ہیں۔4)آپ حضرت عمر رض اور ام کلثوم س کے نکاح کے قائل ہیں اور اس پر کتاب بھی لکھی ہے جس میں حضرت عمر رض کو داماد حیدر ع قرار دیا ہے۔5)قبروں پر تعمیرات نیز قبروں کی گچ کاری،ان پر لکھنا اور زمین سے چار انچ سے زیادہ اونچی قبروں کو (شیعہ کتب حدیث کی روشنی میں) تعلیمات رسول ص اور ائمہ ع اہلبیت کے منافی قرار دیتے ہیں اور اونچی قبروں کو ہموار کرنے اور ان تعمیرات کو زمین کے برابر کرنے کو ہی عین شریعت مانتے ہیں۔6)امامت کے آپ قائل ہیں لیکن اماموں کی تعداد یا ان کی عصمت پر عام شیعوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔7) نکاح متعہ کوحراماور شان ائمہ اہل بیت ع کے منافی قرار دیتے ہیں۔8(آپ رسول اللہ ص کے لیے ایک بیٹی کی بجائے چار بیٹیوں کے قائل ہیں۔9)آپ ازواج مطہرات کو نص قرآن کے مطابق اہل بیت ع کے اصل مصداق مانتے ہیں۔10) حضرت عائشہ ع کا خاص احترام کرتے ہیں۔صرخی گروپ ماتمی مجالس کے طرز پر ""تکریم عائشہ ع"" کا انعقاد کرتے تھے۔یعنی یہ واحد شیعہ گروپ ہے جو حضرت عائشہ کے لیے مجلس برپا کرتے ہیں اور یہ حضرت عائشہ کے نام کے ساتھ بھی ""علیھا السلام ""لکھتے ہیں۔11) آپشیخابن تیمیہکو توحید کا امام قرار دیتے ہیں۔12)آپ رائج عزاداری یعنی ماتم کی ہر شکل یعنی سینہ زنی،چیخنے چلانے،قمہ،زنجیر زنی،آگ پر ماتم،تعزیہ،ذو الجناح وغیرہ کو(شیعہ کتب حدیث کی روشنی میں) اہل بیت ع کی تعلیمات کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان کو بدعت قرار دیتے ہیں وغیرہ۔[16]شیعوں نےانسانی تہذیباورعالم اسلامکی ترقی میں بہت زیادہ حصہ ڈالا ہے کیونکہ ان کی وسیع شراکتیں بہت سے میدانوں میں ظاہر ہوئی ہیں، خواہ وہ تاریخ میں ہو یا جدید دور میں[18]اس میںفلسفہ،[19][20]الٰہیات،[21]منطق،[22]ادب،[23][24][25]شاعری،[26][27][28][29][30][31][32][33]نثر،[34][35][36]طب،[37][38][39]انجینئری،[40][41][42]فنیات،[43][44]نحو،[45][46][47]فلکیات،[48][49]ریاضی،[50][51]جغرافیہ،[52][53]تاریخ نگاری،[54]اورسیاست[55]شامل تھے۔کیمسٹری،صرفکی سائنس قائم کرنے کے علاوہقرآن کریمکے حروف اورعربی حروف تہجیپر نقطے لگانا۔[56][57][58][59][60][61]"
+695,واقعہ کربلا کے اعداد و شمار,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9%DB%81_%DA%A9%D8%B1%D8%A8%D9%84%D8%A7_%DA%A9%DB%92_%D8%A7%D8%B9%D8%AF%D8%A7%D8%AF_%D9%88_%D8%B4%D9%85%D8%A7%D8%B1,"واقعہ کربلا، جس میںمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے نواسےحسین ابن علیاور ان کے رشتہ دار اور غلاموں کو10 محرمالحرام،61ھمیںعراقکے شہرکربلامیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے دردی سےشہیدکیا گيا۔ اس واقعے نے آنے والی صدیوں میں اسلامی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب کیے؛ جو ہنوز جاری ہیں۔ واقعہ کربلا کے پس منظر، عوامل اور تفصیلات میں تاریخی بنیادوں پراہل سنت و جماعتاوراہل تشیعکے درمیان میں کئی باتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ یہ واقعہ 10 محرم 61ھ کو کربلا میں پیش آیا اور اس میں حسین ابن علی اور ان کے اصحاب کو قتل کیا گیا۔ اس واقعہ سے متعلق تاریخی اعداد و شمار درج ذیل ہیں۔مؤرخیننےمکہمیں کوفیوں کی جانب سےامام حسینکو ملنے والے خطوط کی تعداد مختلف بتائی ہے:خطوط کی ""150"" تعداد حقیقت سے قریب تر ہے کیونکہ اس کے قائلین زیادہ اور نقل کرنے والے مآخذ قدیم ہیں۔ دیگر چار آراء صائب نہیں ہیں۔ لیکن یہ ہو سکتا ہے ہر خط کئی زیادہ افراد کی جانب سے ہو۔حبیب بن مظاہر اسدی،سلیمان بن صرد خزاعی،ابو ثمامہ صائدی،مسلم بن کثیر ازدیعزرة بن قیس،شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، قیس بن اشعث،یزید بن حارث بن رویم، عمرو بن حجاج، محمد بن عمیرامامحسی�� بن علینے کوفیوں کے خطوط کے جواب میں اپنے کئی ایلچی و سفیر کوفہ اور بصرہ بھیجے۔ اورمسلم بن عقیلکو اپنا سفیر بنا کر کوفہ بھیجا تا کہ وہ اہلکوفہسے بیعت لیں۔ کوفہ سے بھی کئی نامہ بر مسلم اور دیگر کے خطوط لے کر مختلف مقامات پر مولاحسین کے پاس پہنچے۔ ان سفراء کی تعداد مختلف نقل ہوئی ہے۔بصرہ کے سرکردگان مالک بن مسمع بکری • احنف بن قیس • منذر بن جارود • مسعود بن عمرو ازدی • قیس بن ہیثم • عمرو بن عبیداللہ بن معمر کے نام امام حسین نے خط لکھا۔مسلم بن عقیلکے ہاتھ پر امام حسین کی بیعت کرنے والے اہل کوفہ کی تعداد، تاریخی مآخذ میں مختلف، نقل ہوئی ہے:ایک روایت کے مطابقزید بن علینے ""سلمہ بن کہیل"" کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ 80000 افراد نے ان کے جد امجدامام حسینکی بیعت کی تھی۔[46]یہ تعدادیزیدیلشکر کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے آمادگی ظاہر کرنے والوں کی تعداد کے قریب ہے۔طبری نےابو مخنفکے حوالے سے جو لکھا ہے کہ 18000 افراد نےمسلم بن عقیلکے ہاتھ پر بیعت کی تھی، یہ روایت زیادہ معتبر ہے کیونکہ قدیم مآخذ میں اس کی تائید ملتی ہے۔بعض مآخذ میں منقول ہے کہیزیدیوںکے خلاف لڑنے کے لیے تیار اور پا بہ رکاب افراد کی تعداد 100000 تھی۔[25][47][48][49][50][51][52]ابو الفرج اصفہانیلکھتے ہیں:مسلم بن عقیلکے قیام کے وقت اہل کوفہ ان کے گرد جمع ہونے لگے یہاں تک کہکوفہکے بازار اورمسجدمیں سوئی پھینکنے کی جگہ تک نہ رہی۔[53]طبری کا قول کہ مسلم کے ساتھ قیام کرنے والے 4000 تھے ـ جو اس نےابو مخنفاورشیخ مفیدسے نقل کیا ہے، زیادہ معتبر ہے۔مسلم بن عقیلکی گرفتاری کے لیےکوفیپولیس کے سربراہ کے ساتھ جانے والے افراد کی تعداد کے بارے میں روایات مختلف ہیں؛ بعض مآخذ نے ان افراد کی تعداد 60 اور بعض نے 70 بتائی ہے۔[63][64][65][66][67][68]اور بعض کے مطابق ان کی تعداد 100[69]یا 300[70]تھی۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ کوفیوں نے امام کا ساتھ چھوڑ دیا مگر ابھی وہ امام کے انتظار میں ہی تھے کہ کوفہ پر عبید اللہ ابن زیاد مسلط ہو گیا اور اس نے قتل و قید نیز مسلسل دھمکیوں سے عوام کو دبا دیا۔ اس دباؤکے باوجود کچھ لوگ امام کی نصرت کرنے کربلا پہنچے۔اصل مضمون:سفر کربلاامام حسینہفتہ کی رات28 رجباور بعض دوسرے اقوال کی بنا پر3 شعبانسنہ60ہجری قمری[75]کو اپنےاہل بیتاور اصحاب کے 84 افراد کے ساتھمدینہسےمکہکی طرف روانہ ہوئے۔[76]امام حسینکا قیام، ـ 26 رجب 60 ھ میںیزیدکیبیعتکے انکار سے 10 محرم الحرام 61 ھعاشورکے دن آپ کی شہادت تک ـ 162 دن تک جاری رہا:اگر سفر اسراء اور قیام شام نیز 20 صفر 61 ھ تک واپس کربلا آمد کے مجموعی کم از کم 40 دن اور واپس مدینہ پہنچنے کے 20 ایام اضافہ کیے جائیں تو قافلہ حسینی کا کل سفر کم از کم 222 دن سے زیادہ کا ہو گا۔امام حسینؑاپنے ساتھیوں کے ساتھمدینہسے خارج ہوئے اور اپنے بعض عزیز و اقارب کے مرضی کے برخلافمکہکی طرف روانہ ہوئے۔[77]مدینہ سے مکہ کے اس سفر کے دوران میں آپ نے درج ذیل منازل کو عبور کیا: ایک منزل یا منزلگاہ سے دوسری منزل تک کا فاصلہ 3 فرسخ (= 18.72 کلومیٹر) تھا۔1-ذوالحلیفہ،2-ملل،3-سیالہ،4-عرق ظبیہ،5-زوحاء،6-انایہ،7-عرج،8-لحر جمل،9-سقیا،10-ابواء،11-رابغ،12-جحفہ،13-قدید،14-خلیص،15-عسفان اور16-مرالظہران۔[78]امام حسینؑ 5 دن بعد یعنی3 شعبانسنہ 60 ہجری قمری کو مکہ پہنچ گئے۔[79]اورامام حسین3 شعبانسے8 ذوالحجہتک یعنی چار مہینے سے زیادہمکہمیں قیام پزیر رہے۔[80]امام حسیننےمکہسےکوفہتک 18 منزلیں طے کیں۔
+مکہ سے کربلا منزل بہ منزل کی تفصیل بہت سی کتب میں موجود ہے۔ جو 18 سے 40 منازل تک کے نام کو پیش کرتی ہیں۔مکہ مکرمہ سے احرام حج توڑ کر عمرہ انجام دیا اور 8ذوالحجہ60 ھ میں مکہ سے امام علیہ السلام کی روانگی ہوئی۔1-بستان بنی عامر،2-تنعیم،3-صفاح،4-ذات العرق،5-وادی عقیق،6-غمرہ،7-ام خرمان،8-سلح،9-افیعیہ،10-معدن فزان،11-عمق،12-سلیلیہ،13-مغیثہ ماوان،14-نقرہ،15-حاجز،16-سمیراء،17-توز،18-اجفر،19-خزیمیہ،20-زرود،21-ثعلبیہ،22-بطان،23-شقوق،24-زبالہ،25-بطن العقبہ،26-عمیہ،27-واقصہ،28-شراف،29-تالاب ابومسک،30-جبل ذو حسم،31-بیضہ،32-مسیجد،33-حمام،34-مغیثہ،35-ام قرون،36-عذیب الہیجانات،37-قصر بنی مقاتل،38-قطقطانہ،کربلائے معلی یعنی نینوا (وادی طَفّ) آخری منزل تھی۔دو محرم الحرام 61ھ کو امام عالی مقام علیہ السلام اپنے اصحاب و عیال کو لے کر کربلا میں اترے۔!!!مفصل مضمون:امام حسین کے اصحابافسوسناک امر ہے کہامام حسینکے اصحاب کے صحیح اعداد و شمار کے تعین کے لیے کوئی بھی راستہ موجود نہیں ہے اور پہلے درجے کے ثبوت و شواہد ـ یعنی چشم دید گواہوں نے اصحابامام حسینکی تعداد کے بارے میں مختلف روایات بیان کی ہیں؛ نیزتاریخوحدیثکے مآخذ میں اصحاب کے ناموں کے ثبت و ضبط کرنے میں بھی کسی جانے پہچانے قاعدے اور ضابطے کو بروئے کار نہیں لایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک فرد کے نام، کنیت، والد یا والدہ کے نام، حتی کہ نسل اور قبیلے کو مد نظر رکھ کر مختلف ناموں سے متعارف کرایا گیا ہے اور بچوں اور غلاموں کو اکثر نظر انداز کیا گیا ہے۔ دیگر یہ کہسیدالشہداءکے اصحاب کی تعداد بھی تمام مراحل میں یکساں نہیں تھی۔چنانچہ ممکنہ حد تک واضح اعداد و شمار پیش کرنے کے لیے، اوقات اور مقامات کے لحاظ سے قیامامام حسینکے چار مراحل کو مد نظر رکھ کر روایات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے:بہت سے مآخذ نے اس مرحلے میںامامکے ساتھیوں کی تعداد کا ذکر نہیں کیا ہے۔[81][82][83][84][85][86][87][88]اکلوتی روایت جو تعداد بتاتی ہےشیخ صدوقنےامام صادقسے نقل کی ہے۔ جس کے مطابقمدینہسے ہجرت کے وقتامامکے ساتھ روانہ ہونے والے افراد کی تعداد 19 تھی جن میں اہل خانہ اوراصحابشامل تھے۔[89][90]غلاموں کی تعداد اس میں شامل نہیں ہے۔ان میں کسی نے غلاموں کی تعداد نہیں بتائی۔اس سلسلے میں بھی مؤرخین کے اقوال مختلف ہیں؛ جیسے:مندرجہ بالا اور دیگر روایات سے مجموعی طور پر یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ بنو ہاشم کے جوانوں اور غلاموں نیز بچوں کے علاوہامام حسینکے ساتھیوں کی تعداد 70 سے 90 تک تھی۔ اور لشکر یزیدی سے ملحق ہونے والے اس کے علاوہ تھے۔بہرصورت 72 افراد والی روایت چونکہ قدیم اور معتبر کتب میں نقل ہوئی ہے اور اس کے راوی بھی زیادہ ہیں زیادہ قابل اعتماد اور قابل قبول ہے۔ ان میں بھی بظاہر بنو ہاشم کے جوانوں، غلاموں اور بچوں کو شمار نہیں کیا گیا۔اس سلسلے میں قابل اعتماد روایتشیخ طوسیکی ہے جس میں لشکر یزید کی تعداد 30000 بیان کی گئی ہے۔شیخ صدوق(وفات 381 ھ) اور ان ہی کی پیروی کرتے ہوئےمحمد بن فتال نیشابوری(وفات 508 ھ) لکھتے ہیں کہامام حسینکے بعض ساتھیوں نے یزیدی لشکر کے متعدد افراد کو ہلاک کیا تھا:ان اعداد و شمار کے مطابقامام حسینکے چند اصحاب کے ہاتھوں دشمن کے 225 یا 226 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔اصل مضمون:فہرست شہدائے کربلابعض مؤرخین نےشہدائے کربلاکی صحیح فہرست پیش کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن تحقیقی مآخذ محدود ہونے کے سبب، حقیقی اور صحیح اعداد و شمار پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔تاہم وہ روایات جو دلالت کرتی ہیں کہشہدائے کربلاکی تعداد 72 ہے، قدیم مآخذ میں نقل ہوئی ہیں اور زیادہ شہرت رکھتی ہیں۔شہدائے کربلامیںبنو ہاشمکے شہداء کے بارے میں کافی مختلف روایات ہیں جو ان کی تعداد 9 سے 30 تک بتاتی ہے۔مزید روایات بھی ہیں جن میں یہ تعداد 9 سے 30 تک بتائی گئی ہے۔[208]تمام متعلقہ روایات کو مد نظر رکھا جائے تو جو روایات،بنو ہاشمکے شہداء کی تعداد 17 بتاتی ہیں، زیادہ قابل قبول لگتی ہیں کیونکہ یہ روایات قدیم اور کثیر بھی ہیں اور پھر یہ تعدادائمہ علیہم السلامسے منقولہ روایات میں بھی بیان ہوئی ہے۔اصل مضمون:قیام امام حسین میں صحابہ اور تابعین کا کرداراصحابسید الشہداءمیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے کئیصحابہبھی تھے: کم از کم 28 کے قریب صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، امام حسین کے قیام کے دوران شہید ہوئے۔ لگتا ہے اس امر کوکتمانکرنے کی کوشش میں مورخین نےصحابیتکی تصریح سے گریز کیا ہے۔ یا بعض صحابہ کی صحابیت ہی مشکوک بنا دی گئی ہے۔فضیل بن زبیر کے مطابقامام حسینکے رکاب میں شہادت پانے والے افراد میںصحابہرسول اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعداد 6،[209]اورمسعودیکے بقول 4 تھی۔[210]بعض معاصر مؤرخین و محققین نے بھیصحابہکی تعداد صرف 5 بیان کی ہے۔[211]مگر تاریخی کتب کی ورق گردانی سےامام حسینکے اصحاب و انصار میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ 28صحابہ کرامملتے ہیں جوابن زیادکے حکم سےعاشورہکے دنواقعہ کربلامیں شہید ہوئے یا اس سے کچھ پہلے یا بعد میںکوفہیا گرد و نواح میں شہید ہوئے۔تاریخی تتبع سے جو تعداد سامنے آئی ہے وہ 28 سے زیادہ صحابہ کرام ہیں جو شہید ہوئے اور باقی سب شہدائے کربلا سچے تابعی تھے۔امام حسینکے اصحاب و انصار میں سے 2 افراد ابتدا میںیزیدیلشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئے اور بعد میںشہیدہوئے:امام حسینکے چار اصحاب آپ کی شہادت کے بعد جاں بحق ہوئے:شہدائے کربلامیں سے 11 شہیدوں کی مائیںکربلامیں تھیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے لخت جگر مظلومانہ شہید کیے گئے:امام حسینکے کئی اصحاب اپنے باپ کے سامنے شہید ہوئے:ایک محقق نے 113 شہداء کی فہرست تیار کی ہے جن کا تعلقبنو ہاشماور دوسرے قبائل سے ہے:کچھ مآخذ نے لکھا ہے کہیزیدیلشکر کےابتدائی ظالمانہ بڑے حملےمیںامام حسینکے 50 ساتھی جان فشانی سے لڑتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔[227]کچھ مآخذ میں صرفامام حسینکے بدن شریف پر گھوڑے دوڑائے جانے کا ذکر ہے لیکن ان میں اس گھٹیا اور بزدلانہ فعل میں شریک افراد کا نام نہیں لیا گیا۔[228]البتہ اکثر مآخذ نے ان کی تعداد 10 بیان کی ہے۔[229][230][231][171][232][233][234][235][236]چند مآخذ میں ان میں سے دو افراد إِسْحَاق بْن حياة حَضْرَمِی اور اخنس بن مرثد کے نام ملتے ہیں۔[237]بعض مآخذ نے ان کے نام یہ لکھے ہیں۔مؤرخین نےسید الشہداءکے بدن پر لگنے والے زخموں کی تعداد بھی بیان کی ہے اور ان کے درمیان میں اس سلسلے میں اختلاف ہے:لگتا ہے کہ جسم مطہر کو لگنے والے زخموں کی تعداد 100 سے زائد تھی۔ جو روایات ظاہر کرتی ہیں کہ آپ کو اس قدر تیر لگے تھے کہ آپ کا جسم مطہر تیروں میں چھپا ہوا تھا، اسی رائے کی تائید کرتی ہیں۔[266][267]بعض معاصر قلمکاروں نے لکھا ہے کہکربلامیں اہل بیت کے علاوہ تین شہداء کے گھرانے (اہل و عیال) بھی ساتھ تھے:[268]اس موضوع کے تفصیلی جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہمسلم بن عوسجہکے گھرانے کی کربلا آمد کا کوئی تاریخی حوالہ موجود نہیں ہے گو کہ بعض مآخذ میں ہے کہ ان کی ایک کنیزعاشورکے دنکربلامیں موجود تھی۔[271][272][273]یزیدیلشکر کے ہاتھوںشہدائے کربلاکے جسموں سے جدا ک��ے جانے والے سروں کے تعداد کے بارے میں بھی مؤرخین کا موقف یکساں نہیں ہے:مندرجہ بالا اقوال میں، پہلا قول اپنے قدیم راویوں کے پیش نظر زیادہ معتبر ہے: تو قلم شدہ سروں کی تعداد 72 تھی۔شہداء کے سرہائے مبارک کو لشکریزیدمیں شامل قبائل میں ـ ذیل کی ترتیب سے ـ تقسیم کیا گیا:یہ سب شہداء کے سروں کو غنیمت! کے طور لیتے تھے تا کہ انھیںابن زیادکو پیش کرکے انعام پائیں۔فضیل بن زبیر کہتے ہیں کہامام حسینکے 3 موالی۔[288]کربلامیں شہید ہوئے،[218]لیکن ابن سعد[289]اور طبری[290]کے مطابق ان کی تعداد 2 تھی۔ فضیل نے لکھا ہے کہحمزہ بن عبدالمطلبکا ایک غلام بھیشہدائے کربلامیں شامل تھا۔[291]ابن شہر آشوباس سلسلے میں لکھتے ہیں: کہکربلامیںامام حسینکے 10 اورامیرالمؤمنینکے 2 موالی شہید ہوئے۔[292]سماوی کے مطابق شہید ہونے والے موالی کی تعداد 15 تھی۔[293]4 افراد کربلا کے میدان میں صرف زخمی ہوئے تھے۔ ان میں سے 3 زخمی کچھ عرصہ بعد شہید ہو گئے۔الف:- ـ اکلوتے زخمی جو میدان جنگ سے زندہ بچ نکلے، مؤرخین کے مطابق وہحسن بن حسنبن علی (حسن مُثَنّٰی) تھے۔[289][290][294][295][296][297]ب:- ـ وہ زخمی جو بعد میں شہید ہو گئے:قمقام اور جلاء العیون میں ہے کہکربلامیںامام زین العابدین،امام محمد باقر،حسن مثنی،موقع بن ثمامہ اسدیاورعقبہ بن سمعانغلامجناب بی بی ربابکے علاہ کوئی مرد باقی نہ رہا تھا۔ لیکن تاریخ کے قدیم مآخذ کی ورق گردانی سے ظاہر ہوتا ہے کہواقعہ عاشورہکے پسماندگان (زندہ بچ جانے والوں) میں کئی دیگر مرد بھی تھے جو حسب ذیل 19 افراد ہیں: (البتہ امام کی اجازت سے راوی وقائع کربلاضحاک بن عبد اللہ مشرقیچھپ کر بھاگ گئے تھے۔)ابن سعد کے مطابق،اہل بیت علیہم السلامکی 6 خواتین،[331][332]قاضی نعمان مغربیکے مطابق 4 خواتین،[333]اورابو الفرج اصفہانیکے مطابق 3 خواتین[334]یزیدکے لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئیں؛ جن کے نام درج ذیل ہیں:امیرالمؤمنین علیکی بیٹیاں:امام حسینبن علی کی بیٹیاں:امام حسنبن علی کی بیٹیاں:دیگر خواتین:تین دیگر خواتین بھی اہل بیت میں تھیں۔پانچ خواتین نےقیام امام حسینکے دوران میں سپاہیزیدکی حرکتوں پر اعتراض و احتجاج کیا:کربلامیں ایک خاتون بھیامام حسینکے رکاب میں شہید ہوئیں۔ اس خاتون کا نامام وہبتھا اور وہ شہیدکربلا،عبد اللہ بن عمیر کلبیکی زوجہ تھیں۔ اس کے علاوہ دو اور خواتین کا ذکر بھی ملتا ہے۔ابن زیادکے لشکر کے سالارعمر بن سعدنے 11 محرم کے دن اپنے مردوں کی شناخت کی اور انھیں جمع کر کے دفن کیااور کوفہ چلا گیا۔شہداء کی میتیں اورامام حسینکا مقدس بدن بے کفن پڑا رہا۔قبیلہبنو اسدکا ایک گروہ کو جوکربلاکے نزدیک غاضریہ کے رہائشی تھے خبر ملی کہامویحکومت کے کارندوں امام حسین کو ساتھیوں سمیت قتل کر دیا ہے۔ وہ 13 محرم کو کربلا آئے اور انھوں نے شہداء کے بے سر لاشوں کی شناخت کی اور جمع کر کے ان پر نماز پڑھی اور امام حسین کو اسی جگہ جہاں آج قبر ہے دفن کیا اور ان کے بیٹےعلی اکبرامام کی پاؤں جانب اور باقی سب کو سوائے 5 افراد کے مولا کی پائنتی کے پاس بڑی اجتماعی قبر کھود کر اکٹھا دفن کر دیا۔حبیب ابن مظاہراورحر ابن یزید ریاحیاورحضرت عباس علمدارکو علاحدہ علاحدہ دفن کیا۔ اور عون و محمد کی قبریں کافی فاصلے پر بنائیں۔[366]کربلاسےشامتک کی ان منزلوں کی تعداد 15 تھی جواہل بیت علیہم السلامنے اسیری کی حالت میں طے کیں۔کوفہ•مسکن•سامراء•تکریت•وادی نخلہ•موصل•سنجار•نصیبین•دعوات•رقہ•حلب•شیرز•حماہ•حمص•بعلبک•صومعہ راہب��•دمشقبی بی زینب عالیہ سلام اللہ علیہاکے زیر قیادت، اسراء نے مدینہ واپسی کا سفر کیا۔ رہائی کے بعد سفر شام تا کربلا اور کربلا تا مدینہ کی منازل درج ذیل ہیں۔شام تا کربلاکربلا تا مدینہمسلم بن عقیل•ہانی بن عروہ•عبداللہ بن یقطر•قیس بن مسہر•حنظلہ بن مروہ•عمارہ بن صلخب•عبداللہ بن حارث•سلیمان بن رزین•عبدالاعلی بن یزید•عباس بن جعدہ•عبیداللہ بن عمرو"
+696,عربی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%B1%D8%A8%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,الجزائر: المجلس الأعلى للغة العربیة بالجزائر ()سوڈان: مجمع اللغة العربية بالخرطوم (عربی زبان اکادمی،خرطوم)عراق: المجمع العلمي العراقي فيبغداد(عراقی سائنس اکادمی)تونس: مؤسسة بيت الحكمةسوریہ: مجمع اللغة العربية بدمشقلیبیا: مجمع اللغة العربية الليبيمصر: مجمع اللغة العربية بالقاهرةالمغرب: عربی زبان اکادمیاسرائیل: مجمع اللغة العربية في حيفا[3]عربی(عربی:العربية)سامی زبانوںمیں سب سے بڑی زبان ہے اورعبرانیاور آرامی زبانوں سے بہت ملتی ہے۔ جدید عربی کلاسیکی یا فصیح عربی کی تھوڑی سی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فصیح عربی قدیم زمانے سے ہی بہت ترقی یافتہ شکل میں تھی اورقرآنکی زبان ہونے کی وجہ سے زندہ ہے۔ فصیح عربی اور بولے جانے والی عربی میں بہت فرق نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے بولے جانے والیاردواورادبی اردومیں فرق ہے۔ عربی زبان نےاسلامکی ترقی کی وجہ سے مسلمانوں کی دوسری زبانوں مثلاًاردو،فارسی،ترکیوغیرہ پر بڑا اثر ڈالا ہے اور ان زبانوں میں عربی کے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ عربی کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کی حیثیت حاصل ہے اور تمام دنیا کےمسلمانقرآنپڑھنے کی وجہ سے عربی حروف اور الفاظ سے مانوس ہیں۔ تاریخ میں عربی زبان کی اہمیّت کے سبب بہت سے مغربی زبانوں میں بھی اِس کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔عربی کے کئی لہجے آج کل پائے جاتے ہیں مثلاً مصری، شامی، عراقی،حجازیوغیرہ۔ مگر تمام لہجے میں بولنے والے ایک دوسرے کی بات بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور لہجے کے علاوہ فرق نسبتاً معمولی ہے۔ یہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے اور اس میںھمزہ سمیت29حروف تہجی ہیںجنہیںحروف ابجدکہا جاتا ہے۔عربی کی وسعت فصاحت و بلاغت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ حروف تہجی میں سے کوئی سے تین حروف کسی بھی ترتیب سے ملا لیے جائیں تو ایک بامعنی لفظ بن جاتا ہے۔عرب قدیم زمانے میں سامی زبانوں کی وسیع اقسام پر فخر کرتا تھا۔ جنوب مغرب میں، مختلفوسطی سامی زبانیںبولی جاتی تھیں جوقدیم جنوبی عربیخاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اس سے باہر تھیں (مثلاً جنوبی ثامودی)۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جدید جنوبی عربی زبانوں (غیر مرکزی سامی زبانوں) کے آبا و اجداد بھی اُس وقت جنوبی عرب میں بولے جاتے تھے۔ شمال کی طرف، شمالی حجاز کے نخلستانوں میں،دادانیاورتیمائیکو نوشتی زبان کے طور پر کچھ وقار حاصل تھا۔ نَجد اور مغربی عرب کے کچھ حصوں میں، ایک زبان جو علما کے نزدیک ثمودی جیم کے نام سے مشہور ہے۔ مشرقی عرب میں، قدیم جنوبی عربی سے ماخوذ ایک رسم الخط میں تحریریں ایک زبان کی تصدیق کرتی ہیں جسےحسائیکہا جاتا ہے۔ آخر میں، عرب کی شمال مغربی سرحد پر، مختلف زبانیں جو علما کے نزدیک ثمودی ب، ثمودک د،سفائیہاورحسمائیہکے نام سے مشہور ہیں۔ آخری دو، عربی کی بعد کی شکلوں کے ساتھ اہم خط تفریقِ لسانی کا اشتراک کرتی ہیں، مفکرین کو یہ نظریہ پیش کرنے کو کہتی ہیں کہ صفاتی اور حسمائی دراصل عربی کی ابتدائی شکلیں ہیں اور انھیں پرانی عربی سمجھا جانا چاہیے۔عربی درج ذیل ممالک میں سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے:یہ درج ذیل ممالک کیقومی زبانبھی ہے:
+697,اسلامی اصطلاحات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C_%D8%A7%D8%B5%D8%B7%D9%84%D8%A7%D8%AD%D8%A7%D8%AA,"اسلام کی اصطلاحات اور اس کے مضامین کے روابط ذیل میں ہیں۔اجزائے ایمان سے مراد ان عقائد کی ہوتی ہے کہ جن پر کامل اعتقاد اسلام میں ایمان (اللہ پر یقین) کی تکمیل کے لیے ضروری ہوتا ہے، عام طور ان میں چھ اجزا کا ذکر زیادہ ہوتا ہے[13] جن کا تمام مسلمان اقرار کرتے ہیں۔ایمان باللہ
+ایمان بالملائکہ
+ایمان بالکتب
+ایمان بالرسالت
+ایمان بالقدر
+ایمان بالآخرت"
+698,مسلمان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86,"بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاممسلمان(عربی:مسلم، مسلمة)، (فارسی: مسلمان)، (انگریزی:Muslim) سے مراد وہ شخص ہے جو دینِاسلامپر یقین رکھتا ہو۔ اسلام کا لغوی معنیاللہکے سامنے سرتسلیم خم کرنا۔[1]اگرچہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق اسلام خدا کا دین ہے اور یہ دینحضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے بھی موجود تھا اور جو لوگ اللہ کے دین پر عمل کرتے رہے وہ مسلمان ہیں۔ مثلاًقرآنکے مطابق حضرتابراہیم علیہ السلامبھی مسلمان تھے۔ مگر آج کل مسلمان سے مراد اسے لیا جاتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر عمل کرتا ہو اور یقین رکھتا ہو۔ کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان انبیا کے آخر میں آئے ہیں اور آخری قانون پر عمل ہوتی باقیہ خود بخود منسوخ ہو جاتے ہے۔پہلے پہل جو لوگ مسلمان ہوئے وہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اس طریقہ سے کوئی بھی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ جب کوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا رسول مان لے تو اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ ان کی ہر بات پر ایمان رکھے اور عمل کرنے کی کوشش کرے۔اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے مفہوم ""کہ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرے۔مثلاً انھوں نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور یہ کہ وہ خدا کے آخری رسول ہیں تو اس بات پر ایمان رکھنا اسلام کے ��رائض میں سے ہے۔اگر کوئی نافرمانی کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔اسلام کے بنیادی عقائد جن پر مسلمانوں کے کسی فرقہ میں کوئیاختلافنہیں، درج ذیل ہیں• اچھی اور بری تقدیر پر ایمان کہ جو کچھ بھی اس کائنات میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے۔
+اوپر دی گئی چیزوں پر ایمان رکھنے والے کو مسلمان کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اختلافات فروعی و سیاسی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+699,قرآن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86,"قرآن کریم،قرآن مجیدیاقرآن شریف(عربی:القرآن الكريم) دیناسلامکی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہماسلام کے پیروکاروںکا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے[1][2]اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلاممحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمپر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتےحضرت جبرائیل علیہ السلاملاتے تھے[3]جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے[4][5][6]، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کیتلاوتعبادت ہے۔[7]اورصحف ابراہیم،زبور[8]اورتوراتوانجیل[9][10]کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کیفصاحتوبلاغتکے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔[11][12][13][14][15][16][17]نیزعربی زبانوادباور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاًسیبویہ،ابو الاسود الدؤلیاورخلیل بن احمدفراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔گو کہ نزول قرآن سے قبل عربی زبان کا ادب خاصا وسیع اور اس کا دامن الفاظ و تراکیب اور تشبیہات و استعارات سے لبریز تھا لیکن وہ متحد نہیں تھی۔ قرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے عربی زبان کو ایک بنیاد پر متحد کیا[18]اور حسن کلام، روانی، فصاحت و بلاغت اور اعجاز و بیان کے ایسے شہ پارے پیش کیے جنہیں دیکھ کر فصحائے عرب ششدر تھے۔[19]نیز قرآن نے عربی زبان کو مٹنے سے بھی بچایا، جیسا کہ بہت سیسامی زبانیںوقت کے گزرنے کے ساتھ ناپید یا زوال پزیر ہو گئیں جبکہ عربی زبان گزرتے وقتوں کے ساتھ مزید مالا مال ہوتی رہی اور قدیم و جدید تمام تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ رکھا۔[20][21][22][23]قرآن میں کل 114سورتیںہیں جن میں سے 87مکہمیں نازل ہوئیں اور وہ مکی سورتیں کہلاتی ہیں اور 27مدینہمیں نازل ہوئیں اور مدنی سورتیں کہلاتی ہیں ۔[24]مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ قرآن کو اللہ نےجبریلفرشتہ کے ذریعہ پیغمبر محمد پر تقریباً 23 برس کے عرصہ میں اتارا۔ نزول قرآن کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب پیغمبر محمد چالیس برس کے تھے اور ان کی وفات سنہ 11ھ بمطابق 632ء تک جاری رہا۔ نیز مسلمان یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وفات نبوی کے بعد صحابہ نے اسے مکمل اہتمام و حفاظت کے ساتھ منتقل کیا اور اس کی آیتیں محکمات کا درجہ رکھتی ہیں،[25][26]نیز قرآن تاقیامتقابل عمل اور ہر دور کے حالات کا حل پیش کرتا ہے۔[27]قرآن کا سب سے پہلا ترجمہسلمان فارسینے کیا۔ یہسورۃ الفاتحہکا فارسی میں ترجمہ تھا۔ قرآن کو دنیا کی ایسی واحد کتاب کی بھی حیثیت حاصل ہے جو لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو زبانی یاد ہے اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، جسے مسلمان روز ہرنمازمیں بھی پڑھتے ہیں اور انفرادی طور پر تلاوت بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں مسلمان ہر سالرمضانکے مہینہ میںتراویحکی نماز میں کم از کم ایک بار پورا قرآن با جماعت سنتے ہیں۔ قرآن نے مسلمانوں کی عام زندگی، عقائد و نظریات، فلسفہ اسلامی، اسلامی سیاسیات، معاشیات، اخلاقیات اور علوم و فنون کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔وفات نبوی کے بعدعمر بن خطابکی تجویز پر، خلیفہ اولابو بکر صدیقکے حکم سے اورزید بن ثابتانصاری کی سربراہی میں قرآن کومصحفکی شکل میں یکجا کیا گیا۔ عمر بن خطاب کی وفات کے بعد یہ نسخہ ام المومنینحفصہ بنت عمرکے پاس محفوظ رہا۔ خلیفہ سومعثمان بن عفاننے جب لہجوں کے اختلاف کی بنا پر قرات میں اختلاف دیکھا تو حفصہ سےقریشکے لہجہ میں تحریر شدہ اُس نسخہ کے نقل کی اجازت چاہی تاکہ اسے معیار بنایا جائے۔ اجازت ملنے کے بعد انھوں نے مصحف کی متعدد نقلیں تیار کرکے پورےعالم اسلاممیں بھیج دیں اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اس مصحف کی پیروی کریں۔ ان نسخو�� میں سے ایک نسخہ انھوں نے اپنے پاس بھی رکھا۔ یہ تمام نسخے اب مصحف عثمانی کہلاتے ہیں۔[28]بیشتر محققین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ تمام نسخے ابو بکر کے تیار کردہ نسخہ کی ہو بہو نقل تھے، ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی۔[29][30]مسلمانوں کے مطابق قرآن پیغمبر محمد کامعجزہہے اور اس کی آیتیں تمام انسانوں کے سامنے یہ چیلنج پیش کرتی ہیں کہ کوئی اس کے مثل نہیں بنا سکتا،[31]نیز یہ قرآن پیغمبر محمد کی نبوت کی دلیل[32]اور صحف آدم سے شروع ہونے والے اور صحف ابراہیم، تورات، زبور اور انجیل تک آسمانی پیغام کا یہ سلسلہ قرآن پر ختم ہوا۔[33]قرآن کی تشریحات کو اسلامی اصطلاح میںتفسیرکہا جاتا ہے جو مختلف زبانوں میں کی جاتی رہی ہیں۔قرآنی تراجمدنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ جبکہ صرفاردو زبانمیں تراجم قرآن کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔قرآن میں لفظقرآنقریباً 70 دفعہ آیا ہے اور متعدّد معانی میں استعمال ہوا ہے۔ یہعربی زبانکے فعلقرأکامصدرہے جس کے معنی ہیں ’’اُس نے پڑھا ‘‘ یا ’’اُس نے تلاوت کی‘‘۔سریانی زبانمیں اس کے مساوی (ܩܪܝܢܐ) qeryānā کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’صحیفہ پڑھنا‘‘ یا ’’سبق‘‘۔۔[34]اگرچہ کئی مغربی عالم اس لفظ کو سریانی زبان سے ماخوذ سمجھتے ہیں، مگر اکثر مسلمان علما اس کی اصل خود لفظقرأکو ہی قرار دیتے ہیں[35]بہرحال محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت تک یہ ایک عربی اصطلاح بن چکی تھی[35]۔ لفظقرآنکا ایک اہم مطلب ’’تلاوت کرنا‘‘ ہے جیسا کہ اس ابتدائی قرآنی آیت میں بیان ہوا ہے: ’’یقیناً اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔[36]دوسری آیات میںقرآنکا مطلب ’’ایک خاص حصّہ جس کی تلاوت (محمد نے ) کی ‘‘کے بھی ہیں۔نمازمیں تلاوت کے اس مطلب کا کئی مقامات پر ذکر آیا ہے جیسا کہ اس آیت میں:’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو‘‘۔[37]جب دوسرے صحائف جیسا کہتوراتاورانجیلکے ساتھ یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب ’’تدوین شدہ صحیفہ‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔اس اصطلاح سے ملتے جلتے کئیمترادفبھی قرآن میں کئی مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ ہر مترادف کا اپنا ایک خاص مطلب ہے مگر بعض مخصوص سیاق و سباق میں ان کا استعمال لفظقرآنکے مساوی ہو جاتا ہے مثلا ًکتاب(بمعنی کتاب)،آیۃ(بمعنی نشان) اورسورۃ(بمعنی صحیفہ)۔ آخری دو مذکورہ اصطلاحات ’’وحی کے مخصوص حصّوں‘‘ کے مطلب میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ بیشتر اوقات جب یہ الفاظ ’’ال‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو ان کا مطلب ’’وحی‘ ‘ کا ہوتا ہے جو وقفہ وقفہ سے نازل کی گئی ہو ۔[38][39]بعض مزید ایسے الفاظ یہ ہیں:ذکر(بمعنی یاد دہانی) اورحکمۃ(بمعنی دانائی)۔قرآن اپنے آپ کوالفرقان(حق اور باطل کے درمیان میں فرق کرنے والا)،امّ الکتاب،ہدٰی(راہنمائی)،حکمۃ(دانائی)،ذکر(یاد دہانی) اورتنزیل(وحی یا اونچے مقام سے نیچے بھیجی جانے والی چیز) بیان کرتا ہے۔ ایک اور اصطلاحالکتاببھی ہے، اگرچہ یہ عربی زبان میں دوسرے صحائف مثلاً تورات اور انجیل کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ قرآن سےاسم صفت’’قرآنی‘‘ ہے۔مصحفکی اصطلاح اکثر مخصوص قرآنی مسوّدات کے لیے استعمال ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ اصطلاح قرآن میں گذشتہ کتابوں کے لیے بھی استعمال ہوئی ہے۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجیدآخری آسمانی کتابہے جو پیغمبرمحمدپر نازل ہوئی اور اس کا پڑھنا، سننا اور اس پر عمل کرنا موجب تقرب الہی اور باعث اطمینان قلب ہے۔ بیشتر مسلمانوں کا اعتقاد ��ے کہ قرآن ان کیتہذیبو تمدن اور معاشرت کی بنیاد ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس سے رہنمائی حاصل کرنا لازمی ہے۔ ڈاکٹر وصفی عاشور ابو زید لکھتے ہیں:[40]مسلمانوں کے نزدیک کوئی مسلمان قرآن سے مستغنی نہیں ہو سکتا، یہی کتاب اس کا سرمایہ زندگی، سرمہ بصیرت اور رہبر کامل ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کی ہر شے اس کتاب سے مربوط ہے، اسی سے ان کے عقائد ماخوذ ہیں، یہی ان کیعبادتوںکا تعارف کراتی اور رضائے الہی کے حصول میں مددگار بنتی ہے۔ نیز اخلاق و معاملات میں جن امور کی رہنمائی درکار ہے وہ سب اس میں موجود ہیں۔ جو مسلمان اس کتاب پر عمل نہیں کرتے وہ گمراہ ہیں اور ان کا انجام تاریک ہے۔[41]جیسا کہ حسب ذیل آیتوں اور احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ اسرا میں ہے:
+سورہ طہ میں ہے:
+نیزعبد الرحمن دارمینےعلی بن ابی طالبکی روایت نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ:[42]چنانچہ قرآن میںعقائدکا مفصل تذکرہ،عباداتمثلاً روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ کے احکام، نیز خرید و فروخت، نکاح و طلاق، وراثت و تجارت کے احکام بھی درج ہیں۔ اخلاق و آداب کا بھی مفصل ذکر ہے۔[43]متعدد علما و مفسرین نے ""احکام قرآن"" کے موضوع پر بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں فقہی احکام سے متعلق آیتوں کو یکجا کیا اور عبادات و معاملات میں ان آیتوں سے مستنبط شدہ احکام کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے تاکہ احکام قرآن سے شناسائی میں سہولت ہو۔ مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ سابقہ آسمانی کتابوں میں امور زندگی کے متعلق جو ہدایات اور رہنمائی موجود تھیں، قرآن ان سب پر مشتمل ہے۔ وہسورہ مائدہکی درج ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں:
+سورہ مائدہمفسرین کا کہنا ہے کہ قرآن سابقہ کتابوںزبور،توراتاورانجیلکے تمام مضامین پر مشتمل ہے اور اخلاق و معاملات کے بہت سے امور میں ان کتابوں سے زیادہ رہنمائی فراہم کرتا ہے۔[44]قرآن وہ کتاب ہے جو سابقہ کتابوں کی تمام حق باتوں کا حکم کرتا اور ان پر عمل کرنے پر ابھارتا ہے۔ اس کتاب میں گذشتہ قوموں، امتوں اور انبیا و رسولوں کی حکایتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ تاہم اس میں فروعی احکام مذکور نہیں، محض کلیات کا احاطہ کیا گیا ہے جو یہ ہیں: تحفظ دین، تحفظ ذات، تحفظ عقل، تحفظ نسب اور تحفظ مال۔[45]علاوہ ازیں مسلمان یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن کی بعض آیتیں اہمیت و فضیلت میں زیادہ ہیں، بعض آیتیں انھیںحسداورشیطانکے وسوسوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔ جو آیتیں فضیلت میں ممتاز ہیں ان میںآیت الکرسی،سورہ بقرہکی آیت نمبر 255 اوراہل تشیعکے یہاں سورہ بقرہ کی آیت 255، 256 اور 257 قابل ذکر ہیں، ان کا پڑھنامستحبخیال کیا جاتا ہے۔[46][47][48][49][50][51]علمائے اسلام کا کہنا ہے کہاللہ کے ناموں اور صفاتپر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی عظمت بڑھ گئی، ان کا پڑھنا شیطان اور اس کے تسلط سے گھر اور انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔[52][53]اسی طرح ایکسورہ فلقبھی ہے جسے مسلمان غیر محسوس برائیوں اور آفتوں سے بچنے کے لیے پڑھتے ہیں۔[54]سورہ ناسبھی شیطان کے شر و فتن سے بچنے کے لیے پڑھی جاتی ہے۔[55]علمائے اسلام کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختلاف ہے کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا بتدریج اترا۔ بعض آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج نزول کو بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ اس اختلاف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے کیے گئے جو حسب ذیل ہیں:بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌفِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ[ا]إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِ��َّا كُنَّا مُنذِرِينَ[ب]،إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[پ]۔درج ذیل حدیثیں بھی اس کی دلیل ہیں:عبد اللہ بن عباسسے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ""قرآن کو لوح محفوظ سے نکال کر آسمان دنیا کے ایک مقام بیت العزت پر اتارا گیا، جہاں سے جبریل پیغمبر پر لے جایا کرتے تھے""۔[57]ابو شامہ مقدسی نے اپنی کتابالمرشد والوجيز عن هذا النزولمیں لکھا ہے: ""علما کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں ایک ہی رات کو مکمل نازل ہوا اور جبریل نے اسے یاد کر لیا۔ کلام الہی کی ہیبت سے آسمان والے غش کھا گئے، جب جبریل کا ان پر سے گذر ہوا تو انھیں ہوش آیا اور کہنے لگے:وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ[ت]۔ بعد ازاں جبرئیل نے کاتب فرشتوں کو اس کا املا کرایا، چنانچہ قرآن میں مذکور ہے:بِأَيْدِي سَفَرَةٍ[ٹ][58]بتدریج نزول قرآن کی مقدار کا تذکرہاحادیثمیں ملتا ہے کہ جب جتنی ضرورت ہوتی اتنا نازل ہوتا۔ نیز تاریخ قرآن کو دو ادوار میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور عہد نبوی کا جس میں قرآن کاوحیکے ذریعہ نزول ہوا اور دوسرا دورخلفائے راشدینکا جس میں قرآن کو ایکمصحفمیں یکجا کرکے محفوظ کر دیا گیا۔اسلامی روایات کے مطابقمحمّدپرپہلی وحیغار حرامیں اُس وقت نازل ہوئی جب آپ تنہائی میں عبادات کے لیے وہاں گئے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ سلسلہوحی23 برس کے عرصہ تک جاری رہا۔احادیثاور اسلامیتاریخکے مطابقہجرت مدینہکے بعد جب محمد نے وہاں ایک آزاد اسلامی معاشرہ قائم کر لیا تو آپ نے اپنےصحابہکو قرآن کی تلاوت اور اس کے روزمرّہ نازل ہونے والے احکام کو یاد کرنے اور دوسروں کو سکھانے کا حکم دیا۔ روایات میں یہ بھی ذکر موجود ہے کہجنگ بدرکے بعدجبقریشکے کئی لوگ مسلمانوں کے ہاتھ قیدی بن گئے تو اُن میں سے کئی نے مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے بدلے اپنی آزادی حاصل کی۔ اسی طرح آہستہ آہستہ کئی مسلمان خواندہ ہونے لگے۔ قرآن کو پتھروں، ہڈیوں اور کھجور کے پتّوں پر لکھا جانے لگا۔ اکثر سورتیں ابتدائی مسلمانوں کے زیراستعمال تھیں کیونکہ ان کا ذکرسنّیاورشیعہدونوں روایات میں ملتا ہے۔ جیسا کہ محمد کا قرآن کوتبلیغکے لیے استعمال کرنا، دعا ؤں میں اس کا پڑھا جانا اور انداز تلاوت کے بیان میں ان کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم، 632 عیسوی میں محمد کی وفات کے وقت ابھی قرآن ایک کتاب کی شکل میں موجود نہ تھا۔ تمام علما اس بات پر متّفق ہیں کہ محمد خود وحی کی کتابت نہیں کرتے تھے۔صحیح بخاریمیں محمد کی وحی کی کیفیات کا حال یوں درج ہے کہ ’’بسا اوقات (وحی) گھنٹی کے بجنے کی طرح نازل ہوتی ہے‘‘ اورعائشہسے روایت ہے کہ، ’’میں نے ایک بہت سرد دن میں حضور پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا اور (جب وحی ختم ہوئی تو) آپ کے ماتھے سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے۔‘‘قرآن کے بیان کے مطابق محمد پر پہلی وحی ایک کشف کے ساتھ نازل ہوئی۔ وحی نازل کرنے والی ہستی کا بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے’’مضبوط طاقتوں والا‘‘، وہ جو ’’بلند ترین اُفق پر تھا۔ پھر وہ نزدیک ہوا۔ پھر وہ نیچے اُتر آیا۔ پس وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیایا اُس سے بھی قریب تر‘‘۔ ویلچ (Welch) جو ایک اسلامی سکالر ہیں، Encyclopaedia of Islam میں لکھتے ہیں کی وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وحی کے نزول کے وقت محمد کی کیفیات کی جو ظاہ��ی شکل بیان کی گئی ہے وہ درست ہو سکتی ہے کیونکہ وہ وحی کے نزول کے بعد کافی پریشان ہو گئے تھے۔ ویلچ کے مطابق، وحی کے موقع پر محمد کو ہلا دینے والے جھٹکے اُن کے گرد لوگوں کے لیے اس بات کا ثبوت واقع ہوئے ہوں گے کہ محمد کی وحی کا مبدا واقعیمافوق الفطرتہے۔ تاہم، محمد کے ناقدین ان مشاہدات کی بنا پر اُن کو مجنون، کاہن اور جادوگر قرار دیتے تھے کیونکہقدیم عربمیں کئی ایسے لوگ اس طرح کے تجربات کے مدّعی تھے۔ ویلچ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ اس طرح کے مشاہدات محمد کے ابتدائی دعوٰی نبوت سے پہلے کے ہیں یا بعد کے ۔قرآن محمد کو اُمّی قرار دیتا ہے جس کا عام طور پر ’’ان پڑھ‘‘ مطلب لیا جاتا ہے مگر اس کا مطلب دراصل کچھ پیچیدہ ہے۔ قرون وسطیٰ کے مفسّرین جیسا کہطبریکے مطابق اس اصطلاح کے دو مطالب ہیں:پہلا تو یہ کہ عمومی طور پر لکھنے اور پڑھنے کا قابل نہ ہونا جبکہ دوسرا یہ کہ گذشتہ کتب اور صحائف سے لاعلم ہونا (اگرچہ اکثر مفسّرین پہلے مطلب کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں)۔ اس کے علاوہ، محمد کا ناخواندہ ہونا آپ کی نبوّت کی صداقت کی ایک دلیل سمجھا جاتا تھا۔ جیسا کہامامفخر الدّین رازیکہتے ہیں کہ، اگر محمد لکھنے پڑھنے پر پوری مہارت رکھتے ہوتے تو اُن پر یہ شبہ کیا جا سکتا تھا کہ انھوں نے اپنے آبا و اجداد کی کتب پڑھی ہوں گی۔ کچھ عالم جیسا کہواٹدوسرے معنی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔خلفائے راشدینکے عہد میں جمع قرآن کے متعلق دو نقطہ نظر ہیں، پہلا نقطہ نظراہل سنتکا ہے اور دوسراامامیہاہل تشیعکا۔ اہل سنت کا متفقہ نقطہ نظر یہ ہے کہابو بکر صدیقکے عہد میں قرآن کو یکجا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کیا گیا اور عہد عثمان میں اسی مصحف کو باضابطہ نسخہ قرار دے کر بقیہ نسخوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔[59]جبکہ اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہعلی ابن ابی طالبنے وفات نبوی کے بعد مکمل قرآن کو ایک مصحف میں جمع کیا تھا[60]اور ان کی ترتیب عثمانی مصحف کی ترتیب سے مختلف تھی لیکن بایں ہمہ انھوں نے اس مصحف پر اعتراض نہیں کیا اور اپنے مرتب کردہ مصحف کو اپنے پاس محفوظ رکھا۔ اہل تشیع کا کہنا ہے کہ علی بن ابی طالب کے مصحف کے چند امتیازات تھے، مثلاً وہ ترتیب نزولی پر تھا یعنی منسوخ آیتوں کو ناسخ آیتوں سے پہلے اورمکی سورتوںکومدنی سورتوںسے پہلے درج کیا گیا تھا۔[61]اس کے حاشیے پر آیت کی مناسبت سے اہم تشریحات وغیرہ لکھی گئی تھیں[62]اور تفصیل کے ساتھ آیتوں کا شان نزول اور مقام نزول بھی مذکور تھا۔ چنانچہ اسی ضمن میںجعفر صادقکا قول ہے: ""فرمان رسول ہے: اگر قرآن کو لوگ اس طرح پڑھیں جس طرح نازل ہوا ہے تو کبھی اختلاف نہ ہو""۔[63]عہد صدیقی میں جمع قرآن کی روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ جمع قرآن کی کارروائیجنگ یمامہکے بعد شروع ہوئی۔ جنگ یمامہ میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی تو عمر بن خطاب ابو بکر صدیق کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ حفاظ صحابہ کی وفات سے قبل قرآن کو یکجا کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ ابو بکر صدیق نےزید بن ثابتکو اس کی ذمہ داری دی کیونکہ وہ اس کے اہل بھی تھے اور عہد نبوی میں کاتب قرآن اورحافظ قرآنبھی تھے۔ علاوہ ازیں زید بن ثابت کی فہم و فراست، ذہانت و فطانت اور سچائی و امانت داری مشہور تھی۔ زید بن ثابت نے کاغذ کے ٹکڑوں، ہڈیوں اور چمڑوں کو اکٹھا کرکے اور حفاظ سے مل کر جمع قرآن کا آغاز کیا، اس پورے عمل میں ابو بکر، عمر اور بڑے صحابہ ان کی معاونت اور نگرانی کر رہے تھے۔ قرآن کو ہر غلطی سے محفوظ رکھنے ک�� لیے ابو بکر و عمر نے یہ طریقہ کار وضع کیا کہ صحابہ محض اپنے حافظہ اور سننے پر اکتفا نہ کریں بلکہ قرآن کا تتبع کریں، نیز ہر آیت کو دو ماخذ سے لیا جائے، پہلا عہد نبوی میں لکھا ہوا اور دوسرا سینوں میں محفوظ۔ چنانچہ کسی آیت کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک اس پر دو عادل گواہ اس کی گواہی نہ دے دیں کہ یہ آیت عہد نبوی میں لکھی گئی تھی۔[64]جمع قرآن کی کارروائی جاری رہی اورسورہ توبہکی آخری آیتوں پر اختتام کو پہنچی جوابو خزیمہ انصاریکے پاس ملیں۔ مکمل ہو جانے کے بعد یہ نسخہ ابو بکر صدیق کے پاس رہا، پھر عمر بن خطاب کے پاس اور بعد ازاں ان کی بیٹیحفصہ بنت عمرکے پاس محفوظ رہا۔[65]تمام علما کا اس پر اتفاق ہے کہ عہد صدیقی میں جمع قرآن سے قبل صحابہ کے پاس اپنے ذاتی مصحف موجود تھے جن میں انھوں نے قرآن یا اس کا کچھ حصہ اکٹھا کر رکھا تھا لیکن یہ انفرادی کاوشیں تھیں اور انھیں یکجا کرنے میں تلاش، تواتر اور اجماع صحابہ کا اس درجہ لحاظ نہیں رکھا گیا تھا جیسا عہد صدیقی میں ملحوظ رہا۔عمر بن خطاب کی شہادت کے بعد عثمان بن عفان خلیفہ بنے اور سنہ650ءتک اسلامسرزمین شام،مصر،عراقوایراناورشمالی افریقاکے کچھ خطوں تک جا پہنچا۔ اہل سنت و الجماعت کے مصادر میں لکھا ہے کہ عثمان بن عفانآرمینیااورآذربائیجانپر لشکر کشی کی تیاری کر رہے تھے کہ اسی اثنا میںحذیفہ بن یمانان کے پاس پہنچے اور یہ عرض گزاری: ""امیر المومنین! اس امت کو سنبھا لیے، قبل اس کے کہ ان میں بھی کتاب اللہ کے سلسلہ میں ایسا ہی اختلاف رونما ہو جیسا یہود و نصاریٰ کے یہاں ہوا""۔ حذیفہ بن یمان نے بتایا کہ تلاوت قرآن میں عراقیوں اور شامیوں میں کیسا اختلاف برپا ہے اور ہر ایک اپنے طرز قرات کو درست سمجھ رہا ہے۔[66]یہ سن کر عثمان بن عفان نے فوراً حفصہ بن عمر کے پاس قاصد بھیجا اور ان سے عہد ابو بکر کا مصحف طلب کیا۔ پھر زید بن ثابت،عبد اللہ ابن زبیر،سعید بن العاصاور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا کہ وہ اس کی متعدد نقلیں تیار کریں۔ روایت میں لکھا ہے کہ عثمان نے ان سے کہا: ""اگر کسی جگہ تم میں اختلاف ہو جائے تو اسےقریش کے لہجہمیں لکھنا، کیونکہ قرآن انہی کے لہجہ ميں نازل ہوا ہے""۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ان حضرات نے نقلیں تیار کر لیں تو عثمان بن عفان نے اصل مصحف حفصہ کو لوٹا دیا اور اس کی نقلیں سارے عالم اسلام میں بھیج دیں اور حکم دیا کہ اس کے سوا بقیہ تمام نسخے نذر آتش کر دیے جائیں۔[67][68]چنانچہ اس کے بعد تمام نسخے ختم ہو گئے اور یہی نسخہ باقی رہا جو مصحف عثمانی کہلاتا ہے اور اب تک دنیا بھر میں یہی رائج چلا آرہا ہے۔اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پیغمبر محمد اپنی زندگی میں حفظ قرآن کا خاصا اہتمام کرتے تھے اور سب سے پہلے انھوں نے جمع قرآن کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ پیغمبر کی نگرانی ہی میں تمام آیتوں اور سورتوں کو مرتب کیا گیا۔[69]اہل تشیع کے بڑے علما مثلاًسید ابو القاسم خوئیوغیرہ نے اہل سنت کی کتابوں میں مذکور روایتوں (جن میں سر فہرستصحیح بخاریکی روایت ہے) کا دقت نظر سے جائزہ لے کر ان کے تعارض اور اختلاف کو واضح کیا اور ساتھ ہی اہل سنت کی کتابوں میں درج ان روایتوں کو بھی پیش کیا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کو عہد نبوی میں جمع کر لیا گیا تھا۔ مثلاًطبرانیاورابن عساکرشعبی سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا: ""چھ انصاری صحابہ نے عہد نبوی میں قرآن کو یکجا کر لیا تھا، ابی بن کعب، زید بن ثابت، معاذ بن جبل، ابو الدردا، سعد بن عبید اور ابو زید""۔[70]اس روایت کو پیش کرنے کے بعد ابو القاسم خوئی نے لکھا ہے کہ ان روایتوں میں لفظ ""جمع"" کے معنیٰ مکمل قرآن کو محفوظ کر لینے کے ہیں اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان چند افراد نے مختلف جگہوں سے قرآن کو اکٹھا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کر لیا تھا۔[71]عہد عثمانی میں نقل مصحف کی کارروائی کے متعلق خوئی کہتے ہیں کہ اس جمع سے مراد تمام مسلمانوں کو ایک مصحف پر متحد کرنا تھا چنانچہ انھوں نے اس کے سوا تمام مصاحف کو جلانے کا حکم جاری کیا تھا اور مسلمانوں کو اختلاف قرات سے حکماً منع کیا۔[72]قرآن ایک بڑی کتاب ہے۔ اس کی تقسیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی میں فرما چکے تھے اور یہ رہنمائی کر چکے تھے کہ کس آیت کو کس سورت میں کہاں رکھنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن کے بے شمار حافظ تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمشعباناوررمضانکے مہینوں میں قرآن کئی دفعہختمکرتے تھے جو ظاہر ہے کہ کسی ترتیب کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ آج تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکی۔ پہلی صدیہجریکے لکھے ہوئے قرآن جوترکیکے عجائب گھر توپ کاپی میں ہیں یاایرانکے شہرمشھدمیں امامعلی رضا علیہ السلامکے روضہ کے عجائب گھر میں ہیں، ان میں بعینہ یہی قرآن خطِ کوفی میں دیکھا جا سکتا ہے جو آج جدید طباعت کے بعد ہمارے سامنے ہے۔ اسے سات منزلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور تقسیم سیپاروں کے حساب سے ہے۔ سیپارہ کا لفظی مطلب تیس ٹکروں کا ہے یعنی اس میں تیس سیپارے ہیں۔ ایک اور تقسیم سورتوں کی ہے۔ قرآن میں 114 سورتیں ہیں جن میں سے کچھ بڑی اور کچھ چھوٹی ہیں۔ سب سے بڑی سورت سورۃ البقرہ ہے۔ سورتوں کے اندر مضمون کو آیات کی صورت میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ قرآن میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہیں۔ نیچے اس تقسیم کو پیش کیا گیا ہے۔مدرجہ بالا تقاسيم ميں سے سورتوں اور آيات كی تقسيم توقيفی ہے۔ يہ اللہ تعالٰی كے نبی نے الہامی راہنمائی ميں أپنی حيات مباركہ ميں كر دی تھی۔ اور اسی صورت ميں محفوظ ہے۔ ركوع پاروں اور منازل ميں تقسيم بعد كے لوگوں نے حفاظ، قاريوں اور عام مسلمانوں كی متعين ايام ميں ختم كرنے كے پيش نظر كی ہے۔ ركوع ميں تقسيم كے سوا دونوں تقسيميں مضمون كے بجائے مقدار كے تحت كی گئی ہيں۔
+موجودہ زمانے ميں برصغير پاك و ہند كے بعض اہل علم نے نظم قرآن پر بہت كام كيا ہے اور اس اعتبار سے بھی قرآن كو مضامين اور ترتيب كے اعتبار سے ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔ حميد الدين فراہی، امين احسن اصلاحی اور جاويد احمد غامدی كا كام اس سلسلہ ميں بہت نماياں ہے۔ ان علما نے قرآن كی سورتوں كو سات ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔
+ان كے كام كا خلاصہ جاويد احمد غامدی كے الفاظ ميں يہ ہے:قرآن کے اِن ساتوں ابواب میں سے ہر باب ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔
+پہلا باب فاتحہ سے شروع ہوتا اورمائدہ پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں فاتحہ مکی اور باقی چار مدنی ہیں۔
+دوسرا باب انعام اور اعراف ،دو مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور دو مدنی سورتوں،انفال اور توبہ پر ختم ہوتا ہے۔
+تیسرے باب میں یونس سے مومنون تک پہلی چودہ سورتیں مکی ہیں اور آخر میں ایک سورۂ نور ہے جو مدنی ہے۔
+چوتھا باب فرقان سے شروع ہوتا ہے ،احزاب پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں پہلی آٹھ سورتیں مکی اور آخر میں ایک، یعنی احزاب مدنی ہے۔
+پانچواں باب سبا سے شروع ہوتا ہے ،حجرات پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں تیرہ سورتیں مکی اور آخر میں تین مدنی ہیں۔
+چھٹا باب ق سے شروع ہو کر تحریم پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں سات مکی اور اِس کے بعد دس مدنی ہیں۔
+ساتواں باب ملک سے شروع ہو کر ناس پر ختم ہوتا ہے۔ اِس میں آخری سورتیں دو ،یعنی معوذتین مدنی اور باقی سب مکی ہیں۔
+اِن میں سے ہر باب کا ایک موضوع ہے اور اُس میں سورتیں اِسی موضوع کی رعایت سے ترتیب دی گئی ہیں۔
+پہلے باب کا موضوع یہود و نصاریٰ پر اتمام حجت ،اُن کی جگہ بنی اسمٰعیل میں سے ایک نئی امت کی تاسیس، اُس کا تزکیہ و تطہیر اور اُس کے ساتھ خدا کا آخری عہدو پیمان ہے۔
+دوسرے باب میں مشرکین عرب پر اتمام حجت ،مسلمانوں کے تزکیہ و تطہیر اور خدا کی آخری دینونت کا بیان ہے۔
+تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے باب کا موضوع ایک ہی ہے اور وہ انذار و بشارت اور تزکیہ و تطہیر ہے۔ساتویں اور آخری باب کا موضوع قریش کے سرداروں کو انذار قیامت ،اُن پر اتمام حجت، اِس کے نتیجے میں انھیں عذاب کی وعید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سرزمین عرب میں غلبۂ حق کی بشارت ہے۔ اِسے ہم مختصر طریقے پر محض انذار و بشارت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔[74]قران کا اسلوب شعری ونثری اسلوب سے الگ ہے بایں طور پر کہ کسی بھی سورت میں کوئی مقدمہ، کوئی خاص موضوع یا خاتمہ نہیں ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات ایک آیت میں ایک موضوع ہوتا ہے جو اس کے بعد یا پہلی آیت سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔[75]اسی لیے قران کی کوئی آیت اپنی ما قبل آیت کا خاتمہ نہیں ہوتی ہے اور نہ اپنیما بعد کا مقدمہ ہوتی ہے۔[76]صحابہ کراماورتابعینمیں قران میں اجتہاد سے کام لیتے ہوئے اسے 30 برابر حصوں میں منقسم کر دیا تاکہ تلاوت کرنے میں آسانی ہو اوررمضانمیں رومیہ ایک پارہ کی تلاوت کی جا سکے۔ یہ ایک اجتہادی عمل ہے جس پر مسلمان مستحب سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ بعد ازاں ہر پارے کو نصفین میں تقسیم کیا اور ہر نصف کو ربعین میں۔قران 114 سورتوں پر مشتمل ہے جو طوالت میں یکسر مختلف ہیں۔[77][78]پھر یہ سورتیں آیا مکی ہیں یا مدنی ہیں۔مکی سورہوہ کہلاتی ہے جوہجرت مدینہسے قبل نازل ہوئی۔ ان سورتوں میں عموما عقیدہ، توحید اور اس کی دلائل کے مضمون شامل ہیں۔ یہ کل 86 سورتیں ہیں۔[77]مدنی سورہوہ ہے جو ہجرت مدینہ کے بعدمدینہ منورہمیں نازل ہوئی۔ ان سورتوں میں عموما شریعت، احکام اورحلالوحرامکے مضمون موجود ہیں۔ یہ کل 28 سورتیں ہیں۔[77]تلاوت کی آسانی کے لیے علما نے ان سورتوں کی 3 اقسام کی ہیں۔ طوال مفصل یعنیسورہ بقرہ، وآل عمران، والنساء، والمائدہ، والانعام، والاعراف، وبراءة۔ وسميت بالطوال لطولها، والطوال جمع طولى۔[79]۔ اوساط مفصل جو طوال مفصل، یہ وہ سورتیں ہیں جن میں تقریباً 100 آیتیں ہیں۔[79]تیسری قسم ہے قصار مفصل جس میں تمام چھوٹی سورتیں شامل ہیں جو اوساط مفصل میں نہیں ہیں۔[79]قرآن کی زبان فصیح عربی ہے جسے آج بھی ادبی مقام حاصل ہے اور باوجودیکہ عربی کے کئی لہجے (مصری، مراکشی، لبنانی، کویتی وغیرہ) پیدا ہو چکے ہیں، قرآن کی زبان کو ابھی تک عربی کے لیے ایک معیار کی حیثیت حاصل ہے۔ عربی کے بڑے بڑے عالم جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں قرآن کی فصیح، جامع اور انسانی نفسیات سے قریب زبان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اتنی بڑی کتاب ہونے کے باوجود اس میں کوئی گرامر کی غلطی بھی موجود نہیں۔ بلکہ عربی حروف ابجد کے لحاظ سے اگر ابجد کے اعداد کو مدِ نظر رکھا جائے تو قرآن میں ایک جدید تحقیق کے مطابق جو ڈاکٹر راشد الخلیفہ نے کمپیوٹر (کمپیوٹر) پر کی ہے، قرآن میں باقاعدہ ایک حسابی نظام موجود ہے جو کسی انسان کے بس میں نہیں۔ قرآن میں قصے بھی ہیں اورتاریخی واقعاتبھی، فلسفہ بھی ملے گا اورمنطقبھی، پیچیدہ سائنسی باتیں بھی ہیں اور عام انسان کی زندگی گذارنے کے طریقے بھی۔ جب قرآن نازل ہوا اس وقت جو عربی رائج تھی وہ بڑی فصیح تھی اور اس زمانے میں شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل تھی لھٰذا یہ ممکن نہیں کہ قرآن میں کوئی غلطی ہوتی اور دشمن اس کے بارے میں بات نہ کرتے۔ بلکہ قرآن کا دعوہ تھا کہ اس جیسی ایک آیت بھی بنا کر دکھا دیں مگر اس زمانے کے لوگ جو اپنی زبان کی فصاحت اور جامعیت کی وجہ سے دوسروں کو عجمی (گوں گا) کہتے تھے، اس بات میں کامیاب نہ ہو سکے۔قرآن مجید کی پہلی آیت :قرآن مجید کی آخری آیت :حروف مقطعات(عربی: مقطعات، حواميم، فواتح) قرآن مجید کی بعض آیات کے شروع میں آتے ہیں اور الگ الگ پڑھے جاتے ہیں، ان کوآیات مقطعاتاور ان حروف کوحروف مقطعاتکہا جاتا ہے، مثلاًالم۔ یہ قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں آتے ہیں۔ یہ کل چودہ حروف ہیںا، ل، م، ص، ر، ک، ہ، ی، ع، س، ج، ق، ن۔ مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ ان کا حقیقی مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ مقطعات کا لفظی مطلب قطع شدہ، ٹکڑے، کترنیں کے ہیں۔ بعض علما کے مطابق یہ عربی الفاظ کے اختصارات ہیں اور بعض علما کے مطابق یہ کچھ رمز (code) ہیں۔[82]یہ حروف 29 سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر ہیں اورسورۃ الشوریٰ( سورۃ کا شمار: 42) کی دوسری آیت کے طور پر بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ ایک سے پانچ حروف پر مشتمل 30 جوڑ (combinations) ہیں۔ جو 29 سورتوں کے شروع میں قرآن میں ملتے ہیں۔انٹرنیٹ کی ترقی سے جہاں مواد کو لوگوں تک پہنچانا آسان ہو گیا ہے وہاں قرآن کے بارے میں ویب سائٹوں کی بہتات ہے جس میں سے کچھ تو درست مواد فراہم کرتے ہیں مگر بیشتر غلطیوں سے پاک نہیں۔ اس میں کچھ تو قرآن کو یونیکوڈ میں لکھنے کی مشکلات ہیں مگر کچھ اسلام کے خلاف کام کرنے والوں کا کام ہے جس میں قرآن کے عربی متن اور اس کے ترجمہ کو بدل کر رکھا گیا ہے۔ جس کا عام قاری اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ صرف ایسی سائٹس کی طرف رجوع کریں جن کے بارے میں یقین ہو کہ وہ درست یا تصدیق شدہ ہیں۔
+اس کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا مرکزی ادارہ بنایا جائے جس میں تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں کے نمائندے اور ماہرین شامل ہوں اور ماہرین کسی بھی قرآنیویب سائٹکی تصدیق کر سکیں اور اسے ایک سرٹیفیکیٹ جاری کر سکیں جو ان کی ویب گاہ پر لگائی جائے۔ جو کم از کم عربی متن کی تصدیق کرے جیساپاکستانمیں چھپے ہوئے قرآن کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ اس کی تصدیق کہ کوئی قرآنی ویب گاہ مصدقہ ہے کہ نہیں، اس مرکزی ادارہ کی ویب گاہ سے ہو سکے۔ چونکہ انٹرنیٹ پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اس لیے لوگوں کی اپنی کوشش ہوگی کہ وہ اس مرکزی ادارہ کی تصدق شدہ ویب گاہ کا استعمال کریں۔ تا حال ایسا کوئی ادارہ نہیں مگر مستقبل میں یہ نہائت ضروری ہوگا۔قرآن کے تراجم دنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں اور کیے جا رہے ہیں۔ بڑی زبانوں میں تراجم قرآن ایک سے زائد لوگوں نے مختلف ادوار میں کیے ہیں۔ قرآن کے یورپی اور دیگر کئی زبانوں میں غیر مسلمان افراد نے بھی ترجمہ کیا ہے۔ اسی طرح کچھ تراجم بنا عربی متن کے بھی شائع کیے گئے ہیں، جبکہ رومن رسم الخط میں بھی مختلف وجوہات کی بنا پر تراجم ہوئے ہیں۔قرآن کے الفاظ کو ان کے حروف کو زبان سے درست مخارج سے ادا کرنے کا علم، تجوید کہلاتا ہے۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدارلوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+700,تفسیر قرآن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%81%D8%B3%D8%B1_%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86,"لفظ تفسیرعربی زبانکا لفظ ہے جس کا [مادہمعینی] فسر ہے۔ یہ باب تفصیل کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں واضح کرنا، کھول کر بیان کرنا، وضاحت کرنا، مراد بتانا اور بے حجاب کرنا ہے۔قرآنکی تشریح و وضاحت کے علم کو تفسیر کہتے ہیں اور تفسیر کرنے والے کومفسر۔[1][2]اسی عربی لفظ فسر سے، اردو زبان میں، تفسیر کے ساتھ ساتھ ديگر متعلقہ الفاظ بھی بنائے جاتے ہیں جیسے؛ مُفسَر، مُفَسِّر اور مُفَسّر وغیرہ[3]ایک اردو لغت میں [ مُفسَر]، [ مُفَسِّر][4]اور [ مُفَسّــَر] کا اندراج۔[5]تفسیر کی جمع تفاسیر کی جاتی ہے اور مفسر کی جمع مفسرین آتی ہے۔تفسیر کا مادہ ف-س-ر=فسر ہے اور اس مادہ سے جو الفاظ بنتے ہیں۔ ان سے بالعموم شرح و ایضاح کے معنی شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ فَسّرَ (ماضی) کے مصدری معنی ہیں:واضح کرنا، تشریح کرنا، مراد بتانا، پردا ہٹانا۔ جبکہ اسی سے تفسیر ہے کیونکہ اس میں بھی عبارت کھول کر معانی کی وضاحت کی جاتی ہے۔وہ علم جس سے قرآن کو سمجھا جاتا ہے۔ اس علم سے قرآن کے معانی کا بیان، اس کے استخراج کا بیان، اس کے احکام کا استخراج معلوم کیا جاتا ہے۔ اور اس سلسلے میں لغت، نحو، صرف، معانی و بیان وغیرہ سے مدد لی جاتی ہے۔ اس میںاسباب نزول،ناسخ و منسوخسے بھی مدد لی جاتی ہے۔ علامہ امبہانی کہتے ہیں: تفسیر اصطلاح علما میں قرآن کریم کے معانی اور اس کی مراد کو واضح کرنے اور بیان کرنے کو کہتے ہیں، خواہ باعتبار حل الفاظ مشکل ہو یا باعتبار معنی ظاہر ہو یا خفی اور تاویل کلام تام اور جملوں کا مفہوم متعین کرنے کو کہتے ہیں۔
+امامماتریدیکے نزدیک: تفسیر اس یقین کا نام ہے کہ لفظ سے یہی مراد اور اس قدر یقین ہو کہ خدا کو شاہد ٹھہرا کر کہا جائے کا خدا نے یہی مراد لیا ہے۔ اور تاویل یہ ہے کہ چند احتمالات میں سے کسی ایک کو یقین اور شہادت الہی کے بغیر ترجیح دی جائے۔
+امام ابو نصر القشیری کہتے ہیں کہ تفسیر موقوف ہے سماع اور اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر۔ علامہ ابو طالب شعلبی کہتے ہیں: تفسیر کے معنی لفظ کی وضع کا بیان کر دینا ہے، خواہ وہ حقیقت ہویا مجاز، مثلا صراط کے معنی راستہ، صیب کے معنی بارش اور کفر کے معنی انکار۔قرآن میں جو بیان کیا گيا ہے اور صحیح سنت میں اس کی تعین کیا گیا ہے اس کو ظاہر کرنا تفسیر ہے۔ جو بیان ظاہر کے مطابق ہو وہ تفسیر ہے۔علامة شیخ عثیمین کہتے ہے کہ تفسیر سے مراد قرآن پاک کا معانی کو بیان کر نا ہے “بيان معانى القرآن الكريم"" أصول في التفسير، المؤلف: محمد بن صالح العثيمين، ص23۔تاویل کا مادہ ا-و-ل=اول ہے۔ اس کے لغوی معنی تعبیر بتانا، کل بتانا۔ بیان حقیقت، اپنی اصل کی طرف لوٹنے کے ہیں۔ مرجع اور جائے بازگشت کو موؤل کہتے ہیں۔ کسی شے کو فعل ہو علم اس کی اصل کی طرف لوٹانے کا نام تاویل ہے۔ قرآن اور کلام عرب میں یہ لفظ بیان حقیقت، تفسیر، توضیح معانی، تبیین کے مترادف استعمال ہوا ہے۔ یعنی قرآن میں تاویل و تفسیر ایہم معنی استعمال ہوا ہے۔ چوتھی صدی ہجری سے پہلے تک تاویل و تفسیر کا ایک ہی معنی لیا جاتا رہا ہے۔ اور اسی (تفسیر) کے مترادف کے طور پر تاویل کا لفظ مستعمل رہا۔ پھر اس میں شروع شروع میں تھوڑا فرق پایا جاتا تھا، عام طور پر علما ان دونوں لفظموں کے مفہوم میں یہ فرق کیا کرتے تھے کہ: تاویل کا استعمال جملوں اور معانی کی توضیح کے لیے استعمال کرتے اور تفسیر کا لفظ مشکل الفاظ اور مفردات کی تشریح کے لیے، مگر یہ تمام علما کے نزدیک مسلم نہیں تھا۔پھر جب بعد میں علوم اسلامیہ کی باقاعدہ ترتیب و تدوین عام ہو گئی۔ تو تفسیر و تاویل کے اصطلاحی معانی بھی مقرر ہوئے اور دونوں میں واضح فرق کیا جانے لگا۔ اور فنی و اصطلاحی حیثیت سے تفسیر و تاویل الگ الگ چیزیں ہو گیئں۔
+{اس{قرآنیات}کو اسان بناو اور قران مجید کا ایک معنی ہے تحقیق کرو یہ قران مجید میں تماری بہتری اور کامیابی ہے}علامہ زرکشی نے اس کی مختصر تعریف یوں نقل کی ہے:
+""ھُوَعِلْمٌ یُعْرَفُ بِہٖ فَھْمُ کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ عَلیٰ نَبِیِّہَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَیَانُ مَعَانِیْہِ وَاسْتَخْرَاج أَحْکَامِہٖ وَحِکَمِہٖ""۔[6]وہ ایسا علم ہے جس سے قرآن کریم کی سمجھ حاصل ہو اور اس کے معانی کی وضاحت اور اس کے احکام اور حکمتوں کو نکالا جاسکے۔
+علامہ آلوسی تعریف میں مزید عموم پیدا کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
+""ھُوَعِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ كَيْفِيَّةِ النُّطْقِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ، وَمَدْلُوْلَاتِهَا، وَأَحْكَامِهَا الْإِفْرَادِيَّةِ وَالتَّرْكِيْبِيَّةِ، وَمَعَانِيْهَا الَّتِيْ تُحْمَلُ عَلَيْهَا حَالَۃِ التَّرْكِيْبِ، وَتَتِمَّاتُ لِذَلِك""۔[7]وہ علم ہے جس میں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور اُن معانی سے بحث کی جاتی ہو جو ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ و منسوخ اور شان نزول اور غیرواضح مضمون کی وضاحت میں بیان کیا جائے۔اس تعریف کی روشنی میں علمِ تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے :وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریات:21)اور تم اپنی جانوں میں غور کرو کیا تم نہیں دیکھتے۔غور فرمائیے اس مختصر سے جملے کی تشریح و تفصیل میں پورا علم الابدان (Physiology) اور پورا علمِ نفسیات (Psychology) سماجاتا ہے اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی تخلیقی حکمت بالغہ کے جن اسرار کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ سب پورے ہو گئے ہیں؛ چنانچہ تفسیر کے اس ذیلی جز میں عقل و تدبر، تجربات و مشاہدات کے ذریعے انتہائی متنوع مضامین شامل ہیں۔[8]چونکہ ہرکام کی ایک اصل ہوتی ہے اور اصول کے ساتھ ہونے والے کام کو کام کہا جاتا ہے، بے اصولی تو کسی بھی شعبہ میں اچھی نہیں سمجھی جاتی؛ اسی اصول پر تفسیر کے اصول بھی ہیں؛ تاکہ اس میں دلچسپی پیدا ہو، اب ایک بات ضروری طور پر یہ رہ جاتی ہے کہ وہ کیا ذرائع اور طریقے ہیں جن کی بنیاد پر قرآن کریم کی تفسیر کی جاسکے، یقیناً ہم کو اس کے لیے حق سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے رہبری کی گئی ہے؛ چنانچہ فرمایا:
+""ھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ""۔(آل عمران:7)اے رسول!وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے اورکچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔
+گویا اس آیت کی رو سے آیات کی اولین تقسیم دوطرح پر کی گئی ہے۔
+حسنا کا معنی کیا ہےآیات محکماتآیات متشابہات؛ پھرمتشابہات دوقسم پر ہیں:جو لفظ بھی سمجھ سے باہر ہو جیسے حروف مقطعاتلفظ تو سمجھ میں آتے ہوں؛ لیکن مفہوم ان کا قابل فہم نہ ہو۔
+پھرآیاتِ محکمات کو مفسرین نے دوطرح پر تقسیم کیا ہے:یعنی وہ ذارئع جن سے قرآن کریم کی تفسیر معلوم ہو سکتی ہے، یہ تقریباً چھ قسم کی بتلائی گئی ہیں:ہرایک کی تھوڑی سی تفصیل ضروری مثالوں سے ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:اختصار کی غرض سے اس کی صرف تین مثالیں پیش کی جاتی ہیں:سورۃ الفاتحہ کو ہی لیجئے، اِس کی دونوں آیتیں اس طرح ہیں:
+""اهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِالْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ""۔(الفاتحۃ:6،7)ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما، ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے۔
+جن پر انعام کیا گیا ہے اس کی تفسیر""سورۃالنساء"" کی درجِ ذیل آیت میں کی گئی ہے:
+""وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا""۔ (النساء:69)اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین، شہداءاور صالحین اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔""فَتَلَـقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِoاِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ""۔ (البقرۃ:37)پھر آدمؑ نے اپنے پروردگار سے (توبہ کے )کچھ الفاظ سیکھ لیے(جن کے ذریعہ انھوں نے توبہ مانگی)چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی، بے شک وہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
+اس آیت میں کلمات کا تذکرہ ہے مگر وہ کلمات کیا تھے؟ دوسری آیت میں اس کی تفسیرموجود ہے:
+""قَالَا رَبَّنَ�� ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا، وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ""۔(الاعراف:23)دونوں بول اٹھے کہ:اے ہمارے پروردگار!ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گذرے ہیں اور اگرآپ نے ہمیں معاف نہ فرمایااور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔ اللہ ہم۔پر رحم فرما میں تیری پاک کلام پڑی ہے میں بہت بھٹکا ہوا تھا میرے اللہ مجے اپنی اس حدایت کے رستے پر چلنے کی توفیک عطا فرما اور باقی سب امیر المومنین پر بی حدایت پہچانے کی توفیق عطافرما میرے اللہ میں اس تیری دنیاہ کو محبت والے رستے پر چل کر عدل اور انصاف سے بھر دینہ چاہتہ ہوں۔اے اللہ میری مدد فرما آمین ثم آمین""سورۃ الانعام"" کی آیت نازل ہوئی:
+""الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولِٰئکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ""۔(الانعام:82)جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انھوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہ دیا، امن وچین تو بس انھی کا حق ہے اور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔
+توصحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس سے ( کسی نہ کسی طرح کا) ظلم صادر نہ ہوا ہو، تو اللہ نے ظلم کی تفسیر ومراد کو واضح کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی:
+"" إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ""۔(لقمان:13)کہ شرک ظلم عظیم ہے۔
+یعنی آیت بالا میں ایمان کے ساتھ جس ظلم کا تذکرہ آیا ہے وہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔[9]تفسیر القرآن بالقرآن کے موضوع پرایک گرانقدر کتابمدینہ منورہکے ایک عالم شیخ محمد امین بن محمد مختار کی تالیف ہے جو ""اضواء البیان فی ایضاح القرآن بالقرآن"" کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔قرآن پاک کی تفسیررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں کرنا تفسیر القرآن بالحدیث والسیرۃ کہلاتا ہے، خود قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقوال وافعال اور عملی زندگی سے آیات قرآنیہ کی تفسیر وتشریح فرمائیں۔
+(النحل:44)تو جس طرح اللہ تعالی نے انسانی زندگی کو بندگی بنانے کے لیے اپنے احکامات کو قرآن حکیم کی شکل میں نازل فرمایا، اسی طرح ان احکامات پر عمل آوری کے لیے آپ ﷺکے پوری عملی زندگی کو در حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر بناکر مبعوث فرمایا، جو کچھ احکامات قرآن کریم کی شکل میں نازل کیے گئے ان پر سب سے پہلے آپ ہی نے عمل کرکے دکھلایا اور ان احکامات خدا وندی کو عملی جامہ پہناکر دنیا کے سامنے پیش کرنا یہ آپ کی خصوصیات میں سے ایک نمایا خصوصیت ہے، خواہ وہ حکم ایمان، توحید، نماز، روزہ، زکوۃ، حج، صدقہ وخیرات، جنگ وجدال، ایثار وقربانی، عزم واستقلال، صبر و شکر سے تعلق رکھتا ہو یا حسن معاشرت وحسن اخلاق سے، ان سب میں قرآن مجید کی سب سے پہلی وعمدہ عملی تفسیر نمونہ وآئیڈیل کے طور پر آنحضرت ﷺ ہی کی ذات اقدس میں ملے گی، اس میں بھی دو قسم کی تفسیر ہے ایک تفسیرتو وہ قرآن پاک کے مجمل الفاظ وآیات کی تفسیر وتوضیح ہے جن کی مراد خدا وندی واضح نہیں تو ان کی مراد واجمال کی تفصیل کو زبان رسالت مآب ﷺ نے واضح فرمادیا اور دوسری قسم عملی تفسیر کی ہے، یعنی قرآنحکیمکی وہ آیات جن میں واضح احکامات دئے گئے ہیں جن کا تعلق عملی زندگی کے پورے شعبۂ حیات سے ہے، خواہ وہ عقائد، عبادات، معاملات کی رو سے ہوں یا حسن معاشرت وحسن اخلاق کی رو سے اس میں بھی آ�� نہ وہ کمال درجہ کی عبد یت اور اطاعت وفرمانبرداری کی ایسی بے مثال وبے نظیر عملی تفسیر وتصویر امت کے سامنے پیش فرمائی جس طرح کلام اللہ تمام انسانی کلاموں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے اسی طرح آپ کی عملی زندگی کا ہر قول وفعل بھی تمام انسانی زندگیوں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے، دوسری قسم کی مثالیں کتب سیر، کتب مغازی، کتب تاریخ، کتب دلائل اور کتب شمائل میں بکثرت ملیں گے؛ بلکہ یہ کتابیں تو آپ ہی کی عملی تفسیر پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں جن کی مثالوں کو یہاں ذکر نہیں کیا جا رہا ہے اگر دیکھنا چاہیں تو ہمارے ہوم پیج کے عنوان""سیرت طیبہ"" میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں اور پہلی قسم کی مثالیں کتب احادیث وتفسیر میں بکثرت ملیں گی ان میں سے بغرض اختصار صرف تین مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:سورۂ بقرہ کی آیت شریفہ:
+""وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ""۔(البقرۃ:187)
+اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر واضح (نہ) ہو جائے۔
+آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیط ابیض اور خیط اسود کی مراد کو اپنے ارشاد مبارک سے واضح فرمایا :
+"" إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَار""۔[10]کہ خیط ابیض سے مرادصبح صادقاور خیط اسود سے مرادصبح کاذبہے۔سورہ نور کی آیت:
+""اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ، وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ""۔ (النور:2)زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرددونوں کو سوسو کوڑے لگاؤاور اگر تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ میں ان پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پرغالب نہ آئے اور یہ بھی چاہیے کہ مؤمنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے۔ظاہر ہے کہ اس آیت سے زانیہ اور زانی کی سزامیں سو کوڑے مارنے کاذکر ہے، اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا کوئی فرق نہیں کیا گیا؛اس کی تفسیر احادیثِ پاک سے واضح ہوتی ہے کہ غیر شادی شدہ کو کوڑوں کی سزا دی جائے گی جیسا کے بخاری شریف میں ہے:
+""عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَمَرَ فِيمَنْ زَنَى وَلَمْ يُحْصَنْ بِجَلْدِ مِائَةٍ وَتَغْرِيبِ عَامٍ""۔[11]زید بن خالد سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے غیر شادی شدہ زنا کرنے والوں کو سو کوڑے مارنے کا اور ایک سال کے لیے وطن سے نکالنے کاحکم دیا۔اور شادی شدہ مرد وعورت کو سنگسار کیا جائے گا:
+""الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَازَنَيَا فَارُجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ، رَجَمَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهٗ""۔[12]شادی شدہ مرد وعورت جب زنا کے مرتکب ہوں تو ان کو رجم کرو، یعنی سنگسار کردو، راوی کہتے ہیں کہ خود حضور ﷺ نے اپنی زندگی میں ایسی سزادی ہے اور بعد میں ہم نے بھی ایسی سزا دی ہے۔قرآن کی تفسیر حدیث سے کرنے کی مثال میں یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے:
+""غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ""۔ (الفاتحۃ:7)نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔
+قرآن پاک میں المغضوب اور الضال کا مصداق متعین نہیں کیا گیا ہے ؛لیکن ان دونوں کا مصداق متعین کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
+""إِنَّ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ أَلْيَهُوْدُ وَإِنَّ الضَّالِّيْنَ النَّصَارَىٰ""۔[13]جن پر غضب نازل ہوا اس سے مراد یہود ہیں اور جو راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اس سے مراد نصاری ہیں۔
+اس طرح کی بے شمار مثالیں کتب احادیث میں بکثرت موجود ہیں اور اس نقطۂ نظر سے بھی کئی تفاسیر لکھی گئی ہیں، اُن میں سے چند تفاسیر یہ ہیں۔حضرات صحابہ چونکہ بجا طور پر خیر امت کہلانے کے مستحق ہیں جنھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست قرآن کریم کی تعلیم و تربیت حاصل کی، ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کر دیں کہ قرآن کریم اوراس کی تفسیر وتاویل کو بلاواسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کریں، اہل زبان ہونے کے باوجود ان کو صرفزبان دانیپر بھروسا نہ تھا؛ چنانچہ بعضے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سبقاً سبقاً قرآن کریم کو پڑھا، مشہور تابعی ابوعبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں:
+""حَدَّثَنَا الَّذِيْنَ كَانُوْا يَقْرَؤَوْنَ الْقُرَآنَ كَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَغَيْرِهِمَا أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا تَعَلَّمُوْا مِنَ النَّبِيِّﷺ عَشَرَ آيَاتِ لَمْ يَتَجَاوَزُوْهَا حَتَّى يَعْلَمُوْا مَافِيْهَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ""۔[14]صحابہ میں سے جو قرآن کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا کرتے تھے، مثلاًعثمان بن عفان، عبد اللہ بن مسعود وغیرہ انھوں نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیتیں سیکھتے تو ان آیتوں سے آگے نہ بڑھتے جب تک ان آیتوں کی تمام علمی وعملی باتوں کو نہ جان لیتے۔یہ ہے حضرات صحابہ کا براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم و تربیت کا سیکھنا کہ جتنا سیکھتے اتنا عمل کا بھی اہتمام فرماتے شاید اسی وجہ سے مسند احمد میں انس کا یہ اثرمنقول ہے:
+""كَانَ الرَّجُلُ إِذَاقَرَأ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ جَدَّ فِيْنَا""۔[15]یعنی جب کوئی شخص سورۃ بقرہ وآل عمران کو پڑھ لیتا تووہ ہماری نظروں میں بہت ہی عزت والا سمجھا جاتا اور موطا مالک کی روایت میں ہے:
+""أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مَكَثَ عَلَى سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثَمَانِيَ سِنِينَ يَتَعَلَّمُهَا""۔[16]عبد اللہ ابنِ عمر کو سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے۔
+یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ابن عمر اتنے کمزور ذہن والے تھے کہ سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے، جبکہ موجودہ دور میں کمزور سے کمزورطالب علماتنے عرصہ سے کم میں پورا قرآن کریم حفظ کرلیتا ہے، دراصل بات یہ تھی کہ آٹھ سال کی مدت ابن عمر کو سورۂ بقرہ کے الفاظ اور اس کی تفسیر وتاویل اور اس کے متعلقات کے ساتھ حاصل کرنے میں لگی، اس کی تائیدابن مسعودکے اس اثر سے ہوتی ہے جس کو ابن کثیر نے نقل کیا ہے:
+""والذي لا إلہ غيرہ، ما نزلت آية من، كتاب اللہ إلا وأنا أعلم فيمن نزلت؟ وأين نزلت؟ ولو أعلم أحد اأعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایا لاتیتہ""۔[17]قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس بارے میں اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی شخص ایسی معلومات مجھ سے زیادہ رکھتا ہے اور سواریاں اس شخص تک پہنچاسکتی ہیں تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں ��ا۔یہ چند نمونے ہیں حضرات صحابہ کی جانفشانی اور ان کی محنت کے جو تفسیر قرآن کے سلسلہ میں پیش کیے گئے، یوں تو بہت سی آیات کی تفسیر حضرات صحابہ کے اقوال سے ثابت ہیں ان میں سے کچھ برائے نمونہ پیش ہیں۔ایک دفعہ ابن عمرؓ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور درج ذیل آیت کی تفسیر دریافت کی:
+""أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا""۔(الانبیاء:30)
+کیا کفار نے دیکھا نہیں کہ آسمان وزمین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔
+ابن عمرنے اس سے فرمایا کہ تم ابن عباس کے پاس جاؤ اور ان سے اس کی تفسیر معلوم کرو اور وہ جو تفسیر بتائیں وہ مجھے بھی بتاتے جانا، وہ شخص ابن عباس ke پاس پہنچااور درج بالا آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
+آسمان خشک تھے ان سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بانجھ تھی اس سے کچھ اُگتا نہیں تھا، بارش کے طفیل یہ پودے اگانے لگی؛گویا آسمان کا فتق(پھٹنا)بارش کے ساتھ ہے اور زمین کا پھل پودے اگانے سے۔ اس شخص نے ابن عمر کو جب یہ تفسیر بتائی تو انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی جانب سے ان کو خصوصی علم عطا ہوا ہے۔[18]"" وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ، وَاَحْسِنُوْا، اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِـنِیْنَ""۔(البقرۃ:195)
+اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں اور نیکی کرو، بے شک اللہ تعالی دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو۔
+اس آیت کی تشریح میں مفسرین نےابوایوب انصاریکا ارشاد نقل کیا ہے کہ:
+""التھلکۃ الاقامۃ فی الاھل والمال وترک الجھاد""۔(تفسیر ابن کثیر، تحت قولہ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ)""التھلکۃ ""سے مراد گھر اور مال کیمصروفیاتمیں لگا رہنا اور جہاد کو چھوڑ بیٹھنا ہے۔ عام مفسرین نے اپنی اپنی تفاسیر میں اس تفسیر کو خاص طور سے نقل کیا ہے۔علامہ طبری روایت کرتے ہیں کہ عمرنے صحابہ سے درج ذیل آیت کے متعلق دریافت کیا :
+""أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ""۔(البقرۃ:266)کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں (اور)اس کو اس باغ میں اور بھی ہر طرح کے پھل حاصل ہوں اور بڑھاپے نے اسے آپکڑا ہواور اس کے بچے ابھی کمزور ہوں، اتنے میں ایک آگ سے بھرا بگولا آکر اس کو اپنی زد میں لے لے اور پورا باغ جل کر رہ جائے۔کوئی بھی اس کا شافی جواب نہ دے سکے، ابن عباس نے عرض کیا کہ میرے دل میں ایک بات آ رہی ہے، عمر نے فرمایا کہ آپ بلا جھجک برملا بیان کیجیے، ابن عباس نے فرمایا:
+""اللہ تعالی نے اس آیت میں ایک مثال بیان کی ہے فرمایا :کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ عمر بھر نیکی کا کام کرتا رہے اور جب اس کا آخری وقت آئے جب کے نیکیوں کی اسے زیادہ ضرورت ہوتو بُرا کام کرکے سب نیکیوں کو برباد کر دے""۔[19]ایک اہم بات اس بارے میں اہل اصول نے بتلائی ہے کہ جن صحابہ کے تفسیری اقوال میں صحیح وسقیم ہر طرح کی روایتیں ملتی ہیں تو ان اقوال کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کیے جانے سے پہلے اصول ِحدیث کے اعتبار سے ان کی جانچ ضروری ہے۔
+2۔ نیز دوسرے یہ کہ حضرات صحابہ کے اقوال تفسیر اسی وقت حجت، دلیل سمجھے جائیں گے جبکہ آپﷺ سے آیت شریفہ کی کوئی صریح تفسیر مستند طور پر ثابت نہ ہو؛چنانچہ اگر آپ ﷺ سے تفسیر منقول ہو تو پھر صحابہ سے اقوال محض اس تفسیر کی تائید شمار کیے جائنگے اور اگر آپ ﷺ کے معارض کوئی قول صحابی ہوتو اس کو قبول نہ کیا جائے گا۔
+3۔ تیسرے یہ کہ صحابہ کے اقوال تفسیر میں اگر تعارض اور ٹکراؤ ہو تو جہاں تک ہو سکے ان کے اقوال میں مطابقت پیداکی جائے گی اگر مطابقت نہ ہو سکے تو پھر مجتہد کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ دلائل کی روشنی میں جس صحابی رضی اللہ عنہ کا قول مضبوط ہے اس کو اختیار کرلے۔[20]اس موضوع پر مستقل کتاب، تنویرالمقباس فی[21]/ تفسیر ابن عباس]""ہے اور اس کے علاوہ دیگر کتب تفاسیر میں صحابہ کی تفسیری روایات مذکور ہیں۔واضح ہونا چاہیے کہ تابعین سے مراد تمام ہی تابعین نہیں ہیں؛ بلکہ وہ حضرات تابعین جنھوں نے حضرات صحابہ کی صحبت اٹھائی ہواور ان کی صحبت سے علمی استفادہ کیا ہو، اہل علم میں اس بات پربھی اختلاف ہے کہ تفسیر قرآن کے بارے میں اقوال تابعین حجت ہیں یا نہیں، اس معاملہ میں علامہ ابن کثیر نے بہت ہی معتدل بات لکھی ہے کہ اگر کوئی تابعی کسی صحابی سے تفسیر نقل کر رہے ہوں تو اس کا حکم صحابی کی تفسیر جیسا ہوگا اور اگر خود تابعی اپنا قول بیان کریں تو دیکھا جائے گا کہ دوسرے کسی تابعی کا قول ان کے خلاف تو نہیں اگر خلاف میں کوئی قول ہو تو پھر اس تابعی کے قول کو حجت نہیں قرار دیا جائے گا؛ بلکہ ایسی آیات کی تفسیر کے لیے قرآن کی دوسری آیتیں احادیث نبویہ آثارصحابہ اورلغت عرب جیسے دوسرے دلائل پر غور کرکے فیصلہ کیا جائے گا، ہاں اگر تابعین کے درمیان میں کوئی اختلاف نہ ہوتو ان کے تفسیری اقوال کو بلاشبہ حجت اورواجب الاتباع قراردیا جائے گا۔[22]جب تابعین کے اقوال پر تفسیر کی جا سکتی ہے تو اس کے کچھ نمونے بھی ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں :ارشاد باری تعالی ہے:
+""وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ، رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا، ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ""۔(التوبہ:100)اور جولوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مددکرنے والے اور جو ان کے پیروہوئے نیکی کے ساتھ اللہ تعالی راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور اللہ نے تیار کررکھا ہے ان کے واسطے ایسے باغات کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں رہا کریں ان میں وہ ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی۔
+اس آیت شریفہ میں حضرات صحابہ کے مختلف درجاتِ فضیلت بیان کیے گئے ہیں ایک سابقین اولین کا، دوسرے ان کے بعد والوں کا، اب سابقین اولین کون ہیں، اس میں مفسرین کے مختلف اقوال نقل کیے جاتے ہیں، کبار تابعین سعید بن المسیب، ابن سیرین اور قتادہ کا یہ قول ہے کہ اس سے مراد وہ صحابہ ہیں جنھوں نے دونوں قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور عطاء بن ابی رباح کا یہ قول ہے کہ سابقین اولین سے مرادبدرمیں شریک ہونے والے صحابہ ہیں اورشعبی نے فرمایا کہ وہ جو حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شامل رہے۔[23]اس آیت میں تابعین کے مختلف اقوال سامنے آئے، مفسرین نے کسی قول کو رد نہیں کیااور ان کے درمیان میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
+"" اَلتَّائِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّائِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنََ""۔ (التوبہ:112)توبہ کرنے والے، اللہ کی بندگی کرنے والے، اس کی حمد کرنے والے، روزے رکھنے والے،رکوعمیں جھکنے والے،سجدہگزارنے والے، نیکی کی تلقین کرنے والے، برائی سے روکنے والے اوراللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے(اے پیغمبر )ایسے مؤمنوں کو خوشخبری دے دو۔آیت میں ایک لفظ ""أَلسَّائِحُوْنَ"" آیا ہے، جس کا مطلب جمہور مفسرین کے ہاں""صَائِمُوْنَ""یعنی روزہ دار مراد ہیں اور عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی سائحین کا لفظ آیا ہے وہاں صائمین مراد ہیں، عکرمہ جو کبارِ تابعین میں سے ہیں انھوں نے کہا سیاحت کرنے والوں سے مرادطالب علم ہیں جو علم کی طلب میں ملکوں میں پھرتے ہیں۔[24]اس تفسیر کو مفسرین نے رد نہیں کیا ہے اگرچہ عکرمہ اس تفسیر میں منفرد ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے: ""اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ(التوبہ:60)صدقات تو صرف غریبوں کے لیے ہیں۔۔الخ۔
+اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے غنی اور فقیر کے درمیان میں فرق کو واضح کیا ہے، غنی سے متعلقامام ابو حنیفہنے فرمایا کہ غنی وہ شخص ہے جس کے پاس اصلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بقدر نصاب زکوۃ مال باقی رہے۔[25]عام مفسرین نے امامابو حنیفہکے ذکر کردہ تعریف غنی کو اپنی تفاسیر میں بلا کسی نکیر کے ذکر فرمایا ہے۔اس موضوع پر بھی بہت سی تفاسیرلکھی گئی ہیں؛ چنانچہ علامہ نیشاپوری کی تفسیر""غرائب القرآن اور رغائب الفرقان"" قابل ذکر ہے اور علامہ نسفی کی مدارک التزیل بھی قابل ذکر ہے اور علامہ آلوسی کیروح المعانیبھی ایک وقیع تفسیر ہے۔
+نیز اردو تفاسیر میںمفتی محمد شفیعصاحب کی تفسیرمعارف القرآنآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ islamicbookslibrary.wordpress.com(Error: unknown archive URL)بھی اہم تفاسیر میں سے ایک ہے۔لغت عرب کو تفسیر کا ماخذ ماننے میں اگرچہ اہل علم کے یہاں اختلاف ہے، جیسے کہ امام محمد نے لغۃ عرب سے قرآن کی تفسیر کو مکروہ قراردیا ہے[26]کیونکہ؛ عربی زبان ایک وسیع زبان ہے اور بعض اوقات ایک لفظ کئی معانی پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک جملے کے بھی متعدد اور کئی مفہوم ہو سکتے ہیں تو ایسے مواقع پر صرف لغت عرب کو بنیاد بناکر ان میں سے کوئی ایک مفہوم متعین کرنا تفسیر میں مغالطہ کا سبب بن سکتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو مکروہ بھی کہا گیا ہے مگر محققین کا کہنا ہے کہ مغالطہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ لغت کے کثیر الاستعمال معانی کو چھوڑکر انتہائی قلیل الاستعمال معنی مراد لیے جائیں اس لیے ایسی جگہ جہاں قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین میں سے کوئی صراحت نہ ملے تو آیت کی تفسیر لغت عرب کے عام محاورات(جن کا چل چلاؤہو) کے مطابق کی جائے گی۔ایک مرتبہ خلیفہ ثانی عمر فاروق نے صحابہ کرام سے درج ذیل آیت کے معنی دریافت کیے:
+""أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ""۔(النحل:47)یا انھیں اس طرح گرفت میں لے کہ وہ دھیرے دھیرے گھٹتے چلے جائیں۔
+یہ سن کر قبیلہ بنو ھذیل کا ایک شخص کھڑا ہوکر کہنے لگاکہ ہماری زبان میں""تخوف""کمی اور نقصان کو کہتے ہیں، امیر المؤمنین عمر نے پوچھا عربی اشعار میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے؟اس نے کہا جی ہاں اور فوراً یہ شعر پڑھ دیا:ترجمہ:کجاوہ کی رسی اونٹنی کے کوہان کے بال کو کم کرتی رہتی ہے، جیسا کہ لوہا کشتی کی لکڑی کو کم کرتا رہتا ہے۔یہ سن کر عمرنے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا اپنے دیوان کو تھامے رکھو، صحابہ نے عرض کیا دیوان سے کیا مراد ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا جاہلی شاعری، اس میں قرآن کی تفسیر اور تمھاری زبان کے معانی موجود ہیں۔[27]علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ ابن عباس صحن کعبہ میں تشریف فرما تھے سوال کرنے والوں کا ایک ہجوم تھادو آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ سے تفسیر قرآن کے متعلق کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں، ابن عباس نے فرمایا دل کھول کر پوچھیے، انھوں نے پوچھا کہ آپ اس آیت باری تعالی کی تفسیر بتائیے:
+""عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ""۔ (المعارج:37)دائیں بائیں حلقے باندھے ہوں گے۔
+ابن عباس نے فرمایا عزین کے معنی ہیں ساتھیوں کے حلقے، انھوں نے پھر سوال کیا کہ کیا اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں؟ ابن عباس نے فرمایا :جی ہاں پھر آپ نے عبید بن الابرص کا شعر پڑھا
+فَجَاؤُا يُهْرَعُوْنَ إِلَيْهِ حَتً
+يَكُوْنُوْا حَوْلَ مِنْبَرِهِ عِزِيْنًاوہ لوگ اس کی طرف بھاگتے ہوئے آتے ہیں
+اس کے منبر کے گرد حلقہ باندھ لیتے ہیں[28]دیکھیے یہاں ابن عباس نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب کی مدد سے کی ہے۔اُسی صاحب نے آپ سے درج ذیل آیت کی تفسیردریافت کی:
+""وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ""۔ (المائدۃ:35)اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔
+ابن عباس نے فرمایا کہ وسیلہ حاجت اور ضرورت کو کہتے ہیں اس نے پوچھا کہ اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں:آپ ﷺ نے فرمایا کیا آپ نے عنترۃ نامی شاعر کا شعر نہیں سناہے؟پھر شعر پڑھا:
+إنَّ الرِّجَالَ لَهُمْ إِلَيْكِ وَسِيلَةٌ إِنْ يَأْخُذُوكِ، تكَحَّلِي وتَخَضَّبي[29]اس شعر میں وسیلہ کا لفظ حاجت وضرورت کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ ابن عباسؓ نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب سے کی ہے۔
+اس نقطۂ نظر سے بہت سی تفاسیر لکھی گئی ہیں، ان میں تفسیر خازن جس کا اصل نام ""لباب التاویل فی معانی التنزیل(2)السراج المنیر فی الاعانۃ علی معرفۃ بعض معانی کلام ربنا الحکیم الخبیر، للخطیبشربینی""قابل ذکر ہیں۔عقل سلیم جس کی اہمیت وضرورت سے کسی کو انکار نہیں، دنیا کے ہر کام میں اس کی اہمیت ہوتی ہے اور پچھلے مآخذ سے فائدہ اٹھانا بغیر عقل سلیم کے معتبر نہیں اس ماخذ کو علاحدہ لکھنے کی ضرورت محض اس لیے پڑتی ہے کہ قرآن کریم کے معارف ومسائل، اسرارورموز یقینا ًایک بحر بیکراں ہیں اور پچھلے مآخذ سے ان کو ایک حد تک سمجھا جا سکتا ہے ؛لیکن کسی نے بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ قرآن کریم کے اسرار ومعارف کی انتہا ہو گئی اور مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی، یہ بات خود قرآن کریم کی صریح آیتوں کے خلاف ہوگی، فرمان خدا وندی ہے:
+""قُلْ لَّوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ، الخ""۔ (الکہف:109)کہہ دو کہ اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر روشنائی بن جائے، تو میرے رب کی باتیں ختم نہیں ہوں گی کہ اس سے پہلے سمندر ختم ہو چکا ہوگا، چاہے اس سمندر کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم ویسا ہی ایک سمندر کیوں نہ لے آئیں۔گویا اس آیت میں وضاحت ہے کہ ساری مخلوق مل کر بھی کلمات الہی کا احاطہ کرنا چاہے تو ممکن نہیں سارا سامان تسوید ختم ہوجائیگا اور لامتناہی کسی طرح بھی متناہیوں کی گرفت میں نہ آسکے گا، متناہی صفات والے لا متنا ہی صفات والی ہستی کو کیونکر اپنی گرفت میں لاسکتے ہیں اور یقیناً قرآن کریم بھی صفات باری میں سے ایک ہے لہذا عقل سلیم کے ذریعہ ان حقائق اور اسرار پر غور و فکر کا دروازہ قیامت تک کھلاہوا رہے گا اور جس شخص کو بھی اللہ تعالی نے علم و عقل اور خشیت و تقوی اور رجوع الی اللہ کی صفات سے مالا مال کیا وہ تدبیرکے ذریعہ نئے نئے حقائق تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؛چنانچہ ہر دور کے مفسرین کی تفسریں اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ اور نبی اکرمﷺ کی دعاجو ابن عباس کے لیے تھی:""اَللّٰھُمَّ عِلْمُہٗ الْکِتَابَ وَفقہُ فِی الدِّیْنِ""۔[30]ترجمہ: اے اللہ ان کو تاویل یعنی تفسیر قرآن اور دین کی سمجھ عطا فرما۔
+یہ دعا بھی اشارہ کرتی ہے کہ اس باب میں راہیں کھلی ہیں البتہ اہل علم نے اس معاملہ میں یہ اصول ضرور بتلایا ہے کہ عقل سلیم کے ذریعہ مستنبط ہونے والے وہی مسائل اور معارف معتبر ہوں گے جو سابق مآخذ سے متصادم نہ ہوں، یعنی ان سے نہ ٹکراتے ہوں، اصول شرعیہ کے خلاف کوئی نکتہ آفرینی کی جائے تو اس کی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی۔
+ہم کو ایمان رکھنا چاہیے کہ کل کائنات خدا کی بنائی ہوئی اور اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، لہذاقرآن کریم کی بعض آیتوں سے اگرکوئی ڈاکٹریا سائنس داں معلومات کو اخذ کرتا ہے اور وہ معلومات مذکورہ اصولوں سے متصادم نہ ہوں توایسی تفسیر بھی قابل اعتبار ہوگی۔""لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَايَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثاً وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَo أَوْيُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَاناً وَإِنَاثاً وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيماً إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ"" (الشوری:49،50)سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ جس کوچاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے یا پھر ان کو ملاکر لڑکے بھی دیتا ہے اورلڑکیاں بھی اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنادیتا ہے، یقیناً وہ علم کا بھی مالک ہے قدرت کا بھی مالک۔
+بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس آیت میں خنثیٰ(ایسا شخص جو نہ مرد ہو نہ عورت) کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؛لیکن ابن العربیؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ ایسا کہنا عقل کے خلاف بات ہے اس لیے کہ اللہ نے آیت کے ابتدا ہی میں فرمادیا""يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ""وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، لہذااس میں خنثیٰ بھی شامل ہے۔[31]موسی جب کوہ طور پر تیس دن کے لیے تشریف لے گئے تھے اور انھیں چالیس یوم تک وہاں رہنا پڑا تھاتو ان کے غائبانہ ان کی قوم نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی تھی اس واقعہ سے متعلق ایک حصہ کو قرآن پاک نے یوں بیان کیا ہے :
+""وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا""۔ (الاعراف:148)موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کے بعد زیورات سے ایک بچھڑا بنالیا۔
+اس آیت کی تفسیر میں علامہ تستری لکھتے ہیں کہ بچھڑے سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی محبت میں گرفتار ہوکر انسان اللہ سے منہ موڑلے ؛مثلاً اہل واولاد اور مال وغیرہ انسان تمام خواہشات کو ختم کر دے جس طرح بچھڑے کے پجاری اس سے اسی حالت میں چھٹکارا پاسکتے ہیں جب وہ اپنی جانوں کو تلف کر دیں۔[32]یہ تفسیر بھی عقل سلیم کی روشنی میں کی جانے والی تفسیر کے قبیل سے ہے اور یہ اصول شرعیہ کے مخالف بھی نہیں ہے۔قرآن پاک نےابراہیم علیہ السلامکا واقعہ ذکر کیا ہے جس میں اللہ تعالی نے ان کو اپنے لخت جگر حضرتاسماعیل علیہ السلامکو ذبح کرنے کا حکم دیا تھا قرآن پاک میں یوں ہے:
+""وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ""۔(الصافات:107)اور اس کے عوض ہم نے ایک بڑا جانور دے دیا۔
+اس کی تفسیر میں علامہ تستری لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ بتقاضائے بشریت اپنے بیٹے سے محبت کرتے تھے اس لیے اللہ تعالی نے آزمائش کے طور پر اس کو ذبح کرنے کا حکم دیا، منشأ خدا وندی دراصل یہ نہ تھا کہ ابراھیمؑ بیٹے کو ذبح کرڈالیں؛ بلکہ مقصود یہ تھا کہ غیر اللہ کی محبت کو دل سے نکال دیا جائے، جب یہ بات پوری ہو گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی عادت سے باز آ گئے تو اسماعیل کے عوض ذبح عظیم عطا ہوئی۔[33]یہ تفسیر بھی اسی قبیل سے ہے اور اصول شرعیہ کے معارض بھی نہیں ہے اس لیے اس کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
+اس عنوان پر تفسیر یں بھی لکھی گئی ہیں، علامہ ابوالسعودکی""ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم"" اور"" تفسیر التستری""قابل ذکر ہیں۔قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں، ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں، جنت ودوزخ کا تذکرہ اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں وغیرہ جس کو ہر عربی داں شخص سمجھ سکتا ہے؛بلکہ مستند ترجمہ کی مدد سے اپنیمادری زبانمیں بھی ان آیات کو سمجھ سکتا ہے، ان آیات کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
+""وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر""۔ٍ (القمر:17)اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے؛ اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟۔
+دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام وقوانین، عقائد اور علمی مضامین پر مشتمل ہیں، اس قسم کی آیتوں کو پوری طرح سمجھنے اوران سے احکام ومسائل مستنبط کرنے کے لیے علم تفسیرکاجانناضروری ہے، صرف عربی زبان کا سمجھنااس کے لیے کافی نہیں ہے، صحابہ کرامؓ اہل عرب ہونے کے باوجودایسی آیتوں کی تفسیر اللہ کے رسولﷺسے معلوم کیا کرتے تھے، اس کی تفصیلی مثالیں اس مقالہ میں آچکی ہیں؛یہاں سمجھنے کے لیے ایک مثال پر اکتفا کیا جا رہا ہے، روزوں سے متعلق جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
+""وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ""۔(البقرۃ:187)اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے میں تمھیں فرق معلوم ہونے لگے۔
+اس آیت کو سننے کے بعدعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ(67ھ) نے سفید اورسیاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے؛ تاکہ جب دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے وہ اپنے روزے کی ابتدا کر لیا کریں؛اسی طرح اور ایک روایت میں سہل بن سعد(951ھ) کہتے ہیں:کچھ لوگ جنھوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں پاؤں سے سفید اورسیاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر سحری کھاتے رہتے؛یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس میں ممتاز نہ ہوجائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سمجھا یا کہ یہاں سفید اورسیاہ دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اورشب کی سیاہی ہے۔[34]الغرض!قرآن کریم کی تفسیر کرنے کے لیے علم تفسیر کا جاننا ضروری ہے، کسی بھی آیت کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے والا غلطی پر ہے، خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا، قرآن کریم کی تفسیرسمجھنے کے لیے مستند تفاسیر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور علما سے استفادہ کرنا چاہیے، اس مضمون کے آخر میں مستنداردو تفاسیر کے نام ذکر کیے گئے ہیں، درج ذیل احادیث میں تفسیر قرآن کی باریکی کا اندازہ ہوتا ہے :""مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ""۔
+جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
+""مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ""۔
+جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔[35]علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ بعض غلو پسند لوگوں نے اس حدیث سے یہ مطلب سمجھا کہ قرآن کریم کے بارے میں کوئی بات فکر ورائے کی بنیا دپر کہنا جائز نہیں؛ یہاں تک کہ اجتہاد کے ذریعے قرآن کریم سے ایسے معانی بھی مستنبط نہیں کیے جا سکتے جو اصول شرعیہ کے مطابق ہوں؛ لیکن یہ خیال درست نہیں؛ کیونکہ خود قرآن کریم نے تدبر اور استنباط کو جا بجا مستحسن قرار دیا ہے اور اگر فکر وتدبر پر بالکل پابندی لگادی جائے توقرآن وسنت سے شرعی احکام وقونین مستنبط کرنے کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا ؛لہٰذا اس حدیث کا مطلب ہر قسم کی رائے پر پابندی لگانا نہیں ہے۔[36]چنانچہ اس بات پر جمہور علما متفق ہیں کہ خود قرآن وسنت کے دوسرے دلائل کی روشنی میں اس حدیث کا منشا یہ ہر گز نہیں ہے کہ معاملہ میں غور و فکر اور عقل ورائے کو بالکل استعمال نہیں کیا جا سکتا ؛بلکہ اس کا اصل منشا یہ ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کے لیے جو اصول اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ ہیں ان کو نظر انداز کرکے جو تفسیر محض رائے کی بنیاد پر کی جائے وہ ناجائز ہوگی اور اگر اس طرح تفسیر کے معاملہ میں دخل دے کر کوئی شخص اتفاقاً کسی صحیح نتیجہ پر پہنچ جائے تو وہ خطا کار ہے، اب اصول تفسیر کو نظر انداز کرنے کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً:
+1۔ جو شخص تفسیر قرآن کے بارے میں گفتگو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ محض اپنی رائے کے بل بوتے پر تفسیر شروع کر دے۔
+2۔ کسی آیت کی کوئی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ وتابعین سے ثابت ہو اور وہ اسے نظر انداز کرکے محض اپنی عقل سے کوئی معنی بیان کرنے لگے۔
+3۔ جن آیات میں صحابہ کرام وتابعین سے کوئی صر یح تفسیر منقول نہیں ان میں لغت اور زبان و ادب کے اصولوں کو پامال کرکے کوئی تشریح بیان کرے۔
+4۔ قرآن وسنت سے براہ راست احکام وقوانین مستنبط کرنے کے لیے اجتہاد کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور پھر بھی اجتہاد شروع کر دے
+5۔ قرآن کریم کے متشابہ آیات (جن کے بارے میں قرآن نے خود کہے دیا ہے کہ ان کی سو فیصد صحیح مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا) ان کی جزم ووثوق کے ساتھ کوئی تفسیر بیان کرے اور اس پر مصر ہو۔ 6۔ قرآن کریم کی ایسی تفسیر بیان کرے جس سے اسلام کے دوسرے اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ عقائد یا احکام مجروح ہوتے ہوں
+7۔ تفسیر کے معاملہ میں جہاں عقل وفکر کا استعمال جائز ہے وہاں کسی قطعی دلیل کے بغیر اپنی ذاتی رائے کو یقینی طور پر درست اور دوسرے مجتہدین کی آراء کو یقینی طور سے باطل قرار دے۔
+یہ تمام صورتیں اس تفسیر بالرائے کی ہیں جن سے مذکورہ بالا حدیث میں منع کیا گیا ہے؛ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ان تمام صورتوں کو اس مختصر جملے میں سمیٹ دیا گیا ہے :
+من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من لنار
+(ترمذی، باب ماجاء یفسر القرآن، حدیث نمبر:2874)جو شخص قرآن کریم کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
+البتہ تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر میں کسی ایسی رائے کا اظہار کیا جائے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہے؛ البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن وسنت کے وسیع وعمیق علم اور اسلامی علوم میں مہارت کے بغیر ممکن نہیں اور علما نے اس کے لیے بھی کچھ کار آمد اصول مقرر فرمائے ہیں جواصول فقہاور اصول تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کا ایک نہایت مفید خلاصہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ""الب رہان فی علوم القرآن کی نوع 41 میں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان (صفحہ:164۔170)بیان فرمایا ہے، یہ پوری بحث نہایت قابل قدر ہے ؛لیکن چونکہ عربی زبان وعلوم کی مہارت کے بغیر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا، اس لیے اس کا ترجمہ یہاں نقل کرنا بے فائدہ ہے جو عربی داں حضرات چاہیں وہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔سابقہ تمام تفصیل سے یہ ثابت ہواکہ تفسیر قرآن مجید کے لیے کچھ ضروری علوم ہوتے ہیں جن کے بغیر تفسیر کرنا ایسا ہے جیسے بغیر آلات کے صناعی کرنا کہ جیسے کوئی بھی فن بغیر آلاتِ ضروریہ کے نہیں آتا ایسے ہی ہر علم کا بھی یہی مسئلہ ہے؛ چنانچہ مفسرین اوراہل علم نے ضروری علوم کی تفصیل یوں بتلائی ہے:علم لغت، صرف ونحو، معانی، بیان، بدیع، عربی ادب، علم کلام، منطق، حکمت وفلسفہ، علم عقائد، علم تفسیر، پھر اس میں درجات اہل علم کے ہاں مانے گئے ہیں، چنانچہ ابتدائی لغت وصرف نحو ادب یہ عربی زبان سیکھنے اور اس کی باریکیوں کو جاننے کے لیے ہیں؛ کیونکہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا نیز معانی بیان وبدیع وغیرہ اس کی رعنایوں کو سمجھنے ک لیے اورمنطقحکمت وفلسفہ کلام، دوسری زبانوں سے مستعا رعلوم کے ذریعہ جو گمراہیاں آ سکتی ہیں اس کے دفع کے لیے، پھر علم تفسیر کے اندر بھی کئی تفصیلات بتلائی گئی ہے؛ مثلا وحی اوراس کی ضرورت کو سمجھنا پھر وحی کی اقسام مثلاً، وحی قلبی، وحی ملکی، پھر وحی کی مختلف شکلیں جیسے صلصلۃ الجرس اورفرشتے کاانسانی شکل میں آنا، رویائے صادقہ، نفث فی الروع، پھر وحی متلو وغیر متلو، پھر قرآن کریم کے نزول کے متعلق تفصیلات اورسورتوں کی تدوین مکی ومدنی ہونے کے اعتبار سے نیز بعض مدنی سورتوں میں مکی آیتیں اوربعض مکی سورتوں میں مدنی آیتیں کونسی ہیں اس کا استقصاء پھر قرآن کریم سات حروف پر نازل ہونے کا کیا مطلب ہے؛ پھر ناسخ و منسوخ آیتوں کی تفصیلات، سبعہ احرف سے کیا مراد ہے اورحفاظت قرآن اورجمع قرآن کی تفصیلات پھر اس کے اندر دیے ہوئے علامات وقف کی تفصیلات اوراسی میں پاروں کی تقسیم اوراس کے اعراب وحرکات سے متعلق تفصیلات پھر قرآن کریم میں جو مضامین ذکرکئے گئے ہیں، مثلا عقائد، واقعات اورایام اللہ وانعم اللہ، پھر آیات مقطعات و متشابھات ومحکمات وغیرہ کی تفصیلات، بہرحال یہ تو چندضروری علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ان کی تفصیل میں جائیں تو بہت وقت لگ جائے۔جب اہم مفسرین کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے قرن اول یعنی صحابہ و تابعین کا ذکر ضروری ہوتا ہے۔
+لہٰذا سب سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اہم مفسرین کے نام آتے ہیں اور ان میں سے بھی پہلے عبد اللہ بن عباسؓ ہیں جو مفسر اول کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے جو تفسیر فی زمانہ منظر عام پر آئی ہے تنویر المقباس فیتفسیر ابن عباسآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ islamicbookslibrary.wordpress.com(Error: unknown archive URL)حتی کہ اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا؛ لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں مانی گئی ہے ؛کیونکہ یہ کتاب ""محمد بن مروان السّدّی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ""کی سند سے مروی ہے اور اس سلسلہ سند کو محدثین نے سلسلۃ الکذب قرار دیا ہے۔ (دیکھیے الاتقان:188/2)بہرحال قرن اول کے مفسرین میں پہلا نام عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے تاریخ وفات سنہ68ھ۔دوسرا نامعلی بن ابی طالبوفات سنہ40ھ۔
+پہلے تین خلفاء کی نسبت علی سے تفسیری روایات زیادہ مروی ہیں؛ چنانچہ علامہ ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علیؓ نے اپنے خطبے میں یوں فرمایا کہ لوگو! مجھ سے کتاب اللہ کے بارے میں سوالات کیا کرو؛ کیونکہ قسم خدا کی قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں مجھے معلوم نہ ہو کہ یہ آیت رات کو نازل ہوئی یا دن میں میدان میں اتری یا پہاڑ پر۔(الاتقان:187/2)تیسرا نام عبد اللہ بن مسعود متوفی سنہ32ھ۔
+ان کی بھی کئی روایات تفسیر میں منقول ہیں؛ بلکہ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں زیادہ منقول ہیں۔چوتھا نام ابی بن کعب رضی اللہ عنہ متوفی سنہ39ھ۔ابی بن کعباُن صحابہ میں سے ہیں جو تفسیر اور علم قرأت میں مشہور ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا، اَقْرَأُ کُمْ اُبَیْ ابْنُ کَعْبٍ، تم میں سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔
+(تذکرۃ الحفاظللذھبی:38/2)
+ابی بن کعب کی علمی وقعت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ معمر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
+""عَامَّۃُ عِلْمِ ابنِ عَبَّاسٍ مِنْ ثَلٰثَہٍ، عُمَر وَ عَلِی وَ اُبَیْ بنُ کَعبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ""۔(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:38/2)
+عبد اللہ بن عباس کے بیشتر علوم تین حضرات سے ماخوذ ہیں، عمر و علی و ابی بن کعبان حضرات صحابہ کے علاوہ اور بھی کچھ نام تفسیر کے سلسلہ میں منقول ہیں مثلاً زید بن ثابتؓ،معاذ بن جبل، عبد اللہ بن عمرو،عبد اللہ بن عمر، عائشہ، جابر، ابو موسیٰ اشعری، انس اور ابو ھریرہ۔حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے چونکہ مختلف علاقوں اورمقامات میں پھیل کر قرآن کریم کی خدمت کا سلسلہ شروع کیا، جس کی وجہ سے تابعین کی ایک بڑی جماعت اس کام کے لیے تیار ہوئی، جس نے علم تفسیر کو محفوظ رکھنے میں نمایاں خدمات انجام دیں، ان میں سے کچھ برائے تعارف پیش کیے جاتے ہیں:مفسرین نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے کئی نقطۂ نظر سے تفسیریں لکھی ہیں؛ مثلاًادبی، عقلی اور کلامی وغیرہ، بعض نے تفسیر بالماثور بھی لکھی، بعض نے تفسیر اشاری یعنی صوفیانہ انداز پر تفسیرلکھی، غرض مختلف نقاط نظر سے قرآن کی خدمت کی گئی ہے۔تفسیر بالماثور میں اہم تفاسیر تفسیر طبری، تفسیر بحرالعلوم ازسمر قندی، الکشف والبیان عن تفسیر القرآن از ثعالبی، معالم التنزیل ازبغوی، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب لابن عطیہ، تفسیر ابن کثیر، الدر المنثور فی تفسیر الماثور ازسیوطی، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن ازثعالبی- خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔تفسیر بالرائے کے نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں مفاتیح الغیب ازرازی، انوارالتنزیل واسرار التاویل ازبیضاوی، مدارک التنزیل وحقائق التاویل فی معانی التنزیل از خازن، غرائب القرآن ورغائب الفرقان از نیسا پوری، تفسیر جلالین، السراج المنیراز خطیب شربینی، روح المعانی از آلوسی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔صوفیانہ نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی تفاسیر میں تفسیر ابن عربی، تفسیر فیضی، تفسیر القرآن العظیم از تستری، حقائق التفسیر ازسلمی، عرائس البیان فی حقائق القرآن وغیرہ ہیں۔فقہی نقطہ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں احکام القرآن ازکیاہراسی، احکام القرآن ازابن العربی، الجامع لاحکام القرآن از قرطبی، کنزا لعرفان فی فقہ القرآن، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن للتھانوی اور اردو میں ایک مختصر سی کتاب مولانا عبد المالک صاحب کاندھلوی کی فقہ ال��رآن کے نام سے آئی ہے۔چند اردو تفاسیر:قرآن مجید کے نزول سے قبل دیگر آسمانی کتابیں مثلاًتوراتوانجیلوغیرہ نازل ہو چکی تھی اور نزولِ قرآن کے زمانہ میںاہل کتابکی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو قرآن میں بیان کردہ انبیا کرام کے واقعات کو اپنی کتابوں کے حوالہ سے بھی پیش کرتے تھے اوربعض اوقات من گھڑت حکایات بھی نقل کردیتے ؛لیکن اس سلسلہ میں نبی کریمﷺ نہایت قیمتی اصول بیان فرمائے جو آگے پیش کیے جائیں گے تو آئیے قرآن کریم میں اسرائیلیات کی حیثیت اوران کا مقام و مرتبہ کیا ہے، اس کو فرامین رسول کی روشنی میں اور علمائے امت کی تحریروں کے آئینہ میں ملاحظہ کرتے ہیں:اسرائیلی روایات کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:""{{ }}الاسرائیلیات: الاخبار المنقولۃ عنبنی اسرائیلمن الیھود وھو الاکثر اومن النصاری""۔
+(قسم التفسیر واصولہ:1/47[37])اسرائیلیات وہ باتیں جو بنی اسرائیل یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یا نصاریٰ سے۔شیخ الاسلاممفتیمحمد تقی عثمانیمدظلہ نے رقم فرمایا کہ:""اسرائیلیات یا اسرائیلی روایات ان روایات کو کہتے ہیں جو یہودیوں یا مسیحیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے بعض براہِ راستبائبلیا تالمود سے لی گئی ہیں بعض منشاءاوران کی شروح سے اوربعض وہ زبانی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئی ہیں اور عرب کے یہود ونصاری میں معروف ومشہور تھیں""۔
+(علوم القرآن:345)جب قرآن مجید نازل ہونے لگا اوراس میں حضرات انبیا کرام کے واقعات اوران کی قوموں کے احوال بیان کیے جانے لگے تو اہل کتاب یہود ونصاری اپنیعبرانی زبانمیں موجود کتابوں سے جو تحریف شدہ تھے اس سے واقعات عربی میں حضرات صحابہ کرام ؓسے بیان کرتے تھے جب اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان اہل کتاب کے بیان کردہ واقعات کی نہ تصدیق کرو اورنہ تکذیب ؛بلکہ کہو کہ جو کچھ اللہ تعالی نے نازل کیا ہے ہمارا اس پر ایمان ہے؛چنانچہابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ:
+""كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا""۔
+(بخاری، بَاب:قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا، حدیث نمبر:4125)اہل کتاب تورات عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو اور کہو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں۔
+علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ (المتوفی:853 ھ) حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ نہ تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب یہ اس وجہ سے ہے کہ جن باتوں کی وہ خبر دے رہے ہیں وہ سچ اورجھوٹ دونوں کا احتمال رکھتی ہیں، اگر فی الواقع وہ سچ ہوں اور تم ان کی تکذیب کردویا اگر وہ جھوٹ ہوں اور تم اس کی تصدیق کردو تو دونوں اعتبار سے حرج اور تنگی میں پڑجانے کا اندیشہ ہے اس لیے ان کی بیان کردہ باتوں کو سن کر نہ تصدیق کی جائے نہ تکذیب؛ تاکہ فتنہ میں نہ پڑو۔
+(فتح الباری، حدیث نمبر:4125،شاملہ)دومتعارض حدیثوں کا جواب:
+اسرائیلیات کے عنوان میں دوحدیثیں ہیں ایک جو ابھی اوپر مذکور ہوئی دوسری حدیث ہے کہ:
+""��َدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ""۔
+(ابو داؤد، بَاب الْحَدِيثِ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، حدیث نمبر:3177)اس حدیث سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ بنی اسرائیل کے بیان کردہ واقعات وغیرہ کے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ پہلی روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ بنی اسرائیل کے بیان کردہ واقعات پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے چہ جائیکہ ان کو بیان کیا جائے بظاہر دوحدیثوں میں باہم تعارض دکھائی دے رہا ہے، اس کا جواب دیتے ہوئے علامہمحمد حسینالذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو بنی اسرائیل سے بیان کرنے کی اجازت نظر آتی ہے وہ وہ واقعات اور عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات ہیں جن کے بارے میں معلوم بھی ہو کہ وہ سچ ہیں توان کو بیان کیا جا سکتا ہے اورپہلی حدیث میں توقف ہے کہ ان کے بیان کرنے میں احتیاط کی جائے تاکہ سچ اور جھوٹ میں اختلاط نہ ہو جائے اوراس خلط ملط کے نتیجہ میں حرج میں نہ پڑ جائے، خلاصہ یہ ہے کہ دوسری حدیث عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات کی اباحت پردلالت کرتی ہے اورپہلی حدیث ان مضامین کے بارے میں توقف پردلالت کرتی ہے جن میں عبرت ونصیحت سے ہٹ کر دیگر مضامین ہوں؛اس طرح کوئی بھی حدیث متعارض نہیں۔اس سلسلہ میں تقریباً علمائے امت نے ایک ہی جواب دیا، الفاظ وتعبیرات اگر چہ مختلف ہیں؛ لیکن حکم ایک ہی ہے، آگے ہم مختلف علما کرام کی تحریریں پیش کریں گے، سب سے پہلے شیخ الاسلام مفتیمحمد تقیعثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انھوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ:#پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہو چکی ہے مثلا:فرعونکا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔#دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہو چکا ہے، مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ)بت پرستیمیں مبتلا ہو گئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔#تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
+""لا تصدقوھا ولاتکذبوھا""۔
+اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جا سکتی ہے اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔
+(علوم القرآن:364)یہی بات علامہ محمد حسینی ذہبیؒ اور علامہ ابن تیمیہؒ وغیرہ نے بھی کہی ہے۔
+(التفسیر و المفسرون للذھبی، باب ثانیا:الااسرائیلیات:4/14)مسند الہند امام شاہولی اللہمحدث دہلویؒ (المتوفی:1176) نے نہایت اختصار کے ساتھ مگر جامع بات لکھی ہے کہ تفسیر میں اسرائیلی روایتوں کو بیان کرنا دراصل یہ بھی ایک سازش ہے جبکہ یہ قاعدہ مسلم ہے کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ ان کی تکذیب کرو؛ لہٰذا اس قاعدہ کی بنیاد پر دوباتیں نہایت ضروری ہیں:#جب حدیث میں قرآن کریم کے اشارہ کی تفصیل موجود ہو تو اسرائیلی روایات کو تفسیر میں نقل نہیں کرنا چاہیے۔#قرآن کریم میں جس واقعہ کی طرف اشارہ آیا ہو اس کی تفصیل ضرورت کے بقدر ہی بیان کرنی چاہیے تاکہ قرآن کریم کی گواہی سے اس کی تصدیق ہو کیونک�� یہ بھی قاعدہ ہے کہ ضروری بات بقدر ضرورت مانی جاتی ہے۔
+(الفوزالکبیر مع شرح الخیر الکثیر:453)""وَجَاءُوْ عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ""۔
+(یوسف:18)اوریوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگاکر لے آئے۔#اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہیوسف علیہ السلامکے بھائیوں نے اپنے والد کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے کہ حضرت یوسف کو ایک بھیڑیے نے ہی کھا لیا ہے، ایک بھیڑیے کو باندھ کر حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب کے پاس لے آئے اور کہا کہ: ابا جان! یہی وہ بھیڑیا ہے جو ہماری بکریوں کے ریوڑ میں آتا رہتا ہے اور ان کو چیرتا پھاڑتا ہے، ہمارا خیال ہے کہ اسی نے ہمارے بھائی یوسف کا خون کیا ہے، بحضرت یعقوب نے بھیڑیے سے کہا قریب آؤ، قریب آؤ، وہ قریب آ گیا، اس سے کہا تم نے میرے بیٹے کو مار کر تکلیف پہنچائی اور مسلسل غم میں مبتلا کر دیا ہے، پھر حضرت یعقوب نے اللہ سے دعا کی کہا اللہ! تو اس کو گویائی دے، اللہ نے اس کو بولنا سکھا دیا، بھیڑیے نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنایا ہے، نہ میں نے اس کا گوشت کھایا نہ میں نے اس کی کھال ادھیڑی ہے، نہ میں نے اس کا ایک بال اکھیڑا ہے، قسم خدا کی آپ کے لڑکے سے میرا کوئی سروکار نہیں، میں ایک پردیسی بھیڑیا ہوں میں مصر کے اطراف سے اپنے ایک بھائی کی تلاش میں آیا ہوا ہوں، میں اس کی جستجو میں تھا کہ آپ کے لڑکوں نے میرا شکار کر لیا، ہم لوگوں پر انبیا اور رسولوں کا گوشت حرام کر دیا گیا ہے۔الخ۔
+(تفسیر ثعلبی:4/21)""فَاَلْقٰہَا فَاِذَا ہِىَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی""۔
+(طٰہٰ:20)انھوں نے اسے پھینک دیا، وہ اچانک ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گئی۔ اس آیت کے سلسلہ میں وہب بن منبہ کی ایک روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت موسی نے جب عصا کو زمین پر ڈالا تو دیکھا کہ وہ ایک عظیم الجثہ اژدہا بن گیا، لوگ حیرت و استعجاب اور خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، اژدہا اِدھر اُدھر رینگ رہا ہے، جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو، اژدہا رینگتا ہوا پہاڑ کی چٹانوں کے پاس پہنچ گیا تو بھوکے اونٹ کی طرح بیتابی کے ساتھ پوری چٹان نگل گیا، جب وہ اپنا منہ بڑے سے بڑے تناور درخت کی جڑوں پر لگا دیتا تھا تو اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتا تھا، اس کی دونوں آنکھیں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح تھیں؛ اس کے بال نیزوں کی طرح تھے۔الخ۔
+(تفسیر ابن کثیر:5/279)""أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْك""۔
+(البقرۃ:258)کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار( کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیمؑ سے بحث کرنے لگا؟ اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت میں نمرود کے بارے میں اس طرح لکھا ہوا ہے: ایک مچھر نمرود کی ناک میں گس گیا اور اس کی ناک میں چار سو سال تک بھنبھناتا رہا، اس مچھر کی اذیت کی وجہ سے نمرود انتہائی بے چین رہتا تھا اور مستقل عذاب میں مبتلا تھا اور جب تکلیف کی شدت اور بے چینی بڑھ جاتی تھی تو لوہے کی سلاخ سے یا ہتھوڑے سے اس کے سر کو ٹھونکا جاتا تھا جس سے مچھر کی اذیت کچھ ہلکی پڑتی تھی، اسی عذاب میں نمرود چار سو سال زندہ رہا پھر اسی اذیت کی وجہ سے مر گیا۔
+(تفسیر ابن کثیر:1/313)یہ تینوں روایتیں اسرائیلی خرافات میں سے ہیں، جیسا کے علما امت نے اس کی تصریح کی ہے۔(تفسیروں میں اسرائیلی روایات:444)قرآن کریم جو اللہ تبارک وتعالی کا عظیم ترین اور مقدس ترین کلام ہے اور رسول کریمﷺ کا حیرت انگیز ابدی و دائمی معجزہ ہے، جو ساری انسانیت کے لیے نسخہ ہدایت اوردستور حیات بنا کر نازل کیا گیا، جس سے مردہ دلوں کی مسیحائی ہوئی اورگم گشتہ راہ لوگوں کومنزلِ مقصود کا پتہ ملا، جس کی علمی، ادبی حلاوتوں، روحانی راحتوں اور معانی و مفاہیم کے بے پناہ وسعتوں نے ہر زمانہ کے انسانوں کو متاثر کیا اورقلب و نظر کی دنیا میں انقلاب کا ذریعہ ہے، سب سے بڑا اعجاز اس کلام مبارک کا یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے جو اس دنیا میں ازل سے کسی اورکتاب یا صحیفہ آسمانی کو نصیب نہیں ہوا اور علوم و معارف کے اس گنجینۂ گراں مایہ کی حفاظت اورخدمت کے لیے انسانوں ہی میں سے مختلف علوم کے مختلف افراد کا انتخاب فرمایا؛ چنانچہ الفاظ قرآنی کے لیے حفاظِ کرام کوسعادت حفظِ قرآن بخشی اور مرادِ ربانی منشائے نبوی کی صحیح تعیین و تشریح کے لیے حضرات مفسرین کو منتخب کیا؛ چنانچہ مفسرین کرام نے اپنی خداداد ذہانت اور تمام تر صلاحیت کو اس کلام الہٰی کی غواصی میں لگادیا؛ لیکن آج کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ تمام تر موتیوں اورعلم وحکمت کے جواہر پاروں کو اکٹھا کیا جاس کا، یہ کلام ایک بحر بیکراں ہے جس کی مختلف زبانوں میں علمائے امت نے اپنی صبح و شام کی محنتوں کا محور بنایا۔ آج انہی علما کرام اور مفسرین عظام کی کوششوں اور کاوشوں کا ثمرہ ہے کہ مختلف زبانوں میں قرآن کی تفسیر موجود ہے، ذیل میں ہم صرف تفسیر قرآن کی مختلف کتابوں کے نام مع اسمائے مصنفین و سنہ وفات پیش ہیں، جو شروع سے لے کر آج تک امت میں مقبول و متداول ہیں اور لاتعداد انسان ان کتابوں سے استفادہ کر رہے ہیں، پہلے عربی تفاسیر کے نام بعد ازاں اردو کتب تفاسیر رقم کی جا رہی ہیں۔عہد صحابہ اوراس کے بعد کے ادوار میں بھی تفسیر قرآن کے ماخذ کے طور پر یہودونصاریٰ رہے ہیں؛ کیونکہ قرآن کریم بعض مسائل میں عموماً اورقصص انبیا اور اقوام سابقہ کے کوائف واحوال میں خصوصاً تورات کے ساتھ ہم آہنگ ہے، اسی طرح قرآن کریم کے بعض بیانات انجیل سے بھی ملتے ہیں؛ مثلاً حضرتعیسیٰ علیہ السلامکی ولادت کا واقعہ اوران کے معجزات وغیرہ۔
+البتہ قرآن کریم نے جو طرز و منہاج اختیار کیا ہے وہ تورات وانجیل کے اسلوب بیان سے بڑی حد تک مختلف ہے، قرآن کریم کسی واقعہ کی جزئیات وتفصیلات بیان نہیں کرتا، بلکہ واقعہ کے صرف اسی جز پر اکتفاء کرتا ہے جو عبرت وموعظت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہوتا ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ تفصیلی واقعہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام اوربعد کے ادوار میں تابعین اورتبع تابعینحضرات اہل کتاب کے ان اہل علم سے جو حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے قرآن میں ذکر کردہ واقعات کی تفصیل کے واسطے رجوع کیا کرتے تھے، اسرائیلی روایات کا مدار وانحصار زیادہ تر حسب ذیل چار راویوں پر ہے:
+عبد اللہ بن سلامؓ، کعب احبار، وھب بن منبہ، عبد الملک بن عبد العزیزابن جریج، جہاں تک عبد اللہ بن سلام کی بات ہے تو آپ کے علم و فضل میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور ثقاہت و عدالت میں آپ اہل علم صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، آپ ؓ کے بارے میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں،امام بخاریؒ اورامام مسلمؒ اوردیگر محدثین نے آپ کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔
+کعب احبار بھی ثقہ راویوں میں سے ہیں، ا نہوں نےزمانہ جاہلیتکا زمانہ پایا اورخلافت صدیقی یا فاروقی میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ خلافت فاروقی میں آپ کے اسلام لانے کی بات مشہور تر ہے۔[38]آپ کے ثقہ اورعادل ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ اپنی جلالت قدر اورعلمی عظمت کے باوجود آپ سے استفادہ کرتے تھے، امام مسلمؒ نےصحیح مسلممیں کتاب الایمان کے آخر میں کعب سے متعدد روایات نقل کی ہیں، اسی طرح ابوداؤد، ترمذی اورنسائی نے بھی آپ سے روایت کی ہیں؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کعب احبار ان سب محدثین کے نزدیک ثقہ راوی ہیں۔اسی طرح وھب بن منبہ کی جمہور محدثین اورخصوصاً امام بخاری ؒ نے توثیق و تعدیل کی ہے، ان کے زہد وتقوی کے بارے میں بڑے بلند کلمات ذکر کیے ہیں، فی نفسہ یہ بڑے مضبوط راوی ہیں ؛البتہ بہت سے لوگوں نے ان کی علمی شہرت وعظمت سے غلط فائدہ اٹھایا کہ بہت سی غلط باتوں کو ان کی طرف منسوب کرکے اپنے قد کو اونچا کیا اورلوگوں نے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ابن جریج اصلاً رومی تھے، مکہ کے محدثین میں سے تھے، عہد تابعین میں اسرائیلی روایات کے مرکز ومحور تھے، تفسیر طبری میں نصاری سے متعلق آیات کی تفسیر کا مدار انہی پر ہے، ان کے بارے میں علما کے خیالات مختلف ہیں، بعض نے توثیق کی ہے تو بعض نے تضعیف بھی کی ہے، بکثرت علما آپ کو مدلس قرار دیتے ہیں اورآپ کی مرویات پر اعتماد نہیں کرتے، مگر بایں ہمہ امام احمد بن حنبلؒ ان کوعلم کا خزانہ قرار دیتے ہیں؛ بہرحال ابن جریج سے منقول تفسیری روایات کو حزم واحتیاط کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔کوئی ایسی کتاب جس میں خاص اسرائیلی(اہل کتاب کی) روایات کے جمع کرنے پر توجہ دی گئی ہوایسی توکوئی تفسیر نہیں ہے؛ البتہ آیات کی تفسیر میں عموماً کتب تفاسیر میں اسرائیلی روایات بھی ذکر کی گئی ہیں، جس کا علم راوی کو دیکھ کر یا پھر ان کی بیان کردہ باتوں کو اصول شرعیہ کی روشنی میں پرکھ کر معلوم کیا جا سکتا ہے، مولانا اسیر ادروی صاحب کی ایک کتاب اردو میں"" تفسیروں میں اسرائیلی روایات"" کے نام سے آچکی ہے، جس کے مقدمہ میں اسرائیلی روایات سے متعلق عمدہ بحث اکٹھا کردی ہے اورپھر جو اسرائیلی روایات ان کو معلوم ہوسکیں ان پر الگ الگ کلام کیا ہے اورمعتبر تفاسیر سے ان کا اسرائیلی روایات کے قبیل سے ہونا بھی ظاہر کیاہے، تفصیل کے لیے اسی کتاب کی طرف رجوع کیا جائے۔
+یہاں پر چند عربی اور اردو تفاسیرکے نام لکھے جا رہے ہیں اور اردومیں صرف مستند تفاسیر کے نام لکھے گئے ہیں۔""نسخ"" کے لغوی معنی ہیں مٹانا، ازالہ کرنا، اوراصطلاح میں اس کی تعریف یہ ہے :
+رَفْعُ الْحُکْمِ الشَّرَعِیِّ بِدَلِیْلٍ شَرَعِیٍّ(مناہل العرفان:ماھو النسخ2/176)""کسی حکم شرعی کو کسی شرعی دلیل سے ختم کردینا""
+مطلب یہ ہے کہ بعض مرتبہ اللہ تعالی کسی زمانے کے حالات کے مناسب ایک شرعی حکم نافذ فرماتا ہے پھر کسی دوسرے زمانے میں اپنی حکمت بالغہ کے پیش نظر اس حکم کو ختم کرکے اس جگہ کوئی نیا حکم عطا فرمادیتا ہے اس عمل کو نسخ کہا جاتا ہے اور اس طرح جو پرانا حکم ختم کیا جاتا ہے اس کومنسوخ اور جو نیا حکم آتا ہے اسے ناسخ کہتے ہیں۔ نسخ کا مطلب رائے کی تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ ہر زمانے میں اس دور کے مناسب احکام دینا ہوتا ہے، ناسخ کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ منسوخ کو غلط قرار دے؛بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے حکم کی مدت نفاذ متعین کر دے اور یہ بتادے کہ پہلا حکم جتنے زمانے تک نافذ رہا اس زمانے کے لحاظ تووہی مناسب تھا لیکن اب حالات کی تبدیلی کی بنا پر ایک نئے حکم کی ضرورت ہے، جو شخص بھی سلامتِ فکر کے ساتھ غور کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تبدیلی حکمت الہٰیہ کے عین مطابق ہے، حکیم وہ نہیں ج�� ہر قسم کے حالات میں ایک ہی نسخہ پلاتا رہے بلکہ حکیم وہ ہے جو مریض اور مرض کے بدلتے ہوئے حالات پر بالغ نظری کے ساتھ غور کرکے نسخہ میں ان کے مطابق تبدیلیاں کرتا رہے۔متقدمین کی اصطلاح میں نسخ کا مفہوم بہت وسیع تھا، اسی لیے انھوں نے منسوخ آیات کی تعداد بہت زیادہ بتائی ہے لیکن علامہجلال الدین سیوطیرحمہ اللہ نے متأخرین کی اصطلاح کے مطابق لکھا ہے کہ پورے قرآن میں کل انیس آیتیں منسوخ ہیں۔
+(الاتقان، علامہ سیوطی:2،22)پھر آخری دور میںشاہ ولی اللہصاحب محدث دہلویؒ نے ان انیس آیتوں پر مفصل تبصرہ کرکے صرف پانچ آیتوں میں نسخ تسلیم کیا ہے اور باقی آیات میں ان تفسیروں کو ترجیح دی ہے جن کے مطابق انھیں منسوخ ماننا نہیں پڑتا ان میں سے اکثر آیتوں کے بارے میں شاہ صاحب کی توجیہات نہایت معقول اور قابل قبول ہیں لیکن بعض توجیہات سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، جن پانچ آیات کو انھوں نے منسوخ تسلیم کیا ہے وہ یہ ہیں :#کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْن۔
+(البقرۃ: 180)جب تم میں سے کسی کے سامنے موت حاضر ہو جائے اگر وہ مال چھوڑ رہا ہو تو اس پر والدین اور اقرباء کے لیے وصیت بالمعروف کرنا فرض قرار دیدیا گیا ہے، یہ حکم متقیوں پر لازم ہے۔ یہ آیت اس زمانے میں لازم تھی جب میراث کے احکام نہیں آئے تھے اور اس میں ہر شخص کے ذمے یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے ترکہ کے بارے میں وصیت کرکے جائے کہ اس کے والدین یا دوسرے رشتہ دار کو کتنا کتنا مال تقسیم کیا جائے؟بعد میں آیات میراث یعنی یوصیکم اللہ فی اولادکم، الخ (النساء:11) نے اس کو منسوخ کر دیا اور اللہ تعالی نے تمام رشتہ داروں میں ترکے کی تقسیم کا ایک ضابطہ خود متعین کر دیا اب کسی شخص پر مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض نہیں رہا۔
+سورہ ٔ انفال میں ارشاد ہے :
+إِنْ یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُونَ۔
+(الأنفال:65)اگر تم میں سے بیس آدمی استقامت رکھنے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے کیونکہ یہ کافر ایسے لوگ ہیں جو صحیح سمجھ نہیں رکھتے۔یہ آیت اگرچہ بظاہر ایک خبر ہے لیکن معنی کے لحاظ سے ایک حکم ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنے سے دس گنازائددشمن کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں یہ حکم اگلی آیت کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا :
+اَلآنَ خَفَّفَ اللّہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْْنِ بِإِذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔
+(الأنفال:66)اب اللہ نے تمھارے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اللہ کو علمٹ ہے کہ (اب)تم میں کچھ کمزوری ہے پس اب اگر تم میں سے ایک ہزار افراد استقامت رکھنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب ہوں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس آیت نہ پہلی آیت کے حکم میں تبدیلی پیدا کردی اور دس گنے دشمن کی بجائے دوگنے کی حد مقرر کردی کہ اس حد تک راہ فرار اختیار کرنا جائز نہیں۔ ��یسری آیت جسے شاہ صاحب نے منسوخ قرار دیا ہے سورۂ احزاب کی یہ آیت ہے :
+لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُہُن۔
+(الاحزاب:52)(اے نبی )آپ کے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہحلالہے کہ ان(موجودہ ازواج) کو بدل کر دوسری عورتوں سے نکاح کریں خواہ ان کا آپ کا حسن پسند آئے۔اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید نکاح کرنے سے منع فرمادیا گیا تھا بعد میں یہ حکم منسوخ کر دیا گیا اور اس کی ناسخ آیت وہ ہے جو قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں مذکور بالا آیت سے پہلے مذکور ہے یعنی:
+""یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْتَ أُجُورَہُنَّ""۔
+(الاحزاب:50)(اے نبی) ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ ازواج حلال کردی ہیں جنھیں آپ نے ان کا مہر دے دیا ہو۔شاہ صاحب وغیرہ کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ سابقہ ممانعت منسوخ ہو گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں نسخ یقینی نہیں ہے’ بلکہ اس کی وہ تفسیر بھی بڑی حد تک بے تکلف اور سادہ ہے جو حافظ ابن جریر نے اختیار کی ہے یعنی یہ کہ یہ دونوں آیتیں اپنی موجودہ ترتیب کے مطابق ہی نازل ہوئی ہیں:
+یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ۔
+(الاحزاب:50)والی آیت میں اللہ تعالی نے کچھ مخصوص عورتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ نکاح آپ کے لیے حلال ہے پھر اگلی آیت لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْد(احزاب:) میں ارشاد فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ دوسری عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں۔
+(تفسیر ابن جریر)یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیْْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً ذَلِکَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَأَطْہَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔
+(المجادلہ: 12)اے ایمان والو جب تم کو رسول سے سرگوشی کرنی ہو تو سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ کر دیا کرو یہ تمھارے لیے باعث خیر وہ طہارت ہے پھر اگر تمھارے پاس (صدقہ کرنے کے لیے) کچھ نہ ہوتو اللہ تعالی بخشنے والا اور مہربان ہے، یہ آیت اگلی آیت سے منسوخ ہو گئی۔أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللہُ عَلَیْْکُمْ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَأَطِیْعُوا اللہ وَرَسُولَہُ۔
+(المجادلہ:13)کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقات پیش کرو پس جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تمھاری توبہ قبول کرلی (اب)نماز قائم رکھو اور زکوۃ ادا کرتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو""اس طرح سرگوشی سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم منسوخ قرار دیا گیا۔ پانچویں آیت سورۂ مزمل کی مندرجہ ذیل آیات ہے :# یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ#قُمِ اللَّیْْلَ إِلَّا قَلِیْلاً#نِصْفَہُ أَوِ انقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً
+اے مزمل(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں)رات کو (تہجد میں) کھڑے رہی ے مگر تھوڑا سا حصہ آدھی رات یا اس میں سے بھی کچھ کم کردیجیے""اس آیت میں رات کے کم از کم آدھے حصہ میںتہجدکی نماز کا حکم دیا گیا تھا، بعد میں اگلی آیتوں نے اس میں آسانی پیدا کرکے سابقہ حکم منسوخ کر دیا وہ آیتیں یہ ہیں:عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوہُ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ :الخ
+(المزمل: 20)""اللہ کو معلوم ہے کہ تم (آئند)ہے اس حکم کی پابندی نہیں کرسکوگے اس لیے اللہ نے تمھیں معاف کر دیا پس تم( اب) قرآن کا اتنا حصہ پڑھ لیا کرو جو تمھارے لیے آسا ن ہو۔
+شاہ صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ تہجد کا حکم واجب تو پہلے بھی نہیں تھا؛ لیکن پہلے اس میں زیادہ تاکید بھی اور اس وقت بھی زیادہ وسیع تھا بعد میں تاکید بھی کم ہو گئی اور وقت کی اتنی پابندی بھی نہ رہی۔یہ ہیں وہ پانچ آیتیں جن میں شاہ صاحب کے قول کے مطابق نسخ ہوا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ پانچ مثالیں صرف اسصورت کی ہیں جس میں ناسخ اور منسوخ دونوں قرآن کریم کے اندر موجود ہیں اس کے علاوہ ایسی مثالیں قرآن کریم میں باتفاق بہت سی ہیں جن میں ناسخ تو قرآن کریم میں موجود ہے لیکن منسوخ موجود نہیں ہے مثلاًتحویل قبلہکی آیات وغیرہ۔
+(علوم القرآن:172)لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+701,آن لائن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D9%86_%D9%84%D8%A7%D8%A6%D9%86,آن لائن(Online :انگریزی) ایک مفہومیلفظہے جو خطوط کی سطح پر یا براہ خط کا مفہوم ادا کرتا ہے ، ایسی کسی بھی چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی بڑےشراکی نظامیا نیٹ ورک سسٹم (بطور خاص،شمارندی شراکہیعنی computerآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ foxtodaynews.org(Error: unknown archive URL)network) سے متصل ہو۔ بالفاظ دیگر اس شراکے میں موجودآلات،عقدے (nodes)یاشمارندےایک خطی حیثیت میں مسلسل تصور کیے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے ان پر موجود کوئی بھیموادیاڈیٹا(جو منتقل کیا جا رہا ہو) وہ خطوط پر ہونے کا تصور پیدا کرتا ہے اور اسی تصور سے یہ لفظ یعنی برخط یا آن لائن وجود میں آتا ہے۔
+702,اسباب نزول,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B3%D8%A8%D8%A7%D8%A8_%D9%86%D8%B2%D9%88%D9%84,تعریف:اسباب نزول سے مراد وہ واقعات، حوادث اور سوالات ہیں جو کسی آیت یا چند آیات کے نزول کا باعث بنے۔ مثلاً قریش نے آنحضرتﷺسے روح، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا تو ان کے جواب میں سورۃ کہف نازل ہوئی۔ ایسا بھی ہوا کہ آنحضرت ﷺ یا صحابہ ؓ کے دل میں کوئی خیال آیا اور جلد ہی اس کے مطابق کوئی آیت یا آیات نازل ہو گئیں او روہ آرزو ان کا سبب نزول بن گئی۔ مثلاً: آپ ﷺ کا بار بار آسمان کی طرف چہرہ مبارک کو کرنا تاکہ قبلہ تبدیل ہوجائے اور پھر قبلہ تبدیل ہو گیا۔ سیدنا عمر ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کی:یا رسول اللہ! اگر ہم مقام ابراہیم کو مصلی بناتے تو اچھا ہوتا۔ اسی وقت آیت{وَاتَّخِذُوْا مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی} (البقرۃ:125)نازل ہوئی۔سبب نزول کی بنیاد پر آیات کی تقسیم:سبب نزول کی بنا پر قرآنی آیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ وہ آیات جو بغیر کسی سبب کے نازل ہوئیں۔ مثلاً: انبیا کے قصے، مستقبل کے واقعات، قیامت کی منظر کشی اور عذاب وثواب کے ذکر پر مشتمل آیات۔ قرآن مجید کا غالب حصہ انہی آیات کا ہے۔ مثلاًًاللہ تعالی کا یہ ارشاد{وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَں} (التوبۃ:75) یہ آیت کچھ منافقین کے حالات بیان کرنے کے لیے شروع میں نازل ہوئی۔وہ آیات جن کے نزول کا کوئی نہ کوئی سبب تھا۔ مثلاً:احکام و اخلاقیات کی زیادہ تر آیات۔اس سبب میں:٭ … یا تو کوئی سوال ہوتا جس کا جواب اللہ تعالی مرحمت فرماتے جیسے: {یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِقُلْ ہیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجَِ} (البقرۃ:189)لوگ آپ سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورت کے بارے میں پوچھتے ہیں؟کہئے کہ یہ لوگوں کے مقرر اوقات کے لیے اور حج کے لیے ہیں۔٭… یا نزول کا سبب کوئی حادثہ ہوتا مگر اس کے لیے وضاحت وتنبیہ کی ضرورت ہو تی ہے۔امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:{وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ}(التوبۃ:65)منافق شخص کے بارے میں یہ آیات اتریں جس نے غزوہ تبوک میں کسی محفل میں یہ زبان درازی کی: ہم نے پیٹ کا شوقین، زبان کا جھوٹا اور وقت لڑائی انتہائی بزدل انسان اپنے ان قراء جیسا کسی کو نہیں پایا۔اس کی مراد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ رسول تھے۔آپ ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو یہ منافق معذرت کرتا ہوا حاضر ہوا تو آپ ﷺ کی طرف سے اللہ تعالی نے یہ جواب دیا:{قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُ وْن ں} (التوبہ:65)٭… یا کوئی ایسا کام ہوا ہو جس کا حکم معلوم نہ ہو ۔ جیسے:{قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِلَی اللّٰہِِقصلے وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَاط اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌمبَصِیْرٌ }(المجادلۃ:1)یقیناً سن لی اللہ نے اس عورت کی بات جو اپنے خاوند کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی اور اللہ کی جناب میں وہ شکایت کررہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو کو سن رہا تھا بیشک اللہ تعالی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ققرآن 23 سال کے عرصہ میںتھوڑا تھوڑاکر کے نازل ہوا۔ جو اکثر حالات و واقعات کے مطابق ہوتا تھا۔ قرآن کی موجودہ ترتیب وہ نہیں ہے جس سے یہ نازل ہوا تھا۔ جن حالات و واقعات، اعتراضات و استفسارات وغیرہ کے جواب میں قرآن کا جو حصہ نازل ہوا۔ وہ وجہ یا سبب ہی ان آیات یا سورہ یا سبب نزول کہلاتا ہے۔ جو عام طور پر سبب کی جمع اسباب کے ساتھ بطور اصطلاح بولا اور لکھا جاتا ہے۔فی کذاکی اصطلاحصحابہاورتابعینکے دور میں اسباب نزول کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ وہ اس اصطلاح کو دور رسالت میں واقع ہونے والے کسی ایک واقعہ کے لیے بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ جن پر آیت صادق آتی تھی۔ بعض دفعہ جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سوال پیش کیا جاتا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں کبھی کوئی خاص واقعہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے مواقع پر قرآن کی کسی آیت سے کوئی حکم مستنبط فرمایا تو ساتھ ہی اس آیت کی تلاوت بھی فرما دی، صحابہ اس طرح کے مواقع پر بھی وہی اصطلاح استعمال کرتے تھے اور اس قسم کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھےنزلت فی کذااس بارے میں نازل ہوا۔مفسرین اسباب نزول بیان کرتے وقت کئی قسم کے امور پیش کرتے ہیں۔شاہولی اللہفرماتے ہیں : قرآن صرف لوکوں کے نفسوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور فاسد اعمال کی اصلاح کے لیے نازل ہوا ہے۔ لہذا مختلف قسم کی آیات کے اسباب نزول بھی مختلف ہیں۔ مثلا:
+703,نسخ (قرآن),https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D8%A7%D8%B3%D8%AE_%D9%88_%D9%85%D9%86%D8%B3%D9%88%D8%AE,"نسخ(باب فتح) مصدر بمعنی زائل کرنا۔ بدل دینا۔ بیکار کر دینا۔ ایک چیز کو دوسری جگہ قائم کرنا۔ صورت بدل دینا۔ لکھنا۔ الا ستنساخ (باب اسفعال) کے معنی کسی چیز کے لکھنے کو طلب کرنے یا لکھنے کے لیے تیار ہونے کے ہیں لیکن بمعنی نسخ (لکھنا) بھی قرآن مجید میں آیا ہے۔منسوخی، بطلان، تنسیخ، منسوخ کرنا، زائل کرنا، دور کرنا[2]نسخ کے لغوی معنی تو منسوخ کرنے کے ہیں، لیکن شرعیاصطلاحمیں ایک حکم بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں یہ نسخ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا جیسےآدم علیہ السلامکے زمانے میں سگے بہن بھائی کا آپس میں نکاح جائز تھا بعد میں اسے حرام کر دیا گیا وغیرہ، اسی طرح قرآن میں ب��ی اللہ تعالیٰ نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔[3]لغت میں نسخ کے دو معنی ہیں، ایک معنی لکھنا اور نقل کرنا‘ اس اعتبار سے تمام قرآن منسوخ ہے، یعنی لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے بیت العزت کی طرف نقل کیا گیا ہے‘ قرآن مجید میں نسخ کا لفظ لکھنے اور نقل کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے :بیشک ہم لکھتے رہے جو کچھ تم کرتے تھے۔
+نسخ کا دوسرا معنی ہے : کسی چیز کو باطل اور زائل کرنا‘ اور اس کی دو قسمیں ہیں : # کسی چیز کو زائل کرکے دوسری چیز کو اس کے قائم مقام کر دیا جائے جیسے عرب کہتے ہیں کہ بڑھاپے نے جوانی کو منسوخ کر دیا یعنی جوانی کے بعد بڑھاپا آگیا‘ سورہ البقرہ کی آیت 106میں ہے : ہم جس آیت کو منسوخ کرتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی دوسری آیت لے آتے ہیں۔مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ-أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍاس کی تعریف یہ ہے دلیل شرعی سے کسی حکم شرعی کو زائل کرنا۔
+(ب) کسی چیز کا قائم مقام کیے بغیر اس کو زائل کر دیا جائے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم اس کو محو کردیتے ہیں یعنی ہم تمھارے ذہنوں اور دلوں سے اس آیت کو نکال دیتے ہیں‘ پس وہ آیت یاد آتی ہے نہ اس کو پڑھا جاتا ہے۔[4]"
+704,گربہ کبری,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%D8%B1%D8%A8%DB%81_%DA%A9%D8%A8%D8%B1%DB%8C,گربہ کبرییابگ کیٹسیابڑی بلیکی غیر سائنسی اصطلاح جنس پینتھرا میں موجود چار بڑے زندہ ارکان کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جنس پینتھرا کے صرف یہی چار ارکان دھاڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔[1]جسامت کے لحاظ سے ان بڑے جانوروں میںشیر،ببر شیر،جیگواراورتیندوےشامل ہیں۔ اس تعریف کو مزید وسعت دیتے ہوئے ان جانوروں میںچیتے، پیوما، بادلی تیندوے اور برفیلے چیتے بھی شامل کیے جا سکتے ہیں، اگرچہ وہ دھاڑنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔clouded leopard کو ارتقائی طور پر چھوٹے کیٹس اور بڑے کیٹس کے درمیان کی کڑی خیال کیا جاتا ہے۔
+705,خاندان گربہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86_%DA%AF%D8%B1%D8%A8%DB%81,FelinaeMachairodontinae†خاندان گربہ(Felidae) بلیوں کا ایکخاندانہے۔ اس میںشیر،ببر شیر،تیندوا،جیگواراوربرفانی چیتاشامل ہیں۔ اس کے کسی رکن کو فیلڈ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے مزید دوذیلی خاندان ہیں۔پینتھرنائیفیلینائی[9][10][11][12]
+706,ببر شیر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%81%D8%B1%DB%8C%D9%82%DB%8C_%D8%A8%D8%A8%D8%B1_%D8%B4%DB%8C%D8%B1,"ببر شیرببر شیر(Panthera Leo، پینتھرا لیو) جنس پینتھرا میں موجود پانچبڑی بلیوںمیں شاملخاندان گربہکا رکن ہے۔افریقی شیروںکی عام مستعمل اصطلاح سے مراد افریقہ کی ذیلی ببرشیروں کی انواع (species) ہیں۔ بعض شیروں کا وزن ڈھائی سو کلو گرام سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے[8]اور اس لحاظ سے یہشیرکےبعد دوسریبڑی بلیہے۔ جنگلی ببر شیرافریقاکے نیم صحارا علاقوں اورایشیا(جو بھارتی گیر فورسٹ نیشنل پارک میں پائی جاتی ہے اور اس علاقے میں یہ معدومی کے خطرے سے دوچار ہے) جبکہ ببر شیروں کی دیگر انواعشمالی افریقہاورجنوب مغربی ایشیاسے بہت پہلے غائب ہو چکی ہیں۔ آج سے دس ہزار سال قبلپیلسٹوسینادوار کے اواخر میں ببر شیر ہیانسانکے بعد سب سے زیادہ خشکی کے رقبے پر پھیلا ہواممالیہتھا۔ اس زمانے میں یہ تقریباً تمامافریقا، تمامیوریشیامغربی یورپسےہندوستاناورامریکامیںيوكونسےپیروتک پای�� جاتا تھا[9]۔ببر شیر معدومی کے خطرے سے دوچار جانور ہے اور افریقی خطے میںبیسویں صدیکے دوسرے حصے میں اس کی آبادی میں 30 سے 50 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی[4]۔شیروں کی آبادی قومی پارکوں اور غیر محفوظ علاقوں میں غیر مستحکم ثابت ہوتی ہے۔اگرچہ اس کے معدوم ہونے کی وجوہات مکمل طور پرسمجھی نہیں جاسکیں لیکنمسکنسے محروم ہونا اور انسان سے سامنا ہونا جیسے امور عہد حاضر میں خطرے کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔ افریقہ میں مغربی افریقی ببر شیروں کی آبادی معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔جنگلوں میں نر ببر شیر اکثر اوقات صرف دس تا چودہ سال جی سکتے ہیں کیونکہ حریف نر شیروں سے ان کا مقابلہ ہوتا رہتا ہے لہذا چوٹ لگنے سے ان کی طول عمری کی گنجائش کم ہی رہتی ہے[10]۔جبکہ انسانی تحویل میں یہ 20 سال کی زندگی پا سکتے ہیں۔ عام طور پر یہسوانااور گھاس کے میدانوں میں رہتے ہیں جبکہ بعض اوقات یہ جنگل اور جھاڑیوں کو بھی مسکن بنا لیتے ہیں۔ عام حالات کے برعکس دوسری بلیوں کے مقابلے میں ببر شیر زیادہ سماجی رویہ دکھاتے ہیں۔ ایک ببر شیر کا خاندان (حرم) عام طور سے متعلقہ ببر شیرنیوں، اولادوں اور بچوں کی مختصر سی تعداد پر مشتمل ہوتا ہے۔ زیادہ تر ببر شیرنیوں کا گروہ ہی شکار میں حصہ لیتا ہے جن کے شکار میں کھروں والے جانور ہی زیادہ شامل ہوتے ہیں۔ ببر شیر سب سے اعلیٰ شکاری اور ماحول پر اثر کرنے والے شکاریوں میں سے ہے نیز وہ ایک ماہرمردار خوربھی ہے جو اپنی خوراک کا پچاس فیصد حصہ مردار گوشت کھا کر پورا کرتا ہے۔ عام حالات میں ببر شیر انسانوں پر حملہ نہیں کرتا لیکن کبھی کبھار وہ ایسا بھی کرتا ہے۔ ببر شیر دن بھر نیند لینے میں مشغول رہتا ہے اور اکثر رات کو شکار کیا کرتا ہے اگرچہ وہ دھند لکے میں بھی حملہ کیا کرتا ہے۔[11][12]اسے ممتاز کرنا نہایت آسان ہے، نر ببر شیر کو اس کے سر اور گردن کے گرد موجود بالوں(ایال) سے پہچانا جا سکتا ہے اور اس کا چہرہ دنیا بھر کے انسانی ثقافتوں میں سب سے معروف نشان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کی شبیہبالائی پیلیو لیتھک(50 ہزار تا 1لاکھ سال قبل) دور سے موجود ہے۔ غاروں میں موجود انسان بھی اپنی قیام گاہ کی دیواروں پر ان کے نقش بناتے تھے۔ تمام قدیم اورقرون وسطیٰکی ثقافتوں میں اس جانور کی مختلف حوالوں سے موجودگی ایک مسلم بات ہے۔ اس کے مجسمے، تصاویر، قومی جھنڈوں میں موجودگی، فلموں میں اورادبمیں موجودگی ایک عام بات ہے۔ رومی دور میں بھی اسے نمائش وکھیل کے لیے بادشاہان پالتے تھے اوراٹھارویں صدیسے اسے پوری دنیا میں چڑیا گھروں کی زینت بنایا جا رہا ہے۔ پوری دنیا میںچڑیا گھرایشیائی شیروں کے ملاپ کے ذریعے اسے معدومی سے بچانے کے لیے مشترکہ کاوشیں کر رہے ہیں۔ببر شیر کاانگریزینام ببر شیر دیگر کئی رومی زبانوں میں مستعمل ہے جولاطینی زبانکے لیو[13]اور قدیم یونانی کے لیون سے نکلا ہے[14]۔عبرانی زبانکے لفظ لاوی کو بھی اسی سے مشترک کیا جاتا ہے[15]۔جبکہ اردو میں مستعمل ببر شیرفارسیالاصل ہے۔ نیز ببر کی اصلاحعربیمیں بھی موجود ہے۔ یہ ان انوع میں سے تھی جسےاٹھارویں صدیمیں کارلس لینیوس نے اپنی کتابSystema Naturaeمیں نام دیا تھا انھوں نے اسےفیلس لیوکا نام دیا۔[7]ببر شیروں کے دیگر قریبی رشتہ داروں میں جنسپینتھراکےانواعجیسےشیر،جیگواراور تیندوے شامل ہیں۔ہولارکٹکخطوں میں پھیلنے سے قبل پی لیو افریقہ میں دس لاکھ سے آٹھ لاکھ سال قبل نمودار ہوا[16]۔یورپ میں اس کےرکازیاتسات لاکھ سال پرانے دریافت ہوئے ہیں جو اس کے ذیلی نوعپینتھرا لیو فوسیلیسکے ہیں اور یہاطالیہسے دریافت ہوئے ہیں[17]۔اسی نوع سے پھر غاروں والے زمانے کے ببر شیروں (پینتھرا لیو سپیلائی) کا ارتقا ہوا۔ یہ عمل تین لاکھ سال قبل ظہور میں آیا۔ شمالی یوریشیائی علاقوں میں دس ہزار سال پہلے برفانی میدان بننے کے آخری ادوار میں وہاں سے ببر شیروں کا خاتمہ ہوا اور شاید یہی پیلسٹوسین دور میں بڑے جانوروں کےناپیدہونے کا دوسرا دور تھا۔[18][19]روایتی طور پر موجودہ دور میں ببر شیروں کی بارہ انواع پہچانی گئی ہیں اور اس پہچان کی بنیاد ببر شیروں کے سر اور گردن کے بالوں کی ظاہریت، جسامت اور ان کے جغرافیائی پھیلاؤ کو دیکھ کر کی گئی ہے۔ اصلاََ یہ تمام خصوصیات نہایت غیر اہم ہیں اور انفرادی طور پر اس میں کافی تبدیلی بھی نظر آتی ہے لہذا ان میں سے اکثریت کا مختلف نوع ہونا درست نہیں[20]۔آج صرف ان کی آٹھ انواع کو ہی قبول کیا جاتا ہے[19][21]، اگرچہ ان میں سے بھی ایک کیپ ببر شیر جسے پہلے پینتھرا لیو میلنکیاٹا کہا جاتا تھا غالبا غیر حتمی ہے[21]۔حتیٰ کہ باقی سات انواع بھی غیر یقینی ہو سکتے ہیں۔جبکہ ایشائی ببر شیروں کو بطور نوع قبول کیا جا سکتا ہے، افریقی ببرشیروں کے انتظامی تعلق کو اب بھی مکمل طور پر حل نہیں کیا جا سکا ہے۔ مائیٹو کونڈریائی فرق کی بنیاد کچھ جدید مطالعوں میں افریقی شیروں کے فرق کے لیے سب سے مستند حوالہ ہے، اس کے مطابق تما م ذیلی صحارا کے شیر بعض اوقات ایک ہی نوع تصور کیے جاتے ہیں، بہرحال ایک جدید تحقیق کے مطابق مغربی اور وسطی افریقہ کے شیر جنوبی اور مشرقی افریقی ببر شیروں سے جینیاتی طور پر مختلف ہیں۔اس مطالعہ کے مطابق مغربی افریقہ کے ببر شیر جنوبی اور مشرقی ببر شیروں کے مقابل ایشائی ببر شیروں کے زیادہ قریب ہیں۔امکان ہے کہ پیلسٹوسین کے آخری ادوار میں مغربی اور وسطی افریقہ میں افریقی ببر شیر ناپید ہو گئے ہوں اور ان کی جگہ بعد میں ایشیائی ببر شیروں نے لے لی ہو۔[22]پچھلے مطالعات جن میں زیادہ توجہ جنوبی اور مشرقی افریقی ببر شیروں کو دی گئی تھی کے بنیاد پر انھیں دو اہم قبیلوں میں بانٹا جا سکتا ہے : ایک کوگریٹ رفٹ ویلیاور دوسرے کو مشرقی علاقوں میں رکھا گیا ہے۔ مشرقیکینیاکے علاقےتساومیں موجود ببر شیرٹرانسوال(جنوبی افریقہ) کے کے ببر شیروں سے جینیاتی طور پر قریب ہیں اور یہ قربت مغربیکینیاکے علاقے ایبرڈیر خطے کے ببر شیروں کے مقابلے میں بھی زیادہ ہے[23]۔ایک اور تحقیق کے مطابق شیروں کی تیں اہم اقسام ہیں ایک شمال افریقی و ایشیائی، دوسری جنوبی افریقی اور تیسری وسطی افریقی۔[24]پر کرسچئینسن کہتے ہیں کہ انھوں نے ببر شیروں کی کھوپڑی کی ظاہریت کے مطابق ببر شیروں کے کئی انواع کا پتہ لگایا جن میں کروگری، نیوبیکا، پرسیکا اور سینیگالینیسس شامل تھے جبکہ بلیینبرگی کی سینیگالینیسس اور کروگری سے مماثلت تھی۔ ایشیائی ببر شیر سب سے زیادہ قابل امتیاز ہیں اور کیپ ببر شیر کی خصوصیات پی۔ایل۔ پرسیکا کے قریب ہیں بنسبت دیگر ذیلی صحارائی شیروں کے۔ انھوں نے ببر شیروں کے 58 کھوپڑیوں کا تین یورپی عجائب گھروں میں مطالعہ کیا۔[25]موجودہ جینیاتی مطالعات کی بنیاد پر آئی یو سی این ایس ایس کی کیٹ کلاسیفیکیشن ٹاسک فورس نے اپنی ماہرین کی مدد سے تمام ایشیائی ببر شیروں اور وسطی، شمالی افریقی ببر شیروں کو ذیلی نوع لیو لیو اور جنوبی مشرقی افریقہ میں پائے جانے والے ببر شیروں کو پینتھرا لیو میلنچیاٹا میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔[26]ا��ریکی کی آبی حیات اورجنگلی حیاتکے سرکاری ادارے نے اس نئی درجہ بندی کو "" سائنسی اور اقتصادی طور پر بہترین"" کہہ کر ان دو ذیلی نوع کو معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست میں ڈالا ہے۔[27]چڑیا گھروں میں رکھے جانے والے ببر شیروں کی اکثریت دوغلی نوع کی ہیں۔ تقریباً ستتر فیصد انسانی تحویل میں موجود شیروں کی انواع عالمی نظام معلومات نوع کے مطابق نا معلوم ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے مطابق ان میں سے بعض انواع جنگلی طور پر ناپید بھی ہو چکے ہیں اس لیے ان کے جینیاتی معلومات کو محفوظ رکھنا ببر شیروں کی جینیاتی اختلافات کو جاننے کے لیے اہم ہے[21]۔اس بات پر غالبا یقین کیا جاتا ہے کہ 19 ویں صدی کے وسط سے قبل یورپ میں لائے گئے ببر شیر بربر کے ببر شیر تھے جو شمالی افریقہ سے تعلق رکھتے تھے یا کیپ کے علاقے کے تھے۔[28]اس وقت ان آٹھ جدید(ہولوسین) ذیلی انواع کو تسلیم کیا جاتا ہے :شمالی افریقہ: (الجزائر،مصر،لیبیاء،مراکشاورتونس)جنوبی یورپ: (البانیا،بلغاریہ،یونان،کوسوو،شمالی مقدونیہ،مونٹینیگرواورسربیا)مغربی ایشیاء: (آرمینیا،بلوچستان،جارجیا،ایران،عراق،اسرائیل،اردن،کویت،لبنان،بین النہرین،عمان،روس،سعودی عرب،شام،ترکی،متحدہ عرب اماراتاوریمن)جنوبی ایشیاء: (افغانستان،بنگلہ دیش،بھارتاورپاکستان)مغربی افریقہ: (بینن،برکینا فاسو،گھانا،مالی،موریتانیہ،نائجیریااورسینیگال)وسطی افریقہ: (کیمیرون،چاڈ،وسطی افریقی جمہوریہ،نائجیریااورنائیجر)مشرقی افریقہ: (جبوتی،ایتھوپیا،ارتریا،کینیا،صومالیہ،جنوبی سوڈان،سوڈان،تنزانیہاوریوگینڈا)یہ کانگو کے شمال مشرقی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔[36]یہ فی الحالروانڈاوسطی افریقہ(وسطی افریقی جمہوریہ،جنوبی سوڈانٌ) سے ناپید ہو چکا ہے۔جنوبی افریقا: (انگولا،بوٹسوانا،کانانگا(کانگو)،نمیبیا،زیمبیا،زمبابوے)[37]جنوبی افریقا: (بوٹسوانا،موزمبیق،جنوبی افریقا،سوازی لینڈ، اورزمبابوے)شمال مشرقی افریقہ: (ایتھوپیا)ببر شیر کی چند وہ انواع جو ما قبل تاریخ وجود رکھتی تھیں۔ببر شیروں کا شیروں کے ساتھ ملاپ کروایا جاتا ہے (بالخصوص بنگالی اور سائبیریائی شیروں سے ) اس سے ایک دوغلی نسل کا شیرلائگراورٹگلیونپیدا ہوتا ہے۔[48]اسے تیندوے سے بھی ملاپ کروایا جاتا ہے جس سےلیوپونپیدا ہوتے ہیں[49]اور جیگوار سے ان کی ملاپجیگلیونپیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔مارزویمشہور کیا گیا دھبہ دار ببر شیر ہے یا ایک قدرتی طور پر لیوپون ہے، جبکہکونگولیسدھبہ والا ببر شیر ایک پیچیدہ طور پر ببر شیر-جیگوار اور تیندوے کا باہمی ملاپ ہے جسےلیجیگولیپکہتے ہیں۔ کبھی چڑیا گھروں میں ایسی دوغلی نسلیں پیدا کرنے کا رواج عام تھا لیکن اب اس بات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تاکہ نوع اور ذیلی انواع کا تحفظ کیا جاسکے۔ آج بھی پرائیوٹ طور پر اورچینکے چڑیا گھروں میں ایسا کیا جاتا ہے۔لائگر ببر شیر اور شیرنی کے ملاپ کا نتیجہ ہے۔[50]چونکہ اس کی ماں میں نشو و نما کو روکنے والیجیننہیں ہوتی اور اس پر نر ببر شیر اپنے جین کے نشو و نما کو بڑھانے والی خصوصیات بچے میں منتقل کرتا ہے لہذا لائگر اپنے والدین کے نسبت کافی بڑا جسامت والا ہوتا ہے۔ وہ اپنے والدین کے طبعی اور ظاہری برتاؤ کے دونوں خصوصیات کا مالک ہوتا ہے۔ (اس کی جلد بھوری ہوتی ہے جس پر شیر کی مانند دھاریں ہوتی ہیں)۔نر لائگر اکثر نسل بڑھانے سے قاصر ہوتے ہیں جبکہ مادہ اکثر ایسا کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ نر کے سر اور داڑھی کے بال آنے کے 50 فی��د امکان ہوتے ہیں لیکن ایسا ہونے کی صورت میں ان کی داڑھی اصل ببر شیر کے مقابلے میں 50 فیصد چھوٹی ہوتی ہے۔لائگر عام ببر شیروں کے مقابلے میں کافی بڑے ہوتے ہیں اور ان کی جسامت 12 فٹ تک ہوتی ہے جبکہ وزن 500 کلو تک کے ہوتا ہے۔[51]کم طور پر معروف دوغلی ملاپ کا ایک طریقہ شیر اور ببر شیرنی کے ملاپ کا ہے۔[52]لائگر کے بنسبتٹگلیوناپنے والدین کے مقابلے میں چھوٹی جسامت کے ہوتے ہیں جس کی وجہ جینیاتی خصوصیات لائگر والی صورت سے الٹ ہونا ہے۔[51]خاندان گربہمیں شیر کے بعد ببر شیر جسامت اور وزن کے لحاظ سے سب سے بڑے ہیں۔ اس کی کھوپڑی شیر کی کھوپڑی سے حد درجہ مماثلت رکھتی ہے، اگرچہ سامنے کا حصہ قدرے پچکا اور ہموار ہوتا ہے اور نتھنے بمقابل شیر کے تھوڑے چوڑے ہوتے ہیں۔ چونکہ ان میں مماثلت زیادہ ہوتی ہے لیکن نچلے جبڑوں کے ذریعہ ہی ان میں مستند طور پر فرق کیا جا سکتا ہے۔[53]ببر شیروں کے رنگ پیلے، ہلکے سرخ یا گہرے بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔ پورے جسم کا رنگ عام طور سے ہلکا جبکہ دم کا رنگ کالا ہوتا ہے۔ ببر شیروں کے بچے بھورے دھبوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یہ مشابہت تیندوے سے ملتی ہے۔ یہ دھبے اگرچہ بالغ ہونے پر مٹ جاتے ہیں لیکن ہلکے دھبے ٹانگوں کے نچلے حصوں پر دیکھے جا سکتے ہیں بالخصوص ببر شیرنی کے جسم پر۔[54]ببر شیر بلیوں کے خاندان کے واحد فرد ہیں جو جنسی فرق نمایاں طور پر رکھتے ہیں (یعنی نر اور مادہ کی پہچان باآسانی ممکن ہے)۔نیز ان کے خاندانی ارکان میں ہر رکن کا ایک خاص کردار ہوتا ہے۔ مثلا ببر شیرنی کی داڑھی نہیں ہوتی۔ نر ببر شیر کی داڑھی کا رنگ سنہرے سے کالا ہوتا ہے اور بوڑھے ہونے کے ساتھ ساتھ رنگ گہرا ہوتا جاتا ہے۔ سب خاص نر اور مادہ میں مشترک چیز دم کے آخر میں بالوں کے گھچے کا ہونا ہے۔ بعض نر ببر شیروں میں اس گھچے کی بجائے سخت قسم کی پانچملی میٹرلمبی ہڈی جیسی چیز ہوتی ہے۔ نیز یہ واحد فیلیڈ ہے جس کی دم گھچا نما ہوتی ہے اس گھچے والی دم کے افعال نا معلوم ہیں۔ یہ بالوں کا گھچا پیدائش کے وقت نہیں ہوتا جبکہ 5 ماہ کے قریب یہ ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے اور 7 ماہ تک اسے باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔زمبابوےکے بالغ ببر شیروں کی جسامت اپنے علاقوں کے نسبت مختلف ہواکرتی ہے، کالاہاری اور کروگر پارک کے ببر شیروں کا وزن اوسطا 189 کلو سے 126 کلو تک ہوتا ہے جبکہ ببر شیرنیوں کا وزن اوسطا 174 کلو سے 119 کلو تک ہوا کرتا ہے۔[55]ببر شیروں کی لمبائی میں سر اور جسم کی لمبائی شامل ہوتی ہے جو 170 تا 250 سینٹی میٹر ہوتی ہے، دم کی لمبائی 90 تا 105 سینٹی میٹر ہوا کرتی ہے۔ ببر شیرنیوں کی سر دھڑ کی لمبائی 140 تا 175 تک ہوتی ہے جبکہ دم کی لمبائی 70-100 سینٹی میٹر ہوتی ہے،[8]250 سینٹی میٹر لمبائی بالعموم جو کہی جاتی وہ اصلا امریکی ناپید ہونے والی ببر شیروں کی ہے آج بھی بہت بڑے ببر شیروں کی لمبائی 250 سینٹی میٹر کی لمبائی سے کئی سینٹی میٹر کم ہوتی ہے۔[56]اب تک سامنے آنے والی سب سے بڑی لمبائی 6۔ 3 میٹر (12 فٹ) ہے جو انگولا میں اکتوبر 1973ء میں ایک شکار سے معلوم ہوئی ایک اور ببر شیر کا وزن جس کا وزن 313 کلو تھا جسے 1936ء میںٹرانسوال،جنوبی افریقامیں شکار سے ماراگیا۔[57]ایک اور زیادہ وزن والا ببر شیر جس کا وزن 272 کلو تھا کوکوہ کینیامیں مارا گیا۔[29]بڑی بلیوں میں ببر شیر کی داڑھی اور گردن کے بال سب سے نمایاں خصوصیت ہیں۔بہت کم حالات میں ببر شیرنی کے بھی ایسے بال آسکتے ہیں۔[58][59]ان بالوں کا ہونا یا نا ہونا، رنگت اور اس کا سائز سب جینیاتی خصوصیات، جنسی بالیدگی، آب وہوا، نر ہارمونز پر منحصر ہوتے ہیں جتنی بڑی داڑھی اور سر کے بال ہوں گے اتنا ہی ببر شیر صحت مند ہوگا۔ ببر شیرنیاں بھی جنسی تعلقات میں انھیں ببر شیروں کو ترجیح دیتی ہیں جن کے بال گھنے اور گہرے ہوتے ہیں۔[60]تنزانیہ میں ہونے والے تحقیق سے پتا چلا کہ ان بالوں کی لمبائی ہی نر ببر شیروں کی آپس میں لڑائی کا سبب بنتا ہے۔ جتنے گہرے یہ بال ہوں گے اتنے ہی ان کیتولیدی نظامزیادہ عرصے کار آمد رہتا ہے نیز ان کے بچوں کے بچنے کے بھی امکان زیادہ رہتے ہیں لیکن ان بالوں کی وجہ سے انھیں گرمیوں کے ایام بڑے سخت گزارنے پڑتے ہیں۔[61]سائنسدانکبھی اس بات پر یقین کرتے تھے کے گردن کے گرد بالوں کے سائز اور ظاہری صورت کی بنیاد پر ذیلی انواع کی درجہ بندی کی جا سکتی ہے۔ ظاہری صورت کی بنیاد پر بربری ببر شیروں اور کیپ ببر شیروں کے ذیلی انواع کو بھی پہچانا گیا۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہدرجہ حرارتکا فرق ان بالوں کی جسامت اور رنگت میں فرق کا سبب بھی بن سکتا ہے۔[61]مثلا یورپی اور امریکی چڑیا گھروں میں بالوں کے گھنے ہونے کی وجہ وہاں کا ٹھنڈا موسم ہو سکتا ہے لہذا ان بالوں کی بنیاد پر کی گئی انواع کی درجہ بندی غلط اور غیر مستند قرار دی جاتی ہے۔[21][62]بہرحال ایشیائی شیروں کی انواع کے بالوں کا بکھرے ہوئے ہونا انھیں افریقی شیروں سے ممتاز کرتا ہے۔[63]پند جاری نیشنل پارک میں موجود ببر شیر گردن کے گرد بالوں سے محروم ہیں یا یہ بال بہت کم ہیں۔[64]بنا بالوں کے ببر شیروں کی موجودگی کی اطلاعکینیا،سوڈاناورسینیگالکے علاقوں سے بھی ملتی ہیں اور فطری طور پر سفید ببر شیر جو تمباواتی سے تھے ان کے گردن کے گرد بال بھی نہ تھے۔ٹسیٹیروننامی نروں کے ہارمونز کو ان بالوں کی جسامت سے جوڑا جاتا ہے، اسی لیےخصیکیے گئے ببر شیروں کی گردن کے گرد بال کم ہی ہوتے ہیں کیونکہخصیتینکے نکالنے سے ان کے ہارمونز کی پیداوار رک جاتی ہے۔[65]یورپمیں موجود غاروں میں بنائی گئی قدیمتصویروںمیں ببر شیروں کی گردن کے بال نہیں بنائے گئے ہیں، اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ان ببر شیروں کے یہ بال نہیں ہوتے تھے،[42]یا یہ تصاویر ان ببر شیرنیوں کی ہے جو شکار میں نظر آتی تھیں۔سفید ببر شیرکسیقسم کی نوع نہیں ہیں بلکہ یہ ایک خاص جینیاتی صورت ہوتی ہے جسےلیوسیزمکہتے ہیں[20]، جو ببر شیروں کی بالوں اور جلد کی رنگت سفید کر دیتی ہے جیسا کہ یہ سفید ببر شیروں میں ہوتا ہے یہ صورتمیلنزمسے میل کھاتی ہے جوکالے تیندوںمیں ظاہر ہوتی ہے۔یہالبائنونہیں ہوتے ( یعنی ان کی آنکھوں اور جلد میں عام رنگت موجودہوتے ہیں) سفید ٹرانسوال ببر شیر سے کبھی کبھی کروگر نیشنل پارک اور ملحقہ تمبواتی پرایویٹ گیم ریسرو، مشرقی جنوبی افریقہ میں سامنا ہوجاتا ہے، لیکن عموما یہ انسانی تحویل میں ہی ملتے ہیں اور ملاپ کروانے والے انھیں جان بوجھ کر منتخب کرتے ہیں۔ان کی جلد کی کریمی رنگت، رسیو الیلی کی وجہ سے ہے۔[66]ایسی خبریں ہیں کہ جنوبی افریقہ میں ان کی کیمپوں میںافزائش نسلکی جاتی ہے پھر انھیںکینڈ ہنٹ( ایک قسم کا شکار) میں شکار کیا جاتا ہے۔[67]ببر شیر دن بھر آرام کرتے ہیں اور دن میں تقریباً 20 گھنٹے غیر فعال رہتے ہیں۔[68]اگرچہ ببر شیر کسی بھی وقت فعال ہو سکتے ہیں لیکن ان کی فعالیت شام کے بعد سے اپنے جوبن پر ہوتی ہے شامیں یہ ا پنے سماجی تعلقات، رفع حاجت اور سماجی افعال انجام دینے میں بتاتے ہیں۔ بہت زیادہ طور پر مشغول رہنا پوری رات تک چلتا رہنا ہوتا ہے جبکہ علی الصبح اکثر شکار ہوا کرتا ہے۔ وہ دن میں اوسطا دو گھنٹے چلتے ہیں اور 50 منٹ تک اپنی خوراک کھاتے ہیں۔[69]تمام فیلڈ فطری طور پر غیر سماجی ہوتے ہیں لیکن ان سب کے برعکس ببر شیر سب سے زیادہ سماجی رویہ دیکھاتے ہیں۔ ببر شیر ایک شکاریگوشت خورہے جو دو طرح کے سماجی گروہ میں رہتا ہے۔ کچھ ببر شیر مکین ہوتے ہیں جو اپنے متعلقہ ببر شیرنیوں اور چند بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ انھیں حرم(pride) کہتے ہیں۔[70]مادائیں اس حرم میں سماجی اکائی کی حیثیت سے مستقل رہتی ہیں اور کسی غیر مادہ کو اس میں پسند نہیں کرتی۔[71]اراکین صرف ماداؤں کی وفات اور پیدائش کی صورت میں ہی بدلتے ہیں،[72]اگرچہ بعض اوقات مادائیں حرم کو چھوڑ کر علیحدگی اختیار کرتی ہیں اور اکیلے ہی جیتی ہیں۔ اب ایک ایسے بھی حرم مشاہدے میں آئی ہیں جن میں ارکان کی تعداد تیس کے قریب دیکھی گئی ہیں،[73]اوسطا ایک حرم میں پانچ یا چھ مادائیں ہوا کرتی ہیں، اس میں دونوں جنس کے بچے اور دو ببر شیر ہوا کرتے ہیں(ایک ببر شیر سے زائد ہونے کی صورت میں اسے اشتراک کہتے ہیں) جو بالغ ببر شیرنیوں سے مباشرت کرتے ہیں۔ اشتراک کی صورت میں نر کی تعداد دو ہی ہوا کرتی ہے لیکن یہ تعداد چار تک بھی جا سکتی جس کے بعد تعداد پھر سے کم ہونا شروع ہوتی ہیں۔[73]تنہا فرق صرف تساوو ببر شیروں میں ہے جس کے حرم میں صرف ایک ہی ببر شیر ہوتا ہے۔[74]نر بچے اپنے نگہبان خاندان سے 2یا 3 سال میں الگ ہو جاتا ہے جب وہ بالیدگی حاصل کر لیتا ہے۔[73]اس گروہ کی دوسری صورت یہ ہے کہ جوڑے کی شکل میں یا اکیلے ہی زندگی گزاری جاتی ہے یہ لوگ ایک بڑے رقبے میں گھومتے رہتے ہیں۔[70]جوڑے دار اکثر ان نر ببر شیروں کی ہوتی ہے جو نئے نئے بلوغت کے سبب اپنے خاندان سے نکال دئے جاتے ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک تنہا زندگی گزارنے والا ببر شیر سماجی زندگی اپنا لے یا اس کے برعکس کا انتخاب کرے۔نر ببر شیر قواعد کے مطابق اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ تنہا گزارتا ہے اور پھر یہ کسی خاندان میں جاگھستا ہے جبکہ بعض شیر زندگی بھر ایسا کرنے سے محروم ہی رہتے ہیں۔ایک تنہا رہنے والی ببر شیرنی کو دوسرے حرم میں داخل ہونے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ حرم کے دیگر ببر شیرنیاں اس نئے غیر مادہ کی سخت مخالفت کیا کرتی ہیں۔وہ علاقہ جس پر ایک حرم کا قبضہ ہو علاقہ حرم کہلاتا ہے[70]جبکہ تنہا رہنے والے علاقے کو بدووں(nomad) کا خطہ کہتے ہیں۔حرم کے نر ببر شیر اپنے علاقوں کی سرحدوں پر گشت لگا کر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ببر شیرنیوں میں دیگر بلیوں کے انواع کے مقابل اس قدر سماجی برتاؤ کیونکر پیدا ہوا بحث کا ایک اہم موضوع ہے۔اس کی وجوہات یہ ہو سکتی ہیں کہ گروہ میں رہنے سے شکار کی کامیابی کا زیادہ امکان رہتا ہے، لیکن مشاہدات یہ بھی بتاتے ہیں وہ ارکان جو شکار میں حصہ نہیں لیتے، خوراک میں برابر حصہ دار ہوتے ہیں، اگرچہ بعض ان بچوں کے پاس ہی رہتی ہیں جنھوں نے بالغ ہونے پر اسے چھوڑ دینا ہوتا ہے۔حرم کے اراکین شکار کا کھیل باقاعدگی سے کھیل کر اپنے ہنر کو بہتر کرتے رہتے ہیں۔حرم کے بچاو کی یہی تدبیر ہے کہ اس کے شکاری اراکین کی صحت بہتر ہو لہذا یہی شکاری شکار میں سب سے پہلے حصہ لیتے ہیں۔دوسرا مفید پہلو یہ بھی ہے کہ بجائے غیروں سے کھانا بانٹنے کے اپنے متعلقہ اراکین سے ہی اشتراک کرنے میں بچوں کے حفاظت، علاقے کی برقراری اور انفرادی طور پر چوٹ اور بھوک سے نجات کی ضمانت ہوتی ہے۔[29]حرم میں زیادہ تر ببر شیرنیاں ہی شکار میں حصہ لیتی ہیں۔اس لیے کہ وہ پھرتیل��، ہلکی اور چاک و چوبند ہوتی ہیں جبکہ ببر شیروں کو وزن زیادہ ہوتا ہے اور ان کے گردن کے بالوں کے سبب دوڑتے ہوئے وہ گرمی سے نڈھال ہوجاتے ہیں۔وہ بہر حال شکار کے دوران میں اشتراک کرتے ہیں اور شکار کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے صحیح جگہ پر گھیر گھار کر نشانہ بناتے ہیں۔اکثر چھوٹے شکار اسی مقام پر ان شکاریوں کا نوالہ بنتے ہیں جبکہ بڑے شکار کو گھسیٹ کر حرم کے مقام پر لا کر سب کھاتے ہیں۔[75]اگرچہ تمام ارکان کھاتے ہوئے ایک دوسرے سے جارحانہ برتاو دکھاتے ہیں کیونکہ ہر ایک زیادہ سے زیادہ خوراک لینے کی کوشش کرتا ہے۔ ببر شیرنیوں کے شکار کے اختتام پر ببر شیر اس شکار پر تسلط جماتے ہوئے نظر آتا ہے۔ وہ اسے شیرنیوں کی بجائے بچوں کے ساتھ مل بانٹ کر کھانے کو ترجیح دیتا ہے لیکن خود سے کیے شکار میں وہ کم ہی دوسروں کو شریک کرتا ہے۔ببر شیر اور ببر شیرنیاں دونوں ہی کسی غیر کی جارحیت کے خلاف اپنی حرم کی حفاظت کرتے ہیں لیکن یہ کام زیادہ ببر شیر کو مناسب لگتا ہے کیونکہ وہ زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔[76]کچھ ارکان مستقل جارحین کے خلاف دفاع کرتے ہیں جبکہ کچھ پیچھے رہتے ہیں۔ ببر شیر حرم میں ایک خاص کردار ادا کرتا ہے۔[77]وہ جو پیچھے رہتے ہیں حرم کے لیے قابل قدر خدمات بھی بہم پہنچا سکتے ہیں۔[78]ایک مفروضہ ہے کہ جو جارحیت کے خلاف سامنے آتے ہیں ان کا حرم میں ایک خاص مقام ہوتا ہے اور ببر شیرنیوں کے مقام کا اسی دفاع سے کردار بڑھتا ہے۔[79]نر ببر شیر جو حرم سے منسلک ہوتا ہے اپنے اور ماداؤوں کے تعلقات برقرار رکھنے کے لیے بیرونی حملہ آور سے ضرور مقابلہ کرتا ہے۔موقع کی مناسبت سے ببر شیر مردارخوری کو بھی ترجیح دیتے ہیں، جو اس کی خوراک کا 50 فیصد پورا کرتا ہے۔[80][81]مردار جانور یا تو قدرتی طور پر مرے ہوتے ہیں یا وہ کسی دوسرے جانور کا شکار ہوئے ہوتے ہیں نیز ان پر منڈلانے والے گدھ بھی ان کی موت کا پتہ دیتے ہیں۔[80]مزید بر آں اکثر مردار جانور جن سے ببر شیر اور لگڑ بگھڑ دونوں ہی حصہ لیتے ہیں، لگڑبگھوں کے شکار ہوئے ہوتے ہیں۔[8]حرم کے لیے شکار زیادہ تر ببر شیرنیاں ہی کرتی ہیں۔ببر شیر اس دوران میں بچوں کی نگرانی کرتا ہے۔بالعموم یہ جانور شکار کے جھنڈ کو گھیر لیتے ہیں اور جب یہ شکار کے نہایت قریب پہنچتے ہیں تب حملہ آور ہوجاتے ہیں۔یہ حملہ زوردار اور مختصر سا ہوتا ہے اور وہ شکار جلد دبوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ عموما شکار کے گردان کو دبوچ کر اس کا دم گھوٹ دیتے ہیں جن سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔[82]نیز وہ جانور کے نتھنے جبڑے اور منہ کے دھانے کو بھی بند کر دیتے جس سے اس کی موت واقع ہوتی ہے۔[8]ببر شیر شکار میں اشتراک کرتے ہیں اور شکار کو چنتے ہیں۔لیکن انھیں ان کی قوت کے لیے نہیں جانا جاتا جیسے ببر شیرنی کا دل اس کے کل وزن کا 0.57% فیصد ہوتا جبکہ ببر شیر کا دل اس کے مجموعی وزن کا 0.45% حالانکہ لگڑ بگھڑ کا دل اس کے مجموعی وزن کا ایک فیصد ہوا کرتا ہے۔[83]پس وہ مختصر وقت کے لیے ہی زبردست رفتار پکڑ سکتے ہیں[84]اور شکار پر حملہ کرنے کے لیے انھیں اس کے بے حد نزدیک ہونا پڑتا ہے۔ وہ اپنے ماحول میں گھل مل کر نظر کم آتے ہیں اور اس بات فائدہ اٹھا کر وہ اکثر شکار کر لیتے ہیں بالخصوص رات کو۔[85]وہ شکار پر اس وقت تک حملہ نہیں کرتے جب تک وہ ان کے تقریباً 30 میٹر کے قریب نہ ہوں۔افریقہ میں ان کے شکار میں ہرن، جنگلی درندے، زیبرا، بھینس اور جنگلی سور ہوا کرتے ہیں۔ جبکہ بھارت میں یہ شکار نیل گائے، جنگلی سور اور ہرنوں پر مشتمل ہے۔ ان کے شکار ہونے والے جانور موقع محل کی مناسبت سے مختلف ہیں جن میں زیادہ تر سموں والے کالے جانور ہیں جن کا وزن 50 سے 300 کلو تک ہوتا ہے۔[8]کبھی کبھار وہ چھوٹے جانور جیسے تھامسن غزال وغیرہ پر بھی گزارا کر لیتے ہیں۔ببر شیر اپنے علاقوں میں گروہ کی صورت میں کیے گئے شکار میں زیادہ کامیابی سمیٹتے ہیں اور وہ بہت بڑے جانور جیسے زرافہ پر کم ہی حملہ کرتے ہیں کیونکہ اس میں زخمی ہونے کا زیادہ ہی خطرہ رہتا ہے۔زرافہ اور بھینسیں شکار کے لیے بہت مشکل ثابت ہوا کرتی ہیں۔ببر شیر بھارت میں گھریلو مویشیوں پر بھی حملہ کرتے ہیں اور اس طرح اپنی خوراک کا ایک اہم حصہ پورا کرتے ہیں۔ببر شیر دیگر شکاریوں جیسے تیندوے، چیتے، لگڑ بگھڑ اور جنگلی کتوں کو بھی مار دیتے ہیں لیکن وہ حریفوں کو قتل کے بعد کم ہی کھاتے ہیں۔ببر شیر ایک وقت میں تیس کلو تک گوشت کھا سکتا ہے۔[86]وہ اگر اپنی تمام خوراک نہ کھاسکے تو مزید کھانے سے قبل تھوڑا آرام کر لیتا ہے۔ گرم دنوں میں حرم کے ارکان ببر شیر کو سایہ دینے کی خاطر اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک بالغ ببر شیرنی کو دن میں اوسطا 5 کلو جبکہ ببر شیر کو 7 کلو گوشت خوراک کے لیے درکار ہوتی ہے۔[87]مطالعات بتاتے ہیں کہ ببر شیر ان ممالیہ جانوروں کا بالعموم شکار کر دیتے ہے جن کا وزن 126 کلو تک ہوتا ہے اور ان کے شکار کا اوسطا وزن 300 کلو تک ہوتا ہے۔[88]افریقہ میں ببر شیر جنگلی مادہ بھینسوں کو شکار کے لیے سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں (اور سرنگیٹی کے علاقوں میں ببر شیر کے شکار کا تقریباً نصف یہی جانور ہے) اس کے بعدشکار ہونے والا جانور زیبرا ہے۔[89]ببر شیر مکمل بالغ ہاتھی، دریائی گھوڑے، گینڈے اور چھٹے غزال، امپالا اور دیگر اس نوع کی پھرتیلے جانوروں پر حملہ نہیں کرتے۔ لیکن بعض خطوں میں بھینسوں اور زرافوں پر بھی مستقل حملے ہوتے ہیں۔ جیسے کروگور نیشنل پارک میں زارفوں پر مستقل حملے ہوتے رہتے ہیں۔[90]منیارا پارک میں تو بھنسیں ببر شیروں کی شکار کا 62 فیصد ہیں، کیونکہ وہاں بھینسوں کی بہت بڑی تعداد رہتی ہے۔[91]کبھی کبھی دریائی گھوڑے بھی ان کے شکار میں آجاتے ہے لیکن گینڈوں سے وہ دور ہی رہتے ہیں۔ جنگلی سور کو وہ موقع کی مناسبت سے شکار کرتے ہیں۔[92]سواتی کے ببر شیروں میں خشک گرمیوں کے موسم میں نابالغ ہاتھی کے شکار کرنے کی لت دیکھی گئی ہے اور اس کام میں 30 ببر شیرنیوں کو مشغول دیکھا گیا ہے۔[93]کالاہاری صحرا، جنوبی افریقہ میں کالے یال والے ببر شیروں کو ببون کا شکار کرتے بھی دیکھا جاتا ہے وہ درختوں پر چڑھے ببون کا انتظار کرتے ہیں اور جب وہ فرار ہونا چاہیں تو ان پر حملہ کردیتے ہیں۔چونکہ ببر شیرنیاں کھلے جگہوں میں شکار کرتی ہیں لہذا انھیں شکار کی جانب سے دیکھ لینے کا امکان ہوتا ہے ؛اس لیے وہ اس معاملے میں اشتراک سے کام لیتی ہیں جس سے کامیابی کا زیادہ امکان رہتا ہے خاص کر بڑے شکار کے معاملے میں یہ زیادہ درست ثابت ہوتا ہے۔ ان کے کیے گئے شکار پر کئی میل دور گدھوں کی توجہ مرکوز ہوجاتی ہے اور وہ اپنے باہمی اشتراک کے بدولت اپنے شکار کا زیادہ بہتر دفاع کر تے ہیں۔ ببر شیر عموما شکارمیں حصہ نہیں لیتے لیکن بڑے شکار جیسے بھینسے یا زرافے کی صورت میں وہ اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ببر شیر اپنی ماداؤوں کی طرح شکار میں کامیاب رہتے ہیں وہ اپنے شکار کو جھاڑیوں میں چھپ کر پھانس لیتے ہیں۔ جوان ببر شیریں تین ماہ میں شکار کرنے کا برتاو دکھاتے ہیں لیکن وہ شکار میں حصہ نہیں لیتے جب ان کی عمر 1 سال ہوتی ہے تو وہ اس میں حصہ لینا شروع کردیتے ہیں لیکن 2 سال کی عمر میں وہ نمایاں طورسے اس میں حصہ لینا شروع کردیتے ہیں۔ببر شیر اور لگڑ بگڑ ایک ہیماحولیاتی نچمیں رہتے ہیں یعنی وہ ایک یہی علاقے میں رہنے کے سبب ایک ہی شکار حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔ تحقیق کرنے سے پتا چلا کہ 58 فیصد شکار میں ان دونوں کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔[94]ببر شیر بالعموم لگڑ بگڑ کو اس وقت تک نظر انداز کرتے ہیں جب تک وہ انھیں جانی نقصان یا تنگ نہ کریں جبکہ لگڑبگڑ شیروں کی موجودگی پر رد عمل دکھاتے ہیں بھلے ہی خوراک کا جھگڑا ہو یا نہ ہو۔ نگورنگورو گڑھے کے علاقے میں ببر شیر اکثر لگڑ بگھوں سے ان کا شکار ہتھیا لیتے ہیں اس طرح لگڑبگھوں کو اپنے شکار کرنے کی تعداد بڑھانی پڑتی ہے۔[95]اس کے برعکسبوٹسوانا کوبی قومی پارکمیں لگڑ بگڑ شیروں کی طاقت کو چیلنج کرتے ہیں وہاں لگڑ بگڑ اپنی خوراک کا 63 فیصد ببر شیروں کی خوراک سے چراتے ہیں۔[96]ایسے مواقع پر لگڑ بگڑ ببر شیروں سے 30 تا 100 میٹر کے فاصلے پر ببرشیر کو شکار کے ختم کرنے تک دیکھتے ہوئے کھڑے رہتے ہیں،[97]لیکن وہ ہوشیاری اس دعوت میں بھی حصہ نکال لیتے ہیں اور بعض اوقات وہ شیروں کو بھی شکار سے بھگا دیتے ہیں۔ یہ دونوں نوع ایک دوسرے پر بھی بنا کسی ظاہری وجہ کے حملہ کر سکتے ہیں۔[98][99]ایٹوشا میں لگڑبگڑ کی موت کا 71 فیصد کا سبب ببر شیر ہیں۔ لگڑ بگڑ نے اپنے علاقوں میں ببر شیروں کی موجودگی کی وجہ سے خود میں تبدیلیاں قبول کر لی ہیں اور جب ببر شیر نمودار ہوتے ہیں تو یہ گروہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔[100]ایک تجربے میں پہلے تحویل میں موجود دھبہ دار لگڑ بگڑ کا سامنا ببر شیر سے پہلی بار کروایا تو اس نے خاص رد عمل نہیں دکھایا لیکن بعد میں وہ ببر شیر کی بو سے ہی بے چین نظر آنے لگا۔[95]ببر شیر کے بڑے یال کو دیکھ کے ہی لگڑ بگڑ ان کا سامنا کم ہی کرتے ہیں نیز ببر شیر کے بڑے پنجوں کے سبب ببر شیر کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ببر شیر اپنے سے چھوٹی بلیوں جیسے چیتا، تیندوں پر تسلط جماتا ہے اور ان کے بچوں حتیٰ کے بالغوں کو بھی موقع ملنے پر مار دیتا ہے نیز وہ ان کے شکار بھی ہتھیا لیتا ہے۔چیتا بالعموم اپنے شکار کو دوسرے جانوروں کے سبب کھونے کا امکان 50 فیصد رکھتا ہے۔[101]چیتا مقابلے بازی سے کتراتا ہے اور دن کے مختلف اوقات میں شکار کرتا ہے وہ اپنے بچوں کو گھنی جھاڑیوں میں چھپا دیتا ہے۔ تیندوا بھی ایسے حربے استعمال کرتا ہے لیکن وہ ببر شیروں اور چیتوں کے بنسبت چھوٹے شکار پر گزارا کر کے فائدے میں رہتا ہے۔ تیندوا چیتے کے مقابلے میں درخت پر چڑھ لیتا ہے اور اپنے بچوں اور شکار کو ببر شیر کی پہنچ سے دور رکھتا ہے[102]اگرچہ بعض اوقات ببر شیرنیاں بھی درخت پر چڑھ کر اس کے شکار کو ہتھیا لیتے ہیں۔ اسی طرح ببر شیر افریقہ کے جنگلی کتوں پر بھی تسلط رکھتا ہے اور وہ ا س کا شکار ہتھیا لیتے ہیں نیز وہ ان کے جوان اور چھوٹے بچوں کو بھی مار دیتا ہے۔ جہاں ببر شیر ہوں وہاں جنگلی کتوں کی آبادی کم دیکھی جاتی ہے۔[103]اگرچہ ایک آدھ موقع پر ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جس میں جنگلی کتوں نے بوڑھے اور زخمی ببر شیر کو مار دیا۔[90][104]نیل مگرمچھانسان کے بعد واحد جانور ہیں جو ببرشیروں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ببر شیر اور مگرمچھ کے وزن کو جسامت کے مطابق یہ دونوں ہی اپنے شکار کو ایک دوسرے سے مقابلے میں گنوا سکتے ہیں۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ ببر شیروں نے مگرمچھ کو خشکی پر مارا ہو[105]جبکہ دوسری صورت یعنی پانی میں ببر شیر ہی مار کھا سکتا ہے اور مگر مچھ کے پیٹ سے کئی دفعہ ببر شیر کے جبڑے ملے ہیں۔[106]اگرچہ ببر شیر عام حالات میں انسانوں کا شکار کرتے ہیں لیکن بعض بالخصوص نروں کو کبھی اس کی لت پڑ جاتی ہے۔ اس متعلق مشہور شائع ہونے والا ایک واقعہ 1898ء میں ظہور پزیر ہوا جس میں دو ببر شیروں نے کینیا یوگینڈا ریلوے لائن پر کام کرنے والے مزدوروں پر حملے کیے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ببر شیر نے 28 افراد نو ماہ کے تعمیراتی دور میں ہلاک کیے۔[107]جس شکاری نے ان کا شکار کیا اس نے انآدم خورببر شیروں کی خصوصیات بڑی تفصیل سے لکھی ہیں وہ لکھتا ہے کہ ان کے بال نہ تھے اور وہ عام ببر شیروں سے جسامت میں کافی بڑے تھے اور بعض دانت بھی ٹوٹے ہوئے تھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹوٹے دانت ببر شیر کو آدم خوری پر مجبور کرتے ہیں لیکن یہ بات ماہرین کے نزدیک درست نہیں ان کے نزدیک انسانی آبادی کا شیروں کے علاقوں میں آباد ہونا ہی اس کی صحیح وجہ ہے۔[108]تساو اور عام آدم خور ببر شیروں کے مطالعہ کرنے والے ماہر لکھتے ہیں کہ بیمار یا زخمی ببر شیروں کے آدم خوری کی جانب مائل ہونے کے زیادہ امکانات رہتے ہیں۔ لیکن یہ رویہ کوئی غیر معمولی یا حقائق سے ہٹ کر نہیں ہے جہاں ببر شیر کو پالتو مویشی یا انسانی آبادی پر حملے کا موقع ملتا ہے وہ ایسا کرتا ہے اس کے ثبوت پرائمیٹ اور پینتھرائن خاندان کے رکازیاتی علوم سے ملتے ہیں۔[109]ببر شیروں کی آدم خوری کی عادت کے بارے میں کافی سائنسی تحقیقات ہو چکی ہیں۔ امریکی اور تنزانیائی سائنسدانوں کے اعدادوشمار کے مطابق تنزانیہ کے دیہی علاقوں میں 1990ء سے 2005ء تک کے عرصے میں آدم خوری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اب تک کم ازکم 563 دیہاتی ببر شیروں کا لقمہ بن چکے ہیں۔ آدم خوری کا سب سے مشہور واقعی تقریباً ایک صدی قبل رونما ہوا۔ یہ واقعات سیلوس نیشنل پارک موزمبیق کے سرحد کے پاس پیش آئے۔ اگرچہ دیہاتیوں کا ان جنگلی علاقوں میں رہنا آدم خوری کا بنیادی سبب ہیں لیکن مصنف کے نزدیک ببر شیروں کی بقاء سے متعلق بنائے گئے اقدامات بھی انسانی جانی نقصان میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ لینڈی ایسے واقعات بھی منظر عام پر لائے ہیں جن میں ببر شیر مرکزی دیہاتوں پر حملہ کر کے انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔۔[110]ایک اور مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کے جنوبی تنزانیہ میں 1988ء سے 2009ء تک ایک ہزار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یہ واقعات زیادہ تر چاند کی راتوں کے علاوہ راتوں میں یعنی جب اندھیرا زیادہ ہوتا ہے تب پیش آتے تھے۔[111]مصنف رابرٹ آر فرمپ لکھتے ہیں کہ موزمبیقی مہاجرین جو رات کو کروگر پارک کو جنوبی افریقہ جانے کی خاطر پار کرتے ہیں زیادہ تر ببر شیروں کا شکار بنتے ہیں اس پارک کے حکام نے بھی ان واقعات کے بارے میں کہا کہ پارک کے مسائل میں ایک مسئلہ آدم خوری کا بھی ہے۔ فرمپ کا کہنا ہے کہ اپارتھائیڈ کی جانب پارک بند کیے جانے اور مہاجرین کو اسے رات کے اوقات میں پار کرنے پر مجبور کرنے سے اب تک تقریباً ہزاروں لوگ مر چکے ہیں تقریباً سو سال قبل جب یہ پارک سیل نا ہوا تھا تب موزمبیقی لوگ دن کے اوقات میں اسے پار کرتے تھے اور انھیں کم خطرہ لاحق ہوتا تھا۔[112]پیکر نے اندازہ لگایا کہ ہر سال تنزانیہ میں ببر شیر،مگر مچھ،ہاتھی،دریائی گھوڑےاورسانپدو سو لوگوں کو موت کی نیند سلاتے ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ ببر شیر ہوتے ہیں جو اوسطا سالانہ 70 لوگوں کو مار ڈالتے ہیں۔ پیکر نے کہا کہ 1990ء سے 2004ء تک تنزانیہ میں 815 لوگوں پر حملے ہوئے جن میں 563 لوگ ہلاک ہوئے۔ پیکر اور اکنڈا ان لوگوں میں سے ہیں جو چاہتے ہیں کہ مغربی ادارے ببر شیروں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی جان کی حفاظت کو بھی یقینی بنائے۔[110]ایک آدم خور ببر شیر کو جنوبی تنزانیہ کی ساحلی پٹی پر سکاوٹ والوں نے مار ڈالا تھا کہا جاتا تھا کہ یہ آدم خور اس علاقے میں مختلف واقعات کے دوران میں 35 کے قریب لوگوں کے موت کا سبب بنا تھا۔[113]ڈاکٹر رولف ڈی بالڈس جو جٰی ٹی زیٹ جنگلی حیات کے منصوبے کے منتظم ہیں کہتے ہیں کہ مذکورہ شیر کے دانت میں شگاف پڑا تھا اور اس کے منہ میں پیپ سے بھرے دانے تھے۔ انھوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ یقینا اس ببر شیر کو خوراک چبانے میں سخت تکلیف ہوتی ہوگی۔[114]جی ٹی زیٹ منصوبہ جرمن حکومت کی جانب سے تنزانیہ میں ببر شیروں کی بقاء میں دو عشروں سے معاون ہے۔ اور پچھلے آدم خور ببر شیروں کی طرح مذکورہ ببر شیر کے بھی خراب دانت، یہ بنا یال کے تھا نیز یہ ان کی طرح بڑے جسامت کا بھی تھا۔تمام افریقی آدم خور ببر شیر تساوو خیال نہیں کیے جاتے لیکن 1930ء تا 1940ء تکٹینگانیکا(اب تنزانیہ) میں ایسے واقعات پیش آتے رہے۔ جارج رشبی نے ایک دفعہ ایسے حرم کا پتہ لگایا جو تین عشروں سے آدم خوری کی لت میں مبتلا تھا اور اس نے 1500 سے 2000 لوگوں کو ہلاک کیا تھا اور یہ واقعات نجومبے علاقہ میں پیش آئے تھے۔[115]اکثر ببر شیرنیاں چار سال کی عمر میںتولیدکے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔[116]اور یہ سال میں کسی مخصوص وقت میںمباشرتنہیں کرتے۔[117]دوسرے بلیوں کےعضو تناسلکی طرح ان کے آلہ تولید میں بھی سخت کانٹے سے ہوتے ہیں جو پیچھے کی جانب مڑے ہوتے ہیں۔ مباشرت کے دوران میں آلہ تولید واپس نکلتے ہوئے یہ کانٹے سے مادہ کے رحم کی دیواروں کے رگڑ کھاتے ہیں اور یہحملکا باعث بن سکتے ہیں۔[118]ایک ببر شیرنی اپنے بیضے بننے کے ایام میں ایک سے زائد شیروں سے ملاپ کرسکتی ہے۔[119]ان میںحملکا دورانیہ 110 دن تک کا ہوتا ہے،[117]اور ببر شیرنی ایک سے چار بچے دیتی ہے وہ یہ بچے کسی غار، کھو یا جھاڑیوں میں اپنے حرم سے باہر دیتی ہے[120]اور یہ ببر شیرنی اپنے بچوں کو تنہا چھوڑ کر شکار میں بھی برابر حصہ لیتی ہیں۔ نومولود بچہ پیدائش کے وقت بے یارومددگار ہوتا یہ یہ اس وقت نابینا ہوتا ہے اور پیدائش کے ایک ہفتے تک اس کی آنکھیں نہیں کھلتی۔ اس کا وزن اس وقت ایک یا دو کلو کا ہوتا ہے اور ایک دو دن میں یہ رینگنا سیکھ لیتا ہے جبکہ تین ہفتوں میں یہ چلنا پھرنا شروع کردیتا ہے۔[121]ببر شیرنیاں اپنے بچوں کو پیدائش کے ایک مہینے تک مختلف مقامات میں منتقل کرتی رہتی ہیں تاکہ انھیں دوسرے شکاریوں سے بچایا جاسکے۔[120]عموما ایک ماں یا اس کا بچہ چھ سے آٹھ ہفتوں تک حرم میں نہیں آتا۔[120]لیکن بعض اوقات اس سے بھی قبل یہ حرم میں داخل ہوجاتے ہیں اس وقت جب دوسری ببر شیرنیاں بھی بچے دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر حرم کی ببر شیرنیاں اپنی تولیدی چکر کو ایک وقت میں شروع کیا کرتی ہیں تاکہ وہ ملکر ان بچوں کی پرورش کر سکیں ( جب بچہ اپنے ماں سے جڑے ابتدائی تعلق کو گزار لیتا ہے)، پھر یہ بچے حرم کی تمام شیرنیوں کا دودھ پی سکتے ہیں۔ تولیدی ایام کو ایک ہی وقت میں شروع کرنے سے تمام بچے ایک ساتھ ہی بڑے ہوتے ہیں یوں ان کے بچنے کا زیادہ امکان رہتا ہے جو اس کی دوسری افادیت ہے۔ اگر کسی ببر شیرنی کے بچے جنم دینے کے کچھ ماہ بعد ایک اور ببر شیرنی بچے جنم دے دیتی ہے تو پہلی ببر شیرنی کے بچے زیادہ جلدی بڑے ہوجاتے ہیں اس طرح وہ بعد میں پیدا ہونے والے چھوٹے بچوں کی نسبت ��یادہ خوراک کسب کرتے ہیں یوں بعد والے بہت چھوٹے بچے بھوک سے مرجاتے ہیں۔بھوک کے علاوہ ان چھوٹے بچوں کی زندگی کو لگربگڑ، لومڑیوں، سانپوں، تیندوں اور عقابوں سے بھی خطرہ رہتا ہے۔ حتی کہ اگر جنگلی بھینسوں کو بھی ان نوزائیدہ بچوں کی بو کسی جھاڑی سے آئے تو وہ وہاں ببر شیرنی کے آنے سے قبل زبرست بھگدڑ مچا کر ان بچوں کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیز اگر کوئی غیر ببر شیر حرم میں داخل ہوکر پہلے سے موجود ببر شیر کوہلاک کر کے اس حرم پر قبضہ جماتا ہے تو وہ بھی ان بچوں کو ہلاک کردیتا ہے[122]کیونکہ بچوں کو ہلاک کیے بنا مادائیں اپنی زرخیزی دوبارہ نہیں لاسکتیں اور نا ہی وہ نئے ببر شیر کی جانب رغبت دکھاتی ہیں۔ بہر حال تمام نومولود بچوں میں سے محض 20 فیصد ہی دوسال کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔[123]جب ان بچوں کو نئے نئے طور پر حرم میں لایا جاتا ہے تو وہ اوائل میں اپنی ماں کے سوا کسی ببر شیر کا سامنا کرتے ہوئے گبھراتے ہیں۔ لیکن وہ جلد ہی حرم میں گھل مل جاتے ہیں اور وہکھیل کودمیں بالغوں سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن ببر شیرنیوں کی اولاد ہوتی ہیں وہ بے اولاد ببر شیرنیوں کی نسبت دیگر ببر شیرنیوں کے بچوں کو زیادہ برداشت کرتی ہیں۔ ببر شیر کس حد تک بچوں کو برداشت کرتے ہیں یہ بات مختلف ہوتی ہیں بعض ان بچوں کو اپنے یال اور دم سے کھیلنے دیتے ہیں جبکہ بعض انھیں دور کر دیتے ہیں۔[124]بچے چھ سے سات ماہ میں دودھ پینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور یہ بچے 3 تا 4 سال میں دوسرے کسی حرم کے ببر شیروں کو وہاں سے نکالنے کی صلاحیت پا لیتے ہیں۔ وہ اگر اپنے حرم کا دفاع کرتے ہوئے سخت زخمی نا ہوں تو دس سے 15 سال کی عمر میں بوڑھے ہونے لگتے ہیں۔[125]ایک دفعہ اگر حرم کوئی ہتھیا لے تو وہ پھر نئے حرم کو حاصل نہیں کر پاتا۔ اس صورت میں ان کے بچوں کی جانب سے حرم پر قبضہ کرنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر وہ نئے بچے پیدا کرنے میں میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انھیں یہاں سے بے دخل ہونے سے پہلے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے جو بلوغت تک پہنچتی ہے۔ مادائیں نئے ببر شیروں کے سامنے اپنے بچوں کا دفاع کرتی ہیں لیکن وہ اس میں کم ہی کامیاب ہوتی ہیں۔ وہ عام طور پر دو سال سے چھوٹے تمام بچوں کو مارڈالتا ہے۔ چونکہ مادائیں نروں کے مقابلے میں ہلکی اور کمزور ہوتی ہیں لہذا تین مادائیں مل کر ہی ببر شیر کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔[122]عام خیالات کے برعکس صرف ببر شیروں کو ہی حرم سے بے دخل نہیں کیا جاتا بلکہ مادہ بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے لیکن اکثر مادائیں پیدائش والے حرم میں ہی رہتی ہیں۔جب کبھی نیا ببر شیر کسی حرم پر قبضہ کرتا ہے تو نیم بالغ مادائیں یا نر بھی اس سے بے دخل کیے جا سکتے ہیں[126]تنہا زندگی گزارنا ماداوں کے لیے سخت ترین ہوتا ہے۔ تنہا مادائیں اپنے بچوں کو بلوغت تک پہنچانے میں اکثر ناکام ہوتی ہیں کیونکہ انھیں حرم کا تحفظ میسر نہیں ہوتا۔کینیڈاکے محقق بروس بیگ مہیل نے یہ بات دیکھی ہے کہ دونوں نر اور مادہ ببر شیرنیاںہم جنسیمیں بھی مبتلا ہو سکتی ہیں۔ ببر شیر اجتماعی طور پر بھی ہم جنسی اور اس طرح کے افعال کرتے دیکھے گئے ہیں۔ نر ببر شیر آپس میں ملاپ سے قبل ایک دوسرے کے سر رگڑتے اور ایک دوسرے کے گرد گھومتے ہیں۔[127]اگرچہ قدرتی طور پر ببرشیروں کا کوئی شکاری وجود نہیں رکھتا لیکن انسان اور دیگر ببر شیر اس کے موت کا زیادہ سبب بنتے ہیں۔[128]ببر شیر اپنے ہی نوع سے کی گئی لڑائی میں زبردست زخم کھاتے ہیں اور یہ لڑائی علاقوں پر یا حرم کے اپنے ارکان کے مابین بھی ہوتی ہے۔[129]ببر شیر کے رینگنے والے بچے ہاتھیوں، لگڑبگڑ اور بھینسوں کا شکار بنتے ہیں۔[130]بہت سے ببر شیروں کے کان اور گردن پر خون چوسنے والے کیڑے چپکے رہتے ہیں۔[131][132]ٹیم ورم کے کیڑے اکثر اوقات ببر شیر کی آنتوں میں ملتے ہیں جو ببر شیر کے جسم میں اینٹی لوپ کا گوشت کھانے سے داخل ہوتے ہیں۔[133]نگورنگورو پارک میں موجود ببر شیر 1962ء میں ایک قسم کی مکھیوں سے بے حد پریشان رہے یہ مکھیاں ان کی جلد پر بیٹھ کر خون چوستی ہیں جس سے ان کی کھال کمزور سی ہوجاتی ہے اور خون کے دھبے سے بن جاتے ہیں۔ اس وقت کے ببر شیر ان سے بچنے کے لیے درختوں پر چڑھتے تھے یا لگڑ بگڑ کے بلوں میں گھس بیٹھتے تھے اس طرح بہت سے ببر شیر یا ہلاک ہوئے یا انھوں نے ہجرت کر لی اور وہاں کی آبادی 70 سے 15 تک رہ گئی۔[134]2001 میں اس طرح کے مکھیوں کے نمودار ہونے کی وجہ سے چھ ببر شیروں کی اموات ہوئی۔[135]تحویل میں موجود ببر شیروں کو کینین ڈسٹمپر وائرس، ایف آئی وی اور ایف آئی پی جیسے وائرسوں سے زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔ سی ڈی وائرس کتوں اور دیگر گوشت خوروں سے پھیلتی ہے۔ اس بیماری سے عصبیاتی بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں 1994ء میں ایسی وباسرینگیٹی نیشنل پارکمیں سامنے آئی جس سے کئی ببر شیر نمونیا کی ایک خاص بیماری سے مر گئے۔[136]ایف آئی وی اور ایڈز ایک جیسے ہیں لیکن یہ ببر شیروں پر سخت اثر نہیں کرتے لیکن یہ بیماری ان سے پالتو بلیوں میں منتقل ہو سکتی ہیں۔ یہ بیماری خاص علاقے کے ببر شیروں کو ہی متاثر کرتی ہے جبکہ یہ ایشیائی اور نمیبیائی نوع میں نہیں ملتی۔[20]آرام کے وقت ببر شیروں کے سماجی افعال زیادہ دیکھے جاتے ہیں اور وہ مختلف حرکتوں سے اس کا اظہار کرتے ہیں۔[137][138][139]سب سے پر امن طریقہ سر سے سر ملانے کا ہے یا وہ دوسروں کو زبان سے چاٹتے ہیں۔ زبان سے سر گردن اور چہروں کو چاٹنا ایک طرح کیتسلیماتمیں سے ہے یہ اس وقت دیکھا جاتا ہے جب بچھڑا جانور یا لڑائی پر آنے والے جانور کا سامنا ہوتاہے۔[140]نر ببر شیر ایک دوسرے سے جبکہ ببر شیرنیا ں اور بچے ایک دوسرے سے سر رگڑتے ہیں۔ سر اور گردن جیسی جگہوں کو چاٹنا شاید ایک بہت خوشگوار اثر چھوڑتا ہے کیونکہ ببر شیر انفرادی طور سے ایسا نہیں کرسکتے۔[141]ببر شیر کے چہروں اور جسمانی اعضاء پر ہلکے احساسات ظاہری اشاروں کے طور پر نظر آتے ہیں۔[142]ببر شیر کی دھاڑ بھی رابطوں میں اہمیت رکھتی ہے اور اس آواز کی اونچائی اور ہلکی آواز کے خاص اشارے ہوتے ہیں۔ ببر شیروں کی آوازوں میں دھاڑ، کھانسنا، غرانا سرسراہٹ شامل ہیں۔ ببر شیر کی دھاڑ خاص تناسب میں ہوتی ہیں وہ لمبے دھاڑ سے مختصر دھاڑ کی طرف جاتے ہیں۔[143][144]وہ زیادہ تر رات کو دھاڑتے ہیں اور ان کی آواز 8 کلومیٹر تک سنائی دیتی ہے جو جانور کی موجودگی کی خبر دیتے ہیں۔[145]ببر شیر کی دھاڑ تمام بڑے بلیوں میں سب سے بلند ہوتی ہے۔افریقہ میں ببر شیر سوانا اور گھاس کے میدانوں میں رہتے ہیں جہاں کہیں کہیں اکیشیا کے درخت سائے کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔بھارتمیں وہ خشک سوانا کے جنگلات اور بہت خشک جنگلات کو مسکن بناتے ہیں۔[148]ببر شیروں کا اصل مسکن یوریشیا کے جنوبی علاقے جو یونان سے بھارت تک پھیلے ہوئے تھے اور تمام افریقی علاقے بشمولصحاراکے علاقے سوائے وسطی بارانی جنگلات کے پر مشتمل تھا۔ہیرودوتنے یونان میں 480 ق م میں ان کی موجودگی کا لکھا ہے۔ ایرانی شہنشاہخشایارشا اولکے سامان بردار اونٹوں پر ایک دفعہ انھوں نے دھاوا بول دیا تھا جب وہفارسکے کسی علاقے سے گذر رہے تھے۔ارسطونے 300 ق م میں انھیں نایاب لکھا ہے[149]اور 100ء تک یہ ناپید ہو گئے تھے۔ ایشیائی ببر شیرقفقازکے علاقوں میںدسویں صدیتک باقی رہے۔[150]فلسطینکے علاقوں میں ببر شیروں کی موجودگی قرون وسطی میں ختم ہو گئی اور باقی ایشیا میںاٹھارویں صدیمیںآتشی اسلحہنے ان کے خاتمے کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا۔انیسویں صدیکے اواخر اوربیسویں صدیکے اوائل میں انھیںشمالی افریقہاورجنوب مغربی ایشیاسے ختم کر دیا گیا۔انیسویں صدیکے شروع ہوتے ہی ببر شیرترکیسے اپنا وجود کھو بیٹھے اور اسی دوران میں شمالی ہندوستان سے بھی وہ غائب ہو گئے،[20][151]جبکہ ایرانی ایشیائی ببر شیر 1941ء میں(شیرازاور جہرم کے درمیان) دیکھا گیا، اگرچہ ببر شیرنی کا مردہ جسمکارون دریاکے کنارے 1944ء میں دیکھا گیا۔ اس کے بعد سے ایران میں موجودگی کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔[86]اب یہ ذیلی نوع شمال مغربی بھارت میں گیر جنگلات تک محدود ہیں۔[34]تقریباً 500 ببر شیر 1412 مربع کلومیٹر کے علاقے میں رہتے ہیں اور یہی جنگلات کا زیادہ تر رقبہ ہے۔ان کی تعداد 180 سے 523 تک بڑھی ہے جس کی وجہ ان کے قدرتی شکار کو دوبارہ منظر پر لانے میں کامیابی ہے۔[35][152]آجافریقاکے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں پائے جانے ببر شیروں کی آبادیبیسویں صدیکے وسط سے 50 فیصد کم ہو چکی ہے۔[4][154][155]2002–2004 کے کیے گئے سروے میں وہاں ان کی تعداد 16500 سے 47000 کے قریب تھی جبکہ 1950ء میں ان کی آبادی ایک لاکھ سے چار لاکھ ہوا کرتی تھی۔ اس کمی کی بنیادی وجہ انسانی مداخلت اور بیماریاں ہیں۔[4][156][157]مسکن سے علیحدگی اور انسان سے سامنا ہونا ان کی کمی کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ہیں۔ باقی ماندہ انواع جغرافیائی طور سے الگ تھلگ ہیں جس کے سبب اختلاط نا ہونے سے جینیاتی تنوع کم ہوتی ہے۔ اسی لیےبین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرتنے اسے خطرے سے دوچار فہرست میں ڈالا ہے جبکہ ایشیائی ببر شیروں کو انھوں نے اس سے زیادہ خطرے والے زمرے میں رکھا ہے۔[158]مغربی افریقی ببر شیر اور وسطی افریقی نوع جغرافیائی طور پر الگ الگ ہیں جس کی وجہ سے ان میں انفرادی طور پر اختلاط کا امکان کم ہی رہتا ہے۔ مغربی افریقہ میں 2002ء-2004ء والے سروے میں ببر شیروں کی تعداد 850-1160 بتائی گئی۔ مغربی افریقی ببر شیروں کی الگ الگ سب سے بڑی آبادی کے معاملے پر اختلاف ہے ؛ برکینا فاسو ارلئ سنگو کے ماحولیاتی نظام میں ان کی تعداد 100 سے 400 بتائی جاتی ہے۔[4]ایک سروے شمالی مغربی افریقہ کےوازا نیشنل پارککے بارے میں ان کی تعداد 14 تا 21 بتاتا ہے۔[159]دونوں افریقی اور ایشیائی ببر شیروں کی تحفظ کے لیے مزید بہتر اقدامات کی ضرورت ہے جن میںنیشنل پارکوںمیں بہتری جیسی چیزیں شامل ہیں۔ ان بہترین محفوظ پناہ گاہوں میںنمیبیاکاایٹوشا نیشنل پارک،تنزانیہکاسرنگیٹی نیشنل پارکاورجنوبی افریقاکاکروگر نیشنل پارکمشہور ہیں۔ اسی طرح ایساو ببر شیروں کی بقا کے لیے سمبرو نیشنل ریسرو، بفیلو نیشنل ریسرو اور سہبا نیشنل ریسرو شمالی کینیا میں فعال ہیں۔[160]ان علاقوں کے علاوہ دیگر مقامات میں ببر شیروں اور انسانی آبادیوں میں سامنا ہونے کی اطلاعات ہیں جس سے ببر شیروں کی آبادی کو خطرات ہیں۔[161]بھارتمیں ایشیائی ببر شیروں کی آخری پناہ گاہگیر فارسٹ نیشنل پارکہے جہاں1974ءمیں محض 180 ببر شیر تھے لیکن2010ءمیں یہ تعداد بڑھ کر 400 تک جا پہنچی۔[35]افریقامیں انسانی آبادی ببر شیروں کے علاقوں کے آس پاس ہی رہی ہیں لہذا انھیں جان و مال کا خطرہ ضرور رہتا ہے۔[162]ایشیائی ببر شیر��ں کو مدھیا پردیش کے کونو سینکیوری میں دوبارہ متعارف کروانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اس منصوبہ کے لیے ضروری ہے کہ ان ببر شیروں کو دیگر انواع سے اختلاط نا دیا جائے تاکہ کہ ان کی الگ نسلی پہچان قائم رہے۔[163]بربری ببر شیروں کو ایام رفتہ میںچڑیا گھروالا جانور کہا جاتا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ چڑیا گھروں کے اکثر ببر شیر ان کی نسل میں سے تھے۔ کینٹ کے علاقے میں موجود برطانوی چڑیا گھر کے ببر شیر کبھی مراکشی سلطان کی تحویل میں ہوتے تھے۔[164]ادیس ابابا کی چڑیا گھر کے گیارہ ببر شیر بھی اسی نسل کے ہیں جو وہاں کے بادشاہ کی تحویل سے لیے گئے تھے۔جامعہ آکسفورڈایک ایسے منصوبے پر کام کر رہی ہے جس سے ان بربری ببر شیروں کی نسل بڑھا کر وہ دوبارہ ان کے قدرتی ماحول میں چھوڑ دیے جائیں گے یہ انھیں مراکش کی اٹلس پہاڑیوں میں چھوڑیں گے۔[62]ببر شیروں کی تعداد میں کمی کی دریافت کے بعد بہت ساری تنظیمیں انھیں بچانے کے لیے مشترکہ اور مربوط کام کر رہی ہیں۔ یہ نوع ان انواع میں شامل ہیں جنھیں سپیشیس سروائیول اینڈ ایکویریم کے منصوبہ بقاء کے لیے چنا گیا ہے۔ یہ منصوبہ1982ءمیں ایشیائی ببر شیروں کے لیے شروع کیا تھا لیکن اس میں اس وقت رکاوٹ آئی جب انھیں معلوم ہوا کہ امریکی چڑیا گھروں کے ببر شیر حقیقتا خالص ایشیائی ببر شیر نہیں ہیں بلکہ ان کی افریقی ببر شیروں سے اختلاط ہو چکی ہے۔افریقی ببر شیروں کے لیے یہ منصوبہ1993ءمیں شروع ہوا لیکن اس میں کئی مشکلات حائل ہیں جیسا کہ بہت سے ببر شیروں کی نسل میں خالصیت نہ ہونا ہے۔[20]ببر شیر چڑیا گھروں میں ایک خاص مقام رکھنے والے جانوروں میں شامل ہیں جن میںہاتھی،گینڈےاور دیگرگربہ کبریشامل ہیں لہذا چڑیا گھروں کی انتظامیاں انھیں اپنی چڑیا گھر میں رکھنے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔[165]ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر کے چڑیا گھروں میں 1000 کے قریب افریقی اور 100 کے قریب ایشیائی ببر شیر موجود ہیں[166]۔ انھیں ایک سفارتی نوع کے طور پرتعلیم،سیاحتاور حفاظت کے لیے رکھا جاتا ہے۔ تحویل میں موجود ببر شیر 20 سال تک جی لیتے ہیں ہوئی کے چڑیا گھر میں ایک ببر شیر نے 22 سال کی عمر میں2007ءمیں وفات پائی۔[167][168][169]1986 میں پیدا ہونے والی اس کی بہنیں بھی 2007ء تک زندہ رہیں۔ ملاپ کرواتے وقت دیگر نوع کی جانوروں سے اجتناب برتنا چاہیے تاکہ انھیں ان کی اصل حالت میں برقرار رکھا جاسکے۔ بہرحال ایشیائی اور افریقی ببر شیروں کا ملاپ کیا جانا ایک مشاہدے کی بات ہے۔قدیم مصر میںلیونٹوپولساورتل بستہشہر کے مندروں میں سے ایک مندرسخمتببر شیرنی دیوتا اورباستتمندر کے بیٹے کے نام سے منسوب تھا،ماحسجو ببر شیر کا شہزادہ تھا کے مندر میں زندہ شیررکھے جاتے تھے جنھیں وہاں گھومنے کی آزادی تھی۔ یونانیوں نے بھی اس شہر کا تاریخی طور پر ذکر کیا ہے اور اسے دیار ببر شیر لکھا ہے۔اشوریہ850ق م میں بھی انھیں پالتے تھے[149]اورسکندر اعظمکے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھیں شمالی ہندستان کے راجا نے سدھائے ہوئے ببر شیر تحفے میں دئے تھے۔[170]اور رومی دور میں باشاہان انھیں پہلوانوں سے لڑائی یا لوگوں کو سزا دینے کے لیے رکھتے تھے۔ روم کے نامور بادشاہ جیسےپومپیاورجولیس سیزرنے ببر شیروں کے قتل عام کا حکم بھی صادر کیا تھا۔[171]مشرق میں ہندوستان کے لوگ ببر شیروں کو سدھاتے تھے جبکہمارکو پولوکے مطابققبلائی خاناپنے پاس انھیں رکھتا تھا۔[172]13سترہویں صدیمیں یورپیوں کے ہاں سب سے پہلے نوابوں اور حکمرانوں کے لیے چڑیا گھر ہوتے تھے جنھیں سترہویں صدی میں سراگلیوس کہا جانے لگا۔نشاۃ ثانیہکے دور میں یہ چیز فرانس، اطالیہ اور پھر سارے یورپ میں پھیل گئی۔[173]اگرچہ انگلستان میں ایسی روایت سامنے نہیں آئی لیکن باداشاہ کنگ جوہن نےتیرہویں صدیمیں اسےٹاور آف لندنمیں پال رکھا تھا،[174][175]غالبا انگلستان میں ببر شیر رکھنا 1125ء میں ہنری اول نے شروع کیا تھا اور اس کے لیے جگہ آکسفرڈ کے مقام پر تھی۔[176]سرگیلو اس دور میں وہاں طاقت اور دولت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔[177]اسی دور میں ان تماشوں میں بڑی بلیوں کو دیگر بڑے جانور جیسے ہاتھی اور گھریلو پالتو جانوروں وغیرہ سے جنگ کروائی جاتی تھی۔ ان نمائشوں کو انسان کا قدرت پر فتح کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ سنہ 1682ء میں ایک دفعہ ""قدرت"" کو ایک گائے کے ہاتھوں شکست ہوئی جس نے تماشائیوں کو حیران کر دیا۔ یہ رسمانیسویں صدیتک جاری رہی پھر اس کو برا سمجھا جانے لگا۔ٹور آف لندن میں موجود ببر شیر وہاں کے بادشاہ پالتے تھے یا انھیں یہ کسی کی جانب سے ہدیہ کیے جاتے تھے۔[178]ریکارڈ بتاتے ہیں کہسترہویں صدیمیں انھیں وہاں بری حالت میں رکھا جاتا تھا جبکہفلورنسمیں ان دنوں ان کے لیے زیادہ بہتری تھی۔اٹھارویں صدیمیں چڑیا گھر کی یہ ابتدائی قسم عام لوگوں کے لیے بھی کھول دی گئی اور اس میں داخل ہونے کا کرایہ 3 پینس رکھا گیا یا لوگ اس کے بدلے کتے یا بلی دیتے تھے جو چڑیا گھر والے ببر شیر کو کھلاتے۔[179]اسے اس وقت مینگری کہتے تھے اورانیسویں صدیمیں اس کے مقابل ایک اور نمائش ایکشٹر اکسچین شروع ہوئی۔[180]ٹاور مینگری ولیم چہارم، مملکت متحدہنے بند کردی[179]اور اس کے ببر شیروں کو انھوں نے 27 اپریل 1828ء میں چڑیا گھر منتقل کر دیا۔[181]انیسویں صدیکے نوآبادیاتی دور میں جانوروں کی تجارت بھی شروع ہوئی۔ اس دور میں ببر شیر عام اور سستے شمار ہوتے تھے۔ البتہ شیروں کے مقابلے میں انھیں زیادہ بہتر چیز سے بدلا جا سکتا تھا اور بڑے ہونے کے باوجود سستے تھے اور دیگر بڑے جانور جیسے زرافے اور گینڈوں کے مقابلے انھیں سفر میں لے جانا آسان کام تھا۔[182]دوسرے جانوروں کی طرح انھیں بھی سامان تجارت سمجھ کر استعمال کیاجاتا رہا اور سفر میں ان سے بے رحمانہ سلوک کیا جاتا جن سے انھیں سخت نقصان پہنچتا۔[183]اس دور میں ان ببر شکاریوں کو بڑے بہادر کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔[184]سیاح اور شکاری اس دور میں ایک فلسفہمانویتکا پرچار کیا کرتے جس سے وہ جانوروں کو اچھے اور برے زمرے میں بانٹا کرتے اور اپنی مہم کی کہانیوں میں خود کو ایکہیروکی طرح پیش کرتے۔ اس طرح بڑی بلیاں آدم خور ہونے کے ناطے زیادہ نفرت کے نتائج کو بھگتی تھیں۔[185]ببر شیروں کو لندن کے چڑیا گھر میں 1870ء تک انتہائی بری حالت میں رکھا جاتا تھا لیکن اس کے بعد ان کے لیے الگ کمرے بنائے جانے لگے۔ پھر اس میں بہتریبیسویں صدیمیں آنے لگی جبکارل ہجن بکنے پنجروں کی بجائے چڑیا گھروں میں قدرتی ماحول سے مماثلت رکھنے والے مسکن بنائے۔ نیز انھوں نےسڈنیاورمیلبورنچڑیا گھروں میں بھیبیسویں صدیکے اوائل میں اسی طرح کی تبدیلی کی۔ ان کی پیش کی گئی تبدیلی 1960ی تک بہت سارے چڑیا گھروں میں موجود رہی۔[186]بعد کے عشروں میں چڑیا گھروں کی صورتیں بالکل بدل گئی اب یہ چڑیا گھر اصل قدرتی ماحول کے نہایت قریب ہو گئے ہیں نیز تماشائی بھی بنا کسی خطرے کے بڑے جانوروں کے بہت پاس جا سکتے ہیں جو پہلے کبھی ممکن نہ ہو سکا تھا۔[20]۔اب ببر شیروں کے تحویلی جگہوں کو قدرتی رنگ دیا گیا ہے جہاں دھوپ ہوا، آرام اور سہولت ��ور ان کی ضروریات کا حد درجہ خیال رکھا جاتا ہے جہاں گھومنے کے لیے ایک وسیع جگہ مختص ہوتی ہے۔ اب ان ببر شیروں کو ذاتی طور پر رکھنا بھی ایک عام بات ہو چکی ہے اس حوالے سے ایک جوڑاجارج ایڈم سناور ان کی اہلیہجوئے ایڈمسنجن کی پالتو شیرنیایلسانے ان کے خاندانی فرد کی حیثیت لے لی تھی کافی مشہور ہوا۔ ان کی اہلیہ نے اس بارے میں کافی کتابیں اور فلمیں بنائی ہیں۔ببر شیر کا دیگر جانور مثلاً کتا وغیرہ کے ساتھ مقابلہ کروایا جاتا تھا۔ یہ خونی کھیل زمانہ قدیم سے ہی چلے آئے ہیں۔اس پر 1800ء میںویانااور 1835ء میں انگلستان میں مکمل قدغن لگائی گئی۔[187][188]ببر شیروں کو سدھانے سے مراد انھیں لطف طبع کے لیےسرکسیا انفرادی طور پر چیزیں سکھانا ہیں یورپ میں اس حوالے سے سیگفرائڈ اور روئے مشہور تھے۔ دیگر بڑی بلیوں جیسے چیتے، تیندوئے وغیرہ کے ساتھ بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ یورپ میں اس کی ابتداانیسویں صدیمیں فرانسیسی شخصہنری مارٹناور امریکیآئزک وان امبرگکے ہاتھوں ہوئی جو اس کام کے لیے کئی جگہوں کا دورہ کیا کرتے تھے۔ وان ایمبرگ نے انگلستان میں اپنے دورے پر 1838ء میں ملکہ برطانیہ کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مارٹن نے اپنے سرکس کا نام لیس لائن ڈی میسور رکھا (شیر میسور) اسی سے امبرگ نے بھی اسی سے آئیڈیا لیا۔ ان سرکسوں میں سب سے خاص بات ان درندوں کی سواری تھی جو انسان کی حیوان پر فوقیت کو ظاہر کرتی تھی[189]لیکن اس نےبیسویں صدیکے ابتدا میں سینیما کے ذریعے حقیقتا لوگوں کی توجہ کھینچ لی۔ سدھانے والے شخص کے کمال کی معراج یہ تھی کہ وہ اپنا سرببر شیر کے منہ میں ڈال دیتا تھا۔[190]جنگلی جانوروں کو پکڑ کر سرکس کے لیے استعمال کیا جانا تقریباً ہر ملک میں ممنوع ہے اس کے باوجود آج بھی ایسے واقعات سامنے آمنے آتے ہیں جیسے جنوبی امریکی ممالککولمبیامیں سنہ 2013ء اورپیرومیں سنہ 2011ء میں جنگلی جانوروں کے استعمال پر عائد پابندیوں کے نتیجے میں اپریل 2016ء میں سرکسوں سے بازیاب کروائے گئے ان میں ایک سرکس نے ببرشیر خود فراہم کیے تھے جبکہ دیگرچھاپہ مارکارروائیوں کے دوران میں تحویل میں لیے گئے۔ جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی امریکی تنظیم اینیمل ڈیفنڈرز انٹرنیشنل (اے ڈی آئی) نے یہ اقدام اٹھایا تھا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ تقریباً تمام شیر دانت اور پنجوں کے ناخن سے محروم ہیں۔ یہ شیر جنگل میں زیادہ عرصہ زندہ نہیں سکتے۔
+9 ببرشیروں کو کارگو طیارے کے ذریعے کولمبیا کے دار الحکومتبوگوٹاسے پیرو کے دار الحکومتلیماپہنچایا گیا جہاں سے مزید 24 شیروں کو لے کرجوہانسبرگپہنچایا گیا ہے۔ یہ 31 ببرشیرجنوبی افریقاپہنچ گئے ہیں جہاں انھیں ایمویا بگ کیٹ سینچوری میں منتقل کیا جائے گا۔ جو 5000 ہیکٹر پر پھیلی ہوئی نجی زمین پر واقع ایک محفوظ پناہ گاہ ہے اور وہاں پہلے سے بازیاب کروائے گئے چھ دیگر ببرشیر اور دو چیتے رہ رہے ہیں، جہاں انھیں سہولیات میسر ہوں گی۔[191]اگرچہ اب تک انسان سے تعلق کے صلے میں ببر شیر نے اپنے علاقے سے منتقلی یا فقظ اکثر اپنی جان ہی گنوائی ہے۔ لیکن ایک واقعہ جو 9 جون، 2005ء کو پیش آیا ذرا مختلف زاویہ رکھتا ہے ہوا یوں کہ ایتھوپیامیں ایک 12 سالہ بچی کو تین ببر شیروں نے بنا کوئی نقصان پہنچائے اس کی مدد اور حفاظت کی۔ یہ واقعہ جو مقامی پولیس افسر نے بتایا اسے بعد میں وہاں کے اعلیٰ سرکاری اہلکار نے بھی بیان کیا۔ اس خبر کے مطابق اس بچی (جس کا نام معلوم نہ ہوا) کو تین لڑکے اغوا کر کے جنگل لے گئے تھے جس کی وجہ ا�� بچی کو شادی پر رضامند کرنا تھا (ایسی رسمایتھوپیامیں موجود ہے) لیکن بچی اس پر رضامند نہ تھی پھر کہا جاتا ہے کہ تین ببر شیروں نے ان اغواکاروں کو وہاں سے بھگا دیا اور حکام کے اس بچی تک پہنچنے تک اس بچی کی حفاظت کی۔ اہلکاروں نے اس بچی کوادیس اباباسے 350 کلومیٹر دور بیٹا گینٹ کے علاقے میں پایا۔یہ بات نامعلوم ہے کہ کیوں ببر شیروں نے ایسا کیا کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ شاید بچی کی چیخیں ببر شیروں کے بچوں کی آواز سے مماثلت رکھتی تھیں جس کے سبب انھوں نے مدد کی۔[192]بہرحال یہ واقعی جنگلی حیات کے ماہرین کے نزدیک ایک متنازع فیہ ہے۔[193]ہزاروں سال سےیورپ،ایشیااورافریقامیں مستعمل انسانی ثقافتوں میں ببر شیر ایک معروف ترین نشان کے طور پر ابھرا ہے۔ باوجود ببر شیر کی آدم خوری کے چرچے عام ہونے کے اس کے متعلق انسانوں میں مثبت تاثر بھی اس کی طاقت اوربہادریکے حوالے سے موجود ہے۔[194]اسے عام طور پر ""جنگل کا بادشاہ"" یا ""درندوں کا سردار"" کہا جاتا ہے پس اس کی وجہ شہرت بہادری، وقار اور شاہانہ انداز کے حوالے سے قائم و دائم ہے۔ قدیم یونانی لکھاریایسپنےچھٹی صدی ق ممیں بھی اس سے متعلق کہانیاں لکھی ہیں۔[195]ببر شیر کی تصاویربالائی پیلیولیتھکدور سے نظر آ رہی ہیں۔ انسانی دھڑ کے ساتھ ببر شیر کے سر کی ایک نہایت قدیم تصویرجرمنیکے ایک غار میں ملی ہے جو ملک کے جنوب مغربی علاقے سوبین الب میں موجود ہے۔ اوریگناشئین ثقافتوں سے ملنے والے مجسمے 32 ہزار سال قدیمی ہیں[196]لیکن اس کے متعلق امکان ہے کہ یہ 40 ہزار سال پرانے ہو سکتے ہیں۔[19]یہ مجسمہ انسانی خصوصیات کو اس نوع کے ساتھ مشترک دیکھاتا ہے جو کسی دیوتا کی بھی ہو سکتی ہے۔ 15 ہزار سال قبل دور کے ایک غار کی دیواروں پر ببر شیروں کو جنسی اختلاط کرتے دیکھا یا گیا ہے۔ 1994ء میں ایک غار کاویٹ سے ایسی 32 ہزار سال پرانی دیوار پر کندہ تصاویر دیکھی گئی ہیں۔[41]۔[197]افریقامیں مختلف خطوں کے لوگوں میں ببر شیر کے متعلق خیالات مختلف ہیں۔ کچھ ثقافتوں میں ببر شیروں کو طاقت اور بادشاہت کی نشانی سمجھا جاتا ہے اور وہاں کے حکمرانوں کے عرفیت میں ببر شیر کا نام داخل ہوتا ہے۔ مثلاًسلطنت مالیکے ایک حکمران کوشیر مالیکانام دیا گیا۔ نجے جس نےمملکت وآلو(1287–1855) کی بنیاد رکھی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھیں ببرشیروں نے تعلیم دی تھی اور وہ جب اپنے لوگوں میں لوٹے تو اس تعلیم سے انھوں نے لوگوں کو متحد کیا۔ مغربی افریقی سماج میں ببر شیر کو بڑی اہمیت حاصل ہے وہاں کے لوگ اپنا شجرہ نسب جانوروں سے جوڑتے ہیں جن میں سب سے اوپر ببر شیر کو رکھا جاتا ہے۔ مغربی و مشرقی افریقی علاقوں کے بعض حصوں میں ببر شیر کو ایک روحانی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس سے صحت یاب ہونے کا عمل جوڑا جاتا ہے۔ جبکہ مشرقی حصوں کے بعض ثقافتوں میں ببر شیر کو سُستی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔[198]اور بہت سی لوک کہانیوں میں اسے ایک ایسے جانور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جسے دیگر جانور چکمہ دے جاتے ہیں۔[199]قدیممصرمیں ببر شیرنی ان کی جنگی دیوی شمار ہوتی تھی اور ان دیویوں میںباستت،مافدت،منهیت،پکهت،سخمت،تفنوتاورابوالہولشامل تھیں۔[194]نیمیائی ببر شیر قدیم روم و یونان میں علوم فلکیات کی علامت تھی زوڈیک (آسمان کا ایک خطہ) کی علامت بھی ببر شیر تھی اور دیومالائی داستانوں میں ہرو ہیراکلیس اس کی کھال اٹھائے رکھتا تھا۔[200]قدیم بین النہرین میں (نیزسمیریاوربابلتک) ببر کو بادشاہت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔[201]��دیم بابلی ببر شیر موٹف کوبابلکے گلی کوچے کی دیواروں پر بنایا جاتا تھا اسے وہاں کا چالاک چال ڈھال والا ببر شیرکہا جاتا ہے۔ اسی میں ہیدانیال علیہ السلامکو ببر شیروں کے زندان میں ڈالا گیا تھا۔[202]عرب علاقوں میں بھی ببر شیر کو ثقافتی طور پر بہادری کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور پرانے زمانوں میں اس کے شکاری کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا نیز وہ اپنے بہادر پہلوانوں کو شیر کے ناموں کے القاب دیا کرتے جیسے خلیفہ چہارمعلی بن ابی طالبکو اسد اللہ یعنی شیرِِخدا کے نامکی وجہ سے جانا جاتا جس کی وجہ جنگوں میں ان کی بہادری تھی۔ علامہ دمیری جو اپنے دور کے ایک عرب ماہر حیوانات تھے نے ایک کتابحیاۃ الحیوانلکھی جس میں کئی جانوروں کے عادات خصائل اور ان کے طبی فوائد لکھے ہیں اس میں انھوں نے ببر شیر کے متعلق لکھا ہے کہ عربی میں ببر شیر کے لیے 6 سو کے قریب نام ہیں نیز انھوں نے ایک غلط لیکن عجیب بات لکھی ہے کہ ببر شیر اپنی نسل منہ سے گوشت کا لوتھڑا باہر زمین پر پھینکتا ہے جس سے وہ لوتھڑا ایک نئے ببر شیر کے بچے میں بدل جاتا ہے اس کے ساتھ ہی انھوں نے ببر شیر کے گوشت و خون کے طبی فوائد بتائے ہیں۔تلمودکی کتابکولینمیں ایک پادری جیشوا بن ہانیا کا لکھا ہے جس نے شہنشاہ ہڈرین کو ایک ایسے دیوہیکل ببر شیر کا بتا یا جس کے دونوں کانوں کے درمیان میں موجود فاصلہ 9 کیوبٹ (تقریباً 18 فٹ) تھا۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ نے پادری سے اسے بلانے کا کہا۔ پادری نے کئی حیلوں کے بعد رضامندی ظاہر کی۔رومسے 400 گز کے فاصلے پر جب یہ ببر شیر دھاڑا تو کہتے ہیں کہ وہاں کی تمام حاملہ خواتین اپنے حمل گرا بیٹھیں نیزرومکی دیواریں گر گئیں۔ جب یہ 300 گز کے فاصلے سے دھاڑا تو رومی مردوں کے اگلے دانت گر گئے اور بادشاہ سلامت بھی اپنے تخت سے گر گئے۔ اب اس نے پادری سے التجا کی کہ وہ اسے دوبارہ لوٹا دے پادری نے دعا کی اور وہ واپس لوٹ گیا۔ہندو متکی کتابپُرانمیں ایک مخلوقناراسمہاکا ذکر ہے جو آدھا انسان اور آدھا ببر شیر ہے[203]جووشنوکےاوتارمیں سے ہے اسے ان کے مرید لائق عبادت خیال کرتے ہیں[204]اور کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ایک مرید پراہلا ڈا کو ان کے جابر والد سے بچایا تھا جو ایک شیطانی بادشاہہرنیاکشیہوتھا۔ لفظسنگھایک قدیم مستعمل ویدکسنسکرتنام ہے جس کے معانی ببرشیر کے ہیں اس کا استعمال 2000 سال پرانا ہے۔ یہ لفظ ہندوراجپوتعسکری قبیلے استعمال کیا کرتے تھے۔1699ءمیں جبسکھ متکا آغاز ہوا تو سکھوں نے اپنے روحانی پیشواگرو گوبند سنگھکی فرمائش پر اسے اپنا لیا۔ بہت سارے ہندو راجپوتوں کے ساتھ ساتھ آج دنیا بھر میں دو کروڑ سکھ لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔[205]دنیا بھر کے کئی ممالک بشمول ایشیا یورپی ممالک کے قومی نشان میں ببر شیر شامل ہیں۔بھارتکاقومی نشانبھی ببر شیر ہے۔[206]ہندوستان کے مزید جنوب میں جانے پر وہاں کی اکثریتیسنہالیآبادی جوسری لنکامیں غالب اکثریت میں ہیں کا نشان بھی ببر شیر ہے۔ لفظ سنہالی کے معنی ہی ببر شیر والے لوگ ہیں ""یا وہ لوگ جن کی رگوں میں ببر شیر کا خون ہے ""[207]نیز سری لنکا کے جھنڈے میں ایک تلوار ہاتھوں میں اٹھائے ببر شیر کی تصویر موجود ہے۔،[208]ایشیائی ببر شیر کا نشان چینی فنون میں ایک عام چیز ہے۔ وہاں فنوں میں یہ علامتپانچویںیاچھٹی صدی ق ممیں استعمال ہونا شروع ہوئی لیکن اس نے شہرت اس وقت حاصل کی جب ہان حکمرانوں نے اپنے محلات کے دروازوں پر ببر شیروں کے مجسموں کو حفاظت کے لیے نصب کرنا شروع کیا۔ چونکہ چین میں ببر شیر قدرتی طور پر کبھی نہیں پائے گئے اس لیے اس دور میں بنائے جانے والے ببر شیر کسی حد تک غیر حقیقی تھے[209]لیکن بعد میں جببدھ متکے فنون نےچینکا رخ کیا تو تقریباًچھٹی صدیمیں ان روایات میں تبدیلی آئی۔ ببر شیر والا رقص چینی ثقافت کا ایک اہم جز ہے جس میں ناچنے والا ببر شیر کا بھیس بدلتا ہے اور ڈھول شور پر رقص کیا کرتا ہے۔ یہ رقص خاص کر نئے چینی سال پر کیے جاتے ہیں۔[210]جزیرہ ملکسنگا پورکا نام دومالے زبانکے حروف سنگا (ببر شیر) اور پورا (شہر یا قلعہ) سے نکلا ہے جوتمل-سنسکرتசிங்க سنگا पुर புர پورا سے بنے ہیں نیز اس لفظ کےیونانیلفظ πόλις، پولیس کی ابتدا ایک ہی ہے۔[211]مالےکے مورخین کے مطابق یہ نامچودہویں صدیکےسماٹراکے شہزادے نے اس جزیرے کو دیے تھے جنھوں نے طوفان کے بعد اس علاقے میں ساحل پر ایک مخلوق کو دیکھا تھا جو شاید ببر شیر تھا۔[212]مصر،سوڈاناورارتریامیں بسنے والے بدو قبیلےہڈنڈوالوگوں کے نام میں بھی ببر شیر کا نام ضرور شامل ہوتا ہے۔ببر شیر بہت سارےقرون وسطیکے جنگجوں کی عرفیت میں شامل تھی جیسےرچرڈ اول شیر دل، ہنری دا لائن، ولیم دی لائین اورہندوستانکےمیسورکے حکمرانسلطان ٹیپوجنہیںشیر میسورکہتے ہیں۔ ببر شیروں کوقومی علاماتمیں بے حد شامل کیا جاتا ہے جبکہ ببر شیرنی کی علامتوں کا استعال مختلف نظر آتا ہے۔[213]ببر شیروں کے نشان کو کھیلوں کی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، ان ٹیموں میںانگلستان،اسکاٹ لینڈاورسنگاپورکی مشہور کلبیں شامل ہیں ان میں انگلشپریمیر لیگکیچیلسیاوراسٹون ویلامعروف ہیں۔[214]of[215]ببر شیر آج کے ادب میں بھی موجود ہے ان میں مشہور کتابیں اسلان ان دی لائن، دی وچ اینڈ دی وارڈروب اور یہ سلسلہ وار کتابیں جیسے دی کرونیکل آد نارنیا[216]جو سی ایس نارنیا نے لکھی ہیں شامل ہیں، نیزمزاحیہ ادبمیں کورڈلی لائن ان دی ونڈر فل وزرڈ آف اوز جیسی کتابیں مشہور ہیں۔[217]متحرک فلموں میں بھی ببر شیر نے اپنی حیثیت منوائی ہے ان میں سب سے مشہور لیو دی لائن ہیں جس نےایم جی ایممیں 1920ء سے اپنی موجود گی برقرار رکھی ہوئی ہے۔[218]1960 میں کینیائی ببر شیرنینیلسا،بورن فری[219]نامی فلم میں نمودار ہوئی غالبا وہ اب تک ہونے والی سب سے مشہور ببر شیر نی ہے یہ فلم ایکحقیقی زندگیکے گرد گھومتی ہے اور یہ کہانی جس کتاب سے لی گئی اس کا عنوان بھی اسی فلم کا نام ہے۔[220]کارٹونوں میں ببر شیر کو بطور درندوں کے سردار کے طور پر پیش کیا جانا پرانی بات ہے،جاپانکی سب سے پہلاکارٹونٹی وی پروگرام جو 1950ء میں شروع ہوا کا نامکمبا ویتھ دی وائٹ لائینہے دیگر مشہور کارٹون میںکنگ لینارڈو اینڈ ہز شورٹ سبجیکٹ(1960ء) اورڈزنیکی 1994ء میں بننے والیدا لائن کنگجس میں مشہور گیتدی لائن سلیپ ٹو نائٹبھی شامل ہے پر مشتمل ہے۔[221][222]جنوبی افریقی رانڈکے 50 والے نوٹ پر ببر شیر کی تصویر موجود ہے۔سانچہ:ویکی انواع"
+707,شیر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%8C%D8%B1,"شیردور: Earlyوسط حیاتی دور– RecentP. t. corbettiP. t. jacksoniP. t. sumatraeP. t. altaicaP. t. amoyensis†P. t. virgata†P. t. balica†P. t. sondaicaTigris striatusSevertzov, 1858شیرممالیہ جماعت (mammals) اور خاندانبلیکی نسل Felidae سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندی میں انھیں باگھ اور انگلش میں Tiger کہا جاتا ہے۔ اپنے مضبوط، طاقتور اور شاندار جسم کی بدولت شیر بہترین شکاری ہوتے ہیں۔ شیر کو بطور علامت طاقتور، بہادر، ظالم اور سنگدل استعمال کیا جاتا ہے۔کرہ ارضپر یہ سب سے بھاری بلی ہے۔ شیر کا جسم چوڑا اور طاقتور ہوتا ہے۔ بالغ نر کا وزن تقریباً 200 سے 320 کلو گرام تک اور مادہ کا تقریباً 120 سے 180 کلو گرام تک ہوتا ہے۔ جسم کی لمبائی 140 سے 280 سنٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ ان کا رنگ زردی مائل ہوتا ہے اور اس میں بھوری یا سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔ جبکہ سفید شیر کا رنگ سفید اور سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔ ان میں دھاریوں کی تعداد تقریباً 100 کے لگ بھگ ہوتی ہے۔شیربنگلہ دیش،بھوٹان،کمبوڈیا،ہندوستان،انڈونیشیا،میانمار،ملائیشیا،نیپال،شمالی کوریا،تھائی لینڈ،ویت ناماورروسکے مشرقی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔شیر بہت اچھے تیراک ہوتے ہیں۔ ان کے شکار کرنے کا طریق بالکل بلی کی طرح ہے۔ یہ چھپ کر شکار کرتے ہیں۔ ان کو 50 کلو تک وزن اٹھا کر 2 میٹر اونچی رکاوٹ کو پھاندتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ زیادہ تر شیر انسانوں کا شکار نہیں کرتے۔ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ شیر اپنی بھوک مٹانے کے لیے انسانوں کا شکار کریں۔کوئی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے شیر کی کھال (یاجلد) حاصل کرنے کے لیے اس کا 1990 تک بہت شکار کیا گیا۔ یہاں تک کہ یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں یہ نسل ہمیشہ کے لیے ختم ہی نہ ہو جائے۔ اب ان کے شکار پر پابندی ہے۔ چونکہ ان کی کھال کافی قیمتی ہوتی ہے اس لیے کچھ لوگ ان کی کھال حاصل کرنے کے لیے ان کا شکار کرتے ہیں۔ مہا راجے اور اکثر رؤسا ان کھالوں کو بھاری معاوضہ ادا کر کے خریدتے ہیں۔ ان کی پشت پناہی کی ہی وجہ سے اب تک ان جانوروں کا شکار جاری ہے۔ دنیا میں کل 6,000 کے لگ بھگ ہی شیر بچے ہیں۔ اگر ان کے شکار کا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ نسل دنیا سے بالکل غائب ہو جائے گی۔شیر،ببر (شیر),چیتا،بلی"
+708,گربہ کبری,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%D8%B1%D8%A8%DB%81_%DA%A9%D8%A8%D8%B1%DB%8C,گربہ کبرییابگ کیٹسیابڑی بلیکی غیر سائنسی اصطلاح جنس پینتھرا میں موجود چار بڑے زندہ ارکان کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جنس پینتھرا کے صرف یہی چار ارکان دھاڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔[1]جسامت کے لحاظ سے ان بڑے جانوروں میںشیر،ببر شیر،جیگواراورتیندوےشامل ہیں۔ اس تعریف کو مزید وسعت دیتے ہوئے ان جانوروں میںچیتے، پیوما، بادلی تیندوے اور برفیلے چیتے بھی شامل کیے جا سکتے ہیں، اگرچہ وہ دھاڑنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔clouded leopard کو ارتقائی طور پر چھوٹے کیٹس اور بڑے کیٹس کے درمیان کی کڑی خیال کیا جاتا ہے۔
+710,ایشیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7,"ایشیایاآسیا(فارسی، عربی)دنیا کے سات براعظموں میں سے ایک سب سے بڑا اور زیادہ آبادی والابراعظمہے۔ یہ زمین کے کل رقبے کا 8.6 فیصد، کل بری علاقے کا 29.4 فیصد اور کل آبادی کے 60 فیصد حصے کا حامل ہے۔ یہاں پر دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی آباد ہےایشیا روایتی طور پر یوریشیا کا حصہ ہے جس کا مغربی حصہ یورپ ہے۔ ایشیانہر سوئزکے مشرق،کوہ یورالکے مشرق اورکوہ قفقاز،یعنی ہمالیہ قراقرم اور کوہ ہندوکشبحیرہ قزویناوربحیرہ اسودکے جنوب میں واقع ہے۔قرون وسطیٰسے قبلیورپی ایشیاکو براعظم نہیں سمجھتے تھے تاہمقرون وسطیٰمیںیورپکینشاۃ ثانیہکے وقت تین براعظموں کا نظریہ ختم ہو گیا اور ایشیا کو بطور براعظم تسلیم کر لیا گیا۔افریقہاور ایشیا کے درمیانسوئزاوربحیرہ قلزمکو سرحد قرار دیا گیا جبکہیورپاور ایشیا کے درمیان سرحددرہ دانیال،بحیرہ مرمرہ،باسفورس،بحیرہ احمر،کوہ قفقاز،بحیرہ قزوین،دریائے یورالاورکوہ یورالسےبحیرہ کارہتک پہنچتی ہے۔عام طور پر ماہر ارضیات و طبعیجغرافیہ دانایشیا اور یورپ کو الگ براعظم تصور نہیں کرتے اور ایک ہی عظ��م قطعہ زمین کا حصہ قرار دیتے ہیں۔جغرافیہمیں دو مکتب فکر ہیں ایک تاریخی حوالہ جات کے تحت یورپ اور ایشیا کو الگ براعظم قرار دیتا ہے جبکہ دوسرا یورپ کے لیے براعظم اور ایشیا کے لیے خطے کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ تنازعایشیا بحرالکاہلخطے پر بھی کھڑا ہوتا ہے جہاں موجود جزائر میں سے چندبراعظم آسٹریلیاکا حصہ مانے جاتے ہیں جبکہ چند ایشیا میں تسلیم کیے جاتے ہیں اس لیے ایشیا کی حدود کا درست تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ایشیا دنیا کا سب سے بڑا بر اعظم ہے۔ جہاں دنیا کا سب سے اونچا، سب سے نیچا اور سب سے سرد ترین مقام پایا جاتا ہے (ماؤنٹ ایورسٹدنیا کی بلند ترین چوٹی، مغرب کی جانببحیرہ مردارسطح سمندر سے سب سے نچلا مقام اور شمالیسائبیریاکے مقامات)۔ ایشیا میں کسی بھی براعظم سے زیادہ افراد رہائش پزیر ہیں جن میں سے ایک اعشاریہ چار ارب آبادیچیناور ایک اعشاریہ تین ارببھارتمیں آباد ہے۔براعظم کا شمالی حصہ قدیم پہاڑوں اورسطح ہائے مرتفعپر مشتمل ہے جبکہ وسطی علاقہکوہ ہمالیہاورسطح مرتفع تبتنے گھیرا ہوا ہے۔ہمالیہدنیا کے دیگر پہاڑی سلسلوں کی نسبت زیادہ قدیم نہیں اور اب بھی یہ اونچائی کی جانب رواں ہے۔ یہ سلسلہ تب تشکیل پایا جببرصغیرایشیا سے ٹکرایا۔جنوب مشرقی ایشیامیں ہزاروں جزائر ہیں جہاںآتش فشانوںکا پھٹنا اورزلزلےآنے روز کا معمول ہیں۔ ان جزائر میں کئی جزائرآتش فشانوںپر واقع ہیں۔ ان زلزلوں میں سب سے زیادہ خوفناکدسمبر2005ءمیںبحر ہندمیں آنے والا زیر آب زلزلہ تھا جس سے پیدا ہونے والی لہروں ""سونامی"" نےبحر ہندکے گرد بسنے والے ممالک کے لاکھوں نفوس نگل لیے۔جنوب مشرقی ایشیامیںمنطقہ حارہکے جنگلات بھی بڑی تعداد میں واقع ہیں خصوصاًتھائی لینڈ،بورنیوکے جزائر،سلاویسی،جاوااورسماٹراکے جنگلات مشہور ہیں۔ایشیا میں دنیا کے کئی مشہورصحرابھی واقع ہیں جن میںصحرائے عرب(ربع الخالی)،صحرائے شام،دشت کویر،دشت لوط،تھر،تھل،کراکم،ٹکلا مکان،گوبیدنیا کے عظیم صحراؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ایشیا میں دنیا کے کئی بڑی دریا بھی واقع ہیں جن میںدریائے زرد،یانگزے،سندھ،گنگا،جمنا،برہم پترا،اراوتی،میکانگ،فرات،دجلہ،جیحوں،سیحوں،ارتش،اوب،لینادنیا کے عظیم دریاؤں میں سے ہیں۔جھیلوں میںجھیل قزوینجسے اس کے عظیم حجم کے باعثبحیرہ قزوینبھی کہا جاتا ہے، دنیا کی سب سے بڑیجھیلہے۔ علاوہ ازیںجھیل ارال(بحیرہ ارال)،جھیل بالکش،جھیل بیکال،جھیل وان،جھیل ارمیہدنیا بھر میں جانی جاتی ہیں۔جزیرہسماٹرا،بورنیواورنیو گنیدنیا کے بڑے جزائر میں شمار ہوتے ہیں جبکہ دنیا کے بڑے جزیرہ نمااناطولیہاورعرببھی یہیں واقع ہیں۔ایشیا مختلف تہذیبوں کا مسکن ہے، یہاں کی زمین، لوگوں اور روایتوں میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔سوویت یونینکے ٹوٹنے سے یہاںقازقستان,تاجکستان،ترکمانستاناورکرغزستانکی نئی ریاستیں وجود میں آئیں۔ جنوب مغرب کے بیشتر ممالک کے عواممسلمانہیں لیکن قومیت اور مسالک کی بنیادوں پر تقسیم ہیں۔بھارتدنیا کی سب سے بڑیجمہوریتہے جبکہچیندنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی و عسکری قوت ہے۔براعظم کی بیشتر آبادی عظیم دریاؤں کے کناروں پر آباد ہے جس کی وجہ یہاں کی بیشتر آبادی کا ذریعۂ معاشزراعتہونا ہے۔گنگا،سندھ،برہم پتر،زرد،یانگزےاور دیگر دریاؤں کے ارد گرد کے علاقے انتہائی گنجان آباد ہیں۔ دوسری جانبمعدنیدولت کے حصول کے لیے لوگ ایسے علاقوں میں بھی رہائش پزیر ہیں جہاں آبادی بہ�� کم ہے مثلاً تیل کی تلاش کے لیے عرب کے صحرا اورسائبیریاکے سرد میدان۔براعظم ایشیا کے صحرا اور پہاڑی علاقے تقریباً غیر آباد ہیں خصوصاًروسمیںکثافتآبادی بہت کم ہے۔جاپاناوربھارتدنیا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں سے ایک ہیں۔چیندنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد چین میں رہتا ہے جبکہبھارتمیں بھی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور وہ جلدچینکو پیچھے چھوڑ دے گا۔جہاں یہاں کی تہذیبوں کی تنوع میں پایا جاتا ہے وہیں عوام کے معیار زندگی میں بھی بہت زیادہ تفریق پائی جاتی ہے۔ ایک طرف جاپان اورمشرقی وسطیٰ کیخلیجیریاستوں کے عوام طرز زندگی کے اعلیٰ معیار اپنائے ہوئے ہیں وہیں دنیا کے چند غریب ترین ممالک بھی ایشیا میں ہی پائے جاتے ہیں جن میںشمالی کوریا،برما،یمن،افغانستاناورلاؤسقابل ذکر ہیں۔ ایشیا کی غریب ممالک کی معیشت کوخانہ جنگیوں،قحط،سیلاب، قدرتی آفات اورزراعتکے لیے جدید طریقۂ کار اختیار نہ کرنے کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ایشیا کی بیشتر آبادی کا ذریعۂ معاشزراعتہے اور چند ممالک میں تو صنعتیں بہت ہی کم ہیں۔مشرقی چیناورروسمیں بھاری صنعتیں قائم ہیں لیکن سب سے صنعتی پیداوار کے لحاظ سےجاپانسرفہرست ہے۔ جاپانبرقیو جدید ٹیکنالوجی کی صنعت میں عالمی قائد سمجھا جاتا ہے جبکہتائیوان،جنوبی کوریااورسنگاپوربھی برقی مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ حالیہ سالوں میں تائیوان اورملائیشیاکی معیشتوں نے بڑی ترقی کی ہے اور انھیں ""ایشین ٹائیگرز"" کہا جاتا ہے۔ایشیا کی زمین کا بیشتر حصہ بانجھ مٹی یا سخت یا خشک موسم کے باعث ناقابل کاشت ہے جیسےسطح مرتفع تبت،سائبیریااورجزیرہ نما عربکا بیشتر حصہ کاشت کے قابل نہیں۔ براعظم کی سب سے زیادہ زرخیز زمینیںچین،ہندوستاناورپاکستانمیں دریاؤں کے ساتھ ساتھ واقع ہیں جہاںچاولکاشت کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نقد فصلیں بھی کاشت کی جاتی ہیں جیسے جنوبمغربی ایشیامیںکھجوریں،جنوب مشرقی ایشیامیںربڑ، بھارت، چین اورسری لنکامیںچائےاورجنوب مشرقی ایشیاکے جزائر میںناریل۔ کھجوریں جزیرہ نما عرب اور ملحقہ علاقوں کی اہم نقد فصل ہے جہاں یہ زمانۂ قدیم سے کاشت ہوتی ہے۔شمالی ایشیاوسط ایشیاجنوب مغربی ایشیاجنوبی ایشیامشرقی ایشیاجنوب مشرقی ایشیادوسرے براعظم"
+711,شمالی افریقا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C_%D8%A7%D9%81%D8%B1%DB%8C%D9%82%DB%81,شمالی افریقہ(northern africa) یا (north africa)بحیرہ روماورصحرائے اعظمکے درمیان میں گھرا ہوا براعظمافریقاکا شمالی علاقہ قدیم ترین تاریخ کا حامل ہے۔ 6 ہزار سال قبل یہاںدریائے نیلکے پہلو میں عظیم انسانی تہذیبوں نے جنم لیا۔ بعد ازاںرومی،عرباورترکاس علاقے میں اپنی اپنی ثقافت لائے۔ 19 ویں صدی میںاسپین،فرانساوربرطانیہنے خطے میں نوآبادیات قائم کر لیں لیکن اب تمام خطہ آزاد ہے۔اقوام متحدہکی تعریف کے مطابق مندرجہ ذیل ممالک شمالی افریقہ کا حصہ ہیں:جغرافیائی طور پر کبھی کبھارماریطانیہ،مالی،نائجر،چاڈ،ایتھوپیا،ایریٹریااورجبوتیکو بھی اس خطے میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ شمالی افریقہ کو عام طور پرمشرق وسطٰیکے ممالک میں شامل کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے ممالک جنوب مغربی ایشیا کے ممالک سے زیادہ قریبی مذہبی و ثقافتی تعلق رکھتے ہیں جبکہ صحرائے اعظم کے پار کے ممالک سے ان کے روابط کم ہی رہے۔مسلمانوں نے 7 ویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ فتح کیا۔المغرباورصحرائے اعظمکے افرادبربراو��عربیزبانیں بولتے ہیں اور تقریباً پوری آبادیمسلمانوںپر مشتمل ہے۔ مصر قدیم تہذیبوں کی سرزمین ہے اور قبل از اسلام اور بعد از اسلام کی عظیم سلطنتوں کا مسکن رہی ہے۔ان میں بربروں کی عظیمسلطنت موحدینقابل ذکر ہے جو 11 ویں صدی میں ایک مذہبی اصلاحی تحریک کے طور پر ابھری اور جلد ہی شمالی افریقہ کے مغربی علاقوں سے نکل کر اسپین تک پھیل گئی۔ اس عظیم تحریک کا ہی نتیجہ ہے کہ اسلام کے اثرات آج بھی ان ممالک پر بدستور گہرے ہیں۔قرون وسطٰیمیں تقریبً پورا علاقہسلطنت عثمانیہکے زیر نگین آگیا البتہمراکشتک عثمانیوں کے قدم نہ پہنچ سکے۔ 19 ویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کی گرفت کمزور پڑتے ہی فرانس، برطانیہ، اسپین اور اٹلی شکاریوں کی طرح ان ممالک پر جھپٹ پڑے اور ان کے وسائل کو نہ صرف بے دردی سے لوٹا بلکہ ان کی اسلامی شناخت کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی جس کا اثر یہ ہوا کہ اس وقت سے اب تک یہاں اسلام پسندوں اور جدت پسندوں کے درمیان میں کشمکش جاری ہے۔1950ء،1960ءاور1970ءکی دہائی میں تمام ممالک نے آزادی حاصل کرلی۔شمالی افریقہ کے 90 فیصد رقبے پر دنیا کا سب سے بڑا صحرا صحرائے اعظم ہے جبکہ مغرب کی جانبکوہ اطلسپھیلا ہوا ہے۔کوہ اطلس،دریائے نیلاور اس کی وادیاں اوربحیرہ رومکے ساحل کاشت کے لیے بہترین علاقے ہیں اور ان علاقوں میں کئی اقسام کے اناج،چاولاورکپاسکاشت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہزیتون،کھجور، رسیلے پھل بھی بحیرہ روم کے ساحلوں پر پیدا ہوتے ہیں۔ دریائے نیل کی وادی بہت زرخیز ہے اور مصر کی بیشتر آبادی اس کے کناروں کے ساتھ رہتی ہے۔افریقہ کے خانہ بدوش بدو صحراؤں میں روایتی طرز سے زندگی گذارتے ہیں اور گلہ بانی کر کے اپنی گذر بسر کرتے ہیں۔تیلاورقدرتی گیسکی دریافت کے باعث الجزائر اور لیبیا کی معیشتیں بہت مضبوط ہیں۔ مراکشفاسفیٹاور زرعی مصنوعات کا بڑا برآمد کنندہ ہے جبکہ مصر اور تیونس میں سیاحت ملکی معیشت کے لیے اہم حیثیت رکھتی ہے۔ مصر علاقے میں سب سے بڑا صنعتی علاقہ رکھتا ہے اپنی برقی اور مہندسی صنعت کے لیے ٹیکنالوجی برآمد کرتا ہے اور بڑے پیمانے پر کپاس کی کاشت کے باعثپارچہ بافیکی صنعت میں معروف مقام رکھتا ہے۔لیبیا اور الجزائر میں تیل تلاش کرنے کے لیے صحراؤں میں بڑی صنعتیں لگا رکھی ہیں خصوصاً لیبیا کا تیل بہت مشہور ہے کیونکہ اس میںسلفربہت کم ہوتا ہے جس سے وہ دیگر تیلوں کے مقابلے میں کم آلودگی پیدا کرتا ہے۔
+712,مغربی ایشیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%A8_%D9%85%D8%BA%D8%B1%D8%A8%DB%8C_%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7,مغربی ایشیا،ایشیاکے انتہائیمغربیعلاقے کو کہا جاتا ہے۔مغربی ایشیا ان ممالک پر مشتمل ہے :لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+713,انسان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%A7%D9%86,انسان(انگریزی: Human) (سائنسی نام: Homo sapiens) کا لفظزمینپر پائی جانے والی اسنوعِحیاتکے لیے استعمال کیا جاتا ہے جوجنسانس (homo)سے تعلق رکھتی ہے اوردنیامیں پائی جانے والی دیگر تمام تر انواع حیات سے برتردماغرکھتی ہے۔انسان کہلائی جانے والے نامیہ کی شناخت اس کی سیدھی قامت اور دوٹانگوںسے چلنے والے نامیوں کے طور پر باآسانی کی جا سکتی ہے مزید یہ کے نوعِ حیاتِ انسان ایکمعاشرتینامیہ ہونے کے ساتھ ساتھشعور (consciousness)وادراک (cognition)میں دیگر تمام نامیات کی نسبت اعلٰی معیار تک پہنچا ہوا نامیہ ہے۔ انسان کوآدمکی مناسبت سےاردو،عربی،اورفارسیمیں آدمی بھی کہا جاتا ہے اور اس کے لیے بشر کا لفظ بھی مستعمل ہے۔آدمیاور بشر کی طرح انسان کا لفظ بھی اردو میں عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اساس انس سے ماخوذ ہے اور انسان ہی کے معنوں میں انس بھی استعمال ہوتا ہے، اسی لفظ انس سے ناس اور مرکب الفاظ عوام الناس وغیرہ بھی تخلیق کیے جاتے ہیں۔قرآنمیں بھی اسنوعحیاتکے لیے انسان کے ساتھ ساتھ متعدد الفاظ استعمال ہوئے ہیں ؛ جن میں ایک انس (سورۃالرحمٰنآیت39) بھی ہے۔ انسان کے لیے اساس بننے والا لفظ انس اپنےالفکے نیچے زیرہمزہکا حامل ہے جس کو الف پر پیش کے ساتھ والے انس سے مبہم نا کرنا چاہیے جس کے معنیمحبتکے ہوتے ہیں۔
+714,ممالیہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81,"Row 1:common vampire bat,Virginia opossum,eastern grey kangaroo.Row 2:تسمانیائی ڈیول,انسانs,northern elephant seals.Row 3:fox squirrel,tree pangolin,افریقی ہاتھیs.Row 4:ڈک بل,colugo,رینڈیر.Row 5:humpback whale,star-nosed mole,دیوقامت پانڈا.ممالیہیاپستانیہ(انگریزی: mammals) ایسےجانداروںکو کہا جاتا ہے کہ جوفقاریہہوتے ہیں اور ان کےمادہشریک میںپستانپائے جاتے ہیں جس سے وہ اپنےبچوںکودودھپلاتے ہیں نیز ان میں اور پرندوں اور رینگنے والے جانوروں میں بالوں اور چار خانوں والے دل اور کان کی درمیانی ہڈی کا بھی فرق ہوتا ہے اس گروہ سے تعلق رکھنے والے جاندار کے دماغ کا ایک خاص حصہ ہوتا ہے جو جسم کے درجہ حرارت کو قابو رکھتا ہے۔ اسی پستان کے رکھنے کی خصوصیت کی وجہ سے ان کو پستانیہ بھی کہا جاتا ہے جبکہ اس کی جمع پستانیے کی جاتی ہے۔ انگریزی میں mammalia کے لیے مناسب اردو متبادل، پستانیان آتا ہے۔ان میں زیادہ تر حیوانات سبزی خور Herbivorus ہوتے ہیں،کچھ گوشت خور Carnivores اورکچھ ہمہ خور Omnivores ہوتے ہیں۔
+یہ گرم خون کے حیوانHomoethermic ہیں۔"
+716,یوریشیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7,"یوریشیایااوراسیا(انگریزی: Eurasia) ایک عظیم قطعہ زمین ہے، جو 54,00,000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ خطہیورپاورایشیانامی براعظموں میں تقسیم ہے۔ یوریشیا عام طور پر ایشیا اور یورپ کے درمیان موجود ایک خاص خطے کا نام ہے۔یورپی روایتی طور پر یورپ اور ایشیا کو دو الگ براعظم تصور کرتے ہیں، جوبحیرہ ایجیئن،درہ دانیال،آبنائے باسفورس،بحیرہ اسود،کوہ قفقاز،بحیرہ کیسپیئن،دریائے یورالاورکوہ یورالکے ذریعے ایک دوسرے سے الگ ہیں، لیکن بعضجغرافیہ دانیورپ اور ایشیا کو ایک ہی براعظم قرار دیتے ہیں، جسے یوریشیا کہا جاتا ہے۔"
+717,مغربی یورپ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%BA%D8%B1%D8%A8%DB%8C_%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE,"مغربی یورپ(western europe) کے عام معنوں میں ان تمام ممالک کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے جو یورپ کے مغربی حصے میں واقع ہیں۔ یہ اصطلاح مختلف ادوار میں مختلف معنوں میں استعمال ہوتی رہی ہے اور اس کی معنوں میں جغرافیائی کے علاوہ سیاسی و ثقافتی عناصر بھی اہمیت کے حامل ہیں۔مغربی ومشرقی یورپمیں پہلا امتیازرومی سلطنتکی تاریخ سے ملتا ہے۔ رومی موجودہ تقریباً پر چھا گئے لیکن اس کے باوجود مغربی خطوں کی زبان لاطینی تھی جبکہ مشرقی خطے یونانی بولتے تھے۔ یہ زبان و ثقافت کا فرق دونوں خطوں میں پہلا امتیاز ثابت ہوا اور بعد ازاں رومی سلطنت کی تقسیم سے یہ مزید واضح ہو گیا۔بعد ازاںمسیحیوںرومن کیتھولکاورمشرقی آرتھوڈوکسفرقوں میں تقسیم اور بعد ازاں مسلمسلطنت عثمانیہکے ہاتھوں مشرقی یورپ کی فتح بھی دونوں خطوں کے درمیان امتیازات میں مزید اضافے کا باعث بنی۔یورپی نشاۃ ثانیہ(Renaissance)،مارٹن لوتھرکیپروٹسٹنٹ تحریک،عہدِ روشن خیالی(Age of Enlightment)،انقلاب فرانساورصنعتی انقلاب(Industrial Revolution) ایسے اہم مواقع تھے جنھوں نے مغربی یورپ کی ثقافت اور الگ پہچان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ دریافتوں کے عہد (Age of Discovery) میں مغربی یورپ کے ممالک نےافریقا،ایشیا،جنوبیاورشمالی امریکاکو غلام بنا لیا اور یوں اس دور کو نوآبادیاتی دور (Colonial Era) بنا دیا۔ قبضے کے بعد ان ممالک سے لوٹی گئی دولت کے ذریعے مغربی یورپ مالی و ثقافتی اعتبار سے مشرقی یورپ سے بہت آگے نکل گیا۔ یہ تمام تاریخی واقعات یورپ کی اس سیاسی، ثقافتی، لسانی اور تاریخی تقسیم پر گہرے اثرات رکھتے ہیں۔دوسری جنگ عظیمکے حتمی مراحل میںیورپکا مستقبل1945ءکییالتا کانفرنسمیں اتحادیوں کے مابین طے پایا جس میں وزیر اعظمبرطانیہونسٹن چرچل، صدرامریکہفرینکلن ڈی روزویلٹاورسوویت یونینکے سربراہجوزف اسٹالنشامل تھے۔بعد از جنگ عظیمسرمایہ دارانہ نظاماوراشتراکی نظامکے درمیانسرد جنگکے نتیجے میں یورپ دو بڑے حلقہ ہائے اثر میں بٹ گیا جس میں مشرقی حصہ سوویت یونین کے زیر اثر تھا جبکہ مغربی حصے کے تقریباً تمام ممالک امریکا کے زیر اثر تو نہیں کہے جا سکتے لیکن کم از کممارشل پلانکے تحت اس سے اقتصادی امداد ضرور لیتے تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ تھے۔ ان میں بیشتر نےنیٹو(NATO) میں شمولیت اختیار کر لی اور کچھ یورپی اتحاد یا اس کی حریفایفٹا(European Free Trade Association) کا حصہ بن گئے۔مغربی یورپ ان ممالک پر مشتمل تھا اور ہے:ڈنمارکاورناروےنازی جرمنیکے قبضے میں تو آ گئے لیکن انھیں اتحادیوں نے آزادی نہیں دلائی۔ جنگ کے دورانآئس لینڈ، جو اس وقت ایک بادشاہ کے تحت ڈنمارک کا حصہ تھا، پر برطانیہ اورامریکہنے حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ جنگ کے دوران آئس لینڈ نے مکمل آزادی کا اعلان کر دیا۔یہ ممالک بھی جغرافیائی یا سیاسی طور پر ""مغربی یورپ"" کا ہی حصہ شمار کیے جاتے ہیں:"
+718,ہندوستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"ہندوستان(فارسی: هندوستانتلفظ(معاونت·معلومات)) جس کا تلفظ (ہندُوستان یا ہندوستاں) سے ہوتا ہے، اس کی مختصر شکلہند(هند) ہے،[1]جو ہندوستان کے لیےفارسیمیں بھی مستعمل ہے، بڑے پیمانے پربرصغیر ہند؛ جسے بعد میں اس کے باشندوں نےہندی–اردو (ہندوستانی)میں استعمال کیا۔[2][3][4][5]برصغیر کے دیگر ناموں میںجمبُو دویپ،بھارتاور انڈیا شامل ہیں۔تقسیم ہندکے بعد؛ یہجمہوریہ ہندکے تاریخی نام کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔[6][7][8]ہندوستان کا ایک ثانوی معنی شمالی ہندوستان میںہند گنگا میدانکے لیے جغرافیائی اصطلاح کے طور پر ہے۔[9]ہندستانفارسیلفظہندوسے ماخوذ ہے، جو سنسکرت کےسندھوکے مشابہ ہے۔[10]ایسکو پرپولاکے مطابقپروٹو-ایرانیآواز کیسسےہمیں تبدیلی 850-600 قبل مسیح کے درمیان واقع ہوئی۔[11]لہذا،رگ ویدیسپت سندھو(سات دریاؤں کی زمین[پنجاب])اوستامیںہپت ہندوبن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ""پندرھواں ڈومین"" ہے، جسےاہورا مزدانے بنایا ہے، بظاہر 'غیر معمولی گرمی' کی سرزمین۔[12]515 قبل مسیح میںدارا اولنےوادی سندھکو شامل کیا جس میںسندھو(آج کل کاسندھ) بھی شامل تھا، جسے فارسی میںہندوکہا جاتا ہے۔[13]خشیارشا اولکے زمانہ میں ""ہندو"" کی اصطلاح سندھ کے مشرق کی زمینوں کو بھی شامل ہوتی تھی۔[10]درمیانی فارسیمیں غالباً پہلی صدی عیسوی سے-ستان(جائے، جگہ) کا اضافہ کیا گیا، جو کسی ملک یا خطے کی نشان دہی کرتا ہے، موجودہ لفظہندوستانکی تشکیل دیتا ہے۔[14]اسی طرحت262 عیسوی میںشاہپور اولکے نقشِ رستم نوشتہ میں سندھ کوہندوستانکہا گیا ہے۔[15][16]مورخبرتندر ناتھ مک��رجیبیان کرتے ہیں کہ زیریں سندھ طاس سے، ""ہندوستان"" کی اصطلاح آہستہ آہستہ ""کم و بیش پورےبرصغیرمیں پھیل گئی""۔ گریکو رومن نام ""انڈیا"" اور چینی نام ""شین ٹو"" نے بھی اسی طرح کے ارتقا کی پیروی کی۔[15][17]عربی اصطلاحہند؛ جو فارسیہندوسے ماخوذ ہے، عربوں نےمکرانکے ساحل سے انڈونیشیا کے جزیرہ نما تک ہندوستانی خطے کے لیے استعمال کیا تھا۔[18]لیکن آخر کار اس کی شناخت بھی برصغیر پاک و ہند سے ہوئی۔""ہندوستان"" اکثر جدید دورجمہوریہ ہندکے لیے استوتا ہے۔[19][7][8]اصطلاح میں شامل نعرے عام طور پر کھیلوں کے پروگراموں اور دیگر عوامی پروگراموں میں سنائے جاتے ہیں، جن میں ٹیمیں یا ادارے شامل ہوتے ہیں، جو ہندوستان کی جدید قومی ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مارکیٹنگ میں ہندوستان نام؛ عام طور پر اشتہاری مہموں میں قومی اصل کے اشارے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور یہ بہت سے کمپنی کے ناموں میں بھی مستعمل ہے۔پاکستانکے بانیمحمد علی جناحاور ان کی جماعتمسلم لیگنے ہندو اکثریتی آبادی کے حوالے سے جدید دور کی جمہوریہ ہند کو ""ہندوستان"" کہنے پر اصرار کیا۔[20]ہندوستان میں ہندوستانی بولنے والوں کے درمیان ایک استعمال میں مذہبی نسبت سے قطع نظر؛ 'ہندوستانی' اصطلاح سے مراد انڈین (ہندوستان کا باشندہ) ہے۔ غیر ہندستانی بولنے والوں مثلاً بنگالی بولنے والوں میں ""ہندوستانی"" کا استعمال؛ ان لوگوں کی وضاحت کے لیے کیا جاتا ہے، جو اوپری گنگا سے ہیں، مذہبی وابستگی سے قطع نظر؛ بلکہ ایک جغرافیائی اصطلاح کے طور پر۔ہندوستانیکو بعض اوقات جنوبی ایشیا میں لاگو ہونے والینسلیاصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے (مثال کے طور پر،جنوبی ایشیامیں جڑیں رکھنے والا ماریشیا یا سورینام کا آدمی اپنی نسل کو یہ کہہ کر بیان کر سکتا ہے کہ وہ ""ہندوستانی"" ہے)۔ مثال کے طور پر 'ہندستانینایکولندیزیلفظ ہے، جونیدرلینڈزاورسریناممیں جنوب ایشیائی نژاد لوگوں کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ہندوستانی زبانہندوستان کی زبان ہے اور برصغیر پاک و ہند کیزبانِ رابطۂ عامہہے۔[21]ہندوستانیمغربی اتر پردیش/مغربی یوپیاوردہلیکے علاقوں کیپرانی ہندیبولی سے ماخوذ ہے۔ اس کی ادبی معیاری شکلیں—-سنڌي جديد زبانجدید معیاری ہندیاورجدید معیاری اردو—مختلف رسم الخط استعمال کرتی ہیں۔ خود ہندی رجسٹر نے اپنا نام مختصر شکلہند(انڈیا) سے اخذ کیا ہے۔[22]–بابر نامہ، اے ایس بیوریج، انگریزی ترجمہ، جلد.1، سیکشن. iii: 'ہندوستان'[23]ابتدائی فارسی علما کو ہندوستان کی حد تک محدود علم تھا۔ اسلام کی آمد اوراسلامی فتوحاتکے بعد؛ہندوستانکے معنی نے اس کی عربی شکلہندکے ساتھ تعامل کیا، جو فارسی سے بھی ماخوذ تھا اور تقریباً اس کا مترادف بن گیا۔ عربوں نے، سمندری تجارت میں مصروف، مغربی بلوچستان میںتیسسے لے کر انڈونیشیا کے جزیرہ نما تک کی تمام زمینوں کوہندکے تصور میں شامل کیا، خاص طور پر جب اس کی وسیع شکل میں ""الہند"" کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ہندوستانلفظ نے اس وسیع معنی کو حاصل نہیں کیا۔ آندرے وِنک کے مطابق، اس نے وہ امتیاز بھی حاصل نہیں کیا، جو مٹ گیا،سندھ(تقریباً جو اب مغربی پاکستان ہے) اورہند(دریائے سندھ کے مشرق کی سرزمینوں) کے درمیان؛[4][18][24]دوسرے ذرائع بتاتے ہیں کہسندھاورہندکو ابتدائی زمانے سے مترادف استعمال کیا جاتا تھا۔[25]اور یہ کہہندوستان میں اسلامی حکومت کی آمدکے بعد؛ ""پورے برصغیر کے لیے ہند اور سندھ مترادفات کے طور پر استعمال کیے گئے۔""[26]10ویں صدی کے متنحدود العالمنے ہندوستان کو تقریباًبر صغیر پاک و ہندکے طور پر بیان کیا ہے، جس کی مغربی حد دریائے سندھ سے بنتی ہے، جنوبی حد بحیرہ عظیم تک جاتی ہے اور مشرقی حدکاماروپا، موجودہ آسام میں ہے۔[17]اگلی دس صدیوں تک،ہنداورہندوستاندونوں برصغیر میں بالکل اسی معنی کے ساتھ استعمال ہوتے رہے، اس کے ساتھ ان کی صفتہندَوی،ہندوستانیاورہندیاستعمال ہوتی رہی۔[27][28][29]درحقیقت 1220 عیسوی میں مؤرخحسن نظامی نیشاپورینےہندکو ""پشاورسےبحر ہندکے ساحلوں تک اور دوسری سمت میںسیستانسےچینکی پہاڑیوں تک بتایا۔""[30]11 ویں صدی میں شروع ہونے والی ترک-فارسی فتوحات کے ساتھہندوستانکا ایک تنگ معنی بھی شکل اختیار کر گیا۔ فاتحین برصغیر کے باقی حصوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے زیر تسلط زمینوں کوہندوستانکہنے کے ذمہ دار تھے۔[31]11ویں صدی کے اوائل میںپنجابمیںسلطنت غزنویہکی ایکسیٹیلائٹ ریاستجس کا دار الحکومتلاہورتھا، کو ""ہندوستان"" کہا جاتا تھا۔[32]دہلی سلطنتکے قیام کے بعد، شمالی ہندوستان، خاص طور پر گنگا کے میدانی علاقوں اور پنجاب کو ""ہندوستان"" کہا جانے لگا۔[31][33][34][35]اسکالر برتیندر ناتھ مکھرجی کا کہنا ہے کہہندوستانکا یہ تنگ معنی وسیع معنی کے ساتھ ساتھ موجود تھا اور بعض مصنفین نے ان دونوں کو بیک وقت استعمال کیا ہے۔[36]مغلیہ سلطنت(1526ء–1857ء) نے اپنی سرزمین کو 'ہندوستان' کہا۔ 'مغلیہ' اصطلاح خود کبھی بھی زمین کے لیے استعمال نہیں ہوئی۔ جیسے جیسے سلطنت پھیلی، اسی طرح 'ہندوستان' بھی پھیل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ 'ہندوستان' کے معنی پورےبرصغیر ہندکے طور پربابر نامہاورآئین اکبریمیں بھی پائے جاتے ہیں۔[37]آخریگورکھائیبادشاہپرتھوی ناراین شاہنے خودسلطنت نیپالکااصل ہندوستانکے طور پر اعلان کیا؛ کیوں کہ شمالی ہندوستان پر اسلامیمغل حکمرانوںکی حکومت تھی۔ خود اعلان ان کے دور حکومت میں ہندو سماجی ضابطہدھرم شاسترکو نافذ کرنے اور اپنے ملک کوہندووںکے لیے قابل رہائش قرار دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس نے شمالی ہندوستان کومغلان(مغلوںکا ملک) بھی کہا اور اس خطہ کو مسلمان غیر ملکیوں کی دراندازی قرار دیا۔[38]یہ دوہری معنی یورپیوں کی آمد کے ساتھ برقرار رہے۔جیمز رینلنے 1792 میں ’’میموئیر آف اے میپ آف ہندستان‘‘ کے عنوان سے ایکاطلستیار کیا، جو درحقیقت برصغیر پاک و ہند کا نقشہ تھا۔ اس طرح رینل نے تین تصورات،انڈیا،ہندوستاناورمغل سلطنتکو آپس میں ملا دیا۔[39][40]جے برنولی، جن کے لیے ہندوستان کا مطلب مغلیہ سلطنت تھا، نے اپنے فرانسیسی ترجمہ کو La Carte générale de l'Inde (ہندوستان کا عمومی نقشہ) کہا۔[41]برطانوی حساب کا یہ 'ہندوستان' انگریزوں کے زیر اقتدار علاقوں (جسے کبھی کبھی 'انڈیا' بھی کہا جاتا ہے) اور مقامی حکمرانوں کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔[42]تاہم برطانوی حکام اور مصنفین کا خیال تھا کہ ہندوستانی 'ہندوستان' کا استعمال صرف شمالی ہندوستان کے لیے کرتے ہیں۔[43][35]1886ء میں شائع ہونے والی ایکاینگلو-انڈین ڈکشنریمیں کہا گیا ہے: جب کہ ہندوستان کا مطلب انڈیا ہے، ""مقامی زبان"" میں یہبہاراوربنگالکو چھوڑ کردریائے نرمداکے شمال میں واقع علاقے کی نمائندگی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔[34]تحریک آزادی کے دوران، ہندوستانیوں نے اپنی سرزمین کو تینوں ناموں سے پکارا: 'انڈیا'، 'ہندوستان' اور 'بھارت'۔[44]محمد اقبالکی نظمترانۂ ہندیہندوستانی آزادیکارکن۔محمد اقبالکی نظمترانۂ ہندیتحریک آزاد�� ہندکے کارکنوں میں ایک مقبول حب الوطنی کا ترانہ تھا۔[45]سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا(روئے زمیں پر سب سے بہتر ہمارا ہندوستان ہے۔)آل انڈیا مسلم لیگکی 1940 کیقرارداد لاہور(جسے قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے) نےبرطانوی ہندکے شمالِ مغرب اور شمالِ مشرق میں مسلم اکثریتی علاقوں کے لیے خود مختاری کا مطالبہ کیا، جسے مقبولیت میں 'پاکستان' کہا جانے لگا۔ بول چال اور بقیہ ہندوستان کو 'ہندوستان' کہا جانے لگا۔[46]برطانوی حکام نے بھی ان دونوں اصطلاحات کو منتخب کر لیا اور انھیں سرکاری طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔[19]تاہم 'ہندوستان' کےہندووںکی سرزمین کے مضمر معنی کی وجہ سے یہ نام ہندوستانی لیڈروں کی منظوری پر پورا نہیں اترا۔ ان کا اصرار تھا کہ نئےڈومینین آف انڈیاکو 'ہندوستان' نہیں بلکہ 'انڈیا' کہا جانا چاہیے۔[47]غالباً اسی وجہ سے 'ہندوستان' نام کوہندوستان کی دستور ساز اسمبلیکی سرکاری منظوری نہیں ملی، جب کہ 'بھارت' کو سرکاری نام کے طور پر اپنایا گیا۔[48]تاہم یہ تسلیم کیا گیا کہ 'ہندوستان' غیر سرکاری طور پر استعمال ہوتا رہے گا۔[49]بھارتی مسلح افواجنام کا سلامی ورژن، ""جے ہند"" کو جنگ کی پکار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔[1]پروفیسر اشتیاق احمد ظلی۔ پروفیسر عبد العظیم اصلاحی۔ پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی۔ پروفیسر الطاف احمد اعظمی۔ ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی۔ مختار احمد اصلاحی۔ ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی۔23°59′40″N67°25′51″E / 23.99444°N 67.43083°E /23.99444; 67.43083"
+720,يوكون,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%8A%D9%88%D9%83%D9%88%D9%86,"یوکون(انگریزی نام: Yukon)کینیڈاکا ایک شمالمغربی علاقہہے۔ یہ رقبے کے لحاظ سے کینیڈا کے تین چھوٹے ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس کا نام “یوکون“ ہونے کی وجہء تسمیہ “دریائے یوکون“ ہے، جس کے معنی گوچ زبان میں عظیم دریا ہیں۔یوکون کو ریاست یوکون بھی کہا جاتا ہے لیکن مقامی افراد اس پر ناراض ہوتے ہیں۔2003ءمیں وفاقی حکومت نے یوکون ایکٹ کے ذریعے ریاست کا نام ریاست یوکون سے بدل کر یوکون رکھ دیا ہے۔یوکون کا پہاڑ لوگن 5959 میٹر بلند ہے جو کلایون نیشنل پارک اینڈ ریزرو میں ہے۔ یہ پہاڑ اس ریاست کا سب سے بلند مقام ہے اور شمالی امریکا میں دوسرا بلند ترین مقام۔یہ انتہائی کم آباد علاقہ برفیلے پانیوں کی جھیلوں اور سارا سال برف سے ڈھکی پہاڑی چوٹیوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقے کا موسم اگرچہ برفانی اور نیم برفانی اور انتہائی خشک ہے۔ یہاں سردیاں طویل اور سرد ہوتی ہیں۔ گرمیوں کے مختصر عرصے میں لمبے دنوں کی وجہ سے سبزیوں اور پھولوں کی مختصر فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔یہ ریاست ایک زاویہ قائمہ مثلث کی مانند ہے جس کے سرے امریکی ریاست الاسکا سے مغرب میں، شمال میں نارتھ ویسٹ ریاست اور جنوب میںبرٹش کولمبیاسے ملتے ہیں۔ اس کے شمالی ساحل پر بیوفورٹ سمندر ہے۔ اس کی غیر ہموار مشرقی سرحد یوکون بیسن اور میکنزی دریا کے درمیان سرحد کا کام کرتی ہے۔ اس کا دار الخلافہ وائٹ ہارس ہے۔کینیڈا کا بلند ترین مقام یعنی ماؤنٹ لوگن اسی ریاست کے جنوب مغربی حصے میں موجود ہے۔ ماؤنٹ لوگن اور یوکون کے جنوب مغرب کا بڑا حصہ کلوآن نیشنل پارک اینڈ ریزرو کا حصہ ہیں جویونیسکوکی طرف سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دئے گئے ہیں۔ریاست کا زیادہ تر حصہ دریائے یوکون میں ہے۔ یوکون کے جنوبی حصے میں گلیشئر سے بننے والی جھیلوں کی کثرت ہے جو بڑی لمبی اور تنگ ہر قسم کی ہیں۔ ان کی اکثریت یوکون دریا سے جا ملتی ہے۔ بڑی جھیلوں میں تیسلین، آٹلن، ٹاگیش، مارش، لبیرگ، کساوا اور کلوآن جھلیں ہیں۔بینیٹ جھیلناریس جھیل سے جا ملتی ہے اور اس کا زیادہ تر رقبہ یوکون میں موجود ہے۔پانی کے دوسرے ذرائع میں میکنزی دریا اور السیک ٹاٹشینشینی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سارے دیگر چھوٹے چھوٹے دریا بیوفورٹ سمندر میں جا گرتے ہیں۔ یوکون کے دو بڑے دریا لیارڈ اور پیل شمالاً جنوباً بہتے ہوئے میکنزی سے جا ملتے ہیں۔دار الخلافہ وائٹ ہارس یہاں کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ یہاں ریاست کی دو تہائی آبادی رہتی ہے۔ دوسرا بڑا شہر ڈاسن شہر ہے جو 1952ء تک یہاں کا دار الخلافہ تھا۔یورپئین لوگوں کی آمد سے قبل وسطی اور شمالی یوکون برفانی دور میں جمنے سے بچا رہا۔ یاہں انسانی رہائش کی نشانیاں اولڈ کرو کے علاقے میں ملتی ہیں جو شمالی امریکا میں قدیم ترین باقیات ہیں۔ 800 عیسوی میں الاسکا کے قریب ماؤنٹ چرچل میں آتش فشانی سے جنوبی یوکون میں راکھ کی تہ جم گئی جو اب بھی کلونڈیک ہائی وے کے آس پاس دیکھی جا سکتی ہے۔ ساحلی اور اندرونی مقامی قبائل یہاں پہلے سے تجارتی جال بچھا چکے تھے۔ یہاں انیسویں صدی میں یورپیئوں کی آمد شروع ہوئی جو کھالوں کی تجارت سے وابستہ تھے۔ ان کے بعد مشنری اورویسٹرن یونینٹیلی گراف کی مہمیں آئیں۔ بعد میں انیسویں صدی کے اختتام پر سونے کی تلاش کی دوڑ شروع ہوئی۔ اس وجہ سے آبادی اتنی بڑھ گئی کہ یہاں پولیس تعینات کرنی پڑی۔1897ءمیں کلونڈیک گولڈ رش کی وجہ سے آبادی اتنی بڑھی کہ اس علاقے کو الگ کر کے ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔آبادی2001ءکے کینیڈینمردم شماریکے مطابق یوکون میں انگریز آبادی کا تناسب 27 فیصد سے زیادہ، قدیم قبائل 22 فیصد سے زیادہ، سکاٹش تقریباً 22 فیصد، آئرش تقریبا 19 فیصد، جرمن تقریبا 14 فیصد اور فرانسیسی 13 فیصد تھے۔ اگرچہ ایک چوتھائی نے خود کو کینیڈین ظاہر کرنے پر ترجیح دی۔2006ء کی مردم شماری میں کل آبادی 30372 افراد تھی۔ ان میں سے 29940 نے رائے شماری میں حصہ لیا اور تقریباً پچاسی فیصد افراد نے اپنیمادری زبانانگریزی اور تین فیصد سے کچھ زائد نے فرانسیسی کو مادری زبان کہا۔یوکون کے لینگوئج ایکٹ میں مقامی زبانوں کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے تاہم قانون، عدالتی اور مقننہ کے لیے صرف انگریزی اور فرانسیسی ہی استعمال ہوتی ہیں۔2001ء کی مردم شماری کے مطابقرومن کیتھولکچرچ کے پیروکاروں کی تعداد 5985 تھی جو کل آبادی کا 21 فیصد ہے۔ دوسرے نمبر پر انگلیکن چرچ آف کینیڈا تھا جس کے پیروکار 3795 یعنی کل آبادی کا تیرہ فیصد تھے۔ تیسرے نمبر پر کینیڈا کا متحدہ چرچ ہے جس کے پیروکار 2105 یعنی سات فیصد ہیں۔تاریخی اعتبار سے یوکون کی اہم صنعتکان کنیہے جو سیسہ، زنک، چاندی، سونا، ایس بیس ٹاس اور تانبے پر مشتمل ہے۔ 1870ء میں حکومت نے ہڈسن بے کمپنی سے زمین حاصل کر کے اسے 1898ء میں نارتھ ویسٹ ریاست سے الگ کر دیا تاکہ سونے کی تلاش میں آنے والے لوگوں کی آباد کاری آسان ہو سکے۔سونے کے متلاشی افراد ہزاروں کی تعداد میں ریاست پہنچے۔ اس ابتدائی دور کی یادیں اور رائل کینیڈین گھڑ سوار پولیس کے اوائل کے دن اور ریاست کے خوبصورت قدرتی مناظر وغیرہ مل کر سیاحت کو یہاں کی دوسری بڑی صنعت بناتے ہیں۔مینوفیکچرنگ میں بشمول فرنیچر، ملبوسات اور ہینڈی کرافٹ کے ساتھ ساتھپن بجلیبھی شامل ہے۔ روایتی طور پر جانور اور مچھلی پکڑنے کی صنعتیں زوال کا شکار ہیں۔ اس وقت حکومت سب سے ملازمتیں مہیا کر رہی ہے۔ اس وقت 12500افرادی قوتمیں سے 5000 افراد براہ راست حکومت کے لیے کام کرتے ہیں۔یوکون کی ��یاحت کا موٹو ہے ""زندگی سے بھی بڑا""۔ یوکون کی سب سے بڑی کشش اس کی فطری خوبصورتی ہے۔ سیاحت کا دارومدار بھی اسی بات پر ہے اور بہت سارے پیشہ ور گائیڈ شکاریوں اور مچھلی کے شکار کے شوقینوں اور فطری ماحول سے محبت کرنے والوں کی رہنمائی کے لیے موجود رہتے ہیں۔کھیل کودکے شائقین کے لیے جھیلوں اور دریاؤں میں میںکشتی رانیکے مواقع ہیں۔ پیدل چلنا ہو یا سکی کی مدد سے یا سنو بورڈ کی مدد سے، برف پر چلنے والی گاڑیوں پر سفر ہو یا اونچی چوٹیاں سر کرنی ہوں یا پھر برف پر پھسلنا ہو یا کتوں والی برف گاڑی پر سفر، ہر چیز ممکن ہے۔سردیوں میں جب رات کو آسمان صاف ہو تو آرورا دیکھنے کے لیے بہت لوگ باہر نکلتے ہیں۔جدید ذرائع نقل و حمل سے قبل دریا اور پہاڑی درے ہی مقامی لوگوں کے راستے تھے۔ پہلے پہل یورپیوں نے بھی انھیں اختیار کیا۔گولڈ رش سے لے کر 1950ء تک یوکون دریا میں کشتیاں چلتی رہیں جو زیادہ تر وائٹ ہارس اور ڈاسن شہر کے درمیان تھیں۔ چند ایک آگے الاسکا اور بیرنگ سمندر تک بھی جاتی تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر کشتیاں برٹش یوکون نیویگیشن کمپنی کی ملکیت تھیں۔ یہ کمپنی ایکنیرو گیجٹرین بھی چلاتی تھی جو سکاگوے، الاسکا اور وائٹ ہارس کو ملاتی تھی۔ 1980ء میں اس ٹرین کو فارو کی کان کے ساتھ ہی بند کر دیا گیا۔ آج کل یہ گرمیوں میں سیاحت کی غرض سے چلائی جاتی ہے اور کارکراس تک چلتی ہے۔آج اہم زمینی راستوں میںالاسکا ہائی وے، کلونڈیک ہائی وے، ہینز ہائی وے اور ڈیمپسٹر ہائی وے تمام کی تمام ماسوائے ڈیمپسٹر، پختہ ہیں۔ دیگر ہائی وے جہاں کم ٹریفک ہوتی ہے میں رابرٹ کیمپبل ہائی وے کارمک کو واٹسن لیک سے ملاتی ہے۔ اولڈ کرو کے علاقے میں آباد لوگوں تک رسائی کا واحد راستہ ہوائی جہاز ہے۔وائٹ ہارس انٹرنیشنل ائیرپورٹ اس علاقے کے ذرائع نقل و حمل کا مرکز ہے۔ یہاں سے براہ راست پروازیں وینکوور، کیلگری، ایڈمنٹن، فئیربینکس اور فرینکفرٹ کے لیے چلتی ہیں۔ فرینکفرٹ صرف گرمیوں میں پروازیں چلتی ہیں۔ یوکون میں موجود ہر شہر میں ائیرپورٹ موجود ہے۔ ڈاسن سٹی، اولڈ کرو، انوویک کے لیے ائیر نارتھ کی باقاعدہ سروس ہے۔ ائیر چارٹر بزنسز بھی اس علاقے میں سیاحت اور کان کنی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔انیسویں صدی میں یوکون ہڈسن بے کمپنی کا ایک حصہ تھی جو نارتھ ویسٹرن ٹیریٹوری کا انتظام سنبھالے ہوئی تھی۔ 1895ء میں اسے پہلی بار قابل ذکر مقامی حکومت دی گئی جب اسے نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کے ضلع سے الگ کیا گیا۔ 1898ء میں اسے الگ ریاست کا درجہ دے کر اس میں کمشنر کا تقرر کر دیا گیا۔1979ء سے قبل تک ریاست کا انتظام کمشنر کے پاس ہوتا تھا جو وفاقی وزارت برائے انڈین افیئرز اینڈ ناردرن ڈیلویلپمنٹ مقرر کرتی تھی۔ کمشنر ریاست کی ایگزیکٹو کونسل کی تقرری کرتا تھا اور ان کے سربراہ کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس کے علاوہ اسے ریاست کی حکومت میں روز مرہ کام بھی سر انجام دینے ہوتے تھے۔ 1979ء میں وفاقی وزارت اور کمشنر سے کافی سارے اختیارات لے کر انھیں ریاستی کونسل کو دے دیا گیا۔یوکون ایکٹ جسے یکم اپریل 2003ء میں منظور کیا گیا تھا، نے ریاستی حکومت کو زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔ 2003ءسے ریاستی حکومت کے پاس ما سوائے جرائم کے خلاف، دیگر تمام اختیارات وہی ہیں جو دیگر صوبائی حکومتوں کو حاصل ہیں۔ کسی حد تک کمشنر کا کردار صوبائی لیفٹیننٹ گورنر سے ملتا جلتا ہے تاہم کمشنر کو وفاقی حکومت تعینات کرتی ہے جبکہ لیفٹییننٹ گورنر کو ملکہ کی نمائندگی کا شرف حاصل ہوتا ہے۔1978ء میں پہلی بار ذمہ دار حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوئی ہیں اور انھوں نے یوکون کی مقننہ کے لیے اپنے امیدوار مقرر کیے۔ پروگریسو کنزرویٹو نے ان انتخابات کو جیت لیا اور یوکون کی حکومت جنوری 1979ء میں سنبھالی۔ یوکون نیو ڈیموکریٹک پارٹی نے 1985ء سے 1992ء تک حکومت بنائے رکھی۔ اس کے بعد 1996ء سے 2000ء تک ان کی حکومت رہی۔ کنزرویٹیو کی واپسی 1992ء میں ہوئی۔ انھوں نے اپنا نام بدل کر یوکون پارٹی رکھ دیا۔اگرچہ یوکون کو کینیڈا کا گیارھواں صوبہ بنانے کے بارے بات ہوتی رہی ہے تاہم اس کی قلیل آبادی کی بناٗ پر اس تجویز پر عمل ہونا محال ہے۔وفاقی سطح پر اس پارٹی کا ایک پارلیمانی ممبر اور ایک سینیٹر ہے۔ یوکون کے باشندوں کو دیگر صوبوں کے باشندوں کی طرح یکساں حقوق ملے ہوئے ہیں اور اسی طرح پارلیمنٹ میں ان کے اراکین کو بھی یکساں حقوق ہیں۔ یوکون کا ایک رکن پارلیمان ایک بار ڈپٹی پرائم منسٹر رہ چکا ہے اور دوسرا ممبر وفاقی نیو ڈیمو کریٹک پارٹی کا صدر بھی۔یوکون ان نو علاقوں میں سے ہے جہاں ہم جنس شادیوں کی اجازت ہے۔ریاست کی زیادہ تر آبادی مقامی قبائل پر مشتمل ہے۔ امبریلا لینڈ کلیم معاہدے کے تحت، جس میں چودہ مختلف قبائل کے 7000 اراکین نے اپنی رائے دی، پر وفاقی حکومت نے 1992ء میں دستخط کیے۔ دسمبر 2005ء تک ان چودہ میں سے گیارہ قبائل اس معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں۔"
+721,پیرو,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%DB%8C%D8%B1%D9%88,"جمہوریہ پیروجنوبی امریکاکے مغرب میں واقع ایک ملک ہے۔ اس کے شمال میںکولمبیا،ایکواڈوراور مشرق میںبرازیل، جنوب مشرق میںبولیویااور جنوب میںچلیواقع ہے۔ پیرو ایککثیر التنوع ملکہے پیرو میں مغرب میںبحر الکاہلکے ساحل اور بنجر میدان، شمال سے جنوب مشرق تکسلسلہ کوہ انڈیزکی پھیلی ہوئی چوٹیاں اور مشرق میںدریائے ایمیزونکے ساتھ دنیا کے طویل وعریض مشہور جنگلاتایمیزون برساتی جنگلدیکھنے کو ملتے ہیں۔ پیرو کیآبادی34 ملین یعنی تین کروڑ چالیس لاکھ ہے ،لیماسب سے بڑا شہر اوردار الحکومتہے رقبہ کے لحاظ سے پیرو دنیا کا 19 واں اورلاطینی امریکہمیں چوتھا بڑاملکہے۔پیرو قدیم زمانے سے متعدد تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔نورتے چیکو تہذیبلاطینی امریکاکی سب سے قدیمتہذیبشمار ہوتی ہے جو 3500قبل مسیحمیں اس علاقے میں موجود تھی اور دنیا کے پانچتہذیبکے گہواروں میں سے ایک ہے۔ مزید دیکھیےتہذیب کا گہوارہ۔
+پیرو کی قدیم تاریخ میں اگر نظر دوڑائی جائے توناسکا سلطنت،واری سلطنت،تیواناکو سلطنت،انکا سلطنتاورکوزکو سلطنتکولومبی دور سے قبلکی مضبوط ترین سلطنتیں شمار ہوتی ہیںہسپانوی سلطنتنے 16 ویں صدی میں اس علاقے کو فتح کیا اورپیرو میں نیابت سلطنتقائم کی جس نے اس کے بیشتر جنوبی امریکا کے علاقوں کو گھیر لیا، اس کا دار الحکومت لیما میں تھا۔ 1551 میں لیما میںنیشنل یونیورسٹی آف سان مارکوسکے باضابطہ قیام کے ساتھ امریکا میں اعلیٰ تعلیم کا آغاز ہوا۔ پیرو نے 1821 میں باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کیا۔خوسے دے سان مارٹناورسائمن بولیوارکی غیر ملکی فوجی مہموں اورآیاکوچو کی جنگکے بعد پیرو نے 1824 میں اپنی آزادی مکمل کر لی۔ آنے والے سالوں میں، ملک پہلے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا یہاں تک کہگوآنونامیاتی کھاد کے استعمال کی وجہ سے نسبتاً معاشی اور سیاسی استحکام کا دور شروع ہوا۔ بعد میں، چلی کے ساتھ بحرالکاہل کی جنگ (1879–1884) نے پیرو کو بحران کی حالت میں لا کھڑا کیا، جہاں سے سولسٹا پارٹی کے ذ��یعے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 20 ویں صدی میں، ملک نے بغاوتوں، سماجی بے امنی اور اندرونی تنازعات کے باوجود استحکام اور اقتصادی ترقی کے ادوار کو طے کیا۔ 1990 میںالبرٹو فوجی مورینےفوجی موری ازمکے سیاسی نظریہ کے تحت نیو لبرل معاشی خاکہ متعارف کرایا جس نے پیرو کی سیاسی زندگی میں پہلی مرتبہ شخصیت پرستی کے عنصر کو مہمیز کیا۔لفظ پیرو اصل میںسان میگوئل خلیجکے لوکل حکمران بیرو سے نکلا ہے جو سولہویں صدی عیسوی میں ان علاقوں کا حکمران تھاتقریبا 12500 قبل مسیح سے پیرو میں انسانی آبادی کے اثرات ملتے ہیں انڈین Andean اقواماو اکا پری ایٹاعلاقے میں آباد تھیں جن کی معیشت کا دارومدار زراعت، اونٹ پالنے اور ماہی گیری پر تھا۔دسمبر 1532 عیسوی میںفرانسسکو پیزارونے سلطنتانکاکےآتاوالپاکوکاخامارکا کی جنگمیں شکست دی اور پیرو پر قبضہ کر لیا۔انیسویں صدی عیسوی کے ابتدا میں جنوبی امریکائی اقوام نے تحریک آزادی کی کوششوں کو مزید تیز کرتے ہوئے مسلح جدوجہد کو آگے بڑھایا۔
+28 جولائی 1821 میں ارجنٹینی جنرلسان مارٹننےلیماشہر کو ہسپانوی قبضہ اقتدار سے چھڑوا کر پیرو کی آزادی کا اعلان کر دیا اور پیرو کا نیا جھنڈا بھی بنایا ۔ اگلے چند سالوں میں دیگر علاقے فتح کر کے پیرو کو مکمل طور پر ہسپانوی قبضہ سے آزاد کر لیا۔رامون کاستلیاکے صدراتی دور میں 1840 عیسوی سے 1860 عیسوی تک پیرو امن وامان اور سیاسی استحکام اور خوش حالی کے دور سے گذرا۔ 1879 عیسوی سے 1884 عیسوی تک ہونے والیبحرالکاہل کی جنگمیں پیرو نےچلیکے خلافبولیویاکی حمایت کی۔ اور یہ جنگ چلی کیجیتپر ختم ہوئی۔ جس میں پیرو کی شدید معاشی دھچکا لگا جس کی بحالی میں کئی سال لگ گئے۔بیسوی صدی عیسوی میں حکومت کے جنگ سے بحالی پروگرام سے کچھ معاشی خوش حالی دیکھنے میں آئی اورآگوستو برناردینو لیگیانے اقتدار سنبھالا۔ جو 1930 عیسوی میںکساد عظیمکی نظر ہو گیا۔ بیسوی صدی میں پیرو نے اپنے ہمسایہ ملککولومبیااورایکواڈورکے ساتھ علاقائی تقسیم کی تنازع پر دو جنگیں لڑیں۔ 29 اکتوبر 1948 عیسوی میں فوجی ڈکٹیٹرمینوئل ارتورو اودریانےفوجی انقلابکے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اور ملک کا 45 ویں صدر بن گیا۔ لیکن 1975 عیسوی میںجمہوریتدوبارہ بحال ہو گئی۔ 1990 میںالبرتو فوخی مورینے اقتدار سنبھالا اور 2000 میں استعفی دے دیا۔2001 ء سے 2006 ء تکآلخاندرو تولیدونے انتخابات جیت کر حکومت کی۔ 2006 ء کے انتخابات میں کامیاب ہو کر نئے صدرآلان گارسیانے اقتدار سنبھالا ۔ 2008 ء میں پیروجنوب امریکی ممالک کی یونینکا رکن ملک بنا۔ 2009 ء میںالبرتو فوخی موریکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر 25 سال کی قید کی سزا ہوئی۔ 2011 ء میںاویانتا اومالاکا انتخاب ہوا لیکنوزیر اعظمانا خارانے اس کی حکومت کوتحریک عدم اعتمادکے ذریعے ختم کر دیا۔ 2016 ء میںپیدرو پابلو کوچنسکینے اقتدار سنبھالا ۔ لیکن اس نے 2018 ء میں مختلف تنازعات کی وجہ سے اقتدار سے ا ستعفی دے دیا۔ اور نائب صدرمارتن وزکارانے اقتدار سنبھالا ۔ 2019 ء کے انتخابات میںمینوئل میرینونے اقتدار سنبھالنے کے صرف پانچ دن کے بعد استعفی دے دیا اورفرانسسکو ساگاستینے اقتدار اپنے ہاتھو میں لیا۔ اور 2021 ء میں انتخابات ہوئے جس میںپیدرو کاستیلیوکا مقابلہکے ایکو فوخی موریکے ساتھ تھا۔ اورپیدرو کاستیلیوکی کامیاب کے بعد وہ ملک کے 130 ویں صدر منتخب ہوئے۔پیرو کا حکومتی نظام صدارتی ہے اور آئین کثیر سیاسی احزاب کے قیام کی اجازت دیتا ہے۔ 1993 کے آئین کے مطابق ملک میں ��برل جمہوری نظام قائم ہوگا۔
+پیرو حکومت تین حصے پر مشتمل ہے۔ 1۔مقننہجس میں پیرو کانگرس شامل ہے جس کے 130 اراکین ہوتے ہیں ۔ 2۔انتظامیہ، جس میں صدر، وزراء کی کابینہ اور وزیر اعظم ہوتے ہیں۔ 3۔عدلیہ، جس میں 18 ججز پر مشتملعدالت عظمی, 28 اعلیٰ عدالتیں ، 195 ٹرائل کورٹس اور 1834 ضلعی عدالتیں شامل ہیں۔پیرو 26 یونٹس پر مشتمل ہے۔ 24 صوبے (ڈپارٹمنتس) ،کایاوکا آئنی صوبہ اور صوبہلیما۔ مزید دیکھیے:پیرو کے علاقہ جاتپیرو کی فوجلاطینی امریکاکی چوتھی بڑی فوج ہے جوبری فوج،بحری فوجاورفضائیہپر مشتمل ہے۔ افواج کی افراد قوت 392660 ہے جن میں سے 120660فعال اور 272000 غیر فعال ہیں ۔پیرو کے کئی دہائیوں سےریاست ہائے متحدہاورایشیاکے ساتھ اچھے قائم ہیں اور پیرو عالمی سطح پر مختلف تجارتی اور ثقافی تنظیموں کا رکن ملک بھی ہے۔پیرومساوی قوت خریدکے لحاظ سے 48 واں بڑا ملک ہے۔ عالمی بینک کے مطابق 2000 میں تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک میں سے پیرو شامل تھا۔پیرو کے بڑے شہروں اور قصبے میں1۔ دار الحکومتلیما،2۔ارے کیپا3۔ترو خویو4۔چکلایو5۔اوآنکایو6۔ایکی توس7۔ پیورا8۔کوزکو9۔ چمبوتے10۔ تاکنا
+شامل ہیں۔2017 ء کی مردم شماری کے مطابق پیرو کی آبادی 3 کروڑ اور دس لاکھ ہے اس طرح پیرو جنوبی امریکی ممالک میں آبادی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر آتا ہے۔پیرو کثیر النسل آبادی والا ملک واقع ہوا ہے جس میں مختلف اقوام کے باشندے آباد ہیں، پیرو کے باشندوں میں 60 فیصد مستیسو ، 22 فیصد کیچوائی، 6 فیصد سفید، 3۔6 فیصد سیاہ ، 2۔4 فیصد اے مارا اور دیگر اقوام شامل ہیں۔1993 کے آئین کے مطابق میں پیرو کی سرکاری زبانہسپانویہے جبکہہسپانویکے علاوہکیچوائی زبانیں،آئیمارا زباناور دیگر زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ البتہ 82 فیصد آبادیہسپانویزبان ہی بولتی ہے۔پیرو کا مذہب عیسائیت ہے رومنکیتھولکفرقے کے ماننے والے سب سے زیادہ ہیں۔ 2017 کی شماریات کے مطابق 76 فیصد لوگ خود کوکیتھولکشمار کرتے ہیں 14 فیصدانجیلی مسیحیتاور باقی ماندہ میںپروٹسٹنٹ،یہودیتاورلادینیتکے پیروکار شامل ہیں۔عالمی بینککے 2016 میں شائع کردہ اعدادو شمار کے مطابق پیرو میں اوسطامتوقع زندگی75 سال ہے۔2007 میں پیرو کی شرح خواندگی ایک اندازے کے مطابق 9۔92 فیصد تھی دیہاتی علاقوں میں 3۔80 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 3۔96 فیصد تھی۔ پیرو میں ابتدائی اور متوسط تعلیم مفت اور لازمی ہے۔
+پیرو میں موجود سان مارکوس کاقومی جامعہ، نئی دنیا میں اعلیٰ تعلیم کے قدیم ترین اداروں میں سے ایک ہے۔نیشنل یونیورسٹی آف سان مارکوس،پیرو میں نیابت سلطنتکے دوران 12 مئی 1551 کو قائم کی گئی، براعظم شمالی اور جنوبی امریکا کی پہلی باضابطہ طور پر قائم اور سب سے قدیم مسلسل کام کرنے والی یونیورسٹی ہے۔پیرو کیثقافتزیادہ تر قدیم مقامی رسوم و رواج اوریورپیطرز زندگی سے متاثر ہے التبہافریقیاورایشیائیثقافتکی جھلک بھی نظر آتی ہے۔"
+722,بیسویں صدی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DB%8C%D8%B3%D9%88%DB%8C%DA%BA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C,<<<انیسویں صدی <<<بیسویں صدی>>> اکیسویں صدی>>>
+723,مسکن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%DA%A9%D9%86,سکنمُسکِّنمُسکِّنمُسکَّنمُسکَّنتسکینمسکَنمُسکِّناتلطفملطفملطفتلطیفمعالجۂ ملطفہجراحت ملطفہنگہداشت ملطفہقیام / آرامmusakkinanalgesicmusakkananalgiaanalgesiahouseanalgesicsسکون / خوشیmutattifpalliativepalliationpalliation therapypalliative surgerypalliative careمسکّن(انگریزی: analgesic) کو آسان الفاظ میں درد مار یا درد ختم کرنے والیدواکہا جا سکتا ہے، مُسَـکِّن کا لفظ تسکین سے تعلق رکھتا ہے یعنی یوں کہ سکتے ہیں کہ ایسی شے (دوا) کہ جو کسی بھی قسم کے درد کو آرام پہنچائے یا تسکین سے قریب کرے اسے مسکن کہا جائے گا۔ یہاں ایک بات جو نہایت اہم ہے وہ مُسَـکِّن کے اعراب کی درست ادائیگی ہے ورنہ اسی انداز میں لکھے جانے والے ایک اور عام لفظ، مسکن سے ابہام پیدا ہو سکتا ہے جس کے اوپر زبر آتا ہے اور اس سے مراد سکونت کی جگہ یا رہنے کی جگہ کی ہوتی ہے۔ جبکہ درد ختم کرنے والی دوا میں میم پر پیش اور کاف پر تشدید و زیر کے ساتھ musakkin کی ادائگی کی جاتی ہے۔ انگریزی میں اسے انالجیسک یا اینالجیزک (analgesic) کہا جاتا ہے اور یہاں یہ لفظ دویونانیالفاظ، an بمعنی نہیں یا نفی کے اور algia بمعنی درد کا مرکب ہے۔
+724,1960ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1960%D8%A1,1960ءگریگورین تقویمکا ایکلیپ کا سالہے جوجمعہکے دن سے شروع ہوا۔ اسےافریقاکا سال جانا جاتا ہے۔{{بیسویں صدی
+726,تاریخی دور ڈراما,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DB%8C_%D8%AF%D9%88%D8%B1_%DA%88%D8%B1%D8%A7%D9%85%D8%A7,"تاریخی دور ڈراما(انگریزی:Historical period drama(also historical drama, period drama, costume drama, and period piece)) ایک ماضی کے دور کا پس منظر مراد ہے جوفلمیاٹیلی ویژنکے تناظر میں استعمال کیا گیا ہو۔لوا خطا ماڈیول:Authority_control میں 306 سطر پر: attempt to call field '_showMessage' (a nil value)۔"
+727,فلمی ہدایت کار,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D9%84%D9%85%DB%8C_%DB%81%D8%AF%D8%A7%DB%8C%D8%AA_%DA%A9%D8%A7%D8%B1,فلم ہدایتکار فلم کی ہدایتکاری کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ہدایتکار فلم کے اسکرپٹ کی تیاری، تشکیل اور نگرانی کرنے کے علاوہ فنی عملے اور اداکاران کو ہدایت دینے کے علاوہ فلم کی ڈرامائی اور جمالیاتی شکل کو تشکیل دیتا ہے۔فلمی ہدایتکار کا کام فلم کا ایک مجموعی خاکہ ترتیب دینا ہوتا ہے۔ جس کے لیے اسے فلم کے فنی و تکنیکی پہلوؤں کے علاوہ فلمبندی اور دیگر فلمبندی کے اوقات کار کا بھی تعین کرنا ہوتا ہے۔ جس کے لیے اسے ایسے عملے کو بھی چننا ہوتا ہے جو اس کے خواب کو تعبیر دینے میں مددگار ثابت ہو سکے۔ چونکہ فلم ہدایتکار کو فلم کے تمام عملے کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، لہذا اس میں ایک راہنما کی خصوصیات بدفجہ اتم ہونا ضروری ہوتی ہیں تاکہ وہ عملے میں پیدا ہونت والے کسی ممکنہ قضیئے کو نپٹا سکے، ان کو ایک مشترکہ تخلیقی عمل میں بہتر انداز سے شریک کر سکے۔ فلم ہدایتکار کو ایک بحری جہاز کے کپتان سے بھی تشبہیہ دی جاتی ہے جو دوسرے عملے کی مدد سے ایک منزل کے حصول کے لیے نکلتا ہے۔ فلم ہدایتکار کا تعلق صرف عملے اور اداکاروں کے ساتھ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے فلمساز کے ساتھ بھی بہت نزدیکی رابطے میں رہنا پڑتا ہے تاکہ فلم کی لاگت مہیا بجٹ سے باہر نہ جائے۔فلم ہدایتکار فلم کی دنیا کے مختلف شعبوں سے آتے ہیں، کچھ لوگ پہلے فلمی عکاس یا تدوین کار ہوتے ہیں، کچھاسکرپٹ نویسی یا اداکاری سے تجربہ حاصل کر کے اس میدان میں جوہر دکھانے کے لیے آتے ہیں، جبکہ کچھ فلم اسکولوں سے آتے ہیں، مختلف ملکوں میں ہدایتکاروں کے لیے تعلیم کا عرصہ مختلف ہوتا ہے۔لندنفلم اسکول میں فلم ہدایتکاری کا کورس دو سال میں مکمل ہو جاتا ہے، کچھ اسکولوں میں تین سال جبکہ کچھ اسکولوں میں یہ عرصہ پانچ سال تک بھی ہوتا ہے۔ دنیا کے تقریباََ تمام ممالک میں فلم ہدایتکاری یا دیگر شعبوں کے لیے اسکول ہوتے ہیں، جبکہپاکستانابھی تک اس سہولت سے محروم ہے۔پاکستانمیں جہاں فلم اسکول نہیں ہے، وہیں فلمی صنعت میں غیر تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت ہونے کی وجہ سے معیاری کام نہیں ہو سکا۔ تجارتی سینماسے تعلق رکھنے والے ہدایتکاروں کے ہاں ��نی بصیرت تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی فلمی صنعت دنیا میں اپنا نام نہیں کر سکی۔ پاکستانی فلم کی کہانی ابھی تک ہیرو، ہیروئن اور ولن کی مثلث سے باہر نہیں نکل سکی۔ ماضی میں گو کچھ اچھا کام ہوا ہے لیکن فنی طور پر اسے بھی کچھ زیادہ سراہا نہیں جا سکتا۔ پاکستانی سنجیدہ سینما کے حوالے سے1950ء کی دہائیمیں اختر نواز جنگ کاردار (اے جے کاردار) کا نام لیا جاتا ہے جنھوں نےجاگو ہوا سویرانام سے ایک فلم بنائی جو ملک میں تو کامیابی حاصل نہ کر سکی لیکن اسے بین الاقوامی طور پر پزیرائی ہوئی، اس فلم نےماسکوکے فلمی میلے سے بہترین عکاسی کا اعزاز بھیجیتا۔اے آر کاردارکی دوسری فلمدور ہے سکھ کا گاؤںجھگڑوں کی نذر ہو گئی، تیسری فلمقسم اس وقت کیبھی کامیاب نہ ہو پائی۔1970ء کی دہائیمیں نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیف ڈیک) کے نام سے ادارہ قائم ہوا جس کا مقصد ملکی فلمی کی ترویج اور وسائل مہیا کرنا تھا، لیکن بھٹو حکومت کے جانے سے وہ ادارہ بھی بے اثر ہو گیا۔پچھلے چند سالوں سے جہاں پاکستانی تجارتی سینما تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے وہیں چند پڑھے لکھے ہدائتکار بھی سامنے آئے ہیں جن میں وزیر اطلاعاتجاوید جبارکیبیٹیمہرین جبارکانام آتا ہے جن کی فلمرام چند پاکستانیکو بیرون ملک خاصا سراہا گیا ہے۔ جاوید جبار خود بھی ستر کی دہائی میں بی آنڈ دی لاسٹ ماؤنٹین (Beyond the last mountain) نامی فلم بنا چکے ہیں۔ ان کے علاوہ جمیل دہلوی صاحب نے بلڈ آف حسین (Blood of Hussain)نامی فلم بنائی جو کچھ خاص کامیابی حاصل نہ کر پائی۔ پاکستانی فلم کے حوالے سے دوسرا نامشعیب منصورکا لیا جاتا ہے جن کا بنیادی تعلق تو پاکستان ٹی وی سے تھا لیکن انھوں نے اپنی پہلی ہی فیچر فلمخدا کے لیےسےسب کو چونکا دیا، ان کی دوسری فلمبولبھی بہت زیادہ پسند کی گئی۔دستاویزی فلم کے حوالے سےشرمین عبید چنائےکا کام بہت اچھا ہے جس کی انھیں عالمی طور پر پزیرائی بھی نصیب ہوئی ہے، وہ اب تک اپنے کام کی وجہ سےایمی ایوارڈز،برٹش اکیڈمی فلم اعزازاتاوراکیڈمی ایوارڈزجیت چکی ہیں۔
+728,کے آصف,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%DB%92_%D8%A2%D8%B5%D9%81,کے آصف(K. Asif) پیدائشی نامآصف کریمایکبھارتیفلمی ہدایت کار،پروڈیوسراورمنظر نویستھے جو1960ءمیں بننے والی رزمی تاریخی ڈراما فلممغل اعظمکے لیے جانے جاتے ہیں۔[1]لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+729,اداکار,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%AF%D8%A7%DA%A9%D8%A7%D8%B1,"اداکاریا اداکارہ ایک ایسی شخصیت کو کہتے ہیں جو کسیفلم،تھیٹر،تمثیل،ریڈیویا کسی بھی ڈرامائی پیشکش میںاداکاریکرتا ہے ۔[2]اداکار کے لیے قدیمیونانیزبان لفظ "" Hypokrites "" کا مطلب ایک ایسا شخص ہے جو وضاحت یا ترجمانی کرتا ہے۔ اس تشریح کے مطابق اداکار وہ ہے جو اپنی حرکات و سکنات اور گفتار سے کسی کردار کی وضاحت یا ترجمانی کرتا ہے۔انسانی تاریخ میں پہلی مشہور اداکاری ٥٣٤ قبل مسیح کے لگ بھگ تھی، جب یونانی اداکار تھیسپس نے ایک ڈرامے یا کہانی میں بطور کردار بولتے ہوئے ڈیونیسیس کے اسٹیج پر قدم رکھا۔ رقص اور گانا تھیسپس کے کام کے وقت سے پہلے یونانی کہانیوں کے اظہار کے طریقے تھے۔قدیم یونانیتھیٹر میں مرد اداکاروں نے تین قسم کے ڈرامے پیش کیے: المیہ، مزاحیہ اور طنزیہ۔ مغربی تھیٹر نے رومن حکمرانی کے تحت بہت ترقی اور توسیع کی۔قدیم رومکا تھیٹر ایک فروغ پزیر اور متنوع آرٹ کی شکل تھی، جس میں اسٹریٹ تھیٹر کے رومن تہواروں، عریاں رقص اور ایکروبیٹکس سے لے کر حالات کی مزاح نگاری اور زبانی طور پر بیان کیے گئے سانحات کو پیش کیا جاتا تھا۔تھیٹر، سینما گھر اور ٹیلی ویژن 1960 کی دہائی میں نمودار ہوئے۔ اس نے ایک زیادہ منظم کردار اختیار کیا اور اکیڈمیاں ابھریں جو اداکاری کے فن کی بنیادی باتیں سکھاتی ہیں اور ایسے باصلاحیت لوگوں کو نکھارتی ہیں جو ایک منظم تعلیمی انداز میں فنکارانہ کام میں مشغول ہونا چاہتے ہیں جسے سرکاری، تسلیم شدہ سرٹیفکیٹس سے پہچانا جاتا ہے۔ سنڈیکیٹس، فیڈریشنز اور اداکاروں کی انجمنیں معاشرے میں اداکاروں کے حقوق کے تحفظ، بڑھاپے کی وجہ سے ریٹائر ہونے والوں کی حمایت اور فلم یا تھیٹر انڈسٹری کے اراکین اور دیگر فریقوں کے درمیان ہونے والے مسائل اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے ابھری ہیں۔ اداکاروں کا شمار مہذب دنیا کے بیشتر ممالک میں معاشرے کے ممتاز ترین ستاروں اور فنکاروں میں ہوتا ہے۔"
+730,پرتھوی راج کپور,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%B1%D8%AA%DA%BE%D9%88%DB%8C_%D8%B1%D8%A7%D8%AC_%DA%A9%D9%BE%D9%88%D8%B1,پرتھوی راج کپور(ولادت: پرتھوی ناتھ کپور؛ 03 نومبر1906ء- وفات: 29 مئی 1972ء) بھارتی اداکار تھے۔لائلپورمیں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیملاہورمیں حاصل کی۔ اس کے بعد ان کے والد کا تبادلہ جبپشاورہوا تو انھوں نے ایڈورڈ کالج پشاور سے تعلیم حاصل کی۔ اداکاری کے شوق میں اپنی ایک خالہ سے قرض لے کربمبئیچلے گئے۔کئی خاموش فلموں میں کام کرنے کے بعد پرتھوی راج کپور نے برصغیر کی پہلی بولتی فلم عالم آرا میں بھی کام کیا۔ خاموش اور بولتی فلموں کے اس اداکار نے فلمی دنیا میں چند ایسے یادگار کردار ادا کیے جِنہیں فلمی ناظرین کبھی بھلا ہی نہیں سکتے لیکن پِرتھوی کو فلموں سے زیادہ تھیٹر سے بہت لگاؤ تھا اور اس کے لیے انھوں نے 1944 میں اپنا چلتا پھرتا تھیٹر گروپ قائم کیا جس کا نام ’فن، ملک کی خدمت میں‘ رکھا تھا۔ انیس سو ساٹھ تک یہ گروپ کام کرتا رہا لیکن پھر ان کی صحت نے جواب دیا اور انھوں نے کام چھوڑ دیا۔پرتھوی راج کپور اپنے پرتھوی گروپ کے ساتھ ملک بھر گھومتے تھے۔ سولہ برسوں میں انھوں نے 2662 شوز کیے۔ ان کے ہر ڈرامے میں ایک پیغام ہوتا تھا۔ سنجیدہ سماجی مسائل کو انھوں نے ہمیشہ اہمیت دی۔ اس کا اندازہ ان کے ڈراموں سے لگایا جا سکتا ہے جن میں سماجی مسائل اس دور میں کسانوں کی زبوں حالی، ہندو مسلم تعلقات یا پھر سماج میں دولت کی بڑھتی اہمیت نمایاں ہوتے۔ان کے چند منتخب اور مشہور ڈرامے دیوار، شکنتلا، پٹھان غدار، آہوتی، پیسہ، کسان اور کلاکار ہیں۔پِرتھوی راج کپور نے اپنی فلموں میں تھیٹر کے فن کو آزمایا۔ ان کی آواز کی گھن گرج اگر ان کے تھیٹر کے فن میں کام آئی تو وہیں فلم مغل اعظم میں ان کی آواز اس فلم کا اہم حصہ بنی اور وہ کردار ان کی بھاری بھر کم شخصیت اور گرج دار آواز کی وجہ سے زندہ جاوید بن کر رہ گیا۔پرتھوی راج کپور کے تین بیٹے تھے راج کپور، شمی کپور اور ششی کپور۔ راج کپور اداکار کے ساتھ فلمساز بنے اور انھیں اپنے دور کے سب سے بڑے شومین کا خطاب بھی ملا۔ پرتھوی راج کپور کے بعد ان کے بیٹوں نے اپنے والد کے تھیٹر گروپ میں دلچسپی دکھائی اور آج کنال کپور اور بیٹی سنجنا کپور ہی اپنے دادا کا یہ خواب پورا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
+731,درگا کھوٹے,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%B1%DA%AF%D8%A7_%DA%A9%DA%BE%D9%88%D9%B9%DB%92,درگا کھوٹے(ولادت: 14 جنوری 1905ء - وفات: 22 ستمبر 1991ء) ایکبھارتیاداکارہ تھیں۔ وہ ہندی اور مراٹھی سنیما کے ساتھ ساتھ تھیٹر میں بھی 50 سال سے زیادہ عرصہ تک سرگرم رہیں۔ درگا کھوٹے اپنے دور کی سب سے اہم خواتین میں سے ایک والی تھیں، جنھوں نے 200 کے قریب فلموں میں اداکاری کی۔ درگا کھوٹے کو 1968ء میںحکومت ہندنےپدم شری، بھارت کا چوتھا سب سے بڑا اعزاز اور 1983ء میں [[دادا صاحب پھالکے اعزاز] سے نوازا۔درگا کھوٹے کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جوگوواسے تعلق رکھتا تھا اور گھر میںکوکنیبولتا تھا۔ درگا کھوٹے کا پیدائشی نام ویتا لاڈ تھا۔[1]درگا کھوٹے کی شادی اس وقت سے ہوئی جب وہ نوعمر تھیں۔ ان کے شوہر کا نام وشوناتھ کھوٹے تھا۔2013ء کوبھارتی ڈاکنے ان کے اعزاز میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+733,مدھوبالا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AF%DA%BE%D9%88%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%A7,مدھو بالا(ولادت: 14 فروری 1933ء - وفات: 23 فروری 1969ء) 1950ء سے 1960ء کے عشرے کی انتہائی خوبصورت اور ہمہ جہت خوبیوں سے مالا مال اداکارہ تھیں مدھو بالا نے اپنی فلمی زندگی کا سفر 9 سال کی عمر سے شروع کیا تھا۔ 1950ء کے عشرے میں وہ سب سے زیادہ مقبول اور معاوضہ لینے والی اداکارہ تھیں ، مدھو بالا نے دو دہائیوں کے فلمی سفر میں 73 بالی ووڈ فلموں میں کام کیا[3]۔ میڈیا میں مدھو بالا کو ہندوستانی سینما کی سب سے زیادہ خوبصورت اور بااثر شخصیت مانا جاتا ہے[4][5]۔فلمساز اور ہدایت کارکیدار شرمانے 1947ء میں انھیں اپنی پہلی فلمنیل کملمیں بطور ہیروئین سائن کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر محض تیرہ سال تھی۔ پھر محل، ترانہ، مسٹر اینڈ مسز 55، ہاؤڑا برج، کالا پانی، چلتی کا نام گاڑی جیسی کئی کامیاب فلموں میں انھوں نے کام کیا۔ لیکن فلممغل اعظممیں ان کی اداکاری اور ان کے حسن کے بہت چرچے ہوئے۔ فلم مغل اعظم کے لیے فلم فیئر ایوارڈ کی طرف سے انھیں بہترین اداکارہ کے لیے بھی نامزد کیا گیا، یہ ان کے فنی سفر میں واحد نامزدگی تھی[5]۔ان کی آخری فلم جوالا تھی جو 1971ء میں ریلیز ہوئی۔مدھو بالا کا فلمی سفر جتنا کامیاب رہا ان کی اپنی ذاتی زندگی اتنی ہی ناکام رہی۔ انھوں نے اپنے دور کے کامیاب اداکار اور شہنشاہ جذباتدلیپ کمارسے محبت کی۔ چھ سال تک ان کے درمیان میں دوستی رہی لیکن مدھو بالا کے والد عطاء اللہ خانگنڈہ پورکو ان کی دوستی پسند نہیں آئی اور یہ حسین جوڑی ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد مدھو بالا نے گلوکارکشور کمارسے شادی کی لیکن کم عمری میں ہی 1969ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔مدھو بالا کی خوبصورتی اور زندگی کا موازنہ ہالی ووڈ کی اداکارہ مارلن منرو سے کیاجاتا ہے، اسی وجہ سے انھیں انڈین سینما کی وینس اور بالی ووڈ کی مارلن منرو کہاجاتا ہے۔[6][7][8]مدھو بالا کا شماربالی وڈکی انتہائی خوبصورت اداکاراؤں میں کیا جاتا ہے۔ ان میں بلا کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اداکاری کی زبردست صلاحیت تھی۔ محکمہ ڈاک نے 2008ء میں ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ وہ ہر کردار میں وہ بخوبی ڈھل جاتی تھیں۔ بھارتی سنیما میںنرگس،مینا کماریاورنوتنجیسی اداکاراؤں کے دور میں مدھوبالا نے اپنی ایک منفرد چھاپ چھوڑی تھی۔وہ دلیپ کمار سے جوار بھاٹا (1949ء) کے سیٹ پر پہلی بارملی تھیں۔ ان کودلیپ کماربے حد پسند آئے اور وہ ان سے پیار کر لگیں۔ اس وقت ان کی عمر 18 سال تھی اور دلیپ کمار اپنی زیست کی 29 بہاریں دیکھ چکے تھے۔ انھوں نے 1951ء میں ترانہ میں ایک ساتھ پھر کام کیا۔ ان کی محبت اس وقت اور گہری ہوتی گئی جب مغل اعظم کی نو سالہ شوٹنگ شروع ہوئی۔ وہ دلیپ کمار سے شادی کرنا چاہتی تھیں لیکن دلیپ کمار نے انکار کر دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دلیپ کمار تیار تھے، لیکن مدھوبالا کے لالچی رشتہ داروں نے اس شادی کو ہونے نہیں دیا۔ 1958ء میں ان کے والد آیت اللہ خان نے دلیپ کمار کے خلاف عدالت میں مقدمہ درج کر دیا جس کی وجہ سے ان دونوں کی شادی نہیں ہو پائی۔
+735,نورالدین جہانگیر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%AC%DB%81%D8%A7%D9%86%DA%AF%DB%8C%D8%B1,اکبر اعظمکے تین لڑکے تھے۔سلیم،مراداوردانیال(مغل خاندان)۔ مراد اور دانیال باپ کی زندگی ہی میں شراب نوشی کی وجہ سے مر چکے تھے۔ اکبر اعظم کی1605ءمیں وفات کے بعد شہزادہ سلیم نور الدین جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ اس نے کئی مفید اصلاحات نافذ کیں.1606ء میں اس کے سب سے بڑے بیٹے خسرو نے بغاوت کردی۔ اور آگرے سے نکل کر پنجاب تک جا پہنچا۔ جہانگیر نے اسے شکست دی۔ سکھوں کے گوروارجن دیوبھی جو خسرو کی مدد کر رہے تھے۔ شاہی عتاب میں آ گئے۔ شہنشاہ نے گوروارجن دیو کو قید کرکے بھاری جرمانہ عائد کر دیاجس کو گورو نے ادا کرنے سے معذرت کی۔گورو کو شاہی قلعہ لاہور میں قید میں ڈال دیا گیا ایک روز گورو نے فرمائش کی کہ وہدریائے راویمیں اشنان (غسل) کرنا چاہتے ہیں انھیں اس کی اجازت دے دی گئی غسل کے دوران گورو ارجن دیو نے دریا میں ڈبکی لگائی اور اس کے بعد وہ دکھائی نہ دیے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے دریائے راوی میں ڈوب کر خودکشی کرلی۔ جس مقام پر گورو نے دریامیں چھلانگ لگائی وہاں سکھوں نے ان کی سمادھی بنادی ہے۔ اس واقعہ سے مغلوں اور سکھوں کے درمیان نفرت کا آغاز ہواجس کے نتیجہ میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔1614ء میں شہزادہ خرم ’’شاہجہان‘‘ نےمیواڑکے راناامرسنگھکو شکست دی۔ 1620ء میںکانگڑہخود جہانگیر نے فتح کیا۔ 1622ء میںقندھارکا علاقہ ہاتھ سے نکل گیا۔ جہانگیر ہی کے زمانے میںانگریزسر ٹامس روسفیر کے ذریعے، پہلی بار ہندوستان میں تجارتی حقوق حاصل کرنے کی نیت سے آئے۔ 1623ء میں خرم نے بغاوت کردی۔ کیونکہ نورجہاں اپنے دامادشہریارکو ولی عہد بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخر 1625ء میں باپ اور بیٹے میں صلح ہو گئی۔بادشاہ جہانگیر اپنیتزک جہانگیریمیں لکھتے ہیں کہعطر گلابمیرے عہد حکومت میںملکہ نورجہاںکی والدہ نے ایجاد کیا تھا۔ جہانگیر مصوری اورفنون لطیفہکا بہت شوقین تھا۔ اس نے اپنے حالات ایک کتابتوزک جہانگیریمیں لکھے ہیں۔ اسے شکار سے بھی رغبت تھی۔ شراب نوشی کے باعث آخری دنوں میں بیمار رہتا تھا۔جہانگیر کی چہیتی بیوی نور جہاں امور سلطنت کے امور میں مداخلت کرتی تھی جس کی وجہ سے بہت سے امرا جہانگیری دربار سے بد ظن ہو گئے اور دربار میں کئی امرا کی آمدورفت بندہوگئی۔ نور جہاں چاہتی تھی کہ تختدہلیپر اس کا داماد شہزادہ شہریار رونق افروز ہو مگر دوسری طرف شہزادہ خرم بھی تخت کا طلب گار تھا اس لیے دو فریق بن گئے جس سے مغل امرا میں پھوٹ پڑ گئی ۔مغل افواج کا سپہ سالار مہابت خان تھا جو مغلوں کا وفادار خادم تھا۔ مگر اس کا جھکاؤ شہزادہ خرم کی طرف تھا جس سے نور جہان نے شہنشاہ جہانگیر کو اس کے خلاف کر دیا مہابت خان کو دربار میں طلب کرکے اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا اس کی بیٹی کا جہیز ضبط کر لیاگیا۔ جہانگیر جبکشمیرجا رہاتھا تو راستے میں مہابت خان نے بغاوت کردی مغل فوج اس کے ساتھ تھی اس لیے اس نے باآسانی جہانگیر کو قیدکرلیا ان حالات میں نور جہان اور اس کے بھائی آصف جاہ نے بھی خود کو مہابت خان کے حوالے کر دیا مہابت خان ایک بلند پایہ جرنیل تھا مگر سازشوں اور مکارانہ چالوں سے بے بہرہ تھا نور جہان نے ��ند دنوں میں مغل فوج کے بہت بڑے حصے کو اپنے ساتھ ملالیا جس سے مغل فوج میں پھوٹ پڑ گئی مہابت خان تنہا رہ گیا اس نے فرار ہو کر جان بچائی ۔مہابت خان کی قید سے رہائی پانے کے بعد جہانگیر زیادہ عرصہ زندہ نہ رہا گرمیوں کے موسم میں اس نے کشمیر میں قیام کیا کچھ عرصہ وہاں مقیم رہنے کے بعد 1627ء میںکشمیرسے واپس آتے وقت راستے ہی میں بھمبر کے مقام پر انتقال کیا۔ اس کی میت کو لاہور لایا گیا جہاں دریائے راوی کے کنارے باغ دلکشالاہورموجودہشاہدرہمیں دفن ہوا۔ یہ مقام ابمقبرہ جہانگیرکے نام سے مشہور ہے۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+736,انارکلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D9%84%DB%8C,"انارکلی،مغلبادشاہاکبرکی ایک کنیز تھی جس کے ساتھ اکبر کے بیٹےشہزادہ سلیم(شہزادہ سلیم بعد میں بادشاہجہانگیرکے نام سے مشہور ہوا) کے محبت کے قصے مشہور ہیں۔ اسے ایک روایت کے مطابق بادشاہاکبرکے حکم پرلاہورکے قریب دیوار میں زندہ چنوا دیا گیا تھا۔ لاہور کا مشہورانارکلی بازاراسی کے نام پر ہے۔ دراصل یہ تمام قصے یورپی مؤرخ اور سیاحوں کے گھڑے ہوئے ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ڈاکٹر انیس ناگی نے اس موضوع پر ایک کتابچہ تالیف کیا ہے جس کا نام"" انار کلی حقیقت یا رومان"" ہے۔ اس میں ان مختلف مضامین کو اکٹھا کیا گیا ہے جن میں انار کلی کے واقعے کے سچ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں لکھا گیا۔ اکثر مسلمان مورخوں نے اس واقعے کو جھٹلایا ہیں۔مغلوں کی تعمیر کردہ عظیم الشان عمارات جہاں مرقع کاری اور کاریگری کے مبہوت کر دینے والے عناصر سے مزین ہیں وہاں اپنے اندر مختلف انسانی جذبات یعنی‘ نفرت‘ محبت‘ حسد‘ انتقام‘ انصاف‘ اور سازش وغیرہ کی سینکڑوں داستانوں کو بھی سموئے ہوئے ہیں۔ محبت کی داستانوں میں سب سے مشہور کہانی انارکلی ہے جسے سچی محبت کے جذبے نے لازوال بنا دیا ہے۔انارکلی اور شہزادہ سلیم کے عشق کی داستان ایک ختم نہ ہونے والی بحث میں تبدیل ہو گئی ہے۔تاریخ دانوں اور عوام کی آراء بالکل مختلف ہیں۔اُردو ڈراما کی تاریخ میں امتیاز علی تاج کی تخلیق ڈراما ’’انار کلی‘‘ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے۔ یہ ڈراما پہلی بار 1932ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور اس ڈرامے کی مقبولیت بر قرار ہے۔ بھارت میں انارکلی کی کہانی کی اساس پر ایک فلم ’’مغل اعظم‘‘بنائی گئی جسے فلم بینوں نے بہت پسند کیا۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے انارکلی ایک ایسی رومانی داستان ہے جس کے حقیقی مآخذ کے بارے میں اب تک کوئی ٹھوس تاریخی حقیقت یا دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا۔نور جہاں اور جہانگیر کے کبوتروں والا معاملہ ہے جو کبھی تھا ہی نہیں مگر لوگ اب تک اسے کالنقش فی الجر قرار دیتے ہیں۔ انار کلی کی پوری داستان ایسے واقعات سے لبریز ہے جو سرے سے کبھی وجود میں ہی نہیں آئے۔ خود امتیاز علی تاج نے اس ڈرامے کی حقیقت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کو تاریخی واقعات سے متصادم سمجھتے ہوئے اس کی افسانوی حیثیت کو واضح کیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ انار کلی کا واقعہ 1599ء میں وقوع پزیر ہوا۔ یورپی سیاح ولیم فنچ جو 1618ء میں لاہور پہنچا، اس نے اپنی یاد داشتوں میں اس المیے کا ذکر بڑے دردناک انداز میں کیا ہے۔ اس نے پوری کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح اس من گھڑت واقعے کے ذریعے مغل شہنشاہ اکبر کو بد نام کیا جائے۔ اس نے اکبر کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس کے بعد 1618ء میں ایک اور یورپی سیاح ایڈورڈ ٹیری لاہور آیا، اس نے بھی اپنے پیش رو سیاح کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس فرضی داستان کو خوب نمک مرچ لگا کر پیش کیا۔ دراصل یہ ایک سازش تھی جسے مسلسل آگے بڑھایا جا رہا تھا۔ چار سال بعد یعنی 1622ء میں یورپ سے سیاحت کی غرض سے آنے والے ایک اور سیاح ہربرٹ نے بھی اس قصے کو اپنی چرب زبانی سے خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ اس کے باوجود کسی نے ان بے سروپا الزامات پر کان نہ دھرا۔ اس زمانے میں ادب کے سنجیدہ قارئین نے اس قسم کے عامیانہ نوعیت کے بیانات کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا۔پورے دو سو سال تک بر صغیر کے لوگ اس قصے سے لا علم رہے کسی غیر جانب دار مورخ کے ہاں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ نور الدین جہانگیر نے تزک جہانگیری میں کہیں اس کا ذکر نہیں کیا۔ اس عہد کے ممتاز مورخ والہ داغستانی اور خافی خان جو اکبر اور جہانگیر کی معمولی نوعیت کی لغزشوں پر بھی نظر رکھتے تھے، انھوں نے بھی کسی مقام پر اس قصے کو ذکر نہیں کیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام قصہ محض تخیل کی شادابی ہے۔یورپی سیاحوں نے اپنی منفی سوچ کو بروئے کا لاتے ہوئے سازش کا جو بیج بویا وہ رفتہ رفتہ نمو پاتا رہا۔ 1864ء میں مولوی نور احمد چشتی نے اپنی تصنیف ’’تحقیقات چشتی‘‘میں انار کلی اور اکبر کے اس رومان کا ذکر کیا ہے۔ 1882ء میں کنہیا لال ہندی نے اپنی تصنیف ’’تاریخ لاہور‘‘میں انار کلی، اکبر اور سلیم کے اس المیہ قصے کا احوال بیان کیا ہے۔ یہ سلسلہ مقامی ادیبوں کے ہاں ایک طویل عرصے کے بعد اس قصے کی باز گشت سنائی دینے لگی۔ سید محمد لطیف نے بہت بعد میں انار کلی اور اکبر کے اس المیے کا ذکر اپنی تصنیف (History of Lahore) میں کیا ہے۔ یہ انگریزی کتاب 1892ء میں شائع ہوئی۔تاریخ حقائق سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انار کلی، اکبر اور سلیم کا یہ رومانی المیہ جسے ابتدا میں یورپی سیاحوں نے محض تفنن طبع کے لیے اختراع کیا، آنے والے دور میں اس پر لوگوں نے اندھا اعتماد کرنا شروع کر دیا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت کو خرافات کے سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ آثار قدیمہ، تاریخی حقائق اور دستاویزی ثبوت اس تمام المیہ ڈرامے کو جھوٹ کا پلند قرار دیتے ہیں۔وہ دیوار جس کے بارے میں یہ شو شہ چھوڑا گیا کہ اس میں انار کلی کو زندہ دفن کیا گیا۔ اس کے آثار لاہور شہر میں کہیں موجود نہیں۔ انار کلی کے تنازع پر جنرل مان سنگھ اور شہزادہ سلیم کی مسلح افواج کے درمیان جو خونریز جنگ ہوئی اس کے میدان جنگ، مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد کا کوئی علم نہیں۔ جنرل مان سنگھ تو مغل افواج کی کمان کر رہا تھا شہزادہ سلیم نے ایک بڑی فوج کہاں سے حاصل کی اور اس کی تنخواہ اور قیام و طعام کا بندوبست کیسے ہوا؟ جنرل مان سنگھ کی کامیابی کے بعد شہزادہ سلیم کی حامی اور اکبر کی مخالف فوج پر کیا گذری؟کیا اکبر کی سراغ رسانی اس قدر کم زور تھی کہ اسے دلآرام کے علاوہ کسی سراغ رساں نے اس بات کی مخبری نہ کی کہ ولی عہد شہزادہ ایک کنیز کے چنگل میں پھنس کر بغاوت پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ کیا اکبر اعظم کا نظام سلطنت اس قدر کم زور تھا کہ اسے اپنے خلاف سازش اور بغاوت کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہ سب سوال ایسے ہیں جو اس قصے کو نہ صرف من گھڑت ثابت کرتے ہیں بلکہ اسے یورپی سیاحوں کی بد نیتی اور ذہنی افلاس پر مبنی ایک صریح جھوٹ قرار دیتے ہیں۔لاہور سول سیکرٹیریٹ میں جو انارکلی کے نام سے موسوم ہے وہ انار کلی کا مقبرہ نہ��ں بلکہ زین خان کوکہ کی صاحب زادی “صاحب جمال “کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہ شہزادہ سلیم کی منکوحہ تھی۔ اس کا مقبرہ شہزادہ سلیم نے اپنے عہد میں تعمیر کروایا۔امتیاز علی تاج نے ولیم فنچ کے بیان کو بنیاد بنا یا ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ اور تخلیق ادب کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں ۔ فرد کی اجتماعی زندگی مختلف نوعیت کے حالات کی امین ہوتی ہے ۔ زندگی میں تغیر و تبدل کا ایک نظام موجود ہے اور اجتماعی زندگی انہی قوانین کے زیر اثر رہتی ہے۔وادی ءخیال کو مستانہ وار طے کرنے والوں کہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے کہ شعور و ذہن کا ارتقاتاریخ کے ایک ایسے مسلسل عمل کی جانب متوجہ کرتا ہے جو فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرنے کا موثر ترین وسیلہ ہے ۔سید امتیاز علی تاج نے تاریخ او ر تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں بلاشبہ مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی سعی کی ہے۔ان کے اسلوب میں تاریخی شعور کا جو منفرد انداز جلوہ گر ہے وہ زندگی کی ایسی معنویت کا مظہر ہے جو نئی بصیرتوں کی امین ہے۔ہیگل نے لکھا ہے۔”چونکہ انسانی آزادی اور حساس آزادی ایک چیز ہے لہذا آزادی کا ارتقا کا شعور ذہن کا ارتقا ہے۔ اس عمل میں ہر قسم کے افکار تشکیل پاتے ہیں ۔ اس لیے فلسفہ تاریخ صرف انسانی عمل ہی کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ وہ کائناتی عمل سے بھی پردہ اٹھاتا ہے۔“تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہو ا کرتا ہے یہ ڈراما اسی جانب توجہ مبذول کراتا ہے کہ سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔سکندر ،دارا اور اکبر سب تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں۔اور ان کے نام پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ جاتی ہے اور سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ڈراما انارکلی امتیاز علی تاج نے 1922میں مکمل کیا۔ اس کی اشاعت دس سال بعد ہوئی۔اس ڈرامے کو تاریخ کا معتبر حوالہ قرار نہیں دیا جا سکتا(فضہ پروین کی کتاب’’ادب دریچے ‘‘ سے انتخاب)"
+739,لتا منگیشکر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%84%D8%AA%D8%A7_%D9%85%D9%86%DA%AF%DB%8C%D8%B4%DA%A9%D8%B1,لتا منگیشکر(ولادت: 28 ستمبر 1929ء - وفات: 6 فروری 2022ء)بھارتکی مشہور و معروف گلوکارہ تھیں۔ ان کا نام 25 ہزار سے زیادہ گانے دنیا کی مختلف زبانوں میں گانے کے بعدگنیز بک آف ورلڈ ریکارڈمیں شامل کیا گیا وہ 1929ء میں پیدا ہونے والی لتا کی آواز سے ان کی عمر کا ذرا بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ مندروں میں بجتی گھنٹیوں سا سحر لیے لتا کی آواز نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے متاثر کیا ہے۔آج بھی دل تک اتر جانے والی ان کی آواز کی کھنک وہی ہے جو انیس سو سینتالیس میں ان کی پہلی ہندی فلم آپ کی سیوا میں تھی۔ لتا نے انیس سو بیالیس میں اپنے والد دینا ناتھ منگیشکر کے انتقال کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کردی تھی۔ دینا ناتھ کی بیٹیوں میں نہ صرف لتا نے سروں کی دنیا میں مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کی بہنآشا بھوسلےنے بھی گلوکاری میں اہم مقام حاصل کیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دونوں بہنوں کی آوازوں نے بھارتی فلم انڈسٹری پرقبضہ کر لیا۔ لتا کا کہنا ہے کہ ان کی فنی زندگی بھرپور رہی ہے۔لتا منگیشکر28 ستمبر 1929ء کواندوربھارتمیں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد دِینا ناتھ منگیشکر بھی گلوکار اور اداکار تھے۔ چنانچہ وہ شروع سے ہی گلوکاری کی طرف مائل تھیں۔ موسیقار غلام حیدر نے ان کی حوصلہ افزائ کی اس کے بعد وہ کامیابی کی بلندیوں کی طرف روانہ ہوگئیں اور ابھی تک نہیں رکیں۔لتا منگیشکر پچاس ہزار سے زائد گانے گا چکی ہیں وہ 1974ء سے 1991ء ��ک گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ریکارڈ ہولڈر کے طور پر شامل رہیں۔ بک کے مطابق وہ دنیا میں سب سے زیادہ گانے ریکارڈ کرانے والی گلوکارہ ہیں۔لتا کو بے شمار ایوارڈز ملے۔ خود ان کا کہنا ہے کہ ان کا سب سے بڑا ایوارڈ لوگوں کا پیار ہے لیکن ان کے پاس بھارت کا سب سے بڑا سویلین اعزازبھارت رتنابھی ہے۔ وہ بھارت کی دوسری گلوکارہ ہیں جنہیں یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ 1974ء میں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں انکا نام دنیا میں سب سے زیادہ گانے گانے والی گلوکارہ کے طور پر آیا۔8 جنوری 2022ء کوکوروناکے سبب لتا منگیشکر کوممبئیکےبریچ کینڈی ہسپتالمیں داخل کرایا گیا۔[5]بعمر 92 برس بوجہکورونا وائرسممبئیمیں6 فروری2022ءکو چل بسیں۔[6][7]
+740,محمد رفیع,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%B1%D9%81%DB%8C%D8%B9,محمد رفیع: ہندوستانی فلمی دنیابالی وڈکے مشہور پس پردہگلوکاراور غزل کار ہیں۔ ان کی پیدائش24 دسمبر1924ءاور انتقال31 جولائی1980ءکو ہوا۔محمد رفیعامرتسرکے ایک گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے بچپن کے دنوں میں ایک فقیر ان کی گلی میں آتا تھا، جو بلند آواز میںگیتگاتا تھا۔ رفیع کو اسے گنگناتا دیکھ کر ان کے بڑے بھائی نے استاد وحید خان کی سرپرستی میں انھیں موسیقی کی تعلیم دلوائی۔رفیع نے لاہورریڈیوپرپنجابینغموںسے اپنے سفر کی ابتدا کی۔ پہلیپنجابیفلم ’گل بلوچ‘ میں انھوں نے اپنا گیت زینت بیگم کے ساتھ ریکارڈ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز کندن لال سہگل کا پروگرام تھا۔ وہ اپنے وقت کے مشہورگلوکارتھے اور انھیں سننے کے لیے سینکڑوں کا مجمع تھا، مگر بجلی فیل ہونے کی وجہ سے سہگل نے گانے سے انکار کر دیا۔ اسی وقت رفیع کے بھائی نے پروگرام کے منتظمین سے کہا کہ ان کا بھائی بھی ایکگلوکارہے اور اسے موقع دیا جائے۔مجمعے کی ناراضی کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے رفیع کو گانے کا موقع دیا۔ 13 سال کی عمر میں انھوں نے اِسٹیج پرگیتگایا۔ اسی پروگرام میںموسیقارشیام سندرموجود تھے۔ انھوں نے ایک جوہری کی طرح رفیع کو پرکھ لیا اور انھیںبمبئیآنے کی دعوت دی۔ بس یہیں سے رفیع کاگلوکاریکا یادگار سفر شروع ہوا۔تقسیم ہند سے قبل انھوں نے کئی فلموں میں نغمے گائے۔ فلمجگنومیں ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ ان کا گایا یہ گیت’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘ان کے ہزا رہا یاد گار نغموں میں سے ایک ہے۔رفیع کی زندگی میں سب سے بڑا موڑ اس وقت آیا جبموسیقاراعظمنوشادنے انھیں گانے کا موقع دیا۔ اس وقت نوشاد علی اورطلعت محمودکی جوڑی بہت کامیاب تھی نوشاد کا ہرگیتطلعت گاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز نوشاد نے طلعت کو گانے سے قبل سگریٹ پیتے دیکھ لیا۔ اصولوں کے پکے نوشاد بہت برہم ہوئے اور انھوں نے طلعت کی بجائے رفیع کو چن لیا۔ رفیع نے زندگی میں کبھی سگریٹ یا شراب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔نوشاد کے ساتھ رفیع کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔بیجوباؤراکے سارے نغمے ہٹ ہوئے۔من تڑپت ہری درشن کو آج،جیسا کلاسیکی گیت ہو یاچاہے مجھے کوئی جنگلی کہےکا چنچل نغمہ رفیع کو ہر طرح کےگیتگانے میں مہارت حاصل تھی۔ انھوں نے وہ نغمے بھی گائے جسے اس وقت کے دوسرے گلوکاروں نے گانے سے منع کر دیا تھا۔کشور کمارنے ’ہاتھی میرے ساتھیکا گیتنفرت کی دنیا کو چھوڑ کر‘گانے سے منع کر دیا تھا کیونکہ اس میں آواز کی لے کافی اونچی تھی لیکن رفیع نے یہ گیت گایا اور بہت مقبول ہوا۔نغمگی کا یہ سفر بہت کامیاب رہا۔ انھوں نےاردو،ہندی،مراٹھی،گجراتی، بنگالی بھوجپوری تمل کے علاوہ کئی زبانوں میں گیت گائے۔ رفیع کی خاصیت تھی کہ وہ جس فنکار کے لیے گاتے اسی کی آواز اور اسی کے انداز کو اپناتے۔فلم پیاسا میںجانی واکرکے لیے انھوں نے ’تیل مالش’ کا جو گیت گایا اسے سن کر لگتا ہے کہ سامنے جانی واکر ہی گا رہے ہیں اور اس کا اعتراف خود جانی واکر نے بھی کیا تھا۔رفیع بہت سیدھے اور صاف دل انسان تھے۔ کئی مرتبہ انھوں نے بغیر ایک پیسہ لیےگیتگایا۔ ایک بڑےموسیقارنے رفیع کی موت کے بعد اعتراف کیا کہ ان کے پاس رفیع کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ گیت ختم ہونے کے بعد انھوں نے رفیع صاحب سے نظریں نہیں ملائیں اور دنیا کو دکھانے کے لیے ایک خالیلفافہپکڑا دیا۔ رفیع نے اسے لے لیا لیکن بعد میں ملاقات کے بعد کبھی اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا جب بھی ملے مسکرا کر ملے۔گلوکار محمد رفیع دنیائے موسیقی کے ان نامور اور شہرت یافتہ گلوکار رہے کہ جنھوں نے اپنے فن کیرئیر میں 4516 گیت گا کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ انھوں نے انمول گھڑی، میلہ، انداز، دیدار، بیجو باورہ، دوبیگھا زمین، دیوداس، چوری چوری، پیاسا، کاغذ کے پھول، تیرے گھر کے سامنے، گائیڈ، ارادھنا، ابھیمان، نیا دور، کشمیر کی کلی، مغل اعظم، جنگلی، پروفیسر، چائنا ٹاؤن،تاج محل، میرے محبوب، سنگم، دوستی، وقت، خاندان، جانور، تیسری منزل، میرا سایہ، دل دیا درد لیا، کھلونا، دوستانہ، پاکیزہ، کاروان، لیلیٰ مجنوں سمیت تقریباً ہزار کے قریب فلموں میں گیت گائے، ان کے یادگار گیتوں میں ’کیا ہوا تیرا وعدہ‘، ’بہاروں پھول برساؤ‘، ’لکھے جو خط تجھے‘، ’چُرا لیا ہے تم نے جو دل کو‘، ’تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے‘، ’دل کے جھرکوں پے تجھ کو بٹھا کے ‘، ’چاہے مجھے کوئی جنگلی کہے‘، ’چودھویں کا چاند ہو‘، ’بابل کی دعائیں لیتی جا‘، ’تعریف کروں کیا اس کی‘، ’چاہوں گا میں تمھیں سانجھ سویرے‘، ’یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں‘، ’تیری آنکھوں کے سوا‘، ’چھپ گئے سارے نظارے ‘، ’پردہ ہے پردہ ‘، ’او میری محبوبہ‘، ’یہ ریشمی زلفیں‘، ’آنکھوں ہی آنکھوں میں ‘، ’اٹھرا برس کی تو‘، ’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘، ’تجھے جیون کی ڈور سے ‘، ’یونہی تم مجھ سے بات کرتی ہو‘، ’مجھے تیری محبت کا سہارا‘، ’بھری دنیا میں آخر دل کو سمجھانے ‘، ’آدمی مسافر ہے‘، ’میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے‘، ’رم جھم کے گیت ساون گائے‘، ’یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں‘، ’آجا تجھ کو پکارے میرے گیت‘، ’سہانی رات ڈھل چکی‘، ’زندہ باد زندہ باد اے محبت‘، ’تمھاری نظر کیوں خفا ہو گئی‘، ’تیری دنیا سے دور‘، ’جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘، ’میرے متوا میرے میت رے‘، ’میرے پیار کی آواز پے چلی آنا‘، ’وعدہ کرلے ساجنا‘، ’یہ چاند سا روشن چہرہ‘، ’اکیلے اکیلے کہاں جا رہے ہو‘، ’ایسا موقع پھر کہاں ملے گا‘، ’آنے سے اس کے آئے بہار‘، ’خوش رہے تو سدا‘، ’بار بار دیکھو‘،’باغوں میں بہار ہے‘، ’ہوئے ہم عشق میں برباد ہیں برباد رہیں گے‘، ’میرے دوست قصہ یہ ‘، ’سلامت رہے دوستانہ‘، وغیرہ شامل ہیں۔رفیع کو ان کے گیتوں پر 6 فلم فیئر ایوارڈ مل چکے ہیں۔ حکومت نے انھیںپدم شریکےایوارڈسے بھی نوازا۔ 36000 سے زیادہ نغمے گائے اور وہ سارے گیت آج بھی کروڑوں لوگوں کی زبان پر ہیں۔ اس سے بڑا کوئی اوراعزازنہیں ہو سکتا۔ رفیع ایسےفنکارتھے جنھوں نے درجنوں فنکاروں کی زندگی بنا دی۔ فلم دوستی میں موسیقارلکشمی کانت پیارے لالکے نغموں کو اپنی آواز دینے کے بعد وہ نغمے بہت مقبول ہوئے اور دنیا نے اس جوڑی کو پہچانا۔' تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے،جب کبھی سنو گے گیت میرےسنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے 'ہاں واقعی رفیع جیسے لافانیگلوکارکو بھلانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور برسوں گزرنے کے بعد اب یہ ثابت ہو گیا کہ ان جیسافنکاربھارتی فلم انڈسٹری کو نہیں مل سکتا۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+741,شمشاد بیگم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%D9%85%D8%B4%D8%A7%D8%AF_%D8%A8%DB%8C%DA%AF%D9%85,"شمشاد بیگم(ولادت: 14 اپریل 1919ء - وفات: 23 اپریل 2013ء)[2][3]ایک ہندوستانی گلوکارہ تھیں جو ہندی فلم انڈسٹری کے پہلے پس پردہ گلوکاروں میں سے ایک تھیں۔ شمشاد بیگم ہندوستانی فلموں میں پس پردہ گلوکاروں کی صف اول کی کلاسیکل گلوکارہ تھیں اور وہ اپنی منفرد آواز کے لیے جانی جاتی تھیں۔ وہ 1919ء میں 'پنجابی مان جاٹ مسلم' خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔[4]انھوں نے ہندی، بنگالی، مراٹھی، گجراتی، تمل اور پنجابی زبانوں میں 6000 سے زیادہ گانے گائے تھے اور ان میں سے 1287 گانے ہندی فلمی گانے تھے۔[5]1940ء کی دہائی سے لے کر 1970ء کی دہائی کے اوائل تک کے ان کے گانے کافی مقبول رہے ۔شمشاد بیگم 14 اپریل 1919ء کوبرطانوی ہندکے امرتسر میں پیدا ہوئیں[4]اوہ ممبئی میں اپنی بیٹی اوشا رترا اور داماد کے ساتھ رہتی تھیں۔ انھوں نے گنپت لا بٹّو سے شادی کی تھی جن کا 1955ء میں انتقال ہو گیا تھا۔شمشاد بیگم نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز 16 دسمبر 1937 میں کیا۔ ان کی صاف اور واضح آواز کو سامعین نے بہت پسند کیا جس کی وجہ سے جلد ہی انھیں سارنگی نواز استاد حسین بخش والے نے اپنی شاگردی میں لیا۔ شمشاد بیگم کی آواز سے تو سامعین کی شناسائی تھی ہی مگر لوگوں کو ان کا چہرہ دیکھنے کا موقع 1970 کی دہائی میں ملا، کیونکہ وہ اپنی تصاویر کھنچوانے سے ہمیشہ کتراتی تھیں۔ انھوں نے برصغیر کے نامور موسیقاروں او پی نیر اور نوشاد علی کے ساتھ کام کیا اور ان کے ساتھ گانے والوں میں لتا منگیشکر، آشا بھونسلے اور محمد رفیع شامل تھے۔ لاہور میں موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے ان کی آواز کو مہارت کے ساتھ چند ابتدائی فلموں میں استعمال کیا جن میں 1941 میں بننے والی فلم خزانچی اور 1942 میں بننے والی فلم خاندان شامل ہیں۔ انھیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے پہلا مغربی طرز کا گانا ’میری جان سنڈے کے سنڈے‘ گایا۔ ان کے گانے آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے آج سے 50 سال قبل تھے اور کئی گلوکاروں اور موسیقاروں نے ان کے گانوں کے ری مکس تیار کیے جو بے حد مقبول ہوئے۔ انھیں 2009 کے دوران پدم بھوشن اعزاز سے نوازا گیا۔ شمشاد بیگم 1944 میں ممبئی منتقل ہو گئیں جہاں انھوں نے کئی شہرہ آفاق فلموں میں گانے گائے اور آج بھی وہاں اپنی بیٹی کے ساتھ قیام پزیر ہیں۔ شمشاد بیگم کی 94ویں برس کو پہنچنے کی خبر جب عام ہوئی توشائقین حیران رہ گئے کہ شمشاد بیگم تو28فروری 2007کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی تھیں۔ دراصل راگنی کے نام سے مشہور ماضی کے مقبول اداکارہ شمشاد بیگم نے طویل علالت کے بعد لاہور کے ایک اسپتال میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ خوبصورت آنکھوں کی وجہ سے راگنی کو آہو چشم کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انھوں نے 1940میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا اور قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں متعدد فلموں میں مرکزی اور کریکٹر رول کیے۔ ان کی مشہور فلموں میں انار کلی، گمنام، صاعقہ اور دیگر کئی شامل ہیں جبکہ’ شاہجہان‘ میں گلوکار اور اداکار سہگل کے ساتھ ممتاز محمل ک�� کردار ادا کیا نیز’ انار کلی‘ میں نورجہاں کے مقابل ویمپ کے کردار نے بھی بھر پور مقبولیت پائی۔ اسے فلمی صنعت کی لعنت کہئے یا حالات کی مار‘کہ راگنی طویل عرصہ سے فردوس مارکیٹ گلبرگ کی ماڈل کالونی میں اکیلی رہ رہی تھیں۔ ان کے جواں سال اکلوتے بیٹے کا نیویراک میں کینسر سے انتقال ہو گیا تھا جبکہ اکلوتی صاحبزادی شوہر اور بچوں کے ساتھ کراچی رہتی ہیں۔راگنینے داماد یا مرحوم بیٹے کی اولاد کے پا س نیو یارک رہنے کی بجائے اس کمرے میں آخری دن گزارنے کا فیصلہ خود کیا تھا۔ اس کے علاوہ شمشاد بیگم ایک کلاسیکل گلوکارہ کا نام بھی تھا جو سائرہ بانو کی نانی تھیں جن کا انتقال 1998 میں ہوا تھا۔ اس موقع پر بہت سوں نے سمجھا کہ اِن شمشاد بیگم کا انتقال ہو گیا ہے جبکہ شمشاد بیگم جو فلمی گلوکارہ تھیں وہ آج 94 برس کی ہو گئی ہیں۔ اپنے آخری ایام تنہا گذارنے والی یہ تنہا شخصیت نہیں ہیں بلکہ ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
+گلوکارہ شمشاد بیگم کا ممبئی میں انتقال ہو گیا
+آ
+’مغل اعظم‘، ’مدر انڈیا‘، ’سی آئی ڈی‘ اور’قسمت‘ جیسی فلموں میں آواز کا جادو جگانے والی گلوکارہ شمشاد بیگم کا 94 سال کی عمر میں ممبئی میں انتقال ہو گیا ۔ان کی بیٹی اوشا رترا نے بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’گذشتہ کئی مہینوں سے ان کی طبیعت ناساز تھی اور انھیں ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔گذشتہ رات ان کا انتقال ہو گیا۔‘ انھوں نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کی موجودگی میں ان تجہیز و تکفین کی رسم ادا کر دی گئی۔‘انھوں نے لاہور ریڈیو سے 1937 میں اپنی گائیکی کے کیریئر کا آغاز کیا تھا جو آل انڈیا ریڈیو کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ان کی صاف اور واضح آواز کو سامعین نے بہت پسند کیا جس کی وجہ سے جلد ہی انھیں سارنگی نواز استاد حسین بخش والے نے اپنی شاگردی میں لیا۔شمشاد بیگم کی آواز سے تو سامعین کی شناسائی تھی ہی مگر لوگوں کو ان کا چہرہ دیکھنے کا موقع 1970 کی دہائی میں ملا، کیونکہ وہ اپنی تصاویر کھنچوانے سے ہمیشہ کتراتی تھیں۔انھوں نے برصغیر کے نامور موسیقاروں او پی نیر اور نوشاد علی کے ساتھ کام کیا اور ان کے ساتھ گانے والوں میں لتا منگیشکر، آشا بھونسلے اور محمد رفیع شامل تھے۔لاہور میں موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے ان کی آواز کو مہارت کے ساتھ چند ابتدائی فلموں میں استعمال کیا جن میں 1941 میں بننے والی فلم ’خزانچی‘ اور 1942 میں بننے والی فلم ’خاندان‘ شامل ہیں۔انھیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے پہلا مغربی طرز کا گانا ’میری جان سنڈے کے سنڈے‘ گایا۔ان کے گانے آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے آج سے پچاس سال قبل تھے اور کئی گلوکاروں اور موسیقاروں نے ان کے گانوں کے ری مکس تیار کیے جو بے حد مقبول ہوئے۔شمشاد بیگم 1944 میں ممبئی منتقل ہو گئیں جہاں انھوں نے کئی شہرہ آفاق فلموں میں گانے گائے۔ان کے نغمے آج بھی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ان کے گیتوں میں ’لے کر پہلا پہلا پیار‘، ’میرے پیا گئے رنگون‘، ’ کبھی آر کبھی پار لاگا تیر نظر‘، ’کجرا محبت والا انکھیوں میں ایسا ڈالا‘ یا پھر’ کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘ شامل ہیں۔ان کے نغموں میں ’مدر انڈیا‘ کا ہولی کا گیت ’ہولی آئی رے کنہائی‘ کے ساتھ ’مغل اعظم‘ کیقوالی’تیری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں‘ گے جیسے مقبول خاص و عام گیت بھی ہیں۔شمشاد بیگم کا 23 اپریل 2013 کو طویل علالت کے بعدممبئیکی رہائش گاہ پر انتقال ہو گیا۔ وہ 94 سال کی تھیں۔[6][7]ان کو ایک چھوٹے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔[8]وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری نے کہا، ""فلم انڈسٹری نے اپنے ایک انتہائی ہمہ گیر گلوکارہ کو کھو دیا ہے۔ شمشاد جی کے گانے کے انداز نے نئے معیارات قائم کیے۔ ان کی مدھر آواز نے طاقتور بول کے ساتھ ہمیں ایسے گانوں سے نوازا جو آج بھی مقبول ہیں۔""[9]وزیر اعظممنموہن سنگھنے کہا کہ ""وہ غیر معمولی صلاحیتوں اور قابلیت کی مصور تھیں اور انھوں نے اپنے طویل کیریئر میں جو گانوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ، جو انھوں نے 1937ء میں اے آر کے ساتھ شروع کیا تھا ، وہ محبت کرنے والوں کو راغب کرتے رہیں گے۔""[10]2009ء میں شمشاد بیگم کو بھارت کا تیسرا بڑا شہری اعزازپدم بھوشنایوارڈ سے نوازا گیا تھا[11]اسی سال انھیں موسیقی کی دنیا میں ان کی بیش قیمت خدمات کے لیے او پی نیّر اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔[12]"
+742,بڑے غلام علی خان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DA%91%DB%92_%D8%BA%D9%84%D8%A7%D9%85_%D8%B9%D9%84%DB%8C_%D8%AE%D8%A7%D9%86,"بڑے غلام علی خان(2 اپریل1902ء–25 اپریل1968ء) پٹیالا گھرانے سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی کلاسیکی گلوکار تھے۔[4]اپنے کمال فن کے باعث آپ کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔بڑے غلام علی خانقصورمیں پیدا ہوئے جو اُس وقتبرطانوی ہندکےصوبہ پنجابکا حصہ تھا؛ اورتقسیم ہندکے بعدپاکستانکا حصہ بنا۔ اُن کے والد، علی بخش خان،مغربی پنجابکے ایک موسیقار گھرانے سے تعلق رکھنے والے مشہور گلوکار تھے۔پانچ سال کی عمر میں، خان صاحب نے اپنے چچا کالے خان سےسارنگیاور صداکاری سیکھنا شروع کی۔ کالے خان خود بھی معروف گلوکار اور موسیقار تھے۔ اُن کی وفات کے بعد، خان صاحب نے اپنے والد کی ترتیب دی گئی چند دھنوں پر طبع آزمائی کی۔[5]یہ عرصہ تقریباً تین سال پر محیط رہا۔ یہی وہ وقت تھا جب آپ نے موسیقی کے سازقانونمیں نکھار پیدا کرکے ایک سازسوارمنڈلتشکیل دیا جو اُن کی پہچان بن گیا۔ قریب 21 سال کی عمر میں، وہبنارسمنتقل ہو گئے جہاں اُنھوں نے ہیرابائی نامی طوائف کے ساتھسارنگیبجانا شروع کی اور عوام کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے۔اگرچہ خان صاحب نے خاتون گلوکارہ کے ہمراہسارنگیبجانے سے ذریعۂ معاش کا آغاز کیا تھا، تاہم وہ اپنے مرحوم چچا کی چند دُھنیں بھی گایا کرتے تھے۔ وہ پٹیالا گھرانے ہی سے تعلق رکھنے والےاستاد اختر حسین خاناوراستاد عاشق علی خانکے شاگرد بھی تھے۔کولکتہمیں اپنے پہلے ہی کنسرٹ کے بعد وہ گلوکار کی حیثیت سے مشہور ہو گئے۔ خان صاحب نے چار بہترین ثقافتوں کی آمیزش سے ایک نیا انداز ترتیب دیا۔ ان چار ثقافتوں میں، اُن کے اپنے پٹیالا-قصور گھرانے کا انداز، دھروپد کا بہرام خانی عنصر،،جے پورکی گردش اور گوالیار کی آراستگی شامل تھی۔ خاں صاحب کی آواز بے حد متنوع، تین سرگموں پر مشتمل، بے ساختہ ادائیگی، مٹھاس، لچک دار اور ہر تال کو بآسانی نبھانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔1947ءمیںتقسیم ہندکے بعد، خان صاحبپاکستانمیں اپنے گھر گئے، لیکن بعد ازاں ہمیشہ کے لیےبھارتلوٹ آئے۔ انھوں نے تقسیم کو تسلیم نہیں کیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ ""اگر ہر گھر سے ایک بچے کو ہندوستانیکلاسیکی موسیقیسکھائی جاتی تو یہ ملک کبھی تقسیم نہ ہوا ہوتا""۔ 1957 میں،بمبئیکے وزیرِ اعلیٰمورار جی دیسائیکی مدد سے، اُنھوں نے ہندوستانی شہریت حاصل کرلی اور مالابار ہل پر حکومت کی جانب سے فراہم کردہ بنگلے میں منتقل ہو گئے۔ اُنھوں نے کئی بارلاہور،ممبئی،کلکتہاورحیدرآبادمیں بھی رہائش اختیار کی۔فلم ��روڈیوسروں اور موسیقاروں کی جانب سے بے حد اصرار اور درخواستوں کے باوجود آپ نے ایک طویل عرصے تک فلمی گیتوں سے کنارہ کشی اختیار کیے رکھی۔ البتہ، کے آصف کی خوشامد اور منانے پر آپ نے 1960 میں فلممغل اعظمکے لیے دو گیت گائے جو راگ سوہنی اور راگ رنگیشری پر مبنی تھے۔ اس فلم کے موسیقارنوشادتھے۔ تاہم خان صاحب نے یہ فلمی گیت گانے کا بھاری معاوضہ لیا اور جب اُس وقت کے معروف فلمی گلوکاروں، جیسےلتا منگیشکراورمحمد رفیع، کو ایک گیت کے پانچ سو روپے سے بھی کم ملا کرتے تھے، کہا یہ جاتا ہے کہ بڑے خان صاحب نے ایک گیت کے ڈھائی ہزار روپے لیے تھے۔[6]استاد بڑے غلام علی خان کی خدمات کے اعتراف میں انھیںسنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈاور 1962 میںپدم بھوشنسے نوازا گیا۔آخری ایام میں طویل عرصے کی علالت نے انھیں جزوی طور پر مفلوج کر دیا تھا۔ 1968 میں بشیر باغ پیلس،حیدرآبادمیں خان صاحب انتقال کر گئے۔ اپنی وفات سے قبل تک، وہ اپنے بیٹے منور علی خان کی مدد سے عوامی تقاریب میں فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+743,بالی وڈ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C_%D9%88%DA%88,"Fox Star StudiosEros InternationalReliance Big PicturesUTV Motion Picturesیش راج فلمزدھرما پروڈکشنزRed Chillies EntertainmentTips Music FilmsViacom 18 Motion PicturesExcel EntertainmentZee Studiosبالی وڈبھارتکی اردو اور ہندی فلمی صنعت کے مرکز کو کہا جاتا ہے جوممبئیشہر میں واقع ہے۔[6]بالی وڈ کا لفظ امریکی شہرہالی وڈکے نام کا چربہ ہے جو امریکی فلمی صنعت کا مرکز ہے۔ممبئیکا قدیم نامبمبئیتھا جس سے ""بالی"" کا لفظ نکالا گیا۔ زیادہ تر فلمیں اردو اور ہندی زبانوں میں بنتی ہیں۔1913ءمیں منظرِ عام پر آئی خاموش فلمراجا ہریش چندربالی وڈ کی پہلی فلم مانی جاتی ہے۔1930ءتک پہنچتے فی سال 200 متحرک فلمیں نکلنے لگیں۔بھارتکی پہلی باآواز فلمعالم آرا1931ءمیں منظرِ عام پر آئی۔بالی ووڈ میں پاکستانی فلموں کی نقل[مردہ ربط]"
+744,سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بھارتی فلموں کی فہرست,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%A8_%D8%B3%DB%92_%D8%B2%DB%8C%D8%A7%D8%AF%DB%81_%DA%A9%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C_%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92_%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%8C_%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C_%D9%81%D9%84%D9%85%D9%88%DA%BA_%DA%A9%DB%8C_%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA,"یہ عالمی باکس آفس پر سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بھارتی فلموں کی ایک درجہ بندی ہے، جس میں مختلف زبانوں کی فلمیں شامل ہیں۔
+ان اعداد و شمار سے باخبر رہنے کے کوئی سرکاری ذرائع نہیں ہیں، لہٰذا انھیں مستند نیوز ویب سائٹس کی طرف سے رپورٹ کیا گیا ہے۔[1]بھارت میں 1913ء میں پہلی فلم بنی، دادا صاحب پھالکے کیراجا ہریش چندریہ ایک خاموش فلم تھی۔ ہندی سنیما کے آغاز 1931ء میں آئی اردے شير ایرانی کی پہلیعالم آراسے ہوئی۔ لیکن اس وقت بھارت میں ایک فلم کا بن کر تیار ہونا ہی بڑی بات تھی، فلموں کی لاگت اور کمائی میں کسی کی دلچسپی نہیں تھی۔
+لیکن جلد ہی وقت بدلا، فلموں کو کامیاب اور ناکام کی کسوٹی پر پرکھا جانے لگا۔ اس کے لیے پیمانہ بنایا گیا سینما گھروں میں فلم کی چلنے کی مدت یعنی جو فلم زیادہ دنوں تک سینما گھروں میں چلتی رہے گی وہ اتنی کامیاب کہی جائے گی۔بعد میں فلم کی کامیابی اورناکامی کا معیار باکس آفس کلیکشن یعنی فلموں سے ملنے والی آمدنی کو بنا لیا گیا۔
+لیکن افراط زرد کی وجہاکیسویں صدیکی پہلی دہائی کے دوران، ٹکٹ کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوا، ساتھ ہی تھیٹر کی تعداد اور ایک فلم کے پرنٹس کی تعداد میں اضافہ کے تین گنا تیزی سے جاری رہا اور غیر ملکی تھیٹروں میں ف��موں کی نمائش ہونے لگی۔ جو بعد میں آنے والی فلموں کی باکس آفس آمدنی میں بڑے اضافہ کی وجہ بنی ہے۔[2]1940 کی دہائی کے دوران میںجنوبی بھارتمیں سنیما ہال کی تعداد پورے بھارت کے سنیما کی تعداد سے تقریباً نصف کے حساب سے تھی۔[3]جس بھارت میں فلم کی آمدنی کا 75 فیصد حصہ ہوتا تھا۔ اور 2009ء تک ایسا ہی رہا۔[4]بیسویں صدیکے اوائل کے بعد بھارتی فلموں دنیا بھر کی مارکیٹوں میں دکھائی جانے لگیں،[3]مثلاً 2003ء کے سال میں، بھارت کی فلمیں تقریباً 90 سے زائد ممالک کے سینما میں گئی۔[5]باکس آفس کلیکشن کے اعداد و شمار افراط زر کے حساب سے نہیں ہیں۔ افراط زر کی شرح کے مطابق 1975ء کی فلمشعلےکی کمائی کا تخمینہ 3 ارب روپے (امریکی 45 ملین ڈالر) کے حساب سے سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بھارتی فلم ہے۔[6][7]جہاں تک بات ہے سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلموں کی، ان میںمغل اعظم،شعلے،دل والے دلہنیا لے جائیں گے،غدر:ایک پریم کتھا،ہم آپ کے ہیں کون،راجا ہندوستانی،بارڈر،کرن ارجن،میں نے پیار کیا،کچھ کچھ ہوتا ہے،کبھی خوشی کبھی غمشامل ہیں۔[8][9][10]بھارت میں 1913 میں پہلی فلم بنی، دادا صاحب پھالکے کی 'راجا ہریش چندر'۔ یہ ایک خاموش فلم تھی۔ ہندی سنیما کے آغاز 1931 میں آئی اردے شير ایرانی کی پہلی 'عالم آرا' سے ہوئی۔ لیکن اس وقت بھارت میں ایک فلم کا بن کر تیار ہونا ہی بڑی بات تھی، فلموں کی لاگت اور کمائی میں کسی کی دلچسپی نہیں تھی۔
+لیکن جلد ہی وقت بدلا، فلموں کو کامیاب اور ناکام کی کسوٹی پر پرکھا جانے لگا۔ اس کے لیے پیمانہ بنایا گیا سینما گھروں میں فلم کی چلنے کی مدت۔ یعنی جو فلم زیادہ دنوں تک سینما گھروں میں چلتی رہے گی وہ اتنی کامیاب کہی جائے گی۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو 15 اگست 1975 کو ریلیز ہوئی شعلے بھارت کے 100 سے زیادہ سینما گھروں میں 25 ہفتے سے زیادہ چلتی رہی رہی اور کچھ میں مسلسل 50 ہفتے۔ ممبئی کے منروا سنیما میں یہ مسلسل 5 سال تک چلتی رہی۔ پر بات یہی ختم نہیں ہوتی۔باکس آفس کلیکشن کی بات کریں یعنی سیدھے پیسوں کی بات کریں تو ماضی کی شعلے فلم پی کے، بجرنگی بھائی جان، دبنگ سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم ہے۔ پی کے، بجرنگی بھائی جان، دبنگ کو بھارت اور ہندی سنیما کی تاریخ کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بتا رہے ہیں، اصل میں انھیں افراط زر (inflation) کا اندازہ نہیں ہے۔ افراط زر کے حساب سے دیکھا جائے تو اصل میں ہندی سنیما کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم شعلے ہے، اس کے بعد دل والے دلہنیا لے جائیں گے، اس کمائی پی، بجرنگی بھائی جان اور دبنگ سے کہیں زیادہ ہے۔
+15 اگست 1975 کو ریلیز ہوئی شعلے ایک قابل اعتماد سروے کے مطابق محض 15 کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ لیکن 1975 میں آئی شعلے کے 15 کروڑ، 2014 میں آئی پی کے 735 کروڑ، 2015 میں آئی بجرنگی بھائی جان کے قریب 600 سے کہیں زیادہ ہے۔ اس چونکانے والی بات کے لیے ذمہ دار ہے افراط زر۔آپ نے بہت سے بہت بوڑھے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ پہلے ایک روپے کی قیمت بہت تھی اب ایک روپے کی قیمت کم ہو گئی ہے، جی ہاں، اسی روپے کی قیمتوں کے اتار چڑھاو کو افراط زر کہتے ہیں۔افراط زرکو ایک سطر میں سمجھنے عام بول چال کی زبان میں افراط زر کی شرح ایک ریاضیاتی تشخیص پر مبنی معاشی تصور ہے، جس کی مارکیٹ میں کرنسی کے پھیلاؤ اور اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ یا کمی شمار کیا جاتا ہے۔ آپ اسے ایسے سمجھیے کہ اگر 1975 میں کوئی سامان 100 روپے میں مل رہا ہو اور 1985 میں وہی چیزیں 200 میں ملنے لگے تو افراط زر سو فیصد بڑھ گئی۔
+اس کسوٹی پر کسنے سے پتہ لگتا ہے کہ شعلے، پی اور بجرنگی بھائی جان سے کمائی کے معاملے میں کتنا آگے ہے۔ یہ حساب لگانے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ صحیح معنوں میں ہندی سنیما کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم کون سی ہے۔چونکہ افراط زر ناپنے کا کوئی واضح پیمانہ نہیں ہے۔ اس کا اندازہ اشیاء کی قیمتوں کی بنیاد پر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ اس شعلے کی اصل کمائی کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیں 1975 میں اشیاء کی قیمت کو جاننا ہوگا۔ ایک سرکاری ذریعہ سے ملی معلومات کے مطابق اس وقت سونے کی قیمت فی دس گرام قریب 500 روپے تھا۔ اب 25000 روپے سے زیادہ ہے، یعنی تقریباً 50 گنا تک افراط زر۔ اس لحاظ سے شعلے کی کمائی 15 كروڑ آج 750 کروڑ پار کرجاتی ہے۔
+اسی طرح بات کھانے کی اشیاء کی کریں، آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ شعلے کے ٹکٹ اس وقت 5 سے 7 روپے تک میں بکے تھے، تب عام ریستوران میں ایک پلیٹ (ایک پلیٹ کھانے) کی قیمت 3 سے 5 روپے تھی، اب 150 سے 200۔ یہاں بھی تقریباً 50 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ اس لحاظ سے بھی شعلے کی کمائی 750 کروڑ پار پہنچتی ہے۔ بات بینکنگ کی، تو شعلے کے خالق-ڈائریکٹرز نے تب وہ 15 کروڑ اگر حکومت کی فکس ڈیپازٹ یوجنا (منصوبہ بندی ) میں جمع کیا ہوتا یا کسی بینک کی فکس ڈیپازٹ یوجنا (منصوبہ بندی )میںسرمایہ کاریہوتا تو آج یہ 1000 کروڑ پار ہوتی۔
+یہی نہیں، سرکاری اور نجی دونوں ہی محکموں کے ملازمین کے گریڈ اسکیل کا موازنہ کریں تو بھی ہم پاتے ہیں کہ 1975 کے مقابلے میں 2015 میں تقریباً 50 فیصد تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جی ہاں، اگر آٹو موبائل اور الیكٹرونك اشیاء کی بات کریں تو قیمتوں میں اتنی افراط زر نہیں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ، بلاک بسٹر فلم شعلےبالی وڈکی دنیا بھر میں سب سے زیادہ دیکھی گئی فلم مانی جاتی ہے۔ عامر خان کی فلم پی دیکھنے کے لیے محض چار کروڑ لوگ سنیما تک پہنچے جبکہ ایک اعداد و شمار کے مطابق شعلے قریب 7 کروڑ لوگوں نے سنیما میں جا کر دیکھا ہے۔ حال ہی میں جب جب یہ فلم 3 ڈی ورژن میں دوبارہ ریلیز ہوئی اس وقت بھی اس نے 12 کروڑ سے زیادہ کا کاروبار کیا۔ ذرائع کے مطابق شعلے نے پاکستان میں ریلیز کے پہلے ہفتے میں ہی 45 لاکھ روپے (تقریباً 28،12،140 بھارتی روپے) کی کمائی کی۔[11]ایک معروف برطانوی جریدے کی جانب سے کیے گئے حالیہ سروے میں بالی وڈ کی عظیم ترین فلموں کی فہرست میں ’’مغل اعظم ‘‘ کوپہلا مقام دیا گیا ہے، کے۔ آصف مرحوم کی ہدایت والی اِس فلم نے سروے میں اپنی قریبی دعویدار فلم ’’شعلے ‘‘کو شکست دی جسے دوسرا مقام ملا۔ اِس فہرست میں’’ دل والے دلہنیا لے جائیں گے ‘‘کو تیسرا جبکہمحبوب خانکی’’ مدر انڈیا‘‘ کو چوتھا مقام حاصل ہوا۔راج کپورکی’’ آوارہ‘‘ کو 5 واں اور’’ دیوار‘‘ کو چھٹا مقام ملا۔ راج کمار ہیرانی کی فلم’’ 3 ایڈیٹس‘‘ 7 ویں مقام پر اوریش چوپڑاکی’’ کبھی کبھی‘‘ 8 ویں مقام پر ہے۔ فلم’’ انداز‘‘ کو 9 واں اور سورج برجاتیہ کی’’ میں نے پیار کیا‘‘ کو 10 واں مقام ملا۔ اپنی نوعیت کا یہ اولین سروے ووٹس‘ باکس آفس‘ مقامی حالات اور نقادوں کے دعوؤں کی بنیاد پر کیا گیا۔ ٹاپ 100میں شامل دیگر فلموں میں ’’لگان ‘‘11 ویں،’’کچھ کچھ ہوتا ہے‘‘ 14 ویں، ’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘ 16 ویں ،’’ آرادھنا‘‘ 17 ویں،’’ زنجیر‘‘ 23 ویں،’’ شری 420‘‘ چوبیس ویں،’’ پیاسا‘‘ 21 ویں،’’ مسٹرااِنڈیا‘‘41 ویں،’’ دل چاہتا ہے‘‘ 46 ویں،’’ کرش‘‘ 48 ویں،’’ منا بھائی ایم بی بی ایس‘‘ 51 ویں،’’ امر اکبر انتھونی‘‘ 57 ویں،’’ قر��انی‘‘ 67ویں‘ ’’راجا ہندوستانی‘‘ 70ویں‘ چاندنی 74ویں،’’ تیزاب‘‘ 82ویں اور’’ بیجو باورا‘‘ بھی پسندیدہ ترین فلموں میں شامل ہیں[12]حالیہ باکس آفس کلیکشن کے حاب سے سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بھارتی فلموں کی فہرست دیکھنے سے قبل یہ جان لیں کے موجود دور میں باکس آفس کلیکشن کی اصل آمدنی کس طرح ظاہر ہوتی ہے اور اسے جاننے کے لیے کیا کیا اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔[13]آج کل کسی فلم کی کامیابی کا معیار سینما گھروں میں زیادہ عرصے تک چلنے سے نہیں ہوتا کیونکہ موجودہ زمانے کی فلمیں سلور، گولڈن یا پلاٹینیم جوبلی کا جشن نہیں منا سکتیں۔ ہندی سینما میں اب کامیابی کا معیار کسی فلم سے کمائے جانے والا پیسہ ہے۔ سو کروڑ، دو سو کروڑ، تین سو کروٹ کلب ہندی فلم انڈسٹری میں ایک نیا رجحان ہے۔ ذیل میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بھارتی فلموں کی فہرست دی جا رہی ہے جو 2 سو کروڑ سے اوپر ہیں۔- تقریباً (311تا340ملین ڈالر)تقریباً (154 ملین ڈالر)وایاکوم 18 موشن پکچرزمیچ باکس پکچرزریلائنس انٹر ٹینمنٹٹی سیریزذیل میں سال بہ سال سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بھارتی فلموں کی فہرست دی جا رہی ہے۔ذیل میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والیہندی زبانکی فلموں کی فہرست دی جا رہی ہے جو 2 سو کروڑ سے اوپ رہیں۔- تقریباً (311تا340ملین ڈالر)تقریباً (154 ملین ڈالر)وایاکوم 18 موشن پکچرزذیل میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی تامل فلموں کی فہرست دی جا رہی ہے جو سو کروڑ سے اوپ رہیں۔ذیل میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی تیلگو فلموں کی فہرست دی جا رہی ہے جو 10 ملین سے اوپر ہیںذیل میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی پنجابی فلموں کی فہرست دی جا رہی ہے جو 2 ملین سے اوپر ہیںذیل میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی ملیالم فلموں کی فہرست دی جا رہی ہے جو 25کروڑ سے اوپر ہیںذیل میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی کنڑا فلموں کی فہرست دی جا رہی ہے جو 15کروڑ سے اوپر ہیںذیل میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی مراٹھی فلموں کی فہرست دی جا رہی ہے جو 25کروڑ سے اوپر ہیں"
+745,عربی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%B1%D8%A8%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,الجزائر: المجلس الأعلى للغة العربیة بالجزائر ()سوڈان: مجمع اللغة العربية بالخرطوم (عربی زبان اکادمی،خرطوم)عراق: المجمع العلمي العراقي فيبغداد(عراقی سائنس اکادمی)تونس: مؤسسة بيت الحكمةسوریہ: مجمع اللغة العربية بدمشقلیبیا: مجمع اللغة العربية الليبيمصر: مجمع اللغة العربية بالقاهرةالمغرب: عربی زبان اکادمیاسرائیل: مجمع اللغة العربية في حيفا[3]عربی(عربی:العربية)سامی زبانوںمیں سب سے بڑی زبان ہے اورعبرانیاور آرامی زبانوں سے بہت ملتی ہے۔ جدید عربی کلاسیکی یا فصیح عربی کی تھوڑی سی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فصیح عربی قدیم زمانے سے ہی بہت ترقی یافتہ شکل میں تھی اورقرآنکی زبان ہونے کی وجہ سے زندہ ہے۔ فصیح عربی اور بولے جانے والی عربی میں بہت فرق نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے بولے جانے والیاردواورادبی اردومیں فرق ہے۔ عربی زبان نےاسلامکی ترقی کی وجہ سے مسلمانوں کی دوسری زبانوں مثلاًاردو،فارسی،ترکیوغیرہ پر بڑا اثر ڈالا ہے اور ان زبانوں میں عربی کے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ عربی کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کی حیثیت حاصل ہے اور تمام دنیا کےمسلمانقرآنپڑھنے کی وجہ سے عربی حروف اور الفاظ سے مانوس ہیں۔ تاریخ میں عربی زبان کی اہمیّت کے سبب بہت سے مغربی زبانوں میں بھی اِس کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔عربی کے کئی لہجے آج کل پائے جاتے ہیں مثلاً مصری، شامی، عراقی،حجازیوغیرہ۔ مگر تمام لہجے میں بولنے والے ایک دوسرے کی بات بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور لہجے کے علاوہ فرق نسبتاً معمولی ہے۔ یہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے اور اس میںھمزہ سمیت29حروف تہجی ہیںجنہیںحروف ابجدکہا جاتا ہے۔عربی کی وسعت فصاحت و بلاغت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ حروف تہجی میں سے کوئی سے تین حروف کسی بھی ترتیب سے ملا لیے جائیں تو ایک بامعنی لفظ بن جاتا ہے۔عرب قدیم زمانے میں سامی زبانوں کی وسیع اقسام پر فخر کرتا تھا۔ جنوب مغرب میں، مختلفوسطی سامی زبانیںبولی جاتی تھیں جوقدیم جنوبی عربیخاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اس سے باہر تھیں (مثلاً جنوبی ثامودی)۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جدید جنوبی عربی زبانوں (غیر مرکزی سامی زبانوں) کے آبا و اجداد بھی اُس وقت جنوبی عرب میں بولے جاتے تھے۔ شمال کی طرف، شمالی حجاز کے نخلستانوں میں،دادانیاورتیمائیکو نوشتی زبان کے طور پر کچھ وقار حاصل تھا۔ نَجد اور مغربی عرب کے کچھ حصوں میں، ایک زبان جو علما کے نزدیک ثمودی جیم کے نام سے مشہور ہے۔ مشرقی عرب میں، قدیم جنوبی عربی سے ماخوذ ایک رسم الخط میں تحریریں ایک زبان کی تصدیق کرتی ہیں جسےحسائیکہا جاتا ہے۔ آخر میں، عرب کی شمال مغربی سرحد پر، مختلف زبانیں جو علما کے نزدیک ثمودی ب، ثمودک د،سفائیہاورحسمائیہکے نام سے مشہور ہیں۔ آخری دو، عربی کی بعد کی شکلوں کے ساتھ اہم خط تفریقِ لسانی کا اشتراک کرتی ہیں، مفکرین کو یہ نظریہ پیش کرنے کو کہتی ہیں کہ صفاتی اور حسمائی دراصل عربی کی ابتدائی شکلیں ہیں اور انھیں پرانی عربی سمجھا جانا چاہیے۔عربی درج ذیل ممالک میں سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے:یہ درج ذیل ممالک کیقومی زبانبھی ہے:
+746,سعودی عرب,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C_%D8%B9%D8%B1%D8%A8,"مسیحیت4.4 فیصدہندو مت1.1 فیصدبدھ مت0.3 فیصدسعودی عربیاسعودی عربیہ(رسمی نام : المملكة سعودیہ العربیہ)مغربی ایشیاکا ایک ملک ہے۔ یہجزیرہ نما عربکے بڑے حصے پر محیط ہے، جو اسےایشیاکا پانچواں سب سے بڑا، عرب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مغربی ایشیا اورمشرق وسطیکا سب سے بڑا ملک بناتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب میںبحیرہ احمرسے ملتی ہے۔ شمال میںاردن،عراقاورکویت؛ مشرق میںخلیج فارس،قطراورمتحدہ عرب امارات؛ جنوب مشرق میںعمان؛ اور جنوب میںیمن۔بحرینمشرقی ساحل سے دور ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ شمال مغرب میںخلیج عقبہسعودی عرب کومصراوراسرائیلسے الگ کرتی ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے پاس بحیرہ احمر اور خلیج فارس دونوں کے ساتھ ساحل ہے اور اس کا زیادہ تر علاقہ خشک صحرا، نشیبی، میدان اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہرریاضہے۔ یہ ملکمکہاورمدینہکا گھر ہے، جواسلامکے دو مقدس ترین شہر ہیں۔قبل از اسلام کا جزیرہ نما عرب، وہ علاقہ جس پر موجودہ سعودی عرب مشتمل ہے، کئی قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں کا مقام تھا۔ سعودی عرب میں قبل از تاریخ انسانی سرگرمیوں کے کچھ ے ابتدائی نشانات پائے جاتے ہیں۔ دین اسلام چھٹی صدی عیسوی (571ء) میں ابھر کر سامنے آیا اور جزیرہ نما عرب کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر پھیل گیا۔جدید دور کے سعودی عرب کا علاقہ پہلے بنیادی طور پر چار الگ الگ تاریخی علاقوں پر مشتمل تھا:حجاز،نجداور مشرقی عرب کے کچھ حصے (الاحساء) اور جنوبی عرب (عسیر)۔ مملکتِ سعودی عرب کی بنیادشاہ عبدالعزیز(مغرب میں ابن سعود کے نام سے مشہور) نے 1932 میں رکھی تھی۔ انھوں نے سنہ 1902ء میں اپنے خاندان کے آبائی علاقے ریاض پر قبضے کے ساتھ فتوحات کے سلسلے کے ذریعے چاروں خطوں کو ایک ریاست میں متحد کیا۔ سعودی عرب اس کے بعد سے ایک مطلق العنانبادشاہترہا ہے، جہاں سیاسی فیصلے بادشاہ، وزراء کی کونسل اور ملک کے روایتی اشرافیہ کے درمیان مشاورت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔سنی اسلامکے اندر انتہائی قدامت پسندوہابیمذہبی تحریک کو سنہ 2000ء کی دہائی تک ""سعودی ثقافت کی ایک اہم خصوصیت"" کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ سنہ 2016ء میں، سعودی عرب کی حکومت نے انتہائی قدامت پسند وہابی مذہبی اشرافیہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور اخلاقی پولیس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے اقدامات کیے، سماجی ترقی کو بڑھانے اور بحال کرنے اور مزید مضبوط اور موثر معاشرہ بنانے کی کوشش میںسعودی وژن 2030ءکے اقتصادی پروگرام کا آغاز کیا۔ اپنے بنیادی قانون میں، سعودی عرب خود کو ایک خود مختار عرب اسلامی ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے جس میں اسلام کو سرکاری مذہب،عربیکو سرکاری زبان اور ریاض دار الحکومت کہا جاتا ہے۔پیٹرولیمسنہ 1938ء میں دریافت ہوا اور اس کے بعد مشرقی صوبے میں کئی دیگر دریافتیں ہوئیں۔ سعودی عرب اس کے بعد سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک (امریکاکے بعد) اور دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ یہاں دنیا کے دوسرے سب سے بڑے تیل کے ذخائر اور چوتھے بڑے گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ مملکت کوعالمی بینککی اعلی آمدنی والی معیشت کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے اور یہ واحد عرب ملک ہے جوجی20بڑی معیشتوں کا حصہ ہے۔ ریاست کو مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جن میںیمنی خانہ جنگیمیں اس کا کردار، اسلامی دہشت گردی کی مبینہ سرپرستی اور اس کا انسانی حقوق کا خراب ریکارڈ، بشمول سزائے موت کا ضرورت سے زیادہ اور اکثر ماورائے عدالت شامل ہے۔سعودی عرب کو علاقائی اور درمیانی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ سعودی معیشت مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی ہے۔ عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی اٹھارویں سب سے بڑی معیشت اور فی کس پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی سترویں بڑی معیشت ہے۔ ایک بہت ہی اعلیٰ انسانی ترقی کے اشاریہ والے ملک کے طور پر، یہ مفت اعلی تعلیم، ٹیکس فری آمدنی اور مفت آفاقی نظامِ صحت پیش کرتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کی تیسری بڑی تارکین وطن کی آبادی کا مرکز ہے۔ اس کی آبادی دنیا کی سب سے نوجوان آبادی میں سے ایک بھی ہے، اس کی 32.2 ملین کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد 25 سال سے کم عمر کا ہے۔خلیج تعاون کونسلکا رکن ہونے کے علاوہ سعودی عربتنظیمِ اقوام متحدہ،تنظیمِ تعاونِ اسلامی،عرب لیگ، عرب تنظیم برائے ہوائی نقل و حمل اورتیل برآمد کرنے والے ممالکِ کی تنظیم، اوپیککا ایک فعال اور بانی رکن ہے۔شمال مغرب میں اس کی سرحداردن، شمال میںعراقاور شمال مشرق میںکویت،قطر،اوربحریناور مشرق میںمتحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میںسلطنت عمان، جنوب میںیمنسے ملی ہوئی ہے جبکہخلیج فارساس کے شمال مشرق اوربحیرہ قلزماس کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاںاسلامکے دو مقدس ترین مقاماتمکہ مکرمہاورمدینہ منورہموجود ہیں۔سعودی ریاست کا ظہور تقریباً1750ءمیں عرب کے وسط سے شروع ہوا، جب ایک مقامی رہنمامحمد بن سعودمعروف اسلامی شخصیت اورمحمد بن عبدالوہابکے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔اگلے ڈیڑھ سو سال میںآل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا، ��س کے دوران میںجزیرہ نما عربپر تسلط کے لیے ان کےمصر،سلطنت عثمانیہاور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیامشاہ عبدالعزیز السعودکے ہاتھوں عمل میں آیا۔1902ءمیں، عبد العزیز نے حریف آل رشید سےریاضشہر چھین لیا اور اسےآل سعودکادار الحکومتقرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے1913ءسے1926ءکے دوران میںالاحساء،قطیف،نجدکے باقی علاقوں اورحجاز(جس میںمکہ مکرمہاورمدینہ منورہکے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کر لیا۔8 جنوری1926ءکو،عبدالعزیز ابن سعودحجاز کےبادشاہقرار پائے۔29 جنوری1927ءکو، انھوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔20 مئی1927ءکو،معاہدہ جدہکے مطابقبرطانیہنے تمام مقبوضہ علاقوں (جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے) پرعبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کر لیا۔1932ءمیں،برطانیہکی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔مارچ1938ءمیں، تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔حالیہ نام ""سعودی"" تقریباً 1727ء میں موجود سعودیہ کے وسط, ریاض میں آل سعود کی حکومت بنانے سے شروع ہوا.جب ایک مقامی رہنما ""محمد بن سعود"" معروف اسلامی شخصیت اور وہابیت یاسلفی تحریککے بانیمحمد بن عبد الوہابکے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ اس وقت یہ علاقہ 'سلطنت عثمانیہ' کے کنٹرول میں تھا.1805, 1806ء میں آل سعود نے مکہ مدینہ کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ 1818ء میں سلطنت عثمانیہ کی فوجوں نے ان سے سارا علاقہ واپس لے لیا۔ 1824ء میں سعود فیملی نے نجد کے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔اسی دوران ایک نئی طاقت آل رشید سامنے آئی۔ نئی طاقت آل رشید و آل سعود میں آپس کی جنگیں جاری رہیں۔ اور آل رشید نے آل سعود کو 1892 میں حتمی شکست دے کر علاقہ چھوڑ کر کویت میں جلاوطنی پہ مجبور کر دیا۔حجاز یعنی مکہ مدینہ میں عثمانیہ حکومت کے حکم پر داخل ہوئی مصری فوجیں 1840 میں علاقے سے نکل گئیں۔ اور شریف مکہ نے کنٹرول سنبھال لیا. ترکی نے برائے نام حکمرانی ساتھ آل سعود و آل رشید و شریف مکہ فیملی سمیت کئی قبائل کو اندرونی خود مختاری دی ہوئی تھی۔1902 میں آل سعود کے شاہ عبد العزیز کویت سے
+جلاوطنی سے واپس آئے اور سعودی اخوان تحریک, وہابی تحریک اور دیگر کی مدد کے ساتھ 1906 میں آل رشید کو شکست دے کر علاقے سے نکال دیا اور
+عثمانیہ سلطنت نے انھیں تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد مرکزی علاقہ سے ہٹ کر خلیج فارس کے ساتھ کے علاقہ الاحسا پہ قبضہ کر لیا۔
+عبدالعزیز جنہیں ابن سعود بھی کہا جاتا تھا۔ نے ""عرب بغاوت"" سے دوری رکھی۔ اور آل رشید ساتھ مقابلے پہ فوکس رکھا۔ پھر 1920 میں عسیر علاقہ پہ قبضہ کیا۔ 1921 میں آل رشید کو مکمل دیس نکالا دے دیا۔شریف مکہ حسین بن علی نےانگریزمیکموہن ساتھ عثمانیہ سلطنت خلاف ساز باز کرکے متحدہ عرب ریاست بنانے کی سازش کی۔ اس میں لارنس آف عربیہ کا بھی رول رہا۔1914 میں جنگ عظیم اول شروع ہو چکی تھی۔ جس میں سلطنت عثمانیہ, جرمن سلطنت اور آسٹرو-ہنگروی سلطنت ایک طرف تھے اور روس, فرانس اور برطانیہ وغیرہ دوسری طرف۔1916 میں سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کے لیے تمام عرب علاقے,شام,یمن,اردن اور موجودہ سعودیہ پہ مشتمل متحدہ عرب ریاست کے قیام اور سلطنت عثمانیہ سے آزادی کا خواب دکھایا گیا۔ برطانوی فوجوں کی مدد سے عرب باغی فوجوں نے مکہ, مدینہ, اردن اور پھردمشقفتح کر لیا۔2016 سے 2018 کے دوران دمشق میں شام کی عرب کنگڈم قائم کرکے شریف مکہ کا بیٹا فیصل بادشاہ بنادیا گیا۔ لیکن پھر سائیکس معاہدے مطابق عرب علاقے سوائے سعودیہ کے, فرانس اور برطانیہ نے آپس میں تقسیم کرلیے۔ حجاز (مکہ اور مدینہ) کو شریف مکہ کے حوالے کیا گیا۔آل سعود اور شریف مکہ, دونوں برطانوی رابطے میں اور امداد لینے والے تھے۔ شریف مکہ کو حجاز کا بادشاہ تسلیم کیا گیا۔ لیکن بعد میں, 1924 میں اسے برطانیہ کی طرف سے چھوڑ دیا گیا۔1925 میں عبدالعزیز نے حجاز پہ قبضہ کرکے خود کو شاہ حجاز ڈیکلیئر کیا۔ پھر شاہ نجد بنے۔ پھر 1932 میں دونوں بادشاہتوں(نجد اور حجاز) کو ضم کر کے سعودی عرب کا نام دیا گیا.حجاز کی فتح بعد, سعودی اخوان برطانوی مقبوضہ اردن, عراق اور کویت کی طرف بڑھنا چاہتے تھے تاکہ اپنا مسلک وہاں بھی نافذ کریں لیکن عبدالعزیز اردن اور عراق وغیرہ برطانوی قبضے میں ہونے کی وجہ سے برطانیہ سے لڑائی مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ اس پر اختلافات ہوئے تو اخوان نے بغاوت کردی لیکن وہ سختی سے کچل دی گئی۔ اور پھر سعودی حکومت استحکام حاصل کرتی چلی گئی.لارنس نے پہلی جنگ عظیم شروع بعد خود کو بطور رضاکار پیش کیا اسے مصر میں پوسٹ کیا گیا. وہاں سے وہ عراق اور سعودی عرب مشنز پہ جاتا رہا اور اوپر ذکر کردہ عثمانی سلطنت کے خلاف عرب بغاوت اور متحدہ عرب ریاست (بشمول شام,اردن,یمن,نجد اور حجاز) کی سازش میں شامل ہوا اور دوسرے انگریز افسروں ساتھ برطانیہ کے رابطہ افسر کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ شریف مکہ کے بیٹے فیصل جو بعد میں شاہِ شام بنا, کے ساتھ نزدیکی معرکوں میں شامل رہا اور دمشق کی فتح میں ہم رکاب رہا۔ اس کے رول کو صحافی تھامس نے سنسنی خیزی کے ساتھ پیش کیا۔سعودی عرب عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت سمجھی جاتی ہے۔ اس مملکت کے بانی یوں تو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود ہیں جو15 جنوری1877ءکو پیدا ہوئے تھے مگر اس سلطنت کے قیام کی جدوجہد کا آغاز 18 ویں صدی میں ہوا تھا جب1725ءمیں آل سعود کے سربراہامیر سعود بن محمد بن مقرنکی وفات ہوئی۔اس زمانے میںنجدمیں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں اور ہر ریاست کا الگ الگ حکمران ہوتا تھا۔ امیر سعود بن محمد کے چار صاحبزادے تھے جنھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ نجد میں سعودی سلطنت قائم کریں گے۔امیر سعود بن محمد کے سب سے بڑے صاحبزادے کا ناممحمد بن سعودتھا۔ وہدرعیہکے حکمران بنے اور انھوں نےشیخمحمد بن عبدالوہابکی مدد سے درعیہ میں اپنی حکومت قائم کی اور آہستہ آہستہ اسے مستحکم کرنا شروع کیا۔محمد بن سعود اور شیخ محمد عبد الوہاب کے درمیان 1745ء میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے عہد کیا کہ اگر کسی وقت محمد بن سعودنجد و حجازمیں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہاں شیخ محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کو رائج کریں گے۔1765ء میں شہزادہ محمد اور 1791ء میں شیخ محمد بن عبد الوہاب کی وفات ہو گئی۔ اس وقت تک جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقے پر آل سعود کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔شہزادہ محمد کے بعد امام عبد العزیز علاقے کے حکمران بنے مگر 1803ء میں انھیں قتل کر دیا گیا۔امامعبدالعزیزکے بعد ان کے بیٹےسعودحکمران بنے جو 1814ء میں وفات پا گئے۔سعود کے بیٹے عبد اللہ ایک بڑے عالم دین بھی تھے۔ ان کے دور حکمرانی میں ان کے علاقے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور درعیہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔امام عبد اللہ قیدی بنا لیے گئے اور انھیںاستنبوللے جا کر سزائے موت دے دی گئی۔مگر جلد ہ�� ان کے بھائیمشاری بن سعوداپنی حکومت واپس لینے میں کامیاب ہو گئے مگر وہ زیادہ عرصے تک حکمرانی نہ کر سکے اور ان کا علاقہ دوبارہسلطنت عثمانیہکے قبضے میں چلا گیا۔اس کے بعد اُن کا بھتیجا شہزادہترکی بن عبداللہریاضپر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا، جس پر وہ 1824ء سے 1835ء تک بر سر اقتدار رہے۔اگلی کئی دہائیوں تکآل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا اورجزیرہ نما عربپر تسلط کے لیےمصرسلطنت عثمانیہاور دیگر عرب قبائل میں تصادم ہوتے رہے۔ آل سعود کے ایک حکمرانامام عبدالرحمنتھے، جو 1889ء میںبیعتلینے میں کامیاب ہوئے۔امام عبد الرحمن کے بیٹےشہزادہ عبدالعزیزایک مہم جُو شخصیت تھے اور1900ءمیں انھوں نے اپنے والد کی زندگی میں ہی ان کی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لینے اور اسے وسعت دینے کی کوششیں شروع کر دیں1902ء میں انھوں نے ریاض شہر پر قبضہ کیا اور اسے آل سعود کا دار الحکومت قرار دیا۔اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نےالاحسائی،قطیفاورنجدکے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا۔سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میںحجازپر (جس میںمکہ مکرمہاورمدینہ منورہکے علاقے شامل تھے) شریف مکہ حسین کی حکمرانی تھی، جنھوں نے 5 جون 1916ء کو ترکی کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔حسین کو نہ صرف عربوں کے مختلف قبائل کی بلکہ برطانیہ کی تائید بھی حاصل تھی۔7 جون 1916 کو شریف مکہ حسین نے حجاز کی آزادی کا اعلان کیا۔21 جون کو مکہ پر ان کا قبضہ مکمل ہوا اور 29 اکتوبر کو انھوں نے پورے عرب کا حکمران ہونے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے تمام عربوں کو دعوت دی کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔ 15 دسمبر 1916ء کو حکومت برطانیہ نے حسین کو شاہ حجاز تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔اسی دوران امیر عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے مشرقی عرب کا ایک بڑا حصہ مسخر کر لیا اور 26 دسمبر 1915ء کو برطانیہ کے ساتھ دوستی کا ایک معاہدہ بھی کر لیا۔5 ستمبر 1924ء کو انھوں نے حجاز کو بھی فتح کر لیا۔عوام نے امیر عبد العزیز کا ساتھ دیا اور شریف مکہ شاہ حسین نے حکومت سے دست بردار ہو کر اپنے بیٹے علی کو شاہ حجاز بنا دیا۔ مگر امیر عبد العزیز کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے باعث انھیں بھی اپنا تخت چھوڑنا پڑا۔13 اکتوبر 1924 کو شاہ عبد العزیز نے مکہ معظمہ پر بھی قبضہ کر لیا۔5 دسمبر 1925ء کو انھوں نے مدینہ کا اقتدار حاصل کر لیا۔ 19 نومبر 1925ء کو شریف مکہ علی نے اقتدار سے مکمل دستبرداری کا اعلان کیا اور یوں جدہ پر بھی آل سعود کا قبضہ ہو گیا۔ آٹھ جنوری 1926ء کو شاہ حجاز عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے ایک خصوصی تقریب میں مملکت نجد و حجاز کے مکمل اختیارات سنبھالنے کا اعلان کر دیا۔20 مئی 1927ء کو برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں پر جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے عبد العزیز ابن سعود کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا۔ 23 ستمبر 1932ء کو شاہ عبد العزیز ابن سعود نے مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے ’المملکتہ العربیتہ السعودیہ‘ رکھنے کا اعلان کر دیا۔شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود نے جلد ہی اپنی مملکت کو اسلامی رنگ میں ڈھال دیا۔دوسری جانب ان کی خوش قسمتی سے سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کی نشان دہی ہوئی۔ سنہ 1933ء میں شاہ عبد العزیز نے کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا۔ابتدائی چند برس جدوجہد میں بسر ہوئے مگر 1938ء میں جب کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ماہرین ناکام ہو کر ملک لوٹنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک کنویں سے خزانہ ابل پڑا اور اتنا تیل نکلا جس پر وہ ماہرین خود بھی دنگ رہ گئے۔یہ واقعہ نہ صرف سعودی حکمرانوں اور کیلیفورنیا کمپنی کے لیے حیران کُن تھا بلکہ پورے جزیرہ نما عرب کے لیے ایک معجزہ تھا۔ تیل کی دریافت نے سعودی عرب کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔9 نومبر 1953ء کو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود وفات پا گئے۔سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہآل سعودکی بادشاہت ہے۔1992ءمیں اختیار کیے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہعبدالعزیز ابن سعودکی اولاد حکمرانی کرے گی اورقرآن پاکملک کا آئین اورشریعتحکومت کی بنیاد ہے۔ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں البتہ2005ءمیں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان،علماءاور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہیے۔ سعودی عرب دنیا بھر میںمساجداورقرآناسکولوں کے قیام کے ذریعےاسلامکی ترویج کرتی ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علما کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پرشریعت اسلامیسے مطابقت رکھتی ہو۔ عدالتشرعی نظامکی پابند ہیں جن کےقاضیوںکا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔سعودی عرب کو انتظامی لحاظ سے تیرہ علاقوں یا صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کوعربیزبان میں مناطق (عربی واحد:منطقہ) کہتے ہیں۔ سعودی نقشہ میں صوبے نمبر زد ہیں اور خانہ معلومات میں ان کے بارے میں معلومات درج کی گئي ہیں۔مملکت سعودی عربجزیرہ نمائے عربکے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔متحدہ عرب امارات،اوماناوریمنکے ساتھ منسلک ملک کی سرحدوں کا بڑا حصہ غیر متعین ہے اس لیے ملک کا عین درست رقبہ اب بھی نامعلوم ہے۔ سعودی حکومت کے اندازوں کے مطابق مملکت کا رقبہ 22 لاکھ 17 ہزار 949 مربع کلومیٹر (8 لاکھ 56ہزار 356 مربع میل) ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق ملک کا رقبہ 19 لاکھ 60ہزار 582 مربع کلومیٹر (7 لاکھ 56 ہزار 934 مربع میل) اور 22 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر (8 لاکھ 64 ہزار 869 مربع میل) کے درمیان میں ہے تاہم دونوں صورتوں میں سعودی عرب رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 15 بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔مملکت جغرافیہ مختلف نوعیت کا ہے۔ مغربی ساحلی علاقے (التہامہ) سے زمین سطح سمندر سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور ایک طویل پہاڑی سلسلے (جبل الحجاز) تک جاملتی ہے جس کے بعد سطع مرتفع ہیں۔ جنوب مغربی عسیر خطے میں پہاڑوں کی بلندی 3 ہزار میٹر (9 ہزار 840 فٹ) تک ہے اور یہ ملک کے سب سے زیادہ سرسبز اور خوشگوار موسم کا حامل علاقہ ہے۔ یہاں طائف اور ابہا جیسے تفریحی مقامات قائم ہیں۔ خلیج فارس کے ساتھ ساتھ قائم مشرقی علاقہ بنیادی طور پر پتھریلا اور ریتیلا ہے۔ معروف علاقہ ”ربع الخالی“ ملک کے جنوبی خطے میں ہے اور صحرائی علاقے کے باعث ادھر آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔مملکت کا تقریباً تمام حصہ صحرائی و نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے اور صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے۔ بڑی آبادیاں صرف مشرقی اور مغربی ساحلوں اور حفوف اور بریدہ جیسے نخلستانوں میں موجود ہیں۔ سعودی عرب میں سال بھر بہنے والا کوئی دریا یا جھیل موجود نہیں۔سعودی عرب کا موسم مجموعی طور پر شدید گرم اور خشک ہے۔ یہ دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت کا 50 ڈگری سینٹی گریڈ (120 ڈگری فارن ہائیٹ) سے بھی اوپر جانا معمول کی بات ہے۔ موسم سرما میں بلند پہاڑی علاقوں میں کبھی کبھار برف پڑ جاتی ہے تاہم مستقل بنیادوں پربرف بارینہیں ہوتی۔ موسم سرما کا اوسط درجہ حرارت 8 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ (47 سے 68 ڈگری فارن ہائیٹ) ہے۔ موسم گرما میں اوسط درجہ حرارت 27 سے 43 ڈگری سینٹی گریڈ (81 سے 109 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ وسط صحرائی علاقوں میں گرمیوں میں بھی رات کے وقت موسم سرد ہوجاتا ہے۔سعودی عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے تاہم کبھی کبھار موسلا دھار بارش سے وادیوں میں زبردست سیلاب آجاتے ہیں۔ دار الحکومت ریاض میں سالانہ بارش 100 ملی میٹر (4 انچ) ہے جو جنوری سے مئی کے درمیان میں ہوتی ہے۔ جدہ میں نومبر اور جنوری کے درمیان میں 54 ملی میٹر (2.1 انچ) بارش ہوتی ہے۔2005ء کے مطابق سعودی عرب کی آبادی 26 اعشاریہ 4 ملین ہے جس میں 5 اعشاریہ 6 ملین غیر ملکی آبادی بھی شامل ہے۔ 1960ء کی دہائی تک مملکت کی آبادی کی اکثریت خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش تھی لیکن معیشت اور شہروں میں تیزی سے ترقی کی بدولت اب ملک کی 95 فیصد آبادی مستحکم ہے۔ شرح پیدائش 29 اعشاریہ 56 فی ایک ہزار افراد ہے جبکہ شرح اموات صرف 2 اعشاریہ 62 فی ایک ہزار افراد ہے۔چند شہروں اور نخلستانوں میں آبادی کی کثافت ایک ہزار افراد فی مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔تقریباً 80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں۔ مزید برآں چند جنوبی اور مشرق افریقی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو چند سو سال قبل اولاً غلام بنا کر یہاں لائے گئے تھے۔ سعودی عرب میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن بھی مقیم ہیں جن میںبھارتکے 14 لاکھ،بنگلہ دیشکے 10 لاکھ،پاکستانکے 9 لاکھ،فلپائنکے 8 لاکھ اورمصرکے 7 لاکھ 50 ہزار باشندے شامل ہیں۔ قریبی ممالک کے عرب باشندوں کی بڑی تعداد میں مملکت میں برسرروزگار ہے۔ سعودی عرب میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ باشندے بھی قیام پزیر ہیں۔1932ء میں مملکت سعودی عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی اور شہری علاقوں میں مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہورہی تھیں۔ ان مدارس میں اسلامی اور دینی تعلیم سکھائی جاتی تھی تاہم گذشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک قومی تعلیمی نظام کا حامل ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے قبل سے لے کر جامعہ کی سطح تک مفت تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی تجربہ و شعبہ جات میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام تعلیم کا بنیادی خاصہ ہے۔ سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے مدارس اور اسکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔سعودی عرب میں باقاعدہ بنیادی تعلیم کا آغاز 1930ء کی دہائی میں ہوا۔ 1945ء میں شاہ عزیز السعود نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لیے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد 1951ء میں مملکت کے 226 اسکولوں میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے۔ 1954ء میں وزارت تعلیم کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ مہروز بن عزیز بنے۔ سعودی عرب کی پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسٹی 1957ء میں ریاض میں قائم ہوئی۔آج سعودی عرب کا قومی سرکاری تعلیمی نظام 8 جماعت، 24 ہزار سے زائد اسکولوں اور ہزاروں کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے۔ اس نظام کے تحت ہر طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مملکت کے سرکاری میزانیہ کا 24 فیصد سے زائد تعلیم کے لیے مختص ہے۔ سعودی عرب میں طالب علموں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جن میںامریکا،کینیڈا،برطانیہ،آسٹریلیا،جاپان،ملائیشیاجرمنیاور دیگر ممالک شامل ہیں۔سعودی عرب کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی فہرستملک بھر میں ایک بہترین نقل وحمل کا نظام قائم ہے۔ سعودی عرب حکومت ماضی میں ضلحی نظام کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے کیوں کہ وہاں پیٹرول کی قیمت باقی دنیا کے مقابلے میں سب کم رہی ہے۔ فروری 2018ء میں اعلان کیا گیا کہ، سعودی عرب کی چار اہم موٹر ویز پر رفتار میں بہتری لائی جائے گی اور اسے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پہنچا دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں مکہ مدینہ،شاعز- دمام اور آخر میں ریاض طائف موٹر ویز شامل ہیں۔[15]ملک میں ایک ترقی یافتہ بحری نقل و حمل کا نظام ہے جو بنیادی طور پرپیٹروکیمیکلکی نقل و حمل کی سہولت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔سعودی پورٹ اتھارتیان بحری کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے، یہ ادارہ ملک میں بندرگاہوں کے انتظام کا ذمہ دار ہے۔ شاہراہوں و ہوائی سفر پر زیادہ انحصار کرنے کے نتیجے میں، سعودی عرب میں ریل نقل و حمل میں دوسرے ذرائع کی طرح سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ البتہ، اب ملک کے ریلوے کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔سعودی عرب کا سب سے مقبول کھیلفٹ بالہے۔ سعودی عربگرمائی اولمپکس،والی بال،باسکٹ بالاور دیگر کھیلوں میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس میں شرکت کرتا ہے۔ قومی فٹ بال مسلسل 4 مرتبہ ورلڈ کپ اور 6 مرتبہ ایشین کپ کے لیے کوالیفائی کرنے کے باعث عالمی سطح پرجانی جاتی ہے۔ سعودی عرب تین مرتبہ ایشین چمپئن رہ چکا ہے اور دو مرتبہ فائنل میں شکست کھاگیا۔ سعودی عرب کے چند معروف فٹ بال کھلاڑیوں میںماجد عبداللہ،سامي الجابراورياسر القحطانيشامل ہیں۔اسلامسعودی عرب کا سرکاری مذہب ہے اور اس کا قانون تمام شہریوں کے مسلمان ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے۔[16]اسلام کے سوا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو کھلے عام عبادت منع ہے۔[17][18]سعودی عرب شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی غیر مسلم کو اسلام قبول ضروری ہے۔[19]سعوی عرب کے نفاذشریعتاور اس کےانسانی حقوقمتعلقہ قوانین پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔[20][21]سعودی ثقافت کی بنیاد مذہباسلامہے۔ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ ہر روز دنیا بھر کے مسلمان 5 مرتبہ مکہ مکرمہ میں قائمخانہ کعبہکی جانب رخ کرکےنمازپڑھتے ہیں۔ سعودی عرب میں ہفتہ وار تعطیلجمعہکو ہوتی ہے۔قرآن مجیدسعودی عرب کا آئین اور شریعت اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔سعودی عرب کے معروف ترین لوک رسم قومی رقصارضیٰہے۔ تلواروں کے ساتھ کیا جانے والا یہ رقص قدیمبدویروایات کا حصہ ہے۔ حجاز کیالسہبالوک موسیقی کی جڑیں قرون وسطیٰ کے عرباندلسسے جاملتی ہیں۔سعودی عرب کا لباس باشندوں کے زمین، ماضی اور اسلام سے تعلق کا عکاس ہے۔ روایتی طور پر مرد ٹخنے تک کی لمبائی کی اونی یا سوتی قمیض پہنتے ہیں جوثوبکہلاتی ہے جس کے ساتھ سر پرشماغیاغطرہکا استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں کا لباس قبائلی موتیوں، سکوں، دھاتی دھاگوں اور دیگر اشیاء سے مزین ہوتا ہے۔ سعودی خواتین گھر سے باہرعبایہاورنقابکا استعمال کرتی ہیں۔اسلام میںشرابنوشی اورسورکے گوشت کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے اور اس پر سعودی عرب میں سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ سعودی روٹیخبزکا تقریباً تمام کھانوں میں استعمال کیا ج��تا ہے۔ بھنی ہوئی بھیڑ، مرغی، فلافل، شورمہ اور فول بھی دیگر مشہور کھانوں میں شامل ہیں۔ روایتی قہوہ خانے ہر جگہ موجود ہیں تاہم اب ان کی جگہ بڑے کیفے لے رہے ہیں۔ بغیر دودھ کی سیاہ عربی چائے کا استعمال ہر جگہ کیا جاتا ہے۔سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہمظہراناورراس تنورہمیں قائم نجی آبادیوں میں تھیٹر قائم ہیں تاہم یہ فلموں کے نمائش کی بجائے مقامی موسیقی اور فنون پیش کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ حال ہی میں بچوں اور عورتوں کے لیے عربی کارٹون پیش کرنے کے لیے سینمائوں کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔حاشیہ"
+747,حجاز,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%D8%AC%D8%A7%D8%B2,شمال مغربیسعودی عربکا ایک علاقہ جوبحیرہ قلزمکے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مربع میل ہے۔مکہاورمدینہکے شہر اسی علاقے میں واقع ہیں۔ قدیم و جدید عرب تہذیب کا گہوارہ ہے۔ 1913ء تکسلطنت عثمانیہکے زیر تسلط رہا۔ 1932ء میںنجدو حجاز کے اتحاد سےسلطنت سعودیوجود میں آئی۔[1]خطہ حجاز بحیرہ احمر کے قریب واقع ہے۔ یہ خطہ گہرے رنگ کی ریت کی وجہ سے مشہور ہے۔ حجاز مقدس سروات کے پہاڑی سلاسل پر مشتمل ہے جو نجد کو تہاما سے علاحدہ کرتا ہے۔
+748,المدينہ علاقہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AF%D9%8A%D9%86%DB%81_%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%DB%81,منطقہ المدينۃ المنورۃ(Al Madinah Region)سعودی عربکے مغربی صوبوں میں سے ایک ہے۔صوبہ کے شمال میںمنطقۃ تبوک، مشرق میںمنطقۃ حائلاورمنطقۃ القصيم، جنوب میںمنطقۃ المکۃ المکرمۃاور مغرب میںبحیرۂ احمرواقع ہے۔صوبہ کا کل رقبہ 1،73،000 مربع کلومیٹر اور آبادی 13،10،400 نفوس ہے۔علاقائی صدر مقام شہر مقدسالمدینۃ المنورۃہے جبکہ دیگر اہم شہروں میںينبع البحر،العلی،المہد،بدر،خيبراورالحناكيہشامل ہیں۔سعودی عرب کے صوبے
+750,مکہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DA%A9%DB%81,"مکہیامکہ مکرمہ(عربی:مَكَّةُ الْمُكَرّمَةْ) تاریخی خطہحجازمیںسعودی عربکےصوبہ مکہکا دار الحکومت[5]اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ شہر کی آبادی 2004ء کے مطابق 12 لاکھ 94 ہزار 167 ہے۔ مکہجدہسے 73 کلومیٹر دوروادی فارانمیں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہبحیرہ احمرسے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔[6]یہ شہراسلامکا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقامبیت اللہیہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کاحجکرنا فرض ہے ۔.[7][8]انگریزیزبان میں Mecca کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں حکومتسعودی عربنے شہر کا انگریزی نام Mecca سے بدل کر Makkah کر دیا۔[9]معروف مؤرخابن خلدونکے مطابق مکہ پہلے بکہ کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم مؤرخین کے درمیان اس امر پر اختلاف ہے:ابراہیم النخعینے بکہ کو کعبہ اور مکہ کو شہر سے منسوب کیا جبکہامام ُزہریبھی اسی کے حامی ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بکہ میں استعمال ہونے والابدونوں آوازوں کے درمیان قربت کے باعث بعد ازاںممیں تبدیل ہو گیا۔ مکہ کو”ام القری“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔.[10]مسجد حرامکے اندر قائمخانۂ کعبہحضرت ابراہیماورحضرت اسماعیلعلیهم السلامنے تعمیر کیا۔ مؤرخین کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا مرکز تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ مکہ جنوبی عرب سے شمال میںرومیوبازنطینیسلطنتوں کے لیے زمینی راستے پر تھا اورہندوستانکے مصالحہ جاتبحیرہ عرباوربحر ہندکے راستے سے یہیں سے گزرتے تھے۔[11][12]کعبة اللهکی تعمیری تاریخ عہد ابراہیم اور اسماعیلعلیهم السلامسے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہر میں نبی آخر الزماںمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمپیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اور یہاں پ رہی مسجدحرامواقع ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :”اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے“ (آل عمران:96 )570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانرواابرہہساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے، اپنے سردارعبدالمطلبکی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ہزاروں پرندے جنہیں عام طور پر ابابیل کا نام دیا جاتا ہے چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے نمودار ہوئے اور انھوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکرمنیٰکے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالٰی کے حکم سے تباہ و برباد ہو گیا اللہ تعالٰی نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :""کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کی سازش و مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو انھیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے، پس انھیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا""(سورة الفیل)یہ وہی سال تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا۔ آپ پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اورتبلیغاسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کر گئے۔بالآخر 10رمضانالمبارک8ھبمطابق 630ء میں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے۔ مدینہ ہجرت کر کے جانے کے بعد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کوفتح مکہکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام اہلیان شہر کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔خلافتاسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جوکعبة اللهسے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔مکہ کبھی ملت اسلامیہ کادارالخلافہنہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دار الخلافہمدینہتھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔خلافت راشدہکے زمانے میں بھی مدینہ ہی دار الخلافہ رہا اور پھر حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں پہلےکوفہاور اس کے خاتمے کے بعددمشقاور بعد ازاںبغدادمنتقل ہو گیا۔مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔ سنہ 1926ء میںسعودیوںنے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کوسعودی عربمیں شامل کر لیا۔[13][14]جنوری، 2022 ء سے مکہ شہر کے مئیر صالح الترکی ہیں۔[15]جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم عمارات ختم ہو چکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔[16]مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے۔ حالیہ سالوں میں ماہذوالحجہمیں 20 سے 30 لاکھ مسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمانعمرےکی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔شہر مکہ میں بنیادی حیثیتبیت اللہکو حاصل ہے جومسجد حراممیں واقع ہے۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گردطوافکرتے ہیں،حجر اسودکو بوسہ دیتے ہیں اورزمزمکے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیںصفااورمروہکی پہاڑیوں کے درمیانسعیاورمنیٰمیںشیطان کو کنکریاں مارنے کا عملبھی کیا جاتا ہے۔ حج کے دورانمیدان عرفاتمیں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکےنمازادا کرتے ہیں۔غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔سعودی عرب کے دوسرے شہروں کے برعکس مکہ کا موسم سردیوں میں بھی نسبتاً گرم رہتا ہے۔ سردیوں میں رات کا درجہ حرارت 17سینٹی گریڈاور دوپہر کے وقت 25 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور دوپہر کو درجہ حرارت عام طور پر 40سینٹی گریڈسے اوپر چلا جاتا ہے جبکہ رات کو بھی 30 درجے تک رہتا ہے۔ نومبر سے جنوری کے درمیان عموماً ہلکی بارشیں ہوتی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمیل (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+751,یروشلم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D8%B1%D9%88%D8%B4%D9%84%D9%85,"یروشلمیاالقدسشہریہودیوں،مسیحیوںاورمسلمانوںتینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاںحضرت سلیمانکا تعمیر کردہمعبدہے جوبنی اسرائیلکے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے۔ یہی شہرمسیحکی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کیتبلیغکا مرکز تھا۔ مسلمان تبدیلیقبلہسے قبل تک اسی کی طرف رخ کر کےنمازادا کرتے تھے۔بیت المقدسکو القدس بھی کہتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کا قبلہ اولمسجد اقصٰیاورقبۃ الصخرہواقع ہیں۔مکہ مکرمہسے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً 1300کلومیٹرہے۔ شہر 31 درجے 45 دقیقے عرض بلد شمالی اور 35 درجے 13 دقیقے طول بلد مشرقی پر واقع ہے۔بیت اللحماورالخلیلاس کے جنوب میں اوررام اللہشمال میں واقع ہے۔یروشلم کاعربینام القدس ہے جسے قدیم مصنفین عام طور پر بیت المَقدِس لکھتے ہیں، دراصل اس سے مرادہیکل(سلیمانی) تھا جو عبرانی بیت ہمقدش کا ترجمہ ہے لیکن بعد میں اس لفظ کا اطلاق تمام شہر پر ہونے لگا۔بیت المقدسکو یورپی زبانوں میں Jerusalem (یروشلم) کہتے ہیں۔ ""بیت المقدس""سے مراد وہ ""مبارک گھر"" یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہو ں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی ق م میں جبرومیوںنے یروشلم پر قبضہ کیا تو انھوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھا۔بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پرمسجد اقصٰیاورقبۃ الصخرہواقع ہیں۔ کوہ صیہون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی۔سب سے پہلے حضرتابراہیم علیہ السلاماور ان کے بھتیجےلوط علیہ السلامنےعراقسے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔620ءمیں حضورنبی کریمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلمجبریل امینکی رہنمائی میںمکہسے بیت المقدس پہنچے اور پھرمعراجآسمانی کے لیے تشریف لے گئے۔حضرتیعقوب علیہ السلامنے وحی الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرتسليمان علیہ السلام(961ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ہیکل سلیمانیاور بیت المقدس کو 586 ق م میںشاہبابل(عراق)بخت نصرنے مسمار کر دیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرتعزیر علیہ السلامکا وہاں سے گذر ہوا، انھوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پراللہنے انھیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔بخت نصرکے بعد 539 ق م میں شہنشاہ فارس روش کبیر (سائرس اعظم) نےبابلفتح کر کےبنی اسرائیلکو واپس جانے کی اجازت دے دی۔یہودیحکمرانہیرود اعظمکے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کر لیے۔یروشلمپر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے70ءمیں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کر دیے۔137ق ممیں رومی شہنشاہہیڈریننے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المق��س اورفلسطینسے جلا وطن کر دیا۔چوتھی صدیعیسوی میں رومیوں نےمسیحیتقبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔جبنبی کریمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلممعراجکو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے،2ھبمطابق624ءتک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الٰہی کے مطابقکعبہ(مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔17ھیعنی639ءمیں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔خلیفہعبد الملککے عہد میں یہاں مسجد اقصٰی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پرقبۃ الصخرہبنایا گیا۔1099ءمیںپہلی صلیبی جنگکے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔1187ءمیں سلطانصلاح الدین ایوبینے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔پہلی جنگ عظیمدسمبر1917ءکے دورانانگریزوںنے بیت المقدس اورفلسطینپر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحتنومبر1947ءمیںاقوام متحدہکی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب14 مئی1948ءکو یہودیوں نےاسرائیلکے قیام کا اعلان کر دیا توپہلی عرب اسرائیل جنگچھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقےاردنکے قبضے میں آ گئے۔تیسری عرب اسرائیل جنگ(جون1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہفلسطیناور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول70ءکی تباہی سےہیکل سلیمانیکی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے ""دیوار گریہ"" کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دار الحکومت بھی بنا رکھا ہے۔"
+754,عربی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%B1%D8%A8%DB%8C,الجزائر: المجلس الأعلى للغة العربیة بالجزائر ()سوڈان: مجمع اللغة العربية بالخرطوم (عربی زبان اکادمی،خرطوم)عراق: المجمع العلمي العراقي فيبغداد(عراقی سائنس اکادمی)تونس: مؤسسة بيت الحكمةسوریہ: مجمع اللغة العربية بدمشقلیبیا: مجمع اللغة العربية الليبيمصر: مجمع اللغة العربية بالقاهرةالمغرب: عربی زبان اکادمیاسرائیل: مجمع اللغة العربية في حيفا[3]عربی(عربی:العربية)سامی زبانوںمیں سب سے بڑی زبان ہے اورعبرانیاور آرامی زبانوں سے بہت ملتی ہے۔ جدید عربی کلاسیکی یا فصیح عربی کی تھوڑی سی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فصیح عربی قدیم زمانے سے ہی بہت ترقی یافتہ شکل میں تھی اورقرآنکی زبان ہونے کی وجہ سے زندہ ہے۔ فصیح عربی اور بولے جانے والی عربی میں بہت فرق نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے بولے جانے والیاردواورادبی اردومیں فرق ہے۔ عربی زبان نےاسلامکی ترقی کی وجہ سے مسلمانوں کی دوسری زبانوں مثلاًاردو،فارسی،ترکیوغیرہ پر بڑا اثر ڈالا ہے اور ان زبانوں میں عربی کے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ عربی کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کی حیثیت حاصل ہے اور تمام دنیا کےمسلمانقرآنپڑھنے کی وجہ سے عربی حروف اور الفاظ سے مانوس ہیں۔ تاریخ میں عربی زبان کی اہمیّت کے سبب بہت سے مغربی زبانوں میں بھی اِس کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔عربی کے کئی لہجے آج کل پائے جاتے ہیں مثلاً مصری، شامی، عراقی،حجازیوغیرہ۔ مگر تمام لہجے میں بولنے والے ایک دوسرے کی بات بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور لہجے کے علاوہ فرق نسبتاً معمولی ہے۔ یہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے اور اس میںھمزہ سمیت29حروف تہجی ہیںجنہیںحروف ابجدکہا جاتا ہے۔عربی کی وسعت فصاحت و بلاغت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ حروف تہجی میں سے کوئی سے تین حروف کسی بھی ترتیب سے ملا لیے جائیں تو ایک بامعنی لفظ بن جاتا ہے۔عرب قدیم زمانے میں سامی زبانوں کی وسیع اقسام پر فخر کرتا تھا۔ جنوب مغرب میں، مختلفوسطی سامی زبانیںبولی جاتی تھیں جوقدیم جنوبی عربیخاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اس سے باہر تھیں (مثلاً جنوبی ثامودی)۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جدید جنوبی عربی زبانوں (غیر مرکزی سامی زبانوں) کے آبا و اجداد بھی اُس وقت جنوبی عرب میں بولے جاتے تھے۔ شمال کی طرف، شمالی حجاز کے نخلستانوں میں،دادانیاورتیمائیکو نوشتی زبان کے طور پر کچھ وقار حاصل تھا۔ نَجد اور مغربی عرب کے کچھ حصوں میں، ایک زبان جو علما کے نزدیک ثمودی جیم کے نام سے مشہور ہے۔ مشرقی عرب میں، قدیم جنوبی عربی سے ماخوذ ایک رسم الخط میں تحریریں ایک زبان کی تصدیق کرتی ہیں جسےحسائیکہا جاتا ہے۔ آخر میں، عرب کی شمال مغربی سرحد پر، مختلف زبانیں جو علما کے نزدیک ثمودی ب، ثمودک د،سفائیہاورحسمائیہکے نام سے مشہور ہیں۔ آخری دو، عربی کی بعد کی شکلوں کے ساتھ اہم خط تفریقِ لسانی کا اشتراک کرتی ہیں، مفکرین کو یہ نظریہ پیش کرنے کو کہتی ہیں کہ صفاتی اور حسمائی دراصل عربی کی ابتدائی شکلیں ہیں اور انھیں پرانی عربی سمجھا جانا چاہیے۔عربی درج ذیل ممالک میں سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے:یہ درج ذیل ممالک کیقومی زبانبھی ہے:
+756,قومی پرچم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C_%D9%BE%D8%B1%DA%86%D9%85,قومی پرچمیاملّی پرچمایک ایسا پرچم ہوتا ہے جو ایک ملک کی علامتی طور پر نمائندگی کرتا ہے۔ اِسے حکومت کی طرف سے لہرایا جاتا ہے، لیکن عموماً اِسے شہری بھی لہرا سکتے ہیں۔تمام عوامی (سرکاری) اور نجّی عمارتوں مثلاً مدرسوں اور عدالتوں پر قومیپرچملہرایا جاتا ہے۔قومی پرچم کا ڈیزائن کسی واقعہ یا حادثہ سے متاثر ہو کر بدل بھی دیا جاتا ہے۔ قومی پرچم نذرِ آتش کرنا یا اس کی توہین کرنا بہت بڑا قانونی جرم مانا جاتا ہے۔
+757,پرچم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%B1%DA%86%D9%85,پرچمیاجھنڈایاعَلم،دراصل رنگین کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے جس پر خاص نقشہ یا خاکہ بنا ہوتا ہے اور اِسے بطورِ علامت کسی کھمبے پر لگایا جاتا ہے۔تاریخ میں پرچم کا سب سے پہلے استعمال 2000 سال قبلچیناوریورپمیں رومی دَور میں ملتا ہے۔پرچم کے کئی اقسام ہو سکتے ہیں، مثلاً:
+758,بھارت ڈومینین,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%88%D9%88%D9%85%D9%86%DB%8C%D9%86_%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA,ڈومنین بھارت(Dominion of India) یاڈومنین بھارت(ہندی: भारतीय अधिराज्य) جسےبھارتی اتحاد(Union of India) بھی کہا جاتا ہے جدید بھارت کی پیشرو تھی جو15 اگست1947ءسے26 جنوری1950ءتک ایک بطور آزاد ریاست قائم رہی۔1947ء میںتقسیم ہندسے قائم ہونے والے دو خود مختار ممالک میں سے ایک آزاد وفاقی عملداری تھی۔ یہ 1950 میں یہجمہوریہ بھارتبن گیا۔
+759,22 جولائی,https://ur.wikipedia.org/wiki/22_%D8%AC%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C,
+760,1947ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/1947%D8%A1,<<< چوتھی دہائی <<<پانچویں دہائی>>> چھٹی دہائی>>>
+762,انڈین نیشنل کانگریس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D9%86_%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84_%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B3,"انڈین نیشنل کانگریس(جسےکانگریس پارٹیاورآئی این سیبھی کہا جاتا ہے)بھارتکی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ جماعت کا قیامدسمبر1885ءمی�� عمل میں آیا جبایلن اوکٹیوین ہیوم،دادابھائی نوروجی،ڈنشا واچا،ومیش چندر بونرجی،سریندرناتھ بینرجی،مونموہن گھوشاورولیم ویڈربرننے اس کی بنیاد رکھی۔ اپنے قیام کے بعد یہ ہندوستان میںبرطانوی راجکے خلاف جدوجہد کرنے والی ایک اہم جماعت بن گئی اورتحریک آزادی ہندکے دوران اس کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد اراکین تھے۔پاکستانکے بانیمحمد علی جناحبھیمسلم لیگمیں شمولیت سے قبل اس جماعت میں شامل رہے ہیں جبکہ ہندوستان کی تاریخ کی کئی عظیم شخصیات بھی اس جماعت سے وابستہ رہی ہیں جن میںموہن داس گاندھی،جواہر لعل نہرو،ولبھ بھائی پٹیل،راجندرہ پرساد،خان عبدالغفار خاناورابو الکلام آزادزیادہ معروف ہیں۔ ان کے علاوہسبھاش چندر بوسبھی کانگریس کے سربراہ رہے تھے تاہم انھیںاشتراکی نظریاتکی وجہ سے جماعت سے نکال دیا گیا۔بعد آزاد تقسیم کے معروف کانگریسی رہنماؤں میںاندرا گاندھیاورراجیو گاندھیمعروف ہیں۔1947ءمیںتقسیم ہندکے بعد یہ ملک کی اہم سیاسی جماعت بن گئی، جس کی قیادت بیشتر اوقاتنہرو گاندھی خانداننے کی۔ 15 ویںلوک سبھا(2009ءتا حال) میں 543 میں سے اس کے 206 اراکین تھے۔ یہ جماعت بھارت کے حکمرانیونائیٹڈ پروگریسیو الائنسکی سب سے اہم رکن ہے۔ یہبھارتکی واحد جماعت ہے جس نے گذشتہ تین انتخابات (1999ء،2004ء،2009ء) میں 10 کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔۔کانگریس کو1975ءمیںبھارتمیںہنگامی حالتکے نفاذ اور1984ءمیں سکھ مخالف فسادات (آپریشن بلیو اسٹار) کے باعث شدید تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا۔کانگریس کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔اس کا پہلا حصہ 1885ء سے1905ءتک محیط رہا۔ اس دور کو اعتدال پسندوں کے دور سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ کانگریس پر ان رہنماؤں کا غلبہ رہا جوحکومتکے وفادار تھے۔ مغربی تعلم سے آراستہ تھے،برطانویجمہوری اداروں کو ہندوستان میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ انگریزوں کے منصفانہ جذبہ میں یقین رکھتے تھے اور ان کے وجود کو ہندوستان کے باعث رحمت تصور کرتے تھے۔اعتدال پسندوں کی پالیسی سے کانگریس کے رہنماؤں کا ایک طبقہ اختلاف رکھتا تھا۔ وہ اعتدال پسندوں کی اصلاحات اور مراعات کی پالیسی کو خیرات کی پالیسی سے تعبیر کرتا تھا اور ہندوستان کو ہندوستانیوں کی تقدیر سمجھتا تھا۔ وہ اس پر ہندوستانیوں کا تصور کرتا تھا۔ یہ دور 1905ء سے 1919ء تک جاری رہا اور انتہا پسندوں کے دور سے موسوم ہوا۔ اس کے رہنماؤں میںلالہ لاجپت رائے،بال گنگا دھر تلکاور بپن چندر پال بڑی اہمیت کے حامل تھے۔1907ءمیں اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے مابین اختلافات کے سبب دو حصوں میں منقسم ہو گئی اور اعتدال پسندوں کو کانگریس کی رکنیت سے خارج کر دیا۔ بعد ازاں 1916 میں جبمسلم لیگاور کانگریس نے میثاقلکھنؤپر دستخط کیے تو انتہا پسندوں کو دوبارہ کانگریس میں داخل کر لیا گیا۔ 1918 میں مانٹیگو جیمسفورڈ اصلاحات پر اختلافات کے سبب اعتدال پسند کانگریس سے منحرف ہو گئے اور انھوں نے اپنے آپ کو لبرل پارٹی کے نام سے منظم کر لیا۔کانگریس کا تیسرا دور 1919ء سے 1947ء تک محیط رہا ہے۔ اسےمہاتما گاندھیکے دور سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس دور میں گاندھی نےافریقاسے ہندوستان واپس آ کر 1917ء میں چمپارن میں ستیہ گرہ کیا۔احمد آبادکے مل مزدوروں کی تحریک چلائی۔ 1919ء رولٹ بل کی مخالفت میں ستیہ گرہ کیا۔ 1920ء میں خلافت عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ 1930ء میں ڈانڈی مارچ کر کے نمک کا قانون توڑا۔ 1932ء میں تحریک سول نافرمانی کا آغاز کیا۔ 1940ء میں جنگ کے خلاف انفرادی ستیہ گرہ کیا اور 1942 میںابو الکلام آزادکی صدارت میں ""ہندوستان چھوڑ دو"" تحریک کی قرارداد پیش کی۔ اس کے نتیجے میں کانگریس کے تمام رہنماؤں کو گرفتا ر کر کے گاندھی جی کو آغا خان پونا میں نظر بند کر دیا گیا اور دوسرے رہنماؤں کو احمد نگر کے تاریخی قلعہ میں قید کر دیا گیا۔23 مارچ 1940ء کو جبمسلم لیگنےلاہورمیں اجلاس میںدو قومی نظریہکی بنیاد پر لاہور قرارداد کے تحت مسلمانوں کے لیے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو کانگریس نے شدت سے اس کی مخالفت کی لیکن برطانوی حکومت نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا اور اس کی پالیسی سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ ہر قدم پر اس کی مدد بھی کی اور بالآخر ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ذریعہ تین جون پلان کے تحت 14اگست1947ء کوپاکستانکا قیام عمل میں آ گیا اور 15 اگست کو ہندوستان آزاد ہو گیا۔ حصولِ آزادی کے بعد کانگریس تین برس تک مرکز اور کئی برسوں تک ریاستوں میں برسرِ اقتدار رہی۔ تاہم کانگریس کو 1977ء میں مسنر اندرا گاندھی کے الیکشن میںناکامیکے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور جنتا پارٹی نے مرار جی ڈیسائی کے زیر قیادت اقتدار کی ذمہ داری سنبھالی تاہم 1980ء میں مسنر گاندھی دوبارہ برسرِ اقتدار آ گئیں اور انھوں نے کانگریس کو کانگریس، آئی، کے نام سے موسوم کیا۔ مسنر گاندھی اس کی صدر منتخب ہوئیں۔اکتوبر1984ء میں ان کی ہتھیا کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی کانگریس کے صدر اوروزیر اعظممنتخب ہوئے۔ 1989ء میں کانگریس پھر اقتدار سے محروم ہو گئی۔ تاہم 1991میں پھر برسرِ اقتدار آ گئی اور 1995ء تک صدر کانگریس نرسمہاراؤ کی وزارتِ عظمیٰ میں اقتدار پر قابض رہی۔ اس کے بعد سے 2001ء تک یہ اقتدار سے محروم ہے اور اس کی باگ ڈورراجیو گاندھیکیبیویاور مسنراندرا گاندھیکی بہوسونیا گاندھیکے ہاتھوں میں ہے۔"
+763,کھادی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%DA%BE%D8%A7%D8%AF%DB%8C,ایک طرح کا کپڑا جو روئی (کپاس) سے بنا یاجاتا ہے۔ اس کی بُنائی ہاتھ سے کی جاتی ہے۔ لیکن آج کل زیادہ تر کپڑا مشینوں پر ہی تیار کیا جاتا ہے اسےکھدربھی کہا جاتا ہے۔
+764,فہرست قومی یوم آزادی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%85_%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C,یوم آزادیآزاد ریاست کا درجہ حاصل کرنے کی ایک ملک کی سالگرہ کی یاد میں ایک سالانہ تقریب ہے۔اگر کوئی ملک، کسی دوسرے ملک کی غلامی سے یا حکومتی گرفت سے آزادی پاتا ہے تو اس دن کو اس آزادی پانے والے ملک میں ہر سال یوم آزادی کی تقریبات منائی جاتے ہیں۔دنیا بھر کے تقریباً ممالک میں “یوم آزادی“ پایا جاتا ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ہر ملک کسی نہ کسی ملک یا جبری طاقتوں کی غلامی میں اسیر تھا۔ اور جیسے ہی آزادی پائی تو وہ دن جشن کا ہو گیا۔مندرجہ ذیل دنیا بھر کے ممالک کے یوم آزادی کی جزوی فہرست ہے۔آسٹریا۔
+766,اہل تشیع,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%DB%81%D9%84_%D8%AA%D8%B4%DB%8C%D8%B9,"مضامین بسلسلہاسلام:اہل تشیعتوحید اللہملائکہ پر ایمانآسمانی کتابوں پر ایمانرسل و انبیا پر ایمانیوم آخرت پر ایمانقضا و قدر پر ایماناحیاء ماہ مُحرَّم الحرامالتوسلعصمت ائمہاعتقاد غیبت مہدیعید الفطرعیدالاضحیعید میلاد النبیعاشورہاربعینعید غدیرعید مباہلہچہاردہ معصوم کے ایام شہادت و ولادتمحمد رسول اللہاہل بیت(علی بن ابی طالب•حسن ابن علی(حسین ابن علی•فاطمہ زہرا(ارکان اربعہانبیا و صالحینصحابہاثنا عشریہ•زیدیہاسماعیلیہ•نصیریہمقدس شہرمکہ•مدینہ منورہ•یروشلم•نجف•کربلا•مشہد•سامرا•کاظمین مقدس•قم•دمشقمقدس مقاماتمسجد الحرام•مسجد نبویمسجد اقصٰی•امام علی مسجدbr/>روضۂ امام حسین•سیدہ زینبشیعہ خلافتیں اور ریاستیںسلطنت ادریسیہ•سلطنت علویہبویہ سلطنت•سلطنت حمدانیہسلطنت فاطمیہ•قرہ قویونلوصفوی سلطنت•سلطنت زندیہقاجاری سلطنت•ایرانتاریخی واقعاتعید غدیر•پیغمبر اسلام کی جانشینی•مظلومیت زہراء•حرق الدار•فتنہ قتل عثمانجنگ جمل•جنگ صفین•معركة النهروانعام الجماعت•واقعہ کربلاقزلباشحزب اللہتحریک املجیش مہدیسپاہ پاسداران انقلاب اسلامیحوثینہج البلاغہ•كتب اربعہصحیفہ سجادیہ•وسائل الشیعہشیعہ سنی اختلافاہل تشیع کے نزدیک ائمہ کے بارے میں اختلافاتشیعہ میں مہدیمرجع تقلیدرسوم ائمہباب شیعہاہل تشیعیاشیعیت(عربی:شيعة) اسلام کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ اہل تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فقط حضرتعلی بن ابی طالبعلیہ السلام کی امامت و خلافت کے قائل ہیں اور صرف انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین اور پہلا معصوماماممانتے ہیں۔ شیعہ یا اہل تشیع نظریہ خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےدعوت ذوالعشیرہجوحدیث یوم الداریاحدیث العشیرہ والدارکے نام سے مشہور ہے اورخطبہحجۃ الوداعکے موقع پرمولائے کائنات علی بن ابی طالبکو اپنا حقیقی جانشین مقرر کر دیا تھا۔ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:تینوں دفعہعلی بن ابی طالبکھڑے ہوئے اور کہا کہتو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہاس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےحجۃ الوداعکے بعدغدیر خمکے علاقے میں ایک خطبہ میں فرمایا کہان کے علاوہ سینکڑوں آیات قرآن اور احادیث نبوی علی کی شان بیان کرتی ہیں۔شیعہ مسلمانوں کی آبادی کل مسلم آبادی کا 13-10 % فیصد ہےـ[9]مسلمانوں بلاخص اہل تشیع کی آبادی کے بارے میں کوئی یقینی اعداد و شمار میسر نہیں ہے۔ 2000ء کے اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں شیعہ آبادی 400 ملین یعنی 40 کروڑ ہے اور ان میں سے تقریبا 85٪ شیعہ اثنا عشری ہیں۔[10]مذکورہ اعداد و شمار موجودہ اکثر منابع کے مطابق ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں بعض دیگر اعداد و شمار اہل تشیع کی آباد کو مسلم آبادی کا 23 فیصد تک بتاتے ہیں۔[9]عربی زبان میں شیعہ کا لفظ دو معنی رکھتا ہے۔ پہلا کسی بات پر متفق ہونا اور دوسرا کسی شخص کا ساتھ دینا یا اس کی پیروی کرنا۔قرآنمیں کئی جگوں پر یہ لفظ اس طرح سے آیا ہے جیسےسورہ قصصکی آیت 15 میں حضرت موسی کے پیروان کو شیعہ موسی کہا گیا ہے
+اور شیعہ فرعون کے بارے میں بھی آیا ہے۔[11]اور دو اور جگہوں پر ابراہیم کو شیعہ نوح کہا گیا ہے۔[12]اسلام کی تاریخ میں شیعہ کا لفظ کسی شخص کے پیروان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت امیر معاویہ کے اختلافات کے زمانے میں ان کے حامیوں کو بالترتیب شیعانعلی ابن ابو طالبعلیہ السلام اور شیعانمعاویہ بن ابو سفیانکہا جاتا تھا[حوالہ درکار]۔ صرف لفظ شیعہ اگر بغیر تخصیص کے استعمال کیا جائے تو مراد شیعانِعلی ابن ابو طالبہوتی ہے، وہ گروہ جو ہراختلافمیں حضرتعلی ابن ابی طالبعلیہ السلام کا حامی تھا اور جو ان کی امامت بلا فصل کا عقیدہ رکھتا ہے۔اثنا عشریہ (یعنی بارہ امام)، اہل تشیع (یعنی شیعہ) کا سب سے بڑہ گروہ ماننا جاتا ہے۔ قریبا 85 فیصدشیعہاثنا عشریہ اہل تشیع ہیں۔[13]ایران،آذربائجان،لبنان،عراقاوربحرینمیں ان کی اکثریت ہے۔ ��س کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہیں۔ پاکستان میںاہل سنتکے بعد اثنا عشریہ اہل تشیع کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔دنیا بھر میں شیعوں کی آبادی 40کروڑ ہے یعنی؛ مسلمانوں کی ایک چوتھائی آبادی شیعوں پر مشتمل ہے۔[14]اثنا عشریہ کی اصطلاح انبارہ معصوم اماموںکی طرف اشارہ کرتی ہے جن کا سلسلہ حضرتمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد اور داماد امامعلی بن ابی طالبعلیہ السلام سے شروع ہوتا۔ یہ خلافت پر یقین نہیں رکھتے اور ان کا نظریہ نظامامامتہے۔ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرتمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ان کے جانشینبارہ معصوم امامہیں بلا فصل جانشین امامعلی بن ابی طالبعلیہ السلام ہیں اور کل بارہ امام ہیں۔ جن کا تذکرہ تمام مکاتب اسلام کی احادیث میں آتا ہے۔ تمام مسلمان ان ائمہ کو اللہ کے نیک بندے مانتے ہیں۔ تاہم اثنا عشریہ اہل تشیع ان ائمہ پر خاص اعتقاد یعنیعصمتکی وجہ سے خصوصیشہرترکھتے ہیں۔ ان بارہ ائمہ کے نام یہ ہیں :اثنا عشریہ اہل تشیع اور دوسرے مسلمانوں میں ان کے وجود کے دور اور ظہور کے طریقوں کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔اثنا عشریہ اہل تشیع کے دو گروہ ہیں۔1۔اخباری2۔اصولیچھٹے امامجعفر صادقعلیہ السلام کی وفات پر اہل تشیع کے دو گروہ ہو گئے۔ جس گروہ نے ان کے بیٹے اسماعیل کو، جو والد کی حیات میں ہی وفات پا گئے تھے، اگلا امام مانا وہاسماعیلیکہلائے۔ اس گروہ کے عقیدے کے مطابقاسماعیل ابن جعفران کے ساتویں امام ہیں۔ ان کا امامت کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔جس گروہ نےموسی کاظمعلیہ السلام کو اگلا امام مانا وہاثنا عشریکہلائے کیونکہ یہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔زیدیہ شیعہ یا زیدی شیعہ، اہل تشیع کا ایک فرقہ ہے جس میں حضرت امامسجادیا زین العابدین علیہ السلام کی امامت تک اثنا عشریہ اہل تشیع سے اتفاق پایا جاتا ہے۔ یہ فرقہ امام زین العابدین کے بعد اماممحمد باقرکی بجائے ان کے بھائی امامزید بن علیزین العابدین کی امامت کے قائل ہیں۔یمن میں ان کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہیں۔ وہ ائمہ جن کو زیدی معصوم سمجھتے ہیں :ان کے بعد زیدی شیعوں میں کوئی بھی ایسا فاطمی سید خواہ وہ امام حسن کے نسل سے ہوں یا امام حسین کے نسل سے امامت کا دعوی کر سکتا ہے۔ زیدی شیعوں کے نزدیکپنجتن پاککے علاوہ کوئیامام معصومنہیں،کیونکہ ان حضرات کیعصمتقرآنسے ثابت ہے۔ زیدیوں میں امامت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ یہ فرقہ اثنا عشری کی طرح امامت، توحید، نبوت اور معاد کے عقائد رکھتے ہیں تاہم ان کے ائمہ امام زین العابدین کے بعد اثنا عشری شیعوں سے مختلف ہیں۔ لیکن یہ فرقہ اثنا عشری کے اماموں کی بھی عزت کرتے ہیں اور ان کو ""امام علم"" مانتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ زیدی کتابوں میں امام باقر،امام جعفر صادق اور امام عسکری وغیرہ سے بھی روایات مروی ہیں۔”کیسانیہ“ ایک ایسے فرقہ کا نام ہے جوپہلی صدیہجری کے پچاس سال بعد شیعوں کے خلاف پیدا ہوا اور تقریباً ایک صدی تک چلتا رہا پھر بالکل ختم ہو گیا۔ کیونکہ اس کے بہت سے عقائد و نظریات کو اہل تشیع اور باقی فرقوں نے رد کر دیا۔یہ گروہ جناب ”محمد حنفیہ“ (حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے) کی امامت کا عقیدہ رکھتا تھا اور انھیں امیر المومنین کہتا تھا اور امام حسن اور امام حسین کے بعد چوتھا امام گمان کرتا تھا۔ ”محمد حنفیہ “حضرت علی امیر المومنینکے فرزند ارجمند تھے اور حضرت کی ان پر خاص توجہ ہوا کرتی تھی ان کی شہرت ”حنفیہ“اس جہت سے ہے کہ ان کی ماں ”خولہ“ کا تعلق ”بنی حنیفہ“ کے قبیلہ سے تھا امیر المومنین نے انھیں آزاد کیا تھا پھر اپنے ساتھ عقد نکاح پڑھا۔صرخیینیاصرخیشیعہ اسلاممیں ایک نیا مکتب فکر ہے جس کا بانیمحمود صرخیہے۔ جو ایک عراقی عالم دین ہے۔ صرخیین کے عقائد و نظریاتشیعہ اسلامکے خلاف ہیں مگر پھر بھی یہ لوگ اپنے آپ کو شیعہ قرار دیتے ہیں۔[15]عقائد و نظریاتآپ کے عقائد و نظریات بالکل ہی شیعہ اسلام کے خلاف ہیں۔ انھی وجوہات کی بنا پر آپ کو شیعیت سے خارج کیا جاتا ہے۔1) آپ کا دعویٰ ہیں کہ ہم توحید خالص کے قائل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ شیعہ اکثریت کے موجودہ رسومات اور اعمال کو شرکیہ قرار دیتے ہیں۔2) آپ خلفائے ثلاثہ سے محبت رکھتے ہیں خصوصا حضرت عمر رض کا کثرت سے ذکر کرتے ہیں۔خلفاء کے ناموں کے ساتھ بھی علیھم السلام لکھتے یا کہتے ہیں۔3) حضرت فاطمہ س کے گھر پر ہجوم نیز ان کی شہادت کو مجوسیوں کی بنائی ہوئی کہانی سمجھتے ہیں۔اور محسن نامی کسی فرزند کے وجود کو خیالی باتیں قرار دیتے ہیں۔4)آپ حضرت عمر رض اور ام کلثوم س کے نکاح کے قائل ہیں اور اس پر کتاب بھی لکھی ہے جس میں حضرت عمر رض کو داماد حیدر ع قرار دیا ہے۔5)قبروں پر تعمیرات نیز قبروں کی گچ کاری،ان پر لکھنا اور زمین سے چار انچ سے زیادہ اونچی قبروں کو (شیعہ کتب حدیث کی روشنی میں) تعلیمات رسول ص اور ائمہ ع اہلبیت کے منافی قرار دیتے ہیں اور اونچی قبروں کو ہموار کرنے اور ان تعمیرات کو زمین کے برابر کرنے کو ہی عین شریعت مانتے ہیں۔6)امامت کے آپ قائل ہیں لیکن اماموں کی تعداد یا ان کی عصمت پر عام شیعوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔7) نکاح متعہ کوحراماور شان ائمہ اہل بیت ع کے منافی قرار دیتے ہیں۔8(آپ رسول اللہ ص کے لیے ایک بیٹی کی بجائے چار بیٹیوں کے قائل ہیں۔9)آپ ازواج مطہرات کو نص قرآن کے مطابق اہل بیت ع کے اصل مصداق مانتے ہیں۔10) حضرت عائشہ ع کا خاص احترام کرتے ہیں۔صرخی گروپ ماتمی مجالس کے طرز پر ""تکریم عائشہ ع"" کا انعقاد کرتے تھے۔یعنی یہ واحد شیعہ گروپ ہے جو حضرت عائشہ کے لیے مجلس برپا کرتے ہیں اور یہ حضرت عائشہ کے نام کے ساتھ بھی ""علیھا السلام ""لکھتے ہیں۔11) آپشیخابن تیمیہکو توحید کا امام قرار دیتے ہیں۔12)آپ رائج عزاداری یعنی ماتم کی ہر شکل یعنی سینہ زنی،چیخنے چلانے،قمہ،زنجیر زنی،آگ پر ماتم،تعزیہ،ذو الجناح وغیرہ کو(شیعہ کتب حدیث کی روشنی میں) اہل بیت ع کی تعلیمات کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان کو بدعت قرار دیتے ہیں وغیرہ۔[16]شیعوں نےانسانی تہذیباورعالم اسلامکی ترقی میں بہت زیادہ حصہ ڈالا ہے کیونکہ ان کی وسیع شراکتیں بہت سے میدانوں میں ظاہر ہوئی ہیں، خواہ وہ تاریخ میں ہو یا جدید دور میں[18]اس میںفلسفہ،[19][20]الٰہیات،[21]منطق،[22]ادب،[23][24][25]شاعری،[26][27][28][29][30][31][32][33]نثر،[34][35][36]طب،[37][38][39]انجینئری،[40][41][42]فنیات،[43][44]نحو،[45][46][47]فلکیات،[48][49]ریاضی،[50][51]جغرافیہ،[52][53]تاریخ نگاری،[54]اورسیاست[55]شامل تھے۔کیمسٹری،صرفکی سائنس قائم کرنے کے علاوہقرآن کریمکے حروف اورعربی حروف تہجیپر نقطے لگانا۔[56][57][58][59][60][61]"
+767,عاشورا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D9%85_%D8%B9%D8%A7%D8%B4%D9%88%D8%B1%DB%81,عاشورایایوم عاشورااسلامی تقویمکے مہینےمحرم الحرامکے دسویں دن کو کہا جاتا ہے۔ اس دنشیعہمسلمانوں کی اکثریت اور کچھسنیمسلمان پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی کی شہادت کو مختلف طریقوں سے یاد کرتے ہیں۔ شہادت کے واقعہ پر کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا، اہل سنت اور اہل تشیع دونوں متفق ہیں۔ واقعہ کربلا کے تقریباً فوری بعد ہی نوحہ گری شروع ہو گئی تھی۔ واقعہکربلاکی یاد میںامویاورعباسیدور میں مشہور مرثیے تحریر کے گئے اور ابتدائی ترینعزاداریسنہ 963ء میںبویہ سلطنتکے دور میں ہوئی۔افغانستان،ایران،عراق،لبنان،آذربائیجان،بحرین،بھارتاور پاکستان میں اس دن عام تعطیل ہوتی ہے اور کئی دوسری نسلی و مذہبی برادریاں اس دن جلوس میں شریک ہوتی ہیں۔اہل سنت میں عاشورا نبیموسیکا اپنی قوم کوفرعونسے نجات دلانے کا دن ہے اور یہ اسلامییوم کپورسے ملتا جلتا ہے۔
+769,صفر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%A7%DB%81_%D8%B5%D9%81%D8%B1,اسلامی تقویمصفراسلامی تقویمکا دوسرا مہینہ ہے۔ اسے صفر المظفر بھی کہا جاتا ہے۔
+770,61ھ,https://ur.wikipedia.org/wiki/61%DA%BE,
+771,680ء,https://ur.wikipedia.org/wiki/680%D8%A1,"sadaen detay haen ab bhi pukartary haen loge, koi hussain magar karbala maen aaj nahi.....پیرامیٹر 1=سالدرکار ہے!"
+773,یزید بن معاویہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D8%B2%DB%8C%D8%AF_%D8%A8%D9%86_%D9%85%D8%B9%D8%A7%D9%88%DB%8C%DB%81,"یزید بن معاویہ(مکمل نام: یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی)خلافت امویہکا دوسرا خلیفہ تھا۔ اس کی ولادت23 جولائی645ءکوعثمان بن عفانکی خلافت میں ہوئی۔ اس کی ماں کا نام میسون تھا اور وہ شام کی کلبیہ قبیلہ کی مسیحی خاتون تھی،[2]اس نے معاویہ کے بعد 680ء سے 683ء تک مسند خلافت سنبھالا۔ اس کے دور میں اس کے حکم سےسانحۂ کربلامیں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم،حسین ابن علیشہید کیے گئے۔ حسین بن علی کا سر یزید کے دربار میں لے جایا گیا۔ جبکہ روایات کے مطابق، اسی نے ان کی شہادت کا حکم دیا اورعبید اللہ ابن زیادکو خصوصی طور پر یہ ذمہ داری دی اور جب حسین بن علی کا سر اس کے سامنے آیا تو اس نے خوشی کا اظہار کیا اور ان کے اہل خانہ کو قید میں رکھا۔اسی دور میں عبد اللہ ابن حنظلہ کی تحریک کو کچلنے کے لیےمدینہمیں قتل عام ہوا اورعبد اللہ ابن زبیرکے خلاف لڑائی میںخانہ کعبہپر سنگ باری اور آتشی گولہ باری کی گئی۔یزید نے معاویہ کی وفات کے بعد 30 برس کی عمر میں رجب 60ھ میں مسند خلافت سنبھالی۔ اس کے عہد حکومت میںعقبہ بن نافعکے ہاتھوں مغربی اقصی فتح ہوا اور مسلم بن زیاد نے بخارا اور خوارزم فتح کیا، دمشق میں ایک چھوٹی سی نہر تھی جس کی توسیع یزید نے کی تھی اس لیے اس نہر کو اس کی طرف منسوب کرکے نہر یزید کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اسی نے سب سے پہلے کعبۃ اللہ کو ریشمی غلاف پہنایا۔[3]یزید پر الزام ہے کہ اس نے والی مُلک ہو کر زمین میں فساد پھیلایا، حرمین طیبین و خود کعبہ معظمہ و روضہ طیبہ کی سخت بے حرمتی کی، مسجد کریم میں گھوڑے باندھے تاکہ ان کی لید اور پیشاب منبرِ اطہر پر پڑے، تین دن مسجد نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بے اذان و نماز رہی، مکہ و مدینہ و حجاز میں ہزاروں صحابہ و تابعین بے گناہ شہید کیے، کعبہ معظمہ پر پتھر پھینکے، اس کے علاوہ حصین بن نمیر نے آتشیں گولہ باری سے خانہء خدا کو جلایا۔غلاف خانہ خدا پھاڑا اور جلا دیا، مدینہ طیبہ کی پاکدامن پارسا خواتین شبانہ روز اپنے خبیث لشکر پر حلال کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جگر پارے کو تین دن بے آب و دانہ رکھ کر مع اہل خانہ و ساتھیوں کی مختصر تعداڈ کو تیغ ظلم سے پیاسا ذبح کیا، مصطفٰی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے گود کے پالے ہوئے تن نازنین پر بعد شہادت گھوڑے دوڑائے گئے یہاں تک تمام استخوانِ مبارک کی ہڈیاں چور چور ہو گئیں، سرِ انور کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا بوسہ گاہ تھا کاٹ کر نیزہ پر چڑھایا اور منزلوں پھرایا، حرم محترم مخدرات مشکوئے رسالت قید کیے گئے اور بے حرمتی کے ساتھ اس خبیث کے دربار میں لائے گئے، اس سے بڑھ کر قطع رحم اور زمین میں فساد کیا ہوگا، ملعون ہے وہ جو ان ملعون حرکات کو فسق و فجور نہ جانے۔[4]یزید بحیثیت شخصیت اور بحیثیت کردار ہمیشہ سے مسلمانوں کے مختلف مکاتبِ فکر میں متنازع رہا ہے۔ یہ اختلاف شیعہ اور سُنیمکتب فکرمیں تو ہے ہی لیکن خود سنی مکتب فکر کے مختلف سوچ رکھنے والے طبقات اس بارے میں اختلاف رکھتے ہیں۔امام حسن اور معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان میں صلح کی ایک بنیادی شرط یہ تھی کہ ان کے بعد کوئی جانشین مقرر نہیں ہوگا مگر امیر شام نے اپنے بیٹے یزید کو جانشین مقرر کیا اور اس کے لیے بیعت لینا شروع کر دی۔ کچھ اصحاب رسول نے اس بیعت سے انکار کر دیا جیسے عبد اللہ بن زبیر۔ امام حسین نے بھی بیعت سے انکار کر دیا کیونکہ یزید کا کردار اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں تھا۔ یزید کی تخت نشینی کے بعد اس نے امام حسین سے بیعت لینے کی تگ و دو شروع کر دی۔ یزید نے مدینہ کے گورنر اور بعد میں کوفہ کے گورنر کو سخت احکامات بھیجے کہ امام حسین سے بیعت لی جائے۔ یزید نے جب محسوس کیا کہکوفہکا گورنر نرمی سے کام لے رہا ہے تو اس نے گورنر کو معزول کر کے ابن زیاد کو گورنر بنا کر بھیجا جو نہایت شقی القلب تھا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ ابن زیاد نے یزید کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خاندان رسالت کو قتل کیا اور قیدیوں کو اونٹوں پر شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق بھیج دیا۔ دمشق میں بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہوا۔ یزید نےحسین ابن علیکے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوئے اپنے کچھ اشعار پڑھے جن سے اس کا نقطۂ نظر معلوم ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے'کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا، بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئي نہ کوئی فرشتہ آیا ہے–دمع السجوم ص 252اہل سنت و الجماعت کے نزدیک یزید پلید ایک فاسق وفاجز اور مرتکب کبائر تھا۔ اس نے نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول امام عالی مقام امام حسین اور ان کے رفقائے کار کوکربلامیں شہید قتل اور مکہ مکرمہ،مدینہ منورہاورمسجد نبویکے تقدس کو پامال کیا۔″جب یزیدیوں نے امام حسین کو مع ان کے فرزندوں اور عزیز واقارب میدان کربلا میں شہید کر دیا اور زین العابدین بیمار تھے اور امیر المؤمنین آپ کو علی اصغر کہا کرتے تھے جب ان کو بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کر کے دمشق میں یزید بن معاویہ کے سامنے لائے ″اخزاہ اللہ ″ تو ایک شخص نے آپ سے عرض کیا اے اماماہل بیتکیا حال ہے تو امام زین العابدین نے فرمایا ’’ اصبحنا من قومنا بمنزلۃ قوم موسی من آل فرعون یذبحون ابنائہم ویستحیون نسائہم ″[5]″لعن اللہ قاتلہ وابن زیاد ومعہ یزید ایضا ″[6]یعنی اللہ تعالی امام حسین کے قاتل اور ابن زیاد اور یزید پر لعنت کرے۔″یزید بے دولت از زمرہ فسقا است توقف در لعنت او بنا بر اصل اہلسنت است کہ شخصے معیّن را گرچہ او کافر باشد تجویز لعنت نہ کردہ اند مگر آنکہ بیقین معلوم کنند کہ ختم او بر کفر بود کابی لہب وامرأتہ نہ او شایان لعنت نیست ان الذین یؤذون اللہ ورسولہ لعنہم اللہ فی الدنیا والاٰخرۃ ″[7]یزید بد بخت فاسقوں کے گروہ سے ہے اس پر لعنت میں ت��قف کرنا یہ اہلسنت وجماعت کے اصول کی بنا ءپر ہے کہ کسی معین شخص پر لعنت جائز نہیں خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، ہاں اگر یقین سے معلوم ہو جائے کہ اس کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا اس پر لعنت جائز ہے جیسے کہ ابو لہب اور اس کی بیوی۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یزید مستحق لعنت نہیں ہے (بے شک وہ لعنت کا حقدار ہے) قرآن مجید میں ہے بے شک جو لوگ اللہ تعالٰی اور اس کے پیارے رسول کو ایذا دیتے ہیں ا ن پر دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی لعنت ہے۔یزید پلید علیہ ما یستحقہ من العزیز المجید قطعا یقینا باجماع اھلسنت فاسق وفاجر وجری علی الکبائر تھا اس قدر پر ائمہاہل سنتکا اطباق واتفاق ہے، صرف اس کی تکفیر ولعن میں اختلاف فرمایا۔[4]ایک مقام پر لکھتے ہیں :
+″یزید پلید کے بارے میں ائمہ اہل سنت کے تین قول ہیں امام احمد وغیرہ اکابر اسے کافر جانتے ہیں تو ہرگز بخشش نہ ہوگی اور امام غزالی وغیرہ مسلمان کہتے ہیں تو اس پر کتنا ہی عذاب ہو بالآخر بخشش ضرور ہے اور ہمارے امام سکوت فرماتے ہیں کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافرلھذا یہاں بھی سکوت کریں گے″۔ واللہ تعالی اعلم[8]ایک مقام پر لکھتے ہیں :″اگر کوئی کافر کہے منع نہ کریں گے اور خود کہیں گے نہیں ″[9]″یزید پلید فاسق فاجر مرتکبِ کبائر تھا، معاذ اللہ اس سے اور ریحانہ رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سیّدنا امام حسین سے کیا نسبت۔۔۔؟! آج کل جو بعض گمراہ کہتے ہیں کہ:ہمیں ان کے معاملہ میں کیا دخل؟ ہمارے وہ بھی شہزادے، وہ بھی شہزادےایسا بکنے والا مردود، خارجی، ناصبی مستحقِ جہنم ہے۔ ہاں! یزید کو کافر کہنے اور اس پر لعنت کرنے میں علمائے اہلسنّت کے تین قول ہیں اور ہمارے امامِ اعظم کا مسلک سُکُوت، یعنی ہم اسے فاسق فاجر کہنے کے سوا، نہ کافر کہیں، نہ مسلمان۔[10]دیوبندیبنیادی طور پرحنفیمسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا عقیدہ سلفی حضرات سے مختلف ہے۔ جمہور علما دیوبند کا نقطۂ نظر یزید کے بالکل مخالف ہیں۔ ان کے مطابق یزید ایک برا شخص تھا۔مشہور دیوبندی عالممحمد قاسم نانوتوینے یزید کوپلیدکا خطاب دیا۔۔[11]یہی لفظرشید احمد گنگوہینے استعمال کیا۔۔[12]اشرف علی تھانوینے یزید کی مخالفت کی اور اسے فاسق کہا۔[13]مفتیمحمد شفیعنے یزید کی بیعت کو ایک حادثہ قرار دیا۔[14]انھوں نے حوالہ جات کے ساتھ لکھا کہ یزید نے تخت نشین ہوتے ہی کچھ اصحاب رسول سے زبردستی بیعت لینے کا حکم جاری کیا۔[15]انھوں نے یہ بھی لکھا کہ جبحسین ابن علیکاسریزید کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے ان کے دانتوں کو چھڑی سے چھیڑتے ہوئے اشعار پڑھے جس پر ایکصحابیرسولصلی اللہ علیہ و آلہ وسلمابو ہرزہ اسلمی، جو موقع پر موجود تھے انھوں نے کہا کہ اے یزید تو ان دانتوں کو چھیڑتا ہے جن کو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بوسہ دیا کرتے تھے۔ تو جب قیامت کو آئے گا تو تیری شفاعتابن زیادکرے گا اور حسین آئیں گے تو ان کی شفاعت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کریں گے۔ یہ کہہ کر ابو ہرزہ مجلس سے نکل گئے۔[16]یزید نے حسین ابن علی کے ایک بچے عمرو بن حسین کو کہا کہ سانپ کا بچہ سانپ ہوتا ہے یعنی حضرت حسین ابن علی کو سانپ سے تشبیہ دی۔[17]مفتی محمد شفیعکے مطابق اگرچہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یزید شہادت حسین کے بعد پشیمان ہوا مگر اس پشیمانی کو نہیں مانا جا سکتا کیونکہ اسواقعہکے بعد بھی یزید سیاہ کار رہا اور اس کی موت بھی ایسے ہوئی کہ مرتے مرتے اس نے مکہ پر چڑھائی کرنے کے لیے ایک لشکر بھیجا۔ یزید کو اس واقعہ کے بعد چین نصیب ��ہ ہوا اور اس کو دنیا میں بھی اللہ نے ذلیل کیا اور اسی ذلت کے ساتھ وہ ہلاک ہو گیا۔[18]سلفی مکتب فکر کے علما کے نزدیک یزید کے بارے میں جو یہ مشہور ہے کہ اس نےقسطنطنیہپر حملہ کرنے والے لشکر میں شمولیت کی اور وہ شاید جنت کی بشارت کا حقدار ہے، یہ مغالطہ پر مبنی ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث میں بلادِ روم یعنی قیصر کے شہر (مدینۃ قیصر) پر حملہ آور پہلے لشکر کے بارے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشارت دی تھی:اول جیش من امتی یغزون مدینۃ قیصر مغفور لھم[19]""میری امت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا (اللہ نے) اس کی مغفرت کردی""بریلوی مکتب فکر کے نزدیک درحقیقت بلادِ روم، قیصر کے شہر (مدینۃ قیصر) یا بالخصوص قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں یزید شامل نہیں ہوا۔تاریخ اسلامکی مستند اور مقبول ترین کتب جن میں البدایہ والنھایہ، الكامل فی التاريخ، تاریخ ابن خلدون، تاريخ بغداد اور تاريخ دمشق وغیرہ میں منقول ہے کہ بلاد روم یعنی قیصر روم کے شہر (مدینۃ قیصر) پر پہلا حملہ 42ھ میں ہوا اور دوسرا حملہ 43ھ ہوا اور اسلامی لشکر قسطنطنیہ پر بھی حملہ آور ہوا۔ الغرض یکے بعد دیگرے بلادِ روم یعنی قیصر کے شہر (مدینۃ قیصر) پر چھ حملے کیے گئے اور بالاآخر ساتواں لشکر 49ھ میں امیر معاویہ کے دور خلافت میں، روانہ کیا گیا جس میں یزید کی شمولیت ہوئی۔ یزید نے پہلے پہل اس لشکر میں شامل ہونے سے انکار کیا، بعد ازاں لشکر کو پیش آنے والی مشکلات کی خبریں آنے پر خوشی کا اظہار کیا اور قطعہ پڑھا جو تاریخ کی کتب میں منقول ہے۔ جب امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہَ کو یزید کی اس نازیبا حرکت کا علم ہوا تو آپ نے اسے لشکر کی روانگی کے بعد بطور سزا 50ھ میں قسطنطنیہ بھجوایا۔[20]پس مذکورہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں لفظ "" اول جیش"" یزید کو اس بشارت میں شامل کرنے میں مانع ہے۔ یزید کی شمولیت بترتیب ساتویں لشکر میں ہوئی جبکہ پہلا لشکر کم و بیش آٹھ سال قبل حملہ آور ہو چکا تھا۔ اسی طرح دوسرا لشکر سات برس قبل مدینۃ قیصر کی طرف جنگ کے لیے روانہ ہوا اور قسطنطنیہ پر بھی حملہ آور ہوا۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہنا چاہے کہ مذکورہ بالا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف قسطنطنیہ کے لیے مخصوص نہیں بلکہ اس میں مدینۃ قیصر یعنی پورے بلادِ روم کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے پھلا لشکر جو 42ھ میں حملہ آور ہوا وہی اس بشارت کا مستوجب ہے۔ یہ حدیث کتبِ حدیث بشمول صحیح بخاری میں لفظ مدینۃ قیصر کے ساتھہ آئی ہے۔ مذکورہ بالا یا کوئی اور مغفرت کی بشارت پر مبنی حدیث لفظ قسطنطنیہ کے ساتھہ وارد نہیں ہوئی۔بعد ازاں یزید اسلامی تعلیمات کے خلاف اقتدار پر قابض ہوا بلادِ اسلام میں ملوکیت کے آغاز کا موجب بنا۔ حجر عسقلانی فتح الباری میں اس ذیل میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ فرمایا کرتے کہ ’’اے اللہ میں سن ساٹھ ہجری اور تخت سلطنت پر نوعمر لونڈوں کے حکمران بن کر بیٹھنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور سن ساٹھ ہجری کا سورج طلوع ہونے سے پہلے مجھے دنیا سے اٹھالینا‘‘۔[21]اسی طرحمروان بن حکمجب ابوہریرہ سے یزید کی خلافت کے لیے بیت لینے آیا تو آپ نے مسجد نبوی میں مروان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : اے مروان! میں نے صادق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’قریش کے خاندان میں سے ایک گھرانہ کے نادان، بیوقوف لونڈوں کے ہاتھوں میری امت برباد ہو جائے گی‘‘۔[21]یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ذریت کے قتال کو اپنی امت کی بربادی پر محمول فرمایا۔یزید نے امام حسین اورعبد اللہ بن زبیرسمیت دیگر صحابہ کرام سے زبردستی اپنی بیت لینے کے لیے کہا جو بالآخر سانحہ کربلا کا موجب بنا۔ کربلا میں یزیدی لشکر امام حسین سمیت دیگر اہلبیت اور آپ کے رفقا کو شہید کرنے کا مرتکب ہوا۔ معرکہ کربلا اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ اور یزید کے اقتدار پر یقیناّ بہت بڑا دھبہ ہے۔ اسی طرحسانحہ کربلاکے بعد ذریتِ رسول کے ساتھ یزیدی فوج کا رویہ اور شام کے دربار میں اہلبیت اطہار کے ساتھ سلوک اس کے کردار پر بہت بڑا داغ ہے- بعد ازاں جب سانحہ کربلا کے نتیجہ میں اہل حجاز نے یزید کی بیعت توڑدی تو وہ مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ پر حملے کا مرتکب ہوا اورواقعہ حرہکے دوراں اپنی افواج کے ذریعے مکہ معظمہ پر پتھروں کی بارش کی اور خانہ کعبہ کی چھت کو جلا دیا، مقدس مقامات کی بے حرمتی کی اور ہزارہا افراد کو شہید کیا جن میں بہت سے صحابہ کرام بھی شامل تھے۔[20]اس کے علاوہ معاصریں اور مورخیں نے یزید کو علانیہ گناہِ کبیرہ کے ارتکاب (زنا، شراب نوشی، ترکِ نماز وغیرہ) اورعامۃ الناس کو اس کی طرف مائل کرنے کی وجہ سے اسے فاسق و فاجر قرار دیا۔ جیسا کہ امام ابن کثیر، البدايہ و النہايہ میں نقل کرتے ہیں۔ذکروا عن يزيد ما کان يقع منہ من القبائح في شربۃ الخمر وما يتبع ذلک من الفواحش التي من اکبرھا ترک الصلوۃ عن وقتھا بسبب السکر فاجتمعوا علي خلعہ فخلعوہ۔ عند المنبر النبوي[22]ترجمہ: یزید کے کردار میں جو برائیاں تھیں ان کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شراب پیتا تھا، فواحش کی اتباع کرتا تھا اور نشے میں غرق ہونے کی وجہ سے وقت پر نماز نہ پڑھتا تھا۔ اسی وجہ سے اہل مدینہ نے اس کی بیعت سے انکار پر اتفاق کر لیا اور منبر نبوی کے قریب اس کی بیعت توڑ دی۔اسی طرح عمر بن عبد العزیز، یزید کو امیر المومنین کہنے سے سختی سے منع کرتے اور آپ نے ایک شخص کو اس بنا پر بیس کوڑوں کی سزا دی کیونکہ اس نے یزید کوامیرالمومنینکے لفظ سے یاد کیا۔[23]مجددالف ثانیخواجہ معین الدین چشتیاجمیری امام حسین اور یزید کو حق و باطل کی دو قوتیں قرار دیتے ہوئے کہاشاہ است حسین و پادشاہ است حسیندین است حسین و دین پناہ است حسینسر داد، نداد دست در دستِ یزیدحقا کہ بنائے لا الہ است حسینیزید کے 14 لڑکے اور 5 لڑکیاں تھیں۔أنعمي أم خالد۔۔۔۔۔ ربَّ ساعٍ كقاعدزعمَ الناسُ أنَّ خيرَ قريشٍ۔۔۔۔۔ كلھُم حين يذكرون الأساورُاس کے علاوہ اس کی اولاد میں درج ذیل نام آتے ہیں:عبد اللہ اصغر، ابو بكر، عتبہ، عبد الرحمن، ربيع، محمد، يزيد، حرب*، عمر، عثمان، عاتكہ، رملہ، اُمِ عبد الرحمن، اُمِ يزيد، اُمِ محمد[24]"
+774,عظیم ترین پر امن اجتماعات,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%A8_%D8%B3%DB%92_%D8%A8%DA%91%DB%92_%D9%BE%D8%B1_%D8%A7%D9%85%D9%86_%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%A7%D8%AA,"عظیم ترین پر امن اجتماعاتکی فہرست درج ذیل ہے۔دس لاکھ سے زائد نفوس کے اجتماعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔== دس سے بیس لاکھ کے اجتماعات ==* The Tablighi Ijtema held on 4 and 5 May 2015 in Bulandshahr in Uttar Pradesh State of India witnessed a jama'at (gathering) of an estimated 1-1.5 million men. The people not only gathered but were also served meals, all of which was volunteered by the common people of nearby areas. It served as a great example of management, being carried out completely by numerous volunteers from the Muslim community of the area with negligible government involvement. * An estimated 1.5-2 million people in Hong Kong (the city at the time had a population of roughly 5.5 million) expressed their support for the students in theTiananmen Square protests of 1989. The line of people extended fromNorth PointtoSheung Wan, with all six lanes ofKing's Road (Hong Kong),Hennessy RoadandDes Voeux Roadcrowded with people. Many undergroundMTRstations onجزیرہ ہانگ کانگwere full of people and many people who could not participate in the demonstration above ground were stuck in the congested MTR stations, therefore the exact amount of demonstrators could only be estimated to around 1.5-2 million people.[78]* Security officials estimated that 1.8 million people attended theinaugurationofبارک اوباماinواشنگٹن ڈی سیon 20 January 2009.[79]* An estimated 1.8 million people claimedCatalan independencein Barcelona, 11 September 2014, drawing a 11 km. ""V"" shaped Catalan flag with their red & yellow T-shirt.[80]کسی اجتماع میں شامل ہونے والے لوگوں کی تعداد جانچنے کا ایک طریقہ تصاویر، ویڈیو یا پھر دونوں کا سائنسی جائزہ ہے۔ کسی تصویر کے معیار کے پیش نظر یہ ممکن ہے کہ فردًا فردًا شرکاء کو گنا جائے یا لوگوں کی حاضری کی شدت مدت نظر رکھتے ہوئے کچھ جگہوں پرکوئی اندازہ قائم کیا جائے۔ اس سے ایسے مواقع نکلتے ہیں کہ وسیع علاقوں پر پھیلے لوگوں کی تعداد یا تصویر کے غیرواضح حصوں کا اندازہ لگایا جائے۔ ایک بڑے پیمانے پر تصاویر کے ذریعے حاضرین کی تعداد کے اندازے لگانے کے بارے میں گفتگوملین افراد کی مارچسے متعلقباسٹن یونیورسٹیویب سائٹکے سنٹر فار ریموٹ سینسنگ کے ربط پر دستیاب ہے۔[114]"
+775,کربلا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D8%B1%D8%A8%D9%84%D8%A7,"کربلا (عربی میں كربلاء)عراقکا ایک مشہور شہر ہے جوبغدادسے 100 کلومیٹر جنوب مغرب میں صوبہ کربلا میں واقع ہے۔ یہواقعۂ کربلااورحسین ابن علیکے روضہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے پرانے ناموں میں نینوا اور الغادریہ شامل ہیں۔ اس کی آبادی دس لاکھ کے قریب ہے جومحرماورصفرکے مہینوں میں زائرین کی وجہ سے بہت بڑھ جاتی ہے۔زیادہ تر زائرین ایران، کوردستان،آذربائیجان،بحرین، ہندوستان اور پاکستان سے آتے ہیں.فصل غلہ خاص کر فصل گندم کاٹ کر پچھوڑنے یعنی بھُوسا اڑا کر صاف کرنے کوکربلکہتے ہیں۔ کیچڑ میں بدقت اور آہستہ چل کر آنے کے لیے بھیمکربلاکہا جاتا ہے۔ جیسےجاء یمشی مکربلاً[3]یعنی وہ مٹی ملے ہوئے پانی (کیچڑ) میں بدقت چل کر آیا۔
+لفظ کربلا کی اصل سے متعلق کئی مختلف نظریات و تحقیقات پیش کی جاتی ہیں۔ عربی زبان کے یہ دونوں لفظ کربل اور كربلة تلفظ کے اعتبار سے یکساں ہیں، کربلاء (اردو میں ہمزہ کے بغیر) اسی سے مشتق بتایا جاتا ہے۔اسی مؤلف نے بطور مثال کربلت و غربلت کے الفاظ پر مشتمل یہ شعر پیش کیا ہے۔بعض نے کہا ہے کہ اس کا نامطفہے، یعنی سرسبز و شاداب جگہ۔ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے اور کربل نام ہے الحماض کی طرح کے پودوں کا چونکہ یہ قسم یہاں بکثرت اگتی تھی اس لیے بھی اس کا (کربلا کا) یہ نام پڑ گیا تھا۔
+اس کی ایک مثالابو دہیل الجمی نے ایک شعر (یہ شعر تھوڑے فرق سےسلیمان بن قتیبہسے بھی منسوب کیا جاتا ہے)
+میں کربلا کی جگہ طف کا نام استعمال کیا ہے۔اردووفارسی زبانوالے عام طور پر اسے دو الگ الگعربیالفاظ کرب اور بلا سے مرکب بتاتے ہیں،[8][9]عربی میںکربمصیبت اور دکھ کو کہتے ہیں،بلاعربی میں امتحان، آزمائش، دکھ، مصیبت اور نعمت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔یہعراقکا ایک امیر شہر ہے، جہاں پر مذہبی زائرین اور زرعی پیداوار سے کثیر دولت حاصل ہوتی ہے، خاص کرکھجورسے۔ یہ دو اضلاع پر مشتمل ہے، پرانا کربلا مذہبی مرکز اور نیا کربلا رہائشی علاقہ، جہاں اسلامی مدارس اور حکومتی عمارات ہیں۔پرانے شہر کے وسط میںمزارحسینیواقع ہے، جس میںمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے،فاطمۃ الزھراءوعلی بن ابی طالبکے بیٹےحضرت امام حسیندفن ہیں۔ اس مزار پر مسلمان کثرت سے زیارت کے لیے آتے ہیں، خاص طور پرمحرمکے مہینے میں کیوں کے اسی مہینے میںیوم عاشورہکو انھیں کربلا میںشہیدکیا گيا تھا۔ اوراربعینیعنیچہلم(کسی شخص کے وصال کا چالیس واں دن) پر زائریں کی تعداد 20 ملین تک پہنچ جاتی ہے۔ جو لوگوں کا دنیا بھر میں سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔[حوالہ درکار]ان میں ایک بڑی تعدادنجفسے 80 کلومیٹر کا فاصلہ کربلا کی طرف پیدل چل کر طے کرتی ہے۔ یہ لوگ چہلم سے ایک ہفتہ پہلے ہی نکل پڑتے ہیں، راستے میں سونے اور کھانے پینے کے مقامات بنائے گئے ہیں۔نجفسے کربلا تک کا راستہ لوگوں کے اس ہجوم کے سبب بند ہوتا ہے۔ کئی لوگ ہر سال اپنا سب کچھ ختم کر کے وفاداری کا عزم کرتے ہیں اور کچھ بوڑھے یہاں پر ہی اپنی موت کی تمنا کرتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ یہ مزار جنت کا ایک دروازہ ہے۔کربلا میں دوسری بڑی زیارت گاہجناب غازی عباس علمدارکا مزار ہے۔
+تیسری بڑی زیارت گاہالمخیمیعنی خیام گاہ ہے، اس مقام کے بارے ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سانحہ کربلا کے وقتحضرت امام حسیناور ان کےاہل بیتکے |خیمے تھے۔تاریخِ اسلام کا خون چکاں واقعہ جو 'سانحۂ کربلا' سے جانا جاتا ہے، یہیں پیش آیا۔ یہ واقعہ31 مئی680ءبمطابق10 محرم61 ھ کو ہوا ہے۔کربلا میں جو کچھ ترقی ہوئی ہے اس میں زیادہ تر فارسی قوم کا ہاتھ رہا ہے۔ مارچ 1991ء کو حملوں کے نتیجے میں شہر بری طرح برباد ہوا اور مزارِ حسین سمیت کئی مذہبی عمارتوں کو نقصان پہنچے۔ 1994ء کو پھر مزارِ حسین کی تعمیرِنو ہوئی۔[10]کربلا کی فضا ریگستانی علاقہ ہونے کے سبب شدید گرم ہے۔ گرمیاں خشک اور سردی شدید ہوتی ہے۔ اگر بارشں ہو تو عام طور پرنومبراوراپریلکے درمیان ہی ہوتی ہے۔ لیکن کوئی مہینا بھی برسات کا نہيں ہوتا۔اہل تشیععقیدہ رکھتے ہیں کہ، کربلا روئے زمین پر مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں ذیل کی روایات پیش کی جاتی ہیں:اللہ تعالیٰنے، میرے جدامام حسینکی قبر کی مٹی سے ہر کسی کے لیے ہر خوف اور بیماری کی دوا بنائی ہے۔[14]"
+777,زیارت اربعین,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B2%DB%8C%D8%A7%D8%B1%D8%AA_%D8%A7%D8%B1%D8%A8%D8%B9%DB%8C%D9%86,"زیارت اربعین(عربی:زيارة الإمام الحسين ( عليہ السلام ) يوم الأربعين)،روز اربعینکے ساتھ ایک مخصوص زیارت نامہ ہے اور شیعہ عقائد کی رو سےائمۂ معصومیننے اس کی بہت تاکید کی ہے جس کی بنا پرشیعیان اہل بیتاس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔شیعیان عراقروزاربعینکربلائے معلیپہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر عراقی اور دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ یہ راستہ پیدل طے کرتے ہیں۔شیعیان عالمکےاربعین کے جلوسجنہیںمشی چہلمبھی کہا جاتا ہے دنیا کےعظیم ترین اجتماعاتمیں شمار ہوتے ہیں۔روزاربعینامام حسین علیہ السلام20صفرہی کا دن ہے۔اربعینہی کے دن اسیران کربلا شام سے کربلا لوٹے ہیں اور سب نے شہدائے کربلا کی زیارت کی۔ اربعین یعنی چہلم امام حسین کے دن، محباناہل بیت، کسب وکار چھوڑ کر، سیاہ پوش ہوکر مجلس عزا وسینہ زنی کرتے ہوئےحضرت فاطمہ زہراکو ان کے لال کا پرسہ دیتے ہیں ۔ آج کے دن حضرت امام حسین- کی زیارت کرنے اور پڑھنے کی بہت فضیلت ہے۔شیخ طوسیکتابتہذیب الاحکاماورمصباح المتہجدمیںامام حسن عسکری علیہ السلامسے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ""مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں:اربعین حسینیکے روز زیارتامام حسین علیہ السلامپڑھنا دو صورتوں میں وارد ہوا ہے۔یہ وہ زیارت ہے جوشیخ طوسینے اپنی دو کتابوںتہذیب الاحکام[2]اورمصباح المتہجد (کتاب)[3]میں صفوان جمّال سے روایت نقل کی ہے۔
+صفوان جمال کہتے ہیں: میرے مولاامام صادق علیہ السلامنے زیارت اربعین کے بارے میں مجھ سے فرمایا: ""جب دن کافی چڑھ جائے تو یہ زیارت پڑھو:متن، ترجمہ فارسی،زیارت اربعین مع اردو ترجمہآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ tvshia.com(Error: unknown archive URL)۔پس دو رکعتنمازبجا لاؤ اور جو چاہتے ہو اللہ سے مانگو اور (اگر کربلا میں زیارت امام حسین کا شرف ملا ہے تو دعا کے بعد) واپس چلے آؤ۔معتبر روایت میں ہے کہ فرزند رسول ص حضرتامام جعفر صادقعلیه السلام کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھتا ہے کہ مولا ہم تو کربلا نہیں جا سکے اب ہم کیا کریں؟امام جعفر صادق علیہ سلام نے فرمایا: اربعین کے دن کیا کرتے ہو؟ کہا کہ: میرا دل قبر امام حسین علیہ سلام کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کو زیارت اربعین بتائی اور فرمایا: حتی اگر دور سے بھی یہ زیارت پڑھو گے خدا وندہ عالم اپنے فرشتوں کو اربعین کے دن صبح سویرے سے غروب تک زمین پر بھیجتا ہے اور اس کائنات پر دنیا کے جس کونے سے بهی جو شخص یہ کلمات جو میں نے تمھیں بتائے ہیں (یعنی زیارت اربعین) دل سے پڑھے، ملائکہ آتے ہیں اور زیارت کے کلمات کو لے کے غروب تک سیدالشهدا علیه السلام کے پاس لے جاتے ہیں اور حضرت سیدالشهدا علیه السلام ملائکہ کو حکم دیتے ہیں کہ لکھ کر شمار کر لو کہ فلاں شخص یہاں آیا تھا اور اس نے زیارت کی ۔امام جعفر صادق علیه السلام مزید فرماتے ہیں: دل برداشتہ نہ ہونا کہ تم کربلا نہ پہنچ سکے، اس دن دل سے کربلا کو یاد کرو اور کربلا کے غم کو یاد کرنا یعنی تم کربلا میں ہی ہو، دل سے آہ و بکا تو کر ہی سکتے ہو؟ ممکن ہے تمھارے اس ایک آه و بکا کا ثواب زیارت کے ثواب سے زیادہ ہو۔جب سورج بلند ہو جائے تو حضرت کی زیارت کرو اور کہو:سلام ہو خدا کے ولی اور اس کے پیارے پر سلام ہو خدا کے سچے دوست اور چنے ہوئے پر، سلام ہو خدا کےپسندیدہ اوراس کے پسندیدہ کے فرزند پرسلام ہو حسین (ع) پرجوستم دیدہ شہید ہیں سلام ہو حسین (ع) پرجو مشکلوں میں پڑے اور ان کی شہادت پر آنسو بہے۔ اے معبود میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے فرزند تیرے پسندیدہ فرداور تیرے پسندیدہ فرد کے فرزند ہیں جنھوں نے تجھ سے عزت پائی تونے انھیں شہادت کی عزت دی ان کو خوش بختی نصیب کی اور انھیںپاک گھرانے میں پیدا کیا، تو نے قرار دیا انھیں سرداروں میں سردار اور پیشوائوں میں پیشوا اور مجاہدوں میں مجاہد اور انھیںنبیوں کے ورثے عنایت کیے تو نے، ان کو اوصیاء میں سے اپنی مخلوقات پرحجت قرار دیا۔ پس انھوں نے تبلیغ کاحق ادا کیا بہترین خیرخواہی کی اورتیری خاطراپنی جان قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی وگمرا ہی کی پریشانیوں سےجب کہ ان پران لوگوں نے ظلم کیا جنہیں دنیا نے مغرور بنا دیا تھا جنھوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اوراپنیآخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا انھوں نے سرکشی کی اورلالچ کے پیچھے چل پڑے انھوں نے تجھے غضب ناک اور تیرے نبی(ص) کوناراض کیا انھوں نے تیرے بندوں میں سے ان کی بات مانی جو ضدی اور بے ایمان تھے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ لے کرجہنم کی طرف چلے گئےپس حسین(ع) ان سے تیرے لیے لڑے جم کرہوشمندی کیساتھ یہاں تک کہ تیری فرماں برداری کرنے پر انکا خون بہایا گیا اور ان کے اہل حرم کو لوٹا گیااے معبود لعنت کر ان ظالموں پر سختی کے ساتھ اورعذاب دے ان کو درد ناک عذاب آپ پر سلام ہو اے رسول(ص) کے فرزندآپ پرسلام ہو اے سرداراوصیاء کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے امین اوراس کے امین کے فرزند ہیں آپ نیک بختی میں زندہ رہےقابل تعریف حال میں گذرے اور وفات پائی وطن سے دورکہ آپ ستم زدہ شہید ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا آپ کو جزا دے گاجس کا اس نے وعدہ کیا اوراس کو تباہ کرے گا وہ جس نے آپ کا ساتھ چھوڑا اوراس کو عذاب دے گا جس نے آپ کو قتل کیا میں گواہی دیتا ہوں کہآپ نے خدا کی دی ہوئی ذمہ داری نبھائی آپ نے اس کی راہ میں جہاد کیا حتی کہ شہید ہو گئے پس خدا لعنت کرے جس نے آپ کو قتل کیااور خدا لعنت کرے جس نے آپ پرظلم کیا اور خدا لعنت کرے اس قوم پرجس نے یہ واقعہ شہادت سنا تو اس پر خوشی و رضایت ظاہر کی۔ اے معبود میںتیری ذات کو گواہ بناتا ہوں کہ میں ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں میرے ماں باپ قربان آپ پراے فرزند رسول خدامیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نور کی شکل میں رہے صاحب عزت صلبوں میں اور پاکیزہ رحموں میں جنہیں جاہلیت نے اپنی نجاستسے آلودہ نہ کیا اور نہ ہی جاہلیت نے اپنے کوئی بے ہنگم لباس آپ کو پہنائے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ دین کے ستون ہیںمسلمانوں کے سردار ہیں اور مومنوں کی پناہ گاہ ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام (ع) ہیں نیک و پرہیز گار پسندیدہپاک رہبر راہ یافتہ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جو امام آپ کی اولاد میں سے ہیں وہ پرہیزگاری کے ترجمان ہدایت کے پرچماور نشان ہیں اور محکم تر سلسلہ ہیں اور دنیا والوں پرخدا کی دلیل و حجت ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ میں آپ کا اور آپ کے بزرگوں کا ماننے والا ہوںاپنے دینی احکام اورعمل کی جزا و سزا پر یقین رکھنے والا ہوں میرا دل آپ کے دل کے ساتھ پیوستہ میرا معاملہ آپ کے معاملے کے تابعاور میری نصرت و مدد آپ کے لیے حاضر ہے حتی کہ جب خدا آپ کو اذن قیام دے پس آپ کے ساتھ ہوں آپ کے ساتھ ہوں نہ کہ آپ کے دشمن کے ساتھ۔ رحمتیں ہوںخدا کی، آپ پر اور آپ کی پاک روحوں پر اور آپ کے جسموں پر، آپ کے حاضر پر آپ کے غائب پر آپ کے ظاہر اور آپ کے باطن پرایسا ہی ہو اے جہانوں کے پروردگار۔پس دو رکعتنمازبجا لاؤ اور جو چاہتے ہو اللہ سے مانگو اور (اگر کربلا میں زیارت امام حسین کا شرف ملا ہے تو دعا کے بعد) واپس چلے آؤ۔یہ وہ زیارت ہے جوجابر بن عبداللہ انصاریسے مروی ہے اور اس کی کیفیت وہی ہے جو عطاء سے نقل ہوئی ہے۔ (عطاء ظاہرا وہی عطیۂ عوفی کوفی ہیں جو پہلےاربعینکے موقع پرجابرکے ہمراہ تھے، جب وہ زیارتامام حسین علیہ السلامکے لیے کربلا جا رہے تھے)۔ عطاء کہتے ہیں:میں 20صفرکوجابر بن عبداللہ انصاریکے ساتھ تھا، جب ہمغاضریہپہنچے تو انھوں نے آبفراتسے غسل کیا اور ایک پاکیزہ پیراہن، جو ان کے پاس تھا، پہن لیا اور پھر مجھ سے کہا: ""اے عطاء! کیا عطریات میں سے کچھ تمھارے پاس ہے؟"" میں نے کہا: میرے پاس ""سعد""۔[4]ہے۔ جابر نے اس میں سے کچھ لے لیا اور اپنے سر اور بدن پر مل لیا؛ ننگے پاؤں روانہ ہوئے حتی کہ قبر مطہر پر پہنچے اور قبر کے س رہانے کھڑے ہو گئے اور تین مرتبہ ""اللہ اکبر"" کہا اور گر کر بے ہوش ہوئے۔ ہوش میں آئے تو میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا: ""السلام علیکم یا آل اللہ۔۔۔"" جو درحقیقت وہی نصفرجبکو وارد ہونے والی زیارت ہے۔[5]متن، ترجمہ اور آواز زیارت امام حسین (ع) در نیمہ ماہ رجب۔اربعین کی دوسری غیر معروف زیارت مع اردو ترجمہ[مردہ ربط]مفصل مضمون:اربعینچونکہائمہ(ع)نے زیارت اربعین کی بہت تاکید فرمائی ہے لہذاشیعیان عالمبالخصوصشیعیان عراقہر سال یوماربعین حسینیملک کے تمام علاقوں سےکربلائے معلیکا رخ کرتے ہیں۔ اکثر زائرین پائے پیادہ سفر کرتے ہیں اوراربعین کے یہ جلوسشیعیان عالمکے عظیم ترین اجتماعات میں شمار ہوتے ہیں۔ سنہ 2013 ء میں پہلے ہی پیشین گوئی ہوئی تھی کہ تقریباً دو کروڑ زائرینکربلاپہنچیں گے[6]بعض رپورٹوں میں کہا گیا کہ سنہ 1435 ھ (بمطابق 2013 ء) میں ڈیڑھ کروڑ زائرینکربلامیں جمع ہوئے تھے۔[7]محمد علی قاضی طباطبائیشہرت قاضی طباطبائی لکھتے ہیں کہ اربعین کے دنکربلاکا سفر اختیار کرناشیعیان اہل بیت(ع)کے درمیان میںائمہ معصومینکے دور سے رائج تھا اور حتی کہبنو امیہاوربنو عباسکے زمانے میں بھیاہل تشیعاس سفر کے پابند تھے۔[8]زیارت کو یوں عربی میں پڑھنا ضروری ہے۔_بسم اللہ الرحمٰن الرحیم_اَلسَّلَامُ عَلٰى وَلِيِّ اللّٰهِ وَ حَبِيْبِهِ اَلسَّلَامُ عَلٰى خَلِيْلِ اللّٰهِ وَ نَجِيْبِهِ اَلسَّلَامُ عَلٰى صَفِيِّ اللّٰهِ وَ ابْنِ صَفِيِّهِ اَلسَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُوْمِ الشَّهِيْدِ اَلسَّلَامُ عَلٰى اَسِيْرِ الْكُرُبَاتِ وَ قَتِيْلِ الْعَبَرَاتِ اَللّٰهُمَّ اِنِّيۤ اَشْهَدُ اَنَّهُ وَلِيُّكَ وَ ابْنُ وَلِيِّكَ وَ صَفِيُّكَ وَ ابْنُ صَفِيِّكَ الْفَاۤئِزُ بِكَرَامَتِكَ اَكْرَمْتَهُ بِالشَّهَادَةِ وَ حَبَوْتَهُ بِالسَّعَادَةِ وَ اجْتَبَيْتَهُ بِطِيْبِ الْوِلَادَةِ وَ جَعَلْتَهُ سَيِّدًا مِنَ السَّادَةِ وَ قَاۤئِدًا مِنَ الْقَادَةِ وَ ذَاۤئِدًا مِنَ الذَّادَةِ وَ اَعْطَيْتَهُ مَوَارِيْثَ الْاَنْبِيَاۤءِ وَ جَعَلْتَهُ حُجَّةً عَلٰى خَلْقِكَ مِنَ الْاَوْصِيَاۤءِ فَاَعْذَرَ فِيْ الدُّعَاۤءِ وَ مَنَحَ النُّصْحَ وَ بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِيْكَ لِيَسْتَنْقِذَ عِبَادَكَ مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَيْرَةِ الضَّلَالَةِ وَ قَدْ تَوَازَرَ عَلَيْهِ مَنْ غَرَّتْهُ الدُّنْيَا وَ بَاعَ حَظَّهُ بِالْاَرْذَلِ الْاَدْنٰى وَ شَرٰى اٰخِرَتَهُ بِالثَّمَنِ الْاَوْكَسِ وَ تَغَطْرَسَ وَ تَرَدَّى فِيْ هَوَاهُ وَ اَسْخَطَكَ وَ اَسْخَطَ نَبِيَّكَ، وَ اَطَاعَ مِنْ عِبَادِكَ اَهْلَ الشِّقَاقِ وَ النِّفَاقِ وَ حَمَلَةَ الْاَوْزَارِ الْمُسْتَوْجِبِيْنَ النَّارَ [لِلنَّارِ] فَجَاهَدَهُمْ فِيْكَ صَابِرًا مُحْتَسِبًا حَتّٰى سُفِكَ فِيْ طَاعَتِكَ دَمُهُ وَ اسْتُبِيْحَ حَرِيْمُهُ اَللّٰهُمَّ فَالْعَنْهُمْ لَعْنًا وَبِيْلًا وَ عَذِّبْهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ سَيِّدِ الْاَوْصِيَاۤءِ اَشْهَدُ اَنَّكَ اَمِيْنُ اللّٰهِ وَ ابْنُ اَمِيْنِهِ عِشْتَ سَعِيْدًا وَ مَضَيْتَ حَمِيْدًا وَ مُتَّ فَقِيْدًا مَظْلُوْمًا شَهِيْدًا وَ اَشْهَدُ اَنَّ اللّٰهَ مُنْجِزٌ مَا وَعَدَكَ وَ مُهْلِكٌ مَنْ خَذَلَكَ وَ مُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَكَ وَ اَشْهَدُ اَنَّكَ وَفَيْتَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ جَاهَدْتَ فِيْ سَبِيْلِهِ حَتّٰىۤ اَتَاكَ الْيَقِيْنُ فَلَعَنَ اللّٰهُ مَنْ قَتَلَكَ وَ لَعَنَ اللّٰهُ مَنْ ظَلَمَكَ وَ لَعَنَ اللّٰهُ اُمَّةً سَمِعَتْ بِذٰلِكَ فَرَضِيَتْ بِهِ، اَللّٰهُمَّ اِنِّيۤ اُشْهِدُكَ اَنِّي وَلِيٌّ لِمَنْ وَالَاهُ وَ عَدُوٌّ لِمَنْ عَادَاهُ بِاَبِيۤ اَنْتَ وَ اُمِّيْ يَا ابْنَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اَشْهَدُ اَنَّكَ كُنْتَ نُوْرًا فِي الْاَصْلَابِ الشَّامِخَةِ وَ الْاَرْحَامِ الْمُطَهَّرَةِ [الطَّاهِرَةِ] لَمْ تُنَجِّسْكَ الجاهِلِيَّةُ ��ِأَنْجاسِها وَلَمْ تُلْبِسْكَ المُدْلَهِمَّاتِ مِنْ ثِيابِها، وَأَشْهَدُ أَنَّكَ مِنْ دَعائِمِ الدِّينِ وَأَرْكانَ المُسْلِمينَ وَمَعْقِلِ المُؤْمِنِينَ، وَأَشْهَدُ أَنَّكَ الإمام البَرُّ التَّقِيُّ الرَّضِيُّ الزَّكِيُّ الهادِي المَهْدِيُّ، وَأَشْهَدُ أَنَّ الأَئِمَّةِ مِنْ وُلْدِكَ كَلِمَةُ التَّقْوى وَأَعْلامِ الهُدى وَالعُرْوَةُ الوُثْقى وَالحُجَّةُ على أَهْلِ الدُّنْيا، وَأَشْهَدُ أَنِّي بِكُمْ مُؤْمِنٌ وَبِإِيَّابِكُمْ مُوقِنٌ بِشَرايِعِ دِينِي وَخَواتِيمِ عَمَلِي وَقَلْبِي لِقَكْبِكُمْ سِلْمٌ وَأَمْرِي لاَمْرِكُمْ مُتَّبِعٌ وَنُصْرَتِي لَكُمْ مُعَدَّةٌ حَتّى يَأْذَنَ الله لَكُمْ ؛ فَمَعَكُمْ مَعَكُمْ لا مَعَ عَدُوِّكُمْ، صَلَواتُ الله عَلَيْكُمْ وَعَلى أَرْواحِكُمْ وَأَجسادِكُمْ وَشاهِدِكُمْ وَغائِبِكُمْ وَظاهِرِكُمْ وَباطِنِكُمْ آمِينَ رَبَّ العالَمِينَ.[9]"
+778,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 35,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_35&action=edit&redlink=1,
+779,بھارت میں اسلام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85,بھارتمیںہندو متکے بعداسلامکے پیرو کار زیادہ ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 24.2 ہے۔2022 کی مردمشماری کے مطابق انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی 189 ملین سے زائد تھی۔۔[3][4]بھارت کی مسلم آبادی انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے۔[5]اور دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیتی آبادی ہے۔[6]اترپردیش میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی(تقریبا4۔38 ملین)ہے۔حضرتمحمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور ہی میںبھارتمیں اسلام کی تبلیغ ہوئی۔جنوبی ہندکے بحری راستوں سے آئے عرب تاجرین کے ذریعہبھارتمیں اسلام کی تبلیغ شروع ہوئی۔ تابعیمالک بن دیناربھارت کی جنوبی ریاستکیرالاکے ساحلی علاقہ میں تشریف لائے اور وہاں کے علاقائی بادشاہ سے ملاقات کی، بعد میں اس بادشاہ نے اسلام قبول کر لیا۔بر صغیراورعربکے درمیاں تجارتی تعلقات بہت پرانے ہیں۔بھارتمیںاسلامسے قبل ہیعربجنوبی ہند کے مالاباری علاقوں میں آتے تھے۔ ساتویں صدی عیسوی کے قریب مسلمان عرب آنے لگے۔ شیخزین الدینمخدوم کیتحفۃ المجاہدینمیں اس کے متعلق شواہد موجود ہیں ۔[7]629ء میں تعمیر شدہچیرامن مسجد،بھارتکی پہلیجامع مسجدہے۔بھارت میںمالابارکیموپلاقوم نے سب سے پہلےاسلامقبول کیا۔ عربوں اورماپلاؤںکے درمیاں بہترین تعلقات تھے۔Articles
+780,دیوبندی مکتب فکر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A8%D9%86%D8%AF%DB%8C_%D9%85%DA%A9%D8%AA%D8%A8_%D9%81%DA%A9%D8%B1,"دیوبندی مکتب فکرسے مراداہل سنتکا وہ گروہ ہے جو باقی اہل سنت کے گروہوں میں سے کچھ کے ساتھ عقائد اور کچھ کے ساتھ مسائل میں اختلاف رکھتا ہے۔ یہ نامدارالعلوم دیوبندکی وجہ اس فکر سے تعلق رکھنے والے علما کے لیے استعمال ہونے لگا۔ جہاں پر اسلامی عقائد میں ان کے عقائد ہیں جو باقیوں سے مختلف ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ تحریک انبرصغیرمیں مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو محفوظ کرنے کے لیے شروع کی گئی جو اس وقت کے انگریز سامراج اور ہندوں ثقافتوں سے متاثر ہوکر مسلمانوں کے بدل رہے تھے اور اس امر کو یقینی بنانے کے لیےدارالعلوم دیوبندمدرسہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس فکر کے ماننے والے علما اور اُن کے پیروکارحنفی دیوبندیکے نام سے جانے جاتے ہیں۔مقل��ہیں۔ علمائے دیوبندمحمد قاسم نانوتویکے شاگرد سمجھے جاتے ہیں۔ یہ فکرشاہ ولی اللہدہلوی کی فکر سے نشو و نما پاتی ہےـ مگر علمائے دیوبند یہ مانتے ہیں کہ یہ کوئی نئی سوچ نہیں بلکہ اسی سوچ و عقائد کا نام ہے جو نبی ص کے صحابہ، تابعین اورتبع تابعینکی تھی۔ یہ مکتب فکر راہ اعتدال کا قائل ہے۔ یہ مکتب فکر کے پیروکار خود کو ان عقائد کا متحمل قرار دیتے ہیں جو اصحابِ رسول ﷺ کے عقائد تھے اور بعد میں رائج ہونے والے رسومات و رواجوں کو جائز نہیں سمجھتے۔ اس نام میں نے طول اس وقت پکڑی جب دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد یہ قرار دیا گیا کہ مسلمانوں میں انگریز حکومت اور اس کے علاوہ دیگر تہذیبوں کے اثرات کے باعث جنم لینے والے ان تمام رواجوں اور رسومات کی مخالفت کی جائے جو دین میںبدعتتصور ہوتے ہو۔ علمائے دیوبند اپنے فکر کے لحاظ سے مکمل طور پر خود کو اہل سنت والجماعت مانتے ہیں پھر وہ خود کو خودرَو قسم کے اہل سنت نہیں تصور کرتے بلکہ اوپر سے ان کا سندی سلسلہ جڑا ہوا ہوتاہے۔ اس لیے مسلک کے اعتبار سے وہ خود کو نہ کوئی جدید فرقہ مانتے ہیں اور نہ بعد کی پیداوار ہیں بلکہ وہی قدیم اہل سنت والجماعت کا مسلسل سلسلہ ہے جو اوپر سے سند متصل اور استمرار کے ساتھ کابراً عن کابرٍ چلا آرہا ہوتاہے۔علمائے دار العلوم دیوبند کے مطابق، یہ فکر کا نام ہے جو جامع، افراط و تفریط سے پاک مسلک معتدل کو سمجھنے کے لیے خود لفظ اہل سنت والجماعت میں غور کرنا چاہیے جو دو اجزاء سے مرکب ہے: ایک السنة جس سے اصول، قانون اور طریق نمایاں ہیں اور دوسرا الجماعة جس سے شخصیات اور ساتھ ساتھ رفقائے طریق نمایاں ہیں۔
+علما دیوبند افراط و تفریط کی بجائے اعتدال پر زور دیتے ہیں، یہ بعض عقائد کو درست نہیں مانتے جو کہتے ہیں کہ صرف قرآن و حدیث کے نصوص تک انسان کی دینی رہنمائی محدود ہے بلکہ اگر ایک مسئلہ قرآن و حدیث سے واضح نہ ہو تو اجماع اور پھراجماعسے بھی ثابت نہ ہو تو قیاس اسلامی قانون کا ماخذ سمجھتے ہیں۔ علمائے دیوبند اعتدال پر اس حد تک زور دیتے ہیں کہ بعض مکاتب کی طرح جڑوں سے قبروں کو مسمار کرنے اور نیک اور صالحین کی بے حرمتی کو بھی پسندیدہ نہیں سمجھتے اور بعض مکاتب فکر کی طرح قبروں پر بلند و بالا تعمیرات کرکے وہاں جاجاکر مختلف رسومات اور منتوں کو بھی جائز نہیں قرار دیتے۔علمائے دیوبند اس حدیث ” ما أنا علیہ و أصحابي “ میں بہتّر فرقوں والی بات کے بعد سے استدلال کرتے ہوئے یہ مانتے ہیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے معیار حق ان ہی دو چیزوں کو قرار دیا، یعنی اول 'ما انا' سے اشارہ سنت یعنی طریق نبوی یا قانون دین کی طرف ہے اور ” واصحابی“ سے اشارہ الجماعة یعنی برگزیدہ شخصیات کی طرف ہے بلکہ مسند احمد اور سنن ابی داؤد دوںوں کتبِ حدیث میں اصحابی کی بجائے الجماعة کا صریح لفظ پایا جاتاہے۔اس لیے ان کے مطابق تمام صحابہ، تابعین،فقہاءو مجتہدین، ائمہ محدثین اور علمائے راسخین کی عظمت و محبت ادب و احترام اور اتباع و پیروی اس مسلک کا اعزاز سمجھتے ہیں۔توحید اسلام کا بنیاد عقیدہ ہے اور علمائے دیوبند توحید پر سب سے زیادہ زور دیتے ہیں تاکہ اس کے ساتھ شرک یا موجبات شرک جمع نہ ہوں اور کسی بھی غیر اللہ کی اس میں شرکت نہ ہو۔ غیر اللہ سے بغیر اسباب کے امداد کو شرک تصور کرتے ہیں۔علمائے دیوبند کا یہ ایمان ہے کہ رسول ﷺ افضل البشر و افضل الانبیاء ہیں، مگر ساتھ ہی آپ کی بشریت کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ آپ کے علو��رجات کو ثابت کرنے کے لیے حدود عبدیت(بندگی) کو توڑ کر حدود معبودیت میں پہنچادینے والے طور طریقوں کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ وہ آپ کی اطاعت کو فرض عین سمجھتے ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت یا آپ کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے والے عقائد کو جائز نہیں سمجھتے۔اس کے علاوہ علمائے دیوبند برزخ میں محمد ﷺ کی حیات جسمانی کے قائل ہیں مگر وہاں معاشرت دنیوی کو نہیں مانتے۔ وہ آپ کے علم عظیم کو ساری کائنات کے علم سے بدرجہ زیادہ ترین مانتے ہیں پھر بھی اس کے ذاتی و محیط ہونے کے قائل نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے مطابق آپ کا علم عطائی، حادث اور جزوی مانتے ہیں کیونکہ ذاتی، دائمی اور کامل علمِ غیب صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات کا ہے۔ان کے مطابق انبیا کے بعد صحابہ بہترین اور برگزیدہ لوگ اور انسانوں کے لیے معیارِ حق ہیں۔ علمائے دیوبند سارے صحابہ کی عظمت کے قائل ہیں۔تاہم ان میں باہم فرق مراتب ہے تو عظمت مراتب میں بھی فرق ہے، یعنی ان کی درجات افضلیت کے حوالے سے مختلف ہو سکتی ہیں جیسے ابوبکر سب سے افضل، عمر، پھر عثمان پھر علی وغیرھم۔ لیکن نفس صحابیت میں کوئی فرق نہیں اس لیے محبت و عقیدت میں بھی فرق نہیں پڑسکتا لہذا ”الصحابة کلہم عدول“ اس مسلک کا سنگ بنیاد مانا جاتا ہے۔ صحابہ بحیثیت قرن خیر من حیث الطبقة ہیں اور پوری امت کے لیے معیار حق اور مشغلِ راہ ہیں۔ جیسے کہ فرمانِ رسول ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاوگے۔ علمائے دیوبند انھیں غیر معصوم ماننے کے باوجود ان کی شان میں بدگمانی اور بدزبانی کو جائز نہیں سمجھتے اور صحابہ کے بارے میں اس قسم کا رویہ رکھنے والے کو حق سے منحرف سمجھتے ہیں۔ عظمتِ صحابہ مسلم کے لیے لازم قرار دیتے ہیں۔علمائے دیوبند تمام صلحائے امت و اولیاء اللہ کی محبت و عظمت کو ضروری سمجھتے ہیں تاہم اس محبت و تعظیم کا یہ معنی بالکل بھی نہیں لیتے کہ ان کو یا ان کی قبروں کوسجدہو طواف اور نذر و قربانی کی جگہ بنالیا جائے۔
+نہی۔ وہ اہل قبور کے احترام کے قائل ہیں مگر امداد مانگنے اور ان کے نیاز و نذر اور غیر شرعی رسومات کے نہیں۔ حاضری قبور کے قائل ہیں صرف عبرت لینے کے لیے مگر انھیں عیدگاہ بنانے کو روا نہیں سمجھتے۔ اس کے علاوہ وہ ایصال ثواب کو مستحسن اور اموات کا حق تصور کرتے ہیں مگر اس کی ظاہری نمائشی صورتیں بنانے کے قائل بالکل نہیں۔علمائے دیوبند کی فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ تہذیب اخلاق، تزکیہٴ نفس یعنی نفس کی پاکی اور عبادات میں قوتِ احسان پیدا کرنے کے لیے اللہ والے لوگوں کی بیعت و صحبت کو حق اور طریق احسانی کے اصول و ہدایات کو تجربتہً مفید اور عوام کے حق میں ایک حد تک ضروری سمجھتے ہیں اور اسے شریعت سے الگ کوئی مستقل راہ نہیں سمجھتے بلکہشریعتہی کا باطنی و اخلاقی حصہ مانتے ہیں۔ تاہم پھر بھی بعض لوگوں کی طرح نا تو بالکل صالحین کے حیثیت کو مسترد کرنے کے قائل ہیں اور نا ہی بعض لوگوں کی طرح ان کی حیثیت کو اس حد تک بڑھانے کے قائل ہیں کہ وہ حد سے بڑھ جائے اور انسان حد سے تجاوز کا مرتکب ہوکر ایسے چیزوں میں مبتلا ہو جو شرک کی طرف لے جاتی ہو۔علمائے دیوبند احکام شرعیہ فروعیہ اجتہادیہ میںفقہ حنفیکے مطابق عمل کرتے ہیں بلکہ برصغیر میں آباد مسلمانوں میں کم وبیش 90 فیصد سے زائد اہل سنت کا یہی فقہ ہے۔لیکن اپنے اس مذہب و مسلک کو آڑ بناکر دوسرے فقہی مذاہب کو باطل ٹھہرانے یا ائمہ مذاہب پر زبانِ طعن دراز کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ۔ دیوبند فکر سے تعلق رکھنے والے خود کو نبی ﷺ اور ابتدائی تین بہترین ادوار یعنی خیرالقرون(صحابہ، تابعین، تبع تابعین) کا اصل وارث اور امین مانتے ہیں۔
+علمائے دیوبند فقہ حنفی سے استفادہ کرتے ہیں مگر چاروں فقہ اورائمہ اربعہکو برحق سمجھتے ہیں۔ اور یہ مانتے ہیں کہ مسلمان ان چاروں فقہوں میں سے کسی کی بھی پیروی کرسکتا ہے مگر پیروی چاروں میں سے کسی بھی ایک فقہ کی کریں تاکہ خواہش نفسانی حاوی نہ ہو کیونکہ بعض مسائل ایسے ہیں جو ایک فقہ میں تو جائز ہوتے ہیں مگر وہی مسئلہ دوسرے میں ناجائز ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے اگر بہ یک وقت تمام فقہوں کی پیروی کی اجازت دی جائے تو انسان اپنے خواہش کے مطابق اپنے آسانی والے فقہ سے استفادہ کرے گا اور کوئی بھی مسئلہ پھر شرعی مسئلہ برقرار نہیں رہے گا۔علمائے دیوبند فکری طور پر اعتدال کے قائل ہیں۔ نا ان لوگوں کی طرح سوچ کو جائز سمجھتے ہیں جو صحابہ یا صالحین کی عظمت میں کمی کرتے ہیں اور نا ہی ان کو جائز سمجھتے ہیں جو ان بزرگ ہستیوں کے بارے میں حد سے تجاوز کرتے ہیں ان کے ان کے درجات سے تجاوز کرکے غلوف کا شکار ہوتے ہیں۔ علمائے دیوبند دین کے سمجھنے سمجھانے میں نہ تو اس طریق کے قائل ہیں جو ماضی سے یکسر کٹا ہوا ہو کیوں کہ وہ مسلسل رشتہ نہیں ایک نئی راہ ہی ہوتیجو ماضی سے نہیں جڑی ہوتی ہے۔ اور نہ وہ اس افراط کے قائل ہیں کہ رسم و رواج اور تقلیدِ آباء کے تحت ہربدعت، اسلام میں داخل کردی جائے۔ جن اعمال میں تسلسل نہ ہو اور وہ تسلسل خیر القرون سے مسلسل نہ ہو وہ اعمال اسلام نہیں ہو سکتے، بلکہ بعد کے اختراعات تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ حضرات اس تقلید کے پوری طرح قائل ہیں جو قرآن وحدیث کے سرچشمہ سے فقہ اسلام کے نام سے چلتی آئی ہے۔علمائے دیوبند کا ماننا ہے کہ دعوت و تبلیغ، سیاست، علوم دینی اور جہاد یہ سب دین کی مختلف شعبے ہیں۔ دعوت و تبلیغ اور اصلاح بین المسلمین یعنی مسلمانوں کی اصلاح کرنے کے لیےتبلیغی جماعتجیسے پرامن اورداعیجماعت وجود رکھتی ہے جس کا کام غیر مسلموں کو اسلام کی طرف بلانا اور مسلمانوں کی آپس میں اصلاح کرنا ہے۔ سیاست کی میدان میں مسلمانوں کی دینی تشخص اور مفادات کے تحفظ کے لیےجمعیت علمائے ہندکی بنیاد رکھی گئی جو بعد میںجمعیت علمائے ہنداورجمعیت علمائے پاکستانکی شکل اختیار کرگئی۔ اس کے مزید ذیلی جماعتیں بنی۔ علومِ دینیہ کے سیکھنے اور سکھانے کے سلسلے میں مدارس قائم کیے گئے۔ آج بھی ہند و پاک میں سب سے زیادہ مدارس علمائے دیوبند چلاتے ہیں۔ پاکستان میں تقریبا 70 فیصد مدارس دیوبندی، 25 فیصد بریلوی اور 5 فیصد اہل حدیث چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جبافغانستانپر بیرونی حملہ روس کی طرف سے کیا گیا تو جہاد کے لیے مجاہدین کھڑے ہوئے وہ تنظیمیں بھی تقریبا علمائے دیوبند کی فکر سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے نہ روس بلکہ بعد ازاں تمام مغربی قوتوں کو اپنی سرزمین سے اکھاڑ پھینکا۔علمائے دیوبند کے عقائد کی متفقہ کتابالمہند علی المفندہے جسے مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے رقم کیا ہےـ[2]علمائے دیوبند کابریلوی مکتبہ فکرسے اختلاف عقائد میں ہے جبکہاہل حدیثسے اختلاف مسائل میں ہے۔اکابرینِ دیوبند اور بریلوی دونوں اگرچہ مقلدین ہیں اورفقہ حنفیکی دونوں تقلید کرتے ہیں مگر ان کے مابین درج ذیل اختلافات ہیں:بریلوی محمد ﷺ کو نور مانتے ہیں جبکہ دیوبندی نور و بشر دونوں مانتے ہیں۔ دیوبندیوں کے مطابق نبی ﷺ ایک انسان تھے وہ اس لحاظ سے نور ہیں کہ ان کے ذریعے نورِ ہدایت پھیلی۔بریلوی فکر سے تعلق رکھنے والے رسول ص کو حاضر و ناظر مانتے ہیں مگر دیوبند فکر والوں کے مطابق وہ حیات فی القبر ہیں مگر دنیا میں حاضر و ناظر نہیں اور ان کو درود فرشتے پہنچاتے ہیں۔بریلویوں کا ماننا ہے کہ رسول اللہﷺ کو مکمل علم غیب عطا کیا گیا، ما کان و ما یکون یعنی جو پہلے کچھ تھا اور جو بعد میں کچھ ہوگا ان سب کا علم حضورﷺ کو دیا گیا ہے۔
+جبکہ دیوبند علما کا ماننا ہے کہ حضور ﷺ کو صرف وہ غیب کا علم حاصل ہے جو اللہ نے وقت کے ساتھ ساتھ دیا یا جتنا اللہ نے دینا چاہا مگر اس علم کا حد ہے، جبکہ صرف رب تعالی کا علم لامحدود ہے۔ دیوبند علما کے مطابق حضورﷺ کے غیبی علم کے یہ شرائط ہیں:اہل حدیثچونکہ غیر مقلدین ہیں لہذا وہآئمہ اربعہمیں سے کسی کیتقلیدیا پیروی کو جائز نہیں مانتے جبکہ دیوبند سوچ سے تعلق رکھنے والے مسائل میںفقہ حنفیکی تقلید کرتے ہیں اور باقی اماموں یعنی امام احمد، امام شافعی اور امام مالک کو برحق سمجھتے ہیں۔
+شریعت دو اجزاء سے بنا ہوتا ہے، ایک عقائد اور دوسرا مسائل۔ عقائد تو سارے کے سارے قرآن و حدیث سے واضح ہیں، اس میں کسی مجتہد یا امام کی تقلید نہیں کی جا سکتی۔ باقی رہی بات مسائل کی تو مسائل دو گروہ میں تقسیم ہیں، ایک وہ مسائل ہیں جو قرآن و حدیث سے واضح ہیں جن میں کسی اور مجتہد کی رائے نہیں دیکھی جا سکتی ہے اور ان کو منصوص مسائل کہا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا گروہ ان مسائل کا ہے جو قرآن و حدیث میں یا تو بالکل واضح طور پر موجود نہیں اور یا مبہم ہے یعنی دو دو مطلب نکل رہے ہیں، ان کو غیر منصوص مسائل کہا جاتا ہے اور صرف ان غیر منصوص مسائل میں ہی تقلید کی جاتی ہے چار اماموں کی۔
+اہل حدیث کے مطابق ہر مسئلہ صرف قرآن و حدیث سے حل ہوگا جبکہ دیوبندی مانتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن سے حل ہوگا، اگر قرآن میں نہ ہو تو سنت نبوی سے حل کیا جائے گا، اگر سنت میں نہ ملے صحابہ کرام کی اجماع سے حل تلاش کیا جائے گا اگر وہاں بھی نہ ملے تو قیاس کے ذریعے حل کیا جائے گا۔
+مثال کے طور پرچرسہے، اب چرس کا حکم کیا ہوگاحلالیا حرام؟ کیونکہ چرس کا ذکر قرآن میں نہیں، حدیث نبوی میں بھی نہیں، صحابہ کی اجماع میں بھی اس کا ذکر نہیں ہوگا۔ مجتہد نے کیا کیا کہ قرآن نے خمر یعنی شراب کو حرام قرار دیا ہے۔ جب مجتہد نے غور کیا تو اس کے خیال میں اسے حرام قرار دینے کی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ شراب کی وجہ سے انسان اپنا ہوش کھو دیتا ہے جبکہ دوسرا یہ کہ یہ صحت کو نقصان پہنچاتا ہے ، ان وجوہات کو علت کہا جاتا ہے فقہ کی زبان میں۔ اور یہی دونوں علت چرس میں بھی پائے جاتے ہیں لہذا مجتہد نے قیاس کرکے چرس کو بھی حرام قرار دیا۔ ایسے مسائل غیر مقلدین فقہ کی مدد کے بغیر حل نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے دو اصول ہیں یعنی قرآن و حدیث۔ جبکہ مقلدین کے یہاں چار اصول ہے استدلال کے یعنی قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس۔"
+781,علماء,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D9%84%D9%85%D8%A7%D8%A1,علماکی واحدعالمہوتا ہے۔ عالم کا بنیادی مطلب علم والا ہے۔ عالم کی مونث عالمہ اور عالمہ کی جمع علومہ ہے۔ عام طور پر اس کا زیادہ استعمالدینِ اسلامکا علم رکھنے والے کے لیے ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک عالم کہلوانے والے کے لیے صاحبِ اسلام ہونا بھی شرط ہے کیونکہ کبھی کبھارغیر مسلماصحاب بھی ایمانی معاملات کا علم عام مسلمانوں سے کہیں زیادہ رکھتے مگر ان کاعقیدہاور عمل مختلف ہوتا ہے۔ تاہم اکابرین کے مطابق قران میں عالم یا علما دین اسلام کا علم رکھنے والوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ان جدید اکابرین کے نزدیک سائنس دان بھی علما میں شامل ہیں۔
+782,عبد الباری فرنگی محلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%A8%D8%AF_%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%8C_%D9%81%D8%B1%D9%86%DA%AF%DB%8C_%D9%85%D8%AD%D9%84%DB%8C,مولانا عبد الباری فرنگی محلیایک ہندوستانی عالم تھے، دین جنھوں نےتحریک آزادی ہندکے دوران میںانگریز سرکارکے خلاف جہاد کا فتوی جاری کیا تھا۔ وہ اپنے زمانے کے جید علما اور مدرسین میں سے ایک تھے۔ان کی ولادتلکھنؤکےفرنگی محلمیں 10ربیع الثانی1295ھبروز جمعہ بمطابق12 اپریل1878ءمیں ہوئی تھی۔ان کا خاندان1692ءمیں مغل فرمانروااورنگزیب عالمگیرکی مدد سےلکھنؤآ کرفرنگی محلمیں بس گیا تھا۔ یہ گھرانہ علم و عرفان کا گہوارہ تھا، جس نے برصغیر میں کئی اہم علما پیدا کیے۔ خاندان کے کچھ افراداترپردیش،حیدرآباد، دکناور دیگر مقامات پر پھیل گئے تھے اور اسی وجہ سے خاندان کے مریدوں کا حلقہ کافی وسیع ہو گیا تھا۔مہاتما گاندھیبھی آپ کا احترام کرتے تھے اور دونوں کے بیچ کئی خطوط کا تبادلہ عمل میں آیا تھا۔[1]آپ سلسلہ قادریہ میںشاہ عبد الرزاق ہانسویکے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے اور تمام سلاسل کی اجازت و خلافت ملی تھی اور آپ حاجی وارث علی شاہ کے خاص دوستوں میں سے ایک تھے ۔آپ کی علمی یادگاروں کی فہرست خاصی طویل ہے حدیث تفسیر، فقہ،اصول فقہ، فرائض منطق، فلسفہ، صرف نحو، سیر، ادب اور سلوک و تصوف میں تصنیفات کیںمذکورہ تصنیفات کے علاوہ مختلف کتب درسیہ پر حاشیہ بھی تحریر فرمایا مثلا حاشیہ شرح مسلم قاضی، حاشیہ میر زاہد، رسالۃ الحاشیہ علی حاشیہ غلام یی، حاشیہ شرح ہدایۃ الحکمۃ، حاشیہ شمس بازغہ، حاشیہ نورالانوار، حاشیہ اصول بزدوی، حاشیہ شرح مشکوۃ اور رسالہ سائنس و کلام کی چونتیس جلد میں تصنیف فرمائی جن میں صرف ایک جلد شائع ہوئی تھی۔[5]4 رجب1344ھ بمطابق 19 جنوری1926ءبروز بدھ کو انتقال ہوا۔
+783,ابو المحاسن محمد سجاد,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%A8%D9%88_%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AD%D8%A7%D8%B3%D9%86_%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%B3%D8%AC%D8%A7%D8%AF,"ابو المحاسن محمد سجاد(1881ء – 1940ء) ایکہندوستانیبا فیضعالم دین، قائد، مصنف، مبلغ، کامیاب مدرس، فقیہ النفس تحریک خلافت کے روح رواں اور 20ویں صدی کے سب سے زیادہ بااثرعلماءمیں سے تھے۔ محمد سجاد بہار کے سب سے زیادہ قابل احترام اور انقلابی رہنما تھے، جنھوں نے مذہب اور سیاست کی یکساں خدمت کی۔
+ابو المحاسن؛ انجمن علمائے بہار،جمعیت علمائے ہنداور امارت شرعیہ کے بانی تھے۔[2]تحریک آزادی ہندکے رہنما، ابو المحاسن نےتحریک عدم تعاوناورسول نافرمانی کی تحریکمیں شرکت کی؛ انھوں نےہندوستان کی تقسیم کی مخالفتکی اورمتحدہ قومیتکے تصور کی حمایت کی۔ انھوں نے بہار کے مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے1935ءمیںمسلم آزاد پارٹیکی بنیاد رکھی۔ مسلم آزاد پارٹی نے 1937ء میںبہارمیں حکومت بھی بنائی تھی[3][4]محمد سجادنوآبادیاتی ہندوستانمیںصوبہ بہارکےنالندہ ضلعکے پنہسہ گاؤں میں صفر 1299ھ مطابق دسمبر 1881ء کو پیدا ہوئے،[5][6]اسم گرامی محمد سجاد تھا، ابو المحاسن کنیت تھی۔محمد سجاد کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، کچھ مہینے اپنے والد حسین بخش کے پاس پڑھے، والد کے انتقال پر ملال کے بعد بڑے بھائی صوفی احمد سجاد کی زیر تربیت رہے، حفظ قرآن و تکمیل فارسی کے بعد عربی کی ابتدائی تعلیم کے لیے 1893ء مدرسہ اسلامیہ بہار شریف میں داخلہ لیا۔[7]ان کے بڑے اساتذہ میں عبد الکافی الٰہ آبادی (1863-1932) بھی شامل ہیں۔ اسی طرح انھیں سید وحید الحق استھانوی، عبد الوہاب فاضل بہاری، مبارک کریم، عبد الشکور آہ مظفر پوری اور خیر الدین گیاوی، جیسے جلیل القدر علما سے بھی شرف تلمذ حاصل ہے۔[5]۔[2]بعد میں وہبہار شریفاورالٰہ آبادکے ساتھ ساتھگیامیں اسلامیات کی تعلیم دینے کے لیے واپس آئے۔[2]1917 میں سجاد نے انجمن علما بہار کی بنیاد رکھی، جوجمعیت علمائے ہندکے قیام کا سبب بنی،[2].
+1921 میں امارت شرعیہ قائم کیے، اورتادم حیات نائب امیر شریعت کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔[2]محمد سجاد نےتحریک عدم تعاون، میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاانھیں 13 جولائی 1940ء کو جمعیت علمائے ہند کا جنرل سکریٹری مقرر کیا گیا تھا۔[1]اس سے پہلے بھی وہاحمد سعید دہلویکی عدم موجودگی میں مجلس عاملہ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔[1]مولانا ابو المحاسن محمد سجاد کا انتقال 23 نومبر1940ءکو ہوا۔ اور خانقاہ مجیبیہ سے متصل قبرستان میں آسودہ خواب ہیں۔[5]"
+784,کفایت اللہ دہلوی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D9%81%D8%A7%DB%8C%D8%AA_%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81_%D8%AF%DB%81%D9%84%D9%88%DB%8C,محمد کفایتاللہ بن عنایتاللہ شاہجہانپوری دہلویالمعروفکفایت اللہ دہلوی(ولادت: 1875ء ۔ وفات: 31 دسمبر 1952 ء) ہندوستانی عالم دین اور حنفی فقیہ تھے۔[1][2][3][4]آپ 1919ء سے 1940ء تکجمعیت علمائے ہندکے صدر رہے۔[5]آپاتر پردیشکےضلع شاہ جہاں پورکے محلہ زئی میں 1292ھ بمطابق1875ءکو پیدا ہوئے۔[6]5 سال کی عمر میں مدرسہشاہ جہاںپور میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا،اردواور فارسیحافظ نسیم اللہ سے پڑھی پھر مدرسہ اعزازیہ میںفارسیکی کتاب سکندر نامہ اورعربیکی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ پھر مدرسہ شاہیمرادآبادمیں زیر تعلیم رہے۔ پھر 1312ھ میںدار العلوم دیوبندمیں تشریف لائے اور 22 سال کی عمر میں 1315ھ میں دار العلوم سے فارغ ہوئے۔عالم دین منفعت علی، غلام رسول، خلیل احمد،محمود الحسن، مولانا عبید الحق اور مولانا اعزاز حسن خان شامل ہیں۔فراغت کے بعد مدرسہ عین العلوم میں مدرس مقرر ہوئے اور ناظم منتخب ہوئے۔ تقریباً 5 سال وہیں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر 1320ھ میں مدرسہ امینیہدہلیمیں آپ کو بلا لیا گیا اور نطامت وغیرہ آپ کو سونپ دی۔ عرصہ تک آپ تدریسی اور علمی خدمات انجام دیتے رہے۔آپ نے کئی مفید تصانیف فرمائیں۔ جن میںقصیدہ عربی،روض الریاضین،المبریٰاورمصطفیٰ اور تعلیم السلام،آخرالذکروغیرہ مشہور تصانیف ہیں۔ آپ کے فتاویٰ کا مجموعہکفایت المفتیکتاب کے نام سے شائع ہوا۔13 ربیع الثانی 1372ھ بمطابق 31 دسمبر1952ءبروز جمعرات عازم بقا ہو گئے۔[7]
+785,محمد ابراہیم میر سیالکوٹی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%A7%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C%D9%85_%D9%85%DB%8C%D8%B1_%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D9%84%DA%A9%D9%88%D9%B9%DB%8C,"علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی(ولادت: 1874ء - وفات: 12جنوری 1956ء)اہل حدیثعالم دین، کارکنتحریک پاکستانتھے۔[1][2][3][4]میر سیالکوٹیآل انڈیا مسلم لیگکے رکن تھے۔[5]آپ کوابراہیم میر سیالکوٹیکے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔مولانا ابراہیم میر 1874ء کوسیالکوٹمیں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سیٹھ غلام قادر تھا۔[1][2][4]مولانا سیالکوٹی کا گھرانہ دینی تھا۔ چنانچہ مولانا نے 1895ء کو میٹرک کا امتحان ہائی اسکول غلہ منڈی سیالکوٹ سے پاس کیا توسیالکوٹکے مشہور کالجمرے کالجمیں داخلہ لے لیا۔ اس کالج میں مصور پاکستان شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ان کے ہم جماعت تھے۔ مگر والدین کی خواہش تھی کہ ہمارا بیٹا دینی تعلیم حاصل کرے اور خود مولانا کا بھی دینی تعلیم کی طرف رجحان تھا، اس لیے کالج کو خیرباد کہا اور دینی تعلیم کے حصول کے لی�� کمربستہ ہو گئے۔[4]ابتدائی تعلیم مولاناغلام حسن سیالکوٹیسے حاصل کی۔ مولانا غلام حسن، شیخ الکل سیدنذیر حسین محدث دہلویکے فیض یافتہ تھے۔ نیز مولانا حسن سیالکوٹی کے شیخ پنجاب حضرت حافظعبدالمنان وزیر آبادیسے انتہائی گہرے تعلقات تھے۔ اس طرح مولانا غلام حسن کے توسط سے مولانا ابراہیم کے والد سیٹھ غلام قادر سے بھی حضرت حافظ صاحب کے دوستانہ تعلقات ہو گئے۔ یہاں تک کے ایک مرتبہ حضرت حافظ صاحب نے سیٹھ صاحب سے کہا کہ آپ اپنے لڑکے ابراہیم کو میرے پاس وزیر آباد بھیج دیں۔ حافظ صاحب کہ کہنے پر سیٹھ غلام قادر نے اپنے لڑکے کا ہاتھ حافظ صاحب کے ہاتھ میں دے دیا اور ابراہیم میر سیالکوٹی حصول تعلیم کے لیے دار الحدیث وزیر آباد میں آ گئے۔ مولانا نہایت ذہین و فطین قوی الحافظہ تھے۔ اس لیے کم وقت میں جملہ علوم اسلامیہ کی تعلیم حضرت حافظ صاحب سے حاصل کی۔ یہاں سے فراغت کے بعد ابھی تشنگی باقی تھی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا اس لیے وزیر آباد چھوڑ کر علوم و فنون کے مرکز دہلی کا رخ کیا اور شیخ الکلسید نذیر حسین محدث دہلویکے حضور زانوئے تلمذ طے کیا۔ مولانا میر سیالکوٹی سید صاحب کے آخری دور کے شاگرد ہیں۔
+جب مولانا سیالکوٹی دہلی سے فراغت کے بعد وزیر آباد آئے تو والدہ نے کہا کہ بیٹا میری خواہش ہے کہ اس دفعہ تو نماز تراویح میں قرآن سنائے۔ مولانا حافظ قرآن نہ تھے، کہا اماں جان کوئی بات نہیں، آپ دعا کریں اور میں قرآن یاد کرتا ہوں۔ چنانچہ اوّل رمضان سے قرآن یاد کرنا شروع کیا۔ روزانہ ایک پارہ یاد کرتے اور رات کو نمازِ تراویح میں سناتے۔ والدہ صاحبہ نے تمام رمضان دعا کا سلسلہ جاری رکھا غرض ادھر رمضان کے تیس دن پورے ہوئے اور مولانا سیالکوٹی نے قرآن کے تیس سپارے مکمل سنا دیے۔[4]مولانا نے سیالکوٹ میں ایک دینی درسگاہ دار الحدیث کے نام سے شروع کی۔ دسمبر 1906ء کو آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا سیالکوٹی اس اجلاس میں شامل تھے۔ کانفرنس کو متعارف کروانے کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ مولانا سیالکوٹی اس کمیٹی کے رکن تھے۔ دوسرے دو ارکان مولانا عبد العزیز رحیم آبادی اور مولاناثناء اللہ امرتسریتھے۔
+مولانا مرحوم نے درس و تدریس، تصنیف و تالیف، دعوت و مناظرہ، وعظ و تذکیر غرض ہر محاذ پر کام کیا اور شہرت کی بلندیوں کو پہنچے۔ ملکی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چنانچہ مولانا کی تمام ہمدردیاںمسلم لیگسے وابستہ تھیں۔ 1930ء میں مسلم لیگ کا اجلاس جو آلہ آباد میں ہوا، مولانا اس میں شریک تھے۔ 1940ء میں اجلاس جس میںقرارداد پاکستانپاس ہوئی اس میں بھی مولانا موجود تھے۔ غرض تحریک پاکستان کی حمایت اور مسلم لیگ کی رفاقت میں مولانا سیالکوٹی کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اور مولانا سیالکوٹی کا شمار بانی پاکستان محمد علی جناح کے رفقا میں ہوتا ہے۔ 1945ء میں جمیعت علمائے اسلام کے نام سے ایک جماعت قائم ہوئی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اس کے صدر تھے اور مولانا سیالکوٹی نائب صدر تھے۔ اس کا پہلا اجلاس کلکتہ میں ہوا۔ مولانا عثمانی علالت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے، چنانچہ اجلاس کی صدارت مولانا سیالکوٹی نے کی۔[4]”الھادی“ کے نام سے مولانا نے پندرہ روزہ علمی مجلّہ جاری کیا جو ایک عرصہ تک علمی، دینی اور تحقیقی خدمات دیتا رہا۔مولانا اسحاق بھٹیلکھتے ہیں کہ مولانا سیالکوٹی ایک کثیر المطالعہ عالم دین تھے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، اصول حدیث، تاریخ و تذکرہ، فلسفہ، منطق اور ��قابلِ ادیان وغیرہ علوم سے متعلق ان کی معلومات کی دائرہ بہت وسیع ہے۔[4]مولانا سیالکوٹی کی تصنیفی خدمات بھی قابل رشک ہیں۔ مولانا نے بیس سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں، جن کی فہرست حسب ذیل ہے۔[4]مولانا سیالکوٹی نے12 جنوری1956ءمیں وفات پائی۔ نمازِ جنازہ حافظعبداللہ محدث روپڑینے پڑھائی اورسیالکوٹمیں دفن ہوئے۔[1][2]"
+787,علماء,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D9%84%D9%85%D8%A7%D8%A1,علماکی واحدعالمہوتا ہے۔ عالم کا بنیادی مطلب علم والا ہے۔ عالم کی مونث عالمہ اور عالمہ کی جمع علومہ ہے۔ عام طور پر اس کا زیادہ استعمالدینِ اسلامکا علم رکھنے والے کے لیے ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک عالم کہلوانے والے کے لیے صاحبِ اسلام ہونا بھی شرط ہے کیونکہ کبھی کبھارغیر مسلماصحاب بھی ایمانی معاملات کا علم عام مسلمانوں سے کہیں زیادہ رکھتے مگر ان کاعقیدہاور عمل مختلف ہوتا ہے۔ تاہم اکابرین کے مطابق قران میں عالم یا علما دین اسلام کا علم رکھنے والوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ان جدید اکابرین کے نزدیک سائنس دان بھی علما میں شامل ہیں۔
+788,انڈین نیشنل کانگریس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D9%86_%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84_%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B3,"انڈین نیشنل کانگریس(جسےکانگریس پارٹیاورآئی این سیبھی کہا جاتا ہے)بھارتکی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ جماعت کا قیامدسمبر1885ءمیں عمل میں آیا جبایلن اوکٹیوین ہیوم،دادابھائی نوروجی،ڈنشا واچا،ومیش چندر بونرجی،سریندرناتھ بینرجی،مونموہن گھوشاورولیم ویڈربرننے اس کی بنیاد رکھی۔ اپنے قیام کے بعد یہ ہندوستان میںبرطانوی راجکے خلاف جدوجہد کرنے والی ایک اہم جماعت بن گئی اورتحریک آزادی ہندکے دوران اس کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد اراکین تھے۔پاکستانکے بانیمحمد علی جناحبھیمسلم لیگمیں شمولیت سے قبل اس جماعت میں شامل رہے ہیں جبکہ ہندوستان کی تاریخ کی کئی عظیم شخصیات بھی اس جماعت سے وابستہ رہی ہیں جن میںموہن داس گاندھی،جواہر لعل نہرو،ولبھ بھائی پٹیل،راجندرہ پرساد،خان عبدالغفار خاناورابو الکلام آزادزیادہ معروف ہیں۔ ان کے علاوہسبھاش چندر بوسبھی کانگریس کے سربراہ رہے تھے تاہم انھیںاشتراکی نظریاتکی وجہ سے جماعت سے نکال دیا گیا۔بعد آزاد تقسیم کے معروف کانگریسی رہنماؤں میںاندرا گاندھیاورراجیو گاندھیمعروف ہیں۔1947ءمیںتقسیم ہندکے بعد یہ ملک کی اہم سیاسی جماعت بن گئی، جس کی قیادت بیشتر اوقاتنہرو گاندھی خانداننے کی۔ 15 ویںلوک سبھا(2009ءتا حال) میں 543 میں سے اس کے 206 اراکین تھے۔ یہ جماعت بھارت کے حکمرانیونائیٹڈ پروگریسیو الائنسکی سب سے اہم رکن ہے۔ یہبھارتکی واحد جماعت ہے جس نے گذشتہ تین انتخابات (1999ء،2004ء،2009ء) میں 10 کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔۔کانگریس کو1975ءمیںبھارتمیںہنگامی حالتکے نفاذ اور1984ءمیں سکھ مخالف فسادات (آپریشن بلیو اسٹار) کے باعث شدید تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا۔کانگریس کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔اس کا پہلا حصہ 1885ء سے1905ءتک محیط رہا۔ اس دور کو اعتدال پسندوں کے دور سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ کانگریس پر ان رہنماؤں کا غلبہ رہا جوحکومتکے وفادار تھے۔ مغربی تعلم سے آراستہ تھے،برطانویجمہوری اداروں کو ہندوستان میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ انگریزوں کے منصفانہ جذبہ میں یقین رکھتے تھے اور ان کے وجود کو ہندوستان کے باعث رحمت تصور کرتے تھے۔اعتدال پسندوں کی پالیسی سے کانگریس کے رہنماؤں کا ایک طبقہ اختلاف رکھتا تھا۔ وہ اعتدال پسندوں کی اصلاحات ��ور مراعات کی پالیسی کو خیرات کی پالیسی سے تعبیر کرتا تھا اور ہندوستان کو ہندوستانیوں کی تقدیر سمجھتا تھا۔ وہ اس پر ہندوستانیوں کا تصور کرتا تھا۔ یہ دور 1905ء سے 1919ء تک جاری رہا اور انتہا پسندوں کے دور سے موسوم ہوا۔ اس کے رہنماؤں میںلالہ لاجپت رائے،بال گنگا دھر تلکاور بپن چندر پال بڑی اہمیت کے حامل تھے۔1907ءمیں اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے مابین اختلافات کے سبب دو حصوں میں منقسم ہو گئی اور اعتدال پسندوں کو کانگریس کی رکنیت سے خارج کر دیا۔ بعد ازاں 1916 میں جبمسلم لیگاور کانگریس نے میثاقلکھنؤپر دستخط کیے تو انتہا پسندوں کو دوبارہ کانگریس میں داخل کر لیا گیا۔ 1918 میں مانٹیگو جیمسفورڈ اصلاحات پر اختلافات کے سبب اعتدال پسند کانگریس سے منحرف ہو گئے اور انھوں نے اپنے آپ کو لبرل پارٹی کے نام سے منظم کر لیا۔کانگریس کا تیسرا دور 1919ء سے 1947ء تک محیط رہا ہے۔ اسےمہاتما گاندھیکے دور سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس دور میں گاندھی نےافریقاسے ہندوستان واپس آ کر 1917ء میں چمپارن میں ستیہ گرہ کیا۔احمد آبادکے مل مزدوروں کی تحریک چلائی۔ 1919ء رولٹ بل کی مخالفت میں ستیہ گرہ کیا۔ 1920ء میں خلافت عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ 1930ء میں ڈانڈی مارچ کر کے نمک کا قانون توڑا۔ 1932ء میں تحریک سول نافرمانی کا آغاز کیا۔ 1940ء میں جنگ کے خلاف انفرادی ستیہ گرہ کیا اور 1942 میںابو الکلام آزادکی صدارت میں ""ہندوستان چھوڑ دو"" تحریک کی قرارداد پیش کی۔ اس کے نتیجے میں کانگریس کے تمام رہنماؤں کو گرفتا ر کر کے گاندھی جی کو آغا خان پونا میں نظر بند کر دیا گیا اور دوسرے رہنماؤں کو احمد نگر کے تاریخی قلعہ میں قید کر دیا گیا۔23 مارچ 1940ء کو جبمسلم لیگنےلاہورمیں اجلاس میںدو قومی نظریہکی بنیاد پر لاہور قرارداد کے تحت مسلمانوں کے لیے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو کانگریس نے شدت سے اس کی مخالفت کی لیکن برطانوی حکومت نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا اور اس کی پالیسی سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ ہر قدم پر اس کی مدد بھی کی اور بالآخر ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ذریعہ تین جون پلان کے تحت 14اگست1947ء کوپاکستانکا قیام عمل میں آ گیا اور 15 اگست کو ہندوستان آزاد ہو گیا۔ حصولِ آزادی کے بعد کانگریس تین برس تک مرکز اور کئی برسوں تک ریاستوں میں برسرِ اقتدار رہی۔ تاہم کانگریس کو 1977ء میں مسنر اندرا گاندھی کے الیکشن میںناکامیکے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور جنتا پارٹی نے مرار جی ڈیسائی کے زیر قیادت اقتدار کی ذمہ داری سنبھالی تاہم 1980ء میں مسنر گاندھی دوبارہ برسرِ اقتدار آ گئیں اور انھوں نے کانگریس کو کانگریس، آئی، کے نام سے موسوم کیا۔ مسنر گاندھی اس کی صدر منتخب ہوئیں۔اکتوبر1984ء میں ان کی ہتھیا کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی کانگریس کے صدر اوروزیر اعظممنتخب ہوئے۔ 1989ء میں کانگریس پھر اقتدار سے محروم ہو گئی۔ تاہم 1991میں پھر برسرِ اقتدار آ گئی اور 1995ء تک صدر کانگریس نرسمہاراؤ کی وزارتِ عظمیٰ میں اقتدار پر قابض رہی۔ اس کے بعد سے 2001ء تک یہ اقتدار سے محروم ہے اور اس کی باگ ڈورراجیو گاندھیکیبیویاور مسنراندرا گاندھیکی بہوسونیا گاندھیکے ہاتھوں میں ہے۔"
+789,تحریک خلافت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%DA%A9_%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81%D8%AA,"پہلی جنگ عظیممیںترکینےبرطانیہکے خلافجرمنیکا ساتھ دیا۔ترکیکی جنگ میں شمولیت سےہندوستانکےمسلمانپریشان ہوئے کہ اگرانگریزکامیاب ہو گیا توترکیکے ساتھ اچھا سلوک نہی�� کیا جائے گا۔ہندوستانکے مسلمانوں نےانگریزوںکا ساتھ دینے کے لیے وزیر اعظمبرطانیہلائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گیجرمنیکو شکست اوربرطانیہکو فتح ہوئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعدبرطانیہاور اس کے اتحادیوں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اپنی فوجیںبصرہاورجدہمیں داخل کر دیں۔ہندوستانکے مسلمانوں نےانگریزوںکو وعدے یاد دلانے کے لیے اور خلافت کے تحفظ کے لیے ایک تحریک شروع کی جسے ""تحریک خلافت"" کا نام دیا گیا۔5 جولائی1919ءکو خلافت کے مسئلے پر رائے عامہ کو منظم کرنے اور متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لیےبمبئیمیں آل انڈیا خلافت کمیٹی قائم کر دی گئی جس کے صدر سیٹھ چھوٹانی اور سیکرٹری حاجی صدیق کھتری منتخب ہوئے۔تحریک خلافت کے بڑے بڑے مقاصد یہ تھے:خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس نومبر1919ءمیںدہلیمیں ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمان انگریز کے جشن فتح میں شریک نہیں ہوں گے اور اگر ان کے مطالبات منظور نہ ہوئے تو وہ حکومت سے عدم تعاون کریں گے۔ اس اجلاس میں ہندوؤں سے تعاون کی اپیل کی گئی۔آل انڈیا کانگریسنے پہلے ہیرولٹ ایکٹکے خلاف ملک گیر مہم شروع کر رکھی تھی۔ دسمبر1919ءمیںآل انڈیا کانگریس،مسلم لیگاورخلافت کمیٹیکے اجلاسامرتسرمیں منعقد ہوئے جہاںگاندھیجی نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا۔1920ء میں مولانامحمد علی جوہرکی قیادت میں ایک وفدانگلستان،اٹلیاورفرانسکے دورے پر روانہ ہوا تاکہ وزیر اعظمبرطانیہاور اتحادیوں کو ان کے وعدے یاد دلائے۔ وفد نےبرطانیہپہنچ کر وزیر اعظم لائیڈ جارج سے ملاقات کی لیکن اس کا جواب “آسٹریلیااورجرمنیسے خوف ناک انصاف ہو چکا اور ترکی اس سے کیوں کر بچ سکتا ہے۔“ سن کر مایوسی ہوئی۔ اس کے بعد وفد نےاٹلیاورفرانسکا بھی دورہ کیا مگر کہیں سنوائی نہ ہوئی۔مکمل مضمون کے لیے دیکھیےمعاہدہ سیورےخلافت وفد ابھیانگلستانمیں ہی تھا کہترکیپرمعاہدہ سیورےمسلط کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں تمام بیرونی مقبوضاتترکیسے چھین لیے گئے،ترکیپر فضائی فوج رکھنے پر پابندی لگا دی گئی اوردرہ دانیالپر اتحادیوں کی بالادستی قائم رکھی گئی۔وفد خلافت کی ناکام واپسی اورمعاہدہ سیورےکی ذلت آمیز شرائط کے خلاف خلافت کمیٹی نے 1920ء میںتحریک ترک موالاتکا فیصلہ کیاگاندھیکو اس تحریک کا رہنما مقرر کیا گیا۔ اس کے اہم پہلو یہ تھے۔تحریک خلافت کے دوران میں 1920ء میںمولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی،مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا ظفر علی خاناورعطاء اللہ شاہ بخاریسمیت کچھ علما نے برصغیر کودار الحربقرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنے کا فتویٰ جاری کر دیا، جس کے نتیجہ میں ہزاروں مسلمانوں نے اپنے گھربار چھوڑ کر ہمسایہ ملکافغانستانکی راہ لی۔ یہ ہجرت حکومت افغانستان کے عدم تعاون کے باعث ناکام ہو گئی اور مسلمانوں کو اس سے کافی جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔[2]مولانا محمد علی جوہرنےعلی گڑھکی انتظامیہ سے سرکاری امداد نہ لینے کی اپیل کی۔ کالج کے انتظامیہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے نتیجے میںمولانا محمد علی جوہرنے بہت سے طلبہ کو اپنے ساتھ ملا کرجامعہ ملیہ اسلامیہکی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ 1925ء میںدہلیمنتقل کر دیا گیا۔ساحلمالابارموپلہمسلمانوں نے تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کے نتیجے میں انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ انھوں نے تنگ آ کر 1925ء میں بغاوت کر دی۔ حکومت نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا اور ہزاروں موپلوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔5 فروری1922ءکو تحریک خلافت کی حمایت میں لوگوں نے مشتعل ہو کراترپردیشکے ایک گاؤں چورا چوری میں ایک تھانے کو آگ لگا دی جس میں 22 سپاہی جل مرے۔ اس واقعے کو آڑ بنا کر کرگاندھینے اعلان کر دیا کہ چونکہ یہ تحریک عدم تشدد پر کار بند نہیں رہی اس لیے اسے ختم کیا جاتا ہے۔ہندوؤں اور مسلمانوں کا اتحاد سطحی، جذباتی اور وقتی تھا۔ دونوں قوموں کو حکومت کے خلاف نفرت نے عارضی طور پر اکھٹا کر دیا تھا لیکنشدھیاور سنگھٹن کی تحریکوں نے جلد ہی اس اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا اور تحریک خلافت کمزور ہونا شروع ہو گئی۔مسلمانوں کی تحریک خلافت سیاسی فائدے کی بجائے مذہبی جوش و خروش پر مبنی تھی۔ ہندو اس سے سیاسی فائدہ تلاش کر رہے تھے جو تحریک خلافت کی کامیابی سے ملنا مشکل تھا۔ چناں چہ جب تحریک خلافت کامیابی سے ہم کنار ہونے والی تھی توگاندھینے تحریک ختم کرنے کا اعلان کر کے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔گاندھینے اس تحریک کو اس وقت ختم کرنے کا اعلان کیا جب مسلمانوں کے تمام رہنما جیل میں تھے اور تحریک کی قیادت سنبھالنے والا کوئی موجود نہیں تھا۔ اس سے تحریک بھی ختم ہو کر رہ گئی اور مسلمانوں کا اپنے قائدین سے بھی اعتماد اٹھ گیا۔گاندھیجی ہندوؤں کے مہاتما بن گئے اورمولانا محمد علی جوہرگوشہ گم نامی میں چلے گئے۔ اوراسی حالت یعنی گمنامی میں ان کی وفات ہو گئی۔مارچ1924ءمیںمصطفی کمال پاشانے ترکی کے علاقے آزاد کرا کےجمہوریہکے قیام اور اپنی صدارت کا اعلان کر دیا اورترکیمیں خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔جنگ عظیم اولتو ختم ہو چکی تھی لیکن اتحادیوں میں سے ایک ملکیونان، ترکی کو مزید تباہ کرنے کے درپے تھا۔ اس دوران ایک ترک جرنیل مصطفٰے کمال پاشا نے بکھری ہوئی ترک قوتوں کو مجتمع کیا اور یونانیوں کو شکست دی۔ مصطفٰے کمال پاشا نے آخریخلیفہعبدالمجید ثانیکو اقتدار سے الگ کرکے حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ترکی اپنے قدموں پر کھڑا ہونے لگا۔روساوربرطانیہمیں ترکی پر قبضے کے لیے باہم رقابت موجود تھی، چنانچہ یہی رقابت ترکی کو بچا گئی۔ مصطفے کمال پاشا کی حکومت نے اتحادیوں کے ساتھ ایکمعاہدہ لوزانتحریر کیا۔ اس معاہدے کی شرائطمعاہدہ سیورےکے مقابلے میں ترکی کے لیے بہتر تھیں۔ ترکی میںخلافتختم ہو گئی اورجمہوریتقائم ہو گئی۔حجازمقدس پر شریفِ مکہ کے زیر اقتدار دے دیا گیا اور ترکی کا مسئلہ حل ہو گیا۔نئے حالات کی روشنی میںبرصغیرمیں تحریک جاری رکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی، اس لیے قائدین اور عوام رفتہ رفتہ خاموش ہو گئے۔ ایک لحاظ سے تحریک کے مقاصد پورے ہو گئے تھے، مثلاًپہلی جنگ عظیمکے دوران میںبرطانویحکومت نےاعلان بالفورکی رو سےفلسطینکویہودیوںکا قومی وطن بنانے کی سازش کی۔ اس لیے وہسلطنت عثمانیہکی سابقہ حدود کو بحال کرنا نہیں چاہتی تھی۔شریف مکہنے سازش کر کےحجاز مقدسکوسلطنت عثمانیہسے الگ کر لیا تھا۔ جس پرعبدالعزیز ابن سعودنےسعودی عربکے نام سے الگ مملکت کے قیام کا اعلان کر دیا جس سے تحریک خلافت ماند پڑ گئی۔تحریک خلافت جیسی عوامی تحریک کی مثالبرصغیرکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس میں شک نہیں کہ یہ تحریک اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی لیکن اس نے ہندوستان کی سیاست اور مسلمانوں کی تاریخ پر گہرے نقوش مرتب کیے۔"
+790,متحدہ قومیت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%AF%DB%81_%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C%D8%AA,"متحدہ قومیت(ہندوستانی:مشترکہ وطنیتیامتحدہ قومیت) ایک ایسا تصور ہے، جو یہ استدلال کرتا ہے کہہندوستانی قوممختلف ثقافتوں ، ذاتوں، برادریوں اور مسلک کے لوگوں پر مشتمل ہے۔[1][2]یہ نظریہ سکھاتا ہے کہ ""ہندوستان میں مذہب کے ذریعہ قوم پرستی کی تعریف نہیں کی جا سکتی ہے۔""[3]ہندوستانی شہری اپنی مخصوص مذہبی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے وہ ایک متحدہ ہندوستانی قوم کے رکن ہیں۔[3][4]متحدہ قومیت کا خیال ہے کہبرصغیر میں انگریزوں کی آمدسے پہلے مختلف مذہبی عقائد کے لوگوں کے درمیان کوئی دشمنی موجود نہیں تھی۔ اور اس طرح ان مصنوعی تقسیموں پر ہندوستانی معاشرے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔[3]بپن چندرا پالنےنوآبادیاتی ہندوستانمیں سنہ 1906ء میں متحدہ قومیت کے نظریہ کو آگے بڑھایا، اس خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے کہ ""ہندو، مسلمان، عیسائی اور دیگر مذہبی اقلیتوں (جن میں 'دشمنی پسند' یعنی کٹر واد قبائل بھی شامل ہیں) کو مل کر آزادی کے لیے لڑتے ہوئے اپنی مخصوص مذہبی ثقافتوں کا تحفظ کرنا چاہیے۔""[3]ڈیوڈ ہارڈی مین؛ جو جدید ہندوستان کے مورخ ہیں؛ لکھتے ہیں کہانگریزوں کی ہندوستان میں آمدسے پہلے ""ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان گہری دشمنی نہیں تھی، انگریزوں نے تفرقہ پیدا کیا تھا۔""[3]مہاتما گاندھینے سکھایا کہہندو مسلم اتحادکے ذریعے ان ""مصنوعی تقسیموں"" پر قابو پایا جا سکتا ہے؛ کیوں کہ ""مذاہب ایک ہی نقطہ پر محیط مختلف سڑکیں ہیں۔""[3]اس سے قبلسید جمال الدین افغانی اسد آبادینے ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کی وکالت کی تھی اور ہندوستانی مسلمانوں اور غیر ملکی مسلمانوں کے مابین اتحاد کی مخالفت کی تھی یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہندو مسلم اتحاد برطانوی مخالف تحریکوں کی حمایت کرنے میں زیادہ کارگر ثابت ہوگا اور اس سے آزاد ہندوستان کا رخ ہوگا۔[5][6]اینی بیسنٹ؛ جو ہندوستانی اور آئرش دونوں طرح کیخود حکمرانیکے حامی تھے، انھوں نے 1917ء میں اس تصور کی حمایت کی، یہ تعلیم دی کہ ""ہندوستانی نوجوانوں کی پرورش کی جائے تاکہ مسالمین کو ایک اچھا مسالمین بنایا جاسکے۔"" ہندو لڑکا ایک اچھا ہندو ... صرف انھیں ہی ایک وسیع اور آزادانہ رواداری کے ساتھ ساتھ اپنے ہی مذہب کے لیے روشن خیال تعلیم بھی سکھائی جائے؛ تاکہ ہر ایک ہندو یا مسلمان ہی رہے؛ لیکن دونوں ہی ہندوستانی ہوں۔""[3]آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنسکا قیام 1929ء میں[7]وزیر اعلیٰ سندھاللہ بخش سومروکے ذریعہ عمل میں لایا گیا تھا، جنھوں نےسندھ اتحاد پارٹی(سندھ یونائیٹڈ پارٹی) کی بنیاد رکھی، جس نےہندوستان کی تقسیم کی مخالفت کی۔[8][9]اللہ بخش سومرو، نیز آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس نے متحدہ قومیت کی وکالت کی:[10]ہمارے عقائد جو بھی ہیں، ہمیں اپنے ملک میں ایک ساتھ مکمل ہم آہنگی کی فضا میں رہنا چاہیے اور ہمارے تعلقات مشترکہ خاندان کے متعدد بھائیوں سے ہونے چاہئیں، جن میں سے بہت سے افراد اپنے عقیدے کا اعتراف کرنے کے لیے آزاد ہیں؛ کیوں کہ وہ بغیر کسی اجازت اور رکاوٹ کے پسند کرتے ہیں اور جن میں سے ان کی مشترکہ جائیداد کے مساوی فوائد ہیں۔[9]گاندھی نے نوآبادیاتی ہندوستان میں واپس آنے کے بعد نہ صرف مذہبی گروہوں؛ بلکہ ذات پات اور دیگر برادریوں کو بھی شامل کرنے کے لیے متحدہ قومیت کے خیال کو وسعت دی۔[3]ہارڈی مین لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ""ہندوستان میں قوم پرست تحریک کی بڑے پیمانے پر توسیع"" ہوئی، جس میں معاشرے کے تمام طبقات کے افراد اس میں شریک ہوئے۔[3]متحدہ قومیت کا دفاعدار العلوم دیوبندکے سابق صدر المدرسینمولانا سید حسین احمد مدنینے کیا۔[11][6]اصغر علی نے مدنی کے 1938ء کے متنمتحدہ قومیت اور اسلامکے ایک اہم نکتہ کا خلاصہ کیا، جس نے متحدہ ہندوستان میں متحدہ قومیت کی حمایت کی تھی:[12]مولانا مدنی؛ جنھوں نے ایک کتابمتحدہ قومیت اور اسلاملکھی، انھوں نے قائل سے قرآن مجید کے حوالے سے متحدہ قومیت کے حق میں استدلال کیا کہ نبیوں نے اسی علاقے میں کافروں کو شریک کیا ہے اور اسی وجہ سے ان کا قومی نظریہ ان لوگوں سے مختلف نہیں تھا، جو ان کے پیغام پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ مولانا مدنی کے مطابق؛ قرآن پاک کی روح بہت کثیر الثقافتی، کثیر النسل اور کثیر مذہبی دنیا میں ہم آہنگی کے ساتھ بقائے باہمی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔[12]ساتھی دیوبندی عالمابو المحاسن محمد سجادنے اسلامی تاریخ دانطفیل احمد منگلوریکے ساتھ نوآبادیاتی ہندوستان میں متحدہ قومیت کی مہم چلائی اور مؤخر الذکر تصنیفروحِ روشن مستقبلکے ساتھپاکستان علیحدگی پسند پسند تحریککی مخالفت کی؛ تاکہ ان ہندوستانی قوم پرست خیالات کو بیان کیا جاسکے۔[13]خان عبد الغفار خانایک پشتونتحریک آزادی کے کارکننے اپنےخدائی خدمتگارکے ساتھ اس حقیقت پر زور دیا کہ مسلمان برصغیر کے باشندے اپنے ہندو بھائیوں کی طرح ہی تھے۔[14]سیف الدین کچلوکشمیری ہندوستانی آزادی کارکن اورپنجاب صوبائی کانگریس کمیٹیکے صدر نے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف متحدہ ہندوستانی تحریک کی حمایت کی اور تبلیغ کی کہ منقسم ہندوستان مسلمانوں کو معاشی و سیاسی طور پر کمزور کر دے گا۔[15]15 دسمبر 2018ء کوجمیعت علمائے ہند؛قومی دارالحکومت دہلیمیں متحدہ قومیت کی تصدیق کرنے کے لیے جمع ہوئے۔[16]اسلامی تنظیم نے اس تاریخ سے شروع ہونے والی ایک سو اجلاسوں کا آغاز کیا ""آزادی، قومیت کے موضوع اور اس تنظیم کے تحت اقلیتی طبقہ قوم کی تعمیر میں کس طرح اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔""[16]"
+791,تقسیم ہند کی مخالفت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D9%82%D8%B3%DB%8C%D9%85_%DB%81%D9%86%D8%AF_%DA%A9%DB%8C_%D9%85%D8%AE%D8%A7%D9%84%D9%81%D8%AA,"20 ویں صدی میںبرٹش ہندمیںتقسیم ہند کی مخالفتوسیع پیمانے پر تھی اور یہ جنوبی ایشیا کی سیاست میں اب بھی ایک اہم مقام ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والے اکثر جامع قوم پرستی کے نظریے پر قائم رہتے ہیں ۔[3]ہندو ، عیسائی ، اینگلو انڈین ، پارسی اور سکھ برادری بڑی حد تکتقسیم ہند(اور اس کے تحتدو قومی نظریہ) کی مخالفت کر رہی تھی ،[4][5][6][7]جتنے مسلمان تھے (یہ تھے جس کی نمائندگیآل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس)۔[8][9]خدائی خدمتگار کےپشتون سیاست دان اورہندوستانی آزادی کےکارکنخان عبدالغفار خاننے تقسیم ہند کی تجویز کو غیر اسلامی اور ایک مشترکہ تاریخ کے منافی قرار دیا جس میں مسلمان ایک ہزاری سے زیادہ عرصے تک ہندوستان کو اپنا آبائی وطن سمجھتے تھے۔[1]مہاتما گاندھینے رائے دی کہ ""ہندو اور مسلمان ہندوستان کی ایک ہی سرزمین کے بیٹے تھے وہ بھائی تھے لہذا انھیں ہندوستان کو آزاد اور متحد رکھنے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔""[2]دیوبندی مکتب فکر کےمسلمانوں نے ""پاکستان کے اس نظریہ کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ مستحکم متحدہ ہندوستان کے ظہور کو روکنے کے لیے نوآبادیاتی حکومت کی سازش ہے"" اور تقسیم ہند کی مذمت کے لیےآزاد مسلم کانفرنس کےانعقاد میں مدد فراہم کی۔[10]انھوں نے یہ بھی استدلال کیا کہ اگر ہندوستان تقسیم ہوا تو مسلمانوں کی معاشی ترقی کو ٹھیس پہنچے گی ، تقسیم کے نظریہ کو دیکھ کر جو مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کے لیے بنای�� گیا ہے۔[11]انھوں نے یہ بھی توقع کی کہ ""متحدہ ہندوستان میں مسلم اکثریتی صوبے ہندو اکثریتی علاقوں میں بسنے والے مسلم اقلیتوں کی مدد کرنے میں آزاد پاکستان کے حکمرانوں سے زیادہ کارگر ثابت ہوں گے۔"" دیوبندیوں کی طرف اشارہ کیاحدیبیہ کے معاہدےجس میں مسلمانوں کے درمیان بنایا گیا تھا،قریشمکہ کے، ""اس طرح مسلمانوں کے لیے زیادہ مواقع پرامنتبلیغکے ذریعے قریش لیے ان کے مذہب کی تبلیغ کرنے کی اجازت دے دو فرقوں کے درمیان باہمی تعامل کو فروغ دیا."" اس دیوبندی اسکالرسید حسین احمد مدنینے اپنی کتابمتحدہ قومییت اور اسلام(جامع قومپرستیاور اسلام) میں متحدہ ہندوستان کے لیے دلیل پیش کی ، اس خیال کواجاگرکیا کہ مختلف مذاہب مختلف قومیتوں کی تشکیل نہیں کرتے ہیں اور یہ کہ ہندوستان کی تقسیم کی تجویز جواز نہیں ، مذہبی اعتبار سے .[12]خاکسار موومنٹ کےرہنماعلامہ مشرقینے تقسیم ہند کی مخالفت کی کیونکہ انھیں لگا کہ اگر مسلمان اور ہندو صدیوں سے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر ایک ساتھ رہتے تو وہ آزاد اور متحد ہندوستان میں بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ مشرقی نے دو قومی نظریہ کو انگریزوں کی ایک سازش کے طور پر اس خطے پر زیادہ آسانی سے کنٹرول برقرار رکھنے کے منصوبے کے طور پر دیکھا ، اگر ہندوستان کو دو ممالک میں تقسیم کیا گیا تھا جن کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے استدلال کیا کہ مذہبی خطوط کے ساتھ ہندوستان کی تقسیم سرحد کے دونوں اطراف بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کو فروغ دے گی۔ مشرقی کا خیال تھا کہ ""مسلم اکثریتی علاقے پہلے ہی مسلم حکومت کے ماتحت تھے ، لہذا اگر کوئی مسلمان ان علاقوں میں منتقل ہونا چاہتا ہے تو ، وہ ملک کو تقسیم کرنے کے بغیر ، آزادانہ طور پر آزاد ہیں۔"" ان کے نزدیک علیحدگی پسند رہنما ""اقتدار کے بھوکے اور مسلمانوں کو گمراہ کر رہے تھے تاکہ وہ برطانوی ایجنڈے کی خدمت کرکے اپنے اقتدار کو تقویت پہنچائیں۔""[13]1946 کے ہندوستانی صوبائی انتخابات میں، صرف 16 فیصد ہندوستانی مسلمان ، خاص طور پر اعلی طبقے سے تعلق رکھنے والے ، ہی ووٹ ڈال سکے۔[14]تاہم ، عام ہندوستانی مسلمانوں نے تقسیم ہند کی مخالفت کرتے ہوئے ، یہ خیال کیا کہ ""یہ کہ ایک مسلم ریاست صرف اعلی درجے کے مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گی۔""[15]نوآبادیاتی ہندوستان کے عیسائیوں کینمائندگی کرنے والےہندوستانی عیسائیوں کی آل انڈیا کانفرنس کےساتھ ساتھ ، سکھ سیاسی جماعتوں جیسے چیف خالصہ دیوان اورماسٹر تارا سنگھکی سربراہی میںشورومالی اکالی دلنے بھی علیحدگی پسندوں کی طرف سے پاکستان بنانے کے اس مطالبے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک تحریک کے طور پر دیکھا۔ ممکنہ طور پر ان پر ظلم کریں گے۔[5][6]پاکستان کو مذہبی علیحدگی کی بنیاد پر تقسیم ہند کے ذریعے بنایا گیا تھا۔[16]ملک ہند کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کے بالکل ہی تصور کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ جدید دور کے لیے ایک پسماندہ خیال ہے۔[17][18]اس کے واقع ہونے کے بعد ، تقسیم ہند کے ناقدین نے پندرہ ملین لوگوں کے بے گھر ہونے ، دس لاکھ سے زیادہ افراد کے قتل اور 75،000 خواتین کے ساتھ ہونے والے عصمت دری کے نظریہ کا ثبوت دیا کہ یہ غلطی تھی۔[19]برطانوی ہندایک وسیع اور مختلف قوموں اور مذاہب کا علاقہ تھا ، زیادہ ترسکھاورہندوآدمی تقسیم ہند کے خلاف تھے کہ اس ملک میں بہت سے مسلمان تھے۔خان عبدالغفار خان، ایکپشتونسیاست دان ، ہندوستان کی تقسیم کو مسلم تاریخ کی تردید قرار دیتے تھے جس نے ص��یوں تک ہندوستان پر حکمرانی کی۔ مہاتما گاندھی کے مطابق ہندو اور مسلمان ایک ہی ہندوستان کے بچے ہیں اور انھیںہندوستانکو آزاد بنانے کے لیے مل کر لڑنا ہوگا۔ دیوبندی مسلم علمائے فکر نے ایک علاحدہ مسلم ملک کے طور پرپاکستانکے نظریہ کی حمایت نہیں کی بلکہ طاقتور ہندوستان کے عروج کو نوآبادیاتی برطانویوں کی سازش سمجھتے تھے اور انھوں نے تقسیم ہند کو روکنے کے لیے آزاد مسلم کانفرنس کا اہتمام کیا۔ وہاں ان کا استدلال تھا کہ اگر ہندوستان تقسیم ہوا تو مسلم معیشت کو نقصان ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو ایک اقلیت ہونے کی وجہ سے ، ان کی معاشی امداد کے معاملے میں سخت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ دیوبندیوں نے مسلمانوں اور قریش کے مابین حدیبیہ معاہدہ کو مسلمانوں کے مابین پُرسکون طور پر تعلقات میں بہتری لاتے ہوئے قریش کے مابین اسلام کے پھیلاؤ کی مثال کے طور پر پیش کیا۔ دیوبندی اسکالر سید احمد مدنی نے غیر منقسم ہندوستان کی جانب سے اپنی کتاب "" متحدہ قومیت "" میں جس کا ذکر انھوں نے حیاتیاتی نظریہ کی بنیادی حد کے طور پر کیا (اور اب بھی جاری ہے)۔ انھوں نے اس حقیقت کا حوالہ دیا کہ دونوں ممالک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے سے دونوں ممالک میں توہم پرست روایت پسندی اور انتہا پسندی کو جنم ملے گا۔ مشرک کا خیال تھا کہ مسلم اکثریتی مقامات پہلے ہی مسلم حکومت کے ماتحت ہیں ، لہذا اگر کوئی مسلمان وہاں جانا چاہتا ہے تو وہ تقسیم کے بغیر بھی ایسا کرسکتا ہے۔اس نے اس تقسیم کو اقتدار کے فاقے اور خود غرض لوگوں کی سازش کے طور پر دیکھا۔ ڈیکن ہیرالڈ ، ٹریجڈی آف پارٹیشن کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم صدیوں سے بغیر کسی تنازع کے ایک ہی سرزمین پر سکون سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کوئی بھی سوشل انجینئر ہندوستان میں غیر مسلموں سے مسلمانوں کو فرق نہیں کرسکتا۔ ہندوستانی مسلمانوں میں کوئی مشترکہ ثقافت یا مرکزی زبان نہیں تھی۔ مثال کے طور پر ، کسی پنجابی مسلمان اور بنگالی یا ملابار مسلمان میں مذہب کے علاوہ کسی بھی طرح سے مماثلت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ایک مشترکہ زبان بھی نہیں ہے جسے ہندوستان کے تمام مسلمان جانتے ہیں۔ صدیوں سے مسلمان اپنی علاقائی ثقافت کو غیر مسلموں کے ساتھ بانٹ رہے ہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ مسلمان بنیادی طور پر ہندوؤں سے مختلف ہیں۔ کیونکہ ہندوستانی غیر مسلم نے صدیوں سے اسلام قبول کیا ہے۔ ثقافت کا مذہب کی بجائے خطے پر زیادہ انحصار ہے۔ اس کے نتیجے میں ، ایک بنگالی مسلمان کی حیثیت بنگالی ہندو کے ساتھ ایکپنجابی مسلمانسے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ اپنے علاقائی ثقافت کے شراکت داروں کے ساتھ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ مسلمان بنیادی طور پر ہندوؤں سے مختلف ہیں۔ کیونکہ ہندوستانی غیر مسلم نے صدیوں سے اسلام قبول کیا ہے۔ ثقافت کا مذہب کی بجائے خطے پر زیادہ انحصار ہے۔ اس کے نتیجے میں ، ایک بنگالی مسلمان کی حیثیت بنگالی ہندو کے ساتھ ایک پنجابی مسلمان سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ اپنے علاقائی ثقافت کے شراکت داروں کے ساتھ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ مسلمان بنیادی طور پر ہندوؤں سے مختلف ہیں۔ کیونکہ ہندوستانی غیر مسلم نے صدیوں سے اسلام قبول کیا ہے۔ ثقافت کا مذہب کی بجائے خطے پر زیادہ انحصار ہے۔ اس کے نتیجے میں ، ایک بنگالی مسلمان کی حیثیت بنگالی ہندو کے ساتھ ایک پنجابی مسلمان سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔کسان انقلاب کے خوف کی وجہ سے ، مسلم لیگ کے رہنماؤں نے برطانوی سامراج کے ساتھ مکمل معاہدے کرتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم اور برطانوی تسلط برقرار رکھنے کے حامی بنائے۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین مذہبی عداوت ڈال کر ، مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ ... تقسیم ہند حل نہیں کرسکی اور نہ ہی ایک مسئلہ حل کیا جس میں ہندو مسلم مسئلہ بھی شامل ہے۔ اس کے برعکس اس نے مذہبی اختلافات کو اور بڑھادیا ، خاص طور پر صوبہ پنجاب کی تقسیم کے سلسلے میں ، اور ہندوؤں ، سکھوں اورمسلمانوں کے مابین خونی تنازعات کو بھڑکانے میں مدد ملی۔ لاکھوں مہاجرین ایک راج سے دوسری سلطنت کی طرف چلے گئے۔ ہندو اور سکھ ہندوستان اور مسلمان بھاگ گئے۔ پورے دیہات کو آباد کردیا گیا ، فصلیں جمع نہیں کی گئیں ، کھیت نہیں بوئے گئے تھے۔ ... برطانوی خفیہ پولیس کے ایجنٹوں سے بھرے ہوئے ، فاشسٹ خطوط پر منظم مسلح بینڈ ، ہندوستان میں مسلمانان اورپاکستانمیں ہندوؤں اور سکھوں کے قتل عام کا اہتمام۔ ہندوستان اور پاکستان میں جنگی جھڑپیں برطانوی سامراج اور اس کے ایجنٹوں کے ہاتھ میں تھیں۔ حصوں میں منقسم ملک میں برطانوی سامراج کے سیاسی اور معاشی تسلط کو برقرار رکھنے کے مقصد سے تقسیم ہندکا اثر عمل میں آیا۔ ... ہندوستان کی تقسیم مزدور حکومت نے انجام دی تھی جو پچھلی کنزرویٹو حکومت کے مقابلہ میں معاشرتی اور قومی سطح پر زیادہ نرمی اور استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیبر پارٹی کے لئے یہ چال چلن کرنا آسان تھا کیونکہانڈین نیشنل کانگرسکے قائدین ہمیشہ ان کے ساتھ ایک معاہدہ طے کرتے رہے ہیں اور زیادہ خوشی لیبر کابینہ کے ساتھ سمجھوتہ ہوا۔ یہ خصوصیت ہے کہ کنزرویٹو پارٹی نےہندوستانکی تقسیم کے منصوبے کی حمایت کی ، جو مزدور حکومت نے تجویز کیا تھا۔ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اس سارے منصوبے کا ایک برطانوی سامراجی منصوبہ ہے اور اس کے مفادات اور اس کے حساب کتاب سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ وجوہات کے بغیر نہیں ہے کہ برطانوی ہاؤس آف کامنس اور ہاؤس آف لارڈز میں بل پر بحث کے دوران کنزرویٹو پارٹی کے رہنماؤں نے حکومت کے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا جو برطانوی سامراج کو بچانے کے لئے آیا تھا ، اور لیبر حکومت سلطنت برطانوی مفادات کے وفادار محافظ کی حیثیت سے۔ ہندوستان کو تقسیم کرنے اور ہندوستان اور پاکستان کو ""تسلط کا لقب"" عطا کرنے کے بعد ، وہاں برطانوی سامراج نے ہندوستان پر اپنے نوآبادیاتی تسلط کو برقرار رکھتے ہوئے۔ ماضی کی طرح برطانوی دارالحکومت مکمل طور پر اور مکمل طور پر ہندوستان اور پاکستان کی معیشت میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ ہندوستان کے نوآبادیاتی استحصال کا ایک طاقتور لیور بینکنگ نظام ہے۔ ہندوستان کے تمام بڑے بینکوں میں ، دو کو چھوڑ کر ، برطانوی اجارہ داروں کے زیر انتظام ہیں۔ اس طرح وہ سب سے بڑی سرمایہ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں جس میں وہ صنعتوں ، ریلوے ، بندرگاہوں وغیرہ میں سرمایہ کاری کرسکتے ہیں ہندوستانی صنعت پوری طرح سے برطانوی بینکروں پر منحصر ہے۔ ہندوستان کی نصف سے زیادہ جوٹ اور چائے کی صنعت ، آئرن اور اسٹیل کی ایک تہائی صنعت ، پوری معدنی پیداوار ، ربڑ کے باغات وغیرہ کا تعلق برطانوی دارالحکومت سے ہے۔[84]تقسیم کو کالعدم کرنے اور ہندوستان کو دوبارہ متحد کرنے کے موضوع پر ہندوستانی اور پاکستانی دونوں ہی زیر بحث آئے ہیں۔[91]دی نیشن میں، کشمیری ہندوستانی سیاست دانمارکینڈے کاٹجونے سیکولر حکومت کے تحت پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے اتحاد کی وکالت کی ہے۔[92]انھوں نے کہا کہ اس تقسیم کی وجہ برطانیہ کی تفریق اور حکمرانی کی پالیسی تھی ، جسے برطانیہ کے دیکھنے کے بعد فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے لیے نافذ کیا گیا تھا جبہندوؤں اور مسلمانوں نےہندوستان میں اپنی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیےمل کر کام کیا۔ کاٹجو ہندوستانی اتحاد تنظیم (آئی آر اے) کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ، جو اس مقصد کے لیے مہم چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔[93][94]علامہ مشرقی کےپوتے ، پاکستانی مؤرخ نسیم یوسف ، نے بھی ہندوستانی اتحاد کی کامیابی حاصل کی ہے اور اس خیال کو 9 اکتوبر 2009 کوکارنیل یونیورسٹیمیں ایشین اسٹڈیز سے متعلق نیو یارک کانفرنس میں پیش کیا تھا۔ یوسف نے بیان کیا کہ ہندوستان کی تقسیم خود برطانوی مفادات اور ان کی تقسیم اور حکمرانی کی پالیسی کا نتیجہ ہے جس نے سوویت یونین اور ہندوستان کے مابین کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک اوربفر ریاست قائمکرنے کی کوشش کی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ""تقسیم"" عوام اور علاقے ایک متحدہ ہندوستان کو عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے سے روکیں گے اور دونوں ممالک کو اہم طاقتوں پر منحصر رکھیں گے۔ ""[95]یوسف نے ہندوستانی نیشنل کانگریس کے سابق صدرمولانا ابوالکلام آزادکا حوالہ دیا ، جنھوں نے اسی رگ میں لکھا تھا:اگر متحدہ ہندوستان آزاد ہوجاتا ... بہت کم امکان تھا کہ برطانیہ ہندوستان کی معاشی اور صنعتی زندگی میں اپنا مقام برقرار رکھ سکے۔ تقسیم ہند ، جس میں موسمی اکثریتی صوبوں نے ایک علیحدہ اور آزاد ریاست تشکیل دی ، دوسری طرف ، برطانیہ کو ہندوستان میں ایک قدم جمائے گی۔ ایک ریاست جس میں مسلم لیگ کا غلبہ ہے ، وہ انگریزوں کو مستقل اثر و رسوخ فراہم کرے گا۔ یہ بھی ہندوستان کے رویے پر اثر انداز ہونے کا پابند تھا۔ پاکستان میں ایک برطانوی اڈے کے ساتھ ، ہندوستان کو برطانوی مفادات پر کہیں زیادہ توجہ دینی پڑے گی جس کی وجہ وہ دوسری صورت میں کر سکتی ہے۔ ... تقسیم ہند برطانویوں کے حق میں صورت حال کو بدل دے گی۔[95]یوسف کا موقف ہے کہ ""آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر اور بعد میں بانی پاکستان کے صدر محمد علی جناح مسلم مقصد کو نجات دہندہ بننے اور بانی اور پہلے گورنر بننے کے لیے مسلم کمیونٹی کو گمراہ کر رہے تھے۔ جنرل آف پاکستان۔ "" علامہ مشرقی ، ایک قوم پرست مسلمان ، اس طرح جناح کو ""اپنی سیاسی زندگی کے لیے برطانویوں کے ہاتھ میں ایک آلہ کار بنتے"" نظر آئے۔ علیحدگی پسند نواز مسلم لیگ کے علاوہ ، برٹش ہند میں اسلامی قیادت نے اس ملک کی تقسیم کے تصور کو مسترد کر دیا ، جس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ برصغیر کے وسطی علاقوں میں زیادہ تر مسلمان وہیں مقیم تھے ، جہاں وہ نو تشکیل شدہ ریاست پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کی بجائے تھے۔ ہندوستان اور پاکستان فی الحال اپنے بجٹ کی ایک خاص رقم فوجی اخراجات کے لیے مختص کر رہے ہیں۔ اس رقم کو معاشی اور معاشرتی ترقی میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔ غربت ، بے گھر ، ناخواندگی ، دہشت گردی اور طبی سہولیات کا فقدان ، یوسف کی نظر میں ، ایک منقسم ہند کو دوچار نہیں کریں گے کیونکہ ""معاشی ، سیاسی اور معاشرتی طور پر اس سے زیادہ فائدہ ہوگا۔"" یوسف نے کہا ہے کہ بھارتی اور پاکستانی ایک عام جنبان بولتے ہیں،ہندوستانی، ""ایک ہی لباس پہننے، ایک ہی کھانا کھاتے، ایک ہی موسیقی اور فلموں سے لطف اندوز اور ایک ہی انداز میں اور اسی طرح کی ایک طول موج پر بات چیت"". انھوں نے کہا کہبرلن کی دیوار کےخاتمے او�� اس کے نتیجے میں جرمنی کی بحالی کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے ، اتحاد کرنا ایک چیلنج ہوگا ، اگرچہ یہ ناممکن نہیں ہے۔[95]فرانسیسی صحافیفرانسواس گوٹیئراور پاکستانی سیاست دان لال خان نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی اتحاد سے جموں و کشمیر کے خطے میں تنازع حل ہوگا۔[96][58]سانچہ:تحریک آزآدی ہند"
+792,جمیعت علمائے اسلام,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%85%D8%B9%DB%8C%D8%AA_%D8%B9%D9%84%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85,جمیعت علمائے اسلامشبیر احمد عثمانینے 26 اکتوبر 1945ء کوجمعیۃ علماء ہند(جے یو آئی) کے ایک شاخ کے طور پر قائم کیا تھا۔[3][2][4]
+793,تحریک پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%DA%A9_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"تحریک پاکستاناس تحریک کو کہتے ہیں جوبرطانوی ہندمیں مسلمانوں نے ایک آزاد وطن کے لیے چلائی جس کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا۔
+تحریک پاکستان سے پہلے بر صغیر میں مختلف نظریات کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔پاکستان کے قیام کے کئی اغراض و مقاصد تھے۔ جن مین سے چند کا ذکر مندرجہ ذیل ہے۔حضرتمجدد الف ثانیبر صغیر میں پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا۔ پھرشاہ ولی اللہ،سر سید احمد خانعلامہ اقبالاور دیگر علمائے کرام نے نظریہ پاکستان کی وضاحت کی۔ بر صغیر میں مختلف مسلم ادارے اسی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے اور کئی تحریکیں اسی نظریے کے پرچار کے لیے معرض وجود میں آئیں۔اسلام اور ہندو دھرم دو مختلف معاشرتی نظام قائد اعظم نے قرار دار لاہور 23، مارچ 1940ء کے صدارتی خطبے میں اسلام اورہندو متکو محض مذاہب ہی نہيں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام قرار دیا۔ ہندو اور مسلمان آپس میں شادی کر سکتے ہيں نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھا سکتے ہيں۔ ان کی رزمیہ نظمیں، ان کے ہیرو اور ان کے کارنامے مختلف ہيں۔
+دونوں کی تہذیبوں کا تجزیہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :
+""میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہيں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہيں۔""
+متحدہ قومیت قابل عمل نہيں شروع شروع میں علامہ اقبال متحدہ قومیت کے حامی تھے۔ مگر کچھ عرصہ بعد ہی آپ نے متحدہ قومیت کی تردید کردی اور علاحدہ قومیت کے تصور کی بھرپور حمایت شروع کر دی۔ مارچ،1909ءمیں ہندو رہنما منرو ا راج امرتسر نے علامہ اقبال کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے متحدہ قومیت کے موقع پر خطاب کرنے کی دعوت دی۔ علامہ اقبال نے نہ صرف متحدہ قومیت کے تصور کو مسترد کر دیا بلکہ آپ نے مہمان خصوصی بننے سے بھی انکار کر دیا۔ آپ نے فرمایا:
+""میں خود اس خیال کا حامی رہ چکا ہوں کہ امتیاز مذہب اس ملک سے اٹھ جانا چاہیے مگر اب میرا خیال ہے کہ قومی شخصیت کو محفوظ رکھنا ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مفید ہے۔ ""تحریک پاکستان اصل میں مسلمانوں کے قومی تشخص اور مذہبی ثقافت کے تحفظ کی وہ تاریخی جدو جہد تھی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بحیثیت قوم ان کی شناخت کو منوانا تھا۔ جس کے لیے علاحدہ مملکت کا قیام از حد ضروری تھا ۔یوں تو تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ، 1940ء کے جلسے کو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس کی اصل شروعات تاریخ کے اس موڑ سے ہوتی ہے جب مسلمانان ہند نے کانگریس سے اپنی راہیں جدا کر لی تھی ۔1857ء کی جنگ آزادی کے بعد سر سید احمد خان نے اپنی سیاسی بصیرت سے مسلمانوں کو عملی سیاست میں حصہ لینے سے منع کیا تھا۔ آپ کے نزدیک اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بغیر سیاست میں کامیابی ممکن نہیں۔ 1885ء میں کانگریس بنی تو کانگریس نے جلد ہی اپنے مقاصد سے ہٹ کر ہندوؤں کے مفادات کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کی علاحدہ سیاسی جماعت ہونی چاہیے۔ 30 دسمبر،1906ءمیں محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے اختتام پر بر صغیر کے قائدین کا اجلاس نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ کی رہائش گاہ پر ہوا۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ کے قیام کا فیصلہ ہوا ۔مسلم لیگ کے قیام کے اسباب1930ء میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسیوں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغرب میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر دیا۔ چودھری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933ء میں پاکستان کا نام دیا۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938ء میں اپنے سالانہ اجلاس میں بر صغیر کی تقسیم کے حق میں قرارداد پاس کر لی۔ علاوہ ازیں قائد اعظم بھی 1930ء میں علاحدہ مسلم مملکت کے قیام کی جدو جہد کا فیصلہ کر چکے تھے۔1940ء تک قائد اعظم نے رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر تیار کر لیا۔ 23 مارچ 1940 کے لاہور میں منٹو پارک میں مسلمانان ہند کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا جس میں تمام ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں نے قافلے کی صورت سفر کرکے شرکت کی اور ایک قرارداد منظور کی جس کے مطابق مسلمانان ہند انگریزوں سے آزادی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں سے بھی علاحدہ ریاست چاہتے تھے۔ قرارداد پاکستان کے اہم بنیادی نکات"
+794,برصغیر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%B1%D8%B5%D8%BA%DB%8C%D8%B1,ہندوستان کو ہی برصغیر کہا جاتا ہے۔برصغیر کے معنی چھوٹا خشک علاقہ یا زمین کا ٹکڑا ہے، لفظ صغیر عربی سے ماخوذ ہے۔ یہ براعظمایشیامیں ایک بڑا جزیرہ نما خطہ ہے، جوبحر ہندکے شمال میں واقع ہے۔ اس خطے کو برصغیر اس لیے کہا جاتا ہے کہجغرافیائیاور علم ارضیات کے مطابق یہبراعظمکے دیگر علاقوں سے مختلف اور الگ تھلگ ہے۔ لیکن اس کا اصلی اور تاریخی نام ہند ہی ہے۔ جو کہ اسے تاریخ سے ملا ہے۔ لفظ ہندو بھی لفظ ہند سے ہی نکلا ہے۔ اور پھر اسی ہندوستان کہے جانے لگا۔ ہند کو برصغیر سب سے پہلے غیر ہندیوں (جو ہند کی سرسبز و شاداب وادیوں اونچے پہاڑوں اور بڑے سحراؤں سے جلنے والوں) نے کہا کیوں کہ وہ ہندوستان کو بد امن کرکے اس میں طرح طرح کے فتنے کھڑے کرنا چاہتے تھے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم لوگ اپنی تاریخ بھول جائیں اور خود ہندی ہونے پر شرم محسوس کریں دراصل یہ ایک سازش ہے۔ وہ اس طرح طرح کی وجوہات بیان کرتے ہیں لیکن یہ سب صرف و صرف ایک پروپگنڈا ہے۔ اس علاقے کا صحیح اور تاریخی اور اصلی نام ہند یا ہندوستان ہی ہے۔ہندوستان میں مندرجہ ذیل ممالک شامل ہیں:جغرافیائی طور پر ہند کو ان حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:برصغیر کسی براعظم سے منسلک ایک وسیع علاقے کو کہتے ہیں، تاہم برصغیر کی کوئی واضح تعریف نہیں۔ اس کو ہند ہی کہا جانا چاہیے۔برصغیر کسی پہاڑی علاقے یا زمینی پرت کے ذریعے براعظم سے جدا علاقے کو کہہ سکتے ہیں، تاہم عام طور پر برصغیر کا مطلب جنوبی ایشیا یا برصغیر پاک و ہند ہی لیا جاتا ہے۔قشر ارضکی ساخت کے علم کے مطابق کسی چھوٹی براعظمی پرت کو پہاڑی سلسلوں کی بنا پر کسی بڑی براعظمی پرت سے الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے اسے برصغیر کہہ سکتے ہیں، یوں برصغیر براعظم ایشیا سے الگ انڈین پرت اور عربی پرت پر واقع ہے اور برصغیر کہلایا جا سکتا ہے۔
+795,پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پاکستان (رسمی نام:اسلامی جمہوریۂ پاکستان- انگریزی میں: PAKISTAN)جنوبی ایشیاکے شمال مغربوسطی ایشیااورمغربی ایشیاکے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختاراسلامیملکہے۔ یہ دنیا کاپانچواںسب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کیدوسریسب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کاتینتیسواں(33) بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کےجنوبمیں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جوبحیرہ عربسے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميںبھارت، شمال مشرق ميںچیناور مغرب ميںافغانستاناورايرانواقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگواخان راہداریتاجکستانسے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدودعمانکے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم تریندنیامیں وہ علاقے تھے جن میںموہنجوداڑواورانڈس سولائیزیشنمہر گڑھٹیکسلاپراچین سنسکرت دوراور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسےقندھاراتہذیبو تمدن تھی۔ اس علاقے پرپراچین راجپوتایرانییونانیعرب،بدھ مت،سکھ،مغل،ہن سفیداورترکحملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسےچندر گپت موریا،ہخامنشی سلطنتعربوں کیخلافت امویہ،مغلیہ سلطنت،درانی سلطنت،سکھ سلطنتاوربرطانوی راجکا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعدمحمد علی جناحکی قیادت میںتحریک پاکستانکامیاب ہوئی اور14 اگست1947ءکوہندوستانکے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اورخودمختاراسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین1956ءمیں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.1971ءمیں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملکبنگلہ دیشبن گیا۔پاکستانوفاقیپارلیمانیجمہوری ریاستکے تحت چلتا ہے۔ اس کےپانچ صوبے ہیں اور کچھ علاقے وفاقی حکومتکے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کیفوجدنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسریایٹمی طاقتہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 42https://www.worlddata.info/asia/pakistan/economy.phpویں نمبر پر ہے۔پاکستان کی تاریخفوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سے جھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملکمؤتمر عالم اسلامی،اقوام متحدہ،دولت مشترکہ ممالک،سارک،ترقی پذیر 8،اقتصادی تعاون تنظیمجیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔[7]پاکستان کے لفظی معنیپاک لوگوں کی سر زمینہے، پاک کےاردواورفارسیمیں معنی خالص اور صاف کے ہیں اورستانکا مطلب زمین یا وطن کا ہے-1933ءمیںچودھری رحمت علینے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہاب یا کبھی نہیںشائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔لفظپاکستاناس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔پپنجاب،اخیبر پختونخوا(افغانیہ)،ککشمیر،سسندھ،تانبلوچستان۔711ءمیںامویخلیفہولید بن عبدالملککے دور میںمحمد بن قاسمبرصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوںبرصغیر(موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑیعربریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کادار الحکومتدمشق، زبانعربیاور مذہباسلامتھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پرعربدنیاسے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اورجنوبی ایشیاکی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔سن1947ءسے پہلےبھارت، پاکستان اوربنگلہ دیشبرطانویکالونیاں تھیں اوربرّصغیرکے نام سے جانے جاتے تھے۔ہندوستان کی آزادی(انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران میںہندوستانکےمسلمانوںنے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ ""پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ"" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحتتحریک پاکستانوجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادتمحمد علی جناحنے کی۔14 اگست1947ءکو پاکستان وجود میں آیا۔تقسیمبرصغیر پاک و ہندکے دوران میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اوربھارتکے درمیان میں1948ءاور1965ءمیںکشمیرکے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریابھارتکے زیر انتظامکشمیرسے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو1960ءمیںانڈیاکے ساتھسندھ طاس معاہدہکرنا پڑا، جس کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاؤں،ستلج،بیاساورراویسے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہدریائے سندھ،چناباورجہلمپر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔1947ءسے لے کر1948ءتک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہبھارتنے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ریاست بہاولپورکے نوابصادق محمد خان پنجمنے اس وقت پاکستان کی مالی مدد کی۔پاکستان بطور برطانوی ڈامنینئن آزاد ہوا تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور پہلےوزیر اعظملیاقت علی خان تھے۔ پاکستان کی عبوری حکومت ١١ اگست ١٩٤٧ کو تشکیل دی گئی تھی۔ 1948 میں قائد اعظم ٹی بی سے وفات پا گئے۔1951ءمیں پستول کی گولی کا شانہ بنا کر[لیاقت علی خان]] کو شہید کر دیا گیا۔1951ءسے1958ءتک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔1956ءمیں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ1958ءمیں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیمجنرل ایوبکے دور آمریت میں بنائے گئے۔جنرل ایوبکے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکنمشرقی پاکستاندور ہوتا گیا۔1963ءمیں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگرمشرقی پاکستانکے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ایوب خانعوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علاحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انھوں نے حکومت اپنے فوجی پیش روجنرل یحییٰ خانکے حوالے کر دی۔1971ءکے عام انتخابات میںمشرقی پاکستانسے عوامی لیگ کی واضحکامیابیکے باوجود فوجی حکمرانیحییٰ خاننے اقتدار کی منتقلی کی بجائےمشرقی پاکستانمیں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہہندوستاننے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکاردسمبر1971ءمیںسقوط ڈھاکہہو گیا اورمشرقی پاکستانایک علاحدہ ملکبنگلہ دیشکی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔1972ءسے لے کر1977ءتک پاکستان میںپاکستان پیپلز پارٹیکی حکومت تھی۔ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے صدراور بعد ازاںوزیر اعظمرہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں ��شیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں1977ءمیں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔اگلا دور1977ءتا1988ءمارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمرانجنرل ضیا الحقتھے۔افغانستانمیں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں1985ءکے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے1988ءمیںضیاءالحقنے برطرف کر دیا-1988ءمیںصدر مملکتکا طیارہ گر گیا اورضیاءالحقکے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سےجمہوریتکا آغاز ہو گیا۔اس کے بعد1988ءمیں انتخابات ہوئے اوربينظير بھٹوکی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدرغلام اسحاق خاننے حکومت کو برطرف کر دیا۔1990ءمیںنواز شریفکی قیادت میںآئی جے آئیاور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔1993ءمیں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔اگلے انتخابات1993ءمیں ہوئے اور ان میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس وقت پاکستان کے صدرفاروق احمد خان لغاریتھے۔ صدر فاروق احمد خان لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔1997ءمیں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میںمسلم لیگ ناور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1999ءمیں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکتپرويز مشرفبنے اور2001ءمیں ہونے والے انتخابات کے بعدوزیر اعظمظفر اللہ خان جمالیبنے۔2004ءمیں جنرل مشرف نےشوکت عزیزکووزیر اعظمبنانے کا فيصلہ کیا۔ مختصر عرصہ کے لیےچوہدرى شجاعت حسيننےوزیراعظمکی ذمہ داریاں سر انجام دیں اورشوکت عزیزکےقومی اسمبلیکے ارکان منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔شوکت عزیزقومی اسمبلیکی مدت15 نومبر2007ءکو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16نومبر2007ءکو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔فروری2008ءمیں الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نےیوسف رضا گیلانیکو وزیر اعظم نامزد کیا، جنھوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔22 جون2012ءکویوسف رضا گیلانیکی نااہلی کے بعدراجہ پرویز اشرفنئے وزیر اعظم بنے۔مئی2013ءمیں عام انتحابات ہوئے جس میںپاکستان مسلم لیگ نایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کے تیسرے بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک اور وزیر اعظمنوازشریفکوپانامالیکسفیصلے میں تا حیات نا اہل قرار دے کر برطرف کر دیا اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کےشاہد خاقان عباسینئے وزیر اعظم بن گئے۔ 17 اگست 2018ء کوعمران خان176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔پاکستان کا اعلیٰ اساسی قانونآئین پاکستانکہلاتا ہے۔ آئین، پاکستان کا وہ اعلیٰقانونہے جو ریاست پاکستان کے اندر تمام اہم چیزوں اور فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔ ملک میں چار مرتبہمارشل لالگا جس سے دو مرتبہ آئین معطل ہوا، ایک مرتبہ1956ءکا آئین اور دوسری مرتبہ1962ءکا آئین۔1972ءمیںمشرقی پاکستانمیں مخالفین نے سازشیں کی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھ گئی جس کی نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اورمشرقی پاکستانبنگلہ دیش کے نام ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ اس وقت غور کیا گیا تو ملک ٹوٹنے کی بہت سے وجوہات تھیں۔ اسی بنا پر1973ءکا آئین بنایا گیا۔آئین بنان�� کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور آئین میں ہر شعبے اور اہم امور کے لیے اصول بنے، آئین میں ریاست کی تمام بڑے فیصلوں کے لیے قوانین بنائے گئے، حکومت اور ریاست کا پورا تشکیل بیان کیا گیا۔ مسودہ تیار ہونے کے بعد اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔پاکستانی سیاست کی بنیاد کوآئین پاکستاننے قائم کیا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان ایکجمہوریاورقومی ریاستہے۔ آئین پاکستان نے ایک وفاق اور اس کے ماتحت صوبائی حکومتیں قائم کی ہیں۔ آئین کا پہلا آرٹیکل بیان کرتا ہے کہ ""مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریت ہوگا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا""۔پاکستان کی مختلف علاقہ جات کے متعلق آئین پاکستان کا دوسرا آرٹیکل بیان کرتا ہے:پاکستان کے علاقے مندرجہ ذیل پر مشتمل ہوں گے:آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کوئی واضح حیثیت تو بیان نہیں کی گئی لیکن2009ءمیںقومی اسمبلیسے ایک اور بل منظور ہوا جس نے واضح طور پر گلگت بلتستان کو نیم-صوبے کا درجہ دیا اور یہاں باقاعدہ صوبائی حکومت کو قائم کیا گیا، جس کے تمام بنیادی شاخ (اسمبلی، عدلیہ، وزارتیں، وغیرہ) قائم کیے گئے۔[9]آئین نے مزید ملک میں دو قانون ساز ایوان قائم کیے ایکقومی اسمبلیاور دوسراسینٹ۔ قومی اسمبلی کی بنیاد آبادی کے لحاظ سے ہے یعنی جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں زیادہ نشستیں رکھی جائے گی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو براہ راست عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کے نشستیں دیے گئے ہیں چاہے صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سینٹ کے ارکان کو سینیٹر کہا جاتا ہے اور ان سینیٹرز کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے ووٹ سے منتخب کر سکتے ہیں۔کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کا سلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور، دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے، ایک نقطہ ذہن نشین کر لیں کہخارجہ پالیسیمیں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سےانڈونیشیاکے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایکایٹمی طاقتہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاص ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔پاکستان کی دفاع کا ذمہ ملک کے مسلح افواج پر ہے جس کی بنیادی طور پر تین شاخیں ہیں:1947ءمیںقیام پاکستانسے پہلے پاک عسکریہ، ہندوستانی فوج کا حصہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کےتاج برطانیہکے زیر اثرپہلی جنگ عظیماوردوسری جنگ عظیممیں بھی حصہ لیا ہے۔ تقسیمبرصغیرکے بعد ہندوستانی فوج پاکستان اوربھارتمیں بالترتیب 36% اور 64% کے تناسب میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت اعلان ہوا کہ کوئی بھی فوجی جس بھی فوج میں جانا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔ اس وقت بہت سے مسلمان فوجی، پاک عسکریہ میں شامل ہو گئے۔ تقسیم کے وقت بھارت میں 16 آرڈیننس فیکٹریاں تھیں جبکہ پاکستان میں ایک بھی نہیں تھی۔ اب پاکستان کافی حد تک دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہو گیا ہے۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔ فوج اداروں میںپاک فوج،پاک فضائیہاورپاک بحریہشامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میںفرنٹیئر کانسٹبلری،سرحد کور،پاکستان رینجرزشامل ہیں۔ پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنیپنجاباورسندھمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس لیے اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنیپنجاب رینجرزاورسندھ رینجرز۔ اسی طرحسرحد کوراورفرنٹیئر کانسٹبلریکو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہخیبر پختونخوااوربلوچستانمیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی ادارے کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائی گئی ہیں جن میںخیبر پختونخواپولیس،پنجابپولیس،سندھپولیس،بلوچستانپولیس،آزاد کشمیرپولیس اورگلگت بلتستانپولیس شامل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے، اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سر انجام دینا ہے اسی طرحموٹروےپولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔تحقیقات کے لیے وفاقی ادارۂ تحقیقات (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی مخابراتی ادارے (جیسےآئی ایس آئی، وغیرہ) موجود ہیں۔پاکستان ميں 5 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نےگلگت بلتستانکو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔
+صوبہ جات کی تقسیمیکم جولائی1970ءکو کی گئی۔صوبہ بلوچستانکا کل رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2011ءمیں آبادی 79 لاکھ 14 ہزار تھی۔صوبہ پنجابکا کل رقبہ 205,344 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2013ءمیں آبادی 10 کروڑ 10لاکھ تھی۔صوبہ خیبر پختونخواکا کل رقبہ 74,521 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ تھی۔صوبہ سندھکا کل رقبہ 140,914 مربع کلومیٹر ہے جبکہ2012ءمیں آبادی 4 کروڑ 24 لاکھ تھی۔گلگت بلتستان(سابق شمالی علاقہ جات) کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2008ء میں آبادی 18 لاکھ تھی۔جغرافیائی طور پر پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ پاکستان کاجغرافیہاور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیںجانوراورپرندےایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 796,095 مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقےپہاڑیہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریادریائے سندھہے۔ یہدریاپاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گذر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکنبلوچستانکاسبیعلاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اورشمالی علاقہ جاتمیں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادیزراعتکے شعبے سے منسلک ہے۔پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے، زمینی سرحد میں سے 2,430 کلومیٹر سرحدافغانستانکے ساتھ، 523 کلومیٹرچینکے ساتھ، 2,912بھارتکے ساتھ اور 909ایرانکے ساتھ لگا ہوا ہے۔پاکستان دنيا کا ايک ترقی پزیر ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات ميں فوج كى مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کوتعلیمسے محروم رکھنے کینفسیاتیاور خود غرضانہفطرت(تاکہبیگاراورسستے پڑاؤ (Labor Camp)قائم رکھے جاسکیں)، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيلیے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلےپاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعتپر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا[حوالہ درکار]۔ اِس وقت پاکستان کیمعيشتمستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے[حوالہ درکار]۔کراچی سٹاک ایکسچینجکےکے ايس سی انڈکسگزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے[حوالہ درکار]۔پاکستانآبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصداہل تشیع، 77 فيصداہل سنتاور تقریباً 3 فيصد ديگرفقہسے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ایک فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانیمسیحیمذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب وسرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔پاکستان کیقومی زباناردوہے، جبکہ زيادہ تر دفتری کامانگريزیميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اردو پاکستان کی عوامی و قومیزبانہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئی اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميںپنجابی،سرائیکی،سندھی،گجراتی،بلوچی،براہوی، پہاڑی،پشتواورہندکوزبانیں قابلِ ذکر ہيں۔پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پٹھان، بلوچی اورمہاجر قومہيں، ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مابین فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميںدراوڑ،آريا،ہن،ايرانی،يونانی،عرب،ترکاورمنگوللوگوں کی رياستوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھموسماورآب و ہواکا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايکاسلامی تہذيبکا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسيقی ملتی ہے۔کلاسيکی موسيقی،نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک، ان سب کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميںقوالیکا مرکز سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے جا رہے ہيں۔ يہ امرا اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جگہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکاؤاسلاماور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔پاکستانيوں کی بڑی تعدادامريکہ،برطانيہ،آسٹريليا،کینیڈااورمشرق وسطیميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہتسرمايہ کاریبھی کی ہے۔پاکستان کا سب سے پسنديدہکھيلکرکٹ ہے۔ پاکستان کیکرکٹٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميںہاکیبھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کےشمالی علاقہ جاتكے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدائش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھیلی جاتی ہے۔پاکستان میں سب سے عام لباسشلوار قمیضہے جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوںبلوچستان،پنجاب،سندھاورخیبر پختونخواسمیتقبائلی علاقہ جات،گلگت بلتستاناورآزاد کشمیرمیں پہنا جاتا ہے۔ تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمالاسکول،کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ اور ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔شیروانیکا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔پاکستانی خواتین میں بھی شلوار قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔پاکستان میں بہت سے ذرائع ابلاغ موجود ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔اس سے پہلےپی ٹی ویملک کا واحد چینل نیٹ ورک ہوتا تھا اور حکومت پاکستان اس نیٹ ورک کو چلا رہی تھی۔2002ءکے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 50 سے بھی زیادہ صرف نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نیوز، انٹرٹینمنٹ، ہیلتھ، ایجوکیشن، علاقائی اور بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتے ہیں تاہم ملک کے علاقائی زبانوں (پشتو،پنجابی،سندھی،بلوچی،کشمیری،سرائیکیوغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔پی ٹی وی ورلڈپاکستان کا پہلاانگریزیچینل ہے۔اردو فلم انڈسٹریلالی وڈکی صدر مقاماتلاہور،کراچیاورپشاورمیں واقع ہے۔ لالی وڈ نے اب تک بہت سے فلمیں ریلیز کی ہیں اور کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے عام اردو ڈراما سیریلز ہیں جو مختلف چینلز پر چلائے جاتے ہیں۔پاکستان کے فن تعمیرات ان مختلف عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مختلف ادوار میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔وادئ سندھ کی تہذیبکے شروع ہونے کے ساتھ ہی جو 3500قبل مسیحتھا، موجودہ پاکستان کے علاقے میں شہری ثقافت کا ارتقا ہوا جس میں بڑی عمارتیں تھیں جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے بعدگندھاراطرز کا بدھ طرز تعمیر آیا جس میں قدیمیونانکے اجزاء بھی شامل تہے۔ اس کے بقایا جاتگندھاراکے صدر مقامٹیکسلامیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان میں مغل اور انگریزی طرز تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں۔آزادی کے بعد کا فن تعمیر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی نئیحاصلکی گئی آزادی اور شناخت کو فن تعمیر کے ذریعے سے ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان خود کو جدید عمارتوں میں ظاہر کرتا ہے مثلاًفیصل مسجدجو وفاقی دار الحکومتاسلام آبادمیں واقع ہے اس مسجد کو1960ءمیں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں جیسےمینارپاکستان، سفید ماربل سے بنا مزار قائد اعظم۔ یہ عمارتیں نئی ریاست کی خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ملکی دار الخلافہ اسلام آباد میں موجود قومی یادگار تہذیب، آزادی اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔پاکستان میں اس وقت چھ (6) جگہیں ایسی ہیں جنہیں عالمی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال2012ءمیں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت1970ءکے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس،پشاور،کراچی،لاہور،سواتاورراولپنڈیتھیں۔ اس ملک کی حامل کشش جگہوں میں موہنجو داڑو،ٹیکسلااورہڑپہجیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لے کرکوہ ہمالیہکے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کےشمالی علاقہ جاتمیں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اورچترالکی وادیاں جو ایک چھوٹی سی غیر مسلم سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کوسکندر اعظمکی اولاد سے بتاتے ہیں۔پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقاملاہورمیں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسےبادشاہی مسجد، شالیمار باغ،مقبرہ جہانگیراورقلعہ لاہورشامل ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ (5) لاکھ سیاح آتے تھے۔ تاہم سال2008ءسے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورت حال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔اکتوبر2006ءمیںکشمیرکے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی کی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقاماتٹیکسلا،لاہور،شاہراہ قراقرم، کریم آباد اورجھیل سیف الملوکتہے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سےوادئ سندھ کی تہذیبکے موہنجو داڑو اورہڑپہجیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔پاکستانی کھانے جنوبی ایشیا کے مختلف علاقائی کھانوں کا حسین امتزاج ہیں۔ پاکستانی کھانوں میں شمالی ھندوستانی،وسط ایشیائیاور مشرق وسطیٰ کے کھانے شامل ہیں لیکن یہاں کے کھانوں میں گوشت کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میںاشیائے خور و ن��ش کے نامبہت آسان ہیں۔پاکستان میں ایک علاقے کے کھانے دوسرے علاقے کے کھانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں جس سے اس ملک کی ثقافتی اور لسانی تنوع جھلکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کھانے مصالحے دار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیا کے کھانوں کی خاصیت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے کھانے مثلاً خیبر پختونخوا، بلوچستان، قبائیلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور کشمیر کے کھانے بھی اپنی اپنی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بھی مختلف علاقائی رنگ غالب ہوتے ہیں۔پاکستان میں کھیلے جانے والے بیشتر کھیلوں کا آغازبرطانیہمیں ہوا اور برطانویوں نے انھیںہندوستانمیں متعارف کرایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس نے 1960ء، 1968ء اور 1984ء میں کھیلے گئے اولمپک کھیلوں میں تین سونے کے طمغے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ بھی چار بار جیتا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان نےہاکیکا عالمی کپ 1971ء، 1978ء، 1982ء اور 1994ء میں جیتا ہے۔ تاہم، کرکٹ پاکستان کا سب سے زیادہ مشہور کھیل ہے۔ پاکستان کرکٹ کے ٹیم، جنہیں شاہین کہا جاتا ہے، نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ 1999ءمیں شاھین دوسرے نمبر پر رہے۔ اور 1987ء اور 1996ء میں عالمی کپ کے مقابلے جزوی طور پر پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان ٹی 20 قسم کے کھیل کے پہلے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے جو سال 2007ء میںجنوبی افریقامیں کھیلا گیا تھا۔ اور سال 2009ء میں اسی قسم کے کھیل میں پہلے نمبر پر رہے اور عالمی کپ جیتا جوبرطانیہمیں کھیلا گیا تھا۔ سال 2009ء کے مارچ کے مہینے میں دہشت گردوں نےسری لنکاکے کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا جو پاکستان کے دورے پرلاہورمیں موجود تھی اور اسی کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ تاہم چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد مئی 2015ء میں عالمی کرکٹ پاکستان میں اس وقت بحال ہوئی جب زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ تمام مقابلے سخت حفاظتی حصار میںلاہورمیں ہوئے اور تمام مقابلوں کے لیے ٹکٹ سارے بک چکے تھے اور کرسیاں ساری بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس نے دوسری ٹیموں کے آنے کے لیے بھی راہ ہموار کر لی۔
+ورزشی کھیلوں میں عبد الخالق نے سال 1954ء اور سال 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس نے 35 سونے کے طمغے اور 15 عالمیچاندیاور پیتل کے طمغے پاکستان کے لیے حاصل کیے۔اسکواشمیں پاکستان کے شہرپشاورسے تعلق رکھنے والے کھلاڑیجہانگیر خانہیں جن کو عالمی معیار کا کھلاڑی اور کھیلوں کی تاریخ میں عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے اور ساتھ ہی جانشیر خان ہیں جنھوں نے عالمیاسکواشکے مقابلوں میں کئی بار پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج درمیانے سے لے کر اعلیٰ طبقے کے ليے مخصوص ہے۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں اپنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی حالت ابتر ہے۔ریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔چاند اور ستارہ جو روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
+چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔
+شیلڈ کے اردگرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔
+علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔پاکستان کی زیادہ تر آبادی ملک کی وسطی علاقوں میں ہے، ملک کے جنوب میں زیادہ آباد مقامات اکثردریائے سندھکے آس پاس پر واقع ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی والا علاقہکراچیہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔پاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کامانگریزیزبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہاردوپاکستان کی قومی زبان ہے۔پاکستان کی صوبائی زبانوں میںپنجابیصوبہ پنجاب،پشتوصوبہ خیبر پختونخوا،سندھیصوبہ سندھ،بلوچیصوبہ بلوچستاناورشیناصوبہ گلگت بلتستانمیں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔[13]پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں،آیر،سرائیکی زبان،بدیشی،باگڑی،بلتی،بٹیری،بھایا،براہوی،بروشسکی،چلیسو،دامیڑی،دیہواری،دھاتکی،ڈوماکی،فارسی،دری،گواربتی،گھیرا،گوریا،گوورو،گجراتی،گوجری،گرگلا،ہزاراگی،ہندکو،جدگلی،جنداوڑا،کبوترا،کچھی،کالامی،کالاشہ،کلکوٹی،کامویری،کشمیری،کاٹی،کھیترانی،کھوار،انڈس کوہستانی،کولی(تین لہجے)،لہندالاسی،لوارکی،مارواڑی،میمنی،اوڈ،اورمڑی،پوٹھواری،پھالولہ،سانسی،ساوی،شینا(دو لہجے)،توروالی،اوشوجو،واگھری،وخی،وانیسیاوریدغہشامل ہیں۔[14]ان زبانوں میں بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں- ي سرا سنکے عمران خان سب سے اچھا ہے2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دوبڑے شہرہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجابمیں، 22سندھمیں، 11خیبرپختونخوامیں، چھبلوچستانمیں، دوآزاد کشمیرمیں اور ایکاسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہمیں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرگلگتتھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+796,زبانِ رابطۂ عامہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D8%A7%D8%A8%D8%B7%DB%81_%D8%B9%D8%A7%D9%85%DB%81_%DA%A9%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,عام لوگ آپس میں افہام و تفہیم کے لیے استعمال کرنے والی زبان کوزبانِ رابطۂ عامہ(انگریزی: Lingua franca) کہتے ہیں۔ رابطہ کی زبان سے مراد ایسیزبانہے جسے ہر فرد با آسانی نہ صرف سمجھ سکے بلکہ اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکے۔ اس کی بہترین مثال ہماریاردوزبان ہے۔ اردو پاکستان کی قومی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک علمی، ثقافتی اور بڑی جامع زبان ہے۔یونیکوڈکے اعداد و شمار کے مطابق عام طور پر ب��لی اور سمجھی جانے والی زبانوں میںچینیاورانگریزیکے بعد اردو تیسری بڑی زبان ہے۔ کیونکہبرصغیرپاک و ہند اوردنیاکے دیگر خطوں میں 80 کروڑ سے زائد افراد اسے رابطہ کی زبان کی حیثیت سے استعمال کر رہے ہیں۔ اردو زبان کو سولہویں صدی سے ہی رابطہ کی زبان کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اپنے شروع کے ادوار میں اردو مختلف ناموں سے جانی جاتی رہی ہے۔
+798,دفتری زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D9%81%D8%AA%D8%B1%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,دفتری زبان سے مراد وہزبانہوتی ہے جسے حکومتی سطح پر کسیملک،ریاستیاعلاقےمیں خاص قانونی مقام دیا گیا ہو۔ زیادہ واضح طور پر، کسی ملک کی دفتری زبان وہ زبان کہلاتی ہے جسے حکومت (انتظامیہ،عدلیہ،مقننہوغیرہ) میں استعمال کیا جاتا ہو۔[1]واضح رہے کہ کسی ملک کے باشندے عموماً جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ دفتری زبان نہیں کہلاتی۔[2]دنیابھر میں موجود 254 ممالک میں سے ہر ملک کم از کم اپنی ایک دفتری زبان رکھتا ہے، جبکہ ان میں سے 101 ممالک نے ایک سے زائد دفتری زبانیں اختیار کی ہیں۔ تاہم جن ممالک میں دفتری زبان اختیار نہیں کی گئی وہاں حکومتی اداروں میں عموماًقومی زباناستعمال کی جاتی ہے۔انگریزیدنیا میں سب سے زیادہ دفتری زبان کے طور پر استعمال ہوتی ہے، 51 ممالک میں انگریزی کو دفتری زبان کا درجہ دیا گیا ہے جبکہعربی،فرانسیسی،اورہسپانویزبانیں بھی بڑے پیمانے پر اختیار کی گئی ہیں۔
+800,مادری زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%A7%D8%AF%D8%B1%DB%8C_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86,مادری زبان(انگریزی:Native Language/Mother Language) یازبانِ اولیا نسلی زبان، آبائی زبان یا پیدائشی زبان کسیانسانکی اس زبان کو کہا جاتا ہے جس کو وہ بچپن میں ماں باپ سے سیکھ لے اور اس زبان کو بطور زبانِ اول اختیار کر لے۔
+801,ہندوستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"ہندوستان(فارسی: هندوستانتلفظ(معاونت·معلومات)) جس کا تلفظ (ہندُوستان یا ہندوستاں) سے ہوتا ہے، اس کی مختصر شکلہند(هند) ہے،[1]جو ہندوستان کے لیےفارسیمیں بھی مستعمل ہے، بڑے پیمانے پربرصغیر ہند؛ جسے بعد میں اس کے باشندوں نےہندی–اردو (ہندوستانی)میں استعمال کیا۔[2][3][4][5]برصغیر کے دیگر ناموں میںجمبُو دویپ،بھارتاور انڈیا شامل ہیں۔تقسیم ہندکے بعد؛ یہجمہوریہ ہندکے تاریخی نام کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔[6][7][8]ہندوستان کا ایک ثانوی معنی شمالی ہندوستان میںہند گنگا میدانکے لیے جغرافیائی اصطلاح کے طور پر ہے۔[9]ہندستانفارسیلفظہندوسے ماخوذ ہے، جو سنسکرت کےسندھوکے مشابہ ہے۔[10]ایسکو پرپولاکے مطابقپروٹو-ایرانیآواز کیسسےہمیں تبدیلی 850-600 قبل مسیح کے درمیان واقع ہوئی۔[11]لہذا،رگ ویدیسپت سندھو(سات دریاؤں کی زمین[پنجاب])اوستامیںہپت ہندوبن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ""پندرھواں ڈومین"" ہے، جسےاہورا مزدانے بنایا ہے، بظاہر 'غیر معمولی گرمی' کی سرزمین۔[12]515 قبل مسیح میںدارا اولنےوادی سندھکو شامل کیا جس میںسندھو(آج کل کاسندھ) بھی شامل تھا، جسے فارسی میںہندوکہا جاتا ہے۔[13]خشیارشا اولکے زمانہ میں ""ہندو"" کی اصطلاح سندھ کے مشرق کی زمینوں کو بھی شامل ہوتی تھی۔[10]درمیانی فارسیمیں غالباً پہلی صدی عیسوی سے-ستان(جائے، جگہ) کا اضافہ کیا گیا، جو کسی ملک یا خطے کی نشان دہی کرتا ہے، موجودہ لفظہندوستانکی تشکیل دیتا ہے۔[14]اسی طرحت262 عیسوی میںشاہپور اولکے نقشِ رستم نوشتہ میں سندھ کوہندوستانکہا گیا ہے۔[15][16]مورخبرتندر ناتھ مکھرجیبیان کرتے ہیں کہ زیریں سندھ طاس سے، ""ہندوستان"" کی اصطلاح آہستہ ��ہستہ ""کم و بیش پورےبرصغیرمیں پھیل گئی""۔ گریکو رومن نام ""انڈیا"" اور چینی نام ""شین ٹو"" نے بھی اسی طرح کے ارتقا کی پیروی کی۔[15][17]عربی اصطلاحہند؛ جو فارسیہندوسے ماخوذ ہے، عربوں نےمکرانکے ساحل سے انڈونیشیا کے جزیرہ نما تک ہندوستانی خطے کے لیے استعمال کیا تھا۔[18]لیکن آخر کار اس کی شناخت بھی برصغیر پاک و ہند سے ہوئی۔""ہندوستان"" اکثر جدید دورجمہوریہ ہندکے لیے استوتا ہے۔[19][7][8]اصطلاح میں شامل نعرے عام طور پر کھیلوں کے پروگراموں اور دیگر عوامی پروگراموں میں سنائے جاتے ہیں، جن میں ٹیمیں یا ادارے شامل ہوتے ہیں، جو ہندوستان کی جدید قومی ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مارکیٹنگ میں ہندوستان نام؛ عام طور پر اشتہاری مہموں میں قومی اصل کے اشارے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور یہ بہت سے کمپنی کے ناموں میں بھی مستعمل ہے۔پاکستانکے بانیمحمد علی جناحاور ان کی جماعتمسلم لیگنے ہندو اکثریتی آبادی کے حوالے سے جدید دور کی جمہوریہ ہند کو ""ہندوستان"" کہنے پر اصرار کیا۔[20]ہندوستان میں ہندوستانی بولنے والوں کے درمیان ایک استعمال میں مذہبی نسبت سے قطع نظر؛ 'ہندوستانی' اصطلاح سے مراد انڈین (ہندوستان کا باشندہ) ہے۔ غیر ہندستانی بولنے والوں مثلاً بنگالی بولنے والوں میں ""ہندوستانی"" کا استعمال؛ ان لوگوں کی وضاحت کے لیے کیا جاتا ہے، جو اوپری گنگا سے ہیں، مذہبی وابستگی سے قطع نظر؛ بلکہ ایک جغرافیائی اصطلاح کے طور پر۔ہندوستانیکو بعض اوقات جنوبی ایشیا میں لاگو ہونے والینسلیاصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے (مثال کے طور پر،جنوبی ایشیامیں جڑیں رکھنے والا ماریشیا یا سورینام کا آدمی اپنی نسل کو یہ کہہ کر بیان کر سکتا ہے کہ وہ ""ہندوستانی"" ہے)۔ مثال کے طور پر 'ہندستانینایکولندیزیلفظ ہے، جونیدرلینڈزاورسریناممیں جنوب ایشیائی نژاد لوگوں کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ہندوستانی زبانہندوستان کی زبان ہے اور برصغیر پاک و ہند کیزبانِ رابطۂ عامہہے۔[21]ہندوستانیمغربی اتر پردیش/مغربی یوپیاوردہلیکے علاقوں کیپرانی ہندیبولی سے ماخوذ ہے۔ اس کی ادبی معیاری شکلیں—-سنڌي جديد زبانجدید معیاری ہندیاورجدید معیاری اردو—مختلف رسم الخط استعمال کرتی ہیں۔ خود ہندی رجسٹر نے اپنا نام مختصر شکلہند(انڈیا) سے اخذ کیا ہے۔[22]–بابر نامہ، اے ایس بیوریج، انگریزی ترجمہ، جلد.1، سیکشن. iii: 'ہندوستان'[23]ابتدائی فارسی علما کو ہندوستان کی حد تک محدود علم تھا۔ اسلام کی آمد اوراسلامی فتوحاتکے بعد؛ہندوستانکے معنی نے اس کی عربی شکلہندکے ساتھ تعامل کیا، جو فارسی سے بھی ماخوذ تھا اور تقریباً اس کا مترادف بن گیا۔ عربوں نے، سمندری تجارت میں مصروف، مغربی بلوچستان میںتیسسے لے کر انڈونیشیا کے جزیرہ نما تک کی تمام زمینوں کوہندکے تصور میں شامل کیا، خاص طور پر جب اس کی وسیع شکل میں ""الہند"" کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ہندوستانلفظ نے اس وسیع معنی کو حاصل نہیں کیا۔ آندرے وِنک کے مطابق، اس نے وہ امتیاز بھی حاصل نہیں کیا، جو مٹ گیا،سندھ(تقریباً جو اب مغربی پاکستان ہے) اورہند(دریائے سندھ کے مشرق کی سرزمینوں) کے درمیان؛[4][18][24]دوسرے ذرائع بتاتے ہیں کہسندھاورہندکو ابتدائی زمانے سے مترادف استعمال کیا جاتا تھا۔[25]اور یہ کہہندوستان میں اسلامی حکومت کی آمدکے بعد؛ ""پورے برصغیر کے لیے ہند اور سندھ مترادفات کے طور پر استعمال کیے گئے۔""[26]10ویں صدی کے متنحدود العالمنے ہندوستان کو تقریباًبر صغیر پاک و ہندکے طور پر بیان کیا ہے، جس کی مغربی حد دریائے سندھ سے بنتی ہے، جنوبی حد بحیرہ عظیم تک جاتی ہے اور مشرقی حدکاماروپا، موجودہ آسام میں ہے۔[17]اگلی دس صدیوں تک،ہنداورہندوستاندونوں برصغیر میں بالکل اسی معنی کے ساتھ استعمال ہوتے رہے، اس کے ساتھ ان کی صفتہندَوی،ہندوستانیاورہندیاستعمال ہوتی رہی۔[27][28][29]درحقیقت 1220 عیسوی میں مؤرخحسن نظامی نیشاپورینےہندکو ""پشاورسےبحر ہندکے ساحلوں تک اور دوسری سمت میںسیستانسےچینکی پہاڑیوں تک بتایا۔""[30]11 ویں صدی میں شروع ہونے والی ترک-فارسی فتوحات کے ساتھہندوستانکا ایک تنگ معنی بھی شکل اختیار کر گیا۔ فاتحین برصغیر کے باقی حصوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے زیر تسلط زمینوں کوہندوستانکہنے کے ذمہ دار تھے۔[31]11ویں صدی کے اوائل میںپنجابمیںسلطنت غزنویہکی ایکسیٹیلائٹ ریاستجس کا دار الحکومتلاہورتھا، کو ""ہندوستان"" کہا جاتا تھا۔[32]دہلی سلطنتکے قیام کے بعد، شمالی ہندوستان، خاص طور پر گنگا کے میدانی علاقوں اور پنجاب کو ""ہندوستان"" کہا جانے لگا۔[31][33][34][35]اسکالر برتیندر ناتھ مکھرجی کا کہنا ہے کہہندوستانکا یہ تنگ معنی وسیع معنی کے ساتھ ساتھ موجود تھا اور بعض مصنفین نے ان دونوں کو بیک وقت استعمال کیا ہے۔[36]مغلیہ سلطنت(1526ء–1857ء) نے اپنی سرزمین کو 'ہندوستان' کہا۔ 'مغلیہ' اصطلاح خود کبھی بھی زمین کے لیے استعمال نہیں ہوئی۔ جیسے جیسے سلطنت پھیلی، اسی طرح 'ہندوستان' بھی پھیل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ 'ہندوستان' کے معنی پورےبرصغیر ہندکے طور پربابر نامہاورآئین اکبریمیں بھی پائے جاتے ہیں۔[37]آخریگورکھائیبادشاہپرتھوی ناراین شاہنے خودسلطنت نیپالکااصل ہندوستانکے طور پر اعلان کیا؛ کیوں کہ شمالی ہندوستان پر اسلامیمغل حکمرانوںکی حکومت تھی۔ خود اعلان ان کے دور حکومت میں ہندو سماجی ضابطہدھرم شاسترکو نافذ کرنے اور اپنے ملک کوہندووںکے لیے قابل رہائش قرار دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس نے شمالی ہندوستان کومغلان(مغلوںکا ملک) بھی کہا اور اس خطہ کو مسلمان غیر ملکیوں کی دراندازی قرار دیا۔[38]یہ دوہری معنی یورپیوں کی آمد کے ساتھ برقرار رہے۔جیمز رینلنے 1792 میں ’’میموئیر آف اے میپ آف ہندستان‘‘ کے عنوان سے ایکاطلستیار کیا، جو درحقیقت برصغیر پاک و ہند کا نقشہ تھا۔ اس طرح رینل نے تین تصورات،انڈیا،ہندوستاناورمغل سلطنتکو آپس میں ملا دیا۔[39][40]جے برنولی، جن کے لیے ہندوستان کا مطلب مغلیہ سلطنت تھا، نے اپنے فرانسیسی ترجمہ کو La Carte générale de l'Inde (ہندوستان کا عمومی نقشہ) کہا۔[41]برطانوی حساب کا یہ 'ہندوستان' انگریزوں کے زیر اقتدار علاقوں (جسے کبھی کبھی 'انڈیا' بھی کہا جاتا ہے) اور مقامی حکمرانوں کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔[42]تاہم برطانوی حکام اور مصنفین کا خیال تھا کہ ہندوستانی 'ہندوستان' کا استعمال صرف شمالی ہندوستان کے لیے کرتے ہیں۔[43][35]1886ء میں شائع ہونے والی ایکاینگلو-انڈین ڈکشنریمیں کہا گیا ہے: جب کہ ہندوستان کا مطلب انڈیا ہے، ""مقامی زبان"" میں یہبہاراوربنگالکو چھوڑ کردریائے نرمداکے شمال میں واقع علاقے کی نمائندگی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔[34]تحریک آزادی کے دوران، ہندوستانیوں نے اپنی سرزمین کو تینوں ناموں سے پکارا: 'انڈیا'، 'ہندوستان' اور 'بھارت'۔[44]محمد اقبالکی نظمترانۂ ہندیہندوستانی آزادیکارکن۔محمد اقبالکی نظمترانۂ ہندیتحریک آزادی ہندکے کارکنوں میں ایک مقبول حب الوطنی کا ترانہ تھا۔[45]سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا(روئے زمیں پر سب سے بہتر ہمارا ہندوستان ہے۔)آل انڈیا مسلم لیگکی 1940 کیقرارداد لاہور(جسے قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے) نےبرطانوی ہندکے شمالِ مغرب اور شمالِ مشرق میں مسلم اکثریتی علاقوں کے لیے خود مختاری کا مطالبہ کیا، جسے مقبولیت میں 'پاکستان' کہا جانے لگا۔ بول چال اور بقیہ ہندوستان کو 'ہندوستان' کہا جانے لگا۔[46]برطانوی حکام نے بھی ان دونوں اصطلاحات کو منتخب کر لیا اور انھیں سرکاری طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔[19]تاہم 'ہندوستان' کےہندووںکی سرزمین کے مضمر معنی کی وجہ سے یہ نام ہندوستانی لیڈروں کی منظوری پر پورا نہیں اترا۔ ان کا اصرار تھا کہ نئےڈومینین آف انڈیاکو 'ہندوستان' نہیں بلکہ 'انڈیا' کہا جانا چاہیے۔[47]غالباً اسی وجہ سے 'ہندوستان' نام کوہندوستان کی دستور ساز اسمبلیکی سرکاری منظوری نہیں ملی، جب کہ 'بھارت' کو سرکاری نام کے طور پر اپنایا گیا۔[48]تاہم یہ تسلیم کیا گیا کہ 'ہندوستان' غیر سرکاری طور پر استعمال ہوتا رہے گا۔[49]بھارتی مسلح افواجنام کا سلامی ورژن، ""جے ہند"" کو جنگ کی پکار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔[1]پروفیسر اشتیاق احمد ظلی۔ پروفیسر عبد العظیم اصلاحی۔ پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی۔ پروفیسر الطاف احمد اعظمی۔ ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی۔ مختار احمد اصلاحی۔ ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی۔23°59′40″N67°25′51″E / 23.99444°N 67.43083°E /23.99444; 67.43083"
+802,مسلمان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86,"بسلسلہ مضامین:اسلامتوحید اللہایمان بالملائکہایمان بالکتبایمان بالرسل والانبیاءایمان بالیوم الآخرایمان بالقدرشهادة أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمد رسول اللہنماززکوۃصوم (روزہ)حجالقرآن الکریمسنت نبویہ•احادیث اہل بیتاجماع اقوال العلماء•قیاساجتہادمحمد رسول اللہانبیائے کرام•اہل بیتصحابائے کرام•خلفائے راشدینالائمہ•امہات المؤمنیناہل سنت والجماعت(سلفیہ•اشعریہ•ماتریدیہاہل تشیع(زیدیہ•امامیہ)خوارج(ازارقہ•نجدات•صفریہ•اباضیہ)کلامیہ(مرجئہ•معتزلہ•جہمیہ•حروریہ)دیگر فرقےمقدس شہرمکہ مکرمہمدینہ منورہ•بيت المقدسمقدس مقاماتمسجد الحراممسجد نبوی•مسجد اقصٰیاسلامی خلافتخلافت راشدہخلافت امویہ•خلافت عباسیہخلافت قرطبہ•خلافت موحدیہخلافت فاطمیہ•خلافت عثمانیہاسلامی فتوحاتمکہ•شام•ایرانمصر•مغرب•اندلس•گلقسطنطنیہ•جنوبی اطالیہ•برصغیراسلامی عیدیںعید الفطر•عیدالاضحیٰاسلامی مناسباتمیلاد النبی•عاشورہاسلامی نیا ساللیلۃ القدرشب براتاسراء ومعراجیورپ میں اسلامافریقا میں اسلامایشیا میں اسلامامریکین میں اسلاماوقیانوسیا میں اسلاماسلامی تہذیباسلام اور دیگر مذاہبعالم اسلامباب:اسلاممسلمان(عربی:مسلم، مسلمة)، (فارسی: مسلمان)، (انگریزی:Muslim) سے مراد وہ شخص ہے جو دینِاسلامپر یقین رکھتا ہو۔ اسلام کا لغوی معنیاللہکے سامنے سرتسلیم خم کرنا۔[1]اگرچہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق اسلام خدا کا دین ہے اور یہ دینحضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے بھی موجود تھا اور جو لوگ اللہ کے دین پر عمل کرتے رہے وہ مسلمان ہیں۔ مثلاًقرآنکے مطابق حضرتابراہیم علیہ السلامبھی مسلمان تھے۔ مگر آج کل مسلمان سے مراد اسے لیا جاتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر عمل کرتا ہو اور یقین رکھتا ہو۔ کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان انبیا کے آخر میں آئے ہیں اور آخری قانون پر عمل ہوتی باقیہ خود بخود منسوخ ہو جاتے ہے۔پہلے پہل جو لوگ مسلمان ہوئے وہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اس طریقہ سے کوئی بھی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ جب کوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا رسول مان لے تو اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ ان کی ہر بات پر ایمان رکھے اور عمل کرنے کی کوشش کرے۔اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے مفہوم ""کہ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرے۔مثلاً انھوں نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور یہ کہ وہ خدا کے آخری رسول ہیں تو اس بات پر ایمان رکھنا اسلام کے فرائض میں سے ہے۔اگر کوئی نافرمانی کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔اسلام کے بنیادی عقائد جن پر مسلمانوں کے کسی فرقہ میں کوئیاختلافنہیں، درج ذیل ہیں• اچھی اور بری تقدیر پر ایمان کہ جو کچھ بھی اس کائنات میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے۔
+اوپر دی گئی چیزوں پر ایمان رکھنے والے کو مسلمان کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اختلافات فروعی و سیاسی ہیں۔قرآن میں بیان شده نام و صفاتاِسرافیل•جَبرَئیل (جِبریل، روحالامین)وروح القدس•عِزرائیل (مَلَکُالموت)•میکائیل(میکال) •ہاروت و ماروت•مالکاِبلیسیاشَیطان•عِفریت•خناسحور•غلمان و ولدانآدم•اِبراہیم (خلیلالله)•اِدریس•اِسحاق•اِسماعیل (ذبیحالله)اوراسماعیل صادق الوعد•اِلیاس (اِلیاسین)•اَلْیَسَع•اَیّوب•داؤد•ذوالکِفل•زَکریّا•سُلیمان•شُعیب•صالِح•عُزَیر•عِمران بن ماثان (مریم کے باپ)•عیسیٰ مَسیح (روح الله)•لوط•محمّدیااحمداور دیگر اسماء و صفات نبوی•موسیٰ (کلیمالله)•نوح•ہارون•ہود•یحییٰ•یَعقوب (اسرائیل)•یوسُف•یونُس (ذو النّون، صاحِب الحوت)اِرمیاء بن حلقیّا•سَموئیل (اُشْموئیل)•یوشَع بن نونذوالقرنین•طالوت•لُقمان•مَریَمآسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)•آصِف بن بَرخیا•بِلقیس (ملکہ سَبَأ)•بِنیامین•فرعون کے جادوگر•حبیب النجار (مؤمن آلیاسین)•خِضر•شَمعون الصَّفا (شمعون فطرس)•کالِب بن یوفَنّا (یوشع کا ساتھی)•مؤمن آل فرعون(حزبیل/حزقیل بن صبورا)آزَر (ابراہیم کا باپ یا چچا)•جالوت•سامری•فِرعون•قارون•ہامانابرہہ•بخت نصر•بَرصیصا•بلعم بن باعوراء•پوتیفار(عزیز مصر) •پولس•زُلِیخا یا راعیل (عزیز مصر کی بیوی)•شَدّاد•شَمعون بن یعقوب•ناقہ صالح کے قاتل (قدار بن سالف)ومصدع بن دہر(مصدع بن مہرج) •نمرود•ولید بن ریّان یا آمنحوتپ چہارم آخِناتون (زمانہ یوسف میں بادشاه مصر )ابولَہب•زید بن حارثہاسلام کے بعد کے بہت سے اچھے اور برے افراد کے بارےقرآنمیں اشارہ موجود ہےاِلیصابات یا الیشبع (زوجہ زکریّا)•حَوّا (زوجہ آدم)•ساره (زوجہ ابراہیم، مادر اسحاق)•صَفورا (زوجہ موسیٰ)ولیا (بہن صفورا)•کُلثُم یا کُلثوم یا مریم (بہن موسیٰ)•ہابیل(فرزند آدم) •یوکابِد (مادر موسیٰ)•بیٹیاں لوط (ریثاء اور زعوراء)متلی بنت نمریا ابیونا (مادر ابراہیم) •بت سُوع یا بت سبع (زوجہ داؤد)•فرزند لقمان•تارخ(باپ ابراہیم) •حَنّہ (حَنّا) بنت فاقوذ (مادر مریم)•بیٹیاں محمد•راحیل(زوجہ یعقوب) •رَحمہ (زوجہ ایّوب)•شمخا بنت انوش(مادر نوح) •عِمران (باپ موسیٰ)•لمک بن متوشلخ•ہاجَرہ (زوجہ ابراہیم، مادر اسماعیل)آزَر (چچا یا باپ ابراہیم)•اُمّجَمی�� (زوجہ ابولہب)•قابیل(فرزند آدم) •کنعان بن نوح(فرزند نوح) •واہلہ (زوجہ نوح)•والِعہ یا واعِلہ (زوجہ نوح)•ازواج محمد•برادران یوسُف•سلیمان کا مردہ بیٹا•فرزندان ایّوباصحاب رَسّ•رومیان•قُریش•بنی اسرائیل•عربوعجم•قوم اِلیاس (اِلیاسین)•قوم ابراہیم•قوم تُبَّع•قوم ثَمود (قوم صالح، اصحاب حِجر)•قوم شُعیب(اصحاب مَدیَن (اہل مدین)واصحاب اَیکہ) •قوم سَبَأ•قوم عاد (قوم ہود)•قوم لوط (مؤتفکات)•قوم نوح•قوم یونُس•یأجوج و مأجوجاہلبیت•ایرانی•بنی امیہ•بنی قُریظہ•بنی قَینُقاع•بنی نَضیر•بنی ہاشم•عمالقہ(قوم)اسباط•اسباط بنی اسرائیل•اصحاب اخدود•اصحاب الجنت(سوختہ باغ والے) •اصحاب السبت•اصحاب سفینہ نوح•اصحاب الفیل•اصحاب القریۃ (اصحاب یاسین)•اصحاب کہفورقیم•اہل یَثربیااہل مدینہ•حواریان (انصار عیسیٰ)•بارہ نقیب (بنی اسرائیل)آل ابراہیم•آل داؤد•آلعمران•آل لوط•آلموسیٰوآلہارون•آلیعقوب•اهل نوح•پیغمبران اولوا العَزْماصحاب صُفّہ•اصحاب عقبہ•اہل قبا•اہل مکّہ•امت اسلام (امت محمد)•بنو اوسوبنو خزرج•مہاجرینوانصار•حزب الله•قبطی (آلفرعون، قوم فرعون)اہل ذِمّہ•اہل کتاب•صابئین•کافر•مَجوس (زرتشتی)•مسلمان•مشرکین•منافقین•نصاریٰ (اہل انجیل، عیسائی)•یہودی•اَحبار (علمائے یہود)•رَبّانیّون (عالمان دین)•رَہبان (مسیحی عابدان و زاہدان)•قِسّیسین (مسیحی علماء)اَحقاف•ارض مقدس(فلسطینوشام) •اِرَم•باب حطہ•بابل•بَدر•حِجر•حُنَین•رَسّ•سَبَأ•طور سینا (طور سینین، کوه طور)•عرفاتومشعر الحرام•کعبہ(بیت الحرام، بیت العتیق) •کوه جودی•کوه صفاومروه• مجمع البحرین •مَدیَن•مدینہ(پیشتریَثرب) •مسجد الأقصیٰ•مسجد الحرام•مسجد ضِرار•مِصر•مقام ابراہیم•مَکّہ (بَکّہ، بَلَد الأمین، اُمّالقریٰ)•مؤتفکہ (سدوم)•وادیِ طُویٰانطاکیہ(انتاکیہ) •ایلہ•بہشت شَدّاد•بیت المقدسواریحا•بینالنہرین•حِجْرِ اِسماعیلوحَجَرُ الأسوَد•حُدَیبیّہ•دار الندوة•دریائے اردن•دریائے فلسطین•دریائے نیل•ذو القَرنین ڈیم•مَأرِب ڈیم•صحرائے سیناوتیہ•طائف•غار حَراوغار ثور•غار اصحاب کہف•مسجد قُباومسجد النبی•نینوا•کنعانبیعہ (کلیسا)•صَلات (کنیسہ، کنشت)•صومعہ(دِیر) •مِحراب•مسجداِنجیل عیسیٰ•تورات(صحف موسیٰ) •زَبور داؤد•صُحُف ابراہیم•قَرآن محمّدابابیل•اصحاب کہف کا کتا•صالحکا اونٹ •بنی اسرائیل کی گائےاورسنہری بچھڑا•یونس کی مچھلی•سلیمان کا ہدہدآتش نمرود•الواح موسیٰ•تابوت بنی اسرائیل (صندوق عہد)•تخت بلقیس•درخت ممنوعہ آدم•صور اسرافیل•عصائے موسیٰ•کشتی نوح•حواریوں کا آسمانی مائدہبَعل•لات،عُزّیٰومَنات•وَدّ،سُواع،یَغوث،یَعوقونَسر• (جِبتوطاغوت•اَنصاب)حجۃ الوداع•صلح حدیبیہ•عمرۃ القضا•غدیر خم•غزوه اُحُد•غزوه اَحزاب (خندق)•غزوه بَدر•غزوہ تبوک•غزوه حُنَین•غزوہ خیبر•فتح المبین•فتح مکہ•لیلۃ المبیت•واقعہ افک•مباہلہکا واقعہ •یوم الدار"
+803,فارسی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D8%A7%D8%B1%D8%B3%DB%8C,"فارسی/پارسیایکہند-یورپی زبانہے جوایران،افغانستاناورتاجکستانمیں بولی جاتی ہے۔ فارسی کوایران،افغانستاناورتاجکستانمیںدفتری زبانکی حیثیت حاصل ہے۔ایران،افغانستان،تاجکستاناورازبکستانمیں تقریباً12کروڑافراد فارسی زبان کو سمجھ اور بول سکتے ہیں۔فارسیعالمِ اِسلاماور مغربی دُنیا کے لیےادباورسائنسمیں حصہ ڈالنے کا ایک ذریعہ رہی ہے۔ ہمسایہ زبانوں مثلاًاُردوپر اِس کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ تاہمعربیپر اِس کا اثر و رُسوخ کم رہا ہے۔ اور پشتو زبان کو تو مبالغہ کے طور پر فارسی کی دوسری شکل قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ دونوں کےقواعدزیادہ تر ایک جیسے ہیں۔برطانوی استعمار سے پہلے فارسی کوبرّصغیرمیں دوسری زبان کا درجہ حاصل تھا؛ اِس نےجنوبی ایشیاءمیں تعلیمی اور ثقافتی زبان کا امتیاز حاصل کیا اورمُغلدورِ حکومت میں یہ سرکاری زبان بنی اور1835ءمیں اس کی سرکاری حیثیت اور دفتری رواج ختم کر دیا گیا۔1843ءسےبرصغیرمیںانگریزیصرف تجارت میں استعمال ہونے لگی۔ فارسی زبان کا اِس خطہ میں تاریخی رُسوخہندوستانیاور دوسری کئی زبانوں پر اس کے اثر سے لگایا جا سکتا ہے۔ خصوصاًاُردوزبان، فارسی اور دوسری زبانوں جیسےعربیاورتُرکیکے اثر و رُسوخ کا نتیجہ ہے، جومُغل دورِ حکومتمیں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان ہے۔ فارسی زبان ہندوستان کیتہذیبو تمدن کا ایک اہم حصہ رہی ہے اور اکبرشاہکے دور میں ترجمے کا ایک شعبہ قائم ہوا تھا، جہاں فارسی کی نادر و نایاب کتابوں کا سنسکرت زبان میں اورسنسکرتکی کتابوں کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا جاتا تھا۔ایران میں سرکاری زبان فارسی ہے، ایران میں مزید سات زبانیں سرکاری طور پر تسلیم شدہ علاقائی زبانیں ہیں: آذربائیجانی ، کوردی ، لوری، مازندرانی ، گیلکی ، بلوچی اور عربی.[15][16][17][18][19]اشتقاقی طور پر، فارسی اصطلاح فارسی زبان کی ابتدائی شکل پارسی (مشرق فارسی میں پارسک) سے ماخوذ ہے۔ اسی عمل میں، درمیانی فارسی اسم پارس(""فارس"") جدید نام فارس میں ارتقا کرگیا۔[20]صوتیاتی تبدیلی /پ/ سے /ف/ میں قرون وسطی میں عربی کے زیرِاثر کی وجہ سے ہے، کیوں کہ معیاری عربی میں صوتیہ /پ/ کی کمی کی وجہ سے ہے۔[21][22][23][24]یہ لفظ آج بھی ایران والے اپنی زبان کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ خصوصاً اسے ایرانی فارسی یا مغربی فارسی کہا جاتا ہے۔[25][26]افغانستانکی معیاری فارسی کو 1958 سے سرکاری طور پر دری کا نام دیا گیا ہے۔ اسے درجہ بندے کے لحاظ سے افغان فارسی بھی کہا جاتا ہے، یہ پشتو کے ساتھ افغانستان کی دو سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ دری کی اصطلاح، جس کا مطلب ہے ""عدالت کی""، اصل میں دار الخلافہ میں ساسانی سلطنت کے دربار میں استعمال ہونے والی فارسی کی مختلف اقسام کا حوالہ دیا گیا، جو سلطنت کے شمال مشرق میں پھیلی ہوئی تھی اور آہستہ آہستہ پارتھیا (پارتھیان) کے سابقہ ایرانی لہجوں جگہ لے لی۔ )[50][51]تاجک فارسی (форси́и тоҷикӣ́, forsi-i tojikī)، تاجکستان کی معیاری فارسی، کو سوویت اتحاد کے زمانے سے ہی سرکاری طور پر تاجک (тоҷикӣ, tojikī) کے طور پر نام زد کیا گیا ہے۔[15] یہ عام طور پر وسطی ایشیا میں بولی جانے والی فارسی کی اقسام کو دیا جانے والا نام ہے۔[52]اہل علم خصوصاً پاکستانی مدارس میں بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے۔ اسکول و کالجز میں بھی اس کا نصاب میں تھوڑا بہت درجہ رکھا گیا ہے۔ مفکر پاکستانعلامہ محمد اقبالکی مشہور شاعری کا بہت زیادہ حصہ فارسی زبان میں ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کی جانب سےعلامہاقبال کو فارسی شاعری کے ساتھ لگاؤ کی وجہ سے محبت میں اپنا قومی شاعر قرار دلوانے کی کوشش پرپاکستانکی جانب سے اپنا قومیشاعربرقرار رکھا جانا ہے۔پاکستانمیں فارسی کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ تاہم بد قسمتی ہے جب سےانگریزی زبان��ےپاکستانمیں2001ءکے بعد زور پکڑا تو دیگر زبانوں کے ساتھ فارسی زبان سے بھی لگاؤ ماند پڑ گیا۔ تاہم علما و دینی مدارس سے وابستہ لوگ تو اس سے عشق کی حد تک جنون رکھتے ہیں۔ علما کو اس زبان پر زبردست عبور حاصل ہے۔فارسی،ایرانی زبانوںکےمغربی گروہسے تعلق رکھتی ہے جوہند-یورپیزبانوں کی ایک شاخ ہے اورفاعل-مفعول-فعلقسم کی ہے۔ عام خیال کے برعکس یہ سامی زبان نہیں ہے۔[27]"
+804,انگریزی زبان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C,"انگریزی(English)انگلستاناورامریکاسمیت دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر بولی جانے والی زبان ہے، جو متعدد ممالک میںبنیادی زبانکے طور پر بولی جاتی ہے، جبکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں ثانوی یاسرکاری زبانکی حیثیت رکھتی ہے۔ انگریزیدنیامیں سب سے زیادہ پڑھی اور سمجھی جانے والی زبان ہے، جبکہ عمومی طور پر یہ دنیا بھر میں رابطے کی زبان سمجھی جاتی ہے۔مادری زبان کے طور پردنیاکی سب سے بڑی زبانجدید چینیہے، جسے 70 کروڑ افراد بولتے ہیں، اس کے بعد انگریزی ہے جو اکثر لوگ ثانوی یا رابطے کی زبان کے طور پر بولتے ہیں، جس کی بدولت دنیا بھر میں انگریزی بولنے والے افراد کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے۔دنیا بھر میں تقریباً 35 کروڑ 40 لاکھ افراد کی ماں بولی زبان انگریزی ہے، جبکہ ثانوی زبان کی حیثیت سے انگریزی بولنے والوں کی تعداد 15 کروڑ سے ڈیڑھ ارب کے درمیان میں ہے۔پاکستان،انڈیااوربنگلہ دیشمیں یہ زبان آہستہ آہستہ وسعت پکڑ رہی ہے۔
+انگریزی زبان پاکستان اور بھارت کیسرکاری زبانبھی ہے۔انگریزیمواصلات،تعلیم،کاروبار،ہوا بازی، تفریحات،سفارت کاریاورانٹرنیٹمیں سب سے موزوںبین الاقوامیزبان ہے۔ یہ1945ء،میںاقوام متحدہکے قیام سے اب تک اس کی باضابطہ زبانوں میں سے ایک ہے۔انگریزی بنیادی طور پر ایک مغربی جرمینک زبان ہے، جو قدیم انگلش سے بنی ہے۔سلطنتِ برطانیہکی سرحدوں میں توسیع کے ساتھ ساتھ یہ زبان بھی انگلستان سے نکل کرامریکا،کینیڈا،آسٹریلیا،نیوزی لینڈسمیت دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی اور آجبرطانیہکی سابق نو آبادیوں میں سے اکثر میں یہ سرکاری زبان کے طور پر رائج ہے۔پاکستان،گھانا،بھارت،نائجیریا،جنوبی افریقا،کینیا،یوگینڈااورفلپائنبھی انگریزی بطور سرکاری زبان کی فہرست میں شامل ہیں۔سلطنتِ برطانیہ کی وسیع سرحدوں کے باوجود انگریزیبیسویں صدیتک دنیا میں رابطے کی زبان نہیں تھی، بلکہ اسے یہ مقامدوسری جنگ عظیممیں امریکا کی فتح اور دنیا بھر میں امریکی ثقافت کی ترویج کے ذریعے حاصل ہوا، خصوصاً ذرائع مواصلات میں تیز ترقی انگریزی زبان کی ترویج کا سب سے بڑا سبب بنی۔5.Fruits name[مردہ ربط]"
+805,جموں وکشمیر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%85%D9%88%DA%BA_%D9%88_%DA%A9%D8%B4%D9%85%DB%8C%D8%B1,"جموں و کشمیرایک بااختیار ریاست تھی۔ جس کا بیشتر علاقہہمالیہکے پہاڑی سلسلے پر پھیلا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر کی سرحدیں جنوب میںہماچل پردیشاورپنجاب، بھارت، مغرب میںپاکستاناور شمال اور مشرق میںچینسے ملتی ہیں۔ پاکستان میں بھارت کے قبضے میں علاقے کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
+جموں و کشمیرجموں، وادیکشمیر،لداخاور گلگت بلتسان میں منقسم ہے۔بھارت کے زیر انتظامسری نگراس کا گرمائی اور جموں سرمائی دار الحکومت ہے۔اور پاکستان کے زیر انتظاممظفر آباددار الحکومت ہے۔وادی کشمیراپنے حسن کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے جبکہ ۔ لداخ جسے ""تبت صغیر"" بھی کہا جاتا ہے، اپنی خوبصورتی اوربدھثقافت کے باعث جانا جاتا ہے۔ ریاست جموں اینڈ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاہم ہندو، بدھ اورسکھبھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔جموں اینڈ کشمیر کا کل رقبہ 85806 مربع میل ہے جو اس وقت چار حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ جسے ""آزاد کشمیر"" کا نام دیا گیا ہے دوسراگلگت بلتستان، یہ دونوں پاکستان کے زیر قبضہ ہیں۔ تیسرا اور سب سے بڑا حصہ جموں اور سی نگر انڈیا کے قبضے میں پے جبکہ چوتھا حصہ جو اقصائی چن کا علاقہ ہے وہ1962ءکی انڈیا چین جنگ میں چین نےبھارتسے چھین لیا۔اور1335مربع میل پاکستان نے چائینہ کو گفٹ کیا3 جون 1947ء کو تقسیم ہند کو منصوبہ پیش کیا گیا جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ راج برطانیہ کے زیر قبضہ ہندوستانی ریاستوں کو مذہبی اکثریت کی بنیاد پر انڈیا اور پاکستان کے ساتھ شمولیت کا حق حاصل ہو گا لیکن اگر کوئی ریاست خود مختار رہنا چاہے تو اسے مکمل آزادی کا حق حاصل ہو گا۔یہ فیصلہ ہندوستانی ریاستوں کے متعلق ہوا تھا جبکہ ریاست کشمیر کبھی ہندوستان کے حصہ نہیں رہی۔ مہاراجا ہری سنگھ نے انڈین اور پاکستانی سربراہان کو خطوط لکھے جس میں ان کو آگاہ کیا گیا کہ جموں کشمیر خود مختار ریاست رہے گی اور آپ سے مکمل سفارتی و تجارتی تعلقات بحال رہیں گے ان خطوط کا جواب پاکستان نے تو دے دیا لیکن بھارت نے وقت مانگا جبکہ 14اگست 1947ء کو پاکستان بنا15اگست کو بھارت اور 16اگست کو پاکستان نے ریاست جموں کشمیر کے مہاراجا ہری سنگھ کے ساتھ معائدہ جاریہ کیا۔لیکن 21 اور 22 اکتوبر 1947ء کی درمیانی شب کو پاکستان اس معائدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 10000مسلح قبائل جن کی پشت پنائی ریگولر آرمی کر رہی تھی نے جموں[4]کشمیر پر حملہ کر دیا جس کے بعد مہاراجا ہری سنگھ کو مجبورا انڈیا سے مدد مانگنی پڑی۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر انڈیا نے شرط رکھی کہ مہاراجا پہلے اپنی ریاست کا الحاق انڈیا سے کرے اس کے بعد انڈیا مدد کرے گا۔ اس صورت حال میں مہاراجا نے اس شرط پر معاہدہ کیا کہ یہ عارضی الحاق ہے۔ ریاست جموں کشمیر کا مستقل فیصلہ ریاست کے عوام کریں گے۔اس کے بعد دونوں ممالک نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔ بعد ازاں اقوام متحدہ نے مداخلت کر کے جنگ بندی کروائی۔اس وجہ سے جموں کشمیر ستر سال سے زائد عرصے سے دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث تقسیم ہند کے قانون کی رو سے یہ پاکستان کا حصہ ہے جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔علاقہ عالمی سطح پر متنازع قرار دیا گیا ہے۔اقوام متحدہ اور باقی بڑی اہم عالمی تنظیموں نے جموں کشمیر کے حق آزادی کو تسلیم کیا ہے۔اور سلسلے اپنی ثالثی کی پیش کی ہے۔بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں وادی کشمیر میں مسلمان 95 فیصد، جموں میں 33.45 فیصد اور لداخ میں 46.41 فیصد ہیں۔ جموں میں ہندو 62.55 فیصد اور سکھ 3.28 فیصد ہیں اور لداخ میں بودھ 39.65 فیصد اور ہندو 12.11 فیصد ہیں۔اور پاکستان کے زیر انتظام میں 99.9 مسلمان ہیں۔ جموں کشمیر کا شرح خواندگی 98 فیصد سے زائد ہے۔جموں کشمیر کے لوگ اپنی بہترین صلاحیتوں کے باعت جموں کشمیر،انڈیا،پاکستان اور بیرون ممالک میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔اور مختلف شعبہ زندگی میں اپنی صلاحتیوں کے جوہر دیکھا رہے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ یہ لوگ اپنے طور جموں کشمیر کی تحریک آزادی کو کامیاب کرنے میں ہر سطح پر حصہ ڈال رہے ہیں۔تحریک آزادی کو کمزور کرنے کے لیے 5 اگست 2019ء کو بھارت نےآئین ہند کی دفعہ 370کو ختم کرنے اور ریاست کو دویونین علاقوںمیں تقسیم کر دیا۔متنازع علاقے کو اپنا علاقہ لکھ دیا – لیکن اس کے بعد تحریک آزادی مزید شدید ہو گئی ہے۔عوام کے اس شدید رد عمل کے باعث بھارت نے پوری وادی میں سخت کرفیو نافذ کر دیا۔ ریاست بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل اور موبائل کنیکشن بند اور مقامی سیاسی لیڈروں کو گرفتار کیا گیا۔[5]گھر گھر تلاشی کے دوران ہزاروں بے گناہ نوجوانوں اور نوعمر لڑکوں کو گرفتار کرکے غائب کر دیا ہے۔بھارت کے ان پیش قدمی کے اقدام کی وجہ سے چین بھارت، بھارت پاکستان سرحدی تنازعات بڑھ رہے ہیں۔ سنجیدہ ماہرین کے مطابق اگر کشمیر کا حل جلد نہ کیا گیا تو یہ تیسری بڑی عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن کر کروڑوں لوگوں کی موت کا باعث بن سکتی ہے۔جس کے اثرات صدیوں ختم نہیں ہوں گے۔"
+806,پنجاب، پاکستان,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%A8%D8%8C_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86,"پنجابپاکستانکا ایک صوبہ ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پنجاب میں رہنے والے لوگپنجابیکہلاتے ہیں۔ پنجاب جنوب کی طرفسندھ، مغرب کی طرفخیبرپختونخوااوربلوچستان، شمال کی طرفکشمیراوراسلام آباداور مشرق کی طرف ہندوستانی پنجاب اورراجستھانسے ملتا ہے۔ پنجاب میں بولی جانے والی زبان بھی پنجابی کہلاتی ہے۔ پنجابی کے علاوہ وہاں کردستانی ،بلوچوں اورعربینژادوں کی کافی تعداد ہے۔ پنجاب کا دار الحکومتلاہورہے۔ پنجاب سب سے بڑا بارہ کروڑ آبادی والا صوبہ ہے۔پنجابفارسىزبان كے دو لفظوںپنجبمعنی پانچ(5) اورآببمعنی پانی سے مل کر بنا ہے۔ان پانچ درياؤں كے نام ہيں:پنجاب کا صوبائی دار الحکومت لاہور، پاکستان کا ایک ثقافتی، تاریخی اور اقتصادی مرکز ہے جہاں ملک کی سنیما صنعت اور اس کے فیشن کی صنعت ہے۔عید الفطر،عید الاضحی،شبِ براتاورعید میلاد النبیپنجاب کے علاوہ پورے پاکستان میں خاص تہوار ہیں اور پورے جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ ان تہواروں کے علاوہرمضانکا پورا مہینہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔
+مگر بسنت ایک ایسا تہوار ہے جو پنجاب سے منسلک ہے۔ یہ تہوار بہار کے موسم کو خوش آمدید کہنے کا ایک خاص طریقہ ہے۔ جس میں لوگپتنگاڑا کر اور پنجاب کے خاص کھانے بن ا کر اور کھا کراس تہوار کو مناتے ہیں۔ مگر بہت سے لوگ بسنت منانے کے خلاف ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے کئی معصوم لوگ اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔پنجاب رقبے کے لحاظ سےبلوچستانکے بعدپاکستانکا دوسرا بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ 205,346 مربع کلومیٹر (79,284 مربع میل) ہے۔ یہ پاکستان کے کل رقبے کا 25.8 فیصد ہے۔ صوبہ پنجاب کی سرحد جنوب میںسندھ، جنوب مغرب میںصوبہ بلوچستان، مغرب میںصوبہ خیبر پختونخواہاور شمال میںاسلام آباددار الحکومت اورآزاد کشمیرسے ملتی ہے۔ پنجاب کی سرحدیں شمال میںجموں و کشمیراور مشرق میںبھارتیریاستپنجاباورراجستھانسے ملتی ہیں۔دار الحکومت اور سب سے بڑا شہرلاہورہے جو پنجاب کے وسیع علاقے کا تاریخی دار الحکومت تھا۔ دیگر اہم شہروں میںفیصل آباد،راولپنڈی،گوجرانوالہ،سرگودھا،ملتان،سیالکوٹ،بہاولپور،گجرات،منڈی بہاؤالدین،شیخوپورہ،جہلماورساہیوالشامل ہیں۔ پنجاب کی جغرافیہ میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کے پانچوں بڑے دریاؤں کا گھر ہے۔ وہ پانچ دریا یہ ہیں:اس کے علاوہ اس خطے میںریگستانبھی موجود ہیں جو پاک بھارت سرحد کے قریب ہیں خاص طور پر بھارتی صوبےراجستھانکے پاس۔ دیگر ریگستانوں میںصحرائے تھلاورصحرائے چولستانشامل ہیں۔فر��ری سے پہلے پنجاب میں بہت سردی ہوتی ہے اور پھر اس مہینے سے موسم میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے اور موسم خوشگوار ہونے لگتا ہے۔ مارچ اور اپریل میں بہار کا موسم رہتا ہے اور پھر گرمیاں شروع ہونے لگتی ہیں۔گرمیوں کا موسم مئی سے شروع ہوتا ہے تو ستمبر کے وسط تک رہتا ہے۔ جون اور جولائی سب سے زیادہ گرم مہینے ہیں۔ سرکاری معلومات کے مطابق پنجاب میں C°46 تک درجہ حرارت ہوتا ہے مگر اخبارات کی معلومات کے مطابق پنجاب میں C°51 تک درجہ حرارت پہنچ جاتا ہے۔ سب سے زیادہ گرمی کا ریکارڈ ملتان میں جون کے مہینے میں قلمبند کیا گیا جب عطارد کا درجہ حرارت C°54 سے بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ برسات یا مونسون کا موسم بھی جون سے شروع ہو کر ستمبر تک رہتا ہے۔ ستمبر کے اواخر میں گرمی کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اکتوبر کے بعد پنجاب میں سردی کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں دسمبر اور جنوری میں شدید دھند پڑتی ہے، جس کے باعث ملکی و غیر ملکی آمد و رفت متاثر ہوتی ہے۔یہ صوبہپاکستانکی نصف سے زیادہ آبادی کا گھر ہے اور یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ذیلی قومی ادارہ ہے اورچیناوربھارتکے بعد سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے۔ پاکستان میں پنجاب میں غربت کی شرح سب سے کم ہے، حالانکہ صوبے کے شمالی اور جنوبی حصوں کے درمیان تقسیم موجود ہے۔ صوبے کے خوش حال شمالی حصے میں واقعضلع سیالکوٹمیں غربت کی شرح 5.63% ہے، جب کہ غریب ترین جنوبی میں واقعضلع راجن پورمیں غربت کی شرح 60.05% ہے۔پنجاب کی زبانیں(2017ء مردم شُماری)[1]پنجاب میں بولی جانے والی بڑی مادری زبانپنجابیہے، جو ملک میں بولی جانے والی سب سے بڑی زبان کی نمائندگی کرتی ہے۔ پنجابی کو پنجاب کی صوبائی زبان کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن قومی سطح پر پاکستان کے آئین میں اسے کوئی سرکاری سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پنجابی سے گہرا تعلق رکھنے والی کئی زبانیں اس خطے میں بولی جاتی ہیں۔ پنجاب کے جنوبی حصے میں اکثریتی زبانسرائیکیہے جبکہ شمال میںہندکواورپوٹھواری لہجہبولنے والے ہیں۔پشتوبھی پنجاب کے کچھ حصوں میں بولی جاتی ہے، خاص طور پراٹک،میانوالیاورراولپنڈیکے اضلاع میں۔پنجاب میں مذاہبِ (2017 مردم شُماری)[2][3]پنجاب (پاکستان) کی آبادی کا تخمینہ 110,012,942 ہے، جس میں 2017ء کی مردم شماری کے مطابق، 107,558,164 یعنی (92%)مسلمانہیں۔ سب سے بڑی غیر مسلم اقلیت عیسائی ہیں اور ان کی آبادی 2,068,233 یعنی (2.5%) ہے۔ ہندو تقریباً 220,024 افراد ہیں یعنی آبادی کا (0.8%)۔ دیگر اقلیتوں میں سکھ، پارسی اور بہائی شامل ہیں۔حکومت پنجاب،پاکستانکے وفاقی ڈھانچے میں ایک صوبائی حکومت ہے، جو صوبہ پنجاب کے دار الحکومتلاہورمیں واقع ہے۔وزیر اعلیٰ(سی ایم) کوپنجاب کی صوبائی اسمبلیمیں صوبائی حکومت کے سربراہ کے طور پر کام کرنے کے لیے منتخب کرتی ہے۔ موجودہ وزیر اعلیٰچوہدری پرویز الٰہیہیں جو 26 جولائی 2022ء کو قومی اسمبلی سے منتخب ہوئے۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی صوبہ پنجاب کے منتخب نمائندوں کی یک ایوانی مقننہ ہے جو پاکستان میں لاہور میں واقع ہے۔ یہ اسمبلیآئین پاکستانکے آرٹیکل 106 کے تحت قائم کی گئی تھی جس کی کل 371 نشستیں تھیں، جن میں سے 66 خواتین کے لیے اور آٹھ غیر مسلموں کے لیے مخصوص تھیں۔"
+807,خلیجی ممالک,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D9%84%DB%8C%D8%AC%DB%8C_%D9%85%D9%85%D8%A7%D9%84%DA%A9,"خلیجی ممالکخلیج فارسکے آس پاس واقعمشرق وسطیٰ ممالککے سات ممالک کو کہا جاتا ہے۔ان میں سعودی عرب، عراق، کویت،بحرین، متحدہ عرب امارات،عمان اور قطر شامل ہیں۔ یہ تمام ممالک معدنی تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور ان کی معشیت میں معدنی تیل کی برآمد بنیادی حثیت رکھتی ہے۔خلیج فارس کیعرب ریاستیںساتعرب ریاستیں ہیںجوخلیج فارس سےملحق ہیں ، یعنیبحرین،کویت،عراق،عمان،قطر،سعودی عرباورمتحدہ عرب امارات(متحدہ عرب امارات)۔[1][2][3]عراق کے علاوہ یہ تمام ریاستیںخلیج تعاون کونسل(جی سی سی) کا حصہ ہیں ،[4]اور خلیج فارس کے تاریخی نام کی بجائے "" عربی خلیج "" کی اصطلاح کو استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔[5]کچھ ریاستیں منتخب پارلیمنٹس کے ساتھآئینی بادشاہتیںہیں۔بحرین(مجلس الوطنی) اورکویت(مجلس اُمت) کے پاس ارکان کے ذریعہ منتخب ارکان کے ساتھ مقننہ ہیں۔سلطنت عمان میں ایک مشاورتی کونسل (مجلس ایشوریہ) بھی ہے جو مقبول طور پر منتخب کی جاتی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں ، سات بادشاہی امارات پر مشتمل فیڈریشن ، فیڈرل نیشنل کونسل صرف ایک مشاورتی ادارہ کے طور پر کام کرتی ہے ، لیکن اب اس کے کچھ ارکان کو ایک انتخابی کالج کے ذریعے منتخب کیا گیا ہے جو سات حکمرانوں کے نامزد کردہ ہیں۔ سعودی عرب محدود سیاسی نمائندگی کے ساتھ موروثی بادشاہت بنی ہوئی ہے ۔ قطر میں ، ایک منتخب قومی پارلیمنٹ تشکیل دی گئی ہے اور اسے نئے آئین میں لکھا گیا ہے ، لیکن انتخابات ابھی باقی ہیں۔[6]خلیج فارس کی عرب ریاستیں ثقافتی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہیں۔اسلامبیشتر ثقافتی روایات اور رسم و رواج کو تشکیل دیتا ہے۔خلیج عرب خطے میں صابن اوپیرا اہم قومی تفریحی مقام ہیں۔رمضان المبارک کےوقت یہ سب سے زیادہ مشہور ہیں ، جب کنبےروزے افطارکرنے جمع ہوتے ہیں۔ ان صابن بیشتر اوپیرا میں سے زیادہ ترکویتمیں مقیم ہیں۔ کویت کے صابن اوپرا خلیج فارس کے علاقے میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے صابن اوپیرا ہیں۔ اگرچہ عام طور پر کویتی بولی میں پیش کیا جاتا ہے ، لیکن انھیںتیونس کیحد تک کامیابی کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔[7]تھیٹر ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن صابن اوپیرا کی شکل میں کویتی مقبول ثقافت پروان چڑھتی ہے اور خلیج فارس کی پڑوسی عرب ریاستوں میں برآمد ہوتی ہے۔[8][9]خلیج فارس کے خطے میں ٹیلی ویژن کی سب سے اہم پروڈکشن میں دارب ال زلاگ ، خالتی گماشا اور رقیہ وا سبیکا کا نام ہے۔ کویت کو وسیع پیمانے پر خلیج فارس کے عرب ریاستوں کا ثقافتی دار الحکومت سمجھا جاتا ہے ، عربی ٹیلی ویژن کے صابن اوپیرا اور تھیٹر کی مقبولیت کی وجہ سے اسے اکثر ""خلیج کاہالی ووڈ"" کہا جاتا ہے۔[28]مشرقی عرب کے ساحلکے باسی اسی طرح کی ثقافتوں اور موسیقی کے اسلوب میں شریک ہیں جیسے فجیری ، صوت اور لیوا۔ مشرقی عرب کے عربوں کی سب سے نمایاں ثقافتی خصلت ان کی سمت سمندر کی طرف ہے ۔[29]چھوٹی عرب ریاستوں میںسمندریتوجہ مرکوز زندگی کا نتیجہ سمندر پر مبنی معاشرے کا ہوا ہے جہاں روایتی طور پر سمندری صنعتوں میں معاش حاصل ہوتا ہے۔1981 میں جی سی سی کی تشکیلسے قبل ، ""خلیجی"" کی اصطلاح مکمل طورپر مشرقی عرب کے باشندوں کےلیے استعمال کی گئی تھی۔[30]تاریخی طور پر ، ""خلیجی"" کا مطلب ہے کہ اچھوفھاگی کی اولاد ، ساحل پر رہنے والے ""مچھلی کھانے والے""۔[31]جغرافیائی طور پر ، عربی بولنے والا صرف مشرقی عرب ہے۔[32][33]خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں پریس کی آزادی کے مختلف درجے ہیں ، کویت نے ایک زندہ دل پریس کے ساتھ لیگ میں سرفہرست ہے جوفریڈم ہاؤساوررپورٹرز بغیر سرحدوں کےمطابق ، خلیج کے فارس کے اپنے ہم منصبوں کے مقابلے میں کافی زیادہ آزادی ح��صل کرتا ہے۔ دونوں تنظیمیں کویت کے پریس کو خلیج فارس کی تمام عرب ریاستوں میں سب سے زیادہ آزاد قرار دیتی ہیں اور در حقیقت عرب دنیا کے تین آزاد ترین پریس میں شامل ہیں۔[34]علاقائی صفوں میں قطر اور عمان بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔خلیج فارس کی چھ عرب ریاستیں ایک غیر مستحکم خطے میں واقع ہیں اور ان کی چھ حکومتیں ، کامیابی اور کوشش کی مختلف ڈگریوں کے ساتھ ، اپنے ہی ممالک اور دوسرے ممالک میں قیام امن کی کوشش کریں۔ تاہم ، خلیج فارس خطے کے عرب ممالک - خاص طور پر سعودی عرب اور قطر - پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہحماساوراخوان المسلمونجیسے اسلامی عسکریت پسندوں کو مالی اعانت فراہم کرنا ہے۔[35]انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس (آئی ای پی) کے 2016 کے عالمی امن انڈیکس کے مطابق ، چھ حکومتوں نے اپنی اپنی سرحدوں کے مابین امن کو برقرار رکھنے میں مختلف درجات کی کامیابی حاصل کی تھی جس کے تحت قطر اپنے علاقائی ساتھیوں میں سب سے پر امن علاقائی اور مشرق کی حیثیت سے ایک نمبر پر ہے۔ مشرقی قوم (اور دنیا بھر میں 34 ویں نمبر پر) جبکہ کویت علاقائی اور مشرق وسطی دونوں خطوں میں دوسرے نمبر پر ہے (اور دنیا بھر میں 51) اس کے بعد متحدہ عرب امارات کے بعد تیسرے نمبر پر ہے (دنیا بھر میں 61)۔ان تمام عرب ریاستوں کو پٹرولیم سے اہم آمدنی حاصل ہے۔متحدہ عرب اماراتکامیابی کے ساتھ معیشت کو متنوع بنا رہا ہے ۔ متحدہ عرب امارات کیمجموعی قومیپیداوار کا 79٪ غیر تیل شعبوں سے آتا ہے۔[36]دبئی کی جی ڈی پی میں تیل صرف 2 فیصد ہے۔[37]بحرین میں خلیج فارس کی پہلی ""بعد از تیل"" معیشت موجود ہے کیونکہ بحرینی معیشت تیل پر انحصار نہیں کرتی ہے۔ 20 ویں صدی کے آخر سے ، بحرین نےبینکاریاورسیاحت کےشعبوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔[38]ملک کا دار الحکومتمنامہ میںبہت سارے بڑے مالی ڈھانچے ہیں۔ بحرین اور کویت میں ایک اعلیانسانی ترقیاتی انڈیکس ہے(دنیا بھر میں بالترتیب 45 اور 48 کا درجہ) اورعالمی بینکنےاعلی آمدنی والی معیشتوں کےطور پر تسلیم کیا۔اس کے علاوہ ، چھوٹی ساحلی ریاستیں (خاص طور پر بحرین اور کویت) تیل سے پہلے تجارت اور تجارت کے کامیاب مراکز تھے۔ مشرقی عرب میں بھی موتی کے اہم کنارے تھے ، لیکن موتیوں کی صنعت 1930 کی دہائی میں جاپانی سائنس دانوں کے ذریعہ موتیوں کے مہذب طریقوں کی نشو و نما کے بعد منہدم ہو گئی۔[حوالہ کی ضرورت]ورلڈ بینک کےمطابق ، ان عرب ریاستوں میں سے بیشتر جی ڈی پی کے حصہ کے طور پر دنیا کی سب سے فراخدلی امداد دینے والے رہے ہیں۔[39]"
+808,یورپ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE,"یورپیافرنگستان(انگریزی: Europe) دنیا کے سات روایتی براعظموں میں سے ایک ہے تاہمجغرافیہدان اسے حقیقیبراعظمنہیں سمجھتے اور اسےیوریشیاکا مغربیجزیرہ نماقرار دیتے ہیں۔ اصطلاحی طور پرکوہ یورالکے مغرب میں واقع یوریشیا کا تمام علاقہ یورپ یا فرنگستان کہلاتا ہے۔یورپ کے شمال میںبحر منجمد شمالی، مغرب میںبحر اوقیانوس، جنوب میںبحیرہ روماور جنوب مشرق میں بحیرہ روم اوربحیرہ اسودکو ملانے والے آبی راستے اورکوہ قفقازہیں۔ مشرق میں کوہ یورال اوربحیرہ قزوینیورپ اورایشیاکو تقسیم کرتے ہیں۔فرنگستانرقبےکے لحاظ سےآسٹریلیاکو چھوڑ کر دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کا رقبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر ہے جو زمین کے کل رقبے کا صرفدوفیصد بنتا ہے۔ یورپ سے بھی چھوٹا واحد براعظمآسٹریلیاہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ تیسرا سب سے بڑا براعظم ہے ��س کی آبادی 71 کروڑ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 11 فیصد بنتا ہے۔Within the above-mentioned states are severalدرحقیقتindependent countries withمحدود تسلیم شدہ ریاستوں کی فہرست۔ None of them are members of the UN:Several dependencies and similar territories with broad autonomy are also found within or in close proximity to Europe. This includes Åland (aفن لینڈ کے علاقہ جات)، two constituent countries of the Kingdom of Denmark (other than Denmark itself)، threeتاج توابع، and twoبرطانوی سمندر پار علاقے۔ Svalbard is also included due to its unique status within Norway, although it is not autonomous. Not included are the threeمملکت متحدہ کے ممالکwith devolved powers and the twoپرتگال کے خود مختار علاقہ جات، which despite having a unique degree of autonomy, are not largely self-governing in matters other than international affairs. Areas with little more than a unique tax status, such asHeligolandand theجزائر کناری، are also not included for this reason."
+809,جنوبی ایشیا,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%A8%DB%8C_%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7%D8%A1,"جنوبی ایشیابراعظمایشیاکے جنوبی علاقوں کو کہا جاتا ہے جوبرصغیر پاک و ہنداور ان سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ (مغرب سے مشرق کی جانب)مغربی ایشیا،وسط ایشیا،مشرقی ایشیااورجنوب مشرقی ایشیاکے درمیان واقع ہے۔جس کے ایک طرف دنیا کا تیسرا بڑا سمندری حصہبحر ہندہے۔اور دوسری جانب قدرتی طور پر بلند ترین دنیا کی چھت تصور کیا جانے والا پہاڑی سلسلہ ہمالیہ جو نیپال سے لے کر بشمول پاکستان اور وسط ایشیا تک چلا جاتا ہے یہ ایک طویل ترین قدر خلیج بھی ہے۔جو برصغیر اور چائنہ کو الگ کرتی ہے
+جنوبی ایشیا جن ممالک پر مشتمل ہے : ان میںعلاوہ ازیں ثقافتی وجوہات کی بنا پر کبھی کبھارتبت(عوامی جمہوریۂ چین) کو بھی جنوبی ایشیا میں شمار کیا جاتا ہے[6][7]برصغیر کی اصطلاح اس علاقے کے لیے استعمال ہوتی ہے جوہندی پرتپر قائم ہے جس کے شمال میںیوریشین پرتہے۔ جبکہ سیاسی اصطلاح کے طور پر یہ نامبرصغیرکے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس میں ہندی پرت کے باہر کے علاقے بھی شامل کیے جاتے ہیں خصوصاًافغانستانجس کے اپنے پڑوسیپاکستانکے ساتھ سیاسی، سماجی و نسلی (پشتون) طور پر قدیم تعلقات ہیں۔ جبکہ پاکستان میںدریائے سندھکے مغرب میں واقع علاقے تاریخی وجوہات کی بنا پر کبھی کبھاروسط ایشیامیں شمار کیے جاتے ہیں۔ جس کی ایک مثالبلوچستانہے جو ہندی پرت پر قائم نہیں بلکہسطع مرتفع ایرانکے کناروں پر واقع ہے۔چونکہ جنوبی ایشیا تاریخ میں ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے اس لیے یہاں کی ثقافت بھی مختلف قوموں کے ملاپ سے بنی ہے۔ تاہم اکثریتہندو متاوراسلامپر ایمان رکھتی ہے اس لیے جنوب ایشیائی ثقافت پر دونوں مذاہب کی گہری چھاپ ہے۔جنوبی ایشیا دنیا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ تقریباًً 1.6 ارب افراد یہاں رہتے ہیں جو دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ علاقے میں آبادی کی کثافت 305 افراد فی مربع کلومیٹر ہے جو دنیا بھر کی اوسط کثافت سے 7 گنا زیادہ ہے۔اپنی زرخیزی کے باعث یہ علاقہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے لیکن اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ دیگر اقوام کی یہ حکومتیں ہی اس سرزمین کے ماضی کو عظیم بناتی ہیں۔ ماضی کی کئی حکومتوں خصوصاً وسط ایشیا کے مغلوں نے اس خطے کی ثقافت، مذہب اور روایتوں پر بہت اثر ڈالا ہے۔ اور ان کے عظیم دور کی جھلک آج بھی برصغیر کے چپے چپے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کے دور حکومت میں یہ علاقہ دنیا بھر میں ""سونے کی چڑیا"" کے طور پر مشہور ہو گیا۔زمانہ ہائے قدیم میںدریائے سندھ کی تہذیبدنیا کی ترقی یافتہ ترینتہذیبوںمیں سے ایک تھی جو آج سے تقریباًً 5 ہزار سال قبل قائم تھی۔بعد ازاں یورپی نو آبادیاتی دور میں یہ خطہبرطانیہکے قبضے میں آگیا جبکہ چند چھوٹے علاقوں پرپرتگال،ہالینڈاورفرانسکا قبضہ بھی رہا۔ بہرحال1940ءکی دہائی کے اواخر میں خطہ آزاد ہو گیا۔سر زمین جنوبی ایشیا جہاں کئی متضاد ثقافتوں اور تہذیبوں کا گہوارہ ہے وہیں جغرافیائی طور پر بھی گوناگوں خصوصیات کی حامل سر زمین ہے۔ شمال میں حالیہ کی بلند ترین چوٹیوں سے جنوب میں عظیم میدانوں، غیر آباد وسیع صحراؤں اور منطقہ حارہ کے گھنے جنگلات اورناریلکے درختوں سے سجے ساحلوں تک ہر علاقہ اس سرزمین کی رنگا رنگی میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔جغرافیائی و سیاسی طور پر بنگلہ دیش، بھارت، بھوٹان، پاکستان، سری لنکا اور نیپال کو جنوبی ایشیا کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جو آپس میں علاقائی تعاون کی ایک تنظیم ""سارک"" کے بندھن میں بندھے ہیں۔ حال ہی میں افغانستان کو بھی اس تنظیم کا رکن بنایا گیا ہے۔جنوبی ایشیا کے شمال میں ایک عظیم سلسلہکوہ ہمالیہہے جو برف سے ڈھکی ایک عظیم دیوار کی طرح ایستادہ ہے اور اسے براعظم ایشیا کے دیگر علاقوں سے جدا کرتا ہے۔ ہمالیہ نقشے میں ایک کمان کی طرح نظر آتا ہے۔دریائے سندھ،گنگااوربرہم پتراکے عظیم زرخیز میدان اور ڈیلٹائی علاقے ان پہاڑی علاقوں کو جزیرہ نما سے الگ کرتے ہیں۔ وسط میںدکن کی عظیم سطح مرتفعہے جس کے دونوں جانب ساحلوں کے ساتھ ساتھمشرقی گھاٹاورمغربی گھاٹنامی دو پہاڑی سلسلے ہیں۔دوسری جانب بنگلہ دیش کا بیشتر حصہ دریائے برہم پترا اور گنگا کے عظیم ڈیلٹائی علاقے پر واقع ہے۔ گرمائیمون سونمیں موسمی بارشوں اور ہمالیہ سے پگھلنے والے پانی کے باعث ان دریاؤں میں سیلاب آ جاتے ہیں جس کے باعث بنگلہ دیش کئی مرتبہ زبردست سیلابوں کا نشانہ بنا جن میں لاکھوں افراد موت کا نشانہ بنے۔کیونکہ جنوبی ایشیا کی آبادی کی اکثریت کا ذریعہ معاشزراعتہے اس لیے دریاؤں کے زر خیز میدان، پہاڑی وادیاں اور ساحلی علاقے انتہائی گنجان آباد ہیں لیکن اب دیہات سے شہروں کو ہجرت کے رحجان میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی بڑی وجہ شہروں میں روزگار کی فراہمی ہے۔ اس کے باعث شہروں میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں، خصوصاً رہائش کی مطلوبہ سہولیات نہ ہونے کے باعث آبادی کی بڑی تعداد کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہے جہاں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات تک موجود نہیں ہوتیں۔ممبئی،کولکتااورکراچیخطے کے سب سے بڑے شہر ہیں۔جنوبی ایشیا کی 60 فیصد آبادی کا روزگارزراعتسے وابستہ ہے لیکن اس کے باوجود خطے میں صرف اتنی فصل ہی کاشت ہو پاتی ہے جو ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کر سکے بلکہ کئی مرتبہ تو ان ممالک کو بیرون ممالک سے غذائی اجناس درآمد بھی کرنا پڑتی ہیں۔ اس کی اہم وجہ زراعت کے قدیم روایتی طریقوں کا استعمال اور جدید طریقوں تک عدم رسائی ہے۔ بنیادی طور پر اجناس کاشت کی جاتی ہیں جن میں مشرق اور مغرب کے ان علاقوں میںچاولکاشت کیا جاتا ہے جہاں پانی وافر مقدار میں موجود ہے جبکہ سطح مرتفع دکن پرباجرہ، شمالی علاقوں میںگندمکاشت کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیںچائےاورپٹ سناہم نقد فصلیں ہیں۔حالیہ چند سالوں میں بھارت انتہائی تیزی سے صنعتی ترقی کر رہا ہے جس میں خصوصاً کاریں، ہوائی جہاز، کیمیا، غذائی اور مشروبات قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان میں پارچہ بافی، کان کنی، بنکاری اور قالین سازی کی صنعتیں معروف ہیں جبکہ بھارت، مالدیپ، سری لنکا اور پاکستان میں سیاحت بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ چھوٹے پیمانے پر گھریلو صنعتیں بھی مقامی آبادی کی ضروریات پوری کرتی ہیں لیکن ان صنعتوں میں تیار ہونے والی چند اشیا خصوصاً ریشمی و سوتی کپڑے، ملبوسات، چمڑے کی اشیاء اور زیورات بیرون ملک برآمد بھی کیے جاتے ہیں۔جنوبی ایشیاہند-یورپی زبانیںبولی جاتی ہیں جن میں سےاردو،ہندی،بنگلہ،پشتواور فارسی قومی و دفتری زبانیں ہیں۔خطے میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے کئی لہجے ہیں۔"
+810,دہلی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C,"دہلی(جسے مقامی سطح پردِلّیاور سرکاری سطح پردہلی قومی دار الحکومتی علاقہکہتے ہیں)بھارتکیدار الحکومتیعملداریہے۔[7]یہ تین اطراف سےہریانہسے گھرا ہوا ہے، جبکہ اس کےمشرقمیںاتر پردیشواقع ہے۔ یہ بھارت کا مہنگا ترین شہر ہے۔ اس کا رقبہ 1،484 مربع کلومیٹر (573 مربع میل) ہے۔
+2.5 کروڑ آبادی پر مشتمل یہ شہرممبئیکے بعدبھارتکادوسرا،اور دنیا کا تیسرا[8]سب سے بڑاشہری علاقہہے۔[9][10]دہلیممبئیکے بعد، بھارت میں دوسرا امیر ترین شہر ہے، جس کے کل املاک 450 بلینامریکی ڈالرہے اور یہ 18 ارب پتی اور 23000 کروڑ پتیوں کا مسکن بھی ہے۔[11]دریائے جمناکے کنارے یہ شہرچھٹی صدی قبل مسیحسے آباد ہے۔[12]تاریخ میں یہ کئی سلطنتوں اور مملکتوں کادار الحکومترہا ہے جو کئی مرتبہ فتح ہوا، تباہ کیا گیا اور پھر بسایا گیا۔سلطنت دہلیکے عروج کے ساتھ ہی یہ شہر ایکثقافتی، تمدنی و تجارتی مرکز کے طور پر ابھرا۔ شہر میں عہد قدیم اورقرون وسطیٰکی بے شمار یادگاریں اور آثار قدیمہ موجود ہیں۔سلطنت دہلیکے زمانے کاقطب میناراورمسجد قوت اسلامہندوستانمیں اسلامی طرز تعمیر کی شان و شوکت کے نمایاں مظاہر ہیں۔عہد مغلیہمیںجلال الدین اکبرنے دار الحکومتآگرہسے دہلی منتقل کیا، بعد ازاں1639ءمیںشاہجہاںنے دہلی میں ایک نیا شہر قائم کیا جو1649ءسے1857ءتکمغلیہ سلطنتکا دار الحکومت رہا۔ یہ شہرشاہجہاں آبادکہلاتا تھا جسے ابپرانی دلیکہا جاتا ہے۔غدر(جنگ آزادی 1857ء) سے قبلبرطانیہکیایسٹ انڈیا کمپنیہندوستانکے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر چکی تھی اوربرطانوی راجکے دوران میںکلکتہکو دار الحکومت کی حیثیت حاصل تھی۔ بالآخرجارج پنجمنے1911ءمیں دار الحکومت کی دہلی منتقلی کا اعلان کیا اور1920ءکی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر ""نئی دہلی"" بسایا گیا۔1947ءمیںآزادئ ہندکے بعد نئی دہلی کو بھارت کا دار الحکومت قرار دیا گیا۔ شہر میں بھارتی پارلیمان سمیت وفاقی حکومت کے اہم دفاتر واقع ہیں۔1991ءمیں بھارت کے آئین کی 69 ویں ترمیم کے مطابق دہلی کو خصوصی درجہقومی دارالحکومت علاقہعطا کیا گیا ہے۔قومی دار الحکومتی علاقہمیں قریبی شہرفریدآباد،گرگاؤں،نوئیڈا،غازی آباد،فرید آباد عظمی،گریٹر نوئیڈا،بہادرگڑھ،سونی پت،پانی پت،کرنال،روہتک،بھیوانی،ریواڑی،باغپت،میرٹھ،مظفر نگر،الوار،بھرت پوربھی شامل ہیں۔ موجودہ دور میں دہلیبھارتکا اہم ثقافتی، سیاسی و تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔دہلی نام کیاشتقاقیاتکے بارے میں کئی روایات موجود ہیں، لیکن بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک قدیم بادشاہ ""ڈھللو"" سے موسوم ہے، جس نے 50 ق م میں شہر کو اپنا نام دیا۔[13][14][15]ایک اور روایت کے مطابق شہر کا نامہندی/پراکرتلفظڈھیلیسے ماخوذ ہے، کیونکہتومر خانداندہلی کے لوہے کے ستون کی بنیاد کو کمزور کہتے تھے جسے منتقل کیا جانا ضروری تھا۔[15]اور اسی سے اس کا نامڈھیلیوالپڑا۔[16]بھویشیے پرانکے مطابقاندر پرستھکےبادشاہپرتھوی راج چوہاننے اپنی بادشاہت کی چار ذاتوں کی سہولت کے لیے ایک نیا قلعہ تعمیر کروایا جو موجودہ دور میںپرانا قلعہعلاقہ میں تھا۔ اس قلعہ لیے ایک دروازے کی تعمیر کا حکم دیا اور بعد میں قلعے کا نامدہالیرکھا۔[17]بعض مورخین اس نامہندوستانیزبان کے لفظدلیسے ماخوذ سمجھتے ہیں جودہلیزکہ بگڑی ہوَئی شکل ہے، کیونکہ یہ شہرسندھ و گنگ کا میدانکا دروازہ تصور کیا جاتا ہے۔[18][19]ایک اور مفروضے کے مطابق اس شہر کا ابتدائی نامڈھلكاتھا۔[20]دہلی کا قدیم ذکرمہا بھارتنامت مہا پران میں ملتا ہے جہاں اس کا ذکر قدیماندر پرستھکے طور پر کیا گیا ہے۔ اندرپرستھمہا بھارتکے دور میں پانڈو کا دار الحکومت تھا۔[21]آثار قدیمہ کے جو پہلے ثبوت ملے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ دو ہزارقبل مسیحسے پہلے بھی دہلی اور اس کے آس پاس انسانی رہائش گاہیں تھیں۔ موریہ کال (300 ق م) سے یہاں ایک شہر نے ترقی پانا شروع کی۔پرتھوی راج چوہانکے درباریشاعرچند بردائیکی ہندی تحریر پرتھوی راسو میںتومربادشاہ انگپال کو دہلی کا بانی بتایا گیا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس نے ہی 'لال کوٹ' تعمیر کروایا تھا اور مہرولی کے لوہے کے ستون کو دہلی لایا۔ دہلی میںتومرکا دور حکومت سال 900-1200سال تک سمجھا جاتا ہے۔پرتھوی راج چوہانکو دہلی کا آخری ہندو شہنشاہ سمجھا جاتا ہے۔1206ءسے دہلیسلطنت دہلیکادار الحکومتبنا۔ ترک اورپشتوننسل کی ان حکومتوں میںخاندان غلاماں(1206ء تا 1290ء)،خلجی خاندان(1290ء تا 1320ء)،تغلق خاندان(1320ء تا 1413ء)،سید خاندان(1414ء تا 1451ء) اورلودھی خاندان(1451ء تا 1526ء) کی حکومتیں شامل ہیں۔ 1526ء میں دہلی کی آخری سلطنتمغلیہ سلطنتمیں ضم ہو گئی۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ آج کی جدید دہلی بننے سے پہلے، دہلی سات بار اجڑی اور مختلف مقامات پر بسی، جن کی کچھ باقیات جدید دہلی میں اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔دہلی کے اس وقت کے حکمرانوں نے اس شکل میں کئی بار تبدیلی کی۔مغل شہنشاہہمایوںنے سرہند کے قریب جنگ میں افغانوں کو شکست دی اور بغیر کسی مزاہمت کے دہلی پر قبضہ کر لیا۔ہمایوںکی وفات کے بعد ہے مو وكرمادتیا کی قیادت میں افغانوں نے مغل فوج کو شکست دے کر آگرہ اور دہلی پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔مغل شہنشاہاکبرنے دار الحکومت کو دہلی سےآگرہمنقل کر دیا۔اکبرکے پوتےشاہ جہاںنےسترہویں صدیکے وسط میں اسے ساتویں بار بسایا جسےشاہجہان آبادکے نام سے پکارا گیا۔شاہجہان آبادکو عام بول چال کی زبان میں پرانا شہر یاپرانی دلیکہا جاتا ہئے۔ زمانہ قدیم سے پرانی دہلی پر کئی بادشاہوں اور شہنشاہوں نے حکومت کی اور اس کے نام میں بھی تبدیلی کیے جاتے رہے۔پرانی دہلی1638ءکے بعد سےمغل شہنشاہوںکا دار الحکومت رہا۔ دہلی کا آخری مغل بادشاہبہادر شاہ ظفرتھا جس کی وفات جلا وطنی میںرنگونمیں ہوئی۔جنگ آزادی ہند 1857ءکے بعد دہلی پربرطانوی راجقائم ہو گیا۔1947ءمیں انگریزوں سے آزادی کے بعد دہلیبھارتکادار الحکومتبنا۔ دہلی میں کئی بادشاہوں کی سلطنت کے عروج اور زوال کے ثبوت آج بھی موجود ہیں۔دلیبھارتکےشمالمیں واقع ہے۔ اس کی سرحد شمال،مغرب اور جنوب میںہندوستانکی ریاستہریانہسے ملتی ہے، جبکہ مشرق میں یہاتر پردیشسے منسلک ہے۔ برطانوی دور اقتدار میں دلیصوبہ پنجابکا حصہ تھا اور اب بھی تاریخی اور ثقافتی طور پر دلیخطۂ پنجابسے جڑا ہوا ہے۔جمناکے سیلابی میدان اوردلی کی نا ہموار چوٹیاں یہ دلی کے دو نمایاں جغرافیائی پہلو یہں۔دریائے جمناپنجاباوراتر پردیشکے درمیان میں تاریخی سرحد ہیں اور اس کے سیلا بی میدان زراعت کے لیے زرخیز مٹی فراہم کراتے ہیں لیکن ڈھلان سطح سیلاب کی باز گشتی کی وجہ بھی بنتے ہیں۔دریائے جمناہندوں کا مقدس دریا ہے جو دلی سے گذرنے والا واحد بڑا دریا بھی ہے۔ ہندن ندی غازی آباد کو دلی کے مشرقی حصے سے الگ کرتی ہے۔ دلی کا پہاڑی سلسلہ جنوب میں اراولی پہاڑی سلسلے سے شروع ہوتا ہے اور شہر کے مغربی،شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے کا محاصرہ کرتا ہے۔ اس کی بلندی 318 فٹ ہے یہ اس کی سب سے اہم خوبی ہے۔ستمبر2012ءکے مطابق قومی دار الحکومت علاقہ دہلی گیارہ اضلاع، 27 تحصیلوں، 59 مردم شماری ٹاؤن، 300 دیہاتوں[22]اور تین قانونی ٹاؤنز پر مشتمل ہے۔دہلی قومی دار الحکومت علاقہ کا اپناقانون ساز اسمبلی، لیفٹیننٹ گورنر، وزراء کی کونسل اور وزیر اعلیٰ ہے۔ قانون ساز اسمبلی2023ءمیں ختم کر دی گئی تھی، جس کے بعد براہ راست وفاقی انتظام لاگو کر دیا گیا تھا، تاہم اسے2021 ءمیں بحال کر دیا گیا۔لوک سبھا(بھارتی پارلیمانی ایوان زیریں) میں دہلی سے 70 اسمبلی حلقوں ہیں۔[23][24]1990ءکی دہائی تکانڈین نیشنل کانگریسدہلی میں تمام حکومتیں بناتی تھی حتیٰ کہبھارتیہ جنتا پارٹیطاقت میں آئی۔[25]1998ءمیں کانگریس ایک بار پھر کامیاب ہوئی۔2013ءمیںاروند کیجریوالکی قیادت میںعام آدمی پارٹیکانگریس کی حمایت کے ساتھ حکومت کی تشکیل دی۔[26]تاہم یہ حکومت قلییل مدتی ثابت ہوئی اور صرف 49 کے بعد ہی ٹوٹ گئی۔[27]دہلی فروری2015ءتک براہ راست صدر کے زیرِ اقتدار رہا۔[28]10 فروری،2015ءکوعام آدمی پارٹیبھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی،اور دہلی اسمبلی کی 70 نشستوں میں سے 67 جیتیں اور دوبارہ برسراقدارآئی۔[29]تاریخی طور پر دہلیشمالی ہندکا ایک اہم کاروباری مرکز بھی رہا ہے۔ پرانی دہلی نے اب بھی اپنی گلیوں میں پھیلے بازاروں میں ان تجارتی صلاحیتوں کی تاریخ کو چھپا کر رکھا ہے۔[30]پرانے شہر کے بازاروں میں ہر ایک قسم کا سامان دستیاب ہے۔ تیل میں ڈوبے چٹپٹے آم، نیبو، وغیرہ کے اچارو سے لے کر مہنگے ہیرے جواہرات، زیور سے دلہن کے لباس، تیار کپڑے، مصالحے، مٹھائیاں اور ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہے۔چاندنی چوکیہاں کا تین صدیوں سے بھی قدیم بازار ہے۔ یہ دہلی کے زیور، زری ساڑیوں اور مصالحے کے لیے مشہور ہے۔[31]دہلی کی مشہور دستکاریوں میں زرودزی (سونے کی تار کام، جسے زری بھی کہا جاتا ہے) اور میناکاری (جس پیتل کے برتنوں وغیرہ پر نقش کے درمیان میں روغن بھرا جاتا ہے) ہیں۔دہلیشمالی بھارتکا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔2008ءکے مطابق دہلی کیخام ملکی پیداوار167 بلینامریکی ڈالرتھی۔[32]دہلی کی افرادی قوت کی آبادی کا 32،82 فیصد ہے۔ جس میں1991ءاور2001ءکے درمیان میں 52،52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔[33]دہلی میں بے روزگاری کی شرح 1999ء-2000ء میں 12.57 فی صد سے کم ہو کر 4.63 فیصد ہو گئی ہے۔[33]کلیدی خدماتی صنعتوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن، ہوٹل، بینکاری، ذرائع ابلاغ اور سیاحت شامل ہیں۔[34]تعمیرات، بجلی، صحت، کمیونٹی کی خدمات اور جائداد کی خرید و فروخت بھی شہر کی معیشت کے لیے اہم ہیں۔ دہلی بھارت کی سب سے بڑی اور سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی خوردہ صنعتوں میں سے ایک ہے۔[35]دہلی اسٹاک ایکسچینجنئی دہلی،بھارتمیں واقع ہے۔ یہ ایکسچینجدہلی اسٹاک اور شیئر بروکرز ایسوسی ایشن لمیٹڈاوردہلی اسٹاک اور شیئر ایکسچینج لمیٹڈکا اخلاط ہے۔[36]یہ بھارت کی پانچویں اکسچینج ہے۔ ایکسچینج بھارت کی اہم سٹاک ایکسچینجز میں سے ایک ہے۔ دہلی اسٹاک ایکسچینج شمالی بھارت میں ٹرمینلز کے ساتھ 50 شہروں سے منسلک ہے۔دہلی کی عوامی ٹریفک کے لیے بنیادی طور بس، آٹوركشا اور میٹرو ریل سروس زیر استعمال ہیں۔ دہلی کی اہم ٹریفک کی ضرورت کا 60 فیصد حصہ بسیں مکمل کرتی ہیں۔ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی طرف سے سرکاری بس سروس دہلی میں موجود ہے۔ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن دنیا کی سب سے بڑی ماحول دوست بس سروس ہے۔[37]آٹو رکشہ دہلی میں ٹریفک کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ ایندھن کے طور پرسی این جیکا استعمال کرتے ہیں۔ دہلی میں ٹیکسی سروس بھی دستیاب ہے جس کا کرایہ 7.50 سے 15 روپے فی کلومیٹر تک ہے۔ دہلی کی کل گاڑیوں کی تعداد کا 30٪ ذاتی گاڑیاں ہیں۔[38]دہلی بھارت کے پانچ اہم شہروں سے قومی شاہراہوں سے منسلک ہے۔ یہ شاہراہیں : قومی شاہراہ نمبر: 1، 2، 8، 10 اور 24 ہیں۔2008ءکے مطابق دہلی میں 55 لاکھ گاڑیاں میونسپل کارپوریشن کی حدود کے اندر ہیں۔ اس وجہ دہلی دنیا کا سب سے زیادہ گاڑیوں والا شہر ہے۔1998ءمیں سپریم کورٹ آف انڈیا نے دہلی کے تمام عوامی گاڑیوں کو ڈیزل کی جگہ پرسی این جیکا استعمال لازمی طور سے کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد سے یہاں تمام عوامی گاڑیاں سی این جی پر ہی چلنے والی ہیں۔اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹدہلی کے جنوب مغربی کنارے پر واقع ہے اور یہاں سے بین ریاستی اور بین الاقوامی سفر کی سہولیات موجود ہیں۔ سال 2012–13 میں ہوائی اڈے پر 35 ملین مسافر درج کیے گئے تھے، جو اسے جنوبی ایشیا کے مصروف ترینہوائی اڈوںمیں سے ایک بناتے ہیں۔[39][40]ٹرمینل 396.8 ارب بھارتی روپوں (امریکی ڈالر 1.4 ارب) سے 2007 اور 2010 کے درمیان میں تعمیر کیا گیا جہاں اضافی سالانہ 37 ملین مسافروں کے لیے گنجائش موجود ہے۔[41]صفدر جنگ ہوائی اڈادہلی کا ایک اورہوائی اڈاہے، جو عام ہوا بازی مشقوں اور کچھ وی آئی پی پروازوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔دہلی دیگر تمام اہم شہروں اور بڑے شہروں سے کئی ہائی ویز اور ایکسپریس ویز سے منسلک ہے۔ دہلی سے گزرنے والیقومی شاہراہیںمندرجہ ذیل ہیں:دہلیبھارتی ریلوےکے نیٹ ورک میں ایک اہم جنکشن ہے اور شمالی ریلوے کا ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ دہلی کے پانچ اہم ریلوے اسٹیشن مندرجہ ذیل ہیں:دہلی میٹرو ریل کارپوریشن کی طرف سے دہلی میٹرو ریل ایک بڑے پیمانے پر ریپڈ ٹرانزٹ (فوری ٹرانزٹ) نظام ہے جو دہلی کے کئی علاقوں میں سروس فراہم کرتی ہے۔ اس کا آغاز24 دسمبر2002ءکو ہوا۔ اس ٹرانسپورٹ نظام کی زیادہ سے زیادہ رفتار 80 کلومیٹر فی گھنٹہ (50 میل فی گھنٹے) رکھی گئی ہے اور یہ ہر اسٹیشن پر تقریباً 20 سیکنڈ رکتی ہے۔ تمام ٹرینوں کی تعمیرجنوبی کوریاکی کمپنی روٹیم (ROTEM) نے کی ہے۔ دہلی کی نقل و حمل سہولیات میں میٹرو ریل ایک اہم جزو ہے۔ ابتدائی مرحلے کی منصوبہ بندی چھ لائنوں پر چلنے کی ہے جو دہلی کے زیادہ تر حصوں کو آپس میں جوڑے گی۔ اس کا پہلا مرحلہ2006ءمیں مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے راستے کی کل لمبائی تقریباً 65.11 کلومیٹر ہے جس میں 13 کلومیٹر زیر زمین اور 52 کلومیٹر مرتفع ہے۔بھارت کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق دہلی کی آبادی 16،753،235 تھی۔[42]اس کی کثافت آبادی 11،297فی مربع کلومیٹر، جنسی تناسب 866 خواتین فی 1000 مرد اور شرح خواندگی 86،34 فیصد تھی۔ہندو متدہلی کی آبادی کا 81،68 فیصد،اسلام(12.86٪)،سکھ مت(3.4٪)،جین مت(0.99٪)،مسیحیت(0.87٪) اور دیگر (0.12٪) ہے۔ دیگر اقلیتی مذاہب میںبدھ مت،زرتشتیت،بہائیاوریہودیتشامل ہیں۔[43]دہلی کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد[44]بنیادی سہولتوں کی ناکافی فراہمی کے ساتھ کچی آبادیوں میں رہتا ہے۔[45]ان کچی آبادیوں کی اکثریت کو ناکاف�� بنیادی سہولیات مہیا ہیں۔ ڈی یو ایس آئی بی کی رپورٹ کے مطابق صرف 16 فیصدلوگ بیت الخلاؤں کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ تقریباً 22 فیصد افراد قضائے حاجت کے لیے کھلی جگہوں کا استعمال کرتے ہیں۔[46]دہلی شہر میں بنی یادگاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی ثقافت مشرقی تاریخی زمین سے متاثر ہے۔ بھارتی آثار قدیمہ سروے محکمہ نے دہلی شہر میں تقریباً 1200 ثقافتی ورثہ مقامات کی نشان دہی کی ہے جو دنیا میں کسی بھی شہر سے کہیں زیادہ ہے۔[47]ان میں سے 175 مقامات کو قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔[48]پرانا شہر وہ مقام ہے جہاں مغلوں اور ترکوں حکمرانوں نے کئی تعمیرات کیں٫ مثلاًجامع مسجد(بھارت کی سب سے بڑی مسجد)،لال قلعہ،قطب مینار،ہمایوں کا مقبرہدہلی کے عالمی ثقافتی ورثہ مقامات ہیں۔[49]دیگر یادگاروں میں انڈیا گیٹ، جنتر منتر (اٹھارویں صدیکیرصدگاہ)، پرانا قلعہ (سولہویں صدیکا قلعہ)۔ برلا مندر، اکشر دھام مندر اور کمل مندر تعمیرات کی شاندار مثالیں ہیں۔ راج گھاٹ میں قومی رہنمامہاتما گاندھیاور قریب ہی دوسرے بڑے افراد کی سمادھياں ہیں۔ نئی دہلی میں بہت سے سرکاری دفتر، سرکاری رہائش گاہیں اور برطانوی دور کی باقیات اور عمارتیں ہیں۔ کچھ انتہائی اہم عمارتوں میں صدارتی محل، مرکزی سیکرٹریٹ، راج پتھ، پارلیمنٹ کی عمارت شامل ہیں۔یہاں بہت سے قومی تہوار جیسے یوم جمہوریہ، یوم آزادی اور گاندھی یوم پیدائش رسمی طور پر جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ بھارت کے یوم آزادی پر وزیر اعظم لال قلعہ سے یہاں کے عوام سے خطاب کرتے ہیں۔ بہت سےدلی والےاس دن کو پتنگیں اڑا کر مناتے ہیں۔ اس دن پتنگوں کو آزادی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔[50]یوم جمہوریہ کی پریڈ ایک بڑا جلوس ہوتی ہے، جس میں بھارت کی فوجی طاقت اور ثقافتی جھلک کا مظاہرہ ہوتا ہے۔[51]یہاں کے مذہبی تہواروں میںدیوالی،ہولی،دسہرا، درگا پوجا، مہاویر جینتی،کرسمس،مہا شواراتری،عید الفطر، بدھ جینتی لوهڑی پونگل اور اوڑم جیسے تہوار شامل ہیں۔ قطب فیسٹیول میں موسیقاروں اور رقاصوں کا کل ہند سنگم ہوتا ہے، جو کچھ راتوں کو جگمگا دیتا ہے۔ دیگر کئی تہوار بھی یہاں سالانہ منائے جاتے ہیں جیسے آم فیسٹیول، پتنگ بازی فیسٹیول، موسم بہار پنچمی۔ایشیاکی سب سے بڑی آٹو نمائش، آٹو ایکسپو دہلی میں منعقد ہوتی ہے۔ پرگتی میدان میں سالانہ کتاب میلہ منعقد ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کتاب میلہ ہے جس میں دنیا کے 23 ممالک حصہ لیتے ہیں۔ دہلی کو اس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ صلاحیت کی وجہ سے کبھی کبھی دنیا کا کتاب دار الحکومت بھی کہا جاتا ہے۔[52]پنجابی اور مغلائی خان جیسے کباب اور بریانی دہلی کے کئی حصوں میں مشہور ہیں۔[53][54]دہلی کی انتہائی مخلوط آبادی کی وجہ سے بھارت کے مختلف حصوں کے پکوانوں کی جھلک دہلی میں ملتی ہے، جیسے راجستھانی، مہاراشٹرین، بنگالی، حیدرآبادی اور جنوبی بھارتی کھانے کی اشیاء جیسے اڈلی، سانبھر، دوسا وغیرہ کثرت میں مل جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مقامی خاصیت والی چیزیں جیسے چاٹ وغیرہ بھی خوب ملتی ہے، جسے لوگ چٹخارے لگا لگا کر کھاتے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں براعظم کھانا جیسے اطالوی اور چینی کھانا بھی عام دستیاب ہے۔مغلیہ سلطنتکےدار الحکومترہنے کی وجہ سے دلی کے لوگوں کومغلائی پکوانوںنے بہت متاثر کیا ہے۔[55]شہر کے خصوصی پکوانوں میں بٹر چکن، آلو چاٹ، چاٹ، دہی بڑے، کچوری، گول گپے،سموسہ، چھولےبھٹورے، چھولے کلچہ، جلیبی اور لسی شامل ہیں۔[55][56]:40–50, 189–196دہلی کی تیز ز��دگی کی وجہ سے فاسٹ فوڈ نے شہر میں کافی ترقی کی ہے۔[56]:41مقامی باشندوں میں ڈھابے پر کھانے کا رجحان بہت مقبول ہے۔ ہائی پروفائل ریستورانوں نے حالیہ برسوں میں کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔[57]گلی پراٹھے والیچاندنی چوکمیں ایک سڑک ہے جو خاص طور1870ء کی دہائیسے کھانوں کے لیے مشہور ہے۔ یہ تقریباً ایک روایت بن گئی ہے کہ ہر وزیر اعظم ایک بارگلی پراٹھے والیکا دورہ کرتا ہے۔ اگرچہ یہ سڑک شمال بھارتی پکوانوں کے لیے مشہور ہے تاہم یہاں بھات کے دیگر علاقوں کے پکوان بھی دستیاب ہیں۔[56]:40–50[58]دہلی کے رہائشیوں کودلی والےیا واحددلی والا/دلی والیکہا جاتا ہے۔[59]ابھی دلی دور ہےیافارسیمیںہنوز دہلی دور است[60][61]دلی دل والوں کا شہریادلی دل والوں کی[62]آس پاس برسے، دلی پانی ترسے[61]دہلی صرفبھارتکا دار الحکومت ہی نہیں بلکہ یہسیاحتکا اہم مرکز بھی ہے۔ دار الحکومت ہونے کی وجہ سے حکومت ہند کے کئی دفاتر، ایوان صدر، پارلیمنٹ ہاؤس، مرکزی سیکرٹریٹ وغیرہ ا جدید معماری کے نمونے ہیں۔ قدیم شہر ہونے کی وجہ سے اس کی تاریخی اہمیت بھی ہے۔ سیاحتی مقامات میںمقبرہ ہمایوں،لال قلعہ،لودھی باغ،پرانا قلعہ،مزار صفدر جنگ،جنتر منتر،قطب مینار،باب ہنداوردہلی کا آہنی ستوںکی دنیا بھر میں خاص اہمیت ہے۔ تقریباً تمام مذاہب کے مشہور مذہبی مقامات یہاں موجود ہیں مثلالکشمی نارائن مندر،چھترپور مندر،گردوارہ بنگلہ صاحب،معبد کنولاورجامع مسجد دہلی۔ بھارت کے وزرائے اعظم کی سمادھياں یہاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کئیعجائب گھراور کئی مشہور بازار بھی ہیں۔ تفریحی مقامات میں مغل باغات، گارڈن آف فائیو سنسن، تال کٹورا گارڈن، لودھی گارڈن، چڑیا گھر، وغیرہ شامل ہیں۔دہلی شہر کے دروازےآٹھویں صدیسےبیسویں صدیتک مختلفشاہی خاندانوںکے حکمرانوں نے تعمیر کروائے۔ کیونکہ شہر کئی بار اجڑا اور پھر بسایا گیا اس لیے کئی دروازے اور کھڑکیاں (چھوٹے دروازوں کو کہا جاتا تھا۔ لیکن ان میں سے اب کوئی باقی نہیں) اب صفحہ ہستی پر موجود نہیں۔دہلی قومی دار الحکومت علاقہ میں تقریباً 500،000 یونیورسٹی کے طالب علموں 165 سے زائد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں۔ دہلی میں نو بڑی یونیورسٹیاں ہیں۔بھارت کے دار الحکومت ہونے کی وجہ سے دہلی سیاسی رپورٹنگ کی خاص توجہ کا مرکز ہے، جن میں پارلیمانی اجلاس کے باقاعدہ ٹیلی ویژن کی نشریات بھی شامل ہیں۔ بہت سے قومی میڈیا ادارے، بھارت کا سرکاری پریس ٹرسٹ، بھارت کا میڈیا ٹرسٹ اور دوردرشن سمیت کئی کے صدر دفاتر شہر میں واقع ہیں۔[63]مطبوعہ صحافت دہلی کے مقبول ذرائع ابلاغ میں سے ہے۔ شہر کی اخبارات میں چند مندرجہ ذیل ہیں:ریڈیو دہلی میں ایک کم مقبول ہے، تاہم2006ء[66]میں کئی نئے اسٹیشنوں کے افتتاح کے بعد سے ایف ایم ریڈیو نے مقبولیت حاصل کر لی ہے۔[67]سرکاری اور نجی ریڈیو سٹیشنوں کی ایک بڑی تعداد نے دہلی سے نشریات کرتی ہیں۔[68][69]دہلی کئی اہم بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کر چکا ہے۔ جن میںایشیائی کھیل 1951ء،ایشیائی کھیل 1982ءاور2010ء دولت مشترکہ کھیلقابل ذکر ہیں۔ دہلی میں متعدد کھیلوں کے میدان موجود ہیں جن میں چند اہم مندرجہ ذیل ہیں:دلی کی آب و ہوا نمی والی اور منطقۂ حارہ سے ملتی جلتی ہیں۔
+دہلی کی آب و ہوا میں موسم گرما اور موسم سرما کے درجہ حرارت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ موسم گرما طویل، انتہائی گرم اور اپریل سے وسط اکتوبر تک چلتا ہے۔ اس کے درمیان میںمون سونکا برساتی موسم بھی آتا ہے۔ گرمی کافی مہلک بھی ہو سکتی ہے، جس نے ماضی میں کئی جانیں بھی لی ہیں۔ مارچ کے شروع سے ہی آب و ہوا میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔ ہوا شمال مغرب سے تبدیل ہو کر جنوب مغربی سمت میں چلنے لگتی ہے۔ یہ اپنے ساتھ راجستھان کی گرم لہر اور دھول بھی لے کر چلتی ہیں۔ یہ گرمی کا بنیادی حصہ ہیں جنہیں لو کہتے ہیں۔ اپریل سے جون کے مہینے انتہائی گرم ہوتے ہیں۔ جون کے آخر تک نمی میں اضافہ ہوتا ہے جو ہلکی مونسون بارش لاتی ہیں۔ اس کے بعد جولائی سے یہاںمون سونکی ہوائیں چلتی ہیں، جو اچھی بارش لاتی ہیں۔ اکتوبر نومبر میں درجہ حرارت میں کمی واقع ہوتی ہے، اس میں ہلکی سردی کافی لطف اندوز ہوتی ہے۔
+نومبر سے سرد موسم کا آغاز ہوتا ہے جو فروری کے شروع تک چلتا ہے۔ موسم سرما میں گھنی دھند بھی ہوتی ہے۔ یہاں کے درجہ حرارت میں انتہائی فرق آتا ہے جو -0.6 ° س (30.9 ° ف) سے لے کر 48 ° س (118 ° ف) تک جاتا ہے۔ سالانہ اوسط درجہ حرارت 25 ° س (77 ° ف)؛ ماہانہ اوسط درجہ حرارت 13 ° س سے لے کر 32 ° س (56 ° ف سے لے کر 9 0 ° ف) تک ہوتا ہے۔[70]اوسط سالانہ بارش تقریباً 714 مم (28.1 انچ) ہوتی ہے، جس سے زیادہمون سونمیں جولائی اگست میں ہوتی ہے۔ دہلی میں مون سون کی آمد کی اوسط تاریخ 29 جون ہوتی ہے۔[71]عالمی ادارہ صحتدہلی کے مطابق2014ءمیں دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر تھا۔[74]2016ءمیںعالمی ادارہ صحتنے شہری ہوا کے معیار کی ڈیٹا بیس میں دہلی کی گیارہ درجے میں کمی ہے۔[75]ایک اندازے کے مطابق، ہوائی آلودگی ہر سال دہلی میں تقریباً 10،500 لوگوں کی موت کا سبب بنتی ہے۔[76][77][78]2013–14 کے دوران میں نقصان دہ ذراتِ مادہ دہلی میں 44 فیصد بڑھ گیا جس کی بنیادی وجہ ملحقہ ریاستوں میں گاڑیوں اور صنعتی اخراج، تعمیراتی کام اور فصل کا جلایا جانا ہے۔[76][79][80][81]نقصان دہ ہوائی ذرات پی ایم 2,5 جسے صحت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ سمجھا جاتا ہے کی دہلی میں 153 مائیکروگرام کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر ہے۔[82]بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی وجہ سے بچوں اور خواتین میں پھیپھڑوں سے متعلقہ بیماریوں (خاص طور پر دمہ اور پھیپھڑوں کے کینسر) میں اضافہ ہوا ہے۔[83][84]موسم سرما میں ہر سال گہریاسموگکی وجہ سے گاڑیوں اور ریل ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔[85]بھارتی ماہرین موسمیات کے مطابق موسم سرما کے دوران میں دہلی میں 1998 کے بعد خاص طور پر اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں کمی واقع ہوئی ہے۔[86]جنات کا شہردہلی پر لکھی گئیولیم ڈیلرمپلکی کتاب ہے، جوبھارتکے دار الحکومت دہلی کی تاریخی اہمیت کا احاطہ کرتی ہے۔ دہلی عظیم ماضی رکھنے والا ایک عظیم شہر ہے، جو اتنے زیادہ ہندوستانی حکمرانوں کا دار الحکومت رہا کہ اس کی ہر اینٹ ایک داستان سناتی ہے اورہندوستانکے عظیم ماضی کی ترجمانی کرتی ہے۔سرکاریعمومی معلوماتدستاویزی فلمیں"
+811,لکھنؤ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A4,"لکھنؤ(ہندی:लखनऊ)بھارتکی سب سے زیادہ آبادی والیریاستاتر پردیشکادار الحکومت،اوراردوکا قدیم گہوارہ ہے نیز اسے مشرقی تہذیب و تمدن کی آماجگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر میںضلع لکھنؤاور لکھنؤ منڈل کا انتظامی صدر دفتر موجود ہے۔ لکھنؤ شہر اپنی نزاکت، تہذیب و تمدن، کثیر الثقافتی خوبیوں،دسہریآمکے باغوں اور چکن کی کڑھائی کے کام کے لیے معروف ہے۔ سنہ2006ءمیں، اس کی آبادی 2،541،101 اور شرح خواندگی 68.63 فیصد تھی۔حکومت ہندکی2001ءکی مردم شماری، سماجی اقتصادی اشاریہ اور بنیادی سہولت اشاریہ کے مطابقضلع لکھنؤاقلیتوں کی گنجان آبادی والا ضلع ہے۔کانپورکے بعد یہ شہرات�� پردیشکا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔ شہر کے درمیان میںدریائے گومتیبہتا ہے جو لکھنؤ کیثقافتکا بھی ایک حصہ ہے۔لکھنؤ اس خطے میں واقع ہے جسے ماضی میںاودھکہا جاتا تھا۔ لکھنؤ ہمیشہ سے ایک کثیر الثقافتی شہر رہا ہے۔ یہاں کے حکمرانوں اور نوابوں نے انسانی آداب، خوبصورت باغات،شاعری،موسیقیاور دیگرفنون لطیفہکی خوب پزیرائی کی۔ لکھنؤ نوابوں کا شہر بھی کہلاتا ہے نیز اسے مشرق کا سنہری شہر اور شیراز ہند بھی کہتے ہیں۔ آج کا لکھنؤ ایک ترقی پزیر شہر ہے جس میں اقتصادی ترقی دکھائی دیتی ہے اور یہ بھارت کے تیزی سے بڑھ رہے بالائی غیر میٹرو پندرہ شہروں میں سے ایک ہے۔[8]لکھنؤہندیاوراردوادبکے مراکز میں سے ایک ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ اردو بولتے ہیں۔ یہاں کا لکھنوی انداز گفتگو مشہور زمانہ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ہندی اورانگریزیزبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔قدیم دور میں لکھنؤمملکت کوسلکا حصہ تھا۔ قدیم ہندو روایتوں کے مطابق یہ یہرامکی وراثت تھی جسے انھوں نے اپنے بھائیلکشمنکے لیے وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ اس کو لكشماوتی، لكشم پور یا لکھن پور کے نام سے جانا گیا، جو بعد میں بدل کر لکھنؤ ہو گیا۔[9]یہاں سےایودھیا80 میل کی دوری پر واقع ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اس شہر کا نام ""لكھن اهير"" جو ""لكھن قلعہ"" کے اہم فنکار تھے، کے نام پر رکھا گیا۔ تاہمدلتلوگوں کا ماننا ہے کہ ""لکھن پاسی"" جو علاقے کا دلت حکمران تھا یہ اس کے نام سے منسوب ہے، جسے ""لکھن پور"" کہا جاتا تھا جوگیارہویں صدیمیں بگڑ کر لکھنؤ ہو گیا۔[10][11]ایک اور مفروضہ کے تحت شہر کا نام دولت کیہندودیویلکشمیکے نام پر ہے جو اصل میں ""لکشمناوتی"" سے ""لکشمناوت"" اور آخر کار لکھنؤ ہو گیا۔[12]1350ءکے بعد سےسلطنت دہلی،سلطنت جونپور،مغلیہ سلطنتاورنواب اودھ،برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنیاوربرطانوی راجکے تحت لکھنؤاودھکا حصہ رہا ہے۔جنگ آزادی ہند 1857ءکے دوران میں لکھنؤ بڑے مراکز میں سے ایک تھا۔تحریک آزادی ہندمیں بھی یہ ایک اہم شمالی ہندوستانی شہر کے طور پر ابھرا۔1719ءتکاودھمغلیہ سلطنتکا ایک صوبہ تھا جس کا گورنربرہان الملک سعادت علی خانتھا جس نے لکھنؤ کے قریبفیض آبادکو اپنا مرکز بنایا۔[14]تقریباًچوراسیسال (1394ء سے 1478ء)اودھسلطنت جونپورکا حصہ رہا۔1555ءکے لگ بگمغلشہنشاہہمایوںنے اسےمغلیہ سلطنتمیں شامل کیا۔ شہنشاہجہانگیرنے اسے ایک پسندیدہ شاہی افسر شیخ عبد الرحیم کو بطور ریاست عطا کیا۔ اس کے بعد یہ اس کی اولاد ""شیخ زادوں"" کے زیر رہا۔[15]اودھکےنوابوںنے لکھنؤ کو اپنادار الحکومتبنایا۔ شہر شمالی ہندوستان کا ثقافتی دار الحکومت بنا۔ اس وقت کے نواب، عیاش اور شاہانہ طرز زندگی کے لیے مشہور ہوئے جو فن کے قدردان و سرپرست تھے۔ ان کے دور میں موسیقی اور رقص کو فروغ ملا، اس کے علاوہ انھوں نے متعدد یادگاریں بھی تعمیر کیں۔[16]ان میںبڑا امام باڑا،چھوٹا امام باڑااوررومی دروازہقابلِ ذکر ہیں۔ نوابوں کی خاص میراث میں خطے کی ہندو مسلم ثقافت کے میل جول کوگنگا جمنی تہذیبکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[17]مغلیہ سلطنتکے زوال کے بعد علاقے میں کئی خود مختار ریاستیں قائم ہوئیں۔اودھکے تیسرےنوابشجاع الدولہکینواب بنگالکیمیر قاسمکی مدد کرنے پر انگریزوں سے ٹھن گئی۔بکسر کی لڑائیمیں تقریباً شکست کھانے کے بعد بھاری تاوان کے علاوہ ریاست کچھ حصے بھی انگریزوں کے حوالے کرنا پڑے۔[18]لکھنؤ کے موجودہ شکل کی بنیاداودھکے چوتھےنوابآصف الدولہنے1775ءمیں رکھی۔ اس نےدار الحکومتفیض آبادسے لکھنؤ منتقل کیا اور اس کو ترقی دی۔[19]لیکن بعد کے نواب نااہل ثابت ہوئے۔ ان نوابوں کی نااہلی کے نتیجے میں آگے چل کرلارڈ ڈلہوزینے اودھ کو بغیر جنگ کیے ہی حاصل کر کےسلطنت برطانیہمیں ملا لیا۔1850ءمیں اودھ کے آخری نوابواجد علی شاہنے برطانوی تابعداری قبول کر لی۔
+اس معاہدے نے مؤثر طریقے سے ریاست اودھ کوایسٹ انڈیا کمپنیکا جاگیر بنا دیا، حالانکہ یہ 1819ء تکمغلیہ سلطنتکا حصہ بنی رہی۔ 1801ء کا معاہدہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے ایک فائدہ مند انتظام ثابت ہوا کیونکہ انھیں اودھ کی حکومت تک رسائی حاصل ہوئی۔ خطہ کے وسیع خزانے، کم شرحوں پر قرضوں کے لیے بار بار ان میں کھدائی۔ اس کے علاوہ، اودھ کی مسلح افواج کو چلانے سے حاصل ہونے والی آمدنی نے انھیں مفید منافع دیا جب کہ یہ علاقہ ایک بفر ریاست کے طور پر کام کرتا تھا۔ نواب رسمی بادشاہ تھے، شوخ و شوکت میں مصروف رہتے تھے۔ تاہم انیسویں صدی کے وسط تک، انگریز اس انتظام سے بے چین ہو گئے تھے اور انھوں نے اودھ پر براہ راست کنٹرول کا مطالبہ کیا۔[20]1856ء میںایسٹ انڈیا کمپنینے پہلے اپنی فوجیں سرحد پر منتقل کیں، پھر مبینہ بد انتظامی کی وجہ سے ریاست کا الحاق کر لیا۔ اودھ کو ایک چیف کمشنر - سرہنری منٹگمری لارنسکے تحت رکھا گیا تھا۔ اس وقت کے نوابواجد علی شاہکو جیل میں ڈال دیا گیا، پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نےکلکتہکو جلاوطن کر دیا۔[21]جنگ آزادی ہند 1857ءکے بعد اس کے 14 سالہ بیٹےبرجیس قدر، جن کی والدہبیگم حضرت محلتھیں، کو حکمران بنایا گیا۔ بغاوت کی شکست کے بعد، بیگم حضرت محل اور دیگر باغی رہنماؤں نےنیپالمیں پناہ مانگی۔[22]لکھنؤجنگ آزادی ہند 1857ءکے بڑے مراکز میں سے ایک تھا اور اس نےتحریک آزادی ہندمیں فعال طور پر حصہ لیا، جو شمالی ہندوستان کے ایک اہم شہر کے طور پر ابھرا۔ جنگ آزادی کے دوران میں (جسے ہندوستان کی آزادی کی پہلی جنگ اور ہندوستانی بغاوت بھی کہا جاتا ہے)،ایسٹ انڈیا کمپنیکے فوجیوں کی اکثریت اودھ کے لوگوں اور شرافت دونوں سے بھرتی کی گئی تھی۔
+باغیوں (برطانوی نقطہ نظر سے) نے ریاست پر قبضہ کر لیا اور انگریزوں کو اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے میں 18 ماہ لگے۔ اس عرصے کے دوران، لکھنؤ میںریزیڈینسیپر قائم گیریژن کامحاصرہکے دوران میں باغی افواج نے محاصرہ کر لیا تھا۔ محاصرہ کو سب سے پہلے سرہینری ہیولاکاور سر جیمز آوٹرام کی کمان میں فوجوں نے چھٹکارا دلایا، اس کے بعد سر کولن کیمبل کی قیادت میں ایک مضبوط فورس نے۔ آج ریزیڈنسی اور شہید اسمارک کے کھنڈر 1857ء کے واقعات میں لکھنؤ کے کردار کی بصیرت پیش کرتے ہیں۔[23]بغاوت ختم ہونے کے بعد،ریاست اودھایک چیف کمشنر کے تحت برطانوی حکومت میں واپس آ گئی۔ 1877ء میں شمال مغربی صوبوں کے لیفٹیننٹ گورنر اور اودھ کے چیف کمشنر کے دفاتر کو ملایا گیا۔ پھر 1802ء میںآگرہ اور اودھ کے متحدہ صوبےکے قیام کے ساتھ چیف کمشنر کا خطاب ختم کر دیا گیا، حالانکہ اودھ نے اپنی سابقہ آزادی کے کچھ نشانات ابھی تک برقرار رکھے ہوئے ہیں۔[24]تحریک خلافتکو لکھنؤ میں حمایت کا ایک فعال اڈا حاصل تھا، جس نے برطانوی حکومت کے خلاف متحدہ مخالفت پیدا کی۔ 1901ء میں 1775ء سے اودھ کا دار الحکومت رہنے کے بعد، 264,049 کی آبادی کے ساتھ لکھنؤ کوآگرہ اور اودھکے نو تشکیل شدہ متحدہ صوبوں میں ضم کر دیا گیا۔[25]1920ء میں صوبائی حکومت کی نشستالٰہ آبادسے لکھنؤ منتقل ہو گئی۔ 1947ء میںتحریک آزادی ہندکے بعد، متحدہ صوبوں کو ریاست اترپردیش میں دوبارہ منظم کیا گیا اور لکھنؤ اس کادار الحکومترہا۔[26]لکھنؤ ہندوستان کی تاریخ کے کچھ اہم لمحات کا گواہ ہے۔انڈین نیشنل کانگریسکے 1916ء کے اجلاس کے دوران میںموہن داس گاندھی،جواہر لعل نہرواورمحمد علی جناحکی پہلی ملاقات ہے،میثاق لکھنؤپر دستخط کیے گئے اور صرف اسی سیشن کے دوران میںاینی بیسنٹکی کوششوں سے اعتدال پسند اور انتہا پسند اکٹھے ہوئے۔کاکوری ڈکیتیجس میںرام پرساد بسمل،اشفاق اللہ خان،راجندر لہری، روشن سنگھ اور دیگر شامل تھے، جس کے بعد کاکوری مقدمہ چلا جس نے ملک کا تصور بھی لکھنؤ کر لیا۔[27]ثقافتی طور پر، لکھنؤ میں بھیطوائفوںکی روایت رہی ہے،[28]جس میں مشہور ثقافت اسے افسانویامراؤ جان ادامیں کشید کرتی ہے۔دریائے گومتیلکھنؤ کی اہم جغرافیائی خصوصیات میں سے ہے۔ لکھنؤ میںسندھ و گنگ کا میدانواقع ہے اور بہت سے دیہی قصبوں اور دیہاتوں سے گھرا ہوا ہے جن میںملیح آباد،کاکوری، موہن لال گنج،گوسین گنج، لکھنؤ، چینہٹ اوراتونجاشامل ہیں۔ مشرق میںضلع بارہ بنکیاورضلع بہرائچ، مغرب میںاناؤ ضلع، جنوب میںرائے بریلی ضلعجبکہ شمال میںضلع سیتاپوراورہردوئی ضلعواقع ہیں۔[29]لکھنؤ کی آب و ہوا مرطوب ذیلی استوائی ہے، فروری کے وسط نومبر تک خشک سردی، اواخر مارچ سے جون تک موسم خشک گرم ہوتا ہے۔ برسات کا موسم جولائی سے ستمبر کے وسط تک ہوتا ہے۔
+موسم سرما میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 25 ° س (77 ° ف) اور کم سے کم 7 ° س (45 ° ف) ہوتا ہے۔[30]دسمبر کے وسط سے جنوری کے آخر تک دھند کافی عام ہے۔ کبھی کبھار، لکھنؤ میںشملہاورمسوری، اتراکھنڈجیسے مقامات کے مقابلے میں سردیوں کے موسم زیادہ ہوتے ہیں جوسلسلہ کوہ ہمالیہمیں کافی بلندی پر واقع ہیں۔ 2012-2013ء کے غیر معمولی سردی کے موسم میں، لکھنؤ میں مسلسل دو دن درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے ریکارڈ کیا گیا اور کم از کم درجہ حرارت نقطہ انجماد کے ارد گرد ایک ہفتہ سے زیادہ رہا۔ گرمیاں بہت گرم ہوتی ہیں اور درجہ حرارت 40 سے 45 ° C (104 سے 113 ° F) کی حد میں بڑھ جاتا ہے، اوسط زیادہ سے زیادہ 30 سیلسیس میں ہوتا ہے۔لکھنؤ ڈویژنجو چھ اضلاع پر مشتمل ہے اور اس کی سربراہی لکھنؤ کے ڈویژنل کمشنر کرتے ہیں، جو اعلیٰ سنیارٹی کےآئی اے ایسافسر ہیں، کمشنر ڈویژن میں مقامی حکومتی اداروں (بشمول میونسپل کارپوریشنز) کا سربراہ ہوتا ہے، جو اپنے ڈویژن میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا انچارج ہے اور ڈویژن میں امن و امان کو برقرار رکھنے کا بھی ذمہ دار ہے۔[33][34][35][36][37]لکھنؤ کا ضلع مجسٹریٹ نے ڈویژنل کمشنر کو رپورٹ کرتا۔ موجودہ کمشنر مکیش میشرم ہیں۔[38][39]لکھنؤ کی ضلعی انتظامیہضلع لکھنؤکے مجسٹریٹ کی سربراہی میں ہے، جو ایکآئی اے ایسافسر ہے۔ ڈی ایم مرکزی حکومت کے لیے جائداد کے ریکارڈ اور محصولات کی وصولی کا انچارج ہے اور شہر میں ہونے والےانتخاباتکی نگرانی کرتا ہے۔ ضلع میں پانچتحصیلیںہیں، ویز صدر، موہن لال گنج، بخشی کا تالاب، ملیح آباد اور سروجنی نگر، ہر ایک سب ڈویژنل مجسٹریٹ کی سربراہی میں ہے۔[40]موجودہ ڈی ایم ابھیشیک پرکاش ہیں۔[38][39][40]ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی مدد ایک چیف ڈیولپمنٹ آفیسر (سی ڈی او)، آٹھ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس (اے ڈی ایم) فنانس/ریونیو، ایسٹ، ویسٹ ٹرانس گومتی، ایگزیکٹو، لینڈ ایکوزیشن-1، لینڈ ایکوزیشن-2، سول سپلائی)، ایک سٹی مجسٹریٹ (سی ایم) اور سات ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ (اے سی ایم) ہیں۔[40]لکھنؤ میونسپل کارپوریشنشہر میں شہری سرگرمیوں کی نگرانی کرتی ہے۔ شہر کی پہلی میونسپل با��ی 1862ء سے شروع ہوئی جب میونسپل بورڈ کا قیام عمل میں آیا۔[41]پہلے ہندوستانی میئر،سيد نبی اللہ، 1917ء میں یوپی میونسپلٹی ایکٹ، 1916ء کے نفاذ کے بعد منتخب ہوئے۔ بھیرو دت سنوال منتظم بنے۔ 1959ء میں یوپی میونسپلٹی ایکٹ، 1916ء کو اترپردیش میونسپل کارپوریشن ایکٹ، 1959ء سے بدل دیا گیا اورلکھنؤ میونسپل کارپوریشنکا قیام 1960ء میں راج کمار شریواستو کے میئر کے ساتھ کیا گیا۔[42]کارپوریشن کا سربراہ میئر ہوتا ہے، لیکن کارپوریشن کا ایگزیکٹو اور انتظامیہ میونسپل کمشنر کی ذمہ داری ہے، جوحکومت اتر پردیشکی طرف سے مقرر کردہانڈین ایڈمنسٹریٹو سروسزکا اعلیٰ سینیارٹی کا افسر (آئی اے ایس) ہے۔ آخری میونسپل الیکشن 2017ء میں ہوا جببھارتیہ جنتا پارٹیکی سنیوکتا بھاٹیہ لکھنؤ کی پہلی خاتون میئر بنیں۔[43]بھارتیہ جنتا پارٹی نے کونسلر کی 57 نشستیں حاصل کیں،سماجوادی پارٹینے 31 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، آزاد امیدواروں نے 14 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اورانڈین نیشنل کانگریسنے 8 نشستیں حاصل کیں۔[44]اجے کمار دویدی، ایکآئی اے ایسافسر، 17 اگست 2020ء سے موجودہ میونسپل کمشنر ہیں۔[45]اترپردیش میونسپل کارپوریشن ایکٹ، 1959ء وارڈ کمیٹیوں کے قیام کے لیے دفعات دیتا ہے، لیکن وہ ابھی تک تشکیل نہیں دی گئی ہیں۔[46]لکھنؤ میونسپل کارپوریشنکے لیے آمدنی پیدا کرنے کے ذرائع میں پراپرٹی ٹیکس، ایس ڈبلیو ایم کے لیے یوزر چارجز، جرمانے، میونسپل پراپرٹیز سے کرایہ، پانی ذخیرہ کرنے سے حاصل ہونے والی آمدنی، پانی کی ترسیل، نکاسی اور صفائی، گرانٹ اور خدمات جیسے پیدائش اور موت کے سرٹیفکیٹس کے چارجز شامل ہیں۔[47][48]میونسپل کارپوریشن میں درج ذیل انتظامی محکمے ہیں: محکمہ صحت، محکمہ ہاؤس ٹیکس، محکمہ انجینئری، محکمہ پارک، محکمہ اشتہارات، محکمہ اکاؤنٹنگ، محکمہ جائداد۔[49]مختلف سیاسی جماعتوں کے 12 منتخب کونسلروں پر مشتمل ایک ایگزیکٹو کمیٹی (کارکرنی کمیٹی) بھی ہے، جو کارپوریشن کے پالیسی معاملات پر فیصلہ کرتی ہے۔[50]پولیس کمشنریٹ سسٹم 14 جنوری 2020ء کو لکھنؤ میں متعارف کرایا گیا تھا۔ ضلعی پولیس کی سربراہی پولیس کمشنر (سی پی) کرتے ہیں، جو اے ڈی جی پی رینک کے آئی پی ایس افسر ہیں اور اس کی مدد دو جوائنٹ کمشنر آف پولیس (آئی جی رینک) کرتے ہیں اور پانچ ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ایس پی رینک)۔ لکھنؤ کو پانچ زونوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک کا سربراہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس ہوتا ہے۔ دو جوائنٹ کمشنرز میں سے ایک امن و امان کی دیکھ بھال کرتا ہے، دوسرا جرم۔ لکھنؤ شہر کے موجودہ پولیس کمشنر آئی پی ایس ایس بی شروڈکر ہیں۔[51]ضلعی پولیس ہائی ٹیکنالوجی کنٹرول رومز کے ذریعے شہریوں کا مشاہدہ کرتی ہے اور تمام اہم سڑکوں اور چوراہوں کی سی سی ٹی وی اور ڈرون کیمروں کی مدد سے نگرانی کی جاتی ہے۔[52]کالی مرچ چھڑکنے والے ڈرون کی مدد سے ہجوم کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔[53]لکھنؤ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے شہر کی سڑکوں اور تینوں مقامات پر 10,000 سے زیادہ سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں، جس سے لکھنؤ ایسا کرنے والا ملک کا پہلا شہر بن گیا ہے۔[54]لکھنؤ ماڈرن پولیس کنٹرول روم (مختصر طور پر ایم سی آر)بھارتکا سب سے بڑا 'ڈائل 112' سروس سینٹر ہے جس میں ریاست بھر سے 300 کمیونیکیشن افسران اور 200 ڈسپیچ افسران پولیس کی مدد کے لیے پہنچتے ہیں۔[55]اسےبھارتکا سب سے ہائی ٹیک پولیس کنٹرول روم کہا جاتا ہے۔[56]لکھنؤ 1090 ویمن پاور لائن کا مرکز بھی ہے، جو ایک کال سینٹر پر مبنی سروس ہے جو چھیڑ چھاڑ سے نمٹنے کے لیے ہے۔ ایک مربوط 'ڈائل 112' کنٹرول روم کی عمارت بھی وہاں ہے جس میں دنیا کا سب سے بڑا جدید پولیس ایمرجنسی رسپانس سسٹم (پی ای آر ایس) ہے۔[57]لکھنؤ میںالہ آباد ہائی کورٹکا ایک بنچ ہے۔ اس کے علاوہ لکھنؤ میں ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ، پانچ سی بی آئی کورٹ، ایک فیملی کورٹ اور دو ریلوے کورٹ ہیں۔ ہائی کورٹ بنچ کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اور سی بی آئی کی عدالتیں قیصر باغ میں واقع ہیں اور ریلوے عدالتیں چارباغ میں ہیں۔[58]1 مئی 1963ء سے لکھنؤبھارتی فوجکی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر رہا ہے، جس سے پہلے یہ مشرقی کمان کا ہیڈ کوارٹر تھا۔[59]لکھنؤ میںنیشنل انویسٹیگیشن ایجنسیکا ایک برانچ آفس بھی ہے جوبھارتمیں دہشت گردانہ سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے ذمہ دار ہے۔[60]یہ نکسل اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے پانچ ریاستوںبہار،مدھیہ پردیش،اتراکھنڈ،جھارکھنڈاورچھتیس گڑھکی نگرانی کرتا ہے۔[61]شہر میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی نگرانی لکھنؤ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کرتی ہے، جوحکومت اتر پردیشکے ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ کے تحت آتی ہے۔ لکھنؤ کا ڈویژنل کمشنر ایل ڈی اے کے سابقہ چیئرمین کے طور پر کام کرتا ہے، جب کہ ایک وائس چیئرمین، حکومت کی طرف سے مقرر کردہآئی اے ایسافسر، اتھارٹی کے روزمرہ کے معاملات کو دیکھتا ہے۔ لکھنؤ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے موجودہ وائس چیئرمین آئی اے ایس اکشے ترپاٹھی ہیں۔[62][63]ایل ڈی اے نے لکھنؤ کا ماسٹر پلان 2031ء تیار کیا۔[64]حکومت اتر پردیشکی نشست کے طور پر،لکھنؤاتر پردیش ودھان سبھاکا مقام ہے،الہ آباد ہائی کورٹکا ایک بنچ اور متعدد سرکاری محکمے اور ایجنسیاں ہیں۔[65]راج ناتھ سنگھ، مرکزیوزیر دفاع،بھارتیہ جنتا پارٹیسے ہیں، لکھنؤ لوک سبھا حلقہ سےرکن پارلیمانہیں۔[66]کوشل کشور[67]موہن لال گنج (لوک سبھا حلقہ) سے ممبر پارلیمنٹ ہیں، جو لکھنؤ کا دوسرا لوک سبھا حلقہ ہے۔[68][69][70]لوک سبھا حلقہ کے علاوہ، لکھنؤ شہر کے اندر نو ودھان سبھا حلقے ہیں:مدھیانچل پاور ڈسٹری بیوشن کارپوریشن لمیٹڈ، جسے مدھیانچل ودیوت وترن نگم بھی کہا جاتا ہے، لکھنؤ میں بجلی کی فراہمی کا ذمہ دار ہے۔ یہ اترپردیش پاور کارپوریشن لمیٹڈ کے تحت ہے۔[71][72]آگ کی حفاظت کی خدمات اترپردیش فائر سروس کے ذریعہ فراہم کی جاتی ہیں، جو ریاستی حکومت کے تحت ہے۔
+جل نگم پانی کی فراہمی، سیوریج لائنوں اور طوفان کے پانی کی نالیوں کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور دیکھ بھال کے لیے ذمہ دار ہے۔[73]جل سنستھان پانی کی فراہمی اور پانی اور سیوریج کنکشن فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔[74]لکھنؤ میونسپل کارپوریشنلکھنؤ کے ٹھوس کچرے کے انتظام کی ذمہ دار ہے۔[75][76]لکھنؤ میں شہری ہم بستگی کی آبادی 1981ء ایک ملین تھی۔2001ءکی مردم شماری کے تخمینے کے مطابق یہ 2.24 ملین تک بڑھ گئی۔ ان میں 60،000 افراد لکھنؤ چھاؤنی میں جبکہ 2.18 ملین لکھنؤ شہر میں آباد ہیں۔[80]بھارت میں مردم شماری، 2011ءکی عارضی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ شہر کی آبادی 2,815,601 تھی، جس میں 1,470,133 مرد اور 1,345,468 خواتین تھیں۔[81][78]یہ 2001ء کے اعداد و شمار کے مقابلے میں 25.36 فیصد کا اضافہ تھا۔1991ء اور 2001ء کے درمیان، آبادی میں 32.03 فیصد اضافہ ہوا، جو 1981ء اور 1991ء کے درمیان میں رجسٹرڈ 37.14 فیصد سے نمایاں طور پر کم ہے۔[82]ابتدائی عارضی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2011ء میں آبادی کی کثافت 1,815 باشندے فی مربع کلومیٹر (4,700/مربع میل) تھی، جبکہ 2001ء میں یہ تعداد 1,443 تھی۔[82]چونکہضلع لکھنؤکا کل رقبہ صرف 2,528 مربع کلومیٹر (976 مربع میل) ہے، آبادی کی کثافت ریاستی سطح پر ریکارڈ کیے گئے 690 باشندوں فی مربع کلومیٹر (1,800/مربع میل) سے کہیں زیادہ تھی۔
+ریاست کےدرج شیڈول کاسٹکی آبادی کل آبادی کا 21.3% ہے، جو ریاست کی اوسط 21.15% سے زیادہ ہے۔[83][84]لکھنؤ شہر میں جنس کا تناسب 2011ء میں 915 خواتین فی 1000 مردوں پر تھا، 2001ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار 888 کے مقابلے میں۔ مردم شماری 2011ء کے ڈائریکٹوریٹ کے مطابق بھارت میں اوسط قومی جنسی تناسب 940 ہے۔[81]شہر میں 2011ء میں کل خواندگی کی سطح 84.72% تھی جبکہ مجموعی طور پر اترپردیش کے لیے یہ شرح 67.68% تھی۔[81]2001ء میں یہی اعداد و شمار 75.98 فیصد اور 56.27 فیصد تھے۔ لکھنؤ شہر میں کل خواندہ آبادی 2,147,564 تھی جن میں سے 1,161,250 مرد اور 986,314 خواتین تھیں۔[81][85]اس حقیقت کے باوجود کہ ضلع میں کام میں حصہ لینے کی مجموعی شرح (32.24%) ریاستی اوسط (23.7%) سے زیادہ ہے، لکھنؤ میں خواتین کی شرح صرف 5.6% پر بہت کم ہے اور یہ 1991ء کے اعداد و شمار کے مقابلے میں 5.9% کمی کو ظاہر کرتی ہے۔[86][87]چارقومی شاہراہیںلکھنؤ کےحضرت گنجچوراہے سے شروع ہوتی ہیں، جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:[88]شہر میں عوامی نقل و حمل کے لیے ٹیکسیاں، میٹرو بس، سائیکل رکشے اور آٹو رکشے دستیاب ہیں۔لکھنؤ شہر کی بس سروساترپردیش اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشنکے زیر انتظام ہے۔ اس میں 9،500 کے مجموعی بیڑے سے 300 سی این جی بسوں موجود ہیں۔ شہر میں تقریباً 35 روٹ ہیں۔[89]چار بس ڈپوگومتی نگر، چار باغ، اموسی، دوبگگا میں موجود ہیں۔[90]بین ریاستی بسیوں کا اڈابھیم راؤ رام جی امبیڈکربین ریاستی بس ٹرمینل لکھنؤ سے دیگر ریاستوں کو بس خدمات فراہم کرتا ہے جونیشنل ہائی وے 25پر واقع ہے۔ جبکہقیصر باغمیں بھی ایک چھوٹا بس اڈا موجود ہے۔اتر پردیشکے شہروںالٰہ آباد،وارانسی،جے پور،آگرہ،دہلی،گورکھپورکے لیےاترپردیش اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشنبس سروس فراہم کرتا ہے، جبکہ دیگر ریاستوں کے لیے بین ریاستی بس سروسجے پور،نئی دہلی،گوالیار،بھرت پور، راجستھان،سنگرولی،فرید آباد،گرو گرام،دوسہ،اجمیر،دہرہ دوناورہردوارکے لیے دستیاب ہے۔[91]لکھنؤ شہر کے کئی علاقوں میں متعدد ریلوے اسٹیشن موجود ہیں۔ جن میں اہملکھنؤ جنکشن ریلوے اسٹیشناورلکھنؤ جنکشن ریلوے اسٹیشنہیں۔ لکھنؤ شہر ایک اہم جنکشن ہے جو ملک اور ریاست کے شہروں کو ملاتا ہے مثلاًنئی دہلی،ممبئی،کولکاتا،چندی گڑھ،امرتسر،جموں،چینائی،حیدرآباد، دکن،بنگلور،احمد آباد،پونے،اندور،بھوپال،گوالیار،جبل پور،جے پوراورسیوان۔[92]اس سے پہلے میٹر گیج خدمات عیش باغ سے شروع ہوئی تھیں اور لکھنؤ شہر، ڈالی گنج اور محب اللہ پور سے جڑی تھیں۔ اب تمام سٹیشنوں کو براڈ گیج میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تمام اسٹیشن شہر کی حدود میں واقع ہیں اور بس سروسز اور دیگر پبلک روڈ ٹرانسپورٹ سے اچھی طرح سے جڑے ہوئے ہیں۔ مضافاتی اسٹیشنوں میں بخشی کا تالاب اور کاکوری شامل ہیں۔ لکھنؤ-کانپور مضافاتی ریلوے کا آغاز 1867ء میں لکھنؤ اور کانپور کے درمیان میں سفر کرنے والے مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس سروس پر چلنے والی ٹرینیں بھی شہر کے مختلف مقامات پر متعدد اسٹیشنوں پر رکتی ہیں جو مضافاتی ریل نیٹ ورک بناتی ہیں۔
+شہر میں کل چودہ ریلوے اسٹیشن ہیں جوبراڈ گیجاورمیٹر گیجسے دیگر اسٹیشنوں سے منسلک ہیں۔[93]چودھری چرن سنگھ بین الاقوامی ہوائی اڈےکے ذریعے لکھنؤنئی دہلی،پٹنہ،کولکاتا،ممبئی،بنگلور،احمد آباد،ح��درآباد،چینائی،گوہاٹیاور ملک کے دیگر بڑے شہروں سے براہ راست منسکک ہے۔
+چھوٹے ہوائی اڈے کے زمرے میں ہوائی اڈے کو دنیا کا دوسرا بہترین درجہ دیا گیا ہے۔[94]ہوائی اڈا ہر موسم میں آپریشنز کے لیے موزوں ہے اور 14 طیاروں تک پارکنگ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس وقتایئر انڈیا،ایئر انڈیا ایکسپریس،گو ایئر، انڈیگو،سعودی ایئر لائنز،فلائی دبئی،عمان ایئراور وستارا لکھنؤ اور وہاں سے اندرون ملک اور بین الاقوامی پروازیں چلاتے ہیں۔
+اس کے علاوہ یہاں سے بین الاقوامی پروازیںابوظبی،دبئی،مسقط،شارجہ،سنگاپور،بینکاک،دماماورجدہجاتی ہیں۔[95]ہوائی اڈے کی منصوبہ بند توسیع سےایئربس اے380جمبو جیٹ ہوائی اڈے پر اترنے کی اجازت دے گا۔ ناگارجن کنسٹرکشن کمپنی (این سی سی) نے لکھنؤ ہوائی اڈے پر نئے ٹرمینل کی تعمیر شروع کر دی ہے جس کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے دسمبر 2021ء تک مکمل ہونے کی امید ہے۔[96]رن وے کی توسیع کا بھی منصوبہ ہے۔ یہ بھارت کا دسواں مصروف ترین ہوائی اڈا ہے، جواتر پردیشکا مصروف ترین اورشمالی بھارتکا دوسرا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے۔لکھنؤ میٹروایکعاجلانہ نقل و حملہے جس نے اپنا کام 6 ستمبر 2017ء سے شروع کیا تھا۔ لکھنؤ میٹرو سسٹم دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے تعمیر کیا جانے والا میٹرو سسٹم ہے۔[97]لکھنؤ میٹرواتر پردیشکےشہرلکھنؤ میں تعمیر کیا جانے والا کثیر نقل حمل (ماس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم) کا ایک نظام ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز27 ستمبر 2014ء کو ہوا۔[98]فروری میں وزیر اعلیٰاکھلیش یادونے ریاستی دار الحکومت کے لیے میٹرو ریل سسٹم قائم کرنے کی منظوری دی۔ اسے دو راہداریوں میں تقسیم کیا گیا ہے، شمال-جنوبی کوریڈور جو منشیپولیا کو سی سی ایس انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے جوڑتا ہے اور چارباغ ریلوے اسٹیشن کو وسنت کنج سے جوڑنے والا مشرقی-مغرب کوریڈور۔ یہ ریاست کا سب سے مہنگا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ہوگا لیکن شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کو کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر نقل و حمل کا تیز ترین ذریعہ فراہم کرے گا۔ پہلے مرحلے کی تعمیر مارچ 2017ء تک مکمل ہو جائے گی۔ میٹرو ریل پراجیکٹ کی تکمیل اترپردیش حکومت کا بنیادی مقصد ہے جس کی سربراہی اس وقت وزیر اعلیٰیوگی آدتیہ ناتھکر رہے ہیں۔[99]5 ستمبر 2017ء کو وزیر داخلہراج ناتھ سنگھاور وزیر اعلیٰیوگی آدتیہ ناتھنےلکھنؤ میٹروکوہری جھنڈیدکھائی۔[100]لکھنؤاتر پردیشکا سب سے زیادہ سائیکل دوستانہ شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں سائیکل سواری کے لیے خاص راستے موجود ہیں۔ایمسٹرڈیمکی طرز پر اسے زیادہ سائیکل دوستانہ بنانے کے لیے نئی سائیکل راہیں شہر میں تعمیر کی جا رہی ہیں، جہاں سائیکل کرائے پر لینے کی سہولیات بھی موجود ہیں۔[101][102]2015ءمیں لکھنؤ میںلکھنؤ سائکلتھون(The Lucknow Cyclothon) نامی ایک قومی سطح سائیکلنگ ایونٹ کی میزبانی بھی کی۔[103]ساڑھے چار کلومیٹر (2.8 میل) ٹریک کالیداس مارگ پر ایک گولف کلب کے ساتھ لا-مارٹینیئر کالج روڈ کو گھیرے ہوئے ہے، جہاں وزیر اعلیٰ رہتے ہیں اور وکرمادتیہ مارگ، جس میں حکمراں پارٹی کا دفتر ہے۔ سائیکل سواروں کے لیے مختص چار میٹر (13 فٹ) لین فٹ پاتھ اور مین روڈ سے الگ ہے۔ایمسٹرڈیمسے متاثر طور پر، شہر میں نئے سائیکل ٹریکس بنائے جائیں گے تاکہ اسے مزید سائیکل دوست بنایا جا سکے، جس میں بائیک کرایہ پر لینا جیسی سہولیات بھی کام کر رہی ہیں۔[104][105]حکومت اترپردیش کی جانب سے زیر تعمیر سائیکل ٹریک نیٹ ورک لکھنؤ کو بھارت کا سب سے بڑا سائیکل نیٹ ورک والا شہ�� بنانے کے لیے تیار ہے۔[106]لکھنؤ کی عمارتیں مختلف طرز تعمیر کی ہیں جن میں برطانوی اور مغلیہ دور کی تعمیرات بہت شاندار ہیں۔ ان عمارتوں میں سے آدھی سے زیادہ شہر کے پرانے حصے میں واقع ہیں۔ اترپردیش کا محکمہ سیاحت مقبول یادگاروں کو سیاحوں کے لیے ایک ""ثقافتی ورثہ واک"" کے طور پر منظم کرتا ہے۔[107]موجودہ فن تعمیر میں، مذہبی عمارات جیسے امام بارگاہ، مساجد اور دیگراسلامیمزارات کے ساتھ ساتھ سیکولر ڈھانچے جیسے بند باغات،بارہ دریاور محلات کے احاطے ہیں۔[108]حسین آباد میں واقعبڑا امام باڑہ(آصفی مسجد) ایک عظیم الشان عمارت ہے جسے 1784ء میں لکھنؤ کے اس وقت کے نوابآصف الدولہنے تعمیر کیا تھا۔ یہ اصل میں مہلک قحط سے متاثرہ لوگوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، جس نے اسی سال پورےاتر پردیشکو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔[109]یہایشیاکا سب سے بڑا ہال ہے جس میں لکڑی، لوہے یا پتھر کے شہتیر سے کوئی بیرونی مدد حاصل نہیں ہے۔[110]یادگار کی تعمیر کے دوران میں تقریباً 22,000 مزدوروں کی ضرورت تھی۔[111]18 میٹر (60 فٹ) اونچارومی دروازہ، جسے نواب آصف الدولہ (دور 1775ء–1797ء) نے 1784ء میں تعمیر کیا تھا، لکھنؤ شہر کے داخلی دروازے کے طور پر کام کرتا تھا۔ اسے ٹرکش گیٹ وے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کیونکہ یہ غلطی سےقسطنطنیہکے گیٹ وے سے مماثل سمجھا جاتا تھا۔ یہ عمارت عظیم امام باڑہ کا مغربی دروازہ فراہم کرتی ہے اور اسے شاہانہ سجاوٹ سے مزین کیا گیا ہے۔[112]لکھنؤ کے تاریخی علاقوں میں فن تعمیر کے مختلف انداز دیکھے جا سکتے ہیں۔لکھنؤ یونیورسٹییورپی طرز سے ایک بہت بڑا الہام دکھاتی ہے جب کہ انڈو-سراسینک بحالی فن تعمیر اترپردیش ودھان سبھا کی عمارت اورلکھنؤ چارباغ ریلوے اسٹیشنمیں نمایاں طور پر موجود ہے۔دلکشا کوٹھیایک محل کی باقیات ہے جسے برطانوی باشندے میجر گور اوسلی نے 1800ء کے لگ بھگ تعمیر کیا تھا اور اس میں انگریزی باروک فن تعمیر کی نمائش کی گئی ہے۔ اس نےنواب اودھکے لیے شکار کی جگہ اور موسم گرما کے سیرگاہ کے طور پر کام کیا۔[113]چھتر منزل، جواودھ کے حکمرانوں اور ان کی بیویوںکے لیے محل کے طور پر کام کرتی تھی، اس کے اوپر چھتری نما گنبد ہے اور اس کا نام چھتر اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کا نام ""چھتری"" کا ہندی لفظ ہے۔ چھتر منزل کے سامنے نواببرہان الملک سعادت علی خانکی طرف سے 1789ء اور 1814ء کے درمیان میں بنوایا گیا 'لال بارادری' ہے۔ یہ شاہی درباروں کی تاجپوشی کے موقع پر ایک تخت خانے کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس عمارت کو اب ایک میوزیم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں ان مردوں کے نازک طریقے سے بنائے گئے پورٹریٹ ہیں جنھوں نے سلطنت اودھ کے انتظام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔مخلوط طرز تعمیر کی ایک اور مثاللا مارٹنیری لکھنؤہے، جو ہندوستانی اور یورپی خیالات کے امتزاج کو ظاہر کرتا ہے۔[114]اسے میجر جنرل کلاڈ مارٹن نے بنایا تھا جولیوںمیں پیدا ہوئے تھے اور 13 ستمبر 1800ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے تھے۔ اصل میں ""کانسٹینٹیا"" کا نام دیا گیا، عمارت کی چھتیں گنبد والی ہیں اور تعمیر کے لیے لکڑی کے شہتیر کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔[115]کالج کی عمارت میںگوتھک فن تعمیرکی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔لکھنؤ کیآصفی مسجد(بڑا امام باڑہ) اپنی تعمیراتی خصوصیت کے طور پر والٹڈ ہالوں کی نمائش کرتا ہے۔بڑا امام باڑہ،چھوٹا امام باڑااوررومی دروازہشہر کے نوابی مرکب مغلائی اور ترکی طرز تعمیر کے ثبوت میں کھڑے ہیں جبکہلا مارٹ��یری لکھنؤہند-یورپی طرز کی گواہی دیتا ہے۔ یہاں تک کہ نئی عمارتوں کو خصوصیت کے گنبد اور ستونوں کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے اور رات کے وقت یہ روشن یادگاریں شہر کی اہم توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔[116]شہر کے مرکزی خریداری علاقےحضرت گنجکے آس پاس پرانے اور جدید فن تعمیر کا امتزاج ہے۔ اس میں ایک پرانے اور خستہ حال پولیس اسٹیشن کی جگہ ایک کثیر سطح کی پارکنگ ہے جو راہداریوں کو کنکروں والے راستوں تک پھیلانے کے لیے راستہ بناتی ہے، جو پیازوں، سبزہ زاروں اور لوہے کے بنے ہوئے اور کاسٹ آئرن لیمپ پوسٹس سے مزین ہے، جووکٹوریائی دورکی یاد دلاتا ہے۔[117]لکھنؤ اپنی وراثت میں ملی ثقافت کو جدید طرز زندگی کے ساتھ بڑی خوبصورتی کے ساتھ ملائے ہوئے ہے۔ بھارت کے اہم شہروں میں گنے جانے والے لکھنؤ کی ثقافت میں جذبات کی گرماہٹ کے ساتھ اعلیٰ احساس اور محبت بھی شامل ہے۔ لکھنؤ کے معاشرے میں نوابوں کے وقت سے ہیپہلے آپ!والا انداز رچا بسا ہے۔ وقت کے ساتھ ہر طرف جدیدیت کا دور دورہ ہے تاہم اب بھی شہر کی آبادی کا ایک حصہ اپنی تہذیب کو سنبھالے ہوئے ہے۔ تہذیب یہاں دو بڑے مذاہب کے لوگوں کو ایک ثقافت سے باندھے ہوئے ہے۔ یہ ثقافت یہاں کےنوابوںکے دور سے چلی آ رہی ہے۔ لکھنویپانیہاں کی ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہے جس کے بغیر لکھنؤ نامکمل لگتا ہے۔
+لکھنؤ کے رہنے والے اپنے آپ کو لکھنوی کہتے ہیں۔[118]یہ عالمگیریت کے پگھلنے والے برتن کی بھی نمائندگی کرتا ہے جہاں نواب کی ثقافت کی وراثت شہر کی ہندی زبان کے روایتی الفاظ میں جھلکتی رہتی ہے اور ساتھ ہی یہاں جدیدیت کے بہتر راستے بھی موجود ہیں۔لکھنؤ اپنےغرارہکے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ خواتین کا ایک روایتی لباس ہے جواودھکےنوابوںسے شروع ہوا ہے۔[119]اس پر زری اورزردوزیکے ساتھ گوٹا (گھٹنے کے حصے پر آرائشی فیتے) کے ساتھ کڑھائی کی گئی ہے۔ یہ لباس 24 میٹر (26 گز) سے زیادہ کپڑے سے بنایا گیا ہے، زیادہ تر ریشم، بروکیڈ اور کمخواب کا ہوتا ہے۔چکن، یہاں کی کڑاہی کا بہترین نمونہ ہے اور لکھنوی زردوزی یہاں کی چھوٹی صنعت ہے جو کرتے اور ساڑیوں جیسے کپڑوں پر اپنا فن دکھاتے ہیں۔ اس صنعت کا زیادہ تر حصہ پرانے لکھنؤ کے چوک علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کے بازار چکن کڑاہی کی دکانوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس ماہر اور مشہور کاریگروں میں استاد فیاض خاں اور حسن مرزا صاحب تھے۔لکھنؤ میںہندیاوراردودونوں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن اردو کو یہاں صدیوں سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ جبدہلیحالات اچھے نہ رہے تو بہت سے شاعروں نے لکھنؤ کا رخ کیا۔ تب سےاردو شاعریکے دو ٹھکانے ہو گئے، دہلی اور لکھنؤ۔ جبکہ دہلی صوفی شاعری اور لکھنؤ غزل، عیش و آرام اور عشقیہ شاعری کا مرکز بنا۔ نوابوں کے دورے میں اردو کی خصوصی نشو و نما ہوئی اور یہ بھارت کی تہذیب والی زبان کے طور پر ابھری۔ یہاں کے مشہور شاعروں میںحیدرعلی آتش،عامر مینائی،مرزا محمد ہادی رسوا،مصحفی،انشا،صفی لکھنوی،مير تقی میرشامل ہیں۔ لکھنؤشیعہثقافت کے دنیا کے عظیم شہروں میں سے ایک ہے۔میر انیساورمرزا دبیراردومرثیہگوئی کے لیے مشہور ہیں۔مشہور ہندوستانی رقصکتھکنے یہیں ترقی پائی۔اودھکے آخری نوابواجد علی شاہکتھککے بڑے پرستاروں میں سے تھے۔ لکھنؤ مشہور غزل گلوکاہبیگم اخترکا بھی شہر رہا ہے۔ وہ غزل گائکی میں معروف تھیں اور اسے نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
+لکھنؤ کیبھاتكھڈے موسیقی یونیورسٹیکا نام یہاں کے عظیم موسیقار پنڈت وشنو نارائن بھاتكھڈے کے نام پر رکھا ہوا ہے۔سری لنکا،نیپال، بہت سے ایشیائی ممالک اور دنیا بھر سے طالبعلم یہاں رقص اور موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ لکھنؤ نے کئی گلوکار دیے ہیں جن میں سے نوشاد علی، طلعت محمود، انوپ جلوٹا اور بابا سہگل انتہائی اہم ہیں۔ لکھنؤ شہر برطانوی پاپ گلوکار كلف رچرڈ کا جائے پیدائش بھی ہے۔لکھنؤ ہندی فلمی صنعت کا شروع سے ہی مرکز رہا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ لکھنوی رابطے کے بغیر، بالی ووڈ کبھی اس بلندی پر نہیں آ پاتا جہاں وہ اب موجود ہے۔اودھسے بہتاسکرپٹ مصنف اور نغمہ نگار ہیں، جیسےمجروح سلطان پوری،کیفی اعظمی،جاوید اختر، علی رضا،وجاہت مرزا(مدر انڈیااور گنگا جمنا کے مصنف)، امرت لال ناگر،علی سردار جعفریاور کے پی سکسینہ جنھوں نے بھارتی فلم کو بلندی پر پہنچایا۔ لکھنؤ پر بہت سی مشہور فلمیں بنی ہیں جیسے ششی کپور کی جنون، مظفر علی کیامرا ؤ جاناور گمن، ستیہ جیت رائے کی شطرنج کے کھلاڑی اور اسماعیل مرچنٹ کی شیکسپیئر والا کی بھی جزوی شوٹنگ یہیں ہوئی تھی۔بہو بیگم، محبوب کی مہندی، میرے حضور، چودھویں کاچاند، پاکیزہ، میں میری بیوی اور وہ، سحر، انور اور بہت سی ہندی فلمیں یا تو لکھنؤ میں بنی ہیں یا ان کا پس منظر لکھنؤ کا ہے۔ غدر فلم میں بھی پاکستان کے مناظر لکھنؤ میں فلمائے گئے ہیں۔ اس میں لال پل، لکھنؤ اورلا مارٹينير کالجکے مناظر ہیں۔اودھکے علاقے کی اپنی ایک الگ خاص پہچان نوابی پکوان ہیں۔ اس میں مختلف طرح کیبریانی،کباب،قورما،نہاری،كلچے،شیر مال،زردہ،رومالی روٹیاوروركی پراٹھااورروٹیاںوغیرہ،کاکوری کباب،گلاوٹی کباب،پتیلی کباب،بوٹی کباب،گھٹوا کباباورشامی کباباہم ہیں۔ شہر میں بہت سی جگہ یہ پکوان ملیں گے۔ یہ تمام طرح کے اور تمام بجٹ کے ہوں گے۔ جہاں ایک طرف1805ءمیں قائم کردہ رام آسرے حلوائی کی مکھن گلوری مشہور ہے، وہیں اکبری گیٹ پر ملنے والے حاجی مراد علی کے ٹنڈے کے کباب بھی کم مشہور نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر نوابی پكوانوں جیسےدمپخت،لچھے دار پیازاورسبز چٹنیکے ساتھسیخ کباباوررومالی روٹیکا بھی جواب نہیں ہے۔ لکھنؤ کیچاٹہندوستان کی بہترین چاٹ میں سے ایک ہے اور کھانے کے آخر میں مشہور عالم لکھنؤ کےپانجن کا کوئی ثانی نہیں ہے۔لکھنؤ میں روٹیوں کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایسی ہی روٹیاں یہاں کے ایک پرانے بازار میں آج بھی ملتی ہیں، بلکہ یہ بازار روٹیوں کا بازار ہی ہے۔ اکبری گیٹ سے نکھاس چوکی کے پیچھے تک یہ بازار ہے، جہاںشیر مال،نان،خمیری روٹی،رومالی روٹی،كلچہجیسی کئی دیگر طرح کی روٹیاں مل جائیں گی۔ پرانے لکھنؤ کے اس روٹی بازار میں مختلف قسم کی روٹیوں کی تقریباً 15 دکانیں ہیں جہاں صبح نو سے رات نو بجے تک گرم روٹی خریدی جا سکتی ہے۔ بہت سے پرانے نامی ہوٹل بھی اس گلی کے قریب ہیں، جہاں آپ کی من پسند روٹی کے ساتھ گوشت کے پکوان بھی ملتے ہیں۔عام ہندوستانی تہوار مثلاًکرسمس،دیوالی،درگا پوجا،عید الفطر،عید الاضحی،ہولی،رکشا بندھن،دسہرا[120]یہاں جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ دیگر تہوار یا جلوسوں میں سے کچھ یہ ہیں:لکھنؤ فیسٹیول ہر سالاتر پردیشکے فن اور ثقافت کو ظاہر کرنے اور سیاحت کو فروغ دینے کے منظم کیا جاتا ہے۔[121][122]2013ءکے بعد یہ ہر سال نومبر کے مہینے میں منعقد کیا جانے والا ایک سالانہ ادبی میلا میں ہے۔[123]لکھنؤاہل تشیعکا گڑھ ہے اور بھارت میں شیعہ ثقافت کے نمونے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مسلمانوںاسلامی تقویمکے پہلے مہینےمحرماورعاشوراحسین ابن علیکی یاد میں مناتے ہیں۔[124]اہل تشیعکے گیارہویںامامحسن بن علی عسکریکی وفات کے سوگ میں 8ربیع الاولکو مذہبی جلوس کی صورت میں منایا جاتا ہے۔[125]بڑا منگلیاہنومان جینتیایک تہوار ہے جوہنومانکی پیدائش کی خوشی میں مئی کے مہینے میں پرانا مندر میں منایا جاتا ہے۔لکھنؤ کوایل جی کارپوریشناورآئی ایم آر بی انٹرنیشنلکے سروے کے مطابقچندی گڑھکے بعد ""بھارت کا دوسرا سب سے خوش شہر"" قرار دیا گیا ہے۔ اسنئی دہلی،بنگلوراورچینائیسمیتبھارتکے دیگر میٹروپولیٹن علاقوں کے مقابلے میں لکھنؤ خوراک، ٹرانزٹ اور مجموعی طور پر شہری سکون میں بہتر پایا گیا ہے۔[126][127]لکھنؤ شمالی بھارت کی ایک اہم مارکیٹ اور کمرشل شہر ہی نہیں، بلکہ مصنوعات اور خدمات کا ابھرتا ہوا مرکز بھی بنتا جا رہا ہے۔ اترپردیش ریاست کے دار الحکومت ہونے کی وجہ سے یہاں سرکاری اور نجی سیکٹر انٹرپرائز بہت زیادہ ہیں۔ لکھنؤ شہری ہم بستگی میں بڑی صنعتوں میں ایئروناٹکس، مشینی اوزار، کیمیکلز، فرنیچر اور چکن کڑھائی شامل ہیں۔[128]لکھنؤ بھارت کے سب سے زیادہخام ملکی پیداواروالی شہروں میں سے ایک ہے۔[129]لکھنؤ سافٹ ویئر اور آئی ٹی کا ایک بڑھتا ہوا آئی ٹی مرکز ہے اور شہر میں آئی ٹی کمپنیاں موجود ہیں۔ ٹاٹا کنسلٹنسی سروسزگومتی نگرمیں بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔[130]بہت سے مقامیآزاد مصدرٹیکنالوجی کمپنیاں بھی موجود ہیں۔[131]شہر میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے بھارتی حکومت 200 کروڑ روپے (2000 ملین روپے) مختص کیے ہیں تا کہ شہر میں ایک ٹیکسٹائل کے کاروبار کا کلسٹر قائم کیا جا سکے۔[132]اسوچیم پلیسمنٹ پیٹرن کے ذریعہ کیے گئے ایک مطالعہ کے مطابق لکھنؤ بھارت میں ملازمت پیدا کرنے والے دس سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔[133]لکھنؤ کی معیشت پہلے ترتیری شعبے پر مبنی تھی اور افرادی قوت کی اکثریت سرکاری ملازمین کے طور پر ملازم تھی۔ بڑے پیمانے پر صنعتی ادارےشمالی بھارتکے دیگر ریاستی دارالحکومتوں جیسےنئی دہلیکے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
+معیشت آئی ٹی، مینوفیکچرنگ اور پروسیسنگ اور میڈیکل/بائیو ٹیکنالوجی کے شعبوں کے تعاون سے ترقی کر رہی ہے۔ سی آئی آئی جیسے کاروبار کو فروغ دینے والے اداروں نے شہر میں اپنے سروس سینٹرز قائم کیے ہیں۔[134]اہم برآمدی اشیاءسنگ مرمرکی مصنوعات، دستکاری، آرٹ کے ٹکڑے، جواہرات، زیورات، ٹیکسٹائل، الیکٹرانکس، سافٹ ویئر مصنوعات، کمپیوٹر، ہارڈویئر مصنوعات، ملبوسات، پیتل کی مصنوعات، ریشم، چمڑے کی اشیاء، شیشے کی اشیاء اور کیمیکلز ہیں۔ لکھنؤ نے بجلی کی فراہمی، سڑکوں، ایکسپریس وے اور تعلیمی منصوبوں جیسے شعبوں میں پبلک پرائیویٹ شراکت داری کو فروغ دیا ہے۔[135]لکھنؤ کئی ممتاز تعلیمی اور تحقیقی اداروں کا گھر ہے جن میںانڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ لکھنؤ(آئی آئی ایم-ایل)،انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لکھنؤ(آئی آئی آئی ٹی-ایل)،سنٹرل ڈرگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(سی ڈی آر آئی)،انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹاکسیولوجی ریسرچ،نیشنل بوٹینیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(این بی آر آئی)،انسٹی ٹیوٹ آف انجینئری اینڈ ٹیکنالوجی(آئی ای ٹی)،ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نیشنل لا یونیورسٹی(آر ایم ایل این ایل یو)،انسٹی ٹیوٹ آف ہوٹل مینجمنٹ، لکھنؤ(آئی ایچ ایم)،سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(ایس جی پی جی آئی)،ڈاکٹر رام منوہر لوہیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزاورکنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی(کے جی ایم یو) شامل ہیں۔[136]لکھنؤ یونیورسٹیسے منسلک نیشنل پی جی کالج (این پی جی سی) کو 2014ء میںقومی مجلس برائے تشخیص و اعتمادنے ملک میں رسمی تعلیم فراہم کرنے والے دوسرے بہترین کالج کے طور پر درجہ دیا تھا۔[137]شہر کے تعلیمی اداروں میں سات یونیورسٹیاں شامل ہیں جن میںلکھنؤ یونیورسٹی، ایکبابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی، ایکٹیکنیکل یونیورسٹی (اتر پردیش ٹیکنیکل یونیورسٹی)، ایکلا یونیورسٹی(آر ایم ایل این ایل یو)، ایکاسلامی یونیورسٹی(ڈی یو این یو) اور بہت سے پولی ٹیکنک، انجینئری انسٹی ٹیوٹ اور صنعتی تربیتی ادارے ہیں۔[138]ریاست کی دیگر تحقیقی تنظیموں میںسنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیسنل اینڈ آرومیٹک پلانٹس،سینٹرل فوڈ ٹیکنولوجیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹاور سنٹرل گلاس اینڈ سیرامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔[139][140]اترپردیش کے کچھ بڑے اسکول لکھنؤ میں واقع ہیں جن میںدہلی پبلک اسکول سوسائٹیکی شاخیں ایلڈیکو، اندرا نگر میں ہیں۔ لکھنؤ انٹرنیشنل پبلک اسکول، سٹی مونٹیسوری اسکول، کولون تالقدارس کالج، سینٹینئل ہائر سیکنڈری اسکول، سینٹ فرانسس کالج، لوریٹو کانونٹ لکھنؤ، سینٹ میری کانونٹ انٹر کالج، کیندریہ ودیالیہ، لکھنؤ پبلک اسکول لکھنؤ، سٹیلا مارس انٹر کالج، سیٹھ ایم آر جے پوریا اسکول،کیتھیڈرلاسکول، میری گارڈنرز کانوینٹ اسکول، ماڈرن اسکول، ایمیٹی انٹرنیشنل اسکول، سینٹ ایگنس، آرمی پبلک اسکول، ماؤنٹ کارمل کالج، اسٹڈی ہال، کرائسٹ چرچ کالج، رانی لکشمی بائی اسکول اور سینٹرل اکیڈمی شامل ہیں۔سٹی مونٹیسوری اسکول، جس کی 20 سے زائد شاخیں شہر بھر میں پھیلی ہوئی ہیں، دنیا کا واحد اسکول ہے جسےیونیسکوانعام برائے امن تعلیم سے نوازا گیا ہے۔[141]سی ایم ایس کے پاس 40,000 سے زیادہ طلبہ کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا اسکول ہونے کاگنیز ورلڈ ریکارڈزبھی ہے۔[142]اسکول کا شمار بھارت کے سرفہرست اسکولوں میں ہوتا ہے۔[143]لا مارٹنیری لکھنؤ، جسے 1845ء میں قائم کیا گیا تھا، دنیا کا واحد اسکول ہے جسے جنگی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔[144]یہ ہندوستان کے قدیم ترین اسکولوں میں سے ایک ہے، جو اکثر ملک کے دس بڑے اسکولوں میں شمار ہوتا ہے۔[145][146]لکھنؤ میںگرو گوبند سنگھ اسپورٹس کالجکے نام سے ایک اسپورٹس کالج بھی ہے۔لکھنؤ تاریخی طور پر صحافت کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔بھارتکے پہلےوزیر اعظمپنڈت جواہر لال نہروکادوسری جنگ عظیمسے قبل شروع کیا جانے والادی نیشنل ہیرالڈلکھنؤ سے ہی شائع ہوتا تھا۔شہر کے اہم انگریزی اخباروں میں دی ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز، دی پائنیر اور انڈین ایکسپریس شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے روزنامے انگریزی، ہندی اور اردو زبانوں میں بھی شائع ہوتے ہیں۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا اور یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا کے دفتر شہر میں موجود ہیں اور ملک کے تمام اہم اخباروں کے صحافی لکھنؤ میں موجود رہتے ہیں۔لکھنؤ کاہندی فلم انڈسٹریپر اثر رہا ہے جیسا کہ شاعر، مکالمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر کے پی سکسینہ، سریش چندر شکلا کی پیدائش 10 فروری 1954ء[147]کو بالی ووڈ اور بنگالی فلموں کے تجربہ کار اداکار پہاڑی سانیال کے ساتھ ہوئی۔ جو شہر کے معروف سانیال خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔[148][149]کئی فلموں نے لکھنؤ کو اپنے پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے جن میںششی کپورکی جنون، مظفر علی کیامراؤ جاناور گمن،ستیہ جیت رائےکی شترنج کے کھلاڑی شامل ہیں۔اسماعیل مرچنٹکا شیکسپیئر والا، پی اے اے اور شیلیندر پانڈے کا جے ڈی بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔[150][151][152]فلم غدر میں: ایک پریم کتھا میں لکھنؤ کوپاکستانکی تصویر کشی کے لیے استعمال کیا گیا تھا،[153]جس میں لال پل، تاج ہوٹل اوررومی دروازہکو تنو ویڈس منو میں استعمال کیا گیا تھا۔[154]آل انڈیا ریڈیو کے ابتدائی اسٹیشنوں میں سے لکھنؤ میں قائم کیے گئے۔ یہاں میڈیم ویوز پر نشریات کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ایف ایم نشریات بھی2000ءمیں شروع کی گئیں۔ شہر میں مندرجہ ذیل ریڈیو اسٹیشن چل رہے ہیں۔[155]شہر میں انٹرنیٹ کے لیے براڈ بینڈ انٹرنیٹ اور ویڈیو کانفرینسنگ کی سہولت دستیاب ہیں۔ گھریلو صارفین اور کارپوریٹ صارفین کے لیے اچھی رفتار کا براڈبینڈ انٹرنیٹ کنکشن دستیاب ہوتا ہے۔ شہر میں بہت سے انٹرنیٹ کیفے بھی موجود ہیں۔لکھنؤ بھارتی بیڈمنٹن ایسوسی ایشن کا ہیڈ کوارٹر ہے۔گومتی نگرمیں واقع ہے۔ یہ1934ءمیں قائم کیا گیا تھا اور1936ءسے ہندوستان میں قومی سطح کے ٹورنامنٹ کا انعقاد کراتا ہے۔ جونیئر سطح کے بیڈمنٹن کھلاڑیوں لکھنؤ میں ان کی تربیت کے بعد ا بنگلور بھیجا جاتا ہے۔[156][157]دہائیوں سے لکھنؤ عظیم الشانشیش محل کرکٹ ٹورنامنٹکی میزبانی کر رہا ہے۔ موجودہ دور میں کرکٹ، فٹ بال، بیڈمنٹن، گالف اور ہاکی شہر کے سب سے زیادہ مقبول کھیل ہیں۔ سید مودی گراں پری منعقدہ ایک بین الاقوامی بیڈمنٹن مقابلہ ہے۔کھیلوں کا مرکزی مرکزکے ڈی سنگھ بابو اسٹیڈیم، لکھنؤہے، جس میں ایک سوئمنگ پول اور انڈور گیمز کمپلیکس بھی ہے۔ کے ڈی ایس بی اسٹیڈیم کو ایکانا اسٹیڈیم کی طرز پر تیار کرنے کا منصوبہ ہے۔ کے ڈی ایس بی اسٹیڈیم کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ری ڈیزائن اور اپ گریڈ کرنے کے لیے 2 ارب روپے کے فنڈز درکار ہیں۔ دیگر اسٹیڈیم ہیں دھیان چند آسٹروٹرف اسٹیڈیم، محمد شاہد سنتھیٹک ہاکی اسٹیڈیم، ناردرن انڈیا انجینئری کالج میں ڈاکٹر اکھلیش داس گپتا اسٹیڈیم،[158]بابو بنارسی داس یوپی بیڈمنٹن اکیڈمی، چارباغ، مہانگر، چوک اور انٹیگرل یونیورسٹی کے قریب اسپورٹس کالج شامل ہیں۔ستمبر 2017ء میں،ایکانا انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیمکو عوام کے لیے کھول دیا گیا کیونکہ اس نے 2017–18ء دلیپ ٹرافی کی میزبانی کی تھی۔ 6 نومبر 2018ء کوایکانا انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیمنےبھارت قومی کرکٹ ٹیماورویسٹ انڈیزکرکٹ ٹیمکے درمیان میں اپنے پہلے ٹی 20 بین الاقوامی میچ کی میزبانی کی۔
+یہکولکاتاکےایڈن گارڈنزاوراحمد آبادکےنریندرا مودی اسٹیڈیمکے بعد صلاحیت کے لحاظ سے بھارت کا تیسرا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم ہے۔[159][160]کئی دہائیوں تک لکھنؤ شیش محل کرکٹ ٹورنامنٹ کی میزبانی کرتا رہا۔لکھنؤ بیڈمنٹن ایسوسی ایشن آف انڈیا کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ گومتی نگر میں واقع، یہ 1934ء میں قائم ہوا اور 1936ء سے ہندوستان میں قومی سطح کے ٹورنامنٹ منعقد کر رہا ہے۔ سید مودی گراں پری یہاں منعقد ہونے والا ایک بین الاقوامی بیڈمنٹن مقابلہ ہے۔ جونیئر سطح کے بیڈمنٹن کھلاڑی لکھنؤ میں اپنی تربیت حاصل کرتے ہیں جس کے بعد انھیںبنگلوربھیج دیا جاتا ہے۔[161][162]لکھنؤ چھاؤنی میں لکھنؤ ریس کورس 28.42 ہیکٹر (0.2842 کلومیٹر2؛ 70.22 ایکڑ) پر پھیلا ہوا ہے۔ کورس کا 3.2 کلومیٹر (2.0 میل) طویل ریس ٹریک بھارت میں سب سے لمبا ہے۔[163]لکھنؤ گالف کلب لا مارٹنیئر کالج کے وسیع و عریض سبزہ زار پر ہے۔اس شہر نے کئی قومی اور عالمی سطح کی کھیلوں کی شخصیات پیدا کی ہیں۔ لکھنؤ اسپورٹس ہاسٹل نے بین الاقوامی سطح کے کرکٹرزمحمد کیف،پیوش چاولہ،سریش رائنا، گیانیندر پانڈے،پراوین کماراورآر پی سنگھپیدا کیے ہیں۔ دیگر قابل ذکر کھیلوں کی شخصیات میں ہاکی اولمپئن کے ڈی سنگھ، جمن لال شرما،محمد شاہداور غوث محمد، ٹینس کھلاڑی جو ومبلڈن کے کوارٹر فائنل تک پہنچنے والے پہلے بھارتی بنے۔[164]اکتوبر 2021ء میں لکھنؤ میں مقیم ایکانڈین پریمیئر لیگفرنچائز کو باضابطہ طور پر تشکیل دیا گیا اور بعد میں اسےلکھنؤ سپر جائنٹسکا نام دیا گیا۔ یہ اپنے ہوم میچبھارت رتن شری اٹل بہاری واجپائی ایکانا کرکٹ اسٹیڈیممیں کھیلے گا۔شہر اور ارد گرد بہت قابل دید مقامات موجود ہیں۔ ان میں تاریخی مقامات، باغ، تفریح مقامات اور شاپنگ مال وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں کئی امام باڑے ہیں، ان میںبڑا امام باڑہاورچھوٹا امام باڑاکافی اہم ہیں۔ مشہور بڑے امام باڑے کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت ہے۔ اس امام باڑے کی تعمیرنواب آصف الدولہنے1784ءمیں کرواائی تھی۔ یہ بہت بڑا گنبد نما ہال ہے جو 50 میٹر طویل اور 15 میٹر بلند ہے۔ یہاں ایک منفرد بھول بھلیاں بھی موجود ہیں۔ اس امام باڑے میں ایکآصفی مسجدبھی ہے۔ مسجد کے احاطے کے صحن میں دو اونچے مينار ہیں۔ اس کے علاوہچھوٹا امام باڑاجس کا اصلی نامحسین آباد امام باڑاہے جسے1838ءمیںریاست اودھکے تیسرے نوابمحمد علی شاہنے تعمیر کروایا تھا۔سعادت علی خانکا مقبرہبیگم حضرت محلپارک کے قریب واقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی خورشید زیدی کا مقبرہ بھی ہے۔ یہ مقبرہ اودھ فن تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔ مقبرہ کی شاندار چھت اور گنبد اس کی خاصیت ہیں۔بڑے امام باڑےکے باہر ہیرومی دروازہہے۔ جامع مسجد حسین آباد امام باڑے کے مغربی سمت واقع ہے۔ اس مسجد کی تعمیر محمد شاہ نے شروع کی لیکن 1840ء میں اس کی موت کے بعد اس کی بیوی نے اسے مکمل کروایا۔ موتی محلدریائے گومتیکے کنارے پر بنی تین عمارتوں میں سے اہم ہے۔ اسےسعادت علی خاںنے بنوایا تھا۔لکھنؤ ریزیڈینسی کی باقیات برطانوی دور کی واضح تصویر دکھاتے ہیں۔جنگ آزادی ہند 1857ءکے وقت یہ ریزیڈینسیبرطانوی ایسٹ انڈیا کمپنیکے ایجنٹ کے گھر تھا۔ یہ تاریخی عمارتحضرت گنجکے علاقے میں گورنر کی رہائش گاہ کے قریب ہے۔ لکھنؤ کاگھنٹہ گھربھارت کا سب سے گھنٹہ گھر ہے۔کوکریل فارست ایک پکنک کی جگہ ہے۔ یہاں مگر مچھوں اور کچھوں کی ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔ بنارسی باغ میں واقع ایک چڑیا گھر ہے، جس کا اصل نام پرنس آف ویلز وائلڈ لائف ریزرو ہے۔ مقامی لوگ اس چڑیا گھر کو بنارسی باغ کہتے ہیں۔ اس باغ میں ایکعجائب گھربھی ہے۔ان کے علاوہرومی دروازہ، چھتر منزل، ہاتھی پارک، بدھ پارک، نیبو پارک میرین ڈرائیو اور اندرا گاندھی برج بھی قابل دید ہیں۔لکھنؤ میں جنگل کا علاقہ 4.66 فیصد ہے۔ لکھنؤ روایتی طور پر لکھنویآم(خاص طور پردسہریآم)، خربوزہ اور قریبی علاقوں میں اگائے جا رہے اناج کی منڈی رہا ہے۔ یہاں کے مشہور ملیح آبادیدسہریآم کو جغرافیائی اشارے کا خصوصی قانونی درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ ایک مختلف ذائقہ اور مہک کی وجہ دسہری آم کی دنیا بھر میں خاص پہچان بنی ہوئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملیح آبادی دسہری آم تقریباً 6،253 ہیکٹر پر اگائے جاتے ہیں اور ان کی پیداوار 9 5،6583 9 ٹن ہے۔گنے کے کھیت اور چینی کی ملیں بھی قریب ہی واقع ہیں۔ ان کی وجہ موہن میکنس بريوری جیسی کمپنیاں یہاں اپنی ملیں لگانے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ موہن میکنس کا یونٹ 1855 میں قائم ہوا تھا۔ یہایشیاکی پہلی تجارتی بريوری تھی۔[165]لکھنؤ چڑیا گھر ملک میں سب سے قدیم چڑیا گھروں میں سے ایک ہے جسے1921ءمیں قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایشیا اور دیگر براعظموں سے جانوروں کے ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ شہر بھی ایک نباتیات باغ بھی ہے۔[166]اس میں اترپردیش اسٹیٹ میوزیم بھی واقع ہے۔[167]• شفيق شاہ پوری(اجریاوں)لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔"
+812,تقسیم ہند,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D9%82%D8%B3%DB%8C%D9%85_%DB%81%D9%86%D8%AF,برطانویقانون آزادی ہند 1947ءکے تحت15 اگست1947ءکوپاکستاناوربھارتکے قیام کوتقسیم ہندکہا جاتا ہے جس کے تحت دونوں ممالک نےبرطانیہسے آزادی حاصل کی۔ اس تقسیم کے نتیجے میںمشرقی بنگالپاکستاناورمغربی بنگالبھارتمیں شامل ہوا اورپنجاببھی پاکستان کے موجودہ صوبہپنجاباوربھارتکےمشرقی پنجابمیں تقسیم ہو گیا۔اس تقسیم کے بعد نوزائیدہ پاکستانی ریاست کا دار الحکومتکراچیقرار پایا جہاںقائد اعظم محمد علی جناحنے پہلےگورنر جنرلکی حیثیت سے حلف اٹھایا۔پاکستاناپنا یوم آزادی14 اگستجبکہبھارت15 اگستکو مناتا ہے۔تقسیم ہند کا بنیادی محرک مسلمانان ہند کی وہ عظیم تحریک تھی جو انھوں نےبرصغیرمیں ایک الگوطنقائم کرنے کے لیے شروع کی تھی۔ جس کے لیے انھوں نےمسلم لیگکا پلیٹ فارم استعمال کیا۔قائد اعظم محمد علی جناحکی قیادت میں مسلمانان ہند کا خواب14 اگست1947ءکی شب پورا ہوا جب 27رمضان المبارککی مبارک ساعتیں تھیں۔جسونتھ سنگھکیکتابمیں کہا گیا ہے کہ پنڈتجواہر لعل نہروکی مرکزیت کی پالیسی نے تقسیم ہند کو جواز فراہم کیا۔
+813,کراچی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D8%B1%D8%A7%DA%86%DB%8C,"کراچی(سندھی:ڪراچي) (انگریزی: Karachi)پاکستانکا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی دنیا کاچهٹا بڑا شہر ہے۔[4]کراچی پاکستان کے صوبہسندھکادارالحکومتہے۔ شہردریائے سندھکے مغرب میںبحیرہ عربکی شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑیبندرگاہاورہوائی اڈابھی کراچی میں قائم ہے۔ کراچی1947ءسے1960ءتک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا۔
+موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستی کا نام مائیکولاچیتھا۔ جو بعد میں بگڑ کر کراچی بن گیاانگریزوںنے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین کا دخول ہوا۔پاکستانکا دار الحکومت اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں۔1959ءمیں پاکستان کے دار الحکومت کیاسلام آبادمنتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔پورے پاکستان سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں مختلف مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔ کراچی کو اسی وجہ سے چھوٹا پاکستان بھی کہتے ہیں۔ ان گروہوں کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے 80 اور 90 کی دہائیوں میں کراچی لسانی فسادات، تشدد اور دہشت گردی کا شکار رہا۔ بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے ليےپاک فوجکو بھی کراچی میں مداخلت کرنی پڑی۔ اکیسویں صدی میں تیز قومی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی کے حالات میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ کراچی کی امن عامہ کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے اور شہر میں مختلف شعبوں میں ترقی کی رفتار میں بہت اضافہ ہوا ہے۔کراچیدریائے سندھکے دہانے کی شمالی حد پر واقع ہے۔ شہر ایک قدرتی بندرگاہ کے گرد وجود پایا۔ کراچی 52´ 24° شمال اور 03´ 67° مشرق پر واقع ہے۔قدیمیونانیکرا��ی کے موجودہ علاقہ سے مختلف ناموں سے واقف تھے:کروکولا، جہاںسکندر اعظموادی سندھمیں اپنی مہم کے بعد، اپنی فوج کی واپسبابلروانگی کی تیّاری کے لیے خیمہ زن ہوا ؛ بندر مرونتوبارا (Morontobara)، (ممکنً کراچی کی بندرگاہ سے نزدیک جزیرہمنوڑہجہاں سے سکندر کا سپہ سالار نییرچس(نیارخوس) واپس اپنے وطن روانہ ہوا ؛ اور بربیریکون(بارباریکون)، جو ہندوستانی یونانیوں کیباختریمملکت کی بندرگاہ تھی۔ اس کے علاوہ،عرباس علاقہ کو بندرگاہِدیبلکے نام سے جانتے تھے، جہاں سےمحمد بن قاسمنے712ءمیں اپنی فتوحات کا آغاز کیا۔ برطانوی تاریخ دان ایلیٹ کے مطابق موجودہ کراچی کے چند علاقے اور جزیرہ منوڑہ، دیبل میں شامل تھے۔موجودہ نام کراچی سے پہلے کراچی کو مکران (بلوچستان) کے علاقے کولانچ کی ایک بلوچ مائی جو کولانچ سے ھجرت کر کے یہاں آباد ہوئی تھی کی نسبت سے مائی کولاچی کے نام سے جانا جاتا تھا جس کی تمام تر آبادی بلوچ تھی مائی کولاچی سے بعد میں کولاچی اور بگڑ کر انگریزوں کے دور میں کراچی ھو گئی 1772ء کو مائی کولاچی کومسقطاوربحرینکے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بندرگاہ منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے یہ گاؤں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ یوں مائی کولاچی میں بلوچوں کے علاوہ ہمسایہ علاقوں کی کمیونٹی بھی بڑی تعداد میں بس گئی بڑھتے ہوئے شہر کی حفاظت کے لیے شہر کی گرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپیں درآمد کرکے شہر کی فصیل پر نصب کی گئیں۔ فصیل میں 2 در تھے (بلوچی میں در گیٹ کو کہتے ہیں) ایک در (گیٹ) کا رخسمندرکی طرف تھا اور اس لیے اس کو بلوچی میںکھارادر(سندھیمیں کھارودر) کہا جاتا اور دوسرے در (گیٹ) کا رخلیاری ندیکی طرف تھا اور اس لیے اس کو بلوچی میںمیٹھادر(سندھی میں مٹھودر) کہا جاتا تھا۔1795ءتک کراچی (کولاچی) خانقلاتکی مملکت کا حصہ تھا۔ اس سالسندھکے حکمرانوں اورخان قلاتکے درمیان میں جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر سندھ کی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔ اس کے بعد شہر کی بندرگاہ کیکامیابیاور زیادہ بڑے ملک کی تجارت کا مرکز بن جانے کی وجہ سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ اس ترقی نے جہاں ایک طرف کئی لوگوں کو کراچی کی طرف کھینچا وہاںانگریزوںکی نگاہیں بھی اس شہر کی طرف کھینچ لیں۔انگریزوں نے3 فروری1839ءکو کراچی شہر پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا۔ تین سال کے بعد شہر کوبرطانوی ہندوستانکے ساتھ ملحق کرکے ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔ انگریزوں نے کراچی کی قدرتی بندرگاہ کودریائے سندھکی وادی کا اہم تجارتی مرکز بنانے کے لیے شہر کی ترقی پر اہم نظر رکھی۔برطانوی راجکے دوران میں کراچی کی آبادی اور بندرگاہ دونوں بہت تیزی سے بڑھے۔1857ءکیجنگ آزادیکے دوران میں کراچی میں 21 ویں نیٹِو انفنٹری نے10 ستمبرکو مغل فرمانروابہادر شاہ ظفرسے بیعت کر لی۔ انگریزوں نے شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور ""بغاوت"" کا سر کچل دیا۔1876ءمیں کراچی میں بانی پاکستانمحمد علی جناحکی پیدائش ہوئی۔ اس وقت تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کر چکا تھا جس کا انحصار شہر کے ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تھا۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو بر صغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔ اسی دور میں کراچی ادبی، تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن رہا تھا۔کراچی آہستہ آہستہ ایک بڑی بندرگاہ کے گرد ایک تجارتی مرکز بنتا گیا۔ 1880 کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔1881میں کراچی کی آبادی 73،500 تک،1891میں 105،199 اور1901میں 115،407 تک بڑھ گئی۔1899میں کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑاگندمکی درآمد کا مرکز تھا۔ جب1911میں برطانوی ہندوستان کا دار الحکومتدہلیبنا تو کراچی سے گزرنے والے مسافروں کی تعداد بڑھ گئی۔1936میں جب سندھ کو صوبہ کی حیثیت دی گئی تو کراچی کو اس کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔1947میں کراچی کو پاکستان کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس وقت شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔ پاکستان کا دار الحکومت کراچی سےراولپنڈیاور پھراسلام آبادمنتقل تو ہوا لیکن کراچی اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔ کراچی 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں تشدد، سیاسی اور سماجی ہنگامہ آرائی اور دہشت گردی کا شکار بنا رہا۔ موجودہ دہائی میں کراچی میں امن عامہ کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے شہر میں بہت ترقی ہوئی۔ابھی کراچی میں ترقیاتی کام بہت تیزی سے جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی ایکعالمی مرکزکی شکل میں ابھر رہا ہے۔کراچی جنوبی پاکستان میں بحیرہ عرب کے عین شمال میں واقع ہے۔ شہر کا رقبہ 3،527 مربعکلومیٹرہے۔ یہ ایک ناہموار میدانی علاقہ ہے جس کی شمالی اور مغربی سرحدیں پہاڑیاں ہیں۔ شہر کے درمیان میں سے دو بڑی ندیاں گزرتی ہیں،ملیر ندیاورلیاری ندی۔ (سیلابی ند یاں) اس کے ساتھ ساتھ شہر سے کئی اور چھوٹی بڑی ندیاں)( اور برساتی نالے)گزرتی ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ شہر کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ چونکہ بندرگاہ ہر طرف سے زمین سے گھری ہوئی ہے اس ليے اس کو ایک بہت خوبصورت قدرتی بندرگاہ سمجھا جاتا ہے۔ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے شہر کا موسم بہت معتدل ہے۔ شہر میں بارشیں کم ہوتی ہیں، سال میں اوسطا 250 ملی میٹر، جن کا زیادہ تر حصہمون سونمیں ہوتا ہے۔ کراچی میں گرمیاںاپریلسےاگستتک باقی رہتی ہیں اور اس دوران میں ہوا میں نمی کا تناسب بھی زیادہ رہتا ہے۔نومبرسےفروریشہر میںموسم سرمامانا جاتا ہے۔دسمبراورجنوریشہر میں سب سے زیادہ آرام دہ موسم کے مہینے ہیں اور اس وجہ سے شہر میں انھی دنوں میں سب سے زیادہ تقاریب اورسیاحت ہوتی ہے۔اس شہر کا عام طور موسم سرما سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا اور یہاں کا موسم گرم مرطوب ہی رہتا ہے لیکن 21 جنوری 1934 میں کراچی والوں نے ایک ایسا دن دیکھا جب کراچی کا درجہ حرارت 0 ڈگری ہو گیا۔کراچی شہر کی بلدیہ کا آغاز1933ءمیں ہوا۔ ابتدا میں شہر کا ایک میئر، ایک نائب میئر اور 57 کونسلر ہوتے تھے۔1976ءمیں بلدیہ کراچی کوبلدیہ عظمی کراچیبنا دیا گیا۔ سن2000ءمیں حکومت پاکستان نے سیاسی، انتظامی اور مالی وسائل اور ذمہ داریوں کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے بعد2001ءمیں اس منصوبے کے نفاذ سے پہلے کراچی انتظامی ڈھانچے میں دوسرے درجے کی انتظامی وحدت یعنی ڈویژن،کراچی ڈویژن، تھا۔ کراچی ڈویژن میں پانچ اضلاع،ضلع کراچی جنوبی،ضلع کراچی شرقی،ضلع کراچی غربی،ضلع کراچی وسطیاورضلع ملیرشامل تھے۔سن2001ءمیں ان تمام ضلعوں کو ایک ضلعے میں جوڑ لیا گیا۔ اب کراچی کا انتظامی نظام تین سطحوں پر واقع ہے۔ضلع کراچی کو 18 ٹاؤن(بلدیات) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان سب کی منتخب بلدیاتی انتظامیہ موجود ہیں۔ ان کی ذمہ داریوں اور اختیارات میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب، کوڑے کی صفائی، سڑکوں کی مرمت، باغات، ٹریفک سگنل (حمل و نقل کی ہم آہنگی) اور چند دیگر زمرے آتے ہیں۔ بقیہ اختیارات ضلعی انتظامیہ کے حوالے ہیں۔یہ ٹاؤنز(بلدیات) مزید 178 یونین کونسلوں میں تقسیم ہیں جو مقامی حکومتوں کے نظام کی بنیادی اکائی ہے۔ ہر یونین کونسل 13 افراد کی باڈی پر مشتمل ہے جس میں ناظم اور نائب ناظم بھی شامل ہیں۔ یوسی ناظم مقامی انتظامیہ کا سربراہ اور شہری حکومت کے منصوبہ جات اور بلدیاتی خدمات کے علاوہ عوام کی شکایات حکام بالا تک پہنچانے کا بھی ذمہ دار ہے۔2005ء میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میںسیدمصطفیٰ کمالنے کامیابی حاصل کی اورنعمت اللہ خانکی جگہ کراچی کے ناظم قرار پائے جبکہنسرین جلیلشہر کی نائب ناظمہ قرار پائیں۔مصطفیٰ کمالناظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل صوبہ سندھ کے وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی تھے۔ ان سے قبل کراچی کے ناظم نعمت اللہ خان 2004ء اور 2005ء کے لیے ایشیا کے بہترین ناظمین میں سے ایک قرار پائے تھے۔ مصطفیٰ کمال نعمت اللہ خان کا شروع کردہ سفر جاری رکھتے ہوئے شہر میں ترقی میں کافی تیزی سے کام کیا۔ لیکن 2010 کے بعد کراچی شہر میں بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بعد سے کراچی شہر کی ترقی کافی حد تک رک سی گئی تھی لیکن 2015 میں عام انتخابات کے بعد سے نئی حکومتوں کے بعد شہر کی تعمیر و ترقی کا دوبارہ سے آغاز ہو چکا ہے۔کراچی شہر مندرجہ ذیل قصبات میں تقسیم ہے[7]:واضح رہے کہڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیکراچی میں قائم ہے لیکن وہ کراچی کا ٹاؤن نہیں اور نہ کسی ٹاؤن کا حصہ ہے بلکہ پاک افواج کے زیر انتظام ہے۔کراچی جنوبیکراچی غربیگذشتہ 150 سالوں میں کراچی کی آبادی و دیگر اعداد و شمار میں واضح تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ غیر سرکاری اور بین الاقوامی ذرائع کے مطابق کراچی کی موجودہ آبادی 24 ملین ہے۔ جو1947ءکے مقابلے میں 37 گنا زیادہ ہے۔ آزادی کے وقت کراچی کی آبادی محض 4 لاکھ تھی۔ تقسیم ہند (1947) کے نتیجے میں دس لاکھ لوگ ہجرت کر کے کراچی میں آ بسے۔[8]شہر کی آبادی اس وقت 5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جس میں اہم ترین کردار دیہات سے شہروں کو منتقلی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ 45 ہزار افراد شہر قائد پہنچتے ہیں۔ کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔کراچی ایک کثیر النسلی، کثیر اللسانی اور کثیر الثقافتی بین الاقوامی شہر ہے۔1998ءکی مردم شماری کے مطابق کراچی کی 94 اعشاریہ 04 فیصد آبادی شہر میں قیام پزیر ہے۔ اس طرح وہ صوبہسندھکا سب سے جدید علاقہ ہے۔کراچی میں سب سے زیادہ آبادیاردوبولنے والے مہاجرین کی ہے جو 1947ء میںتقسیم برصغیرکے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آکر کراچی میں آباد ہوئے تھے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے ان مسلم مہاجرین کو نو آموز مملکت پاکستان کی حکومت کی مدد سے مختلف رہائش گاہیں نوازی گئیں جن میں سے اکثر پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے والی ہندو اور سکھ برادری کی تھی۔ انڈیا سے آنے والے مہاجرین میں دہلی، یوپی، حیدرآباد دکن سے آنے والوں کے علاوہ گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور راجپوتانہ سے آنے والی ماڑواڑی، میمن، ملباری، باہری اور بعد میںمشرقی پاکستانسے آنے والی بہاری کمیونٹی قابل ذکر ہیں-شہر کے دیگر باسیوں میںسندھی،بلوچی،پنجابی،پٹھان،گجراتی،کشمیری،سرائیکیاور 10 لاکھ سے زائدافغانمہاجرین شامل ہیں جو 1979ء میںافغانستانپرسوویت یونینکی جارحیت کے بعد ہجرت کرکے شہر قائد پہنچے اور اب یہاں کے مستقل باسی بن چکے ہیں۔ ان مہاجرین میںپختون،تاجک،ہزارہ،ازبکاورترکمانشامل تھے۔ ان کے علاوہ ہ��اروںبنگالی،عرب،ایرانی، اراکانی کے مسلم مہاجرین (برماکی راکھائن ریاست کے ) اور افریقی مہاجرین بھی کراچی میں قیام پزیر ہیں۔ آتش پرستپارسیوںکی بڑی تعداد بھی تقسیم ہند سے قبل سے کراچی میں رہائش پزیر ہے۔ کراچی کے پارسیوں نے شہر کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اہم سرکاری عہدوں اور کاروباری سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے شامل رہے ہیں۔ آزادی کے بعد ان کی اکثریت مغربی ممالک کو ہجرت کرگئی تاہم اب بھی شہر میں 5 ہزار پارسی آباد ہیں۔ علاوہ ازیں شہر میںگواسے تعلق رکھنے والے کیتھولکمسیحیوںکی بھی بڑی تعداد آبادی ہے جوبرطانوی راجکے زمانے میں یہاں پہنچی تھی۔1998ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی لسانی تقسیم اس طرح سے ہے:کراچی پاکستان کا تجارتی دار الحکومت ہے اور جی ڈی پی کے بیشتر حصہ کا حامل ہے۔ قومی محصولات کا 65 فیصد کراچی سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کے تمام سرکاری و نجی بینکوں کے دفاتر کراچی میں قائم ہیں۔ جن میں سے تقریباً تمام کے دفاترپاکستانکیوال اسٹریٹ""آئی آئی چندریگر روڈ""(سابق میکلیوڈ روڈ) پر قائم ہیں۔دبئیکا معروف تعمیراتی ادارہ ایمار پراپرٹیز کراچی کے دو جزائر بنڈل اور بڈو پر 43 ارب امریکی ڈالرز کی لاگت سے تعمیراتی کام کا آغاز کر رہا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ 20 ارب روپے کے ایک منصوبےپورٹ ٹاور کمپلیکسکا آغاز کر رہی ہے جو ایک ہزار 947 فٹ بلندی کے ساتھ پاکستان کی سب سے بلند عمارت ہوگی۔ اس میں ایک ہوٹل، ایک شاپنگ سینٹر اور ایک نمائشی مرکز شامل ہوگا۔ عمارت کی اہم ترین خوبی اس کا گھومتا ہوا ریستوران ہوگا جس کی گیلری سے بدولت کراچی بھر کا نظارہ کیا جاسکے گا۔ مذکورہ ٹاور کلفٹن کے ساحل پر تعمیر کیا جائے گا۔بینکنگ اور تجارتی دار الحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی میں پاکستان میں کام کرنے والے تمامبین الاقوامی اداروں کے بھی دفاتر قائم ہیں۔ یہاں پاکستان کا سب سے بڑا بازار حصصکراچی اسٹاک ایکسچینجبھی موجود ہے جو ابپاکستان اسٹاک ایکسچینجبن چکا ہے۔ اس نے 2005ء میں پاکستان کے جی ڈی پی میں 7 فیصد اضافے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشنز ٹیکنالوجیز (آئی سی ٹی)، الیکٹرانک میڈیا اور کال سینٹرز کا نیا رحجانبھی شہر کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں (شرکتوں)کے کال سینٹرز کو ترقی کے ليے بنیادی ہدف قرار دیا گیا ہے اور حکومت نے آئی ٹی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے ليے محصولات میں 80 فیصد تک کمی کے ليے کام کر رہی ہے [حوالہ درکار]۔ کراچی پاکستان کاسافٹ ویئرمرکز بھی ہے۔ پاکستان کے کئی نجی ٹیلی وژن اور ریڈیو چینلوں کے صدر دفاتر بھی کراچی میں ہیں جن میں سےجیو،اے آروائی ،ڈان، ہم، ایکسپرس اورآج ٹی ویمشہور ہیں۔ مقامی سندھی چینل کے ٹی این،سندھ ٹی ویاور کشش ٹی وی بھی معروف چینل ہیں۔کراچی میں کئی صنعتی زون واقع ہیں جن میں کپڑے، ادویات، دھاتوں اور آٹو موبائل کی صنعتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ مزيد برآں کراچی میں ایک نمائشی مرکز ایکسپو سینٹر بھی ہے جس میں کئی علاقائی و بین الاقوامی نمائشیں منعقد ہوتی ہیں۔ٹویوٹااورسوزوکیموٹرز کے کارخانے بھی کراچی میں قائم ہیں۔ اس صنعت سے متعلق دیگر اداروں میںملت ٹریکٹرز، آدم موٹر کمپنی اورہینو پاککے کارخانے بھی یہیں موجود ہیں۔ گاڑیوں کی تیاری کا شعبہ پاکستان میں سب سے زیادہ تیزی سے ابھرتی ہوا صنعتی شعبہ ہے جس کا مرکز کراچی ہے۔کراچی بندرگاہاورمحمد بن قاسم بندرگاہپاکستان کی دو اہم ترین بندرگاہیں ہیں جبکہجناح بین الاقوامی ہوائی اڈاملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈا ہے۔1960ء کی دہائی میں کراچی کو ترقی پزیر دنیا میں ترقی کا رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہجنوبی کوریانے شہر کا دوسرا پنج سالہ منصوبہ برائے 1960ء تا 1965ء نقل کیا۔پورٹ ٹاور کمپلیکس(مجوزہ)کریسنٹ بے (منظور شدہ)کراچی کریک مرینا (زیر تعمیر)ڈولمین ٹاورز (زیر تعمیر)آئی ٹی ٹاور (منظور شدہ)بنڈل جزیرہ (منظور شدہ)بڈو جزیرہ (منظور شدہ)(اب کام رک چکا ہے)اسکوائر ون ٹاورز (زیر تعمیر)کراچی ماس ٹرانزٹ نظامانشاء ٹاورز (منظور شدہ)ایف پی سی سی آئی ٹاور (مجوزہ)کراچی پاکستان کے چند اہم ترین ثقافتی اداروں کا گھر ہے۔ تزئین و آرائش کے بعد ہندو جیم خانہ میں قائم کردہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کلاسیکی موسیقی اور جدید تھیٹر سمیت دیگر شعبہ جات میں دو سالہ ڈپلوما کورس پیش کرتا ہے۔ آل پاکستان میوزیکل کانفرنس 2004ء میں اپنے قیام کے بعد سالانہ میوزک فیسٹیول منعقد کر رہا ہے۔ یہ فیسٹیول شہری زندگی کے ایک اہم جز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے اور 3 ہزار سے زائد شہری اس میں شرکت کرتے ہیں جبکہ دیگر شہروں سے بھی مہمان تشریف لاتے ہیں۔کوچہ ثقافت میں مشاعرے، ڈرامے اور موسیقی پیش کی جاتی ہے۔ کراچی میں قائم چند عجائب گھروں میں معمول کی بنیادوں پر نمائشیں منعقد ہوتی ہیں جن میںموہٹہ پیلساور قومی عجائب گھر شامل ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر منعقدہ کارا فلم فیسٹیول میں پاکستانی اور بین الاقوامی آزاد اور دستاویزی فلمیں پیش کی جاتی ہیں۔ کراچی کی ثقافتمشرق وسطی،جنوبی ایشیائیاور مغربی تہذیبوں کے ملاپ سے تشکیل پائی ہے۔ کراچی میں پاکستان کی سب سے بڑی مڈل کلاس آبادی قیام پزیر ہے۔ کراچی صوبہ سندھ کا صدر مقام ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی کراچی شہر میں ہے جہاں کئی جامعات اور کالیجز قائم ہیں۔ کراچی اپنی کثیر نوجوان آبادی کے باعث ملک بھر میں جانا جاتا ہے۔ کراچی کی کئی جامعات ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں شمار ہوتی ہیں۔کراچی کے اہم تعلیمی ادارے درج ذیل ہیں؛کراچی کے مشہور کھیلوں میںکرکٹ،ہاکی،مکے بازی،فٹ بالاور گھڑ دوڑ شامل ہیں۔ بین الاقوامی مرکزنیشنل اسٹیڈيمکے علاوہ کرکٹ کے میچز(مقابلے) یو بی ایل اسپورٹس کمپلیکس، اے او کرکٹ اسٹیڈیم، کے سی سی اے کرکٹ گراؤنڈ، کراچی جیم خانہ گراؤنڈ اور ڈی ایچ اے کرکٹ اسٹیڈیم پر منعقد ہوتے ہیں۔ شہر میں ہاکی کے ليے ہاکی کلب آف پاکستان اور یو بی ایل ہاکی گراؤنڈ، باکسنگ کے ليے کے پی ٹی اسپورٹس کمپلیکس، اسکواش کے ليے جہانگیر خان اسکواش کمپلکیس اورفٹبالکے ليے پیپلز فٹ بال اسٹیڈیم اور پولو گراؤنڈ، کراچی جیسے شاندار مراکز قائم ہیں۔ 2005ء میں شہر کے پیپلز فٹ بال اسٹیڈيم میں ساف کپ فٹ بال ٹورنامنٹ منعقد ہوا۔کشتی رانیبھی کراچی کی کھیلوں کی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہے۔کراچی جیم خانہ، سندھ کلب، کراچی کلب، مسلم جیم خانہ، کریک کلب اور ڈی ایچ اے کلب سمیت دیگر کھیلوں کے کلب اپنے ارکان کوٹینس،بیڈمنٹن،اسکواش، تیراکی، دوڑ، اسنوکر اور دیگر کھیلوں کی سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ کراچی میں دو عالمی معیار کے گالف کلب ڈي ایچ اے اور اور کارساز قائم ہیں۔ علاوہ ازیں شہر میں چھوٹے پیمانے پر کھیلوں کی سرگرمیاں بھی عروج پر ہوتی ہیں جن میں سب سے مشہور نائٹ کرکٹ ہے جس میں ہر اختتام ہفتہ پر چھوٹے موٹے میدانوں اور گلیوں میں برقی قمقموں میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔کراچی میں بین الاقوامی معیار کی تقریبا تمام طبی سہولیات موجود ہیں- کراچی کے طبی اداروں میں جگر کی پیوندکاری، گردوں کی پیوندکاری، آنکھوں کی پیوندکاری سمیت دل کے بائی پاس اور انجیوگرافی کی سہولیات موجود ہیں- کراچی میں مندرجہ ذیل اہم طبی ادارے ہیں؛یونیورس سنیپلیکس (کلفٹن)علاوہ ازیں کلفٹن، ڈي ایچ اے، شارع فیصل، نارتھ ناظم آباد، کریم آباد،گلشن اقبال، گلستان جوہر وغیرہ میں بھی کئی مراکز ہیں۔حسین آباد کو کو دوسرا برنس روڈ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کیونکہ یہاں بھی بے شمار فوڈ اینڈ ڈرنکس کے مراکز ہیں۔کلفٹن کا ساحل ماضی قریب میں دو مرتبہ تیل کی رسائی کے باعث متاثر ہو چکا ہے جس کے بعد ساحل کی صفائی کردی گئی ہے۔ علاوہ ازیں رات کے وقت تفریح کے ليے ساحل پر برقی قمقمے بھی نصب کیے گئے ہیں۔ حکومت نے کراچی کی ساحلی پٹی کی خوبصورتی کے ليے کلفٹن میں بیچ پارک قائم کیا ہے جو جہانگیر کوٹھاری پیریڈ اور باغ ابن قاسم سے منسلک ہے۔ شہر کے قریب دیگر ساحلی تفریحی مقامات بھی ہیں جن میں سینڈزپٹ، ہاکس بے، فرنچ بیچ، رشین بیچ اور پیراڈائز پوائنٹ معروف ہیں۔اس کے علاقوں کے کچھ عجیب و غریب اور دلچسپ نام۔کراچیپاکستانمیں خریداری کا مرکز تصور کیا جاتا ہے جہاں روزانہ لاکھوں صارفین اپنی ضروریات کی اشیاء خریدتے ہیں۔صدر، گلف شاپنگ مال،بہادر آباد،طارق روڈ،زمزمہ،زیب النساء اسٹریٹاورحیدریاس حوالے سے ملک بھر میں معروف ہیں۔ ان مراکز میں کپڑوں کے علاوہ دنیا بھر سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء حاصل کی جا سکتی ہیں۔ برطانوی راج کے زمانے کی ایمپریس مارکیٹ مصالحہ جات اور دیگر اشیاء کا مرکز ہے۔ صدر میں ہی قائم رینبو سینٹر دنیا میں چوری شدہ سی ڈیز کے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔ دیگر اہم علاقوں میں پاپوش مارکیٹ اور حیدری شامل ہیں۔ ہر اتوار کولیاقت آبادمیں پرندوں اور پالتو جانوروں کے علاوہ پودوں کا بازار بھی لگتا ہے۔کراچی میں جدید تعمیرات کے حامل خریداری مراکز کی بھی کمی نہیں ہے، جن میں پارک ٹاورز، دی فورم، ملینیم مال اور ڈولمین مال خصوصا قابل ذکر ہیں۔ اس وقت زیر تعمیر ایٹریم مال، جمیرہ مال، آئی ٹی ٹاور اور ڈولمین سٹی مال بھی تعمیرات کے شاہکار ہیں۔اس کے علاوہ ٹائون اور اضلاع کی سطح پر بھی ملبوسات، زیورات اور اشیائے صرف کی خریداری کے مراکز ہیں-جوڑیا بازار اور اس سے متصل صرافہ بازار اور کاغذی بازار بالترتیب اشیائے خورد، زیورات اور ملبوسات کے مرکزی بازار ہیں جہاں سے یہ شہر کے دوسرے بازاروں تک ان اشیاء کے پہنچنے کا ذریعہ بنتے ہیں-لانڈھی کی بابر مارکیٹ، ملیر کی لیاقت مارکیٹ، واٹر پمپ مارکیٹ، ناظم آباد گول مارکیٹ، لیاقت آباد مارکیٹ، نیو کراچی کی کالی مارکیٹ، شاہ فیصل مارکیٹ، سولر بازار، رنچھوڑلین مارکیٹ، اورنگی میں پاکستان بازار اور کیماڑی کی جیکسن مارکیٹ اہم مقامی بازار ہیں-کراچی ایک جدید بین الاقوامی ہوائی اڈےجناح انٹرنیشنلکا حامل ہے جو پاکستان کا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے۔ شہر کا قدیم ایئرپورٹ ٹرمینل اب حج پروازوں، کارگو اور سربراہان مملکت کے ليے استعمال ہوتا ہے۔ نیا ہوائی اڈا 1993ء میں ایک فرانسیسی ادارے نے تیار کیا۔ملک کی سب سے بڑی بندرگاہیں بھی کراچی میں قائم ہیں جو کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کہلاتی ہیں۔ یہ بندرگاہیں جدید سہولیات سے مزین ہیں اور نہ صرف پاکستان کی تمام تجارتی ضروریات کے مطابق کام کرتی ہیں بلکہافغانستاناوروسط ایشیاءکے ممالک کی سمندری تجارت بھی انہی بندرگاہوں سے ہوتی ہے۔کراچیپاکستان ریلویزکے جال کے ذریعے بذریعہ ریل ملک بھر سے منسلک ہے۔ شہر کے دو بڑے ریلوے اسٹیشنسٹیاورکینٹ ریلوے اسٹیشنہیں۔ ریلوے کا نظام کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے ملک بھر کو سامان پہنچانے کی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس وقت شہر میں بسوں اور منی بسوں نے عوامی نقل و حمل کا بیڑا اٹھارکھا ہے لیکن مستقبل میں شہر میں تیز اور آرام دہ سفر کے ليےکراچی سرکلر ریلوےکی بحالی اور ماس ٹرانزٹ نظام کی تعمیر کا منصوبہ بھی موجود ہے۔کراچی شہر کو دنیا کے اور ممالک کی طرح نقل و حمل کے نئے طرز کے وسائل فراہم کرنے کے لیے اٹھارویں صدی کے اواخر میں ٹرام گاڑی چلانے کی تجویز پیش کی گئی، نتیجتاً اکتوبر 1884 میں اس پر کام شروع ہو گیا- ٹرامیں(1885–1975) سڑکوں پر باقائدگی سے یہ خدمت انجام دیتی رہی- لیکن سیاسی گٹھ جوڑکی وجہ سے اس سہولت کو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر نہ بنایا جا سکا- جیسا کہ دنیا بھر کے اور شہروں میں ہوا ہے۔کراچی ساحل کے ساتھ نیم صحرائی علاقے پر قائم ہیں جہاں صرف دو ندیوں ملیر اور لیاری کے ساتھ ساتھ موجود علاقے کی زمین ہی زراعت کے قابل ہے۔ آزادی سے قبل کراچی کی اکثر آبادی ماہی گیروں اور خانہ بدوشوں پر مشتمل تھی اور بیشتر زمین سرکاری ملکیت تھی۔ آزادی کے بعد کراچی کو ملک کا دار الحکومت قرار دیا گیا تو زمینی علاقے ریاست کے زیر انتظام آ گئے۔1988ءمیں کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق 4 لاکھ 25 ہزار 529 ایکڑ (1722 مربع کلومیٹر) میں سے تقریباً 4 لاکھ ایکڑ (1600 مربع کلومیٹر) کسی نہ کسی طرح سرکاری ملکیت ہے۔ حکومت سندھ ایک لاکھ 37 ہزار 687 ایکڑ (557 مربع کلومیٹر)،کے ڈی اے ایک لاکھ 24 ہزار 676 ایکڑ، کراچی پورٹ ٹرسٹ 25 ہزار 259 ایکڑ، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) 24 ہزار 189 ایکڑ، آرمی کنٹونمنٹ بورڈ 18 ہزار 569 ایکڑ، پاکستان اسٹیل مل 19 ہزار 461 ایکڑ، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی 16 ہزار 567 ایکڑ، پورٹ قاسم 12 ہزار 961 ایکڑ، حکومت پاکستان 4 ہزار 51 ایکڑ اور پاکستان ریلوے 12 ہزار 961 ایکڑ رقبے کی حامل ہے۔1990ءکی دہائی میں کے ڈی اے کی غیر تعمیر زمین ملیر ڈيولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) اور لیاری ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کو منتقل کردی گئی۔کراچی دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے اس ليے اسے بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک، آلودگی، غربت، دہشت گردی اور جرائم جیسے مسائل کا سامناہے۔اس وقت کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ہر سال 550 افراد ٹریفک حادثوں میں اپنی جان گنواتے ہیں۔ شہر میں کاروں کی تعداد سڑکوں کے تعمیر کردہ ڈھانچے سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹریفک کے ان مسائل سے نمٹنے کے ليے شہر میں نعمت اللہ خان کے دور میں کئی منصوبے شروع کیے گئے جن میں فلائی اوورز اور انڈر پاسز شامل ہیں۔بڑھتے ہوا ٹریفک اور دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو کھلی چھٹی کے باعث شہر میں آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔ کراچی میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے متعین کردہ معیار سے 20 گنا زیادہ ہے۔ ٹریفک کے علاوہ کوڑے کرکٹ کو آگ لگانا اور عوامی شعور کی کمی بھی آلودگی کا بڑا سبب ہے۔ایک اور بڑا مسئلہ شاہراہوں کو چوڑا کرنے کے ليے درختوں کی کٹائی ہے۔ کراچی میں پہلے ہی درختوں کی کمی ہے اور موجود درختوں کی کٹائی پر ماحولیاتی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا ہے۔ جس پر شہری حکومت نے ستمبر 2006ء سے تین ماہ کے ليے ش��رکاری مہم کا اعلان کیا۔پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح سیاست دانوں اور سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے کھلی جگہوں پر ناجائز تجاوازات تعمیر کا مسئلہ کراچی میں بھی عوام اور آنے والی نسلوں کے لیے پریشان کن ہے۔[9]ان کے علاوہ فراہمی آب اور بجلی کی فراہمی میں تعطل شہر کے دو بڑے مسائل ہیں خصوصا 2006 کے موسم گرما میں کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عالمیشہرتحاصل کی۔شہری حکومت کی آفیشل ویب گاہآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ karachicity.gov.pk(Error: unknown archive URL)کراچی اسٹاک ایکسچینجآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ kse.com.pk(Error: unknown archive URL)جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹکراچی بندرگاہکراچی پورٹ ٹرسٹکراچی کی سیٹیلائٹ تصویرکراچی آپ ڈیٹس کراچی کی تازہ ترین صورت حالکراچی کی تاریخ، شہر کی پرانی تصاویر کے ساتھآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ historickarachi.com(Error: unknown archive URL)کراچی کی تصویری البم از علی عدنان قزلباشکارا فلم فیسٹیولآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ karafilmfest.com(Error: unknown archive URL)کراچی میں ٹرامیںآرکائیو شدہ(Date missing)بذریعہ historyrecall.blogspot.se(Error: unknown archive URL)پاکستان کے شہر"
+814,دکنی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%DA%A9%D9%86%DB%8C,دکنی(انگریزی: Dakhini)اردوزبان کی ایک اہم بولی ہے، جو جنوبی ہندوستان میں بولی جاتی ہے۔ اس بولی پر جغرافیائی اعتبار سے، علاقائی زبانوں کے اثرات نظر آتے ہیں۔ جیسے، ریاستہائےآندھرا پردیشاورتلنگانہکی اردو پرتیلگوکا تھوڑا اثر پایا جاتا ہے۔ اسی طرحمہاراشٹراکی اردو پرمراٹھیکا،کرناٹککی اردو پرکنڑاکا اورتمل ناڈوکی اردو پرتملکا۔ لیکن مکمل طور پرجنوبی ہندمیں بولی جانی والی دکنی ایک خصوصی انداز کی اردو ہے، جس میں مراٹھی، تیلگو زبانوں کا میل پایا جاتا ہے۔اُردو کا آغاز اگرچہشمالی ہندمیں ہوا لیکن اپنے ارتقا کی منزلیں شمال کے علاوہدکنمیں بھی طے کی۔ شمالی ہند میں تقریبا ایک سو سال تک فروغ پانے کے بعد اُردو دکن کا رُخ کرتی ہے جہاں اسے دکنی کہا جاتا ہے۔ بہ قولِ پروفیسر عبد القادر سروری۔شمال سے جو زبان جنوب کی طرف گئی اس کی دو شاخیں ہو گئیں۔ دکن میں دکنی اورگجراتمیں گُجری۔ دکن میں اُردو کی ابتدا علائی آمد سے ہوتی ہے۔محمد بن تغلقنےدولت آبادکو پایۂ تخت بنایا تو اُردو کی ترقّی اور اشاعت کے امکانات روشن ہوئے۔اس بولی کو بولنے والوں کی زیادہ تر تعداددکنمیں ہے۔ ریاستمہاراشٹر،کرناٹک،آندھرا پردیش،کیرلااورتمل ناڈومیں کثیر تعداد میں بولی جاتی ہے۔ کیرلا میں دکنی جماعت، تمل ناڈو میں نوایت اور کرناٹک میں بھٹکلی، بڑے گروہ ہیں جو دکنی زبان کا اساسہ مانے جاتے ہیں۔دکنی اردو جو حیدرآباد اور اس کے اطراف و اکناف بولی جاتی ہے، اس میں چند مخصوص الفاظ اس طرح ہیں:
+815,دکن,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B7%D8%AD_%D9%85%D8%B1%D8%AA%D9%81%D8%B9_%D8%AF%DA%A9%D9%86,"دکن: بھارت کا جنوبی حصہ، جو سطح مرتفع دکن پر واقع ہے، دکن کہلاتا ہے۔ دکن کے معنی ہیں “جنوب“ کے۔ اس علاقے میں، وسطی و جنوبیمہاراشٹر، شمالی اور وسطیکرناٹک، شمالی اور وسطیآندھرا پردیشکے علاقے شامل ہیں۔
+اس علاقے میں مسلمانوں نے کئی سلطنتیں قائم کی تھیں۔ جنہیں سلطنتِ دکن کہتے ہیں۔بھارتکا جنوبی حصہ ایکسطح مرتفعکی شکل میں ہے اور یہ وسط بھارت سے شروع ہوکر تمام جنوبی ہند میں پھیلا ہوا ہے۔[1]یہ بھارت کا سب سے بڑا سطح مرتفع ہے۔17°N77°E / 17°N 77°E /17; 77"
+816,دکن سلطنتیں,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%DA%A9%D9%86_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA%DB%8C%DA%BA,دکنی سلطنتیںیادکن کی سلطنتیں(Deccan sultanates) مختلف نسلی پس منظر (افغان،تر��اورمغولوغیرہ) سے پانچخاندانوںکی قائم کردہ سلطنتیںاحمد نگر سلطنت،سلطنت برار،سلطنت بیدر،بیجاپور سلطنتاورگولکنڈہ سلطنتتھیں۔
+818,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+819,روس میں شہروں اور قصبوں کی فہرست بلحاظ آبادی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D9%88%D8%B3_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%B4%DB%81%D8%B1%D9%88%DA%BA_%D8%A7%D9%88%D8%B1_%D9%82%D8%B5%D8%A8%D9%88%DA%BA_%DA%A9%DB%8C_%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA_%D8%A8%D9%84%D8%AD%D8%A7%D8%B8_%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF%DB%8C,یہروس میں شہروں اور قصبوں کی فہرست بلحاظ آبادیہے۔
+821,ماسکوا (دریا),https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D9%85%D8%A7%D8%B3%DA%A9%D9%88%D8%A7,"ماسکوایادریائے ماسکو(انگریزی: Moskva) (روسی:река́ Москва́, Москва́-река́,Moskvá-reká)مغربی روسسے گزرنے والا ایکدریاہے یہماسکوکے مغرب ��یں تقریباً 140 کلومیٹر (90 میل) بڑھتا ہے اور وسطی ماسکو سے گزرتا ہواسمولنسک اوبلاستاورماسکو اوبلاستسے ہوتا ہوا تقریباً مشرق میں بہتا ہے۔لوا خطا ماڈیول:Authority_control میں 306 سطر پر: attempt to call field '_showMessage' (a nil value)۔"
+822,ماسکو میٹروپولیٹن علاقہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%A7%D8%B3%DA%A9%D9%88_%D9%85%DB%8C%D9%B9%D8%B1%D9%88%D9%BE%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%B9%D9%86_%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%DB%81,"ماسکو میٹروپولیٹن علاقہ(انگریزی: Moscow metropolitan area) (روسی:Московская агломерация)
+یاماسکو دار الحکومت علاقہ(انگریزی: Moscow capital region) (روسی:Московский столичный регион)روسکے ساتھ ساتھیورپکا سب سے بڑامیٹروپولیٹن علاقہہے، جس کی آبادی تقریباً 21.5 ملین ہے۔
+یہماسکوشہر اورماسکو اوبلاستکے آس پاس کے علاقوں پر مشتمل ہے۔[1][2][3][4]55°40′00″N37°30′00″E / 55.6667°N 37.5°E /55.6667; 37.5"
+823,دنیا کے سب سے بڑے شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7_%DA%A9%DB%92_%D8%B3%D8%A8_%D8%B3%DB%92_%D8%A8%DA%91%DB%92_%D8%B4%DB%81%D8%B1,یہ فہرستدنیا کے سب سے بڑے شہرہے۔
+824,یورپ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE,"یورپیافرنگستان(انگریزی: Europe) دنیا کے سات روایتی براعظموں میں سے ایک ہے تاہمجغرافیہدان اسے حقیقیبراعظمنہیں سمجھتے اور اسےیوریشیاکا مغربیجزیرہ نماقرار دیتے ہیں۔ اصطلاحی طور پرکوہ یورالکے مغرب میں واقع یوریشیا کا تمام علاقہ یورپ یا فرنگستان کہلاتا ہے۔یورپ کے شمال میںبحر منجمد شمالی، مغرب میںبحر اوقیانوس، جنوب میںبحیرہ روماور جنوب مشرق میں بحیرہ روم اوربحیرہ اسودکو ملانے والے آبی راستے اورکوہ قفقازہیں۔ مشرق میں کوہ یورال اوربحیرہ قزوینیورپ اورایشیاکو تقسیم کرتے ہیں۔فرنگستانرقبےکے لحاظ سےآسٹریلیاکو چھوڑ کر دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کا رقبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر ہے جو زمین کے کل رقبے کا صرفدوفیصد بنتا ہے۔ یورپ سے بھی چھوٹا واحد براعظمآسٹریلیاہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ تیسرا سب سے بڑا براعظم ہے جس کی آبادی 71 کروڑ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 11 فیصد بنتا ہے۔Within the above-mentioned states are severalدرحقیقتindependent countries withمحدود تسلیم شدہ ریاستوں کی فہرست۔ None of them are members of the UN:Several dependencies and similar territories with broad autonomy are also found within or in close proximity to Europe. This includes Åland (aفن لینڈ کے علاقہ جات)، two constituent countries of the Kingdom of Denmark (other than Denmark itself)، threeتاج توابع، and twoبرطانوی سمندر پار علاقے۔ Svalbard is also included due to its unique status within Norway, although it is not autonomous. Not included are the threeمملکت متحدہ کے ممالکwith devolved powers and the twoپرتگال کے خود مختار علاقہ جات، which despite having a unique degree of autonomy, are not largely self-governing in matters other than international affairs. Areas with little more than a unique tax status, such asHeligolandand theجزائر کناری، are also not included for this reason."
+825,یورپ کے بڑے شہر,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE_%DA%A9%DB%92_%D8%A8%DA%91%DB%92_%D8%B4%DB%81%D8%B1,یہ فہرستیورپ کے بڑے شہربلحاظ آبادی ہے۔
+826,یورپ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE,"یورپیافرنگستان(انگریزی: Europe) دنیا کے سات روایتی براعظموں میں سے ایک ہے تاہمجغرافیہدان اسے حقیقیبراعظمنہیں سمجھتے اور اسےیوریشیاکا مغربیجزیرہ نماقرار دیتے ہیں۔ اصطلاحی طور پرکوہ یورالکے مغرب میں واقع یوریشیا کا تمام علاقہ یورپ یا فرنگستان کہلاتا ہے۔یورپ کے شمال میںبحر منجمد شمالی، مغرب میںبحر اوقیانوس، جنوب میںبحیرہ روماور جنوب مشرق میں بحیرہ روم اوربحیرہ اسودکو ملانے والے آبی راستے اورکوہ قفقازہیں۔ مشرق میں کوہ یورال اوربحیرہ قزوینیورپ اورایشیاکو تقسیم کرتے ہیں۔فر��گستانرقبےکے لحاظ سےآسٹریلیاکو چھوڑ کر دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کا رقبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر ہے جو زمین کے کل رقبے کا صرفدوفیصد بنتا ہے۔ یورپ سے بھی چھوٹا واحد براعظمآسٹریلیاہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ تیسرا سب سے بڑا براعظم ہے جس کی آبادی 71 کروڑ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 11 فیصد بنتا ہے۔Within the above-mentioned states are severalدرحقیقتindependent countries withمحدود تسلیم شدہ ریاستوں کی فہرست۔ None of them are members of the UN:Several dependencies and similar territories with broad autonomy are also found within or in close proximity to Europe. This includes Åland (aفن لینڈ کے علاقہ جات)، two constituent countries of the Kingdom of Denmark (other than Denmark itself)، threeتاج توابع، and twoبرطانوی سمندر پار علاقے۔ Svalbard is also included due to its unique status within Norway, although it is not autonomous. Not included are the threeمملکت متحدہ کے ممالکwith devolved powers and the twoپرتگال کے خود مختار علاقہ جات، which despite having a unique degree of autonomy, are not largely self-governing in matters other than international affairs. Areas with little more than a unique tax status, such asHeligolandand theجزائر کناری، are also not included for this reason."
+827,یورپ کے میٹروپولیٹن علاقہ جات کی فہرست,https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE_%DA%A9%DB%92_%D9%85%DB%8C%D9%B9%D8%B1%D9%88%D9%BE%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%B9%D9%86_%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%DB%81_%D8%AC%D8%A7%D8%AA_%DA%A9%DB%8C_%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA,یہفہرست یورپ کے میٹروپولیٹن علاقہ جات(List of metropolitan areas in Europe) ہے۔
+828,ماسکووی روس,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%A7%D8%B3%DA%A9%D9%88_%DA%A9%DB%8C_%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D9%86%DA%88_%DA%88%DA%86%DB%8C,ماسکوی روسیاماسکو کی گرینڈ ڈچی(روسی زبان:ویلیکوئے کنیاژیستوو ماسکووسکوئے) قرون وسطی میں 1283ء سے 1547ء تک قائم رہیاکروسیریاست تھی جس کا مرکزماسکوشہر تھا ۔ روسی دستاویزاں میں لکھے جانے والے عظیم ماسکو رجواڑے کو مغرب کی دستاویزات میںماسکوےیا ماسکوی روس بھی کہا جاتا تھا ۔ ماسکوی روس یا عظیم ماسکو راجواڑا ،ماسکو راجواڑاکی جانشین ریاست تھی جو بعد میںروسی بادشاہتکی پیش رو ریاست بنی ۔جبمنگولوںنےکیویائی روسکے علاقوں تر حملہ کیاماسکواس وقتولادیمیر سوزدال راجواڑےکیایکغیر معروف تجارتی چوکی تھی ۔ اگرچہمنگولوںنے 1238ء کی سردیوں میںماسکوکوآگلگا کر تباہ کر دیا اور 1293ء میں یہاں لوٹ مار کی پر اس کے دور دراز اور جنگلوں کے بیچ واقع ہونے کی وجہ سے اس کو منگولوں کے حملوں اور لوٹ مار سے کچھ تحفظ رہا ۔ماسکو رجواڑے کی ترقی میں اس کے حکمرانی کرنے والے پرجوش تے خوش قسمت شہزادوں کا بھی بڑا ہاتھ تھا ۔ ماسکو رجواڑے کا پہلا حکمراندانیال I(موت:1303ء) تھا جوولادیمیر سوزدال راجواڑےکے حکمرانالیگزینڈر نیوسکیکا سب سے چھوٹا بیٹا تھا ۔
+829,دار الحکومت,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA,"دار الحکومتیاپائے تخت(انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے ""حکومتکا گھر""، ""حکومتی جگہ""، ""شہرِ اقتدار"" یا ""سربراہ شہر""۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافتکہا جاتا تها۔خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہو سکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہو سکتی ہیں۔دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹھہرتا ہے۔ ہندوستان میں ��و دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نامچنڈی گڑھہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوںپنجاباورہریانہکا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نامحیدرآبادہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیںآندھرا پردیشاورتلنگانہکے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔اکثر دار الحکومت وہاں کے قدیم تاریخی شہر ہوتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل ایسے دار الحکومتوں کی فہرست سے جنہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔سیاسی اعتبار سے دار الحکومت،حکومتسے متعلقہ مخصوصشہریاقصبہہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاںحکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاًلندنیاماسکو۔دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاًوکیل،صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثالبرازیلکی ہےجہاں ریو ڈی جینیرومیں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سےبراسیلیاکو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلاناتجنوبی کوریاکی حکومت بھی کر چکی ہے جوسیولکو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کریونگی گونگجوکو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسیملککے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔"
+830,روسی زار شاہی,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D9%88%D8%B3%DB%8C_%D8%B2%D8%A7%D8%B1_%D8%B4%D8%A7%DB%81%DB%8C,روسی زار شاہی(Tsardom of Russia)ایوان چہارمکی قائم کردہ مرکزی روسی ریاست کا نام تھا جس نے 1547زارکا لقب اپنایا۔ 1721 میںپطرس اعظمنے اسےسلطنت روسمیں تبدیل کر دیا۔
+831,پطرس اعظم,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%B7%D8%B1%D8%B3_%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85,پطرس اعظمیاپیٹر اعظم(پیدائش:9 جون1672ء(گریگوری عیسوی تقویم) یا30 مئی1672ء— وفات:8 فروری1725ء(گریگوری عیسوی تقویم) یا28 جنوری1725ء)سلطنت روسکا شہنشاہ تھا۔ پطرس کا تعلقروسکےروسی زار شاہی خاندانسے تھا۔ اُس نے1682ءسے1725ءتک حکومت کی۔اُسےروسکا بیدار مغز شہنشاہ بھی کہا جاتا ہے۔1696ءمیںازوفکا علاقہ ترکوں سے چھینا۔1697ءمیںبیلجیم،ہالینڈ،انگلینڈ،آسٹریااورجرمنیکا دورہ کیا اور جہاز سازی کا فن اور ٹکنیکل سائنس کا علم حاصل کیا۔1700ءمیںچارلس دوازدہمشاہسویڈنسےجنگ ناروامیں شکست کھائی جس کا بدلہ 9 سال بعد لیا۔1711ءمیں ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے ترکوں کو ازوف کا علاقہ واپس مل گیا۔1721ءمیںسویڈنسے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا جس کی رو سے کئی علاقے روس کے قبضے میں آ گئے۔پیٹر نے1703ءمیںسینٹ پیٹرز برگکی بنیاد رکھی۔1722ءمیںایرانسے جنگ ہوئی جس میں پیٹر کو کامیابی حاصل ہوئی۔ روس میں معاشرتی اور تعلیمی اصلاحات رائج کیں اور فوج اور بحریہ کی از سرنو تنظیم کی۔سائنساورفنون لطیفہکی بھی ہمت افزائی کی اور روس کے لوگوں کو مغربی تہذیب سے روشناس کیا۔ ایک دہقان عورت سے شادی کی جو پیٹر کی وفات پرکیتھرائن اولکے لقب سے تخت پر بیٹھی۔لوا خطا package.lua میں 80 سطر پر: module 'Module:Authority control/auxiliary' not found۔
+832,سینٹ پیٹرز برگ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%DB%8C%D9%86%D9%B9_%D9%BE%DB%8C%D9%B9%D8%B1%D8%B2_%D8%A8%D8%B1%DA%AF,سینٹ پیٹرز برگ(سانت پیتیرس ُبرگ) شمال مغربیروسکا ایک شہر ہے جوبحیرہ بالٹکمیںخلیج فن لینڈکے مشرقی کنارے پردریائے نیواکے ڈیلٹا پر واقع ہے۔ یہ عام طور پر پیٹر کہلاتا ہے جبکہ1914ءسے1924ءکے درمیان اسےپیٹرو گراڈ(سانت پیتیرس ُبرگ) اور1924ءسے1991ءتکلینن گراڈ(سانت پیتیرس ُبرگ)کہا جاتا تھا۔شہر کی بنیاد16 مئی1703ءکو روس کے زارپیٹر اعظمنے رکھی۔ یہ 200 سال سے زائد عرصے تکروسی سلطنتکا دار الحکومت رہا۔انقلاب روسکے بعد1917ءمیں دار الحکومتماسکومنتقل کر دیا گیا۔2002ءکی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی 47 لاکھ ہے اور یہ روس کا دوسرا اوریورپکا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے۔سینٹ پیٹرز برگ (سانت پیتیرس ُبرگ) یورپ کا اہم ثقافتی مرکز اور روس کی اہم ترین بندرگاہ ہے۔ شہر کا کل رقبہ 1439 مربعکلومیٹرہے اور یہ 10 لاکھ سے زائد آبادی کے حامل یورپی شہروں میںلندنکے بعد رقبے کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہنیویارکسے دگنا اورپیرسپا غی) سے 13 گنا بڑا ہے۔سینٹ پیٹرز برگ (سانت پیتیرس ُبرگ) 10 لاکھ سے زائد آبادی کے حامل دنیا بھر کے شہروں میں انتہائی شمالی شہر ہے۔ شہر کے مرکز کواقوام متحدہکے ادارےیونیسکونےعالمی ثقافتی ورثہقرار دے رکھا ہے۔
+834,روسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہ,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D9%88%D8%B3%DB%8C_%D8%B3%D9%88%D9%88%DB%8C%D8%AA_%D9%88%D9%81%D8%A7%D9%82%DB%8C_%D8%A7%D8%B4%D8%AA%D8%B1%D8%A7%DA%A9%DB%8C_%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81,روسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہ(Russian Soviet Federative Socialist Republic) (روسی :Российская Советская Федеративная Социалистическая Республика) سابقسوویت اتحادکا سب سے بڑا، سب سے زیادہ آبادی والا جمہوریہ تھا۔سوویت یونینسے علیحدگی کے بعد یہ آزاد ریاستروسبن گیا۔
+835,سوویت اتحاد,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%88%D9%88%DB%8C%D8%AA_%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%86,"روسی سوشلسٹ ریاستوں کا مجموعہ (مختصراً USSR) جسے عام طور پرشوروی اتحادیاسوویت اتحادکے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ آئینی اعتبار سےاشتراکی ریاستتھی جویوریشیامیں1922ءسے1991ءتک قائم رہی۔ اس کو بالعموم روسیہ (Russia) بھی کہا جاتا تھا جو غلط ہے۔ روسیہ یعنی رشیا اس اتحاد کی سب سے زیادہ طاقتور ریاست کا نام ہے۔1945ءسے لے کر1991ءتک اس کوامریکہکے ساتھ دنیا کی ایک عظیم طاقت (Super Power) مانا جاتا تھا۔سوویت اتحاد1917ءکےانقلابکے دوران بننے والے ریاستی علاقے میں قائم کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جغرافیائی سرحدیں تبدیل ہوتی رہیں، لیکن آخری بڑی ٹوٹ پھوٹ کے بعد، جوبالٹک ریاستوں، مشرقیپولینڈ،مشرقی یورپکا کچھ حصہ اور کچھ دوسری ریاستوں کے اضافے اورفن لینڈاورپولینڈکی علیحدگی کے بعد1945ءسے لے کر تحلیل تک شاہی دور والے روس جیسی ہی رہیں۔سوویت حکومت اور سیاسی تنظیموں کی نگرانی اور دیکھ بھال کا کام ملک کی واحد سیاسی جماعت، سوویت اتحاد کی کمیونسٹ پارٹی کے پاس رہا۔1956ءتک سوویت سوشلسٹ ریاستوں کی تعداد چار سے بڑھ کر پندرہ ہو گئی جو مندرجہ ذیل ہیں۔1991ءمیں سوویت اتحاد تحلیل ہو گیا اور اس کے بعد مذکورہ تمام ریاستیں آزاد ہوگئیں۔ ان میں سے گیارہ ریاستوں نے مل کر ایک ڈھیلا ڈھالا سا وفاق (Confederation) بنالیا ہے جسے ""آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ"" کہا جاتا ہے۔ترکمانستانجو پہلے اس دولت مشترکہ کا باقاعدہ رکن تھا، اب شریک رکن کا درجہ رکھتا ہے۔ تینبالٹک ریاستوںیعنیاسٹونیا،لٹویااورلتھووینیانے اس دولت مشترکہ کی بجائے2004ءمیںیورپی اتحاداورنیٹومیں شمولیت اختیار کی۔ روس اور بیلاروس اباتحاد روس و بیلاروسسے تعلق رکھتے ہیں۔سوویت اتحاد کوروسی بادشاہتکے بعد کی شکل کہا جاتا ہے۔ آخری روسی زار،نکولس دومنےمارچ1917ءتک حکومت کی اور اگلے سال اپنے خاندان سمیت مارا گیا۔ سوویت اتحاد کا قیامدسمبر1922ءمیں عمل میں آیا۔ اس میں روس (بالشویک رشیا)،یوکرائن،بیلارس،جارجیا،آرمینیااورآذربائیجان(ان تین ریاستوں کو بالائے قفقاز ریاستیں بھی کہتے ہیں) شامل تھے اور ان پربالشویک پارٹیکی حکومت تھی۔روسی بادشاہت کے اندر جدید انقلابی تحریک1825ءکی دسمبر بغاوت سے شروع ہوئی۔1905ءکے انقلاب کے بعد1906ءمیں روسی پارلیمنٹڈوماقائم ہوئی لیکن ملک کے اندر سیاسی اور سماجی عدم استحکام موجود رہا اورپہلی جنگ عظیممیں شکست اور خوراک کی قلت کے باعث یہ مزید پروان چڑھا۔سوویت اتحاد نے براعظمیورپکے مشرقی اورایشیاکے شمالی حصے پر قبضہ کیا تھا۔ ملک کا زیادہ تر حصہ پچاس ڈگری شمالی طول بلد سے اوپر ہے اور اس کا کل رقبہ 22402200 مربع کلومیٹر یا 8649500 مربع میل ہے۔ اتنے عظیم رقبے کی وجہ سے اس کا موسم نیم استوائی سے لے کر سرد، نیم برفانی سے لے کر برفانی تک ہے۔ 11 فیصد زمین قابل کاشت تھی، 16 فیصد گھاس کے میدان اور چراگاہیں تھیں، 41 فیصد جنگلات تھے اور 32 فیصد حصہ دیگر قسم کا تھا جس میں ٹنڈرا کا حصہ بھی شامل ہے۔سوویت اتحاد کی چوڑائی کوئی 10000 کلومیٹر یعنی 6200 میل تھی جولینن گراڈسے لے کر راتمانوا تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی لمبائی تقریبا 5000 کلومیٹر یعنی کوئی 3100 میل تھی۔ اس کا زیادہ تر حصہ ناہموار اور بہت مشکل ہے۔ پورا امریکا اس کے ایک حصے کے اندر سما سکتا ہےسوویت اتحاد کی ثقافت یو ایس ایس آر کی 70 سالہ دور میں بہت سے مراحل سے گذری ہے۔ انقلاب کے بعد پہلے گیارہ سال تک لوگوں کو نسبتا آزادی حاصل رہی اور مصوروں نے مصوری میں بہت سی نئی روسی جدتیں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ حکومت نے بہت سے مختلف رحجانات کو جو سلطنت کے لیے خطرہ نہ ہوں، برداشت کیا۔ فن و ادب میں بہت سے مختلف ذہنیت کے لوگ گھسے اور انھوں نے نت نئے تجربات کیے۔ کمیونسٹ مصنفین جیسا کہمیکسم گورکیاورولادیمیر ماواکوشوفاس دوران بہت نمایاں رہے۔ فلم، جو معاشرے پر بہت زیادہ اثر چھوڑتی ہے، کو حکومت کی طرف سے بہت حوصلہ افزائی ملی اورسرگئی آئنسٹائنکا زیادہ تر کام اسی دوران تخلیق ہوا۔بعد ازاںجوزف سٹالنکے دور میں، سوویت ثقافت کو حکومت کی بیان کردہ حدود کے ذریعے نافذ کیا گیا۔ ہر طرح کے اثرات کو سختی سے روکا گیا۔ بہت سے مصنفین جیل میں ڈالے گئے یا مار دیے گئے۔"
+836,سوویت اتحاد کی تحلیل,https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%88%D9%88%DB%8C%D8%AA_%D8%A7%D8%AA%D8%AD%D8%A7%D8%AF_%DA%A9%DB%8C_%D8%AA%D8%AD%D9%84%DB%8C%D9%84,"سوویت یونین[ب]کی تحلیلسوویت سوشلسٹ جمہوریہ(یو ایس ایس آر) کییونینکے اندر اندرونی تحلیل کا عمل تھا ، جو 1980 کی دہائی کے آخر میں مختلف حلقہجمہوریہمیں بڑھتی ہوئی بے امنی کے ساتھ شروع ہوا تھا اور 26 دسمبر کو ختم ہوا تھا۔ اس کی اہم وجہ افغانستان کی جنگ کو سمجھا جاتا ہے۔جس سے ملک کی معیشت تباہ ہو گئی۔1991 میں ، جب سپریم سوویت یونین نے خود ہی اپنا وجود ختم کرنے کا ووٹ دیا۔1991 اگست کی بغاوت کی ناکامی ، جب سوویت حکومت اور فوج کے اشرافیہ نے صدرمیخائل گورباچوفکومعزول کرنےاور نام نہاد "" خود مختاری کی پریڈ "" کو روکنے کی کوشش کی ، جس کی وجہ سےماسکومیں مرکزی حکومت مکمل طور پر ختم گئی اور سوویت جمہوریاؤں نے اگلے دنوں اور مہینوں میں آزادی کا اع��ان کیا۔ ۔بالٹک ریاستوں(لیتھوانیا،لٹویااورایسٹونیا) کی علیحدگی کو ستمبر 1991 میں سوویت حکومت نے تسلیم کر لیا تھا۔ بیلویزا معاہدوں پرروس،یوکریناوربیلاروس کیجمہوریہ نے 8 دسمبر کو ایک دوسرے کی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے اوردولت مشترکہ کی آزاد ریاستوں(سی آئی ایس) کو تشکیل دیتے ہوئے دستخط کیے تھے۔ باقی جمہوریہ ،جارجیا کو چھوڑ کر، 21 دسمبر کو الما اتا پروٹوکول پر دستخط کرکے سی آئی ایس میں شامل ہوگئیں ۔25 دسمبر کو ، گورباچوف نے استعفیٰ دے دیا ، اپنے دفتر کو ناپید کر دیا اور اس کے اختیارات بشمول جوہری لانچ کوڈوں پر قابو پانے کے،روسی فیڈریشن کےپہلےصدر،بورس ییلتسین، کے حوالے کر دیے۔ اس شام 7:32 کے وقت ، سوویت پرچم کو آخری بار کریملن سے نیچے اتارا گیا تھا اور روسی تاریخی جھنڈے سے تبدیل کیا گیا تھا۔ اگلے ہی دن ، سپریم سوویت کیخود مختار اقتدار کی منظوری کے لیے ڈیکلیریشن 42-ایچ میں، سوویت یونین کو باضابطہ طور پر تحلیل کرتے ہوئے ، سوویت جمہوریاؤں کی باضابطہ خود مختاری کی آزادی کو تسلیم کیا گیا۔1989 کی انقلاباتاور یو ایس ایس آر کی تحلیل دونوں ہیسرد جنگ کے خاتمے کی علامتتھیں۔متعددسابقہ سوویت جمہوریاؤںنے روس کے ساتھ قریبی روابط برقرار رکھے ہیں اور اقتصادی اور سلامتی تعاون کو بڑھانے کے لیے کثیرالجہتی تنظیمیں جیسے سی آئی ایس ، یوریشین اکنامک کمیونٹی ، یونین اسٹیٹ ، یوریشین کسٹم یونین اور یوریشین اکنامک یونین تشکیل دیے ہیں۔ دوسری طرف ، بالٹک ریاستوں نےنیٹواوریوروپی یونین میںشمولیت اختیار کی ہے ، جبکہ جارجیا اور یوکرین اسی طرح سے چلنے میں دلچسپی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔میخائل گورباچوفکو 11 مارچ 1985 کو پولٹ بیورو نے پیش رو کونسٹینٹن چرنینکو کی 73 سال کی عمر میں موت کے تین گھنٹے بعد ہی جنرل سکریٹری منتخب کیا تھا۔ گورباچوف ، جن کی عمر 54 سال تھی، پولٹ بیورو کے سب سے کم عمر رکن تھے۔ جنرل سکریٹری کی حیثیت سے ان کا ابتدائی ہدف سوویت معیشت کی بحالی تھا اور انھیں احساس ہوا کہ ایسا کرنے کے لیے بنیادی سیاسی اور معاشرتی ڈھانچے میں اصلاح کی ضرورت ہوگی۔[2]ان اصلاحات کا آغاز بریزنیف دور کے اعلی عہدے داروں کے اہلکاروں کی تبدیلیوں سے ہوا جو سیاسی اور معاشی تبدیلی میں رکاوٹ کا باعث تھے ۔[3]23 اپریل ، 1985 کو ، گورباچوف ، پولٹ بیورومیں دو ارکان ، ایگور لیگاشیف اور نیکولائی ریزکوف کو مکمل ممبر کی حیثیت سے لے کر آئے۔ انھوں نے کے جی بی ہیڈ وکٹر چیبرکوف کو امیدوار سے مکمل ممبر کی حیثیت سے ترقی دے کر اور وزیر دفاع مارشل سرگئی سوکولوف کو پولیٹ بیورو کے امیدوار کے عہدے پر تعینات کرکے ""اقتدار"" کی وزارتوں کو خوش رکھا۔تاہم ، اس لبرلائزیشن نے سوویت یونین کے اندرقوم پرستتحریکوں اور نسلی تنازعات کو پروان چڑھایا۔[4]اس نے بالواسطہ طورپر 1989 کی انقلابوں کیبھی راہنمائی کی ، جس میںوارسا معاہدے کیسوویت حکومت سے مسلط سوشلسٹ حکومتوں کو پرامن طور پر ختم کیا گیا ( رومانیہ کی قابل ذکر رعایت کے ساتھ ) ، جس کے نتیجے میں گورباچوف پر سوویت یونین کی آئینی جمہوریاؤں کے لیے زیادہ سے زیادہ جمہوریت اور خود مختاری کو متعارف کرانے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا۔ ۔ گورباچوف کی قیادت میں ،سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی(سی پی ایس یو) نے 1989 میں ایک نئی مرکزی مقننہ ، کانگریس آف پیپلز ڈپٹی تک محدود مسابقتی انتخابات متعارف کروائے (اگرچہ 1990 تک دیگر سیاسی جماعتوں پر پابندی ختم نہیں کی گئی تھی)۔مئی 1985 میں ، گورباچوف نےلینن گراڈمیں ایک تقریر کی جس میں بڑے پیمانے پرشراب نوشیسے نمٹنے کے لیے اصلاحات اور الکحل مخالف مہم کی حمایت کی گئی۔ ووڈکا ، شراب اور بیئر کی قیمتیں بڑھائی گئیں ، جس کا مقصد شراب کی قیمت میں اضافہ کرکے شراب پینے کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔ راشننگ پروگرام بھی متعارف کرایا گیا تھا ، جہاں شہریوں کو پنچ کارڈ تفویض کیے گئے تھے جس میں بتایا گیا تھا کہ وہ ایک مقررہ وقت میں کتنی شراب خرید سکتے ہیں۔ راشن کی زیادہ تر اقسام کے برعکس ، جو عام طور پر قلیل اشیا کے تحفظ کے لیے حکمت عملی کے طور پر اپنایا جاتا ہے ، یہ شراب نوشی کو کم کرنے کے واضح مقصد کے ساتھ فروخت کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔[5]گورباچوف کے اس منصوبے میں بل بورڈز بھی شامل ہیں جنھوں نے غصے کو فروغ دیا ، عوامی شراب نوشی کے جرمانے میں اضافہ اور پرانی فلموں کے شراب پینے کے مناظر کی سنسرشپ بھی شامل تھی۔ اس کا عکس پہلی بار جنگ عظیم کے دورانزار نکولس دومکا پروگرام تھا ، جس کا مقصد جنگ کی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے شراب نوشی کو ختم کرنا تھا۔ تاہم ، اس پہلے کی کوشش کا مقصد بھی اناج کو صرف انتہائی ضروری مقاصد کے لیے محفوظ کرنا تھا ، جو گورباچوف کے پروگرام میں ایک مقصد ثابت نہیں ہوا تھا۔گورباچوف کو جلد ہی اپنی ممانعت پر اسی منفی معاشی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ آخری زار کی طرح تھا۔ الیگزنڈر یاکووف کے مطابق ، شراب کے استعمال کو ختم کرنا ریاستی بجٹ کے لیے ایک سنگین دھچکا تھا ، جنھوں نے نوٹ کیا کہ شراب ٹیکس کی سالانہ وصولی میں 100 ارب روبل کی کمی واقع ہوئی ہے۔ ۔ شراب کی فروختبلیک مارکیٹ میںمنتقل ہو گئی اورچاندنیزیادہروشنہو گئی کیونکہ کچھ نے آبائی آلووں سے ""باتھ ٹب ووڈکا"" بنا دیا۔ غریب ، کم پڑھے لکھے سوویت باشندوں نے کیل پالش ہٹانے ، شراب نوشی یا مردوں کے کولون جیسے غیر صحت مند متبادل شراب پینے کا سہارا لیا ، جس کے نتیجے میں زہر آلودگی کے بڑھتے ہوئے معاملات کی وجہ سے روس کے صحت کی دیکھ بھال کے شعبے پر ایک اور بوجھ پڑتا ہے۔[5]ان اصلاحات کا بنیادی مقصد بعد میں ہونے والی اصلاحات کے برعکس موجودہ کمانڈ معیشت کو آگے بڑھانا تھا ، جس کا رجحان مارکیٹ سوشلزم کی طرف تھا ۔یکم جولائی ، 1985 کو ، گورباچوف نے جارجیائی کمیونسٹ پارٹی کے پہلے سکریٹریایڈورڈ شیورڈناڈزے کو پولیٹبیورو کا مکمل ممبر بنا دیا اور اگلے ہی دن نے انھیں دیرینہ وزیر خارجہ آندرے گرومائکو کی جگہ پر ، وزیر خارجہ مقرر کیا۔ مؤخر الذکر ، مغرب میں ""مسٹر نیئت"" کی حیثیت سے ناپسندیدہ ، وزیر خارجہ امور کی حیثیت سے 28 سال خدمات انجام دے چکے ہیں۔ گرومیکو کو بڑی حد تک رسمی طور پر سپریم سوویت (سرکاری طور پر سوویت ہیڈ آف اسٹیٹ) کے صدر کے عہدے پر فائز کر دیا گیا ، کیونکہ وہ ایک ""پرانے مفکر"" سمجھے جاتے تھے۔ یکم جولائی کو بھی ، گورباچوف نے پولٹ بیورو سے گریگوری رومانوف کو ہٹا کر اپنے مرکزی حریف کو ہٹادیا اور وہبورس یلسناور لیب زائکوف کو سی پی ایس یو سنٹرل کمیٹی سیکرٹریٹ میں لایا۔1985 کے موسم خزاں میں ، گورباچوف نے کم عمر اور زیادہ طاقت ور مردوں کو حکومت میں لانا جاری رکھا۔ 27 ستمبر کو 55 سالہ نکولائی ریزکوف 79 سالہ نکولائی تیخونوف کو بطور وزراء کی کونسل کے چیئرمین تبدیل کیا، مؤثر سوویت وزیر اعظم اور 14 اکتوبر، نکولائی تالیزن کو نکولائی بائیباکوف سے ریاستی پلاننگ کمیٹی (GOSPLAN) 15 چیئرمین کے طور پرتبدیل کیا۔اکتوبر کو سنٹرل کمیٹی کے اگلے اجلاس میں ، تیکونوف پولیٹ بیورو سے ریٹائر ہوئے اور تالیزن امیدوار بن گئے۔ 23 دسمبر 1985 کو گورباچوف نے وکٹر گرشین کی جگہ یلسٹن کو ماسکو کمیونسٹ پارٹی کا پہلا سکریٹری مقرر کیا۔گورباچوف نے زیادہ سے زیادہ آزادکرن کے لیے دباؤ ڈالا ۔ 23 دسمبر ، 1986 کو ، سوویت کے سب سے نمایاں مخالف ،آندرے سخاروف، گورباچوف کی ذاتی ٹیلی فون کال موصول ہونے کے فورا بعد ہی ماسکو واپس آئے تھے جس نے انھیں بتایا تھا کہ حکام کے خلاف الزام تراشی کرنے پر ان کی داخلی جلاوطنی تقریبا سات سال بعد ختم ہو گئی ہے۔بالٹک جمہوریائیں، جبری طور پر 1944 میںسوویت یونینمیں شامل کی گئيں، ،[6]کی آزادی کے لیے دباؤ ڈالا گیا ، اس کا آغاز نومبر 1988 میںایسٹونیا سےہوا جب ایسٹونیا کی مقننہ نے مرکزی حکومت کے کنٹرول کے خلاف مزاحمت کرنے والے قوانین منظور کیے۔ جب کہ گورباچوف نے مشرقی یورپ پر سوویت کنٹرول کو ڈھیل دیا تھا ، اس نے یہ بتایا تھا کہ اسٹونین ،لیٹویناورلتھوانیائیعلیحدگی پسندیکو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر پابندیوں اور طاقت کے ساتھ کنٹرول کی جائے گی ، کیونکہ اس کی نا اہلی کے پولیٹ بیورو میں ایک معاہدہ تھا۔ پولینڈ اورچیکوسلواکیہ کوکمیونسٹ رکھنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ، لیکن کہا کہ ان ممالک سے طاقت کا خاتمہ خود سوویت یونین میں نہیں ہوگا۔[7]( (لیٹویائی:Cilvēktiesību aizstāvības grupa)،لفظی.'Human Rights Defense Group' 'ہیومن رائٹس ڈیفنس گروپ' ) ہیلسنکی، 86 جولائی 1986 میںلیٹوینبندرگاہ شہرلئیپاجا: تین کارکنوں : لائنرز گرانٹی ، ریمنڈس بٹینیکس اور میرٹیس بیریز کی طرف سے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے نام سے ہیلسنکی معاہدوں کے انسانی حقوق کے بیانات ہیں۔ ہیلسنکی 86 ، ریاستہائے متحدہ امریکا میں سب سے پہلے کھلے عام طور پر کمیونسٹ مخالف تنظیم تھی اور سوویت حکومت کے خلاف پہلی منظم مخالفت تھی ، جس نے دیگر نسلی اقلیتوں کی آزادی کے حامی تحریکوں کے لیے مثال قائم کی تھی۔[8]26 دسمبر 1986 کو صبح سویرے ایک راک کنسرٹ کے بعد ، 300 مزدور طبقے کے لیٹوین نوجوان ریگا کے کیتیڈرل اسکوائر میں جمع ہوئے اور لینن ایونیو کو آزادی یادگار کی طرف مارچ کیا ، چیخ چیخ کر کہا ، ""سوویت روس باہر! آزاد لیٹویا! "" سیکیورٹی فورسز نے مارچ کرنے والوں کا مقابلہ کیا اور پولیس کی متعدد گاڑیاں الٹ گئیں۔[9]قازقستان کےآلما اتامیں 1986 کےجلیٹوکان( دسمبر) کو ہنگامے ہوئے تھے ، گورباچوف کی قازقستان کی کمیونسٹ پارٹی کے فسٹ سکریٹری اور ایک نسلی قازق نامزد ہونے والے ، دین محمد کانائیف کی برخاستگی کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے ، جن کی جگہ باہرلےروسی ایس ایف ایس آرکے جنیڈی کولبین نے لے لی گئی تھی۔[10]مظاہرے 17 دسمبر 1986 کی صبح شروع ہوئے ، جب بریزنیف اسکوائر پر سنٹرل کمیٹی کی عمارت کے سامنے 200 سے 300 طلبہ نے کنایف کی برخاستگی اور روس کی طرف سے ان کی جگہ لینے کے خلاف احتجاج کیا۔ دیگر طلبہ بھیڑ میں شامل ہوتے ہی مظاہرین نے ایک ہزار پھر 5،000 تک بڑھ گئی۔ سی پی کے کی سنٹرل کمیٹی نے وزارت داخلی امور ،ڈروزنیکی(رضاکاروں) ، کیڈٹس ، پولیس اہلکاروں اور کےجی بی کےدستوں کو چوک کا گھیرا تنگکرنے اور شرکا کو ویڈیو ٹیپ کرنے کا حکم دیا۔ صورت حال 5 کے قریب بڑھ گئی شام کے وقت ، جب فوجیوں کو مظاہرین کو منتشر کرنے کا حکم دیا گیا۔ الماتی میں ساری رات سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔اگلے ہی دن ، 18 دسمبر کو ، فوجیوں ، رضاکاروں ، ملیشیا ��ے یونٹوں اور قازق طلبہ کے درمیان جھڑپوں نے بڑے پیمانے پر تصادم میں تبدیل ہونے کے بعد احتجاج کو شہری بے امنی میں بدل دیا۔ صرف تیسرے دن جھڑپوں پر قابو پالیا جاسکا۔شمع کینٹ،پولودر،کاراگندااورٹلڈکورگن میںالما عطاء کے واقعات کے بعد چھوٹے مظاہرے اور مظاہرے ہوئے۔قازقستان کے ایس ایس آرحکام کی اطلاعات کے مطابق اندازہ ہوا کہ فسادات میں 3،000 افراد شامل ہوئے۔[11]دیگر تخمینے کم از کم 30،000 سے 40،000 مظاہرین کا ہیں جن کے ساتھ 5000 گرفتار اور جیل میں بند تھے اور ہلاکتوں کی ایک انجان تعداد نہیں۔ جیلٹوقسان کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مظاہروں میں 60،000 سے زیادہ قازقستان نے حصہ لیا۔[12]قازقستان کی ایس ایس آر حکومت کے مطابق ، فسادات کے دوران دو ہلاکتیں ہوئیں ، جن میں ایک رضاکار پولیس کارکن اور ایک طالب علم شامل ہیں۔ دونوں کے سر پر چلنے کی وجہ سے موت ہو گئی تھی۔ تقریبا 100 100 دیگر افراد کو حراست میں لیا گیا اور متعدد دیگر کو مزدور کیمپوں میں شرائط کی سزا سنائی گئی۔[13]لائبریری آف کانگریس کےذریعہ نقل کردہ ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اس کے فورا؛ بعد کم از کم 200 افراد ہلاک ہو گئے یا انھیں مختصر طور پر پھانسی دے دی گئی۔ کچھ اکاؤنٹس میں ہلاکتوں کا تخمینہ ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ مصنف مختار شخانوف نے دعویٰ کیا کہ کے جی بی کے ایک افسر نے گواہی دی کہ 168 مظاہرین ہلاک ہو گئے ، لیکن یہ تعداد غیر مصدقہ ہے۔جنوری 28-30 ، 1987 میں ، مرکزی کمیٹی کے اجلاس ، گورباچوف نے سوویت معاشرے میں ڈیموکراٹیزاسیا کی ایک نئی پالیسی تجویز کی۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ مستقبل میں کمیونسٹ پارٹی کے انتخابات متعدد امیدواروں کے درمیان انتخاب پیش کریں جو خفیہ رائے شماری کے ذریعے منتخب ہوں۔ تاہم ، پلینم میں موجود سی پی ایس یو کے نمائندوں نے گورباچوف کی تجویز کو پانی پلایا اور کمیونسٹ پارٹی میں جمہوری انتخاب کو کبھی قابل ذکر نہیں لاگو کیا گیا۔گورباچوف نےگلاسنوسٹ کےدائرہ کار کو یکسر وسعت دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میڈیا میں کھلی گفتگو کے لیے کوئی بھی موضوع محدود نہیں ہے۔ اس کے باوجود ، محتاط سوویت دانشوروں نے حدود کو آگے بڑھانا شروع کرنے میں تقریبا a ایک سال کا عرصہ لگا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا اس کی مراد اس کی ہے۔ پہلی بار ، کمیونسٹ پارٹی کے رہنما نے آزادیوں میں توسیع کے بدلے عوام کی حمایت کے لیے مرکزی کمیٹی ارکان کے سربراہان سے اپیل کی تھی۔ یہ ہتھکنڈہ کامیاب ثابت ہوا: دو سال کے اندر سیاسی قدامت پسندی پارٹی قدامت پسندوں کے ہاتھوں اب گھیرے میں نہیں آسکتی ہے۔ ایک غیر یقینی نتیجہ یہ ہوا کہ اصلاحات کو بچانے کے بعد ، گورباچوف کے اقدام نے بالآخر اسی نظام کو ہلاک کر دیا جسے بچانے کے لیے بنایا گیا تھا۔[14]7 فروری ، 1987 کو ، سن 1950 کی دہائی کے وسط میں خروشچیو تھام کے بعد سے پہلے گروپ کی رہائی میں درجنوں سیاسی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ 6 مئی 1987 کو ایک روسی قوم پرست گروہ پامیت نے ماسکو میں ایک غیر منظور شدہ مظاہرہ کیا۔ حکام نے مظاہرے کو توڑنے نہیں دیا اور یہاں تک کہ ٹریفک کو مظاہرین کے راستے سے دور رکھا جبکہ انھوں نے ماسکو کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ بورس ییلتسین سے ملاقات کی اور اس وقت گورباچوف کے قریبی اتحادیوں میں سے ایک کی ملاقات کی۔ 25 جولائی ، 1987 کو ، 300کریمین تاتاروںنے کرملن وال کے قریب کئی گھنٹوں تک شور مچایا اور اپنے وطن واپس جانے کے حق کا مطالبہ کیا ، جہاں سے انھیں 1944 میں جلاوطنکیاگیاتھا۔ پولیس اور فوجی صرف محض نظر ڈالتے ہیں۔ماسکو میں ان دو غیر منظور شدہ مظاہروں کی اجازت دینے کے لیے پولٹ بیورو میں سخت گیر یگور لیگاشیف کے لیکچر کے بعد 10 ستمبر 1987 کو ،بورس ییلتسننے گورباچوف کو استعفی کا خط لکھا ، جوبحیرہ اسودپر چھٹی منانے آئے تھے۔[15]گورباچوف دنگ رہ گیا - کسی نے بھی کبھی بھی رضاکارانہ طور پر پولیٹ بیورو سے استعفی نہیں دیا تھا۔ 27 اکتوبر 1987 کو مرکزی کمیٹی کے مکمل اجلاس میں ، یلسن نے مایوسی کا اظہار کیا کہ گورباچوف نے اپنے استعفیٰ خط میں بیان کردہ کسی بھی مسئلے پر توجہ نہیں دی ہے ، اس نے اصلاحات کی سست رفتار ، جنرل سکریٹری کی نوکری اور لیگاچیو کی مخالفت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کی وجہ سے (یلسن کا) استعفیٰ ملا۔[16]سن 1920 کی دہائی میںلیون ٹراٹسکی کےبعد سے کسی نے بھی مرکزی رہنما کے سامنے اتنے بے رحمی سے خطاب نہیں کیا تھا۔ گورباچوف نے اپنے جواب میں ، یلسن پر ""سیاسی نفاست"" اور ""مطلق ذمہ داری"" کا الزام لگایا۔ بہر حال ، یلسن کے مطیع ہونے اور ""خفیہ تقریر"" کی خبریں پھیلگئیںاور جلد ہیسمزدادیورژن بھی گردش کرنے لگے۔ اس سے یلٹسن کے باغی ہونے کے ناطے اور اسٹیبلشمنٹ مخالف شخصیت کے طور پر مقبولیت میں اضافے کا آغاز ہوا۔ یلتن اور گورباچوف کے مابین اگلے چار سال کی سیاسی جدوجہد نے یو ایس ایس آر کو تحلیل کرنے میں ایک بڑا کردار ادا کیا۔ 11 نومبر 1987 کو ، یلسن کو ماسکو کمیونسٹ پارٹی کے فرسٹ سکریٹری کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔23 اگست 1987 کو ،ایڈولف ہٹلراورجوزف اسٹالن کےمابین 1939 کے مولتوف معاہدے کی 48 ویں برسی ، جس نے بالٹیک ریاستوں کو بالآخر سوویت یونین کے حوالے کر دیا ، ہزاروں مظاہرین نے بالٹک کے تین دارالحکومتوں میں اس موقع کو نشان زد کیا آزادی کے گیت گانا اور اسٹالن کے متاثرین کی یاد دلانے والے تقاریر میں شرکت کرنا۔ سرکاری پریس میں اجتماعات کی شدید مذمت کی گئی اور پولیس نے اسے قریب سے دیکھا لیکن انھیں روک نہیں دیا گیا۔14 جون ، 1987 کو ، تقریبا 5،000 افرادریگامیں آزادی یادگار پر ایک بار پھر جمع ہوئے اور 1941 میں لاطینیوں کےاسٹالینکی بڑے پیمانے پر جلاوطنی کی برسی کی یاد میں پھول چڑھائے۔ سرکاری سطح پر سوویت تاریخ کے برخلاف کسی واقعے کی برسی کی یاد میں بالٹک جمہوریہ میں یہ پہلا بڑا مظاہرہ تھا۔ حکام نے مظاہرین کے خلاف کوئی سختی نہیں کی جس نے بالٹک ریاستوں میں زیادہ سے زیادہ مظاہروں کی حوصلہ افزائی کی۔ اگست 23 اگست کے مولوتوف معاہدہ مظاہرے کے بعد اگلی بڑی برسی 18 نومبر تھی جو 1918 میں لیٹویا کی آزادی کی تاریخ تھی۔ 18 نومبر 1987 کو سیکڑوں پولیس اور شہری عسکریت پسندوں نے آزادی یادگار پر کسی مظاہرے کو روکنے کے لیے مرکزی چوک کا گھیراؤ کر لیا ، لیکن ہزاروں افراد قطع نظر اس کے خاموش احتجاج میں ریگا کی سڑکوں پر کھڑے ہو گئے۔موسم بہار 1987 میں ،ایسٹونیامیں نئی فاسفیٹ کانوں کے خلاف ایک احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔تارتومیں دستخط جمع کیے گئے تھے اور طلبہ حکومت کے عدم اعتماد کے اظہار کے لیے یونیورسٹی کے مرکزی ہال میں جمع ہوئے تھے۔ یکم مئی 1987 کو ایک مظاہرے میں ، نوجوانوں نے سرکاری پابندی کے باوجود بینرز اور نعرے لگائے۔ 15 اگست ، 1987 کو ، سابق سیاسی قیدیوں نے ایم آر پی - اے ای جی گروپ (ایسٹونینز برائے عوامی انکشاف برائےTiit Madisson[et]معاہدہ) تشکیل دیا ، جس کی سربراہیTiit Madisson[et]نے کی تھی۔ ستمبر 1987 میں ، اڈیسی اخبار نے ایڈگر ساویسار ، صائم کلاس ، ٹائٹ میڈ اور مائک تیتما ک�� ایک تجویز شائع کرتے ہوئے ایسٹونیا کی خود مختاری میں منتقلی کا مطالبہ کیا۔ابتدائی طور پر معاشی آزادی کی طرفگامزن، پھر ایک مخصوص مقدار میں سیاسی خود مختاری کی طرف ، اس منصوبے ،اسماجندیو ایسٹی(""ایک سیلف منیجنگ ایسٹونیا"") اپنے اسٹونین مخفف ، IME کے مطابق جانا جاتا ہے ، جس کا مطلب ہے ""معجزہ""۔ 21 اکتوبر کو ، ایک مظاہرے ان لوگوں کے لیے وقف کیے گئے جنھوں نے 1918–1920 کی اسٹونین آف جنگ آزادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، ویورو میں ہوا ، جس کا اختتام ملیشیا سے تنازع پر ہوا۔ برسوں میں پہلی بار ، نیلے ، سیاہ اور سفید قومی ترنگا کو عوامی طور پر دکھایا گیا۔[17]لیتھوانیا میں سوویت مخالف پہلا احتجاج 23 اگست 1987 کو ہوا۔ لتھوانیا پر سوویت قبضے کی مذمت کا ارادہ رکھنے والا اجلاس لیتھوانیائی لبرٹی لیگ ( لیٹوووس لیسویس لیگا ) کے زیر اہتمام ، ویلنیس میںاڈوماس مِکیویئس(آدم مِک وِکز) کی یادگار پر ہوا اور اس میںلگبھگ 2 ہزار شرکاء نے شرکت کی۔17 اکتوبر 1987 کو ، تقریبا 3،000 آرمینی باشندوں نےیریوانمیں مظاہرہ کیا ، جھیل سیون ، نیریٹ کیمیکل پلانٹ اور میٹسمور نیوکلیئر پاور پلانٹ اور یریوان میں فضائی آلودگی کے بارے میں شکایت کی۔ پولیس نے احتجاج کو روکنے کی کوشش کی لیکن مارچ چلنے کے بعد اس کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ مظاہرے کی قیادت آرمیائی ادیبوں جیسے سلوا کاپوٹکیئن ، زوری بالیان اور مارو مارگرین اور قومی بقا تنظیم کے رہنماؤں نے کی۔ مارچ کا آغاز اوپیرا پلازہ میں اس وقت ہوا جب مقررین ، خاص طور پر دانشوروں نے بھیڑ سے خطاب کیا۔[18]اگلے روز ایک ہزار آرمینی باشندوں نے ایک اور مظاہرے میں شرکت کی جس میں کاراباخ میں آرمینیائی قومی حقوق کے لیے مطالبہ کیا گیا تھا۔ مظاہرین نےنخچیواناورناگورنو کاراباخکو ارمینیا میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔ پولیس نے مارچ کو جسمانی طور پر روکنے کی کوشش کی اور کچھ واقعات کے بعد مظاہرین کو منتشر کر دیا۔ اگلے سال ناگورنو - کاراباخ تشدد سے دوچار ہوگا۔[18]1988 میں ، گورباچوف نے سوویت یونین کے دو خطوں پر اپنا قبضہ ختم کرنا شروع کر دیا ، کیوں کہ اب بالٹک جمہوریائیں آزادی کی طرف جھکاؤ کررہی تھیں اور قفقاز تشدد اور خانہ جنگی کی طرف آ گیا تھا۔یکم جولائی ، 1988 کو ، پھیلتی ہوئی 19 ویں پارٹی کانفرنس کے چوتھے اور آخری دن ، گورباچوف نے کانگریس آف پیپلز ڈپٹی کے نام سے ایک نئی سپریم قانون ساز تنظیم بنانے کے آخری لمحے کی تجویز پر تھکے ہوئے نمائندوں کی حمایت حاصل کی۔ پرانے گارڈ کی مزاحمت سے مایوس گورباچوف نے پارٹی اور ریاست سے علیحدگی کی کوشش کرنے کے لیے آئینی تبدیلیوں کا ایک مجموعہ شروع کیا اور اس طرح اپنی قدامت پسند پارٹی کے مخالفین کو الگ تھلگ کر دیا۔ عوامی نمائندوں کی نئی کانگریس کے لیے تفصیلی تجاویز 2 اکتوبر 1988 کو شائع کی گئیں اور نئی مقننہ کی تشکیل کو قابل بنائیں۔ سپریم سوویت ، نے اپنے 29 نومبر - یکم دسمبر 1988 کے اجلاس کے دوران ، 1977 کے سوویت آئین میں ترمیم کا اطلاق کیا ، انتخابی اصلاحات سے متعلق ایک قانون نافذ کیا اور انتخابات کی تاریخ 26 مارچ 1989 مقرر کی۔[19]29 نومبر 1988 کو ، سوویت یونین نے تمام غیر ملکی ریڈیو اسٹیشنوں کو جام کرنا چھوڑ دیا ، جس کی وجہ سے 1960 کی دہائی میں مختصر مدت کے بعد پہلی بار سوویت شہریوں کو کمیونسٹ پارٹی کے قابو سے باہر خبروں کے ذرائع تک غیر محدود رسائی حاصل کرنے کا موقع مل��۔1986 اور 1987 میں ، لٹویا اصلاحات کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے بالٹک ریاستوں کے سرگرداں رہا۔ 1988 میں ایسٹونیا نے سوویت یونین کے پہلے مقبول محاذ کی بنیاد رکھنے اور ریاستی پالیسی پر اثر انداز ہونا شروع کرنے کے ساتھ مرکزی کردار سنبھالا۔اسٹونین پاپولر فرنٹ کا قیام اپریل 1988 میں ہوا تھا۔ 16 جون 1988 کو ، گورباچوف نے ایسٹونیا کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ، ""پرانے محافظ"" ، کارل وینو کی تقابلی لبرل واینو والجاس کی جگہ لی ۔[20]جون 1988 کے آخر میں ، والجاس اسٹونین پاپولر فرنٹ کے دباؤ کے سامنے جھکا اور انھوں نے ایسٹونیا کے پرانے نیلے رنگ سفید جھنڈے کی اڑان کو قانونی حیثیت دی اور اس سے ریاستی زبان کے ایک نئے قانون سے اتفاق کیا جس نے اسٹونین کو جمہوریہ کی سرکاری زبان بنادیا۔[9]2 اکتوبر کو ، پاپولر فرنٹ نے اپنے سیاسی پلیٹ فارم کا باقاعدہ آغاز دو روزہ کانگریس میں کیا۔ والجاس نے شرکت کی ، جوئے بازی کرتے ہوئے کہ محاذ ایسٹونیا کو معاشی اور سیاسی بحالی کا نمونہ بننے میں مدد فراہم کرسکتا ہے ، جبکہ علیحدگی پسندوں اور دیگر بنیاد پرست رجحانات کو معتدل بنا رہا ہے۔ 16 نومبر 1988 کو ، ایسٹونین کے اعلی سوویت ایس ایس آر نے قومی خود مختاری کا اعلامیہ اپنایا جس کے تحت اسٹونین قوانین سوویت یونین کے قوانین پر فوقیت حاصل کریں گے۔[21]ایسٹونیا کی پارلیمنٹ نے جمہوریہ کے قدرتی وسائل بشمول زمین ، اندرونی پانی ، جنگلات ، معدنیات کے ذخائر اور صنعتی پیداوار ، زراعت ، تعمیرات ، ریاستی بینکوں ، نقل و حمل اور ایسٹونیا کی سرحدوں کے حدود میں میونسپل خدمات کے ذرائع کا بھی دعوی کیا۔[22]اسی دوران ایسٹونیا کے شہریوں کی کمیٹیوں نےایسٹونیاکی کانگریس کے انتخابات کرانے کے لیےجمہوریہ ایسٹونیاکے شہریوں کی رجسٹریشن شروع کردی۔[9][9]لیٹوین پاپولر فرنٹ کا قیام جون 1988 میں ہوا تھا۔ 4 اکتوبر کو ، گورباچوف نے لیٹویا کی کمیونسٹ پارٹی کے ""بوڑھے گارڈ"" رہنما ، بورس پوگو کی جگہ زیادہ لبرل جونس واگریس کی جگہ لی۔ اکتوبر 1988 میں واگریس نے لیٹوین پاپولر فرنٹ سے دباؤ ڈالا اور آزاد لٹویا کے سابق کارمین سرخ اور سفید جھنڈے کو اڑانے کو قانونی حیثیت دی اور 6 اکتوبر کو اس نے ایک قانون منظور کیا جولیٹویائیکو ملک کی سرکاری زبان بناتے ہوئے بنایا گیا تھا۔[9][9]پاپولر فرنٹ آف لیتھوانیا ، جسے سجڈیس (""موومنٹ"") کہا جاتا ہے ، کی بنیاد مئی 1988 میں رکھی گئی تھی۔ 19 اکتوبر 1988 کو ، گورباچوف نے لتھوانیا کی کمیونسٹ پارٹی کے ""بوڑھا محافظ"" رہنما ، رنگوداس سونگائلا کی جگہ ، نسبتا آزاد خیال الجیرداس میکولس کی جگہ لی برازاؤکاس اکتوبر 1988 میں برازاوسکاس سجڈیس کے دباؤ کے سامنے جھکا اور آزاد لیتھوانیا کے تاریخی پیلے رنگ سبز سرخ پرچم کی اڑان کو قانونی حیثیت دی اور نومبر 1988 میں قانون سازی کی منظوری دی اور نومبر 1988 میںلتھوانیاکو ملک کی سرکاری زبان بنانے کا قانون منظور کیا اور سابق قومی ترانے توتیکا گیسمے کو بعد میں دوبارہ بحال کر دیا گیا۔[9][9]20 فروری 1988 کو ،ناگورنو- قرباخ خود مختار اوبلاست (آذربائیجان سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کےاندر ارمینی اکثریتی علاقہ) کے دار الحکومتاسٹیپنکرٹمیں بڑھتے ہوئے مظاہروں کے ایک ہفتہ کے بعد ، علاقائی سوویت نے علیحدگی اختیار کرنے اورسوویت سوشلسٹ جمہوریہ کےساتھ شامل ہونے کو ووٹ دیا۔ آرمینیاسوویت یونین کے ایک چھوٹے سے دور دراز حصے میں ہونے والے اس مقامی ووٹنگ نے پوری دنیا میں سرخیاں بنائیں۔ یہ جمہوریہ اور ��ومی حکام کی بے مثال انکار تھی۔ 22 فروری 1988 کو ، جس کو "" اسکرین کشمکش "" کے نام سے جانا جاتا ہے ، ہزاروں آذربائیجانائی باشندے ناگورنو کاراباخ کی طرف روانہ ہوئے ، انھوں نے اسٹیپنکرت میں آذربائیجان کے مارے جانے کی افواہوں کے بارے میں معلومات کا مطالبہ کیا۔ انھیں بتایا گیا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے ، لیکن اس پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔ انھیں بتائے جانے والے اطلاع سے مطمئن نہیں ، ہزاروں افرادناگورنو - کاراباخکی طرف مارچ کرنے لگے ، اس عمل میں 50 آرمینیائی دیہاتیوں کا قتل عام کیا۔[23][24]کارابخ حکام مارچ کو روکنے کے لیے ایک ہزار سے زیادہ پولیس کو متحرک ہوئے ، نتیجے میں ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں دو آذربائیجان ہلاک ہو گئے۔ سرکاری اماراتی ریڈیو پر اعلان کردہ ان اموات کا نتیجہ سموگائٹ پوگوموم کو پہنچا ۔ 26 فروری سے یکم مارچ کے درمیانسمگائٹ(آذربائیجان) شہر میں آرمینیائی مخالف مظاہرے ہوئے جس کے دوران 32 افراد ہلاک ہو گئے۔ حکام نے مکمل طور پر اپنا کنٹرول کھو دیا اور پیراٹروپر اور ٹینکوں سے شہر پر قبضہ کیا۔ سمگائٹ کے تقریبا 14،000 ارمینی باشندے فرار ہو گئے۔[25][9][9]گورباچوف نے ناگورنو کارابخ کی حیثیت میں کوئی تبدیلی کرنے سے انکار کر دیا ، جو آذربائیجان کا حصہ رہا۔ اس کی بجائے انھوں نے دونوں جمہوریہ میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کو معزول کر دیا - 21 مئی 1988 کو ، کامران باغیروف کی جگہ عبد الرحمن ویژروف کو آذربائیجان کمیونسٹ پارٹی کا پہلا سکریٹری مقرر کیا گیا۔ 23 جولائی سے ستمبر 1988 تک ، آزربائیجان کے دانشوروں کے ایک گروپ نے اسٹونین پاپولر فرنٹ کی بنیاد پر ، آزربائیجان کے پاپولر فرنٹ کے نام سے ایک نئی تنظیم کے لیے کام کرنا شروع کیا۔[26]17 ستمبر کو ، جباسٹپانکارٹ کےقریب آرمینیوں اور آذربائیجانیوں کے مابین بندوق کی لڑائیاں شروع ہوئیں ، تو دو فوجی ہلاک اور دو درجن سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اس کے نتیجے میں ناگورنو کاراباخ کے دو اہم شہروں میں تقریبا tit نسلی پولرائزیشن کا آغاز ہوا: آذربائیجان کی اقلیت کواسٹیپنکرٹسےجلاوطنکر دیا گیا اور آرمینی اقلیت کوشوشہسے نکال دیا گیا۔[27]17 نومبر 1988 کو ، ارمینیہ سے دسیوں ہزار آذربائیجانیوں کی نقل مکانی کے جواب میں ،باکوکے لینن اسکوائر میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ، جو 18 دن تک جاری رہا اور نصف ملین مظاہرین کو راغب کیا۔ 5 دسمبر 1988 کو ، سوویت ملیشیا میں داخل ہو گیا ، طاقت کے ذریعہ چوک صاف کیا اور دس ماہ تک جاری رہنے والا کرفیو نافذ کیا۔[28][9]ناگورنو-کاراباخمیں ساتھی آرمینیوں کی بغاوت کا ارمینیا میں ہی فوری اثر ہوا۔ 18 فروری کو آرمینیائی دار الحکومتیریوانمیں شروع ہونے والے روزانہ مظاہروں نے ابتدا میں بہت کم لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ، لیکن ہر روز ناگورنو-کاراباخ مسئلہ تیزی سے نمایاں ہوتا چلا گیا اور تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ 20 فروری کو ، تھیٹر اسکوائر میں ایک 30،000 مضبوط ہجوم نے مظاہرہ کیا ، 22 فروری تک ، وہاں ایک لاکھ ، اگلے دن 300،000 تھے اور 25 فروری تک ، 1 ملین کے قریب مظاہرین تھے۔ ۔ ارمینیا کی آبادی کے ایک چوتھائی سے زیادہ۔[29]یہ بڑے ، پُر امن عوامی مظاہروں میں سے پہلا واقعہ تھا جو پراگ ، برلن اور بالآخر ماسکو میں کمیونزم کے خاتمے کی ایک خصوصیت بن جائے گا۔ آرمینیا کے ممتاز دانشوروں اور قوم پرستوں سمیت آزاد آرمینیا لیون ٹیر پیٹروسیئن کے مستقبل کے پہلے صدر نے گیارہ رکنی کارابخ کمیٹی تشکیل دی ��اکہ اس تحریک کی قیادت کی جاسکے ۔گورباچوف نے ایک بار پھر ناگورنو کارابخ کی حیثیت میں کوئی تبدیلی کرنے سے انکار کر دیا ، جو آذربائیجان کا حصہ رہا۔ اس کی بجائے انھوں نے دونوں جمہوریہ کی کمیونسٹ پارٹی کے دونوں رہنماؤں کو برطرف کر دیا: 21 مئی 1988 کو ، کیرن ڈیمرچیان کی جگہ ، سیرن ہارٹیونیان کی جگہ ، آرمینیا کی کمیونسٹ پارٹی کا پہلا سکریٹری مقرر کیا گیا ۔ تاہم ، ہاریوتیان نے فوری طور پر قوم پرست ہوا کے آگے چلانے کا فیصلہ کیا اور 28 مئی کو آرمینیائیوں کو تقریبا 70 70 برسوں میں پہلی بار سرخ نیلے اورینج کا پہلا آرمینیائی جمہوریہ پرچم لہرانے کی اجازت دی۔[30]15 جون ، 1988 کو ، آرمینیائی سپریم سوویت نے ناگورنو کارابخ کے آرمینیا میں شامل ہونے کے خیال کو باضابطہ طور پر منظور کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی۔ آرمینیا ، جو پہلے انتہائی وفادار جمہوریہ میں سے ایک تھی ، اچانک اچانک معروف باغی جمہوریہ میں تبدیل ہو گئی تھی۔ 5 جولائی 1988 کو ، جب یریوان کے زوارٹنٹس انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے مظاہرین کو طاقت کے ذریعہ ہٹانے کے لیے فوج کی ایک نفری بھیجی گئی تو ، گولیاں چلائی گئیں اور ایک طالب علم مظاہرین ہلاک ہو گیا۔ ستمبر میں ، یریوان میں مزید بڑے مظاہروں کے نتیجے میں بکتر بند گاڑیاں تعینات ہوگئیں۔ تقریبا تمام آرمینیا میں 200،000 آذربائیجان اقلیت آرمینیائی قوم پرستوں کی طرف سے نکال دیا گیا تھا کے، زائد 100 کے عمل میں ہلاک ساتھ 1988 کے موسم خزاں میں[31]- اس کے بعد سمگیت منظم قتل عام کے اوائل سال باہر آزربائیجان طرف سے نسلی آرمینی اور اس کے نتیجے نکالے جانے کے خلاف کیے کہ آذربائیجان کے تمام آرمینیائی باشندے۔ 25 نومبر 1988 کو ، ایک فوجی کمانڈنٹ نے یریون کا کنٹرول سنبھال لیا جب سوویت حکومت مزید نسلی تشدد کو روکنے کے لیے حرکت میں آئی۔7 دسمبر 1988 کو ، اسپاٹک زلزلہ آیا ، جس سے اندازے کے مطابق 25،000 سے 50،000 افراد ہلاک ہو گئے۔ جب گورباچوف امریکا کے دورے سے واپس چلے گئے تو ، وہ ایک قدرتی آفت کے دوران ناگورنو کارابخ کو آرمینی جمہوریہ کا حصہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرین کا سامنا کرنا پڑا اور اس سے سخت ناراض ہوئے کہ 11 دسمبر 1988 کو پوری کرابخ کمیٹی کو حکم دیا کہ گرفتار کیا جائے۔سوویت جارجیا کےدار الحکومتتبلیسی میں، نومبر 1988 میں جمہوریہ کی مقننہ کے سامنے متعدد مظاہرین نے جارجیا کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے اور ایسٹونیا کی خود مختاری کے اعلان کی حمایت کے لیے جمہوریہ کی مقننہ کے سامنے ڈیرے ڈالے۔فروری 1988 کے آغاز سے ،مولڈووا(سابقہ مالڈویہ) کی ڈیموکریٹک موومنٹ نے عوامی جلسوں ، مظاہروں اور گانوں کے میلوں کا اہتمام کیا ، جو آہستہ آہستہ سائز اور شدت میں بڑھتے گئے۔ گلیوں میں ، عوامی مظاہروں کا مرکز چیئنăو میں اسٹیفن عظیم یادگار تھا اور اس سے ملحقہ پارک الیا کلاسیسلور (""کلاسیکی [ادب کا]"") کو پناہ دینے والا پارک تھا۔ 15 جنوری ، 1988 کو ، میہا ایمینیسوکو کو الیہ کلاسیکیلوور کے اڈے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ، اناطول الالارو نے اجلاس جاری رکھنے کی تجویز پیش کی۔ عوامی تقریر میں ، اس تحریک میں قومی بیداری ، آزادی اظہار ، مولڈووا روایات کی بحالی اوررومانیہ کی زبانکو سرکاری حیثیت کے حصول اور لاطینی حرف تہجی کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔ ایک بار عوامی تحریک کے ساتھ تحریک چلنے کے بعد ""تحریک"" (ایک غیر رسمی انجمن) سے ""محاذ"" (ایک باضابطہ ایسوسی ایشن) کی طرف ""منتقلی"" کو قدرتی ""اپ گریڈ"" کے طور پر دیکھا گیا تھا اور سوویت حکام اب اس پر دراڑ ڈالنے کی ہمت نہیں کرسکے۔26 اپریل 1988 کو ، چیروبل جوہری تباہی کی دوسری برسی کے موقع پر یوکرائن کلچرل کلب کے ذریعہ کییف کی خریشٹک اسٹریٹ پر نکالی گئی مارچ میں تقریبا 500 افراد نے حصہ لیا ، جس میں ""کشادگی اور جمہوریت کے خاتمے"" جیسے نعروں والے پلے کارڈز تھے۔ مئی اور جون 1988 کے درمیان ، مغربی یوکرائن میں یوکرائنی کیتھولکوں نے بونیف ، کالوش ، ہوشیف اور زارونیتسیا کے جنگلات میں خدمات انجام دے کر چھپ کرکیویائیروس میں عیسائی مذہب کا ملینیم منایا۔ 5 جون 1988 کو ، جیسے ہی ماسکو میں ملینیم کی باضابطہ تقریبات کا انعقاد کیا گیا ، یوکرین کلچرل کلب نے کیف میں اپنے ہی تقاریب کا انعقاد سینٹ ولادیمیر اعظم ،کیویائی روسکے عظیم شہزادے کی یادگار پر کیا۔16 جون ، 1988 کو ، 6،000 سے 8،000 افراد ، 29 جون کو شروع ہونے والی 19 ویں کمیونسٹ پارٹی کی کانفرنس کے مندوبین کی مقامی فہرست پر عدم اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے لیوف میں جمع ہوئے۔ 21 جون کو ، لیوف میں ایک ریلی میں 50،000 افراد متوجہ ہوئے جنھوں نے مجوزہ فہرست کے بارے میں سنا ہے۔ عہدے داروں نے دروزہبہ اسٹیڈیم کے سامنے ریلی کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ 7 جولائی کو ، 10،000 سے 20،000 افراد نےپیریستروئیکاکو فروغ دینے کے لیے ڈیموکریٹک فرنٹ کے آغاز کا مشاہدہ کیا. 17 جولائی کو ، 10،000 کا ایک گروپ یوکرین یونانی-کیتھولک بشپ پاولو واسیلک کے ذریعہ منائی جانے والی ملینیم خدمات کے لیے گاؤں زارواینٹسیا میں جمع ہوا۔ ملیشیا نے وہاں موجود افراد کو منتشر کرنے کی کوشش کی ، لیکن اسٹالین نے 1946 میں چرچ کو کالعدم قرار دینے کے بعد سے یہ یوکرائنی کیتھولک کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ 4 اگست کو ، جسے ""خونی جمعرات"" کے نام سے جانا جاتا ہے ، مقامی حکام نے پیریٹروئکا کو فروغ دینے کے لیے ڈیموکریٹک فرنٹ کے زیر اہتمام ایک مظاہرے کو پرتشدد انداز میں دبا دیا۔ اکتالیس افراد کو حراست میں لیا گیا ، جرمانہ کیا گیا یا 15 دن کی انتظامی گرفتاری کی سزا سنائی گئی۔ یکم ستمبر کو ، مقامی حکام نےایوان فرانکو اسٹیٹ یونیورسٹیمیں سرکاری اجازت نہ ہونے پر ایک جلسہ عام میں 5،000 طلبہ کو بے دردی سے بے گھر کر دیا۔13 نومبر ، 1988 کو ، ثقافتی ورثہ کی تنظیماسپادسچینا،کیو یونیورسٹی کےطلبہ کلبہرماڈااور ماحولیاتی گروہوںزیلینی سویٹ(""گرین ورلڈ"") اورنوسفیرہ کے زیر اہتمامماحولیاتی امور پر توجہ دینے کے لیےلگبھگ 10،000 افراد نے باضابطہ طور پر منظور شدہ میٹنگ میں شرکت کی۔ 14 سے 18 نومبر تک ، 15 یوکرائن کارکنان 100 انسانی ، قومی اور مذہبی حقوق کے حامیوں میں شامل تھے ، جنھیں سوویت عہدے داروں اور یورپ میں امریکی کمیشن برائے سلامتی اور تعاون کے ایک وفد کے ساتھ انسانی حقوق پر تبادلہ خیال کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ ہیلسنکی کمیشن)۔ 10 دسمبر کو ، ڈیموکریٹک یونین کے زیر اہتمام ایک ریلی میں سینکڑوں افرادانسانی حقوق کے عالمی دن کےمنانے کے لیے کیف میں جمع ہوئے۔ غیر مجاز اجتماع کے نتیجے میں مقامی کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔[32]بیلاروس کے پاپولر فرنٹ کو 1988 میں جمہوریہ اور آزادی کے لیے ایک سیاسی جماعت اور ثقافتی تحریک کے طور پر قائم کیا گیا تھا ، جو بالٹک جمہوریہ کے مقبول محاذوں کی طرح تھا۔ بیلاروس کے پاپولر فرنٹ کے پہلے رہنما مورخ زیانون پزنیک کے ذریعہمنسک کےباہر کورپٹی میں اجتماعی قبروں کی دریافت نے بیلاروس میں جمہوریت کے حامی اور آزادی کے حامی تحریک کو ایک اور قوت بخشی۔ اس نے دعوی کیا ہے کہاین کے وی ڈینے کورپاٹی میں خفیہ ہلاکتیں کیں۔ ابتدائی طور پر محاذ کی نمایاں نمائش تھی کیونکہ اس کی متعدد عوامی حرکتیں ہمیشہ پولیس اور کےجی بی کےساتھ جھڑپوں میں ختم ہوتی ہیں۔بہار 1989 میں سوویت یونین کے عوام نے جمہوری انتخاب کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا ، اگرچہ انھوں نے 1917 کے بعد پہلی مرتبہ عوامی جمہوریہ کی نئی کانگریس کا انتخاب کیا۔ بالکل اسی طرح مقننہ کے مشورے کے سینسر کے بغیر براہ راست ٹی وی کوریج ، جہاں لوگوں نے دیکھا کہ ماضی میں خوفزدہ کمیونسٹ قیادت کو پوچھ گچھ اور جوابدہ ٹھہرایا گیا تھا۔ اس مثال نےپولینڈمیں جمہوریت کے ایک محدود تجربے کو ہوا دی ، جس کی وجہ سے اس موسم گرما میں وارسا میں کمیونسٹ حکومت کا اقتدار تیزی سے ختم ہو گیا۔ برلن وال گر گئی۔یہ وہ سال تھا جبسی این اینماسکو میں اپنے ٹی وی نیوز پروگراموں کو شہتیر بنانے کی اجازت دینے والا پہلا غیر سوویت نشریاتی ادارہ بنا۔ سرکاری طور پر ، سی این این صرف ساوی ہوٹل میں غیر ملکی مہمانوں کے لیے دستیاب تھا ، لیکن مسکوائٹس نے جلدی سے اپنے گھر کے ٹیلی ویژنوں پر سگنل لینے کا طریقہ سیکھا۔ اس سے اس کا بڑا اثر پڑا کہ سوویتوں نے اپنے ملک میں ہونے والے واقعات کو کس طرح دیکھا اور سنسرشپ کو تقریبا ناممکن کر دیا۔[33]سوویت یونین کے عوامی نمائندوں کے کانگریس کے امیدواروں کے لیے نامزدگی کا ایک ماہ طویل عرصہ 24 جنوری 1989 تک جاری رہا۔ اگلے ماہ کے لیے ، ضلع کے 7،531 نامزد امیدواروں میں سے انتخاب حلقہ سطح کے انتخابی کمیشنوں کے زیر اہتمام اجلاسوں میں ہوا۔ 7 مارچ کو 5،074 امیدواروں کی حتمی فہرست شائع ہوئی۔ تقریبا 85٪ پارٹی کے ارکان تھے۔1500 ضلعی انتخابات سے قبل دو ہفتوں میں ، 880 امیدواروں کے ذریعہ عوامی تنظیموں کی 750 مخصوص نشستوں کو بھرنے کے لیے انتخابات ہوئے۔ ان نشستوں میں سے 100 کو سی پی ایس یو ، 100 کو آل یونین سنٹرل کونسل آف ٹریڈ یونینوں ، 75 کو کمیونسٹ یوتھ یونین ( کومسمول ) ، 75 سوویت وومن کمیٹی ، 75 کو وار اینڈ لیبر ویٹرنس تنظیم کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ اور 325 دوسری تنظیموں جیسےاکیڈمی آف سائنسز کو۔ سلیکشن کا عمل اپریل میں کیا گیا تھا۔26 مارچ کے عام انتخابات میں ، ووٹروں کی شمولیت متاثر کن 89.8٪ تھی اور 2،250 سی پی ڈی نشستوں میں سے 1،958 (بشمول 1،225 ضلعی نشستیں) پُر کی گئیں۔ ضلعی ریس میں ، 2 اور 9 اپریل کو 76 حلقوں میں رن آؤٹ انتخابات ہوئے اور 20 اور 14 اپریل سے 23 مئی کو تازہ انتخابات منعقد ہوئے ، 199 باقی حلقوں میں جہاں مطلوبہ مطلق اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔[19]جبکہ بیشتر سی پی ایس یو کی حمایت یافتہ امیدوار منتخب ہوئے ، 300 سے زیادہ آزاد امیدواروں جیسے ییلتسن ، طبیعیاتدان آندری سخاروفاور وکیل اناطولی سوبچک سے ہار گئے۔عوامی جمہوریہ کے نئے کانگریس کے پہلے اجلاس میں ، 25 مئی سے 9 جون تک ، سخت گیروں نے اپنا اقتدار برقرار رکھا لیکن اصلاح پسندوں نے مقننہ کو بحث و مباحثے اور تنقید کا ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا - جس کا براہ راست نشر کیا گیا اور غیر سینسر کیا گیا۔ اس نے آبادی کو بدل دیا۔ 29 مئی کو یلٹسن ، سوویت سوویت یونین پر ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور گرمیوں میں اس نے پہلا حزب اختلاف تشکیل دیا ، جس کا بین الاقوامی علاقائی ڈپٹی گروپ روسی زبان پر مشتمل تھا۔ قوم پرست اور آزاد خیال ۔ سوویت یونین میں حتمی قانون ساز گروپ کی تشکیل کرتے ہوئے ، 1989 میں منتخب ہونے والوں نے اصلاحات اور حتمی طور پ�� اگلے دو سالوں کے دوران سوویت یونین کے ٹوٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔30 مئی 1989 کو گورباچوف نے تجویز پیش کی کہ نومبر 1989 کو ہونے والے ملک گیر بلدیاتی انتخابات 1990 کے اوائل تک ملتوی کر دیے جائیں کیونکہ ابھی بھی ایسے انتخابات کے انعقاد کے لیے کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ کچھ لوگوں نے اسے پارٹی کے مقامی عہدے داروں کی رعایت کے طور پر دیکھا ، جنھیں خدشہ تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کی لہر میں اقتدار سے ہٹ جائیں گے۔25 اکتوبر 1989 کو ، سوویت سوویت نے قومی اور بلدیاتی انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی اور دیگر سرکاری تنظیموں کے لیے خصوصی نشستوں کو ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا ، جس نے اس شدید تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے مخصوص سلاٹ غیر جمہوری ہیں۔ زبردست بحث و مباحثہ کے بعد ، 542 رکنی سپریم سوویت نے 254-85 (36 استثنیٰ کے ساتھ) پیمانہ منظور کیا۔ اس فیصلے میں آئینی ترمیم کی ضرورت تھی ، جس کی مکمل کانگریس نے توثیق کی ، جس نے 12-25 دسمبر کو ملاقات کی۔ اس نے ایسے اقدامات بھی منظور کیے جن کے تحت 15 آئینی جمہوریہ میں سے ہر ایک کے صدور کے لیے براہ راست انتخابات کی اجازت ہوگی۔ گورباچوف نے مباحثے کے دوران اس طرح کے اقدام کی شدید مخالفت کی تھی لیکن انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ووٹ نے بلدیاتی انتخابات میں جمہوریہ کی طاقت کو وسعت دی اور انھیں خود فیصلہ کرنے کا اہل بنایا کہ ووٹنگ کو کس طرح منظم کیا جائے۔ لاتویا ، لتھوانیا اور ایسٹونیا نے براہ راست صدارتی انتخابات کے لیے پہلے ہی قوانین تجویز کیے تھے۔ تمام جمہوریہ میں بلدیاتی انتخابات دسمبر اور مارچ 1990 کے درمیان ہونے والے تھے۔مشرقی یورپ کے چھوارسا معاہدہممالک ، جبکہ برائے نام آزاد ہیں ، کو سوویت سیٹلائٹ ریاستوں کے طور پر بڑے پیمانے پر تسلیم کیا گیا تھا ۔ سب پر سوویتریڈ آرمینے سن 1945 میں قبضہ کر لیا تھا ، سوویت طرز کی سوشلسٹ ریاستوں نے ان پر مسلط کر دیا تھا اور اس نے گھریلو یا بین الاقوامی امور میں کارروائی کی بہت محدود پابندی عائد کردی تھی۔ 1956 کے ہنگری کے انقلاب اور 1968 میں پراگ اسپرنگ میں - حقیقی آزادی کی طرف کسی بھی اقدام کو فوجی طاقت نے دبا دیا تھا۔ گورباچوف جابرانہ اور مہنگی ترک بریجنے و اصول مذاق قرار دیا -، اتحادیوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے حق میں، وارسا پیکٹ ریاستوں میں مداخلت لازمی ہے جس سناترا ڈاکٹرائن کے لیے ایک ریفرنس میں فرینک سناترا گیت "" میرے راستے "".پولینڈپہلا جمہوریہ تھا جس نے اپریل کے نووائزیشن کے نفاذ کے بعد جمہوری نظام بنایا تھا ، جیسا کہ فروری سے اپریل تک حکومت اور یکجہتی ٹریڈ یونین کے مابین پولش گول میز معاہدے کے مذاکرات پر اتفاق کیا گیا تھا اور جلد ہی یہ معاہدہ خود تحلیل ہونے لگا۔ کمیونزم کے خاتمے کے آخری ممالکرومانیہنے پرتشدد رومانیہ کے انقلاب کے بعد ہی ایسا کیا۔بالٹک وے یا بالٹک چین (آزادی کا سلسلہ بھی۔ (استونیائی:Balti kett) ، (لیٹویائی:Baltijas ceļš) ، (لیتوانیہ:Baltijos kelias) ،روسی:Балтийский путь) 23 اگست 1989 کو ایک پرامن سیاسی مظاہرہ تھا۔[34]ایک اندازے کے مطابق 2 ملین افراد نے 600 کلومیٹر (2,000,000 فٹ) ایک انسانی سلسلہ تشکیل دینے کے لیے ہاتھ 600 کلومیٹر (2,000,000 فٹ)ایسٹونیا،لیٹویااورلتھوانیا میں، جنہیں 1944 میں سوویت یونین میں زبردستی دوبارہ شامل کیا گیا تھا۔ زبردست مظاہرے میں مولوٹوو – رِبینٹروپ معاہدہ کی 50 ویں سالگرہ منائی گئی جس نے مشرقی یورپکو اثر و رسوخ کے دائروںمیں بانٹ دیا اور 1940 میں بالٹک ریاستوں کے قبضے کا باعث بنی ۔دسمبر 1989 میں ، بالٹک وے کے احتجاج کے چند ہی مہینوں بعد ، کانگریس آف پیپلز ڈپٹیوں نے قبول کیا — اور گورباچوف نے دستخط کیے Y یاکوویلوف کمیشن کی طرف سے مولوتوف – ربیبینٹرپ معاہدے کے خفیہ پروٹوکول کی مذمت کی گئی جس کی وجہ سے تین بالٹک جمہوریہوں کے اتحاد کو جنم دیا گیا۔[35]کانگریس آف پیپلز ڈپٹی کے مارچ 1989 کے انتخابات میں ، لتھوانیا کے 42 نائبین میں سے 36 آزاد قومی تحریک سجیڈیس کے امیدوار تھے۔ یہ سوویت یونین کے اندر کسی بھی قومی تنظیم کی سب سے بڑی فتح تھی اور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے لتھوانیا کی کمیونسٹ پارٹی کے لیے ایک تباہ کن انکشاف تھا۔دسمبر 7، 1989 پر،لتھوینیاکی کمیونسٹ پارٹی کی البیرداس برازاؤکاس قیادت میںسوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹیسے الگ ہوئی اور اس کے دعوے کو سیاست میں ایک آئینی ""اہم کردار"" ہے۔ سخت گیر مایکولس بوروکیویس کی سربراہی میں کمیونسٹ پارٹی کا ایک چھوٹا سا وفادار گروہ قائم ہوا تھا اور وہ سی پی ایس یو سے وابستہ رہا۔ تاہم ، لتھوانیا کی گورننگ کمیونسٹ پارٹی ماسکو کے کنٹرول سے باضابطہ طور پر آزاد تھی۔ سوویت جمہوریہ کے لیے پہلی جماعت اور ایک سیاسی زلزلہ جس نے گورباچوف کو اگلے ماہ لتھوانیا کے دورے کا بندوبست کرنے پر مجبور کیا تاکہ مقامی پارٹی کو دوبارہ قابو میں کیا جاسکے۔ اگلے ہی سال ، متعدد پارلیمانی انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی مکمل طور پر اقتدار سے محروم ہو گئی جس کی وجہ سے ویتوٹس لینڈسبرگ ، یو ایس ایس آر میں جبری طور پر شامل ہونے کے بعد لتھوانیا کا پہلا غیر کمیونسٹ رہنما (لیتھوانیا کی سپریم کونسل کا چیئرمین) بن گیا تھا۔16 جولائی ، 1989 کو ، پاپولر فرنٹ آف آذربائیجان نے اپنی پہلی کانگریس کا انعقاد کیا اور ابوالفز ایلچیبی ، جو صدر بنیں گے ، اس کا چیئرمین منتخب ہوئے۔[36]19 اگست کو 600،000 مظاہرین نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبے کے لیے باکو کے لینن اسکوائر (جس کا اب آزادلک اسکوائر) کو جام کر دیا۔ 1989 کے دوسرے نصف حصے میں ، ناگورنو کارابخ میں اسلحہ دیا گیا۔ جب کراباخیز نے شکار رائفل اور کراس بائو کو تبدیل کرنے کے لیے چھوٹے ہتھیاروں کو تھام لیا تو ، ہلاکتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ پل اڑا دیے گئے ، سڑکیں ناکہ بندی کردی گئیں اور یرغمال بنائے گئے۔[37]ایک نئے اور موثر حکمت عملی کے تحت ، پاپولر فرنٹ نے ارمینیا کی ریل ناکہ بندی کا آغاز کیا ، جس سے پٹرول اور خوراک کی قلت پیدا ہو گئی کیونکہ ارمینیا کا 85 فیصد سامان آذربائیجان سے آیا تھا۔[38]آذربائیجان میں پاپولر فرنٹ کے دباؤ پر کمیونسٹ حکام نے مراعات دینا شروع کردی۔ 25 ستمبر کو ، انھوں نے ایک خود مختاری قانون منظور کیا جس میں آذربائیجان کے قانون کو فوقیت حاصل تھی اور 4 اکتوبر کو ، پاپولر فرنٹ کو اس وقت تک قانونی تنظیم کے طور پر اندراج کی اجازت دی گئی جب تک کہ اس نے ناکہ بندی ختم کردی۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین ٹرانسپورٹ مواصلات کبھی بھی مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکتے ہیں۔ کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہا اور 29 دسمبر کو پاپولر فرنٹ کے کارکنوں نےجلیل آبادمیں پارٹی کے مقامی دفاتر پر قبضہ کر لیا ، جس میں درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔31 مئی 1989 کو ، کارابخ کمیٹی کے 11 ارکان ، جو ماسکو کی ماتراسکایا تاشینہ جیل میں بغیر کسی مقدمے کے قید رہے ، کو رہا کر دیا گیا اور ہیرو کے استقبال پر گھر واپس آئے۔ ان کی رہائی کے فورا بعد ہی ، ایک م��ہر ، لیون ٹیر پیٹروسیئن ، کمیونسٹ مخالف حزب اختلاف ، پین آرمینیائی قومی تحریک کا چیئرمین منتخب ہوا اور بعد میں کہا گیا کہ 1989 میں ہی انھوں نے مکمل آزادی کو اپنا مقصد سمجھنا شروع کیا۔[39]7 اپریل 1989 کو ، سوویت فوج اور بکتر بند اہلکاروں کیریئر کوتبلیسیروانہ کیاگیاجب 100،000 سے زیادہ افراد نے بینرز کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے احتجاج کیا جس میںجارجیاسے سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کرنے اورابخازیاکو مکمل طور پر جارجیا میں شامل ہونے پر زور دیا گیا تھا۔ 9 اپریل 1989 کو ، فوجیوں نے مظاہرین پر حملہ کیا۔ تقریبا 20 افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اس واقعہ نے جارجیائی سیاست کو بنیاد پرستی کی ، بہت سے لوگوں کو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا کہ سوویت حکومت کو جاری رکھنے کے مقابلے میں آزادی ترجیح دی جاتی ہے۔ 14 اپریل کو ، گورباچوف نے جیمبر پٹیشولی کو جارجیائی کمیونسٹ پارٹی کا پہلا سکریٹری مقرر کیا اور ان کی جگہ جارجیائی کےجی بیسابق سربراہ جیوی گومارڈیز کی حیثیت سے مقرر کردی ۔16 جولائی ، 1989 کو ،ابخازیہکے دار الحکومت سکومی میں ، جارجیائی یونیورسٹی کی برانچ کو قصبے میں کھولنے کے خلاف ہونے والے مظاہرے نے تشدد کو جنم دیا جس میں تیزی سے بڑے پیمانے پر بین نسلی تصادم کی شکل اختیار ہو گئی جس میں 18 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ سوویت فوجوں نے امن بحال کیا۔ اس فساد نے جارجیائی - ابخاز تنازع کا آغاز کیا۔26 مارچ ، 1989 میں ، عوامی نمائندوں کی کانگریس کے انتخابات ، ماسکو میں کانگریس کی نشستوں کے لیے منتخب 46 مالڈووان ڈپٹیوں میں سے 15 نیشنلسٹ / ڈیموکریٹک تحریک کے حامی تھے۔[40]پاپولر فرنٹ آف مالڈووا کی بانی کانگریس دو ماہ بعد ، 20 مئی 1989 کو ہوئی۔ اس کی دوسری کانگریس (30 جون - یکم جولائی 1989) کے دوران ، آئن ہادریکا اس کا صدر منتخب ہوا۔مظاہروں کا ایک سلسلہ جو گرینڈ نیشنل اسمبلی ( (رومانیائی:Marea Adunare Naţională) ) محاذ کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔ اس طرح کے بڑے مظاہروں میں ، جس میں 27 اگست کو 300،000 افراد نے شرکت کی تھی ،[41]نے 31 اگست کو مالڈوپان کے سوویت کو اس بات پر راضی کیا کہرومانیہکو سرکاری زبان بنانے والے زبان کے قانون کو اپنایا جائے اورسیرلکحروف تہجی کی جگہلاطینیحروف کو تبدیل کیا جائے۔[42]یوکرائن میں ،لیوفاورکیفنے 22 جنوری 1989 کو یوکرائن یوم آزادی منایا۔ سینٹ جارج کیتھیڈرل کے سامنے ہزاروں افراد لیویو میں غیر مجازمولین(مذہبی خدمات) کے لیے جمع ہوئے۔ کییف میں ، 19 کارکنان نے 1918 میں یوکرائن عوامی جمہوریہ کے اعلان کی یاد میں ایک کیف اپارٹمنٹ میں ملاقات کی۔ 11 فروری ، 1989 کو ، یوکرائنی زبان کی سوسائٹی نے اس کی بانی کانگریس کا انعقاد کیا۔ 15 فروری ، 1989 کو ، یوکرائن آٹوسیفلاسس آرتھوڈوکس چرچ کی تجدید کے لیے انیشی ایٹو کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ رائٹرز یونین آف یوکرین کے ذریعہ اس تحریک کے پروگرام اور قوانین کی تجویز پیش کی گئی تھی اور 16 فروری 1989 کو جریدےلٹریٹرینا یوکرینہمیں شائع ہوئی تھی۔ تنظیم نے وائیچسلاو چورنویل جیسے یوکرائنی ناہمواریوں کا الزام لگایا۔فروری کے آخر میں ، عوامی جمہوریہ کے یو ایس ایس آر کانگریس کو 26 مارچ کے انتخابات کے موقع پر ، کییف میں بڑے عوامی ریلیاں نکالی گئیں اور یوکرائن کی کمیونسٹ پارٹی کے پہلے سکریٹری کے استعفی کا مطالبہ کرنے کے لیے ، ""جمود کا ماسٹڈون "" کے طور پر چراغ شماری کرتے ہوئے وولڈیمیر شچربیٹسکی ۔ یہ مظاہرے سوویت جنرل سکریٹریمیخائل گورباچوف کےدورہ یوکرین کے ساتھ ہوئے۔ 26 فروری ، 1989 کو ، 20 ویں اور 30،000 کے درمیان افراد نے 19 ویں صدی کے یوکرائنی فنکار اور قوم پرست تارا شیونچینکو کی وفات کی برسی کے موقع پر ، لیوف میں غیر منظور شدہ اقوامی یادگار خدمات میں حصہ لیا۔4 مارچ ، 1989 کو ، اسٹالینزم اور سوویت طرز عمل سے پاک معاشرے کے متاثرین کے اعزاز کے لیے پرعزم میموریل سوسائٹی کا قیام ، کیف میں کیا گیا۔ اگلے روز ایک عوامی ریلی نکالی گئی۔ 12 مارچ کو ، یوکرائنی ہیلسنکی یونین اور ماریان سوسائٹیمیلوسرڈیا(ہمدردی) کےذریعہ لیوفمیں منعقدہ انتخابات سے قبل ہونے والا ایک اجلاس متشدد طور پر منتشر ہو گیا اور قریب 300 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ 26 مارچ کو ، عوامی نمائندوں کی یونین کانگریس کے لیے انتخابات ہوئے۔ضمنی انتخابات9 اپریل ، 14 مئی اور 21 مئی کو ہوئے تھے۔ کانگریس میں 225 یوکرائن نمائندوں میں ، بیشتر قدامت پسند تھے ، حالانکہ مٹھی بھر ترقی پسند بھی منتخب ہوئے تھے۔اپریل 20 سے 23 ، 1989 تک ، لیوف میں انتخابات سے پہلے کے اجلاس لگاتار چار دن ہوتے رہے ، جس میں 25،000 تک کا ہجوم تھا۔ اس کارروائی میں آٹھ مقامی فیکٹریوں اور اداروں میں ایک گھنٹہ کی انتباہ ہڑتال شامل ہے۔ 1944 کے بعد یہ لیویو میں مزدوروں کی پہلی ہڑتال تھی۔ 3 مئی کو ، انتخابات سے پہلے کے ایک ریلی نے لیوف میں 30،000 افراد کو راغب کیا۔ 7 مئی کو ، میموریل سوسائٹی نے اسٹوریسٹ دہشت گردی کے شکار یوکرین اور پولش متاثرین کی اجتماعی قبر کے مقام ، بائکیونیا میں ایک اجتماعی اجلاس منعقد کیا۔ کیف سے اس مقام تک مارچ کے بعد ، ایک یادگاری خدمات کا آغاز کیا گیا۔مئی کے وسط سے ستمبر 1989 تک ، یوکرائنی یونانی-کیتھولک بھوک ہڑتالیوں نے ماسکو کے اربات پر احتجاج کیا تاکہ اپنے چرچ کی حالت زار پر توجہ دیں۔ ماسکو میں منعقدہ گرجا گھروں کی عالمی کونسل کے جولائی اجلاس کے دوران وہ خاص طور پر سرگرم تھے۔ احتجاج 18 ستمبر کو اس گروپ کی گرفتاریوں کے ساتھ ختم ہوا۔ 27 مئی ، 1989 کو ، لاوی ریجنل میموریل سوسائٹی کی بانی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ 18 جون ، 1989 کو ، ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب وفاداروں نے مغربی یوکرین کےایوانو-فرینکواسک میں عوامی مذہبی خدمات میں حصہ لیا اور انھوں نے نماز کے بین الاقوامی دن کے کارڈنل مائروسلاو لبباچوکی کے مطالبہ کا جواب دیا۔اگست 19 ، 1989 کو ، سنتوں کے روسی آرتھوڈوکس پارش نے کہا کہ پیٹر اور پال نے یوکرائن کے آٹوسیفالس آرتھوڈوکس چرچ کا رخ کیا ہے۔ 2 ستمبر ، 1989 کو ، یوکرین بھر میں دسیوں ہزاروں افراد نے انتخابی قانون کے مسودے کے خلاف احتجاج کیا جس میں کمیونسٹ پارٹی اور دیگر سرکاری تنظیموں کے لیے خصوصی نشستیں مخصوص تھیں: لیوف میں 50،000 ، کیف میں 40،000 ، زائیتومر میں 10،000 ، دنیپروڈزرزھینسک اور چیرونوہراڈ میں 5،000 اورخارکیفمیں 2 ہزار۔ ستمبر 8-10 سے 1989 میں ، مصنف ایوان ڈریچ کییف میں اس کے بانی کانگریس میں ، عوامی تحریک برائے یوکرائن ، رخ کی سربراہی کے لیے منتخب ہوئے۔ 17 ستمبر کو ، ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ کے درمیان افراد نے یوکرین یونانی کیتھولک چرچ کو قانونی حیثیت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ، لویف میں مارچ کیا۔ 21 ستمبر ، 1989 کو ،ایوانو فرینکویسککے جنوب میں واقع قدرتی طور پر محفوظ کردہ ، ڈیمیانیو لاز میں اجتماعی قبر کی کھدائی کا کام شروع ہوا۔ 28 ستمبر کو ، یوکرین کی کمیونسٹ پارٹی کے پہلے سکریٹری ولڈیمیر شچربیٹسکی ، جو برزنیف دور سے تعلق رکھنے والے تھے ، کو اس دفتر میں ولادی میر ایوشکو نے تبدیل کیا تھا۔یکم اکتوبر 1989 کو لیوف کے دروزہبہ اسٹیڈیم کے سامنے ملیشیا نے 10،000 سے 15،000 افراد پرامن مظاہرہ کیا ، جہاں یوکرائن کی سرزمینوں میں سوویت ""دوبارہ اتحاد"" منانے والی ایک محفل موسیقی کا انعقاد کیا جارہا تھا۔ 10 اکتوبر کو ، ایوانو-فرینکیوسک انتخابات سے قبل ہونے والے ایک مظاہرے کی جگہ تھی جس میں 30،000 افراد نے شرکت کی۔ پندرہ اکتوبر کو ، کئی ہزار افراد چیروونہراڈ ،چیرونوٹسی،ریویناور زیٹومر میں جمع ہوئے۔نیپروپیٹروسکمیں 500؛ اور لویف میں 30،000 انتخابی قانون کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے۔ 20 اکتوبر کو ، یوکرین آٹوسیفلاسس آرتھوڈوکس چرچ کے وفادار اور پادریوں نے 1930 کی دہائی میں جبری طور پر ختم ہونے کے بعد پہلیلویو( لویف) میں واقع ہونے والی ایک تقریب میں حصہ لیا۔24 اکتوبر کو ، یونین سپریم سوویت نے ایک قانون منظور کیا جس میں کمیونسٹ پارٹی اور دیگر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کے لیے خصوصی نشستوں کا خاتمہ کیا گیا تھا۔ 26 اکتوبر کو ، لیوف میں بیس فیکٹریوں نے یکم اکتوبر کو پولیس کی بربریت اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے حکام کی رضامندی کے خلاف ہڑتالیں اور میٹنگیں کیں۔ 26-28 اکتوبر سے ،زیلینی سویت(فرینڈز آف دی ارتھ - یوکرین) ماحولیاتی انجمن نے اس کی بانی کانگریس کا انعقاد کیا اور 27 اکتوبر کو یوکرائن کی پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کےنائبوں کیحیثیت سے پارٹی اور دیگر سرکاری تنظیموں کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا قانون منظور کیا۔28 اکتوبر ، 1989 کو ، یوکرائن کی پارلیمنٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ یکم جنوری 1990 کو یوکرین یوکرائن کی سرکاری زبان ہوگی ، جب کہ روسی کو نسلی گروہوں کے مابین رابطے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اسی دن لویف میں چرچ آف تغیرات کی جماعت نے روسی آرتھوڈوکس چرچ چھوڑ دیا اور یوکرائنی یونانی کیتھولک چرچ کا اعلان کیا۔ اگلے دن ، ہزاروں افراد نے ڈیمیانیو لاز کی یادگاری خدمات میں شرکت کی اور ایک عارضی نشان لگا دیا گیا تھا جس سے یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ ""1939–1941 کے مظالم کا نشانہ بننے والے افراد"" کی یادگار جلد تعمیر کردی جائے گی۔نومبر کے وسط میں شیچینکو یوکرائنی زبان کی سوسائٹی کو باضابطہ طور پر رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ 19 نومبر ، 1989 کو ، کیف میں ایک عوامی اجتماع نے ہزاروں سوگواروں ، دوستوں اور کنبہ والوں کو یوکرین میں بدنام زمانہگلاگکیمپ نمبر 36کوہ یورال کے پہاڑوںمیں پیرم میں:کے تین باغی قیدیوں کی طرف انسانی حقوق کے کارکنوں واسیل اسٹوس ، اولیکسی ٹکی اور وری لیٹ وائن راغب کیا۔ . ان کی باقیات کو بائکوو قبرستان میں دوبارہ شامل کیا گیا ۔ 26 نومبر 1989 کو ، ایک دن نماز اور روزے کا اعلان کارڈنل مائروسلاو لبباچوکی نے کیا ، مغربی یوکرائن کے ہزاروں وفادار پوپجان پال دوماور سوویت جنرل سکریٹری گورباچوف کے مابین ہونے والے اجلاس کے موقع پر مذہبی خدمات میں شریک تھے۔ 28 نومبر 1989 کو ، یوکرائنی ایس ایس آر کی مذہبی امور کی کونسل نے ایک فرمان جاری کیا جس میں یوکرائنی کیتھولک جماعتوں کو قانونی تنظیموں کے طور پر اندراج کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس فرمان کا اعلان یکم دسمبر کو کیا گیا تھا ، پوپ اور سوویت جنرل سکریٹری کے درمیان ویٹیکن میں ہونے والی ملاقات کے ساتھ ہم آہنگ۔10 دسمبر ، 1989 کو ، بین الاقوامی انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر پہلی منظوری کے موقع پر لیوف میں انعقاد کیا گیا۔ 17 دسمب�� کو ، نوبل انعام یافتہاینڈری سخاروف کییاد میں کیو کی طرف سے منعقدہ ایک جلسہ عام میں 30،000 افراد نے شرکت کی ، جو 14 دسمبر کو انتقال کر گئے تھے۔ 26 دسمبر کو یوکرائن SSR کی سپریم سوویت ایک قانون designating کے اپنایاکرسمس،ایسٹراور مقدس تثلیث کا پروو سرکاری تعطیلات.[32]مئی 1989 میں ، ایک سوویت مخالف ،مصطفٰی جمیلیف، نو قائمکریمین تاتارقومی تحریک کی قیادت کے لیے منتخب ہوا۔ انھوں نے کریمیا میں 45 سال کی جلاوطنی کے بعد کریمین تاتاروں کو ان کے آبائی وطن واپسی کی مہم کی بھی قیادت کی۔24 جنوری ، 1989 کو ،بیلوروسیامیں سوویت حکام نے جمہوری حزب اختلاف ( بیلاروس کے پاپولر فرنٹ ) کے اس مطالبے پر اتفاق کیا کہ 1930 کی دہائی میںمنسک کےقریب واقع کروپیٹی جنگل میں اسٹالین دور کی پولیس نے گولی مار کر ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد کی یادگار تعمیر کی تھی۔30 ستمبر ، 1989 کو ، ہزاروں بیلاروسین ، مقامی رہنماؤں کی مذمت کرتے ہوئے ، یوکرین میں 1986 میںچرنوبل تباہی والےمقام کی اضافی صفائی کے مطالبے کے لیے منسک کے راستے مارچ ہوئے۔ مقامی حکام کی جانب سے پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سخت بارش کے ذریعہ حکومت کی جلاوطنی کے ذریعہ استعمال کردہ کالعدم سرخ و سفید قومی پرچم لے جانے والے 15000 مظاہرین نے ریڈیو ایکٹیویٹی کی علامتیں رکھی ہیں۔ بعد ازاں ، وہ حکومت کے صدر دفتر کے قریب شہر کے مرکز میں جمع ہو گئے ، جہاں مقررین نے جمہوریہ کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ، یفریم سوکولوف سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا اور آلودہ علاقوں سے ڈیڑھ لاکھ افراد کو انخلا کرنے کا مطالبہ کیا۔جھڑپوں کے بعد دوبارہ نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے ہزاروں سوویت فوجیوں کو ازبک دار الحکومتتاشقند کےجنوب مشرق میںوادی فرغانہ میںبھیجا گیا تھا ، جس میں مقامی ازبک نے 4۔11 ، 1989 کے درمیان متعدد دنوں کے ہنگاموں کے دوران میشکیائی اقلیت کے ارکان کا شکار کیا تھا۔ لگ بھگ 100 افراد ہلاک ہوئے۔ 23 جون ، 1989 کو ، گورباچوف نے رفیق نشونف کو ازبک ایس ایس آر کی کمیونسٹ پارٹی کا پہلا سکریٹری مقرر کیا اور ان کی جگہ کریموف کی جگہ لے لی ، جو ازبکستان کو سوویت جمہوریہ کی حیثیت سے آگے بڑھا اور اس کے نتیجے میں ایک آزاد ریاست کے طور پر چلا گیا۔قازقستانمیں 19 جون ، 1989 کو ، زانوزین میں بندوقیں ، فائر بم ، لوہے کی سلاخوں اور پتھراؤ والے نوجوانوں نے ہنگامہ آرائی کی جس کی وجہ سے متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔ ان نوجوانوں نے پولیس اسٹیشن اور واٹر سپلائی اسٹیشن پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے عوامی نقل و حمل کو رک کر رکھا اور مختلف دکانوں اور صنعتوں کو بند کر دیا۔ 25 جون تک ، فسادات بحر کیسپین کے قریب پانچ دیگر شہروں میں پھیل چکے تھے۔ زاناؤزن سے 90 میل کے فاصلے پر ، منگیشلاک میں پولیس اسٹیشن پر لاٹھیوں ، پتھروں اور دھات کی سلاخوں سے لیس تقریبا 150 افراد کے ہجوم نے حملہ کیا ، اس سے پہلے کہ انھیں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اڑنے والے سرکاری فوجیوں نے منتشر کر دیا۔ نوجوانوں کے بھیڑ یرلیو ، شیپکے ، فورٹ - شیچینکو اور کولسری کے راستے بھڑک اٹھے ، جہاں انھوں نے عارضی کارکنوں کی رہائش پزیر ٹرینوں میں آتش گیر مائع ڈالا اور انھیں آگ لگا دی۔22 جون ، 1989 کو فسادات سے حکومت اور سی پی ایس یو کے حیرت زدہ ہونے کے بعد ، فسادات کے نتیجے میں گورباچوف نے جنیڈی کولبین (نسلی روسی جس کی تقرری دسمبر 1986 میں فسادات کا باعث بنا تھا) کو ہٹا دیا ، قازقستان کی کمیونسٹ پارٹی کے پہلے سکریٹری کی حیثیت سے جون ک�� واقعات کو سنبھالنا اور اس کی جگہنورسلطان نذر بائیف کی حیثیت سے، جو قازقستان کے ایک نسلی قیدی تھے ، جو قازقستان کو سوویت جمہوریہ کی حیثیت سے آگے بڑھایا اور اس کے بعد آزادی حاصل کیا۔ نذر بائیف اس وقت تک 27 سال قازقستان کی قیادت کریں گے جب تک کہ انھوں نے 19 مارچ 2019 کو صدر کا عہدہ چھوڑ نہیں دیا۔7 فروری 1990 کو ، سی پی ایس یو کی سنٹرل کمیٹی نے گورباچوف کی اس سفارش کو قبول کر لیا کہ پارٹی سیاسی اقتدار پر اپنیاجارہ داریترککردے۔[43]1990 میں ، سوویت یونین کے تمام پندرہ حلقہ جمہوریہ نے اپنے پہلے مسابقتی انتخابات کا انعقاد کیا ، جس میں اصلاح پسند اور نسلی قوم پرست کئی نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ سی پی ایس یو چھ جمہوریاؤں میں انتخابات ہار گئی:جمہوری جمہوریاؤں نے اپنی قومی خود مختاری کا اعلان کرنا شروع کیا اور ماسکو کی مرکزی حکومت کے ساتھ ""قوانین کی جنگ"" کا آغاز کیا۔ انھوں نے یونین وسیع قانون سازی کو مسترد کر دیا جو مقامی قوانین سے متصادم ہے ، اپنی مقامی معیشت پر قابو پالیا اور ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ لیتھوانیا کی سپریم کونسل کے چیئرمین ، لینڈسبرگ نے بھی لتھوانیائی مردوں کو سوویت مسلح افواج میںلازمی خدماتسے مستثنیٰ قرار دیا۔ اس تنازع کی وجہ سے معاشی نقل مکانی ہوئی کیونکہ سپلائی لائنوں میں خلل پڑا اور اس کی وجہ سوویت معیشت مزید زوال پزیر ہو گئی۔[44]4 مارچ ، 1990 کو ،روسی سوویت فیڈریٹو سوشلسٹ جمہوریہنے روس کے عوامی نمائندوں کی کانگریس کے لیے نسبتا free آزاد انتخابات کا انعقاد کیا ۔بورس یلtsسین، منتخب ہوئے تھے ، جس نےسویڈلووسککی نمائندگی کرتے ہوئے ، 72 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔[45]گورباچوف نے روسی نائبین سے کہا کہ وہ اس کے حق میں ووٹ نہ دیں۔ اس کے باوجود ، 29 مئی 1990 کو ، یلٹسن آر ایس ایف ایس آر کے سپریم سوویت کے ایوان صدر کے صدر منتخب ہوئے۔یلٹسن کی حمایت اعلی سوویت کے جمہوری اور قدامت پسند ممبروں نے کی ، جو ترقی پزیر سیاسی صورت حال میں اقتدار کے متلاشی ہیں۔آر ایس ایف ایس آراورسوویت یونین کےمابین اقتدار کی ایک نئی جدوجہد ابھری۔ 12 جون 1990 کو ، آر ایس ایف ایس آر کے عوامی نمائندوں کی کانگریس نے خود مختاری کا اعلامیہ منظور کیا۔ 12 جولائی ، 1990 کو ، یلسن نے 28 ویں کانگریس میں ڈرامائی تقریر میں کمیونسٹ پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔لتھوانیائی دار الحکومت کو گورباچوف کے دورےویلنیسجنوری 11-13، 1990 پر، ایک اندازے کے مطابق 250،000 افراد نے آزادی کی حامی ریلی شرکت کی.گیارہ مارچ کو ، لتھوانیائی ایس ایس آر کی نومنتخب پارلیمنٹ نے وجیٹاس لینڈس برگس ، جو سجادس کا رہنما منتخب ہوا اور اس نے ریاست لتھوانیا کی دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کے ایکٹ کا اعلان کیا ، جس سے لتھوانیا کو اس سے الگ ہونے والا پہلا سوویت جمہوریہ بنا۔ یو ایس ایس آر۔ ماسکو نے معاشی ناکہ بندی پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے لتھوینیا میں فوجیوں کو ""نسلی روسیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے"" ظاہر کیا۔[46]25 مارچ ، 1990 کو ، اسٹونین کی کمیونسٹ پارٹی نے چھ ماہ کی منتقلی کے بعد سی پی ایس یو سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا۔30 مارچ ، 1990 کو ، اسٹونین کی سپریم کونسل نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ایسٹونیا پر سوویت قبضے کو غیر قانونی قرار دے دیا اور جمہوریہ کے اندر قومی آزادی کی باضابطہ بحالی کی طرف قومی منتقلی کا دور شروع کیا۔3 اپریل 1990 کو ، ایسٹونیا کے پاپولر فرنٹ کے ایڈگر ساویسار کو وزراء کونسل (وزیر اعظم بننے کے مساوی) کا چیئرمین منتخب کیا گیا ��ور جلد ہی اکثریت سے آزادی حاصل کرنے والی کابینہ تشکیل دی گئی۔لٹویا نے 4 مئی 1990 کو آزادی کی بحالی کا اعلان کیا تھا ، اس اعلامیے کے مطابق مکمل آزادی کے لیے عبوری دور کا تعی .ن کیا گیا تھا۔ اعلامیہ لیٹویا تھا، اگرچہ اصل دوسری جنگ عظیم میں اپنی آزادی کھو دیا ہے کہ بیان کیا گیا، ملک کی وجہ سے الحاق غیر آئینی اور لیٹوین عوام کی مرضی کے خلاف کیا گیا تھاوزیر اعظمایک خود مختار ملک رہ گئے تھے۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لیٹویا سوویت یونین کے ساتھ اپنے تعلقات کو لیٹوین - 1920 کے سوویت امن معاہدے کی بنیاد پر رکھے گا ، جس میں سوویت یونین نے لٹویا کی آزادی کو ""آئندہ ہر وقت"" کے لیے ناقابل قبول تسلیم کیا تھا۔ 4 مئی کو اب لیٹویا میں قومی تعطیل ہے۔7 مئی 1990 کو لیٹوین پاپولر فرنٹ کے ایورس گوڈمینس کو وزرا کی کونسل کا چیئرمین (لیٹویا کا وزیر اعظم بننے کے مساوی) منتخب کیا گیا۔جنوری 1990 کے پہلے ہفتے کے دوران ،نخچیوانآذربائیجان کے ایکسکلیو میں ، پاپولر فرنٹ نے ایران کی سرحد کے ساتھ سرحدی باڑوں اور چوکیداری چوکیوں کو برباد کرنے اور تباہ کرنے میں ہجوم کی قیادت کی اور ہزاروں سوویت آذربائیجانی باشندے اپنے نسلی کزنوں سے ملنے کے لیے سرحد عبور کر گئے ایرانی آذربائیجان میں یہ پہلا موقع تھا جب سوویت یونین نے بیرونی سرحد کا کنٹرول کھو دیا تھا۔1988 کے موسم بہار اور موسم گرما میں آرمینیائیوں اور آذربائیجان کے مابین نسلی کشیدگی بڑھ گئی تھی۔[47]9 جنوری 1990 کو ، جب آرمینیائی پارلیمنٹ نے اپنے بجٹ میں ناگورنو-کاراباخ کو شامل کرنے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد ، نئی لڑائی شروع کردی ، مغویوں کو گرفتار کر لیا گیا اور چار سوویت فوجی مارے گئے۔[48]11 جنوری کو ، پاپولر فرنٹ ریڈیکلز نے پارٹی عمارتوں پر دھاوابولدیا اور جنوبی شہرلینکورانمیں اشتراکی طاقتوں کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا۔ گورباچوف نے آذربائیجان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کا عزم کیا۔ اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کو "" بلیک جنوری "" کہا جاتا ہے۔ سن 19 جنوری 1990 کو سنٹرل ٹیلی ویژن اسٹیشن کو اڑانے اور فون اور ریڈیو لائنوں کو کاٹنے کے بعد ، 26،000 سوویت فوج آذربائیجان کے دار الحکومتباکومیں داخل ہوئی ، انھوں نے توڑ پھوڑ کرتے ہوئے مظاہرین پر حملہ کیا اور ہجوم پر فائرنگ کی۔ اس رات اور اس کے بعد کے محاذ آرائیوں کے دوران (جو فروری تک جاری رہا) 130 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔ ان میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ 700 سے زیادہ عام شہری زخمی ہوئے ، سیکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا ، لیکن اصل میں صرف چند ہی افراد پر مبینہ مجرمانہ جرائم کے لیے مقدمہ چلایا گیا۔شہری آزادیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سوویت وزیر دفاع دیمتری یازوف باکو میں طاقت کے استعمال آذربائیجان حکومت کیاصلقبضے ان کو تباہ کرنے کے لیے (1990 مارچ کے لیے شیڈول کے مطابق) آئندہ انتخابات میں ان کی فتح کو روکنے کے لیے، غیر کمیونسٹ اپوزیشن کی طرف سے روکنے کے لیے، کا ارادہ کیا تھا کہ بیان کیا گیا ہے بطور سیاسی قوت اور اس بات کو یقینی بنانا کہ کمیونسٹ حکومت بر سر اقتدار رہی۔فوج نے باکو کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا ، لیکن 20 جنوری تک اس نے آذربائیجان کو بنیادی طور پر کھو دیا تھا۔ باکو کی قریبا پوری آبادی ""شہدا"" کے اجتماعی جنازوں کے لیے نکل گئی ، جس کو ایلی شہداء میں دفن کیا گیا تھا۔[49]کمیونسٹ پارٹی کے ہزاروں ارکان نے عوامی سطح پر اپنے پارٹی کارڈ جلا دیے۔ پہلے سکریٹری وزیروف ماسکو روانہ ہوئے ا��ر پارٹی عہدے داروں کے آزاد ووٹ میں ایاز مطیبوف کو اپنا جانشین مقرر کیا گیا۔ نسلی روسی وکٹر پولیانچکو دوسرا سکریٹری رہے۔[50]باکو میں سوویت اقدامات اور تنازع میں ارمینیا کی حمایت کے رد عمل کے طور پر ،نخچیوان خودمختار سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کےسپریم سوویت کے ایوان صدر کی صدر ، سکینہ علیئیفا نے ایک خصوصی اجلاس طلب کیا جہاں اس پر بحث کی گئی کہ آیا نخچیوان سے علیحدگی اختیار کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ سوویت آئین کے آرٹیکل 81 کے تحت یو ایس ایس آر۔ یہ قانونی فیصلہ کرتے ہوئے ، نائبین نے آزادی کا اعلامیہ تیار کیا ، جس پر علییفا نے دستخط کیے اور 20 جنوری کو قومی ٹیلی ویژن پر پیش کیا۔ یہ یو ایس ایس آر میں کسی تسلیم شدہ خطے کی طرف سے علیحدگی کا پہلا اعلان تھا۔ علیئیفا اور نخچیوان سوویت کے اقدامات کی سرکاری عہدے داروں نے مذمت کی جنھوں نے انھیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور آزادی کی کوشش ختم کردی گئی۔[51][52]سخت گیروں کے قبضے کے بعد 30 ستمبر 1990 کے انتخابات (14 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات) میں دھمکی دی گئی تھی۔ فرنٹ کے متعدد امیدواروں کو جیل میں ڈال دیا گیا ، دو کو قتل کیا گیا اوربیلٹ میںغیرمشق شدہ سامان، یہاں تک کہ مغربی مبصرین کی موجودگی میں ہوا۔[53]انتخابی نتائج خطرناک ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ 350 ممبروں میں سے 280 کمیونسٹ تھے ، جن میں صرف 45 حزب اختلاف کے امیدوار تھے جن میں پاپولر فرنٹ اور دیگر غیر کمیونسٹ گروپوں نے مل کر ڈیموکریٹک بلاک (""ڈیمبلوک"") تشکیل دیا تھا۔[54]مئی 1990 میں متلیبوف بلا مقابلہ سپریم سوویت کا چیئرمین منتخب ہوا۔[55]21 جنوری 1990 کو رخ نے 300-میل (480 کلومیٹر) اہتمام کیا کیف ، لیوف اور ایوانو-فرینکواسک کے مابین انسانی سلسلہ۔ سن 1918 میں یوکرین کی آزادی کے اعلان اور یوکرین کی سرزمینوں کے اتحاد کے ایک سال بعد ( 1919 یونیفیکیشن ایکٹ ) کی یاد میں لاکھوں افراد نے ہاتھ ملایا ۔ 23 جنوری ، 1990 کو ، یوکرین یونانی-کیتھولک چرچ نے 1946 میں سوویت یونین کے ذریعےاستعفیٰ دیئے جانے کےبعد اپنا پہلاصیغہمنعقد کیا (ایسا عمل جس کو اجتماع نے ناجائز قرار دے دیا)۔ 9 فروری 1990 کو یوکرائن کی وزارت انصاف نے رخ کو سرکاری طور پر رجسٹر کیا۔ تاہم ، رجسٹری کو 4 مارچ کو پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات کے لیے اپنے امیدوار کھڑا کرنے میں بہت دیر ہو گئی۔ میں 1990 کے انتخابات کے لوگوں کے نائبین کو سپریم کونسل(کیا Rada Verkhovna)،سے امیدواروں ڈیموکریٹک بلاک میں بھاری اکثریت کامیابیاں حاصل مغربی یوکرائن اوبلاستوں . اکثریت نشستوں پر رن آؤٹ الیکشن ہونا تھے۔ 18 مارچ کو ، ڈیموکریٹک امیدواروں نے رنز میں مزید فتوحات حاصل کیں۔ ڈیموکریٹک بلاک نے نئی پارلیمنٹ کی 450 میں سے 90 سیٹیں حاصل کیں۔6 اپریل 1990 کو ، لایف سٹی کونسل نے سینٹ جارج کیتھیڈرل کو یوکرائنی یونانی کیتھولک چرچ کو واپس کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔روسی آرتھوڈوکس چرچنے پیداوار دینے سے انکار کر دیا۔ اپریل 29-30 ، 1990 کو ، یوکرائنی ہیلسنکی یونین نے یوکرائن ریپبلکن پارٹی کی تشکیل کے لیے توڑ دیا۔ 15 مئی کو نئی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا۔ قدامت پسند کمیونسٹوں کے گروپ نے 239 نشستیں رکھی تھیں۔ ڈیموکریٹک بلاک ، جو نیشنل کونسل میں شامل ہو چکا ہے ، کے پاس 125 نائبین تھے۔ 4 جون ، 1990 کو ، دو امیدوار پارلیمنٹ کی کرسی کی طویل دوڑ میں شامل رہے۔ یوکرائن (سی پی یو) کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ، ولڈیمیر ایوشوکو ، 60 فیصد ووٹ کے ساتھ منتخب ہوئے تھے کیونکہ حزب اختلاف کے 100 نائب نمائندو�� نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ جون 5-6، 1990 پر، میٹروپولیٹن Mstyslav امریکا میں قائم کی یوکرائن آرتھوڈاکس چرچ کے وائس چانسلر منتخب کر لیا گیا یوکرائن Autocephalous آرتھوڈوکس چرچ ہے کہ چرچ کے پہلے Synod کے دوران (UAOC). یو اے او سی نے روسی آرتھوڈوکس چرچ کےماسکوپیٹریاچریٹ سے اپنی مکمل آزادی کا اعلان کیا ، جس نے مارچ میں میٹروپولیٹن فیلیریٹ کی سربراہی میں یوکرین آرتھوڈوکس چرچ کو خود مختاری دے دی تھی۔22 جون ، 1990 کو ، پارلیمنٹ میں اپنی نئی پوزیشن کے پیش نظر ، ولڈیمیر ایوشوکو نے یوکرائن کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما کے لیے اپنی امیدواریت واپس لے لی۔ اسٹینیسلاو ہورینکو سی پی یو کا پہلا سکریٹری منتخب ہوا۔ 11 جولائی کو ،سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کانائب جنرل سکریٹری منتخب ہونے کے بعد ، ایوشوکو نے یوکرائن کی پارلیمنٹ کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ پارلیمنٹ نے ایک ہفتہ بعد ، 18 جولائی کو استعفیٰ منظور کر لیا۔ 16 جولائی کو پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے یوکرائن کی ریاستی خود مختاری سے متعلق اعلامیے کی منظوری دے دی۔ عوام کے نمائندوں نے 16 جولائی کو یوکرائن کی قومی تعطیل کے اعلان کے لیے 339 سے 5 ووٹ ڈالے۔23 جولائی 1990 کو ایوشوکو کی جگہ پارلیمنٹ کے چیئرمین کے عہدے پر لیونڈ کروچوک منتخب ہوئے تھے۔ 30 جولائی کو پارلیمنٹ نے فوجی خدمت سے متعلق ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت ""قومی تنازع کے علاقوں جیسے آرمینیا اور آذربائیجان"" میں یوکرائنی فوجیوں کو یوکرائن کی سرزمین واپس جانے کا حکم دیا گیا۔ اگست کو 1 ، پارلیمنٹ نے چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ کو بند کرنے کے لیے بھاری اکثریت سے ووٹ دیا۔ 3 اگست کو اس نے یوکرین جمہوریہ کی معاشی خود مختاری سے متعلق ایک قانون اپنایا۔ 19 اگست کو سینٹ جارج کیتھیڈرل میں 44 سالوں میں پہلا یوکرین کیتھولک لیگی منایا گیا۔ ستمبر –-– کو ، کیف میں 1932–1933 کے عظیم قحط پر بین الاقوامی سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا۔ 8 ستمبر کو ، 1933 کے بعد پہلی ""یوتھ فار کرائسٹ"" ریلی کا انعقاد لیوف میں ہوا ، جس میں 40،000 شرکاء شریک تھے۔ ستمبر 28-30 میں ، یوکرائن کی گرین پارٹی نے اس کی بانی کانگریس کا انعقاد کیا۔ 30 ستمبر کو ، قریب 100،000 افراد نے گورباچوف کی تجویز کردہ نئے یونین معاہدے کے خلاف کییف میں احتجاج کیا۔یکم اکتوبر 1990 کو پارلیمنٹ نے بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران کانوچوک اور سابق وزیر اعظم سے بچنے والے وزیر اعظم ویتالی مسول کے استعفے طلب کیے تھے۔ طلبہ نے اکتوبر ریولیوشن اسکوائر پر ایک خیمہ شہر کھڑا کیا ، جہاں انھوں نے احتجاج جاری رکھا۔17 اکتوبر کو مسول نے استعفیٰ دے دیا اور 20 اکتوبر کو پیٹریاارک مستیسلاو میں کیف اور تمام یوکرین سینٹ سوفیا کے گرجا گھر پہنچے ، اپنے وطن سے 46 سالہ جلاوطنی ختم کرتے ہوئے۔ 23 اکتوبر 1990 کو پارلیمنٹ نے آرٹیکل کو حذف کرنے کے حق میں ووٹ دیا یوکرائنی آئین کا 6 ، جس نے کمیونسٹ پارٹی کے ""اہم کردار"" کا حوالہ دیا۔25-28 اکتوبر ، 1990 کو ، رخ نے اپنی دوسری کانگریس کا انعقاد کیا اور اعلان کیا کہ اس کا بنیادی مقصد ""یوکرائن کے لیے آزاد ریاست کا تجدید"" تھا۔ 28 اکتوبر کو یو اے او سی کے وفادار ، جن کی تائید یوکرین کیتھولک نے کی ، نے سینٹ سوفیا کے کیتیڈرل کے قریب مظاہرین کے طور پر نو منتخب روسی آرتھوڈوکس چرچ کے سرپرست ایلکسی اور میٹروپولیٹن فیلیریٹ نے مزار پر جشن منایا۔ یکم نومبر کو ، یوکرائنی یونانی کیتھولک چرچ اور یوکرائن آٹوسیفلاسس آرتھوڈوکس چرچ کے رہنماؤں نے بالترتیب میٹرو پولیٹن ولڈیمیئر اسٹرنیوک اور پیٹریاارک اسٹسٹلاو کی مغربی یوکرائن قومی جمہوریہ کے 1918 کے اعلان کی سالگرہ کی تقریبات کے دوران لیوف میں ملاقات کی۔18 نومبر ، 1990 کو ، یوکرائن کے آٹوسیفلاسس آرتھوڈوکس چرچ نے مستیسلاف کو سینٹ سوفیا کے کیتیڈرل میں تقاریب کے دوران کیف اور تمام یوکرائن کا سرپرست مقرر کیا۔ اس کے علاوہ 18 نومبر کوکینیڈانے اعلان کیا کہ کییف کے لیے اس کے قونصل جنرل یوکرائنی - کینیڈا کے نیسٹر گیئوسکی ہوں گے۔ 19 نومبر کو ، ریاستہائے مت .دہ نے اعلان کیا کہ کییف کے لیے اس کے قونصل یوکرائنی نژاد امریکی جان اسٹیپنکوپ ہوں گے۔ 19 نومبر کو ، یوکرین اور روسی پارلیمنٹس کے صدران ، بالترتیب کرچوچک اور ییلتسن نے 10 سالہ دوطرفہ معاہدہ پر دستخط کیے۔ دسمبر 1990 کے اوائل میں یوکرین کی پارٹی آف ڈیموکریٹک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ 15 دسمبر کو ، یوکرین کی ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔[56]فروری 12-14، 1990 کو حکومت مخالف فسادات جگہ لے لیتاجکستانکے دار الحکومتدوشنبہ، اسی کشیدگی قوم پرست درمیان گلابتاجکوںاور نسلی آرمینیائی بعد، پناہ گزینوں سمگیت پوگروم 1988 میں آذربائیجان میں اور اینٹی آرمینیائی فسادات. قوم پرست راستوخیز تحریک کے زیر اہتمام مظاہرے پرتشدد ہو گئے۔ بنیادی معاشی اور سیاسی اصلاحات کا مطالبہ مظاہرین نے کیا ، جنھوں نے سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کیا۔ دکانوں اور دوسرے کاروبار پر حملہ اور لوٹ مار کی گئی۔ ان فسادات کے دوران 26 افراد ہلاک اور 565 زخمی ہوئے تھے۔جون 1990 میں ، شہراوشاور اس کے ماحول میں سابقہ اجتماعی فارم کی اراضی پر نسلی کرغیز قوم پرست گروہ اوش آئماگی اور ازبک قوم پرست گروہ ایڈولٹ کے درمیان خونی نسلی جھڑپوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تقریبا ، 1200 ہلاکتیں ہوئیں ، جن میں 300 سے زیادہ ہلاک اور 462 شدید زخمی ہیں۔ شہر اور اس کے آس پاس زمینی وسائل کی تقسیم پر ہنگامے پھوٹ پڑے۔14 جنوری 1991 کو ، نیکولائی ریژکوف نے سوویت یونین کے وزیر برائے کونسل یا وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور اس کے بعد ویلینٹن پاولوف نے سوویت یونین کے وزیر اعظم کے نئے قائم ہونے والے عہدے پر ان کا عہدہ سنبھالا۔17 مارچ 1991 کو یونین وسیع ریفرنڈم میں 76.4 فیصد ووٹرز نے اصلاح یافتہ سوویت یونین کے برقرار رہنے کی حمایت کی۔ بالٹک ریاستوں،آرمینیا،جارجیااورمالدوواکے ساتھ ساتھ ریفرنڈم کا بائیکاٹچیچنو-انگوستیا(ایکخود مختار جمہوریہروس کے اندر آزادی کے لیے ایک مضبوط خواہش تھی کہ اور اب تک اشکیریا کے طور پر خود کا حوالہ).[58]دیگر نو جمہوریہ میں سے ہر ایک میں ، رائے دہندگان کی اکثریت نے ایک اصلاح یافتہ سوویت یونین کو برقرار رکھنے کی حمایت کی۔12 جون 1991 کو ، جمہوری انتخابات میںبورس یلٹسننے 57 فیصد مقبول ووٹ حاصل کیا ، جس نے گورباچوف کے ترجیحی امیدوار ، نیکولائی رائزوکوف کو شکست دی ، جس نے 16 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ یلسن کے صدر منتخب ہونے کے بعد ، روس نے خود کو آزاد قرار دے دیا۔[59]اپنی انتخابی مہم میں ، یلسن نے ""مرکز کی آمریت"" پر تنقید کی ، لیکن ابھی تک یہ تجویز نہیں کیا کہ وہ مارکیٹ کی معیشت متعارف کروائے گا۔13 جنوری 1991 کو سوویت فوجوں نے کےجی بیاسپیٹنز الفا گروپ کے ساتھ مل کر لیتھوانیا میں ولنیوس ٹی وی ٹاور پر تحریک آزادی کو دبانے کے لیے حملہ کیا ۔ چودہ غیر مسلح شہری ہلاک اور سیکڑوں مزید زخمی ہوئے۔ 31 جولائی 1991 کی رات ، بالٹیکس میں سوویت فوجی ہیڈ کوارٹرریگاسے تعلق رکھنے والے روسی اومون نے مدیننکائی میں لتھوانیائی سرحدی چوکی پر حملہ کیا اور سات لتھوانیائی فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعہ نے سوویت یونین کی پوزیشن کو بین الاقوامی اور مقامی سطح پر مزید کمزور کر دیا اور لتھوانیائی مزاحمت کو سخت کر دیا۔لیتھوانیا میں ہونے والے خونی حملوں نے لیٹویا کو دفاعی راہ میں حائل رکاوٹیں منظم کرنے پر مجبور کیا (واقعات آج بھی "" بیریکیڈز "" کے نام سے مشہور ہیں) ریگا میں اسٹریٹجک اہم عمارتوں اور پلوں تک رسائی کو روکنے کے لیے۔ اگلے دنوں میں سوویت حملوں کے نتیجے میں چھ اموات اور متعدد زخمی ہوئے۔ ایک شخص ان کے زخموں کے بعد دم توڑ گیا۔جب 20 اگست 1991 کے رات کے وقت گیارہ بج کر تیس منٹ پر ایسٹونیا نے بغاوت کے دوران (نیچے ملاحظہ کریں) سرکاری طور پر اپنی آزادی بحال کی تھی ، تالین کے وقت گیارہ بجے ، اسٹونین کے متعدد رضاکاروں نے مواصلات کو ختم کرنے کی تیاری کے لیے تالین ٹی وی ٹاور کا گھیراؤ کیا تھا۔ چینلز کے بعد جب سوویت فوجیوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور سوویت فوجوں نے دھمکی دینے سے انکار کر دیا۔ جب ایڈگر ساویسار نے دس منٹ تک سوویت فوجوں کا مقابلہ کیا ، وہ آخر کار ایسٹونین کے خلاف ناکام مزاحمت کے بعد ٹی وی ٹاور سے پیچھے ہٹ گئے۔بڑھتی ہوئیعلیحدگی پسندیکا سامنا کرتے ہوئے گورباچوف نے سوویت یونین کو ایک کم مرکزی ریاست میں تشکیل دینے کی کوشش کی۔ 20 اگست 1991 کو ، روسی ایس ایف ایس آر نے ایک نئے یونین معاہدے پر دستخط کرنے والے تھے جو سوویت یونین کو ایک آزاد صدر ، خارجہ پالیسی اور فوج کے ساتھ آزاد جمہوریہ کی فیڈریشن میں تبدیل کر دیتا تھا ۔ اس کی وسطی ایشیائی جمہوریہ ریاستوں کی بھر پور حمایت کی گئی ، جسے خوش حال ہونے کے لیے مشترکہ منڈی کے معاشی فوائد کی ضرورت تھی۔ تاہم ، اس کا مطلب معاشی اور معاشرتی زندگی پر کچھ حد تک کمیونسٹ پارٹی کے قابو میں ہونا تھا۔مزید بنیاد پرست اصلاح پسندوں کو تیزی سے اس بات پر قائل کیا گیا تھا کہ مارکیٹ کی معیشت میں تیزی سے منتقلی کی ضرورت ہے ، حتی کہ حتمی نتائج کا مطلب سوویت یونین کا کئی آزاد ریاستوں میں منتشر ہونا تھا۔ آزادی نے روسی فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے یلسن کی خواہشات کے ساتھ ساتھ علاقائی اور مقامی حکام کی ماسکو کے وسیع پیمانے پر کنٹرول سے نجات پانے کی خواہشات سے بھی اتفاق کیا۔ اس معاہدے کے بارے میں اصلاح پسندوں کے دوٹوک رد عمل کے برعکس ، سی پی ایس یو اور فوج کے اندر اب بھی مضبوط سوویت ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار کے ڈھانچے کو کمزور کرنے کے مخالف ، قدامت پسند ، ""محب وطن"" اور سوویت یونین کے روسی قوم پرست۔19 اگست 1991 کو گورباچوف کے نائب صدر ، جنڈی یناییف ، وزیر اعظم ویلنٹین پاولوف ، وزیر دفاع دمتری یازوف ، کے جی بی کے سربراہ ولادی میر کریوچکوف اور دیگر اعلی عہدے داروں نے ریاستی ایمرجنسی پر ""جنرل کمیٹی تشکیل دے کر یونین معاہدے پر دستخط ہونے سے روکنے کے لیے کام کیا۔ ""، گورباچوف ڈال - جس میں چھٹی پرفوروس،کریمیااس کی آیتیں اتار گھر کی گرفتاری اور کٹ کے تحت - بغاوت کے رہنماؤں نے ایک ہنگامی فرمان جاری کیا جس میں سیاسی سرگرمی معطل اور بیشتر اخبارات پر پابندی عائد ہے۔بغاوت کے منتظمین کو عوامی حمایت کی توقع تھی لیکن انھوں نے پایا کہ بڑے شہروں اور جمہوریہ ممالک میں عوامی رائے عام طور پر ان کے خلاف ہے ، خاص طور پر ماسکو میں عوامی مظاہروں کے ذریعہ وہ ظاہر ہوتا ہے۔ روسی ای�� ایف ایس آر کے صدر یلسن نے اس بغاوت کی مذمت کی اور عوامی حمایت حاصل کی۔اس وقت روسی خود مختاری کی علامتی نشست ، وائٹ ہاؤس (روسی فیڈریشن کی پارلیمنٹ اور یلسن کے دفتر) کے دفاع کے لیے ہزاروں مسکوائٹ نکل آئے تھے۔ منتظمین نے کوشش کی لیکن بالآخر یلسن کو گرفتار کرنے میں ناکام رہا ، جس نے ٹینک کے اوپر سے تقریر کرکے بغاوت کی مخالفت کی۔ بغاوت کے رہنماؤں کے ذریعہ روانہ کی گئی خصوصی دستوں نے وائٹ ہاؤس کے قریب پوزیشنیں سنبھال لیں ، لیکن ارکان نے بیریکیڈ عمارت پر حملہ کرنے سے انکار کر دیا۔ بغاوت کے رہنماؤں نے غیر ملکی خبروں کی نشریات کو جام کرنے پر بھی کوتاہی کی ، تو بہت سارے مسکوائٹ نے اسے براہ راستCNNپر آتے دیکھا۔ یہاں تک کہ الگ تھلگ گورباچوف ایک چھوٹے سے ٹرانجسٹر ریڈیو پر بی بی سی ورلڈ سروس کے ذریعہ پیشرفت سے پیش پیش رہتے تھے۔[60]تین دن کے بعد ، 21 اگست 1991 کو ، بغاوت کا خاتمہ ہوا۔ منتظمین کو حراست میں لیا گیا اور گورباچوف کو صدر کی حیثیت سے بحال کر دیا گیا ، اگرچہ اس کی طاقت بہت کم ہو گئی۔24 اگست 1991 کو گورباچوف نے سی پی ایس یو کی سنٹرل کمیٹی کو تحلیل کر دیا ، پارٹی کے جنرل سکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور پارٹی کے تمام اکائیوں کو حکومت میں تحلیل کر دیا۔ اسی دن ، یوکرین کی آزادی کا اعلامیہ یوکرین کی سپریم کونسل نے نافذ کیا تھا ، جس نے مجموعی طور پر سوویت یونین کے خاتمے کے آغاز کا اشارہ کیا تھا۔ پانچ دن بعد ، سوویت سوویت یونین میں کمیونسٹ حکمرانی کو مؤثر طریقے سے ختم کرنے اور ملک میں واحد متحد قوت کو ختم کرنے کے بعد ، سوویت علاقہ پر سی پی ایس یو کی تمام سرگرمیاں غیر معینہ مدت کے لیے معطل کردی گئیں۔ گورباچوف نے September ستمبر کو سوویت یونین کی ایک ریاستی کونسل قائم کی تھی ، جس کی مدد سے وہ اور باقی جمہوریہ کے اعلی عہدے داروں کو ایک اجتماعی قیادت میں لاسکیں ، جو سوویت یونین کا ایک وزیر اعظم مقرر کرنے کے قابل ہو۔ اس نے کبھی بھی مناسب طریقے سے کام نہیں کیا ، اگرچہ ایوان سلیفڈی فیکٹونے سوویت معیشت کی آپریشنل مینجمنٹ اور انٹراسٹیٹ اکنامک کمیٹی کی کمیٹی کے ذریعہ یہ عہدہ سنبھالا اور حکومت تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اگرچہ تیزی سے سکڑتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ۔سوویت یونین 1991 کی آخری سہ ماہی میں ڈرامائی رفتار سے گر گیا۔ اگست اور دسمبر کے درمیان ، 10 جمہوریہوں نے اپنی آزادی کا اعلان کیا ، زیادہ تر دوسرے بغاوت کے خوف سے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے ، یونین کے ساتھ تعلقات توڑنے والی جمہوریہ میں اولین یوکرین تھا۔ ستمبر کے آخر تک ، گورباچوف کو اب ماسکو سے باہر واقعات پر اثر انداز ہونے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ، اسے یلسن نے چیلنج کیا ، جنھوں نے کریملن سمیت سوویت حکومت کے باقی حصے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ستمبر 17 ، 1991 کو ، جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 46/4 ، 46/5 اور 46/6 نے ایسٹونیا ، لیٹویا اور لتھوانیا کواقوام متحدہ میں داخل کیاگیا، سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 709 ، 710 اور 711 کے مطابق 12 ستمبر کو منظور ہوا۔ ووٹ کے بغیر[61][62]7 نومبر 1991 تک ، زیادہ تر اخباروں نے اس ملک کو 'سابقہ سوویت یونین' کے نام سے موسوم کیا۔سوویت یونین کے خاتمے کا آخری مرحلہ یکم دسمبر 1991 کو یوکرین کے مقبول ریفرنڈم سے شروع ہوا ، جس میں 90 فیصد رائے دہندگان نے آزادی کا انتخاب کیا۔ یوکرین کے علیحدگی ، جو معاشی اور سیاسی اقتدار میں روس کے بعد لمبی لمبی نمبر تھا ، نے گورباچوف کے کسی بھی حقیقت پسندانہ امکان کو ختم کر دیا تھا جس نے سوویت یونین کو ایک محدود پیمانے پر بھی ساتھ رکھا ہوا تھا۔ روس ، یوکرین اوربیلاروس(سابقہ بایلوروسیا) تین سلاوک جمہوریہ کے رہنماؤں نے یونین کے ممکنہ متبادل پر تبادلہ خیال کرنے پر اتفاق کیا۔8 دسمبر کو ، روس ، یوکرین اور بیلاروس کے رہنماؤں نے مغربی بیلاروس کے بیلویژسکیا پشچا میں خفیہ طور پر ملاقات کی اور بیلویزا معاہدوں پر دستخط کیے ، جس میں اعلان کیا گیا کہ سوویت یونین کا وجود ختم ہو گیا ہے اوردولت مشترکہ کے آزاد ریاست(سی آئی ایس) کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کی جگہ لینے کے لیے ایک ڈھیلی ایسوسی ایشن کے طور پر. انھوں نے دیگر جمہوریہ کو بھی سی آئی ایس میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ گورباچوف نے اسے غیر آئینی بغاوت قرار دیا۔ تاہم ، اس وقت تک اس میں کوئی معقول شک باقی نہیں رہا تھا کہ ، جیسے معاہدوں کی پیش کش نے کہا ہے ، ""یو ایس ایس آر ، بین الاقوامی قانون اور ایک جغرافیائی سیاسی حقیقت کے موضوع کے طور پر ، اپنے وجود کو ختم کر رہا ہے۔""12 دسمبر کو ، روسی ایس ایف ایس آر کے سپریم سوویت نے باقاعدہ طور پر بیلزوہ معاہدوں کی توثیق کی اور 1922 کے یونین معاہدے سے دستبردار ہو گئے۔ اس نے سوویت سوویت روس سے روسی نمائندوں کو بھی واپس بلا لیا۔ اس کارروائی کی قانونی حیثیت سوالیہ نشان تھی ، کیوں کہ سوویت قانون نے ایک جمہوریہ کو یک طرفہ طور پر اپنے نائبوں کو واپس نہیں بلانے کی اجازت نہیں دی تھی۔[63]تاہم ، روس یا کریملن دونوں میں سے کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ مؤخر الذکر کے کسی بھی اعتراض کا شاید کوئی اثر نہ ہوتا ، کیوں کہ سوویت حکومت نے دسمبر سے بہت پہلے ہی مؤثر طریقے سے نامحرم قرار دے دیا تھا۔ سطح پر ، یہ ظاہر ہوا کہ سب سے بڑی جمہوریہ باضابطہ طور پر الگ ہو گئی ہے۔ تاہم ، یہ معاملہ نہیں ہے۔ روس نے بظاہر یہ خطوط اختیار کر لیا کہ کسی ایسے ملک سے الگ ہوجانا ممکن نہیں تھا جو اب موجود نہیں تھا۔ اس دن کے آخر میں ، گورباچوف نے پہلی بار اشارہ کیا کہ وہ سبکدوش ہونے پر غور کر رہے ہیں۔[64]17 دسمبر 1991 کو 28 یورپی ممالک ، یورپی معاشی برادری اور چار غیر یورپی ممالک کے ساتھ ، تین بالٹک ریپبلک اور بارہ میں سے نو سوویت جمہوریہ نے خود مختار ریاستوں کی حیثیتسے ہیگمیں یورپی توانائی چارٹر پر دستخط کیے۔[65]یہ شکوک و شبہات باقی رہے کہ آیا بیلویزا معاہدوں نے سوویت یونین کو قانونی طور پر تحلیل کر دیا ہے ، کیونکہ ان پر صرف تین جمہوریہ کے دستخط تھے۔ تاہم ، 21 دسمبر 1991 کو ، باقی 12 جمہوریہ جمہوریہ میں سے 11 کے نمائندوں نے -جارجیا کوچھوڑ کر ، الما عطا پروٹوکول پر دستخط کیے ، جس نے یونین کے تحلیل ہونے کی تصدیق کی اور باضابطہ طور پر سی آئی ایس کا قیام عمل میں لایا۔ انھوں نے گورباچوف کا استعفیٰ بھی ""قبول کر لیا""۔ اگرچہ گورباچوف نے ابھی تک اس منظر کو چھوڑنے کے لیے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کیا تھا ، لیکن اس نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ جیسے ہی انھوں نے دیکھا کہ سی آئی ایس واقعی حقیقت ہے وہ مستعفی ہوجائے گا۔[66]25 دسمبر 1991 کی شام کو قومی سطح پر ٹیلی ویژن کی تقریر میں گورباچوف نے سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کے یونین کے صدر کے عہدے پر اپنی سرگرمیاں بند کر دیں۔ "" انھوں نے دفتر کو معدوم ہونے کا اعلان کر دیا اور اس کی ساری طاقتیں (جیسے جوہری ہتھیاروں پر قابو پانے) کو یلسن کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ ایک ہفتہ قبل ، گورباچوف نے یلسن سے ملاقات کی تھی اور اس نے سوویت یونین کی تحلی�� کی غلطی کو قبول کر لیاتھا۔ اسی دن ، روسی ایس ایف ایس آر کے سپریم سوویت نے روس کے قانونی نام کو ""روسی سوویت فیڈریٹو سوشلسٹ ریپبلک"" سے ""روسی فیڈریشن"" میں تبدیل کرنے کے لیے ایک قانون اپنایا ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب یہ ایک خود مختار ریاست ہے۔25 دسمبر کی رات 7:32 بجے شام ماسکو کا وقت ، گورباچوف نے کریملن چھوڑنے کے بعد ، سوویت پرچم کو نیچے کر دیا گیا تھا اور آخری بار سوویت یونین کا ریاستی ترانہ کھیلا گیا تھا اور اس کی جگہ روسی ترنگا 11:40 پر اٹھایا گیا تھا شام ، سوویت یونین کے خاتمے کی علامت طور پر۔ اپنے الگ الگ الفاظ میں ، اس نے گھریلو اصلاحات اور دنت کے بارے میں اپنے ریکارڈ کا دفاع کیا ، لیکن اس نے اعتراف کیا ، ""نیا نظام کام کرنے کے لیے وقت آنے سے پہلے ہی اس کا نظام ختم ہو گیا۔""[67]اسی دن ،ریاستہائے متحدہ کے صدرجارج ایچ ڈبلیو بشنے ایک مختصر ٹیلی ویژن تقریر کی جس میں باضابطہ طور پر 11 باقی جمہوریہ کی آزادی کو تسلیم کیا گیا۔26 دسمبر کو ، جمہوریاؤں کی کونسل ، جو یونین کے اعلی سوویت کے ایوان بالا ہے ، نے خود اور سوویت یونین کو ہی ووٹ دیا[68](زیریں چیمبر ، یونین کی کونسل ، دسمبر سے ہی کام کرنے سے قاصر تھی 12 ، جب روسی نائبین کی یاد کو کورم کے بغیر چھوڑ دیا)۔ اگلے ہی دن یلسن گورباچوف کے سابق دفتر میں چلے گئے ، حالانکہ روسی حکام نے اس سوٹ کو دو دن پہلے ہی سنبھال لیا تھا۔ 1991 کے آخر تک ، روس کے قبضے میں نہ آنے والے سوویت اداروں کے کچھ باقی کام ختم ہو گئے اور انفرادی جمہوریہ نے مرکزی حکومت کا کردار سنبھال لیا۔الما عطا پروٹوکول نے اقوام متحدہ کی رکنیت سمیت دیگر امور پر بھی توجہ دی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ روس کوسلامتی کونسل میںمستقل نشست سمیت سوویت یونین کی اقوام متحدہ کی رکنیت سنبھالنے کا اختیار تھا۔ اقوام متحدہ میں سوویت سفیر نے 24 دسمبر 1991 کواقوام متحدہ کے سکریٹری جنرلکو روسی صدر یلسن کے دستخط کردہ خط کے بارے میں بتایا کہ الما عطا پروٹوکول کی بدولت روس یو ایس ایس آر کا جانشین ریاست تھا۔ اقوام متحدہ کے دیگر ممبر ممالک کے مابین گردش کرنے کے بعد ، جس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا ، اس بیان کو سال کے آخری دن ، 31 دسمبر 1991 کو قبول کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔سوویت یونین کے ٹوٹ جانے سے کھیلوں کی دنیا میں بڑے پیمانے پر اثر پڑا۔ اس کے تحلیل سے قبل ، فٹ بال ٹیم صرف یورو 1992 کے لیے کوالیفائی کرچکی تھی ، لیکن ان کی جگہ اس کی بجائے سی آئی ایس کی قومی فٹ بال ٹیم نے لے لیا۔ ٹورنامنٹ کے بعد سابق سوویت ریاستوں فیفا کو سوویت ٹیم کے ریکارڈ آونٹن کے ساتھ، علاحدہ خود مختار قوموں کے مقابلہروس.[69]البرٹ وِل میں 1992 کے سرمائی اولمپکس اوربارسلونا میں سمر اولمپکس کےآغاز سے پہلے ،یو ایس ایس آر کی اولمپک کمیٹیباضابطہ طور پر 12 مارچ 1992 تک موجود تھی ، جب یہ ٹوٹ گئی لیکن روسی اولمپک کمیٹی نے اسے کامیاب کر دیا۔ تاہم ، 15 سابقہ سوویت جمہوریہ میں سے 12 نے متحدہ ٹیم کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا اور بارسلونا میں اولمپک پرچم کے نیچے مارچ کیا ، جہاں میڈل کی درجہ بندی میں وہ پہلے نمبر پر رہا۔ الگ الگ ، لتھوانیا ، لٹویا اور ایسٹونیا نے بھی 1992 کے کھیلوں میں آزاد ممالک کی حیثیت سے حصہ لیا۔ یونیفائیڈ ٹیم نے سال کے اوائل میں البرٹ وِل میں بھی حصہ لیا تھا (جس کی نمائندگی بارہ سابقہ جمہوریہ میں سے چھ نے کی تھی) اور ان کھیلوں میں میڈل کی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر رہا۔ اس کے بعد ، غیر بالٹک کے سابق�� جمہوریہ کے انفرادی IOCs کا قیام عمل میں آیا۔ کچھ این او سیز نے لیلیہامر میں 1994 کے سرمائی اولمپک کھیلوں میں اپنی پہلی شروعات کی ، جب کہ دوسروں نے1996 میں اٹلانٹا میں ہونے والے سمر اولمپک کھیلوں میں اس کا آغاز کیا۔بارسلونا میں 1992 کے سمر اولمپکس میں متحدہ ٹیم کے ارکان میںآرمینیا،آذربائیجان،بیلاروس،جارجیا،قازقستان،کرغزستان،مالڈووا، روس ،تاجکستان،ترکمنستان،یوکریناورازبیکستانشامل تھے۔ ان سمر گیمز میں ، متحدہ کی ٹیم نے 45 طلائی تمغے ، 38 چاندی کے تمغے اور 29 کانسی کے 29 تمغے حاصل کرکے امریکا کو چار تمغے سے شکست دی اور جرمنی کو 30 تمغوں سے تیسرا مقام ملا۔ ٹیم کی عمدہ کامیابی کے علاوہ ، متحد ٹیم نے بھی بڑی ذاتی کامیابی دیکھی۔ بیلاروس کی ویٹی شیربو جمناسٹک میں ٹیم کے لیے چھ طلائی تمغے حاصل کرنے میں کامیاب رہی ، جبکہ وہ سمر گیمز کا سب سے سجا ہوا کھلاڑی بھی بن گیا۔[70]ٹیم کے لیے جمناسٹکس ، ایتھلیٹکس ، ریسلنگ اور تیراکی سب سے مضبوط کھیل تھا کیونکہ چاروں نے مشترکہ طور پر 28 طلائی تمغے اور 64 تمغے حاصل کیے۔البرٹ وِل میں 1992 کے سرمائی اولمپکس میں اس سے قبل صرف چھ ٹیموں نے حصہ لیا تھا۔ یہ ممالک آرمینیا ، بیلاروس ، قازقستان ، روس ، یوکرین اور ازبیکستان تھے۔ یونائیفائیڈ ٹیم جرمنی سے تین تمغوں سے ہار کر دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم ، موسم گرما کے کھیلوں کی طرح ، متحدہ کی ٹیم کے پاس سرمائی کھیلوں میں سب سے زیادہ سجاوٹ کا تمغا جیتا تھا اور ساتھ ہی روس کے لیوبوف یگوروفا بھی شامل تھے ، جو پانچ کل تمغے کے ساتھ فگر اسکیٹر تھے۔[71]روساورقازقستان کےذریعہ سوویت یونین کےکالنگ کوڈ+7 کا استعمال جاری ہے۔ 1993 اور 1997 کے درمیان ، بہت سارے نئے آزاد جمہوریہوں نےبیلاروس( +375 ) اوریوکرین( +380 ) جیسے اپنےنمبر منصوبوںپر عمل درآمد کیا۔[حوالہ درکار]انٹرنیٹ ڈومین.suنئے بنائے گئے ممالک کے انٹرنیٹ ڈومینز کے ساتھ ساتھ استعمال میں ہے۔محدود تسلیم کی گئیریاستیں ترچھے میں دکھائی جا رہی ہیں۔آرمینیا میں، 12٪ جواب دہندگان نے کہا کہ یو ایس ایس آر کے خاتمے نے اچھا کام کیا ، جبکہ 66٪ نے کہا کہ اس سے نقصان ہوا ہے۔کرغزستان میں، 16 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے نے اچھا کام کیا ، جبکہ 61 فیصد نے کہا کہ اس سے نقصان ہوا ہے۔[72]جب سے یو ایس ایس آر کے خاتمے کے بعد ، لیواڈا سنٹر کے ذریعہ سالانہ پولنگ سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ روس کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی اس کے خاتمے پر افسوس کا اظہار کرتی ہے ، اس میں صرف ایک استثناء ہے جو 2012 میں تھا۔ 2018 کے لیواڈا سنٹر سروے میں بتایا گیا کہ 66٪ روسیوں نے سوویت یونین کے خاتمے پر افسوس کا اظہار کیا۔ 2014 کے سروے کے مطابق ، روس کے 57 فیصد شہریوں نے سوویت یونین کے خاتمے پر افسوس کا اظہار کیا ، جبکہ 30 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کرتے ہیں۔ عمر رسیدہ افراد چھوٹے روسیوں کی نسبت زیادہ پرانی بات کرتے تھے۔[73]یوکرین میں پچاس فیصد جواب دہندگان نے فروری 2005 میں ہونے والے اسی طرح کے سروے میں کہا تھا کہ انھیں سوویت یونین کے ٹوٹ جانے پر افسوس ہے۔ تاہم ، اسی طرح کے سروے میں 2016 میں کیا گیا تھا ، جس میں صرف 35٪ یوکرین باشندے ہی سوویت یونین کے خاتمے پر افسوس کا اظہار کرتے تھے اور 50٪ اس پر افسوس نہیں کرتے تھے۔[74]25 جنوری 2016 کو ، روس کے صدرولادیمیر پوتننےولادیمیر لینناور ان کے انفرادی جمہوریہ کے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے لیے سیاسی علیحدگی کے حق کی حمایت کرنے کی حمایت کی۔[75]سو��یت یونین کے خاتمے کے بعد کے اقتصادی تعلقات کی خرابی میں ایک شدید اقتصادی بحران اور تباہ کن زوال کی وجہ سےمعیار زندگیمیںسوویت یونین ریاستوںاور سابقمشرقی بلاک،[76]سے بھی بدتر تھی جسعظیم کساد بازاری.[77][78]غربتاور معاشی عدم مساوات میں 1988 -1989 اور 1993–1995 کے درمیان اضافہ ہوا ،جینی تناسب میںتمام سابقہ سوشلسٹ ممالک کے اوسطا 9 پوائنٹسکااضافہ ہوا۔[79]1998 میں روس کے مالی بحران سے پہلے ہی ، روس کی جی ڈی پی 1990 کی دہائی کے اوائل میں اس سے نصف تھی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کی دہائیوں میں ، کمیونسٹ کے بعد کے صرف پانچ یا چھ ریاستیں ہی دولت مند سرمایہ دار مغرب میں شامل ہونے کے راستے پر گامزن ہیں جبکہ بیشتر پیچھے پڑ رہی ہیں ، کچھ اس حد تک کہ اس میں پچاس سال لگیں گے جہاں تک وہ کمیونزم کے خاتمے سے پہلے تھے وہاں پہنچیں۔[80][81]ماہر معاشیات اسٹیون روزفیلڈ کے 2001 کے مطالعے میں ، اس نے حساب دیا کہ وہاں 3.4 موجود ہیں 1990 سے 1998 تک روس میں ملین قبل از وقت اموات ، جس کا وہ جزوی طور پر واشنگٹن اتفاق رائے کے ساتھ سامنے آنے والی ""شاک تھراپی"" پر الزامات لگاتے ہیں۔[82]1959 کے کچن مباحثے میںنکیتا خروش شیفنے دعوی کیا تھا کہ اس وقت کے امریکی نائب صدررچرڈ نکسنکے پوتے پوتوں کی کمیونزم کے تحت زندگی بسر کریں گے اور نکسن نے دعویٰ کیا تھا کہ خروش شیف کے پوتے پوتے آزادی کے ساتھ زندگی بسر کریں گے۔ 1992 کے ایک انٹرویو میں ، نکسن نے تبصرہ کیا کہ مباحثے کے وقت ، انھیں یقین تھا کہ خروشچیف کا دعویٰ غلط تھا ، لیکن نکسن کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ ان کا اپنا دعوی درست تھا۔ نکسن نے کہا کہ واقعات سے ثابت ہوا ہے کہ وہ واقعتا ٹھیک ہے کیونکہ خروش شیف کے پوتے اب آزادی کی زندگی بسر کرتے تھے ، اس کا حوالہ دیتے ہوئے اس نے حالیہ سوویت یونین کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ خروش شیف کا بیٹا سرگئی خروشیف قدرتی نوعیت کا امریکی شہری تھا۔24 دسمبر 1991 کو ایک خط میں ،روسی فیڈریشن کے صدر، بورس یلتسن نےاقوام متحدہ کے سکریٹری جنرلکو مطلع کیا کہ سلامتی کونسل میں سوویت یونین کی رکنیت اور اقوام متحدہ کے دیگر تمام اعضاء کے ساتھ روسی فیڈریشن کے ذریعہ یہ کام جاری ہے۔ دولت مشترکہ کے آزاد ریاستوں کے 11 ممبر ممالک کی حمایت۔تاہم ،بیلیورشین سوویت سوشلسٹ جمہوریہاوریوکرین سوویت سوشلسٹ جمہوریہپہلے ہی 24 اکتوبر 1945 کو سوویت یونین کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں بطور اصل ارکان میں شامل ہو چکے تھے۔ آزادی کے اعلان کے بعد ، یوکرائن کی سوویت سوشلسٹ جمہوریہ نے اپنا نام 24 اگست 1991 کویوکرائنرکھ دیا اور 19 ستمبر 1991 کو ، بیلاروس سوویت سوشلسٹ جمہوریہ نے اقوام متحدہ کو آگاہ کیا کہ اس نے اپنا نام بدل کربیلاروس رکھا ہے۔سابق سوویت جمہوریہ سے قائم دیگر بارہ آزاد ریاستوں کو اقوام متحدہ میں داخل کیا گیا:سوویت تحلیل سے متعلق ہسٹو گرافی کا تقریبا دو گروپوں میں درجہ بندی کیا جا سکتا ہے ، یعنی جان بوجھ کر اکاؤنٹ اورڈھانچے کےحساب سے۔انٹرنیشلسٹ اکاؤنٹس کا دعوی ہے کہ سوویت کا خاتمہ ناگزیر نہیں تھا اور اس کی وجہ مخصوص افراد (عام طور پر گورباچوف اور یلٹسن) کی پالیسیوں اور فیصلوں کا نتیجہ تھا۔ جان بوجھ کر لکھنے کی ایک خصوصیت مؤرخ آرچی براؤن کیگورباچوف فیکٹر ہے، جو کہتی ہے کہ کم از کم 1985–1988 کے دور میں گورباچوف سوویت سیاست کی اصل طاقت تھی اور اس کے بعد بھی بڑے پیمانے پر سیاسی اصلاحات اور پیشرفتوں کی پیش کش کی گئی جس کی وجہ یہ تھا کہ اس کی قیادت کی جائے۔ تقریبات.[83]یہ کی پالیسیوں کی خاص طور پر سچ تھاپیریسترائیکااورگلاسنوست، مارکیٹ کے اقدامات اور خارجہ پالیسی کے ماہر سیاسیات طور موقف جارج بریسلوئر ، تائید کی گئی ہے لیبل گورباچوف ایک ""واقعات کا آدمی.""[84]تھوڑا سا مختلف رگ میں ، ڈیوڈ کوٹز اور فریڈ ویر نے یہ دعوی کیا ہے کہ سوویت اشرافیہ قوم پرستی اور سرمایہ داری دونوں کو فروغ دینے کے ذمہ دار تھے جس سے وہ ذاتی طور پر فائدہ اٹھاسکتے ہیں (اس بات کا ان کا مابعد کے اعلی معاشی اور سیاسی مراکز میں مسلسل موجودگی سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ سوویت جمہوریہ)[85]اس کے برعکس ، ڈھانچہ سازی کے کھاتے ایک زیادہ عارضی نظریہ اپناتے ہیں جس میں سوویت تحلیل گہری جڑوں والے ساختی امور کا نتیجہ تھا ، جس نے ""ٹائم بم"" بنایا تھا۔ مثال کے طور پر ، ایڈورڈ واکر نے استدلال کیا ہے کہ جب کہ اقلیتوں کی قومیتوں کو یونین کی سطح پر اقتدار سے انکار کیا گیا تھا ، معاشرتی جدیدیت کی ثقافتی طور پر غیر مستحکم شکل کا سامنا کرنا پڑا تھا اور روس کی ایک خاص مقدار سے مشروط تھا ، وہ بیک وقت متعدد پالیسیوں کے ذریعہ تقویت پا رہے تھے۔ سوویت حکومت (مثلا سودیشیکرن قیادت کی، مقامی زبانوں کے لیے حمایت، وغیرہ) میں وقت کے ساتھ ہوش قومیں پیدا ہوا. مزید برآں ، سوویت یونین کے وفاقی نظام کی بنیادی جواز خرافات - یہ اتحادی لوگوں کی ایک رضاکارانہ اور باہمی اتحاد تھی جس نے علیحدگی / آزادی کے کام کو آسان بنایا۔[86]25 جنوری 2016 کو ، روسی صدرولادیمیر پوتننے اس خیال کی حمایت کرتے ہوئے ، لینن کی سوویت جمہوریہ کے لیے علیحدگی کے حق کی حمایت کو ""تاخیر سے متعلق ایک بم"" قرار دیا۔[75]لوا خطا ماڈیول:Authority_control میں 306 سطر پر: attempt to call field '_showMessage' (a nil value)۔"
+838,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 39,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_39&action=edit&redlink=1,
+839,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 40,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_40&action=edit&redlink=1,
+840,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 41,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_41&action=edit&redlink=1,
+841,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 42,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_42&action=edit&redlink=1,
+842,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 43,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_43&action=edit&redlink=1,
+843,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 44,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_44&action=edit&redlink=1,
+844,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 45,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_45&action=edit&redlink=1,
+845,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 46,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_46&action=edit&redlink=1,
+846,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 47,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_47&action=edit&redlink=1,
+847,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 48,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_48&action=edit&redlink=1,
+848,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 49,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_49&action=edit&redlink=1,
+849,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 50,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_50&action=edit&redlink=1,
+850,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 51,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_51&action=edit&redlink=1,
+851,ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 52,https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7:%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8_%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/2024/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81_52&action=edit&redlink=1,